Khutbat-eTahir Vol 16 1997

Khutbat-eTahir Vol 16 1997

خطبات طاہر (جلد 16۔ 1997ء)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات طاہر خطبات جمعہ 1997ء فرمودة سیدنا حضرت مزالامر سرنای مسیح الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد 16

Page 2

نام کتاب بیان فرموده -----------------…… خطبات طاہر جلد نمبر 16 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ لف المسیح الرابع حمداله

Page 3

سیدنا حضرت مرزا طاہر احمدخلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی (2003-1928)

Page 4

نمبر شمار خطبه فرموده 1 2 3 4 5 6 7 8 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمُ فہرست خطبات (1997ء) عنوان 3 جنوری اپنی اولاد کو نیکی کے راستے پر گامزن رکھنا اور خطرات سے بچانا یہ آپ کا اخلاقی اور بنیادی فرض ہے.صفحہ نمبر 1 19 10 جنوری اے خدا! ان سب فرائین کی صف لپیٹ دے جو پہلے سے بڑھ چڑھ کر چھلانگیں لگا رہے ہیں.17 جنوری اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کریں اور بتا ئیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی باطل ہے 37 24 جنوری ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے احتساب ضروری ہے.55 31 جنوری مغفرت کے بغیر آپ حمد کو پاہی نہیں سکتے اور مغفرت کیلئے تسبیح کثرت کے ساتھ کرنا ضروری ہے 73 93 7 فروری فیصلہ کریں کہ آپ برائیوں کے شہر کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کر دیں گے.14 فروری اللہ کی طرف محبت کے ساتھ میلان کے نتیجے میں انسان کے دل سے بے قراردعائیں پھوٹا کرتی ہیں 113 21 فروری اللہ تعالیٰ کی محبت کو پانے کے لئے لازم ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کی جائے.9 28 فروری درود کی حقیقت محبت سے ہے اور محبت کے بغیر درود کے کوئی بھی معنی نہیں ہیں.7 مارچ اگر گناہوں سے کلیۂ نجات چاہتے ہوتو خدا کی رحمت سے تعلق جوڑے بغیر یہ مکن نہیں ہے.14 / مارچ متقیوں کا امام بننے کا ہی مزہ ہے.ورنہ تو امامت کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.10 11 12 113 13 21 مارچ اگر ہم اللہ کے بندے بن جائیں تو خدا کی ساری کائنات ہماری ہو جائے گی.131 149 169 185 205 28 مارچ جماعت کو ایسے صاحب اخلاق لوگوں کی ضرورت ہے جو بنی نوع انسان کیلئے نرم گوشے رکھتے ہوں.223 14 4 اپریل تو به استغفار کے ساتھ ممکن ہوتا ہے.گناہوں کے داغ مٹادینا، کلیہ چھپا دیا کہ وہ کالعدم ہو جائے.241 15 11 / اپریل | استغفار گناہوں کے احتمالات سے بچنے کے لئے خدا کی مدد مانگنا ہے.259 16 18 اپریل خدا کی تقدیر حرکت میں آئی اور آسمان ضرور کچھ نشان دکھائے گا.آج ایک نہیں ہزاروں لیکھر ام پیدا ہو چکے ہیں.277 17 25 اپریل اسلام کی نشو ونما اور تیزی سے پھیلنے کی حقیقت حُسن محمد ﷺ تھا جس نے عرب کی فتح کی.281

Page 5

2 18 299 2 رمئی نئی صدی میں ہم نے داخل ہونا ہے جس کی تمام تر ذمہ داریاں ہم پر ڈالی جائیں گی.19 وڑئی توحید کے دائرے میں سب سے بڑا امن ہے اور اول السلمین سے تمام دنیا کا امن وابستہ ہے.319 20 20 16 مئی | نفس مطمئنہ ہی ہے جو بالآخر فتح پائے گا.337 21 23 رمئی قومیتیوں کو مٹانے والی کوئی طاقت ہے تو وہ تو حید کی طاقت ہے.اس کے سوا اور کوئی طاقت نہیں.357 22 22 23 24 25 25 26 30 رمئی نئے آنے والوں کو ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ کے تعلق سے باندھنا شروع کریں.6 جون اصل جہاد یہی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.13 رجون اگر دعا کریں گے تو بسا اوقات اللہ کے فضل سے ٹوٹے ہوئے کام بن جائیں گے.381 401 421 20 رجون اپنے اندر وہ نقوش پیدا کرلو جونقوش میر محمدی ہیں تو اربوں آپ کی وجہ سے بچائے جائیں گے.441 27 رجون جھوٹ انسان کا ساری دنیا میں سب سے بڑا دشمن ہے.اپنے اندر صداقت کی طاقت پیدا کریں.467 27 | 4 جولائی تلاوت قرآن کی عادت ڈالنا، اس کے معانی پر غور سکھانا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے.489 28 11 جولائی یہ جلسہ وہ جلسہ ہے جو ہمارے مباہلے کے سال کے نتیجہ کو دکھانے والا جلسہ ہو گا.29 18 جولائی جلسہ اس مقصد کی خاطر ہے کہ خدا کے بندے خدا کے ہو جا ئیں جو عبادت کے بغیر ممکن نہیں.31 30 25 جولائی تو حید پر قائم ہوکر بنی نوع انسان کو بلائیں جس سے مرتی ہوئی دنیا پھر سے زندہ ہو سکتی ہے.1 راگست متقین کا امام بننے کے لئے دعا کریں اور متقین کا امام بننے کے لئے کوشش کریں.32 8 اگست امن کی حالت میں جو پناہ مانگتا ہے اسے مصیبت کے وقت ضرور پناہ دی جاتی ہے.15 اگست نشانات کا غلبہ ہے جو جماعت احمد یہ کو تمام دنیا پر غالب کرے گا.34 22 اگست خدا کی طرف بڑھنے والے ہوں گے تو کسی کا غیظ و غضب آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.35 29 اگست آج ہمیں ایسے احمدیوں کی ضرورت ہے جو زمانے کی روش بدل دیں.36 36 511 529 547 563 581 599 619 637 15 ستمبر سٹیٹ ہاؤس گیمبیا کا چیلنج.اللہ تعالی اس سال میں ہرگز جماعت کو ذلیل ورسوا نہیں ہونے دے گا.655 37 12 ستمبر یہ مباہلے کا سال اپنی پوری شان کے ساتھ احمدیت کی تائید میں ظاہر ہو گا.19 ستمبر روحانی انقلاب پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ بندے کے اندر ایک روحانی انقلاب چاہتا ہے.38 673 689

Page 6

3 39 40 26 ستمبر الاسکا کے سفر کے تجربات اور ہومیو پیتھی کتاب سے متعلق بعض اہم امور کا تذکرہ.3 اکتوبر جماعت احمدیہ کی مضبوط تربیت ایک غیر معمولی کشش کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گی.41 10 اکتوبر ہم کچی عبادت کرتے ہوئے قَانِتَا لِلہ ہوئے بغیر اس دنیا کو اللہ کے لئے فتح نہیں کر سکتے.42 17 اکتوبر تمام نمازوں کی حفاظت یکساں فرض ہے مگر بطور خاص صلوۃ وسطی.43 24 را کتوبر نماز قائم کرنے کے مراحل ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اپنے ساتھیوں کی نماز بھی کھڑی کرو.31 اکتوبر انفاق فی سبیل اللہ سے تمہیں تقویٰ بڑھانے کی توفیق ملے گی.45 46 46 47 48 49 49 50 50 51 52 52 707 725 743 761 777 793 7 نومبر جب تک آپ عبادت کا حق ادانہ کریں آپ میں یہ طاقت آہی نہیں سکتی کہ برائیوں سے رک سکیں.813 14 نومبر اپنی نماز کو بار بار کھڑا کریں بالآخر ہمیشہ کے لئے آپ کو نماز کی لذت اور طمانیت نصیب ہو جائے گی.831 21 نومبر نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے.28 نومبر اللہ کی تقدیر تو بہر حال غالب آنی ہے.اس کو کوئی روک نہیں سکتا.5 دسمبر آئندہ جماعت کے پھیلنے کا ہماری تربیت کی اہلیت سے تعلق ہے.12 دسمبر | اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمارے دل کی آہوں کوسنتا ہے.19 / دسمبر اگر دنیا کے شر و فساد سے بچانے والی کوئی چیز ہے تو وہ نماز ہی ہے.26 دسمبر رمضان کا سب سے بلند مقصد اور سب سے اعلیٰ پھل یہ ہے کہ اللہ دل جاتا ہے.849 867 885 903 921 941

Page 7

خطبات طاہر جلد 16 1 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء اپنی اولاد کو نیکی کے رستے پر گامزن رکھنا اور خطرات سے بچانا یہ آپ کا اخلاقی اور بنیادی فرض بھی ہے اور حق بھی ہے.( خطبه جمعه فرموده 3 جنوری 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج ہمارا نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اور اس پہلو سے سال کے ادلنے بدلنے کا جو مضمون ہے یا سالوں کے ادلنے بدلنے کا مضمون اور ان کی اہمیت ، اس سے متعلق چند عمومی باتیں کہوں گا اور اس کے بعد پھر انشاءاللہ وہی مضمون جو پہلے بیان ہو رہا تھا اور بیچ میں ایک دوسرے مضمون کی وجہ سے وقتی طور پر اسے چھوڑنا پڑا تھا یعنی عام طور پر جماعت احمدیہ کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے سے متعلق چند نصائح ، ان کو میں پھر کسی خطبے کا ایک حصہ بنا کر بالآخر اس طرف متوجہ ہوں گا.پہلی بات تو سال کے بدلنے سے جو ذہن میں ابھرتی ہے وہ دنیا داروں کا رد عمل ہے.جب بھی ایک سال دوسرے سال میں بدلتا ہے تو یہ احساس تو ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات ہوئی ہے جسے ایسے غفلت کی حالت میں گزرنے نہیں دینا چاہئے ، بلکہ اس تبدیلی کو بطور خاص پیش نظر رکھ کر کچھ ہمیں کرنا چاہئے.یہ کچھ کرنے کا جو مضمون ہے یہ مختلف قوموں کے اندر مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور بسا اوقات مذہبی قوموں میں بھی اور غیر مذہبی قوموں میں بھی وہ لوگ جو حقیقت میں غفلت کی حالت میں رہ رہے ہیں یہ رد عمل صرف ایک بے ساختہ خوشی کے اظہار کی صورت میں منتج ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.کس بات کی خوشی ہے.کیا حساب کتاب کیا گیا، کیا بہی

Page 8

خطبات طاہر جلد 16 2 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء کھاتے بنائے گئے؟ جن کے بعد انسان کہ سکتا ہے کہ میں نے منافع میں سال بسر کیا ہے، نقصان میں نہیں کیا ہے اس طرف تو کوئی توجہ کسی کی نہیں جاتی.اب جو بارہ بجے کی گھنٹی بجائے گی یعنی وہ جو Big Bang ہے اس نے بارہ بجائے تو اس وقت اس قدرا ایک وحشیانہ حالت اس قوم پر طاری تھی کہ شراب کے نشے میں دھت ہوئے ہوئے ہر قسم کی ان اخلاقی پابندیوں سے بھی آزاد ہو گئے جو بے اخلاق دنیا میں بھی کسی حد تک دیکھی جاتی ہیں.مثلاً ایک ایسی دنیا جہاں جنسی بے راہ روی بے محابا جاری ہو چکی ہو وہاں بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ کسی چلتی ہوئی لڑکی کو بے وجہ ہاتھ نہیں لگا نا مگر بارہ بجے جو ایک سال کے دوسرے سال میں تبدیل ہونے کا سنگم ہے اس وقت ہر اس چیز کی اجازت ہو جاتی ہے اور بے دھڑک وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا خوشی کا اظہار ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ سال کے بدلنے پر اگر کچھ ناچتا ہے تو وحشت ناچتی ہے اور اسی کا نام اظہار مسرت ہے، خوشی کا اظہار اور اس کا گزرے ہوئے سال سے کوئی بھی تعلق نہیں.آنے والے سال کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے.پس جہاں تک مومن کا تعلق ہے وہ اپنے گزرے ہوئے سال اور آنے والے سال کو ایک مسلسل جاری پانی کی طرح دیکھتا ہے جو ہر لمحہ آگے بڑھ رہا ہے اور جو سنگم منائے جاتے ہیں یہ اس قسم کا ہی ہے جیسے اچانک کوئی آبشار آ جائے یا کوئی پل آجائے جس کے نیچے سے پانی گزرے یا ارد گرد کا منظر بدل جائے لیکن پانی کی رفتار، اس کا ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جانا، ایک مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے اور زندگی کو بھی انسان جب مختلف وقت کے پیمانوں میں دیکھتا ہے تو یہ تو سمجھتا ہے کہ پیمانہ کچھ بدلا ہوا دکھائی دے رہا ہے، کچھ اردگرد کا ماحول بدلا ہے، کچھ رفتار ڈھلوان کی وجہ سے بدلی یا چڑھائی آنے کے نتیجے میں روکیں پیدا ہوئیں غرضیکہ ایک رواں پانی کی طرح ایک زندگی کی مثال دیکھی جاسکتی ہے اور اس تعلق میں جو سوچنے کی باتیں ہیں وہ وہی ہیں جو قرآن کریم نے ایک آیت میں بیان فرما دیں جو آنحضرت سے تعلق رکھتی ہیں جو یہ ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولى (الضحی :6) سب زندگیاں گزررہی ہیں، رواں دواں ہیں.کوئی بھی زندگی ساکت اور جامد ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ سکوت اور جمود موت کا نام ہے.پس ہر چیز حرکت کر رہی ہے، ہر چیز آگے بڑھ رہی ہے مگر اے محمد رسول اللہ اللہ تیری زندگی اس طرح بڑھ رہی ہے کہ ہر آنے والا محہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہے اور بہتر ہوتا چلا جارہا ہے.پس یہ وہ پیمانہ ہے جسے ہم پیمانہ صفات کہہ سکتے ہیں اور انسان اسی پیمانے سے خدا تعالیٰ کی ذات

Page 9

خطبات طاہر جلد 16 3 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء.کو بھی دیکھتا ہے.تو بعینہ تمام صفات اس پیمانے پر پوری اترتی ہیں.اگر چہ خدا میں تبدیلی نہیں مگر جس کائنات کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں ہمہ وقت ایک تبدیلی ہے جو ادنیٰ سے اعلیٰ ہدف کی طرف ہے.پس ربوبیت کا مضمون ہے جو اس آیت کے حوالے سے سمجھ آتا ہے اور گزرتے ہوئے وقت کے حوالے سے سمجھ آتا ہے.پس ربوبیت جہاں بھی ایسی کائنات میں جلوہ گر ہے جہاں اختیار نہیں ہے وہاں بلاشبہ ہر آنے والا لمحہ اس مادی کائنات کا جو شعور کے ساتھ سفر نہیں کر رہی بلکہ بے اختیار قوانین کے تابع سفر کر رہی ہے وہ خدا کی ربوبیت کے عین منشاء کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے.اس میں ہر آنے والا لمحہ پہلے سے بہتر ہے.ہر چیز منظم ہو رہی ہے، مرتب ہو رہی ہے، نئی نئی شاخیں نکل رہی ہیں اس میں سے اور نشو ونما کا ایسا پھیلتا ہوا دائرہ ہے کہ جو معلوم ہوتا ہے کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا اور واقعہ ختم نہیں ہوسکتا.یہ وہی دائرہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے آیت الکرسی میں یوں فرمایا وَ لَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرة: 256) انسانی علم خدا تعالیٰ کے علم کے دائروں پر محیط نہیں ہوسکتا ، اسے دائرے میں نہیں لے سکتا.صرف ایک حد تک وہ علم پائے گا جس حد تک خدا اجازت دے دے کیونکہ خدا کے دائرے جو تخلیف کے دائرے ہیں وہ پھیل رہے ہیں اور اسی طرح علم بھی پھیلتا چلا جاتا ہے.آج انسان ایک علم کے اوپر ایک دائرہ بنائے وہ سمجھے کہ میں نے اس پر قابو پالیا اس دائرے کو تو ڑ کر علم ضرور باہر نکل جائے گا کیونکہ ہر آنے والا دن اس علم میں وسعت پیدا کرے گا ،نئی شاخیں کھولے گا وہ اس برتن میں سماہی نہیں سکتا پھر.پس یہ وہ ربوبیت کا مضمون ہے جو ہر آنے والے لمحے کو پہلے سے بہتر دکھا رہا ہے مگر آنحضرت مے کے حوالے سے اس میں ایک اور شان پیدا ہو جاتی ہے جو انسان اور دیگر مخلوقات کا فرق دکھاتی ہے.دیگر مخلوقات میں جو آگے بڑھنے کا مضمون ہے وہ اپنی کسی خوبی، اپنے فیصلے سے تعلق نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ کی ایک جاری تقدیر سے تعلق رکھتا ہے جو ہمیں ایک لمبے عرصے تک درجہ بدرجہ ترقی دے کر یہ سمجھاتا ہے کہ ہمارا خدا ہمیشہ آگے بڑھانے والا ہے اور جب وہاں جا کر کھڑا کیا جہاں انسانیت شروع ہوتی ہے اور یہ قانون نئے بنا کر ہمارے سامنے رکھے کہ اب تم چاہو تو نیچے کی طرف دوڑ پڑو، چاہوتو اوپر کی طرف جاؤاب تمہیں اختیار ہے تو جہاں اختیار دیا گیا وہاں اکثر انسان نیچے کی طرف دوڑے ہیں ، اوپر کی طرف نہیں گئے اور اَسْفَلَ سَفِلِينَ (التين : 6)

Page 10

خطبات طاہر جلد 16 4 خطبہ جمعہ 3/جنوری 1997ء کی طرف ان کا رخ ہو گیا.ان کا ہر آنے والا لمحہ پہلے لمحوں سے بدتر ہوتا چلا گیا اور جب وہ ایک ایسی انتہاء کو پہنچے جس کے بعد پھر ان کو زندہ رہنے کا حق نہ رہا تو پھر خدا تعالیٰ نے ان قوموں کو برباد کر دیا.آنحضرت ﷺ ان تمام انسانوں کی صف میں سب سے آگے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے ہر لمحہ آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے جنہوں نے اس شعوری حق کو استعمال فرمایا اور بہت ہی اعلیٰ طریق پر استعمال فرمایا.پس تمام انبیاء اور ان سے پہلے صالحین ، ان سے نچلے طبقے میں صالحین ،شہداء اور صدیقین سبھی وہ ہیں جن کے آنے والے لمحے پچھلے لمحوں سے آگے ہوتے ہیں اور اس مضمون پر گواہی دے کر مرتے ہیں کہ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران : 94) اے اللہ ہمیں وفات دینا تو نیکوں میں داخل کر کے وفات دینا.ادنیٰ حالتوں میں وفات نہ دینا.پس گزرے ہوئے وقت کے ساتھ ایک یہ بھی تو مضمون ہے جسے ذہن میں از خود بیدار ہو جانا چاہئے اور اس پہلو سے اپنے سال کا جائزہ لینا چاہئے اور آئندہ سال کے متعلق معین منصوبہ ہونا چاہئے کہ ہم آئندہ کیا کریں گے.جہاں تک انفرادی فیصلوں کا تعلق ہے اس کے متعلق یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی تفصیلی بات کی جا سکے کیونکہ ہر انسان کا مقام الگ الگ ہے.جیسے میراتھن دوڑ ہوتی ہے تو اگلوں اور پچھلوں کے درمیان میلوں کا فاصلہ بھی ہوتا ہے.تو ہمارا جو انسانی مقابلہ ہے وہ صدیوں تک بھی پھیلا پڑا ہے بلکہ ہزاروں سال تک بھی.پس انسان کی اس دوڑ میں جو اجتماعی دوڑ ہے اس میں پہلے درجے کا جو انسان سب سے آگے ہے اس میں اور سب سے پیچھے آگے بڑھنے والے میں، پیچھے ہٹنے والوں کی بات نہیں میں کر رہا ان کا تو رخ ہی بدل گیا، آگے بڑھنے والوں میں بھی اتنے فاصلے پڑ جاتے ہیں کہ گویا جوسب سے پیچھے ہے وہ اگلے آدمی کے متعلق علم ہی نہیں رکھتا کہ وہ کہاں غائب ہو گیا.صلى الله پس حضرت اقدس محمد مصطفی میں نے جس صراط مستقیم پر چلے ہیں اور چلتے رہے وہ صراط مستقیم ایسی ہے جس کے آخر پر عام آدمی نیکی کی راہوں پر قدم مارنے والے اور گرتے پڑتے آگے بڑھنے والے وہ بھی تو ہیں اور فاصلے بہت ہیں جو صدیوں، ہزاروں سال کے فاصلے بلکہ اس سے بھی زیادہ بن جائیں گے.اگر روحانی مراتب کو آپ گہری نظر سے دیکھیں تو آنحضرت ﷺ اور ابتدائی نیکی کے سفر کرنے والے کے درمیان یوں معلوم ہوتا ہے کہ لا متناہی فاصلہ ہے، اس کا عام انسان تصور نہیں کر سکتا.مگر قد رمشترک کیا ہے.اگر قد رمشترک کوئی نہ ہو تو پھر انسان اس نیکی کے رستے پر چلنے کا تصور

Page 11

خطبات طاہر جلد 16 بھی نہیں کر سکتا.5 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء قدر مشترک خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إلَى أَنَّمَا الهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ (الكهف : 111) کہ تو کہہ دے کہ میں تمہاری طرح کا ہی ایک بشر ہوں اس لئے جتنی ترقی میں نے کی ہے صلاحیت کے لحاظ سے تمہیں اس سے محروم نہیں رکھا گیا.تم نہیں کہہ سکتے کہ میں اور قسم کا انسان تھا یعنی بشریت کی صلاحیتوں کے لحاظ سے تمہیں سب کچھ دیا گیا ہے جو مجھے بھی دیا گیا تھا مگر مجھے وحی نے ایک نئی زندگی عطا کر دی اور وحی بھی بغیر کسی استحقاق کے نہیں تھی.یعنی رسول اللہ ﷺ کی نظر سے دیکھیں یا انسان کی نظر سے دیکھیں تو استحقاق کوئی دکھائی نہیں دیتا مگر اللہ کا کوئی فیصلہ بھی بغیر حق کے نہیں ہوا کرتا ان معنوں میں میں کہہ رہا ہوں کہ وحی بھی استحقاق سے تعلق رکھتی ہے.اگر چہ آخری بار یک نظر سے دیکھیں تو حق وق سب اڑ جاتا ہے صرف مالک ہی دکھائی دیتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اپنے لئے بھی تو کچھ عدل کے ایسے قوانین بنارکھے ہیں جو درحقیقت احسان سے تعلق رکھتے ہیں مگر ہماری زبان میں وہ عدل کہلائے گا کیونکہ خدا کا عدل جن چیزوں پر مبنی ہے وہ ساری اس نے عطا کی ہوئی ہیں.اس لئے خدا کے عدل کی بنیا د احسان پر ہے اور بندے کے عدل کی بنیاد حقوق پر ہے ان دو چیزوں میں بہت بڑا فرق ہے.تبھی میں نے کہا تھا کہ مالک کا مضمون ہے جو درحقیقت ایک غالب مضمون ہے جو ہر چیز پر حاوی ہے.مگر اس خطبہ میں اس کی تفصیل میں اگر گیا تو یہ مضمون جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں یہ ادھورا رہ جائے گا.پس یا درکھیں کہ اگر چہ نبوت وہی ہوا کرتی ہے مگر اس کے باوجود اس کے اندر عدل کا ایک مضمون ہے اور عدل کا مضمون احسان کے پلیٹ فارم پر ، اس کی سرزمین پر قائم کیا گیا.ہر چیز جوخدا نے دی ہے احسان ہی کے طور پر دی ہے اور پھر اس میں یہ عدل قائم کر دینا یہ اس کی عجیب شان ہے.پس اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے جو انسان کو عدل اور احسان کی تعلیم دی ہے انسان کے عدل کا قدم نیچے سے اٹھتا ہے اور احسان پر جاتا ہے اور احسان کے بعد پھر ایک اور عدل اس میں سے پیدا ہوتا ہے جس سے محسنین پیدا ہوتے ہیں.مگر بہر حال حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہر آگے بڑھنے والے سے اتنا آگے بڑھ گئے کہ جیسے دور افق میں کوئی ڈوب جائے اور پھر دکھائی نہ دے مگر جو قدر مشترک ہے وہ بیان کر گئے اس کو خوب کھول دیا تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بے وجہ آگے

Page 12

خطبات طاہر جلد 16 6 بڑھ گیا ہے، کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی جس کی وجہ سے آگے بڑھا ہے.خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء ایک آدمی کہہ سکتا ہے کہ فلاں وہ تیز دوڑنے والا تھا اس کو خدا نے اچھا جسم دیا تھا، اچھی صلاحیتیں عطا کیں اچھے ماحول میں پیدا ہوا، اچھے تربیت دینے والے اس کو میسر آگئے تو پھر میرا کیا قصور ہے جو میں پیچھے رہ گیا.تو اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ عدل کا جہاں تک مضمون ہے اس سے پہلے احسان خدا کی طرف سے لازماً ہوتا ہے لیکن جب انسان دیکھتا ہے تو یہ بحث نہیں کرے گا کہ خدا نے اس پر احسان کیوں کیا، اس پر کیوں نہیں کیا.اس نے یہ فیصلہ کرنا ہے صرف کہ جب دوڑ ہوئی تھی تو کون آگے بڑھا ہے.اس کی ماں نے دودھ نہیں پلایا اس لئے وہ آگے نہیں بڑھ سکا بلکہ بکری کے دھ پر پالا گیا اس لئے آگے نہیں بڑھ سکا یہ بخشیں تو نہیں اٹھائی جائیں گی.صرف یہ دیکھا جائے گا کہ جب دوڑ ہوئی تو آگے کون بڑھا مگر آگے بڑھنے کے باوجود اگر کوئی یہ پیغام دیتا چلا جائے کہ جہاں تک ابتدائی صلاحیتوں کا تعلق تھا انسانی قدر مشترک کا تعلق ہے وہ سب ہم میں برابر تھیں اس لئے یہ کہہ کر پیچھے نہ رہ جانا کہ تمہیں خدا نے وہ توفیق ہی نہیں بخشی تھی.توفیق بخشی لیکن تم نے اس توفیق سے استفادہ نہیں کیا اور پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا.اب یہ جو مضمون ہے تو فیق والا یہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ سمجھایا تھا پھر بھی بعض دفعہ لوگوں کے دل میں دوبارہ سوال اٹھتے ہیں.یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بشریت کی توفیق کا یہ مطلب ہے کہ ہر بشر کی جو حقیقی موجود توفیق ہے وہ ایک جیسی ہوا کرتی ہے.کسی بشر کی نظر تیز ہے، کسی کی نظر کمزور ہے.کسی کو سونگھنے کی پوری صلاحیت نہیں.کوئی بہرا ہے، کوئی بہرا اور اندھا اور گونگا بھی ہے تو اگر اس تفصیل میں جا کر آپ دیکھیں تو قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کی بات یہاں صادق نہیں آتی پھر.اس لئے وہ جو بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کا مضمون ہے وہ زیادہ وسیع دائرہ سے تعلق رکھتا ہے اس کے صحیح فہم کے بغیر آپ اس مثال کو سمجھ نہیں سکتے اور دل میں ہمیشہ الجھنیں باقی رہ جائیں گی.پس آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں اور ایک ایسا بشر ہوں جس نے اپنے دائرہ استطاعت کو اپنے درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے.تم جس حالت کے بھی بشر ہو گے اگر تم اپنے دائرہ استعداد کو اپنی انتہائی طاقتوں تک بڑھا دو گے تو پھر خدا تم سے یہ سلوک ضرور فرمائے گا کہ تم سے بھی ہم کلام ہو، تم سے بھی اپنا تعلق قائم کرے گا مگر اس کے لئے کچھ شرطیں ہیں

Page 13

خطبات طاہر جلد 16 7 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء اور وہ شرطیں اس کے بعد بیان ہوئی ہیں إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى مُجھ پر وحی کی جا رہی ہے.اس نے بشریت کے باوجود ایک نئی روشنی مجھے عطا کر دی ہے.اَنَّمَا الهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ اس توحید کے پیغام میں وہ خوش خبری ہے جس کی طرف میں متوجہ کر رہا ہوں کہ خدا ایک ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ہر ایک سے الگ الگ سلوک کرے.اَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ تم اندھے ہو، کانے ہو ، لولے ہو لنگڑے ہو مگر یا درکھنا تمہارا خدا ایک ہے.وہی خدا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا تھا، جس نے محمد رسول اللہ اللہ سے احسان کا سلوک کیا وہ کیسے تمہیں بے احسان چھوڑ دے گا مگر اس کے لئے بشری صلاحیتوں کے تفصیلی تقاضوں کی بحث نہیں اٹھائی.فرمایا يُوحَى إِلَى اَنَّمَا الهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا دو شرطیں ہیں جو تم میں سے ہر ایک پوری کر سکتا ہے.بشریت کی طاقتیں الگ الگ ہوں گی بے شک لیکن ان شرطوں میں قدر مشترک میں تم سب اسی طرح برابر ہو اور ہر ایک کو برابر یہ توفیق ہے کہ وہ انہیں پورا کر سکے.عمل صالح کرو اور عمل صالح کی تعریف یہ فرما دی کہ ہر شخص جو اپنی توفیق کے مطابق کچھ کام کرتا ہے اور جہاں تک اس کو نیکی کا فہم ہے اس فہم کے مطابق نیکی پر عمل کرتا ہے وہ عمل صالح ہے.اس لئے ایک اندھا بھی جو سوٹی کی مدد سے رستہ ٹولتے ہوئے چلتا ہے وہ عمل صالح بھی کر سکتا ہے عمل صالح کے بغیر بھی پھر سکتا ہے.عمل صالح کا مطلب ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے وہ تمام احتیاطیں برتے کہ بے وجہ ٹکریں نہ مارتا پھرے.ایک دفعہ کوئی اندھا لیمپ جلا کر رات کو پھر رہا تھا تو کسی عقل کے اندھے نے اس سے پوچھا کہ تم عجیب بے وقوف آدمی ہو تمہیں نظر آتا نہیں روشنی لئے پھرتے ہو.اس نے کہا میں روشنی اپنے لئے نہیں تمہارے جیسے اندھوں کے لئے پھرتا ہوں ہم نہ ٹکر مار دو میرے سے.تو یہ بھی ایک فراست ہے اور یہ اس کا عمل صالح تھا.اس کے عمل صالح نے اس کے اندھے ہونے کے باوجود کیسا دیا روشن کر دیا جس سے اندھیری رات کا ایک حصہ جگمگا اٹھا.تو ہر شخص صلى الله میں ایک عمل صالح کی صلاحیت خدا نے رکھی ہے.پس عمل صالح کے حوالے سے جب رسول اللہ ﷺ کو خدا نے وحی فرمائی اور وحی میں یہ قدر مشترک ہے جو بشریت اور نیک لوگوں میں تفریق کرنے والی ہے یعنی بشریت برابر اور پھر بھی ہر بشر کو یہ توفیق مل جانا کہ خدا اس سے ہم کلام ہو جائے ، اس سے پیار

Page 14

خطبات طاہر جلد 16 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء کا اظہار کرے ان صلاحیتوں نے ہر انسان کو برابر کر دیا ہے.پس اندھے کی صلاحیت اور ہے اور دیکھنے والے کی اور گویا عمل صالح کی توفیق دونوں کو ہے کیونکہ عمل صالح کی تعریف ایسی بنادی گئی ہے جو ہر ایک پر صادق آجاتی ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة:287) اس اعلان نے تو ہر شک کو دور فرما دیا کہ اس دور کا قانون یہ بنا دیا گیا ہے کہ جس کو جتنی توفیق ہے اس کے مطابق اس کے فیصلے ہوں گے.ہوسکتا ہے کوئی ہزار میل پیچھے رہنے والا ، ہزار میل آگے بڑھ جانے والے سے اوپر قرار دے دیا جائے اس لئے کہ اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق پوری حد کر دی، اپنی حد تک جو زور مارنا تھا مار دکھایا اور جو ہزار میل آگے ہے وہ دو ہزار بھی جاسکتا تھا اس لئے اس کو نیچے کر دیا اور جو پیچھے رہ گیا اس کو اوپر کر دیا.تو یہ عجیب و غریب قانون ہے جو عجیب و غریب تو ہے مگر بہت ہی اعلیٰ اور لطیف قانون ہے، عدل کے اعلیٰ تقاضے پورے کرنے والا ہے.اس لئے انسان جب کسی کو کہتا ہے تم فرسٹ آگئے ہو تو اس سے تو یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ساتھ یہ ہوا تھا اور اس کے ساتھ یہ ہوا تھا.میں ان باتوں میں محروم رکھا گیا مگر یہ اس وجہ سے ہے کہ انسان عالم الغیب نہیں ہے.انسان ان باریک لطیف باتوں میں اتر کر مواز نے کر ہی نہیں سکتا اس لئے اس نے جھگڑا مٹا دیا یہ کہہ کر کہ ہمیں تو جو نظر آئے گا ہم اس کے مطابق فیصلہ دیں گے یہ ہمارے قوانین ہیں.وہ پہلے پہنچا ہے تم بعد میں پہنچے ہو لیکن خدا کی نظر ان تمام لطیف باتوں پر ہے.اس لئے وہ عدل جو احسان پر قائم ہوتا ہے میں اس کی مثال آپ کو دے رہا ہوں کہ سارے مضامین احسان ہی کے ہیں.مگر اس پر قائم ہونے والا عدل بہت ہی خوبصورت عدل ہے.ہر کمزور، ہر بیمار، ہر لولے لنگڑے کو ایک خوشخبری دے دی گئی ہے کہ جس دوڑ کی طرف بلا رہے ہیں وہ سارے بشر کو بلا رہے ہیں آنحضرت ﷺ کسی ایک کے رسول تو نہیں تھے.تمام بشر، ہر بشر کے رسول تھے.پس دعوت عام ہے اور قوانین ایسے بنا دیے کہ ہر دعوت میں شامل ہونے والا برابری کے یقین سے حصہ لے.اب یہ جو مضمون ہے اس کے بعد فرمایا کہ ایک شرط لازم ہے وہ شرط یہ ہے کہ عمل صالح کے ساتھ خدا کا شریک نہیں ٹھہرانا کیونکہ شرک عدل کے خلاف ہے.اور خدا جب تم سے عدل کرتا ہے، تم اس سے عدل کے بغیر سلوک کرو یہ ظلم ہے.تبھی خدا تعالیٰ نے شرک کو عدل کے برعکس اور ظلم قرار دیا

Page 15

خطبات طاہر جلد 16 9 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء ہے.پھر اس کے عدل کا قانون تم پر نہیں چلے گا.جو کسی سے نا انصافی کا سلوک کرتا ہے وہ اس سے انصاف کی توقع نہیں پھر رکھ سکتا.پس فرمایا عمل صالح والی جو تمہاری صلاحیتیں ہیں ان کو ہم اسی طرح جانچیں گے جیسا کہ ہم نے بیان فرما دیا مگر ایک خدا کو ماننا اور اسی کی خاطر اپنے آپ کو جھکا دینا اور اس کے غیر پر نظر نہ رکھنا یہ شرطیں مانو گے تو پھر اپنے نقطہ آسمان کی طرف جو انتہائی بلندی کا نقطہ ہے اس کی طرف تم بھی ضرور اٹھائے جاؤ گے.پس ہر شخص اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے گویا وہ شخص جس نے اپنی صلاحیتوں کے کمال کو ان کے درجہ کمال کی آخری حد تک پہنچا دیا وہ لازم سب سے اونچا ہوگا.مگر ایک شرط اور ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کر رہا ہوں جو یہ ہے کہ آپ نے لمحے لمحے کا حساب دیا ہے.اور غافل میں اور صاحب عقل انسان میں یہ بہت بڑا فرق ہے.آنحضرت ﷺ لمحے لمحے کا حساب رکھتے تھے.اپنی زندگی کے لمحے لمحے پر نگران رہتے تھے.اگر ہم سالوں کا حساب بھی نہ رکھیں بلکہ دسویں سال کا بھی حساب نہ رکھیں تو یہی وہ کیفیت ہے جس کو قرآن کریم هُمْ غُفِلُونَ (الروم : 8) اصطلاح میں بیان فرماتا ہے اور جہاں جہنم کا ذکر ہے وہاں یہ وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا جہنم کا اکثر حصہ غافلوں سے بھرا ہوا ہو گا جو عُقِلُونَ ہیں.اور پھر ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ اگر غافل ہے تو غفلت کی حالت میں گناہ کرنے کی سزا کیوں پاتے ہیں.وہاں اس مضمون کو کھول دیا گیا، اس آیت کو میں آئندہ انشاء اللہ پھر کسی وقت اٹھاؤں گا بہت اہم مضمون ہے جو اس میں بیان ہوا ہے.مگر بات یہ کھولی گئی ہے کہ غفلت کی حالت اگر بالا رادہ کمزوریوں سے تعلق رکھتی ہو تو اس میں انسان سزاوار ہوتا ہے اور غفلت کہہ کر جرم کی سزا سے بچ نہیں سکتا.اب ایسے شرابی جو یکم تاریخ کو شرابی بنے یا اس سے پہلے کرسمس میں شرابی ہوئے ان کے متعلق پولیس نے جگہ جگہ بے شمار چیک پوسٹیں بنائی ہوئی تھیں ان کو دیکھ کر ، ان کی نگرانی کی ، ان کو پکڑنے کی تدبیریں اختیار کی ہوئی تھیں، نئے آلے ایجاد کر نے والوں نے کئے اور پولیس ان کو لئے پھر تی تھی اور ہر ایک کے سانس کا ٹیسٹ لیتے تھے جس کا شبہ پڑے کہ وہ ذرا ڈولتا ہوا چل رہا ہے اور اس طرح کہتے ہیں کہ تقریبا نصف حادثات ہوئے ہیں اس سال لیکن جو شراب کی حالت میں کسی کو مار دیتا ہے اس کے اوپر پولیس یہ مقدمہ نہیں دائر کرتی کہ اس کو پھانسی کی سزا ملنی چاہئے یا عمر قید کی سزا

Page 16

خطبات طاہر جلد 16 10 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء ملنی چاہئے اور حالانکہ یہ غفلت اس کی پیدا کردہ ہے.اور قرآن کریم جس غفلت کا ذکر فرماتا ہے وہ وہ غفلت ہے جو انسان کی بالا رادہ پیدا کردہ غفلت ہے.پس اگر تم اپنی غفلت کے معاملے میں نگران نہیں ہوتے اور غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہو تو پھر جو حادثات ہوں گے تم اس کے ذمہ وار ٹھہرائے جاؤ گے.جب تک ہوش نہ ہو قرآن کریم فرماتا ہے تم نے نماز بھی نہیں پڑھنی.یہ غفلت کا مضمون ہے جو حیرت انگیز وضاحت اور شان کے ساتھ ایک عظیم روشنی کے ساتھ قرآن کریم ہمارے سامنے پیش فرماتا ہے.نماز پڑھنا کتنی اچھی بات ہے گر فر مایا اگر تمہیں پوری طرح پتہ نہیں کہ تم کہ کیا رہے ہو تو یہ غفلت کی حالت جو ہے اس کی نماز قبول نہیں ہو سکتی.اس لئے تم ایسے وقت میں اس غفلت کی حالت میں نماز نہ پڑھو ورنہ ہوسکتا ہے تمہارے منہ سے کوئی کلمہ کفر ہی نکل رہا ہو.کوئی نا مناسب با تیں تمہارے تصورات کی نماز میں داخل ہو جائیں.اب یہ جو غفلت کی حالت ہے خاص طور پر اس کو پیش نظر رکھ کر اپنی اکائیوں اور دہائیوں کا حساب تو لے کے دیکھیں.اگر آپ اس پہلو سے حساب لیتے ہیں جیسے کہ میں نے بیان کیا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ اپنے لمحے لمحے پر نگران تھے اور یہ نگرانی اتنی کامل تھی اور اتنی مستقل تھی کہ آپ کو تمام بنی نوع انسان پر شہید بنا دیا گیا.پہلے شاہد جس کا میں پچھلے خطبے میں ذکر کر چکا ہوں پھر شہید کہ ان کے متعلق آپ کی گواہی مانی جائے گی کیونکہ آپ نے اپنا لمحے لمحے کا حساب لیا ہے اس لئے آپ اس لائق ہیں کہ آپ کی کسوٹی پر دوسرے پر کھے جائیں.فرمایا جب تمام انبیاء کو قیامت کے دن اپنی اپنی قوموں پر شہید بنا کر لایا جائے گا تو اے اللہ کے رسول تجھے ان تمام انبیاء پر شہید بنا کر لایا جائے گا.ان کی امتوں کے اعمال نبیوں کے اعمال کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے اور نبیوں کے اعمال تیری کسوٹی پر پر کھے جائیں گے.یہ وہ رسول ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے جن کی غلامی میں ہم نے قدم آگے بڑھانے ہیں اور طریق بھی آپ نے ہمیں سمجھا دیئے اور قرآن نے یہ مضمون خوب کھول دیا کہ غفلت کی حالت میں گزرے ہوئے لمحے تمہارے کسی کام کے نہیں ہیں.اور وہ جو گناہ پیدا کرتے ہیں ان گناہوں کے تم ذمہ دار قرار دیئے جاؤ گے اور غفلت کی حالت میں اگر نمازیں پڑھنے کی اجازت نہیں.تو انسان جو

Page 17

خطبات طاہر جلد 16 11 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء نمازیں پڑھتے ہوئے اکثر غفلتوں میں ڈوبا رہتا ہے اس کو سوچنا چاہئے کہ یہ نماز بھی ایسی ہے جس میں رس نہیں پیدا ہوا اور زور لگانا چاہئے کہ کسی طرح یہ غفلت کی حالت جاتی رہے.تو ایک مستقل جد و جہد ہے اور اس کے نتیجے میں اگر قدم زیادہ تیز رفتاری سے آگے نہ بڑھے تو کچھ نہ کچھ آگے بڑھنا چاہئے.یہ وہ موازنہ ہے جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اپنے بہی کھاتے کھولو اور دیکھو کیا ہوا ہے تو پچھلے سال کی جو بھی اپنی کیفیت ہے اس پر نظر رکھو اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انفرادی طور پر تو ممکن ہی نہیں کہ میں سمجھا سکوں کہ کون کیا کیا کرے مگر ایک پیمانہ جو عالمی پیمانہ ہے وہ آنحضرت نے کا پیمانہ ہے اس پر اپنے حالات کو چسپاں کرتے ہوئے ہم نے یہ دیکھنا ہے اگر ہمارا ہرلمحہ گزرے ہوئے سال کے ہر لمحے سے آئندہ بہتر نہیں ہوسکتا تو کم سے کم ہر منٹ اگر بہتر ہوسکتا ہے تو وہ بہتر کیا جائے، گھنٹہ بہتر ہوسکتا ہے تو گھنٹہ بہتر کیا جائے ، ہفتوں کا حساب کر لو، مہینوں کا حساب کر لو.کچھ تو کرو، کچھ تو ایسی مماثلت ہو جو خادم کی اپنے مخدوم سے ہوا کرتی ہے ، غلام کی اپنے آقا سے ہوتی ہے.پس لا زم ہے کہ مہینے نہیں تو کم سے کم ہر سال کچھ نہ کچھ آگے بڑھے.کہاں بڑھے گا ، کن کن قدموں میں وہ پہلے سے زیادہ سرعت سے وہ سفر اختیار کرے گا یہ فیصلہ ہے جو ہر انسان نے اپنی توفیق کے مطابق کرنا ہے.اور اس پہلو سے جن اخلاق کی طرف میں نے آپ کو متوجہ کیا تھا میں ان کی طرف مختصراً پھر واپس لوٹتا ہوں اور آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایک حساب عبادت کا کرلیں اور ایک اخلاق کا.یہ دو حساب کر لیں اور اپنے لئے تعلیم معین کریں، اپنے لئے خود فیصلہ کریں کہ اگلے سال میں میں نے ان دونوں چیزوں میں کیا بہتری کرنی ہے.نمازوں کی حالت میں بہتری کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی نمازوں کے وقت ان شیطانوں کی شناخت کرے جو نماز میں دخل انداز ہوتے ہیں.وہ تجارت کے شیطان ہیں، مقدموں کے شیطان ہیں ، بیوی بچوں یا دیگر لوگوں کی محبت کے شیطان ہیں غرضیکہ جتنی بھی قسموں کے شیطان ہیں وہ الگ الگ صورتوں میں الگ الگ انسانوں پر قابض ہوتے ہیں.بعض دفعہ ایک، بعض دفعہ دو، بعض دفعہ دسیوں شیطان اور ان کی شناخت کے بغیر آپ ان کے خلاف جوابی کارروائی کیسے کر سکیں گے.تو کسی دن غور کر کے دیکھیں تو سہی کہ نماز میں کون کون سے رخنے والے خیالات ہیں پھر جو جو بھی خیالات ہیں ان کا کسی چیز سے ربط ضرور ہے جو آپ کو اچھی لگتی ہے.اس ربط کو اگر وہ نماز میں

Page 18

خطبات طاہر جلد 16 12 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء ہوتا ہے تو کاٹ دیں اور کاٹنے کی کوشش جو ہے وہ لمبا وقت لیتی ہے.کاٹ دیں کہنا تو آسان ہے مگر ان کا کٹ جانا آسان نہیں ہے.اس جدو جہد میں جب آپ داخل ہوں گے تو اس پہلو سے آپ کا ہر لمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا ہوا نظر آئے گا یا ہر وقت کا یونٹ جو بڑا بھی ہو تو پہلے یونٹ سے زیادہ بہتر ہوتا ہوا دکھائی دے گا.تو ایک تو نمازوں کے متعلق میں سمجھانا چاہتا ہوں بہت ہی اہم قابل توجہ امر ہے.میرے نزدیک اگر ہم اپنی عبادت کے متعلق غفلت کی حالت کو کاٹ پھینکیں اور پہلے تشخیص کریں تعیین کریں.تشخیص بیماریوں کی اور تعیین ان اقدامات کی جن کو استعمال کرتے ہوئے آپ نے بیماریوں سے شفا پانی ہے معین ایک راہ عمل اپنے لئے بنالیں اور اگر آپ کو توفیق ملی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آئندہ آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے ضرور بہتر ہوگا.انشاء اللہ دوسرا وہ جو معاشرتی بدیاں ہیں جن کے نتیجے میں بہت سی بداخلاقیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کے اوپر عبور حاصل کرنا ضروری ہے.بار ہا نصائح کے باوجود جن لوگوں پر نہیں اثر ہوتا ان پر نہیں ہوتا اور اس کے باوجود نصیحت کرتے چلے جانے کا حکم ہے.جو بدخلق اپنی بیویوں سے بدخلق ہیں، اپنی اولادوں سے بدخلق ہیں، اپنے رشتہ داروں سے بدخلقی سے پیش آتے ہیں وہ جب اس قسم کے خطبات سنتے ہیں تو اور بھی زیادہ اپنے گھر والوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم بچ جاؤ گے، تم ہو ہی گندے بے ہودہ لوگ ، میں تمہیں ٹھیک کروں گا اور یہ حوالے نہ دیا کرو مجھے اور وہ پھر بیچارے ہمیں خط لکھتے ہیں اور اسی طرح بعض بے چارے مرد ہیں جن کا حال یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے سامنے وہ اس طرح اف نہیں کر سکتے جس طرح بچوں کو حکم ہے کہ ماں باپ کے سامنے اف نہیں کرنی اور ان کی ہر بات کے اتنے غلام کہ اپنی اولادوں کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کر بیٹھے ہیں.بیوی غیر احمدی، باپ احمدی مگر ایسا زن مرید کہ وہ اپنی اولا د کو اپنی آنکھوں کے سامنے جہنم کی طرف دھکیلا جاتا دیکھتا ہے اور مجال نہیں کہ جو آگے سے آواز بلند کر سکے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک اخلاقی کمزوری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک زوجہ میں پائی تو پیغام چھوڑ دیا کہ جب اسماعیل واپس آئیں تو ان کو کہنا اپنی چوکھٹ بدل لیں اور آپ نے طلاق دے دی.وہ دین کے لحاظ سے مختلف دین نہیں رکھتی تھیں مگر جہاں دین کا اختلاف بھی ہوا اور اولاد کو واضح طور پر لا دینی قدروں کی طرف لے جارہی ہو کوئی بیوی.اس کے ساتھ چھٹے رہنے کا جواز ہی کون سا ہے؟ بہت پہلے

Page 19

خطبات طاہر جلد 16 13 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء طلاق دے کر الگ کر دینا چاہئے تھا.مگر ایسی بھی ہیں جو عیسائی بنا رہی ہیں، جود ہر یہ بنارہی ہیں، جو ہر قسم کی دینی اقدار سے غافل کرنے کے لئے با قاعدہ سکیم بناتی ہیں اور ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے بہت شریف آدمی بڑا ہی شریف النفس احمدی ، بڑا با اخلاق ہے، چندے بھی دے دیتا ہے اور نمازیں بھی پڑھتا ہے اور دیکھ رہا ہے آنکھوں کے سامنے اس کی اولاد جہنم میں جا رہی ہے.یہ شرافت ہے یا نامردی ہے.کیا اس کا نام آپ رکھیں گے؟ جن باتوں کے لئے انسان کو نگران بنایا گیا ہے لازم ہے کہ ان پر نظر رکھے اور اس لحاظ سے بھی اپنے حال پر نظر کرے کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا بحیثیت ایک خاندان کے پیچھے ہٹ رہا ہے.اس کا مستقبل کیا ہے.جس کی اولاد پیدا مسلمان ہوئی ہو یعنی خدا تعالیٰ نے اسے اسلامی قدروں پر اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی قدروں پر پیدا کیا ہوا وہ اس کی آنکھوں کے سامنے دور ہٹ رہی ہو اور واضح نظر آرہا ہو کہ رستہ جہنم والا رستہ ہے اس پر آرام سے بیٹھا ہوا ہے اس کو شریف کون کہ سکتا ہے.یعنی شریف ان معنوں میں ہے کہ وہ لوگوں سے معاملے میں ٹھیک ٹھاک ہے مگر یہ شرافت نہیں بزدلی ہے.بعض دفعہ بزدلی کا نام شرافت رکھ دیا جاتا ہے.کسی نے کسی سے کہا تھا کہ تو جو طاقتور ہے اس کے سامنے بڑا خاموش ہو جاتا ہے اور جو کمزور ہے بے چارہ اس کے اوپر چڑھ دوڑتا ہے.اس نے جواب دیا میری طبیعت میں شرافت بڑی ہے، جب میں کسی طاقتور کو دیکھتا ہوں مجھے بڑا رحم آتا ہے اس پر اور جب کمزور کو دیکھتا ہوں مجھے بڑا غصہ اس پر آتا ہے.یہ اس کی شرافت ہے.تو شرافت غفلت کے ساتھ اکٹھی ہو نہیں سکتی.هُمْ غُفِلُونَ (الروم: 8) والا مضمون سمجھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اپنی اولاد کو نیکی کے رستے پر گامزن رکھنا اور ان خطرات سے بچانا یہ آپ کا اخلاقی اور بنیادی فرض بھی ہے اور حق بھی ہے اور اس غفلت کی حالت میں جو آپ نیک لوگوں کی نسلیں ضائع کر دیتے ہیں پوچھے جائیں گے.اگر بے اختیاری کی حالت میں اولا د ہاتھ سے نکل جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر کسی کو ذمہ وار قرار نہیں دیا مگر فطرت کے دکھ میں اس کو سزا ضرور مل جاتی ہے.حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی مثال دیکھیں کہ اولا دنا شکری بنی ، اس نے غلط راہ اختیار کر لی ، ایسا عمل نہیں کیا جسے صالح عمل کہا جا سکتا ہے تو حضرت نوح کے قرب نے اسے بچایا نہیں.حضرت نوح کو اس وجہ سے سزا نہیں ملی کہ حضرت

Page 20

خطبات طاہر جلد 16 14 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء نوح کی پوری کوششوں کے باوجود وہ اولا دایسی نکلی.مگر ایک چیز ضرور تھی کہ حضرت نوح اس پر تفصیلی نظر نہیں رکھ سکے تھے.یہ بھی ایک لطیف غفلت کی قسم ہے اور خدا کا انصاف ایسا کامل ہے کہ اس کی سزا بھی دیتا ہے پھر.چنانچہ حضرت نوح کو جو دکھ پہنچا ہے بیٹے کو غرق ہوتا ہوا دیکھ کر وہ ان کے لئے ایک سز اتھی اور اتنی بڑی سزا کہ بول اٹھے کہ اے خدا تو نے تو وعدہ کیا تھا کہ میری اولا دضائع نہیں کی جائے گی.تب خدا نے فرمایا کہ تجھے پتا نہیں یہ تیری اولا دوہ اولاد نہیں ہے جس کے لئے میں نے حفاظت کا وعدہ فرمایا تھا.تو غفلت ہوئی، جرم کے طور پر اس کی سزا تو نہیں ملی مگر فطری تقاضوں کے نتیجے میں سزا ضرور مل جاتی ہے.پس جن لوگوں کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے وہ غفلت میں اپنی اولا دوں کو ضائع کرتے ہیں ان کے لئے مختلف قسمیں اور درجے ہیں.کچھ تو غافل ان معنوں میں ہیں کہ ان کو پرواہ ہی کوئی نہیں وہ سمجھتے ہیں میں اپنی ذات کا ذمہ وار، مجھے کوئی فکر نہیں.اولا د آزاد ہے جو چاہے کرے میں کیوں کسی کے معاملے میں دخل دوں.انہوں نے انصاف کا یہ ایک چر بہ بنارکھا ہے اور حقائق سے دور ہیں.جب وہ بچہ فیل ہوتا ہے سکول میں، ان کو فکر ہوتی ہے.جب وہ ایسا رستہ اختیار کرتا ہے کہ دنیا میں اس کی صلاحیتیں ضائع ہوں تو بڑی تکلیف پہنچتی ہے.اس کو ٹھیک کرنے کے لئے پورے خرچ کرتے ہیں.تو ان کا ایک عمل ان کے دوسرے عمل کو جھٹلا رہا ہے.ثابت کر رہا ہے کہ یہ غفلت کی حالت ہے.یہ کوئی شرافت نہیں ہے، انصاف نہیں ہے، یہ ضمیر کی آزادی نہیں ہے.ضمیر کی آزادی تم وہاں دے رہے ہو جہاں اس کا نقصان ہو رہا ہے، جہاں روحانی نقصان ہو رہا ہے.اور جہاں دنیاوی نقصان ہے وہاں تم اس کو ضمیر کی آزادی نہیں دیتے تو اس کا نام تم نے انصاف کیسے رکھ دیا.تو اخلاقی حالتوں کی طرف واپس آنے میں اندرونی گھر یلو حالتیں ہیں ان پر نگاہ رکھنا بہت ہی ضروری ہے.اپنی ساری اولاد کی طرف نظر رکھیں، اپنی بیوی کی طرف نظر رکھیں ، اپنے بچوں، ان کے بچوں کی طرف نظر رکھیں اور غافل نہیں ہونا کیونکہ آپ سب کو ایک اکائی کے طور پر بھی دیکھا جائے گا.انفرادیت کے لحاظ سے ہر شخص اپنا جواب دہ الگ ہے.لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (الانعام:165) کوئی بھی جان نہیں ہے جو کسی اور جان کے لئے ذمہ وار قرار دی جائے اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گی.مگر بعض بوجھ ہیں جو قو می بوجھ ہیں جیسے انبیاء کے بوجھ ہیں ، وہ بڑے عظیم قو می بوجھ ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ہر بوجھ اٹھانے والے سے بڑھ کر بوجھ اٹھالیا.ان معنوں میں یہ بوجھ

Page 21

خطبات طاہر جلد 16 15 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء ہے کہ ذمہ واریاں بہت بڑی ہیں جن کو آسمانوں نے اور زمین نے اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا وَ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ (الاحزاب: 73) محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھو آگے بڑھے اور سارے بوجھ اٹھالئے اور سارے بنی نوع انسان کو تعلیم دینے کا اور ان کے لئے نمونے قائم کرنے کا بوجھ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ اس کے تصور سے بھی انسان کانپ اٹھتا ہے اور اس معاملے میں آپ فرماتے ہیں میں پوچھا جاؤں گا، آپ نے ہر ایک کو کہا کہ جس دائرے میں تم نگران بنے ہو دائرے کی وسعت اور مقام کی عظمت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی تو بڑھتی ہیں اور جہاں تم نا کام ہو گے تم سے سوال کیا جائے گا.پس انفرادی بحث الگ ہے اور اجتماعی ذمہ داریوں کی بحث الگ ہے.میں آپ کو خاندانی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اپنے اہل و عیال کے اخلاق پر گہری نظر رکھنا اور اپنے ہی اخلاق پر نہیں ان کے اخلاق پر بھی لمحہ لحہ نگاہ ڈالنا کہ کس طرف کو چل رہے ہیں اور اگر آپ کو اپنے اخلاق ہی کی ہوش نہیں تو ان کے اخلاق پر کیسے نظر ڈال سکیں گے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو توجہ دلائی ہے مختلف نصیحتوں کی صورت میں ان میں انصاف کے مضمون کو بھی چھیڑا ہے، اس میں انتقام کے مضمون کو بھی لیا ہے، عفو کے مضمون کو بھی چھیڑا ہے.اس میں سے چند اقتباس پڑھنے کا وقت ہے تا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاک کلام پر یہ خطبہ ختم ہو.ایک چیز تو بدی کا بدلہ دینا اور عفو کرنا گھر میں اگر ان کا توازن بگڑے تو اس سے پھر تربیت میں ایک فساد برپا ہو جاتا ہے اور یہ مضمون قرآن کریم نے سارے معاشرے کے تعلق میں بیان فرمایا ہے جس کو بطور خاص اپنے گھر میں ملحوظ رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی گئی لیکن جو شخص عفو کرے اور گناہ بخش دے اور اس عفو سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو، نہ کوئی خرابی تو خدا اس سے راضی ہے اور اسے اس کا بدلہ دے گا.پس قرآن کی رو سے نہ ہر ایک جگہ انتقام محمود ہے اور نہ ہر ایک جگہ عفو قابل تعریف ہے بلکہ محل شناسی کرنی چاہئے اور چاہئے کہ انتقام اور عفو کی سیرت با پا بندی محل اور مصلحت ہو، نہ بے قیدی کے رنگ میں.یہی قرآن کا مطلب ہے.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 30)

Page 22

خطبات طاہر جلد 16 16 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ روزانہ گھروں میں جب اپنی بیوی بچوں کو بعض چیزوں سے غافل دیکھتے ہیں بعض چیزوں میں کمزور اور ست دیکھتے ہیں تو اگر آپ کمزوری اور ستی کی حالت سے درگزر کے نام پر بے تو جہی کرتے ہیں.یعنی کہتے ہیں کہ بچے ہیں کمزور ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بیوی نے کوئی زیادتی بھی کر دی تو کیا ہو گیا میں معافی دے دیتا ہوں.یہ جو جذ بہ ہے بظاہر بڑا خوبصورت اور اچھا جذ بہ ہے مگر اگر آپ یہ بھول جائیں کہ بعض دفعہ اس قسم کے احسان کے نتیجے میں گھروں میں بد اخلاقیاں پنپتی ہیں اور بیویاں پہلے سے بڑھ کر بے لگام ہو جاتی ہیں.یا خاوند اگر بیوی بروقت اس کی بد تمیزیوں کا نوٹس نہ لے اور اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہو اور ابتدا ہی میں نظام جماعت کے ذریعے یا دوسرے ذرائع سے اس کو بتا نہ دے کہ یہ تم کرو گے تو میں پھر ساتھ نہیں رہ سکتی اس وقت تک نہ بیویوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، نہ خاوندوں کی اصلاح ہوسکتی ہے اور اعراض کا غلط معنی لیا جارہا ہے.اعراض کی تعریف یہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی اور قرآن کریم کی اس آیت کے حوالے سے کہ فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: 41) کہ اگر آپ کسی چیز کو، اس کے جرم کو نظر انداز کرتے ہیں جس کی چوٹ آپ کے دل پر پڑتی ہے مگر نظر انداز کرنے کے نتیجے میں اس کی اصلاح ہوتی ہے تو یہ اجر کی بات ہے اس پر اللہ راضی ہوگا اور آپ کو جزا دے گا.لیکن اگر آپ نظر انداز کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جرم کا حوصلہ بڑھتا ہے اور بداخلاقی بڑھتی ہے اور گھر میں فساد پھیلتا ہے اور وہی فساد پھر ہمسایوں میں بھی پہنچے گا رشتے داروں میں بھی پہنچے گا گلی گلی پھرے گا ، آزاد ہو کر سارے معاشرے کو برباد کر دے گا تب آپ پوچھے جائیں گے اور اس عفو اور درگز رکا نام خدا تعالیٰ کے نزدیک جرم ہے، نیکی نہیں ہے.پس کتنی لطیف شرط ہے جس کے ذریعے آپ کو اپنے ہر فیصلے کی شناخت ہو سکتی ہے کہ اچھا تھایا برا تھا.پس اگر آپ کا عفو گھر میں اصلاح کر رہا ہے اور گزرے ہوئے لمحوں سے آپ کے خاندان کا آنے والا لمحہ بہتر ہوتا چلا جارہا ہے.اگر آپ کی سختی اور پکڑ برحل ہے اور اس کے نتیجے میں فساد کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا اور طبیعتوں میں درستی پیدا ہو جاتی ہے تو یہ انتقام قابل نفرت انتقام نہیں بلکہ مناسب اور برمحل ایسا ہے جس کو خدا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے ،مگر زیادتی نہ ہو.ان باتوں کو سمجھ کر اس توازن کو قائم کرنا یہ وہ عدل ہے جو انسانی تہذیب کو قائم کرنے کا پہلا

Page 23

خطبات طاہر جلد 16 17 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء ذریعہ ہے.ساری انسانی تہذیب کی تعدیل، اس کی ترتیب، اس کو ایسے معیار پر مناسب انداز میں قائم کر دینا جس سے پھر حسن ضرور پھوٹا کرتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو جماعت احمدیہ کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور اس پہلو سے وہ لوگ جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ پندرہ سال ہم نے یہ دیکھا اور اب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ہے اس کا کچھ کریں.میں ان کو سمجھا دیتا ہوں اور اب بھی متنبہ کرتا ہوں کہ آپ لیٹ ہو گئے ہیں.جب آپ غافل رہے دیکھنے کے باوجود، تو اب جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اب میں کیا کر سکتا ہوں.حضرت نوح اس وقت کیا کر سکتے تھے جب بیٹا غرق ہو رہا تھا.ایک نبی کا بیٹا ایک ایسے عذاب میں غرق ہو جائے جو ظالموں کے اوپر خدا تعالیٰ کی آخری تقدیر ہو جس سے پھر بچ کے کوئی نکل نہیں سکتا کتنا خوفناک واقعہ ہے.مگر اس وقت حضرت نوح نے بھی یہ دعا نہیں پھر کی کہ اے اللہ پھر اس کی اصلاح کر دے اگر عمل غیر صالح ہے تو اس کا عمل صالح بنادے کیونکہ حضرت نوح کی فراست جانتی تھی کہ جو کچھ بھی ہوا اب وقت گزر چکا ہے.اس لئے اس وقت انہوں نے توجہ کی استغفار کی طرف اور خدا تعالیٰ سے عرض کیا کہ پھر تو مجھے معاف کر دے جو کچھ مجھ سے ہوا غلطی سے ہو گیا.تو اس وقت پھر نظام جماعت کو متوجہ کرنا بالکل لغو حرکت ہے ، یہ ہو ہی نہیں سکتا.بعض عورتیں کہتی ہیں ہمارا خاوند یہ حرکتیں کرتا ہے، یہ حرکتیں کرتا ہے تمیں سال ہم نے صبر سے گزارہ کیا اب نہیں ہوتا.تمہیں سال صبر کیا کیا، اپنی زندگی کوخود جہنم میں جھونکا ہے اور جب خطرہ ایسا پیدا ہوا ہے کہ طلاق تک نوبت آ پہنچی ہے اب تم متوجہ ہو رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ ہمارے حالات کو ٹھیک کرو.یہ نفس کے دھو کے ہیں.اس خاوند کی بدکرداریوں کے باوجود اس کے ساتھ شیر وشکر ہو کے رہنا یہ بتا تا ہے کہ وہ اس پر راضی تھی اور اس کے باوجود یہ بات ان کو زیادہ پیاری تھی کہ رشتہ رہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا جو مرضی کرتا رہے.اگر یہ صورت تم نے پندرہ ، ہیں ، پچیس سال تک قائم رکھی تو جو نتیجہ نکلے گا اس کے تم ذمہ وار ہو.اور یہ قانون تمہیں یاد ہی نہیں رہا کہ جس کی غلامی کی دعویدار ہو اس کے متعلق اللہ فرماتا ہے.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولى (الضحی: 5) تیرا تو ہر لحہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہے اور آپ کا ہرلمحہ بدتر ہوتا ہوا نظر آرہا تھا آپ کو اور فکر نہیں کی کوئی توجہ نہیں کی.تو اس پہلو سے اپنے گزشتہ سال کا بھی موازنہ کریں اور تفصیل سے اپنے خاندانی حالات پر

Page 24

خطبات طاہر جلد 16 18 خطبہ جمعہ 3 /جنوری 1997ء نظر ڈالیں اپنے دوستوں کے تعلقات پر نظر ڈالیں اور پھر آئندہ سال کے لئے اپنے طور پر دینی منصوبہ بنائیں تا کہ یہ ہمارا الوداع ہو اور یہ ہمارا استقبال ہو.الوداع ایک ایسے سال کو کر رہے ہوں جس کی کمزوریوں پر صاف نظر پڑ رہی ہو.اے فلاں کمزوری تجھے بھی ہم وداع کہتے ہیں اور اے فلاں کمزوری تجھے بھی ہم الوداع کہتے ہیں اور اے حسن تجھے ہم کھلی آغوش سے خوش آمدید کہتے ہیں، تو آ اور ہمارے سینے سے چمٹ جا اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہ اور پھر اس میں بھی اضافہ کرتارہ.حسن میں بھی ایک لامتناہی اضافہ ہے جو ہوتا چلا جاتا ہے.اللہ کرے کہ ہمیں اس شعور کے ساتھ گزشتہ سال کو وداع کرنے اور آنے والے سال کو خوش آمدید کہنے کی توفیق ملے.تمام دنیا کی جماعتوں کو میں اس پس منظر میں جو میں نے بیان کیا ہے نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب دنیا میں ہر احمدی کا آنے والا سال ہر گزرے ہوئے سال کے ہر وقت سے بہتر ثابت ہو.اللہ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ہو.آمین

Page 25

خطبات طاہر جلد 16 19 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء سو سال پہلے لیکھر ام عبرت کا نشان بنا تھا اور آج سوسال کے بعد میں پھر آپ کو دعا کی طرف متوجہ کر رہا ہوں.( خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1997ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُ بكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَادَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوابِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : 186 ، 187) پھر فرمایا: یہ وہ آیات ہیں جن کی رمضان کے تعلق میں رمضان کے آغاز پہ بارہا تلاوت کی گئی ہے اور مضمون کو ان کے حوالے سے بیان کیا گیا.آج پھر ایک ایسا جمعہ ہے جو رمضان سے متصل ہے یعنی آج جمعہ ہے تو کل رمضان شروع ہوگا اور یہی وہ آیات ہیں جن کے حوالے سے میں خاص طور پر اس کے آخری حصے کے تعلق میں جماعت کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں.

Page 26

خطبات طاہر جلد 16 20 20 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ کا وعدہ رمضان کے تعلق میں بطور خاص مسلمانوں کو عطا کیا گیا ہے کہ جب بھی میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں.سال تجھ سے سوال کریں یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے فَإِنِّي قَرِيبٌ تو میں تو قریب ہوں.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعوت کا جواب دیتا ہوں.فَلْيَسْتَجِبوانی چاہئے کہ وہ بھی میری باتوں کا اثبات میں جواب دیا کریں.بعض دفعہ جو آغاز کی شرط ہے وہ بعد میں بیان کی جاتی ہے، نتیجے کو ملا دیا جاتا ہے یعنی دونوں کا ایک دوسرے سے لازم ملزوم کا تعلق ہے.میں تو جواب دیتا ہوں اور دیتا رہوں گا مگر تم بھی تو جواب دیا کرو اگر اس جواب کے مستحق ہونا چاہتے ہو.یعنی جو تعلیمات میں نے عطا فرمائی ہیں ان پر عمل کرو.جو راہ میں نے دکھائی ہے اس پر چلو تو پھر تم اس بات کے مستحق ٹھہرو گے کہ جب تم مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں اور یہ تو میں کرتا ہوں اور ہمیشہ سے کرتا آیا ہوں، یعنی یہ مضمون ہے.إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَاِنّي قَرِيبٌ یہاں لفظ عباد میں اس مضمون کی چابی ہے.ورنہ لاکھوں کروڑوں ہیں جو پکارتے ہیں اور بظاہر قرآن کریم پر عمل کرنے والے بھی ہیں مگران کو خدا کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا تو عِبَادِی فرمایا ہے جس کا بطور خاص یہاں یہ معنی ہے کہ میں ان کا جواب دیتا ہوں جو واقعہ میرے بندے بن چکے ہوں اور غیر اللہ کا ہر طرح سے انکار کر چکے ہوں.میں ان بندوں کی بات کا جواب دیتا ہوں جو میری تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور جب میں بلاتا ہوں وہ ہاں، لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جایا کرتے ہیں.پس یہ آیت پہچان ہے ہماری عبادت کی.ہم عباد اللہ میں شمار ہوئے ہیں کہ نہیں ہوئے.پس اگر جماعت احمدیہ میں کثرت سے ایسے موجود ہیں کہ جو عبادت کی اس شرط پر پورے اترنے والے ہیں جن کی دعاؤں کے جواب میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہاں میں حاضر ہوں جس طرح تم میرے حضور حاضر رہتے ہو، تمہاری التجاؤں کو قبول کرنے کے لئے میں حاضر ہوں، قریب کا مطلب یہی ہے کہ میں تو پاس ہی ہوں کہیں دور نہیں ہوں.اگر یہ سلوک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو خوش خبری ہے ان لوگوں کے لئے کہ وہ عباداللہ میں داخل ہوں کیونکہ عباداللہ کی یہ تعریف ہے جو اس آیت میں فرمائی گئی ہے.وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور مجھ پر ایمان لائیں حالانکہ ایمان لا نا عباد کہلانے

Page 27

خطبات طاہر جلد 16 21 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء سے پہلے کا مضمون ہے اسے سب سے آخر پر رکھا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بندہ جس کی بات کا جواب نہیں ملتا اس کا ایمان بھی سرسری سا اور محض دور کا ایمان ہے، سنا سنایا ایمان ہے لیکن جس کو گھر سے جواب آجائے اس کا ایمان غیر معمولی ترقی کرتا ہے.وہ جانتا ہے کہ اندر کوئی ہے.پس وَلْيُؤْمِنُوا بِی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے تم ایمان نہیں لاتے پھر میرے عباد میں داخل ہو.مراد یہ ہے ایمان لاتے ہو، عباد میں داخل ہو، ایسے عباد میں داخل ہو کہ جن کی پکار کا میں جواب دیتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر، اس مضمون میں یہ بات ملے گی کہ پہلے سے بڑھ کر میری باتوں پر لبیک کہا کرے اور میرے پر وہ ایمان لائے جو ایمان حقہ ہے.ایسا ایمان ہے جیسے سورج چڑھ جائے تو اس پر کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی.تو جب میں جواب دوں تو تمہارے ایمان میں ترقی ہونی چاہئے اور پھر تم ہدایت کے رستے پر چل پڑو گے جو اصل حقیقی ، دائمی ہدایت کا رستہ ہے.پس اس رمضان میں بھی ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس آیت کے مصداق بنیں اور واقعہ خدا تعالیٰ رمضان گزرنے سے پہلے پہلے ہمیں اپنے عباد میں شمار کرلے اور اس کے نشانات ہم پر ظاہر فرمائے ، ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور اس طرح قبول فرمائے جیسے کسی انسان کو بلایا جائے تو وہ جواب دیتا ہے تو کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی.اور پھر ہمارا ایمان اور رنگ میں آگے بڑھے اور پھر ہمیں ہدایت کی نئی نئی راہیں نصیب ہوں.یہ وہ دعائیں ہیں جن کے ساتھ ہمیں اس رمضان مبارک میں داخل ہونا ہے.یہ رمضان کئی پہلوؤں سے بابرکت ہے اور معلوم ہوتا ہے خاص نشان لے کر آنے والا رمضان ہے.چونکہ آج رمضان کا پہلا دن طلوع ہونے والا ہے اور مہینے کی تاریخ کے لحاظ سے دسویں تاریخ اور جمعہ کا دن ہے اور یہ وہ جمعہ ہے جو Friday the 10th ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر دکھایا تھا کہ بار بار جماعت کی تائید میں خوشخبریوں کا نشان ظاہر ہوا کرے گا، تو آج Friday the 10th رمضان کے ساتھ جڑا ہوا ابھرا ہے اور اس پہلو سے مجھے اس رمضان کے غیر معمولی طور پر مبارک ہونے کے لحاظ سے کوئی بھی شک نہیں.مگر ایک اور مزید تائیدی بات یہ ظاہر ہوئی کہ مجھے ربوہ سے ناظر صاحب اصلاح وارشاد نے لکھا کہ یہ مولوی لوگ ان سب باتوں کے متعلق جن کے متعلق آپ مباہلے میں حلفیہ انکار کر چکے

Page 28

خطبات طاہر جلد 16 22 22 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء ہیں کہ جماعت پر یہ جھوٹے الزامات ہیں پھر دوبارہ شور ڈالنا شروع کر چکے ہیں اور جانتے بوجھتے کہ جماعت کی طرف سے اس پر لعنۃ اللہ علی الکاذبین دعا بار باردہرائی گئی ہے، پھر بھی کوئی حیا نہیں کر رہے.اور اب ایک وزیر کے بہانے جو احمدی ہے مہم شروع کی ہے.اس میں ان اعتراضات کا، سب کا نہیں تو بہتوں کا اعادہ کیا گیا ہے جن کے متعلق جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ نے اعلان کیا تھا، مباہلے کا چیلنج دیا تھا اور اس مباہلے کی صداقت کا نشان بنا کر ضیاء الحق کو خدا تعالیٰ نے ایسا نیست و نابود کیا کہ اس کے وجود کا کوئی ذرہ بھی ان کے ہاتھ نہ آیا، صرف ایک ڈنچر تھا جو مصنوعی تھا.یعنی جو اس مرنے والے کی پہچان تھی وہ مصنوعی دانت تھے اس کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ، اس کا نشان تک نہیں ملا.وہاں کی خاک اکٹھی کر کے ایک جگہ بھر دی گئی اور اس خاک میں اس یہودی ایمبیسیڈر کی خاک بھی شامل تھی اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس کس کی خاک کا پتلا بنایا گیا ہے جسے ضیاء کہا جاتا ہے اب اور جو نشان ہے وہ صرف مصنوعی دانت ہیں اس کے متعلق ذرہ بھی کسی کو شک نہیں.پس یہ نشان خدا نے بڑی شان سے ظاہر فرمایا.اور یہ ظالم لوگ باز ہی نہیں آ رہے.اسی طرح مسلسل بے حیائیوں میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.وہی ظالمانہ تحریکات ہیں جو پہلے اٹھتی رہیں.جن کو روکا گیا جن کے مؤثر ، مدلل جوابات دیئے گئے مگر جب حیا اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرتا پھرے.اس قوم سے حیا اٹھ گئی ہے یہاں تک وہ دعوے پھر کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمام دنیا کے علماء ان کو مرتد اور کفار، دائرہ اسلام سے باہر سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے.تم لوگوں کے خلاف بھی تو باقی سب مسلمان فرقوں کے یہی دعاوی رہے ہیں تو تم بھی تسلیم کر لو پھر.لیکن تم کر بھی لو گے تو ہم پھر بھی نہیں کریں گے کیونکہ اس بکواس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعہ خدا کی توحید کے منکر ہو جائیں.ان الزامات کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعتا آنحضرت ﷺ کی خاتمیت کا انکار کر دیں.ان الزامات کا مطلب یہ ہے کہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے آقا و مولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہمسر یا ان سے بڑھ کر سمجھنے لگ جائیں.تو جو کچھ تمہارے بس میں ہے کرو.پہلے بھی میں نے یہی کہا تھا.آج بھی یہی کہتا ہوں اور یہی بات دہراتا رہوں گا.جو کچھ کرنا ہے کرو.تم اپنے پیارے بڑھالا ؤ ، اپنے سوار نکال لاؤ، چڑھا دو ہم پر اپنی دشمنی کی فوجیں.جس طرف سے آ سکتے ہو آؤ لیکن ان باتوں سے احمدیت ٹل نہیں سکتی کیونکہ

Page 29

خطبات طاہر جلد 16 اور 23 23 خطبہ جمعہ 10 جنوری 1997ء احمدیت کا وجود ہے یہ اور وہ ہے کلمہ توحید کی گواہی.آنحضرت ﷺ کی رسالت اور عبدیت کی گواہی ور یہ گواہی کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نہیں جو کبھی دنیا میں آپ کی شان کا ہمسر پیدا ہوا.نہ آئندہ کبھی ہوگا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خمیر آپ کی محبت سے اٹھا ہے، آپ کے عشق سے اٹھا ہے، آپ کی کامل غلامی سے اٹھا ہے، آپ پر فدا ہو جانے کے ساتھ اٹھا ہے وہ خمیر.تو ان باتوں سے تم ہمیں اپنی گندہ دہنی سے کیسے روک سکتے ہو.نہ روک سکتے ہو.نہ کبھی روک سکو گے.یہ حوالے کہ پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن یہ کہتی ہے اس پر ایمان لے آئیں، کیسی احمقانہ بات ہے کہ پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن کا آئے دن تم انکار کرتے پھرتے ہو.جب کوئی حوالہ ملتا ہے اسی کانسٹی ٹیوشن نے ہمیں آزادی ضمیر کا حق جو دیا ہے وہ تم کیوں نہیں مانتے.اس لئے جہالت کی حد ہے.ایک قوم جب فیصلے کرتی ہے ان کی مرضی کے خلاف ہو تو کہتے ہیں ہم دھرنا دیں گے، ہم سڑکوں پہ بیٹھ جائیں گے، ہم کسی قیمت پہ نہیں مانیں گے اور اس کے باوجود ہمارا حق ہے کہ ہم میں حج بھی بنائے جائیں ، ہم میں وزیر بھی بنائے جائیں.ہم میں ہر عہدے کے لوگ چاہے اہل ہوں یا نہ ہوں، منتخب کر لئے جائیں اور احمدیوں پر یہ الزام کہ چونکہ کانسٹی ٹیوشن کو نہیں مان رہے اس لئے ان کو کانسٹی ٹیوشن کے لحاظ سے کوئی ذمہ داری بھی سونپنی نہیں چاہئے.کون سی کانسٹی ٹیوشن ہے جس کی تم بات کرتے ہو.خدا کی کانسٹی ٹیوشن کے مقابل پر ساری دنیا کی کانسٹی ٹیوشنز بھی کچھ کہیں ہم پاؤں کی ٹھوکر سے اس کو رد کر دیں گے.تمہاری کانسٹی ٹیوشن ہمیں یہ منوانا چاہتی ہے کہ نعوذ باللہ، رسول اللہ ﷺ جھوٹے ہیں.کوئی حیا کرو.تقدس محمد رسول اللہ اللہ کا اور اس کی حفاظت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو.ایسے مکروہ لوگ جن کے نزدیک تقدس کا یہ تصور ہے کہ جب تک کوئی محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا انکار نہیں کرے گا ہم اسے سینے سے نہیں لگائیں گے.ہم ایسے سینے پہ تھوکتے بھی نہیں.کیسی خبیثانہ حرکت ہے اور اسے یہ مولویت کا نام دے رہے ہیں کہ ہم مولانا ہیں.ہمیں دین کا علم ہے اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں کہ جب تک احمدی کانسٹی ٹیوشن کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اس مہم کو نہیں چھوڑیں گے اور اس وقت تک کسی احمدی کو پاکستان میں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے.ہم تو اس خدا کی بات کا جواب دیں گے جس نے کہا کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی جو ہماری بات

Page 30

خطبات طاہر جلد 16 24 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء کا جواب دیتا ہے.تم ہوتے کون ہو تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تم تو ذلتوں کی مار بننے والے ہو.عبرت کا نشان بنے والے ہو اور اس تقدیر کوتم ٹال نہیں سکتے کبھی.یہ میرا چیلنج ہے اسے ٹال کے دکھاؤ.پس اس رمضان کو اس پہلو سے ہم بھی فیصلہ کن بناتے ہیں تم بھی فیصلہ کن بنالو.جو جھوٹ اور بکواس جتنی بھی تم کر سکتے ہو، کر رہے ہو اور جتنی گندہ پنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تم نے کی ہے اس دور میں، میرا خیال ہے انسانی تاریخ میں کبھی کسی نبی کے خلاف کبھی خدا کے کسی بندے کے خلاف اس قسم کی بکواس کبھی نہیں ہوئی تم نے معاملات کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے اور اس پہلو سے اللہ تمہیں مہلت بھی دے رہا ہے اور دے چکا ہے مگر تمہارے پکڑنے کے دن آئیں گے اور لازماً آئیں گے، یہ وہ تقدیر ہے جسے تم ٹال نہیں سکتے.میں آج اس جمعہ میں اعلان کرتا ہوں کہ لازماً تم پر ذلتوں کی مار پڑنے والی ہے.اس تقدیر کو بدل کے دکھاؤ تب میں اس بات کو قابل قبول سمجھوں گا کہ تم سے مزید گفتگو کی جائے کسی بات پر.اب یہ سلسلے گفتگو کے کٹ چکے ہیں ان سب بے حیائیوں پر تم قائم ہو جن سے روکنے کے لئے تمہاری منتیں کیں.تمہیں سمجھایا کہ بس کرو کافی ہو گئی ہے.اپنے ساتھ ساری قوم کو تو بر باد نہ کرو.اب آوازیں اٹھ رہی ہیں جگہ جگہ سے کہ ملک ختم ہو گیا ، ملک تباہ ہو گیا.جو نگران حکومت آئی تھی وہ اب یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہمارے بس میں تو بات ہی نہیں رہی.احتساب کیسا ہم تو کچھ بھی نہیں کر سکتے ، ساری قوم کا یہ حال ہے اور ان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کی بے عزتی کر دی ہے.کہہ دیا کہ سارے بددیانت ہیں.تو وہ ملک جس کی عزت جھوٹ سے وابستہ ہو جائے، یہ اعلان کرے اگر وزیر اعظم کہ سارے دیانتدار ہیں تو پھر مقابل کے سیاستدان ان کو معاف کریں گے ورنہ نہیں کریں گے کہ بدنام کرا دیا ہمیں.بدنام تو ہوئے بیٹھے ہو.تمہیں پتا ہی نہیں لگا اب تک کہ تمہارا نام کیا ہے دنیا میں.کیا تمہارا خیال ہے کہ اخباروں کے نمائندے یہ باتیں باہر پہنچ ہی نہیں رہے.جو قصے چلتے ہیں آئے دن فلاں یہ کھا گیا، فلاں یہ کھا گیا، فلاں کا اتنا سونا پکڑا گیا، فلاں کی یہ گندگی پکڑی گئی اور آئے دن پاکستان کے اخبار جس بے حیائی سے بھرے ہوئے ہیں کہ یہ کردار ہے قوم کا تم سمجھتے ہو کہ دنیا کو پتہ ہی کچھ نہیں.تم آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہو بے شک ، مگر اگر کوئی تم میں سے یہ بہادری کرے کہ وہ کہہ

Page 31

خطبات طاہر جلد 16 25 25 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء دے کہ ہاں یہ قوم ایسی ہو چکی ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہو، کہتے ہو جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹ نہیں بھی بولتا تو بتانے کی کیا ضرورت تھی ہم گویا چھپے بیٹھے تھے ہمیں بدنام کر دیا.کون سی بات ہے جو دنیا کو پتا نہیں ہے.سب کچھ پتہ ہے.اس لئے خواہ مخواہ کے جھگڑے لگا بیٹھے ہو.وہ بات جس نے بھی کہی ہے، وزیر اعظم نے کہی ہے، بالکل درست ہے کہ اب ہم کس کس کا احتساب کریں.اوپر سے نیچے تک، آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے.جب ہم نے چھان بین کر کے دیکھنا شروع کیا تو وہ کہتے ہیں میں تو اب بالکل اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ مقررہ مدت کے اندر یہی فیصلہ کر سکوں کہ کس کولسٹ میں رکھنا ہے، کس کو نکالنا ہے، کہاں سے شروع کروں.چوٹی کے سیاستدانوں سے لے کر ان کے ادنیٰ کارکنوں تک سارے بددیانت ہیں.چپڑاسی سے لے کر اوپر کے سب سے بالا افسر تک ساروں کا یہی حال ہے تو انہوں نے تو ہتھیار ڈال دیئے ہیں کہ میں تو اب نہیں کچھ کر سکتا.ساری قوم ہے، اب قوم اپنا محاسبہ آپ ہی کرے میں کیا کر سکتا ہوں مزید.ٹھیک ہے وہ نہیں کر سکتے مگر یہ تو معلوم کر سکتے ہیں کہ اس قوم کو ہلاک کس نے کیا ہے.ملاں ہے جس نے اس قوم کو برباد کیا ہے اور جب تک یہ زہر تمہاری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے، تب تک تمہاری زندگی کی بقاء کا کوئی سامان نہیں ہوسکتا یعنی زندگی باقی رکھنے کا.اس لئے اس زہر کو پہلے نکالو.ہر خرابی کا ذمہ دار یہ ملاں ہے اور یہ چڑھا ہوا ہے اس بناء پر کہ احمدیوں کے خلاف جو کچھ یہ کہے تم اسے سینے سے لگائے رکھتے ہو اور اتنا ڈرایا ہے تمہیں کہ اگر احمدیت کے حق میں کوئی سچی بات تم کہو تو یہ تمہاری جان کھا جائے گا اور اسی خوف کی وجہ سے ان کو رفعت مل رہی ہے، عظمت مل رہی ہے جیسی بھی وہ رفعت اور عظمت ہوسکتی ہے.دراصل ذلت اور نکبت کا دوسرا نام ہے جو ان کی رفعتیں اور ان کی عظمتیں ہیں، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ خدا کی نظر میں یہ رفعت محض ذلت اور نکبت ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں.پس ملاں کی جان تو ڑنی ہے تو اس سے احمدیت کا لقمہ چھین لو پھر دیکھو اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے.اس کے سوا اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.سارے پاکستان میں ایک گلی کی اصلاح کرنے کے قابل نہیں رہے.ہر موڑ پر مسجد میں دکھائی دیں گی مگر مسجد کا ساتھی بھی دیانتدار نہیں بنا سکے.تو وزیر اعظم صاحب جب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ساری قوم بد دیانت ہو گئی ہے تو ملاں کے گریبان پہ کیوں نہیں ہاتھ ڈالتے.تم کیا کر رہے ہو بیٹھے ہوئے تم نے جو قیامت مچارکھی ہے کہ ہم اسلام کی حفاظت میں جانیں دے دیں گے،

Page 32

خطبات طاہر جلد 16 26 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء عصمت رسالت کے لئے ہم سب کچھ قربان کر دیں گے تو اسلام تو ذبح کر بیٹھے ہو.کس گلی میں تمہارا اسلام دکھائی دے رہا ہے.ساری قوم بددیانت ہے.تم اور بھی کھا کھا کے موٹے ہوئے چلے جارہے ہو اور یہ تمہاری اسلام کی محبت ہے.اسلام کا پیچھا چھوڑو اور ملک کا پیچھا چھوڑو.جو محضر نامہ پیش کیا گیا ہے ایک وزیر کے خلاف ایک جدو جہد کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے دشمن ، اور آغاز ہی سے دشمن ہیں اور پاکستان بننے کے بعد بھی دشمن رہے.یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو پلیدستان لکھا کرتے تھے اور جب تک ان کا دخل نہیں ہوا پاکستان ، پاکستان ہی رہا ہے اب پلیدستان بنا ہے.تو جو بدنامی کا موجب ہے اس کو پکڑتے نہیں اور جو حق کا اقرار کرتا ہے اس کے خلاف بول اٹھتے ہو.وہ لوگ جو الزام لگارہے ہیں وزیر اعظم پر وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ پلیدستان بنا دیا گیا ہے اور اس مولوی نے پلیدستان بنایا ہے جو قائد اعظم کے خلاف پاکستان کے خلاف جدوجہد میں صف اول پہ تھا.اور احمدیت پہ جھوٹا الزام کہ احمدیت پاکستان کے خلاف تھی.کشمیر کی جدوجہد میں بھی لکھا گیا کہ احمدی اپنا دامن بچا گئے حالانکہ کشمیر کی جدو جہد کا آغاز ہی حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں ہوا ہے اور ان کے اپنے کشمیری سچے راہنما لکھنے والے لکھ چکے ہیں کتابوں میں کہ اس آزادی کی مہم کی باگ ڈور مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہاتھ میں تھی.پہلی آزادی کی مہم کی باگ ڈورکس کے ہاتھ میں تھی.جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں.کس نے سپرد کی تھی.تمہارے چہیتے اقبال نے خود ریزولیوشن پیش کیا.ساری تاریخ کو مسخ کر کے ہر بات کا جھوٹ بنا دیتے ہیں.اس لئے ان کے ساتھ بحثوں کا سوال ہی نہیں.جس نے جھوٹ بولنا ہی بولنا ہے، جسے حیا کوئی نہیں ہے وہ بار بار بولتا ہے، مسلسل بولتا چلا جاتا ہے.اس کے ساتھ اب گفتگو کا کون سا سوال باقی رہ جاتا ہے.لیکن ہاں خدا کے حضور فریقین کو یہ التجا کرنی چاہئے کہ جو جھوٹا ہے اس پر لعنت ڈال.پہلے مباہلے سے یہ اس طرح گریز کر گئے تھے کہ کہتے تھے کہ مباہلے کی شرطیں پوری نہیں ہور ہیں.کوئی کہتا تھا سکتے میں آؤ اور وہاں جا کر آمنے سامنے سارے اکٹھے ہوں.اب سارا عالم اسلام کیسے وہاں اکٹھا ہو جائے گا اور ساری جماعت احمد یہ وہاں کیسے اکٹھی ہو جائے گی.کس کس کو تم لاؤ گے.کون سا تمہارا اتفاق ہے.فضول لغو باتیں اور مکے کی سرزمین کا ہونا کیوں ضروری ہے.مباہلوں کے لئے تو کبھی بھی ایسی کسی ایک سرزمین کا انتخاب نہیں ہوا.وہ جو مباہلے کا چیلنج تھا وہ تو مدینے میں ہوا تھا ویسے بھی مکے

Page 33

خطبات طاہر جلد 16 27 27 خطبہ جمعہ 10 جنوری 1997ء کے دور میں تو ہوا ہی نہیں تھا وہ مباہلہ.نہ ان کو اسلام کی تاریخ کا پتہ، نہ شرائط کا کوئی علم.اصل بات ہے لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران : 62) خدا کی لعنت پڑے جھوٹوں پر.اس کے لئے کون سی سرزمین کی ضرورت ہے.پس اس جمعہ پر میں ایک فیصلہ کن رمضان کی توقع رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس رمضان کو خاص طور پر ان دعاؤں کے لئے وقف کر دیں کہ اے اللہ اب ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما کہ تو احکم الحاکمین ہے.تجھ سے بہتر کوئی فیصلہ فرمانے والا نہیں اور چونکہ مباہلے کے نام سے ان کی جان نکلتی ہے اور کہتے ہیں کہ احمدی بھاگ رہے ہیں، بے وقوفی کی حد ہے.مباہلے کا تو میں نے چیلنج دیا تھا ہم کیسے بھاگ رہے ہیں.چیلنج میں نے دیا ہے اور بھاگ میں گیا ہوں.وہ تو سب جگہ مشتہر پڑا ہوا ہے.اسی چیلنج کی وجہ سے تو تم احمدیوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرتے رہے، شور ڈال دیا کہ انہوں نے ہمیں مباہلے کا چیلنج دے دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ بھاگ گئے.قبول کر لیتے، بھاگ کیسے سکتے تھے، ہم تو دے چکے تھے.جس کی ترکش سے تیر نکل چکا ہو واپس کیسے لے سکتا تھا ؟ اور پھر جب ضیاء نے بھی ہاں نہیں کی تو میں نے جمعہ میں اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے رات رؤیا میں ایسی خبر دی ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے عذاب کی چکی ہے وہ چل پڑی ہے اور یہ شخص اگر اس کو بے عزتی سمجھتا ہے کہ میں مرز طاہر احمد کو جس کو میں نے عملاً ملک سے نکال باہر پھینکا ہے یعنی روکنے کے باوجود نکل گیا ہے یہ مراد ہے وہ کیا چیز ہے، اس کی حیثیت کیا ہے، میں اس کے چیلنج کا جواب کیوں دوں.میں نے کہا اگر ان صاحب کی یہ سوچ ہے تو اس کا اعلان یہ بتا تا ہوں کہ یہ آئندہ بدزبانیوں سے باز آ جائے اور احمدیت کے خلاف جو اقدامات کئے ہیں ان کی سنجیدگی سے پیروی نہ کرے.اگر تو بہ نہیں کرنی تو اتنا ہی کرے.یہ غالبا چند جمعے پہلے اعلان کیا تھا کہ ایسا کر لے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مباہلے کی زد سے بچ جائے گا کیونکہ عملاً یہ اپنا سر خدا کے حضور خم کر دے گا کہ میری تو بہ، میں اب ان باتوں میں مصر نہیں ہوں ، ضد نہیں کرتا.اب تاریخیں تو مجھے یاد نہیں رہیں مگر یہ مجھے علم ہے قطعی طور پر کہ ضیاء کی ہلاکت سے کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ اعلان اسی مسجد میں کیا تھا ، جمعہ میں کیا تھا لیکن اس کے بعد اس نے اپنے حالات نہیں بدلے بلکہ شرارت میں بڑھتا چلا گیا.

Page 34

خطبات طاہر جلد 16 28 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء اس پر پھر وہ رات آئی جس میں مجھے خدا نے وہ چکی چلتی ہوئی بتائی اور میں نے پھر صبح دوسرے دن جمعہ تھا اس میں اعلان کیا کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے، یہ خبرمل گئی ہے آخری فیصلہ کن کہ اب اس کے دن پورے ہو چکے ہیں.اب خدا کے عذاب کی چکی سے یہ شخص بچ نہیں سکتا اور اگلے جمعہ سے پہلے پہلے اس طرح یہ ہلاک ہوا ہے کہ ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا ہے.پہلا فرعون تو ایسا تھا جس کی لاش عبرت کے لئے محفوظ کر دی گئی تھی.یہ اس دور کا فرعون ایسا ہے جس کی خاک بھی نہیں بچی.صرف مصنوعی دانتوں سے وہ پہچانا جاتا ہے اور وہی عبرت کا نشان بن گئے ہیں ہمیشہ کے لئے.تو ان مولویوں کی پھر بھی آنکھیں نہیں کھلیں اور یہ عجیب بات ہے، یہ ساری باتیں اکٹھی ہوگئی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سال ایک بہت غیر معمولی سال ہے، پچھلا سال بھی اس لحاظ سے غیر معمولی تھا کہ پچھلے سال بھی رمضان سے پہلے میں نے جماعت کو تحریک کی تھی کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مولوی کی ذلتوں کے اب سامان شروع کرے اور اَللَّهُمَّ مَزِقُهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِقُهُمُ تَسْحِیقًا کی دعا خصوصیت سے یا درکھیں اور اس رمضان میں یہ دعائیں بطور خاص توجہ اور الحاج سے کریں اور اس کے بعد وہ واقعات رونما ہوئے جن کے بعد مولوی کے سارے منصوبے دھرے رہ گئے اور اگر وہ انقلاب نہ آتا جس انقلاب کے نتیجے میں حکومت رفع دفع ہوئی تو ان مولویوں کے تو بہت عجیب ارادے تھے اور ان کا فوج میں ایسا اثر رسوخ ہو چکا تھا کہ فوجی انقلاب کے ذریعے یہ ملک پر قابض ہونا چاہتے تھے اور چونکہ وہ ایک خاص ٹولہ تھا جواب بھی وہی ٹولہ ہے جو آگے آ رہا ہے.اس لئے اگر وہ مولوی آ بھی جاتے تو دوسرے مولویوں نے اسے قبول نہیں کرنا تھا اور ملک کے عوام نے اسے قبول نہیں کرنا تھا.تو بہت بڑی تباہی سے اور خون خرابے سے جماعت کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بچالیا.تو ملک کے اصل محافظ اور ہمدرد تو ہم ہیں، تم کیا چیز ہو.تم تو پورا زور لگا رہے ہو کہ ملک برباد ہو جائے.یہ احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں جو اس ملک کو بار بار بچانے میں کام آتی ہیں.تو اس پہلو سے اب کی جو دعائیں ہیں اس میں یہ یاد رکھیں کہ ایک لیکھرام کو برباد کیا مگر یہ عقل والے لوگ نہیں ہیں.ایک فرعون تباہ ہوا لیکن پھر بھی انہوں نے عبرت نہ پکڑی.تو اے خدا اب ان سب فراعین کی صف لپیٹ دے جو مسلسل تکبر میں اور جھوٹ میں پہلے سے بڑھ بڑھ کر چھلانگیں لگارہے ہیں اور ظلم اور

Page 35

خطبات طاہر جلد 16 29 29 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء بے حیائی سے باز نہیں آرہے.پس ہمارے لئے یہ سال یا اس سے اگلا سال ملا کر ان سب کو ایسا فیصلہ کن کر دے کہ یہ صدی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کی پوری ناکامی اور نامرادی کی صدی بن کر ڈوبے اور نئی صدی احمدیت کی نئی شان کا سورج لے کر ابھرے.یہ وہ دعائیں ہیں جو اس رمضان میں میں چاہتا ہوں کہ آپ بطور خاص کریں اور رمضان کے بعد بھی ہمیشہ ان دعاؤں کو اپنے پیش نظر رکھیں.لیکھرام کا میں نے ذکر کیا تھا.یہ عجیب ہے ایک اور اتفاق کہ لیکھرام بھی 1897ء میں ہی ہلاک ہو کر ایک عبرت کا نشان بنا تھا اور یہ 1997 ء ہے جس میں ہم یہ بات کر رہے ہیں.یعنی 1897ء کا تکرار ہے.سو سال پہلے لیکھر ام عبرت کا نشان بنا تھا اور آج سوسال کے بعد میں پھر لیکھر اموں کی ہلاکت کے لئے آپ کو دعا کرنے کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور یہ کسی سوچی کبھی تدبیر کے مطابق نہیں ہوا.مولویوں کے متعلق بھی مجھے یاد دہانی ربوہ سے آئی ہے اور اس وقت میرے ذہن میں ہرگز کوئی مضمون نہیں تھا کہ رمضان سے پہلے اپنے خطبے میں ان کا نام تک لوں لیکن لیکھرام کے متعلق گزشتہ جمعہ پر افتخار ایاز صاحب نے جو سوال و جواب کی مجلس میں میری مدد کر رہے تھے انہوں نے پوچھا لیکھرام کے متعلق کہ 1997ء آ گیا ہے جو 1897ء کے نشان کی یاد دلاتا ہے.تو میں نے ءآ کہا میں اگلے جمعہ پر اس کا تفصیلی جواب حوالے دے کر دوں گا لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ اس سوال و جواب کی مجلس کا موقع نہیں یہ تو ساری دنیا کو یاد دلانے کی بات ہے کہ 1897ء میں لیکھر ام ایک حیرت انگیز عبرت کا نشان بنا ہے.اس کی ساری تعلیاں جھوٹی نکلیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری باتیں سچی نکلیں.پس اس پہلو سے یہ سال ایک اور بھی نشان لے کر آیا ہے اور یہ ساری باتیں اکٹھی ہو کر اس سال کو غیر معمولی اہمیت دے رہی ہیں.اور مزید ایک آخری بات یہ کہ آئی دفعہ دفتر سے پرائیوٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے یاد دلایا کہ جو آپ نے پہلا مباہلے کا چیلنج دیا تھا وہ بھی Friday the 10th کو دیا تھا اور آج بھی Friday the 10th ہے.تو یہ عجیب بات ہے.یہ تمام امور وہ ہیں جو میری سوچ کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ تقدیر الہی کی طرف سے ایسا ہوا ہے کہ ساری باتیں اکٹھی ہو گئیں.عام طور پہ کہتے ہیں اتفاقات ہوئے.میں اتفاقات کا نام نہیں لے رہا.یہ ساری باتیں تقدیر الہی سے اکٹھی ہوئیں اور مجھے یاد دلانے کے لئے کوئی ربوہ سے خط آیا، کوئی یہاں سے بات پیدا ہوئی اور کوئی گزشتہ جمعہ کو سوال

Page 36

خطبات طاہر جلد 16 30 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء وجواب کی مجلس میں بات اٹھ گئی.تو ان سب باتوں نے مل کر اور آتی دفعہ منیر جاوید صاحب کا یہ کہنا کہ آپ کو شاید یاد نہیں وہ پہلا پینج بھی جمعہ ہی کے دن تھا، مجھے اس بات پر اب کامل یقین ہو گیا ہے کہ انشاء اللہ یہ رمضان ہمارے لئے غیر معمولی برکتوں کا رمضان بن کر چڑھے گا اور اس کی دعائیں انشاء اللہ اس صدی کا احمدیت کے حق میں نیک انجام ظاہر کرنے میں بہت ہی غیر معمولی خدمت سرانجام دیں گی، یعنی دعائیں یہ خدمت کریں گی.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا اور آسمان سے جو تقدیر وہ ظاہر فرمائے گا احمدیت کے غلبے اور نصرت کی تقدیر ہوگی اور جو وہ تقدیر ظاہر فرمائے گا احمدیوں کے دشمنوں کی ذلت اور مثبت اور ہلاکت کی تقدیر ہوگی.پس ہم نے جو کام کرنا ہے وہ دعائیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ میرے بندوں سے کہہ دے کہ جب بھی وہ مجھے پکارتے ہیں فَإِنِّي قَرِيبٌ تو میں ان کے قریب ہوں.تو اللہ تعالیٰ کی قربت کا نشان بنا ئیں اور حقیقت میں لیکھرام کے نشان کا تعلق بھی قربت الہی کے ساتھ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو یہ سمجھارہے تھے کہ تو خدا سے دور ہے اور میں قریب ہوں اور آنحضرت ﷺ کی شان میں تیری گستاخی مجھے کسی قیمت پہ برداشت نہیں ہے.آپ نے ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان لرزا اٹھتا ہے.فرماتے ہیں میں یہ برداشت کر سکتا ہوں کہ میرے بچے میرے سامنے ذبح کر دیے جائیں.میرے عزیز ترین اقرباء اور پیارے میری آنکھوں کے سامنے ہلاک کر دیئے جائیں مگر محمد رسول اللہ کی شان کے خلاف گستاخی میں برداشت نہیں کر سکتا.آج اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ اللہ کے غلام کے لئے میرے دل میں وہی محبت کا جذبہ پیدا کیا ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اور یہی میری ہمیشہ سے دعا ئیں رہی ہیں کہ جس طرح آپ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ لہو کے دفاع میں آپ پر جھوٹے الزام لگانے والوں کے مقابل پر اپنی چھاتی آگے کی تھی ، خدا مجھے بھی توفیق بخشے میں مسیح موعود ، محمد رسول اللہ کے غلام کے لئے اپنی چھاتی آگے کر دوں.جو تیر برسنے ہیں یہاں برسیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کا گزند نہ پہنچے.پس اس جذبے کے ساتھ میں یہ تحریک کر رہا ہوں اور جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے دراصل یہ قربت کے نشان کی بات ہے.اگر ہم اللہ کے قریب ہیں تو وہ اپنا وعدہ ہمارے حق میں ضرور پورا کرے گا.اگر یہ مخالف اللہ سے دور ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو ضرور

Page 37

خطبات طاہر جلد 16 31 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء لعنت کا نشانہ بنائے گا.یہ ایسا یقین ہے جو یقین کے آخری مقام تک پہنچا ہوا ہے.حق الیقین سے میں یہ بات کہہ رہا ہوں.اب میں لیکھرام کے متعلق جو اس نے گستاخانہ رویہ اختیار کیا اور کیسے وہ سلسلہ شروع ہوا، مختصراً یاد کرا دیتا ہوں کیونکہ اب ایک سے نہیں اب تو سینکڑوں لیکھر اموں سے ہمارا واسطہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 20 فروری 1886ء کو بذریعہ اشتہار لیکھرام کو اطلاع دی کہ قضاء وقدر کے متعلق جناب الہی سے مجھے اطلاع ملی ہے تمہارے متعلق کہ تمہاری بدزبانی جو ہے یہ پکڑی جائے گی اب.اس لئے اگر تم اجازت دیتے ہو تو میں اس پیشگوئی کو شائع کروا دیتا ہوں.وہ اس پیشگوئی کے ظہور سے ڈرتے ہیں تو کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جائے گا.یہ اجازت نہیں یہ الفاظ ہیں کہ اگر وہ اس پیشگوئی کے ظہور سے ڈرتے ہیں تو پھر کسی کو مطلع نہیں کیا جائے گا.اگر ڈرتے نہیں، بے باک ہیں تو پھر میں سب کو مطلع کروں گا.اس پر پنڈت لیکھرام نے نہایت بے باکی سے ایک اشتہار کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک جوابی پیشگوئی کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جولیکھرام کے متعلق پیشگوئی کی وہ 1886ء میں نہیں بلکہ 1893ء میں کی ہے 1886ء میں اس کو متنبہ کیا ، اس کو نصیحت کی کہ تم اس بد زبانی سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارا بہت برا انجام دکھایا ہے لیکن جب وہ باز نہیں آیا تو پہلی پیشگوئی لیکھرام کے متعلق جو عذاب کی اور نکیر کی پیشگوئی تھی وہ ہیں فروری 1893ء کو کی گئی ہے.20 فروری کو پہلا اشتہار ہے جس میں اس کو تنبیہ کی گئی تھی اور وہ 20 فروری 1886 تھی جو پیشگوئی شائع ہوئی ہے.20 فروری 1893ء کو شائع کی گئی ہے.اس میں چھ سال کے اندر اس پر عذاب نازل ہونے کی خبر تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1893 ء ہی کو اشتہار شائع فرمایا جس میں رویا میں وہ شخص آپ کو دکھایا گیا اس کا ذکر کرتے ہیں جس کے خنجر سے لیکھرام نے ہلاک ہونا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1893ء میں برکات الدعاء میں سرسید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم دعا کے منکر ہو میں دعا کا قائل ہوں میرے پاس آؤ دعا کا نتیجہ دیکھ لو.فرماتے ہیں آمیری اس دعا کا نتیجہ دیکھ لے جس کے متعلق خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ قبول ہو گئی ہے یعنی لیکھرام کے متعلق دعا.پس سرسید کو مخاطب کرتے ہوئے بھی لیکھرام کے متعلق آپ نے اس دعا کا

Page 38

خطبات طاہر جلد 16 32 32 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء ذکر فرمایا.پھر فرمایا کرامات الصادقین میں بھی وہ 1893 ء ہی میں شائع ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ تو ایک یوم عید دیکھے گا اور وہ دن عید کے دن سے بالکل ملا ہوا ہوگا.یہ ایک اور علامت لیکھرام کی ہلاکت کی اس کے دن کی تعیین کی ہوئی.پھر 15 / مارچ 1897 ء کو آپ نے ایک اشتہار شائع فرمایا جب کہ یہ سارے واقعات ہو چکے تھے مگر اس کا ذکر یہاں غلطی سے اس موقع پر آگیا ہے میں بعد میں بات کروں گا.چونکہ بہت سا وقت گزر چکا ہے اس لئے میں صرف مختصر آیہ آپ کو بتاتا ہوں کہ لیکھر ام بھی مقابل پر مسلسل بدزبانی کرتا رہا اور آپ کی پیشگوئیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے جوابی پیش گوئی کرتارہا.1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف لیکھرام کے مقابل پر اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر اس کی ہلاکت کی خبر نہیں دی بلکہ اپنے مبارک اور مصلح بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری بھی دی اور یہ مقابلہ اس طرح شروع ہو کر ایک معین صورت اختیار کر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کیں کہ وہ بڑی شہرت اور برکت والا ہوگا ، غیر معمولی ذہین ہوگا ، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور وہ وہ کام کرے گا قرآن کی خدمت میں.وہ ساری تفاصیل لیکھر ام نے پیش نظر رکھتے ہوئے جوا با خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹے الہامات منسوب کرتے ہوئے ایک پیشگوئی شائع کی اور یہ جو جوابی پیش گوئی ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش گوئی کے ساتھ جو مقابلہ ہے یہ چونکہ تفصیل سے میں پہلے اپنی جو کتاب ہے ”سوانح فضل عمر‘ اس میں لکھ چکا ہوں، اس لئے میں اس میں سے چند باتیں آپ کی یاد دہانی کے لئے صرف پڑھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ یہ تھے خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.1886ء میں آغاز ہوا ہے لیکھر ام سے مقابلے کا اور پیش گوئی بھی 1886ء میں ہوئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے وہ لکھتا ہے.رحمت کا نہیں زحمت کا کہا ہوگا، آپ تو ہر بات کو الٹی سمجھتے ہیں اور “ اور ” میں امتیاز نہیں رکھتے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.لیکھرام کہتا ہے ” خدا اس سفر کو نہایت منحوس بتلاتا ہے، آپ نے شاید 99 وو

Page 39

خطبات طاہر جلد 16 33 خطبہ جمعہ 10 /جنوری 1997ء لدھیانہ میں کوئی خبیث کنجر کی سرائے میں جیل خانہ کے متصل فروکش ہونے کو مبارک سمجھا.‘ اس قسم کے بدتمیز اور بدخلق اور بے حیاء دشمن تھے.مجھے تو حیرت ہوتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صبر پر کہ کس طرح ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور ہر بات کا جواب دیا ہے اکیلے ہو کر.آج تو دفاتر کے دفاتر دنیا میں ہزار ہا احمدی دن رات میری تائید میں خدمت کرنے پر مامور ہوئے بیٹھے ہیں اور میں حیرت سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اعلیٰ مقام کو دیکھتا ہوں کہ کس طرح تن تنہا آپ نے تمام مشکلات کو عبور کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کے سفر کو انجام تک پہنچایا ہے.نا قابل یقین شخص تھا.انسان کا تصور اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس بلندی تک دیکھ سکے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے قدموں سے حاصل کیا ہے.پس اندازہ کر و حضرت محمد مصطفی اے کے مقام اور مرتبے کا کہ وہ کتنا بلند تر تھا جس کی خاک سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خمیر گوندھا گیا ہے اس کا اپنا وجود کتنا عظیم الشان ہوگا.تو میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جدو جہد اور قربانیاں اور مسلسل ان تھک محنت اور پھر ایسے ایسے بدتمیزوں سے برابر کا مقابلہ کرتے چلے جانا.ورنہ آج کل یہ لوگ بولتے ہیں تو میرا دل نہیں چاہتا کہ ان کو منہ لگاؤں، ان کی بات کا ، ان کا نام لینا بھی طبیعت پر دوبھر ہے، کراہت محسوس ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دل پر بڑے جبر کئے ہیں.سو قدرت اور رحمت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.وہ کہتا ہے ”خدا کہتا ہے میں نے قہر کا نشان دیا ہے.رحمت کا نشان تو صرف کنجر کی سرائے تھی اور بس یہ بے حیاء، ذلیل، رذیل انسان، جس کی زبان کا سب کچھ ماحصل یہ ہے جو وہ باتیں کر رہا ہے، فکر لے رہا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام سے.آپ نے فرمایا اے مظفر تجھ پر سلام یہ مجھے الہام ہوا ہے.وہ کہتا ہے ”اے منکر و مکار تجھ پر آلام “ یہ اس کے مصنوعی خدا نے اس کو یہ الہام کیا جواباً.خدا نے کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں وہ موت کے پنجے سے نجات پاویں.کہتا ہے ”خدا کہتا ہے کہ میں جلد مصنوعی کو فی النار کروں گا اور قبر سے نکال کر جہنم میں ڈالوں گا.پھر مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے

Page 40

خطبات طاہر جلد 16 34 == خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء گا.ایک ذکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا، وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے ہوگا.اس پر لیکھرام کی ہرزہ سرائی یہ ہے کہ خدا نے یہ فقرہ سن کر مسکرا کر فرمایا کہ تو اس فریب کو سمجھا.عرض کیا کہ میں تو دوکوس کے فاصلے پر رہتا ہوں مجھے کیا معلوم کہ کیا واقعی لڑکا ہوگا.اس طرز پر اس نے ہر بات کی تضحیک کی ، ہر بات کو تمسخر اور بدزبانی کی چٹکیوں میں اڑانے کی کوشش کی.آپ نے فرمایا: وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا.کہتا ہے ”خدا نے بتایا وہ نہایت غیبی اور کو دن ہوگا.وہ دل کا حلیم ہو گا.کہتا ہے ”خدا کہتا ہے وہ نہایت غلیظ القلب ہوگا.فرمایا: علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا لیکھر ام کے تصور کے خدا نے اس کو یہ بتایا کہ وہ علوم صوری و معنوی سے قطعی طور پر محروم کیا جائے گا.“ غرض یہ کہ اس بکو اس میں بڑھتے بڑھتے آخر اس نے یہ پیش گوئی کی کہ آپ کہتے ہیں چھ سال میں میں ہلاک ہو جاؤں گا.میری یہ پیشگوئی ہے جو مجھے خدا نے بتائی ہے کہ تین سال میں تیرا اور تیری ذریت کا نشان قادیان سے مٹا دیا جائے گا.لوگ پوچھیں گے تو قادیان والوں کو خبر نہیں ہوگی کہ کون یہاں آیا تھا اور کون چلا گیا.پس اس رنگ میں یہ پیش گوئی اپنے آخری منطقی نقطہ عروج کو پہنچی.اس سے سمجھ آتی ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے چھ سال کی مدت کا انذار فرمایا کیونکہ عین تین سال تک اپنی آنکھوں سے حضرت مصلح موعود کو پلتا، پھولتا پھلتا ہوا دیکھنا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا کہ وہ دیکھ لے اپنی آنکھوں سے کہ جو وہ کہتا تھا یہاں تک اس نے کہا کہ جو پیدا ہوگا وہ کوئی لوتھڑا سا ہوگا اور وہ بھی چند دنوں کے اندر مر جائے گا اور فنا ہو جائے گا.تو یہ ساری باتیں لکھنے کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چھ سال کی ہلاکت کی پیش گوئی فرمائی ہے تو ان معنوں میں بالکل بر محل تھی کہ 1893ء میں حضرت مصلح موعودؓ چار سال کے ہو چکے تھے اور 1897ء میں آپ آٹھ سال کے ہو چکے تھے اور اس چار سال کے عرصے میں یا ساڑھے تین سال کے ہو گئے ہوں گے مزید.تو سات آٹھ سال کے درمیان کا بچہ کھیلتا دوڑتا پھرتا ہوا اس نے اس قادیان میں دیکھا اور سنا جس کے متعلق وہ کہتا تھا کہ تین سال کے اندراندر تیرا اور تیری ذریت کا نام ونشان مٹا دیا جائے گا اور پھر جب وہ پیش گوئی پوری ہوئی ہے تو اس کی تفصیل یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں آپ سب لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ عین عید کے ساتھ متصل دن کو ایک ایسا لڑکا جس کو خود اس نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی اور وہ مسلمانوں میں سے آریہ بن کر اس کے

Page 41

خطبات طاہر جلد 16 35 خطبہ جمعہ 10 جنوری 1997ء گھر میں رہا اس کی چھری سے وہ اسی طرح ہلاک کیا گیا جیسا کہ آپ نے رویا میں دیکھا تھا اور اس کے منہ سے اسی طرح بچھڑے کی سی آواز نکلی جو ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ریکارڈ کی کہ اس طرح اس کے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں اور اس لڑکے کا نام و نشان نہیں ملا کہ وہ کہاں غائب ہو گیا.تین منزلہ مکان کی چھت پر سے وہ چھلانگ لگا کر تو پر لی طرف جا نہیں سکتا تھا.جب اس کے خنجر گھونپنے پر اس کی چیخ نکلی ہے تو بیوی دوڑی اور اس نے شور مچا دیا.نیچے سارا بازار آریوں کا بازار تھا اور وہ سارا بازار منتظر تھا کہ دیکھیں کیا ہوا ہے.کچھ دوڑے فوراً سیٹرھیوں کے اوپر چڑھ کے دیکھنے کے لئے کون ہے، کس نے ظلم کیا مگر اس کا کوئی نشان نہیں تھا نہ دیوار کے پر لی طرف نہ دیوار کے اس طرف.یہ جب نشان پورا ہوا ہے تو عجیب ایک اور نشان اس کے ساتھ اس طرح ظاہر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اتنے بغض و عناد کے باوجود کسی آریہ کو پر چہ لکھوانے کی بھی توفیق نہیں ملی کہ یہ اس کا کارنامہ ہے یا اس کی سازش کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے.بعض لوگوں نے لکھا کہ یہ تو ضرور مرزا صاحب نے آدمی بھیجا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے مدلل جواب دیئے.فرمایا کہ اگر میں نے آدمی بھیجا ہوتا تو وہ غائب کہاں ہو گیا اس کو پکڑتے دکھاتے کہاں ہے وہ.کچھ تو پیش کرتے وہ کون شخص ہے.اس کا نام و نشان مٹ جائے دنیا سے اچانک، یعنی وجود کے طور پر وہ نظر ہی نہ پھر آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے لیکن اس بغض و عناد کے باوجود کسی کو پر چہ لکھوانے کی توفیق ہی نہیں ملی.اور جنہوں نے اظہار کیا اس شک کا ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع فرمایا.آپ نے فرمایا یہ کہتے ہیں کہ میری سازش سے ایسا ہوا ہے تو میری طرف سے اعلان ہے کہ ان آریوں میں سے ایک بھی اگر ایسا شخص ہو جو خدا کی قسم کھا کر یہ کہے کہ مرزا صاحب کی سازش سے ایسا ہوا ہے وہ آدمی ان کا ہی بھیجا ہوا تھا، اور ایک سال کے اندراندر وہ خود عبرت کا نشان بن کر ہلاک نہ ہو تو مجھ سے وہی سلوک کیا جائے جو قاتل سے سلوک کیا جاتا ہے.اب اتنے بڑے ہندوستان میں اتنی طاقتور ہندوؤں کی ایک شاخ جو آریہ سماج تھی ، مقابل پر ایک آدمی کا بھی آگے نہ آنا یہ ایک مزید ہیبت کا نشان ہے جو اس قوم کے اوپر طاری ہو گئی تھی.پس ہمارا خدا وہی ہے جس نے پہلے فرعون کو ہلاک کیا اور دوسرے فرعون کو بھی ہلاک کیا.ہمارا خدا وہی ہے جو ہر لیکھرام سے نپٹنا جانتا ہے جس کے قبر کی چھری سے کسی لیکھرام کا اندرونہ بیچ نہیں

Page 42

خطبات طاہر جلد 16 36 36 خطبہ جمعہ 10 / جنوری 1997ء سکتا.پس میں آپ سب کو ان دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور وہ اشتہار جو میری طرف سے، عالمگیر جماعت کی طرف سے ساری دنیا کے معاندین اور مکفرین اور مکذبین کو دیا گیا تھا، یہ مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج ہے.یہ میرے ہاتھ میں ہے.اس میں ہر الزام کے جواب میں جو انہوں نے احمدیت پر لگایا میں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں لعنة اللہ علی الکاذبین تم بھی خدا کے نام پر قسم کھا کر یہ اعلان کرو کہ ہم بچے ہیں یہی احمدی ہیں، یہی ان کا عقیدہ ہے تو پھر دیکھو خدا تعالیٰ تم سے کیا سلوک کرتا ہے اور ہم سے کیا سلوک کرتا ہے.آج تقریباً دس سال ہو گئے ہیں 1988ء میں یہ اعلان کیا گیا تھا اور 1997 ء آ گیا ہے.آج تو دسواں سال لگ چکا ہے غالبا اس لحاظ سے یا بہر حال دسویں سال کا آغاز ہونے والا ہے.یہ اعلان ہے جسے آج کے Friday the 10th پر میں پھر دہرا دیتا ہوں، یہ میرے ہاتھ میں ہے.مولویوں کو خوب پہنچایا گیا ہے یہ.اب جو الزام انہوں نے شائع کئے ہیں وہ اللہ کی قسم کھا کر یہ اعلان کر دیں سارے ملک میں کہ ہم مباہلہ تو نہیں کرتے لیکن لعنت ڈالتے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم پر لعنت ڈالے اور ہمیں برباد اور رسوا کر دے.اگر مولویوں میں ہمت ہے تو اس چیلنج کو قبول کریں.پھر دیکھیں خدا ان کا کیا حشر کرتا ہے.خدا کرے کہ ان کو یہ جہالت کی ہمت نصیب ہو جائے کہ جب وہ کثرت سے جھوٹ بول رہے ہیں تو یہ جھوٹ بھی بولیں اب اور خدا کی لعنت کو چیلنج کر کے پھر ان باتوں کا اعلان کریں.تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی کو ظاہر و باہر کر دے گا اور حیرت انگیز عبرت کے نشان ایک نہیں بلکہ بارہا اور کئی دکھائے گا.تو آپ دعائیں کریں، میں بھی دعائیں کرتا ہوں اور ان کا بھی جو زور چلتا ہے وہ لگا لیں.دعائیں کریں جو مرضی کریں مگر جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم دعائیں بھی کرو، سجدوں میں بھی اپنے سر رگڑو تو تمہاری پیشانیاں رگڑی جائیں گی ،تمہاری آنکھوں کے حلقے گل جائیں گے روتے روتے تمہیں مخبوط الحواسی کے دورے پڑنے لگیں گے مگر خدا کی قسم میں جیتوں گا اور خدا میری تائید فرمائے گا اور تمہاری تائید میں کوئی نشان ظاہر نہیں کرے گا.یہ خلاصہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر کا.پس اسی کے ساتھ میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں.آئیے اب ہم رمضان کی تیاری کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان کی ہر طرح کی برکتیں عطا فرمائے.منفی نشانات ان لوگوں کے خلاف ظاہر ہوں اور مثبت نشانات جماعت احمدیہ کے حق میں ظاہر ہوں.آمین

Page 43

خطبات طاہر جلد 16 60 37 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کریں.ان کو بار بار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی بلکہ باطل ہے.( خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ پھر فرمایا: (البقرة: 184 185) رمضان المبارک شروع ہوئے سات دن گزر گئے.آج ساتواں روزہ ہے اور اس پہلو سے میں نے کچھ ایسی آیات اور کچھ احادیث اکٹھی کی ہیں ، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات بھی جن کے حوالے سے میں آپ کو رمضان سے متعلق مختلف باتیں سمجھانے کی کوشش کروں گا.سات دن جو گزر گئے وہ تو گزر گئے ، آئندہ کے لئے جو اہم باتیں ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئیں ان کا ان آیات کریمہ میں بھی ذکر ہے اور دوسری آیات میں بھی ذکر ملتا ہے.اور میری نظر اس

Page 44

خطبات طاہر جلد 16 38 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء وقت خاص طور پر انگلی نسل کی تربیت پر ہے.اس پہلو سے میں سادہ لفظوں میں رمضان کی بعض برکتیں حاصل کرنے کے آپ کو طریق سمجھا تا ہوں لیکن جو آیات تلاوت کی ہیں پہلے ان کا ترجمہ اورمختصر تفسیر پیش کروں گا.فرمایا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر بھی رمضان فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیا گیا تھا اور یہ جو مضمون ہے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا یہ عبادت کی تین قسموں پر مشترک ہے.ایک نماز، ایک حج اور ایک زکوۃ.یہ تین وہ عبادت کی بنیادی قسمیں ہیں جن کا تعلق ہر مذہب سے ہے اور قدیم سے اسی طرح چلا آیا ہے.ہر مذہب کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ ایسی مقرر ہے جہاں وہ اکٹھے ہوں اور کم سے کم زندگی میں ایک دفعہ اکٹھے ہو کر وہ خدا تعالیٰ کا ذکر بلند کریں اور جگہوں کا انتخاب اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ وہاں خدا کا کوئی بہت نیک اور بزرگ بندہ اللہ کی عبادت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر چکا تھا اور اسی فضا میں وہ سانس لیتا رہا، وہیں اس نے خدا کے لئے اپنی دین کو خالص کیا، اپنی تمام تر تو جہات کو خدا کی طرف پھیر دیا تو اس کی یادیں خدا کی یادوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.اور خدا کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ اس مقام پر ذہن میں آتا ہے جس مقام پر ایک خدا کا خالص بندہ اس کی عبادت کرتا رہا.تو اسی لئے مقامِ اِبْراهِمَ مُصَلَّی کی جو نصیحت ہے.وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّى (البقرة : 126) کہ تم بیت اللہ کے حج کے لئے جاؤ تو یا درکھنا وَ اتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّی کہ اپنی عبادتیں ویسی بنانا جیسی ابراہیم نے بنائی تھیں اور اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا جو ابراہیم کا مقام تھا.جس طرح اس نے اپنے آپ کو ان عبادتوں کے لئے وقف کیا.پس حج کا تعلق ایسے خدا کے نیک بندوں سے ہے جنہوں نے اپنے دین کو خدا کے لئے خالص رکھا اور کسی ایک جگہ وہ یا تو دھونی مار کے بیٹھ رہے یا بار بار وہاں آتے رہے اور اس جگہ کے ساتھ خدا کی عبادت کا تعلق مستقلاً ایک ایسے رشتے میں تبدیل ہو گیا جو توڑا نہیں جاسکتا.یعنی ہر قوم کے لئے وہ جگہ اور ذکر الہی گویا ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے.جب یہ مقام کسی مقام کو نصیب ہو تو اسے پھر وہ حج کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے اور ہر قوم کے لئے الگ الگ خدا

Page 45

خطبات طاہر جلد 16 39 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء تعالیٰ نے ایک مقام بنایا ہے اور اس کا تعلق اس قوم کے انبیاء اور بزرگوں سے ہے لیکن سب کے لئے اجتماعی طور پر خانہ کعبہ کو چنا گیا اور اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بھی زندہ رکھا گیا.مگر اصل خانہ کعبہ کا مقصد تو حید باری تعالیٰ کا وہ قیام تھا جو آنحضرت علی کے ذریعے وجود میں آنی تھی.اسی لئے اسلام سے پہلے خانہ کعبہ کی تعمیر کی پہلی اینٹ رکھی گئی مقصد یہی تھا کہ یہاں تمام بنی نوع انسان جمع ہوں گے.پس یہ مقصد اپنے تمام کو پہنچا ہے، اپنے کمال کو پہنچا ہے آنحضرت علﷺ کی بعثت کے ساتھ.تو عبادت کا جو مفہوم ہے اس میں حج ایک اہم حصہ ہے لیکن یہ زندگی میں ایک دفعہ کی عبادت ہے.اگر بار بار کی توفیق ملے تو زائد ہے ورنہ ایک دفعہ کی عبادت اگر ہو جائے تو یہ بھی بہت بڑی چیز ہے.دوسری عبادت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نماز ہے جو ہر مذہب میں موجود ہے مختلف رنگوں میں، مختلف شکلوں میں اور تیسری روزے ہیں یعنی جیسا کہ اس مہینے میں ہم گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے روزوں کو تمام دوسرے مذاہب میں جو اسلام سے پہلے تھے کسی نہ کسی شکل میں ضرور فرض فرما دیا.پس رمضان میں ان تین عبادت کی قسموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے قرب کی کوشش کرنی چاہئے.حج تو ابھی بعد میں آئے گا مگر حج کے مقاصد ضرور رمضان میں پیش نظر رکھے جاسکتے ہیں اور خانہ کعبہ کو تمام دنیا کا مرجع بنانا اس کے لئے اس رمضان میں بھی دعائیں ہوسکتی ہیں.پس اس پہلو سے ہم حج کے مقاصد بھی کسی حد تک پالیں گے اگر دعاؤں کے ذریعے حج کے اعلیٰ مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنی نوع انسان کو ان کی طرف مائل کرنے کے لئے التجائیں کریں اور یہ بنی نوع انسان کا میلان یعنی ان کی توجہ اس طرف ہونا دعاؤں کے سوا ممکن نہیں ہے.پس اس پہلو سے رمضان میں حج کے مقاصد کے لئے دعائیں کرنا بھی داخل ہو جائے گا کیونکہ یہ عبادت کا ایک اہم حصہ ہے.یہ تین پہلو عبادت کے ہیں جن کو محوظ رکھتے ہوئے اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کی کوشش کریں.ان کو بار بار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی اور بے حقیقت بلکہ باطل ہے.ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں کسی شمار میں نہیں آئے گی اس لئے جانوروں کی طرح یہیں مرکر مٹی ہو جاؤ گے.مگر فرق صرف یہ ہے کہ جانور تو مرکز نجات پا جاتے ہیں تم مرنے کے بعد جزا سزا کے میدان میں حاضر کئے جاؤ گے.پس یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرنا ہے

Page 46

خطبات طاہر جلد 16 40 40 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء اور رمضان مبارک میں ایک بہت اچھا موقع ہے کیونکہ فضا سازگار ہو جاتی ہے.رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایسے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں مسجدوں میں جو پہلے کبھی دکھائی نہیں دیتے اور ان کو دیکھ کر دل میں کسی قسم کی تحقیر کے جذبے نہیں پیدا ہوتے کیونکہ اگر کوئی انسان ان چہروں کو دیکھے اور تحقیر کی نظر سے کہ اب آ گیا ہے رمضان میں، پہلے کہاں تھا تو میرا یہ ایمان ہے کہ ایسی نظر سے دیکھنے والے کی اپنی عبادتیں بھی سب باطل ہو جائیں گی اور ضائع ہو جائیں گی کیونکہ اللہ کے دربار میں اگر کوئی حاضر ہوتا ہے، ایک دفعہ بھی حاضر ہوتا ہے، اگر آپ کو اللہ سے محبت ہے تو پیار کی نظر ڈالنی چاہئے اس پر اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس کو اور قریب کریں اور اس کو بتا ئیں کہ الحمدللہ تمہیں دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوتی ہے.تم اٹھے ، تکلیف کی ہے، پہلے عادت نہیں تھی، اب آگئے ہو.بسم اللہ، جی آیا نوں کہو اس کو اور اس کو پیار کے ساتھ سینے سے لگائیں تا کہ آپ کے ذریعے سے اور آپ کے اخلاص کے اظہار کے ذریعے سے وہ ہمیشہ کے لئے خدا کا ہو جائے.یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تربیت کر سکتے ہیں.جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں.ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو تو خدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا.کیا اللہ سے باتیں کیں، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیچ مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہوں گی.ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیچ میں ہوا کرتی ہیں وہ نشو ونما پا کر کونپلیں نکالیں گی.پس رمضان اس پہلو سے کاشتکاری کا مہینہ ہے.آپ نے بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت کے بیج بونے ہیں.اس طریق پر ان کی آبیاری کرنی ہے یعنی روز مرہ ان کو نیک باتیں بتا بتا کرتا کہ ان بیجوں سے بڑی سرسبز خوشنما کونپلیں پھوٹیں اور رفتہ رفتہ وہ بچے ایک کلمہ طیبہ کی صورت اختیار کر جائیں جس کی جڑیں تو زمین میں پیوستہ ہوتی ہیں مگر شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں.تو رمضان مبارک کو روزوں کے لحاظ سے جیسے گزارنا ہے وہ تو عام طور پر سب جانتے ہی ہیں مگر میں ان فائدوں پر نگاہ رکھ رہا ہوں جو رمضان میں خاص طور پر ہجوم کر کے آجاتے ہیں اور اس وقت آپ اس ہجوم سے استفادہ کریں اور زیادہ سے زیادہ برکتیں لوٹ لیں.یہ مقصد ہے اس نصیحت

Page 47

خطبات طاہر جلد 16 41 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء کا جس کے لئے میں آج آپ کو متوجہ کر رہا ہوں بعض لوگ جانتے ہیں کنکوے اڑائے جاتے ہیں مگر بسنت میں جو کنکووں کے اڑنے کا عالم ہے وہ چیز ہی اور ہو جاتی ہے.پس خدا کی یادوں کے لئے یہ مہینہ بسنت بن گیا ہے اور بار بار ذکر الہی کے جو گیت ہیں وہ گھر گھر سے بلند ہوتے ہیں.مختلف وقتوں میں اٹھتے ہیں، صبح شام تلاوت کی آواز میں آتی ہیں اور طرح طرح سے انسان اللہ کی یاد کو زندہ اور تازہ اور دائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ جو یاد آئے وہ پھر ہاتھ سے نکل نہ جائے.پس اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ رمضان کا مقصد کھیل تماشہ نہیں ہے.محض بھوکا رہنا، محض افطاری کر لینا یہ نہیں ہے.ایک مقصد ہے تا کہ تم تقویٰ میں ترقی کرو اور اللہ تعالیٰ کا پہلے سے بڑھ کر دل میں خوف پیدا ہو اور پھر وہ ہمیشہ باقی رہے.اس کے بعد فرمایا ہے.اَيَّامًا مَّعْدُودَت اس تعلق میں مختلف ترجمہ کرنے والے اور مفسرین اس کا جب فاعل ڈھونڈتے ہیں تو ان کو ایک دقت پیش آتی ہے آیا مَّا مَّعْدُودَت منصوب ہے.یعنی منصوب سے مراد یہ ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ فلاں چیز کو فلاں جگہ پھینک آؤ تو جس چیز کو پھینکیں گے وہ مفعول ہو جائے گی.وہ جگہ جہاں پھینکیں گے وہ مفعول ہو جائے گی تو فعل کا کرنے والا بھی تو کوئی ہونا چاہئے.اس لئے جب بھی ایسی علامتیں ظاہر ہوں جن کا تعلق مفعول ہونے سے ہے تو انہیں منصوب حالتیں کہا جاتا ہے، نصب کی حالت اور اس کا ایک فاعل تلاش کیا جاتا ہے.تو آیا ما مَّعْدُودَت کو قرآن کریم میں نصمی حالت میں پیش فرمایا گیا ہے.چند گنتی کے دن اس پر جو ترجمہ کرنے والے فاعل تلاش کرتے ہیں تو کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ روزے رکھو چند گنتی کے دن لیکن روزے رکھو“ کو حذف سمجھتے ہیں جب کہ اس سے پہلے جو فعل گزر چکے ہیں اگر ان کے ساتھ اس کو ملایا جائے اور مفعول بنایا جائے تو پھر معنی بالکل غلط ہو جائیں گے.وہ اس طرح بنیں گے پھر کہ تم پر فرض کر دیئے گئے ہیں روزے جیسے کہ پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ، اَيَّا مَا مَعْدُودَتٍ کیونکہ فعل تقویٰ کا ہے صرف تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو گنتی کے چند دن.اب یہ تو مقصود ہوہی نہیں سکتا قرآن کریم کا کہ روزے فرض کئے گئے ایسے کہ پہلی قوموں پر بھی ہر جگہ فرض کر دیئے گئے تھے، اتنی عظیم الشان چیز ہے صرف اس لئے کہ تم چند گنتی کے دن خدا کو

Page 48

خطبات طاہر جلد 16 42 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء یاد کر لو یا تقوی اختیار کر لو.تو یہ وقت ہے ترجمہ کرنے والوں کے پیش نظر.وہ سمجھتے ہیں کہ منصوب کے لئے ضرور پہلے ایسا فعل تلاش کرنا چاہئے جس میں فاعل بھی مذکور ہو تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو یہ فعل ہے جس میں فاعل بھی ہے.کون تقویٰ کرے؟ تم کرو.کتنے دن؟ چند گنتی کے دن.یہ تو غلط ہے کیونکہ تقویٰ کا تعلق تو زندگی بھر سے ہے.یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ان منصوبی حالتوں میں فاعل کی تلاش کی بجائے اسے اور معنوں میں پڑھتا ہوں جو عربی لغت کے لحاظ سے جائز ہیں اور منصوب بعض دفعہ غیر معمولی توجہ دلانے کی خاطر کیا جاتا ہے اس میں فاعل کی تلاش کی ضرورت ہی کوئی نہیں.جب کہیں بچوکسی چیز سے مثلاً شیر کہہ دیا جائے یا سانپ کہہ دیا جائے یا بچھو کہ دیا جائے اور یہ نہ کہا جائے کہ بچو تو اس کو منصوب کر دیا جائے یا کسی اور ایسے موقع پر جب کسی چیز کی عظمت دلانی ہو تو اسے بھی منصوب کر دیا جاتا ہے تو اس کے لئے پہلے جملے میں کسی فعل اور اس سے تعلق رکھنے والے فاعل کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے.جب یہ معنی جو میں کرتا ہوں اس پہلو سے یہ مضمون یوں بنے گا لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ دیکھو تقویٰ کا فائدہ تمہیں اس سے پہنچے گا اور جہاں تک محنت کا تعلق ہے گنتی کے چند دن ہی تو ہیں.کیسا اچھا سودا ہے.چند روزہ محنت کرو گے تو ہمیشہ ہمیش کی فلاح پا جاؤ گے اور تقویٰ حاصل ہوگا جو پھر تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا کیونکہ تقویٰ عارضی نیکی کے لئے استعمال ہو ہی نہیں سکتا.تقویٰ ایک مستقل چیز ہے جو انسان کے دل میں بس جاتی ہے اور ترقی کرتی رہتی ہے تو لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ کا ایک معنی یہ ہے کہ تا کہ تم تقویٰ میں ترقی کرتے چلے جاؤ اور ہر رمضان تمہارا تقویٰ بڑھا کر جائے ، ہر رمضان تمہیں خدا سے پہلے سے زیادہ قریب کر دے.یہ مقصد ہے رمضان کا اور اسی پہلو سے تمام گزشتہ مذہبی قوموں میں روزے فرض کئے گئے اور ہے کیا ؟ آیا ما مَّعْدُو دَتِ چند گنتی کے دن ہیں ان میں جو زور لگانا ہے لگالو.فوائد زندگی بھر کے اور محنت چند دنوں کی.پھر فرمایا فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ آخر اور پھر سہولتیں بھی ایسی دے دی ہیں کہ یہ مہینہ مشقت کا مہینہ نہیں رہتا.فرمایا تم میں مریض بھی ہوں گے، سفر پر بھی ہوں گے ان کے لئے ہماری ہدایت یہ ہے کہ وہ دوسرے ایام میں روزے رکھ لیں.ایک مہینے میں روزے رکھنا فوائد اپنے ساتھ رکھتا ہے وہ ماحول پیدا ہو جاتا ہے جو الگ الگ

Page 49

خطبات طاہر جلد 16 43 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء روزے رکھنے سے پیدا نہیں ہوتا.جو برکتیں سب کی مل کر اکٹھا روزہ رکھنے میں ہیں وہ برکتیں الگ الگ روزوں میں نہیں ہیں.تو فرمایا اصل تو یہی ہے کہ اس مہینے کو جب پاؤ، جب اس کو دیکھو، جب تمہیں نصیب ہو جائے تو اسی مہینے میں روزے رکھو لیکن اگر مریض ہو، بیمار ہو تو پھر بعد کے ایام کو بھی روزے پورے کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہو اور جب بھی توفیق ملے روزے رکھو مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ یعنی رمضان کے علاوہ بعد کے ایام میں.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ اس میں يُطِيقُونَ کے متعلق میں تفصیلی بات پچھلے رمضان ، اس سے پہلے بھی کر چکا ہوں اس وقت میرے پیش نظریہ لفظ يُطيقون، کا استعمال نہیں ہے.سادہ ترجمہ اس کا یہ سمجھیں کہ جن لوگوں کو یہ توفیق ہو کہ وہ روزہ نہ رکھیں مگر روزے کا فدیہ دے سکیں وہ فدیہ دے دیں یا وہ لوگ جو یہ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ روزہ رکھ سکیں وہ بعد میں روزہ چونکہ نہیں رکھیں گے اس لئے اس کے بدلے میں فدیہ دے دیں تو یہ دونوں معانی اور اس کے علاوہ بھی بعض معانی اس مضمون میں داخل ہیں.یہاں فدیہ کی بات میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ فدیہ کیا ہے؟ فرمایا فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكَيْنِ ایک مسکین کا کھانا ہے فدیہ.یعنی جو تم میں سے غرباء ہیں، نسبتا مالی لحاظ سے کم تو فیق رکھنے والے ہیں اور ان کے اندر مانگنے کی عادت نہیں خصوصیت سے وہ لوگ مساکین کہلاتے ہیں.مانگنے والے بھی اس حکم سے باہر نہیں جائیں گے مگر خاص طور پر نظر رکھنے کا حکم ہے فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكَيْنِ کا مطلب ہے تم نگاہ رکھو کہ ایسے مساکین جو تمہارے ارد گرد رہتے ہیں، جن کو مانگنے کی عادت نہیں مگر تمہارا فرض ہے کہ ان تک پہنچو، ان کی تلاش کرو، ان کو یہ کھانا پہنچاؤ، یہ تمہارا فدیہ ہو جائے گا.فدیہ دراصل ایک چیز کو کسی مصیبت سے چھڑانے کے لئے دیا جاتا ہے.جب ان کے دشمنوں کے قیدی جب ان پر فتح پاتے ہیں ان کے ہاتھ آجاتے ہیں تو ان کے پچھلے عزیز ، رشتے دار وغیرہ کچھ رقم دے کر ان کو چھڑاتے ہیں تو جان چھڑانے کے لئے کسی مصیبت سے جو کچھ دیا جائے اسے فدیہ کہتے ہیں اور جو چیز ضائع ہو جائے اور انسان کسی وجہ سے کسی نیکی سے محروم رہ جائے تو اس کی جو بلاء پڑتی ہے انسان پر.نیکی کا مہینہ آیا اور نیکیوں سے محروم رہ گیا اس بلا ء سے بھی تو جان چھڑانی ہے کہ جو محرومی کا احساس ہے اور محرومی کے نتائج ہیں وہ تو پڑیں گے بہر حال.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ فدیہ مقرر

Page 50

خطبات طاہر جلد 16 44 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء فرمایا ہے کہ تم بھوکے رہ کر خدا کی رضا کمانا چاہتے تھے تمہیں خواہش کے باوجود بھوکے رہ کر خود خدا کی رضا کمانے کی توفیق نہیں مل سکی تو اس کا علاج دیکھیں کیسا عمدہ تجویز فرمایا.فرمایا بھوک میں کوئی بات نہیں ہے اصل تو تقویٰ ہے اور اگر تم خدا کی خاطر کسی بھوکے کو کھانا کھلاؤ تو یہ تمہارے روزے چھٹنے کا فدیہ ہے.یعنی بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے اس کا فدیہ یہ ہو کسی کو روزے رکھواؤ لیکن روزے رکھوانا فدیہ نہیں، بھوکے کو کھانا کھلانا فدیہ بن گیا.پس اس نیکی کو بھی نہ صرف اس مہینے میں رواج دینا ہے بلکہ اپنے بچوں کو خصوصیت سے بتانا چاہیئے اور اس رمضان کے مہینے میں فدیے کا مضمون چونکہ بھوک سے تعلق رکھتا ہے بھوک کے حوالے سے سمجھانا چاہیئے.اپنی اگلی نسلوں کو بتائیں کہ دیکھو تم خدا کی خاطر بھوکے رہے تھے تو کبھی یہ بھی سوچا کہ خدا کے بہت سے ایسے بندے ہیں جن کو روز مرہ ہی کھانے کی وہ توفیق نہیں ملتی جو تمہیں ملتی ہے.تم صبح اٹھ کے کھاتے ہو، دوپہر کو بھی کھاتے ہو ، شام کو بھی ، پھر اس کے علاوہ بھی ، جب توفیق ملے جو صاحب حیثیت لوگ ہیں یا ان ملکوں میں رہتے ہیں جیسے انگلستان کے رہنے والے ہیں ان کے بچوں کو تو ہر وقت چرنے کی عادت ہوتی ہے.کوئی جیب میں چیونگم ڈال لیا، کوئی چاکلیٹ خرید لیا، کوئی بازار سے چپس لے لئے فرائز خرید لیں.ہر وقت کچھ نہ کچھ ان کو ملتے رہنا چاہئے اور اکثر مل ہی جاتا ہے اور سب بچوں نے اپنی اپنی چیزیں سنبھال کے رکھی ہوتی ہیں اپنے تھیلوں میں کہ ہم یہ کھائیں گے.تو ان کو سمجھانا چاہئے کہ رمضان ، آج کل کے مہینے میں تو روزے چھوٹے ہیں مگر بڑے سخت بھی آجایا کرتے ہیں.مگر آج کل بھی بچوں کو جو پابندی کا احساس ہے یہ نہیں کھانا، یہ تکلیف ضرور پہنچاتا ہے.پس آپ فدیہ کے حوالے سے ان کو سمجھائیں کہ خدا تعالیٰ نے دیکھو اگر روزے نہ رکھو تو فدیہ دینے کی اور غریبوں کو کھانا کھلانے کی تلقین فرمائی ہے.جس کا مطلب ہے روزے کا تعلق غریبوں کی بھوک سے بھی ہے اور ساتھ یہ فرما دیا فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ کہ یہ صرف ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کے روزے چھٹ گئے ہیں.غریب کو کھانا کھلانا تو ایک دائمی مضمون ہے اور رمضان کے مہینے میں تو یہ خصوصیت سے غریب کو کھانا کھلانا ایک بہت بڑی نیکی بن جاتا ہے.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ جو روزہ چھٹے یانہ چھٹے اس مہینے میں نیکی کے شوق کی خاطر از خودغریبوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کرتا ہے تو یہ اس کے لئے بہت ہی بہتر چیز ہے.تو اس

Page 51

خطبات طاہر جلد 16 45 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء حوالے سے غربت کو دور کرنے کی طرف متوجہ کرنا اور غریبوں کی نگہداشت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ، ان کے دکھ بانٹنا یہ سارے وہ مضامین ہیں جو بڑی عمدگی کے ساتھ بچوں کو سمجھائے جا سکتے ہیں اور جب آپ سمجھا ئیں گے تو خود بھی آپ کو پہلے سے زیادہ اس طرف توجہ ہوگی.فِدْيَةٌ کے متعلق صرف ایک مشکل یہ ہے کہ انگلستان میں اور یورپ اور امریکہ کے بہت سے دوسرے، یورپ اور امریکہ جیسے اور بھی کئی ممالک ہیں مثلاً جاپان ہے جو روزمرہ کے کھانے کو کوئی خاص اہمیت دیتے ہی نہیں ، کیونکہ ان میں اکثر لوگ روز مرہ کے کھانے کی توفیق ایسی رکھتے ہیں کہ وہ زائد عیاشی اور عیش وعشرت کے لئے تو پیسے چاہتے ہیں کھانا ان کا مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے جو مرضی کھائیں اور اتنی کمائی ضرور کر لیتے ہیں کہ وہ آسانی سے پیٹ بھر سکتے ہیں.زوائد کے لئے ، شرابیں پینے کے لئے ، عیش وعشرت کے دوسرے سامانوں کی خاطر اگر کچھ نہ ان کو ملے تو وہ اس کو غربت سمجھتے ہیں لیکن ان کی توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں کہ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی.اگر ایک وقت کی روٹی بھی میسر آجائے تو وہ بھی بڑی غنیمت سمجھی جاتی ہے.تو سوال یہ ہے کہ یہاں کیسے آپ کو یہ توفیق مل سکتی ہے.فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكَيْنِ کی.دو تین طریق ہیں.ایک تو یہ کہ جو غریب ممالک ہیں ان کے لئے آپ فدیے بھیجیں.اگر چہ وہ ذاتی تعلق جو غریب کی براہ راست خدمت سے قائم ہوتا ہے وہ تو نہیں ہو سکے گا لیکن ایک کچھ نہ کچھ بدل تو ضرور ہے.پس اس مہینے میں اپنے بچوں کو بھی اس بات پر آمادہ کریں کہ اگر چہ روزے تم پر فرض نہیں ، فدیہ فرض نہیں ہے مگر قرآن تو فرما رہا ہے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا پس جو بھی نیکی شوق سے کرتا ہے نفلی طور پر کرتا ہے تو اس کے لئے بہت بہتر ہے.تو کچھ اپنے غریب بھائیوں کے لئے خواہ دنیا میں کہیں بھی بستے ہوں، ان کے لئے کچھ اپنے جیب خرچ سے نکالو اور روزمرہ کوئی نہ کوئی صدقہ خدا کی خاطر دے دیا کرو تو اس طرح بچپن ہی سے ان کے دلوں میں غریب کی ضرورت کا احساس پیدا ہو جائے گا اور جو اپنی طرف سے، اپنے اکٹھے کئے ہوئے پیسوں میں سے کچھ دیں گے خواہ وہ معمولی رقم ہی کیوں نہ ہو وہ ان کے لئے ایک بہت بڑی رقم بن جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ تو خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے دل پر نظر رکھتا ہے اور بعض دفعہ ایک بچے کا چھوٹا سا خرچ بھی اس کی ساری زندگی سنوار سکتا ہے.تو دیکھو رمضان میں کیسے اعلیٰ اعلیٰ مواقع آپ کو نصیب ہوتے ہیں اور کس طرح روزمرہ

Page 52

خطبات طاہر جلد 16 46 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء آپ کی اولاد کی تربیت آپ کے لئے آسان ہو جاتی ہے.ایک ماحول بنا ہوا ہے، اٹھ رہے ہیں روزوں کے وقت افطاری کے وقت اکٹھے ہو رہے ہیں.اس وقت عام طور پر لوگ مختلف گئیں مار کے اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں.سحری کے وقت بھی میں نے دیکھا ہے یہ رجحان ہے کہ ہلکی پھلکی باتیں کر کے تو ہنسی مذاق یا دوسری باتوں میں سحری کے وقت کو ٹال دیتے ہیں اور یا ضائع کر دیتے ہیں.اسی طرح افطاری کا حال ہے.تو میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے سحری اور افطاری کو تربیت کے لئے استعمال کریں اور تربیت کے مضمون کی باتیں کیا کریں اور اعلیٰ بڑے دینی مقاصد کی گفتگو اگر بہت بوجھل ہو تو یہ چھوٹی چھوٹی روز مرہ کی باتیں یہ تو سمجھائی جاسکتی ہیں.پھر فرمایا ہے وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کہ اگر تم روزے رکھو تو یہ بہت بہتر ہے اِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم اس بات کو جانتے.یہاں جب اجازت دے دی ہے فدیہ کی اور اگر مریض ہو یا سفر پر ہو تو ہدایت یہ فرمائی ہے کہ پھر بعد کے ایام میں روزے رکھو تو سوال یہ ہے کہ پھر وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ کا کیا مطلب ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیمار ہو تب بھی رکھو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.سفر پر ہو تب بھی رکھو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ فدیے تو تم دے دو گے لیکن روزے نہیں اس سے کٹ جائیں گے، روزے کا فریضہ قائم رہے گا.اس لئے فدیہ دے کر یہ نہ سمجھو کہ روزے کے فرض سے تم بری الذمہ ہو گئے ہو.فدیہ دو اور وہ بھی تمہارے لئے بہتر ہے لیکن روزے اپنی ذات میں ایسے فوائد رکھتے ہیں کہ جب بھی تمہیں تو فیق ملے تم ضرور رکھو.وَأَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کا ایک معنی تو یہ ہے کہ تم اگر غور کرو تو یہ بات سمجھ لو گے کہ روزوں میں اور بھی بہت سی خیر میں اور برکتیں ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانا تمہارے اپنے فائدے کی بات ہے لیکن اِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ میں ایک مضمون کاش کا بھی پایا جاتا ہے کہ اے کاش تمہیں معلوم ہوتا کہ روزے میں کیا کیا فوائد ہیں اور اگر یہ معلوم ہوتا تو تَطَوَّعَ خَيْرًا کا مضمون روزوں کے ساتھ بھی چسپاں ہو جاتا.پھر تم کوشش کرتے کہ صرف رمضان کے فرض روزے ہی نہ رکھتے بلکہ تَطوَّعَ خَيْرًا کا مضمون روزوں کے ساتھ بھی چسپاں ہو جاتا.پھر تم کوشش کرتے کہ صرف رمضان کے فرض روزے ہی نہ رکھتے بلکہ تَطوَّعَ خَيْرًا کے

Page 53

خطبات طاہر جلد 16 47 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء تا ربع نفلی روزے بھی بہت رکھتے مگر تمہیں پتہ نہیں کہ روزے کے فائدے کیا کیا ہیں.اس نقطہ نگاہ سے روزے کے فوائد کے تعلق میں میں آپ کے سامنے چند اور باتیں بھی رکھنا چاہتا ہوں.ایک تو ایسی بات ہے جس کا غریب ملکوں سے زیادہ امیر ملکوں سے تعلق ہے.غریب ملکوں میں فاقہ کشی کی مصیبت ہے جس کا ذکر فدیے کے تعلق میں میں نے کیا ہے.امیر ملکوں میں زیادہ کھانے کی مصیبت ہے اور غذا کی بہتات جو ہے اس نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے.اس لئے یہاں کے جتنے بھی اشتہار اور پروگرام وغیرہ آپ دیکھتے ہیں ان میں یہ نسخے بتائے جاتے ہیں کہ موٹاپا کیسے دور کرنا ہے اور اس کے لئے نئی نئی ترکیبیں ایجاد ہو رہی ہیں، نئی نئی دوائیاں بن رہی ہیں.اب کسی بھو کے ملک میں جا کر آپ یہ اشتہار شائع کریں تو لوگ اشتہار پھاڑ کے اشتہار لکھنے والوں کی جان کے درپے ہو جائیں مگر یہاں یہی بیماری ہے.بہتات کوئی چیز حد سے زیادہ دستیاب ہو پتا نہ ہو کہ کیا کرنا ہے اس کا.اب پیچھے جب وہ ان کی کرسمس گزری ہے تو کھا کھا کے انہوں نے ستیا ناس کر لیا اپنی صحت کا.دن رات چرنے کا شغل تھا کہ اس طرح کرسمس منائی جارہی ہے اور کسی نے کہا کہ سب کچھ، ساری دولت کرسمس کے دن گندی نالیوں میں بہا دینا یہ مدعا معلوم ہوتا ہے کرسمس کا.تو خدا تعالیٰ دونوں طرف نصیحت فرماتا ہے.ایک طرف ان لوگوں کے لئے جن لوگوں کے پاس نہیں ہے ان کے لئے کئی نصیحتیں ہیں رمضان میں اور پھر ان کے لئے بھی جن کے پاس بہت کچھ ہے بہت سی نصیحتیں ہیں.ایک یہ تھی جس کا میں نے ذکر کیا کہ اپنے غریب بھائیوں کا خیال کرو، روزے کی بھوک کی جب تکلیف پہنچے اس وقت سوچا کرو کہ خدا کے کتنے بندے ہیں جو روزمرہ کی معمولی ضرورتوں کے بھی محتاج بنے بیٹھے ہیں ان کے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو اور پھر اس کے نتیجے میں جو تقویٰ پیدا ہو وہ ان چند ایام تک محدود نہ رہے بلکہ جیسا کہ میں نے قرآن کریم کی آیت سے استنباط کیا ہے وہ مستقل تمہاری دولت بن جائے.ايَّا مَا مَّعْدُودَت کی تکلیف ایسے غریب بھائیوں کی تکلیف کا احساس دلائے جو ہمیشہ بھوکے رہتے ہیں کسی رمضان کی وجہ سے تو بھوکے نہیں رہتے.تو ایک عارضی تکلیف ایک مستقل راحت کا سامان پیدا کر دے گی اور جو تمہیں سکون نصیب ہو گا غریبوں کو کھانا کھلا کر اور غریبوں کی خدمت کے ذریعے یہ سکون مستقل ہو جائے گا اور بھوک کی تکلیف عارضی تھی.پس دوسرا پہلو جو اس کا

Page 54

خطبات طاہر جلد 16 48 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء ہے تم اپنی صحت کا بھی خیال کرو.بھوکے رہتے ہو تو سارا دن یہ سوچ کر نہ گزارنا کہ جب روزہ ختم ہوگا تو پھر یہ یہ نعمتیں کھاؤں گا، اتنا زیادہ کھاؤں گا کہ سارے روزے کی کسر مٹا دوں گا بلکہ آنحضرت ع فرماتے ہیں صوموا تصحوا (الطبراني في معجم الاوسط 8/174) روزے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو اور صحت اچھی تبھی ہو سکتی ہے کہ اگر آپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے تھے بڑی سخت بے وقوفی تھی رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے.در حقیقت اس سے بہت کم پر ہمارا گزارہ ہو سکتا ہے جو ہم پہلے کھایا کرتے تھے تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو.اب امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں ہے جو روزوں نے ہمیں سکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روزے میں کھانا کم کرنالازم ہے کیونکہ کھانا کم کئے بغیر جواعلیٰ مقصد ہے روزے کا وہ پورا نہیں ہوسکتا.یعنی صرف یہ نہیں کہ کچھ وقت بھوکے رہنا ہے بلکہ دونوں کناروں پر بھی صبر سے کام لو اور نسبتا اپنی غذا تھوڑی کرتے چلے جاؤ.فرماتے ہیں اس کے بغیر انسان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہو سکتی.ذکر الہی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ذکر الہی ایک روحانی غذا ہے اور روزمرہ کا کھانا ایک جسمانی غذا ہے.تو رمضان کی برکت یہ ہے یا روزوں کی برکت یہ ہے کہ وہ جسمانی غذا سے ہماری توجہ روحانی غذا کی طرف پھیر دیتے ہیں اور ذکر الہی میں ایک لطف آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ روحانی لطف ہے جو آپ کی روح کو ترو تازہ کرتا ہے، اس کی مضبوطی کا انتظام کرتا ہے اور جسم پر جو زائد چر بیاں چڑھی تھیں ان کو پگھلاتا ہے.پس روزے کا امیروں کی صحت کے ساتھ بڑا بھاری تعلق ہے لیکن اگر امیر روزے کا انتقام دونوں کناروں پر لیں یعنی جب افطاری کریں تو اتنا کھا ئیں اور ایسی ایسی عجیب نعمتیں کھائیں کہ عام روز مرہ دنوں میں بھی وہ نہیں کھاتے تھے تا کہ روزے کا بدلہ اتارا جائے اور رات جو بیچ میں پڑے پھر دوسرے دن سحری کے وقت اس عزم کے ساتھ بیٹھیں کہ اب ہم نے بھوک کو قریب نہیں پھٹکنے دینا.اتنا کھائیں گے کہ صبح آنکھ کھلے تو عذاب بن جائے، معدے میں تیزاب اہل رہے ہوں.مصیبت پڑی ہوئی ہو اور پھر علاج سو کر کیا جائے تاکہ اور سوئیں اور اس مصیبت سے نجات ملے اور سوسوکر جس

Page 55

خطبات طاہر جلد 16 49 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء طرح بھی بن پڑے افطاری کا انتظار ہو.اگر یہ مقصد ہے رمضان کا اور روزوں کا تو یہ تو تمہیں پہلے حال سے بدتر کر کے چھوڑ جائے گا.اس لئے مقصد کو سمجھیں اور اس مقصد کو پیش نظر بھی رکھیں.بچوں کو بھی سمجھا ئیں کہ اگر تم نے بھوک کا مزہ دیکھا ہی نہیں اور تمہیں یہ نہیں پتا کہ بھوک کے وقت تمہیں ذکر الہی کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں وقت صرف کر کے جو بھوک کی بے چینی ہے اسے کم کرنا ہے.اب یہ جو مضمون ہے بدنی غذا کی کمی کا روحانی غذا کے ذریعے ازالہ کرنا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی عمدگی کے ساتھ ، بڑی تفصیل سے کھول کر ہمارے سامنے رکھا ہے لیکن ایک اور بات میں آپ کو یہ بتا دوں اس تعلق میں کہ یہ جوفد یہ ہے اس کے علاوہ بھی رمضان میں افطاریاں کرانے کا رواج چل پڑتا ہے جو بسا اوقات اس مقصد کے خلاف ہو جاتا ہے جو میں اب بیان کر رہا ہوں.وہ سمجھتے ہیں کھانا کھلانا، افطاری کرانا چونکہ ثواب کا کام ہے اس لئے ہم جتنی زیادہ سجا سجا کر افطاریاں کرائیں گے ، لوگوں کو بھیجیں گے اتنا ہی ہمارا رمضان کا میابی سے گزرے گا.اس میں کوئی شک نہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ افطاری کروانا ایک نیکی کا کام ہے اور غریب کو روزہ رکھوانا بھی ایک نیکی کا کام ہے.مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسی نیکی نہ کرو، فرماتا ہے گی لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنْكُمُ (الحشر: 8) کہ جو خدا تعالیٰ نے تمہیں نعمتیں عطا فرمائی ہیں مختلف صورتوں میں.بعض دفعہ خدا تعالیٰ اس زمانے میں جہاد کے نتیجے میں بہت سی ، کثرت سے دولتیں صحابہ کو عطا کرتا رہا تو اس کے مصارف کا بیان کرتے ہوئے یہ متوجہ فرمایا كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنْكُمْ جب خدا تعالیٰ تمہیں با حیثیت بنائے، تمہارے اموال میں برکت دے تو تحفے دینے کا اس دولتمند ہونے سے یا خدا تعالیٰ کی نعمتیں حاصل ہونے سے طبعی تعلق ہے، ہر امیر تو یہ نہیں کرتا بعض امیر تو اور بھی کنجوس ہوتے جاتے ہیں ،مگر عام طور پر جس کے اچھے دن آئیں جس کو خدا تعالیٰ کوئی نعمت عطا کرے وہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی کو بھی اس سے خوش کرے اس کا بھی حصہ ڈالے تو اس زمانے میں جب خدا تعالیٰ کسی قوم کے دن بدل رہا ہوتا ہے ان کو دنیاوی نعمتیں عطا کرتا ہے تو ایک دوسرے کو تحائف دینا ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے کا جو رواج ہے یہ از خود تقویت پا جاتا ہے.اس تعلق میں فرمایا لیکن یہ یاد رکھنا کی لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنْكُم یہ نہ ہو کہ تم امیروں کو ہی بھیجتے رہو چیز ہیں.جب خدا انعمتیں عطا کرتا ہے تو وہ

Page 56

خطبات طاہر جلد 16 50 50 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء دولت جو امیروں کی سطح پر اوپر اوپر گھومتی رہے اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے.وہ تمہارے معاشرتی تقاضے ہیں تمدنی تقاضے ہیں.جب تم ایک خاص سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہو تو آپس میں ایک دوسرے کو تحفے دینا یہ خدا کی خاطر نہیں ہوا کرتا.اگر خدا کی خاطر تحفے دینے ہیں تو اوپر سے نیچے کی طرف تحفے بہاؤ اور وہ لوگ جو مجبور اور غریب ہیں اگر پوری طرح نہیں تو نسبتا غریب ہیں ان کو دیا کرو.تو جہاں تک فدیے کا تعلق ہے یہ تو آپ باہر بھیج سکتے ہیں مگر افطاریاں باہر نہیں بھیج سکتے اور اس کا بھی بڑا رواج ہے.اس کا حل یہ ہے کہ افطاریاں اپنے سے امیروں کو یا اپنے ہم پلہ امیروں کو بھیجنے کی بجائے ڈھونڈیں کہ نسبتا کون مسکین لوگ ہیں خدا کے اور یہ مسکینی جو ہے یہ ایک نسبتی چیز ہے.ضروری نہیں کہ ایسا غریب ہو کہ اس کو صدقہ ہی دیا جائے.حالات الگ الگ ہیں بعضوں کو کم ملتا ہے، بعضوں کو زیادہ ملتا ہے.تو وہ لوگ جو خدا کی خاطر کسی کو خوش کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ ڈھونڈیں ایسے لوگ جن کا کھانے پینے کا معیار روزمرہ کا اتنا اونچا نہیں جتنا ان کا ہے اور وہ اگر ان کو بھیج دیں تو اس آیت کے مضمون کے مطابق وہ اپنے ہی جیسے دولتمندوں میں دولت کے چکر لگانے کے مترادف نہیں رہے گا.پس افطاریوں میں بھی بہتر یہی ہو کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، اردگر دجگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف جو آپ کے دکھائی دیتے ہیں ان کو بھیجیں مگر صدقے کے رنگ میں نہیں کیونکہ افطاری کا جو تعلق ہے وہ صدقے سے نہیں ہے.افطاری کا تعلق محبت بڑھانے سے ہے اور رمضان کے مہینے میں اگر آپ کچھ کھانا بنا کے بھیجتے ہیں تو طبعی طور پر محبت بھی بڑھتی ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے.اگر آپ اس عزت اور احترام سے چیز دیں کسی غریب کو یا ایسے شخص کو جونسبتا غریب ہے کہ اس میں محبت کا پہلو غالب ہو اور صدقے کا کوئی دور کا عنصر بھی شامل نہ ہو تو یہ وہ افطاری ہے جو آپ کے لئے باعث ثواب بنے گی اور آپ کے حالات بھی سدھارے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس طرح اوپر اور نچلے طبقوں کے درمیان آپس میں محبت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے.دوسرے افطاری کی دعوتوں سے متعلق میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ افطاری ایک تو انسان بنا کر کسی کے گھر بھجوادیتا ہے تا کہ اس دن دعا میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے.وہ دیکھیں کہ فلاں نے ہم سے اتنا پیار اور محبت کا سلوک کیا تو رمضان کی دعاؤں میں ایک یاد دہانی کا کام بھی دیتی ہے

Page 57

خطبات طاہر جلد 16 51 خطبہ جمعہ 17 / جنوری 1997ء افطاری.مگر جب آپ افطاری کی دعوتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ بالکل برعکس نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.بجائے اس کے کہ روزہ کھول کے انسان ذکر الہی میں مصروف ہو قرآن کریم کی تلاوت کرے جو تراویح پڑھتے ہیں وہ تراویح کے لئے تیار ہو کر جائیں اس کی بجائے مجلسیں لگ جاتی ہیں جو بعض دفعہ اتنی لمبی چل جاتی ہیں کہ عبادتیں بھی ضائع ہونے لگتی ہیں اور اگر اس دن کی عشاء کی نماز پڑھ بھی لیں وقت کے اوپر تو دوسرے دن کی تہجد کی نماز پر اثر پڑ جائے گا.تو اسی لئے میں تو ذاتی طور پر افطاریاں کرنے کا قائل ہی نہیں ہوں.ربوہ میں بھی میرا یہی دستور تھا کہ اگر چہ لوگ بہت اصرار کیا کرتے تھے مگر میں اسی اصرار کے ساتھ معذرت کر دیا کرتا تھا کہ رمضان کے مہینے میں یہ مشاغل کرنا اس قسم کے یہ میرے نزدیک رمضان کے مقاصد سے متصادم ہے، اس سے ٹکرانے والی بات ہے.تو جو افطاریاں ہو چکیں پہلے ہفتے میں ہو گئیں، آئندہ سے تو بہ کریں اور مجالس نہ لگائیں گھروں میں.مجالس وہی ہیں جو ذکر الہی کی مجلسیں ہیں اور افطاری کی مجلسوں کو میں نے کبھی ذکر الہی کی مجلسوں میں تبدیل ہوتے نہیں دیکھا.پھر وہ سجاوٹ کی مجلسیں بن جاتی ہیں، اچھے کپڑے پہن کے عورتیں، بچے جاتے ہیں وہاں خوب پھر گئیں لگائی جاتی ہیں، کھانے کی تعریفیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے دن اپنی تہجد کو ضائع کر دیتے ہیں اور پھر بے ضرورت باتیں بہت ہوتی ہیں.تو افطاری کا جو بہترین مصرف ہے وہ یہی ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ حتی المقدور یعنی منع تو نہیں ہے کہ ہم اپنے ہم پلہ لوگوں کو جو دولت کے لحاظ سے یا اپنے سے بہتر لوگوں کو بھی تحفہ دیں.قرآن کریم نے یہ منع نہیں فرمایا کہ آپس کے ایک ہی دائرے میں بالکل نہیں کچھ بھیجنا.یہ فرمایا ہے کہ وہیں کے نہ ہور ہو.ایسے تحائف نہ دو کہ صرف ایک طبقے کے لئے خاص ہو جائیں اور وہ ایک دائرے میں گھومتے پھریں اور اوپر سے نیچے کی طرف اور نیچے سے اوپر کی طرف حرکت نہ کریں.تو ایک صحت مند جو خدا تعالیٰ نے نظام جاری رکھا ہے Ventilation کا وہ اس افطاری کے تعلق میں بھی پیش نظر رہنا چاہئے اور اس طرح اگر آپ کچھ نہ کچھ نئے لوگوں کو بھی ڈھونڈ لیں جو آپ کے دائرے سے باہر ہیں اور نسبتاً غریبانہ حالت ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ بات ایک مزید نیکی کا موجب بنے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس ہے.آپ فرماتے ہیں حدیث شریف میں

Page 58

خطبات طاہر جلد 16 52 42 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا پھر اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ: 289) یہ جو دو قسم کے انسانوں کا ذکر ہے دراصل یہ اللہ کے تعلق میں لازماً یہی مضمون ہے جو رمضان کے ساتھ گہراتعلق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہی مضمون ہے جو رمضان کے حوالے سے سمجھانا بہت ضروری تھا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ جو بات بیان فرمائی ہے کہ والدین کو پایا اور گناہ بخشے نہ گئے اسی حالت میں رمضان گزر گیا یہ بہت ہی گہرا نکتہ ہے جس کا قرآنی تعلیم سے تعلق ہے.قرآن کریم فرماتا ہے قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا به شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (الانعام: 152) تو کہہ دے کہ آؤ میں تمہیں وہ بات بتاؤں جو خدا تعالیٰ نے حرام کر دی ہے تم پر.ایک یہ کہ خدا کا شریک نہیں ٹھہرانا.اپنی عبادت کو اسی کے لئے خالص کرلو.دوسرا یہ کہ ماں باپ سے لازماً احسان کا سلوک کرنا ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کر کے خدا کی ناراضگی نہ کما بیٹھنا.تو شرک کا مضمون خدا تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ میرا شرک کرو گے تو یہ بہت ہی بڑا گناہ ہوگا.حرام کر دیا ہے تم پر لیکن ماں باپ سے جو احسان کرو گے وہ میرا شریک بنانا نہیں ہے.شرک سے نیچے نیچے اگر کسی کی عظمت خدا تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے تو وہ ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی ہی نہیں اس سے بڑھ کر ان سے حسن سلوک کرنا ہے.پس حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ رمضان شریف میں دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں جو نہ خدا کو پاسکیں نہ ماں باپ کا کچھ کرسکیں رمضان گزر جائے اور ان دو پہلوؤں سے ان کے گناہ بخشے گئے ہوں تو یہ دوالگ الگ چیزیں نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط چیزیں ہیں.وجہ یہ ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے اور اس احسان میں اور کوئی شریک نہیں ہے.یعنی اس نے آپ کو پیدا کیا اس نے سب کچھ بنایا اور ماں باپ بھی اس میں شریک ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ کو بھی اسی نے بنایا اور ماں باپ کو جو تو فیق بخشی آپ کو پیدا کرنے کی وہ اسی نے پیدا کی ہے، اپنے طور پر تو کوئی کسی کو پیدا کر ہی نہیں سکتا اپنے زور سے.ایک معمولی سا خون کا لوتھڑا بھی انسان پیدا نہیں کر سکتا اگر خدا تعالیٰ نے اس کو ذرائع نہ بخشے ہوں.

Page 59

خطبات طاہر جلد 16 53 خطبہ جمعہ 17 /جنوری 1997ء تو پہلا مضمون یہ ہے کہ اللہ خالق ہے اس لئے اس کا شریک ٹھہرانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے اور سب سے بڑا ظلم ہے کہ خدا جس نے سب کچھ بنایا ہو اس کو نظر انداز کر کے نعمتوں کے شکریے دوسروں کی طرف منسوب کر دئیے جائیں.پھر اس تخلیق کا اعادہ ماں باپ کے ذریعے ہوتا ہے اور پھر ماں باپ کے ساتھ آپ کا وجود بنتا ہے.اگر ایک تخلیق کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ احسان کا سلوک کریں گے تو یہ جو عظیم خالق ہے لازماً اس کے لئے بھی دل میں امتنان اور احسان کے جذبات زیادہ زور کے ساتھ پیدا ہوں گے اور پرورش پائیں گے، پس یہ دو مضمون جڑے ہوئے ہیں.جو ماں باپ کے احسان کا خیال نہیں کرتا اور جوابا ان سے احسان کا سلوک نہیں کرتا اس سے یہ توقع کر لینا کہ وہ اللہ کے احسانات کا خیال کرے گا، یہ بالکل دور کی کوڑی ہے.پس ماں باپ کا ایک تخلیقی تعلق ہے جسے اس مضمون میں ظاہر فرمایا گیا ہے اور رمضان مبارک میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مقصد خدا تعالیٰ کو پانا قرار دے دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے.پس اس تعلق سے حضرت محمد رسول اللہ علہ جوسب سے زیادہ قرآن کا عرفان پلائے گئے آپ نے یہ مضمون ہمارے سامنے اکٹھا پیش کیا کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت ہر قسم کے محسنوں کا احسان اتارنے کی کوشش کرو.ماں باپ کا احسان تو تم اتار سکتے ہو ان معنوں میں کہ تم مسلسل ان سے احسان کا سلوک کرتے رہو، عمر بھر کرتے رہو.اگر احسان نہ بھی اترے تو کم سے کم تم ظالم اور بے حیا نہیں کہلاؤ گے.تمہارے اندر کچھ نہ کچھ طمانیت پیدا ہوگی کہ ہم نے اتنے بڑے محسن اور محسنہ کی کچھ خدمت کر کے تو اپنی طرف سے کوشش کر لی ہے کہ جس حد تک ممکن تھا ہم احسان کا بدلہ اتاریں.اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا اور ایک ہی طریق ہے کہ ہر چیز میں اپنی عبادت کو اس کے لئے خالص کر لو، اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ.اب یہ جو مضمون ہے کوئی شریک نہ ٹھہراؤ اس کو انشاء اللہ میں آئندہ خطبے میں آپ کے سامنے بیان کروں گا اور اس حدیث کے حوالے سے باقی مضمون انشاء اللہ اگلے خطبہ میں آپ کے سامنے کھولوں گا.تو اس طرح میں چاہتا ہوں کہ رمضان کے مہینے خطبوں میں رمضان کے فلسفہ، اس کی روز مرہ کی افادیت اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے طریق آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں.اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے.آمین

Page 60

Page 61

خطبات طاہر جلد 16 55 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے احتساب ضروری ہے.( خطبه جمعه فرموده 24 جنوری 1997ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَقُكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (الانعام: 152) پھر فرمایا: گزشتہ خطبے پہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس کے تعلق میں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث بیان فرمائی تھی میں نے یہ آیت پڑھی تھی اور اس کا تعلق جوڑ کر آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ انشاء اللہ آئندہ خطبے کے موقع پر میں اس مضمون کو مزید کھولوں گا.دراصل اس آیت کا جو پہلا حصہ ہے وہ پیش نظر ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے.قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ تو کہہ دے کہ آؤ میں تمہیں پڑھ کے سناتا ہوں کہ تمہارے رب نے کیا حرام کر دیا ہے آلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا کہ اس کا شریک نہیں ٹھہرانا.

Page 62

خطبات طاہر جلد 16 56 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء ہرگز کسی قیمت پر کسی قسم کا کوئی شریک خدا کا نہیں ٹھہراؤ گے.وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا اور والدین پر احسان.اس سے پہلے اس آیت پر ایک خطبہ کے دوران میں نے اس مضمون کو کھولا تھا کہ بظاہر تو یوں لگتا ہے جیسے احسان بھی حرام کر دیا گیا ہے اور نیا ایک فعل بیچ میں نہیں آیا اور یہ حکم دیا کہ تم احسان کرو.تو اس کے مختلف پہلو ہیں جن کے اوپر علماء بحث کر چکے ہیں.اکثر وہ اس حکم کو حذف مانتے ہیں اور کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ شرک حرام اور والدین کی اطاعت اور ان کی فرمانبرداری، ان سے حسن سلوک ، احسان یہاں مفعول یہ بن جائے گا، ان سے احسان کرنا فرض ہو گیا ہے لیکن ایک اور پہلو سے اگر احسان کے لفظ کو وسیع معنوں میں دیکھا جائے تو اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں نمازوں میں احسان کرنے کی خصوصیت کے ساتھ تاکید فرمائی.پس والدین سے احسان اور معنوں میں ہوگا اور خدا تعالیٰ سے احسان اور معنوں میں اور دونوں کا اصل بنیادی تعلق احسان ہی سے ہے.یعنی ایک احسان کے بدلے احسان کی کوشش کرنا.تو اس طرح اگر اس آیت کو بعینہ ظاہری لفظوں میں دیکھا جائے تو یہ مطلب بنے گا.قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ تم پر حرام کر دیا ہے اللہ نے کہ خدا کا شریک ٹھہراؤ یا دنیاوی تعلقات میں والدین کا شریک ٹھہراؤ کیوں کرو ایسا اِحْسَانًا.احسان کے پیش نظر کیونکہ اللہ کا بھی ایک ایسا احسان ہے تم پر جس میں کوئی کائنات میں اور شریک نہیں ہے بلکہ ساری کائنات اس کے احسان کا ایک مظہر ہے.تم پر احسان کیا تو کائنات وجود میں آئی تم پر احسان کرنا مقصود تھا تو کائنات کو پیدا کیا گیا.تو اتنے بڑے احسان کے بدلے اگر تم اس کے شریک ٹھہرانے لگو تو اس سے زیادہ بے حیائی اور ناشکری اور ممکن ہی نہیں ہے اور تمہیں وجود کی خلعت بخشی ماں باپ نے.ماں باپ نہ ہوں تو تمہاری دنیا وجود میں نہ آئے.تو یہ دونوں اقدار مشترک ہیں، مشتر کہ اقدار ہیں.خدا تعالیٰ کی تخلیق میں اور ماں باپ کے اپنے بچوں کو پیدا کرنے میں یہ دونوں قدرمشترک ہیں اور جو احسان فراموش ہیں وہ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں ہم نے کب خدا سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کرو اور ماں باپ کے متعلق بھی کہتے ہیں اپنی خاطر کیا ہے ہم پر مفت کا احسان ، ہم نے کب کہا تھا پیدا کرو.اگر اپنی خاطر پیدا کیا تھا جو کچھ بھی کیا تو اس لوتھڑے کو سینے سے لگائے کیوں

Page 63

خطبات طاہر جلد 16 57 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء پھرے، کیوں اس کی تکلیفیں برداشت کیں ، کیوں اس کو پال پوس کر پیار سے جو چیزیں اپنے اوپر خرچ کر سکتے تھے اپنی ذات کی قربانی کی ان پر خرچ کیں، بچپن سے کتنے نخرے برداشت کئے.یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اپنی خاطر نہیں کیا، تمہاری خاطر ہی کیا ہے اور احسان جو ہے وہ ان دونوں صورتوں بس بے مثل ہے کسی اور رشتے میں وہ احسان دکھائی نہیں دیتا جو خدا کے احسان سے مشابہ ہو جو ماں باپ اور بچے کے رشتے میں دکھائی دیتا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے اگر آپ غور کریں اس پر تو بڑے عظیم مطالب اس سے نکلتے ہیں.بنیادی طور پر احسان فراموشی کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے.بنیادی طور پر احسان نا فراموشی کی تاکید فرمائی گئی یا احسان فراموشی کو حرام کر دیا، ایک ہی بات ہے.احسان فراموشی کو حرام کر دیا یہ بیان کرنا چاہتا ہوں میں.پس ان دونوں باتوں کا اس عبارت سے تعلق ہے جو میں نے پچھلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الفاظ میں آپ کو پیش کی تھی اور دراصل وہ ایک حدیث کے مضمون سے متعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا، پھر رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے“.(ملفوظات جلد 4 صفحہ: 289) تو ان دونوں میں قدر مشترک وہی ہے جو میں نے اس آیت کے حوالے سے بیان کی ہے کہ احسان کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان جو کچھ بھی اپنے محبت اور خلوص کا اظہار کرتا ہے اس کو احسان کے بدلے احسان کے مشابہ تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر احسان کے بدلے وہ احسان چکایا نہیں جاسکتا.پس اس آیت کریمہ میں جس طرح میں ترجمہ کر رہا ہوں وہاں اِحْسَانًا کا مطلب ہوگا اللہ اور ماں باپ کے احسان کو پیش نظر رکھتے ہوئے، جو احسان تم پر ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کام کرو تم پر حرام کر دیا گیا ہے کہ اس احسان کو بھلا دو.اور دوسرا معنی یہ ہوگا کہ تم احسان کا بدلہ احسان سے دو.ماں باپ کے احسان کا بدلہ احسان سے دینا.یہ مضمون تو کسی حد تک سمجھ میں آجاتا ہے مگر اللہ کا بدلہ احسان سے کیسے دو.یہ مضمون حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ نے ہمیں سمجھا دیا اور یوں سمجھایا کہ نماز میں اس طرح نمازیں ادا کرو، اس طرح حضور اختیار کر و خدا کے سامنے کہ گویا وہ تمہیں سامنے کھڑا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اتنا ہی خیال رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.یہ جو احسان ہے یہ کامل

Page 64

خطبات طاہر جلد 16 58 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء توحید کا مظہر ہے.جب دوسرے سب خدا مٹ جاتے ہیں، جب تمام تر توجہ خدا کی طرف ہو جاتی ہے اس وقت یہ احسان ہوتا ہے اس کے بغیر ہو نہیں سکتا.تو مضمون وہی تو حید ہی کا مضمون ہے.نماز کے دوران سوائے خدا کے کوئی چیز سامنے نہ رہے اور جب کوئی بڑا آدمی سامنے کھڑا ہو جس کے حضور آپ پیش ہورہے ہوں تو اس وقت در حقیقت دوسرے سب خیال مٹ جایا کرتے ہیں صرف حضوری کا خیال ہے جو انسان پر قابض ہو جاتا ہے.پس شرک کے مضمون کی نفی اس احسان کے ذریعے فرمائی گئی جو حضور اکرم ﷺ نے نماز کے حوالے سے ہمارے سامنے کھولا.تو احسان کا مضمون ہے تو وہی لیکن مختلف مواقع پر، مختلف صورتوں پر چسپاں ہو گا اور موقع اور محل کے مطابق اس کے معنی کئے جائیں گے.پس یہ وہ دو باتیں ہیں جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب آپ غور کریں اس حدیث پر کہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے.اب یہاں جو گناہ بخشنے والا مضمون ہے اس کا تعلق ایک اور حدیث سے بھی ہے جس میں اس کی تشریح فرمائی گئی ہے کہ رمضان کا مہینہ جب گزرتا ہے تو کیا ہونا چاہئے.یہ چونکہ پہلی حدیث بھی رمضان کے مہینے سے تعلق رکھتی ہے یہ بھی رمضان کے مہینے سے خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بخاری کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ایمان کے تقاضے اور احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.اب یہاں لفظ احتساب استعمال ہوا ہے.اصل الفاظ یہ ہیں من قام رمضان ايماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه _ لفظ احتساب کا ترجمہ جہاں جہاں بھی میں نے دیکھا ہے ہر جگہ ثواب کی نیت سے کر دیا گیا ہے.”اجر کی نیت سے کر دیا گیا ہے جو اس موقع پر بالکل بے تعلق ترجمہ ہے.اجر کی نیت سے تو آدمی ہر چیز کرتا ہی ہے اس میں کیا خلوص پایا جاتا ہے.آپ تو جہاں تک ممکن ہوانگی بھی نہ ہلائیں اگر اجر کا مقصد نہ ہو.آپ جب کان پہ خارش کرنے کے لئے بھی انگلی ہلاتے ہیں تو اجر ہوتا ہے جس کے پیش نظر آپ یہ کام کرتے ہیں ورنہ بیٹھے بیٹھے کیا ضرورت ہے حرکت کرنے کی.تو اجر تو ایک عام چیز ہے.اجر کی خاطر اگر ایسا کرو گے تو پھر تمہیں بخشا جائے گا

Page 65

خطبات طاہر جلد 16 59 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء بالکل بے تعلق مضمون ہے.پس میں نے ڈکشنری کو غور سے دیکھا،مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ دھو کہ اس لئے لگا ہے کہ احتساب کے ساتھ اگر اجر کا لفظ آئے تو پھر ثواب کی خاطر مراد ہوتی ہے اور اگر بغیر کسی لفظ کے احتساب آئے تو وہاں حساب کرنا Accounting اور شمار کرنا اپنا، ایک ایک چیز کا جائزہ لینا یہ مراد ہوتی ہے.چنانچہ محتسب، شہر کے محتسب کا نام آپ نے سنا ہوا ہے شعروں میں بہت ذکر آتا ہے.جو شخص لوگوں کا حساب کرتا پھرے کہ کوئی کیا کر رہا ہے ایک انسان جو روزانہ اپنے کھاتے لے کر بیٹھتا ہے حساب کرتا ہے کہ کیا پایا اور کیا کھویا یہ سب لفظ احتساب کے تابع آتا ہے.پس جو چوٹی کی لغات ہیں وہ اس فرق کو نمایاں کرتی ہیں.کہتی ہیں احتساباً خالی ، جب اکیلا آئے تو اس سے مراد اول طور پر حساب کرنا ہے کیونکہ لفظ احتساب، حساب ہی سے نکلا ہوا ہے.پس حساب کرو.احتساب کا مطلب ہے اپنے اوپر حساب کو چسپاں کر کے خود اپنا تنقیدی جائزہ لو.اب اتنا عظیم الشان مضمون ترجمہ کرنے والوں نے کس طرح نظر سے اوجھل کر دیا جب بار بار یہ کہا گیا کہ ثواب کی خاطر“.تو ثواب کی خاطر تو ہر چیز کرتے ہیں کون سی چیز ہے جو ثواب کے بغیر کرتے ہوں.تو مراد ہے احتساب کی خاطر ، جب اپنے نفس کا احتساب کرو گے کہ تم کس حالت میں ہو، روزانہ کیا تمہارا مشغلہ ہے، کیا کیا کام جو برے کام تھے تم نے اب رمضان میں چھوڑنے شروع کر دیئے ہیں.کیا کیا کام جو اچھے تھے ان کو پہلے سے زیادہ حسین کر کے تم نے ان پر عمل شروع کیا ہے اس کو احتساب کہتے ہیں.تو یہ مضمون بڑی خوبصورتی کے ساتھ ، بلکہ ایک نئی شان کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے جب ہم احتساب کا صحیح ترجمہ کریں.تو مراد یہ ہے کہ جو شخص ایمان کے تقاضے پورا کرتا ہوا لفظ بھی بات مبہم کرنے والا ہے، جو اللہ پر ایمان کی خاطر ایسا کرتا ہے.اب یہ جو پہلا لفظ ہے یہی آنکھیں کھولنے کے لئے بہت کافی ہے.بہت سے لوگ روزے رکھتے ہیں تو رسماً روزے رکھتے ہیں.بہت سے لوگ روزے رکھتے ہیں لیکن پورا خدا پر ایمان نہیں ہوتا.جب بھی رمضان ختم ہو تو واپس انہی پہلی منفی حالتوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور خدا کے بغیر جوان کی زندگی ہے وہ از سرنو پھر شروع ہو جاتی ہے.ادھر رمضان ختم ہوا ادھر پرانی زندگی لوٹ آئی.یہ جو بات ہے بہت گہری بات ہے.آنحضرت ﷺ کے الفاظ کو کبھی بھی ملکی نظر سے نہ

Page 66

خطبات طاہر جلد 16 60 خطبہ جمعہ 24/جنوری 1997ء دیکھیں بہت ہی گہرے مضامین لئے ہوئے ہوتے ہیں.تو پہلی بات یہ ہے ایمانا.اب ماں باپ کا ذکر میں سر دست چھوڑ رہا ہوں رمضان کی طرف آ رہا ہوں یعنی پہلا جزو جو ہے جس میں اگر آپ کے گناہ بخشے نہ جائیں تو گویا عمر ضائع ہوگئی.رمضان ضائع ہو گیا یا عمر ضائع ہوگئی ایک ہی بات ہے.ماں باپ گزر جائیں اور گناہ بخشے نہ جائیں تو وقت ضائع ہو گیا یا عمر ضائع ہوگئی دونوں ایک ہی باتیں ہیں.ماں باپ کے تعلق میں کیا کیا کرنا چاہئے یہ ایک الگ تفصیلی مضمون ہے.چونکہ رمضان میں بات ہورہی ہے، رمضان کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اس لئے میں رمضان کے تعلق میں اس مضمون کو مزید کھولتا ہوں.ايمانا یعنی اللہ پر ایمان ہے اس لئے روزے رکھ رہا ہوں.یہ ایک بہت ہی اہم مضمون ہے.سب سے پہلے اپنی نیتوں کو پرکھ کر دیکھیں اور غور کریں کہ واقعہ اللہ پر ایمان کے نتیجے میں روزہ ہے تو ایمان کے تقاضے بھی پورے کرتے ہیں کہ نہیں.وہ ایمان جو فرضی ہو جس میں تقاضے پورے نہ کئے جائیں اس ایمان کا فائدہ کیا اور ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے احتساب ضروری ہے اس لئے ایمانا واحتساباً کے دو لفظوں کو اکٹھا جوڑ دیا گیا ہے اور مضمون کو مکمل کیا گیا ہے اور یہی بات ہے جس کی طرف میں نے آپ کو پچھلی دفعہ بھی توجہ دلائی تھی مگر اب میں شرک کے حوالے سے اس مضمون کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں.احتساب یہ کریں کہ کوئی بھی شرک کا پہلو آپ کی اس نیکی میں باقی نہ رہے اور شرک کے تو پہلو آئے دن داخل ہوتے ہی رہتے ہیں اور آدمی سوچتا بھی نہیں کہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس میں ایک شرک کا پہلو تھا.جو شخص اللہ کی خاطر روزے رکھتا ہے اور روزانہ یہ حساب کرتا ہے کہ میرا وزن کتنا کم ہوا ہے اور کچھ چربی گھٹی کہ نہیں گھٹی وہ روزے کے اندر اپنے وزن کے گرانے کی ملونی کو بھی داخل کر لیتا ہے اور بظاہر بطور گناہ اس کو احساس بھی نہیں ہوتا اور اگر سرسری جائزہ لے تو گناہ ہے بھی نہیں ایک زائد فائدے کی طرف توجہ ہو جاتی ہے.مگر اگر رمضان خالصہ نہیں تو بہت حد تک اس نیت سے منایا جائے کہ انسان اس موقع پر فائدہ اٹھائے جب سب فاقے کر رہے ہیں اس لئے فاقہ کرنا آسان ہو جائے گا اور ان فاقوں کے دوران اپنی Waist Line کم کی جائے اور وزن گرایا جائے تو کون کہہ سکتا ہے یہ گناہ ہے.گناہ تو نہیں ہے لیکن رمضان کو ایمان نہیں کہہ سکتے.اس رمضان کا

Page 67

خطبات طاہر جلد 16 61 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء ایک جسمانی فائدے سے تعلق تو تھا لیکن آپ کے ایمانی فائدے سے کوئی تعلق نہیں تھا.پس رمضان کو ایما نا ر کھنے میں ایک تجزیہ یہ ہے کہ شرک کی نفی ہر پہلو سے کی جائے.جب آپ خدا کی خاطر کھاتے ہیں اور خدا کی خاطر کھانا چھوڑتے ہیں پر ایمانا ہے.تو جب آپ کھاتے ہیں تو کیا ہر لمحہ، ہر لقمے پر خدا کی طرف دھیان جاتا ہے، انسان کا دل جذبات تشکر سے ممنون ہو جاتا ہے کہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے میری بھوک کو مٹایا ، میری پیاس کو بجھایا اور یہ ساری نعمتیں جن کو آئے دن میں استعمال کیا کرتا تھا مگر بیدار مغزی کے ساتھ متوجہ نہیں ہوا کرتا تھا اب رمضان کی نعمت، رمضان کی برکت نے مجھے متوجہ کر دیا ، مجھے بیدار کر دیا کہ یہ جو میں آئے دن سمجھتا تھا کہ یہ روز مرہ میرا حق ہے اب پتا چلا کہ حقوق کوئی بھی نہیں اللہ کی طرف سے عطا ہو تو حق ہے ورنہ کچھ بھی نہیں اور یہ جو خیال ہے یہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے شرک ہر بدی کی نفی کرنے والی چیز ہے.اس کے ساتھ دوسرے خیالات بھی آجاتے ہیں اور آنے چاہئیں اور یہی احتساب ہے جس کا ایمان کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا گیا ہے.ایک تاجر کو اس وقت یہ سوچنا چاہئے کہ مجھے جو جن کھانوں کو میں جائز سمجھتا ہوں اور جائز تھے بھی ان کو جب خدا نے کہا رک جاؤ تو ان کے کھانے سے میں رک گیا.جس پانی کو میں اپنا زندگی کا بنیادی حق سمجھتا تھا جب خدا نے فرمایا اس کے پینے سے رک جاؤ میں رک گیا تو جو پانی میں نے پہلے پیئے وہ سب حلال ہو گئے ، جو کھانے میں نے پہلے کھائے وہ سب جائز ہو گئے لیکن کیا جس کھانے سے میں روزے کی سحری کر رہا ہوں یا افطار کر رہا ہوں اس میں خدا کی رضا شامل ہے بھی کہ نہیں.یہ احتساب کا اگلا قدم ہے.کوئی بددیانت تاجر طمانیت قلب کے ساتھ رمضان گزار ہی نہیں سکتا اگر روزانہ صبح و شام صرف سحری اور افطاری کے وقت ہی اپنا احتساب کر لے اور اس پہلو سے کرے جیسا میں بیان کر رہا ہوں.روزے ایمانا ر کھے ہیں تو پھر ایمان کو جانچنا ہوگا.اللہ کی خاطر رکا ہوں تو اچھا اب تو رکا ہوں کل کیوں نہیں رکا تھا اور کل کیوں نہیں رکوں گا.میں انتظار کر رہا ہوں کہ رمضان گزرے تو ان پابندیوں کی مصیبت سے نجات ملے اور پھر وہی تجارتیں شروع ہو جائیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں بلکہ بعض لوگ تو اس کا بھی انتظار نہیں کرتے.روزہ ختم ہوا تو پھر دنیا کے کاروبار اور ان کے ساتھ جتنی بھی

Page 68

خطبات طاہر جلد 16 62 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء بدد یا نتیاں ملوث ہیں وہ ساری دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں.تو ساری زندگی کے ساتھ یہ تعلق ہے.جس نے رمضان کو پایا اور ایمانا اور اِحْتِسَاب رمضان کا حق ادا نہ کر سکا اس کی تو ساری عمر ضائع گئی.ماں باپ جس طرح آگے نکل جاتے ہیں ہاتھ سے اس طرح ہر دفعہ رمضان ایک زندگی لے کر آتا ہے اور ہر دفعہ وہ زندگی واپس لے کے چلا جاتا ہے اگر آپ اس زندگی کے اوپر مضبوطی سے اپنا ہاتھ نہ ڈال دیں اس کو چمٹ نہ جائیں اور وہ اسی طریقے سے ممکن ہے.پس ایک رمضان اگر کامیابی سے گزر جائے تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہے جیسے ساری زندگی اس کی کامیاب ہو گئی ، سارا سال کامیاب ہو گیا.یہ الفاظ ہیں رمضان اچھا گزرا تو سارا سال اچھا گزر گیا.اس کا بھی اسی مضمون سے تعلق ہے کہ رمضان آپ کی زندگی سنوارنے کے لئے کئی قسم کی نعمتیں سجا کر لاتا ہے اور ان نعمتوں کی طرف تو آپ دیکھتے بھی نہیں مگر سحری اور افطاری کی ستیں صرف دکھائی دے رہی ہوتی ہیں.حالانکہ جو نعمتیں دوسری ہیں یہ تقویٰ کے خیالات کی نعمتیں ہیں.یہ احتساب کی نعمتیں ہیں اگر کسی کو نصیب ہو جا ئیں تو بلاشبہ اس کی ساری زندگی سنور سکتی ہے.تو اس پہلو سے آپ اپنے رمضان کا جائزہ لیں اور اپنے اردگر دو پیش بھی نظر رکھتے ہوئے اپنے اہل وعیال کے رمضان کا بھی جائزہ لیتے رہیں.اپنے دوستوں، احباب کے رمضان کا بھی جائزہ لیتے رہیں اور منفی تنقید کی خاطر نہیں بلکہ مثبت رنگ میں ، اچھے رنگ میں ان کو رمضان کے فوائد سمجھانے کی خاطران کے سامنے یہ باتیں کیا کریں اور اپنے گھر میں ان باتوں پر غور کی عادت ڈالیں.بچے جو ہیں وہ بھی بعض دفعہ بڑا گہرا غور کرتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے بچے ہیں ان کو کیا پتا لگا لیکن فی الحقیقت وہ بہت گہرا غور کر رہے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ وہ جب بولتے ہیں تو آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بات کر دی ہے.پچھلے دنوں ایک درس کے دوران جب میں نے کہا یہ بڑے بڑے کبائر ہیں ان میں ایک یہ تھا کہ ماں باپ کی نافرمانی نہیں کرنی اور دو تین باتیں جو بیان کی تھیں ان میں ایک یہ تھی.ایک بچہ اپنی ماں کے سامنے بلبلا کے رویا ہے کہ میرا اللہ مجھے جہنم میں ڈال دے گا.یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے.آپ نے سنا نہیں درس حضور کا ، چھوٹا سا بچہ بالکل، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو نا فرمانی کرتا ہے وہ بڑا گناہ کرتا ہے اس کو اللہ جہنم میں ڈال دیتا ہے تو اس بے چارے کو اپنی نافرمانیاں یاد آ گئیں چھوٹی سی معصوم عمر میں کبھی ایک بات

Page 69

خطبات طاہر جلد 16 63 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء نہیں مانی باپ کی کبھی دوسری ،کبھی ماں کی کوئی بات نہیں سنی ، اسی کو احتساب کہتے ہیں.تو احتساب تو ایک بچہ بھی کرتا ہے اور بچے کے احتساب میں زیادہ معصومیت ہوتی ہے.آپ بھی اس طرح احتساب کریں اس کے نتیجے میں لازم ہے کہ آنکھوں سے آنسو بھی بہیں گے اپنی ساری زندگی کے خلاء آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جائیں گے بہت سی نیکیاں بجالاتے رہے مگر ایسے ہی جیسے صحرا میں بیج پھینک دیئے اور مڑ کے نہیں دیکھا کہ اگا بھی تھا کہ نہیں اور ا گا تھا تو کیا بنا اس کا.تو انسان ساری زندگی اپنی نیکیاں اس طرح ضائع کرتا پھرے تو وہ خدا کو کیسے پائے گا جو روزے کی جزاء ہے.پس رمضان شریف میں خصوصیت کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم احسان کا سلوک کروان معنوں میں کہ خدا کو سامنے رکھ لو اور یہ مضمون بھی آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا ہے.فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر نیکی کی ایک جزاء میں نے بنارکھی ہے اور روزے کی جزاء میں ہوں تو وہ جو احسان کا مضمون میں نے آپ کے سامنے کھولا ہے اسی کی تصدیق فرما رہے ہیں آنحضرت یہ صرف خدا سامنے رہ جائے اور کچھ نہ رہے اگر اس طرح رمضان گزار و اور بالآخر صرف وہی رہے اور کچھ نہ رہے تو تم سمجھو کہ تم کامیاب ہو گئے ہو تمہاری ساری زندگی کامیاب ہوگئی ہے.پھر جب خدا اپنے موحد بندے کو ملتا ہے تو پھر ساری کائنات اس بندے کو مل جاتی ہے کیونکہ خدا کا جو کچھ ہے وہ اس کا ہو جاتا ہے.پس احادیث میں کوئی مبالغے نہیں ہیں جو فر مایا جاتا ہے کہ تم یہ کرو تو تمہاری ساری زندگی سنور گئی.اس طرح سنورتی ہے مگر جو زندگی سنور جاتی ہے پھر وہ دوبارہ بدزیب ہونے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہوتی یعنی اس زندگی میں صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی کہ سنور نے کے بعد دوبارہ داغدار ہو، یہ مضمون بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے.چنانچہ رمضان اچھا گزر گیا تو سال اچھا گزر جائے گا اس میں یہی اشارہ ہے دراصل کہ رمضان میں جو تم نے نیکیاں حاصل کی ہیں جن بدیوں سے نجات حاصل کی ہے وہ متقاضی ہیں ،اگر وہ مخلصانہ تھیں، کہ تمہارا سارا سال ان باتوں میں بالکل اسی طرح صاف ستھرا رہے.لوگ یہ مضمون تو سوچتے نہیں، اجر کی طرف مائل رہتے ہیں اور ہر دفعہ احتساب کا معنی بھی اجر اور دوسری باتوں میں بھی اجر کی طرف دماغ ایسا اٹکا رہتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ایک مہینہ، چند دن کی نیکیاں کر لو تو سارا سال اجر کھاتے رہو گے اور پھر جتنی بدیاں کرتی ہیں شوق سے کرو، رمضان کا اجر کافی ہو گا کہ تمہیں ان بدیوں

Page 70

خطبات طاہر جلد 16 64 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء کا نقصان نہ پہنچنے دے، مزے کرو پھر.یہ بے تعلق بات ہے اس کا آنحضرت ﷺ کی حکمت کا ملہ سے کوئی بھی تعلق نہیں.آنحضور علے تو اللہ کے نور سے دیکھنے والے وجود ہیں اور جو خدا کے نور سے دیکھتا ہے وہ صلى الله حکمت سے عاری بات کیسے کر سکتا ہے.پس حضور اکرم ﷺ رمضان کے تعلق میں جب فرماتے ہیں کہ رمضان اچھا گزر گیا تو سال گزر گیا یہی مضمون جب لیلۃ القدر کے حوالے سے آپ کے سامنے آئے گا تو پتا چلے گا کہ پھر ایک رمضان کی ، ایک سال کی بات نہیں رہے گی وہ رات اچھی گزر گئی تو ساری زندگی اچھی گزرگئی.پس جہاں رمضان کا ایک مہینہ ایک سال پر اپنی نیکیوں اور خوبیوں کے لحاظ سے پھیل جاتا ہے وہاں لیلتہ القدر کی ایک رات ساری زندگی پر اپنے نور کے ساتھ پھیل جاتی ہے.وہ صبح طلوع ہوتی ہے جو پھر موت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے بیچ میں کبھی کوئی اور رات نہیں آتی.سیہ وہ مضامین ہیں جو رمضان کے تعلق میں آپ کو گہری نظر سے دیکھنے چاہئیں اور روزمرہ کی زندگی میں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کرنا چاہئے اور طریق کار کیا کیا ہیں احتساب کے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے احتساب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نمازیں پڑھتا ہے.پس راتوں کو اٹھنا عبادت کی خاطر اور عبادت اس لئے کرنا کہ اپنا احتساب کریں یہ وہ مضمون ہے جس کو حضوراکرم علیہ نے کھولا ہے اور اس کے نتیجے میں استغفار، بخشش ہوتی ہے.یہ نہیں کہ اجر کی خاطر کرو تو بخشے جاؤ گے اس طرح رمضان گزارو تو پھر بخشش ہوگی.صلى الله اور اس بخشش کا مرتبہ اور مقام کیا ہے اس کو بیان کرتے ہوئے نسائی کتاب میں حضرت عبدالرحمن بن عوف کی یہ روایت ہے کہ جو شخص رمضان کے مہینے میں حالت ایمان میں احتساب کرتے ہوئے روزے رکھتا ہے اور اخلاص کی خاطر ، اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا یعنی پیدائش کے وقت جس طرح وہ گناہ کے داغوں سے بالکل معصوم اور پاک ہوتا ہے گویا ایک نئی روحانی پیدائش اس کو نصیب ہوتی ہے جس میں کوئی بھی پرانا داغ باقی نہیں رہتا.تو ہر سال پیدا ہو کر پھر کیا ہر سال مرنا ہی آپ نے اپنا مقدر بنانا ہے.ایک دفعہ پیدا ہو گئے یعنی روحانی دنیا میں تو اس معصومیت کو

Page 71

خطبات طاہر جلد 16 65 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء برقرار رکھنا ایک بڑا اہم تقاضا ہے اور راتوں کو اٹھ کے جو احتساب کیا جاتا ہے وہ اس پہلو سے احتساب کیا جاتا ہے.اس کے طریق کار میں غالباً پہلے بعض خطبات میں بیان کر چکا ہوں لیکن آج خصوصیت کے ساتھ آپ کے سامنے رات کی نمازوں کا طریق بیان کرتا ہوں کیسے پڑھی جانی چاہئیں.احتساب کے لئے تو باقی سارا قرآن کریم ہے ہی مگر ایک سورۃ فاتحہ ہی کافی ہے.سارے قرآن کریم کے مضامین کی کنجیاں سورہ فاتحہ میں ہیں اسی لئے اس کا نام فاتحہ بھی ہے یعنی کھولنے والی.وہ کتاب جس کے اندر ہر نیکی کی کنجی، ہر معرفت کی کنجی ہے اور سارے قرآن کی کنجی اس میں ہے.پس اس پہلو سے اگر آپ سورۃ فاتحہ ہی کو اس رمضان میں اپنا مطمح نظر بنالیں اور سورہ فاتحہ پر غور کرتے کرتے اپنی راتیں گزاریں تو بہت ہی کامل عبادت ہے اور کوئی پہلو بھی آپ کی ضرورت کا باقی نہیں رہے گا جو سورۂ فاتحہ کے حوالے سے پورا نہ ہو جائے ناممکن ہے کہ اس سے آپ کو رمضان کے اعلیٰ مقاصد حاصل نہ ہوں اور اس طرح غور کرتے ہوئے اگر آپ رمضان گزاریں گے تو واقعہ وہ عید جو بعد میں آنے والی ہے وہ آپ کی پیدائش کی عید بن جائے گی.ایک نئی روحانی پیدائش ہوئی ہے جس طرح اس پر خوشیاں منائی جاتی ہیں گویا عید ہر اس مومن کی پیدائش کی عید بن جاتی ہے جو رمضان مبارک میں روحانی طور پر دوبارہ پیدا ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ میں سب سے پہلے تو خدا تعالیٰ کی صفات ہیں اور اکثر انسان چونکہ روز پڑھتے ہیں اس لئے روز ایک غفلت کی نظر کے ساتھ گزرنا شروع کر دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں یہ چار صفات تو ہم نے پڑھی ہوئی ہیں بار بار پڑھتے ہیں کیا ضرورت ہے ٹھہرنے کی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ اگر ٹھہرتے ہیں تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر ٹھہرتے ہیں بس.کہ تجھ سے ہی مدد مانگیں گے اور مدد مانگ کے پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ پر بھی غور کی ضرورت نہیں کہ جس رستے کے لئے مدد مانگی ہے اس کے تقاضے کیا ہیں.تو در حقیقت سارا قرآن رمضان کی خاطر اترا ہے اور سارے قرآن کے مضامین رمضان پر اطلاق پاتے ہیں اور سورۃ فاتحہ سارا قرآن ہے یہ وہ مضمون ہے جو میں نے آپ کے سامنے کھول کے آپ کو اس سے استفادے کی نصیحت کرتا ہوں اور طریق سکھاتا ہوں.سورۃ فاتحہ آپ کی جان بن جائے ، سورۃ فاتحہ آپ کے ذہن پر چھا جائے ، آپ کے اعمال

Page 72

خطبات طاہر جلد 16 66 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء میں جاری ہو جائے تو دنیا و مافیہا سب کچھ میسر آ گیا اور قرآن کے مطالب بھی سورہ فاتحہ پر غور کرنے اور اس کی محبت کے نتیجے میں عطا ہوتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کبھی بھی کسی کو قرآن کے مطالب نصیب نہیں ہو سکتے جسے سورہ فاتحہ سے محبت نہ ہو اور جو سورہ فاتحہ کوغور کرتے ہوئے نہ پڑھے اور یہ بھی ایک چابی ہے ایسا پاک ہونے کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ قرآن کا عرفان نصیب کرے تو پہلے تو الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا مضمون ہے.روزے کے ساتھ تو ربوبیت کا خاص تعلق ہے.سب تعریف اس ذات کی ہے جو رَبُّ العلمین ہے.رَبُّ الْعَلَمِین کے مضمون پر آپ جتنا غور کریں یہ ایسا مضمون ہے ہی نہیں جو ایک نماز یا ایک رات کی نمازوں یا ساری زندگی کی نمازوں میں بھی حل ہو سکے اور اپنے اختتام کو پہنچ سکے.ربوبیت کا مضمون ساری کائنات سے تعلق رکھتا ہے اور دعویٰ بھی یہ نہیں فرمایا کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبّی میں اللہ کی مد کرتا ہوں جو میرا رب ہے.دعوی یہ فرمایا گیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.تمام جہانوں کا رب ہے تو پھر ہمیں اس سے کیا.سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے سارا جہان تعریف کرے ہم کیوں تعریف کریں لیکن جب اور غور کریں اس مضمون پر اور مزید غور کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ سارے عالمین آپ کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں قرآن کریم اس بات کو خوب کھول رہا ہے.تو جس کو حد سکھائی ہے اس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مجھے سارے جہاں کے پالنے والے کی حمد کیوں سکھائی گئی.اس لئے سکھائی گئی کہ سارے جہانوں کا رب، اس لئے سارے جہانوں کا رب ہے کہ ان جہانوں سے انسان پیدا ہونا تھا اور سارے جہانوں کی ربوبیت انسان کی طرف لے جانے کے لئے بے انتہا منازل ہیں جن کا گننا ممکن ہی نہیں ہے.آغاز آفرینش سے لے کر اس ارتقاء کے معراج تک جس پر آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اور اس معراج کے وقت پیدا ہوئے کا لفظ تو معمولی لفظ ہے اس لئے میں اس سے اجتناب کر رہا ہوں.یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ارتقاء کے معراج کے وقت جس پر آنحضرت ﷺ رونما ہوئے ، آپ جلوہ گر ہوئے ، آپ کے وجود کو ساری دنیا پر نور الہی کے طور پر روشن کر دیا گیا اس مقام تک اس سے پہلے پہلے تمام جہانوں کی جس حد تک بھی تربیت ہوئی ہے وہ ساری تربیت اسی منزل کی طرف تھی.

Page 73

خطبات طاہر جلد 16 67 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء اور آنحضرت ﷺ سے پہلے بشر پیدا ہو چکے تھے لیکن کسی بشر کو اپنی آخری منزل کی خبر نہیں تھی.کسی بشر کو یہ نہیں پتا تھا کہ رَبُّ العلمین ہے کیا.کس شان کا وجود ہے، کس طرح کے جہانوں کی ربوبیت کرتا ہے.جب یہ ربوبیت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پر منتج ہوئی ہے تب ہمیں پتا چلا کہ ربوبیت ہوتی کیا ہے اور عالمین کا خدا رحمۃ للعالمین کی ربوبیت کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے.پس الْAT A NUNTANTL ر AWALNA سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے سارے جہانوں کو پیدا کیا ان کی ربوبیت فرمائی اور ہمیں اس مقام پر کھڑا کیا اور ہمیں یہ عبادت کا طریق سکھایا کہ اب ساری کائنات کی نمائندگی میں اے محمد رسول اللہ ﷺ کے غلامو تم یہ اقرار کرو اور پورے عرفان کے ساتھ اقرار کرو کہ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعلمين رب العالمین کی طرف حمد کے سوا کچھ منسوب ہو ہی نہیں سکتا.اب اس ربوبیت پر آپ غور کریں تو دو حصے ربوبیت کے ہیں.ایک ہے مادی ربوبیت اور ایک ہے روحانی ربوبیت اور مادی ربوبیت اور روحانی ربوبیت کو آپ ایک دوسرے سے بالکل منقطع کبھی بھی نہیں کر سکتے اور یہ بہت بار یک مضامین ،سورہ فاتحہ نے ان کی طرف توجہ دلائی.قرآن کریم ان مضامین پر سے مختلف جگہوں پر مزید پردے اٹھاتا چلا جاتا ہے.یعنی چابی تو سورۃ فاتحہ کی ہے مگر جب تالے کھلتے ہیں تو نئے سے نئے جہان دکھائی دینے لگتے ہیں.یہ خیال کہ روحانی ربوبیت کا آغا ز انسان کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے یہ غلط ہے.انسان کی پیدائش پر یہ ربوبیت ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہے یہ درست ہے لیکن بنیادی طور پر اس کا حمد باری تعالیٰ کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہے.جب کوئی چیز پیدا ہو تو اس کو یہ تو پتا ہونا چاہئے کہ کس نے مجھے پیدا کیا.کیا خدا تعالیٰ شعور کی تخلیق سے پہلے پہلے ایک نامعلوم ہستی تھی یہ سوال ہے جو قرآن کریم نے اٹھایا ہے اور پھر جواب اس کا یہ دیتا ہے کہ جو چیز بھی کائنات میں پیدا کی گئی ہے شعور ہو یا نہ ہو، جان ہو یا نہ ہو، ہر چیز اللہ تعلی کی تیج کر رہی ہے لیکن تم اس کو سمجھتے نہیں.اب یہ تیج کیسے کر رہی ہے اکثر علماء کا ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ مراد ہے زبان حال سے تسبیح کر رہی ہے.یعنی اس پر غور کریں تو وہ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے لیکن یہ مضمون تو پھر جب انسان غور کرنے والا پیدا ہو گا تو تب شروع ہوگا.قرآن کریم نے جس عظمت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہے اس میں انسان کو اس کا محتاج نہیں رکھا بلکہ یہ اعلان فرمایا کہ تم نہیں سمجھتے ہم بتارہے ہیں کہ تسبیح کر رہی ہے.تو پھر انسان کے سمجھنے سے

Page 74

خطبات طاہر جلد 16 68 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء اس کا کیا تعلق ہوا.انسان ہوتا یا نہ ہوتا یہ ساری کائنات تسبیح کر رہی تھی اور کر رہی ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ آغاز آفرینش کے ساتھ ہی شعور کا بیج بویا گیا تھا اور آغاز میں یہ شعور کا بیج بہت ہی ہلکا تھا جیسا کہ ہر تخلیق کی صفت دبی دبی سی تھی اور پوری طرح ہر پہلو سے جلوہ گر نہیں ہوئی تھی.اب وہ Big Bang کا آپ تصور کر کے دیکھیں جب کہ یہ کائنات اچانک ایک دھماکے کے ساتھ وجود میں آتی ہے تو اس کے ابتدائی لمحوں کے بار یک در بار یک ثانیے کرتے چلے جائیں تو پھر جاکر Higher Mathematics کے ذریعے یہ مضمون سمجھ آئے گا کہ کتنی جلدی آغاز ہی میں آئندہ آنے والے سارے واقعات اس تخلیق پر مرتسم ہو گئے جو ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ کر وجود میں آ رہی تھی.تو اللہ تعالیٰ جزاء دے ان Mathematiacians کو جن میں ہمارے پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام مرحوم بھی تھے جنہوں نے Higher Mathematics کے ذریعے یہ باتیں معلوم کیں اور ایک دفعہ مجھے یاد ہے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے اس گفتگو کے دوران جب میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ جو پہلا دور ہے جس میں کائنات کی تشکیل کا مضمون بڑی تفصیل کے ساتھ ہر اس ذرے پر مرتسم ہوا ہے جو وجود میں آرہا ہے یہ اتنی تیزی سے ہوا ہے کہ ہم حساب کی زبان کے سوا سمجھا ہی نہیں سکتے.یعنی ایک سیکنڈ یا دو سیکنڈ کی بات نہیں ہے ایک سیکنڈ کے اتنے لاکھویں، کروڑویں حصے میں یہ بات شروع ہو گئی ہے اور تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچی ہے کہ اس کا حساب رکھنا ممکن نہیں.مگر قرآن کریم فرما رہا ہے کہ وجود کا ایک لمحہ بھی ، ایک ثانیے کا کروڑواں،ار بواں حصہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں وہ وجود حمد نہیں کر رہا تھا یعنی تہی نہیں کر رہا تھا اور وہ تسبیح کرنا اس کا کیسا برحق ثابت ہوا کہ ساری کائنات جب پیدا ہوگئی اور اپنی ان عظمتوں کو پہنچی جو ہم دیکھ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ یہ چیلنج کرتا ہے کہ نظر دوڑا کے دیکھو تو سہی کہ کوئی رخنہ نظر آتا ہے.اے انسان غور کر.ہر طرف نظر دوڑا کوئی ادنی سا بھی رخنہ اس تمام کائنات میں دکھائی دیتا ہے! فرمایا تیری نظر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی اور کوئی رخنہ نہیں پائے گی.پھر نظر دوڑا شاید اس دفعہ کوئی کمزوری دکھائی دے دے مگر پھر تیری نظر ناکام، نامراد تجھ تک واپس آجائے گی اور ساری کائنات میں کوئی بھی رخنہ نہیں دیکھے گی.پس یہ ہے رَبُّ العلمین کا مضمون یعنی بے انتہا مضامین میں سے ایک یہ پہلو ہے جس پر آپ غور کریں تو آپ حیران ہوں گے.آپ یہ گواہی نہیں دے رہے کہ صرف ہم ہی ہیں جو تیری حمد کے گیت گاتے

Page 75

خطبات طاہر جلد 16 69 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء ہیں.آپ یہ گواہی دیتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین ہمارے وجود سے پہلے ہی تیری حمد کا مضمون کامل تھا اور ہمیشہ سے کامل رہا ہے.ساری کائنات اپنی پیدائش اور ترقی کے ہر دور میں تیری ہی حمد کے گیت گاتی رہی ہے اور جب ہم یہ غور کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو نے ہماری خاطر کیا تھا تو انسان کا بجز دیکھو کس مرتبے، کس گہرائی تک جا پہنچے گا اس سے آگے پھر گہرائی کا تصور ہی باقی نہیں رہتا.گویا انسان مٹلتے مٹتے خدا کی راہ میں بالکل مٹ جائے گا اور یہ بات کا ئنات کے تصور کے ساتھ ایسی وابستہ ہے کہ اس سے اس کو الگ کیا ہی نہیں جا سکتا.خدا کی عظمت کا تصور، کائنات کی عظمت کے تصور سے الگ کر کے انسان کے لئے فی الحقیقت ممکن ہی نہیں ہے.خدا کو آپ رَبُّ العلمین کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے کتنا بڑا رب ہے.وہ عالمین کتنے بڑے ہیں.جب تک ان کا نہ پتا چلے رب کی بڑائی کا کیسے پتا چلے گا.پس عالمین پر غور کے جو مختلف ذرائع ہیں، طریق ہیں وہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.ایک یہ معنی ہے رَبُّ الْعَلَمِین کا کہ اتنے بڑے جہان اس نے پیدا کئے ہیں کہ ان کی کنہہ کی آج بھی ہمیں سمجھ نہیں آسکتی اور وہ آغاز ہی سے خدا کا ذکر کر رہے ہیں اور ان کے وجود کا لح لحہ ہر قسم کے نقص سے پاک ہے.اب اتنا بڑا دعوئی اگر شعور کے ساتھ کیا جائے تو تب سبحان اللہ کہنے کا انسان مجاز بنتا ہے.پھر یقین کے مقام پر کھڑے ہو کر یہ کہ سکتا ہے کہ اے خدا تیری کا ئنات پر نظر ممکن نہیں تو ہم تیری صفات کاملہ پر کیسے نظر ڈال سکتے ہیں.مگر یہ ضرور گواہی دیتے ہیں کہ جہاں تک ہماری نظر گئی ہے ہم نے اس کائنات کو نقص سے پاک دیکھا ہے، جہاں تک نگاہ دوڑائی کبھی کوئی رخنہ نہ پایا.ہمیشہ نگاہیں نامراد ہو کر لوٹی ہیں اور تیری تسبیح کے گیت گاتی ہوئی واپس آئی ہیں.پس اب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کا اعلان کرتے ہیں.مگر رب العلمین پھر ہر شخص کا الگ الگ ہوتا چلا جائے گا.یعنی آپ کو جتنا عالم کا علم ہے اتنا ہی وہ آپ کا رب بنے گا اور جتنی اس مضمون کو وسعت دیں گے اتنا ہی یہ رَبُّ الْعَلَمِین وسیع تر ہوتا ہوا آپ کے او پر جلوہ گر ہو گا.جب مادی کائنات میں یہ حال ہے تو روحانی صفات باری تعالیٰ اسی طرح عظیم بھی ہیں اور اسی طرح لا محدود بھی ہیں بلکہ ان سے زیادہ کیونکہ جس خدا نے یہ لامحدود کائنات پیدا کی ، لامحدود ان معنوں میں کہ اس کی کنہ کو سمجھنے کی ہم میں طاقت ہی نہیں ہے.جتنی

Page 76

خطبات طاہر جلد 16 70 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء طاقت ہے جہاں تک پہنچتے ہیں آگے کچھ اور دکھائی دیتا ہے اور ہم تھک کے واپس آچکے ہوتے ہیں اور اس کی معرفت کو پا نہیں سکتے.یہ لا محدودیت ہے جو انسان کے نقطہ نظر سے ہے.جہاں تک چاہے چلا جائے جہاں تک چاہے غور کرتا چلا جائے وہ کسی غور کو اپنی ایسی انتہا تک نہیں پہنچا سکتا کہ آگے دیوار کھڑی ہو کہ اب میں آگے نہیں جا سکتا کھلے رستوں میں کھلی دیوار میں ہیں یعنی کھلی دیوار میں انسان کی بے اختیاری کی دیواریں ہیں.رستے کھلے ہیں آؤ اور میری جستجو کرو.آؤ اور تلاش کرو کہ کہاں مجھ میں کوئی رخنہ باقی ہے اور دوڑے چلے جاؤ ساری زندگی کا سفر،ساری نسلوں کا سفر، ساری کائنات کا سفر ہے جو تم پر منتج ہوا ہے یہ بھی تو غور کرو.جب کہا جاتا ہے ایک انسانی زندگی کا سفر تو مراد یہ نہیں ہے کہ چند سال کا.انسان تو کائنات کے سفر کے آخر پہ کھڑا ہے وہ آخری لوگ جو منزل کے قریب تر پہنچے ہیں جیسے دوڑ ہورہی ہو میراتھن تو بے شمار لوگ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور کچھ ہیں جو سب سے آگے ہوتے ہیں جوسب سے آگے ہیں انہوں نے وہ سارے رستے دیکھے ہوئے ہیں جو پچھلے لوگوں نے ابھی کچھ دیکھے ہیں اور کچھ دیکھنے ہیں تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا دعویٰ جو ہے وہ یہ منظر پیش کر رہا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ساری کائنات تسبیح کرتے ہوئے ہی یہاں تک آئی ہے جہاں سے تم نے یہ ڈنڈا اپنے ہاتھ میں تھاما ہے یہ نشان اپنے ہاتھ میں تھاما ہے اور آگے بڑھ رہے ہو.پس تسبیح کا مضمون حمد میں جو داخل ہوا ہے یہاں تسبیح کی بجائے حمد کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ وہ پہلو ہے جسے خصوصیت کے ساتھ اگر آپ سمجھ لیں تو دراصل تسبیح اور حمد میں فرق تو کوئی ایسا نہیں کہ جب تک تسبیح ختم نہ ہوحمد شروع نہیں ہوتی یہ دراصل مضمون ساتھ ساتھ چلتے ہیں.مگر اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے اس لئے میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں اس مضمون کو آگے بڑھاؤں گا کہ خدا تعالیٰ نے جب یہ فرمایا الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو یہ ساری باتیں سوچنے کے بعد ایک یقینی نتیجہ تو انسان لازماً نکالے گا کہ میں اس ساری کائنات کا ، اس ہیں بلین سال کے سفر کا علمبر دار ہوں اور اس کے نتائج کا علم بردار ہوں.یہ جھنڈا جور بوبیت کی حمد کا میں نے ہاتھوں میں تھاما ہوا ہے یہ بے وجہ نہیں اس کے پیچھے ہیں بلین سال کی گواہیاں کھڑی ہیں اور آغاز سے لے کر اب تک وہ گواہی ہمیشہ ایک ہی آواز بلند کرتی رہی ہے کہ اللہ ہر برائی سے پاک ہے، ہر کمزوری سے پاک ہے.پس اس پہلو سے میں اب اس مقام پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ اس کی رحمانیت کی جلوہ گری سے جس کا ذکر

Page 77

خطبات طاہر جلد 16 71 خطبہ جمعہ 24 /جنوری 1997ء آگے آنے والا ہے میں اب حمد کے گیت گانے کا اہل بنا دیا گیا ہوں اور حمد کا گیت کس نے سکھایا ؟ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے.الْحَمدُ کے لفظ کے اندر وہ بات پہلے ہی داخل فرما دی تھی جس کی طرف توجہ نہیں گئی کسی کی یا بعض دفعہ نہیں جاتی کہ رب العلمین کا مضمون حمد کے ساتھ وابستہ ہے.مگر حمد سیکھو گے کس سے؟ تم تو جاہل مطلق ہو، تمہیں وہ فضیلت بظاہر بخشی گئی ہے کہ تم سب کائنات کے سفر میں سب سے آگے کھڑے ہو لیکن جس نے اس مضمون کو سمجھا اور جس نے اس مضمون کو ہر پہلو کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے تابع معراج تک پہنچایا وہ تو محمد رسول اللہ ﷺے ہیں.پس حمد میں جو ح.م.ڈ“ کا مضمون ہے وہی مضمون ہے جو محمد میں بھی ہے اور احمد میں بھی ہے اور اس تعلق سے پھر جب سورۃ فاتحہ پہ آپ غور کرتے ہیں تو تسبیح کا مضمون حمد میں داخل ہو جائے گا اور حمد بھی وہ جس کے گیت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے گائے اور اب اس پر غور کرنے کے لئے آپ کو کتنے سال کی عبادت درکار ہے اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں.اس لئے بہت ہی بچگانہ خیال ہے کہ نماز میں بار بار وہی بات دہرائی جارہی ہے ہم کیوں نہ بور ہو جائیں.جنہوں نے بور ہونا ہے وہ اپنے اندھے ہونے کی وجہ سے بور ہوتے ہیں جن کو نظر آتا ہے ان کے سامنے سورۃ فاتحہ کے مضامین لامتناہی ہوتے ہیں کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتے.اس پہلو سے جب آپ رمضان گزاریں گے تو یہ زندگی کیا آپ آئندہ آنے والی جتنی بھی زندگیاں پا سکتے ہیں ان سب کے راز پا جائیں گے اور وہ ساری زندگیاں آپ کی حمد سے بھر جائیں گی تب موت اللہ کا فضل بن کے آئے گی تا کہ محنت کا دور جو لا متناہی ہونا چاہئے تھا اس کو کاٹ دے اور اجر کا دور شروع ہو جائے.مگر اجر کا دور اس لئے نہیں کہ آپ احتساب اجر کے معنوں میں کر رہے ہیں.اجر کا دور اس پہلو سے کہ آپ نے احتساب اپنے نفس کی کمزوریوں کی جانچ کرنے کی خاطر ، ان کی جستجو کی خاطر کیا تھا.اللہ تعالیٰ اس پہلو سے یہ رمضان ہمارے لئے مبارک فرمائے اور اس رمضان کی ہر عبادت کا سفر ہمیں پہلے سے بلند تر مقامات کی طرف ہدایت دیتا ہوا لے جائے.آمین

Page 78

Page 79

خطبات طاہر جلد 16 73 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء مغفرت کے بغیر آپ حمد کو یا ہی نہیں سکتے اور مغفرت کے لئے تسبیح کثرت کے ساتھ کرنا ضروری ہے.( خطبه جمعه فرموده 31 جنوری 1997ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (الجمعة: 2) پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے وہ ملک ہے، بادشاہ ہے، قدوس ہے، پاک ہے، عزیز ہے، عزت والا اور غلبے والا ہے اور حکیم ہے، حکمتوں والا ہے.عزیز میں علم کا مضمون بھی داخل ہے جو صاحب عزت، جو علم کی وجہ سے صاحب عزت ہے، علم کی برتری اور اس کے کمال کی وجہ سے.گزشتہ خطبے میں میں نے سورہ فاتحہ کے حوالے سے یہ مضمون شروع کیا تھا کہ آنحضرت نے جو نصیحت فرمائی ہے کہ رمضان کے مہینے میں اگر بخشش کے بغیر گزر جاؤ تو ایک بڑی محرومی ہے تو اس سلسلے میں نماز ہمارے کام آتی ہے اور روزانہ پانچ مرتبہ ہماری بخشش کے سامان لاتی ہے اور سورۃ فاتحہ کے جو اعلیٰ مضامین ہیں وہ ہمیں تمام روحانی ترقیات کی راہیں دکھاتے اور ہاتھ پکڑ کران تک پہنچنے میں ہماری مدد کرتے ہیں.جمعہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ مضمون کچھ ایسا علمی رنگ اختیار کر

Page 80

خطبات طاہر جلد 16 74 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء گیا کہ اکثر سننے والے جو دنیا بھر میں مختلف علمی معیار کے ہیں شاید اس سے استفادہ نہ کرسکیں اور جہاں تک استغفار کا تعلق ہے اور بخشش کا تعلق ہے حمد اس سے بالا اوپر کا یعنی بعد کا مضمون ہے اور بخشش کا تعلق زیادہ تر تشیع سے ہے.پس اس پہلو سے میں نے سوچا کہ آج کے جمعہ میں تسبیح کے مضمون پر میں زیادہ زور دوں اور اس مضمون کو بخشش کے ساتھ باندھ کر، جوڑ کر آپ کے سامنے کھولوں.جس آیت کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ جمعہ سے لی گئی ہے اور سورہ جمعہ میں تسبیح کے ساتھ مضمون کا آغاز بتاتا ہے کہ وہ تمام اعلیٰ مقاصد جن کی خاطر آنحضرت علیہ تشریف لائے اور جن کا فیض دوزمانوں کو ملا گیا اور پہلے زمانے اور آخرین کے زمانے دونوں کو آپ کے فیض نے اکٹھا کر دیا اس مضمون کا آغاز تسبیح سے ہے.اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے بعد پھر وہ صفات بیان ہوئی ہیں جوحمد سے تعلق رکھتی ہیں.پس میں اس آیت کے حوالے سے جو ہمیں آنحضرت ﷺ کے زمانے سے جوڑنے والی آیت ہے تسبیح کے مضمون کو شروع کرتا ہوں.میں نے عرض کیا تھا کہ اکثر قرآن کریم میں جہاں کائنات کا ذکر ہے وہاں تسبیح کا مضمون ملتا ہے مگر حمد ضروری نہیں کہ بیان ہو اس سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کا آغاز خدا تعالیٰ کی ایسی صفات سے ہوا ہے جو ہر عیب سے پاک تھیں اور ان صفات کا عیب سے کلیۂ پاک ہونالازماً تحمید کا مضمون پیدا کرتا ہے.مگر یہ جو دوسرا حصہ ہے یہ شعور سے تعلق رکھتا ہے، زیادہ تر شعور سے تعلق رکھتا ہے.پس تسبیح سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی پاکی بیان کی جائے.یہ بیان کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے احتمالی عیب سے کلیۂ پاک ہے اس میں کوئی بھی کمزوری نہیں اور جب یہ بات متحقق ہو جائے، ثابت ہو جائے کہ ایک چیز ہر قسم کی کمزوری سے کلیۂ پاک ہے تو اس کے بعد حمد کا مضمون لازماً ایک طبعی نتیجے کے طور پر شروع ہو جاتا ہے.پس تاریخی عمل کے طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تسبیح سے خدا تعالیٰ کی صفات کا مضمون شروع ہوتا ہے مگر تسبیح اور تحمید کے درمیان وقتی طور پر فاصلہ نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ ہر پا کی بلا توقف ایک حمد کا مضمون پیدا کر دیتی ہے اور اس پہلو سے یہ دونوں اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں.ایسا رشتہ ہے کہ وہ لازم ملزوم ہیں گویا ایک کے بعد دوسری چیز کا پیدا ہونا ایک قطعی اور طبعی عمل کی صورت اختیار کر جاتا ہے.مثلاً آپ اپنی ذات میں سوچیں اگر آپ نے جھوٹ سے کلیہ تو بہ کر لی ہو تو یہ مضمون تسبیح سے تعلق رکھتا

Page 81

خطبات طاہر جلد 16 75 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء ہے، آپ نے پا کی اختیار کر لی لیکن یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جھوٹ سے کلیہ تو بہ اختیار کر لی ہو اور سچے نہ بنے ہوں.پس اگر چہ پہلا حصہ منفی ہے ایک برائی سے پاکی کا مضمون ہے مگر جب اس کی نفی کلیۂ ہو جائے تو بعد میں حمد کا مضمون از خود لازماً جاری ہو گا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص جھوٹ سے کلینڈ پاک اور صاف ہو اور کہیں سچا نہیں ہے.اسی طرح ظلم سے خالی ہونا، بدبختی سے جو دل کی شقاوت کہلاتی ہے عاری ہونا.یہ اپنی ذات میں اس حالت میں رہ ہی نہیں سکتا جب تک نرمی اور پیار اور شفقت دل میں داخل نہ ہو جائے.پس یہ کہنا کہ وہ ظلم سے کلیہ پاک ہے لیکن رحم دل نہیں ہے یہ ہوہی نہیں سکتا.تو آغاز بہر حال سبحان کے مضمون سے ہوتا ہے اور حمد کا مضمون اس کے اوپر قائم ہوتا ہے.پس سورہ فاتحہ کا آغا ز حمد سے ہونے کا دراصل یہ مطلب ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا مقام تسبیح کے تمام مراحل طے کر گیا ہے اور اس بلند مقام پر آپ کا قدم ہے جس کا حمد سے تعلق ہے اور اس پہلو سے امت محمدیہ کے اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ مناصب کا ذکر فرمایا گیا ہے.مگر ہر نماز تسبیح سے شروع ہوتی ہے اور حمد میں داخل ہونے سے پہلے جونماز میں داخل ہونے کا رستہ ہے اس کا گیٹ سبحان الله سے قائم کیا گیا ہے.سبحانک اللهم وبحمدک اے اللہ تو پاک ہے وبحمدک اور تیری پاکی کا مطلب ہے اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے.تو یہ وہ پہلو ہیں جن کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے نتیجے میں استغفار کا مضمون سمجھ آئے گا.اور چونکہ اس پچھلے جمعہ کا دراصل مقصد آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کی وضاحت کرنا تھا جس میں فرمایا کہ وہ بڑا محروم اور بدنصیب انسان ہے جو رمضان پا جائے ، رمضان گزر جائے اور وہ بخشش سے خالی رہا ہو، بغیر بخشش کے اس کا رمضان گویا خالی گزر گیا.پس رمضان کا مہینہ بخشش سے گہرا تعلق رکھتا ہے اور بخشش کا مضمون پہلے تسبیح سے تعلق رکھتا ہے پھر حد میں داخل ہوتا ہے.اس کی وضاحت میں قرآن کریم کی بعض آیات کے حوالے سے آپ کے سامنے کروں گا.پہلے تو جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا اکثر قرآن کریم کی آیات میں جہاں ذی شعور چیزوں کا ذکر نہیں ہے، ان چیزوں کا ذکر نہیں ہے جو ہمارے نقطہ نگاہ سے شعور رکھتی ہیں ان میں تسبیح تک بات ٹھہرا دی جاتی ہے اور حمد کی بات لا زمانہیں کی جاتی.مگر وہ ایسی آیات بھی ہیں جہاں بظاہر بغیر شعور رکھنے والی چیزیں ہیں مگر ان کے ساتھ حمد کا مضمون بھی بیان فرمایا گیا ہے اور مضمون کو یوں کھول دیا کہ ان کی تسبیح اور ان کی حمد اس

Page 82

خطبات طاہر جلد 16 76 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء نوع کی ہے کہ تمہیں سمجھ آنہیں سکتی.کیونکہ یہ شعور کی ایسی باریک اور ابتدائی حالتیں ہیں جن تک انسان کا ذہن پہنچ ہی نہیں سکتا.وہ اگر چہ شعور میں بہت آگے بڑھ گیا ہے لیکن اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ نیچے دیکھے تو اس کو اپنی ابتدا دکھائی ہی نہیں دیتی اس لئے وہ نہیں سمجھ سکتا کہ میں بھی ہر قدم شعور کی مختلف منازل سے گزرتا ہوا ، احساسات کی مختلف منازل سے گزرتا ہوا اس مقام تک پہنچا ہوں.پس ان آیات میں یہ ایک سورہ جمعہ کی آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.ایک سورۃ الانبیاء کی آیت ہے اس میں فرمایا: فَفَهَّمْنْهَا سُلَيْمَنَ وَكُلًّا أَتَيْنَا حُكْمًا وَ عِلْمًا وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرِ وَكُنَّا (الانبياء 80) اور ہم نے ان کے ساتھ حضرت داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا.يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے.اس کی تفسیر میں جانے کا یہ موقع نہیں مگر یہ یاد رکھیں کہ یہاں حمد کا لفظ نہیں آیا صرف تسبیح کا ذکر کر کے اس مضمون کو ختم فرما دیا گیا.ایک اور آیت اس مضمون کی سورۃ ص میں ملتی ہے.اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ (ص: 19) ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو بھی مسخر کر دیا تھا جو شام کو بھی تسبیح کرتے تھے اور صبح بھی تسبیح کرتے تھے اور یہاں بھی حمد کا ذکر نہیں ہے.پھر اگلی آیت ہے.سورۃ نور سے لی گئی ہے.أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ ضَفْتِ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ) ( النور : 42) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے.وَالطَّيْرُ صفت اور صف بستہ پرندے بھی.ہر ایک نے اپنی عبادت کا رنگ سیکھ لیا.محل قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہ ہر ایک کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس نے کیسے خدا کی عبادت کرنی ہے وَتَسْبِيحَة اور کیسے اس کی تسبیح کرنی ہے.وَاللهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ اور اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں اس کا علم رکھتا ہے.یعنی تسبیح زبانی ہو یا ایسی مخفی زبان میں ہو جو انسان سن نہ سکے مگر اللہ کا علم جانتا ہے.اس کے لئے سماعت کی بھی ضرورت نہیں کسی رنگ میں وہ تسبیح کرتے ہیں اس کا علم باری تعالیٰ سے تعلق ہے.

Page 83

خطبات طاہر جلد 16 77 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء ان آیات کے بعد وہ آیتیں جن کا میں نے ذکر کیا تھا جس میں تسبیح اور تحمید کے مضمون کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے مگر انہی چیزوں کے تعلق میں جو شعور نہیں رکھتیں ان میں سے ایک سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ (بنی اسرائیل: 45) حَلِيمًا غَفُوْرًا جو کچھ بھی سات آسمانوں میں اور زمین میں ہے وَمَنْ فِيْهِنَّ اور جو بھی اس میں بستے ہیں وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو بھی ان میں بستے ہیں دونوں میں وہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں.وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِم اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد نہ کرتی ہو ولكِنْ لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ لیکن تم ان کی تشہی کو نہیں سمجھتے.یہاں حمد کے سمجھنے کی نفی پھر بھی نہیں فرمائی گئی کیونکہ یہاں ہر چیز کو داخل کر لیا گیا ہے اور تسبیح کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی کہ تم انکی تسبیح کے انداز کو سمجھ نہیں سکتے.إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا اللہ تعالیٰ بہت ہی بردبار ہے اور بخشش فرمانے والا ہے.میں چونکہ بخشش کی طرف جلد سے جلد منتقل ہونا چاہتا ہوں اس لئے ان آیات کے تفصیلی حصے سر دست نظر انداز کر رہا ہوں.پھر بجلیوں کے حوالے سے فرمایا وَ يُسبِّحُ الرَّعْدُ بِحَدِهِ وَالْمَلَكَةُ مِنْ خيفته (الرعد:14) کہ کڑکتی ہوئی بجلیاں خدا کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ کرتی ہیں اور فرشتے بھی من خیفَتِہ اس کے خوف سے.خدا تعالیٰ کے رعب کے نتیجے میں فرشتے بھی ایسی حالت میں تسبیح اور حمد کر رہے ہوتے ہیں.پس اب دیکھنا یہ ہے کہ اس رمضان میں تسبیح کے مضمون سے ہم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تسبیح کا جہاں تک تعلق ہے اور انسانی زندگی سے جہاں تک تسبیح کا تعلق ہے قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ بخشش کے لئے تسبیح کا ہونا ضروری ہے.جہاں بھی بخشش کا مضمون ہے وہاں تسبیح کا مضمون بیان ہوا ہے اور حمد کا ذکر نہیں فرمایا گیا.پس بخشش کے بغیر انسان خدا تعالیٰ کی صفات کے حسن سے واقف ہو ہی نہیں سکتا.بغیر بخشش کے جس کا تسبیح سے تعلق ہے انسان اس بات کا اہل ہی نہیں بن سکتا کہ خدا تعالیٰ

Page 84

خطبات طاہر جلد 16 78 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء کی صفات حسنہ جو حد سے تعلق رکھتی ہیں ان کا تصور باندھ سکے یا حقیقیہ حمد کرنے کا اہل بن سکے.پس ہر گناہ کے بعد جو بخشش کا مضمون قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہاں سبحان کا لفظ استعمال ہوا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے شرک سے پاک ٹھہرانے کے تعلق میں بھی ہمیشہ سبحان کا لفظ استعمال ہوا ہے چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آل عمران : 192 میں ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ جب خدا کے پاک بندے اس کا ذکر کرتے ہیں اس پر غور کرتے ہیں اور کائنات پر اس کی یاد کے ساتھ غور کرتے ہیں تو بے اختیار ان کے دل سے آواز اٹھتی ہے.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا اے ہمارے رب تو نے اس کا ئنات کو باطل پیدا نہیں کیا، بے مقصد اور ناحق پیدا نہیں فرمایا.سُبحنک کائنات پر غور ہمیں بتاتا ہے کہ تو ہر عیب سے پاک ہے فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پس ہماری بخشش فرما.یہ مضمون ہے ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے یعنی ہمیں بخش دے ہماری کمزوریاں دور فرما دے جیسا کہ تو عیوب سے پاک ہے ہمیں بھی پاک کرتا کہ ہم آگ کے عذاب سے بچ سکیں.یہ بات خوب کھل جاتی ہے کہ بخشش نہ ہونے کے نتیجے میں انسان اپنے داغوں سے پاک نہیں ہوسکتا اور جو داغ ہیں جن کا وہاں رہنے کا حق نہیں ان کو لازماً جلانا ہوگا کیونکہ جو بخشش کے پانی سے اپنے داغوں کو نہیں دھوتا وہ داغ پھر جلائے جاتے ہیں اور مادی دنیا میں بھی یہی دستور ہے.پس فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اسی حالت میں رہے تو ہمارا گویا کہ زبان حال سے تقاضا ہے کہ ہمارے داغوں کو جلا دے اور استغفار کا پانی جس داغ کو نہ دھو سکے اسے عذاب کی آگ ہی ہے جو جلا کر خاک کرتی ہے.حضرت یونس کی دعا جو بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ یہ کرنی نہیں چاہئے یہ تو بہت ہی گرم دعا ہے.یہ جو صوفیاء کی بعض باتیں ہیں خاص ان کی دلچسپی کی ، وہ کہتے ہیں اتنی تیز دعا ہے اتنی گرم دعا ہے کہ آگ لگا دیتی ہے اس لئے اس سے بیچ کے ہی رہو اور وہ ویسی دعا ہے کہ اس کے بغیر بخشش کا تصور نہیں باندھا جا سکتا.ایسی عظیم دعا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل سے نکلی اور بخشش ساتھ ہی ہو گئی.انہوں نے جو ظلمات میں گھر کر ، اندھیروں میں پڑ کر جس طرح سے خدا تعالیٰ کی بخشش طلب کی ہے وہ یہ الفاظ ہیں لاَ إِلَهَ إِلَّا انْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّى كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانبياء: 88) اے میرے

Page 85

خطبات طاہر جلد 16 79 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء رب تیرے سوا کوئی معبود نہیں جس کی طرف میں جا سکوں جس سے میں سہارا مانگ سکوں سُبْحَنَک شرک کی نفی سبحان کے مضمون کو چاہتی ہے.پس فرمایا تو ہر ستم کے شرک سے پاک ہے، ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اِنّى كُنتُ مِنَ الظَّلِمِینَ میں ہی تھا جو ظالموں میں سے تھا.پس دیکھیں بخشش طلب کرنے کے لئے انبیاء نے بھی کیسے کیسے طریق ڈھونڈے کیسی کیسی ادا ئیں اختیار کیں جن کے نتیجے میں انسان کا دل دہل جاتا ہے اور سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ بخشش نہیں فرمائے گا.پس ان دعاؤں کو اپنے پیش نظر رکھیں اس رمضان میں.یہ محض مثالوں کے طور پر نہیں بیان کر رہا ، میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ ان دعاؤں سے جتنے بھی دن رمضان کے باقی ہیں جتنی را تیں بھی رہتی ہیں ان میں ان دعاؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی بخشش کے سامان کی کوشش کریں.پھر بنی اسرائیل میں ہے قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولاً (الاسراء: (94).آنحضرت اللہ سے جب یہ تقاضے کئے گئے کہ تو بھی آسمان پر چڑھ اور اتر اس حالت میں کہ تیرے ہاتھ میں کتاب بھی ہو.اگر تو آسمان پر چڑھ کر دوبارہ اتر کے ہمیں نہیں دکھائے گا تو ہم نہیں مانیں گے کہ تو خدا کا رسول ہے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آنحضرت صلى الله کو مضمون سمجھایا اور کہا ان کو یہ جواب دے قُل سُبْحَانَ رَبّی کہہ دے کہ میرا رب ہر عیب سے پاک ہے.هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّ سُولًا اور میں تو محض ایک بشر اور رسول ہوں.اس پہلو سے اگر میں بشر اور رسول ہوتے ہوئے تمہارا تقاضا پورا کروں تو یہ خدا پر رعیب ڈالنے والی بات ہے.پس یہ تصور کہ کوئی انسان بشر بھی ہو اور رسول بھی ہو زندہ جسم سمیت آسمان پر چڑھ جائے یہ خدا تعالیٰ کو عیب دار کرنے والی بات ہے کیونکہ جسمانی عروج کئی طرح سے خدا میں عیب ڈالتا ہے.یہ بھی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ یہاں نہیں ہے، وہاں ہے جہاں جسم حرکت کر رہا ہے خدا تعالیٰ کی ہمہ گیری پر حرف آ جاتا ہے.جہاں سے حضرت عیسی" جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے انہوں نے حرکت شروع کی کیا خدا وہاں نہیں تھا.اگر تھا تو پھر اوپر کیا کرنے جا رہے تھے.پس خدا تعالیٰ کی طرف جسمانی حرکت ممکن ہی نہیں جہاں جسمانی حرکت کا تصور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ آپ باندھیں گے وہیں خدا کی خدائی ختم ہو جائے گی اور بیک وقت خدا پر یقین اور اس کی طرف جسمانی حرکت کا

Page 86

خطبات طاہر جلد 16 80 80 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء عقیدہ رہ ہی نہیں سکتے.اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں اشارۃ میں نے آپ کو بتا دیا ہے یہ موقع ہے اس کا سُبْحَانَ رَبّى هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا کہ اللہ جو ہر عیب سے پاک ہے اس کی طرف کوئی جسمانی حرکت ممکن نہیں ہے.جہاں جسم نے ایک جگہ چھوڑی اور خدا کی طرف جانے کے نام پر دوسری جگہ گیا وہاں کا ئنات بعض جگہوں میں خدائی سے خالی ہوگئی.پھر باغ والے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ باغ والے بد نصیب جو منہ اندھیرے جاتے تھے باغ میں تاکہ غریب لوگ حصہ نہ پالیں.وہ جو اپنے باغ کو دیکھ کر اپنی حمد کے گیت تو گاتے تھے کہ ہم نے بڑا کمال کر دیا مگر استغفار نہیں کرتے تھے اور جب یہ کہتے تھے کہ ہم یہ فصل حاصل کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ کا حوالہ نہیں دیتے تھے کہ اگر چاہے گا تو ہم حاصل کر لیں گے، جب وہ ایک صبح اپنے باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ سارا باغ کٹا پڑا ہے اور اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا.ایسی کوئی آسمانی آفت وہاں پھر گئی جیسے خوفناک بعض دفعہ بگولے فصل کو تباہ کر دیتے ہیں.جو بھی آسمانی آفت کا حال تھا اس نے صبح تک کچھ بھی باغ کا باقی نہیں چھوڑا، تمام باغ زمین پر گرا ہوا پڑا تھا یا تمام فصل کٹی پڑی تھی.اس پر پھر آخری طور پر جب انہوں نے تو بہ کی طرف رجوع کیا تو سورہ القلم میں یہ ان کے حوالے سے بیان ہے.قَالُوا سُبُحْنَ رَبَّنَا إِنَّا كُنَّا ظُلِمِينَ (القلم: 30) انہوں نے کہا پاک ہے ہمارا رب ہم ہی تھے جو ظلم کرنے والے تھے گویا ہم نے اپنے ظلم کا نتیجہ دیکھا ہے، خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہم پر ظلم نہیں ہوا.اور حضرت موسیٰ" کے متعلق بھی اس سے ملتے جلتے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.جب آپ نے خدا تعالیٰ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے اپنا چہرہ دکھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو مجھے نہیں دیکھ سکتا جہاں تک جسمانی آنکھ کا تعلق ہے تو مجھے نہیں دیکھ سکتا.ایسی ہی بات جیسے خدا کی طرف جسمانی طور پر عروج ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اس کی لطافتیں اس نوع کی ہیں کہ نہ جسم ایک جگہ سے حرکت کر کے دوسری جگہ خدا کے قریب ہو سکتا ہے نہ نظر اس کو دیکھ سکتی ہے کیونکہ وہ لطیف سے لطیف تر ہے.تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی سادگی میں جیسا کہ ان کی ساری زندگی اس قسم کے سادہ بے تکلف سوالات سے بھری پڑی ہے اللہ تعالیٰ سے جو ان کا رشتہ ہے خاص انداز کا ہے تو انہوں نے کہا میں نے دیکھنا ہے تجھے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ہاں اگر تیرا اصرار ہے تو میں پہاڑ پر اپنی ایک

Page 87

خطبات طاہر جلد 16 81 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء تجلی کرتا ہوں اگر یہ پہاڑ باقی رہ گیا تو پھر تو مجھے دیکھ سکے گا اور جب بجلی ہوئی تو حضرت موسی“ بے ہوش ہو کے جاپڑے اور تجلی کی حالت بھی نہیں دیکھ سکے.ایسا جلوہ تھا کہ سوائے بش کے حضرت موسیٰ“ کے حصے کچھ بھی نہیں آیا.فَلَمَّا آفَاق (الاعراف: 144) جب افاقہ ہوا، ہوش آئی تو کہا سبحنك تبت إليك تو پاک ہے اللہ ! میں تیری طرف تو بہ کرتے ہوئے آتا ہوں.وہ میری غلطی تھی جو میں نے یہ مطالبہ کیا وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ میں دیکھ تو نہیں سکا مگر ایمان لانے والوں میں میں اول ہوں اب.میں نے ایسا جلوہ دیکھا ہے کہ اس کے بعد تیری تسبیح کے وہ مرتے مجھ پر روشن ہوئے، وہ مقامات مجھ پر روشن ہوئے کہ اس پہلو سے میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں اور اول المومنین کا مطلب یہ نہیں کہ زمانے میں پہلا بلکہ انہوں نے کہا کہ میں اس مقام میں پہنچ چکا ہوں، اس مقام تک پہنچ گیا ہوں کہ اپنے دور میں مجھے پہلا مومن شمار ہونا چاہئے.یعنی اول المومنین میں یہ دعویٰ ہے اور واقعہ اپنے دور میں اور اپنی شریعت میں آپ اول المومنین ہی تھے.یہ مراد نہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ سے بالا آپ کو ایک مقام عطا کیا گیا جس کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں.سیه ساری باتیں تسبیح کے ذکر میں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں.بہت کثرت سے تسبیح کے حوالے قرآن کریم میں موجود ہیں مگر میں نے چند چنے ہیں.اب میں آپ کو دوبارہ نماز کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ دیکھیں نماز میں داخل ہونے اور سورۃ الحمد تک پہنچنے سے پہلے، پہلا دروازہ اور گیٹ ہے جس کے کھلے بغیر آپ حمد تک جاہی نہیں سکتے وہ سُبْحَنَكَ اللهُمَّ کا ہے اور پھر فرمایا وَ بِحَمْدِكَ اے اللہ تو پاک ہے، ہر عیب سے پاک ہے.وَ بِحَمدِكَ اور ہر عیب کے مقابل پر جو مثبت صفت ہے جو حمد کہلا سکتی ہے وہ تیرے اندر لازماً شامل ہے.یعنی تیری تسبیح اور تیری حمد کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تسبیح کا مضمون سمجھیں تو حمد کا مضمون از خود روشن ہوتا چلا جائے گا.پس اس رمضان مبارک میں سبحان کے مضمون کو سمجھیں اور آنحضرت ﷺ نے جوسب سے عظیم خدا تعالیٰ کا ذکر بیان فرمایا ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دو کلمے جو ہلکے ہیں زبان پر ، بہت وزنی ہیں اللہ کے نزدیک ان میں بھی یہی باتیں جوڑ کر بیان فرمائی گئی ہیں.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم اب یہ دو کلمے ہیں چھوٹے چھوٹے سے مگران میں حیرت انگیز گہرائی کے ساتھ تمام عارفانہ مضامین جو خدا کے تعلق میں ذہن میں آنے چاہئیں وہ

Page 88

خطبات طاہر جلد 16 82 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء بیان فرما دیئے گئے.سبحان اللہ اللہ ہر عیب سے پاک ہے لیکن محض عیوب سے پاک نہیں و بحمدہ بلکہ اپنی حمد کے ساتھ.اب جب میں نے پہلے بیان کیا کہ اگر عیب سے پاک ہوں تو اس کے مقابل پر جوحد کی مثبت صفت ہے وہ از خود انسان میں پیدا ہونی چاہئے تو یہ کوئی ایسا قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہر صورت میں ضرور دکھائی دے.مثلاً ایک شخص مردانہ صفات سے عاری ہوتا ہے اس لئے پاک ہوتا ہے کہ مردانہ صفات سے ہی عاری ہوتا ہے.ایک عورت بھی ایسی ہو سکتی ہے یعنی اس کی پاکیزگی اس کی مجبوری کا دوسرا نام ہے.پس و بِحَمدِكَ کا مضمون ان معنوں میں بھی لازماً صادق آنا چاہئے کہ جب ایک برائی سے پاک ہوں تو پھر حمد کے اندر سفر شروع کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ از خود آپ سچائی کے ہر مرتبے کو پا جائیں گے اگر آپ نے جھوٹ سے توبہ کر لی.توسبحان الله وبحمدہ کے بعد فرمایا سبحان الله العظیم یعنی حمد کا مضمون لا متناہی ہے.تم یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہی تم حمد کے مضمون پر عبور حاصل کر لو گے.اول تو سبحان کا مضمون بھی ایک جاری مضمون ہے جو عام روز مرہ کی زندگی میں اپنے آخری مرتبے تک حاصل ہو ہی نہیں سکتا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا آپ اپنی برائیاں دور کرنی شروع کریں، اپنے داغ مٹانے شروع کریں ہر مٹتے ہوئے داغ کے پیچھے ایک اور داغ دکھائی دینے لگتا ہے اور یہ جو سفر ہے یہ صرف جھوٹ کے تعلق ہی میں ساری زندگی کا سفر ہے اور اس مقام محمدی تک پہنچنا تو بہت دور کی بات ہے جہاں سبحان کا مضمون اس قدر کامل ہو گیا کہ آپ کا تعارف خدا کی حمد کے ساتھ کر وایا گیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اور بہت ہی عظیم مرتبہ ہے جو سورۃ فاتحہ نے آپ کا بیان فرمایا.مگر ہم اس آخری عظیم مرتبے کو پا تو نہیں سکتے لیکن اس طرف حرکت کرنا ہمارا فرض ہے اور وہ ہر حرکت سبحان کے ساتھ ہوگی، ہر قدم جو حد کی طرف اٹھے گا وہ سبحان کے ساتھ اٹھے گا.پس اس پہلو سے مغفرت کے بغیر آپ حمد کو پا ہی نہیں سکتے اور مغفرت کے لئے تسبیح کثرت کے ساتھ کرنا انتہائی ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ نے جو دو کلمے ہمیں بتائے ہیں وہ سبحان الله وبحمده سبحان اللہ العظیم ان کا ورد آپ کے لئے بہت سی بخششوں کا موجب بھی بنے گا اور بہت سے اعلیٰ مضامین بھی آپ کو اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائے گا.میں نے ذکر کیا تھا کہ بہت سے سننے

Page 89

خطبات طاہر جلد 16 83 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء والے صاحب علم نہیں ہیں اس لئے مجھے خیال آیا کہ اس مضمون کو نسبتا آسان کر کے بیان کیا جائے.مگر آنحضرت ﷺ نے جو علم کے حصول کا طریق ہمیں بتایا ہے اس کے لئے کسی ظاہری دنیا وی علم کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے.سبحان اللہ و بحمدہ کے مضمون کو آپ سمجھ لیں تو بغیر کسی دنیاوی علم کے سہارے کے آپ اتنی ترقی کر سکتے ہیں کہ جو آپ کو ایک بے حقیقت انسان سے ایک عظیم انسان میں تبدیل کر دے گی کیونکہ ان کلمات کا جو اختتام ہے وہ یہ ہے سبحان اللہ العظیم پاک ہے وہ اللہ جو بہت عظمتوں والا ہے.عليه اورسورۃ جمعہ سے جو میں نے آغا ز کیا ہے وہ بھی اسی وجہ سے کہ آپ کو سمجھاؤں کہ آنحضرت سے برتر مقام محمد تو متصور ہو ہی نہیں سکتا.حمد کے آخری مقام تک آپ پہنچے ہیں یہاں تک کہ آپ کو سورۃ الحمد عطا کی گئی جس میں در اصل حمد کرنے والا اول معنوں میں حضرت محمد رسول اللہ ہیں اور جس کی حمد کرتے ہیں ایسی کامل کرتے ہیں کہ جو ابا وہ آپ کو محمود بنا دیتا ہے اور حامد محمود ہو جاتا ہے.حمد کرنے والا محمد بن جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل کے ساتھ اور حیرت انگیز گہرائی کے ساتھ ہمارے سامنے کھولا ہے.خطبہ کا مضمون جاری تھا کہ روزے کی حالت میں دیر تک بے حس و حرکت کھڑے رہنے کی وجہ سے ڈیوٹی پر موجود ایک پہرے دار کے گرنے پر حضور نے فرمایا: یہاں لمبے عرصے تک کھڑا نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے.بسا اوقات سیدھا دیر تک کوئی کھڑا ر ہے تو بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے، وقتی طور پر، ایک دفعہ پہلے بھی ہمارے ایک پہریدار کے ساتھ ہوا تو لوگ گھبرا جاتے ہیں، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے.خدام الاحمدیہ میں ہم نے اکثر اجتماعات کے موقع پر دیکھا ہے کہ کھڑے کھڑے سارے اٹینشن دیر تک کھڑے رہے تو ایک دم غائب ہو جاتے ہیں تو یہ دیکھنا چاہئے جو منتظمین ہیں ان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ جو کھڑے رہنے والا کام ہے اس میں جلدی جلدی ڈیوٹی بدلا کریں جہاں انسان اپنے ہاتھ پاؤں ہلا ہی نہیں سکتا.خیر یہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں تیج کی بہت ضرورت ہے اللہ کے سوا کوئی بھی کسی قسم کے عیوب سے پاک نہیں ہے.اچھا اب میں آپ کو بتارہا تھا کہ سبحان اللہ و بحمدہ میں جو مضمون سکھایا گیا ہے اس پر آپ غور کریں تو آپ کا سفر قدم قدم آپ کی زندگی کے سارے دائرے میں، ہر چھوٹے دائرے

Page 90

خطبات طاہر جلد 16 84 = خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء سے بھی تعلق رکھتا ہے، ہر بڑے دائرے سے بھی تعلق رکھتا ہے.یہ سفر اجتماعی بننے سے پہلے انفرادی طور پر ہر زندگی کے دائرے سے الگ الگ شروع ہوگا اور یہ مضمون ہے جو میں پہلے بارہا کھول چکا ہوں لیکن اس رمضان کے حوالے سے پھر دوبارہ سمجھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں سوائے اس علم کے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عطا فرمایا کیونکہ اسی آیت میں جس کا میں نے انتخاب کیا تھا اس میں آنحضرت علی ﷺ کو ایک عظیم معلم کے طور پر، ایسے معلم کے طور پر پیش فرمایا جو علم کے ساتھ ساتھ حکمتیں بھی بیان فرماتا چلا جاتا ہے اور صرف عالم ہی نہیں بلکہ حکیم ہے اور اس پہلو سے جو خود جاہلوں میں سے تھا ، امیین میں سے تھا وہ ساری دنیا کو علم سکھانے والا اور ساری دنیا کو حکمتیں سمجھانے والا بن گیا.پس سبحان کا مضمون جیسا کہ اس آیت میں پہلے بیان ہوا ہے يُسبِّحُ لِلہ سبحان کا مضمون اتنا گہرا مضمون ہے کہ اگر آپ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں تو لا متناہی ترقیات تک یہ مضمون آپ کو پہنچائے گا اور سبحان کے حوالے سے جو قدم اٹھے گا حمد کے مضمون میں داخل ہوتا چلا جائے گا.پس اس رمضان مبارک میں جب بھی آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور سُبحَنَكَ اللهُمَّ کہتے ہیں تو یہ سوچا کریں کہ کیا آپ ہر پہلو سے خدا کی تسبیح کے گیت گانے کا حق رکھتے ہیں.کیا واقعہ آپ اللہ کی تعریف کر رہے ہیں کہ تو ہر ایک عیب سے پاک ہے.اس مضمون کا ایک اور پہلو التحیات کے آغاز میں انسان پر روشن ہوتا ہے جب ہم کہتے ہیں التحيات لله والصلوات والطیبات اور ہمیشہ جب میں یہ پڑھتا ہوں تو توقف کے ساتھ میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں کہ اس نماز میں میں کوئی صلوٰۃ اور پاکیزہ باتوں کا تحفہ واقعہ پیش بھی کر رہا ہوں کہ نہیں اور اکثر دل شرمندہ ہوتا ہے کہ منہ سے کہہ رہا ہوں کہ صلوات کے تحفے لایا ہوں ، طیبات کے تحفے لایا ہوں کون سی نئی پاکیزہ چیزیں ہیں جو میں نے اختیار کی ہیں جو خدا کے حضور پیش کر سکوں تو بسا اوقات خالی طشتریاں ہیں جن میں بظاہر کچھ عقیدت کے پھول سجے ہوئے ہیں کچھ تحائف ہیں قیمتی ، انسانی گوہر، انسانی صفات کے بظاہر ، مگر جب آپ غور کریں تو پتا لگتا ہے کہ خالی طشتری پیش ہو رہی تھی.اس وقت انسان سوائے اس کے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اے خدا اس طشتری کو تو ہی بھر سکتا ہے اور ہم میں طاقت نہیں کہ ہم تیرے حضور ہمیشہ ہر نماز پر نئے نئے تحائف پیش کر سکیں.

Page 91

خطبات طاہر جلد 16 85 خطبہ جمعہ 31 جنوری 1997ء تو یہ سبحان والا مضمون بھی دراصل یہی ہے.جب آپ کہتے ہیں سُبْحَنَكَ اللهُم تو یہ لازماً سوچنا چاہئے کہ خدا کے ہر عیب سے پاک ہونے کو واقعہ ہم قابل تعریف سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں یا محض ایک زبانی جمع خرچ ہے اور جب آپ کہتے ہیں ہاں ہم واقعی سمجھتے ہیں تو انسان کا اپنا کردار اس کے سامنے کھڑا ہو کر اس کو متہم کرنے لگتا ہے، مجھ میں یہ برائی بھی ہے، مجھ میں وہ برائی بھی ہے، مجھ میں وہ برائی بھی ہے اور میں یہ کہہ رہا ہوں سُبحَنَكَ اللهُمَّ اے اللہ! تو ہر عیب سے پاک ہے و بحمدك اور عیب سے پاک ہوئے بغیر کوئی حمد نصیب ہی نہیں ہو سکتی اور چندکلموں کے بعد میں نے الحمد کے مضمون میں داخل ہونا ہے جو بہت عظیم مضمون ہے تو پھر میں کیا کروں کہ میری نمازیں مقبول ہو جائیں، میں کیا کروں کہ میری نماز کا آغاز ہی سچا ہو جائے اور ایک کھوکھلا ، خالی دعوی نہ رہے.اس طرح غور کر کے اگر آپ نمازیں پڑھیں تو آپ کی ہر نماز میں سبحان کا مضمون ہی آپ کی ساری زندگی پہ چھا جائے گا.ناممکن ہے کہ کروڑ نمازیں بھی پڑھیں تو یہ مضمون اطلاق نہ پایا ہو اور ہمیشہ نئے رنگ میں اطلاق نہ پاتا ہو.پس ایک ایک عیب کا احتساب کرنا ان معنوں میں جیسا کہ نماز نے ہمیں سکھایا ہے اور قرآن نے سکھایا ہے یہ وہ احتساب ہے جس کا ذکر آنحضرت ﷺ نے رمضان میں فرمایا کہ جس نے رمضان احتساباً گزار دیا، جس نے رمضان ہمہ وقت اپنے نفس کا تجزیہ کرتے ہوئے گزارا ہے گہری نظر سے جائزہ لیتے ہوئے گزارا ہے کہ میں نے کیا پایا ہے، کیا کھویا ہے اس کو خدا تعالیٰ یہ خوشخبری دیتا ہے کہ اب اس رمضان کے دوران اس کے پہلے سارے گناہ بخشے جائیں گے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو اچھی طرح سمجھ کر جماعت احمد یہ اس دنیا میں غیروں پر وہ حیرت انگیز امتیاز حاصل کرلے گی جس کا کوئی تصور ہی غیروں میں نہیں پایا جاتا.مسلمان کہلاتے تو ہیں مگر کوئی ان کو نہیں سمجھا تا کہ تمہاری مسلمانی کیسے بنے گی.کون سے قدم اٹھاؤ گے تو قرب الہی نصیب ہوگا.کون سے قدم اٹھاؤ گے تو نماز سلیقے کی ہو جائے گی اس کے بغیر پانچ وقت جو چاہے کرتے پھر و، پانچ وقت چھوڑ کر ہزار ہا دفعہ خدا کے حضور حاضر ہو تمہاری نمازوں میں کوئی پھل نہیں لگے گا کیونکہ وہ خالی بالیاں ہیں جن میں بیج پڑا ہی نہیں.تو اپنی نمازوں کو، اپنی عبادتوں کے بیجوں سے بھر دیں، ان کو خالی دانے نہ رہنے دیں اور سبحان کے اوپر اتنا غور کریں کہ آپ غور کرتے کرتے اس انکسار کے آخری مقام تک جا پہنچیں جس کے بعد آپ کو اپنا وجود غائب ہوتا، مٹتا ہوا دکھائی دینے لگے اور دل سے

Page 92

خطبات طاہر جلد 16 86 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء ہولناک چینیں اٹھیں کہ اے خدا اس احتساب نے تو ہمارا کچھ رہنے ہی نہیں دیا، ہمارا سارا وجود غائب ہو گیا ہے.تو ہی تو ہے اس کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.یفی ہے جو دراصل لا الله کا مضمون بتاتی ہے.اپنے وجود کی نفی حقائق کے حوالے سے، فرضی باتوں کے حوالے سے نہیں ، اپنے عیوب پر نظر رکھتے ہوئے، ایک ایک عیب کو پہچانتے ہوئے ، اس کے داغوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ، اے خدا یہ بھی مجھ میں داغ ہے، یہ بھی داغ ہے، یہ بھی داغ ہے اور ہر زندگی کے دائرے میں یہ داغ ہیں.پس کس کس دائرے سے میں سفر شروع کروں اور کس طرح ان داغوں سے پاک ہو جاؤں.یہ جو مضمون ہے اس کو انبیاء سے بڑھ کر اور کوئی نہیں سمجھتا اس لئے ساری زندگی استغفار میں گزارتے ہیں یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ ان کی بخشش کے وعدے کرتا ہے، کھول کر بیان فرما دیتا ہے کہ تیرے پچھلے گناہ بھی معاف، تیرے اگلے بھی جن کو تو گناہ سمجھ رہا ہے جن کو تو داغ دیکھ رہا ہے اللہ کی نگاہ میں وہ داغ رہے نہیں.یہ وہ مضمون ہے جو آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.جاہل دشمن سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہ رہا ہے کہ تیرے گناہ جو پچھلے تھے وہ بھی مٹ گئے جو اگلے تھے وہ بھی معاف کر دوں گا ہر گز یہ مضمون نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ تو اپنی زندگی میں جو داغ دیکھ رہا ہے یہ تیرے انکسار کی انتہا ہے اور آئندہ زندگی بھی ہمیشہ تیری داغوں سے پاک ہی رہے گی.پس بخشش سے مراد یہ ہے کہ ہم نے تجھے داغوں سے صاف کر دیا ہے، تیری استغفار قبول ہو چکی ہے اور استغفار کا ایسا درجہ کمال تک مقبول ہو جانا یہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں ہمیں دکھائی دیتا ہے.پس یہ گناہوں کی طرف اشارہ کرنے والی آیت نہیں بلکہ گناہوں سے کلیۂ پاک ہو جانے والا مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے تبھی جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بتایا تھا آپ کو الحمد عطا ہوئی ہے.سبحان کی ساری منازل آپ نے طے کی ہیں تب الحمد کے مضمون میں داخل ہوئے ہیں اور شریعت کو اور دین کو درجہ کمال تک پہنچا دیا گیا.پس ہم نے اس عظیم رسول ﷺ کی پیروی کرنی ہے اور آپ ہی کے صدقے ، آپ ہی کی بدولت ہم نے یہ سارے مضمون سیکھنے اور ان کو اپنی ذات میں جاری کرنا ہے.پس محض علمی اور عرفان کے مضامین کی بحث کے طور پر میں نے یہ باتیں نہیں چھیڑیں.میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ عملی اقدام ہے جو ہم میں سے ہر ایک کر سکتا ہے خواہ

Page 93

خطبات طاہر جلد 16 87 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء کسی قسم کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو تسبیح کا مضمون سمجھ جائے پھر حمد کے مضمون اس پر از خود روشن ہونے شروع ہو جائیں گے اور تسبیح کے مضمون کے لئے سچائی ضروری ہے.کوئی سفر تسبیح کے مضمون میں ممکن ہی نہیں جب تک انسان کلیۂ سچا اور کلیۂ عادل نہ ہو.سچائی اور عدل یہ دوشرطیں ہیں جن کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کی تسبیح کے وقت اپنے نفس کا محاسبہ کر سکتا ہے اور موازنہ کر سکتا ہے.پس سچائی پر قائم ہو جائیں ، عدل سے فیصلے کریں.اپنے قریب ترین انسان کے اندر بھی اگر کمزوری ہو تو اس سے مغفرت کا سلوک کریں مگر اس کو نظر انداز نہ کریں اس پر پردے نہ ڈالیں ان معنوں میں کہ گویا وہ کمزوری ہے ہی نہیں.تو دوسروں کے معاملے میں جب آپ یہ سلوک کریں، جب پیارے ہوں تو اس وقت یہ بات مشکل ہو جاتی ہے.اس لئے اس حوالے سے سفر کی بجائے نفس کے حوالے سے سفر شروع ہوا ہے کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ پیارا خود انسان ہوا کرتا ہے اپنے سے زیادہ پیاری اور کوئی چیز نہیں ہے کسی اور کو اس پیار کے تقاضے پورے کرنے والے جو وجود ہیں جتنا جتنا قریب ہوں اتنے پیارے ہوتے چلے جاتے ہیں.پس آخری صورت آنا کی ہے انسان کی اندرونی نفس.قرآن کریم نے اس مضمون کو آگے جا کر بہت کھولا ہے.آخری سورتوں میں بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ تمہیں وہم ہے کہ تمہارے بچے، تمہارے اقرباء، تمہارے محبوب تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں.جب عذاب کا وقت آتا ہے ، جب پکڑ کا وقت آتا ہے اس وقت پتا چلتا ہے کہ تم کس قدر جہالت کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے.یہ پیارے اس لئے ہیں کہ تم اپنے آپ کو پیارے ہو جہاں تمہارے پیار کا تصادم ان کے پیار سے ہو گا لا ز ما تم اپنے حق میں فیصلہ دو گے انکے حق میں فیصلے نہیں دو گے.پس مائیں اپنے بچوں کو پیش کر دیں گی کہ اے خدا یہ ہمارے عذاب کو ٹال دیں.مائیں کہیں گی میرے اور میرے عذاب کے درمیان یہ بچہ حائل ہو جائے مجھے نجات مل جائے.اس سے زیادہ اور خوفناک منظر کیا انسان سوچ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے ان حقائق کو اتنی صفائی اور گہرائی کے ساتھ اس تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ انسان کے لئے غلط نہی کی کہیں کوئی ادنی گنجائش باقی نہیں چھوڑی.پس تسبیح اگر ذات کے حوالے سے شروع ہوگی تو گردو پیش کے تمام تعلقات میں یہ صیح طور پر جاری ہو سکتی ہے ورنہ نہیں ہو سکتی.اپنے اوپر جھوٹا رحم نہ کرو.آنحضرت ﷺ کی طرح

Page 94

خطبات طاہر جلد 16 88 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب : 73) ہو جاؤ یعنی اپنے نفس پر ایسی ظلم کی نگاہ ڈالنی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ کمزوری کو بھی نظر انداز نہ کرنا، کوئی رعایت نہ کرنی.اس پہلو سے دنیا کا کوئی نبی بھی ظلوم کہلانے کا مستحق نہیں ٹھہرا سوائے حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے کے اور اسی لئے سب سے بڑی امانت آپ کو عطا ہوئی ہے.جس کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں نے قبول کرنے اور اٹھانے سے انکار کر دیا اس امانت کو محمد رسول اللہ اللہ نے آگے بڑھ کے اٹھا لیا.پس تسبیح کا مضمون حضرت اقدس محمد مصطفیٰ سے سیکھیں.جب آنحضرت ﷺ سے پورے وعدے ہو گئے ، ہر قسم کی وضاحت ہوگئی کہ تجھے کوئی غم ، کوئی فکر نہیں سب چیزیں تیری بخشی ہوئی ہیں پھر بھی عبادت کرتے رہے راتوں کو اٹھ کر ، پاؤں سوج صلى الله جاتے تھے عبادت کرتے ہوئے.پوچھنے والے نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اب آپ کیا کرتے ہیں.فرمایا میں عبد شکور نہ بنوں؟ اتنابڑا احسان.(صحیح البخارى كتـاب الــرقاق باب الصبر عن محارم الله قوله عز وجل) ساری کائنات میں میں ہی تو ہوں جو اس عظیم احسان کا مظہر بنایا گیا ہوں تو کیا میں بیٹھ رہوں گا اس کے بعد.میری زندگی کا سفراب شکر کے مضمون میں داخل ہوا ہے اور یہ لا متناہی سفر ہے، کبھی ختم نہیں ہوسکتا.تو تسبیح سے تحمید اور تحمید سے شکر کے مضمون میں داخل ہوں تو آپ کی ساری زندگی بن جائے گی اور ایک زندگی کیا آپ دوسری سینکڑوں زندگیاں بنانے کے اہل ہو جائیں گے جو آپ کے بعد آنے والی ہیں.بعد میں آنے والی نہیں اپنے ماحول، اپنے گردو پیش میں یہ صفات اپنی ذات میں جاری کریں اس قسم کا وجود بننے کی کوشش کریں تو آپ کا گھر سدھرنا شروع ہو جائے گا، آپ کا ماحول سدھرنا شروع ہو جائے گا.آپ کے محلے ، آپ کی گلیاں، آپ کے شہر سدھرنے شروع ہو جائیں گے.پس اس رمضان سے یہ فائدہ حاصل کریں کہ واقعہ آپ دنیا کے مذکر اور مزکی بن کر نکلیں اور یہ اسی طرح ہو گا کہ اپنے نفس کا محاسبہ کریں اور احتساب کے ذریعے اس رمضان کے ختم ہونے سے پہلے اپنے پہلے گناہوں سے کلیۂ پاک ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کی بخشش کے انعام حاصل کرنے کے بعد نئی بخششوں کا سفر شروع ہوگا یعنی کلیۂ پاک ہو ہی نہیں سکتے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مگر ہر رمضان آپ کو پہلے سے بہتر حالت میں دیکھے.

Page 95

خطبات طاہر جلد 16 89 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس وضاحت کے بعد جو بھی دن باقی ہیں وہ اس قسم کے احتساب میں صرف ہوں گے نہ کہ محض روزے رکھنا ثواب کی خاطر.روزے رکھنا اپنے نفس کے گہرے جائزے کے ساتھ ، ایک ایک چیز کی چھان بین کرنا، ہر نقص کی تلاش کرنا اسے دور کرنے کے لئے کوشش اور جدو جہد کرنا اس کو اپنی ساری زندگی کا ایک پیشہ بنالیں جس سے کبھی پھر جدائی نہ ہو، کبھی بھی آپ اس پیشے سے غافل نہ رہیں.اس مختصر نصیحت کے بعد مختصر تو بظاہر آپ کو نہ شاید گی ہومگر جتنا وسیع مضمون ہے اس پہلو سے واقعہ یہ بہت مختصر ہے مگر میں امید رکھتا ہوں کہ بات اتنی کھل گئی ہے کہ اب ہر احمدی کسی بھی علمی معیار کا ہو وہ اس مضمون کو سمجھ کر انشاء اللہ اس سے استفادہ کر سکے گا.اب آخر پر میں ایک نماز جنازہ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں جو مکرم ومحترم چودھری احمد مختار صاحب سابق امیر جماعت کراچی کی نماز جنازہ ہوگی جو عصر کی نماز کے معابعد ہوگی.چوھدری صاحب کا ذکر خیر ان کے لئے دعا کی تحریک کی خاطر کچھ کرنا لازم ہے.آپ موضع دیڑھ چک 29 سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ میں 1909ء میں پیدا ہوئے.تو اس پہلو سے آپ کی عمر تقریباً 90 سال بنتی ہے اور ان کی زندگی کا آغاز بہت غربت میں ہوا ہے.والد چونکہ جوانی میں فوت ہو گئے تھے اس لئے آپ میٹرک سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکے اور پھر کو آپریٹو بینک میں بطور آڈیٹر ملازم ہوئے.پھرشاہنواز لمیٹڈ دیلی میں بطور ڈائریکٹر ملازمت اختیار کی.پھر تقسیم ملک کے بعد آپ نے کچھ عرصہ شاہنواز میں کام کے بعد اپنا آزاد کاروبار شروع کیا اور آخر وقت تک اس کا روبار میں سے کیمیکلز کی جو ایجنسی تھی وہ آپ کے پاس ہی رہی اور چونکہ ہمہ تن جماعت کے کاموں کے لئے وقف ہو چکے تھے اس لئے آپ کے بیٹے عزیزم چودھری انیس احمد صاحب ان کا کام چلاتے رہے، صرف عمومی نگرانی کرتے تھے مگر سارا وقت جماعت کے لئے وقف رہے.جماعتی عہدوں کا آغاز کراچی میں سیکرٹری امور عامہ سے ہوا پھر زعیم انصاراللہ بنے پھر نائب امیر جماعت کراچی منتخب ہوئے.پھر 1965ء میں امیر جماعت احمدیہ کراچی منتخب ہوئے اور گزشتہ تقریباً ساڑھے تین، چار ماہ پہلے تک آپ امیر جماعت کراچی ہی رہے.اس دوران میں جو غیر معمولی خدمتوں کی توفیق ملی ہے اس کی تفصیل تو بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے.جماعت احمد یہ کراچی پر آپ نے بے حد محنت کی ہے اور چوہدری محمد عبداللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس معیار پر

Page 96

خطبات طاہر جلد 16 90 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء جماعت کو پہنچایا تھا اس کو قائم رکھنا اور آگے بڑھانا کوئی معمولی کام نہیں تھا مگر انہوں نے ہر پہلو سے اس خدمت کا حق ادا کیا لیکن علمی کمی جو میں نے بیان کی ہے وہ دراصل محض ڈگریوں کی حد تک علمی کمی تھی.ابھی میں نے جمعہ میں مضمون بیان کیا ہے کہ انسان نیکی اور تقویٰ سے ظاہری علمی کمی کو پورا کر سکتا ہے اور بہت بلند علمی مقامات تک پہنچ سکتا ہے.چودھری صاحب کے اوپر جب ہم غور کرتے ہیں تو اس پہلو سے حیرت ہوتی ہے کہ آپ کی زبان انگریزی بھی بہت اعلیٰ تھی اور بے حد پڑھنے کا شوق.اور ایک میٹرک پاس آدمی سے انسان یہ توقع کر ہی نہیں سکتا کہ اتنا گہرا علم حاصل کر لے گا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو ایسا عشق تھا کہ آپ اپنے طور پر روزانہ جماعتی کاموں کے علاوہ صبح شام چار گھنٹے باقاعدگی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب کا انڈیکس بنانے میں صرف کرتے تھے.آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ، جو دوسری شادی تھی ، پروین مختار جو ہمارے انگلستان کی رہنے والی ہیں اور لجنہ کے کاموں میں میری مددگار ہیں، لجنہ کے مرکزی کاموں میں رپورٹیں وغیرہ مرتب کرنا، ٹیم بنائی ہوئی ہے اور ہر قسم کے جوابات بھجوانے کی آخری ذمہ داری ان پر ہے، ایک یہ ہیں.دو بیٹے ہیں ایک محمود مختار صاحب جو انگلستان ہی میں رہتے ہیں اور ایک انیس صاحب جن کا ذکر گزرا ہے اور ایک ان کی بیٹی ہیں، یہ تین بچے انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں.اس ضمن میں یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ کن حالات میں گزشتہ چار ، ساڑھے چار ماہ پہلے ان کو جماعت کی امارت کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا.اول تو یہ کہ گزشتہ دوسال سے بہت گہری بیماریاں لاحق ہوتی رہیں یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک پھیپھڑا Collaps کر گیا اور لگتا یہ تھا کہ اب یہ آخری وقت ہے.مگر بے حد تو کل اور ہمت تھی ہر قسم کی بیماری کا مقابلہ بڑے صبر سے کرتے تھے اور ہمیشہ ہر بیماری پر مجھ سے فون پر رابطہ کر کے ہومیو پیتھک علاج بھی کروایا کرتے تھے.ہومیو پیتھک خود بھی عبور تھا اور یقین تھا مگر ساتھ ہی دوسرے علاج سے بھی کبھی آپ نے تر در نہیں کیا علاج کروانے میں.ڈاکٹر احسان صاحب ہیں ہمارے بڑے مخلص، ایک خدمت کی روح رکھنے والے ڈاکٹر اور بڑے قابل ڈاکٹر ہیں وہ ہمیشہ ان کا خیال رکھتے رہے.تو گزشتہ دو تین سال سے میں نے محسوس کیا تھا کہ جماعتی ذمہ داریوں کے لئے جتنی طاقت چاہئے وہ طاقت رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں پھر چند ماہ پہلے مجھے کراچی کی

Page 97

خطبات طاہر جلد 16 91 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء جماعت کے بعض ذمہ دار عہدیداران نے بعض انتظامی کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی اور میں جانتا ہوں کہ انہوں نے پوری نفس کی صفائی کے ساتھ ایسا کیا، ہرگز کسی منفی جذبے کے ساتھ تنقید کی خاطر نہیں کیا.وہ چودھری صاحب کا بڑا احترام کرنے والے لوگ تھے.مگر چونکہ ان کا دینی تقاضا تھا، اپنی اس وفا کا تقاضا تھا جو نظام سے ہر احمدی کو ہونی چاہیے اس عزت اور احترام کے باوجود انہوں نے چودھری صاحب کو بھی مطلع کیا کہ میرے نزدیک یہ انتظامی کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں اور آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور مجھے بھی مطلع کیا.چنانچہ بعض ایسے معاملات تھے جن کو اس صورت میں نظر انداز کرنا میرے فرائض کے منافی ہوتا.پس اپنے ذاتی ، گہرے، پرانے تعلق کے باوجود ان خدمات کا اعتراف رکھنے کے باوجود جو انہوں نے سرانجام دیں یہ بات لازم تھی کہ جماعت کو بتایا جائے کہ نظام جماعت میں اگر کوئی کمزوری پیدا ہوگی تو اس کی تحقیق لازم ہوگی خواہ کوئی کیسا ہی بڑے مرتبے تک پہنچا ہوا انسان ہو جس کی طرف وہ کمزوری منسوب کی گئی ہو اور انصاف کا تقاضا ہے کہ چھوٹے عہد یدار کے خلاف شکایت ہو یا بڑے سے بڑے کے خلاف شکایت ہوا ایسے شخص کے خلاف شکایت ہو جس کی ساری زندگی وقف رہی ہو جماعت کے لئے تب بھی اگر ان معاملات میں دوسروں کے تعلق میں کمیشن بیٹھے ہیں اگر ان معاملات میں دوسروں کو وقتی طور پر معطل کیا گیا ہے تو لازماً ایسے موقع پر ایسے شخص کو بھی معطل ہونا چاہئے.چنانچہ چودھری صاحب خود اس بات کو سمجھتے تھے اور انہیں ایک ذرہ بھی اس بات میں شکوہ پیدا نہیں ہوا.صرف استغفار کے خط ملا کرتے تھے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے اس ابتلا سے ثابت گزاردے اور تحقیق کے نتیجہ میں کوئی داغ نہ مجھ پر آئے.چنانچہ گزشتہ جو تحقیق ہوئی اس کے نتیجہ میں یہ بات تو کھل گئی کہ آپ انتظامی طور پر بار یک ذمہ داری ادا کرنے کے لئے اتنی صحت نہیں رکھتے اور کمیشن نے جو بات کھولی وہ یہی تھی کہ آپ میں اب یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنے ماتحتوں کی اس طرح نگرانی کریں جس طرح پہلے کیا کرتے تھے.اس لئے اگر ماتحتوں سے ان باتوں میں کوئی نقص واقع ہوا ہے تو امیر کو اس کی ذمہ داری سے الگ نہیں کیا جا سکتا.اس پہلو سے وہ تعطل جو تھا وہ جائز قرار پایا.مگر آخری رپورٹ سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کو بلا لیا تا کہ یہ معاملہ اسی طرح ختم ہو اور جہاں تک ان کے اوپر کسی قسم کی سرزنش کا تعلق ہے اس کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا.مجھے پورا یقین ہے کہ ذاتی طور پر آپ ہر داغ سے پاک تھے اس معاملے میں.مگر وہ صحت کی کمزوری جس کا

Page 98

خطبات طاہر جلد 16 92 خطبہ جمعہ 31 /جنوری 1997ء میں نے ذکر کیا، اس کے نتیجے میں مجبور تھے اور گہری تفصیلی نگرانی کر نہیں سکتے تھے.پس جب جماعت کراچی نے مجھ سے پوچھا کہ ان کی وصیت کے متعلق کیا کرنا ہے.میں نے کہا کہ لازماً وہ قائم وصیت ہے، بہت عظیم خدمات کی ہیں.جماعت احمدیہ کراچی پورے اعزاز کے ساتھ اور پوری وفا کے ساتھ ان کی تجہیز و تکفین کے فرائض سرانجام دے اور محبت بھری دعاؤں کے ساتھ اس مرحوم بھائی کو رخصت کرے اور اس لئے ان کے لئے بہشتی مقبرہ میں چوہدری انور حسین صاحب مرحوم کے ساتھ جو جگہ تھی خالی ، وہاں میں نے ان کی تدفین کا فیصلہ کیا ہے.تو یہ وضاحت اس لئے ضروری تھی کہ لوگوں میں یہ باتیں پھیل تو جاتی ہیں کہ ایک شخص جو اتنی بڑی قربانی کرنے والا ، اتنے لمبے عرصے تک خدمتیں سرانجام دیتارہا، وہ معطل ہو گیا ہے لیکن ان کو یہ نہیں پتہ کہ اس شخص کا کیا احترام میرے دل میں ہے اور میری کیا مجبوریاں تھیں کہ اس کا وہ فقطل لازماً کرنا ہی پڑنا تھا.تو یہ تمہید ان الزامات سے ان کو صاف کر رہی ہے جس کے متعلق بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا یہ خود بعض باتوں میں ملوث تھے.میں اس کی وضاحت کر رہا ہوں ہرگز کوئی ایسی بات ثابت نہیں.بلکہ وہی کمزوری تھی جو دراصل صحت کی کمزوری تھی جس پر بالآخر آپ کو چند روز تک اس علالت کا سامنا کرنا پڑا جو جان لیوا ثابت ہوئی.دراصل اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کے Lungs میں کینسر تھا اور ان کے بیٹے نے ڈاکٹری رپورٹ میں جو اس نے اب بتائی ہے ان کو، یہ دیکھ کر مجھے فون پر بتایا کہ دراصل کینسر کا Lump بن گیا تھا اور یہ کوئی فور پیدا ہونے والی بات نہیں، پرانی بات تھی.پہلی بیماریوں کے حملے بھی اسی وجہ سے تھے.مگر ایک حد تک مقابلہ تو ہو سکتا ہے مگر کینسر جب اتنا اوپر اتنا پرانا ہو جائے اور اچھی طرح پنجے گاڑے تو پھر بالآخر انسان کو اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور یہ رمضان کے جمعہ میں اکیسواں رمضان کا جمعہ ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ان پر احسان ہے.بہت وسیع خدمتیں کی ہیں، بڑے انتھک کام کئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کی اولا داور عزیزوں اور ساری جماعت کراچی کو ان کی اعلیٰ اقدار کے ساتھ چھٹے رہنے کی توفیق بخشے.اس تمہید کے بعد اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور عصر کی نماز کے فوراً بعد انشاء اللہ نماز جنازہ ہوگی.

Page 99

خطبات طاہر جلد 16 93 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء یہ فیصلہ کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے برائیوں کے شہر کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کر دیں گے.خطبه جمعه فرموده 7 فروری 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: اِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضُى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَوَانُ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرُّ دَعَارَبَّهُ مُنِيْبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ اَنْدَادَ الْيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَّعُ بِكُفْرِكَ قَلِيْلًا إِنَّكَ مِنْ أَصْحُبِ النَّارِه أَمَّنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَا بِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ (الزمر: 108) پھر فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جمعہ کا دن ہے جس دن تمام دنیا میں اس کثرت سے نمازی مساجد میں اکٹھے ہوتے ہیں کہ تمام سال کسی اور موقع پر ایسا مساجد کا اجتماع دکھائی نہیں دیتا.یہ زیادہ

Page 100

خطبات طاہر جلد 16 94 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء سے زیادہ وہ تعداد ہے جن کو نماز پڑھنے کی توفیق تو ہے مگر دوران سال یہ اس توفیق سے فائدہ نہیں اٹھاتے رہے.کچھ وہ ہیں جو ہمیشہ آنے والے ہیں اور ان کا مسجد سے تعلق ایک دائمی تعلق ہے جو کبھی کٹ نہیں سکتا.رمضان آئے یا رمضان گزر جائے قطع نظر اس سے وہ اپنے رب سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ رہتا ہے اور اس بناء پر ان کا مساجد سے تعلق ایک داعی تعلق ہے کسی موسم کا محتاج نہیں لیکن جو آج آئے ہیں وہ بھی خدا ہی کی خاطر آئے ہیں اور کئی امنگیں لے کر آئے ہیں.کئی ان میں سے یہ سوچ کر آئے ہیں کہ شاید یہ ایک ہی جمعہ ہمارے گزشتہ سال کے خلاؤں کو بھر دے.آج خصوصیت سے ایسے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے ان آیات کریمہ کا انتخاب کیا ہے جن کا میں نے ترجمہ ابھی پڑھنا ہے، خاص طور پر میں ان کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.یہ درست ہے کہ بعض دفعہ ایک جمعہ بھی گزشتہ ایک سال ہی کے نہیں گزشتہ تمام عمر کے خلاؤں کو بھر سکتا ہے، ایک لمحہ بھی ایسا کر سکتا ہے، وہ رات بھی جسے لیلۃ القدر کہتے ہیں یہی تو کام کرتی ہے کہ ساری زندگی کے خلاؤں کو بھر دیتی ہے.مگر اس کی کچھ شرطیں ہیں اور ان شرطوں میں سے سب سے اہم بنیادی شرط اس سورۃ القدر کے آخر پر بیان ہوئی ہے کہ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر:6) مَطْلَعْ الْفَجْرِ اس کے بعد ضروری ہے.وہ رات پھر قائم نہیں رہا کرتی اور جو فجر ہے وہ اتنی لمبی ہے کہ ساری زندگی کے لمحوں پر حاوی ہو جاتی ہے.پس یہ امیدیں بے سود نہیں ، فرضی نہیں ، گمان کی نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ ایک جمعہ بلکہ چند لمحات بھی انسانی زندگی کے تمام خلاؤں کو بھر سکتے ہیں لیکن ان شرطوں کو پورا ہونا چاہئے جو قرآن کریم نے کھول کھول کر بیان فرمائیں اور محض بخشش پر نظر نہیں بلکہ تو بہ کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا چاہئے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جو آج کے مہمان ہیں محض آج ہی کے مہمان نہیں رہیں گے بلکہ ہمیشہ کے لئے مساجد سے اپنا تعلق جوڑلیں گے اور جب مساجد سے ان کا تعلق جڑے گا تو لازماً خدمت دین کے مختلف مواقع بھی ان کو میسر آئیں گے اور زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو جائے گی.پس سادہ ،صاف ستھرے لفظوں میں قرآن کریم کی ان آیات کے حوالے سے میں ان کو کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے اِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ ۖ الكفر کہ یاد رکھو اگر تم ناشکری کرو یا خدا کا انکار کر دو دونوں صورتوں میں اللہ تو غنی ہے وہ تمہارا

Page 101

خطبات طاہر جلد 16 95 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء محتاج نہیں.تم اگر تمام تر بھی خدا سے پیٹھ پھیر کے چلے جاؤ تو وہ جو عالمین کا رب ہے اسے ایک دور کے چند آدمیوں کی کیا پر واہ ہو سکتی ہے.لیکن اس کی لاپرواہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمہاری بھلائی میں اسے کوئی دلچسپی نہیں.فرمایا وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ تمہیں اجازت تو دے رکھی ہے کہ چاہو تو کفر اختیار کر جاؤ کیونکہ یہ جو انسانی زندگی کا ماحصل ہے وہ اس اختیار سے وابستہ ہے چاہو تو یہ کرو چاہو تو وہ کرو.پس خدا تعالیٰ زبر دستی تو تمہیں کسی نیکی پر قائم نہیں فرمائے گا اور اگر تم چلے جاؤ تو اس کی پرواہ بھی کوئی نہیں، اس کا کوئی نقصان نہیں مگر چاہتا یہ ہے کہ تم کفر سے بچ جاؤ.وَلَا يَرْضُی لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اپنے بندوں کے کفر پر خدا راضی نہیں ہوتا.اسے پسند نہیں آتا کہ اس کے بندے ہوں اور شیطان کے بندے بن جائیں وَ اِنْ تَشْكُرُ وا يَرْضَهُ لَكُمْ اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے بہت راضی ہوگا اور یاد رکھنا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى - خدا تعالیٰ سے جو رضا تم نے چاہنی ہے اس میں تمہارے کوئی رشتے ، کوئی تعلق کام نہیں آئیں گے.کسی کی اولاد ہو یہ نہیں دیکھا جائے گا.کن بڑے لوگوں سے تمہارا تعلق ہے یہ بات خدا تعالیٰ کے حضور قابل پذیرائی ہی نہیں ہے.کوئی اس کا تعلق تمہاری بخشش سے نہیں.لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى یه ایک ایسا دائمی قانون ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں.کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گی.پس یاد رکھو اگر تم نے خدا کو راضی کرنا ہے تو لازماً تمہیں خود اس رضا کے حصول کے لئے کچھ کرنا ہوگا.ثُمَّ اِلى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ اور یاد رکھو تم میں سے ہر ایک نے اپنے رب کے حضور واپس لوٹ کر جانا ہے اس لئے یہ گمان کہ دنیا میں ہم غفلت کی حالت میں وقت گزار بھی دیں تو کیا فرق پڑتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.اچھی طرح ہوش سے اس بات کوسن لو کہ تم نے لازماً خدا کے حضور جانا ہے اور اس قانون کے ساتھ جاؤ گے کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى کہ تمہارا نہ عزیز، نہ رشتے دار، نہ دوست ، نہ کوئی بزرگ، نہ اولاد، کوئی تمہارے کام نہیں آئیں گے.تمہیں خود اپنا حساب دینا ہوگا ، اپنے معاملات کو خدا تعالیٰ کے حضور رکھنا ہوگا اور اس میں تم پوچھے جاؤ گے.ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تمہارے اعمال کی کیا حقیقت تھی ہم زندگی میں کیا کرتے رہے اور جن باتوں کو تم اچھا سمجھتے تھے ان کی اصل حیثیت کیا تھی.اچھی تھی یا بری تھی یہ سارے مسئلے قیامت کے دن حل

Page 102

خطبات طاہر جلد 16 ہوں گے.96 96 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء فرمایا اِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ یاد رکھنا تمہارے سینوں کی گہرائیوں تک خدا واقف ہے.یہ گمان دل سے نکال لو کہ کوئی کام اس سے چھپ کے بھی کر سکتے ہو.کوئی ایسی زندگی بھی گزار سکتے ہو جس کا خدا کو علم نہیں اس لئے قیامت کے دن تم پرستش سے بچ جاؤ گے.فرمایا وہ سینوں کے اندر چھپے ہوئے رازوں سے بھی واقف ہے.ذَاتِ الصُّدُورِ کا مطلب ہے جو کچھ بھی سینوں میں ہے، سینے والی باتیں مراد ہے.وَ إِذَا هَشَ الْإِنْسَانَ ضُرُّ دَعَارَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ يه ایک دائی انسانی فطرت کا بیان ہے کہ وہ کیسے خدا تعالیٰ سے معاملہ کرتا ہے.وہ لوگ جو عام طور پر خدا کو بھول جاتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں خدا کا کوئی عمل دخل نہیں رہتا خدا ان کی یادوں سے بھی باہر نکلا رہتا ہے.دنیا کے کاموں میں مصروف دنیا کی عزتوں کا پیچھا کرتے ہوئے ، دنیا کے اموال کی پیروی کرتے ہوئے ، ان کی ساری زندگی ضائع چلی جاتی ہے.ہاں جب تکلیف پہنچتی ہے.إِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُر جب بھی کوئی تکلیف انسان کو چھو جائے.دَعَارَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ وہ اللہ کی طرف جھکتا ہوا اس کے حضور گریہ وزاری کرتا ہے یا اس کے حضور دعائیں کرتا ہے.دُعا ربہ میں گریہ وزاری کا مضمون ظاہرا تو نہیں مگر شامل ہے.جب تکلیف ہو تو انسان گریہ وزاری ہی کے ساتھ دعا کیا کرتا ہے.ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً پھر جب اللہ تعالیٰ اسے کوئی نعمت عطا فرما دیتا ہے.نَى مَا كَانَ يَدْعُوا بھول جاتا ہے کہ وہ کیا دعا ئیں کیا کرتا تھا یا کون سی دعا ئیں اس نے کی تھیں جن کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصیبت کو ایک رحمت میں تبدیل فرما دیا.وَ جَعَلَ لِلهِ اَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِہ اور وہ اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرانے لگتا ہے اور اس حد تک ٹھہرانے لگتا ہے کہ دوسروں کو بھی اس راہ سے گمراہ کر دے.قُلْ تَمَتَّعُ بِكُفْرِكَ قَلِيْلًا اِنَّكَ مِنْ أَصْحُبِ النَّارِ تو کچھ دیر بے شک ان باتوں میں جو زندگی کے مزے لوٹ سکتا ہے لوٹ لے لیکن یا درکھ کہ آخر آگ کا عذاب تیرے مقدر میں ہے تو اس سے بچ نہیں سکتا.اب یہ روز مرہ کی باتیں ہیں لیکن روز مرہ ہی انسان ان باتوں کو بھلائے رکھتا ہے.اکثر جو مزے سے بے تعلق رہنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کی زندگی بسا اوقات اپنے ہی معاملات کی جستجو میں کھوئی جاتی ہے، بالکل مگن ہو جاتی ہے.بیوی بچے ہیں، رہن سہن ہے، مکان، جائیدادیں،

Page 103

خطبات طاہر جلد 16 46 97 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء نوکریاں، دنیا کے کام اور پھر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اسے اپنے عیش و عشرت اور لطف کے حصول کے لئے انسان بے انتہاء خرچ کرتا ہے.جب جتنی توفیق ہو خرچ کرتا چلا جاتا ہے اور دنیا کی زندگی کا جو لطف ہے وہ اسے شراب کی طرح مدہوش رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ مل گیا تو میری زندگی کامیاب ہے اس لئے وہ ضرورت محسوس نہیں کرتا اس خدا کی طرف جھکنے کے لئے جو رب ہے جس کی ربوبیت کے نتیجے ہی میں اسے یہ سارے فیض ملتے ہیں.ہاں جب کوئی تکلیف پہنچے، کوئی حادثہ ہو جائے ، کوئی بیماری آجائے یا بعض دفعہ بعضوں کے کاروبار اچانک تباہ ہونے لگتے ہیں اور بڑی مشکلات درپیش ہوتی ہیں، چھٹیاں پڑ جاتی ہیں یا ویسے دنیا کے مصائب کی چکی میں انسان پیسا جاتا ہے، مظالم کا شکار ہو جاتا ہے یہ سارے وہ ہیں جن کو ”ضر “ کے لفظ کے تابع بیان فرمایا گیا اس وقت انسان خدا کی طرف جاتا ہے خواہ کیسا ہی دہر یہ کیوں نہ ہو، کیسا ہی بے تعلق کیوں نہ ہو.دراصل یہ مضمون ہے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والا.جب انسان غرق ہونے لگے تو جانتا ہوا بھی کہ تنکا مجھے کچھ فائدہ نہیں دے گا تنکا بھی نظر آئے تو اس پہ ہاتھ مار دے گا.تو اگر چہ ان کا خدا سے تعلق ایک سرسری سا تعلق ہوا کرتا ہے ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اس کی قدرتوں پر ایمان ایک کھوکھلا سا ایمان ہے مگر جب کچھ بھی دکھائی نہ دے تو پھر انسان اس ایمان پر ہاتھ مارتا ہے جسے وہ بے حقیقت اور کھوکھلا سمجھتا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی حالت میں اس کی بے قراری کے پیش نظر ہم سن بھی لیتے ہیں اور اس کی مصیبتیں دور فرما دیتے ہیں اور ان مصیبتوں کی جگہ اس کے لئے راحت اور آرام کے سامان کرتے ہیں.جب یہ کچھ ہو جائے تو پھر وہ شریک ٹھہرانے لگتا ہے.یہ مضمون کیوں پیدا ہوتا ہے.جب اس نے دعا کی اور دعا قبول ہو گئی تو پھر کیوں خدا کے سوا کسی اور طرف جھکتا ہے.اس کا جواب دراصل اس آیت کے پہلے حصے میں دیا جا چکا ہے.اس کو محض مجبوری ہے اور سخت انتہاء کی بے اختیاری ہے جو خدا کی طرف جانے پر مجبور کرتی ہے.اگر خدا پر اعتقاد ہوتا، یقین ہوتا ، ایمان ہوتا تو اس کی ساری زندگی اللہ سے تعلق میں کٹتی.اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت کے سلسلے ہمیشہ استوار رہتے.پس وہ عارضی طور پر جب گیا ہے تو دراصل ایمان نہیں ہے ویسی ہی بات ہے جیسا کہ میں نے کہا تھا ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا وہ ہاتھ مارتا ہے اور جب تنکا ، اسے جسے وہ تنکا سمجھ رہا ہے بچالیتا ہے تو یقین کرتا ہے کہ تنکا تو بچا سکتا ہی نہیں یہ میری ہی کوئی چالا کی ہے جو میرے کام آئی ہے.بدلتے ہوئے حالات کی اور تو جیہات کرنے لگتا ہے.وہ

Page 104

خطبات طاہر جلد 16 98 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء کہتا ہے دیکھو اس مصیبت میں میں پھنسا تھا پھر فلاں دوست کام آ گیا، میرے فلاں تعلقات کام آگئے.مجھے ایسی ترکیب سوجھی کہ میری ڈوبتی بزنس اچانک ابھری اور بہت کامیاب تجارت میں تبدیل ہوگئی.تمام Complements، تمام وہ جو قابل تعریف باتیں ہیں وہ اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا چلا جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے کہ دیکھو ہوشیار اور چالاک آدمی دیکھو کس کس مصیبت سے بچ کے نکل آتا ہے اس سے وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور دراصل دہر یہ وہ پہلے بھی تھا اب بھی ہے کیونکہ وہ خدا جس کی قدرتوں پر یقین ہو اس کے ساتھ انسان بے تعلق نہیں رہ سکتا، یہ آپ کے لئے سمجھنا ضروری ہے.بہت ہی اہم گہرے نفسیاتی نکات ہیں جو ان آیات نے پیش کئے.مراد یہ ہے کہ تم اگر روزمرہ کی زندگی میں اللہ سے بے تعلق رہتے ہو تو یہ تمہارا وہم ہے کہ تم خدا کے قائل ہو.دنیا میں جہاں بھی تمہارے مطالب حل ہوتے ہوں تو وہاں پہنچتے ہو اور ان چو کٹھوں کے حضور سر جھکاتے ہو جو دنیا کی چوکھٹیں ہیں، بڑے بڑے سیاست دانوں کے ساتھ دوستی پر ہی فخر ہورہا ہے اور یہ تعلق اتنا بڑھا لیا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے لوگ اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں.مگر قربان کیوں کرتے ہیں؟ اپنی انا کی خاطر کہ یہ ہمارا تعلق والا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری بڑائی ہے.پس اس کو نقصان پہنچے تو ہمیں بھی نقصان پہنچتا ہے لیکن بے حقیقت باتیں ہیں.پاکستان کے الیکشن میں پچھلے دنوں میں بعض لوگوں نے خود کشیاں کر لیں ، بعضوں نے خود سوزی کر لی ، آگ میں جل گئے کہ فلاں جو ہمارا محبوب تھا وہ کیوں نہ آیا اور وہ دوسرا کیوں طاقت میں آ گیا، تو یہ دنیا کی زندگی کی لعنتیں ہیں اس کے سوا ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.پس اگر انسان جن کو بڑا سمجھتا ہو ان کے ساتھ یہاں تک سلوک کرتا ہے اگر واقعۂ خدا پر یقین ہواور خدا کو حقیقہ بڑا سمجھتا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ خدا کی بڑائی سے تو منہ موڑے رکھے اور خدا کی طرف ہمیشہ روزانہ جب بھی نماز کا وقت آئے پیٹھ پھیر کر دنیا کی طرف چلا جائے اور پھر بھی اس کا خدا پر یقین قائم اور خدا کو بڑا سمجھ رہا ہے.پس یہ جھوٹ ہے، یہ جھوٹ کی زندگی ہے اس کی طرف متوجہ ہونا اس لئے ضروری ہے کہ امر واقعہ یہ ہے کہ جانا پھر وہیں ہے جس خدا نے ہمیں پیدا کیا، جہاں سے ہم آئے تھے اور جو نعمتیں ہمیں عطا ہوئیں اسی خدا نے عطا فرما ئیں جو رب العالمین ہے اور ان نعمتوں

Page 105

خطبات طاہر جلد 16 60 99 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء کے حصول کے باوجود ناشکری کی زندگی تو بہت ہی نا پسندیدہ زندگی ہے.ایک طرف دنیا کا انسان جو تمہیں کچھ دے سکتا ہے بسا اوقات نہیں بھی دیتا تو اس کی چوکھٹ پر سر پکتے چلے جاتے ہو.کتنے سیاستدان ہیں جنہوں نے دنیا کو، واقعہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو کچھ عطا کیا ہے، صرف ایک فخر ہی کا احساس ہے.یہ یقین ہے کہ ہم بڑے ہیں کیونکہ ہمارا دوست بڑا ہے، ہم اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر دیتے کب ہیں کچھ.اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے جس نے تمہاری زندگی کے سارے سامان پیدا فرمائے اس کا شکر کا تصور تک تمہارے دل میں پیدا نہیں ہوتا.اس کی عبادت کو یہ سمجھتے ہو کہ اتنا بوجھ ہے کہ مصیبت پڑ گئی ہے اس لئے سال کا ایک جمعہ بھی اس لئے پڑھا جاتا ہے کہ چلو سارا سال نہ ہی اس ایک جمعہ سے ہی خدا تعالیٰ راضی ہو جائے گا.نہ کوئی خرچ کرنا پڑا نہ کوئی مصیبت اٹھانی پڑی ، مفت کا یار کمایا گیا اور کیا چاہئے..اور دراصل بہت سے علماء بدقسمتی کے ساتھ لوگوں کو اس طرف، ان غلط راہوں کی طرف لے جاتے ہیں یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ خدا تو بڑا رحیم و کریم ہے کیا مصیبت پڑی ہے اس کی راہ میں محنتیں کرنے کی جمعتہ الوداع میں اگر تم چلے جاؤ اور جمعہ کے بعد عصر تک دعائیں کرو تو تمہاری سارے سال کی خطائیں ہی نہیں ساری زندگی کی خطائیں معاف ہو جائیں گی.پس جمعتہ الوداع کی برکتیں، اس کی عظمتیں بیان کر کر کے وہ بے وقوفوں کی عقلیں مار دیتے ہیں، جو کچھ تھوڑی سی عقل ہے اس کا بھی ستیا ناس کر دیتے ہیں اور قرآن کریم کے اس مضمون سے بالکل منافی تعلیم دے رہے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ یادرکھو عارضی طور پر اگر تم میرے پاس آؤ گے میں سن بھی لوں گا تو یا درکھنا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی.میرے پاس آکر اگر میرے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے تو پھر دائی میرے ہو کر رہو گے لیکن آئے اور چلے گئے ، یہ قطعی اس بات کی دلیل ہے کہ تم اپنے وقتی فائدے کی خاطر آئے تھے ، تمہارا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے.ان کے متعلق فرمایا.يُنبتُكُم كُنتُمْ تَعْمَلُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں بتائے گا پھر کہ تمہارے اعمال کیا تھے اور آخر دوسری آیت میں یہ نتیجہ نکالا ہے اے ایسے انسان اِنَّكَ مِنْ أَصْحُبِ النَّارِ تو آگ کا ایندھن ہے، اس کے سوا تیرا کوئی مقدر نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ تو یہ نقشہ کھینچ کر آگ کا انجام دکھا رہا ہو اور مولوی کہہ رہے ہوں کہ کوئی فکر کی بات نہیں آنحضرت ﷺ سے محبت کا دعوی کر لو پھر جو چاہے کرتے پھر وسب کچھ اجازت

Page 106

خطبات طاہر جلد 16 100 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء ہے اور وہ گناہ جو خدا نہیں بخش سکتا وہ آنحضرت علی بخشوالیں گے.یہ تصور جس قوم کو دے دیا جائے اس کا دین بھی گیا، اس کی دنیا بھی گئی ، کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہتا.پس بحیثیت احمدی آپ بیدار ہوں.اگر آپ نماز میں نہیں پڑھتے رہے تو یہ جمعہ خدا کرے آپ کے کام آجائے.مگر آئے گا اس طرح کہ اس جمعہ کے بعد آپ کی کیفیت بدل جائے پھر آپ ہمیشہ خداہی کے ہو جائیں یا ہونا شروع ہو جائیں.خدا کا ہو جانا تو ایک بہت بڑا کام ہے، بہت ہی بڑا دعوی ہے لیکن ہونا شروع ہو جانا تو کوئی مشکل کام نہیں.ایک سمت میں آپ کچھ قدم اٹھائیں تھوڑا بہت اس کی طرف جانا شروع کریں تو باقی کام پھر اللہ خود سنبھال لیتا ہے.پس میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں سفر جو ہے وہ مشکل کام نہیں ہے.آج کے جمعہ کی برکت سے آج اپنے لئے دعائیں کریں، ایک اپنے لئے لائحہ عمل تجویز کریں اور اس فکر کے ساتھ آج جمعہ سے فارغ ہوں کہ ہم اس جمعہ کی برکتوں کو باقی سال میں اپنے پاس سنبھالنے کے لئے کیا کریں گے.دیکھو اگر پیاس ہو، اگر فصلیں سوکھ رہی ہوں اور پھر پانی بر سے تو کون بے وقوف ہے جو اس پانی کو سنبھالنے کا انتظام نہیں کرتا.اگر کسی کے پاس برتن ہیں تو وہ برتن بھرے گا.اگر کسی نے فصل کے لئے تیاری کرنی ہے تو وہ گڑھے جن میں پانی اکٹھے کئے جاتے ہیں ان کے وہ کنارے درست کرے گا اور جہاں تک ممکن ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ اس پانی کو ایسا سنبھال لوں کہ دیر تک میرے کام آتا رہے، کچھ تو کرتا ہے انسان.تو آپ بھی سوچیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے.آج کا جمعہ آئے گا آپ اسے وداع کر کے واپس بعینہ انہی جگہوں پر چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے؟ یا آج ہی فیصلہ کریں گے کہ ہم نے کچھ تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.سادہ لفظوں میں جو تبدیلیاں پیدا ہونی چاہئیں جن کی ضرورت ہے وہ میں آپ کو سمجھاتا ہوں.سب سے اہم چیز عبادت ہے کیونکہ قرآن کریم نے اپنے تعلق کو عبادت ہی کے حوالے سے بیان فرمایا ہے مگر پہلے میں باقی تیسری آیت کا ترجمہ کر لوں پھر اس مضمون پر واپس آؤں گا.اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ أَنَا الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ - فرمایا کیا وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے ہاں بڑی فرمانبرداری کے ساتھ قانت معنی فرمانبرداری کے ساتھ ، اس

Page 107

خطبات طاہر جلد 16 101 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء کے حضور جھکتے ہوئے رات کی کچھ گھڑیوں میں سجدے کرتا ہے اور کھڑا رہتا ہے.يَحْذَرُ الْآخِرَةَ اور آخرت سے ڈرتا رہتا ہے.وَيَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ اور اللہ کی رحمت کی امیدیں لگاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے نیک توقعات رکھتا ہے کہ ہمیں بھی یہ نصیب ہو جائے.فرمایا قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُونَ کیا جانے والے نہ جاننے والوں کے برابر ہو سکتے ہیں.کیا عالم لوگ بے علم لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں یا بے علم لوگ عالم لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.علم کے اندر جو فضیلت اور برکت ہے وہی تو ہے جس نے دنیا کو مختلف حصوں میں بانٹ رکھا ہے.جو دنیاوی علم میں ترقی کرنے والی قو میں ہیں دیکھو وہ کس اعلیٰ حال تک جا پہنچی ہیں.دولتیں بھی ان کی ہیں، سیاستیں بھی ان کی ہیں، تہذیبیں بھی انہی کی ہو گئیں، وہی ہیں جو غریب ملکوں کو جو لا علم ہیں دراصل، علم کی کمی کی وجہ سے غریب ہیں ان کو اپنے زیر نگیں کئے ہوئے ہیں.ان کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں.جب بھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے تو باہر سے لوگ جاتے ہیں اور باہر سے جا کر فیصلے کرتے ہیں کہ ملک کا کیا حال ہے.ابھی آپ نے پاکستان کے الیکشنز میں یہ بات سنی ہوگی کہ آسٹریلیا کے نمائندوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن دیانتدارانہ ہوئے ہیں یا دنیا کے ترقی یافتہ قوموں کے نمائندوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایکشن دیانتدارانہ ہوئے.کبھی آسٹریلیا نے بھی پاکستانیوں کو بلایا ہے یا امریکہ نے دعوت دی ہے کبھی کہ خدا کے لئے آؤ اور دیکھو کہ ہمارے الیکشنز دیانتدارانہ ہیں کہ نہیں ہیں.اتنی ذلت ہے قوم کی کہ اس سے زیادہ آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا.باہر کی تو میں ٹھیکیدار بن کے آجاتی ہیں اور آکے فیصلے دیتی پھرتی ہیں اور فیصلے بھی ایسے حال میں دیتی ہیں جب ان کو پتا ہی کچھ نہیں لگ سکتا.ان کے اندر طاقت ہی نہیں.وہ خدا تعالیٰ جس طرح فرماتا ہے کہ وہ ذات الصدور جانتا ہے وہ تو چہرے بھی پہچاننے کی طاقت نہیں رکھتے.ان کو کیا پتا کہ اتنے بڑے ہنگاموں میں کیا کیا چالاکیاں ہیں جو استعمال کی جاتی ہیں اور فیصلہ ایک دے دیا ہے اور اسی کو پھر پیش کیا جارہا ہے ساری قوم کی طرف سے.اب بتاؤ آسٹریلیا کے نمائندوں نے کہہ دیا الیکشن ٹھیک ہیں تو ہم بالکل ٹھیک ہیں.کسی دن تم بھی بھیجو نمائندے کوئی وہاں اور وہاں کے الیکشن کے اعلان کر کے دیکھو.میں یہ تو نہیں کہتا کہ جوتیاں مار کے نکال دیں گے مگر حال وہی کریں گے جیسے جو تیاں ماری جارہی ہوں کہ تم ہوتے کون ہو

Page 108

خطبات طاہر جلد 16 102 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء بے وقوفو! تمہاری بات سنتا کون ہے، اہمیت کون دیتا ہے.تو یہ فرق ہے اصل میں علم کی برتری کا.یہ جو نمونے غریب دنیا میں دکھائے جا رہے ہیں سب جہالت کے نمونے ہیں.پس قرآن کریم نے علم کو نمایاں طور پر پیش فرمایا ہے.فرمایا ہے جو نیکی ہے وہ حقیقت میں علم سے پیدا ہوتی ہے اور سچے علم کے نتیجے میں یہ بات لازماً کھل کے سامنے آتی ہے کہ خدا ہی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.پس فرمایاوہ جو راتوں کو اٹھتے ہیں وہ پاگل نہیں ہیں.تم بے وقوف ہو جو سمجھتے ہو کہ یہ لوگ، مذہبی لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، خواہ مخواہ مصیبت ڈالی ہوئی ہے پانچ وقت اذانوں کے جواب میں وضو کر کے دوڑتے ہیں مسجدوں کی طرف اور پھر راتوں کو اٹھ کر بھی اپنا وقت ضائع کرتے ہیں یعنی اگر یہ نہ بھی کہو تو عملاً یہی سمجھتے ہو کیونکہ تم یہ کیوں نہیں کرتے پھر.اس لئے بڑے مزے سے جب کچھ لوگ عبادت کے لئے جارہے ہوں کچھ دوسری طرف اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں یہاں تک کہ اپنی روزمرہ کی دلچسپیاں جو معمولی ہیں ان کو بھی عبادت پر اہمیت دیتے ہیں.پس اس مضمون کو خدا تعالیٰ واضح کرنے کی خاطر فرماتا ہے کہ دیکھوا گر تم خدا تعالیٰ سے پیار میں یا اس پر یقین میں بچے ہوتے ، اگر واقعہ تمہیں یہ علم ہوتا کہ ایک اللہ ہے اور یہ علم ہوتا کہ اس کے حضور تم نے حاضر ہونا ہے یہ علم ہوتا کہ ساری رحمتیں اور نعمتیں اسی سے آتی ہیں، اگر یہ علم ہوتا کہ اس سے تعلق کٹ جائے تو انسان ہر سعادت سے محروم رہ جاتا ہے تو پھر تم وہ کرتے جو آنحضرت عﷺ اور آپ کے صحابہ کرتے ہیں.آمَنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِما یہاں ایک کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اور وہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا حوالہ ہے جن کی غلامی اور متابعت میں اور بھی ایسے بہت سے پیدا ہوئے.راتوں کو اٹھتے ہیں راتوں کا ایک بڑا حصہ خدا کے حضور کھڑے رہتے ہوئے یا سجدے کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی رحمت سے امید لگائے رہتے ہیں.اگر وہ ایسا کریں تو پھر بتاؤ کہ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُون کیسے خدا ایک جیسا سلوک کرے گا.یہ صاحب علم لوگ ہیں اور جہاں تک صاحب علم لوگوں کو تعلق ہے قرآن کریم حقیقی علم والوں ہی کو اُولُوا الْأَلْبَابِ قرار دیتا ہے.یہی ہیں جو عقل والے لوگ ہیں کیونکہ ان کا علم ان کی صحیح راہنمائی کرتا ہے.وہ علم جو خدا سے دور لے

Page 109

خطبات طاہر جلد 16 103 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء جائے اس کو قرآن کریم کی تعریف کی رو سے علم نہیں کہا جا سکتا.اگر علم سچا ہو تو ہر علم کو خدا کی جانب لے جانا چاہئے اور اگر علم سچا ہو اور خدا کی طرف نہ لے جائے تو علم والے جھوٹے ہیں.پھر وہ اُولُوا الْأَلْبَابِ نہیں ہیں کیونکہ علم کے نتیجے میں اور کوئی راہ ہے ہی نہیں ، ایک ہی رستہ ہے جس پر علم لے کے جائے گا.دنیا کے جتنے علوم ہیں ان پر آپ غور کر کے دیکھ لیں اگر آپ کو تفصیل سے ان کے مطالعہ کا موقع ملے تو ان میں سے جو دنیا کے سائنسدان ہیں جو اُولُوا الْأَلْبَابِ ہیں وہ لازماً اقرار کرتے ہیں کہ ایک خدا ہے اور اپنی برادری میں بظاہر پرانے لوگ شمار ہونے کے باوجود جن کے اوپران کے سائنسدان بھائی ہنستے ہیں کہ یہ تم نے کیا پاگلوں والی بات شروع کر دی ہے اتنے عالم ، اتنے قابل اور یہ فرسودہ باتیں کر رہے ہو کہ خدا ہے اور اسی نے کائنات کو پیدا کیا، اسی کی طرف سب نے جانا ہے اس کے باوجود چونکہ اُولُوا الأَلْبَابِ ہیں وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور کوئی بھی پرواہ نہیں کرتے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا، ان کی غیر معمولی عقل اور فراست اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو آپ کو علوم کی تہہ تک رسائی نصیب ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ سامنے تمسخر تو نہیں کر سکتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب سے ایک دفعہ گفتگو ہوئی وہ کہتے تھے مجھے پتا ہے، میں جانتا ہوں، مجھے احساس ہے کہ جب میں گزرتا ہوں تو کچھ سرگوشیاں ہوتی ہیں کہ یہ وہ ہے جو خدا کی ہستی کا قائل ہے.یہ وہ ہے جو یوم آخرت کا قائل ہے، یہ وہ ہے جس نے اپنی زندگی کو خدا کے حوالے سے ڈھالا ہے.کچھ عزت بھی کرتے ہیں لیکن محض اصول پرست ہونے کی وجہ سے یا عزت کرتے ہیں تو اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ایک با اصول انسان ہے، سچا ہے یا جھوٹا ہے، ہے با اصول.چنانچہ وہ اس سے احترام کا سلوک کرتے ہیں.کچھ ہیں جو پیٹھ موڑ کر پھر آپس میں اگر مذاق نہیں کرتے تو ہلکی پھلکی باتیں ضرور کریں گے کہ پتا نہیں اس بے چارے کو کیا ہو گیا ہے اچھا بھلا عقل والا لیکن یہ باتیں کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے بے وقوفوا بظاہر عقل والے ہو ، بظاہر علوم حاصل ہیں لیکن علوم جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ دیکھ نہیں رہے.اگر اُولُوا الْأَلْبَابِ ہوتے تو لا زنا تمہیں علم کی ہر انگلی خدا کی طرف اٹھتی دکھائی دیتی.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق فرماتا ہے إِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ علم کے باوجود تم نصیحت حاصل نہیں کر سکتے جب تک عقل اور فراست نہ ہو.اُولُوا الْأَلْبَابِ میں جو عقل کی تعریف ہے وہ قرآن کریم کی ایک خاص تعریف

Page 110

خطبات طاہر جلد 16 104 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء ہے جو دنیا کی تعریف سے الگ ہے.دنیا کی تعریف میں جو انسان اپنے مطلب کی خاطر جو کچھ اس کو حاصل ہوتا ہے اس کی پیروی کرتا چلا جاتا ہے خواہ چالاکی سے کرے، خواہ جھوٹ سے کرے،خواہ دھوکہ بازی سے کرے، خواہ انسان کی خوشامد سے کرے.عقل کا آخری فیصلہ دینا اس بات پر ہوتا ہے کہ اس نے اپنے مطالب کو پالیا.اس نے جو حاصل کرنا تھا خواہ دھو کے سے حاصل کیا، خواہ ظلم سے حاصل کیا، خواہ خوشامد سے حاصل کیا، خواہ اپنے نفس کی عزت پر چھری پھیر کر حاصل کیا، حاصل تو کر لیا، یہ آخری تعریف ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی قو میں ظاہر یہ تعریف نہیں کرتیں مگرفی الحقیقت اسی تعریف پر عمل پیرا ہیں.تمام دنیا کی سیاست عقل کی اس تعریف کے تابع ہے کہ مطلب حاصل کرنا ہے جھوٹ ، سچ ، ذلت، رسوائی ، عظمت ان کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے.سیاست صرف اس بات کا نام ہے کہ جس طرح بھی چاہو اپنے مقاصد حاصل کر لو اور اپنی قوم کے حق میں وہ کچھ حاصل کر لو جو خواہ دوسری قوم پر ظلم کے نتیجے میں حاصل ہو یہ عقل کی تعریف ہے.اللہ تعالیٰ نے اُولُوا الْأَلْبَابِ کی اور تعریف فرمائی ہے.ایسے لوگوں کا علم ان کو خدا کی طرف نہیں لے جاتا جو اس تعریف کے تابع دنیا میں کام کرتے ہیں ان کا علم انہیں ان چیزوں کی طرف لے جاتا ہے جو دنیا میں انہوں نے معبود بنارکھے ہیں لیکن وہ لوگ جو بچے ہیں، جن کی عقل روشن ہے جو صاحب عقل ہیں قرآن کریم کی رو سے، ان کے متعلق قرآن کریم نے بالکل مختلف نقشہ کھینچا ہے.فرماتا ہے: اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: 192،191) کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اور راتوں کے اور دن کے آپس میں ادلنے بدلنے میں لایت لِأُولِي الْأَلْبَاپ جو اہل عقل ہیں خدا کے نزدیک ان کے لئے ان میں بہت سے نشانات ہیں اور وہ نشانات کیا ہیں الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا

Page 111

خطبات طاہر جلد 16 105 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء قُعُودًا وہ کچھ دیکھتے ہیں دنیا میں جس کے نتیجے میں راتوں کو اٹھ کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور قعُودًا کبھی وہ بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں، کبھی کھڑے ہو کے عبادت کرتے ہیں.یہ مضمون دیکھیں کیسا واضح طور پر اس مضمون سے خدا تعالیٰ نے ملایا ہوا ہے.فرمایا أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قَائِمًا کیا وہ شخص جو راتوں کو اٹھتا ہے کبھی کھڑے ہو کے خدا کو پکارتا ہے، کبھی سجدہ ریز ہوکر دعائیں کرتا ہے اور خدا کا خوف اس کے دل پر غالب رہتا ہے اور اپنی ہر آرزو کو خدا کے حضور پیش کرتا ہے کیونکہ اس کے سوا وہ کسی اور چوکھٹ کی طرف نہیں جاتا اسی سے امید رکھتا ہے اسی سے دنیا کے شر سے بچنے کی خاطر توقع رکھتا ہے.پس ہر خوف خدا کے تعلق میں ہے.ہر خواہش، ہر تمنا اللہ کے تعلق میں ہے.فرمایا یہ لوگ ہیں جو يَعْلَمُونَ جاننے والے ہیں.اِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ وہی بات جو دوسری آیت میں تھی اس آیت میں بھی بیان فرمائی کہ نصیحت تو صرف اولی الالباب پکڑا کرتے ہیں اور نہ کوئی نصیحت نہیں پکڑتا.تو آپ سے میں پھر ان آیات کے حوالے سے اب گزارش کرتا ہوں کہ یہاں جو مرکزی نکتہ ہے وہ عبادت کا ہے اور عبادت میں رات کا حوالہ دیا ہے دن کا حوالہ نہیں کیونکہ رات کی عبادت خدا کے حضور خالص ہونے کی ایک خاص امتیازی شان رکھتی ہے.دن کی عبادتوں سے انکار نہیں ہے مگر رات کا حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ تم اگر واقعہ اللہ سے پیار کرتے ہو، حقیقت میں اس سے تعلق ہے تو ایسے وقت میں بھی اس کے حضور اٹھو گے جب دنیا کی آنکھ تمہیں دیکھ ہی نہیں رہی.بسا اوقات گھر میں بیوی بچے سوئے ہوئے ہیں ان کو بھی پتا نہیں کہ کون اٹھا ہے، کیوں اٹھا ہے اور وہ اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اور اس کے خوف سے ڈرتے ہوئے ، اس سے ہر خیر کی امید لگائے بیٹھے ہوئے ، کھڑے ہوئے بھی اس کی عبادت کرتا ہے سجدے میں بھی اس کی عبادت کرتا ہے تو یہ عبادت کے خلوص کی طرف اشارہ ہے.پس رمضان مبارک نے آپ کو عبادت کے گر سکھا دیئے ہیں.اگر آپ نے خود نہیں سیکھے تو سیکھنے والوں کو دیکھا ضرور ہے.کوئی مسلمان گھر شاذ ہی ایسا ہو جہاں کوئی بھی عبادت نہ کی جارہی ہو رمضان میں، جہاں کوئی بھی روزہ رکھنے والا نہ ہو.اگر ایسا ہے تو وہ بعید نہیں کہ آج اس جمعتہ الوداع میں بھی حاضر نہ ہوئے ہوں اس لئے ان تک تو نہ میری آواز پہنچے گی نہ وہ میرے مخاطب ہیں.میں

Page 112

خطبات طاہر جلد 16 106 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء ان سے بات کر رہا ہوں جن کے سینے میں کچھ ایمان کی رمق ضرور ہے اور خدا تعالیٰ نے ایمان کی اس رمق کو ہمیشہ پیار کی نظر سے دیکھا ہے ایک چنگاری تو روشن ہے، ایک امید تو ہے.پس میں ان سے مخاطب ہوں جن کے سینے میں یہ امید کی چنگاری روشن ہے.ابھی تک اگر راکھ تلے دب بھی گئی ہے تو اندر یہ کوئلہ ابھی جل رہا ہے اور زندہ ہے.پس اس پہلو سے آپ کو میں متوجہ کرتا ہوں کہ رمضان کی یہ برکتیں جو لوگوں نے جو دن کو عبادت کرتے تھے راتوں کو نہیں اٹھا کرتے تھے ان برکتوں نے انہیں راتوں کو اٹھنا بھی سکھا دیا، انہیں خدا کے حضور وہ اطاعت اور فرمانبرداری کی توفیق بخشی جو عام دنوں میں نصیب نہیں تھی.رمضان نے گناہوں سے بچنے کی ایک بہت بڑی توفیق عطا فرمائی جو وقت کے لحاظ سے مشروط ہی سہی مگر توفیق ضرور ملی.وہ لوگ جو اپنی بد عادتوں کو چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے یا چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ایک محدود وقت کے لئے جو سحری سے لے کر افطار تک چلتا ہے مجبور ہوتے ہیں ان باتوں سے رکے رہتے ہیں.تو رمضان نے سہارا دیا ہے، رمضان نے آپ کو نیکی کے کاموں پر چلنے کے لئے وہ سوٹا مہیا کر دیا جس کی ٹیک لگا کر آپ رفتہ رفتہ آگے بڑھ سکتے ہیں، اسے چھوڑ نہ دیں بالکل گولوں لنگڑوں کی طرح پھر وہیں نہ بیٹھ رہیں جہاں بیٹھے ہوئے اپنی عمر ضائع کی.اس لئے آج پروگرام بنا ئیں اور فیصلہ کریں.اس پانی کو اکٹھا کرنا ہے اس سے فیض حاصل کرنا ہے.اس لئے میں معین طور پر آج نئے آنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ وہ نماز کے متعلق ایک فیصلہ کریں.ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ بغیر نماز کے انسان مردہ ہے اس میں کوئی بھی جان نہیں.یہ وہم ہے کہ ایک نماز یا ایک جمعہ کی نماز یا ایک رات کا قیام ان کی تمام عمر کے خلاء کو پر کر سکتا ہے.آئندہ آنے والے خلاء پر کیا کرتا ہے پچھلے نہیں کیا کرتا ، پچھلوں سے بخشش ہوتی ہے لیکن جو زندگی کی روح اترتی ہے وہ آئندہ آنے والے دنوں پر اترا کرتی ہے.پس اگر آئندہ نہیں اتری تو پچھلی بخشش بھی نہیں ہوگی یہ وہم ہے صرف.اگر بخشش ہے تو لازماً رمضان کے بعد زندگی میں ایک نمایاں پاک تبدیلی ہونا ضروری ہے اس کے بغیر بخشش کا تصور ہی محض ایک بچگانہ تصور یا ایک احمق کی خواب ہے.پس اپنے لئے ایک لائحہ عمل بنائیں نمازیں پڑھنے کی طرف متوجہ ہوں.اگر آپ کو نماز پڑھنی آتی نہیں تو اپنے کسی بھائی ، ساتھی سے پتا کریں.انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، بجنات اس طرف

Page 113

خطبات طاہر جلد 16 107 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء توجہ کریں ان سب لوگوں تک جہاں تک ممکن ہے پہنچنے کی کوشش کریں اور ان سے کہیں کہ اگر تم نے کچھ سبق سیکھنے ہیں، طریقے معلوم کرنے ہیں ہم حاضر ہیں مگر کچھ نہ کچھ نماز ضرور شروع کرو.اگر چہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے مجھے کوئی حق نہیں کہ میں کہوں کچھ نہ کچھ مگر میں جانتا ہوں کہ انسان کمزور ہے اور اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ انسان کمزور ہے اسی لئے اس نے کچھ اس قسم کی رعایتیں دے رکھی ہیں کہ حسب توفیق آگے بڑھو تھوڑا تھوڑا نیکی کی طرف آگے بڑھنا شروع کرو.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ خود تمہاری طرف زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا.تو یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ میں آپ کو بتارہا ہوں کہ پانچ نمازیں فرض ہیں مگر آپ ایک ہی پڑھا کریں.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر پانچ کسی صورت نہیں پڑھ سکتے تو خدا کے لئے ایک تو پڑھیں.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے پانچ وقت کا کھانا میسر نہیں تو چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کی روٹی تو مل جائے، یہ مراد نہیں کہ پانچ وقت کی ضرورت نہیں ہے.پس آپ اور کچھ نہیں اول تو پانچ کے لئے کوشش کریں یہ عہد کر لیں کہ ہم نے نماز ضرور پڑھنی ہے.نمازیں شروع میں خالی رہیں گی رفتہ رفتہ بھریں گی.یہ خیال غلط ہے کہ نماز پڑھتے ہی آپ عرش معلیٰ کی سیریں کرنے لگ جائیں گے.یہ عمر بھر کی محنت ہے.ایک دم تو گندم کے بیج بھی نہیں بھرا کرتے.سارا سال، چھ مہینے کم سے کم محنت ہوتی ہے تو آخر پر جا کر ان کے اندروہ دودھ بنتا ہے جو پھر گندم میں تبدیل ہو جاتا ہے.تو آپ کو محنت کرنی ہوگی اور رفتہ رفتہ عبادت کے وہ خوشے نکلیں گے آپ کے دل سے، خدا جن کو دودھ سے بھر دے گا اور وہ دودھ ہے وہ آپ کے لئے روحانی رزق پیدا کرے گا.پس یقین رکھیں کہ لازماً ایک خدا ہے جس نے آپ کو پیدا کیا ہے.آپ کو بے فکری کی حالت میں مزید زندگی نہیں گزارنی چاہئے.یہ جہالت ہے، لاعلمی ہے اور یا درکھیں مرنا ضرور ہے.اب کون کہہ سکتا ہے کہ اگلے رمضان سے پہلے ہم سب لوگ زندہ رہیں گے.لازما ہم میں سے وہ معین لوگ موجود ہیں جو اس وقت اس خطبے میں حاضر ہیں مگر بعید نہیں کہ ان کو اگلا خطبہ بھی نصیب نہ ہو، بعید نہیں کہ اگلے مہینے کے خطبے نصیب نہ ہوں یا نمازیں نصیب نہ ہوں اگلے سال کی بات تو بہت دور کی بات ہے.پس اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے جو یہ توجہ دلائی شروع میں کہ تم نے مرنا ہے، پیش ہونا ہے یہ خیال آپ کو تقویت بخشے گا اور نیکی کے ارادے کرنے میں آپ کی مدد کرے گا.جب موت کا وقت آجائے گا پھر کچھ نہیں ہو سکے گا اور سب پر آنا ہے.

Page 114

خطبات طاہر جلد 16 108 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء اس لئے وہ لوگ جو دنیا کی زندگی سے خوش ہیں وہ سوچ کر تو دیکھیں کہ جب موت کا وقت آئے گا تو ایسی بے قراری ہوگی کہ کچھ پیش نہیں جائے گی.وہ چاہیں گے کہ ہم واپس ہوں تو پھر کچھ کریں لیکن اللہ تعالیٰ اس خیال کو رد فرمادے گا اور یہ ساری زندگی ہاتھ سے نکل جائے گی اور دار الجزاء آگے لامتناہی سامنے کھڑا ہو گا تو مرنے سے پہلے کچھ کرو اور موت کا نہ دن معین ہے نہ وقت معین ہے اس لئے اپنی زندگی کو عبادتوں سے بھرنے کی کوشش کرو اور عبادت کے ساتھ ساتھ دوسری نیکیاں ضرور نصیب ہوتی ہیں.اس لئے جب آپ نمازیں پڑھتے ہیں تو نمازوں کے ساتھ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں خرچ کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے دوسری نیکیوں کی بھی توفیق ملتی ہے.جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انسان ایک قدم خدا کی طرف جاتا ہے تو خدا دس قدم آتا ہے.چل کر جاتا ہے تو اللہ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ ہر طرف سے پھر خدا آنے لگتا ہے.آپ نے نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ آپ کو دس اور نیکیوں کی توفیق بخش دیتا ہے جن کے ذریعے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے اور ہر نیکی پھر آگے نیکیوں کے بچے دیتی چلی جاتی ہے.تو انسانی زندگی میں ایک انقلاب آنا شروع ہو جاتا ہے.ایسا شاذ کے طور پر ہوتا ہے کہ یہ انقلاب اچانک آئے اور کسی کی کایا پلٹ جائے کہ گویا اچانک نیا وجود پیدا ہو گیا ہے.ایسا بھی ہوتا ہے مگر بہت شاذ کے طور پر.قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ آپ نیکی کا ایک فیصلہ کر لیں اور پورے عزم کے ساتھ اس پر قائم ہو جائیں اور خدا سے اقرار کریں کہ اے میرے خدا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تیرے حضور آگے بڑھنے کی کوشش کروں گا، تیرے حضور سر جھکانے کی کوشش کروں گا ، اپنی رضا کو تیری رضا کے تابع کرنے کی کوشش کروں گا.میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مرنے سے پہلے اس حال میں تجھ تک پہنچوں کہ پھر آگ میرا انتظار نہ کر رہی ہو بلکہ تیری رضا میرا انتظار کر رہی ہو.یہ فیصلہ ہے جو آج آپ کی تقدیر بدل دے گا.یہ فیصلہ ہے جسے نصیب ہو جائے اسے لیلة القدر بھی مل گئی ، اس کی ساری زندگی کے خلاء پر ہو جائیں گے اور آئندہ اگر چند دن بھی زندہ رہیں گے تو پچھلی زندگی کی ساری بدیوں کو وہ دن دھو دیں گے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی زبان سے جو ہمیں یہ خوش خبری دی ہے کہ اگر ایسے وقت میں بھی تمہیں تو فیق مل جائے تو بہ کی کہ موت کا وقت قریب پہنچا ہو اور نیکی کی طرف بڑھتے ہوئے تم نیکیوں کے شہروں میں ابھی پہنچ نہیں ابھی گھسٹ گھسٹ کے

Page 115

خطبات طاہر جلد 16 109 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء جا رہے ہو تو خدا تعالیٰ تم سے یہ سلوک فرمائے گا کہ تمہاری پچھلی زندگی کی ساری سڑک جو بہت لمبی ہے اسے چھوٹا کر دے گا اور نیکی کی سڑک ، جس کی طرف تم بڑھ رہے تھے وہ یوں لگے گا جیسے تم اس منزل کے قریب پہنچ گئے ہو اور جس طرف سے آرہے تھے بدیوں کی زندگی بہت دور دکھائی دے گی جسے بہت پیچھے چھوڑ آئے ہو.یہ مضمون ہے.اس وقت وقت نہیں ہے پوری تفصیل حدیث پڑھ کر اس کا بیان کرنے کا لیکن خلاصہ کلام یہی ہے کہ جو خلاء ہیں اللہ انہیں نظر انداز فرما دیتا ہے اور تبدیلی کے بعد کے چند دن کو اس کے پچھلے تمام خلاؤں کو بھرنے کے لئے فیصلہ کر دیتا ہے.اس حال میں جان دیتا ہے گویا اس نے ساری عمر نیکیاں کرتے ہوئے ہی جان دی ہے.پس ماضی سے جہاں تک تعلق ہے اتنا ہی تعلق ہے لیکن ماضی سے یہ تعلق تب قائم ہوگا اگر مستقبل تبدیل ہو گا اس کے بغیر نہیں.پس آج مستقبل تبدیل کرنے کا فیصلہ کر کے اٹھیں اور لازم کر لیں اپنے لئے کہ خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اس کے لئے وضو کرنا ہوگا اور بعضوں کو غسل کرنا ہوگا.وضو میں انسان کے کچھ اعضاء دھوئے جاتے ہیں اور انسان پاک ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوتا ہے اور عبادت کے لئے لازم ہے کہ وضو کرے اور وہ جن کا سارا بدن کسی ایسے جذبے سے ملوث ہو گیا ہو جس کا دھونا ضروری ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے غسل کرو.تو عبادت کا فیصلہ محض اکیلا کافی نہیں، آپ یہ بھی غور کریں کہ آپ کو نسل بھی کرنے ہیں آپ کو وضو بھی کرنے ہیں.پس یہ سوچیں کہ پیچھے کون سی بدیاں ہیں جنہوں نے آپ کو خدا سے ہٹا رکھا ہے، دنیا کی طرف توجہ مبذول کرا رکھی ہے.ان بدیوں پر نظر ڈالیں اور ایک غنسل تو بہ کریں.فیصلہ کریں کہ ہم نے اب ان بدیوں سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر لینا ہے.یہ فیصلہ ہے جو زندگی بدلا کرتا ہے اور عبادت کے فیصلے سے پہلے یہ فیصلہ ضروری ہے کیونکہ کوئی عبادت بھی اگر غسل ضروری ہو تو غسل کے بغیر قبول نہیں ہوتی.اگر وضوضروری ہو تو وضو کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور اس نکتے کو سمجھنا بہت لازم ہے.غسل سے ظاہری غسل بھی مراد ہے مگر فی الحقیقت اندرونی غسل مراد ہے.وضو سے ظاہری وضو بھی مراد ہے مگر فی الحقیقت ایک اندرونی وضو مراد ہے.تم اپنے روزمرہ کے اعضاء جو دکھائی دے رہے ہیں کم سے کم ان کو تو پاک رکھو.یہ مضمون ہے وضو کا مضمون اس کو بھی سمجھ لیجئے.آپ جب باہر نکلتے ہیں تو لا زم تو نہیں کہ آپ اندرونی حصوں کو جو دکھائی نہیں دے رہے جن پہ کپڑے پڑے ہوئے

Page 116

خطبات طاہر جلد 16 110 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء ہیں ان کو بھی رگڑ کے صاف کر کے پھر باہر نکلیں.جو زیادہ پاک لوگ ہیں، جو فطر تا صفائی پسند ہیں وہ قطع نظر اس کے کہ کچھ دکھائی دیتا ہے کہ نہیں اندرونی صفائی ضرور کرتے ہیں لیکن جو یہ نہیں کر سکتے کم سے کم جاتے جاتے اپنا منہ تو صاف کر لیتے ہیں اور بازو، ہاتھ یہ جو داغ نظر آنے والی چیزیں ہیں ان کو ستھرا کر کے باہر نکلتے ہیں.تو پہلا جو فیصلہ ہے وہ یہ ہے کہ کم سے کم اتنا تو کرو کہ دنیا تمہارے اندروہ داغ نہ دیکھے جو آنحضرت ﷺ کے غلاموں کی شان کے منافی داغ ہیں.وہ حرکتیں تو نہ کرو جن کے نتیجے میں تمہارے چہروں کے داغ، اسلام کے داغ بنتے ہوئے دکھائی دیں.دنیا یہ سمجھے کہ پتا نہیں کہاں سے یہ لوگ آئے ہیں ایسی گندی عادتیں ، ایسی بے ہودہ حرکات.اپنے ہاتھوں کو دھود یعنی ان سے حرام کمائی کھانے کے تصور بھی قریب نہ پھٹکنے دو، اپنے ہاتھوں کو ظلموں سے بچاؤ یہ ہاتھوں کا وضو ہے.اپنے چہرے کو جو تو جہات کا چہرہ ہے اسے پاک وصاف کرو.غلط تو جہات نہ کرو.پاک چیزوں کی طرف توجہ رکھو.یہ وضو ہے جو اس پاک تبدیلی کے لئے ضروری ہے اور پھر غسل کی توفیق اگر ملے اور وہ لا ز ما ملنی چاہئے تو کم سے کم اسلام میں داخل ہوتے وقت ایک غسل تو بہر حال ضروری ہوا کرتا ہے اور وہ غسل ہر انسان کو کرنا ہوگا اور آج کا دن ڈوبے نہ جب تک آپ یہ غسل نہ کر لیں.یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے اپنے بدن کو پاک صاف کر کے خدا کے حضور پیش کرنا ہے، گند لے کر حاضر نہیں ہونا.اگر اچھی مجلس ہو تو وہاں صاف ستھرا ہونا ضروری ہے تبھی قرآن کریم نے فرمایا ہے خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف : 32) کہ مسجدوں میں جاتے تو ہومگر زینت لے کے جایا کرو، پاک لوگوں کی مجلس ہے وہ.خدا والوں کی صحبت میں جا رہے ہو اس لئے نہ صرف صاف ستھرے ہو کے بلکہ سج کر جایا کرو.تو ی تفصیلی مضامین ہیں جو تبدیلی یعنی روحانی تبدیلی کو پیدا کرنے کے لئے سمجھنے ضروری ہیں کہ چٹکیوں میں تبدیلیاں نہیں ہوا کرتیں اور محض نمازیں پڑھ جانے سے بھی تبدیلیاں نہیں ہوں گی.یہ سارے مضامین سمجھیں اور اس سال یہ فیصلہ کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ برائیوں کے شہر کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کر دیں گے.پھر حضرت محمد مصطفی علی آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ جس حال میں بھی تم جان دو گے وہ خدا کے حضور مقبول انجام ہوگا اور خدا کی رضا پر جان دو گے مگر لازما نیکیوں کی طرف حرکت کرنا ہے چاہے گھسٹتے ہوئے کرتے چلے جاؤ.ایسا شخص جس کی مثال آپ نے دی وہ ہے جس کی جان نکل رہی ہے، جسم میں طاقت نہیں، موت

Page 117

خطبات طاہر جلد 16 111 خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء کے نرغے میں مبتلا ہے اور پھر بھی گھٹنوں کے بل اور کہنیوں کے بل کوشش کر رہا ہے کہ دم نکلے تو خدا کے پاک لوگوں میں نکلے.یہ وہ نظارہ ہے جس کے بعد یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہ فرمائے.پس یہ کیفیت اپنے اوپر طاری کریں تو یہ جمعتہ الوداع آپ کے لئے ایک اور معنی میں جمعۃ الوداع بنے گا.یہ بدیوں کے لئے وداع کا جمعہ بن جائے گا، نیکیوں کے لئے نہیں.ان معنوں میں وداع نہیں رہے گا کہ آپ نے آج پڑھا اور چھٹی ہوئی اور پھر اگلے سال تک آپ کو کسی جمعہ یا نیکی کی توفیق نہ ملی.یہ جمعۃ الوداع آپ کی بدیوں کو وداع کرنے کا جمعہ بن جائے گا.ہر اس چیز کو وداع کرنے کا جمعہ بن جائے گا جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے.ہر اس چیز کے استقبال کا جمعہ بن جائے گا جو خدا کو پسند ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ سے قبل حضورانور نے فرمایا: اس جمعہ میں جو دعا ئیں آپ کو بتائی گئی ہیں امام صاحب نے اس سے پہلے جو مجھے آواز پہنچ رہی تھی آپ کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی ان کو یا درکھیں مگر وہ محض انفرادی دعا ئیں تھیں زیادہ تر توجہ اجتماعی دعاؤں کی طرف کریں.سارے بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کریں.تمام جماعت احمدیہ کے مفادات کے لئے دعائیں کریں.ان تمام نقصانات سے بچنے کے لئے دعائیں کریں جو جماعت کی راہ میں اتفاقا یا گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور بالا ارادہ شرارت کے ساتھ پیدا ہور ہے ہیں.تو یہ جو وقت ہے جمعتہ الوداع کا یہ بہت برکتوں والا وقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں.مگر جہاں اپنے لئے وہ دعائیں کریں میں نے ابھی جن کی طرف متوجہ کیا ہے وہاں بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کرنا، اسلام کے اعلیٰ تقاضوں کے لئے دعائیں کرنا، احمدیت کے حق میں اور ہر شر سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجانے اور رہنے کی دعائیں کرنا ، ان دعاؤں کو خصوصیت سے اہمیت دیں تو چھوٹے موٹے روزمرہ کے جو آپ کے کام اور ضرورتیں ہیں وہ ان دعاؤں کے سائے میں آپ ہی آپ ٹھیک ہو جایا کرتی ہیں.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ کا دل اللہ کے کاموں میں اٹک جائے اور اللہ کے مفادات کی طرف دعاؤں میں توجہ پیدا ہوتو بسا اوقات اپنے لئے دعا مانگیں یا نہ مانگیں اللہ تعالیٰ خود ہی ان باتوں کا دھیان کرتا ہے.

Page 118

Page 119

خطبات طاہر جلد 16 113 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء للہ کی طرف محبت کے ساتھ میلان کے نتیجے میں انسان کے دل سے بے قرار دعائیں پھوٹا کرتی ہیں.( خطبه جمعه فرموده 14 فروری 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَانِيْبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ أَن تَقُوْلَ نَفْسُ يُحَسْرَتى عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنتُ لَمِنَ الشَّخِرِينَ أَوْتَقُولَ لَوْ اَنَّ اللهَ هَدْينِى لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ أَوْ تَقُوْلَ حِيْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْاَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ پھر فرمایا: (الزمر: 5954) ان آیات سے متعلق جو خطاب مجھے آپ سے کرنا ہے اس سے پہلے میں ایک دو اور امور کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہوں.گزشتہ عید کے روز جو میں نے اپنی بچی عزیزہ طوبیٰ کا نکاح پڑھایا تھا اس

Page 120

خطبات طاہر جلد 16 114 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء میں بننے والے دولہا بشیر احمد کے نانا حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب سے متعلق بات کرتے ہوئے میں نے کہا تھا مجھے یقینی طور پر یاد نہیں کہ آپ صحابی ہیں، یہ تو قطعی طور پر علم تھا کہ آپ صحابہ کی عمر کے تھے یعنی اگر آپ کی رویت ہو جاتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ دیکھ لیتے اور آپ ان کو دیکھ لیتے تو صحابی بن سکتے تھے کیونکہ حضرت پھوپھی جان سے آپ کی عمر کا کافی فرق تھا اور حضرت پھو پھی جان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے وقت چار سال عمر تھی تو ظاہر ہے کہ صحابیت کی عمر تو تھی اور امکان موجود تھا لیکن مجھے قطعی طور پر یاد نہیں تھا کہ آپ کو قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت ملی بھی کہ نہیں.جیسا کہ پہلے بھی بعض صحابہ کے متعلق میں بیان کر چکا ہوں ، عمر تو رہی مگر صحابیت کی توفیق نہیں ملی.اس سلسلے میں مولوی دوست محمد صاحب نے جیسا کہ میں نے ہدایت دی تھی کہ مجھے فوری طور پر اطلاع بھیجی جائے ، واقعات دیکھ کر انہوں نے جو تحریری اطلاع کی ہے وہ کہتے ہیں کہ نواب محمد عبد اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دسمبر 1959ء کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خط غالبا اس شعبہ کو بھیجا ہے جس نے صحابہ کا ریکارڈ رکھنا ہوتا ہے اس میں ان کی تحریر یہ ہے میں اس سیر میں بھی تھا جس میں حضور علیہ السلام کے ساتھ سات سو افراد سیر کے لئے جلسے کے موقع پر گئے تھے.ریتی چھلے میں ایک لسوڑھے کا درخت تھا، حضور اس کے نیچے ٹھہرے اور فرمانے لگے کہ اب اس قدر احباب کی تعداد ہے کہ چلا نہیں جاتا ، غالباً یہ آخری جلسہ سالانہ حضور کے زمانے کا تھا.پس معیت بھی نصیب ہوئی اور واقعہ پوری طرح یاد تھا اس لئے آپ کو صحابہ میں شمار کرنے میں کوئی بھی تردد نہیں ہونا چاہئے.پس آپ صحابہ نہی میں شامل تھے اس لئے اب ان کے متعلق میں نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا ساتھ شامل کر دی ہے.اسی طرح ایک اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حوالہ بھی بھیجا ہے وہ لکھتے ہیں ”اخویم نوابزادہ میاں عبداللہ خان صاحب ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند ہونے کی وجہ سے صحابی ابن صحابی تھے.یعنی صحابیت کی گواہی تو دی ساتھ لیکن یہ زائد بات کہی کہ آپ صحابی ابن صحابی تھے.ایک امر تصحیح طلب ان معنوں میں ہے کہ تاریخی نقطہ نگاہ سے ایک غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے.مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی رحمہ اللہ کے وصال پر میں نے بیان کیا

Page 121

خطبات طاہر جلد 16 115 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء تھا کہ آپ چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب کے بعد امیر ہوئے اور اس لحاظ سے بڑی بھاری ذمہ داری تھی جو اسی معیار پہ جماعت کو رکھنا تھا جس معیار پہ وہ چھوڑ گئے تھے.اس سلسلہ میں غلطی اس لئے ہوئی کہ کراچی جماعت کی طرف سے جو اعداد و شمار آئے اس میں بیچ کے زمانے میں حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد مکرم چوہدری احمد مختار صاحب کے امیر بننے تک کا درمیانی جو عرصہ ہے اس کا ذکر ہی کوئی نہیں تھا اور وہیں سے بات شروع کی تھی اس لئے وہ باوجود اس کے کہ مجھے علم تھا مگر اس وقت فوری طور پر ذہن میں یہ بات نہیں آئی اور جو اعداد و شمار جس طرح آئے تھے اسی طرح پیش کر دیئے اور تاثر یہ دیا کہ گویا چوہدری عبداللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے فوراً بعد چوہدری احمد مختار صاحب امیر بنے تھے، یہ درست نہیں ہے.چوہدری عبداللہ خاں صاحب کا وصال 1959 ء میں ہوا ہے اور 1959 ء سے 1965 ء تک حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کراچی رہے ہیں اور با قاعدہ منتخب ہوئے.اور پھر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے زمانے میں پھر جو انتخاب ہوا ہے اس میں چوہدری احمد مختار صاحب امیر منتخب ہوئے.وہ جو پچھلا دور ہے اس سے پہلے بھی شیخ صاحب کو رسمی طور پر بھی امارت کے فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی تھی، رسمی طور پر ان معنوں میں کہ عملاً چوہدری عبداللہ خاں صاحب ہی امیر رہے ہیں لیکن امارت کے نام کے طور پر شیخ صاحب کو باقاعدہ امیر کے طور پر لکھا گیا.اس کی حکمت یہ تھی کہ 53ء،54ء میں جو حالات تھے وہ بہت سنگینی اختیار کر گئے تھے اور چوہدری عبداللہ خاں صاحب کے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے بھائی ہونے کی حیثیت سے اور حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے آپ کے معاملات میں حکومت کی دخل اندازی کا زیادہ احتمال تھا اور اس بناء پر آپ کو خدمت سے بھی الگ کیا جا سکتا تھا کیونکہ اس سے پہلے ایک با قاعدہ صدر کا فیصلہ جاری کیا جا چکا تھا کہ کوئی بھی اعلیٰ عہدے کا ملازم، کوئی دینی مناصب پر نہیں ہوگا، اس قسم کا کچھ حکم تھا جو اس کے الفاظ تو یاد نہیں مگر اس حکم کے تابع ان کی حفاظت کی خاطر مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ نے امیر مقرر کیا اور بحیثیت امیر حکم وہی جاری کرتے تھے، عملاً وہی ساری باتیں کہتے تھے ،مگر جو ادب کا تقاضا تھا اس کے پیش نظر چوہدری صاحب کے مشورے پر ہی چلتے تھے اور اس طرح ایک زائد فرائض

Page 122

خطبات طاہر جلد 16 116 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء انجام دینے کی حیثیت سے امیر بھی رہے اور عملاً چوہدری عبد اللہ خاں صاحب معزول نہیں ہوئے بلکہ ان کا مشورہ جاری رہا.یہ حقیقت ہے جو تاریخی حقیقت ہے اسے درست کرنا ضروری تھا.چونکہ میرے خطبہ سے غلط تاثر پڑ سکتا تھا اس لئے مجھے وضاحت سے بات پیش کرنی پڑی.اب میں ان آیات کی طرف آتا ہوں قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ رمضان گزرا ہے اس میں بہت موقع ملا جماعت کو تو بہ کا، استغفار کا، گناہ جھاڑنے کا، اپنے نفوس کے وضو کا اور ان کے غسل کا بھی اور بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ جو رمضان سے دھل کے پاک صاف ہوکر نکلے ہیں.کچھ ایسے بھی ضرور ہوں گے، کیونکہ سو فیصدی قوم کی اصلاح تو ممکن ہی نہیں ہے کوئی نبی ایسا نہیں جس کے زمانے میں کسی قوم کی اس کی زندگی ہی میں سو فیصدی اصلاح ہو چکی ہو اس لئے جاری جدو جہد ہے، ایک جہاد ہے جس میں ہم نے ہمیشہ مصروف رہنا ہے.جب تک خدا کا بلاوانہ آجائے ہم نے لازماً جد و جہد کرنی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ایسا خوش نصیب ہو جائے کہ مرنے سے پہلے وہ ابرار میں لکھا جائے اور اس کے تمام گناہ بخشے جاچکے ہوں.اس تعلق میں یہ آیت ہے جو ایک خوشخبری لے کر آئی ہے اور ایک تنبیہ بھی لے کر آئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اے وہ لو گو جنہوں نے اپنے نفوس پر اسراف کیا ہے.یہاں عام گناہ مراد نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں یعنی گناہ کبائر میں ملوث ہوئے ہیں.جو بڑے سے بڑے گناہ ہیں وہ بھی کر بیٹھے ہیں لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا يقينا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے کی طاقت رکھتا ہے إنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ یقینا وہی تو ہے جو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.اس آیت کے نتیجے میں جو یہ احساس ہوتا ہے ایک عام معافی کا اعلان ہے، ہر گناہ گار بخشا گیا، یہ احساس غلط ہے.درست نہیں ہے کیونکہ بخشے جانے کے امکان کے دروازے کھولے گئے ہیں، ہر شخص کے بخشے جانے کا اعلان نہیں ہوا.اس لئے بعض صوفیاء یا صوفیاء مزاج لوگ یہ سمجھتے ہیں بس یہ آیت ہو گئی اب ہمیں کسی عمل کی ضرورت نہیں.سب کبائر بھی بخشے گئے ، سب صغائر بھی بخشے

Page 123

خطبات طاہر جلد 16 117 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء گئے ، اللہ بہت غفور رحیم ہے.جب گناہوں سے باز رکھنے کے لئے ان کو متوجہ کیا جاتا ہے (تو کہتے ہیں ) اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ہر گناہ بخش دے گا.پس یہ جو غلط تاثر ہے اس کو اگلی آیات بہت وضاحت سے دور کر رہی ہیں ، بہت ہی صفائی کے ساتھ ایک ایک پہلو اس کا ، اس غلط تاثر کا رد فرما رہی ہے.چنانچہ فرمایا غفور رحیم ہے تو کیا کرو و انيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ پس اپنے رب کی طرف جھک جاؤ اس کی طرف مائل ہو جاؤ.وَأَسْلِمُوا لَہ اپنے آپ کو اس کے سپر د کر دو مِنْ قَبْلِ أن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ اس سے پہلے کہ عذاب تم تک آ جائے اور پھر تمہاری کوئی مددنہیں کی جائے گی.تو اگر بخش کا عام اعلان تھا تو معا بعد اس آیت کا پھر کیا موقع ہے کہ جلدی خدا کی طرف جھکو اس وقت سے پہلے کہ عذاب تم تک آپہنچے اور پھر بخشش کا وقت گزر چکا ہو.پھر فرمایا وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ پھر فرمایا ہے وَانِيبُوا إِلَى رَبَّكُمْ یعنی اللہ کی طرف بڑھو اور جھک جاؤ تاکہ تمہارے گناہ بخشے جائیں تم نیکو کاروں میں شمار ہو لیکن یہ ایک مقام اور ایک مرتبہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بہتر تو ہے کہ عذاب سے پہلے اس سے بلند تر مرتبہ حاصل کر لو اور وہ یہ ہے وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ جو بھی نصیحتیں فرمائی گئی ہیں جو بھی ہدایات تمہیں دی گئی ہیں ان میں سے ادنیٰ پر راضی نہ رہو بلکہ تو بہ کے ساتھ اعلیٰ پر ہاتھ مارو.جوسب سے خوبصورت حصہ تعلیم کا ہے جو سب سے اعلیٰ درجے کا ہے اسے اپنا ؤ اور اسے اپنی ذات میں جاری کرنے کی کوشش کرو.پھر فرمایا من قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ.پہلے یہ تھا تُنصَرُونَ اب اس آیت میں ہے تَشْعُرُونَ.تَشْعُرُونَ کا مضمون بتا رہا ہے کہ ایسا عذاب جس کے آثار ظاہر نہ ہوں اور اچانک آ جائے.یہاں لَا تُنصَرُونَ نہیں فرمایا کیونکہ لَا تُنصَرُونَ کا مضمون یہاں اطلاق پا تا ہی نہیں.پہلی آیت نے اس کو خوب کھول دیا کہ اگر اللہ کی طرف انابت نصیب ہو جائے تو پھر تمہیں مدد دی جائے گی تم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کی رحمت، اس کی مغفرت کے سائے تلے آ جاؤ گے، تمہارے گناہ بخشے جائیں گے.اگر عذاب آنے کے وقت تم نے تو بہ کی تو وہ تو بہ رد کر دی جائے گی پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی.مگر جہاں فرمایا أَحْسَن وہاں لَا تَشْعُرُونَ والے عذاب کی طرف متوجہ فرمایا ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ لوگ جو تو بہ کر لیتے ہیں لیکن نیک اعمال میں جو بہترین اعمال ہیں انہیں

Page 124

خطبات طاہر جلد 16 118 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء اختیار کرنے میں کوئی جلدی نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں یہ اوپر کی باتیں ہیں ہم بعد میں کرلیں گے پہلے ابتدائی تو ٹھیک کرلیں اپنے آپ کو ، نمازیں شروع کر دی ہیں بس یہی کافی ہے.انہیں سنوار کر پڑھنا، تہجد کی نمازوں تک جا پہنچنا، راتوں کو اٹھنا ان تمام تقاضوں کو وہ سمجھتے ہیں کہ نفلی اور نسبتا زیادہ اعلیٰ درجے کے تقاضے ہیں ان کے بغیر بھی کام ہو سکتا ہے اس لئے وہ نفس کی کمزوری کی وجہ سے ٹالتے چلے جاتے ہیں.آہستہ آہستہ بڑھ ہی رہے ہیں، آج نہیں تو کل حاصل کر لیں گے یہ باتیں.تو اس کی طرف اللہ تعالیٰ متوجہ فرمارہا ہے کہ جو احسن کا حاصل کرنا ہے یہ بہت بڑی بات ہے.پہلی بات سے تمہیں تقویٰ تو نصیب ہو جائے گا مگر ادنی درجے کا تقویٰ اور جب تم توبہ کے بعد بہترین حصے پر عمل کی کوشش کرو گے تو تمہارے وجود کی کایا پلٹ جائے گی اور اس سے پہلے کہ خدا کی کوئی پکڑ ظاہر ہو جائے جسے تم محسوس نہ کر ویعنی تمہارا موت کا وقت آپہنچے یا عذاب عام ظاہر ہو جائے اس وقت سے پہلے پہلے تم بہترین عمل کر لو.اب یہاں ایک مشکل ہے جس کا دور کرنا ضروری ہے.وہ لوگ جو تو بہ کر لیتے ہیں کیا جب عذاب کا وقت آتا ہے اگر وہ احسن پر ہاتھ نہ ڈال رہے ہوں تو کیا عذاب کے نیچے آئیں گے؟ یہ سوال پیدا ہوتا ہے ورنہ آیت کریمہ ایک غیر ضروری بات تو نہیں فرما سکتی.پہلی آیت کے ساتھ اس کو ملا کر پڑھیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ آنيبوا کا مطلب تھا اگر تم تو بہ کرلوخدا کی طرف متوجہ ہو جاؤ ، خدا نے وعدہ فرما دیا کہ پھر عام بخشش کے اندر تم داخل ہو جاؤ گے تو احسنوا اس سے اگلا قدم ہے اگر احسان نہ کر سکے تو کیا اچانک عذاب میں مبتلا ہو جائے گا.یہ ہے جو مشکل اس سے پیدا ہوتی ہے اور دور کرنا ضروری ہے.عذاب کی جو نوعیت ہے بَغْتَةً اور اچانک یہ بعض دفعہ قومی عذاب کے طور پر نازل ہوا کرتا ہے جس میں نیک بھی جس طرح گندم کے دانوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے اسی طرح وہ ہر شخص بیچ میں کچھ نہ کچھ مبتلا ضرور ہو جاتا ہے.عام قومی عذاب آ رہے ہیں ہمصیبتیں پڑ رہی ہیں سیلاب آ رہے ہیں، طوفان آرہے ہیں، بے اطمینانی ہورہی ہے، گھر گھر ڈا کے پڑ رہے ہیں، بچے اغوا ہو رہے ہیں، ہر طرف ظلم کا دور دورہ ہے.وہ جو عذاب ہے وہ آتا تو بدوں پر ہے اور بد ہی اس کے ذمہ دار ہیں لیکن بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ نیک لوگ بھی بے چارے اس میں زخمی ہوتے ہیں.کسی نہ کسی پہلو سے وہ دکھ اٹھا لیتے ہیں اور بعض دفعہ اچانک جو طوفان ظاہر ہوتا ہے مثلاً سیلاب آگیا ہے وہ نیکوں کے گھر اور بروں کے گھروں میں تمیز تو نہیں کرتا مگر وہ لوگ جو خدا کے نزدیک احسن اعمال

Page 125

خطبات طاہر جلد 16 119 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء والے ہیں ان کی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس حیرت انگیز طریق پر حفاظت فرماتا ہے کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اس طرح ہم بچائے جائیں گے.چنانچہ پاکستان میں جو بد اطمینانی کی حالت ہے اس میں کئی دفعہ بعض نیک لوگ بھی بتاتے ہیں کہ ہم بھی مشکل میں مبتلا ہوئے ، ہمیں بھی ڈاکوؤں نے لوٹا، ہمارے گھر بھی داخل ہوئے لیکن ایک بات تو یہ نظر آتی ہے کہ اس اگلی بد حالت سے وہ پھر بھی بچالیے گئے ہیں جو بعض دوسروں کے اوپر عائد کی گئی.یعنی عورتوں کی بے عزتی، بچوں پر ظلم وستم اور کسی طرح ان ڈاکوؤں کے ہاتھ رک گئے اور وہ آخری حد تک نہیں پہنچے.یہ تو عام خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے جو جماعت پر دکھائی دے رہا ہے.لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے متعلق کوئی وجہ ہی نہیں نظر آتی کہ کیوں بچ گئے ، حالات نے گھیرا ڈال لیا تھا، ان کا بچنا دکھائی نہیں دیتا تھا، وہ لکھتے ہیں کہ اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ہاتھ نے ہمیں بچا لیا کہ حیرت زدہ رہ گئے.یہ وہ احسان والے لوگ ہیں جن کو بغتةً عذاب بھی نہیں چھوئے گا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ سیلاب سے ایک دن پہلے وہاں سے منتقل ہو گئے ہیں یا اور ایسا ذریعہ بن گیا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہاں سے بچالیا اور نقصان سے بچالیا تو احسن عمل محض ایک نفلی حصہ نہیں ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی کی ضرورتوں میں داخل ہے اور احسن عمل والا اس نیک سے زیادہ بہتر جزا پاتا ہے جو عام باتوں میں تقویٰ تو اختیار کرتا ہے یعنی بدیوں سے بچ جاتا ہے مگر نیکیوں میں آگے نہیں بڑھتا اور لفظ احسن کا استعمال اس پہلو سے قرآن کریم نے اور بھی جگہ فرمایا ہے اور فرمایا ہے جنہوں نے اس دنیا میں احسان سے کام لیا، جو محسن ہو گئے ان کے لئے اس دنیا میں غیر معمولی جزاء ہے اور یہاں بھی جزاء ہوگی.تو اس پہلو سے اگر آپ رمضان کے بعد اپنی بدیوں کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہیں اور متوجہ رہنا چاہتے ہیں اور رمضان گزرنے کے بعد اسے الوداع نہیں کہ بیٹھے تو پھر اس طرح سے اپنی اصلاح کی کوشش کریں.سب سے پہلے انابت ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی طرف طبیعت کا جھکاؤ اور میلان.یہ جو انا بہت ہے یہ جھکاؤ ایسا ہے جو اپنی ذات میں بخشش کے لئے ایک لازمہ ہے.جس شخص کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجحان نہ ہو اس پر اس آیت کا کوئی اطلاق نہیں ہوگا کہ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا.بڑاہی بیوقوف ہوگا جو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف میرا میلان ہی کوئی نہیں، رجحان ہی کوئی نہیں، میں مزے سے دنیا میں مبتلا رہوں گا اور بخشا جاؤں گا.بڑے دھوکے میں مبتلا ہے.یہ دنیا بھی اس کی اکارت جائے گی اور اگلی دنیا بھی.

Page 126

خطبات طاہر جلد 16 120 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء پس آنیوا کی شرط ہے جو تو بہ کے لئے آغاز کا کام دیتی ہے.اس شرط کا مطلب ہے کہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کا اتنا خیال تو ہو کہ اس کی طرف جھکنے کی طرف طبیعت مائل ہو، دل چاہنے لگے کہ میں اللہ والا ہو جاؤں.جب نیت کے اندر یہ آغاز ہوتا ہے نیکی کی طرف قدم بڑھانے کا تو انابت سے ہوا کرتا ہے ورنہ جو گناہوں میں ملوث ہیں ان کو گناہوں کا مزہ اتنا بڑھتا جاتا ہے کہ وہ گناہوں سے تو بہ کا خیال بھی نہیں کرتے بلکہ ان گناہوں کی حسرت کیا کرتے ہیں جو کر نہیں سکے.تو جواصل تبدیلی والی بات ہے وہ انابت ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف طبعی میلان اور جھکاؤ.تو فرمایا کہ اگر تم مغفرت کے اس اعلان عام سے متاثر ہوئے ہو تم چاہتے ہو کہ تم بھی اس مغفرت کی لپیٹ میں آجاؤ، اس کے سائے تلے آجاؤ انِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ اپنے رب کی طرف میلان پیدا کرو اس کی طرف جھکو اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف پیار کا میلان ہوگا تو پھر خدا تعالیٰ تمہارے اندر تبدیلیاں پیدا کرے گاور نہ خالی باہر بیٹھے خدا سے تعلق کوئی نہ ہو تو بہ توبہ کرتے رہو کچھ بھی اس تو بہ کے معنے نہیں ہیں.جب انابت ہوگی تو پھر اس سے اگلا قدم اٹھانے کی توفیق ملے گی وَأَسْلِمُوا له اپنے آپ کو اس کے سپر د کر دو.اگر پیار نہیں ہے محبت نہیں ہے تو انسان سپر د کیسے کر سکتا ہے یہ تو ناممکن ہے.انسان اپنے آپ کو اسی کے سپرد کیا کرتا ہے جس سے محبت ہو جائے.تو انیبو میں جو محبت کا مضمون ہے وہ کھول کر بیان کرنا ضروری تھا محبت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس کے سپر داپنے آپ کو کرتے چلے جاؤ اور سپردگی میں مغفرت کا مضمون ایک نئی شان کے ساتھ داخل ہے.سپردگی اس موقع پر یہ معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی طاقت سے تو اپنے گناہ جھاڑ نہیں سکتے اپنی طاقت سے تو اپنی برائیاں دور نہیں کر سکتے اللہ سے پیار پیدا ہو گیا ہے مگر گناہ دور کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اسلموا ان معنوں میں کہ اللہ کو کہو ہم تو تیرے ہو گئے ہیں تیرے سپر داپنے آپ کو کر رہے ہیں اب تو ہی ہے جو ہماری مغفرت کا سامان فرمائے.إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وہی مضمون ہے جو ایک اور رنگ میں بیان ہوا.ہم نے جب فیصلہ کر لیا ہے کہ تیری عبادت کریں گے اور تیرے سوا کسی کی نہیں کریں گے تو بڑا مشکل کام ہے.فیصلہ بہت عظیم ہے مگر اس فیصلے پر عمل مشکل ہے.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں تو جس کے ہو گئے یا جس کے لئے دل میں ایک میلان پیدا ہوا اس کے سپر د ہونے کے لئے بھی اسی کی حفاظت کی چادر میں آنا اسلموا کا مضمون ہے.تم اپنے معاملات اس کے سپرد کرتے

Page 127

خطبات طاہر جلد 16 121 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء چلے جاؤ.پس یہ ایک وسیع انسانی تجربہ ہے کہ وہ لوگ جو گناہ سے دور ہٹنے کا ارادہ کرتے ہیں کوشش کرتے ہیں طاقت نہیں پاتے ، اگر وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں اور خدا کی محبت کے واسطے دے کر گریہ و زاری کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں کہ اے اللہ ہم کیا کریں ہمیں گناہ نے گھیر لیا ہے، بے اختیاری کا عالم ہے، ہم اپنا معاملہ تیرے سپرد کرتے ہیں تو جس طرح چاہے ہمیں پاک صاف کرے ایسے لوگوں کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں.ناممکن ہے کہ غیبی ہاتھ ان کے گناہوں کو صاف نہ کرنا شروع کرے.پس أَسْلِمُوا میں وہ سپردگی نہیں ہے جو احسان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک معنی رکھتی ہے.وہ سپردگی جو حضرت ابراہیم کو نصیب ہوئی جن کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة : 132) اپنے آپ کو سپرد کر دو انہوں نے کہا میں تو ہو چکا ہوں تیرا سارا کا سارا.وہ گنا ہوں سے بچنے والا مضمون نہیں، یہاں گناہوں سے بچنے والا مضمون ہے.اس لئے موقع محل کے مطابق اسلموا کے معنی کئے جائیں گے.اپنے معاملات اللہ کے حوالے کرو مگر دیانت داری اور خلوص کے ساتھ.اس کی محبت کے نتیجے میں، اپنی بے اختیاری اپنی بے بسی کو اس کے حضور پیش کرتے ہوئے کہہ دواب ہم تیرے ہو گئے ہیں: سپردم به تو مایه ء خویش را تو دانی حساب کم و بیش را به نام این دبخشاینده شرف نامه نظامی از حکیم نظامی گنجوی ) یہ وہ مضمون ہے جو یہاں اسلِموا میں بیان ہوا کہ اے اللہ ہم نے تو اپنا سارا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تو دانی حساب کم و بیش را تو جانتا ہے کہ کم کیا ہے اور زیادہ کیا ہے.ہم سے تو اس سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا.جو تھا وہ تیرے حضور حاضر کرتے ہیں.تو اس طرح جو بخشش ہے وہ اللہ تعالیٰ کی سپردگی میں ہوتی ہے، اس کی حفاظت میں ہوتی ہے، اس کی طاقت کے تابع ہوتی ہے، اس کی طاقت کے سہارے ہوتی ہے.اگر ایسا ہو تو مِنْ قَبْلِ أنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ.اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر عذاب میں تمہاری مدد نہیں کی جائے گی.عذاب سے کلیہ بچانے کا مضمون نہیں ہے یہاں کسی بھی تکلیف میں تمہاری مدد نہیں کی جائے گی.مگر اگر تم تقویٰ کا یہ معیار قائم کر لو گے اس معیار پر پورے اتر و گے تو عذاب آئے گا بھی تو ہم تمہیں ضرور مدد دیں گے اور یہ وعدہ جو ہے یہ ایک عام وعدہ ہے جو بلا استثناء ہمیشہ ان مسلمانوں

Page 128

خطبات طاہر جلد 16 122 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء کے حق میں جو اپنے آپ کو خدا کے سپر د کرتے ہیں ضرور پورا کیا جاتا ہے.پس جماعت احمد یہ اس سے استفادہ کرے.یہ زمانہ تکلیفوں کا اور عذابوں کا زمانہ ہے.سب دنیا میں بے چینی پھیل گئی ہے.ہر جگہ سے امن اٹھ رہا ہے.طرح طرح کی مشکلات درپیش ہیں.وہ امراض جو پہلے دب گئی تھیں وہ پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں یعنی بدنی امراض بھی اور اخلاقی امراض بھی اور تمدنی امراض بھی.اب دیکھیں یہاں جس طرح قومی تعصبات کا بھوت سر اٹھا رہا ہے چند سال پہلے اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.ہر قوم میں بے چینی ہے، ایک بیقراری ہے.اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں کہ معصوموں پر ظلم کرتے ہیں.اور عجیب انداز ہے اس زمانے کا کہ ہر وہ چیز جو انہیں بے چین کرتی ہے اس کے نتیجے میں دوسروں کو اور بھی زیادہ بے چین کر دیتے ہیں.اسی زمانے کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گھاٹے کا زمانہ ہے نقصان کا زمانہ.جو عمل کرو ٹیڑھا کرو، جو بات کروالٹی کرو.تو اس زمانے میں اگر بچنا ہے تو انِيْبُوا إِلى رَبِّكُمْ کے ذریعے.اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اس کی محبت کا آغاز کر دیں یعنی ایک دم تو ساری، تمام تر محبت اللہ تعالیٰ سے نہیں ہو سکتی.اس کا خیال دل میں آنا شروع ہو جائے، یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جائے کہ اللہ کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہے.یہ خلا محسوس ہو کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی جو محبت محسوس ہونی چاہئے تھی وہ محسوس نہیں ہو رہی.نمازیں خالی ہیں، ذکر خالی ہے دن رات دنیا کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، لیکن بار بار دھیان اللہ کی طرف نہیں جاتا.اس مرض کو دور کریں اور اللہ تعالیٰ کا پیار پیدا کرنے کی کوشش کریں یعنی اس حد تک کم سے کم اتنا پیار کہ دل مائل تو ہو، یاد تو آئے خدا.جب یاد آئے تو پھر اس حوالے سے اپنے نقائص کو دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا شروع کردیں.اللہ میاں! تو پاک ہے، تو اعلیٰ ہے، تو ارفع ہے، تو عظیم ہے ، ہم تو جب غور کرتے ہیں ، ہم لگتا ہے کہ تیرے قابل ہی نہیں ہیں.کیا کریں مگر دل چاہتا ہے کہ تیرے قابل ہو جائیں اس پہلو سے تو ہم پر رحم فرما اور ہمیں سنبھال لے تو اسلِموا کا مضمون یہاں سنبھالنے کے معنوں میں ہے.اس کے بعد فرمایا وَ اتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ اِلَيْكُمُ جب تم سنبھالے جاؤ گے تو پھر اگلا قدم ضرور اٹھانا.جو ابتدائی نیکیاں تمہیں نصیب ہیں ان پر بیٹھ نہ رہنا، ان پر تسلی نہ پا جانا کیونکہ

Page 129

خطبات طاہر جلد 16 123 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء نیکیوں کی راہ تو ایک لامتناہی آگے بڑھنے والی راہ ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف مسلسل حرکت ہے جو حقیقی حسن پیدا کرتی ہے.چند باتیں حاصل کر کے، چند بدیوں سے بچ کر تم حقیقت میں نیک انجام کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اس راہ میں اگلے قدم نہ اٹھاؤ، اگلی منزلیں بھی طے نہ کرو اور وہ احسان کی منازل ہیں.قرآن کریم کی ایک دوسری آیت جس میں درجہ بدرجہ مستقل احسان کی طرف سفر کا ذکر ہے میں پہلے بھی ایک خطبے میں روشنی ڈال چکا ہوں.پس اس میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانتا مگر یا درکھیں کہ احسان والی جو منزل ہے وہ آپ کو ایسے عذاب سے بھی بچائے گی جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.تُنْصَرُونَ اور اس میں یہ فرق ہے اگر عذاب ایسا آئے کہ ابھی زندہ ہو انسان، ہوش میں ہو مدد مانگ سکتا ہو تب ہی اس کی مدد کی جائے گی نا.لیکن یہ ایسا عذاب جس کا پتا ہی نہ چلے ، آئے اور آپ کو کالعدم کر دے بھسم کر دے اگر وہ آگ کا عذاب ہے، اگر سیلاب کا عذاب ہے تو غرق کر دے اس وقت آپ کیا مدد مانگیں گے.اگر سوتے میں ایسا واقعہ ہو جائے اور اتنا اچانک ہو کہ ہوش بھی نہ رہے کہ کیا ہو رہا ہے.جو احسان کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کی خوشخبری ہے ان کو ایسے عذاب کی اچانک پہنچنے والی تکلیفوں سے بھی بچایا جائے گا.اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے گا.أَن تَقُولَ نَفْسٌ يُحَسْرَتُى عَلَى مَا فَرَّضْتُ فِي جَنْبِ اللهِ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو پھر حسرت کے سوا تمہارا کوئی انجام نہیں.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو جن کو مغفرت نصیب ہوتی ہے ان میں تم شامل نہیں ہو یہ اعلان ہو رہا ہے.اور حسرت یہ ہوگی مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللهِ میں نے جو جو کوتاہیاں کی ہیں، جن فرائض سے غافل رہا ہوں اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کے ساتھ ہوتے ہوئے اس کے پہلو میں زندگی بسر کرتے ہوئے وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ الشَّخِرِينَ میں تو الشخِرِيْنَ میں سے رہا.اب ساخر کا ایک معنی ہے تمسخر کر نے والا ، مذاق کرنے والا.اس موقع پر وہ چسپاں نہیں ہوتا.ساخر کا ایک مطلب ہے کسی چیز کو معمولی سمجھنا اور اس کو وقعت نہ دینا اور یہی معنیٰ ہے جو اس موقع پر چسپاں ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود کا ترجمہ میں نے اسی نیت سے دیکھا تو اس میں یہ لکھا ہوا ہے ساخرون والی آیت کا یہ ترجمہ ہے تا ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ جو کچھ اللہ کے بارے میں میں نے کمی کی ہے اس کی بناء پر مجھ پر افسوس ہے اور میں تو وحی الہی کو حقیر سمجھتارہا.ساخرین کا ترجمہ آپ نے حقیر ہی فرمایا ہے مگر وحی الہی کو بریکٹ میں رکھا ہے یعنی ایک معنی

Page 130

خطبات طاہر جلد 16 124 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء اس کا یہ ہے.ساخرین کا تعلق لازم نہیں کہ وحی الہی سے ہو، ساخرین کا ایک تعلق عام روز مرہ کے معاملات میں اصلاح کی طرف متوجہ ہونے سے بھی ہے اور ساخرین ان معنوں میں وہ تمسخر والے معنی بھی رکھتے ہیں کہ ہنس کھیل کر ہم نے دنیا کو چھوڑا.ان باتوں کو، دین کی باتوں کو معمولی سمجھا اور ہنسی ٹھٹھے میں وقت ضائع کر دیا کوئی اہمیت نہ دی دین کی باتوں کو.اب جب وقت آ گیا عذاب کا اب اس سے بچ نہیں سکتے.یہ جو عمومی مضمون ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ پہلی دونوں آیات کی طرف ایک کے بعد دوسری کی طرف توجہ دیتا ہے اسی ترتیب کے ساتھ اَوْ تَقُوْلُ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدْينى لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ یا اس وقت یہ کہو کہ کاش مجھے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی ہوتی تو میں متقین میں سے ہو جاتا یعنی بچ جاتا برائیوں سے.اَوْ تَقُوْلَ حِيْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ انَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ تو پہلی آیت کا مضمون میں نے تقویٰ سے جو باندھا تھا قرآن کریم اس کو درست ثابت فرما رہا ہے اور دوسری آیت کے مضمون کو جو میں نے تقویٰ کے بعد بلند تر مناصب کی طرف بڑھنے کے لئے بیان کیا تھا یہ آیت بعینہ اس کی تصدیق کر رہی ہے.اسی ترتیب کے ساتھ قرآن کریم اس مضمون کو ختم کرتا ہے کہ دیکھو پہلے پہلے ہدایت پا جاؤ ورنہ یہ حسرت رہے گی کہ کاش میں تقویٰ اختیار کر لیتا اور اس عذاب کے بعد چونکہ تقویٰ کی طرف لوٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی یہ اس طرف اشارہ ہے.جب خدا کی پکڑ آ جائے پھر اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا والی بات ختم ہو چکی ہوتی ہے.پھر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بات نہیں اللہ مجھے بخش دے گا.اس وقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کاش اس وقت سے پہلے پہلے میں تقویٰ اختیار کر چکا ہوتا اور امن میں آجاتا اور پھر فرمایا اَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اچانک عذاب دیکھ کے پھر یہ نہ کہنا کہ کاش میں اتنا نیک ہوتا اس سے پہلے کہ احسان کی منازل بھی طے کر چکا ہوتا.تو بعض دفعہ عذاب کے وقت محض تو بہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی بلکہ اور بھی زیادہ بلند مراتب کو حاصل کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جوان مراتب کو حاصل کرتے ہیں وہ یاد آ جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ او ہو میری زندگی میں وہ بھی تو تھا، وہ بھی تو تھا ، کیسے اعلیٰ پائے کے لوگ تھے.کس طرح انہوں نے خدا کے حضور رکوع اور سجود میں زندگیاں گزاریں کس طرح خدا کی عبادتیں کیں.کس طرح خدا کے معاملات میں انہوں

Page 131

خطبات طاہر جلد 16 125 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء نے اپنے آپ کو حسین تر بنایا یعنی محسنین ان معنوں میں بنے اور بندوں کے معاملات میں ان کا سلوک حسین سے حسین تر ہوتا چلا گیا.وہ محض عدل پر قائم نہ رہے بلکہ احسان کا سلوک کرنے لگے یہ جو حسرتیں ہیں یہ جب آئیں گی تو پھر یہ وقت نہیں رہے گا.پس یہ امور ہیں جن کی طرف توجہ کرنی لازم ہے.ہم میں سے ہر ایک کے لئے لازم ہے.موت آج نہیں تو کل آنی ہی آتی ہے کوئی اس سے بچ نہیں سکتا اور ساخرین والی بات پھر پیدا نہ ہو.موت کے وقت یہ حسرت نہ لئے بیٹھے ہوں.عذاب سے مراد صرف وہ ظاہری عذاب جو ہیں وہ نہیں ہیں بلکہ جو طر ز بیان ہے اس میں موت کا وقت بھی داخل ہے.پس جب موت آجائے گی تو لاکھ زور ماریں آپ ، واپس ہو ہی نہیں سکتی.اس وقت کی حسرتیں کسی کام نہیں آئیں گی اور بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مرتے وقت اس نے توبہ کر لی تھی اس لئے ٹھیک ہے، یہ وہم ہے.فرعون نے بھی تو مرتے وقت تو بہ کی تھی ، کب خدا نے اس کی طرف توجہ دی.اس کی اس تو بہ کو رد کر دیا ہاں اسے عبرت کا نشان بنانے کے لئے وعدہ کیا کہ ہم تیرے جسم کو رکھیں گے.تو ایسی حالت تک نہیں پہنچنا اور چونکہ اچانک آئے گی موت یا بعض عذاب بھی اچانک آ جاتے ہیں اس لئے پتا ہی کچھ نہیں کب آجائے.اس سے پہلے پہلے وقت ہے کچھ کرنا ہے تو کر لو اور یہ زندگی عارضی ہے.دن جو لمبے بھی دکھائی دیں وہ بھی گزر ہی جاتے ہیں بعض لوگوں کو رمضان بڑ المبادکھائی دیتا تھا کہ ایک مہینہ گزرے گا پورا اور گزر رہی گیا.دیکھتے دیکھتے اَيَّامٍ مَّعْدُودَتٍ (البقرة:204) ہی ہو جاتے ہیں.جب وقت مل جائے ، گزر جائے تو آیا ھے معْدُو دت کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا.گزرا ہوا وقت ہمیشہ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے تبھی قیامت کے بعد لوگ کہیں گے ہم تو ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہے اس سے زیادہ تو ہمیں کچھ نہیں ملا.تو وقت تو گزرنا ہے اور یہ زندگی لازما گزر جائے گی آج نہیں تو کل گزر جائے گی.کل نہیں تو پرسوں، ہزار سال بھی رہیں تب بھی گزرنی ہی گزرتی ہے اور وہ وقت آ جائے گا جس وقت کے بعد پھر کوئی پیچھے ہٹنا نہیں ہے سوائے حسرتوں کے کچھ باقی نہیں رہ جاتا.اس لئے زندگی میں جب تک توفیق ہے تو بہ کرو، استغفار کرو اور قرآن کریم نے دیکھو کتنا آسان طریقہ بیان فرمایا ہے آنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ محبت میں کون سی مشکل ہے.پیار میں کون سی دقت ہے.اللہ تعالیٰ کی تمنا تو دل میں پیدا کر لو.اس کا خیال لا نا شروع کر و دل میں صبح، دوپہر، شام جب بھی خدا تعالیٰ کے احسانات پر نظر کرو جو ہر انسان پر،

Page 132

خطبات طاہر جلد 16 126 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء بندگی کے ہر ذرے پر، کائنات کے ہر ذرے پر ہیں تو اس کو یاد کرتے ہوئے پھر یہ سوچا کرو کاش ہم بھی وہ ہوتے جو خدا کے مقربین میں شمار ہو سکتے.کاش ہم میں بھی قرب الہی کی علامتیں ظاہر ہوتیں.یہ تمنا پیدا کرنا آپ کا کام ہے پھر اسلِموا کا مضمون لازماً اس کے نتیجے میں پیدا ہوگا.اگر تمنا سچی تھی، تمنا سچی ہے تو خیال خود بخو دا بھرے گا کہ ہم کیسے یہ کام کریں مشکل ہے.پھر اپنا معاملہ اللہ کے سپر د کرو، چھوڑ دو اس کے اوپر.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی صدائیں لگاؤ.کہو اللہ ہم چاہتے ہیں کر نہیں سکتے.کچھ کر ہمارا ، ہماری مد کو آہ، ہمیں سمیٹ لے.ہمارا حامی و ناصر ہوجا، ہمارا رفیق ہو جا، ہمارا حفیظ ہو جا.یہ دعا ئیں اس بے اختیاری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں جو انيْبُوا إلى رَبِّكُمْ کے حکم پر عمل کے بعد پیدا ہوا کرتی ہیں ، پہلے نہیں ہوا کرتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پہلی آیت کریمہ ہے اس سے بہت ہی عظیم عارفانہ مضامین نکالے ہیں اس وقت جتنا سا وقت رہ گیا ہے اس میں چند آپ کے ارشادات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور خیال یہ ہے کہ شاید بہت سا حصہ بچ جائے گا، بچے گا تو انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں میں آپ کے سامنے پیش کر دوں گا.اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اے میرے غلامو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے.یعنی اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ تو کہہ کہ اے میرے غلامو! اور ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بندوں کا بھی ترجمہ کیا ہے مگر ساتھ تشریح فرما دی ہے کہ کن معنوں میں بندہ ہے یہ.مگر پہلے میں نے غلاموں والے اقتباسات لئے ہیں کیونکہ بندے تو خدا کے ہیں سارے.بندوں کے معنوں میں تو محمد رسول اللہ ﷺ کا کوئی بندہ نہیں تھا مگر جو محمد رسول اللہ اللہ کا غلام ہو جائے وہ ایک معنی میں محمد کا بندہ بھی کہلا سکتا ہے ”ہم تو تیرے بندہ بے دام ہیں“ کہتے ہیں جس طرح.تو غلام کامل پر لفظ بندہ بھی اطلاق پا جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اے محمد ﷺ یعنی نام نہیں لیا مگر مخاطب حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے.اے میرے غلامو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمت الہی سے نا امید مت ہو خدا تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا.یہ پہلا آغاز کا اعلان ہے جو اسی طرح میں نے آپ کے سامنے رکھا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ہے.اب اس آیت میں بجائے قل یا عباد اللہ کے

Page 133

خطبات طاہر جلد 16 127 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء جس کے یہ معنی ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو یہ فرمایا قُل يُعِبَادِی یعنی کہہ کہ اے میرے غلامو! ( یہاں بندہ کی بجائے غلامو کا لفظ استعمال فرمایا ہے.) اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ تا خدا تعالیٰ بے انتہار حمتوں کی بشارت دیوئے“ یہ وہ لطیف معرفت کا نکتہ ہے جو کسی مفسر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا بیان نہیں کیا.فرمایا خود بخود خدا کہہ سکتا تھا اے میرے بندو میں سارے گناہ بخش دوں گا لیکن امید کے لئے کوئی نمونہ تو سامنے ہو.بے انتہا رحمتوں کا کوئی نشان تو ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں اس وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کوحکم دیا تو کہہ دے کیونکہ خدا ان بندوں کو تو اس طرح دکھائی نہیں دے رہا جیسے تو ان کو دکھائی دے رہا ہے اور جو بے چارہ گناہ گار اور ادنیٰ حالتوں میں ہے اس کو ویسے بھی خدا دکھائی نہیں دے سکتا یعنی اپنے نشانات اور اپنی صفات کے ذریعے بھی دکھائی نہیں دیا کرتا لیکن نبی کا وجود ایسا ہے کہ وہ ناممکن ہے کہ نظر نہ آئے.اس کا حسن تو اس کے مخالفین، اس کے معاندین کو بھی دکھائی دے رہا ہوتا ہے.تو امید کو پوری طرح مستحکم اور قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ محمد رسول اللہ اللہ کے ذریعے اعلان کروایا ہے.وہ مجسم رحمت سامنے کھڑا تھا، وہ ایسی رحمت تھی جو آنکھوں سے دکھائی دیتی تھی ، اندھے بھی جانتے تھے کہ رحمان ہے اور رحیم ہے یعنی خدا کے تابع اس کی صفات رکھنے والا انسان ہے.فرمایا: بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی کہ تا خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جو لوگ کثرت گناہوں سے دل شکستہ ہیں ان کو تسکین بخشے.سو اللہ جل شانہ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے“.(وہ کون سا نمونہ ہے.) اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو دکھلا دے کہ میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں.““ اور پھر اس میں جو مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بیان کے لئے از خود نمایاں کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ بخشش مقصود نہیں ہے.بخشش تو ایک منفی صفت ہے صرف، جو گناہ ہو گئے ان سے نظر پھیر لی چلو کچھ نہیں کہتے ، سزا نہیں دیتے.اللہ تعالیٰ صرف اس لئے تو تمہیں اپنی طرف نہیں بلاتا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں اعلیٰ مقاصد کے لئے پیدا فرمایا ہے جن میں اس کی رحمت کا نزول ہی ہے جس کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا ہے جو عبادت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے.پس يَعْبُدُونَ (یونس: 19) کا مضمون بھی یہی

Page 134

خطبات طاہر جلد 16 128 خطبہ جمعہ 14 فروری 1997ء ہے تا کہ تم ان تمام اعلیٰ رحمتوں کو پا جاؤ جن کی خاطر خدا نے تمہیں پیدا فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ذریعے اس اعلان عام کروانے کی یہی حکمت ہے کہ تمہیں پتا چلے کہ یہ آیت اس طرف بلا رہی ہے قُلْ يُعِبَادِی اے میرے بندو دیکھو تو سہی کہ خدا کتنا رحمان ہے، کتنارحیم ہے کتنی بخششیں کرنے والا ہے اور میں اس کا نمونہ تمہارے سامنے کھڑا ہوں.پس آنحضرت ﷺ اس بات کے نمونہ تو نہیں تھے کہ کثرت سے گناہ نعوذ باللہ من ذالک سرزد ہوتے رہتے تھے اور معافی ہو جاتی تھی.نمونہ دیا ہے رحمتوں کی انتہاء کا.پس بخشش کے معاملے کومحض پہلی منزل کے طور پر پیش کیا گیا ہے يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا کا جو وعدہ ہے اس میں بخشش کے بعد کے مضمون کی طرف قُلْ يُعِبَادِی کہہ کر توجہ دلا دی گئی.بخشش پر راضی نہیں ہونا احسان کی طرف قدم بڑھانا ہے، احسان کی طرف قدم صلى الله بڑھانا ہے اور اس طرح بڑھانا ہے جس طرح میرے بندے محمد رسول اللہ ﷺ نے قدم بڑھایا ہے، اتنا بڑھانا ہے کہ تم اس کے بندے کہلانے لگو.تم اس کے کامل غلام بن جاؤ.فرماتے ہیں: ”سواس نے قُلْ يُعِبَادِی کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول ما ، دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہو جائے یعنی ایسا اس کی طاعت میں محو ہو جائے کہ گویا اس کا غلام ہے تب وہ گو کیساہی پہلے گنہگار تھا بخشا جائے گا.“ پس بخشش بھی مشروط ہے آنحضرت ﷺ کی اطاعت کاملہ سے اور یہ اطاعت کاملہ نصیب تو رفتہ الله رفتہ ہوتی ہے مگر اس کا رجحان جو ہے وہ اسلِموا سے بنتا ہے.جو شخص اپنے آپ کو مد رسول اللہ ﷺ کی سنت کے سپرد کرے گا وہ اسلموا کے صحیح معنے کا حق ادا کرے گا اور امر واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ وجود ہے جس کے ساتھ سپردگی کا رشتہ جو ہے وہ ہر خطرے سے بچالیتا ہے.کوئی انسان دنیا میں ایسا پیدا نہیں ہوا خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی جس کی حفاظت میں آکر انسان ہر قسم کے خطرات سے ایسے بچ سکتا ہے جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی حفاظت میں آنے سے انسان خطرات سے بچتا ہے.پھر فرماتے ہیں: ” جاننا چاہئے کہ عبد کا لفظ لغت عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَلَعَبُدُ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُّشْرِكٍ (البقرة:222) که یا درکھو عبد کا لفظ صرف بندے یعنی خدا کے ان معنوں میں بندے کہ خدا کی تخلیق ہو صرف اس جگہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایسے شخص کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے

Page 135

خطبات طاہر جلد 16 129 خطبہ جمعہ 14 فروری1997ء جو عام انسان ہے عبد بمعنی انسان لیکن غلام انسان.عبد سے مراد کسی کا بندہ ان معنوں میں نہیں جیسے خدا کی مخلوق ہے.انسان تو عام ہے خدا ہی کی مخلوق ہے مگر کسی کا عبد تب بنے گا اگر وہ اس کا غلام ہو جائے، اس کا اپنا کچھ نہ رہے، کلیۂ اس کے آقا کا ہو چکا ہو تو ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ لفظ عبد استعمال ہوا ہے.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن طاعت سے اپنے تیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا.اس مقام میں ان کو رباطن نام کے موحدوں پر افسوس آتا ہے کہ جو ہمارے نبی ﷺ سے یہاں تک بغض رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ نام کہ غلام نبی، غلام رسول، غلام مصطفیٰ، غلام احمد، غلام محمد شرک میں داخل ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں.بعض ایسے بھی جاہل موحدین کہلاتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ نام ہی مشرکانہ صلى الله ہیں.غلام محمد رسول اللہ ﷺ کا غلام تو انسان خدا کا ہے صرف.وہ جاہل سمجھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں ان کے اس اعتراض کو کلیہ ہمیشہ کے لئے رد فر ما دیا ہے.آنحضرت ﷺ کو واضح ہدایت دی جارہی ہے یہ اعلان کر کہ اے میرے بندو یا میرے غلامو!.جہاں بندے کا مضمون ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بھی خوب کھول رہے ہیں یعنی اس معنی کو رد نہیں فرما ر ہے.عام بندوں کو سمجھانے کے لئے فرماتے ہیں اس کا معنی غلام کا بھی ہے اس لئے غلام کے معنوں میں سوچو تو تمہارے دل میں کوئی بھی شرک کا واہمہ پیدا نہیں ہوگا اور اس کی تفسیر فرماتے ہیں، وجہ (بیان) فرماتے ہیں کیوں فرمایا گیا لیکن عبد کا معنی جو بندے کے ہیں اس کا بھی ذکر فرمایا ہے وہ انشاء اللہ بعد میں ان اقتباسات کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھوں گا تو فرمایا یہاں وہ جاہل لوگ ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ غلام جو ہے وہ اپنی شخصیت کو دوسرے کی خاطر کھو دیتا ہے، کلیۂ اس کے تابع فرمان ہو جاتا ہے، اس کا کچھ نہیں رہتا سب کچھ ان کا ہو جاتا ہے.ان معنوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کے ہو جاؤ تو پھر نجات یقینی ہے.کوئی بھی نجات کی راہ میں تمہارے لئے روک پیدا صلى الله نہیں ہوگی.کسی طرف سے بھی نجات کو کوئی بھی خطرہ نہیں پیدا ہوگا.محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن میں، اس کی پناہ میں آجاؤ تو ساری پنا ہیں تمہیں مل جائیں گی.

Page 136

خطبات طاہر جلد 16 130 خطبہ جمعہ 14 فروری1997ء پھر فرماتے ہیں: ” اور چونکہ عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودروی سے باہر آ جائے اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں.اب اس مفہوم میں داخل ہو کر کوئی بہت بڑا ایک ذمہ داری کا مقام آنکھوں کے سامنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے.فرماتے ہیں اپنی ہر آزادی کو محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈال کے اس آزادی سے فارغ ہو جاؤ.ہر خودروی سے باہر آ جاؤ.اپنی مرضی کرنے کے جور جحانات پائے جاتے ہیں یہاں تو ہم اپنی کریں گے ، ان سب سے ان کے دائروں سے باہر آ جاؤ اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو ( یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ان معنوں میں تمہارے مولیٰ ہوں کہ ان کی کامل اطاعت کے دائرے میں داخل ہو.) اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں.( آئینہ کمالات السلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ:190 تا192) پس میں امید رکھتا ہوں کہ ان آیات کریمہ کی اس تفسیر سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے میں نے کی ہے آپ استفادہ کریں گے اور توجہ کریں گے.اپنے چھوٹے بچوں کو بھی متوجہ کریں.انابت کا جو معاملہ ہے وہ بچپن سے ہی شروع ہونا چاہئے.وہ سب بڑے یا بڈھے بھی کہہ دینا چاہئے جن کے دل میں بچپن میں کوئی رمق ، اللہ کی محبت کی تھی بچپن میں خیال آیا کرتا تھا کہ ہم اللہ والے ہوں ان کو اللہ تعالی گھیر گھار کے لے آیا کرتا ہے ان میں سے کسی کا بدانجام میں نے نہیں دیکھا.بدیوں میں مبتلا ہونے کے باوجود پھر آخر ان کی آخری منزل وہی ہوتی ہے جو خدا کی اطاعت کی منزل ہے.تو اپنے بچوں پر رحم فرمائیں.ان کو بچپن ہی سے انابت کا مضمون سکھائیں اور جو بے راہرو ہیں ان کو سختی سے مشکل مقامات کی طرف بلانے کی بجائے انابت کے ذریعے ان کے دل میں داخل ہوں اس کے لئے ہر دروازہ کھلا رہتا ہے.کوئی خدا کے لئے کبھی تو اللہ کی سوچا کرو، کبھی تو اس کی طرف جھکنے کی توجہ پیدا کرو کبھی تو اس کی طرف مائل ہوا کرو.یہ آواز جو ہے شاذ ہی کوئی بد بخت ہے جو اس کو رد کرے تو اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو.ہمیں ان معنوں میں اس رمضان کی خیر و برکت کو اپنے لئے دائمی کرنے کی توفیق بخشے.آمین

Page 137

خطبات طاہر جلد 16 131 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء اللہ تعالیٰ کی محبت کو پانے کے لئے لازم ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ کی غلامی کی جائے.(خطبه جمعه فرموده 21 فروری 1997ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَانِيْبُوا إِلَى رَبَّكُمْ وَأَسْلِمُوالَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ پھر فرمایا: (الزمر: 55،54) یہ آیات سورۃ زمر سے لی گئی ہیں ان کی اور کچھ بعد میں آنے والی آیات کی تلاوت میں نے پچھلے خطبے سے پہلے کی تھی اور اس مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے بیان کر رہا تھا کہ وقت ختم ہو گیا اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جو لازماً جماعت کے سامنے رکھنی چاہئیں اور ان کو پوری طرح سمجھ کر پھر جماعت کے لئے تو بہ کا مضمون خوب کھل جائے گا اور تو بہ پر عمل آسان ہو جائے گا اور اس کی اہمیت بھی پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوگی کیونکہ اکثر انسان غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور تو بہ کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہی نہیں کیونکہ جن گناہوں میں انسان ملوث ہوان سے دل لگا چکا ہوتا ہے اور جس چیز سے دل لگ جائے اس کے لئے تو یہ دعا کرنا بھی مشکل ہے کہ اے خدا

Page 138

خطبات طاہر جلد 16 132 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء مجھے اس گناہ سے نجات بخش اور یہ بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایک ایسی چیز جس سے دل لگ چکا ہو اس کے خلاف انسان پورے شعور کے ساتھ یہ دعا کرے کہ اے خدا یہ مجھ سے چھڑا دے.چنانچہ مجھے اپنے تجربے میں بارہا یہ وقت پیش آتی ہے کہ جب بعض لوگ یا بعض بچیاں اپنی نا سمجھی سے ایسے فیصلے کر بیٹھتی ہیں کہ جو اسلام کی روایات اور احمدیت کی روایات کے خلاف ہیں جب ان کو میں کہتا ہوں کہ اپنے لئے دعا کریں تو ان کی طبیعت مائل نہیں ہوتی.وہ اقرار بھی کریں تو صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ فیصلہ نہیں ہوسکا اور جب وہ اس بات کو نہ سمجھ سکیں تو پھر کبھی بھی وہ نصیحت ان پر عمل نہیں کرتی لیکن جس نے بھی اس مضمون کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا، سمجھا اور معلوم کر لیا کہ بہت مشکل کام ہے جس کی طرف مجھے بلایا جارہا ہے اور پھر تسلیم کر لیا کہ ہاں باوجود مشکل کے ہم ضرور ایسا ہی کریں گی ایک بھی ان میں سے ضائع نہیں ہوئی، اللہ کے فضل کے ساتھ خدا نے ہمیشہ ان کو سنبھال لیا.تو سب سے پہلی بات جو تو بہ کے تعلق میں قابل غور ہے وہ یہی ہے کہ انسان اپنے تعلقات کا جائزہ لے کیونکہ یہ سارا مضمون ہی تعلقات کا ہے یہ ساری زندگی ہی تعلقات کا قصہ ہے.ہر گناہ ایک تعلق پیدا کرتا ہے یا ایک تعلق کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور ہر تو بہ ایک تعلق کے نتیجے ہی میں ہوگی ورنہ گناہ کا تعلق ٹوٹ سکتا ہی نہیں.یہ وہ مضمون ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے قرآن کریم کی اس آیت کے لفظ انیبو میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے انِيبُوا کو آپ کے سامنے رکھا.اللہ تعالیٰ مغفرت کا مضمون بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے آنیبُوا إِلَى رَبَّكُمُ اپنے رب کی طرف جھک جا وَ وَ أَسْلِمُوالہ پھر اپنے آپ کو اس کے سپرد کر ومِن قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ پیشتر اس سے کہ عذاب آجائے اور تمہاری مدد نہ کی جائے.اب پہلی آیت یہ ہے کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا تمام گناہ بخش دیتا ہے.اس سے پہلے یہ ذکر گزرا کہ اے وہ لوگو جو اپنے نفسوں پر ایسی ایسی زیادتیاں کر بیٹھے ہو کہ گناہ کبیرہ میں یا کبائر میں ملوث ہو گئے بہت بڑے بڑے گناہ کئے ہیں تم بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.تو یہ جو خوشخبریاں ہیں اس کے بعد یہ آیت ایک عجیب سی بات پیش کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہر گناہ بخش دے گا لیکن موت سے پہلے پہلے ڈرو کہ وہ عذاب نہ آجائے.اگر ہر گناہ بخش دے گا تو عذاب کیسا آئے گا، پھر کس عذاب سے ڈرنے کی ہدایت فرمائی جا رہی ہے کیونکہ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ نے تو سارے

Page 139

خطبات طاہر جلد 16 133 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء بوجھ اتار دیئے بظاہر کوئی بھی فکر باقی نہ چھوڑا.جب خدا اتنا عظیم مہربان ہے کہ ہر گناہ بخش دیتا ہے تو پھر کسی عذاب کے خطرے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا مگر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ سب غلط فہمیاں دور فرمائی ہیں جو بخشش کے متعلق عامتہ الناس میں پائی جاتی ہیں.بخشنے کا مضمون ایک تو بہ کو چاہتا ہے اگر دل میں تبدیلی واقع ہو، انسان تو بہ کرنا چاہے تو پھر جو رستے کی دقتیں ہیں وہ خدا دور فرما تا رہتا ہے.پھر کیسا ہی کٹھن سفر ہو اللہ تعالیٰ اسے آسان فرما دیتا ہے اور اس سفر کے آغاز پر آنيبُوا کا لفظ رکھا کہ یہ سفر تم سے شروع ہو نہیں سکے گا جب تک اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق پیدا نہ ہو.گناہ کا مطلب ہے مادی دنیا سے بے حد تعلق قائم ہو گیا، عادتیں پڑگئیں ،ایک معمولی سی ڈرگ کی Addiction ہے وہ بھی ہو جائے تو ڈاکٹر بڑا زور لگاتے ہیں بعض دفعہ مہینوں ہسپتالوں میں رکھتے ہیں پھر جب ہسپتال سے باہر آیا پھر دوبارہ وہی ڈرگ شروع ہو جاتی ہے.گناہ تو کتے کی دم کی طرح ہے کہتے ہیں بارہ سال تک ایک نالی میں کتے کی دم رکھی تھی تا کہ وہ سیدھی ہو جائے ، جب وہ نکالی تو پھر اسی طرح خم پڑ گیا.تو یہ غم دور کرنے کے نسخے ہیں جو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے اور ایسے نسخے بیان نہیں فرماتا جیسے کتے کی دم کو نالی میں ڈال دیا ہو جب نکالو پھر وہی.قرآن کریم جو نسخے بیان فرماتا ہے وہ دائی ہیں وہ کبھی پھر انسان کو پہلے حال کی طرف لوٹنے نہیں دیا کرتا اور اس مضمون کی جان تعلق باللہ میں ہے.گناہ ہے ہی تعلق کا نام.تو بہ کیا ہے ایک تعلق سے دل توڑنے کی کوشش کرنا اور اللہ کا یہ دیکھ کر کہ یہ بندہ میری خاطر کر رہا ہے مگر اس میں طاقت نہیں ہے اس کی طرف جھک جانا یہ اس کے تو اب ہونے کی نشانی ہے.پس تو بہ اپنی ذات میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی اگر اللہ تواب نہ ہو اور تو اب کی طرف جانے کے لئے تو بہ سے پہلے فرمایا ہے انيْبُوا إِلَى رَبَّكُمْ کہ تم اپنے رب کی طرف مائل ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو حوالہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا تھا آج میں نے اس کا باقی حصہ آنے سے پہلے دیکھا تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی اس بات سے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کے تعلق میں جوان آیات میں بیان ہوا ہے قُلْ يُعِبَادِی اس میں ایک اور آیت سے استنباط فرماتے ہوئے یہی معنی لئے ہیں، بعینہ یہ معنی لئے ہیں کہ یہ تعلق کا مضمون ہے.اللہ کی محبت کا مضمون ہے اس کے سوا کسی گناہ سے انسان کو نجات نہیں مل سکتی.

Page 140

خطبات طاہر جلد 16 134 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء چنانچہ اب میں باقی اقتباس پڑھ کر پھر میں بعض مزید باتوں کی طرف واپس آؤں گایا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے چند اور امور آپ کے سامنے رکھوں گا.آپ فرماتے ہیں یہ جو فرمایا قُل لِعِبَادِی کہہ دے کہ اے میرے بندو! اس مضمون کے متعلق میں 6 پہلے بیان کر چکا ہوں محض یاد دہانی کے طور پر یہ بتاتا ہوں کہ آیت سے یہ نکلتا ہے کہ محمدرسول اللہ ہے، خدا تعالیٰ کے بندوں کو یہ کہیں اے میرے بندو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ ایک مجازی کلام ہے اور عبد کا ایک دوسرا معنی ہے جو یہاں بالبداہت صادق آ رہا ہے گویا غلام اور بندے میں یہ فرق ہے بندہ تو خدا نے پیدا کیا ہے اور غلام بھی بندہ ہی ہوتا ہے مالک کا لیکن پیدا ہونے کے مضمون کے لحاظ سے بلکہ اس کے تابع ہو جاتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ یہ جو لِعِبَادِی کا لفظ ہے یہ گنا ہوں سے بچنے کا ایک ایسا عظیم الشان طریق بیان فرما رہا ہے کہ جس مضمون کو آپ سمجھیں تو آپ کی گنا ہوں سے رہائی ممکن ہو جائے گی.اگر نہیں سمجھیں گے تو پھر جتنی چاہے کوشش کریں صحیح جگہ ہاتھ ہی نہیں پڑے گا.پس آپ نے لفظ عبد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایا: عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر آزادگی اور خودروی سے باہر آ جائے“.یعنی غلام تو وہ ہوا کرتا ہے جس کی آزادی کلیۂ سلب ہو جاتی ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جو خوش خبری دی ہے وہ اپنے عباد کو دی ہے، ہر شخص کو نہیں دی.فرمایا تم میرے عباد بنو گے تو دیکھو گے کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا خدا تعالیٰ گناہوں کا کچھ بھی نہیں باقی چھوڑے گا لیکن شرط ہے کہ میرے عباد بنو یعنی اپنی آزادیاں ترک کر دو اور میری غلامی کی پناہ میں آ جاؤ.فرماتے ہیں : ”اور خودروی سے باہر آ جائے“.خودروی کا محاورہ بھی بہت گہرے فکر کے بعد یہاں جمایا گیا ہے.ہر ایک آزادگی سے مراد یہ ہے کہ ہر دوسری چیز سے محبت سے بے تعلق ہو جائے اور خودروی کا مطلب ہے کہ اپنے نفس کی اندرونی غلامی سے بھی کلیہ آزاد ہو جائے.نہ غیر کی غلامی رہے نہ نفس کی غلامی رہے اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو.یعنی جس کا وہ غلام ہے اس کا کلیاً مطیع ہو جائے.حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں اور در حقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي

Page 141

خطبات طاہر جلد 16 135 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء يُخبكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (آل عمران: 32 ) از روئے مفہوم ایک ہی ہیں کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے.یہی سر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوب الہی بننے کی خوشخبری ہے گویا یہ آیت کہ قُلْ يُعِبَادِی دوسرے لفظوں میں اسی طرح پر ہے قل یا متبعی.(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ: 192-193 ) یہ مضمون چونکہ زیادہ ادق ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب بڑے وسیع گہرے مضامین کو چند لفظوں میں بیان فرماتے ہیں تو ان کی تشریح کرنی پڑتی ہے ورنہ عام قاری اس کو سمجھ نہیں سکتا اس لئے اس مضمون کو میں اب اپنے لفظوں میں سمجھا تا ہوں کہ آپ کیا فرما رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک وہ آیت یعِبَادِی اور اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ ایک ہی مضمون کی دو آیتیں ہیں اور ایک دوسرے پر روشنی ڈال رہی ہیں جو عبد ہوگا وہ اتباع کرے گا اور اتباع سے پہلے محبت ہونا ضروری ہے چنانچہ وہاں جو انیبُوا کا مضمون بیان فرمایا گیا ہے یہاں إن كُنتُم تُحِبُّونَ اللہ کے الفاظ میں بیان فرما دیا گیا.اصلاح کی شرط اول یہ ہے کہ محبت بہر حال ہونی ہے اگر محبت نہیں ہے تو محبت کا دعویٰ تو ہو ارادے تو ہوں کہ ہم خدا سے محبت کریں یہ دعوئی بہت بڑا ہے اور کیسے ہو جائے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رسول اللہ ﷺ فرمارہے ہیں فَاتَّبِعُونِي اور وہاں یعباد جوفر مایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس عباد کے لفظ کو اتبعونی کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتے ہیں کہ اچانک دماغ روشن ہو جاتا ہے کہ عبد کا مطلب تو غلامی اور اتباع ہی ہے اس کے سوا اور کیا مطلب ہے کامل اتباع اور کامل غلامی اور یہاں بھی یہی بات ہو رہی ہے.فَاتَّبِعُونِی یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کو پانے کے لئے لازم ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کی جائے اور اپنی محبت کے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لئے بھی لازم ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ یہ کی غلامی کی جائے اور کوئی مغفرت جسے مغفرت عظیم کہا جا سکتا ہے جس سے سارے گناہ بخشے جاسکتے ہیں اس غلامی کے بغیر ممکن نہیں ہے.اب یہ مضمون دیکھنے میں آسان مگر کرنے میں بہت مشکل ہو گیا ہے اتبعونی کے لئے جو مشکلات سامنے درپیش ہیں وہ پہاڑ کی طرح ہیں ایک عام انسان کسی عام روز مرہ کے نیک انسان کی متابعت کرنے میں بھی بڑی دقت محسوس کیا کرتا ہے بچے جو گھر میں پلتے ہیں وہ بھی اپنے نیک ماں

Page 142

خطبات طاہر جلد 16 136 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء اپ کے پیچھے چلنے کے لحاظ سے ضروری نہیں کہ طبعاً آمادہ ہوں محنت کر کے، کوشش کر کے پیچھے چلنا تو اور بھی مشکل کام ہے چنانچہ بہت سے نیک ماں باپ ہم نے دیکھے جن کے بچے ان کا رستہ چھوڑ کر دوسرے رستوں پہ چل پڑے اور جنہوں نے ان کو پسند بھی کیا ان کو عزت بھی دی وہ ان جیسا بننے سے محروم رہے کیونکہ نیکی کے رستے پر چلنا محنت طلب کام ہے لیکن جن کو جتنی زیادہ محبت ماں باپ سے ہو اتنا ان کے لئے وہ کام آسان ہوتا چلا جاتا ہے یہ بھی ہم نے دیکھا اور یہ ایک دائمی مضمون ہے.وہ تمام بچے جو ماں باپ کی نیکیوں سے محروم رہ جاتے ہیں آپ ان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں ان کے دل میں اپنے ماں باپ کی محبت نہیں ہوتی اور جن کو محبت ہو ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اپنی الگ راہیں تلاش کریں یا الگ راہیں تراش لیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں بلا استثناء ہم نے اس مضمون کو سچے ہوتے دیکھا ہے، ہر وہ اولاد جس نے اپنے ماں باپ سے محبت کی ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ہے اور ان کے لئے ان رستوں پر چلنا آسان کر دیا.تو گناہوں کا راز بھی محبت میں ہے اور گنا ہوں سے بچنے کا راز بھی محبت میں ہے محبت ہی وہ آخری تقدیر کا نکتہ ہے جس کے تابع سب تدبیریں ہیں اور تقدیر الہی بھی اسی محبت سے بنائی گئی ہے.چنانچہ وہ آخری طاقت جس سے مادی دنیا بنی ہے وہ Gravitational Pull ہے یعنی مقناطیسی طاقت جو خدا تعالیٰ نے ہر مادے میں رکھ دی ہے اس کو نکال دیں تو ساری کائنات بے حقیقت ہو کر بکھر جائے ، کچھ بھی اس کا باقی نہ رہے.یہی وہ طاقت ہے جس سے سارا نظام کائنات چل رہا ہے.اتنی وسیع کائنات کہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آپ حرکت کریں تو میں ارب سال میں بھی نہ پہنچ سکیں اور وہ حرکت روشنی پر سوار ہو کر کی جائے یعنی ہر لحہ آپ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی رفتار سے دوڑ رہے ہیں یا اڑ رہے ہیں اور پر لے کنارے پر بیس ارب سال میں بھی نہیں پہنچ سکتے اتنازیادہ فاصلہ ہے کیونکہ جب وہاں پہنچیں گے تو وہ اور زیادہ دور ہٹ چکی ہوگی کائنات پھیل چکی ہوگی.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو کائنات ہے اس کو سنبھالا کیسے ہے اللہ تعالیٰ نے.چھوٹے سے روز مرہ کے نظام کو بھی کسی طاقت سے چلایا جاتا ہے.اتنا بڑا نظام نہ اس میں شور، نہ کوئی شرا بہ یعنی شور شرابے سے مراد یہ ہے کہ نظام کی حرکت کے لحاظ سے کوئی شور نہیں ہے اس کو قابو ر کھنے کے لحاظ

Page 143

خطبات طاہر جلد 16 137 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء سے بالکل بے آواز ہے، کامل سکوت ہے اور جتنے سیارے خدا تعالیٰ نے دوسرے سیاروں کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں ان کے متعلق بار بار انسان کو توجہ دلاتا ہے غور کرو اس بات پر.اتنا بڑا نظام اور اتنا قوت کے ساتھ منظم کر دیا گیا ہے اور اس طرح مسخر کر دیا گیا ہے کہ مجال نہیں ہے کہ اپنے رستوں سے وہ ہٹ کر کسی اور طرف جاسکیں، ایسے ستونوں سے باندھا گیا ہے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے.سننا تو درکنار دیکھا بھی نہیں جاسکتا یا دیکھنا تو در کنار سنا بھی نہیں جا سکتا ، کامل خاموشی ہے اور اس مسئلے پر سائنسدان حیران ہیں کہ اتنی بڑی طاقت اور خرچ کچھ نہیں ہو رہا، معمولی سا انجن چلانے کے لئے بھی آپ کو جتنے کوئلوں کی ضرورت ہے زمین اپنی ساری کشش ثقل میں اتنی توانائی بھی خرچ نہیں کر رہی.تو محبت کا مضمون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے متوجہ فرمایا ہے.تم اپنے گھر کی کائنات بھی نہیں چلا سکتے اگر محبت کے رشتے نہ باندھے جائیں تو پھر مادی کائنات کا معاملہ ہو یا روحانی کائنات کا معاملہ ہو اس مضمون کو سمجھو کہ سب سے بڑی طاقت جس کے ذریعے ادنی اور اعلیٰ سب مسخر کئے جاسکتے ہیں وہ محبت کی طاقت ہے.پس اس مضمون میں جو آنحضرت ﷺ کے تعلق میں بیان فرمایا گیا دراصل ہر انسان کو اس کی پیدائش کا راز سمجھا دیا گیا ہے اس کی ساری زندگی، اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے گر سمجھا دیئے گئے ہیں کہ تم نے اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو محبت کے جذبے سے حاصل کر سکتے ہو نفرتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.چنانچہ شیطان اور انسان کی کہانی کے تعلق میں میں ہمیشہ جماعت کو سمجھاتا رہا ہوں کہ دوہی باتیں ہیں جو بیان ہوئیں اور وہ دونوں باتیں ازل سے بچی ہیں ابد تک رہیں گی ، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.دو طاقتیں ہیں ایک ناری طاقت ہے اور ایک نمو کی طاقت ہے.نمو کی طاقت وہ ہے جو گیلی مٹی سے بنتی ہے یعنی پانی بکھرے ہوئے اجزاء کو اکٹھا کر دیتا ہے اور جڑنے لگتے ہیں تمام نشو ونما اس سے ملنے کی طاقت سے پیدا ہوتی ہے.ہر چیز جو بکھرتی ہے، ہر نظام جو بگڑتا ہے، ہر منظم چیز جو تتر بتر ہو جاتی ہے ، وہ آگ کی طاقت سے ہوتی ہے.مادی دنیا میں بھی یہی حال ہے اور روحانی دنیا میں بھی یہی حال ہے.نفرتیں کسی گھر میں داخل ہو جا ئیں تو کچھ بھی نہیں چھوڑتیں.بیوی خاوند سے جدا ہو جاتی ہے، بچے ماں سے اور باپ سے، بھائی بہن ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور یہ وہ مضمون ہے جس کی گہرائی تک جانا استغفار کو سمجھنے کے لئے لازم ہے.

Page 144

خطبات طاہر جلد 16 138 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء پس محبت کے مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو بیان فرما رہے ہیں یہ اس کے طبعی نتائج ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پوری گہرائی سے سمجھ آسکے ، فرماتے ہیں: بلکہ محبوب الہی بننے کی خوشخبری ہے گویا یہ آیت کہ قُلْ يُعِبَادِی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہ قل یا متبعی ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ: 193) اے میری اطاعت کی خواہش رکھنے والو.اے میرے پیچھے چلنے کی تمنالے کر آنے والو، اے دعویدارو، یہ سارے مضمون یہاں متبعین میں آگئے ہیں یعنی اے میری پیروی کرنے والو جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہورہے ہو.اب یہ جو نکتہ ہے بہت ہی اہم ہے سمجھنے والا.ایک طرف متبعی فرمایا جائے اور کہا یہ جائے الله کہ تم کبائر میں مبتلا ہو تو متبعی کیسے ہو گئے.غلام محمد رسول اللہ ﷺ کے اور کبائر میں مبتلا ہوں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے میں نے اس کا ترجمہ یہ کیا تھا کہ اے میری اتباع کی خواہش رکھنے والو.اے میری غلامی کا دم بھرنے والو! اے وہ جو اقرار کرتے ہو صبح شام که اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمداً عبده و رسوله یہ اقرار تو کرتے چلے جاتے ہو لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر میری غلامی کا دم بھرتے ہو تو یہ گناہوں کے بوجھ کیا لئے پھر رہے ہو.اتنے گناہ کہ صبح سے شام، شام سے رات ، رات سے پھر صبح اور چوبیس گھنٹے کے اکثر لمحے تمہارے گناہوں کے خیالات میں مبتلا گزرتے ہیں.اگر توفیق نہ بھی ملے تو خواہش اور حسرتیں ہیں جو اکثر گناہوں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن نیکیوں کی حسرتیں بہت کم پائی جاتی ہیں.پس متبعی فرما کر یہ نہیں فرمایا کہ اے میرے غلامو! تم ایسے ہو، یہ فرمایا جا رہا ہے اے میرے غلامو! تم کیسے ہو.میرے غلام اور ایسے!!.میرے غلام اور اتنے گناہ! یہ زیب نہیں دیتا.پس میرے غلام بن جاؤ.اور دوسری جگہ اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ میں بھی یہی مضمون ہے.یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے دعویدار ہو کر اور حقیقت میں محبت رکھنے کے بعد تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے.فرمایا بہت بڑا دعویٰ کر رہے ہو کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں اور بڑا مشکل دعوی کر بیٹھے ہو.یہ دعویٰ

Page 145

خطبات طاہر جلد 16 139 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء آسان ہو نہیں سکتا، اس پر عمل ممکن نہیں ہے جب تک میرے پیچھے نہ چلو کیونکہ میں نے عشق کی راہوں پر قدم مارے ہیں اور ہر منزل کو آسان کر دیا ہے.ہر فاصلہ میرے پیچھے چلنے سے چھوٹا دکھائی دے گا اور آسان ہوتا چلا جائے گا.اب یہ جو آسانی کا مضمون ہے یہ عشق کے بغیر حل ہو ہی نہیں سکتا.عشق ہے جو ایسی دیوانگی بخش دیتا ہے کہ آدمی تیشہ پکڑ کے ساری عمر اس بات میں گنوا دیتا ہے کہ ایک چٹان کو توڑے، کاٹتا چلا جائے یہاں تک کہ اس سے وہ ایک دریا بہا دے.اب وہ دریا تو نہیں بہا سکتا تھا مگر اسی تیشے سے کھودتے کھودتے وہ مرجاتا ہے اسی حالت میں.تو آنحضرت ﷺ کی محبت ایک ہی راہ پر ملتی ہے اور خدا کی محبت پر پہنچنا اصل مقصود ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت آپ کا ہاتھ پکڑ کر ان راہوں پہ چلائے گی جو بلا استثناء آخر خدا تک پہنچاتی ہیں.اب واپس آپ گناہ کے مضمون کی طرف جائیں پھر دیکھیں کہ اس کا اس سے کیا تعلق بنتا ہے.بات تو سمجھ آگئی مگر عمل کیسے شروع ہوگا.وہی چوہوں والی بات نہ ہو جائے کہ جب ایک خونخوار بلی چوہوں پر بہت ظلم کیا کرتی تھی ، بڑے حملے کیا کرتی تھی تو سوچا گیا کہ آخر کس طرح اس مسئلے کا حل کریں تو ایک چوہے کو ایک بڑی اونچی بات سوجھی.اس نے کہا بڑی آسان بات ہے بلی کی گردن میں ایک گھنٹی لٹکا دو جب وہ آئے گی اس کی گھنٹی کی آواز آجایا کرے گی اور ہم وقت پر اپنے بلوں میں گھس جائیں گے کوئی مشکل کام نہیں.بڑی چوہوں نے داد دی واہ واہ سبحان اللہ کیا بات کر گئے ہو.پھر کسی کو خیال آیا کہ لٹکائے گا کون ؟ اب وہاں جا کے مارے گئے سارے.گناہوں سے توبہ کا فیصلہ کرنا ہی بلی کی گردن میں گھنٹی لٹکانے والی بات ہے اور محبت کی راہوں پر قدم مارنا اگر انسان شعور کے ساتھ مفہوم کو نہ سمجھے تو بالکل وہی بات ہے کہ آہا بہت آسان ہو گیا لیکن جب چلو تو پھر مشکل.بڑی مشکل وہ دوسری طرف کی کشش ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.ایک قدم آگے جائے تو دو قدم پیچھے چلا جاتا ہے.اس کشش کو کیسے توڑا جائے یہ وہ بنیادی سوال ہے کیونکہ یہ محض فلسفے کی باتیں نہیں ہیں.قرآن کریم تو گہرے حکمت کے راز پیش کرتا ہے، بڑے بڑے مشکل مسائل حل فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیا کرو اور کیا نہ کرو اور جوکر ووہ اس طرح کرو تو آسان ہو جائے گا.جو نہ کرو اس سے بچنا ہے تو یہ طریق اختیار کرو تو بچ جاؤ گے اور پھر طریق کو آسان کر کے دکھاتا ہے.اب سب سے پہلے تو آنحضرت ﷺ کی زندگی پر غور اور فکر کی ضرورت ہے اور آنحضرت

Page 146

خطبات طاہر جلد 16 140 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء کی سیرت کے مطالعہ کی ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ کی باتیں سننے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ مطالعہ سچا ہو اور فرضی وجود نہ ہو جس کو علماء پیش کرتے ہیں یعنی بڑھا چڑھا کر کرشموں کی صورت میں دکھاتے ہیں، ایک حقیقی انسان دکھائی دینے لگے آپ کو جو آپ کی طرح رہتا ہے اور اعلان کرتا ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ( حم السجدہ : 7 ) کہ دیکھو میں تم جیسا ہی انسان ، تمہارے جیسا ہی بشر ہوں پھر مجھے کیا ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنے بڑے مقامات کے لئے چن لیا.یہ مضمون جب تک سمجھ نہ آئے اس وقت تک آنحضرت ﷺ سے وہ محبت نہیں پیدا ہوسکتی جو گناہوں سے نجات بخش سکتی ہے یا نیکیوں میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آگے لے جاسکتی ہے.آنحضرت ﷺ کی بشریت ہمارے درمیان قدر مشترک ہے اور بشریت کے مضمون پر آپ غور کریں اور پھر دیکھیں کہ کن کن مواقع پر آپ کے سامنے کون سے دو امکانات پیدا ہوئے تھے اور کن کن مقامات پر آپ نے ایک امکان کو ترک کیا اور دوسرے کو لے لیا.پھر اس کو آپ اپنی زندگیوں پر اطلاق کر کے دیکھیں تو اس وقت آپ کو سمجھ آئے گی کہ کتنا مشکل مضمون ہے.اتنے مشکل چوائسز (Choices) تھے آنحضرت صلى الله کے.انگریزی میں کہتے ہیں چوائسز مشکل.مطلب ہے ترجیحات.جب بھی کوئی ترجیح کی ہے وہ مشکل کی طرف ترجیح کی ہے، آسانی کی طرف نہیں کی اپنی ذات کے لئے.یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا ظَلُومًا جَهُولًاً یہ شریعت کا بارا ٹھانے والا کامل انسان تو اپنی ذات پر حد سے زیادہ ظلم کرنے والا ہے.یہاں تک فرمایا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اے میرے بندے تو اپنی جان کو ہلاک کر لے گا اتنا ظلم کر رہا ہے اپنے اوپر.یہ ظلم کیسے کیا اپنی ذات پر سوائے محبت کے یہ ظلم ہو ہی نہیں سکتا.پس آنحضرت ﷺ کی ذات کے سمجھنے کا آخری نکتہ، جیسا کا ئنات کو سمجھنے کا آخری نکتہ کشش ثقل ہے، آنحضرت ﷺ کی کائنات کو سمجھنے کا آخری نکتہ اللہ سے آپ کی محبت ہے اور وہ محبت کس طرح جلوہ گر ہوئی ہے، کس طرح اس محبت نے آپ کی کایا پلٹ دی ہے یہ جب تک نصیب نہ ہو یا اس کے لئے کوشش نہ کی جائے کیسے ممکن ہے کہ وہ غلامی نصیب ہو جو تمام گناہوں کی بخشش کا اعلان کر رہی ہو.پس آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے ، اگر آپ گہری نظر سے وہ مطالعہ کریں آپ کے اندر ایسی ایسی پاک تبدیلیاں ہوں گی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن اس نقطہ نگاہ سے سمجھیں ٹھہر ٹھہر کر مواز نے کریں کہ آپ نے یہ کیا ، یہ کیا.میں جب صبح اٹھتا ہوں تو یہ کرتا ہوں اور وہ کرتا ہوں

Page 147

خطبات طاہر جلد 16 141 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء کہ نہیں کرتا.میں یہ یہ قربانیاں خدا کی خاطر کر سکتا ہوں کہ نہیں.یہ مضمون جتنا سمجھ آتا چلا جائے گا اتنا مشکل بھی ہوتا جائے گا ، ایک اور مشکل یعنی اس مضمون کے سمجھنے میں بھی مشکلات ہیں اور سمجھانے میں بھی مشکلات ہیں کیونکہ بعض دفعہ ایک انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ کوئی آدمی میری حد سے بہت آگے نکل چکا ہے تو وہاں اس کی ہمت ٹوٹ جایا کرتی ہے اور ہمت ٹوٹ کے پھر وہ آگے بڑھ نہیں سکتا.آنحضرت ﷺے بشر ہیں مگر وہ وہ کام کر دکھائے جو بشر کی طاقت سے باہر نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں.یوں لگتا ہے کہ بشر کی طاقت سے بالا طاقتیں ہیں.یہی مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی سیرت میں بیان فرمایا کہ بشر تو تھے مگر باتیں مافوق البشر.باتیں وہ کر رہے ہیں جو بشر کی طاقت سے باہر اور بڑھ کر اور اونچی ہیں.یہ جو مضمون ہے یہ ہمتیں تو ڑ دیا کرتا ہے بعض دفعہ اور وہ جو اپنے انبیاء کے افسانے بنالیا کرتے ہیں ان کے کر دار تبھی برباد ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں یہ اس کا کام تھا، یہ عام انسان کی تو طاقت ہی نہیں ہے.وہ ساری کرامات ہیں وہ سارے کرشمے ہیں جو غیر نبی کو نصیب ہو ہی نہیں سکتے اس لئے ساری نیکیاں جو کرشمے ہیں ان سے عام انسان اس طرح محروم ہو جاتا ہے کہ گویا اس کی طاقت میں ہے ہی نہیں اس لئے ہمت کرنے کی کیا ضرورت ہے اس لئے سب سے بڑے کرشمہ کی طرف کیوں نہ متوجہ ہوں اور وہ کرشمہ پھر یہ دکھائی دیتا ہے کہ یہ اتنا بڑا بزرگ انسان ہے کہ ہمارے سارے گناہ بخش سکتا ہے، اگر اس سے محبت کرو تو سارے گناہ بخش سکتا ہے، یہ مضمون بنا لیتے ہیں اور عبادی کا خطاب بھول جاتے ہیں.اس مضمون نے مذاہب میں بہت بڑی بڑی تباہیاں مچائی ہیں، عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا ابن اللہ ہونا اور شرک کی جو تعلیم عیسائیت میں جاری ہوگئی یہ ساری اسی مضمون سے ہوئی ہے کہ وہ آ گیا جس نے سارے گناہوں کا بوجھ خود اٹھا لیا اب ہمیں کیا ضرورت ہے مصیبتیں کرنے کی.پس اگر چہ اسلام میں شرک ان معنوں میں ، اس طرح تو نہیں آیا یعنی ظاہری طور پر مسلمان شرک سے بچ گیا مگر اندرونی طور پر اس کے تمام گناہ شرک کی پیداوار ہیں اور اس شرک میں سب سے بڑا شرک اپنے مطاع اور نبی کے تعلق میں پیدا ہوا کرتا ہے.وہ محبت جب حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اتنی بڑھے، حد سے زیادہ سے مراد ہے کہ اس کو انسانی صفات سے بالا کر کے دکھانے لگے تو وہیں اس کے ساتھ تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور وہیں انسان اس کی اطاعت سے فیض یاب ہونے کی صلاحیت چھوڑ بیٹھتا ہے.پس سارے مشرک گنہگار ہوتے ہیں.تمام مشرک لازما گندگی میں

Page 148

خطبات طاہر جلد 16 142 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء منہ ماریں گے کیونکہ وہ اس نور کے چشمے سے منہ پھیر لیتے ہیں جس کے بعد پھر گندان کو اچھی غذا نظر آتا ہے، ہر پانی خواہ کیسا ہی گندہ ہو ان کے لئے لذت کے سامان رکھتا ہے.پس آنحضرت ﷺ سے اگر تعلق رکھنا ہے اور قائم رکھنا ہے، فائدہ اٹھانا ہے تو پہلی بات یہ صلى الله کہ خدا کی راہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کو کبھی حائل نہ ہونے دیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت جب آپ کی حقیقتیں آپ پر روشن کرے گی تو ایک پہلو سے وہ آپ کے دل پر بوجھ بھی ڈال دے گی.آپ یہ سمجھیں گے یعنی حقیقت میں بھی بعض دفعہ یہ دکھائی دیتا ہے جو فرضی باتیں ہیں وہ تو بہت دور کی باتیں ہیں.ایک کسی چیمپیئن کو اپنے قریب سے دیکھیں تو اگر پہلے یہ وہم تھا کہ میں چند ڈنڈ نکال کر اس طرح مضبوط ہو جاؤں گا اور میرے مسلز بن جائیں گے تو واقعہ کسی پہلوان کو جو عام پہلوان بھی ہو اپنے پاس دیکھیں تو آپ کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے.تو اس کا کیا علاج ہے.اس کا علاج قرآن کریم کی اس آیت نے یہ بیان فرمایا ہے لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ تمہارے کام اللہ کی رحمت صلى الله.نے بنانے ہیں.یہ اطاعت بھی رحمت سے نصیب ہوگی اور محمد رسول اللہ یہ بھی رحمت ہی کا ایک صلى الله شاہکار ہیں، خدا کی رحمت کا شاہکار تو اگر محمدرسول اللہ ﷺ ان عظیم مقامات پر رحمت الہی کی وجہ سے پہنچے ہیں تو تمہاری ہر منزل بھی اس اللہ کے کامل غلام کے پیچھے چلنے کے لئے رحمت الہی سے ہی طے ہوگی اور رحمت الہی کا مضمون آنحضرت ﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ تم سچی تمنا لے کر اس کی راہ میں کچھ بڑھو، آگے باقی رستے اللہ طے فرمائے گا.اس لئے وہ جو مشکل دکھائی دے رہی تھی ، ناممکن باتیں دکھائی دے رہی تھیں دنیا کے معاملات میں واقعہ ناممکن ہیں.صلى الله انسان گناہوں سے تعلق توڑے کیسے.اس کا یہ علاج یوں بنے گا ، کچھ تو ڑ لو جیسے بعض دفعہ Drug Addicts میرے سامنے آتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ وہ جو ڈرگ کھاتے ہو اس کو بھورنا شروع کر دو یعنی کنارے سے تھوڑی تھوڑی گھسا گھسا کے کم کرنی شروع کر دو اتنی ہمت بھی نہیں ہے!؟ تو سوچ کے کہتے ہیں ہاں یہ ہم کر سکتے ہیں.میں کہتا ہوں یہ قدم تم اٹھا ؤا گلا پھر اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق بخشے گا.کچھ دن اسی پر رہنا پھر تھوڑ اسا اور ٹکڑا توڑ دینا پھر کچھ عرصہ اسی پر صبر کرنا اور پھر تھوڑا سا اور توڑ دینا یہ ترکیب میں نے استعمال کروائی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے کام کیا ہے اور ایسے ایسے لوگ جو سمجھتے تھے ناممکن ہے ہماری یہ عادتیں چھٹ جائیں دن بدن ان کے بوجھ ہلکے ہوتے

Page 149

خطبات طاہر جلد 16 143 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء رہے وہ زیادہ آسانی کے ساتھ پھر نیکی کی راہوں پہ قدم آگے بڑھانے لگے.تو ایک تو یہ طریقہ ہے کہ اللہ کی رحمت کو حاصل کرنا ہے تو اس سے پوچھو جو خدا کی رحمت کا ایک مجسمہ بن گیا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین فرما دیا اور آپ نے یہ راز سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پانے کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ تھوڑی سی حرکت ضرور کرو انِيبُوا إِلَى رَبِّكُمُ.پھر خدا تمہیں سنبھالے گا اور تم سپردگی کی طرف لازماً حرکت کرو گے کیونکہ ایک قدم تم نے اٹھایا دس قدم خدا نے تمہاری طرف اٹھالئے.اب یہ جو مضمون ہے یہ مادی دنیا میں بھی اسی طرح خدا کی رحمت کو ظاہر کرنے والا ہے کیونکہ آپ اپنی مستیاں چھوڑ کر ایک دن تھوڑی سی ورزش کر کے دیکھیں پہلے وہ بڑی بوجھل محسوس ہوتی ہے اور پہلے دن کی ورزش کچھ تھکاوٹ بھی لاتی ہے کچھ بعض دفعہ دردیں بھی پیدا کر دیتی ہے مگر اس کے باوجود آپ اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کرتے ہیں.دوسرے دن کی ورزش کچھ اور ، تیسرے دن کی کچھ اور یہاں تک کہ جو پہلی ورزش تھی اب دوبارہ وہ کریں تو آپ ورزش اس کو کہہ ہی نہیں سکتے.اب ایک آدمی جو دس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتا ہے جب شروع میں دوڑے گا تو اول تو چند قدم بعض دفعہ اگر موٹا ہو تو چند قدم میں سانس پھول جائے گا دوڑا جائے گا ہی نہیں اور اس کے بعد پھر جسم کا یہ حال ہوگا جیسے اس نے گھنٹوں دوڑ کی ہے عام صحت مند آدمی کے مقابل پر تھوڑی سی دوڑ اس کو اتنی تکلیف پہنچا دے گی.ایک دفعہ ہمت کرے، ایک دفعہ ارادہ کر لے تو ہرا گلے دن کی دوڑ اس کے بدن کو بھی کم کرے گی، اس کے جسم کو ہلکا کرے گی اس کے بوجھ اٹھانے کی طاقتوں کو بڑھاتی چلی جائے گی.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ام ﷺ نے جو روحانی معارف بیان فرمائے ہیں ان کی تائید میں مادی کائنات اس طرح مستعد کھڑی ہے جیسے غلامانہ شہادت دینے کے لئے حاضر ہو.ایک بھی روحانی مضمون حضور اکرم ﷺ نے بیان نہیں فرمایا جس کی تائید میں مادی کائنات گواہی نہ دیتی ہو.پس یہ بھی ویسا ہی مضمون ہے انِيبُوا إِلَى رَبِّكُمُ میں ایک جھکاؤ سا ہے ایک جھکاؤ کا شائبہ سا پایا جاتا ہے.گناہوں سے ایک دم خدا کی طرف پلٹنا ممکن نہیں ہے.فیصلہ کرو، سوچو، غور کرو اور پلٹنے کی کوشش کرو.وہ کوشش تمہارے لئے پلٹنے میں آسانیاں پیدا کرنا شروع کر دے گی ہتم خدا کی طرف اس رفتار سے نہیں جاؤ گے جتنی رفتار سے خدا تمہاری طرف آئے گا یہاں تک فرمایا کہ پھر تم اگر چل کے جاؤ گے تو وہ دوڑ کر

Page 150

خطبات طاہر جلد 16 144 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء تمہاری طرف آئے گا اور باقی سفر تو خدا کی گود میں ہوتا ہے چلنے کی ضرورت ہی نہیں رہا کرتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار ( در مشین اردو : 126) یہ حقیقت ہے بالکل کہ انسان خدا تعالیٰ کی طرف سارا سفر محض اپنی کوششوں سے کر سکتا ہی نہیں ہے.شروع میں جو حرکت ہے اس میں کوئی جدو جہد، کچھ قوت آزمائی یہ شامل رہتے ہیں اور جب انسان ثابت قدم ہو جائے جب اس کا اخلاص یقینی ہو جائے اور خدا کی نظر میں مقبول ہو جائے پھر باقی سفر گود ہی میں چلتا ہے ہمیشہ.خود اٹھاتا ہے، سارے کام خود بناتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حمد و ثناء میں مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے.ہم نے اولا د بھی تجھ سے پائی ، فلاں چیز بھی تجھ سے پائی ، فلاں چیز بھی تجھ سے پائی گھر سے تو کچھ نہ لائے“.ہر چیز تری عطا ہے.اپنے گھر سے کچھ بھی نہیں لے کے آئے.تو وہاں تک پہنچنا ہے کہ گھر سے کچھ نہ لائیں کیونکہ گھر میں ہے بھی کیا جو لے کے جائیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا التحیات پڑھنی مصیبت بن جاتی ہے اگر غور کر کے پڑھیں.روزانہ عرض کر رہے ہیں التحیات اللہ التحیات للہ.سب تھے اللہ ہی کے لئے ہیں اور پھر تحفوں کا ذکر جسمانی قربانیاں، مالی قربانیاں اور ہوتے کیا ہیں دامن میں تھے جو پیش کر رہے ہو.ایک ہی تحفہ تو بار بار نہیں دیا جاتا.ایک دفعہ تحفہ دے کر پھر واپس لے لو پھر دوبارہ لے آؤ پھر واپس لے جاؤ یہ تو پاگل پن کا مضمون ہے.پس تحفے کا مضمون بتا رہا ہے کہ روز بروز کچھ نہ کچھ اور اضافہ اپنے حسن میں کرنا ہوگا کچھ ایسی بات کرنی ہوگی کہ تم اسے طیبات کہہ سکو اور پھر خدا کے حضور حاضر ہو کہ اے اللہ آج میں نے یہ سوچی ہے طیبہ.پھر وہ کتنی ہی معمولی حیثیت کی کیوں نہ ہو خدا اسے قبول فرماتا ہے اور اس کے انعامات عطا فرماتا ہے.اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس پر غور اور فکر کی عادت ڈالے کیونکہ غفلت کی حالت میں انسان کو کچھ بھی نصیب نہیں ہو سکتا.شعور پیدا کر وزندگی کا معلوم کرو تم کون ہو کیوں ہو، کس حالت میں زندگی بسر کر رہے ہو.شعور پیدا کر وموت کا کہ ایک دن اس نے لازماً آ جانا ہے اور اس دن سے پہلے پہلے خدا ڈرا رہا ہے مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِي يَوْمُ لَا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا

Page 151

خطبات طاہر جلد 16 145 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء سے شَفَاعَةُ (البقرة : 255) یعنی آیت اسی طرح نہیں پڑھ رہا، آیت کے مضمون کو آپ کے سامنے ان لفظوں میں رکھ رہا ہوں کہ اس دن سے بھی ڈرو جس دن کوئی سودے بازی نہیں ہوگی ، اس دن سے ڈرو جس دن نہ دوستی کام آئے گی اور نہ شفاعت کام آئے گی.پس وہ جو شفاعت کی بات خصوصیت سے یہ آیت آپ کے سامنے اس لئے رکھنی چاہتا ہوں کہ اس مضمون میں جو لوگ دھوکہ کھا گئے وہ شفاعت کا مضمون غلط سمجھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ شفاعت کے ذریعے ہم بخشے جائیں گے.مگر آنحضرت کو تو اللہ نے حکم یہ دیا ہے کہ اپنے عباد کے سوا کسی سے وعدہ ہی نہیں کرنا.بخشش کا وعدہ تیرے عباد صل الله سے ہے،غیر عباد سے ہے ہی نہیں اور جو عباد بنیں گے ان کی شفاعت کام آئے گی.پس اس دن سے ڈرو جس دن دوستی اور شفاعت، ان دو باتوں کو خدا نے اکٹھا جوڑا ہے اگر دوستی محمد رسول اللہ ہے سے ہوگی تو پھر وہ دوستی اور آپ کی شفاعت ضرور کام آئیں گے مگر تم ڈرو اس لئے کہ تم نے نہ دوستی کی اور نہ اس شفاعت کے مستحق ہوئے.پس محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں کو تو نہیں اس دن سے ڈرایا جارہا کہ نہ دوستی کام آئے گی نہ شفاعت کام آئے گی ان کو ڈرایا جارہا ہے جو اس فرضی جنت میں، جس کو جنت الحمقاء کہتے ہیں، بے وقوفوں کی جنت اس جنت میں زندگی بسر کرتے رہے اور ایسی ہی جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس دن سے ڈرو جب دوستی کام نہیں آئے گی.کیا محمد رسول اللہ ﷺ کی دوستی کام نہیں آئے گی ؟ مطلب ہے تم نے جو دوستیاں لگائی ہوئی ہیں وہ تمہارے کام نہیں آئیں گی.کیا محمد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کام نہیں آئے گی !؟ نہیں بلکہ وہ فرضی شفاعت جو تم توقع لگائے بیٹھے ہو یا جن سے محبت کرتے ہو ان کی شفاعت کام نہیں آئے گی.پس اس دن سے پہلے ڈرنے سے ایک شعور پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا موت اس شعور کو بیدار کرنے کے لئے سب سے اہم چیز ہے.موت سے زندگی تو بعد میں پھوٹے گی لیکن موت ایک عجیب رحمت ہے کہ ایک زندگی اس سے پہلے بھی پھوٹ جاتی ہے.اگر انسان موت کا صحیح تصور باندھ لے تو زندہ ہو جاتا ہے اور پھر مر نہیں سکتا کبھی.یہ دائی نجات ہے جو موت کے مضمون کو سمجھنے سے نصیب ہوا کرتی ہے.پس موت کا تصور باندھ کر ایک خوف کی حالت اپنے اندر بھی پیدا کریں کیونکہ انیبوا کے علاوہ دوسری جگہ میں نے پہلے بھی غالباً آپ کو بتایا تھا فَفِرُّوا إِلَى اللهِ (الريت: 51) کا مضمون

Page 152

خطبات طاہر جلد 16 146 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء بیان ہوا ہے کہ میں تمہیں ڈرا رہا ہوں اور نتیجہ کیا ، کیوں ڈرا رہا ہوں کہ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ اللہ کی طرف دوڑو.تو محبت سے بھی انسان دوڑتا ہے کسی طرف خوف سے بھی دوڑتا ہے.محبت سے اس طرف دوڑتا ہے جہاں محبوب ہو.خوف سے اس طرف دوڑتا ہے جہاں خوف سے امن کی جگہ ہو اور نجات کی امید لگائی جا سکے اس سے.پس یہ دو کیفیتیں ہیں جن کو گہرے غور سے سمجھیں اپنی زندگیوں میں جاری کریں اور پھر اپنا مطالعہ کرنا شروع کر دیں اور یہ سفر پھر دو طرح سے ہوگا ایک انبوا اور ایک فروا.فروا کا مضمون گناہوں کی محبت توڑنے کے لئے ضروری ہے.جب انسان گناہوں میں ملوث ہوتا ہے تو دن بدن اپنے لئے بے چینی اور بے اطمینانی اور رفتہ رفتہ ایک آگ کے سامان پیدا کر دیتا ہے جس میں پھر وہ جلتا چلا جاتا ہے کوئی اس کی پیاس نہیں بجھتی آخر ایک ایسا موقع آتا ہے جب گناہ کی طاقت بھی ختم ہو جاتی ہے.ان بڑھوں کی حالت پر غور کرو جن کی جوانی ساری گناہوں میں ڈھل گئی اور کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ تو بہ کرنی ہے اور پھر گناہ اپنے سارے مصائب پیچھے چھوڑ کے چلا جاتا ہے، وفا نہیں کرتا کیونکہ گناہ شیطان ہے، شیطان تو جھوٹی امید میں دلاتا ہے اور پھر چھوڑ کر خبر بھی نہیں لیتا کہ تم کہاں ہو.اکثر مغربی معاشرے میں جو بوڑھوں کے انجام ہیں وہ آپ کو یہ مضمون سمجھا سکتے ہیں.اکثر اپنی اولاد کے گھروں میں نہیں ہوتے وہ ہسپتالوں میں یا بڈھوں کے گھروں میں جا کر جان دیتے ہیں اور طرح طرح کے مصائب ساتھ اور پھر جتنے بڑے گناہ ہوں، اتنے ہی زیادہ جسمانی عوارض لاحق ہونے شروع ہو جاتے ہیں، کوئی ایڈز کا شکار ہوا ہے، کوئی کینسر کا مریض ہو گیا، کسی کو اور ایسے دکھ لگ گئے کہ جو پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے.ان میں سے بعض عوارض ایسے ہیں جو غلطی سے بھی ہو جاتے ہیں گناہ ضروری نہیں مگر گناہ والی سوسائٹی میں یہ عوارض ضرور بڑھا کرتے ہیں اور مصیبتیں بن جایا کرتے ہیں.پس ایسی سوسائٹی جس کا انجام اسی جگہ ہی مصیبت والا اور تکلیف والا دکھائی دے رہا ہے اور خود گھبرا گھبرا کے یہ کہتے ہیں ہم کہاں جا رہے ہیں کیا ہو رہا ہے ہمیں، قانون سازی کروکسی طرح آئندہ ہمارے ہاں مجرم کم ہو جائیں.اب دنیا کی قانون سازی سے جرم مٹ سکتا ہی نہیں ہے، حد سے زیادہ جاہلانہ خیال ہے.ایک قانون سازی ہے وہ خدا کی قانون سازی ہے اس کے سوا گناہ سے انسان نجات حاصل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے سامنے رہتا ہے اور قانون اندھا ہوتا ہے اس کی

Page 153

خطبات طاہر جلد 16 147 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء نظر دیکھ ہی نہیں رہی ہوتی.اندھا قانون بعض دفعہ بڑے بڑے ظلم کر جاتا ہے اور بسا اوقات مجرموں پر رحم کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اندھے کی تو سوئی چل جائے ، چاہے شریف پر چل جائے چاہے خبیث پر چل جائے اندھے نے تو وار ہی کرنا ہے صرف.تو یہی حال دنیا کے قوانین کا ہوتا ہے.ابھی ایک خبر آئی تھی کہ کچھ تین لڑکے بے چارے اٹھارہ سال تک ایک ناکردہ گناہ کے جرم میں قید تنہائی کی مصیبت برداشت کرتے رہے، عذاب برداشت کرتے رہے اور وجہ یہ ہوئی کہ پولیس نے ایک اور مجرم سے ان کے خلاف یہ سمجھتے ہوئے کہ واقعی یہ مجرم تھے ان کے خلاف جھوٹی گواہی بنوائی اور اس کی موت کے بعد جو کا غذات نکلے تو تب جا کے پتا چلا کہ کتنا بڑا ظلم ہو گیا ہے.اب ایسے ماں باپ یا ان کے رشتہ دار جو زندہ ہوں گے تصور کریں ان کی کیسی دردناک زندگی کئی ہوگی.جانتے ہیں کہ معصوم ہیں مگر اندھے قانون نے نہیں چھوڑا ان کو اور کئی ایسے گنہ گار ہیں جو بڑے بڑے ظلم کرتے ہیں قانون وہاں تک پہنچتا ہی کچھ نہیں.پس ایک ہی قانون ہے جو اللہ کا قانون ہے اور اس کے حوالے سے گناہ ختم ہو سکتے ہیں.گناہوں کی زندگی کٹ سکتی ہے ورنہ نہیں کٹ سکتی ہمیشہ اسی طرح جاری رہے گی.پس اللہ تعالیٰ نے موت کو جو بار بار پیش فرمایا ہے اس کو غور کریں تو فَفِرُّوا إِلَى اللهِ کے معاملے میں آپ کے لئے آسانی پیدا ہو جائے گی اور یاد رکھیں یہ زندگی اتنی لمبی تو ہے ہی نہیں کہ لمبے تجربے کرتے چلے جائیں.شروع میں یہ بھی مضمون ہے جلدی کرو کہاں بھٹک رہے ہو، دیر نہ کرو.کیا پتا کس وقت موت آجائے اس لئے تیزی سے دوڑو اور گناہوں سے نکلنے کی کوشش کرو.اب یہ گناہوں سے نکلنا تو بہت بڑی بات ہے انسان اپنی بداخلاقیوں سے بھی نہیں نکلتا.کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کبھی بیوی بد اخلاق ہو اس کو سمجھایا جائے یا خاوند بداخلاق ہواس کو سمجھایا جائے تو ایک دوسرے سے اور بھی زیادہ غصہ کرتے ہیں اور پھر بعد میں منتوں کے خط آتے ہیں آپ نے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے ایسے خبیث انسان کو نصیحت کی ہے جواب بات کا بدلہ لے رہا ہے کہ اب میں تمہیں مزہ چکھاؤں گا تم نے شکایت کی کیوں تھی ، اب پتا چلے گا کہ زبر دست کون ہے، اب آواز دے لوان کو کہ آکے تمہیں بچالیں.ایک جگہ واقعی یہ ہوا یعنی اس قسم کے مضمون کی باتیں تو آتی ہیں مگر انہی الفاظ میں کہ خاوند نے بیوی کو مارا، زیادتی کی.اب آواز میں دو اپنے خلیفہ کو وہ آ جائے اور تمہیں بچائے ، کیوں شکایت کی تھی میری.میں نے اس کو جواب میں لکھا اس کو کہو کہ میں تو تمہیں آواز نہیں

Page 154

خطبات طاہر جلد 16 148 خطبہ جمعہ 21 فروری 1997ء دوں گا یا تمہاری مدد کو نہیں ( آؤں گا ) ، میں اس کو آواز دوں گا جو تمہیں پکڑ سکتا ہے،اس کی پکڑ سے بچو کیونکہ وہ ہر جگہ ہے اور چند دن زندگی کے تم بچ بھی گئے تو موت کے بعد تم نے لازماً اسی کے حضور حاضر ہونا ہے.تو یہ فَفِرُّوا اِلَی اللہ کا مضمون ہے جوموت کے تعلق میں زیادہ کھل جاتا ہے ورنہ انسان اپنی زندگی میں تکبر میں مبتلا سوچتا بھی نہیں.تو جب ہم نے یہ دیکھا کہ بداخلاقیوں میں ملوث انسان بھی بداخلاقیوں سے فرار نہیں اختیار کر سکتا، بڑا مشکل کام ہے.تو بڑے گناہوں میں جو مبتلا ہوں وہ کیسے فرار اختیار کریں گے تو وہاں بھی پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کو بلاؤ.اس کی طرف جھکو سے مراد یہ ہے کہ کسی دن غور کرو.اگر سمجھتے ہو کہ بہت مشکل ہے تو دعا کے ذریعے اللہ سے مدد مانگواے اللہ تعالیٰ ہمارے لئے بڑا مشکل ہے ان گناہوں سے بچنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ، اگلے جمعہ میں انشاء اللہ ، میں بعض دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا.آپ حیران رہ جائیں گے کتنے بجز اور انکسار کے ساتھ ، گریہ وزاری کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا مجھ میں طاقت ہی نہیں ہے کہ میں اپنے گناہوں سے بچ سکوں، تو ہی ہے جو رحم فرمائے تو مجھے بچائے.پس ہر سفر خدا کی مدد سے ہوگا.اسی لئے فرمایا لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا.محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی اسی کی رحمت سے نصیب ہوگی.گناہوں سے بچنے کا مضمون بھی رحمت ہی سے تعلق رکھتا ہے.پس دعائیں کرتے ہوئے اگر آگے بڑھوتو اللہ تعالیٰ آپ کی توفیق کو بڑھا تا چلا جائے گا.انشاء اللہ

Page 155

خطبات طاہر جلد 16 149 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء درود کی حقیقت محبت سے ہے اور محبت کے بغیر درود کے کوئی بھی معنی نہیں ہیں.( خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَانِيْبُوا إِلَى رَبَّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُم مِّنْ رَّبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ) پھر فرمایا: (الزمر: 5654) یہ آیات کریمہ ہیں جن کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر میں آپ کے سامنے پیش کر رہا تھا کہ آپ نے بُعِبَادِی کے خطاب سے کیا کیا مطالب نکالے ہیں اور ان کو مدنظر رکھ کر اس آیت کا مضمون سمجھنا اور اس سے استفادہ کرنا آسان ہو جاتا ہے.تو فرماتے ہیں ( اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے ) کہ جولوگ دل و جان سے تیرے یا رسول صلى الله اللہ ﷺ یا بمعنی اور نہیں بلکہ اے رسول مراد ہے تو یادر ہے کہ جولوگ دل و جان سے تیرے یا رسول

Page 156

خطبات طاہر جلد 16 150 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء اللہ ﷺ کے غلام بن جائیں گے ان کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو ان کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن : 194،193) تو محبت اور عشق کا بخشا جانا یہ غیر اللہ سے رہائی کے لئے ضروری ہے.یہی وہ مضمون ہے جو میں گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں اس کے بعض اور پہلو ایسے ہیں جو زیادہ وضاحت کے ساتھ کھولنے والے ہیں.فرماتے ہیں: اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گئے.دراصل انسان یا اپنے نفس کا غلام اور اپنی خواہشات کا عاشق ہوتا ہے یا اللہ کا اوراللہ کے رسول گا، درمیان میں باقی کوئی اور منزل ہی نہیں ہے.جو بھی محبوب ہو خدا اور اس کے رسول کے سوا یعنی ان کے مقابل پر وہ سب نفس کی عبادت کرنے کا دوسرا نام ہے.اس کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں اور اس عبادت میں کوئی زندگی نہیں ہے اسی کا نام موت ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو کیسی عمدگی اور قوت کے ساتھ کھولا ہے کہ ” نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے انا الحاشر الذي يحشر الناس علی قدمی“ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب ما جاء في اسماء رسول الله ) کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں وہ حشر برپا کرنے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جائیں گے.فرمایا اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے انسا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمی ( یعنی میرے قدم پر لوگ اٹھائے جائیں گے.یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں آئنہ کمالات اسلام روحانی خزائن : 194).یعنی اٹھائے جائیں گے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ترجمہ فرمایا ہے اٹھائے جاتے ہیں چونکہ مضارع کے دونوں ترجمے ممکن ہیں، جاتے ہیں، اٹھائے جائیں گے.تو آپ نے یہ بہت زیادہ پر حکمت ترجمہ فرمایا.میں نے غلطی سے یہ ترجمہ سرسری طور پر کیا اٹھائے جائیں گئے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ترجمہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس دنیا میں ہی لوگ جو زندہ ہوتے ہیں وہ مردے جو صدیوں سے گڑے ہوئے تھے وہ محمد رسول اللہ ﷺ نے زندہ کر دیئے.یہ مستقبل کا وعدہ نہیں اس

Page 157

خطبات طاہر جلد 16 151 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء دنیا میں ہوتا ہے اور سامنے ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اگر یہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آتی تو پھر یہ قرآن کریم کا دعویٰ کہ تم اس بندے کی غلامی کرو گے تو تم خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو سکتے یہ دعویٰ محض ایک دعوئی رہتا اس کا کوئی ثبوت نہ ہوتا.پس آنحضرت ﷺ نے جو گناہوں کی قبروں میں گڑے ہوئے مردے زندہ کر کے دکھا دیئے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ ہر گناہ بخش سکتا ہے اور ہر گناہ خدا تعالیٰ کی بخشش کے تابع ایسا بخشا جائے گا جیسے اس کا وجود ہی کوئی نہیں تھا ، از سر نو ایک نئی زندگی تمہیں عطا کی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اسی مضمون کے متعلق مزید بیان فرماتے ہیں : انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے.اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ“ غلام ہوئے بغیر فیض ممکن نہیں ہے اور غلام ہونے کا نام گناہوں سے نجات ہے.پس یہ خیال کہ گناہوں میں مصروف رہو اور نجات کی توقع رکھو یہ بالکل ایک باطل خیال ہے جس کا ان آیات سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.مراد یہ ہے کہ اگر زندگی میں تمہیں غلامی کی توفیق مل گئی پھر تمہارے پچھلے گناہ خواہ پہاڑوں کے برابر بھی ہوں وہ ایسے ختم کر دئیے جائیں گے، فنا کر دیئے جائیں گے گویا ان کا وجود کوئی نہیں تھا.اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریم ﷺ کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو سب حکموں پر کار بند رہو.( ملفوظات جلد سوم صفحہ : 234) پس درود کا تعلق بھی یہ غلامی میں لانے کے لئے ایک بہت ہی اہم تعلق ہے اور درود کا تعلق پھر اسی محبت سے ہوا کرتا ہے جو دراصل ہر مصیبت سے نجات بخشنے والی محبت ہے یعنی اللہ اور رسول کی محبت.جتنا آنحضرت ﷺ سے محبت ہو اسی قدر دل کی گہرائی سے درود اٹھ سکتے ہیں، اٹھتے ہیں اور

Page 158

خطبات طاہر جلد 16 152 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء اگر یہ محبت نہ ہو تو وہ درود بالکل بے معنی اور لغو ہیں ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.زبان سے درود اٹھنا جن کی جڑیں دل سے نہ پھوٹ رہی ہوں وہ ایسے ہی درخت ہیں جن کی جڑیں اکھڑ چکی ہوں ان کا جڑوں سے کوئی تعلق نہ رہے وہ ہزار سال بھی رہیں تو پھل نہیں لا سکتے.پس درود کی حقیقت محبت سے ہے اور محبت کے بغیر درود کے کوئی بھی معنے نہیں ہیں.پس آپ فرماتے ہیں: ”آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو، سب حکموں پر کار بند ر ہو“.یہ بھی ایسا سلسلہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے.یہ آسان کام نہیں صلى الله ہے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اور پھر ایسی غلامی کہ ایک بھی حکم سے انسان باہر نہ جائے.یہ بہت بڑا دعویٰ ہے اور اسے محبت آسان کر سکتی ہے اس کے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے بار بار آپ کو یاد دہانی کروارہا ہوں کہ اس مضمون کی مشکلات کو بھی سمجھیں.کہنے میں بہت آسان باتیں ہوگئی ہیں مگر جتنا غور کریں گے اس کی مشکلات آپ کو پہاڑوں کی طرح سامنے دکھائی دیں گی.بعض دفعہ ایک عادت بھی انسان سنت اختیار کرنے کی خاطر چھوڑ نہیں سکتا اور وہ جو ہزاروں ایسی عادتوں میں جکڑے ہوئے ہوں ان کو یہ کہہ دینا کہ اطاعت کرو تو تم نجات پا جاؤ گے یہ حل کی طرف اشارہ کرنے والی بات تو ہے لیکن حل پر عمل کروانے کے لئے یہ بات کافی نہیں کیونکہ اگر کسی کو کہا جائے یہ دیکھو یہ پہاڑ ہے اس کی چوٹی پر چڑھ جاؤ تو تمہیں دور دور کی عجیب چیزیں دکھائی دیں گی جو تم نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہوں اور وہ پہاڑ ایسا Steep ہو، اتنا تیزی سے اوپر چڑھ رہا ہو کہ بڑے بڑے ماہرین کے بھی پتے پانی ہو جائیں اس کی وسعتوں کو دیکھ کر تو کوئی آدمی کہے میں نے تو تجھے دکھا دیا تھا کہ یہ رستہ ہے اور پھر تو نے نہیں سفر کیا یہ تیرا قصور ہے تو یہ جو معمہ ہے، مشکل کا اور آسان کا، ان دونوں کا آپس کا تعلق، اس سلسلے میں کچھ باتیں میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کی تھیں اب میں مزیداس مضمون کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جب انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا محو ہوتا ہے کچھ بھی نہیں رہتا تب اس فنا کی حالت میں ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ اس حالت میں ان کا وجود درمیان نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا یعنی ان لوگوں

Page 159

خطبات طاہر جلد 16 153 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء کو کہ دو کہ اے میرے بندو خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو خدا تمام گناہ بخش دے گا.اب دیکھواس جگہ یا عباد اللہ کی جگہ يُعِبَادِی کہہ دیا گیا حالانکہ لوگ خدا کے بندے ہیں نہ آنحضرت ﷺ کے بندے مگر یہ استعارے کے رنگ میں بولا جاتا ہے.ان امور پر غور کرتے ہوئے جو ایک حقیقت انسان کے سامنے ابھرتی ہے یا ابھرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے غلام کے معنوں ہی میں استعمال کیا ہو آنحضرت ﷺ کو یہ کیوں فرمایا کہ تو ان سے کہہ دے میرے بندو.اس کلام میں اشتباہ کا ایک خطرہ تو بہر حال رہتا تھا تو ضرورت کیا تھی ، اس میں حکمت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اپنے بندوں کو آپ کے سپر د اس طرح کر دیا کہ وہ مخاطب کرتے ہوئے یہی لفظ بولیں کہ اے میرے بندو.اصل بات یہ ہے کہ جو وعدہ کیا جارہا ہے وہ بہت بڑا ہے اور گنہگاروں کو جب مخاطب کیا جا رہا ہو کہ تم خدا کی بخشش سے مایوس نہ ہو تو جتنا بڑا گنہگار اتنا ہی خدا کے تصور سے دور.اب اس کو ایک فرضی بات پر یقین کیسے آئے گا، یہ تو ناممکن ہے نہ اس نے خدا د یکھانہ سنا، نہ اس سے کبھی دل میں تعلق پیدا ہوا.اب بعض دفعہ کسی صدمے کے نتیجے میں ، بعض دفعہ ویسے ہی اللہ تعالیٰ دل کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ اس کو توجہ پیدا ہو اور وہ کہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے بخشش مانگنی ہے تو کس خدا سے کس حد تک بخشش کی امید رکھ سکتا ہے.جب تک کوئی نمونہ سامنے نہ ہو انسان اس بات پر ایمان نہیں لاسکتا.پس آنحضرت ﷺ وہ ظاہری نمونہ تھے بخشش کا جس سے بڑھ کر بخشنے والا اور رحم کرنے والا کوئی انسان کبھی پیدا نہیں ہوا.آپ کی ساری زندگی ایک بخشش کا اتناعظیم اور پاک نمونہ تھی کہ انبیائو کی زندگی کو بھی آپ گہری نظر سے دیکھیں، جانچیں، تلاش کریں، مگر آپ کو آنحضرت ﷺ جیسا وجود انبیاء کے زمرے میں بھی کہیں دکھائی نہیں دے گا یعنی اس شان کا وجود.رحمت اور بخشش کا آپ ایسا کامل نمونہ تھے کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں آپ کے متعلق فرماتا ہے بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبه: 128 ) وہ مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ کی دوصفات کا ایسا مظہر تھا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے وہ صفات اس کو عطا کر دیں.رَءُوفٌ بے انتہاء رافت کرنے والا اور شفقت کرنے والا اور رحیم بار بار رحم کرنے والا.ایک دفعہ غلطی ہوئی ، دوسری دفعہ ہوئی، تیسری دفعہ ہوئی پھر رحم کرنے والا اور ذاتی معاملات میں گناہ بخشنے والا مگر اللہ کے معاملات میں اس کی

Page 160

خطبات طاہر جلد 16 154 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء امانت بخشش کی راہ میں حائل ہو جاتی تھی.یہ وہ مضمون ہے جس کو سمجھانے کی خاطر آنحضرت ﷺ کو اپنی نمائندگی میں یہ حق دیا کہ تو کہہ دے میرے بندو.اب یہ دو باتیں آنحضرت ﷺ کی سیرت کا ایک اتنا نمایاں پہلو ہیں کہ اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں بہت سے لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں.آنحضور ﷺ اپنے نفس کے معاملے میں اتنے رحیم تھے کہ آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا.وہ غلام جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ان کی روایات آپ پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.بارہا غلطیاں کیں، بارہا وعدے کئے اور نہیں پورے ہو سکے.رسول اللہ سے کسی کام پہ بھجواتے ہیں اور صلى الله جا کے کھیل میں لگ جاتا ہے وہ کام بھول جاتا ہے مگر حضور ا کرم کہ خود آتے ہیں پوچھتے ہیں کیا ہوا تھا اور کوئی سرزنش نہیں.خود کام کرتے ہیں.اپنی ازواج مطہرات سے جو آپ کا حسن سلوک ہے وہ رحیمیت اور رافت دونوں کا ایک ایسا نمونہ ہے کہ دوسرے انسان میں دکھائی نہیں دیتا.مگر جہاں مالک تھے اپنے معاملات کے وہاں بخشش بے انتہا، جہاں خدا کی طرف سے نمائندہ تھے اور امین تھے وہاں یہ فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا.یہ وہ حیرت انگیز مضمون ہے جو آنحضرت ﷺ کی سیرت کے حوالے کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا.خدا تعالیٰ بھی اس لئے رؤف رحیم اور بے مثال رؤف رحیم ہے کہ ہر چیز کا مالک ہے.پس آنحضرت ﷺ اس حد تک رستہ دکھاتے ہیں کہ جو آپ کے قبضے میں چیز تھی، جس کے آپ مختار تھے اس میں بے انتہا رحم کیا ہے، بے حد بخشش سے کام لیا ہے.جس میں خدا مالک تھا آپ نے کوئی تصرف نہیں کیا، ادنی سا بھی تصرف نہیں کیا.مگر اللہ مالک ہے اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ پر انسان ٹھہر سکتا ہی نہیں کیونکہ ایک ایسے مالک کی طرف آپ کو بلایا جارہا ہے جو ہر قسم کے گناہ بخش سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کے اختیار میں جتنے تھے وہ آپ نے بخش کے دکھا دئیے جو اختیار میں نہیں تھے وہ خدا سے ملے بغیر بخشے جاہی نہیں سکتے.اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ کا نمونہ وہاں تک دکھایا جہاں تک انسانی اخلاق ترقی کر سکتے ہیں اور اس کے بعد جب اللہ کی حد شروع ہو جاتی ہے وہاں آپ اس مقام پر ٹھہر جاتے ہیں اور بندوں کو خدا کے سپر د کر دیتے ہیں.پس اپنے پاس آپ نے کسی بندے کو روکا ہی نہیں.ہر بندہ جو آپ کا بندہ بنا اس کو خدا کے سپرد کیا اور اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا اور وہ لوگ پھر عِبَادُ الرَّحْمنِ (الفرقان: 64) بن گئے.چنانچہ جہاں ایک طرف یہ فرمایا عِبَادِی وہاں دوسری طرف عباد الرحمن کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ

Page 161

خطبات طاہر جلد 16 155 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء اب یہ بندے جو محمد رسول اللہ اللہ کے بندے تھے یہ رکے نہیں جب تک عِبَادُ الرَّحْمٰنِ نہ بن گئے ہوں اور جب اللہ کے، رحمان کے بندے بن جائیں پھر ان کی کیا کیا شان ظاہر ہوتی ہے وہ ساری باتیں ان آیات میں بیان فرمائی گئی ہیں.تو عباد کا جو مضمون ہے قرآن کریم کے حوالے سے وہ میں آپ کے سامنے مزید کھولوں گا مگر یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس میں نے آپ کو پڑھ کے سنایا ہے اس میں یہی بات بیان فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت مﷺ ایک وسیلہ تھے جو خدا کے بندوں کو بندہ بنا بنا کے اپنے آقا کے سپر د کر تے تھے تو ان بندوں کا جو خدا کے بندے کہلاتے ہیں پہلے بندہ بننا تو ثابت ہو اس کے بغیر وہ کیسے بخشش کے طلبگار ہو سکتے ہیں.اس سلسلے میں قرآن کریم نے جو مختلف مضامین بیان فرمائے ہیں میں ان کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں.انابت کے متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ اس میں دراصل محبت کا بھی مضمون ہے اور انابت کے نتیجے ہی میں دراصل انسان گناہوں پر قابو پاسکتا ہے اور انابت کے نتیجے ہی میں اس دنیا میں عذاب سے مخلصی ہو سکتی ہے اور یہ مضمون بہت گہرا اور لازمی ہے اس کو سمجھے بغیر آپ بخشش کی اور آئندہ زمانے یعنی مرنے کے بعد کی امیدیں قائم نہیں کر سکتے.ان امیدوں پر آپ کو یقین نہیں آسکتا کیونکہ جب تک اس دنیا میں انابت کے نمونے آپ کے سامنے نہ ہوں اس وقت تک اس دنیا میں کیا ہوگا اس کے متعلق آپ کوئی یقین نہیں کر سکتے.تو اس کے لئے ایک تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ہمیں یہ مضمون سمجھایا دوسرا روز مرہ کے تجربے سے بھی خدا تعالیٰ اسی مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہے.فرمایا: أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنْ نَّشَأْنَخْسِفَ بِهِمُ الْأَرْضَ اَوْنُسْقِطَ عَلَيْهِمْ كِسَامِنَ السَّمَاءِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَةٌ لِكُلِّ عَبْدِ مُّنِيبٍ (سبا: 10) وہاں بھی عبد اور انابت کا ذکر تھا عبد بنو اور منیب بنو اور اس آیت میں بھی عبد اور منیب بننے کا ذکر ہے اور مضمون یہی ہے کہ تمہیں عذاب سے اگر نجات چاہئے تو عبد منیب بن کے دیکھو خدا تمہیں کس

Page 162

خطبات طاہر جلد 16 156 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء طرح بچاتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے تم نے دیکھا نہیں جو تمہارے سامنے ہے أَفَلَمْ يَرَوْا ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے آسمان اور زمین میں سے جو کچھ بھی ہے إِنْ نَّشَأْ نَخْسِفُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ تُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ ان کے لئے تو نہ زمین محفوظ ہے نہ آسمان محفوظ ہے.یہ عجیب مضمون فرمایا گیا ہے کہ تم بڑے امن سے بظاہر چلتے پھرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ جو عذاب ہے کوئی اتفاقی واقعہ ہے.آسمان کے نیچے، ایک محفوظ چھت کے نیچے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ اتفاقی حادثہ ہے لیکن کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اگر ہم چاہتے تو زمین میں ان کو دھنسا دیتے زمین ان کو لے ڈوبتی اور آسمان سے جوٹکڑے برستے ہیں یعنی اجرام فلکی وہ ان کا کچھ بھی نہ چھوڑتے.ان کی تباہی کے لئے یہ دونوں چیزیں کافی تھیں.اب نہیں دیکھا سے کیا مراد ہے، ان لوگوں نے نہیں دیکھا.قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتا چلتا ہے کہ اس مضمون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زمین میں پھر وہ غور کرو تو تمہیں یہ حقیقتیں سمجھ آجائیں گی.دنیا میں جو بڑی بڑی حیوانی یا انسانی نسلیں تباہ و برباد ہوئی ہیں ان کے دو ہی طریقے تھے جو ہمیں قدرت میں ملتے ہیں یا ایسے عظیم زلزلے آئے ہیں، ایسے ہیبت ناک زلزلے آئے ہیں کہ وہ لوگ زمین میں دھنس گئے اور بڑی بڑی قومیں ہیں جن کے اب سراغ مل رہے ہیں ان کا نشان بھی نہیں ملا.زمین یوں پھٹی ہے اور ان کو لے ڈوبی ہے اپنے اندر، پھر مل گئی اور جانور بھی بکثرت اسی طرح زمین کا لقمہ بن گئے یعنی زمین پھٹتی رہی اور وہ جانوران میں ڈوبتے اور غرق ہوتے رہے اور پھر ان پر زمین پھر مل گئی اور یا آسمان سے سے Meteors کی بارشیں ہوئی ہیں اور بعض دفعہ اتنی زبر دست ہوئی ہیں کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا جو ڈائنا سورس کی نسل ہے یہ آسمانی بارش کے نتیجے میں برباد ہوئی ہے یعنی سمندر میں اتنا بڑا Meteor یعنی آسمان کا ایک ٹکڑا گرا ہے، اجرام فلکی میں سے ایک بڑا ٹکڑا گرا ہے کہ اس نے مدتوں سورج سے زمین کا واسطہ کاٹ دیا.اتنی بڑی دھند اٹھی ہے اتنے بڑے بادل بنے ہیں کہ جو ساری زمین پر چھا گئے اور ان جانوروں کے لئے نہ سبزی کھانے کے لئے رہی نہ کوئی اور غذا اور یہ ساری ڈائنا سورس کی نسل چند ہزار سال کے اندراند رفتا ہوگئی یالا کھ سال کے اندر فنا ہوگئی لیکن جو کائنات کا عرصہ ہے اس میں چند ہزار یا چندلا کھ سال ایک بہت ہی معمولی عرصہ ہے مگر یہ عذاب آسمان سے اتر اتھا.تو دو ہی طریق ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم دیکھو تو سہی

Page 163

خطبات طاہر جلد 16 157 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء آسمان سے بھی ہم جب فیصلہ کرتے ہیں تو ایسی بارش برساتے ہیں کہ نیچے جس زندگی کو فنا کرنا مقصود ہو اس کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتے اور زمینیں بھی پھٹتی ہیں.اب دیکھو کتنے بڑے بڑے جنگلات اور کتنی بڑی بڑی یہ جانوروں کی نسلیں زمینوں میں دفن پڑی ہوئی ہیں، یہ ثبوت ہے جو سامنے ہے.اس کے بعد فرمایا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْب اس میں نشان ہے ایک بہت بڑا اہر اس عبد کے لئے جو اللہ کی طرف جھکنے والا ہو کہ نجات ہے تو خدا سے ہے اور منیب ہوئے بغیر تم عبد بنتے نہیں ہو.اس لئے اللہ کے بندے بنو گے تو اللہ کی کائنات سے ہر پہلو میں امن میں آجاؤ گے نہ زمین تمہیں کھا سکے گی نہ آسمان نگل سکے گا.تو اگر تم نے باقی رہنا ہے اور دنیا میں بھی اگر باقی رہنا ہے تو یہی ایک طریق ہے، آخرت کی بات تو بعد میں آئے گی.دنیا میں ان تاریخی حقائق کی طرف قرآن کریم اشاره فرما کر ایک قطعی یقینی دلیل پیش کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عبد منیب بچائے جائیں گے تو یہ اس کا ایک نظام ہے جس پر غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے.اسی تعلق میں قرآن کریم فرماتا ہے وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَاَنَا بُوا إِلَى اللهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ (الزمر:18) کہ خدا کے بندہ بننا چاہتے ہو تو دو بندے نہیں بن سکتے بیک وقت.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ تم طاغوت کے بھی بندے ہو اور اللہ کے بھی بندے رہو.شیطان کے بھی بندے ہو اور دنیا میں جو سرکش لوگ ہیں ان کے پیچھے چل رہے ہو اور ساتھ ہی اللہ کے بھی بندے بن جاؤ.تو ایک بندگی سے تو بہ کرنا بھی ضروری ہے اور وہ طاغوت کی بندگی ہے.فرمایا وَ الَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ يَّعْبُدُو ھا وہ لوگ جو ہر سرکش سے اجتناب کرتے ہیں کنارہ کشی کرتے ہیں اور اس وجہ سے اَنْ تَعْبُدُو ھا کہ کہیں اس کی عبادت ہی نہ کرنے لگیں اور یہ بھی ایک بڑا ہی عظیم فطرت کا ایک راز ہے جو خدا تعالیٰ اس میں کھول رہا ہے.جو جابر لوگ ہوں جو باغیانہ روح رکھتے ہوں اور بغاوت کی طرف آمادہ کرنے والے ہوں اگر کوئی انسان ان کے قرب میں رہے گا تو ان کی عبادت کئے بغیر رہ نہیں سکتا یعنی کلینتہ ان کے حضور سجدہ ریز ہوئے بغیر ان کا قرب نصیب ہو ہی نہیں سکتا.پس جابر لوگ اور بدمعاش لوگ اور ان کے ساتھ جولوگ پھرتے ہیں ان کا یہی تعلق ہوتا ہے جو سب سے زیادہ جابر اور بغاوت کی تعلیم دینے والا ہے اپنے متعلق بغاوت کا ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکتا اور جتنی بھی کہانیاں یا واقعات مافیا کے

Page 164

خطبات طاہر جلد 16 158 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء آپ سنتے ہیں ان میں یہ بات بڑی نمایاں طور پر آپ کو دکھائی دیتی ہے کہ مافیا کے جو بڑے بڑے سر براہ ہیں وہ ہر نظام کے خلاف اپنے چیلوں چانٹوں کو بغاوت کے لئے آمادہ کرتے ، اس پر تیار کرتے ، ان کو تحفظ دیتے اور اس طرح وہ نظام کو بالکل بے بس اور بے کار کر کے دکھا دیتے ہیں مگر اپنے متعلق اگر آنکھ میں ادنیٰ سی میل دیکھیں گے تو بلا تردد اس کو مروا دیتے ہیں ذرہ بھی رحم سے کام نہیں لیتے خواہ اپنا عزیز ترین قریبی کیوں نہ ہو باپ بیٹوں کو مروانے میں قطعاً کوئی تردد نہیں کرتے اور یہی مضمون ہے جو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے.کہتا ہے وہ سرکش لوگ جو نظام کے باغی ہوں تم اگر ان کے قریب رہو گے تو لازماً ان کی عبادت کرنی پڑے گی اس کے بغیر تمہارا ان کے ساتھ قرب رہ ہی نہیں سکتا.ہر ایسے موقع سے دور بھا گو.جابر کو دور کا سلام اگر ضروری ہو تو اس سے زیادہ اس کے ساتھ کوئی قرب کا تعلق نہ رکھو ورنہ بدصحبت کے بداثرات کی بات نہیں فرمارہا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کے عباد بنو گے تم ، ان کے عبد بنے بغیر تمہارے لئے چارہ کوئی نہیں ہوگا.تو ہر ایسی مجلس سے دور بھاگنا اور ہر ایسے حاکم سے پرے ہٹنا جو جابر ہو، ہر وہ شخص جو بغاوت کی تعلیم دینے والا ہو اس سے کنارہ کشی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے عباد بنے کی آپ میں صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوسکتی.تو قرآن کریم جو مشکل مضامین بتاتا ہے ان کے رستے بھی دکھاتا ہے بہت بلندی ہے مگر بچنے کے یہ یہ طریقے ہیں بغیر علم کے تم کیسے عبداللہ بن جاؤ گے.یہ جانو کے فلاں کی عبادت سے بچنا ہے اور وجوہات بیان فرما دیں کیوں بچنا ہے.اس لئے کہ تمہیں بے اختیار کر دیں گے وہ تم میں طاقت ہی نہیں رہے گی کہ ان کے اثر سے باہر رہ سکو.پھر فرماتا ہے وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَاَنَا بُوا إِلَى اللهِ پھر ان میں یہ طاقت پیدا ہوگی کہ اللہ کی طرف انابت کریں جب ایک جگہ سے تعلق توڑ بیٹھے اور برائیاں سمجھ آگئیں اور برائیاں سمجھنے کے نتیجے میں دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خدا کی طرف جھکیں ان کے متعلق فرمایا لَهُمُ الْبُشْرى فَبَشِّرْ عِبَادِ ان کے لئے بہت بڑی خوش خبری ہے، پس میرے بندوں کو خوشخبری دے دو.الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ (الزمر: 19) وہ لوگ جو بات سنتے ہیں پھر اس میں سے جو بہترین ہے اس پر عمل کرتے ہیں او لَكَ الَّذِينَ هَاهُمُ الله وأوليكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ ہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ ہدایت عطا فرماتا ہے اور یہی عقل والے لوگ ہیں.اب آپ دیکھیں کہ جس آیت کی

Page 165

خطبات طاہر جلد 16 159 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء میں نے تلاوت کی تھی بعینہ وہی بات ہے جو ایک اور رنگ میں سمجھائی جا رہی ہے وہاں آپ نے دیکھا عباد اور جو اسراف کرنے والے ہیں وہ عباد جو اسراف کرنے والے تھے جنہوں نے بہت بڑے بڑے ظلم کئے تھے اور زیادتیاں کی تھیں ان کو فرمایا ہے کہ تم نے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا کیونکہ وہ غفور رحیم ہے اور طریقہ یہ بتایا آنيبُوا إِلى رَبِّكُمُ اللہ کی طرف جھکو اور اللہ کی محبت کے نتیجے میں اس کی طرف مائل ہو.اور تیسری آیت میں فرمایا وَ اتَّبِعُوا اَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَّبِّكُمْ کہ تم جو بھی تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتارا گیا ہے اس کا بہترین حصہ پکڑا کر واپنے ارادے بلند رکھو، اپنے حو صلے اونچے کرو اور اس بات پر راضی نہ ہوا کرو کہ جو کم سے کم تم سے توقع کی جارہی ہے اتنی ہی پوری کر دو، اونچی تو قعات رکھو پھر تمہارے لئے یہ معاملہ آسان ہوگا مشکل نہیں ہوگا.اور اس میں بھی ایک بہت ہی گہر ا فطرت کا راز ہے جو بیان فرمایا گیا ہے.جو لوگ تھوڑے پر راضی ہوں اور تھوڑے پر ہاتھ مارنے کی کوشش کریں ان کے لئے تھوڑے پر قائم رہنا بھی ممکن نہیں ہوا کرتا کیونکہ انسان اپنے ارادے کو ہمیشہ اکثر اوقات پوری طرح مکمل طور پر پورا نہیں کر سکتا.پس جو شخص یہ کہے کہ میں یہ نہیں کروں گا وہ لوگ اس کم سے کم پر بھی کبھی پورے نہیں ہوا کرتے.جو بلند ارادے رکھیں ان کا ماحصل اس سے بہت زیادہ ہوتا ہے جو کم ارادے لے کر ایک سفر شروع کرتے ہیں.چنانچہ بسا اوقات جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے پاس ہونے کی نیت کی تھی مگر جن کی نیت یہ ہو کہ ہم نے اول آنا ہے ریکارڈ توڑنے ہیں ان کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ فرسٹ کلاس بھی لیں تو روتے ہیں کہ ہم صرف سکول میں اول آسکے، ہم نے تو سارے علاقے میں اول آنا تھا.جو سارے علاقے میں اول آئیں وہ اس بات پہ روتے ہیں کہ یقین تھا کہ ریکارڈ توڑلیں گے مگر نہیں توڑ سکے تو ان کا ماحصل ان کے لئے خوشی کی بجائے اس لئے دکھ کا موجب بنتا ہے کہ جتنی بلند تو قعات تھیں اتنی پورا نہیں کر سکے.اس راز کو جس طرح خدا نے سمجھایا ہے اس کو سمجھ کر جب انبیاء کی زندگی کا حال دیکھتے ہیں تو ان کی گریہ وزاری کی سمجھ آجاتی ہے.کتنے بڑے بڑے ارادے لے کر وہ لوگ نکلے تھے اللہ کے تعلق میں ، اس کے حضور اپنا سب کچھ پیش کر دینے میں ، اس کے حضور اپنی روحوں کی گردنوں پر چھریاں پھیر دینے کے لئے ہمیشہ آمادہ اور تیار اور خواہشات یہ کہ آنا فانا ہم وہ انقلاب برپا کر دیں جو عظیم انقلاب

Page 166

خطبات طاہر جلد 16 160 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء ہے جو ان کے سپر د کیا گیا ہے.وہ حشر برپا کر کے دکھا دیں جو قدموں سے اٹھایا جانا تھا جس کے متعلق خدا نے فرمایا کہ اے محمد متیرے قدموں سے حشر برپا ہوگا اور صبر میں روتے روتے زندگی کائی.راتوں کو اٹھ کر گریہ وزاری کی خدا کے حضور کہ وہ حاصل نہیں ہو رہا جو میں کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ نہیں ہوسکتا.بعض لوگ ایسے ہیں جن کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی ، ان کے خلاف خدا کا فیصلہ ہو چکا ہے ان کے لئے تو روتا ہے اور ان کے لئے اپنے آپ کو ہلاک کر رہا ہے.تو ارادے بلند تھے اس لئے جو بھی حاصل ہوا ہے وہ تھوڑا دکھائی دیا ہے مگر اس مقام سے تھوڑا دکھائی دیا ہے جس مقام پر فائز تھے.اس ادنی مقام سے جس میں ہم ہیں جب محمد رسول اللہ ﷺ کی کا میابیوں کو دیکھتے ہیں تو انسان حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے.ایک چھوٹی سی زندگی میں صرف ساڑھے باسٹھ سال کی زندگی پائی ہے اتنا بڑا انقلاب برپا کر دیا ہے سارے عرب پر اسلام کو مسلط کر کے دکھا دیا عرب کے کناروں سے جس طرح سیلابی لہریں اچھل اچھل کر باہر جاتی ہیں اس طرح ان کناروں سے اچھل اچھل کر اسلام باہر نکلا ہے اور دور دور تک دوسری حکومتوں اور سر زمینوں پر پھیل گیا ہے.چین تک جا پہنچا اور حالت یہ ہے کہ راتیں رو رو کر گریہ وزاری سے بسر ہو رہی ہیں بخشیں طلب کرتے ہوئے ، اے اللہ مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی مجھے معاف فرما دے.تو جتنے بلند ارادے کرو گے اتنا تمہارا کچھ حاصل کرنے کا امکان ہوگا جتنی چھوٹی ہمتیں رکھو گے اتنا کم امکان ہوگا.پس احسن کے لفظ پر اس موقع پر زور دینا کہ گناہ گار آئے ہیں ابھی تو بہ کی ہے ان سے یہ توقع کہ بہترین کر کے دکھا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے.کسی انسان نے یہ کلام بنایا ہوتا تو کبھی یہ نہ کہتا.انسان نے یہ کلام بنایا ہوتا تو کہتا ٹھیک ہے تم تو بہ کر رہے ہو اب تھوڑی تھوڑی کرنا بلند با توں پہ ہاتھ نہ ڈالنا یہ اوپر کے لوگوں کے لئے ہیں تو اپنی توفیق کے ساتھ ساتھ رہنا.ادھر تو بہ اور ادھر اچانک جو احسن ہے اس پر ہاتھ ڈالو، جو سب سے بلند تعلیم ہے اس کو پکڑو اس لئے کہ بلندی کے اوپر ہاتھ ڈالنا ادنی مراتب کے یقینی ہونے کے لئے ایک قطعی طور پر ضامن بات بن جاتی ہے.جس نے ہمالیہ کی چوٹی سر کرنی ہے وہ کم سے کم Base camp تک تو پہنچے گا ہی نا لیکن جس نے ایک چھوٹی سی پہاڑی، ایک ٹیلے پر چڑھنا ہے وہی اس کی دنیا ہے وہی اس کی عظمتیں اور رفعتیں ہیں ان سے آگے وہ جاہی نہیں سکتا پھر.بعض لوگ ٹیلہ بھی نہیں چڑھ سکتے وہ بیچ میں پھنس کے رہ جاتے ہیں.

Page 167

خطبات طاہر جلد 16 161 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء تو قرآن کریم نے جو مضامین بیان فرمائے ہیں ان پر آپ غور کر کے دیکھیں کس طرح رستوں کو مشکل دکھاتے ہوئے آسان کرتا چلا جاتا ہے، کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑتا.فرمایا أُوتيك الَّذِينَ هَديهُمُ اللهُ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہدایت دے دی ہے.يَهْدِی کا وعدہ نہیں ہے، یہ بھی بڑی عظیم بات ہے.فرمایا الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ احْسَنَه وہ لوگ جو بات سنتے ہیں اور پھر سب سے اعلیٰ بات اس میں سے جو ہے اس کو اختیار کر لیتے ہیں کہ ہم نے یہ کرنا ہے اُو لَكَ الَّذِينَ هَدهُمُ اللهُ یہ وعدہ نہیں ہے کہ ان کو ہدایت دے گا.فرمایا ان کو دے دی اللہ نے ہدایت.وہ تو ہدایت پاچکے ہیں وَأُولَيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ یہ ہیں عقل والے لوگ.تو یہ جو بخشش کا مضمون اور پھر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے کی غلامی میں اللہ کا غلام بننے کا مضمون ہے اس کو باریک نظر سے سمجھیں تو جتنا مشکل ہے اتنا آسان بھی ساتھ ہوتا چلا جائے گا.یہ پہلی جو آیات تھیں جو ابھی پڑھی ہیں یہ سورۃ الزمر کی اٹھارہ اور انیس آیات تھیں.اب یہ سورۃ المومن کی آیات چودہ اور پندرہ ہیں هُوَ الَّذِى يُرِيْكُمْ أَيْتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا وَمَا يَتَذَكَرُ إِلَّا مَنْ يُنِيبُ فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ (المومن : 14، 15 ).انسان کی راہ میں جہاں اپنے نفس کی خواہشات اور جونفسانی امنگیں ہیں وہ حائل ہوا کرتی ہیں وہاں اس کو گمراہ کرنے کے لئے ایک حصول رزق بھی ہے.قرآن کریم نے اس سے پہلے اس کو متوجہ فرمایا کہ آسمان سے عذاب بھی برسا کرتے ہیں اگر تم نے ان عذابوں سے بچنا ہے تو عَبدِ مُّنِیبِ بن جاؤ، عَبْدِ مُّنِيبٍ بنو گے تو اس کے عذابوں سے تمہیں رہائی نصیب ہوگی.اب فرمایا ہے کہ عَبْدِ مُّنِيبٍ بن کر صرف ایک منفی خطرات سے رہائی نہیں ملتی بلکہ جو تمہیں رزق چاہئے وہ بھی آسمان سے اترے گا اور کسی قوم کو خوشحال بنانے کے لئے یہ ایک ایسا نسخہ ہے جو کبھی نا کام نہیں ہوسکتا.وہ لوگ جو عبد منیب بنتے ہیں ان کے لئے آسمان سے مادی رزق بھی اترتا ہے اور آسمانی روحانی رزق بھی اترتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اگر چہ دنیا کی ہر خواہش سے ہاتھ اٹھا لیے اور ہر خواہش کو دل سے مٹا دیا.ایک ہی خواہش تھی کہ اللہ کی اتباع کروں اور جو وہ چاہتا ہے ویسا ہی ہوں

Page 168

خطبات طاہر جلد 16 162 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء اور ذاتی تعلق، ذاتی خواہشات ساری بالکل مٹا کے رکھ دی تھیں مگر آپ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی برکت سے ان عربوں کو جنہوں نے سب سے پہلے آپ کی تائید کی ہے ان میں سے عَبْدٍ منیب پیدا ہوئے تھے ان کے رزق کے کیسے انتظام فرمائے ہیں.اگر آپ غور کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ عربوں کو خدا تعالیٰ جو برکتیں عطا فرمارہا ہے مالی لحاظ سے بھی وہ حیرت انگیز ہیں.یعنی تیل کی دولت کی الگ بات ہے ساری عرب دنیا میں آپ نظر ڈال کے دیکھیں اللہ تعالیٰ ان کے رزق کے کوئی نہ کوئی سامان کر ہی رہا ہے کوئی اپنے ملک میں، کوئی ملک سے باہر ان کی تجارتوں کو برکت دیتا ہے.خدا تعالیٰ جس طرح عربوں کو نعمتیں عطا فرمارہا ہے دنیا کی بحیثیت قوم کے، دنیا میں آپ کو اور جگہ دکھائی نہیں دیں گی مگر اگر عَبْدِ منیب نہیں بنیں گے اور عبد شکور نہیں بنیں گے تو پھر جو ان کا انجام ہے وہ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے.میں نے اس مسئلے پر بڑا گہرا غور کیا ہے تفصیلی طور پر دیکھ کر اور ہمیشہ میں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ خدا ان کے کھانے پینے کا انتظام تو کر ہی دیتا ہے جس طرح بھی ہو کرتا ہی رہتا ہے اور کثرت کے ساتھ متوازن تقسیم دولت ہے اور اونچے اونچے پہاڑ بھی بنے ہوئے ہیں لیکن جو بالکل غریب اور بے کار اور بے چارے بالکل بے سہارا رہ جائیں وہ بہت تھوڑے ہیں مقابلہ.دنیا کی دوسری قوموں کے مقابل پر ان میں بہت ہی معمولی تعداد ہے جو آخری درجے کی غربت پر ہوں ، ہر جگہ رزق کے سامان ہیں.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ عَبْدِ مُّنِيْبِ بنے کی یہ جزا بیان فرما رہا ہے يُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا تمہارے لئے آسمان سے رزق نازل فرمائے گا لیکن اس وقت جو رزق نازل ہوئے ہیں یہ ہم ورثہ کھا رہے ہیں اور اگر مسلمان عبد منیب بنے رہتے تو دنیا کی سب سے بڑی متمول قوم ہوتے.تیل کی دولتیں تو اس وقت ملی ہیں جب یہ بے چارے ہر بات کھو بیٹھے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے سہارا دیا.یہ آسمان ہی سے نازل ہونے والا رزق ہے.مگر یہ سارا ایک ہزار سال جو مسلمانوں نے بہکتے بہکتے، بھٹکتے بھٹکتے گزارا ہے اگر اس میں یہ عبد منیب بنے رہتے تو ساری دنیا پر مسلمانوں کی سلطنت ہوتی.تمام دنیا کے خزانے ان کے قدم چومتے اور تمام دنیا کی قومیں ان کے قدموں سے اٹھائی جاتیں.

Page 169

خطبات طاہر جلد 16 163 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء تو اس لئے اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ لفظ منیب میں آسمانی نعمتیں اور دنیاوی نعمتیں دونوں کے بہت قطعی وعدے دیئے گئے ہیں اور اگر ہم اس مضمون کو نظر انداز کر دیں اور دنیا کے غلام بنیں تو پھر اللہ تعالیٰ دنیا بھی ہمارے پاس نہیں رہنے دے گا اور یہ بھی ایک ایسا سلسلہ ہے جو بارہا ان لوگوں میں دکھائی دیتا ہے جن کو خدا زندہ رکھنا چاہتا ہے یعنی خدا کے نیک بندوں کی اولا دوں میں اگر خدا ان کو روحانی طور پر زندہ رکھنا چاہے اور وہ دنیا کی طرف دوڑیں اور نیکی کو نظر انداز کریں تو ان کی دنیا بھی کلیۂ برباد کر دیتا ہے جب کہ بدوں کو نہیں کرتا جن کو آخرت میں سزا دینا مقصود ہو ان کو جو دنیا کی طرف دوڑیں دنیا کی نعمتیں عطا کر دیتا ہے اور بیان فرماتا ہے کہ ہم کرتے ہیں مگر اس لئے کہ آخرت میں نہیں دیں گے.مگر نیک لوگوں کی اولاد سے خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہم نے بار ہادیکھا ہے کہ نیک لوگوں کی اولاد نیک رہے گی تو اللہ تعالیٰ بے حد رزق عطا فرما تا ر ہے گا.جب بدی کی طرف جائے گی ، اتنا بدی کی طرف چلی جائے کہ ان میں زندگی کی رمق نہ رہے تو پھر وہ بھی بے حد و شمار دولت عطا کئے جاتے ہیں دنیا کے رہتے نعمتیں ، دولتیں.مگر یہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا ان سے ناراض ہو چکا ہے وہ مردود ٹھہرائے گئے ہیں لیکن جن کو بچانا چاہے ان پر بڑے بڑے ابتلاء آتے ہم نے دیکھے ہیں کچھ بھی بے چاروں کا نہیں رہتا آخر پھر وہ واپس آتے ہیں اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے متعلق جو توقع رکھی تھی کہ ہم مارکھا کے واپس آجائیں گے وہ توقع کچی ثابت ہوئی.تو بہت سے ایسے احمدی میں نے واپس آتے دیکھے ہیں جن پر ابتلاؤں کی مار پڑی ہے، بعض بیماریوں کی مار پڑتی ہے، بعض اولاد کی طرف سے ان پر مار پڑتی ہے اور تو بہ کرتے ہیں.جن کو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا، نہ نام سنا تھا اور بعض دفعہ دور دور سے سفر کر کے آتے ہیں کہ ہم تو تو بہ کی خاطر آئے ہیں پتا چلا کہ مصیبتوں اور دکھوں نے ان کو تو بہ پہ مجبور کیا ہے.پھر جب وہ اپنے ماں باپ کی باتیں سناتے ہیں تو اس وقت اس کا راز سمجھ آتا ہے کہ بڑے بڑے نیک لوگوں کی اولاد تھے، ایسے نیک لوگوں کی اولاد جو یہ دعائیں کرتے ہوئے گزر گئے کہ اللہ ان کو نیکی عطا فرمائے.تو یہ خدا تعالیٰ کی جو تقدیر کی راہیں ہیں یہ بہت ہی لطیف اور باریک راہیں ہیں ان کو آپ سمجھیں تو زندگی کا سفر آسان ہو جائے گا اور اگر نہیں سمجھیں گے تو پھر انسان کے لئے بھٹکنے کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہتا.اسی مضمون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرُّ دَعَوْا

Page 170

خطبات طاہر جلد 16 164 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء رَبَّهُمْ مُّنِيْبِينَ إِلَيْهِ (الروم:34) کہ یہ جو اللہ کو بلانا اور منیب ہو جانا اس کا یہ ایسے وقت میں اگر نصیب ہو جبکہ تکلیف آپنے تو پھر یہ محض وقتی فائدہ دے گا.اس وقت منیب بنو جب تکلیف نہ پہنچی ہو.چنانچہ پہلی آیت کریمہ میں منیب کے ساتھ یہ کھول دیا گیا تھا کہ جب عذاب آجائے گا، جب پکڑے جاؤ گے پھر تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا خدا کی طرف جھکنا لیکن وہاں مراد ہے مستقل فائدہ تمہاری نجات کا موجب نہیں بن سکے گا ور نہ عذاب سے وقتی نجات ثابت ہے.چنانچہ یہ آیت اسی مضمون کو بیان فرمارہی ہے وَإِذَا مَشَ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِيْبِينَ إِلَيْهِ جب انسان کو سخت عذاب پکڑ لیتا ہے بہت بڑی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے منِيبِينَ الیہ واقعہ دل سے اس کی طرف جھکنے اور اس کی طرف دوڑنے ، اس کی طرف لپکنے کے لئے ایک خواہش زور مارتی ہے.مگر اس کی پناہ میں آنے ، اپنی ذات کو اس کے سپرد کرنے کے لئے نہیں.اسلِموا والا مضمون نہیں ہے بلکہ عذاب سے بچنے کی حد تک بس اس سے زیادہ ان کی کوئی خواہش نہیں ہوتی.ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَى مَا كَانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ (الزمر: 9) یہاں وہ جو طوفان کا مضمون بیان ہوا ہے ایک اور آیت میں کہ غرق ہونے لگتا ہے انسان اس کے لئے دعا کرتا ہے اس کو خدا بچا بھی لیتا ہے یہاں وہ مضمون نہیں ہے بلکہ وہ رزق والا مضمون جو میں نے بیان کیا تھا اس کے تعلق میں یہ آیت بیان کر رہی ہے.ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے کہ اس کے مال ، جائیداد، چیزیں ضائع ہونی شروع ہو جائیں، نقصان پہنچیں تب وہ واقعہ اللہ کی طرف ایک جھکنے کا میلان اپنے دل میں پائے ، سمجھے کہ اس کے سوا چارہ کوئی نہیں.مگر اگر اللہ کی محبت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا محض مصیبتوں سے بچنے کی خاطر ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم اسے پھر نعمتیں عطا کرتے ہیں، ایسے شخص کو صرف مصیبت سے نجات نہیں دیتے نعمتیں بھی عطا کرتے ہیں وہ نعمتیں عطا کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ہماری طرف جھکا تھا نسی مَا كَانَ يَدْعُوا اِلَيْهِ وہ بھول جاتا ہے اس بات کو کہ اس نے وہ چیزیں خدا سے مانگی تھیں مَا كَانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ یہ بھول جاتا ہے کہ خدا سے مانگی تھیں.اس طرز بیان میں یہ بات کھل گئی کہ نیت چیزوں کی تھی اور کچھ نہیں تھی جب چیزیں مل گئیں تو خدا بھول گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ یہ چیزیں میں نے خدا سے مانگی ہوئی ہیں آپ ہی آپ نہیں مل گئیں مجھے.تو یہ ایسی کامل فراموشی، اس قدر غفلت کہ مصیبت کے وقت گڑ گڑا، گڑ گڑا کے، روتے

Page 171

خطبات طاہر جلد 16 165 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء ہوئے ، گریہ وزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگی ، اللہ تعالیٰ سے مصیبتوں سے نجات مانگی ، نعمتوں کے لئے درخواست کی نعمتیں مل گئیں تو یہ بات بھی بھول گیا کہ یہ عمتیں ہم نے خدا سے مانگی تھیں.وَجَعَلَ لِلهِ اَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ تو اللہ کے مقابل پر وہ پھر شریک ٹھہرانے لگ جاتا ہے تا کہ دوسروں کو بھی اس کے رستے سے ہٹائے.پس اس معنے میں منیب نہ بنو کبھی.اور یا درکھو کہ جب خدا کی طرف سے انابت ہو تو محض اللہ کی خاطر ، اس کی محبت کے نتیجے میں انابت الی اللہ ہو.اگر مصیبت سے بچنے کے لئے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کے لئے انابت الی اللہ ہوگی تو تمہارے کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ ایسی انابت کے نتیجے میں جو کچھ تم پاؤ گے اس کو دوسروں کی طرف منسوب کرو گے، اپنی چالاکیوں کی طرف منسوب کرو گے، اپنے دوستوں کی طرف منسوب کرو گے، اپنے دنیا کی ہوشیاریوں اور حادثات کی طرف منسوب کرو گے.اتفاقاً مجھے یہ مل گیا، خدا کی طرف تمہارا دماغ نہیں جائے گا تو انابت کے مضمون کے ہر پہلو کو قرآن کریم کھول رہا ہے.اب چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے انشاء اللہ اس کا جو باقی حصہ ہے وہ میں آئندہ خطبے میں بیان کروں گا.اس وقت مجھے بعض مرحومین کی نماز جنازہ کا اعلان کرنا ہے جن میں سے بعض کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ عباد الرحمن تھے اور جہاں تک انسان کسی انسان کو دیکھ کر ایک فیصلہ کر سکتا ہے ، میرے نزدیک بعض مرحومین ان میں ایسے ہیں کہ ان کے متعلق کوئی بھی شک نہیں رہتا کہ وہ خدا کے پاک بندے تھے.محض اس لئے نہیں کہ ان پر حسن ظن تھا، اس لئے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے لمحہ لمحہ میں ثابت کیا بلکہ بعض کی تو پیدائش سے پہلے ہی ان کے رحمان کے بندہ ہونے کی خوش خبریاں دے دی گئی تھیں اور پھر رویا اور کشوف خدا تعالیٰ ان کو ہمیشہ دکھاتا رہا، عظیم نشان ان کے ہاتھ پر ظاہر فرماتا رہا لیکن وہ عاجز ایک بالکل سادہ لوح، سادہ مزاج ، سادہ زندگی بسر کرنے والے اور اس طرح چلتے پھرتے تھے گلیوں میں جیسے ان کا وجود ہی کوئی نہیں.ان میں سے جو سب سے نمایاں قابل ذکر ہیں وہ حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر ہیں جن کی چند روز پہلے وصال کی اطلاع ملی ہے.ان کے متعلق نسبتاً زیادہ تفصیل سے کچھ کہنے کی ضرورت ہے باقی میں نام پڑھ دوں گا اور ان کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا اس وقت میں ، نہ جمعہ اس مقصد کے لئے ہوتا ہے کہ مرحومین کی زندگی کی تفاصیل بیان کی جائیں مگر بے حد نیک بندے تھے ان کے لئے

Page 172

خطبات طاہر جلد 16 166 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء ہم نماز جنازہ جمعہ اور عصر کی نماز کے معا بعد ادا کریں گے.مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی زندگی کے بعض ایسے پہلو ہیں جو اس وقت بھی نشان تھے، آج بھی نشان ہیں.آپ 1909ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی حضرت چوہدری غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا ہوئے.آپ سے پہلے نو بچے پیدا ہو چکے تھے جو نو کے نو مر گئے ایک بھی نہیں بچا.حضرت غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے رویا میں دکھایا کہ یہ بچہ ہے اس کی شکل دیکھ لو یہ آنے والا ہے اور یہ زندہ رہے گا.چنانچہ آپ پیدا ہوئے تو آپ نے سب جگہ اعلان کر دیا، بیوی کو بھی بتا دیا بالکل نہ فکر کرنا یہ زندہ رہے گا یہ کبھی نہیں مرسکتا یعنی جس مقصد کے لئے خدا نے عطا کیا ہے اسے پورا کئے بغیر نہیں مرے گا اور پھر اس نشان کو اور زیادہ پختہ بنانے کے لئے بعد میں دو بیٹیاں اور عطا کیں، وہ دونوں بھی مرگئیں.پہلی اولاد میں سے نو میں سے ایک بھی نہیں بچا، یہ زندہ رہے اور ان کی شکل بھی بالکل وہ بیان فرماتے تھے کہ ایسی ہی تھی ، یہی مجھے بچہ دکھایا گیا تھا.اور اس کے بعد آپ کی زندگی جو تھی وہ واقعی ایک ایسے بچے کی صورت میں آگے بڑھی ہے جو خدا تعالیٰ کسی خاص مقصد کے لئے پیدا فرما تا اور چن لیتا ہے اسے.آپ نے 1927ء میں اپنی زندگی وقف کی.1935ء میں ایک اعلان حضرت نذیر احمد صاحب علی کی طرف سے ہوا جو افریقہ کے مبلغ تھے اور بہت عظیم قربانیاں انہوں نے وہاں خاص طور پر سیرالیون میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں کہ غانا کے لئے ہمیں ایسے ایک واقف زندگی کی ضرورت ہے جو کوئی مطالبے نہ کرے، غالباً حضرت مصلح موعودؓ کے فرمانے پر انہوں نے یہ اعلان کیا ہوگا اپنی طرف سے تو ایسا کرنے والے نہیں تھے، کوئی شرطیں نہ ہوں.اس وقت یہ آگے آئے اور ان شرطوں میں یہ بھی بات تھی کہ اپنا خود گزارہ کرو، کھاؤ، کماؤ ، جماعت پیسے بھی نہیں بھیج سکتی.چنانچہ افریقہ میں انہوں نے ایسے سخت آزمائش کے سال دیکھے ہیں کہ مجھے انہوں نے خود بیان کیا تھا کہ مہینوں وہ روٹی یا جو چیز بھی مہیا ہوتی تھی وہاں اس کے ساتھ نمک مرچ کے سوا میں نے کچھ نہیں کھایا لیکن جماعت سے نہیں مانگا.روانہ ہونے سے پہلے جب آپ کو 1936ء میں خدمت کے لئے بھجوایا گیا ہے تو آپ کی شادی حضرت بھائی جی ڈاکٹر محمود احمد صاحب کی بیٹی آمنہ بیگم سے ہوئی لیکن نکاح ہوا اور پھر گیارہ سال تک غانا میں جدا ر ہے ہیں، مڑ کے خبر نہیں لی.نہ جماعت کے پاس پیسے تھے کہ ان کو بلاتی.گیارہ سال

Page 173

خطبات طاہر جلد 16 167 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء کے بعد بلایا ہے.سال بعد پھر غا نا چلے گئے پھر پانچ سال ٹھہرے، پھر آئے پھر ایک سال رہے بیوی کے ساتھ پھر نانا اور پچیس سال کا عرصہ انہوں نے اس طرح خدمت دین میں اپنے گھر سے جدا گزارا ہے اور وہاں جو ان کے واقعات ہیں وہ تو حیرت انگیز ہیں کس طرح خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا رہا اور حیرت انگیز نشان دکھاتا رہا ہے اور بعض دفعہ ایک غریبانہ جو بات کہہ دیتے تھے، تعلی نہیں ہوا کرتی وہ غریبانہ خدا پر ایک توقع ہوا کرتی ہے اس توقع میں یہ بات کہ دیا کرتے تھے، یہ ہوگا اور ہو جایا کرتا تھا.بہت ہی پاکیزہ وجود، سادہ زندگی بسر کرنے والے.جو خدمت کے مواقع ملے ہیں دین میں اصل تو وہی ہیں جو میدان عمل میں تھے.یہاں آکر جو نظام سے تعلق کی خدمت آپ نے سرانجام دی ہے اس میں نائب وکیل التبشیر رہے ہیں ، قائمقام وکیل التبشیر رہے ہیں.پھر قائمقام وکیل اعلیٰ رہے ہیں.پھر نائب صدر مجلس تحریک جدید بھی رہے ہیں.مجلس افتاء اور کار پرداز میں کام کیا.ناظم دار القضاءر ہے.وکیل التعلیم رہے تو اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور بے انتہاء رحمتیں نازل فرمائے ان پر ، ان کی ساری اولاد پر اور اولاد در اولاد پر وہ یاد رکھیں کہ کس باپ کے بیٹے تھے جس کی پیدائش بھی نشان تھی، جس کا زندہ رہنا نشان تھا جس کی ساری زندگی ایک نشان بنی رہی.تو احمد بیت میں اس قسم کے ہیں جو گودڑیوں کے لعل ہیں اور کثرت سے ہیں.اس جماعت کا دنیا میں کون مقابلہ کر سکتا ہے جن کو عباد الرحمان نصیب ہو جائیں اللہ خودان کی حفاظت فرمایا کرتا ہے.پس تم عبادالرحمن بننے کی کوشش کرو کیونکہ صرف پرانے عِبَادُ الرَّحْمٰن کی کمائی کھانے سے ہمارا گزارا نہیں چلے گا، ہمیں اگلی نسلوں کی پرورش، اگلی صدیوں کی ، ہزار سال کی پرورش کا ارادہ لے کر اٹھنا چاہئے اور اس لئے ہمیں اپنے گرد و پیش، اپنی ذات میں ہر جگہ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین دوسرے جو ہیں جنازے والے ان کی فہرست میرے سامنے ہے.ایک سلیمہ صاحبہ اہلیہ مکرم یوسف احمدی صاحب والده منیر الاسلام یوسف صاحب مبلغ انڈونیشیا جو یہاں تشریف لائے ہوئے تھے اور رمضان کا سارا عرصہ ترجمے کی خاطر یہاں آئے ہوئے تھے اور اس کے بعد بھی یہیں ترجمے کی خاطر ٹھہرے رہے، ان کی والدہ اچانک علیل ہوئیں اور ان کے یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے وفات پاگئیں.ان کے متعلق بھی یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کو رویا میں دکھایا تھا کہ

Page 174

خطبات طاہر جلد 16 168 خطبہ جمعہ 28 فروری 1997ء تیرا یہ بیٹا پیدا ہوگا اور اس کو وقف کر دینا اور نشانی بتائی تھی کہ پہلے بیٹی آئے گی پھر بیٹا آئے گا اور وہ خاص بیٹا ہے اس کو وقف کر دینا.چنانچہ انہوں نے وقف کر دیا.والد کی وفات بھی ربوہ میں تعلیم کے زمانے میں ہوئی ہے اور والدہ کی وفات بھی ان سے دوری کی حالت میں ہوئی ہے.پھر خواجہ خورشید احمد صاحب سیالکوٹی ہیں جو الفضل کے ایڈیٹر رہے ہیں بڑے لمبے عرصہ مختلف صورتوں میں ان کو تو فیق ملی ہے خدمت کی.محمد حسین صاحب خادم مسجد مبارک.ان سے بہت لوگ واقف ہیں.مسجد میں ان کی خدمت اور ان کی اذانیں دینا اور ان کا خاص ایک گہرا تعلق یہ لمبے عرصے تک پھیلا ہوا ہے.ہمارے ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب جو یارک شائر Batley میں رہا کرتے تھے ان کی والدہ عائشہ بیگم صاحبہ.یہ بھی بہت بزرگ خاندان کی بزرگ خاتون تھیں.اللہ انہیں بھی غریق رحمت فرمائے.آمین اور آخر پر ڈاکٹر رضیہ صاحبہ.یہ ڈاکٹر تو نہیں تھیں.ان کی بہن ڈاکٹر تھیں ایک، جہاں تک میرا علم ہے، مگر ہو سکتا ہے ڈاکٹر ہوں.بہر حال یہ اچھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور خدمت پر مامور تھیں کسی پر.یہ میجر ولید منہاس کی بیگم اور ان کا اصل تعارف تو یہ ہے کہ جو حیدر آباد دکن کا مشہور خاندان جس نے خدمتوں میں بہت نام کمائے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ ،سیٹھ محمد اعظم صاحب مرحوم ،سیٹھ معین الدین صاحب مرحوم وغیرہ ، یہ ان کی ہمشیرہ آپا سلیمہ کی بیٹی تھیں اور بالکل جوانی کے عالم میں ہی تین چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر وفات پاگئی ہیں، ان کو غالبا دل کا حملہ ہوا ہے موٹر میں واپسی پر گھر آتے ہوئے تو بہر حال یہ سب وہ ہیں جن کی میں نماز جنازہ پڑھوں گا جمعہ اور عصر کے معا بعد.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 175

خطبات طاہر جلد 16 169 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء اگر مغفرت چاہتے ہو، اگر تمام گناہوں سے کلیۂ نجات چاہتے ہو تو خدا کی رحمت سے تعلق جوڑے بغیر یہ ممکن نہیں ہے.( خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجُهِلُونَ قَالُوا سَلَمَّا وَالَّذِينَ يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامَانَ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوْالَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ وَ لَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضْعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهِ مُهَانَّان إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَبِكَ يُبَدِّلُ اللهُ اتِهِمْ حَسَنَتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ۖ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِ اللَّغُومَرُّ وَاكِرَامًا وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ

Page 176

خطبات طاہر جلد 16 170 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَاصُمَّا وَعُمْيَانًا وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا أُولَيكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَ سَلَمَّالٌ خَلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرٌّ أَوْ مُقَامًا قُلْ مَا يَعْبَوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا (الفرقان: 7864) پھر فرمایا: گزشتہ چند خطبات میں قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر: 54) کی آیات کے حوالے سے تو بہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کا مضمون بیان کیا جا رہا ہے جس کا آخری نتیجہ یہ بیان فرمایا گیا کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا الله تعالى تمام تر گناہوں کو کلیہ بخشنے کی طاقت رکھتا ہے اور اگر وہ تمہاری تو بہ کو قبول فرمالے تو پھر بے انتہا فضل ہیں جو تم پر نازل ہوں گے اور اللہ کو تم غفور اور رحیم پاؤ گے، بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا.اس ضمون کے حوالے سے چند باتیں میں گزشتہ خطبات میں پیش کر چکا ہوں.اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عِبَادُ الرَّحْمٰن کی اصطلاح قرآن کریم نے دراصل ایسے ہی بندوں کے لئے استعمال فرمائی ہے جن کا اس آیت میں ذکر ہے.قُل يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ.اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا، دراصل رحمانیت کی طرف حرکت کرنے کی طرف توجہ دلا رہا ہے.اگر مغفرت چاہتے ہو، اگر تمام گناہوں سے کلیۂ نجات چاہتے ہو تو خدا کی رحمت سے تعلق جوڑے بغیر یہ ممکن نہیں ہے اور جب خدا کی رحمت سے تعلق جوڑتے ہیں تو عِبَادُ الرَّحْمنِ بنتے ہیں ، رحمان خدا کے بندے اور یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے کہ آپ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے توبہ کر لی اب ہم رحمان خدا کے بندے بن گئے ہیں.قرآن کریم نے تفصیل سے رحمان خدا کے بندوں کی علامتیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے ہر ایک ہمارے لئے کسوٹی ہے اگر وہ ہم میں پوری ہے یا ہم اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں تو رحمان خدا کے بندے ہیں اگر نہیں تو محض خیالات کی جنت

Page 177

خطبات طاہر جلد 16 171 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء میں بسنے کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی.پس کلام الہی اتنا کامل اور اتنی تفصیل سے مضامین کے ہر پہلو کو روشن کرنے والا ہے کہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں چھوڑتا.پس بعض اور مضامین بھی اس سے تعلق رکھنے والے ، خدا نے تو فیق دی تو میں بیان کروں گا مگر آج میں عِبَادُ الرحمن کے حوالے سے قرآن کریم کی بیان فرمودہ وہ علامتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کو دیکھ دیکھ کر آپ نے قدم آگے بڑھانے ہیں.جیسے مشکل راستوں پر جگہ جگہ نشان لگے ہوتے ہیں، وہ تیر کا نشان ، رخ بتاتا ہے کہ یہ رستہ ہے، وہ رستہ نہیں اور اگر نشان نہ لگے ہوں تو آپ بہکتے بہکتے کہیں سے کہیں پہنچ جائیں گے.روزمرہ کی ہماری جو خدام الاحمدیہ کی کھیلیں ہوتی ہیں سائیکل ریس ہو یا پیدل لمبا سفر کرنا ہوتو خدام بڑی محنت سے ایک دن پہلے وہ نشان لگا دیتے ہیں اور ذرا آنکھ چوکی اور انسان کسی اور سڑک پر چل پڑا.تو قرآن کریم اتنا منظم نظام پیش کرتا ہے، حیرت انگیز منظم تعلیم پیش کرتا ہے کہ جگہ جگہ وہ نشان لگے ہوئے ہیں کہ دیکھو یہاں جا کر اس طرف مڑ کر Move کرنا ہے، یہاں سے اس طرف مڑنا ہے قدم بہک نہ جائیں اپنا جائزہ لیتے رہو تم صحیح رستے پر ہو بھی کہ نہیں.تو وہ جو لمبی سڑک ایک عام انسان کی توبہ سے شروع ہوکر عِبَادُ الرَّحْمنِن تک پہنچا دیتی ہے اس کے یہ نشان ہیں جو قرآن کریم کی ان آیات نے آپ کے سامنے کھولے ہیں اور پہلا نشان اس کا انکساری ہے.تکبر سے خالی ہو جاتے ہیں اور یہ سب سے پہلے اس لئے رکھا کہ عبد بننے کے لئے تکبر سے کلیۂ نجات لازم ہے کیوں کہ کسی کے سامنے کوئی بھی انسان تکبر رکھتے ہوئے اپنا سر جھکا نہیں سکتا.اپنی بڑائی کا ادنی بھی تصور ہو تو کسی اور کے سامنے سرخم کرنے کے رستے میں حائل ہو جائے گا.فرمایا وَ عِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وہ تو بڑی منکسر مزاجی کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں.ان کے قدم رعونت سے نہیں پڑتے بلکہ ہر قدم پر وہ اپنا بجز دیکھ رہے ہوتے ہیں، اپنی کمزوری دیکھ رہے ہوتے ہیں.وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمَّا اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلام کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں ان سے الجھتے نہیں ہیں ان کی بدی کا جواب بدی سے نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں ہماری طرف سے تو سلامتی تمہیں پہنچے گی.یہ دو بنیادی صفات ہیں جہاں سے رحمانیت کے ساتھ تعلق جوڑنے کا سفر شروع ہوتا ہے.ہر انسان کو اپنے

Page 178

خطبات طاہر جلد 16 172 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء نفس کو کلیہ ہر قسم کے تکبر سے خالی کرنا ہوگا ور نہ عبد کا مضمون اس پر صادق آہی نہیں سکتا.اتنا کامل کلام ہے کہ بات کو وہاں سے شروع کیا جو لازماً پہلا دروازہ ہے اس کے بغیر عِبَادُ الرَّحْمٰن کے رستے میں داخل ہو ہی نہیں سکتے.هَونا پیدا کریں اپنے اندر.یعنی جھک کر خدا کے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے سفر اختیار کرنا اور اپنے نفس کو کلیۂ بیچ میں سے مٹاڈالنا اور دوسروں کے لئے شر سے کلیۂ مٹا خالی ہو جائیں کیونکہ وہ شخص جو ہر بات میں اپنے آپ کو عاجز ہی جانتا ہو اس شخص کی یہ علامت لازماً ظاہر ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بڑے کو سلام ہی کرتا ہے اور ایسے فقیر منش لوگ میں نے دیکھے ہیں کہ وہ کسی سے نہیں الجھتے ، اپنے آپ کو نیچا کہتے ہیں ہم نیچے ہیں ہر آئے گزرے کو سلام کہتے ہیں بس ہماری طرف سے تمہیں سلام پہنچے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں تم سے.تو بنی نوع انسان کے لئے خدا کے بندے بجز کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور سلام کے پیغام لیتے ہوئے چلتے ہیں اس لئے قیامت کے دن ان کو بھی یہی سلام کا پیغام ہے جو پہنچایا جائے گا.پس یہ دو شرطیں ہیں جن سے ہمیں لازماً مزین ہو جانا ، سج جانا چاہئے کامل عجز اور ہر قسم کے شر سے اجتناب.اب یہ دو شرطیں بھی اتنی مشکل ہیں، جتنی پیاری ہیں اتنی مشکل بھی ہیں یعنی آئے دن روزانہ انسان سے کسی نہ کسی کو اور کوئی نہ کوئی شر پہنچ ہی جاتا ہے، بات چیت میں تو تو ، میں میں ہو جاتی ہے.دل آزاری کی باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں.اپنی بڑائی کا کوئی کلمہ منہ سے نکل جاتا ہے.کسی کے اندر کوئی نقص دیکھتے ہیں تو بعض عورتیں تو ہنستی ہیں منہ پر ہاتھ رکھ رکھ کر اور دوسری عورتوں کو اشارے کرتی ہیں کہ وہ دیکھو جی وہ کس قسم کی بھدی چیز ہے فلاں کا بچہ دیکھو، فلاں کی لڑکی دیکھو، فلاں کے کپڑے دیکھو اور وہ مجھتی ہیں کہ کچھ بھی نہیں یہ تو ہم نے ذرا لطف اٹھایا ہے.مگر قرآن کریم کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تم نے اپنے اوپر رحمان کی بندی بننے کے لئے دروازے بند کر دیئے کیونکہ رحمن کے بندوں کی یہ علامت ہے کہ بجز اختیار کرتے ہیں.جو بجز اختیار کرے وہ تو سب سے نیچا ہوگا اس کو دوسرے کی کمزوری پر بننے کا موقع کیسے ہاتھ آئے گا.پس ہنسی اپنی جگہ منع نہیں فرمائی مگر تکبر کی بنسی منع فرمائی ہے.جہاں دوسرے کو آپ نیچا دیکھ کر رعونت کے ساتھ اس کی ایسی کمزوریوں پر ہنستے ہیں جو بسا اوقات اس کے بس میں ہی نہیں ہوا کرتیں اور پھر ایسے آدمی سے کوئی نہ کوئی شرضرور دوسروں کو پہنچتا ہی رہتا ہے.پس سلام کا یہ مطلب صرف نہیں ہے کہ کسی جاہل نے آپ سے سختی سے بات کی تو آپ

Page 179

خطبات طاہر جلد 16 173 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء نے سلام کہ دیا اور گزر گئے.یہ دونوں باتیں مربوط ہیں.عادت میں یہ بات داخل ہو تب یہ بات پیدا ہوتی ہے ورنہ اگر عادت میں یہ بات نہ ہو کہ میں نے خیر ہی پہنچانی ہے تو رستہ چلتے کوئی آوازہ کسے، دیکھیں آپ کیسے الٹ کے اس کا جواب دیں گے.ہو ہی نہیں سکتا آپ رک سکیں.یہ خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کے گہرے راز بیان فرمائے ہیں ان کو معمولی کلام نہ سمجھیں، اپنے نفس پر اس کا اطلاق کر کے دیکھیں اور روزمرہ اپنا امتحان تو لے کے دیکھیں.چلتے پھرتے کوئی آوازہ کسے کیسا غضب سے آپ اس پر پلٹتے ہیں اور بعض دفعہ اس کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھا بیٹھتے ہیں ، لڑائیاں ہو جاتی ہیں قتل ہو جاتے ہیں.یہ عادت جب تک مزاج میں داخل نہ کر لی جائے ، ایک قاعدہ کلیہ نہ بن جائے اس وقت تک یہ صفات پیدا نہیں ہوا کرتیں اور اس کا آغاز بجز سے ہوگا.اب نیچے آدمی کو اوپر والے کہتے رہتے ہیں کبھی وہ سر نہیں اٹھاتا بے چارہ.وہ آنکھیں نیچی کر کے ہر بات برداشت کرتا چلا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا عِبَادُ الرحمن ہونے کے لحاظ سے تم یہ کرتے ہو.اس لئے جتنا ذلیل بنتے ہوا گر اس کی خاطر بنتے ہو تو وہ ضرور تمہیں عزت دے گا اور اپنے بندوں میں شمار کر لے گا.پس بندہ اپنی ذات میں تو کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا کوئی اس کی ملکیت نہیں رہتی مگر مالک طاقتور ہو، مالک عظیم ہو تو پھر دوسروں کی مجال نہیں رہتی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھیں.تو فرما یا تم اپنے مالک نہ بنے پھرنا، اپنے مالک بن کر چلو گے تو اس دنیا میں تمہارا گزارا ہو ہی نہیں سکتا.تم سے زیادہ طاقتور، زیادہ سخت مزاج ، زیادہ ظالم لوگ موجود ہیں اور ساری دنیا کا مقابلہ تم کر ہی نہیں سکتے.ایک ہی طریق ہے غلام بن جاؤ اور جس کے غلام بنو وہ رحمان ہو جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے، جس نے قرآن سکھایا.اس رحمن کے بندے بن تو پھر کچھ علامتیں ہیں جو تمہارے اندر ظاہر ہوں گی وہ یہ ہیں کہ تم عاجزی کے ساتھ چلو گے، لوگوں کی باتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرو گے پھر.صبر سے کام لو گے اور رحمن کی وجہ سے اس میں رحمن کی شان کا پیش نظر رکھنا داخل ہے.یہ بتاتا ہے یہ کلام کہ ایرا غیرا کی اولاد اگر بد تمیزی سے بات کرے، بد اخلاقی سے پیش آئے تو اس کا نقص وہیں تک رہتا ہے لیکن اگر ایک بڑے عظیم انسان کا بچہ ہو اور وہ ایسی باتیں کرے تو اس کو گزند پہنچتا ہے، لوگ اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں.تو پیغام یہ ہے دیکھو رحمان خدا کی عزت کا لحاظ رکھنا.تمہارا اٹھنا بیٹھنا ایسا ہو کہ جس کے نتیجے میں رحمن کی عظمت دلوں پر ظاہر ہو، پتا چلے کہ کتنے عظیم وجود کے یہ بندے ہیں جو پھر رہے ہیں اور وہ تکبر

Page 180

خطبات طاہر جلد 16 174 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء سے نہیں وہ بجز ہی سے ظاہر ہوگا، تو یہ صفات رحمن کے تعلق میں اگر انسان اپنے اندر پیدا کر لے تو ان کا پیدا کرنے کا آغاز مشکل نہیں اس کو اپنے آخری نقطہ عروج تک پہنچانا مشکل ہے لیکن اس کے حل بھی قرآن کریم نے پیش فرمائے ہیں.تو سب سے پہلے اپنا یہ امتحان ہمیں شروع کر دینا چاہئے کہ ہم رحمن خدا کے نام پر کوئی دھبہ تو نہیں بن جاتے.رحمن خدا جس کے غلام کہلا کے پھر رہے ہیں دنیا میں اس کی شان اور اس کی عزت پر کوئی حرف تو نہیں لاتے اور اس پہلو سے بہت ہی انکساری کے ساتھ زمین پر وقت گزارتے ہیں عجز کے ساتھ وقت گزارتے ہیں کہ ہماری وجہ سے کسی طرح ہمارے آقا کے نام پر کوئی حرف نہ آئے اور اس کی طرف ہمارے عبد کا منسوب ہونا جائز قرار ٹھہرے، ناجائز نہ بن جائے.یہ لوگ سلامتی کا مجسم پیغام بن جاتے ہیں اور جو دن کو اس طرح چلتے ہیں وہ راتوں کو سو کر بسر نہیں کیا کرتے کہ سارا دن تو وہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوں، بجز کے ساتھ چلیں ، سلامتی کے پیغام پہنچاتے پھریں، گھر آئیں تو آرام سے لمبی تان کے سو جائیں.اس کا مطلب ہے کہ جو وہاں تھا وہ دکھاوا تھا.وہ کسی رحمن خدا کی خاطر نہیں تھا کیونکہ جب کوئی نہیں دیکھ رہا تو ان کا رحمن خدا سے تعلق ختم ہو گیا.اس لئے دوسری آیت نے اس مضمون کو پوری طرح مکمل حفاظت دے دی ہے کہ عبادالرحمن راتوں کو جب کوئی ان کو نہیں دیکھ رہا ہوتا اپنی رحمانیت سے اخذ کی ہوئی صفات کی حفاظت کرتے ہیں اور دن کو جو لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں وہ خدا کی خاطر جھکتے ہیں ان کو سجدے نہیں کیا کرتے.جہاں تک روح کے سجدے کا تعلق ہے، جہاں تک حقیقی اطاعت کا تعلق ہے فرمایا وَالَّذِينَ يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدً اقَ قِيَامًا یہ وہ لوگ ہیں جو راتیں جاگ جاگ کر ، خدا کے حضور سجدے کرتے ہوئے اور احترام کے ساتھ کھڑے ہو کر گزار دیتے ہیں.تو صاف پتا چلا کہ ان کا دنیا کے سامنے جھکنا ان کی بزدلی یا ذلت کے نتیجے میں نہیں ہے، رحمن خدا سے تعلق کے نتیجے میں ہے.اور جب اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو سجدہ اسی کو کرتے ہیں، کسی غیر اللہ کو نہیں کرتے اور جب اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو کامل احترام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں.اور یہ کہتے ہیں اس وقت وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا یہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے جہنم کا عذاب ٹال

Page 181

خطبات طاہر جلد 16 175 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء مقصد دے، دور فرما دے اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا بہت بڑی تباہی ہے جہنم کا عذاب تو ایسی چٹی ہے جس کے بوجھ تلے ہم پیسے جائیں گے.پس اس مضمون کا تعلق بھی ایک طرف عجز سے ہے دوسری طرف اس حقیقت سے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بار بار اٹھائے جائیں گے.ان کا کامل ایمان ہوتا ہے مر کر دوبارہ اٹھنے پر اور اگر مر کر اٹھنے پر ایمان نہ ہو تو دنیا میں وہ اصلاحات جو عِبَادُ الرَّحْمٰن سے توقع کی جاتی ہیں وہ ان کو نصیب نہیں ہو سکتیں.یہ مرکزی نقطہ ہے اس مضمون کا کہ تم آخرت پر ایمان رکھو اور یقین جانو کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے گا.پس محض ایک منطقی عقلی رستہ نہیں ہے جو خدا تک پہنچائے گا بعض ٹھوس حقائق ہیں جو پیش نظر ہوں تو پھر تمہارا خدا کی طرف سفر آسان ہو جائے گا.ایک سفر کا جو مد ہے وہ کسی اچھی چیز کو حاصل کرنا ہوتا ہے اور ایک سفر کا مقصد کسی بری چیز سے بچنا ہے تو یہ دونوں محرکات قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں.اس لئے ہر نبی کو بَشِيرًا وَنَذِيرًا، بَشِيرًا وَنَذِيرًا فرماتا چلا جا رہا ہے، بَشِيرًا وَنَذِيرًا (البقره: 120) کہ وہ انسان کے اندر دونوں جذ بے یعنی حرص کا جذ بہ طمع کا جذبہ، کچھ حاصل کرنے کا جذبہ ان کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں نصیحت کے وقت اور خوف کا جذبہ.یہ ڈر کہ ہم کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں، عزت کے جذبے کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں.تو فرمایا یہ لوگ رحمن خدا سے محبت اور تعلق رکھتے ہوئے اس کے سامنے جھکتے ہیں مگر خوف بھی رکھتے ہیں کہ اگر ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی تو پھر قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا، ہمارا حساب کتاب ہوگا.پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ سے تعلق کو اور ان رستوں پر قدم مارنے کو مشکل سمجھتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یوم آخرت پر یقین کے بڑھنے کے ساتھ یہ مشکل آسان ہو جاتی ہے کیونکہ وہ شخص جو شیر کو دیکھ لے یا کسی اور خوفناک جانور کو دیکھ لے وہ اس سے دوڑتا ہے اور تھکا ہارا بھی ہو، یہ کہہ کر بیٹھ رہا ہو کہ اب تو مجھ سے ایک قدم نہیں اٹھایا جاتا، شیر دیکھے گا تو وہیں قدم ہلکے ہو جائیں گے اس قدر تیزی سے دوڑ پڑتا ہے بعض دفعہ که آدمی حیران رہ جاتا ہے.تو جو خفی طاقتیں ہیں انسان کی ، جود بی ہوئی ہیں جن کو عام حالتوں میں انسان استعمال میں نہیں لاتا خوف کے نتیجے میں وہ ایک دم بیدار ہو جایا کرتی ہیں.طمع کے نتیجے میں بھی ہوتی ہیں مگر خوف کے نتیجے میں ان میں Panic آجاتی ہے ہراساں ہو کر وہ دوڑتے ہیں.پس فرمایا جہنم کا خیال ان کے اعمال کو صحت بخشتا ہے، ان کے اعمال کی بہترین تشکیل کرتا ہے وہ ہر اس چیز سے بچیں گے جس سے ان کو خطرہ ہو کہ وہ جہنم میں داخل کئے جاسکتے ہیں.

Page 182

خطبات طاہر جلد 16 176 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء تو یہ جو منفی پہلو خوف کا ہے یہ بھی عِبَادُ الرَّحْمن بننے کے لئے لازم ہے کہ پیش نظر رہے اور جتنا یقین ہوگا اس حقیقت پر کہ ہماری جواب طلبی ہوگی اتنا ہی گناہ سے خوف آنے لگے گا خواہ وہ کتنے ہی خوبصورت دکھائی کیوں نہ دیں.ایسے درخت جو بہت ہی خوبصورت اور دلکش ہوتے ہیں لیکن کانٹے دار ہوتے ہیں آپ ہاتھ بڑھا کر ان کا پھول نہیں تو ڑنا چاہتے کیونکہ ادھر ہاتھ بڑھایا ادھر زخمی ہو گیا لیکن جہاں پھول بھی زہر یلے ہوں یا جانور ہو جو سانپ کی طرح زہریلا اور خواہ کیسا ہی خوبصورت رنگوں میں بنا ہوا ہو آپ اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا سکتے.تو گناہ کی حقیقت اگر اس کے عذاب کے حوالے سے معلوم کی جائے پھر انسان کے لئے اس سے بچنا آسان ہو جاتا ہے.اگر کسی گناہ کے ساتھ لطف کا تعلق ذہن میں آپ باندھے رہیں اور اس کے عذاب کا پہلو نظر انداز کر دیں تو پھر گناہ پر دلیری ہوگی.اس لئے خدا تعالیٰ نے فوری طور پر یہاں مضمون کے شروع ہی میں بیان فرما دیا کہ جو خدا کے حضور اٹھتے ہیں، گریہ وزاری کرتے ہیں، جھکتے ہیں تو اس میں صرف محبت کا پہلو نہیں رہتا کیونکہ محبت کے پہلو کے نتیجے میں بعض دفعہ انسان دلیر بھی ہو جایا کرتا ہے.کرم ہائے تو ما را کرد گستاخ اپنے محبوب کو ایک شاعر کہتا ہے کہ تیرے کرموں نے تو ہمیں گستاخ بنادیا ہے.تو اتنا مہربان ہے کہ پکڑتا ہی نہیں تو اس کے نتیجے میں گستاخی ہو جاتی ہے.بچے جن کو لمبی ڈھیل دی جائے جس سے محبت ہی کی جائے اور ان کو ناراضگی کا خوف کبھی دامن گیر ہی نہ ہو، پتا ہی نہ ہو کہ یہ کیا ہوتی ہے، بڑے بدتمیز اور آزاد ہو جاتے ہیں اور من مانی کرتے پھرتے ہیں پھر ساری زندگی ان کی بر باد رہتی ہے.تو طمع اور خوف یہ دو پہلو لازماً انسانی تربیت کے لئے دو پہیوں کی طرح ہیں ایک پیسے کو نکال دیں تو ایک پیسے پر گاڑی چل نہیں سکتی.پس قرآن کریم فرماتا ہے وہ اٹھتے ہیں محبت سے مگر اپنا مقام سمجھتے ہیں.جانتے ہیں کہ جس سے ہم محبت کر رہے ہیں اس میں پکڑنے کی بھی طاقت ہے.وہ آیت جو میں نے پہلے آپ کے سامنے رکھی تھی اس میں اِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمُ (يوسف: 90) کے ساتھ خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے: اَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (الزمر: 59) کہ اللہ تعالی گناہ بھی بخشتا ہے اس کا عذاب بھی بڑا سخت ہے، اس کی پکڑ کے تصور سے لوگوں کی جان نکلتی ہے اور وہ کہتے ہیں جب عذاب کو دیکھتے ہیں تب ان کو

Page 183

خطبات طاہر جلد 16 177 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے کیا بے احتیاطیاں برتی تھیں.پس محض غَفُورًا رَّحِيمًا سمجھ کر خدا کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتے جب تک یہ نہ سمجھیں کہ وہ شَدِيدُ الْعِقَابِ (البقرہ: 197 ) بھی ہے، وہ سخت عقوبت بھی کر سکتا ہے.پس عِبَادُ الرحمن کی دیکھیں کیسی کامل تصویر کھینچی گئی ہے، کیسی متوازن تصویر کھینچی گئی ہے.فرمایا وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا وہ تو ایسی ظالم چیز ہے تیرا عذاب ، وہاں مستقل ٹھہر نا تو در کنار ، عارضی طور پر ٹھہرنا بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے.بہت ہی برا عارضی ٹھکانہ ہے اور مستقل ٹھکا نہ تو بے حد و حساب برا ہے.اب اسی قسم کے الفاظ خدا تعالیٰ جنت کے تعلق میں عِبَادُ الرَّحْمٰنِ کے لئے بیان فرماتا ہے اور ان پر کھول دیتا ہے کہ تمہارے لئے اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو عذاب کو قبول کر لو جو مستقر بھی برا ہوگا اور مقام بھی برا ہوگا یا بالا خانوں والی جنتیں حاصل کر لو جو عارضی طور پر بھی بہت پیاری ہیں اور ہمیشہ ٹھہرنے کے لئے بھی بہت ہی پیاری ہیں.وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوْالَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے خرچوں میں بھی ایک توازن پایا جاتا ہے اور نہ وہ اسراف کرتے ہیں کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کر دیں ، نہ وہ ہاتھ اتنا روک لیتے ہیں کہ کنجوس ہو جائیں.یہ جو آیت ہے یہ ان تمام آیات کی طرح جو اس رکوع میں موجود ہیں عِبَادُ الرَّحْمٰن کے عنوان کے تابع ہیں ایک توازن پیش کر رہی ہیں اور سورۃ الرحمن میں اسی توازن کا ذکر ہے.سورۃ رحمان میں آسمان اور زمین کے تعلق میں اللہ تعالی بیان فرماتا ہے.وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ (الرحمن: 10 ) یہ تم وزن کا انصاف کے ساتھ تراز و برابر رکھو.وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ (الرحمن: 8, 10 ) کہ ہم نے آسمان کو بلند فرمایا اور متوازن کیا تا کہ تم جو بلندی کے خواہاں ہو تم تو ازن میں نا انصافی سے کام نہ لینا اس میں کمی بیشی نہ کرنا کیونکہ ہر رفعت انصاف کو چاہتی ہے انصاف ہی سے ترقیوں کی ہر راہ شروع ہوتی ہے.پس قرآن کریم کے اندر ایک حیرت انگیز تو ازن پایا جاتا ہے.ایک ہی مضمون کو جہاں بھی شروع

Page 184

خطبات طاہر جلد 16 178 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء فرمائے گا اس کی بنیادی صفات میں سے کوئی بھی نہیں بھولتی.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قطعا یہ انسان کا کلام نہیں ہے ورنہ تئیس (23) سال کے عرصے میں پھیلی ہوئی آیات ان بنیادی شرائط کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں جو ایک مضمون سے تعلق رکھتی ہیں، یہ ناممکن ہے.تو ان تمام آیات میں اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو ایک توازن دکھائی دے گا اور عِبَادُ الرَّحْمنِ بننے کے لئے وہ تو ازن شرط ہے اور قیام عدل کے بغیر عِبَادُ الرَّحْمٰنِ بن سکتے ہی نہیں.رحم عدل کے بغیر ممکن نہیں ہے.عدل ہوگا تو رحم شروع ہوگا.عدل ہے نہیں تو رحم کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.تو رحمن سے تعلق جوڑنے کی باتیں کرو، اتنے بلند ارادے رکھو اور دنیا میں بے انصافی سے کام کرتے پھرو یہ ہو ہی نہیں سکتا.تو یہ دوسرا بڑا عظیم پیغام ہے اور خرچ میں بھی ایک انصاف ہے.جو شخص خرچ میں بہت زیادہ دکھاوے کے طور پر یا طاقت سے بڑھ کر خرچ نہیں کرتا اور جہاں خرچ کرنا چاہئے وہاں ہاتھ روکتا نہیں اس کی بہترین زندگی گزرتی ہے اور ایسے شخص غریب بھی ہوں تب بھی وہ اچھے رہتے ہیں اور ان صفات سے عاری امیر بھی ہوتو وہ ضرور برباد ہو جایا کرتا ہے.پس محض روپے کی کمی یا زیادتی آپ کو سکون نہیں بخش سکتی.قرآن کریم کی اس آیت میں جو مضمون بیان فرمایا گیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اپنے خرچ میں توازن رکھا کرو.خدا نے جتنا دیا ہے اسی حد تک ، اسی نسبت سے خرچ بھی کرو اور اسی نسبت سے ہاتھ بھی روکو.جہاں خدا نے رکنے کے لئے کہا ہے رک جاؤ.جہاں خرچ کرنے کے لئے فرمایا ہے خرچ کرو مگر توازن کے ساتھ.تو جو اپنی طاقت کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرتا ہے وہ ہر قسم کے نقصانات اور دکھوں اور مصیبتوں سے بچتا ہے.وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ اور یہ بھی انصاف کے تقاضوں میں سب سے اہم تقاضا ہے کہ اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا جائے.قرآن کریم شریک ٹھہرانے کو ظلم کہتا ہے جو عدل کے منافی ، برعکس مضمون ہے.پس جہاں بھی قرآن کریم میں شرک کی برائیاں بیان ہوئی ہیں آپ دیکھ لیں اٹھا کر ، کھول کر دیکھ لیجئے وہاں آپ کو نا انصافی کا ، عدل کے فقدان کا یا ظلم کا مضمون دکھائی دے گا.جو خدا کا ہے خدا کو دو یہ انصاف ہے.فرضی بتوں کو وہ دے دو جو خدا کا ہے یہ تو بہت بڑی جہالت ہے اور ظلم ، نا انصافی ہی کے معنوں میں نہیں بلکہ اندھیروں کے معنوں میں بھی حد سے زیادہ ایک قبیح صورت اختیار کر جاتا ہے.پس ظلم دونوں معنے رکھتا ہے ایک ہے اندھیرا، تاریکی ، جہالت اور

Page 185

خطبات طاہر جلد 16 179 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء ایک ہے نا انصافی کسی کا حق لیا کسی اور کو دے دیا یا اپنا لیا اور یہ لفظ شرک کے تعلق میں سب سے زیادہ قوت کے ساتھ اطلاق پاتا ہے سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اطلاق پاتا ہے کیونکہ شرک میں یہ دونوں باتیں بڑی نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں، جہالت حد سے زیادہ اور ظلم بھی حد سے زیادہ یعنی نا انصافی بھی حد سے زیادہ.تو فرمایا وَ الَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ اور آگے دیکھیں پھر انصاف کا مضمون وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ یعنی جو کسی کے اموال پر ہاتھ نہیں ڈالتا، جو کسی کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ ناحق جان کیسے لے سکتا ہے.کہتا ہے یہ عِبَادُ الرَّحْمٰن وہ ہیں جو کبھی بھی ناحق کسی کی جان نہیں لیتے إِلَّا بِالْحَقِّ سوائے حق کے جو خدا بخشتا ہے کیونکہ مالک وہی ہے.جب حق ان کو کہے تو پھر حق کے تقاضے پورا کرنا ان کا فرض ہے کیونکہ حق کو چھوڑنا بھی تو گناہ ہے.تو جہاں حق یہ کہے کہ یہاں جان لینا لازم ہے یا حق یہ کہے کہ اجازت ہے دونوں صورتوں میں جہاں مجاز بنائے گئے ہو چاہو تو جان لو، چاہو تو نہ لو دونوں صورتیں برابر ہو جائیں گی.جہاں حق ہو کہ تم نے لازماً جان لینی ہے یہاں، وہاں تمہارا فرض ہے کہ جان لو.اب جب مسلمان مجاہدین الله غیر مسلم طاقتوں سے نبرد آزما ہوتے رہے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جہاد کے دوران ، جو جہاد بالسیف تھا یعنی اس جہاد کے دوران یہ اجازت ہی نہیں تھی کہ جس کی جان لے سکو اس لڑائی کے دوران اس کی جان نہ لو.چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ روایت ہے بڑے نرم دل تھے بات بات پر رونا آجاتا تھا، بے حد شفیق لیکن جہاد کے دوران ان کا بیٹا جو اس وقت تک ابھی مومن نہیں ہوا تھا ایمان نہیں لایا تھا وہ ان کے مقابل پر لڑ رہا تھا.ایک موقع پر ان کے بیٹے کو یہ موقع ملا کہ حضرت ابو بکر صدیق کو قتل کر سکتا لیکن اس نے نہیں کیا اور بعد میں اپنی طرف سے احسان کے طور پر یہ بتانے کے لئے کہ دیکھیں کیسا فرمانبردار بیٹا ہوں یہ کہا اپنے ابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ کو یاد ہے وہ جنگ جس میں آپ بھی شریک تھے لیکن مسلمانوں کی طرف سے اور میں مشرکوں کی طرف سے شامل تھا.ایک ایسا موقع تھا کہ میں چاہتا تو آپ کو قتل کر سکتا تھا مگر میں نے نہیں کیا.حضرت ابو بکڑ نے جواب دیا خدا کی قسم اگر میں وہاں ہوتا اور تم میرے مقام پر ہوتے تو میں تمہیں ضرور قتل کر دیتا.ناممکن تھا کہ میں تمہیں چھوڑ دیتا.یہ ہے قتل بالحق.بعض قتل میں حق کا تقاضا ہے وہ

Page 186

خطبات طاہر جلد 16 180 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء اجازت ہی نہیں دیتا کہ تم مقتل سے باز آ جاؤ.خدا نے حکم دیا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کرنا ہے تو لاز ماقتل کرنا پڑے گا ، اپنے دل کی بات نہیں دیکھنی ہوگی ، یہ عِبَادُ الرَّحْمٰن ہیں.وَلَا يَزْنُونَ اور وہ موت کے تعلق میں بھی اسی طرح انصاف سے کام لیتے ہیں جیسے زندگی کی پیدائش کے تعلق میں.اب عام طور پر لوگ سمجھتے نہیں کہ یہاں يَزْنُونَ کا کیا مطلب ہو گیا اچانک قتل کی باتیں ہو رہی ہیں اور زنا نہیں کرتے قتل سے جان لی جاتی ہے اور قتل ناحق وہ ہے جہاں آپ کو اجازت نہیں اور آپ نے جان لے لی اور زنا کے ذریعے زندگی پیدا کی جاتی ہے اور وہ زندگی پیدا کی جاتی ہے جس کے پیدا کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے تو آپ محی بھی بن جاتے ہیں ممیت بھی ہو جاتے ہیں.جس طرح اللہ کی صفات ہیں کہ وہ زندہ کرتا ہے اور وہ مارتا ہے آپ دونوں صفات پر قابض ہو بیٹھتے ہیں اور اس کا بھی شرک سے تعلق ہے.وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ الها اخر جو خدا کی چیزیں ہیں وہ خدا کو دیتے ہیں اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتے.پس موت کا اختیار خدا کو ہے کوئی اور نہیں ہے جو کسی کی موت کا فیصلہ کر سکے.پیدا کرنے کا اختیار خدا کے ہاتھ میں ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر پیدا کرے.اور یہ خدا کے وہ بندے ہیں جو قتل بھی حق کے ساتھ کرتے ہیں اور پیدا بھی حق ہی کے ساتھ کرتے ہیں.تو یہ مضمون ہے زنا نہیں کرتے ، جس کے نتیجے میں لازماً پھر ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں.فرمایا وَ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ يَلْقَ اناما اور جو یہ باتیں کرے جو اوپر بیان کی گئی ہیں تو بہت بڑا گناہ کمانے والا ہے اور اس کا نتیجہ دیکھ لے گا.يَلْقَ أَثَامًا کا مطلب یہ ہے اس نے بہت بڑا گناہ کمایا اور اس گناہ کا بد نتیجہ وہ دیکھ لے گا اس کے لئے عذاب آئے گا اس کے پیچھے، عذاب اسی کو دیا جائے گا اور تُضْعَفْ لَهُ الْعَذَابُ.عذاب میں بڑھا دیا جائے گا کیونکہ عام گناہوں کے مقابل پر یہ جو گناہ ، شرک کا گناہ اور زندگی اور موت کے معاملے میں خدا کی ملکیت میں دخل اندازی یہ تمام تینوں چیزیں مل کر اتنا بڑا گناہ بن جاتی ہیں کہ فرمایا يَلْقَ أَثَامًا بہت بڑے گناہ کو پہنچے گا اور اس کے عذاب کو دیکھے گا اور ایسے شخص کا عذاب بڑھایا جائے گا اور اس میں وہ چھوڑ دیا جائے گا ذلیل اور خوار ہو کر.یعنی اس کو پھر پوچھا بھی نہیں جائے گا کہ تم کس حالت میں ہو.يُضْعَفُ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهِ مُهَانًا وہ اس میں لمبے عرصے

Page 187

خطبات طاہر جلد 16 181 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء تک ذلیل و خوار پڑا رہ جائے گا إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا سوائے اس کے جو تو بہ کرے اور ایمان لائے اور وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا اور نیک اعمال بجالائے فَأُوتيك يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.سوائے اس کے کہ کوئی شخص تو بہ کرے اور ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے فاو لیکكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ تو یہ وہی لوگ ہیں جن کی بدیوں کو حسنات میں اللہ تعالیٰ تبدیل فرمادے گا.وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.وہ لوگ جن کو یہ وعدہ دیا گیا کہ ان کا عذاب بڑھایا جائے گا اور بہت شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے ان کے متعلق فرمایا إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَيكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ یہ جو مضمون ہے اب عِبَادُ الرَّحْمٰن سے تعلق نہیں رکھتا.یہاں وَلَا يَزْنُونَ والا جو حصہ ہے جو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں زندگی اور موت پہ قابض بن بیٹھتے ہیں اب کچھ ان کے متعلق باتیں شروع ہوگئی ہیں.فرمایا اگر تم ان میں سے ہو تو عبادالرحمن سے تو تمہارا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں رہا پھر یا درکھنا تم سے یہ سلوک کیا جائے گا اور وہ سلوک یہ ہے کہ عذاب بڑھایا جائے گا اور بہت ہی بری حالت میں تم رہو گے وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا اس میں ذلیل حالتوں میں مدتوں اسی طرح پڑے رہو گے.لیکن اس سے بچنے کا ایک طریق ہے جو تمہارا رستہ موڑ دے گا اور پھر تم عِبَادُ الرَّحْمٰنِ کی طرف واپس رخ کر سکتے ہو تو یہ ایک Deviation ہے رستے کی جس سے متنبہ فرما دیا گیا.اللہ کے رستے پر چلتے ہوئے یہ حرکتیں نہ کر بیٹھنا ورنہ تمہارا انجام بہت برا ہوگا.واپس خدا کی طرف جانا ہے اگر اس طرف سے جہاں تم جاپہنچے ہو غلطی سے، تو یہ شرط ہے کہ تو بہ پھر کرنی ہوگی اور نیک اعمال، ایمان دوبارہ لانا ہوگا.تو بہ کے بعد ایمان یا ایمان کے بعد تو بہ یہ مضمون ہے جو یہاں کھلنا چاہئے.ایک ایمان سرسری ہوا کرتا ہے جس سے ساری بات شروع ہوئی ہے اور ایک ایمان ہے جو حقیقی ہوتا ہے.تو جو تو بہ کر کے ایمان لاتا ہے مراد یہ ہے کہ تو بہ کر کے اپنے ایمان کی سچائی کو ثابت کرتا ہے ورنہ اگر حقیقی ایمان نہ ہو خدا تعالیٰ کے صاحب اختیار ہونے پر اور جہنم کے حق ہونے پر تو ایسا ایمان اس کو تو بہ کرنے دے گا ہی نہیں.

Page 188

خطبات طاہر جلد 16 182 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء پس فرمایا تمہارے ایمان کی اصلاح ضروری ہے جو بچی تو بہ سے ہوگی.بچی تو بہ کرو اور پھر جو تمہارا ایمان نصیب ہوگا وہ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا تک تمہیں پہنچا دے گا کہ ایسا شخص پھر لازم ہے کہ نیک اعمال بجالائے گا.یہ وہ لوگ ہیں فاوليك يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ حسنات میں تبدیل کرنا شروع کر دے گا.اب دیکھ لیں وہی بات جو میں آپ سے عرض کر چکا ہوں پہلے بھی کہ اپنی برائیوں کو خود تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، بہت ہی مشکل کام ہے لیکن فیصلہ کرنا اور یہ ارادہ کر لینا کہ ہم نے آج اپنی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کرنی ہے یہ آغاز ہر انسان کے دل سے ہونا چاہیئے اس کے بغیر خدا تعالیٰ کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرے گا.فرمایا ایک فیصلہ کرو اور اس کی سچائی کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کرو.تو پہلے ہے وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا اس سے مراد یہ ہے نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرے گا کیونکہ بعد کی آیت یہی مضمون کھول رہی ہے.پس ہر وہ شخص جو ایسی تو بہ کرے گا کہ اس کے بعد نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتا ہے فَإِنَّهُ يَتُوبُ اِلَى اللهِ مَتَابًا.تو وہ ہلکی پھلکی تو بہ نہیں کیا کرتا.وہ تو اپنے رب کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھپٹ پڑتا ہے.اس تیزی سے الٹ پڑتا ہے اس طرف کہ جیسے آنا فانا کوئی واقعہ ہو گیا ہو.تو جو خدا تعالیٰ کی عظمت کو پہچان لے اور عذاب کی حقیقت کو جان لے وہ پھر ٹالا نہیں کرتا تو بہ کو کہ اچھا آج میں اتنا سا کرلوں گا، کل میں اتنا کروں گا.یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی حفاظت کی گود میں آجاتے ہیں فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا وہ تو اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے الٹ پڑتے ہیں.پھر فرمایا وَ الَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُ وا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا - جو مَتَابًا کا مضمون ہے یعنی بے محابا تو بہ.ایک دم گویا ایک زلزلہ سابر پا ہو گیا ہوا یسی تو بہ، اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض باتیں لازم ہوں گی اور بعض علامتیں ظاہر ہوں گی.اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ میں نے وہ توبہ کرلی ہے جس کا دوسرا نام توبة النصوح بھی ہے تو اس توبۃ النصوح کے بعد پھر یہ علامتیں ظاہر ہونی چاہئیں.وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا لَه وہ جھوٹ کا منہ تک نہیں دیکھتے.وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الرُّوْر کا ایک ترجمہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے.میرے نزدیک یہاں موقع جھوٹی گواہی کا نہیں بلکہ وہی معنی ہے جیسے

Page 189

خطبات طاہر جلد 16 183 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء رمضان کو دیکھنے کے لئے بھی شہادت کا لفظ استعمال ہوا ہے.کسی کو دیکھنا بھی شہادت ہوتی ہے تو فرمایا کہ وہ جھوٹ کا منہ تک نہیں دیکھتے.اس تسلی کی خاطر کہ اہل علم میں سے کوئی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ نہیں.میں نے (مفردات) امام راغب کو کھولا تو ان کی کتاب میں اسی آیت کے تابع یہی معنے پیش کئے گئے ہیں.وہ کہتے ہیں ایسی تو بہ کرنے والے جھوٹ کی طرف کسی پہلو سے اس کے پاس بھی نہیں جاتے ، پھٹکتے نہیں اس کے پاس.تو یہ معنی وہی ہے کہ اس کا منہ تک نہیں دیکھتے بالکل اس سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں.وَإِذَا مَرُ وا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.اب دیکھیں آیات کا مضمون اسی طرف سے شروع ہوا تھا کہ وہ جب خَاطَبَهُمُ الْجُهَلُونَ قَالُوْا سَلَمَّا ان کے ساتھ مل جل کے بیٹھا نہیں کرتے جاہلوں کے ساتھ ، ان کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں.تو دوبارہ واپس پھر عِبَادُ الرَّحْمنِ میں اس تو بہ نے اس مضمون کو داخل کر دیا یعنی عِبَادُ الرَّحْمٰن کا مضمون شروع ہوا بیچ میں ان کا ذکر جو رستوں کی ٹھوکریں کھا کر بھٹک گئے تھے انہوں نے بچنا ہے تو کس طرح بچیں گے دوبارہ اللہ کے راستے پر پڑنا ہے تو کیسے پڑیں گے، یہ مضمون شروع کرتے ہی وہ صفات دہرانی شروع کر دیں.وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ کا ایک معنی ہے شرک کے قریب تک نہیں جاتے کیونکہ قرآن کریم نے شرک کو زور فرمایا ہے.تو پہلے جو شرک سے بچنے کا مضمون ہے وہ اس کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے.پس وہ جھوٹ کے قریب تک نہیں جاتے ، شرک کے پاس نہیں پھٹکتے.جب یہ باتیں ہوں تو پھر لغو باتوں میں ان کو دلچسپی نہیں رہتی.بے ہودہ لغو باتوں میں جو انسانی دلچسپی ہے اس سے ان کا دل پھر جاتا ہے ان کا مزہ نہیں رہتا ان باتوں میں اور اس کے نتیجے میں ایک چیز یہ پیدا ہوتی ہے وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُ وا بِايْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صَمَّا وَ عُمْيَانًا يوه یہ لوگ ہیں جن کے سامنے جب خدا تعالیٰ کی باتیں کی جائیں، خدا تعالیٰ مراد ہے، لفظ استعمال ہوا ہے ربهم یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے جب ان کے رب کے نشان پیش کئے جاتے ہیں لَم يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّاقَ عُميانا وہ اس کے اوپر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں پڑتے.اس سے بہروں اور اندھوں والا سلوک نہیں کیا کرتے بلکہ بڑی توجہ کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں.اس کے بعد فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا ذُرِّيَّتِنَا

Page 190

خطبات طاہر جلد 16 184 خطبہ جمعہ 7 / مارچ 1997ء قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا.اب یہاں وقت تھوڑارہ گیا ہے باقی حصہ انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا، ایک اہم بات اس آیت کے تعلق میں بیان کرنے والی یہ ہے کہ آپ لغو سے منہ موڑیں گے تو خدا تعالیٰ کی باتوں میں دلچسپی ہوگی.خدا تعالیٰ کی باتوں میں دلچسپی ہوگی تو لغو سے خود بخود دمنہ مڑنے لگیں گے اور یہ روز مرہ پہچان ہے کہ ہم عِبَادُ الرَّحْمٰن بننے کے قریب ہو رہے ہیں یا دور ہٹ رہے ہیں.اس بات کو اچھی طرح پہلے باندھ لیں.بعض لوگ ہیں جو نیکی کی باتیں ہو رہی ہوں ، درس ہو رہا ہو، خطبہ ہورہا ہو، ایسی باتیں ہوں تو ان کی آنکھوں سے کچھ روشنی بجھ سہی جاتی ہے.وہ بیٹھتے تو ہیں اگر بیٹھیں مگر ہر بات کو غور سے سن نہیں رہے ہوتے طبعا دلچسپی نہیں ہوتی.مگر ان کی مرضی کا ٹیلی ویژن کا پروگرام ہو تو پھر دیکھیں اچانک اندر سے ایک روشنی نکلتی ہے اور آنکھیں چپک جاتی ہیں ٹیلی ویژن کے ساتھ اور اگر کوئی بچہ شور ڈالے تو ( کہتے ہیں) ایں، ہیں ہیں، خبردار، چپ چپ ! وہ دیکھو وہ کیا کر رہا ہے، مزہ خراب کر دیا.تو عِباد الرحمن اور جو دوسرے بندے ہیں کسی کے ان میں بڑا فرق ہے اور یہ علامتوں سے پہچانا جاتا ہے اور ہر انسان روز مرہ اپنی علامتوں کو دیکھتا ہے، جانتا ہے اور ان آیات کے ذریعے علامات جو اس کے اندر سے ظاہر ہو رہی ہیں وہ شناخت کر سکتا ہے اپنے آپ کو.پس خدا تعالیٰ نے جو مشکل رستے دکھائے ہیں، بلند منزلیں قائم فرمائی ہیں ان کے ہر قدم پر راہنمائی فرمائی ہے.ہر قدم پر جانچ، پہچان کے سائن بورڈ لگا دیئے ہیں تا کہ آپ کو بعد میں جا کر نہ پتا چلے کہ اوہو یہ کیا ہو گیا، میں کہاں جا نکلا.ہر وقت، ہر لمحہ، ہر قدم آپ کو پتا ہو کہ میں کس سمت میں قدم اٹھا رہا تھا، کس سے دور جا رہا ہوں اور کس سے قریب جا رہا ہوں.تو عِبَادُ الرَّحمن بننا مشکل تو ہے مگر خدا تعالیٰ نے اتنا تفصیل سے یہ مضمون بیان فرما دیا ہے کہ ان میں سے ایک ایک آیت جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے آیت کے حوالے سے وہ اپنی ذات میں بہت بڑا مضمون رکھتی ہے.اگر اس کے اوپر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تو ایک لمبا سلسلہ چاہئے ان باتوں کے بیان کا.تو سر دست میں چونکہ وقت ختم ہو گیا یہیں اسی پر اکتفا کرتا ہوں انشاء اللہ آئندہ عِباد الرحمن والے مضمون کو ہی ہم پھر بیان کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 191

خطبات طاہر جلد 16 185 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء ایسی نسلیں پیچھے چھوڑ کر جائیں جو متقی ہوں اور متقیوں کا امام بنے کا ہی مزہ ہے.ورنہ تو امامت کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.(خطبہ جمعہ بیان فرموده 14 / مارچ 1997ء بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی.وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّ وَاكِرَامًا وَالَّذِيْنَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَاقْرَةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا أو لَيكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَسَلَمَان خَلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا قُل مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (الفرقان : 73 تا 78) پھر فرمایا: گزشتہ خطبے میں انہی آیات کی تلاوت کی تھی جن میں سے بعض میں نے اب پڑھی ہیں اور کچھ پہلے اس سے آیات کی تلاوت کی تھی جن کے متعلق میں جو کہنا چاہتا تھا گزشتہ خطبے میں کہہ چکا ہوں اب ابتداء کی جو دو آیات ہیں یہ پہلے بھی پڑھی تھیں اور ان کا ترجمہ بھی غالباً آپ کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے اور یہیں سے میں اس مضمون کو اٹھا رہا ہوں اگر چہ اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے مگر آئندہ جو

Page 192

خطبات طاہر جلد 16 186 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء بات بیان ہونی ہے اس کا پہلے سے تعلق جوڑنے کے لئے کچھ آخری دو آیات کے ساتھ دوبارہ مضمون کو باندھنا ہوگا.وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزَّوْرَ وہ لوگ جو رحمن خدا کے بندے ہیں ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ جھوٹ کا منہ تک نہیں دیکھتے.وَاِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا اور لغو چیزوں سے ان کا اجتناب در اصل اسی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ لغو جھوٹ ہوتا ہے.پس تمام لہو ولعب، جتنی بھی لغو باتیں ہیں بنیادی طور پر چونکہ وہ جھوٹ ہیں اس لئے جھوٹ سے اجتناب کے نتیجے میں لغو سے ان کی دلچسپی از خود کم ہونے لگتی ہے جب کہ دوسروں کی زندگی کا مقصد لغو چیزیں ہیں وہ سرسری نظر سے ان کو دیکھتے ہیں اور کوئی دلچسپی نہیں لیتے.وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا اب یہ جو بیان ہے بہت ہی عظیم بیان ہے کہ جب وہ دلچسپی نہیں لیتے تو حقارت کی نظر سے بھی نہیں دیکھتے ، ان لوگوں پر اپنی کوئی برتری بھی نہیں ثابت کرتے ، عزت اور بے نیازی کے ساتھ گزرجاتے ہیں یعنی کئی لوگ بعض دفعہ بیٹھے تاش کھیل رہے ہیں، کوئی فضول باتیں اور کر رہے ہیں کہیں جو اچل رہا ہے، مومن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر جگہ کھڑا ہو اور ان سے جھگڑا شروع کر دے اور کہے دیکھو میں تو نہیں کرتا تم ایسا کرتے ہو.ان کے جو گزرنے کی طرز ہے وہی پیغام دے دیتی ہے.ان کے اندر عزت اور احترام کا ایک مقام ہے جس کو وہ اپنی چال سے ظاہر کرتے ہیں ، سرسری نظر ڈالتے ہوئے اس طرح گزرتے ہیں جیسے ان کا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹ سے نفرت کے نتیجے میں از خود اس قسم کی صفات ظاہر کرنے لگتے ہیں ان دونوں چیزوں کا بہت گہرا تعلق ہے.جتنا جھوٹ سے تعلق ہوگا اتنا لغو سے تعلق ہوگا.جتنا جھوٹ سے بے نیازی ہوگی اتنا لغو سے بے نیازی ہوتی چلی جائے گی اور جب ایک چیز سے بے نیازی ہو تو انسانی فطرت مرتو نہیں جایا کرتی اس کی ضرورت تو اپنی جگہ باقی رہتی ہے.انسانی فطرت اس خلاء کو بھرنا چاہتی ہے جو ہر انسان کے دل میں ہے کہ میں کچھ حاصل کروں، تسکین قلب کا سامان ہو.وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ ان کی توجہ لغو سے بہتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی آیات کی طرف ہوتی ہے محض خالی نہیں ہو جاتے بلکہ بہتر چیز اس کی جگہ لے لیتی ہے.اس لئے جب آیات ان پر پڑھی جائیں تو ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ، وہ

Page 193

خطبات طاہر جلد 16 187 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء اندھوں اور بہروں کی طرح آیات سے سلوک نہیں کرتے.پس ایک طرف وہ ہیں جن کے دل جھوٹ سے باندھے گئے ہیں جب آیات ان پر پڑھی جاتی ہیں ان کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں ان کے کان بہرے ہو جاتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اپنی آنکھیں اور اپنے کانوں کو لغویات سے پھیر لیتے ہیں ان میں دلچسپی کوئی نہیں رہتی.مگر کچھ تو سننا ہے کچھ تو دلچسپی کے سامان کرنے ہیں جہاں ذکر الہی چلے وہاں ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ان کے کانوں میں توجہ پیدا ہوتی ہے.کہتے ہیں اچھا! کیا کہا تھا آپ نے ہمیں بھی سنائیں یہ بات تو دلچسپیاں رخ بدلتی ہیں ، دلچسپیاں مٹ نہیں جایا کرتیں اور پھر یہ اتنی بڑھ جاتی ہیں نیکیوں میں دلچسپیاں لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلهَا أَخَرَ (الفرقان: (69) جیسا پہلے ذکر کیا گیا ہے اسی مضمون کو خدا آگے بڑھا دیتا ہے کہ وہ کلیۂ خدا کے ہو جاتے ہیں ہر خواہش اس سے طلب کرتے ہیں ، ہر لذت اسی سے چاہتے ہیں یہاں تک کہ اپنے دنیاوی تعلقات کی لذتیں جو عام لوگوں کو براہ راست ملتی ہیں وہ خدا کے حوالے سے لیتے ہیں، یہ عبادت کا ایک عظیم مقام ہے.تو کہتے ہیں وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں میں یا اپنے خاوندوں میں اور اپنی اولاد میں وہ لذتیں عطا کر کہ ہم ان کے غیر سے بے نیاز ہو جائیں.آنحضرت مہ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں اس وجہ سے لقمہ ڈالتے ہو کہ اللہ کو پسند ہے تو لقمہ ڈالنے کا مزہ تو ویسے بھی آنا تھا مگر اب دوہرا مزہ آئے گا.ایک محبوب نہیں دو محبوب جیت لو گے اور جو محبوب حقیقی ہے وہ بھی ساتھ جیتا جائے اور روزمرہ کی زندگی کی ایک طبعی خواہش بھی پوری ہو جائے اس سے بہتر اور کیا سودا ہوسکتا ہے.تو ایک مضمون اس میں یہ ہے کہ اپنی ازواج سے اور اپنی اولاد سے وہ طبعی لذتیں جو حاصل کرتے ہیں وہ اللہ کے حوالے سے حاصل کرتے ہیں اور اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور دعا کرتے ہیں.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا اے اللہ! ہمیں متقیوں کا امام بنا.اب یہ آیت آج کل کے زمانے میں بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ عائلی مسائل کی خرابیاں اور بہت سی باتوں میں اپنی اولاد کی تربیت سے بے اعتنائی اس آیت کے مضمون سے غفلت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.پس اس دعا سے پہلے جو تیاری ہے وہ ضروری ہے

Page 194

خطبات طاہر جلد 16 188 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء اگر بغیر اس تیاری کے اس دعا میں داخل ہوں گے تو یہ دعا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھے گی.پہلے جھوٹ سے نفرت، غیر اللہ سے نظریں پھیرنا اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی طرف مائل کرنا، یہ جب چیزیں پیدا ہوں تو پھر دل سے یہ دعا نکلے گی تو اور زیادہ گہرے معنے لے کر اٹھے گی.هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ ہمیں اپنی بیویوں یا اپنے خاوندوں اور اپنی اولا د سے وہ آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر جس کے نتیجے میں نیک اولادیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ دو مضمون ایک دوسرے سے اس طرح باندھے جاتے ہیں کہ آنکھوں کی ٹھنڈک کی تفصیل بیان فرما دی.ہمیں اپنی بیویوں سے یا اپنے خاوندوں سے یا اولاد سے مل کر بیٹھنے میں جو خوشیاں محسوس ہوتی ہیں وہ نہ ہوں جب تک یہ یقین نہ ہو کہ اولاد نیک ہوگی جب تک یہ نہ یقین ہو جائے کہ یہ تقی پیدا ہورہے ہوں اس وقت تک ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنے، تعلقات میں کوئی مزہ ہی نہ آئے یہ وہ دعا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ مانگی ہے اور اسی طریق پہ مانگی ہے.ے یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا ( در متین اردو : 48) یہ بارہا میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں لیکن اتنی اہم بات ہے کہ جتنی دفعہ بھی بیان کی جائے یہ پرانی نہیں ہو سکتی یہ تمنا، مرتے وقت کی آخری تمنا ہو کہ میں اپنی اولا د کا تقویٰ دیکھ جاؤں بہت عظیم بات ہے اور یہی دعا ہے جو یہ بیان فرمارہی ہے کہ وہ اللہ کے حضور یہ مانگتے ہیں کہ ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک دے.مگر آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد یہ نہیں کہ ملنے جلنے کی دلچسپیوں تک ہی وہ ٹھنڈک رہے، وہ تو ہر کا فر کو بھی ملتی ہے بلکہ کا فر زیادہ اس کی جستجو کرتا ہے لیکن اس کی تفصیل بیان فرما دی.واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ایسی نسلیں پیچھے چھوڑ کے جائیں جو متقی ہوں اور متقیوں کا امام بننے کا ہی مزہ ہے ورنہ تو امامت کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.اگر متبع گندے ہوں تو اس امامت کا کیا فائدہ.خواہ کروڑوں اربوں بھی ہوں تو جو گندوں کا امام ہے وہ گندوں ہی کا امام رہے گا بلکہ زیادہ گندے ہوں گے تو اور بھی زیادہ بے ہودہ امام بنے گا.اس لئے لازم ہے کہ متبعین متقی ہوں اور اولادیں متقی ہوں اور جتنی زیادہ متقی ہوں گی اتنا امامت کا مرتبہ بڑھتا چلا جاتا ہے.

Page 195

خطبات طاہر جلد 16 189 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء پس آنحضرت میوہ کے حوالے سے جب آپ یہ دعا کرتے ہیں تو ایک نئی ذمہ داری پیدا ہو جاتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی میں کہ ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے اور آپ کی یہ دعا ہمارے حوالے سے قبول ہوئی ہے کہ نہیں، یہ سوال اٹھتا ہے.کیا ہم پر بھی آنحضور ﷺ ی تسکین کی نظر ڈال سکتے ہیں کہ میری دعا ان لوگوں کے حق میں بھی قبول ہوگئی جو میرے چودہ سو سال بعد پیدا ہوئے اور عجیب سلسلہ ہے مقبولیت کا جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا اور خدا تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں سے بھی متقی عطا کر رہا ہے یعنی روحانی ذریت متقیوں کے بعد متقی پیدا کرتی چلی جاتی ہے تو اس پہلو سے جوذ مہ داریاں ہیں وہ بڑھ بھی جاتی ہیں ان میں ایک خاص لذت بھی پیدا ہو جاتی ہے یعنی ادا ئیگی فرض ، فرض سمجھ کے بھی ہوتی ہے لیکن ادائیگی فرض میں اگر پیار کا تعلق قائم ہو جائے ، انسان کو ذاتی دلچسپی اس کام میں ہو تو پھر وہ فرض محض ایک فرض کی ادائیگی نہیں بلکہ ایک دلی تمنا کا پورا ہونا بن جاتا ہے، اپنی خواہش کو پورا کرنے میں جو مزہ ہے وہ فرض کی ادائیگی میں پیدا ہو جاتا ہے.پس دعاؤں کے مضمون کو جتنا آپ گہری نظر سے دیکھیں ، پھیلائیں اتنا ہی دعاؤں میں لذت بڑھتی ہے اور اگر دعا میں لذت بڑھ جائے تو دعا مقبول بھی ہوتی ہے.یہ ایک قطعی غیر مبدل حقیقت ہے کہ دعا میں جب تک کوئی لذت نہ ہو اس وقت تک دعا مقبول ہو نہیں سکتی اور لذتیں دو قسم کی ہیں ایک خوشی کی لذت ہے ایک غم کی لذت ہے.پس اس پہلو سے یہ خوشی کی لذت ہے جو پیدا کر رہی ہے بہت ہی مزے کا مضمون ہے.اچھے خاوند، اچھی بیویاں ،ایک دوسرے سے پیار کرنے والی اللہ ان کے ساتھ تعلقات میں پاکیزگی بھی پیدا کرے، وفا بھی پیدا کرے، ان سے دل ٹھنڈے ہوں لیکن دل ٹھنڈے ہونے کا آخری نقطہ معراج یہ ہو کہ انسان اس یقین کے ساتھ جان دے کہ میرے پیچھے نیک اولاد میں رہ گئی ہیں اور پھر نئی لذت اس میں اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم نیکوں کی اولاد تھے، نیکوں کی اولا دبنے کے مستحق بھی ٹھہرے کہ نہیں.کس باپ کے بیٹے ، کس دادا کے پوتے اور پھر جب مضمون آگے بڑھتا ہے تو آنحضرت یہ کی آنکھیں بھی ٹھنڈی ہو سکتی ہیں کہ نہیں.تو اولاد کی تربیت آپ کرتے ہیں ، آپ کے آباؤ اجداد آپ کی تربیت کرتے ہیں خواہ وہ موجود ہوں یا نہ ہوں.پس اس دعا کا تعلق مستقبل سے بھی ہے، ماضی سے بھی ہے اور جتنا گہری سوچ کے ساتھ آپ یہ دعا صل الله کریں گے اتنا ہی زیادہ یہ فائدہ بخش بھی ہوگی اور لذتیں بھی عطا کرے گی.

Page 196

خطبات طاہر جلد 16 190 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء دوسرا اس سے پہلے گزرا تھا ، لغو سے وہ پر ہیز کرتے ہیں، اس سے پہلے یہ ذکر گزرا ہے کہ وہ بد کاری نہیں کرتے اور اپنا دامن پاک رکھتے ہیں اس کی حفاظت کے لئے بھی یہ دعا ہے کیونکہ اگر ایک انسان کی توجہ گھر کی طرف ہو اور بیوی کو خاوند سے تسکین قلب ملے ، خاوند کو بیوی سے تسکین قلب ملے اور اولا دا یک نعمت کے طور پر اس کے ارد گر در ہے تو ایسے گھر میں بدکاری نہیں پیدا ہوتی.آج کل کے زمانے کا علاج اس دعا میں ہے جہاں بھی بد کاری بڑھتی ہے وہاں اس دعا کے منفی اثرات دکھائی دیں تو بڑھتی ہے یعنی اس دعا میں جو خوبیاں بیان فرمائی گئی ہیں ان کا جو بر عکس ہے وہ اگر پایا جائے تو لازماً وہاں فحاشی ، بدکاری، لغویات پھیل جائیں گی.پس آج کل کے زمانے میں جو گھر ٹوٹ رہے ہیں آج کل کے زمانے میں جو لذتوں کے مرکز گھروں سے نکل کر باہر جاچکے ہیں اس کی وجہ اسی دعا کے مضمون کا فقدان ہے.یہ تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ جو عور تیں اپنے خاوندوں کی وفادار رہتی ہیں ، جو خاوند اپنی بیو یوں کے وفادار رہتے ہیں، جن بچوں کے ساتھ ان کا تعلق پیار اور محبت کا ایسا رہتا ہے کہ گھر ہی ان کی لذتوں کا مرکز بن جائے یہ ساری قوم کے اخلاق کی حفاظت کا مرکزی نقطہ ہے.جہاں گھروں میں یہ تعلقات کم ہو جائیں یا مٹ جائیں وہاں تمام لذتیں گھروں سے باہر نکل جاتی ہیں کیونکہ لذتوں کے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا.یہ جھوٹ ہے کہ ایسا متقی ہو کہ بالکل نفس مار کے بیٹھ جائے.ایسا متقی خشک مولوی بن جائے گا لیکن متقی نہیں بن سکے گا.تقویٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ یا طمع رکھی ہے یا خوف رکھا ہے.سارا قرآن پڑھ لیں اس کے بغیر تقویٰ کا ذکر نہیں ملے گا آپ کو.خوف میں بھی ایک ہیجان ہے اور موت کا مضمون خوف میں دکھائی دے نہیں سکتا کیونکہ خوف سے انسان مضطرب ہو جاتا ہے اور موت ساکت و جامد ہونے کا نام ہے اور طمع بھی انسان کو مضطرب کرتی ہے، ایک ہیجان بر پا ہو جاتا ہے.اگر آپ کو یہ پتا ہو کہ کوئی فائدہ آپ کو کسی سے ملنے والا ہے تو جتنا وہ وقت قریب آئے گا آپ کا دل اور زیادہ ہیجان پکڑتا چلا جائے گا.پس تقویٰ کا تعلق خوف سے اور طمع سے ہے اور قرآن کریم یہی مضمون کھولتا چلا جا رہا ہے تو اس لئے یا درکھیں کہ گھروں میں اگر انسان کی طمع ہو اور سکون وہاں آ جائے اور یہ خوف رہے کہ ہماری اولادیں ضائع نہ ہو جائیں تو وہ گھر ہی ہمیشہ آپ کی توجہ کا مرکز بنا رہے گا.یہاں سے آپ کی توجہ پھر

Page 197

خطبات طاہر جلد 16 191 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء جائے تو گھر قبرستان ہو جائے گا.لوگ گھروں کو لوٹتے ہیں، بڑی ہی تھکی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اور بوجھل دلوں کے ساتھ کہ اچھا یہ رات کاٹنی ہے کا ٹو، صبح پھر باہر جائیں گے اور بچے سکولوں سے آکر گھروں میں کتابیں پھینکتے ہیں کچھ پڑھنا ہے پڑھیں گے اور توجہ یہ ہو کہ بعد میں فلاں ٹولی کے ساتھ باہر نکلیں گے، فلاں کے ساتھ وہاں کھیلوں میں جائیں گے.بہر حال اکثر آج کل کی سوسائٹی میں گھر محبتوں کے مرکز نہیں رہے اور جس حد تک یہ گھر محبتوں میں مرگئے ہیں اسی حد تک زندگیاں باہر جا چکی ہیں اور زندگی کی تلاش میں انسان کو باہر نکلنا پڑتا ہے.پھر کچھ لوگ ہیں جن کی زندگیاں محض لغویات سے وابستہ ہیں مگر گناہوں سے نہیں.تبھی قرآن کریم نے لغویات اور گناہوں میں فرق کر کے دکھایا ہے پہلے فرمایا کہ وہ زنا نہیں کرتے ، بدکاریوں میں مبتلا نہیں ہوتے ، پاک دامن رہتے ہیں اور پھر اس سے اگلا قدم یہ فرمایا کہ لغو سے بھی پرہیز کرتے ہیں تو یہ ایک سلسلہ ہے.ایک قدم ایک طرف اٹھتا ہے تو پھر آگے دوسری طرف اٹھتا ہے اور واپسی بھی اسی طرح شروع ہوتی ہے.پس اگر گناہوں سے تو بہ کرنی ہو اور سخت محسوس ہو تو کچھ دوسری دلچسپیاں بڑھانی ہوں گی جو لغو کی گندی قسمیں نہ ہوں جن کو خدا تعالیٰ بعض صورتوں میں خود بھی آگے بڑھاتا ہے مثلاً صحت مند کھیلیں ہیں.ایک پہلو سے وہ لغو ہیں مگر ایک اور پہلو کے ساتھ وہ صحتمند ہیں، فائدہ مند ہیں اور قرآن کریم نے ان کی طرف توجہ دلائی ہے مختلف پہلوؤں سے.تو کھیلوں میں دلچپسی بچوں کی پیدا ہو جائے تو وہ بھی باہر جائیں گے مگر وہ اس قسم کے بچے نہیں ہیں جو گندے تعلقات کی وجہ سے باہر نکلتے ہیں.تو اس لئے ماں باپ کو یہ تو نظر رکھنی چاہئے کہ بچے باہر جاتے ہیں تو کہاں جاتے ہیں مگر یہ نظر آج کے زمانے میں رکھی جا نہیں سکتی جب تک ان کے دلوں کی دلچسپیوں پر نظر نہ ہو.اس لئے یہ ناممکن ہے کہ ہر ماں باپ اپنی بچیوں کے ساتھ ان کے سکول جائیں اور وہیں بیٹھے رہیں جو جب اپنے دوستوں کے ساتھ دوسری کھیلوں یا مشاغل میں مصروف ہوں تو ان پر نظر رکھیں ، یہ ناممکن ہے.تو پھر اس دعا کی تائید میں کیا عمل ہے جو اس دعا کو تقویت دے سکتا ہے وہ میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہر بچے کی دلچسپی پر نظر رکھیں اور وہ دلچپسی گھروں سے دکھائی دیتی ہے.یہ ناممکن ہے کہ بچہ گھر میں پہچانا نہ جائے.اس کا اٹھنا بیٹھنا ، اس کی ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں دلچسپیاں، اس کی کتابیں خریدنا، اس کی تصویر میں بنانا، اپنی دیواروں پہ تصویریں لٹکانا یا کچھ ماٹو بنا کر لکھتے رہنا، یہ

Page 198

خطبات طاہر جلد 16 192 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء ساری ادائیں ہیں جو اس کے دل کا حال بتا رہی ہیں اور ان تصویروں کو پڑھ کر آپ دل کا حال پڑھ سکتے ہیں اور پھر اگر یہ بچہ باہر نکلے گا تو آپ کو پتا ہے کہ یہ محفوظ ہے یا غیر محفوظ ہے.وہ بچے جو گھروں میں محفوظ نہیں وہ باہر بھی محفوظ نہیں ہوا کرتے.مگر اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ تحکم کے ذریعے اور خشک نصیحتوں کے ذریعے ان کو ٹھیک کرو.ان کا علاج اس آیت میں ہمیں ایک دعا سکھاتی ہے، اسی میں موجود ہے قُرَّةَ أَعْيُنٍ بنانا ذریت“ کو یک طرفہ ہو ہی نہیں سکتا.جس قرۃ العین کا ذکر فرمایا گیا ہے یہ آنکھوں کی ٹھنڈک یکطرفہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ شرط یہ ہے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اب آپ دیکھیں کہ بہت سے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتے ہیں خواہ جو مرضی کرتے پھریں.وہ جتنے زیادہ فیشن ایبل ہوں گے، جتنازیادہ لغویات میں مصروف ہوں گے اگر وہ پڑھائی میں اچھے ہوں اور دنیا کمانے کا یقین ہو جائے ماں باپ کو تو ان کی ہر دوسری دلچسپی بھی ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پیدا کرتی ہے خواہ وہ متقی نہ بن رہے ہوں.پس قرآن کریم نے جس دلچسپی کا ذکر فرمایا ہے یہ ایسی دلچسپی ہے کہ جس کے نتیجے میں جب تک آپ کو اولاد میں نیکیاں دکھائی نہ دیں قرۃ عین نصیب نہیں ہو سکتی.پس ایسا تعلق بچوں سے جوڑیں کہ جو ان کے اندر نیکیاں پیدا کرنے والا ہو اور نیکیوں کے با وجود تعلق آپ سے رہے محض دنیاوی طور پر ان کا کچھ حاصل کرنا آپ کے لئے تسکین کا موجب نہ بنے.یہ پیغام ہے جو اس آیت کریمہ میں ملتا ہے.اب اپنے گھروں کے تجربوں میں ہراحمدی خاندان اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ ان کے بچے ان کے اندر باوجود ان کے نیک ہونے کے دلچسپی لیتے ہیں کہ نہیں.یہ پہچان ہے اس بات کی کہ آیا آپ ایسی اولاد پیچھے چھوڑ رہے ہیں جو متقی بنے اور آپ ان کے امام بنے یا نہیں بعض بچے اس طرح پہچانے جاتے ہیں ماں اگر بے پرواہ ہے دین کے معاملات میں اور باپ نیک ہے اور ماں سے بہت تعلق رکھتے ہیں اور باپ سے گھبراتے ہیں اگر ماں نیک ہے اور باپ بے تعلق ہے دین سے تو بعض بچے ہیں جو باپ کی طرف دوڑتے ہیں اور ماں کی پرواہ نہیں کرتے اور ایسی مائیں بے چاری روتی پیٹتی رہ جاتی ہیں کہ ہائے کیا ہو گیا تجھے ، نیکی کی طرف آ، کیا ہو گیا ہے اپنے باپ کی بدیوں کی طرف تو جارہا ہے، میری نیکیوں کی طرف نہیں آتا اور یہ روزمرہ کی حقیقتیں ہیں.آپ میری ایک دن کی ڈاک دیکھ لیں آپ کو سمجھ آجائے گی.کثرت سے اس مضمون

Page 199

خطبات طاہر جلد 16 193 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء کے خط ملتے ہیں.کبھی باپ کی طرف سے رونا، کبھی ماں کی طرف سے رونا.باپ کہے گا ماں کو دنیا میں دلچسپیاں ہیں، نماز نہیں پڑھتی ، فلاں کام نہیں کرتی اور ہماری اولا د جو ہے وہ انہی کی طرف بھاگی جا رہی ہے، میں آتا ہوں اور سر پیٹ کے رہ جاتا ہوں مگر میرے دکھاوے کے لئے کچھ کر لیں گے، میں نے پیٹھ پھیری تو پھر وہی حرکتیں.بعض مائیں روتی ہیں کہ باپ بڑا ظالم ہے ، دین میں کوئی دلچسپی نہیں، نماز تک نہیں پڑھتا اور میرے بچے باپ کے پیچھے لگ گئے ہیں اور میری کوئی حقیقت ہی نہیں، میں تو پرانے زمانے کی عورت بن کے یہاں رہ گئی ہوں.تو یہ وہ چیزیں جن کے نتیجے میں اس دعا کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا، کر کے دیکھ لیں.نہ خاوند بیوی کے لئے ٹھنڈک بنے گا ، نہ بیوی خاوند کے لئے ٹھنڈک بنے گی.نہ اولا دان ماں باپ کے لئے ٹھنڈک بنے گی ، نہ ماں باپ اولاد کے لئے تو اس دعا نے ایک ایسا رشتہ ہمیں سکھایا ہے جو بالکل صاف روزمرہ کی زندگی میں پہچانا جاتا ہے.لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا کی دعا تب پوری ہو سکتی ہے اگر ماں باپ نیک ہوں اور اولادکوان کی نیکی کے باوجود ان سے پیار ہو بلکہ نیکی کی وجہ سے پیار ہو.جتنا ماں باپ میں نیکی دیکھیں اتنا ہی احترام بڑھتا جائے ، اتنا ہی ان سے محبت بڑھتی جائے اگر یہ بات ہو تو پھر آپ یقین کے ساتھ جان دے سکتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کا تقویٰ دیکھ کے مر رہے ہیں.اگر یہ نہیں تو آپ کی زندگی موت بن جائے گی، آپ اپنے بچوں کی آنکھوں میں پڑھ نہیں سکتے کہ آپ نمازیں پڑھتے ہیں تو وہ یوں کر کے دیکھتے ہیں کوئی دلچسپی نہیں ، اور جب ان کے ساتھ بیٹھ کر کوئی دلچسپ پروگرام دیکھیں تو کس طرح وہ آپ کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں.تو انسان غافل بننا چاہے تو غافل ہو جاتا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پتا نہیں چلا.ایسا نظام فطرت خدا نے بنایا ہے کہ ہر انسان اپنا حال پڑھ سکتا ہے، اپنا واقف ہے بہانے خواہ لاکھ تراشے، جانتا ہے کہ کیا ہورہا ہے.پس اس دعا پر غیر معمولی اہمیت دینے کی ضرورت ہے اس لئے میں یہاں آکر ٹھہر گیا ہوں اور یہ میری نیت تھی کہ اس کے ہر پہلو کو آپ کے سامنے کھول کے رکھوں.اپنی اولاد کے لئے اگر آپ نے یہ دعامانگنی ہے، اپنی بیویوں کے لئے دعا مانگنی ہے تو دیکھیں وہ دعا قبول ہو رہی ہے کہ نہیں.اگر بیویوں کو آپ کی نیکیوں سے محبت ہو رہی ہے اور نیکیاں بڑھنے کے نتیجے میں وہ اور زیادہ آپ سے پیار کرنے لگی ہیں تو پھر آپ کی دعا قبول ہو رہی ہے.اگر بیویوں کے خاوندوں کو اپنی بیویوں کی نیکیوں

Page 200

خطبات طاہر جلد 16 194 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء سے محبت ہو اور جتنا وہ زیادہ نیک بنیں اتنا ہی زیادہ ان کے دلوں میں طمانیت پیدا ہوتی چلی جائے، سکون ملتا چلا جائے تو یقین کریں کہ ان کی دعا قبول ہو رہی ہے.اگر اولا د پر بھی یہی بات صادق آئے تو لازماً یہ دعا قبول ہو رہی ہے.اس لئے دعا کی قبولیت کے لئے کوئی استخارے کا جواب آنا تو ضروری نہیں، پتا چل جاتا ہے بعض دفعہ دعا اٹھتے اٹھتے بتا جاتی ہے کہ میں قبول ہو گئی ہوں کیونکہ اس وقت دل کا ہیجان، دل کے اندر ایک تموج کی کیفیت، جس گہرے خلوص سے انسان دعا مانگتا ہے دعا بتا کے جاتی ہے کہ میں مقبول ہو کر یہاں سے اٹھ رہی ہوں.تو اس دعا کی طرف آج کل کے زمانے میں غیر معمولی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کا سکون ہی نہیں اگلی دنیا کا گھر بھی اسی سے وابستہ ہو چکا ہے.فرمایا أوليك يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ يُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلما یہی وہ لوگ ہیں جنہیں، عام طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے، بالا خانے دیئے جائیں گے.مگر یہ اس لئے ہے کہ الْغُرْفَةَ اگر چہ واحد ہے مراد یہی ہے کہ سب کو اونچا مقام ملے گا اس لئے اس کو ترجمے میں بالا خانے کہہ دیتے ہیں جو بالکل جائز ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ارفع منازل عطا ہوں گی یا بالا مقام عطا ہوگا تو صرف گھروں کی ٹھنڈک اسی طرح وہاں منتقل نہیں ہوگی بلکہ گھروں کی ٹھنڈک میں ایک اونچا مقام ان کو عطا ہوگا ، یہ مراد ہے بالا خانوں سے.ورنہ یہ تو نہیں کہ جنت میں دو منزلہ مکان ہیں نچلا پبلک کے لئے اور اوپر اپنے پرائیویٹ کمروں کے لئے.بالا خانے سے مراد ہے جو نیکیاں وہ اس دنیا میں حاصل کریں گے ، جیسا گھر وہ اس دنیا میں اپنے لئے بنائیں گے اس کی بالائی منزل ان کو ملے گی.وہ تقویٰ کی محبتیں ، وہ نیکیوں کے پیار اور گھر والوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نیکیوں میں تسکین پانا یہ مرتبہ ان کا بہت بلند ہو جائے گا گویا دنیا میں وہ نیچے رہا کرتے تھے اور اب اونچے مقامات تک پہنچا دیئے گئے ہیں اور پھر وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَسَلَمًا اس میں وہ تحائف پائیں گے ایک دوسرے سے اور سلام.جہاں محبت اور پیار بڑھ جائے وہاں تحائف کا ضرور تبادلہ ہوتا ہے، ایک قدرتی بات ہے اور نیک تمنائیں بھی بار بارنکلتی ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں وہ ذراسی ٹھوکر لگے سلام، اللہ کی حفاظت ، اللہ بچائے ، اللہ کی حفاظت میں اور آتے جاتے سلام سلام ہورہا ہوتا ہے تو جنت کا یہ نقشہ کھینچا گیا ہے اسی پیار اور محبت کی وجہ سے جسے دنیا میں قرۃ عین قرار دیا.

Page 201

خطبات طاہر جلد 16 195 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء فرمایا تمہاری یہ دعا جب دنیا میں قبول ہوگی تو اسی دعا نے تمہاری جنت اس دنیا میں بنانی ہے اور یاد رکھنا اگر یہاں جنت نہیں بنا سکے تو وہاں بھی نہیں ملے گی، وہم ہے محض.پس یہاں جنت حاصل کر لینا اور وہ جنت گھر کی جنت ہے، گھر میں تمہارے تعلقات اگر جنت نشان ہو جائیں، اولاد نیک ہو، ماں باپ کے تعلقات آپس میں اچھے، بچوں سے اچھے تو اس کے نتیجے میں پھر وہ غرفے ملیں گے جن کو اللہ تعالی بالا ئی غرفے کہتا ہے.وہ ایسا مقام ہے جہاں یہ ساری لذتیں پہلے سے بہت زیادہ آگے بڑھا دی جائیں گی اور تحائف ایک دوسرے کو دیں گے.اب جنت میں تو ہر چیز اپنی مرضی سے ملتی ہی ہے تحفوں کا کیا تعلق ہے وہاں تحفوں کا تعلق یہ ہے کہ وہاں یہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک دوسرے سے چھین چھین کے بھی کھائیں گے.تو جہاں سب کچھ بے شمار مل رہا ہو وہاں چھیننے کا کیا موقع ، تحفے کی بات تو بعد میں آئے گی اس لئے کہ محبت کے اظہار ہیں صرف یہ.ایک انسان کسی پیارے کے ہاتھ سے لقمہ چھین کے بھاگ جائے تو یہ تو نہیں کہ اس کو بھوک لگی ہوئی تھی ، ضرورت پڑی ہوئی تھی وہ اپنے محبت کے اظہار کے لئے کہ مجھے تمہارے ہاتھ کا لقمہ بھی پیارا لگتا ہے اور میں نے لے لیا ہے یہ اور تحائف اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ وہ جس کو دیئے جاتے ہیں اس کی ضرورت کا خیال نہیں ہوتا بلکہ اپنی ضرورت پوری کی جاتی ہے.چنانچہ نماز میں جب روزانہ آپ تحیات میں بیٹھ کے کہتے ہیں التحیات اللہ تو تحیات اللہ کے لئے اللہ کو ضرورت ہے کوئی تحفوں کی ؟ جس نے سب کچھ دیا ہے اس کو آپ کیا تحائف دیں گے.آپ اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں اور یہ تحفے کی پہچان ہے جب کسی کی ضرورت کے لئے دیا جاتا ہے تو وہ صدقہ بھی ہو جاتا ہے، خیرات بھی ہو جاتی ہے، بدلہ بھی ہو جاتا ہے، ذمہ داری کی ادائیگی بھی ہے لیکن تھنے کی پہچان اپنے دل سے ملتی ہے.آپ کے دل میں یہ ضرورت پیدا ہوئی تھی کہ نہیں کہ جس سے ہمیں محبت ہے اس سے محبت کے اظہار کے لئے اس کو کچھ پیش کریں.اگر اس وجہ سے چیز اٹھی ہے تو پھر یہ تحفہ ہے ورنہ تحفہ نہیں کوئی نام اور رکھ دیں.تجارت کہیں، صدقہ خیرات کہیں جو بھی کہیں تحفہ نہیں بنے گا.تو اللہ کے لئے تحفہ کی شرط یہ ہے التحیات اللہ کہ دل میں تمنا اٹھا کرے کہ ہم اللہ کو خوش کریں اور دل چاہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہم خدا کے حضور پیش کریں تو اس کے لئے پھر طیبات کی تلاش ہو، صلوات کی تلاش ہو کبھی نمازیں پڑھ کے خوش کریں، کبھی خدا کی راہ میں صدقے دے کر خوش کریں،

Page 202

خطبات طاہر جلد 16 196 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء کبھی چندے بڑھا کے خوش کریں.تو یہ توجہ ہوگی تو یہ تحفہ بنے گا ورنہ تحفہ نہیں بنے گا.پس جنت میں تحفوں کا یہ مطلب ہے اور جنت میں سلام کا یہ مطلب ہے.اتنا پیار ہوگا آپس میں کہ بے ضرورت جس کو دے رہے ہیں اس کو ضرورت کوئی نہیں آپ کا دل چاہتا ہے آپ دیں اور جب اس طرح کوئی چیز ملے تو اس کی لذت بہت بڑھ جایا کرتی ہے.پس جنت کی لذتیں بڑھانے کا ایک مضمون ہے جو بیان کیا جا رہا ہے جو اس دنیا کی لذتیں بھی اسی طرح بڑھاتا ہے.جس سوسائٹی میں تحائف چلتے ہیں جو تحفہ دیتا ہے وہ اپنی طرف سے کچھ کمی محسوس کرتا ہے اس کو اپنی طرف سے کمی محسوس کرنی چاہئے اس کی چیز کم ہوئی ہے مگر کرتا نہیں کیونکہ جس چیز کی زیادہ قدر ہے وہ اس معمولی چیز کے بدلے اسے مل جاتی ہے.اس کے دل کو محبت کی پیاس ہوتی ہے اصل میں اور تحفہ اگر محبت حاصل نہ کرے تو تحفہ چلتا ہی نہیں گھر سے.اسی لئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جس کو تحفہ دیا جائے اس کو بتایا ضرور جائے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو اخفاء ہے اس کی حکمت اور ہے اگر اللہ تعالیٰ کو بھی پتا نہ چلے تو کوئی بھی انسان نیکی نہیں کرسکتا.کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ اپنی چیز کو انسان یونہی پھینک دے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخفاء کی اس لئے ضرورت ہے کہ اللہ جانتا ہے اور اگر محبوب کو تحفہ دیا جائے اس طرح کہ اور کسی کو خبر نہ ہو محبوب ہی کو پتا چلے تو اس کی جتنی قیمت اس تھے کی مل سکتی ہے اتنی کسی اور تھنے کی نہیں مل سکتی.پس اللہ تعالی یہ محبتیں چاہتا ہے آپ سے کہ تھے پیش کرو تو کبھی اس طرح پیش کیا کرو کہ خدا کے سوا کسی کو پتا ہی نہ چلے اور یہ جو مخفی تحائف ہیں یہ زیادہ اعلیٰ درجے کے تحائف ہیں.تو اس دنیا میں یعنی جنت میں جو تحائف چلیں گے وہ نہ صرف دینے والوں کے لئے لذت کے سامان پیدا کریں گے بلکہ لینے والا وہ چیزیں عام ہونے کے باوجود انہی سے مزے اٹھائے گا جو تحفے کے طور پر اس کو پیش ہورہی ہیں.کبھی کھانے کے دوران کئی دفعہ تجربہ ہوتا ہے ایک بچے کو کوئی چیز آپ اپنی پلیٹ سے دیدیں تو اسے سنبھال کے الگ رکھتا ہے.کوئی اور اس سے لینے لگے تو کہے گا یہ لو، یہ نہیں میں نے دینی ، یہ مجھے فلاں نے دی ہے، تو تحفوں سے کھانا تو وہی رہتا ہے، مزہ بڑھ جاتا ہے.پس یہ مزے ہیں جو جنت میں بیان کئے جارہے ہیں کہ گھروں میں یہ پیدا کرو گے تو وہاں بہت بڑھ کر ملیں گے.اگر گھروں میں پیدا نہیں ہوں گے تو وہاں کچھ بھی نہیں ملے گا.جن گھروں میں

Page 203

خطبات طاہر جلد 16 197 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء ہر وقت تو تکار، ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، فساد برپا ہیں، ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور کہتا ہے کیا مصیبت دیکھ رہے ہیں ہم.بعض دفعہ بعض میاں واقعہ عورت کو کہتے ہیں واپس آکر گھر میں کہ آج تیرا منحوس منہ دیکھ کر گئے تھے ناباہر، دیکھو کہ یہ ہوا اور اگر عورت بیچاری مار سے نہ ڈرے تو کہہ دیتی ہے کہ تیرا منحوس چہرہ دیکھا تو میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے.جن کے آپس کے تعلقات یہ ہو جائیں ان کو نہ ایک دوسرے سے ٹھنڈک، نہ اپنی اولاد سے ٹھنڈک ، وہ یہ دعا کیسے کریں گے، یہ سوال ہے.حرکتیں یہ ہوں اور دعائیں یہ ہوں.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا - لیکن ایک اور بات اس دعا سے تعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کئی گھروں کی اصلاح میں اس دعانے مجھے بہت کام دیا ہے.بعض بیویاں جو بہت ہی تکلیف میں تھیں، شکایت کرتی تھیں کہ ہماری طرف توجہ نہیں ہے ، ہم ہر کوشش کر چکی ہیں مگر کوئی پرواہ نہیں.ان کو میں نے کہا یہ دعا سنجیدگی کے ساتھ ، با قاعدہ لگ کر کرو اور یقین رکھو کہ اس کا سننے والا ہے.جو دل تمہارے اختیار میں نہیں وہ خدا کے اختیار میں ہے.کر کے دیکھو پھر مجھے بتاؤ.ہر دفعہ تو نہیں کیونکہ بعض دفعہ وہ اگلا انسان ہی بد نصیب ہوتا ہے.دعا جس کے حق میں ہو اس کے لئے بھی اس کا کچھ استحقاق ہونا ضروری ہے.جس شخص کے حق میں دعا کی جائے اگر وہ مستحق نہ ہو تو دعا کرنے والا خواہ کتنا ہی بزرگ اور پہنچا ہوا کیوں نہ ہو اس کے حق میں قبول نہیں ہوتی.صلى الله چنانچہ آنحضرت یہ تمام کفار مکہ ،تمام مشرکین ،سب دنیا کے لئے دعائیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ کس بے قراری سے کرتے ہیں مگر فرماتا تھا کہ ہدایت اسی کو دوں گا جس کو میں سمجھتا ہوں مستحق ہے.دوعمروں میں سے آپ نے ایک مانگا اور حضرت عمرؓ مل گئے اور ابو جہل نہ ملا اس لئے کہ وہ مستحق نہیں تھا.پس یہ دعا ہر عورت کی قبول نہیں ہوتی.اگر خاوند بدنصیب ہو جائے کہ خدا کی نظر میں گیا گزرا ہے تو پھر بے چاری آخر پہ یہی دعا کر سکتی ہے کہ اے خدا مجھے اس ظالم سے نجات دے اور جنت میں مجھے گھر عطا کر، اس کے سوا چارہ کوئی نہیں.مگر بسا اوقات میں نے یہ دیکھا ہے کہ بعض عورتیں بے حد خوشی اور شکریہ کا خط لکھتی ہیں کہ جس طرح آپ نے نسخہ بتایا تھا اسی طرح استعمال کیا ہے پورا دل لگا کر ، خدا کو حاضر و ناظر جان کر ، اس پر اعتماد کرتے ہوئے ، پورا بھروسہ کرتے ہوئے دعا

Page 204

خطبات طاہر جلد 16 198 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء کی اے خدا اب تیرے سوا چارہ نہیں اور خاوند کا دل بدل گیا اور کا یا پلٹ گئی ہے، ہمارے گھر کی تو حالت ہی بدل گئی ہے ہم تو ایک دنیا میں جنت حاصل کر چکے ہیں واقعہ یہ لکھتے ہیں.مگر وہ جن کو یہ دعا نصیب نہ ہو سکے یا جن کی بعض وجوہات کی بناء پر یہ دعا قبول نہ ہوان کے لئے پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی کی دعا سکھائی ہے کہ اے خدا اس ظالم سے مجھے نجات بخش اور اس دنیا میں تو میں گھر نہیں دیکھ سکی، آخرت میں مجھے گھر دے دے.تیری محبت کی خاطر میں ایمان لائی ہوں اور یہ نہ ہو کہ دنیا میں بھی بے نصیب رہوں اور آخرت میں بھی بے گھر رہوں.تو ان کو بھی پھر جنت میں بالا خانے ضرور ملتے ہیں اور فرعون کی بیوی کی دعا میں تو بڑا ہی درد ہے یہ دعا بھی استعمال کر کے دیکھیں پھر.درد کی کیفیت یہ ہے کہ اس پر ایمان لائیں جس کو پالا تھا اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوتے ہوئے بادشاہ کا عتاب لے لیا لیکن ایمان نہیں چھوڑا.تو ایک گھر قربان ہوا اس کے بدلے خدا بہت بڑا اور بلند تر گھر اس کو عطا کرے گا اور اسی ارادے کے ساتھ خدا نے دعا سکھائی.پس خدا جو دعائیں سکھاتا ہے اس میں قبولیت کا ارادہ شامل ہوتا ہے.پس اس بات کو یاد رکھیں تو اس دعا کی اور بھی قیمت بڑھ جائے گی جو دعائیں خدا براہ راست سکھاتا ہے کہ یہ دعا کر، یہ دعا کر جب تک عطا کرنے کا ارادہ نہ ہو سکھانے کا کیا مطلب ہے.پس اس دعا کے لئے ہر گھر میں مقبولیت کا ایک در کھلا ہوا ہے.کوئی گھر بھی نہیں جس کی چھت پر ایک درنہ کھلا ہو جو اس دعا کے ذریعے سے خدا تعالیٰ سے رحمتیں طلب کرنے کے لئے کھولا گیا ہے.تو یقین کریں جب خدا سکھا رہا ہے تو دینے کا ارادہ رکھتا ہے، بادشاہ جب کہتے ہیں مانگ جو مانگتا ہے تو جو مانگتا ہے پھر اس کو دیتا ہے جس حد تک دینا ہو لیکن اگر یہ بھی ساتھ سکھائے کہ یہ دے سکتا ہوں میں اور اس طرح مانگ تو پھر کیسے انکار کرسکتا ہے.تو یہ وہ دعا ہے جو خدا نے خود آنحضرت ﷺ کے ذریعے ہمیں پہنچائی ہے کہ یہ دعامانگا کرو تو تمہیں دنیا کی جنت بھی ملے گی آخرت کی جنت بھی ملے گی اور آخری بات اس کے بعد ہے أولَيْكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا.صبر اس میں ضروری ہے.یہ یادرکھنا کہ بعض دعاؤں میں اگر صبر نہ ہو تو اس صبر کے فقدان کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ ہر چیز کے لئے ایک وقت ہے اور ہر بیماری کی شفا کا بھی ایک وقت ہوا کرتا ہے.یہ میں بہت لمبے تجربے سے آپ کو بتاتا ہوں کہ ہر بیماری فوراً ٹھیک ہو نہیں سکتی اس لئے اگر دو دن دوائی کھائیں اور چھوڑ دیں تو ہرگز یہ

Page 205

خطبات طاہر جلد 16 199 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء نہیں کہہ سکتے کہ اس دوا نے فائدہ نہیں دیا اس میں شفا تھی ہی نہیں.کئی ایسے مریض ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ جی ہم نے اتنے دن کھائی ہے ان کو میں بتاتا ہوں کہ آپ کی بیماری ایسی ہے کہ ایک سال، دو سال کھانی پڑے گی یعنی دوا فوراً اثر نہیں دکھائے گی بعضوں کو میں کہتا ہوں ایک مہینہ کھاؤ پھر بتانا اور اگر میری تشخیص درست ہو تو مہینے والوں کی دوا مہینے کے بعد ضرور اثر دکھاتی ہے پھر وہ لکھتے ہیں ہاں اچانک ہم ٹھیک ہو گئے ، اور سالوں والی دعا سالوں میں اثر دکھا دیتی ہے.بعض عورتیں بچے کی خواہش لے کر آتی ہیں دعا کے لئے بھی اور دوا کے لئے بھی تو دوا جب میں دیتا ہوں تو بعض کہتی ہیں جی دو مہینے ہو گئے ہیں ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہوا.میں ان سے کہتا ہوں کہ دو مہینے کی بات نہیں ہے بعض دفعہ یہ دوا دو سال، تین سال بھی کھانی پڑتی ہے مگر کھاتی چلی جائیں کیونکہ ہر بیماری کی تبدیلی کے اندر اس کا وقت لکھا ہوا ہوتا ہے یعنی جو چیزیں آہستہ آہستہ آکر خلیوں میں بیٹھ جائیں، جسم کی بناوٹ کو تبدیل کر دیں، رحم کے او پر کچھ ایسی پیڑیاں جم جائیں جو اس کے بچے کے پیدا ہونے کے رستے میں ایک دیوار بن کر حائل ہوں تو کوئی تیزاب ڈال کے تو نہیں آپ گھول سکتے ان پیڑیوں کو.آہستہ آہستہ جسم میں ایک رد عمل پیدا ہوتا ہے، صحت مند خون چلتا ہے پھر وہ رفتہ رفتہ دور ہونے لگ جاتی ہیں.تو جب دنیا کی بیماریوں کا یہ حال ہے تو اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے.بعض لوگ فوراً شفا پانہیں سکتے مگر جو صبر نہیں رکھتا نہ وہ دنیا کی بیماریوں سے شفا پا سکتا ہے، نہ روحانی بیماریوں سے شفا پا سکتا ہے تو ایسا کامل نسخہ ہے قرآن کریم کہ اس کے ہر نسخے کے اندر ہر احتیاط کا پہلو ہر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے.کوئی پہلو نہیں چھوڑا گیا.تو یہ دعا سکھا کر کہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر ہمیں اور اولاد کی طرف سے بھی ہم ٹھنڈ پائیں ایک دوسرے سے بھی ٹھنڈ پائیں، فرمایا، تمہیں بالا خانے تو ملیں گے مگر اس وجہ سے ملیں گے بِمَا صَبَرُوا.یعنی ان لوگوں کو ، ان دعا کرنے والوں کو جو جزا ملے گی اس لئے کہ اس دعا کے ساتھ صبر بھی شامل تھا اور صبر میں دو مضمون ہیں ایک یہ کہ دعا کے ساتھ ایک دکھ کی لذت بھی شامل تھی یعنی خشک مونہہ سے دعائیں نہیں کیا کرتے تھے.صبر کے ساتھ دکھ کا ایک لازمی تعلق ہے ورنہ صبر کا معنی ہی کوئی نہیں اگر ویسے آرام کی زندگی ہے تو اسے صبر کون کہہ سکتا ہے تو فرمایا ان کو جو جزا ملے گی اس لئے کہ ان کی دعاؤں میں ایک دکھ تھا اور صبر کرتے تھے دو باتوں میں.ایک تو یہ کہ ہم پر توکل میں صبر

Page 206

خطبات طاہر جلد 16 200 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء کرتے تھے اور آئے دن یہ نہیں کہتے تھے کہ لوجی ہماری تو دعا قبول نہیں ہوئی اور دوسرے یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ تبدیلی کر سکتا ہے اس لئے تبدیلی نہ بھی نظر آئے تو ایمان نہیں جاتا تھا ان کا اور صبر کر کے وہ دعا کرتے چلے جاتے تھے.حضرت زکریا کی دعا دیکھو کتنی عظیم الشان ہے.وہ کہتے ہیں دعائیں کرتے کرتے میں بوڑھا ہو گیا ہوں، ہڈیاں گل گئیں، سر بڑھاپے سے آگ کی طرح بھڑک اٹھا ہے، سفید ہو گیا ہے وَلَمْ أَكُن بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم:5) اے خدا آج تک میں وہ بد بخت نہیں جو تیری دعا سے مایوس ہو جاؤں کبھی مایوس نہیں ہوا.یہ ہے صبر جو بعض دفعہ اتنا لمبا کھینچا جاتا ہے جس طرح حضرت زکریا کا ذکر ہے مگر روزمرہ کی زندگی میں اتنے لمبے امتحان خدا نہیں لیا کرتا.انبیاء کے مناصب بلند ہیں، ان کے امتحان بھی بڑے کڑے ہوا کرتے ہیں اور بعض دفعہ لمبے چل جاتے ہیں مگر نیا نیا خدا کا مہمان بن رہا ہو اس کے ساتھ خدا اتنے لمبے معاملے نہیں کیا کرتا.شروع شروع میں دعائیں جلدی قبول ہوتی ہیں پھر جب انسان آگے ترقی کرے تو پھر پور اصبر کے مضمون میں داخل ہو جاتا ہے.تو یہ دعا بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارا معاشرہ تبدیل نہیں ہو سکتا اور اس کے بغیر عبادت کا لطف بھی نہیں آسکتا.عبادت کا لطف اس ماحول میں ہی ہے جو ماحول یہاں بیان فرمایا گیا ہے.نیک ماحول ہے ایک دوسرے کی نیکیاں اچھی لگتی ہیں ایک دوسرے کی نیکیاں دیکھنے کو دل چاہتا ہے، ان نیکیوں کے لئے دعائیں کرتے وقت گزرتا ہے پھر جب وہ عطا ہوتی ہیں تو جتنا نیک ہو کوئی ساتھی اتنا زیادہ اس سے پیار بڑھ جاتا ہے اتنی ہی زیادہ اس کی دل میں قدر بڑھتی چلی جاتی ہے.فرمایا خُلِدِین فیھا یہ وہ حالت ہے جو ہمیشہ کی ہے اتفاقی آئی گئی حالت کا نام نہیں ہے.یہ حالت تو آ کر ٹھہر جانے والی ہے اور صبر کے ساتھ اس مضمون کا گہرا تعلق ہے.صبر کا مطلب ہے جتنا لمبا چاہے اللہ آزمائے ، ہٹنا نہیں اور جب انسان استقامت دکھا دے،صبر دکھادے تو خدا کیسے اس کی جزا کو عارضی بنا سکتا ہے.پس دائمی جزا کا صبر سے ایک گہرا تعلق ہے.فرمایاوہ اس میں ہمیشہ رہیں گے.حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا کیا ہی عمدہ، کیا ہی خوب صورت عارضی ٹھکانہ اور کیا ہی خوب صورت مستقل ٹھکانہ ہے.اس سے پہلے بھی اسی طرح ٹھکانے کا ذکر گزرا ہے.سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ( الفرقان : 68) کہ وہ لوگ جو اس مضمون کو

Page 207

خطبات طاہر جلد 16 201 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء نہیں سمجھتے اور اپنے گھر کو خود برباد کر لیتے ہیں ان کے لئے تو وہ گھر بھی خواہ وہ عارضی ہو وہ بھی مصیبت مستقل ہو تو اور بھی مصیبت اور جہنم میں بھی یعنی دوسری دنیا میں بھی ان سے پھر یہی سلوک ہوگا جو ہے، ان کو دوسری دنیا کا گھر نصیب ہوگا.سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا.اس سے تو ایک لمحہ بھر کے لئے گزرنا ہی بڑی مصیبت ہے، کہاں یہ کہ آپ وہاں مستقل ڈیرہ ڈال کے بیٹھ رہیں.تو اس کے مقابل پر یہ جزا بیان فرمائی گئی ہے.ایک گھر تم وہ بھی بنا سکتے ہو جو تم جہنم میں بنارہے ہو اس دنیا میں بیٹھے یہاں بھی مارے گئے وہاں بھی مارے گئے اور ایک گھر اس کے مقابل پر جنت میں بنانے کا یہ طریق ہے اگر اس کو اختیار کرو گے تو یہاں بھی کامیاب ہو گے اور وہاں بھی کامیاب ہو گے اور دونوں جگہ کی جنتیں نصیب ہوں گی.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لزاما تو کہہ دے کہ میرا رب تمہاری کچھ بھی پرواہ نہ کرتا لولا دُعَاؤُكُمْ اگر تمہاری دعا نہ ہو.یہ کیا وجہ ہے کیا اللہ تعالیٰ بندوں سے ایسا بے نیاز ہے جو مرضی برباد ہوتے پھریں ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.لولا دُعَاؤُكُمْ میں بندے کی بے اعتنائی کا ذکر ہے اصل میں، جب تم میرا پوچھتے ہی نہیں میرے پاس آنے کی تمنا ہی پیدا نہیں ہوتی تو پھر تمہارے دل سے دعا اٹھ ہی نہیں سکتی.پس دعا سے مراد یہ نہیں کہ اللہ کو بلوانے کا شوق ہے.مراد یہ ہے کہ تمہارے دل میں میری اتنی بھی محبت نہیں کہ کبھی مجھے پکارو، کبھی مجھے بلاؤ تو پھر میں بھی گرا پڑا نہیں ہوں.اگر تم مستغنی ہو تو میں تم سے بڑھ کر مستغنی ہوں، اگر تم دعا نہیں کرتے ، میری طرف توجہ ہی کوئی نہیں اور یہ سارا مضمون وہی دعا کا ہے.دعاؤں کے ذریعے تم دنیا کی جنتیں اور آخرت کی جنتیں حاصل کرنے کی تمنا ہی نہیں رکھتے، کوشش ہی نہیں کرتے تو پھر كَذَّبتُم تم جھٹلا بیٹھے ہو.فَسَوْفَ يَكُونُ لِرَامًا اس دعا کو جھٹلانے کی جو و با ہے یا دعا کو جھٹلانے کی جو بلاء ہے وہ تم سے چمٹ جائے گی تمہیں چھوڑے گی نہیں کیونکہ خدا کے سواد نیا میں کوئی سہارا ہی نہیں ہے.پھر ہر مصیبت، ہر بلاء تمہارا دائی حصہ بن جائے گی.پس اس سے پہلے دیکھیں فرمایا تھا وہ ہمیشہ کے لئے ہے خُلِدِينَ فِیهَا اب جو بدی ہے اس کے مقابل کی اس کو بھی مستقل کر کے دکھا رہا ہے اللہ تعالی.خلِدِین کے مقابل پر یہ ہے فَقَدْ كَذَّبْتُم فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا تم نے جب دعا کو جھٹلا

Page 208

خطبات طاہر جلد 16 202 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء ہی دیا ہے تو جو بدیاں دعا کے بغیر تم سے چمٹنے والی ہیں وہ پھر مستقل چھٹی رہیں گی ، وہ چھوڑیں گی ہی نہیں تمہیں تو یا اس طرف کا دوام حاصل کر لو یا اس طرف کا دوام حاصل کرلو، یا ادھر کی ہینگی لے لو یا ادھر کی ہمیشگی لے لو یہ دوہی رستے ہیں تمہارے لئے جس کو چاہے اختیار کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دعا کے متعلق اپنے ایک کشف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں اور یہ بہت ہی اہم کشف ہے جسے ہمیں پیش نظر رکھنا چاہئے.فرماتے ہیں: انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بیکار کر لیتا ہے.فرما یا فطرت میں خدا کی طرف جھکنا ہے اور اگر نہیں جھکو گے اور دنیا کی لذتوں کی طرف منہ رکھو گے تو پھر تم اس کے عبد بن نہیں سکتے اور جب تم اس کے عبد نہیں بن سکو گے تو پھر اس کو تمہاری کیا پرواہ ہے.اس مضمون کے لئے جو دوسری آیات میں نے چنی ہیں وہ آج تو خطبے کا وقت ختم ہو رہا ہے پھر انشاء اللہ وقت ملے گا تو آپ کو سناؤں گا.یہاں کشف سن لیجئے.فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک رویا میں.یہ رویا ہے، کشف ان معنوں میں نہیں جو عام طور پر معروف ہیں، فرمایا: ”میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں شرقا غربا اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے.اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی.ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیٹر پر مسلط ہے ہاتھ میں چھری ہے.ایک ایک بھیڑ پر ایک ایک قصاب الگ الگ مقرر ہے.جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہ آیت پڑھی.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں اور یہ کہا یہی کہ تم ہو کیا آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.( ملفوظات جلد اول صفحہ : 118) اب یہ جو رویا کا نظارہ ہے بہت ہی گہرا اور بہت ہی لطیف تفسیر ہے اس آیت کریمہ کی.بھیڑیں گوہ پر منہ مارنے میں مشہور ہیں.بکریاں بھی ہر طرف مونہہ مارتی ہیں مگر بھیٹر میں خاص طور پر گندگی کھانے میں ایک خاص شہرت حاصل کر چکی ہیں تو مضمون جو بیان ہوا ہے اس آیت سے پہلے وہ

Page 209

خطبات طاہر جلد 16 203 خطبہ جمعہ 14 / مارچ 1997ء یہی تو ہے کہ یا ادھر کا منہ رکھو گے یا ادھر کا منہ.یا اس طرف دلچسپیاں لو گے یا اس طرف دلچسپیاں لو گے.اگر تمہاری دلچسپیوں کا رخ غیر اللہ کی طرف ہی رہے گا تو تم پھر عبادت نہیں کر سکتے اور جب اللہ کے عبد نہیں رہو گے تو خدا کو پھر تمہاری کوئی پرواہ نہیں.پھر آسمان سے کسی وقت بھی تمہاری ہلاکت کا حکم نازل ہوسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر وقت پکڑے جاؤ.پس اس آیت میں جہاں تنبیہہ ہے اور ایک خوفناک نظارہ ہے وہاں بخشش کے لئے اور توبہ کے لئے گنجائش بھی کھلی رکھی ہے.کوئی تقدیر کا فرشتہ آپ کی گردن پر چھری نہیں پھیرے گا جب تک آسمان سے یہ آواز نہ اترے کہ ہاں اس کا وقت آگیا ہے.پس اس وقت سے پہلے پہلے پھر جاؤ اور خدا کی طرف توجہ کر کے دنیا کی ہلاکتوں سے بچنے کی کوشش کرو پھر دعا زیادہ زور اور شدت کے ساتھ اٹھے گی کیونکہ خطرے کی دعا ہے، مضطر کی دعا بن جائے گی.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کو نئی زندگی عطا ہو سکتی ہے جس میں عبادت میں لذت پیدا ہو جائے گی اور اور بھی بہت سے فوائد، جواس دنیا کے بھی ہیں آخری دنیا کے بھی ہیں ، وہ اسی دعا سے وابستہ ہو جائیں گے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنائی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 210

Page 211

خطبات طاہر جلد 16 205 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء عباداللہ بنالازم ہے ہم پر.اگر ہم اللہ کے بندے بن جائیں تو خدا کی ساری کائنات ہماری ہو جائے گی ( خطبه جمعه فرموده 21 / مارچ1997ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: اَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يُبَنِي أَدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَنَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ، وَ أَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطَ مُسْتَقِيمُ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبلًا كَثِيرًا أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ (يس: 61 تا 63) پھر فرمایا: ان کا ترجمہ یہ ہے اے بنی آدم کیا میں نے تم پر یہ عہد فرض نہیں کر دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو انَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وہ تو تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے، یقیناً وہ تو تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرو یہ صراط مستقیم ہے اور وہ تو اس سے پہلے تمہی میں سے بہت بڑی تعداد میں مخلوق کو گمراہ بنا چکا ہے.لقد میں اس سے پہلے کا مضمون داخل ہے وہ پہلے ہی یہ کام کر چکا ہے تم جانتے ہو کہ بڑی بھاری تعداد مخلوق میں سے ایسی ہے جسے اس نے گمراہ کر دیا.أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ تو کیا تم عقل والوں میں سے نہیں بنو گے.ایسے نہیں ہو گے جو عقل رکھتے ہوں یا عقل سے کام لیں ، عقل استعمال کریں.

Page 212

خطبات طاہر جلد 16 206 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء یہ جو آیات ہیں ان کا تعلق اسی مضمون سے ہے جو گزشتہ چند خطبات میں اب تک جاری رہا ہے سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے حصول کے لئے اس کے اس وعدے سے ہم کیسے استفادہ کر سکتے ہیں جس میں وہ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو میری بخشش سے مایوس نہ ہو، میں چاہوں تو تمام گناہ بخش سکتا ہوں.اس عظیم وعدے کے بعد پھر وہ کونسی شرائط ہیں جن کی پابندی کے نتیجے میں ہم اللہ تعالیٰ کی اس وسیع رحمت کی مغفرت کی چادر کے نیچے آسکتے ہیں.رحمت کی مغفرت میں نے اس لئے کہا کہ رحمت ہی سے مغفرت پھوٹتی ہے اور بنیادی صفت اللہ تعالیٰ کی جو اس کی مغفرت کے زیر سایہ ہر مخلوق کوڈھانپنے والی ہے وہ رحمانیت کی صفت ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو آسان کرنے کی خاطر میں نے قرآن کریم کی سورۃ الفرقان کی وہ آیات آپ کے سامنے رکھیں جس میں مضمون شروع ہی عِبَادُ الرَّحْمٰن کے تذکرے سے ہوتا ہے.اگر تم مغفرت کی تمنار کھتے ہو تو مغفرت تو رحمان سے ہوگی اور رحمن کے بندے بنا پڑے گا.اگر رحمن خدا کے بندے بن سکتے ہو تو پھر تمہاری مغفرت کی توقعات برحق ہوں گی.اگر رحمن کے بندے نہیں بنتے اور توقعات یہ ہوں کہ جو فیض رحمانیت کا ہے وہ تمہیں پہنچے تو اس تو ہم کو دل سے نکال ڈالو.اللہ تعالیٰ کوئی فرضی چیز نہیں ہے جو آپ کے جذبات کی ، آپ کی امنگوں کی پیدا وار ہو.آپ کے جذبات اور آپ کی امنگوں کو خدا تعالیٰ کی حقیقت کے سامنے سرنگوں ہونا ہوگا.وہ حق ہے، ایک دائمی حقیقت ہے کسی انسان کے تصور کی پیداوار نہیں.انسان کے تصور کو اس کے سامنے جھکنا ہوگا اور وہی رنگ اختیار کرنے ہوں گے جن کی وہ انسان سے توقع رکھتا ہے.اس پہلو سے وہ آیات میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں جن میں عِبَادُ الرَّحْمنِ بننے کے متعلق قرآن کریم نے کچھ تو قعات آپ کے سامنے رکھیں کہ عِباد الرحمن بننا چاہتے ہو تو یہ بن جاؤ، یہ بن جاؤ، یہ بن جاؤ.یہ نہ بنو، وہ نہ بنو اس طرح تم عِبَادُ الرَّحْمٰن کے زمرے میں داخل ہو سکتے ہو.اب ان آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان آیات میں ایک ایسی شرط رکھ دی گئی ہے جو اگر آپ پوری نہ کریں تو عِبَادُ الرَّحْمٰن بن سکتے ہی نہیں اور وہ شرط ہے عباد الشیطان نہ بنو.تو پہلے اس منفی شرط کو پورا کریں تو پھر مثبت دائرے میں داخل ہو سکتے ہیں.اگر یہ منفی شرط پوری نہ کی جائے تو جو مثبت دائرے ہیں جو اعلیٰ درجے کے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں وہ ممکن ہی نہیں.بعض پر ہیز اگر

Page 213

خطبات طاہر جلد 16 207 خطبہ جمعہ 21 مارچ 1997ء نہ ہو تو کوئی دوا فائدہ نہیں دیتی.بعض زہر کھائے جائیں تو اس کے نتیجے میں تریاق کی تلاش بے کار ہوگی.اگر آپ زہر کھائیں اور کھاتے رہیں تو تریاق بھی بے کار ہوگا.تو یہ جو آیات ہیں یہ اس زہر سے تعلق رکھتی ہیں جس کے ہوتے ہوئے خدا کی رحمت کا تریاق آپ سے کھینچ لیا جائے گا وہ آپ کو عطا ہی نہیں ہوگا.اور عجیب بات ہے کہ ان آیات کا بھی درحقیقت تعلق سورہ فاتحہ ہی سے ہے جہاں رحمانیت کے مضمون کو خوب کھول کر پیش فرمایا گیا ہے، عبادت کے مضمون کو خوب کھول کر پیش فرمایا گیا ہے.اور اس بات کو سمجھنے کے نتیجے میں آپ کو بہت سی ایسی باتیں سمجھ آجائیں گی جن کے نتیجے میں آپ شیطان کی عبادت سے بچ سکتے ہیں ورنہ یہ کہہ دینا کہ شیطان کی عبادت سے بچو اور اس کا تفصیلی طریقہ نہ سمجھانا یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو بہت سی جگہوں پر کھولا ہے کہ شیطان کی عبادت ہوتی کیا ہے، کیسے اس سے بچنا ہے.مگر اس جگہ سورہ فاتحہ کے حوالے سے اس بات کو کھول کر بیان فرمایا گیا ہے یعنی بظاہر یہ اشارے ہیں لیکن ہر اشارے میں کھلے مضمون شامل ہیں.اب دیکھ لیں آپ اس کا سورۃ فاتحہ سے تعلق و آنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمُ (يس: 62) - اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تو ایک ایک بیچ کا لفظ چھوڑ دیا گیا اور سورۃ فاتحہ کے اہم ایسے الفاظ استعمال کئے گئے جو آپ کا ذہن لازماً سورۃ فاتحہ کے رستے پر ڈال دیں.الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے بعد مغضوب کا لفظ چھوڑ کے پھر الضَّالِّينَ کا لفظ استعمال فرما دیا گیا.وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلا كَثِيرًا.تو یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ جگہ جگہ وہ نشان راہ مقرر فرماتا چلا جاتا ہے.تفصیل کے ساتھ سورۃ فاتحہ کونہیں دہرایا گیا مگر اتنے قطعی نشان دے دیئے ہیں سورہ فاتحہ کے کہ کسی انسان کا دماغ اس رستے سے بہک سکتا ہی نہیں.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے شروع ہو کر الضالین تک کے مضامین کے حوالے دے کر آپ کو بتایا گیا ہے کہ شیطان کی عبادت کرو گے تو یہ نعمتیں تمہیں نصیب نہیں ہو سکیں گی.اس کی بچی عبادت، صراط مستقیم اور ضالین کی لعنت سے بچنے کی جو نعمتیں ہیں یہ تمہیں نصیب نہیں ہو سکتیں.اب یہ تو نشان دہی ہو گئی مگر آگے شیطان کو پہچاننے والی باتیں یا اس کی عبادت سے بچنے کے طریق کہاں گئے.وہ دراصل اس سے پہلے جو مضمون ہے سورۃ فاتحہ کا ، اس میں بیان ہوئے ہیں اور اس طرف یہ

Page 214

خطبات طاہر جلد 16 208 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء آیات اشارہ کر رہی ہیں بلکہ کھلم کھلا انگلی اٹھا کر دکھا رہی ہیں.جب آپ سورۃ فاتحہ کے اس حصے پہ پہنچتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہم تیری عبادت اور صرف تیری عبادت کرتے ہیں تو کیوں یہ فیصلہ دل میں کرتے ہیں.اس وجہ سے کہ اس سے پہلے خدا تعالیٰ اپنا ایک تعارف کروا چکا ہے اور وہ تعارف ہے کہ وہ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ ہے، وہ الرَّحْمَنِ ہے، وہ الرَّحِيمِ ہے، وہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہے.یہ چار صفات اگر کسی وجود میں ہوں تو بے اختیار اس کی عبادت کے لئے روح آمادہ ہوتی ہے اور ان چار صفات کا علم کافی نہیں جو محض ذہن سے تعلق رکھتا ہو.ان چار صفات کے ایسے علم کی ضرورت ہے جو حق الیقین ہو اور کامل طور پر اعتماد ہو کہ ہاں یہی ہے.اگر یہ چارصفات آپ کو کسی جگہ دکھائی دیں گی تو لازماً روح عبادت کرے گی اس وجود کی.اب شیطان کو پہچاننے کا طریقہ سمجھا دیا.فرمایا اگر تم رحمانیت میں بھی شیطان کی طرف جھک رہے ہو، غیر اللہ کی طرف جھک رہے ہو، اگر تم رحیمیت میں بھی غیر اللہ کی طرف جھک رہے ہو، اگر تم ربوبیت میں سب سے پہلے کہنا چاہئے تھا، ربوبیت میں غیر اللہ کی طرف جھک رہے ہو ، رحمانیت میں، رحیمیت میں اور اسی کو مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ سمجھتے ہو تو پھر لا ز ما تم اس کی عبادت کرو گے.پھر تم اس مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتے جہاں سے روح کی گہرائی سے یہ آواز اٹھے اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور اس میں شیطانی صفات کو منفی انداز میں اس طرح پیش فرما دیا کہ ربوبیت جہاں نہیں ہے وہاں ربوبیت رکھ دینا، رحمانیت جہاں نہیں ہے وہاں رحمانیت تصور کر لینا، رحیمیت جہاں نہیں ہے وہاں اس مقام کو رحیمیت کا مقام سمجھ بیٹھنا، جہاں ملکیت نہیں اور مالکیت نہیں وہاں ملکیت اور مالکیت کو تصور میں لانا اور اس پہلو سے اگر تم کرو گے تو لازماً مشرک بنو گے اور عبادت کا رخ یکسر بدل جائے گا اور شرک کی سب سے خطرناک تعریف یہ ہے جو اس آیت میں کی گئی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم سے میں نے عہد نہیں لے رکھا تھا کہ شیطان کی عبادت نہیں کرو گے.پس اس عبادت کے لفظ کے ساتھ یہ عہد لینا کہ شیطان کی عبادت نہیں کرو گے اس نے اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ خدا کو کہو اور رب اور رحمان اور رحیم اور مالک شیطان کو سمجھو یہ وہ عبادت ہے جس سے ہم نے تمہیں روکا تھا.اور لفظ أَعْهَدُ اِلَيْكُمْ کا محاورہ عام عہد سے مختلف ہے.ایک عہد ہوتا ہے جس میں دو طرف شریک ہوتے ہیں اس کو معاہدہ کہا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جو انبیاء سے میثاق لئے

Page 215

خطبات طاہر جلد 16 209 خطبہ جمعہ 21 مارچ 1997ء ہیں ان میں دوطرفہ عہد ہے تم یہ کرو تو میں یہ کروں گا.ایک عہد ہوتا ہے جو ایک غالب اور مقتدرہستی اپنے ماتحتوں سے لیتی ہے اور اس میں دو طرفہ عہد کی شقیں نہیں ہوتیں.تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آئندہ یہ کام نہیں کرو گے، جب آپ یہ کہیں کسی بچے کو اور اس کو مجبور کریں کہ وہ آپ سے یہ عہد کرے تو یہ أَعْهَدُ إِلَيْكُم والا مضمون ہے.چنانچہ حضرت امام راغب لکھتے ہیں کہ یہ مضمون اس طرح کا ہے کہ کسی پر عہد فرض کر دینا اور اس کی حفاظت کی تلقین کرنا (المفردات فی غریب القرآن زیر لفظ عهد ) تو فرمایا کہ ہم نے کیا ہمیشہ سے تم پر یہ عہد فرض نہیں کر دیا تھا اور لازم نہیں کر دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہیں کرنی.اگر تم اس کی عبادت کرو گے تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا تعلق ہم سے کٹ جائے گا.پس اب پہچاننے کے طریقے کیا ہمارے سامنے آئے.اب دنیا میں جہاں جہاں بھی شیطان کی عبادت ہورہی ہے یا غیر اللہ کو مالک سمجھنے کے نتیجے میں ہورہی ہے غیر اللہ سے چار صفات کھینچ لیں تو آپ کی جوتی کی نوک بھی اس وجود کو سجدے نہیں کرے گی کیونکہ ہر سجدہ ایک منفعت کو چاہتا ہے ہر عبادت کے نتیجے میں کچھ حاصل ہوتا ہے اور جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے نتیجے میں صراط مستقیم نصیب ہوتی ہے وہاں شیطان کی عبادت کے نتیجے میں الضّالِّينَ کا مقدر ملتا ہے.یہ باتیں ساری ان آیات میں اپنے اپنے مقام پر رکھ دی گئی ہیں اور جب آپ ان کو کھول کر پڑھتے ہیں تو حیرت انگیز اس میں ایک ربط ہے، اس مضمون میں ایک تسلسل ہے، ایک گہرائی ہے اور ایک بات کو سمجھنے سے دوسری بات از خود سمجھ آنے لگتی ہے.پس اس پہلو سے میں اس آیت کے بعض دوسرے پہلو آپ کے سامنے کھولتا ہوں.کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا یا تم پر یہ عہد فرض نہیں کر دیا تھا لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَنَ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.اب سب سے پہلے یہ دیکھنے والی بات ہے کہ شیطان کو ایک جگہ تو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ کھلا کھلا دشمن ہے اور دوسری جگہ یہ فرمایا گیا کہ اِنَّهُ يَريكُمْ هُوَ وَ قَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيطِيْنَ أَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف:28) کہ شیطان تو ایسا ہے کہ وہ تمہیں وہاں وہاں سے دیکھ کر تم پر حملے کرتا ہے جہاں جہاں سے تم اسے دیکھ نہیں سکتے.تو کھلا کھلا کیسے ہو گیا.شیطان کھلا کھلا دکھائی دینے والا نہیں لیکن اس کی دشمنی ضرور تمہیں دکھائی دے جائے گی، یہ وہ مضمون ہے عَدُوٌّ مُّبِينٌ ہونا اس کا ثابت ہے جن رستوں سے خدا تعالیٰ تمہیں روک رہا ہے جب

Page 216

خطبات طاہر جلد 16 210 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء قومیں اس رستے پر چلتی ہیں تو از ما نقصان اٹھاتی ہیں.پس پہچانیں یا نہ پہچانیں کہ کس کی تحریص اور تحریک پر ہم ان رستوں پر چل رہے تھے مگر اس کا بد نتیجہ ضرور دیکھ لیتی ہیں تو تضاد نہیں ہے بلکہ مضمون کے بعض مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر نصیحت فرمائی جارہی ہے وہ مختلف پہلو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں.پس اس کا، شیطان کا عدو مبین ہونا اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ جب بھی آپ اس کی پیروی کریں اس کے نتیجے میں فساد برپا ہو جاتا ہے اور اس عدو مبین کی پیروی کیوں کرتے ہیں جبکہ خدا فرما رہا ہے وہ تمہیں وہاں سے دیکھ رہا ہے جو تم اس کو دیکھ نہیں سکتے.وہ کون سا طریق ہے اس کا جس کے نتیجے میں تم اس کو پہچان نہیں سکتے.فرمایا إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيْطِيْنَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ.شیطان دوست بن کر آتا ہے اور جو دوست بن کر آئے جس کے دوستوں کے زمرے میں تم داخل ہو، جس کو تم اپنے دوستوں کے زمرے میں داخل کر لو اس کو تم پہچان نہیں سکتے پھر.اس لئے شیطان اور شیطانی صفات کے لوگوں سے دوستی کرنا انتہائی مہلک چیز ہے پھر تمہیں شیطان کے شر سے آگا ہی نہیں ہوگی اور وہ تم پر حملہ کر دے گا.ایک تو یہ بات کھل گئی کہ شیطان تو نظر نہیں آتا مگر شیطان کے اولیاء اپنے بداعمال، بد کرداری کی وجہ سے دکھائی دے دیتے ہیں.اپنے اولیاء میں وہ ظاہر ہوتا ہے اس لئے پیشتر اس کے کہ تم اس کے اولیاء میں داخل ہو جاؤ اس کے اولیاء کو پہچانو اور ان سے پر ہیز کرو اپنی مجلسوں کی حفاظت کرو، بدکردار لوگوں سے دور بھا گو.خدا کے خلاف بدزبانیاں اور بدتمیزیاں کرنے والوں کو اپنی مجلس میں کوئی راہ نہ دو.ان لوگوں سے تو بہ کرو تو پھر تم خدا کی عبادت کے قریب تر ہو سکتے ہو.ایک موقع پر کالج کے طالب علم تھے ، حضرت خلیفتہ امسیح الاول سے یہ گزارش کی کہ میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور میں مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، دباتا ہوں لیکن وہ دیتے نہیں.آپ نے فرمایا تمہارا کوئی ساتھی ایسا ہے جو د ہر یہ ہے اس سے کنارہ کشی اختیار کرو.کیونکہ بعض دفعہ وہ کہتا بھی نہیں مگر اس کے دل کے خیالات دوسرے انسان کے دل میں منتقل ہو جاتے ہیں، نمازی اگر ساتھ کھڑا ہوا کچھ اور سوچ رہا ہے تو نماز پڑھنے والے کی نماز کی توجہ میں فرق پڑے گا اور یہ ایک تجربہ شدہ حقیقت ہے، یہ کوئی تو ہمات سے تعلق رکھنے والی بات نہیں ہے.جس مجلس میں آپ بیٹھتے ہیں وہاں خیالات از خود ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو رہے ہوتے ہیں گو تعین سے نہیں کہا جاسکتا

Page 217

خطبات طاہر جلد 16 211 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء کہ کس کے خیالات کس طرف جا رہے ہیں مگر خاموشی سے بیٹھیں تو مجلس میں خیالات از خود منتقل ہوتے ہیں اور کسی ظاہری سائنسی ذریعے سے ان کے انتقال کو ثابت نہیں کیا جاسکتا مگر ہوتے ضرور ہیں.پس صحبت شیطان کی اگر براہ راست نہ پہچانی جا سکے تو اس کے اولیاء سے پہچانی جائے گی جو شیطان کے اولیاء ہیں وہ ویسا رنگ اختیار کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاء الله (یونس : 63) مخاطب کر کے ان کی صفات بیان فرمائیں جو خدا کے ولی ہیں.تو اللہ کے ولی اپنی صفات سے پہچانے جاتے ہیں.ان کے رنگ بدل جاتے ہیں، ان کا اٹھنا بیٹھنا مختلف ہو جاتا ہے، ان کی چال ڈھال الگ ہو جاتی ہے.یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کا ولی ہو اور ایک بدکردار انسان اور دونوں میں فرق نہ پتا لگے؟ پس خدا تعالیٰ نے لفظ اولیاء میں اس شیطان کو سمجھنے کی چابی رکھ دی.ایک طرف فرما یاوہ دکھائی نہیں دیتا.پھر فرمایا اس سے بچ کے رہو.اب انسان کہے گا جو دکھائی ہی نہیں دیتا ہمیں پتا ہی کچھ نہیں بچھیں کس طرح تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ اولیاء بن کر تمہارے پاس آئے گا تمہارا ولی بن کے آئے گا اور جو بھی شیطانی بات کرے گا شیطان کا ولی بنے گا، وہ پہچانا جاتا ہے کیونکہ ولی کے اندر اس کی صفات ظاہر ہوتی ہیں.اب اللہ کے ولیوں سے آپ کو خدا کی شناخت تو ہوتی ہے مگر ان کی ذات میں خدا تو نہیں ہوتا، صفات جلوہ گر ہو جاتی ہیں.پس لازماً شیطان کے اولیاء میں شیطان کی صفات جلوہ گر ہو جاتی ہیں وہاں وہ دکھائی دینا چاہئے اور دکھائی دیتا ہے.پس ایسے لوگوں سے پر ہیز اور اپنے تعلقات کی حفاظت کرنا، نہ ایسے لوگوں کو گھروں میں آنے دیں، نہ ان کے گھروں میں جائیں ، نہ ان سے مجلسیں لگائیں جن کی باتوں میں آپ کو کوئی بھی دین کے خلاف بو آتی ہو جن میں اللہ اور اس کے رسول کا احترام نہ ہو.چنانچہ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی مجالس کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ جہاں دین سے مذاق ہو رہا ہو وہاں سے اٹھ جایا کرو لیکن فرمایا کہ اگر دوبارہ جاؤ اور پھر تمہیں یہ محسوس ہو کہ تمہارے دل پر کوئی زنگ لگا ہے تو پھر کلیہ ان سے تعلق کاٹ لو.عارضی علیحدگی ابتداء کے لئے ہے جب عارضی علیحدگی کے بعد وہ دوسری باتوں میں مصروف ہوں اور پھر تم ان کے پاس جاکے بیٹھ جاؤ اور ان کی بد کرداری میں فرق نہ آئے اور تمہیں یہ خطرہ محسوس ہو کہ تم ان کا اثر قبول کرنے لگے ہو تو پھر تم پر لازم ہے کہ ان سے کلیہ تعلق کاٹ اور نہ تم بالکل ان جیسے ہو جاؤ گے.پس یہ اولیاء الشیطین کو پہچاننے کے طریقے قرآن کریم نے نہ صرف اس آیت میں جس کا میں نے حوالہ دیا ہے بلکہ اور آیات میں بھی

Page 218

خطبات طاہر جلد 16 خوب کھول کر بیان فرما دیئے ہیں.212 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء تو اپنی سوسائٹی کی حفاظت کریں، اپنی سوسائٹی سے اپنے بچوں کو بچائیں، اپنی بیویوں کو بچائیں، بیویاں اپنے خاوندوں پر نگاہ رکھیں اور ہماری سوسائٹیاں شیطان کے دوستوں سے کلیڈ کٹ جانی چاہئیں اور الگ ہو جانی چاہئیں.یہ ایک طریق ہے بیچنے کا، مگر اور بھی بہت سے طریق اسی آیت نے ہمیں سکھا دیتے ہیں.الرَّحْمنِ ، رَبِّ الْعَلَمِينَ، اللہ ہے جب بھی ایک انسان خدا کی ربوبیت کو چھوڑ کر غیر اللہ کو رب سمجھتا ہے تو خدا تعالیٰ نے ربوبیت کی جتنی شرائط مقررفرما رکھی ہیں ان سب کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ سب سے بڑا محرک شیطان کی عبادت کا ربوبیت ہے دنیا میں سب سے بڑے فتنے اقتصادی فتنے ہیں.بڑی بڑی قومیں جو دنیا میں نا انصافی کرتی اور دوسری قوموں پر ظلم کرتی ہیں، اپنی ذات میں بعض دفعہ بڑی مہذب ہوتی ہیں.وہ سیاست دان جو یہ ظالمانہ فیصلے کرتے ہیں کہ فلاں قوم کے اقتصادی وسائل کو کاٹ ڈالوا گر وہ تمہارے ہاتھ نہیں آتے ، وہ اپنے روزمرہ کے معاملات میں بہت با اخلاق اور شریف النفس ، ادب سے بات کرنے والے اور آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ دیکھو کتنی سلجھی ہوئی تو میں ہیں لیکن جہاں ربوبیت کا معاملہ آیا وہاں ان کا شیطان کو رب قبول کر لینا اتنا کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ کسی دیکھنے والے کے لئے شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.تمام دنیا کی بڑی بڑی قوموں پر نظر ڈالیں وہ کتنے دعوے کرتے ہیں اپنی عظمتوں کے، اپنی تہذیب و تمدن کی فضیلت کے ، اپنے اعلیٰ اخلاق کے مگر جہاں بھی ربوبیت کا مسئلہ ہوگا وہ شیطان کے سامنے سر جھکا ئیں گے، ہرگز کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ اللہ ان سے کیا تقاضے کر رہا ہے.اگر قوم کے راہنمار بو بیت یعنی رزق کے معاملے میں قوم کے مفاد پر کسی اور قوم کے مفاد کو اس لئے ترجیح دیں کہ اللہ یہ چاہتا ہے تو ان کو اس منصب پر رہنے ہی نہیں دیا جائے گا اس لئے کچھ ان کی بے اختیاری بھی ہے، ساری قوم شیطان کی عبادت کر رہی ہے اور یہ عام طور پر انسان کا حال ہو چکا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دعوئی میری عبادت کا کرو اور مجھ سے توقع رکھو کہ میں اس کے فوائد تمہیں پہنچاؤں اور تمہارا ہر فعل شیطان کی عبادت میں ڈھلا ہوا ہو اور تم مجسم اس کے بندے بن چکے ہو تو بیک وقت ایسی باتیں کیسے ممکن ہیں، دوحکومتوں کے سامنے بیک وقت سجدہ نہیں ہوسکتا یا اس کو کرو گے یا اس کو کرو گے.پس عبادت کا مضمون شرک کے رد کرنے سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ شرک

Page 219

خطبات طاہر جلد 16 213 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء سے تو بہ کئے بغیر تم عباداللہ کی صف میں داخل ہو نہیں سکتے اور تمہاری دعائیں قبول ہی نہیں ہوں گی.اب اس پہلو سے جب آپ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو دوبارہ دہرا کے دیکھیں تو اور عظیم مضمون آپ کو دکھائی دینے لگیں گے.جب آپ کہتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تو اس میں ایک تو یہ عجز کا اظہار ہے ہم عبادت تیری کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جو صفات تو نے پیش فرمائی ہیں اگر کوئی یقین کے ساتھ ان کو سچا مان جائے تو اس کے سوا چارہ ہی نہیں رہا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں کوئی احسان نہیں ہے اللہ تعالیٰ پر کہ ہم نے فیصلہ کر لیا تیری عبادت کریں گے.یہ کہنے کا طریق ہے کہ تو نے اور چھوڑا کیا ہے جس کی عبادت کریں جب رب بھی تو ، رحمن بھی تو ، رحیم بھی تو اور مالک بھی تو ، تو ہم پاگل ہو گئے ہیں جو کسی اور کی طرف جھکیں عبادت کے لئے کوئی رہا ہی نہیں باقی.تو اِيَّاكَ میں یہ نفی جو غیر اللہ کی ہے، لا الہ کی یہ کامل ہونی چاہئے.جتنی یہ کامل ہوگی.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا اتنی ہی مقبول ہوگی.اس مقصد کو سمجھے بغیر جب آپ دعائیں کرتے ہیں تو بسا اوقات سمجھ ہی نہیں آتی ، دعا ئیں تو ہم بڑی کر رہے ہیں مگر قبول نہیں ہور ہیں.اے خدا ہم تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تجھ سے مدد چاہتے ہیں، ادھر سے جواب ہی نہیں ملتا.ساری عمر کی عبادتیں اسی طرح غیر اللہ کے لئے وقف رہتی ہیں یا بے ثمر رہ جاتی ہیں، پھل نہیں لگتا اس لئے کہ عملی زندگی ان کی شیطان کی عبادت کر رہی ہوتی ہے.واقعاتی طور پر ان کا رزق غیر اللہ سے حاصل کیا جاتا ہے ان معنوں میں، ویسے تو سب رزق اللہ ہی سے ملتا ہے، کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہوئے رزق کے ان ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جائز نہیں ہیں.جہاں بھی یہ بات داخل ہوگی یا جب بھی کسی آزمائش کے وقت انسان یہ فیصلہ کرے کہ ٹھیک ہے میری بلا سے، اللہ کو پسند ہو یا نہ ہو میرا رزق یہاں سے مل رہا ہے میں ضرور لوں گا ، و ہیں اس کا ربوبیت سے رشتہ کٹ گیا.پھر وہ جب نمازیں پڑھے گا تو اس کی نمازوں میں مزہ آرہی نہیں سکتا.وہ اس وہم میں مبتلا ہے کہ میں تو بڑی دفعہ کہتا ہوں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ ، إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ الله مدد ہی نہیں کرتا میں کیا کروں.اس لئے مدد نہیں کرتا کہ تم اس راز کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی سچائی اس بات کو لازم کرتی ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا قبول ہو اور یہ جو مضمون ہے اتنا تفصیل کے ساتھ ، اتنا گہرائی کے ساتھ روزمرہ صادق آتا ہے کہ آدمی اگر آنکھیں کھول کر دیکھے تو

Page 220

خطبات طاہر جلد 16 214 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء عقل دنگ رہ جاتی ہے.علومة جس جس معاملے میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت حقیقت میں کر رہا ہو خواہ ربوبیت کا معاملہ ہو خواہ رحمانیت کا، خواہ رحیمیت کا، خواہ مالکیت کا جہاں جہاں وہ سچا نکلے وہیں وہیں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا جاگ اٹھتی ہے اور ان معاملوں میں ضرور خدا تعالی مددفرماتا ہے.پس آنحضرت میر نے فرمایا کہ خدا کے جو بندے اس کے بندوں کی اعانت میں مصروف رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اعانت اپنے اوپر فرض کر لیتا ہے.وہ خدا کے بندوں کی مدد کر رہے ہیں اللہ ان کی مدد کر رہا ہے خواہ پھر وہ منہ سے مانگیں نہ مانگیں یہ کام از خود جاری ہو جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کا رحمانیت کے ساتھ ایک بہت گہرا اور عجیب تعلق ہے جس کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ کبھی بیان کروں گا.رحمانیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بن مانگے دینے والا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا بتاتی ہے که مانگو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یہ بظاہر تضاد کیوں ہے؟.ایک اس کا حل یہ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں کہ جہاں جہاں بھی آپ خدا تعالیٰ کی صفات سے تعلق جوڑتے ہیں عملی زندگی میں وہاں وہاں مانگے بغیر بھی وہ دیتا ہے وہاں وہ رحمان بن کر نکلتا ہے اور جہاں آپ تعلق تو ڑ لیتے ہیں اس سے، وہاں بھی جب دیتا ہے اور دیتا ہے تو پھر بطور رحمن نہیں بطور رحیم دیتا ہے کیونکہ وہ مانگنے پر دیتا ہے.پس اس کے لئے وہ اعلیٰ درجے کی شرط نہیں ہے جو دوسرے معاملات میں خدا تعالیٰ نے عائد فرما دی ہے.مثلاً ایک مشرک ، پتا ہے کہ اس نے دوبارہ شرک کرنا ہے مصیبت میں پھنسا ہوا کہتا ہے میں تیری مدد مانگ رہا ہوں اس لئے مانگ رہا ہوں کہ اور مدد باقی نہیں رہی.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تو کوئی وقت نہیں مانگنے کا، یہ تو کوئی طریقہ نہیں مگر پھر بھی مان لیتا ہے یہ اس کی رحیمیت سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے یعنی مانگنے پر عطا کر دیتا ہے.رحمانیت کے متعلق آنحضرت ﷺ کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات بھی اس مضمون پر خوب روشنی ڈال رہی ہیں کہ جو عِبَادُ الرَّحْمٰن بن جائیں وہ سوتے ہیں تو اللہ ان کے لئے جاگتا ہے، وہ اپنے مفاد سے بے خبر ہوتے ہیں اور اللہ ان سے باخبر ہوتا ہے ان کی حفاظت کرتا ہے ، ان کو پتا ہی نہیں کہ دشمن کیا سازش کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ مستعد ہو کر دشمن کی ہر سازش کو حملہ بننے سے پہلے پہلے نابود کر دیتا ہے.پس رحمانیت اور رحیمیت دونوں اپنے اپنے مقام پر جلوے

Page 221

خطبات طاہر جلد 16 215 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء دکھاتی ہیں کہیں نہ مانگنا خدا تعالیٰ کے قریب تر کر دیتا ہے کہیں مانگنا خدا تعالیٰ کے قریب تر کر دیتا ہے.آنحضرت ﷺ کی ذات میں یہ دونوں جلوے بڑے عظیم، حیرت انگیز صفائی سے ہمارے سامنے آتے ہیں مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے انشاء اللہ آئندہ کسی خطبے میں اس مضمون پر جو ایک علیحدہ مضمون ہے تفصیلی بعد میں روشنی ڈالوں گا.اس وقت میں اس مضمون کی طرف واپس آرہا ہوں کہ شیطان کی عبادت کی پہچان اب کیا ہوگی.پہلے اپنی ربوبیت کی حفاظت کریں یعنی اپنی رزق کی تمنا، اپنی دولت کی تمنا، اپنی جائیدادوں کی تمنا یہ سارے ربوبیت سے تعلق رکھنے والے مضامین ہیں ان کی نگرانی کریں اور حفاظت کریں.جہاں جہاں آپ غیر اللہ سے اپنے آپ کو چھڑا کر اللہ کی ربوبیت کے سائے تلے لے آئیں گے وہاں لازماً آپ کو خدا تعالیٰ کی عبادت ایسی نصیب ہوگی کہ ہر عبادت کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا جلوہ آپ پر پہلے سے زیادہ روشن ہوگا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے نتیجے میں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مضمون ایک قانون قدرت کی طرح جاری ہوگا اس میں پھر کوئی روک پیدا ہو ہی نہیں سکتی لیکن سب سے بڑا فتنہ ربوبیت ہی کا فتنہ ہے یعنی غیر اللہ کو رب بنانا.پس فرمایا ہم نے تمہیں کہا نہیں تھا، عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کو رب نہ بنانا، یہ مطلب ہے اس کی عبادت نہ کرو اور تم اس کو رب بنا بیٹھے ہو اور جب اس کو رب بنا بیٹھے ہو تو تمہارا سارا معاشرہ دکھوں سے بھر گیا ہے.یہ وہ عَد و مبین ہونے کا مضمون ہے.اب آپ دیکھیں جتنے بھی دنیا میں مسائل ہیں، جتنی مصیبتیں ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ رزق کے حصول کی پاگلوں والی تمنا جو پھر کوئی بھی اخلاقی قدر اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتی.چور چوری کرتا ہے اور یہ رزق کی تمنا ہے اصل میں اس نے شیطان کو رب بنا لیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں کرنی ، اس نے کہا میں نے تو رزق حاصل کرنا ہی ہے وہ جب کسی غیر کا دروازہ توڑتا ہے تو شیطان کے دروازے تو ڑ کر اس کے گھر میں داخل ہوتا ہے عملاً ، یعنی جہاں تک اس کی روح کا تعلق ہوتا ہے وہ شیطان کو اپنا لیتا ہے اور یہ تمنا جتنی بڑھتی چلی جائے اتنا زیادہ سوسائٹی ظلم سے بھرتی چلی جاتی ہے.اس کا اگلا قدم ڈاکہ ہے، اگر گھر والے نے دیکھ لیا تو یہ خوف کہ مجھے پہچان نہ لیا ہو اس کے قتل پر اس کو آمادہ کر دیتا ہے.پھر یہ اور ظلم بڑھتا ہے تو گلیاں محفوظ نہیں.آتے جاتے یہاں تک بھی ہوتا ہے بعض معاشروں میں، امریکہ میں مثلاً واشنگٹن ،

Page 222

خطبات طاہر جلد 16 216 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء نیو یارک وغیرہ میں روزمرہ کی بات ہے کہ کسی عورت کے ہاتھ میں بہت قیمتی گھڑی ہے اس کی کلائی میں یا سونے کا کڑا پہنا ہوا ہے تو اس نے تیز دھار کا آلہ مارا اور ہاتھ بھی کٹ گیا اور کڑ اکھل کے زمین پر گرا اور وہ اٹھا کے بھاگ گیا یعنی ایک کڑے کی خاطر یا ایک گھڑی کی خاطر ہاتھ کا شنا ان کے لئے کچھ بھی نہیں، کوئی برائی بھی دکھائی نہیں دیتی تو عدو مبین ہوا کہ نہیں شیطان.جو معاشرے کو ایسے ایسے ظلموں سے بھر دے وہ تمہارا دوست کیسے ہو گیا اور جب یہ ظلم پھیلتے ہیں تو جگہ جگہ چوری ڈا کہ اور اس کے نتیجے میں لوٹ مار، رستوں پر کھڑے ہو کر ڈاکے ڈالنا اور پھر جتنے مظالم ہوتے ہیں یہ دکھائی دے رہے ہیں معاشرہ بیچ رہا ہوتا ہے کہ یہ ظالم ہیں لیکن اسی معاشرے میں وہ شیطان کے دوست بس رہے ہیں جوان شیطانی صفات کے نتیجے میں معاشرے کو دکھ عطا کر رہا ہے اور ہر شخص اگر اس مقام پر آجائے جہاں اس کو حاصل ہو جائے کچھ تو وہاں دھوکے سے کام لینے میں کوئی بھی تردد نہیں کرے گا خواہ وہ پیسے دے کر عدالتوں سے اپنے حق میں جھوٹے فیصلے لے یا بچے چرا کر فیصلے لے ، ہر ظلم ہی کی ایک قسم ہے جو شیطان کی دوستی کے مظاہر ہیں اور جب ساری سوسائٹی اولیاء الشیطان بن چکی ہو تو وہاں سے خیر کی کیا توقع ہوسکتی ہے.اور ربوبیت کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سب سے اہم اور سب سے زیادہ وسیع طور پر انسانی زندگی پہ پھیلا پڑا ہے.چھوٹے بڑے امیر غریب سارے ممالک اس میں ملوث ہیں.تمام انسان اس میں ملوث ہیں، اگر احمدی بھی ملوث ہو گئے تو یہ لوگ بچیں گے کیسے.یہ سوال ہے جو میں اٹھانا چاہتا ہوں.ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی (دیوان غالب : 336) وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ، تیغ ستم نکلے پھر تو یہ حال ہے جو آپ پر صادق آئے گا.غالب کا یہ شعر کہ جن سے ہمیں توقع تھی کہ خستگی کی داد پائیں گے وہ تو ہم سے بھی زیادہ خستہ نکلے تو پھر تو دنیا اسے یہ کہے گی کہ تم سے ہم امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ تم ہمیں بچاؤ گے تم تو خود غیر اللہ کی عبادت کر رہے ہو.جب تمہارا اپنا رزق پاک صاف نہیں رہا تو بنی نوع انسان کے رزق کو کیسے پاک صاف کرو گے اور جب یہ حال ہوگا پھر اللہ آپ کا رب بنے گا کیسے؟.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ شیطان کو رب قبول کر لو اور اللہ رب بن جائے اور اللہ رب

Page 223

خطبات طاہر جلد 16 217 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء نہ ہوتو کچھ بھی باقی نہیں رہتا، پھر تو سارا قصہ ہی ختم ہے.تو اس دنیا کو بچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تم وہ آخری خدا کی جماعت ہوا گر تم نہیں بچاؤ گے تو کوئی بچانے والا نہیں آئے گا.اتنی اہم ذمہ داریوں کو سمجھے بغیر آپ روز مرہ کی زندگی میں ایسے معاملات میں ملوث ہوں، کوئی دن نہیں ہوتا ڈاک میں جہاں ایسے خط نہ ملتے ہوں فلاں نے مجھے یہ کہا اتنے پیسے لے کے بھاگ گیا، فلاں اتنے پیسے کھا گیا فلاں مکر ہی گیا ہے کہ میں نے لئے تھے پیسے.کسی نے کہا کہ پیسے دو میں فلاں ملک پہنچاتا ہوں.ہم نے ڈھونڈا تو دیکھا، نظر آنا بند ہوا تو پتا لگا کہ آپ اس ملک میں پہنچ گیا ہے، وہاں بیٹھا ہوا ہے.اس قدر ظالمانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اور دعوے یہ ہوں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.دعائیں مانگیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں بعض ایسے لوگ.تو کس کی عبادت کر رہے ہیں مدد اس سے مانگیں پھر کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ نے شرط لگا دی ہے ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اس لئے مدد کے لئے تیرا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اگر عبادت کسی اور کی کر رہے ہیں تو آواز آئے گی کہ اے لعنتیو ! دور ہٹ جاؤ میرے دروازے سے.جس کا دروازہ تمہارے دل کھٹکھٹا رہے ہیں وہی تمہارا معبود ہے اسی سے جا کے مدد مانگو.تو دعاؤں کی قبولیت کا راز اس بات میں خدا تعالیٰ نے کھول دیا ہے اور کتنا کھل کر یہ مضمون سامنے آجاتا ہے آپ اپنے تعلقات کو اللہ تعالیٰ سے ٹھیک کریں، اپنی عبادت کا رخ اس طرف پھیریں اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک شیطان کی عبادت سے کلیۂ اجتناب نہ کریں.اب یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے.سمجھ میں صاف آگیا ہے اور پھر اگر ہاتھ نہ پڑے پھر بھی یہی آیت آپ کے کام آئے گی مگر پھر اس میں ایک اور درد کا پیدا ہونا ضروری ہے.ایک انسان ایک بددیانتی کے معاملے میں ملوث ہے، گندی عادتیں پڑ چکی ہیں اور کئی قسم کی اقتصادی بے راہ روی کا عادی ہو گیا ہے، وہ تعلق توڑنا چاہتا ہے ان باتوں سے، خدا کے حضور حاضر ہونا چاہتا ہے کہ اے خدا جو پاک رزق تو عطا کرے وہی میرے لئے کافی ہے اور بس نہیں چلتا تو اس وقت یہی دعا اور طرح کام آتی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے خدا ہم تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں مگر ہو شیطان کی رہی ہے اس لئے ہم تجھ سے مدد مانگ رہے ہیں.کچھ ایسا کر ہمارے لئے کہ ہمیں اپنی عبادت نصیب فرما.جب دل میں درد پیدا ہو اور یہ دعا اس مضمون کے ساتھ کی جائے تو

Page 224

خطبات طاہر جلد 16 218 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء پھر اس کا اثر آپ ضرور دیکھیں گے لازماً ظاہر ہوگا.پس اللہ تعالیٰ نے تو ہر توقع جو انسان سے رکھی ہے، اپنے بندوں سے، اس کو آسان کر کے دکھا دیا ہے کھول کھول کر سمجھا دیا ہے یہ طریق اختیار کرو، یہ طریق اختیار کرو تو پھر تم میری راہ پر قدم رکھنا مشکل نہیں پاؤ گے، وہ راہ آسان ہوتی چلی جائے گی.و أَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيم سیدھی بات یہ ہے میری عبادت کرو سیدھے رستے پر چل پڑو گے کوئی خطرہ نہیں، کوئی وہاں ڈاکہ نہیں، کوئی چورا چکا نہیں آسکتا اور وہ ترقی کی راہ وہ ہے نعمت عَلَيْهِمُ والی.ان لوگوں کی راہ ہے کہ اے خدا جن پر تو نے نعمتیں نازل فرمائیں.تو ہر انسان اپنی سر بلندی کے لئے یا نعمتوں کے حصول کے لئے یا رزق میں برکت کے لئے دنیا میں جھک مارتا پھرتا ہے ساری تو جہات ، ساری محنتیں ان چیزوں کے لئے وقف کر رکھی ہیں اور جو آسان سیدھا رستہ خدا نے سمجھا دیا ہے اس پر چل کے دیکھتا نہیں اس وجہ سے کہ یقین کی کمی ہے اور اگر یقین کی کمی ہے تو پھر جس پر یقین زیادہ ہے اس کی عبادت ہوگی جس پر یقین کم ہے اس کی نہیں ہوگی تو یہ شرک کی پہچان کا پیمانہ بن گیا اور اللہ تعالیٰ پر کس حد تک یقین ہے، یہ پہچانا ہو تو اپنے روزمرہ کے رد عمل سے آپ لازما پہچان سکتے ہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس بارے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی رہے.آگے رحمانیت کا مضمون ہے.جب بھی آپ بنی نوع انسان کو یا ان میں سے بڑے لوگوں کو رحمان سمجھیں تو جب کوئی مشکل پڑے ان کی چوکھٹ پہ جا کے رحمان، رحمان کی آوازیں دیتے ہیں اور ان سے تعلق بعض دفعہ اس طرح بھی رکھتے ہیں جیسے رحمانیت کا اپنے بندوں سے تعلق ہے یا بندوں کا رحمان سے ہے بن مانگے دینے کا مضمون بھی یہاں بالکل بعینہ صادق آتا ہے.بہت سے انسان بڑے لوگوں سے اس لئے تعلق نہیں رکھتے کہ ہم ان سے مانگیں گے بلکہ وہ تعلق ہی میں بن مانگے کے فائدے پیش نظر رکھتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ یہ تعلق ایسے ہیں جن کے نتیجے میں فائدہ پہنچنا ہی پہنچنا ہے.شاہ کا مصاحب بنا ہوا اترا تا پھرتا ہو بڑے لوگوں سے واسطے ہوں ، بڑی چوکھٹوں پر جاتا ہو تو اردگرد کے فوائد سے خود بخود ملتے ہیں ، ضروری نہیں کہ اس سے مانگے.کوئی آج کل یہ نظر رکھتا ہو کہ نواز شریف صاحب کے محل سے کون نکلتا ہے اور کون جاتا ہے یا اس سے پہلے بھٹو صاحب کے محل سے کون نکلا کرتا تھا اور کون جاتا تھا یہ باتیں اتنی ہی کافی ہیں اس کے لئے اور ایسے لوگوں کی چٹھیاں پھر مچلکوں کی طرح چلتی ہیں.

Page 225

خطبات طاہر جلد 16 219 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء اور ایک دفعہ ایک تحقیق کے نتیجے میں واقعہ ایسی باتیں سامنے آئیں کہ جن لوگوں کو حکومت کے قریب سمجھا گیا وہ یہ بھی نہیں کہتے تھے کہ فلاں نے ہمیں یہ کہا ہے اور فلاں طرف سے آرڈر آیا ہے وہ صرف دو حرف ڈال دیتے تھے کہ یہ کام کرنا ہے اور وہ کام ہو جا تا تھا، بڑے بڑے افسروں کی مجال نہیں تھی کہ یہ جاننے کے باوجود کہ فلاں کا دوست ہے یا آنا جانا رکھتا ہے وہاں اس کے حکم کا انکار کر سکیں.تو رحمان یہ بن جاتے ہیں ان معنوں میں کہ بن مانگے دینے والے بن گئے ہیں ان کے کہنے کی ضرورت نہیں اور اگر کہہ کے مانگیں تو اکثر انکار ہی ہو جائیں گے.تو انسان رحمن کسی اور کو سمجھے اور اللہ سے تعلق رکھے یعنی بظاہر ، اور کہے اے رحمن تیری صفت رحمانیت نے ایسا میرے دل کو کھینچا ہے کہ اب میں یہ فیصلہ کرتا ہوں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.تو جور بوبیت کی چمک تھی، ربوبیت کی کشش تھی وہ اپنی جگہ کام کر رہی ہے.ایک رحمانیت کی کشش ہے وہ اپنی جگہ کام کرتی ہے پھر گناہوں سے بخشش کے لئے رحمانیت کام آتی ہے جہاں کوئی شخص پھنسا وہاں اس کار رحمن بدل جاتا ہے اللہ کی طرف دوڑنے کے بجائے پہلا خیال اپنے دوستوں کا آتا ہے، اپنے تعلق والوں کا آتا ہے، افسر متعلقہ کا آتا ہے،اس سے رحم کی بھیک مانگوں اور جو بھی بخشش ہے اس کے بغیر ممکن نہیں گویا اس کی رحمانیت ہی ہے جو ڈھانپ لے تو میں بخشا جاؤں گا نہ ڈھانچے تو نہیں بخشا جاؤں گا.واقعہ یہ تو کل کس پر ہے یہ ہے اصل بات.اگر تو کل غیر اللہ پر ہوتو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا بالکل بے معنی ہوگا.مرغی کے متعلق آتا ہے کہ انڈے کہیں دے، پیٹیں کہیں اور کرے.پس دین کو تو آپ نے بیٹیوں سے بھر دیا ہو اور انڈے دوسرے گھروں میں دیتے ہوں اور جب ضرورت پڑے تو بیٹیوں کے مقام پر جا کے انڈے مانگیں یہ کیسے ہوسکتا ہے.آپ نے اگر رجمن سے تعلق رکھنا ہے تو پاکیزگی کا، رحم کا تعلق اس طرح رکھیں کہ اس کی رحمانیت کے مقابل پر کسی کی رحمانیت کو خاطر میں نہ لائیں.ہر مشکل، ہر مصیبت کے وقت پہلا خیال دعا کا ہو اور اس طرح بھی انسان اپنی شناخت کر سکتا ہے.اگر پہلا خیال دوسروں کا ہو اور ساتھ دعا بھی مانگے یا کہے کہ آپ میرا یہ کام کروا دیں اور دعا بھی کریں تو یہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے.اگر چہ یہ ایک مشکل مسئلہ ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس راہ کے خطرات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہوئے ہمیں سمجھایا ہے.

Page 226

خطبات طاہر جلد 16 220 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء فرمایا ہے تو کل اللہ پر کرنا، اس کی رحمانیت پر تو کل کرنا ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے ذرائع جو خدا تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں ان سے آپ منہ پھیر لیں اس لئے وہ ذرائع اختیار کرنے ہیں اور اس کے باوجود رحمن خدا کو سمجھنا ہے یا رب خدا کو سمجھنا ہے.جب تک آپ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکیں گے آپ کے تعلقات اپنے رب سے یا اپنے رحمن خدا سے درست ہو ہی نہیں سکتے.سوال یہ ہے یا کہ وہ تعلقات آپ کی نظر میں ادنیٰ ہیں جو دنیا کے ہیں یا اللہ سے جو رحم کی توقع ہے وہ ادنی ہے اور یہ بار یک فیصلہ ہر انسان اپنی ذات کے اندر کر سکتا ہے، کچھ بھی مشکل نہیں ہے.اگر کہیں دنیا کے اسباب انسان اس لئے اختیار کرتا ہے کہ میرے اللہ کا حکم ہے اور مسلسل یقین رکھتا ہے کہ ان اسباب کو پھل لگیں گے ہی نہیں جب تک خدا نہیں چاہے گا تو یہ اسباب پھر شرک نہیں ہیں، یہ عبادت بن جاتے ہیں اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں یہ داخل ہو جاتے ہیں پھر.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا یہ مضمون بنے گا کہ اے خدا ہم مانگتے ہی نہیں بلکہ تو نے جو کچھ ہمیں مہیا کیا ہے سب کچھ اس راہ میں صرف کر رہے ہیں اب باقی ہمارے پاس کیا رہا ہے لیکن جو کچھ تو نے ذرائع اور اسباب ہمیں مہیا فرمائے تھے وہ تیری مرضی کے بغیر کام کر ہی نہیں سکتے اس لئے اپنا سب کچھ لے کے تیرے دربار میں حاضر ہو گئے ہیں.مانگتے بھی تجھ سے ہیں اور جیسے تو نے کہا وہ سب کر دیکھا ہے.اب نتیجہ نکالنا تیرے ہاتھ میں ہے.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور مدد چاہنے میں دعاؤں کے رنگ سیکھنے کا مضمون بھی داخل ہے اس کو وہاں تک پھیلائیں تو پھر اور بھی زیادہ آپ کی دعا میں وسعت پیدا ہو جائے گی اور گہرائی پیدا ہو جائے گی.یہ جو دعا کے مختلف طریق اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں یہ بات بھی داخل اگر آپ کر لیں کہ اے خدا ہم تیری عبادت کرتے ہیں واقعۂ تعلق تو ڑ بیٹھے ہیں دوسروں سے جو تو نے کہا یہ کیا کرو ایسے موقع پر وہ کر رہے ہیں ہم اور اس کے باوجود ہم اپنی طاقت سے کچھ بھی حاصل نہیں کرتے کیونکہ ہماری دعاؤں میں بھی نہیں جانتے کہ وہ سوز اور وہ قوت ہے دل کی گہرائی سے اٹھنے والی دعاؤں کی قوت جو مقبولیت کا نشان بن جایا کرتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ وہ قوت ان دعاؤں کو حاصل ہے کہ نہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ذرائع کافی ہیں کہ نہیں.اب ذرائع نا کافی ہوں تو پھر انسان غیر اللہ کی طرف بھی دوڑ سکتا ہے.غیر اللہ کی طرف دوڑنے کا ایک معنی یہ ہے

Page 227

خطبات طاہر جلد 16 221 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء کہ پورے ذرائع کام نہیں کرتے چلورشوت دے کر کچھ ذرائع کو آسان کر لیں.تو یہ دعا ان معنوں میں پھر ایک عظیم دعا بنے گی اور کارآمد ہوگی کہ یہ فیصلہ کریں کہ جو کچھ ہماری طاقت میں تھا اس لئے کیا تھا کہ تو نے فرمایا تھا.اس لئے تو نہیں کیا کہ ہم ان چیزوں پر سہارا کر رہے ہیں اور ثبوت یہ ہے ایاک یعنی صرف تیری عبادت کرتے ہیں.اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ بعض ناجائز ذرائع ہمارے رستے میں آئے تھے مہیا ہوئے تھے ہمیں لوگوں نے سمجھایا کہ اگر چاہو تو یہ کام کیا جا سکتا ہے مگر ہم رک گئے ، ہم نے نہیں کیا تا کہ جب تیرے حضور یہ دعالے کے حاضر ہوں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو اس میں کسی قسم کا کوئی رخنہ نہ ہو، کوئی کھوٹ شامل نہ ہو.اس لئے اب سب کچھ ہم تیرے حضور حاضر کر رہے ہیں یہ دعا نا مقبول ہو ہی نہیں سکتی ، ناممکن ہے اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بندوں نے اس کو آزما کے دیکھا ہے.جب ان شرطوں کے ساتھ آپ خدا کے حضور حاضر ہوں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دعائیں مقبول نہ ہوں.اگر کہیں مقبول نہیں ہور ہیں یا لگتا ہے کہ مقبول نہیں ہور ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کے دو ایسے پہلو ہیں جو پیش نظر رکھنا.ایک ہے وفا اور صبر کا پہلو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں یہ بھی مضمون ہے کہ اے اللہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں وَايَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں، یہ چند دن کا قصہ نہیں رہا، یہ چند مہینوں کی بات نہیں یہ سال دو سال کا ماجرا نہیں ہے ساری زندگی ہم یہی کریں گے تو پھر مایوسی کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، پھر تو بال بڑھاپے سے بھڑک بھی اٹھیں تب بھی انسان یہی کہے گا کہ تیری دعا سے میں مایوس ہونے والوں میں سے نہیں ہوں تو بعض دفعہ دعا میں ایک صبر کا مضمون داخل ہوتا ہے جو اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں شامل ہے.پس اس لئے یہ کہنا کہ دعا مقبول نہیں ہوئی یہ درست نہیں ، یہ دعا کی شرطوں کی آزمائش کا ایک طریق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم جو کہتے ہو کہ سب کچھ مجھے دے بیٹھے ہو، سب کچھ میرے سپرد کر دیا ہے، ساری زندگی کی وفائیں میرے قدموں میں ڈال دیں تو چلو دیکھتے ہیں کہ واقعہ بچے بھی ہو کہ نہیں اور جب پھر انسان وفا کا معاملہ کرے تو بعض دفعہ ساری عمر کی مانگی ہوئی دعائیں بھی خدا ایسے لحات میں قبول کر لیتا ہے جن لمحات میں دوسرے خدا کو چھوڑ کر جارہے ہوتے ہیں اور ایسا شخص جو وفا کے ساتھ دعاؤں پر قائم رہتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خدا کی گود میں آجاتا ہے تو ایک یہ بھی وجہ ہے

Page 228

خطبات طاہر جلد 16 222 خطبہ جمعہ 21 / مارچ 1997ء کہ بسا اوقات انسان دھو کہ کھا جاتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہورہی.ایک اور بھی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور وجوہات میں سے بیان فرمائی ہے کہ بعض دفعہ جو انسان مانگ رہا ہے وہ اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا اور خدا تعالیٰ اس کی دعا کورد نہیں کرتا بلکہ اس سے بہتر دے دیتا ہے اور بعض دفعہ جو مانگ رہا ہے اس کے لئے حالات کی تیاری قانون قدرت کے مطابق کچھ وقت چاہتی ہے اور وہ آنا ا نا تیاری ہو نہیں سکتی کیونکہ قانون قدرت کے خلاف ہے تو اس کے لئے بھی صبر کی ضرورت ہے اور توکل کی ضرورت ہے.فرمایا جہاں تم بظاہر نا مقبول دعائیں بھی دیکھتے ہو یا درکھنا اگر اس پر تم صبر سے کام لو اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا پیچھا نہ چھوڑو، إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی آواز بلند کرنی بند نہ کر دو تو جو تم مانگ رہے تھے اس سے بہت زیادہ دے گا، کچھ اس لئے کہ اس دعا نے جس رنگ میں یہ مانگی گئی ہے وہ قبول تو ہونا ہی ہونا تھا کچھ اس لئے کہ تمہیں جو وقتی طور پر ٹھوکری لگی صدمہ سا آیا کہ جو میں نے مانگا تھا وہ تو نہیں ملا.تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح اشک شوئی کرتا ہے جو دیتا ہے اس سے زیادہ دیتا ہے جو مانگا گیا تھا اور بظاہر وہ قبول نہیں ہوا تو اپنی طرف سے جرمانہ ڈال دیتا ہے ، خدا تعالیٰ کا تو کوئی جرمانہ نہیں مگر بندے بعض دفعہ اپنے پیار کے اظہار میں کہتے ہیں میں نے تمہیں کہا تھا نا میں چیز دوں گا، میں بھول گیا اب یہ میری طرف سے ایک اور ہے یہ جرمانہ ہے میرا.تو اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے جب وہ جھکتا ہے تو اتنا جھک جاتا ہے ذلیل ترین بندوں کے مقام تک پہنچ کر ان کو عطا کرتا ہے اور اپنے او پر پابندیاں ڈال دیتا ہے کہ اوہ تمہیں تکلیف پہنچی اب میں تمہیں بڑھا کر دوں گا تا کہ تمہارے سارے صدمے دور ہو جائیں ،ساری کوفت ختم ہو جائے.یہ عبادت کا مضمون ہے جس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں مگر سر دست میں یہی بیان کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ عباد اللہ بنا لازم ہے ہم پر اگر ہم اللہ کے بندے بن جائیں تو خدا کی ساری کائنات ہماری ہو جائے گی لیکن اللہ کے بندے اس لئے نہیں کہ کائنات ہماری ہو جائے گی.یہ کہ ہماری ساری کائنات اس کی ہو جائے اس روح کے ساتھ عبادت کریں، اس روح کے ساتھ خدا سے عبادت مانگیں تو دیکھیں دنیا کی تقدیر کتنی جلدی جلدی بدلتی ہے.کل عالم میں انقلاب برپا ہو جائے گا جس کی آپ تمنالے کے اٹھے ہیں آج اور وہ آپ کے وقت کے اندازے، آپ کے اندازوں کے پیمانے بدل جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فر مائے اور قرآن کریم کی آیات سے بچی راہنمائی حاصل کر کے اس راہنمائی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.آمین

Page 229

خطبات طاہر جلد 16 223 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء جماعت کو ایسے صاحب اخلاق لوگوں کی ضرورت ہے جو ہر حال میں بنی نوع انسان کے لئے نرم گوشے رکھتے ہوں ( خطبه جمعه فرموده 28 / مارچ1997ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ اِنْ يَّنْصُرُ كُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَ اِنْ يَّخْذُلُكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ( آل عمران: 160 161 پھر فرمایا: یہ آیات جو سورۃ آل عمران سے لی گئی ہیں نمبر 160 اور 161 آیات ہیں.یہ مجلس شوریٰ کے افتتاح کے موقع پر عموماً پڑھی جاتی ہیں اور ان کا شوری سے ہی تعلق ہے.آج سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ پاکستان کی مجلس شوریٰ منعقد ہو رہی ہے جو تین دن تک جاری رہے گی ان کی یہ خواہش تھی کہ حسب سابق میں MTA کے ذریعے خود اس مجلس شوری کا افتتاح کروں.اگر چہ رسمی کارروائی کچھ کمیٹیاں بنانے کی اس سے پہلے شروع ہو چکی ہے اور گزشتہ سال بھی اسی طرح

Page 230

خطبات طاہر جلد 16 224 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء ہوا تھا مگر با قاعدہ شوریٰ کا آغاز اس خطاب سے ہوتا ہے جس میں ہم اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف پاکستان ہی کے ساتھ شامل نہیں بلکہ دنیا کی سب جماعتوں کے ساتھ شامل ہیں.اس ضمن میں ایک یہ بات بھی سمجھانی ضروری ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام شوری اتنا پھیل چکا ہے اور مختلف ممالک میں مجالس شوری قائم کی جاچکی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ان کی مجالس جماعتی روایات کے مطابق بیٹھتی اور دعاؤں کے ساتھ شروع ہوتی ، دعاؤں کے ساتھ ختم ہوتی ہیں لیکن میرے لئے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ ہر مجلس شوریٰ میں اس طرح شامل ہوں جس طرح میں آج شامل ہو رہا ہوں.مطالبے آتے ہیں اور مطالبوں میں تو کوئی حرج نہیں، نیکی کی بات ہے، مگر یہ ممکن نہیں کہ ہر مجلس شوری کو اسی طرح ، اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی پاکستان میں ہونے والی مجلس شوریٰ کو ہے.اس کی اہمیت کے پیش نظر بعض دفعہ میں شامل ہو بھی سکتا ہوں اور ہو جایا کروں گا اگر خدا نے توفیق دی مگر اکثر صورتوں میں یہ ممکن نہیں ہوگا.پاکستان کی مجلس شوری کو جو غیر معمولی فوقیت حاصل ہے یہ اللہ کا فضل ہے جس میں کسی کو کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں.وہ جماعت احمدیہ کے تربیت یافتہ بزرگ جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے تربیت پائی اور پھر ان کے بعد آنے والے تابعین جنہوں نے صحابہ سے سیکھا ان کو ایک اپنا الگ مقام اور ایک مرتبہ، ایک فضیلت حاصل ہے جس میں کسی حسد کا سوال نہیں.رشک کا بھی اسی حد تک سوال ہے کہ ان کے لئے دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقام انہیں عطا فر مایا ہے اس کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے مگر ویسے لوگ ، جیسا اجتماع ان لوگوں کا ہوتا ہے اور پھر ان کا جواول تابعین سے تربیت پا کر ساتھ اکٹھے ہوئے ہیں دنیا میں دوسری جگہ ممکن ہی نہیں ہے.اس لئے جس گروہ کو خدا فضیلت دے دے کوئی اس سے فضیلت چھین نہیں سکتا ، نہ اسے حق ہے کہ اس پر اعتراض کرے.تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی میے کے متعلق بھی اور آپ کی بعثت ثانیہ کے متعلق بھی قرآن کا یہی بیان ہے ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد: 22) یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے وہ دیتا ہے، جسے چاہے گا دے گا اور وہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ہے اس کے بے انتہا فضل ہیں اس کے پاس.ذُو الْفَضْلِ الْعَظیم میں حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کا عظیم مرتبہ بھی بیان ہو گیا.صلى الله

Page 231

خطبات طاہر جلد 16 225 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء مگر دوسروں کے لئے یہ پیغام بھی ہے کہ جوخدا اتنا عظیم فضل فرما سکتا ہے ایک پر ، وہ دوسرے پر بھی اور فضل فرما سکتا ہے اس لئے اللہ سے فضل چاہا کرو اور یہ نہ دیکھا کرو کہ فلاں کو فضل کیوں عطا کیا کیونکہ جس کو بھی خدافضل عطا کرے اللہ کا کام ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کس حد تک فضل عطا کیا جائے گا.پس جماعت احمدیہ پاکستان کی شورٹی کو اس وقت جو غیر معمولی فضل عطا ہے اس کی وجہ میں نے آپ کے سامنے بیان کر دی ہے اس لئے ہر سال ہونے والی مجالس شوری اسی خطاب کو اپنا خطاب بنالیا کریں اور یہ خطاب جو میں مجلس شوریٰ پاکستان سے کر رہا ہوں اس میں نصائح ہیں، ان سب کے لئے ہیں جو مختلف ممالک میں مجالس شوری اس سال منعقد ہوں گی.ویسے مجالس شوری سے تعلق میں جو خطبات ہیں ان کا تعلق کسی ایک سال سے نہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والی دائی ضرورتوں سے ہے.مگر اس پہلو سے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات بھی آج تک ہماری راہنمائی کرتے ہیں.حضرت خلیفتہ اسی الاول کے ارشادات اگر چه مجلس شوری اس طرح قائم نہیں تھی وہ بھی اب تک ہمارے لئے راہنما ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس رنگ میں مشوروں کی بنیاد ڈالی وہ بھی ہمارے لئے راہنما اصول ہیں اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم کا مجلس شوری سے متعلق ہماری راہنمائی فرمانا جس کی آگے یہ سب مثالیں بنی ہیں جس کی متابعت میں یہ سارے مجلس شوری کے طریق جاری ہوئے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے پس اس زمانے سے شروع کر کے پیچھے کی طرف میں چلا ہوں تو یہ ساری چیزیں آخر قرآن تک جا پہنچتی ہیں اور قرآن کا بہترین مطلب حضرت اقدس محمد یہ جانتے تھے.اس پہلو سے آج کی مجلس شوری کے لئے جو میں نے چند نصائح کرنی ہیں ان کی بنیادا نہی آیات کریمہ پر ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنتَ لَهُمُ اس رحمت کی وجہ سے، اس خاص رحمت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا فرمائی لِنتَ لَهُمْ تو ان کے لئے نرم ہو گیا ، ان غلاموں اپنے ساتھیوں کے لئے نرم ہو گیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ اگر تو بدخو ہوتا اور غلیظ القلب ،سخت دل والا ہوتا لَانْفَضُّوا مِن حَوْلِكَ وہ تیرے ارد گرد سے چھوڑ کر تجھے چلے جاتے فَاعْفُ عَنْهُمْ پس ان سے عفو کا سلوک فرما وَ اسْتَغْفِرُ لَهُمُ ان کے لئے بخشش طلب کرتا رہ وَشَاوِرُ هُمُ

Page 232

خطبات طاہر جلد 16 226 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء في الْأَمْرِ اور ان سے مشورے بھی کیا کر فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ پس جب تو فیصلہ کرلے تو پھر تو کل اللہ پر رکھنا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ يقينا اللہ تعالیٰ تو کل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.ان آیات کی بارہا تلاوت بھی کی گئی اور ان سے روشنی لے کر بہت سے اہم مضامین بھی جماعت کے سامنے بیان کئے گئے مگر ہمیشہ جب ان کی دوبارہ تلاوت کی جاتی ہے تو کچھ اور بھی ایسے عقل و نظر کے گوشے ہیں جن پر یہ آیات خصوصیت سے روشنی ڈالتی ہیں.پس لازم نہیں کہ ہر دفعہ وہی بات دہرائی جائے اور نہ دہرائی جاسکتی ہے کیونکہ ہر موقع پر یہ آیت اپنا کوئی نہ کوئی پہلو نمایاں طور پر سامنے پیش کر دیتی ہے.اس پہلو سے آج اس آیت کریمہ کے تعلق میں میں یہ بات سامنے رکھنا چاہتا ہوں فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ ان دو آیات کو اکٹھا پڑھنے سے یہ جو خیال گزرتا ہے کہ تو نرم ہے اس لئے تیرے ارد گر دا کٹھے ہیں اور ان کو اکٹھا رکھنے کے لئے تجھے نرم رہنا چاہئے یہ غلط تاثر ہے یہ مضمون نہیں ہے.مضمون یہ ہے کہ تیرا ان پر نرم ہونا ان کا بنیادی حق نہیں ہے کیونکہ ان میں بدخو بھی ہیں، ان میں بد کلام لوگ بھی ہیں جو تیرے ارد گرد اکٹھے ہوئے ہیں ان میں ہر قسم کے انسان موجود ہیں لیکن یہ تیری رحمت ہے کہ تجھے سب دنیا کے لئے رحمت بنایا گیا ہے اور اس لئے کہ تو بنی نوع انسان میں سے ہر ایک کے لئے رحمت ہے ان میں ہر قسم کے لوگ شامل ہوں گے، ہر نوع کے لوگ شامل ہوں گے تجھے ان سب کے لئے رحمت بنایا جانا ثابت کرتا ہے کہ ایک ایسی عظیم فضیلت ہے جس کے نتیجے میں تولازم سب کے لئے نرم ہے.اپنے ہوں، غیر ہوں، دشمن ہوں ، ان کے لئے بھی تو نرم ہے.پس تیرا نرم ہونا کسی ضرورت کے پیش نظر نہیں ہے، کسی حکمت عملی کے پیش نظر نہیں.یہ نتیجہ کہ نرم ہو حکمت عملی کی خاطر، اس لئے نکالنا غلط ہے کہ آخر پر تان تو کل پہ توڑی گئی ہے کہ ان لوگوں پر تیرا سہارا نہیں ہے.تو ان کا ایسا ضرورت مند نہیں کہ تجھے چھوڑ کر چلے جائیں تو گویا تیرے سارے کام بگڑ جائیں گے.ایک ادنی سا کام بھی تیرا نہیں بگڑے گا کیونکہ اللہ پر توکل ہے اور اللہ تیرے جیسے تو کل کرنے والوں سے تو محبت کرتا ہے تجھے ضرورت کیا ہے کسی کی خوشامد کی کسی کے سامنے جھکنے کی.پس جھکنا ایک احسان ہے، جھکنے کی غرض صلى الله احسان ہے اور وہ احسان ایسا ہے جو طبیعت میں داخل فرما دیا گیا ہے اس کے سوا محمد رسول اللہ ہی کچھ کر

Page 233

خطبات طاہر جلد 16 227 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اللہ نے تمام دنیا کے لئے رحمت بنایا اور اس کے نتیجے میں دل ایسا نرم ہو گیا کہ دشمنوں کے لئے بھی وہ بے حد ملائم تھا تو اپنوں کے لئے رؤف و رحیم کیوں نہ بنتا.پس یہ خیال غلط ہے کہ اس وجہ سے تو نرم ہو کہ یہ لوگ تجھے چھوڑ نہ جائیں دوسری جگہ آیات اس بات کو خوب کھول رہی ہیں کہ سارے بھی چھوڑ جائیں تو ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں.جس کا خدا سہارا ہو اس کو کسی اور پر انحصار کی ضرورت کیا ہے.مگر اس میں اشارہ ان کے لئے ضرور نصیحت ہے جو محمد رسول اللہ ہے کے مقام پر فائز نہیں ہیں اور جو بھی مقام ان کو ملتا ہے آپ کی غلامی سے ملتا ہے.پس اس پہلو سے ان کے لئے دو نصیحتیں ہیں ایک یہ کہ رحمتہ للعالمین کے غلام ہو تو پھر تمہیں بھی رحمت کا نمونہ دکھانا ہوگا اور یا درکھنا کہ اگر دل کی سختی کے نتیجے میں یا کلام کی سختی کے نتیجے میں لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ سکتے ہیں تو تم کس باغ کی مولی ہو تمہاری کیا حیثیت ہے تمہیں لازماً چھوڑ کر چلے جائیں گے اس لئے یہاں احتیاط کے طور پر یہ نصیحت ہے نہ کہ انحصار کے طور پر.صلى الله فرمایا محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق سیکھو، تو کل خدا پر رکھ مگر غلامی مد مصطفی میلہ کی اختیار کرو اور اس نمونے پر چلو تو از خود تم لوگوں کے لئے جاذب نظر ہو جاؤ گے، جاذب قلب و نظر ہو جاؤ گے.ان کے دلوں کو بھی کھینچو گے ان کی نگاہوں کو بھی کھینچو گے اور شوریٰ کا تعلق مرکزیت سے ہے.پس مجلس شوریٰ میں جن خاص صفات کی ضرورت ہے اس کے قیام کے لئے اس سے وابستہ مفادات کو ہمیشگی دینے کے لئے یہ مضمون ان صفات کی طرف اشارہ فرما رہا ہے.پس اول تو وہی ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک محسن انسانیت کے طور پر جو صفات رکھتے تھے ان کی بے اختیار جلوہ گری تھی جس نے دلوں کو کھینچا ہوا تھا مگر ہرگز مقصد یہ نہیں تھا کہ اگر میں نرم نہ ہوا تو لوگ بھاگ جائیں گے اگر یہ مقصد ہو تو پھر ایسے اخلاق کی کوئی بھی قیمت نہیں ہوا کرتی پھر ایسے اخلاق دنیا کی نظر سے چھپا نہیں کرتے اور دنیا لازماً حقیقت کو جان لیتی ہے.دیکھو آج کل جو ڈ یما کریسی کا دور ہے الیکشنز ہوتے ہیں تو بڑے بڑے لوگ اپنے علاقے کے جب یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو ووٹ دیں تو کس طرح گر کر ان کے دروازے کھٹکھٹاتے ، ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، بڑا ہی حسن و احسان کا سلوک کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کے خادم ہیں آپ کی خاطر مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں، آپ ہمیں ووٹ دیں گے تو آپ کی خدمت کا موقع

Page 234

خطبات طاہر جلد 16 228 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء ملے گا اور جب ایک دفعہ منتخب ہو جائیں تو درمیان میں دربان حائل ، دروازے حائل ، اونچے محل حائل اور ان کو وقت ہی نہیں ملتا کہ ان غریبوں کے پاس دوبارہ جا کر ان کا شکریہ بھی ادا کر سکیں اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کا تو کوئی تصور ا کثر رکھتے ہی نہیں.پس ایسے وعدے جو ووٹ مانگنے کے لئے کئے جائیں ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں، سب دنیا جانتی ہے ان کی کیا حقیقت ہے.وہی خدمت کرنے والا عوام کی خدمت کرتا ہے جو مزاجاً خدمت کرنے والا ہو اور یہ ایک پختہ قطعی حقیقت ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں.اس کو کوئی ووٹ دے یا نہ دے جس کے مزاج میں خدمت ہے وہ تو غریبانہ حالت میں بھی خدمت ہی کرتا رہتا ہے.بعض ایسے غریب بھی ہیں جن کو کچھ دینے کی توفیق نہیں وہ رستہ چلتے کی جو بھی خدمت ممکن ہے وہ کر دیتے ہیں، کسی کا سامان اٹھا کے چل پڑیں گے کسی سے جھک کر کہیں گے کوئی ہمارے لائق خدمت ہو، کوئی ہم سے بھی کام لو تو خدمت کا مضمون کسی لالچ کے ساتھ متعلق نہیں ہے.جہاں حرص، لالچ ، غرض داخل ہوئی وہاں خدمت غائب ہوگئی.پس یہ آیات ہمیں یہ سمجھا رہی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ووٹ کی خاطر کبھی نرمی نہیں کی تھی فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ تو تو اللہ کی رحمت کی وجہ سے ان کے لئے نرم ہوا ہے تیرے تصور کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہیں کہ اگر میں نرم نہ ہوا تو یہ میرے مقصد میں مدد دینے کی بجائے مجھ سے دور ہٹ جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تجھے ساری دنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے بنایا تھا.پس اسی تقاضے کے پیش نظر جو عالمی تقاضا تھا تجھے حسن و احسان کی بھی ایسی صفات عطا کی گئیں کہ جس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.پس یہ مضمون ہے کہ محمد رسول اللہ کو دل کی سختی زیب ہی نہیں دیتی تھی ، آپ کے مقاصد سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں تھا اس لئے نہیں دی گئی.بدخلقی کا آپ کے مقاصد سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا اس خلق کے سب سے اعلیٰ مقامات پر آپ کو فائزہ فرمایا گیا.اس مضمون کو سمجھ کر کہ ہر گز اخلاق کا تعلق غرض سے نہیں ہے اخلاق خواہ مذہبی ہوں خواہ دنیا کے ہوں، اگر ہیں تو ہوں گے نہیں ہیں تو نہیں ہوں گے مگر اغراض سے اخلاق پیدا نہیں ہوا کرتے.اغراض سے اخلاق مر جایا کرتے ہیں.اگر آپ کسی کی خدمت کریں اور غرض کوئی احسان جتانا ہو یا زیر نگیں کرنا ہو یا فائدے اٹھانا ہو تو قرآن ایسی ساری خدمتوں کو رد کر دیتا ہے کہ ان کی کوئی حیثیت ہی

Page 235

خطبات طاہر جلد 16 229 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء نہیں ، ان کو خدمت کہنا ہی حماقت ہے.پس اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ فکر نہ کریں کہ اس مجلس شوری کے لئے آپ کو کیسے اخلاق کی ضرورت ہے.ان اخلاق کی طرف توجہ دیں جو روزمرہ دلوں کو کھینچنے والے ہوں خواہ مجلس شوری کے لئے آپ کو بلایا گیا ہویانہ بلایا گیا ہو کیونکہ آنحضرت می صرف مجالس شوریٰ میں تو جلوہ گر نہیں ہوا کرتے تھے.جو زندگی کا ایک ایسا حصہ تھا جو جدا ہو ہی نہیں سکتا تھا ہر حالت میں وہ اسی طرح جلوہ گر ہوئے ہیں.عروسة پس یہ وہ بنیادی پیغام ہے جسے مجالس شوری میں شامل ہونے والے احمدی خوش نصیبوں کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.ووٹ کی خاطر بھی اخلاق نہیں بنانے.اگر یہ تاثر دے کر کہ تم منتخب ہونے کے حقدار ہو اور اہلیت رکھتے ہو، لوگوں سے چاپلوسی کی باتیں کرو گے، نرمی کی گفتگو کرو گے تو تمہارا حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے اخلاق سے دور کا بھی تعلق نہیں.اس نتیجے میں اگر تم مجلس شوری کے ممبر چنے جاؤ گے تو اس ممبر کی خدا کے نزدیک کوئی بھی حیثیت نہیں محض دکھاوے کے لئے آئے اور اپنا جلوہ دکھا کر واپس چلے جاؤ گے اور نہ تمہاری ذات کو کوئی فائدہ پہنچے گا، نہ جماعت کو کوئی فائدہ پہنچے گا.جماعت کو ایسے صاحب اخلاق لوگوں کی ضرورت ہے جو ہر حال میں بنی نوع انسان کے لئے نرم گوشے رکھتے ہوں اپنوں کے لئے بھی اور غیروں کے لئے بھی ، بدکلامی ان کے قریب تک نہ آئے اور دل کی سختی سے نا آشنا ہوں.خوبصورت گفتگو، احسن کلام اور نرم دلی سے ہر طرف نگاہ کرنا ان کی فطرت ہو اور اگر یہ فطرت نہیں ہے تو اسے بنانے کی کوشش کرو یہ وہ دوسری ضروری بات ہے جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے.بعض لوگ طبعا سخت دل ہوتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ یہ نہ فرماتا وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ مگر ساتھ یہ فرمانا فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اگر طبیعتا کوئی بچہ سخت بھی ہو تو اللہ کی رحمت اس کو نرم کر سکتی ہے.پس آنحضرت ﷺ کوتو پیدا ہی اسی طرح کیا گیا مگر وہ جو مزاج کی سختی رکھتے ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں اور آنحضرت علی کی محبت اور پیار کی وجہ سے آپ جیسا بننا چاہیں یعنی اصل تو خدا ہی کی محبت ہے مگر جو نمونہ سامنے ہے وہ دکھائی دیتا ہے، وہ قریب کا نمونہ ہوتا ہے انسان ایسا بننے کی کوشش کرتا ہے ورنہ ہمیں کیا پتا لگتا ہے کہ اللہ کیسا ہے.اگر ہم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا کی صفات دکھاتے ہوئے نہ دیکھتے تو ہمیں

Page 236

خطبات طاہر جلد 16 اللہ کا حقیقی تصور پتا نہیں لگ سکتا تھا.230 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء جو دوسرے ذرائع ہیں وہ بھی ہیں مگر نسبتا مدہم اور مخفی اور بعض ابہام رکھنے والے ہیں انسان دھو کے میں پڑ سکتا ہے انسان اپنی طبیعت پر اگر جانچے تو کئی دفعہ خدا کے تصور میں دھوکہ کھا جاتا ہے مگر صلى الله نمونہ اس کو بنایا جاتا ہے جس کو دیکھ کر دھو کہ نہیں ہوسکتا.پس آنحضرت ﷺ کے نمونے کو دیکھ کر اگر ویسا بنا چاہوتو اللہ کی رحمت سے ایسا ہو سکتا ہے اس کے بغیر ممکن نہیں.پس اس کے لئے اگر توجہ ہے تو پھر دعائیں کرنی ہوں گی اور خدا کی طرف گریہ وزاری سے جھکنا ہوگا کیونکہ اخلاق محض کہنے سے نصیب نہیں ہو جایا کرتے.ہم نے تو بسا اوقات دیکھا ہے کہ جتنا چاہیں آپ کسی کو نصیحت کرلیں جو بدخلق اور طبعا بد تمیز ہے اگر اس میں خدا کے سامنے عاجزی کی عادت نہیں ہے تو وہ کبھی بھی کسی کی بات نہیں مانے گا اس نے اسی طرح بدتمیزی کی حالت میں جان دینی ہے.مگر اگر خدا کا تقویٰ پیدا ہو جائے اور اللہ کی رحمت کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو ایسے شخص پر پھر رفتہ رفتہ نصیحت اثر دکھانے لگتی ہے اور بعض دفعہ ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ اس کی زندگی پر ایک زلزلہ طاری ہو جاتا ہے اچانک اس کے دل کے پتھر ٹوٹتے ہیں اور ان سے رحمت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں پس یہ فطرت کا نظام ہے جو خدا نے پیدا فرمایا ہے.اس آیت سے یہ نصیحت پکڑیں کہ اگر اللہ ہی کی رحمت ہے جو محمد رسول اللہ بناتی ہے تو اسی کی رحمت سے ہم پھر وہ فیض کیوں نہ پائیں جو محد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوا تھا.پس وہ فیض پائیں دعاؤں کے ساتھ اور دعائیں وہ مقبول ہوتی ہیں جو حقیقت میں سچائی کے ساتھ کی جائیں.پس اگر کوئی بد خلق ہے اور اس کو احساس پیدا ہو گیا ہے کہ میں بدخلق ہوں اور مجھے اختیار نہیں ہے تو ایسا شخص ضرور دعاؤں کی طرف متوجہ ہوگا اور بعض ایسے مجھے لکھتے بھی ہیں.وہ کہتے ہیں ہم جب غصے کی حالت میں ہوتے ہیں ہمیں اپنے اوپر اختیار ہی نہیں رہتا، ہم بد تمیزیاں کرتے ہیں، اپنے بڑوں سے بھی بدتمیز ہو جاتے ہیں ، اپنی بیویوں پر بھی ظلم کر جاتے ہیں اگر شادی شدہ ہوں، اپنے گردو پیش کو اپنی سختی کا نشانہ بناتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں کہ ہم نے کیوں ایسا کیا مگر اس وقت ہم مغلوب ہو جاتے ہیں.یہ جو صورت ہے اس میں دو قسم کے محرکات ہیں موجبات ہیں جن پر نظر رکھنی چاہئے ایک تو بیماری ہے اور یہاں جو بات ہو رہی ہے یہ طبعی بیماریوں کی بات نہیں ہو رہی مگر یہ بات یہاں سے

Page 237

خطبات طاہر جلد 16 231 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء ضرور نکلتی ہے کہ بیمار بھی ہو تو اللہ کی رحمت کے تابع ہو اور اگر ویسے ماحول کی ، بچپن کی سختی نے کسی انسان کو بد خلق بنا دیا ہو لمبے عرصے تک اس کے دبے ہوئے مجروح جذبات اسے آخر پھٹنے پر مجبور کر دیں اور پھر عادتا وہ بدتمیز اور بدخلق ہو جائے تو ایسا شخص بھی اللہ کی رحمت کے تابع ہے اور یہ بھی ایک بیماری ہے دراصل.ایک جسمانی بیماری کے نتیجے میں بھی لوگ بدخلق ہو جایا کرتے ہیں ایک روحانی بیماری کے نتیجے میں بھی لوگ بدخلق ہو جایا کرتے ہیں.تو جماعت کو صرف مجلس شوری کے منتخب نمائندوں کے لئے اخلاق کی ضرورت نہیں ہے فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ تمام وہ جو ہمارے گرد و پیش ہیں ان سب کے اوپر ہمارے جھکنے اور ان کے لئے نرم ہونے کی ہمیں ضرورت ہے کیونکہ ہم نے تو سب دنیا کو اکٹھا کرنا ہے اور ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ اگر محمد رسول اللہ یہ کومخاطب کر کے کہتا ہے کہ تو سخت دل ہوتا تو یہ تجھے چھوڑ جاتے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ سخت دلی کے باوجود ہم ان کو اپنی طرف بلائیں اور اس لئے بلائیں کہ آؤ تمہیں خدا سے ملاتے ہیں.دعوت الی اللہ ہو یا کوئی دوسرے کام ہوں احمدی کے اخلاق کا بلند ہونا اور بلند کیا جانا لازم ہے اس کے بغیر اس کی کوئی مجلس شوری اس کے کام نہیں آئے گی.پس اس بنیادی مضمون کو پیش نظر رکھو اور اخلاق کی درستی کو لوگوں کو کھینچنے کی نیت کے ساتھ وابستہ پھر بھی نہ کرو.یہ جو دوسرا پہلو ہے یہ بہت ہی نازک اور اہم پہلو ہے اگر اس کو آپ نہیں سمجھیں گے تو آپ کے اخلاق کی درستی بے حقیقت اور بے معنی ہو جائے گی ، اخلاق کی درستی اللہ کے تعلق سے ہے صرف.اللہ بد خلق کو پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کا بدخلق سے کوئی تعلق نہیں ہے.کوئی شخص کسی روحانی مرتبے پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک وہ پہلے با اخلاق انسان نہ ہو اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سو سال پہلے یعنی 1896ء میں اپنی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی میں خوب کھول کھول کر بیان فرمایا، کوئی بھی شبہ باقی نہیں رہنے دیا.اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ تم بدخلق ہو اور خدا والے ہو ، با اخلاق بننا لازم ہے.پہلے انسان با اخلاق بنتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو مراتب عطا کرتا ہے اس کے بغیر نہیں کیا کرتا.پس عہدہ جو ایک کوئی بھی عہدہ ہو اس عہدے کی حیثیت ہی کوئی نہیں اگر آپ با اخلاق نہیں

Page 238

خطبات طاہر جلد 16 232 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء ہیں.با اخلاق ہیں تو اس عہدے کے اوپر فائز ہونے کے اہل ہیں.اگر اہل نہیں ہیں اور فائز ہو گئے ہیں تو آپ کے اوپر ایک وبال بن جائے گا یہ کیونکہ آپ اس کے حقوق ادا نہیں کر سکتے.پس اس پہلو سے تمام عالم کے احمدیوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ ان میں سے جس کو بھی مجلس شوری کے لئے منتخب کیا جائے وہ اہل ثابت ہوں.ایک یا دو کی بحث نہ رہے کہ وہ ہوں گے تو نمائندگی ہوگی تمام احمدیت کا عالم ، تمام جہان مجلس شوری کی اہلیت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے خدام سے اس طرح پر ہو جائے کہ جس کو بھی پکڑا جائے جس کو بھی دیکھا جائے وہ اہلیت والا ہو.یہ جو مضمون ہے کہ اخلاق کے ساتھ اہلیت کا تعلق ہے اسی کے سمجھنے کے نتیجے میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہر شخص مشورہ دینے کی اہلیت نہیں رکھتا.جب اللہ کسی کو پسند فرماتا ہے تو اہلیت کے سارے تقاضے پیش نظر رکھتا ہے، ان تقاضوں میں یہ جو چند اخلاق کی باتیں میں نے کی ہیں صرف یہی نہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن میں سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیشہ خدا اس کے پیش نظر رہے ، وہی مقصود ہو ، اسی کو خوش کرنا اس کی زندگی کا اعلیٰ مقصد ہو جائے.جب ایسا شخص ہو جو خدا کے تابع ہو، اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے تو اس کی عقل چمکتی ہے اس میں جلاء پیدا ہوتی ہے.اور یہ ایک قطعی حقیقت ہے کہ کوئی شخص جو خدا تعالیٰ کی کامل ذات کے حوالے سے اپنے آپ کو جھکا کر اس کے تابع نہیں ہوتا اس کی عقل میں لاز ما نقص رہ جاتا ہے کبھی وہ کوتاہ بین ہو جاتا ہے، وقتی تقاضوں کی خاطر اپنے دور کے مفادات کو قربان کر دیتا ہے کبھی وہ وقتی مفادات کی خاطر یا ملکی یا قومی ، اپنے خاندانی مفادات کی خاطر دوسرے مفادات کو قربان کر دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں فساد کا موجب بنتا ہے.پس دوسرا اہم معاملہ جو بہت سے معاملات میں سے ایک اہم معاملہ ہے یہ ہے کہ اخلاق کا تعلق تو بنی نوع انسان سے ہے اس کا درست ہونا ضروری ہے اس کے بغیر کوئی انسان مشورے کی اہلیت نہیں رکھتا مگر دینی امور میں اور بھی تقاضے ہیں اور ان نقاضوں میں سب سے بڑا تقاضا تقویٰ کا ہے یعنی انسانوں سے بھی اپنے معاملات درست کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ سے بھی اپنے معاملات درست کرنے والا اور اس کا تو کل خدا پر ہو، بنی نوع انسان پر نہ ہو.یہ سارے مضامین اس پہلی آیت میں بیان ہو گئے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے ابھی پڑھی ہے فَمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمُ یہ اللہ کی رحمت ہی تجھ پر تھی جس کے نتیجے میں

Page 239

خطبات طاہر جلد 16 233 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء تو ان لوگوں پر نرم ہو گیا اگر تو بد خو ہوتا بخت دل ہوتا تو تیرے اردگرد سے یہ چھوڑ کر تجھے چلے جاتے ، کیا نکالا جا رہا ہے فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ ایسے لوگوں سے عفو کا سلوک کر کیونکہ جو لوگ تیرے گردا کٹھے ہورہے ہیں اخلاق کی وجہ سے ان کو اس وجہ سے بھی کچھ خطرات ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر محض اخلاق کی خاطر نہ کہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر کوئی شخص کسی کے گرد اکٹھا ہوتا ہے تو اس کی وفا کا کوئی اعتبار ہی نہیں.جہاں اس سے نظر بدلے وہ اس کو بد خلقی کا نام دے کر چھوڑ کر جاسکتا ہے اور ایسے لوگوں کی مثالیں ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے جب تک تو ان لوگوں پر احسان کرتا رہے یہ تیرے گرد رہتے ہیں جب احسان کرنا چھوڑ دے مال کے معاملے میں اپنے ان فرائض کو پورا کرے جو خدا نے تجھ پر ڈالے ہیں تو جہاں تجھ سے مالی فائدہ نہ دیکھیں یہ تجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں بلکہ بدتمیزی شروع کر دیتے ہیں.اعتراض شروع کر دیتے ہیں تو یہ وہ خطرات ہیں جن کی وجہ سے فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ کا کم ہے.فرمایا یہ لوگ تیرے اخلاق کے محتاج تو ضرور ہیں مگر جیسا تو ان کا محتاج نہیں ہے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر نبی کو مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے پس احتیاج اور بات ہے.ہے اور ضرورت اور بات ہے.احتیاج ان معنوں میں میں کہہ رہا ہوں کہ ان لوگوں پر بناء نہیں.یہ نہ بھی ہوں تو خدا کے کام لازماً ہو کے رہیں گے ، جب وہ ارادہ فرما لیتا ہے تو وہ ہو کر رہتے ہیں مگر جو قانون قدرت اس نے پیدا کیا ہے اس میں انسانوں کو انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے.تو اس کا ایک علاج یہ بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی قوموں کو بدل دیتا ہے اور یہ قرآن کریم بار بار بیان کر چکا ہے تو ان کے بدلے اور تجھے خدا دے گا جیسا کہ مرتدین کے حوالے سے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مرند ہوتا ہے تجھے اور کثرت سے دے گا جو زیادہ نیک دل ہوں جو زیادہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ہوں ، تمہارا خیال کرنے والے، تمہاری قدر کرنے والے ہوں ایسے لوگوں کی جماعتیں عطا کر دے گا تمہیں.پس یہ فرق ہے بناء اور ضرورت میں.آنحضرت ﷺ کو بحیثیت بشر کے نصرت کی ضرورت تھی اور یہ کہنا کہ آنحضرت ﷺ بغیر کسی انسان کی مدد کے محض اس لئے کہ اللہ نے آپ کو مقرر فرمایا ہے اور کامیاب کرنا ہے از خود کامیاب ہو جاتے اگر یہ مضمون سمجھا جائے تو دنیا میں کسی نبی کو کسی کی ضرورت نہیں اور پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی

Page 240

خطبات طاہر جلد 16 234 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء الله مَنْ أَنْصَارِى إِلَى الله (الصف : 15) کون ہے جو اللہ کے معاملے میں میرا مددگار ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کے انصار کا قرآن کریم میں ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی کس طرح لوگ ان کی مدد کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں پس لفظ احتیاج جس کو میں نے بناء کے معنوں میں استعمال کیا ہے وہ اور بات ہے اور عام انسانی ضرورت اور بات ہے.پس یا درکھیں کہ آنحضرت ﷺ کو کسی دوسرے فرد بشر کی اکیلی یا زیادہ کی ان معنوں میں احتیاج نہیں تھی کہ آپ کی بناء ان پر ہو وہ نہ ہوں تو آپ کے کام ختم ہو جائیں.ہاں بحیثیت انسان مدد کی ضرورت تھی کیونکہ صرف اللہ ہے جس کو اپنی اعلیٰ قدرتوں اور طاقتوں میں کسی دوسرے کی ان معنوں میں مدد کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اس پر بناء کر بیٹھے.پس اس کے باوجود اللہ بھی کچھ مدد مانگتا ہے اور یہ مضمون ہے جو خاص طور پر سمجھنے والا ہے کہ اللہ ہمیشہ اس وقت مدد مانگتا ہے جب نبیوں کو مدد دینی مقصود ہو ورنہ کبھی مدد نہ مانگتا.نظام ایسا بنا دیا ہے کہ نبی اکیلے کام نہیں کر سکتے جو ان کے سپرد ہے اس لئے تمام بنی نوع انسان کو حکم دیتا ہے کہ ان کے گردا کٹھے ہو اور ان کی مدد کرو اور اسی کا نام اللہ کی مدد ہے.پس اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ اللہ کہیں مدد بھی مانگتا ہے، اللہ محتاج نہیں ہے مگر نبیوں کی مدد کے لئے ہمیں متوجہ فرماتا ہے اور یہ بھی فرماتا ہے کہ اگر تم نہیں کرو گے تو خدا کو کوئی پرواہ نہیں اس کے کام نہیں رکیں گے، ایسی قومیں پیدا کر دے گا جو زیادہ محبت اور عشق اور فدائیت کے ساتھ میرے انبیاء کی مدد کریں گے اور یہ کام ہو کر رہیں گے پس جن کاموں نے ہونا ہی ہوتا ہے ان میں اگر کسی کو ملوث کیا جائے تو اس پر احسان ہوتا ہے نہ کہ برعکس.جو کام چلنا ہی چلنا ہے اس میں اگر آپ کا بھی ہاتھ لگا دیا جائے تو آپ پر احسان ہے، آپ سمجھیں کہ ہاں ہمیں بھی توفیق ملی اور احسان بھی ایسا کہ ہاتھ لگایا ہے کام نے ہونا ہی تھا مگر پھر اتنے اس کے مقابل پر احسانات شروع ہو گئے کہ ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے گو یا اظہار تشکر ہو رہا ہے تم نے میرے نبی کی مدد کی اب ہم تمہاری نسلوں کی تقدیریں بدل دیں گے تمہارے مقدر جاگ اٹھیں گے اور نسلاً بعد نسل تم پر ہم تم احسان کرتے چلے جائیں گے.تو یہ مدد در اصل بالآخر اپنی ہی مدد بنتی ہے مگر اس مدد لینے کی خاطر کبھی حسن سلوک نہیں کرنا، اس مدد لینے کی خاطر کبھی اپنی زبان کو نرم نہیں کرنا کیونکہ اگر جب مدد لینے کی خاطر کرو گے تو تو کل ان کی طرف ہو جائے گا ، خدا پر نہیں رہے گا.یہ وہ مضمون ہے جو یہ آیات کھول

Page 241

خطبات طاہر جلد 16 235 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء کھول کر ہمارے سامنے رکھ رہی ہیں.چنانچہ دراصل تو ان کو تیری ضرورت ابھی بھی ہے تیرے گرد اکٹھے ہو گئے ، تیرے مددگار بن گئے مگر ان کو توفیق ہی نہیں مل سکتی ان اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی جو تیری مدد کے تقاضے ہیں.کمزوریاں ہیں اور کئی ایسی باتیں ہیں جن کے نتیجے میں ان کے لئے ٹھوکر کے سامان ہیں کئی بد اخلاق لوگ ہیں اسی طرح آگئے ہیں.فَاعْفُ عَنْهُمْ ان کے ساتھ صرف نظر فرما، گزارا کر ان کے ساتھ اور کئی چھوٹی موٹی باتیں جو تکلیف دہ ان کی طرف سے پیدا ہوتی رہتی ہیں تو عظمت اور حوصلے والا انسان ہے تو جہاں تک ہو سکتا ہے ان سے صرف نظر فرمالیکن ان معنوں میں صرف نظر نہ ہو کہ بے شک یہ برائیاں قائم رہیں.وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ اللہ سے دعا مانگ، اس سے مغفرت طلب کر کہ اے اللہ ان کی برائیاں دور فرمادے اور ان سے بخشش کا سلوک فرما اور مشورہ ان سے مانگ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ لیکن فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ مشوره ان سے مانگ لیکن فیصلہ تو نے کرنا ہے کیونکہ جو بصیرت تجھے خدا نے عطا فرمائی ہے وہ تعلق بالله کے سوا نصیب ہو ہی نہیں سکتی.پس مدد اس لئے نہیں ہے کہ اللہ مددگار نہیں ہے اور مشورہ اس لئے نہیں ہے کہ اللہ مشیر نہیں ہے، یہ دونوں ایک ہی قسم کے مضمون ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھ تو مدد مانگتا ہے تو انحصار تو ان پر نہیں ہے نا.تو مشورہ بھی مانگ ان کو اس میں بھی حصہ دے لیکن فیصلہ تو نے کرنا ہے کیونکہ تو خدا کی نظر سے دیکھتا ہے ، تقویٰ کی نگاہ سے فیصلے کرتا ہے اور اس کے باوجود یہ مشورہ بے کار بھی نہیں کیونکہ انسانی پہلو سے جب ہزار یا لا کھ کا کام ایک نہیں کر سکتا تو ہزار یالا کھ خدا مہیا کر دیتا ہے.اسی طرح ایک نبی کی سوچ بھی بہت سے ایسے امور پر حاوی نہیں ہوتی جو اس کے علم سے باہر ہیں تو یہ کہ دینا کہ کلیہ بے ضرورت ہے یہ بھی غلط ہے.مگر فرمایا کہ وہ سارے امور جوان سب کے علم میں ہیں جن میں سے ہر بات تیرے علم میں نہیں جب وہ تیرے حضور پیش کر دیئے جائیں تو انہی باتوں سے فیصلہ کرنا تیرا کام ہے کیونکہ ان لوگوں کی عقلیں ایسی تیز نہیں ہیں، نہ یہ ایسے متقی ہیں کہ ہر فیصلے میں خدا کو پیش نظر رکھیں یعنی تیرے ہم مرتبہ نہیں ہیں اس معاملے میں.پس وہی Data یعنی وہ کوائف، وہ اعداد و شمار جن پر ایک انسان فیصلے کرتا ہے اگر ذہین ہو، اعلیٰ درجے کا ہو تو اس کا فیصلہ انہی کوائف پر ہمیشہ درست ہو گا ہمیشہ بہتر ہوگا.اس میں ڈیما کریسی یا

Page 242

خطبات طاہر جلد 16 236 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء کثرت اعداد کا کوئی سوال نہیں ہے.اگر دماغوں کی کیفیت ایک جیسی ہو تو کروڑ بھی ہوں وہ وہی فیصلہ کریں گے.ایک دماغ کی کیفیت اعلیٰ درجے کی ہو تو وہ ان کروڑوں کے مقابل پر اگر اعداد و شمار ہوں گے تو وہ صحیح فیصلہ کرے گا اور اس کا فیصلہ غالب ہوگا، اعلیٰ درجے کا ہوگا ، یہ مضمون ہے جو بیان ہوا ہے کہ ضرورت تو اور معنوں میں ہے تو سہی مگر ان معنوں میں نہیں کہ اگر ان سے مشورہ نہیں کرے گا تو خدا تعالیٰ تجھے صحیح فیصلوں کی توفیق ہی نہیں بخشے گا.مشورہ کرے گا تو بہت سی ایسی باتیں تیرے علم میں آجائیں گی جو عام حالات میں تیرے علم میں نہیں تھیں.ایک مضمون کے مختلف پہلو تیرے سامنے کھل جائیں گے پھر فیصلہ تیرا ہے پھر ان کا فیصلہ نہیں.جو کچھ انہوں نے کہنا ہے کہہ دیں، تیرے حضور حاضر کردیں، پھر اگر ان کا فیصلہ وہی ہو جو تیرا ہے تو ان کے فیصلے کے طور پر اسے احسان سے قبول کر لیا کر.یہ بھی ایک حسن خلق کا وہی پہلو ہے جس سے ان آیات کا آغاز ہوا ہے.لِنتَ لَهُم مراد یہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ کا فیصلہ وہی ہو جو ان سب مشیروں کا فیصلہ تھا تو یہ کہ کر قبول فرما لیا کر کہ ہم تمہارے مشورے کو منظور کرتے ہیں اور یہ احسان کے طور پر ہے فرض کے طور پر نہیں.جہاں تیرا فیصلہ الگ ہو وہاں تیرا فیصلہ چلے گا ان کے مشورے کام نہیں آئیں گے ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی.صلى الله.اور یہی طرز عمل ہے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا جو تمام عمر آپ نے اسی طرح اختیار فرمایا.مشورہ کیا ہر چھوٹے بڑے سے اور مشورے میں یہ بات پیش نظر رکھی کہ مشورے کی صلاحیت ہے تو اس سے مشورہ کیا جائے اور چونکہ ہر کام میں ہر شخص کو صلاحیت نہیں ہوتی اس لئے بعض مواقع پر بعض خاص لوگوں کو بلوایا ، ان سے مشورہ کیا بعض کاموں پر کسی اور کو بلالیا لیکن اس قسم کی مجلس شوری جیسا کہ اب رواج ہے قانونی حساب سے اور باقاعدہ ڈیما کریسی کے طریق پر ووٹ کر کے یہ وہاں اس وقت رائج نہیں تھا.یہ وقت کے پھیلے ہوئے تقاضوں کے نتیجے میں بنا ہے مگر بنیادی چیز وہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ اللہ کی طرز شور کی تھی.اور یاد رکھیں کہ یہ مجلس شوری جو آج منعقد ہو رہی ہے پاکستان میں یہ ایک ہی مجلس شوری نہیں ہے جس پر خلیفہ وقت بنا کرتا ہے یا جس سے خلیفہ وقت فائدہ اٹھاتا ہے.آنحضرت ﷺ کا مشوره شب و روز ہمیشہ جاری و ساری رہتا تھا، کوئی کام بھی آپ بغیر مشورے کے نہیں کیا کرتے تھے ہر مشورے کے بعد فیصلہ خود فرمایا کرتے تھے.یہی طریق اب بھی اسی طرح جاری ہے.آئے دن

Page 243

خطبات طاہر جلد 16 237 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء روزانہ ضرورتیں پڑتی ہیں کبھی کسی کو بلا کر اس سے مشورہ کرنا پڑتا ہے کبھی کسی اور کو بلا کر اس سے مشورہ کرنا پڑتا ہے مگر خلیفہ وقت کوئی بھی فیصلہ بغیر مشورے کے نہیں کرتا مگر ہر روز مجلس شوری کا انتخاب نہیں ہوتا نہ با قاعدہ رسمی طور پر کوئی اجلاس کی کارروائیاں ہوتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ کا طریق اور سنت ہی ہے جو دراصل مجلس شوری کے لئے راہنما ہے.پس یہ خیال بھی دل سے نکال دیں کہ گویا سال میں ہماری ایک ہی مجلس شوری ہوتی ہے یہ مجلس شوریٰ ایک پہلو سے تربیت کی خاطر ہے ورنہ مجلس شوری کا عمل جاری وساری ہے، مسلسل ہے اور صرف ایک ملک سے تعلق نہیں رکھتی یہ مجلس شوری تمام دنیا کے ممالک سے تعلق رکھتی ہے کئی دفعہ بعض مسائل میں انسان کو خط لکھنا پڑتا ہے جاپان کبھی چین، کبھی امریکہ، کبھی افریقہ کو یہ مسلہ ہے بتاؤ اس سلسلے میں کیا مشورہ ہے کیا ہونا چاہئے اور چونکہ وہ ملک وہ لوگ موزوں تر ہوتے ہیں مشورے دینے میں جن کی طرف توجہ کی جاتی ہے اس لئے ان کے مشورے بہت اچھے ملتے ہیں.پھر ہر ملک کے مسائل کا تعلق کسی سال کے ایک وقت سے تو نہیں ہے آئے دن روزانہ ڈاک میں وہ راہنمائی طلب کرتے ہیں اور میں پھر ان سے مشورے مانگتا ہوں کہ پہلے اپنا تو بتاؤ کہ تمہاری کیا نیت ہے کیا سمجھتے ہو وہ سب کچھ جب میز پر رکھ دیتے ہیں جیسے انگریزی میں کہتے ہیں At the table.جب وہ میز پر سب رکھ دیتے ہیں تو پھر میری طرف دیکھتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے علم میں تھا ہم نے پیش کر دیا اب بتائیں کیا فیصلہ ہے.اس کے نتیجے میں ایک اور بڑی عظیم برکت جماعت کو ملتی ہے وہ وحدت کی اور توحید کی برکت ہے یک جہتی کی برکت ہے ہر ملک کے فیصلے الگ الگ نہیں ہوتے الگ الگ ہونے کے باوجود ان میں ایسی یکسانیت پائی جاتی ہے ایسی یک جہتی پائی جاتی ہے جو ایک مرکزی جماعت کے بغیر ہوسکتی ہی نہیں.اگر یہ نہ ہوتا تو ساری دنیا میں جماعت کی طرز عمل مختلف ہو جاتی اور ہر ملک کی سوچ کے مطابق ایک علیحدہ سانچہ بنایا جاتا جس میں وہ جماعت ڈھلتی جو کسی ملک سے تعلق رکھتی ہواب باوجود قومی تفریق کے، باوجود انفرادی فرق ہونے کے جو ہر فرد میں بھی واقع ہے اور قومی فرق ہونے کے باوجود جو ہر قوم میں واقع ہے جماعت احمدیہ کی وحدت بالکل ان سے متاثر نہیں ہوتی.یہ ایک ایسا عظیم الشان اعجاز ہے جو صاحب نظر کے لئے اکیلا ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے.

Page 244

خطبات طاہر جلد 16 238 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء تمام دنیا میں احمدیت کا مزاج ایک بن رہا ہے اور اس مزاج میں نہ رنگ ونسل کا کوئی اثر ہے نہ شخصیت کا کوئی فرق ہے، وہ ایک احمدی مزاج ہے جو تقویٰ کے گرد ڈھل رہا ہے اور وحدت کے گرد ڈھل رہا ہے اس میں یکسانیت پیدا ہو رہی ہے اس میں اجتماعیت پیدا ہو رہی ہے اور اس اجتماعیت کو پیدا کرنے کے لئے جو وقت کے نئے تقاضے پیدا ہوئے جو ہماری طاقت سے باہر تھے اللہ تعالیٰ نے اب MTA کے ذریعے وہ حل فرما دیئے اور آئندہ جب یہ ضرورتیں اور بڑھیں گی تو خدا اور نظام جاری فرمادے گا کیونکہ صرف یہی تو نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت میں ہے آئندہ زمانوں میں خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس قسم کی ضرورتیں در پیش آئیں، کس طرح رو برو، آمنے سامنے ، جگہ جگہ مشوروں کی ضرورتیں پیش آئیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت نے جس نے یہ انعام ہمیں دیا ہے وہ انعام بھی عطا فرمائے گا اور جماعت احمدیہ کی آئندہ کی تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے پوری فرمائے گا.جب اس یقین تک پہنچتے ہیں تو فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ کا مضمون سمجھ آ جاتا ہے ، ساری کوششیں کرو مشورے کرو، فیصلہ تو نے کرنا ہے اور جب تو فیصلہ کرے گا تو چونکہ خدا کی خاطر کرے گا اس لئے فرمایا فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اگر ان کی خاطر کرتا تو ان پر تو کل کرنا چاہئے کہ ان پر کیا تو کل ہوگا نرم بات کریں تو آگئے ذرا مزاج کی سختی ہوئی تو بھاگ گئے.بعض تو چہرے پڑھ کے ایسی غلط غلط باتیں نکال لیتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایک انسان بے چارہ اپنی سوچوں میں پڑا ہوا ہے، اپنی مصیبتوں میں مبتلا ہے، کوئی آئے ، دیکھے کہ یہ اس نے تو آج ہم سے بدسلوکی کا سلوک کیا آنکھ پھیر لی اور وہ اسی طرح واپس چلا جاتا ہے یہ اثر لے کر کہ اس نے ہمیں چھوڑ دیا ہے مگر اللہ تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کوئی شخص کیوں کسی سے کیا سلوک فرمارہا ہے.اس لئے عزم تو کرنا ہے لیکن تو کل ان پر نہیں کرنا ، یہ تو الگ سوچیں لے کے آنے والے لوگ ہیں تیرے فیصلوں سے بے وجہ نا خوش بھی ہو سکتے ہیں ان پہ کیا تو کل کرے گا تو.تو نے خدا کی خاطر فیصلہ کیا ہے خدا پر توکل کر اور فرمایا: فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ یہاں آنحضرت ماہ کے توکل کی وجہ کو نمونہ بنا کر یہ بتایا ہے کہ یہ تو کل کرنے والا ، ایسا تو کل کرتا ہے کہ اللہ کے لئے اس سے محبت کے سوا کچھ اور چارہ ہی نہیں رہتا.جو اللہ پر ایسا تو کل کرے کہ ہر دوسرے تقاضے کو بھلا دے اور توحید کامل کا نمونہ بن جائے ، موحد کامل ہو جائے اور توحید کامل کا زندہ

Page 245

خطبات طاہر جلد 16 239 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء نمونہ بن جائے ، ایسا شخص جب خدا پر توکل کرتا ہے تو اس کے سوا ہو کیا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے.مگر یہ کہنے کی بجائے کہ تو تو کل کر اللہ تجھ سے محبت کرے گا فرمایا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ المُتَوَكَّلِينَ اس میں ہم سب کے لئے پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بھی وہی توقع رکھتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے توکل کے انداز سیکھ کر متوکل بن جائیں کیونکہ ایک متوکل خدا کو نہیں چاہئے اور صرف ایک سے محبت کا وعدہ نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ کو کثرت سے تو کل کرنے والے چاہئیں اور وہ ہر ایک کو یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تم متوکل بنو گے تو تم سے بھی خدا تعالیٰ محبت کرے گا.تو دیکھو یہ مجلس شوری کا مضمون کہاں سے شروع ہو کر کہاں جا پہنچا ہے.ابھی ایک ہی آیت ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ نے اس میں دیکھیں کیسی وسعتیں پیدا فرمائی ہیں کیسی کیسی عظیم نصیحتیں ہمارے لئے رکھ دی ہیں.پس مجلس شوریٰ میں آپ سب اکٹھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کا اکٹھا ہونا مبارک فرمائے جن حالات میں پابندیوں کے ساتھ آپ مجلس شوری کے تقاضے پورے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ان پر نظر ہے اور تو کل کا یہ مضمون بھی پیش نظر رکھیں کہ دعا کریں تو خدا تعالیٰ ان سب روکوں کو دور فرما دے گا اور وہ خدا جس نے دور بیٹھے ہمیں اکٹھا کر دیا ہے وہ اکٹھا کر کے بھی اکٹھا کر سکتا ہے کہ ان گنت انداز ہیں رحمت کے.پس اس کی رحمت پر تو کل کریں اسی سے دعائیں مانگیں اور اسی کے لئے جھکیں.اپنے اخلاق کی حفاظت کریں عارضی طور پر نہیں کسی خاص مقصد کے لئے نہیں بلکہ مستقلاً اپنے اخلاق کو آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے تابع کر لیں پھر خدا پر توکل کر کے دیکھیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ آپ کے توکل کے نتیجے میں کلیہ آپ کے بوجھ اٹھا لیتا ہے اور تو کل کا مضمون کلیۂ کے ساتھ وابستہ ہے.تو کل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا لیکن آخری انحصاراے میرے اللہ، اے میرے مولا تجھ پر ہے، بقیہ سب چیزیں کالعدم ہو گئیں ، ان کی ذات میں کچھ بھی نہیں ہیں ، ان میں ناقص سوچیں بھی ہیں، ناقص خیالات بھی ہیں، بے طاقتی کے اظہار ہیں، بے بسیوں کی کیفیتیں ہیں ، ان سب نے ملا کر ہمیں بنایا ہے تو ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں ، وہ اس لئے کہ تو نے فرمایا ہے ورنہ انحصار ان پر نہیں.اس کا نام تو کل ہے.سب کچھ کرو، ساری محنتیں اٹھاؤ اس راہ میں

Page 246

خطبات طاہر جلد 16 240 خطبہ جمعہ 28 / مارچ 1997ء سارے دکھ سینچو لیکن تو کل اللہ پر.اپنی کوششوں پر نہیں.فرمایا ان کے تو کل کو خدا تعالیٰ اس طرح پورا کرتا ہے کہ محبت کے ساتھ پورا کرتا ہے کسی کا بوجھ اٹھانا ہو تو انسان ویسے بھی ذمہ داری کے خیال سے بوجھ اٹھا لیتا ہے لیکن اگر محبت سے اٹھایا جائے تو اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے.بچوں کو بھی لوگ اٹھاتے ہیں لیکن اگر ان کو اٹھانے میں محبت شامل ہو جائے تو بچہ پہچانتا ہے اس کا مزہ ہی اس کو اور محسوس ہوتا ہے.عام آدمی کی گود میں بچہ کچھ اور محسوس کرتا ہے ماں کی گود میں کچھ اور محسوس کرتا ہے.پس محبت کے مضمون نے یہ پیغام دے دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرح اللہ پر توکل کرنا سیکھو پھر دیکھو کس طرح تمہارے سارے بوجھ بڑی محبت اور پیار سے اٹھا لیتا ہے جب خدا کا پیار نصیب ہو جائے جب اس کی محبت کی جھولی میں تم آجاؤ تو غیر کی مجال کیا ہے جو تمہیں میلی آنکھ سے دیکھ سکے تو خواہ آپ دشمنوں میں گھرے ہوئے ہوں خواہ کیسے ہی مشکل حالات میں آپ نے گزارے کرنے ہوں، یہ یاد رکھیں کہ تو کل اللہ پر کریں اور دعائیں کرتے ہوئے ان تقاضوں کو پورا کریں تو کوئی دنیا کی طاقت آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی جس کے حق میں خدا فیصلہ کر دے کہ یہ غالب آئے گا وہ ضرور غالب آکے رہے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے اور مجھے بھی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.

Page 247

خطبات طاہر جلد 16 241 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء توبہ استغفار کے ساتھ ممکن ہوتا ہے.گناہوں کے داغ مٹادینا، کلیہ چھپا دینا کہ وہ کالعدم ہو جائے (خطبہ جمعہ 4 اپریل1997ء بمقام مسجد فضل لندن.برطانیہ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی.قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا زَيْنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ قَالَ هَذَا صِرَاط عَلَى مُسْتَقِيمُ إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَوِيْنَ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ پھر فرمایا: ( الحجر: 4440 ) یہ مضمون کچھ عرصے سے شروع ہے کہ جب تک انسان ایسی حالت میں جان نہ دے کہ وہ عباداللہ میں شامل ہو چکا ہو یا عِباد الرحمن میں شامل ہو چکا ہو اس وقت تک اس کی آئندہ زندگی کے اچھے ہونے کے متعلق کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.اس کا برا ہونا بھی لازم نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہے تو جس کو چاہے، جیسے چاہے بخش دے مگر وہ شخص جو مرتے وقت خدا کا بندہ نہ بن سکا اس کے متعلق یہ یقینا کہہ دینا کہ وہ آئندہ زندگی میں نیک اجر پائے گا یا ضرور بخشا جائے گا یہ محض وہم وگمان ہے اور عمومی قاعدے کے خلاف ہے.تو سوال یہ ہے کہ کتنے ہیں جو اس دنیا میں جیتے جی خدا کے

Page 248

خطبات طاہر جلد 16 242 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء بندے بن چکے ہوتے ہیں.جب ہم خدا کے بندوں کی صفات پر غور کرتے ہیں جیسا کہ عِبَادُ الرَّحْمنِ کی صفات میں نے آپ کے سامنے کھول کے رکھی تھیں تو ہر شخص اگر اپنے آپ کو کرید کر دیکھے اور تقویٰ رکھتا ہو، کچھ بھی انصاف سے کام لے تو اسے ہر دفعہ اپنے ضمیر کو کریدنے پر ایسے نشان دکھائی دیں گے جو خدا کے بندے ہونے کے خلاف گواہی دیتے ہیں.اگر کلیہ نہیں تو کہیں نہ کہیں ہر انسان کبھی شیطان کا بندہ بن چکا ہوتا ہے اور اکثر آدمی اکثر صورتوں میں خدا کے سوا شیطان ہی کی عبادت کرتے ہوئے زندگی بسر کر دیتے ہیں کیونکہ جب نفس کی عبادت کرتے ہیں وہ شیطان کی عبادت ہے.جب خدا کے احکامات کے بالکل برعکس ایک اپنا طریق ڈھالتے ہیں تو وہ صراط مستقیم تو بہر حال نہیں اور اللہ کے بندوں کے متعلق یہ شرط ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں.وہ جب صراط سے بھٹکے تو کسی آواز پہ بھٹکتے ہیں کسی اور منظر نے توجہ پھیری ہے اپنی طرف تب جا کے بھٹکتے ہیں ور نہ سیدھے راستے پر چلتا ہوا کون ہے جو اس سے الگ ہٹ کر قدم رکھ دے.پس جہاں بھی غیر کی آواز سنائی دیتی ہے اور آپ اس پر توجہ دیتے ہیں وہی موقع ہے آپ کے شیطان کی غلامی کو قبول کرنے کا.پرانے زمانے میں بعض کہانیاں ایسی ہوتی تھیں جو ہیں تو بظاہر ناممکن جنوں بھوتوں کی کہانیاں لیکن ان میں سبق ایسے ہوتے تھے جو سچائی کے سبق تھے.آج کل کے زمانے میں تو سبق آموز کہانیوں کا رواج بھی مٹ چکا ہے.اکثر کہانیاں وہ ہیں جو محض جہالت پیدا کرتی ہیں لیکن ایک زمانہ تھا جب انسان میں اعلیٰ قدروں کی پہچان تھی اور اعلیٰ قدروں کو زندہ رکھنے کی خواہش ہوا کرتی تھی اس لئے کہانیاں بنانے والے بھی ایسی کہانیاں بناتے تھے اگر ان میں ڈوب کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی سبق ان میں ملے گا.ایک ان میں سے ایسی طرز کی کہانیاں تھیں جن کی طرز ایک ہی تھی اگر چہ کردار بدل جاتے تھے کہ انسان یا ایک شہزادے کو ایک مہم سر کرنی ہے مگر شرط یہ ہے کہ دائیں بائیں سے جو آواز میں آئیں گی ان سے متاثر ہو کر دائیں یا بائیں نہیں دیکھنا.اپنے رستے سے ہٹنا نہیں ہے.اگر رستے سے ہٹ گئے، اگر کسی حرص کی آواز پر لبیک کہ دیا ، یا کسی خوف دلانے والی آواز سے ڈر کر بدک گئے تو دونوں صورتوں میں تم وہیں پتھر کے ہو جاؤ گے.اب یہ کہانی تو بظاہر ناممکنات کی کہانی ہے مگر مذہبی دنیا میں بعینہ یہی ہوتا ہے.انسان جب

Page 249

خطبات طاہر جلد 16 243 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء صراط مستقیم پر چلتا ہوا باہر کی آوازوں پر کان دھرتا ہے تو وہیں سے اس کے لئے روحانی لحاظ سے مرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور پتھر ہونے سے یہی مراد ہے اور جب وہ بھٹک جاتا ہے، اس راہ کو چھوڑ تا ہے تو اس کی روحانی زندگی وہیں ختم ہو جاتی ہے پھر وہ شیطان کا بندہ بن کر باقی زندگی بسر کرتا ہے.یہ مضمون تو بالکل کھلا کھلا اور واضح ہے لیکن کہانیوں میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اکثر ہیں جو باوجود سمجھانے کے باوجود تاکید کے، باوجود بتانے کے کہ اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے ڈرانے والی آوازوں کی کوئی بھی حقیقت نہیں، حرص و ہوا دے کر اپنی طرف بلانے والی آوازوں میں کچھ بھی جان نہیں وہ تمہیں کچھ بھی عطا نہیں کر سکیں گی اس لئے بالکل پرواہ نہیں کرنی، اس سمجھانے کے باوجود اکثر ہیں جو پتھر کے ہو جاتے ہیں.تو سفر میں وہ شہزادہ جو کامیاب ہو کر آخر اپنے مقصد تک با مراد پہنچ جاتا ہے وہ رستے میں جگہ جگہ پتھروں کے لوگ دیکھتا ہے.پتھروں کے بت بنے ہوئے ، کہیں پتھروں کی عورتیں ہیں، کہیں پتھروں کے مرد ہیں اور بالآخر جو زندگی پاتا ہے تو اس سے پتھر بھی زندہ ہو جاتے ہیں.اب یہ کہانی دیکھو کتنی عجیب و غریب اور مصنوعی ہے لیکن نبوت کے مضمون پر کیسے صادق آتی ہے، حرف بحرف پوری اترتی ہے.نبی کا زمانہ وہ ہے جب کہ سب دنیا ان آوازوں کی طرف کان دھرتی ہے، ان طمع کے مقامات کی طرف بڑھتی ہے جو اسے دکھائی دیتے ہیں.سبز باغ دکھائی دیتے ہیں کہ یہاں آؤ یہاں تمہیں جنت ملے گی، یہاں عیش و عشرت کے سامان ہیں، تمہاری لذت کے سامان ہیں.جب انسان ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے، ان تک پہنچتا ہے تو اس وقت اس کو سمجھ آتی ہے کہ یہ لذت تو عارضی سی چیز تھی اور ہر لذت کے ساتھ کوئی دکھ لگا ہوا ہے.ہر لذت کے ساتھ جو اس قسم کی لذت ہے جو خدا کی عطا فرمودہ لذتوں سے باہر ہے کسی کی حق تلفی بھی ہے، کسی اور انسان کی جائیداد پر ہاتھ مارنے کے بغیر یہ جنت نہیں ملتی.کسی اور شخص کے رشتے داروں اور عزیزوں پر ہاتھ ڈالے بغیر یہ جنت نہیں ملتی.جب وہ ہاتھ ڈالتا ہے ایسی جنتوں پر تب اسے سمجھ آتی ہے کہ یہ جنت کسی نہ کسی کے لئے جہنم ضرور پیدا کرتی ہے اور بغیر جہنم پیدا کئے جنت ہو ہی نہیں سکتی اور کچھ دن کے بعد پھر جنت بھی مٹ جاتی ہے اور جنت والے کے لئے جہنم چھوڑ جاتی ہے.کبھی بھی نیک انجام نہیں ہوتا.تو یہ کہانی انبیاء کے وقت میں لفظاً لفظاً بعینہ پوری ہوتی ہے کوئی بھی اس میں شک نہیں.ایک وجود ہے وہ ایک شہزادہ روحانی سلطنت کا جو خدا کا نبی ہوتا ہے وہ دائیں دیکھتا ہے نہ

Page 250

خطبات طاہر جلد 16 244 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء بائیں دیکھتا ہے، سیدھا اپنے خدا کی طرف نظر رکھے ہوئے بڑی بہادری کے ساتھ اس راہ پر چلتا ہے اور اس کی زندگی کا نقشہ ہے جو لا حول ولاقوۃ الا باللہ میں کھینچا گیا ہے اور ان شیطانی آوازوں سے بچنے کا طریق بھی قرآن کریم کی اس آیت نے ہمیں سمجھا دیا کہ دیکھو اپنی طاقت سے تم بچ نہیں سکو گے یہ دورد کرتے ہوئے آگے بڑھو، لا حول ولا قوۃ کوئی بھی خوف نہیں ہے.ولا قوۃ اور کوئی طاقت نہیں ہے مجھے اچھا بنا دینے کی یا مجھے کچھ عطا کرنے کی الا باللہ اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے.یہ اگر وردجان لے، اگر اس کا مضمون سمجھ آجائے اور انسان کامل یقین رکھے تو یہاں تو حید کی عبادت شروع ہوتی ہے.توحید میں ایک نفی بھی ہے پھر مثبت بات ہے.پہلے لا کا اقرار ہے کہ کوئی بھی نہیں مگر لا حول ولا قوة نے دو پہلوؤں سے تو حید کو روشن کر دیا.ایک یہ کہ تمہیں جو خدا کے سوا کوئی نعمت کی بات عطا کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.نعمت وہی ہے جو خدا عطا کرے یا اس کے قوانین کے تابع تمہیں نصیب ہو.اگر خدا کے سوا کوئی اپنے عذاب سے ڈراتا ہے جیسا کہ فرعون نے ڈرایا تھا جیسا کہ آج بھی خدا کے نام پر اس کے بھٹکے ہوئے بندے بعض دوسروں کو ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے خدا کی آواز پر لبیک کہا تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا.کہتے تو یہ ہیں کہ تمہاری آواز جس پر لبیک کہہ رہے ہو شیطان کی ہے مگر وہ خود شیطان ہوتے ہیں اور اسی طرح شیطان بھیس بدل بدل کر جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے بعض دفعہ نصیحت کے رنگ میں بعض دفعہ دھمکانے کے رنگ میں نیکی کا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے.کہتا ہے اس راہ سے ہٹ جاؤ ورنہ بہت برا سلوک کیا جائے گا.جو ڈر جائیں وہ وہیں پتھر ہو جاتے ہیں یعنی ان کا روحانی وجود ختم ہو جاتا ہے.مگر نبی نہ صرف خود بیچ کر چلتا ہے اور ہمیشہ لا حول و لا قوة الا باللہ کا مضمون پیش نظر رکھتا ہے بلکہ یہ تو حید کا شہزادہ جب منزل تک جا پہنچتا ہے جہاں خدا اسے قبول فرما لیتا ہے تو جس پتھر پر پھونک مارے وہ پتھر جاگ اٹھتا ہے ، صدیوں کے مردے زندہ ہو جاتے ہیں.تو دیکھو کیسا کہانی کے اندر ایک گہر اسبق موجود ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک رؤیا ایسی ہی دیکھی تھی اور ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ورد کرتے ہوئے اپنے آپ کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھا اور ساری بلائیں غائب ہو گئیں.ایک نظارہ میں نے خود بھی دیکھا بعینہ اسی قسم کا لیکن اس میں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ نہیں بلکہ رب کل شئی خادمک رب فاحفظنا وانصرنا وارحمنا کی دعا تھی جس نے مجھے بچایا اور ساری منزل خدا کے فضل کے ساتھ خیر و عافیت سے طے ہوئی یعنی اردگرد کے خوف اور اردگرد

Page 251

خطبات طاہر جلد 16 کی حرص اور طمعیں کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں.245 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء تو یہ ایک صرف رویا کا تجربہ نہیں عملی دنیا میں یہی ہوتا ہے.پس کسی نہ کسی دعا کے سہارے آپ کو صراط مستقیم پر قائم رہنا ہو گا اس کے بغیر ناممکن ہے اور نبی جب ایک دفعہ صراط مستقیم عطا کر دے تو پھر بھٹکنے کا دوبارہ سامان غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کا مضمون پھر چل پڑتا ہے.تو یہ خیال کر لینا کہ میں نے اپنے مقصد کو پالیا اور میں مقام محفوظ پہ پہنچ چکا ہوں تو یہ محض وہم ہے، ایک دل کا دھوکہ ہے.انبیاء کو اس لئے معصوم کہا جاتا ہے کہ انبیا تو اس سڑک پر چلتے ہوئے بھی خدا کی حفاظت میں اس طرح کلیہ لپیٹے جاتے ہیں گویا خدا کی گود میں آگئے.بظاہر چلتے ہیں مگر خدا کی گود میں آگے بڑھتے ہیں.یہ مقام معصوم ہے مگر ہر شخص کو یہ مقام نصیب نہیں ہوتا اور ہر شخص کے لئے جو نبیوں کی پیروی کرتا ہے اگر اس پیروی میں کوتاہی کرے تو یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ اس راہ پر چلتے ہوئے بھی وہ بالآخر مغضوب ہو جائے یعنی اس راہ کے تقاضے پورے نہ کر سکے یا ضالین ہو جائے دنیا کی لذتوں میں کھویا جائے اور راہ سے ہٹ جائے.پس دونوں طریق وہی پتھر بنانے والے طریق ہیں اور شیطان کی عبادت کے مختلف نام رکھ دئے گئے ہیں کیونکہ ہے شیطان ہی کی عبادت، جب بھی صراط مستقیم سے آپ کسی خوف یا حرص کے نتیجے میں اپنے قدم ہٹا ئیں گے تو وہیں سے خدا کی عبادت ختم اور شیطان کی شروع.اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھنے کے باوجود پھر کتنے ہیں جو ان آوازوں پر دھیان نہیں دیتے.اب یہ جو سوال ہے اس کا جواب ہر شخص خود دے سکتا ہے اور ہر شخص اگر تقویٰ کا کوئی بھی شائبہ اپنے اندر رکھتا ہے تو جواب دے گا کہ ہاں بسا اوقات کئی دفعہ ظاہر طور پر کئی دفعہ مخفی طور پر لاعلمی میں میں شیطان کی آواز پر لبیک کہہ چکا ہوں اور اس راہ سے ہٹ چکا ہوں پھر واپسی کیسے ممکن ہوگی.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق میں آپ کو چند باتیں بتانا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کے نبی ہی کا فیض ہوتا ہے کہ واپسی ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے انبیا و ان را ہوں کی باریکیوں سے خوب واقف ہوتے ہیں.اس لئے وہ خوب کھول کھول کر بیان کرتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بھٹکی ہوئی جورا ہیں خود نہیں دیکھیں ان کو اس صفائی سے بیان فرماتے تھے کہ آدمی حیران رہ جاتا تھا.گناہ کی باریک ترین راہوں کو بھی کھول کر روشن فرما دیا کرتے تھے کہ اس طرح

Page 252

خطبات طاہر جلد 16 246 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء بھی گناہ پیدا ہوتا ہے، اس طرح بھی گناہ پیدا ہوتا ہے.اس لئے نہیں کہ نعوذ بالله من ذالک آپ ان راہوں پر چل چکے تھے اس لئے کہ کوئی انسان بھی توحید کی اعلیٰ منزل طے نہیں کر سکتا جب تک ان راہوں کے خطرات سے آگاہ ہو کر ان پر غالب نہ آچکا ہو.پس نبی کے تجر بے عام گنہگار کے تجربے سے بہت زیادہ ہوتے ہیں.پھر عام لوگ سمجھ نہیں سکتے اس بات کو کیونکہ نبی پر ابتلاء کی بہت باریک راہیں آتی ہیں اور ہر راہ میں وہ کامیابی سے گزرتا ہے.ہر باریک سے باریک، چھپے سے چھپے خطرے کو بھی جانتا ہے، پہچانتا ہے اور ہر دفعہ شیطان کی آواز کورد کرتا چلا جاتا ہے.اس لئے تجربہ اس کا ایسا ہے جو گنہگار کو بھی کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ گنہگار کواتنی باریک راہوں سے نہیں گزرنا پڑتا جن باریک راہوں سے نبی گزرتا ہے اور اس کو تقویٰ کی باریک را ہیں کہا جاتا ہے، گناہ کی باریک راہیں نہیں کہا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تجربے کو تقویٰ کی باریک راہیں فرمایا ہے تقویٰ سے مراد ہے بچنا.بنیادی معنی یہ ہے.تو وہ باریک راہیں جن سے نبی یا خدا کا نیک بندہ بچتا ہوا گزر جاتا ہے.اس لئے جب بیچ کے گزرتا ہے تو یہ بھی جانتا ہے کہ خطرہ تھا کیا؟ اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس خطرے سے بچا کیسے جاسکتا ہے.تو تجربہ اس کا ایسا عظیم الشان ، اتنا وسیع ہے کہ جب وہ بیان کرتا ہے تو ہر گنہ گار سمجھتا ہے میرے دل کے اندر جھانک کر اس نے دیکھا ہے یعنی ہر باریک سے باریک کیفیت کو جانتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ بڑی آزمائشوں سے وہ اپنے دینی اور قلبی سفر میں گزر چکا ہوتا ہے.فرق یہ ہے کہ ہر غلط آواز کوردکر کے گزرتا ہے، اسے قبول کرتا ہوا نہیں گزرتا اور یہی فرق ہے گنہگار اور معصوم نبی میں کہ گنہ گار قبول کرتے ہوئے گزرتا ہے اور دنیا اس سے بھری پڑی ہے.نیک بندوں میں بھی کثرت سے ایسے ہیں جوان ٹھوکروں میں مبتلا ہوئے اور ٹھوکر کھا گئے لیکن پھر اٹھتے ہیں پھر بچ کے گزرتے ہیں.0 تو یہ ہے وہ استغفار کا مضمون جسے تمام تر باریکی کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے.استغفار کے مضمون میں اگر غلطی کریں گے تو یہ خیال پیدا ہو گا کہ ابھی استغفار کی اور ابھی چھٹی ہوگئی ، گناہوں سے تو بہ کر لی اور بس ختم.تو بہ، استغفار کے ساتھ ممکن ہوتی ہے اور استغفار میں پوری طرح صفائی پیش نظر ہے یعنی ہر طرح کے گناہ کو اتنا اس کو دبا کے ذلیل و رسوا کر دینا کہ وہ پھر دکھائی تک نہ دے اور یہ ذلیل اور رسوا کر کے اس کو دبا ڈالنا یہ دراصل استغفار ہے اور آدم جن پتوں کے پیچھے چھپ رہا تھا وہ استغفار

Page 253

خطبات طاہر جلد 16 247 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء کے پتے تھے اور اس میں بھی اب دیکھیں کتنا باریک فرق ہے ریا کاری اور گناہ دبانے میں.ریا کاری کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ پتوں کے پیچھے چھپ جائے ، اندر وہی کرتا رہے جو پہلے گناہ تھے اور دیکھنے والے کو پتے دکھائی دیں.حقیقی استغفار کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ پتے آ جاتے ہیں تو بدن کے داغ واقعہ مٹ جاتے ہیں اور انسان کے گناہ ان میں چھپ کر نظر سے غائب ہوتے ہیں.اب نظر کس کی تھی جو دیکھ رہی تھی.جب اس مضمون کو سمجھیں گے تو استغفار کے مضمون کو ریا کے مضمون سے بالکل الگ دیکھیں گے.بائیل نے غلطی کی اور یہ سمجھا کہ وہ ظاہری طور پر خدا کی آنکھ سے چھپ رہا تھا.ظاہری طور پر وہ چھپ سکتا ہی نہیں تھا.ناممکن ہے کہ کسی درخت کی اوٹ میں، کسی گھاس پھوس کے پر دے میں جا کر کوئی انسان اللہ سے چھپ جائے.تو وہ استغفار جو شجرہ طیبہ کے پتے تھے جن کے پیچھے وہ اپنے گناہ کو اس طرح ڈھانپ رہا تھا کہ خدا کو بھی وہ غائب ہوتا ہوا دکھائی دے، خدا بھی اس گناہ کو نہ دیکھے.دیکھ سکنے کے باوجود اگر نہیں دیکھا تو وہ گناہ مٹ گیا ہے اور یہ کامل استغفار ہے کہ اس کو ڈھانچے مگر دنیا والوں کی نظر سے نہیں اللہ کی آنکھ سے ڈھانپ دے.خدا بھی دیکھے تو اس میں اس گناہ کا کوئی نشان باقی نہ رہے.یہ کامل استغفار کام ہے جس کے بعد نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور اسی استغفار کی تلاش در اصل مومن کا حقیقی جہاد ہے.پھر جہاد کی راہوں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی باریکی سے کھول کھول کر بیان فرمایا اور یہ اس لئے کہ آج کے مسائل کا سب سے اہم مسئلہ ہے کہ ہمارا جہاد ہی گناہوں سے نکال کر بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کے پاک بندوں میں شامل کرنا ، صراط مستقیم پر چلنے والوں میں ان کو داخل کرنا اور تقدس کا ایسا لباس عطا کرنا ہے جو پھٹتا نہیں ہے.جو ہمیشہ ساتھ دیا کرتا ہے.اتنا بڑا کام ہے اور ہم خود داغدار اور گنہگار ہیں.اگر ہم اپنی صفائی کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو ہمارا دعویٰ محض جھوٹ کا دعوی ہوگا.یہ بات بھول جائیں کہ دشمن ہماری برائیاں دیکھ رہا ہے کہ نہیں، جانتا ہے کہ نہیں.یہ سب بے معنی ، بے حقیقت باتیں ہیں.ایک ہی آنکھ ہے جو خدا کی آنکھ ہے جو دیکھ رہی ہے تو جود یکھ رہی ہے وہی سچ ہے.اس کی نظر میں اگر ہم داغدار ہی مر رہے ہیں ، اس کی نظر میں اگر ہم ایسے مر رہے ہیں کہ ہمارے جو بھی گند تھے ہم نے ان کی صفائی کی کوشش بھی نہیں کی تو یہ مرنے والے خدا کے بندوں کے طور پر نہیں مرا کرتے.یہ مرنے والے شیطان کے بندوں کے طور پر مرتے ہیں.

Page 254

خطبات طاہر جلد 16 248 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء وہ لوگ جو دیانت داری سے صفائی کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اور پھر اس حالت میں وہ جان دے دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا احسان اور رحمت ہے کہ وہ ان کو بھی اپنے بندوں میں شمار کر لیتا ہے.پس مغفرت کی راہ آغاز میں بھی محفوظ ہے اور انجام میں بھی محفوظ ہے.اگر مغفرت کے تقاضے آپ سب پورے کر لیں اور استغفار اس حد تک کریں کہ گناہ کلیۂ مٹ جائے تو یہ مغفرت کا جو اعلیٰ درجے کا تقاضا تھا وہ پورا ہو گیا اس کے اوپر پھر کوئی کامیابی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہ استغفار میں ہر دوسرے نبی سے ہی نہیں ہر دوسرے انسان سے بھی آگے بڑھ گئے اور جاہل دشمن کہتا ہے کہ اگر گناہ نہیں کئے تھے تو اتنا استغفار کیوں کر رہے تھے.ان بیوقوفوں کو پتا نہیں کہ استغفار کا حقیقی معنی وہی ہے جو میں اب بیان کر رہا ہوں کہ ایسے گناہوں کا داغ، اس کا نشان مٹ جانا، اس کا تصور مٹ جانا کہ خدا کی آنکھ بھی دیکھے تو وہاں اس کو کچھ دکھائی نہ دے.پس آنحضرت کا استغفار اس اعلیٰ شان کا استغفار تھا کہ گناہوں کی راہوں سے گزرے تو آپ بھی تھے ان گناہوں کی راہوں سے بچتے ہوئے گزرنا اور استغفار کے ذریعے ان کے خیالات کو مٹادینا یہ سفر تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا خدا جوئی کا سفر تھا اور ہمارے سفر لازماً اس کے تابع ہوں گے تو ہمارے لئے نجات کا کوئی امکان پیدا ہوگا تو ایک گنہگار کے لئے بھی اس میں ایک بڑی خوشخبری ہے.الله آنحضرت ﷺ کے سفر کی جو نوعیت اور اس کا جو مرتبہ اور اس کا علو، اس کی بلندی یہ ساری چیزیں عام انسان کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.مگر نقش پا جو پیچھے چھوڑ گئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے، ان کو چومتے ہوئے انسان آگے بڑھ سکتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ استغفار کو زندگی کا لازمہ بنانا ہوگا اور استغفار کا معنی منہ سے بخشش مانگنا نہیں.استغفار کا معنی ہے گناہوں کے داغ مٹا دینا، ان کو کلیپ چھپا دینا، اتنا کہ وہ کالعدم ہو جائیں.اب یہ جو تجربہ ہے انسانی زندگی کا یہ نیک لوگوں کے تجربے کے علاوہ عام دنیا کے مسائل میں بھی اسی قسم کے تجربے ہوتے رہتے ہیں.اس لئے ایک انسان نے اگر بار یک مسائل سمجھنے ہوں تو اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں.موٹے موٹے مسائل اسی سے ملتے جلتے ہیں ان پر نظر رکھے تو بار یک مسائل سمجھ آجاتے ہیں.اس لئے قرآن کریم نے ایک قاتل کے متعلق جس نے کسی بڑے آدمی کو بنی اسرائیل میں قتل کیا تھا، اضْرِبُوهُ (البقرہ :74) کے لفظ استعمال کئے کہ اگر تم نے تلاش کرنا ہے تو اس سے ملتی جلتی مثالوں پر

Page 255

خطبات طاہر جلد 16 249 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء غور کرو.کوئی ایسا قاتل ہے جس کے قتل کی طرز اس طرح کی ہے Modus Operandi کہتے ہیں ہر قاتل کا Modus operandi بنیادی طور پر ایک ہی ہوتا ہے.اس کی جو ساخت ہے دماغ کی وہ جس طریق پر قتل سوچتا ہے خواہ آلہ و ہتھیار بھی بدل جائیں وہ طریق ضرور دکھائی دے دے گا اور چوٹی کے جو سراغ رساں ہیں وہ اس Modus operandi کے ذریعے قاتلوں کو پہچانا کرتے ہیں.اب یہ بات قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سمجھائی کہ بنی اسرائیل میں جو قتل ہوا ہے ایک بڑے آدمی کا اس کو اس کی مثالوں پر پر کھ کے دیکھو اس شخص کی حرکتیں تمہیں دکھائی دے جائیں گی.اس کا ترجمہ غلط کر لیا گیا مگر میں اس تفصیل میں نہیں اس وقت جاتا.اصل یہ معنی ہے اس آیت کریمہ کا اور یہاں بھی بہترین طریق، باریک مسائل کو سمجھنے کا یہی ہے کہ موٹی موٹی باتیں جب دکھائی دیتی ہیں ان کے اوپر بار یک مثالوں کو پرکھا جائے.اب آپ دیکھیں کہ دھوبی کپڑے دھوتا ہے اور کرتا کیا ہے داغ مٹ جائیں.اس غرض سے نہیں دھوتا کہ داغ رہیں مگر دکھائی نہ دیں.جواس غرض سے کرتے ہیں وہ منافقت ہے، وہ دکھاوا ہے اور وہ پھر کبھی نہ کبھی پکڑے بھی جاتے ہیں.مگر دھوبی جس نیت سے داغ دھوتا ہے وہ استغفار ہے اس کو پٹختا ہے بار بار، پتھروں پر مارتا ہے.راتوں کو جاگ کر محنت کرتا ہے اس پر مصالحے ڈالتا ہے کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح یہ داغ بالکل مٹ جائے یہاں تک کہ دکھائی نہ دے.تو دکھائی نہ دینے کی کوشش ہر دفعہ منافقت نہیں ہوا کرتی.اعلیٰ درجے کی سچائی بھی یہی کام کرتی ہے.منافق گند کو رکھتے ہوئے چھپاتا ہے اور اعلیٰ درجے کا نیک انسان گند کو دور کر کے مٹاتا ہے اور یہاں تک کہ وہ دکھائی نہیں دیتا.اب اس میں ایک سیکنڈ میں تو کپڑے نہیں دھل جایا کرتے.اگر لوہے کی کوئی چیز ہے جس پر گند لگا ہوا ہے تو دیکھیں آپ کو کتنا وقت لگتا ہے اس کو آہستہ آہستہ گند کو صاف کرنا، ریتیوں کے ساتھ ، کپڑے مار مار کے، کچھ مصالحے لگا لگا کے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور زندگی کی حقیقتیں خواہ وہ روحانی ہوں خواہ جسمانی ہوں وہ ایک دوسری سے ملتی جلتی حقیقتیں ہیں.جو دکھائی دیتی ہیں ان پر تو غور کرو.اگر ان پر بھی غور نہیں کرو گے تو جو نہیں دکھائی دیتیں ان پر کیسے غور کر سکو گے، ان کو کیسے سمجھ سکو گے.پس داغوں کو دور کرنے کا مضمون جو دنیا میں دیکھتے ہو اپنی روح پر اسی کو چسپاں کرو، اسی کو

Page 256

خطبات طاہر جلد 16 250 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء استعمال کرو تو پھر امید بندھ جاتی ہے کہ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیم ہے.ہماری زندگی کے مٹ جانے سے پہلے داغ نہ بھی مٹے تو اپنی رحمت سے ان کو دھو دے گا اور کالعدم کر دے گا.یہ عفو ہے خدا کا، صرف مغفرت ہی نہیں فرما تا بلکہ عفو بھی ہے.عفو کا یہی مطلب ہے کہ ہے تو سہی مگر صرف نظر فرما لیتا ہے کہ گویا داغ تھا ہی نہیں.جب ایک انسان اپنی نظر ہی پھیر لے تو جو چیز موجود ہے وہ بھی دکھائی نہیں دے گی.تو خدا کو دکھائی تو دیتا ہے مگر سلوک ایسا فرماتا ہے کہ گویا اس نے دیکھا نہیں یہ عفو کا مقام ہے.تو جب خدا تعالیٰ عفو کا وعدہ بھی فرما رہا ہے وہ سہارے بھی عطا کر رہا ہے تو ایک گناہ گار بندے کے لئے مایوسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس کو چاہئے کہ حقائق کی دنیا میں اتر کر معروف حقیقوں کو پہنچانے ، ان کی مثالوں کو نسبتاً غیر معروف حقیقتوں پر چسپاں کرے تو اس کی زندگی کا سفر بالکل کھلا کھلا اور صاف اور روشن ہو جائے گا کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو اس کو دکھائی نہ دے سکے.بعض دفعہ لوگ سنتے ہیں کہ ایک ہی نظر نے کسی کو پاک کر دیا.اب کسی ایک نظر سے کپڑے تو صاف ہوتے دیکھے نہیں کبھی کبھی کسی ایک نظر سے صدیوں کے لگے ہوئے زنگ تو دور ہوتے دیکھے نہیں اور یہ قانون کس نے بنایا ہے.کیا اس خدا نے نہیں بنایا جو روحانی قانون کا بھی خالق ہے تو تضاد کیسے ہو سکتا ہے.مگر مادی قوانین میں بھی بعض تیزی سے رونما ہونے والے واقعات ہمیں دکھائی دیتے ہیں مثلاً وہ زنگ دار چیز جس کے اوپر سال ہا سال سے زنگ لگا ہوا ہے اس کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنا اور دواؤں کے ساتھ صاف کرنا بعض دفعہ ممکن نہیں ہوتا تو انسان اس کو بھٹی میں ڈال دیتا ہے اور جو کام سالوں کی محنت نہیں کر سکتی وہ بھٹی کے چند لمحے کر دکھاتے ہیں لیکن آگ میں جلنا پڑتا ہے.پس وہ لوگ جو بعض دفعہ اچانک استغفار کے نتیجے میں زندہ ہو جاتے ہیں وہ لوگ جن کے اندر اچانک ایک انقلاب رونما ہو جاتا ہے ان کی تکلیف بھی اسی حد تک بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور بغیر تکلیف سے گزرے استغفار ہو ہی نہیں سکتا.تو اگر آگ بھڑک اٹھی ہے ان کے اندر ندامت کی اور خدا کے حضور شرمندگی کی اور تو بہ اپنے اندر ایک جہنم پیدا کر دے تو اس جہنم میں اس کے سارے گناہ بھڑک کر ایک دم ختم ہو جائیں گے.پس نئی زندگی اچانک جو ملتی ہے وہ بھی قانون قدرت کے مطابق ہے.یا استغفار ایسا کرو کہ زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو جائے.آنا فانا تم اس آگ میں جل جاؤ جو خدا تعالیٰ کی ہیبت اور اس کی عظمت، اس کے رعب کی آگ ہے تو پھر یہ درست ہے کہ ایک ہی دن میں تمہاری

Page 257

خطبات طاہر جلد 16 251 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء کا یا پلٹ سکتی ہے.مگر ایسے لوگ کہتے ہیں جن میں یہ توفیق ہے کہ اتنے بڑے عذاب میں سے گزریں کیونکہ واقعہ گناہ کی زندگی سے کلیۂ اجتناب کر لینا ایک بہت بڑے عذاب کو چاہتا ہے.اب یہی وہ عذاب ہے جس میں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر شخص گزرے گا ضرور بعض دفعہ آہستہ آہستہ گزرتے ہیں لمبا وقت لیتے ہیں محنتیں کرتے ہیں.بالآخر اللہ کا فضل اگر شامل حال ہو تو نجات پا جاتے ہیں.کچھ ہیں جن کے اندر ایک دم ندامت اور شرمندگی کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ جو تو بہ کرتے ہیں وہ آنا فانا تو بہ ہے.پس بعض دفعہ نیک لوگوں کی نظریں جو زندہ کرتی ہیں جیسا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نظریں زندہ کیا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے آپ کی غلامی میں یہی ملکہ عطا فرمایا کہ بعض دفعہ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ دیکھا اور کایا پلٹ گئی ، ایک نیا وجود پیدا ہو گیا.تو جس حد تک وہ وجود پیدا ہوتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے ہم اسے ایک غائبانہ معجزہ سمجھتے ہیں جس میں قانون قدرت کارفرما نہیں ہے.یہ درست نہیں ہے.وہ نظر ان پر کام کرتی ہے جن کے دل کے اندر ایسا انقلاب پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ہر قسم کے دکھ کو برداشت کرنے کے لئے نہ صرف آمادہ ہوتے ہیں بلکہ برداشت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ان کو.ہر لذت کی چیز سے اپنی نا آشنائی گویا کبھی واقف ہی نہیں ہوئے تھے اس کے.تمام زندگی کے آراموں کو تج دیا، ایک نئی فقیرانہ زندگی بسر کر لی، جو کچھ تھا ہاتھ میں وہ سب کچھ کھو بیٹھے ہوئے تھے یہ وہ استغفار ہے جو بھڑک اٹھتا ہے بعض دفعہ اور یہ استغفار قربانی ضرور دیتا ہے.یہ خیال نہیں ہے کہ نظر پڑی اور آپ ٹھیک ہو گئے تو نظر کے نتیجے میں اگر قربانی بھڑک اٹھے، ایک دم ایسی بھڑ کے کہ اس کے شعلے آپ کی ذات کے ہر غیر اللہ کے وجود کوبھسم کر ڈالے تو یہ اچانک ہونے والا واقعہ یہ واقعہ رونما ہوتا ہے لیکن فرضی طور پر کہانیوں کے رنگ میں نہیں بلکہ قانون وہی ہیں.پس آپ خواہ قیمت ایک سال سر رگڑ رگڑ کر دیں، خواہ اچانک دے دیں قیمت تو دینی پڑے گی اور ہر چیز جو حاصل کی جاتی ہے اس کی قیمت دینی پڑتی ہے.پس اس فرضی دنیا میں نہ رہیں کہ اچانک کسی کی نظر ٹھیک کر دے.کسی بزرگ کی قبر پر دعا ہوگئی تو آپ زندہ ہو گئے.یہ سب جھوٹ ہے، فساد ہے، یہ شیطانی ہے.اس کو اللہ اور اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے مضامین کے ساتھ کوئی بھی

Page 258

خطبات طاہر جلد 16 252 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء تعلق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استغفار کی راہوں کو اور بعض ایسی غلط فہمیوں کو جو اس رستے میں لوگوں کو در پیش ہو ئیں خوب کھول کھول کر بیان فرمایا ہے.مگر سب سے پہلے شاید میں نے آیات جو تلاوت کی تھیں ان کا ترجمہ نہیں کیا تھا.یہ سورۃ الحجر کی آیات چالیس تا چوالیس تھیں جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی.قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيْنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَا غُوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ.شیطان نے کہا اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ قرار دے ہی دیا ہے اس میں بھی ایک بڑی حکمت کی بات ہے.شیطان جانتے بوجھتے شرارت کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ سے جو کلام کرتا ہے اس میں کوئی جھوٹ نہیں بولتا ویسے کہتا ہے جب تو نے مجھے گمراہ قرار دے دیا ہے تو یہ تو لازمی بات ہے کہ تیرا فیصلہ درست ہوگا.اگر یہ فیصلہ درست ہے تو پھر مجھے گمراہ کے طور پر اب رہنا پڑے گا.اب گویا میرا مقدر بن گیا کہ قیامت تک اب میں گمراہ ہی رہوں گا.تو نے مجھے کہہ جو دیا کہ تو قیامت تک گمراہ ہے.تو پھر قیامت تک گمراہی کے کام کیوں نہ کروں اور میر انفسی انتقام ایک یہ ہے کیونکہ مغرور انسان جب مارا جاتا ہے تو اس کا دل کچلا جاتا ہے ، وہ انتقام کی راہیں تلاش کرتا ہے.تو گویا خدا تعالیٰ سے شیطان نے اس کی بات مانتے ہوئے بھی انتقام کی ایک راہ تجویز کی ہے.وہ کہتا ہے بہت اچھا میں گمراہ، میرا اب یہ مقصد بن گیا کہ لا زَيْنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَا غُوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ کہ جو بھی بندے ہیں تیرے پیدا کردہ اور جن کو تیرے غلام ہونا چاہئے میں ان سب کے لئے زینت کے ایسے ایسے سامان پیدا کروں گا اغوينهم یعنی ایسی ایسی زینت کی جگہیں دکھاؤں گا ان کو اور اغوينهم اجمعین اور ان کو گمراہ کرنے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کروں گا یہاں تک کہ وہ سارے کے سارے تجھے چھوڑ دیں گے.پس میں اپنی غلامی کرنے والوں کی تعداد بڑھالوں گا اور تیری عبادت کرنے والوں کی تعداد کم کر دوں گا اور یہ ہے میرا انتظام کہ تو نے مجھے کیوں گمراہ قرار دیا لیکن جانتا ہے کہ بعض پر اس کی بس نہیں چل سکتی.یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جو سچا خدا کا بندہ ہے اس پر شیطان کا ذرہ بھر بھی اثر نہیں ہو سکتا.تو ساتھ ہی کہہ دیا إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ المُخْلَصِينَ ، أَجْمَعِينَ ہوں گے کثرت کی وجہ سے مگر جو تیرے بندے تیرے مخلص ہو چکے ہیں اور یہاں مُخلصین نہیں بلکہ مخلصين بتایا گیا ہے.قرآن کریم نے شیطان کی طرف جو لفظ منسوب کئے ہیں وہ مخلصین ہیں وہ بندے جن کو

Page 259

خطبات طاہر جلد 16 253 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء تو نے خالص کر دیا ہے، جو تیرے نزدیک خالص ٹھہرے ہیں، وہ نہیں جو اپنے اخلاص جتاتے پھرتے ہیں ، وہ بندے جو ہیں وہ تو میرے دائرہ اثر سے ہی باہر ہیں میری ان پر کوئی پیش نہیں جائے گی.تو وہ محفوظ بندے ہیں ان بندوں میں ہو کر مرنا ہے یہ ہمارا مقصد حیات ہے اور ان باتوں کو سمجھا رہا ہوں میں آپ کو تا کہ باریک سے باریک راہیں دکھائی دیں اور پتا چلے کہ ان باتوں کا لحاظ کئے بغیر ہم مخلصین میں شامل نہیں ہو سکتے.بندے تو رہیں گے ہی.ہر چیز جو پیدا ہوئی وہ خدا ہی کا بندہ ہے.قَالَ هَذَا صِرَاطَ عَلَى مُسْتَقِيم وہ جو میں نے بات کی تھی کہ سیدھے رستے پر چل کر پھر بھی لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں اور سیدھا رستہ کوئی ڈھکا چھپا رستہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هذا صِرَاطَ عَلَى مُسْتَقِیمُ یہ دیکھو میری راہ کتنی صاف کھلی کھلی اور سیدھی راہ ہے اس راہ پر چل کر کوئی بھٹک سکتا ہی نہیں.مستقیم کا ایک یہ معنی بھی ہے.جو سیدھی راہ ہے اس میں بل فریب کے ساتھ آپ کیسے چل سکتے ہیں.بندوق کی نالی اگر سیدھی ہے تو گولی سیدھی ہی گزرے گی اس لئے ٹیڑھی نالی میں سے تو ٹیڑھا سفر ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے تیرے بن ہی نہیں سکتے اگر صراط مستقیم پرر ہیں کیونکہ صراط سیدھی ہے تو ان کو بھی سیدھا ہی چلنا ہوگا.پھر اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن میرے بندے وہ ہیں تجھے ان پر ایک ذرہ بھی غلبہ نصیب نہیں ہوگا.سلطان غلبے کو کہتے ہیں.سلطان، کسی قسم کا کوئی غلبہ نصیب نہیں ہوگا.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ میرے بندے ہوں اور تیرے بن جائیں اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَوِيْنَ اور جو باقی ہیں ان پر بھی تجھے غلبہ نہیں ہے.تجھے غلام نہی ہے.جب تک وہ تیرے نہیں ہوں گے تیرے پیچھے نہیں چلیں گے.اس لئے تیرا یہ تکبر بھی جھوٹا ہے کہ میں تیرے بندوں کو اپنا بنا لوں گا.میرے بندے تو میرے ہی رہیں گے.جو میرے ہوتے ہوئے خود تیرے ہوں گے وہ تیرے پیچھے جائیں گے اور ان پر فخر کرنا بالکل بے معنی بات ہے کیونکہ وہ اپنی ذات میں ہی اندرونی کجیوں کی وجہ سے تیری طرف جانے کی تمنا رکھیں گے تو جائیں گے میرے بندوں کو زبردستی تو نہیں کھینچ سکتا.وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ اور پھر أَجْمَعِينَ ان سب کا ٹھکانہ کلیۂ جہنم ہی ہے.اتنی واضح کھلی کھلی بات بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جو توقع رکھتا ہے وہ کوئی چھپی ہوئی توقع تو نہیں ہے.صراط کھول دی گئی ہے.سیدھا

Page 260

خطبات طاہر جلد 16 254 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء رستہ ہے اس پر چلو، جہاں آواز میں آئیں وہاں خیال کرو کہ یہ آوازیں کیسی ہیں اور اگر صراط سے ہٹنے کی آوازیں ہیں تو جھوٹی ہیں.اب اس میں کون سی مخفی بات ہے.جب بھی انسان گناہ کرتا ہے تو بیچ پر قائم رہتے ہوئے گناہ ہو ہی نہیں سکتا.آواز میں کوئی ٹیڑھا پن ضرور ہوا کرتا ہے اور اسے قبول کرنے سے پہلے انسان سمجھ چکا ہوتا ہے کہ یہ ٹیڑھی بات ہے اس لئے دھو کے کا کوئی سوال نہیں رہا.جو انسان قدم اٹھاتا ہے جان بوجھ کر اپنی اندرونی کبھی کی پیروی کرتے ہوئے وہ راہ سے بھٹکتا ہے اور جب بھٹک جاتا ہے تو پھر شیطان کی غلامی کا دور شروع ہو جاتا ہے.اتبع کا لفظ بتا رہا ہے کہ غاوین جو ٹیڑھے ہوں وہ محض ایک غلطی کی وجہ سے کلیۂ شیطان کے بندے نہیں بن جایا کرتے.ایک غلطی کی وجہ سے شیطان کے قبضے میں آنا شروع ہو جاتے ہیں پھر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں.پس جو لگیں گے وہ بھی خود ہی لگیں گے تیرے پیچھے اور ایک ٹھوکر کے بعد پھر اگلی ، اگلی کے بعد پھر اس سے اگلی اور یہ سلسلہ ہے جو سلسلہ وار آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس اپنے نفسوں میں ہر انسان دیکھ لے اپنا جائزہ لے لے تو یہ کوئی اتنے بڑے عارفانہ مضامین نہیں ہیں کہ سمجھ ہی نہ آئیں.اتنی کھلی کھلی باتیں ہیں اور قرآن نے اتنی کھول دی ہیں کہ اس کے بعد کسی کے لئے آنکھیں بند کر کے یہ خیال کرنا کہ مجھے پتا نہیں تھا میں اس لئے کر رہا ہوں بالکل جھوٹ ہے.کوئی بھی انسان اگر یقین کر لے کہ فلاں شخص شک میں مبتلا تھا اور پھر اس سے یہ غلطی ہوئی ہے اس کو سزا نہیں دیا کرتا.اگر اس میں انصاف ہو تو نہیں دیتا.چنانچہ قانون کی زبان میں کہتے ہیں اس کو Benefit of doubt دے رہے ہیں.نظر تو آرہا ہے کہ غلطی کی ہے اس نے مگر ہم اس بات کا اس کو بینیفٹ یعنی فائدہ پہنچا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ شک کا فائدہ کیوں نہ دے گا.اس لئے خدا تعالیٰ نے مضامین اتنے کھول دیئے ہیں کہ شک کی گنجائش ہی کوئی نہیں چھوڑی.ہر انسان اپنے نفس کو جانتا ہے.ہر انسان ہر غلطی کے وقت سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ غلطی اب میں کیوں کر رہا ہوں اور کوئی حرص ہے اور ہر غلطی میں کسی کی حق تلفی ضرور ہوتی ہے.ہر غلطی میں توازن ضرور بگڑتا ہے.جب تجارت کے ذریعہ جائز طریق سے آپ کوئی دولت حاصل کرتے ہیں تو کبھی آپ کے ضمیر نے چٹکی نہیں لی لیکن جو رشوت کے ذریعہ دولت حاصل کرتا ہے یا دھوکہ دے کر لیتا ہے تو پہلی دفعہ ضرور ضمیر چنگی بھرتا ہے.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اس کو چنگی محسوس نہ ہوئی ہو.پھر اتبع کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.پھر وہ شیطان کی پیروی شروع

Page 261

خطبات طاہر جلد 16 255 خطبہ جمعہ 4 را پریل 1997ء کر دیتا ہے، اس کے خطوات پر چلنے لگتا ہے.پھر رفتہ رفتہ وہ آوازیں مرگئیں، وہ درد کے احساس مٹ گئے اور یہ وہ مرض ہے جو پھر انسان جو ہے پتھر کا ہو جاتا ہے.پھر نہ سنتا ہے نہ اس کو کوئی احساس رہتا ہے.پس ضمیر کے پتھر ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ احساسات سے عاری ہو جاتا ہے.اور قرآن کریم نے جو فرمایا کہ جہنم میں جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے تو وہاں بھی یہی پتھر ہونگے.انسان تو وہ ہیں جن کے اندر کچھ انسانیت کا غلبہ باقی تھا.پس وہ سزا سے بچیں گے تو نہیں لیکن اس سے بڑھ کر گنہ گار ایسے بھی ہیں جو پتھر ہو چکے تھے اور بڑی بھاری تعداد ہے ایسے پتھروں کی آج کی دنیا میں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے ان کا جہنم کا ایندھن بننالا زمی اور یقینی ہے.تو ان باتوں کو سمجھتے ہوئے استغفار کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے اور استغفار کو اس کی باریکیوں کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے.اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات میں آج شروع کروں گا اور انشاء اللہ آئندہ خطبے میں بھی جاری رکھوں گا.تو بہ کی حقیقت یہ ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 3 سے عبارت لی گئی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مجلس میں فرمایا : گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں 66 برس کے بعد گناہ کی معافی سوجھے.“ یعنی ایک فقرے میں عیسائیت کی عمارت کلی منہدم کر دی گئی.ایک ہی فقرہ ہے لیکن ساری عیسائیت کی عمارت خاک میں ملا دی گئی.ان کا تصور یہ ہے کہ آدم کو تو پیدا کیا تھا خدا نے مگر گناہ کا حقیقی علاج مسیح کو بتایا اور اس تمام عرصے میں مسیح کی آمد سے پہلے پہلے گناہ کا حقیقی علاج ہو ہی نہیں سکتا تھا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سوجھے اچھا اب معاف بھی تو کرنا ہے، کیا کریں ان سے.پھر وہ مسیح کو پیدا کر دیا.آپ نے بھی قانون قدرت کا حوالہ دیا ہے.جیسا کہ میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ جو چیز میں دکھائی دیں وہ جو خدا نے پیدا کی ہوں اور خدا کے بنائے ہوئے قوانین ہوں ان کو آپ سمجھیں تو جو قانون نظر سے اوجھل

Page 262

خطبات طاہر جلد 16 256 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء ہیں وہ بھی سمجھ آجائیں گے.یہی طریق اختیار کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جیسے مکھی کے دو پر ہیں ایک میں شفا اور دوسرے میں زہر بیک وقت موجود ہیں.یہ نہیں کہ زہر پیدا کیا اورمکھی کے شفا کا پر بعد میں پیدا ہوا.صلى الله اور یہ جو عادت ہے لکھی کی آنحضرت مہ نے بیان فرمائی کہ کبھی جب بھی گرتی ہے بائیں طرف گرتی ہے اور بائیں طرف گرنے سے ایک بات تو یہ پیدا ہوتی ہے کہ چونکہ وہ گند کھاتی ہے اس لئے بایاں پر گند میں مبتلا ہوگا اور جراثیم لپٹیں گے تو بائیں پر سے لپیٹیں گے.جب بیٹھ کے جھکے گی ایک طرف تو بائیں طرف جھکے گی.دودھ میں گرتی ہے تو بائیں پر کے ساتھ گرتی ہے جب آپ دیکھیں گے تو ٹیڑھی اس کو تیرتا ہوا دیکھیں گے.فرمایا اس کا دایاں پر بھی ڈبو دو اس میں شفا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی حدیث کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں.اسی کا حوالہ دے رہے ہیں کہ مکھی کے اندر جہاں زہر پیدا فرمایا گیا، شفا بھی ساتھ ہی پیدا فرما دی گئی اور یہ ہمیشہ سے اسی طرح ہے.نہ کبھی کی عادت بدلی نہ یہ مضمون تبدیل ہوا یہ تو اسی طرح چلا آ رہا ہے.صرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شفا کیسے ہوگئی.یہ وہم تو نہیں کہیں کہ دوسرے پر میں شفا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو کم سے کم ہو میو پیتھ تو ضرور سمجھ سکتے ہیں کیونکہ انسانی رد عمل ایک طبعی امر ہے.کم سے کم میں نے کہا تھاورنہ سارے اہل علم ضرور سمجھ سکتے ہیں.مگر ہو میو پیتھ کے لئے تو مفر ہی کو ئی نہیں اس کو سمجھے بغیر، اس کو مانے بغیر اس کا علم ہی باطل ہو جائے گا.ہر وہ وجود جس کے اندر کوئی زہر حملہ آور ہو اس کے خلاف ایک رد عمل اس میں پیدا ہوتا ہے اور مدافعت کی ایک طاقت پیدا ہوتی ہے.پس اگر ایک پر اونچار کھتی ہے مکھی اور دوسرا گرتا ہے گندگی میں تو وہ پر جو ہمیشہ الگ رہا ہے اس میں مدافعت کی طاقت پیدا ہو جائے گی.اب یہ وہ مضمون ہے جس کو احمدی سائنس دانوں کو دیکھ کر، گہرائی میں اتر کر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کرنا چاہئے.مگر مسلمانوں میں یہ عادت ہے کہ کام ان کے اور وہ بھی غیر کریں.صداقت اسلام ثابت کرنی ہے تو غیروں کے پاس جاؤ ، اپنے جھٹلانے پر ہی لگے رہیں.ایسے ایسے جاہلانہ تصور باندھیں کہ جو مومن ہو وہ بھی کافر ہو جائے اس لئے اب اسے دور کرلو.اب احمدیت کا دور ہے.اب ہمیں تحقیقات خود کر کے دنیا کے سامنے وہ حقائق پیش کرنے

Page 263

خطبات طاہر جلد 16 257 خطبہ جمعہ 4 اپریل 1997ء صلى اللّه چاہئیں جو قرآن اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کی صداقت کے زندہ نشان ہیں مگر ابھی دکھائی نہیں دے رہے.یہ بھی ان میں سے ایک ہے مگر اصل مضمون یہی تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں دونوں چیزیں اکٹھی پیدا ہوئی ہیں زہر ہے تو تریاق بھی ہے.مثال مکھی کے پروں سے دی گئی ہے مگر ساری دنیا میں ہر زہر کا ایک تریاق آپ کو دکھائی دے گا.کوئی زہرایسا نہیں ہے جس کا کوئی تریاق نہ ہو.اب دریافت کی بات ہے جو دریافت کرلے وہ کامیاب ہو جائے گا.جو دریافت نہیں کرے گاوہ زہر سے مغلوب ہو جائے گا.تو فرماتے ہیں: انسان کے بھی دو پر ہیں، ایک معاصی کا اور دوسرا خجالت ، توبہ، پریشانی کا.“ ہو سکتا ہے کہ پشیمانی فرمایا ہو اور سننے والے نے پریشانی سن لیا ہو مگر پریشانی بھی اطلاق پا جاتا ہے.یہ مضمون بھی اطلاق پاسکتا ہے.فرماتے ہیں انسان کے بھی دو پر ہیں ایک گناہوں کا اور دوسرا شرمندگی کا، خجالت کا اور خجالت ہو تو تو بہ پیدا ہوتی ہے اور اگر پریشانی ہے لفظ تو پھر اس میں ایک اور معنی پیدا ہو جاتا ہے تو تدریج ہوگی تو پہلے شرمندگی ہوگی تو توبہ کی طرف توجہ ہوگی.تو بہ کی طرف جب توجہ ہوگی تو اس وقت پریشان ہوں گے.اس وقت پتا چل جائے گا کہ شرمندگی سے بات نہیں بننے والی وہ تو بہت گہرا نقصان پہنچ گیا ہے.اب ٹول کے دیکھا تو پھر پتا چلا کہ کتنا گہرا نقصان تھا جس میں میں مبتلا ہو چکا ہوں.تو جو نقصان پہنچ جائے اس پر پریشانی ہوا کرتی ہے اور پریشانی میں اس کو دور کرنے کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے تو پریشانی لگ جاتی ہے کہ اب میں کس طرح اس سے نجات پاؤں.یہ قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اس کے بعد پچھتاتا ہے گویا کہ دونوں پر ا کٹھے حرکت کرتے ہیں.ایک طرف گناہ کا دوسری طرف ندامت، خجالت اور پھر تو بہ کا.زہر کے ساتھ تریاق ہے.اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا یہ چونکہ ایک بار یک فلسفہ ہے گناہ کا جس کو زیادہ تفصیل سے آپ کے سامنے رکھنا ہو گا اس لئے میں یہیں بات ختم کرتا ہوں.آئندہ خطبے میں پہلے اس سوال کا جواب چھیڑوں گا کہ اگر گناہ کے ساتھ تریاق رکھا گیا ہے تو گناہ بنایا ہی کیوں گیا اور اگر بنایا گیا ہے تو حکمت سے خالی بات نہیں.وہ کیا حکمت ہے یا اور حکمتیں ہیں انشاء اللہ ان باتوں کی طرف آئنده خطبہ میں توجہ دوں گا.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 264

Page 265

خطبات طاہر جلد 16 259 خطبہ جمعہ 11 را پریل 1997ء استغفار گناہوں کے احتمالات سے بیچنے کے لئے خدا کی مدد مانگنا ہے ( خطبه جمعه فرموده 11 اپریل 1997ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَالْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ (الشورى : 26، 27) پھر فرمایا: تو بہ اور خالص عبادت کے مضمون کے سلسلے میں میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھا تھا جس کی ابھی چند سطور پڑھی تھیں کہ جمعہ کا وقت ختم ہو گیا اور اس سوال پر میں پہنچا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اٹھایا کہ اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا یعنی اگر گناہ زہر ہی ہے جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے لکھ چکے ہیں کہ زہر ہے جس کا ایک تریاق بھی ہے.زہر گناہ ہے تو تریاق تو بہ ہے.اگر سچی توبہ کی جائے تو جس طرح اچھا تریاق زہر کے ہر بداثر کو مٹا دیتا ہے اور کالعدم کر دیتا ہے اسی طرح کچی تو بہ گناہ کے ہر بداثر کوکلیاً مٹاڈالتی ہے لیکن تریاق حقیقی اور صحیح ہونا چاہئے.

Page 266

خطبات طاہر جلد 16 260 اس ضمن میں جب آپ نے زہر کی مثال دی تو ساتھ فرمایا: خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا؟ تو جواب یہ ہے کہ گو یہ زہر ہے مگر کشتہ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے.“ اب زہر کو کشتہ کرنے کا جو مضمون ہے اس کے نتیجے میں جو فائدہ پہنچتا ہے یہ وہ بنیادی مضمون ہے جس کو کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے اور غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے نفس انسانی کی اصلاح کے بہت سے رستے کھلیں گے اور بڑی وضاحت کے ساتھ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم نے کس راہ پر قدم رکھنا ہے.حکماء کا ایک طریق یہ ہے کہ زہر کو اتنا جلا دیتے ہیں اور ہر زہر کو جلانے کے الگ الگ طریقے مقرر ہیں، اتنا جلا دیتے ہیں کہ یہ بات قطعی اور یقینی ہو جائے کہ زہر اپنا بدائر نہیں دکھا سکتا لیکن ایک دھمکی سی دیتا ہے، ڈراتا ہے کہ میں یہ کرنے والا ہوں اور اس ڈر کے نتیجے میں انسانی دفاع بیدار ہو جاتا ہے اور جب انسانی دفاع بیدار ہوتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس زہر پر قابو پاتا ہے بلکہ اس زہر سے ملتی جلتی ہر قسم کی بیماریوں پر قابو پانے کی صلاحیت پا جاتا ہے اور یہ صلاحیت جو ہے پھر ہمیشہ اس کے مختلف مواقع پر کام آتی رہتی ہے.زہر جس کو تریاق بنایا گیا ، جس کو کشتہ کیا گیا وہ تو وقتی طور پر دیا جاتا ہے اور پھر اپنا ایک اثر چھوڑ کر وہ اس مضمون سے الگ ہو جاتا ہے اس کی ضرورت ہمیشہ باقی نہیں رہتی مگر جو فائدہ پہنچا دیتا ہے وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے.پس جولوگ زہر کا تریاق کھاتے رہتے ہیں ان کے اندر زیادہ بڑے زہر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بڑھتی چلی جاتی ہے ، پس صلاحیت کا مطلب ہے اس کا اثر نہیں ہونے دیتے یعنی بدزہر اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہتا ہے.یہ وہ لطیف اور باریک مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس ایک فقرے میں بیان فرمایا : مگر کشتہ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ گناہ سے تریاق کا فائدہ اٹھانا کیسے ممکن ہے.سوائے اس کے ممکن نہیں کہ گناہ کو اتنا پیا جائے اور اس کی ایسی مخالفت کی جائے کہ اس کو اپنے نفس پر غلبے سے معذور کر دیا جائے.اس کو اہل ہی نہ رہنے دیا جائے کہ وہ آپ کے نفس پر غلبہ پاسکے.وہ تریاق ہے جو آپ کے کام آئے گا اور آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کو بڑھائے گا اور یہی بچی تو بہ کا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ایک فقرے میں بیان فرما دیا.

Page 267

خطبات طاہر جلد 16 پھر فرماتے ہیں: 261 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا.( ملفوظات جلد اول صفحه : 3) اب یہ دوسری دلیل ہے اور یہ بھی بہت توجہ سے سننے کے لائق اور سمجھنے کے لئے غور کی ضرورت ہے.فرماتے ہیں اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا یعنی گناہ محض اس لئے نہیں ہے کہ تم اس کو کشتہ کرتے چلے جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ.اگر گناہ ہوتا ہی نہ تو پھر کشتہ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.تو اس کا یہ دوسرا پہلو جو ہے اس کا جواب آپ نے دیا ہے جو بہت باریک ہے اسے غور سے سمجھنا چاہئے.فرماتے ہیں اگر گناہ کا زہر نہ ہوتا تو رعونت کا زہر ضرور ہوتا اس لئے مفر ہی نہیں ہے تو رعونت سے بچانے کے لئے گناہ ضروری ہے.اب اس عبارت کو اگر سرسری نظر سے آپ پڑھیں گے تو اس کے نتیجے میں بہت سے ایسے اعتراض اٹھ سکتے ہیں جو نا قابل حل ہوں گے.اگر معصومیت تکبر پیدا کرتی ہے تو فرشتوں میں تکبر کیوں پیدا نہ ہوا.انسان سے پہلے تو فرشتے تھے اور وہ معصوم تھے.تکبر کا سب سے پہلا الحاق شیطان سے ہوا ہے جس کو قرآن نے کھول کر بیان فرمایا کہ وہ فرشتہ نہیں تھا وہ ایک ایسی مخلوق تھی جس میں بغاوت کا مادہ موجود تھا ، جو گناہ کی جڑ ہے جس سے باقی سب گناہ پھوٹتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا.فرشتہ تو انسان ہے نہیں اس کے اندر معصومیت ان معنوں میں نہیں کہ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا.پس اگر گناہ کا وجود نہ ہوتا اور گناہ کی صلاحیت انسان میں موجود ہوتی تو پھر تکبر پیدا ہوتا.پس شیطان نے جو پہلا گناہ کیا ہے وہ اس صلاحیت کی وجہ سے کیا ہے اور اس صلاحیت کا غلط استعمال ہوا.اگر اس کا صحیح استعمال ہوتا تو شیطان بہت معزز ہو جاتا.جس طرح انسان فرشتوں سے بھی آگے بڑھ گیا اسی اصول کے تابع شیطان بھی خدا سے جزا پاتا کیونکہ گناہ کی صلاحیت موجود تھی اس سے باز رہنا اور اس پر غلبہ پانا یہ اس کو نصیب نہیں ہو سکا اور وہ اندھا دھند اس کا شکار ہو گیا.تو گناہ کا فلسفہ جو ہے وہ بہت باریک فلسفہ ہے اور اگر اسے نہ سمجھیں تو بہت سی عبارتیں ہیں جن سے انسان فائدے کی بجائے نقصان بھی اٹھا سکتا ہے.

Page 268

خطبات طاہر جلد 16 262 خطبہ جمعہ 11 راپریل 1997ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں گویا کہ حدیث ہے جس کا تفصیلی حوالہ تو نہیں مگر مضمون رسول اللہ ﷺ کی طرف ہی منسوب ہوا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ مخلوق میں یہ دیکھتا کہ اس میں کوئی گناہ باقی نہیں رہا تو اس مخلوق کو مٹادیتا اور ایک اور مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور پھر گناہ اور توبہ کا سلسلہ از سرِ نو شروع ہو جاتا.اب یہ جو سوال ہے یہ بہت ہی عجیب سا ہے اور بہت الجھنیں پیدا کرنے والا دکھائی دیتا ہے مگر جو بات میں اب بیان کر چکا ہوں اگر اس کی طرف واپس لوٹیں تو اس سوال کی بالکل صاف سمجھ آجاتی ہے کہ جواب کیا ہے.فرشتے بھی تو وہی تھے جو گناہ نہیں کرتے تھے اور گناہ نہ کرنے کی وجہ ان کی گناہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان تھا.پس اگر انسان میں بھی ایسی حالت ہوتی کہ گویا وہ صلاحیت سے محروم ہو جاتا اور ہر طرف نیکی ہی نیکی دکھائی دیتی تو انسان اپنے پیدائش کے مقصد کو کھو دیتا اور اس کی پیدائش کا مقصد جو مسلسل ترقی دینا ہے وہ اسے حاصل نہ رہتا اس لئے اس کو مٹایا جاتا ورنہ گناہ دیکھنے کا شوق تو نہیں ہے اللہ تعالیٰ کو اور محض یہ سمجھ لینا کہ بخشش کے اظہار کی خاطر وہ گناہ کرواتا ہے یہ درست نہیں ہے.اگر یہ درست ہے تو پھر بخشش کا وہ معنی درست نہیں جو عرف عام میں سمجھا جاتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی چھیڑا ہے اور بخشش کا صحیح معنی بیان فرمایا جس کے نتیجے میں یہ اعتراض اٹھ جاتا ہے.تو یہ خلاصہ کلام ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عبارت کا جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے یعنی عبارت مختصر لیکن اس کی مختصر تفصیل میں نے آپ کے سامنے کھولی ہے.فرماتے ہیں اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا.رعونت کا زہر گناہ کی صلاحیت کی بناء پر پیدا ہوتا ہے نہ کہ اس کے بغیر.اگر فرشتوں میں گناہ نہیں تھا اس کے باوجود رعونت نہیں ہوئی اس لئے کہ گناہ کی صلاحیت نہیں تھی.پس فرمایا انسان کو فطرتا ایسا بنایا گیا ہے کہ اس میں گناہ کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے.پھر اگر وہ گناہ نہ کرتا اور کلیۂ پاک ہوتا تو اس میں رعونت کا زہر بڑھ جاتا.اب ایک مقام صلى الله ایسا ہے جس کی طرف انسان کی نظر پھرتی ہے اور وہ مقام مصطفی ﷺ ہے اور درجہ بدرجہ دیگر انبیاء کا بھی یہ مقام ہے لیکن ان میں فرق ہے آپس میں لیکن بنیادی طور پر انبیاء کی معصومیت ان کو دوسروں سے الگ کرتی ہے تو پھر ان میں تکبر کیوں پیدا نہیں ہوتا ؟ اگر گناہ کی صلاحیت کے باوجود گناہ نہ کرنے کے نتیجے میں تکبر پیدا ہونا تھا اور اس لئے اللہ تعالیٰ

Page 269

خطبات طاہر جلد 16 263 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء نے گناہ کے امکانات کو کھلا رکھا، احتمالات کو کھلا رکھا تا کہ انسان اس سے بچے اور ترقی کرے، اگر ترقی کرے اور معصوم ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تو کلمی معصومیت جو ہے وہ پھر کبر پیدا کر دیتی ہے تو پھر انبیاء میں کیوں نہ ہوا، وہ کیوں تکبر سے بچ گئے.یہاں استغفار ہے جو اپنا عمل دکھاتا ہے صلى الله جس کی صحیح تفسیر سمجھنے کے نتیجے میں پھر یہ سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں.آنحضرت می یہ سب سے زیادہ استغفار کرتے تھے اور یہی بات ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عبارت کو اپنے درجہ کمال تک پہنچا دیا، فرمایا: جب نبی معصوم ستر بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے.اب معصومیت کو تکبر سے بچانے کے لئے استغفارلازم ہے اور استغفار گناہوں کے احتمالات سے بچنے کے لئے خدا کی مدد مانگنا ہے.پس معصومیت وہ تکبر بنتی ہے جس میں انسان اپنے وجود پر انحصار کرتے ہوئے اپنی نیکیوں کی وجہ سے گناہوں سے بچنے کا وہم دل میں لاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دیکھو میں نے تو مقابلہ کیا میں تو فلاں ابتلاء میں پڑا اور صاف سلامت نکل آیا ، یہ وہ تکبر ہے جس کے نتیجے میں گناہ نہ ہو تو ہلاکت کا موجب بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو اگر لطیف نظر سے نہ دیکھا جائے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئی اور بار بار پڑھ کر ان میں غور کر کے ان کی حقیقت کو نہ پایا جائے تو کئی سوال جوحل ہوتے ہیں اپنے ساتھ اور سوال اٹھا دیتے ہیں جو نا قابل حل دکھائی دیتے ہیں.پس معصومیت فی الحقیقت معصومیت اسی حد تک ہے جس حد تک استغفار کے سہارے قائم ہے جس حد تک انکسار اپنے ساتھ رکھتی ہے.جہاں معصومیت میں بڑائی کا پہلو آ جائے اور اپنی خود پرستی کا مضمون داخل ہو جائے وہیں وہ معصومیت عظیم گناہ بن جاتی ہے بلکہ عام گناہوں سے بڑھ کر گناہ.یہ تو وہ موازنہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا کہ گناہ نہ ہوتا تو تکبر ہوتا.وہ چونکہ چند لفظوں میں بیان فرمایا ہے اس لئے پڑھنے والے کو سمجھ نہیں آتی بسا اوقات.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو میری تحریرات کو تین دفعہ نہیں پڑھتا غور سے، وہ متکبر ہے.اب اس کو بھی لوگ صحیح نہیں سمجھ سکے.ساری تحریرات کو لازماً تین دفعہ پڑھنا ہرگز مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ میری تحریرات میں گہرے مضامین ہیں اگر انسان ایک نظر ڈال کر یہ سمجھ بیٹھے کہ اب مجھے حاجت نہیں رہی وہ تکبر ہے لیکن بسا اوقات تین دفعہ پڑھ کر چھوڑ دینا بھی تکبر بن جاتا ہے کیونکہ

Page 270

خطبات طاہر جلد 16 264 خطبہ جمعہ 11 راپریل 1997ء بعض تحریر میں ایسی ہیں جن کو بہت گہرے غور سے دیکھنا پڑتا ہے اور اس یقین کے ساتھ دیکھنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں کوئی تضاد نہیں ہے.اگر تضاد نہیں ہے تو جو تضاد دکھائی دیتا ہے وہ دور ہونا چاہئے اور تضاد زبردستی دور نہیں ہوا کرتا، جھوٹ سے تضاد کو دور نہیں کیا جاسکتا.آنکھیں بند کر کے خطرے کو ٹالا نہیں جا سکتا اس لئے سچائی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ڈو میں اور اس سے قطع نظر کہ آپ پر حل ہوئی ہیں کہ نہیں سچائی کا دامن نہ چھوڑیں.جب سچائی کے ساتھ ، اس کی روشنی کے ساتھ آپ تلاش کریں گے تو آپ کو حضرت مسیح موعود یہ السلام کی تحریرات ہی میں ان کے جوابات بھی مل جائیں گے اور اگر ز بر دستی یا اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں میری گستاخی نہ ہو گئی ہو اپنے وہم ، اپنے خیال، اپنے سوال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو یہ استغفار نہیں ہے یہ اندھیرا ہے اور گناہ کا اندھیرا ہے.پس اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں جہاں عظیم مضامین بیان ہوئے ہیں وہاں ساتھ ساتھ خطرات بھی لاحق ہیں اور ان خطرات سے بیچ کر قدم رکھنا یہ سب سے اہم بات ہے اور اسی کے نتیجے میں اعلیٰ ترقیات نصیب ہوتی ہیں.اب ایک سوال اور اٹھتا ہے کہ گناہ کو پیدا کر کے ماحصل کیا ہے اس کا.اگر گناہ سے بچ جانا تکبر ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ تکبر نہیں ہے، گناہ سے اللہ کے سہارے بچنا اور اپنے اوپر انحصار نہ کرنا، خدا کی رحمت پر انحصار کرنا گناہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس فائدے کی طرف توجہ دلاتا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تریاق کے مضمون میں بیان فرمایا ہے.جب انسان گناہ کی حقیقت سے واقف ہو جائے اور گناہ کے مادے کو اتنا پیس ڈالے کہ لازماًوہ اپنے بداثر سے انسان کو مجروح نہ کر سکے کلیہ اس کے نقصان کی صفات مٹ چکی ہوں اس صورت میں انسان کے اندر ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی راہیں کھلتی ہیں ، اگر اس کا تریاق بنانا اللہ کے فضل اور اس کے سہارے اور اس کی دعاؤں کے نتیجے میں ہور نہ نہیں کھلیں گی.اگر انسان یہ کہے کہ میں نے اپنے گناہ کو پیس ڈالا ہے تو اس کو ترقی کی کون سی راہ نصیب ہوگی وہ تو بالآخر شیطان بن کر اپنی عمر ضائع کرے گا لیکن اگر گناہ پر غلبہ ہمیشہ ذہن میں یہ خیال ڈالے کہ میرے خدا نے توفیق دی، قدم قدم لمحہ لحہ اس کے سہارے میں گناہ سے بچا ہوں تو یہ وہ نبی معصوم

Page 271

خطبات طاہر جلد 16 265 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء والی کیفیت ہے ستر بار استغفار والی.آنحضرت میہ کا جو سلسل استغفار تھا اس استغفار کے ذریعے آپ بلندیوں میں سفر کرتے رہے اور وہ بلندیوں کا سفر ہمیشہ جاری رہا.وہ اتنا عظیم بلندیوں کا سفر تھا کہ خاک شریا سے بھی آگے نکل گئی اور جہاں سب سے اعلیٰ مخلوق فرشتوں کی پر مارنے کی طاقت نہیں صلى الله تھی وہاں آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے رسائی بخشی اور اپنا وہ عرفان عطا کیا جو جبرائیل کو بھی نہیں تھا جو وحی لاتا ہے اور یہ سارا عرفان گناہ کے ردعمل میں اس کے خوف سے، اس سے بچنے کی کوشش سے استغفار کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے.پس لحلحہ پھونک پھونک کر قدم رکھنا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا یہ وہ ترقی کی راہیں ہیں جو گناہ سے پھوٹتی ہیں.پس گناہ کا وجود اس کے کرنے کے لئے ضروری نہیں، اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے.جب اللہ فرماتا ہے میں گناہ کو پیدا کرتا تو اس لئے نہیں کہ گناہ میں لوگ ملوث ہوں، اس لئے کہ گناہ سے بچنے کی کوشش انسان کو لامتناہی ترقیات عطا فرما دے.اب اس فلسفے کو مزید سمجھنے کے لئے بیماری اور شفا کا مضمون ہے جو آپ پیش نظر رکھ سکتے ہیں.بیماری خدا نے پیدا ہی کیوں کی جیسا کہ گناہ کے متعلق سوال اٹھتا ہے گناہ پیدا ہی کیوں کیا.اگر بیماری پیدا ہی نہ ہوتی تو شفا کے لئے انسان کی کوشش کرنا اور اس کے بدن کا ارتقاء جو بیماریوں سے دوری کا سفر ہے یہ ممکن ہی نہیں تھا.وہ زندگی کی شکل جو آغاز میں ایک ادنی معمولی ، ذلیل سے کیڑے کی حیثیت رکھتی ہے وہ مصیبتوں اور بیماریوں کی وجہ سے ترقی کی ہے.اب آنکھ کی روشنی کیوں نصیب ہوئی.آنکھ کی روشنی کا نہ ہونا ایک بیماری ہے جس کے نتیجے میں انسان دکھ میں مبتلا ہوتا ہے.سو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں فکریں مارتا ہے ، اپنی غذا کا پتا نہیں کہاں پڑی ہوئی ہے، زہر پہ منہ مارلے گا ، غلط جگہوں پر قدم رکھے گا.غرضیکہ بصارت حقیقت میں ایک شفا ہے اور اس کا فقدان بیماری ہے لیکن یہ بصارت بیماری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے کیونکہ زندگی نے جب آنکھ کے بغیر سفر شروع کیا ہے تو لاکھوں، کروڑوں، اربوں ٹھوکریں کھائی ہیں اور ہر ٹھوکر کے نتیجے میں ایک شعور بیدار ہوا ہے، ایک ٹھوکر کے مقام کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے وہ صلاحیت کروڑ ہا سال میں ترقی کرتے کرتے اچانک آنکھ کی شکل میں رونما ہوئی اور یہ ایک ایسا سفر تھا جس کو خدا تعالیٰ نے باقاعدہ آرگنائزہ کیا ہے مگر تکلیف کا ازالہ کرنا صرف تکلیف سے بچنے کی صورت نہ بنی بلکہ ایک ایسی چیز عطا ہوگئی جو اس کی لامتناہی ترقیات کا ایک ذریعہ بن گئی.

Page 272

خطبات طاہر جلد 16 266 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء اگر نظر کو انسانی زندگی سے آپ نکال لیں تو انسانی علمی ترقی کروڑوں سال پیچھے کی طرف لوٹ جائے گی یعنی انسان بننے سے پہلے کی حالتوں سے بھی پیچھے چلی جائے گی.اگر سماعت کو انسانی زندگی سے نکال لیں تو انسانی زندگی اونی حالتوں کی طرف لوٹ جائے گی مگر محض سماعت مقصود نہیں تھا.جب ایک انسان نے نہ سنے کی وجہ سے تکلیفیں اٹھا ئیں تو اس کا نہ سننا ایک بیماری بن گیا.اس بیماری سے شفا کے لئے اس کو جو جد و جہد کرنی پڑی ہے یہ ہے وہ تریاق جو بن رہا ہے اور وہ تریاق بالآخر سماعت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور سننے کی قوت نے انسان کو پھر وہ کچھ عطا کیا ہے کہ جو محض ابتدائی مصیبتوں سے بچنے تک اس کے کام نہیں آیا اس کو بہت آگے بڑھا کے لے گیا ہے.اگر یہیں تک بات رہتی تو پھر بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ فائدہ کیا ہوا اس مصیبت میں ڈالنے کا، پہلے ہی سماعت عطا کر دیتا، پہلے ہی وہ سنے کی طاقت عطا کر دیتا مگر وہ جو درجہ بدرجہ ترقی کی روح ہے وہ پہلے سے عطا ہوئی سننے کی طاقت اور دیکھنے کی طاقت سے نصیب نہیں ہو سکتی تھی.ایک حرکت میں آیا ہے انسان یا زندگی ایک حرکت میں آئی ہے وہ بیماری کا گناہ ، لاعلمی کا گناہ، جہالت کا گناہ، یہ وہ گناہ ہیں جن سے بچنے کے لئے اس نے جو جدوجہد کی ہے اس میں جس طرح گولی بندوق کی لمبی نالی میں زیادہ دیر تک سیدھا چلتی ہے ایک ارب سال کی مسافت نے اس کی ترقی کی راہ کوسیدھا کیا اور ایسی قوت بخشی ہے کہ یہاں پہنچ کر وہ خدا کی طرف اڑان کی تمنا لے کر اس کی طرف اڑنے کی صلاحیت حاصل کر گیا ورنہ نہ یہ تمنا پیدا ہوتی نہ یہ صلاحیت پیدا ہوسکتی تھی.تو ایسا وجود جو اندھا ہو، بہرہ ہو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو غور کیوں نہیں کرتے کہ اچانک یہ کیا ہوا کہ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء : 59) بن گیا ، وہ سنے والا بھی ہو گیا اور دیکھنے والا بھی ہو گیا.اس میں کیا سبق ہے؟ یہی سبق ہے کہ یہ ان کمزوریوں سے نجات جس محنت کے نتیجے میں اس کو حاصل ہوئی ہے اسی محنت کے نتیجے میں پھر اور آگے بڑھا ہے اور خدا تعالیٰ تک پہنچے کی توجہ پیدا ہوئی اور صلاحیت نصیب ہوئی.پس اس مضمون کی روشنی میں جب آپ استغفار اور تو بہ کو دیکھتے ہیں تو یہ ساری تکلیفیں، یہ ساری مشکلات جو اس راہ میں ہیں ان کا جواز دکھائی دینے لگتا ہے اور پھر اس آیت کریمہ کی زیادہ سمجھ آتی ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ (الانشقاق : 7) اے انسان تجھے خدا تک جانے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑی ہے اور بڑی محنت کر رہا ہے اور یہ محنت

Page 273

خطبات طاہر جلد 16 267 خطبہ جمعہ 11 را پریل 1997ء اس بات کی ضامن ہے فَمُلقِیهِ کہ تو اس رب کو ضرور ملے گا.پس لقاء باری تعالیٰ کا انعام ہے جو آخری صورت میں گناہ کے ردعمل کے طور پر عطا ہونا شروع ہوتا ہے اور جب یہ مضمون ردعمل کا آگے بڑھتا ہے تو پھر محض گناہ سے بچنے کا مقصد اپنی ذات میں مقصد نہیں رہتا بلکہ اس ذات سے تعلق مقصد بن جاتا ہے جس کے سہارے انسان گناہ سے بچتا ہے.شعور بیدار ہوتا دیکھتا ہے اور ہواصل تو یہ ہے تو نیچے جھانک کر اگر پہاڑ پر سفر کرتے ہوئے آپ کھڈ سے بچنے کے لئے ایک احتیاط کرتے ہیں یا دل میں خوف پیدا ہوتا ہے میں گر نہ جاؤں تو محض وہ خوف اپنی ذات میں مقصود نہیں ہے.اس خوف سے بیچ کر آگے بڑھنے کی جو تمنا پیدا ہوتی ہے، مزید بلندیاں حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے وہ مقصود بالذات ہے.پس گرنے کا خوف دراصل وہ گناہ ہے جس کو پیدا کرنا انسان کی ترقیات کے لئے لازم تھا، گر جانا مقصود نہیں تھا.پس لوگ جو یہ خیال کر لیتے ہیں کہ گناہ کی خاطر جب گناہ کی اتنی اہمیت ہے تو چلو گرتے ہیں پھر.ان کو یہ نہیں پتا کہ بعض دفعہ گریں گے تو پھر اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے.ہاں ٹھوکریں کھانا ، وہ گرنانہیں ہے، یہ بے اختیاری کے قصے بھی ہیں اور ان باتوں میں اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا ہے اور وعدہ فرماتا ہے کہ تم بچو اور تو بہ کرو تو یہ ٹھوکریں ہیں رستے کی اور روزمرہ کی جو طبعی بے اختیاریاں ہیں جن کے نتیجے میں تمہیں کچھ نہ کچھ گناہ میں ملوث ہونا ہی پڑتا ہے اس کا میں وعدہ کرتا ہوں ، پھر اس سے میں صرف نظر فرماؤں گا یعنی ان کے نقصانات سے تمہیں بچالوں گا.پس یہ وہ مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوا جس کی تلاوت میں نے آپ کے سامنے کی.وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيِّاتِ.اب اس کا یہ ترجمہ عموماً رائج ہے اور بعض پہلوؤں سے اسے درست قرار دیا جا سکتا ہے مگر میرے نزدیک دراصل یہ ترجمہ یہاں درست نہیں ہے.اگر اس Context میں، یعنی ان معنوں میں درست نہیں جن معنوں میں میں بات بیان کر رہا ہوں اگر اس مضمون سے اس آیت کا مطالعہ کریں تو پھر وہ ترجمہ نا کافی ہوگا کچھ اور ترجمہ چاہئے ایسا ترجمہ جوعربی کے لحاظ سے بالکل درست ہو لیکن اس مضمون کا حق ادا کرنے والا ہو جو گناہوں سے بچنے کے نتیجے میں لامتناہی، ہمیشہ کی ترقیات کا مضمون ہے اور وہ بنے گا پھر وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التوبة وہ تو بہ کو قبول کر لیتا ہے عَنْ عِبَادِہ اپنے بچے بندوں سے جو اس کے عبد بن جاتے ہیں.

Page 274

خطبات طاہر جلد 16 268 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء جب تو بہ قبول کرلی تو پھر وَ يَعْفُوا عَنِ السَّیات کا بعد میں جو وعدہ ہے اس کے پھر کیا معنی ہوئے.اس لئے وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے کیونکہ بخشش کے لئے عربی میں غفران کا لفظ ہے.عفا کا معنی نظر انداز کر دینا، گو یاوہ نہیں ہیں اور جب خدا تعالی کسی چیز کو نظر انداز کر دیتا ہے تو اس میں اس کے مٹانے کا مضمون ہے.اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وہ پھر تمہاری سیات کو دور فرمائے گا لیکن تو بہ تم کر و مغفرت حاصل کر لو گناہوں سے پھر گناہوں میں لوٹو نہیں.جو چھوٹی موٹی بیماریاں، چھوٹے موٹے قصور باقی رہ جائیں گے ان میں پھر تمہیں اپنے آپ کو ہلکان کرنے کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ يَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ کہ وہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں سے یا روز مرہ کی لغزشوں سے تمہیں ان معنوں میں بچالے گا کہ جب خدا عفو فر مائے گا تو اس کا قانون بھی عفوفر مائے گا.اب بندے کے عفو میں اور خدا کے عضو میں بہت بڑا فرق ہے ایک انسان جب کسی بچے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ نظر اندازی لازم نہیں کہ اس کی اصلاح پر منتج ہو.کوئی نظر اندازی اس کی بیماریوں کو مستقل کرنے کا موجب بھی بن سکتی ہے اور اس کے بداثرات سے اس کو بچا نہیں سکتی.اس لئے کمزوریوں کو نظر انداز کرنا بھی حکمت کو چاہتا ہے اور حکمت بالغہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے بچوں کی کمزوریوں پر اس حد تک صرف نظر کا سلوک فرمائے جس حد تک وہ صرف نظر ان کو مٹانے کا موجب بنے کیونکہ عفو میں مٹانے کا مضمون ہے.عفت الديار محلها ومقامها اس میں مٹ جانا اور بے نام ونشان رہ جانا یہ مضمون ہے.جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عضو کا سلوک فرمائے گا السَّیات سے تو اس طرح کا عفو کا سلوک نہیں جو جاہل مائیں اپنے بچوں کی غلطیوں سے کرتی ہیں تو وہ ان غلطیوں میں اور بھی بڑھ جاتے ہیں.جب خدا عفو کرتا ہے تو غلطیاں مٹ جایا کرتی ہیں اور انسانوں میں بھی یہ بات مشاہدے میں آئی ہے بار ہا تر بیت میں ہم نے دیکھا ہے کہ اگر بچہ شریف النفس ہو اس میں توجہ ہو اصلاح کی جو تو بہ سے پیدا ہوتی ہے تو تو بہ کے بعد عفو کا مضمون ہے اصل میں.پھر آپ اگر اس سے عفو کا سلوک کریں تو اس کی توبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی ، اسے مزید طاقت ملے گی کہ وہ اپنی اصلاح کے راستے میں اور آگے قدم بڑھائے اور وہ جو تا ئب نہیں ہے اس کے ساتھ جتنا عفو کا سلوک کریں گے اتنا ہی اس پر ظلم کر رہے ہوں گے اور

Page 275

خطبات طاہر جلد 16 269 خطبہ جمعہ 11 را پریل 1997ء اتناہی اس کی بیماریاں زیادہ جڑ پکڑ جائیں گی ، اتنا ہی وہ زیادہ بدتمیز اور بدخلق ہوتا چلا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ نے ہر مضمون کو اس کے محل پر رکھا ہے جب خدا توبہ قبول کرلے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسے شخص کی بیماریاں مٹنی شروع ہو جائیں، اس کی روز مرہ کی کمزوریوں میں کمی آنی شروع ہو جائے.تو اس لئے فرما رہا ہے کہ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ وہ تمہاری بیماریوں اور ان کمزوریوں کو جو گناہ نہیں ہیں مگر گناہ کے لئے بنیادیں بن جاتی ہیں، گناہ ان کمزوریوں سے تقویت پا کر پھر آگے بڑھتے ہیں یا وہ خود عارضی معمولی کمزوریاں بالآخر عدم توجہ کی وجہ سے گناہ بن جایا کرتی ہیں ان سے عفو ان معنوں میں فرمائے گا کہ ان کو مٹاڈالے گا ان کا کوئی وجود بھی باقی نہیں رہے گا.اور وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اور یہ فیصلہ خدا کا اس لئے قابل عمل ہے کہ وہ جانتا ہے کہ انسان کیا کر رہا ہے.انسان جب عفو کا سلوک کرتا ہے اگر زیادہ ذہین ہوگا تو بہتر عفو کا سلوک ہوگا، بہتر نتیجہ نکلے گا.اگر نسبتا کم عقل ہو گا تو چونکہ جانتا نہیں ہے کہ وہ شخص کیا کرتا ہے،اس کے اندر کا کیا حال ہے اس لئے اس کا عفو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ بالکل فکر نہ کرو، وہ تمہارے اعمال سے واقف ہے اس لئے عفو کا سلوک جب بھی فرمائے گا تمہارے فائدے میں فرمائے گا اور تمہارے اعمال کی بہتری کا موجب بنے گا اور اس کے بعد پھر وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ کا مضمون ہے.فرمایا وہ لوگ جو اس مرتبے کو حاصل کر لیں ، خدا کا سچا بندہ بنتے ہوئے تو بہ کر لیں اور اس تو بہ کو اللہ قبول فرمالے اور قبولیت کے بعد ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کا نشان ان میں ظاہر فرمادے، انسان دیکھیں اور پہچانیں کہ شیخص روز بروز بہتر ہوتا چلا جارہا ہے اس میں کسی آسمان سے اترنے والے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے.ہروہ شخص جو اپنے اندر پاک تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، چی تو بہ کرتا ہے اس کے ساتھ یہی معاملہ آپ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ اچانک وہ کمزوریوں سے نکل کر ولی اللہ نہیں بن جا تا مگر اس کا قدم ولایت کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتا ہے.دن بدن اس کی عادتوں کی خرابیاں دور ہونے لگتی ہیں.اگر پہلے روز مرہ جھوٹ بولتا تھا تو اب رک رک کے بولے گا.شروع میں احتیاطیں کرے گا پھر نکل جائے گا جھوٹ.تو تو بہ کرے گا، استغفار کرے گا اور یہ تو بہ کا عمل جب مقبول ہو جائے گا تو جھوٹ سے بچ جائے گا اور وہ ادنیٰ کمزوریاں جو جھوٹ کی طرف مائل کرتی ہیں ان کے دور ہونے کا عمل شروع ہو جائے گا اور یہ وہ

Page 276

خطبات طاہر جلد 16 270 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء ساری باتیں ہیں جو انسان کو دکھائی دیتی ہیں اگر چہ ان کے پیچھے تقویٰ کسی کو دکھائی نہیں دیتا.پس آپ یہ فیصلہ تو نہیں کر سکتے کہ کوئی متقی ہے کیونکہ ایسا ہی عمل بسا اوقات یا بسا اوقات نہیں تو شاذ کے طور پر بعض منافق بھی کر دکھاتے ہیں.ہم نے دیکھا ہے کئی لوگ جو احمدی اس نیت سے ہوتے ہیں کہ انہیں اسائکم مل جائے وہ بعض دفعہ ایک ایک سال دو دو سال بڑی محنت کرتے ہیں.بے چارے اپنی برائیاں ساری چھوڑتے ہیں، نمازیں شروع کر دیتے ہیں، مسجد میں جاتے ہیں ، اپنی جیب سے پیسے بھی نکالتے ہیں چندے کے لئے مگر جہاں ان کا کام بناو ہیں وہ چھٹی کر گئے.تو جو جماعتیں ہیں وہ بے چاری تو عمل سے واقف نہیں ہیں نا اس لئے ان کو حق ہی نہیں ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہو سکتا ہے یہ منافق ہو.اس لئے جب کوئی کہتے ہیں کہ یہ اس طرح کر رہا ہے اب بتا ئیں ہمیں کیا پتا سچ سچ ایسا کر رہا ہے یا اسائکم کی خاطر کر رہا ہے.تو میں ان سے کہتا ہوں آپ کا فرض صرف ظاہر پر نظر رکھنا ہے.اگر ظاہری طور پر آپ اس کے اندر کوئی خرابی نہیں دیکھتے، اگر ظاہری طور پر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ جیسا آپ کے ساتھ ہے ویسا آپ سے دور ہو کر علیحدگی میں بھی رہتا ہے تو پھر آپ کو ہر گز حق نہیں ہے کہ اس کے ایمان پر شک کریں.مگر اس کے باوجود ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.بہت ہی مخلص بنا ہوا آدمی اچانک پھر اپنے پر پرزے نکالتا ہے اور کچھ کا کچھ دکھائی دینے لگتا ہے.تو انسان کو واقفیت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو واقفیت ہے.اس لئے تقویٰ کا فیصلہ ہم پھر بھی نہیں کر سکتے.اگر کوئی اچھا ہو جائے ہم یہ کہیں گے کہ دیکھنے میں اس کے اندر کوئی برائی نہیں ہے، دیکھنے میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے اقرار پر شک کیا جائے اس لئے ہم اپنا فیصلہ صادر کر دیں گے اس کے حق میں.پھر جو کچھ وہ کمائے گا اگر خدا کے علم میں وہ منافق ہے تو اس سے کوئی نیک فیصلہ اس کو حاصل نہیں ہوگا اور ہمیں نقصان کیا ہے.چند دن اس نے نیکیاں کر لیں چلو یہی بہت ہے اگر اس حالت میں مرجا تا تو شاید ظاہر کا ہی فائدہ اس کو کچھ پہنچ جاتا مگر اگر وہ پھر گیا ہے تو دوہرا نقصان اٹھا کر پھرا ہے.اس لئے اس بارے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں.لیکن یہ یاد رکھیں کہ اکثر لوگ واقعتہ جب تبدیلیاں ہورہی ہیں تو اچھے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اکثر ایسے احمدی جو دوسرے معاشرے سے آئے ہیں انہوں نے مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے اندر حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں اور ہوتی چلی جاتی ہیں پھر.پھر اسامکم منظور ہو یا نہ ہو

Page 277

خطبات طاہر جلد 16 271 خطبہ جمعہ 11 راپریل 1997ء اس کی بالکل کوئی بھی اہمیت ان کے دل میں باقی نہیں رہتی.بعض نے تو یہاں تک مجھے کہا کہ اگر یہ شک ہے تو میں واپس جاتا ہوں اور اسالکم کوٹھوکر مارتا ہوں اور وہاں جا کے آپ کو پتا لگے گا کہ میں کیسا احمدی ہوں.واپس گیا اور انتہائی ثابت قدمی دکھائی.سخت تکلیفوں میں مبتلا ہوا.اُف نہیں کی.تو ایسے ایسے بھی صادق لوگ ہیں جو جھوٹ سے نکل کر سچ کی وادی میں داخل ہوتے ہیں اور پھر بڑی مضبوطی سے ان کا قدم ہمیشہ بلندیوں کی طرف جاری رہتا ہے، یہ وہ علامتیں ہیں جو ظا ہر ہونی لازما ہیں.کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق کی بناء یہ بیان فرمائی.آپ نے کہا ہم نے دیکھا ہے مستجاب الدعوات ہے، اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ہم سر پھرے تو نہیں جو شک کرنا شروع کریں.چنانچہ کپورتھلہ کی جماعت کا خاصہ یہ تھا کہ علم کی بناء پر وہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سچے غلام اور صادق وفادار نہیں بنے بلکہ نشان کو دیکھ کر بنے ہیں اور بچوں کا نشان ایک تو مستجاب الدعوات ہونے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے.دوسرا اس کا اپنا چہرہ ، اس کا اپنا قول خدا کی صفات کا جلوہ گر بن جاتا ہے اور وہ سچا دکھائی دینے لگتا ہے، سچا سنائی دینے لگتا ہے.۱ یہ جو دلیل ہے اس دلیل نے صحابہ کی زندگی میں ان کی کایا پلٹ دی، انقلاب برپا کر دیا.منشی اروڑے خان کے واقعات آپ پڑھیں جو ہزارہا ایسے صحابہ میں سے ایک تھے.ان سے جب لوگ پوچھتے تھے کہ بتاؤ کیا دیکھا تو شدت جذبات سے ان کی بعض دفعہ چھینیں نکل جاتی تھیں.کیا دیکھا؟ نور دیکھا، صداقت دیکھی، دلیل سے نہیں اس چہرے پر نمایاں تھی.وہ ایک بچے کا چہرہ تھا جس پر دل طبعاً عاشق ہوتا تھا، اچھل اچھل کر عاشق ہوتا تھا اور مقبول الدعوات تھا.اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں اور اس کی بہت سی مثالیں وہ بیان فرمایا کرتے تھے.کیسے ناممکن حالات میں وہ دعا قبول ہوتی اور حیرت انگیز طور پر اپنا جلوہ دکھاتی تھی تو یہ دو علامتیں ہیں جو آپ کی زندگی میں گناہ کے تریاق سے پیدا ہوتی ہیں، گناہ سے نہیں.گناہ کے خطرے سے جو تریاق پیدا ہوتا ہے وہ توجہ الی اللہ ہے، وہ استغفار ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اگر اس کی حفاظت کی جائے ، اس کو محفوظ طریق پر آگے بڑھایا جائے تو لازماً وہ بندے پیدا کر دیتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ عبادالرحمن کہتا ہے یا یہ فرماتا ہے کہ وہ اولیاء اللہ ہو جاتے ہیں.

Page 278

خطبات طاہر جلد 16 272 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (يونس : 63) خبر دار یہ خدا کے ولی لوگ ہیں ان کو کوئی حزن نہیں لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمُ ان کے خلاف کوئی بھی خوف اثر نہیں دکھاتا.خوف پیدا ہوتے تم دیکھتے ہو تم ڈرتے ہوگے خوف سے.ان کو تو ایک ذرہ بھر بھی کسی خوف کی پرواہ نہیں رہتی.پس آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کس نے خوفوں میں سے گزرتے ہوئے زندگی بسر کی ہے.ایک ایک قدم مقام خوف تھا جہاں دشمن جو بے انتہا طاقتور تھا آپ کو ہر قدم مٹا دینے کے منصوبے بناتا تھا.مگر ایسا بےخوف سفر ہے کہ کوڑی کی بھی اس کی پرواہ نہیں کی.جب آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کو ڈرانا تو نہیں کہنا چاہئے مگر مرعوب کرنے کی کوشش کی.دیکھیں کس بہادری سے، کس یقین کامل کے ساتھ جواب دیا کہ چچا میں آپ کی قدر کرتا ہوں، آپ کا احسان ہے، آپ نے مجھ پر اپنی شفقت کا سایہ رکھا ہے مگر یہ نہ وہم کریں کہ آپ بچا رہے ہیں.ایک کوڑی کا بھی مجھے وہم نہیں کہ آپ مجھے بچانے والے ہیں.میرا بچانے والا میرا خدا ہے اس لئے اپنی پناہیں کھینچ لیں ، اپنی چار دیواری سے مجھے باہر نکال دیں، مجھے کوڑی کی بھی اس بات کی پرواہ نہیں ہے.میرا خدا ہے جو مجھے بچاتا رہا ہے اور میرا خدا ہے جو آئندہ بھی مجھے بچائے گا.تو لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ کا تو یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ خوف پیدا نہیں ہوتا.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمُ کا مطلب یہ ہے کثرت سے خوف پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ خوف ان کی ذات کو مرعوب نہیں کر سکتے ، بالکل بے اثر اور بے معنی اور بے حقیقت دکھائی دیتے ہیں.پس خوفوں میں سے گزرنا اور ان خوفوں کو تمکنت میں تبدیل کر دینا، امن کی حالت میں بدل دینا یہ انبیاء کی شان ہے جو بعد میں ان سلسلوں میں جاری رہتی ہے پھر اور انہی کا فیض ہے جو خلافت میں یا مجددیت میں یا ولایت میں یا دوسری چیزوں میں آگے پھر آپ کو جاری و ساری دکھائی دیتا ہے اور یہ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ کا مضمون انہی کے حق میں پورا ہوتا ہے جو ان صفات سے مزین ہوں جن کا ان آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ خدا کے خالص بندے ہو جاتے ہیں، بچی تو بہ کرتے ہیں، اس کی طرف جھکتے ہیں، اس کی طرف تمام تر تو جہات کے ساتھ مائل ہوتے ہیں.وہ اس سے مانگنا شروع کرتے ہیں اور اس پر بناء کرتے ہیں اور پھر ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان کو نئے نشان عطا کئے جاتے ہیں.

Page 279

خطبات طاہر جلد 16 273 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء امَنُوْا وَعَمِلُوا الصّلِحت کی شرط ہے.ایمان سچا ہو اور نیک اعمال رونما ہونے لگیں ان سے کیونکہ خالی تو بہ کی کوئی بھی حقیقت نہیں اگر بدیوں کے بدلے نیک اعمال نہ لے لیں.پس یہ ایک اور مضمون ہے جو اس آیت نے ہمیں سکھا دیا کہ محض استغفار کے اندر ایک منفی پہلو نہیں ہے کہ زہر سے بچو.بیچنے کے بعد زندگی میں کچھ مثبت کیفیت پیدا ہونی چاہئیں جو تمہاری زندگی کی صلاحیتوں کو پہلے سے بڑھا دیں اور یہی مضمون ہے جو میں پہلے شروع میں بیان کر چکا ہوں.اس آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے.فرمایا امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فضله - قبولیت تو بہ اور عفو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے اس کے نتیجے میں صرف دعا کا نشان نہیں ملتا بلکہ ہمیشہ کی ترقیات کا نشان ملتا ہے اور دعا کی مقبولیت کا ایک ایسا نشان ملتا ہے کہ جو کچھ مانگا گیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے.آپ اپنے تصور کے مطابق جو کچھ مانگ بیٹھتے ہیں وہ مانگ لیں اس سے بہت زیادہ خدا عطا کرتا ہے.پر وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِہ میں استجابت کے بعد کا مضمون ہے کہ ان کی دعائیں صرف اس حد تک قبول نہیں ہوتیں کہ جو مانگا وہ مل گیا بلکہ جو نہیں مانگا وہ بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور بہت بڑھا بڑھا کر اللہ اپنا فضل کیا کرتا ہے.اس کی مثال بار ہا میں نے بیان کی ہے لیکن ابھی بھی کروں گا اس لئے کہ اس کا مزہ بھی ختم نہیں ہوتا.وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے جب آپ بے سہارا، بے یارو مددگار مدین کی بستی میں ایک مقام پر بیٹھے ہوئے تھے.دوخواتین آئیں بچیاں ، وہ ریوڑ کو پانی پلانے کے لئے لیکن مردوں میں ان کو جگہ نہیں ملتی تھی، انتظار کر رہی تھیں.حضرت موسی نے ان کی مدد کی پھر واپس درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور یہ دعا کی رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: 25) اے میرے رب جو بھی تو اس فقیر کی جھولی میں ڈال دے میں اسی کا محتاج ہوں اور اس وقت آپ کے ذہن میں نبوت کا تصور بھی نہیں تھا.لازما نہیں تھا کیونکہ جب نبوت ملی تو دل دہل گیا اور منتیں کرنے لگے کہ اے خدا مجھے نہ نبوت بخش.یہ ایک ہی نبی ہے جس نے اس شدت کے ساتھ نبوت کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے.ساری انبیاء کی تاریخ پڑھ لیں آپ کو ایسا نظر نہیں آئے گا کہ اے اللہ مجھے نہ بنا میرے بھائی کو بنادے.اللہ تعالیٰ نے کہا میں نے تجھے تو بنانا ہی بنانا ہے وہ مجھے سے تو مانگ بیٹھا ہے جس کے بعد مجھے اس مضمون میں سب کچھ تجھے عطا کرنا ہے.

Page 280

خطبات طاہر جلد 16 274 خطبہ جمعہ 11 راپریل 1997ء رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ جب مجھ پر چھوڑ دیا ہے میں کیا دوں تو میں صرف تیری وقتی طور پر بھوک اور سر چھپانے کی جگہ کی ضرورتیں پوری کیوں کروں.شادی بھی ہوگئی لیکن جب مجھ پر چھوڑا ہے کہ میں کیا کیا دوں تو پھر میں تو بہت کچھ دوں گا.اب تیرا سوال ختم اور وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ والا مضمون شروع ہو گیا ہے.اب میں بڑھاؤں گا اور ضرور بڑھاؤں گا.پس یہ وہ سفر ہے جو کیسا خوبصورت، کیسا دلکش سفر ہے.ایک ایک لمحہ اللہ کے سہارے چلتا ہے.کوئی گناہ نہیں ہے جس سے انسان کو نجات مل سکے اگر سچا استغفار نہ ہو اور توبہ کی کچی نیت نہ ہو اور جب یہ ہوتا ہے تو پھر اور مزید گناہوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ توبہ کی قبولیت کا اعلان فرماتا ہے کہ اے بندے تیری توبہ قبول ہے.جب قبول فرما لیتا ہے تو پھر وہ دوسرا حصہ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ شروع ہو جاتا ہے.ساری جھاڑ پونچھ گھر کی شروع ہو جاتی ہے.کمزوریاں یہاں کی ، وہاں کی وہ بھی ساری مٹنے لگتی ہیں تو انسان کا دل کلیتہ پاک وصاف ہو کر خدا کی آماجگاہ بننے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے پھر ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نشانات عطا فرماتا ہے، قرب کے نشانات عطا فرماتا ہے اور وہ نشان دنیا د یکھن لگتی ہے اور ان کو دکھائی دیتا ہے.پھر خدا کے فضل یہاں ٹھہرتے نہیں بلکہ ان کو وہ ترقیات ملتی ہیں جن کا ان کو گمان بھی نہیں تھا جن کو انہوں نے مانگا ہی نہیں تھا اور اتنے پیارے سفر میں جو گناہ کے تریاق کا مضمون ہے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خدا کو گناہ کا اتنا شوق ہے کہ اگر کوئی گناہ سے پاک ہو جائے تو گناہ کروانے کی خاطر اور پیدا فرمائے.گناہ سے بچتے ہوؤں کو دیکھنے کا شوق ہے.بڑے بڑے خطرناک مقام پر قدم رکھنے والوں کو دیکھنے کا شوق ہے جو نیچے دیکھتے ہیں اور ان کے دل نہیں دہلتے ، دہلتے ہیں تو خدا کی پناہ میں آتے ہیں اور اس سے سہارے مانگتے ہوئے اپنی بلندیوں کا سفر ختم نہیں کرتے اور آگے بڑھاتے ہیں اور کامل یقین رکھتے ہیں کہ جس ہاتھ میں ہم نے ہاتھ دے دیا ہے وہ ہمیں چھوڑے گا نہیں.یہ وہ سفر ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ پھر آپ کو بلانے کے لئے تشریف لائے اور یہ سفر کر کے دکھا دیا.اپنے صحابہ کی کیفیات بدل کے دکھا دیں.ادنی ادنیٰ معمولی معمولی انسانوں پر ہاتھ ڈالا اور انہیں کچھ سے کچھ بنا دیا.منشی اروڑے خان کی بات ہی میں کر رہا تھا.وہ اپنی زندگی کی مثال بتایا کرتے تھے.کہتے تھے میں تو ایک معمولی سا دھوبی تھا.نہ کوئی تعلیم ،

Page 281

خطبات طاہر جلد 16 275 خطبہ جمعہ 11 اپریل 1997ء نہ کوئی حیثیت، ایک چپڑاسی کے طور پر میں تحصیل میں ملازم ہوا اور اس زمانے میں تحصیلدار کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں.آدمی سوچ بھی نہیں سکتا ایک ادنی چپڑ اسی ترقی کرتے ہوئے اپنے سارے تعلیم یافتہ اور بڑے بڑے عالم فاضل ساتھیوں کو چھوڑ کر اور ایسا تحصیل دار بن جائے جس کا رعب تمام اس علاقے میں اس طرح ہو جیسا پہلے کبھی کسی کا نہیں ہوا تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے کہتے تھے ہوا ہے.اس کا ثبوت کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اندر جو تو کل پیدا کیا اور جو نیکی اور انصاف پیدا کیا وہ دکھائی دینے لگا تھا.جیسے میں نے بتایا یہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں پھر.اس زمانے کے انگریز افسر بڑے رعب دار بھی ہوا کرتے تھے لیکن ذہین بھی تھے اور صلاحیتوں کو پہچانتے بھی تھے.جس افسر کے ساتھ انہوں نے کام کیا وہ حیران رہ گیا دیکھ کر یہ عام آدمی تو نہیں یہ تو کوئی مختلف چیز ہے.کوئی حرص نہیں ہے، کوئی پرواہ نہیں، سادہ دو کپڑوں میں ملبوس ، دو روٹیاں کھا تا اور باقی سب پیسے بچا بچا کے نیکی کے کاموں پر لگا رہا ہے.تو اس کا یہ اثر تھا کہ وہاں کا جو سب سے بڑا انگریز افسر جس کی کوئی بھی، جو بھی اس وقت حیثیت تھی جس کے اختیار میں تھا، اس کی ان پر نظر پڑی.اس نے دیکھا یہ تو ایک ہیرا ہے اور اس نے پھر ان کو ترقی دینا شروع کی اور پھر پیچھے جاجا کے دیکھا بھی کرتا تھا کہ دیکھیں کیا کر رہا ہے.پس جب تحصیلدار بنادیا تو بعد میں اس علاقے کے دورے پر ہر جگہ گیا تو لوگوں سے پوچھا یہ کیسا تحصیلدار ہے تمہارا.انہوں نے کہا تحصیلدار کیا ہے یہ تو ہماری ماں ہے، ہمارا باپ ہے، ہمارا سب کچھ ہے.اس جیسا انسان تو ہم نے دیکھاہی کبھی نہیں.چنانچہ بڑے فخر کے ساتھ اس نے اس بات کا ذکر تحریر میں کیا ہے.اس نے کہا انسانی قدریں یہ ہوں تو ایسی ہوں پھر اور حضرت منشی اروڑے خان جانتے تھے کہ میں کیسے بنا.مجھے تو مسیح موعود کی ایک نظر نے انسان بنا دیا ہے.تو جب خدا کے پاک بندوں کی نظریں انسان بنایا کرتی ہیں تو اس طرح بناتی ہیں.لمبی محنت اور قربانیوں کے دور سے گزرتے ہو تو پھر باخدا انسان بنا کرتے ہو.آنا فانا یہ معجزے نہ دیکھو نہ ویسے ہوا کرتے ہیں لیکن آنافا نا انقلاب کے فیصلے ضرور ہو جاتے ہیں.جب بھی آپ نے فیصلہ کر لیا کہ استغفار کی اس راہ پر قدم رکھنا ہے جو بالآخر سلفیہ کے وعدے تک پہنچتی ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں آپ کا ہاتھ آجائے گا.آپ کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں آجائے گا اور یہ سفر انشاء اللہ کا میابی کے ساتھ طے ہوگا.

Page 282

Page 283

خطبات طاہر جلد 16 277 خطبہ جمعہ 18 اپریل 1997ء خدا کی تقدیر حرکت میں آئی ہے اور آسمان ضرور کچھ نشان دکھائے گا.آج ایک نہیں ہزاروں لیکھرام پیدا ہو چکے ہیں.( خطبه جمعه فرموده 18 را پریل 1997ء بمقام بیتا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: الفضل لندن) آج کا جمعہ جو عید کے دن ہو رہا ہے آج سے سو سال پہلے ایک جمعہ کی یاد دلاتا ہے جو عید ہی کے دن ہوا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیکھرام سے متعلق جو 1893ء میں پیشگوئی فرمائی تھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت اس الہامی فقرے میں تھا ستعرف یوم العيدوالعید اقرب کہ یہ واقعہ عید کے دن رونما ہو گا جبکہ عید اس کے قریب تر ہوگی.اس کا مطلب یہ تھا کہ دو عیدیں اکٹھی ہوں گی.ایک العید جو خاص عید ہوگی، ایک کامل عید اور دوسری عید اسی کے ساتھ جڑی ہوئی اقرب بالکل ساتھ ہی ہوگی.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1893ء میں جو پیشگوئی فرمائی کہ آج سے چھ سال نہیں گزریں گے کہ لیکھر ام ایک خدا تعالیٰ کے قہری عذاب کا نشانہ بن کر ایک فرشتے کے ہاتھوں ذبح ہو گا یا قتل کیا جائے گا اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے منہ سے ایسی آواز نکلے گی جیسے بچھڑے کے منہ سے آواز نکلتی ہے.اس کی نشان دہی اتنی واضح فرما دی کہ وہ دن عید کا دن ، ایسا دن جو عید کے قریب تر ہے اور 1897 ء میں وہ جمعہ آیا جو عید کا دن تھا اور العید بن گیا یعنی ایسا جمعہ اور ایسی عید جو دونوں اپنے اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل ہو گئے اور دوسرے دن پھر وہ یوم العید ظہور پذیر ہوا.جس کے متعلق فرمایا تھا ستعرف یوم العید جس کے ساتھ اقرب“ وہ

Page 284

خطبات طاہر جلد 16 278 خطبہ جمعہ 18 اپریل 1997ء ایک کامل عید کا دن ہوگا اور ہفتے کے روز لیکھرام کے پیٹ میں ایک ایسے نوجوان نے چھری گھونپی اور صرف گھونپی نہیں بلکہ اندر پھرایا جس سے اس کی انتڑیاں کٹ گئیں اور جو کچھ تھا وہ باہر آ گیا جس کے متعلق کوئی سمجھ نہیں آسکی اور کچھ پتانہ چلا.باوجود انتہائی تحقیق کے کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھا، کہاں سے آیا ، کہاں چلا گیا.وہ ایک ایسے بازار میں تھا جو آریوں کا بازار تھا وہ تین منزلہ مکان تھا جس کے اوپر کی منزل پر لیکھرام بیٹھا ہوا تھا اور نیچے کی منزل پر اس کی بیوی تھی اور وہ لڑکا جس نے اس کو قتل کیا ہے.وہ کچھ عرصہ پہلے اس کے پاس آیا اور اس کے ساتھ بطور گویا کہ آریہ ہو چکا ہو اس طرح اس کے ساتھ رہنے لگا اور جب یہ ہفتے کا روز آیا عید کے بعد تو اس دن اس نے اس کے پیٹ میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے چھری گھونپی اور پھر پھیری اندر اور اس کے منہ سے بہت زور سے چیخ نکلی.اس قدر درد ناک آواز تھی کہ اس کی بیوی دوڑ کر سیٹرھیوں سے ہوتی ہوئی اوپر چڑھنے لگی جن سیڑھیوں سے اس نے نیچے اتر نا تھا اور نیچے سب آریوں کا بازار تھا.اس کے واویلے اور شور سے سارے متوجہ ہو گئے اور پر لی طرف اترنے کے لئے کوئی سیٹرھیاں نہیں تھیں، کوئی شخص بھی جو پر لی طرف چھلانگ لگا تا وہ یقیناً ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا.پس ایسی حالت میں جب بیوی اوپر پہنچی تو دیکھا کہ لیکھرام تڑپ رہا ہے زخموں سے اور اس کی انتڑیاں اور پیٹ کا اندر کا جو کچھ بھی ہے وہ باہر آ چکا ہے اور مارنے والے کا کوئی نشان نہیں.نیچے بازار میں جب شور ہوا تو لوگوں نے توجہ کی.جب پوچھا گیا ان سے تو انہوں نے کہا یہاں سے تو کوئی نیچے اترا ہی نہیں ، نہ کوئی پر لی طرف اترا.چنانچہ اس کے متعلق کہا گیا کہ پھر اس کو آسمان نگل گیا یا آسمان کھا گیا کیونکہ زمین پر تو اس کا کوئی نشان نہیں.نہ اس کے پہلے پس منظر کا کسی کو کبھی کچھ پتا چل سکا.حالانکہ اتناز بر دست شور ڈالا گیا تھا آریوں کی طرف سے اور دوسرے مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مخالفین کی وجہ سے کہ یہ ناممکن تھا کہ پولیس تفتیش کرتی اور اس کا کچھ بھی نہ پتا چلتا.نہ پہلے کا پتا چلا نہ بعد کا پتا چلا.کون تھا، کہاں سے آیا، کہاں چلا گیا.یہ سارے ایک ایسے راز ہیں جو ہمیشہ راز رہیں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشفی نظارے میں اس فرشتے کو دیکھا تھا جو چھری ہاتھ میں لئے تھا اور لیکھرام کا پوچھ رہا تھا کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی گستاخی میں اس کو یہ سزاملنی تھی.پس یہ ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے جو 1897ء میں تقریباً ایک سوسال پہلے رونما ہوا

Page 285

خطبات طاہر جلد 16 279 خطبہ جمعہ 18 اپریل 1997ء اور آج بھی عید ہی کا دن ہے اور آج بھی جمعہ ہے.پس آؤ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جس کے ہاں نشانات کی کمی نہیں پھر احمدیت کے حق میں ایسے معجزات دکھائے کیونکہ آج ایک لیکھرام نہیں سینکڑوں لیکھرام پیدا ہو چکے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے محمد رسول اللہ وے کے عشق میں جو چیلنج دیا تھا اور اس کے عواقب کو خوب سمجھ کر قبول فرمایا تھا ، جانتے تھے کہ تمام دنیا کی توجہ آپ کی طرف بطور قاتل کے ہوگی.چنانچہ آپ کے گھر کی تلاشیاں لی گئیں، ہر قسم کی تحقیق کی گئی اور ایک ادنی سا بھی کوئی سراغ ایسا نہ ملا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قتل کے ساتھ وابستہ کیا جاسکتا.پس یہ واقعہ تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق کے نتیجے میں رونما ہوا ہے.اب ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کامل غلام کا تقاضا یہ ہے کہ اب تو سینکڑوں ہزاروں لیکھرام ہیں جو دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق گند بکتے اور گستاخیاں کرتے ہیں اور یہ حسن اتفاق نہیں ، مقدر معلوم ہوتا ہے کہ یہی سال مباہلے کا سال بن گیا کیونکہ اس سے پہلے جب مباہلے کا میں نے چیلنج دیا ہے تو میرے وہم و گمان کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا کہ یہ کھر ام کے قتل کا سال ہے اور لیکھرام کے متعلق خدا تعالیٰ کی چھری کے چلنے کا سال ہے.پس یہ ساری باتیں جو اکٹھی ہوگئی ہیں یہ بتارہی ہیں کہ خدا کی تقدیر حرکت میں آئی ہے اور آسمان ضرور کچھ نشان ظاہر کر دے گا.پس آئیے ہم سب دعاؤں میں شامل ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ اس نشان کو جو اس نے ظاہر کرنا ہے ہماری دعاؤں کے ساتھ بھی ملا دے اور اس کا ثواب ہمیں بھی عطا ہو.آمین

Page 286

Page 287

خطبات طاہر جلد 16 281 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء اسلام کی نشو و نما اور تیزی سے پھیلنے کی وجہ حسن محمد تھا جس نے عرب فتح کیا پھر وہی فتح باقی ملکوں میں پھیل گئی ( خطبه جمعه فرموده 25 را پریل 1997ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَالْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدُ پھر فرمایا: (الشورى: 26، 27) سیہ وہی آیات ہیں جن سے میں نے گزشتہ خطبے میں ان کی تلاوت کے ذریعہ آغاز کیا تھا اور مضمون بھی وہی ہے اور انہی آیات کے بعض اور پہلو ہیں جو میں آپ کے سامنے مزید کھولنا چاہتا ہوں.اس لئے آج پھر میں نے انہی کی تلاوت کی ہے.میں نے عرض کیا تھا کہ تو بہ کے ساتھ گزشتہ گناہوں کی مغفرت کا جہاں تک تعلق ہے لازم نہیں کہ ہر قسم کی بدیاں بھی اسی وقت ، اس لمحے مٹ چکی ہوں اور کچھ نہ کچھ پرانی عادات کا ایک جلوس سا باقی رہتا ہے جو آگے بڑھ جاتا ہے.پس تو بہ کے بعد ایک مکمل نئی صالح زندگی معا عطا نہیں ہوا کرتی اس کیلئے ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے.پر يَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ کا ایک معنی تو میں نے یہ بیان کیا تھا کہ جب خدا عفو سے

Page 288

خطبات طاہر جلد 16 282 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء کام لیتا ہے تو اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نظر انداز فرما دیتا ہے، ان کے عواقب سے بچا لیتا ہے اور دوسرے یہ کہ جب خدا نظر انداز فرمائے تو بدیاں مٹنی شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ خدا کی آنکھ سے تو کوئی چیز اوجھل نہیں رہ سکتی.اس کی آنکھ سے اوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعہ مٹ جاتی ہیں لیکن کیسے مٹتی ہیں.کیا یہ از خود ایک طبعی سلسلہ ہے جو جاری ہوتا ہے یا اس میں انسان کو بھی کسی کوشش یا جد و جہد کی ضرورت ہے.یہ دوسرا پہلو ہے جو میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.قرآن کریم نے اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ یوں بیان فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں وہ کہتے ہیں رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ کہ اے خدا! اے ہمارے رب! ہم نے ایک ایسے پکارنے والے کی آواز کو سنا جو یہ کہتا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ پس ہم ایمان لے آئے.رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا پس ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور یہ پہلا تقاضا ہے کہ ہمارے سابقہ گناہ بخش دے تا کہ ہلکے قدموں کے ساتھ ، سارے بوجھ اتار کر پھینکتے ہوئے ہم تیری طرف آگے بڑھیں لیکن اس سے آگے ایک اور تقاضا بھی ہے کہ کچھ ایسی برائیاں ہیں جو بخشش کے باوجود ہماری ذات کا ایسا جزو بن چکی ہیں کہ ہم انہیں ایک دم نوچ کر الگ نہیں پھینک سکتے وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا کی دعا سکھائی ہے.پس اگر دعا کی طلب نہ ہوتو اللہ تعالیٰ کو انسان کے ساتھ کوئی بھی تعلق قائم نہیں ہوا کرتا.پس یہ جو مضمون ہے کہ بدیوں کو دور فرما دے گا اس کا انسانی ذات میں ایک طلب کا پیدا ہونا ، ایک خواہش کا ابھرنا اور اس خواہش کے مطابق جو اس سے ملتے جلتے ، اس سے تعلق رکھنے والے اعمال ہیں ان کا آغاز ہو جانا یہ سب انہی آیات کے اندر شامل ہے.پس جو آیتیں میں نے اب آپ کے سامنے پڑھی ہیں یا دوسری سورۃ کی جن آیات کی طرف آپ کو متوجہ کیا ہے ان میں جو اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہمیں بخش دے تو پھر ہماری برائیوں کو بھی دور فرما دے.وہ برائیاں دور کرنے کا سلسلہ دعا کے ساتھ جب شروع ہوتا ہے تو پھر یہ تنبیہ فرمائی جاتی ہے وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ کہ دیکھو اللہ تمہارے اعمال کو جانتا ہے اس لئے یہ نہ ہو کہ دعا مشرق کی ہو اور رخ مغرب کی طرف ہو جائے.جس طرف کی دعا کی جارہی ہے اسی سمت میں چلنا پڑے گا اور بدیاں دور کرنے کے لئے تمہیں کچھ نہ کچھ محنت کرنی ہوگی اور جب تم یہ کرو گے تو خدا کا وعدہ ہے کہ وہ

Page 289

خطبات طاہر جلد 16 283 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء ضرور دور فرما دے گا اور جب دور فرمائے گا تو اس کی علامتیں ظاہر ہونگی.وہ علامتیں یہ ہیں کہ سب سے پہلے تم مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے.تمہاری دعاؤں کو جو نیک نیتی سے کی جارہی ہیں، جن کی عمل صالح تائید کر رہا ہے ان دعاؤں کو خدا قبول فرمائے گا.- وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّلحت ان لوگوں کی دعا کو قبول فرمائے گا جو ایمان لے آئے اور پھر نیک اعمال بجالائے.پس محض گزشتہ کی تو بہ کافی نہیں جب تک اپنی زندگی کو نیک اعمال سے بھر نہ دو اور نیک اعمال ہی ہیں جو دراصل بدیوں کو دور کرنے کی ضمانت ہوا کرتے ہیں.فرمایا وَ يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِہ اور پھر وہ اپنے فضل سے ان کو اور بھی بڑھائے گا.اب یہ جو آیت ہے وَ يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ اس میں ایک بہت عظیم وعدہ کیا گیا ہے لیکن وہ وعدہ ہے کیا ؟ ایک معنی اس کا یہ کیا جاتا ہے جو عربی کے لحاظ سے درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے اعمال کی جزا میں ان کو بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا یعنی ایسے لوگوں کے اعمال کی جزا ان کو بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا.لیکن مجھے ایک اور معنی اس سے زیادہ پسند ہے اور میرے نزدیک اس موقع پر وہ زیادہ صادق آتا ہے اور اس کا پہلی آیات سے ایک براہ راست تعلق ہے يَزِيدُهُمْ کا مضمون كَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا يَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جو انسان اپنی بعض عادتیں اپنے سے تو ڑ تو ڑ کر الگ پھینک رہا ہے وہ کم ہوگا زیادہ تو نہیں ہوگا.ظاہری عقلی تقاضا یہ ہے کہ اس میں سے کچھ اترا اور کچھ پھینکا گیا.زیادہ وہ کیسے ہو جائے گا.زیادہ تبھی ہوگا اگر بدیوں کے دور کرنے کا مضمون سمجھ آجائے ور نہ ہو نہیں سکتا اور اس مضمون کو قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ یوں کھولا ہے کہ تم اپنی بدیوں کو حسن کے ذریعہ دور کر و یعنی ایسے بنو کہ بدیوں کو ویسے اکھیڑ کر باہر نہ پھینکو بلکہ حسن کے ذریعے تبدیل کرو اور اس مضمون کو قرآن کریم نے مختلف آیات میں مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے لیکن ہمیشہ یہی مضمون ہے کہ وہ ایک آیت جو معین میرے ذہن میں تھی اس وقت وہ زبان پہ جاری نہیں ہو رہی لیکن یاد آ جائے گی اس دوران، معنی اس کا یہی ہے کہ حسن کے ذریعے، خوبیوں کے ذریعے اپنی بدیوں کو دور کرو جس میں ایک بہت گہرا حکمت کا راز بیان فرما دیا گیا کہ بدیاں اپنی ذات میں دور کرنا نہ مقصود ہے نہ ممکن ہے، یہ ہو نہیں سکتا کہ تم اپنی بعض پرانی عادتیں

Page 290

خطبات طاہر جلد 16 284 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء اپنے وجود سے نوچ کر پھینک دو سوائے اس کے کہ ان سے بہترین عادتیں ان کی جگہ لینے کے لئے موجود ہوں.پس حسن بدی کو دھکیل کے باہر کرتا ہے جیسے نور اندھیروں کو دھکیل کے باہر کر دیتا ہے.خالی اندھیروں کو دور کر ناممکن ہی نہیں عقل کے خلاف بات ہے.پس قرآن ایک ایسی اعلیٰ حکمت کی کتاب ہے جو انسانی فطرت کی پاتال تک نظر رکھتا ہے اور کوئی بھی حقیقی تعلیم ایسی نہیں ہے جس پر عمل کر ناممکن نہ ہو.پس سیئات کو دور کرنے کی تعلیم فی ذاتہ ایک کھوکھلی تعلیم ہے اگر قرآنی آیات کی روشنی میں حسن کے ذریعے بدی کو دور کرنے کی کوشش نہ کی جائے.پس جب بہتر عادتیں بعض بری عادتوں کی جگہ لیں گی تو یہ يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ کا مضمون ہے.اللہ تعالیٰ پھر ان کو بڑھائے گا اپنے فضل کے ساتھ اور جو بہتر عادتین ان کو عطا ہوں گی وہ باقی رہنے والی ہوں گی اور دائی ہو جائیں گی وہ وفا کرنے والی عادتیں ہونگی جو ان کو چھوڑ کر جائیں گی نہیں کیونکہ نیکی کے مضمون کے ساتھ اس کا باقی رہنے کا مضمون بھی قرآن کریم نے ہر جگہ بیان فرمایا ہے اور پھر ان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا یعنی جوں جوں بدیاں جھڑیں گی حسن میں اضافہ ہوگا اور جب حسن میں اضافہ ہوگا تو تمہاری طاقت میں بھی اضافہ ہوگا.تمہارے جیسے اور لوگ تمہارے ساتھ پیدا ہونے لگیں گے.یہ وہ پہلو ہے جس کے تعلق میں میں ایک دفعہ پھر آپ کو دعوت الی اللہ کا مضمون یاد کراتا ہوں.بہت سے احمدی ہیں جو دعوت الی اللہ میں مصروف ہیں ، پوری کوشش کرتے ہیں لیکن آخر پر شکوہ یہ رہ جاتا ہے کہ ہم نے تو سب کچھ کر دیا مگر اوپر سے پھل نہیں مل رہے گویا او پر ہی کا قصور ہے.حالانکہ اگر پھل نہیں مل رہے تو نیچے کا قصور ہے بعض دفعہ جڑوں کی بیماری ہے جو حائل ہو جاتی ہے پھلوں کی راہ میں اور آسمان تو بارشیں برساتا ہے ، فضا تو ضرورت کی گیسیں مہیا کرتی رہتی ہے مگر پھل اس لئے نہیں لگتے کہ جڑیں بیمار ہیں.پس كَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا کا مضمون تبلیغ کے لئے بھی نہایت ضروری ہے.یہ دعا ساتھ ہو اور اس کے بعد پھر انسان اپنے حسن کے ذریعے اپنی بدیوں کو دور کرتا چلا جائے اور جب آپ کا حسن آپ کی بدیوں کو نکال باہر کرنے پر مجبور کر دے یعنی نیا اختیار کردہ حسن جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے آپ سیکھیں گے تو پھر ایسے وجود کا بڑھنا اور نشو و نما ایک طبعی قدرتی عمل ہے جس کو کوئی روک نہیں سکتا.

Page 291

خطبات طاہر جلد 16 285 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء پس اگر کسی کی تبلیغ کی راہ میں کوئی روک حائل ہے اور پھل نہیں لگ رہے تو دیکھیں کہ اس کے اندر کوئی ایسی بدیاں تو نہیں جو اس کی نشو ونما کی راہ میں حائل ہوگی ہیں ورنہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ یہ وعدہ کرے اور پھر پورا نہ فرمائے کہ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ضرور بڑھاتا ہے.تو محض نیکیاں بڑھانے کا مضمون نہیں بلکہ ایسے لوگوں کے نفوس میں برکت دیتا ہے ان کی تعداد بڑھتی ہے جیسا کہ آنحضرت بہ کے ساتھ ہوا جو ہر نبی سے ہوتا رہا مگر جس شان کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ ہوا ویسا اور کسی نبی کے ساتھ نہیں ہوا کہ آپ اکیلے تھے اورکس تیزی کے ساتھ کثرت میں تبدیل ہونے لگے اور آپ کا حسن دوسروں میں سرایت کیا ہے تو آگے بڑھے ہیں، اس کے بغیر آگے نہیں بڑھے.کوئی بھی اسلام کی نشو ونما اور تیزی سے پھیلنے کی حقیقت اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ حسن محمد تھا جس نے عرب کی فتح کی ہے اور پھر وہی فتح تھی جو باقی ملکوں پر بھی پھیل گئی.آنحضرت ﷺ کی سیرت کے حسن کے بغیر جو فتح تھی، وہ عسکری فتح تھی اس نے کوئی بھی دیر پا صلاحیت مومنوں میں پیدا نہیں کی بلکہ بعض اس زمانے کے لوگوں کو پہلے سے بدتر حالتوں میں وہ فتوحات چھوڑ گئیں اور جو اعمال میں رہی سہی خوبیاں تھیں ان کو بھی وہ کھا گئیں، ظالم بادشاہ پیدا ہوئے.چنانچہ اسی لئے آنحضرت علیہ نے جو مسلمانوں کے تنزل کی دردناک کہانی بیان فرمائی ہے وہاں خلافت کے بعد ملوکیت اور ملوکیت کے بعد پھر ظلم کی حکومت کا ذکر فرمایا ہے.پس جب خلافت راشدہ نہ رہے تو جو حکومت قائم ہوتی ہے وہ سچائی کی حکومت نہیں بلکہ ایک سیاسی حکومت ہے جس میں سچائی کے کچھ اثرات باقی رہتے ہیں لیکن زیادہ دیر تک رہ نہیں سکتے کیونکہ جب یہ عمل جاری نہ رہے کہ حسن سے بدیوں کو دور کرو اس وقت تک برعکس جو عمل سے وہ شروع ہو جاتا ہے یعنی بدیاں نیکیوں کو کھانے لگتی ہیں کیونکہ ان نیکیوں میں جان نہیں ہوتی ، وہ کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہیں.وہ شخص جس میں دفاع کی طاقت نہ ہو اس کو جراثیم کھاتے ہیں.جس میں دفاع کی طاقت ہو وہ بدن تو جراثیم کو کھا جاتا ہے اور روزمرہ یہی ہو رہا ہے ہمارے بدن میں.لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں قسم کے جراثیم ہیں جو ہم پر ہمیشہ حملہ آور رہتے ہیں اور بدن ان کو کھا جاتا ہے یعنی ان کو غارت کر دیتا ہے.گویا ان کے گرد ایسے سپاہی لپٹ جاتے ہیں جو ان کو کھا کر اگر چہ اپنی جان بھی ساتھ فدا کرتے ہیں مگر ان کو

Page 292

خطبات طاہر جلد 16 286 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء بدن سے نکال کر ایک گندگی کے طور پر اس سے خارج کر دیتے ہیں اور یہ عمل جاری عمل ہے.پس بدیاں جو ہیں ان پر نیکی نے بہر حال غالب آنا ہے.اگر نیکی کی صفات حقیقۂ موجود ہوں، اگر نیکی کی تعریف صادق آتی ہو تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک صالح وجود پر غیر صالح وجود غالب آجائے.پس جو دوسرا دور ہے اس میں یہ معنی نہیں ہے کہ گویا اب خدا نے قانون بدل دیا ہے.اب نیکی پر بدی غالب آنے لگی ہے.وہ مضمون یہ ہے کہ نیکی نہیں رہی اور خلا نہیں ہوسکتا.جہاں سے نیکی چلی جائے گی اس کا ایک طبعی عمل ہے، یہ قانون قدرت کا ایک طبعی عمل ہے کہ خلا رہ نہیں سکتا جہاں سے نیکی اٹھے گی بدی آکر اس جگہ براجمان ہو جائے گی ، اس جگہ پر قبضہ کرلے گی.تو اپنی زندگی کی حفاظت کرنی ہے اور نسلاً بعد نسل حفاظت کرنی ہے تو یہی ایک راز ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا کہ ایمان لاؤ تو بہ کرو جو سچی توبہ ہے.سچی توبہ کے بعد اپنی بدیوں کو اپنے زیر نظر رکھو اور امید رکھو کہ خدا دور فرمائے گا تم میں طاقت نہیں مگر دعا کے ذریعے اس جہاد کا آغاز کرو، دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو کہ وہ تمہاری بدیاں دور کرنی شروع فرما دے اور طریق یہ سکھا دیا کہ جو عمل تمہیں بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نیکیوں کے ذریعے اپنی بدیوں کو دور کرو یعنی نیکیاں بڑھاؤ تو بدیاں دور ہوں گی.تو یہ ایک مثبت عمل ہے جس کی طرف بلایا جارہا ہے یہ مثبت عمل جب جاری ہوگا تو آپ میں برکت پڑے گی.یعنی آپ کے وجود میں ایک ایسی توانائی پیدا ہوگی جو پہلے نہیں تھی کیونکہ نیکیوں کے بغیر کوئی توانائی نہیں ہے آپ کے اندر ایک روحانی زندگی پیدا ہونی شروع ہوگی جس میں جان پڑ جائے گی جو اس طرح نشو و نما پائے گی جس طرح چھوٹا بچہ صحت مند ماحول میں تربیت پاتا ہوا آگے بڑھتا ہے بلند ہوتا ہے اور اس کی ہر صلاحیت پہلے سے زیادہ طاقت پا جاتی ہے، تنومند ہو جاتی ہے.تو صلاحیتوں کی نشو ونما کا نام ہے بدیوں کا دور ہونا کیونکہ وہ نشو ونما حسن اور نیکیوں کے ذریعے ترویج پاتی ہے اور اس وجہ سے بدیوں کا دور کرنا ایک مثبت عمل کا دوسرا نام ہے، محض ایک منفی کوشش نہیں ہے.اس کوشش میں ہم کیسے داخل ہوں اور کیسے اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تو بہ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے اس کا سمجھنا ہمارے لئے بہت عمد اور مفید ثابت ہوگا اور دوسرا یہ کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنی بدیوں کو تاک کر نشانے بنانا یہ ایک باشعور کام ہونا چاہئے.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ از خود یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا.جب خدا نے

Page 293

خطبات طاہر جلد 16 287 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء دعا سکھائی، جب نصیحت فرمائی کہ نیکیوں کے ذریعے بدیوں کو دور کر و تو ہر لمحہ اپنا جائزہ لینا لازم ہے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ کون سی بدیاں ہم نے کس حسن کے ذریعے دور کی ہیں.یہ جو عمل ہے یہ لحہ لحہ کا عمل ہے.یہ روز مرہ کا ایسا حساب نہیں کہ جیسے بھی کھاتے بند کرنے سے پہلے جوتا جر ہیں وہ بیٹھے اپنی دوکانوں میں حساب کر رہے ہوتے ہیں.یہ اور طرح کا حساب ہے جو لازماً جاری و ساری حساب ہے.وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ کے مضمون سے اس کا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور کوشش کروں گا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کا گہرا فلسفہ آپ کو سمجھاؤں.فرمایا اعمل ما شئت فقد غفرت لک یہ جو کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے بعض بندوں سے کہ اعمل ما شئت “ جو چاہے کراب کھلی چھٹی ہے فــقد غفرت لک پس میں تجھے بخش چکا ہوں.پس جب میں نے بخش دیا تو پھر حساب کتاب کا کیا سلسلہ رہا اب تجھے چھٹی ہے جو چاہے کرتا پھرے.فرمایا اس کا مطلب سمجھو، غور کر و تو پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ یہ گناہوں کی چھٹی نہیں ہے جیسا کہ بعض جاہل سمجھتے ہیں.فرمایا: حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان بار بار رو رو کر اللہ سے بخشش چاہتا وو ہے تو آخر کا رخدا کہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخش دیا.اب تیرا جو جی چاہے سوکر.اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اور اب گناہ اسے بالطبع برا معلوم ہوگا جیسے بھیٹر کو میلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسرا حرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے.“ یعنی بھیٹر جب گندگی پہ منہ مارتی ہے تو ایک نیک طبع انسان جو اپنی بدیوں سے نجات پاچکا ہو، گندی عادتیں اس سے نکال کر باہر پھینک دی گئی ہوں تو جو گندگی اس سے نکال کر باہر پھینکی گئی ہے اس سے محبت تو نہیں رہتی بلکہ بری لگنے لگتی ہے.فرمایا اسی طرح خواہ ایک انسان بھوکا بھی ہوا گر بھیٹر کو گندگی کھاتے دیکھے گا تو اس کا دل نہیں چاہے گا کہ اس گندگی پہ وہ بھی منہ مارے بلکہ اور کراہت محسوس کرے گا تو اعمل ما شئت کا یہ مطلب ہے.فرماتے ہیں: اور اب گناہ اسے بالطبع برا معلوم ہوگا جیسے بھیڑ کو میلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسرا حرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے اسی طرح وہ انسان بھی گناہ نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے.(ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 3)

Page 294

خطبات طاہر جلد 16 288 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء اب دیکھیں بخشش کی بھی کیسی اعلیٰ پہچان ہمیں عطا فرما دی.یہ خیال، یہ واہمہ کہ ہم نے خوب رو رو کر دعائیں مانگیں اور محسوس ہوا کہ اب ہم بخشے گئے ہیں اور گناہ جھڑ گئے ہیں یہ واہمہ دور فرما دیا یہ بیان کر کے ایک کسوٹی ہے بخشش کو جانچنے کی اور وہ یہ کسوٹی ہے کہ جس گناہ کو بخشا گیا ہے اس گناہ سے انسان کو بالطبع دوری عطا کی جاتی ہے، اس کو بعد عطا کیا جاتا ہے.ایک طبعی نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور جب تک اس کی محبت باقی ہے اس وقت تک بخشش کا کوئی سوال نہیں ہے.اگر محبت باقی رکھے خدا اور بخش دے تو پھر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گناہوں کو ترویج دینے کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کے خلاف ہے کہ ایسی حالت میں بخشے کہ اس گناہ کی محبت ، اس کا پیار، اس کی حرص دل میں باقی رہے اور اللہ کہے میں نے تجھے بخش دیا ہے اور پھر فرمائے کہ اب جو چاہے کرتا پھر تو اس کا مطلب ہے کہ خدا سے بڑھ کر اور کوئی گناہ کو ترغیب دینے والا نہیں ہوگا، پھر کسی شیطان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.پھر اللہ ہی کافی ہے گناہوں کو ترغیب دینے والا ، نعوذ بالله من ذالک.یہ اتنا خطرناک ظالمانہ خیال ہے کہ جو خدا کے عرفان کا ایک شائبہ رکھنے والا بھی قبول نہیں کرسکتا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ان گہرے معارف کو سمجھ کر ان حدیثوں کے معنوں کو سمجھیں جو بد قسمتی سے بعض علماء نے غلط معنوں کو ترغیب دینے کے لئے رائج کر دیں اور گناہوں کو کم کرنے کی بجائے وہ حدیثیں گناہ کو بڑھانے کا موجب بنادی گئیں جو خدا ہی کی نہیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ کی بھی بڑی گستاخی ہے کہ گویا آپ کو اللہ کا عرفان ہی نصیب نہیں تھا، نعوذ باللہ من ذالک.آپ خدا کو ایسا سمجھ رہے تھے جو گناہ کو تقویت عطا کرتا ہے.پس جب تک عمل کی زندگی ہے اس وقت تک یہ ہو نہیں سکتا.یہ ترجمہ مکمل نہیں اور جب عمل کی زندگی ختم ہو تو اعمل ماشئت کا مضمون ختم ہو جاتا ہے.ایک بخشش ہے جو عمل کی زندگی کے دوران ہے یہ میں اس بخشش کی بات کر رہا ہوں.ایک بخشش ہے جو موت کے وقت یا بعض دفعہ موت کے بعد عطا ہوتی ہے وہ جو بخشش ہے اس میں خدا کامل طاقت اور اختیار کھتا ہے جو چاہے کرے.کوئی نہیں جو اس کی راہ میں حائل ہو سکے.مگر اس کے بعد اعمل ما شئت کا تو پھر مضمون باقی نہیں رہتا.عمل کی دنیا تو ختم ہوچکی ہے.پس جب تک آپ کو

Page 295

خطبات طاہر جلد 16 289 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء عمل کی توفیق ہے آپ کی بخشش و ہیں ہوئی ہے جہاں سے آپ کو گناہ سے نفرت شروع ہوگئی ہے.اس سے پہلے بخشش نہیں ہے اور جب گناہ سے نفرت ہو جائے تو پھر بدیاں بھی اچھی نہیں لگتیں.جب ایک بڑی مصیبت سے نجات ملے، بڑے داغ دور ہو جائیں تو چھوٹے داغ نمایاں ہو جایا کرتے ہیں اور پھر ان چھوٹے داغوں کو دور کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اگر غلاظت ہی لگی ہوئی ہے جسم کے اوپر تو چھوٹے چھوٹے باریک داغ دکھائی ہی نہیں دے سکتے.خیال ہی نہیں پیدا ہوسکتا کہ یہ بھی دور کرنے والی باتیں ہیں.سب سے پہلے انسان غلاظت کو دھوئے گا.تو گناہ وہ غلاظت ہے جس کو دھو کر اور دھونے کے ساتھ یہ مضمون شامل ہے کہ نفرت ہے تو دھویا گیا.نفرت اور بخشش ، گناہوں کو مٹانا اور دور کرنا یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن پھر بعد میں پتا چلتا ہے کہ چادر کے داغ تو دور ہوئے نہیں ، جگہ جگہ بہت سے ایسے داغ ہیں جو پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے، اب نظر آنے لگ گئے ہیں.ان کو دور کرنے کا جوسلسلہ ہے وہ ساری زندگی کا معاملہ ہے، ہمیشہ ساتھ رہے گا اور اس کے لئے طریق یہ بیان فرما دیا گیا کہ حسن کی تلاش کرو، اپنے آپ کو زیادہ حسین تر بنانے کی کوشش کرو.جب بھی تم کسی نیکی کی خواہش رکھو گے اور اسے اپنا لو گے اس کے ساتھ ہی بعض داغ جو تمہارے اندر تھے وہ از خود دور ہو جائیں گے وہ اکٹھے رہ سکتے ہی نہیں کیونکہ نیکی در اصل خدا کی صفات کا پر تو ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے ساتھ بدیاں رہ نہیں سکتیں.تو ایسا اعلیٰ مضمون سکھایا گیا ہے اور پھر اس کے ساتھ جو وعدہ فرمایا گیا ہے برکت کا وہ یہ ہے کہ نیکیاں دوسری نیکیوں کو جنم دیں گی وہ اکیلی نہیں رہیں گی.تم میں نشو ونما شروع ہوگی جو تمہیں پہلے سے زیادہ عظیم تر بناتی چلی جائے گی اور پھر تمہارے گردو پیش میں برکت دی جائے گی ، تمہاری تعداد میں اضافہ ہوگا.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةَ کا مضمون شروع ہو جائے گا.صلى الله محمدﷺ اکیلا رہنے والا وجود ہی نہیں ہے اس کے ساتھ وہ لازماً وہ پیدا ہوں گے جو مَعَہ کا حق ادا کریں گے اور معیت کا حق تبھی ادا ہو سکتا ہے جو خوبیاں سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.یعنی جو ساتھ ہیں وہ خوبیاں سیکھیں گے تو معہ ہوں گے.ورنہ تو معیت کا شرف ان کو نصیب ہی نہیں ہوسکتا.تو آپ کے ساتھ بھی ایک معیت پیدا ہو گی يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِہ کا یہ معنی ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.b

Page 296

خطبات طاہر جلد 16 290 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء پس دعوت الی اللہ کے معاملے میں دعا کے لئے لکھنے والے اور شکایت کرنے والے کہ ہم نے تو ہر طریقہ آزمادیکھا آسمان سے برکت اترتی ہی نہیں وہ ایک خواب و خیال کی دنیا میں بس رہے ہیں.آسمان سے برکت تو اتر رہی ہے لیکن آپ کے اندر کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جنہیں آپ دور نہیں کر رہے اور میں جانتا ہوں کہ تم کیا ہو اندر سے اور جب تک تم ان بدیوں کو دور کرنے کا عمل شروع نہیں کرتے یہ وعدہ تمہارے حق میں پورا نہیں ہوگا کہ يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِم کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے.تو ساری جماعت کے لئے ایک نشو ونما اور بڑھنے کا فلسفہ ان آیات میں بیان ہوا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے کھول کر بیان فرمایا اور جو ابہام تھے وہ دور کر دیئے اور جو بدیوں کو دور کرنے کی حقیقت ہے وہ ہمارے سامنے کھول دی.مغفرت کس کو کہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کیا ہونا چاہئے یہ سارے مضامین ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے سامنے کھولتے ہیں.چنانچہ فرمایا ”مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے.“ اس دور میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں یہ کہنا پڑے گا "بالطبع کراہت تھی کیونکہ انگلستان میں کثرت کے ساتھ بد قسمتی سے بعض بڑی تعداد میں بلکہ مسلمان نوجوان ہیں جو خنزیر کھانے لگ گئے ہیں مگر ایک دور تھا تھی اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمانوں میں طرح طرح کی بدیاں آگئی ہیں مگر خنزیر کی کراہت آج بھی موجود ہے.جو استثناء ہے وہ ایک چھوٹے ماحول میں بعض جگہوں پر ہے اور اس کا ذکر میں نے اس لئے کیا کہ یہاں جو پلے ہوئے احمدی نوجوان ہیں وہ کہیں گئے تھی“ والی بات تو پرانی ہوگئی.پرانی ہوئی مگر بہت محدود علاقوں میں بحیثیت مسلمان عالمی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا آج بھی درست ہے کہ بالطبع مسلمان میں خنزیر کے گوشت کے خلاف کراہت موجود ہے.یہ بیان فرمانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.حالانکہ اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھا دیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہو جاوے.فرمایا سور کی کراہت تمہارے دل میں بالطبع موجود ہے اس لئے نہیں کھاتے تو آسان ہے نہ کھانا بلکہ اتنا آسان ہے کہ اس کے خلاف کرنا تمہارے لئے دو بھر ہے، سوچنا بھی مشکل ہے ایک کراہت پیدا ہوتی ہے.اگر گناہ کا مفہوم تمہیں اس طرح سمجھ آ جائے کہ اس کا گند دیکھ کر تم اس کی طرف جھکنے کا تصور بھی نہ کرو اور طبیعت

Page 297

خطبات طاہر جلد 16 291 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء کراہت کے ساتھ اس سے دور ہے جیسا کہ انسان کسی گندگی کو دیکھتا ہے تو رستے میں چلتے ہوئے دکھائی دے تو انسان قدم بچا کر، ذرا ہٹا کر رکھتا ہے اس کے قریب بھی پاؤں نہیں لاتا تو کیسے ممکن ہے کہ جس چیز کے قریب پاؤں کالا نا برداشت نہ ہو اس میں انسان منہ مار دے اور اس غلاظت کو کھانے لگے.پس کیسی عمدگی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گناہ کی نفرت کا مضمون بیان فرمایا.فرمایا لیکن یہ نفرت ممکن نہیں ہے جب تک دعا نہ ہو.پس دعا کے ذریعے مدد مانگنا لازم ہے مگر جس چیز کی دعا مانگی جائے اس کے لئے کوشش کرنا اور اس سمت میں قدم اٹھانا یہ بھی دعا کی قبولیت کے لئے لازم ہے ورنہ وہ دعا قبول ہی نہیں ہو گی.فرماتے ہیں کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کوتاہی نہ ہو.اب یہ بھی ایک بہت اہم مضمون ہے کہ بعض دفعہ دعا میں کوتا ہی مایوسی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.انسان سمجھتا ہے کہ میں اتنے گناہوں میں ملوث ہو چکا ہوں کہ اب مجھے بھلا کیا تو فیق ملے گی کہ میں اپنی صفائی کروں اور عمر کا بھی کوئی پتا نہیں کس وقت زندگی ختم ہو جائے.تو گناہوں کی کثرت بھی انسان کو دعا سے غافل کر دیتی ہے اس وجہ سے کہ شاید گناہ بہت بڑھ چکے ہیں اور گناہوں کے ہٹنے کے لئے دعا کرتا اور گناہوں کا باقی رکھنا اس مایوسی کو مزید بڑھاتا چلا جاتا ہے.کئی لوگ کہتے ہیں جی ہم نے بڑی دعا کی ہے نماز میں توجہ پیدا ہو مگر نہیں ہوئی اب رفتہ رفتہ دل ہی اچاٹ ہو گیا ہے.ایسے لوگوں کو بیماریاں کئی قسموں کی ہیں جو ان کے اندر یہ غلط خیال پیدا کرتی ہیں لیکن اس وقت ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے کیونکہ ایک اور مضمون شروع ہو جائے گا اس لئے میں آپ کو صرف اتنا سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کو تا ہی نہ ہو.اس کو آپ حرز جان بنالیں اور دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں پھر انشاء اللہ آپ کے اندر وہ اصلاح کا دور شروع ہو جائے گا جو گناہوں کی مغفرت کا سامان کرے گا اور بدیوں کے دور کرنے کا.فرماتے ہیں: گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کر کے دعا سے ہرگز باز نہ رہے.دعا تریاق ہے.آخر دعاؤں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 3) اب یہ بھی حکمت کی بات ہے.حکمت کی تو سب باتیں ہیں مگر ایک ایسی حکمت کی بات ہے

Page 298

خطبات طاہر جلد 16 292 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء جو سمجھے بغیر انسان گناہ سے بچ سکتا نہیں.گناہ کی محبت قائم رکھتے ہوئے انسان یہ دعا مانگے کہ میں گناہ سے بچ جاؤں یہ ایک جاہلانہ دعا ہے.گناہ کی محبت کو بری نظر سے دیکھے اور اس محبت کے خلاف دعا کرے یعنی اپنے گناہوں کی حرص کو بددعا دے اور خدا سے یہ چاہے کہ یہ مجھے کیوں اچھا لگ رہا ہے.میں چاہتا ہوں کہ مجھے تو اس سے ایسا الگ کر دے کہ مجھے اس سے نفرت ہو جائے میں اس کا قرب برداشت نہ کر سکوں یہ دعا سب سے مشکل دعا ہے کیونکہ گناہ چاہت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور چاہت کے خلاف دعا ہوئی بڑا مشکل کام ہے اس لئے انسان یہ کبھی دعا نہیں مانگتا کہ اے خدا یہ مجھے تمنا ہے مجھے فلاں چیز ملے اور یہ ہو اور وہ ہو یہ تمنا اٹھا دے میرے دل سے،اسے مٹادے یہ بڑا مشکل کام ہے.انسان کہتا ہے مجھے تمنا تو ہے مگر تو مجھے معاف کر دے، مجھے تمنا تو ہے مگر میں گناہوں سے بچ جاؤں، بچ نہیں سکتا جب تک وہ تمنا نہ مٹ جائے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام یہ دعا سکھاتے ہیں ”گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کر کے دعا سے ہرگز باز نہ رہے.دعا تریاق ہے آخر دعاؤں سے دیکھ لے کا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا.پس ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں آنکھیں کھول کر یہ جائزہ لینا چاہئے کہ کوئی ایسا گناہ ہے جو کل تک ہمیں پسند تھا آج برا لگنے لگا ہے اور اگر کوئی بھی نہیں تو اپنی تہی دامنی پر انسان واویلا کرے.اس نے اپنی عمر بھر کی کوششوں کو گنوا دیا ہے.وہ سمجھ رہا ہے کہ ہر رمضان میں خاص طور پر دعائیں کر کے اس نے بخشش طلب کی اور سارے گناہ بخشے گئے مگر جو بخشے گئے وہ دوبارہ کیسے زندہ ہو گئے کیونکہ ان کے دل میں نفرت نہیں پیدا ہوئی.جب نفرت نہیں پیدا ہوئی تو ان کی زندگی کا بیج باقی رہا ہے اور وہ اگلے رمضان سے پہلے بلکہ پہلے رمضان کے معا بعد پھر پھوٹ پڑیں گے.تو وہ زمیندار جو بیج نہیں مارتا جڑی بوٹیوں کا وہ اپنی فصل کی کبھی بھی حفاظت نہیں کر سکتا اس لئے بیج مارنا خواہشات کے خلاف دعا کرنا ہے.دعا یہ کرے کہ اللہ ان کی محبت مٹادے اور پھر چند دن کے بعد آپ کی آنکھیں اس شعور کے ساتھ کھلیں گی کہ یہ چیز اب مجھے اچھی نہیں لگتی.دل ہی نہیں چاہتا اس کو کرنے کو.تو جب دل نہیں چاہے گا تو کتنا آسان ہے گناہ کو چھوڑنا پھر تو ایک طبعی تقاضے کے طور پر آپ کا گناہ از خود آپ کو چھوڑ دے گا.آپ کو اسے چھوڑنے کا جو مشکل مضمون ہے وہ اتنی آسانی سے حل ہو جائے گا.فرماتے ہیں: جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں

Page 299

خطبات طاہر جلد 16 293 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء اور تو بہ کی طرف رجوع نہیں کرتے آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں“.( ملفوظات جلد نمبر 1، صفحہ : 3) فرمایا گناہوں میں ڈوبے ہوئے اگر آپ لوگ تو بہ کی طرف رجوع نہیں کرتے اور دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں تو ایسے لوگ وہ ہیں جو بالآخر انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں.یہ کیوں فرمایا کہ انبیاء کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں.وجہ یہ ہے کہ یہ انبیاء کی دعائیں ہی ہیں جو ماحول اور گردو پیش کو بھی بدیوں سے پاک کرتی ہیں.اگر یہ دعائیں نہ ہوں تو از خود اس قوم میں اصلاح کرنے کی صلاحیت تو تھی ہی نہیں ، ہوتی تو پہلے خود کیوں نہ اصلاح پذیر ہو چکی ہوتی.وہ تو میں صدیوں سے بگڑیں اور بگڑتی چلی گئیں یہاں تک کہ ان کی بدیاں پختہ ہوگئیں ان میں بھلا کہاں صلاحیت ہے.ان کی تو دعا کی طرف بھی توجہ نہیں تھی.ان میں جو انقلاب بر پا ہوا ہے یہ انبیاء کی دعاؤں کی تاثیرات کا ثبوت ہے.تو ایک شخص اگر اپنی ذات میں بھی دعا کے اثر کا منکر ہو بیٹھے لازم ہے کہ بالآخر وہ نبیوں کی پاکیزگی اور ان کی صلاحیتوں کا بھی انکار کر بیٹھے گا اور انبیاء سے بھی اس کا ایمان اٹھ جائے گا اور یہی ہوتا ہے.جو شخص اپنے تعلق میں دعا کے ذریعے نجات پانے کا قائل نہیں رہتا وہ دراصل نجات کا ہی منکر ہو بیٹھتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ دور ہٹ جاتا ہے.عبادت سے بھی گیا، نیکیوں سے بھی گیا پھر بدیاں اس پر دوبارہ قبضہ کر لیتی ہیں گویا اس کی زندگی رفتہ رفتہ اس کے بدن کو چھوڑ دیتی ہے اور مردار خور جانور یعنی بدیاں اس پر قبضہ کر لیتے ہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو بہ کے تعلق میں بیعت کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہیں.فرماتے ہیں: یہ تو بہ کی حقیقت ہے (جو اوپر بیان ہوئی ہے ) اور یہ بیعت کی بُجو کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے.جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں ( جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں).فرمایا تو بہ پرانی زندگی سے یا پرانی بد عادتوں سے قطع تعلقی کا نام ہے.جس کا مطلب ہے

Page 300

خطبات طاہر جلد 16 294 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997 ء کہ وہ جڑیں جو تمہیں خون پہنچارہی تھیں جو تمہیں بعض طاقتیں بخش رہی تھیں ان سے تم کٹ کر الگ ہو گئے.تو پھر تمہارا وجود کیسے زندہ رہے گا.کسی اور سے وابستہ ہونا پڑے گا اور اس پانی سے تمہاری نشو ونما ہوگی اور یہ مضمون پیوند کا مضمون ہے.ایک شاخ ایک جگہ سے کاٹی گئی اور ایک دوسری جگہ منتقل ہوئی اور جب منتقل ہوئی تو اسے پودے، جس میں وہ منتقل ہوئی ہے، اس کی کیفیت بدل دی ہے.اب اس مضمون کو بعینہ سو فیصدی تو اس جگہ بیان نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مثال لفظاً لفظاً پوری کی پوری صادق آئے گی مگر جو صادق آتی ہے وہ حصہ میں آپ کے سامنے کھولتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ : جب ایک شاخ ایک درخت سے کٹ کے کسی ایسے درخت کے او پر منتقل کی جاتی ہے جس میں وہ خوبیاں نہیں جو اس درخت میں تھیں جس کی شاخ ہے تو بظاہر منتقل ہوا ہے ایک اور وجود لیکن فرمایا کہ تم دراصل وہ ہو جو اپنے آپ کو اس شاخ کے حضور پیش کرتے ہو اور جب تم اپنے آپ کو اس شاخ کے حضور پیش کرتے ہو تو تمہاری تمام طبعی حالتیں اس Bud ، جو بھی پھولنے اور پھلنے کا ایک پیج اس کے اندر موجود ہوتا ہے شگوفہ، اس شگوفے میں اپنی تمام صلاحیتیں اس کے سپر د کر دیتے ہو اور پھر جب وہ شگوفہ پھوٹتا ہے تو تمہاری پرانی صلاحیتوں کے ساتھ نہیں پھوٹتا، تمہاری صلاحیت کو اپنا رنگ دے دیتا ہے اور ایک نیا پھل اس میں لگ جاتا ہے.تو اس پہلو سے ایک بہت ہی اعلیٰ اور پیاری مثال ہے جو بیعت کی حکمت اور اس کے فلسفے کو روشن فرماتی ہے.فرمایا: ” جب مثلاً آنحضرت میر کی صحابہ نے بیعت کی تو کیا مقصد تھا.وہ یہ تھا کہ جس ہاتھ پر ہاتھ ہے اب یہ غالب ہاتھ ہماری نشو و نما کا موجب بنے گا، ہماری ساری صلاحیتیں اس کے تابع ہو گئیں.“ جب تک اس ہاتھ سے الگ رہ کر ہماری صلاحیتیں نشو ونما پا رہی تھیں وہ کڑوے، گندے، کیلے پھل لا رہی تھیں.اب ہم نے اس ہاتھ کے سپر د اپنا ہاتھ کر دیا یعنی ہماری تمام تر صلاحیتیں اس کے تابع ہو گئیں اور اب نشو ونما جو چیز پائے گی وہ اس ہاتھ کی صلاحیتیں نشو ونما پاگئیں نہ کہ ہمارے

Page 301

خطبات طاہر جلد 16 295 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء صلى الله ہاتھ کی.اسی لئے يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح (11) کا مضمون بیان فرمایا ہے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ جو مومنوں پر تھا وہ گو یا ایسا ہاتھ تھاکہ اللہ کا ہاتھ ہو جوان پر غالب ہے تو اللہ کی صفات غالب آیا کرتی ہیں اور وہی رنگ وہ ہاتھ قبول کر لیتا ہے جو نیچے ہے.پس یہ مضمون ہے جو بیعت کا مضمون ہے.اس تعلق میں جماعت احمدیہ کو یادرکھنا چاہئے کہ اصل بیعت وہی ہے جومحمد رسول اللہ ہے کی بیعت ہے اور ہر بیعت کے وقت اسی بیعت کو پیش نظر رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں بھی وہی بیعت زندہ ہوئی تھی نہ کہ کوئی نئی بیعت.پس خلافت بھی اسی رسول کے تابع ہے جس نے آگے پھر مسیح موعود کو پیدا فرمایا اور سیح موعود نے جو خلافت جاری کی وہ پھر غلامی در غلامی کا دم بھرنے والی خلافت ہے اور اس سے بیعت کر کے اس کے وجود کی اگر کوئی خوبیاں ہوں تو وہ سرایت کریں گی مگر اس میں جو خوبیاں نہیں بھی ہیں مگر چونکہ وہ ایک منصب کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے آپ کے ذہن میں آنحضرت ﷺ کی خوبیاں رہنی چاہئیں نہ کہ اس وجود کی تا کہ آپ کا دل محمد سے بیعت کر رہا ہو اور یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھولا ہے.” خلیفہ کی طاعت محمد سے بیعت کا جو شعر آپ نے سنا ہوا ہے وہ یہ مضمون ہے اصل میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی عارفانہ کلام پر مبنی ہے کہ اطاعت خلیفہ کا وعدہ کیا جا رہا ہے مگر بیعت محمد کی ہے اور وہی بیعت ہے جو سب برکتوں والی ہے.اس بیعت کو پیش نظر رکھ کر جب آپ تو بہ اور بیعت کے مضمون کو جوڑ کر پڑھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت کو از سر نو پڑھتے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے تو دیکھیں کتنا عظیم الشان ایک زندگی کا سر چشمہ جاری ہو جاتا ہے فرماتے ہیں: تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جواس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں ).یعنی اس موقع پر حضرت اقدس محمد مصطفی اہلیہ کے انوار ہیں جو ہر خلیفہ وقت کی بیعت کے وقت لازما پیش نظر رہنے چاہئیں.ورنہ خلفاء کے معیار بدلتے رہتے ہیں، خلفاء کے حالات بدلتے رہتے ہیں،

Page 302

خطبات طاہر جلد 16 296 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء خلفاء کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور ساری امت کی زندگی ان اتفاقات پر قربان نہیں کی جاسکتی.پس امت کی زندگی کی ضمانت کسی خلیفہ کی ذاتی صلاحیت نہیں ہے.اس خلیفہ کا یہ عہد بیعت ہے جو حضرت محمدرسول اللہ ﷺ سے وہ کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت کے ذریعے اس عہد کو اس نے دہرایا ہے وہ امین بن جاتا ہے اور جو اس کی کمزوریاں ہیں وہ اللہ کے سپر دکرتے ہوئے امانت کا حق محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کے معاملے میں ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس بیعت محمد ہی کی ہے اور کوئی بیعت نہیں ہے.اس بیعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کی ساری بدیاں دور ہوگی اور آپ کو وہ توبۃ النصوح کی توفیق ملے گی جو آپ کے سارے گناہ ختم کردے گی اور آپ کی ہر بدی کو حسن میں تبدیل کرنے کا ایک لازوال سلسلہ شروع کر دے گی.فرماتے ہیں: بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی ، ایسے بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل وو ہوتا ہے.اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے.منافق آنحضرت ﷺ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذہن میں بھی محمد رسول اللہ اللہ کی بیعت ہی ہے چنانچہ مثال بھی آپ ہی کی دی.منافق آنحضرت ﷺ کی بیعت تو کر چکے تھے مگر وہ تعلق نہ پیدا ہوا جو نئے شگوفے کے ساتھ ہونا چاہئے جس پر انسان اپنے آئندہ کے درخت وجود کا صح نظر بنا لیتا ہے.اس شگوفے سے جو تاثیریں پھوٹیں وہ پیش نظر ہوں تو تب بیعت قبول ہوتی ہے.تو فرمایا منافق اس شگوفے کی صلاحیتوں سے، اس کی صفات سے تو تعلق رکھتے نہیں تھے ہاں ہاتھ بیعت کے لئے ایک اور ہاتھ میں تھما دیا اس سے زیادہ ان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی.فرمایا: اس لیے ظاہری لا إلهَ إِلَّا الله ان کے کام نہ آیا.تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے.اگر ان تعلقات کو وہ (طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا تو اس کاشکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے.محبت اور اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے.جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مرشد ) کے ہم رنگ ہو.طریقوں میں اور اعتقاد میں نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے.یہ دھوکہ ہے.عمر کا اعتبار نہیں

Page 303

خطبات طاہر جلد 16 297 خطبہ جمعہ 25 اپریل 1997ء ہے جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہئے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے“.(ملفوظات جلد 1 صفحہ 4،3) یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر میں بیان کر چکا ہوں جو میں نے پڑھی تھیں کہ انسان کے متعلق ایک ایسی تنبیہہ ہے جو اسے یاد نہ رہے تو اس کا کوئی وقت بھی سچی توبہ کا وقت نہیں ہو سکتا.اللہ سَرِيعُ الْحِسَابِ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ حساب لے گا تو اچانک تم اپنے عمل کے دور کو ختم ہوتا دیکھو گے.ایک یہ معنی بھی ہے یعنی امتحان کب آئے گا، یعنی کب ختم ہو گا اور عمل کا دور کب اختتام پذیر ہوگا اور جزاء کا دور شروع ہوگا اس کا تمہیں کوئی علم نہیں.اس لئے اپنا حساب ساتھ ساتھ کرو.بنے کی طرح دن کے ختم ہونے کا انتظار نہ کرو کیونکہ دن کا ختم ہونا تمہارے قبضہ قدرت میں نہیں ہے.تمہاری زندگی کسی لحہ بھی مٹ سکتی ہے اور ہر لمحے اپنا حساب کرو اور دیکھو کہ اگر آج جان جائے تو سَرِيعُ الْحِسَابِ کے سامنے تم کیسے پیش ہو گے.کیونکہ تمہاری موت کا لمحہ ہی تمہارے حساب کا لمحہ بنا چاہئے اور یہ ایسا عظیم الشان مضمون جو ہمیشہ دن رات ، زندگی کے ہر لمحے میں انسان کو اپنے نفس کا محاسب بنا دیتا ہے، انسان اپنے نفس کا محتسب ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے نفس کا محتسب نہ ہو وہ حمقاء کی جنت میں بستا ہے.اگر وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا کے احتساب پر مامور فرمادے گا.اپنے نفس کا احتساب اس طرح سیکھیں.پل پل، لمحہ لمحہ اپنے محتسب بن جائیں اور پھر اپنے اندر نئے حسن پیدا کرنے کی کوشش کریں.آپ وہ قوم ہوں گے خدا کی نظر میں جن کے سپر د دنیا کا حساب کیا جائے گا.یہی وہ صفت ہے جو انبیاء کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے.اس لئے ساری ان قوموں کا حساب ان کے انبیاء کے سپرد کر دیا گیا ہے جو ان کے مطاع بنائے گئے.پس آپ نے تمام بنی نوع انسان کا محتسب بنا ہے تو اس سے پہلے اپنے نفس کا احتساب سیکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ وہ سلسلہ ہے ہمیشہ جاری رہنے والا ترقی کا جو بھی اختتام پذیر نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں ان لا متناہی ترقیات سے ہمیشہ نواز تار ہے.آمین

Page 304

Page 305

خطبات طاہر جلد 16 299 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء جماعت اٹھ کھڑی ہو کیونکہ نئی صدی میں ہم نے داخل ہونا ہے جس کی تمام ذمہ داریاں ہم پر ڈالی جائیں گی ( خطبه جمعه فرموده 2 رمئی 1997 بمقام نن سپیٹ.ہالینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کا یہ خطبہ میں ہالینڈ ( نن سپیسٹ) سے دے رہا ہوں جہاں اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ ہالینڈ کے سالانہ جلسے کا آغاز ہورہا ہے.جو باتیں میں اس سے پہلے چند خطبات میں کہتا رہا ہوں ان کا تعلق تو بہ سے ہے اور اسی تعلق میں ہالینڈ کی ضروریات کو بھی میں پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ اور باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا.ہالینڈ کی ضروریات دراصل باقی ملکوں کی ضروریات سے بنیادی طور پر تو الگ نہیں لیکن ہر ملک کے ماحول اور حالات کا ایک فرق ہوا کرتا ہے اسی فرق کی نسبت سے جماعت احمدیہ کو اپنی حکمت عملی طے کرتے ہوئے بعض خاص پہلو اختیار کرنے پڑتے ہیں.ہر قوم کا ایک مزاج ہے باوجود اس کے کہ ہالینڈ یورپ ہی کا ایک حصہ ہے مگر مزاج کے اعتبار سے یورپ کی ہر قوم میں ایک فرق ہے اور بہت نمایاں امتیاز ہیں جو ایک کو دوسرے سے الگ کرتے ہیں.تو اس پہلو سے ہالینڈ یورپ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ان سے ایک الگ شخصیت رکھتا ہے اور اس شخصیت کی پہچان ضروری ہے جس کے بغیر ہم حقیقی معنی خیز اور مفید لائحہ عمل بنا نہیں سکتے.پس جب میں نے ہالینڈ کی ضرورت کہا تو ایک تو یہ امتیازی ضرورت ہے جس کا ہالینڈ ہی سے تعلق ہے

Page 306

خطبات طاہر جلد 16 300 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء اور ایک وہ ضرورت ہے جو تمام عالم میں ہر جماعت کی ایک ہی ضرورت ہے یعنی تربیت اور انسان کو پہلے سے بہتر حال میں ہمیشہ اس طرح آگے بڑھاتے چلے جانا کہ اس کا رخ خدا ہی کی طرف ہو اور غیر اللہ کی تمام طاقتوں سے وہ دور ہٹتا چلا جائے اور اللہ کے قریب ہوتا چلا جائے.یہ بنیادی پیغام ہے ہر مذہب کا جو سب سے زیادہ وضاحت اور قوت کے ساتھ اسلام نے پیش فرمایا اور یہ احمدیت کی بنیادی ضرورت ہے جو ہر ملک میں یکساں ہے اور اس تربیت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہی بلکہ اس سے تعلق رکھنے والی تبلیغی ضرورت ہے کیونکہ یہی تربیت جب غیروں کی طرف رخ کرتی ہے تو اسی کا نام تبلیغ ہو جاتا ہے ورنہ حقیقت میں تو بنیادی روح ہر مذہب کی تربیت ہی ہے یعنی ہر انسان کی اصلاح کرنا.پس اس پہلو سے جو تو بہ کا مضمون میں نے شروع کیا تھا اسی مضمون کے تعلق میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: تو بہ کرنے والا گنہگار جو پہلے خدا تعالیٰ سے دور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دور کیا جاتا ہے.( یہ وہی بات ہے جو خلاصہ میں نے آپ کے سامنے رکھی کہ ہر مذہب کا بنیادی مقصد ہے.) ”اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا ( یعنی اللہ کے ) اور جہنم اور عذاب سے دور کیا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة: 223 ) قیناً اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ اور جو نیکی چاہتے ہیں جو پاکیزہ ہونا چاہتے ہیں ان سے بھی محبت رکھتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کا خود بھی ترجمہ فرمایا ہے جو میں پڑھ کے سناتا ہوں.” بے شک اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے.اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنالیتا ہے.“ یعنی دوست رکھتا ہے کا ترجمہ خود محبوب بنا لیتا ہے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 307

خطبات طاہر جلد 16 301 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء والسلام ہی نے فرمایا ہے: بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی تو بہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور 66 طہارت شرط ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ : 115) یہ وہ مضمون ہے جس پر میں کچھ مزید یہاں ٹھہر کر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ فرمائی گئی اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ اللہ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یا دوسرے لفظوں میں ان کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور ساتھ ہی فرمایا وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ اور وہ لوگ جو پاک ہونا چاہتے ہیں ان سے محبت کرتا ہے یہ دو الگ الگ باتیں نہیں.دراصل تو بہ ہی کی تفصیل میں مزید یہ فرمایا گیا ہے.تو بہ کا جو عام مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ ایک گناہ سے انسان روگردانی کرلے ،اس سے منہ پھیر لے اور اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے معاف فرما دے اور تو بہ گو یا مکمل ہوگئی.یہ آیت کریمہ صرف یہ بات بیان نہیں کرتی بلکہ یہ بیان فرماتی ہے کہ تو بہ کی پہچان یہ ہے، تو بہ کا پہلا پھل جو تو بہ کر نیوالے کو نصیب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مطھر بن جاتا ہے.مطھر کا مطلب یہ ہے کہ نیک ہونا چاہتا ہے، نیکی کی جستجو کرتا ہے، پاک ہونے کی طلب کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے مدد کے بغیر یہ نصیب نہیں ہوسکتا.تو تو بہ کے ساتھ ہی مستطھر ہونا ایک لازمی شرط ہے.کوئی شخص بھی جب ایک گناہ سے تو بہ کرتا ہے اگر وہ ساتھ متطهر نہ ہوتو ہمیشہ اس کو دوبارہ اس گناہ میں لوٹنے کا خطرہ درپیش ہوگا.یہ ایک گہر انفسیاتی نکتہ ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ نے اشارہ فرمایا ہے.ہر انسان جو گناہ میں مبتلا رہتا ہے، رہ چکتا ہے یا اس نے گناہ سے مسلسل تعلق جوڑا ہوا ہے وہ جانتا ہے کہ تو بہ کرنے کی خواہش پیدا ہو بھی تو گناہ کی محبت اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے اور اس کی حالت منتظر کی نہیں ہوتی.یعنی ایسے شخص کی نہیں کہ جو پاک ہونا چاہتا ہے بلکہ ایسے شخص کی ہوتی ہے جو گناہ کرنا چاہتا ہے اس کے باوجود تو بہ کر رہا ہے اور اکثر تو بہ کر نیوالوں کا یہی حال ہے کہ جس گناہ سے تو بہ کرتے ہیں اس کی محبت ان کے دل سے مٹتی نہیں ہے.اس کی محبت مسلسل اس گناہ کی طرف انہیں کھینچ رہی ہوتی ہے اور تو بہ کرتے ہیں اپنی طبیعت کے خلاف اپنے مزاج کے خلاف اور ایسی توبہ جو ہے وہ ہمیشہ خطرے میں رہے گی.کبھی بھی ایسی تو بہ کرنے والے کو ہمیشہ کا امن نصیب نہیں ہوسکتا.

Page 308

خطبات طاہر جلد 16 302 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء کیوں کہ ایک طرف تو بہ کا عزم ہے دوسری طرف گناہ کی ایک طبعی محبت ہے ان دونوں کے درمیان ایک جھگڑا شروع ہوا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور بالآخر زمین کی کشش اس کو واپس زمین کی طرف کھینچ لاتی ہے.پس تو بہ کا جو ایک پہلو ہے کہ گناہ سے بچنے کا ارادہ کر کے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا اور اس کی طرف جھکنا یہ پہلو بظاہر پورا ہو جاتا ہے مگر فی الحقیقت یہ مستقلاً ایسے انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.متطھر میں جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ تو بہ کرتے ہی نیکی کی حرص لگ جائے اور پاک ہونے کی ایک بے قرار تمنادل میں تڑپنے لگے.متطھر ہو جائے، ہر وقت یہ چاہے کہ اب میں پاک ہو جاؤں یہ پا کی کی تمنا انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے پر مجبور کرتی ہے اور بار بار اس کی طرف نظر اٹھا کر اس سے یہ تمنا واویلا کرتی ہے کہ اے اللہ ہم تیری خاطر ایک گناہ سے منہ موڑ چکے ہیں لیکن نیکی جب تک ہمارے بدن کا دائمی جزو نہ بن جائے ، جب تک ہم ان لوگوں میں شمار نہ ہوں جو تیرے نزدیک پاک ہیں اس وقت تک ہمیں چین نصیب نہیں ہو سکتا.ایسی حالت میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ایسے پاک ہونے کی تمنار کھنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ محبت کرتا ہے اسے کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا.پس اکثر انسان اس تجربے سے گزر چکے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جن کو تو بہ کا خیال ہی نہیں آتا.بعض گناہ ان کے وجود کا دائی حصہ بن جاتے ہیں.بعض کمزوریاں ان کی سرشت ہو جاتی ہیں.مثلاً بعض اگر نماز میں سست ہیں، روزے میں سست ہیں، جھوٹ کی عادت ہے، چالاکی سے کام لے کر اپنا فائدہ اٹھانا ہے یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں عام ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک بات بہت ہی بڑی بات ہے اور ایسی ہے جو انسان کو جہنم کے کنارے تک ہی نہیں، جہنم میں داخل کرنے کا موجب بن سکتی ہے اور ان چیزوں کی طرف سے انسان ایسا غافل رہتا ہے کہ کبھی آنکھ ہی نہیں کھلتی کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں اور کیسی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہوں.اس کو خیال ہی نہیں آتا کہ میں وقت کے امام کے ہاتھ پر بیعت کر کے تو بہ کر چکا ہوں.یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنے اسلام کا ایک عہد نو قائم کیا ہے جس کی رو سے گویا حقیقت میں میں حضرت رسول اللہ ﷺ کا غلا بن گیا اور آپ کے پیچھے چلنے والا ہو گیا.

Page 309

303 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء خطبات طاہر جلد 16 یہ بیعت کی روح ہے جو تو بہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.ہر بیعت کے ساتھ تو بہ کا لفظ آتا ہے.پس تو بہ منہ سے تو ہو جائے مگر عملاً زندگی کے ہر جزو میں تو بہ سے بے اعتنائی ہو، یعنی خیال بھی نہ آئے کہ میں تو بہ کا محتاج ہوں، معلوم ہی نہ ہو کہ میرے اندر کیا کیا روگ بس رہے ہیں، یہ غفلت کی حالت ہے جو لا ز ما انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے.پس سچی توبہ سے پہلے ایک بے داری کا دن ہے اور وہ بے داری کا دن ہے جس کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.کسی دن بے دار ہوں اور جیسے بے دار ہونے والا بعض دفعہ اگر دیر سے بے دار ہو تو ہڑ بڑا کر اٹھتا ہے.کئی لوگ ہیں جنہوں نے دفتر جانا ہے، الارم لگائے ہوئے ہیں اور دیر تک سوتے رہے جب اٹھے تو اچانک جب نظر پڑی گھڑی کی طرف تو بہت تاخیر ہو چکی تھی.گھبرا کر پھر وہ جس طرح ہڑ بڑا کے اٹھتے ہیں اس سے بہت زیادہ ہڑ بڑا کر اٹھنے کی تو بہ سے غافل لوگوں کو ضرورت ہے کیونکہ وہ تو اب بے شمار ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اتنی دیر کر چکے ہیں کہ از سرنوان کا زندہ ہونا، از سرنوان کے نئے رنگ اختیار کرنا، از سرنوان کا اپنے اندر وہ انقلابی پاک تبدیلی کرنا جس کے بعد انہیں ایک خلق آخر عطا ہونی ہے یہ تو بہت محنت کا کام ہے، بہت لمبا کام اور بہت صبر طلب کام ہے.تو اس لئے میں جب کہتا ہوں کہ انٹھیں اور بیدار ہوں تو میری مراد یہ ہے کہ اپنی اندرونی شخصیت کو دیکھنے کے لئے آنکھیں کھولیں یہی آپ کا اٹھنا ہے.آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سہی کہ آپ کے اندرکون بس رہا ہے اور کیا بس رہا ہے اور جب آپ آنکھیں کھولیں گے تو ہر منزل میں، ہر قدم پر آپ کو بہت خوفناک نظارے دکھائی دیں گے.کہیں دنیا کا حریص نظر آئے گا آپ کو جو دنیا کے اموال کو اتنا عزیز رکھتا ہے کہ خدا کی راہ پر خرچ کرنے میں اس کو ہمیشہ تکلیف محسوس ہوتی ہے، خواہش ہی نہیں پیدا ہوتی.کئی ایسے ہوں گے جن کو اس پہلو سے تو اطمینان ہوگا مگر اگلے موڑ پر جب مڑیں گے تو ان کا دل یہ دیکھ کر دہل جائے گا کہ مالی قربانی تو میں کر رہا ہوں مگر عبادت میں بالکل کو راہوں اور خدا تعالیٰ سے محبت کے ساتھ اس کی طرف جھکنے کے لئے جس عبادت کی ضرورت ہے، اس کا آغاز بھی نہیں کیا.نماز پڑھتا بھی ہوں تو غفلت کی حالت میں، کھڑا ہوں ، جھکتا ہوں، کھڑا رہتا ہوں ،سجدے میں گرتا ہوں، بیٹھتا ہوں اور پھر بیٹھ کے سلام پھیر دیتا ہوں اور اس حالت سے نکلنے کو میں امن کی طرف لوٹنا سمجھتا ہوں.مجھے قرار اس وقت

Page 310

خطبات طاہر جلد 16 304 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء آتا ہے جب میں اس حالت سے نکل کر باہر آ کر دنیا کو السلام علیکم کہ دیتا ہوں.کہتا ہوں شکر ہے میں واپس آ گیا اور داخل ہونے کا وقت میرے لئے سب سے مشکل ہے اور اس دوران میری طبیعت بوریت کے سوا کچھ بھی محسوس نہیں کرتی کیونکہ جو کچھ بھی میں کہتا ہوں وہ لفظوں میں کہہ رہا ہوں.کوئی سننے والا میرے سامنے کھڑا نہیں ہوتا جس کو میں کچھ سنا کر بات کہوں اور اس کی طرف سے کوئی جوابی لہر دل میں نہیں اٹھتی جس سے محسوس ہو کہ کوئی سنے والا سن بھی رہا تھا اور اس نے میرے دل میں ایک حرکت پیدا کر دی ہے.پس ایسی نماز میں اگر چہ ابتداء فرض کی ادائیگی تک تو ٹھیک ہیں لیکن اپنی منفعت کے لحاظ سے بالکل خالی ہوا کرتی ہیں.سالہا سال، بعض لوگ اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں ایسی نمازیں پڑھتے ہوئے، پانچ وقت وضو کر کے جائیں گے پورے اہتمام کے ساتھ نماز پڑھیں گے اور پھر جب نکلیں گے تو خالی اور اس کی پہچان کیا ہے؟ پہچان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں جا کر اس سے آنے کے بعد ان کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.پس بعض لوگ ایسے ہیں جو یہ معلوم کریں گے کہ ہم مالی حرص میں مبتلا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں سے بے خبر بلکہ طبیعت پر ان قربانیوں کے نام سے بھی بوجھ پڑتا ہے.کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اس لحاظ سے پورے لیکن عبادت سے بے خبر اور غافل اور عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے کا تصور ہی ان میں نہیں ہے.یہ ان کو خیال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہر عبادت کے بعد کچھ نہ کچھ مجھے اللہ کے قریب ہونا چاہئے.اگر زیادہ توفیق نہیں تو کچھ احساس، حاصل کا احساس یعنی کچھ ھل گیا ہے اتنا تو ہو کہ نماز کے بعد میں محسوس کروں کہ آج مجھے کچھ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی لذت حاصل ہوئی ہے اور یہ جو قریب ہونے کی لذت ہے یہ کوئی فرضی لذت نہیں ہے.ہر نماز میں جہاں انسان اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے اس کے حضور اپنے آپ کو جھکاتا ہے تو کچھ لمحے اس کو ضرور ایسے نصیب ہو جاتے ہیں جب وہ محسوس کرتا ہے کہ ہاں میری یہ بات خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوئی اور اس کا جواب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لفظوں میں نہ بھی ملے تو انسان کے دل میں ایک خاص قسم کی تحریک کے ذریعے مل جاتا ہے، اس کا دل مرتعش ہو جاتا ہے،اس میں ہی جان پیدا ہو جاتی ہے اور پہلے کی نسبت اپنے آپ کو وہ امن میں محسوس کرتا ہے.پس یہ وہ دوسرا پہلو ہے جو اپنے اندر کے انسان کی تلاش اور اس کی حقیقت اور جستجو کو پانے کی جدو جہد ہے اس سے

Page 311

خطبات طاہر جلد 16 305 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء آپ غافل رہیں گے تو آپ زندگی کے مقاصد سے غافل ہیں اور یہ دونوں باتیں تو بڑی ہیں یعنی قرآن کریم نے مال اور جان کو خدا کی راہ میں پیش کر دینے کی بنیادی تعلیم دی ہے یہ اس سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں لیکن ان سے نیچے بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اندر ایسی حالت میں قائم رہتی ہیں کہ گمان بھی نہیں آتا کہ ہمیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے.مالی قربانی کی طرف اگر آپ توجہ نہیں کرتے تو کوئی توجہ دلانے والے آتے رہتے ہیں.کوئی دروازہ کھٹکھٹانے والا ہے، کوئی خط لکھنے والا سیکرٹری ہے وہ آپ کو یاد کرانے والے موجود ہیں لیکن بدخلقی ایک ایسا مضمون ہے جو روز مرہ کے معاملات میں انسان کو درپیش رہتا ہے اور اس کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ کتنا بڑا جرم ہے، کتنا بڑا گناہ ہے.بدخلقی کے پہلو سے اب آپ دیکھ لیں تو بہ کے مضمون کو تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ جب تک انسان کا خلق اچھا نہیں ہوتا وہ باخدا انسان بن ہی نہیں سکتا.یہ وہم ہے کہ ایک انسان چندہ دینے والا ہو ، عبادت کرنے والا ہو اور باخدا ہونے کے باوجود بداخلاق بھی ہو.یہ دو باتیں ایسی ہیں جو ا کٹھی نہیں ہو سکتیں.اخلاق کا تعلق بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی سے ہے.اخلاق کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ اپنے باپ ، اپنی ماں ، اپنے بہن بھائی ، اپنے بچوں، اپنے عزیزوں، اپنے اقارب، ملنے جلنے والوں سب سے اس طرح حسن سلوک کریں کہ آپ کی ملاقات، آپ کا تعلق ان کے لئے خوشی کا موجب بنے، کسی نفرت کا موجب نہ بنے اور آپ سے پوری طرح وہ امن کی حالت میں رہیں.بچے اخلاق کی یہی تعریف ہے.کسی کو یہ خطرہ نہ ہو کہ یہ میرے سے جو تعلق رکھ رہا ہے تو اس کی نیت میری کسی ملکیت پر ہے، میرے کسی مال پر ہے، میرے بعض حقوق پر ہے، میرے بعض رشتہ داروں پر ہے.اگر ایسی نیت اور یہ فساد تعلقات میں داخل ہو جائے تو یہ تعلقات اخلاق نہیں کہلائیں گے.یہ بدخلقی کی بدترین قسم بن جاتی ہے.یعنی اچھی بات کر کے، پیار اور محبت جتا کر بعض دفعہ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے مالی معاہدات کرتے ہیں اور جب تک وہ معاہدات ہو نہیں جاتے ان کے اخلاق دیکھنے والے دکھائی دیتے ہیں.ہر بات میں ان کا ادب، ہر چیز میں لحاظ بلکہ اس بات پر بار بار خوشی کا اظہار کہ کبھی خدمت کا موقع دیں، ہمارے گھر تشریف لے آئیں.بیوی بچے فدا ہوتے ہیں، یہ صاحب آئے ہیں جن کے ساتھ مالی معاہدہ ہونے والا ہے اور ہر طرح سے ان کی ہر ضرورت کا خیال

Page 312

خطبات طاہر جلد 16 306 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء رکھا جاتا ہے، ان کی عزت کی جاتی ہے ، ان کے بچوں کی عزت کی جاتی ہے، ان کے بچوں کو تحائف دینے ہوں تو اس سے بھی انسان گریز نہیں کرے گا بلکہ موقع ڈھونڈتا ہے کہ تحائف دے.یہ اخلاق ہیں اور ان اخلاق کے دھوکے میں آکر جب کوئی ان سے سودا کر بیٹھتا ہے تو پھر اس کا جو مال ہے وہ جلدی سے جلدی ہڑپ کر کے اس سے چھٹی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر جب وہی شخص جس کو کہتے تھے آئے ، گھر آئیں ، سر آنکھوں پر ، جب دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو لگتا ہے کوئی دشمن اور واقعہ وہ دشمن ہی بن چکا ہوتا ہے، کوئی دشمن دروازے کھٹکھٹا رہا ہے اور اگر اس گھر کا دوسرا دروازہ ہو تو دوسرے دروازے سے انسان نکل کر بھاگتا ہے.اس کا نام اخلاق ہے تو اس سے بڑی لعنت اور کوئی نہیں ہے.یہ دھو کہ بھی ہے، بے حیائی بھی ہے.انسانیت کے ادنی ادنی تقاضوں سے بھی گری ہوئی بات یہ ہے کہ انسان ، انسانی تعلقات میں اپنے اخلاق کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کرے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے.پس بظاہر بہت سے انسان آپ کو اخلاق والے دکھائی بھی دیتے ہیں مگر حقیقت میں ان کے اس کردار کو اخلاق کہا نہیں جاسکتا.پھر روز مرہ کے ایسے انسان بھی دکھائی دیتے ہیں جو آپ سے براه راست کچھ نہ بھی چاہتے ہوں مگر ان کا حسن سلوک ، ان کی نرمی کی بات محض ایک سطحی بات ہے، ایک دکھاوا سا ہے اور جہاں کہیں بھی آپ کے مقاصد میں اختلاف ہو و ہیں وہ اپنے پر پرزے نکالتے ہیں اور بڑی بدتمیزی اور بدخلقی سے آپ سے معاملہ کرتے ہیں تو اخلاق جو ایک بنیادی صفت ہے، اخلاق کو اس کے اصلی معنوں میں سمجھنا اور اختیار کرنا یہ باخدا ہونے کے لئے ایک لازمی شرط ہے.اتنی سی بات ہے، سادہ ہی، کیوں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر آپ کسی کو جان لیں کہ وہ بد اخلاق ہے تو آپ تو اس کا اپنے گھر پر سایہ بھی نہ پڑنے دیں گے.اس سے آپ دور بھاگتے ہیں ہمیشہ دور کی صاحب سلامت رکھتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بد خلق انسان کو اپنے قریب کرلے اور اپنی صحبت میں بٹھائے کیونکہ یہ ایک دائی حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو اچھے انسان ہوں وہ اچھی صحبت کو پسند کرتے ہیں اور اگر پتہ چلے کہ کوئی شریر انسان ان کی صحبت میں رہتا ہے تو اس کو دور کر دیتے ہیں.پس اللہ تو ہر بات کا عالم ہے، ہر بات سے واقف ہے، ہر چیز سے باخبر ہے وہ ایسے انسان کو جو اخلاقاً بداخلاق ہواس کو اپنے قریب نہیں بٹھاتا، اپنے قریب نہیں کرتا.تو اخلاق کو آپ سمجھتے ہیں معمولی بات

Page 313

خطبات طاہر جلد 16 307 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء ہے.یہ معمولی بات نہیں ہے.اخلاق باخدا ہونے کیلئے بنیادی شرط ہے اس کے بغیر انسان خدا والا ہو نہیں سکتا اور دوسری بنیادی شرط یہ ہے کہ جو خدا والا ہو وہ لا زمابا اخلاق ہو جاتا ہے کیونکہ خداوالا کون ہوگا؟ قرآن کریم کی اس آیت نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں لکھی اور جس کی تشریح سے متعلق میں اب آپ سے مخاطب ہوں متطھرین کو بیان کیا ہے کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے.تو متطھرین تو وہ ہیں جو ہر عیب سے ہمہ وقت پاک ہونے کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں اور جب ہر عیب سے ہمہ وقت پاک ہو نیکی کوشش کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قریب تر ہو جاتے ہیں کیونکہ خدا ہی کی صفت ہے کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے.پس مرکزی نکتہ اس آیت کے پیغام کا یہی ہے کہ جو اللہ جیسا ہونے کی کوشش کرتے ہیں، متطهرين کا مطلب ہے کیونکہ پاک صرف اللہ کی ذات ہے اس لئے جو متطھر ہے وہ خدا کی صفات اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور جب خدا کی صفات اپنا لیتا ہے تو دنیا کے لحاظ سے بھی ایک کامل با اخلاق انسان بن کر واپس دنیا کی طرف لوٹتا ہے.یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنا کر وہ دنیا کی طرف لوٹے اور بداخلاق ہو.پس دونوں پہلوؤں سے ایک انسان اپنے نفس کو پہچان سکتا ہے اور یہ جو پہچاننے کا وقت ہے اس کی طرف میں آپ کو متوجہ کر رہا ہوں کہ کوئی لمبا وقت نہیں ہے، زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، ہمہ وقت موت سر پر ٹکی رہتی ہے.بہت سے ایسے ہیں جو شادیوں میں شرکت کے لئے جاتے ہیں اور پہنچنے سے پہلے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں.بعض کو اندر اندر بیماریاں کھا رہی ہیں اور پتا اس وقت چلتا ہے جب کہ بیماری گھیرا ڈال لیتی ہے اور بیچنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی.تو ایسے حالات میں جب انسان کو خود اپنی موت کا کچھ پتا نہیں کہ کب آئے اور کہاں سے آئے وہ ایسا مطمئن ہو کہ اپنے جاگنے کی فکر ہی کوئی نہ کرے بلکہ آنکھ کھلے تو پھر سو جائے پھر کبھی کوئی وقت کی آواز اسے جگائے تو پھر سو جائے ایسے انسانوں کی موت نیند ہی کی حالت میں ہو جاتی ہے اور ان پر قرآن کریم کی وہ آیت صادق آتی ہے کہ خدا تعالیٰ جب کسی انسان کو وفات دیتا ہے تو ایک تو نیند کی حالت ہے جس میں اس کی روح کو قبض کرتا ہے لیکن پھر اسے واپس کر دیتا ہے اور کچھ ایسے ہیں جو نیند ہی کی حالت میں کھینچ لئے جاتے ہیں اور پھر ان کی واپسی کوئی واپسی نہیں ہوتی ، پس اسی کا نام موت ہے.دو نیند اور موت کی باتیں قرآن کریم نے کی ہیں اس کو ہم عام طور پر ظاہری معنوں میں

Page 314

خطبات طاہر جلد 16 308 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء ہی دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد عام طور پر سونا اور عام طور پر جاگ کر دوبارہ زندہ ہونا ہے لیکن فی الحقیقت اگر آپ ان آیات کریمہ پر دوبارہ غور کریں، گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسانی غفلت کی حالت کا ایک بہت ہی عجیب نقشہ اس میں کھینچا گیا ہے.کتنے ہی آدمی ہیں جو غفلت کی حالت میں ایسے ہیں کہ گویا ان کی روح قبض ہونے کے قریب بیٹھی ہے اور کچھ ایسے ان میں سے ہیں جن کو خدا واپس کر دیتا ہے.یعنی دنیا میں بھیج کر ان کی آنکھیں کھولتا ہے اور وہ نیند کی حالت سے روشنی کی حالت کی طرف لوٹ آتے ہیں.مگر بہت سے ایسے ہیں جو اسی حالت میں پھر وہ پوری طرح کھینچ لئے جاتے ہیں اور کبھی انہیں دوبارہ اس دنیا کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا.ایسے ہی لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب ان کی روح قبض کر لی جاتی ہے تو کہتے ہیں ایک دفعہ ہمیں پھر بھیج.یہ جو ایک دفعہ پھر بھیجنے کا مضمون ہے یہ در اصل روزمرہ اس کے تجربے میں آتا ہے اور کوئی ایسا خیال نہیں جو عام انسانی تجربے کے برعکس دل میں پیدا ہوا ہے.ہمیشہ انسان یہ ہی دیکھتا ہے سوتا ہے اور جاگ اٹھتا ہے، ہوتا ہے اور جاگ اٹھتا ہے اور مذہبی دنیا میں جب وہ سوتا ہے اور نہیں جاگتا اس کو خیال نہیں آتا کہ میں تو عملاً ایک موت ہی کی شکل اختیار کر چکا ہوں.پس جاگنے کا وقت اب ہے جبکہ آپ اس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں.جب ظاہری موت آپ کو دبوچ لے گی تو قرآن کہتا ہے کہ پھر آپ کے جاگنے کا وقت ختم ہو چکا ہوگا ، پھر آپ خواہش بھی کریں گے کہ اے خدا ہمیں دوبارہ بھیج ہم پھر بیدار ہو کر تیرے احکام کی فرمانبرداری کریں اور ایک نئی زندگی اور پاکیزہ زندگی بنا ئیں تو ایسا ممکن نہیں ہوگا.تو موت جو ہر وقت لٹکی ہوئی ہے اس کو ہمیشہ بھلائے رکھنا اس سے بڑی بے وقوفی اور کیا ہوسکتی ہے.جیسا کہ میں بار بار آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ہم میں سے بھاری اکثریت ان کی ہے جو احمدیت قبول کرنے کے باوجود غفلت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اتنی لمبی تفصیل ہے ان باتوں کی جن میں سے ہر ایک بات کو دکھا دکھا کر ان کو تو بہ کروانے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی ایک خطبے میں بیان ہی نہیں ہوسکتی.روز مرہ کا ہمارا تجربہ ہے.اگر اپنا وجود دکھائی نہیں دیتا تو دوسرے وجود تو آپ کو دکھائی دیتے ہی ہیں اور یہ ایک ایسا مضمون ہے جس سے ہر انسان واقف ہے.چنانچہ ایک انسان کیسی ہی گندی زندگی بسر کر رہا ہو اگر اس سے کوئی دوسرا شخص بدسلوکی کرے تو اس کے سارے عیب

Page 315

خطبات طاہر جلد 16 309 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء اس کو اچانک دکھائی دے دیتے ہیں.وہ کہتا ہے تم تو ایسے ہو تم تو ایسے ہو تم نے تو خواہ مخواہ دین کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے.تم نے میرا پیسہ کھا لیا ہے، تم نے مجھ سے دھو کہ کیا تم نے مجھ سے نا انصافی کا سلوک کیا.سارے عیوب اس کے اچانک دکھائی دینے لگتے ہیں اور دراصل یہ بھی اس کی اپنی غفلت ہی کی حالت ہے جسکی نشان دہی ہورہی ہے.ایک انسان اگر ان کو عیوب سمجھتا ہے تو اپنے تعلقات میں پہلے کیوں ان کی طرف اس نے توجہ نہ کی.ایک آدمی نیک ہوتے ہوئے بھی اگر بد تھا تو اس کو اس نے برداشت کیا، اس کی پرواہ بھی نہیں تھی اس کو لیکن جب اپنے معاملے میں بد ہوا تب ہوش آئی.تو دوسروں کی بدی دیکھنے کے لئے تو انسان کو اس طرح ہوش آتی ہے کہ وہ بدی اس کے خلاف کام کرے اور اگر اس کے خلاف کام نہ کرے تو ساری دنیا کے خلاف کام کرتی پھرے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی.ایک آدمی دوسروں سے بدتمیزی کرتا ہے، لفنگے بازی کرتا ہے ، شرارتیں، فساد اور پھر بھی بعض مجلسوں میں بیٹھا رہتا ہے اور قبول رہتا ہے اور جب اپنے خلاف کام کرے تو اچانک انسان اس کو دھتکار کر اپنی چوکھٹ سے دور کر دیتا ہے یا دور کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو یہ جو غفلتوں کی حالتیں ہیں یہ اپنی ذات سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور دوسروں کی ذات سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور ایک لازمی جاری سلسلہ ہے.ایک تو موت کے پہلو سے جلدی ہے دوسری صدی کے لحاظ سے مجھے بہت جلدی ہے اور میں اس معاملے میں سخت بے قرار ہوں کہ کسی طرح جماعت اٹھ کھڑی ہو، بیدار ہو جائے کیوں کہ ہماری صدی گزرنے میں بہت تھوڑ ا وقت باقی ہے اور ایسی نئی صدی میں ہم نے داخل ہونا ہے جب کہ ساری دنیا کی ذمہ داریاں ہم پر پہلے سے بہت زیادہ ڈالی جائیں گی اور یہ ذمہ داریاں کئی طرح سے پہلے سے زیادہ ہوں گی اول یہ کہ ہر صدی کے موڑ پر خدا تعالیٰ نے ایک انقلاب بر پا کر رکھا ہے.وہ انقلاب تو نظر آتا دکھائی دے رہا ہے.اس انقلاب کے تقاضے ہیں جو ہم نے پورے کرنے ہیں اور جو خدا تعالیٰ نے اسلام کی تائید میں ہوائیں چلائی ہیں ان سے پورا فائدہ اٹھانا ہے، اپنی صلاحیتوں کے بادبان کھولنے ہیں، ان کا رخ ایسا کرنا ہے کہ وہ ہوا ئیں ان میں بھر کر انہیں بڑی تیزی سے آگے بڑھائیں اور اس صدی کے اختتام میں تین سال بمشکل باقی ہیں.اس لئے ایک تو یہ فکر کی بات ہے کہ ہم اس صدی کے اختتام تک کیا واقعی نئی آنے والی ذمہ داریوں کے

Page 316

خطبات طاہر جلد 16 310 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء ادا کر نے کے اہل ہو چکے ہوں گے.ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے اور تیزی کے ساتھ انقلاب برپا ہو رہا ہے وہاں اس انقلاب کے اپنے جو تقاضے ہیں ان کو وہ کیسے پورا کر سکتے ہیں.دیکھو ایک آدمی اگر کسی ایک شخص کو مسلمان بنالے تو اس کو اپنے ساتھ لگا کر اپنے پروں کے نیچے رکھ کر ان کی تربیت کرنا بھی ایک بڑا کام ہے اور بہت کم ہیں جو اس کام کو جیسا کہ حق ہے ادا کرتے ہیں.بیعت کر والی اور سمجھ لیا کہ مقصد حل ہو گیا حالانکہ بیعت کے ساتھ مقصد حاصل کرنے کا آغاز ہوتا ہے نہ کہ مقصد حاصل ہونا.بیعت تو اس کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں رکھتی کہ ایک شخص نے اپنے آپ کو آپ کے سپر د کر دیا یعنی جماعت احمدیہ کی پناہ میں آگیا اور کہا اب مجھ پر جو عمل کرنا ہے کرو، جیسا مجھے بنانا چاہتے ہو بنالو اور اگر آپ بیعت ہی کو انجام سمجھیں اور وہیں بات ختم کر دیں تو جیسا وہ تھا ویسا ہی رہے گا بلکہ جہاں وہ جائے گا وہاں بھی اپنے گردو پیش کو اپنے جیسا بنانا شروع کر دے گا.پس بجائے اس کے کہ اس کا آنا آپ کے لئے بابرکت ہو اس کا آنا بعض دفعہ نحوستوں کا موجب بن جاتا ہے کیونکہ بہت سی بدرسموں میں مبتلا آتا ہے، بہت سی اندرونی بیماریوں کا شکار آتا ہے.اگر آپ نے فوری طور پر اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی تو ہرگز بعید نہیں کہ وہ اپنی بیماریاں اس نئے ماحول میں منتقل نہ کرے جس ماحول نے اسے اپنایا ہے.تو یہ جو تقاضے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ان کو اگر میں گننا شروع کروں تو ایک دو چار خطبوں میں بھی ان کو پوری طرح آپ کے سامنے کھول کر بیان نہیں کر سکتا مگر باتیں ایسی ہیں جو بہت ہی پریشان کن ہیں اور طبیعت میں ہیجان پیدا کر دیتی ہیں.لگتا ہے تھوڑا وقت ہے اور کام بے انتہا پڑا ہوا ہے.آخر کیا کرے انسان کہ ساری جماعت کو اس کام میں دین کی مدد کے لئے آمادہ کر سکے.اس قسم کی بے چینی کا اظہار حضرت عیسی نے اس طرح کیا تھا کہ اعلان کیا مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ (الصف: 15) اور قرآن کریم نے جو اس ایک فقرے کو محفوظ فرمایا ہے یہ صاف بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح کے دل میں شدید بے قراری پیدا ہوئی تھی اور اپنے آپ کو بے یارو مددگار پایا، چند کے سوا کسی نے ان کی تائید کا دعوی نہیں کیا.اس وقت آپ نے یہ اعلان کیا مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللهِ کون ہے جو اللہ کی خاطر میری مدد کرے.

Page 317

خطبات طاہر جلد 16 311 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء قرآن کریم فرماتا ہے اس آواز پر لبیک کہنے والے کچھ ضرور پیدا ہوئے اور وہ لبیک کہنے والے شروع میں تھوڑے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خلوص کو قبول فرمایا فَأَصْبَحُوا ظهرین وہ جو تھوڑے تھے وہ غالب آگئے.یہ تاریخ ہے ساری عیسائیت کے غلبے کی اور اس غلبے کے آغاز کی اور اس کا آغاز کیسے، کسی جگہ سے شروع ہوا؟ عیسائیت کے غلبے کا آغاز حضرت مسیح کے دل سے ہوا ہے اور دل کی اس بے قراری سے ہوا ہے جس کا اظہار قرآن کریم نے حضرت عیسی علیہ السلام کی اس دعا کی صورت میں ہمیشہ کے لئے محفوظ فرمالیا مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ.کون ہے جو خدا کے نام پر میری مدد فرمائے ، خدا کے کام کے لئے میری مدد کو آگے آئے تو یہی وہ آواز ہے جو اس دور کے مسیح نے بھی دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی آواز کو دوبارہ اٹھایا ہے لیکن کام اس سے بہت زیادہ ہے جتنا مسیح اول کو در پیش تھا.مسیح اول کے سپر دتو بنی اسرائیل کی بدیوں کو دور کرنا تھا اور بنی اسرائیل کی محدود ضرورتوں کو پورا کرنا تھا مگر مسیح محمدی کا کام تو سارے جہان میں پھیلا پڑا ہے اور بدیوں نے جس جس طرح سر اٹھایا ہے اور جس نئے رنگ میں ظاہر ہوئی ہیں وہ اتنی زیادہ اور اتنے خوفناک انداز کے ساتھ اٹھی ہیں کہ ایک ایک ملک کو بدیوں میں غرق کر دیا گیا ہے اپنے طوفان اور اپنے سیلاب میں.آپ جو ہالینڈ میں بستے ہیں ہالینڈ کے گردو پیش کا جائزہ لیں اور ہالینڈ کے شہروں میں جو بدیاں ہر روز ہو رہی ہیں، جس طرح قوم کا مزاج بگڑ رہا ہے، جس طرح یہ مزاج بگڑتے بگڑتے اب ایک عوامی شناخت اختیار کر گیا ہے یعنی قوم ان بدیوں کو برانہیں دیکھ رہی اور ان کی طرف بڑھنے کو اور ان کو ٹیلی ویژن پر اور اپنے نیوز میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی اور ہر قدم پہلے سے اور آگے اسی سمت میں بڑھ رہا ہے.پس ان سب کا رخ موڑنا اور انہیں اسلام کی طرف واپس لے کے آنا کیسے ممکن ہے اگر آپ خود تو بہ کر کے الْمُتَطَهِّرِينَ میں داخل نہ ہو چکے ہوں.تو دراصل کام بے انتہا زیادہ ہے اتنا کہ اس کا شار ممکن نہیں مگر حل اس چھوٹی سی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے.وہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو اللہ کے دین کا ناصر بنانا چاہتا ہے، جو اعلان کرتا ہے کہ میں انصاری الی اللہ میں سے ہوں اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ تو بہ کرے اور توبہ کر کے اپنی پہلی زندگی سے منہ موڑلے اور ایسا منہ موڑے کہ پھر

Page 318

خطبات طاہر جلد 16 312 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء دوبارہ اس کا خیال تک دل میں نہ لائے اور یہ تب ممکن ہے کہ پاک ہونا چاہے اور پاک ہونے کی خواہش دل میں پیدا ہو جائے یعنی بدیوں کی خواہش کی بجائے نیکی کی خواہش پیدا ہو جائے اور انسان واقعۂ دل سے چاہے کہ وہ اچھا ہو جائے.ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ کہ اللہ تعالیٰ ایسے پاک ہونے والوں سے محبت کرتا ہے.پس اللہ کی محبت جس قوم کو نصیب ہو جائے اس کی فتح ہی فتح ہے.جس سے خدا محبت کرنے لگے اس پر دنیا کی نفرتیں غالب آہی نہیں سکتیں.مگر ایسے ہیں تھوڑے اور ضرورت ہے کہ تیزی سے ان کی تعداد کو بڑھایا جائے.ہالینڈ ہی کی مثال کو پھر لیتے ہیں کیونکہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ اس مضمون کو ہالینڈ کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھوں گا.ایک لمبے عرصے سے میں یہاں تحریک کر رہا ہوں کہ تبلیغ کرو اور تبلیغ کے ذریعے روحانی اولاد پیدا کرو اور ایک لمبے عرصے سے جب بھی آتا ہوں ہمیشہ بھاری دل سے آپ سے شکوہ کرتاہوں کہ تبلیغ آپ نے کی تو ہوگی کیونکہ رپورٹوں میں کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے مگر عملاً اس کے پاکیزہ پھل مجھے نظر نہیں آرہے ، جیسی جماعت پہلے تھی ویسی ہی ہے.جب پوچھا جائے کہ بتاؤ کتنی بڑھی ہے تو کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تئیں یا چالیس یا پچاس کا اضافہ ہوا ہے.جب پوچھا جائے کہ وہ کیسے ہوا تو بتاتے ہیں کہ پاکستان سے ہجرت کر کے لوگ آئے ہیں.حالانکہ مجھے پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کی نسبت ان لوگوں سے بہت زیادہ دلچسپی ہے جن کی ہجرت میں محمد رسول اللہ ﷺ نے دلچسپی ظاہر فرمائی اور وہ ہجرت بدوطن سے ہجرت کر کے نیک وطن میں داخل ہونا ہے.پس آنحضرت ﷺ کو جس ہجرت میں دلچسپی ہے اور لوجس ہمیشہ رہے گی کیونکہ آپ اس پہلو سے ایک زندہ نبی ہیں، آپ کی دلچسپیاں بھی قیامت تک زندہ رہیں گی اس پیمانے سے جب دیکھا جائے تو مجھے یہ بات بھلا کیا خوش کر سکتی ہے کہ اضافہ ہوا ہے ماشاء اللہ پاکستان سے ہیں تمہیں، چالیس، پچاس ہجرت کرنے والے یہاں آگئے ہیں.سوال یہ ہے کہ جنہوں نے پاکستان سے ہجرت کی، یہاں آنے کے بعد ان کی ہجرت کس طرف ہے.اگر ان کے معصوم بچے یہاں کی تربیت حاصل کر کے ، ان کی معصوم بچیاں ان کے ماحول میں مل جل کر وہ بے دین ہونے لگیں اور نفسانی آزادی اور نفسانی خواہشات کی بے دھڑک پیروی کرنا ان کے نصیب میں لکھا جائے تو یہ ہجرت کیسی ہجرت ہے.یہ تو اچھے شہر سے برے شہر کی طرف ہجرت ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے.الله

Page 319

خطبات طاہر جلد 16 313 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء جس ہجرت کا ذکر فرمایا ہے وہ تو بالکل برعکس ہے.پس یہ وہ ہجرت ہے جس کے ذریعے تعداد بڑھنی چاہئے اور یہ ہجرت اندرونی طور پر بھی دکھائی دینی چاہئے اور بیرونی طور پر بھی دکھائی دینی چاہئے.اندرونی طور پر اس طرح کہ آپ میں ہر روز ایسے نوجوان، ایسے بوڑھے مرد اور عورتیں بلکہ بچے بھی پیدا ہوں جو اپنے اندر یہ پاک تبدیلی پیدا کریں، یہ عہد کر لیں ایک دن، جاگ اٹھیں.اپنی برائیوں کی فہرست بنائیں اور معلوم کریں کہ ان کی شکل ہے کیا.ایک وہ شکل ہے جو وہ دنیا کو دکھاتے ہیں باوجود کوشش کے پھر بھی اس کے سارے عیوب چھپا نہیں سکتے لیکن ایک وہ شکل ہے جو اپنے اندر چھپائے بیٹھے ہیں وہ شکل اس سے بہت زیادہ بھیانک ہے جو دنیا دیکھ رہی ہے اور اس شکل کو دیکھے بغیر اس کے داغ دور کرنے کی طرف توجہ کیسے پیدا ہو سکتی ہے اور سب سے زیادہ اس شکل کو دیکھنے والا خدا تعالیٰ ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے جو ہر انسان کے اندرونہ کی تفصیل جانتا ہو وہ ایسی ایسی باریکیوں کو بھی جانتا ہے، ایسے ہلکے داغوں کو بھی دیکھ رہا ہے جو خود انسان کی اپنی نظر میں ہی نہیں آسکتے.مگر خدا کے بعد اگر کوئی ہے تو ہر شخص خود ہے جو چاہے تو اپنے داغ دیکھ سکے مگر مصیبت ہے اور بہت بڑی مصیبت ہے کہ داغ دیکھ سکتا بھی ہے تو دیکھتا نہیں اور اگر کوئی توجہ دلائے تو اس کے خلاف غصہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تو اپنے داغ دیکھ تیرے اندر کتنے کتنے داغ ہیں خواہ اس نے نیکی اور بھلائی کی خاطر بات کی ہو مگر جب کسی کی کمزوری اس کو یاد دلائی جائے تو بڑے غصے سے بھڑک اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تو کون ہوتا ہے میرے معاملات میں دخل دینے والا ، اپنا حال دیکھ اور بسا اوقات جس کو کہتا ہے اپنا حال دیکھ نہ وہ اپنا حال دیکھتا ہے نہ یہ اپنا حال دیکھتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا میں نے بہت غور کیا ہے ان معاملات پر اور گہری نظر سے میں دیکھتا ہوں کہ اکثر نصیحت کرنے والے حقیقت میں نیک نیتی سے نہیں کرتے بلکہ جب ان کو کوئی غصہ ہو، جب ناراضگی ہو تب وہ دوسرے کو اس کی برائیاں دکھاتے ہیں اس سے پہلے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اس لئے پہلا قدم ہی منحوس ہے.عورتوں کے معاملات میں تو خاص طور پر یہ بات صادق آتی ہے.بڑے گہرے تعلقات ہوتے ہیں اور ایک دوسری کی برائیاں جانتی ہیں بلکہ بعض دفعہ مبالغہ کر کے بھی دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن جب تک آپس میں اختلاف نہ ہو، جب تک کوئی انتقام نہ لینا ہو اس وقت تک وہ برائی بتاتی نہیں ہیں اور جب بتاتی ہیں تو غصے کی وجہ سے بتاتی ہیں جس

Page 320

خطبات طاہر جلد 16 314 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء سے اور غصہ پیدا ہوتا ہے.نفرت سے بتاتی ہیں جس کے پیٹ سے اور نفرت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کو اس کی کمزوریوں سے آگاہ کرنے میں مدد بنا، فائدہ پہنچائے الٹا نقصان پہنچا دیتا ہے.پس سب سے اچھا علاج یہ ہے کہ خود جاگیں کیونکہ اگر آپ جاگ کر اپنے آپ کو دیکھیں گے اور اپنے آپ کو بد کہیں گے تو اس کا غصہ کسی پر نہیں ٹوٹے گا.آپ کا نفس آپ کے خلاف بغاوت نہیں کرے گا بلکہ صرف آپ ہیں جس کے سامنے آپ کا نفس سر جھکا سکتا ہے.پس اس سے زیادہ اور کوئی نصیحت ممکن نہیں کہ توابین میں ہو جائیں.توابین سے مراد یہ نہیں ہے کہ لوگ ان کو توجہ دلا رہے ہوں.توابین کا مطلب ہے وہ خود اپنے دل میں اپنی کمزوری کا ایک احساس بیدار کر لیں کہ اپنی کمزوری سے خود شرمندہ ہونے لگیں.اپنی بیماری کے احساس سے وہ دور بھاگنے لگیں اور اس گھبراہٹ میں وہ چاہیں کہ وہ ٹھیک ہو جائیں اور یہ مثال صرف روحانی بیماریوں میں نہیں ، جسمانی بیماریوں میں بھی ہمیں اسی طرح دکھائی دیتی ہے.ایک انسان جس کے اندر کینسر پل رہا ہے بسا اوقات غفلت کی حالت میں رہتا ہے تو کینسر اس کو دکھائی بھی نہیں دیتا.اب جب میں یہاں آ رہا تھا تو ایک دن پہلے مجھے ایک خاندان والے ملنے آئے اور اپنے ایک عزیز کے متعلق انہوں نے یہی بتایا کہ کینسر تھا لیکن ایک لمبے عرصے سے جس کو کینسر تھا اس کو پتا ہی نہیں چلا کیونکہ بعض دفعہ اگر شوگر کی بیماری یعنی ذیا بیطس ہو تو درد کے احساس میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ جو باریک ریشے نسوں کے درد کی کیفیت کو دماغ کی طرف منتقل کرتے ہیں ان کے او پر شوگر یعنی میٹھا جسم جسم کے انہیں ماؤف کر دیتے ہیں.وہ ماؤف ہونے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ تکلیف موجود ہے آگے اس کے دماغ کو اطلاع نہیں کرتے.چنانچہ جس مریض کی بات ہو رہی ہے اس کو بھی ذیا بیطیس تھی اور ڈاکٹروں کا یہی خیال ہے کہ اس وجہ سے وہ کینسر اندر اندر پھیلتا رہا ہے اور پتا بھی نہیں لگا اور اب جو منزل پہنچ گئی وہ ایسی ہے کہ جس کے متعلق ڈاکٹروں نے ہاتھ کھینچ لئے ہیں.انہوں نے کہا نہ دو ممکن ہے نہ ہم تیار ہیں کسی قسم کی دوا کی کوشش کرنے کیلئے کیونکہ اب جو بھی ہم اصلاح کرنے کی کوشش کریں گے اس کی تکلیف میں اضافہ ہوگا.تو دیکھو تو بہ کا وقت بعض دفعہ اس طرح گزر جاتا ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ نے اصلاح کی

Page 321

خطبات طاہر جلد 16 315 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء صلاحیتیں بخشی ہوں وہ بھی ہاتھ اٹھا لیتے ہیں کہ ہم میں طاقت نہیں رہی اور جو ذیا بیطس ہے یہ کوئی جسمانی بیماری صرف نہیں بلکہ روحانی بیماری بھی یہی ہے.دنیا کے میٹھے کی چاٹ پڑ جانا ایسے انسان کو اپنی اندرونی کڑواہٹوں کے احساس سے بے خبر کر دیتا ہے اور روحانی بیماریاں موجود ہیں مگر انکا دکھ محسوس نہیں کرتا ، جب وہ دکھ محسوس نہیں کرتا تو بسا اوقات وہی حال ہوتا ہے جو اس مریض کا ہوا جس سے متعلق اس کے عزیز گھبرائے ہوئے میرے پاس پہنچے کہ اب تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہمیں پتا ہے کیا ہے لیکن ہم نے اصلاح کی کوشش بھی نہیں کرنی کیونکہ اب وقت گزر چکا ہے.تو پیشتر اس کے کہ وہ وقت گزر جائے جب کہ اس کی بیماریاں بالآخر سر اٹھائیں اور دکھائی دینے لگیں اور بہت طبیعت کو بری لگیں لیکن ان کی اصلاح کا وقت نہ ہو تو خواہ موت اچانک آجائے یا ایسے وقت میں بیدار ہو انسان کہ جب اصلاح کا وقت گزر چکا ہوتا ہے اس سے پہلے پہلے بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنے نفس کو خود پہچانیں اور خود اس کو پکڑیں کیونکہ بیرونی آواز کے خلاف آپ کو ضرور ردعمل ہوگا اور بہانے بنانا تو انسان کی فطرت میں ایسا داخل ہے کہ اگر یقین بھی ہو کہ سمجھانے والا خالصہ نیک نیت سے سمجھا رہا ہو پھر بھی اسکو جواب میں یہی کہتے ہیں کہ جی آپ کو نہیں پتا، نا انصافی ہو گئی ہے غلط رپورٹیں کرنے والوں نے آپ کو ہم سے بدظن کر دیا ہے.چنانچہ اکثر میرا یہی تجربہ ہے.بعض دفعہ کسی کے متعلق شکایتیں پہنچتی ہیں کہ یہ حال ہو گیا ہے اس کا سوسائٹی اس سے بیزار بیٹھی ہے اس کو سمجھانے کی کوشش کریں تو جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان کے لمبے چوڑے خط آتے ہیں کہ آپ کو تو لوگوں نے یک طرفہ باتیں کر کے بہکا دیا ہے ہم تو ایسے نہیں.ہم تو بالکل صاف ستھرے اور پاک لوگ ہیں ،صاف انکار کر دیتے ہیں حالانکہ ساری سوسائٹی گواہ ہوتی ہے کہ وہ حد سے گزر چکے ہیں اب لیکن آدمی یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو کیونکہ بعض دفعہ جھوٹ کا بھی انسان کو نہیں پتا چلتا.اپنے دفاع میں واقعہ انسان اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے.جو سخت جھوٹا ہے اس کو بھی آپ جھوٹا کہیں تو بعض دفعہ ایسار عمل دکھاتا ہے کہ خون لینے پر آمادہ ہو جاتا ہے، ہیں !تم کون ہوتے ہو مجھے جھوٹا کہنے والے یعنی وہ شخص جس کو ساری دنیا جھوٹا جانتی ہے اس کو اگر منہ پر کہہ دیا جائے کہ جھوٹا ہے تو اس کو برداشت نہیں کرتا.تو انسانی بیماریوں کا تو یہ حال ہے اور ہمیں پیدا کیا گیا ہے ان کو دور کرنے کے لئے ، اس

Page 322

خطبات طاہر جلد 16 316 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997 ء لئے جب میں مسلسل خطبات میں آپ کو تو بہ کا مضمون سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو اکتائیں نہیں، مجھے معذور سمجھیں اس بات میں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ایسا مضمون ہے جو آسانی کے ساتھ دل تک پہنچا نہیں کرتا.انسان سمجھتا ہے اچھا ہے مگر یہ سمجھتا ہے کہ دوسروں کے حق میں اچھا ہے.جب اپنے اوپر بات آئے تو وہاں اس کی قبولیت کے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں اور اگر کھولتا بھی ہے تو گھبراتا ہے کیونکہ اندھیروں میں رہتے رہتے روشنی بری لگنے لگتی ہے.پس اس لئے آپ دعائیں کریں اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور مرکزی دعا کا نکتہ وہی ہے جو سورۃ فاتحہ کی مرکزی آیات ہیں اور ہر نماز میں آپ ان کی تلاوت کرتے ہیں.ان کو ہوش سے کم سے کم ان کو تو ہوش سے پڑھیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے ہمارے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں.فیصلہ کر لیا ہے کہ تیرے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور اتنا مشکل کام ہے، ایسا بڑا دعویٰ ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مدد بھی تجھ سے مانگتے ہیں.تو توفیق دے گا تو ہمیں یہ نصیب ہو گا ورنہ یہ نصیب ہو نہیں سکتا.پس اس انکسار کی حالت تک پہنچ کر اپنے آپ کو بالکل بے بس دیکھتے ہوئے اور جانتے ہوئے ، یقین کرتے ہوئے پھر جب خدا تعالیٰ سے آپ یہ دعا کریں گے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو آپ کے اندر انقلاب بر پا ہوگا اور وہ انقلاب ایسا نہیں ہوگا جو پھر دکھائی نہ دے کیونکہ جس کے اندر شعور جاگتا ہے اس کا جا گنا دنیا دیکھ لیا کرتی ہے.دیکھو نبیوں کا شعور جب جاگتا ہے تو کل عالم کو ہلادیا کرتا ہے.قوموں کے اندرایک ارتعاش پیدا کر دیتا ہے.پس وہ شعور جگائیں جس شعور کا جا گنا اسلام کے لئے لازم ہے.وہ شعور جگائیں جو عالمی انقلاب کے لئے ضروری ہے.آنحضرت ﷺ کا جس طرح شعور جا گا اور ساری دنیا کی اصلاح کے لئے آپ بے قرار و بے چین ہو گئے اسی طرح اپنے شعور کو پہلے اپنی اصلاح پر تو آمادہ کریں.اپنے چھوٹے سے عالم کی جو آپ کے نفس کا عالم ہے جو آپ کے سینے کے اندر چھپا ہوا ہے، جو باہر دنیا کو دکھائی بھی نہیں دیتا جو آپ کے بازوؤں میں سمٹا ہوا ہے اس کو تو پہنچا نہیں ، اس کو تو دیکھیں، اس میں انقلاب پیدا کر نیکی تو تمنا دل میں پیدا کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو میں یہ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر آپ چھپے ہوئے وجود نہیں رہیں گے.

Page 323

خطبات طاہر جلد 16 317 خطبہ جمعہ 2 رمئی 1997ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میرا بھی تو یہ حال تھا یعنی اور معنوں میں فرماتے ہیں مگر بات وہی ہے کہ مجھے تو کوئی جانتا نہیں تھا، میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہیں تھی اور یہ بے بسی کے عالم میں نہیں بتارہے انبیاء چاہتے ہیں کہ وہ نہ پہچانے جائیں.انبیاء جنہوں نے نبی بنتا ہو وہ اپنی نیکیاں چھپاتے پھرتے ہیں جس طرح غیر نبی اپنی بدیاں چھپاتے پھرتے ہیں.مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب ان کو خدا تعالیٰ بیدار کرتا ہے بنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے تو ان کا جا گنا ایک عالم کا جاگنا ہو جاتا ہے.ان کے دل کی بے قراری سب عالم کی بے قراری بن جاتی ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ پھر وہ چھپے رہیں.پس آپ جا گئیں تو اس طرح جاگیں کہ ہالینڈ ساتھ جاگ اٹھے، آپ پس آپ جاگیں تو اس طرح جاگیں کہ آپ کا گردو پیش ، آپ کا ماحول جاگ اٹھے، آپ کے گھر والے جاگیں، آپ کے بچے جاگیں اور ان کے اندر ایسی پاک اور نیک تبدیلیاں پیدا ہوں کہ وہ دیکھنے والوں کو دکھائی دیں.جب تک وہ تبدیلیاں آپ کے اندر پیدا نہیں ہوتیں اس قوم کی تقدیر بدل نہیں سکتی.یہ قوم سوئی رہے گی اور آپ بھی سوئے رہیں گے اور اس حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف واپس جائیں گے کہ اپنی کوئی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکیں گے تو ایک بہت بڑا خطرے کا مقام ہے جس کو میں آپ کو دکھا رہا ہوں ، بہت بڑا خطرے کا الارم ہے جو میں بجا رہا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں اور بار بار متنبہ کرتا ہوں کہ اپنے اندرونی انسان کو جگائیں جو سو یا پڑا ہے.اس کے جاگنے کے ساتھ پھر حقیقت میں آپ جاگیں گے تو دنیا جاگے گی آپ کا ماحول جاگے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 324

Page 325

خطبات طاہر جلد 16 319 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997 ء توحید کے دائرے میں سب سے بڑا امن ہے.خالص عبادت اور اول امسلمین سے تمام دنیا کا امن وابستہ ہے.خطبه جمعه فرموده 9 مئی 1997ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ يُعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوْارَ بَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ إِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابِ قُلْ اِنّى أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لهُ الدِّينَ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ پھر فرمایا؛ (الزمر: 11 13) یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا بنیادی طور پر اسی مضمون سے تعلق ہے جو گزشتہ چند خطبات میں چل رہا ہے لیکن اس کے مختلف پہلو مختلف رنگ میں قرآن کریم بیان فرماتا ہے تاکہ سوئے ہوؤں کو جگا دے اور مختلف کروٹیں بدل بدل کر ایک مضمون کو سامنے رکھنے سے بسا اوقات سوئی ہوئی طبیعتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ چیزیں جو عام طور پر دکھائی دیتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دے رہی ہوتیں اچانک نظر کے سامنے ابھر آتی ہیں.پس قرآن کریم نے جو نُفَصِّلُ الأبيت (الانعام: 56) کا مضمون بیان فرمایا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ ہر مضمون کو اتنے مختلف پہلوؤں

Page 326

خطبات طاہر جلد 16 320 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء سے کھول کھول کر سامنے رکھا ہے کہ کسی کی نظر کسی نہ کسی پہلو کو تو ضرور پکڑلے گی.انسانی فطرت میں جتنے بھی اثر قبول کرنے کے رستے ہیں ایک ہی مضمون کو قرآن کریم نے ان سب رستوں کی مناسبت سے بیان فرمایا ہے.اس لئے بعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ تکرار ہے قرآن کریم میں ، بہت بے وقوف ہیں کیونکہ کسی ایک جگہ بھی قرآن کریم کے مضمون میں کوئی تکرار ان معنوں میں نہیں کہ مضمون بیان ہو گیا اب کوئی ضرورت نہیں دوبارہ بیان کرنے کی.تکرار کی دو حکمتیں ہیں جو بیک وقت دونوں ہی قرآن کریم کے طرز بیان میں کارفرما ہیں.ایک یہ کہ ایک چیز کو جب بار بار بیان کیا جائے تو وہ بالآخر دل پر اثر کر جاتی ہے.فَذَكِّرُ اِنْ نَّفَعَتِ الذكرىی (الاعلیٰ : 10) نصیحت کر اور کرتا چلا جا.یقین رکھ کہ بالآخر نصیحت ضرور اثر انداز ہوگی اور ایک تکرار قرآن کریم کی ایسی ہے جس میں کروٹیں بدلی گئی ہیں اور دیکھنے والے کو بسا اوقات پتا بھی نہیں چلتا مگر ہر آیت اپنے رنگ میں اپنا مضمون اور اپنا اثر دکھا جاتی ہے اور عمومی طور پر انسان کو یہ نقشہ سمجھ نہیں آتا کہ تکرار کیوں ہورہی ہے.پس اس پہلو سے جب آپ قرآن کریم کا مطالعہ کیا کریں تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ قرآن کریم نے کس طرح ہر مضمون کو مختلف رنگ میں بیان فرما کر ہماری فطرت کے ہر دروازے سے مضمون کو داخل فرمایا ہے.یہ آیت کریمہ جن دروازوں سے ایک پیغام پہنچا رہی ہے وہ ان سے کچھ مختلف ہیں جو میں نے پہلے آپ کے سامنے قرآن ہی کے حوالے سے رکھے تھے.فرمایا: قُلْ يُعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمُ کہہ دے اے محمد رسول اللہ اللہ یعنی مراد مخاطب رسول اللہ لی ہیں ، کہہ دے کہ اے میرے بندو! جو ایمان لے آئے ہو اتَّقُوا رَبَّكُمُ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو حالانکہ ایمان لانے والوں کی شرط میں تقویٰ داخل تھا.پس عجیب بات ہے کہ مخاطب ایمان لانے والے ہیں اور تقویٰ کی تلقین کی جارہی ہے اور یہ پہلی بار نہیں قرآن کریم نے بارہا اسی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا ایمان لانا کافی نہیں ہے باوجود اس کے کہ ایمان خالص ہو.لِعِبَادِ کا مضمون خالص ایمان کے بغیر بیان ہو ہی نہیں سکتا تھا.یایھا الناس نہیں فرما یا يُعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اے میرے بندو! جن کو میں نے اپنے لئے چن لیا ہے پھر بھی تمہیں متوجہ کرتا ہوں کہ یہ کافی نہیں.تقویٰ ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے.اتَّقُوا رَ بَّكُمُ تقویٰ کی راہ پر اور آگے بڑھتے رہو.یہ مضمون ہے جو دراصل یہاں پیش نظر ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا.لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ (النحل : 31) جو

Page 327

خطبات طاہر جلد 16 321 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء لوگ نیک اعمال بجالائیں گے نیکیاں کریں گے.فی هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے ایک جو رائج ترجمہ ہے وہ یہ ہے کہ جو اس دنیا میں نیکیاں کریں گے.حَسَن ان کو اس دنیا میں ملے گی جو آنے والی دنیا ہے اور یہ رائج ترجمہ اس لئے ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کے سامنے ایک وقت ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مومنوں کو تو دوسری دنیا کی خوشخبریاں دی جاتی ہیں اور اگر صرف اس دنیا میں ہی حَسَنَةٌ ملنی ہے تو اس کا فائدہ کیا ہوا پھر.اس لئے اس احتمال سے گھبرا کر ترجمہ کرنے والے یہ ترجمہ کر جاتے ہیں.لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ جو اس دنیا میں نیک عمل کرتے ہیں حَسَنَةٌ ان کے لئے حَسَنَةٌ ہے.وہ کب ہے؟ ذکر تو نہیں مگر وہ کہتے ہیں صاف ظاہر ہے کہ اگلی دنیا میں حَسَنَةٌ کا وعدہ ہے.میرے نزدیک یہ ترجمہ درست ہونے کے باوجود ثانوی حیثیت رکھتا ہے.اولین ترجمہ وہی ہے جو آیت کے ظاہری بیان سے ظاہر و باہر ہے.لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل اختیار کیا، اپنی خوبیوں کو اور آگے بڑھایا ان کو حسین تر بنالیا ان کے لئے فی هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ان سے کوئی مستقبل کا وعدہ نہیں ہے، وہ تو ہے ہی مگر اور رنگ میں.ان کو اگلی دنیا کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا اس دنیا میں وہ حسنہ دیکھ لیں گے اور ان کی نیکی کا بدلہ نقد نفذ اسی دنیا میں ان کو عطا کیا جائے گا.یہ مضمون بتا رہا ہے کہ خاص قسم کے لوگ پیش نظر ہیں ایک خاص طبقہ ہے نیکی کرنے والوں کا جو اس وقت خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے اور اس مضمون کو اس آیت کا اگلا حصہ کھول رہا ہے یعنی اس طرز بیان کی چابی در اصل وَأَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ میں ہے.وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ کا مضمون ہجرت سے تعلق رکھتا ہے اور ان آیات کریمہ میں بیک وقت دنیوی ہجرت اور روحانی ہجرت دونوں ہی بیان فرمائی جارہی ہیں.پس صبر کا مضمون بھی ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو روحانی ہجرت کرتے ہیں یا جسمانی ہجرت کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں ہجرت کرنے دی نہیں جاتی.تمہید کے ساتھ ، جب یہ آیات آپ کے سامنے، آگے ترجمے کے ساتھ پیش کی جائیں گی یعنی ابھی جو میں بیان کر رہا ہوں جب ان کا ترجمہ آگے بڑھے گا تو پھر آپ کو صاف دکھائی دینے لگے گا کہ جو میں نے ترجمہ کیا ہے نہ صرف یہ کہ بعینہ درست بلکہ بہت برحل ہے اور واقعہ یہی مضمون ہے جو قرآن کریم اول طور پر ہمارے سامنے کھولنا چاہتا ہے.لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا یہاں قومہ اگر انگریزی کی طرح عربی میں ہوتا تو یہاں قومہ ڈالا جاتا.

Page 328

خطبات طاہر جلد 16 322 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا جن لوگوں نے حسن عمل اختیار کیا، جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کے حضور مزید خوبصورت کر کے دکھایا.فی هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ اسی دنیا میں ان کو خوبصورتی کی جزاء خوبصورتی کے ساتھ دی جائے گی.وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے.اگر ہجرت کا مضمون نہ ہو اور نیکیوں کا تعلق خصوصیت کے ساتھ ہجرت کے ساتھ نہ ہو یا ان حالات سے نہ ہو جن حالات میں ہجرت کی مجبوری در پیش آتی ہے تو وَ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ کہنے کا کیا موقع تھا یہاں.اِنَّمَا يُوَفِّى الصُّبِرُونَ أَجْرَهُمُ بِغَيْرِ حِسَابِ صاف پتا چلا کہ کوئی صبر کا مضمون ہے، بہت تکلیف کا مضمون ہے اور جب تکلیف دہ حالات ہیں اس وقت اگر انسان نیکی کرتا ہے تو اگلی دنیا کا وعدہ کوئی دل کو تسلی نہیں دیتا لاز ما اس دنیا میں ان کو تسلی ملنی چاہئے اور اس دنیا کی جزاء کا وعدہ صبر کے ساتھ ان لوگوں کے ساتھ جو نہایت مخالف حالات میں نیکیوں سے چھٹے رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتے چلے جاتے ہیں، ان کے ساتھ اس دنیا کا وعدہ ایک لازمہ ہے جو قرآن کریم کا ایک دستور ہے.چنانچہ وہ آیات جو آپ کے سامنے کئی دفعہ پڑھی جاتی ہیں اور میں اس پر بعض خطبات بھی دے چکا ہوں.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة: 31) یہ جو وعدہ ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے مگر نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ( حم السجدة :32) مستقبل کا وعدہ نہیں رکھا گیا صرف.فرشتے یہ کہتے ہوئے ایسے صبر کرنے والے بندوں پر نازل ہوتے ہیں جو استقامت دکھاتے ہیں، استقامت اور صبر ایک ہی مضمون کے دو اظہار بیان ہیں.کہتے ہیں ہم اب اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں تمہارے ساتھ رہنے کے لئے تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے.فی هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ آخرت میں بھی ہم تمہارا ساتھ دیں گے.پس دنیا میں تسلی دلانا ان لوگوں کے لئے جو دکھوں میں مبتلا ہوں بہت سے امتحانات در پیش ہوں مگر دو باتوں میں صبر اختیار کریں.اپنے اقرار کو جو خدا سے کئے ہیں ان کو نہ بھولیں ، اپنے وعدوں کو پورا کریں اور جو چاہے دنیا ان پر مصیبتیں تو ڑتی پھرے وہ اپنے عہد بیعت پر قائم رہیں یعنی اللہ تعالیٰ

Page 329

خطبات طاہر جلد 16 323 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء سے جو بیعت کرتے ہیں اس پر استقامت اختیار کریں.یہ لفظ استقامت ان دوسری آیات میں بیان فرمایا گیا جو میں نے پڑھ کے سنائی ہیں اور یہ جو آیات جن کا میں ترجمہ کر رہا ہوں ان میں صبر کے ذریعے اس مضمون کو کھولا گیا ہے اور ہجرت کے ساتھ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صبر کے ساتھ اور ان حالات کے ساتھ ہجرت کا ایک تعلق ہے اور ہجرت کے ضمن میں اللہ تعالیٰ اللہ کی زمین وسیع ہے“ کی خوشخبریاں ضرور دیتا ہے.ایک دوسرے موقع پر ان لوگوں کے لئے جو ہجرت نہیں کرتے اور یہ بہانہ رکھتے ہیں کہ ہم مجبور ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کو متنبہ فرماتا ہے، کہتا ہے مجبور کیسے ہو گئے.کیا زمین اللہ کی وسیع نہیں تھی.ایسے موقع پر تمہیں ہجرت کر جانا چاہئے تھا.پس یہ تین مضمون ، دنیا کی مصیبتوں کا نازل ہونا، خدا کے رستے سے ہٹانے کے لئے انسان کو تکلیفیں دے کر مجبور کرنا اور اس کے نتیجے میں یا ہجرت کرنا یا صبر کرنا یہ وہ مضامین ہیں جو ایک اور انداز میں ، نئے پہلو کے ساتھ یہ آیات ہمارے سامنے کھول رہی ہیں.یہ جو اعتراض اٹھتا تھا یا بعض لوگوں کے ذہن میں ہے جس کی وجہ سے وہ ترجمہ میں آخرت کا وعدہ سمجھتے ہیں ، ذہن میں یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ اگر صرف دنیا میں حسنہ کے لفظ کے بیان کو پیش نظر رکھے تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا آخرت کا وعدہ دیا ہی نہیں جارہا مگر اسی آیت نے ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ وعدہ کر بھی دیا.اِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ یہ نہ سمجھ لینا کہ دنیا کی حسنہ دے کر تمہارا حساب چکا دیا جائے گا.جو صبر کرنے والے ہیں ان کا اجر بغیر حساب ہے.اب یہ بھی بہت ہی اہم مضمون ہے صبر کرنے والوں کا اجر بغیر حساب.صبر انسان جن تکلیفوں پر کرتا ہے اگر وفا کے ساتھ آخر دم تک قائم رہے تب وہ صبر کہلائے گا ورنہ نہیں.تو جب مرتے دم تک وہ باز نہیں آئے خدا سے وفا کرنے سے، جب وہ نیک اعمال سے پیچھے نہیں ہے تو ان کا مرنا ان کے اختیار میں تو نہیں ہے وہ زندگی اگر چلتی چلی جاتی تو ہمیشہ وہ صبر ہی کی حالت میں قائم رہتے.پس جب خدا نے فیصلہ فرمایا کہ ان کی زندگی منقطع کی جائے تو عملاً یہ بھی فیصلہ کر دیا کہ ہم نے تمہیں آزما لیا تم واقعی صابر بندے ہو.اگر تمہیں ہزار سال بھی ملتے تو اسی طرح تم رہتے اس لئے اب ہم تمہیں واپس بلاتے ہیں.تمہارے امتحان کا دور ختم ہوا لیکن جزا کا دور لامتناہی ہے کیونکہ تمہاری وفا سے پتا چلتا ہے کہ تم ان نیکیوں پر دوام اختیار کر چکے تھے.صبر نے تمہیں ایک ایسی ہمیشگی کی زندگی عطا کر دی تھی جو خدا کی نظر میں

Page 330

خطبات طاہر جلد 16 324 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء ہے اس لئے نہ مرتے تب بھی تم اسی طرح زندہ رہتے جس طرح اب ہو.یہ فتویٰ ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگوں کے حق میں کہ ان کو بلایا اس وقت جاتا ہے جب ان کی نیکیوں میں ایک دوام پیدا ہو جاتا ہے.فتویٰ یہ ہے کہ خدا نے ان کو قبول فرمالیا اور اب تمہیں اس کی لامتناہی جزا دی جائے گی.پس أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ کا یہ موقع ہے یہاں یعنی دنیا کی حسنہ تو تسلی کی خاطر ہے، وہ بے چارے یہ نہ سمجھیں کہ مرنے کے بعد ہی اب ہمیں امن نصیب ہوگا.فرمایا نہیں ہم تمہیں دنیا ہی میں حسنہ دے دیں گے.اب یہ مضمون بظاہر اس مضمون سے کچھ ٹکراتا ہے جو میں نے ابھی بیان کیا کہ آخر دم تک صبر کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے لامتناہی جزا دی لیکن جب دنیا میں حسنہ دے دی تو پھر آخر دم تک صبر کا کیا موقع رہا.یہ مضمون بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کے صبر کا امتحان لے کر ان کی زندگی ہی میں یہ فیصلہ فرما دیا کرتا ہے کہ تم پاس ہو گئے ہو.اگر یہ فیصلہ زندگی میں نہ فرمایا ہوتا تو دنیا سے حسنہ شروع نہ ہوتی.چنانچہ اس کی تائید میں جو میں نے آیات پڑھی ہیں ان میں یہی مضمون ہے.فرشتے جو نازل ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں.نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ - وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اس دنیا میں ہم جب تمہارے پاس آگئے ہیں اور نہیں چھوڑیں گے تو اب جنت کے متعلق تمہیں کیسے وہم ہو سکتا ہے کہ نہیں ملے گی.لوگوں کے لئے تو مرنے کے بعد کی جنت ہے تمہارے لئے تو شروع ہو گئی.ہم اس دنیا میں تمہارے ساتھ رہ کر ہمیشہ تمہاری حفاظت کرنے کے لئے مامور کر دئیے گئے ہیں.تو حسنہ دنیا سے شروع ہوئی ہے اور یہ اعلان کر رہی ہے یہ حسنہ کہ تمہارا امتحان مرنے سے پہلے ہی مکمل ہو گیا.مرنے سے پہلے ہی ہم تمہارے پاس ہونے کا اعلان کر رہے ہیں، خوشخبری ہو تمہیں کہ خدا کے حضور تم کامیاب ٹھہرے ہو.اب موت تو ایک ضمنی سی بات ہے جب آئے، آجائے گی مگر تمہارا عرصہ امتحان نتیجے کے ساتھ ختم ہو گیا اور جب عرصہ امتحان ختم ہوا تو حسنہ شروع ہو جاتی ہے جو ایک طبعی بات ہے.پس یہ دونوں آیات جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا الگ الگ پہلو سے ایک بات پیش کر رہی ہیں.تصریف الآیات کا ایک عجیب مضمون ہے.کس طرح پہلو بدل بدل کر ایک چیز دکھائی جا رہی ہے اور بات وہی ہے لیکن اس کے حسین رنگ مختلف صورت میں انسان کی نظر کے سامنے ابھرتے ہیں.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ.جو صبر کا دوسرا اور اعلیٰ معنی

Page 331

خطبات طاہر جلد 16 325 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء ہے وہ روحانی صبر ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو بڑی وضاحت کے ساتھ کھولا ہے کہ اصل صبر وہ ہے جو انسان نیکیوں پر صبر کر جائے اور دنیا کی مصیبتوں کے وقت بھی دراصل صبر کا یہی معنی ہے جو اولیت رکھتا ہے.محض صبر کر جانا تو اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں.ایک شخص مجبور ہے اس کو پولیس مار مار کر ہلاک کر دیتی ہے ، اس کو اتنا عذاب دیتی ہے کہ وہ ان دکھوں میں مرجاتا ہے اور جو اقرار نکلوانا چاہتی ہے اس کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ میرے پاس وہ اقرار ہے بھی کہ نہیں یا جس جرم کا اقرار کروانا چاہتی ہے بعض دفعہ جرم کا بے چارے کو پتا ہی نہیں ہوتا.تو آپ کہہ سکتے ہیں بڑا صبر کیا ہے اس نے.کہہ سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں کہہ سکتے.وہ تو بے چارہ بے اختیار ہے، مجبور ہے، ظالموں کے پنجے میں جولوگ آجائیں ان کے ساتھ اس طرح ہوتا رہتا ہے مگر خدا کی خاطر نہ انہوں نے پہلے زندگی بسر کی تھی نہ اس ظلم کا شکار خدا کی خاطر بنائے گئے ، نہ کوئی صبر کا موقع تھا اس لئے صبر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.مگر وہ احمدی جو پولیس کی حراست میں ذلیل کئے گئے ، رسوا کئے گئے ، ان کو جوتیوں سے مارا گیا، ان کو الٹا لٹکایا گیا اور وہ اس بات پر قائم رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے ہیں تم جو چاہو کر لو.نہ لا اله الا اللہ کا انکار ہوگا، نہ مسیح موعود کا انکار ہو گا.یہ وہ صبر کا مضمون ہے جو دنیا میں دکھوں کے صبر کے ساتھ نیکیوں کے صبر کے ساتھ مل گیا ہے گویا دو الگ الگ باتیں نہ رہیں.پس جس صبر کی خدا تعریف فرما رہا ہے اس میں نیکیوں پر صبر ہونا ایک لازمی حصہ ہے اس کا.اس صبر کی سرشت میں داخل ہے.محض صبر کوئی چیز نہیں.اللہ کی خاطر صبر ہو تو ضرور نیکیوں پر صبر ہوگا، حق پر صبر ہوگا اور اس کے متعلق وعدہ ہے کہ جب یہ صبر کرو گے تو دنیا میں بھی تمہارا کامیابی کا اعلان کر دیا جائے گا اور تم سے نیک سلوک اس دنیا میں شروع ہو جائے گا اور جو بعد میں آنے والا ہے اس کا تو حساب ہی کوئی نہیں.اس لئے فرمایا قُلْ اِنّى اَمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لهُ الدِّينَ تو کہہ دے کہ مجھے تو عبادتوں پر استقلال کرنے اور ہمیشہ ان پر قائم رہنے اور محض اللہ کے لئے خالص رہنے کا حکم دیا گیا ہے.پس آنحضرت ﷺ کا صبر، چونکہ صبر ہی کا مضمون چل رہا ہے وہ عبادتوں پر صبر کا مضمون ہے اور ایسی عبادتوں پر صبر جو اپنے خلوص کے لحاظ سے کامل ہو چکی ہوں ان سے بہتر عبادت کا تصور ممکن نہ ہو.اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ دین کو بس اسی کے لئے خالص کر دوں.پس حقیقی تو بہ کا بھی الله اس عبادت سے تعلق ہے اور حقیقی توبہ کا بھی صبر سے تعلق ہے ،صبر کے دونوں معنوں سے تعلق ہے.

Page 332

خطبات طاہر جلد 16 326 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء دشمن یا شیطان تکلیف دے کر یا سبز باغ دکھا کر آپ کو نیکیوں سے ہٹانے کی کوشش کرے اور برائیوں کی طرف بلائے اور آپ نیکیوں کے ساتھ چمٹے رہیں اور برائیوں کی طرف منہ نہ کریں تو یہ صبر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے جس کے نتیجہ میں آپ کی عبادت خالص ہوتی ہے.اگر یہ صبر نہ ہو تو عبادت خالص ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ عبادت کا ایک معنی جھک جانا ہے.کسی اور کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے.تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تم نے عبادت کے راز مجھ سے سیکھنے ہیں اور مجھ ہی سے سیکھو گے تو مجھے تو خدا کا یہ حکم ہے کہ اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرلوں جس کا مطلب ہے کہ ایک شائبہ بھی کسی اور چیز کی تمنا کا میری عبادت میں دخل نہ دے سکے، ایک شائبہ بھی کسی اور چیز کے خوف کا میری عبادت میں دخل نہ دے سکے ، تو حید خالص اس عبادت کا نام ہے.پس فرمایا کہ مجھے تو توحید خالص کا حکم دیا گیا ہے.ایسی عبادت کروں جس میں کسی غیر کے خیال کا ، تصور کا ، خواہ وہ حرص کے ساتھ ہو، خواہ وہ خوف کے ساتھ ہو شائبہ تک بھی نہ ہو.وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ اور اس مضمون میں مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی سے پیچھے نہیں رہنا.جتنے دنیا میں انبیاء آئے ہیں سب یہی کام کیا کرتے تھے مگر اے محمد ! تو سب سے بعد میں آیا ہے اور سب سے آگے بڑھ جانے کا حکم تجھے دیا گیا ہے، رکنا نہیں اس رستے پر یہاں تک کہ اول المسلمین ہونے کا تیرا اعلان نہ ہو.پس یہ کتنا عظیم الشان مضمون ہے.ایک ایسے مضمون کو جو عامۃ الناس سے ان نیک مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے جو دکھ دیئے گئے ، جو آزمائے گئے اس کو کس طرح خدا نے سمیٹتے ہوئے ، بڑھاتے ہوئے آنحضرت می پر منتج کر دیا اور اسلام کی ایک وہ تعریف کر دی ہے جو سب سے اعلیٰ تعریف ہے کیونکہ عبادت خالص ہی اسلام کا دوسرا نام ہے.خالص عبادت کا مطلب ہی اسلام ہے یعنی سوائے خدا کے کسی کے سامنے سر نہ جھکانا ، خدا کے سوا کسی کے حضور اپنے آپ کو سپرد نہ کرنا یہ اسلام ہے.تو عبادت اور اسلام کا جو گہرا تعلق ہے وہ ظاہر فرمایا گیا ہے ان آیات میں.وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِینَ یہ کوئی نیا حکم نہیں ہے.عبادت خالص کرنے کے مضمون کو اپنے منتہی تک پہنچا دیا گیا ہے.کہہ دو کہ ایسی خالص عبادت کا حکم دیا گیا ہے کہ کبھی دنیا میں کسی عبادت کرنے والے نے تیری خالص عبادت کا ایسا حق ادا نہ کیا ہو.نہ ابراہیم کو تو فیق ملی ہو کہ میری طرح عبادت کر کے دکھائے ، نہ موسیٰ کو ملی ہو، نہ اس سے پہلے

Page 333

خطبات طاہر جلد 16 327 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء انبیاء کو نہ بعد کے.پس مجھے اول آنے کا حکم دیا گیا ہے اور اول آکے آپ نے دکھا دیا.عبادت کے وہ طریقے اختیار کئے وہ سلوک اختیار فرمائے اور ہمیں سب کچھ وہ سکھایا اس تفصیل کے ساتھ کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.کوئی بھی اپنی عبادت کے خلوص کا طریقہ ایسا نہیں رکھا جو اپنے لئے چھپا کے رکھا ہو.ایک ایک اسلوب پوری وضاحت کے ساتھ ہم پر کھولا ہے.پس آنحضرت ﷺ کی احادیث کا جو عبادت سے تعلق رکھتی ہیں مطالعہ کریں تو ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ہم پر مخفی رکھی گئی ہو.پس صلى الله آنحضرت ﷺ وہ معلم نہیں ہیں جو اپنی بڑائی کی خاطر، اپنی امتیازی شان کی خاطر بعض چیزیں نہیں بتایا کرتے اور دنیا کے جتنے سائنسدان ہیں ان میں بھی یہ بیماری ہے.کسی حد تک وہ بعض سائنسی مضمونوں کو خوب کھول کر بیان کرتے ہیں لیکن وہ نکات جن کا دولت کمانے سے تعلق ہے جہاں سائنس دولت میں تبدیل ہوتی ہے وہ اپنے لئے بچا کے رکھ لیتے ہیں اس ٹیکنالوجی کا علم ہی نہیں ہونے دیتے اور باوجود اس کے کہ دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے بعض چھوٹے چھوٹے راز ہیں جو آج تک دنیا کو معلوم نہیں ہو سکے.جن کو معلوم ہیں انہوں نے اپنے پاس سنبھال کے رکھے ہوئے ہیں اور باوجود انتہائی ترقی کے دوسرے وہ راز معلوم کر ہی نہیں سکتے.بعض چھوٹی چھوٹی باتیں مثلاً چاکلیٹ بنانے کا طریقہ ہے اس کا جو چاکلیٹ کا جو مزہ آپ لیتے ہیں، وہ مختلف کمپنیوں کے مزے مختلف ہوتے ہیں لیکن بنیادی طور پر جو چا کلیٹ بنانے کا طریقہ ہے کہ ایسی چیز جو ” کو کو کو اس طرح تبدیل کر دے ایک خاص درجہ حرارت پر پچھلے اور اس میں یہ نرمی ہو اس کے مزے میں، اس کے لمس میں یہ دنیا کی صرف دو کمپنیاں ہیں جن کو پتا ہے اور ساری دنیا کی چاکلیٹ کی کمپنیاں مجبور ہیں ان سے خریدنے پر اور ہزار کوششیں کرتی ہیں مگر وہ بات بنتی نہیں.Basic چاکلیٹ جو بنیاد ہے جس سے آگے بنتے ہیں وہ سارے انہی کمپنیوں سے خریدے جاتے ہیں.اس طرح اور بھی کئی ایسی چیزیں ہیں جو بعض کمپنیوں کی اجارہ داری بنی ہوئی ہے.پیٹینٹ کی وجہ سے نہیں علم کو اتنا انہوں نے چھپا کے رکھا ہے کہ اور کوئی اس علم کا واقف ہی نہیں اس لئے بالکل مجبوری ہے.بہت سی ایسی باتیں ہیں آپ کو بتائی جائیں تو آپ حیران ہوں گے یہ چھوٹی سی چیزیں بھی دنیا کو نہیں پتا لگ سکیں.مگر کچھ ایسے راز ہیں جو معلوم ہو گئے اور پھر انہوں نے دنیا کو نہیں بتائے.مگر انبیاء اور طرح کی مخلوق ہیں.انبیاء کو جتنا بڑا راز ترقی کا معلوم ہو اتنا ہی زور کے ساتھ وہ کھولتے اور دنیا کو سناتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کی ایک یہ بھی دلیل ہے کوئی

Page 334

خطبات طاہر جلد 16 328 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء بھی راز جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکے جس سے عرفان حاصل ہو سکے اپنی ذات کے لئے چھپا کے نہیں رکھا بلکہ جتنا پتا چلا اتنا ہی بلند آواز سے اعلان کیا ہے.بے قراری پائی جاتی ہے، بے انتہاد کھ محسوس کرتے ہیں کہ کیوں نہیں دنیا سمجھ رہی.میرے پاس وہ خزانہ ہے جس خزانے کا کوئی مقابلہ ہی نہیں جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی وہ میں بانٹ رہا ہوں اور لوگ نہیں لے رہے.تو آنحضرت ﷺ نے ایک بھی راز ترقی کا ایسا نہیں جسے اپنے لئے بچا رکھا ہو یا اپنے خاندان کے لئے بچالیا ہو یا اپنے صحابہ اور عربوں کے لئے بچایا ہو.تمام دنیا پر اور سارے راز ہمیشہ کے لئے کھول دیئے ہیں اور ساتھ اعلان کیا ہے کہ فلیبلغ الشاهد الغائب کہ جو جو بھی یہ باتیں سنے اس کو میر احکم ہے کہ آگے لوگوں تک پہنچاتا چلا جائے ایک ایسا اعلان ہے جو ہمیشہ جاری وساری رہے.پس آنحضرت ﷺ نے جس عبادت کا حکم اللہ سے پایا اس عبادت کو درجہ معراج تک پہنچا دیا.ایک معراج اس دنیا میں نیکیوں کا نصیب ہوا کرتا ہے اور میرا ایمان ہے اور ایک ذرہ بھی مجھے اس میں شک نہیں کہ آنحضرت ماہ کے معراج کا ان نیکیوں کے معراج سے تعلق ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے وجہ ہی عطا ہوگئی ہے.کوئی عطا خدا کی طرف سے بے وجہ نہیں ہوا کرتی.موہبت تو ہے لیکن موہبت پہلے اس طرح ہوتی ہے کہ کسی کو نیکی کی توفیق ملتی ہے پھر اسے اجر کی وجہ بنا دیا جاتا ہے.تو آنحضرت ﷺ کی موہبت آپ کی پاک اور بے داغ فطرت میں تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے انصاف کا عجیب مضمون ہے کہ ہر بچے کو بے داغ فطرت والا بتایا.پس اس پہلو سے ہر شخص خداہی سے پاتا ہے تو پھر اسے ترقی نصیب ہوتی ہے مگر بعض لوگوں نے جو کچھ پایا اس کی پائی پائی کا حساب خدا کو دیتے ہیں اور جب وہ پائی پائی کا حساب دیتے ہیں تو پھر ایک موہبت کا نیا مضمون شروع ہو جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی عطا اس طرح نازل ہوتی ہے کہ حساب تو پائی پائی کالیا لیکن دیا بے حساب.پھر اس کے بعد جو عنایات ہیں وہ لامتناہی ہو جاتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ کا معراج اس دنیا میں ہر نیکی کا معراج تھا.کوئی ایک بھی ایسی نیکی نہیں جو انسان سوچ سکتا ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تمام بنی نوع انسان ، تمام انبیاء کو پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو.اگر یہ میری بات درست نہ ہو تو پھر رسول اللہ الیہ کو اس معراج کا حق ہی کوئی نہیں کہ سارے انبیاء پیچھے رہ جاتے ہیں، جبرائیل بھی پیچھے رہ جاتے ہیں، اکیلے ہی آپ رفعتوں کے

Page 335

خطبات طاہر جلد 16 329 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء صلى الله آسمان پر خدا کا ایسا قرب حاصل کرتے ہیں کہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوتا.پس میں تو اس عقیدے پر سو فیصد قائم ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا معراج ، آپ کی عبادتوں کا معراج اس دنیا میں ہوا ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کا معراج ہر نیکی کا معراج تھا جس نے اجتماعی صورت اس معراج کی اختیار فرمائی جس پہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سب دنیا کو بتادیا گیا کہ اس سے آگے خدا کے قریب تر کبھی کوئی انسان کبھی کوئی مخلوق نہیں پہنچی.اتنی بڑی نعمت اور ہمیں اس میں شامل فرمالیا ہے سب پر برابر کھول دی گئی ہے.یہ جو اعلان کیا کہ قل تو یہ مراد نہیں کہ اعلان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ بس اب میں ہی ہوں جوان نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤں گا.اس اعلان کے ساتھ دوسرے اعلانات بھی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ جو جو ترقیاں میں نے حاصل کیں ، راز میں تمہیں بتا دیتا ہوں آؤ اور دوڑ دیکھوان میدانوں میں.جس میں جتنی ہمت ہے اس ہمت کے مطابق اسے ضرور جزا دی جائے گی قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَر مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى (الكهف : 111) اعلان کر دے کہ میں بشر ہوں اور ان معنوں میں تم جیسا ہوں کہ بنیادی صلاحیتوں کے لحاظ سے جو صلاحیتیں تمہیں ملی ہیں، پاک فطرت لے کر تم پیدا ہوئے ہو وہی صلاحیتیں مجھے بھی ملی تھیں لیکن ان صلاحیتوں کو میں نے چمکایا ہے، ان تمام تر صلاحیتوں کو خدا کے حضور پیش کر دیا، اس کے سپرد کر دیا، یہی اسلام ہے اور نتیجہ کیا نکلا کہ يُوحَى اِلی مجھ پر وحی کی جاتی ہے اَنَّمَا الهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ یہ مجھے وحی کی جارہی ہے کہ خدا ایک ہے اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں.اب بشر کے بعد اس وحی کا کیا تعلق ہے.خدا ایک ہے اس لئے ہے کہ بشر اگر چہ بے شمار ہیں لیکن بشر اصل میں توحید سے بشر بنتا ہے اور جب تک خدا کی توحید کے ذریعے اپنے اندر خدا کی وحدت پیدا نہ کریں ہر غیر اللہ کا تصور نکال کے نوچ کر باہر نہ پھینک دیں اس وقت تک حقیقی معنوں میں ”البشر نہیں بن سکتے تو فرمایا میں بھی تو بظاہر تم جیسا ہی بشر ہوں لیکن مجھ پر وحی کی جارہی ہے اَنَّمَا الْهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ کہ تمہارا سب کا خدا ایک خدا ہے اور بشریت بھی ایک ہے خدا بھی ایک ہے مگر اس کو ملے گا جو خدا کی وحدت کو اپنا لباس، اپنا اوڑھنا بچھونا، اپنے وجود کا ایک نہ ٹوٹنے والا حصہ بنالے گا، اپنے مزاج میں داخل کر لے گا، اپنے خون میں اسے سرایت کرے گا اپنی فطرت خدا کی وحدت کے مطابق ڈھالے گا جو پہلے ہی ڈھلی ہوئی ہے مگر از سرنو اسے صیقل کرے گا ان صفات سے جو تو حید باری تعالیٰ کے نتیجے میں لازماً انسان میں پیدا ہونی چاہئیں.یہ کیسے پیدا ہوسکتی ہیں؟ تبھی پیدا

Page 336

خطبات طاہر جلد 16 330 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء ہوسکتی ہیں جب خدا نے جتنی بھی آپ کو صفات عطا فرمائی ہیں ان سب کا رخ ایک طرف ہو جائے ور نہ صفات تو بہت سی ہیں وہ ایک ہو ہی نہیں سکتیں جب تک ایک نقطے پر ارتکاز نہ کر جائیں.روشنی کی شعاعیں کتنی ہی پھیلی ہوئی ہوں اگر لیزر کی طرح ان کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے ، ایک نقطے پر اکٹھا کر دیا جائے تو ان میں غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور جتنا زیادہ ارتکاز صحیح ہوگا اتنی ہی غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.سورج کی روشنی کو عدسی شیشے سے آپ ایک جگہ مرتکز کر کے دیکھیں تو سردیوں کی ٹھنڈی دھوپ بھی اس کا غذ کے ایک حصے کو جہاں شعاعیں مرتکز ہوئی ہیں ایک دم آگ لگا دیتی ہیں اور پھیلی ہوئی دھوپ کا آپ کو پتا ہی نہیں تھا کہ اس میں کیا طاقت ہے.پس بشریت کی طاقت کا راز بتایا گیا ہے اس میں.فرمایا إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ میں تمہاری طرح بشر ہوں مگر ایک فرق پڑ گیا ہے يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ مسلسل خدا تعالیٰ مجھے تو حید کی طرف متوجہ رکھ رہا ہے، توجہ دلاتا چلا جاتا ہے.اس کے نتیجے میں مجھے توحید خالص کی ساری برکتیں عطا ہوئی ہیں اور مسلسل توجہ دلانے کا مطلب یہ ہے کہ میری تمام تر صفات جب بھی جلوہ دکھاتی ہیں اللہ کی طرف رخ کر کے وہ جلوہ دکھاتی ہیں.پس جب وہ خدا کی ذات میں مرتکز ہو جاتی ہیں تو ایک غیر معمولی طاقت ان سے پیدا ہوتی ہے.بشر سے نور بن جاتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا بشر ہوتے ہوئے نور ہونا یہی معنی رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا بہت بڑا اعلان ہے مگر گھبرانے کی بات نہیں.فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّعَ اَحَدًا تمہیں بھی شوق پیدا ہوا ہے کہ ہم بھی ایسا بن کے دکھا ئیں تو تمہارے اندر بھی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں.ورنہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کا دعویٰ جھوٹا ہوتا.پس آؤ اور خوف زدہ ہو کر پیچھے نہ رہ جاؤ کم ہمتی نہ دکھاؤ، انہی راہوں پہ آگے بڑھو جن راہوں پہ میں نے آگے بڑھ کر دکھا دیا ہے کہ بشر ہوتے ہوئے انسان اللہ کا اتنا قرب حاصل کرسکتا ہے.پس جو چیز اتنی عظیم الشان ہے اسے محمد رسول اللہ ﷺ نے Common place بنا کے دکھایا ہے.میں بھی تو بشر ہوں میں نے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے کہ نہیں.جب کر لیا ہے تو تم کیوں گھبراتے ہو، تم کیوں آگے نہیں بڑھتے.وہی کام جو میں نے کئے ہیں تم بھی کرو.نیکیوں میں ترقی کرو لیکن ہر نیکی خدا ہی کی طرف رخ رکھے.فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكُ

Page 337

خطبات طاہر جلد 16 331 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء بِعِبَادَةِ رَبَّه اَحَدًا وہی توحید خالص کا مضمون ایک اور رنگ میں پھر آخر پر کھول کے جہاں سے آغاز ہوا تھا وہیں پر اس بات کو ختم کیا گیا کہ ہر ترقی کی جان تو حید ہے اور توحید کے لئے ایک ایک صفت کو اس کی طرف موڑ نا ہوگا.یہ نہیں ہوسکتا کہ بعض طاقتیں تمہاری کسی اور طرف منہ کر رہی ہوں بعض اور طرف منہ کر رہی ہوں اور پھر تمہیں وہ عظیم الشان کامیابیاں نصیب ہو جائیں جو آنحضرت ﷺ نے حاصل فرمائیں.انتشار توجہ سب سے زیادہ مہلک چیز ہے جو انسان کو ہر ترقی سے محروم کرتی ہے اور انتشار توجہ کا مضمون ہے جو یہاں شرک کے حوالے سے بیان فرمایا گیا ہے جس سے روکا گیا ہے.فرمایا تمہاری صلاحیتیں بہت عظیم الشان ہو کر ابھریں گی لیکن ان کا انتشار نہیں ہونے دینا، ان کا رخ خدا کی طرف رکھنا ہے.پھر توحید کامل کی برکت سے یہ طاقتیں جب ایک مرکز پر اکٹھی ہوں گی تو ان سے اتنی حیرت انگیز طاقت ابھرے گی کہ تم اس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اور لیزر نے ہمیں یہ دکھا دیا ہے.لیزر مادی دنیا میں توحید ہی کا دوسرا نام ہے یا توحید کی طرف توجہ مرتکز کرنے کا ایک دوسرا نام ہے.وہ شعائیں جو مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں لیزران کے رخ موڑنے کا نام ہے.ساری ریڈیائی طاقتیں ، لہریں، ہر قسم کی چیزیں جب ایک خاص نقطے پر اکٹھی کر دی جائیں تو وہاں اتنی بڑی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ حسابی طور پر عام آدمی کو بیان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کتنی بڑی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.لیزر کی طاقت کو اب یہ آگے بڑھا رہے ہیں اور ایسا نظام دفاع تجویز ہو چکا ہے بلکہ ایک محدود پیمانے پر اس کی کامیابی بھی ہو چکی ہے کہ بڑے سے بڑے طاقتور جہاز کو جو نیوکلیئر ہتھیار لے کر آرہا ہو ا مریکہ کی طرف مثلاً، اس کو لیزر کے ذریعے فضا میں اس طرح اڑا دیں گے کہ آنا فانا وہ پھٹ کے پارہ پارہ ہو جائے گا کیونکہ لیزر کی شعاع اس پر پڑتے ہی اتنی بڑی طاقت کا ارتکاز ہوتا ہے وہاں کہ اسے دنیا کی مادی چیز برداشت کر ہی نہیں سکتی.ایک دم دھماکے کے ساتھ وہ ہوا ہی میں تحلیل ہو کر ایسا پھیل جائے گا کہ اس کا گردو غبار اکٹھا کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا.یہ لیزر کی طاقت ہے جو تو حید کا ہی کرشمہ ہے یعنی تمہیں خدا تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کوئی صلاحیت تم نے دنیا طلبی میں اس جگہ اپنی ضائع کر دی، کوئی اس جگہ ضائع کر دی.کچھ موقعوں پر تم نے دنیا کی حکومتوں کے سامنے سر جھکا دیئے، کچھ مواقع پر امیر لوگوں کے سامنے سر جھکا دیئے، کہیں قومی طاقتوں کے سامنے سر جھکا دیئے، کہیں نفس کی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے سیاست میں ترقی کرنے کے لئے

Page 338

خطبات طاہر جلد 16 332 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء اپنی صلاحیتوں کے سودے کر لئے.تو انسان پر آپ نظر ڈالیں وہ تو بکھرا ہوا انسان ہے.یہی سب سے بڑا انسان کی تباہی کا موجب بنا ہوا ہے.اس ایک فقرے میں ساری انسانی ہلاکتوں کا راز آپ کے سامنے کھل جاتا ہے.انسان بکھرا ہوا ہے اس کی صلاحیتوں کو ایک رخ میسر ہی نہیں اور کبھی کوئی رخ میسر ہوتا ہے تو بدی کی طرف ہوتا ہے شیطان کی طرف ہوتا ہے.پس یا خدا کے بندے ہیں وہ جتنا خالص ہوں اتنا ہی ان کے ساتھ سلام کا تعلق ہوتا چلا جاتا ہے.مسلم بننے کا جو پیغام ہے أُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ اس میں ایک دوسرا پیغام بھی ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.وہ شخص جو خدا کے لئے مسلم ہو جائے وہی ہے جو دنیا کے لئے مسلم ہوسکتا ہے.ناممکن ہے کہ ایک انسان خدا کے لئے تو مسلم ہومگر دنیا کے لئے مسلم نہ ہو.مسلم کا ایک معنی ہے اپنے آپ کو سپر د کر دینا.ایک معنی ہے امن عطا کرنا کسی کو اسلام میں داخل کر لینا یعنی اس کو سلامتی میں داخل کر لینا.تو خدا کے حضور جب انسان مسلم بنتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اپنی ساری طاقتوں کو خدا کی طرف پھیر دیتا ہے ایک ہی نقطہ ارتکاز ہے ہستی باری تعالیٰ، اس کی تو حید اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا.انسان کا انتشار ختم ہو جاتا ہے اور انتشار ہی بدامنی کا دوسرا نام ہے.انتشار کا بر عکس سلامتی اور اسلام ہے.تو فرمایا جب تو مسلم بنے گا تو سب دنیا کے لئے مسلم بن جائے گا تجھ سے دنیا کا امن وابستہ ہو جائے گا.پس دنیا کا انتشار دور کرنے کی خاطر اپنے نفوس کا انتشار دور کریں.اگر آپ کی شخصیت بکھری ہوئی ہے، پھیلی پڑی ہے آپ کو پتا ہی نہیں کہ آپ کا مقصد کیا ہے کس رستے پر آپ نے آگے بڑھنا ہے تو دنیا کو کیا الزام دے سکتے ہو.پس یہ ساری نصیحت جو میں نے آپ کو اس آیت کے حوالے سے کی ہے اس کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالیں، اپنے انتشار دور کریں.انتشار ہوں تو پاگل پن پیدا ہوتا ہے.انتشار ہو تو انسان کی صلاحیتیں بکھر جاتی ہیں وہ اس کے کسی کام نہیں آتیں.جتنے نو جوان انتشار کا شکار ہیں وہ بے چارے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے.جن کی توجہ ایک مقصد کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ ان کو بڑے بڑے انعامات عطا فرماتا ہے.فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً (البقرة:202) کا وعدہ ان کے سامنے ان کے لئے روزمرہ کی ایک حقیقت بن جاتا ہے جو پورا ہوتا چلا جاتا ہے.تو جس انتشار سے میں آپ کو بچانے کی نصیحت کر رہا ہوں وہ مزاج اور طبیعت کا انتشار بھی

Page 339

خطبات طاہر جلد 16 333 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء ہے اور روحانی قدروں کا انتشار بھی ہے اور صلاحیتوں کا انتشار بھی ہے.اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کریں اپنی شخصیت کو ایک بنیادی شخصیت میں ڈھال لیں یعنی مرکزی اس کا جو تشخص ہے وہ موحد کے طور پر ابھرے اگر آپ موحد بن جاتے ہیں تو پھر دنیا کی ہر ترقی آپ کے قدم چومے گی اور اپنے آسمان کے صلى الله دائرے میں آپ کو ایک معراج نصیب ہوگا.ہر ترقی آپ کو اپنے قدموں کے نیچے دکھائی دے گی.پس تمام کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنے قدموں کے نیچے دکھائی گئی ہے اوپر صرف خدا کی ذات ہے.پس انتشار دور کرنے کا یہ معنی ہے اور انتشار دور کرنے کے لئے یہ مقصود نظر، یہ مطلوب ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا ہوگا کہ ہم اپنے وجود کی تمام صلاحیتوں کو اللہ کے لئے خالص کر لیں.اس کے نتیجے میں عبادت خالص ہوگی ، غلامی کے حقوق ادا کرنے کی صلاحیت عطا ہوگی اور جب یہ ہوگی تو پھر دنیا آپ کے سپرد کر دی جائے گی کیونکہ آپ سے زیادہ دنیا کا کوئی اور امین ہو نہیں سکتا.پھر آپ وہ مسلم بنیں گے جس کے اسلام کے ساتھ دنیا کا امن وابستہ ہو جائے گا اور ایسے ہی لوگ ہیں جو دنیا کے لئے امن عطا کرنے والے ہوتے ہیں.جن کا اپنا وجود اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہو خواہ چھوٹے دائرے میں ہو اس دائرے میں وہ دنیا کے امن کو برباد کرنے والے بنے رہتے ہیں.نفسانی خواہش کا جو چاہے آپ نام رکھ لیں جب بھی آپ اس کے حضور سر جھکا ئیں گے آپ خدا کے خالص بندے اس دائرے میں ختم ہو جائیں گے.اس دائرے میں آپ شیطان یا اپنے نفس کے بندے بنیں گے اور اس دائرے میں آپ کے سواہر انسان آپ سے محفوظ نہیں رہے گا.تمام دنیا کے امن کو اس بنیادی انسانی گناہ سے، گناہ کے مزاج سے خطرہ ہے کہ اپنے نفس کے لئے اپنے نفس کے حضور سر جھکا دے اور اس معاملے میں اللہ کی عبادت کی بجائے نفس کی اور اپنی خواہشات کی عبادت کرے.معبود سے جب کوئی چیز ٹکراتی ہے تو معبود اس کو ضر ور تباہ کرتا ہے اس لئے انسان کے اپنے مفاد سے جب کسی غیر انسان کا مفاد ٹکرائے گا تو آپ اس کے امین کیسے ہو سکتے ہیں.اس کی حفاظت کرنے والے کیسے بن سکتے ہیں.وہ تو اولین دشمن کے طور پر آپ کے سامنے ہوگا.جو آپ کی چیز پر ہاتھ ڈالے گا اس کے آپ ہاتھ کاٹنے پر آمادہ ہوں گے اور جو چیز آپ کی نہیں ہے اسے اپنا بیٹھے ہیں اس سے بھی اپنوں والا سلوک کرتے ہیں.پاکستان سے آئے دن خبریں ملتی رہتی ہیں کئی لوگ کسی کے گھر میں داخل ہو گئے اور قبضہ کر لیا اور اب اپنے جھوٹے قبضے کو مالکوں سے بچانے کے لئے ہر حربہ

Page 340

خطبات طاہر جلد 16 334 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء استعمال کرتے ہیں کہ ہماری چیز ہے.تو جھوٹی اپنائی ہوئی چیز بھی اپنی ذات میں اپنی ایک غیرت بنا دیتی ہے اور اس سے جو ٹکراتا ہے اس کو سزا دی جاتی ہے.پس اس لئے شرک اور دنیا کا امن اکٹھے رہ سکتے ہی نہیں یہ دو ایسی متضاد چیزیں ہیں جو ایک دل میں اور ایک عمل میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.پس اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ اس مضمون کو سمجھنے کی اور ایسے صبر کی توفیق عطا فرمائے کہ جس صبر کے بغیر حسنہ ترقی نہیں کر سکتی.جس صبر کے بغیر غیر اللہ کے مقابلے کی توفیق نہیں ملا کرتی.پھر اگر ہجرت کی توفیق ہو تو ہجرت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ آپ کی صلاحیتوں کو بھی پھیلائے گا.أَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً (النساء: 98) کا مطلب صرف یہ نہیں کہ زمین ہی چوڑی ہے.مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ آپ کی تمام صلاحیتوں کو بھی وسیع کرتا چلا جائے اور آپ کے عمل کے نتائج کو بھی جزاء میں وسعت دے اور اس طرح خدا کی زمین آپ کو وسیع دکھائی دے.یہ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے از حد ضروری ہے.سب دنیا کے احمدیوں کے لئے یہ قدر مشترک ہے، یہ مضمون واحد ہے، سب کے لئے برابر ہے.مگر پاکستان آج کل جن حالات میں سے گزر رہا ہے ان کے پیش نظر خصوصیت سے میں نے پاکستانی احمد یوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مضمون بیان کیا ہے.ان کی حفاظت توحید میں ہے.ان کی حفاظت انتشار سے بچنے میں ہے.اپنی قومی وحدت کو سلامت رکھیں.جماعتوں میں کسی جگہ بھی انتشار کا شائبہ تک نہ پیدا ہونے دیں.جو جماعتیں منتشر ہیں فوری طور پر ان کے انتشار کو دور کرنے کی کوشش کریں ورنہ آپ تو حید کی حفاظت میں نہیں آسکتے اور اگر آپ یہ کر لیں یعنی ظاہری انتشار ختم کر دیں تو پھر یاد رکھیں کہ دلوں کا انتشار دور کرنا بھی باقی ہے.پہلی منزل تو ظاہری انتشار کو دور کرنا ہے.پہلا فرض تو ظاہری انتشار کو دور کرنا ہے.اگر ظاہری انتشار دور نہ ہو تو آدمی یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ میرا دل مجتمع ہے.دل کی صلاحیتوں کا مجتمع ہونا تو حید ہی کا دراصل دوسرا نام ہے اور ایسا شخص پھر منتشر نہیں ہوا کرتا ،ظاہر میں بھی منتشر نہیں ہوا کرتا.پس جماعت کی وحدت کو انتشار سے بچائیں اور افراد کے اندر اپنے نفوس کو مجتمع کرنے کا احساس پیدا کریں اور بار باران کو یہ تعلیم ہونی چاہئے کہ اگر تم ان خطرات سے امن چاہتے ہو تو مسلم بننا پڑے گا کیونکہ مسلم امن یافتہ کو بھی کہتے ہیں اور یہ جو تعریف ہے اسلام کی عبادت کو خالص کرنا اور اول المسلمین ہونا یہ وہ راز ہے جس سے تمام دنیا کا امن وابستہ ہے.مگر خطرات کے موقع پر خصوصیت سے جب

Page 341

خطبات طاہر جلد 16 335 خطبہ جمعہ 9 مئی 1997ء آگیں بھڑک رہی ہوں اس وقت وہ لوگ جو ان خطرات میں پل رہے ہوں ان کو لازماً جلد از جلد توحید کے امن میں داخل ہو جانا چاہئے.ایک دفعہ داخل ہو گئے تو اللہ ان کی حفاظت فرمائے گا.کوئی دنیا کی طاقت ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ ایک ایسی چار دیواری ہے جس کو کوئی دنیا کی طاقت، کوئی بڑے سے بڑا دشمن تو رنہیں سکتا ، ضرب نہیں لگا سکتا.توحید کے دائرے میں سب سے بڑا امن ہے اور وہی شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس موقع پر پھر میں آپ کو یاد دلاتا ہوں جو بار ہا یاد دلا چکا ہوں کہ: عد و جب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یا ر نہاں میں ( در مشین اردو صفحه : 50) توحید میں اپنے آپ کو دفن کر دینا، اپنے آپ کو غائب کر دینا، اپنے آپ کو چھپا لینا، اس کے امن کی چار دیواری میں چھپ جانا، یہ تب نصیب ہوسکتا ہے اگر آپ شرک کا قلع قمع پہلے کریں.اپنی طبیعتوں کا انتشار دور کریں.محبت الہی کے ساتھ خدا کی طرف جھکیں اور اس کے لئے اپنی صلاحیتوں کو غلام بنا دیں.اس کے بغیر یا ر نہاں میں نہاں ہو ہی نہیں سکتے.اس لئے محض فرضی نعرہ بازی میں آپ کا کوئی امن نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام قرآن کریم کے عرفان پر مبنی ہے.قرآن سے گوندھا گیا ہے اور ایک بھی کلام کا حصہ نہیں جو قر آن پر مبنی نہ ہو.پس یہ مضمون وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کہ تم خدا کے ہو جاؤ تو پھر تم مسلم ہو جاؤ گے یعنی ہر معنوں میں امن پانے والے بھی بن جاؤ گے اور اول المسلمین حضرت محمد مصطفی ملا یہ سب سے زیادہ ہر خطرے سے بچائے گئے اور ہر خطرے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو امین بنایا.لوگوں کو بچانے والا بھی اور خود امن میں آنے والے بھی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.پس ہر جگہ یہی مضمون سب جماعت کے لئے یکساں ہے مگر اہل پاکستان یعنی پاکستان کے احمدیوں کو میں دوبارہ خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ دعا بھی کریں اور سب سے پہلے اپنے انتشار کی بیخ کنی کریں.اللہ تعالیٰ بعد کی مثبت صلاحیتیں بھی آپ کو عطا فرمائے.آمین

Page 342

Page 343

خطبات طاہر جلد 16 337 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء نفس مطمئنہ ہی ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں احمدیت پر گہرا کامل یقین ہوتا چلا جائے گا.( خطبہ جمعہ فرمودہ 16 رمئی 1997ء بمقام بیت النور.ہمبرگ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی.الَّذِينَ آمَنُوا وَ تَطْمَبِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَيِنُ الْقُلُوبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ طُوبي لَهُمْ وَحُسْنُ مَابِ (الرعد: 29، 30 ) پھر فرمایا: آج کا یہ خطبہ میں ہمبرگ سے دے رہا ہوں اور یہاں سے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے یعنی انٹر نیشنل احمد یہ ٹیلی ویژن کے ذریعے تمام دنیا میں یہاں سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے.چونکہ جس کمپنی سے انہوں نے بات کی تھی اس کی دین میں کچھ خرابی ہو گئی تھی اس لئے بجائے وقت پر شروع ہونے کے تقریباً پندرہ منٹ بعد یہ خطبہ شروع ہو رہا ہے.جماعت احمد یہ جرمنی کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ مختلف پہلوؤں سے ترقی کی توفیق عطافرمارہا ہے اور دن بدن ان کے کام بڑھتے جارہے ہیں اور کام کرنے والے ہاتھ بھی اللہ کے فضل سے بڑھ رہے ہیں یعنی بہت سے ایسے نوجوان یا بڑے چھوٹے جو پہلے با قاعدہ.جماعت کے کاموں میں حصہ نہیں لیا کرتے تھے.اب ایک غیر معمولی قوت کے ساتھ جماعت کی

Page 344

خطبات طاہر جلد 16 338 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء طرف کھینچے چلے آرہے ہیں اور کام کرنے والوں کی تعدادرات دن بڑھ رہی ہے لیکن ابھی تربیت کی بہت ضرورت ہے اور ابھی انفرادی طور پر ہر شخص کے تقویٰ کے معیار بڑھانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ کام کرنے والے بہر حال خلوص سے آتے ہیں، دنیا کی لذتیں چھوڑ کر ، دنیا کی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر جب وہ دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں تو یہی ایک بہت بڑی بات ہے جوان کے تقویٰ یا نہاں تقویٰ کو ظاہر کرتی ہے.تقویٰ بھی نہاں ہوتا ہے اور ظاہر ہوا کرتا ہے.نہاں تقویٰ وہ بیج ہے تقویٰ کا جس کے نتیجے میں انسان دنیا سے منہ موڑتے ہوئے اللہ کے کاموں کی طرف توجہ شروع کرتا ہے لیکن اس کے بڑھنے میں، اس کی نشو و نما پانے میں ابھی بہت سی منازل باقی ہیں.پس اس پہلو سے میں نے یہ دعا کی اور آپ کو بھی اس دعا میں شامل کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت جرمنی کے تمام کارندوں کو پہلے سے بڑھ کر تقویٰ عطا فرمائے اور ان کا تقویٰ ان کے اعمال میں ظاہر و باہر ہو اور بہت سی ایسی خرابیاں اور کمزوریاں جو انفرادی طور پر جماعتوں میں پائی جاتی ہیں یا اجتماعی طور پر جماعتوں میں پائی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو دور فرما دے.پس كَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا (آل عمران : 194) کی دعا ہمیشہ جاری رہنی چاہئے کہ اے ہمارے رب ہماری برائیوں کو ہم سے دور فر ما تا چلا جا اور فرما تارہ.کل جو پروگرام ہوئے تھے ان سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ بڑھتے ہوئے کاموں کے نتیجے میں غیروں کا رجحان بڑی تیزی سے جماعت کی طرف ہورہا ہے اور کام بعض دفعہ اتنے پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے وہ سنبھالے نہیں جا رہے.مثلاً کل جماعت کی توقع تھی کہ سو ڈیڑھ سو افراد آئیں گے.یعنی زیادہ سے زیادہ ان کا یہ خیال تھا.کچھ فرانسیسی بولنے والے، کچھ تر کی بولنے والے، کچھ عربی بولنے والے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو غیر از جماعت اور غیر مسلم کل شامل ہوئے ہیں ان کی تعداد تین سو سے بھی اوپر تھی اور ان میں مختلف زبانوں کے بولنے والے اصرار کر رہے تھے کہ ہمیں بھی موقع دیا جائے، ہمارے سوالات کے بھی جوابات ملنے چاہئیں.نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً سوا دو گھنٹے کی مجلس کے باوجو دسب ہی پیاسے معلوم ہورہے تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں کچھ اور موقع ملنا چاہئے.پس میں نے سوچا کہ در اصل اب یہاں کے لئے صرف ایک ایسی مجلس کافی نہیں جس میں چار پانچ زبانوں والے شامل ہوں بلکہ یہاں بھی اور جرمنی کے دوسرے حصوں میں بھی اب زبانوں

Page 345

خطبات طاہر جلد 16 339 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997 ء کے اعتبار سے الگ الگ مجلسیں بنانی پڑیں گی.جیسا کہ ہم نے پہلے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ بوسنین بولنے والوں کی الگ مجلس لگا کرے اور البانین بولنے والوں کی الگ مجلس لگا کرے.تو کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیلتے جا رہے ہیں اور ان کاموں کے ساتھ ساتھ مرکزی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جارہی ہیں اور یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کیا میں ان سب ذمہ داریوں کو ادا کر سکتا ہوں یا نہیں مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو احمد یہ انٹر نیشنل مسلم ٹیلی ویژن عطا فرمایا ہے اس کے ذریعہ بہت سے بوجھ ہلکے ہو جاتے ہیں.چنانچہ کل ہی میں نے یہاں کے ایسے احباب کو جو مدعو تھے مگر سوال نہ کر سکے ان سے درخواست کی اور اکثر کے چہروں پر اس کے نتیجے میں چمک دیکھی کہ آپ اپنے تمام سوالات لکھ کر MTA کولندن بھجوا دیں اور ہم انشاء اللہ سب کے جوابات آپ کو دیں گے اور آپ ہی کی زبانوں میں ان کے جوابات کو نشر کیا جائے گا لیکن علاوہ ازیں مقامی طور پر ہمیں بہت سے جواب دینے والوں کی ضرورت ہے اور یہ ممکن نہیں رہا ہمیشہ جرمنی میں جہاں میں جاؤں وہیں الگ الگ مجلسیں لگیں.آپ میں سے کثرت سے ایسے آدمی اب تیار ہونے چاہئیں جو خود مجالس سوال و جواب لگائیں اور پورے اطمینان کے ساتھ، دعا کرتے ہوئے مختلف سوالات کے جواب دینا سیکھیں.سیکھیں“ اس لئے میں نے کہا کہ جواب دینے کے دوران ہی ان کی طالب علمی کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور بظاہر وہ استاد بن کر جواب دے رہے ہوتے ہیں مگر ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ان کو سکھاتا چلا جاتا ہے اور یہ ایک میرا وسیع تجربہ ہے جس میں میں آپ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ بہت بڑے علم کی تیاری کے بعد آپ کو غیروں کے سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے کی توفیق مل سکتی ہے.بسا اوقات انسان ایک سوال سے بالکل ناواقف اور اس بات سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے کو کیسے مطمئن کیا جائے اور اچانک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دل میں ڈالتا ہے اور جو خدا دل میں ڈالتا ہے وہی بات درست نکلتی ہے.پس یہ سلوک کسی ایک شخص سے نہیں ہے ساری جماعت سے ہے اور جماعت احمدیہ کے وقار کی خاطر اللہ تعالیٰ نے یہ اپنی رحمت کا سلسلہ جاری فرمایا ہے.چنانچہ بہت سے احمدی جو کم علم رکھنے کے باوجود وقت کی مجبوری کے پیش نظر مختلف دلچسپی رکھنے والوں کے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں بسا اوقات مجھے

Page 346

خطبات طاہر جلد 16 340 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء لکھتے ہیں کہ اس طرح ہم تو بغیر تیاری کے تھے، کوئی علم نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں وہ بات سکھا دی جس کے نتیجے میں پوچھنے والوں کے دل مطمئن ہوئے.پس جماعت جرمنی کے بڑھتے ہوئے کام پر گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے ہی یہ کام سنبھالنے ہیں وہی ہمیشہ سنبھالتا چلا آیا ہے اور اس فکر کی ضرورت نہیں کہ اب ہم کیا کریں گے.کچھ آپ میں کام کرنے والے پہلے سے بڑھ کر آگے آئیں گے، جو آگے آچکے ہیں اللہ ان کی تربیت فرمائے گا اور ان کو پہلے سے بہتر ان بڑھتے ہوئے کاموں کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے گا لیکن یہ کام تو اب پھیلنے ہی پھیلنے ہیں اور انہیں بڑھنا ہے.اس خوف سے کہ ہم ان کو سنبھال سکیں گے کہ نہیں ، آپ نے اپنے قدم نہیں روکنے اور یہی میری نصیحت دنیا بھر کی جماعتوں کو ہے جو اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں کہ بعض دفعہ وہ منتظمین جو مختلف جماعتوں میں کاموں کے سر براہ ہیں حیران رہ جاتے ہیں کہ اب ہم کیا کریں گے اور آئندہ ہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے.کیا اپنے کام روک لیں تا کہ جو لوگ ہاتھ آئے ہیں ان کو سنبھال سکیں یا اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہیں.یہ سوال ہے جو مختلف امراء اور مربیوں کے ذہنوں میں ابھر رہا ہے لیکن میں نے ان کو جو ترکیب بتائی، جو بات سمجھائی وہ جہاں فی الحقیقت پوری طرح عمل میں آئی ہے وہاں ان کے سارے مسئلے خدا تعالیٰ کے فضل سے حل ہوئے بلکہ بہت سی نئی باتیں ان کو ایسی سمجھ آئیں جن کی طرف پہلے خیال نہیں گیا تھا.میں نے جماعتوں کو مثلاً افریقہ کی جماعتوں کو جہاں بہت تیزی سے جماعت پھیل رہی ہے، کئی ممالک ایسے ہیں جہاں اس وقت تین لاکھ کے لگ بھگ احمدی ہو چکے ہیں اور آئندہ ان کی توقع ہے کہ کم و بیش دو لاکھ بقیہ وقت میں اور مل سکتے ہیں.تو جہاں پانچ پانچ لاکھ کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی جارہی ہو وہاں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ منتظمین کا کیا حال ہوگا جنہوں نے ان کو سنبھالنا ہے اور پھر آگے اور بھی قدم بڑھانا ہے.حسن اتفاق یہ ہے کہ یہ سال مباہلے کا سال ہے اور اس مباہلے کے سال میں دشمن نے یہ چیلنج دیا تھا اور بڑی بڑی مساجد میں دعائیں کروائی گئیں، جرمنی میں بھی دعائیں کرائی گئیں کہ اے خدا یہ سال احمدیت کی ہلاکت کا سال ثابت ہو ، سارے مشن بند ہو جائیں، جو ترقی ہو رہی ہے وہ ساری قدم روک لے اور تو ایسا کر کے ان کے قدم واپس ہونے شروع ہو جائیں اور ہر جگہ سے احمدیت کی

Page 347

خطبات طاہر جلد 16 341 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء صف لیٹی جائے.یہ دعائیں ہیں جو ایک جمعہ کا دن منا کر انگلستان کے اکثر علماء نے مل کر اپنی مساجد میں مانگیں اور جرمنی کی مساجد میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا ئیں منگوائی گئیں.غالباً جرمنی اس لئے کہ اب انگلستان کے بعد سب سے زیادہ خطرہ جرمنی سے ہے اور ان کو ڈر ہے کہ یہاں کی جماعت اس تیزی سے پھیل رہی ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ان کی کچھ پیش نہیں جائے گی.بہر حال یہ دعائیں وہ مانگ چکے ہیں اور مانگ رہے ہیں لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کچھ دعاؤں کی توفیق بخش رہا ہے اور ان کی قبولیت کے وعدے فرما رہا ہے اور قبولیت کے نشان دکھا رہا ہے.پس وہ تعداد جو گزشتہ سال سولہ لاکھ کے قریب تھی سارے سال میں اور ا کثر حصہ اس کا سال کے آخر پر ہوا کرتا ہے آخری چند مہینے میں ، یہ آج تک تقریباً اتنی ہی تعداد کو پہنچ چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آئندہ جو امیدیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرگز بعید نہیں کہ اللہ تعالی گزشتہ سولہ لاکھ کو اس دفعہ دگنا کر دے.تو سوال یہ اٹھتا رہا ہے کہ ہم ان کو کیسے سنبھالیں گے جو جواب میں نے ان کو سکھایا اور آپ کو بھی سکھایا کئی دفعہ جماعت جرمنی کو ہدایت کی ، اب پھر میں اس کو دہرا رہا ہوں.دنیا میں جماعتوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ہے کہ میں نے ان جماعتوں کو ہدایت کی کہ اب آپ نے تربیت کے لئے الگ انتظار نہیں کرنا.دو قسم کی ٹیمیں بنائیں ایک تبلیغی ٹیم جو تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا شروع ہو اور دوسری تربیت کی ٹیم ، جو جو لوگ احمدیت میں داخل ہوں ان کو سنبھالنے پر مقرر ہوں اور ان کو کام اس طرح کرنا ہوگا کہ فوری طور پر ان علاقوں میں جہاں جماعت پھیلی ہے اچھی نیک فطرت روحوں کی تلاش کریں اور وہاں تربیتی کلاسز لگائیں اور ان کی تربیت کی کلاسوں میں احمدیت کے بنیادی عقائد بھی داخل ہوں اور آئندہ تبلیغ کیسے کرنی ہے یہ بھی تربیتی کلاس کا حصہ ہو اور نیک دل، نیک فطرت لوگ جو آگے بڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں یا ہمت رکھتے ہیں ان کو شامل کریں اور ان میں آئمہ مساجد کو بھی داخل کریں، ان میں نوجوانوں کو جن میں جذبہ ہے ان کو شامل کریں اور ان کی کلاس کا امتحان یہ ہوگا کہ جب وہ کلاس ختم ہو تو اپنے علاقے میں مزید تبلیغ کے لئے پھیل جائیں اور پہلے تو جواحمدی ہوئے ہیں ان کو خودا پنی زبان میں تبلیغ کریں اور سمجھائیں کہ احمدیت کیا ہے.یہ اس لئے ضروری ہے کہ عمومی احمدیت کی سچائی کس طرح جلوہ دکھانے لگی ہے کہ بڑی

Page 348

خطبات طاہر جلد 16 342 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء تعداد میں لوگ ایسے بھی ہیں جن کو تفصیل سے علم نہیں یہاں تک کہ اس نئے تربیتی نظام کے تابع مجھے یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ بہت سے آئمہ مساجد جو احمدی ہوئے تھے احمدی ہونے کے باوجودان کو احمدیت کا پورا پتا نہیں تھا.ایک عام جذبہ سا ہے جو پھیل رہا ہے جیسے دن چڑھ جائے تو مختلف کونوں کھدروں میں مختلف جگہوں میں جہاں سائے پڑے ہیں وہاں بھی روشنی اثر دکھانے لگتی ہے تو ان علاقوں میں احمدیت کا سورج تیزی سے طلوع کر رہا ہے کہ اب دیوار کے پیچھے اندھیرے بھی اندھیرے نہیں رہے وہاں بھی روشنی کچھ نہ کچھ نفوذ کر گئی ہے.پس اس وجہ سے پوری طرح احمدی عقائد، احمدی طرز عمل کا علم نہ ہونے کے باوجود یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت میں داخل ہونے کا ایک رجحان رکھتے ہیں.تربیتی کلاس جو میں نے بیان کی یا تربیتی کلاسیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں ان کو بتایا جاتا ہے کہ احمدیت کی حقیقت کیا ہے.غیروں سے کیا نمایاں فرق ہے.عمل میں کیا فرق پڑنا چاہئے.روز مرہ کی عبادت میں جو بعینہ آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہے کیسے جان ڈالی جائے ، کیسے اس میں روح پیدا کی جائے، کس طرح آپ میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق قائم کرے اور دعاؤں کے ذریعہ اس تعلق کو بڑھائے اور محسوس کرے کہ وہ زندہ ہو گیا ہے.یہ امور جب تربیتی کلاس کے ذریعہ ہم نے ان علاقوں میں نئے آنے والے احمدیوں کو بتانے شروع کئے ، ان کو سمجھانے شروع کئے تو حیرت انگیز انقلاب پیدا ہوا ہے.بہت سے آئمہ کلاس کے بعد بڑے جوش سے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ہمیں تو اب پتا لگا ہے کہ ہم نے کیا حاصل کیا ہے اور اب ہمارا وعدہ ہے کہ ہم کثرت کے ساتھ اپنی قوم میں جا کر گھر گھر دروازے کھٹکھٹائیں گے اور ان کو بتائیں گے کہ احمدیت کتنی بڑی نعمت ہے اور اب جو تیزی آئی ہے تبلیغ میں یہ ان کی وجہ سے بھی آئی ہے.صرف پرانے مبلغین نہیں ہیں جو کام کر رہے ہیں.نئے آنے والوں کی جب تربیت ہوتی ہے تو ان میں ایک نیا جوش پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے اپنے علاقے میں اپنی اپنی قوموں کو احمدیت کا پیغام بڑی تیزی سے پہنچاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ سلسلے اب تیز سے تیز تر ہوتے چلے جارہے ہیں.یہ وہ امور ہیں جن کی جماعت جرمنی کو بھی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی جگہ

Page 349

خطبات طاہر جلد 16 343 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء جماعت جرمنی ایسا کر بھی رہی ہے.کئی ایسے گروہ ہیں جو زبانوں یا قومی لحاظ سے جرمنی میں ایک تشکل اختیار کر چکے ہیں.بہت سے ان میں سے اکٹھے بھی ہیں.ان میں تبلیغ کے نتیجے میں جتنے بھی احمدی ہوتے ہیں لازم ہے کہ ان کی فوری روحانی تربیت بھی ساتھ ساتھ کی جائے.ان میں سے ہر ایک کو محسوس ہو کہ وہ پہلے مردہ تھا اب زندہ ہو چکا ہے.ہر ایک یہ محسوس کرے کہ اس کا خدا سے ایک زندہ تعلق قائم ہو گیا ہے.یہ چیزیں ہیں جو حقیقت میں انسان کو نفس مطمئنہ عطا کرتی ہیں.کل کی جو یہاں سوال و جواب کی مجلس ہوئی تھی اس کے بعد ایک اردو میں سوال و جواب کی مجلس ہوئی وہاں جو سوالات اٹھائے گئے ان میں سے ایک نفس مطمئنہ کے متعلق بھی تھا.چنانچہ میں نے آج ایک ایسی آیت کا انتخاب کیا جو اطمینان قلب کے مضمون پر روشنی ڈالتی ہے اور اس مضمون کا جو میں مضمون بیان کر رہا ہوں اس سے ایک گہرا تعلق ہے.نفس مطمئنہ ہی ہے جو بالآخر فتح پائے گا نفس مطمئنہ ہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں احمدیت کے اوپر یقین گہرا اور کامل ہوتا چلا جائے گا اور ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن پر کبھی کوئی تزلزل نہیں آسکتا.ان کے واپس ہٹنے یا پیچھے جانے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.نفس مطمئنہ جسے نصیب ہو جائے اسے سب کچھ نصیب ہو گیا.پس کل کی مجلس میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ بعض اوقات انسان محسوس کرتا ہے کہ اسے نفس مطمئنہ عطا ہو چکا ہے مگر بعض دفعہ کچھ دیر کے بعد لگتا ہے کہ نہیں ،تو وہ کیا پہچان ہے کہ ہم یقین کر سکیں کہ ہمیں نفس مطمئنہ مل گیا ہے.اس کے علاوہ کچھ اور سوال تھے مثلاً جو آج کل وظائف وغیرہ جاری ہیں، ٹونے ٹوٹکوں کے ذریعے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیاوی اور دینی مقاصد حاصل کر لیں گے ان کے متعلق بھی بعض عورتوں کی طرف سے سوالات تھے.تو اب میں سمجھتا ہوں یعنی اس وقت میں نے کل ہی سوچا تھا کہ آج کے جمعہ میں میں ان دونوں امور کی طرف توجہ دلاؤں گا تا کہ جماعت جرمنی میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ آج آپ کی وساطت سے باقی دنیا کے سامنے بھی رکھے جائیں اور جہاں تک مجھ میں توفیق ہے میں ان کا جواب آپ کو دے سکوں.سب سے پہلے نفس مطمئنہ کی بات ہے قرآن کریم کی وہ آیت جو میں نے منتخب کی ہے وہ فرماتی ہے: الَّذِينَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے

Page 350

خطبات طاہر جلد 16 344 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997 ء ہیں.یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ فرمایا گیا.الَّذِينَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ الله اور پھر یہ فرمایا گیا کہ ذکر اللہ سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں.تو یہ دو باتیں ہیں تو جولوگ ایمان لاتے ہیں اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان پانا چاہئے ، یہ مضمون ہے جسے اطمینان قلب کی حقیقت سمجھنے کے لئے سمجھنا ضروری ہے.ہر انسان یہ کہ سکتا ہے کہ اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پاتے ہیں مگر کتنے ہیں جو اللہ کے ذکر سے واقعہ دلوں کا اطمینان حاصل کرتے ہیں.پس اس آیت میں جو دو بظاہر الگ الگ باتیں کی گئی ہیں وہ ہیں ہی الگ الگ.مراد یہ ہے کہ اگر چہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان پانا چاہئے مگر کم ہیں جواللہ کے ذکر سے دلوں کا اطمینان پالیتے ہیں.پس وہ جو اللہ کے ذکر سے دلوں کا اطمینان پالیتے ہیں وہی ہیں جنہیں نفس مطمئنہ عطا ہوتا ہے.اب یہ جو مسئلہ ہے اسے عام زبان میں جسے سب لوگ سمجھ سکیں کچھ کھول کر بیان کرنا ضروری ہے.ہر شخص کو دل کا اطمینان نصیب ہونے کا ایک تجر بہ ضرور ہے، ہر شخص کا دل کسی نہ کسی چیز سے اطمینان پاتا ہے.اب آپ نے کوئی مقصد اپنی زندگی کا بنارکھا ہے، کسی کو دولت چاہئے، کسی کو اچھا مکان چاہئے، کسی کو اچھی سواری چاہئے ،کسی کو اچھا گھر چاہئے یا گھر سے باہر کی لذتیں درکار ہیں.یہ ساری خواہشات ہیں جن کے پورا ہونے سے دل اطمینان پاتا ہے اور بظاہر یہ بات درست نہیں لگتی کہ اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ خبردار صرف اللہ کا ذکر ہے جس سے دل اطمینان پاتا ہے.انسان اپنے روزمرہ کی سوچ میں اور روزمرہ کے تجربے میں یہ بات دیکھ رہا ہے کہ جو چیز اسے چاہئے ، جو چیز وہ چاہتا ہے، جس کی اس کو طلب ہے جب مل جاتی ہے تو اسے اس میں اطمینان نصیب ہو جاتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کیا مطلب رکھتا ہے کہ اللہ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے دل کو طمانیت نصیب نہیں ہو سکتی.ایک یہ پہلو ہے جس کو آپ خوب اچھی طرح غور کر کے سمجھ لیں.دنیا میں جتنی بھی خواہشات آپ رکھتے ہیں، ہر قسم کی خواہشات ، اس میں نیکی بدی ہر چیز کی خواہش ہے اس کے پورا ہونے پر آپ کا دل مطمئن ہوتا ہے.یہ آپ کا تجربہ ہے لیکن اس کے ساتھ ایک اور تجربہ بھی ہے کہ کچھ دیر دل اس پر مطمئن رہتا ہے پھر مطمئن نہیں رہتا پھر مزید کی ہوس دل کو بے چین کر دیتی ہے.جو لوگ تاجر ہیں ان کو اگر اپنی تجارت کی زندگی کے آغاز کے ساتھ موجودہ کامیابیوں کا مقابلہ کرنے کی توفیق ملے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ وہ جب شروع شروع میں

Page 351

خطبات طاہر جلد 16 345 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء بیچارے تجارتیں کرتے پھرتے تھے یہاں سے کچھ کپڑا خریدا اوہاں جا کے بیچا تو اس وقت تمنائیں بھی چھوٹی تھیں.ان کا دل چاہتا تھا کسی طرح اتنا منافع ہونا شروع ہو جائے کہ میں اپنے بال بچوں کو اچھی زندگی دے سکوں اور جب وہ نصیب ہوا تو تجارت کے اور رستے ان کے سامنے کھل گئے اور بال بچوں کو اچھی زندگی دینا مقصود نہ رہا بلکہ اس پر دل کو پورا اطمینان باقی نہ رہا.اب خواہش یہ ہے کہ اس تجارت کو بڑھا کر بعض چیزوں کے کارخانے کیوں نہ لگالوں اور جنہوں نے کارخانے لگائے ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ان کارخانوں کو انٹر نیشنل تجارت یعنی تمام دنیا میں تجارتوں کے ذریعے اتنا فروغ دوں کہ میں اپنی اس پروڈکشن میں ، جو کاروبار میں کر رہا ہوں اس میں اور زیادہ چھکوں اور جو اور زیادہ چمکتے ہیں پھر اور زیادہ بڑے ہاتھ ڈالنے لگتے ہیں یہاں تک کہ بسا اوقات شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ تمہیں سچا اطمینان اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک لاکھوں مارک تم بینک سے قرضہ لے کر اپنی تجارت کو اور زیادہ بڑھانہ لو.چنانچہ وہ نفس مطمئنہ کی تلاش میں کہ شاید وہاں جا کر میرے دل کو اطمینان نصیب ہو لاکھوں مارک قرضہ اٹھا لیتا ہے اور پھر ایسا دھکہ لگتا ہے تجارت کو کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے لیکن جس کے ہاتھ سے سب کچھ نکلے وہ جانتا ہے کہ دنیا کا اطمینان، اطمینان کی آخری منزل نہیں.جو دنیا کی طلب ہے اس میں اطمینان کو کبھی بھی آخری منزل نصیب نہیں ہوا کرتی اور انسان اس پر ٹھہر نہیں جایا کرتا بلکہ اطمینان کی نئی نئی راہیں اس کو دکھائی دینے لگتی ہیں کہ ان راہوں پر چلوں گا تو مجھے اطمینان نصیب ہوگا اور ساری زندگی اطمینان کی تلاش میں گزر جاتی ہے.ہر منزل کو اطمینان سمجھتا ہے مگر ہر منزل پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اطمینان کی منزل اس سے آگے تھی.پس یہ جو خیال ہے عامۃ الناس کا کہ ہم تو روز مرہ کی زندگی میں مادہ چیزوں کے حصول پر بھی اطمینان قلب حاصل کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ وہ اگر آیت کے اس حصے پر غور کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ ان کا اطمینان کا تصور جھوٹا تھا.دنیا کی پیروی سے، دنیا کو حاصل کرنے کے نتیجے میں بھی اطمینان نصیب نہیں ہوتا مگر بہت سے ایسے ہیں جن کو دنیا حاصل بھی نہیں ہوتی.وہ بیچارے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں، زور لگاتے ہیں مگر کچھ ہاتھ نہیں آتا.بہت سے ایسے ہیں جو کچھ ہاتھ میں تھا وہ بھی گنوا بیٹھتے ہیں.بہتوں کی تجارتیں

Page 352

خطبات طاہر جلد 16 346 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997 ء اس طرح ڈوبتی ہیں کہ اپنے ماں باپ سے کمائی ہوئی جائیدادیں جو ان سے ورثے میں پائی تھیں وہ بھی غرق کر دیتے ہیں تو اطمینان ہے کہاں؟ حاصل میں بھی اطمینان کوئی نہیں اور لاحاصل میں بھی کوئی اطمینان نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ غور سے سنو اس بات کو ، سمجھو کہ اللہ کے ذکر میں اطمینان ہے اور اسی میں اطمینان ہے.مگر اللہ کے ذکر میں اطمینان تب ہو سکتا ہے جب اللہ کا ذکر اچھا لگے.اگر اللہ کا ذکر اچھا نہ لگے تو اس میں کیسے اطمینان ممکن ہے.پس یہ ایک دوسری منزل ہے جو ایک مشکل منزل ہے جس کو طے کرنا آسان نہیں یعنی اللہ سے کیسے اتنا دل لگایا جائے کہ اس کے ذکر سے اطمینان نصیب ہو اور جب تک یہ نہ ہو انسان کے دل کو اطمینان نہیں مل سکتا.فرمایا الَّذِينَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے طمانیت پالیتے ہیں.ان کے ذکر کے بعد یہ فرمایا أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ.پھر فرماتا ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ طُوبى لَهُمْ وَحُسْنُ مَابِ - یقینا یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پھر نیکیوں میں آگے بڑھنے لگے عَمِلُوا الصّلِحُتِ نیکیاں کرنے لگے طوبي لَهُمُ ان کے لئے ایک ایسا بلند مقام ہے جس پر رشک کی نظریں پڑتی ہیں.طوبیٰ ایسے مقام کو کہتے ہیں جسے لوگ رشک سے دیکھتے ہوں وَحُسْنُ هَابِ اور بہت ہی خوبصورت لوٹ کر جانے کی جگہ ہے.اس ساری آیت کو میں پھر مختصراً آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ اس سوال کا جواب ملے کہ ہمیں پتا تو لگے کہ اطمینان قلب یا وہ حالت جسے نفس مطمئنہ کہتے ہیں ہمیں نصیب بھی ہوا ہے کہ نہیں.پہلی بات تو اس میں یہ ہے کہ اگر اللہ کے ذکر سے واقعی دل مطمئن ہوتا ہے تو لازماً اس کے نتیجے میں انسان کا دل دنیا سے رفتہ رفتہ ہمتا چلا جانا چاہئے.کیوں جس چیز میں اطمینان ہو انسان اس کو اور چاہتا ہے.پس ہرانسان اپنے دل کو جانچ سکتا ہے، پہچان سکتا ہے کہ مجھے نفس مطمئنہ نصیب ہوا تھایا وہم تھا کہ نفس مطمئنہ مل گیا ہے.نفس مطمئنہ اگر ایک دفعہ نصیب ہو جائے تو پھر کبھی چھوڑ کر نہیں جاتا اور اطمینان میں یہ بات داخل ہے کہ وہ حالت ٹھہر جاتی ہے وہ آنی جانی نہیں رہا کرتی.پس اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی باتوں میں اطمینان نہیں ہے کیونکہ ان میں کوئی قرار نہیں.کوئی خواہش پوری ہو جائے تب بھی قرار نہیں کیونکہ اس سے اگلی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی خواہش نہ پوری ہو تو تب بھی قرار نہیں.

Page 353

خطبات طاہر جلد 16 347 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء نفس مطمئنہ ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جن کو اللہ کے ذکر پر قرار آجاتا ہے اور اللہ کا ذکر اتنا پیارا لگنے لگتا ہے کہ غیر کے ذکر سے نظریں پھرنے لگتی ہیں اور اللہ کے ذکر پر آ کر نظریں ٹھہر جاتی ہیں.اور صبح و شام ، رات دن، اٹھتے بیٹھتے ، خدا تعالیٰ کے ذکر ، اس کے احسانات ،اس کے حسن واحسان کا تصور انسان کے دل پر چھا جاتا ہے اور یہ چیزیں ایسی پیاری لگتی ہیں کہ پھر دوسری چیزوں کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا یا دیکھنے کو دل چاہے بھی تو وہ بھی اللہ کے احسان کے طور پر، اس سے زیادہ ان میں براہ راست دلچسپی نہیں رہتی.یہ وہ کیفیت تھی نفس مطمئنہ کی آخری حالت جو حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کو نصیب ہوئی.چنانچہ آپ کے تعلق بھی اپنی بیٹیوں سے، اپنی بہنوں، اپنے عزیزوں، رشتے داروں یعنی بہن جو رشتے میں بہنیں بنتی تھیں ان سب سے تھے مگر اس وجہ سے تھے کہ اللہ میرے ان تعلقات کو پیار سے دیکھ رہا ہے کیونکہ میں خدا کی خاطر بنی نوع انسان کے تعلقات کا حق ادا کر رہا ہوں اس بناء پر آپ کو دنیا کے رشتوں سے منہ موڑنا نہیں پڑا تعلق تو ڑنا نہیں پڑا بلکہ دنیا کے رشتے بھی قائم رہے مگر اس لئے قائم رہے کہ اللہ چاہتا تھا کہ وہ قائم رہیں.پس آپ کی دنیا بھی آپ کا دین بن گئی اور اطمینان قلب کی اس سے بہتر حالت ہو ہی نہیں سکتی کہ دنیا بھی نصیب ہو اور دین بھی نصیب ہو مگر دنیا دین کے تابع ہو جائے اور صرف اس وقت اچھی لگے جب دین کے تابع ہو، جب دین سے ذرا بھی دنیا نے کنارہ کیا ، رخ موڑ او ہیں وہ دنیا بری لگنے لگ گئی.پس یہ عجیب تعلیم ہے جو قرآن نے ہمیں عطا فرمائی ہے.ہرگز قرآن یہ نہیں کہتا کہ ہندو سادھو کی طرح دنیا کو تج کر اس سے منہ موڑ کر اپنی ایک الگ دنیا بسا لو.قرآن یہ فرماتا ہے کہ تمہیں اطمینان قلب اللہ کی یاد میں نصیب ہونا چاہئے اور اللہ کی یاد پھیلتے پھیلتے خدا کی مخلوق پر بھی چھا جاتی ہے.جب اللہ یاد آتا ہے تو اپنے حسن و احسان کے حوالے سے یاد آتا ہے.اللہ کی یاد جب پیاری لگتی ہے تو اس کی تخلیق کے حوالے سے وہ یاد پیاری لگتی ہے.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَ قُعُودًا وَ عَلى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (آل عمران: 192) الله کو یادرکھنے والوں کے لئے لازم ہے کہ اللہ کی صفات کی جلوہ گری کو یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح بنی نوع انسان میں ظاہر ہورہی ہیں، حیوانات میں ظاہر ہورہی ہیں، کائنات میں ظاہر ہو رہی ہیں، زمین و آسمان کی تخلیق میں اور کائنات کے ازل سے لے کر اب تک مسلسل ترقی کرتے چلے

Page 354

خطبات طاہر جلد 16 348 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء جانے میں خدا تعالیٰ کی جو صفات ظاہر ہو رہی ہیں ان پر نظر ڈالیں جتنی اس کی نظر وسیع ہوتی چلی جائے گی اتنا ہی اللہ کے ذکر سے اس کا دل زیادہ اطمینان پاتا چلا جائے گا.اور اسی طمانیت کے نتیجے میں اللہ کے ساتھ اللہ کی یادوں کے ساتھ دل کا قرار پکڑنا اس کی مخلوق سے بھی ایک محبت پیدا کر دیتا ہے.اس وجہ سے نہیں کہ مخلوق سے ذاتی تعلق ہے بلکہ اس لئے کہ اللہ کی مخلوق ہے.اب یہ دو تعلق بظاہر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے مگر بہت بڑا فرق ہے ان میں.ایک انسان جب خدا کی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے اور براہ راست مخلوق سے تعلق رکھتا ہے تو مخلوق کے تعلق میں اسے خدا نہیں یاد آتا مگر اللہ سے یعنی خالق سے تعلق رکھتا ہے تو مخلوق ضرور یاد آتی ہے.یہ وہ بنیادی فرق ہے طمانیت قلب اور طمانیت قلب کے نہ ہونے کا.اب اس بات کو پھر دوبارہ غور کر کے دیکھیں تو آپ کو جو میں سمجھانا چاہتا ہوں آسانی سے سمجھ آجائے گا.اللہ تعالیٰ سے اگر پیار ہے تو ناممکن ہے کہ خدا کی صفات جب اپنے جلوے دکھائیں تو ان سے پیار نہ ہو کیونکہ خدا تو صفات کا نام ہے اور صفات کی جلوہ گری سے ہی ہم اللہ کودیکھتے ہیں ورنہ اللہ کی ذات تو ایک مبہم سی انہونی سی چیز ہو جائے گی جس کا صرف نام ذہن میں ہوگا اس سے زیادہ ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.اکثر دنیا کی خرابیاں اسی وجہ سے ہیں کہ اللہ کا نام ایک دل میں موجود ہے یا ذہن میں ایک تصویر سا ہے مگر اس کی صفات کی جلوہ گری کا کوئی تصور نہیں.اب آپ کے دماغ میں لفظ پھول آجائے تو پھول کا تصور کر کے آپ کو خوشبو تو نہیں آئے گی.اگر آپ کے دماغ میں لفظ پھول آجائے پھول کا تصور کر کے اس کے رنگ تو نہیں آپ کو پیارے لگیں گے.محض ایک خیال ہے.تو بہت سے لوگ جو بظاہر مذہبی ہیں بظاہر اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ کی صفات پر اس سے زیادہ ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ ایک ان دیکھے، ان سے پھول پر آپ کو ایمان ہے.ہوگا کہیں اس چمن میں کھلا ہوا.کسی صحرا میں لالہ بھی اگ جاتا ہے آپ کو اس سے کیا مگر وہ پھول جو آپ کے قریب آجائے ، جسے آپ کی آنکھیں دیکھنے لگیں، جس کی خوشبو کو آپ کا ناک سونگھنے لگے جس کی نمس انگلیوں کو پیاری لگے، وہ پھول اور پھول کا تصور دیکھیں کتنے مختلف ہیں.پس اللہ کی یاد دل کو اس وقت اطمینان بخشتی ہے جبکہ اس یاد کا پھول آپ کی گودی میں آجاتا ہے، آپ کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے، اس کی خوشبو آپ کے ناک تک پہنچتی ہے اور پھر اللہ کی یادصرف

Page 355

خطبات طاہر جلد 16 349 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء ایک گونگے پھول کی طرح تو نہیں، اس میں لحن بھی ہے، اس میں دلکش آواز میں بھی ہیں اور انسان کا سارا وجود اپنے پانچ حواس خمسہ کے ساتھ اللہ کی یاد سے بعض دفعہ اس طرح جاگ اٹھتا ہے کہ اسے ایک نئی دنیا عطا ہو جاتی ہے.مگر یہ یاد ہمیشہ صفات کے حوالے سے ہوگی اس کے بغیر ممکن نہیں.اگر صفات کے حوالے سے ہو تو آپ کو دن بدن پیاری لگے گی اور آپ کے دل کو قرار بخشے گی.اگر صفات کے حوالے سے نہ ہو تو مخلوق سے آپ کو پیار ہوگا مگر جس نے پیدا کیا تھا اس سے پیار نہیں ہوگا.اب اسی پھول کی مثال میں دوبارہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ پھول دیکھیں اور یہ نہ سوچیں کہ کس نے پیدا کیا تھا پھول کو ، دیکھیں اور سونگھیں اور یہ نہ سوچیں کہ اس میں خوشبو کیسے پیدا ہوئی تھی اور خوشبو سونگھنے کی صلاحیت ہمیں کیسے ملی.باغ میں پرندوں کی آوازیں سنیں لیکن یہ نہ سوچیں کہ پرندے جو کچھ بھی بول رہے ہیں ان میں دلکشی کیوں ہے، ان میں حسن کیوں ہے، کیوں پیاری لگتی ہیں ان کی آواز میں صبح صبح ، اور ہمارے کانوں کو کس نے یہ طاقت بخشی کہ ان آوازوں کو سن کر ان کا شعور حاصل کریں اور ان سے ایک لذت حاصل کریں.اگر یہ سب کچھ نہ سوچیں تو پھر پھول، پھول رہے گا، پرندوں کی آوازیں پرندوں کی آوازیں رہیں گی ، آپ کو ان میں دلچسپی ہوگی ، آپ عمریں گنوا دیں گے لیکن خالق کی طرف آپ کی توجہ نہیں جائے گی.محض دنیا کے حسن کی خالق سے الگ رکھ کر پیروی کرنا آپ کو اطمینان نہیں بخش سکتا.یہ وہ دنیا کی پیروی ہے جس سے انبیاء انسان کو ڈراتے چلے آرہے ہیں.ایسی پیروی، دنیا کے ایسے پیچھے پڑنا کہ دنیا اپنی ذات میں مقصود رہے اس کا خالق سے تعلق ٹوٹ چکا ہو اس دنیا کی پیروی سے انسان کو کبھی اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا.اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے سفر شروع کریں یہ سفر آخر آپ کو دنیا تک ضرور پہنچائے گا.کیسے ممکن ہے کہ رحمان خدا کا تصور باندھیں اور رحم کرنے والی ماں کا تصور ساتھ پیدا نہ ہو، کیسے ممکن ہے کہ رب خدا کا تصور باندھیں اور دنیا میں آپ کے لئے جور بوبیت کے سامان ہوئے ہیں آپ کی تربیت کے سامان، آپ کے کھانے پینے کے سامان ، ان میں تنوع ہر قسم کی ایسی باتیں جو آپ کے حواس خمسہ محسوس کر کے لذت پاتے ہیں.یہ ساری باتیں جور بوبیت سے تعلق رکھتی ہیں اگر آپ اللہ کے حوالے سے ان کو سوچیں تو ربوبیت کے سارے مظہر لازماً آپ کے سامنے رہیں گے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کا یہ

Page 356

خطبات طاہر جلد 16 350 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء مطلب نہیں ہوگا کہ آپ اللہ کی صفات بیان کرتے ہیں.وہ رب العلمین ہے اور عالمین کو بھول جاتے ہیں اور ان کی ربوبیت سے اپنا تعلق توڑ لیتے ہیں.یہ جاہلانہ تصور بعض مذاہب میں پیش کئے جاتے ہیں.جن کا خدا سے تعلق ٹوٹ چکا ہے کہ ہر چیز سے اپنا تعلق تو ڑ لو یہ تمہاری نجات کا موجب ہوگا ، یہ اطمینان کا موجب ہوگا.ہرگز اطمینان ہر چیز سے تعلق توڑنے سے نہیں بلکہ تعلق کی وجہ درست کرنے سے ہوتا ہے.اگر کسی محبوب کے پیاروں سے آپ کو پیار ہو محبوب کے حوالے سے ، تو جب تک وہ پیارے اس کو پیارے ہیں آپ کو پیارے لگیں گے.جب اس کو پیارے نہ رہیں تو کیسے آپ کو پیارے لگ سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو اٹھاتے ہوئے ایک مثال دی ہے کہ وہ شخص جو کسی سے پیار کرتا ہے اس کے بچوں سے بھی پیار کر رہا ہوتا ہے.اگر اس کے بچے اس کو دکھ دیں تو جو اس سے پیار کرتا ہے اس کا تعلق ان بچوں سے اسی طرح کٹنا شروع ہو جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ولی ہیں، جو اللہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، جن کو ہمیشہ کی طمانیت اپنے رب کی ذات میں نصیب ہوتی ہے ان کے ساتھ اللہ کا بھی ایک ایسا ہی تعلق بن جاتا ہے.پھر ان کی خاطر اللہ تعالیٰ ان سب سے دشمنی کرتا ہے جو ان کے دشمن ہو جاتے ہیں.ان کی خاطر اللہ تعالیٰ ان سب سے محبت کرتا ہے جو ان سے محبت کرنے لگتے ہیں.تو اب دیکھیں یہ اللہ والے لوگ یہی تو وہ ہیں جن کا دل خدا سے اطمینان پاتا ہے.مگر ان کے کہنے کی بات نہیں رہتی ان کی علامتیں دنیا میں ظاہر ہونے لگتی ہیں اور خدا تعالیٰ دنیا کی توجہ ان کی طرف پھیرتا ہے.جو ان سے پیار کرتے ہیں اللہ ان سے پیار کرنے لگتا ہے.جو ان کے دشمن ہو جاتے ہیں اللہ ان کا دشمن ہو جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مباہلے کے چیلنج دیئے تو دراصل قرب الہی کی نشانی مباہلہ بن جاتا ہے.یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر تم میرے دشمن ہو اور اب میں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا ! جو میرے دشمن ہیں تو ان کا دشمن بن کے دکھا تو پھر دیکھنا کہ خدا تعالیٰ تم سے کیا سلوک کرتا ہے.مگر بسا اوقات خدا کے تعلق والے نہیں چاہتے کہ اللہ دوسروں سے ناراضگی کا سلوک کرے.پس مباہلے کی حالت اور اس حالت میں ایک فرق ہے.آنحضرت یہ بھی مسلسل خدا کو اتنے

Page 357

خطبات طاہر جلد 16 351 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء پیارے تھے کہ آپ سے دشمنی کرنے والے خدا کے قہر کی نظر کے نیچے تھے مگر آنحضرت میر کو بنی نوع انسان سے جو رحمت کا تعلق تھاوہ خدا ہی کی رحمت کے تعلق کا ایک نشان تھا.پس آپ کے حوالے سے بنی نوع انسان پر رحم کیا جارہا تھا.اللہ تعالیٰ آپ کے دل کی رحمت کو دیکھتا تھا جو اپنے دشمنوں سے اور اس کی رحمت کے حوالے سے ان سے بھی نرمی کا سلوک فرماتا تھا.اب یہ وہ مضمون ہے اطمینان قلب کا جس کو اگر آپ سمجھیں تو آپ کو بہت خزانے مل جائیں گے بہت بڑی دولت ہاتھ آجائے گی.اللہ کو محمد رسول اللہ یر سے کیوں پیار تھا اس لئے کہ خدا نہ ہوتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفات سے پیار کیا اور خدا کی ذات کا پیار اس کی صفات کے پیار سے الگ نہیں ہو سکتا.پس یہ عجیب سی بات دکھائی دیتی ہے کہ بظاہر خدا تعالیٰ خود اپنی ہی ذات سے پیار کر رہا ہے مگر یہ پیارا ایک شیشے کے حوالے سے ہے.کوئی انسان جو بہت ہی خوبصورت ہوا سے آئینہ کا حوالہ لینا پڑتا ہے، آئینہ کا ذریعہ اختیار کرنا پڑتا ہے.آئینہ دیکھتا ہے تو پھر اپنا حسن دکھائی دیتا ہے.پس خدا کے وہ بندے جن کا دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پا جاتا ہے وہ اللہ کے لئے آئینہ بن جاتے ہیں.ان میں خدا تعالیٰ اپنے ذکر کو جلوہ گر دیکھتا ہے اور ان میں جلوہ گر دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کو اس حسن سے ایک اور قسم کا پیار پیدا ہوجاتا ہے.جو اسی کا حسن ہے مگر کسی نے عاریہ لیا ہے اپنے اوپر جاری کیا ہے.پس اگر چہ اللہ کی رحمت سب لوگوں کی خیر چاہتی ہے مگر جب اس کے بندے لوگوں کے دکھوں کے باوجود، خدا کی رحمت کو اپناتے ہوئے ان کی بھلائی چاہتے چلے جاتے ہیں تو اللہ ان کے حوالے سے ان کو معاف فرماتا ہے.اس رحمت کے حوالے سے ان کو معاف فرماتا ہے جو دنیا میں کام کر رہی ہے.اس رحمت کو توڑنے کے لئے ، اسے مجروح کرنے کے لئے دنیا ہر کوشش کرتی ہے مگر وہ اس پر قائم رہتے ہیں.ایسے خدا کے بندے اس کو اور بھی زیادہ پیارے لگنے لگتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا دل اللہ سے ایسا اطمینان پاتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے ان کے لئے الگ ہونے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.مگر اسی صورت میں ایک مباہلہ بھی ہے.جب دین کی بقاء کی خاطر ، جب دنیا کو دکھانے کے لئے کہ واقعہ یہ خدا کے بندے ہیں وہ خدا سے التجا کرتے ہیں اور خدا کے حکم پر مباہلہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں پھر ان کی رحمت دشمنوں کی راہ میں آڑ نہیں بن سکتی ، روک نہیں بن سکتی.

Page 358

خطبات طاہر جلد 16 352 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء اس وقت دشمن یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اب ہمیں ان کی رحمت سے نہیں بلکہ ان کے اللہ سے تعلق سے مقابلہ کرنا ہے.اگر خدا کا ان سے تعلق ہے تو پھر دکھا ئیں اپنا غضب ہم لوگوں پر.یہ وہ وقت ہے جب رحمت سمٹ جایا کرتی ہے اور غضب ابھرا کرتا ہے.پس ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنا چاہئے مگر ہوتا انہی کی خاطر ہے جن کے دل اللہ سے اطمینان پاتے ہیں ان کے علاوہ نہیں ہوتا.نفس مطمئنہ ہونا ضروری ہے اور نفس مطمئنہ کی ایک یہ بھی شان ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک شعر میں فرمایا: ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو ( کلام محمود : 273) اس وقت اللہ تعالیٰ کے یہ بندے خدا تعالیٰ کے غضب پر بھی راضی ہو جاتے ہیں، اس کی غیرت کی بجلی پر بھی راضی ہو جاتے ہیں، وہ اپنا حال ایک طرف رکھتے ہیں اور اپنا سب کچھ خدا کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں کہ اے خدا پھر جو تو چاہے کر ہم اسی میں راضی ہوں گے مگر اس کے باوجود ان کے اندر جو خدا کی رحمت کا ایک جاری چشمہ ہے وہ بند نہیں ہوا کرتا.یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کو کوئی انسان بیان نہیں کر سکتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا مختلف رنگ میں اسے بیان کرنے کی کوشش بھی کی.آپ سے جب دین کے دشمنوں نے مقابلے کئے اور وہ ہلاک ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض دفعہ ساری رات ان کے حق میں دعائیں کرتے گزار دیا کرتے تھے.اے خدا! بڑے بد بخت لوگ ہیں مگر کسی طرح ان کو بچالے.ان کی ہلاکت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خوشی نہیں ہوتی تھی ، خدا کا نشان پورا ہوتے دیکھتے آپ کو خوشی ہوتی تھی.پس یہ کیفیت ہوتی ہے نفس مطمئنہ والوں کی کہ وہ خدا کی خاطر اپنا ہر سکون خدا کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں.اپنی ہر بے قراری کو بھی خدا سے وابستہ کر لیتے ہیں.پس باوجود بے قراری کے ان کو اطمینان رہتا ہے.نفس مطمئنہ والوں کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بے قرار نہیں ہوتے.آنحضرت مو کو دیکھیں کہ وہ غیروں کے لئے کتنا بے قرار ہوا کرتے تھے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ کو نفس مطمئنہ حاصل نہیں تھا !.مگر نفس مطمئنہ کا مطلب ہے جب بھی کسی وجہ سے بے قرار ہوں گے اللہ کی خاطر

Page 359

خطبات طاہر جلد 16 353 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997 ء ہوں گے.کوئی خدا سے دور ہٹ رہا ہے تو اللہ کی خاطر بے قرار ہوں گے.پس ان کی بے قراری میں بھی ایک طمانیت پائی جاتی ہے جو اللہ کے حوالے سے ہوتی ہے.یہ وہ باریک باتیں ہیں جن کو آپ سمجھیں یا اس وقت سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر یاد رکھیں کہ نفس مطمئنہ ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات سے محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.صفات باری تعالیٰ سے محبت کے بغیر نفس مطمئنہ نصیب نہیں ہوسکتا.اگر یہ محبت آپ کو مل جائے تو پھر وہ دن آپ کی نجات کا دن ہے.لازم ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی اس پہلو سے آپ کو بے اطمینانی نصیب نہ ہو.بے اطمینانی ہو تو اس محبت کے حوالے سے ہو.یہ بظاہر متضاد مضمون ہے لیکن فی الحقیقت متضاد نہیں ہے.ایک شخص کو اگر کسی سے پیار ہو اور کوئی اس پیارے سے دشمنی کرتا ہو تو آپ کو اس پیار پر تو اطمینان ہے مگر اس سے دشمنی کرنے والے سے آپ کو جو دوری پیدا ہوگی اور تکلیف پیدا ہوگی کہ جس سے مجھے پیار ہے دیکھو یہ اس کو برا بھلا کہ رہا ہے اگر اس سے پیار ہو تو یہ تکلیف ہونا لازمی ہے.پس نفس مطمئنہ کے لئے بھی کچھ بے قراریاں ہوا کرتی ہیں.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ نفس مطمئنہ کو کوئی بے قراری نصیب نہیں ہوتی مگر نفس مطمئنہ کی تمام بے قراریاں اللہ کے حوالے سے ہوتی ہیں.اللہ سے پیار ہے جس کو خدا سے پیار ہوگا آپ کو اس سے پیار بڑھتا چلا جائے گا.جس کو خدا سے پیار نہیں ہو گا اس کے لئے آپ کے دل میں بے قراری ہوگی کہ جس سے میں نے چین حاصل کیا یہ کیوں اس سے چین حاصل نہیں کرتا.یہ کیوں اس کو تکلیف پہنچاتا ہے جس سے مجھے پیار ہے.پس مطمئنہ کی بے قراریاں بھی اپنی جگہ ہیں مگر وہ بے قراریاں جو نفس مطمئنہ سے ہٹ کر ہوتی ہیں وہ تو جان لیوا ثابت ہوتی ہیں.وہ تو انسانی زندگی کو ہمیشہ جہنم میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہیں.مگر وہ بے قراریاں جو نفس مطمئنہ کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں ، جو آنحضرت مہ کو سب سے زیادہ تھیں اگر یہ نہ ہوتا تو خدا آپ کو کبھی یہ نہ کہتا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4)اے میرے محبوب بندے ان جیسے لوگوں کے لئے اپنے دل کو ہلاک نہ کر کس لئے دل ہلاک ہور ہا تھا اسی لئے کہ وہ اللہ سے دور تھے.جس سے آپ کو پیار ہے اس سے ان کو پیار نہیں تھا اور جس سے آپ کو پیار ہے وہ اتنا پیارا ہے کہ اس کے سوا کسی اور پیار کی قیمت ہی کوئی نہیں رہتی.صلى الله یہ کیفیت تھی جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دل کی کیفیت تھی یعنی آپ کی بے قراریاں

Page 360

خطبات طاہر جلد 16 354 خطبہ جمعہ 16 رمئی 1997ء اللہ کے حوالے سے تھیں، اللہ کے پیار اور اس کی محبت کے حوالے سے تھیں اور ان بے قراریوں پر سب سے زیادہ کس کی نظر تھی.اللہ کی نظر تھی جو آسمان سے ہرلحہ آپ کے دل پر نظر ڈالتے ہوئے فرماتا هَا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اے میرے پیارے کیا تو اپنے دل کو ان جیسے لوگوں کیلئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے، اللہ سے دور ہیں.پس یہ فس مطمئنہ ہے جس کا سارا سکون اللہ کی یا داس کے پیار اور اس کی محبت میں ہو، جس کی ساری بے قراریاں اللہ کی یاد اور اس کے پیار اور اس کی محبت کی بناء پر ہوں.اگر آپ اپنے نفس میں یہ بات دیکھتے ہیں تو پھر آپ کو نفس مطمئنہ نصیب ہے اور اس کی آخری یقین دہانی خدا تعالیٰ اس وقت کرواتا ہے جب ایسا انسان جان آفریں کے سپرد اپنی جان کرتا ہے اور ہر شخص کو مرنے سے پہلے خدا تعالیٰ یہ یقین دلا دیتا ہے کہ اے میرے بندے تجھے نفس مطمئنہ نصیب تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے وقت میں جب وہ جان دے رہا ہو اس کو آسمان سے آوازیں آتی ہیں.یاتیتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَسِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 28 ت31) که اے میرے بندے ! میں جانتا ہوں کہ تجھے نفس مطمئنہ نصیب ہے اور نفس مطمئنہ کی آخری حالت یہ ہے کہ اپنے محبوب کی طرف کامل طور پر لوٹ آئے.پس اب تیری موت تیرے لئے مصیبت کا موجب نہیں ہے.تیری موت تیرے لئے خوشخبری لائی ہے.آج میں تجھے یہ کہ رہا ہوں کہ تو تو ہمیشہ مجھ سے ہی اطمینان پایا کرتا تھا.پس اے مجھ سے اطمینان پانے والے،اے میری رضا سے راضی !سن کہ میں بھی تیری رضا پر راضی ہو گیا ہوں آ اور اس جنت میں داخل ہو جا جو میرے بندوں کی جنت ہے.پس نفس مطمئنہ کوئی واہمہ نہیں ہے جس کے متعلق آپ سمجھیں کہ پتا نہیں نصیب ہوا ہے کہ نہیں.ایک چیز ایسی جس کو آپ ہمیشہ دیکھ سکتے ہیں وہ ان باریک باتوں سے علاوہ ہٹ کر روز مرہ کے تجربے میں ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی نیکی کو آپ ایسا اپنا لیں کہ وہ آپ کی ذات کا حصہ بن جائے، ناممکن ہو کہ اس کو اختیار کر کے آپ اکھاڑ کر پھر پھینک سکیں، اکھیڑ پھینکیں اس کو، یہ اگر ممکن نہ رہے تو یہ نفس مطمئنہ ہے.پس نفس مطمئنہ کی تلاش میں بے شک یہ نہ سمجھیں کہ آپ کو نفس مطمئنہ کی تمام حالتیں یکدم نصیب ہوں گی لیکن یہ دیکھنا لازم ہے کہ کسی نہ کسی نیکی پر آپ کو اتنا اطمینان ہو جائے کہ پھر وہ نیکی آپ کے ہاتھ سے نہ چھوٹ سکے اس حصے میں آپ یقین کر لیں کہ آپ کو وہ نفس مطمئنہ نصیب ہو گیا ہے.

Page 361

خطبات طاہر جلد 16 355 خطبہ جمعہ 16 مئی 1997ء آج جماعت احمدیہ کو ضرورت ہے کثرت کے ساتھ نفس مطمئنہ پیدا کرنے والوں کی کیونکہ ان کو ، جماعت احمدیہ کو، اس کے بڑے چھوٹوں ، بچوں تک کو بھی اگر نیکیوں پر نفس مطمئنہ نصیب ہونا شروع ہو جائے تو لازم ہے کہ یہ جماعت دنیا پر غالب آکر رہے گی کیونکہ بالآخر نفس مطمئنہ ، غیر مطمئنہ نفس پر ضرور قدرت رکھتا ہے اور اس پر غلبہ پایا کرتا ہے.اب چونکہ زیادہ مزید وقت نہیں ہے دوسری بات کا وہ پھر میں آپ سے کرلوں گا لیکن کل کی مجلس میں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں جو ٹونے ٹوٹکے وغیرہ اور وظیفے پڑھ پڑھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا، اس قسم کے تو ہمات بھی پائے جاتے ہیں.انشاء اللہ آئندہ کسی وقت ان چیزوں کا بھی میں جواب دوں گا سر دست چونکہ وقت ہو چکا ہے، سوا تین ہو گئے ہیں اس لئے اب اس خطبے کو یہاں ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں فی الحقیقت نفس مطمئنہ عطا کرنا شروع کر دے.کسی کو ایک چھوٹی سی جگہ، اپنے دل کے ایک چھوٹے سے دائرے میں نفس مطمئنہ نصیب ہوگا اور جب ہوگا تو پھر اسے سمجھ آئے گی کہ نفس مطمئنہ کیا چیز ہے.یہ آجائے تو پھر ٹلا نہیں کرتا.آ جائے تو پھر چھوٹ ہی نہیں سکتا آپ سے.پس جب آپ نیکی سے اتنا پیار کرنا سیکھ لیں گے کہ نیکی آپ کی جان بن جائے اس وقت آپ کو نفس مطمئنہ نصیب ہو گا.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 362

Page 363

خطبات طاہر جلد 16 357 خطبہ جمعہ 23 مئی 1997ء آج اگر قومیتوں کو مٹانے والی کوئی طاقت ہے تو وہ توحید کی طاقت ہے.اس کے سوا اور کوئی طاقت نہیں ( خطبه جمعه فرموده 23 رمئی 1997ء بمقام بیت باد کر وکس ناخ.جرمنی) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ پھر فرمایا: (الاعراف: 159) آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ جرمنی کی مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور اس اجتماع میں بعض ایسی نصیحتیں میں کرنی چاہتا ہوں جن کا درحقیقت تو گل عالم کی جماعتوں سے تعلق ہے لیکن اس اجتماع کے حوالے سے وقت ایسا آرہا ہے جس کے نتیجے میں مجھے بہر حال یہ اعلان کرنا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر یہ اعلان ہو تو بہتر ہے.اس اعلان کا تعلق تو حید باری تعالیٰ سے ہے اور توحید کے دو مظاہر ہیں جو اس وقت میرے پیش نظر ہیں یعنی دونوں حوالوں سے میں آج کے خطبہ میں جماعت کو چند نصیحتیں کروں گا.پہلے تو اس ایک آیت کا جو بڑی آیت ہے اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے

Page 364

خطبات طاہر جلد 16 358 خطبہ جمعہ 23 مئی 1997ء صلى الله ایک سے زیادہ آیات ہیں مگر سورۃ اعراف کی ایک 159 ویں آیت ہے یہ، اس میں آنحضرت میر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہے کہ یہ اعلان عام کر دے قُل کہہ دے يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا اے بنی نوع انسان میں تم سب کی طرف، تمام تر کی طرف اللہ کا رسول بنا کے بھیجا گیا ہوں.اس خدا کا رسول، اس اللہ کا رسول مجس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور وہی ہے جو مارتا ہے.فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي.پس اس اللہ پر ایمان لے آؤ.وَرَسُولِهِ اور اس کے رسول پر جو النَّبِيِّ الْأُمِّي ہے ایسا نبی ہے جس کو دنیا میں کسی نے دین اور سیادت کے معاملات نہیں پڑھائے.تمام دنیا کو تعلیم دینے کے لئے اللہ نے ایک ایسے انسان کو منتخب فرمایا ہے جس نے دنیا سے کچھ نہیں سیکھا.يُؤْمِنُ بِاللهِ وَكَلِمَتِه وه صرف اللہ پر ایمان لاتا اور اس کے کلمات پر ایمان لاتا ہے.وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اور تم اس کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پا جاؤ.یہ توحید باری تعالیٰ کا اعلان ہے جو عالمی اعلان ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید آنحضرت مے کی وساطت سے تمام دنیا پر چھاتی ہے اور سب دنیا کو ایک ہاتھ پہ جمع کرتی ہے.یہ وہ اعلان ہے جس کی روشنی میں میں آج کے مضمون کو آگے بڑھاؤں گا.سب سے پہلے تو میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج تمام دنیا میں توحید سے بڑھ کر اور کوئی مسئلہ نہیں ہے.ایک توحید ہے جو تمام عالم کے اختلافات کو مٹا سکتی ہے.ایک تو حید ہی ہے جو تمام عالم کے رنگ ونسل اور قوموں اور جغرافیاؤں کے اختلافات کو دور کر سکتی ہے اس کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں جو انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے.تو حید کو آپ عالمی مسائل سے الگ کر لیں تو تمام قومیں اپنے اپنے دائرے میں بکھر جائیں گی.ہر رنگ الگ الگ اور جدا جدا ہو جائے گا.ہر زبان تفریق کے لئے استعمال ہوگی اور ہر قوم کا اپنا ایک تشخص ہوگا جو اپنے تشخص کے گردگھومے گی اور اپنے تشخص کی ہی وفا کرے گی.تمام عالم کے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں ہے جب تک اس عالمی تو حید کا اعلان نہ کیا جائے جس کا اس آیت کریمہ میں اعلان فرمایا گیا ہے اور اسی توحید کے ذریعے آنحضرت ﷺ کو یہ ارشاد ہے کہ سارے عالم میں یہ اعلان کرو کہ میرے ہاتھ پر اب تمہیں اکٹھا کیا جانا ہے.تمام عالم میں سے مجھے

Page 365

خطبات طاہر جلد 16 359 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء منتخب فرمایا گیا ہے کہ میں دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کروں اور ایک ایسے شخص کو منتخب فرمایا گیا ہے جس پر مقامی تعلیمات کا کوئی بھی اثر نہیں.یہاں لفظ الارمی اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی میر کسی ملک اور کسی قوم کی تعلیمات سے ہرگز متاثر نہیں تھے اور اگر آپ کسی ایک قوم کی گود میں پرورش پانے والے اس رنگ میں ہوتے کہ اس قوم کے اعلیٰ تصورات یا اخلاق یا ان کے شخصی تشخص کے تابع ہو کر آپ نے بچپن گزارا ہوتا تو آپ کے لئے ممکن نہیں تھا کہ آپ گل عالم کو ایک نبی کے طور پر مخاطب فرماتے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ شروع ہی سے آپ کو بغیر تعلیم کے چھوڑا یہاں تک کہ الف ب لکھنا آپ کو نہیں آتا تھا اور اس پہلو سے جو بھی تعلیم دی، خود دی اور جب خود تعلیم دی تو سارے عالم کو مخاطب کر کے یہ اعلان فرمایا کہ میں وہ الامتی شخص ہوں جس کو دنیا کی کسی قوم نے تعلیم نہیں دی اور تم سب قوموں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں.اس میں ایک اور خوشخبری کا پیغام بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کی اکثر قو میں اتھی ہیں.مغرب کی قو میں غالباً یہ تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ دنیا کی بھاری تعداد ایسی ہے جس کو لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا.افریقہ کی آبادی ہے بہت بھاری جس کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا ، ہندوستان کی بہت بھاری آبادی ہے جسے لکھنا پڑھنا نہیں آتا.پاکستان کی بہت بھاری آبادی ہے.اسی طرح جزائر کے رہنے والے ہیں کسی کو کچھ لکھنا پڑھنا نہیں آتا اور ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ اگر کسی بہت بڑے عالم کو رسول بنا کے بھیجتا تو وہ کہہ سکتے تھے کہ اسے تو علم کی فضیلت حاصل ہے یہ وہ باتیں کرتا ہے جو ایک عالم کو زیب دیتی ہیں ہم جاہلوں کا کیا کام کہ اس کے پیچھے چل سکیں ہمیں تو فیق کیا ہے کہ ہم ایک بڑے عالم کی پیروی کر سکیں.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے بنیادی مقام سے محمد رسول اللہ ﷺ کو اٹھایا ہے جو انسانیت کے تقاضوں کے لحاظ سے سب میں برابر ہے اور تعلیم کے لحاظ سے بھی ان میں سے کم سے کم کے ساتھ ہے یعنی جو نچلے سے نچلا درجہ انسان کا تعلیم کے لحاظ سے ہو سکتا ہے وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھا.پس اس پہلو سے دنیا کی کوئی قوم اور دنیا کا کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم ہمارے لئے نہیں ہو تم ہم سے اونچے آدمیوں کے لئے ہو اور سب سے نیچے سے سفر شروع فرمایا اور سب سے اوپر تک پہنچے.یہ وہ کمال ہے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا جس نے آپ کو گل عالم کا نبی بنانے میں

Page 366

خطبات طاہر جلد 16 360 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء ایک فوقیت عطا فرمائی ہے.وہ فوقیت کیا ہے.میں اس کے متعلق چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آنحضرت ﷺ کو تمام بنی نوع انسان پر ایک ہی فوقیت ہے اور وہی فوقیت آپ کی قدرمشترک ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہونا.آنحضرت یہ چونکہ ایسی تھے اس لئے کسی قوم کی صفات نے آپ پر اثر نہ کیا.چونکہ اللہ سے محبت رکھتے تھے اور اللہ آپ سے محبت رکھتا تھا اس لئے آپ نے اللہ کے رنگ سیکھے اور اللہ نے اپنے رنگ آپ کو سکھائے اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جسے یا درکھنا عالمی وحدت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے.خدا تعالیٰ کی صفات ہی ہیں جو در حقیقت اللہ کو اس کی مخلوق سے باندھتی ہیں اور ان صفات کا رشتہ نہ ہو تو کوئی اور رشتہ انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اکٹھا نہیں کر سکتا.پس آنحضرت ﷺ کو امی ہونے کے باوجود جو غیر معمولی فوقیت عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ نے اللہ کی صفات سیکھیں اور اللہ کی صفات کا رنگ اپنے آپ کو پہنایا اور اس رنگ کے نتیجے میں آپ ایسے وجود کے طور پر ابھرے جیسے خدا اپنی مخلوق سے ہے.اللہ کو اپنی ہر مخلوق سے تعلق ہے اور مخلوق میں سے کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اے خدا تو تو بہت بلند ہے، بہت مرتبوں والا ہے، بہت عظیم الشان ہے، ہمارا تجھ سے کیا جوڑ ہے.ناممکن ہے کہ ادنیٰ سے ادنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کر سکے کہ ہمارا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ، ہم تو ذلیل اور حقیر مخلوق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جواب یہ ہوگا کہ یہ ناممکن ہے کہ خالق کا مخلوق سے کلیۂ تعلق توڑا جاسکے اور مخلوق جتنا چاہے دور ہے لیکن وہ خالق سے اپنا تعلق کسی صورت تو ڑ نہیں سکتی.اگر وہ بگڑ گئی ہے تو اس کو صحیح کرنے کا ایک طبعی تقاضا ہے جو خالق کی صفت خالقیت سے اٹھے گا.پس اللہ تعالیٰ کا تمام بنی نوع انسان ہی سے نہیں کائنات کی ہر مخلوق سے ایک ایسا تعلق ہے کہ اس مخلوق کے لئے شعور کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے.مادے کی ہر قسم خواہ وہ تخلیق کی بہت ہی ابتدائی حالت پر ہو اور قانونِ قدرت کے تابع اس کے لئے ترقی کرنا ابھی باقی ہو اس کی شاکلت میں ہی اللہ تعالی آئندہ ترقیات کے نقوش درج کر دیتا ہے اس لئے بظاہر انسان اس کو چھوٹا دیکھتا ہے مگر اس میں بڑھنے ، ترقی کر کے عظیم الشان انسان بننے کی صلاحیتیں موجود رہتی ہیں.اس لئے انسان جب تک خدا کی کسی صفت کا مظہر نہ ہو اس میں صفات پیدا ہی نہیں ہوسکتیں اور صفات کا نہ ہونا عدم کا نام ہے.پس سب سے اہم نکتہ توحید باری تعالیٰ کے معاملے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ توحید کے سوا

Page 367

خطبات طاہر جلد 16 361 خطبہ جمعہ 23 مئی 1997ء کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو کائنات کو ایک دوسرے سے باندھ سکے، جو زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ سکے اور پھر انسانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر سکے.خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر ہر چیز الگ الگ ہے، ہر ذرہ الگ الگ ہے اس میں کوئی بھی یکسانیت کا پایا جا نا مکن نہیں رہتا.اس منظر کو اللہ تعالیٰ سائنسی دنیا میں ایک ایسے منظر کے طور پر پیش فرماتا ہے جسے سائنسدان آخری اکائی کہتے ہیں اور جسے وجود کے افق کے پر لی طرف بتایا جاتا ہے.سائنس دانوں کے نزدیک اس وحدت کا نام Singularity ہے اور وہ وجود کے افق پر جس کے بعد ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اس وحدت کو کیا ہوا، اس نے کیا شکل اختیار کی اسے وہ Event Horizon کا نام دیتے ہیں یعنی سائنس دانوں کے نزدیک ایک Event Horizon ہے جس کے بعد تمام مادہ اپنی تمام تر صفات کے ساتھ ایک ایسی وحدت میں ڈوب جاتا ہے جس وحدت کی باہر والوں کو کوئی بھی خبر نہیں.حساب دان ہیں جو حساب لگاتے پھرتے ہیں اور ان میں بھی بڑے اختلافات ہیں.بعض حساب دان اس وحدت کا ایک تصور رکھتے ہیں.بعض حساب دان اسی طرح بہت بڑے بڑے دنیا کے علماء ایک وحدت کا دوسرا تصور رکھتے ہیں مگر فی الحقیقت کوئی نہیں ہے جو Event Horizon سے پر لی طرف گزر سکے، جو اس افق پر جو وجود کا افق ہے اس پر نگاہ ڈال کر اس سے پاردیکھ سکتا ہو اور پار وہ Singularity ہے یعنی توحید.پس سائنس دان اپنی زبان میں بھی ایک توحید ہی کا اقرار کر رہے ہیں اور توحید کے اقرار کے بغیر وجودہی ممکن نہیں ہے.وہ کہتے ہیں یہ توحید Singularity جب بھی ابھرے گی صفات کی صورت میں ابھرے گی اور جب ڈوبے گی تو ہمارے نقطہ نگاہ سے صفات ہماری نظر سے غائب ہو جائیں گی اور اسی کا نام عدم ہے.پس ساری کائنات میں اگر عدم ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے کا نام عدم ہے اور چونکہ یہ عدم نسبتی ہے، ایک وجود کی طرف لوٹ جانے کا نام ہے جو خالق ہے اس سے پھر یہ عدم دوبارہ تخلیق کی شکلیں اختیار کرتا ہے.توحید عالم اور توحید باری تعالیٰ یہ ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں مگر جو بات میں آپ کو سمجھا رہا ہوں وہ صرف اتنی ہے کہ صفات ہی کا نام زندگی یا وجود ہے.صفات باری تعالیٰ کو نکال دیں تو کوئی وجود باقی نہیں رہتا.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کی دو طرح کی صفات ہیں ایک وہ صفات جو کسی خاص مخلوق سے ایک تعلق رکھتی ہیں.کچھ وہ صفات جو زیادہ تر مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں.جہاں تک

Page 368

خطبات طاہر جلد 16 362 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے آپ نے توحید کے سارے مناظر بنی نوع انسان کے سامنے کھول دیئے اور اس پہلو سے قرآن کریم خود ایک بے مثل کتاب ہے جس کی کوئی اور مثال دنیا کی الہی کتب میں دکھائی نہیں دیتی یعنی صفات باری تعالیٰ کو قرآن کریم اسی طرح درجہ بدرجہ پیش فرماتا ہے وہ صفات جن کا مخلوق سے تعلق ہے اور ہر مخلوق سے تعلق ہے اس کے بغیر مخلوق ہے ہی کو ئی نہیں.اب یہ بہت تفصیلی مضمون ہے جس کی بحث کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے مگر اتنا آپ یاد رکھیں کہ کوئی بھی چیز اٹھا کے دیکھ لیں مادی چیز ہو معمولی سے معمولی ہو، مٹی اس کو کہہ دیں مگر مٹی کی بھی کچھ صفات ہیں اور وہ صفات ہر دوسری مخلوق میں موجود نہیں ہیں کچھ مٹی کی ہیں کچھ دوسری مخلوقات کی بھی ہیں.وہا دیکھ لیجئے لوہے کی اپنی کچھ صفات ہیں اگر ان صفات کولو ہے سے جدا کریں تو لوہا ختم ہے اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا.تو مٹی اٹھالیں، پانی دیکھ لیں، دنیا کی کوئی مادی چیز جس تک روز مرہ آپ کی رسائی ہے اس کو پکڑ کر اس پر غور کر کے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ وہ وجو دصرف صفات سے تعلق رکھتا ہے صفات کو مٹاد و تو وجود غائب.پس صفات کے مٹنے کا نام ہی عدم ہے لیکن عدم ہمیشہ خدا کی ذات میں ختم ہوتا ہے، الگ اپنی ذات میں نہیں ملتا.اس کا نام Singularity ہے یعنی سائنسدان جس کو وحدانیت کہتے ہیں وہ یہ مراد ہے ان کی کہ کوئی عدم ایسا انہیں جو حقیقہ کا لعدم ہو جائے.جہاں تک بیرونی سوچوں کا تعلق ہے، جہاں تک بیرونی آنکھوں کا تعلق ہے، بیرونی کانوں کا تعلق ہے، حواس خمسہ کا تعلق ہے، کوئی چیز ایسی ہے جو عدم ہو چکی ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اس عدم کے اندر اس کی صفات غرق ہو جانے میں ایک ایسی طاقت موجود ہے جو پھر اسے اچھال کر وجود بخش سکتی ہے اور یہی Singularity ہے جو ساری کائنات پر حاوی ہے اس میں کوئی بھی استثناء نہیں ہے.پس آج کے زمانے میں جب لوگ یہ باتیں کرتے ہیں کہ دنیا کو کیسے اکٹھا کیا جائے گا.دنیا تو مختلف شکلوں میں بٹی ہوئی ہے چینیوں کی اور شکل، جاپانیوں کی اور شکل، جرمنوں کی اور شکل، انگریزوں کی ان سے کچھ مختلف اور پھر افریقنوں کی شکلیں ہیں اپنے اپنے ملک، اپنی اپنی قوم سے تعلق رکھنے والی شکلیں، الگ الگ شکلیں ہیں اور عربوں کی ایک شکل ہے، یہودیوں کی ایک شکل ہے.پھر ان کی زبانیں الگ الگ ہیں پھر ان کی تہذیبیں الگ الگ ہیں.تو ان سب کو کیسے ایک ہاتھ پر اکٹھا

Page 369

خطبات طاہر جلد 16 363 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء کیا جائے گا.وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ توحید تو ساری کائنات کو اکٹھا کرتی ہے انسانوں کی کیا حیثیت ہے انسانوں کے وجود کی اپنی الگ تو حید کے علاوہ کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.آنحضرت ﷺ کا یہ پیغام کہ میں تم سب کے لئے رسول بنایا گیا ہوں اس پیغام سے متعلق ہے، اس سے جڑا ہوا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ اس کے سوا معبود کوئی نہیں ہے.اگر اس کے سوا معبود کوئی نہیں ہے تو تم سب کو اکٹھا کرنے کا اس کا حق ہے اور ایک ایسے شخص کے ذریعے اکٹھا کیا جا سکتا ہے جس میں اس کی وہ صفات مجتمع ہو جائیں جو بنی نوع انسان کی صفات ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتی ہیں اگر ایک وجود میں اکٹھی ہو جائیں تو صرف اس کا کام ہے اور اسی کا کام ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو اپنے لئے ، اپنی طرف اکٹھا کرے اور تمام بنی نوع انسان کو اکٹھا کر کے اللہ کے حضور پیش کر دے کیونکہ بالآخر وہی مالک ہے.هُوَ يُخي وَيُمِيتُ پس اللہ کے سوا کوئی زندہ نہیں کرتا اور کوئی مارتا نہیں.یہ وہ بات ہے جس کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا تھا کہ Singularity جس کو سائنس دان کہتے ہیں وہ دراصل ہمارے نقطہ نگاہ سے موت کا دوسرا نام ہے لیکن ایک ایسے وجود کا دوسرا نام ہے جو دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے یعنی زندگی کی طرف متحرک ہو سکتا ہے اور بالآخر صرف اللہ ہے جو موت سے زندگی نکالتا ہے.اب یہ وہ مسئلہ ہے جس کے متعلق دو دن پہلے جرمنوں کے ساتھ ایک سوال و جواب کی مجلس میں سوال اٹھایا گیا تھا.میں نے سوال کرنے والے کو جو بہت ذہین اور سائنسی امور سے اور فلسفیوں سے واقف لگتا تھا اس کو میں نے جب یہ جواب دیا کہ خدا تعالیٰ موت سے زندگی نکالتا ہے اور اس کی تفصیل اس کو سمجھائی کسی حد تک، یعنی ایک دائرے میں اس کو سمجھایا کہ موت اور زندگی کا فرق کیا ہے اور خدا تعالیٰ جب زندگی نکالتا ہے تو لازماً ایک وجود ہے جو اس سے پہلے موجود ہے.اس پر اس نوجوان نے ایک سوال اٹھایا اس نے کہا کہ سائنس کے تو نظریات بدلتے رہتے ہیں آج کچھ اور کل کچھ اور خدا کی توحید کے متعلق، اس کے وجود کے متعلق ایک سائنس کا حوالہ دے رہے ہیں ہمیں کیا پتا کہ کل کو یہ نظریہ کیا ہو جائے گا.اس نوجوان سے میں نے کہا کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں اس کے متعلق تمام دنیا کے سائنس دان سو فیصد متفق ہیں اور اس بات میں آج تک کبھی سائنس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ کل آسکتی ہے اور وہ

Page 370

خطبات طاہر جلد 16 364 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء یہ اصول ہے کہ جو چیز کسی تخلیق کے عمل میں داخل کی جاتی ہے دوسری طرف سے جتنی داخل کی گئی تھی اس سے زیادہ نہیں نکل سکتی، یہ ناممکن ہے.پنجابی میں بھی محاورہ ہے جتا گڑ پاؤ گے انا ای مٹھا ہوئے گا اب یہ ہے سادہ سی بات جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا لیکن یہ اسی سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا میں نے آپ سے بیان کیا ہے جو کچھ آپ ڈالیں گے ناممکن ہے کہ اس سے زیادہ نکل آئے.پس اگر موت کے متعلق سائنس دان یقین رکھتے ہیں کہ موت واقع ہو جاتی ہے تو پھر اس سے زندگی پیدا کرنا زندہ کا کام ہے.جب تک وہ زندہ وجود کسی موت کو زندگی کی طرف متحرک نہ کرے اس وقت تک موت از خود زندہ نہیں ہو سکتی اس لئے تخلیق میں زندگی کا ڈالا جانا ضروری تھا اور تخلیق میں زندگی زندہ وجود کی طرف سے ڈالی جا سکتی ہے مردہ وجود کی طرف سے نہیں ڈالی جاسکتی.اب اس نو جوان کو میں یہ داد دوں گا کہ باوجود اس کے کہ شروع میں بڑے زور سے مخالفانہ انداز میں اٹھا تھا یہ بات سنتے ہی وہیں بیٹھ گیا.اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے بات سمجھ آگئی ہے.ایک قانون ہے جس کے متعلق قطعیت کے ساتھ تمام دنیا میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کبھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں.جتنا ڈالو گے اس سے زیادہ نکل نہیں سکتا.کچھ بیچ میں ڈوب جائے گا، کم نکلے گا، زیادہ سے زیادہ اتنا ہی نکلے گا مگر اس سے زیادہ نہیں نکل سکتا جو ڈالا جائے گا.پس کا ئنات اگر مردہ ہو چکی تھی اور Singularity کا یہی مطلب ہے کہ تمام صفات سے عاری ہو گئی تھی تو پھر اس میں زندگی جب تک کوئی زندہ وجود نہ ڈالے اس وقت تک وہ زندہ ہو نہیں سکتی یہ ناممکن ہے.پس آنحضرت ﷺ کو جس اعلان عام کا ارشاد فرمایا گیا ہے اس میں یہی مرکزی نقطہ ہے هُوَ يُخي وَيُمِيتُ وہ ایک ہی ذات ہے جو زندہ کرتی ہے اس لئے کہ وہ زندہ ہے ویمیت اور زندہ وجود جب اپنی زندگی کی علامتیں واپس لیتا ہے تو جو باقی چیز ہے وہ مردہ کہلاتی ہے.تو وہ ذات زندہ بھی کرتی ہے اور مردہ بھی کرتی ہے.فرمایا کہ تم دنیا کو اعلان کر کے بتاؤ کہ اس کی طرف میں تمہیں بلانے آیا ہوں اور مجھ میں وہ صفات موجود ہیں جو زندگی کی صفات ہیں.یہ جو اعلان ہے یہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی بیان ہوا ہے جہاں آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا گیا کہ جب کوئی ایمان لے آئے تو ان کو بلاؤ تا کہ تم ان کو زندہ کرو.پس زندہ کرنا کیا ہے؟ یہ مضمون ہے جو میں آپ کو سکھانا چاہتا ہوں ، آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.زندہ کرنا صفات باری تعالیٰ کا

Page 371

خطبات طاہر جلد 16 365 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء اختیار کرنا ہے اس کے سوا اس کے کوئی معنی نہیں.پس سائنسی نقطہ نگاہ سے، فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے یہ بات آپ کو سادہ لفظوں میں میں نے سمجھائی ہے اور اس کے سوا کوئی بات ممکن ہے ہی نہیں.صفات باری تعالیٰ کا نام زندگی ہے اس کے سوا کوئی اور نہیں اور آنحضرت جب فرماتے ہیں کہ میں تم سب کو زندگی کی طرف بلا رہا ہوں تو مراد ہے آپ نے لازماً اللہ تعالیٰ کی وہ تمام صفات اختیار کیں جو بندوں کے لئے اختیار کرناممکن تھا اور جب خدا کی صفات لے کر دنیا میں نکلیں تو قوموں کا کیا حق رہ جاتا ہے کہ وہ آواز اٹھا ئیں کہ ہم فلاں قوم سے تعلق رکھتے ہیں.رنگ ونسل کا کیا حق رہ جاتا ہے کہ وہ آواز اٹھائیں کہ اے صفات باری تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہم تو ایک اور قوم اور ایک اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ صفات باری تعالیٰ ان سب میں برابر پھیلی پڑی ہے.کوئی بھی قوم نہیں ہے جو اپنے ایسے وجود کا اعلان کر سکے جو صفات سے الگ وجود ہے.پس جو وجود اللہ کی صفات سے متصف ہو کر ان قوموں کو اکٹھا کرنے کا اعلان کرتا ہے دنیا کی کسی قوم کے پاس کوئی عذر، کوئی بہانہ نہیں ہے کہ وہ اس کا انکار کر سکے.پس آج اگر قومیتیوں کو مٹانے والی کوئی طاقت ہے تو وہ تو حید ہی کی طاقت ہے اس کے سوا اور کوئی طاقت نہیں ہے.پس ہم جو ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے اٹھے ہیں ہمارے پاس توحید کے سوا اور کوئی رنگ ہی نہیں اور کوئی اختیار ہی نہیں ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جس توحید کی طرف بلایا ہے وہ صفات باری تعالیٰ کا ایک دوسرا نام ہے.ان صفات کا نام ہے جو اس کی ساری مخلوق میں اور تمام انسانوں میں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں.ان صفات کے نام پر آپ دنیا کو اکٹھا کر سکتے ہیں.ان صفات سے ہٹ کر آپ دنیا کو اکٹھا نہیں کر سکتے اور ان صفات کو اپنانا ہی درحقیقت ایک طاقت کا حصول ہے، آپ کے اندر اس کے سوا کوئی طاقت نہیں.صلى الله پس آنحضرت مہ کو عرب قوم سے اٹھانا اور ساری دنیا پر منطقی طور پر یہ ثابت کر دینا کہ اس کی آواز پر لبیک کہنا تمہارا فرض ہی نہیں تمہارے اپنے وجود کے لئے ضروری ہے، تمہاری بقاء کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس خدا کی طرف سے آیا ہے هُوَ يُخي وَيُمِيتُ جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارنا بھی جانتا ہے.اگر رسول اللہ ﷺ سے تم نے خدا کی صفات جو زندگی کی طرف بلانے والی ہیں وہ حاصل نہ کیں تو تم مرجاؤ گے اور اس کے سوا تمہارے لئے اور کوئی چارہ نہیں ہے.یہ اعلان کرنے والا صلى

Page 372

خطبات طاہر جلد 16 366 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء رسول جب دنیا کو بلاتا ہے تو رسالت کا عالمی ہونا ایک طبعی نتیجہ بن جاتا ہے.جب رسالت عالمی ہو جائے جو صفات باری تعالیٰ کے اظہار سے ہوتی ہے تو پھر یہ فرق کیسے رہ جائے گا کہ فلاں یورپین ہے، فلاں افریقن ہے، فلاں چینی ہے، فلاں عرب ہے، فلاں ہندوستانی ہے یہ سارے فرق از خود توحید سے مٹ جاتے ہیں کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس جس کو بھی آپ نے جماعت احمد یہ اسلامیہ میں داخل کرنا ہے اس کو صفات کے حوالے سے داخل کرنا ہو گا، اسے نیشنیلٹی کے حوالے سے داخل نہیں کیا جاسکتا.جہاں بھی آپ نے نیشنیلٹی کے حوالے سے داخل کیا وہاں اچانک تو حید ٹوٹے گی اور تمام وجود منتشر ہو کر بکھر جائیں گے.پھر ہر رنگ، نسل، قوم کا اپنا اپنا ہی حق رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور اپنے آپ کو الگ سمجھے.پس آنحضرت ﷺ کے عالمی ہونے کا توحید باری تعالیٰ سے ایک گہرا اٹوٹ تعلق ہے اور کل عالم کا آپ صلى الله کی طرف رجوع کرنا اس کے سوا ممکن نہیں کہ محمد رسول اللہ یہ میں وہ صفات ہوں جو انسانوں کے رنگوں اور قوموں میں فرق نہ کرتی ہوں اور وہ صفات خدا کے سوا اور کوئی صفات نہیں ہیں.پس آنحضرت میاہ کے متعلق جب خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ لا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ (النور: 36) یہ ایک ایسا نور ہے جو نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا ہے تو سوائے خدا کے نور کے اس کا کوئی اور معنی بنتا ہی نہیں.ایک خدا کی ذات ہے جو نہ مشرق کی ہے نہ مغرب کی ہے سب کی برابر ہے.پس آپ کو ہر ایک کے لئے برابر بنا ہوگا اور اس کے بغیر نہ نبوت کی وحدت ہوسکتی ہے نہ خلافت کی وحدت ہو سکتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ ایک خلیفہ کو مختلف قومیں کیوں قبول کریں.ان کا سر پھر گیا ہے کہ ایک پاکستانی کو خلیفہ مان لیں؟ یا اگر خلافت کہیں خدا اور بھیجنا چاہے تو اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں.پہلی بات ان کو یہ سوچنی ہوگی کہ کیا ایک عرب کو مانا تھا کہ نہیں مانا تھا؟ کیا عرب کی حیثیت سے مانا تھا؟ ہرگز نہیں کیونکہ یہ ساری قو میں وہ ہیں جو عربوں کو مختلف پہلوؤں سے حقیر جانتی ہیں.آپس میں لڑ رہے ہیں، فساد برپا ہے، قومی مقاصد کا کوئی خیال نہیں ہے یہ ساری باتیں ان کو پھاڑ رہی ہیں اور دنیا میں بظاہر طاقتور ہونے کے باوجود بالکل حقیر اور کمزور دکھا رہی ہیں تو آنحضرت ﷺ کو کسی امریکن کسی جرمن کسی انگریز کسی یہودی کسی چینی جاپانی نے عرب کے رسول کے طور پر نہیں پکڑا.سوائے اللہ کی نمائندگی کے آپ کے وجود میں دوسری قوموں کو اور کچھ دکھائی نہیں دیا.یہی وجہ ہے کہ

Page 373

خطبات طاہر جلد 16 367 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء قومی تشخص غائب ہو گیا اور ایک ایسا رسول ابھرا ہے جو کل عالم کے لئے برابر ہو گیا اور یہ چیز رسالت کے ساتھ لازمی ہے اور بہت سے لوگ نہیں سمجھتے.اب دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان مغربی قوموں نے کیوں قبول کیا اور کیوں اپنا لیا وہ تو فلسطین کے باشندے تھے، وہ تو سمیٹک ( Semitic) قوم کے ایک شخص تھے.یورپ والوں کو کیا سوجھی کہ ان کو ایسا اپنا لیا کہ خدا کا بیٹا تک بنا بیٹھے.امریکہ اور دور دراز کے ممالک، مشرق و مغرب میں کیوں ایسے پیدا ہوئے جن کے رنگ نسل، قومیت سب الگ الگ تھے مگر فلسطین کے پیدا ہونے والے ایک شخص کو انہوں نے اپنا لیا.اس لئے کہ اس کی صفات میں انہوں نے الوہیت کے رنگ دیکھے تھے اس لئے کہ اس الوہیت کے رنگ کو انہوں نے پھر بڑھا کر خدا میں تبدیل کر دیا مگر عالمیت خدا سے تعلق رکھتی ہے یہ مضمون ہے جو انہوں نے عملاً ثابت کر دیا اور اس کے نتیجے میں بڑے بڑے تعصبات پیدا ہوئے مگر وہ تعصبات کی کہانی بھی ایک دردناک اور الگ کہانی ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا.میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ عیسائیت کی مثال آپ کے سامنے ہے کتنی مختلف قوموں، کتنے مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہے مگر ایک ایسے انسان پر اکٹھی ہو گئی جو اپنی ذات میں ایک سمیٹیک قوم کا باشندہ تھا اور عربوں میں سے تھا فلسطینی ہونے کے لحاظ سے اور ان کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ بعینہ اسی دلیل پر عرب ہی سے وہ ایک وجود اٹھے گا جو خدائی صفات ہونے کے لحاظ سے عالمی وجود بن جائے گا اور اس کو خدائی صفات کا مظہر ہونے کے اعتبار سے ہمیں لازماً قبول کرنا ہوگا.پس جیسے عیسی صلى الله علیہ السلام نے قومیتیوں کے فرق مٹادیئے تھے وہی عیسی ہیں جن کی قوموں نے لازماً محمد رسول اللہ یہ کی طرف جھکنا ہے کیونکہ آپ نے بھی قوموں کے فرق محض ایک چھوٹے دائرے میں نہیں مٹائے بلکہ عالمی دائرے میں مٹائے ہیں.کل عالم سے خدا تعالیٰ کی ان صفات کی جلوہ گری کے ذریعے جو عالمی صفات ہیں ، آنحضرت میر نے قومیتیوں کے رنگ مٹا دئیے.پس قوموں کا تفرقہ مٹانا لازم ہے مگر تو حید کے ذریعے، وحدت الہی کے ذریعے.اس کو چھوڑ کر آپ قومی تفرقہ مٹانے کی کوشش کریں، آپ سر ٹکرالیں گے، اپنے وجود کو پارہ پارہ کر لیں گے مگر یہ قومی تعصب کبھی مٹائے نہیں جاسکیں گے.ایک زبان ہی کو دیکھ لیجئے جب پاکستان کا وجود بھی بننے والا تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کیا اور بعد میں پاکستانی سربراہوں کو بات

Page 374

خطبات طاہر جلد 16 368 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء سمجھائی.آپ نے فرمایا کہ تم ایک قوم تو بن سکتے ہو یعنی ایک تو حید کے نام پر اکٹھے ہو رہے ہونگر زبانوں کو نہ مٹانا.یادرکھو اگر تم نے بنگالی زبان پہ ہاتھ ڈالاتو وہ تمہارا ہاتھ کاٹ دیں گے مگر اپنی زبان کو نہیں مٹنے دیں گے.تو توحید میں بھی ایک تفریق ہے اور وہ تفریق ایسی ہے کہ اگر اس پر آپ ہاتھ ڈالیں تو قو میں رد عمل دکھاتی ہیں مگر خدا کی وحدانیت میں جو عالمی صفات کی جلوہ گری ہے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا، وہ سب کے لئے برابر ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.بنگال میں جو علیحدگی کی تحریک چلی ہے وہ اس لئے چلی کہ بعد میں لیاقت علی خاں وغیرہ نے زبان کو کچلنے کے لئے کوشش شروع کر دی.ان کا یہ خیال تھا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان جو اس وقت مشرقی پاکستان کہلا تا تھا ان کو اکٹھا کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ زبان ختم کردوان کی اور اردو پھیلا دو اور اردوزبان دونوں کو باندھ دے گی مگر جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی فراست سے سمجھا وہی بات درست ثابت ہوئی.زبان پر ہاتھ ڈالنے کے نتیجے میں وحدت بنی نہیں ، ٹوٹ گئی اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ توحید کے اعلان کے باوجود یہ بھی فرماتا ہے: وَمِنْ أَيْتِهِ خَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِلْعَلِمِينَ (الروم: 23) کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے یہ ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا.وہ ایک ہی ہے پیدا کرنے والا گر تمہاری زبانوں اور رنگوں کے اختلاف بھی اسی نے پیدا کئے ہیں.پس توحید میں ایک رنگ ونسل اور زبانوں کے اختلاف کا جلوہ بھی ہے جو تو حید کو باطل نہیں کرتا جو یہ پیغام دیتا ہے کہ اے عالمی تو حید کے علم بردارو!ا رنگ و نسل اور زبانوں کو مٹانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں یہ رنگ اللہ تعالیٰ نے الگ الگ بنائے ہیں ان کے الگ الگ ہوتے ہوئے بھی توحید کے بندھن سے ان کا ایک گلدستہ بناؤ.یہ ساری قو میں ایک خوبصورت گلدستے کی صورت میں توحید کے دھاگے سے باندھی جائیں تو یہ وہ عالمی منظر ہے تو حید کا جو جگہ جگہ دکھائی دے گا.جرمن قوم کی جرمن زبان کی صورت میں تو حید جلوہ گر ہوگی ،ان کے خوبصورت سرخ وسفید رنگ کی صورت میں توحید جلوہ گر ہوگی.افریقنوں کی زبان کی صورت میں وہاں تو حید جلوہ گر ہوگی.ان کے سیاہ رنگ میں بھی ایک شان ہے.آج چونکہ سفید قوموں کی بادشاہی ہے اس لئے لوگ یہ سمجھ

Page 375

خطبات طاہر جلد 16 369 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء نہیں سکتے مگر رفتہ رفتہ یہ سمجھنے لگیں گے اور کچھ کچھ ان کو سیاہ رنگ کا بھی حسن دکھائی دینے لگا ہے.مگر جانوروں میں دیکھو ان کو دکھائی دیتا ہے بالکل سیاہ مرغی یا بالکل سیاہ پرندہ اور بالکل سفید مرغی اور بالکل سفید پرندہ یہ اپنے اپنے حسن رکھتے ہیں اور کوئی سفید مرغی کسی کالی مرغی کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ جاؤ جاؤ تمہارا تو رنگ کالا ہے ، وہ آگے سے برابر طور پر یہ کہ سکتی ہے جاؤ جاؤ تمہارا تو رنگ ہی کوئی نہیں، چٹی سفید ، کچھ بھی نہیں تمہارے اندر.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں توحید باری کا اعلان کروایا محمد رسول اللہ ﷺ سے، وہاں یہ اعلان بھی ساتھ کروایا کہ تو کہہ دے کہ رنگ اور زبانوں کے فرق یہ میرے اللہ نے پیدا کئے ہیں خبر دار ہو جو تم نے ان پر ہاتھ ڈالا.سفید فاموں کو سفید فام رہنے دو.خوشی سے تم سے تعلق زوجیت قائم کرتے ہیں تو کریں نہیں تو نہ کریں.ان کی زبانوں کو بھی نہیں چھیڑنا.ہر ایک کی زبان کا احترام کرو اس کی عزت کرو لیکن اس کے باوجود ان کو بتاؤ کہ یہ خدا ہی کی شان ہے توحید باری تعالیٰ کی کہ وہ اس طرح مختلف رنگوں میں جلوہ گر ہوئی ہے اور مختلف رنگ صفات کے جب ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر وہ صفات ابھرتی ہیں جو الہی صفات لا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ کی صفات ہیں.پس آنحضرت ﷺ کی ذات میں ایک نبی ہونا اور کل عالم کا اکٹھا ہونا دیکھو قرآن کریم نے کس کس طریق سے سمجھایا.اس کے سارے پہلو آپ پر روشن کر دیئے لیکن یاد رکھیں صفات کے سوا یعنی خدا کی صفات کے سوا جن کا رنگ الگ الگ نہیں ہے خدا کی صفات کے سوا جن کی زبان الگ الگ نہیں ہے وہ ایک ہی رنگ اور ایک ہی زبان رکھتی ہیں ساری دنیا کو آپ مختلف زبانیں بولنے والوں کو مختلف رنگوں کے لوگوں کو آپ ایک ہاتھ پر اکٹھا نہیں کر سکتے.پس یہ صفات ہیں کیا ؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ خلافت کو آپ دیکھیں کہ سب دنیا کی خلافت ہو ہی نہیں سکتی اگر کسی ایک قوم سے تعلق رکھتی ہو لیکن جو حضرت محمدمصطفی ﷺ کا خلیفہ یا آپ کے خلیفہ کا خلیفہ ہو اس کے اندر خدا تعالیٰ کی وہ صفات ضرور جلوہ گر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں رنگ ونسل کو اپنی جگہ دیکھتا ہے مگر بری، غیر کی نظر سے نہیں دیکھتا اپنی نظر سے دیکھتا ہے.جیسے خدا کالے کو اپنا سمجھ کے دیکھتا ہے، جیسے خدا جر من بولنے والے کو اور انگریزی بولنے والے کو اور سپینش بولنے والوں کو اپنا سمجھ کے دیکھ اور سن رہا ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ وقت کو خدا تعالیٰ وہ الہی صفات عطا فرماتا ہے جو کل عالم کو ایک ہی رنگ میں دیکھنے لگتی اصلى الله

Page 376

خطبات طاہر جلد 16 370 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء ہیں.اگر یہ نہ ہو تو خلافت کا وجود مٹ جائے گا اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی.یہی وجہ ہے کہ جب میں افریقہ گیا تھا ان لوگوں کو میں نے یہ بات سمجھائی.میں نے کہا دیکھو میں جب تم لوگوں سے ملتا ہوں تو خدا گواہ ہے ایک ذرہ بھر بھی مجھے تمہارے رنگ اور اپنے رنگ کا کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا.تمہاری زبان اور اپنی زبان کا کوئی فرق سمجھائی ہی نہیں دیتا.میرے ذہن صلى الله میں تو اس کا تصور بھی نہیں آتا کہ ہم الگ الگ ہیں.آنحضرت مہ کے ذریعے صفات باری تعالیٰ میں ہم اکٹھے ہوئے ہیں.پس اس پہلو سے تمہارا وطن بھی میرا وطن ہے لیکن میں تم سے اس وطن کا حق کوئی نہیں مانگتا.یہ ویسا ہی مضمون ہے جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو میں تم سب کی خدمت کرتا ہوں مگر تم سے اجرت کوئی نہیں چاہتا.پس میں نے کہا جہاں تک تمہارے حقوق کا تعلق ہے میں ان حقوق کو اسی طرح ادا کروں گا جیسے میں آپ کے ملک کا ، آپ کی قوم کا باشندہ ہوں.جہاں تک آپ کی قوم سے میری توقعات کا تعلق ہے اس کے سوا میری کوئی توقع نہیں کہ آپ ان صفات میں مجھ سے تعاون کریں جو الہی صفات ہیں، جو عالمی صفات ہیں ان میں قوم کی اور جغرافیہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اس پیغام کو افریقہ نے سمجھا اور بڑے جوش کے ساتھ اور بڑے بڑے ولولوں کے ساتھ انہوں نے جوابا کہا ہاں ہم یقین کرتے ہیں آپ ہمیں میں سے ایک ہیں، آپ ہم سے جدا الگ وجود نہیں ہیں اور یہ وہ ایک شخصیت ہے جو بنانے سے نہیں بنا کرتی.یہ اندر سے اٹھتی ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے اگر آپ اللہ کے وفادار بنیں گے تو لازم ہے کہ آپ کے اندر یہ شخصیت پیدا ہو.پس آنحضرت ﷺ کی عالمیت آپ کی کامل غلامی کے نتیجے میں خلفاء کو بھی عطا ہوتی ہے اور اسی حد تک جب وہ اپنی صفات کو محمد رسول اللہ ﷺ کے رنگ عطا کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اعلان کر دے وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اے خدا کے بند و اس کی یعنی محمد رسول الله الا اللہ کی اطاعت کرو وہی ہے جو تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی طرف لے جائے گا.وہی ہے جس کی صفات تمہیں خدا کی صفات سے ملا دیں گی اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو جیسے آپ فرماتے ہیں یہ رسول عالمی ہے اسے اس کے غلامو! تم بھی عالمی بن جاؤ گے.یہ وہ عالمی صفات ہیں جن کو اپنائے بغیر دنیا کو کوئی عالمی پیغام نہیں دیا جا سکتا.اسی لئے میں مسلسل زور لگارہا ہوں، بار بار آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ

Page 377

خطبات طاہر جلد 16 371 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء کے لئے ، خدا کی خاطر اور اپنے وجود کی خاطر، بنی نوع انسان کی خاطر اپنے آپ کو کسی قومی شخصیت کے ساتھ نہ ابھاریں بلکہ توحید کی شخصیت کے ساتھ ابھاریں.آپ کی ذات میں دنیا کو خدا دکھائی دینے لگے.دنیا دیکھے کہ آپ رحمن ہیں، رحیم ہیں، کریم ہیں، حوصلہ رکھتے ہیں، نیچے اترنے کا، غریبوں کی بات کا، کمزور کی بات سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں گنہگاروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں صرف اپنی بڑائی اور نیکی میں مگن نہیں ہیں اور سب کی خیر چاہتے ہیں.جب آپ رحمن بن کے برستے ہیں تو ہر چیز پر برابر اپنا فیض جاری کرتے ہیں،گردو پیش سب آپ سے فیض اٹھاتے ہیں.اس وجود کے طور پر آپ ابھریں گے تو ناممکن ہے کہ دنیا کی کوئی قوم بھی آپ کوٹھکرا سکے کیونکہ آپ کے اندر آنحضرت ﷺ کے حوالے سے رحمانیت کی صفات جلوہ گر ہوں گی.اس پہلو سے میں نے دو تحریکیں آپ کے سامنے خصوصیت سے رکھی تھیں ایک یہ کہ کل عالم کو ایک کرنے کے لئے اپنے اپنے ملک میں وحدانیت کے مناظر پیش کریں.اب جرمنی اس کے لئے ایک بہترین سرزمین ہے.جرمن قوم کو وحدانیت میں اکٹھا کرنا اور ایک وحدانیت میں پرونا یہ ایک بہت بڑا کام ہے کیونکہ جرمن قوم کے ذریعے پھر آگے دنیا میں وحدانیت کے نظام کو عام کرنا نسبتاً آسان ہو جائے گا لیکن ہوگا یہ بھی اگر آپ اپنے آپ کو رحمن خدا کے نمائندے کے طور پر پیش کریں.محمد رسول اللہ ﷺ کی عالمی صفات کے حوالے سے پیش کریں آپ میں وہ پاکستانی نہ دیکھیں، آپ میں وہ بنگالی نہ دیکھیں، آپ میں عرب نہ دیکھیں، آپ میں کوئی افریقن نہ دیکھیں.ایک ایسا انسانی وجود دیکھیں جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات جلوہ گر ہیں تو پھر وہ پاگل تو نہیں کہ اپنے وجود کو الگ سمجھیں کیونکہ خدا سے ملے بغیر وہ زندہ رہ ہی نہیں سکتے.خدا کے ہوئے بغیر ان کو وجود کا تشخص ہی کوئی نہیں ملتا وہ مردہ چیزیں ہیں.پس یہی وہ وجہ ہے جو میں نے اس آیت کے حوالے سے آپ کو، سائنس دانوں کی زبان میں بعض ایسی باتیں سمجھا ئیں جن کا تعلق صفات باری تعالیٰ اور وجود سے ہے.آپ اگر صفات باری تعالیٰ کو اپنا لیں گے تو لازماً ان کو اپنی زندگی کی خاطر آپ سے جڑنا ضروری محسوس ہوگا.لا ز ما یہ آپ سے ملیں گے اور آپ سے ایک ہو جائیں گے اس کے بغیر ان کی زندگی کا معنی ہی سمجھ میں نہیں آسکتا.اس کے بغیر ان کو اپنی زندگی بے کا ر دکھائی دے گی اور حقیقت میں وہ زندگی ہے بھی نہیں جو صفات

Page 378

خطبات طاہر جلد 16 372 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء سے دوری کا نام ہے.پس وہ ہو جائیں کہ آپ کا نام صفات الہی ہی ہو جائے یعنی صفات الہی کا ایک دوسرا نام آپ ہو جا ئیں.آپ سے جڑنا صفات الہی سے جڑنا بن جائے.آپ سے دوری صفات الہی سے دوری ہو جائے.یہ اگر آپ میں طاقت ہے، یہ کر سکتے ہیں اور ہر انسان میں یہ طاقت ہے کہ اپنی اپنی توفیق ، اپنے اپنے دائرے میں ایسا کر دکھائے تو پھر لازماً دنیا کی ہر قوم آپ سے تعلق جوڑے گی.لازماً آپ ہی کے حوالے سے پھر تو حید کل عالم میں پھیلے گی اور اس کے پھیلنے کے باوجود قومیتیں از خود مٹتی چلی جائیں گی مگر اپنے اپنے دائرے میں بھی جلوہ دکھا ئیں گی کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رنگ اور زبانوں کو خود پیدا کیا ہے.پس اسلام ایک گلدستے کی شکل اختیار کر جائے گا، ہر پھول تو حید کی جلوہ گری کرے گا، ہر زبان میں خدا کے رنگ دکھائی دیں گے اور پھر ایک ہوں گے سب کے سب اور ایک دوسرے کو الگ الگ نظروں سے نہیں دیکھیں گے بلکہ محبت اور پیار کی ایسی نظروں سے دیکھیں گے کہ ہر ایک کو دوسرے میں صفات الہی جلوہ گر دکھائی دیں گی اور اس کی اپنائیت ان کو آپس میں باندھے گی.یہ ایک ہی طریق ہے آج اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا اور غالب رکھنے کا.اگر اس طریق کو چھوڑیں گے تو اسلام نے جو کچھ بھی کمایا ہے وہ سب کھویا جائے گا اور قو میں پھر الگ الگ حالتوں میں بٹ جائیں گی پھر وہ اپنے رنگوں میں ایسا ڈوبیں گی کہ خدا کے متحد کرنے والے رنگ ان میں نہیں رہیں گے.اپنی زبانوں میں ایسا غرق ہوں گی کہ خدا تعالیٰ کی زبان ان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے نہیں بلائے گی اور اسی کا نام پھر وہ زندگی سے موت کی طرف حرکت ہے جو رفتہ رفتہ قوموں کو مشرک بنا دیتی ہے ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے.پہلی قو میں قوموں سے الگ ہوتی ہیں.پھر قوموں کے اندر گروہ ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ شہر شہر سے الگ ہونے لگتے ہیں شمال جنوب سے الگ ہو جاتے ہیں.ایک ہمبرگ کے لوگ ہیں ایک میونخ کے لوگ ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا تشخص بن جاتا ہے.مشرقی جرمنی اور ہو جائے گا ،مغربی جرمنی اور ہو جائے گا.تو تو حید کے سوانا ممکن ہے کہ بنی نوع انسان کو بلکہ قوموں کو بھی ایک ہاتھ پر اکٹھا رکھا جائے.پس تو حید باری تعالیٰ کی غلامی کریں اور اس میں اپنے وجود کو کھو دیں اسی کے نتیجے میں اسلام کو تحفظ ہے، اسی کے نتیجے میں محمد رسول اللہ ﷺ کی عالمیت ظاہر ہوگی ، اسی کے نتیجے میں خلافت

Page 379

خطبات طاہر جلد 16 373 خطبہ جمعہ 23 مئی 1997ء احمدیہ کی عالمیت قائم رہے گی.یہ مٹادیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.اس پہلو سے جب میں نے آپ کو پیغام دیا کہ آپ کثرت سے یہاں لوگوں کو احمدی بنائیں تو یہ مراد تھی کہ ان معنوں میں احمدی بنائیں کہ آئندہ جو صدی پوری ہونے والی ہے اس میں میری خواہش ہے کہ جرمن جماعت احمدیہ جس میں ہر قسم کے مسلمان یعنی ہر قسم کے انسان مگر ایک قسم کے مسلمان موجود ہوں گے جرمن بھی ہوں گے افریقن بھی ہوں گے امریکن بھی یہاں بستے ہیں، یہاں یورپ کے مختلف لوگ ہیں، مسلمان ممالک سے آئے ہوئے مختلف لوگ ہیں، مشرق بعید کے مختلف لوگ ہیں، سیلونی ہیں اور بنگلہ دیشی ہیں، چینی، جاپانی سب قسم کے لوگ آج آپ کو جرمنی میں دکھائی دیتے ہیں توحید میں ان کو پرودیں، ایک بنادیں اور پھر یہ سارے اپنے اپنے دائرے میں توحید کے علم بردار بن کر لوگوں کو آواز دیں اور اس طرف بلائیں جس طرف آنحضرت مہ نے بنی نوع انسان کو بلایا تھا.قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَااے محمدا تجھے اب یہ حق ہے تو میرا ہو چکا ہے تو ایک ہو گیا ہے میری ذات میں کھویا گیا ہے اس لئے تجھے میں مقرر کرتا ہوں کہ تمام دنیا میں اعلان کر کہ آؤ کیونکہ میری طرف آنا اس خدا کی طرف آتا ہے.لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جس کے پاس آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے.پس کوشش یہ کریں کہ جو صدی کا سال ہے اس سال میں آپ سب مل کر کم سے کم ایک لاکھ احمدی پورا کریں اور یورپ میں اس پہلو سے آپ پہلا ملک ہوں گے جس نے ایک سال میں خدا تعالیٰ کے مختلف قوموں سے، زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک ہاتھ پر باندھا ہے اور آپ کے لئے ممکن ہے یہ.جو آثار مجھے دکھائی دے رہے ہیں ہر گز نا ممکن نہیں بلکہ بعید نہیں کہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ آپ کو عطا فرمائے.پس ایک تو توحید کا یہ جلوہ دکھا ئیں دوسرا مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دیں کیونکہ مسجدوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ و اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا (الجن : 19 ) کہ مسجدیں بناؤ گے تو یہ پیغام بھی عام ہو گا یہ وہ گھر ہے جہاں خدا کے سوا کسی کو نہیں بلایا جارہا اس کے سوا اور کوئی وجود نہیں ہے جس کی عبادت کی طرف بلایا جاتا ہو.پس اس پہلو سے میں نے سومساجد کا اعلان کیا تھا کہ آپ کوشش کریں آپ کو اس صدی

Page 380

خطبات طاہر جلد 16 374 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء کے آخر تک سومساجد بنانے کی توفیق عطا ہو.اس ضمن میں میں ابھی پھر واپس اس بات کی طرف آتا ہوں کہ اس سے پہلے میں آپ کو ایک غم کی خبر بھی سنانا چاہتا ہوں اور اس میں ایک خوشی کی یعنی بشری کی خبر بھی موجود ہے.ہماری وہ والدہ جو اس وقت حضرت مصلح موعود کی بیگمات میں سے دو زندہ تھیں جن میں سے ایک وہ آپا بشری یا سیدہ مہر آپا ہیں کل ان کے وصال کی خبر آئی ہے.وہ میرے ماموں عزیز اللہ شاہ صاحب کی صاحبزادی تھیں اور غالباً جہلم میں یا مجھے اب یاد نہیں مگر اتنا مجھے پتا ہے کہ 1919 ء اپریل میں آپ پیدا ہوئیں اور میری والدہ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی بعض خوش خبریوں کے نتیجے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ہم بچوں کی خاطر ان سے شادی کی یعنی میں اور میری تین بہنیں تھیں اور حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ اپنے خاندان کا ہی یعنی میری امی کے خاندان کا ہی کوئی شخص ہماری نگہداشت کرے.چونکہ ان کے متعلق ڈاکٹروں کا یہ فیصلہ تھا کہ ایک بیماری کی وجہ سے ان کے بچہ نہیں ہوسکتا اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی سوچا کہ ایک ایسی ماں ان کو ملے گی جس کے پاس اپنے الگ بچے نہیں ہوں گے مجبور اوہ انہی سے پیار کرے گی اور اسی وجہ سے آپ کا نام مہر آپارکھا گیا جس کا آپ کی ایک رؤیا یا الہام سے تعلق تھا کہ ایسی آپا جو مہر بن جائے.اب مہر امی نہیں فرمایا، مہر آپا اور واقعہ ہم سب کا تعلق آپ سے آپا ہی کی ایک قسم کا تھا مگر مہر والا تعلق کم سے کم میں اپنی ذات میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرا ان سے تعلق ہمیشہ مہر کا رہا یعنی محبت اور پیارکا تعلق.بہر حال آخری عمر میں ان کو بعض ایسی تکلیفیں لاحق تھیں جن کے نتیجے میں یہ زندگی اجیرن ہو گئی تھی اس لئے ان کا جانا ان کے لئے رحمت تھا اور ان کے لئے بھی جو اس تکلیف کو دیکھتے اور تکلیف کو محسوس کرتے تھے بہر حال آپ نے جانا تھا 78 سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو واپس بلایا.ان کے متعلق آج جو میں اعلان کر رہا ہوں اس کا اس مضمون سے تعلق ہے جو میں ابھی آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں.سیدہ مہر آپا مختلف وقتوں میں مختلف وصیتیں کرتی رہیں کیونکہ اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے ان کی نظر اپنے بھائیوں پر، بہنوں پر اور ان بچوں پر پڑتی رہی جو ان کے گھر میں پلتے تھے.اپنی جائیداد کا سارا انتظام انہوں نے میرے سپرد کر دیا تھا اور اس بارے میں کامل یقین تھا یعنی خلافت سے بہت پہلے کی بات کر رہا ہوں.مجھ پر، میری ذات پر کامل یقین تھا اور یہ شرط تھی کہ

Page 381

خطبات طاہر جلد 16 375 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء میں ان کو حساب پیش کرنے کا پابند نہیں ہوں گا.ان کو یقین تھا ، رہے گا کہ میں جو بھی کروں گا درست کروں گا اور ان کی جائیداد کو ایسے سنبھالوں گا کہ بفضلہ تعالیٰ باقیوں سے بہتر ہوگی ، کم تر نہیں ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے ایک وصیت لکھی جو بہت پہلے کی بات ہے، ملک سیف الرحمن صاحب اس وقت زندہ تھے، اس وصیت میں انہوں نے یہ لکھا کہ میں اپنی جائیداد کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہوں.ایک حصہ جماعت احمدیہ کے لئے ہوگا، ایک حصہ مرزا طاہر احمد کے لئے ہوگا، تین حصے میرے تین بھائیوں کے لئے ہوں گے اور بہن آپا ناصرہ جو تھیں ان سے وہ اجازت لے چکی تھیں کہ وہ از خود خوشی کے ساتھ اس وصیت کو قبول کرتی ہیں.میں نے ان کو سمجھایا اور مختلف حوالے دے کر آخر رضامند کر لیا کہ آپ میرا حصہ بیچ میں سے نکال دیں جہاں تک بھائیوں کا تعلق ہے آپ کی مرضی ہے رکھیں ، مرضی ہے نہ رکھیں.چنانچہ انہوں نے میری یہ بات منظور فرمالی اور میرا پانچواں حصہ نکال لیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد دو بڑے بھائی ان کے، یعنی اپنے سے چھوٹے تھے مگر ایک بڑا بھائی اور ایک سب سے چھوٹا بھائی یہ دونوں فوت ہو گئے.اس وقت پھر ان کے دل میں از خود خیال آیا کہ کیوں نہ میں سب کچھ جماعت کے لئے چھوڑ دوں اور بھائیوں کے لئے یا بہنوں کے لئے کچھ نہ رکھوں.انہوں نے مجھے پھر خط لکھا کہ میری اب یہ خواہش ہو رہی ہے.میں نے کہا دیکھیں شریعت کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتیں.جو چاہیں کریں، جو اللہ تعالیٰ نے شریعت کا حق عطا فرمایا ہے اس کو آپ نہیں لے سکتیں.اس لئے میں تب آپ کی بات مانوں گا اگر آپ اپنے بھائی سے لکھوائیں اور اپنی بہن سے لکھوائیں کہ ہم بقائمی ہوش و حواس پوری طرح اپنے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم حضرت مہر آپا کی جائیداد میں سے نہ اب نہ آئندہ کسی چیز کے بھی نہ خواہشمند ہیں، نہ دعویدار ہیں اور ان کو ہماری طرف سے بخوشی اجازت ہے کہ وہ سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیں.چنانچہ اس پر انہوں نے پھر مجھے خوشی سے زبانی بھی بتایا اور لکھا بھی کہ اب میں یہ ساری جائیداد آپ کے سپرد کرتی ہوں ان شرطوں کے ساتھ نمبر ایک، جب تک آپ کو توفیق ہے آپ ہی انتظام رکھیں.میرے بھائیوں میں سے یا بہنوں میں سے، خاص طور پر بھائی کے متعلق فرمایا کہ اگر اس کی کوئی ضرورت ہو تو آپ کو حق ہے کہ اس جائیداد میں سے جو میں جماعت کے سپر د کر رہی ہوں ان کو دیدیں اور میری ضرورتیں جب تک میں زندہ ہوں اسے پوری کر دیں.اس کے سوا مجھے

Page 382

خطبات طاہر جلد 16 376 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ میری طرف سے آپ کو اختیار ہے کہ اپنی ضرورت پڑے اور کوئی قرض لینا ہو میرے حساب میں سے تو مجھے لکھنے کی اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ، آپ پر مجھے کامل اعتماد ہے جو چاہیں لیں جب چاہیں واپس کریں.اس حیثیت سے میں نے ان کی جائیداد کا انتظام سنبھال لیا اور وفات کے وقت تک جو بھی ان کی وصیت کا حساب تھا یعنی اس کے علاوہ جو وصیت تھی صدرانجمن کے حق میں وہ دیدی گئی ہے.اب جو بقیہ جائیداد ہے وہ انہی شرطوں کے ساتھ میرے قبضہ میں یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے امین بنایا ہے، میرے سپرد ہے.چونکہ انہوں نے مجھے اجازت دی تھی کہ اپنی ضرورتوں کے لئے قرض لے لیا کروں، میں نے اس میں سے کبھی قرض لئے ، واپس کر دئیے ، پھر لئے.آج صبح فون کے ذریعہ، یعنی کل میں نے پیغام دیا تھا، آج صبح فون کے ذریعہ اب مجھے یہ تسلی بخش پیغام مل گیا ہے کہ جو بھی قرضہ میں نے ان سے لیا تھا وہ پائی پائی ادا ہو چکا ہے اس میں سے کچھ باقی نہیں رہا.اس لئے جو کچھ ان کے پاس باقی ہے اس کی دو شکلیں ہیں.ایک میں وقتا فوقتا کچھ یورپ منتقل کروا تارہا اور کچھ جائیداد کی صورت میں پاکستان میں ہی ہے جس میں سے آمد ہوگی.چونکہ یہ تو حید کا اعلان جس کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کا مساجد کی تعمیر سے بھی تعلق ہے.اس لئے سیدہ مہر آپا کی وفات کی اطلاع چونکہ مجھے جرمنی میں ملی ہے اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی طرف سے جو روپیہ یہاں موجود ہے اس میں سے اور کچھ باہر سے منگوا کر تین لاکھ جرمن مارک جماعت احمد یہ جرمنی کے سپرد کر دوں گا جس کا مطلب یہ ہے کہ سومساجد کی جو تحریک ہے اس میں سے ہرسو میں سے تین ہزار ان کی طرف سے ہوگا اور سر دست اپنی طرف سے پچاس ہزار مارک پیش کرتا ہوں اور اللہ توفیق دے گا تو انشاء اللہ اس کو بڑھا بھی دوں گا تو آئندہ تین سال میں یہ پورا ہو جائے گا.اس لئے جماعت جرمنی کو جو تو حید کے نشان کے طور پر مسجد میں بنانا ہے اس کی آج میں سیدہ مہر آپا کی وفات کے ساتھ تحریک کرتا ہوں.اس کے لئے الگ انتظام کریں چندوں کا.جس کو جتنی توفیق ہے وہ دے اور کوشش کریں کہ اس صدی کے آخر تک، یعنی آخری سال تک جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک سو مساجد جرمنی میں یا بنائی جا چکی ہوں یا ان کے لئے زمینیں لے لی گئی ہوں اور اس پر خواہ جھونپڑا ہی بنانا پڑے ایک جھونپڑا بنا کر اور مینار کا Symbol بنادیں تا کہ ہم یہ کہہ سکتے

Page 383

خطبات طاہر جلد 16 377 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء ہوں کہ یہاں اللہ کی عبادت ہوتی ہے اور واقعہ وہاں عبادت ہو.جھونپڑے سے مراد یہ ہے کہ چھت تو ہونی چاہئے جس سے بارش اندر نہ آئے یا برف نہ پڑے اندر.مگر یا درکھیں کہ آنحضرت نے کی جو مسجد تھی اس مسجد کا یہ حال تھا کہ بعض دفعہ بارش ہوتی تھی تو چھت میں سے پانی ہی نہیں بلکہ کیچڑ بھی اترا کرتا تھا اور نیچے مسجد کچی ہونے کی وجہ سے سجدہ کرتے وقت لوگوں کی پیشانیوں پر کیچڑ لگ جایا کرتا تھا.مگر اسی حالت میں وہ مسجد تھی جو دنیا کی سب مساجد میں سب سے اوپر کی ہے محمد رسول اللہ یہ کی مسجد.تو اس طرح آغاز کریں یعنی اس رسول کی سنت پر چلتے ہوئے آغا ز کریں جس رسول کی سنت پر آپ نے دنیا کو اکٹھے کرنا ہے اور جس کی سنت پر چلتے ہوئے آپ نے اللہ کے گھر بنانے ہیں صرف اللہ کی خاطر.پس خدا کرے کہ آپ کو یہ توفیق ملے کہ صدی کے آخر پر ہم یہ اعلان کر سکیں کہ جماعت جرمنی کو تو حید کے دو تقاضے پورے کرنے کی توفیق ملی ہے.ایک یہ کہ ایک لاکھ احمدی یورپ میں توحید کے علمبر دار اس آخری سال میں ہم نے بنائے ہیں اور ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کے نام پر اسی کی خاطر سو مساجد کی ہم نے تعمیر کر دی ہے اور اس میں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے سیدہ بشری بیگم مہر آپا کا ایک مستقل حصہ ہوگا.گو یا ہر مسجد میں ان کی طرف سے کچھ نہ کچھ ہوگا اور میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا.تو اللہ کرے کہ ہمیں یہ توفیق عطا ہو.آپ میں سے بہت سے ہیں میں جانتا ہوں جن میں غریب بھی ہیں ، امیر بھی ہیں مگر جماعت جرمنی میں جو مالی قربانی کی روح پیدا ہو چکی ہے وہ عظیم الشان ہے اور اس قربانی کی روح کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا.اپنی توفیق سے بڑھ کر وعدے نہ کریں.یا درکھیں کہ توفیق سے بڑھ کر وعدہ کرنا مومن کو زیب نہیں دیتا لیکن تو فیق بڑھنے کی دعائیں کرتے رہیں.اتنا وعدہ کریں جس کی توفیق ہو اس کو پورا کریں اور پھر اور توفیق بڑھنے کی دعا کریں.پھر اللہ اور عطا کرے گا اور یہ میرا تجربہ ہے زندگی کا کہ ہمیشہ اسی طرح ہوتا ہے.اپنی توفیق کے مطابق دیانتداری سے، اخلاص کے ساتھ اپنا حساب کرتے ہوئے ، یہ دیکھتے ہوئے کہ کہاں سے رقم لینی ہے پھر وعدہ کریں تا کہ وعدہ جو ہے محض فرضی وعدہ نہ ہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ فرضی وعدہ کر لو اور ہاتھ پلے کچھ ہوتا نہیں لاکھ لاکھ، دس دس لاکھ کے وعدے کر بیٹھتے ہیں اور پہلے

Page 384

خطبات طاہر جلد 16 378 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء پورے نہیں ہوتے تو اگلے پھر کر بیٹھتے ہیں.چنانچہ میں نے جماعت کو، یعنی نظام جماعت کو یہ نصیحت کی ہے کہ آئندہ سے ایسے لوگوں کا کوئی وعدہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کھیل نہیں کی جا سکتی.اخلاص کی بھی کھیل نہیں کی جاسکتی.جو کچھ خدا کے حضور پیش کرنا ہے وہ کریں جو کرنا ہے اور اگر زیادہ ہے تو جب توفیق ہوگی اس وقت زیادہ بھی دیدیں مگر جو وعدہ کیا ہے اس سے کم نہیں ہونے دینا.سوائے ایسے اتفاقی حادثات کے جس میں انسان مجبور ہو جاتا ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کے کیا حالات ہیں.پس آپ سب کو میری عمومی نصیحت یہی ہے اور باقی دنیا کو بھی میں آپ کے حوالے سے یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ ہم اللہ کی قوم ہیں.توحید کے غلام ہیں.ہم نے جو سو سالہ جشن منانا ہے وہ دنیا کی طرح تو نہیں منانا کہ بینڈ باجوں کے ساتھ اور آتش بازیوں کے ساتھ ایک صدی کے ختم ہونے اور دوسری کے شروع ہونے کا اعلان کر رہے ہوں.ہم تو تو حید کے پجاری ہیں.ایک صدی سے سر جھکاتے ہوئے خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اگلی صدی میں داخل ہوں گے.ان سب کامیابیوں پر سر جھکاتے ہوئے جو بظاہر ہمیں نصیب ہوں گی مگر اللہ کے فضل سے ہمیں عطا ہوں گی، ہماری کوشش کا کوئی اس میں فی الحقیقت معنی نہیں ہوگا کیونکہ ہماری کوششیں بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہیں.پس جس طرح حضرت محمدرسول اللہ یہ فتح مکہ کے وقت مکہ میں داخل ہوئے تھے.اے عالمگیر جماعت غور سے سن لو کہ ہم نے اس طرح یہ صدی منافی ہے، اس طرح اس صدی میں داخل ہونا ہے.فتح مکہ جو تمام فتوحات کی ماں تھی آنحضرت ﷺ اس حال میں داخل ہوئے کہ روتے روتے آپ کا سر کجاوے سے لگ گیا.کجاوے پر سجدہ کر کے آنسو بہا رہے ہیں.دنیا کا سب سے بڑا فاتح اس طرح سب سے عظیم فتح منا رہا تھا کہ خدا کے حضور اس کی روح بھی سجدہ ریز تھی ، آپ کی جان، آپ کی زبان، آپ کا کلام، آپ کا سرسب کچھ خدا کے حضور سجدہ کر رہا تھا.ایسے آنسوؤں کے ساتھ اس طرح سر جھکاتے ہوئے آپ نے داخل ہونا ہے کہ ساری دنیا کو عظیم فتوحات دکھائی دے رہی ہوں.جماعت احمدیہ نے بارہا جگہ جگہ جس طرح خدا تعالیٰ کے حضور مؤ حدوں کی جماعتیں پیدا کردیں، کثرت کے ساتھ دنیا کی ہر قوم میں سے، دنیا کے ہر رنگ میں سے اور ہر زبان میں سے ہمیں اگلی صدی سے پہلے ایسی قومیں تیار کرنی ہیں جو موحدین کی قومیں ہوں گی ، جو تو حید باری تعالیٰ کے سوا

Page 385

خطبات طاہر جلد 16 379 خطبہ جمعہ 23 رمئی 1997ء کسی اور کے سامنے سر نہ جھکا ئیں گی ، دنیا کی نظر میں ایک عظیم الشان کارنامہ ہوگا.اتنی مساجد بنائیں گے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی اس دور میں اتنی مساجد کی توفیق نہ ملی ہو اور داخل اس طرح ہوں گے جس طرح ہمارے آقا و مول محمد رسول اللہ یہ فتح مکہ کے وقت داخل ہوئے تھے اور یہی تو حید کا سب سے اعلیٰ اور خوبصورت منظر ہے کہ سر جھکاتے ہوئے ، روتے ہوئے، خدا کے حضور یہ اقرار کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہم میں تو کچھ بھی نہیں ہے، جو کچھ ہے تیری توفیق ہی سے عطا ہوا ہے.یہ ہماری صدی کا جشن ہے جو ہم نے منانا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین پس سیدہ مہر آپا کے وصال نے ایک نئی بات بھی آپ کے اندر پیدا کر دی ہے جماعت جرمنی میں.یہ سارے خیالات میرے دل میں اس وصال کے ساتھ ہی اٹھنے شروع ہوئے اور اس طرح پایہ تکمیل کو پہنچے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وفات کو زندہ کرنے کی توفیق بخشے.جو بھی ہم میں سے مرے صفات باری تعالیٰ کو پیچھے روایات کی صورت میں زندہ چھوڑتا چلا جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اب میں اس کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کے جو باقی پروگرام اور انتظامات ہیں اب وہ خطبہ کے بعد شروع ہو جائیں گے اور آپ کو علم ہے کہ وہ کیا ہیں.

Page 386

Page 387

خطبات طاہر جلد 16 381 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء نئے آنے والوں کو ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ کے تعلق سے باندھنا شروع کریں ( خطبه جمعه فرموده 30 رمئی 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ ایک خطبے میں میں نے نفس مطمئنہ کا مضمون شروع کیا تھا اور سفر کے دوران چونکہ اور بھی بہت سی باتیں در پیش رہیں اس لئے وقتی طور پر اسے منقطع کرنا پڑا تھا تو خیال تھا کہ واپس لندن پہنچ کر پھر میں از سر نو اس مضمون کو اٹھاؤں گا لیکن کچھ اور بہت سی ایسی باتیں اس سال کے لئے جمع ہو چکی ہیں جن کا عمومی تذکرہ ضروری ہے.پس پہلے میں ان سے فارغ ہوں پھر انشاء اللہ پورے اطمینان کے ساتھ نفس مطمئنہ کی باتیں کریں گے.مشکل یہ ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اس سال کے ختم ہونے میں اور صرف چند سال باقی ہیں اس صدی کے ختم ہونے میں.کچھ تیاریاں ایسی ہیں جن کا اس سال کے اختتام سے تعلق ہے، کچھ ایسی ہیں جن کا صدی کے اختتام سے تعلق ہے اور انگلی صدی میں دور تک انہوں نے اثر انداز ہونا ہے.ان دونوں باتوں کا فکر بھی ہے اور ان میں توازن بھی رکھنا پڑتا ہے.پس اس پہلو سے اب میں اس سال کی ایسی باتیں کروں گا جن کا بالآخر انشاء اللہ اگلی صدی پر ضرور اثر پڑے گا اور وہ ہے تبلیغ کے اور تربیت کے وہ کام جن کا خصوصیت سے تبلیغ سے تعلق ہے.جماعت احمدیہ میں تبلیغ کے میدان بہت وسیع ہو گئے ہیں اور وہ باتیں جن کا پہلے خواب و خیال

Page 388

خطبات طاہر جلد 16 382 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء میں بھی تصور نہیں آسکتا تھا اب حقیقت کے طور پر ہمیں سامنے رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں.ایک زمانہ تھا، بہت پہلے کی بات ہے کہ میں سوچ کر خواب میں چٹخارے لیا کرتا تھا کہ کبھی ایک لاکھ ایک سال میں بھی احمدی ہوں گے اور اب یہ ایک لاکھ تو لگتا ہے یہ سامنے یونہی پڑے ہیں، سامنے بکھرے پڑے ہیں.اب ملینز Millions کی باتیں شروع ہو گئی ہیں.وہ ممالک جہاں چند ہزار کے قصے ہوتے تھے تو بہت فخر سے وہ سر اونچا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں اب سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں میں باتیں شروع ہو گئی ہیں.اب وہ لاکھوں سے نکل کر Half a Million کی باتیں کر رہے ہیں اس سال آدھا ملین تو ہمارا ہونا چاہئے.تو اتنی تیزی سے اللہ تعالیٰ نے پیمانے بدلے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور جس تیزی سے پیمانے بدل رہے ہیں اسی تیزی سے ذمہ داریاں بھی ساتھ بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ساتھ مجھے آپ کو بتانا پڑتا ہے، سمجھانا پڑتا ہے کہ کوئی ایسی فکر کی بات نہیں ہے.یہ ذمہ داریاں اگر سلیقے کے ساتھ، قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کریں گے تو جتنا چاہے معاملہ پھیلتا چلا جائے آپ کی وسعت بھی اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ بڑھائے گا اور ان پھیلتے ہوئے کاموں کو آپ سمیٹنے کی نئی طاقتیں اللہ تعالیٰ سے حاصل کریں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کے لئے آپ کو کئی دفعہ، بار بار توجہ دلانی پڑتی ہے.خصوصاً جرمنی کے دورے میں جماعت احمدیہ کو مجھے بہت سمجھانا پڑا وہ بعض باتوں میں گھبرا گئے تھے کہ ہم اتنا بڑھ رہے ہیں، اتنا پھیل رہے ہیں کریں گے کیا سنبھالیں گے کیسے.جب ان کو بتایا کہ دیکھو یہ طریقہ ہے سنبھالنے کا تو سارے مطمئن، سب خوش ہوئے اور جنہوں نے عمل کیا ہے وہ رپورٹیں بھیج رہے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ سمجھائی بھی ہوئی ہیں قرآن کریم میں اس کے تذکرے موجود ہیں اور آنحضرت ﷺ نے ان پر عمل کر کے دکھا دیا.پس ساری دنیا کے اصلاح اور تربیت اور تبلیغ کے پروگرام ہوں اور ہم قرآن اور رسول کی سنت سے تعلق کاٹ کر اپنی عقل سے ان کو سلجھانے کی کوشش کریں تو ہو نہیں سکتا ، ناممکن ہے.وہ خدا جس نے آنحضرت ﷺ کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: 108) بنایا ہے اس کی طاقت میں ہے کہ اس دور میں لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه (الفتح: 29) کے نظارے بھی دکھائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کو توفیق بخشے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرنے میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں جن کا وعدہ محمد صلى الله

Page 389

خطبات طاہر جلد 16 383 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء رسول اللہ اللہ کو دیا گیا اور جن کے آخرین غلاموں کو خدا نے یہ اعزاز بخشا تھا کہ ان کے ذریعے یہ عظیم الشان وعدے پورے کئے جائیں.پس ہونے تو ہیں اور لازما ہوں گے لیکن سابقہ حساب سے نہیں ہوں گے کہ آج سو کا اضافہ ہوا، کل ہزار کا یا پانچ سو کا.وہ دگنے والا حساب ہی ہے جو چلے گا اور اسی سے ہم انشاء اللہ بڑھتی ہوئی دنیا کے قدم روک لیں گے اور ان سے آگے نکل کر ان کو گھیرا ڈال سکتے ہیں.اگر یہ دگنے کا نظام آپ تبلیغ میں اور تربیت میں نہ چلائیں تو ناممکن ہے کہ جماعت احمد یہ اپنی موجودہ تعداد کے باوجود دنیا تو در کنار کسی ایک ملک کو بھی فتح کر سکے.پاکستان کی آبادی بھی آپ سے بہت زیادہ آگے نکل چکی ہے اور وہ آپ کو تعداد کے لحاظ سے اس طرح حقارت سے نیچے منہ کر کے دیکھتے ہیں جیسے کوئی کیر از مین پر چل رہا ہو اور واقعہ مولویوں کے دماغ میں جو تکبر ہے وہ اسی وجہ سے ہے آپ چھوٹے ، بے معنی ، بے حقیقت دکھائی دیتے ہیں ان کو.وہ سمجھتے ہیں ایک پاؤں اٹھانے کی بات ہے ہم ان کو کچل دیں گے، حکومتوں میں بڑی بڑی طاقتیں آچکی ہیں ، ان کے ہتھیار بدل چکے ہیں ، ان کو بیرونی قوتوں کے سہارے حاصل ہیں.پس اگر وہ غیر معمولی طور پر مخالفت نہیں کرتے تو ان کی کوئی شرافت نہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے جس نے ان کے ہاتھ روکے ہوئے ہیں اور اگر شرافت کی وجہ سے ہے تو پھر اللہ ان کو جزا بھی بخشتا ہے.دونوں صورتیں ممکن ہیں کیونکہ شرافت ہو یا نہ ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے کس شرافت کے نتیجے میں بچایا تھا.فرعون اور اس کی قوم میں تو کوئی شرافت نہیں تھی.انہوں نے تو ہر قیمت پر ان کی پیروی کا فیصلہ کیا تھا ان کو پیچھے سے جا پکڑنے کے عہد باندھ کر نکلے تھے اور بڑی طاقت اور بڑے غیر معمولی دبدبے کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چند غلاموں پر جو آپ کے پیچھے چل رہے تھے ان پر حملہ کر کے ان کو نیست و نابود کرنے کے ارادے کئے ہوئے تھے.کیا ہوا ان کا.وہ دولہریں جو دونوں طرف سے اٹھی ہیں پہاڑوں کی طرح انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دی.وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضُهُم بِبَعْضٍ (البقرة:252) یہ مضمون تھا جو سکھایا گیا کہ بعض دفعہ تمہیں مخالفتوں کی بڑی دفعہ طاقتور پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی لہریں دکھائی دیتی ہیں.مگر خدا ان کو آپس میں ٹکرا دیتا ہے، ان کے سائے تلے سے اپنے معصوم بندوں کو گزار دیتا ہے اور وہ جو دوسرے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ان پر جا پڑتی ہیں اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہیں.پس وہ باتیں جو خدا نے ظاہری شکل میں یا

Page 390

خطبات طاہر جلد 16 384 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء ظاہری شکل سے ملتی جلتی صورتوں میں ہمیں قرآن میں دکھا دیں کہ ہم پہلے یہ کرتے رہے ہیں وہی مضامین ہیں جو آگے بڑھیں گے اور آگے بڑھ رہے ہیں.پس جماعت احمدیہ کی حفاظت کا ، ان لوگوں کی یہ جو جماعت کی دشمنی کا ارادہ کئے بیٹھے ہیں ہمیں کھائے بیٹھے ہیں، ان کا شرافت سے کوئی تعلق نہیں ہے.آنحضرت ملالہ کو بھی خدا نے جو حفاظت دی ہے بعض مشرکوں کو مشرکوں کے خلاف کھڑا کر دیا اس کو ہاتھ نہیں لگانا، یہ ہماری پناہ میں ہے.تو وہ مخالفانہ لہریں تو اپنی ذات میں کوئی رحم نہیں رکھتیں.مگر ان کا خدا تعالیٰ کی طرف سے آپس میں توازن ایسا قائم کرنا یہ اعجاز ہوا کرتا ہے کہ آنحضرت کو بھی طائف سے واپسی پر ایک مشرک سردار نے اپنی حفاظت کا اعلان کر کے پناہ دی اور وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع تھا اور مشرکوں کو مشرکوں سے لڑا کر حضرت موسی کی طرح پیچ سے ایک راہ نکالی جارہی تھی اس لئے اس میں کوئی بھی مضائقہ نہیں تھا مگر رسول اللہ ہو نے اپنی حفاظت کے لئے انسان کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے.یہ وہ مضمون ہے جس کے نتیجے میں آپ کو یا درکھنا ہوگا کہ پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی آپ کی حفاظت خدا فرما رہا ہے لیکن جہاں شرافت دکھائی دے اور شرافت کو اللہ تعالیٰ استعمال فرماتا ہے وہاں ہماری شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے لئے جو ممکن ہے دعائیں بھی کریں اور ان کے مضبوط کرنے کے لئے جو کچھ بھی دنیا کے طور پر ہم کر سکتے ہیں وہ کرنا چاہئے.پس ایسے ممالک پاکستان کے علاوہ بھی ہیں جہاں بعض مذہبی امور کے وزیر جن کو سعودی عرب سے دنیاوی طاقت ملتی ہے اور مالی طور پر بھی ان کو طاقت عطا ہوتی ہے وہ انصاف کے معاملے میں جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں.انہوں نے ان احمدیوں کو کہا ہے کہ بالکل فکر نہ کر وہم جانتے ہیں کہ آپ سچے لوگ ہیں اس لئے جو کچھ بھی سیاسی تقاضے ہوں ہم آپ کے ساتھ آپ کی مدد پر ہمیشہ تیار رہیں گے اور کسی فساد کو اپنے ملک میں جاری نہیں ہونے دیں گے اور اسی طرح وہ اپنے وعدہ پر قائم ہیں.میرے ساتھ بھی بعضوں کے رابطے ہیں اور میں ان کو حیرت سے دیکھتا ہوں دیکھو اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہماری حفاظت کے لئے انہی لوگوں میں سے نیک نفس لوگوں کو کھڑا کر دیا ہے اور ان کے لئے پھر ہم دعائیں کرتے ہیں پھر وہ بعض دفعہ اپنے حق میں ان کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں.تو اس طرح عالمی طور پر خدا تعالیٰ کے جو فضل جاری ہو رہے ہیں ان کو سمیٹنے کے انتظام بھی اللہ کر رہا ہے.اس کی حفاظت کے بغیر ہمیں ایک لمحہ ہاتھ

Page 391

خطبات طاہر جلد 16 385 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء کی بھی کوئی حفاظت حاصل نہیں.ہر جگہ ہمیں ملیا میٹ کیا جاسکتا ہے، ہماری کوئی طاقت نہیں.جو پہلی نصیحت ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہمیں دنیا کی طاقتیں ملنے والی ہیں مگر ان طاقتوں سے میں خوف کھا رہا ہوں.ان کو اس طرح حرص کی نظر سے نہیں دیکھ رہا جیسے آپ کے ذہن میں خیال ہوگا کہ ہم بعض ملکوں میں طاقت حاصل کر لیں گے.مجھے ان طاقتوں سے ڈر ہے کہ کہیں ان طاقتوں کے سہارے نہ ڈھونڈنے لگیں.کہیں آپ کے دماغ میں یہ کیڑا نہ داخل ہو جائے کہ اب تو ہم اتنے طاقتور ہو گئے ہیں ، حکومتیں ہمارے ساتھ ہیں اب ہمیں کیا پرواہ ہے.تو وہ وقت ہے سر جھکانے کا ، وہ وقت ہے خدا کی توحید کے گانے گانے کا.وہ وقت ہے کہ خدا کے حضور ہم سجدہ کریں اور انکار کر دیں ان طاقتوں کا جو بظاہر آپ کے لئے ہی قائم کی گئی ہیں.ان معنوں میں انکار کر دیں کہ اے خدا ہمیں ان پر کوئی بھروسہ نہیں.جب یہ نہیں تھیں اس وقت تو نے ہمیں یہاں پہنچایا ہے تو نے ہمیں بڑھایا ہے اب یہ ہیں تو ان کے ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہم تیرے بندے ہیں تیرے ہی رہیں گے.پس ان طاقتوں کو اور جھکا اپنی توحید کے سامنے، یہ تیری شان ہے.مگر ہمارے دماغ میں ایک ذرہ بھی اس تکبر اور غرور کا کیڑا نہ گھنے دے کہ ہم سمجھیں کہ اب تو فلاں ملک بھی احمدی ہو گیا ہے اور فلاں ملک بھی احمدی ہو گیا ہے اب ہم دیکھیں گے کوئی ہماری مخالفت کیسے کرتا ہے.یہی ملک جو احمدی ہوں گے ان سے خطرات درپیش ہوں گے.یہاں سیاست اور مذہب کے آپس کے توازن میں کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے.خلافت سے ان علاقوں کے تعلق کے سلسلے میں کئی مسائل در پیش ہوں گے اور بہت الجھنیں ہیں ان سے ہمیں گزرنا ہے اس لئے یہ خیال کہ ہمارا کوئی ایسا راستہ ہے جس کے بعد پھر سیدھا سادھا دور کے ستھرا رستہ شروع ہو جائے گا اور رستے کے مشکلات کے پتھر ہٹادئے جائیں گے یہ بالکل غلط خیال ہے.یاد رکھیں خدا کی راہ میں مشکلات آپ کی حفاظت کرتی ہیں اگر یہ مشکلات نہ ہوتیں تو آج سے بہت پہلے آپ فنا ہو چکے ہوتے.وہ مشکلات ہی ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے دکھائی دینے سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ کو اس طرح ظالمانہ طور پر دیکھتی ہیں گویا آپ کو کھا جائیں گی.یہی مشکلات اور ان کا یہ رویہ ہے جو آپ کو خدا کی طرف جھکنے پر مجبور کرتا ہے آپ اس کی طرف دوڑتے ہیں.پس یہ آپ کی حفاظت کر رہی ہیں آپ کو تقویٰ عطا کر رہی ہیں.آپ کو مزید ترقیات ان

Page 392

خطبات طاہر جلد 16 386 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء مشکلات کی وجہ سے اس طرح ملتی ہیں کہ جب آپ ان سے نہیں ڈرتے اور اللہ کا خوف رکھتے ہیں تو اس خوف سے دشمنی کی بجائے فیض کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں.آج ہماری سوال و جواب کی جوارد و مجلس تھی اس میں ایک دوست نے اسی قسم کا ایک سوال کیا اس کو میں نے سمجھایا.میں نے کہا آپ یہ خیال دل سے نکال دیں کہ جماعت احمدیہ کی کوئی ایسی ترقی ہوگی کہ جس کے بعد یہ مشکلات ہٹ جائیں گی.ترقی کے نتیجے میں ہماری آزمائشیں بڑھیں گی اور لازم ہے کہ ہم ان آزمائشوں پر اس طرح پورے اتریں کہ ہمارے سر مزید جھکتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ اقرار کرنے لگیں کہ آج جو تو نے ہمیں ترقی کی جزاء دی ہے ہم اس پر تیرا شکر ادا نہیں کر سکتے.ہم ان طاقتوں کا احترام تو کرتے ہیں کیونکہ تیری بناء پر ہمیں ملی ہیں لیکن ان پر بناء نہیں کرتے.بناء تجھ پر ہے.اگر یہ کریں گے تو خدا کا یہ قانون آپ کے حق میں لازماً جاری ہوگا.لہن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم: 8) که یا درکھوا گرتم میرا شکر یہ ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا.ان صاحب کا سوال تو اس طرح ہوا تھا کہ اتنے خدا کے فضل ہورہے ہیں اب پتا نہیں ہم شکر ادا کرتے بھی ہیں کہ نہیں.ہم کیسے اپنے آپ کو شکر پر آمادہ کریں.میں نے ان سے کہا کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں آپ شکر نہ کرتے تو یہ ترقیات کیسے نصیب ہوتیں کیونکہ قرآن کریم کی اس آیت نے یہ سمجھایا ہے کہ تم اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں ترقیات دوں گا اگر ترقیات دے رہا ہے تو لازماً شکر کرتے ہو.پس آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا فیض ایک سمندر کی لہروں کی طرح اٹھا ہے اور سارے جزیرہ عرب کو اس میں غرق کر دیا یہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کا شکر تھا ، ساری ساری رات آپ کھڑے ہو کر خدا کا شکر ادا کرتے تھے.آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے اور جتنے فضل بڑھتے تھے اتنا شکر اور بڑھتا چلا جاتا تھا.تو خدا نے تو دکھا دیا کہ ایک شکر کرنے والا بندہ تھا.ایک بندے کے شکر نے اتنے فیض عطا کئے تھے لیکن اس کے شکر کا فیض ہے جو آج ہم کھا رہے ہیں اور اسی کے شکر کا فیض ہے جس نے ہمیں شکر کے سلیقے بخشے.صلى اللهر پس یہ یقین کر کے اس راہ پر آگے بڑھیں کہ حضرت محمد مصطفی امت ہے خدا کے ایک ایسے شکر عروسة گزار بندے تھے کبھی کائنات نے ایسا شکر گزار بندہ نہیں دیکھا.جتنی ترقیات عطا ہوئی ہیں اس شکر کو

Page 393

خطبات طاہر جلد 16 387 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء قبول کرنے کے نتیجے میں ہوئی ہیں اور اب از سرنو جو یہ دور چلا ہے اب بھی شکر کی قبولیت کا دور ہے.آپ کو جو تو فیق مل رہی ہے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی وجہ سے مل رہی ہے.پس اپنے شکر کو بڑھائیں، اپنے شکر کی حفاظت کریں.جب آپ شکر کی حفاظت کریں گے تو دنیا کی طاقتیں آپ کو معمولی دکھائی دیں گی.وہ اتفاقاً حادثات ہیں جو شکر کے نتیجے میں آپ کے قدموں پر گرائے گئے ہیں.وہ اس قابل نہیں کہ آپ ان کے قدموں میں گریں.پس دنیا کی طاقتوں کو کوئی اہمیت اس پہلو سے نہ دیں کہ گویا وہ آپ کا سہارا ہیں.اس پہلو سے اہمیت دیں کہ آپ کے قدموں کا فیض ہیں وہ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے شکر کو قبول کیا ہے جو یہ طاقتیں آپ کو عطا کیں پھر ابھی سے ان کے لئے دعائیں شروع کریں اور ابھی سے جہاں جہاں یہ تجربے ہور ہے ہیں وہاں ان کی حفاظت کے، ان کی تربیت کے وہ سارے سامان کریں جو آپ کے دماغ میں آسکتے ہیں اور پوری کوشش کر دیکھیں کیونکہ ان لوگوں نے بڑی تیزی سے آگے بڑھنا ہے اور پھیلنا ہے.جب یہ سیاست میں تبدیل ہوں گے تو بڑی نرم خو اور گداز پہلور رکھنے والی قومیں ہیں ان سے سیاست ابھرے گی تو بڑے خوفناک چہرے اس سے ظاہر ہوں گے.پس میں آپ کو متنبہ کر رہا ہوں اور آئندہ صدی میں یہ باتیں جو میں کہہ رہا ہوں یہ وہاں بھی اثر انداز ہونے والی ہیں لیکن آئندہ جو دو تین ماہ رہ گئے ہیں ان کے حوالے سے میں آپ کو اب سمجھا تا ہوں کہ دیکھو ایسے ملک ہیں جہاں خدا کے فضل سے اس قسم کی رفتاروں میں تیزی آ رہی ہے ان ممالک میں سے بعض لوگوں نے ان ترقیات کو اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھا اور نئے آنے والوں نے اپنی کوششوں پر بناء کی ،مگر ان کو میں نے سمجھایا ، ان سے لمبی گفتگوئیں ہوئیں.ایک ایسے ہی ملک کے نمائندے تھے جن کو میں بار بار یہ سمجھا تا رہا کہ دیکھیں آپ طاقتور ہیں مجھے پتا ہے مگر جب احمدیت قبول کر کے آپ ثابت قدمی دکھائیں گے تو یہ طاقتیں آپ کو کچھ بھی کام نہیں دیں گی مخالفت اور حسد کی لواٹھے گی اور آپ کو دبائے گی.اس وقت صرف اللہ تعالیٰ پر اور اس کی قدرتوں پر انحصار اور یہ عزم آپ کے کام آئے گا کہ ہم نے اپنے مقصد سے نہیں ہٹنا اور دعائیں کام آئیں گی.وہ ساری باتیں میری سنتے تھے اور چونکہ دنیا سے نکل کے آئے تھے، دنیا کی سیاستوں کے اپنی طرف سے مالک بنے بیٹھے تھے.وہ جانتے تھے کہ سیاست کے سرچشموں پر ہم قابض لوگ

Page 394

خطبات طاہر جلد 16 388 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء ہیں وہ ہو کون سکتا ہے جو ہمیں ان سرچشموں سے جدا کر کے الگ کرے.ان کو میں نے سمجھایا کہ آپ کن باتوں میں پل رہے ہیں حضرت صالح کو اس چشمے سے کس نے ہٹایا تھا جس چشمے کے سرداروں میں آپ شامل تھے اور قوم اقرار کرتی تھی کہ اے صالح تو ہمارے بڑے لوگوں میں سے ہے.مگر جب خدا کی خاطر آپ اللہ تعالیٰ سے وفا کرتے ہوئے قوم سے الگ ہوئے تو قوم نے ان کو چھوڑ دیا بلکہ اسی سر چشمے پرحملہ کیا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں جو وہاں سے پانی پیا کرتی تھی.تو طرح طرح سے ان کو سمجھایا کہ دیکھو اپنی طاقت پر انحصار نہ کرنا.بہت بڑی کامیابیاں بظاہر اللہ نے عطا فرمائی ہیں مگر ان کی حفاظت اسی طرح ہوگی جس طرح میں بتا رہا ہوں اور وہ سنتے تھے اور کئی ان میں سے سر جھکاتے تھے ادب سے اور آخر پر میں یہ دیکھتا تھا کہ ان باتوں کا احترام اپنی جگہ لیکن اپنی بڑائی کا یقین الگ اور چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کو ہم نیکی کے رستے پر استعمال کریں گے اس لئے وہ اس سے گھبراتے نہیں تھے.میں نے ان کے مبلغ کو بعد میں بھی توجہ دلائی.میں نے کہا دیکھو یہ میں نے محسوس کر لیا ہے، مجھے فکر ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اپنی پناہ میں رکھے.چنانچہ ویسے ہی واقعات رونما ہوئے.جہاں سب سے زیادہ توقعات تھیں بیعتوں کی وہاں سب سے کم نکلیں کیونکہ سیاسی لحاظ سے ان کی مخالفت ہوئی اور مخالف دھڑے اٹھ کھڑے ہوئے اور جب انہوں نے ان کی سیاست پر حملہ کیا جس کی پناہ میں وہ تھے اس سیاست نے ان کو کوئی پناہ نہیں دی.پس یہ وہ بات ہے جسے سمجھانے کی ضرورت ہے باقی کسی ملک میں ان غلطیوں کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے.اگر آپ یہ لکھتے ہیں کہ فلاں جگہ ہمیں اتنے بڑے بڑے چیف مل گئے ، اتنے ملک کے بادشاہ مل گئے اتنے ممبر پارلیمنٹ مل گئے تو آپ کی تحریر میں بعض دفعہ ان کی بڑائی کا اس طرح ذکر ملتا ہے جو شکر سے الگ گویا ان کو خدا کے مقابل پر بت بنا رہا ہو.پس یہ میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں ساری دنیا میں ترقی پانے والے ممالک کو کہ ہرگز ان کو وہ اہمیت نہ دیں جو ان کو بت بنادے.ان کی عزت کریں ، ان کا احترام کریں.آنحضرت ﷺے آنے والوں میں سے ادنیٰ سے ادنی کے لئے بھی صلى اللهم اٹھ کھڑے ہوتے تھے مگر وہ عزت اس بناء پر نہیں تھی کہ گویا ان سے محمد رسول اللہ یہ وابستہ ہیں.صلى الله اس بناء پر تھی کہ وہ محمد رسول اللہ سے وابستہ رہیں گے تو عزت پائیں گے.ان دو چیزوں میں بہت فرق ہے.

Page 395

خطبات طاہر جلد 16 389 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء پس پہلی بات جو اس سال کے تعلق میں اور آئندہ صدی پر اثر انداز ہونے والی میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں وہ یہ بات ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمیں بہت ترقیات مل رہی ہیں.ہر ملک کا فرض ہے کہ آنے والے کو بتائے اور سمجھائے یہ طاقتیں تمہارے کوڑی کی بھی کام نہیں آئیں گی اگر تم نے ان طاقتوں کو خدا کے حضور سجدہ ریز نہ رکھا اور سہارا خدا کا نہ سمجھا ، ان کو سمجھ لیا.اگر تم نے ان کو سہارا سمجھا تو تمہارے سہارے ٹوٹ جائیں گے اور پھر تمہاری طاقتیں ہمارے کسی کام بھی نہیں آئیں گی.ہوسکتا ہے یہی طاقتیں عالمی جمعیت کی راہ میں حائل ہو جائیں اور فتنے پیدا کرنے کا موجب بنیں.ہو سکتا ہے نئی قو میں جو زیادہ طاقت کے ساتھ جماعت میں داخل ہوں وہ اٹھ کھڑی ہوں اور وہ کہیں کہ ہمیں کیا ضرورت ہے ایک مرکز کی اطاعت کرنے کی.ہم نظام جماعت کو سمجھ رہے ہیں، ہم احمدیت کو جانتے ہیں، عبادت کرتے ہیں اور یہی ہمارے لئے کافی ہے اس لئے کوئی ضرورت نہیں کہ ایک نظام سے بندھے رہیں اور اس قسم کے فتنے وہاں ضرور اٹھیں گے.آپ دیکھنا آج نہیں تو کل ایسے فتنے اٹھائے جائیں گے.آج ان کی سرکوبی کے سامان کریں تب آپ خدا کی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں گے جو تقویٰ کی آنکھ ہے.اس لئے حرص کے ساتھ ان پر نظر نہ ڈالیں ،خوف سے نظر ڈالیں.تکبر کے ساتھ نہیں ، رحم کے ساتھ نظر ڈالیں.دیکھیں کہ ان لوگوں بیچاروں کو کیا کیا مصیبتیں آنے والی ہیں اور اس کا حل ابھی سے کریں.جو سب سے بڑا حل یہ ہے کہ نئے آنے والوں کو ذاتی طور پر اللہ کے تعلق سے باندھنا شروع کریں.جو بھی ان میں سے خدا کے ساتھ باندھا گیا اس کی حفاظت آپ نہیں کریں گے، اللہ کرے گا اور اسی طریق سے قوموں کی حفاظت ہوا کرتی ہے.کثرت سے ان میں خدا والے لازماً پیدا کرنے پڑیں گے اور اس کے بغیر ان قوموں کی حفاظت ممکن نہیں ہے.اس کے لئے ابھی سے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا تربیتی اجلاسوں کی اور تربیتی کلاسز کہتے ہیں انگریزی میں مگر اردو میں بھی یہ لفظ جاری ہو گیا ہے تربیتی کلاسز کے اجراء کی ضرورت ہے.جن ممالک میں عمدگی سے ہوا ہے وہ لکھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے بہت بڑا فائدہ پہنچا ہے.جرمنی کے دورے میں بھی میں نے یہی محسوس کیا کہ جہاں نئے آنے والوں میں سے آدمی چنے گئے اور ان کو تربیت دے کر اپنی قوم کے لئے مقرر کیا گیا وہاں غیر معمولی طور پر خدا کے فضل سے برکت نصیب ہوئی.صرف تربیت کے لحاظ سے نہیں تبلیغ کے لحاظ سے بھی.ان میں اپنی قوم میں تبلیغ

Page 396

خطبات طاہر جلد 16 390 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء کرنے کا نیا جوش پیدا ہوا.ان کو سلیقہ آیا کیسے قوم کو سنبھالا جاتا ہے.احمدیت سے ذاتی وابستگی کے ساتھ جب ان کو بتایا گیا کہ دیکھو ہر مشکل میں دعا کرنی ہے اور دیکھنا اللہ تمہاری کیسے مدد کرتا ہے تو جہاں جہاں اللہ نے مدد فرمائی ان کے حوصلے پہلے سے بہت بڑھ گئے.تو وہاں بھی یعنی جرمنی میں بھی کامیابی اسی بنیادی بات کو نصیب ہو رہی ہے جو قرآن نے ہمیں سکھائی تھی.پس اسی لئے میں نے وہاں بھی یہ کہا کہ کوئی نئی بات نہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.یہ قرآن کریم نے سکھائی ہوئی ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب کثرت سے تو میں اسلام میں داخل ہو رہی ہوں گی تو اس وقت ان میں سے کچھ لوگ ضرور سفر کر کے مدینے پہنچیں اور وہاں تربیت حاصل کریں اور پھر واپس اپنی قوم میں پھیل جائیں اور وہاں جا کر وہی تربیت کی باتیں آگے کریں.اس قرآنی تعلیم میں بہت گہری حکمت ہے.میں سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ کس طرح اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ساری دنیا کا معلم بنا کر ساری دنیا کو رام کرنے کا طریقہ بھی ساتھ ہی سکھا دیا.جب تک بیرونی لوگ کسی قوم کو پیغام دیتے رہتے ہیں وہ پیغام بیرونی ہی رہتا ہے.جب ان میں سے کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں جو پیغام سمجھنے کے بعد پیغام کی نمائندگی خود اپنی قوم میں کرنے لگتے ہیں تو تب وہ پیغام بیرونی نہیں رہا کرتا.اب جہاں بھی میں نے دیکھا ہے وہاں بوسنین ہوں یا البا نین ہوں یا دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ جہاں ان لوگوں نے خود ہمارے اس تربیتی نظام سے فائدہ اٹھا کر اپنی قوم میں احمدیت کو جاری کرنے کا ارادہ کیا، غیر معمولی برکت ملی.عربوں کو جب عربوں سے آواز آئی ہے کہ ہاں یہ ہو رہا ہے، یہ ہونا چاہئے تو عربوں نے اس کے مقابل پر اس میں فوری طور پر لبیک کہا.جب تک پاکستانی عربوں کو پیغام دیتے رہتے تھے قبول تو کر لیتے تھے لیکن سمجھتے تھے کہ یہ اور لوگ ہیں ، ہم اور لوگ ہیں لیکن عربوں میں ایسے ہیں خدا کے فضل کے ساتھ جن کا دور دور تک اثر ہے کیونکہ انہوں نے احمدیت کو سچا سمجھا، تقویٰ اختیار کیا، اللہ تعالیٰ سے ان کا پیار کا تعلق ہوا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت بخشی.چنانچہ وہی بات عرب، عربوں سے سنتے ہیں جو پہلے پاکستانیوں سے سنا کرتے تھے اور عربوں سے سنتے ہیں تو اپنے گھر کی باتیں معلوم ہوتی ہیں، بہت مثبت ردعمل دکھاتے ہیں.

Page 397

خطبات طاہر جلد 16 391 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء چنانچہ بعض علاقوں میں مثلاً مشرقی برلن اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے علاقوں میں ایسے ہی بعض مخلص عرب ہمیں عطا ہوئے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ اور ان کے پیغام کا ایسا اثر ہے کہ اسی سال میں اب تک تین سو سے زائد عربوں کی بیعتیں ہو چکی ہیں اور وہ آگے پھر ان سے سیکھ رہے ہیں اور آگے بات کو بڑھا رہے ہیں.ان میں غیر معمولی خدا کے فضل کے ساتھ احمدیت سے لگاؤ اور وابستگی پیدا ہورہی ہے.تو صرف بوسنین کی بات نہیں ، صرف البانین کی بات نہیں، ہر قوم میں جہاں بھی اس نسخےکو آزمایا گیا ہے جو میں آپ کو پھر سمجھا رہا ہوں، میر انسخہ نہیں قرآن کریم کا نسخہ ہے.یہ نسخہ ہمیشہ کارگر ثابت ہوتا ہے.ان لوگوں میں سے آدمی چینیں ، ان کو سمجھائیں.اب مدینے والی بات آج کے ماحول میں سمجھنی چاہئے.مدینے سے مراد یہ تو نہیں کہ اب ربوہ ، مدینہ بناہماری ہجرت کا یا لندن مدینہ بن گیا ثانوی حیثیت سے، تو ساری دنیا سے لوگ یہاں اکٹھے ہوں.یہاں بھی جب توفیق ملتی ہے تو اکٹھے ہوتے ہیں اور اس کا اپنا فیض پاتے ہیں مگر مدینے سے مراد ہر ملک کا مرکز اور اس مرکز سے تربیت یافتہ لوگ جہاں بھی پہنچ کر ڈیرہ لگاتے ہیں وہاں مدینہ بن جاتا ہے.پس یہ ناممکن ہے کہ سب لوگ جرمنی میں فرینکفورٹ پہنچیں مگر فرینکفورٹ والوں کو یہ توفیق ہے کہ وہ مختلف مراکز میں پہنچیں.وہاں ہمارے مربی ہیں وہ ان مقامی لوگوں کی تربیت کریں اور پھر آگے تربیت کی کلاسز میں وہی ساتھ شامل ہوں جو مقامی لوگ ہیں اور ان کی آپس میں دوڑیں کروائی جائیں.یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کو آئندہ دو ماہ جو رہ گئے ہیں ان میں کثرت کے ساتھ استعمال کریں اور پیش نظر رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی اب تک کی تبلیغ کو دگنا بھی کر سکتا ہے، زیادہ بھی کر سکتا ہے جب وہ چاہے.مگر جوں جوں جلسے کا وقت قریب آرہا ہے اسی نسبت سے ہمیں اپنے کام کی رفتار کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ وہ ترکیب ہے جو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.ساری دنیا کے احمدیوں کو جہاں بھی وہ ہیں اس کو پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے استعمال کریں لیکن پہلی بات جو کہی تھی وہ شرط ہے اس کی کامیابی کی.اگر اس بڑھنے کے نتیجے میں آپ کو تکبر عطا ہونے کی بجائے عاجزی ملی ہے تو یہ نسخے ضرور کام کریں گے.اگر تکبر کا کوئی کیڑا آپ کے دماغ میں داخل ہو گیا ہے تو یہ نسخہ بالکل بے کار جائے گا، اس کو استعمال کر کے دیکھ لیں، آپ کی تربیتی کلاسز کو کچھ بھی برکت نصیب نہیں ہوگی.پس

Page 398

خطبات طاہر جلد 16 392 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء اس وقت میں اس کو استعمال کریں تو بقیہ وقت میں آپ کی رفتار پہلے سے بہت بڑھ جائے گی اور رفتار کو اب اس طرح بڑھانا ہے کہ تربیت ساتھ ساتھ اسی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہو اور اس کے لئے یہ ترکیب ہے کہ ہر قوم کے آدمیوں کو فوری طور پر معلم بنانے کی طرف توجہ کریں.ساتھ ساتھ وہ اپنی قوم میں پیغام رسانی کریں اور جانے سے پہلے آپ سے یہ عہد کر جائیں کہ اب ہم نے اپنی تعداد کو دگنا ، تگنا، چوگنا بڑھانا ضرور ہے اور یہ بھی تربیت کا حصہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جوں جوں ترقی ہوگی ، ترقی اپنی ترقی کے سامان خود ہی کرتی چلی جائے گی اور شرط وہی ہے کہ بجز بڑھ رہا ہو، دعاؤں پر انحصار بڑھ رہا ہو.جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابیاں عطا فرمائی ہیں وہاں کے مربی بھی ، وہاں کے کارکن بھی دن بدن زیادہ خدا کے حضور جھکتے چلے جائیں اور یا درکھیں کہ ان دنیاوی لوگوں میں ہماری کوئی پناہ نہیں ہے، یہ ہماری پناہ لینے کے لئے آئے ہیں.ان کو پناہ دیں اور اسی پناہ کے نتیجے میں اللہ آپ کو پناہ دے گا.ان کو پناہ دیں حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے اخلاق کی پناہ ، ان کو پناہ دیں قرآن کریم کی تعلیم کی پناہ اور یہ پناہیں ان کو عطا کر دیں تو پھر دیکھیں ساری دنیا کی پناہ کا یہ موجب بن جائیں گے، اپنی قوم کو بھی پناہیں دیں گے اور باقی دنیا کو بھی پناہ دیں گے.پس یہ دوسری بات ہے جس کو آپ پہلے باندھ لیں اور محنت کے ساتھ اس کام میں آگے بڑھیں.تیسری چیز جس کا میں ذکر عمومی طور پر پہلے کرتا رہا ہوں آج بھی میں نے اپنی مجلس میں کیا تھا وہ ہے فیض کا پہنچانا.یہ جو تو میں آپ میں داخل ہو رہی ہیں ساتھ ساتھ ان کو فیض پہنچانا بھی ضروری ہے اور فیض پہنچانے کے کئی طریق ہیں.کچھ طریق تو ایسے ہیں جہاں بعض جگہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بعض قو میں غربت اور مصائب کا شکار ہو چکی ہیں وہاں مالی طور پر بھی ہمیں جو توفیق ہے ضرور ان کے لئے خرچ کرنا ہو گا لیکن ایسی قو میں کم ہیں.بہت ایسی ہیں جو اس قسم کی مالی امداد کی ضرورت مند نہیں ہیں مگر اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کے لئے جماعت کو ضرور مدد کرنی ہوگی.چنانچہ جن قوموں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کو جرمنی کی خوشحالی کی وجہ سے جو غریب ملکوں سے آکر جرمنی میں بسے تھے اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے کہ اب وہ چندے دے رہے ہیں اور پورے جوش سے نہیں تو کسی حد تک مالی نظام کا حصہ بن گئے ہیں لیکن بعض ان میں سے ایسے

Page 399

خطبات طاہر جلد 16 393 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء بھی ہیں جو جوش میں اتنا بڑھ گئے ہیں کہ پاکستانیوںکو جو پیدائشی احمدی تھے پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور مالی الله قربانی میں اور آگے بڑھ رہے ہیں.توفیق کا جہاں تک تعلق ہے دو طرح کے فیض ہیں.مالی قربانی کی توفیق بخشنا یہ سب سے بڑا فیض ہے اور مالی قربانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنا یہ نسبتا ادنی درجے کا فیض ہے اور اس فرق کو میں آنحضرت میہ کی تعلیم کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.جب تک ان بار یک باتوں کو آپ نہیں سمجھیں گے آپ کو یہ بھی پتا نہیں چلے گا کہ فیض کیسے کرنا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ کسی غریب کو پیسے دے دئے یہی فیض ہے.یہ فیض نہیں.اس سے بڑھ کر فیض یہ ہے کہ جو مانگنے والا ہاتھ ہے اس کو عطا کرنے والا ہاتھ بنائیں کیونکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اليد العليا خير من اليد السفلی الید العلیا جواو پر کا ہاتھ ہے وہ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے.آپ نچلے ہاتھ والے کو فیض کیوں دے رہے ہیں او پر والے ہاتھ کا فیض کیوں نہیں پہلے دیتے اور یہ فیض غربت میں بھی عطا ہو جاتا ہے.عظیم الشان فیض ہے، جس کی کوئی حد نہیں ہے،اگر اس طرح جاری کریں جس طرح آنحضرت ﷺ نے اپنے غلاموں میں جاری فرمایا.وہ اصحاب الصفہ جو مسجد کے تھڑوں پر پل رہے تھے غربت سے بعض دفعہ ایک ایک، دو دو، تین تین دن کی روٹی نصیب نہیں ہوتی تھی، جب آنحضرت می ن اليد العلیا کے فیض کی باتیں کیں تو جنگلوں میں نکل گئے ، کلہاڑیاں لے کر لکڑیاں کاٹیں ، ان کو بیچ کر جو ہاتھ آیا وہ غریبوں میں تقسیم کیا.آنحضرت ﷺ کی شان دیکھ فقیروں کو بادشاہ بنا دیا، غریبوں کو عزت نفس بخشی اور ان کو بتایا کہ تم احسان کرنے والے ہو غربت میں بھی احسان کر سکتے ہو.تو.تو سب سے پہلے یہ احسان کریں غریب قوموں کو عزت نفس بخشیں اور یہ حال ساری دنیا میں برابر چل رہا ہے.ہندوستان میں جو تھروں کے علاقے ہیں وہاں کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدی ہو رہے ہیں.میں ان کو لکھتا ہوں کہ ان کی مسجد کی ضرورتیں پوری کرنے میں آپ مدد کریں بے شک کریں اور ان کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے سکیمیں بنائیں مگران کے امیر کو بھی ، ان کے غریب کو بھی خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ خرچ کرنے والا ضرور بنا دیں.یہ آپ کا سب سے بڑا احسان ہے جو ان پر ہو گا جو آئندہ نسلیں سنبھالیں گی.ورنہ اگر آپ نے صرف ان کی غربت دور کرنے کے لئے پیسے تقسیم کئے یا آٹا تقسیم کیا تو آج ان کی ایک غربت دور ہو رہی ہوگی.ایک اور غربت

Page 400

خطبات طاہر جلد 16 394 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء میں مبتلا ہو جائیں گے.ان کی روحیں غلام بن جائیں گی ان کی روحوں کو ہمیشہ بھکاری بن کے ہاتھ آگے بڑھانے کی عادت بن جائے گی.ان کی اگلی نسلیں کس کام کی ہوں گی ، احمدیت کے کس کام آئیں گی.پس تیسرا حصہ جو نصیحت کا ہے وہ فیض سے تعلق رکھتا ہے اپنے فیض کو عام کریں اور وہ فیض رساں بنیں جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی امیہ تھے.اپنے غلاموں میں فیض رساں پیدا کر دئے اور ان کی غربت ان کی فیض رسانی کی راہ میں حائل نہیں ہوئی بلکہ ایسے بھی تھے جن کو دنیا نصیب ہوئی اور اپنے ہاتھوں سے بانٹ کر غریب ہو گئے اور غریبی میں بھی فیض جاری رکھے.تو جونئی قو میں آ رہی ہیں اگر آپ ان کو یہ فیض بخشیں تو آپ دیکھیں ان کے سر ایک پہلو سے خدا کے حضور جھکیں گے دوسرے پہلو سے دنیا کے سامنے سر بلند بھی ہوں گے، اپنے وجود کے سامنے سر بلند ہوں گے.وہ اپنے نفس سے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کریں گے.ان کا وہ حال نہیں ہوگا جو قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جب تم ان کو کچھ خیرات ڈالتے ہو تو ان کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں.وہ لوگوں کو خیرات دیں گے اور شرم سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احسان کی یاد سے ان کی آنکھیں اٹھیں گی اور وہی سجدہ ریز ہوں گی.اپنی ان حالتوں پر شکر کریں گے اور شکر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ بڑھاتا چلا جائے گا.پس یہ احسان کا یہ پہلو ہے جس کو اول طور پر اپنے سامنے رکھیں.پھر دوسرا پہلو اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کا بھی ہے جو ہماری ذمہ داری ہے.دوسرا پہلو بھوک کو جب وہ کاٹتی ہو اس وقت مٹانے کا پہلو ہے جس کی قرآن نے الگ تلقین فرمائی ہے اور اس کا تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہے.یہ یاد رکھیں جب میں یہ نصیحت کرتا ہوں تو تبلیغ سے جوڑ کر اس کو نہیں کرنا.بھوکا تو بھوکا ہے خواہ وہ ہندو بھوکا ہو یا سکھ بھوکا ہو یا مسلمان بھوکا ہو یا عیسائی بھوکا ہو.بھوکے سے اس طرح برتاؤ کریں جیسے حضرت محمد مصطفی سے بھوکوں سے برتاؤ کیا کرتے تھے اور نبوت سے پہلے بھی کیا کرتے تھے بلکہ وہی برتاؤ تھا جس نے آپ کے شعلہ نور کو ایک ایسا نور بنا دیا جس پر آسمان سے بھی نور نازل ہوا ہے.حضور اکرم ﷺ کا نبوت سے بہت پہلے کا یہ حال تھا کہ جو کچھ ہوتا تھا غریبوں میں تقسیم کر دیا.حضرت خدیجہ سے جو کچھ پایا آپ نے پوچھا کہ تم مجھے اس طرح دے رہی ہو کہ واقعہ مجھے مالک بنا رہی ہو اتنی بڑی دولت کا.انہوں نے کہا ہاں میرے آقا یہی ہے میرا مقصد، آپ اس کے مالک ہیں.آپ نے کہا اچھا اگر میں مالک ہوں تو میں ساری دولت تقسیم کر دوں گا..

Page 401

خطبات طاہر جلد 16 395 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء انہوں نے سر جھکایا ، تائید کی.یہی وجہ ہے کہ آخری وقت تک رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہ کو یاد کرتے رہے، یاد کر تے تھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے.کیسی عظیم بیوی تھی.اپنے خاوند کو اپنا سب کچھ پیش کیا اور اس کامل یقین کے ساتھ کیا کہ اب یہ واقعہ مالک ہے جو چاہے گا اس سے کرے گا اور خیر ہی کرے گا اور میں اس کے ساتھ ہوں ، پھر آخر عمر تک وفا کی.پس اس قسم کا فیض آپ دنیا میں جاری کریں یعنی غریبوں کے لئے غربت میں محسن بن جائیں اس بناء پر نہیں کہ اگر آپ غربت کا ازالہ کریں گے تو وہ احمدی ہو جائیں گے.جو غربت کے ازالے کی خاطر احمدی ہوا کرتے ہیں.وہ پھر لمبا عرصہ احمدی رہا نہیں کرتے.آج مطلب ہوا کل مطلب ختم ہو گیا.پس اس غربت کے ازالے کو مؤلفۃ القلوب کے مضمون سے ملائیں نہیں.یہ دو الگ الگ مضمون ہیں.الگ الگ مضمون اس لئے ہیں کہ تالیف قلب کی شرط یہ ہے کہ نئے آنے والے لوگ اپنے دلوں کی تالیف کے لئے کچھ زیادہ احسان چاہتے ہیں ، وہ احسان کا سلوک کرو اور یہ احسان اگر سچا ہو اور حقیقی ہو آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہو تو تھوڑی دیر کے بعد یہ احسان کے محتاج رہتے ہی نہیں.یہ مؤلفة القلوب ایک دو سال کی باتیں ہیں.یہ غربت کا دور کرنا جس میں مذہب کی قبولیت آپ کی نیت میں داخل ہو وہ تالیف قلب نہیں ہے کیونکہ وہاں چند سال کے بعد ان کی نچلے ہاتھ کی عادت ہو جائے گی.ایسی قوموں کو سنبھالنے کے لئے آپ کو پھر مسلسل پیسے دینے پڑتے ہیں.جہاں پیسے رو کے وہاں یہ مرتد ہو گئے یا مرتد نہ ہوئے تو احمدیت میں دلچسپی چھوڑ دی.تو ساری باریک راہیں جو آپ کو لازماً سمجھانی ہیں کیونکہ ان راہوں پر آپ نے چل کر بہت آگے بڑھنا ہے.تو جہاں فیض کا دوسرا پہلو اختیار کر یں وہاں ان دو چیزوں میں فرق کریں.غربت کے خلاف جہاد جہاں توفیق ہے، طاقت ہے وہاں دوطریق سے کریں اور اس میں مذہب کو بیچ میں دخل نہ دینے دیں.مذہب کو دخل دینے کا مضمون بھی آئے گا لیکن وہ اقرباء والے مضمون میں داخل ہے اس کی بات میں بعد میں کروں گا.پہلی عمومی بات کر رہا ہوں کہ جب آپ غربت دور کریں، فاقہ دور کریں جیسے زائر میں ہو رہا ہے یا آج کل سیرالیون میں بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے اور بہت سے ممالک ہیں جو غربت اور فاقوں کا شکار ہیں وہاں فاقوں کے خلاف جہاد کرنا ہے.آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں کوئی دہر یہ ہے

Page 402

خطبات طاہر جلد 16 396 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء یا مومن ہے، بندہ خدا کا ہے جو مصیبت میں مبتلا ہے اور اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ تم میرے بندے ہو تو میرے بندوں کی خدمت کرو.پس جتنی توفیق ہے وہ کریں اور وہاں بھی ساتھ ساتھ دوسرا پہلو یہ پیش نظر رکھیں کہ ان لوگوں کو اگر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش ممکن ہے تو اس کو فوقیت دیں.انگلستان میں ایسی ایک تحریک چل رہی ہے اس میں بھی ہم حصہ لے سکتے ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے ہدایت کی تھی کہ میرے اور میرے سب بچوں کی طرف سے اس کا ممبر بن جانا چاہئے ہمیں.امید ہے مبارک ظفر صاحب نے جو میرے ذاتی اکاؤنٹس کو بھی سنبھال رہے ہیں انہوں نے اس پر عمل کیا ہوگا مگر اگر بھول گئے ہیں تو اب فورا کریں.وہ سکیم یہ ہے کہ تین پاؤنڈ غالبا یا کچھ لگ بھگ رقم فی مہینہ دینی پڑتی ہے اور یہ جو انجمن بنی ہوئی ہے یہ غریب ملکوں میں پیسے نہیں بانٹتی ، گندم نہیں بانٹتی بلکہ ان ذرائع کو مہیا کرتی ہے جن کے ذریعے وہ خود گندم پیدا کرسکیں.وہ ذرائع مہیا کرتی ہے جن کے ذریعہ وہ خود اپنے لئے پانی نکال سکیں زمین سے.وہ ذرائع مہیا کرتی ہے، وہ طریقے سکھاتی ہے جن کے ذریعے وہ اپنے لئے چاول پیدا کر سکیں.تو ایک بہت باعزت اور عظمت والی تحریک ہے اور میں اس سے بہت متاثر ہوں کیونکہ میرے نزدیک اسلام کی تعلیم کا ایک چھوٹا سا شوشہ ہے جو انہوں نے صلى الله از خود اختیار کر لیا ہے کیونکہ اسلام یہی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ میں آنحضرت ﷺ کے حوالے سے بارہا آپ کے سامنے یہ مضمون کھولتا چلا جارہا ہوں.پس جماعت احمدیہ کو بھی اس قسم کی تحریکات کو اپنے اپنے ملکوں میں جاری کرنا چاہئے.جہاں غربت کو آپ کی ضرورت ہے، جہاں غربت کو اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے اور سب سے زیادہ دردناک حالت غربت کی قرآن کریم یہی بیان فرماتا ہے أو اظعُمُ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيمَا ذَا مَقْرَبَةِ أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةِ (البلد: 15 تا 17) - تو ذَا مَتْرَبَةِ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةِ سے مراد وہ ہیں جن کے اقرباء ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور اقرباء خیال نہیں رکھ رہے.پس آپ کو آگے بڑھ کر ان کے اقرباء بننا ہوگا اور ذی متـر بـہ وہ لوگ ہیں جن کی ٹانگیں جواب دے گئی ہیں، ان میں کھڑے ہونے کی طاقت ہی نہیں رہی ، وہ مٹی میں مل گئے ہیں.نہ ان کی عزت کا کوئی خیال رہا ہے.وہ مجبور ہیں بھیک مانگنے پر اپنی بقاء کے لئے ، وہ مجبور ہیں

Page 403

خطبات طاہر جلد 16 397 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء کہ لوگ ان پر رحم کریں ان کی جھولی میں کچھ ڈالیں.ان کا علاج یہ ہے کہ ان مٹی میں گرے پڑوں کو اٹھائیں اور اپنی ٹانگوں پر کھڑا کریں، ان کو ٹانگیں دیں.یہ وہ مضمون ہے جو اس دوسرے حصے میں میں آپ کے سامنے کھول رہا ہوں کہ یہ فیض بھی جماعت احمدیہ نے ضرور دینا ہے.جہاں جماعت احمدیہ براہ راست ان چیزوں میں حصہ نہیں لے سکتی وہاں اس قسم کی دوسری تحریکوں سے جیسا کہ انگلستان میں چل رہی ہے اور میں نے عرض کیا تھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے پیغام دے دیا تھا مبارک ظفر صاحب کو کہ مجھے اور میرے بچوں کو اس میں شامل کر لیں.جہاں دوسرے احمدی شامل ہو سکتے ہیں اپنے اپنے ملکوں میں وہ بے شک ان میں ہوں کیونکہ اگر چہ یہ تحر یک مسلمان نہیں ہے مگر کام وہ کر رہی ہے جو مسلمانوں کو کرنے چاہئیں اور جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے یہ اس ذریعے سے عیسائیت نہیں پھیلاتے کیونکہ صرف انسانی قدریں ہیں جن کے پیش نظر یہ کام کرتے ہیں.پس اس پہلو سے ان سے تعاون کرنا بھی عین قرآن کے مقاصد کے مطابق ہے.وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المائدہ:3) میں اور کیا باتیں ہیں.نیکی کے معاملات میں جب ہم غیروں سے توقع رکھتے ہیں وہ ہم سے تعاون کریں تو ہم کیوں نہ ان سے تعاون کریں.اگر نہیں کریں گے تو یہ پھر ہم غیروں سے بھی توقع نہیں رکھ سکتے.تو انگلستان والے بھی اور دوسری جگہ بھی جن کو بھی توفیق ہے وہ ایسی تحریکوں میں بھی شامل ہوں جو خالصہ اللہ خدا کے بندوں کی خدمت کرنے والی تحریکیں ہیں اور دوسرے ممالک میں جہاں جہاں بھی جماعت کو توفیق ہے وہ اس نوعیت کی تحریکیں بنائیں اور ایسے لوگ ملیں گے آپ کو بوڑھے وغیرہ جو دوسرے کاموں میں مصروف نہ ہوں ان کو الگ اس کام کے لئے کیا جاسکتا ہے.جگہ جگہ وہ ایسی تحریکات چلائیں جن میں صرف احمدی کا داخل ہونا ضروری نہیں ہے.یہ بات جو خاص طور پر آپ کو سمجھانے والی ہے کیونکہ اگر آپ نے اس کام کے لئے صرف احمدی ڈھونڈے اول تو آپ کی طاقت تھوڑی رہ جائے گی کیونکہ سارا ملک غریب پڑا ہے وہاں چند احمدی سارے ملک کی ضرورتیں کیسے پوری کریں گے اور اگر کریں گے بھی تو جماعت کی عالمی ضرورتوں پر اس کا بداثر پڑے گا جو اپنی جگہ بہت ہی اہم ہیں.خدا کے بندے کو ملانا یہ بندے کے زندہ رہنے سے زیادہ اہم ہے یعنی دنیا میں زندہ رہنے سے زیادہ اہم ہے.تو باقی عالمی تحریکات جو اسلام کے تقاضے پورے کر رہی ہیں ان کی گردن پر چھری پھیر کر مادی

Page 404

خطبات طاہر جلد 16 398 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء ضروریات کو پورا نہیں کرنا ، ساتھ ساتھ پورا کرنا ہے.اس لئے اس کی میں آپ کو ترکیب سمجھا رہا ہوں کہ جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خصوصیت سے ملک نے شرافت دکھائی ہے اور احمدیت میں داخل ہو رہا ہے وہاں ان کی تکلیفیں دور کرنے میں ایک یہ قدم بھی اٹھائیں اور ایسی تحریکات جاری کریں جس میں اس ملک کے بڑے لوگ، صاحب حیثیت لوگ جن بے چاروں کو یہ نہیں پتا کہ انہوں نے خرچ کیسے کرنا ہے اپنی دولت کو اور کیسے ابدی مزے حاصل کرنے ہیں آپ سر براہ بنیں، ان کو منظم کریں اور ان سے کہیں کہ تم آگے بڑھو اور خدمت کرو اپنے غریبوں کی اور یہ طریق ہو اس کا کہ ہر جگہ ان کو صاحب حیثیت بناؤ.وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں تا کہ ہمیشہ ان کا ہاتھ تمہاری طرف نہ بڑھے بلکہ لوگوں کے ہاتھ ان کی طرف اٹھنے شروع ہو جائیں.یہ وہ جو مضمون ہے دوسرا پہلو یہ میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں ساری دنیا میں جماعتوں کو اختیار کرنا چاہئے.براہ راست آپ کو اس سے فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن بالواسطہ ایک فائدہ ضرور پہنچے گا اور ضرور پہنچتا ہے کیونکہ یہ بندے جو باعزت بندے خدا کے بنتے ہیں جو آگے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں یہ جب احمدی ہوں گے تو آپ کے لئے بہت زیادہ مفید وجود بنیں گے.کوئی نسبت ہی نہیں ان میں اور ان لوگوں میں جو بھیڑ بکریوں کی طرح بعض دفعہ اپنے سرداروں کو احمدی ہوتا دیکھتے ہیں تو احمدی ہو جاتے ہیں ان کو سنبھالنا ضروری ہے.ان میں انسانی قدریں پیدا کرنا ضروری ہے، ان کی تربیت کرنا بڑا لمبا کام ہے.تو وہ کام جو بعد میں کرنا ہے ابھی یہیں کیوں نہیں شروع کر دیتے اور اس کام میں غیر آپ کا مددگار ہو سکتا ہے.چنانچہ انہی کاموں کی طرف اللہ تعالیٰ جب توجہ دلاتا ہے تو قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ سے یہ اعلان کرواتا ہے.قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ (آل عمران : 65) کہ اے اہل کتاب !، اے یہود یو! آؤ ہم تمہیں قدر مشترک کی طرف بلاتے ہیں اور جس قدر مشترک کی طرف بلایا وہ توحید باری تعالیٰ ہے اور توحید ہی کے یہ تقاضے ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.توحید باری تعالیٰ کی طرف بلائیں گے تو خدا کے بندوں کی طرف بلانا لازمی حصہ ہے ورنہ خدا اور بندوں کے درمیان تو حید قائم ہو ہی نہیں سکتی.پہلے بندوں کو خدا کی تو حید کی طرف بلائیں، ان کے دلوں کو خالص کریں اور اس توحید کے نام پر ان الله.

Page 405

خطبات طاہر جلد 16 399 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997 ء سے مدد مانگیں پھر ان کو سمجھائیں کہ اس تو حید کا تقاضا ہے کہ جس نے کل عالم کے بندے پیدا کئے ان کا خیال پیدا کرنے والے کی وجہ سے کرو.ان کی خدمت اس لئے کرو کہ خدا نے ان کو پیدا کیا وہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے اور اس نے انسان کو اختیار بخش دیا ہے کہ چاہے تو کرے، چاہے تو نہ کرے.مگر اللہ اسی کا بنے گا جو ضرورتیں پوری کرے گا کیونکہ وہ خدا نہیں بن رہا.تو اس پہلو سے ان تحریکات میں مذہبی رنگ بھی دیں لیکن احمدیت کی طرف بلانے کی ضرورت ہی نہیں.اسلام انہی باتوں کی طرف بلا رہا ہے اور اسلام کا نام بھی نہیں لے گا.قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اے اہل کتاب ہم تمہیں اب اس لئے نہیں بلا ر ہے اپنی طرف کہ اپنے مذاہب کو ترک کر دو اور اسلام میں داخل ہو جاؤ.ہم اس لئے بلا رہے ہیں کہ اسلام کا اعلیٰ مقصد تو حید کا قیام ہے اور تم بھی یہی دعویٰ کرتے ہو خواہ توحید کو قائم کرو یا نہ کرو تمہاری زبان کے دعوے یہی ہیں.یہودیت بھی تو حید کا دعویٰ کرتی ہے اور عیسائیت بھی تو حید کا دعوی کرتی ہے.آگے تو حید کو پھاڑیں یہ الگ مسئلہ ہے.مگر قرآن کریم نے وہاں ہاتھ ڈالا جہاں مٹھی اکٹھی تھی.جب وہ مٹھی جھاڑو کے تنکے بن جاتی ہے تو پھر پھیل جاتی ہے تو اس کا سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ طریقہ سکھا دیا ہے ان قوموں کو اس نام پر جب آپ تحریک کریں گے کہ آؤ غریبوں کی خدمت میں ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو یہاں خدائے واحد کا نام لینانہ بھولیں ورنہ آپ کی یہ منتیں فائدہ تو دیں گی مگر اس فائدے کو زیادہ بہتر بھی تو بنایا جاسکتا ہے.ایک ہی چیز کی تھوڑے داموں میں زیادہ قیمت وصول کی جاسکتی ہے.تو اپنی ان کوششوں کے نتیجے میں ان کو بھی تو حید کی طرف بلائیں اور ان سے جو کام لیں اس کے نتیجے میں جن پر یہ فیض جاری کریں ان کو بھی خدائے واحد کا حوالہ ضرور دیں کہ ہم جو تمہاری خاطر کام کر رہے ہیں اس لئے کہ تم اسی خدا کے بندے ہو جس کے سب دنیا والے بندے ہیں اس لئے کہ وہ پسند کرتا ہے کہ تمہاری خدمت کی جائے.یہ احساس اگر آپ پیدا کر دیں تو یہ ساری تنظیمیں ایسی ہوں گی جو دن بدن خدا کی طرف زیادہ توجہ دیں گی.عبادت میں ترقی کریں گی اور روحانیت میں ترقی کریں گی اور ان کا فیض وہ ہے جو آپ کی طرف سے پہنچے گا اور پھر آپ کو بھی پہنچے گا.یہ فیض کی عجیب بات ہوتی ہے.یہ لوٹ کر آیا کرتا ہے.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: 61)

Page 406

خطبات طاہر جلد 16 400 خطبہ جمعہ 30 مئی 1997ء قرآن کریم نے ایک ایک چھوٹی چھوٹی آیت میں عظیم الشان دائمی حکمتوں کے مضمون بیان فرما دیئے ہیں.یہ آیت ہمیں بتا رہی ہے تم فیض کرو گے فیض، فیض کی خاطر تو یہ خیال نہ کرنا کہ وہ ڈوب جائے گا، وہ لوٹ کر آئے گا.جس طرح تم شکر جب کرتے ہو تو میں بھی تو اس شکر کو لوٹا تا ہوں.میں نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے گویا خدا کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندو! یہ بات میں نے فطرت انسانی میں داخل کر دی ہے کہ تم جب ان سے احسان کا معاملہ کرتے ہو تو حقیقہ ان کا دل بھی چاہتا ہے وہ تم سے احسان کا معاملہ کریں یعنی اس سے بھی بڑھ کر جو تم نے ان پر کیا اور اس طرح یہ سلسلے دراز ہوتے چلے جاتے ہیں.پس جو آئندہ دو تین ماہ باقی ہیں ان میں خصوصیت کے ساتھ ان نصیحتوں کی طرف متوجہ ہوں امیر ممالک بھی اور غریب ممالک بھی اور اس سلسلے میں باقی باتیں آئندہ انشاء اللہ آپ سے اور بھی کروں گا لیکن اس وقت آپ کو خصوصیت سے متوجہ کر رہا ہوں کہ بقیہ دو سال میں آپ نے اپنی یہی کمائی کھانی ہے.جتنا زیادہ احسان کریں گے اتنا ہی آپ پر احسان ہوگا.جتنا زیادہ شکر کریں گے اتنا اللہ آپ پر شکر کرے گا اور کوئی دنیا کی طاقت آپ کے قدم روک نہیں سکتی.وہ مولوی بیچارے کیا چیز ہیں.ان کی حیثیت کیا ہے.بڑبولے ہمیں پھاڑتے پھاڑتے آپ پھٹنے شروع ہوئے.اتنا پھٹ رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.ہر تقسیم آگے پھر تقسیم ہورہی ہے اور وہ جو دعا ئیں تھیں اللهم مزقهم کل ممزق و سحقهم تسحیقا آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں اور اس کا کوئی علاج نہیں کر سکتے ، پھٹتے چلے جارہے ہیں.وہ ختم نبوت کی تنظیم جس نے اعلان کیا تھا کہ ہم اب لعنتیں ڈالیں گے وہ آپ پھٹ گئے یہاں.آگے ان کی مسجدیں پھٹ گئیں کہاں اکٹھے رہ سکیں گے.پس ان کا پھٹنا ہی آپ کی توحید کا نشان بن رہا ہے یہ پھٹ رہے ہیں آپ نہیں پھٹ رہے اس لئے کہ آپ کا خدا کی توحید سے تعلق ہے.ایسے کڑے پر آپ نے ہاتھ ڈالا ہے کہ لَا انفِصَامَ لَهَا (البقرة: 257) اس کا ٹوٹنا ممکن ہی نہیں ہے.پس اپنے نفس کی توحید کی حفاظت کریں اس تو حید کو جاری کریں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو آگے سے آگے بڑھاتا چلا جائے گا اور اس تقدیر الہی میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 407

خطبات طاہر جلد 16 401 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء اصل جہاد یہی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.( خطبه جمعه فرموده 6 جون 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی: يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (المائده: 68) پھر فرمایا: اس آیت کریمہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہ وضاحت فرما رہا ہے کہ اے رسول جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے اسے آگے لوگوں تک پہنچا دے.وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ اگر تو نے اس پیغام کو آگے نہ پہنچایا تو گویا تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا.وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ان لوگوں اللہ تعالیٰ تجھے بچائے گا کیونکہ اسکے نتیجے میں مخالفتیں ضرور ہوں گی شدید رد عمل ہوں گے لیکن یا درکھ کہ جس کے حکم کی تو پیروی کرے گا وہی خدا تیری حفاظت فرمائے گا.إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الكَفِرِينَ اور اللہ تعالیٰ کا فروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیا کرتا.یہ وہ امور ہیں جن کا آج کے خطبہ سے بنیادی طور پر تعلق ہے.اگر چہ گزشتہ خطبہ میں بھی

Page 408

خطبات طاہر جلد 16 402 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء اسی مضمون یعنی دعوت الی اللہ کے مضمون کو بیان کیا تھا مگر چونکہ یہ ہمار ا سال جو جلسہ سالانہ U.K پر ختم ہو گا تھوڑا باقی رہ گیا ہے اور کام ابھی بہت باقی ہیں اس لئے گزشتہ خطبہ میں تو زیادہ تر میرے ذہن میں افریقن ممالک اور کئی مشرقی ممالک تھے جن میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت تیزی سے کام آگے بڑھ رہے ہیں اور ان بڑھتے ہوئے اور تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے کاموں کے تقاضے پورے کرنے کے لئے میں نے کچھ نصیحتیں کی تھیں.اب خصوصیت سے میرے پیش نظر وہ ممالک ہیں جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ان میں مغربی ممالک، جرمنی کو چھوڑ کر باقی مغربی ممالک، خاص طور پر میرے مخاطب ہیں کیونکہ تبلیغ کے کاموں میں وہ بہت پیچھے ہیں.امریکہ ہو یا کینیڈا ہو یا یورپ کے دیگر ممالک اور یو کے جہاں یہ خطبہ ہو رہا ہے اکثر نے حقیقت میں تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں دی اور سمجھتے ہیں کہ یہ زائد کام ہے.اس غلط تصور کو توڑنے کے لئے میں نے یہ آیت آج آپ کے سامنے پڑھی ہے.لغو اور بیہودہ خیال ہے یہ زائد کام ہے ہی نہیں.اگر یہ زائد کام ہوتا تو آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرما کر خدایہ نہ کہتا کہ تبلیغ کرو ورنہ تو رسالت کا حق ہی ادا کرنے والا نہیں ہوگا.گویا تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا.میں پہلے بھی خوب اس بات کو خوب کھول چکا ہوں.اگر ادنی سی بھی عقل سے کام لے کے دیکھیں کہ کیا رسول اللہ ﷺ کو اکیلے تبلیغ کا حکم تھا اور ماننے والوں کو اجازت تھی کہ تم جو چاہو کرتے پھروا کیلے محمد رسول اللہ ﷺ کو تبلیغ کرنے دو.یہ تو ویسی ہی ذلیل بات ہے جیسے موسی" کی قوم نے حضرت موسی سے کہی تھی کہ جا تو اور تیرا رب لڑتے پھر یعنی حضرت موسیٰ اور آپ کے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں کہا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ (المائدہ: 25) ہم تو یہاں بیٹھے رہنے والے ہیں جب فتح حاصل کر لو گے تو ہمیں بتا دینا.تو اگر چہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تو فتح دے بھی سکتا تھا لیکن انکار کر دیا اور حضرت موسیٰ کو بھی اس کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑی.تو وہ عرصہ جو وعدے کا عرصہ تھا وہ گزرگیا اور پھر بھی آپ کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے کی توفیق نہ ملی کیونکہ قوم نے ساتھ نہیں دیا تھا.تو اب آنحضرت مے کے ساتھ دینے کا معاملہ ہے.اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ طوعی بات ہے.فرض ہی نہیں بلکہ جذبات کے ساتھ اس کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ آنحضرت یی کو جب آپ نے پوچھا تھا اہل مدینہ پیش نظر تھے، پوچھا تھا کہ بدر کی جنگ میں کیا مشورہ دیتے ہو.تو جب صحابہ سمجھ گئے اور اہل مدینہ سمجھ گئے کہ ہم مخاطب ہیں تو ایک نے ان میں سے اٹھ کر کہا کہ یا رسول صلى الله

Page 409

خطبات طاہر جلد 16 403 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء صلى الله.اللہ ہی ہم نے جو میثاق مدینہ کیا تھا پہلے زمانے کی باتیں ہیں.جب یہ شرطیں تھیں کہ مدینے پر اگر کوئی حملہ آور ہوا تو ہم لڑیں گے اور اگر مدینہ سے باہر ہوا تو ہم ساتھ نہیں لڑیں گے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ یہ آپ کے ذہن میں وہ بات ہے.وہ تو گزر گئے زمانے.آپ کو جانتا کون تھا اس وقت، کون پہچانتا تھا کہ آپ کی کیا عظمت ہے.مطلب یہ نہیں کہ اس طرح کہا تھا مگر مراد یہی تھی.اب جب کہ ہم آپ کے عاشق ہو چکے ہیں، آپ کی عظمت کو پہچان گئے ہیں آج ہمارا جواب یہ ہے کہ خدا کی قسم ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے، آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے، آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آر آپ کے بائیں بھی لڑیں گے.ناممکن ہے کہ دشمن آپ تک پہنچے سوائے اس کے کہ ہماری لاشوں کو روند تا ہوا آئے اور اسے رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ حکم دیں گے کہ سمندروں میں گھوڑے دوڑاؤ تو خدا کی قسم ہم سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیں گے.یہ ہے حقیقت ایمان، یہ ہے آنحضرت ﷺ کا عشق جس کا اظہار اس وقت ایسی شان سے ہوا ہے کہ کبھی دنیا میں کسی نبی کی قوم نے اس طرح اپنے نبی کو مخاطب نہیں کیا.تو وہی ہم ہیں اور وہی محمد رسول اللہ ﷺہے ہیں.آج بھی جہاد ہے یہ اور اصل جہاد یہی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.اس موقع پر کون کہتا ہے کہ طوعی چیز ہے ، مرضی ہے تو کر و مرضی ہے تو نہ کرو.حد سے زیادہ بے وقوفی اور ظلم ہے.آج کیا رسول اللہ ﷺ کو اکیلے چھوڑ دو گے جبکہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِم (التوبه : 33) کے دن آئے ہیں.جب ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے کا وقت پہنچا ہے تو کیا تم پیچھے ہٹ جاؤ گے اور یہ سوچو گے کہ پتا نہیں ہم مخاطب ہیں بھی کہ نہیں.ہم تو تبلیغ کر ہی رہے ہیں.اکیلے کو مخاطب کرنے میں یہ حکمت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ساری قوم کو مخاطب کر سکتا تھا جس کا مطلب بعض دفعہ فرض کفایہ لیا جاتا ہے.اگر اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کی بجائے مسلمانوں کو عمومی مخاطب کرتا تو لوگ سمجھتے کہ ہم میں سے بعض تو کر ہی رہے ہیں نا ، فرض پورا ہو گیا.مگر دو حکمتیں ہیں ایک رسول اللہ کو ذاتی طور پر مخاطب کرنے کا مطلب ہے کہ تجھ سے زیادہ بڑا کسی کا مقام نہیں، تجھ سے زیادہ مجھے کوئی پیارا نہیں ہے اگر تو بھی یہ کام نہیں کرے گا تو میری نظروں میں رد ہو جائے گا.نعوذ باللہ من ذالک.روہونے کا تو سوال ہی نہیں تھا مگر سننے والے کانوں کو پیغام تھا کہ غور سے سن لو کیا ہورہا ہے.اگر آنحضرت میر

Page 410

خطبات طاہر جلد 16 404 خطبہ جمعہ 6 / جون 1997 ء جن کی خاطر میں نے کائنات کو پیدا کیا تھا آپ کو مخاطب کر کے میں کہ رہا ہوں کہ تبلیغ نہیں کرو گے تو صل الله تم رسالت کا حق ہی ادا نہیں کرو گے.اے محمد رسول اللہ ﷺ کے غلامو! تم اپنے متعلق سوچ لو کہ تمہارا کیا حال ہوگا، تمہاری کیا حیثیت ہوگی میرے سامنے اگر تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام آگے نہ پہنچایا تو کس شمار میں ہو.دوسرے واحد کے صیغے میں مخاطب فرمایا ہے جس کا مطلب ہے ہر شخص، ہر فرد بشر مخاطب ہے.کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ قومی طور پر فریضہ ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لے کر مخاطب کر کے فرمایا تم ہو میرے مخاطب.گویا آپ کی ذات کے تعلق سے جو بھی آنحضرت ﷺ کی غلامی کا دم بھرتا ہے وہ ہر ایک مخاطب ہوتا چلا جاتا ہے ایک بھی اس سے باہر نہیں رہتا.پس سب سے پہلے تو اہمیت سمجھیں.کئی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہتے ہیں جی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے تبلیغ ہو رہی ہے جماعت کر رہی ہے تو ہمارا بھی حصہ سمجھ لیں بیچ میں.آپ کا حصہ نہیں ہے.مالی قربانی اور چیز ہے عبادتیں کرنا اور چیز ہے اور تبلیغ کو واضح طور پر پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے وہ ان ساری قربانیوں کے علاوہ تھا.ایک ایسے وجود کو حکم دیا جا رہا ہے جو مالی قربانی میں سب سے آگے نکل گیا تھا، ایک ایسے وجود کو حکم دیا جارہا ہے جو بدنی قربانی میں سب سے آگے نکل چکا تھا مگر عبادتوں کو اس مقام تک پہنچادیا تھا کہ اس سے آگے عبادتوں کا تصور باندھا ہی نہیں جاسکتا.اس کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے اگر تو نے یہ تبلیغ کا حق ادانہ کیا فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ تو پھر اپنی رسالت کا ہی حق ادا نہیں کرے گا.تو پہلے تو دماغ سے یہ کیڑا نکالیں کہ عمومی طور پر جماعت تبلیغ کر رہی ہے اس لئے کافی ہے.ہر شخص کا فرض ہے کسی نہ کسی طرح ضرور حصہ ڈالے اور اس کے حصہ ڈالنے کی بہت سی صورتیں جماعتیں پیدا کر سکتی ہیں.مختلف خطبوں میں میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.اب میں پھر یاد دہانی کروا رہا ہوں مگر لوگ بھول جاتے ہیں.اب جتنے بھی خصوصیت کے ساتھ مغربی ممالک ہیں ان کی جماعتوں کا فرض ہے کہ مسلسل اس پہلو کو آپ اپنے پیش نظر رکھیں.ہر مجلس عاملہ میں ان باتوں پر غور کریں کبھی ایک پہلو پر عمل کر کے اس کا نظام جاری کریں پھر دوسرے پہلو پر غور کر کے اس کا نظام جاری کریں.تھکیں اور ہاریں نہیں جب تک کہ یہ نظام کلیۂ جاری نہیں ہو جاتا اور سارے احمدی ، مرد ہوں یا عورت ، بڑے ہوں یا بچے وہ اپنے اپنے رنگ میں اس میں شامل نہ ہو جائیں.شامل ہونے کے لئے ہر ایک کی صلاحیتیں ہوا کرتی

Page 411

خطبات طاہر جلد 16 405 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء ہیں بعض ایسے بھی شامل ہونے والے ہوتے ہیں جو بستر پر پڑے دعائیں ہی کرتے ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شامل نہیں ہیں.مگر اس سے زیادہ توفیق نہیں ان کی.جن کی توفیق ہو زیادہ کی اور پھر کم کر رہے ہوں وہ شامل نہیں ہوتے.تو جماعت کے مختلف حصوں کی توفیق طے کرنا اور جن کو کم توفیق ہوان کی توفیق بڑھانا یہ نظام جماعت کا کام ہے.جہاں تک تو فیق کا تعلق ہے اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً ایک یہ ہے کہ گزشتہ جو خطبہ میں نے دیا تبلیغ کے متعلق تو مجھے کثرت سے ایسے خط ملے یا زبانی پیغام ملے کہ سخت دل بے قرار ہے کہ ہم بھی پوری طرح حصہ لیں مگر ہمیں پتا نہیں کس طرح حصہ لیں.حصہ لینا نہیں آتا، دلیلیں نہیں آتیں، رابطہ کیسے آگے بڑھائیں.خواتین ہیں وہ بھی پوچھتی ہیں اور کئی کہتے ہیں کہ ہم تبلیغ کرتے تو ہیں مگر دل کی حسرت پوری نہیں ہوتی، کوئی پھل نہیں لگتا اور یہ سارے مسائل ہیں جن کو اہل علم کو حل کرنا ہے.نظام جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان مسائل کو عمومی طور پر پیش نظر رکھ کر پھر انفرادی طور پر ہر شخص کی راہنمائی کرے.یہ بہت بڑا کام ہے جو ہو نے والا ہے.اس کا آغاز بھی پوری طرح اکثر جگہ پر نہیں ہوا تو پھر میں کیوں نہ آپ کو بار بار یاد کراؤں.یہ تو سال کی بات ہے دو مہینے رہ گئے یا کم رہ گئے.صدی میں کتنا وقت رہ گیا ہے باقی اور انگلی ساری صدی کو ہم نے پیغام بھیجنا ہے اپنی طرف سے کہ اے آنے والی صدی اور اس کے بعد آنے والی صدیو! ہمارے عشق اور ہماری قربانیوں نے تمہیں بھی حصہ دیا ہے اس لئے تم ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا.یہ پیغام ہے جو ہماری آج کی احمدیت کی دنیا نے کل کی احمدیت کی دنیا کو دینا ہے اس لئے کمر ہمت کسیں.اس سے پچھلی غفلتوں کو دور کریں اور کام شروع کریں مگر وہ جن کو کام شروع کرنا نہیں آتا ان کا کیا کریں اور اکثر وہ ہیں جو تبلیغ کرنا چاہتے بھی ہیں تو کام کرنا نہیں آتا.ان کی وجہ سے میں آج نظام جماعت کو مخاطب کر کے کچھ چیزیں سمجھانا چاہتا ہوں اور اگر آج کے وقت میں نہ سمجھائی جاسکیں تو انشاء اللہ آئندہ خطبے میں اس مضمون کو آگے بڑھاؤں گا.اب صرف تبلیغ کی ذمہ داری کا جائزہ لینا بہت بڑا کام ہے یعنی انگلستان کی مثال لے لیجیے اس بات کا جائزہ لینا کہ کون تبلیغ کر رہا ہے، کون نہیں کر رہا اور فہرستیں بنانا، ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا نا معلوم کرنا ، پھر آگے کیسے تبلیغ کرتے ہیں یہ بعد کی بات ہے.سب سے پہلے ایسا نظام قائم کرنا جس کے ذریعے ہر فرد بشر تک اس طرح رسائی ہو جیسے اللہ کومحمد رسول اللہ یہ تک رسائی تھی اور یہ حکم دیا

Page 412

خطبات طاہر جلد 16 406 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء جارہا تھا بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ جو تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے تجھ پر اسے پہنچا آگے.اب اس پیغام کا اکثر لوگوں کو پتاہی نہیں کہ کس طرح پہنچایا گیا تھا.اللہ مخاطب تھا محمد رسول اللہ ہے مخاطب تھے.آپ سے خطاب کیا جارہا تھا اکیلے پیغام دے دیا اور پیغام دے کر اللہ نے درست سمجھا کہ محمدیہ کو پیغام دیا تو ساری دنیا کو پیغام دے دیا کیونکہ ساری دنیا کا رسول ہے.اور جب یہ کہا جا رہا ہے کہ تو اپنی رسالت کو آگے نہیں پہنچائے گا اگر تبلیغ نہیں کرے گا تو گویا ساری دنیا کو تبلیغ پہنچانے کا انتظام ہو گیا ہے آنحضرت ﷺ کو فرما دیا اللہ نے.اب آپ سے گھر گھر پیغام اس طرح پہنچنا چاہئے.اکثر لوگوں کو پتا ہی نہیں اکثر ہمارے یہاں کے جونسل کے بچے ہیں ان بے چاروں کو پتا ہی نہیں کہ یہ پیغام ان کو پہنچا ہوا ہے لیکن ان تک نہیں پہنچا.آنحضرت ﷺ کومل چکا ہے آگے ہم غلاموں کا فرض تھا کہ ہر ہر گھر اسی طرح پہنچائیں، ہر گھر کے ہر فرد تک یہ بات پہنچائیں جو ہم نے نہیں پہنچائی.تو صرف یہی نظام اگر مقرر کریں تو دیکھیں کتنی بڑی محنت کا کام ہے.اس ضمن میں کچھ وہ لوگ ہوں گے جو براہ راست تبلیغ نہیں کر سکتے ، کوئی بوڑھے ہیں، کوئی بے کار ہیں بیچارے، ابھی ان کو تبلیغ سکھانا لمبا کام ہے.ان کو اس نظام کا حصہ تو بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے یہ خیال کر لینا کہ سیکرٹری تبلیغ کے اوپر بات چھوڑی اس نے آگے کر لیا یہ محض واہمہ ہے کبھی بھی نہیں ہوسکتا.مرکزی سیکرٹری تبلیغ کو یہ سارا خطبہ سنا بھی دیں تب بھی وہ آگے کچھ نہیں کرے گا.اس میں صلاحیت نہیں ہے اور اس صلاحیت کی خاطر میں نے مجلس عاملہ کا فرض مقرر کیا ہے.مجلس عاملہ کی عمومی صلاحیت کام آنی چاہئے اور یہ سوال نہیں ہوگا کہ فلاں سیکرٹری رشتہ ناطہ ہے اور فلاں سیکرٹری فلاں ہے.ساری مجلس عاملہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور معین طور پر اب مقر ر کر رہا ہوں کہ یہ جو باتیں میں کہوں گا آج کہ رہا ہوں یا کل کہوں گا ان سب کی ذمہ دار ہر ملک کی مجلس عاملہ ہوگی اور امیر اس کا دماغ اور اس کا دل ہے.اس لئے امیر کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں کو آگے جاری کرنا شروع کرے اور یہ ایک دن میں جاری نہیں ہوسکتیں.ایک دن میں ان سب باتوں کا آغاز بھی نہیں ہوسکتا.آج مثلاً یہ کام شروع ہوسکتا ہے شروع کر دیں اور اللہ پر توکل رکھیں اور پھر مسلسل نظر رکھیں کہ رفتہ رفتہ لیکن لازمی اور قطعی قدموں کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائیں.پس ایک جائزے کا نظام ہے وہ فوری طور پر قائم ہونا چاہئے اور اس جائزے کے نظام سے

Page 413

خطبات طاہر جلد 16 407 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء تعلق میں میں یہ بتادیتا ہوں کہ میں نے الگ الگ خدام الاحمدیہ انصار اللہ لجنہ یقسیمیں نہیں ہونے دینی اس کام میں کیونکہ بعض دفعہ اس طرح کام بگڑ جاتے ہیں.کوئی انصار کے پلے پڑ گئے ، کوئی خدام کے پلے پڑ گئے، کوئی اطفال کے اور اپنے اپنے رنگ میں غلطیاں بھی کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ ہلکی باتیں کر دیتے ہیں.امیر کے شعبے میں ایک وزن ہے ، امیر کے منصب میں ایک ایسا وقار ہے جو ذیلی تنظیموں کو حاصل نہیں اس لئے امراء کا فرض مقرر کر رہا ہوں وہ مجلس عاملہ پر بیٹھیں اور چاہیں تو خدام سے آدمی لیں، چاہے انصار سے آدمی لیں اور یہ جو ہدایت تھی کہ انصار اللہ کے سپر دانصار کی حیثیت سے، خدام الاحمدیہ کے سپر د خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے امیر نے کام نہیں کرنا وہ ابھی بھی اسی طرح ہے لیکن اس تعلق میں چونکہ ان کو میں الگ الگ نہیں کرنا چاہتا ، میں سمجھا رہا ہوں کہ امیر اگر کسی صدر سے کہے کہ مجھے اس قسم کے آدمی چاہئیں تو اس صدر کا فرض ہوگا کہ اس قسم کے آدمی امیر کو مہیا کر کے دے.اور جہاں تک کریڈٹ کا تعلق ہے یہ فضول اور ہلکی باتیں ہیں کہ خدام الاحمدیہ نے کریڈٹ لے لیا، لجنہ نے کریڈٹ لے لیا.کریڈٹ تو اللہ دیا کرتا ہے اور جو بھی اخلاص سے خدا کے حضور اپنی جان پیش کرتا ہے، اپنا مال پیش کرتا ہے، اپنی عقل پیش کرتا ہے اس کو ساتھ ساتھ کریڈٹ مل رہا ہے اس کے لئے انتظار نہیں کیا جاتا کہ مرے گا تو کریڈٹ ملے گا.واللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (النور: 40) الله کے سَرِيعُ الْحِسَابِ ہونے کا یہ بھی مطلب ہے کریڈٹ کا نظام ساتھ ساتھ جاری ہے، اسی لمحے فیصلہ کرتا جاتا ہے کہ اس کو یہ مل گیا اور اس کے کھاتے میں لکھا گیا ہے مرنے کے بعد پھر اس کو سمجھ آئے گی کہ ایک ذرہ بھی ضائع نہیں گیا.تو اس اعلیٰ نظام، اس بہی کھاتے میں آپ کا کریڈٹ جا رہا ہے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کہ خدام کے نام الگ یا لجنہ کے نام الگ کوئی کریڈٹ گیا ہے کہ نہیں گیا.جب بھی امیر آپ سے کہے تو بسم اللہ پڑھتے ہوئے ،اھلا و سهلا و مرحبا کہتے ہوئے اس کے حضور جتنا وہ آپ سے چاہے اتنے نفس پیش کر دیں کہ ہمارے فلاں فلاں حلقے میں یہ یہ ہے وہ آپ کے اس بتائے ہوئے کام میں خصوصی طور پر مدد کریں گے.یہ جو جائزے کا نظام ہے ایک دفعہ جاری ہو جائے پھر مستقل نہ بھی رہے تو فرق نہیں پڑتا کیونکہ جائزہ ابتداء میں زیادہ آدمی چاہتا ہے اور اس کے لئے ہم زیادہ عہدیدار نہیں بنا سکتے ورنہ ایک Surplus چیز بن جائے گی، بیکارسی چیز کہ

Page 414

خطبات طاہر جلد 16 408 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء عہدے باقی رہیں گے اور کام نہیں رہے گا.مطالبہ کچھ نہیں ہوگا اور بیٹھے رہیں گے ادھر ادھر ہو کر.اس لئے عہدوں کی تقسیم میں نہیں کر رہا، کام کی تقسیم کر رہا ہوں.امیر مانگے گا آدمی کہ مجھے سارے ملک کا جلدی سے جائزہ چاہئے اور اس کے لئے مجھے اس نوع کے آدمی چاہئیں اور پھر امیران کو بتائے گا کہ تم نے یعنی وہ آدمی مقرر کرے گا جن کو ان کے اوپر نگران بنایا جائے گا.اس کے لئے بھی بہت سے کام چاہئیں اور کہے گا تم نے پندرہ دن میں ، دس دن میں جتنی جلدی سے جلدی ہو سکے یہ جائزہ لینا ہے کہ تبلیغ کرکون رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے اور جب کیسے کی بات شروع ہوگی پھر ایک اور نظام شروع ہو جائے گا.یہ بتانا کیسے ہے ان کو کہ کیسے تبلیغ کی جاتی ہے.اکثر لوگ تو کہتے ہیں ہم حاضر ہیں جی بتاؤ کس طرح تبلیغ کریں لیکن جب آپ تبلیغ کرنے کی خواہش رکھنے والوں کا جائزہ لیں تو وہاں آپ کو پتا چلے گا کہ کتنا بڑا سقم ہے.اکثر بیچارے خواہش رکھتے ہیں طریقے کا پتا کوئی نہیں.ان کے لئے طریقے طے کرنا، ان کو سمجھانا اس کے مختلف ذرائع ہیں جن کو جماعت کو اختیار کرنا ہوگا.ان میں سے ایک ذریعہ یہ ہے کہ دوسرا جائزہ یہ لیں کہ آپ میں سے موثر کام کرنے والے ہیں کون اور جہاں تک میں نے ملکوں کا جائزہ لیا ہے پاکستان ہو یا غیر پاکستان ہر جگہ کچھ ایسے لوگ ضرور نظر آتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کچھ باتیں عطا کی ہیں.ان کی زبان میں مٹھاس ہے یا سادگی کی طاقت ہے یا کچھ اور باتیں ہیں جو ضرور پھل لے آتی ہیں.پس پھل لانے والے اور درخت ہیں اور پھل نہ لانے والے اور درخت ہیں لیکن درختوں کو پھل دار بنانا تو ہمارا کام ہے.اس لئے پھل دار درختوں سے پوچھیں تو سہی کہ آپ کرتے کیا ہیں جو آپ کو پھل لگتے ہیں یعنی انسان تو بولتے ہیں یہ تو بتاتے ہیں ، وہ سمجھائیں گے کہ ہم نے تو یہ طریقہ اختیار کیا تھا اور اللہ کے فضل سے پھل لگ رہے ہیں.اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں لگتے تو اس سے پوچھو کیوں نہیں لگ رہے، ہمیں تو لگتے ہیں.آج اسی دنیا میں ایسے ہیں جن میں سے اکیلے نے مثلاً ستر (70) کا وعدہ کیا ستر (70) کر دیئے.بعض ایسے ہیں کہ ساری جماعت کا وعدہ کیلے نے پورا کیا ہوا ہے اور باقی چپ کر کے بیٹھے ہیں اور رپورٹ ہے کہ الحمد للہ جماعت فلاں کا وعدہ پورا ہو گیا.اتنا ٹارگٹ تھا اتنا ہو گیا.جب پتا کرو تو ایک ہی شخص تھا جس نے یہ سارا کام پورا کیا.مگر جب ایک شخص کا کام ہو گیا تو پھر اور بھی ذمہ داریاں آئیں گی جن کا میں آئندہ بعد میں ذکر کروں گا.تو جائزہ لینے کے بعد دوسرا جائزہ ان کا لینا ہے جو اچھا کام کرتے ہیں اور ہیں کتنے.اب سارے

Page 415

خطبات طاہر جلد 16 409 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء انگلستان میں گنتی کے شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جائیں یا دو ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جائیں اس سے زیادہ نہیں ہوں گے.ان کو شمار کرو، ان کو بلا ؤ اور محض ان سے تقریر میں نہ کرواؤ خود مجلس عاملہ بیٹھ کران سے سمجھے، پتا کرے کہ وہ کیا کیا کام کرتے ہیں ، طریقے کیا ہیں اور پھر انہی کونگران بنا کر مختلف علاقے کے احمدیوں کی تربیت کے لئے ایک نظام جاری کیا جائے.سارے کامیاب مبلغ اپنے ساتھ کچھ آدمیوں کو لگائیں اور جن لوگوں کو لگایا جائے یہ وہ ہوں جو اس فہرست میں سے چنے جائیں جو پہلے تیار ہوں گے اور ان میں جوش رکھنے والے محبت رکھنے والے پر خلوص لوگ ہیں پہلے ان کو پکڑیں.جو ابھی بے چارے بالکل ہی بے جان سے ہیں، جن میں ابھی نئی نئی جان ڈالی جارہی ہے ان پر بوجھ نہ ڈالیں.جب ایک جگہ سے ایک پودا دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے تو اسی وقت تو نہیں اس کو پھل لگ جایا کرتا، اسی وقت اس پر بوجھ نہیں ڈالے جاتے بلکہ بڑی احتیاط کی جاتی ہے.ہمارے پاکستان میں جب میں زمینداری خود کیا کرتا تھا تو چاولوں کی پنیری ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے.شروع میں کچھ دیر جب تک وہ پودا جڑیں نہ پکڑ جائے اس کی بڑی احتیاط کرتے تھے.کسی بچے کو بھی اندر نہیں گھنے دیتے تھے کیونکہ جہاں پاؤں پڑا وہاں وہ ختم ہو گیا.تو یہ وہم ہے کہ وہ لوگ جن کی فہرست بنائی جائے گی جن کو آپ اس نئی فہرست میں یعنی تبلیغ کرنے والوں میں داخل کریں گے پہلے ہی دن ان پر سارے بوجھ ڈال دیئے جائیں یہ نہیں ہوسکتا.پہلے ان میں سے وہ چنیں جو کچھ جان رکھتے ہیں، جن کے اندر نصیحتیں قبول کرنے کی خواہش ہےاور استطاعت ہے کہ اس پر عمل بھی کر سکیں.ان کا جائزہ لینا ایک بہت بڑا کام ہے.ان میں سے مختلف رجحانات رکھنے والے لوگ ہیں.کچھ ایسے ہیں جو تحریری، تبلیغی کام یعنی ڈاک کے کام میں بہت مستعد ہوں گے.جب ان کو کہا جائے باتیں کرو تو بالکل بات نہیں کرنی آئے گی.ایسے بھی ان میں ہونگے جو میٹھی طبیعت ہونے کی وجہ سے کسی کو بلائے اپنے گھر تو آجائے گا.گھر بلا کر کوئی ویڈیو دکھانی ہے.تو پتا ہونا چاہئے کہ کیا دکھانی ہے اور کیسے دکھانی ہے.اگر لٹریچر پیش کرنا ہے تو اس کا پتا ہونا چاہئے.تو یہ ساری تفصیلات ہیں جو دوسرے قدم کی تفصیلات ہیں.ان کو طے کرنا بھی بہت لمبا کام ہے لیکن جن جماعتوں میں ابھی شروع ہی نہیں ہوا کبھی تو شروع کروانا ہے وہاں.اس لئے اب اس قسم کے خطبہ پہلے بھی دیئے ہوئے ہیں مگر بیچ میں مجھے پتا ہے کہ آہستہ آہستہ سب سو گئے اس لئے بار

Page 416

خطبات طاہر جلد 16 410 خطبہ جمعہ 6 / جون 1997 ء بار یہ بتانا پڑتا ہے، آپ کو یاد کروانا پڑتا ہے کہ یہ طریق کار ہے.اس ضمن میں مثلاً اگر آپ تبلیغ کا جائزہ لیں گے تو لٹریچر کا بھی تو جائزہ لینا پڑے گا.لٹریچر کا جائزہ لیں گے تو آڈیوٹیسٹس کا بھی جائزہ لینا ہوگا، ویڈیوکیسٹس کا بھی جائزہ لینا ہوگا.یہ بھی تو جائز ہ لینا ہوگا کہ اس لٹریچر میں کیا ہے.مخالف کیا شرارتیں کرتا ہے اس کا جواب کس کس لٹریچر میں موجود ہے.آڈیو ویڈیو میں کس قسم کی شرارتوں کے جواب موجود ہیں.کون سی ایسی چیزیں ہیں جو سوال و جواب کے طور پر نہیں بلکہ جماعت کی خدمت کا تعارف کرانے میں بہت اثر رکھتی ہیں.مجالس ہیں عربوں کے ساتھ ، جرمنوں کے ساتھ اور دوسری قومیں ہیں یا البانین وغیرہ ہیں صرف اس کو دیکھنا ہی اثر ڈال دیتا ہے.غرضیکہ یہ جائزہ اپنی ذات میں ایک بڑا بھاری کام ہے اور اس جائزے کے بغیر آپ ان لوگوں کو جو تبلیغ کرنا چاہتے ہیں معین ٹھوس کام دے ہی نہیں سکتے، مجبوری ہے.یہ سب چیزیں اپنی اپنی جگہوں میں جا کر دب جایا کرتی ہیں.بہت سی آڈیو ویڈیوز ہیں جو اپنے اپنے مقام پر جا کر دب کر وہیں بیٹھ گئیں ، سو گئی ہیں وہاں جا کے اور ارد گر دلوگ پوچھ رہے ہیں کہ فلاں بات کا جواب ہم کہاں سے لیں.ساری دنیا میں پہنچائی گئی ہیں یہ باتیں پھر وہاں سے خط آ جاتے ہیں.کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اس نظام کو جاری نہ کیا گیا ہو اور ہر ملک کے باشندوں کو اس ملک کے امیر نے یا جو بھی اس کا ناظم مقررتھا اس نے یہ ہی نہیں بتایا کہ ہمارے پاس کیا کیا چیز ہے.تو بولو تو سہی کہ تمہارے پاس ہے کیا.جیب میں پتا نہ ہو کہ کیا ہے تو کوئی مانگے گا کیا آپ سے.اپنی جیب کے راز کھول دوساری جماعت کو بتاؤ.ہرت تبلیغ کرنے والے کو بتاؤ تمہیں کیا پتا ہمارے پاس کیا کیا چیزیں ہیں اور جب یہ بتاؤ گے تو پھر ایک اور تقسیم ذہن میں ابھرے گی.ہمارے پاس بنگالیوں کے لئے بھی لٹریچر ہے.بنگالیوں کے لئے بھی ویڈیوز ہیں آڈیوز ہیں.بنگالی زبان میں مختلف مجالس کے ترجمے ہوئے ہوئے ہیں اور بنگالی زبان میں بنگالی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمارے پاس آڈیوز بھی ہیں، ویڈیوز بھی ہیں اور بنگالی لٹریچر بھی ہے.اب یہ سب اپنی جگہ دبا پڑا ہے.ایک آدمی مشرقی لندن سے اٹھ کر مجھے خط لکھتا ہے کہ فلاں بنگالی دوست ہے میں اس کو کیا کروں.اب ہر ایک کو میں کیسے جواب دوں کہ تمہارے سب مسائل کا حل پہلے سے ہو چکا ہے اور کتنا کام بڑھ جائے گا مرکزی.جو کام ہوئے ہوئے ہیں ان کی

Page 417

خطبات طاہر جلد 16 411 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء صرف اطلاعیں دینے کے لئے مرکزی دفتر ہمارا ڈاکخانہ بن جائے گا ان باتوں کیلئے جو پہلے اس جماعت میں موجود ہونی چاہئیں.تو اس پہلو سے امراء کا کام ہے کہ اپنے مقامی امراء کا بھی جائزہ لیں ان کو پتا بھی ہے کہ نہیں مگر پتے سے پہلے خود پتا کریں.امیر بدلتے رہتے ہیں نئے امیر آجاتے ہیں اس لئے میں خود پتا کرنے کا اسلئے کہہ رہا ہوں کہ جو نئے ہیں ان کو پتا کرنا ہوگا.پتا کریں، جائزہ لیں کیا کیا چیزیں کہاں کہاں پڑی ہوئی ہیں.اس جائزے سے ہی ان کے دل میں ایک ہیجان پیدا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پاس اتنا کچھ ہے پورا با رود خانہ موجود ہے، پورا اسلحہ خانہ تیار ہے.شاذ ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو نیا ہو جس پر جواب دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ ہو اور پھر تحریر بھی موجود ہے، تقریر بھی موجود ہے، نظر آنے والی تصویریں بھی موجود ہیں.تو اور پھر کیا چاہئے.جب اس سوال پر آپ پہنچتے ہیں تو اس جائزے کے ساتھ ہی ایک اور سوال دل میں ابھر آتا ہے کہ بنگالی ہیں، ہندوستانی زبان میں ، ان کی مختلف زبانوں میں لٹریچر موجود ہے.پاکستان کی مختلف زبانوں میں لٹریچر بھی موجود ہے، پیسٹس اور ویڈیوز بھی موجود ہیں.قرآن کریم کے تراجم بھی موجود ہیں تو یہ لوگ کہاں ہیں.ان لوگوں کو بھی تو پکڑنا چاہئے.تو یہیں تبلیغ کرنے والوں کی آگے تقسیم ہو جائیں گی.کچھ کو پاکستانیوں پر لگا دیں، کچھ کو بنگالیوں پر لگا دیں، کچھ کو افریقنوں پر لگا دیں جو یہاں رہتے ہیں اور اسی طرح آپ کی سوسائٹی کی تقسیم بھی خود بخود کام کے نتیجے میں ظاہر ہونی شروع ہو جائے گی یا نکھر کر سامنے آجائے گی.تو پھر اتنے ہی آپ کو گروپ لیڈرز بھی بنانے پڑیں گے.تو ایک تبلیغ کا کام ایک سیکرٹری کو سمجھا کر آپ چھوڑ دیں تو کیسے کر سکتا ہے.اس کی طاقت ہی نہیں بیچارے کی.چند دن اس کا جوش رہتا ہے وہ لکھ دیتا ہے چٹھیاں کہ بھئی تبلیغ کرو اور سال کے آخر پر دیکھیں میں نے اتنی چٹھیاں لکھی تھیں تبلیغ کرو.کرؤ سے کیسے تبلیغ ہو جائے گی.کرنا سکھانا ہے.آپ کسی شہری کو کہہ دیں کہ منجی لگاؤ.وہ چھوٹی سی سادہ سی چیز ہے جو ان پڑھ بھی کرتے ہیں وہ بے چارہ سارا سال وقت ضائع کرے گا کچھ بھی اس کو پتا نہیں لگے گا کس طرح لگانی ہے.تو ہر کام کا ایک سلیقہ ہے وہ سلیقہ محض خواہش سے پیدا نہیں ہوتا محض بتانے سے بھی پیدا نہیں ہوتا.آپ جتنے مرضی لیکچر دیں کسی کو کہ اس طرح تیرا کرتے ہیں ، اس طرح ہاتھ اٹھانا ہے، اس

Page 418

خطبات طاہر جلد 16 412 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء طرح مارنا ہے.اس طرح ٹانگیں پیچھے مارنی ہیں، یوں جسم سیدھا رکھنا ہے اور پی ایچ ڈی بھی کر لے اس کے بعد پانی میں پھینکیں وہیں ڈوب کر مر جائے گا.تیرا کی کے نظام کی علمی اہمیت کو سمجھ کر ساری دنیا کے نظام کا مطالعہ کرلے اگر اس نے خود تجربہ نہ کیا ہو تو جہاں گہرے پانی میں اتر او ہیں ڈوبا.تو یہ قانون قدرت ہے.پھر ان لوگوں کا ہاتھ پکڑ کے تبلیغ میں ڈالنا پڑتا ہے.طریقے آپ بنائیں ، سوچیں ، نظام کی تقسیم کریں، جو لوگ پھر آگے آنا چاہتے ہیں پھر ان کے اوپر اتنی مین پاور ( Man Power) چاہئے آپ کے لئے.دیکھو کتنی بڑی مین پاور ڈیویلپ (Develope) ہو جاتی ہے یعنی باقی سارے کاموں کے ساتھ پہلو بہ پہلو یہ نظام پورے ملک پر چھا جاتا ہے.بچوں کے لئے بھی ہیں، بڑوں کے لئے بھی ہیں ان سے میری پوچھ کچھ ہے ان سے باتیں کرنی ہیں.ایک بچے سے بیٹھ کر باتیں کرنے میں دیکھو کتنا وقت لگے گا.بعض بچیاں ہیں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہم تو تبلیغ کرنا چاہتی ہیں ہمیں پتا کوئی نہیں آپ بتائیں.چنانچہ بعض دفعہ ہماری اردو کلاس میں یا دوسری مجلسوں میں جہاں فیملی ملاقات ہوتی ہے وہاں ان کو سمجھانا پڑتا ہے اور اب اللہ کے فضل سے بچیاں جن کو بالکل پتا نہیں تھا اب وہ تبلیغ کر رہی ہیں.وہ لٹر پچر بھی تقسیم کر رہی ہیں اور تبلیغ بھی کر رہی ہیں.ناروے میں یہی سوال اٹھا تھا.وہاں کی بچیوں نے کہا کہ ہمیں بتائیں ہم کریں کیا.ان کو میں نے سمجھایا کہ اتنا سا تو کام کرو کہ نارویجن زبان میں ایک مضمون لکھو چھوٹا سا اور پھر مجھ سے چیک کروا لو اور سارے سکولوں میں بھیجو اور ان کو کہو کہ ہمارے پاس یہ یہ چیزیں ہیں اور شروع میں بتادو کہ دیکھو ہم وہ مسلمان نہیں ہیں جو تلوار کے زور سے کسی کو مسلمان بنا سکتے ہوں.ہم وہ بھی نہیں ہیں جو ہوائی جہازوں کو دھماکوں سے اڑانے والے ہیں.ہم وہ بھی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تلوار کے زور سے دلوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے.ہم وہ ہیں جن کو تلوار کے زور سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر گردنیں کٹوادی ہیں تبدیل نہیں ہوئے.تبدیل دماغ سے ہوں گے، تبدیل دلیل سے ہوں گے.یہ تعارف تو کراؤ پہلے اور پھر پوچھو کہ کتنے دلچسپی لیتے ہیں.ان کو کہو ہماری خواہش ہے کہ آپ کو مثلاً مفت قرآن کریم آپ کی لائبریریوں میں رکھوا دیں.اب ایک سوال کے نتیجے میں یہ ساری باتیں پیدا ہوئیں اور ناروے کی جماعت کو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فضیلت حاصل ہے کہ جب بھی میں نے ان کو جو کام کہا ہے وہ ضرور کرتے ہیں.اللہ کے فضل سے کبھی نا کام نہیں کرتے.چنانچہ

Page 419

خطبات طاہر جلد 16 413 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء وہ سادہ سادہ چھوٹی چھوٹی بچیوں نے مل کر کام شروع کیا، تہلکہ مچا دیا کئی مخالفتیں اٹھیں، کئی جگہ ان کو مگر وہاں تو بد تمیزی ایک درجہ ہوتی ہے حد سے زیادہ بدتمیزی نہیں ہوتی مگر ان لوگوں میں مہذب ہونے کے باوجود بعض بد تمیزی بھی دکھانے لگے اور جیسا کہ ان کو نصیحت تھی آپ نے بالکل آگے سے کوئی سختی نہیں کرنی.کوئی نہیں مانتا تو بسم اللہ کہہ کر واپس آجائیں.یہاں تک کہ بعد میں پھر ان کی معذرت کے خط آئے، شرمندگی کے خط آئے کہ ہم نے آپ سے بدتمیزی کی تھی ہم معذرت کرتے ہیں.تو ایک چھوٹی سی بات کے جواب میں ایک پورا نظام نہ صرف ابھرا بلکہ قائم ہو گیا ہے.تو احمدی بچیوں سے اگر دوسرے کام نہ بھی لینے ہوں تو اس قسم کے کام بھی تو لئے جاسکتے ہیں اور یہاں بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں.یہاں جتنے سکول ہیں ان کی لائبریریاں ہیں ان تک سلسلے کا بنیادی لٹریچر پہنچانا اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی جماعت کو اس وقت توفیق نہیں یعنی اس کام کو اگر آپ مہینوں میں بانٹیں، سالوں میں بانٹیں اور شروع کر دیں تو پھر ہو سکتا ہے.مثلاً قرآن کریم انگریزی حضرت مولوی شیر علی صاحب کا قرآن کریم دنیا کا بہترین ترجمہ ہے وہ.عرب بھی مجبور ہیں یہ کہنے پر کہ یہی بہترین ترجمہ ہے.سعودی عریبین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ بہترین ترجمہ ہے.بزرگ انسان تھے سادہ تھے نیک تھے ہر ہر آیت کے ترجمے کے ساتھ دعائیں مانگی ہوئی تھیں اور عظیم الشان ترجمہ کی توفیق ملی ہے.آج تک کوئی دنیا کا مترجم اس ترجمے سے بہتر ترجمے کا دعویٰ کر ہی نہیں سکا تو یہ قرآن کریم پھیلانا ہے مثلاً.تو دیکھیں کتنے یہاں ہزار ہا سکول ہیں، یو نیورسٹیوں کے آگے شعبے ہیں اور ہر سکول کے ساتھ مختلف شعبے بھی وابستہ ہیں.ہزارہا جو میں نے کہا ہے میرے نزدیک اگر صرف تعلیمی لائبریریوں کو آپ دیکھیں جو چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہیں یا ان کے ساتھ دوسری لائبریریوں کو ڈال دیں جو حلقوں کی لائبریریاں ہیں یا ان کے ساتھ دوسری لائبریریاں ہیں تو کم سے کم پچاس ہزار لائبریری انگلستان میں نکلے گی ، کم از کم ، اس سے زیادہ ہو تو ہو ، کم نہیں ہو سکتی.ان پچاس ہزار لائبریریوں میں قرآن کریم رکھوانا کتنا بڑا کام ہے اور یہ تبلیغ ہے یعنی تبلیغ کی ایک یہ بھی قسم ہے اور پھر یہ سال اسلامی اصول کی فلاسفی کا سال ہے.چند دن بچوں نے جوش دکھایا.چند دن تقسیم کر دیئے بات و ہیں ختم ہو گئی.دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے ہاتھوں سے کتنی اسلامی اصول کی فلاسفی نکل کے کتنوں تک پہنچی ہے اور اس کے لئے لائبریریوں تک پہنچا نا صرف تبلیغ نہیں ہے بلکہ انفرادی طور پر

Page 420

خطبات طاہر جلد 16 414 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء صاحب علم و دانش لوگوں تک اس طرح پہنچانا کہ وہ پھر پڑھیں بھی اور اس پر غور بھی کریں.تو تبلیغ کے ذرائع تو بے شمار ہیں صرف تلاش کرنے والے کی ضرورت ہے.وہ دیکھے تو سہی ، ڈھونڈے تو سہی کہ رستہ کون سا ہے تبھی خدا تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : 80) کئی دفعہ یہ آیت آپ کے سامنے پڑھ چکا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ ہمارے بارے میں جہاد کرتے ہیں یعنی ہمیں تلاش کرتے ہیں لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا ہم نے فرض کر لیا ہے اپنے اوپر لازم ہے کوئی اس بات کو ٹال نہیں سکتا کہ یقیناً بالضرور ہم ان کو اپنی طرف ہدایت دے کے رہیں گے اپنے رستوں کی طرف لائیں گے.اب رستہ تو صراط مستقیم ایک ہی ہے نا.یہ مراد ہے رستوں سے یعنی صراط مستقیم تک اگر پہنچنا ہے تو تبلیغ یا دوسرے جتنے بھی نیکی کے رستے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے مختلف راہوں میں بٹے ہوئے ہیں ان میں سے جس رستے پر آپ چلیں گے اور دعا کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کا ہاتھ پکڑلے گا.تو ایک رستہ ان میں سے یہ ہے کہ لائبریریوں تک بات پہنچائی جائے.دوسرا راستہ یہی کتاب اہل علم و دانش تک اس سال کے ختم ہونے سے پہلے پہنچادی جائے.تو انگلستان کی جماعت میں اگر ایک لاکھ کتاب تقسیم کرنے کا فیصلہ ہو تو زیادہ نہیں ہے.مگر فیصلہ ہوگا پھر آئے گا کہاں سے، وہ روپیہ کہاں سے آئے گا.پھر وہ تقسیم کیسے ہوگا.اگر اس نظام کو قائم کئے بغیر آپ بڑی بات کرلیں گے، بڑی چھلانگ لگالیں گے کہ انگلستان کی جماعت کی طرف سے ایک لاکھ کا آرڈر لے لیں، ہمیں ایک لاکھ کتاب دے دیں تو یہ آرڈر لینا بھی بیوقوفی ہوگا کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اس نے پھر کہیں نہ کہیں ڈمپ (Dump) ہو جانا ہے.جو چیز آتی ہے اس کے اخراج کا بھی نظام ہوتا ہے.اگر اس کے اخراج کا اور اس کی صحیح جگہ پر رہ کر صحیح حالت پر قائم رہنے کا نظام نہ ہو تو یہ ساری کوششیں بے کار ہو جاتی ہیں.پس لٹریچر میں سے ابھی ایک دو باتیں میں نے آپ سے کہی ہیں باقی سارا لٹریچر موجود ہے.کہاں کہاں پڑا ہوا ہے؟ کہاں کہاں پہنچائیں گے؟ کن کن جگہوں پر رکھوائیں گے؟ یہ سارا ایک نظام بنے والا ہے.بنگالی لٹریچر ہے تو کہاں رکھا جائے گا.لوگوں کو پتا ہونا چاہئے ، ہر بنگالی تبلیغ کرنے والے کو پتا ہونا چاہئے فلاں جگہ میرا مواد موجود ہے.میرا صرف اتنا کام ہے کہ اپنے امیر یا اپنے

Page 421

خطبات طاہر جلد 16 415 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء مقامی صدر سے کہوں کہ یہ چیزیں مجھے مہیا کر دو اور پتا ہونا چاہئے کہاں سے ملتی ہیں اور ہر شعبے کے انچارج کو ہی نہیں ہر صدر کو ، ہر امیر کو معلوم ہونا چاہئے خواہ وہ اس شعبے کا انچارج براہ راست ہو یا نہ ہو کہ میرے شعبوں میں جو سارے شعبے جیسا کہ امیر ہی کے ہوتے ہیں ان میں یہ چیز فلاں جگہ ہے، یہ چیز فلاں جگہ ہے اس کا باقاعدہ نظام لکھا ہوا سامنے چارٹوں کی صورت میں لڑکا ہو یا نہ لڑکا ہو، ایک امیر کا دماغ زندہ رہنا چاہئے ، اس کی عمومی نظر رہنی چاہئے کہ جس وقت مجھے جو چیز چاہئے چٹکی بجاتے ہوئے وہ حاصل کرلے.دراصل یہی وہ نظام تھا جس کی طرف حضرت سلیمان کے زمانے میں قرآن کریم نے اشارے کئے اور سمجھنے والے سمجھے نہیں.ہر چیز کے لئے حضرت سلیمان نے ایسا نظام قائم کیا ہوا تھا اور ایسے آدمی مقرر تھے کہ گویا جب وہ ضرورت پڑتی تھی تو چٹکی بجاتے ہوئے حاضر کرتے تھے، آنکھ جھپکنے میں حاضر کرتے تھے.یہ محاورہ تھا.ایسے صاحب علم تھے جن کو صناعی کے اوپر مہارت حاصل تھی.ان صاحب علم لوگوں میں سے ایک نے دعوی کیا آپ نے فرمایا ہاں اس نے گویا دیکھتے دیکھتے حاضر کر دیا یعنی ایک ایسا تخت بنادیا جو ملکہ سبا کے تخت سے اتنا مشابہ تھا کہ جب اس نے دیکھا تو کہا کا نہ ھو یہ نہیں کہا وہی ہمارے گھر سے چوری ہوا ہوا ہے.اس نے کہا ایسا مشابہ ہے کہ گویا وہی ہے.تو یہ نظام کا کام ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس نظام کی مثالیں قرآن کریم میں ہمیں سمجھا دی ہیں.تو امیر کے لئے ایک دفعہ نظام بنانا مشکل کام ہے، نظام پر کاٹھی ڈالنا مشکل کام ہے مگر ایک دفعہ ڈال کے بیٹھے تو پھر مزے ہی مزے ہیں کیونکہ پھر اس کا سارا وقت مصروف تو رہے گا مگر ان باتوں میں مصروف رہے گا جو گویا اس کی انگلی کی نوکوں پر لکھی ہوئی ہیں.بے چینی نہیں پیدا ہوگی.کام جتنا بڑھے گا اس کو پتا ہے میں نے فلاں جگہ فلاں آدمی کے سپر د کام کرنا ہے.فلاں جگہ فلاں آدمی کے کام سپرد کرنا ہے.یہ کام اس طرح ہو گا وہ کام اس طرح ہو گا.ذہن پوری طرح منظم ہو چکا ہوگا اور اسی کا نام قرآن کریم میں استَوى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف:55) بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے چھ دن لگائے اور اللہ کے دن بہت بڑے بڑے دن تھے.ساری کائنات کا نظام پیدا کیا ہے اس میں کوئی ذرہ بھی باقی نہیں چھوڑا.اس نظام کے کسی ایک چھوٹے سے حصے پر بھی آپ غور کریں تو آپ اس کا احاطہ نہیں کر سکتے.

Page 422

خطبات طاہر جلد 16 416 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء اللہ کی شان دیکھیں کس تفصیل کے ساتھ سارے نظام بنائے ہیں.تب فرمایا تھ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ پھر یہ اس کا عرش تھا ، یہ اس کی کائنات تھی وہی اس کا بادشاہ تھا وہ اس کائنات کے تخت پر بیٹھا.مراد یہ نہیں کہ نکما بیٹھا نعوذ باللہ.مراد یہ ہے کہ نظام مقرر ہو گیا اب ہر چیز کے لئے ایک صورت ہے حل ہونے کی.ایک قاعدہ ہے جس کی رو سے وہ معاملہ حل کیا جائے گا اور آگے بڑھایا جائے گا اور اس کے لئے بے انتہا سوچ اور تدبر کی ضرورت ہے.ایسے تدبر کی ضرورت تھی کہ آپ چھوٹی سی چیز پر بھی غور کریں تو واقعہ دماغ بھنا جاتا ہے یہ ہو کیسے سکتا ہے مگر ہوا ہے اور پھر جب ہو گیا تو پھر کائنات کا خدا خود مستحکم ہو گیا اور سارا نظام یوں چل رہا ہے ہمیں آواز ہی کوئی نہیں آ رہی ، چپ چاپ آپ جتنے سانس لے رہے ہیں بیٹھے جس کو دمہ ہوگا صرف اس کی آواز آئے گی باقیوں کوتو پتا بھی نہیں لگ رہا کیا ہورہا ہے اور ہر سانس کے ساتھ جو آگے نظام وابستہ ہیں اگر میں کھولوں تو آپ حیران رہ جائیں.ہر سانس کے ساتھ جو آپ آکسیجن لے رہے ہیں اس آکسیجن کے، خطروں سے خدا تعالیٰ نے آپ کو کیسے بچایا ہوا ہے کیونکہ یہی آکسیجن زندگی کی دشمن ہے اور کس حفاظت کے ساتھ اس کو باقاعدہ جس طرح پہرے دار مقرر ہوتے ہیں اس کو وہاں پہنچایا جا رہا ہے جہاں اس کی ضرورت ہے اور وہاں اس کے لئے خلاء مقرر ہیں وہاں جائے گی اپنا کام کرے گی اور پھر جب کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بدلے گی تو اس کی واپسی کا انتظام کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے.ایک سانس آپ نے لیا، پھیپھڑے کو بھرا اور خارج کر دیا.آپ نے کہا چلو جی چھٹی ہوئی بس اتنی سی بات تھی.اتنی سی بات نہیں ہے.صرف سانس کے نظام کو جاری کرنا اور خون کے ہر ذرے تک اس کا فائدہ پہنچانا اور اس کی Waste Product کو واپس کرنا ایک اتنا بڑا کام ہے کہ اس کا اگر آپ مطالعہ کریں تو آپ کی عقلیں دنگ رہ جائیں گی اور یہ انسانی جسم کا جو نظام ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ہے.بے شمار اور نظام جاری ہیں اور ساری کائنات ہے.ہر جانور کا نظام ہے.اس کا اپنا دماغ ہے.ہر چیز کے قوانین مقرر ہیں.تو جو باتیں میں آپ کو اختصار سے بتا رہا ہوں ان میں سے ہر بات کا کروڑواں حصہ بھی اگر آپ بار یک نظر سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے تو اس میں سے ایک جہان پیدا ہو جائے گا.یہ معنی ہے ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کا.اللہ نے یہ سارے نظام پیدا کر دیئے اور پھر عرش پر اس لئے بیٹھا کہ از خود جاری ہو گئے گویا کہ آپ ہی آپ چلے جارہے ہیں.

Page 423

خطبات طاہر جلد 16 417 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء آج مجلس سوال و جواب میں میں نے یہی مسئلہ اٹھایا تھا.اردو کی وہ مجلس سوال و جواب تھی کہ پانی کو دیکھ لوکس طرح خدا اٹھا رہا ہے، کس طرح پہنچا رہا ہے، کس طرح واپس کر رہا ہے، کس طرح Waste Product کو فائدہ مند چیزوں میں تبدیل کیا جارہا ہے.اسی چیز کو آپ دیکھ لیں تو پھر دنیا میں انسانوں کی تخلیق کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھیں.انسان کی ہر تخلیق کاWaste Product ایسا ہے جو اس کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے.Pollution ہوگئی ، فضا گندی ہوگئی روز بروز مصیبت بڑھتی چلی جارہی ہے اور خدا تعالیٰ کی کائنات میں ہر Waste Product دوسرے کے لئے ایک مفید وجود بن گئی ہے.وہی Waste Product ایک کا زہر دوسرے کی غذا اور ایک ایک ذرہ ہر Waste Product کا دوبارہ سارے نظام میں گھمایا جا رہا ہے اس کا نام استوی عَلَى الْعَرْشِ ہے.پھر کام چلتے ہیں جیسے چل ہی نہیں رہے پتا ہی نہیں لگ رہا.میں نے صرف سانس کی بات آپ کو بتائی تھی اس سے آگے کتنی باتیں نکل آئیں مگر آپ میں سے ہر ایک بیٹھا سانس لے رہا ہے اور پتا ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور ایک ایک لمحہ اس سانس کا اس سارے نظام کو متحرک کئے ہوئے ہے جس کا آپ کو تصور بھی کوئی نہیں.تو تبلیغ کے نظام کو بھی اس طرح کریں نا جیسے خدا تعالیٰ نے کائنات کا نظام بنایا ہے.اس کا ایک بہت معمولی حصہ ہے لیکن ایک دفعہ جب آپ نے چلا دیا یعنی اس کو آگے بڑھا دیا تو پھر دیکھیں گے کہ یہ ضرور پھل لائے گا.چھوٹے سے چھوٹا جو اس نظام کا حصہ حرکت کر رہا ہوگا وہ کوئی نتیجہ پیدا کر رہا ہوگا اور جو نتیجہ نہیں پیدا کر رہا اس کو سنبھالنا آپ کا کام ہے.ہوسکتا ہے Waste Product ہو جو کسی اور جگہ کام آرہا ہو یعنی بعض لوگ ایک کام میں Waste Product یعنی بے کار طاقت پیدا کر رہے ہوتے ہیں اسی حصے کو کسی اور کام میں استعمال کریں تو مفید طاقت بن جاتی ہے.تو نظام کائنات سے جو خدا تعالیٰ کا نظام ہے اس سے آپ نصیحت پکڑ کے ان باتوں کو جو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں ان کو آگے بڑھائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری تبلیغ کا نظام دن بدن مستحکم ہوتا چلا جائے گا.مگر اس کی اور بھی باتیں ہیں جو سمجھانے والی ہیں.سر دست میں نے آپ کو دو باتیں بتائی ہیں.اس نظام کو جاری کریں ہو سکتا ہے سارا سال محنت کے بعد ہی پوری طرح جاری ہو.یہ دو مہینے تو تھوڑی بات ہے لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جہاں بھی احمدی وجود کو آپ نے

Page 424

خطبات طاہر جلد 16 418 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء نافع الناس وجود بنا دیا، جہاں بھی ایک شخص کو اس کی تخلیق کے تقاضے پورے کرنے کے سلیقے سکھا دیئے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس کی خلقت کے مطابق پیدا کیا ہے ہر شخص میں صلاحیت موجود ہے کہ اس خلقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے.نظام جماعت کا کام یہ ہے کہ ہر فرد بشر کی خلقت کے مطابق اسے سمجھا دے کہ تم کیا کچھ کر سکتے ہو.ایک دفعہ آپ کر دیں تو پھر روزانہ انگلی نہیں پکڑنی محمد اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کا یہ معنی بھی تو ہے.پھر وہ کام جب سیکھ جاتا ہے اس کو اتنا مزہ آتا ہے اس خدمت میں کہ وہ از خود اس کام کو آگے بڑھا تا چلا جاتا ہے بلکہ اس کی فکر لگی رہتی ہے کہ مجھے کچھ اور ملے ، میں اور بھی زیادہ پہلے سے بڑھ کر کام دکھانے والا ہوں.ایسے لوگوں کے لئے تو کسی سیکرٹری تبلیغ کی ضرورت نہیں رہتی.یہی وہ لوگ ہیں جن سے میں کہہ رہا ہوں کہ سیکرٹری تبلیغ فائدے اٹھائیں.جب ایک دفعہ آپ نے ساری جماعت کو نظام میں ڈھال دیا تو پھر آگے آگے بھاگے گی.پھر آپ کے لئے اور کچھ نہیں کرنا سوائے دعاؤں کے.پھر اپنی توجہ کو دوسری طرف پھیریں.جیسے ہر دن ایک نیا تخلیق کا مضمون اٹھاتا ہے اسی طرح آپ کا ہر دن نئی تخلیق کی باتیں سوچنا شروع کر دے کہ یہ کام آگے بڑھانے میں وقت لگے گا.مگر جب آگے بڑھے گا تو حیرت انگیز نتائج نکلیں گے.اس طرح ہم نے دنیا فتح کرنی ہے جس طرح خدا نے سکھایا ہے، جس طرح خدا نے محمد رسول اللہ ﷺ کوحکم دیا.ان باتوں کو بھلا کر نظام کائنات سے منہ موڑ کر آپ دنیا کی ایک گلی بھی فتح نہیں کر سکتے ، اپنا گھر بھی فتح نہیں کر سکتے ، اپنی اولاد کی بھی تربیت نہیں کر سکتے.تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ اس طرح ہم اپنے کاموں کو منظم کر لیں اور ہر امیر کوعلم ہو کہ آج میرا دن کل کے دن سے بہتر ہے.آج پہلے سے بڑھ کر میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان فرائض کو بہتر رنگ میں سرانجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں اور دعائیں کرنا نہ بھولیں.وہ میں ساتھ ساتھ یاد کراتا رہوں گا.ہر کام دعا کے ساتھ آسان ہو جایا کرتا ہے دعا کے بغیر ہر اعلیٰ سے اعلیٰ تدبیر بھی بے کار چلی جاتی ہے.یعنی روحانی دنیا میں دعا کو مسبب الاسباب ہونے کا مقام حاصل ہے اس کے ساتھ اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.ایک بات حضرت سیدہ مہر آپا کے متعلق یہ بیان کرنی چاہتا ہوں.سید نعیم احمد صاحب ان کے بھائی واپس تشریف لائے ہیں ان سے باتیں ہوئیں ان کو علم نہیں تھا بہت سی باتوں کا کہ کس طرح

Page 425

خطبات طاہر جلد 16 419 خطبہ جمعہ 6 جون 1997 ء بار یک بار یک چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے اس کام کو آگے بڑھایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے وقت میں وفات دی ہے کہ ان کے دنیا کے سارے کام ایک عمدہ نظام کی صورت میں چل چکے ہیں ہر چیز کا خیال رکھا جا چکا ہے لیکن اس بارے میں میں یہ بات سمجھانی چاہتا ہوں.بہت سی باتیں ہیں جو میں اس وقت مناسب نہیں سمجھتا جماعت کے علم میں لانا مگر بہت ایسے مواقع آئے تھے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء تھا مگر خدا نے ان ابتلاؤں کو حل فرما دیا اور ان کا خود خیال رکھا.آخری دنوں میں طبیعت واقعی بہت خراب تھی، بہت تکلیف دہ حالات تھے اور خود دعائیں کیا کرتی تھیں کہ اے خدا مجھے اب میرے ماں باپ کے پاس، میرے خاوند کے پاس پہنچا دے.ان کے لئے جو تعزیت کے خط آرہے ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ مجھ میں طاقت نہیں کہ میں ان کا جواب دے سکوں اور ہمارے دفتر میں اور طوعی عملے میں بھی طاقت نہیں ہے.پہلے جو جواب دیئے جارہے تھے وہی ختم نہیں ہور ہے ابھی تک.اس لئے میں جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ یقین کریں کہ ان سب کے خطوط میری نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں.ایک بھی ایسا نہیں جو میں نے نہ دیکھا ہو اور ہر ایک کے لئے دل میں جذبات تشکر پیدا ہوئے ہیں اور دعا ہوئی ہے جزاکم اللہ کہا گیا ہے تو اب خط کی توقع نہ رکھیں.یہ خطبہ اور اس خطبہ میں جو میں یہ اعلان کر رہا ہوں میری طرف سے جوابی خطوط کا نمائندہ سمجھا جاۓ.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اس لئے اظہار تعزیت بے شک کریں مگر اظہار تعزیت کا جواب یہ ہے جواب دے رہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو دنیا اور آخرت کی بہترین حسنات سے نوازے اور حضرت سیدہ مہر آپا کے درجات کو ہمیشہ بلند فرماتا رہے اور ان کے وہ کام جو نیکی کے کام ابھی ہونے والے باقی ہیں ان کو پوری طرح سرانجام دینے کی مجھے اور جو بھی اس میں ملوث ہیں ان کو توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 426

Page 427

خطبات طاہر جلد 16 421 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء ہر جگہ اپنی توفیق کے مطابق کام شروع کریں.اگر دعا کریں گے تو بسا اوقات اللہ کے فضل سے ٹوٹے ہوئے کام بن جائیں گے (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / جون 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: انشاء اللہ کل میرا ایک بیرونی سفر ہے اور اس کے غالباً تین ہفتے تک میں پھر واپس یہاں آؤں گا.اس سلسلے میں جماعت انگلستان کو خصوصیت کے ساتھ یہ تحریک ہے کہ جن نیک کاموں پر میں آپ کو جاری کر کے جارہا ہوں ان کو جاری رکھیں اور میری عدم موجودگی کا وہ احساس نہ ہو جو کام میں سستی پیدا کرتا ہے بلکہ عدم موجودگی کا احساس بسا اوقات محبت کرنے والوں کے درمیان ایک غم کا جذ بہ پیدا کرتا ہے جو غم کو ابھارتا ہے کم نہیں کیا کرتا.پس پہلا پیغام تو آپ کو یہ ہے یا آخری پیغام جانے سے پہلے کا کہ اس عرصے میں ان سارے کاموں کو جن کی طرف گزشتہ خطبے میں توجہ دلائی تھی جاری رکھیں اور محنت اور خلوص اور محبت کے ساتھ اس رنگ میں جاری رکھیں کہ جب میں واپس آؤں تو کچھ بہتر دیکھنے میں نظر آئے محسوس ہو کہ فرق پڑ چکا ہے اور یہ جماعت وہ نہیں رہی جو اس سے پہلے تھی یعنی نیکیوں میں بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے.در حقیقت یہی پیغام دنیا کی سب جماعتوں کو بھی ہے اور یہ میں بہر حال ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت کے Response یعنی جماعت نے جو ردعمل دکھایا خطبے کا اس کے متعلق عمومی خوشنودی کا اظہار کروں.اس قدر تیزی سے مجھے ہر طرف سے دنیا سے خط ملے ہیں فیکسز کے ذریعے

Page 428

خطبات طاہر جلد 16 422 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء بھی، پھر پیغام فونوں کے ذریعے بھی ملے اور بعض جماعتوں کے نمائندے پہنچے اور ان سب نے بلا استنشی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اس خطبے سے پہلے جہاں تک ہماری توجہ کا تعلق ہے بہت سے خلاء تھے جس طرف نظر نہیں جایا کرتی تھی اور ان خلاؤں کی موجودگی میں تیز رفتاری سے کام آگے نہیں بڑھ سکتا تھا.اب اس خطبے کو سن کر ہم نے فوری طور پر توجہ کی ہے تو اب محسوس ہوا ہے کہ بہت بڑا کام ہے، یعنی توجہ دینا بھی ایک بہت بڑا کام ہے اس توجہ کے بہتر نتائج پیدا ہونا یہ بعد کی باتیں ہیں.چنانچہ بعض نے لکھا ہے کہ ہم نے اس خطبے سے جو نوٹس تیار کئے ، تو آپ کے ذہن میں تو شاید یہ نہ ہوں کہ آپ کتنی باتیں کہہ گئے ہیں، مگر جب ہم نے نوٹس تیار کئے ہیں تو پتا چلا کہ پورا بھاری پروگرام ہے جس کے لئے ہمیں ہمہ تن ہمہ وقت مصروف ہونا ہوگا اور اللہ کے فضل سے ہم ہورہے ہیں اور ہو چکے ہیں.اس پہلو سے بعض لجنات کی رپورٹیں بہت ہی خوشکن ہیں اور بہت دلچسپ بھی.وہ کہتی ہیں کہ ہم نے نو مبائعات کی طرف پہلے ویسی توجہ نہ دی تھی جیسے اس خطبے میں خصوصیت سے کہا گیا ہے کہ ان کو فوری طور پر داعی الی اللہ بناؤ یعنی جو خواتین ہیں ان کو داعیات الی اللہ بناؤ.تو اس ایک ہفتہ کے اندر اندر جو یک مجھے کل ملی ہے یا خط جو کل ملا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اتنی عمدگی کے ساتھ نومبائعات نے تحریک میں حصہ لیا ہے کہ وہ لجنہ کی صدر لکھتی ہیں کہ بہت سی جگہوں وہ پرانی پیدائشی احمدی خواتین سے آگے بڑھ گئی ہیں اور اپنے گرد و پیش میں انہوں نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے اور بڑے زور سے آواز اٹھا رہی ہیں کہ اگر تم نے جینا ہے، اگر زندہ رہنا ہے تو آ واحمدیت کے پیغام کی طرف آؤ ور نہ دنیا میں اور کوئی زندگی نہیں ہے.پس اس قسم کے جو خطوط مل رہے ہیں اور جیسا کہ اس صدر لجنہ نے جو بڑی حکمت سے کام کرنے والی ہیں اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے، صاف پتا چل رہا ہے کہ اس میں کوئی فرضی باتیں نہیں بعینہ حقیقت کی باتیں کی جارہی ہیں اور ٹارگٹس ہر طرف مقرر کر دیئے گئے ہیں اور آخر پر ان کا یہ فقرہ توجہ کے قابل ہے، بہت سے پوائنٹس ہیں جو میں تفصیل سے یہاں بیان نہیں کرسکتا، مگر آخر یہ کہتی ہیں کہ جو آپ نے اصلاح وارشاد کے متعلق لائبریری، یعنی آڈیو وڈیو ٹیسٹس وغیرہ کی ، بنانے کے لئے کہا تھا اس کی طرف بھی اب ہم بھر پور توجہ دے رہی ہیں.چنانچہ آخر ستمبر تک انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے دفاتر کو جو اصلاح وارشاد سے تعلق رکھتے ہیں بارود اور اسلحہ سے پوری طرح بھر دیا جائے گا.آج کے بعد

Page 429

خطبات طاہر جلد 16 423 داعیات کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ کہاں جائیں، کیسے کام کریں.خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء چنانچہ یہ وہ اہم فریضہ ہے جس کے متعلق چند اور باتیں میں آپ سے کہنی چاہتا ہوں اور کے بعد پھر کچھ اور باتیں ، جب تک خطبے کا وقت اجازت دے گا.یہ جو بارود خانہ بنانا ہے یہ ایک کام ہے اور بارودخانے کا تفصیلی تعارف کروانا ایک دوسرا کام ہے.عام طور پر لائبریریاں بنادی جاتی ہیں مگر سوائے اس اتفاقی جانے والے کے جو کبھی لائبریری میں جا کر کتا بیں الٹتا پلٹتا ہے دیکھتا ہے کہ کیا ہے، عام طور پر لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان لائبریریوں میں کیا خزانے مدفون ہیں.چنانچہ آپ تجربتہ اپنے علاقے کی کسی لائبریری میں گھس کے دیکھیں اور وہ جو ان کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں ان کو دیکھیں یا کارڈز کا مطالعہ کریں یا گیلری میں پھریں اور کتابوں کے چہرے دیکھیں، اس وقت آپ کو پتا چلے گا کہ میں کیا کہ رہا ہوں.آپ یہ سمجھیں گے کہ ہم نے تو اپنی عمر ضائع کر دی، بڑے مزے کی باتیں تھیں، بہت سے خزانے مدفون تھے جن کی طرف ہماری کبھی نگاہ گئی ہی نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق آنحضرت مہ نے جو پیشگوئی فرمائی تھی اس کا یہی مطلب تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر یوں فرماتے ہیں: وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار (در مشین اردو : 147) کہ یہ خزائن تو تھے ہی، پہلے بھی تھے یعنی خدا کی باتیں اور خدا کے کلام کی تشریحات ، یہ علي صلى الله باتیں تو انبیاء کے زمانے سے ہمیشہ سے وہی چلی آرہی ہیں لیکن جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آنے والا مہدی خزانے بانٹے گا اور اس کثرت سے بانٹے گا کہ لینے والے کہیں گے بس بہت ہو گیا، ہمارے گھر بھر گئے ، اب مجھے ان خزانوں کی ضرورت نہیں رہی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ یہ پیشگوئی میری ذات میں پوری ہوئی ہے، یعنی مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی ذات میں ، کہ وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں انہیں بانٹ رہا ہوں اور تقسیم کر رہا ہوں.پس اے جماعت احمدیہ تم ہو وہ جس نے یہ خزانے بانٹنے ہیں.ان خزانوں کو بانٹنے سے پہلے لوگوں کو علم تو ہونا چاہئے کہ خزانے ہیں کیا.ورنہ قرآن کریم نے انہی خزانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے

Page 430

خطبات طاہر جلد 16 424 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء اور یہ حدیث جہاں تک میرا ایمان ہے اسی آیت سے تعلق رکھتی ہے.وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّكَانَ يَوْسًا (بنی ارائیل: 84) کہ جب بھی ہم انعام تقسیم کرتے ہیں تو لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں اور اس سے بے اعتنائی کرتے ہیں.تو ایک ہی خزانہ ہے جس کی طرف پیٹھ پھیری جاتی ہے جس سے بے اعتنائی کی جاتی ہے وہ اللہ کا انعام ہے جو نبوت کی صورت میں نازل ہوتا ہے اور روحانی انعامات کی صورت میں جاری کیا جاتا ہے.پس وہ علماء جو یہ سمجھتے ہیں کہ مہدی آئے گا اور دنیاوی خزانے بانٹے گا، بڑی بے وقوفی میں مبتلا ہیں.کبھی خدا کا کوئی بندہ دنیاوی خزانے بانٹنے نہیں آیا بلکہ جب بھی آیا ان کے روپے پیسے کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہوا آیا.جو امیر تھے بظاہر وہ غریب ہو گئے مگر ان کے دل ان روحانی خزانوں سے بھر گئے جن کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ملتا ہے اور جس کے متعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان معنوں میں یہ آیت آئندہ کی خبر دینے والی ہے اذا کا مطلب ایک تو عمومی استمرار کے معنوں میں ہوا کرتا ہے یعنی جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے خزانے بانٹے جاتے ہیں تو لینے والے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں.دوسرا مستقبل کے متعلق بھی بعینہ یہی طرز بیان ہو گا لفظ اذا کا معنی یہ ہوگا کہ آئندہ ایسا ہوگا ، جب بھی ہوگا کہ خدا کی طرف سے خزانے بانٹے جائیں گے.اَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِہ تو انسان جس کی خاطر یہ بانٹے جارہے ہوں گے وہ اعراض کرے گا، منہ پھیر لے گا اور ایک پہلو میں ہٹ جائے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے نتیجے میں اسے ضرور گزند پہنچے گا، ضرور تکلیف ہوگی.وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّكَانَ يَوْسًا وہ خزانے لینے سے انکار کرے گا اور پھر جب اس کو شر پہنچے گا تو وہ بہت مایوس ہو جائے گا.وہ کہے گا اب تو ہمارے جینے کے کوئی سامان دکھائی نہیں دیتے، ہر طرف سے ہلاکت نے گھیر لیا ہے.تو جہاں تک خزانوں کے اکٹھا کرنے کا تعلق ہے، ان کی تقسیم کا تعلق ہے اس سلسلے میں اب چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کا تعلق اسی آیت کریمہ سے ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے آج اس زمانے میں بڑی شان کے ساتھ پوری ہو رہی ہے، اس شان کے ساتھ کہ اس سے پہلے اس طرح یہ پوری ہوتی کبھی دکھائی نہیں دی تھی

Page 431

خطبات طاہر جلد 16 425 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء اور خزانے وہی ہیں ، بانٹنے والا ہاتھ وہی ہے ،مگر ہمارے ذریعے اب اس کام کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا اور ساری دنیا میں پھیلایا جائے گا.تو پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ اس لائبریری کے متعلق پتا تو چلے کہ ہے کیا کیا.پس جب آپ کیسٹس اکٹھی کریں گے جب آپ آڈیو وڈیو اور کتب ، رسائل اکٹھے کریں گے تو جوا کٹھے کرنے والے ہیں ان کا فرض ہے کہ پڑھیں خود اور دیکھیں اور سنیں اور اپنے ذہن میں ان باتوں کی یادداشت محفوظ کریں اور جو کچھ ان کے متعلق تعارف لائبریریوں میں ہونا چاہئے وہ ان کے ان تاثرات کا تعارف ہونا چاہئے جو پڑھنے ، دیکھنے اور سننے کے بعد ان کے دلوں پر جاری ہوتے ہیں.ورنہ ہمارے یہاں بہت سے محنت کرنے والے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسے ہیں اور باہر کی دنیا میں بھی ہیں جنہوں نے تمام آڈیو وڈیو ، سوال جواب ، مجالس ، یہ وہ جب سے میں یہاں آیا ہوں اس سے لے کر اب تک سب کا ریکارڈ مکمل کر لیا ہے اور صرف ایک لفظ ذہن میں رکھیں اس کے حوالے سے آپ کو پتا چل جائے گا کس کیسٹ میں مضمون ہے مگر یہ لائبریری کا سسٹم ہے لیکن اس سے آپ کو یہ نہیں پتا چلے گا کہ فلاں چیز فلاں قسم کے لوگوں کے لئے غیر معمولی اثر کرنے والی ہے، فلاں چیز فلاں قسم کے سوالات کے جواب میں زیادہ اثر رکھنے والی ہے.یہ علم جب تک کوئی پڑھ کر ان سے نہ گزرے کسی انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب ہم لائبریری میں جایا کرتے تھے یہاں انگلستان ہی میں SOS میں جب میں طالبعلم تھا تو بعض مضامین کے متعلق محض ریکارڈ دیکھنے سے نہیں پتا چلا کرتا تھا تو لائبریرین کے پاس جانا پڑتا تھا اور اس زمانے میں یہ رواج تھا، غالباً اب بھی ہوگا کہ جو لائبریرین تھے وہ اس لائبریری کی کتابوں کا بہت مطالعہ کیا کرتے تھے بلکہ بعض تو حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح ہر کتاب پر نظر رکھ رہے ہیں.مگر اب یہ کلیریکل نظام زیادہ جاری ہو گیا ہے.مگر وہ علمی نظام کہ لائبریرین کو پتا ہو کہ فلاں مضمون میں فلاں نے کیا کچھ کہا ہے اور کون کیا مؤ ثر مواد آپ کو کس کتاب میں ملے گا یہ اس زمانے میں تو ایک عام دستور تھا.چنانچہ جب لائبریرین سے جا کے کہتے تھے کہ ہمیں کنفیوشس ازم کے متعلق فلاں مضمون چاہئے تو وہ بتاتا تھا کہ ہاں فکر نہ کریں آپ فلاں جگہ جائیں وہاں ان Authors کی کتابیں ہیں.ان میں سے حق میں لکھنے والے یہ ہیں، مخالف لکھنے والے یہ ہیں، تشریحات کرنے والے یہ ہیں اور ان کتابوں کا تفصیل سے تو نہیں مگر

Page 432

خطبات طاہر جلد 16 426 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء اختصار سے وہ تعارف ضرور کروایا جاتا تھا جوتحریری رجسٹر کے مقابل پر نسبتا تفصیلی ہوتا تھا.پس جب میں نے تفصیل سے کہا ہے تو یہ میری مرا تھی.رجسٹروں پر تو بالکل خلاصہ ملتا ہے مگر ایک پڑھنے والے کے ذہن میں اس خلاصے کی کچھ تفصیل ہوتی ہے جو نئے آنے والے کے لئے راہنما بن جاتی ہے.پس سب سے پہلے اس لائبریری کے قیام کے متعلق یہ بات پیش نظر رکھیں کہ اگر چہ وقت طلب بات ہے مگر کرنا تو ہوگا.ہر لائبریری جو آپ کے ہاں اصلاح وارشاد کی بنتی ہے اس جگہ کے سپیشلسٹ ہونے چاہئیں جو اس کو دیکھیں، اس کو پڑھیں اور سنیں اور پھر دہنی طور پر پوری طرح تیار ہوں کہ آئندہ لوگوں کی راہنمائی کر سکیں، بتا سکیں کہ کون سی چیز کہاں موجود ہے.ورنہ بسا اوقات یہ سوال اٹھتا ہے جی فلاں دوست ملا ہے اس کے یہ خیالات ہیں.اب اس وقت مقامی جماعتیں پریشانی میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ یہ خیالات ہیں ہم کیا جواب دیں.وہ کہتے ہیں اچھا سلسلے کا لٹریچر پڑھاؤ اس کو.پھر کیا لٹریچر پڑھا ؤ اور وہ دلچسپی کیوں لے گا جب تک آپ کچھ دلچسپی کی باتیں بیان نہ کریں.آج کل خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا دور ہے اور اس کا تعارف کروایا جا رہا ہے.جہاں جہاں تعارف کروایا گیا ہے وہاں بہت شدت پیدا ہوئی ہے.جہاں تعارف نہیں کروایا گیا وہاں طلب بھی پیدا نہیں ہوئی.پس طلب پیدا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِ تمہیں دقتوں کا سامنا ہوگا تم اپنی طرف سے لائبریریاں بنا بیٹھو گے خزانوں کی لیکن جب لوگوں سے کہو گے تو وہ مونہہ موڑ لیا کریں گے، وہ پہلو تہی کرتے ہوئے ہٹ جایا کریں گے.تو اس لئے ان کے دلوں میں شوق پیدا کرنے کے لئے یا یہ بتانے کے لئے کہ ان کی طلب کیا ہے اور اس کا جواب کہاں ہے.ہر منتظم گروہ کو اور میں منتظم نہیں کہہ رہا گروہ کہہ رہا ہوں اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ اب یہ ایک آدمی کے بس کی بات نہیں رہی.آپ کے ہر چھوٹے حلقے میں بھی خواہ چھوٹی سی لائبریری ہو وہاں بھی ایک نو جوانوں کا لڑکیوں کا الگ اور لڑکوں کا الگ گروپ بنانا ہوگا، ایک چھوٹا سا گروہ ہوگا جو اس معاملے میں خود مطالعہ کر کے اپنے ذہنوں کو روشن کریں گے اور پھر گرد و پیش اپنے ماحول میں سب کو بتائیں گے کہ یہ یہ چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں.تمہارے اس قسم کے دوست اس قسم کے سوالات کرتے ہیں بے تکلف ان کو لے کے آؤ کہ ہمارے پاس آؤ اور ہم تمہیں معین چیزیں بتائیں گے کہ ان

Page 433

خطبات طاہر جلد 16 427 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء پر اثر انداز ہونے والی کیا کتا بیں ہمارے پاس موجود ہیں، کس کی زبان میں موجود ہیں، کونسی آڈیو وڈیوز ہیں، ان کے کس کس زبان میں ترجمے ہیں وغیرہ وغیرہ.تو ہر زبان کے ترجمے پر تو نظر رکھنی ضروری نہیں مگر ہر زبان کے ایک ترجمے پر نظر رکھنی ضروری ہے.یعنی اردو دانوں کے لئے تو ترجمے کا سوال نہیں وہ براہ راست اردو کی کیسٹ سن سکتے ہیں.انگریزی دانوں کے لئے کسی ترجمے کا سوال نہیں کیونکہ وہ براہ راست انگریزی کیسٹ سن سکتے ہیں.عربی دانوں کے لئے عربی سوال و جواب میں بہت کچھ مواد موجود ہے لیکن جو میں بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جو اردو دان ہیں وہ اردو کی ٹیسٹس کو غور سے سن کر دینی طور پر اپنے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے ایک ترتیب قائم کریں یعنی ہر شخص کا ایک نقطہ نگاہ ہے اس پہلو سے وہ ایک ترتیب قائم کرے اور پھر اس کو لکھ لے اور اس طرح جگہ جگہ جماعتوں میں Experts پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.ویسے آپ علمی تیاری کرنے کی کوشش کریں بہت شاذ کے طور پر آپ کو کامیابی نصیب ہوگی ، آپ جتنا مرضی کہتے رہیں کوئی نہیں پڑھتا، کوئی نہیں سنتا کیونکہ اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں.لیکن جب ذمہ داری ڈالیں گے کہ تم نے تو راہنمائی کرنی ہے اے نوجوانوں کے گروہ! یہ یہ کتابیں پکڑو، ان پر غور کرو اور آگے تم لوگوں کو بتانا شروع کرو تو اس کا دوسرا فائدہ جو بہت ہی اہم ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے پاس لٹریچر کے مطالعہ، احمدیت کے مضامین کا مطالعہ کرنے والے ایسے عشاق پیدا ہو جائیں گے جو ایک دفعہ گزریں گے، دو دفعہ گزریں گے تو ان کو اس بات کی دھن لگ جائے گی کہ اب ہم یہ سب کچھ پڑھا کریں کیونکہ ان بے چاروں کو تو پتا ہی نہیں وہ تو کبھی لائبریری کی گیلری میں گھسے بھی نہیں، دیکھا ہی نہیں کہ دونوں طرف الماریوں میں کیا کچھ سجا پڑا ہے.تو ان معنوں میں ان لائبریریوں کو جن کی میں بات کر رہا ہوں لوگوں سے آشنا کرانے کے لئے لائبریرین بنانے ہوں گے اور ان لائبریرین کو پھر چاہئے کہ وہ اپنے تاثرات کو اس رنگ میں منضبط کریں تحریری صورت میں بھی اور تصویری صورت میں بھی کہ اس کے نتیجے میں بآسانی آنے والوں کی توجہ اس طرف مبذول کر سکیں.اس میں لازم ہے کہ نئے آنے والوں کو بھی شامل کیا جائے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جو ترک ہیں وہ آپ کی لائبریری کے ترکی حصے کے اوپر مامور ہوں.ان کے سپرد یہ کام ہو کہ یہ ترکی چیزیں ہیں ، ہمارے پاس لائبریری کی اس میں کتابیں ہیں ہمیں تو کچھ پتا نہیں چلتا تم پڑھو، یہ آڈیو

Page 434

خطبات طاہر جلد 16 428 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء وڈ یوتم دیکھو اور ہماری مددکرو اور اس تعلق میں بسا اوقات ایک غیر احمدی یا غیر مسلم کی مددبھی لی جاسکتی ہے چنانچہ ہم نے ایسا کر کے دیکھا ہے.میرا تجربہ ہے ذاتی طور پر کہ جب کسی مثال کے طور پر یہاں میرا ایک قسم کا ذاتی تجربہ نہیں لیکن پہلے اس سے بہت ہو چکا ہے.یہاں اگر کسی تر کی غیر احمدی دوست کو جو صاحب علم ہوا ایک احمدی درخواست کرے کہ آئیں ذرا میرے گھر کھانے پر تشریف لائیں میں نے آپ سے بات کرنی ہے.یہ میرے پاس کتابیں پڑی ہوئی ہیں.یہ چیزیں ہیں تو میں اتنی منت کرتا ہوں کہ آپ صاحب علم ہیں آپ مہربانی فرما کر ذرا پڑھ کے دیکھیں اور مجھے بتا دیں کہ اس میں ہے کیا کیا تو میں آگے اس کو اپنی زبان میں منضبط کرلوں گا.اگر اس قسم کی درخواست کی جائے عاجزی کے ساتھ تو انسانی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ اکثر لوگ حامی بھریں گے اور کہیں گے ہاں ٹھیک ہے ہم مدد کرتے ہیں.بنگالیوں کی مدد لی جاسکتی ہے اردو کی مدد لی جاسکتی ہے مختلف قسم کے غیر ملکی ، افریقنوں کی تو اس بات کا فیصلہ ماحول کرے گا.جب میں اب لائبریریوں کی باتیں کر رہا ہوں تو بڑی وسیع مرکزی لائبریری کی بات نہیں کر رہا.میں اب چھوٹی چھوٹی پیدا ہونے والی لائبریریوں کی بات کر رہا ہوں جن کو جماعتوں نے انشاء اللہ اب ہر ماحول کے لئے بنانا ہے تا کہ ہر ماحول کو اپنی مرضی کا سامان وہیں سے مل جائے.اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر آپ شہروں میں جتنے بھی حلقے ہیں مثلاً لندن کی جماعت ہے اس کے حلقے ہیں، ہر حلقے میں ایک لائبریری قائم ہونی ضروری ہے اور یہی وہ لائبریری کا قیام ہے جس کی طرف ان خاتون نے جوصدر لجنہ ہیں اپنے علاقے کی انہوں نے یہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی سو خواتین ہیں جو اس میں ملوث ہو چکی ہیں اور ہر حلقے میں ہم ایک لائبریری قائم کر رہے ہیں.جب تک یہ نہ ہو مرکزی لائبریریوں پر یہ انحصار کہ آپ کو خط ملیں یا پیغام میں کہ فلاں مضمون میں، فلاں مسئلے پر ہمیں لٹریچر دیا جانا چاہئے بتاؤ کیا لیں.یہ اگر ہر طرف سے پیغام ملیں گے تو اول تو ایسے پیغام ملتے ہی کم ہیں، شاذ کے طور پر لوگ لکھتے ہیں.دوسرے جن کو ملتے ہیں ان کو آگے جواب دینا نہیں آتا.سراسیمگی پھیل جاتی ہے کیا کریں، کیا جواب دیں اور آسان حل یہ ہوتا ہے کہ وہ اٹھا کر خط مجھے بھیج دیتے ہیں کہ میں آرام سے جواب دیتا رہوں.آرام سے تو دوں مگر کتنے خطوں کا جواب دوں.اب تو کام پھیلتا چلا جا رہا ہے.بہت کثرت کے ساتھ یہ سوال اٹھ رہے ہیں، یہ مطالبے آرہے ہیں

Page 435

خطبات طاہر جلد 16 429 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء کہ بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہئے.تو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ بتائیں کہ ان کو کیا کرنا چاہئے جن کا آپ کی جماعتوں سے تعلق ہے اور آپ کے حلقوں سے تعلق ہے.اب ہر حلقے کی لائبریری کے لئے اس حلقے کا ماحول دیکھنا ہوگا اور اس کے گرد و پیش نظر ڈال کے جائزہ لینا ہو گا کہ کس قسم کے سوالات یہاں اٹھتے ہیں، کس قسم کے لوگ بستے ہیں.پہلے خطبے میں غالباً بیان کر چکا ہوں بعض جگہ بنگالی بہت ہیں بعض دفعہ آسامی.ہر ملک کے رہنے والے موجود ہیں.کہیں کردش موجود ہیں جو ا کٹھے عام طور پر رہتے ہیں، کہیں مختلف عرب یا افریقن ممالک کے لوگ ہیں اور یہ جو بیرونی آنے والے ہیں ان کے اندر عموماً یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ مل جل کر رہتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے سے باتیں کرنا آسان، ایک دوسرے کی طرز رہائش چونکہ ملتی جلتی ہے ، ہم شکل ہوتی ہے اس لئے ان کے ساتھ اپنے ماضی کی یادیں وابستہ ہوتی ہیں.چنانچہ نے ملکوں میں بھی جاتے ہیں تو اکثر انہی یادوں میں ہی رہتے ہیں اور یہ لوگ اکٹھے رہتے ہوئے اپنے پرانے مناظر کو زندہ رکھتے ہیں جس طرح بچپن میں اٹھے جس طرح پرورش پائی جس ماحول میں ہوا کرتے تھے جیسی باتیں کرتے تھے.اس بات کو سب سے زیادہ پنجابی جانتا ہے کیونکہ اکثر دوسری زبانوں سے بے خبر ہے اور سوائے اپنی زبان کے اور آپس میں مل جل کر باتیں کرنے کے اس کو زیادہ باتیں نہیں آتیں.جو صاحب علم ہو جائیں ان کی ایک اور مصیبت وہ اپنی زبان بالکل چھوڑ بیٹھتے ہیں اور ان کے بچے پھر صرف انگریزی کے ہو جائیں گے یا اٹالین کے ہو جائیں گے یا سپینش کے ہو جائیں گے ان کو اپنے پس منظر کا پتا نہیں.تو یہ باتیں بھی وہ ہیں جو ضمنا سامنے آ جاتی ہیں اس کو ختم کریں، یہ سلسلے تبلیغی جماعتوں کے سلسلے نہیں ہوا کرتے یعنی حقیقت میں وہ جماعتیں جو آنحضرت مہ کے نقش قدم پر تبلیغ کے لئے قائم کی گئی ہیں ان کے یہ مزاج میں نہیں.اسی لئے میں نے جرمن جماعت کے مخلص بچوں کو جو بڑی تیزی سے اخلاص سے جماعتی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں اور مجھے جرمن زبان میں خط لکھتے تھے اور اتنے موٹے موٹے تھدے لگ جاتے تھے جرمن زبان کی فائلوں کے.ان سب کو میں نے کہہ دیا ہے کہ آئندہ سے تمہیں جواب ہی نہیں ملے گا جب تک اردو میں نہ لکھو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے اردو اچھی لگتی ہے.اردو اچھی لگتی تو ہے مگر زبانوں کے موازنے میں پھر آکر اردو کا اپنا ایک مقام ہے، جرمن کا اپنا مقام ہے، ہر زبان کی اپنی ایک اہمیت ہے، اپنا ایک مذاق ہے اور ہر زبان الله

Page 436

خطبات طاہر جلد 16 430 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء بولنے والے کو اس سے محبت ہوا کرتی ہے.تو یہ ہرگز مراد نہیں کہ جرمن، جرمن چھوڑ دیں اور اٹالین، اٹالین چھوڑ دیں صرف اردو کو پکڑ لیں.اردو سیکھنا اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اور سلسلے کا لٹریچر اکثر اردو میں ہے.اس وجہ سے وہ بے شک سیکھیں شوق سے سیکھیں ان کو فائدہ ہو گا لیکن اپنی زبان ان کو نہیں بھولنی.جہاں بھی جائیں اگر اٹالین ہیں تو لازم ہے کہ اپنے بچوں کی اٹالین زبان میں اچھی تربیت کریں.اکثر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں تو اردو زبان میں تربیت کریں کیونکہ پنجابی تحریری زبان کے طور پر ان کے کسی کام نہیں آئے گی.ایسی ایسی اکیڈیمیز بنی ہوئی ہیں پاکستان میں جن میں بہت اچھے اچھے ماہرین فن تیار ہورہے ہیں ایک احمدی بھی ہیں ان میں محمد یعقوب صاحب امجد غالباً نام ہے، وہ مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے پنجابی میں یہ کر دیا، وہ کر دیا.مگر کبھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ کتنے لوگ لائبریری جا کر ان کا پنجابی ترجمے والا لٹریچر پڑھتے ہیں.جو پنجابی کے شوقین ہیں جن کا ایک گروہ بنا ہوا ہے ایک سوسائٹی ہے وہ سارے حصہ لیتے ہیں لیکن عامتہ الناس کو اس سے کوئی تعلق نہیں.ٹھیٹھ پنجابی بولتے ہیں اردو آتی بھی نہیں مگر پڑھتے ہیں تو اردو میں پڑھتے ہیں.تو حقیقت کو دیکھنا ضروری ہے اس لئے میں نے ان بچوں کو کہ دیا ہے کہ تم مجھے جب تک اردو میں خطا نہیں لکھو گے میں نے تمہیں جواب ہی نہیں دینا.اب وہ مجبور ہیں بے چارے ٹوٹا پھوٹا لکھنے لگ گئے ہیں ماشاء اللہ لیکن یہ اس لئے ضروری ہے کہ موازنہ زبانوں کا ضروری ہوا کرتا ہے.ہر زبان اپنی اہمیت رکھتی ہے لیکن جب تک ایک سے زیادہ زبانیں داعین الی اللہ کو نہ آئیں اس وقت تک وہ حقیقت میں خدمت کا حق ادا نہیں کر سکتے.تو اس طرح آپ زبانیں تو سیکھیں گے مگر جو میں اب بات کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنی لائبریری کو ایک بہانہ بنالیں لوگوں تک پہنچنے کا اور ایسا بہانہ ہو جو واقعہ حقیقی ہو، جھوٹا بہانہ نہ ہو.آپ کو ٹرکش نہیں آتی مگر ترک ہیں جن کو آتی ہے ان کے پاس جائیں.آپ کو چینی نہیں آتی مگر چینی ہیں جن کو آتی ہے.جب وہ پڑھیں گے تو وہ پھر آپ کے مضمون میں بھی دلچسپی لیں گے یہاں تک کہ جو مترجمین ہیں، بعض مترجمین ایک دو کتابوں کا ترجمہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اب ہمیں اور لٹریچر بھیجو.اب ہم اپنی خاطر معلوم کرنا چاہتے ہیں بعضوں کی کایا پلٹ جاتی ہے.ایک چینی مترجم نے ہمارے چینی صاحب کو لکھا کہ ایک دو کتابیں فلاں فلاں میں نے پڑھی ہیں میرے تو زمین و آسمان بدل گئے ہیں، احمد بیت اگر یہ ہے تو سارے چین کا یہی

Page 437

خطبات طاہر جلد 16 431 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء مذہب ہونا چاہئے.تو اس قسم کے امور ہیں خدا تعالیٰ نے جن کی ہم پر رحمت فرمائی ہوئی ہے جن کا ہم پر انعام فرمایا ہوا ہے ہم تو اس سے منہ نہیں موڑنے والے لیکن غیر مونہ موڑیں گے جب تک ان کو اس انعام کی حیثیت کا علم نہ ہو.پس پتا ہونا چاہئے کہ نعمت ہے اور نعمت کے علم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جو نعمت بانٹ رہا ہے اس کو تو پتا ہو کہ نعمت ہے.اب یہ مشکل ہے جو آج درپیش ہے کہ بہت سے احمدی بھی ایسے ہیں جن کے پاس اتنا وقت ہی نہیں رہا یا بچپن سے ان کی تربیت ایسی نہیں ہوئی کہ ان کو احمدیت کی نعمتوں کا علم نہیں ، اس کا مزہ انہوں نے چکھا نہیں ہے یعنی وہ نعمتیں جو خزانوں کی صورت میں بانٹی جارہی ہے اس لئے جب پتا چلتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فوری طور پر اس طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.68 تو اس طرح دو طرح سے ہمیں فائدہ ہوگا.ایک وہ احمدی جن کو آپ نے کام سپرد کرنا ہے آپ نے کہنا ہے کہ تم نے سیکھنا ہی سیکھنا ہے آگے جو آکے کام کو بڑھانا ہے تمہیں علم نہیں ہوگا تو کیسے بڑھاؤ گے.وہ پڑھیں گے، وہ سنیں گے اور ان کے دل بدل جائیں گے.میں نے شاید پہلے بھی ذکر کیا تھا ایک دوست نے میرے سامنے ذکر کیا کہ ساری عمر میں نے ضائع کر دی خدا نے ہر طرح سے نعمت عطا فرمائی تھی.اچھے خاصے کھاتے پیتے انسان لیکن اب MTA کے ذریعے جب خطبے دیکھے ہیں تو اس وقت مجھے پتا چلا ہے کہ میں کن باتوں سے محروم تھا اور اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہترین داعی الی اللہ اور اپنی جماعت میں چوٹی کی مالی قربانی کرنے والے ہیں.مگر یہ ایک آدمی نہیں کثرت سے ایسے پیدا ہورہے ہیں، مگر جو غیر احمدی ہیں ان کی بات میں کر رہا ہوں.آپ میں سے جو واقف ہیں اتفاقا خطبے سن کے MTA کے ذریعے ان کو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پتا چل چکا ہے، ان کو چاہئے کہ وہ اپنی لائبریریوں میں اپنے مزاج کے مطابق مددگار بن جائیں لیکن اس کے باوجود بہت کچھ ہے جو دوسری زبانوں میں ہے جن کا ان کو علم نہیں ہے.اب دورے ہوتے ہیں جرمنی کے جس میں جرمن زبان استعمال ہوتی ہے، عربی استعمال ہوتی ہے، تر کی استعمال ہوتی ہے اور بنگالی استعمال ہوتی ہے ، افغانی استعمال ہوتی ہے.یعنی ایک دورے میں ایک زبان تو نہیں بعض ممالک میں دس دس بارہ بارہ زبانیں استعمال ہورہی ہیں اور ان سب کے تراجم جرمن یا انگریزی یا اور کسی اور زبان میں موجود ہیں.تو خزانے تو بہت ہیں اللہ کے فضل سے جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آج بانٹے

Page 438

خطبات طاہر جلد 16 432 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء جانے ہیں اور بانٹنے والا ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہاتھ ہے، اس میں کوئی شک نہیں.آپ ان کی نعمت کو سمجھیں ، ان کی نعمت کی حیثیت کو سمجھیں اور جہاں جہاں لائبریری قائم کر رہے ہیں جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں وہاں آپ کی Experts کی ٹیم تیار ہونی چاہئے جن کو پتا ہو کہ اپنے ماحول کو میں نے کیا بتانا ہے.پھر جب آپ گرد و پیش نظر ڈال کے لوگوں کے مسائل دیکھیں گے تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ اس کا مسئلہ فلاں کتاب میں ہے، وہاں پہنچیں اور بتائیں کہ تمہارا مسئلہ اس میں ہے.اور اس ضمن میں ہومیو پیتھی جو بظاہر ایک بے تعلق مضمون ہے لیکن وہ بھی علم شفا ہے اس کا بھی گہرا تعلق ہے.چنانچہ انڈونیشیا سے ہمارے عبدالقیوم صاحب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی مخلص اولین احمدی کی اولاد ہیں.عبدالباسط جو ہمارے مبلغ ہیں ان کے بھائی، وہ دنیا میں بڑے عہدے پر فائز ہیں ان کو جنون ہو گیا ہے تبلیغ کا اور ہومیو پیتھی کے متعلق وہ مجھے بتارہے تھے کہ میں تو حیران ہوں کہ اتنا بڑا تبلیغ کا ذریعہ ہم اس سے غافل بیٹھے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں ہمارے ایک مبلغ تو کہتے ہیں کہ اب مجھے دوسرے کاموں کا وقت ہی نہیں ملتا.وہ کہتے ہیں دن رات مریض آرہے ہیں اور وہ آ کے مجھے سب کہتے ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو.اسی تعلق میں پھر جماعت احمدیہ سے تعارف ہو رہا ہے اور خدا کے فضل سے وہ لوگ جو پہلے احمدیت کا نام سننے کے لئے تیار نہیں تھے اب کثرت سے احمدیت کی باتیں کرنے لگے ہیں اور اللہ تعالی مدد بھی ایسی کرتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.مجھے انہوں نے ، قیوم صاحب نے کل اپنے بعض واقعات سنائے میں حیران رہ گیا کہ اس دوائی سے تو فائدہ ہونا ہی نہیں چاہئے تھا.وہ بتا رہے تھے فلاں آدمی آیا اس نے کہا یہ مجھے تکلیف ہے میں نے کہا فوراً سلفر 200 اور گولی کی طرح یعنی گولی سے مراد وہ گولی نہیں ، گولی کی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیماری کو وہ لگ گئی.کہتے ہیں آئے، چند دن کے بعد کہا بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں.ایک مریض کی بات بتارہے تھے کہ ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک مریض آیا جس کو جلدی بیماری تھی جو بہت ہی خطرناک سنگین اور ہمیشہ کے لئے چھٹ جانے والی بیماری ہے اور اس مریض نے جو جلدی مریض تھا اس نے اس سے باتیں کیں تو آخر ان کو تسلیم کرنا پڑا کہ بات یہ ہے میں تمہارا علاج تو کروں گا لیکن بیماری نہیں چھوڑے گی.اس نے کہا بیماری مجھے نہیں چھوڑے گی تو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں، مجھے کیا ضرورت ہے تمہارے پاس آنے کی.وہ احمدی مبلغ ہے اس کے پاس جاؤں گا.چنانچہ اس مبلغ کے

Page 439

خطبات طاہر جلد 16 433 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء پاس پہنچے.اب اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ انہوں نے جو د وادی ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ان کی جلد بالکل صاف اور شفاف نکل آئی اس کا نشان تک باقی نہیں رہا اور وہ پھر ڈاکٹر کے پاس گیا.اس نے کہا ذرا میرا معائنہ تو کرو.اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.اس نے کہا میں نے تو کبھی دیکھا ہی نہیں زندگی میں ایسا واقعہ اور یہ ہو نہیں سکتا.اس نے کہا غور سے دیکھو ہوا ہے یہ بتاؤ کیسے ہوا تھا اس نے کہا یہ جو احمدی مبلغ ہے اس کے پاس میں گیا تھا.چند دن کے بعد، قیوم صاحب ہی بتا رہے تھے، مبلغ کے پاس وہ ڈاکٹر صاحب پہنچ گئے.کہا معاف کرنا مجھے آپ کی بڑی سخت ضرورت ہے.میرے پاس اسی مرض کا ایک اور مریض آگیا ہے اور مجھے پتا ہے میں کچھ نہیں کرسکتا.تو آپ مہربانی فرما کر مجھے بتائیں اور جیسا کہ میں نے احمدیوں کو ہر جگہ کہا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے نعمت عطا فرمائی ہے میں آپ کو دے رہا ہوں آپ آگے بانٹیں، ہرگز کنجوسی نہیں کرنی نسخوں میں.چنانچہ انہوں نے فوراً ان کو نسخہ دیا اور اللہ کے فضل سے ان کے سارے مریض جو اس کے بعد ، جن کا بھی علم ہے ان کو ، وہ ٹھیک ہونے لگ گئے.ہومیو پیتھی کو آپ مانیں یا نہ مانیں اللہ تعالیٰ نے تبلیغی نظام میں ہومیو پیتھی کو ایک خدمت گار بنا دیا ہے اور اس سے استفادہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کئی جگہ پاکستان میں کیا جارہا ہے.کئی ایسے بڑے سخت مخالف ہیں کڑر، جن کو کوئی دلچسپی نہیں ہے جماعت میں، سننے کے لئے تیار نہیں مگر بیمار تو ہوتے ہیں.آئے دن مصیبت پڑی ہے پاکستان میں تو اتنی گندی فضا ہوگئی ہے کہ کھانے کو وہ کلاشن کوف کی گولیاں ملتی ہیں اور بیماریاں اتنی عام، خوراک اتنی گندی کہ مصیبت پڑی ہوئی ہے.اللہ رحم کرے اس ملک پر بہت ہی برا حال ہورہا ہے اب تو گندی خوراک بھی کم ملتی ہے.تو وہاں احمدی جو عقل والے ہیں وہ یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں.ان کو پتا چلتا ہے کسی مریض کا جس کو شفا نہیں ہو رہی اس کو کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت احمدیہ چھوڑو ایک طرف مگر ہمارے امام جو ہیں وہ ہومیو پیتھک جانتے ہیں یہ کتاب ہے ذرا مطالعہ کر لو اور اپنے لئے خود دیکھو کوئی دوا ہے کس میں شفا ہے اور بعض ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہیں پھر مجھے خط لکھتے ہیں.کہتے ہیں ہماری تو آنکھیں کھل گئیں کیونکہ جو میں نے کتاب لکھی ہے وہ محض ہو میو پیتھی کی خاطر نہیں لکھی وہ آنحضرت مے کے اس ارشاد کے تابع میں یہ ان خزانوں میں سے ہے جو بانٹ رہا ہوں العلم علمان علم الادیان و علم الابدان (حلية الاولياء وطبقات الأصفياء الامام الشافعي )

Page 440

خطبات طاہر جلد 16 434 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء علم تو دو ہی ہیں یا روحانی علوم ہیں مذہب کے یا بدن کی صحت کے علوم ہیں یا سائنس کے علوم ہیں.تو اس پہلو سے ان کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ لکھنے والا بالکل صاف ہے، خدا کو مانتا ہے خدا کی معرفت کی باتیں موجود ہیں اس کتاب میں تو اس کا دل بدلتا ہے اور ایک واقعہ نہیں ہوا بیسیوں ایسے ہیں جو میرے علم میں ہیں صرف ہومیو پیتھی کی کتاب پڑھ کے احمدیت کی طرف توجہ ہوئی ، احمدی لٹریچر مانگا اور پھر آخر اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں ہدایت مل گئی ہے.تو اس کو بھی آپ اس لائبریری کا حصہ بنائیں اور اگر ممکن ہو یعنی ایک زائد میں آپ کو ترکیب بتا رہا ہوں آپ کی لائبریریوں میں دلچپسی کی ، وہاں جو احمدی ہو میو پیتھ بن رہے ہوں یا ان کو واقفیت ہو ان کو مقرر کریں اور تبلیغ کے لئے ایک ذریعہ اس کو بنالیں.آپ ان سے کہیں کہ تم فلاں وقت ہمارے پاس آؤ وہاں ایک علم شفا کا ماہر بھی بیٹھا ہوا ہے جو مفت دوائی بھی تقسیم کرے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اس لائبریری میں ہومیو پیتھی کی دوائیاں بھی ہونی چاہئیں.مگر اس ضمن میں مجھے اکثر جماعتوں سے شکوہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم نے ہر جگہ بنیادی دوائیں تقسیم کیں یعنی ہر جگہ مفت تقسیم ہورہی ہیں ، اس کو آگے پھیلانے کا انتظام تجویز کیا یعنی انتظام تو بنانا تھا جماعت نے مگر ہم نے تجویز کیا، اس طرح اس کا انتظام کریں گے اور ہر جگہ بہت ہی معمولی قیمت پر ان دواؤں کو آگے بڑھانے کا اور زیادہ بنانے کا طریقہ سمجھایا یہاں تک کہ ساری بڑی بڑی جماعتوں میں بڑے بڑے ملکوں میں کثرت کے ساتھ ایسے اڈے قائم ہو سکتے ہیں جہاں سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مفت علاج کا سلسلہ جاری ہو جائے.اب انگلستان کو خصوصیت سے اس کی بہت ضرورت ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہسپتالوں اور دوسرے ادارے جن کا صحت سے تعلق ہے ان پر حکومت کا اتنا خرچ اٹھ رہا ہے کہ اب رفتہ رفتہ مجبور ہیں کہ مریضوں کو یہ کہیں کہ تم بھی اپنا حصہ ڈالو.بعض جگہ پہلے مفت علاج تھا اب وہ کہتے ہیں تم اپنے ڈاکٹر کو جو ہر علاقے کے لئے مقرر ہوتا ہے اس کو خود Pay کرو،خود اس کو کچھ دو اور یہ سلسلہ آگے بڑھنے والا ہے.امریکہ میں علاج اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ بعض لوگ تو علاج سے زیادہ مرنا قبول کرلیں گے.حد سے زیادہ وہ قصاب بن گئے ہیں اس وقت علاج کے ضمن میں.تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ، جماعت احمدیہ کو یہ موقع دیا ہے کہ اس خزانے کو بانٹیں اور عام کریں اور لوگوں کی شفا میں جہاں تک دنیا کا علم ہے یعنی خدا کا دیا ہوا علم وہ استعمال کریں اور دعا بھی ساتھ استعمال کریں اور اس ذریعے

Page 441

خطبات طاہر جلد 16 435 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ دیکھیں گے کہ ان مریضوں کو احمدیت میں ضرور دلچسپی پیدا ہوگی.اب خزانے کی بات میں کتابوں کی صورت میں کر رہا تھا اس طرف واپس آتا ہوں.ہر جگہ کی کتابیں الگ الگ ہو سکتی ہیں، ہر جگہ کی وڈیوکیسٹس الگ الگ ہوسکتی ہیں کیونکہ ماحول الگ الگ ہے.اس لئے بہت بڑی لائبریری کی ضرورت نہیں مگر یہ لازم ہے کہ کچھ لوگ واقف ہوں اور پھر وہ اگر بانٹیں چیزیں تو دو طرح سے ان کا حساب رکھیں.ایک یہ کہ جن کو جو چیزیں بانٹی جارہی ہیں وہ واپس آئیں.ان میں مہنگی چیزیں ہیں بہت بعض دفعہ، یعنی بعض دفعہ ہوتی ہیں بہت مہنگی چیزیں، بعض دفعہ سستی بھی ہیں مگر عام طور پر مثلاً جماعت میں یہ توفیق غالباً ہر جگہ نہیں ہوگی کہ Volume Five قرآن کریم مفت تقسیم کریں.One Volume تو کسی حد تک یعنی ایک جلد میں جو حضرت ملک غلام فرید صاحب والا ترجمہ اور تفسیر ہے، تغییر تو حضرت مصلح موعود ہی تھی مگر انگریزی میں انہوں نے ڈھالا ہے، یہ اگر مفت دے بھی دیا جائے تو اس کا بھی مقامی طور پر لوگ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے.تو لائبریریوں میں ایسی چیزیں جنہوں نے گھومنا ہے اور زیادہ گہری اور علمی کتابیں ہیں ان کا واپسی کا بھی تو انتظام ہونا چاہئے.اس کے لئے یہ احتیاط کر لینی چاہئے کہ جس دوست کی معرفت کوئی کتاب جارہی ہے وہ ذاتی طور پر حاصل کرے اور ضامن ہو اس بات کا کہ اگر اتنے عرصے میں واپس نہ آئی تو وہ ذمہ دار ہے.اگر ایسا معین انتظام آپ نے نہ کیا تو ان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور کچھ یہ ترکیب بھی کام آتی ہے کہ ایسی کتابیں زیادہ رکھیں جو کبھی کبھی ضائع تو نہیں ہوں گی مگر ضائع ہو بھی سکتی ہیں.ضائع نہیں ہوں گی ان معنوں میں کہ جو پڑھے گا اس کو فائدہ پہنچے گا مگر ضائع ہو بھی سکتی ہیں ان معنوں میں کہ بعض لوگوں کے متعلق علم ہوا ہے کہ جماعت کی قیمتی کتا بیں ارادہ شرارت کے طور پر لے لے کر پھاڑ پھاڑ کے پھینکتے ہیں اور بعض لائبریریوں نے رپورٹ کی ہے کہ جب بھی تم نے قرآن کریم رکھوایا ہے کوئی لے کے بھاگ گیا ہے اور واپس نہیں آیا.تو اس لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ آنکھیں کھول کر ان سب امور کا جائزہ لینا چاہئے اور ایسی کتابیں جن کا ضائع ہونے کا خطرہ ہے اول تو معلوم کریں کون سی جہت ہے.وہ ہے کون سا رستہ جس کے ذریعے یہ ضائع ہوتی ہیں اور جو مہنگی ہیں ان کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک سے زائد رکھیں.کوئی ایک وقت میں ایک لے جائے تو پھر دوسرا آنے والا جب اسی کا مطالبہ کرے تو اس کو بھی کچھ ملنا

Page 442

خطبات طاہر جلد 16 436 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء چاہئے.تو آڈیوز وڈیوز کے متعلق جو میں نے جرمنی کی جماعت کو ہدایت کی تھی وہی میں اب سب کو ہدایت کر رہا ہوں.ان کے متعلق ایک سرکولیشن سسٹم ہونا ضروری ہے اور وہ سرکولیشن سسٹم یعنی اس کو اس طرح حرکت میں دیا جائے کہ ساری جماعت میں وہ حرکت کر رہی ہوں اس کی اگر صحیح نگرانی کی جائے تو بہت ہی زیادہ موثر اور غیر معمولی طور پر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے.یہ جو ٹیمیں میں اب بیان کر رہا ہوں لائبریری کی محافظ ٹیمیں ان کے ذریعے سرکولیشن شروع کریں.ان کو کہیں تم خود ان کو غور سے سنو، دیکھو اور پھر اگر تمہارا دل چاہتا ہو کہ اور بھی سنیں تو اپنی جماعت کے ان دوستوں کو دو جو اپنے ماحول سے دوسروں کو بلا کر دکھا سکیں اور یہ ہونے کے بعد چونکہ ہزار ہا وڈیوز ان چھوٹی چھوٹی لائبریریوں میں رکھناممکن نہیں ہے اس لئے یہ لائبریرین گروہ پہلے جائزہ لے کر اندازہ کریں کہ شروع میں ہم پہلے دس سے کام لیں گے.ان دس سے استفادہ کریں ان کو گھمائیں اور پھر مرکز کو واپس کریں کہ ان کو دوسری جماعتوں میں دینے کے لئے بے شک اب اس کو استعمال کریں.اگر ان کو توفیق ہو تو اس کی کاپیاں بنا کر اپنے پاس رکھ لیں ورنہ مفت اگر کام کرنا ہے تو واپس کر دیں دس اور مانگ لیں اور اس طرح وہ دس پھر وہ جولائبریرین ہیں وہ پہلے دیکھیں گے.پس لائبریرین سے مراد ایک لائبریرین نہیں بلکہ گروہ ہے جس میں نئے آنے والے نئی بیعتیں کرنے والے ضرور شامل ہوں اور ہر گروہ کا تعین موقع اور حالات کے مطابق الگ الگ ہوگا.اور یہ نظام اپنی ذات میں اتنی گہری اور لمبی نگرانی چاہتا ہے کہ اس کے لئے بھی مرکز میں کسی کو مقرر کرنا ہو گا جو اسی کام پر لگ جائے یا ایک سے زائد آدمی مقرر کرنے ہوں گے جن کا کام یہ ہو کہ سارے ملک میں گھومتے پھریں، ہر جگہ پہنچ کے پتا کریں کہ ذرا مجھے اپنی لائبریری تو دکھاؤ.پتا کریں گے تو شاید پتا لگے گا کہ ہے ہی نہیں کوئی.کہے کہ بابا اس سے تو شروع کرو میں تمہارے لئے چھوٹی سی لایا ہوں ایک ساتھ.چنانچہ ایسی لائبریریاں ساتھ لے کر پھر سکتے ہیں.ان لائبریریوں کا زیادہ وسیع ہونا ضروری نہیں ہے شروع میں.اگر آپ نے اس طرح کام شروع کیا جس طرح عام طور پر لوگ کرتے ہیں کہ ایک وقت میں بیٹھ کر فہرستیں بنائیں اور بھاری کام اپنے ذمے لے لیا کہ ہر لائبریری میں یہ کتاب بھی ضروری ہے، وہ بھی ضروری ہے، فلاں وڈیو ضروری ہے، فلاں وڈیو ضروری ہے تو ہزار تکتو تعداد پہنچ ہی جائے گی.نہ آپ میں توفیق ہوگی کہ ان کو پوری طرح جاری کر سکیں نہ جماعت

Page 443

خطبات طاہر جلد 16 437 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء میں توفیق ہوگی کہ ہر ایسی لائبریری کو اتنی بڑی کتا ہیں اور وڈیو دے سکیں.تو یہ جو آخری بات ، میں وقت دیکھ رہا ہوں اس کی نسبت سے آپ کو کہہ رہا ہوں ، آخری بات تو دعا کی ہے لیکن اس سے پہلے یہ میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ اپنی توفیق کے مطابق کام کریں.ہرگز توفیق سے زیادہ بوجھ نہ اٹھا ئیں.اس بات کو بارہا میں بتا چکا ہوں.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 287) اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی توفیق سے بڑھ کر اس پر بوجھ ڈالتا ہی نہیں ہے حالانکہ خود توفیق بڑھانے والا ہے.مگر بڑھاتا اس وقت ہے جب اس وقت کی توفیق کے مطابق ایک شخص اپنا پورا بوجھ اٹھا لیتا ہے.تو وسعت اور چیز ہے اور ایک موقع پر توفیق اور چیز ہے.اس بارے میں ایک دفعہ مجھے یاد ہے خطبے کا ایک بڑا حصہ میں نے خرچ کیا تھا اور آپ کو سمجھایا تھا کہ لا یخلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں جو وسعت ہے وہ ایک بڑی وسعت کا نام بھی ہے جو آخری حدیں ہیں انسان کی.مگر خدا تعالیٰ جب فرماتا ہے اِلَّا وُسْعَهَا تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت کی وسعت، جب کسی انسان میں کچھ اٹھانے کی طاقت ہے اتنا ہی بوجھ ڈالے گا لیکن اللہ جانتا ہے کہ جب وہ اٹھاتا ہے تو اس کی وسعت بڑھ جاتی ہے.بچے آپ کی آنکھوں کے سامنے پل کر بڑے ہوتے ہیں ان کی منھی منی ٹانگیں جو اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں وہ بڑے بڑے لوگوں کا بوجھ اٹھانے لگ جاتی ہیں، بڑے بڑے بھاری کام کرنے لگ جاتی ہیں اور یہی نظام ہے کہ اللہ تعالیٰ وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا مگر وسعت بڑھا تا ضرور ہے.تو آپ یہ نہ گھبرائیں کہ آپ کا کام تھوڑا سا شروع ہو رہا ہے.آپ نے اللہ کی نقل کرنی ہے.آپ کو اپنے طور پر تو کوئی عقل آہی نہیں سکتی جب تک اللہ سے نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے نظام مقرر فرمایا ہے جو آپ سب پر جاری فرماتا ہے.آپ خدا سے سیکھتے ہوئے ہر جگہ کی تو فیق کے مطابق کام شروع کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر آپ کا اس مضمون سے تعلق رکھنے والا مرکزی سیکرٹری اپنا یہ پیشہ بنالے کہ گھومتا پھرے اور اپنے ساتھ چھوٹی چھوٹی لائبریریاں اٹھائے پھرتا ہوتو ایک کتاب لے جائے ، ایک وڈیو لے جائے، ایک آڈیو لے جائے وغیرہ وغیرہ، میں مثال دے رہا ہوں اور کسی ایک جگہ جہاں مرکز قائم نہیں اسی سے مرکز چلادے اور جب یہ استعمال ہوں گی ، جب یہ ہضم ہو جائیں گی تو اس جماعت کی توفیق بڑھ جائے گی.پھر مطالبہ ادھر سے آئے گا کہ آپ فلاں

Page 444

خطبات طاہر جلد 16 438 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء دے گئے وہ تو ہم ختم کر بیٹھے ہیں اب اور لائیں.چنانچہ جن بچوں کو کہانیوں کی عادت پڑتی ہے وہ ختم ہوتے ہی پھر لائبریری پہنچتے ہیں پھر ختم ہوتے ہی پھر لائبریری پہنچتے ہیں.تو آپ کی مرکزی لائبریری میں آنے والوں کی تعداد بھی بڑھے گی اور ان کو پتا ہوگا کہ اب ہم نے کہاں مدد کے لئے پہنچنا ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس طریق پر اس چھوٹی سی لائبریری کو خدا تعالیٰ برکت دینے لگ جائے گا اور ابتدا میں بڑی بڑی لائبریریاں نہ بنائیں یہ میں سمجھا رہا ہوں آپ کو.بنانی ضرور ہے مگر چھوٹی بنائیں کیونکہ مجھے پتا ہے، مجھے سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جہاں بھی ان باتوں کو نظر انداز کر کے بوجھ تو فیق سے بڑھاو ہیں نظام ٹوٹ گیا اور اکثر یہ ٹوٹے بکھرے ہوئے نظام پھر بعد میں دکھائی دیتے ہیں.ہم نے فلاں جگہ بھی کام شروع کیا تھا کچھ فائدہ نہیں ہوا، فلاں جماعت نے کام شروع کیا تھا اب نہیں رہا.مگر اگر خدا تعالیٰ کے نظام کو آپ پکڑیں گے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کام اپنے آپ کو آگے نہ بڑھائے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کوئی تاجر چھوٹی سی پھیری سے کام لیتا ہے مگر توفیق کے مطابق، توفیق سے بڑھ کر نہیں اٹھاتا مگر جو اٹھاتا ہے وہ اپنے لئے اور سامان پیدا کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ چھوٹی سی پھیری ایک چھوٹی سی دکان میں بدل جاتی ہے، چھوٹی سی دکان بڑے کاروبار بننے لگ جاتی ہے.مگر وہ جاہل جو قرضے لے لے کر شروع میں بڑی دکان کی بات کرتے ہیں میں نے تو اکثر ان کی عمریں گلتی دیکھی ہیں کہ وہ پھر جائیداد میں بھی بیچیں تو قرضے نہیں اترتے.تو لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا کا ایک یہ بھی مضمون ہے جو آپ سب کو سمجھنا چاہئے کہ خزائن جو آپ بانٹ رہے ہیں ان خزائن میں دنیا کے خزائن بھی ہیں ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہے.آپ اپنی معیشت کا اتنا بوجھ اٹھا ئیں خواہ وہ تھوڑا ہومگر ہو اتنا جو اٹھا سکتے ہوں اور یادرکھیں کہ اگر خدا کے حکم کے مطابق آپ نے ایسا کیا ہوتو اللہ تعالی وسعت کو ضرور بڑھایا کرتا ہے.ہو نہیں سکتا کہ نہ بڑھائے اور جو حض اللہ کی خاطر کرتا ہے اس کو غیبی مدد بھی ملتی ہے دیکھتے دیکھتے برکتیں ملنی شروع ہو جاتی ہیں مگر دل صاف اور پاک ہونا چاہئے.اگر نیت میں کہیں گند آگیا تو پھر وہ گند آخر تک ساتھ چلے گا آپ کے کسی کام میں برکت نہیں رہنے دے گا.پس تبلیغ کی طرف توجہ میں جو ایک اور نکتہ آپ کو سمجھانے والا تھا وہ یہی تھا مگر اس کے بہت سے پہلو ہیں جن پر مزید روشنی ڈالنی ہوگی.اگر خدا نے توفیق دی تو اس سفر کے درمیان خطبات میں یا

Page 445

خطبات طاہر جلد 16 439 خطبہ جمعہ 13 / جون 1997 ء پھر بعد میں واپس آکر انشاء اللہ اس مضمون کو میں پھر پکڑوں گا.اب میں اجازت چاہتا ہوں یہ یاد دلاتے ہوئے کہ اپنے لئے دعائیں ضرور کریں.دعاؤں سے سارے کام آسان ہو جاتے ہیں کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی.بسا اوقات انسان بڑی مصیبت میں مبتلا بیٹھا ہوتا ہے کہ اس کا حل نظر نہیں آ رہا، اس کا حل نظر نہیں آ رہا.اگر واقعہ توجہ خدا کی طرف ہو اور دعا کی طرف مائل ہو تو ساری مشکلیں دیکھتے دیکھتے آسان ہو جاتی ہیں.پتا ہی نہیں لگتا کہ یہ مشکلیں گئی کہاں اور اگر خدا کی طرف توجہ نہ ہو تو جو آسان کام ہیں وہ بھی مشکل ہوتے چلے جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ: قادر ہے وہ بار کہ ٹوٹا کام بنا وے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ( در شین اردو : 162) اگر دعا کریں گے تو بسا اوقات اللہ کے فضل سے بھاری اکثریت میں آپ دیکھیں گے کہ ٹوٹے کام بن جائیں گے اور اگر دعا سے احتراز کریں گے تو : بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے“

Page 446

Page 447

خطبات طاہر جلد 16 441 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء اگر تم اپنے اندر وہ نقوش پیدا کر لوجو نقوش مہر محمدی کے نقوش ہیں تو اربوں آپ کی وجہ سے بچائے جائیں گے (خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1997ء بمقام بیت الرحمن واشنگٹن.امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: 19) پھر فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس خطبہ جمعہ کے ساتھ جماعت احمدیہ USA کا انچاسواں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ جماعت یونائیٹڈ سٹیٹس کے مالی قربانی کرنے والوں کو بہترین جزا دے جنہوں نے یہ انتظام کیا ہے کہ یہ خطبہ اس وقت ساری دنیا میں سنایا جا رہا ہے اور اسی طرح جلسے کے کچھ حصے بھی تمام دنیا میں نشر کئے جائیں گے.جماعت احمدیہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے کچھ اپنے مسائل ہیں.کچھ تو ایسے مسائل ہیں جو سب دنیا کے برابر ہیں لیکن پھر بھی ملک ملک میں فرق پڑتا جاتا ہے.آج جو میں نے آیت تلاوت کی ہے اس میں تربیتی مسائل کی طرف خصوصیت کے ساتھ اگلی نسلوں کی تربیت سے متعلق بنیادی اصول پیش فرمائے گئے ہیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے یا دو تین خطبات میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی مگر تبلیغ کو تقویت ملتی ہے تبلیغ کرنے والوں کی اپنی تربیت کے

Page 448

خطبات طاہر جلد 16 442 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء ساتھ اور تبلیغ کے اپنے بھی کچھ مسائل ہیں کیونکہ نئے آنے والے ایسے آتے ہیں جو تربیت کے محتاج ہوتے ہیں.اگر تربیت کرنے والے خود تربیت کے محتاج ہوں تو اس سے بہت سے گھمبیر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں.چونکہ ہم نے خصوصیت کے ساتھ مستقبل کی طرف توجہ دینی ہے اس لئے ہماری نظر موجودہ مسائل پر بھی رہنی ضروری ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے تعلق میں بھی ہمیں جماعت کی اور نئے آنے والوں کی ایسی ٹھوس تربیت کرنی ہے جس کے نتیجے میں ہم کہہ سکیں کہ ہم نے صدی کے سر پر پیدا ہونے کا حق ادا کر دیا.بہت سے ایسے خاندان ہیں جن سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں خصوصیت کے ساتھ ایفرو امریکن خاندانوں نے اکثر تربیت ہی کے متعلق سوال کئے کیونکہ وہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے جس ماحول نے ان کے بچوں تک گہرا اثر کر رکھا ہے.چنانچہ اس ماحول سے الگ ہو کر اسی ماحول کی تربیت کرنا جس میں وہ پیدا ہوئے ایک بہت ہی مشکل مسئلہ ہے.چنانچہ کل بھی سوال و جواب کی مجلس میں ایک مخلص احمدی دوست نے یہی توجہ دلائی کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں.کچھ ایسی باتیں ہیں جو بچپن سے شروع ہوتی ہیں اور بچپن ہی میں ان کی بنیاد ڈالنی ضروری ہے.میں سب سے پہلے انہی کی طرف آپ کی توجہ منعکس کرتا ہوں کیونکہ جب تک بچوں کی نسل کو نہ سنبھالا جائے آئندہ کے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اسی طرف اشارہ فرما رہی ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدِ اے لوگو جوایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور کل پر نظر رکھو کہ تم کل کے لئے کیا آگے بھیج رہے ہو.پس آج کے بچے کل کی نسلیں ہیں جنہوں نے آج کا احمدیت کا پیغام انگلی صدی میں منتقل کرنا ہے.بچوں کی طرف تربیتی نقطہ نگاہ سے توجہ دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ ماں باپ جو بچوں کی تربیت کرتے ہیں خود ان کی بھی تربیت ہوتی ہے اور لازم ہے کہ وہ اپنی تربیت اپنے بچوں کے حوالے سے کریں.تو پہلی بات جو بچوں کے تعلق میں خصوصیت سے یہاں کے ماحول میں بتانی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ کے لئے لازم ہے کہ بچپن ہی سے اپنے بچوں کا تعلق اپنے ساتھ بڑھائیں اور ایسے خاندان بنائیں جن میں نگاہیں اندر کی طرف اٹھنے والی ہوں اور بچوں کو گھر کے ماحول میں سکون ملے.

Page 449

خطبات طاہر جلد 16 443 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ سختی سے بچوں کو دبانے کے نتیجے میں اگر اس عمر تک جب تک وہ ان کے ماتحت ہیں ان میں کوئی خرابی پیدا ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تو وہ غلطی پر ہیں.چونکہ بہت سے بچے اپنے ماں باپ کے حکم کی تعمیل میں یا ان کی سختی سے ڈر کر بسا اوقات اپنے دل کی خواہشات کو دبائے رکھتے ہیں اور جب وہ سوسائٹی میں کھل کر باہر جاتے ہیں تو وہ خواہشات ایک ایسے ماحول میں پنپنے لگتی ہیں جو ان کے لئے ساز گار ہے.ہر بدی کا خیال، ہر اس لذت کی تمنا جو جلدی حاصل کی جاسکتی ہے امریکہ کی سوسائٹی میں سب سے زیادہ جلدی حاصل کی جاسکتی ہے.دنیا کی ہر سوسائٹی میں یہ مسئلہ ہے لیکن امریکہ میں تو ماحول میں اتنی زیادہ سرعت کے ساتھ دل کی لذت کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں کہ بچوں کو بہکانے کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی چیز ممکن نہیں ہے.چنانچہ جب وہ گھر کے ماحول سے نکلتے ہیں تو باہر کا ماحول انہیں بدیوں میں خوش آمدید کہتا ہے، نیکیوں میں نہیں اور یہ ایک اس ماحول کی خصوصیت ہے جسے بچوں کو سمجھانا ضروری ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بچے یہ شکایت کرتے ہیں کہ جب ہم اسلامی طریق پر عمل کر رہے ہوں تو لوگ ہم پر ہنستے ہیں، لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ اور قسم کی نسل ہے اور ماحول کا یہ اختلاف اور نیکی پر حملہ کرنا یہ امریکہ کے ماحول کا ایک جزو بن چکا ہے.امریکہ کی فضا ایسی ہے کہ وہ لازماً گھر سے باہر نکلنے والے بچوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور ان کی اچھی عادات کو فرسودہ خیالات کہہ کر ان کو رد کرتی ہے اس کے نتیجے میں بچے میں خود اعتمادی کا فقدان ہو جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ جو اپنے گھر سے میں اقدار لے کر چلا تھا سو سائٹی میں تو ان کی کوئی بھی قیمت نہیں ،سوسائٹی میں جن اقدار کی قیمت ہے وہ ایسی اقدار ہیں جن کو گھر میں برا کہا جاتا تھا.پس آزادی کا ایک احساس باہر نکل کر ایسا پیدا ہوتا ہے جو تیزی کے ساتھ ایسے بچوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس اس مشکل کو پیش نظر رکھتے ہوئے لازم ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کے دل اپنی طرف یعنی ماں باپ اپنی طرف مائل کریں اور گھر کے ماحول میں ان کی لذت کے ایسے سامان ہونے چاہئیں کہ وہ باہر سے گھر لوٹیں تو سکون کی دنیا میں لوٹیں، بے سکونی سے نکل کر اطمینان کی طرف آئیں اور یہ باتیں صرف اسی صورت میں ممکن ہیں جب آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت پر غور کیا جائے صلى الله کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دو اور بائیں کان میں تکبیر کہو.بہت سے

Page 450

خطبات طاہر جلد 16 444 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء لوگ ہیں جو اس کا فلسفہ نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں.اکثر ایسے بچے مختلف زبانیں بولنے والوں کے بچے ہوتے ہیں ان کو تو عربی کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا چیز ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایک بے کار بات ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ نفسیاتی لحاظ سے اس کا کیا اثر پڑتا ہے اور بچے کا دماغ کن باتوں کو شروع ہی سے قبول کرتا ہے اور پھر محفوظ رکھتا ہے.اس بحث کو چھوڑتے ہوئے میں ان ماں باپ کو بتا رہا ہوں جو اذان دیتے یا دلواتے ہیں، وہ تکبیر دیتے یا دلواتے ہیں ان کو تو متوجہ ہونا چاہئے وہ تو باشعور ہیں.آخر کیوں یہ کہا گیا؟ ایک اس کا پہلو وہ ماں باپ ہیں جن کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں.ان کو سمجھایا گیا ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کی صحیح تربیت کر دور نہ بعد میں یہ ہاتھ سے نکل جائیں گے.تو پہلی تربیت کا وقت بچپن کا آغاز ہے اور اس وقت کی تربیت ایسی ہے جو ہمیشہ کے لئے آئندہ زندگی کی بنیادیں قائم کرتی ہے.اس بات کو بھلانے سے بہت سے لوگ نقصان اٹھا جاتے ہیں.بچوں سے ہر قسم کی پیار کی باتیں تو ہوتی ہیں ان کی خواہشات کا خیال رکھا جاتا ہے مگر بچپن سے ان کو نیکی پر قائم کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی.اس لئے سب سے اہم بات اس ماحول میں جیسا کہ دوسرے ماحول میں بھی بہت ہی اہم ہے لیکن امریکہ میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ بچوں سے ایسی باتیں کریں جو اللہ اور رسول ﷺ اور نیک لوگوں کی محبت پیدا کرنے والی باتیں ہوں اور ان کو نیکی کی اقدار سمجھائیں اور اس کے لئے گھر میں مختلف قسم کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں.جب ایک بچہ اچھی بات کرتا ہے تو ماں باپ کا فرض ہے کہ اس بات کو بڑی اہمیت دیں اور اس بچے کی اس بات کا ذکر چلائیں کیونکہ وہ بچہ جو اچھی بات پر مثلا کسی موقع پر وہ جھوٹ بول سکتا تھا اس نے نہیں بولا اور سچ بول کر بظاہر نقصان اٹھایا ہے اگر آپ اس کی باتیں آنے والوں میں ذکر کیا کریں اور سوسائٹی میں اپنے گھر میں ، گھر سے باہر اس بچے کو اس طرح پیش کریں کہ دیکھو اس کے دل میں شروع ہی سے نیکی ہے تو ایسا بچہ اس بات کو کبھی بھول نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ اس کے دل سے اس ماحول میں نیکی کی اہمیت کا اثر مٹ جائے.دوسرے جب وہ کوئی بری بات کرتا ہے تو اسے سمجھانا اس طریق پر کہ وہ سمجھ جائے اور اسے محسوس ہو کہ میں ایک برابر کی چیز ہوں، میں بھی ایک عقل رکھنے والا وجود ہوں جو کچھ میں سوچتا ہوں ،

Page 451

خطبات طاہر جلد 16 445 خطبہ جمعہ 20 جون 1997 ء ماں باپ کی سوچ اس سوچ پر اثر انداز ہو رہی ہے نہ کہ اس کا ہماری سوچ پر حکم چل رہا ہے.پس تحکم سے احتراز لازم ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نماز کے قیام کے سلسلے میں شروع میں بچپن میں بچوں پر تحکم کی اجازت نہیں دی.سات سال سے پہلے تو کسی حکم کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سات سال سے دس سال تک ایسی نصیحت جس کے نتیجے میں بچے نمازوں کی طرف متوجہ ہوں اور بار باران کو نمازوں کی عادت ڈالنے کی طرف ماں باپ کو توجہ دلا نا یہ تو ہمیں ملتا ہے لیکن بچوں کو اس پر سزا کوئی نہیں ہے کہ وہ سات سال سے دس سال کی عمر میں نمازوں سے منہ موڑتے ہیں.تو آنحضرت میر نے ان کو سات سے دس سال تک سزا دینے کا کہیں ارشاد نہیں فرمایا.تین سال مسلسل ماں باپ کو نصیحت کے ذریعے اثر انداز ہونا ہے.ایسی باتیں کہنی ہیں جو ان کے دل اور دماغ کو اسلام کی طرف پھیر نے والی ہوں اور دل کے اطمینان سے وہ اسلام کی طرف مائل ہوں.اور دس سال تک جب وہ اس عمر کو پہنچیں جہاں صرف گھر ہی میں نہیں باہر بھی ایسے بچوں کو کچھ نہ کچھ سزا ضرور دی جاتی ہے.پرانے زمانے میں تو سکول میں ایسے بچوں کو جو دس سے بارہ سال کی عمر میں ہوں سوٹیاں بھی پڑتی ہیں اور کئی قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں بلکہ وہاں تو اس سے پہلے بھی بعض دفعہ سزا شروع ہو جاتی ہے تو پہلے سزا کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے، جھوٹ ہے.اس سے باز صلى الله رہیں اور اس کے بعد جو سزا ہے اس کو آنحضرت ﷺ نے معمولی سرزنش قرار دیا ہے.ہرگز کسی قسم کی سختی ایسی نہیں جس سے بچے کے بدن پر ایسی ضرب پڑے جس سے اس کو نقصان پہنچ سکے اور یہ وہ پہلو ہے جس کو بچپن کی تربیت میں آپ کو محوظ رکھنا ہوگا یعنی سات سال کی عمر تک پیار اور محبت سے اپنے ساتھ دل لگائیں، ان کی اچھی باتوں کو اُچھالیں کیونکہ اس عمر میں بچے ضرور اپنی تعریف کو خوشی سے قبول کرتے ہیں اور جس بات کی تعریف کی جائے اس پر جم جایا کرتے ہیں.جس چیز سے نفرت دلائی جائے اس سے متنفر ہو جایا کرتے ہیں.تو آئندہ آنے والے جو خطرات ہیں ان کا بچپن ہی میں تصور باندھیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ماحول کی بدی کو ان کے سامنے اچھال کر پیش کریں.ان کو بتائیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے.جب وہ سات سال سے اوپر دس سال تک پہنچیں تو پھر خصوصیت سے عبادتوں کی طرف متوجہ کرنا بھی آپ کی تربیت کا ایک حصہ بن جائے گا.اس کے بعد نا پسندیدگی کا اظہار، ان سے منہ موڑ نا اگر وہ بری

Page 452

خطبات طاہر جلد 16 446 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء حرکت کریں، نمازیں نہ پڑھیں تو بعض دفعہ ڈانٹنا اور سمجھانا یہ چیزیں بارہ سال کی عمر تک جائز ہیں.اور بارہ سال کے بعد آنحضرت یہ فرماتے ہیں کہ پھر اب تمہارا ان پر کوئی سختی کا حق باقی نہیں رہا جو کچھ تم نے کرنا تھا وہ وقت گزر گیا ہے.اب دیکھیں اس پہلو سے مغربی تہذیب اور اسلام میں کتنا نمایاں فرق ہے.مغربی تہذیب میں مختلف سال مقرر کر دیئے جاتے ہیں مثلاً اٹھارہ سال، اکیس سال یا سولہ سال اور ان سالوں کا بعض جرائم سے تعلق قائم کیا جاتا ہے.آج کل جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں یہ معین کیا جا رہا ہے کہ سولہ سال کی عمر تک کسی لڑکے کو کس جرم کی کتنی سزاملنی چاہئے ، اٹھارہ سال تک کس جرم کی کتنی سزاملنی چاہئے اور اکیس سال کی عمر میں جا کر پھر وہ کلیہ ہر سزا کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا.اسلام نے بارہ سال اس لئے مقرر کئے ہیں کہ یہ بلوغت کا آغاز ہے اور بارہ سال میں بچہ اتنی ذہنی پختگی اختیار کر جاتا ہے کہ اپنے روز مرہ کے معاملات میں خود فیصلہ کر سکے.پس اسلام کی بلوغت کا آغاز دنیا والوں کی بلوغت سے بہت پہلے ہوتا ہے اور یہ بہت ضروری بات ہے کیونکہ اگر بارہ سال تک بچہ اپنے سیاہ وسفید کو دیکھ نہ سکتا ہو تو پھر اٹھارہ سال تک بھی نہیں دیکھے گا بلکہ اپنی بد عادتوں میں اتنا پختہ ہو جائے گا جب وہ اٹھارہ سال کی عمر سے گزر کر سوسائٹی میں جاتا ہے تو پھر اس میں وہ بدی ایک مستقل دائمی شکل اختیار کر جاتی ہے.یہ وہ پہلو ہے جس کے متعلق میں آپ کو بھی متوجہ کر رہا ہوں اور انگلستان میں اکثر جوان مسائل میں دلچسپی لینے والے سوشل راہنما یا سیاسی راہنما ہیں وہ جب مجھ سے گفتگو کے لئے آتے ہیں تو میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ تم بنیادی طور پر ایک غلطی کر رہے ہو.مثلاً بعض چھوٹے بچوں کو وہاں قتل پر آمادہ کرنے والے گروہ بن چکے ہیں اور ان سے وہ قتل کرواتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کو سزا نہیں ملے گی.اسی طرح چوری ڈاکہ سکولوں میں ڈرگ اڈکشن (Drug Addiction) کے لئے اس قسم کے گروہ تیار کئے جاتے ہیں اور یہ محض غلط قانون سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے.جب تک قوانین درست نہ ہوں اس وقت تک انسان کی صحیح تربیت اور معاشرے کی صحیح اصلاح ممکن نہیں ہے.مگر ہمیں جس نے قانون دیا یعنی اللہ تعالیٰ ، اس نے ایک ایسا قانون دان عطا صلى الله فرمایا جس سے بڑھ کر کوئی قانون دان دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ہے.اورال

Page 453

خطبات طاہر جلد 16 447 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء آپ نے قرآن کے قانون کو سمجھا اور اپنی اُمت میں اسے جاری فرمایا.یہی ایک پہلو آپ دیکھیں کہ جب بھی گفتگو آگے بڑھی وہ تمام ملنے والے اس بات پر یقینی طور پر مطمئن ہو کر گئے کہ ہمارے پر معاشرے کی غلطی ہے.اس کی اصلاح کے بغیر ہم کسی تربیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی بلوغت تک پہنچتے پہنچتے یعنی اٹھارہ سال یا اکیس سال تک اگر بدی کی سزا نہ دی جائے تو بچے کو بدی پر جرات پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وہ عمر ہے جس میں جرات ایک دوام اختیار کر جاتی ہے، ایک ایسی عادت بن جاتی ہے کہ جسے پھر چھوڑ نا ممکن نہیں رہتا.چنانچہ اکثر انگلستان میں بھی اور یورپ کی دوسری سائٹیوں میں بھی ایسے بد بچے بالغ بنا کر سوسائٹی میں پھینکے جاتے ہیں جو اپنی بدیوں پر پختہ ہو چکے ہوتے ہیں.جسے ڈرگ اڈکشن (Drug Addiction) کی شروع سے عادت پڑ گئی ہو، جسے ڈرگ بیچ کر پیسے لینے کی عادت پڑ جائے ، کیسے ممکن ہے کہ وہ اٹھارہ یا اکیس سال کے بعد قانون کے ڈر سے ان عادات کو چھوڑ دے.تو معمولی سی عقل کی بات ہے اسے استعمال کر کے اگر دیکھا جائے ، جیسا کہ یہ لوگ نہیں دیکھ رہے بدقسمتی سے، تو انسان لازماً آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی طرف لوٹے گا.پس تربیت کا آغاز شروع سے ہونا چاہئے اور بارہ سال کی عمر تک پہنچ کر اس تربیت کو اتنا مکمل ہو جانا چاہئے کہ اس کے بعد بچہ اپنے سیاہ و سفید کا مالک ہو اور پھر اگر وہ سوسائٹی کا جرم کرے تو سوسائٹی اس کو سزا دے.اگر خدا کا جرم کرے تو خدا سزا دے گا ماں باپ کا کام نہیں کہ اس کو سزا دیں.یہاں پہنچ کر معاشرے اور احمدی ماحول کے جو طرز عمل میں ایک فرق ہے جو میں آپ کے سامنے نمایاں طور پر رکھنا چاہتا ہوں.بہت سے بچے اور بچیاں جو امریکہ کے ماحول میں پیدا ہوئے ان کے متعلق ماں باپ بہت سے تو نہیں کہنا چاہئے مگر کئی ایسے ہیں کہ ان کے ماں باپ بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں روتے ہیں، گریہ وزاری کرتے ہیں، مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہماری جوان بچیوں کو کیا ہو گیا.بہت اچھی اور نیک اور مخلص تھیں بے حد دین سے تعلق تھا نمازیں بھی پڑھتی تھیں مگر اچانک جب کا لجوں میں گئی ہیں تو ان کی کایا پلٹ گئی.میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اچانک کچھ نہیں ہوا کرتا.انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ بچیاں جو دل سے نیکی پر قائم ہوچکی ہوں اچانک معاشرے میں جاکر ان کی کیفیت بدل جائے.لازماً دل میں کچھ دبی ہوئی خواہشات رہی ہیں جن کو

Page 454

خطبات طاہر جلد 16 448 گھر میں پہنے نہیں دیا گیا اور جن کو سنبھالنے کے لئے کوئی ذہنی کوشش نہیں کی گئی.خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء اس لئے اب یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.یہ کوششیں بھی بارہ سال سے پہلے پہلے کام کر جائیں گی ورنہ نہیں کریں گی یعنی بلوغت کا آغاز جس کو میں بارہ سال کہہ رہا ہوں اس میں بچے کے اپنے دل میں خصوصیت کے ساتھ ایسی جنسی خواہشات جنم لینے لگتی ہیں جن سے وہ مغلوب ہو جاتا ہے اور اگر ان امور میں پہلے ہی اس کی تربیت کی گئی ہو تو وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہوگا اور اس تربیت میں ماں باپ کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت لگانا ہوگا بجائے اس کے کہ سکولوں کے اوپر چھوڑ دیا جائے یا کالجوں پر چھوڑ دیا جائے.میں نے یہ دیکھا ہے کہ جن ماں باپ نے بچوں پر اس لحاظ سے محنت کی ہو کہ ان کو نیکی اور بدی کی تمیز سکھائی گئی ہو، اس طریق پر سکھائی گئی ہو کہ وہ زندگی کا فلسفہ بن جائے وہ بچے اسے زندگی کے فلسفے کے طور پر قبول کریں.اور یہ پہلو تربیت میں بہت ہی اہم ہے کہ تعلیم کے ساتھ تعلیم کا فلسفہ بتایا جائے کیونکہ قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کو ایک ایسے معلم کے طور پر پیش فرمایا ہے جو وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ (البقره: 130) کہ وہ صرف تعلیم کتاب پر اکتفا نہیں کرتا وہ اس کی حکمت بھی سمجھاتا ہے.پس جو خرابی میں نے دیکھی ہے اس میں ان دو چیزوں کے اندر جو فرق کیا جاتا ہے یہی فرق ہے جو آئندہ خرابیوں کا موجب بنتا ہے.ماں باپ کہتے ہیں ہم نے ان کو تعلیم دی ان کو بچپن سے نمازیں پڑھنی سکھائیں اور قرآن کی تلاوت بھی یہ کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ لیکن اس تعلیم کی حکمت نہیں بتائی گئی اور حکمت ایسی چیز ہے جو دل کو اس تعلیم کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتی ہے کہ پھر آئندہ کبھی وہ الگ نہیں ہو سکتی.مثلاً باہر کی دنیا میں جو ان کو دلچسپیاں دکھائی دیتی ہیں ان کی مثال ایسے جانوروں سے بھی دی جا سکتی ہے جو بظاہر بڑے خوبصورت ہیں مثلاً سانپ ہے.بعض دفعہ اس کے بہت ہی پیارے رنگ ہوتے ہیں نظر کو بھاتا ہے.اسی طرح بعض کاٹنے والے جانور ہیں جو بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں.ان کے متعلق اگر یہ سمجھایا جائے کہ ان کو جب تم ہاتھ لگاؤ گے، ان کی طرف مائل ہو گے تو لازماً یہ ڈسیں گے اور لازماً نقصان پہنچائیں گے اور اس بات کو اگر بچپن ہی سے دل میں بٹھا دیا جائے تو کوئی انسان جو اس حکمت کو سمجھ جائے وہ ان کی طرف ہاتھ بڑھانے کی جرات نہیں کرسکتا.لیکن اگر یہ حکمت بچپن سے بتائی نہ جائے اور سمجھائی نہ جائے اور دل میں بٹھا نہ دی جائے تو پھر انسان

Page 455

خطبات طاہر جلد 16 449 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء ایسے تجربے کرنے پر آزادی محسوس کرے گا.پس یہ نہ سمجھیں کہ معاشرے کی خرابیوں کو سمجھانے کا وقت بلوغت کے بعد شروع ہوگا.بچپن سے سمجھانا ضروری ہے، ان بچوں کے ساتھ بیٹھنا ضروری ہے، ان کو ٹیلی ویژن دکھانی ضروری ہے.جو ٹیلی ویژن یہ دیکھتے ہیں اس وقت ماں باپ کو چاہئے کہ کچھ اپنا وقت خرچ کریں اور ساتھ بیٹھیں اور ان کو بتائیں کہ دیکھو یہ خرابیاں ہیں اور ان خرابیوں کی حکمتیں اس طریق پر سمجھائی جائیں کہ وہ جاگزیں ہو جائیں اور انسانی فطرت اور سوچ کا حصہ بن جائیں.اس سلسلے میں چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، مثلاً اگر ان کو یہ سمجھایا جائے کہ یہ بدیاں چیز کیا ہیں؟ کیوں ان سے منع کیا جاتا ہے؟ نیکیاں کیا ہوتی ہیں؟ اور نیکی کے فوائد کیا ہیں؟ اور پھر معاشرے کے حوالے سے ان کی تفصیل سمجھائی جائے تو ناممکن ہے کہ بچہ ان امور کی طرف توجہ نہ دے.پہلی بات جو نمایاں طور پر ان کے سامنے رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بدی سے ایک لذت پیدا ہوتی ہے اس کا انکار کرنا جائز نہیں.ہر قسم کی بدی سے ایک لذت حاصل ہوتی ہے لیکن وہ لذت ہمیشہ یا الٹ کر اس بدی کرنے والے کو نقصان پہنچاتی ہے یا ماحول کو نقصان پہنچاتی ہے.پس ہر وہ لذت جس کے ساتھ ایک نقصان وابستہ ہو چکا ہے جس سے اس کو علیحدہ کیا جاہی نہیں سکتا وہ بدی ہے لیکن لذت سے محرومی کا نام نیکی نہیں ہے.یہ اگلا قدم ہے جس پر ان کو خوب اچھی طرح سمجھانا ضروری ہے کہ ہم جو تمہیں نیکی کی طرف بلاتے ہیں اس لئے کہ نیکی میں ایک لذت ہے اور ان بدی کی لذت اور نیکی کی لذت میں بہت بڑا فرق ہے.بدی کی لذت میں ضرور کوئی نہ کوئی کانٹا چھپا ہوتا ہے وہ ضرور نقصان پہنچاتی ہے اور جتنی بھی موجود سوسائٹی کی بدیاں ہیں ان کو دیکھ لیں وہ لازما سوسائٹی میں بے اطمینانی پیدا کریں گے اور کسی نہ کسی خرابی پر منتج ہوں گی.چنانچہ ساری سوسائٹی میں وہ خرابی بے چینی بن کر ابھرتی ہے لیکن سوسائٹی اس بے چینی کے باوجود اپنی لذت کے حصول کی خاطر اس کی طرف لپکتی بھی ہے.یہ وہ تضاد ہے معاشرے کا جس کو بچپن ہی سے اپنی اولاد کے سامنے کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے چھوٹی چھوٹی مثالیں دی جاسکتی ہیں.مثلاً ایک بچے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم اگر اپنے بھائی کی کوئی چیز لے کر بھاگ جاؤ تو تمہیں تو مزہ آئے گا، تمہیں کچھ حاصل ہوگا، یہ درست ہے نا!.یہ بات ہے.اپنی چھوٹی بہن سے کوئی چیز چھین لو تو تم لطف اٹھاؤ گے لیکن یہ ایسا لطف

Page 456

خطبات طاہر جلد 16 450 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء ہے جس کے نتیجے میں اسے دکھ ضرور پہنچے گا.پس وہ لطف جو کسی کے دکھ پر مبنی ہو یہ بدی ہے لیکن اس کے برعکس اس کو سمجھایا جا سکتا ہے کوئی چیز اس کو دی جاسکتی ہے کہ اپنی بہن کو یہ خوشی کا جس کو سرپرائز ( Surprise) کہتے ہیں یعنی خوشی میں ایک حیرت کا سماں پیدا ہو جاتا ہے اسے یہ چیز دے دو، چھپ کر اس کے بٹوے میں ڈال دو یا اس کے کمرے میں رکھ دو اور وہ تعجب کرے کہ میرے دل کی یہ چیز ، میری خواہش کس نے پوری کی.اس میں بھی ایک خوشی ہے اور ان دونوں خوشیوں میں ایک فرق ہے پہلی خوشی کی صورت میں جو نقصان پہنچا کر لذت اٹھاتا ہے اس کی لذت دائی نہیں رہتی بلکہ اسی وقت اس کے ضمیر میں سے ایک کانٹا نکلتا ہے جو کچھ نہ کچھ ضرور چبھتا ہے اور یہ بات ان بچوں کو جن کو آپ بچہ سمجھ رہے ہیں سمجھانی ضروری ہے کیونکہ بچے بہت عقل والی چیز ہیں.میرا بچوں سے یہ تجربہ ہے کہ جن کو لوگ بچے سمجھ کے نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں وہ بعض دفعہ اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ ذہین اور ہوشیار اور گہری باتوں کو سمجھنے والے ہوتے ہیں صرف صبر کی ضرورت ہے اور نیکی کے ساتھ قرآن کریم میں ہر جگہ صبر کا مضمون بیان ہوا ہے.کوئی نصیحت کارفرما نہیں ہو سکتی جب تک صبر نہ ہو اور صبر کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانا ہی مسلمانوں کا شعار مقررفرمایا گیا ہے.پس اس پہلو کو جو میں بیان کر رہا ہوں اہمیت دیں اور بچپن ہی سے بھائی اور بہن میں، بھائی اور بھائی میں، ماں باپ اور بچوں کے درمیان ایسے نیکی کے رشتے قائم کریں جن میں مزہ پیدا ہو اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک انسان اپنے بھائی کے لئے ، اپنی بہن کے لئے جو بظاہر قربانی کرتا ہے اس قربانی کے نتیجے میں اس کی طرف سے مادی چیز، مادی قد را الگ ہو کر کسی دوسرے تک پہنچتی ہے.اگر کوئی جھپٹ کر اپنے بھائی یا بہن کی کوئی مادی چیز ہمیٹریل (Material) چیز لے بھاگتا ہے تو دونوں صورتوں میں انتقال ہے مادے کا اور مادے کا انتقال ہے جو لذت پیدا کرتا ہے.اب یہ لذت کا فلسفہ ہے جو سمجھانا ضروری ہے جو ہمیشہ ان بچوں کے کام آئے گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لذت میں بہت سی چیزیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مادہ ایک طرف سے منتقل ہو کر دوسری طرف جاتا ہے، حق ایک طرف سے منتقل ہو کے دوسری طرف جاتا ہے.اگر آپ مادہ حاصل کرنے والے ہوں تو ایک لذت ہے.اگر کسی کا حق چھیننے والے ہوں اس میں بھی ایک لذت ہے لیکن جب آپ اپنی مادی قدر کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کرتے ہیں اس میں

Page 457

خطبات طاہر جلد 16 451 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء بھی ایک لذت ہے اور جب آپ اپنا حق کسی کے لئے چھوڑتے ہیں تو اس میں بھی ایک لذت ہے.مگر فرق یہ ہے کہ یہ دوسری قسم کی لذت دائمی ہو جاتی ہے ، ساری زندگی انسان کو لطف پہنچاتی رہتی ہے اور پہلی قسم کی لذت ایک شر پیدا کرتی ہے جو خود اپنے ضمیر میں بھی پیدا ہوتا ہے اور پھر مزید کی طلب پیدا کر دیتی ہے اور کبھی بھی بدی کی لذت بار بار وہی بدی کرنے سے اسی طرح نہیں رہے گی بلکہ آگے بڑھے گی.ایک بدی کے بعد جب تک آپ دو بدیاں نہ کریں آپ کو چین نہیں آئے گا.جب دو بدیاں کریں گے تو تیسری بدی کی طرف آپ کا قدم اٹھے گا، چوتھی کی طرف اٹھے گا، اسی طرح ساری دنیا میں معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہوتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے.پس ان دو چیزوں میں جو فرق ہے وہ بعض مثالوں کے ذریعے آپ کو خود سمجھنا ہے اور اپنے بچوں کو سمجھانا ہے.آپ ان کو یقین دلائیں کہ جو تم قدر میں اپنے طور پر حاصل کرتے ہو جائز قدریں ہیں ویلیوز (Values) جن کو انگریزی میں کہا جاتا ہے، جب تم ان کو چھوڑتے ہو تو اس کے نتیجے میں تمہیں ضرور مزہ آئے گا لیکن اگر بالا رادہ چھوڑو.اگر مجبور ہو کر چھوڑو گے تو تکلیف پہنچے گی.پس بالا رادہ اپنی چیزوں کو دوسروں کو دینا اس لئے کہ ان پر احسان ہو اور ان کو مزہ آئے یہ ایک ایسی چیز ہے کہ دینے والے کو بھی ضرور مزہ دیتی ہے اور یہ نیکی کی ایسی تعریف ہے جس میں آپ کبھی کوئی فرق نہیں دیکھیں گے.بدی میں یہ بات نہیں ہوتی.بدی میں کم سے کم بدی کرنے والا لذت محسوس بھی کرے تو جس کے خلاف کی جاتی ہے وہ محسوس نہیں کرتا لیکن نیکی میں دوطرفہ مزہ ہے اور دو طرفہ مزہ بھی ایسا جو دائی ہو جاتا ہے جو کہ ہمیشہ باقی رہ جاتا ہے.پس اگر کوئی شخص احسان کا مزہ اٹھانے لگ جائے تو وہ اور زیادہ احسان کرے گا یعنی اور زیادہ اپنی مرضی سے اپنے حقوق دوسروں کی طرف منتقل کرے گا یہاں تک کہ بظاہر انبیاء کے مرتبے پر پہنچتے پہنچتے انسان اپنے سارے حقوق سوسائٹی کی طرف منتقل کر بیٹھتا ہے، اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شخص کی زندگی بڑی بدمزہ ہوگئی ہے حالانکہ جو لطف احسان کا انبیاء کومحسوس ہوتا ہے دوسرا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.پس یہ خیال کر لینا کہ نبی احسان کر کے تکلیف اٹھاتے ہیں بالکل غلط ہے.وہ تکلیف اٹھا کے بھی احسان کرتے ہیں.یہ فرق ہے جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہمیں دائمی سبق کے طور پر ملتا ہے.آنحضرت یہ نیکی کرنے پر مجبور تھے یعنی اپنی فطرت کی وجہ سے نیکی کی قدر کو انہوں نے

Page 458

خطبات طاہر جلد 16 452 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء محسوس فرمایا اور اتنا محسوس کیا کہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے.پس عادت ایک ایسی چیز ہے جو دونوں جگہ ہے.چور بھی عادی ہو جاتا ہے، قاتل بھی عادی ہو جاتا ہے، سمگلنگ کرنے والا بھی عادی ہو جاتا ہے، گھروں میں ڈاکے ڈالنے والا بھی عادی ہو جاتا ہے مگر اس کی عادت لازماً دوسروں کو نقصان پہنچاتے پہنچاتے اس کی اپنی ذات میں ایک نقصان کے طور پر جمع ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بدن خود اپنی نظر میں بھی گرتا ہے، سوسائٹی کی نظر میں بھی گرتا ہے مزید بدی کے بغیر اس کو مزہ نہیں آسکتا.بدی سے جو مزہ ملتا ہے وہ دائمی نہیں ہوتا چند دن میں ختم ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں اس کی روح بھی ان باتوں سے متاثر ہوتی ہے اور جس کو ہم جہنم کہتے ہیں وہ اسی چیز کا دوسرا نام ہے.ہر انسان جو بدیوں میں ملوث ہو اپنی روح کے لئے ایک جہنم پیدا کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی فلسفے کو یعنی سارا اسی فلسفے پر مبنی تو کتاب نہیں مگر اسلامی اصول کی فلاسفی میں اسی فلسفے کو ، اس کتاب کے مضامین کے ایک حصے کے طور پر پیش فرمایا ہے.بہت سے لوگ پڑھیں بھی تو پوری طرح سمجھتے نہیں مگر امر واقعہ یہی ہے کہ آج اس دنیا میں ہم آئندہ دنیا کے لئے جنت اور جہنم بنا رہے ہیں اور بچوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ تم جو کچھ بھی کرو گے اس سے کچھ فائدہ بھی اٹھاؤ گے اور کچھ نقصان بھی لیکن جو نقصان تم خود کسی اعلیٰ قدر کی خاطر اٹھاتے ہو اس نقصان میں مزہ ہے اور اس نقصان میں باقی رہنے والا مزہ ہے.پس آپ اپنے بچپن کی طرف نظر ڈال کر دیکھیں.آپ کو بچپن کی وہی باتیں سب سے زیادہ پیاری لگیں گی جن میں آپ نے کچھ نہ کچھ ایسی بات کی تھی جس سے ماں خوش ہو گئی ، باپ خوش ہو گیا، بہن خوش ہوگئی یا کوئی غریب ہمسایہ خوش ہو گیا.بسا اوقات ایک چھوٹا سا فعل ہے ایک غریب بھو کے کو روٹی کھلانا.ایک بچہ جب روٹی کھلاتا ہے تو پھر دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے چہرے پر کیا اثر پڑ رہا ہے.جب اس کی تکلیف مٹ رہی ہوتی ہے اس کے چہرے پہ ایک سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے تو ویسا ہی سکون بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ، ویسا ہی اطمینان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، بچے کے دل میں پیدا ہو رہا ہوتا ہے.جس پر احسان ہے وہ اس بات کو بھول بھی سکتا ہے روٹی کھائی، پیٹ بھرا اور بھول گیا لیکن جس نے کسی کا پیٹ بھر کر اس کے مزے کو دیکھا ہو وہ اس چیز کو کبھی نہیں بھول سکتا ، ساری عمر کے لئے ہمیشہ اس کا یہ ایک فعل اس کے لئے مزید نیکیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.

Page 459

خطبات طاہر جلد 16 453 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء پس اس معاشرے میں جہاں ماحول نیکیوں کے مخالف ہے جہاں بدیوں کو تقویت دینے والا ہے وہاں بچپن ہی سے نیکیوں سے ذاتی لگاؤ پیدا کرنا اور اس کے لئے روزمرہ کے مواقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے.فائدہ اٹھانا اس لئے کہ اگر آپ محض تلقین کریں گے تو یہ تلقین ضروری نہیں کہ بچے پر نیک اثر ڈالے.بچوں سے کچھ کام کروا کے دیکھیں، کچھ نیکی اس سے ایسی صادر ہو جس میں آپ اس کے مددگار ہوں پھر دیکھیں کہ اس کے دل پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے.میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے ہمیں بچپن میں چندہ دینے کی عادت ماں نے ڈالی.کچھ پیسے وہ دیا کرتی تھیں اور پھر کہتی تھیں دوسرے ہاتھ سے کہ اللہ میاں کے لئے واپس کر دو چونکہ اس میں جبر کوئی نہیں تھا بلکہ ایک تحریص تھی اس لئے جب ہم واپس کرتے تھے تو مزہ آتا تھا اور دن بدن ، سال بہ سال یہ احساس بڑھتا گیا کہ ہمارا بھی نام ان لوگوں میں ہے جنہوں نے دین کی خاطر کوئی قربانی کی ہے.اس کے بعد یہ سکھانے والا باقی رہے نہ رہے یہ نیکی ضرور باقی رہ جاتی ہے، ہو نہیں سکتا کہ زندگی بھر ساتھ نہ دے.پس نیکی کا مزہ صرف سمجھانے سے نہیں آئے گا، نیکی کا مزہ نیکی کروانے سے آئے گا اور یہ وہ چیز ہے جس کی اس معاشرے میں شدید ضرورت ہے.دوسری بات یعنی اور بہت سی باتیں ہیں جو میں نے نوٹس کے طور پر اپنے سامنے رکھی ہیں لیکن یہ ایک ایک بات بھی اگر پھیلائی جائے تو بہت پھیل سکتی ہے، دوسری بات جو سمجھانے کی ضرورت ہے وہ خود اعتمادی پیدا کرنا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا جب بچے باہر سکولوں میں جاتے ہیں تو بعض لوگ ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن ان میں اگر خود اعتمادی ہو اور ماں باپ ان کو پہلے سے سمجھا چکے ہوں کہ تمہاری نیکیوں پر سوسائٹی تمسخر اڑائے گی تمہیں ذلیل نظروں سے دیکھے گی لیکن تم نے سر اٹھا کر چلنا ہے.اگر کہیں سراٹھانا جائز ہے تو اس موقع پر سراٹھانا جائز ہے اور لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بتائیں کہ تم کوڑی کی بھی پرواہ نہ کرو جو چاہے دنیا کہتی پھرے جس طرح چاہے دیکھے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا کر دارتب بنے گا کہ تم جن باتوں کو اچھا سمجھتے ہو انہیں کرنے کی جرات رکھتے ہو.چنانچہ بہت سی احمدی بچیوں کی تربیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجھے اسی اصول سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی.کئی ایسی بچیاں ہیں انگلستان میں جو پردے کی عمر کو پہنچیں لیکن سوسائٹی سے

Page 460

خطبات طاہر جلد 16 454 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء متاثر ہوکر پردے کے لئے تیار نہیں تھیں اور ماں باپ کے سامنے بھی انہوں نے کہا نہیں، ہم نہیں یہ کام کر سکتیں.جب ماں باپ نے مجھے بتایا میں نے ان کو بلایا اور پیار سے سمجھایا.میں نے کہا تم یہ دیکھو کہ تم پر وہ کس کے لئے کر رہی ہو اللہ کے لئے یا ماں باپ کے لئے یا اور کوئی بات پیش نظر ہے.اگر تمہیں یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے یہ قربانی چاہتا ہے کہ تم اپنے حسن کو ، اپنی دلآویزی کو چھپاؤ اور معاشرے کی بے راہ رو آنکھوں کو اجازت نہ دو کہ وہ تم پر حملہ کریں یا حرص کے ساتھ تمہیں دیکھیں تو پھر یہ ایک اچھی بات ہے.اگر تم اچھی بات سے آج شرما گئیں تو ہمیشہ ساری اچھی باتوں سے شرماتی رہو گی.دل میں یہ خیال کرو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں سوسائٹی کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کیونکہ وہ بد ہے اور تم اچھی ہو تم نے ان کو سبق دینا ہے.چنانچہ جب ان باتوں کو خود اچھی طرح وہ سمجھ گئیں تو پھر میں نے ان کو دیکھا پردے میں ملبوس اور میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک کے سامان ہوئے اور ساری عمر کے لئے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان ہوئے.اتنا لطف آتا تھا ان کو دیکھ کر پھر اور وہ بڑے مزے سے میری طرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں ہلکا سا، یہ بتا جاتی تھیں کہ ہاں ہم خوش ہیں.ہمیں اب پتا چلا ہے کہ ہم کیا چیز ہیں.پس نیکی پر خود اعتمادی یہ بہت ضروری ہے اور اس خود اعتمادی کے فقدان کے نتیجے میں نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں.پس جن بچوں کو آپ نے سوسائٹی میں بھیجنا ہے ان کو بتائیں کہ تمہاری عزت اور تمہاری اعلیٰ اقدار سچائی سے وابستہ ہیں.تمہاری عزت اور اعلیٰ اقدار گندگیوں سے منہ موڑنے سے وابستہ ہیں.سوسائٹی ایک طرف منہ کر کے جاتی ہے تم دوسری طرف منہ کر کے چلو اور اس میں تمہارا سر فخر سے اٹھنا چاہئے ، ذلت کا احساس نہیں ہونا چاہئے.اگر نیکی کے ساتھ ذلت کا احساس ہو تو یہ نیکی کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتی.پس اکثر خرابی یہاں بچوں میں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ان کو گھر میں نیکی میں عزت کا احساس نہیں بتایا جاتا.یہ نہیں بتایا جاتا کہ تم میں تو اس سے خود اعتمادی پیدا ہونی چاہئے تم اونچے ہو تم گھٹیا لوگوں سے شرماتے ہو.یہ تم کیا چیز ہو، کیا کبھی جانوروں سے بھی تم شرمائے ہو کہ جانور ہر قسم کی بے ہودہ حرکتیں کر رہے ہیں اور تم انسانوں کی طرح چل رہے ہو.تمہیں جانوروں پر رحم تو آسکتا ہے مگر جانوروں سے شرما نہیں سکتے.پس انسانی ماحول میں بھی جانور بس رہے ہیں اور جانور وہ جو مادر پدر آزاد ہیں ، جانوروں سے بھی بے حیائیوں میں آگے بڑھ گئے ہیں ان کے سامنے

Page 461

خطبات طاہر جلد 16 تمہیں سراٹھا کر چلنا ہے.455 خطبہ جمعہ 20 جون 1997 ء ی وہ تکبر ہے جس میں حقیقت میں بنیادی طور پر انکساری ہے کیونکہ خدا کی خاطر آپ اپناسر اٹھا رہے ہیں اور ایسے موقع پر آنحضرت ﷺ سے بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ نیکیوں کا اثر ڈالنے کے لئے سراٹھانا ہی نیکی بن جایا کرتا ہے.اپنی اعلیٰ اقدار پر سراٹھا کر چلیں کوڑی کی بھی پرواہ نہ کریں کہ کوئی آپ کو کس طرح دیکھتا ہے اور کیا سمجھ رہا ہے یہ احساس خود اعتمادی گھر میں بچپن میں پیدا کرنا ضروری ہے.اگر آپ نے نہ کیا تو پھر بارہ، چودہ، پندرہ سال کے بعد بالکل آپ کا بس نہیں رہے گا.آپ کو اختیار نہیں رہے گا.پھر دنیا کی لذتیں ان کو اس عمر میں اپنی طرف اس طرح کھینچیں گی کہ ان کے نزدیک خود اعتمادی کا کوئی سوال باقی نہیں رہے گا.پس بہت سے ایسے خاندان میں نے دیکھے جن کے بچے ماں باپ سے ڈرے ہوئے تھے اور نظر آرہا تھا کہ ماں باپ بڑے جبار ہیں اور ان کی مجال نہیں کہ وہ ان سے ہٹ کر چلیں اور مجھے ان کے متعلق تشویش پیدا ہوتی تھی، رحم آتا تھا کہ کیسی تربیت ہے کہ جب بھی یہ آزاد ہوں گے ان ماں باپ کی کوڑی کی بات بھی نہیں سنیں گے.پس خاص طور پر ایفر و امریکن بچوں کے لئے میں یہ نصیحت کر رہا ہوں کیونکہ میں نے دیکھا ہے ایفر و امریکن ماں باپ جو نیک اور مخلص ہیں وہ اس طرح کرخت بھی ہیں اور اپنے گھر میں اپنی سلطنت قائم کرنے میں بڑے جابر ہیں.ان کے بچوں کو میں نے دیکھا ہے بہت سر جھکا کر چل رہے ہیں، مجال ہے جو ادھر سے ادھر ہو جائیں.کئی دفعہ غلطی سے انہوں نے بایاں ہاتھ کر دیا تو سختی سے ڈانٹ پڑی خبر دار ! دایاں ہاتھ آگے کرو.جزاکم اللہ اس طرح کہو ، فلاں بات یوں کہو اور ماں باپ سمجھ رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے بچوں کی کیسی اچھی تربیت کی ہے.ان کو یہ نہیں پتا کہ کل بچے مڑ کر دیکھیں گے اور کہیں گے اب جو کرنا ہے کر لو اب ہم تم سے نکل کے آزاد ہو چکے ہیں.تو نیکی کی لذت حاصل کرنا اور لذت حاصل کرنا سکھانا یہ ماں باپ کا کام ہے.نیکی سے وابستگی لذت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.کوئی انسان سر پھرا تو نہیں ہے کہ بے وجہ لذتوں سے منہ موڑ لے جب تک بہتر اور اعلی لذتیں نصیب نہ ہوں.اس لئے خدا تعالیٰ کا یہ ایک دائمی قانون ہے جس کو آپ کو پیش نظر رکھنا ہے.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المؤمنون:97) سارے قرآن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.برائی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں جب تک کہ اس سے بہتر چیز آپ پیش

Page 462

خطبات طاہر جلد 16 456 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء نہیں کر سکتے.پس احسن کے ذریعے بدی کو دور کریں اچھی چیز پاس ہے تو وہ دیں تا کہ بدی اس سے نکل کر دور بھاگے اور اچھی چیز میں یہ خوبی ہوا کرتی ہے یعنی اچھی چیز کا اچھادیکھنا ضروری ہے یہاں جا کر فرق پڑ جاتا ہے.جب آپ کے بچے اچھی چیز کو اچھا نہیں دیکھتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ سے ڈرے ہوئے ہیں.وہ سمجھتے ہیں ماں باپ کا خیال ہے کہ اچھی ہے جب تک ہم ان کے قبضہ قدرت میں ہیں ہم بھی اچھا کہیں گے اس کو اور جب نکلیں گے تو پھر جو ہماری مرضی کریں گے لیکن اچھے کو اچھا دکھانے کے لئے وہ تجربے ضروری ہیں جو میں نے آپ کے سامنے بیان کئے ہیں.اچھی چیزوں کی لذت دل میں پیدا کریں اور میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صرف بحیثیت خلیفہ باقی بچوں کی تربیت میں اس سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے بچوں کی تربیت میں ہمیشہ اس سے کام لیا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جب ان کو نیکیوں سے محبت پیدا ہوئی تو اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں کہاں ہوں.اپنے گھروں کی تنہائیوں میں، اپنے بچوں میں جہاں بھی وہ ہیں ان کو بچپن ہی سے نیکیوں سے پیار ہو چکا ہے اور وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتے.پس آپ اپنے بچوں کو بچپن ہی میں وہ اہمیت دیں جس کے وہ مستحق ہیں، ان سے بڑوں کی طرح باتیں کریں ان کو سمجھا ئیں اور ساتھ لے کر چلیں.اس ضمن میں خود اعتمادی کے علاوہ بعض اور باتیں ہیں جواب بیان کرنا ضروری ہیں.مثلاً عبادت کا فلسفہ بچپن ہی سے ان کو سمجھانا ضروری ہے.میں نے یہ کہا کہ جب آپ ان کے دل میں نیکی کا پیار پیدا کر دیں، دل میں یقین بھر دیں کہ ہاں یہ اچھی چیز ہے وہ اس سے چھٹے رہیں گے مگر یہ کہنا اس تحدی کے ساتھ جائز نہیں کیونکہ بہت سے ایسے بچے بھی میں نے دیکھے ہیں جن کے ماں باپ نے پوری محنتیں کیں لیکن ماں باپ دنیا سے رخصت ہوئے پھر وہ اس دنیا میں پڑ کر کہیں سے کہیں سرکتے ہوئے چلے گئے.ایک چیز ہے جو ہمیشہ ان کی محافظ رہ سکتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور عبادت کے فلسفے میں خدا کی محبت کا فلسفہ داخل کرنا لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر حقیقت میں عبادت کے کوئی بھی معنی نہیں.پس بچپن ہی سے نیکیوں سے پیار کے ساتھ ساتھ اس وجود سے پیار پیدا کرنا ضروری ہے جو نیکیاں سکھانے والا ہے اور اس میں سب سے اہم انسانوں میں آنحضرت ﷺ ہیں اور پھر اس کے بعد عبادت کا فلسفہ جو آنحضور ہے کے حوالے ہی سے بیان کیا جائے گا اور اس بات کو اگر بچے سمجھ لیں

Page 463

خطبات طاہر جلد 16 457 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء کہ عبادت کیوں ضروری ہے تو پھر وہ خود ہی عبادت کریں گے اور اگر وہ خود عبادت کرنے لگیں گے تو پھر ان کی عبادت کو پھل لگیں گے.اگر آپ کے کہنے پر عبادت کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ احمد یوں میں عبادت کرنی ضروری ہے تو وہ عبادت ضروری نہیں کہ ہمیشہ ان کا ساتھ دے.پس عبادت کے تعلق میں بعض اہم امور ہیں جو آپ کو پیش نظر رکھنے ضروری ہیں.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کیوں کی جاتی ہے، انبیاء عبادت کیوں کرتے ہیں اس کا فلسفہ آپ کو سمجھایا جائے.بعض بچے کہتے ہیں صبح ہم سے اٹھا نہیں جاتا، کیوں اٹھیں.ایک دو نمازیں Miss ہو گئیں تو کیا فرق پڑ گیا بعض کہتے ہیں چار پانچ Miss ہو گئیں تو کیا فرق پڑا ، ہم اسی طرح ٹھیک ٹھاک ہیں.جب تک آپ عبادت کا فلسفہ ان کو نہیں سمجھا ئیں گے ان کو یہ فرق سمجھ نہیں آئے گا.ابھی ایک ملاقات میں یعنی ابھی سے مراد ہے کچھ دن پہلے، ایک بچے نے کہا کہ صبح کی نماز میں اس وقت اٹھنا کیوں ضروری ہے اور اگر میں صبح کی نماز نہ بھی پڑھوں تو کیا فرق پڑتا ہے.میں نے کہا آپ مجھے یہ بتائیں آپ ناشتہ کرتے ہیں کہ ہاں میں کرتا ہوں.تمہیں اچھا لگتا ہے؟ اس کو اتفاق سے اچھا لگتا تھا بعض بچوں کو نہیں لگتا، کہ ہاں مجھے بہت اچھا لگتا ہے.میں نے کہا نہ کیا کرو کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس کو سمجھ آئی ہاں فرق پڑتا ہے.مگر وہ فرق ہے کیا، یہ جب تک نہ سمجھایا جائے اس وقت تک محض فلسفیانہ جواب سے اگر عقل مطمئن بھی ہو تو پوری طرح دل مطمئن نہیں ہوا کرتا.ناشتہ اچھا لگتا ہے اس لئے کہ اس کو کھانے سے مزہ آتا ہے.اگر آپ کہہ دیں کہ عبادت بھی اور صبح کی نماز بھی ایک ناشتہ ہے تو مان تو جائے گامگر اس نماز میں اگر مزہ ہی نہ آئے تو اس کو کیا پتا کہ یہ ناشتہ تھا بھی کہ نہیں اس لئے عبادت میں مزہ پیدا کرنا یہ آغاز ہی سے ضروری ہے اور اس سلسلے میں بہت لمبی باتیں ہیں جو بیان کی جاسکتی ہیں مگر وقت کی رعایت کے پیش نظر میں مجبور ہوں کہ اس بات کو ذرا مختصر کروں.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنی عبادت پر غور کیا کہ آپ کو کیوں مزہ آیا.خدا سے تعلق کی جھر جھری جب تک دل میں پیدا نہ ہو اس وقت تک عبادت میں مزہ ہی نہیں آسکتا اور اس تعلق کو پیدا کرنے کے لئے احسان کرنے والے اور احسان مند کے درمیان جو رشتہ ہے اس کو کھولنا ضروری ہے.چنانچہ بچوں کو یہ سمجھانا پڑے گا تمہیں ناشتہ پسند ہے مگر پتا ہے کہ ناشتہ پیدا کیسے ہوا.ایک ایسا قادر مطلق ہے جو رب العالمین ہے اس نے تمام جہانوں کی ربوبیت کی ذمہ داری آپ اٹھالی تھی.

Page 464

خطبات طاہر جلد 16 458 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء تمہیں تو خدا نے اتنے اچھے اچھے کھانے ، اتنے اچھے اچھے رزق عطا فرمائے ہیں مگر ساری دنیا پر نظر ڈال کے دیکھو، سمندروں کی گہرائیوں میں بھی رزق مقرر ہے.اڑنے والے پرندوں کے لئے آسمان کی بلندیوں تک جو جاتے ہیں ان کے لئے بھی رزق مقرر ہے.کوئی کائنات میں ایسا جاندار نہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق کے سامان نہ فرمائے ہوں اور اس پر اگر آپ غور کریں تو حیران رہ جاتے ہیں.ان کو سمجھانا پڑتا ہے.چنانچہ اپنے گھر میں بچوں کو بعض دفعہ میں سمجھاتا ہوں کہ باہر نکل کے دیکھو پرندے صبح اٹھتے ہیں ان کو کوئی پتا نہیں کہ کہاں سے کیا ملے گا.کوے اٹھتے ہیں اور چہچہانے والے چھوٹے چھوٹے پرندے صبح کے وقت بیدار ہو جاتے ہیں.پانی پہ بیٹھنے والے پرندے ہیں ان کو پتا نہیں مچھلی کہاں ہے.ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ رزق کے سامان فرمائے ہیں بلکہ سامان حاصل کرنے کے ذریعے بھی بیان فرمائے ہیں، ان کے اندر ودیعت کر دیئے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایک جھیل پر Seagulls اڑ کے اتر رہی تھیں بار بار ایک جگہ، میں نے ساتھ مسافروں کو سمجھایا.میں نے کہا دیکھو یہ Seagulls جو دیکھ رہی ہیں وہ تمہیں دکھائی نہیں دے رہا.تم ڈھونڈ رہے ہو، مچھلیوں کے لئے راڈیں (Rods) پکڑی ہوئی ہیں اپنی ، کہ کہاں مچھلیاں ہیں اور کچھ پتا نہیں لیکن ان کو خدا تعالیٰ نے نہ صرف وہ آنکھ دی ہے جو پہچانتی ہیں مچھلیوں کو بلکہ جب ان پر گرتی ہیں تو بعینہ نشانے پر گرتی ہیں اور دیکھو جو بھی نیچے جاتی ہے کچھ اٹھا کر اوپر نکلتی ہے.کیسا کیسا قدرت نے رزق کا سامان مقرر فرمایا ہے.تم بھول جاتے ہو اس بات کو کہ جو ناشتہ تم کر رہے ہو، جو کھانا تم کھا رہے ہو اس کے لئے خدا نے قانون قدرت میں کتنی دیر سے سامان بنارکھے ہیں.تو وہ ماں باپ جو تمہیں کوئی اچھا ناشتہ دیتے ہیں یا کوئی دوست دعوت کرتے ہیں کسی ک چائنیز کھانا پسند ہے تو ہوٹل میں لے جاتے ہیں دیکھو کتنا دل چاہتا ہے ان کا شکریہ ادا کرنے کو اور جتنا شکر یہ ادا کرتے ہو تمہیں بھی مزہ آتا ہے، جس کا شکر یہ ادا ہو رہا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ اس نے خرچ کیا تھا اس کو خرچ میں مزہ آنے لگتا ہے تو تم نے کبھی سوچا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سارے سامان کر رکھے ہیں اور وہ نہ کرے تو کچھ بھی باقی نہ رہے.ایک پانی پر ہی غور کر کے دیکھ لو کہ قرآن کریم فرماتا ہے اللہ تعالیٰ بندوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہم پانی کو گہرائی میں لے جائیں تو کون ہے جو اسے نکال سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ

Page 465

خطبات طاہر جلد 16 459 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء جب خشک موسم آتے ہیں تو پانی نیچے اترنے لگتے ہیں جب نیچے اترنے لگتا ہے تو کوئی دنیا کی طاقت بڑی سے بڑی طاقت بھی ہو اتنا خرچ کر ہی نہیں سکتی کہ اسی پانی کو اٹھا کر اس سے اپنے رزق کے سامان بھی پیدا کرے اور پیاس بھی بجھائے ، وہ اترتے اترتے اس مقام تک پہنچتا ہے کہ اس کو اوپر آنا بہت مہنگا ہو جاتا ہے اور پھر غائب بھی ہو جایا کرتا ہے.تو یہ تفصیل ہے جو رزق سے تعلق رکھتی ہے.اس ایک ناشتے کے حوالے سے آپ رفتہ رفتہ بچوں کو ایسی باتیں بتا سکتے ہیں جو قانون قدرت میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں ان کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کو سمجھا نا ضروری ہے.وہ سمجھیں اور ان کو بتائیں کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے سارے سامان کئے ہوئے ہیں اور خود غا ئب ہو گیا ہے.تم اسے ڈھونڈ واپنے تصور میں اور اس کا شکریہ ادا کرو پھر تمہیں لذت آئے گی کہ شکر یہ ہوتا کیا ہے اور جب تم شکریہ ادا کرو گے تو وہ خدا تم پر اور زیادہ مہربان ہوگا.یہ عبادت کا فلسفہ سکھانے کے لئے ابتدائی چیزیں ہیں.اس لئے بچے سے کہا جائے کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہو اگر تمہیں ساری نماز کا ترجمہ نہیں بھی آتا تو اس دن کی اچھی باتوں پر اللہ کا شکریہ ادا کر لیا کرو کہ اے اللہ تو نے آج میرے لئے یہ کیا، مجھے بہت مزہ آیا.میں نے آج ٹھنڈا پانی پیا ، میں نے کوکا کولا پی اور میں نے فلاں برگر کھایا جو بھی کھایا کرتے ہیں لوگ یہاں ، تو اس وقت سوچا تو کرو کہ اصل دینے والا کون ہے.اگر اس طرح بعض لذتوں کا تعلق دینے والے ہاتھ کے ساتھ قائم کر دیا جائے تو یہ عبادت کا پہلا فلسفہ ہے جو بچے کے دل میں جاگزیں ہوگا اور پھر اسے ایک اور ہاتھ ہے جو اٹھا لے گا جس کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بچہ جب پیار سے اپنے اللہ سے کوئی بات کرتا ہے تو میرا تجربہ ہے کہ اللہ ضرور اس کا جواب دیتا ہے اور ایک بچے کے دل میں اگر خدا کے لئے کوئی شکر پیدا ہو تو اللہ اس کے دس شکر ادا کرتا ہے اور ان معنوں میں وہ شکور ہے.اب حیرت کی بات ہے کہ اللہ تو ہر احسان کرنے والا اور ایسا وجود ہے جس کو کسی کے شکر کی ضرورت کوئی نہیں کوئی اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتا لیکن وہ شکریہ کس بات کا ادا کرتا ہے، شکر کا شکر یہ ادا کرتا ہے اور یہ چیز اس نے انسانی فطرت میں بھی رکھ دی ہے.پس بچوں کو سمجھا نا ضروری ہے کہ دیکھو ایک بچہ تم سے کوئی اچھا سلوک کرے رستہ چلنے والا تمہیں ایک لفٹ ہی دے دیتا ہے تو کتنا تمہارے دل میں شکر یہ اٹھتا ہے اور جب تم شکریہ کرتے ہو تو وہ بھی آگے تمہارے شکریے کا شکریہ ادا کرنے لگ

Page 466

خطبات طاہر جلد 16 460 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء جاتا ہے.کہتا ہے چھوٹی سی بات تھی کچھ بھی نہیں تھا آپ نے تو بہت ہی محسوس کیا ہے.تو شکر کرنے والا حقیقت میں ایک بات کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہے اور جو اس کے جواب میں شکریہ ادا کرتا ہے وہ صرف شکر کا شکر یہ ادا کرتا ہے.تو شکر کو طاقت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نظام قائم فرمایا ہے کہ بندہ ایک شکر کرتا ہے اللہ دس شکر کرتا ہے اور ہر شکر کے جواب میں اس پر اور زیادہ احسان فرماتا ہے.اس طرح بچے کو اگر آپ سمجھا ئیں تو وہ خود دیکھے گا اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ واقعتہ ایسا ہوتا ہے، واقعہ اللہ تعالیٰ ہمارے ادنی ادنی شکر کو قبول فرماتے ہوئے اتنا شکر ادا کرتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایسے موقع پر لازم ہے کہ روح پچھلے خدا کے حضور اور ایسے موقع پر لازم ہے کہ روح خدا کے حضور سجدہ ریز ہو اور یہ باتیں وہ ہیں جو روزمرہ کے تجربے میں آئی ہوئی باتیں ہیں، کوئی فلسفہ ایسا نہیں جو آسمان پر اڑ رہا ہے.یہ فلسفہ وہ ہے جو روزمرہ کی زندگی میں انسانی تعلقات میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور بندے اور خدا کے تعلق میں بھی یہی دکھائی دیتا ہے.تو محض یہ کہہ دینا کہ جی پانچ وقت نمازیں ضروری ہیں تم نے لازماً پڑھنی ہیں یہ اور بات ہے اور ان نمازوں سے محبت پیدا کرنا اور نمازوں کا فلسفہ سکھانا یہاں تک کہ وہ دل کو متحرک کر دے، دل میں ایک تموج پیدا کر دے یہ وہ چیز ہے جو بچوں کی آئندہ نمازوں کی حفاظت کرے گی اور ایسی حفاظت کرے گی کہ ماں باپ بچپن سے ہی ان کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں پھر وہ خدا کے حوالے ہوں گے، اللہ ان کا ہاتھ پکڑ لے گا اور ماں باپ کی آرزوؤں کو ایسے وقت میں پورا کرے گا جب ماں باپ موجود ہی نہیں ہیں.پس اگر اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت عبادت کے حوالے سے پیدا کریں تو یہ نظام وہ ہے جو بچوں کی ہر حال میں ہر جگہ حفاظت فرمائے گا.ایسے اعلیٰ کردار کے بچے جب پیدا ہوں پھر وہ سوسائٹی میں جائیں تو ان کو اس کی کوئی بھی پرواہ نہیں ہوگی یعنی اس پہلو سے تو پر واہ ہوگی کہ یہ بھی اچھے ہو جائیں، اس پہلو سے پرواہ ہوگی کہ ان کو بھی میں بتاؤں کہ خدا کی محبت میں کیا مزے ہیں نیکیوں میں کیا لذات ہیں.مگر اس پہلو سے کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ ان کی نیکیوں کو بدی کے ساتھ دیکھ رہا ہے.چنانچہ آپ ہی کے امریکہ میں ایک دفعہ نہیں بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض احمدی بچوں نے لڑکوں نے یا بعض احمدی لڑکیوں نے خطوں کے ذریعے مجھ سے سوال کئے اس طرح ہمارے لئے مسئلہ در پیش

Page 467

خطبات طاہر جلد 16 461 خطبہ جمعہ 20 جون 1997 ء ہے بتائیں ہم کیا کریں.ان کو میں نے یہ تفصیل سے تو نہیں سمجھایا مگر کسی حد تک مختصر مرکزی بات سمجھا دی کہ آپ اگر ایک بات کو نیکی سمجھ رہے ہیں تو اس کے اوپر ذاتی فخر محسوس کریں اور سوسائٹی کی کوئی پرواہ نہ کریں پھر دیکھیں کہ آپ کے دل میں کیا کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور بلا استثی ان سب نے مجھے یہی بتا یا کسی نے جلدی کسی نے دیر کے بعد کہ اب تو ہم مؤثر ہونے لگ گئے ہیں اور سوسائٹی متاثر ہو رہی ہے اب لوگ قریب آکر ہمارے انداز سیکھ رہے ہیں.اس ضمن میں ایک اور بات جو آپ کو سمجھانے والی ہے وہ یہ ہے کہ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو آپ معمولی نہ سمجھا کریں.میں نے کئی بچوں کو دیکھا ہے ان کے گلے میں تعویز سے لٹکے ہوئے ہیں، کسی کے کان میں بندا پڑا ہوا ہے، کسی کے بالوں کا حلیہ بگڑا ہوا ہے قریب سے رگڑے گئے ہیں بال اور اوپر سے بڑے بڑے ہیں، ٹوپی پہنیں تو لگتا ہے ٹنڈ کروائی ہوئی ہے ٹوپی اتاریں تو بڑے بڑے بال دکھائی دیتے ہیں.ان کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تم کچھ عرصے پہلے جب یہ فیشن نہیں تھا کسی دکان میں جاتے وہ یہ حالت تمہاری بنا دیتا تو نہ صرف یہ کہ تم نے پیسے نہیں دینے تھے اس سے بڑی سخت لڑائی کرنی تھی کہ او بد بخت تو نے کیا حال بنا دیا ہے یہ کوئی شکل ہے میری دیکھنے والی.اب اسی شکل کو تم لئے پھرتے ہو سوسائٹی میں، اس لئے نہیں کہ تمہیں پسند ہے اس لئے کہ تم پیچھے چلنے لگ گئے ہو، تم غلام ہو گئے ہو اور غلام کی کوئی عزت نفس نہیں ہوا کرتی.ان کو یہ سمجھائیں کہ کیا ہو گیا ہے.تم فیشن کی پیروی کرنے والے نہ بنوفیشن بنانے والے بن جاؤ.وہ بنو جس کے پیچھے لوگ چلا کرتے ہیں.تو اگر بچے سمجھ جائیں بات کو تو ان کے اندر تبدیلی ہوتی ہے.انگلستان میں بارہا ایسا مجھے تجربہ ہوا ہے کئی بڑے بڑے چھتوں والے میرے پاس آئے بعضوں نے گتیں بنائیں ہوئی تھیں اور میں نے کہا یہ تم نے کیا کیا ہوا ہے.تو ماں باپ نے کہا کہ یہ بات نہیں مانتا آپ چھوڑ دیں اس کو.میں نے کہا کیوں نہیں مانتا میں ابھی سمجھاتا ہوں اس کو اور اگلی دفعہ آئے بالکل نارمل، گنتیں کاٹی ہوئی ، بعضوں نے میرے سامنے ہی اپنے تعویذ نوچ پھینکے کہ آج کے بعد ہم نہیں پہنیں گے یہ ذلیل چیز ہے.تو سمجھانے سے انسان اپنے اندر تبدیلی پیدا کیا کرتا ہے اور سمجھانے سے اندر کا انسان بدلتا ہے.جب تک آپ اندر کے انسان کو نہیں بدلیں گے بیرونی انسان بدلنے سے کیا حاصل ہوگا.پس وہ سوسائٹی جو مخالفانہ اثر رکھنے والی سوسائٹی ہے اس نے تو ہر وقت آپ کے بچوں کو

Page 468

خطبات طاہر جلد 16 462 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء آپ سے چھینے کی کوشش کرنی ہے.آپ کا جواب یہ ہونا چاہئے کہ ان کے اندر وہ دفاع پیدا کر دیں کہ سوسائٹی کو جرات نہ ہو ان کو بدلنے کی اور وہ سوسائٹی کو بدلیں اور اپنے گرد و پیش میں تبدیلیاں پیدا کریں.پس وہ احمدی جو نو احمدی ہیں مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اب ہم امریکہ کو کیسے بدلیں گے ان کو میں یہ جواب دے رہا ہوں کہ اسی طرح بدلیں گے جیسے ایک انسان حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے ساری سوسائٹی کو بدل دیا تھا اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے والی ایسی باتیں پیدا ہو چکی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساری دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے مقر فرما دیا.آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی قوت قدسیہ ہم میں موجود ہے.وہی قوت قدسیہ ہے جس نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا کیا ہے، وہی قوت قدسیہ جو آج جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے نیکی کے لئے محبت کرنے والے پیدا کر رہی ہے.تو آنحضرت ﷺ کو آج سے چودہ سوسال پہلے ساری دنیا کو بدلنے کے لئے اگر پیدا کیا جا سکتا تھا تو آخر کیوں پیدا کیا گیا تھا اس لئے کہ آپ نے اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کر لی تھی جو ماحول کو بدلا کرتی ہے.آپ ایک ذرہ بھی ماحول سے متاثر ہونے والے نہیں رہے.پس اپنے اندر وہ انسان پیدا کریں اور اپنے بچوں میں وہ انسان پیدا کریں کہ متاثر ہونے کی بجائے مؤثر ہو جائے اور یہی خاتم کا دوسرا نام ہے.بعض لوگ سمجھتے نہیں کہ خاتمیت کیا چیز ہے تو آنکھیں بند کر کے بس خاتمیت کا لفظ اٹھائے چلے جاتے ہیں کہ اب نبی کوئی نہیں، نبی کوئی نہیں.خاتمیت تو ایک ایسی مہر ہے جومحمد رسول اللہ ﷺ کے ہر غلام میں لازماً پیدا ہونی چاہئے.خاتمیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری مہر دوسرے پر اثر انداز ہو جیسے تم ہو کم سے کم ویسا تو بن سکے اور اسی میں ہمارے لئے ایک خوش خبری بھی ہے اور ایک خطرے کا الارم بھی ہے.آنے والے بہت سے آرہے ہیں اور مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب امریکہ میں بھی تبلیغ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے.ابھی اس میں بظاہر اتنی تیزی پیدا نہیں ہوئی جتنی میں توقع رکھتا ہوں لیکن ملاقاتوں میں میں نے ایسے مخلص نئے آنے والے دیکھے ہیں اور نئی آنے والیاں دیکھی ہیں جن کے متعلق بعض دفعہ میں سمجھتا تھا کہ پیدائشی احمدی ہیں اور جب پوچھا گیا تو کسی نے کہا میں چھ مہینے پہلے ہوا تھا یا سال پہلے احمدی ہوئی تھی.بہت نمایاں پاکیزہ تبدیلیاں ہیں لیکن اگر پرانے احمدیوں میں ان کے اندر وہ تبدیلیاں پیدا نہ ہوئیں تو یہ لوگ پھر زیادہ دیر آپ کے ساتھ نہیں رہ سکیں گے اور ہر وہ شخص جو کسی اور میں پاک تبدیلی پیدا کرتا ہے وہ ایک مہر کا مقام رکھتا ہے، وہ اپنی مہر

Page 469

خطبات طاہر جلد 16 463 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء دوسرے پر چسپاں کیا کرتا ہے اور اکثر اس کی بدیاں دوسرے میں منتقل ہو جایا کرتی ہیں.پس اس پہلو سے اپنے بچوں کی بھی حفاظت کریں ان کو چھوٹے چھوٹے خاتم بنالیں جو آنحضرت ﷺ کی خوبیوں کو دوسروں میں رائج کرنے کی طاقت رکھیں.اگر مہر پر دوسری مہر لگ جائے اور وہ مہر مٹ جائے تو اس کو مہر کہا ہی نہیں جاتا.پس آپ وہ مہر بنیں جو غیر اللہ کا اثر قبول نہ کرے ورنہ آپ کے نقوش مٹ جائیں گے.آپ اپنی مہر کو جب جس پر ثبت کریں گے جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ اس پر ثبت نہیں کرے گی کیونکہ دنیا نے اس کے نقوش بدل دیئے ہوں گے.پس سمندر کی لہروں کی طرح جوریت پر کچھ نقشے بناتی ہیں اپنے نقشے ایسے نہ بنائیں کہ ہر اٹھنے والی لہر اس نقشے کو پھر بدل جائے.آج کی لہروں نے کچھ اور نقشے کھینچے ہیں کل کی لہریں کچھ اور نقشے بنا جائیں.آپ نے تو دائماً آنحضرت ﷺ کی مہر نبوت کا نقشہ اپنے اندر بنانا ہے اور پھر اس کو جاری کرنا ہے.پس جب تک اپنے بچوں میں جاری نہیں کریں گے آئندہ نسلیں سنبھالی نہیں جاسکیں گی.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ یاد رکھو خدا کا یہ پیغام ہے آج دیکھو کہ کل کے لئے تم کیا بھیج رہے ہو.اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم کرتے ہو.اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اگر آج تمہارے نقوش پختہ ہیں، اگر آج تمہارے نقوش دائمی ہیں تو کل تمہاری نسلوں کے نقوش بھی پختہ اور دائمی ہوں گے.اگر آج یہ روزمرہ مٹنے والے اور بدلنے والے ہیں تو کل کی نسلوں کی کیا ضمانت ہے وہ بھی اسی طرح سمندری لہروں کے سہارے روز اپنے نقش بدلا کریں گی.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ تبلیغ کے نئے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو جس طرح میں مختصراً آپ کو سمجھا رہا ہوں ان تقاضوں کو آپ پوری طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں اور ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں لیکن ایک فرض کے طور پر نہیں بلکہ دلی لگاؤ کے ساتھ.دلی لگاؤ اور اعلیٰ اقدار کا ایک گہرا تعلق ہے جو اعلیٰ اقدار کے دوام کے لئے ضروری ہے.عارضی طور پر اگر آپ نصیحتیں سن کر اپنے اندر مشکل سے تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں اور ان نیک تبدیلیوں پر قائم رہنے میں ہمیشہ مشکل محسوس کرتے ہیں تو ان کے دوام کی کوئی ضمانت نہیں، کچھ عرصہ کے بعد آپ کا دل ہار جائے گا اور کہیں گے چلو کوئی بات نہیں کچھ دیر نیکی کرلی اب چلو دنیا کے عیش بھی دیکھ لیں لیکن اگر آپ کو ان سے محبت ہو جائے ان قدروں کے ساتھ ، ان اخلاق کے ساتھ جو نیکی کی محبت آپ

Page 470

خطبات طاہر جلد 16 464 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء کے دل میں پیدا کر رہی ہیں تو پھر کسی فکر کی ضرورت نہیں ہے.جس ماحول میں آپ جائیں گے وہ آپ کے ساتھ ساتھ جائیں گی ہمیشہ وہ ماحول کو آپ کے مزاج کے مطابق تبدیل کرتی رہیں گی.پس اس پہلو سے آئندہ آنے والی تبلیغ کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار کریں اپنی نسلوں کے لئے جو آپ خدا کے حضور جواب دہ ہیں اس نقطہ نگاہ سے بھی ان کو تیار کریں اور یاد رکھیں کہ آنے والوں کا ہم پر حق ہے ہر آنے والے نے اس کی مہر کو ضرور قبول کرنا ہے یا اس کے اثر کو کچھ نہ کچھ ضرور لینا ہے جس نے اسے احمدیت کا پیغام دیا.پس بہت بڑا کام ہے مگر ہمیں کرنا ہے.امریکہ کی تبدیلی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اگر اب ہم نے نہ کی تو کوئی اور نہیں کر سکے گا.یہ ایک ایسی قطعی بات ہے جس میں کوئی آپ تبدیلی نہیں دیکھیں گے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام دنیا میں تبدیلیاں اور پاک تبدیلیاں قائم کرنے کے لئے پیدا فرمائے گئے ہیں ان کو دنیا سے نکال دو تو دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ والسلام نے خدا سے کیا عرض کیا تھا جب آپ کو بتایا گیا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم مٹائی جانے والی ہے تو بہتوں سے شروع کر کے آخر دس تک جا پہنچے اے خدا ان میں دس بھی نیک نہیں ہیں جن کی خاطر لاکھوں کو زندہ رکھا جاتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے جواب دیا کہ دس بھی نیک نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رحم کے تعلق میں بہت جھگڑا کرنے والا تھا اور یہ ایک ابراہیم علیہ السلام کی تعریف ہے جو بظاہر برائی ہے مگر اللہ بڑے محبت کے انداز میں بیان کر رہا ہے کہ یہ تو ہم سے بھی جھگڑا کرتا ہے مگر ہماری مخلوق پر رحم کرتے ہوئے.وہاں ابراہیم نے جھگڑا چھوڑ دیا اے خدا اگر ان میں دس بھی ایسے نہیں ہیں تو پھر میں کچھ مطالبہ نہیں کرتا.تو تم تو ہزاروں لاکھوں ہو کر وڑ بیان کئے جاتے ہو کر وڑ سے بھی اوپر کی باتیں کر رہے ہو.میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں اگر تم اپنے اندر وہ نقوش پیدا کر لوجو نقوش مہر محمدی کے نقوش ہیں تو اربوں آپ کی وجہ سے بچائے جائیں گے.ہو نہیں سکتا کہ دنیا ہلاک ہو جب تک آپ اس دنیا میں موجود ہیں.پس امریکہ کے متعلق مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اگر یہاں پانچ ہزار بھی صلى الله ایسے ہو جائیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے نقوش اپنے اندر اپنانے والے ہوں تو لازماً امریکہ کو بچایا جائے گا لیکن اگر گہرائی میں اتر کے دیکھیں تو پانچ ہزار بھی

Page 471

خطبات طاہر جلد 16 465 خطبہ جمعہ 20 جون 1997 ء ایسے نہیں بنتے.ہمیں بنانے کی ضرورت ہے، محنت کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے حوالے سے سب دنیا کو بھی تبلیغ کے نئے دور میں داخل ہوتے وقت ان تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.السلام علیکم ورحمتہ اللہ.ایک اعلان کرنا ہے ہمارے ایک داعی الی اللہ جو علاقے کے سابق امیر وہاڑی تھے عتیق احمد صاحب ان کو کل شہید کر دیا گیا ، 19 / تاریخ کو تقریباً ساڑھے پانچ بجے وہ اپنی زمینوں کی طرف جارہے تھے جیسا کہ وہاں رواج ہے آج کل مولویوں کے پاس موٹر سائیکل بھی ہیں اور ساتھ ان کے کلاشنکوف بردار بھی پیچھے بیٹھے ہوتے ہیں.ملک کا قانون یہ ہے کہ ایک موٹر سائیکل پر دو سفر نہیں کر سکتے مگر مجرموں کو تو پولیس بھی نہیں دھت کار سکتی تو وہ ایک موٹر سائیکل سوار آیا پیچھے سے آگے آگے بڑھا اور فائر کر کے پہلے ڈرائیور کو اور پھر باجوہ صاحب کو موقع پر شہید کر دیالیکن باجوہ صاحب بڑے دیر تبلیغ کرنے والے تھے.بہت بہادر داعی الی اللہ تھے اتنے کہ میں نے ان کو کچھ عرصہ پہلے خط لکھا باجوہ صاحب آپ کی نیکی، آپ کی بہادری اچھی ہے مگر ہمیں ضرورت ہے کہ آپ کے جیسے زیادہ دیر زندہ رہیں اس لئے آپ کو اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ، آپ کو شہادت کا شوق ہے تو ہوگا مجھے ضرورت ہے کہ آپ لوگ کچھ اور اب زندہ رہیں تا کہ دنیا میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں.مگر وہ بڑے مضبوط کردار کے ان معنوں میں تھے کہ جو دل میں آئی وہ کر کے رہنا ہے، ایک مخلص احمدی اوپر سے باجوہ.پس انہوں نے میری بات مانی نہیں اور جو اس قسم کی احتیاطیں میں نے کہی تھیں وہ انہوں نے پرواہ نہیں کی.مگر یہ وہ شہادت ہے جس کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم غمگین بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں.اس راہ میں یہ قربانیاں تو دینی ہی دینی ہیں.لاکھوں پاکستان میں جو آئے دن بدیوں کی موت مرتے پھرتے ہیں کچھ احمدی اس راہ میں جو دعوت الی اللہ کی راہ ہے شہید ہو جائیں تو غم تو ہوگا مگر اس کے ساتھ ہی ہم جانتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی آنحضرت ﷺ کے غلاموں نے شہادتوں کی قربانیاں پیش کی تھیں.پس یہ قربانیاں ہمیں پیش کرنی ہوں گی مگر حکمت کے تقاضے ضرور پیش نظر رکھیں.لازماً حکمت کے ساتھ آگے بڑھنے کے نتیجے میں اگر آپ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو ہم خوشی سے اس نقصان کو قبول کریں گے، ہرگز نہیں ڈریں گے مگر اگر غلطی سے حکمت کے تقاضے نہ پورے کئے جائیں تو یہ بہادری تو ہوگی اپنی جگہ مگر دوسروں کے لئے زیادہ تکلیف کا موجب بنتی ہے.پس میں

Page 472

خطبات طاہر جلد 16 466 خطبہ جمعہ 20 / جون 1997 ء پاکستان کے تمام داعیان الی اللہ سے کہتا ہوں کہ ان شہادتوں کی وجہ سے ایک ذرہ بھی قدم پیچھے نہیں ہٹانا بلکہ اور زیادہ آگے بڑھانا ہے مگر جہاں تک احتیاط کے اور حفاظت کے تقاضے ہیں وہ ضرور پورا کریں.اللہ تعالیٰ اس بات کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.آج نشاء اللہ نماز جمعہ اور عصر کے بعد عتیق احمد صاحب با جوه مرحوم سابق امیر جماعت وہاڑی کی نماز جنازہ غائب ہوگی.اس کے ساتھ ایک اور بھی اطلاع آئی تھی ربوہ سے رشید زیروی صاحب.یہ ہمارے واقف زندگی تھے اور سلسلے کی بڑی محبت کے ساتھ ، خلوص کے ساتھ خدمت کرتے رہے ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے جس کی وجہ سے جانبر نہیں ہو سکے تو دیکھیں دونوں خدمت کرنے والے ہیں مگر کہاں دل کا حملہ ہونے سے مرنے والا ، کہاں خدا کی راہ میں شہادت کا رتبہ پانے والا ، بہت فرق ہے مراتب میں.مگر ایک پہلو تو بہر حال ان کا بھی ہے کہ زندگی خدا کی خاطر پیش کی اور خدا کی نظر میں ایک رنگ میں شہادت پالی.تو ان دونوں کی نماز جنازہ انشاء اللہ نماز جمعہ اور عصر کے بعد پڑھائی جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 473

خطبات طاہر جلد 16 467 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء جھوٹ اس وقت انسان کا ساری دنیا میں سب سے بڑا دشمن ہے.اپنے اندر صداقت کی طاقت پیدا کریں.( خطبه جمعه فرمودہ 27 جون 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کینیڈا کا اکیسواں جلسہ سالانہ منعقد ہورہا ہے.ٹیلی ویژن پر سب دنیا کو اس وقت یہ جلسہ اور یہ خطبہ جس سے جلسے کا آغاز ہورہا ہے، دکھایا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا میں ایسی جماعتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن میں پہلے انٹیناز موجود نہیں تھے اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لگوائے جاچکے ہیں اور ایسے احمدی گھروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جہاں پہلے انٹیناز موجود نہیں تھے مگر اب لگوائے جاچکے ہیں.اس کے باوجود یہ انتظام بہت محدود ہے اور جماعتی تقاضے بہت وسیع ہیں.اس سلسلے میں آپ سے مزید گفتگو کروں گا لیکن پہلے ایک اور اعلان بھی کرنا ہے کہ آج ہی جماعت احمدیہ گوئٹے مالا کا آٹھواں جلسہ سالانہ منعقد ہورہا ہے جو تین دن 27، 28 اور 29 جون تک جاری رہے گا.انہوں نے بھی درخواست کی ہے کہ اپنے خطاب میں ہمیں بھی شامل سمجھیں.در حقیقت میں تو جب بھی کسی جماعت سے خطاب کرتا ہوں تو سب دنیا کو شامل سمجھتا ہوں اگر چہ بسا اوقات مقامی تقاضے پیش نظر رہتے ہیں مگر ویسے ہی یا ان سے ملتے جلتے تقاضے سب دنیا میں ہیں اور چونکہ سب دنیا کی جماعتیں یا کم سے کم ان کا ایک بڑا حصہ میرے پیغامات کو یا میرے خطابات کو براہ راست سن رہا ہوتا ہے اس لئے اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کسی ایک جماعت کے

Page 474

خطبات طاہر جلد 16 468 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء مقامی تقاضوں ہی تک بات ختم کی جائے.مقامی تقاضے وقتی طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں مگر ویسے ہی تقاضے دنیا میں اور جگہ بھی ہیں.چنانچہ ابھی کل پر سوں کی ڈاک ہی میں ایک خط ملا تھا جو ایک غیر احمدی دوست کا جو احمدی ہوئے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں تو جب بھی خطاب کرتا ہوں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے مخاطب کر کے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خطاب کر رہا ہوں یعنی جو مسائل دنیا کے احمدیوں کے میں بیان کر رہا ہوتا ہوں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا مجھے ان کے حال کی خبر ہے.دراصل کسی کے حال کی خبر سوائے خدا کے کسی کوخبر نہیں اور میں چونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق انسانی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بات کرتا ہوں اور یہ سب دنیا میں قدر مشترک ہے اس لئے بسا اوقات ہر سننے والا یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ گویا میں اسی سے مخاطب ہوں.پس آج کے خطاب میں اگر چہ میں جماعت احمد یہ کینیڈا کو بطور خاص مخاطب ہوں مگر گوئٹے مالا لا زمی اس میں شامل ہے اور دیگر جماعتیں بھی.سب سے پہلے میں آپ کو ایک ایسی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو روز مرہ ہم کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور یہ عمل یعنی یہ فعل کہ انسان کہے اور کرے نہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ہی نا پسندیدہ باتوں میں سے ہے.ہم جب بھی نماز کا آغاز کرتے ہیں ، جب بھی تلاوت کا آغاز کرتے ہیں تو اعوذ بالله من الشیطن الرجیم پڑھتے ہیں جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی شیطان رجیم سے جو دھتکارا ہوا شیطان ہے لیکن بسا اوقات انسان یہ سوچتا نہیں کہ میں کیا دعا کر رہا ہوں اور یہ شیطان ہے کون اور کہاں بستا ہے، یہ کیسے میرے پاس آئے گا کہ میں اسے دھتکاروں گا.جو بات انسان بھول جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اکثر وہ اس سے بیرونی شیطان مراد لیتا ہے اور بیرونی شیطانوں کو ہمیشہ انسان دھتکارتا ہی ہے لیکن اندرونی شیطان کی بات نہیں کرتا اور قرآن کریم نے نمایاں طور پر سب سے زیادہ اندرونی شیطان ہی کو پیش فرمایا ہے.فرماتا ہے کہ وہ ایسے لباس میں آتا ہے، ایسے بھیس بدل بدل کر آتا ہے، ایسی سمتوں سے آتا ہے کہ تم اسے دیکھ نہیں رہے ہوتے اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے.پھر انسان کا نفس اپنے نفس کے وجود سے واقف ہے یہ پہلی مراد ہے ان آیات کی.شیطان نعوذ باللہ من ذالک کوئی اللہ تعالیٰ تو نہیں کہ ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور خدا کی طرح اس دیکھنے میں اس کا شریک ہو گیا ہے مگر ہر نفس کا الگ الگ شیطان ہے جو اس کے اندر واقع ہے اور وہ اندر سے اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ شخص جس

Page 475

خطبات طاہر جلد 16 469 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء کے اندر وہ شیطان بستا ہے اس کو پہچانتا نہیں.نہیں جانتا کہ وہ کب اور کیسے کیسے اس پر حملہ کرے گا.پس یہ وہ حقیقت ہے جس کو نمایاں طور پر جماعت احمدیہ کینیڈا کو خصوصیت کے ساتھ کیونکہ میں آج ان سے مخاطب ہوں اور سب دنیا کی جماعتوں کو پیش نظر رکھنی چاہئے.بہت سی خرابیاں میں نے دیکھی ہیں اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہیں اور یہ دیکھیں کہ حقیقت میں جو روز مرہ کی زندگی میں دیکھنے والے کو دکھائی دے رہی ہوتی ہیں مگر جس کا شیطان کوئی حرکت کر رہا ہے اسے دکھائی نہیں دیتیں.بعض دفعہ جماعتی جھگڑوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے ایک شخص نے نظام جماعت کی بے حرمتی کی.کھڑے ہو کر صدر سے یا امیر سے سخت بد تمیزی سے پیش آیا اور جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا بالکل غلط ہے ایسی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی میں تو بڑے آرام سے ان کی باتوں کا جواب دے رہا تھا اور میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے اور جو دیکھنے والے تھے انہوں نے اس کا شیطان دیکھ لیا تھا.ان سب نے یک زبان ہو کر اعلان کیا اور مجھے خطوط کے ذریعہ بتایا کہ یہ الزام بالکل درست ہے.اس شخص نے انتہائی بدتمیزی سے کام لیا یہاں تک کہ ہمارے لئے مشکل ہو رہا تھا کہ ہم ضبط کریں اور اسے اٹھا کر مسجد سے باہر نہ پھینک دیں اور وہ اصرار کر رہا ہے اور کہتا ہے اس جماعت میں تو پھر انصاف ہی کوئی نہیں.بالکل غلط بات ہے مجھے یہ الزام لگایا جا رہا ہے، میں اپنے نفس کو جانتا ہوں میں نے تو ایسی کوئی بات کی نہیں.میں تو ایسی بات کر ہی نہیں سکتا.تو دیکھو قرآن کریم کی بات کتنی سچی ہے کہ انسان شیطان کو جانتے ہوئے بھی نہیں جانتا.اس کے اندر بستا ہے پھر بھی نہیں پہچانتا اور جب وہ اندر سے آواز دیتا ہے تو وہ نہیں سمجھتا کہ کسی اور کی آواز ہے.پس اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کو غور اور عقل سے پڑھا کریں اور سوچا کریں کہ کس شیطان رحیم سے آپ نے پناہ مانگی ہے.وہ لوگ جو بیرونی طور پر آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں کیے ممکن ہے کہ آپ انہیں دیکھ نہ سکیں ، آپ تو ہمیشہ ان سے بیچ بیچ کر چلتے ہیں.پس ان سے پناہ میں آنا کوئی خاص نیکی کی بات نہیں ، وہ تو ایک قطعی ، فوری ایسی ضرورت ہے جو آپ کے طبعی تقاضوں سے پیدا ہوتی ہے اور کسی نیک اور بد کا سوال نہیں ہر شخص خواہ دہر یہ بھی ہو ایسے شیطان سے جو بیرونی شیطان اس پر حملہ آور ہواس سے پناہ مانگتا ہے.کبھی خدا کے لئے مانگتا ہے تو انسان کی پناہ مانگتا ہے گویا پہچانتا ضرور ہے.وہی شیطان ہے جودل کا شیطان، جو نفس کا شیطان ہے جسے انسان دیکھ نہیں سکتا اور اسی وجہ سے بعض دفعہ ایسی باتیں ہوتی ہیں

Page 476

خطبات طاہر جلد 16 470 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء که انسان حیران رہ جاتا ہے.اب ایسے شخص کی مثال میں نے دی ہے نہ جماعت کا نام لیا ہے، نہ اس شخص کا کہ اس مثال پر بہت سے لوگ اگر غور کریں تو شاید اپنے آپ ہی کو مخاطب سمجھیں کیونکہ بہت سی جماعتوں میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود میری بات سننے والے خود نصیحت نہیں پکڑیں گے کیونکہ ان کو دنیا کے شیطان تو صاف دکھائی دے دیتے ہیں.اگر گھر کا کوئی جھگڑا ہوا ہے، بیوی نے کوئی زیادتی کی ہے تو وہ انہیں صاف دکھائی دے گی بلکہ نہ بھی کی ہو تو دکھائی دے گی اور رشتے داروں نے کوئی زیادتی کی ہو، کسی شادی بیاہ کے موقع پر یاغی کے موقع پر وہ حق ادا نہ کیا ہو جو سمجھتے ہیں انہیں کرنا چاہئے تو بعض اس پر سالہا سال تک جھگڑا چلاتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کے متعلق اطلاع ملتی ہے اور آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ بھائی نے بہن سے بات نہیں کی کیونکہ کسی ایسے موقع پر اس نے سمجھا کہ بہن کو میری طرف داری کرنی چاہئے تھی اور سالوں اس سے بات نہیں کی.ایسی ملاقات میں میں نے اس کو بتا دیا کہ آج کے بعد تمہاری یہ شکایت ملی تو پھر میں بھی تم سے اسی طرح سالوں بات نہیں کروں گا.تمہارا اگر بہن سے تعلق ٹوٹا ہے تو مجھ سے بھی ٹوٹ گیا کیونکہ خدا سے ٹوٹ گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رحمی رشتوں کا لحاظ نہیں کرتے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا اچھالتے ہیں کہ وہ ان کے درمیان دیوار میں حائل کر دیتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی رحمان ہوں.رحمی رشتوں سے ایک میرا بھی رحمانیت کا رشتہ ہے.جس طرح رحم سے بچے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح رحمانیت سے ساری تخلیق ہوئی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر رحمی رشتوں کا لحاظ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارا بھی کوئی لحاظ نہیں کرے گا.تو میں ایسے لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ اس میں میری طرف سے کوئی غیر معمولی زیادتی کا سوال ہی نہیں، میں تو وہی کروں گا جو اللہ کرتا ہے، جو اللہ ہم سے چاہتا ہے.پس تم رحمی تعلقات کو کاٹو گے تو میں تم سے تعلقات کو کاٹ لوں گا اور عجیب ظلم کی بات ہے کہ یہ تو ان کو دکھائی دے دیتا ہے مگر روتی ، بلکتی بہن دکھائی نہیں دیتی.جب ان کو اس طرح بتایا جائے تو کچھ تھوڑی سی ہوش آتی ہے کیونکہ ماں باپ کی نصیحتوں کو وہ بالکل نہیں سنتے.تو دنیا میں جو بہت سے تعلقات بگڑنے کی وجہ ہے وہ بنیادی طور پر یہی ہے کہ اپنے نفس کا

Page 477

خطبات طاہر جلد 16 471 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء شیطان انسان کو دکھائی نہیں دیتا.کوئی ان سے وہ سلوک کرے تو واویلا کریں گے، شور مچائیں گے، کہیں گے کیسی جماعت ہے جہاں ایسے ایسے لوگ داخل ہیں جو اس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان فرموده حقوق کو ادا نہیں کرتے اور عائد شدہ قدروں کی پرواہ نہیں کرتے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ تم کیا کرتے ہو تو بعض دفعہ معصومیت سے کہیں گے ہم تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں.ہم تو کبھی بھی خدا تعالیٰ کی جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کرتے.کوئی غلطی سے بات ہو جائے تو ہو جائے لیکن یہ بات جھوٹ ہے اور واقعہ انسان جان بوجھ کر ہر فیصلے کے موقع پر نافرمانی کا قدم اٹھاتا ہے.اب جھوٹ کی بات چل رہی ہے تو یا د رکھیں کہ جھوٹ اس وقت انسان کا ، ساری دنیا کا سب سے بڑا دشمن ہے.جھوٹ کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ محض دین کی تعلیم ہے، مسلمانوں کو جھوٹ نہیں بولنا چاہئے یہ جھوٹ کی حقیقت کو نہ سمجھنے کا ایک اور انداز ہے.جھوٹ تو دنیا کے زہروں کی طرح ہے.وہ زہر نیکی اور بدی کی تمیز نہیں کرتے ، وہ زہر ضرور ہلاک کرتے ہیں.اگر اتنی مقدار میں استعمال ہوں کہ ہلاک کرنے والے ہوں.وہ زہر ضرور لمبا، دائمی اثر چھوڑ جاتے ہیں.جب ان کی سرشت میں لمبا عرصہ داخل کر دیا گیا ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، تو وہ تو اپنا کام دکھاتے ہیں.اسی طرح جھوٹ بھی ایک تو گناہ ہے یعنی ہر مومن جو اللہ پر ایمان لاتا ہے، محمد رسول اللہ یہ کی پیروی فرض سمجھتا ہے اس کے لئے جھوٹ ایک گناہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس گناہ کا حساب کتاب زیادہ تو یوم آخرت میں ہو گا لیکن میں ایک بات آپ کو بتا رہا ہوں کہ جھوٹ ایک زہر بھی ہے اور وہ زہر ایسا ہے جو روز مرہ ضرور اثر دکھاتا ہے اس کا منفی اثر ضرور جاری ہوتا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی.ساری دنیا میں سب سے بڑا فساد جھوٹ ہے اور دراصل اس لئے کہ جھوٹ شیطان کی عبادت کا ایک اور نام ہے میں جماعت کو پہلے بھی بارہا سمجھا چکا ہوں کہ تم کہتے ہو ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ إيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی غفلتیں جو سرزد ہو جاتی ہیں ان کے متعلق تو آپ استغفار سے کام لے سکتے ہیں مگر اگر یہ اقرار ہی جھوٹ ہو اور سراسر جھوٹ ہو اور انسان جانتا ہو کہ جب بھی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ہم غیر اللہ کی طرف منہ کرتے ہیں تو ایسے شخص کو دنیا کی سزا تو ملنی ہی ہے آخرت کی سزا بھی ملے گی اور اس کی ساری

Page 478

خطبات طاہر جلد 16 472 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء نمازیں اکارت جائیں گی اور جھوٹ جو ہے کئی طرح کے بھیس بدلتا ہے.آج کل میراز ور ہے تبلیغ کے اوپر ، میں جماعتوں سے توقع رکھتا ہوں کہ خوب تبلیغ کریں اور کثرت سے دنیا میں پھیلیں کیونکہ ہمارے پاس اب وقت بہت تھوڑارہ گیا ہے یعنی اس صدی کے موڑ تک پہنچتے پہنچتے ابھی ہم نے اتنے سفر کرنے ہیں کہ اگر ہم مہینوں کے سفر دنوں میں نہ کریں اور صدیوں کے سالوں میں نہ کریں تو ہم اپنے فرض منصبی کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے کیونکہ ہم نے اب تک بہت سے کام کر لینے تھے جو نہیں کر سکے ، بہت سا وقت ضائع کر چکے ہیں.ایک طالب علم جو سارا سال نہ پڑھے کم سے کم آخری رات تو اٹھ جاتا ہے اور ساری رات لگا کر کوشش کرتا ہے کہ میں جو کچھ وقت کھو چکا اس کا کچھ حاصل کر لوں لیکن ہم نظام جماعت کے طور پر نظام کو بھی جوابدہ ہیں اور افراد کے طور پر اللہ تعالیٰ کو بھی جواب دہ ہیں اور یہ دوسری جوابدہی بہت زیادہ سخت ہے.اس جواب دہی میں جو جماعت کو ہے کئی لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور بعض دفعہ جانتے نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں.یہ وہ امر ہے جس کی طرف خصوصیت سے میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.رپورٹوں میں مبالغے ہوتے ہیں، لکھا جاتا ہے کہ جب ہم نے اتنا کام کر لیا اور خدا کے فضل سے اتنے نئے احمدی ہو گئے اور جب ان کو دیکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ دکھائی نہیں دیتے.جب دیکھا جائے کہ جماعت کے روزمرہ کے کاموں میں ان کے داخل ہونے سے کیا فرق پڑا ہے تو کوئی بھی فرق دکھائی نہیں دیتا.اب یہ ایک جھوٹ کی قسم ہے لیکن اس پر شیطان کئی قسم کے پردے ڈال لیتا ہے.مثلاً ایک آدمی کو اور ایسے بہت سے واقعات میرے علم میں ہیں یہ کہا گیا کیوں جی ہم اچھی باتیں کہہ رہے ہیں نا، جماعت احمد یہ ٹھیک ہے نا.وہ کہتے ہیں ہاں جی بالکل ٹھیک ہے.اچھا بھئی تمہارا نام لکھ لیتے ہیں اور اس بیچارے کو کچھ بھی پتا نہیں کہ کس چیز میں نام لکھا گیا ہے اس نے تائید تو صرف اس بات کی کی ہے کہ ہاں آپ اچھے لوگ ہیں.لیکن اگر اس کے برعکس اس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمیں دنیا کیا کہتی ہے، ان کو بتایا جاتا کہ دیکھو ہم وہ ہیں جن کو نعوذ باللہ من ذالک اسلام میں رخنہ ڈالنے والا شمار کیا جاتا ہے.ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ تم نے نیا دین بنالیا ہے.ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ خاتم النبین کو بطور خاتم النبین حقیقت میں تسلیم نہیں کرتے ، جھوٹ بولتے ہو کہ خاتم النبین ہیں کیونکہ ان کو خاتم مانتے ہوئے بھی تم

Page 479

خطبات طاہر جلد 16 473 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء نے ایک نیا نبی کھڑا کر لیا ہے.اب یہ وہ تلخ باتیں ہیں جو جماعت کے متعلق کہی جاتی ہیں.یہ سنائیں اور پھر اقرار لیں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے ان سب باتوں کے باوجود ہم قبول کرتے ہیں کہ جماعت احمد یہ بچی ہے تو پھر اس کو سچائی کہتے ہیں.پس بظاہر ایک شخص نے جھوٹ نہیں بولا یعنی بظاہر جھوٹ نہیں بولا اس نے یہ رپورٹ کی کہ جب میں نے ان سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں جی ٹھیک ہے سب کچھ.اس پر میں نے کہا اچھا دستخط کر دواب.ان دستخطوں کا کیا فائدہ کیونکہ جب ایسے لوگوں تک دوسرے پہنچتے ہیں اور ایسا با رہا ہوا ہے.بعض ایسے ابتلاء میں نے دیکھے ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر آئے ہیں جونئی بنائی ہوئی جماعتیں تھیں.وہاں مربیان نے ان کو ہرگز نہیں بتایا کہ ہمارے متعلق دنیا کیا کہ رہی ہے اور چونکہ ان کے کردار اچھے تھے، ان کے عمل اچھے تھے، وہ دیکھنے میں بڑے پکے مسلمان دکھائی دیتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے تو دیکھنے والوں نے کہا تم بہت اچھے لوگ ہو ہم تمہارے ساتھ ہیں ان کی بیعتیں کروالی گئیں اور جب مخالف پہنچے وہاں ، جب پاکستان کو اطلاع ملی یا دوسرے دشمنوں کو انہوں نے فتنہ پرداز مولوی بھیجے.انہوں نے کہا تم یہ ہو گئے ہو یہ تو ایسے ہیں اور یہ تو ویسے ہیں اور ان ایسی ویسی باتوں کی ان کو کوئی بھی خبر نہیں تھی.چونکہ تبلیغ کرنے والے نے ان کو چھپا لیا تو یہ بھی تو ایک جھوٹ ہے حق کو چھپانا تا کہ کوئی مقصد حاصل ہو جائے.یہ بھی ایک ظلم ہے تو ایسے لوگ اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے غالباً اسرار کریں گے کہ ہم نے کوئی جھوٹ نہیں بولالیکن ان کا نفس اندر سے جانتا ہے اور ان کو ملزم گردانتا ہے، جانتا ہے کہ انہوں نے حق سے اختفاء کیا ہے اور حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے.اب ایسی جماعتوں کا فائدہ کیا ہے جو جھوٹ سے بنائی جائیں.ہمیں تو ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ایسے لوگ جب وہ بتاتے ہیں کہ اب ہمیں پتا چلا ہے تو میں ان کولکھتا ہوں بڑی اچھی بات ہے آپ جہاں سے آئے تھے وہاں واپس چلے جائیں ، جماعت احمدیہ کو تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے جو جماعت میں داخل ہونے کو ایک آسان مزے کا کام سمجھیں اور آسان مزے کے کاموں میں ایک یہ بات بھی داخل ہے کہ ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم تمہارے لئے مسجدیں تعمیر کریں گے، تمہارے لئے مشن ہاؤس بنائیں گے، تمہاری یہ خدمت کریں گے اور تمہاری وہ خدمت کریں گے اور اس کے علاوہ ہسپتال بنائیں گے اور پھر سکول جاری کریں گے تو یہ ساری باتیں وہ ہیں

Page 480

خطبات طاہر جلد 16 474 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء جو اپنی ذات میں جھوٹ نہیں ہیں مگر ان میں ایک مخفی جھوٹ ہے.وہ یہ ہے کہ ہم ہر گز حرص دلا کر یا بعض سکولوں، کالجوں یا ہسپتالوں کا لالچ دے کر کسی کو احمدی بنانا نہیں چاہتے نہ بناتے ہیں.پس وہ اس لحاظ سے جھوٹ سے کام لے رہا ہے کہ اس ذریعے کو اس نے استعمال کیا جس کی اس کو اجازت نہیں تھی اور رپورٹوں میں لکھتے وقت یہ نہیں لکھا کہ ہم نے جو ان لوگوں کو مائل کیا ہے تو یہ کہہ کہہ کے مائل کیا ہے.اگر اشارہ بھی پہلی کسی رپورٹ میں ذکر ہوتا تو میں فوری طور پر اس مربی کو روک دیتا یا اس کو بدل دیتا یا اسے فارغ کر دیتا کیونکہ دین میں خدا کے سوا اور کسی چیز کا سودا نہیں ہونا چاہئے اور قرآن کریم یہی فرماتا ہے کہ اللہ سے اللہ کا سودا کرو.اگر تم چاہتے ہوتو اللہ کی خاطر اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو پھر وہ تمہارا ہو جائے گا.اِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبه : 111) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے سودا کر لیا ہے اور وہ سودا خدا کا مومنوں سے ایک سودا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم یوں کرو کہ اپنی جان ، اپنے اموال سب کچھ میرے حضور پیش کر دو.کتنا بڑا کام ہے اگر یہ سمجھ کر کوئی انسان حق کو قبول کرتا ہے یا یہ سمجھا کر کسی کوحق کی طرف بلایا جا تا ہے تو کتنے ہیں جو جواب دیں گے.مگر ساتھ ہی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سودے کے نتیجے میں بِأَنَّ لَهُمُ الجنَّةَ یہ میرا اقرار اور وعدہ ہے کہ ان کو ضرور جنت عطا کروں گا اور یہ جنت آخرت میں نہیں اس دنیا میں بھی ملنی شروع ہو جاتی ہے.یہ ایک اہم بات ہے.اگر لالچ دینی ہے تو یہ لالچ دو کہ خدا کی خاطر قربانی کرو اور پھر دیکھو کو خدا تعالیٰ تمہاری قربانیوں کو کیسے قبول فرماتا ہے، کیسے کیسے تمہاری پریشانیاں دور کرنے کا انتظام کرتا ہے، تمہاری روز مرہ کی جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے لگتا ہے.پس اگر دین خدا کی خاطر ہے تو خدا سے وعدے ہونے چاہئیں اور لالچ جو دینی ہے وہ خدا کے حوالے سے دی جائے.اپنے آپ کو بیچ میں سے نکال لیں کیونکہ محض پہلی بات کہہ کر خوف دلا نا حکمت کے بھی خلاف ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے بھی خلاف ہے یعنی قرآن کریم نے نبیوں کو بَشِيرًا وَنَذِيرًا (البقرة: 120) قرار دیا ہے.وہ بشارت بھی دیتے ہیں اور ڈراتے بھی ہیں تو بہت سی باتوں سے ڈراتے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم ہمارے ساتھ شامل ہو گے تو تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا جو ہمارے ساتھ شامل لوگوں سے کیا جا رہا ہے اور اس پہلو سے بھی آنحضرت ﷺ نذیر تھے جو غیروں کو صلى الله

Page 481

خطبات طاہر جلد 16 475 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء ڈرانے کے علاوہ اپنوں کو بھی ڈراتے تھے.ایک موقع پر بعض صحابہ نے مکہ کے ظلموں سے تنگ آکر صلى الله رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اب تو حد ہو گئی ہے.ہم قوم کے سردار تھے اور عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، ہماری بات کو حکم سمجھا جاتا تھا ، آج یہ حال ہو گیا ہے کہ گلیوں کے لونڈے بھی ہم پر پتھر اٹھاتے اور آوازیں کستے ہیں.آنحضرت ﷺ خاموشی سے سنتے رہے اور جب انہوں نے بات ختم کر لی تو فرمایا دیکھو تم سے پہلے ایسے نبی تھے جن کے ماننے والوں کے سروں کو آروں سے چیرا گیا اور دو نیم کر دیا گیا اور انہوں نے اف تک نہیں کی تم جانتے ہو تم کس پر ایمان لائے ہو.سب نبیوں کے سردار پر ایمان لائے ہو یعنی یہ باتیں Implied ہیں جس کو کہتے ہیں نا آنحضور ﷺ کے بیان میں یہ سب باتیں شامل ہیں لیکن لفظوں میں بظاہر شاید کسی کو نہ دکھائی دیں مگر اس کو غور سے پڑھیں اس جواب کو تو آپ لرز اٹھیں گے کہ اپنوں کو ڈرا رہے ہیں ، بتا رہے ہیں کہ مجھے قبول کرنے کے نتیجے میں اس سے زیادہ ظلم ہوں گے جو ظلم پرانے نبیوں کے زمانے میں نبیوں کے ماننے والوں پر کئے گئے.تو ڈرانا تو برحق ہے مگر پھر بشارتیں بھی تو تھیں.ایسی بشارتیں کہ جیسی کسی نبی نے کبھی کسی کو کوئی بشارت نہیں دی قیامت تک کے لئے اپنی امت کی سر بلندی کی بشارتیں عطا فرمائیں.جنت میں اپنے آپ کو کوثر کے سردار کے طور پر پیش فرمایا اور فرمایا کہ میرے ہاتھوں سے تمہیں وہ کوثر کی مے پلائی جائے گی جس جیسی اور کوئی چیز دنیا میں نہیں، نہ آئندہ دنیا میں ہوگی.کوثر کا پلانا ایک ایسی سبیل ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی جس میں ہر قسم کی نعمتیں موجود ہیں یہ آنحضرت ﷺ نے صرف اپنے ساتھ وابستہ فرمائی ہے.یہ بات کسی اور نبی کے متعلق آپ نے بیان نہیں فرمائی.پس جہاں مصیبتیں زیادہ ہیں وہاں نعمتیں بھی تو بہت بڑی ہیں اور عظیم الشان نعمتیں ہیں ان کی صلى الله تفصیل میں جانے کا تو وقت نہیں ہے کیونکہ بڑے وسیع پیمانے پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی وہ فضیلتیں بیان فرمائی ہیں جن کو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ ہی کی فضیلتیں ہیں لیکن ذرا غور کریں تو وہی فضیلتیں آپ کی اُمت کی فضیلتیں بھی بن جاتی ہیں اور اس حصے پر لوگ غور نہیں کرتے.وہ فضیلتیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے عطا فرمائیں وہ ساری ایسی ہیں جو آپ کی وساطت سے ساری امت تک پہنچتی ہیں ساری امت تک ممتد ہوتی ہیں اور ہر انسان ان سب رستوں پر چل چل کے تھوڑا ان فضیلتوں سے

Page 482

خطبات طاہر جلد 16 476 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء حصہ پاسکتا ہے اور عجیب بات ہے کہ تعریف کرنے والے ایسی باتوں پر سر دھنتے ہیں کہ آپ حاشر ہیں، آپ اول ہیں، آپ آخر ہیں، آپ خاتم ہیں اور نہیں جانتے کہ ہر مومن کو وہ ہونا چاہئے ورنہ اسے آنحضرت یہ کی ان فضیلتوں کی تعریف کرنے کا بھی کوئی حق نہیں.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کو اللہ نے عرفان عطا فرمایا، فرماتے ہیں کہ: ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (در مشین اردو: 17) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نظر ان سب فضیلتوں پر تھی جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیتا اس لیے کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمام نبیوں سے ممتاز طور پر عطا کی گئیں اور تقاضا اس کا یہ سمجھا کہ ”تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے پس وہ جو آنحضرت میر کی فضیلتوں پر قدم آگے نہیں بڑھاتا وہ نہ انذار کے مضمون سے واقف ہے نہ تبشیر کے مضمون سے واقف ہے.واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں اس وقت بیان کر رہا ہوں.اپنے اندار میں بھی وضاحت کریں اور خوب کھولیں کہ جو شخص رستے کے خطرے نہ بتائے اسے رستے کی طرف بلانے کا کوئی حق نہیں ہے.ایک انسان کو آپ پہاڑ کی چوٹی سے دعوت دیں کہ آؤ میری طرف آؤ اور یہ نہ بتائیں کہ رستے میں کتنی کھڑے ہیں، کتنے ایسے جانور مثلاً بعض دفعہ سانپ رستوں میں ہوتے ہیں، بعض دفعہ بھیڑیئے یا اور کئی قسم کے جانور، زہریلے جانور رستے میں بیٹھے ہوتے ہیں مختلف جھاڑیوں میں چھپے بیٹھے ہیں اس لئے آؤ تو اس رستے سے آؤ جس رستے سے میں آیا ہوں اور وہ رستہ محفوظ رستہ ہواس رستے پر چل کر خطرہ نہ ہو.اگر انسان اس طرح دعوت دے تو لازم ہے کہ جہاں وہ خوشخبری دے گا کہ آؤ بلندی کی طرف آجاؤ وہاں انذار بھی کرے گا اور بتائے گا کہ اس رستے میں کیا کیا خطرات در پیش ہیں.تو خطرات کا بتانا لازم ہے اس کے بغیر دعوت کا حق نہیں ہے کیونکہ دنیا میں ایک بھی نبی نہیں ہے جسے نذیر اور بشیر نہ کہا گیا ہو.یہ دونوں صفات ہیں جو نبیوں کے ساتھ چلتی ہیں اور یہ دونوں صفات ہیں جو جماعت احمدیہ کو اپنانی ہوں گی.پس آپ جب تبلیغ کرتے ہیں تو ہر قسم کے خطرات سے آگاہ کریں بلکہ بعض مواقع پر منافقوں کے خطرے سے بھی آگاہ کرنا پڑتا ہے.چنانچہ اس ضمن میں بعض

Page 483

خطبات طاہر جلد 16 477 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء دفعہ مجھے معین ہدایتیں دینی پڑتی ہیں مثلاً جلسہ سالانہ پر کچھ منافق لوگ آجاتے ہیں تو وہ احمدی جن کے ساتھ کوئی نئے احمدی آ رہے ہوں ان کو سمجھانا پڑتا ہے کہ ان کو پہلے بتاؤ کہ یہ صاحب وہ ہیں جنہوں نے تمہارے پاس آکے یہ یہ باتیں کرنی ہیں اور ان باتوں کا جواب پہلے ہم سے لے لو کیونکہ اگر تم نے سن لیا اور اثر پڑ گیا تو تم خود پیچھے ہٹ جاؤ گے اور بظاہر تہذیب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہمارے سامنے باتیں اٹھاؤ گے نہیں لیکن تمہارا دل میلا ہو جائے گا.پس لازم ہے کہ سچائی کو اس طرح پہچانیں کہ اس کے باریک سے باریک تقاضے بھی آپ پورے کرنے کی کوشش کریں اور تبلیغ کی سچائی میں یہ باتیں سب شامل ہیں.لوگ سمجھتے ہیں تعداد بڑھانی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگر بتا دیا کہ ہم نے پچاس کر لئے یا سو کر لئے تو ہمیں اس سے فضیلت حاصل ہو جائے گی.بالکل غلط خیال ہے.یہ جھوٹ ہے.اس قسم کی بچگانہ باتوں سے اگر وہ مجھے خوش کرنا چاہتے ہیں تو میں کبھی بھی خوش نہیں ہوا اور اگر وہ خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو ظلم ہے کہ خدا کو ایک عام سمجھ والے انسان سے بھی کم تر سمجھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کیسے اس تعداد پر خوش ہو سکتا ہے جو تعداد اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرے اور اللہ کی خاطر تبدیلی نہ پیدا ہو.پس کینیڈا کی جماعتوں کو میرا پہلا پیغام تو یہ ہے کہ تبلیغ کی طرف توجہ کریں اور جس حقیقت کی طرف میں نے آپ کو متوجہ کیا ہے اس کو پیش نظر رکھیں.آپ کی تبلیغ ہرگز ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی اگر آپ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم کے معنی نہ سمجھیں اور اپنے نفس کو اور اپنے نفس کے شیطان کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا نہ کر یں.اگر آپ نے یہ نہ کیا تو پھر آپ کی زندگی ایک جھوٹ ہوگی اور کچھ بھی فیض آپ اللہ اور اللہ کے بھیجے ہوؤں سے نہیں پاسکتے اور یہ تو ایک روزمرہ کی ایکسر سائز ہے یعنی ورزش ہے ایسی ورزش ہے جس کے بغیر آپ کا روحانی قدم بن ہی نہیں سکتا ، اس میں جان نہیں پیدا ہو سکتی.أعوذ باللہ کے تقاضے سمجھنے ہیں تو لا حول ولا قوۃ کے مضمون کے او پر بھی غور کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کوئی بھی خوف کی جگہ نہیں ہے.حول ، خوف سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اور کوئی بھی نعمتیں عطا کرنے والی طاقت یعنی قوت نہیں ہے.الا باللہ مگر اللہ کے ذریعے اور جھوٹ میں خوف اور حرص دونوں اپنے اپنے رنگ میں گہرا اثر دکھاتے ہیں.ایک طرف تو انبیاء کا پیغام ہے جس میں

Page 484

خطبات طاہر جلد 16 478 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء بشارت بھی ہے اور انذار بھی ہے.انذار بھی ہے اور بشارت بھی ہے.دوسری طرف شیطان کا پیغام ہے وہ بھی ایک انذار اپنے اندر رکھتا ہے، وہ بھی ایک بشارت اپنے اندر رکھتا ہے.اس کا انذار بھی جھوٹا ،اس کی بشارت بھی جھوٹی.وہ انذار یہ کرے گا کہ دیکھو اگر تم نے میری بات نہ مانی تو اپنی دنیا اپنے ہاتھوں سے گنوا بیٹھتے ہو اور یہ مضمون جو ہے کینیڈا میں اس لحاظ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ بہت سے Immigrants ہیں، بہت سے ایسے دوست ہیں جو پاکستان میں بعض دفعہ حقیقی مظالم سے تنگ آکر بعض دفعہ اسی خوف سے تنگ آکر کہ یہ حقیقی مظالم ہمارے سر پر لٹکے ہوئے تو ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو محض اقتصادی خرابی کے پیش نظر اس غربت سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں.اب ان کے لئے یہ تینوں وجوہات اپنی اپنی جگہ ان کے لئے رزق کا جواز پیدا کرنے والی تو ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے وسعت رزق کو بھی ہجرت کا جواز قرار دیا ہے کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ رزق پیش نظر ہو اور جھوٹ بولو کہ ہمیں فلاں مصیبت پڑی ہوئی تھی اس لئے نکلے ہیں.اب یہاں پہنچ کر آپ دیکھیں کتنے ہیں جو لاحول میں شیطان کی آواز سنتے ہیں اور خدا کی آواز نہیں سنتے.شیطان ان کو ڈراتا ہے.وہ کہتا ہے دیکھو تم نے اگر سچ بول دیا تو مارے گئے.سارے پیسے تم برباد کر بیٹھے ہو.اپنی جائیداد میں بیچ آئے ہو یہاں پہنچے ہو، چھوٹے چھوٹے تمہارے بچے ہیں اگر تم نے جھوٹ نہ بولا تو تمہیں ہرگز یہ حکومت اجازت نہیں دے گی واپس جانا پڑے گا اور پہلے سے بدتر حال میں واپس لوٹو گے.یہ شیطان کا ڈراوا ہے اور یہ ڈر اوا وقتی طور پر سچا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بعض دفعہ شیطان ایسے ڈراوے بھی دیتا ہے جو انسان کوشیطان پر ایمان لانے میں مدد دیتے ہیں.چنانچہ واقعہ یہ اس کے ساتھ ہو بھی جاتا ہے اگر اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ کاش میں شیطان کی بات مان لیتا اور اللہ کی بات رد کر کے جھوٹ کا سہارا لے لیتا تو ایسا شخص ہمیشہ کے لئے ضائع ہو گیا پھر کبھی خدا اس کی نہیں سنے گا لیکن اگر وہ ابتلاء میں ثابت قدم رہے اگر وہ کوڑی کی بھی پرواہ نہ کرے جو کچھ جاتا ہے خدا کی راہ میں جائے اور سوچے کہ اس نے اللہ سے عہد کیا کیا تھا.عہد تو یہ کیا تھا کہ میری جان ، میرا مال، میرا سب کچھ تیرے سپرد ہو گیا اب تو جانے اور جو بھی تو نے اپنے بندوں سے وعدے کئے ہیں ان وعدوں کا تو میرے حوالے سے بھی خیال رکھے یہ اب تیرا کام ہے.جس نے یہ وعدہ کیا ہو اس کو اگر کینیڈا کی امیگریشن نہ مل رہی ہو جھوٹ کے بغیر اور وہ سب خدا سے کئے ہوئے وعدوں کو چھوڑ کر پیٹھ کے پیچھے پھینک کر یہ فیصلہ

Page 485

خطبات طاہر جلد 16 479 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء کرے کہ میں نے تو یہاں رہنا ہی رہنا ہے تو آپ بتائیں کہ یہ جھوٹ اس پر کیا اثر دکھائے گا.ایسے لوگوں کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ زہر کی بھی قسمیں ہیں جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا تھا بعض زہرایسے ہیں جو وقتی طور پر مشکل میں ڈالتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ان کی سزا ملی اور معاملہ ختم ہوا.مثلاً پیٹ خراب ہوا ، مرچیں کھا لیں ہیں اب یہ تو نہیں کہ ساری عمر مرچیں پیچھا نہ چھوڑیں.تھوڑی دیر سی سی کی ہمشکل میں پڑے، کچھ دوائیاں وغیرہ کھائیں اور چھٹی ہوئی اور پھر دوبارہ جب تک آپ نہ کھا ئیں دوبارہ سزا نہیں ملے گی لیکن آرسنک Arsenic کھالیں تو خواہ وہ تھوڑا ہو خواہ زیادہ ہو ساری عمر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا.پرانے مردے جو فراعین مصر کے نکالے گئے ہیں یا اس سے بھی پہلے کے مردے جو نکالے گئے ہیں سائنس دان ان کی ہڈیوں کا جائزہ لے کر بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کتنا آرسنک کھایا ہوا ہے.یہ مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتی.تو وہ جھوٹ جو بظاہر دائمی فائدے پہنچاتا ہے اس کا نقصان بھی دائمی ہوتا ہے.ایسے لوگ جو اس قسم کے جھوٹ کے بعد ٹھہر جاتے ہیں ان کو کوٹھیاں بھی مل جاتی ہیں، ان کو موٹریں بھی نصیب ہو جاتی ہیں.بظاہر دنیا کے سامان ہیں، بچے پل رہے ہیں یاد رکھیں کہ یہ وہ جھوٹ ہے جو پیچھا چھوڑنے والا نہیں.جتنا فائدہ لمبا ہو گا جھوٹ کے نتیجے میں اتنا ہی آپ کی ساری زندگی آپ پر لعنتیں ڈالے گی کہ تم نے غیر اللہ سے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے اور اگر آپ کو فوراً اس کی ہوش نہیں آئے گی تو تب ہوش آئے گی جب آپ کی اولادیں آپ کے سامنے ضائع ہو جائیں گی.گھروں سے برکت اٹھ جائے گی اور عملاً آپ سرکتے سرکتے نظام جماعت سے بالکل اکھاڑ کے باہر پھینک دیئے جائیں گے.لوگ سمجھتے نہیں ہیں وہ وقتی فائدے کو دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ لاحول ولا قوة قوت بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے اور خوف بھی خدا ہی کا رکھنا ہے اور ہر وہ خوف جائز ہے جس کے نتیجے میں خدا ہاتھ سے جاتا ہو.اسی خوف کو قبول کر لو یعنی ان معنوں میں کہ اس کا نقصان قبول کر لو اور ہر قوت وہی قوت ہے جو اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے ، ہر رزق وہی رزق ہے جو اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے.تو ایسے ایسے موقعوں پر آکر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑی ہم نے چالا کی کی ہے، ایسا جھوٹ بولا ہے کہ دیکھو اب کتنے ٹھیک ٹھاک ہیں ہم ، کتنے اچھے حال میں ہو گئے ہیں اور وقتی طور پر

Page 486

خطبات طاہر جلد 16 480 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء ہو بھی جاتا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ ایسا جھوٹ جو لمبا فائدہ پہنچانے والا ہے وہی لمبا نقصان بھی پہنچایا کرتا ہے کیونکہ تا شیریں خدا تعالیٰ نے اسی طرح رکھی ہیں.پس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں کی پرواہ نہیں کرتا لیکن وہ قسمیں جن میں تمہارا ارادہ داخل ہو جن میں وضاحت کے ساتھ تم جانتے ہو کہ یہ جھوٹ ہے اور پھر جھوٹ بول رہے ہو ان پر اللہ تعالیٰ تمہاری پکڑ کرے گا.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا کے زہر تو اپنے مزاج کو سچا ثابت کر دکھائیں ، ان میں تو پکڑ کا مادہ ہو مگر وہ زہر جن کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ ان پر ضرور تمہاری پکڑ ہوگی وہ اپنی پکڑ نہ دکھا ئیں، یہ ممکن ہی نہیں ہے.بعض زہر گھل جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ نقصان پہنچاتے ہیں.بعض زہر پھر آگے نسلوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں کا کیا قصور تھا لیکن قانون قدرت ہے کہ بعض زہروں میں یہ تاثیر ہے وہ لمبا چلنے والے ہیں، وہ نسلوں میں بھی داخل ہو جاتے ہیں.پس گناہ میں بھی لمبا چلنا اور نسلوں میں داخل ہونا اس کے مزاج میں شامل ہے اور جھوٹ سب سے بڑا گناہ ہے.اگر آپ نے جھوٹ سے توبہ نہ کی تو پھر آپ کی سوسائٹی میں پاک تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی.پس سب سے پہلے تو لوگوں کے جھوٹ آپ کو بتا تا ہوں وہ کیوں جھوٹ بولتے ہیں.اس لئے کہ وہ جھوٹ سے یہ فائدہ وابستہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے سمجھے جائیں گے اور کوئی مقصد نہیں ہوتا.اگر کسی نے ایک بھی بیعت نہیں کروائی تو نہ کروائی ہو ہم اس کو برا تو نہیں سمجھتے ، اس کو کمز ور سمجھتے ہیں، اس پر رحم کرتے ہیں اس کو توجہ دلاتے ہیں مگر وہ شخص جس نے ہمیں بیعتیں کروا کے خوشنودی حاصل کی ہو دو طرح سے شرک کرتا ہے.ایک یہ کہ جھوٹ بولا اور جھوٹ اپنی ذات میں شرک ہے اور دوسرا یہ کہ بندے کو خوش کرنے کی خاطر خدا کو ناراض کر لیا ہے.ایسے لوگوں کے جو بڑے ہیں یعنی بڑے سے مراد نظام جماعت میں بڑے ہیں امیر ہو یا جو بھی ہو اس کو خوش کرنے کی خاطر آپ کہتے ہیں دیکھوجی ہم نے یہ کام کیا ہے یا مجھے خط لکھ دیتے ہیں اور ساتھ دعا بھی لکھتے ہیں کہ دعا بھی کریں ہمارے لئے ہم نے بڑا اچھا کام کیا ہے اور انہی میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے وہ کام نہیں کیا ہوتا یعنی حقیقت میں نہیں کیا ہوتا تو نہ میری دعا ان کے کام آسکتی ہے نہ ان کی اپنی دعا ان کے کام آسکتی ہے کیونکہ وہ بندے کو خوش کر رہے ہیں اصل میں.پس جھوٹ میں یہ بات داخل ہے کہ جھوٹ کے نتیجے میں انسان

Page 487

خطبات طاہر جلد 16 481 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء اپنا دنیا کا فائدہ اس طرح چاہتا ہے کہ اللہ کی نظر سے گویا بچ گیا ہے تو خدا اسے پکڑے گا نہیں.اپنے دلوں سے ، اپنے ضمیر سے ، اپنی عادات سے جھوٹ کو اس طرح صاف کر دیں جس میں کچھ بھی اس کا آپ کی ذات میں کچھ بھی باقی نہ رہے.یہ جدو جہد بڑی لمبی ہے روز مرہ آپ کے گھروں میں جھوٹ بولے جارہے ہیں.آپ بول رہے ہیں، اپنی بیویوں سے بول رہے ہیں، بچے اپنے ماں باپ سے بول رہے ہیں اور ان چیزوں کو پکڑا نہیں جارہا.پس میں آپ سے متوجہ ہو کر یہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ نے اگر کینیڈا کی جماعت میں نئی زندگی پیدا کرنی ہے تو ان شیطانی زہروں سے بچیں جو زندگی کے دشمن ہیں.ان کے ساتھ زندگی پیدا نہیں ہو سکتی.اپنے آپ کو پاک صاف کر لیں.اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ رکھیں.اللہ کے سواکسی سے اپنی کوئی حرص نہ باندھیں.جو کچھ مانگنا ہے خدا سے مانگیں اور اس مانگنے کے لئے وہ صبر دکھائیں جس کے نتیجے میں آخر دعائیں قبول ہوا کرتی ہیں.دنیا کی محنتیں لازم ہیں وہ آپ کو کرنی ہوں گی مگر جلدی دولت حاصل کرنے کے لئے اگر آپ خدا کو ناراض کرتے ہیں ،سودا اٹھا لیتے ہیں سروں پر بڑے بڑے قرضوں کا بوجھ ڈال لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ نے اس طرح ایک بڑا کارخانہ قائم کر لیا، بڑی بزنس کر لی تو یہ سب جھوٹ ہی کے قصے ہیں.اللہ نے ان باتوں میں سود کی کمائی سے اپنے آپ کو طاقت دینے سے منع فرمایا ہے اور سود کی کمائی میں بھی پھر فرق ہیں.بعض جگہ سود نام ہے لیکن حقیقت میں وہ سود نہیں ہوتا.بعض دفعہ فنانشل نظام کے تابع آپ کو کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن میں نے اس میں ایک ایسی پہچان آپ کے سامنے کھولی ہے پہلے بھی ، اب میں پھر کھولتا ہوں جس کے نتیجہ میں آپ بالکل واضح سمجھ لیں گے کہ آپ نے کیا حرکت کی.اب آج کل جو سودی نظام ہے وہ اس طرح دنیا پر چھایا ہوا ہے کہ کوئی تاجر اس سے بچ کر نکل ہی نہیں سکتا لیکن جب وہ ضمانت لکھواتا ہے کوئی یعنی اس بینک کے پاس جس سے اس نے قرضہ لیا ہے اگر وہ اس میں سچ بولتا ہے اور جتنا ہے اتنا ہی دکھاتا ہے تو پھر یہ سود تو ہے مگر اس قسم کا مکروہ سود نہیں جو انسانی نفس کو ہلاک کر دیتا ہے.بعض لوگ کاغذات کی تیاری کرتے ہیں لوگوں کے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں، ان سے ٹیفکیٹ لیتے ہیں اور ان کا سب کچھ گھر کا بیچ بھی دیا جائے تو اگر ان کو دس ہزار ڈالر سے زیادہ نہیں مل

Page 488

خطبات طاہر جلد 16 482 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء سکتا تو کاغذات میں وہ اتنی قیمت مقرر کر لیتے ہیں اور بینک کے مینیجر سے اتنی دوستیاں بنا لیتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں جی ان کی ایک لاکھ کی جائیداد بینک کے نام ہوگئی اور جو کچھ بھی ان کا حق تھا اس سے نوے فیصد زیادہ وصول کر لیا اور جب یہ لوگ پھر گرتے ہیں جب ان سے ناکامیاں ہوتی ہیں تو تجارت میں تو اونچ نیچ دونوں چلتے ہیں ضرور.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک تاجر سو فیصدی اپنے نفع پر یقین رکھتا ہو.پس جب وہ گرتے ہیں تو بیوی بچے سارے برباد، کچھ بھی باقی نہیں رہتا.قرضے مانگتے ہیں لوگوں سے کہ ہم بہت مضبوط ہیں ، ہم آپکے قرضے واپس کر دیں گے اور ان قرضوں میں آپ کا حصہ بھی ڈالیں گے یعنی اس فائدے میں آپ کا حصہ ڈالیں گے جو ان قرضوں سے ہمیں نصیب ہوگا.سب جھوٹ بولے رہے ہوتے ہیں یا کم سے کم اکثر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں گھر گھر میں فساد اور جماعت میں اختلافات.یا درکھو شیطان آپ کا دشمن ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں کھول کر بیان فرمایا ہے کہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ شیطان بات کرے اور تمہارے حق میں بات کرے اس کے باوجود تم اس کی بات سنتے ہو.دشمن کی باتیں مانتے کیوں ہو یا تو دل میں یقین ہی نہیں ہے کہ اللہ سچ بولتا ہے.اللہ کہتا ہے شیطان تمہارا دشمن ہے، آپ دل میں کہتے ہیں نہیں ہر دفعہ نہیں بعض دفعہ بڑا دوست بھی ہوتا ہے، فلاں جگہ ہمیں شیطان سے فائدہ پہنچا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ شیطان کی دوستی بالآخر ضر ور نقصان پہنچاتی ہے اور یہ تو ایسا مضمون ہے جس پر مسلمانوں کے علاوہ بھی دنیا میں لکھنے والوں نے لکھا ہے اور وہ شیطان کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ شروع میں وہ سبز باغ دکھاتا اور انسان سے بڑے بڑے وعدے کرتا ہے مگر ایک وعدہ لے لیتا ہے اس سے کہ اپنی روح میرے پاس فروخت کر دو.پھر جب اس کو دنیا نصیب ہوتی ہے تو اس روح کو فروخت کرنے کے نتیجے میں پھر جو اس کو دنیا میں جہنم ملتی ہے اس کے نقشے کھینچنے والوں نے کھنچے ہیں بڑے بڑے دنیا میں اچھے لکھنے والے ہیں جنہوں نے اس مضمون کو اپنے اپنے رنگ میں بیان کیا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں اس بات کو ہمیشہ کے لئے خوب کھول دیا کہ یا درکھو شیطان تمہارا دشمن ہے اور اللہ ولی ہے.اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا (البقرة: 258) وہ جو ایمان لاتے ہیں ان کا دوست ہو جاتا ہے.یہ چھوٹی سی حقیقت

Page 489

خطبات طاہر جلد 16 483 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء ہے جس کو آپ نظر انداز کر دیتے ہیں اور پھر نقصان اٹھاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اب مغربی دنیا میں کثرت سے پھیلنے کے لئے جہاں اور باتوں کی ضرورت ہے وہاں سچائی پر قائم ہونے کی ضرورت ہے.کئی لوگ شکایتیں کرتے ہیں کہ ہم تو بہت کوشش کر چکے مگر پھل نہیں لگتا اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیسا فرمایا سچوں کے منہ اور ہوتے ہیں اور جھوٹوں کے منہ اور ہوتے ہیں.وہ تبلیغ میں بچے بھی ہوں اور اپنی زندگی میں جھوٹے ہوں تو ان کو پھل نہیں لگیں گے.اس لئے دل کی سچائی ضروری ہے.ہر وہ چیز جو خدا کی راہ میں آپ نے حاصل کرنی ہے وہ دل کی سچائی کے بغیر آپ کو نصیب نہیں ہوسکتی.پس بجائے اس کے کہ میں زیادہ تفاصیل میں جا کے آپ کو بتاؤں کہ یہ کرو اور وہ کرو اور میں بتا بھی چکا ہوں مختلف مواقع پر اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں مگر آج کے خطاب کے ذریعہ میں آپ کو اور آپ کے حوالے سے ساری دنیا کو جھوٹ کے خلاف جہاد کے لئے آواز دیتا ہوں لیکن یہ آواز ہر سننے والے کے دل پر اثر کرے تو اس کا فائدہ ہے.اگر آپ کے دل میں حرکت نہیں پیدا کرتی تو پھر اس آواز کا کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں.اپنے نفس پر غور کیا کرو اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک غور کا عذر ہمارے پاس روزانہ آتا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں اعوذ بالله من الشيطن الرجيم - اے اللہ ! ہم تجھ سے پناہ مانگ رہے ہیں روندے ہوئے ، دھتکارے ہوئے شیطان کی شرارتوں سے اور روزانہ دھتکارے ہوئے ، روندے ہوئے شیطان کی آوازیں آپ سنتے ہیں ان پر لبیک کہہ رہے ہوتے ہیں تو اس اعوذ باللہ کا کیا فائدہ اور اگر اس قسم کی اعوذ باللہ پڑھ کر آپ قرآن کریم پڑھیں گے تو قرآن بھی آپ کو فائدہ نہیں دے گا اور اگر اس اعوذباللہ میں کوئی شرارت داخل ہوگی عمداً آپ خدا کی باتوں کو جھٹلانے والے اور شیطان کی پناہ مانگنے والے ہوں تو پھر قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ یہی وہ قرآن ہے جو نیکوں کو تو نیکی میں ترقی دیتا ہے اور بدوں کو ان کی بدی میں بڑھاتا ہے اور ان کے دل کے زنگ کھل کر باہر آ جاتے ہیں ان کی بیماریاں پہلے سے بڑھ جایا کرتی ہیں.تو اعوذ باللہ ہی وہ کنجی ہے جس کے ذریعے قرآن میں داخل ہوا جا سکتا ہے.اپنے نفس کے شیطان سے پناہ مانگیں، دوسرے شیطانوں سے پناہ مانگیں اور پھر قرآن کریم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ جیسا کہ وعدہ فرماتا ہے آپ کو ضرور شفا بخشے گا.

Page 490

خطبات طاہر جلد 16.484 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء پس اپنے گردو پیش نظر ڈالتے ہوئے اپنے اندر صداقت کی طاقت پیدا کریں اور صداقت ایک بہت ہی عظیم الشان چیز ہے اس کے ذریعہ کمزوروں میں طاقت آ جاتی ہے.وہ لوگ جن کی باتیں عام اثر نہیں دکھاتیں جب وہ بچے ہو جائیں تو علم سے بہت بڑھ کر ان کی سادہ باتیں دنیا پراثر انداز ہوں گی.پس آپ سچے ہو کر ایک ایسی سوسائٹی اس ملک میں بن جائیں جو ہر لحاظ سے دنیا سے جا ممتاز ہو.آپ کے اندر صداقت کی روشنی ہو اور صداقت اپنی ذات میں قناعت بھی عطا کرتی ہے.یہ بات ہے جو لوگ بھول جاتے ہیں کہ حقیقت میں انسانی ضرورتیں پورا ہونے کا جو تصور ہے وہ ایک نسبتی چیز ہے.آپ کو جھوٹ بول کر ، شیطان کی عبادت کر کے دنیا مل بھی جائے تو دل کی آگ تو نہیں مجھے گی، اس سے وہ اور زیادہ بھڑ کے گی.آپ کی خواہشات کو دل کی آگ اور بھی زیادہ بھڑ کائے گی یا خواہشیں دل کی آگ بھڑکائیں گی اور ایسے لوگ بدکتے چلے جاتے ہیں، دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اور بے چین رہتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تو پھر ان کو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ضائع کر دی.سچائی ایک طمانیت بخش چیز ہے.سچائی سلامتی ہے.وہ جو سچے ہیں وہ غریب ہو کے بھی خوش رہتے ہیں.ان کی سادگی میں بھی بڑی نعمتیں ہیں اور یہ تجربے کی بات ہے تجربہ کر کے دیکھیں تو آپ کو سمجھ آئے گی.جو کچھ ہے وہ ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے خوشی سے قبول کر لیں جو مزید لینا ہے اس کی خاطر محنت کریں، حکمت سے کام لیں ضرور توجہ دیں مگر بھروسہ خدا پر رکھیں اور پھر اگر وہ دعا قبول نہیں کرتا تو ہر گز دل میں کسی قسم کی سرکشی کو داخل نہ ہونے دیں کیونکہ اکثر لوگ اکثر لوگ نہیں تو کم سے کم کچھ ایسے ضرور ہیں جو سوال کرتے ہیں جی آپ کہتے ہیں دعائیں قبول ہوتی ہیں ہم نے تو دعا کی کوئی نہیں قبول ہوئی.ہم نے تو دعا کی کہ ہمیں وہ رو پیٹل جائے ، وہ روپیل جائے، وہ جائیداد مل جائے ، وہ مکان مل جائے ، وہ کا مل جائے، کچھ بھی نہیں ہوا.تو جن کی دعائیں اپنی غرض سے وابستہ ہیں جو اپنی انانیت کے لئے دعا کرتے ہیں اور اللہ کی محبت سے خالی دعائیں کرتے ہیں ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا کیونکہ وہ دھوکے میں ہیں کہ خدا کو دھو کہ دیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرة: 10 ).ایسے بڑے بے وقوف ہیں دنیا میں وہ سمجھتے ہیں

Page 491

خطبات طاہر جلد 16 485 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء وہ اللہ کو دھوکہ دے سکتے ہیں وہ دھوکہ دے رہے ہیں اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ خدا ان کو دھوکہ دیتا ہے یعنی خدا کا دھو کہ یہ ہے کہ ان کا دھو کہ محض فرضی ہے وہ اللہ کو دھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے وہ ان کو الٹ پڑتا ہے کیونکہ دنیا واقعی یہ بجھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہم خدا کے نظام کو کلیۂ نظر انداز کر کے وہ حاصل کر سکتے ہیں جو خدا کی تعلیم بتاتی ہے کہ نہیں کرنا اور یہ خدا کو دھوکہ دینا ہے.خدا کا ایک رزق کا نظام ہے.وہ کہتے ہیں دیکھو ہم نے نہیں مانا اور ہم دوسرے رستے سے وہ حاصل کر چکے ہیں جو تو ہمیں منع کرتا ہے کہ حاصل نہیں کرنا اور نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کی زندگی اگر اس دنیا میں برباد نہیں کرتا تو آخرت میں وہ اس سے بہت بڑی سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ایک دھوکہ ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ دیکھو مجھے کچھ بھی نہیں ہوا، کچھ بھی نہیں ہوا ، ہوسکتا ہے یعنی اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک انسان شیطان سے مانگے اس کے دیئے پر پلے اور اپنی دنیا بنالے اور پھر ہنس ہنس کے مومنوں کو دیکھے میں تو کامیاب ہوں، مجھے تو کچھ بھی فرق نہیں ہوا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جن کو دنیا میں خدا دے دیتا ہے وہ یا درکھو کہ آخرت میں اسے کچھ بھی نہیں ملے گا اور ان کی سزا آخرت کے لئے مقرر ہوتی ہے اور یہ بات قرآن کریم نے کھول دی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی ایسے شخص کو یعنی جس کو میں جانتا ہوں دنیا میں سزا ملتی ہے تو مجھے تکلیف تو ہوتی ہے مگر ایک خوشی بھی ہو رہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا غیر نہیں سمجھا کہ دنیا میں کھلا چھوڑ دے.مرنے سے پہلے پہلے اس کو کچھ سزا دے دیتا ہے جس سے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ اس نے آخرت میں اس سے مغفرت کا سلوک فرمانے کا فیصلہ فرمالیا ہے اور وہ لوگ جن کو کوئی سزا نہیں ملتی ان کے متعلق میں ڈرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ بدکتے بدکتے بہت دور چلے جائیں گے اور بعید نہیں کہ پھر آخرت میں وہ نا مقبول ٹھہریں.پس اپنے اندر سچائی کی باریک راہیں تلاش کریں اور یہ سچائی کی باریک راہیں آپ کے اندر موجود ہیں آپ کی نیتوں نے ان راہوں کو تراشنا ہے.جتنے باریک نظر سے آپ نفس پر غور کریں گے آپ کو سچائی کی باریک راہیں نظر آئیں گی مگر دونوں طرف جھوٹ سے بیچ کر چلنے والی ہوں گی اور اگر آپ ان باریک راہوں کی تلاش نہیں کریں گے تو ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے.آپ نے لازماً جھوٹ میں ٹھو کر کھانی ہے.

Page 492

خطبات طاہر جلد 16 486 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء الله پس جماعت احمدیہ کینیڈا کو میں خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ آپ تبلیغ کے کاموں میں بہت پیچھے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو یہاں تبلیغ کر بھی رہے ہیں تو فرضی باتیں کر رہے ہیں نہ خدا کو فرضی باتوں کی ضرورت ہے نہ جماعت کو فرضی باتوں کی ضرورت ہے.ہرگھر میں مبلغ پیدا ہونے چاہئیں.ہر مرد، ہر عورت، ہر بڑے، ہر چھوٹے ، ہر بچے، ہر بچی کو یہ فکر کرنی چاہئے کہ اس نے کسی کو خدا کی طرف بلا کر یہ سعادت حاصل کرلی ہے کہ وہ خدا کا ہو گیا.یہ ایک ایسا چسکا ہے کہ اگر آپ کو اسی وقت پڑ جائے تو یہ چسکا ایسا ہے جو پھر آپ کو چھوڑے گا نہیں.کوئی نشہ تبلیغ جیسا نشہ نہیں ہے.کوئی عادت تبلیغ جیسی عادت نہیں ہے.یہ اپنی ذات میں آپ کے دلوں کو پکڑ لیتا ہے جو مزہ آپ کو خدا کی خاطر خدا کے بندوں کو واپس لانے میں ملتا ہے وہ ایک عجیب مزہ ہے اور آنحضرت ﷺ نے خدا کے حوالے سے بیان فرمایا لیکن یہ بندے نہیں سمجھتے کہ آنحضرت ﷺ کا پیغام کیا ہے.وہ پیغام اللہ کے حوالے سے مومنوں کو ہے اگر خدا جو دنیا کی لذتیں محسوس نہیں کرتا اپنے متعلق فرماتا ہے کہ مجھے لذت الله آئی تو تم جن کی خاطر خدا کو لذت آئی تم کیوں وہ لذتیں محسوس نہیں کرتے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ایسا بندہ خدا کا جو گنہگار ہو، خدا سے دور جا چکا ہو وہ توبہ کرلے اور واپس آجائے اور دعوت الی اللہ اسی کا نام ہے کہ آپ ایسے لوگوں کی تو بہ میں مددگار بنتے ہیں، انہیں واپس لانے کے لئے آوازیں دیتے ہیں اور پھر جب وہ واپس آتے ہیں تو خدا کے قدموں میں ان کو پیش کر دیتے ہیں.یہ جو مضمون ہے اسی کے اوپر روشنی ڈالتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بعض ایسے بندے ہیں جو گناہوں میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ واپس آجائیں واقعہ خدا کے حضور آ جائیں تو اللہ تعالیٰ کو اتنی خوشی ہوتی ہے، اتنی خوشی ہوتی ہے کہ وہ شخص جو پیتے ہوئے صحرا میں ایک درخت کے نیچے لیٹا ہو اور اس کا سب کچھ پانی، کھانا، ہر چیز اونٹنی پر لدا ہواوہ آنکھ کھولے تو اونٹنی غائب ہو چکی ہو اور اس کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، اس کے بغیر وہ چند دن زندہ نہیں رہ سکتا وہ انتظار میں ہو یہاں تک کہ سورج ڈھلنے سے پہلے وہ اس اونٹنی کو واپس اپنی طرف آتا دیکھے فرمایا جتنی اس شخص کو خوشی ہوتی ہے اس سے زیادہ خدا کو خوشی ہوتی ہے لیکن امر واقعہ یہ خوشی ایسی ہے جو ہمیں حاصل کرنی ہے کیونکہ ہم محتاج ہیں اور ہم بندے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں پر نظر رکھ کر خوشی محسوس فرماتا ہے یعنی خوشی کے معنی اور ہیں جو خدا کے حوالے سے ہوں جو رسول اللہ ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ اسے کھوئے ہوئے بندو! تم صلى الله

Page 493

خطبات طاہر جلد 16 487 خطبہ جمعہ 27 جون 1997 ء سورج ڈوبنے سے پہلے واپس آجاؤ کیونکہ سورج ڈوبنے سے مراد زندگی کے سورج کا ڈوبنا ہے اس کے بعد پھر واپسی کا کوئی وقت نہیں رہتا.تو سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے حقیقی مالک کی طرف واپس آجاؤ.وہ سامان جو اونٹ نے لا دا ہوا ہے وہ انسان نے بھی لا دا ہوا ہے اور خدا کو خوشی تب ہوتی ہے جب یہ سامان خدا تک واپس پہنچ جائے، جبکہ اس بندے کا اپنا اختیار تھا کہ اسے واپس کر دے پس مرنے سے پہلے جو خدا کا ہے وہ اسے دے دو اور اس میں اللہ تعالیٰ کو یہ خوشی محسوس ہوگی وہ ہمیشہ کے لئے یعنی دائمی طور پر تمہاری خوشیاں بن جائیں گی.پس اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق ملے ، ہم لوگوں کو اس طرح کامیابی کے ساتھ خدا کی طرف بلائیں کہ وہ محسوس کرنے لگیں کہ خدا ہم سے راضی ہو رہا ہے کیونکہ یہ خوشی جو اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے یہ کوئی آسمانی خوشی ایسی نہیں جس کو آپ محسوس نہ کر سکیں، اس بات کو بھی دل سے نکال دیں.جب دور سے آتے ہوئے اونٹ کو وہ شخص دیکھتا ہے جس کی مثال دی جارہی ہے اونٹ اس کو دیکھ رہا ہے، وہ اس کو دیکھ رہا ہے اسی طرح جب خدا کے قریب کوئی بھٹکی ہوئی روح واپس آتی ہے تو ہو نہیں سکتا کہ اس کی نظر خدا کی نظروں پر نہ ہو.ہر قدم جو وہ اٹھاتا ہے اس میں ایک لذت محسوس کرتا ہے.اس کا ہر قرب جو خدا کی طرف ہے اس کے لئے بے انتہا خوشیوں کے سامان پیدا کرتا ہے.پس وہی خوشیاں ہیں جو ریفلیکٹ (Reflect) ہو رہی ہیں خدا میں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں کوئی خوشیاں محسوس نہیں کیا کرتا.پس اللہ کرے ہمیں یہ توفیق ملے ، ہم اپنی زندگیوں کی کایا پلٹ دیں، ایک ایسی جماعت بن کر ابھریں جس کے نتیجے میں ہمارے سفر تیزی کے ساتھ ہوں ، ہم گھنٹوں کے سفرلمحوں میں کریں، ہم ہفتوں کے سفر گھنٹوں میں کریں، ہم مہینوں کے سفر دنوں سے کم عرصے میں اور صدیوں کے سفر سالوں میں کرنے والے ہوں.تین سال ہی تو ہیں باقی اس صدی کے گزرنے میں اور دیکھو آپ نے کتنی لمبی مسافت طے کرنی ہے.بہت دیر سوئے رہے ہیں اب اٹھے ہیں تو سورج ڈوبنے والا ہے اور سفر باقی ہے.پس زندگی کا سورج ڈوبنے سے پہلے یہ سفر اختیار کریں اور اگر سورج ڈوبنے کے خیال سے اس خطرے سے کہ ہم کہیں منزل نہ کھو بیٹھیں آپ نے سفر کیا اور محنت کی اور کوشش کی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس قدم پر بھی آپ مردہ ہو کر گریں گے ، جس قدم پر بھی آپ جان دیں گے اسی قدم کو

Page 494

خطبات طاہر جلد 16 488 خطبہ جمعہ 27 / جون 1997 ء اللہ منزل قرار دے دے گا اور یہ اللہ کی رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت ہے کہ اس کی منزل کچھ اور معنی رکھتی ہے اس کی طرف حرکت کا نام ہی منزل ہے، اس کی طرف جدو جہد کا نام ہی منزل ہے جس آن، جس لمحے آپ کو موت آئی وہی لمحہ اگر آپ خدا کی طرف حرکت کر رہے ہیں آپ کی کامیابی کالمحہ ہوگا.آپ قسم کھا کے کہہ سکتے ہیں کہ فزت برب الکعبۃ وہ صحابی جس کے سینے کو چھیدا جارہا تھا نیزے سے وہ یہ اعلان کر رہے تھے فزت برب الکعبة پس موت کے لمحوں میں بھی کامیابی نصیب ہو جایا کرتی ہے اپنی موت کو خدا کے لئے کر لوتو ہمیشہ یہ کا میابیاں آپ کے قدم چومیں گی.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 495

خطبات طاہر جلد 16 489 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور سکھانا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے ( خطبہ جمعہ فرمودہ 4 / جولائی 1997ء بمقام بیت الاسلام ،ٹورنٹو.کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: المرة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّارَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ) پھر فرمایا: ( البقرة : 2 تا 4 ) الحمد للہ ، آج اس خطبہ کے ساتھ میرا مختصر دورہ کینیڈا اختتام پذیر ہوگا.اس عرصے میں مجھے یہاں بھی بہت سے خاندانوں سے ملنے کا موقع ملا اور بالعموم کثرت سے جماعت کو دیکھنے کا موقع ملا اور گزشتہ روز جب میں آٹو وا اور مانٹریال کے سفر پر تھا تو وہاں بھی کثرت سے جماعتوں سے ملاقات ہوئی اور ان کے حالات کو قریب سے دیکھا.اس خطبہ میں خصوصیت کے ساتھ میں نے عبادت کا مضمون چنا ہے اور اسی لئے میں نے وہ آیات تلاوت کی ہیں جو قرآن کریم کی سورۃ بقرہ کی پہلی آیات ہیں.سب سے پہلے اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا تعارف ان الفاظ میں فرماتا ہے.ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہ کتاب ہے بلکہ ذلِكَ الْكِتب فرمایا، وہ کتاب ہے.حالانکہ بظاہر قرآن کریم ہر پڑھنے والے کے سامنے ہوتا ہے اور عام انسان کا کلام ہوتا تو کہتا یہ کتاب

Page 496

خطبات طاہر جلد 16 490 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997 ء ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس ”وہ میں بہت سے معانی مضمر ہیں.ایک تو یہ کہ انسان کو یہ وہم ہے کہ وہ قرآن کریم کو از خود پاسکتا ہے.سامنے پڑی ہوئی کھلی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے وہ کتاب ہے یعنی تم سے دور ہے اور تمہارے قریب آ سکتی ہے مگر کچھ شرطیں ہیں جو پوری کرنی ہوں گی اور پھر ذلک میں اشارہ گزشتہ پیش گوئیوں کی طرف بھی ہے کیونکہ تمام انبیاء نے مختلف رنگ میں آنے والے رسول حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ اور آپ پر نازل ہونے والی عظیم کتاب کی خوشخبری دی تھی الکتب سے مراد وہ کتاب ہے جو ہمیشہ سے جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور ہمیشہ سے قومیں اس کا انتظار کر رہی تھیں اور آج وہ ہمارے سامنے ہے.ذلِك الکتب میں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تم سے دور تو ہے لیکن قریب آسکتی ہے.لَا رَيْبَ فِيهِ اس بات میں کوئی شک نہیں.لاریب کے ساتھ جب ذلِک کو پڑھیں تو یہ معنی ہوگا کہ وہ کتاب تو ہے مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ هُدًى لِلْمُتَّقِینَ یہ ہدایت ہے متقیوں کے لئے اور لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کا ایک معنی یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر ان متقیوں کے لئے جن کے لئے ہدایت بنتی ہے.بغیر تقویٰ کے اس کتاب کو پڑھو گے تو کئی قسم کے شکوک پیدا ہوتے رہیں گے.مگر یہ عجیب کتاب ہے جو شک سے پاک ہونے کے باوجود غیر متقیوں کے دلوں میں شک پیدا کرتی ہے اور متقیوں کے دلوں کو شکوک سے پاک کر دیتی ہے.پس اس مختصر سے کلام میں جس میں ایک آیت ابھی پوری نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے کتنے مضامین بیان فرمادے.ایک امر بہر حال یقینی اور قطعی ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے ہدایت پانی ہے اسی کتاب سے پانی ہے.پس سب سے پہلے تو عبادت کے تعلق میں کلام الہی کا پڑھنا ایک بنیادی امر ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے بہت کم ایسے خاندان ہیں جن میں روزانہ تلاوت ہوتی ہو.شاذ کے طور پر ایسے بچے ملیں گے جو صبح اٹھ کر نماز سے پہلے یا نماز کے بعد کچھ تلاوت کرتے ہوں اور یہ جائزہ فیملی یعنی خاندانوں کی ملاقات کے دوران میں نے لیا اور اکثر بچوں کو اس بات سے بے خبر پایا.وہ تربیت کے مسائل جن پر میں گفتگو کرتا رہا ہوں وہ سارے بے حقیقت ہو جاتے ہیں اگر اس بنیادی حقیقت کی طرف توجہ نہ کریں کہ ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے اور قرآن کریم سے دو باتیں لازم ہیں، ہدایت ہے مگر نہیں بھی ہے.ہدایت ان لوگوں

Page 497

خطبات طاہر جلد 16 491 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء کے لئے ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے ان کے لئے ذلِكَ الْكِتُبُ دور کی کتاب رہے گی جو بظاہر ان کے سامنے ہے مگر ان سے دور ہٹی رہے گی.تو جب تک یہ کتاب قریب نہ آئے اس دنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور کینیڈا کی جماعتوں کو خصوصیت سے اس طرف توجہ دینی چاہئے.بعض باتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا میں پہلے سے بہتر ہو رہی ہیں مگر اگر بنیادی مقصد دور ہی رہے تو اس ظاہری ہنگامے کا کوئی بھی فائدہ نہیں.یہ ہنگامے رفتہ رفتہ مر جایا کرتے ہیں.رفتہ رفتہ اگلی نسلیں ایسی ہوتی ہیں جو خدا کو بھلا دیا کرتی ہیں مگر کلام الہی سے محبت ایک ایسی چیز ہے جو نسلوں کو سنبھالے رکھتی ہے.پس بچپن ہی سے اس بات پر زور دیں یعنی آپ کے بچوں کے بچپن، آپ تو بڑے ہو چکے آپ نے تو جس طرح بھی خدا نے چاہا یا آپ نے چاہا خدا کی مرضی کے مطابق یا اس کے خلاف زندگی بسر کر لی لیکن اگلی نسلیں آپ کی ذمہ داری ہیں اور آئندہ صدی ان اگلی نسلوں کی ذمہ داری ہوگی پس آج اگر آپ نے ان کو قرآن کریم پر قائم نہ کیا تو باقی ساری باتیں جو اس کے بعد بیان ہوئی ہیں ان میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے.قرآن کریم پر زور دینا اور تلاوت سے اس کا آغاز کرنا بہت ہی اہم ہے.مگر تلاوت کے ساتھ ان نسلوں میں ، ان قوموں میں جہاں عربی سے بہت ہی ناواقفیت ہے ساتھ ترجمہ پڑھنا ضروری ہے.ترجمے کے لئے مختلف نظاموں کے تابع تربیتی انتظامات جاری ہیں مگر بہت کم ہیں.جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اٹھا سکتے ہیں.اس لئے جب میں ایسی رپورٹیں دیکھتا ہوں کہ ہم نے فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی یا فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی تو میں ہمیشہ تعجب سے دیکھتا ہوں کہ اس کلاس میں سارے سال میں بھلا کتنوں نے فائدہ اٹھایا ہو گا اور جو فائدہ اٹھاتے بھی ہیں تو چند دن کے فائدے کے بعد پھر اس فائدے کو زائل کرنے میں باقی وقت صرف کر دیتے ہیں.وہی بچے ہیں جن کو آپ نے قرآن کریم سکھانے کی کوشش کی چند دن بعد ان سے پوچھ کے دیکھیں تو جو کچھ سیکھا تھا سب بھلا چکے ہوں گے.بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری جو بڑی نسل ہے اس نے قرآن کریم کی طرف پوری توجہ نہیں دی اور اکثر ہم میں بالغ مرد وہ ہیں جو دین سے محبت تو رکھتے ہیں لیکن ان کو یہ سلیقہ سکھایا نہیں گیا کہ قرآن سے محبت کے بغیر دین سے محبت رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.

Page 498

خطبات طاہر جلد 16 492 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء وقتی طور پر فوائد تو ہیں لیکن ان فوائد کا اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ ان کی دین سے محبت ، دین کے لئے وقت نکالنا ، دین کے لئے محنت کرنا ان کو گھیر کر قرآن کی طرف لے آئے.اگر یہ فائدہ نہ ہو تو وہ کوششیں بے کار ہیں کیونکہ قرآن کریم کا پہلا تعارف ذلِكَ الْكِتُبُ ہے.وہ کتاب جس کی قوم انتظار کر رہی ہے.جب سے دنیا بنی ہے اس کتاب کا انتظار تھا بنی آدم کو اور جب یہ آ گئی تو کتنے ہیں جو اس سے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں.پس حضرت اقدس محمد مصطفی امت کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ رسول یہ شکوہ کرے گا اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا.صلى الله پس آپ وہ قوم نہ بنیں جن سے قیامت کے دن رسول اللہ یہ کو شکوہ ہو کہ اے خدا! میری کہلانے والی ، مراد کہلانے کا مضمون اس میں داخل ہے میری کہلانے والی قوم نے اس قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، مہجور کی طرح چھوڑ کر چلی گئی.پس آج جماعت کینیڈا کی تربیت کی ایک ہی پہچان ہے.کیا آپ کے متعلق آنحضرت کا یہ شکوہ، جائز تو ہوگا شکوہ ، مگر آپ دل میں سوچ کے دیکھیں کہ شکوہ آپ پر اطلاق پائے گا کہ نہیں.آپ میں سے کتنے ہیں جن کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی امی یہ قیامت کے دن خدا کے حضور عرض کر سکتے ہیں کہ اے خدا یہ میری قوم ہے جس نے قرآن کو مہجور کی طرح نہیں چھوڑا.پس بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور عبادت کی جان قرآن کریم ہے.عبادت سے پہلے بھی قرآن ہے یعنی تہجد کے وقت بھی جتنی توفیق ملے.قرآن کریم فرماتا ہے قرآن کی تلاوت کیا کرو اور عبادت کے دوران بھی تلاوت ہے اور عبادت کے بعد بھی تلاوت ہے.پس تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور سکھانا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے جس کے بغیر ہماری تربیت ہو نہیں سکتی اور یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف اکثر مربیان، اکثر صدران ، اکثر امراء بالکل غافل ہیں.ان کو بڑی بڑی مسجد میں دکھائی دیتی ہیں ، ان کو بڑے بڑے اجتماعات نظر آتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ بڑے جوش سے اور ذوق وشوق سے لوگ دور دور کا سفر کر کے آئے اور چند دن ایک جلسے میں شامل ہو گئے لیکن یہ چند دن کا سفر تو وہ سفر نہیں ہے جو سفر آخرت کے لئے مد ہو سکتا ہے.سفر آخرت کے لئے روزانہ کا سفر ضروری ہے اور روزانہ کے سفر میں زادراہ قرآن کریم ہے.

Page 499

خطبات طاہر جلد 16 493 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ایک مومن کی مثال اسی طرح دی ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تین سو پچپن دن سوتا ہے اور پھر پانچ دس دن کے لئے جاگتا ہے اور سفر شروع کر دیتا ہے.فرمایا مومن کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی روزانہ سفر کر رہا ہو.کچھ صبح، کچھ شام کو، کچھ دوسرے وقت میں ، دو پہر کو کچھ آرام بھی کر لے مگر سفر روزانہ جاری رہنا چاہئے اور ہر سفر کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے زادراہ ہونا چاہئے اور زاد راہ تقوی بیان فرمایا اور یہی زاد راہ ہے جس کو قرآن کریم کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے.پس تقویٰ اور قرآن کریم تو روز کے سفر کے قصے ہیں.یہ کوئی ایک آدھ دفعہ سال میں سفر کرنے سے تعلق رکھنے والی بات نہیں روزانہ ضرورت ہے.روزانہ قرآن کو پڑھنا اور روزانہ تقوی کے سہارے جو زاد راہ ہے یعنی جس سے قوت ملتی ہے قرآن کریم سے کچھ نہ فائدہ حاصل کرتے چلے جاتا ہے.یہ وہ بنیادی امر ہے جس کے لئے صرف تنظیموں کے اجتماعات کی ضرورت نہیں ،تنظیموں کے اجتماعات ان باتوں میں نئی دلچسپیاں پیدا کر دیا کرتے ہیں مگر سارا سال دلچپسی قائم رکھنے کے لئے ماں باپ کی دلچسپی کی ضرورت ہے اور ماں باپ تب دلچسپی لے سکتے ہیں کہ پہلے اپنی ذات میں دلچسپی لیں.دنیا کے کسی حصے میں پہنچے ہوں ایک دفعہ انہیں عزم کرنا ہوگا کہ ہم نے خدا کی طرف سفر کا آغاز کرنا ہے اور یہ سفر قرآن کے بغیر ممکن نہیں اور قرآن کا سفر زادراہ چاہتا ہے.یعنی رستے کا سامان جو ہر مسافر ساتھ باندھ لیا کرتا ہے.جب بھی لوگ سفر پہ چلتے ہیں تو سوائے اس کے کہ رستے کے کچھ کھانے پینے کے ہوٹل ایسے ہوں جہاں سے چیزیں خریدنی ہوں مگر عموماً اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ باندھ لیا کرتے ہیں اور تقویٰ ہے جس کو ساتھ لے کر چلنا ہے.پس فرمایا ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ شک سے بالا کتاب ہے مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہدایت صرف متقیوں کے لئے ہے، جو تقویٰ سے آراستہ ہوں گے ان کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کرے گی.پس قرآن کا تقویٰ سے مطالعہ یہ دو چیزیں اکٹھی کر دی گئی ہیں بعض اوقات لوگ سال ہا سال تلاوت قرآن کرتے ہیں مگر اس طرح جیسے طوطارٹی ہوئی باتیں دہراتا ہے.اس سے زیادہ ان کو کوئی سمجھ نہیں آتی اور یہ تقویٰ سے عاری سفر ہے.سفر تو ہے مگر بھوکے ننگے کا سفر ہے.حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ قرآن

Page 500

خطبات طاہر جلد 16 494 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء کے تعلق میں یہ بات یاد دلاتا ہے کہ قرآن کریم میں کچھ چیزوں سے بچنے کا حکم ہے، کچھ رستوں کو اختیار کرنے کا حکم ہے اور بنیادی معنوں میں تقویٰ کا یہی معنی ہے کہ پتا ہو کہ کہاں سے بچنا ہے اور کس رستے پر قدم بڑھانے ہیں.تقویٰ کے نتیجے میں انسان قرآن کریم پر جب غور کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی عطا ہوتی ہیں چنانچہ اسی مضمون کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا لَّا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: 80) کہ ہاتھ تو بظاہر لوگ لگاتے ہیں لیکن سوائے ان کے جن کو خدا پاک کرے کوئی اس کتاب کو ہاتھ نہیں لگا سکتا.تو دیکھو دونوں مضمون ایک ہی ہیں اور مختلف رنگ میں ایک ہی بات آپ کو سمجھائی گئی ہے کہ قرآن کریم کے ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئے کوئی بھی ایسا نہ ہو جس کے پاس سوائے اس کے کہ شرعی عذر ہو جو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت سے محروم رہے.تمام بچوں کو اس راہ پر ڈالیں.دیکھیں جب سکول کے لئے وہ چلتے ہیں تو آپ کتنی محنت ان پر کرتے ہیں.مائیں دوڑتی پھرتی ہیں ناشتہ کراؤ ، منہ ہاتھ دھلاؤ، بستے ٹھیک کرو اور قرآن کریم کی طرف محنت نہیں ہے.یہ ایک دن کا سفران کا سکول کی طرف ایسا ہے جس کے لئے آپ کی ساری توجہ مبذول ہو جاتی ہے اور ہمیشہ کا سفر جس میں آئندہ سفر کی تیاری کرنی ہے یعنی مرنے کے بعد اس کی طرف توجہ نہیں ہے.مسجدیں بنانا اچھی چیز ہے مگر مسجدوں کے لئے نمازی بنانا ضروری ہے.اگر مسجدیں بنائیں گے اور نمازی نہیں بنائیں گے تو اس کا کیا فائدہ.میرے علم میں یہاں ایسی مساجد ہیں جہاں دو نمازیں ہوتی ہیں.پانچ ہونی چاہئیں دو کیوں ہوتی ہیں.ان مسجدوں کا اس کے سوا پھر کیا فائدہ کہ دنیا کو دکھانے کے لئے کہ ہم نے ، جماعت احمدیہ نے ایک بڑی مسجد بنالی ہے دکھانے کے لئے ایک عمارت کا حسن ہے اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں.اس لئے میں نے امیر صاحب کو رستے میں بھی بار بار تاکید کی ، پھر تاکید کرتا ہوں اور آپ سب کو تاکید کر رہا ہوں کہ مسجدوں کی بڑائی کی طرف ، ان کی ظاہری عظمتوں کی طرف ، ان کے ظاہری حسن کی طرف اگر تو جہ اس لئے دی جائے کہ نمازی تو آتے ہیں مزید یہ بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، پھر کوئی نقصان نہیں لیکن اگر مسجدوں میں نمازی نہ ہوں تو ہزار ان کو آراستہ کر دیں ان مساجد کا کوئی

Page 501

خطبات طاہر جلد 16 495 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء فائدہ نہیں اور پھر ایسی مسجدیں بڑے اجتماعات کے کام تو آسکتی ہیں جیسے یہ مسجد آتی ہے مگر روز مرہ ہمارے مختلف جگہ پھیلے ہوئے نمازیوں کے کسی کام نہیں آسکتیں.اس وجہ سے میں نے ہدایت کی ہے کہ آپ سب کو آج تاکید کر رہا ہوں کہ اگر اس ہدایت پر عمل نہ ہو تو آپ عمل کروائیں ،نگران ہوں اس بات کے کہ اس ہدایت پر لازما عمل ہوتا ہے.جہاں جہاں چند احمدی ہیں یعنی دو چار ، دس گھر احمدیوں کے ہیں ان کے پاس کوئی چھوٹی سی جگہ بھی اگر خرید لی جائے اور وہاں ایک جھونپڑا بھی بن جائے تو یہ وہ مسجد ہے جسے خدا پیار سے دیکھے گا کیونکہ یہ مسجد روزانہ آباد ہوگی ، روزانہ اردگرد کے گھر وہاں جایا کریں گے اور چار مسجدیں جو بہت عظیم الشان ہوں سارے ملک میں شور پڑ جائے کہ جماعت احمدیہ نے اتنی بڑی مساجد بنائی ہیں مگر گنتی کے دو چار نمازی جاتے ہوں ان مسجدوں کو خدا کیسے پیار سے دیکھ سکتا ہے کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا اور ایسے لوگوں کی تربیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے جن کا دل مسجدوں میں نہیں اٹکتا.پس لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہواذانوں کی آوازوں کی حد تک جتنے احمدی موجود ہیں کہیں وہاں ایک مسجد کی طرف توجہ دیں.اس سلسلے میں کچھ میں نے انتظامی مسائل حل کرنے کے لئے امیر صاحب کو متوجہ کر دیا ہے لیکن آپ اپنی اپنی جگہ اگر اس شعور کو بیدار کریں گے اور احساس کریں گے تو اللہ تعالیٰ توفیق دے دے گا.مسجدوں کے سفر میں اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی نصرت فرمایا کرتا ہے.چند گھروں کو اگر یہ توجہ ہو کہ ہم نے اپنے درمیان ایک مسجد بنانی ہے تو اللہ کے فضل کے ساتھ ان کو توفیق مل ہی جایا کرتی ہے.مگر یاد رکھیں کہ اب اس بات کو بھلا دیں کہ گھروں کو مسجد میں بنایا جائے یعنی وہاں لوگوں کو بلایا جائے اور یہی کافی ہو یہ ہرگز کافی نہیں ہے.آنحضرت میہ کے زمانے میں گھروں کی مسجد تو گھر والوں کے لئے ہوا کرتی تھی اور محلے کی مسجد الگ بنتی تھی جہاں ہر آدمی جب چاہے جاسکے.یہ جو فرق ہے اس کو لوگ ملحوظ نہیں رکھتے.نماز کو قائم رکھنے کی خاطر اس خیال سے کہ عبادت جاری رہے اس قسم کی ہدایتیں میں دیتا رہا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو بعض گھروں کے کمروں کو مسجد بنالو لیکن وہ کمرے مسجد کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے کیونکہ مسجد کے تقاضوں میں یہ بات داخل ہے جب چاہے خدا کا بندہ ان میں داخل ہو جائے اور اپنے رب کو پکارے اب کسی کے گھر کوئی کیسے وقت بے وقت پہنچ سکتا ہے.بعض لوگوں کو آدھی رات کو دل میں غیر معمولی جذبہ اٹھتا ہے کہ چلو مسجد جا کے آج رات مسجد صلى الله

Page 502

خطبات طاہر جلد 16 496 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء میں گزاریں گے.کون ہے جو اپنے گھر کو اس طرح لوگوں کے لئے کھلا چھوڑ سکتا ہے اور کون ہے جو جانا پسند کرے گا کیونکہ اللہ کے گھر تو کوئی پابندی نہیں، ہر ایک کے لئے برابر ہے.پس اس پہلو سے ایسی آبادیوں میں جہاں آٹھ دس پندرہ احمدیوں کے گھر ہوں وہاں ضرور کچھ نہ کچھ مسجد کا کام کریں اور ابتداء اس کی زمینیں لینے سے ہو سکتی ہے.بہت بڑی زمینوں کی ضرورت نہیں جتنی توفیق ہے لے لیں اور مسجد کے تعلق میں یاد رکھیں کہ خدا پھر خود توفیق بڑھایا کرتا ہے.ایک دفعہ شروع کر دیں پھر آگے اس کو انجام تک پہنچانا یہ اللہ کا کام ہے مگر ہرمسجد کونمازیوں سے بھرنا چاہئے ہر مسجد میں پانچ وقت نماز ہونی چاہئے.اگر سارے مرد کام پر چلے جائیں تو عورتیں بھی جا کے مسجد کو آباد کر سکتی ہیں.عورتوں کا مسجد میں جانا منع نہیں ہے.ان پر فرض عائد نہیں کیا گیا کیونکہ انہوں نے دوسرے کام کرنے ہیں مگر بسا اوقات جنگوں کے زمانوں میں، جہاد کے وقت جب مرد کوئی کام نہ کر سکیں تو عورتوں کو بلایا جاتا ہے تو مسجدوں کو آباد کرنا ہے اگر مرد کسی وجہ سے، مجبوری کی وجہ سے نہ کر سکیں تو عورتیں جائیں اور مسجدوں کو آباد کریں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ جب غیر آتا ہے تو پھر عورت کے لئے با پردہ ہونا ضروری ہے.پس اس پہلو سے یہ احتیاط لازم ہے کہ اگر عورتوں کو مسجد میں جانا پڑے تو الگ ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں غیر مردوں کا آنا جانانہ ہو اور اس کے لئے ہم نے مساجد میں پردے لٹکانے کا انتظام کیا ہوا ہے، کم سے کم مسجد تو آباد ہو جائے گی لیکن پردے میں خواتین جا کے نماز پڑھیں اگر کوئی مرد اتفاقاً آ جاتا ہے تو وہ دوسری کھلی جگہ جا سکتا ہے تو مسئلے کو اگر مسئلہ سمجھا جائے تو اسے سلجھانے کے کئی رستے نکل آیا کرتے ہیں لیکن ایک مسئلہ بنے ہی نہ سوال ہی نہ اٹھے تو اسے حل کیسے کریں گے.پس قرآن کریم کی اس ہدایت کی طرف توجہ دیں کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے اور تقویٰ کے بغیر قرآن کریم کے مقاصد حل نہیں ہو سکتے اور تقویٰ کا بہت گہرا تعلق مسجد سے ہے، اتنا گہرا کہ مسجد کے بغیر انسان کو تقویٰ آتا نہیں اور متقی کے بغیر مسجد کو زینت نہیں ملتی.قرآن کریم نے اس مضمون کو بہت کھول کے بیان فرمایا ہے کہ مسجدوں میں جاؤ تو اپنی زینت یعنی تقویٰ کو ساتھ لے کے جاؤ اگر بغیر زینت کے جاؤ گے تو مسجد ویران دکھائی دے گی جہاں بظاہر متقی ہوں گے، بظاہر نمازی ہوں گے مگر حقیقت میں اللہ کے نزدیک وہ مسجد ویران ہوگی.یہ جو ویرانی کا آبادی کے ساتھ

Page 503

خطبات طاہر جلد 16 497 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء صلى الله ایک تعلق ہے اس تعلق کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے آخری زمانے کی مساجد کے ذکر میں بیان فرمایا.فرمایا : مساجدهم عامرة وهى خراب من الهدى (مشكوة المصابيح كتاب العلم) پس میں جو کہتا ہوں کہ مسجدیں آباد ہو کر بھی ویران ہو سکتی ہیں یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی کا عرفان ہے جو آپ کی زبان سے ہم تک پہنچا ہے، فرمایا وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ ان کی مسجدیں آباد تو ہوں گی مگر ویران ہوں گی.اس بات کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے جہاں یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ مسجد کی رونق اپنے ساتھ لے کر جایا کرو.خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :32) ہر مسجد میں جہاں بھی جاؤ اپنی زینت ساتھ لے کر جاؤ اور زینت کیا ہے؟ تقویٰ.قرآن کریم نے زینت کو ہی تقویٰ قرار دیا ہے پس ہر شخص کا متقی ہونا ضروری ہے ورنہ مساجد کو آباد نہیں کرسکتا اور اگر متقی مساجد کو آباد کرے گا تو ان مساجد میں اتنی برکت پڑے گی کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.چھوٹی مساجد کو اللہ تعالیٰ وسیع تر کرتا چلا جائے گا کیونکہ ہر مسجد کا لازماً آباد رکھنا ضروری ہے.اسی آیت کا اگلا حصہ بیان فرماتا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں یعنی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ فی الحقیقت بہت کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو غیب پر ایمان نہیں لاتے.جب تک غیب دور ہٹا ہوا ہے ان سے کوئی تقاضے نہیں کرتا وہ اس پر ایمان لاتے ہیں.جہاں اپنی ذات کا تقاضا غیب سے ٹکرائے وہاں غیب کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی ذات کو تر جیح دے دیتے ہیں.غیب پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ جو نظر نہیں آرہا ، ایک معنی یہ ہے بہت سے معانی ہیں ،مگر ایک یہ معنی ہے کہ اللہ جو دکھائی نہیں دے رہا اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ دکھائی دینے والی چیزوں پر اس غیب کو ترجیح دیتے ہیں اور جو نظر آ رہا ہے اس پر جو نظر نہیں آرہا اس کو فوقیت دیتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لانے والے ہیں اور ان کے لئے ذلِكَ الْكِتُبُ کا ہونا شرط ہے وہ کتاب جس میں شک کوئی نہیں.پس قرآن کریم جو شک دور کرتا ہے وہی شک ہیں جو خدا کی ذات سے دور کئے جاتے ہیں اور غیب پر ایمان کے لئے ان شکوک کا دور ہونا لازم ہے اور اس کی چابی خدا تعالیٰ نے قرآن میں رکھ دی ہے.پس یہ آیت مسلسل ایک مضمون کو آگے بڑھا رہی ہے.

Page 504

خطبات طاہر جلد 16 498 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997 ء وہ لوگ جو کلام الہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں کچھ عرصے کے بعد قرآن کریم ان کو شک سے پاک دکھائی دینے لگتا ہے تو جو وہ محنت کرتے ہیں تقویٰ کے ساتھ جہاں لوگوں کے لئے شک ہے وہاں ان کے لئے شک دور ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ سب اندھیروں کو قرآن کریم اجالوں میں بدلنے لگتا ہے.ایسے مقام پر پھر خدا ایک حقیقت دکھائی دیتا ہے وہ غیب نہیں رہتا.اس کے متعلق سارے شکوک قرآن کریم باطل فرما دیتا ہے اور جب وہ خدا کو غیب ہوتے ہوئے یعنی اس کے دکھائی نہ دینے کے باوجود، اس کے سنائی نہ دینے کے باوجود، اس کے محسوس نہ ہونے کے باوجود اپنے حاضر پر ترجیح دیتے ہیں ان کا غیب ان پر قبضہ کر لیتا ہے.ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا وَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ یہ ہیں جن کی نمازیں بچی نمازیں ہیں اور پھر ان کو ویقیمُونَ الصَّلوةَ کہہ کر فرمایا کہ وہ لوگ ہیں جو نماز کا حق ادا کرتے ہیں.سفر نماز ہی سے شروع ہوا کرتا ہے لیکن اس نماز کو جوروزمرہ اپنے گھروں میں پڑھتے ہیں یا مسجدوں میں بغیر خاص توجہ کے پڑھ لیتے ہیں ان کو قرآن کریم اقامة الصلواۃ نہیں فرماتا وہ مصلین ہیں جن کی مختلف حالتیں ہیں.بعض نماز ادا کرنے والے ایسے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کو برکت ملتی ہے، رفتہ رفتہ ان کی نمازوں میں ترقی ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے ہیں کہ جن کے متعلق فرمایا کہ نمازی تو ہیں مگر اللہ کی لعنت ہو ان پر.پس ایسے نمازی بننا جن پر خدا لعنت ڈالتا ہے یہ کس حساب میں لکھا جائے گا.زندگی کا کیا مقصد ہے جو اس سے پورا ہوگا.فرمایا فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون :6،5) ہلاکت ہو ، لعنت ہو ایسے نمازیوں پر جو اپنی نماز سے غافل ہیں.پس نماز کیلے بھی ہوسکتی ہے اس کو قیام نماز بھی کہیں مگر وہ نماز جس میں قیام کی کوشش کی جاتی ہے وہ نماز بالآخر ایسے مقام تک پہنچ جاتی ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے وَيُقِيمُونَ الصَّلوة کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں.اب نماز کے قیام کے لئے مسجدیں، جیسا کہ میں نے بیان کیا ضروری ہیں لیکن اور بہت سے ایسے کام ہیں جن کی طرف ہمیں متوجہ ہونا ہے اور متوجہ کرنا ہے.اکثر لوگوں کو میں نے دیکھا ہے جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو شاذ کی نمازیں ایسی ہیں جو مرکزی جلسوں یا خاص ماحول میں ادا کی جائیں.ان میں ان کے دلوں پر کچھ خضوع بھی آجاتا ہے، جذ بہ بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن اکثر نمازیں

Page 505

خطبات طاہر جلد 16 499 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء اس طرح پڑھتے ہیں کہ نماز سے جتنی جلدی ممکن ہو پیچھا چھڑالیا جائے اور فرض پورا کر لیا جائے اور توجہ دوسری طرف ہوتی ہے.یہ وہ مصلین ہیں هُم عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ جن کے متعلق فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ نماز سے غافل ہیں.بسا اوقات ساری نماز گزر جائے گی اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا.یہ وہ نمازی ہیں جو مسجدوں میں جاتے ہیں تو رسول اللہ علیہ فرماتے ہیں مسجد میں ویران رہتی ہیں ان مسجدوں میں کوئی بھی برکت نہیں پڑتی.یہ وہ بنیادی کام ہیں جن کے بغیر ہم دنیا میں کوئی انقلاب برپا نہیں کر سکتے.تبلیغ کا جو جوش ہے ، مالی قربانی جس کا بعد میں ذکر آیا اس میں بھی جوش ہے.چنانچہ فرمایا وَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو کچھ ہم ان کو دیتے ہیں اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے خرچ کر دیا یہ بہت کافی ہو گیا اور کئی ایسے احمدیوں کی مثالیں مجھے دی گئی ہیں جو چندے ادا کر دیتے ہیں مگر نمازوں سے غافل ہیں.چندے ادا کر دیتے ہیں مگر دینی امور میں دلچسپی نہیں ہے مگر قرآن کریم نے یہاں مال کا ذکر نہیں فرمایا اور اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں مال کی شرط کو نماز کے بعد رکھا ہے مگر مال کے طور پر نہیں.فرمایا وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہم نے ان کو جو کچھ عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.پس یہ خیال اگر کسی کے دل میں ہو کہ چندے دے دیئے ہیں جو ظاہری مال ہے اور خدا ہی عطا فرماتا ہے اس میں سے کچھ دے دیا تو اس آیت کا حق ادا کر دیا.اس آیت کا حق تب ادا ہوگا کہ غیب پر حقیقی ایمان ہو.پس نماز پر پوری طرح قائم ہوں اور پھر جو کچھ خدا آپ کو دیتا ہے اس میں آپ کی عقل ہے، آپ کی مہارت ہے، آپ کی اولاد ہے، آپ کے اثاثے ہیں، آپ کی دیگر ذہنی اور قلبی صلاحیتیں ہیں یہ تمام تر خرچ کرتے ہیں اور یہ نہیں فرمایا کہ کس پر خرچ کرتے ہیں یعنی ایسے خدا کے مومن بندے جن کی شرائط یہ ہیں کہ قرآن کریم کو تقویٰ کے ساتھ پڑھتے ہیں یہاں تک کہ قرآن کریم ان کو ہدایت دینے لگتا ہے تو قرآن ان کی ہدایت کا موجب بنتا ہے.تو پھر ان کو غیب پر سچا ایمان آتا ہے یعنی اللہ پر جو دکھائی نہیں دیتا اور خدا سے تعلق رکھنے والے جتنے غیب ہیں وہ سارے اسی ایک لفظ غیب میں شامل ہیں، حقیقی ایمان لے آتے ہیں.جب غیب پر حقیقی ایمان لے آتے ہیں تو پھر ان کی نمازیں قائم ہوتی ہیں اس کے بغیر ان کی نمازیں قائم نہیں ہو سکتیں اور جب نمازیں قائم کرتے ہیں تو آخری بات یہ بیان فرمائی وَمِمَّا

Page 506

خطبات طاہر جلد 16 500 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ پھر جو کچھ ہم ان کو دیتے ہیں وہ اس میں سے لازماً خرچ کرتے ہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کی وہ صلاحیتیں عطا ہوئی ہوں اور وہ خرچ نہ کریں.ان کی صلاحیتوں میں سے انسان کی تو جہات ہیں اور انسان کو خدا تعالیٰ نے جو بھی نعمتیں جس رنگ میں عطا فرمائی ہیں رشتے ہیں، اموال ہیں ، ذہنی اور قلبی طاقتیں ہیں یہ سب کچھ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ میں داخل ہیں، اس کو خرچ کرتے ہیں.خرچ کرنے میں یہ بیان نہیں فرمایا کہ کس پر خرچ کرتے ہیں اس لئے اس مضمون کو کھلا چھوڑ کر اس آیت میں بے انتہا معانی داخل فرما دیئے ہیں.سب سے پہلی چیز وہ اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ اس مضمون کو کھولا ہے کہ تم اپنے نفس کے لئے خیر خرچ کرو یعنی ایسا خرچ کرو جس کا تمہارے نفسوں کو فائدہ پہنچے.پس اپنے لئے بھی خرچ کرنا خدا کی خاطر خرچ کرنا ہے، اگر ان شرائط کو پورا کریں.پس اپنی سب چیزوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی اپنے قدم خدا کی طرف بڑھانے کے لئے اپنے اوپر اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ وہ ممد اور مددگار ہو جائیں.اب مِمَّا رَزَقْنَهُمْ میں وہ لوگ داخل ہیں جن کے پاس کاریں ہیں ، وہ دور کے سفر کر کے نمازوں کے لئے پہنچ جاتے ہیں تو مِمَّا رَزَقْنُهُمْ میں ان کی کاریں، ان کی سہولتیں شامل ہو جاتی ہیں.وہ لوگ جو اپنے بچوں پر وقت خرچ کر کے محنت کرتے ہیں اور ان کو خدا والا بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی مِمَّا رَزَقْنَهُمْ میں آجاتے ہیں.تو اموال کو سر دست ایک طرف رکھیں یہ دیکھیں کہ آپ نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اپنی صلاحیتوں سے کیا فائدہ اٹھایا.اگر آپ وہ طاقتیں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہیں ان کو اپنے او پر اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ خدا کے قریب تر ہو سکیں تو اپنے اوپر خرچ ہو یا اپنی اولاد پر خرچ ہو یہ سب خدا ہی کی خاطر خرچ ہے اور غریبوں کی باری اور اموال کو جماعت کو پیش کرنے کی باری بعد میں آتی ہے.اگر یہ پہلے خرچ نہ ہوں تو دوسرے خرچ ضائع ہو جایا کرتے ہیں.چنانچہ خدا کے حضور جو تھے ہیں ان میں نیکی ہونا لازم ہے لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران :93) تم نیکی کو پاہی نہیں سکتے ، ہر گز نہیں پاؤ گے جب تک جن چیزوں سے محبت ہے ان کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو.اب دیکھیں محبت کے تقاضے انسان کو اپنی ساری زندگی میں ہر طرف پھیلے ہوئے دکھائی

Page 507

خطبات طاہر جلد 16 501 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء دیتے ہیں.ماں کو بچے سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر اگر اللہ کی محبت غالب ہو تو بچے کو خدا والا بنانے پر اس کی زیادہ توجہ ہوگی.اپنی طاقت کو پہلے اس بات پر خرچ کرے گی کہ میرا بچہ خدا والا بنے اور سکول والا بعد میں بنے گا خدا والا پہلے بنے گا.جو جو خدا والا بچہ ہے وہ جہاں بھی جائے اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے.ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف شیطان کی آواز میں آپ کو بلا رہی ہیں اگر آپ کے بچوں کو نمازوں کی عادت نہیں ہے تو وہ بچے نہ آپ کے کام آسکیں گے نہ اپنے نہ آئندہ نسلوں کے کام آسکیں گے کیونکہ انہوں نے لا ز ما رفتہ رفتہ بھٹکتے بھٹکتے دور چلے جانا ہے.پس نمازوں کے قیام میں یہ ساری باتیں اپنے پیش نظر رکھیں اور میں یہ سجھتا ہوں کہ پہلے نمازوں کی عادت ڈالنا، پھر نمازوں کو کسی چیز سے بھرنا یہ دو باتیں ہیں جو ایک لامتناہی سفر ہے.ایسا وقت آنا چاہئے اور جلد آنا چاہئے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگلی صدی سے پہلے پہلے آنا چاہئے کہ آپ میں سے ہر ایک کے خاندان میں ہر شخص نمازی ہو جائے اور یہ سفر وہ ہے جس کے متعلق میں نے شروع میں کہا تھا کہ نظام جماعت مستقلاً اس کو جاری نہیں کر سکتا کیونکہ نظام جماعت کا ایسے ملک میں جہاں آپ ہزار ہا میل پہ پھیلے پڑے ہیں، جہاں بسا اوقات ایک گھر کا دوسرے سے رابطہ کرنے کے لئے بھی سوسو دودو سو چار چار سو میل کا سفر کرنا پڑتا ہے، بعض دفعہ ہزار میل کا سفر کرنا پڑتا ہے وہاں نظام جماعت میں طاقت ہی نہیں کہ وہ سب تک پہنچ سکے.مگر نظام قرآن میں یہ طاقت ہے اور قرآن کریم نے شروع ہی میں آپ کو یہ سادہ طریق سمجھا دیا ہے.ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے، قرآن کے معانی کی طرف توجہ دے، ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کے پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو اور قرآن کریم کو پھر مضامین سمجھ کر پڑھے اور جو بھی ترجمہ میسر ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے.ایسے بچوں کے دل میں پھر سوال بھی اٹھتے ہیں اور وہ سوالات بسا اوقات مجھے اس وقت نظر آتے ہیں جب کسی مجلس سوال و جواب میں بیٹھا ہوں تو مجھے پتا چل جاتا ہے کہ بعض بچے ایسے ضرور ہیں جو قرآن پڑھ رہے ہیں اور قرآن پڑھنے کے بعد پھر ان کے دل میں سوال اٹھتے ہیں.ان سوالات کے حل کے دو طریق ہیں.ایک تو یہ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم اُولُوا الْعِلْمِ کے پاس جایا کرو اور اُولُوا الْعِلْمِ (آل عمران :19) وہ لوگ ہیں جو آپ کی جماعتوں میں موجود ہیں.اس کے لئے سال یا دو سال میں کسی ایک مجلس کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے.مربی ہیں، دوسرے

Page 508

خطبات طاہر جلد 16 502 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء بزرگ ہیں جن کو قرآن کریم سے محبت ہے.کچھ ایسے ہیں جنہوں نے کثرت سے تفاسیر پڑھی ہوئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہر جماعت میں ایسے ایک دو انسان ضرور ہوں گے جن کو دینی علم بڑھانے کا شوق ہے، ان کے پاس جانا چاہئے ، ان سے پوچھنا چاہئے اور روز بروز اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں.اور اس سے بڑھ کر دوسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کریں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ وہ آپ کو سمجھا دے.بچپن سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ وہ چیز ہے جس کی طرف توجہ دلائی ہے اور مجھے بھی علماء کے پاس نہیں جانا پڑا.جب بھی سوال اٹھتا تھا ایک بات لازماً میری مددگار ہوتی تھی.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ یہ کامل ایمان تھا کہ اس سوال کا جواب موجود ہے میرے لئے غیب ہے مگر میں ایمان رکھتا ہوں.اس غیب پر ایمان رکھتا ہوں جس پر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومن بندے ضرور ایمان رکھتے ہیں اور اس ایمان کے نتیجے میں وہ غیب جولوگوں کے لئے غیب رہتا ہے آپ کی دعا کے ذریعے آپ کے قریب آجاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے.آپ خدا سے دعا مانگیں کہ مجھے اس مضمون کی سمجھ نہیں آرہی، ایمان ضرور ہے کہ تو سچا ہے ایمان ہے کہ اس میں شک کوئی نہیں تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کی سوچوں میں برکت ڈالے گا اور اپنے فضل کے ساتھ آپ کے مسائل حل کرے گا.اس مضمون کو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اس میں ایک خطرہ بھی ہے اور اس راہ کے خطروں سے آپ کو آگاہ کرنا لازم ہے.بعض لوگ جو یہ سفر کرتے ہیں تو اپنے حاصل کردہ مطالب کو پھر وہ اپنی اہمیت دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ پل گیا ہے اور وہ اپنی بڑائی بتانے کی خاطر بعض دفعہ مجالس میں سوال کرتے ہیں اس مسئلے کا حل بتاؤ اور وہ سمجھتے ہیں ہمارے سوا کسی کو نہیں پتا چلے گا اور کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان کا حل غلط ہوتا ہے کیونکہ سفر کے آغاز سے پہلے نیت کا پاک ہونا ضروری ہے.اگر وہ اللہ خدا سے سوال کریں اللہ کی خاطر اور انکسار کے ساتھ اور تقویٰ کا ایک معنی انکسار بھی ہے.جتنا بڑا متقی آپ دیکھیں گے اتنا ہی زیادہ وہ منکسر ہوگا.وہ اپنے نفس کو اتنا ہی خدا کے حضور جھکائے گا.وہ جب سوال کرتے ہیں تو لازماً اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دیتا ہے کیونکہ جن کے دل میں انانیت ہو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے خود سیکھ لیا ہے اور یہی سب کچھ ہے اور یہ نہیں معلوم کرتے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات مضمون سے ٹکرا رہی ہیں اور قرآن کی ہر آیت، دوسری آیت کو تقویت دینے والی ہے نہ

Page 509

خطبات طاہر جلد 16 کہ اس میں شک پیدا کرنے والی.503 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء پس جو بھی ماحصل ایسے لوگوں کا ہوگا جس میں قرآن کریم سے شک دور ہونے کی بجائے شک پیدا ہوگا ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں کہ جن کو لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے مضمون کی سمجھ نہیں آئی.غیب تو کوئی نہیں ہے مگر متقی ہونا ضروری ہے.پس خدا تعالیٰ سے جب آپ دعا کر کے قرآن کریم کے مضامین کو سمجھیں یا اس سے التجا کریں کہ وہ آپ کو سمجھائے تو متقی بہنیں اور پھر چونکہ اُولُوا الْعِلْمِ کے پاس عام لوگوں کا جانا ضروری ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں اور تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر کا مطالعہ کریں اور ساتھ ساتھ اپنے حاصل کردہ کو پر کھتے رہیں.اگر وہ ان کسوٹیوں پر پورا نہ اترے جو اُولُوا الْعِلْمِ کی کسوٹیاں ہیں تو اس کو چھوڑ دیں اور تقویٰ اختیار کریں پھر آپ کے دل کو ہر قسم کے شک سے پاک کیا جائے گا مگر قرآن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ براہ راست بھی اس سے کچھ چکھیں اور اللہ تعالیٰ کے مضامین لامتناہی ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایسے غور کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کچھ نکات عطا فرماتا ہے.اگر وہ متقی ہوں تو وہ فتنے کا موجب نہیں بنتے.اگر وہ متقی نہ ہوں تو وہی نکات تردد اور شک اور فتنوں کا موجب بن جایا کرتے ہیں اور یہ منازل بعد کی منازل ہیں لیکن آغاز میں وہ برتن تو حاصل کریں جن کو بھرنا ہے اور اکثر جگہ برتن موجود نہیں.یہ مجھے فکر ہے جو اس سفر کے دوران پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر میرے سامنے ابھری ہے.بھاری تعداد میں ایسے احمدی گھر ہیں جن کو روزانہ پانچ وقت نمازیں پڑھنے اور بچوں کو پڑھانے کی توفیق نہیں ملتی اور ایسے ہیں جن کو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کی اور بچوں کو تلاوت قرآن کریم کروانے کی توفیق نہیں ملتی.اب یہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں آسمانی دودھ کے نازل ہونے کے لئے برتن بھی موجود نہیں.اگر برتن نہیں ہوگا تو بارش کے دوران آپ چلو بھر پانی پی کر پیاس تو بجھا سکتے ہیں مگر جب بارش آگے گزر جائے اور ہر طرف خشکی ہو تو آپ کے پاس کچھ بھی پیاس بجھانے کے لئے نہیں ہوگا.پس نمازوں کا آغاز نمازوں کے برتن قائم کرنے سے ہوتا ہے.تلاوت کا آغاز تلاوت کے برتن قائم کرنے سے ہوتا ہے اور برتن سے میری مراد یہ ہے کہ شروع کر دیں تلاوت پھر رفتہ رفتہ علم بڑھائیں اور تلاوت کو معارف سے بھرنے کی کوشش کریں، معارف سے پہلے علم سے بھرنے کی

Page 510

خطبات طاہر جلد 16 504 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء کوشش ضرور کریں اور اگر آپ اس ترتیب کو سامنے رکھیں گے تو وہ جولغزش میں نے بیان کی تھی اس سے کسی حد تک بچ سکتے ہیں.عرفان سے پہلے عمل ہونا چاہئے اور بغیر علم کے جو عرفان ہے یہ خیالی عرفان ہے، اکثر ٹھوکروں والا عرفان ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اُولُوا الْعِلْمِ کہہ کر متوجہ فرمایا کہ تم نے کچھ پوچھنا ہے تو اُولُوا الْعِلْمِ سے پوچھا کرو اور آنحضرت میایہ کے عرفان کا ذکر بعد صلى میں فرمایا ہے علم کا ذکر پہلے فرمایا ہے.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتببَ وَالْحِكْمَةَ (آل عمران:165) پہلے کتاب کی تعلیم دیتا ہے حکمت یعنی عرفان کی باتیں بعد میں آتی ہیں.تو وہ نو جوان جو بڑے ہوں یا چھوٹے اگر وہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے اس کا علم نہیں رکھتے یعنی ظاہری معانی جو عربی زبان سے حاصل ہو سکتے ہیں اس پر توجہ نہیں کرتے تو ان کو مجلسیں لگا کر عرفان کی باتیں کرنے کا حق ہی کوئی نہیں.وہ جاہل ہیں اور لوگوں کو بھی جہالت کی طرف بلانے والے ہیں وقتی طور پر اپنی بڑائیاں دکھاتے ہیں مگر حقیقت میں ان کو قرآن کریم کا علم ہی نہیں ہے.تو علم کے حصول کے لئے پھر رفتہ رفتہ ترقی ہوتی ہے بہت سی لغات کی کتب ہیں جن کو دیکھنا پڑتا ہے، بہت سے علماء سے استفادہ کرنا پڑتا ہے تو بنیادی طور پر پہلے علم کو بڑھائیں اور علم کو بڑھائیں گے تو علم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کی طرف بھی متوجہ ہوں گے کیونکہ یہ وہ باتیں ہیں جن کی طرف آپ کے بچے ابھی توجہ دے نہیں سکتے.اس لئے میں آپ کو بعد کی باتیں بھی اشارہ بتا رہا ہوں لیکن فی الحقیقت زور اس بات پر دے رہا ہوں کہ آغاز کی باتوں کو پکڑ لیں اور آغاز کی باتوں پر قائم ہو جائیں باقی باتیں اللہ سنبھال لے گا اور آغاز کرنے والوں کو خدا تعالیٰ خود انگلی پکڑ کر سفر کے آخر تک پہنچا دیا کرتا ہے اور سفر کے آخر سے مراد یہ ہے کہ موت تک وہ اس سفر میں ہمیشہ آگے بڑھتے رہتے ہیں.ورنہ حقیقت میں اس سفر کا کوئی آخر نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ کینیڈا کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے اور باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی.میں چاہتا ہوں کہ اس صدی سے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں روزانہ تلاوت قرآن کریم ہو.کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو.اس کو کہیں تم ناشتہ چھوڑ دیا کرونگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو، خالی تلاوت نہیں کرو اور جب یہ آپ کام کرلیں گے تو پھر اردگرد مساجد بنانے کی کوشش کریں اور ان نمازیوں کو گھروں سے مساجد کی طرف منتقل کریں کیونکہ وہ گھر جس

Page 511

خطبات طاہر جلد 16 505 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء صلى الله کے بسنے والے خدا کے گھر نہیں بساتے قرآن کریم سے اور آنحضرت ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ایسے گھروں کو ویران کر دیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ان تقاضوں کو پورا کریں.اب مساجد کی باتیں ہو رہی ہیں تو ایک ایسی خبر جس سے جماعت کو تکلیف پہنچی ہے اور پہنچے گی جو سنیں گے وہ آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں اور دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.مسجد احمد یہ دوالمیال وہ مسجد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی جماعت احمدیہ کے قبضے میں رہی ہے کیونکہ وہ صحابی جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا وہی نمازی تھے جو اس مسجد کے نمازی تھے اور ان کے امام بھی ساتھ ہی احمدی ہو گئے.پس پوری کی پوری مسجد اپنے نمازیوں سمیت احمدی ہوئی اور سو سال سے زائد عرصے سے یہ ہمارے پاس چلی آرہی تھی.اس سال شروع میں جنوری میں وہاں کے مولویوں نے شرارت شروع کی اور ایک سول جج کی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا کہ اس مسجد میں احمدیوں کا داخلہ بند کیا جائے کیونکہ یہ احمدیوں کی مسجد نہیں، جب یہ تعمیر ہوئی تھی تو سو سال پہلے غیر احمد یوں نے تعمیر کی تھی.اول تو اتنی احمقانہ بات، اس سول حج کو اتنی سی بات تو دکھائی دینی چاہیئے تھی کہ ایک سوسال سے ان کے قبضے میں چلی آرہی ہے اب ان کو کیا سوجھی ہے.اگر مقدمہ کرنا تھا تو اس وقت کرتے لیکن ضیاء الحق کے آرڈینینس سے بھی فائدہ اٹھانا تھا تو اس کو بھی تو مدت گزر چکی آج کون سی نئی بات ہوئی ہے کہ اس مسجد کو احمدیوں سے خالی کروایا جائے.اگر آرڈینینس کا عذر ڈھونڈتے ہیں تو آرڈینینس کو آئے ہوئے لمبا عرصہ گزر گیا کسی نے مقدمہ کیا ؟ کسی نے کیوں نہیں مقدمہ کیا مگر ملی بھگت ہوئی ہے اور ایسی جاہلانہ شرارت ہے کہ عقل اس شرارت پر لعنت ڈالتی ہے.جب مقدمہ ہوا تو جج صاحب نے کچھ ایسی باتیں کہیں جس پر وہاں کی جماعت نے ، ہمارے وکلاء وغیرہ نے اس بات پر مجھے اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ یہ حج پہلے تو مخالف ہوا کرتے تھے اب کچھ ٹھیک ہورہے ہیں.میں نے اس پر جواباً ان کو لکھا کہ آپ کو ٹھیک دکھائی دے رہے ہیں مجھے ٹھیک نہیں دکھائی دے رہے انہوں نے آخر گڑ بڑ کر جانی ہے کہیں لیکن خوش فہمی کا شکار لوگ اسی طرح رہے کہ ہاں جی اچھی اچھی باتیں کر رہے ہیں اور اچانک 30 جون کو ان صاحب نے ہمارے خلاف فیصلہ جاری کر دیا اور کہا کہ احمدی مسئول علیہم مسجد میں داخل نہ ہوں اور نمازیں ادا نہ کریں اور اس فیصلے سے چار دن پہلے غیر احمدیوں کی مسجد کے

Page 512

خطبات طاہر جلد 16 506 خطبہ جمعہ 4 / جولائی 1997 ء امام نے اس کا یہ فیصلہ لوگوں کو سنا دیا.اب جہاں عدالتوں کا یہ حال ہو تقوی سے عاری فیصلے ہوں وہ اگر نمازی وہاں جائیں گے بھی تو مسجد کو سوائے اس کے کہ ویران سے ویران تر کر دیں، اپنی ویرانیاں ساتھ لے کر جائیں اور احمدیوں کے خلاء سے جو ویرانی پیدا ہوگی اس کو اور بھی زیادہ ویران بنادیں گے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے.مگر جماعت کو مطلع کرتا ہوں کہ جو کوششیں ہیں جماعت کی طرف سے وہ تو ہوں گی مگر احمدیوں کو مسجد سے کوئی محروم نہیں کر سکتا.یہ یقین رکھیں ساری دنیا بھی زور لگائے تو صلى الله احمد یوں کو مسجد سے محروم نہیں کر سکتی کیونکہ آنحضرت میہ نے فرمایا ہے کہ خدا نے میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا ہے.اب لگالیں زور.میں نے ان کو کہلا کے بھجوایا ہے کہ گلیوں میں نماز میں پڑھو.تم نے دکھاوا تو نہیں کرنا خدا کی خاطر نمازیں پڑھنی ہیں.تو گلیوں میں نمازیں پڑھو اور خدا کو پکارو کہ تیرے رسول نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ تمہارے لئے مسجد بنادی گئی ہے اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ ان کوششوں میں کیسی برکت ڈالتا ہے احمدیوں سے پہلے بھی جب بھی مسجد چھینے کی کوشش کی گئی یا چھینی گئی تو خدا نے اس کے بدلے ہمیں سینکڑوں ہزاروں مساجد عطا فرمائیں.اب بھی جماعت احمدیہ کینیڈا کو میں مساجد ہی کی طرف متوجہ کر رہا ہوں تو اب دو یا چار مسجدوں کا انتظار نہ کریں جو بہت عظیم الشان دکھائی دیں، انسان کو عظیم الشان دکھائی دیں اور اللہ کی نظر میں ان کی کوئی بھی قیمت نہ ہو.ایسی مسجد میں بناؤ جو چاہے دو دو چار چار کی ہوں چاہے وہ خدا کی نظر میں عظمت رکھتی ہوں کیونکہ وہاں جانے والے تقویٰ کی زینت لے کر جائیں اور اللہ کے پیار کی نظر ان مساجد پر پڑے اور نمازیوں پر پڑے اس طرف توجہ دیں اور پورا زور لگائیں کہ زیادہ سے زیادہ مساجد سے آپ نے کینیڈا کو آباد کر دینا ہے اور تقویٰ والے نمازی ان مساجد میں جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا ذاتی تجربہ حاصل کریں.دور کی نظر سے رحمتیں دیکھنا اور بات ہے.بادل کو آپ سو میل دور برستے دیکھیں تو مزہ تو شاید آئے گا لیکن کہاں آپ کے گھر پہ بادل کا برسنا.تو ان مساجد پہ خدا کی رحمتیں برستی خود دیکھیں پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجدیں بنانا کیا مقام رکھتا ہے اور ان مساجد کو خدا کی خاطر آباد کرنا کیا مقام رکھتا ہے.ایسے لوگوں کے گھر خدا آباد کر دیتا ہے ان کی نسلوں کے گھر آباد کرتا ہے.آپ ایک مسجد خدا کی خاطر بنائیں، خدا اس کے نتیجے میں آپ کے گھروں کو نسلاً بعد نسل آباد کرتا چلا

Page 513

خطبات طاہر جلد 16 507 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997 ء جائے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ تقویٰ کے ساتھ اس قدم کو آگے بڑھائیں گے.اور اب آخر پر ایک نماز جنازہ کے متعلق اعلان کرنا ہے میرے عزیز جو میری بیگم آصفہ کے بڑے بھائی تھے مرزا نسیم احمد صاحب ان کی وفات کی پرسوں اطلاع ملی ہے.وہ ہمارے بچپن کے کھیلے ہوئے تھے 4 اگست 1926ء کو پیدا ہوئے گویا مجھ سے تقریباً دو سال بڑے تھے لیکن کبھی ہمیں اپنی عمر کا تفاوت معلوم نہیں ہوا اور ہمیشہ ایک ہم عمر کی طرح بچپن میں بے تکلف دوست کے طور پر بڑھے.ان کے متعلق میں پہلے تو یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بیٹے حضرت مرز اسلطان احمد صاحب جن کو الہام کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق ملی اور اس لحاظ سے حضرت مصلح موعود تین کو چار کرنے والے بنے یعنی تین بیٹے روحانی طور پر تھے اور چوتھا اس میں داخل ہونا تھا.پس حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کو اس الہام کو پورا کرنے کی توفیق ملی اور آپ کے بیٹے مرزا رشید احمد صاحب کی شادی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی عزیزہ امتہ السلام سے ہوئی تھی.ان کے بچوں میں بڑی قدسیہ بیگم تھیں جو ایک حادثے میں فوت ہو چکی ہیں، بہت پہلے فوت ہوگئی تھیں اور اب سب بچوں میں مرزا نسیم احمد صاحب سب سے بڑے تھے.ان کی شادی حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی بیٹی شاہدہ بیگم سے ہوئی.اس طرح ہمارے خاندان میں رشتے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جو نہ جانے والوں کے لئے الجھن کا موجب بن جاتے ہیں ، ہمارے لئے جو جانتے ہیں محبتیں بڑھانے کا موجب بن جاتے ہیں.ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب آجاتے ہیں.ذکر خیر میں کچھ نہ کچھ ایسا ذ کر چاہئے جس میں نماز جنازہ کے وقت توجہ ہو اور انسان دل ڈال کر دعا کر سکے.مرزانیم احمد صاحب میں بعض خوبیاں تھیں جو ان کو منفرد کرتی تھیں اور میں پوری سمجھ کے ساتھ ، غور کے بعد یہ میں لفظ کہہ رہا ہوں کہ آپ ایک منفرد انسان تھے.آپ کی ساری عادتوں میں انفرادیت پائی جاتی تھی.سب سے اہم بات یہ تھی کہ کبھی کسی کی برائی نہیں کی.ساری عمر میں نے غور کر کے دیکھا ہے کسی نے دکھ بھی دیا ہے تو برداشت کیا ہے.کبھی بھی دل نہیں دکھا یا کسی کا اور ایسے انسان یقینا اللہ کو پیارے ہوا کرتے ہیں.بہت مواقع پر میں نے بڑے غور سے دیکھا کبھی بہنوں کی طرف سے، کبھی دوسروں کی طرف سے، بھائیوں کی طرف سے عزیزوں کی طرف سے ایسی باتیں ہو

Page 514

خطبات طاہر جلد 16 508 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء جاتی تھیں جس کے نتیجے میں ان کو دکھ تو لازما پہنچتا ہوگا لکن جواباً کبھی ایک حرف نہیں کہا اور جب بھی بات کی شگفتہ کی اور اس پہلو سے بھی ان کی انفرادیت ہے جس میں میں نے ان کا کوئی شریک کبھی نہیں دیکھا.مزاح کی عادت تھی مگر ایسا لطیف مزاح اور ان کا انداز ایسا کہ کبھی جس نے ان کے پاس بیٹھ کر ان کے مزاح کے نمونے دیکھے ہوں وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کبھی کسی اور انسان میں وہ انداز نہیں ہے جو ان میں تھا اور اچانک مجلس کھلکھلا اٹھتی تھی اور کوئی ان کی نقل اتار نہیں سکتا تھا.میری بیوی آصفہ میں کچھ اپنے بھائی والی بات تھی کہ ان کا مزاح کچھ مرزا نسیم احمد کے مزاح کا رنگ رکھتا تھا لیکن ان کی جو خصوصیت تھی وہ بہر حال خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص تھی.غریبوں کے ہمدرد، دل کے بہت نرم لیکن خفیہ ہاتھ سے خدمت کرنے والے.چندوں میں خدا کے فضل سے با قاعدہ.اپنی ساری اولا د کو خاص طور پر بیوی شاہدہ کی مدد کے ساتھ انہوں نے دین پر قائم کیا ہے.کچھ کمزوریاں تھیں جن کے پیش نظر وصیت نہیں کر رہے تھے کہتے تھے میں نے کرنی ہے اور پورا زور لگارہے تھے کہ میں اپنی نظر میں ایسا ہو جاؤں کہ میں وصیت کے قابل شمار کیا جاؤں.نمازوں میں باقاعدہ ہو گئے اور بہت سی چیزوں میں ترقی کرنی شروع کی لیکن عمر نے اس طرح ساتھ نہیں دیا.چنانچہ خواہش کے باوجود وصیت نہیں کر سکے لیکن حائل صرف خود تھے.مالی لحاظ سے بالکل کوئی پرواہ نہیں تھی لیکن یہ تھا کہ میں اپنی دینی حالت اور اخلاقی حالت کو خدا کی نظر میں ایسا بنا دوں کہ میں کہہ سکوں کہ ہاں میں موصی ہوں اور اسی انتظار میں دیر کر رہے تھے حالانکہ جو دیکھنے والا انسان ہے وہ ان کو دیکھا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان کی وصیت قبول نہ کی جاتی.چنانچہ میں نے ایک دو دفعہ کہلا کے بھی بھجوایا کہ آپ وصیت کریں مگر اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہے وہ بخشش میں وصیت کا محتاج نہیں ہے.ان کے ایک بیٹے عزیزم بشیر احمد سے میری بیٹی طوبی کی بھی شادی ہوئی تھی اور پچھلے کچھ عرصہ سے طوبیٰ سے بہت پیار کرنے لگے تھے.عام طور پر یہ اپنے چھوٹے عزیزوں سے بے تکلف نہیں ہوا کرتے تھے.مجلسیں بیرونی تھی اور باہر کے دوست ان پر عاشق تھے.اس پہلو سے کہ علم کے لحاظ سے بھی وسیع العلم، سیاست کا وسیع علم اور مجالس کو ہمیشہ اپنے لطیفوں سے مہکائے رکھتے تھے.بہت بڑے بڑے دنیا کے انسان ان کے انتظار میں رہتے تھے کہ کبھی میاں نسیم آئیں تو ہم ان کے ساتھ مجلس لگائیں اور مجھے پتا چلا ہے کہ کثرت سے ایسے لوگ آ رہے ہیں اور بہت غیر معمولی دکھ کا

Page 515

خطبات طاہر جلد 16 509 خطبہ جمعہ 4 جولائی 1997ء اظہار کر رہے ہیں تو آخری دنوں میں طوبیٰ سے بھی اور طوبی کے میاں بشیر سے جو ان کا پہلے بھی خاص عزیز تھا ان سے رات کو مجلسیں لگایا کرتے تھے اور کافی قریب تھے.بہر حال بہت سی باتیں ہیں جو کی جاسکتی ہیں لیکن میرا دل اس وقت ان باتوں کے ذکر کی طاقت نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے ایک مصرعدان پر صادق آتا ہے کہ: حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا“ ان جیسا میں نے اور کوئی انسان نہیں دیکھا.اپنی کمزوریوں میں بھی منفرد، اپنی طاقتوں میں بھی منفرد اور سارے دوست اب وہاں پہنچ کے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ہمیں اور نسیم کبھی نہیں ملے گا اور اس میں مبالغہ نہیں ہے.جو ان کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایسا آدمی دنیا میں شاذ کے طور پر ہوسکتا ہے جس طرح کہ ان کے اندر خوبیوں کا اجتماع تھا.کم گو، پاک دل کبھی کسی کی برائی نہیں کی کبھی غصے سے کسی کا جواب نہیں دیا.خاموشی سے دل پر بوجھ لینے والے اور بنی نوع انسان سے خصوصاً غرباء سے بہت محبت کرنے والے اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے.ان کی ساری اولا دکو اللہ تعالیٰ صبر اور ہمت عطا فرمائے اور ان کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ ہم سب نے وہیں جانا ہے جہاں نیم گئے ہیں.آج نہیں تو کل جائیں گے موت کو نہیں بھلانا چاہئے اور موت کے سفر سے پہلے وہ زادراہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے وہ سنبھالنے کی کوشش کریں تا کہ جب بھی بلاوا آئے خدا کے حضور اس کے پیار کی نظریں حاصل کرتے ہوئے حاضر ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 516

Page 517

خطبات طاہر جلد 16 511 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء یہ جلسہ وہ جلسہ ہے جو ہمارے مباہلے کے سال کے نتیجہ کو دکھانے والا جلسہ ہو گا.(خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 1997ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: قُلْ يُعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ پھر فرمایا: ( الزمر : 11) جلسہ سالانہ U.K جو عملاً سب دنیا کا مرکزی جلسہ بن چکا ہے بہت قریب آرہا ہے.اس جلسہ کی آمد کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی آمد بھی شروع ہے جو اکثر شامل ہوتے ہیں ان میں منتظمین بھی ہیں ، کام کرنے والے بھی ہیں جو نیک نیتیں لے کر خدمت کی غرض سے یہاں پہنچتے ہیں مگر اس وقت اس جلسہ کے ذکر میں جلسہ کے کاموں سے متعلق اور ذمہ داریوں سے متعلق کچھ بیان نہیں کروں گا بلکہ اس جلسہ کی ایک اور حیثیت آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ جلسہ وہ جلسہ ہے جو ہمارے مباہلے کے سال کے نتیجے کو دکھانے والا جلسہ ہوگا کیونکہ اس مباہلے میں خصوصیت کے ساتھ سب احمدیت کے دشمنوں کو یہ دعوت دی گئی تھی کہ تم زور مارو، دعائیں کرو، جو کچھ بن سکتی ہے بناؤ لیکن تم احمدیت کو نا کام نہیں کر سکتے اور اگر تم سچے ہو تو ہم تمہیں وقت دیتے

Page 518

خطبات طاہر جلد 16 512 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء ہیں دعائیں کرو، دعائیں کرواؤ ، زور مارو، سب کوششیں کر لولیکن تم دیکھنا کہ امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہت کثرت کے ساتھ بڑھ کر جماعت احمدیہ پھیلے گی اور بھی برکت کے آثار دکھائی دیں گے یہ مقابلہ ہے جو اس جلسہ سالانہ پر کھل کر سامنے آ جائے گا اور اس ضمن میں جماعتیں پہلے بھی کوشش کرتی تھیں اب اور بھی زیادہ کوشش کر رہی ہیں اور کوشش سے بڑھ کر دعاؤں سے کام لے رہی ہیں اور دعائیں بھی کوشش کا حصہ ہی ہیں کیوں کہ دعاؤں کے بغیر تو کوششیں کبھی بھی ثمر آور نہیں ثابت ہوتیں کبھی ان کو پھل نہیں لگا کرتا.پس اس پہلو سے میں خصوصیت سے جماعت کو اس جلسہ سالانہ کی آمد کے تعلق میں وہ تبلیغی کاروبار جو ہم نے شروع کر رکھا ہے، ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس کے ضمن میں کچھ باتیں آپ سے عرض کرنی چاہتا ہوں.یہ آیت جس کا میں نے انتخاب کیا ہے اس کا مضمون بالآخر اس بات پر پہنچتا ہے.اِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ کہ یقیناً صبر کرنے والوں کو اجر بغیر حساب کے بہت بڑھایا جاتا ہے اور صبر کرنے والوں کے ساتھ حساب نہیں کیا جاتا.پس یہ بات ہے جو آپ کو اس وقت پیش نظر رکھنی ہے کہ جماعت احمد یہ اپنی کوششوں سے ہمیشہ سے تبلیغ کے میدان میں کام کرتی رہی ہے مگر اس سے پہلے جو بھی پھل ملتے تھے وہ ذرا حساب کے مطابق ہوا کرتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے صبر کی طاقتوں سے پورا کام نہیں لیا اگر فی الحقیقت ہم صبر کی طاقتوں سے پورا کام لیتے تو لازماً بغیر حساب کا نظارہ ضرور دیکھنے میں آتا..اب جماعت احمدیہ میں عالمگیر سطح پر اس شعور کو بیدار کیا جا رہا ہے کہ جب دشمن دکھ دے یا مخالفانہ چالیں چلے تو تم نے جہاں تو کل کرنا ہے وہاں صبر سے بھی کام لینا ہے اور ہرگز صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.اس کی ایک تازہ مثال ایک ایسے افریقن ملک کی صورت میں سامنے آئی جہاں پاکستان کی طرز پر ایک بھر پور کوشش کی گئی تھی کہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم جماعت قرار دیا جائے.وہ خبیث پودا جس کو قرآن کریم خبیث پودا قرار دیتا ہے میں گالی کے لئے لفظ خبیث استعمال نہیں کر رہا بلکہ قرآنی اصطلاح میں یہ لفظ بیان کر رہا ہوں وہ پھیلتا نہیں مگر اکھیڑا جاتا ہے جگہ جگہ سے اور پھر آندھیاں اس کو دوسری جگہ پہنچا دیتی ہیں.اس ضمن میں یاد رکھیں کہ وہ ”پوہلی جو زردرنگ کا پھول رکھتی ہے اور کانٹوں والا ایک پودا

Page 519

خطبات طاہر جلد 16 513 خطبہ جمعہ 11 / جولائی 1997ء ہے اس کے پھیلنے کا بھی یہی طریق ہے.وہ اکھیڑی جاتی ہے زمین سے مگر آندھیاں اس کو لئے پھرتی ہیں جہاں جہاں وہ گرتی ہے وہاں کچھ بداثر ضرور دکھاتی ہے.پس اس وقت مولویوں کی دوڑ اس جڑی بوٹی کی طرح ہے جو بیماریاں پھیلانے والی ، کانٹے لئے پھرتی ہے ساتھ ساتھ اور جگہ جگہ کوشش کرتی ہے کہ خدا کے لگائے ہوئے پودوں کا خون چوس جائے اور ان کا رس پی کر خود بڑھے.یہ وہ سارے علماء ہیں جن کی میں بات کر رہا ہوں ان کی حکمت عملی اس کے سوا اور کوئی نہیں.جہاں بھی وہ خدا کے لگائے ہوئے پودے دیکھتے ہیں کہ وہ نشو ونما پا رہے ہیں وہاں یہ پوہلیاں ضرور پہنچ جاتی ہیں لیکن باقی زمین کھلی پڑی ہے وہاں جا کر اپنے اثر کو جس کو یہ نیک سمجھتے ہیں اس کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.پس جماعت احمد یہ مولویوں کے پیچھے بھاگی نہیں پھر رہی ، مولوی جماعت احمدیہ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں.یہ ایک خاص قابل توجہ بات ہے.جہاں جہاں جماعت احمدیہ کو کامیابی نصیب ہوئی ہے وہاں یہ خبیث پودا جس کی جڑیں اکھیڑی گئی ہیں یہ وہاں پہنچتا ہے اور وہاں کوشش کرتا ہے کہ وہ رس جو جماعت احمدیہ نے چوسا ہے جس کے نتیجے میں جماعت کی آبیاری ہو رہی ہے وہ یہ چوسنا شروع کر دیں اور اس میں ہم نے ان کو نا کام کرنا ہے اور بالکل نا مراد کر کے دکھا دینا ہے اس ضمن میں وہ افریقہ کا ملک میرے ذہن میں آیا تھا جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بڑی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور جہاں جہاں بھی ہوئی ہیں وہاں ضرور مولوی پہنچتا ہے.چنانچہ حکومت پر اثر انداز ہوا اور بعض کا رندوں کو اپنے ساتھ شامل کیا اور وہ تحریک شروع کر دی کہ جس سے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہایت ہی غلیظ زبان نہ صرف ریڈیو پر بلکہ ٹیلی ویژن پر بھی کی جانے لگی یعنی حکومت کی مشینری جب خود اپنے آپ کو اس میں ملوث دکھانا نہیں چاہتی تھی اس کے باوجود وہ اس میں ملوث تھی کیونکہ ذرائع ابلاغ جو حکومت کے قبضے میں تھے وہ ان لوگوں کے ہاتھ میں چلے گئے اس پر جماعت کو دوطرح کی فکر میں لاحق ہوئیں ایک یہ کہ یہ علاقہ زرخیز تھا جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے اس میں نشو ونما پا رہی تھی اب ان لوگوں نے انہیں لوگوں میں کام کرنا ہے جن سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے سعید فطرت بندے ڈھونڈا کرتے تھے اور وہاں ان کے گند لگ جائیں گے تو ہمارے ملک کو اس لحاظ سے

Page 520

خطبات طاہر جلد 16 514 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء بہت نقصان پہنچے گا.یہ تبصرہ تھا جو اس ملک کے رہنے والے کر رہے تھے اور پریشان تھے.دوسرا فکر ہمارے مربیوں کو اور امراء کو یہ لاحق ہوا کہ جماعت بڑی جو شیلی ہے اور ان کے گند بولنے سے اور ان کے بکواس کرنے کے نتیجے میں ہو سکتا ہے ان کو جوش آجائے اور جوش کے نتیجے میں پھرایسی کارروائیاں ہوں جو جماعت کے اصول کے خلاف ہیں اور وہ ان دشمنوں کو فائدہ پہنچائیں گی ہمیں فائدہ نہیں پہنچائیں گی.اگر قتل و غارت شروع ہو جائے ، اگر مخالف فریق کے کچھ آدمی مارے جائیں اور احمدیت کو بظاہر اس پہلو سے غلبہ ہو تو یہ غلبہ نہیں ہے.غلبہ یہ ہے کہ اپنے بے شک مارے جائیں مگر کثرت سے اور پھیلیں اور یہ غلبہ صبر کا غلبہ ہوا کرتا ہے اس لئے میں نے اس آیت کی تلاوت کی ہے کہ آپ کو سمجھاؤں کہ صبر کیا ہوتا ہے اور اس کے کیا نتیجے نکلتے ہیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کو وہاں بار بار میں نے پیغام بھجوائے اور تاکید کی کہ تم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا اور جوابی کارروائی ضرور کرنی ہے لیکن ان حدود میں رہتے ہوئے جن کی اسلام اجازت دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری جماعت اٹھ کھڑی ہوئی اور صبر کو پکڑے رکھا لیکن بڑے زور سے جوائی کارروائی کی اور یاد رکھیں کہ جوابی کارروائی جو صحیح رستوں پر چلتی ہے وہ صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے.وہ لوگ جو صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور جنگ و جدال پر اتر آتے ہیں ان کے جوش اسی میں نکل جاتے ہیں سارے.کچھ ان کے مارے گئے اور معاملہ ختم ہو گیا.جن کو کہا جائے کہ تم نے صبر سے کام لینا ہے اور اپنے غصوں کو نکالنا نہیں وہ مجبور ہو کر اچھی باتوں پر اپنے جوش کو صرف کرتے ہیں وہی جوش جو لوگوں کو مارنے پر صرف ہونا تھا وہ تبلیغ کرنے پر صرف ہوا.وہی جوش احمدیت کی خوبیاں دکھانے پر صرف ہونے لگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کی تدبیر اس بری طرح ناکام ہوئی کہ وہ سارے راہنما جو اس تدبیر کے راہنما تھے وہ یا تو اپنے مناصب سے ہٹا دئے گئے یالکھ لکھ کر جماعت سے معافیاں مانگنے لگے اور اقرار کیا کہ یہ غلط کام ہورہا تھا.تو دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ خدا تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بہت جزا دیا کرتا ہے ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتا دیکھ لیا.پس تمام دنیا میں یہی کوششیں جماعت کے خلاف جاری ہو چکی ہیں جہاں جہاں یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ جماعت کو خصوصیت سے کامیابی نصیب ہوئی ہے وہاں ایک مخالفانہ چال ضرور چلی جاتی ہے وہ سارے مولوی جو سوئے ہوئے تھے ایک دم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.اس سے پہلے بھی تو خدا کی

Page 521

خطبات طاہر جلد 16 515 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء زمینیں تھیں ، وہاں جا کے کام کیوں نہ کیا لیکن احمدیت کو جب خدا تعالیٰ زمینیں عطا کرنے لگتا ہے تو ان کو جوش آجاتا ہے ان زمینوں پر قبضہ کی کوشش کرتے ہیں جن پہ احمدیت قبضہ کر رہی ہے.یہی چیز ہندوستان میں بھی ظاہر ہوئی ہے، پتا نہیں کب سے سوئے پڑے مولوی جن کو نہ مسلمانوں کے اخلاق کی فکر ، نہ ان کے کردار کی طرف توجہ نہ ان کے ایمان اور عقائد کے متعلق کوئی فکر ، اپنے اپنے ڈیرے لگائے ہوئے اپنی اپنی سیادت پر راضی بیٹھے تھے جب دیکھا کہ جماعت احمد یہ پھیل رہی ہے تو اس کی تکلیف پہنچی ہے، شرک کے پھیلنے کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی.چنانچہ سارے ہندوستان میں جب شرک پھیل رہا تھا اور جھوٹے خداؤں کی عبادت کرنے والے شرک پھیلا رہے تھے کھلم کھلا اس وقت ان کو کوئی ہوش نہیں آئی.جماعت احمدیہ ہی تھی جو اس وقت بھی ان لوگوں سے نبرد آزما تھی.اب چونکہ ہندوستان کی توجہ جماعت کی طرف ہو گئی ہے اس لئے مولوی بہت اٹھ کھڑا ہوا ہے، بہت جوش دکھا رہا ہے.اس پر جب ان کی گالیاں سنیں اور لوگوں نے مجھ تک پہنچائیں تو میں نے جماعت کو یہی تاکید کی کہ آپ صبر سے کام لیں اور صبر کا یہی وقت ہوا کرتا ہے اس سے پہلے آپ کا حسن خلق دکھانا اور یہ کہنا کہ دیکھو ہم بڑا صبر کر رہے ہیں کوئی معنی نہیں رکھتا.جب آزمائش آئے اور آزمائش کے مقابل پر صبر مضبوطی سے اپنے پاؤں پر قائم رہے اور آندھیوں کے مقابل پر وہ اس طرح استقامت دکھائے جیسے مضبوط جڑوں والے درخت آندھیوں کے مقابل پر کھڑے ہو جاتے ہیں یہ صبر ہے اور ان لوگوں کی پرورش خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.اور اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ کا مطلب ان معنوں میں یہ بنتا ہے کہ اگر تم ایک تھے تو تمہیں پھیلا دیا جائے گا اور زیادہ زمینیں تمہارے سپرد کر دی جائیں گی اور خدا کی زمینیں بہت ہیں اس لئے فکر نہ کرنا تمہارے پاؤں تلے سے زمین نہیں نکالی جائے گی بلکہ تمہاری زمین بڑھائی جائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہی ہوا.ہندوستان میں جب سے جماعت احمد یہ شروع ہوئی ہے آج تک اتنی بیعتیں نہیں ہوئیں جتنی اس سال ہوئی ہیں جبکہ مولویوں نے اپنا پورا زور مار دیا تھا، ہر طرح کے ہتھیار استعمال کئے ، ہر طرح کے حربے اختیار کئے یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بے انتہا بکواس اور گندگی اچھالی گئی اور علاوہ ازیں نواحمدیوں پر بدنی ظلم کئے گئے.بعض علاقوں میں گاؤں کے گاؤں ان پر چڑھ آئے اور اب خدا کے فضل سے اسی ظلم کے سائے تلے

Page 522

خطبات طاہر جلد 16 516 خطبہ جمعہ 11 / جولائی 1997ء جماعت احمد یہ آگے بڑھی ہے اور بعض علاقوں میں جہاں یہ ظلم ہورہا تھا میں نے ان کو تاکید کی تھی کہ تم نے رکنا نہیں، یہ تم عہد کرو اور یہ صبر کا حصہ ہے.جو مرضی ہو تم صبر کے ساتھ ذکر الہی کرتے ہوئے آگے بڑھو اور ضرور تم کامیاب ہو گے.چنانچہ آج ہی کی ڈاک میں مجھے یہ خط دکھائی دیا اور یہ اس جمعہ سے تعلق رکھنے والا ہے.ایک دوست لکھتے ہیں یعنی ایک علاقے کے منتظم اعلیٰ ہیں وہ کہتے ہیں جہاں پہلے ہمیں مار پڑا کرتی تھی وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بعض گاؤں اپنی مسجدوں سمیت احمدی ہو گئے ہیں اور انہوں نے مولویوں کو کہلا بھیجا ہے اب اگر تم آئے تو اپنی خیر منا کے آنا.میں نے ان کو تاکیدا لکھا ہے فوری طور پر کہ اب ان کو بھی صبر کی تلقین کرو لیکن جب انسان کثرت سے دیکھتا ہے تو بعض دفعہ ایسے جوش کے اظہار ہو بھی جاتے ہیں ان کو سمجھانا ہے پیار سے اور یہ میرا پیغام براہ راست ان کو پہنچ رہا ہوگا، وہ غور سے اس بات کو سن لیں کہ اب جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ان علاقوں میں بھی غلبہ عطا کیا ہے جن میں پہلے غیروں کا قبضہ تھا جو آپ پر ظلم کیا کرتے تھے آپ کا غلبہ اس وقت ہوگا جب آپ اسلام کی تعلیم کے مطابق غلبہ حاصل کریں گے اور اس غلبے میں مظلومیت شامل ہے.آپ کی مظلومیت آپ کے ہاتھ سے نہیں جانی چاہئے.اگر عددی کثرت ہو اور اس کے باوجود بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے انسان جسمانی بدلہ نہ لے تو یہ مبر ہے.اگر جسمانی طاقت نہ ہو اور انسان خاموش بیٹھا ر ہے تو اس کو صبر نہیں کہا جا تا خواہ صبر ہو بھی مگر صبر دکھائی نہیں دے گا وہ صبر دکھائی اس وقت دے گا جب جسمانی غلبہ ظاہر ہو چکا ہو اور پھر دوسروں کو ظلم کا حوصلہ ہو اور غالب آنے والے جانتے ہوئے کہ ہم طاقتور ہیں اپنے ہاتھ روک لیں وہ روکنا خدا کی خاطر ہو گا.پس ان احمدیوں کو میری نصیحت ہے، میرا خط تو نہ جانے کب پہنچے گا لیکن اس خطبے کے ذریعے وہ خوب سن لیں کہ ان سب علاقوں میں جہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو غلبہ عطا فرمایا ہے آپ کی تعداد کی وجہ سے نہیں فرمایا، آپ کی مظلومیت کی وجہ سے غلبہ عطا فرمایا ہے، آپ کے صبر کی وجہ سے غلبہ عطا فرمایا ہے اگر مظلومیت ہی ہاتھ سے جاتی رہے اور صبر ہی جاتا رہا پھر خدا کا یہ وعدہ کہ إِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابِ یہ آپ سے واپس لے لیا جائے گا.پس جو بے حساب مل رہا ہے اس کو چھوڑ کر اسی پرانے حساب کے مطابق ایک ایک دو دو

Page 523

خطبات طاہر جلد 16 517 خطبہ جمعہ 11 / جولائی 1997ء بیعتوں پر اگر آپ نے واپس لوٹنا ہے تو پھر جو مرضی کریں لیکن خدا تعالی کی تعلیم کو اگر پیش نظر رکھنا ہے تو ہر غلبے کے ساتھ جو جسمانی ہو روحانی غلبہ اس طرح حاصل کریں کہ آپ مظلوم ہی رہیں ، آپ ظالم کبھی نہ بنیں اور وہ لوگ جو مظلوم رہتے ہیں ان پر بعض دفعہ دوسروں کو بڑے بڑے حوصلے پیدا ہو جاتے ہیں ان پر ہاتھ اٹھانے کے وہ بھی برداشت کریں.رفتہ رفتہ خدا ظلم کے ہاتھ کاٹے گا اور کئی طریقوں سے خدا تعالیٰ یہ کارروائی کیا کرتا ہے.بعض دفعہ آسمانی طور پر ایسے دشمن غضب کا نشانہ بنادئے جاتے ہیں آپ کی آنکھوں کے سامنے خدا ان سے انتقام لے گا جو آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور ایسے واقعات خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مختلف جگہوں سے رونما ہونے لگے ہیں.جہاں احمدیوں نے صبر سے کام لیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی حالت کو دیکھ کر دشمنوں پر ان کے بد اعمال ظاہر کرنے شروع کر دیے ہیں اس دنیا میں بھی ان کے ساتھ یہ سلوک ہے اور رہے گا اور آخرت میں بھی ہوگا.تو جب خدا خود آپ کے خلاف اٹھنے والوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے موجود ہے تو آپ کو ضرورت کیا ہے.پس صبر کے ساتھ قرآن کریم میں تو کل کو آپ ہمیشہ وابستہ پائیں گے ،صبر اور توکل اکٹھا چلتے ہیں ، صبر میں ایک تو پھیلاؤ ہے وہ رحمتیں ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہیں.دوسرا تو کل ہے کہ خدا خود دشمنوں نے نیٹتا ہے جو دشمن آپ کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں.اس پہلو سے بھی بہت سے ایسے نشان ظاہر ہو رہے ہیں جن کو اس وقت بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ وقت ہے لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں ہر مخالفانہ کوشش کی ناکامی کے بعد اب دشمن نے وہ اوچھا ہتھیار اٹھایا ہے جو پاکستان کے علماء نے اٹھایا تھا.ہندوؤں سے درخواست کی جارہی ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دو یعنی پاگل پن کی بھی حد ہے.اتنی بڑی بیوقوفی سرزد ہو رہی ہے ان سے کہ ان کو اس کا اندازہ نہیں.میں نے خود جماعت کو روکا ہوا تھا کہ ایسی تحریک نہ چلائیں جس کے نتیجے میں ہمیں گویا مشرکوں کے ساتھ مل کر کسی رنگ میں بھی مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنی ہو لیکن اپنے ہاتھوں سے یہ کروا بیٹھے ہیں یہ تحریک.وجہ یہ ہے کہ اب جماعت احمدیہ کو اجازت ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ اب اٹھو، بیشک جوابی کارروائی کرو.صبر سے کام لیتے ہوئے تم ہندوستان کے ہندوؤں سے کہو کہ تم وہ انصاف دکھاؤ جو پاکستان نہیں دکھا سکا.یہ ہمارے متعلق تمہیں بتائیں کہ ہم کیوں غیر مسلم ہیں تمہیں تو پتا ہی کچھ نہیں ،

Page 524

خطبات طاہر جلد 16 518 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء پہلے پتا تو کرو کہ ہم کیوں غیر مسلم ہیں.ہم ان کے متعلق ان کے قلم سے لکھے ہوئے فتوے دکھائیں گے کہ ایک دوسرے کی نظر میں یہ سارے غیر مسلم ہیں اور اگر یہی ہتھیار انہوں نے برتنے ہیں تو پھر اسی میدان میں مقابلہ ہو جائے تو میں آپ کو یقین سے بتاتا ہوں کہ تمام غیر احمدی فرقوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے خلاف دوسرے فرقوں نے یہ فتویٰ نہ دیا ہو کہ یہ غیر مسلم، دائرہ اسلام سے خارج بلکہ یہاں تک نہ لکھا ہو کہ ان کا کفر قادیانیوں سے بھی بڑھ کر ہے.اب یہ مقابلہ کرنا ہے تو چلو یہی مقابلہ کر لو اور ہندوستان میں یہ بہترین مقابلہ ہوگا.پس ہندوستان کی حکومت اگر عقل رکھتی ہے تو اول تو اس قسم کے غیر جمہوری مطالبے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گی لیکن اگر کچھ کرنا ہے تو یہ ان کے لئے موقع ہے ان کے دوسرے مسائل بھی سارے حل ہو جائیں گے.تمام مسلمان جماعتوں کو موقع دیں کہ وہ دلائل سے ثابت کریں کہ وہ کیوں مسلم ہیں اور دوسرے کیوں مسلم نہیں.ہم اس مقابلے کے لئے تیار ہیں اور اس صورت میں اگر وہ انصاف سے کام لیں گے تو ہندوستان میں سوائے جماعت احمدیہ کے کوئی مسلم جماعت باقی نہیں رہے گی.سارے غیر مسلم لکھے جائیں گے اور ہندوؤں کا ایک اور مسئلہ حل ہو جائے گا ان کو جو آئے دن مصیبت پڑی ہوتی ہے ہندو مسلم فساد اور یہ کہ مقابلے طرح طرح کے یہ سارے قصے ختم ہو جائیں گے کیونکہ احمدیوں کے سوا کوئی مسلمان رہے گا نہیں اور وہ پھر نان مسلم کے طور پر آپ کے کانسٹی ٹیوشن میں لکھے جائیں گے پھر نان مسلم، نان مسلموں سے جو چاہیں سلوک کریں مسلمانوں کو اس سے کیا غرض.غیر مسلم آپس میں لڑتے پھریں ہمیں اس سے کیا.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر انصاف سے پاکستان میں بھی کام لیا جاتا تو صرف ایک جماعت احمد یہ جس کا اسلام قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے.باقی سب کا اسلام خود ایک دوسرے کی تلواروں سے کاٹا جا چکا ہے.سو فیصد قطعی فیصلے ہر مذہب ، ہر فرقے کے موجود ہیں کہ ہمارے سوا باقی فرقے سب جھوٹے، دائرہ اسلام سے خارج ہیں، نام لے لے کر.پس اب اس تحریک کے جو بانی مبانی ہیں ان کے متعلق ہندوستان کے اکثریتی فرقے کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کا اسلام محض فرضی ہے، یہ غیر مسلم ہیں، ان کے بچے غیر شرعی ہیں ، ورثہ نہیں پاسکتے، یہ کسی مسجد میں گھسیں تو ان کو مار مار کے باہر نکال دو اور مسجد

Page 525

خطبات طاہر جلد 16 519 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء دھلوانے کا خرچ بھی ان سے لو اور طرح طرح کے ایسے فتاوی جواگر میں سارے آپ کو پڑھ کر سناؤں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ایک دوسرے کے خلاف یہ باتیں کر چکے ہیں اور پھر سارے مل کر احمدیت کے پیچھے پڑ گئے ہیں مگر کھلے ملک میں جہاں دلائل کو کھل کر پیش کیا جا سکتا ہے ہاں ہم یہ دکھائیں گے کہ یہ صاحب جو ہمارے خلاف مطالبہ کر رہے ہیں ان کا اپنا اسلام ثابت کر کے دکھائیں، جو چاہیں پیمانہ بنالیں ، اسی پیمانے کو ہم بھی استعمال کریں گے ان کے خلاف اور باقی سب ایسے فرقوں کے خلاف جوان کے ساتھ متحد ہیں اور ان پیمانوں سے جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے سچی مسلم ثابت ہوگی.میرے ذہن میں ایک پوری سکیم ہے جس کی خاطر، جس کی وجہ سے میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں ان باتوں میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.اگر انصاف ہو تو سو فیصد جماعت احمدیہ کے حق میں فیصلہ ہوگا ، جماعت احمدیہ کے خلاف یہ فیصلہ نہیں ہوگا.پس ہندوستان کی جماعتوں کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ اب وقت ہے کہ جوابی کارروائی شروع کریں اور اہل انصاف ہندوؤں کو شامل کریں اور اہل انصاف غیر ہندوؤں جو بھی وہاں بستے ہیں ان کو متوجہ کریں کہ اگر تم نے جمہوریت بچانی ہے تو سب سے پہلے اس رخنے کوختم کرو اور اگر اس کو قبول کرنا ہے تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قبول کرو اور دیکھو کہ کون مخلص ہے، کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم یعنی اپنی تحریروں سے، اپنے عقائد سے ، قرآن اور حدیث کی رو سے تمام دلائل ہم پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.پس انشاءاللہ تعالیٰ یہ جونئی تحریک وہاں چلی ہے یہ بھی خود ان کے منہ پر ہی پڑے گی اور ان کے لئے کوئی بھی چارہ نہیں اب جماعت احمدیہ کے مقابلے کا.یہ تحریک بتا رہی ہے کہ دل میں یقین رکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ جیت چکی ہے.جب بھی غیر مسلم بنانے کے لئے حکومتوں سے درخواستیں کی جائیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ عوام کی نظر میں یہ احمدیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے.اگر یہ مولوی ہندوستان کے عوام کی نظر میں احمدیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اس کثرت سے جماعت احمد یہ وہاں نہ پھیلتی اس لئے اب ان مشرکوں سے مانگ رہے ہیں وہ جو خدائے واحد کے قائل ہی نہیں ہیں ان کو درخواستیں دے رہے ہیں کہ خدا کے واسطے ہماری مدد کو آؤ ورنہ احمدی ہم سب کو کھا جائیں گے یہ ہے خلاصہ ان کی تحریک کا.

Page 526

خطبات طاہر جلد 16 520 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء پس جماعت احمد یہ جب تک صبر پر قائم ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کا کوئی بھی بال بریک نہیں کرسکتا کوئی بگاڑ نہیں سکتا لیکن تو کل ساتھ رکھیں یقین رکھیں خدا پر اور نا جائز حربے استعمال نہ کریں یہ دو شرطیں ہیں جو لازم ہیں.اگر یہ شرطیں آپ پکڑے رکھیں گے تو خدا کے فضل کے ساتھ ضرور پھیلتے چلے جائیں گے.اس آیت کے شروع میں اب جو چند باتیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے کھول رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ لِعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُم کہ اے میرے بندو، عباد مراد ہے اے میرے بندو الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمُ وہ میرے بندو جو ایمان لے آئے ہو اتَّقُوا رَبَّكُمُ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل دکھایا ہے ان کو اس دنیا میں ہی حسن عمل کا اجر عطا کیا جائے گا.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ پس وہ انتظار کریں اور ان کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ ان کا اجر دے گا اگر یہ بھی فرماتا تو صبر کی تلقین کے ساتھ یہ کہہ دیا جائے تو حرج کوئی نہیں مگر خدا اپنے بندوں کو عجیب صبر کی تلقین کرتا ہے.صبر کی تلقین کرتے ہوئے ساتھ یہ وعدہ بھی فرماتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ہم تمہیں تمہارے بہترین اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے.پس یہاں صبر سے مراد مومن کا تو کل اور انتظار ہے اور قرآن کریم نے غیر مسلموں کے لئے لفظ صبر کا استعمال نہیں کیا.جہنمیوں کے لئے صبر کرویا نہ کر و فرق ہی کوئی نہیں پڑتا مگر انتظار کا محاورہ استعمال فرمایا ہے، وہ انتظار کر رہے ہیں تم بھی انتظار کرو مگر غیر مسلموں کے لئے صبر کا مضمون آپ کو دکھائی نہیں دے گا.ان کو صبر آتا ہی نہیں اگر صبر آتا ہے ہو تو اپنی شکست کو تسلیم کریں اور دلائل کی رو سے اور محبت کے پیغام کے ذریعے وہ غالب آنے کی کوشش کریں یہ کھلا میدان ہے جو چاہے اس میدان میں آئے اور مقابلے کر لے.ان کو چھوڑ نا بتاتا ہے کہ وہ صبر کر نہیں سکتے ،صبر ان کو آتا ہی نہیں ہے اور صبر نہ کرنے والوں کا کبھی نیک انجام نہیں ہوا.یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم حسن عمل دکھاؤ ان معنوں میں نہیں کہ نتیجے کے لئے تمہیں مرنے کے بعد تک صبر کرنا پڑے گا.حسن عمل دکھاؤ اور صبر کرو تو اسی دنیا میں تمہاری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے صبر کے نیک نیتجے نکلیں گے.تمہارے حسن عمل کے بہت خوبصورت نتائج تمہاری آنکھوں کے

Page 527

خطبات طاہر جلد 16 521 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء سامنے ظاہر ہوں گے اور ان نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ وَاَرضُ اللَّهِ وَاسِعَةُ اللہ کی زمین کو وہ کھلا اور پھیلا ہوا دیکھیں گے.وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ کا مضمون اس آیت کے معا بعد رکھا گیا ہے حالانکہ بظاہر اس کو صبر کے ساتھ جوڑا جاتا ہے.اب خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں صبر سے پہلے وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ رکھا ہے جس کا اس وعدے سے تعلق ہے، فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ.ایک تو صبر کرنے والوں کے لئے یہ خیال کہ خدا کی زمین وسیع ہے یہ ان کی تقویت کا موجب بنتا ہے مگر یہاں حسن عمل دکھانے والوں کو وسعت ارضی کا وعدہ دیا گیا ہے اس دنیا میں ان کو کیا خوبصورت نتائج دکھائے جائیں گے.ایک یہ ہے اَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ کہ خدا کی زمین بڑی وسیع ہے اور نئی نئی زمینیں تمہیں دکھائی جائیں گی نئی نئی قو میں تمہارے سامنے لائی جائیں گی.جیسے کہ مسیح نے پیش گوئی کی تھی کہ کنواریاں اس کا انتظار کر رہی ہیں مسیح کے متعلق کہا گیا ہے بائبل میں.مراد یہ تھی کہ کنواری قو میں، ایسی قومیں جن پہ پہلے خدا تعالیٰ کے پیغام کی کاٹھی نہیں ڈالی گئی.پس جماعت احمدیہ کو اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ کہنے میں ایک پیشگوئی ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری زمین کو پھیلائے گا اور وسیع کر دے گا جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ فرمایا أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانبيا: 45) کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ان سب کی زمینیں کاٹی جارہی ہیں اور محمد رسول اللہ کی زمینیں بڑھ رہی ہیں اور جتنی ان کی زمینیں کم ہوتی ہیں آنحضرت ﷺ کی زمینیں بڑھتی چلی جارہی ہیں تو ایک تو یہ معنی ہے وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً کا کہ تمہاری زمین ضرور پھیلے گی اور دوسرا یہ معنی ہے کہ اور قوموں کی طرف بھی توجہ کرو.جن جگہوں پہ خدا تعالیٰ تمہیں کامیابی عطا کرتا ہے وہاں تک نہ ٹھہرے رہوا گر تم تلاش کرو گے تو خدا کی زمین بہت پڑی ہوئی ہے کام والی.پس ایک بنیادی فرض کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو عام طور پر لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا اور یہ دکھائی نہ دینے کی وجہ سے تبلیغ کرنے والوں کو بعض دفعہ بہت بڑا نقصان پہنچ جاتا ہے.اب جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے کسی خاص علاقے میں عددی غلبہ عطا کیا ہے ان کو یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ ارض اللہ اتنی وسیع ہے کہ ہندوستان میں ہزار ہا میل کے ایسے ٹکڑے ان کو دکھائی دیں گے جہاں ایک بھی مسلمان نہیں ہوگا اس لئے اپنے چھوٹے سے علاقے میں غلبے کو دیکھ کر خواہ وہ کتنا

Page 528

خطبات طاہر جلد 16 522 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء عظیم غلبہ دکھائی دے یہ بات بھول جانا کہ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ یہ ان کی بے وقوفی ہوگی اور ایسی بیوقوفیاں بسا اوقات نقصان پہنچاتی ہیں.ہندوستان میں جو پہلے ہندوستان تھا، پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکر اسی کا حصہ ہیں ہم نے تجربہ کر کے دیکھا ہے اور میں نے اس پہلو سے خاص طور پر نظر دوڑائی ہے ان جماعتوں میں جہاں ان کو عددی غلبہ ہو گیا.انہوں نے سمجھا کہ سارا ضلع ہی فتح ہو گیا یہ نہیں سوچا کہ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ.تمہاری زمین تو چھوٹی سی تھی جوار دگر د پھیلی ہوئی جگہیں ہیں وہاں نظر تو ڈال کے دیکھو، بہت بڑی زمینیں ایسی پڑی ہوئی ہیں جہاں تمہیں کام کرنا باقی ہے اور تم نے ابھی کام نہیں شروع کیا.تو اللہ تعالیٰ حسن پر حسن عطا کرتا چلا جاتا ہے مگر تمہاری وسعتوں کے ساتھ دوسری وسعتیں تمہیں بلاتی ہیں اور اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور یہ پیغام ایک اور رنگ میں ابھرتا ہے اَرْضُ الله وَاسِعَةً اس زمین کو خدا نے تمہارے سپرد کیا ہے کافی نہ سمجھو اور بھی زمینیں پڑی ہوئی ہیں.پس اس پہلو سے جب آپ گر دو پیش کو دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ بہت بڑے علاقے پڑے ہیں جہاں احمدیت کا کوئی نشان نہیں ہے.انگلستان کی جماعت کو میں اس پہلو سے متوجہ کرتا ہوں کہ وہ پہلے مخاطب ہیں ، باقی سب جماعتیں بھی ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ ہی مخاطب ہوں گی.تو آپ کو میں متوجہ کرتا ہوں آپ انگلستان کا جائزہ لے کر دیکھیں ہمارے کام کرنے والے اٹھتے ہیں اپنی جماعتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور جماعتوں کے اس محلے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں احمدی ہیں حالانکہ اگر وہ ان کو چھوڑ کر دوسری جگہ پھر کر دیکھیں تو جس شہر میں وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے احمدی ہیں وہ احمدی آٹے میں نمک کی طرح بھی دکھائی نہیں دیں گے.پر اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ کا مضمون تو ہر جماعت کے گردو پیش سے شروع ہو جائے گا اور ان کو چھوڑ کر باقی شہر اور بستیاں گن کے دیکھیں کتنی ہیں آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جماعت کی تعداد اگر ستر ہے تو یہاں جو بستیاں ساری شمار کر لی جائیں تو ستر ہزار سے زائد ہوں گی.اللہ بہتر جانتا ہے میں نے اس کے اعداد وشمار نہیں دیکھے لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ ہر کاؤنٹی میں بے شمار بستیاں ہیں، چھوٹے چھوٹے گاؤں ان کو کہتے ہیں بڑی بستیاں، بعض زمیندار ہیں جن کی اپنی آبادی ہے ایک اور وہی ان کی بستی بن جاتی ہے.پس اگر انگلستان کی بستیاں شمار کریں تو ستر ہزار سے بھی

Page 529

خطبات طاہر جلد 16 523 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء بہت زیادہ ہوں گی اور یہ بھی مضمون ہے اَرضُ اللهِ وَاسِعَةً کا تم دیکھو تو سہی کہ خدا کی زمین کتنی وسیع پڑی ہوئی ہے وہیں وہیں بار بار پہنچیں جہاں پہلے بھی پہنچ چکے ہیں اور ان سارے علاقوں کو شمار کریں جو کہ ہیں ہی نہیں یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے.چنانچہ پاکستان میں اب سیالکوٹ کی مثال سامنے ہے بڑی دیر تک وہ اپنے عددی غلبے کو جو ایک چھوٹے سے حلقے میں تھا سارے ضلع پر غلبہ شمار کرنے لگے اور یہ حد سے زیادہ بے وقوفی تھی کہ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ کے مضمون پر غور نہیں کیا انہوں نے.اگر وہ دیکھتے تو پتا چلتا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں، ارد گرد جو خالی جگہیں پڑی ہوئی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں.وہ انہوں نے مولویوں کے لئے چھوڑ دیں وہاں وہ خبیث پودا لگانا شروع کر دیا انہوں نے.تو یہ عجیب حالت ہے کہ جماعت کے اردگرد جو خالی جگہیں تھیں اس پر خود مولوی کو قبضہ دے دیا اور جو پودے ہیں یہ بعض دفعہ اتنی تیزی سے نشو ونما پاتے ہیں اس لئے سیالکوٹ میں ہمارے لئے ایک بڑی مصیبت یہ بن گئی کہ مخالفانہ پروپیگنڈا اتنا زیادہ کیا گیا کہ وہ جو احمدی بستیاں تھیں وہ چھوٹے چھوٹے جزیرے دکھائی دینے لگے بلکہ ان سے بھی کم.اب ارد گردان کے لئے تبلیغ مشکل بنادی گئی.اتنی دیر خاموشی سے اس کو دیکھنا یہ نفسی تکبر کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے انسان سمجھے کہ مجھے غلبے کی ضرورت تھی وہ مل گیا اور جو میں نے پہلے مضمون بیان کیا تھا اصل میں اس کی وجہ سے ہے.لوگ سمجھتے ہیں عددی غلبہ پیدا کرنا دین کا مقصد ہے.یہ بالکل غلط ہے.مظلومیت کو بڑھانا اور صبر کو وسعت دینا یہ دین کا مقصد ہوا کرتا ہے.دنیا میں جتنی خرابیاں ہیں یہ قوموں کے عددی غلبے کی وجہ سے ہیں.جب قوموں کو عددی طور پر ایک وسعت اور طاقت نصیب ہوتی ہے تو پھر وہ متکبر ہو جاتی ہیں، پھر وہ ظلم کیا کرتی ہیں.مظلومیت کو اس طرح پھیلانا اور صبر کو اس طرح وسعت دینا کہ آپ غالب آجائیں تو صبر غالب آئے ، غالب آتے ہوئے صبر کرنا سیکھیں اور صبر کرنا سکھائیں.مظلومیت اختیار کئے رہیں، اس کو چھٹے رہیں اور مظلومیت کے ذریعے ظالم کو جواب دیں یہاں تک کہ آپ اس طاقت میں آجائیں کہ ظالم بننا چاہیں تو بن سکیں لیکن ظلم کا پھل تو آپ دیکھ چکے ہیں اور چکھ چکے ہیں.اکثر ظلم کا نشانہ جماعت احمد یہ ہی بنائی گئی ہے لیکن مظلومیت کا پھل بھی آپ چکھ رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ بہتر ہے، یہ خوبصورت پھل ہے، یہ طیبہ رزق ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے

Page 530

خطبات طاہر جلد 16 524 خطبہ جمعہ 11 / جولائی 1997ء ساتھ آسمان سے باتیں کرنے والے درخت ہیں جو پھیلیں گے اور ساری زمین پر غالب آ سکتے ہیں اگر خدا چاہے.تو اس لئے اس کی طرف توجہ دیں اپنی مظلومیت اور صبر کی اقدار کی حفاظت کریں اور اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ کی طرف نظر رکھیں.خدا جب آپ کو پھیلاتا ہے اگر آپ نے صبر کا ساتھ پھیلانا بند کر دیا اور خود اپنے ہاں متکبر ہو کے بیٹھ گئے تو آرضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ آپ کے لئے نہیں رہے گی غیروں کے لئے بن جائے گی.پس دو طرح سے ہم نے زمیندارے میں دیکھا ایک تو یہ کہ جس فصل کی خاص نگہداشت کی جائے وہاں یہ گندا بوٹا ضرور پہنچنے کی کوشش کرتا ہے.کوشش کرتا ہے کہ وہ کھیت کا خون چوس کر اس غیر کو پہنچا دیں جو مقصود نہیں ہے زمیندار کا اور کچھ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض زمینوں پر پہلے سے ہی گندی بوٹیاں قبضہ کر لیتی ہیں ان پر بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور اس محنت کے تعلق میں مجھے سندھ میں تجربہ ہوا جس میں کلر کا غلبہ بھی شامل تھا اور بوٹیوں کا بھی.میں جب تک وہاں ان زمینوں کا نگران تھا میں منتظمین کو یہ ہدایت کرتا رہا ہوں کہ اکٹھا ہاتھ نہ ڈالو کچھ کچھ حصے پر قبضہ کر اور صبر کا ایک یہ بھی مضمون ہے.کام بہت بڑا ہے پچاس ہزار ایکڑ آپ نے اپنانے ہیں اور ان کو کاشت کر کے زمیندارے کو وہاں نفع مند بنانا ہے یہ کام ہے اگر صبر سے کام نہیں لیں گے تو جلدی کریں گے اور جلدی میں ایسی ایسی سکیمیں بناتے ہیں که سارا علاقہ ایک دم ہاتھ میں آجائے کبھی بھی نہیں آیا کرتا، کچھ بھی حاصل نہیں ہوا کرتا.تو جو باتیں میں اپنے منتظمین کو سمجھایا کرتا تھا وہ اب ساری جماعت کو سمجھا رہا ہوں کہ جن علاقوں میں دشمن نے گندگی پھیلا دی ہے ان کے بعض چھوٹے حصے خصوصیت کے ساتھ زیر نظر لائیں، ان کی اصلاح کریں، ان کی زمینوں کو صحت مند زمینیں بنادیں اور ان کو اپنا لیں تو پھر خدا تعالیٰ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ کا ایک نیا معنی آپ کو عطا کرے گا اور آپ دیکھیں کہ ارد گرد کی جو منحوس زمین تھی وہ طیبہ زمین میں تبدیل ہونی شروع ہوئی ہے اور یہ ساری زمین اللہ کی زمین بن گئی ہے.اگر چہ اللہ ہی کی ہے مگر اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ کہنے میں ایک یہ بھی مضمون ہے کہ اصل میں اس کو اَرْضُ اللہ ہونا چاہئے اور یہ اَرْضُ اللہ نہیں رہی، یہ شیطان کی یا دشمن کی ہوچکی ہے تم نے اس سے چھینی ہے اور واپس لے کے خدا کے حضور پیش کرنی ہے.پس اس طرح ہر ملک میں اگر جماعت اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالے تو بہت سی گندی زمینیں ہیں.

Page 531

خطبات طاہر جلد 16 525 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء اور وہ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ہم ان کو کس طرح اصلاح پذیر کریں گے سوال اس لئے اٹھتا ہے کہ بے صبری ہے طبیعت میں سوال اس لئے اٹھتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں جلدی ہو جائے اور ہم کر نہیں سکتے وہ سمجھتے ہیں میرے مطالبے یہ ہیں کہ تم تین لاکھ سے چھلا کھ ہو جاؤ ، چھ لاکھ سے بارہ لاکھ ہو جاؤ تو اس کی وجہ سے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں وہ طریقے بھی تو بتا تا ہوں جن کے ذریعے سے چھ بارہ ہو سکتے ہیں لیکن یہ صبر کے ساتھ ہو سکتا ہے.ایسے لائحہ عمل اختیار کئے جائیں جن میں صبر کے ساتھ لازما آپ نے آگے بڑھنا ہے.پس اس پہلو سے آپ یا درکھیں کہ تھوڑے تھوڑے علاقے اپنے گردو پیش میں ایسے دیکھیں جن پر آپ قابض ہو سکتے ہیں اور دور دور کے علاقوں میں پیغام رسانی کریں یہ دونوں کام بیک وقت ضروری ہوا کرتے ہیں کیونکہ مختلف جگہ Oasis بنائے جاتے ہیں یعنی نخلستان اور وہ نخلستان پھر خدا کے فضل سے پھیلنے لگتے ہیں.تو دو طریق سے کام کریں جماعتیں اپنے گردو پیش دیکھ کے خالی زمینوں پر محنت شروع کر دیں اور ان کی اصلاح شروع کریں اور جو علاقے بالکل خالی پڑے ہیں ان میں کہیں نہ کہیں پیر لگانے شروع کر دیں تا کہ ہر یا ول جگہ جگہ دکھائی دینے لگے اس طریق پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے صبری کے بغیر انسان آگے بڑھتا ہے اور جگہ جگہ چونکہ کچھ درخت دکھائی دیتے ہیں اس لئے زمیندار کی نظر خوش ہوتی ہے دیکھ کر اور رفتہ رفتہ اس کی زمین بڑھتے بڑھتے سارے ملک پر پھیل جاتی ہے.ابھی ہمارا کام بہت زیادہ ہے اس سال اگر ہم اپنے مقصد کو حاصل کر لیں جو ہم نے ٹارگٹ بنایا تھا اس کو پالیں تو اگلے سال یہ تکنا ہوگا جو بہت ہی زیادہ مشکل ہو چکا ہو گا.مگر جو قرآن کریم نے نصیحتیں فرمائی ہیں جن پر آنحضرت ﷺ نے عمل کر کے دکھایا ہے اگر ان باتوں کو چمٹے رہیں تو آپ دیکھیں گے کہ ناممکن چیز ممکن ہوتی چلی جارہی ہے اور ضرور ہوگی یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے.جن جماعتوں کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی توفیق بخشی تھی گزشتہ سال تین لاکھ مثلاً بنائے وہ چھ لاکھ پر بہت گھبرا رہے تھے ان سے میں نے کہا کہ تم نے کون سے بنانے ہیں ، اللہ نے بنانے ہیں تم اللہ کے بتائے ہوئے کاموں پر اس کی ترکیبوں پر عمل کرنا شروع کر دو پھر تو کل کرو کام کے بغیر تو کل نہیں ہوگا.اونٹ کا گھٹا باندھا جائے پھر تو کل شروع ہوتا ہے اونٹ کا گھٹنانہ باندھا جائے اس کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ

Page 532

خطبات طاہر جلد 16 تو کل نہیں ہے.526 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء تو میں نے ان کو سمجھایا کہ تم تو کل ان معنوں میں کرو کہ جو جو آپ کو ہدایتیں دی جارہی ہیں ان پر عمل شروع کر دیں اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں اب وہ چھ والے جو تھے جنہوں نے تین سے چھ کرنا تھا اب وہ ہمیں لکھ رہے ہیں کہ انشاء اللہ ہم نے دس بنانے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ ہم کس تیزی سے اپنے اس نئے ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں، چھ کی بجائے دس لاکھ نئے احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو پیش کئے جائیں گے.تو صبر کے نتیجے میں حوصلے بھی بڑھتے ہیں، صبر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مزید حسن عمل کی توفیق عطا فرماتا ہے لیکن ان کو یہ نہیں پتا کہ اگلے سال میں نے دس کو سامنے رکھنا ہے چھ کو نہیں رکھنا اور دس کو نہیں کرنے کا کہوں گا تو اچھا ہے ان باتوں سے آنکھیں بند رہیں مگر اگر وہ توكل علی اللہ کریں گے، اگر وہ دعاؤں سے کام لیں گے تو دس بیس بھی ہو جائیں گے.اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سے ملکوں میں جماعت اس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ جہاں پہنچ کر پھر الٹ جایا کرتی ہے دوسری طرف.رفتار ایک حد تک تو ان معنوں میں بے حساب بھی ہوتی ہے اور حساب بھی رکھتی ہے، بے حساب یہ کہ ہماری توقع سے بہت زیادہ مل رہا ہے ، حساب یہ کہ دگنا ہورہا ہے اور پھر دگنا اور پھر دگنا مگر آخر پہ جا کر عموماً دیکھا گیا ہے کہ پھر ساری جماعت باقی سارے ملک پر اثر انداز ہوگی اور اور وہ تھوڑی تھوڑی تعداد میں آنے کی بجائے ایک دم سارے کا سارا ملک ٹوٹ جاتا ہے اس کو پنجابی میں کہتے ہیں ڈھایا پڑ گیا.ایک دریا جب سیلاب میں طغیانی دکھاتا ہے تو ایک موقع پر آکر پہلے کناروں کو Erode کرتا چلا جاتا ہے اس کے بعد پھر جب ڈھایا پڑتا ہے تو سارے کے سارے کنارے ٹوٹ ٹوٹ کے نیچے جا گرتے ہیں اور پھر وہ دریا کی حدود میں نہیں رہتا پانی بلکہ باہر نکل کر سارے ملک میں پھیل جاتا ہے.اس پہلو سے مجھے بعض ملکوں میں ڈھایا پڑنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں.اگر آپ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اگلے دو سال میں ہمیں ضرور خدا تعالیٰ ایسے حیرت انگیز نظارے دکھائے گا جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن ساری جماعت کے لئے ان سب کے لئے دعا کرنا ضروری ہے کیونکہ جتنے زیادہ تیزی کے ساتھ احمدی پھیلیں گے اتنے ہی زیادہ اس کے خطرات بھی ہیں اور ان کو سنبھالنے کا کام ہے جو بہت مشکل ہے اس ضمن میں میں نے گزشتہ خطبے میں جماعت

Page 533

خطبات طاہر جلد 16 527 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997 ء احمد یہ کینیڈا کو اور ان کی وساطت سے آپ سب کو نصیحت کی تھی کہ ساتھ ساتھ بعض بنیادی عملی کمزوریاں ہیں جن کو دور کرنے کی کوشش کریں ان میں سب سے پہلے قرآن کریم کی طرف توجہ دلائی تھی.جن گھروں میں باقاعدہ روزانہ تلاوت ترجمے کے ساتھ نہیں ہوتی اور ترجمے کے ساتھ قرآن نہیں پڑھا جاتا آپ بودی نسلیں آگے بھیجنے والے بنیں گے، نام کے احمدی رہیں گے.اللہ بہتر جانتا ہے کب تک رہیں اور کام کے کبھی بن بھی سکیں گے کہ نہیں کیونکہ جن کو بچپن سے قرآن سکھایا جائے اور قرآن کا گھروں پر غلبہ ہو یہ وہ لوگ ہیں جن کا قرآن باقی بہستی پر بھی غالب آیا کرتا ہے اپنے گھروں پر غالب کر لیں اپنے بچوں پر غالب کر لیں، ہر بچے پر یہ فرض کر دیں کہ وہ قرآن کریم کو سوچے سمجھے اور روزانہ کچھ نہ کچھ اتنا ضرور قرآن کا عرفان حاصل کرے کہ اس کے نتیجے میں اس کی اپنی تربیت شروع ہو جائے.یہ مضمون انشاء اللہ تعالیٰ اگلے یا اس کے بعد کے کسی خطبے میں نسبتاً زیادہ تفصیل سے آپ کے سامنے رکھوں گا.سردست یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ خدا کی زمین وسیع ہے، ہمارے لئے پھیل رہی ہے اور اس کے علاوہ اور دور کی زمینیں دکھائی دینے لگی ہیں وہ زمینیں ہمیں دکھائی دینے لگی ہیں جو پہلے نظر سے بالکل اوجھل تھیں.ان میں کام باقی ہے اور بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں.ہندوستان کے علاوہ عرب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے عرب سے میری مراد ہے وہ سارے ممالک جن میں عربی بولی جاتی ہے، بہت کام پڑے ہوئے ہیں.اس دفعہ کینیڈا میں مجھ سے بعض عربوں نے بڑے زور سے یہ سوال کیا کہ تم کہاں رہے ہو اتنی دیر، بتایا کیوں نہیں کہ اتنی اچھی تعلیم ہے، ہم کیوں بھٹکے رہے ہمیں کیوں محروم رکھا گیا ؟ ان کو میں نے بتایا کہ ہم نے محروم نہیں رکھا تمہارے اپنے بڑوں نے تمہیں محروم رکھا ہے یا مولویوں نے محروم رکھا ہے یا حکومت نے محروم رکھا ہے اور ہماری کوشش تو تھی اور صبر کے ساتھ ہم مسلسل عربوں کو چاہتے رہے، عربوں سے محبت کرتے رہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اور اپنے محسن کا یہ احسان ہم کبھی بھی نہیں بھولے کہ عربوں میں سے وہ شخص پیدا ہوا ہے اور اس قوم نے ساری دنیا پر اسلام کے احسانات کئے ہیں اس قوم کا ہم پر ایک حق ہے اور اب ضروری ہے کہ ہم اس حق کو کسی نہ کسی رنگ میں اتارنے کی کوشش کریں.چنانچہ ان کو پیار سے سب کو سمجھایا اور بتایا کہ تمہارے اپنے مذہبی راہنما، تمہاری حکومتیں اس

Page 534

خطبات طاہر جلد 16 528 خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء راہ میں حائل رہی ہیں لیکن یہ بھی جماعت کا صبر تھا کہ کوششیں نہیں چھوڑیں اور اب جو آسمان سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی آواز اتر رہی ہے اور تصویروں کے ساتھ اتر رہی ہے یہ بھی دراصل صبر ہی کا پھل ہے اور زمین کی وسعتوں کا ایک یہ بھی نشان ہے.اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ کا یہ آخری معنی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے جو وسائل عطا کئے ہیں ان میں وہ ساری زمینیں بھی جو ہم جہاں تک پہنچ نہیں سکتے تھے مثلاً عربوں کی زمینیں ، اب آسمان سے خدا تعالی کی آوازان تک اتر رہی ہے اور وہ زمینیں جماعت احمدیہ کے قبضے میں آرہی ہیں اگر آپ اسی طرح ہر پہلو سے جو جماعت کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اپنے سامنے رکھتے ہوئے کوششیں کریں گے زمین پر پھیلیں گے آسمان سے بھی اتریں گے تو امید ہے انشاء اللہ وہ کام جو آپ کو مشکل دکھائی دے رہا ہے آئندہ چند سالوں میں اگلی صدی شروع ہونے سے پہلے پہلے ممکن ہو جائے گا.میں اسی پہلو پر غور کر رہا تھا تو خدا تعالیٰ کے احسانات کے نیچے میرا سارا وجود ٹوٹ گیا.پھر مجھے ایک دم خیال آیا کہ اے اللہ کئی لوگوں کو تو خوا ہیں دکھاتا ہے اور وہ ان کی تعبیروں کے انتظار میں اپنی عمریں گنوا بیٹھتے ہیں تو مجھے ہر سال نئی خوا ہیں دکھاتا ہے اور ہر سال ان نئی خوابوں کی تعبیریں پوری کر دیتا ہے اس احسان کا بدلہ تو ہو ہی نہیں سکتا مگر اس احسان کے نتیجے میں جو شکر کا حق آتا ہے وہ بھی انسان ادا نہیں کر سکتا.شکر کے میدان میں بھی آگے بڑھیں آسمان سے لازماً خدا کی طرف سے ایسے فرشتے اتریں گے جو آپ کی مدد کریں گے اور آپ کی زمینیں بڑھاتے چلے جائیں گے کیونکہ وہ خدا کی زمینیں بننے والی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 535

خطبات طاہر جلد 16 529 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997ء جلسہ اس مقصد کی خاطر ہے کہ خدا کے بندے خدا کے ہو جائیں جو عبادت کے بغیر ممکن نہیں.( خطبه جمعه فرمودہ 18 جولائی 1997ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيْطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا بنی اسرائیل : 27 ،28) پھر فرمایا: جلسہ سالانہ میں اب صرف ایک ہفتہ باقی ہے اور وہی دن پھر آگئے ہیں جو ہر سال ہمیشہ آتے رہتے ہیں.یہ ایک ہفتہ جلسے کی مختلف تیاریوں میں خصوصیت کے ساتھ مصروف رہے گا.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مختلف نئے چہرے دکھائی دینے لگے ہیں جو محض جلسے کی خاطر رونما ہوتے ہیں اور جلسے کے بعد پھر واپس اپنے وطن کو لوٹتے ہیں.مختلف ممالک سے اس جلسے میں شرکت کے لئے کچھ دوست آچکے ہیں، کچھ آرہے ہیں.اس لئے انہی دنوں کی باتیں جو ہمیشہ دہرائی جاتی ہیں وہی دہرائی جائیں گی.آج کے خطبے میں میں وہی باتیں آپ کو یاد کراؤں گا جو ہمیشہ یاد کراتا رہتا ہوں لیکن جلسہ کے موقع پر ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں جو خاص اس جلسے سے تعلق رکھتی ہیں.سب سے پہلے تو آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو اور بھی آئیں گے، بعد میں آئیں گے ان سب کو بحیثیت امام جماعت احمدیہ بھی اور بحیثیت انگلستان میں رہنے والے آپ کے سب

Page 536

خطبات طاہر جلد 16 530 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997ء سے بڑے مہمان نواز کے طور پر آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں.سارے انگلستان کی جماعت اس وقت ہمہ تن مصروف ہے اور جن کو توفیق ہے وہ اپنے گھروں کو بھی ٹھیک کروا رہے ہیں.آج کل آپ کو بہت سی ایسی شاپنگ ملے گی جو محض جلسے کی خاطر ہوتی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ہوتی رہے گی.ان امور میں سب سے پہلے تو میں آنے والوں کے متعلق کچھ باتیں کہوں گا، پھر مہمان نوازوں کے متعلق بھی کچھ باتیں کہوں گا.جہاں تک آنے والے ہیں ان کا تعلق محض خدا سے ہے، اللہ کی خاطر آئے ہیں.یا یوں کہنا چاہئے کہ خدا کی خاطر ان کو آنا چاہئے اور دوسری ساری اغراض کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے.بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ آنے والے کچھ اور نیتیں بھی ساتھ رکھتے ہیں جن میں سے ایک نیت یہاں پناہ ڈھونڈ نا یا یہاں نہیں تو یہاں کے بہانے بعض دوسری جگہ پناہ ڈھونڈنا ہے.پناہ ڈھونڈ نا ان کا ایک حق ہے لیکن جلسے کو اس کے لئے استعمال کرنا ان کا حق نہیں ہے بلکہ جماعتی لحاظ سے یہ ایک بہت خطرناک جرم ہے.ایسا کہ پھر زندگی بھر بخشا نہیں جائے گا.اس لئے میں واضح طور پر آپ سب کو متنبہ کرتا ہوں.اگر چہ لازماً بہت بھاری تعداد آپ میں سے ایسی ہوگی جو محض خدا کی خاطر آئے، خدا کی خاطر واپس جائیں گے.کئی صرف چہرہ دیکھنے آتے ہیں، چہرہ دیکھ کے چلے جاتے ہیں.اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ پہلے بھی آتے رہے اور جلسہ سالانہ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے.ایسے لوگوں کو جماعت سے نکال دیا گیا اور اب وہ جتنی چاہیں درخواستیں لکھیں اب ان کو دوبارہ جماعت احمدیہ میں داخل نہیں کیا جائے گا.اسی حالت میں ان کی موت آئے گی کیونکہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی بجائے دنیا کو دین پر مقدم کیا اور تمام مخلصین کو جو پاکستان میں محض جلسے کے لئے ترستے رہتے ہیں ان کو جلسوں سے محروم کر دیا.یہ بڑا جرم ہے جو عام جرم نہیں ہے.اب موت کے بعد ہی خدا تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا کہ کس حد تک وہ معافی کے لائق ہیں یا نہیں ہیں.بات یہ ہے کہ اس سے پہلے انگلستان کی حکومت جماعت احمدیہ کو ہزاروں ویزے اس غرض سے دیا کرتی تھی کہ جلسہ پر آئیں، شوق سے اپنے مذہبی تہوار میں حصہ لیں اور واپس چلے جائیں لیکن دن بدن اس میں سختی ہونی شروع ہوئی کیونکہ بہت سے ایسے جنہوں نے ایمبیسی میں جا کر یہ عہد کیا کہ ہم محض جلسے کی خاطر جارہے ہیں اور واپس آئیں گے اس عہد کو توڑا اور یہاں آکر یہاں کی سہولتیں لینے کی خاطر وہ یہیں ٹھہر گئے.شروع میں انگلستان کی حکومت نے ہاتھ ذرا آہستہ سخت کیا

Page 537

خطبات طاہر جلد 16 531 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997 ء ہے، پہلے ہزاروں کو اجازت دیا کرتے تھے پھر سینکڑوں کو دینے لگے یہاں تک کہ پھر سینکڑوں کو اجازت دیتے وقت بھی وہ متردد ہو جاتے تھے.نظام جماعت کی طرف سے جو تصدیق کی جاتی تھی اس کو بھی انہوں نے نظر انداز کر دیا.یہاں تک کہ نظام جماعت کی طرف سے جماعت کے نمائندوں کی جو تصدیق کی جاتی تھی اس کو بھی نظر انداز کرنے لگے اور یہ جماعت کے منہ پر ایک قسم کا تھپڑ تھا کہ تم دنیا میں دینی اخلاق اور دینی اقدار کی حفاظت کرنے والے لوگ ہو، یہ تمہارا حال ہے کہ جلسہ پر آنے کے لئے جلسے کو اسائکم کے لئے یعنی یہاں پناہ ڈھونڈنے کے لئے ایک بہانہ بنالیا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بھی ایسا نہیں ہو گا جو اس غرض سے یہاں آئے اور کسی اور غرض کے لئے ٹھہر جائے.ایک بھی ایسا نہیں ہو گا جو کسی اور ملک میں جانے کے بہانے یہاں سے فائدہ اٹھائے اور پھر جا کر کہہ دے کہ ہم نے تو ملک چھوڑ دیا ہے.اب یورپ کا نظام اس قسم کا ہو گیا ہے کہ اگر ایک ملک کسی کو ویزا دیتا ہے اور وہ یورپ میں کہیں بھی پناہ لیتا ہے اس کی ذمہ داری اس ملک پر ڈالی جاتی ہے جس نے ویزا دیا تھا اور اس کے نتیجے میں انہیں خفت اٹھانی پڑتی ہے اس لئے اس جلسہ پر تو یہ نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو اس کے نتائج کے لئے آپ تیار رہیں.خدانخواستہ اگر ایک آدمی بھی ایسا نکلا جس نے جلسے سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور دنیا داری کو اپنا لیا تو اس کو میں یقین دلاتا ہوں کہ ساری عمر اس کی معافی کی درخواست زیر غور نہیں آئے گی.ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ جماعت سے نکالا گیا ہے اور اسی حالت میں وہ مرے گا.اس سے پہلے بعض لوگ کچھ سال درخواستیں دینے کے بعد یہ لکھنا شروع کر دیتے تھے کہ ہمارا تو بہت برا حال ہے جماعت کے بغیر ہم تو تڑپ رہے ہیں جیسے مچھلی پانی کے بغیر تڑپ رہی ہے ہمیں داخل کرو.میں ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ جس گندے پانی کو تم نے اپنا لیا ہے اس گندے پانی میں رہو اور ہمارے شفاف پانی کو اسی طرح رہنے دو.اب مرتے دم تک تمہارا اس پانی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا.صرف ایک یا دو ایسے معاملات ہوئے تھے جن میں ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ واقعہ ہمارے دل کو تکلیف ہے تو ہم یہاں کی درخواستیں واپس لیتے ہیں ہمیں حکومت نے جو سہولتیں دی ہیں ، جو پاسپورٹ دئے ہیں سب واپس کرتے ہیں اور واپس اپنے ملک میں جاتے ہیں اور واقعہ انہوں نے ایسا کیا.یہاں کا منظور شدہ ان کا جو حق تھا یا حق نہیں لیکن گورنمنٹ نے حق سمجھا منظور کر لیا اسے انہوں نے واپس کر دیا اور کہا کہ ہماری غلطی تھی ہم نے احمدیت کو بہانہ بنایا تھا اس لئے ہم

Page 538

خطبات طاہر جلد 16 532 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997ء واپس جاتے ہیں ہمارا اب یہاں سے کوئی تعلق نہیں.ان کو لازماً معاف کیا جانا تھا اور معاف کیا گیا لیکن جو بداثر پیدا کر دیا گیا ہے وہ بہت ہی خوفناک ہے جو ابھی تک چل رہا ہے.یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے ایمبیسی والے جماعت کے بعض بزرگوں کے منہ پر یہ بات مارتے رہے اور دیکھتے ہوئے بھی کہ یہ لوگ وہ نہیں ، یہ چہرے وہ نہیں ہیں جو اس قسم کی حرکتیں کریں پھر بھی ان کی بے عزتی کرتے رہے.پس اس دفعہ خصوصیت کے ساتھ ہمارا رابطہ متعلقہ محکموں سے ہوا ہے ان سے ہم نے دوبارہ درخواست کی ہے کہ از سر نو اس پر غور کریں اور دوبارہ انہوں نے کچھ سہولتیں دینی شروع کی ہیں.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ کوئی ایک بھی گندی مچھلی اس صاف ماحول کو دوبارہ گندہ نہیں کرے گی.جہاں تک آنے والوں کا تعلق ہے ہر دوسرے پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ ہمارے مہمان ہیں اور اس لئے مہمان ہیں کہ وہ اللہ کے مہمان ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور ہم ہر پہلو سے ان کی عزت کرتے ہیں اور عزت کریں گے.جہاں تک جماعت کے دوستوں کا تعلق ہے جو انگلستان میں رہتے ہیں یا مختلف مہمان نوازی کے شعبوں میں خصوصیت کے ساتھ متعلق ہیں ان کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مہمانوں کے دل نازک ہوا کرتے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رشتہ داروں یا عزیزوں کے گھر ٹھہریں گے اور وہ دیر سے ان کو جانتے ہیں، ان کا معاملہ الگ ہے لیکن کچھ ایسے بھی جو محض خدا کی خاطر آئے، کسی کو جانتے نہیں ، ان کی مہمان نوازی شعبے نے کرنی ہے اور وہ ذاتی مہمان نوازی نہیں مگر اللہ کی خاطر ہے.جہاں تک مہمان نوازی کے ایام کا تعلق ہے تین دن کی روایت ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مہمانی تین دن کی ہوا کرتی ہے اس کے بعد اجازت سے ٹھہرو اور مہمانی کے بعد جو تعلق ہے میز بان اور مہمان کا اسے صدقہ فرمایا لیکن نظام جماعت میں آنا جو ہے وہ اور رنگ رکھتا ہے.یہ ہرگز اس قسم کا معاملہ نہیں کہ تین دن کے بعد صدقہ شروع ہو جائے.جماعت نے پندرہ دن کی ذمہ داری قبول کی ہے کیونکہ بہت دور دور سے لوگ تشریف لاتے ہیں اور یہاں آتے ہی تین دن ہاتھ لگا کر واپس جانا ان کے لئے ممکن ہی نہیں.ویسے بھی ممکن نہیں یعنی سفر کی جو سہولتیں مہیا ہوتی ہیں اور خاص تین دن کے لئے احمدیوں کو نہیں مل سکتیں اس لئے ان سہولتوں کو پھیلانا پڑتا ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں پندرہ دن جہاں تک ہمارا پرانا تجربہ ہے کافی ہیں اور پندرہ دن آپ جماعت کے مہمان ہوں گے لیکن جو انفرادی طور پر کہیں ٹھہرے ہیں ان کو یہ خیال رکھنا

Page 539

خطبات طاہر جلد 16 533 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء چاہئے کہ وہ چند دن کے بعد پھر جماعتی انتظام میں منتقل ہو جائیں کیونکہ جو مقامی دوست ہیں سوائے اس کے کہ ان کی رشتہ داریاں ہوں ، ان کی دوستیاں ہوں، پرانے سلسلے چل رہے ہوں آپس میں ایک دوسرے کے ہاں ٹھہرنے کے ، ان کے سوا جو اجنبی مہمان ہیں ان کو چند دن کے بعد از خود ہی جماعتی نظام میں منتقل ہو جانا چاہئے تا کہ مقامی دوستوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے.یہ آیت کریمہ جو میں نے پڑھی ہے وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ الْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ جو قریبی ہے اس کا حق اس کو دوالمسکین اور مسکین کو بھی وَابْنَ السَّبِیلِ اور راستہ چلتے کا بھی وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا لیکن حد سے زیادہ اسراف نہ کرنا.اس آیت کے مختلف پہلو سے اطلاق ہو سکتے ہیں.کچھ تو اس پہلو سے کہ بعض لوگ محض دکھاوے کی خاطر اپنی توفیق سے بڑھ کر بعض مواقع پر خرچ کرتے ہیں جبکہ ان کا دل اندر سے تنگی محسوس کرتا ہے.ایسے مواقع پر مثلاً شادی بیاہ پر آنے والوں پر یا قریبیوں کے گھر ٹھہریں یا مسکین کو بھی جب وہ کھانا کھلائیں تو دکھاوے کی خاطر کھلائیں گے، رستہ چلتے کو بھی دیں گے تو دکھاوے کی خاطر دیں گے، ایسے لوگ ہمیشہ اپنی توفیق سے بڑھ کر خرچ کیا کرتے ہیں اور اپنا نام کمانے کی خاطر ایک نیکی سرانجام دیتے ہیں اس نیکی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيطِيْنِ یہ خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں.وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور یہ لوگ جو اپنی توفیق سے باہر خدا کی خاطر نہیں بلکہ اپنے نفس کو بڑا کرنے کی خاطر خرچ کرتے ہیں.وہ دکھاوا کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان معنوں کا کوئی اطلاق بھی جلسے کے دوران کسی صورت میں بھی ہو سکتا ہے.جہاں تک میں نے یہاں کے میز بانوں کو دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے محض اللہ کی خاطر یہ کام کرتے ہیں اور کوئی دکھاوا ہر گز ان کا مقصود نہیں ہوتا.لیکن اس آیت کریمہ کا ایک اور معنی بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں ان کو ان اقدار کو سامنے رکھنا چاہئے اور نیکی کی خاطر بھی حد سے بڑھ کر کوشش نہیں کرنی چاہئے.ذَا الْقُرْبی، الْمِسْكِينَ، وَابْنَ السَّبِيلِ، ان پر خرچ کرنا نیکی ہے اور بعید نہیں کہ بعض لوگ دھوکے میں کہ نیکی پر خرچ کر و جتنے مرضی قرضے اٹھا ؤ سب جائز ہے وہ ضرورت سے بڑھ کر خرچ کر دیں.ایسے نیک نیت لوگ جو حقیقت میں غلطی خوردہ ہیں.ان کے لئے نصیحت ہے کہ ایسانہ کرناورنہ ہی شیطانی کام ہوگا جو تمہیں نقصان پہنچائے گا.

Page 540

خطبات طاہر جلد 16 534 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997ء پس مہمان نوازی میں توفیق ضروری ہے.ایسی توفیق جو کھینچ کر لمبی تو کی جاسکتی ہے مگر اس کی حدود سے باہر نہیں نکلا جا سکتا.آپ مہمان کی خاطر وقتی طور پر کچھ قرض بھی اٹھا سکتے ہیں جو کچھ عرصے کے بعد واپس کر سکتے ہیں اور انسان اپنے لئے جب قرض اٹھاتا ہے تو مہمانوں کی خاطر بھی قرض اٹھایا جا سکتا ہے مگر یہاں جس تبذیر کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے ، اپنی توفیق سے باہر کی چھلانگ لگائے اور مقصد صرف دکھاوا ہو تو دکھاوا نہ بھی مقصد ہو، نیکی بھی مقصد ہواس میں بھی اپنی توفیق کو پیش نظر رکھنا چاہیئے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں سادگی تھی اور بے تکلفی تھی.توفیق نہ بھی ہو تو تو فیق بنالی جاتی تھی اور اس سلسلے میں آنحضرت یہ سب سے پہلے مہمانوں کی خاطر اپنے گھر سے سوال کیا الله صلى الله کرتے تھے کہ بتاؤ کچھ ہے کہ نہیں.ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے ایک مہمان کی خاطر سوال کیا تو سب ازواج مطہرات کی طرف سے یہی جواب آیا کہ ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں.آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جس طرح چاہو ، جو چاہو کرو مگر تم نے ضرور مہمان کی خدمت کرنی ہے.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے کوئی اور ہے جو اس مہمان کو لے لے.ایک صاحب اٹھے انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں ہوں.اتنی غربت کا زمانہ تھا کہ اس کے گھر میں بھی اور کوئی کسی کے لئے کھانا نہیں تھا.نہ ماں کے لئے کھانا تھا نہ باپ کے لئے کھانا تھا.صرف بچوں کے لئے پڑا ہوا تھا لیکن وہ اٹھا اور بڑی بہادری سے کہا.اب یہ تبذیر نہیں ہے.توفیق سے بڑھ کر تو خرچ ہے مگر وہ تو فیق کھینچ کر بڑھا دی گئی ہے یعنی تکلیف برداشت کرنے کی توفیق.یہ معاملہ تبذیر سے باہر کا معاملہ ہے.پس وہ تکلیف جو انسان مہمان کی خاطر اٹھاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مہمان نوازی میں شمار ہوتی ہے.چنانچہ اس موقع پر خاص طور پر ایسا واقعہ گزرا جو قیامت کے دن تک مہمان نوازی میں آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا.اس خاوند نے اپنی بیوی سے پوچھا کتنا کھانا ہے؟ اس نے کہا صرف اتنا کہ بچوں کو دیا جا سکتا ہے.اس نے کہا اچھا پھر بچوں کو تو سلا دو.جس طرح بھی ہو تھپکیاں دو تم نے اور میں نے بھی کھانا نہیں کھانا.یوں کرنا کہ لیمپ ٹھیک کرنے کے لئے جو دیئے ہوا کرتے تھے اس زمانہ میں اس کو درست کرنے کی خاطر کھانا کھانے سے پہلے وہ دیا بجھاد دینا اور بظاہر یہ اثر پڑے گامہمان پر کہ اچانک غلطی سے بجھ گیا ہے.وہ دیا بجھا کر میں اور تم خالی منہ سے آوازیں نکالیں گے اور

Page 541

خطبات طاہر جلد 16 535 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997 ء مہمان کو جتنا بھی کھانا ہے وہ اسی کے لئے کافی ہو گا اس کو کھانا کھانے دیں گے.اس صورت میں وہ دستر خوان کے گرد بیٹھے کہ وہ دونوں آوازیں نکال رہے تھے اور ایک کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے.میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں تبذیر میں بھی ایک جھوٹ ہے.مگر یہ جھوٹ جھوٹ نہیں ہے کیونکہ اگر یہ جھوٹ ہوتا تو آنحضرت ﷺ اس کی تعریف نہ فرماتے.بغیر کچھ کہے کسی پر ایسا اظہار کرنا کہ ایک نیکی میں مددگار ہو، مہمان نوازی کی تائید کرنے والا ہو لیکن منہ سے کوئی جھوٹ نہ بولا گیا ہو.یہ تعصب کے لحاظ سے شاید جھوٹ کوئی سمجھے مگر یہ جھوٹ نہیں.آنحضرت ﷺ نے اس کو نیکی ہی شمار فرمایا ہے.چنانچہ دوسرے دن صلى الله جب وہ نماز کے لئے حاضر ہوا آنحضرت ہی ہو نے اس سے پوچھا تم نے کیا کیا رات کو.وہ حیران تھا کہ اس بات کا کسی کو کچھ پتا نہیں.تم نے کیا کیا کہ آسمان پر خدا بھی خوش ہوا اور خوشی کے اظہار میں جو آواز نکلتی ہے جنسی کی آسمان پر خدا ہنسنے لگا.ایک روایت میں ہے کہ ایسا تم نے واقعہ کیا ہے.اس پر اس نے عرض کیا صلى الله یا رسول الله ﷺ یہ واقعہ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو اتنے پیار سے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دی اور ہمیشہ کے لئے اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہو گیا.اب آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ یہ تبذیر نہیں ہے.یہ جھوٹ نہیں ہے.نیکی میں حد سے زیادہ تو فیق پانے کی ایک ایسی مثال ہے جو دنیا میں کم دکھائی دیتی ہے.تو مہمان کے لئے اس حد تک آپ اپنی وسعتوں کو بڑھائیں کہ آپ کی مہمان نوازی کی وسعت تو بڑھے لیکن اپنی ذات پر بے شک تنگی آئے لیکن ایسی وسعت نہ کریں جیسے دکھاوے والے دنیا کو دکھانے کی خاطر خرچ کیا کرتے ہیں اور اپنی توفیق سے بڑھ کر خرچ کر دیتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کی مہمان نوازی اسی رنگ کی ہو گی.دوسری ایک بات جو جلسے کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ جلسے پر بہت سے لوگ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نازک مزاج بن کر آتے ہیں اور اس میں کچھ ان کا حق بھی شامل ہوتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اتنی دور سے آئے ہیں، محض خدا کی خاطر آئے ہیں.اس لئے ہمارا پورا خیال رکھنا چاہئے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض دفعہ ناراض ہو جاتے ہیں.اس موقع پر میز بان کا یہ کام نہیں ہے کہ ناراض ہو.یہاں ایک ایسا واقعہ گزرا تھا جس کی وجہ سے میں بعض جماعتوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا.بڑی بدتمیزی سے مہمانوں کو کہا گیا کہ قبول کرتے ہو تو کرو نہیں تو جاؤ جو مرضی ہے کرو.بڑی ذلیل اور کمینی حرکت تھی.جو عام طور پر ایسے شخصوں سے رونما نہیں ہوا کرتی

Page 542

خطبات طاہر جلد 16 536 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء جن کو میں جانتا تھا لیکن آئندہ کے لئے ہمیشہ کے لئے میں نے ان کو جماعت کی خدمت سے محروم کر دیا.ایسا ہی واقعہ ایک جرمنی میں بھی ہوا اور ایک مہمان نواز صاحب جو غیر ملکیوں کے مہمان نواز تھے اس کام پر مقرر تھے وہاں ایک احمدی بعض غیر احمدی لڑکوں کو بلا کر لایا ہوا تھا اور ان کے اصرار کے با وجود کہ نہیں کوئی ضرورت نہیں وہ ان کو زبر دستی اس مہمان خانے میں لے گیا جو غیر ملکیوں کے لئے تھا.اب ایسے موقع پر ایک طرف انتظام ہے ایک طرف اخلاق ہیں.ایک طرف عمومی ذمہ داری ہے جو خدا کے مہمانوں کی ادا کرنے والی ہے اس وقت حکمت سے کام لینا چاہئے لیکن اخلاق فاضلہ کو بہر حال ان انتظامی ذمہ داریوں پر قربان نہیں کیا جا سکتا.ان صاحب نے جو منتظم تھے انہوں نے اپنا فرض یہ سمجھا کہ جا کر ان کی کھانا کھاتے ہوؤں کی پلیٹیں چھین کر پھینک دیں اور واپس جا کر انہوں نے مجھے یہ خط لکھا.انہوں نے کہا ہم تو کچھ اور سمجھ کے آئے تھے آپ کی جماعت کو، یہ تو کچھ اور نکلی ہے.میں تو یقین نہیں کر سکا.میں نے کہا یہ ہو ہی نہیں سکتا ، ضرور انہوں نے کوئی زیادتی کی ہے اور ایسا واقعہ ممکن نہیں لیکن تحقیق بھی کروائی اور پتالگا واقعہ بعینہ یہی ہوا اور ان صاحب نے جن کو خدا کے فضل کے ساتھ جھوٹ کی عادت بہر حال نہیں ہے انہوں نے تسلیم کیا کہ ہاں مجھ سے یہ حرکت ہوئی ہے.تو اپنی طرف سے منتظم بنے ہوئے تھے لیکن ایسی بیہودہ بداخلاقی کی حرکت ہوئی ہے جو جماعت کو داغ لگانے والی ہے اور ایسے بعض دوستوں کو ہمیشہ کے لئے پرے دھکیلنے والی جن کے متعلق امکان تھا کہ وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو جاتے.ایسے موقعوں پر کیا کرنا چاہئے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے؟ یہاں پر عزت کے ساتھ یا تو افسر اعلیٰ سے اجازت لے لی جائے کہ ان کو یہاں کھانا کھانے کی اجازت دی جائے.یا عزت کے ساتھ ان سے درخواست کی جائے کہ بھائی آئیں میں آپ کو اس سے بہتر بٹھا کر کھانا کھلا دیتا ہوں لیکن دیکھیں یہ غیر ملکی لوگ ہیں ہم آپ کے لئے اور اچھا انتظام کر دیتے ہیں اگر ایسا کرتے تو ہر گز ان کے دل میں کوئی اس کے خلاف رد عمل نہ ہوتا لیکن کھاتے ہوئے آدمی کی پلیٹیں چھین کر پھینک دی جائیں یہ بہت ہی ذلیل سلوک ہے.میں امید رکھتا ہوں اور میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایسا کوئی ذلیل سلوک اس موقع پر ہو، اس جلسہ سالانہ پر ہولیکن اگر انتظامی طور پر کچھ مشکلات پیش آتی ہیں تو اخلاق فاضلہ کو بڑھ جانا چاہئے نہ کہ کم ہونا چاہئے.غالب کہتا ہے: بہرہ ہوں میں، تو چاہئے دو نا ہو التفات سنتا نہیں ہوں باست ، مکرر کہے بغیر (دیوان غالب : 111)

Page 543

خطبات طاہر جلد 16 537 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997 ء کہ میں بہرا ہوں لیکن اے بولنے والے دو دفعہ کہ دیا کر اونچی بولا کرو.سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر.میں دوبارہ بات کہے بغیر سن نہیں سکتا.تو قاعدہ سے ہٹی ہوئی بات ہے کہ ایک عام انسان ایک عام آواز میں کسی سے مخاطب ہو اور وہ نہ سنے لیکن اس کا دوبارہ کہنا اور زور سے کہنا یہ قاعدہ سے ہٹی ہوئی بات نہیں.یہ دستور کے مطابق بات ہے.پس اگر کسی موقع پر کسی دوسری طرف سے بدانتظامی ہو تو اعلیٰ اخلاق سے آپ اس بدانتظامی کا قلع قمع کر سکتے ہیں یا اس کو زائل کر کے ایک نظام جماعت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں.پس یہ یا درکھیں کہ آنے والوں میں سے کئی قسم کی غلطیاں کرنے والے ہوں گے.کوئی کسی اور نظام میں چلا جائے گا، کوئی اور نظام میں چلا جائے گا.مگر آپ کا فرض ہے کہ اخلاق سے اسے سمجھائیں اور اس کی ضرورت پوری کریں بلکہ پہلے سے زیادہ احسان کا سلوک کریں.ہمارے پرانے انتظامات میں جلسہ سالانہ پر کئی ایسے دوست تھے جو کسی لنگر خانے کے ناظم ہوا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ساری رات ان کے ہاں لوگ جاتے تھے.وہ خود کھڑے ہو کر ان کو الگ بٹھاتے حالانکہ لنگر خانے میں کھانا کھلانا دستور کے خلاف تھا.دستور یہ کہتا تھا کہ لنگر خانے میں صرف روٹی کی تیاری کا کام ہے ، سالن کی تیاری کا کام ہے، کھڑکیوں سے سالن تقسیم ہوگا ان کے لئے جو باہر مہمان نوازی کے انتظامات میں کام کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ اللہ کے مہمان ہیں اس وقت وہ انتظامات بند ہو چکے ہیں اور میں ان کو خاص انتظام کی طرف نہیں بھجوا سکتا جو ختم ہو چکا ہے.پس ساری رات ان کے ہاں یہ دستور چلتا تھا کہ آنے والا پوچھتا تھا کہ کہاں جائیں تو کہتے تھے کہ بیٹھو پہلے کھانا کھاؤ پھر بعد میں جانا اور کبھی بھی ان کے خلاف افسر جلسہ نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ معروف تھا اور سب خوش ہوتے تھے.تو انتظام کو کہاں برقرار رکھنا ہے، کہاں اعلیٰ انتظام کی خاطر جو اخلاقی نظام ہے، جو جماعت کی اولین ذمہ داری ہے وہاں نظام کی چھوٹی چیزوں کو قربان کرنا ہے یہ حکمت کا بھی معاملہ ہے اور اخلاق فاضلہ کا بھی ہے.تو اس پہلو سے آپ خیال کریں مختلف لوگ آئیں گے، مختلف جذبات لے کر آئیں گے مگر اس صورت میں جہاں تک آپ ان کا خیال رکھیں گے وہاں یہ یا درکھیں کہ جو حفاظت کی ذمہ داری ہے اس کو قربان نہیں کرنا.بعض دفعہ انسان اخلاق کی تفسیر نہیں سمجھ سکتا اور سمجھتا ہے کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ ایک آدمی

Page 544

خطبات طاہر جلد 16 538 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء جلسہ سالانہ میں آگیا ہے جہاں اس کو نہیں آنا چاہئے تھا اس لئے اب اس کو وہیں رہنے دو یہ بات درست نہیں ، یہ اور بات ہے.نظام جماعت کا فرض ہے کہ حفاظت کا انتظام بھی کرے اور ایسے لوگوں پر آنکھ رکھے جن کے متعلق احتمال ہے کہ وہ شرارت کی خاطر آئے ہیں پس ایسے موقع پر آپ کو کیا کرنا چاہئے.اس سلسلہ میں پہلے بھی میں ہدایات دے چکا ہوں.ایسے موقع پر جو انتظام ہے حفاظت کا اس کو چاہئے کہ موبائل فورس رکھے.موبائل فورس کا مطلب ہے کہ جو مختلف جگہوں پر پھر سکتے ہوں وہ ڈنڈے بن کر جگہ جگہ حفاظت کے لئے نہ کھڑے ہوں.کثرت کے ساتھ ایسے آدمی ہونے چاہئیں جن کے ساتھ بچے بھی ہوں، بڑے بھی ہوں، جو کھلے پھرنے والے لوگ ہوں اور ان کا کام یہ ہے کہ ایسے شخص کو دیکھیں تو اس کے ساتھ پھر ضرور کسی آدمی کو بیٹھا ئیں اور پھر انتظامیہ سے پوچھیں کہ یہ صورت ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے.زبر دستی اس کو اٹھا کر باہر کرنا، شور بھی ڈالا جاسکتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ کیا حرکت کر رہے ہو.دیکھنے والے بغیر جانے کہ کیا بات ہے یہ تاثر لیں کہ دیکھو یہاں تو بڑی زیادتی ہوتی ہے.تو حکمت کے ساتھ حفاظت کا فرض پورا کرتے ہوئے اس کے اوپر کسی نگران کو مقرر کرتے ہوئے پھر آپ انتظامیہ سے رابطہ کریں اور بڑے افسر سے پوچھیں وہ آپ کو بتا سکتے ہیں لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آنے والا پہچانا نہیں جاتا.مختلف آنے والوں کی شکلیں مختلف ہیں بعض پیدائشی احمدی ہیں لیکن اپنی مونچھوں کے لحاظ سے یا اپنے طور طریق سے وہ بڑے دبنگ انسان دکھائی دیتے ہیں جیسے اب بس کر گزریں گے اور ان کے پیچھے پیچھے لوگ بھاگ رہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں کیا کر دکھائیں گے.اس لئے میں نے آپ کو توجہ دلائی ہے کہ ان کے متعلق رابطہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جو افسر اعلیٰ ہے وہ پتا کر لیتا ہے اور آپ کو سمجھا دے گا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں یہ خدا کے فضل سے اپنا احمدی ہے اس قسم کے بھی احمدی ہوتے ہیں اور ہر قسم کے احمدیوں سے رابطہ رکھنا ہو گا لیکن بعض دفعہ واقعہ ایسے دکھائی دیتے ہیں جن کے متعلق کوئی گواہی نہیں.اس لئے یہ بہت ہی اہم امر ہے کہ حفاظت کے نظام میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کھڑے پہرہ داروں کی بجائے زیادہ سے زیادہ چلنے پھرنے والے عام طور پر پہرہ داروں کے طور پر شناخت نہ کئے جانے والے لوگ زیادہ ہونے چاہئیں.عام پھریں اور ان کے لئے بلوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں.ان کے پاس ایسے پاس ہونے چاہئیں جو اگر ا نتظام رو کے تو دکھا دیں کہ ہم خاص حفاظت کے انتظام پر مقرر ہیں لیکن فری موبائل

Page 545

خطبات طاہر جلد 16 539 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997ء فورس یہ سیکیورٹی کے لئے یا حفاظت کے لئے بہت ہی ضروری ہے اور اس کے بغیر حفاظت کرنے والے محض دکھاوا ہو جاتے ہیں اور دکھاوے کے خلاف جیسا کہ میں نے آیت کریمہ پڑھی ہے خدا تعالیٰ بڑے زور سے مومنوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ ہرگز کسی طرز پر بھی دکھاوا نہیں کرنا.میں اب امریکہ اور کینیڈا جب گیا تھا تو ان سے میں نے درخواست کی تھی کہ بہت سے دوستوں کو میں دیکھ رہا ہوں جو دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہیں ان بے چاروں کو یہ بھی توفیق نہیں مل رہی کہ مجھے دیکھ لیں.سارا سال انتظار کرتے ہیں اور پہرے کی وجہ سے مجھے دیکھنے ، ملنے سے محروم بیٹھے ہیں.ضرورت سے زیادہ آدمی اور ڈنڈوں کی طرح نصب ہوئے ہوئے ، دوسری طرف منہ کئے ہوئے.وہ خود ایک سیکیورٹی ٹارگٹ ہیں جس کو انگریزی میں Sitting Duck Target کہتے ہیں وہ تو ایک مرغابی کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں جو چاہے ان کو نشانہ بنائے ، انہوں نے کیا حفاظت کرنی ہے.مگر عام حالات میں پہرے کے لئے آپ کو زیادہ سے زیادہ غیر معروف پہرے داروں کی ضرورت ہوتی ہے جو عام لوگوں میں ملیں جلیں پھریں اور ان کو کوئی پہچانے نہ کہ یہ کون ہیں اور دوسری بات اس میں ضروری ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ مختلف ممالک کے دوستوں کو اس نظام سے وابستہ کریں جہاں صرف میزبان نہیں بلکہ مہمان بھی میزبانوں کی طرح خدمت سرانجام دیں گے کیونکہ بہت سے پاکستان، بنگلہ دیش کسی اور ملک سے آنے والے ایسے ہوں گے جن کو یہاں کی انتظامیہ نہیں جانتی اور وہاں کے لوگ جانتے ہیں.اس لئے حفاظتی نظام میں لازمی ہے کہ اس کو ایک عالمی نظام کا مظہر بنایا جائے.اس میں ہر قسم کے ایسے دوست شامل ہوں جو مختلف ملکوں سے آنے والے ہوں.اگر کسی بنگالی کا مسئلہ در پیش ہو تو کوئی بنگالی نظام کا حصہ لینے والا وہاں موجود ہو.اس کو بھیجا جاسکتا ہے وہ پتا کرے کہ یہ کون صاحب ہیں.اگر کوئی افریقن ہے گھانا کے ہیں تو گھانا کے کچھ دوست اس نظام سے منسلک ہونے چاہئیں.پاکستان کے مختلف علاقوں سے کچھ نہ کچھ آنے والے مہمانوں کو تکلیف دی جاسکتی ہے کہ وہ اس نظام سے منسلک ہوں.ربوہ میں ہم یہی کیا کرتے تھے سارے پاکستان سے آنے والی جماعتوں، دنیا کا تو نہیں مگر سارے پاکستان سے آنے والی جماعتوں کو اس نظام میں ملوث کیا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے کہیں سے بھی کوئی آنے والا ہو اس کو پہچاننے والا کوئی نہ کوئی موجود ہوتا تھا.

Page 546

خطبات طاہر جلد 16 540 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء نظام جماعت کی جو سیکیورٹی ہے کیونکہ ساری جماعت اس میں حصہ دار ہے اس لئے اس کی کوئی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی.ایک دفعہ ایک ایسے دوست سے میری گفتگو ہوئی جو یورپ امریکہ وغیرہ میں سیکیورٹی کے نظام جانتے تھے.ان کو جب میں نے نظام جماعت کی سیکیورٹی کا انتظام سمجھایا تو وہ حیران رہ گئے.انہوں نے کہا واقعتاً اس جماعت کے سواد نیا میں کہیں یہ مکن ہی نہیں ہے کہ ساراCrowd جتنے بھی شامل ہونے والے ہوں وہ عملاً سیکیو رٹی کے ممبر بن جاتے ہیں.ہر ایک کی آنکھیں کھلی ہیں.ہر ایک اپنے دائیں بائیں دیکھ رہا ہے اور یہ بات کسی اور دنیا کے نظام میں ممکن ہی نہیں خواہ بڑے سے بڑے پریذیڈنٹوں کی حفاظت ہو یا آنے والے مہمانوں کی ہو.یہ نظام کہیں اور جاری نہیں سوائے جماعت احمدیہ کے.اس نظام کو سمجھیں اور اپنے دماغ میں اور اپنے دل میں اس طرح سرایت کریں کہ آپ کی زندگی کا حصہ بن جائے.سیکیورٹی مائنڈڈ (Security Minded) ہونا ہر احمدی کا فرض ہے لیکن اخلاق فاضلہ کے ساتھ.اس سیکیورٹی مائنڈڈ ہونے کو یعنی حفاظت کے لحاظ سے ذہنی طور پر باشعور ہونا.اس کو سیکیورٹی مائنڈڈ کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہر گز اخلاق کو اس پر قربان نہیں کرنا.یہ ایک امتزاج ہے جو مومن کی شان ہے اور یہ امتزاج ایک بڑا چیلنج ہے.بعض لوگ سیکیورٹی کی وجہ سے بداخلاق ہو جاتے ہیں اور بدتمیز ہو جاتے ہیں، دھکے دیتے ہیں دوسروں کو ، ہٹو اس طرف سے نہیں آنا.بعض لوگ اور بھی زیادہ بچھ جاتے ہیں لیکن جو بچھنے والے ہیں وہ زیادہ بہتر کام کرتے ہیں کیونکہ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر وہ شخص جو نظام کو توڑتا ہے وہ بھی کچھ آگے سے نرم ہو جاتا ہے اور بچھتا ہے.مگر جس کو آپ ڈنڈے دکھائیں ، جس پر آپ زور چلائیں کہ ہم سیکیورٹی والے ہیں تم کون ہوتے ہو.وہ بد اخلاق ہو جائے گا.وہ بعض دفعہ ایسی باتیں بھی کرے گا جس کو سننا آپ کے لئے مشکل ہوگا اور بعض دفعہ ایسے لوگ نظام کے قریب آتے آتے پھر دور بھی ہٹ جایا کرتے ہیں.چنانچہ مجھے اس سے واسطہ پڑتا ہے.بہت سے ایسے جانے والے ہیں یعنی انتظامات سے، خواہ یہاں سے جائیں یا امریکہ یا کینیڈا سے یاکسی اور ملک سے جرمنی وغیرہ سے واپس جائیں وہ اپنے تجربات میں مجھے شامل ضرور کرتے ہیں اور یہ بھی ایک ایسا نظام ہے جو دنیا میں کہیں اور رائج نہیں کہ وہ شخص جو آخری طور پر ذمہ دار ہے اس کو سارے جاننے والے اپنے تاثرات لکھتے ہیں اور ان میں بداخلاقی کے تاثرات بھی ہوتے ہیں، حسن خلق کے تاثرات بھی ہوتے ہیں، عظیم کردار کی مثالیں

Page 547

خطبات طاہر جلد 16 541 خطبہ جمعہ 18 جولائی 1997ء بھی دی جاتی ہیں لیکن ایک اور چیز جو ہو رہی ہے وہ کرنے والے نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ اس کی اطلاع مل جائے گی لیکن اس کی اطلاع ملتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کسی انٹیلی جنس نظام کی ضرورت نہیں ہے.اب یہ جتنے واقعات ہیں ، آپ سے بیان کئے ہیں، ان کو نہ نظام جماعت نے میرے سامنے رکھا، نہ کسی انٹیلی جنس نظام کو مقرر کرنے کی ضرورت پڑی.ہر احمدی اور بعض غیر احمدی بھی جانتے ہیں کہ براہ راست مجھے لکھنا چاہئے اور جہاں کہیں کوئی واقعہ گزررہا ہے وہ مجھے چٹھی لکھتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اگر تفصیلی ہر چٹھی نہ بھی پڑھ سکوں اس کے بنیادی نکات لازماً میری نظر سے گزریں گے تو خدا کے فضل سے کوئی ایسا موقع نہیں ہوتا جو قابل ذکر ہو اور میرے علم میں نہ آیا ہو.اس کا عمومی طور پر ساری جماعت کے سامنے ساری جماعت کے واقعات رکھ کر ان کی تربیت کا موقع مل جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ لوگ ایسی مثالیں لے کے تو جائیں گے جسے وہ لوگوں میں بیان کریں گے اور جماعت کی نیک نامی کے چرچے ہوں گے لیکن بدخلقی کی کوئی مثال لے کر یہاں سے نہیں جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے یہ بات ایک بہت ضروری سمجھانے والی بات ہے کہ کچھ عورتیں مہمان کے طور پر آتی ہیں جن کے رہن سہن، جن کی طرز بود و باش پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا.اور بعض ایسی بچیاں بھی آجاتی ہیں جنہوں نے نہ دو پٹہ پہنا ہوا، بال کٹائے ہوئے اور سنگھار پٹار کے ساتھ پورے کا پورا جو بن کے ساتھ نکلتی ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا نظام جماعت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ، وہ بعض سہیلیوں کی درخواست پر آجاتی ہیں.اب ان کو اگر یختی سے سمجھائیں کہ بی بی یہ کام کرو، سر پر دوپٹہ رکھو، یہ کام نہ کرو، اس طرح سنگھار نہ کرو تو یہ خود اپنی ذات میں بداخلاقی ہے اور ہم مولویوں کی وہ جماعت تو نہیں ہیں جو خدا کے نام پر خدا کے ڈنڈے ہاتھوں میں پکڑ لیں.ہم تو ایک عاجزانہ فقیرانہ جماعت ہیں.خدا کے کام خدا کے سپرد ہیں مگر حکمت کے ساتھ محبت کے ساتھ سمجھانا ہمارا کام ہے.پس ایسی خواتین جو اگر افغانستان ہوتیں تو شاید ان پر ڈنڈے پڑتے یا پتھراؤ ہو جاتا.وہ جب یہاں آئیں گی تو ہرگز ڈنڈے پڑیں گے نہ پتھراؤ ہوگا، نہ مردوں کو اجازت ہے کہ ان سے بات کریں.ان کو چاہئے کہ ان کو Mark کریں اور اپنے نظام کی معرفت لجنہ سے درخواست کرے کہ کچھ بیبیاں آپ کی ایسی دکھائی دے رہی ہیں آپ ان کو پیار سے

Page 548

خطبات طاہر جلد 16 542 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء سمجھائیں اور اب جو میں خطبہ میں ذکر کر رہا ہوں تو لجنہ کی ذمہ دار عورتیں بھی سن رہی ہیں اور ان ساری خواتین کو علم ہو گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.دو باتوں کی آپ حفاظت کریں.اول تو یہ کہ جو بہت ہی زیادہ کھلے بدن والی اور لباس والی ہیں ان کو جلسے پر دعوت نہ ہی دیں کیونکہ آنے والے نہیں جانتے کہ یہ احمدی ہے یا غیر احمدی ہے.آنے والے بہت سے ایسے ہیں جو بالکل بے خبر ہیں ہمارے نظام سے.ان کے ہاں اگر ایک بھی ایسی نکل آئے تو وہ ساری عمر کے لئے ہمیں طعنے دیں گے بلکہ جماعت کے مختلف ملکوں سے آنے والے بھی اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں اور بسا اوقات مجھے جا کر لکھتے ہیں کہ ہم مثلاً عرب احمدی ہیں خدا کے فضل کے ساتھ ہمارے منہ کا پردہ تو نہیں مگر بچیاں اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھیں، کوئی سنگھار وغیرہ نہیں کیا ہوا لیکن ہم نے وہاں ایسی عورتیں دیکھی ہیں جو اس طرح بال کٹائے ہوئے سر سے پردے ہٹائے ہوئے اور ہر قسم کے سنگھار کے ساتھ گویا یہ تو نہیں کہا کہ دعوت دیتی ہیں مگر کہا کہ گویا وہ دعوت دیتی ہیں.اب میرے لئے شرمندگی کے سوا تو اور اس میں کچھ نہیں تھا مگر ان کو میں نے ساتھ یہ بھی سمجھایا کہ آپ کو کیسے پتا لگا کہ وہ احمدی خواتین تھیں اور اگر تھیں تو کیا دنیا میں ہر قسم کے لوگ شامل نہیں ہوتے.آپ اپنی بیویوں کو ، اپنی بہنوں کو ، اپنی بچیوں کو کہہ سکتے تھے کہ ان سے ملیں اور پیار کے ساتھ ان کو سمجھائیں.تو ٹھو کر کھانا بھی ایک جرم ہو جاتا ہے اور ٹھوکر لگانا بھی ایک جرم ہو جاتا ہے.تو آنے والے خاص طور پر اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ خواہ مخواہ ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں.یہ جلسہ ایمان کو بڑھانے کے لئے منایا جا رہا ہے اس میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں.کئی ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو ٹھو کر کا سامان کرنے والے ہیں مگر اپنے نفس کی حفاظت کی ذمہ داری آپ پر ہے.چنانچہ قرآن کریم ایسے لوگوں کی مثالیں دیتا ہے کہ قیامت کے دن وہ کہیں گے کہ اے خدا ان لوگوں نے ہمیں ٹھوکر لگائی ، اس نے ہمیں ٹھوکر لگائی، فلاں کی وجہ سے ہم اس غلطی میں مبتلا ہوئے.خدا تعالیٰ ان کو یہ جواب دے گا یا فرشتے اس کی طرف سے ان کو جواب دیں گے کہ تم نے ٹھوکر کھائی کیوں؟ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری (فاطر: 19) کوئی جان بھی کسی جان کی ذمہ دار قرار نہیں دی جائے گی.ہم نے تو ایک ایسے دن میں حاضر ہونا ہے جس میں ہر شخص کا انفرادی حساب رکھا جائے گا اور انفرادی حساب کیا جائے گا.ایسی صورت میں آپ کے لئے ٹھوکر کھا جانا بھی ایک ایسی ٹھو کر ہے جس کے آپ ذمہ دار ہیں.تو آپ ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے ، فلاں خاندان کا بچہ تھا اس

Page 549

خطبات طاہر جلد 16 543 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء نے یہ حرکت کی ، فلاں جماعت کی یا کردار کی عورت تھی اس نے یہ حرکت کی اس لئے ہم مجبور ہیں.ہم جماعت سے پیچھے ہٹتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتا.ٹھوکر کھانے کی اجازت نہیں لیکن ٹھوکر لگانے والوں کے لئے ایک اور مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص جس سے ایک شخص کو ٹھوکر لگے، بہتر تھا کہ وہ نہ پیدا ہوتا.پس جہاں تک ٹھوکر لگانے کا مسئلہ ہے اس کا جرم اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ خواہ وہ مقامی دوست ہوں خواہ باہر سے آنے والے ہوں اپنے آپ کو سنبھال کر رکھیں کہ ایسے جلسے میں شرکت کر رہے ہیں جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں میں خواہ مخواہ اپنی جماعت کو گویا کہ بڑھانے کے لئے اس کی تعریف کی خاطر نہیں کہہ رہا.بہت باریکی سے میں نے جلسے کے ہر انتظام کو اور شامل ہونے والوں کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھا ہے.میں جانتا ہوں کہ ایسا جلسہ دنیا میں کبھی کہیں نہیں ہوتا، نہ ہوسکتا ہے اور آنے والے خود یہی کہا کرتے ہیں.جتنے مختلف ملکوں سے آنے والے ہیں وہ مجھے یہ بتاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے تو ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی.خود انگلستان کے باشندے جو کسی انتظام کے ساتھ ملوث ہوتے ہیں وہ یہ کہہ کر جاتے ہیں کہ ایسا جلسہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ایسے آنے والوں کے منہ دیکھے ہیں.بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ لمبا تجربہ رکھنے والوں نے ، کہ دنیا کے ہر ملک سے یا بڑے بڑے ممالک سے لوگ آئے لیکن ہر ایک کا کردار ایک تھا.پس یہ جو مرکزیت ہے یہ توحید کی نشانی ، انہوں نے توحید تو استعمال نہیں کیا لیکن مقصد ان کا یہ تھا جس چیز نے ان کو متاثر کیا وہ یہ تھی، تو حید ہی تھی.تو حید ایک آسمان پر ہے اور ایک زمین پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی جماعت کو یہ توفیق ملی ہے کہ دنیا میں مختلف جگہوں سے اور مختلف زبانیں بولنے والے مختلف رنگوں والے یہاں اکٹھے ہو رہے ہیں اور ہر ایک کا مرکزی کردار ایک ہے.ان کا چلنا پھرنا اس کے اندر ایک وقار ہے ، اس کے اندر ایک شرافت ہے.اس کے دیکھنے کی طرز، اس کا ہر پہلو اپنے اندر ایک نمایاں ایک ایسی مثال رکھتا ہے جو باہر دکھائی نہیں دیتی.پس اس بات کو آپ نے قائم رکھنا ہے اپنی مرکزیت کو ، یعنی اللہ کے نیچے اگر انسان ایک ہوسکتا ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا اور یہ اس جلسے کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے.ہر طرف سے آنے والا ایک دوسرے کو گلے مل رہا ہے.کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ کسی افریقن

Page 550

خطبات طاہر جلد 16 544 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء سے گلے ملیں تو آپ اس کے رنگ دیکھ رہے ہوں اور وہ آپ کی پاکستانیت دیکھ رہا ہو.یہ سارے چہرے، بدن نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں، محض روحیں دکھائی دیتی ہیں.ہزاروں آدمیوں سے ملاقات کرتا ہوں لیکن میرے ذہن میں کسی خیال کے گوشے میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ فلاں ملک کا ہے.اس کا ملک کا ہونا ایک تعارف کے طور پر تو ہے لیکن اس سے ملتے وقت صرف وہ پاکیزہ روح دکھائی دیتی ہے جو خدا کی بنائی ہوئی روح ہے اور یا درکھیں کہ روح کا کوئی رنگ نہیں ہوا کرتا.روح کا کوئی بدن نہیں کوئی شکل نہیں.روح ہر انسان کی ایک ہے اور اس ایک روح کا جب ہم سب روحوں کی اکٹھی بات کرتے ہیں تو اس ایک روح کا عالمیت اختیار کر جانا اور توحید کے نیچے واقعہ ایک ہو جانا یہ توحید کی علمبرداری ہے.ورنہ نعرہ ہائے تکبیر سے توحید کی علمبرداری نہیں ہوتی.آپ بحیثیت جماعت توحید کے علمبر دار اس وقت بنیں گے جب آپ دنیا میں خدا کے نیچے خدا کی روحوں کو ایک کر دیں گے اور ان کے رنگ اڑا دیں گے، ان کی نسلیں جو خواہ مخواہ چمٹی ہوئی ہیں وہ ان کے ساتھ اس طرح مل مل کے اتاریں گے جس طرح مائیں بچوں کی میل اتارتی ہیں اور امر واقع یہ ہے کہ یہ کام ہمیں کرنا ہے.بہت سے ملکوں میں ان روحوں کے ساتھ کچھ گندگیاں لپٹ گئی ہیں، کچھ کپڑے چھٹے ہوئے ہیں ، کچھ رنگ چھٹے ہوئے ہیں جو روحوں کے اپنے نہیں ہیں.اگر انگلستان میں کسی شخص کو اپنی روح سفید دکھائی دے رہی ہے تو اس کی بیوقوفی ہے.اس کا رنگ سفید ہوگا ، اس کی روح کا تو وہی رنگ ہے جو افریقن روحوں کا ہے یا چینی روحوں کا ہے یا جاپانی روحوں کا ہے.روح ایک ہی چیز ہے اور یہی روحیں ہیں جو واپس لوٹیں گی.یہی روحیں ہیں جو اپنے خدا کے حضور حاضر ہوں گی کیونکہ ان روحوں کے ساتھ پلید گیاں مل دی گئی ہیں، آلودہ کر دیا گیا ہے ان کو ، اس لئے جماعت کے کاموں میں سے ایک بڑا کام یہ ہے کہ ان سب روحوں کو صاف کر کے بے ملک بنادیں، بے نسل بنادیں اور بے رنگ بنا دیں، ان معنوں میں کہ جو رنگ رہ جائے باقی وہ صرف اللہ کا رنگ ہوگا.روح جیسے اللہ سے ایک تعلق رکھتی ہے ویسے ہی دنیا میں ہماری روحیں خدا سے متعلق ہو کر اس کی توحید کا مظہر بن جائیں.یہ وہ پیغام ہے جو میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جماعتوں کو بار بار دے رہا ہوں.جہاں بھی میں دورے پر جاتا ہوں وہاں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ اپنی روحوں کو عالمی روح بناؤ اور روح ہے ہی عالمی.خدا نے اسے عالمی بنایا تھا.انسانوں نے اس کو ملوث کر دیا، انسانوں نے اسے گندا کر دیا ،

Page 551

خطبات طاہر جلد 16 545 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء انسانوں نے اسے شخصیتیں عطا کیں جو اس کی شخصیت نہیں ہیں.روح تو اللہ کے لئے صاف ہو جانے کا نام ہے اور پھر خدا کے رنگ ایسی روح پر چڑھتے ہیں اور خدا کے رنگ عالمی ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے رنگ کسی ایک ملک سے تعلق رکھنے والے ہوں.خدا کی تمام صفات عالمی ہیں اور وہ روحیں جن پر مقامی رنگ چڑھے ہوئے ہوں ان پر عالمی رنگ نہیں چڑھا کرتے اس لئے اس کو صاف کرنا بھی اس جلسے پر ہمارا کام ہے.آپ جب ایک دوسرے سے ملیں ایک دوسرے سے تعلق رکھیں تو اس مرکزی حیثیت کو کبھی نہ بھولیں.ہم سب ایک ہیں اور یہ ایک ہونا غیروں نے بھی محسوس کیا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت احمدیہ کی صداقت کا ایک نشان بن کر ابھرتا ہے، اسے اور بھی زیادہ چمکائیں.اس موقع پر بنگالی، پاکستانی، ہندوستانی ، انگریز، جاپانی، چینی، امریکن یہ سارے نام باہر کے لیبل بن جائیں لیکن روحوں کے رنگ نہ بنیں اور جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ صرف تعارف کی حیثیت سے یہ نام لئے جائیں.مگر روحیں حقیقہ نہ امریکن ہیں نہ جاپانی نہ چینی.جب وہ مریں گی تو ان کی ساری نیشنیلیٹیز، ساری دنیاوی شخصیات پیچھے رہ جائیں گی.وہ اکیلی ہی جائیں گی ان کے ساتھ کوئی بھی شخصیت وابستہ نہیں ہوگی.پس اس پہلو سے ان کو خدا کے رنگ دلانا یہ ہمارا کام ہے.اس کے علاوہ جو بہت سی باتیں تھیں مگر مختلف جلسوں پر کبھی ایک یاد آجاتی کبھی دوسری مگر ایک بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے اور وہ آخر پر میں ضرور کیا کرتا ہوں کہ عبادت کو ترجیح دیں، عبادت کو اہمیت دیں.جلسہ عبادت کرنے والوں کا جلسہ ہے.جلسہ اس مقصد کی خاطر ہے کہ خدا کے بندے خدا کے ہو جائیں جو عبادت کے بغیر ممکن نہیں.وہ جو روح والی بات میں کہہ رہا ہوں اس کو صاف کرنے کا ایک ہی طریق ہے.جب آپ عبادت پر زور دیتے ہیں تو آپ کا تعلق اللہ سے ہو جاتا ہے.پھر آپ نہ ٹھوکر لگانے والے رہتے ہیں، نہ ٹھوکر کھانے والے ہوتے ہیں اور ایسے لوگ نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں.میں جانتا ہوں ایسے لوگوں کو جن کے اوپر کسی پاکستانی نے زیادتی کی ہے وہ ہیں کہیں اور کے رہنے والے.وہ کبھی بھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ پاکستانی نے ہم سے زیادتی کی ہے، پاکستانی ہیں ہی گندے لوگ.وہ یہ سمجھے گا کہ ایک احمدی نے مجھ سے زیادتی کی ہے اور وہ احمدی کی زیادتی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا مگر دور نہیں ہٹے گا.ایسے موقع پر بعض لوگ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم سے فلاں نے یہ زیادتی کی ہے اور ہم اس کو سمجھاتے ہیں مگر نفرت نہیں کرتے.آپ

Page 552

خطبات طاہر جلد 16 546 خطبہ جمعہ 18 / جولائی 1997 ء بھی ان کو سمجھائیں کہ وہ اپنے اخلاق کی حفاظت کریں لیکن ایسا آدمی جماعت سے دور ہٹ نہیں سکتا.اس لئے نہیں ہٹ سکتا کہ وہ خدا کا ہو چکا ہوتا ہے.جو شخص بھی عبادت کے ذریعہ اپنے رب کا ہو جائے اسے دنیا کا کوئی انسان بھی دھکا دے کر باہر نہیں کر سکتا.یہ اس کی استقامت ہے.یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ربنا الله (ختم السحـده :31) کہ کر پھر استقامت اختیار کرتے ہیں.ایسے ہی لوگ ہیں جن پر فرشتے اترتے ہیں.ایسے ہی وہ لوگ ہیں جن پر اس دنیا میں بھی اگلی دنیا کے رموز کھولے جاتے ہیں.ان کو کہا جاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں، اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے اور یہ لوگ ہر قسم کی ٹھوکر اور ابتلا سے پاک ہو چکے ہوتے ہیں کیونکہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے اس دنیا کا انسان بن جائے اسے کوئی دنیا کی چیز ٹھوکر نہیں لگا سکتی.اسے خدا سے دور کرنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا تبھی اس دنیا میں ان سے یہ باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ تم تو عالم بقا کے رہنے والے ہو.اب تم اس دنیا میں نہیں رہے کیونکہ تم نے استقامت دکھائی ہے اور استقامت کا یہی مفہوم ہے کہ خدا سے ان کو کبھی بھی دھکیل کر پرے نہیں کیا جا سکتا.دنیا جتنا چاہے زور لگائے ، جتنے چاہے جھکڑ چلائے ، ان کے قدم نہیں ڈگمگائیں گے.وہ ہمیشہ خدا کے رہیں گے کیونکہ اللہ ان کا ہو جاتا ہے.اس دنیا میں بھی ان کا ہو جاتا ہے،ان سے کلام کرتا ہے.اگلی دنیا کی باتیں اس دنیا میں ان سے شروع ہو جاتی ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ یہ استقامت دکھائیں گے اور دنیا میں یہ استقامت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہمارا اصل مقصد تو یہی استقامت پیدا کرنا ہی ہے.ساری دنیا میں جماعت احمد یہ ایک خوشخبری دینے والی جماعت تب بن سکتی ہے اگر وہ اپنی ذات کو یہ خوشخبریاں دے کہ ہم خدا کے ہو چکے ہیں اور اگر وہ اپنی ذات کو یہ خوشخبریاں دے کہ ہم خدا کے ہو چکے ہیں تو پھر ساری دنیا کو وہ خوشخبری دینے کے اہل بنیں گے.خدا کی نگاہ میں وہی نمائندہ ہیں، وہی توحید کے علمبردار ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں کی توفیق عطا فرمائے.جو باتیں کہنی چاہئے تھیں اور نہیں کہ سکا پچھلے جمعوں میں یعنی گزشتہ سالوں کے جمعوں میں وہ کہتا رہا ہوں.جہاں تک آپ کا ذہن آپ کا ساتھ دے ان سب باتوں کو بھی یادرکھیں اور اس جلسہ کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انتہائی کامیاب جلسہ بنانے کی کوشش کریں.آمین

Page 553

خطبات طاہر جلد 16 547 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء پر قائم ہو کر بنی نوع انسان کو بلائیں تو یہی اک راہ ہے جس سے مرتی ہوئی دنیا پھر سے زندہ ہو سکتی ہے ( خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / جولائی 1997ء بمقام اسلام آباد.لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: الحمد للہ، کہ آج ہمارا یو کے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور اس جلسے کو رفتہ رفتہ ایک عالمی حیثیت حاصل ہو چکی ہے.ایک مرکزیت عطا ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں لوگ اسی طرح ذوق شوق سے شامل ہونے کے لئے آتے ہیں جیسے کبھی پاکستان کے سالانہ جلسہ میں شامل ہوا کرتے تھے.تعداد کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ اس کی نسبت بہت کم تعداد ہے مگر نمائندگی کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ جلسوں سے کسی طرح بھی کم نہیں لیکن یہ آج کا جلسہ جو شروع ہو رہا ہے یہ تمام جلسوں میں ایک فوقیت رکھتا ہے اور ایک ایسا استثنائی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے جو باقی پہلے نہ یہاں کے جلسوں کو نصیب ہوا اور نہ اور جگہوں کے جلسوں کو کبھی اس کی سعادت حاصل ہوئی.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا مجھے بھی پہلے کچھ دنوں تک علم نہیں تھا اور میں حسب دستور جلسہ سالانہ کی تیاری کے لئے وہ تقاریر جوگزشتہ جلسوں میں ہوتی رہیں انہیں کے تسلسل میں آگے مضمون کو بڑھاتا رہا لیکن مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک احمدی دوست نے مطلع کیا کہ جلسہ 1997 ء عام جلسہ نہیں ہے بلکہ مختلف ایک الگ چیز ہے کیونکہ 1897ء میں یہی جلسہ جو قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منعقد فرمایا اس کی الگ ایک نرالی شان تھی جو نہ پہلے کسی جلسے کو نصیب ہوئی اور نہ بعد میں کسی کو نصیب ہوئی

Page 554

خطبات طاہر جلد 16 548 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء اور جو مضامین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چنے وہ بھی ایسے مضامین تھے جن کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ اس سے پہلے میں مسلسل اس سال اپنے خطبات میں ان مضامین کو موضوع بنا چکا ہوں.تو یہ ایک اتفاق نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ تھا جس سے معلوم ہوا کہ ہمارا اس دفعہ کا جلسہ 1897 ء کے جلسے سے کئی طرح کی مشابہت رکھے گا اور یہ سال بھی ایک خصوصی سال ہے.جب اس طرف توجہ ہوئی تو میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات جو 1897ء میں ہوئے تھے ان کو نکلوایا اور وہ الہامات کا سلسلہ اپنی ذات میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری ہے.چنانچہ بہت سے ایسے امور ہیں جو اس جلسے سے خاص تعلق رکھتے ہیں جن کو انشاء اللہ تعالیٰ اختتامی اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور پھر آئندہ آنے والے اجلاس میں یا جتنے بھی اجلاس ہوں گے ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 1897ء میں ہونے والے جلسے کی نقل ہی پیش کی جائے گی اور بہت سے ایسے مضامین ہیں جو طے شدہ ہیں.حضرت اقدس کے اپنے الفاظ میں بیان شدہ ہیں.مجھے وہ صرف آپ کے سامنے پڑھ کر سنانے ہیں اور آپ کو اپنی یادداشت کے حوالے سے یہ دیکھنا ہوگا کہ بعینہ یہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1897ء کے جلسے کے لئے چینی تھیں وہ اس سال میں احباب کی خدمت میں پیش کرتا رہا ہوں.مگر بہتر الفاظ میں اور خدا تعالیٰ کی تائید سے بھر پور الفاظ میں میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.آج کے خطبہ کے لئے میں نے صرف الہامات کو موضوع سخن بنایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو الہامات اس سال یعنی 1897ء میں ہوئے جو اب 1997ء بن چکا ہے یعنی پورے سو سال کے بعد جو 97 ء کا سال ظہور پذیر ہو رہا ہے اس سال میں ایک سوسال پہلے یعنی 97ء کے سال میں ایک سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو الہامات ہوئے وہ اپنی ذات میں ایک عجیب شان رکھتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے لئے آئندہ بہت بڑی خوشخبریاں لے کر آئے ہیں.3 جنوری 1997ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ چند روز ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام ہوا انى مع الافواج اتیک بغتة یعنی میں فوجوں

Page 555

خطبات طاہر جلد 16 549 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء کے ساتھ ناگاہ تیرے پاس آنے والا ہوں.یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.( تذکرہ:242) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شیخ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام جو خطوط لکھے ان میں 3 جنوری کے خط میں اس کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مکتوب میں جو مارچ 1897ء کے بعد کا ہے، لکھا ہے اس جگہ ہندوؤں کے ہر روزہ مقابلہ سے نہایت کم فرصتی رہتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کوئی نشان دکھانے والا ہے.(مکتوبات احمدجلد دوم صفحہ:354) یہ جو ہندوؤں کا ذکر خصوصیت سے کر کے اور یہ فرمایا گیا کہ خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھانے والا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عظیم الشان پیشگوئی پوری ہونے والی تھی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو احساس سا تھا اور واقعہ پھر وہ کیسے ہوئی میں یہ آج انشاء اللہ آج کی افتتاحی تقریر میں آپ کے سامنے رکھوں گا.12 مارچ 1897ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ” میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف پر یہ زور سے رجوع ہوگا.( تذکرہ: 247) اور خدا تعالیٰ کے فضل سے 7 189ء کے مقابل جو 1997 ء ہے اسی سال ہندوستان میں غیر معمولی تبلیغی تحریکات چل پڑی ہیں اور کثرت سے ہندو حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہم امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ سو سال پہلے پیشگوئی کی گئی تھی بڑے زور سے آگے بڑھے گا.فرمایا 15 / مارچ کو اس تحریر کے وقت جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں قلم تھا اور آپ کچھ لکھ رہے تھے اس تحریر کے وقت ابھی ایک الہام ہوا ہے اور وہ یہ ہے ” سلامت بر تو اے مرد سلامت ( تذکرہ: 247).یعنی اے سلامتی بخش شخص تیرے لئے سلامتی ہے.معلوم ہوتا ہے اس سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کو کچھ خطرات درپیش تھے جن کے متعلق پہلے سے ہی اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دے دی کہ تیرے مقدر میں سلامتی ہے اور کسی قسم کے فکر کی ضرورت نہیں.پھر 19جون 1897ء کے خط میں آپ فرماتے ہیں ”خدا تعالیٰ نہایت توجہ سے اس سلسلے کی مددکرنا چاہتا ہے.یہ الہام کہ انى مع الافواج اتیک بغتة صاف دلالت کر رہا ہے کہ خدا تعالیٰ

Page 556

خطبات طاہر جلد 16 550 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء کا کوئی اور نشان ظہور میں آنے والا ہے.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ: 355) یہ جو اور نشان ہے یہ تحریر 19 جون کی ہے جس سے پہلے لیکھرام کا نشان اپنی بڑی شان وشوکت کے ساتھ پورا ہو چکا تھا.پس 9 جون کے بعد پھر آپ کا یہ فرمانا کہ ایک اور نشان بڑی شان کے ساتھ پورا ہونے والا ہے اور اس کو انى مع الافواج اتیک بغتة “ کے ساتھ منسلک کرنا.یہ بھی جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت عظیم خوشخبری ہے جو انشاء اللہ جلد پوری ہوگی.پھر 29 جولائی 1897 ء کو آپ نے فرمایا: ان الذى فرض علیک القرآن لرآدک الى معاد.اني مع الافواج اتیک بغتة پاتیک نصرتي اني انا الرحمان ذوالمجد والعلـی ( تذکرہ ایڈیشن چہارم : 257 ).حضور علیہ السلام خود اس کا ترجمہ کرتے ہیں : یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا یعنی انجام بخیر وعافیت ہوگا.میں اپنی فوجوں کے سمیت ( جو ملائکہ ہیں) ایک نا گہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا.میں رحمت کرنے والا ہوں.میں ہی ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے.یعنی میرا ہی بول بالا رہے گا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ...اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور کے یہ ہوا کہ...اہانت اور ملامت خلق ( اور اخیر حکم) ابراء یعنی بے قصور ٹھہرانا اور پھرا خیر حکم یہ بریکٹ میں ہے کہ آخری حکم جو خدا کی طرف سے نازل ہوا وہ ہے ابراء کسی کو بے قصور ٹھہرانا.یہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق اس میں جو مخالفوں کی پھوٹ ہے یہ خاص طور پر آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے کیونکہ اس سال کا یہ بھی ایک موضوع ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پھوٹ ڈالی جائے گی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے اور تتر بتر ہو جائیں گے.پھر ساتھ اس کے یہ الہام ہوا کہ بلجت آیاتی “ کہ میرے نشان روشن ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہو جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس مقدمے میں جو ستمبر 1899ء میں عدالت مسٹر جے آر یمنڈ میں عبدالحمید ملزم نے دوبارہ اقرار کیا کہ میرا پہلا بیان جھوٹا تھا.( تذکرہ: 256) پھر 29 جولائی 1897ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک اور الہام ہوا لواء فتح یعنی فتح کا جھنڈا‘ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم : 256)

Page 557

خطبات طاہر جلد 16 551 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء 14 جنوری 1897ء کو ایک اور الہام ہوا ” میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنے سے خون ہوتا جاتا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے“.( تذکرہ ایڈیشن چہارم : 244) یہ اس سال کا مزاج ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو سال کے آغاز میں مطلع فرمایا گیا.یہ سال توحید کا سال ہے اور تو حید اپنی ہر شان سے ظاہر وباہر ہوگی اور نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے چھکے گی.فرمایا ”آخر تو حید کی فتح ہے غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے جود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سو اب اس نے چاہا کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کوموت کا مزہ چکھاوے.سواب دونوں مریں گے.کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتا لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ نہ وہ ٹوٹے گا اور نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت بہت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی“.( تذکرہ ایڈیشن چہارم : 244) علامات کے درمیان جو میں نے یہ توحید کا ذکر کیا ہے اس میں بعض ایسے الفاظ ہیں جن کو

Page 558

خطبات طاہر جلد 16 552 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء سمجھانے کی ضرورت ہے جن کی تشریح کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا میرے نزدیک یہ جماعت احمدیہ کے لئے اب ایک ہی مضمون باقی ہے وہ تو حید کا مضمون ہے.باقی جتنی بھی باتیں ہیں وہ تو حید ہی کے گردگھومتی ہیں اور توحید سے متعلق میں آپ کو مطلع کر رہا ہوں اور کافی عرصے سے مطلع کر رہا ہوں کہ اگر آپ تو حید پر قائم ہو جائیں اور توحید کی طرف بنی نوع انسان کو بلائیں تو یہ ایک ہی راہ ہے جس سے مرتی ہوئی دنیا پھر سے زندہ ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تحریر میں جھوٹے خداؤں اور جھوٹے معبودوں کا ذکر کیا ہے اور یہ وہ فقرے ہیں جو تشریح طلب ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، نعوذ باللہ حضرت عیسی کے متعلق جھوٹ کا لفظ منسوب کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ آپ تو خود عیسی کے مثیل ہیں.اس لئے نعوذ باللہ یہ مطلب لینا کہ گویاوہ عیسی جو جھوٹا تھا نعوذ باللہ دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں ظاہر ہوا ہے.یہ وہ دشمن جو عیسائی بھی ہیں اور مسلمان معاندین بھی ہیں وہ ان عبارتوں سے غلط استفادہ کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ دیکھو یہ اچھا مسیح ہے جس نے پہلے مسیح کو جھوٹا قرار دیا جس نے پہلے مسیح کی ماں کو جھوٹا قرار دیا اور اب خود مسیح بنتا ہے اور اسی مسیح کی ہم شکل اور شبیہہ ہونے میں فخر کرتا ہے اور جہاں تک مسلمان معاندین کا تعلق ہے انہوں نے اس عبارت کو بہت اچھالا ہے اور یہاں تک کہا کہ دیکھو اب اپنے منہ سے یہ اقراری جھوٹا ہے.نعوذ باللہ من ذالک.حضرت مرزا صاحب کے متعلق کہتے ہیں کہ اقراری مجرم ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کے شبیہہ ہونے پر ، جس کے مثیل ہونے پر ان صاحب کو فخر ہے اس کے متعلق خود لکھتے ہیں کہ جھوٹا ہے اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس کی ماں بھی جھوٹی تھی.یہ محض ایک دھوکہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مسیح کے خدا بنائے جانے کو جھوٹ قرار دے رہے ہیں اور حضرت مریم کی طرف اس غلط بات کو منسوب کرنے کو جھوٹ قرار دے رہے ہیں کہ گویا حضرت مریم خود اس بات پر فخر محسوس کرتی تھیں کہ انہوں نے خدا کے بیٹے کو جنم دیا ہے.پس جو غلط تصورات دنیا میں پھیل چکے ہیں ان تصورات نے ایک عیسٹی کی شکل پیش کی.ان جھوٹے اور غلط تصورات نے حضرت مریم کو معبود بنا کر دکھایا اور خدا تعالیٰ کی بیوی بنا کر دنیا سے متعارف کروایا.یہ باتیں ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سختی سے انکار فرماتے ہیں اور ان کو توحید باری تعالیٰ کے خلاف قرار دیتے ہیں اور توحید کے خلاف جو بھی معبود ہوگا وہ بحیثیت معبود کے

Page 559

خطبات طاہر جلد 16 553 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء جھوٹا ہوگا.اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر میں حضرت مسیح اور حضرت مریم کے متعلق بعض سختی کے پہلو دکھائی دیں گے لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود حضرت عیسی علیہ السلام جو ایک حقیقت تھے، جو خدا کے ایک برگزیدہ رسول تھے ، جو خدا کے ایک ادنی بندہ اور ادنی بندہ ہونے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں محفوظ ہے اور اس مریم کا جو اس سچے بندے کی ماں تھی اس مریم کا ذکر جہاں جہاں فرمایا ہے انتہائی محبت کے ساتھ ، انتہائی انکساری کے ساتھ ، انتہائی جذبہ عشق کے ساتھ اور یہ ظاہر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ دوانسانوں میں بے مثال انسان گزرے ہیں جن کے اندر غیر معمولی صفات تھیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت عیسی علیہ السلام کو جو خدا کے موحد بندے تھے ان کا ایک ایسا مرتبہ شناخت کرتے ہیں جو اس سے پہلے حضرت مسیح کا وہ مرتبہ شناخت نہیں کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار بار دنیا کو مطلع کرتے ہیں کہ مسیح کو جو مسیح کہا گیا اور نبی سے علاوہ نام دیا گیا اس نام میں آئندہ کے لئے بہت بڑی خوشخبریاں مضمر ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میسحیت مسیح کی وہ شان ہے جو عبودیت کی شان ہے، معبودیت کی نہیں اور اس شان کے ساتھ مسیح کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ جب بھی خدا کی تو حید کو خطرہ ہوگا مسیح کی روح بے چین ہوگی اور گویا مسیح خود دوبارہ دنیا میں نازل ہو گا لیکن اس بے چینی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو حید کی خاطر بے چینی قرار دیتے ہیں جس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت مسیح کہیں اس وقت دنیا میں بیٹھے ہوئے واقعہ بے چین ہو کر دوبارہ اترنے کی تمنا کر رہے ہیں.یہ ایک تشخص ہے.مسیحیت ایک ایسا روحانی وجود ہے جو پہلی دفعہ حضرت مسیح کی ذات میں متمثل ہوا ہے اس سے پہلے کی تمام دنیا کے انبیاء مسیحیت کے نام سے ناواقف تھے اور مسیحیت نے ان کے وجود میں تشخص اختیار نہیں کیا تھا.یہ وہ مسئلہ ہے جسے آپ کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ جہاں اس کے ساتھ آپ میں ایک طاقت پیدا ہوگی کہ جھوٹے حملوں کا دفاع کر سکیں وہاں اس کی روح سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کرنے کی آپ کو تو فیق عطا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک مسیحیت جو کچی مسیحیت ہے اس میں اور مسیحی دنیا میں ایک بڑا اور نمایاں فرق ہے.سچی مسیحیت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ صرف اپنے وقت کے لئے نہیں بلکہ یہ ایک ایسی روح ہے جس کا توحید کے ساتھ گہرا تعلق ہے

Page 560

خطبات طاہر جلد 16 554 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء صلى الله اور یہ بار بارا تر نے والی روح ہے.چنانچہ آنحضرت علی کی جب مسیح نے پیشگوئی کی اور گویا آنحضرت کے آنے کو اپنا آنا قرار دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہی مسیحیت تھی جو دوبارہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صورت میں دنیا میں ظاہر ہوئی ہے اور آنحضرت ﷺ کو جو مردوں کو زندہ کرنے کی توفیق ملی ہے اس کا ایک تعلق تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک خاص شان نصیب ہوئی لیکن اس کا تعلق انبیاء سے بھی ہے اور پہلا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے جو تو حید کے ایسے علمبردار تھے کہ نبیوں میں آپ نے جو مردوں کو زندہ کرنے کے لئے دعائیں مانگیں اور آپ کو جو نشان دکھائے گئے ان میں دراصل آنحضرت ﷺ کے ظاہر ہونے کی پیشگوئیاں تھیں اور صبح کو جو عبودیت کے ساتھ اور خدا کی توحید کے ساتھ نسبت تھی آپ نے بھی جب بے قراری سے دعائیں کیں اور یہ چاہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس لہی محبت کو عام کر دے اور ہمیشہ کے لئے قائم کر دے تو وہ بے قرار دعائیں مسیح کی ایسی تھیں جو حضرت رسول اللہ یہ کی صورت میں اس طرح پوری ہوئیں کہ گویا آپ کا آنا ایک رنگ میں مسیح کا آنا تھا.پس جہاں لفظ محمد کو حضرت موسیٰ سے ایک نسبت ہے وہاں لفظ میسحیت کو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے نام احمد سے نسبت ہے اور اسی رستے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ احمد ہے جو آج دنیا پر طلوع ہو چکے ہیں.آنحضرت یہ اگر مسیح کا جلوہ نہ دکھاتے مسیحیت کا جلوہ آپ کی ذات میں مشتمل نہ ہوتا تو ناممکن صلى الله تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت ﷺ کی نمائندگی میں احمدیت کا جلوہ دکھا سکتے.پس میسحیت سے ہمیں ایک نسبت ہے، گہرا تعلق ہے اور مسیحیت ایک روح کا نام ہے یعنی Soul نہیں بلکہ روح ایک مزاج کا نام ہے جو ہمیشہ توحید سے تعلق رکھتی رہے گی اور ہمیشہ جب بھی تو حید کو خطرہ ہوگا رونما ہوگی.یہ وہ مسیح کی حقیقت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھی اور بیان فرمائی.پس وہ سارے لوگ جو اس تحریر کا حوالہ دے کر جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے غلط ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کی ذات پر تمسخر اڑاتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو سب سے پہلے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مسیحیت کا جلوہ قرار دیا اور خود قرآن کریم نے یہی بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کا آنا گو یا مسیح کا آنا تھا.تو یہ مسلمان کہلانے والے علماء جو تضحیک اور تمسخر کے عادی ہو چکے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے وہ غلط

Page 561

خطبات طاہر جلد 16 555 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء معنی لے کر اچھلتے ہیں اور گز بھر اچھلتے ہیں اور اس سے زیادہ اچھلنے کی ان کو تو فیق بھی نہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدیت پر غلط اور جھوٹے حملے کرتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مسیحیت کے دشمن ہیں جو مسیح کی نہیں تھی بلکہ اکثر لفظ یسوع کے نام کے ساتھ یاد کی جاتی ہے.اس میسحیت کے دشمن ہیں جو خود مسیح کی دشمن ہے جس نے مسیح کے وجود کو ایک ایسی شکل میں دنیا کے سامنے ابھارا کہ قیامت کے دن قرآن کریم کے نزدیک خود مسیح کو اس میسحیت کا انکار کرنا پڑے گا اور اس شخصیت کا انکار کرنا پڑے گا جو آپ کی طرف منسوب کی گئی تھی.پس یہ وہ بنیادی طرز کلام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اختیار فرمائی.کہیں آپ کو بہت بڑے اور سخت لفظ دکھائی دیں گے جو یسوع کے متعلق بولے گئے ہیں اور کہیں ایک عشق کا دریا رواں ہو جاتا ہے اور اتنا تقدس ہے مسیحیت کا کہ گویا مسیحیت خود آنحضرت علیہ کی ذات میں جلوہ گر ہو چکی ہے اور اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئندہ زمانوں کے لئے نجات دہندہ قرار دیتے ہیں.پس جو بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے طرز کلام کو نہیں سمجھے گا وہ اس تفریق کو پہچان نہیں سکتا اور اسی وجہ سے بہت سے شوخوں نے ٹھوکر کھائی اور شوخیوں میں بہت آگے بڑھ گئے.پس میں آپ کے سامنے یہ تحریر پڑھ چکا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس مضمون کو خاص طور پر سمجھیں گے.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تو آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گئے، اس میں کچھ ایسے جھوٹے خدا بھی ہیں جو خدا بنتے ہیں اور خدا ہوتے نہیں اور کچھ ایسے بچے انسان بھی ہیں جن کی طرف جھوٹی خدائی منسوب کر دی گئی ہے.پس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے کہ یہ بچے لوگ اپنی جھوٹی خدائیوں سے منقطع کئے جائیں گے یعنی مسیح کو ایک ایسا مقام اور مرتبہ حاصل ہوگا کہ وہ اپنے اوپر عائد کردہ تمام الزامات سے بری کیا جائے گا اور دنیا کے سامنے خدا کے موحد سچے عاشق رسول کے طور پر پیش ہوگا جس کے فیض کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے.یہ جو قیامت تک ممتد ہونے کا مضمون ہے اس کا تعلق مسیحیت کے ساتھ بہت گہرا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں کثرت سے یہ مضمون ملتا ہے لیکن اس وقت میں اس مضمون کو نہیں چھیڑوں گا کیونکہ جمعہ کے دوران چند مختصر الہامات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا انشاء اللہ تعالیٰ

Page 562

خطبات طاہر جلد 16 556 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء جماعت احمدیہ کے قریب کے مستقبل سے اور بعید کے مستقبل سے تعلق ہے اور وہ خدا کے فضل سے اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتا دیکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17 فروری کے اشتہار میں لکھ رہے ہیں ” ایک عرصہ ہوا کہ مجھے الہام ہوا تھا وسع مكانك ياتون من كل فج عمیق “ یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دور دور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے...پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھر زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری ہوگی - والله يفعل ما يشاء لا مانع لما اراد ( تذکرہ ایڈیشن چہارم : 246 ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وسع مكانك اور يـــاتــون مــن كل فج عمیق کے متعلق جو الہام جماعت کو سنایا، 1897 ء کا وہ سال ہے جو 1997ء میں دہرایا جا رہا ہے اور آج وسع مکانک کا ایک عجیب نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں اور یاتون من كل فج عمیق کا ایک ایسا مضمون ظاہر ہو رہا ہے جو اس سے پہلے عموماً لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بنا.فج عمیق سے عام طور پر خشک راستے لئے جاتے ہیں جو کثرت کے ساتھ چلنے کے نتیجے میں گہرے ہو جاتے ہیں لیکن جیسا کہ اس سے پہلے میں نے ایک مضمون میں یہ دکھایا تھا اور عرب لغت کے حوالے سے بتایا تھا کہ فج عميق سمندری رستوں کو بھی کہتے ہیں جو بہت گہرے ہوتے ہیں اور عمیق کا لفظ چند کھڈوں پر اتنا اطلاق نہیں پاتا جتنا سمندری رستوں پر اطلاق پاتا ہے.تو مراد یہ تھی کہ کثرت کے ساتھ لوگ سمندری سفر کر کے آپ کے پاس پہنچیں گے.اس زمانے میں فج عمیق کا یہ ترجمہ بالکل درست تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں کثرت کے ساتھ سمندری سفر کرنے والے آئے.کوئی امریکہ سے آیا، کوئی آسٹریلیا سے آیا.کوئی دوسرے ممالک سے آئے مگر فج عمیق کا لفظ خشک رستوں پر اطلاق پاتا رہا اور قادیان کا رستہ گہرے گڑھوں میں تبدیل ہو گیا کیونکہ کثرت سے لوگ ان پر آتے رہے.فج عمیق سمندروں کے رستوں کی بھی نشان دہی کرتا رہا کہ بہت گہرے سمندروں سے گزر کر لوگ آپ کے پاس پہنچتے رہے مگر 1997ء میں اس فـج عـمـيـق کا ایک اور معنی بھی ظاہر ہوا ہے اور وہ ہوائی راستے ہیں.یعنی ان کے نیچے اتنی گہری زمین ہوتی ہے، اتنی دور ہوتی ہے کہ سمندر کی سطح پر چلنے والے جہازوں کے نیچے سمندر کی تہ اتنی دور نہیں ہوتی جتنی آسمان پر

Page 563

خطبات طاہر جلد 16 557 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء چلنے والے جہازوں کے نیچے زمین کی سطح ہوتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ان ہی چند لفظوں میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا رہا، مختلف صورتیں دکھاتا رہا.کبھی محض خشک رستوں پر اطلاق پایا، کبھی سمندری جہازوں پر اس کا اطلاق ہوا اور کبھی آج جیسا کہ آج ہورہا ہے دور دور سے ہوائی جہازوں پر لوگ کثرت کے ساتھ یہاں پہنچ رہے ہیں اور تمام دنیا سے فج عمیق کا یہ نیا مضمون ظاہر ہو رہا ہے اور ساتھ فرمایا وسع مکانک، کہ اپنے مکان کو وسیع کر.جماعت احمدیہ خدا کے فضل کے ساتھ اپنے مکان کو اس طرح وسعت دے رہی ہے کہ جہاں تک زمین کا تعلق ہے کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور یہ مضمون وسع مکانک میں انشاء اللہ کل کی تقریر میں آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن وسع مکانک میں ایک خدا کا مکان ہے جس کو وسعت دینا ہمارا کام ہے اور دراصل خدا کا مکان جو اس دنیا میں ہمارے دلوں میں بنتا ہے جب وہ ظاہری صورت میں مساجد بن کر دکھائی دینے لگتا ہے تو ہمارے دل کا تعلق مساجد کے ساتھ دراصل وسع مکانک کی ایک اور تفسیر ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ میں نے جماعتوں کو کثرت کے ساتھ نئی مساجد بنانے کی تحریک کی ہے اور یہ امر واقع ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا چند دن پہلے تک میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اس طرح نہیں تھے کہ جو 1897 ء کو 1997 ء سے ملانے والے ہوں اس لئے ان کی طرف توجہ نہ دی.جب میں نے توجہ دی تو حیران ہوا کہ مساجد کی توسیع کے متعلق جو جماعت کے منصوبے ہیں وہ بعینہ اسی سال میں بنے اور اسی سال میں نشو ونما پائے اور انشاء اللہ ان پر عمل درآمد بھی آپ اس سال کے اکثر حصے میں دیکھیں گے.والله يفعل ما يشاء لا مانع لما اراد.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو دوسری دفعہ پھر الہام ہوا ہے بعید نہیں کہ آئندہ آنے والے 1997ء کی طرف اس کا اشارہ ہو.فرمایا یہ دوبارہ الہام ہوا ہے.اس کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سال جو 1997 ء ہے اور 1997ء کی تکرار ہے اس سال کی طرف اشارہ تھا چنانچہ فرمایا ” يفعل ما يشاء لا مانع لما اراد “ کہ کچھ ہو کر رہنے والا ہے اور وہ ضرور ہوکر رہے گا.ناممکن ہے کہ خدا کی بات کو کوئی تبدیل کر سکے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مجھے میرے خدا نے مخاطب کر کے فرمایا ہے الارض والسماء

Page 564

خطبات طاہر جلد 16 558 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء معک کماهو معى.قل لى الارض والسماء.قل لي سلام.في مقعد صدق عند مليك مقتدر ان الله مع الذين اتقوا و الذين هم محسنون ياتى نصر الله انا سننذر العالم كله انا سننزل انا الله لااله الاانا ( تذکرہ ایڈیشن چہارم : 249) یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے جو خود اپنی ذات میں ایک تشریح اور تفسیر کے معنی رکھتا ہے فرماتے ہیں یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی طاقتیں اور خدائی نوشتے تیری تائید کریں گے.اس زمین پر تو اپنی کوشش کر لیکن آسمان سے ایسی ہوائیں چلائی جائیں گی جو تیری مددگار ثابت ہوں گی.اس زمانے میں آسمان کس طرح ساتھ تھا یہ فرشتوں کا نزول ہو رہا تھا.قادیان میں طرح طرح کے آسمانی نشان دکھائے جا رہے تھے خود اس سال میں یعنی 1897ء یعنی 97 ء کے لحاظ سے جو د ہرایا جارہا ہے.عظیم الشان نشانات اس سال دکھائے گئے تھے ان کا ذکر بعد میں کروں گا لیکن یہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہی الہام ایک نیا رنگ اختیار کر جاتا ہے جب اس کو 1997ء میں پڑھتے ہیں.آسمان کا ساتھ ہونا MTA کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ MTA کے ذریعہ کل عالم میں آسمان نے جو گواہیاں دی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں.اس کثرت کے ساتھ وحدت نصیب ہوئی ہے کہ جب ہم اس الہام کو 1897ء کی بجائے 1997ء میں پڑھتے ہیں تو پھر اس کے معنی ہیں آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی وہ آسمانی طاقتیں جو ابھی ظہور میں نہیں آئیں وہ بھی تیرے ساتھ ہوں گی جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہیں.یعنی آنحضرت مے نے جس خدا کو پیش فرمایا وہ جیسا کہ آسمان پر تھا ویسا ہی زمین پر ظاہر ہوا.مراد یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو باقی انبیاء سے کوئی فوقیت عطا ہوئی ہے.ہر نبی کے ساتھ آسمان کا خدا اتر تارہا ہے اور اس کے زمین پر اترنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زمینی طاقتیں آسمانی طاقتوں کے سائے تلے اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں.پس اس پہلو سے ہم جب اس سال اس الہام کو پڑھتے ہیں تو آسمان ہمارے ساتھ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آسمان کی متحرک طاقتیں ، وہ ریڈیائی وجود جس کا پہلے علم نہیں تھا اب کلیہ جماعت احمدیہ

Page 565

خطبات طاہر جلد 16 559 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء کی تائید میں ظاہر ہو چکا ہے اور رونما ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک عض انقلاب بر پا ہو گا اور پہلے سے بڑھ کر ہو گا.فرماتے ہیں: وو ” میرے لئے سلامتی ہے اور وہ سلامتی جو خدائے قادر کے حضور میں سچائی کی نشست گاہ میں ہے.اب یہاں یا درکھئے قل لــی سـلام فــی مقعد صدق عند ملیک مقتدر سلام کا لفظ خصوصیت سے مجھے گزشتہ چند سالوں میں الہام کے طور پر عطا کیا گیا.السلام علیکم کے الفاظ بار بار دہرائے گئے اور تجھ پر سلامتی یعنی ساری جماعت پر سلامتی جو میرے ساتھ ہے اس کے الفاظ خدا تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ مجھے عطا کئے.اسی سال وہ نشان بھی دیکھا گیا کہ ایک سلام کی بجائے میں نے دو سلام کہے تھے اور بیچ کا عرصہ کلیۂ غائب ہو گیا اور جب مجھے یاد کرایا گیا کہ میں سلام پھیر چکا تھا تو مجھے بالکل یاد نہیں رہا.تمام تر ذہن سے اور دل سے درمیانی عرصے کے نقوش مٹ چکے تھے اور یہ بھول کے نتیجے میں نہیں ہوا کرتا.جب ایک شخص بھول کر کوئی حرکت کرے اور سبحان اللہ کے ذریعے یا بعد میں اسے بتایا جائے تو یقینا وہ غلطی کو محسوس کرتا ہے اور جانتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے لیکن یہ کہ بیچ کا عرصہ اس طرح مٹ جائے جیسے انسان کا اس وقت وجود ہی نہیں تھا اور بتانے اور یاد کرانے کے باوجود یاد نہ آئے کہ میں نے پہلے بھی سلام پھیرا تھا، یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میں سمجھتا ہوں کہ نشان کے طور پر ظاہر ہوا تھا اور اسی سال کے انعامات میں جب میں نے قل لی سلام کے لفظ کو پڑھا تو میں سمجھتا ہوں کہ اسی 1897 ء کے سال کی برکت تھی جو یہ سلام دوبارہ میں نے کہا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سلام ہے جو خدا کی طرف سے آپ کو پہنچا جسے اس سال دہرایا جا رہا ہے.اس لئے نہ میری کوئی حیثیت ہے نہ ہم سب کی انفرادی طور پر کوئی حیثیت ہے بلکہ یہ سلامتی وہی ہے جو مسیح موعود پر اترتی رہی اور آج پھر ہم پر دوبارہ اتر رہی ہے لیکن اس بات کو نہ بھولیں: ان الله مع الذين اتقوا و الذين هم محسنون ، اللہ ہمارے ساتھ ہے یہ کہنا تو آسان ہے اور جب یہ کہہ کر اس مضمون میں آگے قدم بڑھاتے ہیں تو پھر اس کی مشکلات بھی دکھائی دینے لگتی ہیں لیکن وہ مشکلات بھی خود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حل کرتا چلا جاتا ہے.فرمایا ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون كه اللہ متقیوں کے ساتھ ہے جو احسان کرنے

Page 566

خطبات طاہر جلد 16 560 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء والے ہیں، جو اپنے تقوی میں نئے حسن کے رنگ بھرتے چلے جاتے ہیں، جن کا تقویٰ ایک مقام پر ٹھہر انہیں کرتا بلکہ ہمیشہ خوبصورت اور خوبصورت ہوتا چلا جاتا ہے.پس اس الہام پر میں سمجھتا ہوں سب سے پہلی قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا یہ مخاطب کرنا کہ آسمان اور زمین اس طرح تیرے ساتھ ہیں جس طرح میرے ساتھ اور پھر فرماتا الذين اتقواو الذين هم محسنون اللہ ان کے ساتھ ہوا کرتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اپنے تقویٰ میں نئے حسن بھرتے چلے جاتے ہیں.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تقویٰ پر قائم بھی تھے اور آپ کا تقویٰ خوبصورت سے مزید خوبصورت ہوتا چلا جارہا تھا اور اس میں حسن کے نئے رنگ بھرے جارہے تھے.اگر یہ بات ہو تو یاتی نصر اللہ اللہ کی نصرت ضرور آیا کرتی ہے.میں جماعت کو گزشتہ نصف سال سے بڑھ کر یہ سمجھاتا چلا آ رہا ہوں کہ خدا یقیناً ہمارے ساتھ ہے، ہمارے ساتھ رہے گا، اس کی نصرت ہمیں ضرور عطا ہوگی اور اس کی نصرت کے حصول کے لئے لازم ہے ہم اپنے اندر کچھ پاک تبدیلی کر کے دکھائیں اور وہ تقویٰ ہی ہے اور حسن تقویٰ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت کو کھینچا کرتا ہے اور نصرت ضرور آئے گی مگر ہمیں اپنے اندر لا زما پاک تبدیلیاں کرنی ہوں گی.ایسی پاک تبدیلیاں جو خدا تعالیٰ کی توجہ کا مرکز بنیں اور اللہ تعالیٰ حسن کی نگاہ سے اور سنجیدگی کی نگاہ سے آپ کی پاک تبدیلیوں کو دیکھ رہا ہو.اگر یہ ہو تو ناممکن ہے کہ جماعت کی فتح کی تقدیر کو دنیا کی کوئی طاقت بدل سکے یہ ناممکن ہے اور جو میں دیکھ رہا ہوں اس سے مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ میں تقویٰ اور حسن تقویٰ کا معیار پہلے سے بڑھتا چلا جا رہا ہے.کثرت کے ساتھ ایسے لوگ موجود ہیں جو یہاں بھی موجود ہوں گے جو پیدائشی احمدی تھے مگر ان کی توجہ تقویٰ کی طرف اور حسن تقوی کی طرف یعنی تقوی کو مزید حسین بنانے کی طرف اس طرح نہیں تھی جس طرح کہ گزشتہ چند مہینوں میں یا ایک دو سالوں میں ہوئی ہے.واقعہ کثرت سے مجھے ایسے خطوط ملتے ہیں جہاں احمدی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم پیدائشی احمدی تھے ، ہم سمجھتے تھے کہ ہم احمدی ہیں مگر آپ کے خطبات نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے.ایک نئے وجود کا احساس ہوا ہے جو ہمارے اندر موجود ہے مگر وہ وجود نہیں ہے جو ہم سمجھا کرتے تھے.ہمیں اس وجود کے نقوش کو مٹانا پڑا ہے، نئے تقویٰ کے نقوش اس

Page 567

خطبات طاہر جلد 16 561 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997 ء کی جگہ لگانے پڑے ہیں یہاں تک کہ خدا کے فضل کے ساتھ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اب صحیح رستے پر گامزن ہو چکے ہیں.یہ پیج رستے پر گامزن ہونا نصرت چاہتا ہے اور جو کثرت سے اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم پر نصرت نازل ہوئی ہے اور آئندہ نازل ہوگی یہ اس بات کی یقینی شہادت ہے کہ یہ لوگ بچے ہیں.اگر یہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں نہ کرتے تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی غیر معمولی آسمانی نصرتیں ہم پر نازل ہوتیں جن کا ذکر انشاء اللہ جلسے کی باقی تقاریر میں ہوگا.فرماتے ہیں : ” خدا کی مدد آتی ہے.ہم تمام دنیا کو متنبہ کریں گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب متنبہ کریں گے تو آپ کے عاجز غلام ہم سب متنبہ کریں گے.پھر اللہ فرماتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں جو آپ اپنے رنگ میں تشریحی ترجمے کے طور پر پیش فرما رہے ہیں ”خدا کی مدد آتی ہے.ہم تمام دنیا کو متنبہ کریں گے.یہاں ہم سے مراد دراصل اللہ تعالیٰ ہے کہ دنیا کو انذار کے ذریعے ہلایا جائے گا.ہم آسمان سے زمین پر اتریں گے.یہاں لفظ ہم استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے.یادرکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے متعلق لفظ ہم فرماتا ہے تو ہرگز اس میں کثرت کے معنی نہیں ہوتے.دو معانی ہیں جو لفظ ہم میں پائے جاتے ہیں ایک وہ معنی جو بادشاہ اپنی رعایا سے کلام کرتے ہیں تو ان کی شان اور شوکت کا اظہار لفظ ہم سے ہوتا ہے.مراد یہ ہے کہ اگر ایک مرد بادشاہ ہے اور وہ کہتا ہے ہم یہ کریں گے تو لوگوں کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ میں اکیلا مراد نہیں ہوں.یہ ساری طاقتیں جو میرے قدموں تلے ہیں جب میں ارادہ ظاہر کروں گا تو یہ ساری طاقتیں متحرک ہو جائیں گی.پس میری ہم کی حیثیت کے مقابل پر کسی کو سر اٹھانے کی مجال نہیں ہے کیونکہ تمام سلطنت حرکت میں آجاتی ہے جب بادشاہ کا ارادہ حرکت میں آتا ہے.تو یہاں ہم سے مراد معبودان کی کثرت نہیں ہے.یہاں خدا تعالیٰ کی خدائی کی کثرت مراد ہے.ساری کائنات آسمان اور آسمان کے اندر جو طاقتیں موجود ہیں ، زمین اور زمین کے اندر جو طاقتیں موجود ہیں، جب بھی خدا تعالیٰ کا ارادہ حرکت میں آئے تو یہ ساری طاقتیں حرکت میں آجاتی ہیں.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو انا کہنے لگ جاتا ہے.ہم ہیں جو یہ فیصلہ کر چکے ہیں.ہمارا فیصلہ ہو کر رہنے والا ہے.کوئی دنیا کی تقدیر سے بدل نہیں سکتی.اس کے معاً بعد فرمایا: انا الله لا اله الا انا اسی الہام کے آخر پر انا کی تشریح فرما دی جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ ہوں میں ہی ، ایک ہی ہوں.میرے ایک کے ساتھ ہی یہ ساری کائنات کی جلوہ گری

Page 568

خطبات طاہر جلد 16 562 خطبہ جمعہ 25 / جولائی 1997ء ہے.میں ایک ہوں تو تمہیں کثرت سے چیزیں دکھائی دیتی ہیں مگر میں پھر بھی ایک ہی ہوں.میری ذات میں کوئی تبدیلی اور کوئی اضافہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ترجمہ ہے.” میں ہی کامل اور سچا خدا ہوں.میرے سوا اور کوئی نہیں ہے (تذکرہ ایڈیشن چہارم:249 ).پس اگر ہم نے اپنی عبودیت کو خدا کے حضور اس طرح سجدہ ریز کر دیا کہ اس کی انا کی طاقتیں دنیا پر جلوہ گر ہوں اور بالآخر دنیا یہ دیکھ لے کہ اس کے سوا اور کوئی نہیں.اگر خدا ایک ہی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں تو اس کی مدد ہم لوگوں کے لئے اسی صورت میں ظاہر ہوگی جبکہ ہماری کوششوں کا آخری نتیجہ اس کی تو حید کی جلوہ گری ہو.اس رنگ میں خدا کے دین کی خدمت کریں، اس رنگ میں اپنے نفوس کو مٹاتے ہوئے اپنے وجود کو کالعدم سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی راہوں کو آگے بڑھائیں کہ تمام دنیا میں توحید کی آواز جو بالآخر گو نجے اس آواز کے تلے ہر دوسری آواز بند ہو جائے.اس ایک توحید، ایک خدا کے نیچے تمام دنیا کالعدم ہو جائے.ہم بھی اور ہماری ساری کوششیں بھی ہیں ہی کالعدم، ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں.اس انا کی ذات کے ہمارے ساتھ ملنے کے ساتھ ایک انا وجود میں آیا ہے.مگر فی الحقیقت نہ ہم کچھ ہیں نہ ہماری کوششیں کوئی چیز ہیں.یہ تقدیر الہی ہے کہ اللہ ہی کا ارادہ ہے جس نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ دنیا میں ایک دفعہ ضرور توحید کی بادشاہی ہوگی اور ہر جھوٹا خدا مٹا دیا جائے گا.سواس مقصد کے لئے آپ اٹھ کھڑے ہوں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ آپ کی ان کوششوں کو ضرور بار آور فرمائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بھی لازماً پورا ہوگا کہ ”میں تجھے برکت دوں گا اور بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے ( تذکرہ : 259).یہ بھی 1897ء کا الہام ہے.پس اب وقت آ رہا ہے کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود کے کپڑوں سے جو تو حید کے نور سے معطر تھے، ان کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں.اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم اس کے وجود میں مٹتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ ہمیں اپنا کوئی وجود اس سے الگ دکھائی نہیں دے گا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 569

خطبات طاہر جلد 16 563 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء متقین کا امام بننے کے لئے دعا کریں اور متقین کا امام بننے کے لئے کوشش کر ( خطبه جمعه فرموده یکم اگست 1997 بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ قُلْ إِنَّ الْخَسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الخُسْرَانُ الْمُبِينُ (الزمر: 12 تا 16 ) پھر فرمایا: قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ تو کہہ دے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان ہونے کے لحاظ سے پہلا مسلمان ہوں.ان دو آیات کو اکٹھا پڑھنے سے ایک بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دین کو خدا کے لئے خالص کرنا یہ اسلام ہے اور بہترین مسلمان وہی ہے یا سب سے پہلا مسلمان وہی ہے جو دین کو اللہ کے لئے خالص

Page 570

خطبات طاہر جلد 16 564 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء کر دے.اس لئے ہمیں مسلمان بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس پہلو سے ان آیات پر عمل کریں.اگر اس پہلو سے ان آیات پر غور کریں تو پھر دنیا کے مسلمان کہنے یا نہ مسلمان کہنے کا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے.ایک ہی حکم ہے کہ دین کو خدا کے لئے خالص کرو.جو بھی دین کو خدا کے لئے خالص کرے گا خدا کی نظر میں وہی مسلمان ہے اور جتنا خالص کرے گا اتنا ہی اس کی مسلمانی کا مقام بڑھتارہے گا.سب سے پہلے تو لفظ دین ہے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دین سے کیا مراد ہے.قُل اِنّى أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ عام طور پر تراجم میں لفظ اطاعت ملے گا لیکن لفظ اطاعت معنی درست ہونے کے باوجود اس دین کے لفظ کی اصلیت میں شامل نہیں ہے.اس موقع پر، اس محل پر اطاعت کا مضمون ہی ہے جو پیش نظر ہے اور یہ کیسے ہے اور دین کا اصل معنی کیا ہے اس سلسلے میں قرآن کے حوالے سے میں آپ کے سامنے چند امور رکھتا ہوں.قرآن کریم دین سے مراد مسلک لیتا ہے اور مسلک کا الہی مسلک ہونا لازم نہیں.کوئی بھی مسلک ہو جس پر چلنے پر انسان پابند ہو اس کو قرآن کریم دین کہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دین الملک کا حوالہ دیتا ہے.ماگان لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ (يوسف: 77) حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ طاقت نہیں تھی یا اس بات کے مجاز نہیں تھے کہ وہ بادشاہ کے دین میں اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھ سکیں.اب صاف پتا چلا کہ وہاں بادشاہ کے دین سے مراد مذہب ہرگز نہیں بلکہ قانون ہے ملک کا اور وہ قانون جس پر چلنا لازم ہو وہی مسلک ہے جس کو قرآن کریم دین کے حوالے سے یاد کرتا ہے.تو ہر وہ مسلک جو قانون سازی کے نتیجے میں انسان اپنا لے اس کو بھی دین کہیں گے.ہر وہ مسلک جو جابر ملک پر ٹھونس دے جس پر چلنا سب کے لئے ضروری ہو اس کو بھی دین کہیں گے اور وہ مسلک جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے اس کو بھی دین کہتے ہیں.اس مسلک میں طوعاً بھی شامل ہے اور کرھا بھی شامل ہے.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرہ:257) کے اور معنی ہیں وہاں دین خدا کے نام پر، خدا کے بتائے ہوئے مسلک پر چلنے کو کہا گیا ہے لیکن دین انسانی فطرت بھی ہے اور وہاں طوعاً کی کوئی بحث نہیں ہوتی.ہر وہ چیز جو فطرت میں گوندھی ہوئی ہے جس کے مطابق فطرت کو لازماً چلنا ہے وہ دین جو ہے وہ تو جانوروں کا بھی ایک دین ہے ہر چیز جو زندگی رکھتی ہے اس کا ایک دین ہے یعنی اس کے اندر جو خدا تعالیٰ نے صفات ودیعت کر دی ہیں جن پر چلنا اس کے لئے لازم ہے یہ دین

Page 571

خطبات طاہر جلد 16 565 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء کہلاتا ہے اور انسان کے تعلق میں دین کہلاتا ہے کیونکہ باقی جانوروں سے پوچھ کچھ نہیں ہے اور ان کا اپنے اپنے مسالک پر چلنا ایک طبعی امر ہے.لیکن انسان کو دو حصے دین کے ملے ہوئے ہیں ایک وہ دین جو اس کی فطرت میں گوندھا گیا ہے اس دین میں سے کچھ ایسا ہے جس پر اس کا چلنا لا زم ہے وہ اس سے ہٹ سکتا ہی نہیں.کچھ ایسا ہے جس سے وہ ہٹ سکتا ہے اور اس ہٹنے والے حصے کا تعلق شریعت سے بھی ہے کیونکہ قرآن کریم دین کے اس تعلق میں بیان فرماتا ہے.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم: 31) یہاں جو فطرت ہے اسی کا نام قرآن کریم دین بھی رکھتا ہے.وہ دین ہے جس پہ خدا تعالیٰ نے انسان کو چلایا ہے.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا یہ وہ دین ہے جو انسان کی فطرت میں داخل کر دیا گیا ہے.یہ باتیں اس لئے سمجھانی ضروری ہیں جب میں آگے مضمون کو بڑھاؤں گا تو آپ سمجھیں گے کہ ان کا آپس کا ایک تعلق ہے.فطرت میں جب خدا تعالیٰ نے جس کو دین فطرت کہا ہے دین اللہ، اللہ تعالیٰ اس کو فرماتا ہے اس میں انسان کے اندر ایک ایسا دین ہے جو اندر سے بولتا اندر سے اس کو بتاتا ہے اور اس کی آواز پر کان دھرنا اس کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے.فطرت جب بھی بولے گی سچ بولے گی ، فطرت کبھی بھی یہ تقاضا نہیں کرے گی کہ تم غلط رستے پر چلو اگر چہ بظاہر یہ تقاضا دل سے پیدا ہوتا ہے مگر وہ دین اللہ نہیں ہے، وہ فطرت نہیں ہے.میں نے اس کی مثال آپ کے سامنے کئی دفعہ رکھی اور یہ سمجھایا کہ ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق یہ سمجھتا ہے، فطرت کی آواز ہے کہ فلاں کا مال غصب کر لو وہ اندر سے آواز اٹھتی ہے جو دین اللہ نہیں ہے.دین اللہ کی پہچان یہ ہے کہ ہر انسان پر برابر اطلاق پاتا ہے اس کے اندر Universality ہے.چنانچہ ایک شخص اپنے متعلق جب اس کا حق غصب کیا جارہا ہوشدید غم و غصے کا اظہار کرے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ دین کی آواز نہیں ہے فطرت کی آواز یو نیورسل ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ یو نیورسل ہے اس نے تمام انسانوں کو ایک یونیورسل قانون کے مطابق جو بین الاقوامی ، عالمی قانون ہے اس کے مطابق پیدا کیا ہے تو دین اس مسلک کو کہتے ہیں جس پر آپ کو چلنے پر مجبور کر دیا گیا ہو یعنی اندر کی آواز ہمیشہ وہی رہے گی جو بچے دین کی آواز ہے.دین دنیا کے بنائے ہوئے قوانین کو بھی کہتے ہیں یا بادشاہوں کے جاری کردہ قوانین کو بھی کہتے ہیں اگر آپ ان پر چلیں گے تو آپ دین

Page 572

خطبات طاہر جلد 16 566 خطبه جمعه کیم را گست 1997 ء کی متابعت کریں گے اور ان پر چلنے میں کچھ مجبوری بھی داخل ہے.اللہ جو دین بناتا ہے جس کو ہم شریعت کہتے ہیں وہ بھی دین کہلاتی ہے مگر اس میں مجبوری نہیں یہ وہ مقام ہے جہاں لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کا اطلاق ہو رہا ہے.دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں حالانکہ فطرت جو بنائی گئی ہے وہ جبریہ ہے ایک قسم کی کوئی انسان اپنی فطرت سے ہٹ سکتا ہی نہیں.بڑے سے بڑا قاتل، مجرم، بڑے سے بڑا گنہگار بھی اپنے نفس میں ڈوب کے دیکھے تو اس کو فطرت کی وہی آواز دکھائی دے گی جس کی میں نے مثال دی ہے کہ غیروں کے اپنے ساتھ معاملے میں ان کی فطرت اٹھ کھڑی ہوگی ، بتائے گی کہ اصل قانون کیا ہے لیکن وہ دین جو انسان کو خدا تعالیٰ نے شریعت کے طور پر دیا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس میں جبر نہیں ہے لیکن مسلک کا اپنا ایک جبر ہے اور وہ جبر ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جومسلک درست ہواس سے ہنے کا نقصان ضرور پہنچتا ہے پس مسلک اپنے اندر خود ایک جبر رکھتا ہے جب آپ کہتے ہیں لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ تو دنیا میں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہا جائے کہ جو چاہے آگ میں ہاتھ ڈال دے جو چاہے نہ ڈالے مگر آگ میں ہاتھ ڈالنا فطرت کے خلاف ہے آگ میں ہاتھ ڈالو گے اجازت تو ہو گی مگر ہاتھ ضرور جلے گا.پس دین میں ایک اندرونی جبریت پائی جاتی ہے جو لَا إِكْرَاهَ کہنے کے باوجود نہیں بہتی.چنانچہ قرآن کریم نے اس کے معا بعد جو مضمون بیان فرمایا وہ یہی ہے کہ پھر تم اپنے کئے کا نقصان اٹھاؤ گے.اگر غلط کرو گے اس کا نقصان تمہیں پہنچے گا.اگر صحیح کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں پہنچے گا.پس اس پہلو سے لفظ دین کو آپ کو سمجھنا چاہئے یہ سارے معانی اپنے اندر رکھتا ہے.اب اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُل اِنّى أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لهُ الدِّينَ.اے محمد رسول اللہ علیہ یہ اعلان کر دے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں مُخلِصًا لهُ الدِّينَ اب یہاں الدین کے سارے معنی ہیں.بادشاہ کا دین بھی ہوسکتا ہے، ملک کا دین بھی ہوسکتا ہے ہر قسم کے دین دنیا میں موجود ہیں یہاں تک کہ مشرک کے مسلک کو بھی قرآن کریم دین ہی قرار دیتا ہے لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (الکافرون (7) مشرکوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو اللہ کے سوا بتوں کی عبادت کرتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے لَكُمْ دِينَكُمْ وَنِى دِينِ.صاف پتا چلا کہ دین کا معنی صرف مذہب لینا درست نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ قوانین کو محض دین نہیں کہا جا سکتا.

Page 573

خطبات طاہر جلد 16 567 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء بادشاہوں کی طرف سے بھی بیان کئے جاتے ہیں.مذہبی دنیا میں بہت گروں کے قوانین ہیں، بت پوجنے والوں کے قوانین ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن دین مسلک کا نام ہے جو بھی انسان مسلک اختیار کرے اسے دین کہیں گے.یہاں فرما یا قُلْ اِنّى اَمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ کہ میں اپنے دین کو اس کے لئے مخلص کروں گا تو عبادت ہوگی ورنہ نہیں ہوگی.اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ساری زندگی میں جو بھی چلتا پھرتا، اٹھتا بیٹھتا، جو بھی مسلک اختیار کرتا ہے وہ اگر اللہ کے لئے خالص ہوگا تو اسی حد تک اس کی عبادت خالص ہوگی جتنا اس سے ہٹے گا اس کی عبادت اس سے ہٹ جائے گی.تو عبادت صرف نماز پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ ساری زندگی نماز کے قبلے کے مطابق ڈھلنی چاہئے.یہ مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں خصوصیت سے بیان ہوا ہے.آپ نماز قبلے کی طرف پڑھیں، سجدے خدا کو کریں اور باقی ساری زندگی کا رخ مختلف ہو تو یہ مُخْلِصًا لهُ الذِيْنَ میں نہیں آئے گا.تمہارا سارا مسلک تمہارا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا سب کچھ اگر خدا کے لئے خالص ہوگا تو پھر یہ عبادت ہے ورنہ عبادت نہیں ہے.پس جس عبادت کے قیام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں اس کا تعلق صرف نمازیں قائم کرنے سے نہیں بلکہ ساری زندگی کو قبلہ رخ کرنے کا نام عبادت ہے.تمام زندگی کو اللہ کے لئے خالص کر دینا اس میں روز مرہ زندگی کا اٹھنا بیٹھنا، عورتوں سے سلوک، بچوں سے سلوک ، بڑوں سے سلوک ،عورتوں کا خاوندوں سے سلوک، ایک دوسرے سے سلوک، لین دین کے معاملات یہ سارے دین ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو مخلص کرنا ہو گا کس کے لئے ؟ اللہ کے لئے.پس ساری زندگی کا ہر فعل اگر خدا کے لئے خالص ہو جاتا ہے تو یہ عبادت ہے اور ساری زندگی عبادت میں ڈھل جاتی ہے پھر ایسے موقع پر آکر عبادت میں اور دین میں اور انسان کے رہن سہن میں کوئی بھی فرق نہیں رہتا.اس وجہ سے آنحضرت ﷺ کو فرمایا گیا و أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ تو یہ بھی اعلان کر دے کہ اس تعریف کی رو سے میں پہلا مسلمان ہوں.پہلے مسلمان کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اسلام میں سب سے اول درجے کا مقام اور مرتبہ حاصل کرنے والا ، دوسرا اگر وقت کے لحاظ سے، زمانے کے لحاظ سے بھی پہلا کہا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا اگر چہ اس سے پہلے تمام انبیاء اپنی عبادت کو خدا کے لئے خالص کرتے تھے اور ان کا دین خدا کے لئے ہوتا تھا مگر

Page 574

خطبات طاہر جلد 16 568 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے اپنی ذات کو اس کے ہر پہلو میں خدا کے لئے خالص کیا ہے ویسا پہلے نبیوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سب نبی پاک ہیں اس میں کوئی شک نہیں مگر سب سے اوپر ، سب سے بالا مقام احمد ہے.وہ پا کی میں اور خلوص میں سب صلى الله.نبیوں سے آگے بڑھے تو گویا پہلی دفعہ عبادت دنیا میں اس وقت ہوئی جب محمد رسول اللہ و تشریف لائے یہ گویا کے ساتھ ہے یعنی عبادت کا یہ منی اپنے درجہ کمل کو پہنچا کہ اول امسلمین پیدا ہو گیا.ہم نے اس اول المسلمین کی اطاعت کا جوا اپنے کندھوں پر ڈالا ہے اس اول المسلمین کے پیچھے چل کر دنیا کو عبادت کے گر سکھانے ہیں یعنی اپنی ساری زندگی کو پھر اللہ کے لئے خالص کر لینا ہے پھر ہماری عبادتیں خدا کی عبادتیں ہوں گی ورنہ نماز میں رہتے ہوئے بھی خدا کے حضور سر جھکانا اور سرتسلیم خم کرنا یہاں تک کہ سجدہ ریز ہو جانا اگر نماز سے نکل کے دوسروں کے لئے اسی طرح سر جھکایا جائے اور دوسروں کی اطاعت میں انسان داخل ہو جائے تو بیک وقت دو بادشاہوں کی اطاعتیں نہیں چلا کرتیں ایک ہی حکومت ہے صرف اللہ کی اور اس حکومت میں یہ حکم ہے سب کو کہ جب بھی خدا کی مرضی سے ٹکرائے مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ تم اس مرضی کو خدا کے لئے مخلص کر دو تب تمہاری عبادت، عبادت ہے ورنہ وہ عبادت ، عبادت نہیں ہے.یہ عبادت کا مفہوم جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے بہت ہی مشکل ہے اور اتنا مشکل ہے کہ انسان اگر اپنی عبادت پر غور کرے تو اس کی کوئی عبادت بھی عبادت دکھائی نہیں دے گی.میں اپنے سمیت آپ سب کو مخاطب کر کے خدا کے حضور یہ حقیقت حال عرض کر رہا ہوں کہ نہ میری عبادت کوئی عبادت ہے نہ آپ کی عبادت کوئی عبادت ہے ان معنوں میں جن معنوں میں یہ آیت کریمہ عبادت کی طرف بلا رہی ہے.ہزار دنیا کی دلچسپیاں ہیں ہزار ایسے کام ہیں جن میں مبتلا رہے ہیں اور رہتے ہیں، کوشش کے باوجود مبتلا ہو جاتے ہیں جن کا آخری مقصود اللہ نہیں رہتا.وہ اپنی ذات میں معصوم با تیں بھی ہوں تب بھی خالصہ للہ نہیں کی گئیں مثلاً آپ کھانا کھاتے ہیں اپنی مرضی کے اچھے سے اچھے کھانے کھائیں اور پکائیں اچھے سے اچھا پہنیں یہ جائز ہے اس کو شرک نہیں کہتے مگر خالصہ للہ نہیں ہے، مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ میں داخل نہیں ہے.آنحضرت میہ اس مضمون میں بھی تمام بنی نوع انسان میں ہر فرد سے بڑھ گئے کہ آپ کا

Page 575

خطبات طاہر جلد 16 569 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء کھانا پینا بھی خالصہ رضائے باری تعالیٰ کے تابع ہو گیا، اٹھنا بیٹھنا، آپ کی لذتیں رضائے باری تعالیٰ کے تابع ہو گئیں تھیں آپ کے ازدواجی تعلقات بھی اللہ کی رضا کے تابع ہو گئے تھے.کوئی ایک پہلو بھی نہیں تھا جو آنحضرت ﷺ کا انسان کی حیثیت سے رونما ہوا ہواور وہ خدا کی خاطر نہ ہو.آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے حد محبت تھی لیکن اس بات کا اندازہ کہ وہ محب اللہ تھی اس سے ہوگا کہ آپ کی محبت کے نتیجے میں خدا اور قریب آجاتا تھا ، دور نہیں ہتا تھا.چنانچہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی اور بیوی کے بستر پر الہام نہیں ہوئے وحی نہیں ہوئی سوائے عائشہ کے.اگر آپ کا دل عائشہ کی خاطر عائشہ میں اٹکا ہوتا تو ہرگز خدا کا، یہ اوپر جھک جانا رحمت باری کا اور اس طرح وحی کا وہاں جاری ہو جا نا یہ ممکن ہی نہیں تھا.صلى الله وہ باریکیاں جو آنحضرت ﷺ کے تعلقات کی باریکیاں ہیں ہم ان پر نظر نہیں رکھ سکتے ان کا اکثر حصہ ہمارے علم میں ہے ہی نہیں.حدیثوں نے اس قسم کے بعض اشارے ہمارے لئے محفوظ کر دیئے ہیں جیسا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کے اس بیان کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھے.اندر کا وجود کیا تھا سوائے خدا کے کسی کو علم نہیں.یقین نہیں آتا کہ ایک انسان ایسی زندگی بھی بسر کر رہا ہے اس کا اپنا کوئی بھی پہلو اپنے لئے نہ ہو، نہ بیوی، نہ بچے ، نہ کھانا، نہ پینا، نہ اٹھنا سب خدا کے لئے خالص ہو گیا.جب یہ خدا نے اعلان کروایا ساتھ ہی یہ بھی بتادیا اول المسلمین تم ہو تم ہماری رضا کے تابع چلنے والے ہو تمہاری عبادت اب سب دنیا کے لئے عبادت کے نمونے بن جائے گی گویا آج پہلی دفعہ خدا کی عبادت کرنے والا ایک پیدا ہوا ہے جس کی ساری زندگی عبادت ہو چکی ہے.پس یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف ہم نے اپنا دھیان رکھنا ہے.اب تبلیغی کام بہت آگے بڑھ رہے ہیں اور ساری دنیا میں پھیلتے چلے جارہے ہیں سب قوموں پر محیط ہورہے ہیں اگر ہم نے عبادت کا یہ مفہوم جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اپنے سامنے نہ رکھا تو بہک جائیں گے اور سب سے بڑی فکر مجھے یہ ہے کہ تبلیغی نظام کے دنیا میں پھیلنے کے نتیجے میں ہماری توجہ عدد کی طرف نہ ہوتی چلی جائے.ایک طرف ہم عدد کی بات کرتے ہیں اس پہلو سے کہ اتنے آدمی خدا کے حضور جھکنے کے لئے ہم نے تیار کر لئے ہیں اور فخر ہے تو صرف اس پہلو سے فخر ہے تمہیں لاکھ بندے خدا کے ایسے تھے جو پہلے خدا کے لئے خدا کی طرف، خدا کی رضا کی خاطر جھکنا جانتے نہیں تھے احمدیت میں

Page 576

خطبات طاہر جلد 16 570 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء آکر انہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا کہ جو چاہو ہم پر کام کرو ہم رضائے باری تعالیٰ کے لئے جھکنے کے لئے تمہارے حضور حاضر ہو گئے ہیں.یہ عدد کی برتری ہے کہ اتنی گردنیں خدا کے حضور حاضر ہوگئیں ورنہ جماعتی لحاظ سے تعداد بڑھانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا.ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں.ابھی چند دن ہوئے کو ریا کے نمائندے یہاں تشریف لائے ہوئے تھے ان سے گفتگو ہوئی وہاں ایک کورین خاتون ہیں جنہوں نے واقعہ اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا ہے اپنے خرچ پر یہاں تشریف لائیں مجھے مشورے دے رہی تھیں کہ کیا کیا ہم ہوشیاریاں کریں تو کوریا میں کثرت سے پھیل سکتے ہیں.جب وہ بات کر چکیں تو میں نے کہا جس طرح عیسائیت.انہوں نے کہاہاں عیسائیت دیکھو کتنی پھیل گئی لکھو کھا انسان ہلینز (Millions) دیکھتے دیکھتے عیسائی بن گئے تو آپ بھی کچھ ان سے ملتی جلتی باتیں کریں.انہوں نے اتنے مدر سے بنائے، کئی کالج ہسپتال بنائے ، رفاہ عامہ کے یہ کام کئے اور اس کے نتیجے میں دیکھو ملیز عیسائی بن گئے.جب وہ بات ختم کر چکیں تو میں نے کہا ان ملین عیسائیوں میں کیا پاک تبدیلی آپ نے دیکھی ہے؟ کتنے ہیں جنہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے مسلک چھوڑ دیئے؟ کتنے ہیں جو بہتر انسان بن گئے اور خدا کے سامنے سر جھکانے والے ہو گئے؟ کچھ دیر تک وہ خاتون سوچتی رہیں اور پھر ان کا جواب صفر نکلا کہ میرے علم میں کوئی نہیں.میں نے کہا یہ سیاست ہے یہ مذہب نہیں ہے یہ وہ دین ہے جس کو دین اللہ نہیں ہم کہہ سکتے اور ہمیں تو دین اللہ میں دلچسپی ہے.اس لئے اگر آپ اکیلی بھی کوریا میں احمدی مسلمان بن کر اپنے آپ کو خدا کے حضور جھکا دیں تو وہاں احمدیت کامیاب ہے اور عیسائیت نا کام ہے کیونکہ عیسائیت اگر مذہب لے کر وہاں پہنچی ہے تو مذہب میں دھوکہ دیا ہے.عیسائیت در اصل امریکہ کی سیاسی حیثیت کا ایک دوسرا چہرہ ہے.پس ان ملکوں میں جہاں عیسائیت پھیلے اور پھیلنے کے ساتھ تبدیلی کے تقاضے نہ کرے یہ شرط ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ دین مُخْلِصًا لهُ الدِّينَ ہے یا دنیا کے لئے مخلص ہونا ہے.ان سارے ممالک میں جہاں جہاں عیسائیت پھیل رہی ہے آپ یہ غور کریں کہ عیسائی ہونے والے کی پہلی زندگی اور عیسائیت کے بعد کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فرق نہ پڑنے پر گھبرا تا کوئی نہیں.بے چین کوئی نہیں ہوتا، کسی کی نیندیں حرام نہیں ہوتیں کہ ہائے کیوں فرق نہیں پڑ رہا.نام عیسائیت کا رکھ لو پہلے کی ساری زندگی کو اسی طرح آگے بڑھا دو اور بے تبدیلی وہ زندگی آگے بڑھتی چلی جائے.شراب نوشی تو خیر

Page 577

خطبات طاہر جلد 16 571 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء حلال ہی سمجھی جاتی ہے ہر قسم کی بدکاری، بدی، اپنی عزتوں کو بیچنا، اپنے جسم کو بیچنا، مادہ پرستی کے لئے سب کام کرنا ، یہ جو چاہیں کر لیں عالم عیسائیت میں کسی کا دل نہیں گھبرائے گا.کسی بڑے سے بڑے پادری یا کسی چھوٹے سے چھوٹے پادری کو یہ فکر لاحق نہیں ہوگی کہ ہم نے تو ان کی زندگی تبدیل کرنے کے لئے اللہ کے دین پر ڈالا تھا اور یہ دنیا کے دین پر اسی طرح جاری وساری ہیں.میں نے انہیں بتایا کہ احمدیت میں خدا کے فضل سے ایک دل نہیں ایک دل کے تابع سینکڑوں ہزاروں دل ہیں جو غمگین ہو جاتے ہیں اگر آنے والے کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوا گر وہ واقعہ دین الملک کو چھوڑ کر دین اللہ میں داخل نہ ہو چکا ہو.دین ملک کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک دین اللہ سے ٹکراتا نہیں ہے.جہاں وہ دین اللہ سے ٹکرائے وہاں اس کو چھوڑ دیا جائے.یہ عبادت کے خالص ہونے کا مفہوم سوائے احمدیت کے دنیا میں کہیں جاری ہوا ہی نہیں.اب کثرت سے ملاں لوگ اپنے مسلک سے لوگوں کو وابستہ کر رہے ہیں لیکن ان کے مسلک میں جو موجود ہیں فاسق فاجر، زانی، شرابی کبابی ( کباب شراب کے ساتھ ملے تو گناہ ورنہ نہیں.ویسے جتنا مرضی کباب کھا ئیں آپ.تو شرابی کبابی محاورہ ہے ) اور بچے چرانے والے، بچوں پر ظلم کرنے والے قبل کرنے والے، ہر وقت جھوٹ بولنے والے اور چوری اور سفا کی اور ڈاکے ان کا مسلک ہے اور یہ سمجھتے ہیں یہ سب دین اللہ پہ قائم ہیں.پس انہوں نے دین اللہ کی تعریف ہی بدل دی ہے.مُخْلِصًاله الدِّین کی تعریف کے ساتھ ان لوگوں کو دیکھیں جو ان کے پیچھے چلتے ہیں کتنے مولوی ہیں جن کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے کہ ہمارے پیچھے چلنے والے فاسق فاجر ہیں.قرآن کریم نے اس بات کو امارت سے لازم قرار دیا ہے.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: 75) دعا یہ کرو کہ اے خدا ہمیں متقیوں کا امام بنا.اگر کروڑ ہا فاسق بھی ہوں تو ان کی امامت پر کوئی فخر نہیں وہ امامت تو ذلت کے لائق ہے وہ تو انسانیت کی تذلیل ہے اس امارت پر کون فخر کر سکتا ہے لیکن جو متقیوں کا امیر ہو، متقیوں کا امام ہو اس کی دعا قبول ہو چکی وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اما ما ہو کہ وہ ہے جو لوگوں میں سر اٹھا کے چلے گا اور خدا کے حضور سر جھکا کے چلے گا.اس میں ایک عزت نفس پیدا ہو جاتی ہے وہ جانتا ہے کہ میرے چلنے والوں میں خدا کے فضل سے کثرت سے متقی ہیں.ایسے متقی یہ مسلمان کہلانے والے دکھائیں کہاں ہیں.محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ دین جو قرآن نے صلى الله

Page 578

خطبات طاہر جلد 16 572 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء بیان فرمایا ہے جو میں نے اس آیت میں آپ کے سامنے رکھا ہے اس دین پر چلنے والوں کے پیچھے کتنے ہیں.وہ آپ نہیں چلتے.مولویوں کا تو حال یہ ہے کہ پیسے پیسے کی خاطر لڑتے اور کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بلواتے ہیں.بولتے ہی نہیں بلکہ بلواتے ہیں اور قرآن کے نام پر جھوٹ بلواتے ہیں.یہ لطیفہ بھی ہے اور دردناک واقعہ بھی ہے جس طرح چاہیں اس کو آپ دیکھ لیں.یہاں جب میں جلسے سے واپس آیا ہوں تو ایک رسالے کے ایڈیٹر یا ایک اخبار کے ایڈیٹر کا ایک بیان ایک احمدی دوست کے سامنے جو انہوں نے دیاوہ میں آپ کو سناتا ہوں وہ کہتے ہیں ہمارے تقریباً چودہ ہزار کے مجمع سے ہو کر وہ صاحب مولویوں کے جو So-called ختم نبوت کانفرنس ہے اس میں پہنچے وہاں دوسو آدمی تھے.ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں حیران رہ گیا.میں نے کہا یہ ہو کیا رہا ہے سب دنیا کوللکار رہے ہیں اور کہتے ہیں ہم عالم اسلام کے نمائندہ ہیں اتنی اشتہار بازی ان کے آنے جانے کے خرچ بھی برداشت کرنے کو تیار بیٹھے ہیں کھانے پینے کے متعلق کہہ دیا کہ ہم مفت دیں گے اور کل دوسو آدمی آئے.انہوں نے اٹھ کر مولوی صاحب سے سوال کیا میں نے احمدیوں کا جلسہ بھی دیکھا ہے وہاں تو یہ حال تھا اور یہاں میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں.آپ کے پیچھے کل عالم اسلام کی نمائندگی میں دو سو آدمی بیٹھے ہیں.تو مولوی صاحب کا جواب سن لیں.انہوں نے کہا کہ دیکھو اسلام میں ایک ایک آدمی دس دس پر حاوی ہے اور ایک ایک مومن سوسو پر بھی حاوی ہے تو سو سے ضرب دو، دوسو کو کتنا بنتا ہے ہمیں ہزار.اس نے کہا تم اخبار میں لکھ تمہارا اسلامی فرض ہے کہ تم اخبار میں یہ جھوٹ لکھو کہ میں دیکھ کے آیا ہوں وہاں ہیں ہزار آدمی آئے تھے اس قدر جھوٹی کہانی.اسلام کا تمسخر اڑانے والے اور دین کو اس طرح مبالغہ آمیزی کے ساتھ خدا کی طرف غلط منسوب کرنے والے.قرآن کریم نے ایک کی دو پر برتری اور ایک کی دس پر برتری تو لکھی ہے مگر ایک کی دس پر لکھتے تو دوسو کے دو ہزار بنے تھے اور وہ ہم سے بڑھتے نہیں تھے.انہوں نے قرآن بھی نیا بنایا ہے.انہوں نے کہا نہیں اصل میں ایک کی سوپر برتری ہے.ہم جو مخلص لوگ ہیں یہ صحابہ سے زیادہ شان کے لوگ ہیں ان بے چاروں کو تو خدا نے ایک پہ دس کا وعدہ کیا تھا ہم سے ایک اور سو کا کیا ہوا ہے پس آپ سو سے ضرب دیں پھر جا کے ہیں ہزار بنے گا اور اخبار میں شائع کریں کہ ہم بیس ہزار آدمیوں کا مجمع دیکھ کر آئے ہیں.وہ بتارہا تھا، وہ

Page 579

خطبات طاہر جلد 16 573 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء بے چارہ ایڈیٹر کہ میں کیا کروں کن لوگوں سے واسطہ پڑ گیا ہے مجھے.اگر نہ شائع کریں تو یہ ہماری دیواریں توڑیں گے، حملے کریں گے پھر اور شائع کریں تو ضمیر اجازت نہیں دیتا.انہوں نے غالباً یہی لکھ دیا کہ بہت سے لوگ تھے دس سے زیادہ دو سو بہت سے ہوا کرتے ہیں تو اس لئے مُخْلِصًا له الدین کا جہاں تک تعلق ہے ان کے بڑے سے بڑے چوٹی کے راہنما بھی اس سے ناواقف ہیں ان کو علم ہی نہیں کہ اسلام کی تعریف کیا ہے اسلام کی تعریف کے لحاظ سے یہ صرف اس آیت کریمہ کو اگر پڑھ لیں تو سارے لوگ یہ تمام کے تمام متقیوں کے امام جو بنے پھرتے ہیں یہ ائمہ بھی اور ان چلنے والے سارے دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے.پس ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ ہمیں کیا شمار کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے متعلق جب یہ فرمایا گیا اب تو اعلان کر سکتا ہے اَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ کا، تو ساتھ فرمایا: قُلْ إِنّى أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ - مُخْلِصًاله الدین کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے مقابل پر کسی کی بات ماننا بھی ایک عذاب عظیم کی طرف جانے والی بات ہے.اللہ کی خاطر اگر دین کو خالص کرتے ہو تو غیر اللہ کی خاطر خدا کی نافرمانی گناہ ہے یعنی خالص دین کے دو پہلو بیان فرما دیئے ایک مثبت پہلو جوسب کچھ اللہ کی خاطر ہو اور ایک منفی پہلو کہ غیر اللہ کی کوئی بات بھی نہیں ماننی جو اللہ سے ہٹانے والی ہو.قُلْ إِنِّي أَخَافُ اِن عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيهِ تو کہہ دے کہ میں غیر اللہ کی بات کو عذاب عظیم کے ساتھ وابستہ کرتا ہوں اگر میں خوف کروں غیر اللہ کا اور غیر اللہ کے خوف کی وجہ سے اللہ کی اطاعت نہیں کروں گا تو یہ ڈر ہے يَوْمٍ عَظِيمٍ کے عذاب میں میں مبتلا ہو جاؤں.یہ مکمل تعریف ہے اسلام کی.اس کے بعد فرمایا یہی اسلام کی تعریف، یہی عبادت کی تعریف.قُلِ اللهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًاله دینی ان تعریفوں کے ساتھ ان معنوں میں میں اللہ کی عبادت میں اپنے آپ کو خالص پاتا ہوں صلى الله میں نے سب کچھ اللہ کے لئے خالص کر دیا.جب یہ انسان دعوی کرے اور رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ حرف بہ حرف سچا تھا پھر اس کے بعد غیر اللہ کی پرواہ نہیں رہتی اور اگر غیر اللہ کی پرواہ ہو تو اس کے خوف سے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کا سوال ہی نہیں رہتا.پس یہ لازم و ملزوم باتیں ہیں.جب یہ اعلان کروایا کہ مجھے غیر اللہ کی پرواہ نہیں اور غیر اللہ کے خوف سے اللہ کی اطاعت کو نہیں چھوڑنا.اس کے بعد فرمایا

Page 580

خطبات طاہر جلد 16 574 خطبه جمعه یکم راگست 1997 ء اب تیرا دین خالص ہے اب تو اعلان کر سکتا ہے اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِینِی.معاً بعد فرماتا ہے فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِ، پس اے لوگو تم جس کی چاہو عبادت کرتے پھر وجس کا چاہے دین اختیار کرو.دین ملک اختیار کرو یا اپنی انانیت کا دین اختیار کرو جس کی چاہو عبادت کرتے رہو تمہارا ہر فعل، تمہاری ہر عبادت، تمہارا اٹھنا بیٹھنا غیر اللہ کے لئے ہو جائے گا اللہ کے لئے نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ اس دنیا میں تم نہ بھی دیکھو اس دنیا میں اس کا نتیجہ لازماً نکالا جائے گا.قُلْ اِنَّ الْخَسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ ي اپنی طرف سے سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے کاروباروں پر قبضہ کر لیا ہے حکومت کے نمائندے ہیں جس طرح چاہیں قانون سازی کریں خدا کے نام پر جو چاہیں بنی نوع انسان کے ساتھ سلوک کرتے رہیں ہمیں کوئی بھی نہیں پوچھے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پوچھے جاؤ گے اور اس دنیا میں بظاہر تمہارے اعمال نتیجہ خیز ہو بھی جائیں تو آخرت میں تم ضرور گھاٹا پانے والے ہو گے اور اصل گھاٹا کھانے والا وہی ہے جس کا اپنا نفس گھاٹے میں ہو اس کے اہل و عیال گھاٹے میں ہوں اس کے پیچھے چلنے والے گھاٹے میں ہوں یعنی یہ نتیجہ يَوْمَ الْقِیمَةِ کو نکلے گا جس دن تم اپنے اعمال تبدیل نہیں کر سکو گے.يَوْمَ الْقِيمَةِ کو نتیجہ نکالنا جو ہے یہ بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ دور کی بات کی جارہی ہے مگر سمز میں سب سے بڑی بات ہے اگر اس دنیا میں بدی کا نتیجہ ساتھ ساتھ نکلے تو کئی انسان بدی سے ہٹ بھی سکتے ہیں مگر وہ لوگ جن کو پتاہی بعد میں چلے جبکہ امتحان کا وقت ختم ہواور نتیجہ نکل آئے وہ بے چارے کیا کر سکتے ہیں اور دنیا میں بھی امتحانات کے نتیجے جب نکلتے ہیں تو طالب علم بعض سر پیٹ کے بیٹھ جاتے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے.پرچے دینے کا وقت ختم ہو گیا اب صرف اعلان ہو رہا ہے کہ کس نے محنت کی کس نے ذہانت سے کام لیا انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں چھٹی ہے جس کی چاہو عبادت کرتے پھرو.قُلْ إِنَّ الْخَسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ گھانا کھانے والے تو وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو گھاٹے میں ڈال رہے ہیں اور پتا چلے گا قیامت کے دن.اَلَا ذُلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ خبر دار یہ وہ نقصان کا سودا ہے جو کھلا کھلا نقصان ہے.پس جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے جس مسلک پر ڈالا ہے آپ میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ یہ مسلک خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دین اللہ کا مسلک ہے.دین اللہ کی اطاعت اور جماعت احمد یہ

Page 581

خطبات طاہر جلد 16 575 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ہم صرف خود اس مسلک پر قائم نہیں بلکہ آپ کو بار بار توجہ دلائی جاتی ہے کہ اپنے اہل کو بھی اسی مسلک پر ڈالیں.جب غیر اللہ نے اپنے اہل کو اپنے مسالک پر ڈال لیا ہے تم اپنے اہل وعیال کی فکر کرو ان کو اپنے مسلک پر ڈالو اور نتیجے سے بے پروا ہو جاؤ کیونکہ قیامت کے دن تمہیں خسران مبین نہیں ہوگی بلکہ فوز عظیم حاصل ہوگی.قیامت کے دن تمہیں سب سے بڑی کامیابیاں عطا ہوں گی لیکن مومنوں کے ساتھ صرف قیامت کے وعدے نہیں اس دنیا کے بھی وعدے موجود ہیں.ساری تاریخ مذاہب پر آپ نظر ڈال کے دیکھیں یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کو دنیا میں مومن ایسے نظر آئیں جو دنیا کے لحاظ سے مستقل گھاٹا کھانے والے ہوں ان کی تو دنیا بنتی ہی دین کی خاطر قربانیوں سے ہے.اب اس کی مثالیں آپ سامنے رکھیں تو آپ کو میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ان کامیابیوں کی خاطر اپنے دین کو ڈھالیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دین کو اللہ کے لئے خالص کر دیں اور یہ جوز ائد نعمتیں ہیں یہ تو آپ کو ملنی ہی ملتی ہیں ان سے تو انکار ممکن ہی نہیں ہے لیکن ان نعمتوں کی خاطر اگر آپ نے دین کو ڈھالا تو آپ مُخْلِصًاله دِینی نہیں رہیں گے.اس فرق کو میں نمایاں طور پر آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.جن نعمتوں کا میں ذکر کروں گا اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کا اس دنیا میں نازل ہونے کا میں ذکر کروں گا ہ فضل مُخْلِصًا لَّهُ دِینی والوں کو ان کی ان نسلوں کی صورت میں بھی عطا ہوئے ہیں جو دین سے ہٹ گئے.یہ فضل اس دنیا میں بھی نازل ہوتے ہیں، ہوتے چلے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ نہیں روکتا اپنے ہاتھ نہیں بند کر تا اس کے ہاتھ کھلے ہیں اور وہ کھلے ہاتھوں سےمخلصین کی اولا د کو دیتا چلا جاتا ہے پھر ہر ایک اس میں سے اپنا جواب دہ ہے.مگر اگر آپ نے دین کو خدا کے لئے خالص نہ کیا ، اس نعمت کی خاطر خدا کے حضور جھکے تو آپ کا دین بھی گیا اور آپ کی دنیا بھی رائیگاں گئی.تبلیغ کے میدان میں اس بات کو پیش نظر رکھ کے ہمیشہ اس کا شعور بیدار رکھتے ہوئے آپ نے آگے بڑھنا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم کو دیکھیں حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں قوم کو کیا کامیابی ملی تھی اگر حضرت عیسی مُخْلِصًاله دِینی نہ ہوتے تو کبھی کا اس دین کو چھوڑ کر کہیں جاچکے ہوتے جس دین میں دکھوں کے سوا کچھ نصیب ہی نہ ہو لیکن ان دکھوں نے آپ کے مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي ہونے کو ثابت کر دیا.ان مصیبتوں نے یہ بتا دیا کہ یہ بندہ ایک ایسا بندہ ہے جس کا دین محض اللہ کے لئے ہے اور غیر اللہ کے لئے نہیں ہے.پھر جو پھلوں کا دور شروع ہوا ہے نعمتیں شروع ہوئی ہیں آج تک آپ ان نعمتوں

Page 582

خطبات طاہر جلد 16 576 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء کو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح عیسائی قوموں پر آسمان سے نازل ہورہی ہیں ، ہوتی چلی جارہی ہیں.سائنس میں ترقیات، علوم میں ترقیات، دنیا کی ہر چیز جس مٹی پر انہوں نے ہاتھ ڈالا اسے سونا بنادیا تو واقعہ کیمیا گری سیکھ لی مگر یہ ساری نعمتیں خدا کے ایک بندے کے دین کے اخلاص کی وجہ سے ہیں اور ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں.جو مائدہ ان پر اتر رہا ہے وہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے اور آپ کی قربانیوں سے اتر رہا ہے تو دیکھیں اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر دعا یہ کرنی ہے کہ ایسا ان لوگوں کو دے جو واقعہ ساتھ نیک بھی ہوں اور یہ ایک ایسی تمنا ہے جس کے لئے آپ کو بڑی محنت کرنی پڑے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھیوں، آپ کے غلاموں نے اور ہم نے جو کچھ ہمارے بس میں تھا دین کے لئے حاضر کر دیا ہے اس کے نتیجے میں آسمان سے بارشیں برس رہی ہیں اور اتنی زیادہ کہ عیسائیت کی نعمتیں اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں لیکن جتنی بڑی نعمتیں ہوں اتنی بڑی آزمائشیں بھی ساتھ آتی ہیں.متقین کا امام بننے کے لئے دعا کریں اور متقین کا امام بننے کے لئے کوشش کریں اور ابھی سے کوشش کریں اگر متقین کی طرف نظر نہ پڑے آپ کی اور دنیا کی نعمتوں پر پڑے تو آنی تو ہیں مگر وہ بے کارجائیں گی اور آپ کی نیکیوں کو بھی کھا جائیں گی.آخر پر دنیا میں سب سے بدترین لوگ جو ظاہر ہوں گے وہ جماعت احمدیہ کے بگڑے ہوئے آخری لوگ ہیں جب اسلام اور احمدیت ایک ہی چیز کے دو نام بن جائیں گے.وہ الناس جن کے متعلق رسول اللہ یہ کی پیشگوئی ہے کہ وہ شر ہوں گے سب سے زیادہ بدترین مخلوق ہوں گے جن پر آخر قیامت ٹوٹے گی یہ لوگ نام کے احمدی کہلانے والے ہی تو ہوں گے یہ دعوی کر رہے ہوں گے کہ احمدی مسلمان ہیں.اس بد انجام کی طرف نگاہ کریں جس کو ٹالنے کے لئے آپ نے کوشش کرنی ہے.بعض بد انجام ایسے ہیں جو ہو کے تو رہتے ہیں مگر جو ٹالنے کی کوشش کرنے والے ہیں وہ ان کے بداثرات سے بچائے جاتے ہیں اور ان کی نسلوں پر خدا تعالیٰ احسان فرماتا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ان کی نسلیں دنیا کی بدیوں سے بچائی جاتی ہیں.اس مضمون کو اگر پورا کھولا جائے تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اپنی نسل میں دیکھیں اگر چہ سیدوں میں بھی بہت بد بھی موجود ہیں، رسول اللہ ﷺ کے دین سے ہٹنے والے بھی موجود ہیں مگر ایک بہت لمبے عرصے تک حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ سے خونی تعلق رکھنے والوں نے دین کی عظیم الشان خدمت کی ہے.

Page 583

خطبات طاہر جلد 16 577 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء اسی پہلو سے اکثر شیعہ ائمہ کی ہمارے دل میں گہری عزت بھی ہے اور گہری محبت بھی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی بھلائی میں ان کو دنیا سے الگ رکھنے کی جو آپ کے ہاتھ سے کوشش ہو سکتی تھی وہ کی.حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت میں آپ نے ایسے وقت میں جبکہ آپ کے ہاتھوں پر چکی چلاتے ہوئے چھالے پڑ جایا کرتے تھے چھوٹی سی بچی تھیں اپنے باپ کو یہ کہلا کے بھیجا کہ یہ میرا حال ہے آپ نے فرمایا تمہیں میں دین کی ایسی باتیں نہ بتاؤں کہ جو تمہیں خدا کی نظر میں مقبول کرنے والی ہوں.ان معصوم ہاتھوں کی کوئی پرواہ نہیں کی.کیوں نہیں کی ؟ آپ کو بے حد محبت تھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے لیکن محبت بچی تھی جس طرح محبت خدا کے لئے خالص تھی اسی طرح اپنے بچوں کی محبت بھی خدا کے لئے خالص تھی اور اھلیکم کا لفظ جو یہاں آتا ہے یہ تنبیہ کر رہا ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اگر آپ دین کے لئے اپنے آپ کو خالص سمجھ رہے ہیں اور وہی باتیں اپنے بچوں کے لئے نہیں چاہتے تو آپ سمجھ لیں کہ آپ کا دین اس حد تک خالص نہیں ہے.چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے جو اولاد آگے چلی ہے وہ اس لئے دیر تک دین میں خالص رہی ہے کہ آنحضرت میلہ نے اس دین کے خلوص ہی کو اپنے لئے اختیار کئے رکھا تھا.پس آپ اگر آج اپنے بچوں کے معاملے میں اپنے دین کو خالص کریں اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَامًا کی دعا ہو ہی نہیں سکتی اگر یہ نہ کریں.ایک طرف خدا سے دعا مانگیں کہ ہماری آنے والی نسلیں متقی ہوں اس میں اولا د بھی شامل ہے اور دیگر پیچھے چلنے والے بھی یعنی اول طور پر اولاد ہے تو اولاد کے لئے اگر آپ یہ دعا نہ کریں اور خالص دین کے ساتھ نہ کریں تو پھر یہ دعا اکارت جائے گی اور اگر اولاد کو اس میں شامل رکھیں گے تو مُخْلِصًا لهُ الدِّينَ کا یہ معنی آپ کو پیش نظر رکھنا ہوگا.ان کو سمجھائیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی نعمتوں کو پھر خدا کی راہ میں خرچ کریں، خدا کے لئے خالص کریں اور مزہ نہ اٹھا ئیں دنیا کی نعمتوں کا جب تک ان کا خدا سے تعلق نہ ہو.یہ تو ناممکن ہے کہ آپ اپنی اولاد کو حضرت اقدس محمد مصطفی مہینہ کی خاک پا کی طرح بنا سکیں لیکن خاک پا بنانے کی کوشش کرنا یہ لازم ہے کیونکہ اس خاک میں بھی وہ رنگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے رنگ ہیں.دیکھو ایک گل کا اثر اس مٹی میں ہو جاتا ہے جس مٹی سے گل نکلتا ہے.گل نکلنے سے پہلے وہ مٹی اور رنگ رکھتی ہے لیکن پھولوں کی کیاری میں خوشنما نہیں لگتی اس کی مٹی میں بھی ویسے رنگ آنے لگتے ہیں جو

Page 584

خطبات طاہر جلد 16 578 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء الله پھول میں ہوتے ہیں اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی خاک پا کا جو میں نے ذکر کیا ہے وہ بالکل درست ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فرماتے ہیں آل محمد کی گلیوں کی خاک بھی مجھے پیاری ہے.یہ آل محمد وہ آل محمد ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں جس کو حضرت اقدس رسول اللہ نے اپنے رستوں پر چلنا سکھایا اور ہمیشہ ترجیحات دین کو دیں یہاں تک کہ ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ان کی نسلیں دیکھو دیر تک محفوظ رہیں اور ائمہ سے آگے ائمہ پیدا ہوتے رہے اس میں کوئی شک نہیں.اگر آپ اگلی دنیا میں ظاہر ہونے والی اپنی اولا د پر رحم کرنا چاہتے ہیں، اگر کل جو آپ کی اولا دونیا کو دکھائے گی اس پر نظر رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ابھی سے اپنی اولاد کو بھی مُخْلِصًائَهُ الدِّينَ بنانے کی کوشش کریں.اگر یہ کریں گے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ نسلیں جب تک خدا تعالیٰ کا قانون اجازت دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون بعض دفعہ اجازت نہیں دیتا اس لئے وہ نسلیں بگڑ جاتی ہیں.بعض دفعہ خدا کا قانون نیک لوگوں کی اولاد کو بھی کھلی چھٹی دے دیتا ہے چاہے تو یہ کریں چاہے تو وہ کریں یہ قانون اگر نیکی کے لئے استعمال ہو تو وہ ترقی کرتی چلی جاتی ہیں مگر بدی کی طرف جھکنے کا ان کا اختیار نہیں کھینچا جاتا جو بدی کی طرف جھک جائیں تو پھر ان کی سزا بھی بعض دفعہ دوہری سزا ہوتی ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی ازواج مطہرات کے متعلق خدا نے یہی بتایا کہ دیکھو تم اگر نیکیوں پر قائم رہیں، تقویٰ پر اور عصمت پر قائم رہیں تو تمہارا دوہرا اجر ہوگا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نا انصافی ہے یہ، رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کا دوہرا اجر اور باقیوں کا نہیں لیکن ساتھ ہی فرمایا اگر ہٹو گی تو سزا بھی دوہری ملے گی.تو اجر کے ساتھ اگر سزا بھی بڑھتی چلی جائے تو یہ انصاف قائم رہتا ہے.پس آنے والی نسلوں میں اگر آپ متقی ہوئے اور لمبے عرصے تک آپ کی نسلیں متقی رہیں اگر وہ رستے سے ہٹیں گی تو ان کی سزا بھی دوہری ہوگی اس لئے اپنی نسلوں کی فکر کریں اور ابھی سے ان کی طرف توجہ لعروسة دیں اور اس وقت جو مضمون میں نے چھیڑا ہے میرے نزدیک اس وقت روحانی نسلیں تھیں.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا میں میرے نزدیک اس وقت نئے آنے والے احمدی ہیں تمیں لا کھ ایک سال میں ہوئے ہیں.تمہیں لاکھ کی ذمہ داریاں ادا کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے اس سلسلے میں میں مبلغین کو کچھ جلسے پر عام ہدایات بھی دے چکا ہوں کچھ الگ ہدایات بھی دے چکا ہوں مزید انشاء اللہ سارا سال ان کو مطلع کرتا رہوں گا کہ یہ بھی کرو، وہ بھی کرو، وہ بھی کرو تا کہ ہم اپنی روحانی اولاد کی

Page 585

خطبات طاہر جلد 16 579 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء آئندہ کے لئے فکر کرنے والے ہوں اور اگر نہیں کرتے تو پھر اس عددی برتری کو کوئی بھی حیثیت حاصل نہیں محض ایک ذلت کی دوڑ میں ہم شامل ہونے والے ہوں گے غیر بھی نعرے لگائیں گے کہ ہمارے پیچھے اتنے چلنے والے ہیں ہم بھی نعرے لگائیں گے ہمارے پیچھے اتنے چلنے والے ہیں.ہمارا فخر تب جائز ہوگا اگر پدرم سلطان بوڈ ہی نہ ہو بلکہ اولاد میں سلطانی کی خوشبوئیں آئیں.اولاد کی کلاہ بھی سلطانی کلاہ ہو.تو اس پہلو سے آپ کے لئے لازم ہے کہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں یعنی روحانی نسلوں کی طرف ابھی سے متوجہ ہوں باریکی کے ساتھ ان کا خیال رکھیں.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ہدایات مختلف دی جاتی ہیں اور دی جاتی رہیں گی اور ہدایات بھی انشاء اللہ آپ کو وقتا فوقتا دی جائیں گی.میرے ذہن میں جو پروگرام ہے اس کو اکٹھا میں کھول نہیں سکتا کیونکہ زیادہ بوجھ پڑ جائے تو لوگ بھول جاتے ہیں زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کا فلسفہ بھی ہم نے قرآن کریم سے سیکھا ہے قرآن کریم فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: 287).تو آپ کے اوپر جو کاموں کے بوجھ ڈالوں گا میں اس قانون کے تابع آپ کی وسعت بھی ساتھ ساتھ بڑھاؤں گا یعنی اللہ بڑھائے گا اور میں عرض کروں گا اور کوشش یہ کروں گا کہ جتنی جتنی وسعت آپ کی بڑھتی جاتی ہے اتنا اتنا بوجھ بھی آپ کا بڑھاتا جاؤں گا.وسعت کے بعد جو بوجھ ہے وہ بوجھ لگا نہیں کرتا یہ مزے کی بات ہے.ایک انسان جو کمزور ہو اور چار سیر وزن بھی نہ اٹھا سکتا ہو اس پر من ڈال دیں تو وہ ٹوٹ کر گر جائے گا ہمیشہ کے لئے بیمار ہو جائے گا مگر جو من اٹھا سکتا ہو اس کے اوپر اس سے نیچے نیچے جتنے بوجھ ڈالیں وہ ہنسی خوشی کے ساتھ دوڑتا ہوا اس بوجھ کو اٹھالے گا.بوجھ ہمیشہ اس وقت محسوس ہوتا ہے جب طاقت سے بڑھ جائے یاد رکھیں یہ قانون قدرت ہے آپ اگر دس میل آرام سے چل سکتے ہیں جب گیارھواں میل شروع کریں گے تب آپ تھکیں گے.اگر آپ نصف میل چل سکتے ہیں نصف میل آرام سے ہلیں ، چلیں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور روزانہ جسم میں مزید طاقت آتی چلی جائے گی بشاشت آتی چلی جائے گی جب آپ نصف کو ایک دم ایک بنانے کی کوشش کریں گے آپ مارے جائیں گے.تو إِلَّا وُسْعَهَا میں بے شمار پیغامات ہیں ہمارے لئے.ہم نے جو آگے دنیا کا نقشہ بنانا ہے جماعت کی تربیت کرنی ہے اس میں میں نے دیکھا ہے کہ مجھے إِلَّا وُسْعَهَا کے مضمون پر غور

Page 586

خطبات طاہر جلد 16 580 خطبہ جمعہ یکم راگست 1997ء کرنے سے بے شمار فائدہ پہنچا ہے.وسعتیں بڑھائی جائیں جب اس وسعت پر انسان خوش ہو جائے اور ہنسی خوشی کرنے لگے پھر تھوڑا سا اور قدم بڑھائے پھر تھوڑ اسا اور قدم بڑھائے اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہماری وسعتیں پھیل کر ہماری ضروریات کے مطابق ہو جائیں گی.تمیں لاکھ انسان خدا ہمیں نہ دیتا اگر خدا کے نزدیک ہماری یہ وسعت نہ ہوتی پھر اس بات کا مجھے کامل یقین ہے مگراللہ تعالیٰ کے نزدیک ہماری وسعت کیا تقاضے کرتی ہے اس میں وسعت کے اندر رہتے ہوئے تھوڑی تھوڑی وسعتیں اور بڑھانے کی ضرورت پڑی رہتی ہے.ایک انسان کی وسعت پیدائشی طور پر بہت ہوسکتی ہے مگر بچے کو کھانا تو پڑتا ہے جب وہ سیکھتا ہے تو پھر معلوم ہو جاتا ہے کہ میری وسعت کیا تھی.تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو فضل ہم پر نازل ہوئے ہیں ہماری وسعت کے مطابق ہیں یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ یہ نعمتیں ہمیں عطا فرما تا اگر اس کے نزدیک ہماری وسعت کے اندر ان کو سنبھالنا نہ ہوتا.اپنی وسعتوں کے اس حصے کو بڑھا دیں جو ابھی تک آپ سے کھوئے ہوئے ہیں.آپ میں سے ہر ایک عبادت کے اس مضمون پر چل کر جو میں نے بیان کیا ہے اپنی وسعتوں کو بہت بڑھا سکتا ہے.اگر جماعت احمد یہ ساری مُخْلِصًا لَّهُ دِینِی بنے یعنی بننے کی کوشش شروع کر دے تو اتنی عظیم وسعتیں عطا ہوں گی کہ ان کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.ایک سال میں تمیں لاکھ کیا کروڑ بھی ہو جائیں گے تو آپ کی وسعت کے اندر رہیں گے.پس آئندہ کی ترقیات اگر خدا سے مانگنی ہیں تو جو عطا ہوئی ہیں ان کا شکر ادا کریں.ان کے شکر کا حق ادا کریں ان کو سنبھالنے کا حق ادا کریں اور اس حق کو ادا کرنے کے لئے اپنا حق ادا کر نا سب سے بڑی ذمہ داری ہے یہاں سے کام چلیں گے اپنا حق ادا کریں اپنے اہل و عیال کا حق ادا کریں پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آنے والے جتنے بھی ہوں لاکھوں ہو کروڑوں ہوں انشاء اللہ تعالی آپ کی وسعت کے دائرے میں رہیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے لئے دعا کرنی لازم ہے اس لئے میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے رہیں اپنے لئے بھی، اپنی اولاد کے لئے بھی اور باقی سب کے لئے بھی خدا ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 587

خطبات طاہر جلد 16 581 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997ء امن کی حالت میں جو پناہ مانگتا ہے اسے مصیبت کے وقت ضرور پناہ دی جاتی ہے.( خطبه جمعه فرموده 8 اگست 1997ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَانُوحْ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِي وَتَذْكِيرِى بِايَتِ اللهِ فَعَلَى اللهِ تَوَكَّلْتُ فَاجْمعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَ كُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَى وَلَا تُنْظِرُونِ (يونس: 72) پھر فرمایا: ان آیات کا ترجمہ یہ ہے تو انہیں نوح کا حال بھی سنا کہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا اِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِی اگر تمہیں میرا مرتبہ اور مقام بوجھل لگتا ہے، تم پر بھاری ہے وَتَذْكِيْرِى بِایت اللہ اور اللہ تعالیٰ کی آیات سے تمہیں نصیحتیں سنانا تمہارے لئے مشکل ہے فَعَلَى اللهِ تَوَكَّلْتُ فَاجْمِعُوا أَمْرَكُمُ پس یاد رکھو کہ تمہارا جو بھی جواب ہو منفی ہو یا مثبت، یہ تشریحی ترجمہ ہے، مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں کیونکہ فَعَلَی اللهِ تَوَكَّلْتُ میری ساری کوشش میں میرا تو کل صرف اللہ پر ہے فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَ كُمْ پس تم اپنے معاملات کو جو بھی تم میں طاقتیں ہیں ان کو اکٹھا کر لو.اَمرَكُمْ میں معاملات بھی ہیں اور طاقت Power کے

Page 588

خطبات طاہر جلد 16 582 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء ، معنی بھی رکھتا ہے.پس ان معنوں سے اس کا مطلب یہ بنے گا تم اپنی ساری طاقتیں اکٹھی کرلو وَشُرَكَاءَ كُمْ اور اپنے شریکوں کو بھی بلا لو ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمُرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً یہاں تک کہ تم پر تمہاری کوئی بات بھی مشتبہ نہ رہے.یہ وہم نہ رہے کہ وہ طاقت بھی ہمارے پاس تھی وہ طاقت بھی ہمارے پاس تھی وہ بھی ہمارا شریک تھا وہ ہماری مدد کے لئے آسکتا تھا وہ بھی آسکتا تھا ، سب کو بلالو یہاں تک کہ کوئی دور کا امکان بھی باقی نہ رہے کہ تم کچھ کر سکتے تھے جو نہ کر سکے ہو.یہ سب کچھ كروتمَّ اقْضُوا إِلَى وَلَا تُنظرُونِ پھر جو کچھ تم نے مجھے پر نافذ کرنا ہے یا جو کچھ تم نے کر گزرنا ہے کر گز رو اور مجھے مہلت نہ دو.یہ حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا.یہ اعلان کر دے اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ جب تقدیر الہی فیصلہ کرے گی.تمہاری ساری طاقتیں مجتمع ہونے کے باوجود یقیناً نا کام اور نامراد ہوں گی اور تم میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکو گے.یہ ایک ایسے اللہ کے نبی کا چیلنج تھا جو تنہا تھا جس کے ساتھ چند ایسے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جن کو قوم کی نظریں نیچا دیکھ رہی تھیں انہیں گھٹیا سمجھتے تھے جیسے پنجاب میں غلط مشہور ہے کمی کاری اسی قسم کے کچھ لوگ تھے جو حضرت نوح کے گردا کٹھے ہوئے اور ساری قوم نے ان کو رد کیا اور تحقیر سے اور تمسخر سے ان کو دیکھا کہ یہ لوگ ہیں جو نوح کے گرد اکٹھے ہو گئے ہیں.یہ حال تھا اور دعوے اتنے بڑے بڑے چیلنج اتنا عظیم الشان کہ آدمی کولڑ کھڑا دیتا ہے یہ چیلنج کمزور نہتا، بے بس انسان لکڑیاں اکٹھی کر رہا ہے ان میں میخیں ٹھونک رہا ہے اور دعوی یہ ہے کہ تم سارے اکٹھے ہو جاؤ جو کچھ کرگزرنا ہے کر گزرو.یا درکھیں کہ حضرت نوح کا یہ اعلان کشتی کے مکمل ہونے اور کشتی پر سوار ہونے سے پہلے کا اعلان ہے ورنہ کشتی پر چڑھ کے تو آپ نے قوم کو یہ آواز نہیں دی تھی.جب قوم سب کچھ کر سکتی تھی حضرت نوح قوم کے سامنے نہتے اور بے بس بیٹھے ہوئے تھے اس وقت یہ اعلان تھا کہ جو کچھ تم نے کرنا ہے کر گزرو.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب جماعت احمدیہ کو بھی وہی حیثیت حاصل ہے جو ایک زمانے میں حضرت نوح کو حاصل تھی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوکشتی نوح بنانے کا جو حکم تھا وہ اسی غرض سے تھا اور کشتی نوح بنانے والے نے یہ اعلان کیا تھا کہ تم جو چا ہوا کٹھے کرلو.ناک رگڑ لو تمہاری پیشانیاں گھس جائیں روتے روتے آنکھوں کے حلقے گل جائیں مگر یا درکھو تم جو کچھ بھی

Page 589

خطبات طاہر جلد 16 583 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997ء کر سکتے ہو سب کرو میرا بال بیکا نہیں کر سکو گے میں ضرور بڑھوں گا اور ضرور پھیلوں گا یہاں تک کہ قو میں مجھ سے برکت پائیں گی.یہ اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.اس اعلان کو حضرت نوح کے اس اعلان سے ملا کر دیکھیں بعینہ وہی بات ہے.اسی لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوکشتی بنانے کا حکم تھا اور وہ کشتی کیا تھی اس سلسلے میں کچھ پہلے بھی میں عرض کر چکا ہوں، کچھ اب بھی کروں گا، کچھ آئندہ بھی یہ باتیں ہوتی رہیں گی مگر یہ وقت آگیا ہے کہ ہم سب کشتی میں سوار ہوں.اس کشتی میں سوار ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنائی ہے اور جس کشتی کے متعلق حفاظت کا وعدہ ہے.کوئی دنیا کی طاقت آپ کو ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی اگر آپ اس کشتی میں سوار ہوں اور وہ سارے آپ کی نظر کے سامنے دیکھتے دیکھتے ایک کے بعد دوسرا ڈوبتے چلے جائیں گے.یہ وہ تقدیر ہے جس کو تبدیل کرنے کی دنیا میں طاقت نہیں.یہ وہ تقدیر ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مباہلے کا چیلنج دیا تھا.اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سال جو عظیم الشان کامیابیاں جماعت کو حاصل ہوئی ہیں وہ کچھ آپ نے اپنی آنکھوں سے جلسہ سالانہ پر مشاہدہ کر لیں ، کچھ اپنے کانوں سے سن لیں ، کچھ اور بھی ہیں جن کا ذکر سال بھر چلتا رہے گا.اور ان کامیابیوں کے مقابل پر جو ذلت اور توہین ، اہانت نصیب ہوئی ہے وہ نا قابل بیان ہے اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی ان کی جان نکلتی ہے.آئیں بائیں شائیں، الٹ پلٹ بیان دے رہے ہیں اخبارات میں ، ان کے بیان اٹھا کر دیکھ لیں.جنگ کے بعض صفحات لمبی لمبی داڑھیوں سے کالے ہوئے ہوں گے، کئی قسم کی چادریں سروں پہ اوڑھی ہوئی ہوں گی، کئی قسم کے ٹوپ لگائے ہوں گے مگر شاذ ہی کوئی ایسا ہوتا ہو جو ان کو دیکھے بھی ورنہ کسی کو کیا مصیبت پڑی ہے ان کو غور سے دیکھے ان میں تلاش کرے کہ کون سا مولوی ہے جس کا چہرہ میں نے دیکھنا ہے.ان کے بڑے بڑے بیانات آپ پڑھیں گے سخت بے چین ہیں سخت بے قرار ہیں بڑی بڑی مجالس کے نام پر ایک دو چار سو آدمیوں کو مخاطب ہوتے ہیں اور بڑے بلند بانگ دعاوی کرتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کو شکست دے دی.کیسے شکست دی؟ کہاں دی ؟ اس شکست کے کچھ آثار تو دکھاؤ.دنیا کے کس ملک میں دی؟ آپ ساری نظر کل عالم پر دوڑا کے دیکھ لیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ احمدیت کامیابیوں کے بعد کامیابیوں کے سفر کر رہی ہے.ہر فتح کے بعد ایک اور فتح نصیب ہو

Page 590

خطبات طاہر جلد 16 584 خطبه جمعه 8 راگست 1997ء رہی ہے لیکن یہ لوگ چھاتی پیٹ رہے ہیں اور منہ سے یہ کہتے چلے جارہے ہیں کہ ہم نے ہرا دیا، ہم نے ہرا دیا.عجیب حالت ہے کہ مارتم کھا رہے ہو، تمہارے حواس باختہ ہورہے ہیں، بات کرنے کا سلیقہ بھول گئے ہو، نہ منطق رہی نہ دلیل اور کبھی ایک طرف پناہ لینے کی کوشش کرتے ہو کبھی دوسری طرف پناہ لینے کی کوشش کرتے ہو اور جو حالات ظاہر ہورہے ہیں ان پر کوئی بس نہیں ہے تمہارا تم منہ سے یہ کہتے چلے جارہے ہو کہ ہم نے احمدیت کو شکست دی ،عبرتناک شکست دی ،سب دنیا سے اس کے پاؤں اکھاڑ دیے.پتا نہیں پاؤں اکھیڑ نا یہ کس چیز کو کہتے ہیں.جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے یہ تو آپ دن بدن دیکھیں گے کہ ہمیشہ یہ اپنی ذلتوں اور نامرادیوں کے اعتراف میں بڑھتے چلے جائیں گے لیکن ان کا اعتراف اور طریقے سے ہوتا ہے.ان کے اعتراف میں بھی ایک بے اعترافی پائی جاتی ہے.کبھی منہ سے ایک بات نکل جاتی ہے کبھی دوسری بات نکل جاتی ہے، اعتراف ان کو کرنا پڑتا ہے.منظور چنیوٹی نے یہ اعلان کیا یہاں ایک موقع پر اسی سال کے حصوں میں کہ دیکھو جب میں نے ان کو نکالا تھا پاکستان سے اس وقت ان کی کیا حیثیت تھی اب یہ سب دنیا میں پھیل گئے ہیں.اندازہ کرو کہ اعتراف کرنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں کہ دیکھ لو سب دنیا میں پھیل گئے ہیں.مجھے پیسے دو تا کہ میں ان کا علاج کروں.پیسے تمہیں دو.جس طرح پہلے پیسے برباد ہوئے ، تمہاری اپنی جائیداد میں تبدیل ہو گئے ، لوگوں کے قبرستان تم نے خرید لئے ، ان پر چڑھ دوڑے باقی پیسے دے کر تمہارا کیا بنے گا یہی کچھ ہو گا لیکن سب دنیا کی طاقتیں بھی تمہیں پیسے دیں تو ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.ناممکن ہے.ذلت پر ذلت کی مار تم پر پڑتی چلی جائے گی اور یہ تقدیر ہے جو تم تبدیل نہیں کر سکتے.یہ ضمنا میں نے ذکر کیا ہے ورنہ اس منحوس شخص کا نام لینا بھی مجھے گوارا نہیں تھا کیونکہ جب اس کا نام لے لوں تو فخر سے کہتا ہے دیکھو میرا نام لیا جارہا ہے.یہ اعلان کرتا پھرتا ہے میری شان دیکھو میرا نام مرزا طاہر احمد لے رہا ہے.عجیب وغریب حماقتوں کی پوٹ ہے یہ شخص اور ذلت اور رسوائی کی جس کو شرم کا نام نہیں آتا.کسی معاملے میں شرم وحیا نہیں.بار بار سمجھایا جاچکا ہے کہ تمہیں تو مرجانا چاہئے تھا تمہیں تو پھانسی لگ جانا چاہئے تھا تم اپنے اقرار کی رو سے پھانسی لگ چکے ہو اور اب بول رہے ہو.بہر حال یہ ذکر ایسا نہیں کہ جس پلید ذکر کو زیادہ بڑھایا جائے صرف اشارہ میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا ہے.

Page 591

خطبات طاہر جلد 16 585 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997ء میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ کامیابیوں کے بطن سے ضرور حسد پیدا ہوتے ہیں اور کامیابیوں کے نتیجے میں مومنوں کو جو خدا تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے وہ اس دعا کی نصیحت ہے وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ( الفلق : 6) تم اللہ تعالیٰ سے حاسد کے حسد سے اس وقت پناہ مانگو جب وہ حسد کرے.میں نے ایک دفعہ درس قرآن میں یہ بات تفصیل سے بیان کی تھی کہ اس آیت میں عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ بار بار تمہیں ایسے مواقع نصیب ہوتے رہیں گے کہ جب دشمن کو حسد کا موقع ملے گا.حسد ایک ایسی چیز بھی ہے جو ہمیشہ رہتی ہے مگر حاسد جب حسد کرتا ہے وہ ہمیشہ کسی بڑی کامیابی کو دیکھ کر حسد کرتا ہے.اس حسد کا اظہار ایک مکر کی صورت میں، ایک شرارت کی صورت میں ہمیشہ ایک کامیابی کے نتیجے میں ظاہر ہوا کرتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اس گہرے مضمون کو یوں بیان فرمایا: وَمِنُ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ورنہ ایک انسان کا کلام ہوتا ہے تو مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ پر ہی بات ختم ہو جاتی کہ حاسد کے شر سے بچو لیکن اِذَا حَسَدَ صاف بتا رہا کہ ایسے مواقع آئیں گے حاسد کی زندگی میں کہ اس کو آگ لگ جائے گی بے قرار ہو جائے گا، بے چین ہو جائے گا وہ کسی طرح اپنی ذلتوں کا بدلہ اتارنا چاہے گا، کسی طرح تمہاری فتح کو تمہاری شکست میں تبدیل کرنا چاہے گا.یہ وہ موقع ہے جب خصوصیت کے ساتھ تمہیں اللہ کی پناہ میں آنا چاہئے.وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اس وقت دنیا میں یہی ہو رہا ہے ہر طرف بڑی بڑی طاقتیں بھی ان میں پاکستان بڑی سختی سے ملوث ہے، سعودی عرب میں ایک باقاعدہ سیل قائم ہے جس کا نام انہوں نے رابطہ عالم اسلامی کا بنا رکھا ہے اس کا سر براہ ایک ایسا شخص ہے جو خود حسد کی پیداوار ہے.ڈاکٹر عبدالسلام سے ساری عمر اس شخص کو شدید حسد رہا اور ابھی بھی وہ اس آگ میں جل رہا ہے، کچھ نہیں کرسکتا.وہ اس رابطہ عالم اسلامی کا سر براہ بنا ہوا ہے.کویت میں اس کا دفتر ہے وہیں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے نمائندے بھی بیٹھے ہوئے ہیں جو ان کے کانوں میں ایسی باتیں پھونکتے ہیں ایسی ہلکی ہلکی آوازیں دیتے چلے جاتے ہیں جو ان کو اور شرارتوں پر اکساتی چلی جاتی ہیں.یہ ایک تفصیل ہے جس میں میں جانا نہیں چاہتا مگر ہمیں ہرلمحہ لمحہ کی خبر ہے جس طرح وہ چالاکیاں کرتے ہیں، جس طرح وہ اکٹھے ہوتے ہیں، کہاں سے ایمبیسیڈر(Ambassadors) تبدیل کر کے کن کو لایا جاتا ہے، کیا ان کو ہدایتیں ملتی ہیں غرضیکہ یہ ساری شرارت کی کوششیں اس وقت پہلے سے بہت زیادہ تیزی کے ساتھ جاری ہیں.افریقہ نے

Page 592

خطبات طاہر جلد 16 586 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء ان کو آگ لگادی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ افریقہ ان کو مزید آگ لگا تا چلا جائے گا کیونکہ افریقن دماغ خدا کے فضل سے معتدل ہے.افریقن دماغ میں انصاف پایا جاتا ہے میں بارہا پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ افریقن میں اگر چہ ظاہری طور پر کرپشن بھی ہے مگر اندرونی طور پر گہری کر پشن نہیں اور اس سلسلے میں میں تفصیل سے اگر آپ کو تجزیہ کر کے دکھاؤں، غالباً پہلے کر بھی چکا ہوں تو آپ تسلیم کریں گے کہ واقعہ اس کی جلد کالی ہے مگر اندر سے سفید ہے.افریقن کا دل روشن ہے، ضمیر روشن ہے اور اس وجہ سے جب بھی احمدیت کے خلاف وہاں سازشیں ہوئیں تو افریقن لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بالکل سختی سے ان کو رد کر دیا.گھانا کی ایک مثال ہے جس میں بار ہا دشمن نے کوششیں کیں ، شرارتیں کیں، میٹنگیں بلائی گئیں اسی رابطہ عالم اسلامی کے تحت مصر میں ایک دفعہ میٹنگ بلائی گئی اور افریقہ میں خصوصیت سے گھانا کو اس بات پر اکسایا گیا کہ احمدیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو لیکن گھانا کی جوتی کو بھی اس کی پرواہ نہیں.افریقن کا ایک کردار ہے وہ یہ ہے کہ اگر منطق کی بات کرو تو ان کو بات سمجھ آتی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.افریقہ کی بھی ایک تاریخ ہے جو اسی مرکزی نقطے کے گرد بنی گئی ہے.تمام افریقہ کی تاریخ میں آپ کو مذہبی طور پر یہ بنیادی بات دکھائی دے گی کہ افریقہ کے ایک گھر میں کرسچئینز (Christians) بھی ہیں، بے مذہب بھی ہیں جن کو مختلف نام دیے جاتے ہیں مگر حقیقت میں وہ بت پرست نہیں ہوا کرتے.ضروری نہیں کہ سب بت پرست ہوں دہریہ، بے خدا لوگ، ہر قسم کے لوگ اس میں شامل ہیں جن کو Pagan کہا جاتا ہے اور یہودی بھی ہیں مسلمان بھی ہیں.ایک گھر میں سب بس رہے ہیں.کسی کا ایک رشتے دار کچھ اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے کسی کا ایک رشتے دار کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے مذہب کی بنا پر خصوصیت سے گھانا نے فساد کو برداشت نہیں کیا اور اگر فساد برپا کئے گئے ہیں تو شمال میں ارادہ کئے گئے ہیں اور اکثر ایسے فسادات مسلمان کو مسلمان سے لڑانے والے فسادات تھے.بہر حال میں آپ کو مختصرا افریقہ کا مزاج سمجھا رہا ہوں یہاں اگر مذہب کے نام پر فساد آیا ہے تو شمال سے نیچے اترا ہے جہاں بعض بگڑے ہوئے مسلمان علماء نے مذہب میں دخل اندازی شروع کی اور خود خدا بن بیٹھے.سارے افریقہ میں جہاں بھی مذہب کے نام پر فساد آیا ہے شمال سے بھی صحرا کے پار نیچے اترا ہے یعنی افریقہ کا اپنا مزاج یہ نہیں ہے اور اس بات پر

Page 593

خطبات طاہر جلد 16 587 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء افریقہ فخر کرتا ہے کہ ہم مذہب کو خدا پر چھوڑتے ہیں اور حکومت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ساری تاریخ میں یعنی احمدیت کی جو بھی تاریخ افریقہ میں بنی ہے ایک بات وہاں کے سربراہوں نے بھی اور دانشوروں نے بھی بڑے زور سے کہی اور تسلیم کی اور بار بار یہ کہا کہ احمد یہ جماعت مذہب کے نام پر کوئی اختلاف پیدا نہیں کرتی.بار بار یہ تسلیم کیا کہ احمد یہ جماعت نہ مذہب کے نام پر دوسرے مذہبی فرقوں سے افتراق کر کے ان کے خلاف کسی قسم کی اشتعال انگیزی کرتی ہے نہ یہ جماعت سیاست میں دخل دیتی ہے اور سیاست کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتی ہے.ایسی جماعت ہے جو خدمت کر رہی ہے اور جہاں ان کا رسوخ بڑھتا ہے وہاں بھی سیاست پر اثر انداز نہیں ہوتی اور وہاں بھی جو دوسری قومیں آہستہ آہستہ ایک اقلیت میں تبدیل ہو رہی ہیں ان سے ان کا حسن سلوک جاری رہتا ہے.یہ جماعت احمدیہ کا کردار ہے جو افریقہ میں ابھرا ہے اور افریقہ نے اسے تسلیم کیا ہے.تمام سر براہان حکومت اس بات کی عزت کرتے ہیں اور احمدی کو ہمیشہ عزت اور وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس نے افریقہ میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے اور اپنے مذہب کو کبھی بھی فساد اور حقوق تلفی کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ احمدی نے جب بھی وہ اچھا احمدی ثابت ہوا غیروں کی خدمت کی.مذہب سے بے نیاز ہو کر کہ کونسا کس کا مذہب ہے عیسائیوں کی خدمت کی ، Pagans کی خدمت کی ہر جگہ برابری کا سلوک کیا ہے.یہ وہ ملک ہے جس میں اب دشمن کی سازش ہے کہ وہاں مذہب کے نام پر اختلاف پیدا کرے اور یہ سازش پاکستان میں پہنچی ہے اور کویت میں آکر آئل ڈالر کے ذریعے اس نے نئے رنگ پکڑے ہیں اور پورا زور لگایا جا رہا ہے، جو ایک دفعہ پہلے بھی لگایا گیا تھا، ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے کہ کسی طرح افریقہ کے ایک حصے کو ہم چھین لیں اور گویا اس حصے کو پاکستان کا سیٹلائیٹ بنادیا جائے.وہاں فساد پینے اور وہاں سے پھر فساد ایکسپورٹ ہو باقی افریقہ کے نام، یہ سازش ہے جس کے متعلق میں جماعت کو آگاہ کرتے ہوئے یہ متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے ایسے ہی موقعوں کے لئے فرمایا ہے وَ مِنْ شَرِ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ جب بھی حاسد حسد کرے گا اس وقت تم خدا کی پناہ میں آنا.امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری تو ایک ہی پناہ ہے وہ خدا ہی کی پناہ ہے مگر شعوری طور پر خدا کی پناہ میں آنا ایک اور معنی بھی رکھتا ہے.خدا کی پناہ تو ہر شخص مانگتا ہے جب کسی کو مصیبت پڑے، جب کشتیاں

Page 594

خطبات طاہر جلد 16 588 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء ڈوب رہی ہوں انسان کہتا ہے میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں یہاں تک کہ دہریے بھی خدا کی پناہ مانگنے لگتے ہیں مگر وہ پناہ مل بھی جائے تو فائدہ نہیں دیتی.یہاں جس خدا کی پناہ میں آنے کا تعلق ہے وہاں وہ تمام امور جو حسد پیدا کرتے ہیں وہ نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتے ہیں اور ان نعمتوں کا انکار انسان کر ہی نہیں سکتا اور ان نعمتوں کے ساتھ یہ فساد چمٹے ہوئے ہیں، حسد چمٹا ہوا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں نعمتیں عطا کروں گا تمہارے مراتب بڑھاتا چلا جاؤں گا.ایک حالت سے تم دوسری حالت کی طرف ترقی کرو گے اس وقت اگر دشمن تمہیں تنگ کرے اور تمہارے خلاف منصوبے بنائے تو زج نہ ہونا.یہ نہ سمجھنا کہ اللہ نے ایک ایسی نعمت عطا کی کہ اس کے ساتھ ایک اور مصیبت آگئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم خدا کی پناہ میں آؤ اور ان نعمتوں کی حفاظت خدا سے چاہو، جو نعمتیں عطا کرنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ ان نعمتوں کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے.مگر خدا کی پناہ میں آنے کا معنی کشتی نوح میں آتا ہے کیونکہ یہ آیت جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی یہ خلاصہ ہے خدا کی پناہ کا.ایک کشتی بنائی جارہی ہے جو تباہی سے پہلے بنائی جارہی ہے اور یہ بھی ایک اہم مضمون ہے جو میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.مومن جب خدا کی پناہ میں آتا ہے تو مصیبت کے وقت نہیں آتا، مصیبت سے پہلے آتا ہے.حضرت نوح جب خدا کی پناہ میں آئے اور آپ کے ماننے والے جب خدا کی پناہ میں آئے تو مصیبت کا کوئی تصور بھی نہیں تھا دور نزدیک کہیں اور مصیبت دکھائی نہیں دیتی تھی اس لئے خدا کی غیب کی طاقتوں پر ایمان رکھنے والے ہی تھے جو خدا کی خاطر پناہ مانگ رہے تھے اور پناہ میں آرہے تھے اس کے لئے محنت کر رہے تھے جبکہ دشمن کو ایسا کوئی عذاب کہیں دور نزدیک دکھائی نہیں دیتا تھا.تو سب سے پہلے اہم بات یہ ہے کہ جب آپ امن میں ہوں اس وقت یہ جانتے ہوئے کہ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ کا مضمون آپ کی خاطر ایک نئے رنگ میں ظاہر ہوگا اس وقت خدا کی پناہ میں آئیں، اس وقت خدا سے پنا ہیں مانگیں امن کی حالت میں اور امن کی حالت میں جو پناہ مانگتا ہے اسے مصیبت کے وقت ضرور پناہ دی جاتی ہے اور جو امن کی حالت میں پناہ نہیں مانگتا مصیبت کے وقت اسے کوئی پناہ نہیں ملتی.پس اب اپنی حالت کو اس پہلو سے درست کرو اور ہر جگہ ہمیں اس کی ضرورت ہے کیونکہ افریقہ کی ایک مثال میں نے آپ کو دی تھی.امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں بھی احمد بیت ترقی کرے گی وہاں

Page 595

خطبات طاہر جلد 16 589 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء حسد نے ضرور زور مارنا ہے.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں حسد پیدا نہیں ہوگا.دنیا کے جتنے ترقی یافتہ ملک ہیں ان میں حسد اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ، وہ آپ کو اس سے بھی زیادہ حقیر دیکھتے ہیں، ایک مچھر کے پر سے بھی زیادہ آپ کو حقیر دیکھتے ہیں.تعریف کرتے ہیں تو یہ ان کی شرافت اور Civilized Values جن کو وہ کہتے ہیں یعنی تہذیب اور تمدن کے تقاضے ہیں.وہ کمزور چھوٹے چھوٹے آدمی جو گرے پڑے ہیں بے چارے ان کی اچھی باتیں دیکھو تو ان کی تعریف کر دیا کرو لیکن یہی تعریف خطرناک غیظ وغضب میں تبدیل ہو سکتی ہے اگر یہ سمجھیں کہ یہ ہمارا مستقبل بن رہے ہیں وہ اٹھ کر اوپر آرہے ہیں یہ ہماری قوم کو اپنے رنگ میں تبدیل کرنے والے ہیں.یہ بھی ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس پر آیت حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اطلاق پاتی ہے اور اگر چہ ابھی آپ کو نظر نہیں آ رہی مگر آئندہ نظر آجائے گی.پس آج وقت ہے کہ اللہ کی پناہ میں آجائیں اور اللہ کی پناہ کی خاطر اس کشتی کی تعمیر شروع کریں جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے میں نے آپ کے سامنے کیا ہے.جتنے میرے خطبات ہیں اب تک وہ اسی مضمون سے تعلق رکھتے ہیں کہ آپ خدا کے ہو جائیں اور خدا ہی کے ہو جائیں اسی پر توکل کریں اسی پر ہر امید ہو.ہر فضل سمجھیں کہ اس کی طرف سے آیا ہے ہر فضل سمجھیں کہ اسی کی حفاظت میں رہے گا تو فضل رہے گاور نہ ضائع ہو جائے گا.جیسے آسمان کا پانی اترتا ہے تو اسے سنبھالا جاتا ہے خدا کے فضل بھی آپ کے شکر کے کٹوروں میں سنبھالے جائیں گے.یہ سارے اموراب کرنے والے ہیں اور وہ افریقہ جہاں یہ شرارت ابھی نہیں پہنچی اس افریقہ کو مخاطب کر کے میں کہتا ہوں کہ تم بھی اپنے آپ کواب تیار کرو اور بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل تمہیں سنبھال کر پھر مزید ترقیات عطا فرما تا چلا جائے یہاں تک کہ ہر حسد کی گود سے ایسے خدا کے فضل پھوٹیں جو مزید حسد کا مطالبہ کرتے ہوں اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے ان لوگوں کے لئے جو شکر گزار بندے ہیں جو وقت کے اندر خدا کی پناہ مانگتے ہیں.چنانچہ حضرت نوح کے الفاظ میں ہم ان سب لوگوں کو مخاطب کر کے یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے بس میں ہے کر گزرو.اپنے پیادہ بھی چڑھالا ؤ، اپنے سوار بھی دوڑاؤ ہمیں ہر طرف سے گھیر نے کی کوشش کرو ہمارے سارے رستے بند کرو مگر یاد رکھو کہ تمہارا انجام نوح کی قوم کے انجام سے مختلف نہیں ہوگا.خدا کے امن کی کشتی میں اگر کوئی جماعت سوار ہوگی تو جماعت احمد یہ سوار ہوگی اور خدا کے امن کی کشتی

Page 596

خطبات طاہر جلد 16 590 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء میں جماعت احمد یہ سوار ہے کیونکہ کشتی بنانے سے پہلے ہی یہ سوار ہو چکی تھی.کشتی تو ایک ظاہری مثال تھی اگر حضرت نوح کی جماعت پہلے ہی کشتی میں سوار نہ ہوتی تو ان کے لئے کشتی کوئی بھی کام نہ دیتی.پس ذرائع خدا بنائے گا اور جب خدا ذ رائع بناتا ہے تو پھر مطلع فرماتا ہے کہ اس طرح بناؤ.چنانچہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کو بچانے کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا.حضرت نوح کے ساتھ جو لوگ امن میں آنے والے تھے ان کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم حضرت نوح کے متعلق فرماتا ہے کہ خدا تعالی ساتھ ساتھ بتا رہا تھا کہ اس طرح کی کشتی بناؤ یہاں کیل ٹھونکو، یہاں یہ کام کرو وہاں وہ کام کرو.باغيننا (هود:38) وہ کشتی خدا کی آنکھوں کے سامنے بنائی جارہی تھی اور اس کی ہر تفصیل میں دخل دے رہا تھا.یہ معاملہ ہر شخص کے ساتھ ہمیشہ دہرایا نہیں جاتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ کشتی والے ہیں آپ بھی نوح ہیں اس لئے آپ کی خلافت کے طور پر اسی خلافت کی ساکھ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ مجھے بھی مطلع فرماتا رہتا ہے کہ یہ کام کرو اور وہ کام کرو.فلاں کام سے قوم کو پیچھے ہٹالو، فلاں کام کے لئے قوم کو آگے بڑھا لو غرضیکہ جتنی بھی نصیحتیں میں آپ کو کرتا ہوں میں ایک ذرہ بھی شک نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صیحتیں اترتی ہیں اور ضروری نہیں کہ ظاہری الہام کی صورت میں اترتی ہوں.اس طرح آنکھیں کھلتی ہیں اس طرح دماغ کروٹیں بدلتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ میرے نفس کی تو یہ سوچ نہیں تھی یہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشتی نوح بنانے کے طریقے ہیں کہ کس طرح بنائی جاتی ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح مجھے ہدایت دیتا ہے وہی میں آپ کی طرف منتقل کر دیتا ہوں مگر اپنی طرف سے نہیں، یقین رکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں.وہ رحمتیں جو سو سال پہلے مسیح موعوڈ پر اتری تھیں وہ رحمتیں مسیح موعود کے نام کو دنیا پر پھیلا دینے کے لئے ، جب دنیا غرق ہو رہی ہو اس وقت آپ کی جماعت کو بچانے کے لئے اب پھر اتر رہی ہیں اور وجہ ہمارے آقا و مولا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں نہ میں ہوں نہ آپ ہیں.پس ہرگز میرے اس قول کو کسی نفسی بڑائی کا غلط معنی نہ پہنائیں.میرے نفس میں ایک ذرہ بھی بڑائی نہیں.میں جانتا ہوں جو کچھ بھی خدا کی طرف سے آج مجھے سمجھایا جارہا ہے اور آپ کی خاطر بتلایا جارہا ہے وہ حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی دعائیں اور آپ پر نازل ہونے والے فضل ہیں جو آنے والے وقت کے مطابق دوبارہ ایک نئی شکل میں ڈھالے جارہے ہیں.

Page 597

خطبات طاہر جلد 16 591 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997ء پس اس شرط کے ساتھ آپ اس مقام پر کھڑے ہیں جس سے ساری دنیا کو چیلنج دیں لیکن اس چیلنج کے وقت آپ کو یقین ہونا چاہئے.دنیا کو چیلنج دیں گے تو آپ مصیبت اور وبال نہیں سہی لیں گے.چیلنج دینے والے کے لئے کچھ بات ہوتی ہے کوئی وجہ ہوتی ہے.جو چیلنج دیتا ہے وہ جانتا ہے کہ کون میری پشت پر ہے.وہ جانتا ہے کہ کون میری حفاظت کرے گا اس لئے یہ چیلنج کوئی عام چیلنج نہیں ہے.یہ چیلنج ایک عرفان کا چیلنج ہونا چاہئے.آپ جانتے ہوں کہ آپ اپنے اندروہ پاک تبدیلیاں پیدا کر چکے ہیں جو حضرت نوح کی کشتی پر سوار ہونے کے لئے ضروری تھیں.وہ تبدیلیاں بھی کشتی ہیں.اصل میں کشتی کا ظاہر ارونما ہونا ان کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ وہ ذریعے خود ہی بتایا کرتا ہے مگر آپ اپنی ذات میں حضرت نوح کی قوم یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اس زمانے کے نوح ہیں ان کی حقیقی قوم بننا سیکھ لیں پھر یقین کے ساتھ چیلنج دیں.بعض لوگ چیلنج کو دہراتے رہتے ہیں حالانکہ نہیں جانتے کہ اس چیلنج کو دہرانے کے لئے بھی انسان کے اندر کچھ تبدیلیاں ہونی ضروری ہیں.پس مباہلے کا جو میں نے چیلنج دیا تھا اس سلسلے میں کئی لوگوں نے اپنی طرف سے آگے چیلنج دینے شروع کر دیئے ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں کی.پھر مجھے علم ہوا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کے اس چیلنج کا کوئی بھی فائدہ نہیں.اگر قسمت سے اگلا مر گیا تو وہ بھی اس چیلنج کا نتیجہ نہیں ہوگا.اگر قسمت سے آپ کی ٹانگ ٹوٹ جائے تو یہ بھی چیلنج کا نتیجہ نہیں ہوگا.دونوں طرف کچھ نہ ہو تو یہ بھی ٹھیک ہے عام حالات میں یہی متوقع ہے.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر ایک چیلنج دینا اور اس کی شرائط کو معین سامنے رکھنا یہ اللہ تعالیٰ اپنے مومنین کی جماعت کے سربراہ کو اس وقت سمجھاتا ہے جب اس کا وقت آئے اس لئے ہر کس و ناکس کا کام یہ نہیں ہے کہ اپنی طرف سے خواہ مخواہ چیلنج دیتا پھرے.چنانچہ ایک صاحب نے چیلنج دیا اور اس میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تمہیں کچھ نہ ہوا تو میری احمدیت سے تو بہ.اگر مجھے کچھ نہ ہوا تو تمہاری غیر احمدیت سے تو بہ.اب یہ سمجھ نہیں آرہی کہ دونوں میں سے کون تو بہ کرے دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں، وہ غیر احمدیت سے تو بہ کرے یا یہ احمدیت سے تو بہ کرے.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چیلنج اترا کرتے ہیں ان کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے.غور سے اس مباہلہ کو پڑھیں ، اس کے الفاظ پر غور کریں اور پھر جیسا کہا گیا ہے ویسا ہی دیں.اس میں یہ کب کہا گیا ہے کہ جو احمدی بھی اٹھ کر کسی کو یہ چیلنج دے دے گا وہ احمدی ایک مہینے کے اندر اندراس

Page 598

خطبات طاہر جلد 16 592 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء شخص کی ذلت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا.کہیں نہیں یہ لکھا ہوا.یا برعکس صورت ہوتو وہ اس احمدی کی ذلت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا.تو نفس کی حماقتیں بعض دفعہ اس قسم کے الہی کا روبار میں کر دی جاتی ہیں اس کو کہتے ہیں امنیہ شیطان کی طرف سے دخل دیتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی تمناؤں میں امنیہ کا کوئی دخل نہیں ہے اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا ہے لیکن مومنوں کی حالت مختلف ہے.کئی مومن ایسے ہیں جن کی نیت نیک ہوتی ہے لیکن ان کی امنیہ اس کو امیہ کہتے ہیں نفس کی خواہش وہ الہامی فیصلے یا خدا تعالیٰ کے تقدیری فیصلے جو جاری ہو چکے ہوں ان میں وہ اپنی امنیہ تھوڑی سی اگل دیتے ہیں اور نتیجہ وہ مضمون بدل جاتا ہے.چنانچہ جہاں بھی کسی نے ایسا کیا وہ مضمون بدلا ہے مگر کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک چیلنج دینے والے نے وہ مباہلے کا چیلنج من وعن اسی طرح دیا اور دوسرے نے پھر آگے سے تذلیل کی ، دوسرے نے دھتکارا اور اس نے اپنے لئے ایک بدی طلب کی اس میں یہ دینے والا شامل نہیں ہوا.اس نے کہا تمہاری مرضی ہے جو چاہو اپنے متعلق بددعا کرلو، جو چاہو مجھ پر بددعا کر لو.جو کچھ ہمیں ملا ہے یہ پرچہ ہے اس پر غور کرو اور اگر اس کے مطابق تم چینج کو قبول کرتے ہو تو صرف ان باتوں پر صاد کر دو جو بیان کی گئی ہیں لیکن اسے ذاتی چیلنج نہیں بنایا گیا، لینے والے نے ذاتی بنایا اور وہ چند دن یا چند مہینوں کے اندر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی ذلت کی مار کا شکار بن گیا.ایسے واقعات کثرت سے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے چیلنج کی نوعیت بدل گئی ہے.یہ نوعیت ابھی بھی انفرادی نہیں ہے، قومی ہے اور قومی طور پر جماعت کے ساتھ جو سلوک مقدر ہے وہ میں نے کھول کر بیان کر دیا ہے.ان کے ساتھ جو سلوک مقدر ہے وہ میں نے کھول کر بیان کر دیا ہے.یہ جو ان کی حالت ہو رہی ہے اس پر یہ بہت بے چین ہیں.ذلتوں کی ایسی مار پڑ رہی ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے ان کے پاس.کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے او پر ظلم و تعدی کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں مڑ کے نہیں دیکھتے اور ان کو بتا بھی دیا جائے کہ دیکھو جماعت احمد یہ اس کو اپنے حق میں ایک صداقت کا نشان بیان کرے گی اس لئے رک جاؤ.یہ بھی کہتے پھرتے ہیں ، ہمارے علم میں ہے کہ اس بناء پر ان کی اتحاد کی مجالس بنائی گئیں کہ دیکھو یہ وقت نہیں ہے شرارتوں کا ، جماعت احمدیہ کو ذلیل کرنے کی خاطر کچھ دیر کے لئے ایک دوسرے پر تعدی سے رُک جاؤ تا کہ سال گزر جائے پھر دیکھیں گے.وہ ابھی یہ فیصلے کر کے جدا ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے پر

Page 599

خطبات طاہر جلد 16 593 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء حملے شروع کر دیتے ہیں.اس وقت پاکستان میں اتنا قتل و غارت ہے کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی ایسا واقعہ پہلے نہیں ہوا اور اتنا ظلم اور اتنی تعدی ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے دیکھ کر.چھوٹے بچوں کا اغواء، ان پر ظلم ، ان کی ٹانگیں تو ڑتوڑ کے ان کو پڑھوں پر فقیروں کی طرح لا دینا، کوئی ایک ظلم ہو تو اس کی انسان بات کرے.کوئی حال ایسا نہیں ہے جو انسان کو غیر مسلم بنانے کے لئے کافی ہو جو انہوں نے اپنا نہ لیا ہو.ان کی شکلیں غیر مسلم ہو چکی ہیں ، ان کا رہنا سہنا اٹھنا بیٹھنا غیر مسلم ہو چکا ہے ان کی دین سے تعلق کی باتیں غیر مسلم ہو چکی ہیں.کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے غیر مسلم ہونے کا جو انہوں نے اپنی قوم پر اطلاق کر کے نہ دکھا دیا ہو اور نعرہ یہ لگا رہے ہیں کہ تم غیر مسلم ہو ، ہم مسلم ہیں.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر ہم غیر مسلم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سچ بولتے ہیں، متحد ہیں، نیکیوں کو اپنا شعار بنا رکھا ہے.بجائے اس کے کہ لوگوں کے حق ماریں لوگوں کے حق دلانے کے لئے قربانیاں دیتے ہیں اور اپنی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے خرچ کرتے ہیں اور ان کی ہمدردی جس طرح بھی ممکن ہے ہم عملاً ساری دنیا میں کر کے دکھا رہے ہیں، اگر یہ غیر مسلم کی تعریف ہے تو پھر تم باہر بیٹھے کیا کر رہے ہو.پھر چھوڑ و اس اسلام کو جس نے مصیبتیں ڈالی ہوئی ہیں تم کو.ایسے غیر مسلم بن جاؤ جو خدا کی نگاہ میں عزت پائیں.نعوذ بالله من ذلک ، ایسے غیر مسلم بن جاؤ جیسے غیر مسلم محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تھے جن میں وہ تمام صفات پائی جاتی تھیں جو آج جماعت احمد یہ میں پائی جاتی ہیں.ان پر وہ سارے مظالم توڑے جاتے تھے جو آج جماعت احمدیہ پر توڑے جاتے ہیں اور ہر حال میں وہ ثابت قدم رہے اور ہر حال میں نیکی کو ترویج دی.یہ ایسی شکل ہے جماعت احمدیہ کی جس کے نقوش تم تبدیل نہیں کر سکتے.ہے طاقت تو کر کے دکھاؤ اور یہی حسین نقوش والی جماعت احمد یہ ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نقش قدم پر ہے جسے ساری دنیا میں غلبہ نصیب ہو رہا ہے.پس غلبے کا حال تو تمہارے اندر موجود نہیں.ذلیل اور مغلوب ہونے کی ساری باتیں تم نے سیکھ کر اپنالی ہیں اور منہ سے غلبہ غلبہ کئے جاتے ہو بالکل بے حقیقت اور بے معنی بات ہے.اس سلسلے میں قرآن کریم کی چند اور آیتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، ہماری دعائیں آخر کیوں نہیں سنی جاتیں.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی قوم کے لئے اور مسلمانوں کے لئے عموماً کوئی دن ایسا نہیں

Page 600

خطبات طاہر جلد 16 594 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997ء گزرتا جب ہم دعانہ کرتے ہوں ہم ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بچالے.اللہ تعالیٰ ان کو ہر ہلاکت سے محفوظ رکھے ہر گراوٹ سے سنبھالے، اللہ تعالیٰ ان کو قعر مذلت سے نکال کر آسمان کی بلندیوں تک اٹھالے ہماری ہمیشہ یہ دعا ہوتی ہے مگر یہ منہ پھیرے ہوئے ہیں وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِ (بنی اسرائیل : 84) یہ ان کا حال ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ہم انسان پر اپنی نعمت اتارتے ہیں تو أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِہ وہ منہ موڑتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے ہم سے، ان کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کے حق میں دعائیں قبول نہیں کی جاتیں یہ مشکل ہے ایسے لوگوں کے حق میں انبیاء کی دعائیں بھی قبول نہیں کی جاتیں.ایسے لوگوں کے حق میں حضرت محمد مصطفی امیہ کی دعائیں بھی قبول نہیں کی گئیں اور آپ کو بتا دیا گیا ان بدبختوں کے حق میں تم دعا کرو گے تو قبول نہیں کی جائے گی.یہاں خدا کی وحدانیت اپنا جلوہ دکھاتی ہے وہ نبیوں کو بھی کہتا ہے کہ تم قوم کی حالت نہیں بدل سکتے.نوقح سے بھی یہی تو کہا تھا.حضرت نوح کو بھی خدا نے جب آپ کو یہ پیغام دیا کہ اب قوم سے یہ کہہ دو، یہ بیان فرما دیا تھا کہ اب تمہارا قوم کو ڈرانا ، ان کو سنبھالنا، ان کو چھپ چھپ کے پیغام دینا، ان کو ظاہر ظاہر میں پیغام دینا جو کچھ تمہارے بس میں تھا تم کر چکے اس قوم کو فائدہ نہیں دیا نہ آئندہ دے گا.اب جب فائدے کے سلسلے بند ہو چکے تب ہلاکت کی گھڑی آئی ہے اگر فائدے کے سلسلے جاری رہتے تو خدا تعالیٰ کبھی بھی ہلاکت کی گھڑی نہ لاتا.مجھے ڈر ہے کہ یہ حضرت نوح والا معاملہ اب ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہونے والا ہے.اس کے لئے فکرمند ہوں اور اس کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان شیطانوں کو اپنے ماتحت چھوٹے شیطانوں پر اثر اندازی سے روک دے اب تو بڑے شیطان اور چھوٹے شیطانوں والی بات ہوگئی ہے کہیں بھی بھلائی دکھائی نہیں دیتی تلاش کر کے دیکھو شاذ کے طور پر کہیں بھلائی نظر آئے گی ، ہوتی تو ہے دنیا میں ہر جگہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بھلائی دکھائی دیتی ہے شاذ شاذ کے طور پر لوگ ابھر رہے ہیں اور وہ نیکی کی بات کرتے ہیں ،مگر ساری قوم کا جو حال ہو چکا ہے اس کو تبدیل کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہے.اس تعلق میں میں یہ آیات سورۃ یونس ہی کی 95 تا98 آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

Page 601

خطبات طاہر جلد 16 595 خطبه جمعه 8 راگست 1997ء فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَثَلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُونَ الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَ كَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ الله مِنَ الْمُمْتَرِينَ دیکھو ایک حالت ، ایک وقت تھا حضرت نوح پر بھی آیا تھا جب قوم تبدیل نہیں ہورہی تھی آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے اگر تجھے شک پیدا ہوا اس بات پر جو ہم نے اتاری ہے تو ان لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لے جن پر پہلے کتابیں اتاری گئی تھیں.مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کا حال ہم تجھے پڑھ کر سناتے ہیں ان پر نظر ڈال اور ان میں سے بھی ایک نوح کا بھی حال تھا.لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ان کا مانا یا نہ مانا تیرے حق کی پہچان نہیں ہے تیرا حق تو لازماً اللہ ہی کی طرف سے ہے فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ پس ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ زندگی کے کسی لمحے میں بھی آپ نے ان خدا تعالیٰ کی نازل فرمودہ پیشگوئیوں اور انعامات پر شک کیا ہو جو ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں آپ خدا کے ساتھ ساتھ رہے ایک ذرہ بھی آپ کی زندگی میں ان پر شک کا نہیں گزرا اس لئے یہ پیغام مسلمانوں کے نام ہے.ان کے نام جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے.مخاطب رسول کو کیا جا رہا ہے مگر مراد وہ سب لوگ ہیں جن کو کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہو گا کہ خدا کی پیشگوئیاں ہمارے حق میں شاید پوری نہیں ہور ہیں.ایسے لوگ آنحضرت میہ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہیں اپنے شک کا اظہار بھی کیا اس موقع پر بھی رسول اللہ یہ ایک لحہ بھی ان کے بیانات سے متاثر نہ ہوئے بلکہ فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے ایسے لوگ تھے جن کے سر آروں سے چیرے گئے تھے انہوں نے اف تک نہیں کی تھی میرے ساتھ ہوتے ہوئے تم اف کرتے ہو.تو آپ کی ساری زندگی یہ ثابت کر رہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو بھی ذرہ بھر بھی شک نہیں ہوا فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ میں دراصل محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات جو ہماری راہنما ہے اس کے متعلق ایک پیش گوئی ہے تكُونَنَّ تو ہرگز کبھی بھی شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا.اس میں آپ کے متبعین ، آپ کے غلام، مستقبل کے متبعین مستقبل کے غلام سب شامل ہیں.تیرے شک سے ساری قوم شک میں مبتلا ہوگی اس لئے آئندہ آنے والے زمانوں کا تو رسول اور نبی ہے، تو غیر متزلزل رہ جس طرح ہے اور مستقبل کی طرف پھر امید

Page 602

خطبات طاہر جلد 16 596 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء سے دیکھ کہ کبھی بھی تیرا وسوسہ جو تجھے نہیں حاصل ہوگا وہ آئندہ آنے والے مسلمانوں میں منتقل نہیں ہوگا اگر کوئی وسوسے میں پڑے گا تو تیرے وسوسوں کے بغیر ، وسوسوں سے پاک ہونے کے باوجود پڑے گا.یہ ایک کھینچا ہوا معنی معلوم ہوتا ہے مگر یہ کھینچا ہوا معنی نہیں بعینہ اس آیت کا یہی معنی ہے اور حضرت محمد مصطفی ہے کے شک کا اس میں اشارہ بھی ذکر نہیں کیونکہ آپ کی ساری زندگی اس بات کو جھٹلا رہی ہے.خدا تعالیٰ ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے جو جھوٹی ہو جس کو خدا کا رسول اپنے عمل سے جھٹلا رہا ہو.پس لازماً یہاں ترجمہ وہ کرنا پڑے گا جو خدا کی بھی تصدیق کرنے والا ہو اور محمد رسول اللہ اللہ کی بھی تصدیق کرنے والا ہو.آگے فرمایا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوا بِايَتِ اللهِ (یونس : 96) اور تو ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا.فَتَكُونَ مِنَ الْخَسِرِيْنَ پس تو یقینا گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائے گا کیا رسول اللہ ﷺ اللہ کی آیات کو جھٹلا سکتے تھے.وى الْمُمْتَرِینَ والا مضمون پھر اور بھی زیادہ کھول دیا ہے یہ تو ناممکن ہے تیرے لئے کہ تو ایسا ہو.اس لئے خدا کی آیات جو تجھ پر نازل ہوتی ہیں ان کا مظہر بن ان کو اس طرح اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش کر کہ تیرا یقین ان کی طرف منتقل ہو نہ تو گھاٹا کھانے والا بنے نہ تیرے ماننے والے گھاٹا کھانے والے بنیں.اِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ (يونس: 97) یہ بات ہے جواب کھولی جارہی ہے تو دیکھ رہا ہے کہ لوگ ایمان نہیں لا رہے یعنی کچھ لوگ ایمان نہیں لا رہے، آنے والے بھی دیکھیں گے کہ کچھ لوگ ایمان نہیں لائیں گے وہ اس بات کو نہ بھولیں کہ إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ کہ وہ لوگ جن پر خدا کی تقدیر نے لازماً اطلاق پانا ہے ضرور ان پر صادق آرہی ہے ان کو کوئی دنیا کی دعائیں یا استغفار یا نصیحتیں تبدیل نہیں کر سکتیں انہوں نے لازما ظلم کی حالت میں مرنا ہے.وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلٌّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيْم (يونس: 98) خواه ان کے پاس وہ سارے نشانات آجائیں جو خدا کی طرف سے آیا کرتے ہیں اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائیں گے.حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں اور اس آیت کریمہ میں حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيْمَ میں یہ بھی معنی ہیں یہاں تک کہ الْعَذَابَ الاليم ان کو آجائے ، الْعَذَابَ الأَلِيم ان پر نازل ہو جائے.دوسرا نازل ہو جائے گا تب بھی

Page 603

خطبات طاہر جلد 16 597 خطبه جمعه 8 راگست 1997 ء نہیں مانیں گے.یہ دونوں معنی اس میں پائے جاتے ہیں چنانچہ حضرت نوح کی قوم نے اس عذاب کی حالت میں بھی حضرت نوح پر ایمان کا کوئی تصور بھی نہیں کیا، بیٹے نے بھی نہیں کیا.عذاب نازل ہورہا ہے حضرت نوح آواز میں دے رہے ہیں بیٹے کو کہ آ میرے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا.عذاب کے نزول کے وقت بھی اس نے حضرت نوح کا انکار کیا.پس ایسی حالت ہوتی ہے قوموں کی کہ حَتَّی يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ وہ دردناک عذاب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس وقت تک ویسے ایمان نہیں لاتے جب عذاب نازل ہو رہا ہو اس وقت بھی ایمان نہیں لاتے.فرعون نے کیا کیا تھا.فرعون کی قوم کو کیوں آخر صفحہ ہستی سے مٹایا گیا اس لئے کہ عذاب الیم کے وقت بھی ان کے نفس بہانے ڈھونڈتے رہے اور ایمان لانے والے نہ بن سکے.اگر وہ ایمان لے آتے تو ضرور یونس کی قوم کی طرح ان پر رحم کیا جاتا.یہ تمام آیات سورۃ یونس سے لی جارہی ہیں اور سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کی مثالیں دے رہا ہے کہ ان پر کیا کیا گزری.کیا کیا ان کے ساتھ واقعات رونما ہوئے انہوں نے انبیاء کی کیسی کیسی مخالفتیں کیں لیکن بالآخر جب وہ عذاب کا نشانہ بنائے گئے تو عذاب بھی ان کی اصلاح نہیں کر سکا سوائے یونس کی قوم کے.کیوں نہ وہ یونس کی قوم جیسے ہو گئے کہ کم سے کم عذاب کا منہ دیکھ کر ، یہ یقین کر کے کہ آنے والا ہے وہ دنیا کی زندگی میں اپنے بچاؤ کا کوئی سامان کر لیتے.فرمایا وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ - نهایت دردناک حالت ہے اس وقت پاکستان کی اور مجھے اس آیت کا اطلاق ہوتا دکھائی دے رہا ہے.اس لئے میں بے چین ہوں اس لئے میں آپ سے دوبارہ دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں.اس ملک کو اب کوئی چیز بچا نہیں سکتی.یہ تباہی کے گڑھے میں جا پڑا ہے.کوئی نکلنے کی گنجائش نہیں.ہر جگہ ذلت اور گمراہی اور سفا کی اور ظلم و ستم ہے.ایسے لوگ جو خدا کی رحمانیت سے اپنا تعلق کاٹ لیں کوئی رحمانیت ان کو بچا نہیں سکتی لیکن دعاؤں میں اگر کوئی اثر ہے، کچھ نیک لوگ ایسے باقی ہیں جن کی خاطر تقدیر بدلی جا سکتی ہو اگر ان کے مقدر میں اس آخری گھڑی سے پہلے ایمان لانا ہو تو یہ دعائیں تو ہم کر سکتے ہیں اور میں آج ان دعاؤں کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اے خدا اگر تو کوئی بھی بھلائی دیکھے ہماری قوم میں، کہیں بھی وہ دکھائی دے اور تو بہتر جانتا ہے.ہم اتنا جانتے ہیں کہ

Page 604

خطبات طاہر جلد 16 598 خطبہ جمعہ 8 اگست 1997 ء بھلائی کچھ سرضرور اٹھا رہی ہے کہیں کہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھلائی دبی ہوئی تھی جواب باہر نکل رہی ہے اس لئے مجھے امید ہوئی ہے کہ شاید ہماری دعاؤں سے یہ بھلائیاں ابھر کر اب سامنے آجائیں شاید ہماری دعاؤں سے یہ بھلائیاں سر نکال کر بدی پر غالب آئیں اس کا مقابلہ کریں.یہ ضرورت ہے جواب قوم کی ضرورت ہے.قوم کے اچھے لوگوں نے مقابلہ چھوڑ دیا تھا اچھے لوگ تھے تو سہی جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے میرے علم میں ہیں بہت سے اچھے لوگ ہیں ان کی نیکی دب گئی اور بدی ان پر غالب آگئی اور بدی کو انہوں نے غالب آنے دیا اب اس حالت کو بدلنے کے لئے قربانی دینی پڑے گی.ایسے اچھے لوگوں کو سر اٹھا کر اوپر آنا ہوگا.ان کو اب ایک بگل بجانا ہوگا کہ آؤ واپس اس پاکستان کی طرف جائیں جو خدا کے سب بندوں کا پاکستان ہے.آؤ واپس اس پاکستان کی طرف لوٹیں جہاں مذہب دوسرے مذاہب کے درمیان تفریق کا موجب نہ بنے، جہاں مذہب حقیقی طور پر اپنے سے ہٹے ہوئے دوسرے مذاہب کے لئے ایک رحم کا سرچشمہ ثابت ہو، جہاں سچائی جھوٹ کی دشمن نہ ہو بلکہ جھوٹ کی حالت درست کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے.ان معنوں میں میں ابھی بھی امید رکھتا ہوں کہ سب کچھ ہاتھ سے نہیں گیا اور انہی معنوں میں میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کشتی میں جوکشتی نوح ہے جو سارے عالم کی کشتی ہے اس کشتی میں پاکستان کے ایسے لوگوں کو کثرت سے سوار کرنے کی توفیق عطا فرما یہاں تک کہ یہ کشتی غالب آجائے اور ڈوبنے والوں کی تعداد کم رہ جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین اب اس جلسے کے آخر پر جو جمعہ پڑھا جاتا ہے جب کہ لوگوں کی واپسی اور ہنگامے اختتام پذیر ہورہے ہوتے ہیں.یہ وہ جمعہ ہے اگلا غالباً جمع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اس لئے امام صاحب کو میں مخاطب ہوں خاص طور پر کہ دیکھ لینا کہ اگلے جمعے میں کیا حالات ہیں اگر مسافروں کی کثرت ہو جیسا کہ ابھی تک ہے اگر ہال میں بستر بچھے ہوئے ہوں جیسا کہ اب میں دیکھ کے آیا ہوں تو اس وقت تک آپ بے شک جمعہ نماز عصر کے ساتھ جمع کر لیں ورنہ پھر واپس اپنی روٹین پر آجائیں.انشاء اللہ میں جب سفر سے واپس آؤں گا تو پھر غالبا اس وقت مختلف حالات ہوں گے.

Page 605

خطبات طاہر جلد 16 599 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء نشانات کا غلبہ ہے جو جماعت احمدیہ کو تمام دنیا پر غالب کرے گا ( خطبه جمعه فرموده 15 راگست 1997ء بمقام مئی مارکیٹ من ہائم.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ جرمنی کا بائیسواں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور جیسا کہ سابق میں یہ طریق رہا ہے خطبہ جمعہ ہی کو افتتاحی خطاب بنالیا جاتا ہے چنانچہ آج اس افتتاحی خطاب میں یعنی خطبہ جمعہ کی صورت میں میں جماعت کے سامنے کچھ ایسی نصائح رکھنا چاہتا ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک الفاظ میں ہیں.حضرت اقدس کی تحریرات اگر محض پڑھ کر سنائی جائیں تو اکثر و بیشتر لوگ اس سے مستفید نہیں ہو سکتے کیونکہ علم کا معیار نسبتاً کم ہے اور بعض اہل علم کے لئے بھی دو دو تین تین دفعہ تحریرات کو پڑھنا ہوتا ہے تب جاکے وہ مطالب کو پاتے ہیں.اس لئے کچھ عبارت پڑھوں گا کچھ اس کی تشریح کروں گا جیسا کہ جلسہ سالانہ انگلستان میں میرا طریق تھا.اسی طریق پر میں آج آپ کے سامنے بعض بہت ضروری نصائح اس افتتاحی خطاب میں کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یاد رہے کہ یہ اشتہار یہ ایک اشتہار ہے جو آپ نے جاری فرمایا پچھلی صدی کے آخر پر، ابھی صدی پورے ہونے میں ایک دوسال ہی باقی تھے بلکہ معین طور پر میرا خیال ہے شاید ایک سال ہی باقی تھا، 1899ء میں یہ اشتہار شائع

Page 606

خطبات طاہر جلد 16 فرمایا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں: 600 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء یا در ہے کہ یہ اشتہار محض اس غرض سے شائع کیا جاتا ہے کہ تا میری جماعت خدا کے آسمانی نشانوں کو دیکھ کر ایمان اور نیک عملوں میں ترقی کرے“.یہ پہلا فقرہ ہے اس میں بعض آسمانی نشانوں کا وعدہ ہے اور اشتہار دے کر ان نشانوں کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے کہ میں آج ہی آپ کو مطلع کر رہا ہوں تا کہ جب نشان دکھائے جائیں گے تو جماعت اپنے ایمان میں ترقی کرے.اور ان کو معلوم ہو کہ وہ ایک صادق کا دامن پکڑ رہے ہیں، نہ کا ذب کا.ان کو پورا اطمینان ہو جائے نشان دیکھ کر کہ انہوں نے ایک بچے کا پہلو پکڑا ہے، بچے کا دامن پکڑا ہے جھوٹے کا نہیں.”اور تا وہ راستبازی کے تمام کاموں میں آگے بڑھیں اور ان کا پاک نمونہ دنیا میں چمکئے.صرف یہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان پختہ ہو بلکہ اس کے نتیجے میں جو اصل مقصد ہے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا کہ راستبازی کے کاموں میں آگے بڑھیں اور ان کا نمونہ ایک روشن نمونے کے طور پر دنیا کے سامنے چمکے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس زمانے میں صدی کے آخر پر جب دشمن بکواس کر رہا تھا اس کا ذکر فرماتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ اب بھی صدی کے آخر پر ویسا ہی شور و غوغا بپا ہے اور ہر جگہ دشمن اسی قسم کی باتوں کو دہرا رہا ہے جو گزشتہ صدی کے آخر پر دہرائی جارہی تھیں.وو ہر ایک طرف سے مجھ پر حملے ہوتے ہیں اور نہایت اصرار سے مجھ کو کافر اور دجال اور کذاب کہا جاتا ہے اور قتل کرنے کے لئے فتوے لکھے جاتے ہیں.( یہ سب کچھ جو صدی کے آخر پر پچھلی صدی میں ہو رہا تھا اب پھر اسی طرح ہو رہا ہے."پس ان کو چاہئے ( یعنی میری جماعت کو چاہئے ) کہ صبر کریں اور گالیوں کا گالیوں کے ساتھ ہرگز جواب نہ دیں.صبر کریں اور گالیوں کے ساتھ ہرگز جواب نہ دیں اور اپنا نمونہ اچھا دکھاویں کیونکہ اگر وہ

Page 607

خطبات طاہر جلد 16 601 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء بھی ایسی ہی درندگی ظاہر کریں جیسا کہ ان کے مقابل پر کی جاتی ہے تو پھر ان میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے.اس لئے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ ہرگز اپنا اجر پا نہیں سکتے جب تک صبر اور تقویٰ اور عفو اور درگزر کی خصلت سب سے زیادہ ان میں نہ پائی جائے“.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 513) یہ اقتباس میں نے خصوصیت سے جماعت جرمنی میں اس خطبہ میں پڑھنے کے لئے چنا تھا.وجہ یہ ہے کہ آج کل جماعت احمد یہ جرمنی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے اور بہت سی جگہ اب جماعت کے دشمن اقلیت بن گئے ہیں اور یہ خیال کہ اب ہم طاقتور ہو گئے ہیں اس لئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور خلاف بولنے والوں کے منہ توڑیں یہ خیال جہالت کے نتیجے میں از خود پیدا ہوتا ہے یا طبعی جوشوں کے نتیجے میں نوجوانوں میں ایک رد عمل پایا جاتا ہے.بہادر وہ ہے جو طاقت رکھتے ہوئے اصولوں کو نہ چھوڑے، جو طاقت رکھتے ہوئے انکسار سے کام لے اور درگزر اور عفو سے کام لے.یہ وہ ضرورت تھی جس کی وجہ سے آج میں آپ کے سامنے یہ اشتہار پڑھ کے سنارہا ہوں.آپ کو ایک قسم کا غلبہ نصیب ہے.آپ کے مقابل پر جو جلسے کئے جارہے ہیں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں.چند سو کے سوا اور لوگ وہاں اکٹھے نہیں ہوتے اور محض گالی گلوچ اور بکواس کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں.مگر آپ جو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ظاہری عدد کی صورت میں بھی عظمت پارہے ہیں اور دن بدن یہ ظاہری عدد کی عظمت بڑھتی جائے گی.مگر اگر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان نصائح کو نظر انداز کر دیا اور ظاہری عدد کی برتری ہی کو اپنی عظمت سمجھا تو آپ کی ساری عظمتیں ذلتوں میں تبدیل ہو جائیں گی.یہ وہ نصیحت ہے اور یہ انذار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نصیحت کی صورت میں آپ کے سامنے رکھا ہے.اگر وہ بھی ایسی ہی درندگی ظاہر کریں جیسا کہ ان کے مقابل پر کی جاتی ہے تو پھر ان میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے.اس لئے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ ہرگز اپنا اجر پا نہیں سکتے جب تک صبر اور تقویٰ اور عفو اور درگزر کی خصلت سب سے زیادہ ان میں نہ پائی جائے“.صبر اور تقویٰ اور عفو اور درگزریہ چار صفات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 608

خطبات طاہر جلد 16 602 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء خصوصیت کے ساتھ بیان فرمائی ہیں اور انہی چار صفات کے مقابل پر چار اور صفات ہیں جو آپ سورۃ فاتحہ کے حوالے سے آپ کے سامنے پیش کریں گے اور یہ مضمون ہے جو باہم ربط رکھتا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت جرمنی کے چھوٹے بڑے، عورتیں اور مردسب غور سے اس مضمون کو سن کر اپنے دلوں کی تہوں میں جگہ دیں گے اور سنبھال کر رکھیں گے.سنبھال کر رکھنے کا ایک تو مطلب ہوتا ہے کہ استعمال ہی نہیں کیا، میری وہ مراد نہیں.سنبھال کر اس سے چھٹے رہیں اسے حرز جاں بنالیں ، اسے اپنا اوڑھنا بچھونا کر لیں.یہ صیحتیں جو اس اشتہار میں کی گئی ہیں یہ اسلام کی جان ہیں اگر ان پر آپ پوری طرح سے کار بند ہو گئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی فتح ہی فتح ہے کوئی دنیا کی طاقت پھر آپ کو کسی طرف سے بھی کسی پہلو سے شکست نہیں دے سکتی.فرمایا: اگر مجھ پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کیا اس سے پہلے خدا کے رسولوں اور راستبازوں پر الزام نہیں لگائے گئے ؟“.کون سا خدا کا رسول اور راستباز ہے جس پر ویسے ہی الزام نہ لگائے گئے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لگائے جاتے ہیں اور اس جواب میں ہی بہت بڑی دلیل آپ کے ہاتھ میں تھما دی گئی.یہ چیلنج ہے جو آپ ہر احمدیت کے دشمن کو کر سکتے ہیں کہ جو اعتراض تم مسیح موعود علیہ صلى الله السلام پر کرتے ہو اس سے پہلے ایک مسئلہ طے کر لو کہ وہ اعتراض حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ پر نہ ہوا ہو.اگر ہوا ہے تو پھر اسی اعتراض کو آپ کے خادم پر کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں اور اگر ہوا ہے تو تم بتاؤ کہ کیا تم جواب دے سکتے ہو؟ نہیں تو ہم حاضر ہیں.ہم ان تمام اعتراضات کا جواب دیں گے جو ہمارے آقا کے آقا حضرت محمد مصطفی می ﷺ کی ذات پر کئے جاتے ہیں اور تمہیں طاقت نہیں ہے کہ تم ان کا جواب دے سکو.یہ ایک بہت ہی عظیم لیکن انتہائی قطعی اور یقینی چیلنج ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر سے ابھرتا ہے.یہ آپ استعمال کر کے دیکھیں اور کبھی آپ کو شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی.فرمایا: " کیا حضرت موسی" پر یہ اعتراض نہیں ہوئے کہ اس نے دھوکہ دے کر نا حق مصریوں کا مال کھایا اور جھوٹ بولا کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں.حضرت موسی پر یہ اعتراض کیا گیا اور بعینہ اس سے ملتا جلتا اعتراض چونکہ حضرت مسیح موعود

Page 609

خطبات طاہر جلد 16 603 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء علیہ السلام پر بھی کیا گیا تھا اس لئے آپ نے اس اعتراض کا حوالہ دیا کہ حضرت موسیٰ پر یہ اعتراض کیا گیا کہ: مصریوں کا مال کھایا اور جھوٹ بولا کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں اور جلد واپس آئیں گے اور عہد تو ڑا اور کئی شیر خوار بچوں کو قتل کیا ؟“ یہ اور اعتراض بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ پرانے نبیوں پر کئے گئے وہ بھی آپ بیان فرمارہے ہیں کہ: اور کیا حضرت داؤد کی نسبت نہیں کہا گیا کہ اس نے ایک بیگانہ کی عورت سے بدکاری کی“.بیگا نہ عورت کا نام یادرکھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس کا ہزارواں حصہ بھی الزام نہیں لگا جو حضرت داؤڈ پر لگایا گیا.تو یہ وہ الزام ہے جس کو یہ مولوی لوگ سچا سمجھتے ہیں اور نعوذ باللہ حضرت داؤد کے اوپر الزام میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کی تفاسیر نے اس الزام کو دہرایا ہے اور یا جرنیل تھے جس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ حضرت داؤد نے اس کی بیوی سے محبت کر کئے اور یا کو قتل کروانے کے لئے اس کو ایک ایسے میدان جنگ میں بھیج دیا جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو الزام لگائے گئے اس سے بہت بڑھ کر اسی نوعیت کے اعتراضات پہلے لوگوں نے اپنے اپنے وقت کے انبیاء پر لگائے تھے.اور فریب سے اور یا نام ایک سپہ سالار کو قتل کرا دیا اور بیت المال میں ناجائز دست اندازی کی؟ اور کیا ہارون کی نسبت یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ اس نے گوساله پرستی کرائی؟ ( یعنی حضرت ہارون نے خود گوسالہ پرستی کرائی).اور کیا یہودی اب تک نہیں کہتے کہ یسوع مسیح نے دعوی کیا تھا کہ میں داؤد کا تخت قائم کرنے آیا ہوں اور یسوع کے اس لفظ سے بجز اس کے کیا مراد تھی کہ اس نے اپنے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی جو پوری نہ ہوئی ؟“ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ تھے کہ میں داؤڈ کا تخت دوبارہ قائم کرنے کے

Page 610

خطبات طاہر جلد 16 604 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997ء لئے آیا ہوں تخت پر بیٹھنے کے لئے آیا ہوں کیونکہ دشمن جو اس تخنت کے معنی صحیح سمجھتا نہیں تھا اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام آپ کے دشمنوں نے طرح طرح کے مذاق اڑائے اور وہ تخت جو آسمانی تخت تھا اس کو ز مینی تخت سمجھ کر آپ کا تمسخر اڑاتے رہے اور طرح طرح کی اذیتیں دیتے رہے اس میں اب کیا مراد یہ نہ تھی کہ : اپنے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی جو پوری نہ ہوئی اور کیونکر ممکن ہے کہ صادق کی پیشگوئی جھوٹی نکلے؟“.یہودی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسیح نے کہا تھا کہ ابھی بعض لوگ زندہ موجود ہوں گے کہ میں واپس آؤں گا مگر یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی.اب ان پیشگوئیوں کی جولطیف تشریحات، ایسی جو عقل اور دل کو مطمئن کرنے والی ہوں جماعت احمد یہ کرتی ہے وہ ان مولویوں کے بس کی بات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو جہاد کا ایک کارخانہ دے دیا ہے ان باتوں میں.بہت عظیم اسلحہ ہے جو شکست کے نام سے نا آشنا ہے.اس اسلحہ کو اس کامیابی کے ساتھ استعمال کریں جس کامیابی کے ساتھ ایک مومن کا شیوہ ہے لیکن یہ تمام کارخانہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قائم فرمایا ہے اس کی بقاء کے لئے تمام اہم ترین باتیں آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں.ایسا ہی ہمارے نبی ﷺ کے بعض امور پر جاہلوں کے اعتراض ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے واقعہ پر بعض نادان مرتد ہو گئے تھے اور کیا اب تک پادریوں اور آریوں کی قلموں سے وہ تمام جھوٹے الزام ہمارے سید مولی میہ کی نسبت شائع نہیں ہوتے جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باقی نبیوں کے حوالے سے بعض باتیں درج فرما دیں لیکن حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی جو گہری عزت اور محبت آپ کے دل میں گاڑی گئی تھی آپ نے ان الزمات کی تفصیل بیان کرنے سے گریز فرمایا ہے لیکن ایک راز کی بات سمجھادی صلى الله ہے.فرمایا، آنحضرت مے پر جتنے اعتراضات ہوئے ہیں وہ تمام تر میری ذات پر بھی ہوئے ہیں پس جتنے بیہودہ اور گندے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر کئے گئے ہیں وہ رسول اللہ اللہ الله

Page 611

خطبات طاہر جلد 16 605 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء صلى الله کے دشمن نے آنحضرت یہ کی ذات پر بھی کئے ہیں.پس یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ تمام اعتراضات جو حضرت اقدس محمد رسول الله الا الله.کئے گئے وہ سارے اعتراض یا ان سے ملتے جلتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر بھی کئے گئے ہیں.ایک دفعہ میں نے ان تمام اعتراضات کو اکٹھا کیا تھا.ایک بھی اعتراض ایسا نہیں نکلا جو آنحضرت ﷺ پر دشمن نے کیا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ان مولویوں نے اسے دہرایا نہ ہو اس لئے صرف اسی موضوع پر دو ٹوک فیصلہ ممکن ہے.اس کے لئے آپ علماء کو چیلنج دے سکتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کریں جو اعتراض یا اس سے ملتا جلتا اعتراض مخالفین نے آنحضرت یہ پر نہ کیا ہو تو اس کو ہم زیر نظر لائیں گے.اس کے ساتھ ہی ان پر فرض ہوگا کہ وہ اعتراض یا اس سے ملتا جلتا جو بھی اعتراض ہو اس کا وہ جواب دیں اور ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پڑنے والے اعتراض کا جواب دیں گے مگر پہلے وہ آنحضرت می ایہ کا دفاع کر کے دکھا ئیں.ہمیں یقین ہے کہ وہ کامیاب دفاع نہیں کر سکیں گے.کامیاب دفاع وہی ہے جو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور جس کی جماعت احمدیہ کو تربیت دی گئی ہے.پس ان سے کہیں گالی کا جواب ہمارے پاس گالی نہیں ہے غصے کا جواب عفو سے دیں گے نفرت کا جواب محبت سے دیں گے مگر ہمارے آقا و مولا پر جو اعتراض تم کرتے ہو پہلے اچھی طرح چھان بین کر کے یہ فیصلہ کر لو کہ کیا ان میں سے کوئی اعتراض آنحضرت ﷺ پر ہوا کہ نہیں.اگر ہوا تھا تو مہدی کی شان اپنے آقا سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی.یہ ناممکن ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو تو نئے نئے اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا ہو اور آپ کے غلام کامل حضرت امام مہدی کو ان اعتراضات سے بچالیا گیا ہو.پس سب سے پہلے ایسے اعتراضات کی فہرست تبلیغ کرنے والے احمدیوں کے پیش نظر رکھنی چاہئے اور نظارت اصلاح وارشاد کا کام ہے کہ اس قسم کے اعتراضات کی فہرست بنائیں جس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اسی نوعیت کے ہونے والے اعتراضات بھی ایک کالم کی صورت میں سامنے درج ہوں تا کہ احمدی مبلغین کے لئے سہولت ہو مگر یہ ایک نازک معاملہ ہے اس کو حل کرنے کے لئے لازم ہوگا کہ اس پمفلٹ میں ساتھ ساتھ یہ سمجھایا جائے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ہونے والا یہ اعتراض لغو اور جھوٹا صلى اللهم

Page 612

خطبات طاہر جلد 16 606 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997ء ہے اور ہم اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اگر کوئی غیر احمدی سمجھتا ہے کہ اعتراض جھوٹا اور لغو نہیں تو پھر بے شک وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ویسا اعتراض کرے.ہم اس اعتراض کا جواب بھی اسے دیں گے اور آنحضرت ﷺ پر ویسے ہی اعتراضات کو بھی لغو اور جھوٹا ثابت کریں گے.پس اس غرض سے نہیں کہ آپ نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دفاع کے لئے حضرت رسول اللہ اللہ کو آگے کریں.یہ ایک اہم بات ہے جس کی پہلے بھی میں نے وضاحت کی تھی اور اب پھر کر رہا ہوں کہ میرا انشاء ہرگز یہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ ، حضرت مسیح موعود صلى الله علیہ الصلوۃ والسلام کے دفاع میں آگے بڑھیں بلکہ میر انشاء تو صرف یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر جو اعتراضات کئے گئے ان اعتراضات کا جواب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر گزرنے والے حالات کے ذریعہ دیا جائے اور ثابت کیا جائے کہ ان سب اعتراضات کا وہی جواب درست ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا کے دفاع میں پیش کیا ہے.پس یہ وہ حکمت عملی ہے اور یہ جہاد کی وہ پالیسی ہے جسے آپ کو اپنانا ہے.بعض دفعہ احمدی نوجوان اپنی غفلت کی وجہ سے، لاعلمی کی وجہ سے کسی غیر احمدی کے اعتراض کے مقابل پر فوراً صلى الله رسول اللہ ﷺ کا حوالہ دے دیتے ہیں اور یہ طریق نامناسب اور نا جائز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی اس طریق کو اختیار نہیں فرمایا.آپ نے اپنے اوپر وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے اگر وہ جواب کسی کو تسلیم نہیں تو پھر ویسا ہی اعتراض آنحضرت ﷺ پر بھی کیا گیا.گویا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سینے کو آپ ایک طرف کر دیں گے اور سیدھا اعتراض کا نشانہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو بنائیں گے.اس بناء پر غلام کو اس کی غلامانہ حیثیت میں ہی آقا کے سامنے رہنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سینہ اسی طرح مقابل پر تنا رہے گا جس طرح ہمیشہ تنا رہا ہے.سب سے بڑھ کر حضرت رسول اللہ ﷺ کی غیرت آپ نے دکھائی ہے پس اس پہلو کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: صلى الله غرض مخالفوں کا کوئی بھی میرے پر ایسا اعتراض نہیں جو مجھ سے پہلے خدا کے پاک نبیوں پر نہیں کیا گیا.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ جب تم ایسی گالیاں اور ایسے اعتراض سنو تو غمگین اور دیگیر مت ہو کیونکہ تم سے اور مجھ سے

Page 613

خطبات طاہر جلد 16 607 خطبہ جمعہ 15 اگست 1997 ء پہلے خدا کے پاک نبیوں کی نسبت یہی لفظ بولے گئے ہیں.سوضرور تھا کہ خدا کی وہ تمام سنتیں اور عادتیں جو نبیوں کی نسبت وقوع میں آچکی ہیں ہم میں پوری ہوں“.ان تمام اعتراضات کا انبیاء کی ذات میں اکٹھے ہو جانا یہ دراصل انبیاء کی صداقت کا نشان ہیں.نبیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں سے یہ سلوک نہیں ہوا.ساری تاریخ اسلام کا آپ مطالعہ کر لیں وہ تمام اعتراضات جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ پر لگائے گئے وہ صرف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات میں اکٹھے کئے گئے ہیں اور کسی عالم کسی بڑے چھوٹے کسی مذہبی راہنما، کسی فرقے کے راہنما پر وہ سارے اعتراضات اس طرح اکٹھے وارد نہیں کئے گئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر رسول اللہ ﷺ کا حوالہ دیئے بغیر دہرائے گئے.مگر جو حکمت عملی میں نے آپ کو بتائی ہے جو طر ز جہاد سمبھائی ہے اس کے مطابق دشمن کا مقابلہ کرنا ہے مگر یا درکھیں کہ حضرت صلى الله مسیح موعود علیہ السلام کو آگے رکھنا ہے پیچھے نہیں رکھنا.رسول اللہ علیہ کے دفاع کے لئے آپ کا سینہ ہے اور آپ کے دفاع کے لئے ہمارا سینہ ہے.دشمن چاہے تو لاکھ ہمیں چھلنی کرے ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں مگر ہم اپنے آقا ومولا کے سینوں کو ان تیروں سے ضرور بچائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.فرماتے ہیں: الله یہ ہمارا حق ہے کہ جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے جب کہ ہم دیکھ دئے جائیں اور ستائے جائیں اور ہمارا صدق لوگوں پر مشتبہ ہو جائے اور ہماری راہ کے آگے صدہا اعتراضات کے پتھر پڑ جائیں تو ہم اپنے خدا کے آگے روئیں اور اس کی جناب میں تضرعات کریں اور اس کے نام کی زمین پر تقدیس چاہیں اور اس سے کوئی ایسا نشان مانگیں جس کی طرف حق پسندوں کی گردنیں جھک جائیں.سو اسی بنا پر میں نے یہ دعا کی ہے.مجھے بارہا خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دعا کرے تو میں تیری سنوں گا سو میں نوح نبی کی طرح دونوں ہاتھ پھیلاتا ہوں اور کہتا ہوں ربّ انّی مغلوب مگر بغیر فانتصر کے“.یہ صبر دعا میں ڈھلا کرتا ہے اور جتنا آپ عفو سے کام لیں گے اتنا ہی دعاؤں کی طرف توجہ ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے تعلق سے یہ بات آپ کو سمجھا رہے ہیں.محض

Page 614

خطبات طاہر جلد 16 608 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء دعائیں کرنا کہ اے اللہ دشمن کو تباہ و برباد کر دے، احمدیت کو ترقی ہو یہ کوئی دعا نہیں.دعا وہ ہوتی ہے جو دل سے نکلے اور صبر کی کوکھ سے پھوٹے.صبر اور دعا کا گہرا تعلق ہے، صبر ہی دل میں وہ غم پیدا کرتا ہے ، وہ بے انتہاء درد دل میں ابھارتا ہے جیسے ایک طوفان برپا ہو جائے اور اس طوفان سے جو آہیں اٹھتی ہیں اس سے جو دردناک دعائیں اٹھتی ہیں یہ وہی دعائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوا کرتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آپ کو صبر کی تلقین کرتے ہیں تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ رہے ہوں کہ صبر کرتے رہو کوئی فرق نہیں پڑے گا.حقیقت میں یہ مضمون اس لئے سمجھایا جا رہا ہے تا کہ آپ کو دعاؤں کی توفیق ملے اور دعائیں بھی ویسی ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کے حضور عرض کیں.فرماتے ہیں ربّ انّی مغلوب مگر بغیر فانتصر کئے.یہ معاملہ سمجھنے والا ہے حضرت نوح نے یہ دعا کی تھی فَدَعَارَبَّةَ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (القمر: 11) اے میرے خدا میں مغلوب ہو چکا ہوں پس تو میری مدد فرما اور میرا بدلہ لے.انتصار میں بدلہ لینے کا مضمون پایا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قوم کی ہلاکت اور تباہی میں اس قسم کی دلچسپی نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی قوم ہی میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں فخر محسوس کریں گے اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق سے وہ صحابہ سے ملائے جائیں گے.یہ یقین کامل اگر مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں نہ ہوتا تو آپ کی دعافانتصر تک جا پہنچتی.آپ فرماتے ہیں: یا درکھو میری دعا اتنی ہے رب انّی مغلوب اے میرے رب میں مغلوب ہو چکا ہوں.فانتصر نہیں کہنا.یہ نہیں کہنا کہ تو اس قوم سے میرا بدلہ لے.”اور میری روح دیکھ رہی ہے کہ خدا میری سنے گا اور میرے لئے ضرور کوئی ایسا رحمت اور امن کا نشان ظاہر کر دے گا کہ جو میری سچائی پر گواہ ہو جائے گا.میں اس وقت کسی دوسرے کو مقابلے کے لئے نہیں بلاتا اور نہ کسی شخص کے ظلم اور جور کا جناب الہی میں اپیل کرتا ہوں بلکہ جیسا کہ میں تمام ان لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہوں جو زمین پر رہتے ہیں خواہ وہ ایشیا کے رہنے والے ہیں اور خواہ یورپ کے اور خواہ امریکہ کے ایسا ہی میں عام اغراض کی بناء پر بغیر اس کے صلى

Page 615

خطبات طاہر جلد 16 609 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء کہ کسی زید یا بکر کا میرے دل میں تصور ہو خدا تعالیٰ سے ایک آسمانی شہادت چاہتا ہوں جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہو“.یہ مباہلے کے علاوہ ایک مضمون ہے.مباہلے کی باتیں اس سال کے آغاز میں میں کر چکا ہوں آپ کو تفصیل سے سمجھا چکا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس اشتہار سے پہلے، اس صدی کے اختتام سے پہلے مباہلے کا اعلان کر چکے تھے اس میں ایک مقابلہ ہے، اس میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر یہ تیری قسمیں، تیری عزت اور جلال کی قسمیں کھا کر جھوٹ بولیں تو پھر تو ان سے ہمارا بدلہ اتارلیکن یہ اس سے بالا مقام ہے.آپ فرماتے ہیں یہاں میں کسی زید بکر کسی دشمن کا کوئی تصور نہیں رکھتا.میں اپنے رب سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ میں مغلوب ہو گیا ہوں انہوں نے میری کوئی بات نہیں مانی.جو سچائی کا فیصلہ کرنے کی راہیں تھیں وہ سب یہ ترک کر بیٹھے ہیں ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں فیصلے زمین میں نہیں بلکہ آسمان پر کئے جاتے ہیں.پس اے میرے رب میں تجھ سے ایک نشان چاہتا ہوں.کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس کے نتیجے میں میری صداقت روشن ہو جائے اور وہ نشان امن کا نشان ہو.یہ بہت ہی عظیم دعا ہے جو اس صدی کے آخر پر آپ کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھنی چاہیئے.جہاں تک جاری مباہلے کا تعلق ہے وہ اپنا کام ایک سال کے اندر ضرور دکھائے گا اور دکھا رہا ہے اس کو میں کالعدم نہیں کر رہا.یاد رکھیں مباہلے کی دعائیں اپنے طور پر جاری رہیں گی مگر مباہلے کے بعد جیسا کہ ہمیں نظر آرہا ہے ضدی لوگ پھر بھی ضد کریں گے اور ان کی ضد توڑنے کے لئے آسمان سے ہم نے ایک امن کا نشان مانگنا ہے اس کے لئے اس سارے صبر اور عفو اور درگزر کی ضرورت ہے جس کا حوالہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شروع میں دے چکے ہیں.ایک آسمانی شہادت چاہتا ہوں جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہو...اور میں جانتا ہوں کہ اگر میں اس کی نظر میں صادق نہیں ہوں تو اس تین برس کے عرصہ تک جو 1902 ء تک ختم ہونگے میری تائید میں ایک ادنی قسم کا نشان بھی ظاہر نہیں ہوگا اور اس طرح پر میرا کذب ظاہر ہو جائے گا اور لوگ میرے ہاتھ سے مخلصی پائیں گے اور اگر اس مدت تک میرا صدق ظاہر ہو جائے جیسا کہ مجھے یقین ہے تو بہت سے پر دے جو دلوں پر پڑے ہیں اٹھ جائیں گئے.

Page 616

خطبات طاہر جلد 16 610 خطبہ جمعہ 15 اگست 1997 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو تین سال کے عرصہ میں ایک نشان مانگ رہے ہیں جلسہ سالانہ کی تقریر میں غالبا میں نے بھی آئندہ دو تین سال کی بات کی تھی.مجھے یہ یاد پڑتا تھا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہیں تین سال کی بات بھی کی ہے مگر وہ تین سال کی بات مباہلے کے طور پر نہیں بلکہ احمدیت کی تائید میں ، اسکے حق میں عظمت کا نشان مانگنے کے لحاظ سے کی تھی اور اس تحریر سے وہ بات کھل گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ میں جو امن اور صداقت کا نشان مانگ رہا ہوں یہ عبادات میں سے ہے.یہ نشان ایک ایسی دعا سے تعلق رکھتا ہے جو سورۃ فاتحہ کی جان ہے اور یہ نشان ایسا ہے جو میری ساری جماعت کے ہر فرد میں ظاہر ہوگا اور اس غرض کے لئے آپ نے تین سال مانگے ہیں ایک امن کے نشان کے طور پر.آپ لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کس قسم کا امن کا نشان ہے جو جماعت احمدیہ کے ہر فرد میں ظاہر ہونے والا ہے اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین سال اس لئے مانگے ہیں کہ اس کے لئے بہت محنت اور مشقت کی ضرورت ہے، بہت دعاؤں کی ضرورت ہے، گریہ وزاری - خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے پاک تبدیلیاں چاہنے کی ضرورت ہے اور یہ دراصل وہ نشان ہے جس کی طرف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے ذہنوں اور دلوں کو منتقل فرمارہے ہیں.فرماتے ہیں: ” میری یہ دعا بدعت نہیں ہے بلکہ ایسی دعا کرنا اسلام کی عبادات میں سے ہے جو نمازوں میں ہمیشہ پنچ وقت مانگی جاتی ہے کیونکہ ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ.اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں.اب آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ آسمان سے کوئی جلوہ ظاہر ہو عجیب طرح کا اور آپ نیچے بیٹھے اس کا تماشہ دیکھ رہے ہوں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ایسا خیال پیدا ہوتا ہے.حضور علیہ السلام جو نشان مانگ رہے ہیں وہ جماعت احمدیہ کے اندر ایک حیرت انگیز پاک تبدیلی کا نشان ہے.ایک ایسا نشان ہے جو ہمیشہ ہمیش کے لئے چمکتا رہے گا.یہ ایک ایسانشان

Page 617

خطبات طاہر جلد 16 611 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء ہے جو اپنی ذات میں بولنے والا نشان ہے.اگر مرد صادق پیدا ہو جائے تو اسے دیکھ کر کسی اور نشان کی ضرورت نہیں رہتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جماعت احمدیہ کو اس دعا کی طرف متوجہ فرماتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما سیدھا راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام فرمایا: ”خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں.نبیوں کا کمال صدیقوں کا کمال، شہیدوں کا کمال صلحاء کا کمال.سو نبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا سے بالعموم جو دعائیں کیں ان کے نتیجے میں نبی کا کمال تو آپ کو عطا ہو گیا اور اس کمال کے پیچھے پیچھے ہمارا قافلہ چل رہا ہے.ہمارے لئے جو تین کمال باقی ہیں جنہیں ہمیں اپنانا ہے اور ہر احمدی کو اس کا نمونہ بننا ہے وہ کمالات یہ ہیں: صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.یعنی تمام جماعت احمدیہ کواگر صدیق کا نشان دکھانا ہے تو ان کے لئے لازم ہے کہ قرآن کریم میں جو صد یقیت کے نشانات بیان فرمائے گئے ہیں وہ تمام نشانات اپنی ذات میں پورے کر کے دکھائیں اور جماعت احمدیہ میں کثرت سے صدیق پیدا ہونے لگیں یہ ایک ایسا نشان ہے جو حیرت انگیز طور پر اسلام کا مقصود ہے.اسلام کا تو مقصد ہی ان نشانات کی طرف لے کے جانا ہے اور یہی وہ نشان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتے ہیں.اگر یہ نشان آج ہماری جماعت میں ظاہر ہو جائیں تو اس کے سوا اور کسی غلبے کے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے.یہی نشانات کا غلبہ ہے جو جماعت احمدیہ کو تمام دنیا پر غالب کرے گا اور ایسے رنگ میں غالب کرے گا کہ اس غلبے کی

Page 618

خطبات طاہر جلد 16 612 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء قیمت ہوگی.جو عددی غلبہ نہیں ہوگا جو صلاحیتوں کا غلبہ ہوگا.پس آج جب کہ ہم عددی غلبے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے بڑھ رہے ہیں اس عددی غلبے کو صلاحیت کے غلبے میں بدلنے کے لئے ہمیں آج ہی جدو جہد کی ضرورت ہے ورنہ یہ عددی غلبہ ہمارے کسی کام نہیں آئے گا.اس سلسلے میں میں نے گزشتہ چند خطبات میں اور اس سے پہلے بھی آپ کو متوجہ کیا تھا کہ ہمارے ہر مسئلے کا حل وحدانیت ہے، تو حید باری تعالیٰ ہے جس کے ذریعے ہمارے سارے مسائل حل ہوں گے.اگر تو حید کو چھوڑیں گے تو آپ کا عددی غلہ دنیا قبول نہیں کرے گی.ایک ہی غلبہ ہے جوصفات باری تعالیٰ کا غلبہ ہے اس غلبے میں کوئی اجنبیت نہیں.اگر سچائی کا غلبہ ہے تو دنیا کی کون سی قوم ہے جو سچائی کو اپنے ملک پر غالب آنے سے رو کے یا نا پسند کرے یا یہ سمجھے کہ سچائی تو ایک پاکستانی کردار ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں.کون ہے جو نیکی یعنی عموماً بنی نوع انسان سے ہمدردی کو ایک غیر ملک کی صفت جانے.پس صفات باری تعالیٰ کی خوبی یہ ہے یعنی اور خوبیوں کے علاوہ ایک خوبی یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے پیچھے اگر آپ چلیں، انہیں اپناتے ہوئے چلیں تو دنیا کی کوئی قوم بھی آپ کے غلبے کے خلاف رد عمل نہیں دکھا سکتی کیونکہ آپ کا غلبہ تو حید باری تعالیٰ کا غلبہ ہوگا ، ان صفات کا غلبہ ہو گا جو بین الاقوامی ہیں، ان صفات کا غلبہ ہوگا جنہیں ہر قوم اپنا نا چاہتی ہے خواہ اپنا سکی ہو یا نہ اپناسکی ہو.اس لئے یہ بہت ہی اہم باتیں ہیں جو میں آج آپ سے کر رہا ہوں.صفات باری تعالیٰ کے غلبے کو اپنا ئیں اور جب اس غلبے کی خاطر آپ کام کریں گے تو یہ چار صفات ابھریں گی ایک نبی کی صفت، ایک صدیق کی صفت، ایک شہید کی صفت اور ایک صالح کی صفت.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے“.یہ وہ حصہ ہے جسے جماعت احمدیہ کی اکثریت اپنا سکتی ہے.صدیقیت کے لئے جس محنت اور خلوص اور تقویٰ کی ضرورت ہے یہ ایک سال، دو سال، تین سال کے بعد بھی ضروری نہیں کہ اکثر کو

Page 619

خطبات طاہر جلد 16 613 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء نصیب ہو سکے کیونکہ صدیقیت کے ساتھ نبوت کے بعد سب سے مشکل صفات ہیں اور نبوت کا پر تو ہی صدیقیت ہے.غیر نبی جب نبی کی طرح ہو جائے تو اسے صدیق کہا جاتا ہے.اللہ ایسے لوگوں ہی سے نبی چتا ہے جو صدیقیت کی صفات پہلے رکھتے ہیں.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ میں سے ہر آدمی صدیق بن سکتا ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر آدمی صدیق بننے کی کوشش ضرور کرے، اسے اپنا صح نظر بنائے اور اس مضمون پر غور کرے اور ہماری جماعت کو ہر جگہ تربیت میں اس مضمون کو بالا رکھنا چاہئے اور پیش نظر یہ رکھنا چاہئے کہ جو بھی ہم تبدیلیاں دنیا میں لائیں ان سب تبدیلیوں کے ساتھ ہی اپنی اندرونی تبدیلیوں کی طرف بھی متوجہ ہو جائیں اور نئے آنے والوں کوصد یقیت کی دعوت دیں، نئے آنے والوں کو شہادت کی دعوت دیں.صدیقیت کے بعد شہادت کا مضمون جسے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اسے غور سے سن لیں.فرماتے ہیں: اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے“.اب آپ کو ہر قسم کے دکھ دنیا کے مختلف مقامات پر دیئے جاتے ہیں پاکستان میں بھی دئے گئے یہاں بھی دشمن آپ کے پیچھے پڑا ہوا ہے دوسرے ملکوں میں بھی دشمن چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ وہی سلوک ہو جو پاکستان کے بدوں نے پاکستان کے صالحین اور صد یقوں اور شہیدوں سے کیا ہے تو آپ یہ سن لیں کہ اس وقت صبر دکھانا ایک عام صبر نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرما رہے ہیں ”خارق عادت“ ہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ عام عادات سے ہٹ کر ہو.ایسا صبر جو رفتہ رفتہ ہر انسان کو نصیب ہو جاتا ہے وہ خارق عادت نہیں ہوا کرتا.جب کسی کا پیارا مرتا ہے وہ صبر ہے جو خارق عادت کا صبر ہے.مرنے کے چند سال کے بعد اسے صبر آنا ہی آنا ہے.انسان کے بس میں ہی نہیں ہے کہ ہر غم کو سینے سے ہمیشہ کے لئے لپٹائے رکھے.بالآخر انہی گھروں میں جہاں رونا اور پیٹنا ہوا انہی گھروں میں ہنسیاں شروع ہو جاتی ہیں انہی گھروں سے قہقہوں کی آواز میں آتی ہیں ان کی زندگیاں بدلنے لگتی ہیں اور ہر غم وقت کے لحاظ

Page 620

خطبات طاہر جلد 16 614 خطبہ جمعہ 15 اگست 1997 ء سے ماضی میں رہ جاتا ہے ہر غم ایسا ہے جسے دفنایا جارہا ہے.پس دفنایا جانے والا غم بھی قانون قدرت کے نتیجے میں بالآخرضرور دفنایا جاتا ہے مگر ایسے صبر کوصبر نہیں کہا جاتا.جب غم تازہ ہو، جب وہ جس کی نعش دفنائی جانی ہے آنکھوں کے سامنے ہو ، جب اسے زمین میں اتارا جانے والا ہو اس وقت اگر آپ صبر پر قائم ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اسے خارق عادت کہا جاتا ہے یعنی عام انسانوں کی طاقت سے بالا صبر ہے ان سے ہٹ کر صبر ہے.فرمایا تم مصائب اور ابتلاؤں میں خارق عادت صبر دکھاؤ اور یہ صبر ایسا ہے جو آسمان کے کنگرے ہلا دیا کرتا ہے.یہ صبر ایسا ہے جو سچی اور گہری دعاؤں کی توفیق بخشتا ہے.یہ صبر ایسا ہے جو دنیا میں انقلاب بر پا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.پس دنیا میں سب سے زیادہ انقلاب شہیدوں کے ذریعے برپا ہوا ہے.صدیق اپنی جگہ رہے اور رسالت سے چھٹے رہے.رسالت کا نشان تو بن گئے مگر کثرت سے نہ پیدا ہوئے.شہید وہ ہیں جو امت محمدیہ میں کثرت کے ساتھ ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں اور یہ ان کی شہادت ہے جو اسلام کی سچائی کی شہادت ہے.شہید کو شہید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایسا شخص جس کی گواہی پر اعتماد کیا جاسکے، کامل یقین کیا جاسکے.پس جو شخص اپنی ذات کو ایک سچائی کی خاطر فنا کر دے اس سے بڑھ کر کسی کی شہادت نہیں ہو سکتی.پس آپ نے اگر احمدیت کی سچائی میں گواہیاں دینی ہیں، اگر شہادت کی آواز بلند کرنی ہے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں شہید کی خارق عادت صفات اپنانے کی کوشش کریں.اگر آپ میں شہادت کی یہ صفات داخل ہو گئیں تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی گواہی دنیا کوضرور قبول کرنی ہوگی.اور پھر آخر پہ یہ فرماتے ہیں: ”مرد صالح کا کمال یہ ہے اب یہ عام مسلمان جن میں اس وقت میری نظر میں احمدی ہیں وہ سارے شامل ہیں.جو بلند مقامات آپ کو بتائے تھے ہوسکتا ہے بعضوں کا تصور بھی وہاں نہ پہنچا ہو کیونکہ جو ادنی مقام میں آپ کو اب بتانے لگا ہوں جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوتا ہے اپنے نفس پر غور کر کے دیکھیں کہ کیا آپ کو یہ مقام نصیب ہو چکا ہے.جو بنیادی پلیٹ فارم ہے اس پر قدم رکھیں گے تو اگلی منازل طے ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے.اگر اس بنیادی سطح پر آپ کا قدم نہیں ہے تو اگلے سارے مقامات آپ کے تصور کی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں پس اسے غور سے سن لیجئے.فرماتے ہیں:

Page 621

خطبات طاہر جلد 16 جاوے.615 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997 ء ” مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دور ہو یہ پہلی منزل ہے اب کچھ شاید آپ کو اندازہ ہوا ہو کہ نبوت کتنی اونچی چیز ہے.پہلی منزل کی بات یہ ہے کہ ہر قسم کے فساد سے دور ہو جاوے.ہمارے کتنے گھر ہیں جنہیں ہم امن کا گہوارہ کہہ سکتے ہیں.کتنے تعلقات ہیں جنہیں ہم امن کا گہوارہ کہہ سکتے ہیں.کتنی دوستیاں ہیں جن کے متعلق ہم یقین دلائیں کہ یہ دوستیاں فساد پر منتج نہیں ہو سکتیں.اکثر دوستیاں ایسی شرائط سے وابستہ ہوتی ہیں، ایسی نفس کی امیدوں سے وابستہ ہوتی ہیں جن میں ہر شخص اپنے مقصد کی حفاظت کرتا ہے اور ذرہ بھی وہ سمجھے کہ اس مقصد پر آنچ آ رہی ہے تو اس دوستی کو ترک کر دیتا ہے بلکہ وہ صلح کے تعلقات کو فساد میں تبدیل کر دیا کرتا ہے.یہ قدم ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ میں سے ہر ایک کو کم سے کم مرد صالح کے مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں باقی سب باتیں بعد کی باتیں ہیں اور وہ یہ ہے.ہر ایک قسم کے فساد سے دور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے“.ہر احمدی کامل طور پر پر امن ہے، ہر احمدی دوسرے فرد کو امن کی ضمانت دیتا ہے.ہر احمدی اپنے بھائی کے لئے ایک امن کی ضمانت ہے.ہر احمدی اپنی بیوی کے لئے ، اپنے بچوں کے لئے، اپنے دوستوں کے لئے ایک امن کی ضمانت ہے.ہر گھر کو فساد سے پاک کرنا یہ وہ پہلا قدم ہے جو ہمیں لازماً اٹھانا ہوگا اس کے بغیر ہماری ساری ترقیات کی خواہیں خواب و خیال ہیں ، ایسی خواہیں ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں نکلا کرتی.آپ اپنی خوابوں کو وہ کچی خوا ہیں بنائیں جن کی آپ تعبیر بن جائیں.آپ نے جو خوا ہیں دیکھی ہوں ان کی تعبیر آپ نے بننا ہے.دنیا میں وہ تعبیر تب ظاہر ہوگی اگر پہلے آپ کی ذات میں ظاہر ہو.پس سب سے پہلے اپنے آپ کو امن کا گہوارہ بنائیں ، صلاحیت کا گہوارہ بنائیں ، ہر قسم کے فساد سے کلیۂ پاک ہو جائیں.یہ بات ایک فقرے میں ہے مگر ساری انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط

Page 622

خطبات طاہر جلد 16 616 خطبہ جمعہ 15 راگست 1997ء ہے.اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹیں گے، خدا کرے امن اور خیریت سے لوٹیں ، تو پھر اس بات کو سوچیں کہ جب بھی آپ بات کرتے ہیں یا کوئی ارادہ باندھتے ہیں یا کسی سے معاملہ کرتے ہیں اس میں کوئی فساد کا پہلو نفی تو نہیں ہے.جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے کہ ہر جھاڑی میں چیتا مخفی دکھائی دیتا ہے.یہ جھاڑی تو ایک فرضی جھاڑی ہے کہ ہر جھاڑی کے پیچھے ایک چیتا ہو یا تو ہمات کی جھاڑی ایسی ہوا کرتی ہے کہ جنگل میں ہر جھاڑی کے پیچھے چیتا دکھائی دے.مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے نفس کی جھاڑیاں ایسی ہیں کہ ہر جھاڑی میں چیتا چھپا ہوا ہے ہر جھاڑی میں فساد کا خونخوار بر مخفی ہے اگر آپ نے اس سے حفاظت کرتے ہوئے اپنے آپ کو امن کی راہوں پر نہ ڈالا تو ہمیشہ خطرے میں رہیں گے لیکن مومن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نصرت عطا ہوتی ہے جب وہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں خدا کی خاطر امن میں آؤں گا اور امن کو قائم رکھوں گا تو یہ سارے غائب ہو جاتے ہیں.آسمان سے نور کا ایک ہی جلوہ ان چیتوں کو آپ کے دلوں سے نکال کے باہر کرے گا.کوئی فسادی جانور آپ کے دل میں نہیں رہے گا.آپ کی نیتیں پاک اور صاف ہو جائیں گی لیکن اسی صورت میں کہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آپ مرد صالح بننے کی کوشش کریں.آپ فرماتے ہیں: یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ :513 تا516) وہ نشان جس کی طرف گھیر کر آپ کو لے جایا جا رہا ہے یہ سورہ فاتحہ کی اس آیت کا نشان ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.آگے میں کچھ عبارت چھوڑ کر ، اب خطبے کا وقت ختم ہورہا ہے غالباً، میں آپ کو اس طرف لے کر آتا ہوں ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ یہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا رہے.حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا دیکھومتی باب 8 آیت 9.پس تم اسی طرح دعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.حضرت مسیح علیہ السلام نے آسمانی

Page 623

خطبات طاہر جلد 16 617 خطبه جمعه 15 راگست 1997ء باپ سے یہ دعا مانگی تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسح ثانی کے طور پر آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں کہ تیرے نام کی تقدیس ہو.آپ فرماتے ہیں جب تک تمہارے دلوں میں وہ قوت قدسیہ پیدا نہ ہو جائے جس کی طرف تمہیں میں بلا رہا ہوں تمہیں ان دعاؤں کے جواب میں کوئی آواز نہیں آئے گی.اپنے نفس کو پاک وصاف کرو اور پاک وصاف کرنے کے لئے خدا سے دعائیں مانگو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان پیدا ہو گا.وہ نئی زمین اور نیا آسمان وہ زمین و آسمان ا صلى الله ہیں جن کو بنانے کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی یہ دنیا میں تشریف لائے اور جن کی از سر نو تعمیر کا ہم نے ارادہ کیا ہے.اللہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اور ہمارے اندر یہ پاک معنی خیز تبدیلیاں پیدا کرے ورنہ فتح کے نعرے لگانا محض جھوٹی شیخی ہے ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.اب جلسے کے دوسرے پروگرام شروع ہو جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور سارے جلسے کو ان دعاؤں سے معمور رکھیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں.ہے تو ایک ہی دعا مگر مختلف لوگوں کے لئے مختلف دعائیں بن جائیں گی.قدم بہ قدم ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگتے رہیں اور اس جلسے کو بھی امن کا گہوارہ بنائیں اور کوشش کریں کہ آپ کے سفر کی پہلی منزل یہ جلسہ ہی بن جائے اور یہیں سے آپ کا شہادت اور صد یقیت کی طرف سفر شروع ہو.آمین

Page 624

Page 625

خطبات طاہر جلد 16 619 خطبه جمعه 22 راگست 1997ء خدا کی طرف بڑھنے والے ہوں گے تو کسی کا غیظ و غضب آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ( خطبه جمعه فرموده 22 راگست 1997ء بمقام کا نفرنس ہال برلن.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: الحمد للہ کہ امسال میرا جرمنی کا دورہ خدا کے فضل کے ساتھ بہت مفید اور بھر پور رہا ہے اور اس ضمن میں میں ساری جماعت احمد یہ جرمنی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں خصوصیت سے انہوں نے امیر صاحب کی ہدایت کے مطابق ساری دنیا سے آنے والے مہمانوں کا بہت ہی خیال رکھا ہے.مہمانوں کو صرف ایک شکایت رہی ہے کہ ضرورت سے زیادہ خیال رکھا ہے، کم کی شکایت میرے سنے میں نہیں آئی اور ضرورت سے زیادہ کی شکایت خود مجھے بھی پیدا ہوئی اور مجبوراً مجھے پھر کچھ اقدام کرنے پڑے.باقی مہمانوں سے جو چاہیں تکلف کریں مجھ سے تکلف نہ کیا کریں کیونکہ میرے مزاج کے خلاف ہے.مجھے سادہ، عام Disposable برتن کافی ہیں بجائے اس کے کہ بڑے بڑے ڈشوں کے طومار لگائے جائیں اور آپ ہمیشہ سے مجھے جانتے ہیں جیسی میری طبیعت ہے ویسا ہی میرے سے سلوک کیا کریں.معلوم ہوتا ہے اس دفعہ چونکہ انگلستان کے جلسے میں بہت اچھا کام تھا تو جماعت جرمنی یہ ارادہ لے کر آئی تھی کہ ہم نے مہمان نوازی کی حدیں توڑ دینی ہیں، تو حدیں توڑتے رہیں بے شک ارد گرد، مگر اس کے ٹوٹنے کی مجھے آواز نہ آیا کرے.بہر حال جہاں تک کوشش کا تعلق ہے اور محنت کا اور مجھے خوش کرنے کے خیال کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے ہر بھر پورکوشش کر دیکھی کہ مجھے خوش رکھیں حالانکہ میں اس کے بغیر بھی خوش رہتا بلکہ زیادہ خوش رہتا.

Page 626

خطبات طاہر جلد 16 620 خطبہ جمعہ 22 اگست 1997ء جہاں تک دوروں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر کوشش کی گئی کہ میرے وقت کا پورا حساب لیا جائے اور میں نے بھی جہاں تک حساب دینے کا تعلق ہے اپنی طرف سے پورا حساب دیا ہے اور اس تھوڑے سے عرصے میں اتنی زیادہ ملاقاتیں اور مختلف مجالس ہوئی ہیں کہ جب مڑ کے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے بہت لمبا عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے.بہر حال یہ وقت ہمارا نہیں خدا تعالیٰ کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ نے جونئی ذمہ داریاں ہم پر ڈالی ہیں ان کو ہم نے بہر حال پورا کرنا ہے اور ساری جرمنی کی جماعت اتنا مصروف رہی ہے اور ان تھک طور پر مصروف رہی ہے کہ مجھے ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کس طرح انہوں نے اتنے بڑے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں.ایسے علاقوں میں بھی جہاں جماعت کی نفری، جماعت کی تعدا دستر (70) کلومیٹر پر پھیلی پڑی تھی وہاں بعض شہروں میں مجالس لگائی گئیں جن میں غالباً ایک بھی احمدی نہیں تھا.مگر ان سب نے مل کر کام کو ایسا سنبھالا جیسے وہیں کے رہنے والے ہوں اور ان کی بار بار کی اپیلوں کی وجہ سے وہ لوگ جو احمدیت سے بالکل شناسا نہیں تھے وہ بھی ایسی مجلسوں میں آتے رہے.پس سب سے پہلے تو میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں آپ نے بہت ہی محنت فرمائی، بہت کوشش کی اور ایسی کوشش ہے جو ختم ہونے والی نہیں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی تبلیغ کو جتنے پھل لگ رہے ہیں وہ اب آپ کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے.پھل لگنا ہی کافی نہیں ہوا کرتا پھلوں کی نگہداشت بڑی ضروری ہوتی ہے، ان کوسنبھالنا، ان سے آگے استفادے کرنا.غرضیکہ وقت خود آپ کو ایسی روش پر ڈال چکا ہے جس سے پیچھے ہٹنے کا اب کوئی سوال نہیں رہا.اب تو دن بدن آگے بڑھنا ہے اور ساری زندگی اس کام میں جھونک دینی ہے کیونکہ جتنے بڑے کام یہاں شروع ہو گئے ہیں ویسے شاید ہی کسی اور ملک میں اس شدت کے ساتھ اور اس سے زیادہ مصروفیت کے ساتھ شروع ہوئے ہوں جیسا کہ جماعت جرمنی نے اس نئے دور میں ایک بناء ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ اس بناء کو مضبوط تر کرتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ کی جو خدمت دین کی عمارت ہے اس کو بلند و بالا کرتا چلا جائے اور ہر منزل قوی تر ہو اور ہر منزل پہ بلندی کا احساس جو قرب الہی کا احساس ہے جب ہم دین کی باتیں کرتے ہیں تو بلندی کے معنی صرف عام بلندی نہیں بلکہ قرب الہی کا احساس ہے، خدا کرے یہ احساس بڑھتار ہے.اس ضمن میں آج کے خطبہ کے لئے جو میں نے موضوع چنا ہے وہ قرآن کریم کی آیت ہے وَالَّذِينَ

Page 627

خطبات طاہر جلد 16 621 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت: 70) كه يقيناً وہ لوگ جو ہماری ذات کے اندر ، ہمارے اندر محنت کرتے ہیں جَاهَدُوا فِيْنَا کا مطلب ہمارے بارے میں محنت کرتے ہیں اور ہماری ذات میں سفر کرتے ہیں دونوں معنی ہیں.لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا ہم وعدہ کرتے ہیں کہ لازماً ، یقیناً ہم انہیں خود اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے وَ اِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ اور یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ لازماً احسان کرنے والوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے.اس آیت کو موضوع بنا کر میں اس سے پہلے بعض خطبات دے چکا ہوں لیکن آج کے خطبہ کے لئے میں نے محض ایک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت کا انتخاب کیا ہے جس میں آپ نے بالآخر اسی آیت سے اپنی نصیحتوں کا تعلق جوڑا ہے اور اس آیت کا ایک لطیف معنی اس رنگ میں پیش فرمایا ہے کہ جس کا اطلاق خاص طور پر جماعت جرمنی پر ہوتا ہے.پس جماعت جرمنی کے حوالے سے آج کے خطبہ میں یہ آیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریح کے مطابق موضوع بنائی گئی ہے.اب میں آپ کی عبارت شروع کرتا ہوں، فرماتے ہیں: میں ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بیعت کی ہے چند نصیحت آمیز کلمات کہنا چاہتا ہوں“.اب چونکہ یہ بیعتوں کا دور ہے اور کثرت سے بیعتیں ہو رہی ہیں تو اس نصیحت کو آپ کو ہر بیعت کنندہ کو پہنچانا چاہئے.اکثر ان میں سے یہاں موجود نہیں ہوں گے اکثر ایسے ہوں گے جو شاید سن بھی نہ سکیں مگر اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ہونے چاہئیں.مختلف زبانیں بولنے والوں کو اگر ممکن ہو تو آڈیو ویڈیو کے ذریعے بھی یہ پیغام پہنچایا جائے.غرضیکہ نئے آنے والے اور بیعت کنندہ کی ذمہ داری اب آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور جو کچھ ان کو فرمانا چاہتے ہیں وہ اس عبارت میں آپ نے فرما دیا ہے اور یہ آنے والوں کیلئے نصیحت کی جان ہے اگر اس کو بعینہ اسی طرح جیسا کہ حق ہے سمجھا کر یعنی بعینہ سے مراد یہ نہیں کہ لفظاً لفظاً، لفظ ہوں تو ساتھ تشریح بھی ہو، اگر اس طرح آپ نئے آنے والوں کو یہ پیغام پہنچادیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آئندہ سالوں میں بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی بہتر سکت پاسکیں گے.فرماتے ہیں: میں ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بیعت کی ہے چند نصیحت آمیز

Page 628

خطبات طاہر جلد 16 622 کلمات کہنا چاہتا ہوں یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمال صالحہ کی“.خطبہ جمعہ 22 راگست 1997ء بیعت کے نتیجے میں ایک بیج بویا گیا ہے اور بیج کس چیز کا بویا گیا ہے اعمال صالحہ کا.پس ہر بیعت ایک پیج کی طرح ہے جو زمین میں گاڑی گئی ہے اور اس سے اعمال صالحہ کا درخت پھوٹنا چاہئے.یہ بہت ہی لطیف تشریح ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اور حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر ، یوں لگتا ہے جیسے اس دور کی بیعتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ نے ایک بہت ہی اعلیٰ ، عمدہ اور مرکزی نصیحت فرما دی ہے.یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمال صالحہ کی جس طرح کوئی باغبان درخت لگاتا ہے یا کسی چیز کا بیج بوتا ہے پھر اگر کوئی شخص بیج بو کر یا درخت لگا کر و ہیں اس کو ختم کر دے اور آئندہ آب پاشی اور حفاظت نہ کرے تو تم بھی ضائع ہو جاوے گا“.یعنی تخم ریزی کے نتیجے میں مزیدا گنا تو در کنار و تخم جو مٹی میں گاڑا گیا وہ بھی ضائع ہو جائے گا یعنی کچھ بھی آپ کے ہاتھ نقصان کے سوا نہیں آئے گا.پس اصل کام بیعتوں کے بعد شروع ہوتا ہے.پہلے بھی کام اصلی ہے یعنی اچھے پیج کی تلاش بہت بڑا کام ہے لیکن دو دور ہیں جو بیج آپ نے پکڑا اور چنا وہ دنیا کی نمائندگی کر رہا تھا اس کو اپنے اختیار میں لے لیا اور اسے اعمال صالحہ کا درخت لگانے میں استعمال کرنا ہے یہ ہے اصل کام.فرماتے ہیں: اسی طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے.پس اگر انسان نیک عمل کر کے اس کے محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ عمل ضائع ہو جاتا ہے.یہ دوسری نصیحت اس میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اتفاقا بھی نہیں بعض دفعہ بیج لگا کر آپ بھول جائیں تو وہ پہنچ ہی جاتا ہے.کئی دفعہ غلطی سے زمیندار چھٹ مارتا ہے تو کھیتوں کے کناروں پر یا کچھ باہر بیج لگتے ہیں اور آگ بھی آتے ہیں اور پل بھی جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسری بات یہ بیان فرمارہے ہیں کہ شیطان لگا رہتا ہے یعنی مومن جب بیج لگاتا ہے اور اس کی آب پاشی کرتا

Page 629

خطبات طاہر جلد 16 623 خطبه جمعه 22 راگست 1997 ء ہے تو اس کو اس کے باوجود بھی خطرہ ہے کیونکہ شیطان کی نظر ہے مومن کے پھلوں پر ، مومن کے لگائے ہوئے پودوں پر اور وہ ضرور انہیں خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ شیطان جن کا پیشہ ہی جماعت احمدیہ کے لگائے ہوئے بیجوں کو خراب کرنا ہے مسلسل اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ایسا ہو اور اس کے لئے منصوبے بناتے ہیں، اس کے لئے لٹریچر تیار ہوتا ہے، اس کے لئے غیر ملکوں سے ان کو مالی امداد ملتی ہے اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ خاموشی سے کام ہورہا ہے حالانکہ دشمن آپ پر نظر رکھے ہوئے ہے، آپ کی ہر حرکت پر.اسے اسلام کی کسی اور کامیابی کی فکر نہیں ، اسلام کے دنیا میں پنپنے کی اس کو فکر نہیں ، اس کو نیکی کے پہنچنے کی کوئی فکر نہیں ، اس کو فکر ہے تو یہ ہے کہ نیکی کیوں پنپ رہی ہے.نیکی کو پنپنے میں مدد دینے کی کوئی فکر نہیں مگر جہاں بھی نیکی پینے گی وہاں شیطان نے ضرور اثر دکھانا ہے اور ازل سے ایسا ہی چلا آ رہا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ایسی حقیقت کی طرف آپ کی توجہ مبذول فرما رہے ہیں جو ابتدائے آفرینش سے، آدم کے زمانے سے اسی طرح چلی آئی ہے.جب بھی زمین میں نیکی کا بیج بویا جائے گا شیطان نے ضرور حرکت کرنی ہے اور اس کو ثمرات سے محروم کرنے کے لئے یا جڑوں سے اکھیڑ پھینکنے کے لئے جو کچھ اس کی پیش جاسکتی ہے وہ ضرور ایسا کرے گا.66 ہے.یا د رکھو بیعت کے وقت تو بہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی بیعت کے وقت تو بہ کے اقرار میں ایک برکت ہوتی ہے عموماً الفاظ میں تو تو بہ ہے مگر بیعت کنندہ کو یہ احساس دلا نا کہ تم تو بہ کا جو اقرار کرو گے اس میں ایک برکت ہوگی اس لئے اس اقرار کو دل و جان سے کرو اور تفصیل سے کرو.اپنے دل پر، اپنی سابقہ زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے خیال کرو کہ تم کیا کر رہے ہو اگر اس طرح تم تو بہ کرو گے تو اس تو بہ میں برکت ہوگی.پس یہ ایسی تو بہ ہے جیسے بیج لگانے سے یا گٹھلی لگانے سے پہلے زمیندار اس کو دواؤں میں ڈالتا ہے اور ہر طرح سے دیکھ لیتا ہے کہ کوئی گندہ اثر پرانی حالت کا اس میں نہ پایا جائے مثلاً بعض گٹھلیوں کے ساتھ کچھ فنکس (Fungus) لگی ہوئی ہوتی ہے.بعض بیجوں کے ساتھ کچھ بیماریاں لگی ہوتی ہیں.پس بیجوں کی تلاش کے بعد جو بیج میسر آئیں ان پر بھی محنت کرنی پڑتی ہے اور ان کو ہر

Page 630

خطبات طاہر جلد 16 624 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء اس بدی سے پاک کرنا پڑتا ہے جو بعد میں نشو و نما کے وقت مزید سراٹھا جائے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت کو یاد رکھیں اور اس کو نو مبائعین کو بتا ئیں اور سمجھا ئیں.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو ایک دفعہ آپ کریں گے تو جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے برکت پیدا ہوتی ہے.پس بیعت کنندہ کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ دیکھو تم نے تو بہ کی ہے، کس کس چیز سے تو بہ کی ہے ہمیں نہ بتاؤ مگر خود تو سوچو، خود سمجھو اور احساس بیدار کے ساتھ جو بدیاں تھیں ان سے تو بہ کرو ورنہ بیعت کا کوئی معنی نہیں ورنہ بیعت کے اندر وہ بدیاں داخل ہو کر اسی طرح نشو و نما پاتی رہیں گی.اگر ساتھ اس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگالے تو ترقی ہوتی ہے مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں“.فرمایا تو بہ کے ساتھ ایک اور عہد بھی وہ کرے جو بیعت میں کرتا تو ہے لیکن باشعور طور پر یہ احساس زندہ رکھتے ہوئے کہ میں نے آئندہ دینی کاموں کو دنیاوی کاموں پر ترجیح دینی ہے.یہ ایسی باتیں ہیں جو اس وقت گہرے طور پر اثر انداز ہوسکتی ہیں.ہر بیعت کنندہ کی پرورش ان باتوں کے ساتھ اگر چلے تو ایک عہد بیعت کے دوران ہی اس کو ساری زندگی کا ذخیرہ مل جائے گا ساری زندگی کا زاد راہ ہاتھ آ جائے گا.پس آغاز کیسا ہو یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام توجہ دلا رہے ہیں.اس رنگ میں بیعتیں کرنی چاہئیں اس رنگ میں بیعتیں کروانی چاہئیں کہ ہر شخص کو یہ چیزیں نئی محسوس ہوں محض الفاظ نہ دہرائے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا بلکہ اس کے ذہن نشین کرو کہ دیکھو تم نے کچھ بدلنا ہے پہلے تم دنیا کو دین پر مقدم رکھا کرتے تھے اب تمہیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں یہ تمہارے بس کی بات نہیں اور یہ بات ساری جماعت پر اطلاق پارہی ہے ہم میں سے کسی کے بس کی بات نہیں.دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا ایک بہت بڑا عہد ہے جو ہم کرتے ہیں مگر اکثر صورتوں میں جب حالات تقاضا کریں کہ اب دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھاؤ تو اکثر ہم میں سے ناکام رہتے ہیں.پس اس بیماری کی جڑھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھا دی ہے کہ اس کا علاج ہونا ضروری ہے اگر نہیں کرو گے تو یہ تو یہ بھی بے کار اور یہ تخم ریزی بھی بے فائدہ.فرماتے ہیں: تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امداد الہی کی سخت ضرورت ہے.

Page 631

خطبات طاہر جلد 16 625 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء یہ وہ موقع ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی سخت ضرورت ہے ” جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا کہ وہ لوگ جو ہمارے بارے میں اور ہماری راہ میں سفر کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں یعنی بالا رادہ کوشش کر کے ہم سے تعلق بڑھانا چاہتے ہیں ان کو یا د رکھنا چاہئے کہ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہم ہی ہیں جو اپنی راہوں کی طرف ان کی راہنمائی کرتے اور اپنی راہوں پر ہاتھ پکڑ کے ان کو چلاتے ہیں.پس جب ہر تان اس بات پر ٹوٹی کہ اگر ہم نے جہاد کیا تو جہاد کی کامیابی اللہ کے منشاء پر مبنی ہے اور اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے تو پھر یہ سفر ایک کامیاب سفر ہوگا.اس ضمن میں یاد رکھیں جَاهَدُوا ایک مرکزی نقطہ ہے اس میں.اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نصیحتیں فرمائی ہیں وہ جاهَدُوا کے متعلق تھیں.تم اس طرح بیج کو پاک صاف کرو، اس طرح اس کو گاڑو، اس کی نگہداشت کرو، شیطان سے بچانے کی کوشش کرو یہ سب جَاهَدُوا فِینَا کی باتیں ہیں.اگر تم یہ جاھد کا مضمون اپنی ذات میں اور اپنے ماحول میں جاری کرو گے تو پھر لَنَهْدِيَنَّهُم سُبُلَنا کا مضمون شروع ہوگا اور اگر یہ نہیں ہوگا تو لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا کا مضمون بھی اطلاق نہیں پائے گا.فرماتے ہیں کہ: ”جو لوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کوشش اور آب پاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے، دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضل الہی وارد نہیں ہوگا اور بغیر امداد الہی کے تبدیلی ناممکن ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 174،173) یہ ایک روزمرہ کی حقیقت ہے اور اس میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ نو مبائعین کی نصیحت کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کو بھی ایک نصیحت کرتے چلے جارہے ہیں گویا وہ بھی نیا بیعت کنندہ بن گیا.ہر احمدی نے بھی گویا پھر سے بیعت کی ہے اور یہ بیعت تو بہ ہے جس کی تشریح حضرت اقدس مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے الفاظ میں فرمائی ہے کہ ہر روز باشعور طور پر یہ دیکھنا چاہئے.

Page 632

خطبات طاہر جلد 16 626 خطبه جمعه 22 راگست 1997ء اب دیکھیں ہر روز دیکھنا چاہئے ، یہ نگہداشت کا حصہ ہے.آپ میں سے وہ جو زمیندار ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ہر روز اپنی کھیتی کو دیکھتا ہے، اس کی مختلف حالتوں کو دیکھتا ہے ،مختلف شیطانی بیماریاں جو اس کو لگ جاتی ہیں ان کو دیکھتا ہے.زمیندار کھیتوں میں پھرتا ہے تو کچھ نوچ کے پھینک دیتا ہے، کہیں نیچے جھک کر جڑی بوٹی کو اکھیڑتا ہے.ایک بہت ہی خاموش مضمون ہے جو آپ کو دور سے دکھائی دینے میں یوں لگے گا جیسے کوئی محنت نہیں ہے حالانکہ زمیندار جانتا ہے اور میں یہ جو کہ رہا ہوں میں اپنے ذاتی تجربے سے کہہ رہا ہوں.میں نے زمینداری اس طرح کی ہے جس طرح ایک کسان اپنے کھیت کی پرورش کرتا ہے اس طرح میری عادت تھی کہ جب بھی مجھے موقع ملا میں کھیتوں میں جا کر خود کام کرتا تھا کیونکہ میرے کام کرنے کے بغیر وہ جھنگ کے جو عوام ہیں وہ کام کر ہی نہیں سکتے جب تک مالک ان کو کر کے نہ دکھائے اور ان کو یہ فکر لاحق نہ ہو کہ دیکھ لے گا.اس طرح وہ کام نہیں کر سکتے.تو اس مجبوری کی وجہ سے اور کچھ عادتاً کچھ اس سے مجھے دلچسپی بھی تھی.میں نے اسی طرح کھیتوں کی آبیاری کی ہے خود پانی لگائے ہیں، نکے باندھے ہیں ان کی جڑی بوٹیوں کو اکھیڑ اکھیڑ کر پھینکا ہے.جب مونجی لگائی جارہی ہوتی تھی تو ساتھ ان کے پودے پکڑ کر جھک جھک کر لگا کر دکھاتا تھا کہ اتنے اتنے فاصلے پر لگنے چاہئیں.اگر چہ اتنی طاقت نہیں تھی جتنی وہاں کی بعض قوموں میں ہے کہ وہ بار بار جھک کر مونجی لگاتے ہیں مگر اتنا کرنے میں بھی کمر دوہری ہو جایا کرتی تھی اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ مجھے پتا لگ جاتا تھا کہ یہ مزدور محنت کش کتنی مصیبت اٹھاتے ہیں.آپ کے لئے چند پیسوں کے لئے کتنی بار بار ان کو مصیبت کرنی پڑتی ہے.اس لئے جہاں ایک طرف ان کے لئے راہنمائی بنتی تھی دوسرے میرے دل میں ان کے لئے نرمی پیدا ہوتی تھی ، ان کو ان کے اجر سے زیادہ دینے کی خواہش پیدا ہوتی تھی.تو اس طرح زمیندارہ جس نے کیا ہے اس کو یادرکھنا چاہئے کہ دین کا کام بھی زمیندارہ ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام حارث رکھا گیا اور آپ کی مثال بھی قرآن کریم نے ایک کھیتی سے دی ہے.یہ سارا مضمون بعینہ آپ پر اطلاق پا رہا ہے یعنی جماعت احمدیہ پر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آپ کو سکھا رہے ہیں اس کے ساتھ چلتے ہوئے میں بھی آپ کو بتارہا ہوں کہ آپ کو خود ساتھ ساتھ محنت کرنی ہوگی.نو مبائعین خود نہیں جانتے کہ انہیں کیا کرنا ہے.انہیں کچھ قدم آگے

Page 633

خطبات طاہر جلد 16 627 خطبه جمعه 22 راگست 1997ء چل کر بتانا ہوگا کہ یہ بھی کرو، یہ بھی کرو، اپنے نفس کا خیال رکھو اور یہ ممکن نہیں اگر آپ اپنے نفس کا خیال نہ رکھیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے.اب یہ صرف دعا کرنا جو مضمون ہے یہ بھی ہمارے ان دھوکوں میں شامل ہے جن میں بہت سے لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں.بعضوں سے پوچھے کوئی کیوں جی آپ کے کوئی پھل نہیں لگے کچھ لوگ آئے تھے ضائع ہو گئے ، کہ جی ہمارا کام تو دعا کرنا ہے بس.دعا ہم نے کر دی آگے اللہ کا کام.یہ اللہ میاں کی غلطی ہے جو اس نے ہماری دعا کو اپنے بندوں کے حق میں قبول نہیں کیا.حالانکہ دعا کرنے والے کا دھوکہ ہے.اگر محنت کے ساتھ دعا نہ ہو اور دعا کے ساتھ محنت نہ ہو تو یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا اور کچھ بھی آپ کے ہاتھ نہیں آئے گا.اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے مثلاً دو کسان ہیں ایک تو سخت محنت اور قلبہ رانی کرتا ہے یہ تو ضرور زیادہ کامیاب ہوگا دوسرا کسان محنت نہیں کرتا یا کم کرتا ہے اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے.جو سرکاری محصول والا ہے معاملہ یہ ہمیں اپنی بخشش کے لئے کچھ خرچ کرنا پڑے گا اور وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) میں جو کچھ ہم بدنی یا ذہنی یا دلی قربانیوں کے ذریعے یا مالی قربانیوں کے ذریعے خرچ کرتے ہیں یہ سرکاری محصول ہے جس کے بغیر دین بنتا ہی کچھ نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اصطلاحیں بھی وہ استعمال فرما رہے ہیں جو اسلامی اصطلاحوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں.اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا.اسی طرح دینی کام بھی ہیں انہی میں منافق.(یعنی دینی کاموں میں بھی آپ دیکھیں گے کہ ان میں ہر قسم کے پودے ہیں.انہی میں منافق، انہی میں نکھے ،انہی میں صالح، انہیں میں ابدال ، غوث، قطب بنتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک درجہ پاتے ہیں اور بعض چالیس برس سے نماز پڑھتے ہیں مگر ہنوز روز اول میں ہیں“.

Page 634

خطبات طاہر جلد 16 628 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء یعنی بعض لوگ آپ دیکھیں گے چالیس برس تک وہ نمازیں پڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن نمازوں میں نہ دماغ ہے نہ جان ہے نہ دل ڈالا گیا.اس لئے پہلے دن کا سفر پہلے دن کا ہی رہا اور چالیس برس اکارت گئے وہیں کھڑے رہیں گے جہاں وہ کھڑے ہوئے تھے.کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.تمہیں روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے.تیں روزے سب کی زندگی میں آتے ہیں روزے گزرے تو واپس پہلی بدیوں کی طرف لوٹتے ہوئے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ الحمد للہ بڑا اچھا رمضان کٹ گیا ایک سال کے لئے مصیبت سے نجات ہوئی اور اب ہم مزے سے وہ سب باتیں کریں گے جو پہلے کیا کرتے تھے.بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امداد الہی نہیں ملتی.کہتے ہیں ہم تو بڑے متقی ہیں خدا سے ڈرنے والے، نمازیں پڑھتے ہیں بڑی دیر سے پڑھ رہے ہیں مگر اللہ کی امداد نہیں ملتی.اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں.وہ عبادت کرتے ہیں رسمی طور پر اسے پورا کرنے کے لئے اور دیکھا دیکھی.پس ترقی کا کبھی خیال نہیں ، گناہوں کی جستجو بھی نہیں، بچی تو بہ کی طلب بھی نہیں ، پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں.یہ وہ مضمون ہے تو بہ ہی کے تعلق میں جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اب اور آگے بڑھا دیا ہے کہ جو لوگ احمدیت میں داخل ہوں جن لوگوں نے ، جس طرح آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو سمجھا ہے خوب غور کر کے اپنے حالات پر، اپنی سابقہ زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے قدم آگے بڑھایا ہے تو ان کو یہ دکھا نا ضروری ہے کہ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا دین کا مقصد اللہ کی جستجو اور اللہ کی ذات میں سفر ہے اگر آپ کی نماز اس سفر میں آپ کی مرد نہیں تو وہ نماز بے کار ہے.پس محض نمازیں پڑھنے سے خوشی محسوس نہیں ہونی چاہئے.بہت سے ایسے لوگ میں نے دیکھے ہیں خود جرمنی میں بھی اس کی مثالیں ہیں، کہتے ہیں بچی تھی تو بڑی نمازی مگر یہ آفت پڑ گئی.وہ جو آفت پڑتی ہے وہ خالی نماز کی وجہ سے پڑا کرتی ہے.شیطان اچکتا ہے تو خالی نمازوں والوں کو اچکا کرتا ہے.ماں باپ تو یہی دیکھتے ہیں کہ بچی نے نمازیں پڑھ لیں لیکن یہ نہیں پتا کہ وہ کیسی نمازیں تھیں.کس قدر وہ

Page 635

خطبات طاہر جلد 16 629 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء خالی تھیں کس قدران میں خلاء رہ گیا تھا جس پر شیطان حملہ آور ہوسکتا تھا.پس عبادتوں میں بھی خلاء ہوتے ہیں اور ان خلاؤں کو شیطان بھرتا ہے ان پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہاں اپنی جگہ بنا لیتا ہے.پس یہ سارے مضامین وہ ہیں جو آغا ز ہی میں سمجھانے والے ہیں.آپ بہت محنت کرتے ہیں تبلیغ میں اس میں کوئی شک نہیں لیکن وہ لمبی محنت اگر اس رنگ میں کریں جس رنگ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تو آپ کی محنت نئے آنے والے کی محنت میں منتقل ہو جائے گی.آپ نے جن جن باتوں کی نصیحت فرمائی ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان نصیحتوں کو آگے نو مبائعین میں منتقل کرنا اور ایسے رنگ میں منتقل کرنا کہ اپنی زندگی میں ایک انقلاب محسوس کرنے لگیں اور یہ احساس پیدا کریں کہ انہیں اب محنت کرنا ہوگی اور محنت خدا کے لئے کرنا ہوگی.محنت اس لئے کرنا ہوگی کہ وہ اللہ سے ملیں اور اللہ کی ذات کا سفر اگر کوئی شخص شروع کر دے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی اور نظام کی اس کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں رہے گی.ان معنوں میں جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں اگر نو مبائع خدا کی ذات میں سفر کے ارادے سے قدم اٹھائے اور داخل ہو کر اس سفر کے حالات پر نظر رکھے اور دیکھے کہ وہ کس حد تک خدا کا قرب اختیار کر رہا ہے تو پھر ایسے شخص کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی.بسا اوقات ایسے شخص دوسروں کو سنبھالتے ہیں.میں نے کئی نو مبائعین دیکھے ہیں جو جماعت کی کا ہلی اور ستی کی وجہ سے ٹھو کر نہیں کھاتے بلکہ جماعت کو ٹھوکروں سے بچانے والے بن جاتے ہیں.وہ آگے بڑھتے ہیں ان کو کہتے ہیں دیکھو ہم نے تو پا لیا تم نے پاکے کیوں کھویا ہوا ہے تم سمجھتے ہو کہ تم نے پالیا مگر تم بالکل بے حاصل انسان ہو.دیکھو ہم خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ میں آکر کیسی ترقی کر رہے ہیں یعنی ان معنوں میں نہ بھی کہیں تو ان کا ذہن کمزوروں کو سنبھالنے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور وہ جو پہلے نو مبائع تھے وہ مبائعین کی تربیت کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں.فرماتے ہیں: سچی توبہ کی طلب ہی نہیں.پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں ایسے انسان بہائم سے کم نہیں“.(ایسے انسان جانوروں سے کم نہیں ) ایسی نمازیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ویل لاتی ہیں“.ویل کا مطلب ہے ہلاکت.پس

Page 636

خطبات طاہر جلد 16 630 خطبه جمعه 22 راگست 1997ء بظاہر اچھا کام کر رہے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں لیکن یہ نماز میں ویل لاتی ہیں.اس ویل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اشارہ ایک قرآنی آیت کی طرف ہے فرمایا: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُوْنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (الماعون :85) مصلیوں پر لعنت ہو.اب ہمارے ہاں تو مسکی کام کرنے والوں کو کہتے ہیں ان پر لعنت نہیں ہے.ان پر لعنت ہے جو بظاہر خدا کا کام کرتے ہیں لیکن عملاً کام نہیں کر رہے.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ وہ لوگ جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبادت کے اس مضمون کو کھولا ہے کہ پہلے دن سے ہی نماز کو بھرنے کی طرف توجہ دو.اگر نماز نہیں بھرو گے تو یہ نماز تمہارے لئے ہلاکت کا موجب بن جائے گی.ہم نے ایسی ہری بھری فصلیں دیکھی ہیں جو بڑے زور سے اوپر اٹھتی ہیں اور لگتا یہ ہے کہ اب زمیندار کا گھر دانوں سے بھر جائے گا مگر وہ ساری کی ساری فصلیں کھڑی ہی رہتی ہیں جھکتی نہیں اس لئے کہ ان کے اندر دا نہ نہیں پڑتا.کچھ عرصے کے بعد وہ سفید دکھائی دینے لگتی ہیں.پس یہ وہ فصلیں ہیں جو ویل کی آواز لگاتی ہیں.فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ.ایسی محنت کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہو کہ جن کو انجام کا راپنی محنت کا کوئی بھی شمر ہاتھ نہ آئے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ویل لاتی ہیں.نماز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے.پس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں.ہماری جماعت بھی اگر بیج کا بیج ہی رہے گی تو کچھ فائدہ نہیں ہو گا.جور دی رہتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو بڑھاتا نہیں.پس تقویٰ عبادت اور ایمانی حالت میں ترقی کرو.یادرکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سودمند نہیں.اس دھو کے میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے ہدایت بھی ایک موت ہے جو شخص یہ موت اپنے اوپر وارد کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہے.پس بیعت کا نام دراصل ایک موت ہے اور بہت کم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں.آپ ان کو کہیں یہ

Page 637

خطبات طاہر جلد 16 631 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء نئی زندگی ہے وہ مان جائیں گے.مگر یہ نہیں پتا کہ پہلی زندگی پر موت آئے بغیر نئی زندگی مل نہیں سکتی.تو یہ چیزیں وہ ہیں جو سمجھانی چاہئیں اور نو مبائعین کے ذہن سے گزارنی چاہئیں کہ دیکھو بھئی تم نے جو قبول کیا ہے تو محض ہماری تعداد بڑھانے کی خاطر نہیں اپنی خاطر قبول کیا ہے تمہیں لازماً فائدہ پہنچنا چاہئے.اگر تمہیں فائدہ نہ پہنچا تو تم ایک خالی پیج کی طرح رفتہ رفتہ گل سڑ جاؤ گے اور تمہاری محنتوں کو کچھ بھی پھل نہیں لگے گا سوائے اس کے کہ غیر تم پر لعنت ڈالیں تم نے کیا مصیبت سہیڑ لی ، کیا بن بیٹھے ہو.یہ غیر کی لعنتیں بھی اسی شیطانی کارروائی کا حصہ ہیں کہ وہ ہر آنے والے کے او پر لعنت ڈالتا ہے اور آپ میں سے اکثر کو علم نہیں کہ ان بے چاروں کو کتنی کتنی مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے.اب وہ لوگ جو غیر کی لعنت کا شکار ہوں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے محبت اور رحمت کے پیغام ان کو نہ ملیں ، اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو اپنائیت کا ثبوت مہیا نہ ہو تو غیر کی لعنتیں برداشت نہیں کر سکیں گے.بہت سے ایسے میں نے دیکھے ہیں جو ایک رستے سے آئے اور دوسرے رستے سے چلے گئے.اس میں ایک محض ان کا اپنا قصور نہیں بلکہ ان کا ماحول ان پر بہت سختی کرتا ہے اور بہت طریقوں سے ان کو نظام جماعت سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے.ایک دفعہ وہ جماعت سے ہٹ جائیں پھر خواہ خود شیطان ہو جائیں ہر قسم کی بدیوں میں مبتلا ہوں دہر یہ ہوں جو مرضی ہو جائیں پھر شیطان کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی.یہ ایک ایسا یقینی احمدیت کے حق میں ثبوت ہے کہ دنیا کے پردے پر آپ کو سوائے احمدیت کے کسی اور جگہ دکھائی نہیں دے گا.یہ کیا وجہ ہے کہ کوئی احمدی ہو یا کوئی قوم احمدیت کی طرف توجہ دے تو سعودی عرب میں آگ لگ جاتی ہے یا کویت جلنے لگتا ہے لیکن سارا عالم اسلام خدا تعالیٰ کی طرف پیٹھ پھیر جائے ، ہر قسم کی بدیوں میں ملوث ہو، بددیانت ہو جائے، بدکار ہو جائے ، ہر قسم کی گندگی اس میں آجائے ان کو ذرہ بھی اس بات کی پرواہ نہیں، نہ اس کی اطلاع ہوگی نہ اس کی فکر ہوگی بلکہ اپنے آرام سے وہ جیسی عیش و عشرت کی نیندیں سوتے تھے ویسی سوتے رہیں گے.آگ لگتی ہے تو محض کسی کے سچائی کو قبول کرنے پر لگا کرتی ہے ورنہ دوسری قو میں کسی کے متعلق کچھ پرواہ نہیں کیا کرتیں.وہ کیا ہو گئے ہیں، پہلے کیا تھے اب کیا ہوئے.یہ ایک ایسا قانون قدرت ہے جو نبوت کے ساتھ لگا ہوا ہے اگر آپ کے ہاتھ میں کوئی اور دلیل نہ ہو تو دشمن کا منہ بند کرنے کے لئے صرف یہی دلیل کافی ہے.تم دکھاؤ دنیا میں کون لوگ ہیں

Page 638

خطبات طاہر جلد 16 632 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997 ء جو اپنا مذ ہب بدلیں تو کسی اور کو فکر پیدا ہو.کون لوگ ہیں جو بدکار ہوں تو کسی اور کوفکر پیدا ہو.سوائے جماعت احمدیہ کے کوئی دنیا کی جماعت ایسی نہیں ہے جس میں جب لوگ داخل ہونا شروع کریں تو امیر ملکوں کی سلطنتوں کے کنگرے ہلنے لگتے ہیں اور اس سے پہلے ان کو پتا بھی نہیں تھا کہ کس قسم کے لوگ کہاں بس رہے تھے کس قسم کی شیطانیوں میں ملوث ہیں.اب یورپ میں بسنے والے جتنے مسلمان ہیں ان میں سے اکثر کے حالات آپ جانتے ہیں شراب نوشی میں مگن ، جوا بازی ان کا عام ایک پیشہ بن چکا ہے.ہر قسم کی بدیاں جائز ہیں اور کوئی بھی پرواہ نہیں وہ جتنا چاہیں کریں خواہ وہ پاکستانی ہوں، خواہ وہ سعودین ہوں، خواہ وہ کویتی ہوں، خواہ وہ ایرانی ہوں کوئی مجھے بتائے تو سہی کہ کیا کبھی ان کی ان بدیوں کی وجہ سے سعودی عرب میں ارتعاش پیدا ہوا، کیا کبھی ان کی ان بدیوں کی وجہ سے پاکستان میں ارتعاش پیدا ہوا، کیا کبھی ایران میں ارتعاش پیدا ہوا؟ ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں.جہنم میں جائیں جو چاہیں کریں مگر احمدی نہ ہوں.پس خدا کی راہ کے سوا آگ نہیں لگتی.اسی لئے قرآن کریم نے جماعت احمدیہ کے متعلق یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ (الفتح : 30) ان کی پہچان یہ ہوگی، ان کی سچائی کی علامت یہ ہوگی کہ جب وہ نشو و نما پائیں گے اور ضرور نشو ونما پائیں گے تو پھر کفار کو آگ لگ جائے گی اس سے.غیظ و غضب میں وہ جلائے جائیں گے لیکن یاد رکھیں کہ غیظ و غضب تو ضرور ہو گا اگر آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت کے مطابق خدا کی خاطر کر رہے ہوں گے اور خدا کی طرف بڑھنے والے ہوں گے تو ان کا غیظ و غضب آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.ناممکن ہے کہ آپ کی ترقی کو یہ روک سکیں.کہاں یہ ترقی روک سکے ہیں کوئی ایک ملک دکھاؤ جہاں ان کی بد کردار یوں اور جھوٹے شیطانی پراپیگنڈے کے نتیجے میں جماعت کی ترقی کے قدم رک گئے ہوں.غوغا ضرور ہے، ایک شور ضرور مچاتے ہیں.چھاتیاں پیٹتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا.حکومتیں ارتعاش میں آجاتی ہیں.ان کی تجوریاں کھلتی ہیں، کچھ پیشہ ور پیسہ کمانے والے ان سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ خوب گھومتے ہیں اور خوب لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اس جماعت کی طرف نہ جانا مگر کیا کسی کا قدم روک سکے؟ کبھی بھی روک نہیں سکے.اس کی تو وہی مثال ہے جو حضرت اقدس مسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی پوری اتری اور وہ آئندہ ہمیشہ کے لئے ایک مثال بن گئی.ایک

Page 639

خطبات طاہر جلد 16 633 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997ء احمدی دوست بٹالے کے سٹیشن پہ اترے قادیان جانے والے تھے تو ایک ملاں دوڑ کر آیا اور ان کو کہا کہ کہاں جار ہے ہو بڑا ظلم کر رہے ہو جس جگہ جاؤ گے وہاں تمہارا ایمان لوٹا جائے گا تمہارا کچھ بھی باقی میں رہے گا.انہوں نے جتھا ڈال لیا اس کو، پنجابی میں کہتے ہیں نا جاچھا اور اپنے ساتھی کو آواز دی کہ آؤ آؤ میں تمہیں شیطان دکھاؤں.یہ شیطان ہوتا ہے.اس کو صرف یہ تکلیف ہے کہ یہ لوگ نیکی کے لئے کیوں جارہے ہیں.وہ مختبہ خانوں میں جائیں، گندگیوں کی طرف دوڑیں، جہاں مرضی چلیں اس مولوی کو تو فیق نہیں ملے گی کہ ان کو روکے.کثرت سے عیسائی ہوجائیں مجال ہے جو مولوی کوکوئی فکر لاحق ہو لیکن مسیح موعود علیہ السلام کی طرف جارہے ہیں تو کہتے ہیں دیکھو میں تمہیں پکڑ کے دکھاتا ہوں یہ شیطان تھا اور ساتھ ہی اس نے ایک بہت دلچسپ بات کہی.اس نے کہا مولوی! لوگوں کی جوتیاں گھس گئیں قادیان جاتے ہوئے ، مرزا صاحب کے در پہ جاتے ہوئے ، تمہاری جوتیاں گھس گئیں ان کو روکتے ہوئے لیکن تم نہیں روک سکے ان کو، نہ آئندہ کبھی روک سکو گے.یہ ہے خدا تعالیٰ کی عظمت کا نشان ، اسی طرح دشمن کوشش کرتا ہے کہ خدا کے بندوں کو خدا کی راہوں سے رو کے اور صرف خدا کی راہوں سے روکتا ہے باقی راہوں کی اس کو کچھ بھی پرواہ نہیں.یہ ایک کسوٹی ایسی ہے جس پر ہمیشہ صحیح جواب آئے گا.سوائے احمدیت کے دنیا کی کسی جماعت کی سچائی اس کسوٹی پر کچی ثابت نہیں ہو سکتی.احمدی ہو تو دوسروں کو آگ لگے.شیطان ہو جاؤ، کافر ہو جاؤ، یہودی بن جاؤ، عیسائی ہو جاؤ جو چاہو کر و مجال ہے جو کسی کو کوئی فرق پڑے.تو اس جدو جہد کو جو لوگ آپ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اپنے حق میں استعمال کرنا سیکھیں.دشمن کو یہ بتائیں اور آنے والوں کو بھی کہ دیکھو یہ سچائی ہوتی ہے.پوچھا کریں کہ کیوں جی آیا تھا کہ نہیں کوئی تمہارے پاس.وہ بتاتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو بعض دفعہ بغیر بتائے کھسک کے دور ہٹ جاتے ہیں یہ ان کی بدھیبی ہے مگر پھر وہ جہاں مرضی چلے جائیں پھر ان کی کوئی پرواہ نہیں رہتی.ایک دفعہ جماعت سے چھٹ جائیں پھر دوبارہ ان کے پاس کوئی بہکانے والا نہیں آئے گا، کوئی واپس دین کی طرف بلانے والا بھی نہیں آئے گا ان کا کام ختم ہو گیا جماعت سے الگ کر دیا.پس اس دلیل کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں اٹھائی ہے اسے بڑی مضبوطی کے ساتھ جماعت کے حق میں پیش کریں اور بتائیں کہ ان کی تکلیف کا موجب سوائے

Page 640

خطبات طاہر جلد 16 ہدایت کے اور کوئی چیز نہیں.فرماتے ہیں: 634 خطبه جمعه 22 راگست 1997ء ہدایت بھی ایک موت ہے جو شخص یہ موت اپنے اوپر وارد کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہے اور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطے فرمایا.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ (المائدہ: 106 ) (اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر اپنے نفس کی ذمہ داری فرض کی جاتی ہے.سب سے پہلے اَنْفُسَكُمْ کی طرف توجہ دلائی ہے.بعد کا سفر ، دوسرے نفوس کی طرف توجہ، یہ بعد کی باتیں ہیں.عَلَيْكُم اَنْفُسَكُمْ ( یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو اپنے امراض کو دور کرو دوسروں کی فکر مت کرو“.اب یہ جو فقرہ ہے دوسروں کی فکر مت کرو اس پر ٹھہر نانہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی سے دوسروں کے فکر کی طرف منتقل ہوتے ہیں.زور دینا اس بات پر ہے کہ پہلے اپنے نفس کا فکر پھر دوسروں کے فکر.اگر اپنے نفس کا فکر نہیں تو دوسرے کے فکر کا تمہیں کوئی حق نہیں.”ہاں رات کو اپنے آپ کو درست کرو اب یہ جو فقرہ ہے کیسا عظیم ہے اور دن کو دوسروں کو بھی ہدایت کرو “ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری تحریر میں قرآن وحدیث کی عارفانہ تفسیریں ہیں.وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل: 80) یہ اس کی تفسیر ہے.فرمایا فکر کرو تو دن کو اپنی درستیاں لوگوں کو نہ دکھاؤ.اگر اپنی فکر ہے تو اس وقت کرو جب خدا کے سوا تمہیں کوئی نہیں دیکھ رہا.وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدُ بِ.تہجد اس جہاد کو کہتے ہیں جو کمزوریاں دور کرنے کا جہاد ہے اور ہر تہجد آپ کو دوسروں کے لئے دن کے وقت نصیحت کرنے کے لئے پہلے سے بہتر تیار کرتی ہے.کتنی اعلی تعلیم ہے.فکر کرو مگر اس رنگ میں کہ رات کو اپنے آپ کو درست کرو اور دن کو دوسروں کو بھی ہدایت دیا کرو.لوگ دن کو درستیاں دکھاتے رہتے ہیں اور رات کو آرام سے سو جاتے ہیں.حالانکہ راتوں کا جاگنا اپنے نفس کی درستی کے لئے ضروری ہے کیونکہ خدا کے سوا ایسے انسان کو کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا اور اس وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ضروری ہے.

Page 641

خطبات طاہر جلد 16 635 خطبه جمعه 22 راگست 1997ء تہجد کے متعلق میں نے اکثر دیکھا ہے کہ بعض لوگ تہجد کو اپنی دنیاوی خواہشوں یا اپنے دوستوں کو اپنی دعائیں دکھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں.واویلا مچادیتے ہیں ، روتے ہیں، پیٹتے ہیں اے خدا ہمیں یہ بھی دے ، وہ بھی دے، فلاں دے، فلاں دے.اللہ تعالیٰ دے بھی دیتا ہوگا اس سے تو انکار نہیں.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ فَتَهَجَّدُ بِہ کا یہ معنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے یہ نفس کی درستی کا معنی ہے.جب خدا کے حضور کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت اپنے آپ کو ٹولا کریں.اپنے نفس کی باریک چھپی ہوئی بدیوں کو دیکھیں اور ان کے خلاف جہاد کریں.تہجد اس محنت کو کہتے ہیں جو انسان کے نفس کی حالت کو بہتر کرتا ہے.نَافِلَةً لَّكَ اسی لئے فرمایا عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.یہاں غیروں کی بات ہی نہیں ہو رہی.یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری تہجد کی دعائیں قبول ہو کے تم لوگوں کی نظر میں ولی بن جاؤ گے اور لوگ تمہیں دعاؤں کے لئے کہا کریں گے.کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں.ہوسکتا ہے خدا ان کی دعائیں قبول کرتا ہو.ہو سکتا ہے محض وہم ہو.مگر تہجد کا مقصد یہ نہیں ہے جس کے لئے وہ کھڑے ہوتے ہیں.تہجد کا مقصد یہ ہے کہ انسان تہجد پڑھنے والا خود مقام محمود تک جا پہنچے اور مقام محمود اس وقت نصیب ہوتا ہے جب بدیوں سے خالی ہو کر حمد سے پر ہو.محمود کا مطلب ہی یہ ہے یعنی ممکن ہے کہ اگر تم تہجد صحیح طریقے سے ادا کرو اور اس پہ محنت کروتو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے اور تمہارا سفر خدا کی طرف شروع ہو جائے یہاں تک کہ تم مقام محمود تک پہنچو جس تک خدا پہنچائے گا.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.ایک معنی تو آنحضرت ﷺ کے لئے خاص ہے وہ میں پہلے کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کے ہر فرد پر اس معنی کو عام کر کے دکھا رہے ہیں.فرمایا راتوں کو اٹھو اور تہجد اپنی بدیوں سے پاک ہونے کے لئے کرو اور ہر بدی جو دور ہوگی یا درکھو اللہ اس بدی کی بجائے اس کو حد سے بھر دے گا اور جب خداحمد سے بھرتا ہے اسے مقام محمود کہا جاتا ہے وہ مقام پھر دوسروں کو بھی دکھائی دیتا ہے اور وہ ایک سچا مقام ہے کیونکہ جس مقام کو خدا محمود سمجھے اور محمود دیکھے اگر دنیا بھی اس کو محمود سمجھے اور محمود دیکھے تو اس میں انسان کے لئے کوئی خطرہ نہیں کہ جسے خدا کی نظر اچھا قرار دے دے وہ محفوظ ہے اور امن میں آجاتا ہے.

Page 642

خطبات طاہر جلد 16 636 خطبہ جمعہ 22 راگست 1997ء رات کو اپنے آپ کو درست کرو اور دن کو دوسروں کو بھی ہدایت کر دیا کرو.خدا تعالیٰ تمہیں بخشے اور تمہارے گناہوں سے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمال صالحہ اور نیکی میں ترقی کرنے کی توفیق دیوے.آمین ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 173 تا 181 ).پس یہ وہ نصیحت تھی جو میں نے آپ تک پہنچادی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت سے زیادہ جماعت جرمنی کو اور کسی نصیحت کی ضرورت نہیں.اس کو حرز جان بنالیں، اس کا دامن پکڑلیں ، اسے عروہ وقتی کی طرح تھام لیں اور جن باریکیوں کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نصیحت کا سفر مکمل کیا ہے آخری دعاؤں کے ساتھ اسی باریکی کے ساتھ آپ اس سفر پر روانہ ہوں اور ایک مقام پر نہ ٹھہر میں بلکہ مقام محمود کی تلاش کریں.اس مقام محمود کی جو فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے.خدا کرے کہ ہمیں بھی یہ مضمون پورا کرنے کی، یہ نصیحت پوری کرنے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور خدا کرے کہ ہمارے نو مبائعین بھی بعینہ اسی سفر میں ہمارے ساتھ داخل ہو جائیں.اگر یہ ہو تو پھر آپ دیکھیں گے کہ جماعت جرمنی جن ترقیات کو دیکھ رہی ہے ان کو اوپر کی طرف نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف دیکھے گی.جماعت جر منی اس تیزی کے ساتھ مقام محمود میں بلندیوں کے سفر کرے گی کہ جن کو آج آپ ترقی کہہ رہے ہیں وہ آپ کو بہت نیچے کی منازل دکھائی دیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کا سفر جو ہے وہ ہمیشہ ہر قدم پر پچھلی ترقیات کو چھوٹا اور معمولی دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 643

خطبات طاہر جلد 16 637 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء آج ہمیں ایسے احمدیوں کی ضرورت ہے جو زمانے کی روش بدل دیں ، موت سے زندگی نکال کر دکھا ئیں.( خطبه جمعه فرموده 29 /اگست 1997ء بمقام نن سپیسٹ.ہالینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: الحمد للہ کہ میرا مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کا سفر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر پہلو سے کامیاب رہا.بہت سے تجارب مجھے ہوئے ، بہت سے تجارب جماعت کو ہوئے اور کثرت سے ایسے دوست جن کو احمدیت کے متعلق کوئی معمولی تعارف بھی نہیں تھا، یعنی تھا تو ایسا کہ نہ ہونے کے برابر، ان سے بھی رابطے ہوئے ان کے ذریعے نئی قوموں میں داخلے کے سامان ہوئے.مثلاً چیچنیا روس کا (USSR) کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں کے مسلمان بہت ملی غیرت رکھتے ہیں اور ہمیشہ سے ان کا یہی طریق چلا آیا ہے کہ کسی بھی حکومت میں اسلام کے خلاف قدروں کو برداشت نہیں کرتے اور آزادی کا رجحان پایا جاتا ہے.بہت بہادر قوم ہے، غیر معمولی قربانیاں دینے والے لوگ ہیں ملت اسلامیہ سے محبت تو ہے لیکن بدقسمتی سے اسلام کی حقیقت سے نا آشنا ہیں اور یہی بد قسمتی بہت سی ہم نے بوسنیا میں بھی دیکھی اور البانین لوگوں میں بھی پائی گئی کہ اکثر اسلام کی محبت ملت کی حد تک رکھتے ہیں جسے نیشنل ازم کہتے ہیں، اسلام ایک نیشنلزم کہہ سکتے ہیں.مگر دین کی محبت اور اس کے مطابق اپنی قدروں کو ڈھالنا اور تبدیلیاں پیدا کرنا اس کی طرف ان کے خوجوں اور ان کے مذہبی راہنماؤں نے بھی ان کو توجہ ہی نہ دلائی.اس بناء پر میں سمجھتا ہوں میرے اس سفر کو خاص اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ ان

Page 644

خطبات طاہر جلد 16 638 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء نئی قوموں کو مذہب کی حقیقت بتانے کا موقع ملا اور ان کی طرف سے جور د عمل تھا وہ بہت غیر معمولی طور پر مخلصانہ رہا.پچنین سے گفتگو کے دوران شروع میں تو وہ لوگ وہی پرانے رسم و رواج کو ہی مذہب سمجھے بیٹھے تھے اور رفتہ رفتہ جب بات آگے بڑھتی گئی تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے اپنے اندر تبدیلیاں شروع کیں اور ان کو یہ یقین ہو گیا کہ اسلام کے جس نام پر ان کو بعض رسمیں سکھائی گئی ہیں وہ اسلام کی حقیقت نہیں ہے.چنانچہ مجھ سے پھر ایسے سوال شروع کر دئے جس کے نتیجے میں صاف محسوس ہورہا تھا کہ اب ان کو اسلام مذہب میں دلچسپی ہے، اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے میں دلچسپی ہے.چنانچہ خدا کے فضل سے ایک ایسا چھوٹا سا گروہ وہاں پیچھے چھوڑ کے آیا ہوں جن کے آگے چیچنیا میں رابطے ہوں گے اور امید رکھتا ہوں کہ اس سلسلے میں ایک نئی قوم کی طرف ہمارا تبلیغ کا دروازہ کھل جائے گا.تو اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ بہت مفید اور کارآمد سفر رہا.بوسنین میں بھی اگر چہ پہلے احمدیت داخل تو تھی مگر اجنبیت کی بھی پائی جاتی تھی.اس دفعہ جو بوسنینز ملے ہیں ان میں بہت نمایاں تبدیلی ہے ان میں بعض کی تو فدائیت کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کے پیدا ہونے والے مخلصین بھی ان سے لگا نہیں کھا سکتے.وہ اپنے عشق میں محبت میں اللہ کے فضل کے ساتھ اب بہت بڑھ رہے ہیں تو یہ سارے امور ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر اگر چہ اپنی ذات میں بہت سی مشکلات بھی رکھتا ہے، کئی پہنی اور عملاً بوجھ پڑتے ہیں انسان کے اوپر گر جماعت کی بقاء کے لئے ہے ضروری.پھر خاندانی طور پر جو لوگوں کو ملنے کا موقع ملا ہے بڑے چھوٹے ،عورتیں مرد اس کا ایک اپنا سا فائدہ ہے ان کو قریب سے دیکھ کر ان کی اخلاقی حالت کا علم ہو جاتا ہے جو دور بیٹھے دکھائی نہیں دے سکتیں.قریب سے دیکھو، ان سے ملو تو ان کی حرکتوں کے اوپر خواہ مجھے تبصرہ نہ بھی کرنا ہوا خلاق کی وجہ سے ، مگر حرکتیں دکھا دیتی ہیں کہ ہم کیا ہیں، ہمیں کس طرح پروان چڑھایا گیا.کیا کیا بد عادات ہماری جو ہم پاکستان سے لے کے چلے تھے ابھی تک موجود ہیں اور کن پہلوؤں سے ہمیں مزید توجہ کی ضرورت ہے.یہ ساری باتیں از خود دل پر منعکس ہوتی ہیں، پوچھنا نہیں پڑتا اور پھر اس دوران چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے ان کو توجہ دلانی پڑتی ہے اور عموماً میں نے دیکھا ہے کہ بچے خصوصیت کے ساتھ اور جوان بچیاں بھی جلد اثر قبول کرتی ہیں اور اس پہلو سے بھی یہ دورہ انشاء اللہ میں امید رکھتا ہوں کہ ایسے باقی پاکیزہ اثرات چھوڑے گا کہ جو آگے ان کے کام آئیں گے اور اس دورے میں جو

Page 645

خطبات طاہر جلد 16 639 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء دلوں میں تحریک پیدا ہوئی ہے وہ انشاء اللہ آگے بڑھے گی.اس دورے کے آخری حصے میں مجھے پیجیئم بھی جانا ہے لیکن اس سے پہلے میں ہالینڈ کا ذکر کرتا ہوں جہاں سے یہ خطبہ دے رہا ہوں.اس دفعہ ہالینڈ کی جماعت کے لئے شاید یہ شکوے کا موقع ہو کہ ان کو کھلے طور پر یہاں آنے کی اجازت نہیں تھی یعنی دعوت نہیں دی گئی تھی.سمجھایا گیا تھا کہ یہ دورہ، ہالینڈ کا دورہ خالصہ اردو کلاس کی دیکھ بھال کے لئے ہے اور اس معاملے میں جن ہالینڈ کے کارکنوں اور کارکنات کو معین طور پر کہا جائے صرف وہی خدمت کریں ورنہ اس سے پہلے تو جماعت کو کسی بلاوے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.ہمیشہ جب بھی میں آتا تھا مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد یہاں اکٹھے بیٹھتے تھے اور سوال و جواب کی مجالس چلتی تھیں اور آنا جانا ایک ہجوم سا چلا رہتا تھا ایک تانتا بندھا رہتا تھا ہر خاندان کا یا اکثر ان کا جو ملنے کی خواہش رکھتے ہوں اور آ بھی سکتے ہوں.بہت سے ایسے بھی تھے جو آنہیں سکتے تھے کیونکہ قوانین کی مجبوریاں ہیں اب بھی ایسے ہوں گے مگر یہ سفر بالکل مختلف نوعیت کا تھا.چنانچہ اکثر مانوس چہرے اور خاندان، ان کے بچے وہ اس دفعہ اس احترام میں یہاں نہیں تشریف لائے کہ ہمارے اردو کلاس کے لئے جو پروگرام ہیں ان میں مخل نہ ہوں اور یہ ان کی قربانی تھی لیکن جنہوں نے اردو کلاس میں یعنی اردو کلاس کو یہاں کا میاب بنانے میں حصہ لیا ہے ان کی اور بھی بڑی قربانی ہے کیونکہ تعداد میں اگر چہ بہت زیادہ نہیں تھے مگر دن رات محنت کی ہے.امیر صاحب، ان کی بیگم، صدر خدام الاحمدیہ، ان کی بیگم، لجنہ اماءاللہ کی صدر اور حمید صاحب اور ان کی بیگم، یہ تو چند نام ہیں جو میں لے رہا ہوں ورنہ بہت سے نام ایسے ہیں جن کو لئے بغیر میرا ذہن شناخت کرتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ انہوں نے بہت زیادہ محنت کی ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء دے.جہاں تک ان کی محنت کا تعلق ہے اس کی جزاء تو خدا ہی دے سکتا ہے مگر جہاں تک اردو کلاس کا ان لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اور پھر نا ہے یہ بھی خود ان کی محنت کی ایک جزا تھی اور جتنے کارکن تھے ان میں سے ہر ایک خوشی محسوس کر رہا تھا کہ ہمیں موقع ملا اور ہمارے بچوں کو اس کلاس میں شامل ہونے کا موقع ملا اور یہ ن سپیٹ کا علاقہ سارا اردو کلاس کے نتیجے میں یوں لگتا تھا جیسے ایک غیر معمولی تقریب منائی جا رہی ہے.سارا شہر ان بچوں اور بڑی بڑی لڑکیوں کو برقعہ پہنے سائیکل چلاتے دیکھ رہا تھا اور غیر معمولی طور پر وہ دلچسپی لیتے رہے اور اثر قبول کرتے رہے جن کی بعض اطلاعات تو معین ہمیں

Page 646

خطبات طاہر جلد 16 640 خطبه جمعه 29 راگست 1997ء مل گئیں مگر بعض اطلاعات تاثرات کے طور پر چہروں پہ دکھائی دیتی ہیں مگر لفظوں میں نہیں ڈھالی جاسکتیں.مگر جنہوں نے بھی اپنا تبصرہ کیا ہے وہ غیر معمولی طور پر محبت کا نتبصرہ کیا ہے یہاں تک کہ بس کے ڈرائیور صاحب جو ساتھ لے کے آئے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ کوئی ایسا گروہ دیکھا ہے جو اس طرح بس کے اندر بھی اور باہر بھی اللہ کا نام بلند کرتا رہے لا الہ کے نغمے پڑھتار ہے اور ان کی طرز عمل، ان کے اخلاق دیکھ کر بعض ہمارے سفر کرنے والوں سے انہوں نے بہت محبت سے ذکر کیا ہے کہ میں غیر معمولی طور پر متاثر ہوں.یہ دراصل اخلاق ہی کا کھیل ہے.ان کے اخلاق نے آپ کو متاثر کیا، آپ کے اخلاق نے ان کو متاثر کیا اور دونوں ایک دوسرے کے لئے سہارا بنتے ہیں.خُلق ، خُلق کو ایک حوصلہ دلاتا ہے اور بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے.چنانچہ جیسے قصاب کی چھریاں جب آپس میں چلتی ہیں تو تیز ہوتی ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ انسان کے اخلاق بھی ایک دوسرے سے مل کر کند نہیں ہوتے بلکہ تیز ہوتے ہیں اور بہت سی باتیں انسان سیکھتا ہے، بہت سی باتیں سکھاتا ہے.اگر چه سب اردو کلاس پوری طرح یہاں نہیں آ سکی مگر جتنی بھی آئی انہوں نے ہالینڈ کی بہت سی پیاری، باقی رہنے والی یا دیں جمع کر لی ہیں اور اکثر نے یہ کہا ہے کہ ہم ساری زندگی یہ سفر نہیں بھولیں گے.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہاں کی وادیاں لا الہ الا اللہ سے گونجتی رہیں.ان کے نغمات کا ہمیشہ خلاصہ یہی لا الہ الا اللہ ہی رہا اور جب بھی کوئی دوسرے نغمے بھی سناتے تو آخر اسی پر تان ٹوٹتی تھی.مختلف زبانوں میں مختلف کے یہ مختلف انداز میں یہ سارا علاقہ لا الہ الا اللہ سے گونجتا رہا جو معنی خیز تھا محض نغمہ نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والا تو حید کا ایک اعلان تھا.میں سمجھتا ہوں کہ اس اعلان کو اب صرف نغمات میں نہیں بلکہ عمل کی صورت میں ڈھالنے کے لئے ہالینڈ کی جماعت پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہالینڈ کی جماعت نے جو نغمے سنے ہیں ان نغموں کو ہالینڈ کے لوگوں کے خون میں رسانے بسانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی رگوں میں ، ان کی خون کی گردش میں لا الہ الا اللہ کا ورد شروع ہو جائے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی طرف بلا نا مشکل نہیں ہے.مختلف سوال و جواب کی مجالس میں میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی توحید کی بات کی جائے تو مشرکین بھی سر نگوں ہو جاتے ہیں.بعض مجالس میں بڑے بڑے عیسائی پادری بھی آئے ہوئے تھے

Page 647

خطبات طاہر جلد 16 641 خطبه جمعه 29 راگست 1997ء یعنی بڑے بڑے سے مراد یہ ہے کہ اپنے ذہن میں یہ تاثر لے کر کہ ہم اپنے مؤقف پر سخت ہیں اور اس مؤقف کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ، یہ خیال رکھتے ہوئے آئے کہ وہ خود بھی تو حید کے علمبردار ہیں حالانکہ عیسائیت کی موجودہ شکل میں توحید کا کچھ بھی باقی نہیں رہا لیکن سوال و جواب کی مجالس میں جب اسلام کی توحید کا پر چار ہوتارہا ہے تو ان کی زبانیں گنگ تھیں، ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں رہا.تو اس لئے میں تجربے سے آپ کو بتا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ تو حید پر زور دیں اور یہ زمانہ ہی تو حید پر زور دینے کا ہے اور توحید الہی کو اپنے اخلاق میں جاری کریں تو پھر یہ کلام پر اثر ہوگا.اگر اخلاق میں توحید نہ ہو، اگر دل بٹے ہوئے ہوں جماعتوں کے، اگر ان کے قول اور فعل میں ایک توحید کا رنگ نہ جما ہوا ہو، جو کہیں وہی کرتے بھی ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو پھر تو حید کا کلام اور توحید کی دعوت دینا ایک قسم کا ایک بے کار مشغلہ ہو جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب لوگ میرے گزشتہ خطبات میں چونکہ ہمیشہ اسی پر زور رہا ہے اس مضمون کو تو یقینا سمجھ چکے ہوں گے اور اب اس مضمون کو اپنی ذات میں جاری کرنے کا وقت ہے.اور اس پہلو سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ ایسے ملفوظات یا تحریرات ہیں جن میں جماعت کو تو بہ کی حقیقت اور خدائے واحد و یگانہ کی طرف لوٹنے کی حقیقت کا ایسے عارفانہ رنگ میں بیان ہے کہ انسان توحید کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ، خدا کے خوف کو سمجھنے کے لئے بیعت کے ذریعے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ان کلمات کا محتاج ہے.ان کلمات کے بغیر جو ایک عارف باللہ کا کلام ہے حقیقت میں ان مضامین کو ہم گہرائی میں نہیں سمجھ سکتے.نام میں تو سمجھتے ہیں مگر اس نام کے پیچھے کیا چیزیں پوشیدہ ہیں، کیا حکمتیں ہیں، ان باتوں کو سمجھنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مد کے بغیر مکن نہیں ہے.اب میں براہ راست حضرت اقدس کا کلام آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بہت سی ایسی باتیں جو ہم سرسری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن ان کو آپ نے بہت گہرائی کی نظر سے دیکھا ہے اور ایسے سادہ لفظوں میں ان کو بیان فرمایا ہے کہ کوئی احمدی جو خواہ علم کی کسی سطح پر ہو اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹھہر کر پوری توجہ کے ساتھ ان تحریرات کو بار بار پڑھے اور ان کے مضمون میں اترنے کی کوشش کرے.اس موقع پر حضور نے لاؤڈ سپیکر کے نظام میں خرابی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

Page 648

خطبات طاہر جلد 16 642 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء یہ جو لاؤڈ سپیکر ہے اس میں ذرا سا میں منہ پھیروں تو آواز ختم ہو جاتی ہے ایسا رکھنا چاہیئے کہ جب آدمی کسی طرف منہ کرتا ہے کبھی ادھر منہ کرتا ہے تو آواز کے لیول میں ، جس حد تک وہ آواز مناسب ہے اس میں کمی نہ آئے.نہ ضرورت سے زیادہ اونچی ہو.ورنہ وڈیوز میں جب ہم دنیا کو دکھاتے ہیں تو دیکھنے والوں کو بہت عجیب لگتا ہے کبھی اونچی آواز ہوگئی کبھی نیچی آواز ہوگئی.اب یا تو میں بالکل سامنے یہیں بولتا رہوں اور یا عادت کے مطابق جب حرکت کروں تو پھر یہ آواز ڈوب جائے گی.بہر حال میں کوشش کرتا ہوں کہ جس حد تک بھی ممکن ہو آپ تک میں اس کلام کو صاف، کھلے لفظوں میں پہنچا سکوں.) فرماتے ہیں: دیکھو! یاد رکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہو کہ میں گناہ سے پر ہیز کروں گا یہی تمہارے لئے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے ( آپ چاہتے ہوں گے، اکثر احمدی چاہتے ہیں کہ ہمیشہ بیعت میں شامل ہو جائیں یہ تکرار ہے.فرماتے ہیں) بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی اور خدا تعالیٰ کا خوف ہو.ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی برے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کیا فائدہ.یقینا مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لئے 66 بڑا ذریعہ خوف الہی ہے...قرآن کریم میں بار بار انبیاء کے متعلق بَشِيرًا وَنَذِيرًا ، بَشِيرًا اور نَذِيرًا کے القاب آتے ہیں ان کا عام انسان مطلب غالبا نہیں سمجھتا.وہ بشیر کی حد تک تو سمجھتا ہے، نذیر سمجھتے ہیں کہ وہ غیروں کے لئے ہیں یعنی دوسری قوموں کو ڈرانے کے لئے.یہ غلط نہی ہے جو آپ کے دل سے دور ہونی چاہئے.آنحضرت یہ بشیر بھی تھے اور نذیر بھی اور دونوں کے لئے.جو آپ کو ماننے والے تھے ان کے لئے بھی آپ بشیر تھے اور نذیر بھی ساتھ ہی تھے.جو غیر قو میں تھیں ان کے لئے بھی آپ بشیر تھے اور نذیر بھی ساتھ ہی تھے.تو عموماً میں نے دیکھا ہے کہ مومن سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ مان گئے ہمارے لئے صرف بشیر ہیں اور جو نہ ماننے والے ہیں ان کے لئے نذیر ہیں یعنی ڈرانے والے.یہ بالکل غلط تاثر ہے اور اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گناہ کی پرورش ہوتی ہے، گناہ کو حوصلہ ملتا ہے اور انسان

Page 649

خطبات طاہر جلد 16 643 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء سمجھ نہیں سکتا کہ گناہ کے مٹانے کے لئے محض بشیر نہیں بلکہ نذیر کی بشیر سے بھی زیادہ ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی کو خدا تعالیٰ کا خوف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: یقیناً مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لئے بڑا ذریعہ خوف الہی ہے“.یہ خوف الہی انبیاء دلاتے ہیں.انبیاء اگر خوف کی حقیقت سے آپ کو آگاہ نہ کریں تو آپ کو خوف الہی کی حقیقت کا علم نہیں ہوسکتا.اگر یہ نہیں ہے تو ہر گز ممکن نہیں کہ انسان ان سب گنا ہوں سے بچ سکے جو کہ اسے مصری پر چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں.ایک مصری کی ڈلی پہ جس طرح چیونٹیاں چھٹی ہوئی ہوتی ہیں اس طرح آپ نے فرمایا کہ انسان کے ساتھ گناہ چھٹے ہوئے ہیں کیونکہ انسان ان گناہوں کو مٹھاس مہیا کرتا ہے، ان کی پرورش کے لئے اپنے خون جگر کو ان کے چاٹنے کا موقع دیتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو گناہ خود بخود جھڑ جائیں گے.اگر میٹھے کی ڈلی مٹھاس چھوڑ دے تو چیونٹیاں خود بخود اس کو چھوڑ کے چلی جائیں گی.تو اس بات میں گہری حکمت یہ ہے کہ انسان خود گناہوں کی پرورش کرتا ہے اور گناہوں کے لئے لذت کے سامان پیدا کرتا ہے.بظاہر انسان اپنے لئے لذت چاہ رہا ہے مگر حقیقت میں وہ لذت گناہوں کو پہنچتی ہے اور اگر گناہوں کو لذت یابی کے سامان مہیا نہ ہوں تو گناہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے ان کو کوئی بھی فائدہ آپ کے ساتھ رہنے میں نہیں رہے گا.مگر خوف ہی ایک شے ہے کہ حیوانات کو بھی جب ہو تو وہ کسی کا نقصان نہیں کر سکتے.“ حیوانات کو اگر خوف ہوگا تو وہ کسی کا نقصان نہیں کر سکتے.مثلاً بلی جو کہ دودھ کی بڑی حریص ہے جب اسے معلوم ہو کہ اس کے نزدیک جانے سے سزا ملتی ہے، پرندوں کو جب علم ہو کہ اگر یہ دانہ کھایا تو جال میں پھنسے اور موت آئی تو وہ اس دودھ اور دانہ کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے.اس کی وجہ صرف خوف ہے.“

Page 650

خطبات طاہر جلد 16 644 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء ایک روز مرہ حقیقت ہے ہر انسان اسے دیکھتا ہے مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا.جانور تو جانور ہے مگر اس کے باوجود اس کو اپنی جان پیاری ہے.اب اسے علم ہو کہ دانے کے ساتھ ایک خوف لگا ہوا ہے تو کبھی دانے پہ منہ نہیں مارے گا خواہ کیسی ہی بھوک ستائے.پس جبکہ لا یعقل حیوان بھی خوف کے ہوتے ہوئے پر ہیز کرتے ہیں تو انسان جو عقلمند ہے اسے کس قدر خوف اور پر ہیز کرنا چاہئے.یہ امر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقع پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقع پر وہ جرم کی جرات ہر گز نہیں کرتا.“ اب ہم نے دیکھا ہے بہت لوگوں کو یورپ میں عادت ہے کہ وہ Speed Limit کی پابندی نہیں کر سکتے اور یہ ایک ایسا جرم ہے جو ایک عام دستور بن گیا ہے، اس جرم میں سب ہی شامل ہیں.کوئی بڑھا، کمزور جس کو تیز چلانے سے ڈر لگتا ہو وہ اس وجہ سے رکے گا.سپیڈ کی پابندی جو حکومت نے لگائی ہے اس وجہ سے نہیں رکھتا.مگر سب تیز رفتار کار میں جارہی ہیں اور اچانک سب آہستہ ہونے لگ جاتی ہیں اور کچھ آگے جا کے پتا چلتا ہے کہ پولیس کی کار کھڑی تھی.دیکھو پولیس کے خوف سے ایک چھوٹا سا جرم جو روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اس سے بھی انسان پر ہیز کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: جس موقع پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقع پر وہ جرم کی جرات ہرگز نہیں کرتا.“ اس مضمون کو آگے بیماریوں کے تعلق میں بھی بیان فرماتے ہیں ” مثلاً طاعون زدہ گاؤں میں اگر کسی کو جانے کو کہا جاوے.ایسا گاؤں جس میں طاعون پھیلا ہو.اس زمانے میں جب طاعون پھیلا ہوا تھا سوائے احمدیوں کے کوئی طاعون زدہ گاؤں میں جانے کی جرات نہیں کیا کرتا تھا.تو کوئی بھی جرات کر کے نہیں جاتا حتی کہ اگر حکام بھی حکم دیں تو بھی ترساں اور لرزاں جائے گا.( یعنی حکام نے مجبور کر دیا کہ تم نے ضرور جانا ہے تو کانپتا ہوا، اپنی جان کے خوف سے لرزتا ہوا وہاں پہنچے گا ) اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگا کہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوضہ

Page 651

خطبات طاہر جلد 16 645 خطبه جمعه 29 راگست 1997ء کام کو جلد پورے کر کے وہاں سے بھاگے.پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے لیکن یہ خوف کیونکر پیدا ہو اس کے لئے معرفت الہی کی ضرورت ہے.جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا.ہر کہ عارف تر است ترساں تر 66 ہر وہ شخص کہ عرفان رکھنے میں زیادہ ہے وہ خوف میں بھی زیادہ ہو گا.“ یہ پہلو ہے جس کے اوپر بہت غور کی ضرورت ہے اور اس مضمون کو سمجھنا لازم ہے کیونکہ آگے جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ انسان ادنی کیٹروں سے بھی ڈرتا ہے جیسے پسو اور مچھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ خدا جو قادر مطلق اور علیم و بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرات کرتا ہے.سوال یہ ہے کہ خوف الہی اور جانور اور بیماری کا خوف کیا یہ ایک ہی چیز ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب خوف الہی کی مثال دیتے ہیں تو جانوروں کی مثال دے رہے ہیں، مچھروں کی مثال دے رہے ہیں، پسو کی مثال دے رہے ہیں، بلی اور دانہ کھانے والے پرندوں کی مثال دیتے ہیں تو کیا آپ اس سے یہ سمجھے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی بھی ایسی ہی صفات ہیں جیسے بلی، بچھو، کیڑے مکوڑے اور ان سے خوف رکھنا اور خدا کا خوف رکھنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ہمارا خدا کس قسم کا خدا ہے جو کبھی پسو کے طور پر دکھائی دے گا، کہیں بندروں کے طور پر، کہیں مچھروں کے طور پر.یہ وہ نکتہ ہے جسے میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ خوف الہی کی حقیقت یہاں سے کیا ظاہر ہو رہی ہے.حیرت کی بات ہے آپ سنیں تو شاید آپ کو تعجب ہو کہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان جانوروں ہی میں اللہ کی معرفت ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کی وہ تقدیر ظاہر کر رہے ہیں جو قانون قدرت کے طور پر رائج ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں.ایک مچھر کے یا پسو کے کاٹنے سے جو طبعی بدنتیجہ ظاہر ہوگا یہ قانون قدرت کی مطابقت میں ہے اور ہر قانون کے ساتھ خدا تعالیٰ نے کچھ مضرات لگا دیئے ہیں، کچھ فوائد رکھ دئے ہیں اور وہ قوانین جن کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ نقصان دہ ہوں وہ کبھی بھی

Page 652

خطبات طاہر جلد 16 646 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئیں گے.وہاں خدا کا کلام ہے جو بول رہا ہے اور خدا کا خوف ان معنوں میں ہے کہ خدا تعالیٰ جب قانون جاری کر دیتا ہے کہ ایک چیز سے تمہیں نقصان ہوگا تو وہ قانون لازماً کام کرتا ہے اور وہ شخص جو سانپ کے منہ میں انگلی دے گا یا آگ میں ہاتھ ڈالے گا اگر آگ جلاتی ہے تو ذاتی فعل کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا کے منشاء کے تابع جلاتی ہے.اگر سانپ ڈستا ہے تو خدا کے حکم کے تابع یعنی ان معنوں میں کہ اس کو ڈسنے کی جبلت عطا ہوئی ہے، اس کی خصلت میں ڈسنا رکھ دیا گیا ہے اور اس کی مجال نہیں ہے کہ اس سے انحراف کرے.پس قوانین قدرت سے خوف جب وہ بے رعایت اور بے دھڑک ہر نیک و بد پر اثر انداز ہوتے ہیں دراصل ان قوانین کو جاری کرنے والے کا خوف ہے اور ان قوانین سے ان قوانین کے بنانے والے یعنی خدا تعالیٰ کا رعب اور دبدبہ ثابت ہوتا ہے.اگر غور کریں تو آپ کو قانون قدرت کی یہی حکمت سمجھ آئے گی کہ خدا نے قانون قدرت کو دو طرح کی خاصیتیں بخشیں ، ایک منفی اثرات اور ایک مثبت اثرات.اگر انسان قانون کی منفی طاقتوں کو نظر انداز کرے تو وہ لازماً اس کو سزا دیں گی.یہ قوانین خود کار مشینوں کی طرح چلتے ہیں اور سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت خاصہ ان کو عمل سے روک رکھے یہ اپنے عمل میں نیک و بد میں کوئی تمیز نہیں کرتے.ان غالب اور مقتدر قوانین کا خوف دراصل ان کا خوف نہیں ہے بلکہ وہ قانون جاری کرنے والے کا خوف ہے جس کے قانون کے تابع ایک چھوٹے سے چھوٹا ادنی کیڑا بھی اسی طرح حرکت کرے گا جیسے بڑے سے بڑا جانور اور خوفناک سے خوفناک چیز یا زلزلے یا طوفان اپنا اثر دکھاتے ہیں.یہ اثر دکھانا خدا کے منشاء کے تابع روز مرہ دکھائی دیتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو خوف کی مثال بتاتے ہوئے دکھا دیا ہے کہ خوف کیا چیز ہے.خوف تو خدا کا ہے مگر ظاہر ہوا اس کی تخلیق میں سے اور اس کی تخلیق کے صحیح استعمال کے ساتھ وہی چیز جو نقصان پہنچا سکتی ہے فائدہ بھی پہنچادیتی ہے اور بڑے بڑے حکماء نے جو شریر سے شریر جانور ہیں ان کے فوائد بھی گنائے ہیں اور قانون قدرت میں ایک جاری فائدہ بھی وہ دے رہے ہیں اور انسان بھی جب چاہے ہر بداثر رکھنے والی چیز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ مثبت چیز بھی خدا تعالیٰ ہی کے حکم کے تابع ہے اس سے وہ چیز گریز نہیں کرسکتی.یہ مطلب گناہوں سے تو بہ کا کہ آپ فرماتے ہیں قانون قدرت جو روحانی ہے وہ بھی اسی طرح

Page 653

خطبات طاہر جلد 16 647 خطبه جمعه 29 راگست 1997ء پر قائم ہے تم یہ خیال نہیں کر سکتے کہ خدا کے بنائے ہوئے ظاہری قانون سے تم بھاگ سکتے ہو اور جب بھاگتے ہو یعنی اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہو تو خوف الہی ہے گویا کہ جو تم پر طاری ہو جاتا ہے لیکن وہ مادی دنیا کا خوف ہے.تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ قادر مطلق خدا روحانی دنیا کا بھی خدا ہے اور روحانی دنیا کو بھی اس نے اسی طرح قوانین کے تابع پیدا کیا ہے اور وہ قوانین اسی طرح لاز ما اثر دکھاتے ہیں جس طرح دنیا کے مادی قوانین اور مادی نقصان دہ جانور ، اگر آپ غلط استعمال کریں گے تو اپنا اثر دکھائیں گے.یہ خوف الہی کی حقیقت ہے جس سے اکثر دنیا نا واقف ہے.جانور سے ڈرتے ہیں، کتے سے ڈریں گے، بلی سے ڈریں گے، ہمارے ہاں کلاس میں ایک موٹا بچہ ہے وہ جانور کے نام سے ڈرتا ہے مگر خوف الہی کی وجہ سے نہیں.اس کے دل میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے بس.مگر جانور کی یہ معرفت اس کو حاصل ہے کہ وہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، اتنا پتا ہے اور جانور کے قریب تک نہیں پھٹکتا.تو حقیقت یہ ہے کہ اگر گناہ کی ایسی ہی حقیقت ہو جیسے موٹے بچے کو حاصل ہے تو آپ بھی اسی طرح ڈریں گے اور کا نہیں گے اور تھر تھرائیں گے اگر گناہ کا نام بھی لیا جائے مگر معرفت نہیں.پس خوف الہی کی حقیقت کو سمجھیں.انسان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا، گناہ ہٹ جائیں گے سب کچھ ٹھیک ہے.مگر سانپ کے منہ میں کیوں نہیں انسان ہاتھ ڈال دیتا، ایک خوفناک کتے کو کیوں نہیں بھڑکا تا کہ اس پر حملہ آور ہو.یہ کیوں نہیں سوچتا کہ خدا تعالیٰ معاف کر سکتا ہے معاف کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک طبعی قانون کی طرف اشارہ کر کے خدا کے خوف کی حقیقت آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ گناہ جب سرزد ہو وہ اسی وقت اپنا اثر دکھاتا ہے اور اس کے اثر کو آپ ٹال نہیں سکتے.جو بخشش کا مضمون ہے وہ بعد کا مضمون ہے.وہ آخرت میں جو اس کی سزائیں ملنی ہیں ان کے متعلق مضمون ہے اور اس دنیا میں بھی کسی حد تک یہ چلتا ہے.مگر یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کو سانپ کے منہ میں انگلی ڈالنے سے نقصان تو پہنچ گیا ہو مگر ساتھ تریاق بھی مہیا ہو جائے ،ساتھ شفا کا ذریعہ بھی میسر آجائے.یہ ذریعہ جو ہے یہ بخشش ہے لیکن کون ہے جو روز سانپوں کے منہ میں انگلی دے کر مادی اطباء سے بخشش طلب کرتا رہے.کون ہے جو چوٹیں کھائے اور اپنا سر دیواروں سے پٹکائے اور پھر ڈاکٹر کے پاس بھاگا بھاگا جائے.یہ جو بعد میں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے یہ بخشش کا مضمون ہے یعنی گناہ کا بداثر ایک دفعہ تو ضرور ہوگا.یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ گناہ سرزد ہو اور اس کا بداثر ظاہر نہ ہو کیونکہ قانون قدرت میں

Page 654

خطبات طاہر جلد 16 648 خطبه جمعه 29 راگست 1997 ء نے یہی دیکھا ہے.مچھر کاٹے، بچھو کاٹے، سانپ کو آپ موقع دیں کہ وہ آپ پر پھن پھیلائے ، ہر صورت میں آپ کو مادی قانون توڑنے سے ایک نقصان لازماً پہنچے گا.اس نقصان سے بچنے کے لئے مغفرت ہے اور دنیا میں مغفرت طلب کرنے کا مطلب ہے اچھے طبیب کے پاس جائیں، اچھے ڈاکٹر کا دروازہ کھٹکھٹائیں لیکن بعض دفعہ تریاق عراق سے آتا ہے اور یہاں موجود ہی نہیں ہوتا اور جب تک عراق سے تریاق آئے سانپ کا ڈسا ہوا مر بھی جاتا ہے.اب اس دفعہ اردو کلاس میں ہمیں اس قسم کا بہت تجربہ ہوا.کسی بچے کوکوئی بیماری ہوئی.خدا تعالیٰ کا یہ فضل رہا ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں جس کو چوٹیں لگی ہوں، نقصان پہنچا ہواور اس کا ساتھ ساتھ ہومیو پیتھی کے ذریعے مغفرت کا سامان نہ کیا گیا ہو اور شدید بیماریوں میں مبتلا بچے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ اٹھاتے رہے.یہ محض خدا کا فضل تھا جو اس نے ہم پر نازل فرمایا.مگر بعض بچوں کی دفعہ وہ کہتے تھے یہ دوائی نہیں ہے.یہ انگلینڈ سے آئے گی، فلاں جگہ سے آئے گی ، تب جا کے فائدہ ہوگا اور ان کو فوری ضرورت ہوتی تھی.تو اس صورت میں پھر متبادل انتظام کا انسان کو علم ہونا چاہئے.شفا کے بھی متبادل انتظامات ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف ایک دوائی پر انحصار نہیں کیا.یہ مضمون اس کی مغفرت کے حاوی ہونے سے تعلق رکھتا ہے.گناہ کا صدمہ تو ہوا یا ظاہری طور پر قانون قدرت کی خلاف ورزی سے نقصان تو پہنچا مگر اس نقصان کو دور کرنے کے لئے محض ایک ذریعہ خدا نے نہیں رکھا بلکہ بہت ذرائع رکھ دیئے مگر نقصان پہنچنے کے بعد، اس کی تلافی کی خاطر.تو اس لئے یہ یاد رکھیں کہ جب ہم کہتے ہیں مغفرت وسیع ہے تو ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مغفرت کے نتیجے میں قانون قدرت اثر چھوڑ دے گا.مغفرت کی وسعت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو قانون خود بنا رکھے ہیں ان کی خلاف ورزی کرے اور کسی کی خاطر ان کو توڑ دے.ہرگز نہیں تو ڑتا.وہ لازم قانون ہے، سنت اللہ اس کو کہتے ہیں.تمام خدا کی تقدیر خواہ وہ ظاہری ہو یا روحانی ہو وہ سنت اللہ ہے جس نے لازماً کام کرنا ہے.مگر پھر وہ بداثرات کو مٹانے کے لئے چونکہ غفور رحیم بھی ہے وہ انسان پہ مہربان ہوتا ہے اور ان کے بدنتائج کو کم سے کم کرنے کے لئے اس کے بہت سے ذرائع مقرر ہیں.ایک طب نہیں ہے جس سے فائدہ ضرور پہنچے.دنیا میں بہت سے طب کے نسخے ہیں، بہت سی قسم کے اطباء مختلف طب کے طریقوں سے کام لیتے ہیں ان میں ہومیو پیتھی ایک ہے.اگر چہ ہم اس پر زور دیتے ہیں کہ اسی سے فائدہ اٹھاؤ مگر یہ بات جھوٹ ہے کہ اگر ہو میو پیتھی میسر

Page 655

خطبات طاہر جلد 16 649 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997 ء نہ آئے تو گویا مغفرت کا سامان نہیں ہوسکتا.کوئی نہ کوئی علاج دوسرے طبی نظام میں ضرور مل جائے گا.ایک کی بجائے دو تین چار بعض دفعہ صدری نسخوں میں جو سینہ بہ سینہ چلے آتے ہیں آپ کو ایسا علاج مل جاتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے روزمرہ کے دوسرے ذریعے کام نہیں آتے.بعض دفعہ جب کچھ بھی میسر نہ ہو تو قانون قدرت میں مغفرت کا ایک اور قانون جاری ہو جاتا ہے اور وہ دعا ہے.دعا کے ذریعے ، جب آپ علاج کی کوشش کریں اور میسر نہ آئے تو اللہ کی مغفرت مادی دنیا پر بھی اسی طرح غالب ہے جس طرح روحانی دنیا پہ غالب ہے اور وہاں آخری صورت دعا کی چلتی.چنانچہ بسا اوقات ایسا ہوا ہے اس سفر میں بھی مجھے تجربہ ہوا کہ بعض بچوں کے لئے کوئی صورت ظاہری دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن جب دعا یہ توجہ دی گئی تو اچانک وہ ہنستے کھیلتے ٹھیک ہوتے ہوئے دکھائی دیئے اور ان کو بھی نہیں پتا کہ کیا بات کام کر گئی ہے.قانون قدرت کے مطابق روحانی زندگی کو دیکھیں.انہی قوانین کے تابع اگر کوئی زہریلا جانور انسان کو اس کی بے احتیاطی کی وجہ سے ڈستا ہے تو بلا تر دوا سے اپنی غلطی اور اس کے بدنتیجہ کا احساس ہو جاتا ہے لیکن گناہوں کا معاملہ اس سے کچھ مختلف ہے، ہر بار جب گناہ انسان کو ڈستا ہے تو اس کا فوری زہریلا اثر ہر انسان شناخت نہیں کر سکتا.مگر یہ جلد یا بدیر ضرور ظاہر ہوتا ہے اور یہی وہ بڑا خطرہ ہے جو انسان کو مسلسل روحانی طور پر نقصان پہنچاتا رہتا ہے.ایسے گناہ جو گناہ کرنے والا فوراً شناخت نہ کر سکے وہ اثر تو دکھاتے رہتے ہیں مگر ان کی تکلیف فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتی.اس کے نقصانات میں سے ایک تو یہ ہے کہ گناہگار رفتہ رفتہ بدی میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور گناہ اسے مسخ کرتے چلے جاتے ہیں جیسے کسی کو معلوم نہ ہو کہ وہ کوڑھ کا مریض ہے مگر اس کے علم سے بے نیاز کوڑھ اس کے سارے بدن پر اثر انداز ہوتی چلی جائے گی.اس غفلت کا ایک طبعی نقصان یہ ہے کہ جب انسان اپنے مرض کو پہچان ہی نہ سکے تو اس کے علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا.یہی حال گناہوں کا ہے ان کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے علاج یعنی استغفار کی طرف توجہ نہیں ہوتی.مغفرت کی جستجو اور طلب میں غفلت ہو جاتی ہے.یہ تمام مضمون خوف الہی سے تعلق رکھتا ہے.اس کے ساتھ خدا کی مغفرت، اس کی بخشش اس دنیا میں یا اُس دنیا میں نجات پانا اس سارے مضمون کی آخری تان دعا پہ ٹوٹے گی.جب انسان بے قرار ہو جائے اور اس کی کچھ پیش نہ جائے ، یہ وہ دعا ہے جسے قرآن کریم مضطر کی دعا کہتا ہے.وہ خدا جو عام حالات میں خدا سے روگردان

Page 656

خطبات طاہر جلد 16 650 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997 ء انسان کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں مغفرت فرماتا ہے لیکن اکثر اوقات انسان اس طرف توجہ نہیں دیتا یہاں تک کہ گناہوں میں ڈوب جاتا ہے لیکن جب اس کے لئے کوئی راہ نہیں رہتی، کوئی پیش نہیں جاتی بعض دفعہ اچانک گناہوں کے بداثرات میں اس طرح گھر جاتا ہے کہ اس کے پاس علاج کوئی نہیں لیکن ایسے حالات میں وہ خدا کو پکارتا ہے اور یہاں تو حید باری تعالیٰ ایک اور جلوہ دکھاتی ہے.خدا کے سوا کوئی بھی نہیں جو اس کی مدد کر سکے صرف خدا پر سہارا ہو جاتا ہے اس کو تو حید خالص کہتے ہیں اور توحید خالص کا جلوہ دعا کے ذریعے دکھایا جاتا ہے.دعا کا توحید کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اگر دعانہ ہو تو تو حید کا آپ کو کچھ بھی علم نہیں ہوسکتا.تو حید کو خدا نے بندوں کے ساتھ اور ذریعوں کے علاوہ دعا کے ذریعے مضبوطی سے باندھا ہے.پس جب آپ دعا کریں گے تو مغفرت کے سامان اور گناہوں سے بچنے کے لئے ایک اور ذریعہ ہاتھ آ جائے گا لیکن وہ دعا جو مضطر کی دعا ہو.مضطر اکثر انسان دنیا میں ہوتا ہے جب کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے جب کوئی صورت نہیں رہتی ، جب بیمار موت سے باتیں کر رہا ہے اس کے بچنے کے کوئی سامان نہیں اس موقع پر ہم نے ہمیشہ انسان کو مضطر دیکھا ہے لیکن اسی مضمون کو اپنی روحانی زندگی پر چلا کے دیکھیں.کیا کبھی آپ روحانی لحاظ سے بھی مضطر ہوئے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ دعا پھر کون سنے گا جس میں روزمرہ آپ نے خدا سے روگردانی کی ہو اور اس کی طرف توجہ کا خیال بھی پیدا نہ ہوا ہو.پس وہ خدا جو مضطر کی دعا سنتا ہے وہ خدا آپ پر اس جلال کے ذریعے ظاہر ہونا چاہئے جو آپ کو مضطر کر دے.بعض دفعہ انسان کو گناہ کی حقیقت میں اضطرار اس وقت پیدا ہوتا ہے جب گناہ کا ایک ایسا نتیجہ نکلنے والا ہو جو دنیا کو دکھائی دے دے.جب تک وہ دکھائی نہ دے ان کے اندر اضطرار نہیں پیدا ہوتا.بعض ایسے لوگ ہیں جو ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اب ان کا نام لینا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا مگر میں جانتا ہوں مجھے خط لکھنے میں وہ ظاہر کر دیتے ہیں.جب تک ایڈز اپنا اثر دکھا کر ان کو نگا نہ کر دے اس وقت تک ان کے دل میں اضطرار نہیں پیدا ہوتا.جب یہ پتا چل جائے کہ سارے ماحول کو اب پتا چلے گا کہ یہ کس بیماری سے مرا ہے تو اس وقت جان نکنے لگتی ہے اور اس وقت اضطرار پیدا ہوتا ہے.میں جو آپ کو بات سمجھا رہا ہوں یہ اس وقت کی بات نہیں سمجھا رہا.یہ مضطر ایسا ہی مضطر ہے جس کی کشتی طوفان میں پھنس جائے.مگر جو گناہوں سے بچنے کا طریق ہے وہ امن کی حالت میں

Page 657

خطبات طاہر جلد 16 651 خطبه جمعه 29 راگست 1997ء اضطرار کا پیدا ہونا ہے.ابھی گناہوں نے آپ کا گھیر انہیں ڈالا ، ابھی آپ بچ نکل بھی سکتے ہیں مگر بار بار گناہوں کی طرف مائل ہونے کی بیماری کا آپ کو احساس ہے اور خیال ہوتا ہے کہ ہم پھر دوبارہ انہی گناہوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں.یہ خیال ہے جو بڑھتا بڑھتا آپ کو مضطر کر سکتا ہے اور اگر اس خیال سے آپ مضطر ہو جائیں کہ ہم نہیں چاہتے اور یقینا نہیں چاہتے کہ بار بار خدا تعالیٰ کی نافرمانی کریں مگر طبعا دوبارہ اسی طرف جھکتے ہیں اور دوبارہ انہی گناہوں کا شکار ہو جاتے ہیں تو پھر یاد رکھیں کہ آپ کے اندر سے ایک مضطر اٹھ کھڑا ہو گا اور اس کی دعا ضرور سنی جائے گی.ایسے مضطر کی بھی خدا دعا سنتا ہے جو اضطرار کی کیفیت دور ہونے کے بعد پھر انہی چیزوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کشتی میں سفر کر رہے ہیں اچھی اچھی پیاری پیاری ہوائیں چل رہی ہیں اچانک ہوا میں ہیجان پیدا ہو گیا، ایک طوفان بن گیا اور خدا کے سوا کوئی نہیں جو اس کشتی والے کو بچا سکے وہ مضطر کی دعا ہے جو سنی جاتی ہے باوجود اس علم کے کہ جب انسان خشکی میں امن کی حالت میں پہنچے گا پھر وہی کام شروع کر دے گا.وہ خدا جو ایسے مضطر کی دعا بھی سن لیتا ہے جو اس کے اپنے خوف کی وجہ سے یعنی پیدا کردہ چیزوں کے خوف کی وجہ سے نہیں ، اس کے اپنے خوف کی وجہ سے یہ جانتے ہوئے کہ وہ مالک ہے، یہ جانتے ہوئے کہ گناہوں میں بار بار ملوث ہونا اس کے غیظ کو بھڑ کا سکتا ہے جو اس کی وجہ سے مضطر ہو کے دعا کرے اس کی دعا ضرور سنی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے حالات بدلنے کے اوپر قدرت رکھتا ہے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کو رفتہ رفتہ گناہوں سے نفرت ہو جائے اور ان سے دل اٹھ جائے اور جب گناہوں سے نفرت ہو جائے اور دل اٹھ جائے تو جیسے کیڑیاں اس میٹھے کو چھوڑ دیں گی جو مٹھاس نہ رکھتا ہو.ظاہری طور پر میٹھا ہولیکن Coating مثلاً ایسی ہو کہ اس مٹھاس کا اثر نہ پہنچ سکے تو کیڑیاں اس سے نہیں چمٹیں گی.اسی طرح آپ کے گناہ، جب ضطرار پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں دعا کریں تو دعا آپ کے اندر تبدیلی پیدا کرتی ہے.گناہوں نے تو کھینچنا ہے جب تک وہ اپنی ایک لذت رکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ گناہوں کی لذات سے آپ کو نجات بخش سکتا ہے.یہ وہ اضطرار کا مضمون ہے جسے ہر احمدی کو دلنشیں کر لینا چاہئے.خوف خدا کا معنی اس طرح سمجھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ جانوروں میں کیا ضر ر ہے اس سے کیسے بچا جاتا ہے.نہ بچھیں تو پھر مغفرت کیا معنی رکھتی ہے.اسی مضمون کو روحانی نظام میں جاری

Page 658

خطبات طاہر جلد 16 652 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء کر دیں تو آپ کو بالکل صاف دکھائی دے گا کہ یہ خوف الہی کس چیز کا نام ہے.خوف الہی غالب قانون قدرت کا نام ہے.خوف الہی غالب قوانین مذہب کا نام ہے.ان قوانین نے لازماً اثر دکھانا ہے جب تک یہ یقین دل میں نہ بھر جائے کہ یہ قوانین اثر دکھائے بغیر نہیں رہیں گے یہ ایک لازمہ ہے ایک ایسی سنت اللہ ہے جس سے انسان لاکھ سر ٹکرائے اس سنت کو شکست نہیں دے سکتا تو وہ جان لے گا کہ خوف الہی کیا ہے.قدرت الہی کا دوسرا نام خوف الہی ہے ، اس کو پہچاننے کا ، اس کے عرفان کا دوسرا نام خوف الہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:...بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں.اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو.بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا.وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے.گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 96،95) یہ دو چیزیں لازماً ضروری ہیں.دنیا میں بھی اگر آپ جنگل کا سفر کریں تو کوشش تو کرتے ہیں کہ ہر مہلک جانور سے بچ کے چلیں.کانٹوں سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ تدبیر ہے.مگر بسا اوقات تذبیر کام نہیں کرتی اور اس وقت دعا کام آتی ہے.اگر تد بیر پوری طرح اختیار کریں گے تو پھر دعا کام کرے گی.بہت سے ایسے تجارب ہیں اور احمدیوں کو بکثرت ہوئے ہیں یعنی عام احمدی کثرت کے ساتھ گواہ ہیں اس بات کے کہ جب انہوں نے تدبیر کا دامن نہیں چھوڑا، اسے اختیار کیا تو وہ خطر ناک حادثات جوتد بیر پر غالب آجاتے ہیں انہوں نے ان کو نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ دعا ایک غالب تقدیر کا نام ہے جو ہر تدبیر کی مدد بھی کرسکتی ہے، ہر تدبیر پر مخالفانہ طور پر غالب بھی آسکتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو گناہوں سے بچنے کے لئے تدبیر کا طریقہ

Page 659

خطبات طاہر جلد 16 653 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء سکھایا ہے اس طرف اکثر نو جوانوں اور بچوں کی توجہ نہیں ہوتی.گناہوں کو ابھارنے کے لئے اکثر بد مجالس غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوتی ہیں.اکثر سکول میں اگر بچے بدنصیبی سے برے بچوں کی مجلس میں شامل ہو جائیں تو ان کی باتیں، ان کے تذکرے کہ ہم نے یوں کیا، اس طرح مزہ آیا، فلاں کی اس طرح چوری کی ، فلاں ڈرگ میں اس طرح ملوث ہوئے اور بڑا مزہ آتا ہے.ایک دفعہ ڈرگ والا سگریٹ پی لو تو تم کہیں سے کہیں پہنچ جاؤ گے، یہ ساری باتیں ان بچوں کی ہیں جو بداثر ڈالنے والے بچے ہیں.ان کی مجلس میں اگر کوئی احمدی بچہ جائے گا یا احمدی بچی بیٹھے گی تو آپ کا فرض ہے کہ تدبیر اختیار کرتے ہوئے ان کو وہاں سے روکنے کی کوشش کریں کیونکہ بعض دفعہ براہ راست ڈسنا اپنی ذات میں ممکن نہیں جب تک ماحول میسر نہ آئے.پس ایسے بچوں کو آپ جنگل میں تو چھوڑ دیتے ہیں، ان کو ماحول میسر آتا ہے جس میں سانپ ڈسیں، بچھو کاٹیں ، جانور حملہ آور ہوں اور آپ اس وجہ سے بے خوف ہوتے ہیں کہ ان کو کچھ نہیں ہوگا ہم نے ان کی تربیت کی ہوئی ہے.یہ غلط بات ہے.اس موقع پر تدبیر ضروری ہے اور یورپ کے بچوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ ماؤں اور باپوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ گہری نظر سے ان کے حالات کا جائزہ لیا کریں.ان کے چہرے، ان کا اٹھنا بیٹھنا دیکھیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ماں باپ اگر شناخت کرنا چاہیں تو اپنے بچوں کی علامات کو شناخت نہ کرسکیں.وہ جس مجلس میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اس جیسی ادا ئیں اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں.بچہ ان باتوں کو چھپا ہی نہیں سکتا.وہ جن ایکٹروں سے متاثر ہوں گے ان ایکٹروں جیسے کپڑے پہننے لگ جائیں گے.اگر ان کا ہیرو چھاتی کے بٹن کھول کر رکھتا ہے تو وہ چھاتی کے بٹن کھول کے رکھیں گے تو کیا آپ کو ان کی نگی چھاتی دکھائی نہیں دیتی.کانوں میں بندے ڈالتے ہیں یا بالوں کی گت بڑھا لیتے ہیں تو کیا آپ کو دکھائی نہیں دیتا.اگر سر منڈا کے چلتے ہیں تو کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ انہوں نے کیوں سرمنڈایا ہے یہ علامات وہ ہیں جو بالکل ظاہر و باہر ہیں اور نشاندہی کر رہی ہیں ایک جنگل کی جس میں وہ سفر کر رہے ہیں.بد ماحول سے وہ متاثر ہو چکے ہیں اور ان کا بد ماحول ان کو اس قسم کی حرکتوں پر آمادہ کر رہا ہے.جب تک وہ پڑھائی کرتے ہیں آپ سمجھتے ہیں ان کا کوئی نقصان نہیں.جب تک آنکھوں کے سامنے برائی نہ کریں آپ سمجھتے ہیں کوئی برائی ان میں نہیں صرف کپڑے ہی ہیں نا.یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے.

Page 660

خطبات طاہر جلد 16 654 خطبہ جمعہ 29 راگست 1997ء آپ کہہ سکتے ہیں صرف جنگل میں ہی گئے ہیں نا.کون سا سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے لیکن جب جنگل میں جائیں گے تو سانپ ان کی انگلیوں پر پڑے گا اس کے منہ میں ہاتھ ڈالنا ضروری نہیں ہے.سانپ پاؤں اور پنڈلیوں پر کالے گا، یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ پاؤں اور پنڈلیاں اس کی طرف بڑھائی جائیں.تو ایک دفعہ اس جنگل میں سفر شروع ہو جائے تو پھر اس جنگل کے بداثرات ضرور ہوں گے.یہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تدبیر کہتے ہیں.تدبیر کے ذریعے کوشش کریں لازماً ہر بچے کی طرف توجہ دینی ہوگی.ہر نو جوان لڑکے اور لڑکی کی طرف توجہ دینی ہوگی ، ان کے بالوں کے سٹائل کو دیکھنا ہوگا ، ان کا دوپٹے سے گھبرانا آپ کو دکھائی دینا چاہئے کہ وہ گت اٹھا کر اور دو پٹہ ہٹا کر چلنا چاہتی ہیں.کوئی ان کو کہے کہ دیکھو تمہاری بچی کو کچھ ہورہا ہے وہ کہیں گے تم جاؤ اپنے بچوں کی فکر کرو تمہیں کیا ہماری بچی سے، بالکل ٹھیک ہے نیک ہے، نماز پڑھتی ہے.نماز تو پڑھتی ہے مگر کسی جھاڑی میں نماز پڑھے اور وہاں سانپ اور بچھو چھپے ہوئے ہوں تو وہ نمازی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ، اس کو بھی ضرور ڈس جائیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصائح میں یہ ساری باتیں مخفی ہیں یعنی غفلت کی آنکھوں سے پڑھنے والوں کے لئے مخفی ہیں.مگر اگر بیدار آنکھوں سے دیکھیں تو آپ کی تحریرات میں گناہوں سے بچنے کے لئے بے شمار ایسی تدابیر پیش فرما دی گئی ہیں جن پر غور کریں، پھر مغفرت کی طرف متوجہ ہوں ، خدا تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھیں، اس کے عرفان سے اس کا خوف معلوم کریں نہ کہ خوف ہی کو جو جانور کا خوف ہے خدا تعالیٰ کا خوف قرار دیدیں.ان سب امور کی طرف اگر آپ اور آپ کی وساطت سے میں تمام دنیا کی جماعتوں سے مخاطب ہوں اگر وہ اس تحریر کے مضمون کو سمجھیں اور اس پر غور کریں اور ہر قسم کی تدابیر اختیار کریں تو یہ ملک آپ پر غالب نہیں آسکتا.کوئی ملک بھی آپ پر غالب نہیں آسکتا.کوئی غیر اسلامی معاشرہ آپ کے حالات تبدیل نہیں کر سکتا.پھر آپ تبدیل کرنے والے ہوں گے، آپ کے ذریعے قوموں کے حالات بدل جائیں گے اور آج ہمیں ایسے احمدیوں کی ضرورت ہے جو زمانے کی روش بدل دیں، زمانے کے حالات کو تبدیل کر دیں، موت سے زندگی نکال کر دکھائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 661

خطبات طاہر جلد 16 655 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء سٹیٹ ہاؤس گیمبیا کا چیلنج.اللہ تعالیٰ اس سال میں ہرگز جماعت کو ذلیل ورسوا نہیں ہونے دے گا.(خطبہ جمعہ 5 رستمبر 1997ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کے خطبے کا موضوع گیمبیا کے حالات ہیں جن کو عمداً میں نے اب تک جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا کیونکہ کچھ ایسی صورتحال تھی جو کسی خاص کروٹ بیٹھ نہیں رہی تھی اور معین طور پر آخری صورت میں بہت سے امور تحقیق کے محتاج تھے اور چونکہ اس تحقیق کے دوران کچھ غلط خبریں بھی ملتی رہیں کچھ صحیح بھی ، پھر ان کی چھان بین کرنی پڑی ، حکومت کے بیانات مختلف رہے ایک دوسرے سے متضاد، ان کے متعلق بھی معلومات حاصل کرنی پڑیں اور سب سے بڑی بات جس کا انتظار رہاوہ وہاں کے خبیث مولوی کا مباہلے کا عوام کے سامنے ریڈیو، ٹیلی ویژن پر اقرار تھا اور شروع سے لے کر آخر تک میرا اسی بات پر زور رہا کہ اللہ تعالیٰ اس سال میں انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز جماعت کو ذلیل ورسوا نہیں ہونے دے گا اس لئے جماعت احمد یہ گیمبیا کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ جس طرح بھی ہو اس بد بخت مولوی جس کا میں ذکر کروں گا اس کا مباہلے کے اوپر اقرار کا یا تحریری بیان پہنچائیں یا اسے عوام الناس میں اسے قبول کرنے کی دعوت دیں.یہ خلاصہ ہے اس رپورٹ کا اور اب میں کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں.جو آنکھیں کھولنے والی تفصیل ہے کیونکہ اگر ہم تحقیق نہ کرتے تو یہ سارے امور ہماری نظروں سے اوجھل رہتے اور اس مولوی کی اچانک بکو اس کی وجہ سے مزید گہرائی میں اترنے کا موقع ملا

Page 662

خطبات طاہر جلد 16 656 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء اور پتا چلا کہ ایک بہت گہری سازش ہے جس نے سعودی عرب میں پرورش پائی ہے اور مسلسل پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اس میں شامل رہا ہے اور کویت اور مصر، یہ ان کے خاص اڈے بنائے گئے ہیں.کیا واقعہ ہوا اور کس طرح یہ جماعت کے خلاف سازشیں پلتی ہیں؟ اس کا ایک بہت ہی اچھا موقع ہے کہ آپ کے سامنے یہ پورا نمونہ پیش کرسکوں.6 جون کو جب میں امریکہ کے سفر پر تھا پہلی بار گیمبیا کے سٹیٹ ہاؤس سے ایک امام نے جماعت کے خلاف خطبہ دیتے ہوئے وہی بکواس کی جو پاکستانی مولوی کیا کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہمارے مولویوں کو گالیاں دیں.نعوذ باللہ من ذلک حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ کہا وغیرہ وغیرہ.وہ ساری تہمتیں جن کا موثر معین، منہ توڑ جواب دیا جا چکا ہے وہ ساری اس علم کے بغیر کہ ہم اس سے پہلے ان سب باتوں کا جواب دے چکے ہیں طوطے کی طرح رٹی ہوئی باتیں مولوی نے بیان کرنی شروع کیں.6 جون کا اس کا پہلا خطبہ تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا شرارت نئی نئی ہے لیکن جماعت کو میں نے سمجھایا کہ یہ جو کچھ بھی بولتا ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک الہی تائید کا سال ہے اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن ایک دفعہ اس سے دستخط کروادیں تا کہ عوام الناس گیمبیا کے عوام بھی اور دنیا کے عوام بھی یہ جان جائیں کہ اس نے جان بوجھ کر مباہلے کو قبول کر لیا تھا پھر اللہ کی تقدیر جو دکھائے گی وہ ہم بھی دیکھیں گے اور دنیا بھی دیکھے گی.اس بات میں بہت وقت لگا اور اس وقت کا یہ فائدہ پہنچا کہ اندرونی طور پر جو سازش کی تھی ، کب چلی تھی ، کیسے ہوئی وہ سارے مناظر ہمارے سامنے ابھر آئے.مولوی شروع میں تو یہ کہہ کے ٹالتا رہا کہ مباہلہ آمنے سامنے ہوا کرتا ہے اور مباہلے کے متعلق فریقین سامنے جمع ہونے چاہئیں.میں نے کہا فورا مان جائیں ان سے کہیں آمنے سامنے مباہلہ ہو گیمبیا میں ہوتم بھی نکلو اپنے ساتھی لے کر ہم بھی نکلتے ہیں ہمیں تمہارے قتل و غارت کی کوئی پرواہ نہیں گیمبین احمدی خدا کے فضل سے بہت بہادر اور دلیر احمدی ہیں اور ہم سب میدان میں آتے ہیں.جب یہ کہا تو پھر ٹال گیا کہ مباہلے اس طرح تو نہیں ہوا کرتے اور کئی قسم کی بے ہودہ باتیں کر کے اس سے اس نے اپنا دامن بچالیا لیکن آخر اس کو مباہلہ قبول کرنا پڑا اور مباہلہ قبول ابھی حال ہی میں اس نے کیا ہے.جرمنی کے دورے کے دوران کئی قسم کی تشویشناک خبریں ملتی رہیں مگر میں اسی بات پر زور دیتا رہا کہ ایک دفعہ مباہلہ کر والو پھر دیکھیں گے اور پہلی دفعہ اس نے مباہلے کا اقرار کر لیا

Page 663

خطبات طاہر جلد 16 657 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء اور عوام میں لوگوں کے سامنے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنے خطبے میں اس نے یہ کھلم کھلا اقرار کیا کہ میں مباہلے کو تسلیم کرتا ہوں اور میرے نزدیک نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے ہیں اور جو باتیں میں بیان کر رہا ہوں وہ سچی ہیں یہ کہہ کر جب اس نے مباہلے کی قبولیت کا اعلان کیا تو وہ پہلا دن تھا جو مجھے چین سے نیند آئی ورنہ اس سے پہلے بہت سخت پریشانی اور گھبراہٹ اور روحانی، دلی اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہا جس کے آثار جماعت نے بھی محسوس کئے ہوں گے.کئی لوگ مجھے لکھتے رہے ہیں کہ آپ کی اس دفعہ کی سفر کی تقریروں وغیرہ میں ایک بے چینی سی معلوم ہوتی تھی وہ کیا بات تھی تو میں چاہتا تھا کہ خطبے میں جب سب بات ایک اپنے منعمی کو پہنچ جائے تب میں جماعت کے سامنے ان سب باتوں کا اعلان کروں تو خدا کے فضل سے آج وہ جمعہ ہے جس میں سارے معاملات اپنے آخری منتهی تک پہنچ گئے ہیں اور اب میں آپ کے سامنے یہ ساری باتیں کھول سکتا ہوں.6 جون کو اس نے جو اعلان کیا جماعت کے خلاف ٹیسٹ ہاؤس سے ایک ایسا خطبہ دیا جس میں صدر گیمبیا خود بیٹھا ہوا تھا اور وہ خطبہ گورنمنٹ کے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر مشتہر کیا گیا.جب صدر سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ اس میں ملوث ہیں تو اس نے کہا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یہ تو میرا امام ہے میں بیٹھا ہوا ہوں بس اس سے زیادہ میرا کوئی قصور نہیں.جب مذہبی امور کے وزیر سے پوچھا گیا کہ جناب یہ اگر قصور کسی کا نہیں تو اس کو آپ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کیوں مشتہر کر رہے ہیں.اگر حکومت کا اس میں کوئی دخل نہیں اور پھر جماعت کا ریڈیو اور آپ کے گورنمنٹ ٹیلی ویژن پر ظاہر ہونا بند کیوں کروا دیا گیا ہے؟ اس کی بکواس جاری ہے اور جماعت کا جواب دینا بند کروا دیا گیا ہے.وہ اتنے جھوٹے لوگ ہیں کہ ملاقاتوں میں کہتے ہیں او ہو یہ تو غلطی ہے ہمارا تو کوئی دخل نہیں، یہ تو ایک عام کمینہ سا امام ہے اور اتفاق سے سٹیٹ ہاؤس کے اوپر اس کے خطبے چلتے ہیں ورنہ حکومت کا تو اس میں کوئی بھی تعلق نہیں یہ وہ بیان دیتے رہے لیکن بی بی سی کا ایک پروگرام ہے فوکس آن افریقہ (Focus on Africa) اس نے ان خطبات کا نوٹس لیا اور حکومت کی سازش پر سے پہلی دفعہ خوب کھل کے پردہ اٹھایا ہے.بی بی سی کے پروگرام میں ایک کیمبین افریقن کا خط بیان کیا گیا ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر بی بی سی اس شخص لکھنے والے کو اہمیت نہ دیتی اور خود یقین نہ کرتی کہ یہ باتیں سچی ہیں تو کھل کر گیمبیا کے صدر اور اس کی حکومت کو ملزم نہ بناتی ورنہ ان کے خلاف مقدمے چل سکتے تھے

Page 664

خطبات طاہر جلد 16 658 خطبہ جمعہ 5 استمبر 1997ء کئی قسم کی کارروائیاں ہو سکتی تھیں.بی بی سی نے بڑی بہادری کے ساتھ ایک گمنام آدمی کا خط اپنی نشریات میں ظاہر کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے اور کون ملوث ہے.دو دفعہ بی بی سی نے ایسے خطوط پڑھے اور سارے گیمبیا میں بی بی سی بہت پاپولر یعنی ہر دلعزیز ہے اور انہوں نے سناسب نے مختصراً ایک خط میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ ایک سیمبین جس کے متعلق انہوں نے بتایا نہیں کہ کون لکھنے والا ہے اس نے ان باتوں کا اظہار کیا ہے وہ کہتے ہیں ایک شخص نے جس کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے یہ اقدام کیا ہے جو سراسر منفی ، غیر مذہبی اور شیطانی اقدام ہے“.میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ گیمبیا کے عوام بہت شریف النفس لوگ ہیں اس وہم میں ہرگز مبتلا نہ ہوں کہ وہ اس سازش میں شریک ہیں.گیمبیا پاکستان نہیں ہے، گیمبیا ایک آزاد ملک ہے اور شریف النفس لوگ ہیں جو بہادری کے ساتھ اپنے مؤقف کو بیان کرتے ہیں پاکستان میں جو بھٹو نے کارروائی کی یا ضیاء الحق نے کی اس میں ساری قوم نے بزدلانہ رویہ اختیار کیا جو شرافت کی آواز تھی وہ گنگ ہوگئی جو خبیث اور شیطانی آواز تھی وہ نہ صرف اٹھتی رہی بلکہ خوب کھل کے اس کو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں شہرت دی گئی اور سارا ملک اس سازش میں گویا عمد اشریک ہو گیا.گیمبیا کا معاملہ ہرگز وہ نہیں ہے یہ ایک بالکل اور قصہ ہے جوں جوں میں اس سے پردہ اٹھاؤں گا آپ حیران ہوں گے کہ دکھایا یہ جا رہا ہے کہ گویا گیمبیا بھی ایک اور ملک ہے جس نے احمدیت کو غیر مسلم قرار دیدیا ہے اور سارے عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں.سٹیٹ ہاؤس سے خطبے دیئے جا رہے ہیں مگر ان خطبوں کی اصلیت کیا ہے وہ میں آپ کو اس خط کے ذریعے اور بعض دوسرے شواہد سے پیش کروں گا.اس نے کہا ” حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے یہ اقدام کیا ہے سراسر منفی، غیر مذہبی اور شیطانی اقدام ہے جو گیمبیا کی ایک قانون کی پابند اور امن پسند جماعت کے خلاف اس نے اٹھایا ہے خاص طور پر جماعت احمدیہ کے خلاف امام فاتح نے جو گندا چھالا ہے سراسر جھوٹا اور قابل نفرت ہے.اب اللہ تعالیٰ نے ہمارے جواب سے پہلے ہی ایک ایسے ادارے کو جواب کی توفیق بخشی جس کا ہمارے ساتھ کوئی بھی رابطہ نہیں تھا ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ انہوں نے کچھ پروگرام میں ہماری جماعت کا ذکر بھی داخل کرنا ہے اور لکھنے والا ضرور کوئی ایسی اہم شخصیت ہے جس کو بی بی سی نے رد نہیں کیا کیونکہ اگر بی بی سی پہ مقدمہ چلتا تو وہ اس کو پیش کر سکتے تھے.”الجزائر میں ہونے والے مذہبی

Page 665

خطبات طاہر جلد 16 659 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء فسادات ساری دنیا کے لئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں اس ساری صورت حال کا ذمہ دار صرف امام فاتح نہیں بلکہ ایک شیطانی لیڈ ر ہے جو اس کے ساتھ ہے اور یہ بھی بعید نہیں کہ صدر اور وزیر داخلہ بو جنگ بھی شریک ہوں.پہلی دفعہ یہ لکھا ہے اس نے اسی وقت کہ بعید نہیں کہ وہ اس میں شریک ہوں.پھر اس نے لکھا کہ ” گیمبیا ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ آباد ہیں اس لئے یہ انتہائی غیر آئینی اقدام ہوگا کہ ایک طاقتور دوسرے کمزور کونشانہ بنائے اور اپنے عقائد ان پر ٹھونسے.ہم آزاد مذہبی اور سماجی پر امن زندگی گزارنا چاہتے ہیں“.سارے گیمبیا کو یہ پیغام پہنچا اور ایک اور پیغام جو پہنچا اس میں یہ بھی تھا کہ یہ عربوں کا پیسہ ہے اس کے پیچھے سیاسی ہاتھ ہیں اور گیمبیا کی حکومت پیسے کھا کر یہ کام کر رہی ہے پوری طرح اس میں ملوث ہے اور ایک پیغام میں صدر کو مخاطب ہو کے کہا گیا کہ اگر تم ان سے جو مذہبی اختلاف رکھتے ہیں ایسی گہری کدورت رکھتے ہو کہ ان کے قتل عام کو جائز قرار دیتے ہو تو احمدیوں سے پہلے اپنے قبیلے میں واپس جاؤ تمہارا سارا قبیلہ مشرک ہے اور بت پرستی کرتا ہے اور انتہائی گندی رسم و رواج میں مبتلا ہے تو صدر صاحب آپ اپنے قبیلے کی طرف لوٹیں اور وہاں سے جہاد شروع کریں جن میں صدر صاحب ایک اقلیت ہیں.تو یہ ساری باتیں میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ جو باتیں آگے بڑھیں اس میں ہرگز گیمبیا بطور ملک کے کسی سازش میں شریک نہیں ہے صرف ایک شیطانی ٹولہ ہے جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ یہ شیطانی ٹولہ ہے جس نے عربوں سے پیسے کھا کے یہ کام شروع کیا اور ابھی تک مختلف ذرائع سے اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ پیسے کھائے جاچکے ہیں وہ اگلنے کی ان کو توفیق نہیں.گیمبیا کے اخبارات نے امام کے خطبے کا بہت سخت نوٹس لیا اور اسے رجیم قرار دیا.اس کے خلاف ایسی زبان استعمال کی کہ میں ابھی اس وقت پڑھ نہیں سکتا کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے مگر یہ مواد سارا رفتہ رفتہ پیش ہو گا جو کہتے ہیں ناFight is On اب یہ جھگڑا چل پڑا.صرف ایک مباہلے کی قبولیت کا انتظار تھا اب ایک سال باقی ہے اور دیکھیں کیا ہوگا اور کیا ہورہا ہے اور مباہلے کے اقرار کے بعد ابھی سے خدا تعالیٰ نے کیا باتیں ظاہر کرنا شروع کر دی ہیں.”آبزرور نے ایک بہت اچھا مضمون لکھا ہے اس کو بھی میں سر دست چھوڑ رہا ہوں.سیکولر ازم، چرچ، سٹیٹ ساری باتوں پر اس نے بہت اچھا تبصرہ کیا ہے غرضیکہ گیمبیا کے عوام اور گیمبیا کے اخبارات مسلسل کلیہ آزاد ہیں اور وہ ایک ذرہ بھی اس سازش سے

Page 666

خطبات طاہر جلد 16 660 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء متاثر نہیں بلکہ وہ کھلم کھلا اپنی حکومت کے ان چہروں سے پردے اٹھا رہے ہیں جو گندے اور خبیث چہرے ہیں.یہ خلاصہ ہے جو میں نے بیان کر دیا اس کے ثبوت ان اخبارات کے حوالوں سے بعد میں کسی وقت میں پیش کروں گا.اب میں واپس آتا ہوں اس سازش کی نقاب کشائی کی طرف.اس ملک کے صدر اس وقت بیٹی جامع صاحب ہیں اور صدر یحیی جامع صاحب اور وزیر تعلیم کا اپنا تاثر جو ان واقعات سے پہلے کا جماعت کے متعلق ہے وہ ایک مسلمہ تاثر جو شائع ہو چکا اخبارات، ریڈیو میں اس کا ذکر آ گیا وہ ہمارے داؤ د صاحب جو امیر تھے ان کے گیمبیا چھوڑنے کے او پران دونوں نے جو اپنے تاثرات بیان کئے وہ یہ ہیں.صدر صاحب گیمبیا جو موجودہ صدر ہیں انہوں نے کہا ” جہاں تک اس ملک میں جماعت احمدیہ کا تعلق ہے انہوں نے بڑے عظیم کام کئے ہیں جو حکومت گیمبیا نہیں کر سکتی تھی.یہاں حقیقت بول پڑی ہے اور ابھی اس سازش نے پر پرزے نہیں نکالے تھے تو صدر کو اور وزیر تعلیم کوحقائق کا اعتراف کرنا پڑا اور یہی حقائق کا اعتراف ہے جو ان کو اب ملزم قرار دے رہا ہے مجرم قرار دے رہا ہے ملزم تو ہیں ہی مجرم بھی قرار دے رہا ہے.جہاں تک اس ملک میں جماعت احمدیہ کا تعلق ہے انہوں نے بڑے عظیم کام کئے ہیں جو حکومت گیمبیا نہیں کر سکتی تھی.حکومت سکول تعمیر نہیں کر سکتی تھی یہ غربت کا عالم تھا لیکن جماعت احمدیہ نے کئے.حکومت ہسپتال نہیں بنا سکتی تھی اور واقعہ جو ہسپتال ہم نے تعمیر کر کے دئے ہیں جس طرح لوگوں کا اس طرف رجحان ہے اس کا عشر عشیر بھی ان کے ہسپتال کام نہیں کر سکتے.دکھا نہیں سکتے جو حکومتوں کے پیسوں سے بنائے گئے ہیں.حکومت ہسپتال نہیں بنا سکتی تھی آپ نے بنادئیے.آپ نے گیمبیا کے لوگوں کو مذہبی اور اخلاقی تعلیم دی.یہ اب یادرکھیں کہ اس کے بعد کی بکواس کا رنگ کیا ہے اور اس کا کیا ہے.اسی طرح صحت کی سہولیات بھی گیمبیا کو مہیا کیں جو حکومت گیمبیا نہیں کر سکتی تھی.اہل گیمبیا آپ کے جانے سے غمگین ہوں گے“.یہ بھی سچی بات ہے اہل گیمبیا بہت غمگین ہیں اور بہت غصے کا اظہار کر رہے ہیں اپنی حکومت کے خلاف اس لئے آپ لوگوں کو گیمبیا کے رہنے والے معز زلوگوں کے خلاف ایک ذرہ بھر بھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے سارا گیمبیا ایک زبان ہوکر جماعت کی تائید میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور یہ شرارت ہے یہ بالا بالا محض پاکستان کی نقالی اور ان کی حکومت اور ان کے بعض کارندوں کی شرارت کے نتیجے میں عربوں سے پیسہ کھانے کا یعنی ذاتی پیسہ کھانے کا ایک ذریعہ

Page 667

خطبات طاہر جلد 16 661 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء بنایا گیا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.”جماعت احمدیہ کے کام عظیم ہیں اور کامیابیاں قابل ذکر ہیں ہم آپ کی بہتری کے خواہاں ہیں“.وزیر تعلیم نے یہ کہا ابتداء سے ہی احمد یہ مسلم مشن نے تین بنیادی امور میں مثبت ترقی کی ہے جن میں نمبر ایک انسان کی ترقی میں تعاون نمبر دو روحانیت میں ترقی.نمبر تین تعلیم اور صحت کے میدان میں ترقی“.یہ وزیر تعلیم صاحب اب خدا جانے کیا کہیں گے مگر کل تک یہ کہہ رہے تھے.ان تینوں امور میں انہوں نے قابل ستائش کام کیا ہے جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے یہ خاتون ہیں وزیر میں پوری اتھارٹی سے بتا سکتی ہوں کہ جماعت احمدیہ نے حکومت گیمبیا سے تعاون کر کے تعلیم کو دیہات میں غریب لوگوں کے گھروں تک پہنچا دیا.یہ خدمات ہیں جن کے نتیجے میں اب جو حکومت گیمبیا نے پر پرزے کھولے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی بار 6 / جون کو امریکہ میں یہ صورت حال سامنے آئی اور تعجب ہوا کہ اچانک اس مہینے میں یہ کیوں کا رروائی شروع ہوئی.کون سی ایسی بات تھی اس سے پہلے میرا ٹیلی ویژن پر گیمبیا کے لئے خطاب تھا ذ ہن اس کی طرف بھی جاتا تھا کہ شاید وہ ہو لیکن اس سے بھی پہلے اور کارروائیاں تھیں جو ہو چکی تھیں مجھے علم نہیں تھا اور 23 مارچ کا دن ایک خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سے پہلے جنوری میں یعنی اسی سال کی جنوری میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں میں اب ان کے چہرے سے پردہ اٹھانے لگا ہوں.گیمبیا کے موجودہ صدر یکی جامع نے 22 جولائی 1994ء کو سٹیٹ ہاؤس پر حملہ کیا یعنی میں پہلے کی ان کی تاریخ بتا رہا ہوں یہ کون صاحب ہیں.سٹیٹ ہاؤس پر حملہ کیا اور ملک کا کنٹرول سنبھال لیا.یہ بات یاد رکھیں کہ یہ حملہ بھی ایک سازش کا نتیجہ تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے کئی سال پہلے.اس وقت داؤ د حنیف صاحب ملک کے امیر تھے ان کے زمانے میں ایک ایسی مجھے رپورٹ ملی جس سے مجھے شبہ پیدا ہوا کہ کچھ بہت سی گہری باتیں ہیں جو آئندہ رونما ہونے والی ہیں.داؤ دا جوارا صاحب کی حکومت تھی ایک فوجی افسر جس کا اب ان کو نام یاد نہیں لیکن ہمارے خط میں جو لکھا تھا اس میں بھی نام نہیں لکھا گیا.ایک فوجی افسر کو ڈاکٹر نے دوائی کے لئے Queue میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا اور وہ اپنی بڑی شان میں تھا کوئی بعید نہیں کہ وہ یہی شخص ہو اور اتنا غصے کا اظہار اس نے کیا کھڑا تو رہا دوائی کی خاطر لیکن اس نے کہا کہ جب ہماری فوجی حکومت آئے گی تو ہم ایک ایک بات کا بدلہ لیں

Page 668

خطبات طاہر جلد 16 662 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء گے.اب یہ سازش کہ حکومت کے خلاف فوج میں ایک بات پنپ رہی ہے اور داؤدا جوارا صاحب کو اور ان کی حکومت کو علم نہیں اور بہت پہلے اس بات کا وہ اقرار کر لیتے ہیں کہ ہم نے کچھ کرنا ہے اس سازش کے متعلق میں نے ان کو متنبہ کیا میں نے کہا آپ اس کو معمولی بات نہ سمجھیں.یہ آئندہ آنے والے حالات کا پیش خیمہ ہے حکومت کے خلاف سازش پک رہی ہے.آپ کا فرض ہے کہ مزید رابطے بڑھائیں اور فوج کے اندر کون کون ملوث ہے اور کیا کچھ ہورہا ہے اس پر توجہ دیں.مجھے افسوس ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دی گئی حالانکہ میرے پاس خطوط موجود ہیں جس میں میں نے ان کو تاکید کی تھی کہ آپ اسے معمولی بات سمجھ رہے ہیں ایک فوجی افسر کا غصے کا اظہار، ہرگز یہ بات نہیں.گہری سازش پنپ رہی ہے اور اس میں فوج ملوث ہونی ہے آئندہ جب ظاہر ہوگی تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیا ہورہا ہے لیکن بہر حال اپنی طرف سے انہوں نے نیک نیتی سے جو بھی کام کرنے تھے کئے اور بہت اچھے اچھے کام کئے مگر اس معاملے میں ایک کو تا ہی شاید وہ مقدر تھی وہ ان سے ہو گئی.چنانچہ صدر یحیی جامع نے جواب موجودہ صدر ہیں 22 جولائی 1994ء کو سٹیٹ ہاؤس پر حملہ کیا اور یہ واقعات جو میں بیان کر رہا ہوں یہ اس سے بہت پہلے کے ہیں اور ملک کا کنٹرول سنبھال لیا.پھر تمبر 1996ء میں الیکشن کروانے کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالا.یہ پہلے سے سازش تھی کہ ایک فوجی حکومت ہوگی اور پھر وہ عوامی گویا عوام الناس کی نمائندہ دکھائی جائے گی چنانچہ انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھالا.جنوری 1997ء میں اسی سال شروع میں پارلیمانی انتخاب جیتے کیسے جیتے اس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں لیکن جنوری میں انتخاب جیتتے ہی رمضان مبارک میں یہ سعودی عرب پہنچے ہیں اور عمرہ کی ادائیگی کی ہے وہاں.اب ان سب باتوں سے اب پر دے اٹھے ہیں کہ کیا ہورہا تھا اور کب سے ہو رہا ہے.وہی مہینہ جس میں ہمارا مباہلے کا اعلان کیا جارہا ہے اسی مہینے میں ان صاحب نے پہلی دفعہ حکومت پر قبضہ کر کے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اور ستمبر 1996ء میں الیکشن کروانے کے بعد جو اس نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا اس کا ایک نیا آغاز جنوری میں کیا گیا تھا.یہ آغاز کیا ہے میں آپ کو سمجھاتا ہوں.اس کے بعد سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد 23 / مارچ1997 ء کو وزیر مذہبی امور میجر بو جنگ اور سٹیٹ ہاؤس کے امام وہی فاتح امام ان سب نے پاکستان کا دورہ کیا ہے اور اس سے پہلے سینیگال کا جو پاکستانی سفیر ہے وہ یہاں پہنچا ہے اور اس سال میں اب تک چار دفعہ وہ

Page 669

خطبات طاہر جلد 16 663 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء یہاں آچکا ہے اور ہر دفعہ صدر سے ملاقات کی ہے اور اس سفیر کے اپنے متعلق ہماری رپورٹیں یہی ہیں کہ کوئی مذہبی انسان نہیں مگر حکومت کا غلام ضرور ہے اس کے متعلق ہیں یہ واقعات کیونکہ اس سے پہلے سالوں میں کبھی بھی وہ سفیر جو سینیگال میں متعین ہوا کرتا تھا ابھی بھی ہے وہ گیمبیا کا سال میں شاید ہی ایک دفعہ دورہ کرتا ہو اور وہ بھی قومی تقریب کے موقع پر اور وہ بھی ہر دفعہ نہیں.یعنی گیمبیا کی سفیر پاکستان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی اگر چہ دونوں جگہ کا یہی سفیر تھا.تو یہ سفیر صاحب 23 / مارچ کے اس واقعہ سے پہلے لازماً صدر سے ملے ہیں اور چار مرتبہ اس دفعہ گئے ہیں وہاں جا کر صدر سے ملتے رہے ہیں اور کچھ باتیں ہوتی رہی ہیں.اس 23 / مارچ کے دورے میں وزیر مذہبی امور بو جنگ اور سٹیٹ ہاؤس کے امام یہ تینوں شامل تھے پہلے پاکستان گئے پھر وہاں سے کو بیت آئے اور پھر مصر.اب یاد رکھیں کہ یہی اڈے ہیں احمدیت کی مخالفت کے جو سعودی عرب نے قائم کررکھے ہیں.اندھوں میں کانا راجہ تو آپ نے سنا ہوگا لیکن کانوں میں اندھا راجہ شاید نہ سنا ہو.ایک ایسا ہی کانوں کا اندھا راجہ ہے جس کو اب موقع مل گیا ہے جو اس سازش میں اپنی طرف سے دماغ کا کام کر رہا ہے یعنی بے دماغی کا حقیقت میں.اس نے ان سب کو اپنے سفیر کے ذریعے اس بات پر اچھالا ہے اور سعودی عرب جو پہلے سے سازش کے ذریعے ان کو لا رہا تھا اس بات کا منتظر تھا کہ کسی طرح پاکستان بھی ساتھ ملوث ہو جائے تو پھر ہم مل کر یہ کاروائی کریں ان کو یہ موقع مل گیا اور یہ صاحب جو اندھے راجے کا میں نے ذکر کیا ہے یہ پہلے بھی ایک ایسی پوزیشن میں تھے جو سعودی عرب کی چھت سے لٹکے ہوئے تھے اور سعودی عرب کی نمائندگی ہی میں یہ مصر بھی پہنچے تھے اور مصر میں بعینہ یہی سازش پہلی دفعہ شروع کی اور افریقن ملکوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف غیر مسلم ہونے کے اعلان کا پہلی بار انہوں نے وہاں کوشش کا اظہار کیا.وہ جلسہ کلیہ نا کام رہا.افریقن ممالک خصوصا غانا نے بڑی عقل اور غیرت کا مظاہرہ کیا انہوں نے کہا یہ تم نے کیا بکواس کی ہے اس لئے ہمیں بلایا تھا.اس شیطانیت کو اپنے گھر میں رکھو.افریقن ممالک اس کو قبول نہیں کریں گے چنانچہ وہ سازش ان کی کلیہ ناکام رہی.یہ میں بہت پہلے کی بات کر رہا ہوں جب حکومت پاکستان مجبور ہوگئی تھی ان صاحب کو باہر نکالنے پر اور سعودی عرب کے بادشاہ نے ان کو رابطہ عالم اسلامی کا انچارج بنا دیا تھا اور یہ رابطے تھے یہ اڈے ہیں پاکستان اور کویت اور مصر اور سعودی عرب.اس کو پہچان لیں آپ.یہ اڈے ہیں جہاں

Page 670

خطبات طاہر جلد 16 664 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء الله سب سازشیں پنپتی ہیں.چنانچہ اس 23 / مارچ کے دورے میں یہ تینوں شامل تھے پاکستان سے شروع ہوئے وہاں کچھ دیر ٹھہرے وہاں سازش نے کئی قسم کے رنگ اختیار کئے ہوں گے ہمیں علم نہیں ان میٹنگز میں کیا باتیں ہوئیں لیکن کو یت آئے ہیں پھر مصر آئے ہیں پھر اپنے ملک واپس پہنچے ہیں اور 16 جون سے کئی مہینے پہلے کی یہ بات ہے لیکن سوال یہ تھا کہ یہ تمبر میں ہی ہوئی تھی یا اس سے پہلے تھی چنانچہ ہم نے جب تحقیق کی تو پتا لگا کہ اس سال جنوری میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رمضان کے مہینے میں سعودی عرب میں یہ سازش اپنی تکمیل کو پہنچ چکی تھی اور وہاں ایک ایسا خوفناک ڈرامہ کھیلا گیا جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی صریح گستاخی اور بدتمیزی پر مشتمل تھا اور ایسی گستاخی ہے کہ کوئی شخص بھی جو، کوئی حکومت بھی اگر غیرت رکھتی ہو اور اپنے خیال میں رسول اللہ ﷺ کی ہتک پر پھانسی کی سزا دینا چاہے تو ان سعودیوں کو سزادی جانی چاہئے تھی جنہوں نے ایک ڈرامہ رچایا ہے اس ڈرامے کا حال یہ ہے، سینیے.جدہ ایئر پورٹ پر جنوری میں ان کے صدر عمرہ کرنے کے لئے گئے.سعودی وزیر شاہ مدانی نے ان کا استقبال کیا اور ریڈ کارپٹ بچھائے گئے جو بہت عظیم بڑی بڑی غیر ملکی شخصیتوں کے لئے بچھائے جاتے ہیں.جمعہ ان کو خانہ کعبہ میں پڑھایا گیا وہاں سے جو ان کے ساتھ شروع سے اس سازش میں ملوث ہیں.وہ جو موجودہ امام ہیں اس کے ساتھ پڑھنے والے ایک ڈاکٹر صالح الحمیدی ہیں جو ا کٹھے سعودی عرب میں کافی دیر تک تعلیم پاتے رہے ہیں اور یہ امام اس وقت سے تیار ہو رہا ہے جیسا کہ میں نے کہا تھا نا کہ جب فوجی سازش ہوئی ہے اس سے پہلے کے قطعی ثبوت مل گئے ہیں کہ یہ پانچ سال وہاں پڑھتا رہا اور امام ڈاکٹر صالح الحمیدی کے ساتھ اس کے بہت تعلقات ہوئے وہ طالب علم تھا یا نہیں مجھے اب پکا پتا نہیں لیکن اس وقت سے ان کی آپس کی دوستی ہے.یہ وہی امام ہیں سٹیٹ ہاؤس کا جب آغاز ہوا ہے 1996ء میں جب اس نے قبضہ کیا تو پھر سٹیٹ ہاؤس ایک بنایا گیا اس میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی اس وقت اس کا افتتاح کرنے والا یہی امام تھا اس امام نے انتخاب کے نتائج پر صدر کو مبارکباد دی اور ٹیلی ویژن گیمبیا کا ایک نمائندہ ساتھ ساتھ اس ساری کارروائی کی تصویر کھینچ رہا تھا اور گیمبیا پر یہ تاثر پیدا کرنا تھا کہ یہ سعودی عرب کی کارروائی انٹرنیشنل ہو رہی ہے سب دنیا کو دکھائی جا رہی ہے اور گیمبیا کے صدر کی اتنی عزت افزائی ہو رہی ہے وہ جس ٹیلی ویژن کے

Page 671

خطبات طاہر جلد 16 665 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء نمائندے نے یہ کارروائی ریکارڈ کی ہے وہ اپنی زبان میں کیمپین زبان میں ریکارڈ کی ہے اور گیمبیا کے ٹیلی ویژن سٹیشن کو گنتی کے لوگ دیکھتے ہیں، کچھ غربت کی وجہ سے، کچھ سٹیشن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے تو ان کو دکھانے کے لئے کہ ہمارا امام کتنے عظیم الشان کام کر رہا ہے اور سعودی عرب میں اس کی کتنی عزت ہے اس ساری کارروائی کو اس نے ٹیلی وائز کیا ہے اور وہ ٹیلی ویژن کی وڈیو ہمارے پاس ہے اس کا ایک ایک لفظ ہمارے سامنے ہے.میں اس لئے بتارہا ہوں کہ ان کو یہ دھوکہ نہر ہے کہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں.اس نے خوش آمدید کہا.اس امام نے انتخاب کے نتائج پر صدر کو مبارکباددی اور اہل گیمبیا کو سلام پہنچایا.طواف اور سعی کے بعد یہ مدینہ ایئر پورٹ پر پہنچے تو سعودی حکام اور امام نے استقبال کیا اور جہاز سے انتظار گاہ تک طویل ریڈ کارپٹ ان کے لئے بچھایا گیا.مسجد نبوی میں اب یہاں سے انتہائی شدید گستاخی اور بد تمیزی شروع ہو جاتی ہے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر.مسجد نبوی میں ظہر کی نماز کے لئے انہیں امام کے عین پیچھے پہلی صف میں کھڑا کیا گیا صرف یہ تھے جن کے آگے ان کی تسبیح سامنے سجدہ گاہ کے اوپر پڑی ہوئی تھی باقی سب اسلامی طریقے پر بغیر کچھ سامنے رکھے نماز پڑھ رہے تھے.نماز کے بعد تبصرہ نگار کہہ رہا ہے اب یہ اس کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں.امام جامع کا مقام.تبصرہ نگار کہہ رہا ہے اس وقت صدر جامع منبر رسول ﷺ پر کھڑے نفل پڑھ رہے ہیں.انا لله وانا اليه راجعون.ان کے کردار کی باتیں میں بعد میں بتاؤں گا.ان کے لئے تو منبر رسول پر نظر ڈالنا بھی گناہ ہے جس کردار کے یہ مالک ہیں لیکن سعودی عرب کو ان کے کردار سے کوئی بھی غرض نہیں تھی ان کی اپنی حالت کس قسم کے انسان میں کیا ان کا چھ چا گیمبیا میں ہواہے کیسے کیسے قتل میں ملوث ہونے کی کیمبین باتیں کر رہے ہیں.ہم نہیں کر رہے سیمبین باتیں کر رہے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے وہ بچی ہیں یا غلط لیکن بعض ثبوت میرے پاس موجود ہیں ان باتوں کی تائید میں جو تحریری ثبوت ہیں جو میں ابھی منظر عام پر نہیں لانا چاہتا.اتنا مجھے علم ہے کہ ایک گندے بے ہودہ کردار کا گھٹیا انسان جو رسول اللہ لہ کے منبر پر قدم رکھنا تو در کنار اسے دیکھنے کا بھی اہل نہیں ہے اس کے متعلق سعودی عرب کیا کر رہا ہے سینے.اس وقت وہ منبر رسول پر کھڑے نفل پڑھ رہے ہیں اور ان کی پچھلی لائن میں ان کے قافلے والے ہیں جیسے

Page 672

خطبات طاہر جلد 16 666 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء صلى الله آنحضرت ﷺ کے پیچھے صحابہ کرام کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے.اندازہ کریں کیسی خبیثانہ حرکت ہے، کیسے آنحضرت ﷺ کے پیچھے صحابہ کرام کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے اب قافلہ والے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں.یہ گیمبیا کے لئے یادگار دن ہے کیونکہ یہ گیمبیا کی تاریخ کے لئے سب سے سیاہ دن تھا جس میں نحوست کبھی بھی ایسی تاریکی بن کر نہیں چہروں پر آئی جیسے اس دن آئی ہے جب اس شخص نے منبر رسول کو گندا کرنے کی نعوذ باللہ کوشش کی ہے اور سعودی عرب جس نے یہ ساری ٹیلی ویژن صلى الله کا انتظام کیا اور ساری تقریر کے اوپر اپنی مہر ثبت کی ہے وہ دیکھیں وہ کیا ہو رہی ہے.آنحضرت میر جب مدینے آئے تو آپ نے پہلی مسجد تعمیر کی تھی ہمارے صدر صاحب نے سٹیٹ ہاؤس پہنچ کر پہلی مسجد تعمیر کی ہے.رسول اللہ علیہ کے ساتھ اس بدبخت کی مشابہتیں قرار دیں.مسجد قبا میں بھی صدر نے نماز پڑھی جبل احد بھی گئے.تبصرہ نگار نے کہا کہ جیسے مسلمانوں کو کامیابی ہوئی تھی اسی طرح اس صدر کو بھی ہوگی اس کے دورے میں بڑے نشانات ہیں اور واپسی پر جہاز تک سرخ کارپٹ بچھائی گئی اور اس طرح یہ روانہ ہوا.جہاں تک سعودی عرب کی میڈیا کا تعلق ہے اس کو کچھ پتا نہیں جہاں تک ان کی ٹیلی ویژن کا تعلق ہے انہیں کچھ خبر نہیں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے انہیں بھی نہیں بتایا جارہا.یہ سازش اس کو پاگل بنانے کے لئے انہوں نے کی اور ان کے اپنے ٹیلی ویژن کا نمائندہ یہ تقریر میں کر رہا ہے جس پر وہ صاد کر رہے ہیں واہ واہ کر رہے ہیں کہ بہت بڑا تاریخی دن طلوع ہو گیا ہے.گیمبیا میں فقہ مالکی ہے جہاں ہاتھ چھوڑ کر پہلو پر رکھتے ہیں اور نماز پڑھی جاتی ہے اس طرح.اس کے دکھاوے کا انداز دیکھیں مکے اور مدینہ میں جہاں بھی وہ ٹیلی ویژن کی تصویر دکھائی جارہی ہے ویڈیو تصویر اس میں ہاتھ باندھے ہوئے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے ملک میں مالکی ہواور وہاں جاکے وہابی ہو جائے اس کے دین کا کیا قصہ ہے؟ کس دین سے وہ تعلق رکھتا ہے؟ واپس آ کے پھر ہاتھ نہیں باندھے شاید کسی کو خیال ہو کہ وہاں مالکیت سے مرتد ہو گیا تھا اور وہابی بن گیا تھا واپس آکے پھر مالکی اور اسی طرح نماز پڑھتا ہوا دکھایا جاتا ہے.دوسرے لطف کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے میں نے تو نہیں دیکھی کہ ویڈیو میں نماز کے دوران یہ دائیں بائیں بھی دیکھتے ہیں اور پیچھے مڑ کے دیکھتے ہیں نماز بھی نہیں پڑھنی آتی اور اس کو منبر رسول پر کھڑا کر وایا ہوا ہے.جن بدبختوں نے یہ ڈرامہ ایجاد کیا ہے ان بد بختوں کے

Page 673

خطبات طاہر جلد 16 667 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء ذہن پر لعنت ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اپنی طرف سے افریقہ میں دخول کا ایک طریقہ ایجاد کیا گیا جس کو ہرگز کامیابی نہیں ہو سکتی.یہ پتھر کی دیوار سے سر ٹکرا ئیں کبھی اس بات میں کامیاب نہیں ہوں گے.انشاء اللہ تعالیٰ اور میں بتا رہا ہوں کہ ان کی یہ کوششیں ، ویڈیو کا اب ہم ترجمہ کروا کر مشتہر کروائیں گے ساری دنیا میں اور اب ایک بات آپ کو بتا تا ہوں.اب یہ مباہلہ بھی ہو گیا اب یہ ہماری جد و جہد جس کو کہتے ہیں لڑائی ON ہے اب.تو اب یہ چل پڑی ہے.ان کا ٹیلی ویژن جو کچھ بھی بکواس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق کرتا رہا ہے اور کرے گا یہ چند گنتی کے آدمیوں تک پہنچے گی مگر MTA کے ذریعے ساری دنیا ان کے چہرے دیکھے گی اور ساری دنیا کو ان کی گندگی اور ان کے پس منظر سے آگاہ کیا جائے گا اس لئے آپ بالکل مطمئن رہیں، خوش رہیں آپ کا کچھ بھی نہیں بگڑا نہ کوئی بگاڑ سکتا ہے.اہل گیمبیا آپ کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپوزیشن کو ہم نے ہرگز نہیں کہا کچھ بھی لیکن ان کے سربراہ نے اعلان کیا کہ یہ گیمبیا کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے لوگ ہیں اس لئے ہم پر چھوڑیں ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے آپ کو آرام سے بیٹھنا چاہئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں جماعت احمدیہ کا سوال نہیں ہے یہاں گیمبیا کی عزت پر ان بد بختوں نے ہاتھ ڈالا ہے اور ہمیں بے حیا کر کے دکھایا جارہا ہے کہ سینتیں سال سے جماعت نے ایسی خدمات کیں جو ان کو خود اعتراف ہے کہ بڑی بڑی حکومتیں نہیں کرسکتی تھیں اور بے لوث اور ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ احمدیوں کی سینتیس سالہ خدمت کے دوران احمدیوں کے خلاف کسی قسم کی قتل کی دھمکی بھی ملی ہو.تو پاکستان کی نقالی تو کر رہے ہیں یہ بندر لیکن پاکستان کے حالات ہی مختلف ہیں.وہاں ظلم و ستم ہورہے تھے بار بارتحریکیں چلتیں، احمدیوں کے اوپر بے انتہاء ہر قسم کے ظالمانہ حملے کئے گئے، قتل و غارت ہوئے معصوم عورتوں کی جانیں لی گئیں، بچوں کو قتل و غارت کیا گیا ، زندہ جلائے گئے لوگ.کہاں پاکستان کے بدبخت حالات اور کہاں گیمبیا کی سرزمین جو شرافت کی علمبر دار ہے.ان کے جو گیمبیا کے تاثرات ہیں وہ میں پھر انشاء اللہ بعد میں کسی اور وقت میں بتاؤں گا.بہر حال امام فاتح کو میں نے بار بار جماعت سے کہا کہ اس کو کسی طرح آمادہ کریں کہ یہ مباہلہ منظور کرلے کیونکہ مجھے یہ کرتھی کہ یہ دھوکہ بازی کرتے رہیں گے ، شرارت بھی کریں گے اور مباہلے کی زد سے بھی بچنے کی کوشش کریں گے.پس الحمد للہ وہ رات جو میں نے کہا مجھ پر چین سے آئی وہ 22 راگست 1997 ء کا خطبہ ہے

Page 674

خطبات طاہر جلد 16 668 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء جس کی مجھے اطلاع ملی تو میں نے کہا اب اللہ کا معاملہ اور ان کا معاملہ آپڑا ہے اب دنیا دیکھے گی کہ یہ کیسے کیسے ذلیل کئے جاتے ہیں.اس نے اب یہ بھی دیکھیں کہ خطبے میں مباہلہ کا سنانا یہ اپنے پاکستانی اور عرب آقاؤں کی خاطر تھا کیونکہ کیمپیئنز کو عربی نہیں آتی اگر گیمپینز کو دکھانا ہوتا اس نے تو ظاہر بات ہے کہ یا اپنی کیمین زبان میں تقریر کرتا یا انگریزی میں جو عام بولی جاتی ہے لیکن خطبہ اس نے مباہلے زبان یا کے اقرار کا عربی میں دیا ہے اور چونکہ اب ہم اس کو پھیلا رہے ہیں سارے گیمبیا میں ہم بتا رہے ہیں کہ اس نے کیا خطبہ دیا تھا اس لئے اب وہ جو معاملہ اگر کشتی ہے تو ON ہوگئی ہے.ایک طرف یہ بد بخت ہے اور ایک طرف خدا کے فرشتے ہیں جماعت احمدیہ نے اپنا دامن اس میں سے نکال لیا ہے.اس نے خطبے میں ہمارے ڈاکٹر پاشا صاحب کو مخاطب کیا ہے.ڈاکٹر پاشا حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے نواسے ہیں اور بڑے باغیرت انسان ہیں ماشاء اللہ، بہت ہی انہوں نے اس جدو جہد میں اعلیٰ کردار کا نمونہ دکھایا ہے اور ان کے سپر دہی کیا گیا تھا کہ وہ اس کو مباہلہ دیں.پہلی دفعہ جب مباہلہ دیا گیا تو اس کے رشتے داروں نے اس کے غالباًا نانا نے یا دوسروں نے منتیں کیں کہ خدا کے لئے اس کو معاف کر دیں اسے مباہلے کا نشانہ نہ بنائیں اور پہلی بارخوف اور سراسیمگی کے آثار تھے یہ ہاتھ جھٹک جھٹک کے کہہ رہا تھا کہ چھوڑ واس مباہلے کو لیکن اس کے رشتے داروں نے اور پھر ایک ایسے مولوی نے جو وہاں کی مذہبی کونسل کا نمبر ہے اور کافی بڑی جماعت کا سر براہ ہے اس نے بھی جماعت سے کہا کہ دیکھیں میں بھی ہرگز مباہلہ قبول نہیں کرتا میرا نام بھی نہ لیں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ جماعت سچی ہے اس لئے اب میری مجبوریاں ایک طرف رکھیں مگر ہرگز مجھے مباہلے میں شامل نہ کریں اس کو دینا ہے تو اس کو بے شک دیں چنانچہ اس نے انکار کیا.اب جو اقرار کر رہا ہے وہ یہ کرتا ہے کئی دفعہ کوششیں ہوئیں.ایک موقع پر اس نے بھی ٹالا اور مذہبی امور کے وزیر نے مباہلے کو اٹھا کے پھینک دیا.یہ کیا کاغذ ہے یہ میرا کیا کر سکتا ہے؟ اور اس کو بار بار پیغام پہنچائے گئے کہ مباہلہ بے شک کر لو جو ضیاء اور کنگ فیصل اور بھٹو سے ہوئی تھی یہ احمدیوں نے کروایا تھا اس لئے وہ بات جو سعودی عرب نہیں کہتا، جو پاکستان نہیں کہہ رہا وہ اس کو پاگل بنانے کے لئے بتائی گئی کہ یہ تو سارا قتل احمدیوں نے کروایا تھا تمہیں کیا ڈر ہے مباہلے کا.کرلو اور اعلان کر دینا کہ میری موت ہوئی تو میں شہید ہوں گا.چنانچہ یہی اس نے اعلان کیا.کہتے ہیں ڈاکٹر پاشا ! جہاں.

Page 675

خطبات طاہر جلد 16 669 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء صلى الله تک اس مباہلے کا تعلق ہے جو تو نے میری طرف بھیجا ہے تو یا درکھ کہ مجھے کچھ خوف نہیں میں جمہور عوام کے سامنے اعلان کروں کہ اللہ کو اپنے اور احمدیوں کے درمیان ہاں اپنے اور احمدیوں کے درمیان حکم بنا تا ہوں تا وہ حق کو ثابت کر دے اور باطل کو باطل.وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (انفال : 9) میں یہاں اس وقت اعلان کرتا ہوں، ہاں میں یہاں اعلان کرتا ہوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں اس پر مجھے پورا یقین اور وثوق ہے نیز مجھے پورا پورا یقین ہے کہ جو کچھ بھی خدا نے اپنے رسول کے بارے میں کہا ہے وہ سب سچ ہے جو کچھ اس کے رسول نے اپنے بارہ میں کہا ہے وہ بھی برحق ہے.بالکل ٹھیک ہے اس پہ ہم بھی صاد کرتے ہیں لیکن بکو اس انگلی یہ ہے جو کچھ مرزا غلام احمد نے کہا ہے وہ جھوٹ اور رسول اللہ پر افتراء ہے.یہ مباہلے کا چیلنج اس نے بائیس اگست میرے جرمنی کے دورے کے دوران اپنا منظور کیا اور اس سے اگلے خطبے میں بہکی بہکی باتیں شروع کر دیں احمدیت کا نام لینا چھوڑ دیا اور اب جو اس کی باتیں پہنچ رہی ہیں وہ اس کے لئے Too late کیونکہ اب جو باتیں ہمیں پہنچ رہی ہیں ہمارے وہاں کے واقف کاروں کے ذریعے وہ یہ ہیں کہ اپنی مجلس میں یہ کہ رہا ہے کہ مجھے پاگل بنایا گیا ہے مذہبی امور کے وزیر نے جھوٹ بولے، مجھے دھوکے میں رکھا اور اس مباہلے یہ مجھے آمادہ کیا گیا حالانکہ اب جو میں حالات دیکھ رہا ہوں وہ مختلف ہیں، وہ خود بھی بھاگ گیا ان باتوں سے.میں اب گویا کہ آخری بات کہ رہا ہوں احمدیوں کے متعلق میری زبان بندی ہوگئی ہے اور اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اس کی طرف سے ہمیں پہنچ رہی ہیں لیکن میں مزید ثبوت اکٹھے کروا رہا ہوں اور وہاں کے تحریری بیان وغیرہ یہ انشاء اللہ تعالیٰ بعد میں آپ کے سامنے اس مباہلے کے انجام کے متعلق تازہ ترین صورت حال پیش کی جاتی رہے گی.اس خطبہ کے ذریعے جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا تھا یہ اعلان کر رہا ہوں کہ اب ان چند شیطانی ٹولے کے آدمیوں کو اور گیمبیا کے ٹیلی ویژن کو جو بھی اس کی اہمیت ہے اس کے جواب میں ساری دنیا اب ان کی باتیں سنے گی.ایک ایک اعتراض جو امام نے بیان کیا ہے اس کو میں انشاء اللہ لقاء مع العرب میں اور دوسرے پروگراموں میں اب پیش کرتا رہوں گا اور پورا پس منظر جو میں نے ابھی بیان نہیں کیا بہت سی باتیں ہیں جو پیش ہونے والی ہیں وہ بھی انشاء اللہ آپ کے سامنے پیش کروں گا.اس وقت میں سر دست یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب اس نے مباہلہ قبول کر لیا تو میں نے

Page 676

خطبات طاہر جلد 16 670 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء جماعت احمد یہ اور ساتھ ہی وزیر نے یہ اعلان کیا کہ ہمارے نمائندے خصوصا جوا میر اس وقت مقرر ہیں جب سے وہ آئے ہیں اور انہوں نے شرارت شروع کی ہے اور انہوں نے کیمبین کو یمبین سے لڑانے کی کوشش شروع کی ہے اور انہوں نے احمدیت کو ملک کو پھاڑنے میں استعمال کیا ہے.یہ سازش اس لئے تھی کہ جب وہ کاروائی کریں جبکہ قوم میں کچھ بات ہو ہی نہیں رہی تو فرضی طور پر قوم کے سامنے یہ پیش کریں کہ انہوں نے کوئی شرارت کر کے کیمین کو پھاڑ دیا قتل و غارت کے خطرے ہو گئے اب ہم مجبور ہیں کہ عوامی مطالبہ منظور کر لیں کہ ان کو باہر نکالو.تو پیشتر اس کے کہ وہ اس شرارت کرنے میں کامیاب ہوتے میں نے اپنے تمام غیر یمین خدمت گاروں کو یہ کہا کہ فوراً بستر بوری اٹھاؤ اور اس ملک کو چھوڑ دو کیونکہ اب یہ اس بد بخت حکومت اور گیمبیا کے شرفاء کے درمیان ایک جنگ شروع ہوگئی ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر انکو نکالا سی بھی حیرت انگیز بات ہے.لطف الرحمن صاحب جو ملک عطاء الرحمن صاحب کے صاحبزادے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ان کا بعض افریقن ممالک میں رسوخ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بہت سی دولت بھی عطا فرمائی ہے ان کا یہ خیال تھا کہ رفتہ رفتہ کر کے نکلیں چند آج نکل گئے چند کل نکل گئے اور ستمبر میں دیر تک یہ معاملہ پھیلا دیا جائے.میں نے ان سے کہا کہ اس طرح نہیں میں نے نکلوانا.نکلو اور جرات سے نکلو، ایک وقت میں نکلو اور نکلنے سے پہلے ایک انٹر ویو دو اور بتاؤ کہ ہم کیوں نکل رہے ہیں.اس کے لئے مشکل تھی کہ جو عام جہاز ہے وہ کہتے تھے ہمارے پاس تو ایک دوسیٹیں بھی مشکل سے ملیں گی اکٹھے جانے کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا.لطف الرحمن صاحب نے ایک جہاز چارٹرڈ کیا اور چارٹرڈ جہاز کی خاطر انہوں نے اور بھی کوششیں کیں کہ ہمیں آئیوری کوسٹ کا ویزہ مل جائے مگر اس میں وقتیں تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے آئیوری کوسٹ کے ایمبیسیڈرکی خود راہنمائی فرمائی ، اس کے دل میں جماعت کی محبت ڈال دی اس نے ہمارے سارے جتنے بھی قافلے کے آدمی تھے یعنی غیر سیمبین خدمت کرنے والے ان کو دو دو مہینے کا آئیوری کوسٹ کا ویزہ دے دیا اور یہ کارروائی حکومت سے مخفی رکھی.دن دہاڑے جہاز اترا ہے اور وہ جہاز گنی کوناکری کا جہاز تھا.اس سے پہلے مختلف ٹولیوں میں احمدی ایئر پورٹ پر گئے ہیں اور سارے داخل ہو گئے ان کا سامان بھی چلا گیا اور حکومت کچھ نہیں کر سکی.کسی غیر حکومت کی مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی.صرف ایک دعا تھی اور ایک ایسی خواب تھی جو اس کے بعد مجھے آئی جس

Page 677

خطبات طاہر جلد 16 671 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء کا ذکر میں آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ کروں گا.جس کی وجہ سے مجھے یقین تھا اور میں نے صبح ہمارے ماجد صاحب جو اس وقت وکیل التبشیر ہیں ان کو بتادیا کہ اب میری فکر دور ہوگئی ہے.ترسوں کی خواب تھی بڑی واضح خواب ہے اور بڑی خوشخبری ہے اس میں.میں نے کہا اب ہمیں کسی کینیڈا کی ضرورت نہیں کسی اور ملک کی مدد کی ضرورت نہیں سب کو چھوڑ دو.انہوں نے لازماً عزت کے ساتھ نکلنا ہے اور عزت کے ساتھ واپس بھی آتا ہے انشاء اللہ.یہ رویا بعض اور تفاصیل کے ساتھ میں انشاء اللہ اگلے جمعہ میں آپ کو سناؤں گا لیکن ہوا یہ کہ آج صبح تک باوجود اس کے کہ یہ وہاں آئیوری کوسٹ پہنچ چکے تھے دورا تیں ان کو ایئر پورٹ پر بسر کرنی پڑیں اور وجہ یہ تھی کہ وہ حیران تھے کہ ان لوگوں کو چارٹرڈ جہاز کیسے مل گیا اور عموماً چارٹرڈ جہاز کے ذریعے جو فساد پیدا کرنے والے اور فتنہ پرداز لوگ ہیں وہ بھی اسی طرح بیچ میں داخل ہو کے پہنچا کرتے ہیں.جو وزیر متعلق تھے ان کو جماعت کی تفصیل کا علم نہیں تھا لیکن اللہ کی شان ہے کہ وہاں کے مذہبی امور کے وزیر جماعت کو جانتے تھے.اب ایک مذہبی امور کا وزیر خباثت کر رہا ہے اور ایک دوسرا اس کا توڑ کر رہا ہے انہوں نے صدر سے ملاقات کی اور ایم.ایم.احمد کا بھی میں ممنون ہوں کہ انہوں نے ایک فیکس صدر کے نام لکھی تھی کیونکہ یونائیٹڈ نیشنز میں ان کو وہ جانتے تھے مگر دراصل یہ وزیر صاحب تھے جنہوں نے خود ملاقات کی اور ان کو بتایا کہ یہ شرارت ہو رہی ہے اور یہ مع یہ معصوم لوگ ہیں جو ایئر پورٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کے متعلق فوری کارروائی ہونی چاہئے.چنانچہ صدر نے فوری طور پر ان کو وزیر خارجہ کے پاس بھجوایا اور کہا کہ اس کو جا کے فوراً سمجھاؤ اور بتاؤ کہ ان کو پوری طرح اسی طرح دو مہینے کے ویزہ کے ساتھ عزت کے ساتھ ملک میں داخل کیا جائے چنانچہ آج صبح وزیر خارجہ نے وقت دیا ہمارے وفد کو کہ وہ چٹھی لے کے میرے پاس آؤ اور ان کو ہدایت مل چکی تھی کہ میں نے کیا کارروائی کرنی ہے چنانچہ آج صبح وہ چٹھی لے کر وہاں پہنچے اور اسی وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عزت کے ساتھ بسیں وہاں پہنچیں اور ان کو حفاظت کے ساتھ ایئر پورٹ سے نکال کر آئیوری کوسٹ کی مہمانی یعنی میز بانوں کے سپرد کر دیا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سارا معاملہ اپنے اختتام کو عزت کے ساتھ پہنچا ہے.اس ضمن میں میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کو نا صاحب ہمارے ایک دوست ہیں بہت پیارے

Page 678

خطبات طاہر جلد 16 672 خطبہ جمعہ 5 ستمبر 1997ء اور عزیز دوست ہیں جلسے پر ہمیشہ آ کے ملتے رہتے ہیں، ان کے دل میں بھی اللہ نے جماعت کی بہت محبت ڈالی ہے وہ بھی بہت مددگار ثابت ہوئے ، رات بھر جاگ کے انہوں نے کوششیں کیں، خود ایئر پورٹ پہ گئے، کوئی تکلیف نہ پہنچے اور یہ سارے وہ لوگ ہیں جو ہمارے شکریے کے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزاء کے مستحق ہوں گے.پس آج کے خطبے میں اس سے زیادہ میں باتیں بیان نہیں کر سکتا اور یہ مکمل دور پورا کس طرح ہوا یہ آپ کو میں نے سمجھا دیا ہے اور اب دعائیں ہیں اور مباہلے کے نتائج کا انتظار ہے انشاء اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.

Page 679

خطبات طاہر جلد 16 673 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء یہ مباہلے کا سال اپنی پوری شان کے ساتھ احمدیت کی تائید میں ظاہر ہوگا.( خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 1997ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ پر میں نے گیمبیا میں ہونے والے بھیا نک ڈرامے کا ذکر کیا تھا اور چندان کرداروں کا ذکر کیا تھا جو اس ڈرامے میں نہایت بھیانک کردار ادا کر رہے ہیں اور گزشتہ خطبہ ہی میں میں نے پہلی بار یہ اعلان کیا کہ وہ امام جو زیادہ تر مرکزی کردار ادا کر رہا ہے جس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اور جماعت کے خلاف بہت بکو اس کی ہے بالآخر اس نے مباہلے کو تسلیم کر لیا ہے اور پہلی بار میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ ہم بھی اس کے اس اقرار کو تسلیم کرتے ہیں اور اب یہ دنگل چل پڑا ہے اور یہ مباہلہ on ہے.سارے خطبے کو آپ دوبارہ سنیں اس میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ جماعت احمدیہ حکومت گیمبیا کے خلاف ایک سیاسی محاذ بنا کر اس کے کھلنے کا اقرار کر رہی ہے.اس بات کو جب آخر پہ دہرایا گیا تو یوں دہرایا گیا تھا کہ اب یہ مباہلہ On ہے اور ایک طرف گیمبیا کی وہ بدکردار طاقتیں جنہوں نے یہ کام شروع کیا وہ ہیں اور ہم ہٹ گئے ہیں اس میں سے.اب خدا کے فرشتے دوسری طرف سے اتریں گے اور وہ اپنا کام کریں گے.یہ اعلان تھا اور یہ خلاصہ ہے گزشتہ خطبہ کا.ایک ہفتہ کے اندر اندر خدا کے وہ فرشتے اترے انہوں نے وہ حیرت انگیز کام دکھائے ہیں کہ اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.اس بد بخت نے ضیاء الحق کی مثال دی تھی اور کہا تھا تم

Page 680

خطبات طاہر جلد 16 674 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء نے اس کو مروایا اور اب اگر میں قتل ہوا تو یہ بھی تم لوگوں کے ہاتھ سے قتل ہوں گا اور شہید ہوں گا.مگر خدا تعالیٰ نے بعینہ ضیاء والا معاملہ اس ملاں سے اس طرح کیا کہ اس میں بھی جب میں نے ایک خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ وہ چکی چل پڑی ہے جس نے آخر اس ضیاء کو پیس ڈالنا ہے، اگلے جمعہ سے پہلے پہلے ضیاء کا طیارہ ہوا میں پارہ پارہ ہو گیا اور اس کی خاک بکھر گئی.جس طرح چکی پیستی ہے ایک شخص ، ایک وجود کو یا دانوں کو اس سے بھی زیادہ باریکی کے ساتھ ضیاء کے بدن کی خاک پیسی گئی اور ہوا میں بکھر گئی اور حکومت پاکستان کی تمام کوششیں اس معاملے کے حل کے متعلق بالآخر اسی سال اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اس میں ہر گز کسی بھی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں.یہ ہمیشہ ایک معمہ بنا رہے گا کہ کیوں وہ طیارہ پھٹا کیونکہ و Black Box جو ملا ہے اس میں اشارہ بھی کسی ایسی خرابی کا ذکر نہیں ملتا جو کسی انسان نے کسی طرح اس میں داخل کی ہو.تو اس ملاں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے لمبا انتظار نہیں کروایا.پہلے جمعہ اور اس جمعہ کے درمیان وہ سب کچھ ہو چکا ہے جس نے اس ملاں کی خاک اڑادی ہے اور اسے ذلیل ورسوا کر کے رکھ دیا ہے.اب میں اس کی کچھ تفصیل آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اگر چہ اب گیمبیا کی حکومت نے جس طرح پلٹا کھایا ہے اس کے بعد وہ چند باتیں جو میں نے کہا تھا کہ میں بیان کروں گا وہ غالباً اب مناسب نہیں.صدر چونکہ اس ساری صورتحال کو پلٹانے کے ذمہ دار ہیں اس لئے ان کے متعلق کوئی ناواجب حرف اب کہنا جائز نہیں ، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جاتا ہے.مگر دو مرکزی کرداراس ڈرامے کے ہیں ایک یہ ملاں فاتح اور ایک بو جنگ جو وزیر مذہبی امور اور وزیر داخلہ ہیں ان دونوں کی بد کرداریاں ایسی ہیں کہ اس معاملے کے حل ہونے کے باوجود ان کا ذکر ضروری ہے کیونکہ دونوں مباہلے میں ایک نہ ایک رنگ میں ملوث ضرور ہیں.بوجنگ نے مباہلے کے کاغذوں کو اٹھا کر پرے پھینک دیا تھا حقارت کے ساتھ اس لئے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس شخص کے ساتھ اسی طرح تذلیل کا سلوک نہ کرے اور اسے بھی رڈی کاغذ کی طرح اٹھا کر باہر نہ پھینکا جائے.اور جہاں تک اس ملاں کا تعلق ہے اس سے متعلق میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جو اس کی بیہودہ سرائی ہے اس کا جواب تو ہم نے دینا ہی ہے اور وقتا فوقتاً میں لقاء مع العرب میں بھی اور دوسرے مواقع پر بھی ان جوابات کو جو ساری جماعت جانتی ہے کیونکہ پہلے بھی اسی قسم کی بکواس پاکستان کے

Page 681

خطبات طاہر جلد 16 675 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء ملاؤں نے کی اور ان سب باتوں کا مدلل حوالوں کے ساتھ مزین جواب دیا جا چکا ہے لیکن چونکہ گیمبیا کو سنانا ضروری ہے اس لئے گیمبیا میں میں نے ہدایت کی ہے کہ ہر جگہ زیادہ سے زیادہ جہاں جہاں بھی جماعتیں ہیں ڈش انٹینا نصب کئے جائیں، ٹیلی ویژنز لگائی جائیں اور ہمارے جواب وہ سارے لوگ براہ راست مرکز سے سنیں.اس کے سوا اب اور کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کہ ہم کلی ان ساری باتوں کا جواب سارے گیمبیا کومدلل طریق پر سمجھائیں اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ اب وہ نیا دور شروع ہو گا جب گیمبیا تیزی کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف دوڑے گا.فاتح صاحب کا تعارف یہ ہے کہ یہ والد کی طرف سے گمنام ہیں.ان کی ماں ان کو گنی بساؤ سے لائی.یہ گیمبیا کے باشندے ہی نہیں ہیں اور اس وقت سے آج تک ان کے باپ کا کچھ پتا نہ بتایا گیا نہ کسی کو معلوم ہے اسی لئے ان کے نانا وغیرہ کی باتیں ہوتی رہی ہیں ان کے دادا کی کوئی بات میں نے بیان کی ، نہ میرے علم میں ہے.محلے میں کئی قسم کی چہ میگوئیاں ہوتی رہتی ہیں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.یہ نامناسب بات ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کے باپ کا کوئی علم کسی کو نہیں.1996ء میں ان کو سٹیٹ ہاؤس میں امام مسجد خانہ کعبہ کے کہنے پر مقرر کیا گیا تھا.اس نے گویا اپنا نمائندہ یہاں چن کر ایک دلال کے طور پر رکھا.16 جون، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس وقت سے لے کر 22 اگست تک اس کے خطبات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جو گند بکا گیا ہے تکلیف تو ہوتی ہے وہ بیان کرتے ہوئے ،مگر اس کا خلاصہ بیان کرنا ضروری ہے.جو یہ گند بکتا رہا ہے اس میں پہلی بات یہ کہ احمدی غیر مسلم ہیں اور واجب القتل ہیں یہ تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے“.یہ بات اب امام فاتح سے اپنا دامن چھڑا کر الگ کرنے کے لئے وزیر مذہبی امور اس سے کلیۂ لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ مسلسل اس بارے میں نہ صرف امام فاتح کی تائید کرتارہا بلکہ جو بھی احمدی وفود اس کو ملے ہیں انہیں بلا استثناء براہ راست قتل کی دھمکیاں دیتا رہا ہے.دوسری بات یہ ، جیسا کہ وہ ہمیشہ کہتے ہیں، کہ احمدی انگریزوں اور یہودیوں کا خود کاشتہ پودا ہیں.یہ سعودی نو از علماء کی بکواس ہے جس کا ٹھوس جواب پہلے دیا جا چکا ہے اور اب پھر دیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ اس امام اور سعودی امام جو اس کے ساتھ ہے، اس کے آقا انگریزوں کی اور یہودیوں کی مشترکہ پیداوار ہیں اور قطعی کتابوں کے حوالے سے دکھایا جائے گا کہ یہ بات فرضی الزام

Page 682

خطبات طاہر جلد 16 676 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء نہیں حقیقی اور سچا الزام ہے.ان کے بڑوں نے کانپتے ہوئے انگریزوں کے نمائندوں کے سامنے ان کے پاؤں پڑتے ہوئے یہ اقرار کیا ہے کہ آپ ہمارے ماں باپ ہیں، آپ ہی نے ہمیں بنایا ہے، ہم کیسے آپ کے خلاف جاسکتے ہیں اور گلف وار میں جو انہوں نے یہودیوں اور امریکہ کے ساتھ ان کے مفاد کا حق ادا کرتے ہوئے ایک مسلمان ملک کے اوپر جو زیادتیاں کی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں اور میرے گلف کے خطبات میں تفصیل بیان ہو چکی ہے.باقی ساری باتیں وہی ہیں جو پاکستان میں جنرل ضیاء کے حوالے سے بیان کی جاتی رہی ہیں اور یہ اب پاکستانی مولویوں کے سکھائے پڑھائے وہی باتیں یہاں دہرا رہے ہیں.احمدیوں کے سکول اور ہسپتال تبلیغ کے اڈے ہیں ان سے بچو جماعت کو Ban کر دیا جائے.مرزا غلام احمد نے ہمارے علماء کو بہت گندی گالیاں دی ہیں.مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے معجزات کو رسول اکرم کے معجزات سے افضل قرار دیا ہے.یہی تو مباہلے میں باتیں تھیں کہ دکھاؤ اور اقرار کرو کہ یہ ہم نے کیا ہے اور پھر مباہلہ کر کے دیکھو تو خدا کی تقدیر تم سے کیا سلوک کرتی ہے.عیسی کو زانی اور شرابی قرار دیا.ایسا خبیث اور جھوٹا مولوی ہے اور اس کے سر پرست اتنے خبیث اور جھوٹے ہیں کہ بات کو کیسے مروڑ کر اس نے بیان کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بائبل کے حوالے دیے ہیں جو یسوع کی نانیوں دادیوں میں سے معین نام لے کر ان کو زانی اور شرابی قرار دیتے ہیں.پس اگر جوابی حملہ کرنا ہے تو بائبل پر جوابی حملہ کرو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بائبل پر جوابی حملہ کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ بائیل جس یسوع کے متعلق یہ باتیں کرتی ہے یہ الہامی کلام نہیں ہے یہ بعد کی مداخلت ہے اور قرآن جس عیسی کی اور مریم کی بریت کرتا ہے وہ حقیقی تاریخی وجود ہے جو حضرت عیسی اور مریم کے وجود تھے.ان وضاحتوں کے باوجود وہاں کے مولوی یہ بکواس کرتے چلے جاتے ہیں اور خود ان کے بڑے بھی یہی باتیں کر چکے ہیں لیکن عیسائی دنیا کو انگیخت کرنے کے لئے وہ آج تک یہ حربے یہاں انگلستان میں بھی استعمال کرتے ہیں لیکن عیسائی دنیا زیادہ باشعور اور اپنی کتب اور کتب مقدسہ کی حقیقت کو زیادہ جانے والی ہے.اس لئے اس پہلو سے کبھی کسی پادری نے انکار نہیں کیا کہ بائبل میں یہ باتیں لکھی ہوئی موجود ہیں اور اگر کھی ہوئی ہیں تو پھر جماعت احمدیہ کا اس میں قطعا کوئی قصور نہیں.احمدیوں کا سوشل بائیکاٹ ضروری ہے.احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں“.وہی پاکستان

Page 683

خطبات طاہر جلد 16 677 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء وو کے گھسے پٹے الزامات.”مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا نبی ہے دعوی نبوت جھوٹا ہے.پاکستان کی طرح احمدیوں کو یہاں بھی غیر مسلم قرار دیا جائے.مسلمانوں کو احمدیوں کے فتنے سے بچایا جائے“.مرزا غلام احمد نے عیسی کی توہین کی اور ان کی نانیوں دادیوں کو زنا کار قرار دیا.وہی الزام دوسری جگہ ان لفظوں میں موجود ہے غلط طریق پر وفات مسیح ثابت کرنے کی کوشش کی.ثناء اللہ امرتسری کے مباہلے کے نتیجے میں ہلاک ہوا.نعوذ باللہ من ذالک ” بیت الخلاء میں وفات ہوئی اور یہ جو بیت الخلاء والا الزام ہے یہ بارہا آزمایا جا چکا ہے.ابھی حال ہی میں بعض مولویوں کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ یہی الزام دہراتے دہراتے ٹی میں مرے اور نہایت گندی حالت میں وہاں پائے گئے.یہ واقعہ وہ ہے جس کی تکرار اس کثرت سے ہے کہ ایک کتاب کا پورا باب ان مثالوں سے بھرا جاسکتا ہے کہ جب بھی کسی مولوی نے حد سے زیادہ بکواس کی ہے اس معاملے میں خدا تعالیٰ نے اس کو اسی طرح ٹی میں ذلت کی موت مارا ہے یہاں تک کہ بد بو کی وجہ سے لوگ اس کے قریب تک نہیں پھٹکتے تھے، یہاں تک کہ سونڈیاں ان کے جسم پر قبضہ کر چکی تھیں.یہ پہلے بھی میں جلسے کی تقریر میں اشارہ بیان کر چکا ہوں پھر بھی موقع ملے گا تو بتاؤں گا لیکن اس نے اس الزام کو بھی دہرایا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے کہ احمدی مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گے، میں مرا تو میری موت شہید کی ہوگی.پھر احمدی سابق حکومت جوارا کی اس ملک میں پیداوار ہیں اور اسی دور میں مضبوط ہوئے.مسلمان علاج کی خاطر ہسپتالوں میں نہ جائیں.مسلمان اپنے بچوں کو احمد یہ سکولوں میں نہ بھجوائیں.پکے مسلمان ضیاء الحق صدر پاکستان نے احمدیوں کی اذانیں بند کروادیں، مساجد منہدم کروادیں اور کلمہ مٹادیا آگے یہ بیان نہیں کیا پھر خدا نے اس سے کیا سلوک کیا اور کیسے ہلاک کیا.پھر وہ کہتا رہا ضیاء الحق کے مرنے کے ذمہ دار احمدی ہیں.انہوں نے مروایا ہے.احمدی ہمارے بہترین افراد کو احمدیت میں داخل کر رہے ہیں.اب یہ اقرار واقعی ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے.کیسا خدا نے اس کے منہ سے اس دوران اقرار کروا دیا اور اپنے بدترین ہونے کا اقرار بھی اس میں شامل ہے.جو ہمارے اچھے لوگ تھے وہ تو احمدی لے گئے اور پھر آخر پہ کہا ” مباہلہ کا طریق ٹھیک نہیں ہے میدان میں آکر سامنے مباہلہ کریں.جب یہ بھی منظور کر لیا گیا تو پھر اس شخص نے آخر کھلم کھلا ریڈیو پر اور غالبا ریڈیو ہی پر وہ اپنی تقریر کی جس میں اس نے مباہلے کا اقرار کیا اور کہا کہ میں اب

Page 684

خطبات طاہر جلد 16 678 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء مباہلہ قبول کرتا ہوں.22 اگست کے خطبہ میں اس نے مباہلہ قبول کیا تھا.میں اس وقت سفر پر تھا.عمداً میں نے اسے آپ کے سامنے نہیں پیش کیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تائیدی نشان بھی ظاہر ہو جائے اور یہ بات کھل کر سامنے آنے سے پہلے ہم اپنے ان احمدی معصوم خدمت گاروں کو وہاں سے نکال لیں تاکہ اس کے بعد اگر کوئی شرارت ہوئی ہو تو ان کو کوئی زک نہ پہنچے.یہ دو دو مصلحتیں تھیں لیکن گزشتہ خطبہ سے پہلے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا مباہلے کا اپنا اطمینان اپنی جگہ تھا مگر احمدیوں کے نکلنے کی بے چینی اور گھبراہٹ نے اس بے چینی کی جگہ لے لی تھی اور چونکہ وزیر مذہبی امور، وزیر برائے اندرونی امور یعنی وزیر داخلہ بار بار کھلم کھلا احمد یوں کو اور سب ہمارے کام کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا اور بظاہر اعلان یہ کروا رہا تھا کہ احمدیوں کی جان کو اگر کوئی خطرہ ہے تو ہم ان کی مدد کریں گے.یہ ایسی خبیث ایک حرکت تھی جو سازش کا ایک حصہ تھی یعنی ظاہر یہ کرنا چاہتے تھے کہ احمدی ملک کے عوام کا نشانہ بن چکے ہیں احمدی گلیوں میں آزادانہ پھر نہیں سکتے ان کو ہر طرف سے خطرہ ہے اور خطرہ پیدا کرنے والا خود جوان کو دھمکیاں دے رہا تھا وہ دوسری طرف سے اعلان کروا رہا تھا کہ خطرہ ہے تو ہمارے پاس آئیں ، ہم احمدیوں کی جان مال کی حفاظت کریں گے.یہ شرارت نقالی تھی پاکستان کی جہاں بھٹو کے دور میں حقیقۂ احمدیوں کے لئے خطرات تھے اور بعد میں حکومت نے اپنے فیصلے کو ان خطرات کا ایک طبعی نتیجہ بیان کیا کہ چونکہ ان کو خطرات تھے، باہر کی حکومتوں کے سامنے یہی بات پیش کی کہ چونکہ ان کو خطرے تھے ، ہم نے مجبوراًوہ دباؤ قبول کر لیا تاکہ ان کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہ رہے.یہ الگ قصہ ہے کہ بعد میں کیا ہوالیکن وجہ یہ تھی اور یہی وجدان کو پہنچائی اور سمجھائی گئی کہ تم نے عامتہ الناس پر یہ اثر ڈالنا ہے کہ احمدیوں کو بڑا شدید خطرہ ہے اور حکومت بار بار بتا رہی ہے کہ ہم اس خطرے کا مقابلہ کریں گے اور اب یہ خطرہ اس حد تک گویا بڑھ چکا ہے کہ اس سے زیادہ ہم احمدیوں کو سنبھالنے کا وعدہ نہیں کر سکتے ، لازم ہے کہ عوامی دباؤ قبول کرتے ہوئے ان کو اسلام سے خارج کیا جائے اور ملاں نے جو جو مطالبے کئے ہیں ان کو قبول کر لیا جائے.یہ بھیانک سازش تھی جو اپنے پر پرزے نکال رہی تھی اور اسی کے مقابلے کے لئے میں چاہتا تھا کہ یہ مباہلہ قبول کرے تا کہ خدا تعالیٰ کی طاقتیں کھل کر اس کے سامنے آئیں اور اس کی ہر سازش کے ٹکڑے اڑا دیں.جب یہ ہو چکا تو جیسا کہ میں نے بیان کیا مجھے نکلنے والوں کی فکر تھی.میں چاہتا تھا جمعہ سے

Page 685

خطبات طاہر جلد 16 679 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء پہلے یہ نکلیں تو پھر میں بات کروں لیکن جو رویا میں نے دیکھی اس سے مجھے معلوم ہوا کہ میری یہ فکر ناجائز ہے کیونکہ یہ رویا ایک ایسی عجیب رویا ہے جس کی جب تک تشریح نہ کروں آپ کو سمجھ نہیں آئے گی اور مجھے بھی رؤیا کے دوران حیرت تو تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے لیکن اٹھنے کے بعد اس کی سمجھ آئی.میں نے رویا میں یہ دیکھا کہ میں ایک بہت ہی بلند عمارت کی چھت پر کھڑا ہوں، اتنی بلند عمارت ہے کہ وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور وہ مسجد کی عمارت ہے اور مسجد سے مراد جماعت ہوا کرتی ہے.تو پہلی بات تو یہ خدا تعالیٰ نے سمجھائی کہ جماعت کی بلندی کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اور یہ جماعت وسیع تر اور بلند تر ہوگی اور بہت ہی وسیع مسجد ہے.اوپر سے میں نیچے انسانوں کو چھوٹے چھوٹے وجودوں کے طور پر، کیٹریوں کی طرح تو نہیں مگر بالکل چھوٹے چھوٹے منحنی وجودوں کے طور پر دیکھ رہا ہوں جو میرا انتظار کر رہے ہیں اور میں اس بلند مسجد کی چھت سے نیچے دیکھتا ہوں تو گہرائی سے تھوڑا سا خوف آتا ہے کہ جو چیز گرے اس کا کیا حال ہوگا اور وہاں جو لوگ کھڑے ہیں ان میں کچھ قادیان کے نمائندے ہیں اور کچھ پین کے.ان دونوں جگہوں سے جماعت کو نکالا گیا ہے اور ان دونوں جگہوں میں واپسی کی خوشخبری میں سمجھتا ہوں اس خواب میں دی گئی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ خواب ہی میں مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا یہ ایک Miniature ہے ساری تاریخ کا اور آنکھ کھلنے کے بعد مضبوطی سے اس خیال نے میرے دل پر قبضہ کر لیا کہ یہ نظارہ مجھے اس طرح دکھایا گیا ہے جیسے رحم مادر میں بچہ اپنی ایک Billion Years کی تاریخ کو دہراتا ہے لیکن اپنی تکمیل تک ایک Billion Year نہیں لیا کرتا بلکہ نو مہینے میں وہ مکمل ہو جاتا ہے.تو جو کچھ مجھے یہاں دکھایا جا رہا ہے یہ گویا ایک پرانی تاریخ کا خلاصہ کر کے جو جماعت کے سامنے پیش آنے والے حالات ہیں ان کو اس طرح دکھایا جا رہا ہے.عجیب بات ہے میں اپنی جیب میں کبھی کنگھی نہیں رکھا کرتا، نہ کنگھی کا زیادہ استعمال کرتا ہوں، وقت بھی نہیں ملتا نہ اتنے بال ہیں کہ ان کو کنگھی سے سنوارا جائے لیکن میری جیب سے ایک خوبصورت سی کنگھی نکلتی ہے اور میں اوپر سے نیچے اکٹھے ہونے والوں کو کہتا ہوں یہ میری نشانی ہے اور میں یہ سنکھی نیچے پھینک رہا ہوں.وہ اہراتی ہوئی کچھ عرصہ لیتی ہے، بلکہ کافی وقت لیتی ہے اور آخر وہ زمین تک نیچے اتر جاتی ہے.اب لنگھی کو اس موقع پر نشانی بنانا ایک عجیب وغریب بات ہے.مگر کنگھی کا مقصد ہوتا ہے صفائی کرنا ، گند کو باہر نکالنا اور بالوں کو صاف اور مزین کرنا.تو یہ معلوم ہوا کہ اس واپسی کے

Page 686

خطبات طاہر جلد 16 680 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء وعدے کے ساتھ جماعتوں کی تطہیر اور ان کو مزین کرنا بھی مقدر ہے.اب یہ وہ خیال ہے جو اس وقت میرے ذہن میں نہ آتا ہے، نہ آ سکتا تھا کیونکہ اتنے عظیم موقع پر میں کہیں باہر سے آرہا ہوں نیچے پین کے نمائندے، قادیان کے نمائندے اور میں اپنی سنکھی پھینک رہا ہوں اوپر سے.بہر حال یہ کام کرنے کے بعد ابھی وہ لوگ او پر نہیں آئے ، نہ آ سکتے ہیں کیونکہ یہ جگہ بہت ہی بلند ہے.میں نیچے اترتا ہوں اور مسجد کا جو چھتا ہوا صحن ہے اس میں داخل ہوتا ہوں اور عجیب بات یہ ہے کہ اتنی بلندی سے کس طرح نیچے اترا ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی.مگر وہ ہال پورے کا پورا جواو پر ہے وہ اتنا ہی بلند ہے.وہاں سے کھڑکی سے میں جھانکنے لگتا ہوں کہ دیکھوں نیچے لوگ قریب آئے ہیں.وہ قریب آ بھی رہے ہیں اور آچکے ہیں مگر اوپر آنے والوں میں غیر احمدی ہیں اور بعض پادری ہیں اور بعض دوسرے معززین ہیں جو مجھے خوش آمدید کہنے کے لئے اور استقبال کرنے کے لئے پہلے اوپر آتے ہیں.ان سب کو میں سلام کہتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں اور نیچے جو آدمی نسبتا قریب آگئے ہیں، اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں ان کو دیکھتا ہوں اور پہچانتا ہوں کہ انہوں نے خودان معززین کو اس لئے اوپر بھجوایا ہے کہ یہ احمدی نہ ہوتے ہوئے بھی جماعت کی تائید میں ہیں اس لئے ان کا حق ہے کہ یہ پہلے جا کر مجھ سے ملیں.اس کے بعد میرا نیچے اترنا، ان لوگوں سے ملنا یہ سب غائب ہو جاتا ہے اور خواب یہاں ختم ہو جاتی ہے.اٹھنے کے بعد جب مزید غور کیا تو اس بات میں تو قطعی ، کوئی بھی شک نہیں تھا کہ اس کا تعلق گیمبیا سے نکالے جانے سے ہے کیونکہ واپسی نکلنے کے بعد ہوا کرتی ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ احمدی گیمبیا سے نہ نکلیں کیونکہ اگر انہوں نے نکلنا ہے تو ان کی واپسی تبھی مقدر ہوسکتی ہے اور گیمبیا میں جو غیر احمدی اور عیسائی دکھائے گئے ہیں صاف پتا چلتا ہے کہ گیمبیا کے باشندے اس واپسی کا انتظار کریں گے.تو اگر چہ نکلنا نہیں دکھایا گیا تھا مگر واپس آنا دکھایا گیا اور یہ خود بھی اپنی ذات میں ایک عجیب اعجاز رکھتا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا مجھے انتظار تھا میں ان کو نکالوں.اس رؤیا کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ کوئی بھی مشکل جو نکلنے کی راہ میں ہوسکتی ہے ان کو در پیش نہیں آئے گی اور یہ خطبے سے دو دن پہلے کی بات ہے یا تین دن پہلے کی ہوگی.میں نے اسی وقت ایڈیشنل وکیل التبشیر کو کہا کہ ان سب لوگوں کو کینیڈا، ادھر ادھر جنہوں نے مد کا وعدہ کیا تھا، ان کو کہہ دیں ہمیں آپ کی کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے.اللہ نے اپنے ہاتھ میں معاملہ لیا ہے.یہ لوگ لازماً خیریت سے نکلیں گے ورنہ ان کی خیریت

Page 687

خطبات طاہر جلد 16 681 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء سے واپسی کا وعدہ ہو ہی نہیں سکتا اور جو بعد میں واقعات رونما ہوئے ہیں وہ خود اپنی ذات میں ایک حیرت انگیز اعجاز ہیں.یہ سب لوگ ایک ایسے طیارے کے ذریعے نکلے جس کا میں ذکر کر چکا ہوں کہ لطف الرحمن صاحب نے جو ساہیوال کے ملک عطاء الرحمن صاحب کے صاحبزادے ہیں، انہوں نے اس کا انتظام کیا تھا.یہ بوئنگ کا ایک طیارہ تھا ، چھوٹا بوئنگ جو وہاں پہنچا اور اس وقت تک سارے افریقہ کے ملکوں کی طرف سے اتنا شور بپا ہو چکا تھا کہ حکومت گیمبیا ان کو زبر دستی روکنے کی اہل نہیں رہی تھی.کم سے کم جو دعوے کر رہے تھے کہ ہماری طرف سے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے وہ اس کے خلاف بات ایسی نہیں کر سکتے تھے کہ اس سے سب دنیا میں شور پڑتا لیکن شرارت انہوں نے کرنی تھی اور کی اور وہ شرارت یہ تھی کہ جو بوئنگ کے مالک ہیں وہ خود ساتھ گئے تھے اور مالک سے زیادہ اپنے جہاز کا در دکسی اور کو نہیں ہوا کرتا.اس مالک نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ اس وقت گیمبیا کے دو چوٹی کے C.I.D کے افسر میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ سارے Terrorist ہیں جن کو تم لے جا رہے ہو اور پھر نہ کہنا کہ ہم نے تمہیں متنبہ نہیں کیا.مالک خود جس کو اپنے جہاز کا خطرہ تھا، Terrorist کے نام سے ہی ہوائی جہاز والوں کی جان نکلتی ہے، اس نے خود یہ بیان دیا ہے کہ اس کی بات کا میں نے اس لئے اثر نہیں قبول کیا کہ جن لوگوں کو میں نے دیکھا تھا وہ ایسے شریف لوگ تھے کہ ساری زندگی میں نے اتنے شریف لوگ نہیں دیکھے.کسی تہذیب اور تمدن اور شرافت اور حیا کے ساتھ وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور سفر کے لئے تیاری کر رہے تھے.اس نے کہا میرے دل میں خدا نے مضبوطی سے ڈال دیا یہ جھوٹ ہے.جو کچھ بھی ہو میں لازماً ان کو لے کے جاؤں گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ ان کی کوشش پہلے قدم پر نا کام رہی.دوسرے قدم پر جب یہ آئیوری کوسٹ پہنچے ہیں تو آپ کو پتا ہے دو دن تک ان کو رو کے رکھا گیا یعنی جمعہ کی صبح تک یہ لوگ ایئر پورٹ پر روکے ہوئے تھے اور ہماری طرف سے وہاں کے جتنے افسروں سے تعلق تھا، جتنے بااثر لوگوں سے تعلق تھا ان میں سے بعض آئیوری کوسٹ کے احمدی بھی تھے جو بڑے بارسوخ اور با اثر لوگ ہیں انہوں نے ہر طرح کوشش کی مگر ایئر پورٹ کے نمائندوں نے کہا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا ان کو لازماً انتظار کرنا پڑے گا.ہم مجبور ہیں ہم ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتے.سارے حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے.اب دیکھئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جوابی توڑ

Page 688

خطبات طاہر جلد 16 682 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء کیا ہے اور اس تو ڑ سے متعلق پہلے سے میرے دل میں کس قدر یقین تھا.وکیل التبشیر صاحب کو میں نے بار بار کہا، میں نے کہا آج میں نے خطبہ میں ذکر کرنا ہی کرنا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اس سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ ہماری پریشانی دور نہ فرما دے.اس سے ایک رات پہلے مذہبی امور کے وزیر جو بہت شریف النفس انسان ہیں ان کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ بات ڈالی اور ہم نے نہیں کہا، اشارہ بھی نہیں کیا.ان کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ لازماً پریذیڈنٹ کے نوٹس میں لانا چاہئے.وہ آئیوری کوسٹ کے پریذیڈنٹ سے ملے اور چونکہ ان کے ساتھ ان کا احترام کا ذاتی تعلق بھی ہے، انہوں نے پریذیڈنٹ سے کہا کہ یہ کیا ہوا ہے وہاں.میں ان لوگوں کو جانتا ہوں شریف النفس لوگ ہیں.ان کا سارا کردار آئیوری کوسٹ میں نہایت معزز کردار ہے.میں مذہبی امور کا وزیر ہوں میں ذاتی گارنٹی دیتا ہوں.جب اس نے بتایا تو اس نے کہا اچھا یہ بات ہے تو پھر یہ معاملہ حل نہیں ہو گا جب تک تم وزیر خارجہ سے نہ ملو کیونکہ دراصل وہ اس کو کنٹرول کر رہا ہے اور وزیر خارجہ کو گیمبیا کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی تھی کہ کچھ Terrorist آ رہے ہیں ان کو سنبھال لو، بعد میں نہ کہنا اور وہ چونکہ احمدیوں کو جانتا نہیں تھا اس لئے اس کے دل میں یقین تھا.اسی نے پریذیڈنٹ کو بتایا.اسی نے پریذیڈنٹ سے یہ اجازت لی کہ ان کو روکے رکھا جائے اور بالآخران کا خیال تھا کہ واپس کر دیں گے.تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف اس سازش کو تو ڑا بلکہ جمعہ سے پہلے جیسا کہ میں نے ان کو یقین دلایا تھا جمعہ کی صبح کو آٹھ بجے بڑی عزت اور احترام کے ساتھ بسوں نے اس سارے قافلے کو اٹھایا اور جماعت نے جو جگہ تیار کی تھی وہاں پہنچادیا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وزیر خارجہ کے حکم پر ان کا دو مہینے کا جو ویزہ لگا تھا یہ اس میں ہدایت تھی کہ اسی طرح دو مہینے کا ویزہ ہوگا کوئی جلدی نہیں ان کو نکلنے کی ، یہ وہیں رہیں گے اور یہ صورتحال ہمارے لئے نہ صرف مفید بلکہ ضروری تھی کیونکہ اس رؤیا کے پیش نظر میں نے اپنے ایک فیصلے کو بدلا تھا.پہلے میرا فیصلہ تھا کہ ان کو انگلستان بلا لیا جائے ، کچھ کو پاکستان بھجوا دیا جائے اور کچھ کو یہیں کچھ دیر رکھ کے تو پھر سوچا جائے.اس رؤیا کے بعد مجھے یقین تھا کہ چونکہ واپسی ہونی ہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان کو افریقہ کے ممالک میں رکھا جائے اور ہم نے تقـ کر دی تھی مگر دو مہینے آئیوری کوسٹ ٹھہرنے کی ضمانت کے بعد میرا خیال تھا کہ ہوسکتا ہے یہیں سے اکثر کی واپسی ہو.اس مباہلے کا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے ہیں ان کا یہ پس منظر ہے.

Page 689

خطبات طاہر جلد 16 683 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء اب سنئے مباہلے کی قبولیت اور اس پر تقدیر الہی کا حرکت میں آنا.اسی دوران جو جمعہ سے پہلے گھبراہٹ تھی کہ ابھی تک کیوں نہیں ہوا اس وقت اللہ تعالیٰ نے کئی طریق سے مجھے تسلی دی لیکن سب سے زیادہ تسلی ان الفاظ سے ہوئی الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ اس سے اسی طرح میرے دل میں ندامت پیدا ہوئی اور استغفار کیا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الہام پر ندامت کا اظہار فرمایا اور استغفار کیا.وزیر مذہبی امور گیمبیا کا جہاں تک تعلق ہے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا اور بدلی ہوئی صورت کے باوجود بیان کرنا ضروری ہے اس بد بخت نے مسلسل اس امام کو غلط باتیں پہنچائیں.جب یہ ڈرتا تھا مباہلے سے تو اس کو یہ کہتا تھا کہ ضیاء کو تو انہوں نے مروایا تھا اور یہ جھوٹ بول رہے ہیں.حالانکہ حکومت پاکستان کو اس بات کا پتا نہیں کہ ضیاء کو کس نے مروایا ہے اس کو پتا تھا، یعنی گویا اس کو پتا تھا اور اسی نے اس بے چارے کو آگے کر کے پاگل بنایا اور تقدیر الہی سے لڑنے پر اس کو آمادہ کیا.اس کا حال یہ ہے کہ ہمیشہ ہر دفعہ جب کوئی احمدی اس سے ملا ہے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کے متعلق لازماً بکو اس کی ہے اور امام فاتح کی پوری طرح تائید کی.یہی وہ شخص ہے جس نے امام فاتح کے مباہلہ کے بعد ایک پریس کانفرنس کی ہے.اس پر یس کا نفرنس کے علاوہ اس نے ہمارے احمدی وفد کو اپنے پاس بلوایا.امیر صاحب اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لے کے گئے اور اس نے ان کی موجودگی میں اس بکو اس کو دہرانا شروع کیا اور کہا کہ احمدیوں نے یہ آغاز کیا ہے اور احمدی ایسے ہیں.ہمارے احمدی امیر بڑے بہادر اور جوان مرد انسان ہیں.اٹھ کر کھڑے ہو گئے.انہوں نے کہا تم بکواس کر رہے ہو اگر یہ بات ہے تو میں اس مجلس سے اٹھ کے جاتا ہوں.اس قسم کی بدتمیزی کی باتیں اپنے امام کے خلاف نہیں سن سکتا.اس نے کہا تم نے یہاں آنے سے پہلے اپنے روحانی راہنما سے اجازت لی ہے.انہوں نے کہالی ہے اور میں ہمیشہ لوں گا کیونکہ میں ان کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا.اس نے کہا یہ ثابت کرتا ہے کہ تم گیمبیا کے وفادار نہیں ہو.انہوں نے کہا میں گیمبیا کا وفادار ہوں وہ دنیا کا معاملہ ہے اور یہ روحانیت کا معاملہ ہے.اس پر وہ بد بخت طیش میں آیا اور اٹھ کر ان کے گریبان پر مضبوطی کے ساتھ ہاتھ ڈالا اور کہا میں تمہیں قتل کروا سکتا ہوں، میں تمہیں ذلیل کر سکتا ہوں اور میں ابھی تمہارے ساتھ وہ کرتا ہوں جو میں نے کرنا ہے.اس پر انہوں نے اس کے فوجی

Page 690

خطبات طاہر جلد 16 684 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء گریبان پر مضبوطی کے ساتھ ہاتھ ڈالا اور اس کو زور سے جھٹکا دیا اور دونوں گھتم گتھا ہو گئے.جواس کے فوجی ساتھ تھے انہوں نے اس کو کھینچنے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ جو دو احمدی تھے انہوں نے ان کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی لیکن اس کے غیظ و غضب کا یہ حال تھا اور اب یہ جو بعد میں باتیں کر رہا ہے.یہ اب سنئے ذرا اس کی کیا باتیں ہوں گی سب کچھ کرنے کے بعد جب وہ چلنے لگے تو اس نے کہا نہیں آپ آجائیں ذرا وا پس.اس خوف اور ڈراوے نے کوئی کام نہیں کیا تو اس نے کہا کہ دیکھیں جو کچھ بھی ہوا ہے غلط فہمیاں ہوئی ہیں اور پریس کا نفرنس جو اس نے منعقد کروائی تھی اس میں چالاکی کے ساتھ دو آدمی Plant کئے جو کسی زمانے میں احمدی ہوتے تھے اور ان سے یہ بیان دلوایا کہ جو کچھ جماعت احمدیہ کے سربراہ کو اطلاعات دی جارہی ہیں وہ سب جھوٹی ہیں.ایک آدمی نے اقرار کیا کہ میں خط لکھا کرتا تھا اور میں باتیں منسوب کر رہا تھا حکومت اور وزارت داخلہ اور وزارت مذہبی امور کی طرف اور یہ سب جھوٹ تھا اور گویا اس جھوٹ سے طیش میں آکر انہوں نے سب دنیا میں مشہور کر دیا.گیمبیا کے متعلق ایسا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا.میں بنایا کرتا تھا اور دوسرے سابق احمدی نے اٹھ کے تائید کی ہاں میرے سامنے کی بات ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ایک بھی خط کسی احمدی کی طرف سے، اپنی ذاتی حیثیت میں کسی گیمبین کی طرف سے ایک بھی خطا نہیں ملا جس میں ان باتوں میں اس نے الزام تراشی کی ہو.اس نے پریس کانفرنس میں ان کو کھڑا کر وایا اور گویا پر یس کا نفرنس میں جو رویہ اختیار کیا اس کے متعلق گواہ کے طور پر کہ ان کا مرکز سنی سنائی باتوں کو اس طرح مانتا ہے ہمارا تو کوئی قصور نہیں لیکن جب یہ باتیں شروع ہوئیں تو اسی وقت گیمبیا کے پریذیڈنٹ کا فون ان کو ملا اور اس نے کہا، نہایت گندی زبان امام فاتح کے متعلق استعمال کی ، اس نے کہا وہ خبیث ترین انسان ہے اس نے جھوٹ بولے ہیں، اس نے فساد برپا کئے ہیں اور میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ ان کو بتا دو کہ آئندہ سے کبھی اس کو کسی پلیٹ فارم پر احمدیت کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.صرف یہی نہیں بلکہ خود اس وزیر نے اس کانفرنس میں جو دراصل معلوم ہوتا ہے پہلے فیصلہ ہو چکا تھا، اس کا نفرنس میں پھر یہ اعلان کیا کہ احمد یوں کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں، یہ امام فاتح تھا جو سارے فساد کا بانی مبانی تھا.اس کی گندی زبان نے گیمبیا کو پھاڑ دیا.اس کی خبیث نہ باتوں نے گیمبیا کو سیکولر حکومت سے ایک مذہبی جنونی حکومت میں تبدیل کر دیا لیکن اب صدر جامع نے جو اقدامات کئے ہیں ان کے بعد یہ باب بند ہو جانا چاہئے.

Page 691

خطبات طاہر جلد 16 685 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء صدر جامع کی طرف سے جو اخباری اعلانات اور تمام محکموں کو تحریری ہدایتیں دی گئی ہیں ان کی کا پیاں ہمیں ملی ہیں ان میں خلاصہ یہ باتیں ہیں.اول امام فاتح ایک انتہائی خبیث اور بدفطرت انسان ہے اس نے جو کچھ بکو اس کی اپنے طور پر کی.اپنے طور پر کر ہی نہیں سکتا تھا جب حکومت کے سارے ادارے اس کو اٹھا رہے تھے مگر بہر حال اعلان اب یہ ہے اور گیمبیا کی حکومت کا اس سے کوئی بھی تعلق نہیں.اس لئے تمام ادارے جو نشر و اشاعت سے کوئی تعلق رکھتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ آج کے بعد اس بد بخت امام کی کوئی بات بھی آپ آگے بیان نہیں کریں گے نہ ریڈیو پر نہ ٹیلی ویژن پر، نہ مسجد سے، نہ مسجد سے باہر.اس کا آئندہ کبھی کوئی بیان ملک گیمبیا میں شائع نہیں کیا جائے گا.اس کے علاوہ یہ ہدایت تھی کہ احمدی مسلمان ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت گیمبیا میں ان کو غیر مسلم قرار نہیں دے سکتی اور یہ اعلان تھا کہ احمدیوں کو اب ہمارے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بطور مسلمان اپنا مؤقف پیش کرنے کی ہمیشہ اجازت ہوگی.انہوں نے کہا جتنا یہ فساد تھا یہ اس طرح بنایا گیا اور ہم ہر اس کوشش کو ذلیل اور نامراد سمجھتے ہیں جو گیمبیا کو پھاڑنے کی کوشش ہے.یہ سیکولر حکومت ہے.اس میں اسلامی تعصب کو دخل دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی.سب شہری برابر حقوق رکھتے ہیں اور احمدی مسلمان ہیں یہی حکومت کا مؤقف ہے اور بطور مسلمان ان سے یمبین سلوک کریں گے.یہ ایک ہفتہ کے اندراندر ہونے والے واقعات ہیں.پچھلے جمعہ جو میں نے بیان کیا تھا کہ اب دنگل چل پڑا، اس دنگل کا نتیجہ آپ کو دکھا رہا ہوں اور ضیاء الحق کی طرح جس کی یہ (امام) نقالی کر رہا تھا ہفتہ نہیں گزرا کہ خدا کی پکڑ نے اس کو پارہ پارہ کر دیا.اب یہ جگہ جگہ بولتا پھرتا ہے کہ مجھے تو اس وزیر نے مروا دیا.میں کہاں ایسی باتیں کرنے والا تھا یہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا.مجھے غلط خبریں دی گئیں اور میرا یہ حال کر دیا گیا ہے.اگر اس شخص میں کوئی حیا اور غیرت ہو تو اسی ملک کو واپس چلا جائے جہاں سے آیا تھا اور اب بعض اخباروں نے یہی مطالبہ شروع کر دیا ہے.وہ کہتے ہیں اس امام کے لئے اب کوئی راہ نہیں سوائے اس کے کہ اپنے آبائی وطن لوٹے اور ہمارے گیمبیا کو اپنے غلیظ بدن سے پاک کر دے.یہ مباہلے کی تقدیر ہے جو ظاہر ہوئی اور جو فرضی بات نہیں تھی ، جس کے اوپر مجھے کامل یقین تھا اور میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس طرح خدا تعالیٰ کی تقدیر میں کام دکھایا کرتی ہیں.اس میں کسی فرض کا، کسی تصور کا، کسی خواہش کا کوئی دخل نہیں ہوا کرتا.ناممکن کو ممکن کر دکھاتی ہیں.ایک ہفتہ کے

Page 692

خطبات طاہر جلد 16 686 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء اندراندر گیمبیا کی تمام سازش جو دھیمی دھیمی سی چل رہی تھی ، کلیۂ ملیامیٹ کر دی گئی.اب جہاں تک اس چکی کے چلنے کا تعلق ہے مجھے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ یہ جو مذہبی امور کا وزیر بنا پھرتا ہے یہ گندا انسان ہے اس نے صدر جامع کو بھی ہمیشہ غلط رستے پر چلایا ہے اور غلیظ زبان اور جھوٹ بولنا اور خود اٹھانا اور خودگرانا یہ اس صاحب کی سرشت میں داخل ہے.اس لئے دو شخص واضح طور پر جو ملوث ہوئے ہیں مباہلے میں ایک امام فاتح اور ایک یہ.ان کے متعلق اپنی دعا ئیں جاری رکھیں.یہ چکی جو چل پڑی ہے اب یہ چلتی رہے اور سب دنیا دیکھے اور خصوصاً گیمبیا دیکھے کہ یہ سب بکواس ہے جوان لوگوں نے کی اور سیمبین مزاج کا اس چیز سے کوئی تعلق نہیں.اب سنئے ان ڈاکٹروں کی بات جن کو ہم نے مجبور ا نکالا تھا.جب نکالا تو ان کی اس کارروائی کے جاری ہونے سے پہلے اشارہ بھی علم نہیں تھا کہ ان لوگوں کی خباثت ختم ہو چکی ہے.مجھے شدید گھبراہٹ ہوئی ہے تہجد کی نماز میں اور میں نے فیصلہ کیا کہ فوراً کم سے کم دو ڈاکٹروں کو واپس بھیجوانا چاہئے کیونکہ ایک غریب ملک سے، جن کو عادت ہو احمدی ہسپتالوں سے فائدہ اٹھانے کی ، ہمارا یہ سلوک کہ ان کو لازمی طبی سہولت سے محروم ہونا پڑے جب کہ ان کی طرف سے کوئی شکوہ نہیں یہ سراسر زیادتی ہے اور حکومت کے ساتھ جو اختلاف ہے وہ اپنی جگہ ہوگا لیکن یہ جائز نہیں.چنانچہ میں نے صبح ہی وکیل التبشیر صاحب کو ہدایت کی کہ فوری طور پر لئیق صاحب کو اور پاشا کو ابھی فون کریں کہ وہ جلد سے جلد واپس گیمبیا پہنچیں.اگر ان کی جان کو خطرہ ہے تو اس کی کوئی پرواہ نہیں، نہ ان کو خطرہ کا احساس ہونا چاہئے.یہ میرے عزیز بھی ہیں مجھے پیارے ہیں مگر مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ یہد الہی کام ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہر خطرے کو محسوس کرنے کے باوجود جو خدمت اللہ کے نام پر ہم نے شروع کی ہے اس سے پیچھے نہ نہیں.چنانچہ فورا ان کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ہمارے دل میں تو پہلے ہی اٹھ رہا تھا ، ہم تو چاہتے تھے کہ آپ سے اجازت لیں کہ ہمیں دوبارہ جانے دیں.چنانچہ ان دونوں کی واپسی کا فیصلہ ہوا اور یہ میرا اعلان ان کی ان حرکتوں سے پہلے گیمبیا میں کر دیا گیا اور گیمبیا کے عوام نے ان کے جانے پر جو رد عمل دکھایا وہ یہ تھا کہ سارے ملک کے عوام بھی اور خواص بھی حکومت کے آدمی بھی اور حکومت سے باہر بھی یک زبان گلیوں میں نکل آئے.انہوں نے اپنی حکومت کو مخاطب کر کے مجرم قرار دیا کہ تم اپنے سفا کا نہ اور بے حیا رویہ کی وجہ سے ذمہ دار ہو کہ ایسے شریف لوگوں کی سینتیس (37) سالہ خدمت کو تم نے نظر انداز کر دیا اوران

Page 693

خطبات طاہر جلد 16 687 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء کی نعمت سے ہمیں محروم کیا.ایک عجیب منظر تھا.ہمارے امیر صاحب کا فون Jam ہو جاتا رہا.سارے گیمبیا سے ان کو فون ملنے شروع ہوئے ، سارا دن یہی اطلاعات، غیر احمدی فون کرتے تھے.کہتے تھے یاد رکھیں سارا گیمبیا آپ کے ساتھ ہے اور سارا گیمبیا ان بد معاشوں کے خلاف ہے جو یہ حرکت کر رہے ہیں.یہ گیمبیا کا طبعی رد عمل تھا.اس رد عمل کے پہنچنے سے پہلے میں یہ فیصلہ کر چکا تھا.اس سے ان کو اتنی خوشی پہنچی کہ میں مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.خلاصہ یہ ہے کہ ایک اخبار نے کھل کر لکھا کہ اے احمدی جانے والے ڈاکٹر و! تم ہمیں بہت پیارے ہو تمہیں ہمارے پاس واپس آنا چاہئے.ہم تمہیں ترس رہے ہیں.سارے گیمبیا کے عوام تمہاری واپسی کے منتظر ہیں اور جب میرا یہ فیصلہ ان کو پہنچا تو ڈیلی آبزرور اخبار نے اپنی اشاعت میں ایڈیٹوریل میں لکھا ”حضور انور کا شکریہ کہ گیمبیا کے عوام پر رحم کرتے ہوئے ڈاکٹروں کو فوری طور پر واپس بھجوانے کا حکم دیا ہے.مزید لکھتا ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ احمدی گیمبیا کے عوام سے محبت کرتے ہیں.ان کو حکومت کی کوئی پرواہ نہیں.اس طرح ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچا ہے.اب انشاء اللہ کل ڈاکٹر لئیق صاحب اور پاشا صاحب کی بکنگ اگر وہ قائم رہی کل ہفتہ کے روز یہ واپس پہنچیں گے اور ان کے پہنچنے پر مجھے یقین ہے جس طرح گیمبیا کے عوام خوش ہوں گے اور ان کا استقبال کریں گے وہ ایک تاریخی چیز ہوگی.مگر پھر بھی ہمیں کچھ انتظار کرنا ہوگا کہ باقی سب کو واپس بھجوائیں کیونکہ ابھی تک تو بہر حال یہ بات مستحکم ہو چکی ہے کہ انہوں نے اپنے فیصلے بدل لئے ، سب کچھ ختم کر دیا، احمدیوں کے مسلمان ہونے کا قطعی اقرار کر لیا لیکن جب تک پیشخص حکومت پر قائم ہے اس کی بد نیتی اور بدبختی کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا.یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ احمدیت کے خلاف کارروائی میں نامراد ر ہیں گے.یہ تو مجھے یقین ہے.مگر کچھ تکلیف دہ یعنی دلوں کو زخمی کرنے والے پہلوا بھی بھی یہ اختیار کرسکتا ہے اور کرے گا.اس لئے جب تک الہی تقدیر (امام) فاتح کے ساتھ اس کا بھی قلع قمع نہ کرے اس وقت تک ہمیں کچھ احتیاط کرنی ہے اور ان کی واپسی کے متعلق کچھ امور دیکھنے ہیں لیکن امید رکھتا ہوں کہ اگلے دو مہینے کے اندراندر یہ ساری باتیں طے ہو جائیں گی.پس سب دنیا کی جماعتوں نے جو دعائیں کیں، جو فکر ظاہر کی آج کے خطبہ کے بعد میں اس مضمون کو ، اس باب کو بند کر رہا ہوں.جو جواب اس امام کو دینے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے.اس کا

Page 694

خطبات طاہر جلد 16 688 خطبہ جمعہ 12 ستمبر 1997ء اس صورتحال سے، گیمبیا کی حکومت سے یا باقیوں سے اب تعلق نہیں رہا.وہ احمدیت کے دفاع میں ہمیں بہر حال ایک کارروائی کرنی ہوگی وہ ہم کرتے رہیں گے لیکن میں آپ سے، سب جماعت احمد یہ سے درخواست کرتا ہوں کہ جتنے بھی خدا کے حضور سجدہ کرتے ہوئے شکر کے ساتھ روئیں اور اپنی سجدہ گاہوں کو تر کریں وہ بھی کم ہوگا.جب یہ سب خبریں کل مجھے ملیں تو میرا حقیقت میں دل چاہتا تھا کہ گلیوں میں سجدہ کرتے ہوئے چلوں اور ہر سجدے میں خدا کے قدموں پر سر رکھتے ہوئے اس کی عنایات کا شکر ادا کروں.ہمارے دل اسی طرح خدا کے ممنون تو ہر رات میں، ہر ذرے میں ہیں لیکن بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب احسانات کو ہ طور پر جلوہ دکھاتے ہیں.کل کا جلوہ ایک ایسا ہی جلوہ تھا جس نے میری روح کو بالکل خدا کے حضور اس کے قدموں میں گلی گلی میں جھکا دیا.پس آپ بھی سب دنیا کی جماعتیں اس جشن تشکر میں میرے ساتھ شامل ہوں جو سجدوں کا جشن ہوگا اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جماعت کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور یہ سال گیمبیا کی تاریخ میں ، جس طرح ایک غلط اندازہ سعودی عرب میں پیش کیا گیا تھا اس کے برعکس، صحیح معنوں میں ایک تاریخی سال بن کے چمکے اور اس کے نور سے سارا گیمبیا مہک اٹھے اور چمک اٹھے.اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.ایسی ہی مجھے امید بلکہ یقین ہے.اب اس کے ساتھ میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا نت.خطبہ ثانیہ سے قبل حضورانور نے فرمایا: ضمنا یہ بات کہنی ہے کہ ابھی اس مباہلے نے اس راجے کی بھی خبر لینی ہے انشاء اللہ.ایک تو لی جاچکی.اس کی ساری سازش کے پر خچے اڑا دیئے ہیں خدا کی تقدیر نے لیکن آگے بھی دیکھنا ہے ابھی اور کیا ہوتا ہے.آپ انتظار کریں مجھے تو ایک ذرہ بھی شک نہیں یہ مباہلے کا سال اپنی پوری شان کے ساتھ احمدیت کی تائید میں ظاہر ہوگا.انشاء اللہ.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: آج چونکہ باہر بارش بھی ہے.کم سے کم جب میں آیا تھا تو ہورہی تھی اور بارش ہو یا نہ ہو خدام کا چونکہ آج اجتماع شروع ہو رہا ہے اس لئے ان کی درخواست پر یہاں سے جانے والوں کی سہولت کے لئے نمازیں جمع ہوں گی.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 695

خطبات طاہر جلد 16 689 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء روحانی انقلاب پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ بندے کے اندر ایک روحانی انقلاب چاہتا ہے ( خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 1997ء بمقام و نیکوور.کینیڈا) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الحمد للہ کہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ آج میں آپ کے درمیان اس خطبہ کے لئے کھڑا ہوں.اس سفر کا آغاز لطف الرحمان صاحب کی اس تجویز سے تھا کہ اگر میں وقت نکال سکوں تو الاسکا کا سفر اس سال کے لئے ایک اچھی تفریح ہوگی کیونکہ مجھے سیر وسیاحت کا شوق بھی ہے اور پہلے ناروے میں جو سب شمال میں واقع ان کی نوک نکلی ہوئی ہے وہاں تک پہنچ کر وہاں بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی توفیق ملی تھی تو اس خیال سے کہ یہاں بھی الاسکا میں جو سب سے زیادہ آخری شمالی حصہ ہے جمعہ وہیں آئے گا اور ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی ایک جمعہ پڑھنے کی توفیق ملے گی، میں نے بہت خوشی سے اس تجویز کو منظور کر لیا.خیال تھا کہ میں سب بچوں کو ساتھ لے کر سفر کروں مگر کچھ بچوں کو بعض ویزے کی دقتوں کی وجہ سے پیچھے رہنا پڑا مگر امید ہے انشاء اللہ جو بچے میرے ساتھ ہیں ان کے ساتھ بھی کافی خوشگوار سفر گزرے گا.یہاں جو آج کا جمعہ ہے اس میں میں کچھ تاخیر سے پہنچا ہوں یعنی دس منٹ کے لگ بھگ تاخیر سے پہنچا ہوں.یہ تاخیر اندازے کی غلطی نہیں بلکہ اندازے کی بے یقینی ہونے کی وجہ سے ہے کیونکہ اندازہ امیر صاحب کا درست تھا کہ بیس منٹ کا رستہ ہے مگر آج رستے میں کچھ ایسی روکیں تھیں

Page 696

خطبات طاہر جلد 16 690 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء جن کی وجہ سے نسبتا لمبا سفر اختیار کرنا پڑا اور یہ دس منٹ زائد اس کی وجہ سے لگے ہیں.اس لئے میں معذرت خواہ ہوں اس تاخیر کی وجہ سے.اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.آج سب سے پہلے سب سے بڑی خوشخبری گیمبیا سے آئی ہے.آج صبح جمعہ سے پہلے گیمبیا کے امیر صاحب نے ایک فیکس بھیجی ہے جو اس مباہلے کو بالآخر انتقام تک پہنچاتی ہے اور اس کے بعد اب جماعتوں کو کسی قسم کے تردد کی فکر کی یا حکومت گیمبیا پر تنقید کی ضرورت نہیں اب یہ تنقید بد اخلاقی ہوگی.کل رات کو عزت مآب صدر گیمبیا نے پوری کیبنٹ کا اجلاس بلایا اور وہاں جماعت کا معاملہ رکھا.تمام کیبنٹ نے جس میں وزیر مذہبی امور و داخلہ بو جنگ صاحب بھی شامل ہیں انہوں نے متفقہ طور پر کچھ فیصلے کئے ہیں.اول یہ فیصلہ کہ آئندہ سے گیمبیا میں جماعت احمدیہ کے خلاف کسی شخص کو خواہ وہ نمائندہ حکومت کا ہو یا اپنی ذات میں کچھ کہنے والا ہور یڈیو، ٹیلی ویژن کے علاوہ بھی جماعت کے خلاف کسی قسم کی بے ہودہ سرائی کی اجازت نہیں ہوگی اور جماعت کی عزت اور احترام کا ہر گیمبیا کے فرد بشر کو خیال رکھنا ہوگا.دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ حکومت یہ عہد کرتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے جماعت احمد یہ جو بھی کوششیں کرے گی اس میں حکومت ان کی پوری طرح معین اور مددگار ہوگی.تیسرا فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ تمام ڈاکٹرز، تمام سٹاف جو اس ملک کو چھوڑ گئے تھے ان کو قانونی طور پر دوبارہ اس ملک میں پوری شان کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت ہے وہ جو چاہیں، جس طرح چاہیں کام کریں اور جماعت کی ان خدمتوں کو جو جماعت بڑی دیر سے کر رہی ہے گیمبیا کی حکومت عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور آج کے بعد یہ سلسلہ اختلافات کا کلیۂ بند کیا جاتا ہے.اسی قسم کے بعض اور امور ان کے کیبنٹ کے فیصلے میں داخل تھے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مباہلے کی عظیم الشان کامیابی پر دلالت کرتے ہیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یا کچھ لوگ اپنے نامناسب رویے میں خدا کے خوف سے تبدیلی پیدا کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح فرما یا با وجود الہی خبروں کے کہ ان کے خلاف خدا کی تقدیر کام کرے گی ، ایسے لوگ جو تو بہ کرتے ہیں اور اپنے حالات کو بدلتے ہیں اللہ ان سے نرمی کا سلوک فرماتا ہے.پس اس بناء پر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تمام دنیا کی

Page 697

خطبات طاہر جلد 16 691 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء جماعتوں کو اب اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ انہوں نے شرافت کا سلوک کیا ہے.ہماری شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ حسب سابق گیمبیا کی ہرممکن مدد کریں.دنیا کے ہر ملک سے جہاں تک گیمبیا کے عوام کی خدمت کا تعلق ہے جو بھی مددممکن ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو جاری رکھیں.انشاء اللہ تعالیٰ.دوسری بات میں کینیڈا سے متعلق کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کینیڈا میں کچھ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی ہے جن کا مزاج پہلے ہی سے خدمت دین کی طرف مائل تھا اور یہ جو سلسلہ ہے یہ سب دنیا میں جاری ہو چکا ہے اس کا صرف کینیڈا سے تعلق نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ احمدیوں کو جو سب دنیا میں پھیلے پڑے ہیں اچانک ایسے مواقع مل رہے ہیں کہ وہ بڑی بڑی مالی کمپنیاں بنارہے ہیں، بڑے بڑے ایسے مواقع ان کو نصیب ہیں کہ وہ لاکھوں سے کروڑوں میں داخل ہو گئے ہیں اور ان میں سے کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ واقعہ کیا ہے.میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس واقعہ میں دو باتیں ہیں جو میں نے کچھ عرصے سے محسوس کرنی شروع کیں.کچھ ایسے لوگ تھے جن کے پاس دولتیں تھیں مگر جماعت سے ان کا اخلاص کا تعلق نہیں تھا.جو کام کرتے تھے اس میں کچھ دکھاوا پایا جاتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو جیسے مکھن سے بال نکال کے پھینک دیا جاتا ہے اس طرح نکال کے باہر پھینک دیا اور جماعت کو اس کے نتیجے میں جو نقصان پہنچ سکتا تھا کوڑی کا بھی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس کے برعکس غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی مالی تائید فرمائی ہے.یہ سلسلہ کچھ عرصے سے جاری ہے اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ مجھے کبھی بھی نئے کاموں کے لئے جماعت کو غیر معمولی طور پر کوشش کر کے بیچ میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی.میں حسب توفیق اعلان کرتا ہوں اور بارش کی طرح اس ضرورت کے لئے روپیہ گرنا شروع ہو جاتا ہے اور کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے مالی فکر نہیں ہوئی حالانکہ جماعت نے اس عرصے میں بہت بڑے بڑے منصوبے بنائے ہیں، بہت بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر کے ان کو مکمل کیا ہے.خود یہ جگہ جہاں ہم آج بیٹھے ہوئے ہیں اس کا حاصل ہونا بھی ایک معجزہ ہے ورنہ ابتداء میں یہ جگہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تھی کیونکہ ابتداء میں آٹھ لاکھ کی جماعت احمدیہ نے مجھ سے Bid منظور کروائی تھی اور بجائے اس کے کہ مجھے لکھتے کہ کچھ زیادہ کر دیں اسی پہ مٹھی بند کر کے قائم بیٹھے رہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری Bid سے بڑی پہ بین بڈز Bids یعنی اور زیادہ پیشکشیں غیروں نے کیں اور صاف ظاہر تھا کہ اب یہ جگہ ہمارے ہاتھ سے

Page 698

خطبات طاہر جلد 16 692 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء نکل گئی.مگر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ تقدیر الہی کس طرح کام کرتی ہے.تقدیر الہی نے ایسا کام کیا کہ پہلی بولی میں کچھ قانونی سقم پیدا ہوئے اور اس وقت پیدا ہوئے جبکہ ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ سب نے کتنی کتنی بولی دینی ہے اور ان استقام کے نتیجے میں مجبوراً ان کو پہلی تمام بولی کو منسوخ کرنا پڑا.جب وہ منسوخ ہوگئی تو پھر اس کے بعد دوبارہ بولی مانگی گئی تو ہمیں پتا تھا کہ کس نے کیا بولی دی ہے، سب کو پتا لگ گیا تھا.اس کے بعد بھی یہ لوگ اسی طرح اکڑ کے بیٹھے رہے کہ ہم نے بولی آگے نہیں بڑھانی.اللہ تعالیٰ لطف الرحمن صاحب کو جزاء دے انہوں نے کہا یہ تم کیا حماقت کر رہے ہو، نظر آ رہی ہے ساری بولی، بڑھاؤ میں ذمہ دار ہوں.آپ اجازت بھی مانگیں ضرور مانگیں لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہم اس رقم کو پورا نہ کرسکیں.اس لئے آپ آگے بڑھیں اور بولی دید ہیں.چنانچہ آٹھ لاکھ کی بجائے نو لاکھ کی بولی دے دی گئی اور سب سے اونچی جو بولی تھی وہ پندرہ ہزار ہم سے پیچھے رہی.تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ جگہ ہمیں دلوا دی جس کے حاصل کرنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا.مجھ سے رستے میں ہی لطف الرحمن صاحب نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ ان کے ابا جان ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تمہیں بھی خدا توفیق دے تو کوئی مسجد ساری کی ساری تم بنواؤ.تو انہوں نے کہا ہے کہ اب میں وعدہ ساری کی ساری کا تو ابھی نہیں کر سکتا، یاغا لیا گیا ہو گا تو میرے کانوں نے سنا نہیں ،مگر انہوں نے کہا ہے کہ میری دلی خواہش ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو یہ جو بعد کا کافی بڑا کام ہے، نو لاکھ ڈالر دینے کے بعد جب زمین ہمیں مل گئی تو بعد میں جو مسجد کی تعمیر کا بڑا کام ہے اس میں انہوں نے اپنی ذاتی زیادہ سے زیادہ شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بخشے.یہ جو مالی اضافے ہورہے ہیں ان کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کچھ دیر پہلے جبکہ جماعت کا بجٹ ابھی چند کروڑ نہیں تھا میں نے جماعت کو مطلع کیا تھا کہ میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فضلوں کو دیکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ اگلی صدی سے پہلے جماعت کا بجٹ کروڑوں کی بجائے اربوں میں ہو جائے گا.یہ اس وقت کہا تھا جب ابھی ہیں پچیس کروڑ کے پھیر میں بات چل رہی تھی اور سارا ریکارڈ موجود ہے الفضل میں.چنانچہ خدا کے فضل سے خدا تعالیٰ کی تقدیر پر نظر رکھتے ہوئے ، یہ جانتے ہوئے کہ جب بھی کوئی بڑا ابتلا آیا ہے اس کے بعد جو انفس کی ترقی ہے اس کے ساتھ اموال میں بھی غیر معمولی ترقی ہوئی ہے.بعض ابتلاؤں کی میں نے نشاندہی کی ، تاریخی طور پر

Page 699

خطبات طاہر جلد 16 693 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء آپ کو پڑھ کے سنائے کہ دیکھو جب پہلا ابتلا آیا تو جماعت کے چندے ہزاروں میں تھے.جب دوسرا بڑا ابتلا آیا تو لاکھوں میں تھے.جب تیسرا بڑا 1974 ء والا ابتلا آیا تو کروڑوں میں داخل ہو گئے اور اب جو عالمگیر سطح پر جماعت کے خلاف ایک مخالفت کا ہنگامہ اٹھا ہے، اس لئے اس کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ اگلی صدی سے پہلے جماعت کروڑوں کی بجائے اربوں میں داخل ہو جائے گی.پس جو حالات اب دکھائی دے رہے ہیں ان کے نتیجے میں میں یقین سے آپ کو کہتا ہوں کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.دو تین سال کی بات ہے آپ بھی دیکھیں گے اور میں بھی دیکھوں گا اور سب دنیا دیکھے گی.جہاں تک جماعت احمد یہ کینیڈا کے کاموں کا تعلق ہے کچھ شکوہ بھی آپ سے کرنا ہے.کہتے ہیں نا خوگر حمد ہم سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے.آپ لوگوں نے بہت وعدے کئے تھے ، انفرادی طور پر بھی مجھے خط لکھے اور جماعتی طور پر بھی ریزولیوشن پاس کئے کہ ہم تبلیغ کے میدان میں انشاء اللہ بہت آگے قدم بڑھائیں گے لیکن جو رپورٹیں مجھے مل رہی ہیں ان رپورٹوں میں ان وعدوں کے پورا کرنے کی طرف کوئی معین قدم نہیں اٹھائے جار ہے.حالانکہ جو وعدے کئے گئے ہیں وہ انفرادی طور پر مشکل نہیں ہیں.تبلیغ کا نظام قطروں کی طرح چلتا ہے اور قطرہ قطرہ گرنے سے بعض دفعہ بڑے بڑے سمندروں میں بھی طوفان برپا ہو جاتے ہیں.پس بارش قطروں کی طرح بنتی ہے اور آسمانی فیض کی بارش بھی جو خدا تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ منسلک ہوتی ہے وہ بھی قطروں کی طرح ہوتی.پس جتنے بندے خدا کی راہ میں اپنے قطرات پیش کریں اس سے بہت زیادہ آسمان سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برسا کرتی ہے.یہ ایک خیالی بات نہیں، کوئی رومانی تصور نہیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو میں نے ہمیشہ دیکھا اور اگر تاریخ مذہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو اس حقیقت کے سوا اور کوئی حقیقت دکھائی نہیں دے گی.قطروں کا آغاز جو آسمانی رحمت کے قطرے ہیں زمین پر بندوں سے ہوتا ہے، افراد سے بات چلتی ہے.ان کی دعائیں، ان کے دلوں کی پاک تبدیلیاں ابر رحمت کو کھینچ لاتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ جو بے شمار دینے والا ہے وہ گنتی کا حساب چھوڑ دیتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے کثرت سے آسمان سے وہ بارشیں برستی ہیں جو دنیا میں کا یا پلٹ دیا کرتی ہیں، پاک تبدیلیاں پیدا کیا کرتی ہیں.کینیڈا کے احمدیوں کا فرض ہے کہ اس حقیقت کو جانیں اور پہچانیں اور اپنی انفرادی کوشش کو یعنی ہر فرد بشر اپنی انفرادی کوشش کو اس راہ میں ڈال دے اور دعا کر کے ڈالے اور اللہ تعالیٰ سے یہ عہد ہے.

Page 700

خطبات طاہر جلد 16 694 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء کرے کہ وہ اپنے اندر تمام ضروری پاک تبدیلیاں پیدا کرے گا.یہ وہ بنیادی چیز ہے جس کی طرف میں آج آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ہر احمدی کی خواہش کے پورا ہونے کے درمیان کچھ اقدامات ہیں جو ضرور کرنے ہوں گے.بہت سے انسان ہیں جن کی بڑی بڑی خواہشیں ہوتی ہیں، خدا ہمیں زمین دے، اس کے بعد سبزہ زار دے، بڑے بڑے باغ بنائیں، بہت عظیم الشان کوٹھیاں اور محل تعمیر کریں.کئی خواہشیں ہیں جو انسان سے لپٹی ہوئی ہیں.مگر وہ خواہشیں محض اس لئے تو پوری نہیں ہو جایا کرتیں کہ خواہش ہے.ان کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور حکمت کے ساتھ.بہت سے لوگوں میں زمیندارہ کی صلاحیتیں نہیں ہوتیں.وہ جتنی اونچی خواہش کریں اتنی ہی تیزی سے ان کا سارا سرمایہ برباد ہو جاتا ہے.بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں سب کچھ مٹی میں ڈوب جاتا ہے اور پھر نکلتا نہیں.کئی تجارت کے بڑے خواہاں ہوتے ہیں اور بڑے بڑے قرضے لے کر بھی تجارتیں شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر گھر کا سازوسامان بھی بیچنا پڑتا ہے.محض خواہش کافی نہیں ، خواہش پوری کرنے کی صلاحیت ضروری ہے.اگر خواہش پوری کرنے کی صلاحیت ہو تو دو کوڑی سے بھی انسان اپنے کام چلا لیتا ہے.دنیا میں بڑے بڑے Millionaires رہتے ہیں جو نہایت معمولی کام کیا کرتے تھے اور ان میں صلاحیت موجود تھی.پس اس صلاحیت کو جب انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق ڈھالا تو حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوئیں.ان کے ناموں کی تفصیل کی ضرورت نہیں، دنیا میں ان کے نام چھپے ہیں، پھیلے پڑے ہیں.کچھ بھی نہیں تھا ان کے پاس لیکن ، خدا تعالیٰ نے ان کی صلاحیت کو قبولیت سے نوازا اور بہت بہت بڑے بڑے Millionaires بلکہ Billionaires ان میں سے پیدا ہو گئے.تو آپ اگر تبلیغ کی خواہش رکھتے ہیں، اگر آپ تبلیغ کی خواہش کے مطابق کچھ کام بھی کرتے ہیں اور پھل نہیں لگتا تو پہلی بات سوچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کچھ ٹھہر میں اپنے نفس پر غور کریں.لازماً اس لئے پھل نہیں لگتا کہ آپ میں صلاحیت نہیں ہے اور جس صلاحیت کی میں بات کرنے لگا ہوں وہ صلاحیت پاک تبدیلی کی صلاحیت ہے.جب تک انسان کے اندر ایک غیر معمولی پاک تبدیلی پیدا نہ ہو اس کی تبلیغ کی محنت اور کوششوں کو پھل نہیں لگ سکتا.یہ مضمون میں بار بار پہلے بھی کھول چکا ہوں آج پھر اس مضمون کو دہرانے لگا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کینیڈا کی سرزمین پر

Page 701

خطبات طاہر جلد 16 695 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء اس مضمون کو دہرا نالازم ہے.آپ سب کو میں مخاطب کر کے یہ باتیں سمجھا رہا ہوں.روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ بندے کے اندر ایک روحانی انقلاب چاہتا ہے.جو شخص یہ فیصلہ کرے وہ سب سے پہلے اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کر کے دکھائے.اگر ایسا نہیں کرے گا تو جن لوگوں کو خدا کے رستے کی طرف بلائے گا عملاً وہ رستہ خدا کا رستہ نہیں ہوگا وہ ان کی ذات کا رستہ ہوگا جو خدا سے دوری کا ایک رستہ ہے.یہ تفصیل میں پہلے کھول کر مثالوں سے ثابت کر چکا ہوں.آج میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس کو غور سے سنیں اور جان لیں کہ انسان کے اندر خدا کے رستے کی طرف بلانے اور خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے جو طاقتیں ہیں وہ آسمانی فضل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب تک خدا کی تقدیر آپ کے اندر کوئی پاک تبدیلی نہ دیکھے وہ غیر معمولی طاقتیں آپ کو نصیب نہیں ہوسکتیں جو دنیا کی کایا پلٹ دیا کرتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن شریف کی زبر دست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں.معجزے سے مراد یہ ہے کہ اس کی خاطر اللہ تعالیٰ کئی ایسے نمونے دکھاتا ہے جو عام دنیا کی تدبیر کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوا کرتے.سب سے بڑھ کر مجزے یا معجزوں کا فیض پانے والا انسان خود جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایسی غیر معمولی باتیں بظاہر اتفاقاً پیدا ہو گئیں جنہوں نے مل کر اس کے کام کو ایسی غیر معمولی طاقت بخشی کہ وہ اپنی تکمیل کو پہنچ جائے.ایسی مثالیں بے شمار ہیں.میں اپنی زندگی کے تجربے سے اور اپنے ماحول میں احمدیوں کی زندگی کے تجربے سے اوراکثر ان کے خطوط سے یہ جانتا ہوں کہ سب سے بڑا معجزے کا قائل وہ شخص ہوتا ہے جو خود معجزہ دیکھتا ہے، اس کے گردو پیش معجزہ بن رہا ہوتا ہے اور وہ کامل یقین سے جانتا ہے کہ یہ اتفاقات کا نتیجہ نہیں، یہ تقدیر الہی ہے جو کام کر رہی ہے.اس ضمن میں ایک لفظ ہے جس کو خوارق کہتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خوارق کا لفظ بڑی گہرائی اور حکمت سے استعمال فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں روزمرہ کے قوانین میں انسان سے کچھ نیکیوں کی توقع ہوتی ہے اگر اس کی نیکیاں روز مرہ کے قوانین سے بڑھ جائیں اور

Page 702

خطبات طاہر جلد 16 696 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء حیرت انگیز عام انسان سے ہٹ کر ایک الگ راہ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر بھی ایسے بندے کے لئے عام قوانین سے ہٹ کر ایک الگ راہ اختیار کرتی ہے اور حیرت انگیز واقعات پیدا ہوتے ہیں جس کو دنیا سمجھ نہیں سکتی کہ کیوں ایسا ہوا کیونکہ بظاہر دنیا کے قوانین کے مطابق نہیں ہوا کرتے.جیسے انسانی فطرت کے قوانین سے ہٹ کر ایک شخص نے خدا کی خاطر کام کیا اسی طرح اللہ اپنے قوانین سے بالا اور بظاہر ان سے ہٹ کر ایک کام کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے قوانین توڑنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.اس کے قوانین کے دائرے ہیں جو ایک کے بعد دوسرے دائرے اس طرح چلتے ہیں کہ نچلے دائرے والے لوگ اوپر کے دائرے کے کاموں کو نہیں سمجھ سکتے.اور ایک دوسری بات یہ نہ سمجھنے کی کہ ایک خارق کس طرح وجود میں آتا ہے یہ ہے کہ اس زمانے کی سائنس کے مطابق ایک بات ناممکن الوقوع ہے اگر وہ بات ہوئی تو گویا اس نے سائنس کے تخمینوں کو توڑ کے رکھ دیا اور ایسی بات ہونا ممکن ہی نہیں لیکن ہزار سال بعد یا دو ہزار سال بعد پھر سائنسدانوں کی نظر انہی واقعات پر پڑتی ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سے غیر معمولی واقعات ہوئے تھے جنہوں نے اپنے وقت میں ایک اعجاز دکھایا، ایسا اعجاز جو قانون قدرت میں عموماً ممکن نہیں ہے.بہت سی مثالیں اس وقت میرے ذہن میں بھی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ خطبہ لمبا ہو جائے گا ان کو میں چھوڑتا ہوں، کچھ ایسی مثالیں ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خودا اپنے اس کلام میں دے دی ہیں.پس میں سر دست انہی پر اکتفاء کروں گا.فرماتے ہیں: اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں.یہ دعوی ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا: چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام مخالف، کیا مشرق کے اور کیا مغرب کے ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور نشانوں اور خوارق میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور توفیق سے سب پر غالب رہوں گا اور یہ غلبہ اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ میری

Page 703

خطبات طاہر جلد 16 697 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء روح میں کچھ زیادہ طاقت ہے بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس کے کلام قرآن شریف کی زبر دست طاقت، اس کے رسول حضرت محمد مصطفی امی یہ کی روحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا میں ثبوت دوں.سیه ساری باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی اور سنت میں مذکور تاریخ کا حصہ بنی رہیں گی اور عملاً دنیا کے سامنے ان معجزات کو ایک زندہ صورت میں دکھانے والا اور کوئی نہیں رہے گا اور ہر زمانہ ایک زندہ مثال کو چاہتا ہے.ہر زمانہ چاہتا ہے کہ وہ باتیں جو ماضی میں گویا ایک افسانہ بن گئی تھیں وہ پھر حقیقت کے طور پر دنیا میں رونما ہوں تا کہ دنیا جان لے کہ یہ سچی باتیں ہیں اور خدا تعالیٰ اسی طرح دنیا میں عمل دکھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ یہ وجہ ہے کہ مجھے اس دور میں خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے چنا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے انکسار کی وجہ سے فرماتے ہیں کہ یہ بات نہیں کہ میری روح میں کچھ زیادہ طاقت ہے.انکسار بھی ہے یہ اور حقیقت بھی.روح میں ذاتی طور پر زیادہ طاقت نہیں لیکن روح القدس کی طاقت سے مل کر الہی منشاء کے مطابق ڈھل کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح میں ایک غیر معمولی طاقت تھی اور یہ ایسی روحانی طاقت ہے جس کا آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں.آپ سب بھی دیکھ سکتے ہیں، اپنی ذات میں دیکھ سکتے ہیں، اپنے گرد و پیش اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ واقعہ روحوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے منشاء کے مطابق بعض غیر معمولی طاقتیں عطا ہوتی ہیں جو روح القدس سے تائید پاتی ہیں اور طاقت رکھنے والا انسان بھی جان لیتا ہے کہ مجھ میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو چکی ہے اور دنیا بھی اس کو دیکھتی ہے اور اس کی طاقتوں کو پہچانتی ہے.فرماتے ہیں: اور اس نے محض اپنے فضل سے، نہ میرے کسی ہنر سے مجھے تو فیق دی ہے کہ میں اس کے عظیم الشان نبی اور اس کے قوی الطاقت کلام کی پیروی کرتا ہوں اور اس سے محبت رکھتا ہوں اور وہ خدا کا کلام جس کا نام قرآن شریف ہے جو ربانی طاقتوں کا مظہر ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور قرآن شریف کا یہ وعدہ ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (يونس: 65) اور یہ وعدہ ہے کہ أَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِّنْهُ (المجادلة: 23) اور یہ وعدہ ہے يَجْعَلْ

Page 704

خطبات طاہر جلد 16 698 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال: 30) اس وعدہ کے موافق خدا نے یہ سب مجھے عنایت کیا ہے“.اب یہ تین چیزیں ہیں جن کا وعدہ ہر ایک سے ہے.یہ خیال درست نہیں کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے.ہر فرد بشر سے اللہ تعالیٰ قرآن کی معرفت یہ وعدہ کرتا ہے.یہ تین باتیں اس پر فرض ہو جاتی ہیں کہ وہ ضرور ایسا کر کے دکھائے گا اس لئے اپنی ذات کو ان وعدوں سے محروم کیوں رکھتے ہیں.پہلا ہے لَهُمُ الْبُشْرى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.ان کے لئے اس دنیا ہی میں خوشخبری ہے.پس وہ لوگ جو خدا سے تائید پاتے ہیں وہ بے یارو مددگار نہیں چھوڑے جاتے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کو اس دنیا میں وہ خوشخبریاں نہ ملیں جو بہت سے نیک کہلانے والے لوگ آخرت سے منسوب کر دیتے ہیں کہ آخرت میں ملیں گی.اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ ان کو ضرور خوشخبریاں دیتا ہے.اور دوسرا وعدہ یہ ہے أَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِّنْهُ.روح القدس سے ان کی تائید ہوتی ہے.ایسے حالات میں وہ باتیں کہتے ہیں جو بظا ہر ناممکن حالات ہوتے ہیں.مگر جو روح القدس ہے اس کی تفصیل میں یہاں جانے کی ضرورت نہیں پہلے میں بیان کر چکا ہوں کہ روح القدس کی کیا حقیقت ہے.مگر جو بھی حقیقت ہے وہ ایک غیر معمولی طاقت ہے جو جب ساتھ دینا شروع کرتی ہے تو پھر کبھی نہیں چھوڑتی.روح القدس کی دیگر صفات میں سے ایک یہ مفت ہے.روح القدس اس شخص کی الہی تائید کو نہیں کہتے جو تائید بعد میں اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے یا بدنصیبی سے اس کا ساتھ چھوڑ دے.ایسی تائید کو اس وقت جبکہ یہ تائید ہورہی ہوا اعجازی تائید کہا جا سکتا ہے، اللہ کی طرف سے تائید کہا جاسکتا ہے مگر اگر وہ چھوڑ دے تو وہ تائید روح القدس کی تائید نہیں.کئی لوگ سمجھتے نہیں کہ عام تائید میں اور روح القدس کی تائید میں فرق کیا ہے.یہ بنیادی فرق ہے.روح القدس یعنی پاکی کی روح کی تائید یہ ایک ایسی تائید ہے جو زندگی بھر پھر بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی.ناممکن ہے کہ روح القدس اترے اور پھر انسان کو بے یار و مددگار چھوڑ کے واپس چلا جائے.تیسری بات آپ فرماتے ہیں يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا تمہارے لئے فرقان بھی پیدا کرے گا یعنی دنیا تمہارے اور تمہارے غیر کے درمیان فرق محسوس کرے گی اور وہ الہی فرقان وہ فرق دکھا دے گا جو خدا کے بندوں میں اور ان میں جو خدا کے بندے نہیں بننا چاہتے ایک فرق کر کے دکھایا

Page 705

خطبات طاہر جلد 16 699 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء کرتی ہے.فرمایا یہ سب مجھے عنایت کیا ہے.اب اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں کہ: اور ترجمہ ان آیات کا یہ ہے کہ جو لوگ سچے دل سے قرآن شریف پر ایمان لائیں گے (اور اس پر عمل کرتے ہیں ان کو یہ یہ نشان جن کا ذکر ہے ان ان صورتوں میں دکھائے جاتے ہیں.) ان کو مبشر خوا ہیں اور الہام دئے جائیں گے یعنی بکثرت دئے جائیں گے ورنہ شاذ و نادر کے طور پر کسی دوسرے کو بھی سچی خواب آسکتی ہے مگر ایک قطرے کو ایک دریا کے ساتھ کچھ نسبت نہیں اور ایک پیسہ کو ایک خزانے سے کچھ مشابہت نہیں اور پھر فرمایا کہ کامل پیروی کرنے والے کی روح القدس سے تائید کی جائے گی یعنی ان کے فہم اور عقل کو غیب سے ایک روشنی ملے گی اور ان کی کشفی حالت نہایت صفا کی جائے گی اور ان کے کلام اور کام میں تاثیر رکھی جائے گی اور ان کے ایمان نہایت مضبوط کئے جائیں گے اور پھر فرمایا کہ خدا ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق بین رکھ دے گا.“ جو پہلے میں نے روح القدس کی علامتوں میں سے ایک بیان کی ہے وہ اگر چہ یہاں بیان نہیں ہوئی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے کلام سے واضح طور پر وہی روح القدس کی تعریف فرمائی گئی ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی اور چونکہ یہ باتیں آپ نے سننی تھیں، جو بات نہیں سنی تھی وہ میں نے اس مضمون میں داخل کر دی ہے کہ روح القدس کی ایک واضح علامت دیکھنے والا یہ محسوس کرے گا کہ روح القدس پھر چھوڑے گی نہیں.اور یہ باتیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں یہ ہیں فہم اور عقل کو غیب سے ایک روشنی ملے گی.عام طور پر ایک انسان بظاہر دنیا میں بے وقوف دکھائی دیتا ہے لیکن جب وہ تقویٰ میں ترقی کرتا ہے تو اسے روح القدس ایک ایسی عقل عطا فرماتی ہے کہ سادہ دیکھنے میں بالکل سادہ انسان ایسا ایسا کلام کرتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور ایسے کلام کرنے والے میں نے احمدیوں میں بھی بہت دیکھے ہیں.ان پڑھ لوگ، زمیندار لوگ، بظاہر ان کو دنیا کے مسائل کا علم نہیں مگر تقویٰ کی وجہ سے اور روح القدس کی وجہ سے ان کا دماغ روشن ہو چکا ہوتا ہے.وہ جب بھی بات کرتے ہیں گہری فراست کی بات کرتے ہیں.فرمایا و عقل کو غیب سے ایک روشنی ملے

Page 706

خطبات طاہر جلد 16 700 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء گی اور ان کی کشفی حالت نہایت صاف کر دی جائے گی.کشفی حالت کے صاف کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اونگھ کی حالت میں جو محسوس کرتے ہیں اسے کشف سمجھ لیتے ہیں اور ایسا تجربہ بارہا ہوا ہے اور ایسے لوگ پھر ٹھوکر کھا کر بہت دور بھی نکل جاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کے خیالات کو جو اونگھ کی حالت میں بعض دفعہ زبان پر بھی جاری ہو جاتے ہیں، بعض دفعہ تصویری صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں ان کو خدا کا کلام سمجھ کر وہ اس پراتنا تکبر شروع کر دیتے ہیں کہ اگر انہیں سمجھایا جائے کہ خدا ایسے لغو کلام نہیں کیا کرتا تمہارا ہم ہے کہ یہ خدا نے تمہیں کہا ہے.وہ انکار کر دیں گے اور کہیں گے نہیں ہم جانتے ہیں خدا نے ہم سے کلام کیا ہے لیکن وہ صاف کلام نہیں ہوتا.اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ باتیں جو وہ بیان کرتے ہیں وہ کبھی بھی پوری نہیں ہوتیں.خدا کا کلام اور وہ دنیا میں پورا نہ ہو، خدا کا کلام جو ایسا ابہام رکھتا ہو کہ کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے نفس کی بڑائی کا ایک نشان ہے.وہ نشان سمجھتے رہیں مگر اتنے ہی رہتے ہیں جتنے پہلے دن تھے بلکہ بعض دفعہ آخری عمر میں اور بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں.کوئی ان کے کلام کو خدا کا کلام نہیں سمجھتا.وہ کلام خود نہیں بولتا، اس کے اندر طاقت نہیں کہ فرقان کے طور پر دنیا کو دکھا سکے کہ یہ خدا کا کلام ہے.پس جن کو روشنی ملتی ہے ان کی کشفی حالت نہایت صفا کی جائے گی اور ان کے کلام اور کام میں تاثیر رکھی جائے گی اور ان کے ایمان نہایت مضبوط کئے جائیں گے اور پھر فرمایا کہ خدا ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق بین رکھ دے گا.“ د یعنی بمقابل ان کے باریک معارف کے جوان کو دئے جائیں گے اور بمقابل ان کے کرامات اور خوارق کے جو ان کو عطا ہوں گی دوسری تمام قو میں عاجز رہیں گی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا آتا ہے اور اس زمانے میں ہم خود اس کے شاہد رؤیت ہیں.شاہد رؤیت بہت مزیدار اور ایک نئی ترکیب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں Coin کی ہے یعنی اس کو خود بنایا ہے.رؤیت ایک اور چیز ہے کہ کسی چیز کو دیکھ لینا لیکن شاہد رؤیت“ کا مطلب یہ ہے کہ بعینہ اس رؤیت کے سامنے کھڑے ہوں اور یہ گواہی دے سکیں کہ جیسے واقعہ یہ

Page 707

خطبات طاہر جلد 16 701 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء واقعہ میری آنکھوں کے سامنے گزرا ہے.یہ تو ہم نے قرآن شریف کی اس زبر دست طاقت کو بیان کیا ہے جو اپنے پیروی کرنے والوں پر اثر ڈالتی ہے لیکن وہ دوسرے معجزات سے بھی بھرا ہوا ہے.اس نے اسلام کی ترقی اور شوکت اور فتح کی اس وقت خبر دی تھی جبکہ آنحضرت اللہ مکہ کے جنگلوں میں اکیلے پھرا کرتے تھے اور ان کے ساتھ بجز چند غریب اور ضعیف مسلمانوں کے اور کوئی نہ تھا اور جب قیصر روم ایرانیوں کی لڑائی سے مغلوب ہو گیا اور ایران کے کسری نے اس کے ملک کا ایک بڑا حصہ دبا لیا تب بھی قرآن شریف نے بطور پیشگوئی کے یہ خبر دی کہ نو (9) برس کے اندر پھر قیصر روم فتح یاب ہو جائے گا اور ایران کو شکست دے گا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا“.اب یہ وہ معجزات ہیں اور تائیدات الہیہ ہیں جو خود بول رہی ہیں.ایسے واقعات اگر کوئی شخص دکھا سکتا ہے تو بتائے اور پیش خبریاں کرے کہ یہ واقعہ ہونے والا ہے جب کہ اس کا نام ونشان بھی کوئی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ قرآن جب بولتا ہے تو اپنے حقائق اور دلائل ساتھ رکھتا ہے، خود ثابت کرتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے کلام میں سچا ہے.دوسری بات جو بہت اہم ہے جو آجکل اس زمانے کے فلسفیوں اور سائنسدانوں کی محل نظر ہے وہ یہ ہے.”ایسا ہی شق القمر کا عالی شان معجزہ جو خدائی ہاتھ کو دکھلا رہا ہے قرآن شریف میں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ کی انگلی کے اشارے سے چاند دوٹکڑے ہو گیا اور کفار نے اس معجزہ کو دیکھا.اس کے جواب میں یہ کہنا کہ ایسا وقوع میں آنا خلاف علم ہیئت ہے یہ سراسر فضول باتیں ہیں کیونکہ قرآن شریف تو فرماتا ہے اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا أَيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ( القمر : 2، 3) یعنی قیامت نزدیک آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور کافروں نے یہ معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ پکا جادو ہے جس کا آسمان تک اثر چلا

Page 708

خطبات طاہر جلد 16 702 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء گیا ہے.اب ظاہر ہے کہ یہ نیا دعویٰ نہیں بلکہ قرآن شریف تو اس کے ساتھ ان کافروں کو گواہ قرار دیتا ہے جو سخت دشمن تھے اور کفر پر ہی مرے تھے.ی علم ہیئت کی طرف سے اس معجزے پر اعتراض کرنے والوں کے لئے ایک ایسا جواب ہے جو اس وقت بھی قوی تھا اور آج بھی قوی ہے کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ دیکھو چاند دو ٹکڑے ہو گیا بلکہ اس کے ساتھ وہ کافر جو سارے ماحول میں غالب اکثریت رکھتے تھے ان کی طرف اشارہ کر کے ایک پیشگوئی بھی کر دی کہ وہ یہ کہیں گے کہ یہ جادو ہے اور ایسا جادو ہے جو مستمر ہے یعنی اس قسم کے جادو وہ شخص محمد کر کے دکھاتا رہتا ہے.اب یہ جو اعجاز ہے قرآن کریم کا کہ دشمنوں کو گواہ ٹھہرایا اور ان کے گواہ ٹھہرانے کو ایک پیشگوئی کے طور پر بیان کیا اور ان کو تو فیق نہیں دی کہ اس گواہی کا انکار کر سکیں ، جب آنحضرت ﷺ نے قمر کی طرف یعنی چاند کی طرف انگلی اٹھائی تو فرمایا دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا اور فرمایاؤ يَقُولُوا یہ کہیں گے یہ لوگ کہ سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ.یہ جادو ہے جو ہمیشہ دکھایا جاتا ہے تو یہ پیشگوئی کرنا اور مخالفین میں سے ایک کو بھی توفیق نہ دینا کہ وہ تائیدی گواہی نہ پیش کریں اور انکار کر دیں کہ ایسا واقعہ ہی نہیں ہوا.آپ فرماتے ہیں اس شہادت کے بعد کسی علم ہیئت رکھنے والے کے اعتراض کی کوئی بھی اہمیت باقی نہیں رہتی کہ ایسا نہیں ہوا ہوگا.یہ لازماً ہوا ہے.آگے فرماتے ہیں: قرآن شریف تو اس کے ساتھ ان کافروں کو گواہ قرار دیتا ہے جو سخت دشمن تھے اور کفر پر ہی مرے تھے.یعنی کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے وہ جو مسلمان ہو گئے تھے انہوں نے بعد میں اپنی نامسلمانی حالت کے وقت کی گواہی کو چھپالیا اور یہ ظاہر کیا کہ گویا یہ واقعہ ہو گیا ہوگا اس لئے کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے.فرمایا جن کی گواہی قرآن پیش کر رہا ہے ان میں سے بہت سے کفر کی حالت میں مرے اور کفر کی حالت میں ان کو مرنا ثابت کرتا ہے کہ ایک سخت مخالف دشمن کی گواہی قرآن کریم کے اس معجزے کی تائید میں آخر وقت تک بولتی رہی.اب ظاہر ہے کہ اگر شق القمر وقوع میں نہ آیا ہوتا تو مکہ کے مخالف لوگ اور جانی دشمن کیونکر خاموش بیٹھ سکتے تھے.وہ بلاشبہ شور مچاتے کہ ہم پر یہ

Page 709

خطبات طاہر جلد 16 703 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء تہمت لگائی ہے، ہم نے تو چاند کو دوٹکڑے ہوتے نہیں دیکھا اور عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ وہ لوگ اس معجزہ کو سراسر جھوٹ اور افترا خیال کر کے پھر بھی چپ رہتے بالخصوص جبکہ ان کو آنحضرت ﷺ نے اس واقعہ کا گواہ قرار دیا تھا.(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ: 411،409) اب یہ جو واقعہ ہے یہ علم ہیئت کی گواہی یا سائنسی شواہد کے خلاف ایک معجزہ کے ہونے کے متعلق ایک حیرت انگیز روشنی ڈالنے والا واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت تک یہ واقعہ ایسا تھا یا ہو سکتا تھا جس کے متعلق سائنس کی گواہی مخالف ہوتی اور اس کے باوجود سائنسدانوں کو اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ آسمان پر رونما ہونے والے واقعات بعض دفعہ زمین سے ایک طرح دکھائی دیتے ہیں مگر وہ ویسے نہیں ہوتے کسی اور طرح سے ہوتے ہیں.یہ جب سے فلکیات کے ماہر فلکیات کی تاریخ پر نظر رکھ رہے ہیں وہ یہی بیان کرتے ہیں کہ بہت سے معمے ہیں جن کو ہم خلاف قدرت سمجھتے تھے لیکن خلاف قدرت نہیں نکلے.پس اگر پختہ گواہی موجود ہو تو خلاف قدرت قرار دے کر اسے نظر انداز کرنا ہرگز ایک بچے انسان کا کام نہیں.قانون قدرت بعض دفعہ بعد میں سمجھ آیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت تک اس قانون کو سمجھا نہیں گیا تھا.اب ایسے شواہد مل رہے ہیں جن سے ثابت ہو سکتا ہے، ہو چکا ہے میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ چاند پر ایسا واقعہ چاند کے عملاً پھٹنے کے بغیر بھی رونما ہوسکتا تھا.پس واقعہ کا ہونا قطعی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.خوارق عادت بھی ہو تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.اللہ ایک بات کی طاقت رکھتا ہے وہ کر سکتا ہے.اگر زمین پر اس کے نشان انکار کی حد سے آگے نکل چکے ہوں تو پھر کوئی معجزہ مانے یا نہ مانے اسے اس واقعہ کی حقیقت کا انکار کرنا پڑے گا.یہ چند باتیں میں آپ کے سامنے رکھ کر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ زمین پر بھی ایک معجزہ رونما ہونے والا ہے اور وہ احمدیت کے غلبے کا معجزہ ہے.اس غلبے کے معجزے میں آپ شامل ہوں.آپ میں سے ہر وجود اپنا حصہ ڈالے اور یا در کھے کہ اپنے اندر جتنی بھی پاک تبدیلیاں وہ کرے گا اسی قدر خدا کی تائید اور روح القدس کی تائید اس کو حاصل ہوگی.وہ ایسے معجزے بھی دکھا سکتا ہے جسے آج کا زمانہ خلاف ہیت سمجھے اور پانچ سو سال یا ہزار سال کا زمانہ ثابت کرے کہ وہ خلاف ہیئت نہیں تھا مگر

Page 710

خطبات طاہر جلد 16 704 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء اس کا ہو جانا یقینی ہو.یہ فرق ہے فرضی باتیں کرنے والے اور حقیقی خدا کی تائید سے باتیں کرنے والوں کے درمیان.خدا کے بندے جب ہیئت کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں تو خلاف ہیئت یعنی قانون قدرت کے خلاف ہونے کے باوجود وہ زمانہ اس کی تائید کرتا ہے کہ ایسا ہوا ضرور ہے اگر چہ یہ خلاف قانون قدرت ہے.پس جو معجزہ میں آپ سے چاہتا ہوں وہ یہ معنی رکھتا ہے کہ ہو جائے اور بظاہر اس کا ہونا ناممکن ہو.یہ معجزے قرآن آج بھی دکھا سکتا ہے اور ضرور دکھائے گا.کینیڈا کو بدلنا یعنی روحانی طور پر اس کو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ڈھالنا بہت بڑا معجزہ ہے.اتنا عظیم الشان معجزہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے.کینیڈا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک نظر کر کے دیکھیں کتنا بڑا معجزہ ہے.کتنے بے شمار انسان یہاں بستے ہیں لیکن ان کو الہی تقدیر کے مطابق تبدیل کرنا ممکن ہے اور آپ سب کے لئے ممکن ہے.نسخہ وہی ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کریں جو اللہ کو پسند آئیں اور ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں اللہ قوم میں وہ تبدیلیاں پیدا کرے جو آپ کی طاقت سے بڑھ کر ہیں ان معنوں میں کہ آپ نیکی اختیار بھی کریں تب بھی آپ خود بخودوہ تبدیلیاں پیدا نہیں کر سکتے.آپ کی نیکیاں پہلے مقبول ہوں گی، آپ کی قربانیاں پہلے خدا کی نظر میں آئیں گی، ان قربانیوں پر جب اللہ نظر رکھے گا تو ایسی تبدیلیاں پیدا کرے گا جو دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے.آپ کی توقعات سے بڑھ کر ہوں گی.پس جو باتیں میں آپ سے کہہ رہا ہوں یہ اگر چہ عجیب ضرور ہیں مگر ان کا ہونا ممکن ہے اور ہوتا رہا ہے اور وہ ابتداء میں جو مضمون میں نے آپ کے سامنے رکھا تھا یعنی مالی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے جماعت کی توفیق بڑھانی شروع کی اس کے متعلق یہ خبر دینا کہ ایسا ہوجانا ہے دیکھیں وہ میرے بس کی بات نہیں تھی اور دنیا کے قوانین بتا رہے تھے کہ جماعت کی تو جائیداد میں لٹ رہی ہیں ، لوگ احمدیوں کو غریب کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، حکومتیں بعض جگہ ان کی تائید میں ہیں، ہر جگہ یہ مخالفت ہوئی یہاں تک کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کو پیس کر صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا لیکن گزشتہ 1974ء یا 74ء کہنا چاہئے.1984 ء کے دور کے بعد آپ اگر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جن جن کے اموال کو خطرہ لاحق ہوا تھا، ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوا تھا ان کو اللہ تعالیٰ نے

Page 711

خطبات طاہر جلد 16 705 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء غیر معمولی برکتیں عطا فرمائیں اور بہت سے ایسے خاندان ہیں جن کے نام میرے ہاتھ سے لکھے ہوئے خط اب تک ان کے پاس موجود ہیں، ان کو میں نے کامل یقین سے بتایا تھا میں نے کہا آپ کو یہ بات عجیب دکھائی دے گی مگر میں آپ کو اپنی تحریر سے، ہاتھ سے لکھ کر بتارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے حالات کو پلٹے گا اور غیر معمولی برکتیں آسمان سے نازل ہوں گی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ نے بعینہ ایسا کر کے دکھایا.پس خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر یقین رکھنے کے لئے بناء ہونی چاہئے.کسی مضبوط پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر ایک انسان ایک دعوی کر سکتا ہے.جماعت احمدیہ کی عجائب کی تاریخ جو خدا تعالیٰ سے جماعت کو عطا ہوئے اس تاریخ پر نظر رکھ کر میں اس مقام پر کھڑا ہوں جس پر میں یقین کے ساتھ آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ الہی تقدیریں ہیں جو آپ کے حق میں لازماً پوری ہونے والی ہیں.آپ کا صرف اتنا کام ہے کہ اپنا دامن پھیلائیں اور خدا کے فضلوں کا شکر ادا کرتے ہوئے جس حد تک آپ کی جھولیاں بھری جاسکتی ہیں بھرتی چلی جائیں لیکن خدا یہ جھولیاں بڑھا بھی دیتا ہے.ہم نے تو یہی دیکھا ہے اپنی توفیق کے مطابق جب بھی مانگا خیال یہ تھا کہ بس اتنی سی توفیق ہے اور جب وہ عطا ہوا تو وہ توفیق بڑھ گئی اور جب وہ نئی توفیق کی جھولی بھری تو پھر اور جھولیاں عطا ہوئیں اور توفیقیں بڑھیں.خدا تعالیٰ کے فضلوں پر لالچ کی نظر رکھنا، میں لالچ اس لئے کہتا ہوں کہ انسان ایک لالچی جانور ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں پر ایک نظر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بڑا مشکل کام ہے مگر جب وہ ہو جاتا ہے تو ضرور اس کی لالچ بڑھ جاتی ہے اس کا دامن پھیل جاتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے کہ اچھا اللہ میاں یہ کر دیا تو کچھ اور بھی کر دے تو جب وہ اور ہو جاتا ہے تو پھر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ تو ممکن نہیں تھا یہ بھی ہو گیا ہے چلو کچھ اور مانگ لیتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کی عطا کے انداز آپ کے تصور میں بھی نہیں آسکتے.حیرت انگیز پیارے انداز ہیں.ہر بات جو آگے بڑھ کر آپ ناممکن سمجھتے ہوئے پھر بھی خدا سے مانگتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ پوری کر سکتا ہے اسی طرح پوری کر دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر جہاں تک آپ کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا وہ اللہ اپنے فضل سے اس کو پورا کرتا چلا جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس نکتے کو سمجھتے ہوئے اپنی جھولیاں خدا کے حضور پھیلائیں، دعائیں کریں اور یہ ضروری تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کریں جس کے بغیر محض جھولی پھیلانا کافی نہیں.جب وہ تبدیلیاں ہو جائیں گی تو آپ کا

Page 712

خطبات طاہر جلد 16 706 خطبہ جمعہ 19 ستمبر 1997ء دامن بھرا جائے گا اور پھر اللہ آپ کو خود نئی دعائیں سکھائے گا، بڑی مزے مزے کی دعائیں ہوں گی.آپ خدا سے ایسی پیار کی باتیں کریں گے کہ اس کے بعد اس کا نشہ کئی دن جاری رہے گا کہ ہم نے اللہ سے یہ بھی کہ دیا اور وہ بھی کہہ دیا مگر خدا ان باتوں کو پورا کر دے گا اور ایسا ہی ہوگا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جماعت احمد یہ کینیڈا اپنے اندر ایک اعجازی تبدیلی پیدا کرے گی اور یہ تبدیلی دیکھ کر ساری دنیا اس سے سبق لے گی.خصوصیت کے ساتھ آپ پر یہ فرض ہے کیونکہ حکومت کینیڈا اور کینیڈا کے بااثر لوگوں نے آپ سے ہمیشہ حسنِ سلوک کیا ہے.کینیڈا کے سوا مجھے کبھی کوئی ملک ایسا نظر نہیں آیا جس نے اتنا شفقت کا سلوک جماعت احمدیہ سے کیا ہو، ایسی شرافت کے نمونے دکھائے ہوں، اپنے بلند حکومت کے مقامات سے اتر اتر کر جماعت کی تائید میں اپنے آپ کو پیش کیا ہو اور یہ مزاج کینیڈا کا ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اسی طرح ہے.پر لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمُ (ابراهیم: 8) کے مضمون کو اپنے سامنے رکھیں.اگر آپ نے خدا کے ان بندوں کا شکر ادا کیا جن کا میں ذکر کر رہا ہوں تو آزیدن کا کام اللہ پر چھوڑ دیں وہ ضرور آپ کو بڑھائے گا اور اس کے نتیجے میں مزید شکر کے مواقع آپ کے لئے پیدا فرمائے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ، انشاء اللہ، ہر دفعہ جو مجھے کینیڈا آنے کی توفیق ملے گی مجھے احمدیت کی سرزمین کو بڑھتا اور پھیلتا ہوا دکھائے گا.پہلے سے بڑھ کرنئے چہرے نظر آئیں گے جیسا کہ جرمنی میں مجھے ہمیشہ ایسا ہی معلوم ہوا.جب بھی میں گیا ہوں کثرت کے ساتھ نئے چہرے دکھائی دیئے ہیں جو پہلے کبھی دکھائی نہیں دیئے تھے بڑے ولولے اور جوش کے ساتھ وہ جماعتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں.اللہ آپ کو بھی اسی کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 713

خطبات طاہر جلد 16 707 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء الاسکا کے سفر کے تجربات اور ہومیو پیتھی کتاب سے متعلق بعض اہم امور کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرمودہ 26 ستمبر 1997ء بمقام وائٹ ہارس.کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ خطبہ جوسفر کے دوران آیا ہے یہ White Horse جگہ ہے جہاں سے ان کی لائبریری سے میں یہ خطبہ دے رہا ہوں.یہ لائبریری جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ دیوار پر پینٹ ہوئی ہوئی لائبریری ہے.اس کا اس لائبریری سے کوئی تعلق نہیں جو آپ کے ذہن میں ہے اور یہ بھی ان عجیب باتوں میں سے ہے جو ہم نے اس سفر میں دیکھیں.ایک ایسا کمرہ جس کا نام لائبریری ہے اس میں ساری لائبریری دیواروں پر پینٹ ہوئی ہوئی ہے.بہر حال اس مختصر تمہید کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ ہم الاسکا کے سب سے اوپر کے مقام یعنی اس مقام سے احباب کو مخاطب ہوں گے یعنی جمعہ و ہیں پڑھیں گے، جو نارتھ پول کے قریب ترین ہے.جیسا کہ ناروے میں ایک نارتھ کیپ ہے اسی طرح الاسکا میں بھی ایک ایسی جگہ ہے جو اگر چہ ساٹھ ستر میل ناروے والی نارتھ کیپ سے نیچے ہے یعنی اس کا فاصلہ تھوڑا سا زیادہ ہے مگر اس کے باوجود یہ امریکہ کا سب سے اوپر کا آخری مقام ہے جو نارتھ پول کے قریب تر ہے.تھوڑ اسا اگر چہ میلوں میں فرق ہو جائے گا اس زبانی بیان میں لیکن ان تفاصیل کو ہم بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ کسی مجلس میں یا الفضل کے ذریعے جماعت تک پہنچا سکیں گے.اس

Page 714

خطبات طاہر جلد 16 708 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں مگر جماعت کے عمومی علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ وہ نارتھ کیپ جہاں سے ہم نے ایک خطبہ دیا تھا اس کا تاریخی لحاظ سے اہم ہونا ایک ایسا معاملہ ہے جواب بھی دنیا کے لئے ایک چیلنج ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا.وہ خطبہ ایک ایسی جگہ سے دیا گیا جہاں یا مسلسل دن رہتا ہے یا مسلسل رات اور جہاں غالبا اس سے پہلے کبھی کوئی نماز نہیں پڑھی گئی اور وہ خطبہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کا تعلق میں نے بیان کیا تھا کہ بعض پیشگوئیوں سے بھی ہے اور آئندہ بھی میں نہیں سمجھتا کبھی کچھ لوگ مشقت کر کے محنت کر کے تاریخ بدلنے کی کوشش کریں گے اور وہاں جا کر وہ ساری دنیا سے مخاطب ہو کر ایک خطبہ دیں گے یا جمعہ پڑھیں گے.بہر حال یہ تو مستقبل کی باتیں ہیں.جو سابقہ تاریخ ہے اس میں وہ واقعہ ایک بے مثل واقعہ کے طور پر ہمیشہ کے لئے لکھا جائے گا.اب یہ خواہش تھی کہ امریکہ کے بھی اس آخری مقام سے خطبہ دوں جو امریکہ کے لحاظ سے نارتھ پول کے قریب ترین ہے لیکن جو الا سکا کا نقشہ ہم نے یہاں آکر دیکھا ہے وہ ہمارے تصور سے بالکل مختلف نکلا ہے.اس وقت یعنی اس مہینے میں تمام ایسے رابطے جوNorthern Most یعنی انتہائی شمالی مقام سے ممکن ہو سکتے تھے وہ یہاں کی زندگی کے اطوار کے مطابق بند ہو چکے ہیں اور قطع ہو چکے ہیں زیادہ سے زیادہ ایک بس مسافروں کو اس مقام تک لے کے جاتی ہے جہاں سے ناردرن سرکل یعنی Arctic سرکل کا آغاز ہوتا ہے.اس سے آگے سب سفر بند ہیں.سفر بند اس لئے نہیں ہیں کہ وہاں برف بہت پڑی ہوئی ہے اور جیسا کہ ہم نے ناروے میں دیکھا تھا ہر طرف برف ہی برف تھی اور سڑکوں کو بھی باقاعدہ برفوں سے صاف رکھنا پڑتا تھا، یہ صورت نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ سب شمالی سفر بند ہو گئے ہیں.الاسکا میں اکثر Visitor جو سیر سپاٹے کے لئے آتے ہیں ان کے لئے امریکہ نے بہت اشتہار بازی کر رکھی ہے.بہت سی ایسی پارکس (Parks) ہیں، بہت سے ایسے دلکش اور خوبصورت مناظر ہیں جو مسافروں کو الا سکا کی طرف کھینچتے ہیں اور جب تک مسافر اتنی تعداد میں آرہے ہوں کہ ان کے دیکھ بھال کے اخراجات نکال کر منافع ہوسکیں اس وقت تک یہ لوگ اس کام کو جاری رکھتے ہیں.جب زیادہ ٹھنڈ ہو جاتی ہے اور واقعہ ان کے لئے مستقلاً ہوٹلوں وغیرہ کا انتظام ممکن نہیں رہتا اس وقت یہ ان رابطوں کو ختم کر دیتے ہیں جو ان کے شمالی مقام سے ممکن ہے.چنانچہ یہاں آکر ہمیں معلوم ہوا کہ ایک بس ہے جو زیادہ سے زیادہ Arctic Circle کے کنارے

Page 715

خطبات طاہر جلد 16 709 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء جاتی ہے.اس سے باہر کی طرف یعنی اس کے پر لی طرف جانے کے لئے لطف الرحمن صاحب نے جو ہمارے سارے سفر کا انتظام کر رہے ہیں انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کوئی جہاز مل جائے جسے ہم چارٹر کر کے شمالی حصے کی طرف جا سکیں لیکن سب کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد بعض ایسے جہازوں کا انتظام انہوں نے کر لیا جن میں زیادہ مسافر نہیں بٹھائے جاسکتے تھے.دس پندرہ مسافر بٹھائے جا سکتے تھے مگر اس کے لئے بھی اتنے لمبے فاصلے کے لئے ان کو Spare یعنی زائد پٹرول کا انتظام کرنا پڑتا تھا.اگر وہ پٹرول کے ٹینک ساتھ اٹھالیں تو پھر مسافروں کی تعداد پانچ دس رہ جائے گی اور ہمارے قافلے کے لئے اس قسم کے انتظامات کے ذریعے نارتھ پول کی طرف جانا ممکن نہیں تھا.یہ محض ایک لغو کوشش ہوتی اور خطر ناک بھی کیونکہ ایسا جہاز جس نے اپنا پٹرول اٹھایا ہوتا کہ رستے میں بھرے اور شمالی جو تیز ہوائیں ہیں ان کے لئے بھی اس کا پوری طرح دفاع کا انتظام نہ ہو ، بعض دفعہ شمالی جھکڑ اتنا تیز چلتے ہیں کہ چھوٹے جہازوں کی حیثیت نہیں رہتی کہ وہ ان جھکڑوں کا مقابلہ کر سکیں، اس لئے میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس پروگرام کوختم سمجھا جائے.جہاں تک الا سکا کا تعلق ہے یہاں آنا بے کار نہیں رہا.میں جماعت کو پوری طرح مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سفر بہت معلوماتی رہا ہے.ہمارے ہاں عموماً الا سکا کا جو تصور ہے وہ بالکل مختلف ہے یا کم سے کم مجھے تو الاسکا کے متعلق وہ معلومات حاصل نہیں تھیں جو یہاں آنے کے بعد حاصل ہوئیں.جہاں تک لطف الرحمن صاحب کا تعلق ہے انہوں نے بھی یہ معلومات اس اشتہاری لٹریچر سے حاصل کی تھیں جو حیرت انگیز طور پر الا سکا کو بڑا اور عظیم دکھاتا ہے اور دور دور سے مسافروں کو کھینچتا ہے.یہ کاروباروہ ہے جس میں امریکن اشتہار باز دنیا کی چوٹی پر ہیں، خواہ الاسکا کا شمالی حصہ دنیا کی چوٹی پر ہو یا نہ ہومگر ان کی اشتہار بازی دنیا کی چوٹی پر ہے.جو نقشے کھینچے گئے تھے وہ بالکل مختلف نکلے.حیرت انگیز طور پر ایک اور دنیا ہم نے دیکھی ہے.الا سکا کا شمالی حصہ جہاں ہم پہنچے جہاں ایک لاکھ کی آبادی کا ایک بہت بڑا شہر آباد ہے وہاں اتنی گرمی تھی کہ سیر کے دوران ہمیں کوٹ اور سویٹر ا تار دینے پڑے اور کمروں کے اندر بھی کولر ، ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے.باہر کی دنیا سوچ بھی نہیں سکتی کہ الاسکا کے سب سے شمالی شہر میں اس قدر گرمی پڑتی ہوگی اور انتہائی شمال میں بھی اگر چہ سردیوں میں ساٹھ درجے Minus تک ٹمپر پچر پہنچ

Page 716

خطبات طاہر جلد 16 710 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء جاتا ہے مگر گرمیوں میں وہاں بھی گرمی ہی ہے اور زیادہ گرمی نہ سہی کم گرمی ہوگی مگر یہ سارا علاقہ الاسکا کا ایک خشک علاقہ ہے.اس کا ناروے کے شمال سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.ناروے کا شمال ایک انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جو جھیلوں سے مرقع ہے، جہاں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں، جہاں ہر موڑ پر نئے چشمے دکھائی دیتے ہیں.وہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کا بیان بھی یہاں ممکن نہیں مگر خدا تعالیٰ کی صناعی کی ایک حیرت انگیز مثال پیش کرتا ہے.وہی تصور لئے ہوئے ہم الا سکا آئے تھے.اگر چہ وہ تصور تو منہدم ہو گیا مگر معلومات میں اضافے کا جہاں تک تعلق ہے وہ اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے.بہت سی نئی معلومات یہاں کی زندگی کے متعلق، یہاں کے حالات کے متعلق ، یہاں کے جانوروں کے متعلق ایسی حاصل ہوئی ہیں کہ جن کا پہلے سے کتابی علم کے نتیجے میں ہمیں کچھ علم نہیں تھا.پس احباب جماعت کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سفر بیکار گزرا.وہاں بھی بعض بہت خوبصورت علاقے تھے اس میں کوئی شک نہیں.بہت سی جھیلیں بھی تھیں.بہت سے پانی کے بہتے ہوئے دریا ، یا در یا نماشکل کے کچھ نالے بھی تھے.مگر ان کا تعلق اس برف سے ہے جو بہت تھوڑی پڑتی ہے مگر سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے اسی طرح رہ جاتی ہے اور گرمی کے مہینوں میں وہی برف آہستہ آہستہ پکھل کر یہ جاری رہنے والے دریا بنا دیتی ہے اور درختوں کی زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے.بہر حال یہ وہ تفصیل ہے جس میں میں اس وقت جانا نہیں چاہتا صرف مختصراً آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ الاسکا ایک الگ دنیا ہے اور جب تک انسان یہاں خود آئے نہ ، اسے کتابوں میں پڑھ کر اس دنیا کا پورا تصور نہیں ہوسکتا.خشک ترین علاقہ جو شمال تک جاتا ہے یہ الاسکا ہے.اسے غالباً 1840 ء یا اس کے لگ بھگ روس نے امریکہ کے پاس بیچ دیا تھا لیکن روس کا اپنا علاقہ جو الاسکا سے ملا ہوا ہے وہ بہت زیادہ شمال تک بلکہ قطب شمالی کے قریب تک پہنچتا ہے اور اس پر روس کا مکمل قبضہ ہے.اس کے مقابل پر کینیڈا کا جو مالی حصہ ہے وہ ناروے کے نارتھ کیپ سے بھی بہت آگے بڑھا ہوا ہے اور اس کا ایک شمالی علاقہ ایسا ہے جو ہمیشہ منجمد برف کے اوپر واقع ہے اس کا نام الرٹ (Alert) ہے غالباً اور یہ دراصل الرٹ ان معنوں میں ہے کہ دفاعی ضروریات کے لئے اور بعض سائنسی تحقیقات کے لئے وہاں کینیڈا نے اپنے دائمی سٹیشن بنارکھے ہیں.اس سٹیشن پر ہمارے ایک احمدی دوست حمید اللہ شاہ صاحب بھی متعین رہے ہیں اور وہ اس علاقے کے متعلق پہلے بھی مجھے لکھا کرتے تھے کہ گرمیوں میں بھی اور سردیوں میں بھی

Page 717

خطبات طاہر جلد 16 711 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء اکثر درجه حرارت منفی ساٹھ دکھائی دیتا ہے.وہ علاقہ وہ ہے جہاں گرمیوں میں Poler Bear دکھائی دیتے ہیں اور یہ پولر بیئر کی سرزمین ہے لیکن آج کل جو سردیاں شروع ہو چکی ہیں آج کل آپ کو کسی علاقے میں وہاں پولر بیئر دکھائی نہیں دے گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ سردیوں میں پولر بیئر Hibernate کرتا ہے یعنی دم روک کر ایسی نیند میں ڈوب جاتا ہے جس میں سانس کی رفتار نامعلوم ہونے کے برابر ہے.بہت ہی آہستگی کے ساتھ سانس چلتا ہے تاکہ جسم کی توانائی ضائع نہ ہو.دل کی دھڑکن کم ہوتے ہوتے معدوم سی ہو جاتی ہے اور یہ چند مہینے پوار بیئر (Poler Bear) اس نیند کی حالت میں گزارتا ہے.اس کی ساری چربی اس وقت پکھل پکھل کر اس کو توانائی دیتی ہے اور جب یہ توانائی ختم ہو رہی ہو اس وقت باہر نکلنے کا وقت آتا ہے.پھر یہ مختلف قسم کے شکار کرتا ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن اتنا آپ کو علم ہونا چاہئے کہ پولر بیئر ایک بہت طاقتور جانور ہے، اتنا طاقتور جانور کہ دوسرے ریچھ کی طاقت اس کے مقابل پر کچھ بھی نہیں ہے.نہایت تیز رفتار جانور ہے جو برف پر اتنا تیز دوڑتا ہے کہ خشکی پر گھوڑے اتنا تیز نہیں دوڑ سکتے.بہر حال پولر بیئر کے متعلق وہی دلچسپ باتیں ہیں جو اتفاقا میں نے اپنی اس کتاب میں جو شائع ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے اس میں پہلے ہی درج کر رکھی تھیں.مگر یہاں پہنچ کر جو یہ خیال تھا کہ دائیں بائیں ہر طرف پولر بیئر دکھائی دیں گے یہ محض ایک کہانی تھی اور پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ الاسکا بھی اس برفانی علاقے تک محیط ہے جس میں ہر طرف بیرونی جو سردی کے جانور یا برفوں کے جانور لومڑیاں، بھیڑیئے اور پولر بیئر اور بعض عجیب قسم کے پرندے ہیں یہ ساری چیزیں دیکھنے کا تصور لئے ہوئے ہم یہاں پہنچے تھے.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے واقعاتی طور پر الا سکا ایک اور چیز ہے اور اشتہاری پراپیگنڈے کے لحاظ سے ایک اور چیز دکھائی دیتا ہے.تو میں جماعت کو یہ خوشخبری تو نہیں دے سکتا کہ ہم نے ایک اور نارتھ کیپ دریافت کر لی، جو دریافت کی بھی ہے اگر ہم ہوائی جہاز کے ذریعے وہاں پہنچتے بھی تو وہاں بھی برفیں کوئی نہیں تھیں.سارا علاقہ خشک پڑا ہے.وہاں کی آبادی بھی اسی خشکی میں رہتی ہے.ہاں سردیوں کے زمانے میں آہستہ آہستہ برف پڑتے پڑتے کچھ منظر شمال کا پیدا ہو جاتا ہے مگر وہ سارا سال باقی نہیں رہتا.یہ ایک وجہ بنی کہ اس کے نتیجے میں میں نے پھر بعض ایسے دوستوں کو جو ایٹلسز Atlases پڑھنے اور اس کے نتیجے نکالنے کے ماہر ہیں یہ کام دیا تھا کہ یہ

Page 718

خطبات طاہر جلد 16 712 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء سارا کام منظم کریں تا کہ آئندہ جماعت کو اگر کوئی غلط معلومات پہنچی ہوں تو درست بھی ہو جائے اور جماعت کا جغرافیائی علم پہلے سے بڑھ جائے اور خطبات کا ایک یہ بھی مقصد ہوتا ہے جو براہ راست دینی تو نہیں مگر چونکہ آنحضرت ﷺ نے علم کے متعلق فرمایا کہ العلم علمان_علم الادیان و علم الابدان تواس لئے میں اپنے خطبات میں بعض مادی دنیا کی معلومات بھی جماعت کو مہیا کرتا رہتا ہوں جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا جو علمی معیار ہے وہ دینی طور پر ہی اونچا نہیں بلکہ دنیاوی طور پر بھی اونچا ہے اور اونچا ہوتا چلا جارہا ہے.پس انشاء اللہ یہ شمالی حصوں کے متعلق جب بھی معلومات مکمل ہو جائیں گی میں احباب کے سامنے ان کو پیش کر سکوں گا.وہ ایک اور چیز ، ایک اور فائدہ جو اس دوران مجھے حاصل ہوا وہ فائدہ بھی تھا اور ذہنی تکلیف کا موجب بھی تھا لیکن بعد میں شاید مجھے اس کا ذکر کرنے کا تفصیل سے موقع نہ ملے میں اب آپ کو سمجھا رہا ہوں.میری ایک کتاب ہے ہو میو پیتھی کے متعلق جس کو میں نے جلسے میں احباب جماعت کے سامنے پیش کیا تھا.یہ کتاب ہے، بہت خوبصورت سرورق ہے اور اس کی بعض تعریفیں میں نے خود کی تھیں جو بالکل غلط تھیں اس لئے میں معذرت بھی پیش کر رہا ہوں اور یہ وعدہ بھی کر رہا ہوں کہ انشاء اللہ اس کتاب کی تصحیح کی جائے گی.وہ معلومات میں نے غلط اس لئے پیش کیں کہ مجھے غلط معلومات دی گئی تھیں اور اس لحاظ سے میرا قصور نہیں تھا مگر یہ قصور ضرور تھا کہ مجھے خود دیکھ کر کتاب سے معلوم کر لینا چاہئے تھا کہ یہ معلومات درست نہیں ہیں.جن احباب کی یا خواتین کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ریپرٹری (Repertory) تیار کریں اس کے متعلق جلسے میں بھی میں نے بیان کر دیا تھا کہ میں بار بار سمجھا چکا ہوں سمجھا چکا تھا ان کو کہ اس کو Repertory نہیں کہتے ،Repertory اس طرح تیار کی جاتی ہے لیکن بالآخر بہت کچھ سمجھانے کے بعد انہوں نے صحیح Repertory میرے سامنے پیش کر دی، میں ضمناً بتا دوں کہ Repertory سے مراد وہ آخری باب ہے ہو میو پیتھی کتابوں کا جس میں علامتوں کے ذریعے ہر شخص آسانی سے متعلقہ دوا کی طرف منتقل ہو سکتا ہے اور اس صفحے کی نشاندہی کر سکتا ہے جس پر متعلقہ دوا کا ذکر ہو یہ Repertory ہے.عام طور پر ایسے لیکچرز میں جہاں با قاعدہ جسم کے حصوں کا الگ الگ ذکر نہ ہو ان میں Repertory بہت ضروری ہوا کرتی ہے مثلاً کینٹ ہے اس کا ہومیو پیتھک فلسفے پر ایک لیکچروں کا سلسلہ ہے.کینٹ نے یہ طریق اختیار

Page 719

خطبات طاہر جلد 16 713 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء نہیں کیا کہ پہلے سر پھر ناک، کان، منہ، چہرہ ، گردن، جسم کا باہر کا حصہ، جسم کا اندر کا حصہ ان سب کی تفاصیل الگ الگ عنوانات بنا کر دے.اس نے اپنے تجربے سے ہو میو پیتھی کے فلسفے پر روشنی ڈالی اور مختلف ذکر مختلف جگہ پھیلے پڑے ہیں.سر کا ذکر اس کے لیکچرز کے آخر پر بھی آسکتا ہے.مختلف دواؤں کا جو رابطہ ہے اس کو بھی وہ بیان کرتا چلا جاتا ہے.میرے پاس اتنا وقت تو نہیں تھا کہ جو آج کل مروجہ کتا بیں ہیں مثلاً بورک کی کتاب ہے اس کے مطابق تفصیل سے تیاری کر کے ہر جسم کے حصے پر الگ الگ بات کرتا.اس کے باوجود میری خواہش تھی کہ جماعت کو ہومیو پیتھی کا کچھ علم ہو جائے اور اپنا علاج کرنے میں وہ خود کفیل ہو سکے.اس خواہش کی وجہ سے میں نے لیکچرز کا یعنی ان تقاریر کا آغاز کیا جو ہومیو پیتھی کے سلسلے میں میں ایک کلاس میں دیتا رہا.آخر پر پہنچ کر مجھے یہ احساس پیدا ہوا کہ یہ ناممکن ہے کہ احباب جماعت جن کو ہو میو پیتھی کے آغاز کا بھی پورا علم نہیں اگر وہ میری کتاب کو پوری طرح سمجھ بھی جائیں تو پھر وہ بیماریوں سے واپسی کا سفر اختیار کرسکیں اور دواؤں کی صحیح نشاندہی کر سکیں ، اس صفحے تک پہنچ سکیں جن صفحوں پر ان دواؤں کا ذکر ہے.اس وجہ سے میں Repertory پر زور دیتا رہا.اس کو Repertory کہتے ہیں اور میں نے بہت دفعہ اس ٹیم کو اور اس ٹیم کے سر براہ کو سمجھایا کہ دیکھو یہ مقصد ہے.ہر انسان جس کا بیماری سے رابطہ ہو وہ اس بیماری کی الگ شناخت رکھتا ہے اور ضروری نہیں کہ اس بیماری کو آپ نے جس جگہ بیان کیا ہے وہ اس بیماری کو وہیں جاکے تلاش کرے.ایک بیماری کی مختلف علامتیں ہو سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والا اپنے تجربے کے لحاظ سے ان علامتوں کو کسی اور جگہ تلاش کر رہا ہو اور آپ نے جو Repertory بیان کی ہے اس کو کسی اور جگہ دیکھنا چاہئے جس کا ہوسکتا ہے اس کو بالکل علم نہ ہو.یہ Repertory سے متعلق امور تھے جو میں نے اپنی دانست میں تفصیل سے سمجھا دیئے.اس الا سکا والے سفر کا ایک بڑا فائدہ مجھے یہ پہنچا ہے کہ عام طور پر میں بیماریوں کے لئے بورک کا میٹریا میڈیکا استعمال کرتا ہوں وہ مہیا نہیں تھا تو میں نے اپنے عملے سے کہا کہ لا ؤ، سلیم صاحب ہمارے یہ کام کر رہے ہیں ) کہ اچھا میرے والی کتاب ہی لے آؤ میں اسی میں دیکھ لوں.وہاں جو میں نے Repertory دیکھی اس سے تو میرے ہوش اڑ گئے.یہ Repertory میرے تصور کے قریب تک نہیں پہنچتی.باوجود اس کے کہ ہمارے دفتر کے ایک عملے میں ایک ایسے تجربہ کار ہو میو پیتھ موجود ہیں، جلسے کا دباؤ غیر معمولی تھا Repertory کو میں آخری دفعہ اپنی

Page 720

خطبات طاہر جلد 16 714 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء آنکھوں سے خود نہیں دیکھ سکتا تھا.مجھے یقین دلایا گیا پیش کرنے والوں کی طرف سے کہ اب ہم آپ کے مقصد کو سمجھ گئے ہیں، اب سو فیصدی بعینہ وہی چیز ہم بنا کے لے آئے ہیں اب اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا.اب جلسے کا دباؤ آپ جانتے ہیں اس دفعہ غیر معمولی تھا اور یہ اس وقت میرے سامنے پیش کیا گیا جب کہ یہ کتاب چھپتی جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا یا نہ چھپتی.تو میں نے کتاب کے چھپنے کو ترجیح دے دی اور کہا کہ اچھا فلاں صاحب، جو ہمارے تجربہ کار پرانے ہو میو پیتھ سمجھے جاتے ہیں، ان سے کہا کہ یہ میں نے سمجھایا تھا آپ دیکھ لیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے واقعہ وہی ہے یا کچھ اور ہی کیا ہوا ہے.ان صاحب نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے بالآخر مجھے یہ تسلی دلائی کہ آپ نے جو کچھ سمجھایا تھا انہوں نے وہ سمجھ لیا ہے اور اب یہ Repertory اسی طرح تیار ہے.جو تیار ہے اس کا حال میں آپ کو بتا دیتا ہوں.کوئی مریض جس کو معین طور پر بیماریوں کا کوئی نام یاد نہ ہو ہرگز ان کی Repertory کے ذریعے اپنی بیماری تک نہیں پہنچ سکتا.بہت سی مثالیں ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھنے کے لئے تیار کی تھیں مگر میں اس وقت چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مثلاً پیاس کا بیماریوں سے بہت تعلق ہے.پیاس کم ہو، زیادہ ہو، نہ ختم ہونے والی بھر کی لگی ہو یا تھوڑے تھوڑے پانی کی ہو ہر بیماری کی شناخت میں پیاس ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور Repertory میں پیاس کا کوئی خانہ ہی نہیں ہے.آپ Repertory تلاش کریں، جیسا کہ میں نے کی تھی، میں حیران رہ گیا پیاس نام کی کوئی چیز ہی نہیں.پھر میں نے کہا منہ خشک ہونے کے اندر ہوگا تو منہ دیکھا تو منہ کے اندر کوئی دیکھنے کی چیز نہیں تھی سوائے اس کے کہ منہ کے چھالے اور نا سور اور آگے دوائیوں کے نام لکھے ہیں اور کچھ بتایا نہیں کہ یہ چھالے کس قسم کے ہیں.تھوک والے منہ کے چھالے ہیں، خشک منہ کے چھالے ہیں، زبان کے کناروں پر ہیں یا زبان کے بیچ میں ہیں.یہ ساری چیزیں میں اپنے لیکچرز میں سمجھا چکا ہوں.Repertory اس کو کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے منہ کو لینا تھا تو منہ کے اندر زبان کی بات کرتے ، منہ کے اندر اس کے پہلوؤں کے کلوں کی بات کرتے ، کلوں کے چھالے اور ہیں، زبان کے چھالے اور ہیں، زبان کی نوک کی بیماری اور ہے، زبان کے مرکز پر جو علامتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ ایک اور چیز ہیں.تو اگر کسی کی مدد کرنی ہو کہ وہ صحیح بیماری کو شناخت کر سکے تو اول مثلاً منہ کے نیچے یہ

Page 721

خطبات طاہر جلد 16 715 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء چاہئے تھا کہ خشک منہ سے تعلق رکھنے والی دوائیں.خشک منہ سے تعلق رکھنے والی ایسی دوائیں جن میں جتنا بھی پانی پیا جائے منہ پھر بھی خشک رہے گا.منہ خشک، وہ دوائیں دی جاتیں، صفحے دئے جاتے ، منہ خشک، وہ بیماریاں منہ خشک ہونے کی جو اعصابی بے چینی سے تعلق رکھتی ہوں جیسا کہ آرسنک اور بار بار گھونٹ گھونٹ پینے کو جی چاہتا ہو تو منہ خشک اور پیاس کا بھی ذکر ساتھ ہی چل پڑتا.گلوں کے زخم اور ہیں، زبان کے پہلوؤں کے زخم اور ہیں، زبان کے پچھلے حصے کے زخم اور ہیں، زبان کی نوک کے زخم اور ہیں، یہ ساری چیزیں اسی ہیڈنگ کے نیچے الگ الگ صفحوں کے سامنے لکھی ہوتیں پھر سطروں کا نمبر ہمارے کام آسکتا تھا.پھر کسی مریض کو اپنے منہ کی بیماری میں جب ضرورت پیش آتی وہ کسی معین صفحے تک پہنچ سکتا تھا.مگر اب تو اس کے نیچے جو فہرست دی ہوئی ہے چھالوں کی اس میں چالیس پچاس دوائیں ہوں گی اور پڑھنے والے کو بالکل پتا نہیں چل سکتا کہ یہاں کون سے چھالوں کا ذکر ہے، کون سے ناسوروں کا ذکر ہے میں کہاں تلاش کروں.وہ صفحہ نمبر اور سطر نمبر سے ایک جگہ پہنچ تو سکتا ہے مگر بعض دفعہ چالیس، پچاس پچاس دوائیں ایک عنوان کے نیچے اسی طرح دی ہوئی ہیں اور ان میں سے کسی دوائی کے متعلق نہیں لکھا کہ اس دوائی کا اس بیماری سے تعلق ہو تو فلاں صفحے کو دیکھو، اس دوا کا فلاں بیماری سے تعلق ہو یا اس بیماری کا فلاں جسم کے حصے سے تعلق ہو تو فلاں جگہ دیکھو یہ کوئی ذکر نہیں.اب میں نے جس چیز کو تلاش کرنا تھا میں نے پھر اپنی یاد داشت سے کیا کیونکہ پچاس یا ساٹھ صفحوں کا مطالعہ ایک ایک کر کے دیکھنا ایک ایسا کاردار د تھا جو خود مجھے اپنی ذات میں ایک مصیبت دکھائی دے رہا تھا کہ بے چارے احمدیوں کو میں نے کس مصیبت میں ڈال دیا.وہ بھولے بھالے محض اس لئے مجھے تکلیف نہیں دیتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چلو کتاب تو لکھ دی کوئی فائدہ تو ہو گیا باقی ہم خود تلاش کر لیں گے.محض مجھے تکلیف سے بچانے کے لئے انہوں نے خاموشی برداشت کی ہے ورنہ کوئی ہومیو پیتھی کا علم رکھنے والا اس Repertory کو جو ہمارے سامنے ہے اس کو پھاڑ کے پھینک دے.کسی کام کی نہیں ہے، کوئی بھی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ بعض بیماریاں آپ کو کہیں گی فلاں صفحہ دیکھو.وہاں ایک لفظ کالا کیا ہوگا.اس کا منہ کالا ہے اس سے زیادہ اس Repertory میں کوئی بھی فائدہ نہیں کہ آپ اسے دیکھ سکیں.عجیب و غریب حرکتیں ہیں مثلاً ایک جگہ لکھا ہوا ہے ”جھٹکا.اب جھٹکا کیا چیز ہے.کون پاگل ہے جو جھٹکے میں اپنے اعصاب کے پھڑ کنے کو تلاش کرے گا.کون پاگل ہے جو

Page 722

خطبات طاہر جلد 16 716 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء جھٹکے کے نیچے کلوں کے پھڑکنے کو تلاش کرے گا یا آنکھ کے پھڑکنے کو تلاش کرے گا.کون ہے جو جھٹکے کے نیچے یہ دیکھے گا کہ اگر کسی کو فلاں بیماری ہو تو اس کے جسم کے دائیں حصے کے اعصاب کو جھٹکا لگتا ہے یا بجلی کے کوندے ایک جگہ سے دوسری طرف دوڑتے ہیں اور ان کوندوں کی وجہ سے جھٹکے کا احساس ہوتا ہے.ان سب باتوں میں سے کسی کا بھی کوئی ذکر نہیں اور عنوان دیا ہوا ہے ”جھٹکا.اب یہ جھٹکا، مضمون سے جھٹکا کیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں جھٹکے کے نیچے یہ ساری بیماریاں جو آپ کو بتا رہا ہوں یہ کوئی شخص تلاش نہیں کر سکتا.بجلی کا جھٹکا لگتا ہے وہ 'ب' کے نیچے بھی آنا چاہئے بجلی اور جھٹکے کے نیچے بھی آنا چاہئے.وہ جھٹکا جو بجلی کا جھٹکا ہو اس فہرست میں بیماریوں کے جھٹکے کے نیچے آنا چاہئے تھا کہ فلاں بیماری کا اعصابی جھٹکوں سے تعلق ہے یہ جھٹکے مختلف نوعیت کے ہیں اور جس شخص نے معلوم کرنا ہو کہ وہ دوا کون سی ہے وہ اپنے تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ میں نے آنکھ کے پھڑ کنے کو تلاش کرنا ہے جھٹکے کے نیچے یا کلے کے پھڑکنے کو یا اندرونی طور پر اعصاب کے دھڑ کنے کو جھٹکوں کے نیچے تلاش کرنا ہے یا سوتے میں نیند سے پہلے جھٹکے کی بات ہو رہی ہے یا سونے کے بعد نیند کی حالت میں جو جھٹکا لگتا ہے اس کی مجھے ضرورت ہے.اب ان باتوں میں سے ایک کا بھی ذکر نہیں صرف جھٹکا لکھا ہے.پیاس کا کوئی ذکر نہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پیاس کے ذریعے مرض شناخت کئے جاتے ہیں.منہ کی خشکی کا کوئی ایساذ کر نہیں جس کے ذریعے آپ امراض کی تلاش کر سکیں.یہ دیکھتے دیکھتے جب میں نے اور مطالعہ کیا تو مجھے پتا چلا کہ یہ ساری Repertory بالکل بریکار اور نکمی چیز ہے.اس کا ایک ذرے کا بھی فائدہ نہیں اور میں نے مفت میں جماعت کو مصیبت ڈال دی ہے یہ تعریف کر کے جلسے پر کہ بڑی اچھی Repertory تیار ہوئی ہے آپ کو فو ر اد وا ئیں مل جائیں گی.اس لئے معذرت ہے جماعت سے اور ایک وعدہ ہے کہ انشاء اللہ آئندہ ان باتوں کو اس گروہ کے ذریعے نہیں جنہوں نے بہت محنت کی ہے مگر بنیادی طور پر Repertory کے علم سے ناواقف تھے، اس گروہ کو میں دوبارہ مقرر نہیں کروں گا بلکہ میرے اندازے کے مطابق اس کام کو جب میں پوری طرح سمجھاؤں گا، صحیح طریق پر ادا کرنے کے قابل سید عبدالحئی صاحب ہیں جو ناظر تالیف و تصنیف ہیں.سید عبدائی صاحب میں میں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ جب بھی ان کو کوئی بات معین سمجھا دی جائے خواہ وہ ذاتی علم نہ بھی رکھتے ہوں، ذاتی علم والوں کی تلاش کرتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کو میں

Page 723

خطبات طاہر جلد 16 717 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء نے کسی کتاب کے متعلق ہدایت کی ہو اور بعینہ وہی چیز انہوں نے تیار نہ کی ہو، اللہ تعالیٰ کے فضل سے گہری فراست حاصل ہے، بہت باریک بینی سے چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں.اس لیکچر میں نمونے کے طور میں نے چند باتوں کا ذکر کیا ہے تفصیلی ہدایت میں انشاء اللہ تعالیٰ سید عبدالحئی صاحب کو بعد میں بھجوا دوں گا.اس لئے اب آئندہ Repertory کا انتظام ربوہ میں ہوگا وہ ماہر ہومیو پیتھ کو ساتھ شامل کر لیں.جو میں نے تبصرہ کیا ہے یہ ان کو بھی سنادیں.جو باتیں مزید لکھ کے بھیجوں گا ان کو پیش نظر رکھیں تا کہ دنیا کے سامنے ایک ایسی Repertory ہو جس کی کوئی نظیر اور نہ ملتی ہو.دوسرا حصہ تھا زبان کے متعلق.میں نے بہت اصرار کیا، میں نے کہا دیکھیں بولنے کی زبان اور ہوتی ہے اور لکھنے کی زبان اور ہوتی ہے اور بسا اوقات میرے منہ سے ایک ایسا لفظ بھی نکل رہا ہوتا ہے جو ادا کرنا مقصود نہیں ہے.ایک ملتے جلتے لفظ یا ایک ملتی جلتی چیز کے تعلق میں وہ بیان کرتا ہوں لیکن دیکھنے والے جو مجھے دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں لیکن پہلا غلط تھا اب دیکھیں میں نے لیکن پہلے کہہ دیا جو درست نہیں ہے، جو لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں وہ میری بات اور میرے مضمون کو بالکل صاف سمجھ رہے ہوتے ہیں.یعنی اگر اس کو ہم کتاب میں بعینہ اسی طرح درج کر دیں تو پڑھنے والے اس سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکیں گے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آپ روز مرہ آپس میں باتیں کرتے ہیں.کئی لوگ ایک لفظ بولیں گے وہاں سے ہٹ کے ایک اور پہ چلے گئے ، وہاں سے ہٹ کے کسی اور کی طرف چلے گئے.کئی دفعہ غلطی سے کچھ اور لفظ بھی بول رہے ہیں.لوگ ہنس تو پڑتے ہیں مگر بات سمجھ جاتے ہیں.اگر اپنے گھر کے کھانے کی میز کی باتوں کو آپ کتابی شکل میں اسی طرح شائع کر دیں تو دنیا میں کسی کے پلے کچھ نہیں پڑے گا کہ لطف الرحمن صاحب نے کیا کہا تھا ، ان کے بچے نے کیا سمجھا اور آپس میں وہ کس بات پر ہنسے ہیں.تو یہ ایک دنیا کا دستور ہے اور اس دستور کے تعلق میں میں بارہا یہ اعتراف کر چکا ہوں کہ بعض دفعہ میرے ذہن میں ایک اور لفظ ہوتا ہے، جلدی میں وہ لفظ نہیں نکلتا کچھ اور لفظ جو ملتا جلتا ہے وہ منہ سے نکل جاتا ہے.اب میں اس سلسلے میں ایک دو مثالیں غالباً آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں.مثلاً سلیشیا کے تعلق میں یہ لکھا ہوا ہے کہ جانور اور انسان ایک وقت میں ایک ہی جگہ سے پانی پیتے تھے.یہ درست ہے کہ ایک ہی وقت

Page 724

خطبات طاہر جلد 16 718 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء میں پیا کرتے تھے لیکن اب بھی پیتے ہیں.بہت سے پانی ایسے ہیں جن کا گند دکھائی نہیں دیتا اس میں جراثیم ہوتے ہیں اور جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں جو گندا اور خطرناک ہوتا تھا.اب تھا' کا لفظ ایک تاریخی پس منظر کی وجہ سے میرے منہ سے نکلا ہے.ہومیو پیتھی کے تعلق میں 'تھا کا لفظ غلط ہے.مجھے یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ جانور اور انسان بسا اوقات ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں جو انسانوں کے لئے گندا اور خطرناک ہوتا ہے مگر جانوروں پر کوئی اثر نہیں رکھتا.اس کے آگے لکھا ہوا ہے جراثیم تو ہیں لیکن چونکہ جانوروں نے لمبا عرصہ خود دفاع کی صلاحیت حاصل کی ہے یہ بالکل غلط بات ہے جانوروں نے خود صلاحیت کہاں سے حاصل کر لی.کہنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو دفاع کی صلاحیت جانوروں کو بخشی ہے اور اس کے بعد میں ایک جگہ وضاحت بھی کی ہوئی ہے کہ اس صلاحیت کو استعمال کرنے پر وہ اس لئے مجبور ہیں کہ ان کے پاس کوئی ڈاکٹر، کوئی دواساز نہیں.جب وہ اس خدا داد صلاحیت کو ہر بیماری کے دفاع میں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو ان کی وہ صلاحیت بیدار رہتی ہے اور اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ اکثر بیماریوں کا خود مقابلہ کر سکتی ہے.اس کے بعد لکھا ہے ”جو کہ جانوروں نے لمبا عرصہ خود دفاع کی صلاحیت حاصل کی ہے اس لئے ان کا دفاع مضبوط ہے.دفاع مضبوط ہے والی بات درست ہے.پہلے فقرے کو درست ہونا چاہئے تھا.جس نے بھی اس کو صحیح کتابی اردو میں ڈھالا تھا اس کو مطلب سمجھ آ گیا تھا وہ ساتھ بتاتا کہ یہ وجہ ہے کہ انسان کے جسمانی اندرونی دفاع اور جانور کے جسمانی اندرونی دفاع میں فرق ہے ”جب سے انسان نے اپنا علاج خود کرنا چاہا ہے اس کے بعد سے جسم خاموش ہو گیا ہے.یہ بھی بالکل غلط ہے.علاج کرنا چاہا جانور بھی اپنا علاج خود کرتے ہیں، وہ بھی بُوٹیاں کھاتے ہیں مگر انسانی کوششیں جو اپنے علاج کے سلسلے میں ہیں انہوں نے بہت حد تک بیماریاں پیدا کرنے والے جراثیم کو مارنے کی کوشش کی ہے.اکثر علاج کے ذریعے ان جراثیم کو مارا گیا ہے جو بیماریاں پیدا کرتے ہیں اس لئے اندرونی نظام جو ان جراثیم کو مارنے کے لئے کافی تھا اس نے رفتہ رفتہ کام چھوڑ دیا اور رفتہ رفتہ وہ کمزور پڑتا چلا گیا.66 اب اگر اینٹی بائیوٹکس بار بار دی جائیں تو آپ کے جسم کے اندر جو بھی خدا تعالیٰ نے دفاع بنارکھا ہےاس دفاع کو عملی طور پر آپ ناکارہ کر دیں گے یعنی اینٹی بائیوٹکس وہ کام کریں گی جس کے بغیر بھی ایک صحتمند انسان کا جسم وہ کام کر سکتا تھا.اس قسم کی مثالیں میں نے دی ہوئی ہیں ساری کتاب

Page 725

خطبات طاہر جلد 16 719 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء میں بھری پڑی ہیں، پڑھنے والے کو صاف سمجھ آجانا چاہئے تھا یا جس نے زبان درست کی ہے اسے سمجھ آ جانا چاہئے تھا کہ یہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو درست کریں.اب سلیشیا کے متعلق اس میں لکھا ہوا ہے کہ سلیشیا اس احساس کو دوبارہ زندہ کرتی ہے اور اس کے سوا ایک ایسی عبارت ہے کہ گویا مہر بیرونی چیز کو پگھلا دیتی ہے اب یہ بالکل غلط بات ہے.میں نے مضمون سمجھایا تھا، کیڑوں کو اور بعض جانوروں کو جن کو یہ باہر نہیں پھینک سکتی ان کو پگھلاتی ہے.جن کو باہر پھینک سکتی ہے وہاں پیپ بنا کر ان کو باہر پھینک دیتی ہے تو کتاب کے اندر یہ لکھا گیا ہے کہ یہ چیزوں کو پگھلا دیتی ہے.چیزوں میں تو پتھر بھی ہے کنکر بھی ہے، بندوق کی گولیاں ، چھرے بھی شامل ہیں.یہ ہرگز ان کو نہیں پگھلاتی.جن کو باہر پھینکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یا پھینکنا چاہے تو وہ پھینکے نہیں جاسکتے اس لئے ان کو اندر ہی پگھلا دیتی ہے.مثلاً پاؤں کے اندر بعض کیڑے ہیں Filariasis کے کیڑے کہلاتے ہیں جن میں پاؤں سوج جاتا ہے اور ان کو پورے کے پورے کیڑوں کو باہر نکالنا نہ کسی جراح کے بس کی بات ہے نہ سلیشیا کے بس کی بات ہے.سلیشیا یہ کام ضرور دکھاتی ہے کہ ان کیڑوں کو اندر ہی پگھلا دیتی ہے، وہ پانی بن کے بہہ جاتے ہیں، ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اب یہ وہ چیزیں ہیں جو میں اپنی تقریروں کے درمیان کھول چکا ہوں اور اگر بیان کرنے میں غلطی ہوگئی ہے تو ہر شخص جس نے اردو درست کرنی تھی اس کا فرض تھا کہ اس کو درست کر کے پیش کرتا.اب مثلاً انتریوں کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے کہ انتڑیاں بیرونی جلد تک اثر دکھاتی ہیں، ناک کی جلد خشک ہو جاتی ہے.حالانکہ کہنا یہ تھا، جو شاید میں نے کہا بھی ہو مجھے یاد نہیں، کہ انتڑیاں جو خود اندرونی جھلیاں ہیں، بعض دفعہ انتڑیوں کی بیماریاں اگر ٹھیک نہ ہوں بلکہ انتڑیوں سے صرف ان کو دھکیلا جائے تو وہ بیرونی جلد یعنی ناک کے کنارے پر اپنا اثر دکھاتی ہیں.اسی طرح انتریوں کی بیماریاں بعض اوقات منہ پر اپنا اثر دکھاتی ہیں.منہ کے اندر جو نقشہ بنتا ہے اس سے آپ انتڑیوں کی بیماریاں پہچان سکتے ہیں.اسی طرح رحم کی بیماریاں ہیں.کہنا یہ تھا اور یہ دوبارہ میں سمجھا رہا ہوں کیونکہ عبدائی صاحب نے اس پر کام بھی کرتا ہے.مقصد یہ تھا کہ دو قسم کی سطحیں ہیں جو بدن کو عطا ہوئی ہیں.بیرونی سطح کو ہم جلد کہتے ہیں اندرونی سطح کو جھلی کہتے ہیں.تو بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا جلد سے بھی تعلق ہے اور اندرونی سطح یعنی جھلیوں سے بھی تعلق ہے اور بعض دفعہ یہ دونوں جگہ ظاہر ہورہی

Page 726

خطبات طاہر جلد 16 720 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء ہوتی ہیں.اگر ایک جگہ ٹھیک کرنے کی بجائے دبا دیا جائے تو دوسری جگہ وہ زیادہ زور دکھائیں گی.مثلاً بعض بیماریاں ہیں جن کا انتڑیوں سے بھی تعلق ہے اور جلد سے بھی.جلد میں وہ سورائسز کہلاتی ہیں یعنی سورا کا اثر.اگر زبردستی جلد پر سے ان کو ٹھیک کیا جائے تو وہ لازماً اندرونی جھلیوں یعنی انتریوں کو ایسا بیمار کردیں گی کہ بعض دفعہ ان کا علاج پھر ممکن نہیں رہتا.یہ مقصد ہے جو میں نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ مختصر لفظوں میں بیان بھی کیا ہے.بعض جگہ صحیح، بعض جگہ زبان نے ٹھو کر کھائی اور غلط لفظ بولا گیا.جنہوں نے مجھے یقین دلایا کہ اس کی اردو بالکل ٹھیک ہو گئی ہے ان کو اگر میں باقی مثالیں دوں تو ان کو بھی پسینے آجائیں گے.بعض جگہ ایسے لفظ لکھے ہوئے ہیں اردو کے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے مثلاً اگر پیارا کہنا ہو، آپ پیافا “ کہ دیں یا بیا فا“ کہہ دیں تو یہ کون سی اردو ہے.وہ اب میں نہیں بیان کرتا کیونکہ جن لوگوں نے بھی یہ کام کیا ہے کتابی اردو بنانے میں یا Repertory تیار کرنے میں انہوں نے محنت ضرور کی ہے.ان بے چاروں کا اختیار نہیں تھا کہ بعینہ جو میں سمجھا رہا ہوں وہ عملاً اس میری خواہش کو ایک تحریر میں ڈھال سکیں لیکن اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ ان لوگوں نے بے انتہا محنت کی ہے.اگر خود انہوں نے اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہوتا تو آج یہ کتاب جماعت کے سامنے نہ ہوتی.پس Repertory والے حصے کو آپ سر دست بھول جائیں اور زبان کی درستی والے حصے کو بھی اگر آپ کے کہیں پسینے چھٹیں تو برداشت کریں کیونکہ اس پر میرا کوئی بس نہیں.میں نے اتفاقاً کھول کے دیکھا تو ایک صفحہ پر ہی ایسی خوفناک غلطیاں نکلی ہیں کہ وہ لطیفوں کے طور پر تو بیان کی جاسکتی ہیں، کسی معقول کتاب کا حصہ نہیں بن سکتیں.پس اس تمہید کے ساتھ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جونئی نعمت ملے گی یہ بھی الاسکا کے سفر کا ایک احسان ہے جو میری ذات پر بھی ہے اور جماعت پر بھی ہوگا.پس لطف الرحمن صاحب ایسے تبصروں سے بددل نہ ہوں جن میں ان کو بتایا گیا کہ ہم تو کچھ اور سمجھ رہے تھے ، کچھ اور ہی نکلا.ان کا یہاں لانا اور ہمارے جغرافیائی علم میں اضافہ کروانا اور پھر ہو میو پیتھی کے متعلق ایک مستقل ضروری کام کروا دینا جو ان کے ذہن میں نہیں تھا، یہ تقدیر الہی تھی جس نے ایک بہت بڑا کام دکھایا ہے.پس اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے اور نئی کتاب کے سلسلے میں بھی انشاء اللہ آپ لوگوں کی دعائیں جہاں مجھے بھی پہنچیں گی، پہلے کام کرنے والوں کو بھی پہنچیں گی ان دعاؤں میں لطف الرحمن صاحب کو

Page 727

خطبات طاہر جلد 16 721 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء بھی یاد رکھ لیں کہ غیر ارادی طور پر انہوں نے ایسا کام کروا دیا جو میرے لئے ویسے ممکن نہیں تھا.میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ میں اپنی کتابوں کو خود پڑھ سکوں خاص طور پر اس کتاب کو.مجھے اتنا پتا ہے کہ میں نے لکھوائی ہے تو مجھے پتا ہے کہ کوئی چیز کہاں ملنی چاہئے لیکن کبھی ضرورت پڑ جاتی ہے تو میں بورک کو استعمال کرتا ہوں اس کا مٹیر یا میڈیکا بہت اچھا ہے مگر انگریزی دانوں کے لئے ہے اور صاحب علم لوگوں کے لئے ہے.تھوڑا علم رکھنے والوں کے لئے اور عام سادہ لوگ جو جماعت احمد یہ میں کثرت سے موجود ہیں جن کی تعلیم بھی تھوڑی ہے وہ اس کتاب سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے وہ کافی نہیں.ان کے لئے نئی Repertory کا لکھنا اور اس کتاب کی زبان درست کرنا لازم ہے.پس امید ہے انشاء اللہ بہتر صورت میں یہ کتاب آپ کی خدمت میں آئندہ چند مہینوں میں ( سید عبدالحئی صاحب کے اوپر ہے وہ کب تک یہ تیار کر دیتے ہیں ) پیش کر دی جائے گی.جہاں تک استفادے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب سے احباب جماعت نے اور خواتین نے بہت استفادہ کیا ہے.جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی گھر بیٹھے اپنا علاج یا اپنے بچوں کا علاج کر سکیں گے یہ کتاب پڑھنے کے بعد Repertory کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کتاب کے مضمون کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کے ذہن میں ہومیو پیتھی کا بنیادی تصور جم گیا ہے اور اس کے فائدے کے قائل ہو چکے ہیں، اس سے استفادہ کرنے کے قائل ہو چکے ہیں اور جو خط مجھے مل رہے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرق سے مغرب تک کثرت سے احمدی گھر ایسے ہیں جن کے لئے یہ کتاب مفید ثابت ہوئی ہے پڑھنے کے نتیجے میں، نہ کہ Repertory کے نتیجے میں.اس ضمن میں میں ایک مختصر ذکر حفیظ بھٹی صاحب کا اور ان کی بیگم چھیری بیگم کا کرنا چاہتا ہوں کہ یہ چونکہ دوا سازی کے کام کے لئے وقف ہیں ان پر میرا کوئی شکوہ نہیں.انہوں نے بہت ہی اچھا دواسازی کا کام کیا ہے اور اس کے علاوہ اسلم خالد صاحب ہیں ہمارے دفتر میں جنہوں نے دواؤں کی تقسیم کا اور ڈبے بنوا بنوا کر ان کو جماعتوں میں بھجوانے کا ذمہ سنبھالا.یہ دو فوائد ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی تنقید سے بالا ہیں.کمزوریاں تو ہیں اور ابھی پوری طرح پھیلی نہیں مگر میری نظر ان پر ہے اور میرا دونوں سے رابطہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ بالآخر ساری دنیا کو ہومیو پیتھی ادویہ مفت مہیا ہو جائیں اور ہومیو پیتھی ادویہ بنانے کا طریقہ بھی آجائے.جب یہ کام مکمل ہوگا تو

Page 728

خطبات طاہر جلد 16 722 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء انشاء اللہ تعالیٰ ہو میو پیتھی کا فیض جو سارے عالم پر محیط ہوگا اس سے بنی نوع انسان کی بڑی خدمت ہوگی اور غریب احمدی گھروں کے اوپر ایک احسان ہوگا کہ وہ مغرب میں بستے ہوں یا مشرق میں بستے ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنے علاج میں خود کفیل ہو جائیں گے.اس لئے یہ آخری بات ہے جو مجھے آپ سے کہنی تھی.اب خطبہ کا وقت ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی ہیں.اس میں میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ خطبہ میں میں نے جو گیمبیا کے متعلق جماعت کو خوشخبری دی تھی اگر چہ وہ بعینہ درست تھی ، لفظاً لفظ وہ اعلان جو حکومت گیمبیا کی طرف سے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخباروں کو دیا گیا تھا وہ میں نے جماعت کے سامنے رکھ دیا تھا.اس کا وہ حصہ جو اس بدبخت مولوی کی ذلت و رسوائی سے تعلق رکھتا تھا وہ جیسا اس وقت درست تھا ویسا اب بھی درست ہے اور گیمبیا کی حکومت کو یہ جرات نہیں ہے کہ اگر وہ مولوی بکواس کرے بھی تو اس کو شائع کروا کے خود اپنی ذلت کا سامان کرے.اس مولوی کو صدر کی طرف سے اور اس وزیر کی طرف سے جس نے ساری شرارت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ایسی گندی گالیاں پڑ چکی ہیں کہ جو مباہلہ اس پر ٹوٹا تھا وہ ٹوٹ گیا ہے بلکہ ٹوٹ پڑا ہے اور اب جو کچھ ہو کوئی اس تقدیر کو بدل نہیں سکتا.جو تبدیلی ہے وہ اور قسم کی ہے.تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ دنیا کو دکھانے کے لئے انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق ایسے ایسے اعلان کئے جن پر عمل کرنے کی ہرگز ان کی نیست نہیں تھی.حکومت صرف یہ چاہتی تھی کہ بڑی تشہیر ہوان باتوں کی گیمبیا میں اندر بھی اور باہر بھی جس سے ساری دنیا کے احمدی جو مشتعل ہو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور کہیں سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور وہ حکومتیں جو گیمبیا کی حیثیت کے متعلق متفکر تھیں اور افریقہ کی حکومتیں خاص طور پر جو گیمبیا کو بتارہی تھیں کہ تم اب درست ہو جاؤ ورنہ تم افریقہ کا حصہ نہیں رہو گے یا تمہیں لازماً انصاف کی حکومت کو قبول کرنا ہوگا اور یہ انصاف کا معاملہ اپنے تمام شہریوں سے برابر کرنا ہوگا یا پھر ان حکومتوں کی پیروی میں جو مذہبی انتہا پسند اور جنونی ہیں اپنا تعلق افریقہ کے ملکوں سے کاٹو اور جہاں جانا ہے چلے جاؤ.یہ دباؤ تھا جو بڑے زور اور شدت کے ساتھ افریقن ممالک اور ان کی حکومتوں نے گیمبیا کی حکومت پر ڈالا تھا اور بعض بیرونی مغربی ممالک بھی اس میں شامل تھے.ان کو دکھانے کی خاطر انہوں نے ٹیلی ویژن پر وہ ساری باتیں بیان کیں کہ ہم تو سو فیصدی سیکولر ہو چکے ہیں اور دیکھ لو

Page 729

خطبات طاہر جلد 16 723 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء ہم صرف جماعت احمدیہ کی تائید میں ہی بڑے عظیم مضبوط ارادے نہیں رکھتے بلکہ جماعت احمدیہ کے مخالفین کو ذلیل کرنے اور کچل دینے کے لئے ہم نے ایک عزم کر رکھا ہے اور یہ حکومت کا فیصلہ ہے، یہ ہماری کیبنٹ کا فیصلہ ہے.یہ اعلان ہو گیا اور وہاں کے امیر صاحب کو یہ اطلاع دی کہ کیبنٹ کا جو اصل فیصلہ ہے وہ تحریری طور پر آپ کو پہنچے گا.وہ فیصلہ جو پہنچا ہے وہ فیصلہ ہی اور ہے یعنی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ، اور کھانے کے اور ہیں.یہ محاورہ اگر کسی حکومت پر استعمال ہوسکتا ہے تو گیمبیا کی حکومت پر استعمال ہو سکتا ہے.مگر ہم یہ نہیں ہونے دیں گے.یہ سلسلہ پھر جاری ہو گیا ہے.تمام دنیا کی جماعتوں کو ان کے اس پر انے فیصلے سے جو اعلان ہوا تھا اس سے اور نئے فیصلے جس کی تحریری اطلاع ہمارے امیر کو دی گئی ہے اس سے ہم مطلع کریں گے.ابھی چند دن کی مہلت میں نے دی ہے کہ اگر گیمبیا کی حکومت اپنے رویے کو درست کرتی ہے اور یقین دہانی کراتی ہے کہ ہم سے کوئی ایسا معاملہ نہیں ہو گا جو پہلے کبھی نہیں ہوا.سینتیس سالہ تاریخ میں جماعت سے جو تعلق گیمبیا کی حکومت نے رکھا تھا اگر سو فیصدی یقین ہو جائے کہ وہی تعلق برقرار رکھے گی ، وہی سہولتیں ہمارے سارے ڈاکٹروں کو دے گی ، وہی سہولتیں ہمارے سارے اساتذہ کو دے گی اس یقین دہانی کے بعد ہم واپس جائیں گے لیکن اب اگر انہوں نے دوبارہ یہ کام نہ کیا تو پھر گیمبیا سے بیرون گیمبیا احمدی خدمت کرنے والوں کا تعلق ہمیشہ کے لئے کٹ جائے گا.پھر اللہ کی تقدیر جو چاہے ان سے سلوک کرے.جو انہوں نے کرنا ہے کریں ہمیں پھر اس کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں.جب وہ شرافت اور صبر اور برداشت کی کوئی قدر نہیں کرتے ، جب کہ سینتیس (37) سالہ خدمات کو انہوں نے خاک کی طرح یا جوتی کی نوک پر لیا ہے، اٹھا کے ایک طرف پھینک دیا ہے پھر جتنی چالا کیاں کر لیں وہ کسی اور سے کر سکتے ہوں گے ہم سے چالا کی نہیں کر سکتے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بالغ ، باشعور قیادت بخشی ہے ہرگز وہ کسی صورت میں بھی ہمیں دھو کہ نہیں دے سکتے.اب اگر انہوں نے فوراً اس شرارت کا ازالہ نہ کیا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکٹر جن کے میں نے وعدے کئے تھے کہ واپس جائیں گے، وہ بھی اب واپس نہیں جائیں گے.اس کی وجہ یہ ہے کہ واپس جانے کا جب میں نے وعدہ کیا عوام کی خاطر کیا تھا اور انہی عوام کی حکومت نے ان کے رستے میں روکیں ڈالیں اور اب ایسی شرطیں لگا رہے ہیں جس کے بعد ان کا جانا عزت کا جانا نہیں ہو سکتا.یہ وقت چاہتے ہیں تا کہ اس عرصے میں

Page 730

خطبات طاہر جلد 16 724 خطبہ جمعہ 26 ستمبر 1997ء امیر عرب ممالک اور پاکستان سے بے شمار مالی امداد حاصل کر لیں اور پھر جس قیمت پر ہم یہ خدمت کر رہے ہیں اس سے سینکڑوں گنا زیادہ خرچ کر کے یہ کیمبین عوام کے لئے کوئی انتظام کرسکیں.شرارت ساری یہ ہے.پس اب میں جماعت کو اتنا بتا تا ہوں باقی انشاء اللہ اگلے ہفتہ تک جو خبریں آئیں گی وہ میں دوں گا کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو ذلیل و رسوا کر دیا جس نے مباہلے کی برسر عام حامی بھری لیکن میں نے اس وقت بھی اشارہ کیا تھا کہ کچھ اور لوگ بھی اس کی پشت پر ہو سکتے ہیں اللہ ان کو جانتا ہے ان کو ہم حوالہ بخدا کرتے ہیں.یہ جو اشارہ تھا اسی غرض سے تھا کہ مجھے پتا تھا کہ کچھ شریر لوگ ہٹ گئے ہیں مگر ہیں شریر.پس یہ آخری موقع ہے.اگر وہ شرارت سے باز نہیں آئیں گے تو اپنے ملک کی خدمت میں جو چاہیں کریں.یمین احمدی ہمیشہ قانون کا فرمانبردار رہے گا سوائے اس کے کہ اللہ کے قانون سے ان کا قانون واضح طور پر ٹکرائے.پس یمین احمدیوں کے لئے آج کے بعد یعنی اگلے ہفتہ تک یہ صورت واضح ہو جائے گی یا تو کیمین احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کی پوری فتح کو دیکھیں گے یا ان کے مقدر میں پاکستانی احمدیوں کی طرح ایک انتظار ہوگا اور جس طرح پاکستانی احمدی ملک کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ دوسروں سے بڑھ کر کر رہے ہیں، ملک کے وفادار ہیں بلکہ دوسروں سے بڑھ کر وفادار ہیں، یمین احمدیوں کو بھی یہی کرنا ہوگا لیکن ان کو خدا اور خدا کے حکم سے ٹکرانے کا یا ان حکموں کو نظر انداز کرنے کا کوئی قانون جاری کیا گیا تو وہ اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہوں گے.مجھے یقین ہے کہ گیمبیا کے احمدی پوری طرح قربانیاں دیں گے اور پاکستان کے احمدیوں سے کسی قیمت پہ بھی پیچھے نہیں رہیں گے.اس اعلان کے بعد باقی باتیں انشاء اللہ اگلے خطبہ میں پیش کروں گا.اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں اور ایک دفعہ پھر ان غلطیوں کی معذرت ہے جو ہومیو پیتھی کے سلسلے میں مجھ سے سرزد ہوئیں.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

Page 731

خطبات طاہر جلد 16 725 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء جماعت احمدیہ کی مضبوط تربیت اپنی ذات میں ایک معمولی کشش کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گی ( خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 1997ء بمقام وینکوور.برٹش کولمبیا، کینیڈا) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج کا یہ جمعہ بھی ہم برٹش کولمبیا ہی میں پڑھ رہے ہیں اور یہ برٹش کولمبیا میں پڑھا جانے والا دوسرا جمعہ ہے.برٹش کولمبیا کی سیر کا بہانہ لطف الرحمن صاحب کی ایک دعوت بنی جنہوں نے ہمیں برٹش کولمبیا کے ساتھ واقع امریکن علاقہ جو سب سے زیادہ شمالی علاقہ کہلاتا ہے، اس کے دیکھنے کی دعوت دی.اس علاقے کے متعلق میں گزشتہ خطبہ میں کچھ بیان کر چکا ہوں.خوبصورت بھی ہے اور کئی جگہ خوبصورت نہیں بھی مگر خوبصورتی محدود ہے اور اگر چہ بہت غیر معمولی خوبصورتی بھی دیکھنے میں آئی مگر اس کے محدود ہونے کا احساس بھی ساتھ رہتا ہے.اس پہلو سے میں ان کو ، ان کے خاندان کو چھیڑ تا رہا کہ الاسکا کی وہ بات نہیں جو ناروے کی تھی حالانکہ بعض علاقے واقعی بہت خوبصورت تھے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ: ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور عالم میں تجھ سے لاکھ سہی ، تو مگر کہاں (الطاف حسین حالی) وہ آواز دل سے جہاں تک ناروے کے شمال کا تعلق ہے بار بار اٹھتی رہی مگر بہر حال الاسکا بھی ایک اچھا علاقہ ہے اور آپ میں سے جن کو توفیق ہو ان کو جانا چاہئے.بہت سے مقامات واقعہ

Page 732

خطبات طاہر جلد 16 726 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء دیکھنے کے قابل ہیں اور ان کی اپنی ایک تہذیب ہے ، اپنا ایک تمدن ہے، اپنا ایک جغرافیہ اور اس کی آب و ہوا.یہ عام حالات میں شمالی علاقوں سے بالکل مختلف ہے.بہر حال وہاں سے واپسی پر پھر ہمیں یہ برٹش کولمبیا دکھانے کے لئے لے گئے اور سب بچوں کی نظریں مجھ پرلگی ہوئی تھیں کہ اب بتائیں یہ ناروے سے زیادہ خوبصورت ہے کہ نہیں.میں ان سے کہتا رہا کہ میرا امتحان نہ لو اتنا ہی کافی ہے کہ بہت خوبصورت ہے.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ برٹش کولمبیا کے وہ علاقے جو میں اب تک دیکھ چکا ہوں ان کی البرٹا کے خوبصورت علاقوں سے کوئی بھی نسبت نہیں.البرٹا میں جو کیلگری کے گرد علاقہ ہے اور اسی میں سے ایک جس پر پارک بھی ہے Banff کا علاقہ ہے ان علاقوں کی جب ہم نے سیر کی تھی تو ہماری فیملی ہمارے بچوں نے اس کا نام ” ناروےٹو (Two) رکھا ہوا تھا اور غیر معمولی حسن ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی شان، اس کی صنعت اس حیرت انگیز طریق پر ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کو کچھ کہنے کی بھی سکت باقی نہیں رہتی کہ یہ کیا چیز دیکھ رہے ہیں.مگر وہاں پھر کر گہرائی سے دیکھنا چاہئے.بڑی سڑکوں سے گزرنے سے خوبصورتی تو دکھائی دے گی مگر علاقے کی اصل شان نظر نہیں آتی.تو اس پہلو سے میں اس خاندان سے معذرت کے ساتھ ایک دفعہ پھر یہ عرض کروں گا کہ آپ وہ بھی دیکھ لیں جو ہم نے دیکھا ہوا ہے جس کی یادیں بار بارستاتی ہیں پھر بعد میں کسی وقت مقابلے ہوں گے.برٹش کولمبیا کی ایک شان تو بہر حال ماننی پڑتی ہے کہ یہ اتنی بڑی ریاست ہے کہ سارے پاکستان سے اس کا رقبہ زیادہ ہے اور امریکہ کی تین مشہور ریاستوں سے بھی ، ان کے اجتماعی رقبے سے اس کا رقبہ زیادہ ہے.اس پہلو سے میں نے جو جائزہ لیا تھا اس کی تفصیل یہ بنتی ہے کہ برٹش کولمبیا نو لاکھ سینتالیس ہزار آٹھ سو مربع کلومیٹر پر پھیلی پڑی ہے.پاکستان کا کل رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار پچانوے کلومیٹر ہے.اس میں کشمیر کا علاقہ یا نصف کشمیر جو کل کشمیر کا حصہ ہے اسے شامل کریں تو وہ نولاکھ سات ہزار مربع کلومیٹر بنے گا.جب کہ برٹش کولمبیا نولا کھ سینتالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے.یونائیٹڈ سٹیٹس کی جو تین ریاستیں میں نے بیان کی تھیں ان میں ایک کیلیفورنیا ہے جو بہت بڑی اور وسیع ریاست ہے اور معدنی خزائن اور اور بہت سے زرعی خزائن کے لحاظ سے یہ امریکہ کی چوٹی کی ریاست ہے جو امریکہ کو سبزیاں اور پھل اور گوشت مہیا کرتی ہے اور مچھلی بھی اور بہت

Page 733

خطبات طاہر جلد 16 727 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء پھیلی پڑی ہے، اس کو اور اس کے ساتھ واشنگٹن سٹیٹ کو اور اور بیگن سٹیسٹ کو ملا لیں تو ان سب کا رقبہ یل کر برٹش کولمبیا سے پیچھے رہے گا.پس اس پہلو سے برٹش کولمبیا کے رہنے والوں کو مبارک ہو کہ ایک بہت بڑی ریاست کے باشندے ہیں.اس مختصر جغرافیائی ذکر کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف واپس لوٹتا ہوں.بہت کچھ دیکھا، بہت ہی خوبصورتی کے ایسے مواقع تھے جن میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی صنعت کا دل پر گہرا اثر پڑا اور یہ سفر خوشگوار گز را کیونکہ خوبصورتی بھی تھی اور چھیڑ چھاڑ بھی تھی اور ان بچوں کی نظر جب بھی کوئی خوبصورت جگہ آتی میری طرف اٹھتی تھی کہ دیکھیں اب کیا کہتے ہیں.میں کہتا ہاں بہت اچھی جگہ ہے، مگر مگر سنتے ہی ان کی نظریں نیچی ہو جاتی تھیں.بہت مگر مجھ سے سن چکے ہیں مگر واقعہ جگہیں اچھی بھی تھیں اور اس کا اقرار مجھ پر فرض ہے.اس سفر میں جو بہت بڑے فوائد پہنچے ان میں سے ایک وینکوور مسجد کا فائدہ ہے جو میں احباب کو بتا تا ہوں.وینکوور مسجد کے متعلق میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ لطف الرحمن صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں، خودا کیلے ہی اس مسجد کو بنائیں لیکن ابھی کچھ تھوڑ اسا مشروط وعدہ تھا.اس لئے میں نے گزشتہ سے پیوستہ خطبہ میں اس کا ذکر نہیں کیا لیکن خود جمعہ سے واپسی پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے تو پکا ارادہ ظاہر کیا تھا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور مجھے توفیق ملے اور انہوں نے کہا کہ میرے والد کی یہی خواہش تھی اس لئے میں اس وعدے کو پختہ کرتا ہوں.یہ ساری مسجد جتنی بھی بڑی ہو وہ اکیلے مجھے بنانے کی اجازت ہونی چاہئے.اس ضمن میں میں نے غور کے بعد یہی فیصلہ دہرایا ہے جو ہمیشہ میں ایسے موقع پر کیا کرتا ہوں.مساجد کی تعمیر میں کسی ایک شخص کے سپر د کلیۂ اس کی مالی ذمہ داری میں کبھی نہیں کرتا اس شرط کے ساتھ کہ دوسرے حصہ نہ لے سکیں.اللہ کے گھر کی تعمیر میں حصہ لینا ایک بڑی سعادت ہے.چنانچہ ہمیشہ گزشتہ فیصلوں میں میں نے یہی آخری نتیجہ نکالا تھا کہ ایک شخص کو اجازت ہو جس حد تک اس کی تعمیر کی آخری ضرورت ہے وہ پوری کرنے کے لئے تیار رہے مگر اگر باقی جماعت حصہ لینا چا ہے تو اس کو میں روک نہیں سکتا.تو اس شرط کے ساتھ میں اس وعدے کو منظور کرتا ہوں کہ وینکوور ہو یا کینیڈا کی دوسری جماعتیں یا امریکہ کی ریاست کی دوسری جماعتیں وہ اگر اپنے شوق سے سعادت کی خاطر اس میں کچھ

Page 734

خطبات طاہر جلد 16 728 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء حصہ لینا چاہیں تو ان کو اجازت ہے اور ان کو خوش آمدید کہتا ہوں.چنانچہ میں نے بھی ذاتی طور پر اس میں تبر کا کچھ حصہ ڈالا ہے مگر شرط وہی ہے کہ اگر جماعت ایک پیسہ بھی نہ دے تو لطف الرحمن صاحب انشاء اللہ اکیلے ہی اس مسجد کی تعمیر کریں گے اور جو روپیہ جماعت دے گی اسے مسجد میں ڈال کر باقی ضرورتیں انہی کی طرف سے پوری کی جائیں گی.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزاء دے اور جماعت میں ایسے مخلصین بہت پیدا فرمائے جو بڑے بڑے کاموں کوا کیلے سنبھال لیں.اس ضمن میں ایک عرض میں یہ کرنی چاہتا ہوں کہ جماعت کینیڈا کی مالی قربانی میں میں نے اس دفعہ بہت نمایاں فرق دیکھا ہے.اس پہلو سے کہ پہلے بعض اکیلے اکیلے ایسے لوگ جو متمول تھے وہ ان کی ضرورتیں پوری کر دیا کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ جماعت کا چندہ کافی ہو گیا.میں نے امیر صاحب کو چند سال پہلے توجہ دلائی تھی کہ ہمیں لوگوں کی ذات میں دلچسپی ہے نہ کہ مال میں دلچسپی.اگر سارے افراد جماعت مالی قربانی میں پیش پیش نہ ہوئے تو بڑا بھاری نقصان ہے.چند عمارتیں مکمل ہونا یہ کوئی اخلاص کی نشانی نہیں، چند آدمیوں کے اخلاص کی نشانی ہے مگر جماعت محروم رہے گی اور اس کی دینی تربیت میں بھی فرق پڑے گا.اس لئے آپ یہ زور دیں کہ ہر فرد بشر مالی قربانی میں شامل ہو.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے اس دورے میں بہت نمایاں فرق دیکھا ہے.اور ملاقات کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ ملاقات کی جو فہرستیں تیار ہوتی ہیں ان میں میری ہدایت کے مطابق اس شخص کی مالی قربانی کا ذکر موجود ہوتا ہے.بہت کم ایسے احباب تھے جو مالی قربانی میں معیار سے گرے ہوئے تھے نسبت کے لحاظ سے بہت کم تھے لیکن ان کا بھی اخلاص بہر حال خدا تعالیٰ کے فضل سے بلند تھا.جس کو بھی میں نے توجہ دلائی اس نے بلا تاخیر وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی اس معاملے میں مجھے ان سے شکایت نہیں ہوگی.پس جماعت کینیڈا کا مالی نظام معلوم ہوتا ہے مستحکم ہو چکا ہے.اس ضمن میں جو غیر معمولی اخلاص سے خدمت کرنے والے لوگ تھے جنہوں نے شروع میں بہت بوجھ اٹھائے ان میں سے ایک ایسا ذکر ہے جو میں اپنے طور پر کر رہا ہوں.ان صاحب کی ہرگز خواہش نہیں ہوتی کہ ان کا نام بتایا جائے مگر ان کے کچھ ایسے حالات ہیں، بیٹے کی وفات کی وجہ سے غم کے حالات، کہ وہ خاندان آپ کی دعاؤں کا محتاج ہے.میری مراد چوہدری الیاس صاحب.کے اندر ایک ایسی خوبی پائی جاتی ہے جو میں ہمیشہ چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم کے متعلق بیان ان

Page 735

خطبات طاہر جلد 16 729 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء کرتا رہا ہوں.حضرت چوہدری شاہنواز صاحب کی ایک ایسی عظیم خوبی تھی ، خاموش اور دکھاوے سے بالکل پاک، کہ جن لوگوں کو وہ اپنے کاموں میں تربیت دیتے تھے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ وہ اپنا الگ کام بنائیں اور کبھی بھی ان سے ادنی سا بھی حسد محسوس نہیں کیا.چنانچہ جماعت میں بہت بڑے بڑے ایسے قربانی کرنے والے لکھ پتی، بعض اب کروڑ پتی ہو چکے ہیں ، وہ سب چوہدری شاہنواز صاحب کی اس خوبی کا ثمرہ ہیں اور میں ہمیشہ بڑی عزت کی نگاہ سے اس بات کو دیکھتا تھا کہ خود ہی امیر نہیں بلکہ دوسروں کو امیر بنانے کے لئے ایک دلی تمنار کھتے تھے اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ آزاد ہو جاتا تھا.یہی خوبی الیاس صاحب میں بھی میں نے دیکھی ہے اور شروع سے ہی میری اس بات پر نظر تھی کہ یہ ایسے احمدی دوستوں کو تربیت دیتے رہے جن میں انہوں نے مادہ پایا اور تربیت دینے کے بعد ان کو اسی کام میں جو ان کا اپنا تھا آزاد چھوڑ دیا اور قطعا ذرہ بھی رقابت محسوس نہیں کی.چنانچہ لطف الرحمن صاحب جن کا ذکر بار ہا آچکا ہے وہ انہی کی اسی خوبی کا ثمرہ ہیں.شروع میں ان کو جو آئل فیلڈز وغیرہ کے معاملات میں یعنی تیل کے سرچشموں کو استعمال کرنے اور ان کی فنی ضرورتوں کو مہیا کرنے میں چوہدری الیاس صاحب نے بہت کام کیا ہے.اسی طرح ہمارے ایک اور مخلص دوست ہیں وسیم صاحب ان کو بھی چوہدری الیاس صاحب ہی نے بنایا اور وسیم نے بھی بعض ایسے کام خود اپنے ذمے لئے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت قربانی کا ایک مقام رکھتے ہیں.مشرقی یورپ میں مساجد کی تعمیر کے لئے انہوں نے پندرہ لاکھ ڈالر اپنی طرف سے پیش کئے اور اصرار کے ساتھ منوا کر چھوڑا.اس میں بھی شرط یہی تھی کہ دوسرے بھی چندے دیں میں انکار نہیں کروں گا.چنانچہ اللہ کے فضل سے اب وہ رقم سب چندے ملا کر تمیں لاکھ ڈالر سے بڑھ چکی ہے اور اسی قدر ہماری ضرورتیں بھی بڑھ چکی ہیں.تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے حیرت انگیز کام دکھا رہا ہے.اسی ضمن میں ایک اور بات بھی میں آپ کو بتاؤں کہ جو کتاب میری اس وقت زیر نظر ہے یعنی جس کا ذکر میں بار بار کرتا رہا ہوں وہ دراصل میری ساری زندگی کے حصول علم کا ایک خلاصہ ہے اور وہ خلاصہ آج کل کے زمانے کی ضرورتوں کے اوپر بعینہ اطلاق پاتا ہے.اس پر میں اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اس کتاب کی طرف غیر معمولی توجہ کا سبب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر ہے جو میں آپ کے سامنے پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ میں سے جو بھی

Page 736

خطبات طاہر جلد 16 730 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء توفیق پائے اس کے او پر پورا اترنے کی کوشش کرے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” میری یہ باتیں اس لئے ہیں کہ تائم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو ان باتوں پر عمل کرو اور عقل اور کلام الہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندر پیدا ہوا اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو.اس لئے کہ آج کل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ: 43) یہ وہ بنیادی بات ہے جس کے متعلق ضرورت تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے ان مضامین پر ایک ایسی کتاب لکھی جائے جو دنیا کے اہل علم کو قرآن کی سچائی کا قائل کر سکے اور ان کے پاس جواب نہ رہے.یہ کام پہلے میں تحریک کرتا رہا ہوں کہ جماعت کے دوسرے مختلف اہل علم سنبھالیں لیکن غالبا ان کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ قرآن کا علم بھی ساتھ ہونا ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عارفانہ کلام کا علم بھی ضروری ہے اور دنیا کے ان مضامین کا علم بھی ضروری ہے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین لفظوں میں بیان فرما دیا.طبعی ، طبابت اور ہیئت.یہ تین سائنسیں ایسی ہیں جو سائنس کے ہر مضمون پر حاوی ہیں.پس آپ نے فرمایا ان پہلوؤں سے جو اعتراض وارد ہوتے ہیں لازم ہے کہ ان کا جواب دیا جائے.اس لئے لازم ہوا کہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں.اب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک احسان رہا ہے مجھ پر کہ باوجود ان پڑھ ہونے کے ان علوم کی طرف بچپن ہی سے مجھے توجہ رہی ہے اور ہمیشہ جب بھی کسی رسالے میں یاکسی کتاب میں ایسے علوم جو سائنس کی گہرائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے جیسے کم علم آدمی کے لئے بظاہر ان کا سمجھنا ممکن نہیں تھا، مگر اگر دلچسپی ہو تو سائنس کے علوم بہت گہرائی سے سمجھ آتے ہیں، پس ہمیشہ سے

Page 737

خطبات طاہر جلد 16 731 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء مجھے دلچپسی رہی اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ان علوم کی گہرائی تک اترنے میں میں نے صرف کیا لیکن علم نہیں تھا کہ کیوں ایسا کر رہا ہوں.اب جب یہ کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئی تو میں حیران ہوا کہ وہ ساری باتیں جو میں نے چالیس چالیس سال پہلے پڑھی ہوئی تھیں ان سب کی مجھے ضرورت تھی.پس ساری زندگی کے میرے علم کی جستجو کا یہ ماحصل ہے اور اس پہلو سے مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ جب بھی کسی متعلقہ حصے کو اس علم کے ماہر کو دکھایا گیا اس نے کبھی اس پر ایسا اعتراض نہیں کیا کہ تم اس کو سمجھ نہیں سکے، اصل مراد کچھ اور تھی.بہر حال اس کتاب کے متعلق میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ : سپردم به تو مایه خولیش را تو دانی حساب کم و بیش را (شرف نامه نظامی از نظامی گنجوی) کہ اے اللہ تیرے سپرد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک خواہش کا اظہار ہے، ایسا اظہار ہے جو دنیا پر قرآن کی برتری کو ثابت کرنے والا ہے اس لئے اگر کچھ کمزوری ہوگئی ہے اور ہوئی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس سے صرف نظر فرمائے اور آئندہ اسے بہتر بنانے کی توفیق ملے.اس سلسلے میں ایک واقعہ جو بیان کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ مجھے یہ خواہش ہوا کرتی تھی کیونکہ یقین تھا کہ دنیا کو اس کتاب کی ضرورت ہے کہ اگر مجھے ایک لاکھ ڈالرمل جائے تو اس کی وسیع اشاعت کے لئے اور غیروں تک ، ماہرین تک اس کتاب کو پہنچانے کے لئے مجھے بہت اچھی ابتداء ہل جائے گی یعنی آغاز اس کا اچھا ہو جائے گا اور اپنی اس خواہش کا کبھی نہ کسی سے ذکر کیا، نہ ارادہ تھا لیکن کل آتے ہوئے موٹر میں ایک خط میرے نام تھا لطف الرحمن صاحب کا ، اس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے والدین کی طرف سے اور اپنی طرف سے ایک لاکھ ڈالر اس طبع ہونے والی کتاب کے لئے پیش کروں.اب ایک لاکھ ڈالر کا ویسے تو عدد ایسا ہے جس کی خاص ذکر کی ضرورت نہیں تھی ، جماعت ماشاء اللہ اب کروڑوں سے اربوں میں پہنچ رہی ہے.مگر یہ ایک لاکھ ڈالر مجھے بہت پسند آئے کیونکہ ایک خواہش کا اظہار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اس طرح پورا فرمایا.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک رنگ میں ایک غیبی تائید بھی ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ اب جلد، بہت جلد یہ کتاب طبع ہو کر سامنے آجائے گی.اس ضمن میں کل ہی مجھے ایک کتاب ملی ہے جو رفیع صاحب جو

Page 738

خطبات طاہر جلد 16 732 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء کیلیفورنیا سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے بھیجی ہے.میرے علم میں قطعی طور پر یہ نہیں آسکے وہ کون سے رفیع صاحب ہیں مگر ایک مخلص احمدی نوجوان ہیں اور انہوں نے کتاب بھیجی ہے جس کا عنوان ہے.Darwin's Black Box یعنی ڈارون کا کالا بکس اور یہ میکائیل جے بے (Micheal J.Behe) ہے کی لکھی ہوئی کتاب ہے.اس کتاب کا تعلق اسی مضمون سے ہے جو میری کتاب کے مضمون کا ایک حصہ ہے یعنی ساری کتاب سائنس سے تعلق نہیں رکھتی محض ایک حصہ ہے جو تعلق رکھتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس پہلو سے شہرت پاچکی ہے.مگر میں رفیع صاحب سے درخواست کروں گا کہ آپ کا شکریہ.میں نے عمداً ایسی تمام کتابیں نہیں پڑھیں ، ایک بھی نہیں پڑھی کیونکہ میں لوگوں کی محنت سے فائدہ اٹھانا یا ان کی محنت چرانا نہیں چاہتا تھا اور خاص طور پر قرآن کے ساتھ تعلق کے لئے کتاب تھی اس لئے جو کچھ مجھے ذاتی طور پر قرآن اور سائنس میں رابطہ محسوس ہوا وہی میں نے لکھا ہے.اس معاملے میں ڈارو ینین ازم کے خلاف بہت کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن میں نے ان میں سے ایک بھی عمد ا نہیں پڑھی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان کی ایک طرز عمل اپنی سی ہوگی اور اس کتاب میں جوطرز عمل اختیار کی گئی ہے وہ بالکل اپنی سی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جب یہ کتاب طبع ہوگی تو رفیع صاحب بھی اسی نتیجے پر پہنچیں گے.بہر حال نتیجہ کچھ بھی ہو یہ خالصہ للہ ایک کوشش ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں ضرور علمی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگایا ہیجان بر پا ہوگا.جہاں تک جماعت احمدیہ کینیڈا کے تاثرات ہیں ان میں سے ایک تاثر منفی بھی ہے.مالی لحاظ سے خدا کے فضل سے جماعت نے بہت ترقی کی ہے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں لیکن تربیت کے لحاظ سے ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے.مجھے جو خاندانوں سے ملاقات کے فائدے پہنچتے ہیں ان میں ایک یہ فائدہ بھی ہے کہ میں نوجوان بچیوں اور بچوں کے آثار سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ ان کا رخ کس طرف ہے.اس دفعہ جو خاندانی ملاقاتیں ہوئی ہیں ان میں خصوصاً احمدی بچیوں کی طرف سے میرے دل کو بہت دکھ پہنچا ہے کیونکہ ان کی طرز ہی ایسی تھی جیسے وہ باہر کا راستہ اختیار کر چکی ہیں.ان کی سجاوٹ ، سج دھج اور لباس کی طرز اور پھر بے پردگی، یہاں تک کہ سر سے پلوڈھلکتا تھا تو ماں توجہ دلاتی تھی کہ اس شخص کے سامنے نہ کرو.یعنی گویا باہر ویسے پھرتی رہو کوئی اعتراض نہیں مگر

Page 739

خطبات طاہر جلد 16 733 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء میرے سامنے سر ڈھانپ کر بیٹھو.یہ درست طریق نہیں ہے.یہ حقیقت میں تقویٰ کے خلاف بات ہے.جس حالت میں آپ ہیں اسی حالت میں میرے سامنے آئیں.معمولی ادب و احترام اپنی جگہ ہوا کرتا ہے لیکن اس قسم کے سرڈھانکنے سے بات نہیں ڈھک سکتی.جو حقیقت ہے وہ تو مجھ پر فوراً ظاہر ہو جاتی ہے.نظر ڈالتے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ بچیاں ہماری رہی بھی ہیں کہ نہیں.غیروں کی تو نہیں ہو چکیں اور افسوس کی بات ہے کہ ماں باپ کو بچپن سے ہی ان کے حالات دیکھنے کے باوجود اس طرف توجہ نہیں ہوئی اور یہی کافی سمجھتے رہے کہ دینی علم نہ سہی، دنیاوی علم میں بڑی ترقی کر رہی ہیں اور بڑی سمارٹ ہیں اور سکول و کالج میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں.یه درست ہے کہ ہر جگہ پر دے کو انتہائی شدت سے نافذ نہیں کیا جاسکتا لیکن دوسری تہذیب سے متاثر ہو کر اگر آپ اپنی اعلیٰ اقدار کو چھوڑ دیں اور اپنی بچیوں اور بچوں کو غیروں کی طرف جانے دیں تو آپ کا مستقبل لٹ جائے گا، کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.سکھوں سے فائدہ اٹھائیے.دیکھو سکھوں کی پہلی نسل نے اپنی قدیم روایات کو مضبوطی سے پکڑا ہے.ایک ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کی کہ ان کی پگڑیاں اور ان کی ڈاڑھیاں ان کے متعلق دنیا پہ کیا تاثر پیدا کرتی ہیں.نتیجہ یہ نکلا کہ ساری دنیا اس پہلو سے ان کی عزت پر مجبور ہے اور کبھی کسی جگہ بھی ان کو قدامت پسند نہیں سمجھا گیا.انہوں نے اپنا مقام پیدا کر لیا ہے معاشرے میں لیکن ان کے بعد کی جو نسلیں ہیں ، ایک نسل چھوڑ کر دوسری نسل وہ اس پہلو سے بزدلی دکھا گئیں.اب اگر آپ ان کی نسلوں کے بچوں کو یہاں دیکھیں تو کچھ بھی انہوں نے ماضی کا باقی نہیں رہنے دیا.بظاہر صرف پگڑی اتاری ہے اور ڈاڑھی مونڈی ہے مگر اس روایت نے ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور دیگر ایسی خوبیوں کو جس کے ذریعہ سے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی دولت کمانے کے اہل تھے ان کو ملیا میٹ کر دیا ہے.بعض روایتیں پکڑنی چاہئیں.اس پہلو سے کہ وہ ہمارے اندرونی کردار کی حفاظت کرتی ہیں.اس پہلو سے لباس بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے.اگر لباس ایسا ہو کہ جیسا معاشرے میں غیر ذمہ دار لوگوں کا لباس ہوا کرتا ہے تو اس تھوڑے سے فرق کے نتیجے میں بھی آپ کی تمام سابقہ روایات ملیا میٹ ہو سکتی ہیں.پس یہ پہلو ایسا ہے جس میں میں سمجھتا ہوں کہ اگر وینکوور کا یہ حال ہے تو ٹورانٹو کا بھی ایسا ہی ہوگا اور باہر سے آنے والے دوسرے لوگوں کے اوپر اسی بیماری نے حملہ کیا ہوگا.

Page 740

خطبات طاہر جلد 16 734 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء بعض جگہ میں نے دیکھا اور سمجھایا بھی ایک دفعہ پھر اب میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ طریق درست نہیں ہے.یہ دین کے لحاظ سے بہت نقصان دہ ہے.آپ غیروں کو تو اپنی طرف کھینچیں یعنی آپ میں سے وہ جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ہیں، جتنا چاہیں غیروں کوکھینچیں اگر اپنے بچے ہاتھوں سے نکل رہے ہوں تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا.آپ کی نسلیں برباد ہو جائیں گی.آج نہیں تو دو دھاگوں کے اندر آپ کچھ اور کیفیت پائیں گے.ایسے احمدیوں سے ہمیں ایک ذرہ بھی دلچپسی نہیں جو اس طرح باہر کی طرف بے لگام دوڑے پھرتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ سب سے بنیادی کمزوری نفسیاتی کمزوری ہوا کرتی ہے.اگر آپ کسی غیر معاشرے سے متاثر ہو جائیں اور یہ سمجھ لیں کہ وہ ایک غالب معاشرہ ہے تو وہیں اس بات کا فیصلہ ہو جاتا ہے کہ آپ کی اقدار نے زندہ رہنا ہے کہ نہیں.پھر رفتہ رفتہ آگے بڑھیں یا تیزی سے آگے بڑھیں یہ محض وقت سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.حقیقت میں ایک دفعہ کسی کا دل نفسیاتی دباؤ میں آجائے اور یہ سمجھ لے کہ غیر اقدار ہم سے زیادہ اعلیٰ اور زیادہ پسندیدہ اقدار ہیں تو وہیں ان کا دین ختم.پھر آگے وقت کی بات ہے کہ کتنی دیر میں ہلاکت کی طرف سفر مکمل ہوگا.مگر وہ قدم ہمیشہ بیرونی سمت میں اٹھتے چلے جاتے ہیں پھر ان کی واپسی کم دیکھی گئی ہے.اس لئے سب سے پہلے نفسیاتی طور پر خود داری پیدا کریں اور اپنے خاندانوں کو یہ سمجھائیں کہ تمہاری اقدار ذلت کے ساتھ دیکھنے والی اقدار نہیں ہیں بلکہ عزت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے والی اقدار ہیں.بعض ماں باپ سمجھتے ہیں کہ اب ان بچیوں کو کیسے ہم پردہ کروائیں، برقعہ اوڑھا ئیں.برقعے کی بات تو بہت دور کی بات ہے میں ان سے یہ کہا کرتا ہوں کہ جب باہر نکلیں تو قرآن کی بنیادی تعلیم پر عمل کریں.جو خدا تعالیٰ نے ان کو خوبصورتی عطافرمائی ہے اس کو دکھا ئیں تو نہ.اس کو دکھا کر لوگوں کی توجہ اپنے بدن کی طرف کیوں پھیرتی ہیں.یہ ایک قسم کی پیشکش ہے کہ آؤ اب مجھے چھیڑو.آؤ مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اکثر ایسی بچیاں پھر واقعہ عملاً اپنے آپ کو غیروں کے لئے پیش کر دیا کرتی ہیں کیونکہ غیروں کی لالچ کی نظر ان پر پڑتی ہے اور لالچ کی نظر ڈالنے والے سو ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور پھر آخر ان بچیوں کو جیت جایا کرتے ہیں.تو یہ ایک بہت خطر ناک بات ہے جس کو آپ یعنی مائیں معمولی سمجھ رہی ہیں.اگر برقعہ نہیں اوڑھاسکتیں تو ان کو یہ

Page 741

خطبات طاہر جلد 16 735 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء بتائیں کہ تم اپنے جسم کی اور اپنے حسن کی حفاظت کرو.ایسالباس اوڑھو جس کی وجہ سے غیر کو دلچپسی پیدا نہ ہو.اگر نگا یہاں کا لباس لے کے نکلیں گی تو لازما غیروں کی نظر اپنی طرف کھینچیں گی.دوسرا ان کو یہ سمجھانا چاہئے کہ ارد گرد کی دنیا بالکل بے حقیقت اور بے معنی چیز ہے.جو بدنی دلچسپیاں ہیں انہوں نے قوم کو تقریباً ہلاک کر دیا ہے.سب سے خطرناک بیماریاں، غلیظ گندی بیماریاں اس قوم میں اس کثرت سے پھیل رہی ہیں کہ آپ ان کا شمار نہیں کر سکتے.ایسے بعض خاندان جنہوں نے اس بات کی پروا نہیں کی ان کو یہ بیماریاں لاحق ہوئیں اگر چہ بہت کم لیکن سمجھ آجاتی ہے کہ اس کا پس منظر کیا ہے.چند دن کی زندگی ہے یہ عیش و عشرت کی.اس کے بعد ان کے بڑھے ہسپتالوں میں جان دیتے ہیں یا اولڈ پیپلز ہومز (Old Peoples Homes) میں جا کے جان دیتے ہیں.دس پندرہ سال کا کرشمہ ہے بس اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور جب واپسی ہوگی تو سخت حسرت کے ساتھ واپسی ہوگی، کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا اور واپسی ضرور ہے لازماً ہم سب نے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے اور سب کچھ گنوا کر ، کھو کر اگر حاضر ہوئے بھی تو پھر آئندہ دنیا میں یہاں کی زندگی کے عمل کچھ بھی کام نہیں آئیں گے.اگر کام آئیں گے تو منفی صورت میں کام آئیں گے.پس اس پہلو سے میں ایک دفعہ پھر آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ تربیت کی طرف پوری توجہ کریں اور امیر صاحب کینیڈا کا فرض ہے کہ وہ ہر جگہ تربیتی کمیٹیاں مقرر کریں.وہ گہرا تجزیہ کریں اور محض ظاہری طور پر یہ توجہ نہ دلائیں کہ جی برقعہ اوڑھو، پردہ کرو بلکہ دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں.یہ تبدیلیاں پیدا کرنے میں MTA بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے.اس کا ہم نے انگلستان میں عملاً تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ شروع میں بعض شہروں میں بڑی کثرت کے ساتھ ایسے گھر تھے جن میں MTA کا انٹینا نہیں لگا ہوا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں کچھ بھی نقصان نہیں ہے.صرف چند ایک تھے.اللہ تعالیٰ جزاء دے انصار اللہ کے اس وقت کے صدر صاحب کو انہوں نے یہ مہم اپنے ذمہ لی اور اس سکیم کو کامیاب کرنے کے لئے کچھ قرضے بھی ان کو میں نے مہیا کئے.ہر شہر، ہر گھر میں MTA کا انٹینا لگ جائے اور اللہ کے فضل سے بڑی بھاری اکثریت کے گھروں میں یہ انٹینے لگ چکے ہیں اور ان کے خاندانوں کی کایا پلٹ گئی ہے.ان کے بڑے بھی اور ان کے بچے بھی جن کا کوئی بھی جماعت سے تعلق نہیں تھا بے اختیار جماعت کے اوپر الٹے پڑتے ہیں.اب یہاں بھی کل آپ نے وہ نغمہ سنا تھا

Page 742

خطبات طاہر جلد 16 736 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء جو غالباً سردم سارا چھی چھی ائے وہ یہاں کی بچیوں نے MTA سے سیکھا تھا اور اس کا بہت اچھا اثر طبیعت پر پڑا لیکن یہ ایک واقعہ نہیں امریکہ میں میں نے بارہا دیکھا کہ وہاں MTA کا اس سے بھی زیادہ گہرا اثر پڑ چکا ہے اور بچیوں کی کایا پلٹ گئی ہے.وہ بیرونی دنیا کو چھوڑ کر جماعت کے اندر کی طرف سفر اختیار کر چکی ہیں.تو تربیت محض یہ کہنے سے نہیں ہوگی کہ اچھے کام کیا کرو، برے کام چھوڑ دو کیونکہ اس نصیحت سے بعض دفعہ طبیعتیں اور بھی متنفر ہو جاتی ہیں.تربیت کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے.عقل سے کام لیں اور بچوں کے دلوں میں وہ ہیجان پیدا کریں جو ہیجان ان کو واپس خدا کی طرف کھینچ لائے.اگر ایسا کرنے میں آپ کامیاب ہو جائیں جو مشکل کام نہیں رہا اور MTA اس میں انشاء اللہ آپ کی مددگار ہوگی تو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں فرق پڑے گا.اس کا ایک تجربہ میں نے اپنی ملاقاتوں کے دوران کر کے دیکھا.جن بچوں یا بچیوں کے متعلق محسوس ہوا کہ وہ گویا ہمارے نہیں رہے، ان سے ضمنا میں نے پوچھا کہ MTA بھی آپ کبھی دیکھتے ہیں تو جواب ملا کہ ہمارے گھر میں ہے ہی نہیں.صاف پتا چلا کہ MTA کے ہونے اور نہ ہونے کا ایک فرق ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو تربیت کی توفیق بخشے.تبلیغ کی طرف توجہ دینے کی بھی بہت ضرورت ہے مگر اس تربیتی حالت میں آپ کیا توجہ دیں گے.جب تک تربیت کی حالت بہتر نہ ہو لوگوں کو ایسے گھروں میں داخل کرنا جو خود بے دین ہو رہے ہوں ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا.جماعت کی تربیت مضبوط کریں اور وہ مضبوط تربیت اپنی ذات میں ایک غیر معمولی کشش کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گی.آج تبلیغ کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اپنے اندر روحانی عادات پیدا کریں.اللہ سے تعلق اور محبت پیدا کریں اور وہ ایک ایسی کشش ہے جس کا مقابلہ بیرونی دنیا نہیں کر سکتی.وہ کشاں کشاں چلے آئیں گے اگر آپ کے اندروہ خدائی علامات دیکھیں گے.پس صرف بچوں کی تربیت کی طرف نہیں اپنی تربیت کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ کریں.جس ہو میو پیتھی کتاب کا میں ذکر کرتا رہا ہوں اس سلسلے میں کینیڈا کے سفر کا میرا خیال ہے ساری دنیا پر یہ احسان ہوگا کہ اس سفر میں مجھے یہ کتاب پہلی دفعہ دیکھنے اور پڑھنے کی توفیق ملی.ایک

Page 743

خطبات طاہر جلد 16 737 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء خطبے میں میں نے کہا تھا کہ سید عبدالحئی صاحب ناظر تالیف و تصنیف انشاء اللہ اس کی درستی کر سکیں گے.مگر مجھے اس وقت علم نہیں تھا کہ اس میں کون سی چیزیں ایسی ہیں جن کی درستی مطلوب ہے.حقیقت یہ ہے کہ اتنی خوفناک غلطیاں ہیں اور ایسی خوفناک علمی غلطیاں بھی ہیں جو لفظ ” نہ کے ہونے یا نہ ہونے سے ( یعنی کسی چیز کے اثبات کی بجائے نفی استعمال ہو گئی ہے) بات کچھ کی کچھ بن گئی ہے.میں تو حیران ہو کے دیکھتا ہوں جماعت احمدیہ کو کہ محض اس لئے کہ مجھے تکلیف نہ ہو مجھے اطلاع تک نہیں دی کہ اتنی خوفناک غلطیاں اس کتاب میں ہیں.بہت سے ایسے مضامین ہیں جو مجھے بھی سمجھ نہیں آ رہے تھے کہ میں نے کب کہے تھے، ان کا مطلب کیا ہے.اس میں مجھے بہت وقت لگا، بہت غور سے بار بار پڑھا پھر سمجھ آئی کہ او ہ غلطی اس وجہ سے ہوئی ہوئی ہے لیکن صرف یہی غلطی نہیں عام زبان کی غلطیاں بھی بے شمار ہیں.اس لئے ناممکن ہے کہ سید عبدالحئی صاحب ہوں ان کی کوئی اور علماء کی ٹیم جو اس کتاب کو ٹھیک کر سکے.لکھنے والوں نے یہ ظلم کیا ہے کہ مجھے یہ کہا کہ دہرائی بھی بہترین ہو گئی ہے کوئی غلطی باقی نہیں رہی.بولنے کی اردو کو لکھنے کی اردو میں تبدیل کر دیا گیا ہے.جو ہرگز نہیں کیا گیا نہ ان سے کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی جماعت اس کتاب کے انداز کو سمجھ سکتی تھی اگر میں دوبارہ اس کا مطالعہ نہ کرتا.اس لئے ضروری ہے کہ میں اب آپ کو بتاؤں کہ اس سفر کے آخری چند دن میں مجھے چلتے پھرتے راتوں کو ، دن کو سفر میں اس کتاب کے دوبارہ مطالعہ کی توفیق ملی ہے اور اس کی جو درستیاں کرنی پڑی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں کہ غلطیاں جگہ کیسے پاگئیں.اردو بھی نہایت غلیظ تھی کی بجائے تھا لکھا ہوا ہے.ہیں“ کی بجائے ” ہے لکھا ہوا ہے اور اس کثرت سے یہ غلطیاں ہیں کہ ہر صفحے پر آپ کو نظر آئیں گی.لکھنے والوں نے جو مجھے خط لکھتے ہیں انہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے.اس فائدے کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جزاک اللہ.آپ نے بہت اچھا کام کیا اور بعض ہومیو پیتھ بھی بڑے اچھے اچھے بن گئے ہیں لیکن یہ غلطیاں اپنی جگہ موجود ہیں.میرے دل میں کئی دفعہ یہ خواہش اٹھی کہ کوئی تو مجھے یہ لکھ دیتا کہ رکھ چھوڑا ہے ان عقدوں کا حل آپ کے لئے“.یہ عقدے میرے سوا کوئی حل کر ہی نہیں سکتا تھا.میں نے لکھی ، مجھے پتا ہے میں کیا لکھنا چاہتا تھا اور چند باتیں جو اس ضمن میں مجھے بیان کرنی ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ اس کا سٹائل سمجھیں ورنہ آپ اس کو غیر معمولی باتوں کو دہرانا سمجھیں گے.جب میں نے یہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا تو میری ہو میو پیتھی

Page 744

خطبات طاہر جلد 16 738 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء کلاس میں حاضر ہونے والے مردوں اور عورتوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں کچھ بھی ہمارے پلے نہیں پڑے گا، ہمیں سمجھ آہی نہیں سکتی اور اگر سمجھ نہیں آ رہی تو ہم آتو جائیں گے مگر فائدہ کیا.ان سے میں نے کہا کہ میں ایک بالکل نئی طرز میں یہ لیکچر ز دوں گا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دئے گئے اور اس طرز میں آپ کے دماغ پر ذرہ بھی بوجھ نہیں ہوگا کہ آپ ان باتوں کو سنیں اور پھر یاد کرنے کے لئے رہیں.آپ بے تکلفی سے کہانی کی طرح ان باتوں کو سنتے رہیں.اس وجہ سے اس کتاب میں ایک نئی چیز پیدا ہوئی جو اس سے پہلے کبھی کسی کتاب میں نہیں دیکھی گئی.شروع ہی سے میں نے ان باتوں کو جن کو میں سمجھتا تھا کہ دہرائے بغیر وہ دلوں میں بیٹھ نہیں سکتیں بار بار دہرانا شروع کیا اور سنے والوں کے اوپر ان کا بوجھ کم کرنے کے لئے ان کو دہرایا گیا ہے.اس وجہ سے جو بھی کوئی پڑھے گا وہ اسے تکرار نہ سمجھے بلکہ اصرار سمجھے.بعض باتوں پر اصرار کیا گیا ہے جب تک وہ بار بار سنی نہ جائیں یا پڑھی نہ جائیں از خود یاد نہیں ہوں گی.پس آپ گزرتے چلے جائیں گے اور آپ کے دل میں از خود ہو میو پیتھی کا مضمون بیٹھتا چلا جائے گا اور دوسری بات اس میں اب دہرائی کے دوران میں نے یہ محسوس کی ہے کہ شروع کے ایک دو ابواب میں ہی دراصل ساری کتاب کا خلاصہ آچکا ہے کیونکہ جب بھی کسی بیماری کا ذکر ہوا.مثلاً مرگی کا تو اس کے متعلق وہ دوا جو مرگی سے تعلق میں تھی اس کو سمجھانے کی خاطر وہ ساری دوائیں بیان کیں جو مرگی سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا فرق کیسے کیا جائے ، کیوں ایک کو چنا جائے ، کیوں دوسری کو چھوڑ دیا جائے.پیاس کا میں نے ذکر کیا تھا کہ ذکر ہی کوئی موجود نہیں حالانکہ کتاب میں اس تفصیل سے ذکر ہے کہ بعض باتیں خود میرے لئے بھی علم میں اضافہ نہیں، دوبارہ دیکھنے سے یاد آ گئیں کہ پیاس کئی قسم کی ہے.منہ خشک ہوتا ہے، منہ گیلا ہو پھر بھی پیاس لگتی ہے، پیاس بجھنے میں ہی نہیں آتی تھوڑے تھوڑے پانی کی پیاس، زیادہ پانی کی پیاس، اس کا جگر سے کیا تعلق ہے، دل سے کیا تعلق ہے، معدے سے کیا تعلق ہے، کون کون سی دوائیں اس میں کام آتی ہیں.وہ ساری دوائیں جو بعد میں بیان کرنی تھیں وہ شروع میں بیان کر دی ہیں اور بیان کرتا چلا گیا ہوں.اتنی دفعہ بیان کی ہیں کہ پڑھنے والا اگر پڑھتا چلا جائے اور دماغ پر زور نہ دے تو اس کے پہلے دو ابواب پڑھ کر ہی ایک اچھا بھلا ہو میو پیتھ ڈاکٹر بن سکتا ہے کیونکہ آئندہ آنے والی دوائیں انہی ابواب میں مذکور ہیں، ان کی تفریقی علامتیں اسی کتاب میں موجود ہیں.

Page 745

خطبات طاہر جلد 16 739 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء پس اب جو مجھے ملاقات کے وقت لوگ کہتے رہے ہیں میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ آپ انتظار کریں اس کو چھپنے دیں تو آپ خود ہی خواہ ساری کتاب نہ بھی پڑھیں چند ابواب پڑھ لیں وہی آپ کے لئے بہت بہتر ہیں.جتنے مریض بھی میرے سامنے اس ملاقات کے دوران آئے ہیں ان میں ایک بھی ایسا نہیں جن کے متعلق اس کتاب کے ان ابواب میں ذکر موجود نہ ہو جو میں دوبارہ دیکھ چکا ہوں.اس وقت تک خدا کے فضل سے دو سو صفحات کی میں دہرائی کر چکا ہوں اور امید ہے کہ واپس پہنچتے پہنچتے اڑھائی سو کم سے کم صفحات ہیں جن کی دہرائی ہو چکی ہوگی.ان کو اگر ہم شائع کروانا شروع کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ شائع کرنے کے بعد آپ پہلی سے موازنہ کر کے دیکھیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ میں کیا کہ رہا ہوں لیکن اس ضمن میں ایک خوشخبری بھی ہے.وہ خوشخبری یہ ہے کہ ایک صاحب نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے مگر اگلی کتاب جو تصحیح شدہ ہوگی اس کا سارا خرچ میں دوں گا تا کہ آپ کے دل پہ یہ بوجھ نہ ہو کہ پہلی کتاب پر لوگوں نے خواہ مخواہ پیسے خرچ کئے.جو بھی اپنی پہلی کتاب آپ کو واپس کرے آپ اس کو مفت یہ کتاب دے دیں.تو اب یہ بات بھی میرے دل سے اٹھ گئی ، اس کا بوجھ بھی میرے دل سے اٹھ گیا کہ جو بے چارے پہلے خرید بیٹھے ہیں ان کا کیا بنے گا.انشاء اللہ تعالیٰ ان کونی تصیح شدہ کتاب اس شرط کے ساتھ ملے گی کہ پہلی واپس کر دیں.جو پہلی ہے چاہے ہم اس کو بھاڑ میں ڈالیں یا کسی اور بیچارے کو دے دیں جس کے پاس خریدنے کی طاقت نہیں کہ زور مارو اور دیکھو جتنا فائدہ بھی پہنچے اتنا ہی بہتر ہے.مگر بہر حال یہ بھی ایک کینیڈا کے سفر کا فائدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں پہنچا ہے.اب میں ایک اور معاملے کے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں وہ گیمبیا کی تازہ ترین صورت حال ہے اور اس سلسلہ میں جماعت کو تسلی دینا چاہتا ہوں.گزشتہ تین خطبات میں میں گیمبیا کا ذکر کر چکا ہوں کہ کس طرح یہ صورت حال پلٹا کھاتی رہی ہے.کبھی اونچی کبھی بچھی کبھی ایسے آثار ظاہر ہوئے کہ گویا سب مسائل حل ہو گئے اور حکومت گیمبیا اب پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ جماعت کی ہر نیک کوشش میں ممدو معاون ہوگی، کبھی عملاً ان کی دورخی کہ جماعت کے امیر کو جو چٹھی لکھی ہے کہ ہمارے یہ فیصلے تھے وہ ان تمام فیصلوں کے برعکس جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر دنیا کو بتائے گئے.اس قسم کی ایسی چالیں چلتے رہے ہیں یہ لوگ کہ اس کا طبیعت پر بہت اثر تھا اور ایک خطبہ میں میں نے غالبا یہ

Page 746

خطبات طاہر جلد 16 740 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت بے چینی کے بعد الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کی خوشخبری دی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اب انشاء اللہ گیمبیا کے حالات پلیٹیں گے.تو جونہی اس مولوی نے مباہلہ قبول کیا ایک ہفتہ کے اندر اندر مباہلہ اس پر ٹوٹ پڑا اور وہ حالات بدلے جن کا میں نے پہلے خطبہ میں ذکر کیا تھا.اب یہ عجیب بات ہے یہیں کینیڈا میں دوبارہ مجھے ایک تجربہ ہوا.جب ان کے واپس بدلنے کی اطلاع ملی اور پھر پریشانی شروع ہوئی تو پھر ایک بے قراری کی رات کاٹی.اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کی توجہ دلائی جیسے کوئی یہ کہہ رہا ہو کہ شرم کرو تمہیں بتایا نہیں ہوا تھا کہ الَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.چنانچہ ایک رات مغرب کی نماز میں پہلی دفعہ ایک حیرت انگیز غلطی اور اصرار کے ساتھ غلطی ہوتی رہی کہ آلَيْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَكِمِينَ (التين :9) کہنے کی بجائے میں الَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ پڑھتا رہا اور سارے نمازی مجھے بار بار کہتے رہے کہ اليْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَكِمِينَ مگر آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے سوا زبان پر کچھ نہیں چڑھتا تھا.جب نماز ختم ہوئی تو پھر مجھے سمجھ آئی کہ اللہ تعالیٰ مجھے شرمندہ کر رہا ہے کہ تمہیں کہا جو تھا، کیوں یاد نہیں رہا اور اس واقعہ کے چند دن کے اندر اندر بوجنگ صاحب کو وزارت مذہبی امور سے ہٹا دیا گیا.اگر چہ دوسرا شعبہ ابھی ان کے پاس ہے.مگر جو سب سے زیادہ جماعت سے تعلق رکھنے والا شعبہ تھا مذ ہبی امور کا، اس سے ہٹا دیا گیا ہے.تب مجھے سمجھ آئی کہ یہ کیوں خدا تعالیٰ مجھے تسلی دلوا رہا تھا اور جماعت کو یہ خوشخبری ہو کہ اس کے نتیجے میں وہاں حالات اب پھر پلٹا کھا رہے ہیں لیکن یہ میرا وعدہ ہے کہ جب تک عزت کے ساتھ اور جماعت کے مفاد میں ضروری نہ سمجھا گیا اس وقت تک ہمارا کوئی کارندہ واپس نہیں جائے گا.جائیں گے تو لازماً یہ یقین کر کے کہ وہ لوگ ہم سے کھیل نہیں کھیلیں گے اور اس کے نتیجے میں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.تو اس سلسلے میں بھی دعائیں کر رہا ہوں ، آپ بھی دعا کریں اور جن جماعتوں نے مجھے مختلف مشورے بھیجوائے تھے ان کے مشوروں میں آپس میں تضاد بہت ہے، اتنا حیرت انگیز تضاد ہے بڑی بڑی جماعتوں میں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.کچھ لوگ ہیں وہ کہتے ہیں،مثلاً اس میں کینیڈا کی امارت بھی شامل ہے کہ گیمبیا کی شرطوں پر ایک شخص کو بھی واپس نہیں بھیجنا چاہئے کیونکہ وہ ہم سے کھیل کھیلیں گے اور ہمیں اس کا نقصان پہنچے گا.کچھ ممالک افریقہ کے مثلاً غانا کا ملک ہے انہوں نے لکھا ہے کہ اس کی ہر شرط پر بھیجنا ضروری ہے تا کہ وہاں کے عوام میں وہ

Page 747

خطبات طاہر جلد 16 741 خطبہ جمعہ 3 اکتوبر 1997ء زیادہ گہرا اثر ڈال سکیں اور اپنے اداروں پر قبضہ کرسکیں اور افریقہ ہی کے ایک دوسرے بڑے ملک نائیجیریا کی رائے یہ ہے اور اسی طرح تنزانیہ کی کہ ہرگز کسی کو وہاں بھیجنا نہیں چاہئے وہ شریر لوگ ہیں.انہوں نے وعدہ خلافی کی ہے اس لئے اب ان کو اسی حال پر رہنے دیا جائے جب تک وہ ہماری بات نہ مانیں.امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے تو ان آراء کو بھجوا کر انتظار کر رہا تھا کہ سب کی رائے اکٹھی معلوم ہو جائے لیکن اس دوسرے تجربہ کے بعد سمجھتا ہوں کہ ان کی جو بھی رائے ہو یہ معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور انشاء اللہ اسی کی راہنمائی کے مطابق فیصلے ہوں گے.جانا بہتر ہے یانہ جانا بہتر ہے اس کے متعلق فیصلے بعد میں کئے جائیں گے.اس وقت تو ہم گیمبیا کی حکومت کے اس خط کے رد عمل کا انتظار کر رہے ہیں جو میں نے اس حکومت کے نام لکھوایا ہے اور ان کو صاف کہا ہے کہ جو تم نے پہلے اعلان کئے تھے اگر وہ تمہاری کیبنٹ کے فیصلے نہیں تھے تو پیشتر اس کے کہ میں کوئی فیصلہ کروں تم پر لازم ہے کہ نیا اعلان کرو اور کہو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا یا غلط کہا تھا اور اصل فیصلے یہ ہیں جو اس کیبنٹ میں ہوئے تھے.یہ اگر تم کر دو تو پھر ہم سوچیں گے کہ آپ ہی کی شرطوں پر ان خدمت کرنے والوں کو واپس بھیجیں یا نہ بھیجیں.اس کا کوئی جواب ان سے بن نہیں پڑ رہا.مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں اور جب تک اس کا واضح جواب نہ آئے ایک اور طریق میں نے یہ اختیار کیا ہے کہ ایک بین الاقوامی وفد تیار کیا ہے اور گیمبیا کی حکومت کو اطلاع کی ہے کہ یہ وفد جماعت احمدیہ کی نمائندگی میں آپ سے ملے گا.اس میں کینیڈا کا نمائندہ بھی شامل ہوگا ، امریکہ کا بھی ہوگا اور بعض افریقی ممالک کے خصوصیت سے نمائندے ہوں گے تو وہ افہام وتفہیم کے بعد مجھے جو مشورہ دیں گے انشاء اللہ اسی پر عمل کروں گا.تو معاملہ ابھی لٹکا ہوا ہے، گومگو کی حالت میں ہے اور میں سارے احباب جماعت کو درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اس ضمن میں اب میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ جو یہاں تشریف لائے ہیں بہت دور دور سے ، اس کثرت سے وینکوور سے باہر سے تشریف لائے ہیں کہ وینکوور والوں کی تعداد کم رہ گئی ہے اور ان کی تعداد بڑھ گئی ہے اس لئے جو غیر معمولی رش دکھائی دیتا ہے یہ دراصل وینکوور کے باشندوں کا نہیں بلکہ زیادہ تر باہر سے آنے والوں کا ہے.وینکوور کے پانچ سو پچاسی

Page 748

خطبات طاہر جلد 16 742 خطبہ جمعہ 3 /اکتوبر 1997ء احباب یہاں مردوزن شامل ہوئے اور باہر سے آنے والے چھ سو چالیس ہیں جو کینیڈا کے مشرق سے لے کر مغرب تک ہر طرف سے پہنچے ہیں.اسی طرح امریکہ کی ریاستوں سے، بہت دور دور سے تکلیف اٹھا کر احباب جماعت یہاں پہنچے ہیں.یہ ایک تو اس بات کی علامت ہے کہ یہ جماعت اپنے خلوص میں زندہ اور بے مثال جماعت ہے.کوئی دنیا کی طاقت اس کو مٹا نہیں سکتی.کامل یقین پر فائز ہے کہ ہم سچے ہیں اور سچائی نے ان کے دلوں میں ایک ولولہ اور قربانی کی روح پیدا کر دی ہے کہ حقیقہ دنیا میں کسی جگہ بھی آپ کو اس کا عشر عشیر بھی دکھائی نہیں دے گا.اللہ کرے آپ کے یہ خلوص بڑھتے رہیں ، آپ کے جذ بہ عمل میں نئی انگیخت ہو اور پہلے سے بڑھ کر آپ خدمت کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور میں آپ سب کا ممنون احسان ہوں کیونکہ آپ کے چہرے دیکھ کر میرادل بڑھتا ہے، ایسی محبت ہے کہ جس کو میں بیان نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ آپ میرے اعضاء ہیں اور حقیقیہ اعضاء اور بچے دکھائی دیتے ہیں.بوڑھے بھی ہوں تو لگتا ہے جیسے اپنا بچہ ہو اور یہ میری خوبی نہیں ، یہ آپ کا اخلاص ہے جو میرے آئینے میں دکھائی دے رہا ہے.اللہ تعالیٰ خلافت کو ، جماعت کو ہمیشہ ایک رکھے.ہر دل ایک ہی طرح دھڑ کے، ہر ذہن ایک ہی طرح سوچے.ہر طبیعت میں ایک ہی بات ہیجان پیدا کرے، ایک ہی بات سکون پیدا کرے.یہ وہ وحدت ہے، یہ خدا کی وہ تو حید ہے جو دنیا پر نافذ ہوگی اور دنیا کو اسی توحید نے جیتنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب جو بہت محبت سے دور دور سے آئے ہیں ان کو خیر وعافیت سے اپنے گھروں میں واپس لے کے جائے.ان کا سفر فائدے کا سفر ہو کسی نقصان کا موجب نہ بنے.اس کے بعد میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاننہ.

Page 749

خطبات طاہر جلد 16 743 خطبہ جمعہ 10 /اکتوبر 1997ء ہم کچی عبادت کرتے ہوئے قَانِتَا لِلهِ ہوئے بغیر اس دنیا کو اللہ کے لئے فتح نہیں کر سکتے.خطبه جمعه فرموده 10 /اکتوبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کے جمعہ میں نصف گھنٹے کی تاخیر کا سبب صرف یہ بنا کہ گزشتہ تین جمعہ سفر کی حالت میں آئے جو ڈیڑھ بجے شروع ہوتے تھے اور مسلسل تین دفعہ ڈیڑھ بجے پڑھنے کے نتیجے میں یہ بات ایسی پختہ ذہن میں بیٹھ گئی کہ آج بھی ڈیڑھ بجے ہی جمعہ ہوگا.ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ اس سے پہلے ایک بجے یہاں جمعہ ہوا کرتا تھا اور یہاں بھی کسی نے مجھے توجہ نہ دلائی بلکہ جمعہ کی یاد دہانی بھی سوا ایک بجے کرائی گئی.پس اس لئے جو میری ذہنی تیاری تھی کہ میں ڈیڑھ بجے جمعہ پڑھاؤں گا اسی پر قائم رہا اور آج جمعہ ڈیڑھ بجے ہی ہو رہا ہے.یہ جمعہ ایک خاص جمعہ ہے کیونکہ آج Friday the 10th ہے اور اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ خدا تعالیٰ آج کے دن بھی بہت سے نشان دکھائے گا.جونشان دیکھنے میں آئیں گے، ہمیں جو بھی خدا کی طرف سے خیرات ملے گی ہم اس پر خوش ہوں گے، اس پر سجدہ شکر بجالائیں گے لیکن ابھی آنے سے پہلے گیمبیا کے امیر صاحب کا جو فون آیا ہے وہ بھی اپنی ذات میں ایک نشان ہے.ہر جمعہ خدا تعالی کوئی نہ کوئی اپنی جھلکیاں، اپنے کرشمے ایسے دکھاتا ہے جس سے دل مزید سجدہ ریز ہو جاتا ہے.گیمبیا میں جو شرارت چل رہی تھی اس کے متعلق میں نے پہلے بھی

Page 750

خطبات طاہر جلد 16 744 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء آپ کو بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے ذریعے بار بار خوشخبری دی اور اس کے بعد میں نے فکر کرنا بند کر دیا.اس واقعہ کے بعد ہر جمعہ خدا تعالیٰ کوئی تازہ نشان ضرور دکھاتا ہے اور آج کا نشان انہوں نے یہ بتایا کہ وہ سیکرٹری جنرل جو بو جنگ صاحب کے بعد سب سے زیادہ شرارت کر رہا تھا اور بہت تکبر سے کام لے رہا تھا آج گیمبیاریڈیو میں اعلان ہوا ہے کہ اس کو برطرف کر دیا گیا ہے.پس یہ ایک چھوٹی سی بات سہی مگر امید ہے کہ اس کے نتائج بہت دور رس نکلیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بھی انعام ملے، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا ، ہم تو اس رسول ﷺ کے غلام ہیں جو بارش کے پہلے قطرے کو بھی اپنی زبان پر لیا کرتا تھا.اس لئے نشان خواہ آپ چھوٹا سمجھیں یا بڑا سمجھیں جو اللہ کا فضل ہے وہ اللہ ہی کا فضل ہے، اسی کی دین ہے، اس پر ہمیں ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہئے.اس جمعہ کے تعلق میں مجھے خیال تھا کہ میں کوئی اہم مضمون بیان کروں جو Friday the 10th کی نسبت سے موزوں ہو.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اسے اتفاق سمجھیں گے مگر میں ایک الہی اشارہ سمجھتا ہوں کہ چند دن پہلے دو بڑی جماعتوں کی طرف سے مجھ سے مطالبہ ہوا کہ اس سال ان کے لئے کوئی ایسا ٹارگٹ مقرر کروں ، ایسا سمح نظر بیان کروں کہ جس میں وہ ساری دنیا کی جماعتوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.ان میں ایک جرمنی ہے اور ایک امریکہ.ان دونوں نے درخواست کی کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں کہ ہم اس میں غیر معمولی محنت کر کے سب دنیا سے آگے بڑھ جائیں.تو اس وقت مجھے خیال آیا کہ وہ غیر معمولی کون سی ایسی محنت ہو سکتی ہے جو سب محنتوں پر فائق ہو تو دماغ میں نماز ہی ابھری اور مجھے خیال آیا کہ نماز سے بہتر اور کوئی تلقین ممکن نہیں.اس لئے دونوں جماعتوں کو آج میں نماز کا ٹارگٹ دیتا ہوں کہ نماز میں غیر معمولی محنت کریں اور تمام خدام اور انصار بھی جو ان کے زیر اثر ہوں اور بچے اور عورتیں جن تک یہ پیغام پہنچایا جا سکے سب پر نماز کے بارے میں محنت کریں کیونکہ وہ مرکزی چیز ہے، اگر یہ سنور جائے تو سب کچھ سنور جائے گا.نماز ہی در اصل عبادت کا معراج ہے.نماز پر جتنا بھی غور کریں اتنا ہی کم ہوگا اور ہر غور کے نتیجے میں نئے نکات سامنے آتے ہیں، نئی گہرائیوں میں انسان کا ذہن اترتا ہے، نئے عروج حاصل کرتا ہے اور نماز وہ جگہ ہے جہاں بلندی اور پستی اپنے عروج اور مزاج کے انکسار کی وجہ سے ایک ہو.

Page 751

745 خطبہ جمعہ 10 را کتوبر 1997ء خطبات طاہر جلد 16 جایا کرتی ہیں.یہ ایک فرضی کہانی نہیں بلکہ ایک گہری حقیقت ہے کہ نماز کے معراج کا تعلق انسان کے انکسار سے ہے.سب سے بڑا معراج سجدوں میں ہوتا ہے اور سجدہ ایسی حالت ہے جس میں انسان زمین کے ساتھ لگ کر اپنی انتہائی پستی کا اقرار کرتا ہے اور وہیں سے سبحان ربی الاعلیٰ کی صدا بلند ہوتی ہے کہ پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند ہے.پس ہر ترقی کا راز انسانی نفس کی اس پستی میں ہے جو وہ خود خدا کی خاطر اختیار کرے اور اسی سے ساری ترقیاں وابستہ ہیں اور نماز نے ہمیں یہ گر سکھایا ہے.اس پہلو سے جب میں نے ان دونوں کو نماز کا ٹارگٹ دیا تو ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ جمعہ کا مضمون بھی خدا تعالیٰ نے خود ہی سکھا دیا ہے.یہ جمعہ جس نئے سال کا آغاز کرے گا اس میں جماعت احمدیہ غیر معمولی طور پر نماز کی طرف متوجہ ہو جائے.اس کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ سفر کے دوران ایک ایسا واقعہ گزرا جس سے میری طبیعت پر گہرا اثر تھا.ایک احمدی بچی نے جو شادی شدہ ہے، آگے بچے بھی ہیں، اس نے اپنے خاندان کی ملاقات کے بعد مجھ سے الگ چند منٹ وقت چاہا کہ میں نے بہت ضروری بات کرنی ہے.جب میں نے وقت دیا تو اس پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ بات کرنا مشکل ہو رہی تھی.مجھے کئی قسم کے وہم آئے کہ اس بے چاری کو شاید خاوند کی طرف سے کوئی جسمانی یا مالی دکھ ہے یا اور مسائل ہیں یا ساس سر وغیرہ کی طرف سے تکلیفیں ہیں لیکن میں صبر سے انتظار کرتا رہا کہ وہ ذرا اپنے آپ کو سنبھال لے تو مجھ سے بات کرے.اس نے بات اس طرح شروع کی کہ مجھے اپنے خاوند کی طرف سے کوئی جسمانی یاد نیاوی تکلیف نہیں.بہت ہی نیک طبیعت کا انسان ہے، ہر طرح میرا خیال رکھتا ہے اور بچوں کا بھی خیال رکھتا ہے.جو چاہوں، جس طرح چاہوں وہ مجھ پر خرچ کرتا ہے اور میرے کہنے پہ جماعت کے چندے بھی ادا کرتا ہے لیکن یہ کہتے ہوئے پھر وہ پھوٹ پڑی، مقصد یہ تھا، یہ کہنا چاہتی تھی کہ نماز نہیں پڑھتا.ایک تو میرے دل پہ اس بات کا بہت گہرا اثر پڑا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی بچی اپنے خاوند کے نماز نہ پڑھنے کے نتیجے میں اتنی غمزدہ ہے کہ اس کی ہر دوسری خوبی اس کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہی.وہ بجھتی ہے کہ اگر یہ نماز نہیں پڑھتا تو کچھ بھی نہیں رہا اور یہ بات بالکل درست ہے.اگر نماز نہ رہی تو کچھ بھی نہ رہا.بسا اوقات میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اور ویسے نیک ، بظاہر باقی باتوں میں

Page 752

خطبات طاہر جلد 16 746 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء اچھے ہوتے ہیں لیکن ان کی بظا ہر نظر آنے والی نیکی اور باقی باتوں میں اچھا ہونا دراصل ان کے مزاج کا حصہ ہے، ان کے ایمان کا حصہ نہیں.ایمان کے نتیجے میں جو نیکی عطا ہو اور ایمان کے نتیجے میں اگر مزاج سدھریں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ایسا انسان نماز پر قائم نہ ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی جبروت کا جو گہرا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے اس سے پہلا تقاضا اس کی عبادت کا اٹھتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کا دل پر اثر ہے تو ناممکن ہے کہ اس کی عبادت کی طرف دل متوجہ نہ ہو.پس اس پہلو سے مجھے آج کے جمعہ کے لئے یہی مضمون سمجھ آیا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دو بڑی جماعتوں کی طرف سے مطالبہ کہ ہمیں آج اس جمعہ پر کوئی ٹارگٹ دیا جائے اور اس بچی کا جو اثر دل پر تھا ان سب نے مل کر مجھے آج کے جمعہ کے لئے نماز کے موضوع پر دوبارہ گفتگو کرنے کا موقع عطا کیا ہے.اس موضوع پر میں بارہا پہلے بھی خطبات دے چکا ہوں مگر معلوم ہوتا ہے دیر ہو گئی تھی اور جماعت کو دوبارہ متوجہ کرنے کی ضرورت تھی.سورۃ فاتحہ کے بعد آج کی تلاوت کے لئے یہ آیت میں نے چنی حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقَوْمُوا لِلَّهِ قَنِتِينَ (البقرة:239) اپنی نمازوں کی حفاظت کے لئے مستعد ہو جاؤ.وَالصَّلوةِ الْوُسطی اور خصوصیت کے ساتھ صلواۃ وسطیٰ کی طرف توجہ کرو اور اس میں کسی قسم کا جھول نہ آنے دو.وَقُومُوا لِلَّهِ قُنِتِينَ اور اللہ تعالیٰ کے حضور فرمانبرداری اختیار کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ.یہاں وَالصَّلوةِ الْوُسطی سے کیا مراد ہے؟ اس موضوع پر میں کچھ گفتگو کروں گا اور مزید نماز سے متعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے بعض ارشادات جو پہلے بھی میں پیش کر چکا ہوں اب دوبارہ آپ کے سامنے پیش کروں گا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تین اشارے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے تھے یہ بے غرض نہیں ہیں بلکہ اب پھر ضرورت ہے کہ جماعت کو دوبارہ نماز کی طرف متوجہ کیا جائے.اس ضمن میں اردو کلاس پر بھی مجھے یہی موقع ملا کہ ان کو نماز سکھانی شروع کروں اور اگر چہ وہ بچے اکثر انگریزی جانتے تھے لیکن اردو کلاس میں بھی انہیں صلى الله خاص طور پر نماز سکھانے کا موقع ایسا ملا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ سب دنیا کو فائدہ پہنچے گا.پہلی بات وَالصَّلوةِ الْوُسطی سے تعلق رکھتی ہے.ہر قوم کے لئے مختلف حالات ہوا کرتے ہیں.اسی طرح انفرادی طور پر لوگوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں ان بدلتے ہوئے

Page 753

خطبات طاہر جلد 16 747 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء حالات کی وجہ سے جو قومی ہوں یا انفرادی ہوں وَالصَّلوة الوسطی کا معنی بھی ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے..وَالصلوة الوسطی اس نماز کو کہا جاتا ہے جو عین کاموں کے بیچ میں آئے ، یعنی ظہر کی نماز مراد نہیں ہے جو وسطی نظر آتی ہے، وقت کے لحاظ سے بیچ میں دکھائی دیتی ہے بلکہ وَالصَّلوةِ الْوُسطی وہ نماز ہے جو انسان کے کاموں کے بیچ میں آئے ، جہاں اس کا ادا کرنا مشکل ہو جائے اور یہ نماز آج کل کے تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی نماز ہے.سب سے زیادہ عدم توجہی صبح کی نماز پر ہے اور خاص طور پر ان معاشروں میں جن میں راتوں کو دیر تک جاگنے کا رواج ہے صبح کی نماز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ انسان کوسب سے بڑا نقصان صبح کی نماز پہ توجہ نہ دینے کے نتیجے میں پہنچتا ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو بعض بڑے بڑے اچھے سمجھے جانے والے خاندانوں میں بھی ہے بلکہ زیادہ متمول خاندانوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے.اکثر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ راتیں دیر تک جاگ کر گزارتے ہیں اور مجلسیں گپوں سے بجتی ہیں.ہر قسم کی باتیں جن کا زندگی کی حقیقوں سے کوئی تعلق نہ بھی ہو، محض کپڑوں کی باتیں ہی ہوں، ان باتوں میں بے حد وقت خرچ کیا جاتا ہے اور جب صبح تھک ہار کر انسانی توجہ میں کوئی جان نہ رہے اور گہری توجہ کے ساتھ نماز پڑھنے کی اہلیت ہی نہ رہے اس وقت وہ تھکے ہارے سو جاتے ہیں اور پھر صبح دس گیارہ بجے آنکھ کھلی جب کہ نماز ہاتھ سے نکل گئی اور یہ اس آیت کریمہ کے بعینہ مخالف بات ہے.یہ بیماری ہر گھر میں پائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ غرباء میں نسبتا کم ہے.جن کے پاس رات کو مجلسیں لگانے کا وقت نہ ہو، دن کے تھکے ہارے گھر آکر سو جاتے ہوں ان کو اس قسم کی عیاشی کا وقت ہی نہیں ملتا ، نہ ان کے نزدیک یہ کوئی عیاشی ہے کہ جیسا بھی ہوا روکھی سوکھی کھا کر سونے والے اس کے بعد پھر جاگیں اور بے وجہ مجلسیں لگائیں، یہ فطرت کے خلاف بات ہے.مجلسیں لگانے والوں کے ہاں عموماً چائے بھی چلتی ہے، وقتا فوقتا کھانے کی دوسری چیزیں بھی پیش ہوتی ہیں اور پھر ان کو مجلس کا مزہ آتا ہے اور مجلس خوب رچتی ہے لیکن یہ مجلس اللہ کی مجلس نہیں.ایسی مجلس کے خلاف آنحضرت ﷺ نے مختلف رنگ میں مختلف وقتوں میں بڑی سختی سے اظہار فرمایا.پر جماعت احمدیہ کو ز سر و صیح راستے پر گامزن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ تلخ مثالیں

Page 754

خطبات طاہر جلد 16 748 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء بھی آپ کے سامنے رکھی جائیں.مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دنیا میرے اس اقرار اور اعتراف پر ہمیں کیا بجھتی ہے.میری جواب دہی تو صرف اللہ کے سامنے ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہم اپنی ان کمزوریوں پر نظر نہ رکھیں؟ جن پر نظر رکھنا از بس ضروری ہے، جن پر نظر رکھنے کے لئے قرآن کریم نے بارہا توجہ دلائی ہو، جن پر نظر رکھنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے اور آپ کی غلامی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار توجہ دلائی ہو، ان کو نظر انداز کرنا حقیقت میں حقیقت اسلام کو نظر انداز کرنا ہے.پس میں اس بیان سے نہیں شرما تا کہ یہ کمزوری ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے اور خصوصاً جماعت کے ایک ایسے طبقے میں پائی جاتی ہے جس کا ہر خاندان سے تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے بھی تعلق ہے.یہاں بھی نئی نسلیں بعض ایسی پیدا ہوئی ہیں جن کے ماں باپ نمازوں پر قائم تھے مگر انہوں نے نمازوں کی اہمیت کو بھلا دیا اور چونکہ خاندان بحیثیت مجموعی نیکی کی طرف لے جانے والا خاندان ہے، روایت کے لحاظ سے میرا مطلب ہے اور عموماً یہ لوگ چندوں میں بھی آگے ہیں اور دن کی نمازیں بھی ٹھیک ادا کرتے ہیں اس لئے صبح کی نماز کو چھوڑنا ان کو کوئی بدی دکھائی نہیں دیتا ، جو بالکل غلط ہے.قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح کی نماز کو چھوڑنا اس مرکزی نیکی کو چھوڑنا ہے جس پر باقی نیکیاں قائم ہیں.اگر یہ ہاتھ سے جاتی رہے تو گویا سب نمازیں ہاتھ سے جاتی رہیں.ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے صبح کی نماز پر نہ آنے والوں کے متعلق اس قد رغم اور خفگی کا اظہار فرمایا کہ آپ نے فرمایا اگر یہ جائز ہوتا تو میں بعض لوگوں سے لکڑی کے گٹھے اٹھواتا اور ان کے گھروں کو جلا دیتا جن گھروں میں لوگ آرام سے سوئے پڑے ہیں اور صبح کی نماز کی طرف توجہ نہیں دیتے.اب بظاہر یہ ایک بہت ہی خشمگیں اظہار ہے ، اس میں بڑی سختی پائی جاتی ہے لیکن ایک تو صلى الله آنحضرت ﷺ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے انسان کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ اس معاملے میں وہ جسمانی سختی یا مادی سختی سے کام لے لیکن اس بات کی تکلیف ہونا ضروری ہے اور ہرگھر والا ذمہ دار ہے کہ کم سے کم اس تکلیف میں رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کرے اور جب اپنے بچوں کو اس قسم کی کمزوری میں مبتلا دیکھے تو گہری تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک سختی کا تعلق ہے جو آپ کو دکھائی دے رہی ہے یہ دراصل ایک انذار ہے کہ جو صبح کی نماز نہیں پڑھتا وہ اپنے لئے جہنم کا سامان

Page 755

خطبات طاہر جلد 16 749 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء کرتا ہے اور بہتر ہے کہ اخروی جہنم کی بجائے اسی دنیا میں ان کے گھر جلا دیے جائیں، یہ ایک پیغام ہے.ایک غصے کا اظہار نہیں ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تمام باتیں بہت گہرائی رکھتی تھیں اور ہر اظہار میں بہت معنی خیز اور دیر پا اثر رکھنے والا ایک پیغام ہوا کرتا تھا.اس حدیث میں مجھے یہی پیغام ملتا ہے کہ حضرت اقدس ﷺ کے نزدیک جو لوگ صبح کی نماز سے غافل ہیں وہ گویا اپنے جلنے کا انتظام کر رہے ہیں جس کا تعلق دوسری دنیا سے ہوگا اور ان کے لئے بہت بہتر ہوتا کہ اسی دنیا میں جل جاتے بجائے اس کے کہ بعد کی جواب طلبی میں مبتلا ہو کر جہنم کے عذاب کو مول لیتے.پس نماز صبح خصوصیت کے ساتھ میرے پیش نظر ہے مگر.وَالصَّلوةِ الْوُسطی میں اور نمازیں بھی آتی ہیں.یہاں یورپ میں اکثر یہ رواج ہے کہ کام پر جاتے ہوئے کام کی مصروفیت کی وجہ سے دن کی وہ نمازیں ضائع کر دیتے ہیں جو عین کام کے دوران آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نمازیں ضائع کرنا مجبوری ہے اور اس وقت کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یا نقصان اٹھاتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ کا فریضہ ان پر عائد ہوتا ہے اس سے غافل ہو جاتے ہیں.وَالصَّلوة الوسطی یعنی کاموں میں گھری ہوئی نماز جتنا کاموں میں گھرتی ہے اتنا ہی بڑا چیلنج بن جاتی ہے.بظاہر جتنا بھی اس پر عمل کرنا یعنی اس کا حق ادا کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اس کا حق بلند ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ کاموں میں گھری ہوئی نماز سے آپ عدم توجہ کریں اور اپنا گہرا نقصان نہ کریں.پس یہ نماز جتنی مصروفیتوں میں آئے اتنا ہی زیادہ آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے، آپ کی توجہ کو اپنی طرف سے دور نہیں ہٹاتی.پس وہ ساری مغربی قو میں جن میں ایسی نمازیں خواہ دن کو آئیں یا رات کے کام کے دوران آئیں ان میں احمدیوں کو خاص طور پر وَالصَّلوة الوسطی کا نگران ہونا چاہئے اور سوچیں کہ اگر وہ کام کی مجبوریوں کی وجہ سے اس نماز کا حق ادا نہیں کر سکتے تو کام چھوڑ دیں کیونکہ یہ کام تو دنیا کا کام ہے لیکن اللہ کا کام نہ چھوڑیں اور اللہ تعالیٰ نے جو فریضہ عائد فرمایا ہے اس کو بہر حال سرانجام دینے کی کوشش کریں.یہ ایک لازمی حقیقت ہے جس سے روگردانی اپنے سب سے اہم فریضہ سے روگردانی ہوگی، جس سے روگردانی کے نتیجہ میں آپ کی عاقبت بھی خراب ہوگی اور دنیا بھی خراب ہوگی.اس لئے از سر نو اس معاملے پر غور کریں اور اس درمیانی نماز کی حفاظت کے لئے انتظام

Page 756

خطبات طاہر جلد 16 750 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء کریں.اگر آپ کے ایمپلائرز یعنی جو آپ کو دنیاوی خدمت کا یا روٹی کمانے کا موقع دیتے ہیں اگر وہ اس بات کو سمجھ جائیں اور آپ انہیں سمجھا سکیں تو پھر کوئی مشکل نہیں ، آپ کو عین مصروفیتوں کے دوران بھی نماز کا حق ادا کرنے کا موقع مل سکتا ہے لیکن اگر وہ ایسا نہ سمجھیں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رزق دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے.وہی سب سے بڑا رازق ہے لیکن اگر کوئی قربانی کا وقت ہے اور ایمان کو بچانے کا وقت ہے تو یہ وہ وقت ہے کہ جہاں آپ اپنے عمل سے ثابت کر سکیں کہ آپ کو اللہ کی رضا زیادہ پیاری ہے اور دنیا کے رزق اس کے مقابل پر کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے.ان کو وہی مقام دیں جو ان کا مقام ہے یعنی حقیر دنیا کا مقام اور نماز کو وہی مقام دیں جو اس کا مقام ہے یعنی عزت اور بزرگی کا وہ مقام کہ جتنا زیادہ اس پر حملہ ہو اتنا ہی زیادہ یہ مستعد ہو جاتی ہے اور اتنا ہی زیادہ سر بلند ہوکر اپنی طرف بلاتی ہے کہ آؤ اور میرے تقاضے پورے کرو.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ عالمگیر ہر جگہ اسی حقیقت کی طرف دوبارہ متوجہ ہوگی جس کی طرف میں پہلے بارہا متوجہ کرتا رہا ہوں کہ ہماری زندگی ، ہماری جان ، ہماری دنیا، ہماری آخرت نماز میں ہے.اگر نماز نہ رہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.وَقُوْمُوْ الله قتین اللہ کے حضور فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ.ایسی نماز کے وقت جب آپ دنیا کو ترک کرتے ہیں اور خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کو صحیح معنوں میں فرمانبرداری کہا جاتا ہے.اگر یہاں ایسی اہم نماز سے توجہ ہٹالیں تو پھر یہ دعوئی ہے اس کی کوئی بھی حقیقت باقی نہیں رہتی.اس ضمن میں میں نے بہت سا مواد اکٹھا کیا ہوا ہے جو پہلے بھی آپ کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں اور اب میں سمجھتا ہوں کہ شاید ایک دو اور جمعہ بھی اسی مضمون پر مجھے خطاب کرنا ہوگا.سب سے پہلے میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی یہ حدیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، ترمذی کتاب الصلوٰۃ سے یہ روایت لی گئی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پائی.اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اگر اس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں.اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے

Page 757

خطبات طاہر جلد 16 751 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء ذریعے پوری کر دی جائے گی.اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہوگا اور ان کا جائزہ لیا جائے گا.(سنن الترمذى كتاب الصلوة باب ماجاء أن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة الصلواة) یہاں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر فرائض میں کوئی کمی ہوئی تو نوافل سے اس کمی کا ازالہ کیا جائے گا یعنی اس کمی کو نوافل کے ذریعے پورا کر دیا جائے گا.اس سے یہ نہ سمجھیں کہ فرائض میں کمی کی اجازت دی جارہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو نوافل ادا کرتے ہیں وہ فرائض سے غافل ہو ہی نہیں سکتے.نوافل ادا کرنے والوں ہی کے فرائض ہیں جو دراصل معیار پر پورے اترتے ہیں.پس اگر نوافل ادا کرنے والوں کا ذکر ہے اور ان سے نوافل کا اجر منتقل کر کے فرائض کی کمی کی طرف ڈالا جانا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسے نیک بندوں کی بات ہو رہی ہے جو نوافل ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور فرائض پورا کرنے کے باوجود اس کے علاوہ نوافل ادا کرتے ہیں.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص فرائض ادا نہ کرتا ہو اور نوافل ادا کرتا ہو.پس اس سے رخصت نہ سمجھیں کہ فرائض سے عدم توجہ بھی جائز ہے.بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ فرائض ادا کرنے کے باوجود یا اس کوشش کے باوجود، انسان سے سو قسم کے سقم رہ جاتے ہیں اور فرائض میں بھی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.نوافل ان کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایسے کمزور فرائض کو بھی بسا اوقات قبول فرما لیتا ہے یا قبول فرمانا چاہتا ہے جو اپنی ذات میں قبولیت کا حق نہیں رکھتے اور اس کی بہت سی وجوہات ہوا کرتی ہیں.کئی فرائض ادا کرنے والے ایسے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے فرائض میں سو قسم کی خامیاں موجود رہتی ہیں.مثلاً پوری نماز کو پوری توجہ سے ادا کرنا یہ ایک بہت بڑی اور عام بیماری ہے اور بسا اوقات عمر بھر فرائض ادا کرنے والے اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ ان کے فرائض میں کوئی ایسے رنگ بھرے بھی گئے ہیں جو اللہ کی نظر پسند فرمائے؟ اگر وہ فرائض ایسے رنگوں سے عاری ہیں اور پھیکے اور بے جان ہیں تو یہ کہنا کہ فرائض ادا ہو گئے یہ درست نہیں ہوگا.حالانکہ فرائض ادا کرنے والے کی نیت فرائض ادا کرنے کی طرف خدا کی رضا کی وجہ سے متوجہ ہوتی ہے.اس کی نیت کی توجہ رضائے باری تعالیٰ کی طرف نہ ہو تو وہ کیوں اپنے آپ کو مشکل میں ڈالے.پس ان فرائض کی بنیاد تو درست ہے مگر اس بنیاد پر جو عمارت تعمیر ہوتی ہے اس میں کئی قسم کی خامیاں واقع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ عمارت اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ اللہ اسے اپنا گھر بنائے.

Page 758

خطبات طاہر جلد 16 752 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی یہ نصیحت کام دیتی ہے کہ تمہارے فرائض کی خامیاں ان فرائض کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قبول کرنے سے باز نہیں رکھیں گی کیونکہ اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے فرائض کو قبول فرمائے.یہ محض اس کا احسان ہے اور وہ ان خرابیوں کو خود نظر انداز فرمائے گا جس حد تک وہ نظر انداز فرمانے کے لائق ہیں اور تمہارے نوافل کے ذریعے ان کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش فرمائے گا.بعض دفعہ خدا تعالیٰ بھی کوشش فرماتا ہے مطلب یہ ہے کہ انسان کی خاطر ، اپنے غریب بندوں کی خاطر جتنا بھی جھک سکتا ہے جس میں اس کی صفات بعض دوسرے پہلوؤں سے حائل نہ ہوں اسی حد تک وہ جھکتا ہے، اسی حد تک وہ جھک سکتا ہے.اگر اس کی دیگر صفات حائل ہو جائیں تو پھر وہ نہیں جھکے گا.پس ان معنوں میں، میں نے یہ کہا کہ جس حد تک بھی خدا تعالیٰ کے لئے ممکن ہے وہ نرمی اختیار فرماتا ہے، اپنے بندوں پر جھکتا ہے اور ان کی کمزوریوں کو دور فرمانے کی کوشش کرتا ہے مگر اگر پھر بھی بات نہ بنے ، اگر پھر بھی کمزوریاں باقی رہ جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ ضرور نکلے گا.حضرت ابوایوب انصاری نے بیان کیا اور یہ روایت بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت مہ کی خدمت میں عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور آگ سے دور کر دے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کر ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ ، زکوۃ دے اور صلہ رحمی کر اور رشتہ داروں کے ساتھ پیار و محبت سے رہ.( صحیح بخاری کتاب الأدب باب فضل صلة الرحم -حديث : 5983) آگ سے دور لے جانے والا عمل بنیادی طور پر عبادت ہے.فرمایا عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ.سب سے پہلے عبادت کا ذکر ہے.حالانکہ نماز بھی ایک عبادت ہے.یہ نہیں فرمایا کہ نماز پڑھ بلکہ پہلے فرمایا عبادت کر اور عبادت ہی دراصل وہ بنیادی انسان کی صفت ہے جو اسے خدا کا بندہ بناتی ہے.اگر عبادت کے ذریعے خدا کا بندہ نہ بنے تو نمازیں ادا کر ہی نہیں سکتا.یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی عظیم شان ہے کہ ہر مسئلے کو اس کی بنیاد سے پکڑتے ہیں.عبادت در اصل فرائض سے پہلے شروع ہو چکی ہوتی ہے.عبادت کا گہرا تعلق انسان کی نیت سے ہے.اگر ایک انسان نیت کے لحاظ سے اللہ کے حضور اپنے آپ کو ایک عبد کے طور پر پیش کرنے کا ارادہ کرے تو وہیں سے اس کی عبادت شروع ہو جاتی ہے اور اس ارادے کے بغیر جو خالصہ اللہ ہو،

Page 759

خطبات طاہر جلد 16 753 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء جو اپنے سارے وجود کو خدا کے حضور پیش کرنے کا ارادہ ہو، اگر یہ عبادت نماز کی بنیاد نہ بنے یعنی وہ عبادت جو نماز کے فرائض ادا کرنے سے پہلے شروع ہو چکی ہو تو ہر دوسری بنیاد جس پر نماز کو قائم کیا جائے گا ایک کھوکھلی بنیاد ہوگی.اس لئے اپنی نمازوں پر غور کر کے دیکھیں تو آپ کو یہی معلوم ہوگا کہ نماز سے پہلے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے کی روح ہو تو پھر نماز کے معنی بنتے ہیں اگر وہ روح نہ ہو تو نماز کے کوئی معنی نہیں بنتے کیونکہ یہ روح جس بندے میں ہو وہ اس طرح نماز کی طرف دوڑتا ہے جیسے بھوکا کھانے کی طرف دوڑتا ہے.کھانے کی اشتہاء اس کی فطرت میں ہے.یہ بھوک اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کھانے کی طرف دوڑے خواہ وہ معمولی کھانا ہی ہو لیکن جس طرح بھی بن سکے اپنی فطرتی خواہش کو ، اشتہاء کو بجھا سکے.اگر نماز کی طرف اس طرح دوڑنا ہے تو پھر ہر دوسری ضرورت اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھے گی.اگر آپ کو سخت پیاس لگی ہو اور آپ کو آپ کے ساتھی کسی کھیل کی طرف بلا رہے ہوں کہ چھوڑو پانی کو دفع کرو، آؤ یہ کھیل کھیلتے ہیں تو کون ہے جو اس کھیل کی طرف توجہ کرے گا.اس پر تھو کے گا بھی نہیں.کوئی اور ضرورت جو دل میں ایک اشتہاء پیدا کر دیتی ہے اس سے ٹکرانے والی ہر چیز اپنے معنی کھو دیتی ہے، اس میں دلچسپی باقی نہیں رہتی.پس اگر نماز کے وقت ذہن میں نماز کی اہمیت ایک فطری تقاضے کے طور پر نہ ہو، ایسے تقاضے کے طور پر نہ ہو جس کے مقابل پر ہر دوسرا تقاضا بے معنی ہو جاتا ہے تو پھر یہ نماز خالصہ اللہ نہیں رہتی اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا یہ فرمانا کہ اللہ کی عبادت کر اور اس کا شریک نہ ٹھہرا، یہ فرمانا کچھ بھی معنی نہیں رکھے گا اگر جو بات میں بیان کر رہا ہوں یہ لازمی حقیقت نہ ہو.خدا کا شریک نہ ٹھہرا‘ در اصل اس عبادت سے شروع ہوتا ہے کیونکہ جوشخص عبادت کا یہ مضمون سمجھ لے جو میں عرض کر رہا ہوں کہ اگر خدا کی خاطر اس موقع پر جبکہ عبادت کا مقام اور مرتبہ انسان پر ظاہر ہو چکا ہو انسان اس طرح نہ دوڑے جس طرح پیاسا پانی کی طرف دوڑتا ہے، بھوکا کھانے کی طرف دوڑتا ہے تو پھر اس عبادت کا حق ادا نہیں ہوسکتا.وہ عبادت کا حق ایک ظاہری رسم بن جائے گا اور فطرت اس کو دھتکار دے گی اور اس عبادت کی طرف متوجہ ہونے کو جھوٹا قراردے گی.اس کے ساتھ ہی حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ” شرک نہ کرو یہ نکتہ ہے جو ایسا گہرا نکتہ ہے جو عبادت کے مقام کو ظاہر کرنے والا ہے اور توحید باری تعالیٰ کے مقام کو بھی ظاہر کرنے والا ہے.جیسا کہ میں

Page 760

خطبات طاہر جلد 16 754 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء نے بیان کیا ہے آپ کی طبعی ضرورت جب ابھرتی ہے تو اس کے ساتھ کسی اور کے شریک ہونے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.ناممکن ہے کہ ایک انسان پانی کی ایک بوند کو ترس رہا ہو اور اس کا کوئی رشتہ، کوئی خواہش کوئی دنیاوی تقاضا اس کے دل کو پانی کی بجائے کسی اور طرف پھیر سکے.تو اگر آپ نے مشرک نہیں بننا، اگر آپ نے توحید پر قائم ہونا ہے تو عبادت سے پہلے یہ نکتہ سمجھیں کہ توحید باری تعالیٰ کا قیام لازم قرار دیتا ہے کہ ظاہری عبادت کو ادا کرنے سے پہلے انسان فطر تأبد بن چکا ہو اور اس کے دل کی گہرائی سے اپنے خدا کی رفعت اور عظمت اس طرح بلند ہو کہ جب بھی کوئی چیز اس کے مقابل پر آئے وہ خود بخود اس سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائے اور سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے مقابل پر دنیا کی کوئی دلچسپی بھی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت رکھے.پس حضور اکرم ہے نے دیکھو کیسا پیارا جواب دیا.فرمایا کہ ایسے شخص کو چاہئے کہ اللہ کی عبادت کرے اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائے.اور پھر فرمایا " نماز پڑھ، زکوۃ دے یعنی تمام اسلامی تعلیم کا ذکر اس عبادت کے بعد شروع ہوا ہے جس عبادت کی کچھ تفصیل میں نے آپ کو اب سمجھائی ہے اور زکوۃ ، روزہ ہر چیز بعد میں آتی ہے.اگر یہ عبادت نہیں جو عبادت کی بنیاد بنتی ہے تو پھر عمارت بھی اس پر تعمیر نہیں ہوسکتی.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.عبادت کے موضوع پر ، جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، غالباً اگلا خطبہ بھی آنا چاہئے کیونکہ عبادت کے متعلق بہت سی باتیں ہیں جو ایک خطبات کے سلسلے میں میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کو دہرانے کی ضرورت ہے کیونکہ احمدی گھروں میں بدقسمتی سے یہ کمزوری ایسی پائی جارہی ہے کہ جسے وہ دیکھتے بھی ہیں اور مجھتے ہیں کہ ہمارے ایمان کو نقصان نہیں پہنچ رہا.یہ مجھنا بالکل جھوٹ ہے.خواہ وہ دنیا کی ساری نیکیاں اختیار کر رہے ہوں جب وہ وسطی نماز سے توجہ پھیر لیں گے تو ان کی نماز کو لازماً نقصان پہنچتا ہے.انسان کے لئے بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں.اپنے بچوں اور بچیوں کو ایک حد تک انسان نصیحت کر سکتا ہے.جب تک وہ اس عمر میں ہوں کہ جہاں ان پر کسی قدرسختی بھی کی جائے اور ان کو بار بار نصیحت کی جائے.ایسی نصیحت میں بھی کرتا رہا ہوں لیکن اس کے بعد جب انہوں نے عدم توجہ

Page 761

خطبات طاہر جلد 16 755 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء سے کام لیا ہے تو دل دیکھتا ہے، خون کے آنسو روتا ہے.دعا کرتا ہوں ، ان کو سمجھاتا ہوں مگر اس سے آگے بڑھنا میرے اختیار میں نہیں.پس اگر پھر بھی وہ مجھے دکھ پہنچانے پر آمادہ ہیں اور اصرار کرتے رہیں تو وہ جوابدہ ہیں لیکن یہ خیال کہ میں بے تعلق ہوں اور مجھے غم نہیں پہنچتا یہ غلط خیال ہے.جلسہ سالانہ پر آنے والے خاندان کے لوگوں کو میں نے بارہا نصیحت کی کہ ان مصروفیات میں جو خدا کی خاطر شروع ہوئی ہیں ان سے پہلے تمہاری مصروفیات بھی ایک معنوں میں خدا ہی کی خاطر تھیں یعنی ہونی چاہئے تھیں ،مگر جب لمبے سفر کر کے پہنچتے ہو تو تمہارا بنیادی فریضہ ہے کہ اپنی مصروفیات کو خدا کے تابع بناؤ ورنہ تمہارا سارا سفرا کارت جائے گا، کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اگر یہ سفر مجلسوں پر خرچ ہو جائے اور عبادت کے بنیادی فریضے سے وہ غافل ہو.اس لئے میں نے اپنے گھر میں خاص طور پر با قاعدہ حکماً بھی یہ بات جاری کی کہ شام کے بعد کچھ عرصہ بیٹھنے کے بعد اس گھر کو خالی کرنا ہوگا.مگر ہمارے دوسرے گھروں میں یہ سارے لوگ منتقل ہوتے رہے.یہاں سے نکلے تو کسی اور کے گھر چلے گئے اور وہاں جا کر مجلسیں لگا لیں حالانکہ اپنے گھر سے نکالنا بد اخلاقی نہیں تھی بلکہ بنیادی اخلاق کی طرف متوجہ کرنا تھا.یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم کسی اور کے گھر جا کر بد اخلاقیاں کرو اور ان کو بھی مصیبت میں ڈالو.وہ بھی جلسے کے تھکے ہارے ساری رات چائے بنا بنا کر تمہاری خدمت کریں اور جب صلوۃ وسطی کا وقت آئے ہم سارے مُردوں کی طرح جا پڑو اور ذرہ بھی زندگی کی رمق تم میں دکھائی نہ دے.یہ انسانیت نہیں ہے، یہ وہ عبادت نہیں ہے جس کی طرف خدا اور خدا کے رسول کہلاتے ہیں.پس جہاں تک میرا فرض ہے میں ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں.اگر تم لوگ اس فرض کو نہیں سمجھو گے، ادا نہ کرو گے تو میر اسختی سے منع نہ کرنا ہر گز اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ یہ بات میرے دل کو پسند آئی ہے.مجھے جو دکھ پہنچتا ہے اللہ بہتر جانتا ہے بارہا میں خدا کی خاطر ان لوگوں کے لئے راتوں کو اٹھ کے رویا ہوں.اے میرے خدا میں نے ہر ممکن کوشش کر لی کہ ہماری نئی نسلیں نماز پر قائم ہو جائیں مگر شیطان ان کو دوبارہ بہکا دیتا ہے اس لئے تو میری مدد فرما اور ان کی حفاظت فرما.اس دنیا میں بھی یہ کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں.میرے یہ آنسو جو مجبوری کے آنسو ہیں یہ ایک دل کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ مضمون کی اہمیت کی وجہ سے ہیں.اس بچی کو بھی یاد کرو جو اپنے خاوند کی نماز سے عدم توجہ کی وجہ سے روئی تھی مگر اس کا تو ایک خاوند تھا میری تو ساری جماعت ہے جو اپنے

Page 762

خطبات طاہر جلد 16 756 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء عزیزوں ، بچوں سے زیادہ پیاری ہے.ان سب کا غم اگر میں نہ کروں تو اس بچی کے دل سے بھی میرا دل کم تر ہو گا جو صرف ایک اپنے خاوند کے لئے روتی تھی.پس وہ سب جن کا جماعت سے تعلق ہے، جو مجھے اپنا سمجھتے ہیں، ان سب سے میری عاجزانہ التماس ہے کہ نمازوں کو قائم کریں اپنے گھروں میں بھی ، اپنے گردو پیش ، اپنے ماحول میں بھی اور وَالصَّلوةِ الْوُسطیٰ کی حفاظت کریں اور صبح کی نماز کی طرف دوبارہ واپس لوٹیں کیونکہ اگر یہ نماز ادا نہ کی تو حقیقت میں ان کی ساری زندگی جہنم کمانے میں صرف ہو رہی ہے.ان کو وہم ہے کہ یہ نیکیوں میں مبتلا ہیں.نیکیوں میں نہیں صلى الله بدیوں میں مبتلا ہیں ، شرک کرنے والے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی بار بار کی نصیحتوں کو نظر انداز کرنے والے بنتے ہیں.پس اپنی وَالصَّلوةِ الْوُسطی کی حفاظت کریں.بعض دفعہ ایسا گھر میں تجربہ بھی ہوا صلى الله کہ میں نے بچیوں سے کہا کہ اگر تم نے جاگنا ہے تو اول تو یا درکھو کہ رسول اللہ ﷺ نے فضول باتوں کے لئے جاگنے کو نا پسند فرمایا ہے، تو پھر ایسی حالت میں نماز پڑھنے کے بعد سود جب کہ ہوش و حواس ابھی قائم ہوں اور اس سے پہلے پھر تمہیں نیند کا کوئی حق نہیں ہے.مگر یہ بات دراصل کہنے کی بات ہے.جو شخص ساری رات جاگے گا وہ صبح کے وقت ایسی حالت میں حواس باختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ حقیقت میں جب وہ کھڑا بھی ہو تو نماز کی طرف توجہ نہیں کر سکتا اور یہ ایک ایسی حالت ہے جس کا تعلق قرآن کریم کی اس نصیحت سے ہے کہ لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَاَنْتُمْ سُکری (النساء: 44) جب تم سکاری کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب تر نہ جاؤ.میں پہلے یہ سمجھا کرتا تھا کہ اس کا تعلق صرف عبادت سے ہے مگر امر واقع یہ ہے کہ ایسی بات کا بیان ہے جس کا انسانی فطرت سے تعلق ہے.بسا اوقات انسان شکری ہو جایا کرتا ہے باوجود اس کے کہ شراب کا ایک قطرہ بھی اس نے نہ چکھا ہو.اب Jet Lag کے نتیجے میں دنیا نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ بعض دفعہ سکارٹی کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی ہے اور اس موقع پر بڑی بڑی کمپنیوں نے یہ قانون جاری کیا ہے کہ ان کے ڈائریکٹر وغیرہ جب تک Jet Lag نہ اترے کام پر حاضر نہ ہوں اور اہم بنیادی کاموں کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں کیونکہ ان کے فیصلے اسی حد تک متاثر ہوں گے.یہ حقیقت جو قرآن نے ایک دائگی سچائی کے طور پر بیان فرمائی لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ

Page 763

خطبات طاہر جلد 16 757 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء وَاَنْتُمْ سُکری اس حقیقت کو اب دنیا نے بھی پہچان لیا ہے کہ سکاری ہونے کے لئے شراب ضروری نہیں بلکہ کاموں کی زیادتی بھی بعض دفعہ انسان کو سکاری بنادیا کرتی ہے.مجھے اس کا پہلے ذاتی طور پر اس طرح کا تجربہ نہیں تھا کیونکہ جہاں تک میری ہمت ساتھ دیتی تھی میں یہی کوشش کرتا رہا کہ ہر قسم کے ذہنی دباؤ کے باوجود اپنے فرائض کو اس طرح ادا کر سکوں کہ شکرای کی حالت نہ ہو مگر ضرور کچھ غفلتیں ہو جاتی رہی ہوں گی اور ایسے وقت میں فرائض کی ادائیگی صحیح معنوں میں جیسا کہ ان کا حق ہے نہیں ہو سکتی لیکن اس کا ایک بہت دلچسپ تجربہ مجھے اس سفر میں ہوا اور میرا دل اور بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوا کہ قرآن کریم کی سچائی دنیا کی ہر حقیقت سے تعلق رکھتی ہے صرف نماز سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ عام حالت میں بھی بعض کیفیتیں انسان کو شکری کر دیا کرتی ہیں.اس وقت فرض ہے کہ انسان کچھ دیر کے لئے اپنے فرض منصبی کو جس کو ادا کرنے کے لئے وہ مستعد ہے، مستعد ہونے کے باوجود ٹال دے.یہ تجربہ مجھے اس طرح ہوا کہ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا تھا کہ اپنی ہو میو پیتھی کتاب کی میں نے دہرائی شروع کی.اس دہرائی کے نتیجے میں ایک مضمون پڑھتے ہوئے میں حیران رہ گیا، گو یا سکتے میں آ گیا.ابراٹینم ایک دوا ہے اس کے متعلق پوری طرح ذہن میں پورا نقشہ موجود ہے کہ کس کام آتی ہے، کیا کرتی ہے، کیا عمل دکھاتی ہے لیکن جب میں نے ابراٹینم پڑھنی شروع کی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کون سی چیز پڑھ رہا ہوں.سوائے ابتداء کے تعارف کے باقی کچھ بھی ابراٹینم سے تعلق نہیں تھا، اس کا تعلق بعض دوسری ملتی جلتی دواؤں سے تھا مثلاً ایسکولس یا اسی قسم کی دواؤں سے مگر ابراٹینم سے اس کا تعلق نہیں تھا اور یہ بھی درست ہے کہ یہ وہ غلطی ہے جو میں نے کی ہوئی تھی.اس میں لکھنے والے کی کوئی غلطی نہیں.مجھے یاد آیا بعینہ یہی بات میں نے کہی تھی اور جب غور کیا اور سوچا تو پتا چلا کہ اس سے پہلے مسلسل بعض جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے مجھے راتوں کو جاگنا پڑتا تھا اور سخت دماغ تھکا ہوا تھا لیکن میں نے سمجھا کہ کلاس کا وقت ہے پس لوگ انتظار کر رہے ہوں گے مجھے کلاس میں ضرور جانا چاہئے مگر یہ یاد نہیں رہا کہ میں اس بنیادی نصیحت کو نظر انداز کر رہا ہوں جو ضرور عمل دکھائے گی یعنی لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَاَنْتُمُ شکرای کہ میری اس وقت سکاری کی سی حالت تھی اور مجھے اتنا یاد ہے کہ شروع میں میں نے پوری توجہ سے ابراٹینم کا ابتدائی تعارف کرایا اس کے بعد سب کچھ بھول گیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.ایسی

Page 764

خطبات طاہر جلد 16 758 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء اوٹ پٹانگ باتیں ہیں کہ اس کو پڑھ کر مجھے شرم سے پسینے آ گئے اور تعجب ہے کہ بعض غیر احمدی بھی پڑھتے ہیں، فائدہ اٹھاتے ہیں ان میں سے کسی کو خیال نہیں آیا کہ میں لغو باتیں کر رہا ہوں.اس لئے خیال نہیں آیا کہ باقی باتیں میری لغو نہیں ہوا کرتی تھیں اور ایک لغو بات کو بھی انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ ماہر ڈاکٹر ہے یہ ضرور سچ کہتا ہو گا اس کو اسی طرح قبول کر لیا حالانکہ سب سننے والوں کا فرض تھا کہ اس وقت نہیں تو بعد میں مجھے متوجہ کرتے کہ آپ نے جو باتیں بیان کی ہیں یہ بعض دوسری دواؤں میں بعینہ اسی طرح بیان ہوئی ہوئی ہیں.سار سپر یلا کی علامتیں ہیں جو آپ ابراٹینم کی طرف منسوب کر رہے ہیں یعنی بچوں کی جلد کا بوڑھوں کی طرح جھریوں میں مبتلا ہو جانا اس کا ابراٹینم سے کوئی تعلق نہیں.سارسپر یلا کی علامت ہے.اسی طرح ایسکولس کی بہت سی علامتیں اس میں بیان کی جارہی ہیں جس کا ابراٹینم سے دور کا بھی تعلق نہیں.تو میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ قرآنی حقیقتیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں اور دنیا میں بھی جب آپ ان کو اس خیال سے کہ وہ معمولی بات ہے نظر انداز کر دیں تو خدا تعالیٰ نے فطرت کے جو راز پیش نظر رکھے ہیں ان رازوں کے ہوتے ہوئے کی حقیقت کے خلاف جب بھی آپ کا رروائی کریں گے اس کا نقصان اٹھائیں گے.تو یہ تو خیر معمولی بات تھی باقی ساری کتاب میری ہی لکھوائی ہوئی تھی غلطیاں دوسروں کی تھیں اکثر ، وہ ہم ٹھیک کر لیں گے انشاء اللہ، یا میری غلطی تھی تو ان معنوں میں کہ میں صحیح طور پر بیان نہیں کر سکا.یا سننے والوں نے توجہ سے سنا نہیں مگر کچھ کی کچھ بات بنائی گئی.وہ تقریباً تین سو صفحات میں درست کر چکا ہوں اور انشاء اللہ بہت جلد ، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا، یہ آپ کے سامنے پیش کر دی جائے گی.مگر اس تعلق میں یہ بیان محض اس آیت سے تعلق رکھتا ہے لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَاَنْتُمْ سُکری پس اے نماز پڑھنے والو ایسی حالت میں راتیں بسر نہ کیا کرو کہ جب صبح نماز کا وقت ہوا کرے تو تم شکری ہو چکے ہو، کچھ بھی سمجھ نہ آئے کہ کیا کہنے کے لئے خدا کے حضور کھڑے ہوئے ہو، کچھ احساس نہ رہے کہ کس کے حضور کھڑے ہو.جو دماغ میں اوٹ پٹانگ غلط باتیں آئیں وہ سوچتے ہوئے نماز کے الفاظ دہراتے رہو ایسی نماز میں تمہیں نقصان پہنچائیں گی تمہیں فائدہ نہیں پہنچائیں گی کیونکہ اس تنبیہہ کے باوجود اگر تم نماز سے غفلت کی حالت میں کھڑے ہو گئے تو ایک دوسری آیت ہے جو تم پر لعنت ڈال رہی ہوگی.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ

Page 765

خطبات طاہر جلد 16 759 خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 1997ء صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون : 6،5) لعنت ہو ایسے نمازیوں پر جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں.پس جب خدا تعالیٰ نے بات خوب سمجھا دی تو پھر سکاری ہونے کی حالت میں نماز ادا نہ کرو.بعض دفعہ انسان بعض مجبوریوں کی وجہ سے سکاری ہو جاتا ہے.مثلاً لمبے سفر اختیار کرنے پڑ رہے ہوں، اگر اس حالت سے پہلے وہ نماز پڑھ سکتا ہو تو بہتر ہے ورنہ اس موقع پر یہ حکم ہے کہ بظاہر وقت گزر رہا ہومگر آرام کرو اور جب ذہن تیار ہو جائے پھر خدا کے حضور کھڑے ہو.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت ان نصیحتوں کو سینے سے لگائے گی اور خدا کے حضور جب بھی جماعت کھڑی ہوگی قَانِتَا لِلهِ (النحل: 121) کھڑی ہوگی.اللہ کے حضور اپنی ساری صلاحیتیں فرمانبرداری کے ساتھ جھکاتے ہوئے کھڑی ہوگی اور یہ نمازیں ہیں جنہوں نے حقیقت میں اس دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.دنیا کی فتح کی خواہیں لغوخوا ہیں ہیں اگر وہ ہمارے نفس کی بڑائی سے تعلق رکھتی ہوں.اگر وہ اللہ کی عظمت سے تعلق رکھتی ہوں تو پہلے اپنے نفسوں کو اس خدا کے حضور جھکاؤ اور اس کی عبادت کے حق ادا کرو پھر دیکھو کہ اس دنیا میں کیسی کیسی پاک تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں.ہم سچی عبادت کے سوا قَانِتَا لِلهِ ہونے کے بغیر اس دنیا کو اللہ کے لئے فتح نہیں کر سکتے ، اپنے نفوس کی بڑائی کے لئے کچھ ہم عددی برتری تو حاصل کر سکتے ہیں مگر اس عددی برتری کا کوئی بھی فائدہ نہیں.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، آپ کو اور مجھے بھی کہ ان سب نصیحتوں پر ہم عمل درآمد کرنے والے ہوں اور خدا کے حضور سچے اور پاک ٹھہریں.یہ اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پڑھنا تھا ابھی وقت ہے ایک دومنٹ میں میں سنا دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: سواے کے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت میں شمار کرتے ہو.آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے.جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 15).اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل فرمائے اور خدا کے حضور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں لکھے جائیں نہ کہ اپنے تئیں.آمین

Page 766

Page 767

خطبات طاہر جلد 16 761 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء تمام نمازوں کی حفاظت یکساں فرض ہے مگر بطور خاص صلوۃ وسطی کی (خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: حَفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قنِتِينَ (البقره: 239) پھر فرمایا: یہ وہ آیت ہے جس کے مضمون سے متعلق میں گزشتہ خطبہ میں روشنی ڈال چکا ہوں اور میں نے عرض کیا تھا کہ یہ سلسلہ ابھی آگے چلے گا.حفظوا عَلَى الصَّلَواتِ تمام نمازوں کی حفاظت کرو.یہ بنیادی حکم ہے.وَالصَّلوة الوسطى لیکن بیچ کی نماز کو بطور خاص یا درکھو یعنی حفاظت کا جہاں تک تعلق ہے بنیادی فرضیت کے اعتبار سے تمام نمازوں کی حفاظت یکساں فرض ہے.مگر بطور خاص جس نماز کی طرف توجہ دینے کا ارشاد ہے وہ نماز وسطی یا صلوۃ وسطی جس کو کہتے ہیں، وہ درمیانی نماز جو کاموں میں گھری ہوئی ہو.اس پہلو سے کچھ باتیں میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کچھ اور باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے نماز کے متعلق ایک عمومی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا اور یہ حدیث بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ سے لی گئی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے

Page 768

خطبات طاہر جلد 16 762 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء ہیں کہ میں نے آنحضرت میہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس نہر گزررہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کو ئی میں نہیں رہے گی.آپ نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دور کر دیتا ہے.اس میں کچھ باتیں توجہ طلب اور تشریح طلب ہیں.پہلی بات یہ کہ اگر گھر کی پڑھی جانے والی نماز میں مراد ہو تیں تو اس پر یہ مثال صادق نہیں آتی کہ جس کے گھر کے پاس ایک دائم نہر بہہ رہی ہو اور پانچ وقت وہ اس میں غوطے لگائے.اس سے میرے نزدیک اولین مراد یہ ہے کہ نماز با جماعت کی اہمیت واضح فرمائی گئی ہے یعنی ایک ایسا شخص جس کے قریب ہی مسجد موجود ہو وہاں پانچ وقت جا کر روحانی غوطہ زنی کر سکے اور مسجد میں جا کر با جماعت نماز میں اپنے روحانی جسم کو خوب نہلائے دھلائے کیا ممکن ہے کہ ایسے شخص پر کوئی میل رہ جائے؟ اگر اس مثال کو نماز با جماعت پر ممند نہ کریں تو پھر ستم یہ دکھائی دے گا کہ ہر گھر میں ساتھ کونسی نہر بہتی ہے.نہا تا تو وہ گھر کے اندر ہی ہے تو پھر یوں گھر میں سے نہر گزررہی ہے.اس لئے بعض دفعہ روایت بیان کرنے والے اسی روایت کے ایک حصے میں بعض لفظ بھول جاتے ہیں اور مضمون کا ایک حصہ ایک اور طرف اشارہ کرتا رہتا ہے اور دوسرا حصہ ایک دوسری طرف اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.پہلا حصہ بالکل واضح ہے اس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں.اگر کسی کے گھر کے پاس نہر بہہ رہی ہو اور وہ گھر سے نکل کر اس نہر میں جائے ، وہاں غوطہ زنی کرے تو ایسے شخص کو جو فرحت محسوس ہو سکتی ہے اور جس طرح اس کے جسم کے داغ دھل جائیں گے یہ بات ہمیشہ اسے تازہ دم رکھے گی اس کا جسم صاف ستھرا اور پاکیزہ رہے گا یہ اس روحانی حسن کی طرف اشارہ ہے جو مسجد میں جا کر ہی نصیب ہوسکتا ہے.اس کے معابعد جو یہ فرمایا کہ یہی مثال پانچ صلى الله نمازوں کی ہے.مراد یہ تھی یا غالبا روایت کرنے والے سے چوک ہوئی یا رسول اللہ ﷺ نے یہ توقع رکھی کہ از خود لوگ سمجھ جائیں گے کہ اس سے کیا مراد ہے یہی مثال پانچ با جماعت نمازوں کی ہے.اگر لفظ با جماعت اس میں داخل کر دیں یا داخل سمجھ لیں تو مضمون مکمل ہو جاتا ہے.اس پہلو سے جب میں نے مزید غور کیا تو مجھے معلوم یہ ہوا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا اپنا گھر مسجد کے ساتھ ہی تھا اور وہ اہم نمازیں جن میں عورتیں باجماعت شرکت کرسکتی تھیں مثلاً جمعہ کی اصلى الله

Page 769

خطبات طاہر جلد 16 763 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء نماز یا صبح کی نماز کے وقت آنحضرت ﷺ کی خواتین مبارکہ گھر میں بیٹھ کر باجماعت نماز نہیں پڑھا کرتی تھیں، مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھتی تھیں.جمعہ کے دوران بھی ایسا انتظام تھا کہ ان کے لئے الگ جگہ مقررتھی جہاں وہ بے جھجھک نماز پڑھ سکتی تھیں اور مردوں کی نظر چونکہ وہ پیچھے ہوتی تھیں ان کی طرف لوٹ کر نہیں پڑ سکتی تھیں، مرد اپنی توجہ سامنے رکھتے تھے عورتیں پیچھے بیٹھی ہوتی تھیں اور جب خواتین اس حصے سے باہر نکل جاتیں تب مرد واپس لوٹا کرتے تھے.تو پردے کے مختلف انتظامات ممکن ہیں.آج کل ہم مسجد کے ایک حصے میں پردہ ڈال دیتے ہیں، ایک طرف مرد بیٹھ جاتے ہیں ایک طرف عورتیں.تو جو صورت بھی آپ اختیار کریں یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ اس حدیث کی روشنی میں جو عملاً آنحضرت ﷺ کی زندگی اور آپ کی خواتین مبارکہ کی زندگی کا نقشہ تھا وہ یہی تھا کہ باجماعت نمازوں میں اپنے گھر کو مسجد نہیں بناتی تھیں بلکہ با جماعت نماز میں گھروں سے نکل کر ساتھ مسجد میں داخل ہوا کرتی تھیں اور ایسی روایتیں بکثرت ہیں کہ ان کے کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں.یہ مسلمہ روایتیں ہیں تمام امت مسلمہ ان سے واقف ہے.پس دو نماز میں خصوصیت سے اس موقع پر قابل توجہ ہیں ایک جمعہ کی نماز اور ایک صبح کی نماز.ان دونوں نمازوں میں عورتوں کو حق ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پیش نظر رکھیں ، اپنی نسوانی حوائج کے پیش نظر وہ جو چاہیں طریق اختیار کریں ان سے پوچھا نہیں جاسکتا کہ فلاں نماز میں کیوں نہیں آئیں لیکن جن کو اللہ تعالیٰ اجازت دے اور جن کو ان کا نفس اس بات پر ابھارے کہ باوجود اس کے کہ یہ فلی کام ہے میں مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ ادا کروں ان کے لئے انتظام ضروری ہے.پس یہ دو الگ الگ باتیں ہیں.عورتوں کے لئے فرض نہیں ہے کہ وہ جمعہ کی نماز باجماعت پڑھیں ،عورتوں پر فرض نہیں ہے کہ وہ صبح کی نماز باجماعت ادا کریں لیکن یہ ایک نفلی کام ہے جس میں ان کو از خود یہ خواہش پیدا ہو سکتی ہے کہ یہ نماز بہت اعلیٰ درجے کی نماز ہے جو جماعت کے ساتھ ادا کی جائے اور اس پہلو سے ہمیں چاہئے کہ اس نماز میں شامل ہوں.اس مضمون میں اور بھی حدیثوں پر تشخص کیا تو یہ بات مجھ پر کھل گئی اور اس کے پیش نظر میں نے اپنے گھر کے ایک طریق کو اب بدل لیا ہے.بعض خواتین شاید حیران ہوں گی کہ میں نے کیوں ان کا گھر میں او پر جمعہ کی نماز کے لئے آنا بند کر دیا ہے.اس سے پہلے یہ رواج تھا کہ جمعہ کی نماز پر

Page 770

خطبات طاہر جلد 16 764 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ہمارے گھر میں اوپر ایک کمرے میں نماز میں شامل ہونے کا انتظام موجود تھا.میری بچیاں بھی اور بعض آنے والے مہمان بھی وہاں اکٹھے ہو کر میرے پیچھے باجماعت جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے اور صبح کی نماز میں بھی یہ مسلسل دستور تھا کہ اگر کوئی چاہے تو پڑھ لے.اس حدیث پر غور کرنے کے نتیجے میں میں نے اس فیصلے کو بدل دیا ہے.یہ گھر ایسا ہے جس کے ساتھ نہر بہتی ہے یعنی نیچے با قاعده باجماعت نماز کا انتظام ہے اور دور دور سے خواتین آتی ہیں.تو جن کے گھر کے ساتھ بہتی ہو ان کا اولین فریضہ ہے کہ گھر چھوڑ کر نیچے اتریں اور باجماعت نماز میں اسی طرح حصہ لیں جیسے دوسری خواتین باجماعت نماز میں حصہ لے رہی ہیں.یہ وجہ ہے کہ اب میں نے اس دستور کو بدل دیا ہے اور آنے والے مہمانوں کو جو پہلے یہاں آیا کرتے تھے ان سے درخواست کی ہے کہ بے شک ہمارے گھر تشریف لائیں مگر نماز پڑھنی ہو تو نیچے جائیں.میری بیٹیاں بھی نیچے اتریں گی اور سب کے ساتھ مل کر نماز پڑھیں گی.اس میں ایک دوسری حکمت یہ پیش نظر ہے کہ اگر کسی جگہ با جماعت نماز کا انتظام ہے تو اہل خانہ کا یہ حق نہیں ہے کہ بعض کو اجازت دے اور بعضوں کو نہ اجازت دے.ایسی صورت میں وہ کمرہ یا وہ جگہ جواس کے لئے مخصوص کی گئی ہے وہ اللہ کے لئے ایک عبادت گاہ کا مقام اختیار کر لیتی ہے.الْمَسْجِدَ لِله (الحن: 19) مساجد اللہ کے لئے ہیں.پس اگر وہاں باجماعت نماز اس طرح ہو رہی ہے کہ گویا یہ مسجد کے قائم مقام بن گئی تو پھر مجھے یا کسی اور کو یہ حق نہیں کہ دروازے پر پہرے دار کھڑے ہوں اور کہیں کہ یہ مسجد خاص خواتین کے لئے ہے وہی آسکتی ہیں اور عام خواتین کو یہ حق نہیں اور اسی طرح مردوں کو نہ سہی بچوں کو حق نہیں کہ وہ یہاں آئیں اس لئے یہ سارا دستور غلط تھا اور نیک نیتی پرمبنی تھا مگر تخصص کے بعد جو بات نکلی وہ یہ نکلی جواب میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے.پس اپنے گھروں میں اگر آپ نے باجماعت نماز کے لئے انتظام کرنا ہے، جیسا کہ میری ہدایت پر بہت سے جرمن گھروں میں یہ انتظام ہے، تو یاد رکھیں کہ پھر اس جگہ کو غیروں کے لئے ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا.اگر اندرونی نماز ہے تو وہ اور رنگ کی نماز ہے.ایک خاندانی نماز ہے جو آپ مل کر پڑھ سکتے ہیں لیکن اسے باجماعت نماز کا حقیقی قائم مقام قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ جگہ سب کے لئے کھلی نہ ہو.پس اس پہلو سے احباب اس صورت حال کو پیش نظر رکھیں.جن گھروں میں بھی

Page 771

خطبات طاہر جلد 16 765 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء با جماعت نماز کا ان معنوں میں انتظام ہے کہ علاقے کے لوگوں کے لئے مسجد دور ہے وہ وہاں اکٹھے ہو سکتے ہیں ان کو ہرگز کسی تفریق کا کوئی حق نہیں.پھر اس نماز پر جو بھی آئے گا اس کے لئے دروازہ کھلا رہنا چاہئے لیکن اگر یہ مسجد کی قائم مقام نہیں بنائی جارہی ، مسجد نہ ہونے کی وجہ سے، گھریلو مجبوری کی وجہ سے خاندانی نماز ہے تو اسے جس طرح چاہیں ادا کریں مگر وہ مسجد کی نماز کے قائم مقام نہیں ہوگی.پس یہ ایک وضاحت تھی جو میں اس ضمن میں کھل کر کرنا چاہتا تھا.اب اگر وہ لوگ جن کو مسجد مہیا ہو یعنی اتنے فاصلے پر موجود ہو کہ وہ اس میں جاسکتے ہوں وہ اپنے بچوں کو بھی اس پر آمادہ کریں خود بھی جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی بہت اعلیٰ تربیت ہوگی اور آنحضرت ﷺ کی یہ ہدایت ان پر اطلاق پائے گی کہ روزانہ پانچ وقت ان کے جسموں کے داغ دھلتے رہیں گے.اس وضاحت کے بعد اب میں چند اور باتیں اسی سلسلے میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک تو ضمنی بات ہے کہ حفظوا عَلَى الصَّلَواتِ اب جو لکھا ہوا میرے سامنے ہے یہ بالکل صاف صلوات ہی پڑھا جاتا ہے.گزشتہ جمعہ پر جو تحریر میرے سامنے تھی چونکہ دماغ مضمون میں اٹکا ہوا تھا اس لئے ایک معروف بات بھی ذہن سے اتر گئی کہ الصلوات ہے نہ کہ لصلوۃ تو مجھے بعد میں لوگوں نے توجہ دلائی کہ آپ الصلواۃ پڑھتے رہے ہیں حالانکہ مجھے ویسے ہی یہ آیت یاد ہے حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ ہی پڑھتا ہوں لیکن اس وقت اس کا غذ کی وجہ سے جو میرے سامنے تھا جس میں ”ت مربوط تھی لمبی نہیں تھی.الصَّلَواتِ 'ت مربوطہ سے بھی لکھی جاتی ہے یعنی یہ لفظة " مربوطہ سے بھی لکھا جاتا ہے لیکن اگر لمبی 'ت ہو تو فوراً ہمیں سمجھ آجاتی ہے کہ اس کو صلوۃ نہیں صلوات پڑھنا ہے.وہاں چونکہ مربوطہ لکھی ہوئی تھی اور جوحرکات ہیں وہ واضح نہیں تھیں اس لئے از خود بے خیالی میں میرے منہ سے الصلوۃ ادا ہوتا رہا جس کا اس وقت مجھے پتا نہیں چلا.بعد میں جیسا کہ جماعت بڑی ہوشیار ہے اور باریک باتوں پر نظر رکھتی ہے بعض لوگوں نے بڑے ادب سے مگر وضاحت کے ساتھ توجہ دلائی کہ قرآن کریم کی آیت آپ الصَّلوات پڑھ رہے تھے پہلے حصے میں ، حالانکہ حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ پڑھنا چاہئے تھا.یہ درست ہے اور اس وضاحت کے ساتھ میں یہ عرض کروں گا کہ پہلی کیسٹ میں جہاں جہاں بھی الصلواۃ پڑھا گیا ہے اس کو درست کر دیں اور اب جو میں نے صحیح پڑھا ہے یہ عبارت وہاں بیچ میں داخل کی جاسکتی ہے

Page 772

خطبات طاہر جلد 16 766 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء مگر ہمارے تاریخی ریکارڈ میں یہ تلاوت درست جانی چاہئے حَفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو وَ الصَّلوة الوسطى مضمون بنتا ہی اس طرح ہے اور بالخصوص مرکزی نماز کی کیونکہ سب نمازوں میں اسے ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.اس موقع پر حضور انور نے لب تر کرنے کے لئے گرم پانی طلب فرمایا اور اس سلسلہ میں منتظمین کو ضروری ہدایات سے نوازا.پھر اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے فرمایا :) میں یہ عرض کر رہا تھا کہ صلوۃ وسطی وہ مرکزی نماز ہے جس کی حفاظت کا بطور خاص ہمیں ارشاد فرمایا گیا ہے.اس نماز کی حفاظت کر لیں تو پھر ساری نمازوں کی حفاظت کرلیں گے.یہ نماز تمام دنیا میں اسی طرح اپنے وقت پر آتی ہے اور وقت پر آکر گزر جاتی ہے اور نہ توجہ دینے والے غافل رہتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک نماز کی طرف بھی توجہ اگر صحیح نہ ہو تو کوئی نماز بھی خدا کے حضور مقبول نہیں ہوتی.پس اس پہلو سے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ ہم اپنی مرکزی نمازوں کی طرف توجہ کریں اور انہیں کھڑا کرنے کی کوشش کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ ”نمازوں کو کھڑا کرو اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور اس پر میں پہلے بھی بار بار روشنی ڈال چکا ہوں کہ انسان نمازوں کو کھڑا کرتا ہے اس لئے کہ وہ گرنے کا رجحان رکھتی ہیں یعنی ہر شخص جو اپنی نماز کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے بار بار اس کی توجہ پھرتی ہے اور مضمون سے بہتی ہے.جو نہی وہ توجہ پھرتی ہے اور مرکزی مضمون سے بہتی ہے وہیں نماز گر جاتی ہے.جیسے بعض لوگ تیز ہواؤں میں اپنا کپڑ اسنبھال کر چلتے ہیں.بعض بچیاں جو ملاقات پہ آتی ہیں ، چھوٹی بچیوں کو ماں باپ نے سمجھایا ہوا ہے سر ڈھانپ کے رکھو اور ان کی اوڑھنی سر سے گرتی رہتی ہے وہ پھر اونچا کرتی رہتی ہیں تو یہ گرنا اسی قسم کا ہے.نماز جن آداب کے ساتھ پڑھنی چاہئے ان آداب میں خلل واقع ہو جاتا ہے اور جو نبی نماز اپنے محل اور مقام سے گری و ہیں اس کا فائدہ ختم ہو گیا اور نماز کا فائدہ یہ تھا کہ آپ کو کھڑا کرے.پس یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور بظاہر ایک اندرونی تضاد ہے مگر کوئی تضاد نہیں ہے.حقیقت میں اسی کی نماز سے قائم کر سکتی ہے اور قرآن کریم نے ان لوگوں کا ذکر جو خدا کے سچے مخلص عبادت گزار بندے ہوں قائمون اور قوام کے طور پر پیش فرمایا ہے.پہلے اپنی نمازوں کو کھڑا کرنا سیکھ لو پھر نمازیں تمہیں کھڑا کریں گی.یہ ایک بنیادی امر ہے جس کو بھلانے کے نتیجے میں آپ کی

Page 773

خطبات طاہر جلد 16 767 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء کوئی دائمی اصلاح نہیں ہو سکتی.نمازوں کو کھڑا کرو ان معنوں میں کہ جب بھی توجہ اس سے ہٹ کر ادھر ادھر بکھرے پھر اسے سمیٹو ، پھر واپس نماز کی طرف لاؤ اور یہ وہ جد و جہد ہے جس میں آپ کو بعض دفعه ساری زندگی کام کرنا پڑتا ہے.یہ ایک دفعہ کی جدو جہد نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کی جدو جہد ہے اور یہی وہ مرکزی روحانی حقیقت ہے جس کو نقصان پہنچانے کے لئے شیطان اتنی کوشش کرتا ہے کہ خود حضرت اقدس محمد مصطفی علی علیہ کی نمازوں میں بھی آپ کی توجہ بکھیر نے کی کوشش کیا کرتا تھا ينهى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (العلق : 11،10) یعنی محمد رسول اللہ یہ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو اس وقت کئی قسم کی شیطانی کوششیں ہوتی تھیں.آپ کو بعض دفعہ جسمانی تکلیفیں دی جاتی تھیں ، بعض دفعہ شور ڈالا جاتا تھا یہاں تک کہ اونٹ کی اوجھڑیاں تک آپ کے اوپر پھینک دی گئیں تا کہ آپ کی توجہ ہٹ جائے اور بڑی عظیم جدوجہد کے ساتھ آپ نماز پر توجہ رکھنے کی کوشش فرماتے تھے.پس یہ وہ مسئلہ ہے جس کا آغا ز عام انسان سے، جو خدا کی خاطر نمازوں کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے ، شروع ہو کر اسی عبد کی طرف وہاں تک چلتا ہے جو عبد کامل ہے جس نے سب سے اعلیٰ نمازوں کا حق ادا کیا.پس ان توجہ بکھیر نے والی چیزوں سے ان معنوں میں آپ بیزار نہ ہوں کہ یہ کیا مصیبت گلے پڑ گئی ہے.دراصل یہ مصیبت اس لئے گلے پڑی ہے کہ جتنا آپ اس کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں صحیح معنوں میں اس وقت آپ خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.پس جتنے اردگرد سے شور و غوغا کی آواز میں اٹھتی ہیں اور آپ کی نماز میں حائل ہوتی ہیں یہ آوازیں دراصل نفس کے ان تعلقات کی آوازیں ہیں جو دنیا میں پھیلے پڑے ہیں اور غیروں کو سنائی نہیں دیتیں.گویا عبادت کرنے والا جانتا ہے کہ جب بھی وہ خدا کی طرف توجہ پھیر نی چاہے تو دنیا کے الجھاؤ اسے اپنی طرف بلاتے ہیں اور کھینچ لے جاتے ہیں.ہزار باتیں جن میں ان کو دلچسپی ہوتی ہے وہ نظر کے سامنے آجاتی ہیں اور توجہ خدا کی طرف سے ہٹ کر ان کی طرف چلی جاتی ہے.ان سب جگہوں سے اکھیڑنا یعنی ان تعلقات کو اکھیڑ نا جو مادی دنیا سے آپ کو وابستہ رکھ رہے ہیں یہ نماز کا کام ہے اگر آپ نماز کی حفاظت کی طرف توجہ کریں گے.جب آپ توجہ کریں گے اور ایک ایک کر کے ان تعلقات کو توڑ دیں گے اور جڑوں سے اکھیڑیں گے اور خدا کے لئے اپنے نفس کو خالص کرتے رہیں گے یہ کوشش ہے جس کوشش میں نماز آپ کو کھڑا کرتی ہے یعنی یہ کوشش اپنی ذات میں آپ کو کھڑا کرنے کی کوشش ہے.پس ایک

Page 774

خطبات طاہر جلد 16 768 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء معنی میں آپ نمازوں کو کھڑا کرتے ہیں اور بعینہ اسی وقت یہ نمازیں آپ کو کھڑا کر رہی ہوتی ہیں.پس سننے میں یہ تضاد ہے یا بعض لوگوں کے دیکھنے میں یہ تضاد ہوگا.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ نماز کو کھڑا کرنا یا نماز کا آپ کو کھڑا کرنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس اس پہلو سے مستعد ہو جائیں.اپنی نمازوں کی طرف بھی مزید توجہ کریں اور اپنے بچوں کی نمازوں کی طرف بھی مزید توجہ کریں.ان کو سمجھائیں کہ نمازیں حکمت رکھتی ہیں اور یہ دوسرا پہلو ایسا ہے جو نماز کو کھڑا کرنے میں آپ کا بہت ممد ثابت ہوگا.اگر کسی چیز کی اہمیت واضح ہو جائے ، اگر کسی چیز کے فوائد کا علم ہو تو از خود انسان کی توجہ اس طرف مبذول ہو جایا کرتی ہے.جن لوگوں کی نمازیں زیادہ گرتی ہیں وہ در حقیقت زیادہ کم علم ہیں یعنی ان کو حقیقت میں نماز کے فوائد کاعلم نہیں ہوتا اور نہ ان فوائد سے وہ لذت یاب ہوتے ہیں.پس جب ذاتی طور پر ایک چیز کے اندر جو افادیت خدا نے رکھی ہے اس کا علم ہو جائے ، اس کا حقیقی عرفان ہو جائے اور اس افادیت سے آپ خود فائدہ اٹھائیں تو توجہ بکھیر نے والے عوامل از خود چھوڑ جاتے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.پس یہ طریق کار ہے جس کے ذریعے توجہ کو مبذول کرنا ضروری ہے.اول جیسا کہ میں نے بیان کیا کوشش کریں.کوشش سے بھی کسی حد تک یہ مسئلہ حل ہوتا رہتا ہے لیکن اس بات کی کیوں نہ کوشش کریں کہ مصنوعی کوشش کی ضرورت نہ پڑے.از خود دل ایک طرف سے تعلق توڑ کر دوسری طرف منتقل ہو جائے.یہ وہ دوسرا پہلو ہے جسے انبیاء اختیار کیا کرتے ہیں اور انبیاء کی متابعت میں ان کے خالص وفادار غلام اختیار کرتے ہیں یعنی نماز میں پہلے اپنے دل اٹکاتے ہیں اور نماز میں دل کا اٹکنا خدا سے دل اٹکنے کا دوسرا نام ہے.خدا کی ذات ،اس کی اعلیٰ صفات پر اگر غور کیا جائے اور اپنے بچوں کو بھی اس غور کے نتائج سے آگاہ کریں یعنی اپنے غور کے نتیجوں سے اپنے بچوں کو بھی ساتھ ساتھ واقف کرایا کریں، ان کو علم ہو کہ اللہ کی ذات میں وہ کون سی ایسی باتیں ہیں جو از خود فطرت کو کھینچنے والی ہیں.اگر ان کو علم ہو جائے ، اگر یہ سفر کی دوسری منزل جیسا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے طے فرمائی تھی آپ بھی طے کرنے لگیں تو ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا.اس ضمن میں یا درکھنا چاہئے کہ نماز شروع ہوتے ہی وہ تمام باتیں جو ہم نماز میں کرتے ہیں

Page 775

خطبات طاہر جلد 16 769 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک بے مثل قیمتی موتی کی طرح ہے جس کے علم کے ساتھ ہی آپ کی لاز ما توجہ اس کی طرف ہو جائے گی.اگر آپ کے پاس مختلف کنکر پتھر پڑے ہوں اور آپ کو پتا نہ ہو کہ ان میں سے موتی کون سا ہے تو آپ پتھر کنکروں پر وہی نظر ڈالیں گے جو پتھر کنکروں پر ڈالی جاتی ہے اور ہر گز آپ کو کوئی دلچسپی اس میں نہیں ہوسکتی.ان پتھر کنکروں سے نظر ہٹ کر اپنی جیب کے چند پیسوں کی طرف جا سکتی ہے جو چند پیسے ہیں مگر جن کو آپ پتھر کنکر دیکھ رہے ہیں ان سے بہر حال بہتر ہیں لیکن اگر ان میں اچانک وہ موتی دکھائی دینے لگیں جو اپنی چمک دمک میں بے مثل ہوں تو جیب میں خواہ سونے کی ڈلیاں بھی پڑی ہوں تب بھی آپ اس قیمتی موتی کی طرف دوڑیں گے اور اسی پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کریں گے ، اسے اپنانے کی کوشش کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی تشریحات میں ایسے قیمتی معارف کو جواہر کے طور پر پیش کیا ہے، موتیوں کے طور پر پیش کیا ہے.چمکتے ہوئے موتی ہیں جو اپنی طرف توجہ کو کھینچ رہے ہیں.پس اس پہلو سے جیسا کہ میں نے عرض کیا اگر آپ نماز کے الفاظ پر غور کرنا شروع کریں تو غور کے بعد وہ الفاظ جوسر سری الفاظ تھے جیسے کنکر پتھر ہوں ان الفاظ کی ہیئت بدلنے لگے گی.ان پر غور کے نتیجے میں آپ کو حیرت انگیز معارف نصیب ہوں گے اور وہ معارف ان کی اہمیت آپ کے دل میں بڑھائیں گے، یہاں تک کہ جب ان معارف کو ذہن نشین کر کے آپ پھر وہ الفاظ دہرایا کریں گے تو اس کے مقابل پر دوسرے خیالات آپ کی توجہ پھیرنے کی اہلیت چھوڑ دیں گے، ان میں طاقت ہی نہیں ہوگی کہ ان معارف کے مقابل پر آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں.یہ وہ علم کے حصول کا مرحلہ ہے جس کی طرف جماعت کو خصوصیت سے توجہ دینی چاہئے اور اس توجہ میں نماز سے متعلق جتنی بھی احادیث نبوی ہیں ان پر غور و خوض شروع کریں اور سرسری نظر سے ان کو نہ پڑھا کریں بلکہ غور سے دیکھا کریں کہ کیا مراد ہے.مثلاً آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دو نمازوں کے دوران بھی میرادل نماز ہی میں اٹکا رہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز سے اتنا لطف آیا کہ دو نمازوں کے درمیان اسی لطف میں دل محور ہا اور اگلی نماز نے پھر آپ کو بڑے زور سے کھینچا.یہ ایسی کیفیت ہے جیسے آپ کو دو کھانے نصیب ہوں یعنی دو پہر کا اور رات کا اور دونوں بہت ہی مزے کے ہوں.پہلا کھانا کھا کر اگر یقین ہو کہ ویسا ہی لطف دوبارہ آنا ہے تو ایک رنگ میں توجہ دوسرے کھانے کی طرف بھی مبذول رہتی ہے اور

Page 776

خطبات طاہر جلد 16 770 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے دماغ میں یہ خیال آتا رہتا ہے،مزے مزے کا خیال کہ جب ہم فارغ ہوں گے تو پھر ایک دفعہ کھائیں گے اور جو دل کا اٹکنا ہے وہ دنیا کے کاموں کو یہ توفیق نہیں دیتا کہ اس سے توجہ کلیہ پھیر سکیں.آپ دنیا کمانے میں مصروف ہوں گے آپ کئی قسم کے مشاغل میں مصروف ہوں گے لیکن وہ لذت جو پہلے آئی تھی یعنی پہلی دفعہ کھانا کھانے کی اگر علم ہو کہ سب باتوں سے تھک کر جب میں واپس گھر لوٹوں گا پھر وہی لذت مجھے دوبارہ نصیب ہوگی تو دل اس میں اس طرح اٹکے گا کہ دنیا کے مشاغل اور کام آپ کو اپنی طرف اس طرح نہیں کھینچ سکتے کہ اپنا کھانا پینا بھول جائیں.بعض دفعہ انسان کھانا پینا بھی بھولتا ہے مگر اس کے محرکات اور ہیں.اس کے متعلق میں پہلے بھی غالبا روشنی ڈال چکا ہوں لیکن اس وقت میں اس خطبے میں ان کو نہیں لینا چاہتا.وہ اپنی ذات میں ایسی اہمیت اختیار کر جایا کرتے ہیں کہ وہ محرکات پھر انسان کی بنیادی ضرورتوں میں بھی حائل ہو جاتے ہیں لیکن ان باتوں کو سر دست چھوڑ دیجئے ، اس بات کی طرف واپس آئیں کہ اگر آپ نے نماز میں دل اٹکانا ہے تو نماز میں لذت یابی ضروری ہے.اس سلسلے میں یہ معلومات میں آپ کو مہیا کرتا ہوں کہ پچھلے چند اسباق سے میں نے اردو کلاس میں نماز سے متعلق یہ گفتگو شروع کی ہے اور ان کو اس طرح سمجھا رہا ہوں جیسے میں شروع سے ہی مختلف وقتوں میں اپنے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کیا کرتا تھا.ان کو نماز کی اہمیت کے متعلق سمجھا رہا ہوں لیکن اگر آپ اس اردو کلاس کا مشاہدہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ بچے اس سمجھانے کے نتیجے میں اکتائے نہیں بلکہ اور بھی زیادہ توجہ سے وہ اردو کلاس میں دلچسپی لینے لگے ہیں یعنی جو باتیں میں ان کو سمجھاتا ہوں، جس طریق پر ان کو سمجھاتا ہوں وہ ایسی ہیں کہ کہانیوں سے زیادہ ان کے لئے دلچسپ ہیں اور اللہ تعالیٰ کا عرفان اور آنحضرت ﷺ نے جس طرح نماز پڑھنے کے سلیقے ہمیں سکھائے ہیں وہ جاننے کے نتیجے میں بسا اوقات میری نظر پڑتی ہے تو ان کے چہرے چمک دمک رہے ہوتے ہیں، خوشی کے ساتھ اور ذاتی تعلق کے نتیجے میں ایسے کھلکھلا اٹھتے ہیں کہ مجھے اس سے تسکین ملتی ہے کہ ان بچوں کو دونوں باتیں بیک وقت میسر ہیں، اردو کلاس کی دلچسپی بھی اور نماز کا عرفان بھی ساتھ ساتھ نصیب ہو رہا ہے.یہ کلاسیں ابھی کچھ عرصہ اسی طریقے پر چلیں گی کیونکہ میری عادت ہے کہ ان اسباق میں میں ارد گرد کی باتیں بھی ساتھ ساتھ بتاتا چلتا ہوں تا کہ نماز کے گرد عرفان الہی کے

Page 777

خطبات طاہر جلد 16 771 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء لئے جو دنیا کا ماحول ہے وہ بھی ساتھ قائم ہو کر اسی طرح آگے بڑھے اور بچوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی ہمیں ایسا لیکچر دے رہا ہے جس کو ہماری طبیعت قبول نہیں کرتی اور چونکہ اردو بھی سکھانی ہے اس لئے نماز کے تعلق میں جہاں بھی موقع ہاتھ آتا ہے بعض اردو محاوروں کی تشریح میں میں بظاہر توجہ دوسری طرف پھیر دیتا ہوں لیکن وہ محاورے اگر ان کو سمجھ نہ آئیں تو نماز کا عرفان بھی ساتھ نہیں آئے گا.پس یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اس طرح اٹک گئی ہیں کہ ایک آگے بڑھتی ہے تو دوسری بھی آگے بڑھتی ہے اور دیکھنے والا بعض دفعہ محسوس بھی نہیں کرے گا کہ نماز سکھائی جارہی ہے کیونکہ اردو کلاس کے بعض حصے نماز سے ہٹ کر لفظوں کے معانی، ان کی تشریحات اور قانون قدرت کے متعلق بعض ایسی باتیں بتانے میں صرف ہو جاتے ہیں کہ وقتی طور پر انسان سمجھتا ہے کہ میں اصل مضمون سے ہٹ گیا ہوں.جب پھر میں واپس آتا ہوں اس وقت وہ سمجھتے ہیں کہ اصل سے ہٹے بغیر جوار دو کلاس کے اپنے تقاضے تھے وہ بھی پورے ہور ہے ہیں.پس آپ کی ان دلچسپیوں میں کمی نہیں آئے گی جن دلچسپیوں کی وجہ سے آپ پہلے اردو کلاس دیکھا کرتے تھے.وہ دلچسپیاں اپنی جگہ قائم رہیں گی.انشاء اللہ ان میں ذرہ بھر فرق نہیں آئے گا اور جو میں نے ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ یہ اردو مائدہ کلاس ہے اس میں دستر خوان بھی بچھتا ہے اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی ملتی ہیں وہ سلسلے بند نہیں ہو نگے وہ نماز کے ساتھ ساتھ جیسے روحانی غذا نصیب ہو رہی ہوگی کچھ جسمانی غذا بھی ساتھ ساتھ جاری رہے گی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ خطبات میں جن تفصیلات کو میں بیان نہ کروں اور جن کو مستقل بیان کرنا مشکل ہے اس لئے کہ میں اس سے پہلے یہ باتیں بیان کر بھی چکا ہوں، بعض دفعہ درسوں میں بیان کر چکا ہوں اور اس مضمون کو اب مسلسل آگے نہیں بڑھایا جاسکتا تو یہ جو کمزوری پیدا ہوئی ہے کہ خطبہ جمعہ میں ہمیشہ مسلسل نماز کا ذکر نہیں کیا جا سکتا اس کا ایک ازالہ ہے جو اردو کلاس میں کیا جا رہا ہے.اس لئے آپ لوگ اب اس کو بھی نماز کے اسباق کا حصہ سمجھیں اور آئندہ جب دیکھیں تو اس خیال سے دیکھیں کہ آپ کے دینی علم میں بھی اضافہ ہوگا اور نماز کی حقیقت کئی طریق پر پہلو بدل بدل کر آپ کے سامنے پیش کی جائے گی اور انشاء اللہ تعالی نماز کے آغاز سے لے کر بالآخر السلام علیکم تک جو مضامین اس میں مخفی ہیں، جن کا علم آپ کے لئے ضروری ہے، جن کے علم میں آپ کو دلچسپی رہے گی اور دلچسپی مسلسل آگے بڑھتی چلی جائے گی، وہ معاملہ اب اردو کلاس کے حوالے کر دیا گیا ہے.اس کے ذریعہ

Page 778

خطبات طاہر جلد 16 772 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ نہ دلچسپی میں کمی آئے گی ، نہ ان اہم امور کا علم حاصل کرنے میں آپ کو کوئی کمی محسوس ہوگی.اس خطبہ جمعہ میں اس تفصیل کو میں نے اس لئے کھول دیا ہے تا کہ اب جو باتیں میں آپ کے سامنے تفصیل سے نہیں رکھوں گا آپ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے.نماز میں دلچسپی کے لئے یہ مرکزی بات ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.نماز کا عرفان حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ عرفان ہے جو دنیا سے آپ کی توجہ پھیر سکتا ہے اور نماز کی طرف مبذول کر اسکتا ہے کیونکہ عرفان اپنی نوعیت میں ایسی طاقت ہے جس کا دنیا کی طاقتیں مقابلہ نہیں کرسکتیں کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے.جس چیز کا آپ کو حقیقی عرفان نصیب ہو کہ اس میں میری ذات کے لئے فائدہ ہے، میری روح کے لئے لذت ہے وہ حقیقی عرفان خود اس بات کا ضامن ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی توجہ اسی طرف رکھیں.یہ کہنا آسان ہے مگر یہ کرنا اس لئے مشکل ہے کہ بعض دفعہ دو دھارے بیک وقت بہتے ہیں اور ہر ایک کے تقاضے اپنے اپنے رہتے ہیں.پہلے ہی دن سے انسان کامل عارف بندہ نہیں بن سکتا ، بڑی لمبی محنتوں کی ضرورت پڑتی ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ اردو کلاس سن لیں یا چند خطبے سن لیں تو اچانک آپ اپنے مقام کے آخری مرتبے تک پہنچ جائیں گے اور ساری تو جہات نماز کی طرف پھر جائیں گی.اس خیال کو دل سے نکال دیں لیکن جو باتیں میں بیان کر رہا ہوں آپ کے لئے ممد ثابت ہوں گی، آپ کے لئے مفید ثابت ہوں گی اور آہستہ آہستہ آپ کی نماز کا مزاج بدلنا شروع ہوگا اور یہ بلند تر ہونے لگے گا اور آہستہ آہستہ آپ کو نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی مناجات کی توفیق ملے گی جو پہلے نہیں ملتی تھی اور لذت کے مقامات کچھ بڑھیں گے جو رفتہ رفتہ اور ایسے مقامات پیدا کرنا شروع کریں گے یعنی بعض جگہ ایسے نقطے بن جائیں گے جن میں آپ کی دلچسپی ہمیشہ قائم رہے گی.وہ نقاط رفتہ رفتہ پھیلنے لگیں گے، وہ آپ کے دل کی سطح پر قبضہ کرنے لگیں گے.جوں جوں وہ آگے بڑھیں گے اور پھیلیں گے اور آپ کے دل میں مزید اللہ تعالیٰ سے تعلق کے مقامات پیدا ہونے شروع ہوں گے آپ کی نماز کا عرفان بڑھتا چلا جائے گا اور بالآخر ، اس میں جب میں بالآخر کہتا ہوں تو حقیقت یہ ہے کہ مضمون کا کوئی آخر نہیں مگر انسان کا ایک آخر ہے، بالآخر آپ اس صورت میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو سکتے ہیں کہ آپ کا سفر خدا کی طرف تھا اور خدا کو چھوڑ کر دنیا کی طرف نہیں تھا.اگر چہ تمام تر سفر تو انسان کے لئے

Page 779

خطبات طاہر جلد 16 773 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء ممکن ہی نہیں کہ خدا کی ذات لامحدود ہے.مگر یہ ممکن ہے کہ رخ خدا کی طرف ہو اور اس رخ کے دوران چاہے آپ آہستہ چلیں، چاہے تیز چلیں مگر خدا کی جانب آپ اپنے آپ کو بڑھتا ہوا اور قریب ہوتا ہوا محسوس کرنے لگیں لیکن عرفان کا درجہ کمال تو مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے.یہ خیال کہ آنحضرت مہ جس عرفان کی حالت میں خدا کے حضور حاضر ہوئے تھے اب تک اسی عرفان کی حالت میں ہیں یہ انتہائی جاہلانہ اور ہتک آمیز خیال ہے.یہ آنحضرت ﷺ کی عزت افزائی نہیں ، نہ خدا کی توحید کا حق ادا کرنے کے مترادف ہے.توحید باری تعالیٰ اور اس کا لامتناہی ہونا یہ تقاضا کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے وصال کے وقت تک جو عرفان حاصل کیا تھا وہ عرفان ٹھہرے گا نہیں اور کبھی بھی نہیں ٹھہرے گا.وفات کے بعد خدا کی ذات میں آپ کا سفر جاری رہے گا اور آپ کے مرتبوں کی بلندی کی دعائیں جو ہمیں سکھائی گئی ہیں ہم کرتے رہیں گے اور یہ دعائیں اپنی ذات میں ضروری ہوں یا نہ ہوں آپ کے مرتبے ہر حال میں بڑھتے ہی چلے جائیں گے.پس یہی حال ہم عاجز بندوں کا ہے.ہم اپنے مرنے تک جس سفر کو اختیار کر سکتے ہیں وہ خدا کی طرف قریب ہونے کا سفر ہے، خدا کو پوری طرح پالینے کا سفر ہے جو ہمارے سفر کا منتہی ہے وہ ایک ایسی ذات ہے جو ختم نہ ہونے والی ذات ہے، لا متناہی ذات ہے اور ایسی لامتناہی ذات ہے کہ انسانی ذہن عاجز آجاتا ہے لیکن اس کی کنہ کو سمجھ نہیں سکتا.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی کنبہ کو سمجھ سکتے ہیں.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: 12) اس جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں یعنی جو بھی مخلوقات ہیں وہ خالق کی پیدا کردہ ہونے کی وجہ سے خالق کا رنگ رکھتی ہیں مگر خود خالق نہیں اس لئے مخلوق اور خالق میں ایک فرق ایسار ہے گا جسے مخلوق سمجھ نہیں سکتی کیونکہ اس نے جو بھی دیکھی ہے مخلوق دیکھی ہے، اپنے جیسے دیکھے ہیں اور اپنی مخلوق کے اندر خالق کوئی نہیں دیکھا اور خالق اس سے مخفی رہتا ہے جس طرح ہر آرٹ سے اس کا آرٹسٹ مخفی رہتا ہے.بڑی سے بڑی تصویر اٹھا کر دیکھ لیں جو دنیا میں بہت شہرت اختیار کر گئی ہو اس تصویر کو اگر شعور بھی ہو تو وہ جس دماغ نے اس کو جنم دیا، جس نے پیدا کیا، جن ہاتھوں نے وہ عکاسی کی وہ اس کو نہیں سمجھ سکتے وہ اور چیز ہیں.مخلوق اور ہے خالق اور ہے.پس یہی وجہ ہے کہ فلسفیوں نے بہت زور مارے لیکن خدا تعالیٰ کی کنبہ کو نہ پاسکے اور یہی وجہ ہے کہ بعض قدیم چوٹی کے فلسفی اس مسئلے کو سمجھ گئے کہ خدا کی ذات کا سمجھنا مخلوق کے لئے ممکن ہی نہیں ہے.اس پہلو

Page 780

خطبات طاہر جلد 16 774 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء سے اس کی ذات الگ رہے گی.مگر وہ صفات جو تخلیق میں جلوہ گر ہو چکی ہیں ان کو سمجھنا ہمارے لئے ممکن ہے اور انہی صفات کو سمجھنے کے حوالے سے ہمارا سفر آگے بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ وہ مخفی در مخفی ذات اپنے بعض اور جلوے دکھائے اور ان جلوؤں میں ہمارا سفر اس کی طرف پھر ہمیشہ آگے بڑھنے لگے.یہ دنیا اور آخرت کا سفر ہے جسے ہم نے اختیار کرنا ہے مگر اگر باشعور طور پر اس سفر کے حقائق کو سمجھتے ہوئے اس دنیا میں ہم اس کا آغاز نہ کریں تو آخرت میں بھی یہ سفر نصیب نہیں ہوگا جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا.پس اس حقیقت کی طرف ساری جماعت کی آنکھیں کھولنے کے لئے میں بار بار نماز کی اہمیت کی طرف آپ کو متوجہ کر رہا ہوں.ان معنوں میں نماز کو سمجھیں اور اپنے گھروں میں، اپنے بچوں میں، اپنی بیویوں کو نماز سمجھائیں اور وہ آگے پھر آئندہ نسلوں کو سمجھائیں.اگر نماز کا مضمون جماعت پر روشن ہو کر ان کے وجود کا حصہ بن جائے تو پھر اطمینان سے جان دے سکتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی کہ دور تک آئندہ نسلوں کو خدا کی راہ پر ڈال چکے ہیں.شیطان انہیں ورغلاتا رہے گا اور ورغلانے کی کوشش کرتا رہے گا، آپ کو بھی ور غلا تا رہے گا ، آپ کو بھی ورغلانے کی کوشش کرتا رہے گا مگر ہمت اور کوشش سے اپنی نماز کو کھڑا کرتے چلے جاتا ہے.یہ کھڑا کرتے چلے جانا وہ توفیق ہے جو ہمیں نصیب ہے.پوری طرح کھڑا کر دینا ہمیں توفیق نہیں.اس لئے اس کا آخری پہلو دعا پر ٹوٹتا ہے.اللہ تعالیٰ سے ان ساری کوششوں میں دعا کرنا جو نماز کے دوران ہی نہ ہو بلکہ نماز کے بعد کے حصوں پر بھی حاوی ہو یہ بنیادی حقیقت ہے جس سے روگردانی ہمیں ان معارف کو حاصل کرنے میں روک بن جائے گی.دعا سے روگردانی کسی حالت میں نہیں کرنی.دعائیں کریں.اپنی ذات کے لئے بالا رادہ دعائیں کریں اور روزانہ دعائیں کریں.اگر آپ دعائیں نہیں کریں گے تو آپ کو نماز کی طرف توجہ ہی پیدا نہیں ہوگی.دعاؤں کے ذریعے اس توجہ کو نمایاں کریں اور جوں جوں آپ کی دعا مقبول ہوگی ، دل سے اٹھتے ہوئے آپ کے دل پر ایک اثر چھوڑتی چلی جائے گی جو اس کے اٹھنے کا ایک نقش ہے.جس طرح سمندر سے ہوائیں اٹھتی ہیں ان میں بجلی پیدا ہوتی ہے لیکن وہ اٹھتی ہیں تو پیچھے رہنے والے پانی میں بھی بھلی پیدا کر دیتی ہیں اور یہ قانون قدرت ہے جو ہمارا حوصلہ بڑھاتا ہے.

Page 781

خطبات طاہر جلد 16 775 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء پس حقیقت دعا ایک بہت گہرا مضمون ہے.اس کی مقبولیت کے متعلق اس وقت تفصیل میں جانے کا وقت نہیں مگر ایک بات میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ دعا جو دل سے اٹھے وہ اٹھتے ہوئے اپنی مقبولیت کا ایک نشان پیچھے چھوڑ جاتی ہے اور وہ نشان آپ کی امانت ہے وہ نشان آپ کے حوصلے بڑھانے والا ہے وہ نشان آپ کا یقین بڑھانے والا ہے کہ آپ نے دعا مانگی تھی اخلاص سے مانگی تھی اور اس کا ایک نیک اثر آپ کے دل پر قائم ہو چکا ہے.پس اس طرح کی دعا ئیں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے آپ کی دنیا بھی سنوار دیں گی اور آپ کی عاقبت بھی سنوار دیں گی.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر پہلو سے ہماری نمازیں خالصتہ اللہ ہو جائیں، اسی کے لئے وقف رہیں اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی اپنی اسی نیک راہ پر قائم رکھے.اس ضمن میں جو دوسری احادیث میں نے چینی تھیں ان کو پڑھنے کا زیادہ وقت تو نہیں رہا لیکن ایک روز مرہ کی ایسی عام حقیقت ہے جو ہمارے سامنے رہنی چاہئے کہ بعض دفعہ قلبی تو جہات کے سوا جسمانی تو جہات بھی نماز میں مخل ہو جاتی ہیں یا جسمانی حوائج بھی نماز میں مخل ہو جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ان کی طرف بھی متوجہ فرمایا ہے.مثلاً ایک یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ صلى الله عنہا سے مروی حدیث مسلم کتاب الصلوۃ سے لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہ نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب دستر خوان بچھ جائے اور کھانا چن لیا جائے تو نماز شروع کرنا اسے خراب کرنے کے مترادف ہے.صلى الله جب دستر خوان بچھ جائے اور کھانا چن لیا جائے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس وقت اس کو اہمیت دو اور نماز کو چھوڑ دو.یہ نصیحت ہے کہ ایسے وقت میں دستر خوان نہ بچھایا کرو جونماز کا وقت ہوا کرتا ہے ورنہ آدھی توجہ تمہاری دستر خوان پر رہے گی اور آدھی نماز کی طرف رہے گی.تو بعض لوگ اس کا مطلب اور لے لیتے ہیں کہ نہیں نہیں رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ آرام سے کھانا کھاؤ نماز دیکھی جائے گی.ہرگز آنحضرت ﷺ کا یہ حکم نہیں ہے.یہ حوائج ضرور یہ ہیں جو اگر ایسے وقت میں آئیں کہ نماز کا وقت ہو تو لا ز مادخل انداز ہوں گی.جو ہمارے بس میں ہے وہ تو اختیار کریں اور اگلی بات رسول اللہ ہے نے وہ فرمائی ہے جو ہمارے بس میں نہیں اور اس پہلی مثال پر مزید روشنی ڈالتی ہے.اسی طرح اگر دو خبیث چیزیں یعنی بول و براز کی حاجت اسے روک رہی ہو تو بھی نماز پڑھنا بے معنی ہے.اب آپ ليسة

Page 782

خطبات طاہر جلد 16 776 خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء دیکھ لیں کہ یہ جو حاجات ہیں یہ از خود اٹھتی ہیں اور انسان کا نفس اسے بتادیتا ہے کہ جب تک ان سے فارغ نہ ہوں میں نماز نہیں پڑھ سکتا.تو اتنا حصہ ایک مجبوری کے تحت ہے کیونکہ ان حاجات کا پیدا ہونا انسان کے بس میں نہیں ہے.اگر اس وقت ان حاجات سے فارغ ہوئے بغیر نماز کی طرف جائے گا تو اس کی نماز بے معنی ہو جائے گی ، توجہ نماز میں قائم رہ ہی نہیں سکتی.تو آنحضرت ﷺ نے دو باتوں کو آپس میں عجیب طریق سے باندھا ہے.ایک کھانا اور ایک اس کھانے کا انجام.جو انجام ہے وہ تو ہمارے بس میں نہیں ہے اس میں تو کوشش کرنی چاہئے جلد سے جلد اس سے فارغ ہو اور پھر نماز کی طرف جاؤ لیکن جو آغاز ہے، جو وہ انجام پیدا کرتا ہے وہ ہمارے بس میں ہے.پس ایسے وقت میں کھانوں کے اوقات نہ رکھو جو نماز سے ٹکرائیں اور عادت ڈالو اور بچوں میں بھی یہ عادت پختہ کرنے کی کوشش کرو کہ ان کے کھانے پینے کی عادات نماز سے ٹکرانے والی نہ ہوں.اس طریق پر انشاء اللہ تعالیٰ وہ ظاہری محرکات جو نماز میں مخل ہوتے ہیں ان سے بھی آپ چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں.

Page 783

خطبات طاہر جلد 16 777 خطبہ جمعہ 24 /اکتوبر 1997ء نماز قائم کرنے کے جو مختلف مراحل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اپنے ساتھیوں کی نماز بھی کھڑی کرو ( خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 1997ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنكبوت: 46) پھر فرمایا: گزشتہ دو خطبوں میں میں نے نماز کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی ، نماز باجماعت کی طرف خصوصیت کے ساتھ ان نمازوں کی طرف جو کاموں کے درمیان پڑتی ہوں جن کی خاص طور پر حفاظت کا قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے.اس سلسلے میں آج یہ تیسرا خطبہ ہے اور اس کو بھی میں نماز ہی کی اہمیت سے متعلق وقف رکھوں گا.پھر انشاء اللہ آئندہ جو خطبہ آنے والا ہے اس میں تحریک جدید کا نیا سال شروع ہونا ہے اس کا ذکر ہوگا.پھر دوسرے امور بہت سے ہیں جو اپنی توجہ کھینچتے ہیں.ضمناً کبھی کبھی نماز کا ذکر آئندہ خطبوں میں بھی چلتا رہے گا کیونکہ یہ بہت اہم مضمون ہے.انسانی زندگی کی جان ہے نماز، انسان کو پیدا کرنے کے مقاصد میں سے اول مقصد یہ ہے.جس آیت کی آج میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے یہ سورۃ العنکبوت کی چھیالیسویں

Page 784

خطبات طاہر جلد 16 778 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء آیت ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ کہ جو کچھ تجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی کیا جا رہا ہے کتاب میں سے، اس کی تلاوت کر واقِيمِ الصلوۃ اور نماز کو قائم کر.گویا جو کچھ بھی کتاب میں وحی کیا جا رہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وَاَقِمِ الصلوة باقی ساری باتیں ضمنی اور نسبتاً ثانوی حیثیت رکھتی ہیں.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْھی - عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ یقینا نماز فحشاء سے منع کرتی ہے اور منکر سے منع کرتی ہے.وَلَذِكْرُ الله اكبر اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو.یہاں قرآن کریم نے دو باتیں ایسی بیان فرمائی ہیں جن کو ہم نماز کی نشانی کے طور پر بھی لے سکتے ہیں.بسا اوقات انسان کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ میری نمازیں مقبول ہوئی ہیں کہ نہیں.اس کا آسان حل اس آیت نے تجویز فرما دیا ہے.نماز میں تو یہ خوبی ہے کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے.اگر نمازیں پڑھنے کے بعد تم پھر فحشاء اور منکر میں مبتلا ہو جاؤ تو ثابت ہوا کہ تم نے نماز نہیں پڑھی کچھ اور پڑھا ہے.یہ ایک ایسا رابطہ قرآن کریم نے ان دو چیزوں کا قائم فرمایا ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کریں اور مزید عارفانہ مضامین آپ کو سمجھ آنے لگیں گے.چند باتیں اس سلسلے میں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ فحشاء ہر اس بدی کو کہا جاسکتا ہے جو وبا کی حیثیت رکھتی ہو اور جو پھیلنے والی ہو.فحشاء کا ایک معنی ہر قسم کی بے حیائی بھی لیا گیا ہے اور قرآن کریم نے اس لفظ کو مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے لفظ فحشاء میں اس بدی کا ذکر ملتا ہے جو کھل جائے ، جو سوسائٹی کا حصہ بن جائے، جو اور لوگوں کے دل بھی بڑھائے کہ وہ اس بدی میں مبتلا ہوں اور نزلہ زکام اور ایسی وباؤں کی طرح اگر ایک دفعہ سوسائٹی میں پھیلیں تو پھر پھیلتی چلی جائیں.ہر وہ بدی جو یہ مزاج رکھتی ہو اس کو فحشاء کہا جاسکتا ہے.خواہ وہ بڑی ہو خواہ وہ چھوٹی ہو.تو سب سے پہلی بات نماز کی قبولیت کی نشانی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ نماز تمہارے اندر کوئی ایسی بدی باقی نہیں رہنے دے گی جس کا نقصان دوسروں کو پہنچ سکے اور مسلم کی تعریف بھی تو یہی ہے اور مومن کی تعریف بھی تو یہی ہے.مسلم وہ ہے جو دوسرے کو امن دے، جو دوسروں کو سلامتی پہنچائے اور مومن وہ ہے جو دوسروں کو امن دے.تو اگر کسی ذات سے گناہ کی وبائیں پھیلتی ہوں ، اس کے عمل

Page 785

خطبات طاہر جلد 16 779 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء سے دوسروں کو بری باتوں کی جرات ہوتی ہو تو یہ بات اس کے مومن ہونے کے بھی خلاف ہے، اس کے مسلم ہونے کے بھی خلاف ہے.تو نماز کی ایسی نشانی جس کو ہر انسان پہچان سکتا ہے وہ یہ ہے ورنہ لوگ وہموں میں مبتلا رہتے ہیں کہ تمہاری نمازوں کی کیا آواز ہے؟ وہ کیا فتویٰ دے رہی ہیں؟ اور یہ ساده سی پہچان روزمرہ کی زندگی میں انسان میں پائی جاتی ہے.ہزار ہا ایسی برائیاں ہیں جن میں انسان مبتلا ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ برائیاں آگے دوسروں کو لگنے والی ہیں اور اس میں جو احتیاط برتی جائے اس میں اور منافقت میں ایک فرق ہے.منافقت ایسی بدی کو چھپانا ہے جس کے نتیجے میں انسان دنیا میں نیک مشہور ہو، دنیا کو بدی سے بچانا مقصود نہیں ہے.منافقت اس کوشش کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان کے دعوؤں پر پردہ پڑا ر ہے ، ان دعوؤں سے وہ بے نیاز ہو یعنی مطلب یہ ہے کہ ان کی موجودگی اسے تکلیف نہ پہنچائے اور صرف اس لئے پردہ ڈالے کہ وہ داغ ظاہر ہو کر جو اس کا ایک تاثر معاشرے میں پیدا کرتے ہیں اس کے بالکل برعکس تاثر پیدا ہو.فحشاء بالکل اور چیز ہے.فحشاء انسان کی ایسی بیماریاں ہیں جن کے خلاف وہ جدو جہد کرتا ہے.اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بیماریاں اس سے ہٹ جائیں لیکن جب تک نہیں ہمتیں وہ اس غرض سے انہیں چھپاتا ہے کہ میری اولاد، میری بیوی ، میرے بچے انہی بیماریوں میں مبتلا نہ ہو جائیں.پس یہ فرق ہے فحشاء اور منافقت کے مضمون میں.پس ہر انسان اپنی ذات کو اپنی ذات ہی سے پہچان سکتا ہے کہ اس کی عادتیں اسے فحشاء کا مرتکب تو قرار نہیں دے رہیں.ایک انسان جب جھوٹ بولتا ہے تو کئی دفعہ چھپا کے بولتا ہے، کئی دفعہ کھلے اظہار کے طور پر بات کرتا ہے.اب یہ ایک ایسی مثال ہے جو ان دونوں چیزوں میں فرق کر دے گی.ایک انسان جھوٹ بولتا ہے کسی دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے ، یہ اپنی ذات میں ایک گناہ ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ اس کو پتا نہیں چلا اس لئے وہ جھوٹ بولنا فحشاء نہیں ہے وہ ایک اثم ہے، ایک ذنب ہے، ایک گناہ ہے.مگر اس جھوٹ بولنے کو فحشاء نہیں کہہ سکتے کیونکہ جب وہ جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دیتا ہے تو مقصد یہ ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے.تو جھوٹ کا اثر فحشا نہیں ہو گا لیکن جب وہ گھر میں آکے بتاتا ہے اپنے بیوی بچوں کو اور مزے لے لے کر بتا تا ہے یا اپنے دوستوں کو سوسائٹی میں مزے لے لے کے بتاتا ہے کہ اس طرح میں نے اس کو پاگل بنایا، اس طرح میں نے اس کو بے وقوف بنایا اور دیکھو میں کیسا چالاک ہوں میں کس طرح لوگوں کو دھو کے دے کر کیسے کیسے عارضی یا

Page 786

خطبات طاہر جلد 16 780 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء دنیاوی فائدے حاصل کر لیتا ہوں، یہ فحشاء ہے.اگر کسی نے غلطی سے مجبوراً جھوٹ بولا ہو، ویسے تو جھوٹ کے لئے کوئی قابل قبول مجبوری نہیں ہے اور اسے دکھ محسوس ہوا ہو تو وہ اور قسم کا جھوٹ ہے، بالا رادہ دھوکہ دینا یہ ایک اور قسم کا جھوٹ ہے.دونوں فحشا نہیں ہیں.مگر جب دوسرے جھوٹ کا ذکر کر کے ، جو بالا رادہ دھوکہ دینے کے نتیجے میں بولا جاتا ہے، انسان اپنی بڑائی لوگوں میں بتا تا ہے تو یہ فحشاء ہے اور جو پہلی قسم کا جھوٹ ہے جو اس نے مجبور ابول دیا ہواس پر تو وہ خود پچھتاتا ہے اس پر فخر کیسے محسوس کر سکتا ہے، وہ فحشاء بن ہی نہیں سکتا.اس کے متعلق وہ لوگوں کو بتا تا نہیں پھرے گا کہ دیکھو میں ایسا گندہ آدمی ہوں کہ میں نے فلاں مصیبت کے وقت جھوٹ بول دیا.پس گناہوں کی تفریق کرنے کی عادت ڈالیں.ہر گناہ کا جو محرک ہے اس کو پہچاننے کی کوشش کریں اور یہ سفر اپنی ذات کا سفر ہے.اپنی ذات کے سفر کے بغیر آپ کو خود اپنا چہرہ بھی صحیح دکھائی نہیں دے سکتا اور اپنی ذات کے سفر کے بغیر یہ باتیں معلوم نہیں ہوسکتیں جو قرآن کریم نے یہاں بیان فرمائیں کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ تم کس حد تک فحشاء سے بچ سکے ہو اور جیسا کہ میں نے ایک مثال جھوٹ کی دی ہے ویسی ہی بکثرت دوسری مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں انسان فحشاء میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی جانتا نہیں کہ میں مبتلا ہوں لیکن اگر اس نے نمازیں پہچانتی ہیں کہ میری نماز میں کیا ہیں تو پھر اسے غور کرنا ہوگا اور جب وہ غور کرے گا تو اس کا اپنا چہرہ جو اس کے اپنے آئینے میں دکھائی دے رہا ہے اسے بتائے گا کہ تم نمازیں نہیں پڑھ رہے تھے کچھ اور کر رہے تھے.دوسرا پہلو اس آیت کریمہ کا یہ ہے کہ فحشاء میں مبتلا لوگوں کی نماز کی طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی.نماز میں قیام ضروری ہے اور جو لوگ فحشاء میں مبتلا ہوں ان کے لئے نماز کا قیام بڑا مشکل کام ہے کیونکہ فحشاء ان کو اپنی طرف کھینچے گی اور بار بار ان کی نماز کو گرا دے گی.پس یہ دوسری مصیبت ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں فرمایا کہ اگر تم نے نماز پڑھنی ہے تو نماز اور فحشاء کا ٹکراؤ ہے.قیام نماز کے لئے ضروری ہے کہ تم فحشاء سے باز آجاؤ.اگر نہیں آؤ گے تو عمر بھر کی نمازیں رائیگاں جائیں گی ، ان کا کچھ بھی فائدہ تمہیں نہیں پہنچے گا.وَالْمُنْكَرِ منکر نا پسندیدہ باتوں کو کہتے ہیں جنہیں عام معاشرہ بھی ناپسندیدہ سمجھتا ہے تو محض فحشاء سے بچ جانا کافی نہیں.منکر جو اس کے مقابل پر نسبتا ادنی درجے کی احتیاط ہے یعنی جس کو

Page 787

خطبات طاہر جلد 16 781 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء بری باتیں عرف عام میں کہا جا سکتا ہے، ان سے بچنا.ان سے بھی نماز روکتی ہے یعنی نماز کے بعد ایک نمازی کے اندر ایک وقار پیدا ہونا چاہئے.اگر وہ نماز مقبول ہوئی ہے تو اس کی عادات و اطوار میں، اس کے رہن سہن میں ایک وقار پیدا ہو جائے گا جو قرب الہی کے نتیجے میں پیدا ہونا لازم ہے.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ آپ کی سوسائٹی اچھی ہو اور اس سوسائٹی کو آپ اچھا سمجھتے بھی ہوں اور پھر آپ میں اس سوسائٹی کی خُوبُو نہ پائی جائے.جن لوگوں میں انسان چلتا پھرتا ہے ان کے رنگ بھی اختیار کرتا ہے.ایک شاعر نے کہا ہے کہ گل کی مٹی میں بھی گل کی خوشبو آجاتی ہے اور یہ گل کی تاثیر ہے تو نماز کی تا شیر یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ نماز تو تمہیں خدا کے قریب کرنے کے لئے ہے.اگر نماز قائم ہوگئی ہو اور تم خدا کے قریب ہورہے ہو تو ہر وہ حرکت جو وقار کے منافی ہے اور خدا کی عظمت اور شان کے منافی ہے اس حرکت کو نماز تم سے دور کرتی چلی جائے گی.یہ ایسی پہچان نہیں ہے جس کے لئے بہت بڑے عارفانہ غور کی ضرورت ہو.یہ ایسی پہچان ہے جس کو آپ خود روز مرہ جان سکتے ہیں.نماز کے لئے نکلے اور بیہودہ حرکتیں اور فضول باتیں شروع کر دیں.آپ کو پتا نہیں لگ سکتا کہ میں بیہودہ حرکتیں کر رہا ہوں اور فضول باتیں کر رہا ہوں اور اس وقت کی پڑھی ہوئی نماز آپ کو اپنے سے دور کر دے گی.یعنی بظاہر آپ نماز کا قیام کر رہے ہوں گے مگر نماز گرانے والے بنیں گے اور یہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نماز کو قائم کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جن کو نماز قائم کرتی ہے.نماز کو گرانے والے ہی وہ لوگ ہیں جن کو خود نماز گراتی ہے.پس یہ ایسا رد عمل ہے جو طبعی طور پر خود بخود ظاہر ہو رہا ہے.وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ اور ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے.اگر نماز قائم ہو تو وہ ذکر اللہ سے بھر جائے گی.اگر نماز قائم ہو تو ذکر اللہ سے صرف نماز ہی نہیں بھرے گی بلکہ ایسے شخص کے دن رات ذکر الہی سے بھر جائیں گے.یہاں تک کہ اس کو کسی دوسری چیز کی فرصت نصیب نہیں ہوگی.وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ اور یا درکھو کہ اللہ خوب جانتا ہے جو تم کام کرتے ہو یعنی اکثر اپنے اعمال سے انسان غافل رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے علم میں ہے.يد سورۃ العنکبوت کی چھیالیسویں آیت تھی جس کا میں نے ترجمہ اور مختصر تشریح کی ہے.اب میں صلى الله حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے بعض ارشادات نماز ہی کے متعلق آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے.ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب قیام اللیل

Page 788

خطبات طاہر جلد 16 782 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء سے لی گئی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے.اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑ کے تا کہ وہ اٹھ کھڑی ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس کی بیوی رات کو اٹھے، نماز پڑھے اور اپنے میاں کو جگائے.اگر اس نے اٹھنے میں پس و پیش کیا تو اس کے چہرے پر پانی چھڑ کے تا کہ وہ اٹھ کھڑا ہو.اب ان سادہ سے الفاظ میں بعض باتیں مضمر ہیں جن کو کھولنا ضروری ہے.پہلی بات آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے کہ نماز پڑھے اور پھر اٹھائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تہجد ادا کرے جس کے لئے ضروری نہیں کہ اس کا ساتھی بھی اٹھایا جائے اور اگر وہ اپنے ساتھی کو تہجد کے لئے اس لئے نہ اٹھائے کہ اس کی خواہش نہیں ہے تو یہ عین مناسب ہے.لازماً، ز بر دستی نوافل کے لئے کسی کو اٹھانا یہ درست نہیں ہے.پس دیکھیں کیسے خوبصورت الفاظ ہیں کہ اٹھے، نماز پڑھے اور پھر اپنے ساتھی کو اٹھائے.وہ فرض نماز ہے جس کے لئے اٹھایا جارہا ہے.اور فرمایا، اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑ کے.یہ پانی چھڑکنے کا مضمون بتا رہا ہے کہ وہ مرد یا وہ عورت جن کا ذکر چل رہا ہے ان دونوں کی نیت نماز کی ہے.وہ ارادہ نماز چھوڑنے والے نہیں ہیں.اس لئے پانی چھڑکنا ان پرز بر دستی نہیں حالانکہ وہ بالغ ہیں ، جوان ہیں، اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں.پانی چھڑ کنا بتا رہا ہے کہ انہوں نے درخواست کر رکھی ہے کہ اگر ہم سے نہ اٹھا جائے تو پانی چھڑ کنا.اگر یہ مضمون اس میں مضمر نہ ہوتا تو نماز کے وقت تو دنگا فساد برپا ہوجاتا.کوئی عورت نیک بی بی کسی بد بخت خاوند کے منہ پر روزانہ چھینٹے مار کے اس کو اٹھائے جس کا نماز میں دل ہی نہیں، جس کی نیت ہی نہیں ہے وہ تو آگے سے جوتی لے کر پڑے گا.تو یہ کلام خود بولتا ہے کہ میں نبی کا کلام ہوں اس لئے روایات میں راوی سے بہت زیادہ اہمیت مضمون کو دینی چاہئے.آنحضرت کے منہ کی باتیں خود بولتی ہیں کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام ہوں.ان باتوں میں صلى الله الله جب بھی کسی غیر بات کی آمیزش ہو وہ خود بول پڑتی ہے کہ میں اس رسول کا کلام نہیں ہوسکتا.پس بسا اوقات اچھے راویوں سے بعض روایتیں ہیں جن میں الفاظ بدلنے کے نتیجے میں کچھ ایسی کمزوریاں دکھائی دیتی ہیں کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کلام، اتنا حصہ کم سے کم ، آنحضرت ﷺ کا کلام نہیں تھا.چنانچہ بہت سے راوی ایسے بھی ہیں جو احتیاط برتتے ہیں ، کہتے ہیں جہاں تک مجھے یاد ہے یہ الفاظ

Page 789

خطبات طاہر جلد 16 783 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء تھے.جہاں تک میں نے سوچا ہے مجھے یہ لگتا ہے مگر ضروری نہیں ، ہوسکتا ہے آنحضور کے الفاظ کچھ اس سے مختلف ہوں.اس وجہ سے اختلاف روایت کی ہمیں سمجھ آجاتی ہے.تو اس پر آپ غور کر لیں کہ جو پانی کے چھینٹے دئے جارہے ہیں یہ بتارہے ہیں کہ دونوں میاں بیوی بنیادی طور پر نیک ہیں، چاہتے ہیں کہ ان کو اٹھایا جائے اور نیند کی غفلت حائل ہو جاتی ہے اور دونوں کے درجے الگ الگ ہیں.ایک تہجد گزار ہے اور دوسرا عام نمازی ہے اس کاBehaviour، اس کا سلوک ایک عام نمازی جیسا ہے.تو نماز قائم کرنے کے جو مختلف مراحل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اپنے ساتھیوں کی نماز بھی کھڑی کرو اور اس نماز کو کھڑا کرنے میں زبردستی نہیں ہے مگر ماحول کو اس طریق پر خطرات سے بچایا جا سکتا ہے.جب ایک بیوی خاوند کی نماز میں مددگار بن جائے ، خاوند بیوی کی نماز میں مددگار بن جائے تو ظاہر بات ہے کہ ان لوگوں کی اولاد پر اس کا نیک اثر پڑے گا اور نماز سارے ماحول میں قائم ہوگی.ایک دوسری حدیث صحیح مسلم جلد اول کتاب الايــمــان بــاب بــان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلوۃ صفحہ : 75 سے لی گئی ہے.حضرت جابرروایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے یہ مضمون میں نے پچھلی دفعہ بھی بیان کیا تھا کہ نماز کو چھوڑنے والا شرک کی وجہ سے نماز کو چھوڑتا ہے اور بسا اوقات اسے معلوم نہیں ہوتا کیونکہ نماز اپنی ذات میں ایک ایسا اعلیٰ درجے کا روحانی مائدہ ہے جس میں لذت ہے اور اگر اس کے برعکس کوئی اور مائدہ زیادہ لذت والا نظر آئے تب انسان اس مائدہ کو یعنی اس دستر خوان کو چھوڑے گا.تو شرک کا مضمون تو پہلے ہی موجود ہے.نماز چھوڑ کر شرک میں مبتلا نہیں ہوتا، نماز اس لئے چھوڑتا ہے کہ مشرک ہے یعنی خدا تعالیٰ کے قرب کے مقابل پر غیر اللہ کے قرب کو زیادہ اہمیت دیتا ہے.اس مضمون پر جب علماء غور کرتے ہیں تو انہوں نے شرک کی مختلف قسمیں بنا رکھی ہیں.بعض کو کہتے ہیں شرک جلی اور بعض قسموں کو کہتے ہیں شرک خفی.جلی وہ ہے جو انسان کھلم کھلا شرک کرتا ہے.خدا کے سوا معبود ہیں، بتوں کی پرستش، چاند سورج کو خدا سمجھنا جیسا کہ آج کل بھی بہت سے مذاہب میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں یعنی انسان کو خدا کا شریک بنالینا، قبروں کی پوجا کرنا یہ سب شرک

Page 790

خطبات طاہر جلد 16 784 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء صلى الله جلی ہیں.شرک خفی یہ مضامین ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ انسان کو جو خود شرک میں مبتلا ہے اس کو بھی نہیں پتا چلتا کہ وہ شرک کر رہا ہے اس کو شرک خفی کہتے ہیں، جو چھپ گیا.پس ہر قسم کے شرک کو چھوڑ نا ضروری ہے خواہ وہ ظاہر ہو، خواہ وہ چھپا ہوا ہو کیونکہ شرک کے ساتھ انسان کی روحانی زندگی بالکل تباہ ہو جاتی ہے، نہ وہ اس دنیا کے قابل رہتا ہے نہ آخرت کے قابل رہتا ہے.حضرت جابر نے مختصر حدیث بیان فرمائی دو چار لفظوں کے اندر لیکن بہت گہری حقیقت سے ہمیں روشناس کرا دیا.اب میں ایک اور حدیث بخاری کی کتاب الجہاد سے پیش کرتا ہوں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے روایت کی.کہتے ہیں میں نے آنحضرت مہینہ سے پوچھا، کون ساعمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا وقت پر نماز پڑھنا، یعنی نماز کے لئے جو وقت مقرر ہے اس محل، اس وقت کے او پر نماز پڑھنا خدا تعالیٰ کو پسند ہے، میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا ماں باپ سے نیک سلوک کرنا ، پہلے خدا کا حق ہے پھر ماں باپ کا حق ہے اور خدا کے حق سے اگر ماں باپ کا حق بظاہر مجروح ہوتا ہوتو خدا کا حق ادا کر نالازم ہے.ماں باپ سے باوجود اس کے کہ بے انتہا نیکی کی تعلیم دی گئی ہے اس وقت روگردانی کرنا اس لئے کہ اللہ کا حق اپنی طرف بلا رہا ہے یہ گناہ نہیں ہے بلکہ نیکی ہے.فرمایا نماز وقت پر ادا کرنا، ماں باپ سے نیک سلوک کرنا.پھر میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کرنا یعنی خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے پوری پوری کوشش کرنا.صحیح مسلم جلد دوم كتاب الطهارة باب تبلغ العلية حيث يبلغ الوضوء صفحه : 26 میں نماز سے متعلق ایک حدیث ان الفاظ میں درج ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالی گناہ مٹادیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺہ ضرور بتائیے.آپ نے فرمایا! ( سردی وغیرہ کی وجہ سے مثلاً ) دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا.یہ جو دل نہ چاہنا ہے اس میں سردی کا مضمون بھی داخل ہے اور بھی بہت سے مضامین داخل ہیں.کئی لوگوں کو سستی ہوتی ہے، کئی دفعہ زیادہ گرم پانی سے وضو کر نا پڑتا ہے جیسا کہ پرانے زمانے میں فریج وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے تو باہر گرم ٹوٹیوں سے بعض دفعہ وضو کر نا پڑتا تھا تو کافی گرم پانی ہوتا تھا اور بعض دفعہ سردیوں میں

Page 791

خطبات طاہر جلد 16 785 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء بے انتہا ٹھنڈا ہو جاتا تھا.تو ایسی حالت میں وضو کرنا جب کہ طبیعت پر گراں گزرے.اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو انسان وضو کرتا ہی ہے وہ بھی ایک نیکی ہے.مگر وہ نیکی جو اللہ تعالیٰ کو بطور خاص پسند ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی خاطر اپنی ناپسندیدہ باتیں اختیار کر لینا جو خدا کے ہاں پسندیدہ ہیں اور مسجد میں دور سے چل کر آنا.اب یہ مطلب تو نہیں کہ آدمی مسجد سے باہر جائے اور دور جا کر پھر واپس صلى الله آئے.اس لئے کہ آنحضرت میلہ کا گھر تو مسجد کے ساتھ تھا اور نزدیک سے آتے تھے مگر اگر بہت دور بھی ہوتا تب بھی آنا ہی تھا.تو اس لئے رجحان کی بات ہو رہی ہے.دور سے چل کر آنا، یعنی وہ شخص جس کو نماز اتنی پیاری ہو کہ اگر دور سے بھی آنا پڑے تو وہ نماز کے لئے حاضر ہو جائے گا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ( صحیح مسلم کتاب الطهارة - باب فضل اسباغ الوضوء على المكاره صفحه : 488) اب ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ رسول اللہ کی عادت تھی.پس وہ جو دور سے آنے کا مفہوم میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں وہ اس دوسری بات نے کھول دیا ہے.دل اٹکا ہوا ہے جہاں بھی کہیں ہو گا انسان وا پس وہیں پہنچے گا، یہ بھی ایک قسم کا رباط ہے، یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنا اور یہ بات آپ نے یعنی آنحضرت ﷺ نے دودفعہ دہرائی.الله رباط کیا ہوتا ہے؟ آپ میں سے اکثر کو تو علم ہونا چاہئے رباط کے متعلق میں پہلے بھی کئی خطبوں میں ذکر کر چکا ہوں.اب میں دہراتا ہوں تا کہ رباط کا مضمون اچھی طرح سمجھ آجائے.قرآن کریم نے مومنوں کی جماعت کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ سرحد پر گھوڑے باندھتے ہیں.سرحد پر گھوڑے اس لئے باندھے جاتے ہیں تا کہ دشمن کو سرحد میں داخل ہونے سے پہلے مار بھگایا جائے اور لڑائی دشمن کی سرزمین میں ہو اپنی سرزمین میں نہ ہو کیونکہ سرحد پر بندھے ہوئے گھوڑے دور سے آتے ہوئے دشمن کو دیکھ لیتے ہیں اور ان کی طرف لپکتے ہیں، انتظار نہیں کرتے کہ وہ اپنی سرحد میں داخل ہو جائیں.یہ وہ دفاع کی ایک تکنیک، ایک دفاع کی ایسی حکمت عملی ہے جسے آج بھی نئی دنیا استعمال کر رہی ہے.تمام امریکن اور روسی اور اسی طرح دوسری بڑی طاقتوں کے جو دفاعی نظام ہیں ان میں دشمن پر نگاہ رکھنا کہ وہ ہماری سرحد کے قریب تو نہیں آرہا یعنی ایسی حرکتیں تو نہیں کر رہا کہ جس کے نتیجے میں ہم پر حملہ ہوسکتا ہو اس صورت میں جب وہ ان کا نظام پہچان لیتا ہے کہ دشمن قریب آ رہا ہے تو پھر یہ انتظار نہیں کیا کرتے کہ وہ داخل ہو جائے پھر ہمیشہ اسے باہر نکل کر دوسری سرزمین میں پکڑتے ہیں

Page 792

خطبات طاہر جلد 16 786 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء الله اور وہیں Destroy کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو لیز رکا نیا نظام بنا ہے یہ بھی اسی اصول کے تابع بنا ہے.مگر قرآن کریم میں اور آنحضرت ﷺ کے بیانات میں یہ ساری حکمتیں موجود ہیں.کوئی ایسی نئی ایجاد نہیں ہو سکتی جس کی بنیاد قرآن میں یا حدیث میں نہ ہو.پس دفاعی نظام کا ذکر فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہ بھی ایک قسم کا رباط ہے یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنا.جس شخص کا دل نماز میں اٹکا ہو اس پر فحشاء اور منکر حملہ کر ہی نہیں سکتے.جہاں بھی کوئی چیز اس کے اٹکے ہوئے دل کو اپنی طرف کھینچے گی وہ متنبہ ہو جائے گا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی میہ نے نماز کے مضمون کو اس ا صلى الله باریکی سے ہم پر کھولا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.کوئی دنیا کا کوئی رسول پیش کر کے دکھائے ، ناممکن ہے کہ ان باتوں کا عشر عشیر بھی کسی اور رسول کی طرف کوئی انسان منسوب کر سکے خواہ کیسا ہی اس کا شیدائی کیوں نہ ہو.عبادت الہی جو انسانی روحانی زندگی کا مرکز ہے اس سے متعلق بہت کم باتیں ملاتی ہیں اور ملتی ہیں تو نسبتا سرسری.ہوسکتا ہے ان باتوں کو محفوظ ہی نہ کیا گیا ہو ، لوگوں نے توجہ نہ کی ہو.مگر اب جو ہمیں تاریخ کے حوالے سے گزشتہ انبیاء کی باتیں ملتی ہیں ان میں تو لازماً عبادت الہی کے متعلق عشر عشیر تو کیا اس کا سوواں حصہ بھی مذکور نہیں ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے قرآن کے حوالے سے بیان فرمایا.حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اور یہ حدیث بخاری کتاب الاذان سے لی گئی ہے.یعنی وہ لوگ جو مسجدوں میں آتے ہیں پہلے آ کے بیٹھتے ہیں ان کے فضائل کا ذکر ہے.حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چند ہم عمر نو جوان آنحضرت یہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.یہ بڑی دلچسپ روایت اس لحاظ سے ہے کہ اس زمانے میں ہم عمر نو جوان ٹولے بنا بنا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور دوسری قسم کے ہم عمر ، بڑے بھی آتے ہوں گے.مگر اب جو میں نے غور کیا تو دیکھا کئی دفعہ ایک مجلس سے ، ایک جماعت سے ملتے جلتے مزاج کے لوگ اکٹھے آجایا کرتے ہیں، یہاں ٹھہرتے ہیں.تو یہ بنیادی طور پر وہی نیکی ہے جو صلى الله رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رائج ہوئی تھی اور اس کی کچھ مثالیں ہم اب اپنی زندگی میں بھی دیکھ رہے ہیں.عرض کرتے ہیں ، ہمیں دن ٹھہرے.آپ نہایت نرم دل اور مشفق تھے.جب آپ نے محسوس فرمایا کہ اب ہم اپنے گھر کو واپس جانا چاہتے ہیں تو آپ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ تمہارے

Page 793

خطبات طاہر جلد 16 787 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء الله صلى الله کون کون سے عزیز وطن میں ہیں.اب یہ بھی ایک عجیب اسلامی آداب کی تعلیم ہے.جو بڑی لطافت سے دی گئی ہے.آنحضرت ﷺ سے ان کو اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ اجازت مانگنا ان کے دل پر گراں گزرتا ہوگا.مگر چونکہ انہوں نے اجازت نہیں مانگی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو نظر انداز نہیں فرمایا کہ وہ تکلیف اٹھا رہے ہیں اور اب واپس جانے کی نیت ہوگی.تو یہ بات یوں بنتی ہے کہ آنحضرت یہ آنے والوں پر نظر رکھا کرتے تھے اور دیکھتے رہتے تھے کہ کب تک یہ شرح کہ مو صدر کے ساتھ ، خوشی کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور کب کچھ تکلیف کے آثار نمایاں ہوتے ہیں.پس وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خود محسوس فرمایا کہ اب ہم شاید وطن کو لوٹنا چاہتے ہیں تو آپ نے اور رنگ میں بات پوچھی.یہ نہیں کہا کہ تم واپس جانا چاہتے ہو.فرمایا کون کون سے عزیز وطن میں ہیں، پیچھے کن کو چھوڑ آئے ہو.ہم نے حضور کو بتایا تو آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے اہل وعیال کے پاس جاؤ.اب یہ اجازت کا انداز بھی کیسا لطیف ہے.حیرت انگیز ان کو ان کا بہانہ دکھا دیا جو ان کے لئے ایک وجہ جواز بنتی تھی.رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کے جانا ان کے لئے شرم کا موجب نہ رہا کیونکہ خواہ مجبور بھی تھے مگر چھوڑ کر جانا ایک ان کے دل پر کوفت تھی.تو آپ نے ان کا جانا کتنا آسان فرما دیا.فرمایا ان کا بھی تو حق ہے جن کو پیچھے چھوڑ آئے ہو اس لئے واپس جاؤ اور یہ یہ باتیں جو تم نے مجھ سے سیکھی ہیں ان کو جا کے سکھاؤ.انہیں دینی احکام سکھاؤ اور انہیں ان پر عمل کرنے کے لئے کہو اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھتے رہو.یہ حقیقی نماز ہے اس طرح نماز کا حق ادا کیا جاتا ہے.جب نماز کا وقت ہو تم میں سے کوئی اذان کہے اور جو تم میں سے بڑی عمر کا ہے وہ نماز پڑھائے.یہ جو لفظ بڑی عمر کا ہے اس نے مجھے متعجب کیا کیونکہ دوسری احادیث سے پتا چلتا ہے کہ خواہ چھوٹی عمر کا ہو جسے قرآن کریم زیادہ آتا ہو وہ نماز پڑھائے اور دوسرے یہ سارے ہم عمر ہی تھے.صاف راوی بیان کر رہا ہے کہ ہم ایک جیسی عمر کے تھے تو یہ حساب تو نہیں ہوگا کہ اس زمانے کی پیدائش کا حساب کریں کہ کون چند دن پہلے پیدا ہوا اور کون چند دن بعد پیدا ہوا لیکن ساتھ ہی میرا مسئلہ حل ہو گیا.راوی ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث نے مجھے یہ باتیں بتائی تھیں لیکن ان میں سے کئی باتیں بھول گیا ہوں.اب راوی کا تقویٰ ہمارے کام آ گیا.ان بھولی ہوئی باتوں میں یہ بھی تھی کہ رسول الله بہ قرآن کا علم زیادہ رکھنے والے کو امام بننے کا اہل قرار دیتے ہیں.یہاں تک کہ بعض صلى الله

Page 794

خطبات طاہر جلد 16 788 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء دفعہ چھوٹا بچہ بھی بعض بڑی عمر کے صحابہ کو نماز پڑھایا کرتا تھا کیونکہ اس کو قرآن کریم زیادہ آتا تھا.پس یہ حدیثوں کے صحیح ہونے اور ان کے الفاظ کی صحت کے متعلق راویوں کی احتیاط کرنے کا ایک نمونہ ہے.ہر وہ حدیث جو اعلیٰ درجے کے مضامین قرآن کی مطابقت کے ساتھ رکھتی ہے اس کے متعلق ہرگز شک کی ضرورت نہیں کہ کوئی راوی کمزور ہے یا نہیں اور اگر مطابقت نہیں رکھتی تو کتنے ہی پکے راوی ہوں وہ حدیث وہاں مشکوک ہو جائے گی جہاں قرآن کے واضح احکامات سے منافی باتیں کر رہی ہوگی اور یہ ایک حدیث ہے، جو غالبا مجھے وقت مل جائے گا ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اقتباس ہیں اگر ان کا وقت نہ بھی ملا تو آئندہ پھر کسی وقت ان اقتباسات کو میں دوبارہ آپ کے سامنے پیش کر دوں گا.اس سے نماز کا مضمون پھر تازہ ہو جائے گا اور ایک اور خطبہ اسی موضوع پر دینا ہوگا.بخارى كتاب الصلواة فضل صلواة الجماعة سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کا جماعت سے نماز پڑھنا بازار یا گھر میں نماز پڑھنے سے ہیں گنا سے بھی کچھ زیادہ ثواب کا موجب ہے.اب اس حدیث کو میں نے اس حدیث کے بالکل ساتھ رکھ دیا ہے جس میں راوی نے اقرار کیا ہے کہ میں بھول گیا ہوں.یہاں راوی نے اقرار نہیں کیا لیکن یہ بیان دوسرے بیانات سے متضاد ہے.یعنی لفظ ہیں گنا، اٹھائیس گنا، سو گنا، ہزار گنا ، اتنے بکروں کی قربانی ، اتنے جانوروں کی قربانی یہ سارے وہ مضامین ہیں جو بعد کے آنے والے راویوں کو اچھے لگا کرتے تھے اور وہ اپنی طرف سے بیچ میں باتیں صلى الله ڈالا کرتے تھے.اس لئے اب میں کہہ سکتا ہوں کہ اپنی طرف سے ڈالتے تھے کہ رسول اللہ یہ کی ذات میں تو تضاد ہی کوئی نہیں اور نماز با جماعت کو جہاں فرض ہوتی ہے وہاں فرض ہی قرار دیتے ہیں.ایک فرض کے گرنے سے ساری نمازیں گر جاتی ہیں.اس لئے نماز باجماعت کے مقابل پر ایسے لوگوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا کہ ان کے اکیلے نماز پڑھنے سے باجماعت نماز زیادہ اہم ہے کیونکہ اگر وہ باجماعت پڑھ سکتے ہیں تو اکیلا نماز پڑھنا نماز ہی نہیں ہے.یہ اندرونی تضاد ہے جو آنحضرت علی کے دوسرے ارشادات کی روشنی میں ہمیں دکھائی دینے لگتا ہے.بڑی قطعیت کے ساتھ دوسری حدیثیں ہیں جو بتارہی ہیں کہ جہاں نماز با جماعت قائم کی جاسکتی ہو وہاں اکیلی نماز ہوتی ہی نہیں سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری حائل ہو.پس معلوم ہوتا ہے کچھ حصہ راوی بھول گیا ہے.آنحضرت ﷺ کی

Page 795

خطبات طاہر جلد 16 789 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء واضح مراد یہ ہے کہ نماز با جماعت کی اگر کسی کو توفیق نہ ہو، بیمار ہو، کوئی اور وجہ ہو تو باجماعت نماز نہ پڑھے مگر یہ یادر کھے کہ ایک اچھے کام سے محروم رہا ہے.یہ احساس اس کو نماز با جماعت کی اہمیت یاد دلاتا رہے گا.پس جہاں زیادہ فائدہ مند، زیادہ ثواب کا موجب، جیسے الفاظ ملتے ہیں یہ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہوگا ، لازم بات ہے کہ ایسا شخص جو نماز با جماعت نہیں پڑھ سکتا اس کو یاد کرانے کے لئے نماز با جماعت کے کچھ فوائد ذہن نشین کرائے گئے ہوں لیکن عملاً کیا فرمایا تھا، کتنے گنا فرمایا تھا اس بحث میں ہمیں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.فرماتے ہیں، اور یہ اس لئے کہ جب ایک شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کی نیت سے مسجد کی طرف آئے یعنی نماز کے سوا کوئی چیز اسے مسجد میں نہ لائے.اب صاف تضاد یہاں ظاہر ہو گیا یعنی پہلے یہ ذکر کیا کہ اکیلے نماز سے دوسری جو اجتماعی نماز ہے وہ زیادہ ضروری ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ اس لئے ہے کہ اگر وضو کرے نماز کی نیت سے مسجد میں آئے.اگر نماز کی نیت سے وضو کر کے آسکتا ہے تو اکیلی نماز تو پھر نماز ہی نہ رہی پھر میں گنا کی بحث اٹھ جاتی ہے.اس لئے میں یہ استنباط کر رہا ہوں کہ معلوم ہوتا ہے کہ راوی کے ذہن میں کچھ چیزیں مشتبہ ہو گئیں.یہ تو ہر گز بعید نہیں کہ ان لوگوں کے لئے جو نماز با جماعت نہیں پڑھ سکتے رسول اللہ علیہ نے ان کے دلوں میں نماز با جماعت کی اہمیت ثابت کرنے کی خاطر، ان کے دلوں پر واضح کرنے کی خاطر کچھ الفاظ فرمائے ہوں لیکن اختیار نہیں رکھا کہ نماز پڑھ سکتا ہو اور نہ پڑھے اور صرف یہ سمجھ لے کہ چلو میں نے چھوٹی نماز پڑھ لی ہے، کم فائدہ ہو جائے گا ، اس کا اختیار انسان کو نہیں ہے.صلى الله اب ہم اگلے حصے کو لیتے ہیں، ایک شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کی نیت سے مسجد کی طرف آئے یعنی نماز کے سوا کوئی چیز اسے مسجد میں نہ لائے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہمیں خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے کیونکہ بہت سے لوگ ہیں جو میٹنگز کے لئے مسجد آتے ہیں یہاں بھی اور جرمنی میں بھی اور جگہ بھی ان کا سارا سفر خواہ نیک کام کی خاطر ہو جماعتی میٹنگ کے لئے ہو یا عام کام کی خاطر ہو کسی مشاعرے یا شادی کے لئے آنا ہو تو پھر جو وہ نماز باجماعت پڑھتے ہیں تو آنحضرت یہ ان کی نماز با جماعت کو اصل نماز با جماعت قرار نہیں دے رہے.انہوں نے آنا ہی تھا روٹی کھانی تھی اور واپس چلے جانا تھا ساتھ اتفاق سے نماز با جماعت بھی ہو رہی تھی اس میں اگر کوئی

Page 796

خطبات طاہر جلد 16 790 خطبہ جمعہ 24 اکتوبر 1997ء شامل نہیں ہو گا تو بالکل ہی بے حیاء ہوگا.جب نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے لوگوں کو تو پھر وہ کہے گا چلونماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں.مگر اس کی اگر اتنی ہی نمازیں ہوں ساری عمر کی کسی اور غرض سے مسجد میں پہنچا ہواور وہاں نماز پڑھ لی ہو اور پھر کبھی بھی نہ آئے تو اس کو فکر کرنی چاہئے.ایسے لوگوں کو میری نصیحت ہے کہ کبھی کبھی اس عادت کو توڑنے کی خاطر خالصہ نماز کی خاطر مسجد آیا کریں اور دوسرا یہ کہ ان کو ہم نے پہچانا ہے اس مسجد میں ، ان دعوت ولیمہ میں شامل ہونے والوں کی نمازوں کو پہچانا ہوتو ان کے اردگرد اگر کوئی مسجد ہو وہاں سے پہچانیں.اگر دو قدم پہ مسجد ہو اور وہاں نہ جائیں اور ولیمہ کھانے کے لئے ہیں میل آجائیں اور پھر باجماعت نماز پڑھ کے، اپنے آپ کو نمازی سمجھ کے سراٹھا کے چلیں تو یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے.آنحضرت یہ کی ذہانت کی لطافت دیکھیں کوئی پر دہ باقی نہیں چھوڑا.ہر مشکل مضمون سے پردہ اٹھا کے ہمیں اپنے چہرے دکھا دئے ہیں.نماز کی نیت سے مسجد کی طرف آئے یعنی نماز کے سوا کوئی چیز اسے مسجد نہ لائے، نہ شادی نہ بیاہ نہ کوئی اور مقصد ، نہ دینی میٹنگ.نماز ہی کی خاطر سے آئے تو ایسا شخص قدم نہیں اٹھا تا مگر اس کی وجہ سے اس کا درجہ بلند ہوتا ہے.یہ وہ شخص ہے جس کا مسجد کی طرف آنا ہر قدم جو اسے مسجد کے قریب کرتا ہے اس کے درجے بڑھاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں جا پہنچتا ہے.پھر جب تک وہ نماز کی خاطر مسجد میں بیٹھا رہتا ہے گویا نماز ہی میں مصروف سمجھا جاتا ہے.کئی دفعہ بعض مجبوریوں سے نماز با جماعت دیر سے پڑھانی پڑتی ہے.وہ لوگ جو مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کا وقت ضائع ہورہا ہے.اگر نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک گویا نماز میں مصروف ہیں اور بظا ہر عبادت نہیں کر رہے مگر ان کا تمام عرصہ مسجد میں موجود رہنا ان کے حق میں ایک عبادت کے طور پر لکھا جاتا ہے اور فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ اس پر رحم کر ، اے اللہ اس کو بخش دے، اس کی تو بہ کو قبول کر.یہ دعائیں اس وقت تک ہوتی رہتی ہیں جب تک وہ ، آگے ترجمہ غلط کیا ہوا ہے اور یہ مضمون میں آپ کے سامنے کھول کے رکھنا چاہتا ہوں کہ يُحدِث کے الفاظ کا ترجمہ صرف وضو تو ڑ نا کر دیا گیا، یہ بالکل غلط ہے.اس مضمون سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں.اس وقت تک وہ اس کے حق میں دعائیں قبول ہوتی ہیں جب تک وضو نہ ٹوٹ جائے.اس بے چارے کا کیا قصور.اگر اتفاق سے وضو ٹوٹ جائے تو دعائیں مقبول ہونی بند ہو گئیں؟.ترجمہ کرنے والے یہ بات سوچتے نہیں اگر وہ کوئی اچھی سی ڈکشنری اٹھاتے

Page 797

خطبات طاہر جلد 16 791 خطبہ جمعہ 24 /اکتوبر 1997ء اس میں لفظ أحدث يُحدث“ کا مضمون پڑھتے تو صاف بات کھل جاتی کہ ہر وہ حرکت جو نامناسب ہو ، جو خدا کی طرف سے توجہ پھیر دے وہ احداث ہے اور گناہ بھی اس میں شامل ہیں گناہ کے خیالات بھی اس میں شامل ہیں.پس يُحدِث کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر وہ عبادت کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا ہوا ہے مگر بعض ایسی باتیں کرتا ہے جو احداث کا مضمون رکھتی ہیں.اگر وہ باتیں شروع کر دیتا ہے کسی سے اور اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں کے ذکر الہی میں مخل ہو جاتا ہے تو اس کے حق میں فرشتوں کی یہ دعائیں کیوں قبول ہوں گی کہ اے اللہ اس کو بخش دے، اے اللہ اس کی توبہ قبول کر.تو يحدث کا جو اصل مضمون عربی لغت سے ملتا ہے وہ یہ مضمون ہے جس نے سارا مسئلہ حل کر دیا ورنہ ایک بہت ہی عجیب سی بات دکھائی دیتی کہ مسجد میں لوگ نعوذ بالله من ذلک ہوائیں چھوڑ رہے ہیں اور اسی وقت ان کے متعلق دعائیں ختم ہو گئیں.ہوائیں مسجد میں چھوڑ نا بھی احداث کا ایک حصہ ہے یعنی انسان کا فرض ہے کہ مسجد میں کوئی بد بو نہ پھیلائے جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے.اگر اسے اٹھ کے باہر جانا ہے تو اسے باہر جانا چاہئے لیکن يُحدث کا یہ مطلب نہیں ہے جو عام ترجمے میں ملتا ہے.يُحدث کا مطلب ہے وہ ایسی نامناسب بات کرے جو اسے اللہ سے دور کرنے والی ہو.جب وہ ایسی نامناسب بات کرے گا تو فرشتوں کی دعائیں اس کے حق میں مقبول ہوئی بند ہو جائیں گی.پس مسجد میں آنے والوں کے لئے میں اسی مضمون پر اب اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ اپنے مسجد میں آنے کا حساب کیا کریں اور کوشش کریں کہ آپ کا مسجد میں آنا آپ کے لئے ہمیشہ درجات کی بلندی کا موجب بنار ہے.مسجد میں بیٹھنا بھی درجات کی بلندی کا موجب بنے.مسجد میں بیٹھ کر ایسی باتیں نہ کیا کریں کہ بظاہر نماز کا انتظار ہو رہا ہے لیکن ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کی باتیں ہورہی ہیں یا اپنے مشاغل کی باتیں ہو رہی ہیں جو سارا ثواب ضائع کر دیں گی.پس جو اعلیٰ درجے کے مضامین حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ان پر غور کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 798

Page 799

خطبات طاہر جلد 16 793 خطبہ جمعہ 31 /اکتوبر 1997ء خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے تقویٰ بڑھانے کی توفیق ملے گی اتناہی انفاق فی سبیل اللہ تمہارے لئے بہتر ہوتا چلا جائے گا ( خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 1997ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نفُسِكُمْ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا تُضْعِفَهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورُ حَلِيمٌ لا عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( التغابن : 17 تا 19) پھر فرمایا: آج چونکہ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے اس لئے میں نے یہ آیات جو مالی قربانی سے تعلق رکھتی ہیں آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ایک بہت ہی پیارا انداز ہے خطاب کا ، ہر انداز ہی قرآن کا پیارا ہے اور اس میں ایک ایسی نرمی اور لوچ پایا جاتا ہے جو دوسرے خطابات میں نسبتا کم ملتا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمُ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنی بھی تمہیں توفیق ہے.بہت ہی پیارا انداز ہے خطاب کا مومنوں سے توقع ہے وہ تقویٰ اختیار کریں گے.تقویٰ کے بہت بلند مقامات ہیں جنہیں طے کرنا ہے تو آخری مقام کی طرف اشارہ

Page 800

خطبات طاہر جلد 16 794 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء کئے بغیر آغاز سے آخر تک تمام مقامات کی طرف اشارے کر دئے.تم میں جتنی بھی توفیق ہے تقویٰ کو، تقوی اختیار کرو اور اس میں ایک یہ بھی نصیحت ہے کہ تقویٰ کی توفیق ڈھونڈتے رہو.یہ بہت ہی اہم مضمون کا حصہ ہے جسے ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے.مَا اسْتَطَعْتُم کا مطلب ہے اپنی توفیق کے مطابق جہاں تک کر سکتے ہو کرتے چلے جاؤ اور تقویٰ، تقویٰ کی استطاعت بڑھاتا ہے.تو اس پہلو سے فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ کا مطلب یہ بنے گا کہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی جہاں تک توفیق ہے وہ تقویٰ اختیار کرو اور تمہارا تقویٰ تمہاری توفیق بڑھاتا رہے گا.جب تک تم اسے کھینچ کر اپنی توفیق کی انتہاء تک پہنچاؤ گے تو اس وقت تمہیں اور توفیق ملتی چلی جائے گی اور یہ ایک ایسا حقیقی مضمون ہے کہ جسے تمام خدا تعالیٰ کے سلوک کی راہیں طے کرنے والے جانتے ہیں.ہمیشہ ہر نیکی نیکیوں کی توفیق کو بڑھاتی ہے.پس مَا اسْتَطَعْتُم کہہ کر جو نسبتا کمزور تقوئی والے ہیں ان کی بھی ہمت افزائی فرما دی اور بڑے پیار سے سمجھایا کہ جتنی توفیق ہے کرتے چلے جاؤ لیکن راز کی بات یہ ہے کہ توفیق کے مطابق کرو گے تو تمہاری توفیق ضرور بڑھائی جائے گی.وَاسْمَعُوا وَأَطِیعُوا سیدھا سا کام ہے.تقویٰ کا آغا ز سمع اور اطاعت سے ہوتا ہے.جو کچھ سنتے ہو اس کی اطاعت کرتے رہو کوئی اتنا مشکل کام نہیں.وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نُفُسِكُمْ اور انفاق کرو یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنا کسی پر احسان نہیں ہے سوائے اپنی ذات کے اور بہتر کن کن معنوں میں ہے.وہ سب معانی تقویٰ سے طے ہوں گے.جتنا تمہیں تقویٰ بڑھانے کی توفیق ملے گی اتنا ہی تمہارے لئے انفاق فی سبیل اللہ بہتر ہوتا چلا جائے گا.وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ بات دراصل یہ ہے کہ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِہ کا انداز کہنے کا یہ ہے کہ بات تو دراصل یہ ہے کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا جائے ، فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ پس وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں.انسان کے نفس کا بخل انسان کے خلاف ہے اور جتنا یہ بخل بڑھے اتنا ہی انسان کے لئے مضر اور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے.پس وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِم میں دراصل تقویٰ کا ایک پھل بیان فرما دیا

Page 801

خطبات طاہر جلد 16 795 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء گیا کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے خَيْرًا لَّا نُفُسِكُم تمہارے نفسوں کے لئے بہتر ہوگا جس کا پہلا پھل یہ ملے گا وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ تم اپنے نفس کی خساستوں سے بچائے جاؤ گے اور تقویٰ کے ساتھ جو خرچ ہوتا ہے اس میں ہمیشہ انسان اپنے نفس کی خساستوں سے بچایا جاتا ہے.نفس کی خساست، نفس کا بجل جو خدا کی راہ میں حائل ہو جائے وہ اپنی راہ میں بھی حائل ہو جایا کرتا ہے اور اکثر یہ بخل کرنے والے سوچتے نہیں کہ وہ جو کچھ بھی بچا کے رکھتے ہیں وہ ان کی موت کے بعد اس دنیا میں پڑا رہ جاتا ہے اور یہ بخل ان کو اس حد تک اپنی کمائی سے محروم کر دیتا ہے کہ ایسے بھی ہیں جو کروڑوں کماتے ہیں اور بینکوں میں داخل کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی ذات پر خرچ کرنے کی توفیق نہیں ملتی.نہایت گندے کپڑے پہنے ہوں گے.بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو گندے کپڑے بھی پہنتے ہیں ان کو صاف کپڑے پہنے کی توفیق نہیں ملتی.کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی ذات کو تو سجا کے رکھتے ہیں مگر جو اموال ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں ان سے جیسا استفادہ کرنے کا حق تھا ویسا استفادہ نہیں کر سکتے.اپنے پیسے پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈر لگتا ہے.اس کو شُحَّ نَفْسِهِ کہتے ہیں یعنی نفس کی ایسی بخیلی جو خود تمہاری راہ میں حائل ہے، تمہیں تو فیق ہی نہیں عطا کر رہی کہ اپنے پیسے سے خود ہی استفادہ کر سکو.تو پہلا پھل اس کا انسان کے لئے یہ ہوگا.خَيْرًا لَّا نُفُسِكُم تمہارے لئے بہتر ہوگا.جب بھی خدا کی راہ میں ہاتھ کھولو گے تو تمہیں خرچ کا سلیقہ آئے گا اور جو خدا کی خاطر اپنا ہاتھ کھولتے ہیں ان کو علم نہیں کہ بعد میں خدا ان کو خود بتاتا ہے کہ اپنے اہل پر بھی خرچ کرو، اپنے گردو پیش پر بھی خرچ کرو، اپنے دوستوں پر، غرضیکہ خدا کی خاطر خرچ کرنے والے خدا ہی سے اپنے لئے خرچ کے طریقے بھی معلوم کرتے ہیں، خدا کی تعلیم ہی سے جانتے ہیں یا یہ علم رکھتے ہیں کہ ان کو کس کس جگہ کس طرح خرچ کرنا چاہئے اور یہ مضمون بہت وسیع ہے.وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کے اندر یہ داخل ہے.وہ مفلحون ہوتے ہیں.فلاح پانے والے لوگ ہیں اور جو فلاح پانے والا ہے اس کا ہر خرچ بہترین ہوگا.ہر قسم کے جھنجٹ سے نجات پا جائے گا.ہر قسم کی دنیا کی ملونیاں اس کو چھوڑ دیں گی اور اسے رہنے کا سلیقہ آجائے گا.پس پہلا اجر تو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا اس طرح بیان ہوا کہ گویا سب کچھ یہی ہے تمہیں ساتھ کے ساتھ اس کا پھل ملتا چلا جائے گا لیکن ابھی آغاز ہے.مفلحون کی

Page 802

خطبات طاہر جلد 16 796 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء تعریف ابھی اور آنے والی ہے.جب اس کو آپ پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ ایک لا متناہی سلسلہ ہے انعامات کا جو اللہ کی خاطر خرچ کرنے سے شروع ہو جاتا ہے.إنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يَضْحِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ خرج کرو جتنا چاہتے ہو.اس کی ایک فلاح تو تم فوراً اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے اور تمہارے لئے تمہارا اپنا روپیہ بہت بہتر ثابت ہوگا اور تمہیں اس کے مفید اخراجات کا علم ہوگا لیکن صرف یہیں بات ختم نہیں ہوگی اِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يَضْعِفُهُ لَكُمُ اگر تم اللہ کوقرضہ حسنہ دو گے تو وہ تمہارے لئے اس کو بڑھائے گا اور اس کے علاوہ وَيَغْفِرْ لَكُم وہ بخشش بھی ساتھ ہی فرما دے گا.اب گناہوں سے بچنے کے لئے بخشش ضروری ہے.اگر پہلے گناہوں کی بخشش نہ ہو تو آئندہ گناہوں سے بچنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پس قرآن کریم جس مضمون کو آگے بڑھاتا ہے ایسے لطیف انداز میں آگے بڑھاتا ہے کہ دل و دماغ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں.اللہ کو قرضہ دو اس کا پہلے بھی ایک مفہوم بیان کر چکا ہوں وہ ایسا اہم ہے کہ اسے پھر بیان کرنا ضروری ہے تا وقتا فوقتا جماعت کو یاد دہانی ہوتی رہے.قرضہ حسنہ جب انسان دیتا ہے اگر اس کے مقابل پر زیادہ کی توقع نہ ہو تو پھر قرضہ حسنہ بنتا ہے.جس کو بھی آپ قرضہ حسنہ دیتے ہیں وہ قرضہ حسنہ کہلا ہی نہیں سکتا اگر اس قرضے کے مقابل پر زیادہ کی توقع رکھی جائے.جہاں زیادہ کی توقع ہوئی وہاں قرضہ حسنہ ختم ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم جو کچھ تمہیں دیں گے اپنی طرف سے دیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ تمہارے نفس میں حرص نہ ہو کہ یہ دینے سے مجھے کچھ زیادہ ملے گا.اگر اس غرض سے دو کہ خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کر رہے ہو ایسا قرضہ حسنہ جیسے انسان اپنے عزیزوں کو دیتا ہے اور اس میں ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے کہ جب توفیق ہوگی جتنی توفیق ہوگی واپس کر دینا لیکن قربانی ہوتی ہے حرص نہیں ہوتی.جب بھی کوئی انسان کسی کو روپیہ دے تو لازم ہے کہ وہ جانتا ہے کہ میرے روپے کی قیمت گھٹنی شروع ہوگئی ہے وقت کے ساتھ ساتھ وہ کم ہوتا چلا جائے گا.جانتا ہے کہ اگر میں اسے کسی اور مصرف پر لگاتا ، تجارت میں استعمال کرتا تو اس روپے نے بڑھ جانا تھا تو قرضہ حسنہ دینے والا ہمیشہ ایک قربانی کی روح کے ساتھ قرضہ حسنہ دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تمہیں اسی نیت سے دینا چاہئے کیونکہ خدا کو قرضہ حسنہ کے سوا اور دے کیا سکتے ہو.جس نے تمہیں سب کچھ خود دیا ہے.

Page 803

خطبات طاہر جلد 16 797 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) اس سے خرچ کرتے ہیں جو ہم انہیں عطا کرتے ہیں.تو اب اس پر جو قرض دیا جائے ، جو پیش کیا جائے اس پر شرط نہیں لگ سکتی.جان بھی دے دو تو اسی کی دی ہوئی ہے.پس قرضہ حسنہ کے سوا کچھ ہو نہیں سکتا.جتنا اس نے دیا اس میں سے کچھ مانگا اگر وہ تم دے دو تو اس کے لطف و احسان کے متمنی تو ہو سکتے ہو لیکن شرط کوئی نہیں لگ سکتی.جو دیا محض حق کے طور پر دیا حق ادا کرنے کی کوشش کے طور پر دیا.روپیہ جو آپ کی طرف سے خدا کی سمت میں روانہ ہوتا ہے، اس کی روانگی کا انداز بیان فرمایا گیا ہے، آپ کی طرف سے روپیہ خدا کی سمت اس طرح روانہ ہو کہ کوئی اس میں شرط نہ ہو، صرف ایک تمنا ہو کہ جس نے اتنا دیا ہے اسی کو کچھ ہم پیش کر دیں اور وہ قبول فرمالے.یہ قرضہ حسنہ ہے.اور حضرت مصلح موعود نے ”حسن لفظ سے ایک اور معنی بھی لئے ہیں.حسن اچھی چیز کو کہتے ہیں.فرمایا اپنے مال میں سے اچھا حصہ ہے وہ کاٹ کے دو.یہ معنی بھی بہت خوب ہیں کیونکہ قرآن کریم دوسری جگہ خدا کے حضور پیش کرنے والے روپے کے متعلق واضح طور پر فرمارہا ہے کہ وہ بہترین ہونا چاہئے ، جب تک تمہارے مال کا بہترین حصہ نہ ہو وہ قبول نہیں کر سکتا.پس جب بھی تم قرضہ حسنہ خدا کے حضور پیش کر و حسنہ تب بنے گا جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر صغیر میں لکھا ہے جب تمہارے مال کا وہ بہترین حصہ ہو گا.اس صورت میں محض روپیہ پیش نظر نہیں رہنا چاہئے کہ روپیہ تو ہر انسان کا بہترین حصہ ہی ہوتا ہے، اس کے مال کی ایسی شکل ہے جسے جب چاہیں جس طرح چاہیں بدل لیں.تو قرضہ حسنہ کے اندر اور بھی بہت سی باتیں داخل ہو جائیں گی یعنی محض خدا کی خاطر چند روپے پیش کرنا پیش نظر نہ رہے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے بہترین حصہ اس کے حضور پیش کر دو.یہ قرضہ حسنہ کی وسیع تعریف بن جاتی ہے.مراد یہ ہے کہ اس دماغ کے بہترین استعمال کو خدا کی خاطر رکھو.اب یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر اس کو اپنی زندگی پر آپ پھیلا کر دیکھیں تو بہت وسیع ہو جائے گی.انسان اکثر اپنے دماغ کے بہترین حصے کو اپنے کاموں کے لئے بچا کر رکھتا ہے اور تھکے ہوئے ذہن کے کچھ حصے کو خدا کی خاطر دین کے کاموں میں پیش کر دیا کرتا ہے یہ قرضہ حسنہ نہیں ہے.قرضہ حسنہ یہ ہے کہ دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کو جو کچھ بھی تم ان سے حاصل کر سکتے ہو پہلے خدا کے دین کے حضور پیش کر دو اور پھر جو تمہاری صلاحیتیں ہیں اللہ ان کو جلاء بخشے گا.جو بچی

Page 804

خطبات طاہر جلد 16 798 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء ہوئی صلاحیتیں ہیں ان میں خدا تعالیٰ اضافہ فرمائے گا، ان کو مزید تقویت عطا فرمائے گا.اسی طرح بعض لوگ کپڑے پیش کرتے ہیں خدا کی خاطر، پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑے وہ اپنی طرف سے خدا کی خاطر پیش کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ خدا کی خاطر نہیں ہوتے.اگر کوئی آپ کو کچھ کپڑے دے اور کہے مجھے واپس کر دو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ ان میں سے گندے چن کے واپس کریں.اس لئے نام خدا کا ہے دیتے اس بے چارے کو ہیں جس کو آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی حیثیت مجھ سے کم ہے اس کو جھوٹے گندے بد بودار کپڑے بھی دے دئے جائیں تو وہ خوش ہو کے قبول کر لے گا اس کے پاس چارہ کوئی نہیں.مگر اللہ کو تو ان کپڑوں کی ضرورت نہیں ہوتی.تو قرضہ حسنہ میں وہ کپڑے شامل ہوں گے جو آپ کو اچھے دکھائی دیں اور اچھے چن چن کے خدا کے حضور پیش کریں تو یہ قرضہ حسنہ ہے.گندے کپڑوں کی نہ غریب کو حاجت ہے نہ اللہ کو حاجت ہے مگر اچھا کپڑا نکالتے وقت جو آپ کے دل میں بشاشت پیدا ہوگی وہی اس کا اجر ہے اور ایسی عظیم چیز ہے کہ وہ دل کا شرح صدر، اس کا لطف کہ میں نے ایک بہت اچھی چیز خدا کو دی ہے یہ لطف اپنی ذات میں ایک جزاء ہے اور غریب بیچ میں سے غائب ہو جائے.یہ لطف تبھی ہوگا اگر خدا کو دیں گے.خدا کی خاطر غریب کو دیں گے یا خدا کو دیں گے ایک ہی بات ہے.تو جب خدا کی خاطر آپ دیں گے تو ”حسنہ“ پیش کریں گے اور جب خدا کے حضور حسنہ پیش کریں گے تو جو لطف آئے گا اپنے محبوب کو بہترین چیز دینے کا وہ غریب کو پھٹے پرانے کپڑے دینے کا لطف ہو ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے.پس جزاء ہے تو اس حسنہ کی جزاء ہے.حسنہ کے بغیر کوئی جزا نہیں.غرضیکہ اس مضمون کو اپنی ذات پر پھیلا کر دیکھیں تو قرضہ حسنہ جو خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے انہیں طاقتوں سے پیش کیا جاتا ہے جو آپ کو نصیب ہوئی ہیں.ان طاقتوں کا بہترین حصہ اللہ کے لئے چن لیں اور اس طرح دیں جیسے تھے دئے جاتے ہیں.جب یہ کریں گے تو پھر اس کا بڑھانا اللہ کی مرضی پر ہے.بڑھانا آپ کی شرط نہیں تھی.جب بڑھانا شرط ہوئی وہاں قرضہ حسنہ ختم ہو گیا.اس طرح دل کو پاک صاف کرنے کی ضرورت ہے، اتنی باریکی سے اپنی قربانیوں کو ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہے کہ وہ قربانیاں واقعی خدا تک راہ پا جائیں اور مین ٹھکانے پر بیٹھیں.یہ لطیف تجزیئے اگر آپ اپنے نفوس کے نہ کریں گے تو بسا اوقات آپ کی قربانیاں ضائع ہورہی ہوں گی اور آپ کو پتا نہیں چل رہا ہوگا.

Page 805

خطبات طاہر جلد 16 799 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء پس اپنے مال کا سب سے بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے بظاہر بے مصرف خرچ کریں.بظاہر ان معنوں میں کہ دنیا تو آپ کو پاگل سمجھے گی کہ خدا کو دے رہے ہونہ لینے کی توقع ، نہ زیادہ لینے کی حرص اور اپنا بہترین اس کی راہ میں خرچ کرتے چلے جا رہے ہو.دنیا آپ کو اس مصرف میں پاگل سمجھے گی اور پاگل سمجھتی ہے.ہمیشہ ایسے لوگوں کو پاگل ہونے کے طعنے دئے جاتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کے حضور جب اپنی قربانیوں کو پیش کرتے ہیں تو پھر ان اموال کو بڑھانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو اجتماعی صورت میں بھی رونما ہوتا ہے اور انفرادی صورت میں بھی رونما ہوتا ہے.اب اس کا تذکرہ کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک چیز کا تذکرہ کرتا ہے جو اور کسی ذریعے سے انسان کو حاصل نہیں ہوسکتی ، مغفرت کا تذکرہ.مغفرت ایک ایسی لالچ ہے جو رکھی جاسکتی ہے.مغفرت کی توقع رکھنا نا مناسب اور ناجائز نہیں.تو خدا تعالیٰ نے ہمت دلانے کی خاطر کہ اپنا مال خرچ کرو کم سے کم کسی چیز کی خاطر خرچ کرو.اس کے بغیر انسان کو بہت اعلیٰ تقویٰ کے مقام پر قائم ہونا پڑتا ہے.اگر تقویٰ کے بہت اونچے مقام پر قائم نہ ہو تو جو باتیں میں آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں کہ بالکل بے وجہ، بے ضرورت تحفہ کے طور پر، قربانی کے رنگ میں خدا کی خاطر خرچ کرو، اس کی توفیق بہت کم لوگوں کوملتی ہے.ہمیشہ جب وہ اپنے روپے سے علیحدہ ہوتے ہیں یا اپنے آرام سے علیحدہ ہوتے ہیں ، اپنی مرغوب چیزوں سے علیحدہ ہوتے ہیں تو طبعی بات ہے کہ جو تقویٰ کے نسبتاً ادنی مقام پر فائز ہیں وہ کچھ نہ کچھ اجر تو فوری طور پر چاہتے ہیں اور اگر کہیں نہیں تو یہ جھوٹ ہوتا ہے اپنے نفس کو دھوکہ دینے والی بات ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی وجہ بیان فرما دی جس نے اس راہ کو سب کے لئے آسان فرما دیا.فرمایا مغفرت کی توقع بھی ضرور رکھنا.تمہارا خدا کی راہ میں خرچ کرنا تمہارے لئے مغفرت کا موجب بنے گا اور مغفرت ترقی کا پہلا قدم ہے.مگر مغفرت عطا ہو جائے تو دنیا میں جتنے بھی آپ نے گناہ کئے، کوتاہیاں کیں ، غفلتیں سرزد ہوئیں ان سب کے اوپر خدا کی مغفرت کی چادر پڑ جائے گی ، اسے ڈھانپ لے گی.پس یہ اتنا عظیم اجر ہے جو قرضہ حسنہ کو قرضہ حسنہ بھی رکھتا ہے اور سودا بھی بنادیتا ہے.مغفرت کا اجر بھی نصیب ہو گیا اور مغفرت کی خواہش کے ساتھ قرض دینا یہ قرضہ حسنہ کوکسی رنگ میں میلا نہیں کرتا، اس کو قرضہ حسنہ کی تعریف سے باہر نہیں نکالتا.قرضہ حسنہ پیش کریں اور مغفرت کی توقع رکھیں.

Page 806

خطبات طاہر جلد 16 800 خطبہ جمعہ 31 /اکتوبر 1997ء وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمُ الله شکور اور حلیم ہے.جب مغفرت شروع کرتا ہے تو اس کے بعد جتنے بھی انعامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے وہ اس کے شکور ہونے اور حلیم ہونے سے تعلق رکھتے ہیں.تم نے تو ظاہری انعامات کی خاطر قربانی نہیں دی خدا کو خوش کرنے کی خاطر قربانی دی اس کی خوشی کا پہلا پھل تمہیں مغفرت کے طور پر نصیب ہوا لیکن یہ آخری پھل نہیں ہے.وَاللهُ شَكُورٌ حلیم اللہ تعالیٰ بہت ہی شکر یہ ادا کرنے والا ہے اور بہت حلیم ہے.شکریہ کا تو مضمون سمجھ آ گیا کہ قرضہ حسنہ کو قبول کیا اور اس کے پھل دئے لیکن شکریہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان کو جو تو فیق ملی ہے قرضہ حسنہ دینے کی یہ اللہ تعالیٰ کے شکور ہونے کا اظہار ہے کیونکہ جو کچھ اس نے قبول کیا ہے وہ شکور ہونے کی وجہ سے قبول کرتا ہے ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس کی پیشکش میں بہت سے سقم رہ گئے ہوں.اب اپنے اوپر آپ اس مضمون کو اطلاق کر کے دیکھ لیجئے.وہ غریب آدمی جو آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتا ہے تو آپ شکورہوں گے تو اس کو خوشی سے قبول کریں گے.شکور نہیں ہوں گے تو خوشی سے قبول نہیں کریں گے.چھوٹی چیز کو چھوٹا دیکھیں گے.حقیری چیز ہے وہ لے کے ایک طرف پھینک دیں گے کہ پاگل نے کیا چیز دی ہے ہمیں بھی کوئی اس کی ضرورت ہو سکتی تھی.یہ سوچ غلط ہے.اب ہم سیر سے واپس آئے ہیں ہماری اردو کلاس کے بچوں نے ان میز بانوں کو جوان کے اوپر بے شمار خرچ کر چکے تھے اپنی توفیق کے مطابق چھوٹے چھوٹے تھے دئے ہیں اور قبول کرتے وقت ان کی آنکھوں میں اتنا شکر یہ تھا بار بار وہ ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے کہ شکریہ کس بات کا.تم تو ان پر سینکڑوں پاؤنڈ خرچ کر چکے ہو اور دو چار پاؤنڈ کی چیز لے کر تم شکر یہ ادا کر رہے ہو.یہ مضمون انسانی تعلقات میں بھی کھل جاتا ہے.وہ واقعہ مشکور تھے.انہوں نے دیکھا کہ ان بچوں نے اپنی توفیق کے مطابق اپنے تھوڑے پیسوں میں سے کچھ نہ کچھ ڈالا.ان کو خیال آیا کہ ہماری مہمان نوازی کا شکریہ ادا کریں اور اس خیال نے ان کے شکریہ کی قیمت بڑھا دی.اب وہ جو اس شکر یہ کو قبول کر رہا ہے وہ شکور ہے ورنہ ایک طرف پھینک سکتا تھا کہ پا گلوتم پر تو میں بہت زیادہ خرچ کر چکا ہوں مجھے کیا تحفہ دے رہے ہو لیکن شکور ہونے کی حیثیت سے اس نے اس ٹیم کی بہت عزت افزائی کی ، سر آنکھوں پہ لگایا کہ اتنا زیادہ آپ نے تکلف کیا، اتنازیادہ خیال رکھا اس کو تو ہم خاص جگہ سجائیں گے ہمیشہ یہ آپ کی یاد دلائے گا.یہ انسان کا مشکور ہونا ہے.اب بتائیں کہ خدا جب شکور ہوگا

Page 807

خطبات طاہر جلد 16 801 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء تو کیا کرے گا.اس کی تو حدوں کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا.سب سے پہلے ہمارے غریبانہ تحفے کو قبول کرنا اس کے شکور ہونے کی علامت ہے.اگر وہ شکور نہ ہوتا تو ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں تھی اور اسی لئے تمام قربانیاں قبول کی جاتی ہیں کہ اللہ شکور ہے جب قبول کر لیتا ہے تو شکور کے دوسرے معنوں کا آغاز ہوتا ہے پھر وہ اس کی جزاء دینا شروع کر دیتا ہے.جو توفیق اس نے عطا فرمائی تھی اس کی جزاء کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور حلیم اس میں ایک نئے معنے پیدا کر رہا ہے.مغفرت جو ہو چکی اس کا تعلق تو غفور رحیم سے تھا یہ شکور کے بعد حلیم کا کیا ذکر ہے.اس پر اگر غور کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کتنا عظیم مضمون بیان ہوا ہے اور کتنا مربوط مضمون ہے جو اس پہلے حصے سے ایک گہراتعلق رکھتا ہے.حلیم سے مراد یہ ہے کہ آئندہ بھی تم سے غفلتیں ہوا کریں گی اور یہ اللہ کا علم ہے جوان کو برداشت کرے گا.پہلی مغفرت تو ہو گئی لیکن آئندہ بھی تو گناہ سرزد ہونے ہیں.تم نہ بھی چاہو تو پھر بھی ہو جائیں گے.تو تمہاری مالی قربانی کی جزاء اتنی بڑی مل رہی ہے کہ وہ شکور اس کو بہت طرح بڑھا بڑھا کے تمہیں واپس کر رہا ہے اور مغفرت کا جو سلوک فرمایا تھا اس کو جاری رکھنے کا وعدہ کرتا ہے یعنی ایسی مغفرت نہیں جو ہوئی اور ختم ہو گی بلکہ وہ لامتناہی مغفرت ہے جو حلیم کے سوا کسی اور سے ادا ہو ہی نہیں سکتی.حلیم ہوگا تو جاری مغفرت کا وعدہ کرے گا.حلیم نہیں ہوگا تو جاری مغفرت کا وعدہ نہیں کر سکتا.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وہ غیب کا علم رکھنے والا ہے اور شہادت کو بھی جانتا ہے.اس کے حضور جو تم پیش کرو گے اس سے کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا.تمہاری بار یک بار یک نیتوں کے فرقوں کو بھی وہ جانتا ہے.ان ارادوں سے بھی باخبر ہے جن ارادوں کے ساتھ تم کچھ قربانی پیش کرتے ہو.بسا اوقات یہ ارادے دنیا کو دکھانے کے ہوا کرتے ہیں.بڑی بڑی قربانیاں بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس وقت جب وہ قربانیاں دکھائی دے رہی ہوں.جب وہ دکھائی نہ دیں تو قربانیاں ختم ہو جاتی ہیں.تو علِمُ الْغَيْبِ سے یہ مراد ہے کہ تم خدا سے تو کچھ چھپا نہیں سکو گے.یہ سارے مضامین جو پہلے بیان ہو چکے ہیں ان مضامین پر گہری نظر رکھ کر بعینہ ان کے مطابق جزاء دینا یہ عالم الغیب کا کام ہو سکتا ہے ورنہ اپنے منہ سے تو انسان اپنی باتوں کی تعریف کیا ہی کرتا ہے.بڑے چرب زبان بڑی بڑی باتیں بنا کر تھے پیش کر رہے ہوتے ہیں اور اردگرد بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں کون دیکھ رہا ہے اور کون سن رہا ہے لیکن اللہ کے حضور جو تھے پیش کریں گے وہ علیحدگی میں کئے

Page 808

خطبات طاہر جلد 16 802 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء جائیں یا دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں، اگر یہ شرطیں موجود ہیں جو بیان کی گئی ہیں تو وہ عالم الغیب ہے اس کو پتا چل جائے گا تمہیں کسی تردد کی کوئی ضرورت نہیں لیکن یہ بھی یا درکھنا کہ اگر مخفی نیتیں کچھ اور ہوں گی اور قرضہ حسنہ کے تقاضوں کے خلاف ہوں گی تو یہ سارا قرضہ حسنہ رد کر دیا جائے گا اسے قبول نہیں کیا جائے گا.وَالشَّهَادَةِ اور شہادت پر بھی اس کی نظر ہے.غیب کی نیتیں اگر انسان کی بہت اونچی اور بلند مرتبہ نیتیں بھی ہوں جب تک وہ شہادت میں نہیں اچھلیں گی ان کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا.کئی دفعہ انسان دل میں ارادے باندھتا ہے کہ اللہ میاں میں یہ کروں اور وہ کروں گا مجھے یہ عطا کر تو یہ ایسا ہو گا لیکن جب شہادت کا وقت آتا ہے تو یہ لوگ پیچھے بھی ہٹ جاتے ہیں.وہ کچھ وعدے کیا کرتے ہیں غیب میں ان کو پورا نہیں کرتے تو انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ ان باتوں کا گہرا تعلق ہے.کئی دفعہ انسان یہ کہتا ہے اچھا یہ ہوگا تو میں یہ دوں گا اور اس پر لوگوں نے لطیفے بھی بنارکھے ہیں کہ کسی شخص نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر تو میرا کام بنادے تو میں اتنی بکریاں تجھے دوں گا.پھر وہ کام بن گیا تھوڑ اسا تو اس نے کہا کہ بکریاں تو نے کیا کرنی ہیں میں ایک دن کا دودھ دے دوں گا.پھر وہ اور آگے بڑھا اس کا کام ہو گیا تو اس نے کہا تو تو دودھ پیتا نہیں لوگوں نے ہی پینا ہے نا تو وعدہ ہی میرا غلط تھا.جو ہو گیا بس کافی ہے مجھے میری نیک نیتی کی جزاء دے یہ میرا دل چاہتا تھا.تو یہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا مضمون بھی بیان ہو جاتا ہے.جب نیت اچھل کر ایک عمل میں تبدیل ہوتی ہے، جب نیک ارادے خوبصورت تحفوں میں بدلتے ہیں اس وقت وہ اپنی ذات کی اور اپنے ارادوں کی صداقت کی شہادت دیتے ہیں اور اس وقت عالم الشهادۃ ہے جو اس گواہی کو بھی قبول کرتا ہے اور شہادت یعنی ظاہر میں پوری ہونے والی چیز کو بھی دیکھتا ہے اور اسے قبول فرماتا ہے ، خالی نیتوں پر بات نہیں کی جائے گی.پس وہ لوگ جو یہ نیتیں رکھتے ہیں کہ خدا ہمیں دے تو ہم یہ کام کریں گے ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو میں نے دیکھا ہے جب خدا دیتا ہے تو پھر وہ کرتے نہیں ، وہ بھول جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے شہادۃ کے لفظ کے اندر یہ مضمون بھی بیان فرما دیا کہ نیتیں ہوں گی مگر جب ظاہر ہوں گی پھر میں دیکھوں گا اور پھر تم بھی دیکھو گے کہ واقعی تم سچے تھے.الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وہ بہت غالب اور عزت والا ، طاقتور ہے اور حکیم ہے، ہر بات کی حکمت کو جانتا ہے.پس یہ سارے وعدے جو انفاق فی سبیل اللہ سے وابستہ ہیں یہ سارے مضامین جو

Page 809

خطبات طاہر جلد 16 803 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء ان چند آیات میں بیان ہو گئے ہیں یہ عزیز وحکیم کی باتیں ہیں اور اگر تم اسی طرح ان کو سر انجام دو گے جس طرح کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر کھول دیا ہے تو یا درکھو کہ خدا کے عزیز ہونے سے عزت پاؤ گے اور اس کے حکیم ہونے سے تمہاری حکمت بڑھے گی اور تم اُولُوا الْأَلْبَابِ (البقرة: 270) میں لکھے جاؤ گے.جو بھی خدا کی خاطر خرچ کرنے والے ہیں ان کی آخری منزل یہی ہے.میں نے کوئی ایسا نہیں دیکھا جوان شرائط کو پورا کرتا ہوا خدا کے حضور خرچ کرے اور اسے خدا عزت عطا نہ فرمائے اور اس کی حکمت کو نہ بڑھائے.ایسے لوگ بالآخر واقعہ اُولُوا الْأَلْبَابِ میں شامل ہو جاتے ہیں.باقی دنیا والے ان کے مقابل پر بے وقوف اور بے معنی دکھائی دینے لگتے ہیں.اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ نے جو کچھ بیان فرمایا میں وقت کی رعایت کے مطابق ان میں سے کچھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا اور یہ بخاری کتاب الزکوۃ سے روایت ہے.حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں، فرمایا صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی استطاعت ہو.( بخاری کتاب الزکوۃ باب اتقو النار ولو بشق تمرة ) صدقہ دے کر آگ سے بچھو یہ وہ مغفرت والا مضمون ہے.اللہ تعالیٰ جو مغفرت فرماتا ہے اگر صدقہ سچا ہو آدھی کھجور بھی ہو تو وہ تمہیں آگ سے بچالے گا.پس آنحضرت میہ کی نگاہ لازماً ہمیشہ قرآن کریم پر ہوتی ہے کوئی بھی حدیث ایسی نہیں جس کا مصدر قرآن کریم نہ ہو.ایک روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان ہوئی ہے رسالہ قشیریہ سے لی گئی ہے، غالبا زیادہ وقت نہیں تھا آج پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس، میں نے ان کو کہا تھا کہ اس مضمون کی حدیثیں لیں تو وہ اس وقت جتنی بھی میسر آسکیں دس پندرہ منٹ کے اندر انہوں نے اکٹھی کی ہیں اس لئے اگر حوالوں میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو احباب درگز رفرما ئیں.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے.لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت سے قریب ہوتا ہے“.(رسالہ قشیریہ باب الجودو السخاء صفحہ:122) سخی آدمی سے مراد یہاں وہ بھی ہے جو وَمَن يُوقَ شُحَّ کی تعریف کے اندر داخل ہے.ہر سخی خدا کے قریب نہیں ہوتا.لوگوں کے قریب ہو جاتا ہے اور بسا اوقات ہر سنی لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا جتنا اس نے دینا ہے لوگ اٹھا لیتے ہیں اور بعد میں اسے گالیاں دیتے چلے جاتے ہیں کہ اتنا کچھ بچا کے رکھا ہوا

Page 810

خطبات طاہر جلد 16 804 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء ہے، دیا کیا ہے آگے سے، کچھ بھی نہیں.الله تو یہ جو حدیث ہے رسول اللہ ﷺ کی یہ بول رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کلام ہے.اسی صلى لئے میں آپ کو سمجھایا کرتا ہوں کہ روایات پر اتنا انحصار نہ کیا کریں محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام خود بولتا صلى الله ہے، بلاشبہ پہچانا جاتا ہے کہ یہ محمد مصطف امیہ کا کلام ہے.فرمای سخی یعنی وہ بنی جس کو قرآن کریم نے سخنی بیان فرمایا ہے اللہ کے قریب ہوتا ہے، لوگوں کے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے.اب جو سنی بھی اللہ کے قریب نہ ہو وہ بنی نہیں ہے.یہ تعریف منفی صورت میں اس طرح پوری ہوتی ہے.جونی بیک وقت اللہ کے قریب نہ ہو اور جنت کے قریب نہ ہو اور لوگوں کے قریب نہ ہو وہ بھی نہیں ہے.یہ تینوں لازمی شرطیں ہیں کسی کے خدا کی نظر میں سخی ہونے کے لئے کیونکہ جو خدا کی محبت میں لوگوں پر اس طرح خرچ کرتا ہے کہ ایک ذرہ بھی ان کا شکریہ برداشت نہیں کرتا، چھپ کے دیتا ہے.ظاہر کبھی دے تو اس انداز میں دیتا ہے کہ ان کی عزت افزائی کرتا ہے.ان سے کہتا ہے کہ آپ قبول کر لیں تو ہم پر احسان ہے یہ خی ہے جو بندوں کے قریب ہوا کرتا ہے.اس کے سوا کوئی بھی بندوں کے قریب نہیں ہو سکتا.تو دیکھیں خدا تعالیٰ نے ہم پر کتنا احسان فرمایا کہ اس کے کلام کی تشریح محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی اور ایسی پر حکمت ، اتنی گہری تشریح ہے کہ ذہن کے آخری کنارے تک سیراب کرتی چلی جارہی ہے.فرمایا اس کے برعکس، بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے بھی دور ہوتا ہے اور جنت سے بھی دور ہوتا ہے.(رسالہ قشیریہ باب الجودو السخاء صفحہ: 122) اس تعریف کے بعد اب کون چاہے گا کہ اس کا خرچ آنحضرت ﷺ کی اس تعریف کے مطابق اسے اللہ کے قریب ،لوگوں کے قریب اور جنت کے قریب کرنے والا نہ ہو.لازماً ہر ایک اپنے خرچ پر نظر رکھے گا اور یہی چاہے گا کہ اس کا بہترین اجر حاصل کرے.فرمایا ان پڑھ بھی بخیل عابد سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے ان پڑھ سخی یعنی ان معنوں میں سخی ایک بخیل عابد سے خدا کو زیادہ قریب ہے.بظاہر عبادت انسانی زندگی کا مقصد ہے، انسان کو عبادت کی خاطر پیدا فرمایا گیا لیکن اس میں عبادت کی تعریف بھی داخل ہو گئی.فرمایا ” ان پڑھ ینی بخیل عابد سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے“ بہت ہی پر لطف بات ہے ان پڑھ بھی ان پڑھ کیوں کہا حالانکہ اس کے مقابل پر بخیل عابد رکھا ہوا ہے.یہ دونوں باتیں اگر بہت گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ان کا برعکس آنحضرت ﷺ پر صادر الله

Page 811

خطبات طاہر جلد 16 805 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء ہوتا ہے.آپ دنیا کے لحاظ سے ان پڑھ تھے لیکن خدا کی نظر میں تھی تھے اور یہ وجہ ہے کہ آپ کی عبادت خدا کے ہاں محبوب اور مقبول ہوئی ہے.ہر وہ شخص جو اس تعریف کے بغیر خدا کے حضور عبادت میں حاضر ہوتا ہے اس کی عبادت قبول نہیں کی جاتی.اگر سچا عبد بننا ہے تو آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں صلى الله اور آپ کے مطابق اگر دنیاوی تعلیم کا ایک لفظ بھی نہ آپ نے حاصل کیا ہو تو محمد رسول اللہ یہ کی طرح آپ پر کوئی ترقی بھی بند نہیں کی جائے گی.ظاہری علم کا نہ ہونا خدا کے حضور سخی ہونے کی راہ میں مانع نہیں ہے.پس ظاہری علم کی پرواہ نہ کریں جو کچھ خدا کے حضور پیش کرنا ہے بہت محبت اور دیانت داری سے جو کچھ حاصل ہے وہ سب کچھ پیش کر دیں.میں اس مضمون کو دیکھتا ہوں تو میرے نزدیک یہ مضمون بہت ہی زیادہ گہرا ہو جاتا ہے.اگر بظاہر یہ بے جوڑ لفظ دکھائی نہ دیتے تو میری نظر الکتی بھی نہ.بظاہر بے جوڑ با تیں ہیں لیکن ان بے جوڑ لفظوں کے اندر ہی وہ گہرائی موجود ہے جو اور کہیں موجود نہیں.آنحضرت ﷺ کو دو وجوہات سے سب دنیا پر فضیلت دی گئی ہے.ان پڑھ ہونے کے باوجود خدا کے حضور اپنا سب کچھ پیش کر دیا اور بخل نہیں کیا پیش کرنے میں.جو اموال تھے، جو جان تھی، جو دماغ تھا، جو دل تھا ، جو بھی استطاعت تھی سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیا اس کے نتیجے میں آپ عبد کہلائے وہ عابد بنے جس کو خدا تعالیٰ عابد قرار دیتا ہے اور یہ عبد بنا کر آپ کو وہ علم عطا کیا جو سب دنیا کا معلم بنا دیا.ان پڑھ سے آغا ز ہوا ہے اور عبادت کی راہ سے کیا کچھ حاصل کر گئے.خدا کے حضور عبد کہلائے ، اور خدا کے حضور علم میں اتنی ترقی کی کہ دنیا کے علوم نہ پڑھنے کے باوجود خدا نے بے انتہا دیا.اس مضمون کا تعلق سخی سے ہے اگر بندہ اتناسخی ہو جیسے محمد رسول اللہ یہ بھی تھے کہ جو کچھ ملاتا رہاوہ خدا کے حضور ہی پیش کرتے رہے تو اللہ اس سے بڑھ کر سخی کیوں نہ ہوگا.تو اللہ کی سخاوت ہے جو صلى الله اس کے شکور ہونے کا تقاضا ہے اور وہ سخاوت بے انتہا ہے.پس آنحضرت ﷺ کو جولا متناہی مقامات نصیب ہو گئے ہیں وہ اسی حکمت کی وجہ سے تھے کہ آپ نے اپنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کو کچھ بھی نہ سمجھا.پھر بھی جو تھا پیش کر دیا اللہ نے اس کو اتنی وقعت عطا فرمائی ، اتنی عظمت بخشی کہ ایسے شخص سے خدا نے ایک عجیب سلوک فرمایا جو اس کا تھا وہ سب اس کو دے دیا.جب آنحضرت ﷺ نے اپنا سب کچھ پیش کر دیا تو اس سے بڑے سخی کا تقاضا کیا تھا کہ وہ اپنا سب کچھ پیش کر دے.پس دنیا و ما فیہا

Page 812

خطبات طاہر جلد 16 806 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء میں آپ کو مقصود بنادیا ساری کائنات کا مقصود بنا دیا.لولاک لما خلقت الافلاک (حوالہ:..) کتنا عظیم مضمون ہے جو خدا کی راہ میں بچی سخاوت اختیار کرنے سے اور سچا عجز اختیار کرنے سے انسان کو نصیب ہوتا ہے.اب اس سے زیادہ وقت نہیں ہے.پس اسی لئے اس حدیث پر اکتفا کرتے ہوئے میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں اور اس دفعہ میں نے عمداً آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے بہت تھوڑے کوائف چنے ہیں کیونکہ پہلے ہم کوائف میں غرق ہو جایا کرتے تھے اور اکثر سننے والوں کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.پچھلے سال میں اتنا ہوا، اس سال میں اتنا ہوا،فلاں جماعتیں آگے، فلاں جماعتیں پیچھے کچھ تو ذکر کرنا پڑے گا مگر اس دفعہ میں نے کوشش کی ہے کہ وعدے وصولیوں کے فرق سب مٹا کر جو مرکزی نقطے ہیں وہ آپ کے سامنے رکھ دوں.امید ہے کہ انشاء اللہ سب کو سمجھ آجائے گی.اس تمہید کے ساتھ میں تحریک جدید کے دفتر اول سال تریسٹھ (63)، یہ تحریک جدید میں دفاتر ہیں یعنی الگ الگ قربانی کرنے والوں کی نوعیت ایک دوسرے سے جدا کر کے ایک نوعیت کے لوگوں کے الگ رجسٹر ہیں ، دوسری نوعیت کے لوگوں کے بعد کے رجسٹر ہیں.تو آغاز سے جنہوں نے قربانیاں کیں ، جن کے قربانیوں کے سلسلے ابھی جاری ہیں ، ان کو دفتر اول کہا جاتا ہے.اللہ کے فضل سے میری والدہ نے بھی مجھے اس میں شامل کر کے یہ اعزاز بخشا اور بہت سے کثرت سے ایسے ہیں جن کے ماں باپ نے ان کو اعزاز بخشا اور وہ آج بھی دفتر اول میں ہیں.پھر دفتر دوم کا آغاز ہوا اس کو ترین (53) سال گزر چکے ہیں.دفتر سوم کا آغاز ہوا جس کو تینتیس (33) سال گزرچکے ہیں.دفتر چہارم کا آغاز ہوا جو خود میں نے ہی کیا تھا اس کو بارہ (12) سال گزر چکے ہیں اب ہم اگلے سال میں داخل ہور ہے ہیں.پچھلی دفعہ ستر (70) کچھ ممالک سے رپورٹیں ملی تھیں.اس دفعہ خدا کے فضل سے بیاسی (82) ممالک کی طرف سے رپورٹیں ملی ہیں اس میں بھی ترقی ہے.وصولی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سولہ لاکھ چونسٹھ ہزار تین سو چالیس پاؤنڈ ہوئی ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے جب اللہ تعالیٰ نے مجھے منصب خلافت پر فائز فرمایا تو یورپ امریکہ وغیرہ سب کی وصولی اس سے بہت کم تھی.پاکستانی

Page 813

خطبات طاہر جلد 16 807 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء روپے کو چھوڑ میں کیونکہ اس کی قیمت گرگئی ہے.لوگ کہیں گے کہ آپ گری ہوئی قیمت کے روپے کو اضافہ بتا رہے ہیں اس لئے میں اس کا ذکر ہی نہیں کرتا.ذکر تو کیا ہے لیکن مختصر.جو دنیا کی ویلیوز (Values) یعنی ان کے روپے کی قیمتیں ہیں ان میں ڈالر اور پاؤنڈ کی قیمتیں باوجود گر نے کے اپنی ذات میں مستحکم ہیں اور جو فرق پڑا ہے وہ پاکستانی روپے کے مقابل پر بہت کم فرق پڑا ہے.تو اس پہلو سے جہاں تک مجھے یاد ہے ساری دنیا کا چندہ سولہ لاکھ پاؤنڈ نہیں تھا جو آج تحریک جدید کا چندہ ہے یہ پاؤنڈوں میں ہے.گزشتہ سال کے مقابل پر یہ وصولی پندرہ لاکھ کی نسبت سولہ لاکھ چونسٹھ ہزار ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے مقابل پر ایک لاکھ چھپن ہزار کا اضافہ ہے.اس اضافے کا سب سے بڑا سہرا امریکہ کے سر پر سجتا ہے.امریکہ نے وقف جدید میں آگے بڑھنے کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا.پھر جب تحریک جدید میں سنتے تھے کہ جرمنی آگے ہے، پاکستان آگے ہے، فلاں آگے ہے تو ان کو یہ ایک مہمیں لگتی تھی جیسے گھوڑے کو ایڑ لگائی جاتی ہے.چنانچہ ایم ایم احمد صاحب نے مجھے کہا کہ اس دفعہ ہم کوشش کریں گے کہ تحریک جدید میں بھی آگے بڑھیں.تحریک جدید میں ان کا آگے بڑھنے کا انداز یہ ہے کہ ساری دنیا کو اتنا پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ اب ان کے لئے خیال بھی نہیں آ سکتا کہ ہم آگے بڑھ کر ان کو پکڑ لیں.دو سال پہلے ان کی کل وصولی دولاکھ پچھتر ہزار تھی اب چھ لاکھ چوراسی ہزار ہو چکی ہے تو ان دو سالوں میں بہت دوڑ لگائی ہے انہوں نے اور ماشاء اللہ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم امریکہ کو پکڑ سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے اور بھی زیادہ آگے بڑھنا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور ہم سب کی طرف سے ان کو مبارک باد ہو.سب سے آگے بڑھنے والا گھوڑا نکلا.پاکستان نے بھی ترقی کی.ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ جرمنی کو تو ہم نے پیچھے کر کے چھوڑنا ہے آخر کر دیا اور اب اللہ کے فضل سے اتنی ترقی ہے اس دو سال کے اندر کہ جرمنی ان سے بہت پیچھے رہ گیا ہے.مگر جرمنی سے اس کا شکوہ نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس جماعت کے اور بے حد اخراجات ہیں تبلیغ کے اور دوسرے اور وہ متوازن قدم بڑھا رہے ہیں مگر ان کی اتنی توفیق ہے ہی نہیں کہ وہ اس مقابلے میں اب شامل ہوسکیں.تحریک جدید میں امریکہ اور پاکستان دونوں نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.مجموعی وصولی کے لحاظ سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے امریکہ اول ، پاکستان دوم،

Page 814

خطبات طاہر جلد 16 808 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء جرمنی تیسری پوزیشن میں ہے ، برطانیہ چوتھی پوزیشن میں ہے، کینیڈا پانچویں ، انڈونیشیا چھٹی، سوئٹزر لینڈ ساتویں، بھارت آٹھویں، ماریشس نویں، جاپان دسویں اور ناروے گیارھویں پوزیشن میں ہے.موازنے کی فہرست جو میں نے پیش کی ہے اس سے پوری سمجھ نہیں آپ کو آسکتی کیونکہ ہر ایک کے حالات الگ ہیں ، جماعتوں کی تعداد کا بہت بڑا فرق ہے اور اقتصادی حالات ملکوں کے مختلف ہیں.اس لئے صرف اول دوم سوم کی حیثیت سے میں نے آپ کو بتا دیا ہے تا کہ لوگوں کو خوشی ہو کہ ہم فلاں نمبر پر آئے ہوئے ہیں.لیکن جہاں تک فی کس قربانی کا تعلق ہے اس میں حسب سابق سوئٹزر لینڈ نے ابھی بھی اولیت کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے.ایک سو تینتیس (133) پاؤنڈ فی کس سوئٹزرلینڈ کے احباب قربانی پیش کر رہے ہیں تحریک جدید میں.امریکہ سے ان کی نسبت نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے یہ موازنہ بھی پوری طرح حقیقی قربانی پیش نہیں کر سکتا مگر ایک ایسا ہے جس میں سوئٹزر لینڈ کو فضیلت ملی ہے تو بیان کرنی چاہئے.امریکہ کا ہر فرد ایک سو ایک پاؤنڈ پیش کر رہا ہے تحریک جدید میں اور یہ بہت بڑی قربانی ہے.جماعت میں جس کثرت سے عامۃ الناس بھی ہیں جن کی معمولی آمدنی ہے ان سب کو شامل کریں تو سوئٹزر لینڈ کے مقابل پر اس کو ایک بہت بڑی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے.جاپان جو پہلے اول آیا کرتا تھا وہ اٹھہتر (78) پر ہے.یہ بھی آج کل کے حالات میں میں سمجھتا ہوں بڑی ہمت ہے.برطانیہ ماشاء اللہ اس دفعہ کچھ اور آگے آیا ہے.یہ عبد الخالق صاحب بنگالی جب سے ان کو تحریک جدید کا کام سپرد ہوا ہے اپنے آپ کو تعلق دار لکھنے لگ گئے ہیں اور بڑی محنت کر رہے ہیں ان کی محنت ابھی آگے چلے گی.وہ کہتے ہیں وصولی میں کچھ اور بھی کرلوں گا لیکن ان دو سالوں میں ، اس سال خصوصیت کے ساتھ بنگالی صاحب نے کام سنبھالا ہے تو برطانیہ کو اچھی قربانی کی توفیق ملی ہے.سنجئیم چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود انتیسویں (29) پوزیشن میں ہے.اب مختصر اوقت کی رعایت سے میں یہ عرض کر دیتا ہوں کہ پاکستان میں لاہور، ربوہ، اسلام آباد، راولپنڈی، حیدر آباد، کوئٹہ، سرگودھا، سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ ، ساہیوال، اوکاڑہ، نواب شاہ، سانگھڑ، فیصل آباد، خوشاب، پشاور، کراچی، گوجر خان، جہلم اسی ترتیب سے تحریک جدید کی قربانی میں آئے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء عطا فرمائے.آمین

Page 815

خطبات طاہر جلد 16 809 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء اب ایک اور غم اور خوشی کی ملی جلی خبر ہے.پاکستان سے ایک اور شہادت کی اطلاع ملی ہے.غم اس لئے کہ اپنا پیارا جب جدا ہو تو غم تو ضرور ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جس طرح شہادت کی توفیق بخشی ہے وہ ایک بڑا مقام اور مرتبہ ہے.میری مراد ڈاکٹر نذیر احمد صاحب آف گھوئینکی ضلع گوجرانوالہ سے ہے.ان کے قاتل عنایت شاہ پولیس کی کوشش کی وجہ سے گرفتار ہوئے اور اس پہلو سے میں پولیس کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.پاکستان کے لئے کم ایسا واقعہ ہوا ہے کہ پولیس کے لئے دل سے دعائیں نکلیں لیکن وہاں کے تھانیدار بہت با ضمیر انسان معلوم ہوتے ہیں.وہ جانتے تھے کہ ڈاکٹر نذیر صاحب اس علاقے کے لئے بے حد خدمت کرنے والے اور بے حد ہر دلعزیز ہیں اور بہت ہی کوئی خبیث فطرت ہے جس نے ان کو قتل کیا ہے.چنانچہ انہوں نے سارے گاؤں کو اور ساتھ کے گاؤں جس کے متعلق شبہ تھا کہ ان میں سے قاتل نکلے گا ان کو اکٹھا کر کے یہ بتا دیا کہ دیکھو پولیس کے ہاتھ بڑے سخت ہوتے ہیں یا تو تم خود مخبری کرو، بتاؤ کہ کون ہے ورنہ میں پھر دوبارہ آؤں گا اور پھر میں اپنے سارے حربے استعمال کراؤں گا اور تم سے نکلوا کے چھوڑوں گا اس لئے مخبری کرنے والا بہتر ہے کہ خود ہی مخبری کر دے ور نہ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی پکڑا جائے.چنانچہ اس دھمکی نے جو معنے رکھتی تھی بڑا اثر کیا اور ایک مخبر نے اس بدبخت مولوی کا نام بھیج دیا کہ یہ عنایت شاہ ہے اور، یہ اور اس کا بھائی دونوں دراصل تو طاہر القادری کے مرید ہیں اور انہوں نے ہی ساری شرارت کی ہے اور یہ عجیب مولویت ہے پاکستان میں کہ تقویٰ تو قریب بھی نہیں پھٹکا ہوا، پیسے بھی لے کر بھاگ گئے ، رائفل بھی اس سے نکلوالی اور جا کے نہر کے کنارے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے شہید کیا اور اسی نہر میں ڈال دیا.مخبر نے جب پولیس کو اطلاع کی تو سیدھا پولیس نے ان کو جا پکڑا اور بعینہ اسی جگہ سے لاش دریافت کر لی اسی طرح ان کو گولیاں لگی ہوئی تھیں.اس لئے اس معاملے میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی.ان کو ربوہ میں پوری عزت افزائی کے ساتھ جو ایک شہید کی ہونی چاہئے دفن کیا گیا اور ان کی اولاد میں سب سے بڑے صاحبزادے 35 سال کے ہیں اور اور بھی بچے ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی عنایت کے سائے تلے رکھے اور قاتل کو جو سزا اس دنیا میں ملنی ہے وہ تو ملے گی لیکن مجھے اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ آخرت کی سزا اس سے بھی زیادہ سخت ہوگی کیونکہ یہ بے حیا لوگ ہیں ، پلید ذات ہیں، جب خدا کا نام لے کر ایسی مجرمانہ حرکتیں کرتے اور ساتھ اپنا پیٹ بھی پال رہے ہیں.خدا

Page 816

خطبات طاہر جلد 16 810 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء کے نام پر کسی کو مار کے غازی بننے کے دعویدار ہو جاتے ہیں.سارے پاکستان کا یہ حال ہو چکا ہے.جب سے احمدیت کو انہوں نے اپنی طرف سے اپنے مزاج میں سے نکالا ہے ایسے ملعون ہو چکے ہیں کہ زندگی کا ہر شعبہ لعنت سے بھر گیا ہے.کچھ سمجھ نہیں آتی اس ملک کا کیا بنے گا.اللہ ہی ہے جو ان کو عقل دے.تو سب سے پہلے تو میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب آف گھوٹینکی کی نماز جنازہ غائب جمعہ کے بعد عصر کی نماز کے بعد پڑھوں گا.آج عصر کی نماز جمع ہوگی کیونکہ یہ مجبوری ہے.سردیوں کی وجہ سے اب دن اتنے چھوٹے ہو گئے ہیں کہ جمعہ ختم ہوتے ہوتے عصر کی نماز کے وقت سے مل جاتا ہے تو جب تک یہ سردیوں کے دن نہ بدلیں آئندہ ظہر کی نمازیں نہیں بلکہ جمعہ کی نمازیں عصر کے ساتھ جمع ہوا کریں گی.اب دوسرے ہمارے عزیز دوست بریگیڈئیر وقیع الزمان صاحب ہیں ان کے کوائف چھپ چکے ہیں.مجھے اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں.میں مختصر اتنا کہوں گا کہ ان کی ہمیشہ خواہش ہوا کرتی تھی، مجھ سے ذکر کیا کرتے تھے کہ میں کسی پر بوجھ نہ بنوں.اللہ مجھے اس طرح اٹھائے کہ میں کبھی بوجھ نہ بنوں.چنانچہ ان کا وصال اس طرح ہوا ہے کہ ہارٹ اٹیک نہیں ہوا بلکہ چلتے چلتے دل خود ہی بند ہو گیا.ایسی ملائمت کے ساتھ کہ کوئی بھی اثر چہرے پر کسی تکلیف کا نہیں ہے.اخبار پڑھتے پڑھتے وہیں سر جھکا دیا اور میز پر ٹکا دیا اور جب ان کی بیگم نے یہ خیال کیا کہ شاید سوئے ہوئے ہیں، تھک کر سو گئے ہیں، جب قریب جا کر دیکھا تو سانس بند تھا اور فوت ہو چکے تھے.یہ ان کی وفات بتا رہی ہے کہ اللہ نے ان کو قبول فرما لیا ہے ورنہ اس طرح نیک خواہش کا اظہار خدا تعالیٰ قبول نہیں کیا کرتا جب تک کسی نیک بندے کے دل پر نگاہ نہ ہو اور اسے قبولیت نہ بخشے.ان کا انگلستان کے ساتھ ایک گہرا تعلق یہ ہے کہ عزیزہ ساجدہ مرحومہ جنہوں نے ہارٹلے پول کو عزت بخشی ، جن کی وجہ سے ان کے میاں اور ان کی کوششوں کی وجہ سے ، ہارٹلے پول میں بڑی زبر دست جماعت بنی ، بڑے مخلص لوگ ہیں جن کو میں خود اب بھی دیکھ کر آیا ہوں ، یہ ان کی بیٹی ہیں.قانتہ جو مولوی عبد المغنی صاحب کی صاحبزادی تھیں ان سے ان کی شادی ہوئی تھی اور بچی کی ولادت پر یا ولادت کے بعد جلد وہ فوت ہو گئی تھیں.میں دیکھ کر بتا سکتا ہوں اس بچی کو انہوں نے پالا.بہر حال یہ کو الف چھپ جائیں گے.چھوٹی موٹی اس میں غلطی آگے پیچھے ہو تو بے معنی بات ہے میں صرف ذکر یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ساجدہ حمید جنہوں نے سارے انگلستان کی جماعت سے

Page 817

خطبات طاہر جلد 16 811 خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1997ء دعائیں لی ہیں اور ایک عزت کا مقام ہے وہ ان کی بیٹی تھیں.ان کی دوسری شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صاحبزادی امتہ المجید سے ہوئی.ان سے بھی جتنے بچے ہیں نہایت ہی اعلیٰ تربیت ہے ان کی.بہت مخلص، بہت فدائی.جب میں انگلستان آیا ہوں تو میرے ساتھ جو دو شخص جماعت کی طرف سے نمائندہ تھے ان میں ایک بریگیڈئیر وقیع الزمان صاحب تھے اور ایک چوہدری حمید نصر اللہ صاحب لاہور کے امیر.ان سے جو میرے تعلقات کی باتیں یا ہماری خط و کتابت تھی وہ لمبے مضمون ہیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں.اتنا میں جانتا ہوں کہ بڑے فدائی انسان تھے ، بہت ہی بزرگ والد، خوش نصیب ہیں وہ بچے اور خوش نصیب ہے وہ بیوی جن کو وقیع الزمان نصیب ہوئے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے.نماز عصر کے بعد انشاءاللہ ان کی نماز جنازہ ہوگی.( حضور ایدہ اللہ نے مکرمہ ساجدہ حمید صاحبہ کے متعلق خطبہ کے دوران ایک دفعہ سہواً فرمایا کہ مکرمہ قانتہ صاحبہ کی بیٹی کی بیٹی تھیں.اس پر حاضرین میں سے کسی نے توجہ دلائی تو حضور نے فرمایا) آپ نے ٹھیک بتایا ہے قانتہ جو تھیں ان کے ساتھ ان کی شادی ہوئی تھی.دیکھو کتنی بڑی غلطی مجھ سے ہو رہی تھی.تو خیالات اور طرف بہہ رہے ہوں تو بعض دفعہ ایسی باتیں جن کا علم بھی ہو وہ بھی وقتی طور پر بھول جاتی ہیں.قانتہ جو مولوی عبد المغنی صاحب کی صاحبزادی تھیں ان سے ان کی شادی ہوئی تھی اور ان کے لئے بھی بہت ہی بہترین خاوند ثابت ہوئے.ان کی بچی ساجدہ ہے جس سے قامتہ کے تعلق کی وجہ سے اور بھی زیادہ پیار تھا اور ساری اولاد کہتی ہے کہ بہترین ، بہت ہی عظیم والد تھے.تو اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے اور انشاء اللہ ابھی نماز عصر کے بعد ان کی نماز جنازہ ہوگی.جمعہ میں عام طور پر بولنا جائز نہیں مگر یہ بولنا مجھے بہت اچھا لگا ہے.

Page 818

Page 819

خطبات طاہر جلد 16 813 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء جب تک آپ عبادت کا حق ادا نہ کریں آپ میں یہ طاقت آہی نہیں سکتی کہ برائیوں سے رُک سکیں خطبه جمعه فرموده 7 نومبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنكبوت: 46) پھر فرمایا: یہ آیت غالباً میں پہلے بھی نماز کے تسلسل میں پڑھ چکا ہوں اور اس کے بعض مضامین آپ کے سامنے کھول کر پیش کئے تھے.آج بھی نماز ہی کے تسلسل میں ایک خطبہ ہوگا جس کا بنیادی نکتہ سورۃ فاتحہ ہے.سورۃ فاتحہ کو خدا تعالیٰ نے دو حصوں میں تقسیم فرما دیا ہے.پہلا حصہ اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ سے تعلق رکھنے والا حصہ ہے.وہ صفات جو کائنات پر جلوہ گر ہوتی ہیں اور انسان پر جلوہ گر ہوتی ہیں وہ چار بنیادی صفات بیان فرمائی گئی ہیں رَبِّ الْعَلَمِينَ في الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ اور مُلِكِ يَوْمِ الدین ان تمام صفات کو انسان سے باندھنے کا ذریعہ کیا ہے یعنی ان صفات پر جتناغور کریں اتنا ہی زیادہ ان میں دلچسپی ہوتی چلی جاتی ہے اور انسان کا بہت دل چاہتا ہے کہ اس نے غور سے ان صفات کو سنا ہو یا نماز میں سنا ہو یا ویسے غور سے پڑھا ہو تو اس کے دل میں بے انتہا خواہش

Page 820

خطبات طاہر جلد 16 814 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء پیدا ہونی چاہئے کہ میں رب سے تعلق جوڑوں ، رحمن سے تعلق جوڑوں، رحیم سے بھی جوڑوں اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ سے بھی جوڑوں.یہ اس کی تعلق کی خواہش کوئی نیکی پر مبنی نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک ایسی خواہش ہے جو طبعی طور پر ہر انسان میں پائی جاتی ہے اور تمام دنیا میں تعلقات کے روابط انہی چار صفات سے قائم ہوتے ہیں.جو بھی کسی کا رازق ہو، خواہ وہ کمپنی کا مالک ہو یا حکومت کا کوئی بڑا افسر ہو وہ رزق کا ذریعہ بن جاتا ہے اور ان معنوں میں وہ رب بنتا ہے اگر چہ رب العالمین نہیں یعنی اس کے اندر یہ طاقت ہی نہیں ہوتی کہ بدلتے ہوئے اقتصادی حالات پر بھی کنٹرول کر سکے.اس لئے ایسے رب جو خاص محدود دائرے سے تعلق رکھنے والے رب ہوں، جب حکومتیں بدلتی ہیں، اقتصادیات میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور بحران پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ رب بے چارے اسی بحران میں ہی بہہ جایا کرتے ہیں کچھ بھی ان کا باقی نہیں رہتا لیکن جب تک ان کے ساتھ کسی کی ربوبیت وابستہ ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ہمیشہ کی ضمانت دینے والے لوگ نہیں ہیں، عارضی طور پر ان کے ساتھ ربوبیت وابستہ ہے، دیکھو کیسا کیسا ان کی خوشامدیں کی جاتی ہیں کس طرح لوگ ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں، انہی کو مائی باپ بناتے ہیں، سب کچھ انسان کے وہی ہو جاتے ہیں.تو ربوبیت سے تعلق جوڑ نا کوئی نیکی نہیں ہے یہ ایک فطرت کی مجبوری ہے اس کے بغیر کسی کا گزارہ چل ہی نہیں سکتا.تورَبِّ العلمین کا نام سن کر اگر آپ اس پر غور کریں گے تو یہ بات یاد رکھیں کہ رب سے تعلق جوڑ نارب پر کوئی احسان نہیں ہے ، قطعاً کوئی احسان نہیں ہے.رب آپ سے تعلق جوڑ لے اور آپ کی محبت کا جواب دے تو یہ اس کا احسان ہے ، آپ کا احسان نہیں.اس حقیقت کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کیونکہ اکثر نماز پر اعتراض کرنے والے اس حقیقت سے بے خبری کے نتیجے میں اعتراض کرتے ہیں.دوسرا الرحمن ہے.کوئی شخص اپنے مزاج کے لحاظ سے بہترین رحمانیت کے نمونے دکھانے والا ہو یعنی ہر شخص سے بہت ہی محبت سے پیش آئے ، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ، خواہ وہ اس کو مانگے یا نہ مانگے ، اس کی سوچ سے بھی پہلے یہ اندازہ لگائے کہ اس کو کسی چیز کی ضرورت پیش آسکتی ہے.کون پاگل ہے جو ایسے شخص سے تعلق نہیں جوڑے گا اور اس سے تعلق قائم کر کے یہ سمجھے گا

Page 821

خطبات طاہر جلد 16 815 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء کہ گویا میں نے اس پر احسان کیا ہے.واقعہ پاگل ہوگا جو یہ خیال کرے گا کیونکہ رحمن سے تعلق جوڑنا ایک فطری تقاضا ہے.ناممکن ہے کہ دل رحمن کی طرف لپکے نہیں اور کسی رحمن کی طرف دوڑتے ہوئے اس کے حضور اپنا سر نہ جھکا دے لیکن دنیا کے رحمن کس حد تک رحمن ہوتے ہیں، بالکل معمولی رحمن اور ان کی رحمانیت کا اعتبار بھی کوئی نہیں کیونکہ حالات بدل جائیں تو وہ بھی ساتھ ہی بدل جاتے ہیں اور رحمن وہ نہیں ہیں جن کا ساری کائنات سے تعلق ہے.کائنات کا تعلق اس رحمن سے ہے جو اللہ تعالیٰ ہے.پس اس کی رحمانیت کا ئنات میں ہونے والے واقعات سے منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے.رحمن تو ہیں ماں بھی رحمن ہوتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ رحمی تعلقات کے لئے رحمانیت کا لفظ بولا جا سکتا ہے.اگر ایک قومی آفت آ پڑے تو اس کی رحمانیت کیا کام کرے گی.اس کی آنکھوں کے سامنے بچے آگ میں جل جائیں گے وہ کچھ نہیں کر سکے گی.بعض گھروں میں آگ لگ جاتی ہے بچے اندر پھنس جاتے ہیں باہر مائیں چیختی چلاتی رہ جاتی ہیں لیکن ان کی رحمانیت کا کوئی اثر بھی آگ کو پار کر کے بچوں کو بچانے کا موجب نہیں ہو سکتا.یہ ایک بہت ہی معمولی ادنی سی مثال ہے مگر رحمانیت یعنی اللہ کی رحمانیت پر آپ جتنا بھی غور کریں گے آپ کو دنیا کی رحمانیت کے نظارے بالکل ایک معمولی حقیر سے واقعات دکھائی دیں گے جن کے اندر ہمیشہ آپ کا ساتھ دینے اور آپ کو سنبھالنے اور کائنات کے اثرات سے آپ کو بچانے اور کائنات کے فوائد سے آپ کو تمتع کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے.تو جب آپ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے بعد رحمن کا نام سنتے ہیں تو اس سے جو تعلق پیدا ہوتا ہے وہ آپ کی اپنی ضرورت ہے.اس کے لئے جو دل اچھلتا ہے تو ایسا ہے جیسے بچہ دودھ کے لئے بے تاب ہو کر اس کا دل ماں کے لئے اچھلتا ہے اور ماں کا دل جواباً اس کے لئے اچھلتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ جو تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں اگر آپ رحمانیت پر غور کریں تو یہ ایک ایسا بے اختیار تعلق ہے جس کے بغیر آپ کا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا.دنیا کے رحمانوں کے ساتھ تو آپ دوڑ دوڑ کے تعلق قائم کریں جو عارضی اور حقیقت میں بے معنی ہیں لیکن رحمن وہ خدا جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے، جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اس کے لئے دل میں تعلق کی خواہش پیدا نہ ہو تو یہ بیوقوفی ہے یا بے وقوفی بھی نہیں پاگل پن ہے.کوئی معقول آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ رحمانیت کے جلوے دیکھے اور اس کا دل اس کی طرف نہ لپکے.

Page 822

خطبات طاہر جلد 16 816 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء اس کے بعد الرَّحِیمِ ہے.اب رحیم پر غور کر لیں وہ ذات جو اپنے رحم کو بار بارلے کر آتی ہے کبھی بھی اس کا رحم ہمیشہ کے لئے پیٹھ نہیں دکھاتا.وہ ہمیشہ بار بار ایک دفعہ ظاہر ہو جانے کے بعد پھر آتا ، پھر آتا ہے ، پھر آتا ہے اور انسان جانتا ہے کہ اس کے لئے ایسے مواقع کا بار بار پیدا ہونا ضروری ہے جن سے وہ استفادہ کر سکے.اگر پہلے بھی استفادہ نہ بھی کیا ہو تو پھر اگلے سال وہی موسم دوبارہ آجائیں گے، وہی رحمانیت کے جلوے دوبارہ نظر آئیں اور ایک انسان جس نے اپنی عمر پہلے ضائع کر دی ہو وہ کبھی تو رحمانیت کے بار بار آنے والے جلوؤں سے فائدہ اٹھا سکے، یہ رحیمیت کا مضمون ہے.اب بتائیں کون ہے جو تعلق جوڑے رحیمیت سے اور سمجھے کہ بڑا میں نے احسان کیا ہے اور یا تعلق ہی نہ جوڑے.دونوں صورتیں پاگل پن کا نشان ہیں.دونوں صورتوں میں نیکی کا کوئی سوال ہی نہیں، احسان کا کوئی سوال نہیں یعنی تعلق جوڑنے والے کی طرف سے جس کے ساتھ تعلق جوڑا جارہا ہے اس پر ایک ذرہ بھی احسان نہیں ، نہ یہ نیکی ہے کہ آپ اس سے تعلق باندھیں.پھر آپ اس کو کہتے ہیں مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہر کوشش، ہر محنت، ہر چیز کا آخری نتیجہ اس کے قبضہ قدرت میں ہے.اب کون پاگل ہے جو اس سے منہ موڑ لے گا.اب تک یہ جو گفتگو میں کر رہا ہوں اس میں ایک گہری منطقی دلیل موجود ہے کہ آپ جب رَبِّ الْعَلَمِينَ ، رحمن رحیم یا مالک سے تعلق جوڑنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں تو اس میں ایک ذرہ بھی اس پر احسان نہیں ، تمام تر احسان آپ پر ہے.اب یہ جو چار صفات ہیں ان کا بندوں سے تعلق کیسے جوڑا جاتا ہے.نماز میں اچانک بے اختیار آپ کہہ اٹھتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ اے وہ ذات جو رب ہے، جو رحمن ہے، جو رحیم ہے، جو مالک ہے، تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں.اب بتائیں وہ پاگل جو کہتے ہیں کہ عبادت کیوں کرتے ہو، کیا ضرورت ہے خدا کو تمہاری عبادت کروانے کی ، کیا ان کا جواب ان باتوں میں نہیں ہے.کیا آپ کے عبادت کرنے کے نتیجہ میں ایک ذرہ بھی احسان ہو گا رب ، رحمن ، رحیم اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ پر.عبادت تو ان صفات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جو آپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے ، آپ پر احسان کرنے کے لئے پیدا ہو سکتا ہے.اگر آپ اس کی عبادت کریں.پس سب سے پہلے تو سارے دہر یہ یا دوسرے مذاہب کے لوگ جو یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ ہم عبادت کیوں

Page 823

خطبات طاہر جلد 16 817 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء کریں، اللہ کو کیا ضرورت ہے ہماری چاپلوسی کی اس کے سامنے کیوں سر جھکائیں، یہ اللہ کی انانیت ہے جس کے نتیجے میں وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں.ان سب کا جواب اس میں آ گیا ہے.دنیا میں تو تم چھوٹے چھوٹے معبودوں کی عبادت کرتے پھرتے ہو، تمہارا تو شیوہ ہی عبادت ہے.انسان تو عبادت کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.یا وہ جھوٹے معبودوں کی جھوٹی عبادت کرے گا یا اس کے لئے یہ امکان ہے کہ ایک سچے معبود کی سچی عبادت کرے.کوئی ایک انسان آپ دنیا میں دکھائیں جو عبادت پر مجبور نہ ہو.عبادت کا ایک معنی ہے غلامی.کسی اعلیٰ ہستی سے نیچے ہونا اور اس کے سامنے سر جھکانا تا کہ اس سر جھکانے سے اس کو کوئی فائدہ مل جائے.ساری دنیا میں تلاش کریں ایک بھی آپ کو ایسا انسان نہیں ملے گا جو عبادت نہ کرتا ہو سوائے پاگلوں کے.پاگل بیچارے مجبور ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ عبادت ہوتی کیا ہے.نقصان اٹھاتے پھرتے ہیں پھر بھی عبادت نہیں کرتے.عبادت کرنے والے انسان ضرور کسی نہ کسی معبود کو اپنا رزاق سمجھتے ہیں، اپنی طاقت کا منبع سمجھتے ہیں، اپنے اموال کی حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اپنے اوپر رحم کرنے کے لئے ان کا وجودضروری سمجھتے ہیں کیونکہ بارہا انسان رحم کا محتاج ہوتا ہے اور پھر مالک یوم الدین سمجھنا تو بہت بڑی بات ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کسی کو نہ بھی سمجھیں چھوٹا سا مالک بھی ہو تو اس کی عبادت کریں گے کیونکہ ملکیت سے آپ کو حصہ نہیں ملے گا اگر آپ اس کو مالک یقین نہیں کریں گے اور اگر مالک سے تعلق نہیں رکھیں گے تو اس کی ملکیت سے کیسے تعلق ہو گا.اسی کے اندر بادشاہت آجاتی ہے، اسی کے اندر تمام دنیا کی سیاسی طاقتیں آجاتی ہیں جن کے اندر ملوکیت کی کچھ شان پائی جاتی ہے وہ حکومتوں کی طرف سے ان ملکوں کے مالک بنائے جاتے ہیں جو خود انہوں نے پیدا نہیں کئے وہ پہلے سے ہی وجود میں آچکے ہیں ، ایک نظام جاری ہو چکا ہے لیکن عارضی سی ملکیت ان کو ملکوں پر نصیب ہوتی ہے اور وہ مالک بن بیٹھتے ہیں.جب وہ واقعہ مالک بن بیٹھیں تو ان کو ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے اور ڈکٹیٹر بھی آج آئے اور کل چلے گئے اور زندگی بھر رہیں بھی تو بالآخر انہوں نے رخصت ہونا ہے، ان کی ملکیت کا پول کھل جاتا ہے کہ وہ حقیقت میں مالک نہیں تھے.تو اب بتائیے کہ نماز پڑھنے کی حکمت سورہ فاتحہ ہی سے واضح ہوئی کہ نہیں ہوئی.سورۃ فاتحہ نے آغاز ہی سے بتا دیا کہ تم مجبور ہو عبادت پر.اگر نہیں کرو گے تو تمہارا نقصان ہوگا اور رب العلمین، رحمن ، رحیم ، مالک کی عبادت چھوڑ کر جب کسی اور کی عبادت کرو گے تو

Page 824

خطبات طاہر جلد 16 818 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اول تو تمہارے فائدے محدود ہوں گے اور دوسرے جنتنا فائدہ بھی اٹھاؤ گے اس کے باقی رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اس پر کیا بے اختیار انسانی روح سے آواز اٹھتی ہے کہ نہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ.اے وہ ذات جو ان تمام صفات کی حامل ہے ہم اپنی خاطر ، نہ کہ تیری خاطر تیری عبادت پہ مجبور ہو گئے ہیں اور اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ تیرے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ لیکن یہ کام بڑا مشکل ہے.یہ وعدہ کرتے ہی انسان سمجھتا ہے کہ عبادت کا دعوی کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.عبادت اپنے فائدے کے لئے کی جاتی ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن دنیا کے معبودوں کو انسان دھوکہ دے سکتا ہے کہ ہمیں تم سے تعلق ہے لیکن رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کو الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کو کیسے دھو کہ دو گے.وہ تو دلوں کی پاتال تک نظر رکھتا ہے.جب اس کے حضور یہ دعویٰ کرو گے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو ظاہر بات ہے کہ باقی معبودوں کی نفی اس عبادت کے اثبات میں شامل ہے.صرف تیری عبادت کرتے ہیں، غیروں کی نہیں کرتے.یہ کہنے کے بعد پھر انسان دنیا میں منتقل ہوتا ہے تو سارے جھوٹے معبوداس کے سامنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اگر انسان واقعہ اپنے بیدار شعور کے ساتھ اپنا جائزہ لے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ نماز کے لئے نکلا اور غیروں کی عبادت شروع ہوگئی.اس مضمون میں آپ کو یہ خوب یا درکھنا چاہئے کہ غیروں سے مدد لینا غیروں کی عبادت نہیں ہے اگر وہ مددحقیقی معبود کے منشاء کے خلاف نہ ہو.یہ سہولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرما دی ہے یعنی آپ کہہ سکتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ صرف تیری عبادت کریں گے اور واپس جا کر اپنے مالک کو بھی یعنی رزق کے ذریعے کو جو رزق کا ذریعہ خدا نے بنا رکھا ہے کسی فرم کا مالک ہے اس کو خوش کرنے کے لئے اچھا کام کرتے ہیں دل کی سچی نیت کے ساتھ اس کے کام کو جیسا کہ اس کا حق ہے ادا کرتے ہیں تو یہ اس کی عبادت نہیں ہے لیکن اگر خدا کہے کہ یہ کام چھوڑ دو اس رزق میں تمہارے لئے میرا منشاء شامل نہیں ہے اس وقت اگر آپ اس کو کرتے چلے جائیں تو یہ اس کی عبادت ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مضمون و ہیں ختم ہو جاتا ہے.اسی لئے جو Asylum Seekers ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ خدا کے لئے غیر اللہ کی عبادت نہ کرو.کوشش کرو کہ کوئی ملک تمہیں پناہ دے دے لیکن جب جھوٹ کے ذریعے پناہ

Page 825

خطبات طاہر جلد 16 819 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء مانگو گے تو تم نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اور اگر تمہیں پناہ نہیں ملتی تو رونے پیٹنے کا کیا مطلب ہے.کیا یہی معبود تھا جس پر تمہاری بنا تھی ، کیا اللہ رزاق نہیں ہے، کیا وہ تمام زمینوں کا مالک نہیں ہے؟ جہاں بھی جاؤ گے اگر اس سے تعلق قائم ہے تو ذرہ بھی خوف نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارا کیا بنے گا.اس لئے عبادت کا مضمون دنیا کی زندگی میں پڑکر ان کے تعلقات میں جگہ جگہ پہچانا جاتا ہے اور ہر انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں کس کی عبادت کر رہا ہوں.کیا میرا اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا وعدہ سچا تھا یا غلط تھا.چونکہ یہ بہت وسیع مضمون ہے.ایک دفعہ میں نے تفصیل سے اس کے بعض مواقع آپ کے سامنے رکھے تھے جن مواقع میں سے گزرتے ہوئے اگر آپ آنکھیں کھولے ہوئے ہوں تو آپ کو اپنی عبادت کی حقیقت معلوم ہو سکتی تھی لیکن میں اسی مضمون کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہتا.میں صرف آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مضمون اگر آپ نے غور کیا ہو تو بڑا مشکل دکھائی دے گا اور معادل سے یہ آواز اٹھے گی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تیری ہی مدد چاہتے ہیں.اب دیکھیں کتنا عجیب مضمون ہے.ایک طرف تو رب ، رحمن ، رحیم، مالک کی صفات آپ کو مجبور کر رہی ہیں کہ اپنے فائدے کے لئے اس کی طرف دوڑیں اور دوسری طرف آپ اپنے فائدے کے لئے دوسروں کی طرف بھی دوڑے پھرتے ہیں اور اس کی رضا کے تقاضوں کو چھوڑ دیتے ہیں.یہ کیوں ہوتا ہے اس لئے کہ وقتی ضرورت ہمیشہ دور کے فائدے پر غالب آجایا کرتی ہے.جونز د یک کا فائدہ ہے وہ دور کے فائدے پر غالب آجایا کرتا ہے اور آپ کو خدا کا فائدہ دور کا فائدہ دکھائی دیتا ہے.آپ سمجھتے ہیں کہ وقتی طور پر تو یہ مسئلہ حل ہونے دو جب ہمیں پناہ مل جائے گی پھر نیکی کر لیں گے، اللہ کو خوش کرلیں گے.یہ نزدیک کا فائدہ دور کے دائمی فائدے کو نظروں سے اوجھل کر دیا کرتا ہے.اس کا علاج یہ ہے کہ دور کو اپنے نزدیک کریں.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مضمون سردست میں چھوڑتا ہوں.میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دور کا فائدہ اگر نزدیک ہو جائے تو وہ فائدہ جس نے عارضی طور پر دور کے فائدے کو نظر انداز کرنے پر آپ کو مجبور کر دیا تھا وہ آپ پر کوئی بھی منفی اثر نہیں ڈال سکتا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت دور ہے اتنا دور کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور بہت قریب ہے اتنا قریب کہ آپ کی شہ رگ سے بھی آپ سے زیادہ قریب ہے.اگر وہ شہ رگ میں آکے بیٹھ رہے اور آپ جانتے ہوں کہ وہ وہاں بیٹھا ہوا ہے تو پھر کوئی نزدیک کا فائدہ اس سے تعلق کی راہ میں

Page 826

خطبات طاہر جلد 16 820 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء حائل نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے.ایک ظاہری عقلی تقاضا ہے، ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے برعکس کچھ ہو.پس خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرنا اور ذکر الہی پر زور دینا یہ اس بظا ہر دور کے خدا کو آپ کے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی ہر نماز میں خواہ وہ فرض ہو یا نفل ہو یا جو بھی حیثیت رکھتی ہو الْحَمدُ لِلہ سے گزرے بغیر آپ کی نماز نہیں ہوسکتی اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ ایک ہی چیز کو بار بار دہراؤں.حالانکہ نہیں جانتا کہ بار بار دہرانے کے باوجود بھی وہ نہیں سمجھ سکا.ساری عمر رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ورد کرتا رہا لیکن ایک کوڑی بھی اس کے دل پر اثر نہ پڑا اور نہ وہ اس رب اور رحمن کو اپنے قریب کر سکا.پس نماز وہ ہے جو صفات الہی پر غور کے نتیجے میں صفات الہی کو انسان کے اتنا قریب دکھانے لگتی ہے کہ نماز کی برکت سے آپ خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کرنے لگتے ہیں.یوں کہا جاسکتا ہے کہ نماز کے ذریعے اللہ آپ کے قریب آنا شروع ہو جاتا ہے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز کے ذریعے گویا آپ کو ایک سواری میسر آ گئی ہے اس میں بیٹھ کر آپ خدا کی طرف بڑھنے لگتے ہیں اور مزید غور کریں تو دونوں باتیں بیک وقت سچی ہوں گی کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کے قریب ایک بالشت بھر بڑھے گا خدا اس کی طرف گزوں آئے گا.چل کے جائے گا تو اللہ دوڑتا ہوا اس کی طرف آئے گا.پس بیک وقت فاصلے مٹنے لگتے ہیں.ایک انسان آگے بڑھ رہا ہے تو وہ جس کی طرف بڑھ رہا ہے وہ اس کی طرف اور آگے بڑھ رہا ہے.یہ اس لئے لازم ہے کہ انسان اپنا سفر خدا کی طرف اپنی طاقت سے پوری طرح طے کر ہی نہیں سکتا.جب تک وہ بعید ہستی جس کے بعید ہونے کی کوئی انتہا بھی نہیں، وہ اپنی مخلوقات سے اتنی دور ہے کہ مخلوق کا اس کی کسی صفت میں بھی حقیقہ کوئی حصہ نہیں ہے یعنی شراکت کا کوئی حصہ نہیں.حصہ تو ملتا ہے ورنہ مخلوق بن ہی نہیں سکتی.ہر خالق اپنی مخلوق میں ایک حصہ ڈالتا ہے لیکن اس کی مخلوق خالقیت کی صفات میں حصہ دار نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک عکس سا اس پر پڑتا ہے.وہ حرکتیں تو کرتا ہے ایسی جیسی خالق نے کی ہوں لیکن اپنے آپ کو یا اپنے جیسی چیز کو بنانہیں سکتا تو وہ خالق کی صفات میں حصہ دار کیسے ہو گیا.کوئی انسان ، انسان کو خود نہیں بنا سکتا مگر انہی صفات سے استفادہ کرتے ہوئے جو خدا نے انسان کو آگے انسان کی شکلیں بنانے کے لئے عطا فرمائی ہوئی ہیں.پس خالق تو وہی ہے جس نے بنیادی طور پر انسان کی تصویر یں اور آگے

Page 827

خطبات طاہر جلد 16 821 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء بڑھانے کی صفات انسان کی تخلیق میں رکھ دی ہیں.خالق وہی رہے گا.یہی وجہ ہے کہ آج کل جو مضمون چل رہا ہے کہ کس طرح انسانی گوشت کا ایک ذرہ لے کر اس کو خاص سائنسی انداز میں تربیت دیں، ایک حصے سے گزار کر دوسرے میں داخل کریں، ایک جانور کے رحم سے نکالیں دوسرے میں داخل کر دیں تو بالآخر کلونگ ہو جائے گی.یعنی ممکن ہے کہ ایک بھیڑ بالکل اس بھیڑ کے مشابہ ہر چیز میں پیدا ہو جائے جس بھیڑ سے اس سفر کا آغاز شروع ہوا تھا جس کے جسم کا ایک ذرہ لیا گیا تھا اور عامۃ الناس میں لوگ سمجھتے ہیں کہ دیکھو انسان خالق ہو گیا، کہاں گئے دعوے کہ خدا کے سوا کوئی خالق نہیں.لیکن یہ جھوٹے خالق ہیں.یہ جب تک خالق کے پیدا کردہ ذرات کو چرائیں نہیں اور خالق ہی کی پیدا کردہ زندگی کی مشینوں سے استفادہ نہ کریں یہ کچھ کلوننگ نہیں کر سکتے.وہ کلوننگ کا ذرہ ہی نہیں بنا سکتے جس سے سفر کا آغاز ہوتا ہے.یہ ناممکن ہے.آپ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ شاید اگلے زمانوں میں ممکن ہو جائے تو ایسے لوگوں کو میں بتا تا ہوں کہ وہ زندگی کا ابتدائی ذرہ اتنی ناممکن چیز ہے کہ اس کو بنانا تو در کنار آج تک سائنس دان اس کو سمجھنے میں ہی ناکام رہے.ہر کوشش کے بعد بالآخر یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ اگر یہ ذرہ یعنی جو پہلی زندگی کی اینٹ بنی ہے اتفاقات کی پیداوار ہو تو ان اتفاقات کے لئے ایک لامتناہی زمانہ چاہیئے ، اتنا لمبا زمانہ کہ عام انسان جو حساب نہ جانتا ہو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.اتنا لمبازمانہ کہ ہماری ساری کائنات کا ایک ارب سال کا جو زندگی کا سفر ہے وہ اس کے مقابل پر ایسا ہی ہوگا جیسے کروڑوں میل کے مقابل پر کہیں ایک نقطہ ڈال دیا جائے.اس نقطے کو کروڑوں میں سے جو نسبت ہے اتنا فاصلہ چاہئے زمانی لحاظ سے کہ اتفاقات کے نتیجے میں شاید یہ ذرہ پیدا ہو جائے.اس کی باریکیاں لا انتہاء ہیں اور انسان ان کو سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتا.پس وہ ذرہ سمجھ ہی نہیں سکتا اس نے بنانا کیا ہے.وہ ذرے چراتا ہے، اللہ کی تخلیق سے ان ذروں کو چراتا ہے اور اللہ ہی کی تخلیق کے دوسرے مظاہر میں ان کو داخل کر کے ان سے استفادہ کرتا ہے تو خالق تو نہیں ہے مگر خالق کا نقش اس پر موجود ہے.یہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.خالق کا نقش نہ ہو تو تصویر بن ہی نہیں سکتی.ہر تصویر کا ایک خالق ہے جس پر اس تصویر بنانے والے کے دماغ ، اس کے خیالات ،اس کے مقاصد جو اپنی زندگی میں رکھتا ہے ان کا نقش ہو سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے زندگی کی ایسی تصویر میں بنا دی ہیں جن میں وہ منعکس تو ہے مگر اس جیسا نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے.پس ایسے خدا کی طرف جب ہم

Page 828

خطبات طاہر جلد 16 822 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء عبادت کے لئے آگے قدم بڑھائیں گے تو اس تک پہنچ ہی نہیں سکتے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ آنکھوں میں طاقت ہی نہیں ہے کہ اس کو پاسکیں.ہاں ایک صورت ہے وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وہ نگاہوں تک، بصارت تک پہنچتا ہے.اس کی تفاصیل بھی میں غالباً پہلے بیان کر چکا ہوں کہ کیسے یہ واقعہ ہوتا ہے.لیکن یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس لئے ضروری ہے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا جواب یہ ہے کہ خدا چلتے ہوئے کی طرف دوڑ کر آتا ہے.اگر یہ فاصلے دونوں طرف سے کم نہ ہوں تو ہمیشہ ناممکن فاصلے بنے رہیں گے.حقیقت میں خدا تعالیٰ جب بندے پر جلوہ گر ہوتا ہے تو وہ اس پر ایک نزول ہے گویا عرش پر اس نے نزول کیا ہے اور دل عرش بن جاتا ہے جس پر وہ نازل ہوتا ہے.اس لئے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو بھلا نا حد سے زیادہ بے وقوفی ہے.پس جب آپ عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ ساری باتیں عبادت کی جو میں آپ کو سمجھا تا رہا ہوں کہ غیر اللہ کی طرف نہ جائیں، شرک کو چھوڑ دیں، جھوٹ کو ختم کر دیں، ہر قسم کی برائیوں سے نماز روکتی ہے، یہ روکے گی تب جب اس میں طاقت آئے گی روکنے کی اور جب تک آپ عبادت کا حق ادا نہ کریں آپ میں یہ طاقت آہی نہیں سکتی.پہلے نماز طاقت ور ہو گی پھر آپ طاقتور ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کا مضمون بہت گہرائی کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں نمازوں کو قائم کرو، ان میں جان ڈالو، نمازیں قائم ہوں گی تو تمہیں قائم کریں گی.اگر نماز میں قائم نہ ہوں تو تمہیں بھی کچھ فائدہ نہ دیں گی.اس لئے عبادت جو زندگی کا مرکزی نقطہ ہے جو محض آپ پر احسان ہے آپ کی تمام ضرورتیں پوری کرنے والا ایک ذریعہ ہے اس سے غافل رہیں اور غیر اللہ کی طرف بھاگتے رہیں تو سراسر نقصان کا سودا ہے.آپ کی ساری زندگی بے کار چلی جائے گی اور آپ کو اپنی پیدائش کا مقصد ہی سمجھ نہیں آئے گا.میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا.اس تمہید میں کچھ وقت گزر گیا کیونکہ اس کے بغیر ان اقتباسات کی بھی آپ کو سمجھ نہیں آئی تھی یعنی آپ میں سے اکثر کو وہ سمجھ نہیں آسکتی تھیں.جو میں نے باتیں اب بیان کی ہیں یہ پس منظر ہے جن کی روشنی میں آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 829

خطبات طاہر جلد 16 823 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء اقتباسات پر غور کریں تو آپ کی آنکھیں کھلنی شروع ہو جائیں گی.بہت سے اقتباسات میں سے چند جو میں نے چنے ہیں بعض آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.فرمایا: ” نماز خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے تو اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی، کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا“.( یہ وہی باتیں ہیں جو میں آپ کو پہلے سمجھا چکا ہوں.سوخدا تعالیٰ تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور دُوری بھی لمبی“.( بہت دور کی منزل ہے ایسی منزل جو گویا آپ کے تصور کی رفتار سے بھی زیادہ تیز آپ سے دور ہٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.پس جو شخص خدا تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے.جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.اب آپ دیکھ لیں کہ وہی گاڑی والا مضمون گویا نماز میں بیٹھ کر سفر کر رہے ہیں.پہلے خود نماز کو گاڑی تو بنا ئیں جب وہ نماز گاڑی بنے گی تو پھر آپ کو لے کے آگے چلے گی اور یہ جو گاڑی بنانے والا مضمون ہے یہ پہلے کئی صورتوں میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں.آپ نماز کو قائم کریں، نماز آپ کو قائم کرے گی.ایک انسان نے لمبا سفر کرنا ہوتو پہلے محنت کر کے کشتی تو بنا تا ہے.خشکی کا سفر کرنا ہوتو کوئی نہ کوئی گاڑی خواہ وہ زمینی گاڑی ہو یا ہوائی جہاز ہوا سے لازماً بنانی پڑیں گی.یہ نماز کا قیام ہے.نماز کو ایسا قائم کریں کہ وہ آپ کو لے کر اس سفر پر روانہ ہو جائے جو خدا کی طرف آپ کو پہنچائے گا لیکن محض آپ کا روانہ ہونا کافی نہیں، خدا کا آپ کی طرف روانہ ہونا بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکین ، آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر، پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں

Page 830

خطبات طاہر جلد 16 824 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا.ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.( یعنی یوں لگتا ہے کہ ساری دنیا اسلام کے قدموں کے نیچے آ گئی ہے.) ” جب سے اسے ترک کیا“ (یعنی نماز کو جو دراصل ساری دنیا کے سفر میں ایک گاڑی کی طرح کام دے رہی تھی وہ خود متروک ہو گئے ہیں جب نماز کو ترک کیا یعنی دل لگا کر نماز پڑھنے کو ترک کیا تو نماز نے ان کو چھوڑ دیا.” درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے“.یہاں پہنچ کر خوشی اور غمی کا ایک دائی مسئلہ بھی سمجھ آنے لگتا ہے.اگر کسی انسان کے دل پر غم اور سوز و گداز کی کیفیت طاری نہ ہو تو نہ وہ دنیا کے معشوق کو پاسکتا ہے نہ عقبی کے معشوق کو یعنی اللہ کو.عشق کے ساتھ ایک سوز لازم ہے اور ایسا انسان جس کے دل میں کبھی عشق جاگاہی نہ ہو وہ عمر بھر نام لیتا رہے گا اللہ کے لیکن وہ اللہ کے نام اس کے دل میں کوئی تموج پیدا نہیں کریں گے ، کوئی حرکت پیدا نہیں کریں گے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت باریکی کے ساتھ آپ کو بتاتے ہیں کہ کون سے مواقع آپ کو میسر آئیں گے، ان مواقع سے فائدہ اٹھالیں.شیکسپیئر نے کہا ہے کہ بعض دفعہ سمندر میں بعض پہریں ایسی آتی ہیں کہ وہ کشتیوں کو اپنی منزل تک پہنچادیتی ہیں.جب ان لہروں سے فائدہ نہ اٹھاؤ تو پھر کبھی بھی وہ کشتی منزل تک نہیں پہنچ سکتی.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے در حقیقت رحیمیت کا ایک جلوہ آپ کو دکھایا ہے جس کے ذریعے آپ نماز پڑھنے کا سلیقہ سیکھ سکتے ہیں.اگر دل کی غفلت کی حالت میں نمازیں پڑھتے رہیں گے ، عمر بھر بھی پڑھتے رہیں کوئی بھی فائدہ نہیں ہو گا لیکن کبھی کسی بچھڑے ہوئے کا غم ہو، کسی بچھڑنے والے کا غم ہو، مرتے ہوئے مریض کا دکھ آپ کو بے چین کر رہا ہو اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد ہیں جو آپ کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہوں آپ ان کے لئے بے چین ہوں تو وہ وقت ہے کہ جب نماز کے اندر ایک تلاطم پیدا ہو جاتا ہے، ایک بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت کشتی میں بیٹھ کر کی جانے والی دعائیں بھی نماز بن جایا کرتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محض خشک منطق کے ذریعے ہمیں کچھ نہیں

Page 831

خطبات طاہر جلد 16 825 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء سمجھایا ایک عارف باللہ جس طرح مضمون کی گہرائی میں اتر کر باتیں کرتا ہے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں سمجھاتے ہیں کہ نماز شروع کرنی ہو تو کرب کی حالت سے فائدہ اٹھاؤ.اپنی بے چینیوں سے نماز کو حاصل کرو کہ وہ مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.اس لئے فائدہ اٹھاؤ کہ نماز تمہیں واقعہ نکالے گی ان مشکلات سے اور جب نکالے گی تو نماز کا ایک فائدہ آپ کے تجربے میں سے گزر جائے گا اور پھر بے وقوف ہی ہو گا جو کشتی سے اتر کر پھر شرک میں مبتلا ہو جائے جبکہ خدا نے اسے کشتی کی دعائیں سن کر بچالیا ہو.تو نماز گویا ایک کشتی کی طرح بن جاتی ہے جو سخت کرب اور بے چینی کی حالت سے اٹھنے والی گریہ وزاری کے نتیجے میں آپ کو طوفانوں اور ہلاکت سے بچالیتی ہے لیکن پھر اس ذات کو نہ بھولیں، خواہ خشکی پر چلیں ، جس ذات نے آپ کو سمندر کی گہرائیوں سے نجات بخشی تھی.یہ وہ تصور ہے ، یہ شکر ہے نماز کا جو آپ کو پھر نماز سے وابستہ کر دے گا اور آئندہ آپ کے لئے نمازیں پڑھنا آسان بھی ہو جائے گا اور دلچسپ بھی ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ہمارا بار ہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے، ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کو حل اور آسان کر دیا ہوتا ہے.اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا تجربہ بیان فرمارہے ہیں.اگر آپ کو بھی یہ تجربہ حاصل ہو جائے اور آپ کے دکھ آپ کی نماز کے ذریعے آپ کے مسائل ہی حل نہ کریں بلکہ اس ذات سے تعلق قائم کر دیں جو مسائل حل کرتی ہے تو نمازیں کتنا بڑا منفعت کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ آپ کو محض اپنی حاجات کے لئے نماز کی ضرورت پیش نہیں آتی ، سب دنیا کی حاجات کے لئے آپ کو نماز کی ضرورت پیش آتی ہے.آنحضرت ﷺ کی نمازیں جو اتنا طول پکڑ لیا کرتی تھیں ہرگز اس لئے نہیں کہ آپ کو اپنی نفسی ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا پڑتا تھا ، جھکتے رہے،اس ذات کو پا بھی لیا مگر تمام کائنات کی ضرورتوں کے لئے جو آپ کے زمانے میں پیش آسکتی تھیں یا قیامت تک پیش آتی رہیں گی ان سب کے لئے آپ نمازوں میں خدا کی طرف جھکتے رہے.اس کا یہ نمونہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کو خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوتا ہے اور یہ

Page 832

خطبات طاہر جلد 16 826 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء تجربہ ہر مخلص احمدی کو بار ہا ہوا ہوگا.یہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ سچا احمدی ہو یا کم سے کم کسی حد تک مخلص ہو اور خدا نے اس کو اپنے قرب کے نشان نہ دکھائے ہوں.ہر کس و ناکس کو اللہ تعالٰی اپنے قرب کے نشان دکھا تا ہے تا کہ کچھ چکھے اور اس کی لذت پا کر پھر کچھ آگے بڑھنا شروع کرے اور اس راہ سلوک کے سفر اس کے لئے آسان ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے، التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے.جب انسان التجا کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ جیسے ڈوبتا ہوا اپنا ہاتھ باہر نکال دیتا ہے تا کہ کوئی تو دیکھے کوئی تو اس کے دکھ کا مداوا کرے.فرماتے ہیں: التجا کے ہاتھ بڑھا دیتا ہے اور دوسرا اس کی غرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گزارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے“.یہ نماز کی بیقراریوں کا آخری نتیجہ ہے یعنی اللہ تعالی جو ایک دور کی ہستی تھی ایک غائب ہستی تھی وہ نماز کے ذریعے آپ کے قریب آنے لگتی ہے.اتنا قریب آجاتی ہے کہ پھر آپ اس کی آوازیں سنے لگتے ہیں.وہ سمیع ہے علیم ہے.سنتا ہے اور جانتا ہے کہ آپ مشکل میں ہیں اور ان مشکلوں کو دور کر بھی دیتا ہے جیسا کہ پہلے بیان گزر چکا ہے لیکن صرف مشکلیں دور کرنا مقصد نہیں ہے.مشکلیں دور کرنا ایک ذریعہ ہے اس کی پہچان کا اور نماز وہ ذریعہ بنتی ہے.فرماتے ہیں اس کی غرض کو اچھی طرح سنتا ہے اور پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جوسنتا تھاوہ بولتا ہے اور گزارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے“.نمازی کا یہی حال ہے خدا کے آگے سر بسجو درہتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے پھر آخر سچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب سے تسلی دیتا ہے“.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کا ایک ایک لفظ عین موقع پر چنا ہوا ہے اور وہ انسان جو نہیں سمجھتا وہ سمجھے گا یہ زائد لفظ ہے کیسے اس مضمون پر اطلاق پا رہا ہے سمجھ ہی نہیں آسکتی.اب غور کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ساری عمر کا رونا پیٹنا، اس کی

Page 833

خطبات طاہر جلد 16 827 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء دعائیں کرنا کتنا وقت چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ فرما دیا ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا ہے.عمر بھر کی نمازیں ہوں اور وقت جلد آ جاتا ہے ان دو باتوں کا کیا تعلق ہوا.اصل میں عمر بھر کی وہ دعائیں جو بلانے کے لئے ہوتی ہیں ان میں اضطرار کی کمی کی وجہ سے وہ نمازیں گویا ایسی ہو جاتی ہیں کہ نہ خدا ان کو دیکھ رہا ہے نہ ان کو سن رہا ہے لیکن جب ان نمازوں میں اضطرار پیدا ہو جائے جس کا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے تو خدا تعالٰی محمد رسول اللہ اللہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ (البقرة: 187) جب واقعہ اس کے دل میں ہماری تلاش پیدا ہوتی ہے تو وہ لمحہ ایسا ہے کہ میں قریب ہوں.یہ بھی نہیں فرمایا کہ تو ان کو جواب دے کہ میں قریب ہوں.براہ راست سائل کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے ایسا کہ اس کی تیزی بیچ میں کسی وسیلے کو رہنے نہیں دیتی.پس یہ موقع ہے جو جلد آ جاتا ہے“ کا موقع ہے.اب بتائیں جو شخص عارف باللہ نہ ہو جس نے ان تمام مضامین کو بہت گہرائی اور باریکیوں سے سمجھا نہ ہو اور اپنے دل پہ طاری نہ کیا ہو وہ یہ لکھ ہی نہیں سکتا.ہر پڑھنے والا سمجھے گا کہ شاید کاتب کی غلطی سے جلد لکھا گیا ہے یا نہ بھی سمجھے تو بغیر سمجھے آگے گزر جائے گا.تو جلد کا مضمون ہمیں بتا رہا ہے کہ ہماری دعا میں جو اضطرار خدا کے قریب کرتا ہے وہ دراصل جب تک اپنے معراج کو نہ پہنچے جیسا کہ ڈوبتے ہوئے کی مثال دی گئی ہے اور جب تک یہ نہ ہو کہ گویا وہ شخص اب غرق ہوا کہ ہوا اس وقت تک نماز کا معراج انسان کو نصیب نہیں ہو سکتا.اس وقت تک خدا تعالیٰ تیزی کے ساتھ اس طرح آپ کی طرف نہیں بڑھتا جیسے اب اگر اس نے آپ کو نہ سنبھالا تو آپ گئے.یہ وہ روحانی وجود کی ہمیشہ کی زندگی کا راز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہمیں سنایا گیا ہے.فرماتے ہیں: ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دے کر تسلی دیتا ہے بھلا یہ بجرحقیقی نماز کے ممکن ہے.حقیقی نماز کے بغیر کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں اور پھر جن کا خدا ہی ایسا نہیں وہ بھی گئے گزرے ہیں ان کا کیا دین اور کیا ایمان ہے وہ کس امید پر اپنے اوقات ضائع کرتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم : 190،189)

Page 834

خطبات طاہر جلد 16 828 خطبہ جمعہ 7 نومبر 1997ء یہ اسلام کا خدا ہے، یہ اسلام کی نمازیں ہیں ، یہ اسلام کی نمازوں کے دائمی پیغامات ہیں جو اگر کسی انسان کے ذہن پر اپنی جگہ بنائیں، اس کا ذہن شعوری طور پر ان پیغامات کو قبول کرے اور خود اپنی سطح پر ان کے لئے جگہ بنائے اور نقش کا وہ حسن پیدا ہو جو ایک اعلیٰ درجے کا نقاش پیدا کرتا ہے تو پھر وہ ذہن اس حسن کو کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ نقوش دائمی اس کا حصہ بن جائیں گے پھر نماز سے آپ کی علیحد گی ممکن ہی نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے چند اور اقتباسات ہیں جو میں پھر انشاء اللہ آئندہ آپ کے سامنے پیش کروں گا لیکن اس وقت ایک اور پیش کرنے کا کچھ وقت ہے.کسی نے سوال کیا بہترین وظیفہ کیا ہے؟ جواب : نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف ،تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے“ اور اد کا لفظ غالبا عام اردو دانوں کے لئے سمجھنا مشکل ہو گا.ورد کرنا جس کو کہتے ہیں نا.ذکر کا ورد کرنا.اس کی جمع اور اد ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں.آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا ہے الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ القُلُوبُ (الرعد: 29) سنو! خبردار! یہ ذکر الہی ہے جس کی وجہ سے دل اطمینان پاتے ہیں.“ مگر مثال اس ذکر کرنے والے کی دی ہے جس کا دل واقعہ اطمینان پاتا تھا لیکن اگر آپ ان وجوہات کو نہ سمجھیں اس دل کی کیفیات پر غور نہ کریں جونماز کے لئے کھڑا ہوتا اور اطمینان پا جاتا تھا تو آپ اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام آپ کے سر کے اوپر سے گزر جائے گا.آپ کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ کیسے ذکر سے دل مطمئن ہوتا ہے.اطمینان و سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قسم قسم کے درد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی

Page 835

خطبات طاہر جلد 16 میں ڈال رکھا ہے.829 خطبہ جمعہ 7 / نومبر 1997ء یہ امر واقعہ ہے کہ جتنے بھی صوفی اور ملاں لوگ وظیفے بنا بنا کر لوگوں کو سمجھاتے ہیں یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں.نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں ہے.سیدھا سادہ جواب ہر مشکل کا یہ ہے کہ نماز پڑھو.قرآن کریم آغاز سے آخر تک نماز کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جہاں لفظ نماز نہیں بھی آتا وہاں بھی غور کرو تو نماز کا مضمون بیان ہو رہا ہے لیکن اسی سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور ایک نئی شریعت آنحضرت میہ کی شریعت کے مقابلہ میں بنا دی ہوئی ہے“.جتنا پیر، فقیر وظیفے ، دم درود آپ کو سکھاتے ہیں ، فلاں چیز لکھ لو، فلاں وظیفہ بار بار پڑھو اور تمہاری مشکل حل ہو جائے گی فرمایا یہ مشرک لوگ ہیں جنہوں نے گویا آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی شریعت کے مقابل پر ایک اور شریعت بنارکھی ہے.فرماتے ہیں: مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں.اب کیا دونوں ایک ہو گئے.فرمایا مجھ پر تو الزام ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے اور خود شریعت بنائی ہوئی ہے.اس کے اندر ہی جواب مضمر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو باتیں بیان کر رہے ہیں وہ تو ساری شریعت محمدیہ کی باتیں ہیں ایک بات بھی اپنی طرف سے زائد صلى الله نہیں کر رہے.تو وہ نبی جو کلیۂ محمد رسول اللہ ﷺ کا غلام ہو اور آپ ہی کی شریعت کی باتیں کرے اس پر اعتراض کرتے ہیں اور خود عملاً وہ نبی بنے بیٹھے ہیں جنہوں نے نئی شریعتیں ایجاد کر دی ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں بیان فرماتے ہیں: اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.(الحکم 31 مئی 1903ء صفحہ: 9) اب چونکہ وقت ہو گیا ہے.باقی انشاء اللہ پھر آئندہ اسی مضمون پر کچھ اور کہیں گے.

Page 836

Page 837

خطبات طاہر جلد 16 831 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء اپنی نماز کو بار بار کھڑا کریں اور امید رکھیں کہ بالآخر ہمیشہ کے لئے آپ کو نماز کی لذت اور طمانیت نصیب ہوگی ( خطبه جمعه فرموده 14 نومبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ چند خطبات میں میں نے نماز کی اہمیت کی طرف جماعت کو توجہ دلائی اور اسی تعلق میں اپنی اردو کلاس میں بھی نماز ہی کے متعلق باتیں بچوں کو سمجھائیں جو ان کے لئے بھی مفید تھیں اور بڑوں کے لئے بھی مفید تھیں.آج سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کرتے ہوئے جماعت کو مطلع کرتا ہوں کہ ان خطبات کا بہت وسیع اثر پڑا ہے اور کئی دفعہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ میری ڈاک میں بھاری تعداد میں ایسے خطوط شامل ہیں جن میں نماز سے متعلق احباب اپنی سابقہ کوتاہیوں پر اور غفلتوں پر معافی چاہتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے ہوئے مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری کا یا پلٹ گئی ہے اور ہمارے گھر میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ روحانیت جاگ اٹھی ہے.ہم بھی اور ہمارے بچے بھی ہماری بیویاں بھی جس حد تک اللہ نے تو فیق عطا فرمائی ہے نمازوں کو سنوار کر پڑھنے لگے ہیں.اسی تعلق میں بہت ہی دلچسپ باتیں بھی احباب نے لکھی ہیں کہ اس سے پہلے ان کی نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی بعض پڑھتے ہی نہ تھے ، بعض پڑھتے تھے تو دل نہیں لگتا تھا ، خیالات کا ہجوم ہوتا تھا جو کسی اور طرف ان کو گھیر کر لے جاتا تھا.بعض یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم نماز سے ہی بددل ہو چکے

Page 838

خطبات طاہر جلد 16 832 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء تھے لیکن اچانک شعور بیدار ہوا ہے اور یوں معلوم ہوا ہے کہ ہم نے اپنی گزشتہ زندگی ضائع کر دی ہے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم بڑی توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتے ہیں.یہ بہت بڑا ایک احسان ہے خدا تعالیٰ کا کہ اس نے جماعت احمدیہ کو اس زمانے میں نماز کی طرف توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے جبکہ دنیا کی تو جہات نماز سے ہٹ رہی ہیں.بظاہر نمازیں تو ادا کی جاتی ہیں مگر ان نمازوں میں مغز کوئی نہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع چاہئے وہ ان نمازوں سے مفقود ہے.ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کسی کی نمازوں کا کیا حال ہے ہمیں اپنی نمازوں کی فکر کرنی چاہئے اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس مضمون پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے، زیادہ نہیں ہوسکتا کیونکہ نماز مومن کا معراج ہے.نماز مومن کی زندگی کا مرکزی نقطہ ہے.خواہ شروع میں سمجھ آئے یا نہ آئے رفتہ رفتہ ایک وقت ضرور ایسا آجاتا ہے کہ انسان کو اپنی نمازوں میں لذت محسوس ہونے لگتی ہے.اس تعلق میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعض اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھوں گا.ایک دوسری خوشخبری میں جماعت کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ نماز با جماعت کا تعلق چونکہ مساجد سے ہے اس سلسلے میں ایک مسجد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری عطا فرمائی ہے یعنی مسجد دوالمیال جہلم کے متعلق.آپ کو یاد ہو گا کہ 30 جون 1997ء کو اس وقت جوسول جج نے جماعت کے متعلق فیصلہ کیا تھاوہ جماعت کے خلاف حکم امتناعی تھا.اگر چہ اس کا ابتدائی فیصلہ بہت مخالفانہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اس فیصلہ کے سنانے سے پہلے ہی اس نے کچھ تبدیلیاں کر دیں جس کے نتیجے میں وہ مسجد کبھی بھی ہمارے ہاتھ سے باہر نہیں نکلی.اگر چہ وہ جمعہ جماعت نے گلیوں میں ادا کیا، بہت روتے ہوئے اور گریہ وزاری کے ساتھ التجائیں کیں لیکن اس کے باوجود مسجد کا قبضہ نہیں چھوڑا اور مسلسل مخالفین کی طرف سے اس سلسلے میں کوششیں ہوتی رہیں کہ کسی طرح ان سے قبضہ نکال لیا جائے.ان کے خلاف اسی سلسلے میں مقدمہ بھی کیا گیا لیکن 30 جون کا یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ 10 نومبر کے فیصلے کے ذریعہ الٹ دیا گیا اور یہ فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج چکوال نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ بہترین جزاء دے.انہوں نے دس نومبر کے اپنے فیصلے میں پہلے حکم امتناعی کو کلیہ منسوخ کر دیا ہے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مسجد واپس قانونی طور پر بھی جماعت کے قبضے میں آچکی ہے.یہ واقعہ جو دس نومبر کو گزرا یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی

Page 839

خطبات طاہر جلد 16 833 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء دوالمیال ہی کی رہنے والی ایک نیک خاتون کو خوشخبری دی تھی کہ یہ واقعہ اس طرح ہوگا اور میری مراد الحاج فضل الہی صاحب برمنگھم کی بیگم صاحبہ فضل نور صاحبہ سے ہے.لوگ تو اسے اتفاق کہیں گے مگر میں اسے تقدیر الہی سمجھتا ہوں کہ دس اکتوبر کو بروز جمعتہ المبارک جو Friday the 10th تھا فضل نور صاحبہ نے صبح اٹھ کر اپنی ایک رؤیا بیان کی جو اس طرح پر تھی کہ میں جماعت کو یہ خوشخبری دے رہا ہوں که گزشتہ فیصلہ منسوخ ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ دوالمیال کی مسجد احمدیوں کو دلا دی ہے.یہ دس اکتوبر Friday the 10th کی رؤیا ہے جو کچھ عرصے کے بعد فضل الہی صاحب نے بہت سے ے احباب کو سنائی جن میں ملک اشفاق احمد صاحب بھی گواہ ہیں اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آج کے جمعہ پر میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس رویا کو بعینہ پورا کر دیا ہے اور Friday the 10th کی برکات میں سے ایک یہ برکت بھی ہے کہ وہ مسجد بحال کر دی گئی.اس ضمن میں میں ایک ایسی افسوسناک اطلاع بھی دیتا ہوں جو افسوسناک بھی ہے مگر اپنے اندر فلاح کا پہلو بھی رکھتی ہے یعنی چوہدری نذیر احمد صاحب گھوئینگی کی شہادت کے تعلق میں میں جماعت کو دعا کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.وہ علاقہ بہت ہی گندہ اور قاتلوں کا علاقہ مشہور ہے جہاں یہ واقعہ ہوا ہے.وہاں روز مرہ ایک دوسرے کا قتل ایک عام سی بات ہے اور چوٹی کے ایسے مجرم قاتل اس علاقے میں دوڑتے پھرتے ہیں اور پولیس کو ان کے اوپر ہاتھ ڈالنے کی بھی جرات نہیں پڑتی.ایسے ہی بدقماش ڈاکو مولویوں نے ہمارے نذیر صاحب کو شہید کیا اور اب وہ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر تمام علاقہ میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں اور احمدیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے.گویا اس دباؤ کے نتیجے میں وہ اپنی گواہیوں سے باز آجائیں گے، اس مقدمے کی پیروی ترک کر دیں گے اور حکومت بھی ان کے رعب میں آکر ان کے خلاف قتل کے مقدمے کی کارروائی کو کمزور کر دے گی یا جیسا کہ ہمارے ملک میں چلتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بعید نہیں کہ حکومت عدالت کو حکم دے دے کہ اس مقدمے کو ختم سمجھا جائے.اس دوران ہمارے جو علاقے کے احمدی ہیں ان کو قتل کی بڑی خطرناک دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں.جہاں تک اس ساری دھمکیوں اور خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کا تعلق ہے یہ دراصل تبلیغ سے تعلق رکھنے والی کوششیں ہیں.پاکستان میں گزشتہ دنوں جواللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو بہت کامیاب تبلیغ کی توفیق ملی ہے، ایسے ایسے علاقوں میں بیعتیں شروع

Page 840

خطبات طاہر جلد 16 834 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء ہوئی ہیں جہاں پرانے زمانے میں وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ یہاں کی سخت زمین میں خدا تعالیٰ اس قدر شادابی عطا فرمائے گا کہ جماعت کی نئی نئی کونپلیں وہاں سے پھوٹیں گی.یہ ایک انقلاب کا دور ہے جو انقلاب اس علاقہ میں بھی شروع ہوگا اور اپنے قاتلوں کو بچانے کے لئے ان کی پوری توجہ اس طرف بھی ہے کہ اس ساری تبلیغی مہم کو جو جماعت نے شروع کر دی ہے اسے ناکام کر دیا جائے ، اسے کلیاً مفقود کر دیا جائے یا معدوم کر دیا جائے.یہ وجہ ہے جو میں اب جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ دعاؤں میں بھی اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ مباہلے کا سال عطا فرمایا ہے جس کی بہت برکتیں ہم نے دیکھی ہیں.اس کثرت سے برکتیں نازل ہوئی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ان کا کچھ ذکر میں پہلے بھی کرتا رہا ہوں کچھ آئندہ بھی انشاء اللہ، زیادہ تر جلسہ سالانہ پر کروں گالیکن میں اس حوالے سے جماعت کو اللہ کے حضور یہ التجاء کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان سب مولویوں کو نامراد کر دے جنہوں نے جماعت کے خلاف یہ مہمات شروع کی ہیں اور جہاں تک جماعت کے داعین الی اللہ کا تعلق ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ آگے بڑھتے رہیں.ویسے بھی تو اس ملک میں بے شمار قتل ہوتے رہتے ہیں اور یہ سال تو مولویوں کے قتل کا سال ہے.جب وہ قتل کے ذریعے مردو موتیں مرتے ہیں تو جماعت کے اندر اگر ایک دو شہید بھی ہو جائیں تو ہرگز فی الحقیقت مضائقہ نہیں.ان کے جانے کا دکھ ضرور پہنچتا ہے لیکن اس سے بہتر اور کوئی موت ممکن نہیں کہ انسان شہید ہو جائے.اس لئے حتی الامکان جہاں تک بھی آپ سے ہوسکتا ہے آپ احتیاط سے کام لیں اور حکمت سے کام لیں.یہ بزدلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرآنی احکامات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ تبلیغ میں حکمت سے کام لینا اولیت رکھتا ہے اور سب سے زیادہ قرآن کریم نے تبلیغ کے دوران حکمت پر زور دیا ہے.اس حکمت میں یہ بات داخل ہے کہ اپنی جان سے انسان نہیں ڈرتا بلکہ لوگوں کے روحانی فائدہ کی خاطر اس مہم کو اس طرح چلانا چاہتا ہے کہ لوگ ڈر نہ جائیں.جو احمدی بے دھڑک تبلیغ کرتا ہے ظاہر ہے کہ وہ ڈرتا نہیں لیکن یہ خوف اس کو ضرور دامن گیر رہنا چاہئے کہ تبلیغ اس طرح بے دھڑک نہ ہو کہ وہ لوگ جو ابھی جماعت میں شامل نہیں وہ ڈرنے لگ جائیں اور ان کی راہ میں یہ شہادتیں روک بن جائیں.پس یہ ایک پل صراط ہے جس پر سے ہمیں گزرنا ہے.غیر اللہ کے خوف

Page 841

خطبات طاہر جلد 16 835 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء سے کلیۂ پاک رہتے ہوئے اللہ کی خاطر، بنی نوع انسان کی ہدایت کی خاطر ایسا طریق کار اختیار کیا جائے کہ لوگ احمدیت سے ڈر کر نہ بھا گیں.یا اگر یہ دعا بھی ساتھ کی جائے کہ ان کے دلوں کے خوف خدا دور فرما دے، وہ بھی بے دھڑک ہو کر آگے بڑھیں اور اگر شہادتیں پہلے احمدیوں کے مقدر میں ہیں تو وہ بھی شہادت کے لئے اپنے آپ کو کھلم کھلا آمادہ پائیں اور دل میں اس کے لئے جوش رکھیں.ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں.چنانچہ کئی نو احمدی شہید ہوئے ہیں جن کے علم میں تھا کہ یہ جرم یعنی اللہ تعالیٰ کی بات کو ماننے کا جرم لوگوں کی نگاہ میں ایسا بھیانک ہے کہ اس کے نتیجے میں بعض انسانوں کو جانیں کھو دینی پڑتی ہیں.یہ جانتے ہوئے ، اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہ ہاں یہ رستہ کٹھن ہے انہوں نے پھر بھی اس دعا کی التجاء کے ساتھ خط لکھے کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس راہ میں شہید ہونے کی توفیق بخشے.پس یہ نئے نئے سلسلے چل پڑے ہیں، نئے نئے طریق پر روحیں بیدار ہو رہی ہیں.عمومی طور پر تو یہی دعا ہے جو ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں حکمت کے ساتھ خدمت کی توفیق عطا فرما.ایسی حکمت کے ساتھ لوگوں کو اپنی راہ کی طرف بلانے کی توفیق عطا فرما کہ اس کے نتیجے میں لوگ جوق در جوق آئیں اور ان کی راہیں روکی نہ جاسکیں.یہی دعا ایک کامل دعا ہے میرے نزدیک، اس پہلو سے کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا کام جاری رہے گا اور بزدلی پیدا نہیں ہوگی.نماز کے تعلق میں جیسا کہ میں نے عرض کیا بہت سے احباب خط لکھ رہے ہیں ، بہت سے بچے بھی خط لکھ رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک ولولہ سا پیدا ہو گیا ہے جماعت میں اور یہ دور جو ہے وہ آئندہ بہت ہی بابرکت ادوار کو جنم دے گا ، ان کو پیدا کرنے کا موجب بنے گا.ابھی بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو شمار نہیں کر سکتے.جب دیکھتے ہیں تو فی الحقیقت روحیں خدا تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں.ایسا سجدہ جو روح کی پاتال تک خدا سے مطمئن ہونے کے نتیجے میں ہوتا ہے.اللہ سے ہر انسان کو مطمئن تو رہنا چاہئے لیکن بعض دفعہ زبانی اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ روح اپنے پاتال تک، اپنی آخری انتہاء تک خدا تعالیٰ سے راضی ہو جاتی ہے.اسی کو رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفحر: 29) کے لئے مقدر کیا جاتا ہے.اب حالات ایسے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی رضا اس طرح کثرت کے ساتھ احمدیوں کو اور احمدیوں کے دلوں کو اپنی لذت سے مغلوب کر رہی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ اور بہت سی

Page 842

خطبات طاہر جلد 16 836 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء برکتوں کا موجب بننے والا ہے.اس لئے نماز کے سلسلے کو جاری رکھیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے کس قدر بے پایاں احسانات ہم پر نازل ہورہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جن اقتباسات کو میں پڑھ رہا تھا اب میں ان میں سے پہلا اقتباس جو میرے سامنے ہے شروع کرتا ہوں.فرمایا: جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے.ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے.نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے 66 ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.“ سوزش اور گدازش جو بے چینی پیدا کرتی ہیں، ایک آگ سی دل میں لگ جاتی ہے اس کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ادب کی طرف توجہ دلائی ہے.یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عرفان کا ایک ثبوت ہے ورنہ عام طور پر یہ تحریر اس طرح نہیں ملتی.ہر انسان یہی کہتا ہے کہ جو سوزش اور گدازش سے دعائیں کی جاتی ہیں وہ قبول ہوتی ہیں اس لئے سوزش اور گدازش سے اپنی نمازوں کو سنواریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.“ ادب کے پہلو کو اس سوزش اور جنون کی حالت میں نظر انداز نہیں کرتا.ورنہ سوزش کی حالت میں انسان بعض دفعہ ایسے مطالبے کر بیٹھتا ہے، اس رنگ میں مطالبے کر بیٹھتا ہے جو ایک اعلیٰ مقتدر ہستی کے سامنے ایک قسم کی بے ادبی بن جاتی ہے مگر ایسا ہو کہ: وو وو ” جب انسان بندہ ہو کر لا پرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے اور ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.66 یہاں اب انفرادی نمازوں کی بجائے قومی طور پر امتوں کے زندہ ہونے کا ذکر فرما رہے ہیں اور زندہ رہنے کا ذکر فرما رہے ہیں.اس پہلو سے اس اقتباس کو میں نے سب سے پہلے رکھا ہے کہ یہ جماعتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

Page 843

خطبات طاہر جلد 16 837 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.ایمان کی جڑ بھی نماز ہے بعض بے وقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.“ ایمان کی جڑ نماز ہے لیکن نماز ایمان کو پیدا کرتی ہے یہ تضاد کیا ہے.ایمان کی جڑ ہے اور نماز ایمان ہی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.یہ مضمون خدا تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے شروع میں یوں سمجھا دیا کہ ایک ایمان کی حالت ایمان بالغیب کی حالت ہوتی ہے.جن لوگوں کو ایمان بالغیب نصیب ہو.يُقِيمُونَ الصَّلوة (البقرہ:4) وہ لوگ ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں لیکن ایک ایمان نماز میں سے پھوٹتا ہے وہ ایمان بالغیب نہیں رہتا ، وہ ایسا ایمان ہے جس میں انسان خدا کو اپنے سامنے دیکھ لیتا ہے اور اگر دیکھ نہیں سکتا تو حدیث کے مطابق کم سے کم یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو سنوارتا ہے.اللہ دیکھتا ہے یہ احسان کا مضمون ہے اور یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس عظیم کلام میں بار بار یہی فرمایا سُبحانَ مَن يراني، سُبحانَ مَن یرانی اور یہ حالت بتا رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فی الحقیقت ہمیشہ نماز ہی کی حالت میں الله رہتے تھے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے احسان کے مضمون کو نماز سے باندھا ہے اور فرمایا کہ احسان کی اول حالت یہ ہے کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم سے کم یہ کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے اور اس خدا کے دیکھنے میں بہت مزے مزے کی باتیں شامل ہیں اللہ دیکھ رہا ہے کہ یہ بندہ کیسے نماز پڑھ رہا ہے.جب کسی پیارے کی طرف توجہ ہواور یہ یقین ہو کہ وہ دیکھ رہا ہے تو دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے.پس دیکھنے کا مضمون ہے جس کو نماز سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے اور اس مضمون پر جتنا بھی بیان کیا جائے کم ہوگا.چنانچہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نظم کے تعلق میں کثرت سے بعض خطبات میں ، بعض تقاریر میں، بعض گفتگو کے دوران یہ بیان کیا ہے کہ سُبحانَ من یرانی کے اندر بڑے کثرت کے ساتھ مضامین شامل ہیں.انسان کی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آتا جب وہ بے خبر ہو سکے.جس کو ہر وقت دیکھا جارہا ہو اس میں جرات کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ گناہ میں مبتلا ہو لیکن اس سے بہت بڑھ کر یہ مضمون ہے جو پیش نظر رہنا چاہئے کہ کوئی دیکھ رہا ہے تو محبت سے دیکھ رہا ہے.جب یہاں پہنچتے ہیں تو نماز کی کایا پلٹ جاتی ہے.انسان ایسی نمازیں پڑھے کہ خدا کے

Page 844

خطبات طاہر جلد 16 838 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء پیار کی نظریں پڑنے لگیں اور یہ حالت اگر زندگی بھر اسی طرح رہے تو وہ زندگی نماز بن جاتی ہے.یہی مضمون ہے جس کو جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے تعلق میں یوں بیان فرمایا گیا.قل اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي (الانعام: 163) - مَحْيَايَ وَمَمَاتِي كو صَلَاتِي ونسکی سے اس طرح باندھا گیا ہے کہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی میرا مرنا جینا تو نماز ہے.ساری زندگی نماز بن چکی ہے.یہ وہ حالت ہے جس حالت کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان الفاظ میں اشارہ فرماتے ہیں سُبحانَ مَن یرانی جو بھی میں سوچتا ہوں، جو بھی میں کرتا ہوں، جو کچھ میں خدا کے حضور عجز اور انتہائی تذلیل کے ساتھ عرضداشت کرتا ہوں ان سب باتوں پر اللہ کی نظر ہے.میری دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.میرے دشمنوں سے خود نپٹتا ہے.میں سویا ہوں تو وہ جاگتا رہتا ہے گویا ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نظر مجھ پر ہے.اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے اپنی نمازوں کو سنوار میں اور یہ ایک بڑا لمبا سفر ہے.یہاں پہنچ کر مجھے یہ تسلیم کر نا پڑتا ہے کہ اکثر جو میرے مخاطب ہیں ان کو علم نہیں کہ کتنا مشکل کام ہے.مشکلوں سے گھبرانا بھی نہیں چاہئے لیکن مشکلوں کو نظر انداز کر کے انسان سمجھے کہ بہت آسان راہ کی طرف بلا یا جارہا ہے یہ درست نہیں ہے.راہ آسان ہو سکتی ہے اسی صورت میں کہ اللہ اس راہ کو آسان کرنے کا فیصلہ فرمائے اور یہی بات ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تیری ہی عبادت کرتے ہیں ، تیری ہی عبادت کریں گے کسی اور کی طرف نہیں دیکھیں گے لیکن اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بڑا مشکل کام ہے تیری مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس موقع پر فرماتے ہیں: و بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.خدا کو حاجت نہیں، ہمیں خدا کی حاجت ہے جو ہمیشہ رہے گی اور یہی عبادت کا مفہوم ہے جس پر میں پچھلے خطبہ میں روشنی ڈال چکا ہوں.مگر یہ حاجت روائی خدا ہی کرے گا اور اسی سے التجا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہماری مدد فرمائے.ورنہ جیسا کہ نماز کے متعلق میں اور اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا.بعض لوگ اس کو سن کر خوف سے کانپنے لگیں گے کہ یہ نمازیں ہیں جو ہم نے ادا کرنی

Page 845

خطبات طاہر جلد 16 839 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء ہیں.کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی نمازوں کو سنوارتے ہوئے ان نمازوں کے مطابق بنالیں جن کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت سے رکھتے ہیں.یہاں مختصراً آپ فرماتے ہیں: ”اے نادانو ! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے ( یہ وہی توجہ احسان والی توجہ ہے.) ” خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں.نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الہی ہے.“ یہ ملفوظات جلد 4 صفحہ 292 سے اقتباس لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام متقی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: د متقی کی دوسری صفت یہ ہے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ یعنی وہ نماز کو کھر ی کرتے ہیں.متقی سے جیسا ہوسکتا ہے نماز کھڑی کرتا ہے یعنی کبھی اس کی نماز گر پڑتی ہے پھر ا سے کھڑا کرتا ہے.یعنی متقی خدا تعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے.اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں.یہ وہ سلوک کی راہ ہے جس میں سے ہم سب کو گزرنا پڑتا ہے اور کوئی انسان یہ نہ سمجھے کہ میں نے نماز شروع کی ہے بڑے خلوص اور توجہ سے اور مختلف قسم کے وساوس ہیں جو پریشان کئے رکھتے ہیں.کوئی نہ کوئی دنیا کا جھگڑا سامنے آجاتا ہے.کوئی فکر، کوئی غم ، کوئی تمنا دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور بار بار نماز سے توجہ بنتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فطرت کا راز آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ ایسا ہونا لازم ہے.یہ ضروری نہیں کہ آپ کے ایمان کی خرابی کے نتیجے میں ایسا ہو.اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا تعالی نماز کو کھڑی کرنے کا حکم نہ دیتا جو بعض لوگوں کے لئے زندگی بھر کا مسئلہ ہے اس لئے دو باتیں ہیں جن پر آپ کو توجہ دینی چاہئے.ایک تو یہ کہ نماز ضرور گرتی رہے گی اور لمبے عرصہ تک ایسا ہوتا رہے گا اور ہر دفعہ آپ کو توجہ دے کر محنت کر کے اس کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.مایوسی کا مقام نہیں مگر خوف کا مقام ضرور ہے.اگر ایسی نماز جو گرتے گرتے گر ہی پڑے اور انسان اس سے غافل ہو جائے تو یہ طمع کا مقام نہیں کہ انسان سمجھے کہ ہاں میں ٹھیک ہو جاؤں گا ، یہ خوف کا مقام ہے.انسان سمجھے کہ

Page 846

خطبات طاہر جلد 16 840 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء میں تو مر چکا ہوں.یہ نماز جس میں انسان کے دل کا احساس مرجائے اور وہ بے خوف ہو جائے نمازیں پڑھتا ہے، ٹکریں مارتا ہے، واپس چلا جاتا ہے.ساری عمر بعضوں نے نمازیں پڑھیں،اسی طرح پڑھیں، اسی کو پتا ہی نہ لگے کہ میری نماز وہ نماز ہے ہی نہیں جو خدا چاہتا ہے اور ہر نماز میں دنیاوی خیالات گھیرے رہیں اگر اس حالت تک انسان پہنچ جائے تو پھر وہ نماز انسان پر لعنتیں ڈالنے لگتی ہیں اور اللہ کا کلام ایسے انسان پر لعنتیں ڈالتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون : 5,6) یہ صورت حال کہ نماز بار بار گرتی ہے اس صورت سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں.خوفزدہ اس بات سے ہونا چاہئے کہ کیا واقعہ اس گرتی ہوئی نماز کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہیں.اگر کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ بالآخر تمہاری تضرعات کو سنے گا اور تمہاری مدد کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس مضمون کی باریکی کو سمجھتے ہوئے اس طرح نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرے گی.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا باقی اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.دو متقی خدا تعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے.( یعنی یہاں اس کا یہ خوف ہے کہ میری نماز کھڑی نہیں ہو رہی میں کیا کروں ) اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے، ( گرتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن ہمت نہیں ہارتا.کبھی نماز گرتی ہے مگر پھر اسے کھڑا کرتا ہے اور یہی حالت اس کی رہتی ہے کہ وہ تکلف اور کوشش سے بار بار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے.“ جس کلام کی طرف اشارہ ہے وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرما رہے ہیں: اس کی ہدایت کیا ہوتی ہے اس وقت بجائے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں.“

Page 847

خطبات طاہر جلد 16 841 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء یعنی وہ انسان جو عمر بھر یہ کوشش کرے گا اس کی عمر میں کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ساری کوششیں اس کے ماضی کی ایک بھیانک خواب بن جاتی ہیں اور اس خواب کی بہترین تعبیر ظاہر ہوتی ہے یعنی بقیہ زندگی پہلی زندگی سے ایک بالکل مختلف زندگی ہو جاتی ہے.وہ وقت ہے جب کہ نماز میں لذت آتی ہے.اب میں آپ کو اس ضمن میں یہ بات سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ نماز میں لذت گرتی ہوئی حالت میں بھی آجاتی ہے اور وہی لذت ہے جو بڑھتے بڑھتے بالآخر اس حالت پر پہنچ جاتی ہے کہ صرف لذت ہی رہ جاتی ہے اور تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے.اس لئے یہ انتظار نہ کریں کہ نماز کو کھڑا کر رہے ہیں اور کبھی لذت محسوس نہ ہو اور سمجھیں کہ آخر لذت آ جائے گی ، یہ جھوٹ ہے.نماز کو اللہ تعالیٰ مختلف وقتوں میں انسان کے لئے لذت کا موجب بنا تا رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ لقمے ہیں جو کھلائے جاتے ہیں تو انسان میں لذت پڑتی ہے.اگر بارہا یہ لقمے نہ کھلائے جائیں تو ایسے انسان کی کوششیں وہ سمجھتا بھی ہو کہ کامیاب ہیں حقیقت میں اکارت جائیں گی.نماز کو کھڑا کرنے کے دوران آپ کو وہ لذت محسوس ہونی چاہئے جو انسان کو اس وقت ہوتی ہے جب اس کا خیمہ جھکڑ چلنے کے نتیجے میں گر جاتا ہے اور پھر وہ اس کو کھڑا کر کے کچھ دیر اس میں آرام کرتا ہے.وہ آرام کی حالت لازماً اس تجربے کے دوران محسوس ہونی چاہئے اور یہ حالت بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ گرا ہوا خیمہ ایک دفعہ کھڑا ہوتا ہے پھر دوبارہ ، پھر دوبارہ یہاں تک کہ انسان اسے اور زیادہ مضبوط رسوں سے باندھتا ہے اور مضبوط میخوں سے زمین میں گاڑتا ہے تب وہ خیمہ ہمیشہ کے لئے اطمینان کا موجب بن جاتا ہے اور بیرونی مصائب سے بچالیا جاتا ہے.پس اپنی نماز کو بار بار کھڑا کریں اور امید رکھیں کہ بالآخر ہمیشہ کے لئے آپ کونماز میں لذت اور طمانیت نصیب ہوگی.مگر اس سے پہلے وہ آثار ضرور ظاہر ہوں گے جن کو دیکھ کر آپ کہہ سکتے ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں اب خدا کے فضل کے ساتھ کامیاب ہو جاؤں گا.فرمایا: ” یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے.اس کی ہدایت کیا ہوتی ہے؟ اس وقت بجائے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس غیب کے ذریعہ انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے

Page 848

خطبات طاہر جلد 16 842 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لئے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے.“ تو آپ نے دیکھا کلام مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.کس طرح بیچ میں اللہ تعالیٰ اس غیب کے ذریعے سے انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے یعنی پہلے جو تقویٰ کی حالت تھی وہ ایک غیب کے ایمان کے ذریعہ قائم رہی اور اس غیب کی حالت کو پھر تبدیل کر کے پھر خدا حاضر ہو جاتا ہے اور جب خدا اس غیب کو حاضر میں بدل دے وہ حالت ہے جو ہمیشہ کے لئے اس کے سامنے اس کے حضور میں قائم رہتی ہے کبھی کسی لحہ پھرمٹتی نہیں ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پڑھتے ہوئے کہ وہ اندھے مولوی جو اس کلام کے سقموں کی تلاش میں عمریں ضائع کر دیتے ہیں ان کو دکھائی نہیں دیتا کہ یہ ایک عارف باللہ اور کامل عارف باللہ کا کلام ہے جو آنحضرت مہ کے نقش قدم پر اس طرح چلتا ہے کہ سر مو بھی احتراز نہیں کرتا، کہیں کوئی فرق نہیں کرتا.ر بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لئے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے.“ یہ ذوق ہر کس و ناکس کو اپنی نمازوں کو سنوارنے کے دوران نہیں ملا کرتا.ہاں کبھی کبھی واقعہ نماز ، یوں لگتا ہے جیسے ٹھنڈا پانی پی کر اپنی پیاس بجھائی جارہی ہو.وہ اضطرار کی حالت کی نمازیں بھی ہوتی ہیں اور اس کوشش کے دوران بعض دفعہ خدا تعالیٰ انسان کو اپنی رحمانیت کا ایسا جلوہ دکھاتا ہے اور اس کے احسانات کی طرف انسان کی توجہ اس طرح پھر جاتی ہے کہ اس وقت واقعہ نماز ، یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی سخت پیاسے نے بہت ٹھنڈے پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا ہے اور وہ ختم کرنے کو دل نہیں چاہتا.جب ایک دفعہ سیری ہو جائے تو پھر دوبارہ اس کی پیاس بھڑک اٹھتی ہے پھر سیری ہو جائے پھر اس کی دوبارہ پیاس بھڑک اٹھتی ہے.جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر حظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اسے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا خوش ذائقہ کھا نا مل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت خوش ہوتا ہے.یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے.وہ نماز

Page 849

خطبات طاہر جلد 16 843 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء اس کے لئے ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے.(اب وہ نماز ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے.جس کے بغیر وہ سخت کرب اور اضطراب محسوس کرتا ہے.“ یہ مطلب نہیں ہے کہ دو نمازوں کے درمیان انسان ہمیشہ وقت گزارتا ہے تو سخت کرب اور اضطراب کی حالت میں گزارتا ہے.نشہ کی مثال دے کر ایک بہت ہی لطیف مضمون پیدا فرما دیا گیا ہے.ایک نشئی کو جب نشہ کی وہ دوامل جائے جسے اب ہم آج کل ڈرگ Drug کہتے ہیں جس سے اسے نشہ کی حالت پیدا ہو جائے تو یہ نشے کی حالت فوراً زائل نہیں ہوا کرتی.کچھ عرصے کے بعد پھر وہ بھوک چمکتی ہے جیسے کھانا کھانے کے بعد کچھ عرصے تک انسان سیر ہی رہتا ہے، پانی پی کر کچھ عرصے تک انسان سیر ہی رہتا ہے.یہ نہ سمجھیں کہ دو نمازوں کے درمیان ہر وقت ایک ابتلاء سا آیا ہوا ہے سخت کرب کی حالت ہو، یہ حالت ایسے نہیں ہوا کرتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کو جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں غور سے سنیں ، غور سے سمجھیں تو بات بالکل کھل جاتی ہے.پیاس بھی مٹ جایا کرتی ہے، بھوک بھی مٹ جایا کرتی ہے، نشہ بھی اتر جایا کرتا ہے مگر پھر بھڑکتا ہے، نشہ بھی بھڑکتا ہے، پیاس بھی بھڑکتی ہے ، بھوک بھی بھڑکتی ہے.تو اس طرح بار بار انسان خدا کی طرف لوٹتا ہے اور یہی حکمت پانچ نمازوں میں ہے.وہ انسان جس کو توفیق ہو پانچ وقت کھاتا بھی ہے اور جس کو توفیق ہو پانچ وقت ایسے لذت کے مشروب پیتا بھی ہے کہ اس کی روح سرور پاتی ہے لیکن جسے لذت کے مشروب پینے کی توفیق نہ ہو تو بڑھی ہوئی پیاس ہر پانی کو سب سے زیادہ لذیذ مشروب بنادیتی ہے.اس لئے غریبوں کے لئے کوئی محرومی نہیں.ہر شخص دن کے وقت ٹھنڈے پانی سے لطف اٹھا سکتا ہے اور اگر ٹھنڈا پانی نہ بھی نصیب ہو تو جب پیاس بھڑک اٹھے ہر پانی ٹھنڈا لگتا ہے.ہر پانی انسان اس طرح پیتا ہے کہ اس کی ڈیک نہ ٹوٹے.پنجابی میں ڈیک ٹوٹنا“ کہتے ہیں ، جی چاہتا ہے پیتا ہی چلا جائے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھیں کس طرح مختلف مثالیں بیان فرما فرما کر نماز کے مضمون کو ہم پر کھول دیا ہے.فرمایا: اس کی محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی کارنگ رکھتی ہے.جب یہ کیفیت پیدا ہو جائے خدا تعالیٰ سے ایک ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی.“

Page 850

خطبات طاہر جلد 16 844 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء کوشش کر کے اس محبت کو زندہ نہیں رکھنا پڑتا.وہ محبت آپ کو زندہ کرتی ہے اور آپ کو زندہ رکھتی ہے اور ایسے محبوب سے ہر وقت چمٹار رہنا بھی ممکن نہیں ہے.انسان لا ز ما ان محبوبوں سے جدا بھی تو ہوتا ہے لیکن جتنی لمبی جدائی ہو اتنا ہی ملنے کا زیادہ مزہ آتا ہے.یہ کیفیت ہے جو نمازوں کی صورت میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے اس طرح پیار سے ملاتی ہے کہ جیسے محبوب کو قریب سے دیکھنے سے انسان لذت پاتا ہے ویسا ہی نماز کے دوران اپنے اللہ کو اپنے قریب دیکھ کر انسان لذت پاتا ہے.فرماتے ہیں: در جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان ماکولات اور مشروبات اور دوسری شہوات میں لذت اٹھاتے ہیں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے.“ اب یہ لفظ شہوات ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ جتنے عارفین ہیں وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دنیا کی کسی چیز میں وہ لذت نہیں ہے جو انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کے بعد اس کے قرب سے لذت پاتا ہے.اب بعض نادان اور بے وقوف یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی شہوات میں اس سے زیادہ لذت ہے.حالانکہ اس مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھوک ہو، پیاس ہو یا جنسی خواہش ہو یہ ساری چیزیں ایک طلب کے پیدا ہونے اور بعد میں اس کے مٹنے کا نام ہے.ہر لذت ایک طلب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اگر وہ طلب نہ رہے تو لذت پیدا ہو ہی نہیں سکتی.اس لئے اگر چہ ہم بظاہر کھانے کی بات کرتے ہیں، پینے کی بات کرتے ہیں، جنسی لذت کی بات کرتے ہیں لیکن یہ مرکزی نقطہ ان سب میں مشترک ہے.طلب ہے تو مزہ ہوگا.طلب نہیں ہے تو مزہ نہیں ہوگا اور جتنی طلب زیادہ ہوگی اتنا مزہ دوسرے مزے پر غالب آتا چلا جائے گا.پس نعوذ بالله من ذلک اللہ تعالیٰ کا شہوات نفسانی سے تو کوئی تعلق نہیں اور کھانے سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ، پینے سے بھی کوئی تعلق نہیں.یہ مادی چیزیں ہیں جو مادی حاجات کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں.مگر یہ راز ہمیں سمجھا دیتی ہیں کہ طلب ہوگی تو مزہ ہوگا، طلب نہیں ہوگی تو مزہ نہیں ہوگا.اب پیاس کو دیکھ لیں جس کی پیاس بجھی ہوئی ہو ویسے ہی بیٹھا ہو اس کو ز بر دتی ٹھنڈا پانی بھی دیں گے تو وہ نہیں پئے گا.اگر اس نے اپنی مرضی کا مشروب پی لیا ہو مثلاً پیاس تو اتنی نہیں مگر کوکا کولا کا شیدائی ہو تو آخر ایک وقت آجائے گا کہ کوکا کولا دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا اس کو ضرورت محسوس نہیں ہوگی.آپ

Page 851

خطبات طاہر جلد 16 845 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء زبر دستی گلاس دیں تو اس کو پرے پھینک دے گا.یہ ہم نے اپنے بچوں میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس نعمت سے ان کو سیری ہو چکی ہو وہ نعمت اگر بار بار پیش کی جائے تو وہ نہیں پسند کریں گے.آپ مہمانوں کو تکلف کے ساتھ یا اس خواہش کے ساتھ کہ وہ خوش ہوں اور زیادہ لذت حاصل کریں بار بار کوئی نعمت کی چیز پیش کرتے ہیں.کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا ہے کہ ان کے چہرے پر کچھ تھکاوٹ کے آثار آجاتے ہیں.شروع شروع میں تو کہتے ہیں نہیں نہیں ، ضرورت نہیں لیکن تھوڑا سا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی حیاء کی وجہ سے انکار کیا تھا.پھر کچھ عرصے کے بعد ان کے انکار میں ایک قسم کی سختی سی پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت شرافت کا تقاضا ہے کہ انسان رک جائے لیکن ہمارے بعض خدمت کرنے والے ایسے بھی میں نے دیکھے ہیں کہ باہر سے معزز مہمان تشریف لائے ہوئے ہیں ان کا چہرہ دیکھتے ہی نہیں کہ واقعہ نہیں چاہتے کہ ان کوکوئی چیز پیش کی جائے.بار بار وہی چیز پیش کئے چلے جاتے ہیں.آخر مجھے روکنا پڑتا ہے بس کرو کافی ہوگئی ہے اور وہ نہیں برداشت کر سکتے.تو یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کا خدا تعالیٰ کی ذات سے مادی طور پر تو کوئی تعلق نہیں ہے.مگر روحانی طور پر یہ تعلق ہے کہ جب پیاس بجھ جائے گی تو خواہش نہیں رہے گی اور جب پیاس ہو گی تو اس خواہش کو پورا ہونے کے نتیجے میں لذت پیدا ہوگی.اس لذت کو جو بھی آپ نام دے دیں جنسی لذت کہیں یا خوراک کی لذت کہیں مرکزی نقطہ ایک ہی رہتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں.پس اللہ تعالیٰ کے پیار کی حاجت دل میں پیدا ہو جائے اور وہ حاجت بڑھ جائے تو روحانی لذت اتنی غالب آجاتی ہے کہ ساری مادی لذتیں اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں ، جب مقابل پر آئیں تو بالکل گر کر ذلیل ہو جاتی ہیں.پس یہ نہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ ہماری مادی لذتیں پوری کرتا ہے.مادی لذتوں کی طرح ہمارے دل میں اس کے لئے ایک طلب پیدا ہوتی ہے اور جب وہ طلب پیدا ہو جائے تو ہر دوسری مادی لذت اس کے سامنے حقیر اور بے معنی ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پاسکتا اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہو سکتی ہے اور انسان ترقی کر کے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے ذاتی

Page 852

خطبات طاہر جلد 16 846 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء محبت ہو جاتی ہے اور اس کو نماز کے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لئے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے.اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 605،604) یہ پہچان ہے جو بہت ہی ضروری ہے.ہر انسان کی مرضی ہمیشہ خدا کے موافق نہیں ہوا کرتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا عارفانہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہمیں اپنی نمازوں کی پہچان کی چابی پکڑا دی اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کی پہچان سمجھا دی.فرمایا اس محبت کی پہچان یہ ہے کہ انسان کی مرضی خدا کی مرضی کے تابع ہو جاتی ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو ہر عاشق سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی بھی عشق کیا ہو.وہ چیزیں جو دوسروں میں اس کو بری لگتی ہیں اگر اپنے محبوب میں وہ چیز پائے تو ویسے ہی بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی رضا کی نظر اس کی رضا کی نظر بن جاتی ہے.یہ تجربہ سچے عشاق ہی کو نصیب ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو محبت میں خامی ہے.پس اللہ تعالیٰ کی محبت کی پہچان یہ سمجھا دی کہ آپ کی روزمرہ کی رضا ہمیشہ اس کے مطابق ہو.اگر مطابق ہوگی تو آپ کی ساری زندگی نماز بن جائے گی.نماز کی حالت میں اجنبیت پیدا ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ رضائے باری تعالیٰ آپ کی اپنی رضا بن گئی ہے اور اس رضا کا نام مقبول نماز ہے.اس پر آپ غور کر کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ زندگی بھر جس کو اپنے محبوب کی رضا پر چلنا آ گیا ہو وہ اس کے سوا اور کیا چاہے گا.کیسے وہ چیزیں اس کی توجہ محبوب سے ہٹا ئیں گی جو دنیا کی مجبوریاں بھی ہوا کرتی ہیں.مگر وہ توجہ نہیں ہٹایا کرتیں.اگر بھوک لگتی ہے تو آپ کھانا کھا ئیں گے.مگر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس کھانا کھانے کو جو حلال اور طیب ہے اللہ نے اپنی رضا کی چادر پہنادی ہے.اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مضمون اس طرح بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ ہماری بعض مادی خواہشات کو اللہ تعالیٰ نے کلیۂ نظر انداز نہیں فرما دیا کہ ایسے میرے لئے فقیر ہو جاؤ کہ تمہیں اپنی ذات کی کوئی ہوش ہی نہ رہے.ہماری ساری ذاتی زندگی کو خدا تعالیٰ اپنی محبت کے تابع پھر بحال فرما دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس طرح تم اپنی زندگی گزارو کہ تمہاری ساری زندگی میری رضا بن جائے اور لذت

Page 853

خطبات طاہر جلد 16 صلى الله 847 خطبہ جمعہ 14 نومبر 1997ء دوہری ہو جائے جو عام دنیا کے انسان کو اکیلی لذت کے طور پر محسوس ہوتی ہے.یہی نکتہ ہے جسے آنحضرت ﷺ نے بیوی کو لقمہ دینے کی مثال کے طور پر بیان فرمایا ہے جسے میں بارہا آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں.آپ نے فرمایا اگر کوئی خدا کی خاطر بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالے تو یہ اس کی عبادت ہے.نماز میں سے اس وقت بھی باہر نہیں نکلتے اور وہ لذت اپنی جگہ قائم رہتی ہے.ہر شخص جسے اپنی بیوی سے پیار ہو گا اگر محبت کے اظہار کے طور پر اس کے منہ میں لقمہ ڈالے گا اسے مزہ تو ضرور آئے گا لیکن اگر یہ دیکھ رہا ہو، یہ جانتا ہو کہ اس وقت میرا محبوب اعلی حقیقی محبوب بھی مجھ پر پیار کی نظر ڈال رہا ہے تو دنیا والے کی لذت کے مقابل پر یہ لذت اندازہ کرو کہ کتنی بڑھ جائے گی.پس اپنی نمازوں کو سنواریں، جہاں تک ممکن ہے سنواریں.اس مضمون کو ہلکا نہ سمجھیں.اس میں بہت سی مشکل را ہیں آئیں گی مگر خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھیں.باقی مضمون میں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 854

Page 855

خطبات طاہر جلد 16 849 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے ( خطبه جمعه فرموده 21 نومبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ چند خطبات میں نماز کے تعلق میں میں نے کچھ باتیں بیان کی ہیں اور اسی تعلق میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں.گزشتہ اقتباس میں میں نے یہ گزارش کی تھی کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں سُبحانَ مَن یرانی آپ اس بات کو ضرور نماز میں ہمیشہ ملحوظ رکھیں کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے لیکن حدیث کے جو اصل الفاظ ہیں جیسے کہ بخاری میں ہیں اس میں پہلے یہ ذکر ہے کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے اگر نہیں تو پھر یا درکھ کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر میں اور اس مضمون میں فی الحقیقت تضاد نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ کی طرز ایسی ہے کہ تو اسے دیکھنے کی کوشش کرور نہ یادرکھ کہ وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے.اس معنی میں اگر آپ اُس مضمون کو سمجھیں تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ کہنے میں کہ وہ ہمیشہ مجھے دیکھ رہا ہے اور اس حدیث کے الفاظ میں ہر گز کوئی تضاد نہیں.غور سے علماء پھر پڑھ کے دیکھ لیں ان کو غور کے بعد یہی بات سمجھ آئے گی کہ ایک کوشش کی طرف حدیث متوجہ کرتی ہے کہ کوشش کر کہ تو اسے دیکھ جو بہر حال تجھے دیکھ رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کہنا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے پہلے

Page 856

خطبات طاہر جلد 16 850 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997 ء مضمون کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے ہے.گو یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھ رہے ہیں یہ مضمون اس میں داخل ہے.مگر بہر حال بہت سے علماء چونکہ ظاہری الفاظ کے نیچے نہیں اترتے اس لئے ان کو بسا اوقات تضاد دکھائی دیتا ہے مگر فی الحقیقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی بیان میں ہرگز کوئی تضاد نہیں.ہمیشہ آپ اسے قرآن وحدیث کے مطابق ہی پائیں گے.اس مختصر تشریح کے بعد جس کی تفصیل شاید مجھے بعد میں مزید بیان کرنی پڑے میں اب واپس اسی مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جہاں سے وہ چھوڑا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ پر بات ختم ہوئی تھی کہ وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے.اس کے بعد آپ فرماتے ہیں: اس لئے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.“ ( نماز کے متعلق یہ الفاظ غور طلب ہیں ”نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.معراج اور جڑیہ دو مختلف باتیں ہیں.بیک وقت آپ کا یہ کہنا بعض علماء کو شاید تضاد دکھائی دے حالانکہ ہرگز تضاد نہیں ہے کیونکہ آپ نے ایک سلسلہ قائم فرمایا ہے جڑ کا اس کے منتہی تک.فرماتے ہیں: ”نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے.نماز جڑ بھی ہے اور منتہی بھی ہے.وہ زمینہ بھی ہے جس پر قدم رکھ کر انسان بالآخر اپنے معراج کو پہنچتا ہے.جو اس کا منتہی کا مقام اللہ کے نزدیک مقدر ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان عبارتوں کو خوب غور سے پڑھیں اور یا درکھیں کہ نماز مومن کا معراج ہے.معراج کے متعلق یا درکھیں کہ ہر شخص کا معراج الگ الگ ہے اور ہر انسان اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے یا بعض دفعہ نہیں اٹھایا جا تا.آنحضرت ﷺ کا معراج اور معراج تھا کیونکہ آپ کی پرواز بہت بلند تھی.وہ زینہ جو آپ کی نماز نے قائم کیا تھا وہ بہت دور تک او پر چلا جاتا تھا.مگر ہر شخص کی ایک حد مقرر ہے وہ اپنی توفیق سے آگے بڑھ نہیں سکتا.پس وہ شخص جو نماز کی جڑ کو قائم کرتا ہے پھر وہ زینہ تعمیر کرتا ہے نماز کے ذریعے جو اس کو اس کے معراج تک پہنچاتا ہے.مراد یہ ہے کہ ہر شخص کی بلندی کا ایک منتہی مقدر ہے اور اگر وہ کوشش کرے تو اس آخری منزل تک پہنچ سکتا ہے جس کے قومی اس کو عطا کئے گئے ہیں اور اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کا معراج ہوگا اور یہ معراج نماز کے ساتھ

Page 857

خطبات طاہر جلد 16 851 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء وابستہ ہے.نماز کے بغیر ناممکن ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو درجہ معراج تک پہنچائے.فرماتے ہیں: اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ ، راست باز، ابدال، قطب گزرے ہیں.انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے ؟ اسی نماز کے الله ذریعے سے.خود آنحضرت یہ فرماتے ہیں: قُرَّةُ عَینی فی الصلوۃ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجے پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے.“ ہے.اب یہ بھی دو الگ الگ باتیں دکھائی دیتی ہیں حالانکہ ان کے درمیان ایک گہرا تعلق.راست باز ابدال قطب گزرے ہیں انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے ؟ اسی نماز کے ذریعے سے اور حضور اکرم ﷺ کے متعلق جو اس کے معا بعد آپ نے فرمایاوہ اس بات سے کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے.فرمایا: خود آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: قُرَّةُ عَینی فی الصلوۃ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.“ مراد یہ ہے کہ وہ جو مراتب گزشتہ بزرگوں نے طے کئے اس لئے طے کئے کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز تھی.اگر آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں نہ ہو تو ہر گز نماز کے ذریعہ سے انسان وہ بلند مراتب حاصل نہیں کر سکتا جو نماز اسے عطا کر سکتی ہے.پس یہ آنکھوں کی ٹھنڈک کا مسئلہ ہے.نماز میں آنکھوں کی ٹھنڈک پیدا ہونا یہ خود بہت محنت طلب مجاہدے کو چاہتا ہے.پس کیسے یہ مجاہدے کئے جائیں، کیسے یہ محنت ماری جائے یعنی اس محنت میں سر کھپایا جائے یہ مضمون ہے جو آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عبارتوں کے پڑھنے سے نسبتاً آسان ہو جائے گا.فرماتے ہیں: اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجے پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے ہیں.پس کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتا ہے.“ یہ جو لذت ہے نماز کی اس کے مقابل پر کشاکش نفس رکھی گئی ہے.نفس ہمیشہ اپنی طرف کھینچتا ہے اور جتنا کامیاب ہوتا ہے اتنا ہی لذت کم ہوتی جاتی ہے.ظاہر بات ہے کہ نفس کی لذت کا

Page 858

خطبات طاہر جلد 16 852 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء ایک تقابل کیا گیا ہے.نماز میں لذت پانے کے ساتھ.جونہی انسان نفسانی لذتوں میں مبتلا ہوگا روحانی لذتیں کم ہوتی جائیں گی.پس فرمایا کشاکش نفس کی لذتوں سے نجات پائے بغیر فی الحقیقت نماز کی لذت نصیب نہیں ہو سکتی اور اگر نماز کی لذت نصیب نہ ہو تو نماز بلند تر روحانی مدارج تک نہیں پہنچا سکتی.و کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتا ہے.“ حضرت اقدس مزید فرماتے ہیں: ( ملفوظات جلد چہارم صفحه : 605) ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ الصلوةُ هي الدعاء.الصلوة مخ العبادة یعنی نماز ہی دعا ہے، نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوٰۃ نہیں ہے.یہ معنی ہیں اس حدیث کے جواکثر لوگوں کو سمجھ نہیں آتے کہ الصلوۃ مخ العبادة الصلوة هي الدعاء اگر عام معنی لئے جائیں تو مراد ہے کہ دعا کر لو تو نماز پڑھ لو ایک ہی بات ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس غلط نہی کا ازالہ فرماتے ہیں یہ کہہ کر کہ : ” جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلو نہیں ہے 66 اور وہ نماز میں بھی ہو تو اس نماز کا نام صلوۃ نہیں ہے اور نماز کی اعلیٰ سے اعلیٰ حالت میں بھی الله ہو تو جب تک وہ دنیوی امور کے لئے دعا ہے اس کا نام الصلوۃ نہیں ہے.حضرت رسول اللہ ﷺ نے جس دعا کا نام الصلوۃ رکھا ہے وہ دعا اللہ کی رضا چاہنے کی دعا ہے، ہمیشہ اس کو طلب کرنے کی دعا ہے اور اسی طرح اگر یہ حالت ہمیشہ طاری رہے تو ہمیشہ انسان نماز میں ہوتا ہے.بعض فقراء یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم تو ہر وقت نماز میں ہیں اور حالت یہ ہے کہ گندے لغو کلمات ان کے منہ سے جاری ہوتے ہیں، دنیا کی باتوں میں وہ کھوئے رہتے ہیں اور ہر قسم کی خودسری کے نمونے دکھاتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ ہم تو بس نماز کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں.بعض فقیر ایسے ہیں جو نہایت گندی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور لوگ جو ان فقیروں کی عبادت کرتے ہیں

Page 859

خطبات طاہر جلد 16 853 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء جن میں بڑے بڑے بعض پاکستان حکومت کے سر براہ بھی شامل رہے ہیں وہ ان فقیروں کے دروازے تک پہنچتے ہیں اور وہ نہایت گندی گالیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ گویا یہ خدا تعالیٰ کا ایک احسان سمجھتے ہیں کہ وہ ان کو گندی گالی دے دے تا کہ ان کو تمام مقاصد نصیب ہو جائیں.یہ سب جہالتیں ہیں.ان جہالتوں کا کوئی دور کا بھی رسول اللہ ﷺ کے غلاموں سے تعلق نہیں ، کجا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے خود یہ تعلیم دی ہو.آپ کی حالت نماز یہ تھی کہ ہر سانس میں آپ کی توجہ خدا کی الله طرف تھی اور خدا کی طلب کرتے تھے.پس یہ کہنا ایک ایسے شخص کا کہنا ہے، یہ قول ایک ایسے شخص کا قول ہے جس نے زندگی میں گہرے تجربے سے یہ بات معلوم کی ہے کہ الصلواة هي الدعاء اور الصلوة مُخُ العبادة _ پس حضرت رسول اللہ ﷺ کی اس حالت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سمجھا اور پھر اس کی یہ تشریح فرمائی کہ: ” جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے اور ادب ، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعے سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتی ہے“.اب یہ بھی ایک روزمرہ کی پہچان ہے.ہم میں سے ہر ایک لازماً اپنے روز مرہ کے مشاغل میں غیر معقول باتوں میں ملوث ہو جاتا ہے.کبھی مذاق ہے، بھی اور ہلکی پھلکی با تیں ہیں جو اپنی ذات میں گناہ نہ بھی ہوں تو اس عرصے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ نماز میں نہیں ہے اور یہ حالت اگر آپ غور کریں تو جتنا ابتدائی سالک ہوگا اتنا ہی اس میں زیادہ پائی جائے گی.جتنا آگے بڑھے گا یہ عادت اس کی کم ہوتی چلی جائے گی اور اس کے روز مرہ کے اکثر لمحات خدا کے لئے ہوتے چلے جائیں گے.جب یہ ہو تو پھر نماز بنے لگتی ہے.اگر ایسا ہو تو اس کا عکس نماز پر بھی پڑتا ہے اور اسی حد تک نماز خدا کے

Page 860

خطبات طاہر جلد 16 854 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء لئے ہونی شروع ہو جاتی ہے جس حد تک اس کے دن رات خدا کے لئے مقدر ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: انسان کو نا معقول باتوں سے ہٹاتی ہے.“ یہ یاد رکھنا چاہئے آپ سب کو کہ کتنا وقت روزانہ نا معقول باتوں میں صرف ہوتا ہے اور کتنا معقول باتوں میں.) اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے.“ اگر انسان اس بات سے ڈر جاتا ہے کہ اگر دنیوی حاجات کے لئے دعا کرنا میری عبادت نہیں ہے اور اس میں مخل ہے تو پھر میں حاجت روائی کس سے کروں، کس کا دروازہ کھٹکھٹاؤں کہ وہ میری حاجتیں پوری کرے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ہر دروازہ کلیۂ بند کر دیا ہے اور ساتھ ہی خدا کا دروازہ بھی بند کر دیا ہے کہ اس دروازے پر اپنی حاجات لے کر نہ جاؤ یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے اس عبارت کو نہ سمجھنے سے جس کا ازالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود فرمار ہے ہیں.فرماتے ہیں: اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتے ہیں...کیسا لطیف مضمون ہے جس نے دو مسئلے حل کر دئے.ایک دنیوی ضروریات کو دور کرنے کی وجہ بتا دی دوسرے اس دعا کے ساتھ ہی ملا دیا جو مقبول دعا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.یہ ایک بار یک مضمون ہے جسے مجھے کھولنا پڑے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا کے حضور اپنی ضروریات لے کر جانے کی اس حالت میں اجازت ہے کہ پہلے اس کی رضا کو حاصل کریں.اگر رضا کو حاصل کر کے پھر ایسا کرتا ہے تو اس میں ایک حکمت ہے کیوں ایسا کرنے کی اجازت ہے.اس لئے کہ دنیوی مشکلات اور مصائب اس کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور وہ خدا کی

Page 861

خطبات طاہر جلد 16 855 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء طرف توجہ نہیں کرسکتا.پس اگر اس لئے دعا کرے، یہ کہتے ہوئے التجا کرے کہ اے میرے اللہ میری مشکلات نے مجھے گھیر لیا ہے، میں جب کھڑا ہوتا ہوں یہ بلائیں مجھے چمٹ جاتی ہیں اور مجھے تیری طرف اپنے دماغ کو خالصہ وقف کرنے کی توفیق نہیں دیتیں.اگر اس نیت سے انسان اپنی حاجات خدا سے مانگے گا تو لازماً حاجات تو ملیں گی ہی لیکن اس کا یہ حاجات مانگنا بھی ایک عبادت بن جائے گا کیونکہ عبادت کی خاطر وہ یہ دعائیں مانگتا ہے کہ مجھے دنیا کے جھنجھٹوں سے اس حد تک آزاد کر دے کہ یہ میرے ذہن پر سوار نہ رہیں.جب میں عبادت کے لئے کھڑا ہوں تو مجھے چمٹ نہ جایا کریں تا کہ میرا ذ ہن تیری عبادت کے لئے فارغ ہو جائے.یہ لطیف مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون سے نکالا ہے.پھر فرماتے ہیں: خاص خامی اور کج پینے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں...دوسری بات ایک اور بہت ہی عزیز ، بہت دلچسپ فرماتے ہیں کہ اس لئے بھی دنیوی امور میں دعا کرنا منشاء الہی کے ہمیشہ خلاف نہیں ہوتا کہ اگر یہ دعا نہ کی جائے تو وہ سالک جو ابھی ابتدائی منازل پر ہے بعض دفعہ یہ دنیوی امور اور ان کے مسائل اس کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اللہ کو ہماری پر واہ ہی کوئی نہیں.پس اگر اس وجہ سے خدا سے التجا کی جائے کہ وہ ان ابتدائی ٹھوکروں سے بھی انسان کو نجات بخشے اور انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ میرا ایک خدا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے.ایسی صورت میں یہ دعا جو ہے یہ عبادت والی دعا بن جائے گی.صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گزارش دعا میں پیدا ہونی چاہئے اب یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد یہ سوز کی بات فرمائی گئی ہے کہ سوز پیدا کرنا بندے کے اپنے بس کی بات نہیں ہے لیکن ایک ایسا موقع بیان فرمایا جس موقع کا سوز سے تعلق ہے.اگر ایک انسان کو مشکلات گھیر لیں اور اس کے نقصانات ایسے ہوں کہ جو بعض دفعہ ساری زندگی کو اداس کر دیتے ہیں.کسی قریبی کسی پیارے کی موت ہے جو ایک دفعہ واقع ہو گئی مگر ساری عمر اس کے بعد پیچھے رونا پیٹنا چھوڑ دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس سوزش کا ذکر کیا ہے کہ وہ دعا میں

Page 862

خطبات طاہر جلد 16 856 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء ہونی چاہئے وہ ایسے موقعوں پر نصیب ہوتی ہے.جب دنیوی مشکلات انسان کو گھیرتی ہیں تو طبعا دل میں ایک سوزش پیدا ہوتی ہے اس سوزش سے فائدہ اٹھا لو اور دعا کرو.پھر جب وہ مقبول ہوگی تو اللہ کی محبت کی سوزش بھی ساتھ دل میں پیدا ہو جائے گی.یہ بار یک تعلقات ہیں مگر بالکل حقیقی تعلقات ہیں.ان میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ انسانی فطرت اسی طرح چلتی ہے کہ پہلے ایک سوزش دعا میں تبدیل ہوا اگر انسان متوجہ ہو اس بات کی طرف اور وہ سوزش کی دعا مقبول ہو جائے اور جس نے یہ قبول کی ہے پھر اس کے لئے ایک محبت پیدا ہو جائے ، پھر وہ محبت اتنا بڑھے کہ محبت کی سوزش ہر دنیا کی طلب کی سوزش سے آگے بڑھ جائے.یہ وہ مقام ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں فرماتے ہیں: ” جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوۃ ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه : 284،283) اب عام انسان تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہر روز، ہرلمحہ اس پر ایک موت کی حالت طاری ہو لیکن یہ سوچیں کہ یہ کس کا کلام ہے.اس کا کلام ہے جس نے حضرت اقدس محمد مصطفی او کی پیروی میں آپ کے قدموں کے نشانات کو چومتے ہوئے سفر کیا.یہ لکھتے وقت لازماً آپ کی نگاہ اس آیت پر ہوگی جو پہلے بھی کئی دفعہ پڑھ چکا ہوں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ (الانعام: 163) یہ موت جو اللہ کے لئے ہوتی ہے یہ ایک پیاری موت ہے اور صلى الله اس موت کے اعلان کا خدا تعالی محمد رسول اللہ ﷺ کوحکم دیتا ہے تو اعلان کر کہ مجھے یہ موت نصیب ہو گئی ہے.پس عام پڑھنے والا ڈر جاتا ہے ان باتوں کو پڑھ کے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان عبارتوں کو پڑھ کے بعض کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ ہم کیسے یہ سفر کر سکتے ہیں.ہم کون، ہماری مجال کہاں کہ روزانہ ہر وقت موت کا منہ دیکھیں لیکن وہ موت جو کسی پیارے کی خاطر قبول کی جاتی ہے اس کا دوسرا نام زندگی ہے.پس وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي میں فرق ہی کوئی نہیں.اگر اللہ کے لئے ہو اور ہرلمحہ ہو تو جیسے ایک دیکھنے والا دور سے موت دیکھ رہا ہے،محسوس کرنے والا اس سے زندگی پاتا ہے اور وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي کے درمیان فرق ہی نہیں کرسکتا.وہ ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.فرمایا تب اس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.اب اس وقت تک پہنچنے سے پہلے ہم کیا کریں

Page 863

خطبات طاہر جلد 16 857 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء کیونکہ ایسے پر شکستہ اور بے طاقت ہیں کہ گرتے پڑتے بھی اس طرف سفر کریں ،سفر بہت دراز ہے، بہت لمبا اور دور کا سفر ہے اور وہ ممات اور حیات والی حالت جو میں نے بیان کی ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عبارت کے آخر پر رکھا ہے یہ حاصل کرنی بہت مشکل ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے بعد اس مضمون کو نسبتاً آسان کرنے کی خاطر ، اس سفر کو نسبتاً آسان کرنے کی خاطر فرماتے ہیں: خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء وقدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی.نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ بچی نماز ہرگز نہ ہوگی.نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں.نماز وہ شے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے.خوفناک حالت ، یوں لگتا ہے کہ وہ حالت بڑی خوفناک ہے لیکن مراد یہ نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ ایک شخص پر خوف طاری ہو جائے اور پھر بے اختیار گر پڑے اسے خوفناک حالت بیان فرمایا گیا ہے.روح پکھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے.وو جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں“.اب ایک طرف تو روح پکھل رہی ہے خوف میں اور دوسری طرف یہ بیان بھی ہے کہ جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رفت پیدا کرنے کی کوشش کرے.وہ پہلا روح کا پگھلنا ان عارف باللہ لوگوں کا بیان ہے جن کو یہ حالت نصیب ہو جاتی ہے لیکن ہر انسان کو یہ حالت نصیب نہیں ہوتی.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا کہ یہاں بھی بیان فرمایا ہے ” اسلامی اصول کی فلاسفی میں بھی یہی بات بیان فرمائی ہے کہ اگر تم پر رقت طاری نہیں بھی ہوتی تو کوشش کر کے چاہے بناوٹ کرنی پڑے، اگر کوئی بناوٹ جائز ہے تو یہاں بھی جائز ہے کہ تکلف کر کے بھی اللہ کے حضور

Page 864

خطبات طاہر جلد 16 858 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء گریہ وزاری کی کوشش کرے اور اپنے اوپر ایک قسم کا خوف طاری کرے.یہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کی روح خود بخود پکھل کر نہیں گرتی.اور تضرع سے مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں.اسی قسم کی نماز با برکت ہوتی ہے اور اگر وہ استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے.اب جو بیان بہت مشکلات کا بیان دکھائی دیتا تھا، لگتا تھا کہ انسان میں طاقت ہی نہیں ہے کہ اس چیز کو حاصل کر لے اس بیان کو آسان کرنے کی خاطر صبر اور وفا اور استقامت کا سبق دے رہے ہیں.فرماتے ہیں تمہیں وہ رقت نصیب ہو یا نہ ہو جو طبعی حالت کا نام ہے جو رقت اپنی ذات میں بے انتہا لذت رکھتی ہے اگر نہ بھی نصیب ہو تو کوشش کرتے رہو.کوشش کر کے خواہ تصنع سے اپنے چہرے کو ایسا بناؤ گویا وہ رو رہا ہے.منتیں کرو، جو کچھ بھی ہو مسلسل جدو جہد کرتے رہو.یہ حالت رفتہ رفتہ نہیں بدلے گی ایک ایسا وقت آئے گا کہ خدا کو رحم آئے گا اور خدا سے مدد مانگنا اس لئے ضروری ہے.اپنے طور پر انسان اس حالت کو پاسکتا ہی نہیں.ہاں جب اللہ دیکھتا ہے اور اپنے بندے کو ایسی بے قراری اور انکساری کی حالت میں پاتا ہے کہ اسے کچھ بھی نصیب نہیں ہورہا پھر بھی دعا نہیں چھوڑتا اس کا صبر کسی مقام پر آکر ختم نہیں ہوتا مسلسل جاری رہتا ہے.اس وقت فرمایا اچانک آسمان سے ایک شعلہ نو را ترتا ہے اور یہ وہ حالت ہے جو ہر دنیوی حالت کو خاکستر کر دیتی ہے.وو دیکھے گا کہ رات ہو یا دن ہو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اب رات فرمایا تو رات کی عبادتیں مراد ہیں، دن کو بھی دن کی عبادتیں مراد ہیں اور نور کے متعلق فرما دیا کہ اس کا تعلق نہ رات سے ہے نہ دن سے ہے.دن کو بھی نور ہی رہے گا اور رات کو بھی نور ہی رہے گا.ایسا نور ہے جو صرف تمہاری راتوں ہی کو نہیں تمہارے دنوں کو بھی روشن کر سکتا ہے.اور نفس امارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے.اب یہ آغاز ہے اس کی ترقیات کا.نماز میں جب یہ نور گرتا ہے تو ہر وقت جو انسانی نفس اس کو احکامات دے رہا ہے کہ یہ برائی کرو، وہ برائی کرو، یہ شوخی کم ہو جاتی ہے.نفس امارہ پھر اس جرات سے اسے برائیوں کی طرف نہیں کھینچتا.

Page 865

خطبات طاہر جلد 16 859 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء جیسے اثر دہا میں ایک سم قاتل ہے اسی طرح نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه : 96) اب یہ حالتیں اس قسم کی نہیں ہیں جو دنیا کے بعض صوفی آپ کو سکھاتے ہیں اور پڑھاتے ہیں کہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا.ان حالتوں میں ایسی گہری حقیقتیں ہیں کہ ادنی سا بھی مبالغہ ان میں نہیں پایا جاتا.یہ نہیں فرمایا کہ وہ نور اترے گا تو ہمیشہ کے لئے تمہاری زندگی فوراً سنور جائے گی فرمایاوہ نور جب جب اترے گا نفس امارہ کی کسی شوخی کو بھسم ضرور کر دے گا.ہے.وہ پس اگر متقی نماز پڑھتے ہوئے جیسا کہ نماز کا حق ہے آگے بڑھتا ہے تو اس کی نمازوں میں ہمیشہ اس کو محسوس ہوگا کہ کبھی آگے بڑھنے کا ایک ایسار جحان ملتا ہے کہ جیسے سفر میں کوئی قدم آگے بڑھا دیا جائے اور گناہ پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن سب گناہ یا سب گناہوں کا رجحان بیک وقت پیچھے نہیں رہتا بلکہ بعض گناہوں کا رجحان پیچھے رہ جاتا ہے اور گناہوں کی خواہش میں ایک کمی سی آجاتی خواہش مرجھانے لگتی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ایک عارف باللہ کے کلام کے سوا آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.ایسی باریکی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی روح کے آغاز کا مطالعہ کیا ہے کہ اس مطالعہ کے ساتھ آپ کو دوسرے لوگوں کی روح کے مطالعہ کا علم ہو گیا یعنی ضروری نہیں ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک آپ کا سفر نفس امارہ کی شوخیوں سے ہومگر ہر دعا گوانسان جانتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی پہلی حالت کے خلاف خدا سے مدد چاہتا ہے اور جب وہ مدد چاہتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ مدد ایک نور کے شعلے کی طرح اس پر گرتی ہے اور اس کی پہلی حالت جس سے وہ نجات چاہتا ہے اس میں فرق آجاتا ہے.پس ضروری نہیں کہ انبیاء یا اولیاء اللہ اپنے گناہوں کے متعلق نفس امارہ کے غلام ہوں اور پھر ان سے نجات پائیں.ہر شخص کا نفس کچھ نہ کچھ پیغام اسے ضرور دے رہا ہے.جب انبیاء حوالہ دیتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ نسبتا کم ، بہت کم، اتنا کم کہ بعض دفعہ دیکھنے والے کو محسوس بھی نہیں ہوسکتا لیکن انبیاء کو خود دکھائی دیتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس حالت سے مزید ترقی کریں.پس ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے جو عامتہ الناس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن جس شخص نے اپنی ان منازل کو غور سے

Page 866

خطبات طاہر جلد 16 860 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997 ء صلى دیکھا، بڑی گہری نظر سے ان کا مطالعہ کیا ہو وہی ہے جو تمام بنی نوع انسان کی کیفیات کو بھی سمجھ لیتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو خدا تعالیٰ نے چونکہ اس زمانے کا مربی اور معلم بنانا تھا اس لئے آپ ان باتوں میں انسانی نفسیات کی کمزوریوں میں جس گہرائی سے اترے ہیں ویسا گزشتہ چودہ سوسال کے زمانے میں رسول اللہ ہے کے بعد کوئی اور اترتا ہوا دکھائی نہیں دیتا.اگر کچھ بزرگ ایسے ہوں گے تو صحابہ جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے ان حالتوں کو جانتے ہوں تو ان کو ویسے ہی مجال نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے ہوتے ہوئے تعلیم کا کام خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں.صلى الله اس لئے جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ادب اور احترام کے تقاضے کے تابع اسی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا لیکن جو بعد میں علماء پیدا ہوئے ان کو یہ خیال آیا کہ بہت سی باتیں عامۃ الناس نہیں سمجھتے اور ہمیں سمجھانی چاہئیں.سو حوالے قرآن اور حدیث ہی کے دیتے تھے مگر سمجھانے کی کوشش کرتے تھے.پہلے زمانے میں ابتدائی حالت میں کیوں بزرگوں نے نہیں سمجھایا.کچھ تو یہ کہ ان کی اپنی عرفان کی حالت ایسی تھی کہ بہت سے مسائل نظر ہی نہیں آرہے تھے.وہ اپنے روحانی تجربے سے جانتے تھے کہ یہ باتیں تو ٹھیک ہیں سب کو پتا ہوں گی گویا کہ.حالانکہ سب کو پتا نہیں ہوتی تھیں اور دوسرا یہ کہ اس وقت جبکہ سورج سر پر چڑھا ہو اس وقت لوگوں کو رستہ دکھا نا احترام کے خلاف سمجھتے تھے لیکن جب رسول اللہ ﷺ سے ہٹ کر کہیں دور سفر کر رہے ہوں وہاں ہمیں ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں کہ آنحضرت مہ کے بعض ارشادات پر بعض صحابہ روشنی ڈال رہے ہیں اور بعض دوسرے ان معنوں سے اختلاف بھی کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اکثر احکامات پر زمانے کی گردو غبار پڑ چکی تھی جبکہ اس زمانے کے دیکھنے والوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان احکامات کی روح کیا ہے، کیوں دئے جا رہے ہیں، ان کے درمیان رابطے کیا ہیں اور اس کے علاوہ ایک یہ مشکل بھی در پیش تھی کہ مختلف علماء نے ان نصیحتوں کو جو رسول اللہ ﷺ نے فرما ئیں بالکل غلط سمجھ کر تکبر سے اس بات پر اصرار کیا کہ ہم ٹھیک سمجھ رہے ہیں اور یہی معنے ہیں.اگر یہ معنی جاری رہتے تو سارا زمانہ ہلاکت میں مبتلا ہو جاتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مامور فرمایا اور آپ فرماتے ہیں کہ میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا.یہ زمانہ میرا تقاضا کرتا تھا اور پھر ایسے تجارب کی توفیق عطا فرمائی جن تجارب میں سے آپ بچپن سے گزر

Page 867

خطبات طاہر جلد 16 861 خطبہ جمعہ 21 /نومبر 1997ء صلى الله رہے تھے اور وہ طبعی نتیجہ اسی طرف لے جار ہا تھا جس طرح آنحضور ﷺ آپ کو ہدایت دے کر پہنچانا چاہتے تھے.پس یہ وہ مضمون ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام عبارتوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اگر ان عبارتوں کو آپ سرسری نظر سے پڑھیں گے تو بعید نہیں کہ ٹھوکر کھا جائیں کیونکہ قرآن کریم کلام الہی کے متعلق یہی فرماتا ہے کہ لوگ یہ دیکھ کر سوال اٹھائیں گے، تعجب کریں گے کہ یہ کلام کیسا ہے جو بعضوں کو زندگی بخشتا ہے، بعضوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جاتا ہے.پس ٹھوکر کا موجب ان کے لئے بنتا ہے جن کے دل ٹیڑھے ہوں اور ان کا رجحان ٹھوکر کھانے کی طرف ہو، ایسے لوگوں کے مقدر میں ٹھو کر کھانا ہی ہے لیکن بعض دفعہ ایک ایسا انسان بھی ہوتا ہے جو دل کا صاف اور پاک ہے اپنی نا مجھی کی وجہ سے ٹھو کر کھاتا ہے.یہ سارے امور میرے ذہن میں ہیں اور اپنے خطبات میں میں ان باتوں کو کھول رہا ہوں تا کہ وہ سادہ لوح احمدی بھی جو بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں اٹھا کر پڑھتے ہیں اور اپنے طور پر ان کا مفہوم صحیح نہیں سمجھ سکتے کہیں وہ نہ ٹھوکر کھا جائیں.پس جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں میں آپ کو ظاہری تضاد دکھائی دے گا پہلے تو ایک کامل یقین ضروری ہے کہ لَا رَيْبَ فِيْهِ جیسا کہ قرآن کریم نے شروع میں ہمیں متوجہ کر دیا تمہیں ریب دکھائی بھی دے تو جان لو کہ ہر گز ریب نہیں.جب یہ یقین کامل پیدا ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں میں نہ کوئی تضاد ہے نہ قرآن وحدیث سے ہٹی ہوئی کوئی بات ہے پھر ان عبارتوں کو پڑھیں تو ان کے اندر آپ کو عجیب شان دکھائی دے گی.جو مشکل معاملات ہیں ، جو مشکل مقامات ہیں تحریر کے ، ان کے اندر خزینے دفن ہیں.جتنا آپ غور کریں گے اتنا ہی اعلیٰ درجے کے خزائن آپ کے ہاتھ آئیں گے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت کے متعلق پھر میں یہ عرض کروں.فرمایا: جیسے اثر دہا میں ایک سم قاتل ہے اسی طرح نفس امارہ میں بھی ستم قاتل ہوتا ہے.اب نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوتا ہے.وہ سم جو قتل کر دے تو قتل ہونے کے بعد تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہے.اگر نفس امارہ میں سم قاتل ہے تو لوگ بچیں گے کیسے.یہ جو سم قاتل ہونے کے

Page 868

خطبات طاہر جلد 16 862 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء باوجود لوگ بیچ بھی جاتے ہیں اور اللہ انہیں بچا لیتا ہے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں: اور جس نے اسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے“.وہ ڈسنے کی کوشش کرتا ہے ساتھ ساتھ خدا علاج کرتا چلا جاتا ہے.بہت سے ایسے زہر ہیں جو انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن بر وقت اگر ان کا تریاق استعمال کیا جاتارہے تو خواہ وہ قاتل بھی ہوں تب بھی قتل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے.تو یہ بات یادرکھیں کہ نفس امارہ تو بہر حال ایک قاتل نفس امارہ ہے اس کا زہر ہلاک کرنے والا زہر ہے لیکن اللہ کا ایک ایسا احسان بھی ہے جو بن مانگے ہم پر ہورہا ہے اور ان معنوں میں یہ رحمانیت کا جلوہ ہے.ہر انسانی نفس لازم نہیں کہ اس نفس امارہ کے زہر سے قتل ہو جائے اور پھر اس کو زندہ نہ کیا جاسکے.فرماتے ہیں خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اس کی رحمانیت ہے جو ساتھ ساتھ اس کا ازالہ کرتی چلی جاتی ہے.یہ مضمون ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے حوالے سے بیان فرمایا ہے.ہر خون میں شیطان دوڑ رہا ہے.وہ شیطان نفس امارہ ہی تو ہے اور کون سا شیطان ہے.عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خون میں بھی.آپ نے فرمایا ہاں میرے خون میں بھی لیکن میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے یعنی اب اس میں ڈسنے کی خواہش باقی نہیں رہی.پس وہ مقام حقیقی اسلام کا مقام ہے جہاں کامل امن ہے اور نفس امارہ ان بار بار کی چوٹوں سے جو آسمانی بجلیوں سے اس کے سر پر پڑتی ہیں جو نماز کی حالت میں ایک نور کی طرح اوپر سے نازل ہوتی ہیں، اس کا سر اس حد تک کمزور ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس میں وہ شوخی باقی نہیں رہتی.پھر اگلی دفعہ کچھ اور ہو جائے گا، اگلی دفعہ کچھ اور کمزور ہو جائے گا اور آخری حالت وہ حالت ہے صلى الله جسے رسول اللہ ہے کے نفسی شیطان کے مسلمان ہونے کی حالت کا نام دیا گیا ہے.ایک اور عبارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جوان مشکلات کے تصور سے انسان کو ڈرانے کی بجائے انسان کا حوصلہ بلند کرتی ہے.بعض دفعہ بعض احمد یوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم سے تو حضرت صاحب کی کتابیں پڑھی ہی نہیں جاتیں.میں نے کہا کیا ہو گیا ہے آپ کو.انہوں نے کہا جب کتابیں پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم احمدی بھی نہیں ،مسلمان بھی نہیں ، انسان بھی نہیں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے پوچھ رہے ہیں، ہم سے توقع رکھتے ہیں اس کا نام ونشان

Page 869

خطبات طاہر جلد 16 863 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء ہماری ذات میں نہیں اس لئے ڈر جاتے ہیں.میں نے کہا اگر ڈر جاتے ہیں تو پھر آپ کو کوئی نجات نہیں مل سکتی.آگے پڑھا کریں اور غور سے پڑھا کریں کہ جہاں ڈراتے ہیں وہاں اس کا تریاق بھی بتاتے ہیں ، وہاں ساتھ ساتھ راہنمائی بھی فرماتے ہیں کہ اس خوف و ہراس سے بچ نکلنے کا کیا راستہ ہے.اب یہ عبارت اسی قسم کی عبارت ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.فرمایا: ”ہماری جماعت کو چاہئے کہ ہمت نہ ہار بیٹھے یہ بڑی مشکلات نہیں ہیں.میں تمہیں یقیناً کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری مشکلات آسان کر دی ہیں...“ اب یہ بہت بڑا انعام ہے جو جماعت احمدیہ پر نازل ہوا ہے.دنیا میں اور کسی مذہبی جماعت کی مشکلات اس طرح آسان نہیں کی گئیں جس طرح جماعت احمدیہ کی مشکلات آسان کی گئی ہیں.کتنا بڑا خزانہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب کی صورت میں ہمارے لئے چھوڑ دیا ہے اور بار بار انہی باتوں کو دہراتے ہیں، انہی باتوں کو سمجھاتے ہیں تا کہ وہ جو نہ سمجھ سکے ہوں وہ بھی سمجھ لیں.کس جماعت کی خدا تعالیٰ نے اس طرح مشکلات آسان کی ہیں.اس لئے پہلے تو یہ یقین اپنے دل میں جاگزیں کرلیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے: " خدا تعالیٰ نے ہماری مشکلات آسان کر دی ہیں کیونکہ ہمارے سلوک کی راہیں اور ہیں ( یعنی باقی مذہبی جماعتوں سے اور باقی صوفیاء اور اولیاء اللہ کے مقابل پر ہمارے سلوک کی راہیں اور ہیں.ان جیسی بھیا تک راہیں نہیں جیسی انہوں نے اختیار کر رکھی ہیں.ہمارے ہاں یہ حالت نہیں ہے کہ کمریں جھک جائیں یا ناخن بڑھا لیں یا پانی میں کھڑے رہیں اور چلہ کشیاں کریں یا اپنے ہاتھ خشک کر لیں اور یہاں تک نوبت پہنچے کہ اپنی صورتیں بھی مسخ ہو جائیں.“ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ صوفی جیسا کہ میں نے بعض پاگل صوفیوں کا ذکر کیا ہے اور ابھی ایسے بہت سے صوفی ہیں جو دنیا کی نظر میں بڑی چلہ کشی کر رہے ہیں.اپنے ہاتھ سکھا لیتے ہیں، کھڑے کھڑے ہو ہو کرتے راتیں گزار دیتے ہیں اور اس قسم کے صوفی صرف مسلمانوں میں نہیں ملتے دنیا کے ہر مذہب میں ملتے ہیں اور ہر ایسے صوفی کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اپنے اعضاء سے ہاتھ دھو بیٹھیں.ہندو فقیروں میں بھی آپ کو ایسے ملیں گے جن کی کھڑے کھڑے ٹانگیں خشک ہو

Page 870

خطبات طاہر جلد 16 864 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء گئیں اور کھڑے ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رہی ، جنہوں نے ہاتھ اٹھا اٹھا کے اتنی دیر اٹھائے رکھے کہ وہ ہاتھ مر گئے اور ان میں ہلنے کی طاقت بھی باقی نہیں رہی.ایسے عجیب و غریب جو مجاہدات بتائے جاتے ہیں بالکل جھوٹ ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ مجاہدات سے ان کا کوئی بھی تعلق نہیں.فرمایا اس لئے خواہ مخواہ ڈرو نہیں.ہم وہ ہیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام جن کو رسول اللہ ﷺ کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کی توفیق ملی.فرماتے ہیں ہم یعنی تم لوگ اے جماعت احمد یہ وہ لوگ ہو جن پر مشکلات کو آسان کر دیا گیا ہے.ان صورتوں کے اختیار کرنے سے بعض لوگ بخیال خویش با خدا بننا چاہتے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسی ریاضتوں سے خدا تو کیا ملنا ہے انسانیت بھی جاتی رہتی ہے.“ یعنی ایسے فقیر اور بزعم خویش خدا نما بننے والے بداخلاق ہو جاتے ہیں اور اسی لئے میں نے ایک فقیر کا آپ کو حوالہ دیا جس کا ذکر پاکستان کی تاریخ میں محفوظ ہے کیونکہ بڑے بڑے چوٹی کے باخدا بننے والے سر براہ ان کی خدمت میں ان کی گالیاں کھانے کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے ، جہالت کی حد ہے.پس یہ بدخلق لوگ با خدا ہونے کا کیسے دعوی کر سکتے ہیں جن کو بولنے کی بھی تمیز نہیں.فرمایا: لیکن ہمارے سلوک کا یہ طریق ہرگز نہیں ہے بلکہ اسلام نے اس کے لئے نہایت آسان راہ رکھ دی ہے.وہ کشادہ راہ وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (اے خدا ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے.) یہ دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھلائی ہے تو ایسے طور پر نہیں کہ دعا تو سکھا دی ہے لیکن سامان کچھ بھی مہیا نہ کیا چنانچہ اس سے اگلی سورۃ میں اس قبولیت کی طرف اشارہ ہے ہو.،، وو ( یعنی جب یہ دعا سکھائی تو محض دعا سکھا کے نہیں چھوڑ دیا فرمایا اس سے اگلی سورۃ میں ہی اس دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ ہے ) جہاں فرمایاذْلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.( ملفوظات جلد اول صفحہ: 233 ).وہ راہ جو تم مانگ رہے ہو کشادہ راہ جس میں کوئی ٹھو کر، کوئی غلطی نہیں یہ کتاب ہے.

Page 871

خطبات طاہر جلد 16 865 خطبہ جمعہ 21 نومبر 1997ء لَا رَيْبَ فِيهِ کوئی شک نہیں ، کوئی بھی نہیں لیکن ایک بات ہے هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ اگر تم متقی ہو تو تمہاری ساری مشکلات کو یہ کتاب آسان کر دے گی.اگر متقی ہی نہیں تو پھر یا درکھو کہ ہر ایک نیکی کی جڑ یہ انقاء ہے.اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے.پس تمہارے سفر کا آغاز ہی نہیں ہوگا.اگر چہ یہ رستہ تمہارے سامنے کھلا ہوگا اور یہ ایسی صراط مستقیم ہے جو کشادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو ہمیشہ کشادہ راہ کے طور پر یاد فرمایا ہے.کسی مذہب کی سیدھی راہ اتنی کشادہ نہیں جو ہر چیز کو اپنے اندر سمالے کہ اس سے ہٹ کر کوئی اور راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے.پس ہماری ساری ضرورتیں ، ہمارے سارے مسائل کا حل، ہماری نماز کی کمزوریوں کو دور کرنے کے طریقے ، ہمارے الحاح، کس طرح ہمیں خدا کے حضور گرنا چاہئے ، کون کون سی حالتیں ہیں جو مددگار ہوتی ہیں، کس طرح بعض دفعہ دل جھنجھوڑے جاتے ہیں، کس طرح دلوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.وہ کون سے امور ہیں جو آپ کی عبادت کی راہ میں محمد ہوں گے یہ تمام اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہیں اور یہی قرآن ہے جو آج ہمارا راہنما ہے جیسا کہ پہلے بھی ہمیشہ سب کا راہنما رہا ہے.اس مضمون کے متعلق باقی امور انشاء اللہ میں اگلے خطبہ میں پیش کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 872

Page 873

خطبات طاہر جلد 16 867 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء اللہ کی تقدیر تو بہر حال غالب آنی ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا ( خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : المرة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَةُ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّارَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ) پھر فرمایا: (البقرة:2تا4) نمازوں کے متعلق جو خطبات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اسی تعلق میں میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعض ایسے اقتباس چنے ہیں جو تقویٰ کے بنیادی کردار پر روشنی ڈال رہے ہیں.اس کے بغیر کوئی بھی حصول نعمت ممکن نہیں.حصول نعمت سے مراد اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں اور بغیر تقویٰ کے ممکن ہی نہیں کہ ہم کسی قسم کے احسانات کا مورد بن سکیں لیکن اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے میں بظاہر ایک غیر متعلق مضمون سے بات شروع کرنا چاہتا ہوں.بظاہر غیر متعلق ان معنوں میں کہ یہ تقویٰ اور نماز کی باتیں ہو رہی ہیں اس میں پاکستان کے حالات کا معا کیا ذکر آ گیا، کیا وجہ پیدا ہوگئی کہ پاکستان کے حالات کی طرف ہم متوجہ ہوں.ظاہر ا تو کوئی تعلق نہیں لیکن فی الحقیقت وہاں جو کچھ ہو رہا ہے تقویٰ کی کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس تعلق میں جو آئینی بحران ہے اس کے

Page 874

خطبات طاہر جلد 16 868 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء متعلق بعض دوستوں کی خواہش ہے کہ میں آج کے خطبے میں ضرور کچھ روشنی ڈالوں کیونکہ بہت گہری اور اہم تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.جماعت احمدیہ کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں بستا ہے جو بھی تبدیلیاں ہوں گی ان پر اثر انداز ہوں گی اور بیرونی دنیا پر بھی ایسی تبدیلیاں اثر انداز ہو سکتی ہیں اس لئے میں نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور آج میں اسی ذکر سے خطبے کا آغاز کرتا ہوں.پاکستان میں جو آئینی بحران پیدا ہو رہا ہے اس کا ایک بہت گہرا اور لمبا تعلق جماعت احمدیہ سے پاکستان کے سلوک سے ہے.آج وہاں جو جو باتیں بھی ہوں ، جس قسم کی وجوہات پیش کی جارہی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان معاملات کے جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق کو کا ٹانہیں جاسکتا.آپ کو یاد ہوگا کہ ایک لمبے عرصے سے جماعت احمدیہ کے خلاف جو جو بھی ظالمانہ کارروائیاں ہوا کرتی تھیں جماعت احمد یہ عدالت کی طرف رجوع کر کے ان سے اپنی دادرسی چاہتی تھی اور بہت حد تک ان کو چھوٹی عدالتوں سے انصاف مل جاتا تھا یہاں تک کہ نا انصافی کا پانی اونچا ہونا شروع ہوا اور چھوٹی عدالتیں علماء کے خوف اور ان کے دباؤ میں ڈوب گئیں اور یہ نا انصافی کا پانی اور اونچا ہونا شروع ہوا.ہر ایسے موقع پر جبکہ مچلی عدالتوں کے انصاف کے دروازے بند ہو جایا کرتے تھے جماعت احمد یہ نسبتاً اونچی عدالتوں کی طرف رجوع کرتی تھی اور ضلعی اونچی عدالتیں اس زمانے میں بڑی توجہ سے جماعت کے معاملات پر غور کرتی تھیں اور بسا اوقات جرات کے ساتھ انصاف کا ساتھ دیتی تھیں اور جماعت احمدیہ کے حقوق بحال کر دئے جاتے تھے.جن کو بھی اس گزشتہ مظالم کی داستان کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ ہمیشہ یہی ہوا کرتا تھا.آغاز میں ایک مجسٹریٹ بھی جماعت کے معاملے میں انصاف سے کام لیا کرتا تھا.جب وہاں نا انصافی کا دور دورہ ہوا اور مجسٹریٹ کو مخالفانہ آراء نے دبا لیا تو پھر ضلع کی اونچی عدالتوں نے ہمیشہ جماعت کا ساتھ دیا اور بسا اوقات خطاب میں میں ان کی تعریف بھی کیا کرتا تھا، ان کے لئے دعا کی طرف بھی متوجہ کرتا تھا.پھر ایک دور آیا کہ یہ پانی اور اونچا ہوا اور نا انصافی کا دباؤ محض نیچے سے ہی نہیں اوپر سے بھی ان عدالتوں پر پڑنے لگا.اس بناء پر مجھے یہ معلوم ہوا کہ دراصل آغاز میں جب چھوٹی عدالتوں نے نا انصافی شروع کی تھی تو محض عوامی دباؤ کے نتیجے میں ایسا نہیں تھا، حکومت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا.حکومت نے ان پر یہ دباؤ ڈالا تھا کہ اگر تم ایسے فیصلے کرو گے تو ہم تمہیں عوام سے کسی قسم کی حفاظت مہیا نہیں کریں گے اس لئے لازماً تمہیں ایسے فیصلے کرنے چاہئیں

Page 875

خطبات طاہر جلد 16 869 خطبہ جمعہ 28 نومبر 1997 ء جو خود تمہاری حفاظت کا موجب بنیں اور عوام کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اپنے فساد کا منہ تمہاری طرف پھیر سکیں.یہ بات اس وقت ظاہر ہوئی اور ہمیں انتظار تھا کہ دیکھیں آئندہ حکومت کیا کرتی ہے.تو جیسا کہ میں نے عرض کیا شروع شروع میں ضلعی اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ہمیں انصاف ملتا رہا اور پھر اچانک ان کی طرف سے بھی انصاف ملنا بند ہو گیا اور یہ وجہ تھی کہ نیچے کا دباؤ بھی تھا اور اوپر کا دباؤ بھی تھا.ویسی ہی صورت تھی جیسے حضرت نوع کے زمانے کے سیلاب کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ آسمان بھی پانی برسا رہا تھا اور زمین سے بھی تنور پھوٹ پڑا تھا یعنی نیچے سے بھی اور اوپر سے بھی ایسا پانی برس رہا تھا جو غرق کرنے کے لئے برس رہا تھا، بچانے کیلئے نہیں.چنانچہ جب یہ دو پانی بہہ گئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر ان کی ہلاکت کا مضمون یقینی ہو گیا.بعینہ یہی صورت جو حضرت نوح کے طوفان کی ہے وہ ہم اپنے ملک میں بھی کارفرما دیکھ رہے ہیں.نیچے کا پانی یعنی عوامی دباؤ جو مولویوں کا دباؤ تھا جسے عوامی دباؤ کی صورت دے دی گئی اور اوپر کا دباؤ یعنی حکومت کا دباؤ یہ دونوں پانی جب ملے ہیں تو پھر وہاں احمدیوں کے لئے کوئی بھی جائے پناہ باقی نہیں تھی.چنانچہ وکلاء نے مشورہ دیا کہ ان سے اونچی عدالتوں میں جایا جائے اور ہائی کورٹ کی طرف رجوع کیا اور آغاز میں ہائی کورٹ نے ہمیشہ انصاف کی حمایت کی لیکن پھر ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو نچلی عدالتوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور ایسے ظالم جسٹس وہاں مقرر کئے گئے جن کو حکومت کی ہدایت بھی تھی اور علماء کا براہ راست دباؤ بھی تھا کہ احمدیوں کے معاملے میں تم نے ہر گز انصاف مہیا نہیں کرنا.جسٹس خلیل الرحمان جو کوئٹہ کے ہیں انہوں نے بھی اس سلسلے میں نہایت بھیانک کردار ادا کیا تھا.احمدیوں کے خلاف سب سے گندہ فیصلہ اور ظالمانہ فیصلہ لکھنے میں جسٹس خلیل الرحمان کا نام ہمیشہ باقی رہے گا یعنی عزت کے ساتھ باقی نہیں رہے گا بلکہ وہ ذلت کے ساتھ باقی رہے گا جو ہمیشہ خدا کے منکرین اور انبیاء کا مقابلہ کرنے والوں کے نصیب میں لکھی جاتی ہے.پس جسٹس خلیل الرحمان جو کوئٹہ کے سپریم کورٹ کی عدالت کے جسٹس ہیں.دو جسٹس ہیں وہاں سپریم کورٹ کے ، ان میں سے ایک خلیل الرحمان صاحب بھی ہیں.ان کا حالیہ فیصلہ اس بحران کا موجب بنا ہے جو اس وقت در پیش ہے.مگر بہر حال اب میں واپس پھر اس سلسلے کی تاریخ بیان کرتا ہوں کہ ہائی کورٹ نے ایک لمبے عرصے تک جماعت احمدیہ کا ساتھ دیا اور ہر وہ ضمانت جو ایسے عدالتی کیسز (Cases) کے متعلق

Page 876

خطبات طاہر جلد 16 870 خطبہ جمعہ 28 نومبر 1997ء تھی جو کوئی وجہ جواز رکھتے ہی نہیں تھے ہر ایسی ضمانت کو شروع میں ہائی کورٹ نے قبول کیا مثلاً C-295 کے مقدمات تھے جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی ضمانت نہیں ہوسکتی یہ قانون میں داخل ہے مگر عدالت عظمی نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان کی ضمانت ہوسکتی ہے کیونکہ بنیاد ہی جھوٹی ہے اور یہ کیس اس دفعہ سے تعلق ہی نہیں رکھتا کہ جس میں نعوذ باللہ احمد یوں نے حضرت اقدس رسول اللہ اللہ کی گستاخی کی ہو.کچھ عرصے کے بعد ہائیکورٹ کا رویہ بدل گیا.ایسے جسٹس وہاں مقرر کئے گئے جن کا مختصر ذکر میں نے کیا ہے اور ان پر علماء کا دباؤ کبھی ایسا تھا کہ بہت سے ایسے اقتباسات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفاء کی کتابوں میں تھے انہیں نکال کر توڑ مروڑ کر ان کے سامنے یہ موقف دیا گیا کہ جب الله احمدی آنحضرت ﷺ پر سلام اور درود بھیجتے ہیں تو بیچ میں سے ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یعنی مرزا غلام احمد قادیانی ہوتے ہیں اور اوپر سے رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج رہے ہیں اور اندر سے مرزا غلام احمد قادیانی پر درود بھیج رہے ہیں.اوپر سے ان کا کلمہ پڑھتے ہیں اور اندر سے مرزا غلام احمد کا کلمہ پڑھتے ہیں.اس موقع پر میں نے اپنے وکلاء کو بارہا یہ توجہ بھی دلائی کہ تمام دنیا میں جو انصاف کا تصور ہے وہ ملزم سے پوچھا کرتا ہے یعنی حج کا فرض ہے کہ ملزم سے پوچھے کہ کیا تم جب بھی کلمہ پڑھتے ہو تو دل میں مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لیتے ہو؟ کیا تم جب بھی درود بھیجتے ہو تو کیا دل میں مرزا غلام احمد قادیانی پر درود بھیجتے ہو؟ یہ ایک بنیادی تقاضا ہے عالمی قانون کا جسے پورا کرنا ہر حج کا فرض ہے.کسی جماعت کے عقیدے کو ہر فرد کے اوپر اگر وہ عقیدہ ان کے نزدیک قابل اعتراض بھی ہو، ہر فرد بشر پر ٹھونسا نہیں جا سکتا.موقف ان کا یہ تھا کہ ان کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تم جھوٹے ہو، ان کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بزرگ جن کی یہ کتابیں ہیں وہ یہ سمجھا کرتے تھے کہ جب محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لوتو دل سے مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لیا کرو اس سے زیادہ وہ اور کچھ ثابت نہیں کر سکتے تھے یعنی جھوٹے الزام کو اگر تسلیم کرنا بھی تھا تو اس صورت میں کیا جاسکتا تھا.عالمی قانون کا تقاضا تھا کہ ہر ملزم سے پوچھا جاتا کہ یہ کتابیں ہیں جن سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تم چونکہ اس جماعت کے ممبر ہو تمہارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے.کیا ہے؟ کیا واقعہ تمہارا یہ عقیدہ ہے؟ تو وہ جس پر الزام لگایا گیا تھا بڑی جرات کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ میں اس عقیدے پر لعنت ڈالتا ہوں اور میرا اس عقیدے سے دور کا بھی تعلق نہیں.جب بھی میں لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں تو

Page 877

خطبات طاہر جلد 16 صلى 871 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997 ء صلى الله اس رسول ملی و مدنی کے سوا میرا ذہن کسی اور کی طرف منتقل نہیں ہوتا جو خاتم النبین ﷺ تھا اور جب بھی میں آپ پر درود بھیجتا ہوں آپ کے سوا کسی اور پر درود نہیں بھیجتا سوائے اس کے کہ درود خود آل کو شامل کرتا ہے اور اس شمولیت میں میرا قصور نہیں بلکہ اگر قصور سمجھتے ہو تو درود بنانے والے کا قصور ہونا چاہئے لیکن جہاں تک محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے جب بھی میں درود بھیجتا ہوں آپ کے سوا کسی پر درود نہیں بھیجتا.محمد نام سے وہی محمد مراد ہیں جو مکہ اور مدینہ کے محمد ہیں، جو خدا کے آخری صاحب شریعت رسول تھے.یہ جواب عدالت کی طرف سے ہر ظالمانہ کارروائی کی راہ میں حائل ہوسکتا تھا اور ہونا چاہئے تھا مگر انصاف کے اس بنیادی تقاضے کو کبھی بھی احمدیوں کے حق میں قبول نہیں کیا گیا اور ان سے پوچھے بغیر ان کے خلاف فیصلے دے دئے گئے حالانکہ ان سے پوچھنا چاہئے تھا یہ تمہارا عقیدہ ہے یا نہیں ہے.وہ جرات سے کہتے ہرگز نہیں ہے.پھر دنیا کا کوئی قانون ان کو ملزم اور مجرم نہیں بنا سکتا تھا.پس اس پہلو سے ایک لمبے عرصے تک مظالم کا پانی اوپر چڑھتا رہا اور اس عدلیہ کے ظلم میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہائی کورٹ بھی ڈوب گئی اور ان کے ہاں سے انصاف کا تصور کلیۂ غائب ہو گیا.پس ان سے اوپر کی پہاڑی سپریم کورٹ کی پہاڑی رہ جاتی تھی جس پر احمدی پناہ لے سکتے تھے اس پہاڑی پر بھی پانی چڑھ گیا اور ایک ایسا بحران قائم ہوا جسے ہم دستوری بحران کہہ سکتے ہیں.سپریم کورٹ نے بھی ان لوگوں کی حمایت کی جو ظلم کی حمایت کرنے والے تھے.اب بظاہر احمد یوں کے لئے یہ پہاڑیاں ڈوب گئیں لیکن وہ خدا جس کے علم میں تھا کہ ان کے لئے پہاڑیاں ڈوب جائیں گی اس نے ہمارے لئے کشتی نوح کا انتظام کر رکھا تھا.ایسا انتظام کر رکھا تھا جس نے کبھی ڈو بنانہیں تھا.جن پہاڑیوں کو یہ ڈبور ہے تھے یہ اپنی نجات کی راہوں کوختم کر رہے تھے، اپنی پناہ گاہوں کو ڈبور ہے تھے.آج جو بحران ہے وہ بعینہ یہی صورت ہے.ان لوگوں نے جنہوں نے احمدیوں کے لئے کوئی پناہ گاہ نہ چھوڑی، اپنے لئے بھی کوئی پناہ گاہ نہ چھوڑی.اب وہ سب عدالتیں اس پانی میں ڈوب چکی ہیں جو غرقابی کا پانی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر اترا ہے اور اس سے نجات کی اب ان کے لئے کوئی راہ باقی نہیں.وہ ملک جس کا آئین ڈوب جائے ، وہ ملک جس کا آئین جماعت احمدیہ یعنی سچائی کی مخالفت کر رہا ہو اور خدا تعالیٰ اسے غرق کر دے اس کے لئے کوئی پہاڑی باقی نہیں رہا کرتی.یہی وہ مماثلت ہے جس کی وجہ سے میں نے حضرت نوح کا ذکر کیا.حضرت نوح کے بیٹے کا

Page 878

خطبات طاہر جلد 16 872 خطبہ جمعہ 28 نومبر 1997ء بھی یہی خیال تھا کہ وہ پہاڑیاں مجھے پناہ دیں گی لیکن ایک پہاڑی سے اوپر منتقل ہوتے ہوئے آخر اس کے لئے ناممکن ہو گیا کہ کسی ایسی جگہ پہنچے جہاں سیلاب کا پانی اس کی پناہ گاہ کو غرق نہ کر دے.پس بعینم یہی صورت اس وقت پاکستان کے آئینی بحران کی ہے.ان لوگوں کو بارہا میں نے سمجھایا،خطبات کا ایک سلسلہ ہے جو اس بات کا گواہ ہے کہ میں نے خوب متنبہ کیا.میں نے کہا جو جو ذرائع تم نے جماعت کے خلاف استعمال کئے ہیں تقدیر الہی نے ہمیشہ تم پر الٹائے ہیں.کوئی ایک استثناء بنا کے دکھاؤ.ہمیشہ جو کچھ تم جماعت پر کرتے رہے اللہ کی تقدیر نے انہیں تم پر الٹا دیا اور آئندہ یہی ہوگا لیکن جنہوں نے عقل نہیں کرنی، جن کو کبھی عقل نہیں آیا کرتی یہ وہ آنکھوں والے ہیں جو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں، وہ کانوں والے ہیں جو کانوں سے سنتے ہوئے بھی بہرے ہیں اور اب قوم کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا گیا ہے جس سے نکلنے کا کوئی رستہ باقی نہیں سوائے اس کے یہ سارا قانون بھاڑ میں جھونک دیا جائے اور از سر نو انصاف پر مبنی قوانین بنائے جائیں.اب اس کے سوا کوئی رستہ دکھائی نہیں دے رہا.اگر یہ پانی میں ڈوبا ہے اس لئے کہ اسے آگ میں جھونکنا پڑتا ہے تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ قانون تو گیا.اب یہ قائم نہیں رہ سکتا.اس لئے اب قوم کے دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ آئندہ قانون میں وہ رخنے نہیں رہنے دیئے جائیں گے جن رخنوں کی راہ سے ملائیت قانون میں داخل ہوتی ہے.جن رخنوں کی راہ سے نا انصافی قانون میں داخل ہوتی ہے.ایک ہی قانون ہے جو ملک کی حفاظت کر سکتا ہے جو قانون قائد اعظم نے اپنے بیانات میں پیش کیا اور جس دستور کا قائداعظم نے تصور باندھا تھا.اس میں ایک بھی ایسا رخنہ نہیں تھا جس کے ذریعے ملاں اس دستور میں دخل اندازی کر سکے.پس اب دیکھیں کیا ہوتا ہے.اگر تو انہوں نے عقل حاصل کی نصیحت پکڑی اور آئندہ جو قانون بنائے جائیں ان میں قائد اعظم کے تصور کی طرف واپس لوٹ گئے تو چونکہ وہ تصور انصاف کا تصور تھا اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ ایک ایسی صورت ہے جو اس ملک کو آئندہ ہلاکتوں سے بچالے گی.اگر انہوں نے ایسانہ کیا تو الہ کی تقدیر تو بہر حال غالب آنی ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا.وہ ضرور اپنے کرشمے دکھائے گی اور جو بھی کرشمہ دکھائے گی وہ لازماً جماعت احمدیہ کے حق میں ہوگا.یہ وہ تقدیر ہے جس کو ملاں بدل نہیں سکتا: اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے (در نشین اردو: 94)

Page 879

خطبات طاہر جلد 16 873 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء یہ وہ تقدیر مبرم ہے جو آپ دیکھیں گے کہ لازماً اسی طرح ظاہر ہوگی جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.اب میں اس مضمون کی طرف واپس آتا ہوں جو بنیادی مضمون اور تقویٰ کا مضمون ہے جس کا عبادتوں سے بہت گہرا تعلق ہے.تقویٰ میں بھی ایک عجیب بات ہے کہ جوں جوں تقویٰ کا پانی اونچا ہوتا ہے یہ ان کی حفاظت کے سامان کرتا ہے جو اس پانی کی سطح کے ساتھ ساتھ بلند ہورہے ہوں.یہ پانی کبھی بھی متقین کو ڈبوتا نہیں بلکہ ان کی نجات کی آماجگاہوں کی طرف لے کے جاتا ہے.حضرت نوح جس کشتی میں بیٹھے تھے وہ پانی بڑھتا رہا اور اونچا ہوتا چلا گیا لیکن وہاں جا کر وہ کشتی ٹھہری جوان کے لئے پناہ گاہ تھی ، جہاں ہر قسم کے رزق کے سامان مہیا تھے اور وہ آخری غلبہ اسی پانی کے ذریعے حضرت نوح کو نصیب ہوا جو ایک قوم کو غرق کرنے والا اور ایک قوم کو نجات دینے کا باعث بنا.پس یہ وقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کشتی میں ہم اپنی پناہ لیں اور یہ کشتی ایسی ہے جو تمام قوم کو سمیٹے ہوئے ہے.کوئی اس کشتی سے اس وجہ سے باہر نہیں رہ سکتا کہ اس میں جگہ نہیں رہی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے متقیوں کی جگہ ہمیشہ رہتی ہے اور متقیوں کے لئے اللہ تعالیٰ جگہ بناتا ہے اور یہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں بار ہ بتایا گیا ہے کہ متقیوں کے لئے مغفرت اور پناہ گاہ بنانا اللہ کا کام ہے.پس اپنے تقویٰ کی فکر کریں اور قوم کو بچانے کے لئے ان کے لئے دعائیں تو کریں مگر ان کے اعمال سے اپنے اعمال کو متاثر نہ ہونے دیں.یہ وہ بنیادی بات ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار ہا توجہ دلائی ہے.میں اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات میں سے بعض اقتباسات لیتا ہوں.ایسے وقت میں جب مشکلات پڑی ہیں طبعی بات ہے کہ جماعت دعا کے لئے مجھے لکھتی ہے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کو مشکلات نے گھیر لیا ہے وہ جب دعا کے لئے مجھے لکھتے ہیں تو میرے دل کی بعینہ وہی کیفیت ہوتی ہے، اپنے مقام کے لحاظ سے نہیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دل کی کیفیت تھی.حضور اکرم ﷺ کا دل بہت وسیع تھا اور اس کی وسعت کے لحاظ سے، اس کی کیفیت کے لحاظ سے، کسی غلام کا دل بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ویسا دل پیدا کرنے کی کوشش ضرور کر سکتا ہے اور اسی دل سے وہ وسعتیں سیکھ سکتا ہے جن وسعتوں میں پناہ چاہنے والے پناہ مانگتے ہیں.پس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس

Page 880

خطبات طاہر جلد 16 اقتباس کو پڑھتا ہوں.فرماتے ہیں: 874 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتا ہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کرلوں کہ یہ خدمت دین کا سزاوار ہے اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے لئے، خدا کے رسول کے لئے ، خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے.ایسے شخص کو جو در دوالم پہنچے وہ در حقیقت مجھے پہنچتا ہے.“ پس یہ امر واقعہ ہے کہ بار ہا دعاؤں میں میں نے جب بھی دل کو ٹول کر دیکھا تو وہ لوگ جو خدمت دین میں پیش پیش تھے انہوں نے ہمیشہ میرے دل پہ ہجوم کیا ہے.وہ لوگ جو خدمت دین میں پیش پیش رہتے ہیں وہ سب سے زیادہ میری دعاؤں کے مستحق بنتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کی طرف میں نے توجہ سے غور اس تحریر کو پڑھنے کے بعد کیا.یہ تحریر پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں اپنی حالت پر بھی تو غور کر کے دیکھوں.پس تہجد کی نماز میں یا دوسری دعاؤں میں جب بھی غیر معمولی دل میں تحریک پیدا ہوئی تو اس عبارت نے مجھے سمجھایا کہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ دین میں آگے آگے ہیں.یہ خدمت دین کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ یہ خدمت خلق میں بھی مصروف رہنے والے ہیں.پس الحمد للہ کہ اس پہلو سے میں نے بلاتر ڈواپنے دل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کے مشابہ پایا اگر چہ مرتبے میں بہت کم تھا.فرماتے ہیں: ”ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیت باندھ لیں.جس طرز اور جس رنگ کی خدمت جس سے بن پڑے کرے.(یہ فرمانے کے بعد آپ فرماتے ہیں) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی قدرو منزلت ہے جو دین کا خادم اور نافع الناس ہے ورنہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کتوں اور بھیڑوں کی موت مر جائیں.(ملفوظات جلداول صفحہ 216،215) پس الحمد للہ کہ جماعت احمدیہ میں بکثرت ایسے لوگ پیدا ہور ہے ہیں جن کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت کھینچ رہی ہے اور حیرت ہوتی ہے ان کی تعداد کو دیکھ کر وہ لاکھوں تک پہنچ چکے ہیں.کسی زمانے میں سینکڑوں تھے اور دنیا کی کوئی جماعت ایسی نہیں رہی جہاں اس قسم کے خدمت

Page 881

خطبات طاہر جلد 16 875 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997 ء دین کرنے والے آگے نہ آگئے ہوں جو اپنی دنیا کے کاروبار کو پیچھے رکھتے ہیں اور خدمت دین کو اولیت دیتے ہیں.پس یہ ایک بہت ہی مبارک دور ہے.اس دور میں اگر ہم اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ اور بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا اور یہ پانی جو ہماری نجات کا پانی ہوگا اور اونچا ہوتا چلا جائے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے.“ ان الفاظ کو پڑھ کر میرے دل نے تشکر کے آنسو بہائے کہ اللہ کی کیسی شان ہے کہ وہ مخلص وفادار جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو عطا فرمائی تھی وہ آج بھی آپ کی غلامی میں مجھے عطا فرمائی ہے اور تعداد اور کثرت کے لحاظ سے وہ بے شمار ہے، ہر جگہ پھیلتے چلے جارہے ہیں.فرماتے ہیں: میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں.(اب دیکھیں اس میں ایک ذرہ بھی مبالغہ نہیں کہ آج بھی بعینہ اسی طرح ہو رہا ہے.جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں.66 امر واقعہ یہ ہے کہ بعض دفعہ میرے بلانے پر اس تیزی سے آگے بڑھتے ہیں کہ مجھے تعجب ہوتا ہے اور قربانیاں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتا ہوں کہ میں نے تو اتنا نہیں کہا تھا یہ تو میرے کہنے سے بھی آگے بڑھ کر اپنی جان، مال، عزت سب کچھ اپنی ہتھیلیوں میں ڈال کر میرے لئے لے آئے ہیں.اس لئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا غلام ہوں، اس لئے کہ یہ مقدر تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت تقویٰ اور دین کے لئے اور دنیا کے لئے اپنی قربانیوں میں جو خالصہ اللہ ہوں گی ترقی کرتی چلی جائے گی.آج ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور آج کی عالمگیر جماعت اس بات پر گواہ کھڑی ہے کہ جو برکتوں کا وعدہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا جس تقویٰ کے وعدے

Page 882

خطبات طاہر جلد 16 876 خطبہ جمعہ 28 نومبر 1997 ء اللہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا کئے تھے وہ تمام تر آج بھی بڑی شان کے ساتھ پورے ہو رہے ہیں پہلے سے بڑھ کر اپنی تعداد اور کمیت کے لحاظ سے، مگر دلوں کا حال اللہ جانتا ہے.وہی جانتا ہے کہ آج کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے غلاموں کا اپنے معیار کے لحاظ سے مقابلہ کر سکتے ہیں گویا اللہ کو علم ہے اور وہی جزاء دینے والا ہے ہمیں اس بحث میں ، اس مقابلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں.فرماتے ہیں: میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے.میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے تو تعمیل کے لئے تیار.حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہوسکتی جب تک اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو.( ملفوظات جلد اول صفحہ: 224،223) یہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے جس کا میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے اور اپنی توفیق کے مطابق ہمیشہ شکر ادا کرتا رہتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس اس تعلق میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں جماعت کے ولی اللہ اور خدا کی معیت میں چلنے والے کا ذکر ملتا ہے.یہ جو تقویٰ کا مقام ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ بڑھتا ہے اور بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے.ایک انسان جو تقویٰ سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے تقویٰ اس کا زادراہ بن جاتا ہے.تقویٰ وہ سواری بن جاتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ آگے کا سفر کرتا ہے.تقویٰ وہ اڑن کھٹولا بن جاتا ہے جو اسے لے کر اوپر کی طرف ، بلندیوں کی طرف، رفعت اختیار کرتا ہے.گویا تقویٰ ایک عجیب چیز ہے کہ جڑ بھی ہے اور آخری مقام بھی ہے.یہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ہماری حفاظت کرتا ہے اور تقویٰ اپنے آگے بڑھنے سے نئے نئے رنگ خود سیکھتا ہے جن کی طرف پہلے ہماری توجہ نہیں ہوتی.پہلی حالت میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تقویٰ کے تقاضے پورے کر دئے پھر تقویٰ اور اونچا ہو جاتا ہے تو دکھاتا ہے کہ نچلی حالت میں تم تقاضے پورے نہیں کر رہے تھے ، اب کر رہے ہو اور جب یہ سفر آگے بڑھتا ہے تو جب انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اب میں تقاضے پورے کر رہا ہوں اس کو اوپر سے دیکھ کر انسان کہتا ہے نہیں نہیں، یہ خیال تھا کہ میں تقاضے پورے کر رہا ہوں اب میں تقاضے پورے کر رہا ہوں.پس یہ سفر اور یہ نسبت ہمیشہ قائم

Page 883

خطبات طاہر جلد 16 877 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء رہتی ہے اور ہمیشہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے.اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس ہے: غرض یہ قومی جو انسان کو دئے گئے ہیں اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہوسکتا ہے.“ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے کہاں ولی بننا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس ان لوگوں کے لئے خصوصیت سے اہمیت رکھتا ہے جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں جی ہم نے کون ساولی بننا ہے.کئی دفعہ ان کو چھوٹی بات پر ٹو کو کوئی جھوٹ بول رہے ہوں، کوئی فضول بات کر رہے ہوں تو کہتے ہیں جاؤ جاؤ ہم نے کون سا ولی بنا ہے.گو یا ولایت ان کی پہنچ سے باہر ہے اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ متقی ہوتے تو ولایت ان کی پہنچ سے باہر نہ ہوتی.وہ عملاً یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم کون سے متقی ہیں، ہم کون سے خدا کا خوف رکھنے والے ہیں کہ ہمارے لئے ولایت کی منزل مقدر ہو، یہ ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ وہ اہم مضمون ہے جس کو جماعت کو سمجھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرمارہے ہیں: غرض یہ قومی جو انسان کو دئے گئے ہیں اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہوسکتا ہے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس امت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق اور وفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قومی سے محروم نہ سمجھے.“ یہ جو فرمایا کہ بڑے لوگ آتے ہیں جو بڑی قوت کے ساتھ ہر قسم کی صلاحیتیں لئے ہوئے آتے ہیں نور اور صدق اور وفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ جب انسان ایک صداقت قبول کرے تو بہت حد تک آنے والا صدق اور وفا سے مزین ہوا کرتا ہے، بہت حد تک آنے والے نے چونکہ ایک غیر معمولی قربانی پیش کی ہوتی ہے سارے معاشرے کو اپنے خلاف کیا ہوتا ہے اس لئے اس وقت اس کے صدق میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اور وہ وقت ہوتا ہے کہ اس کے قومی کو مزید روحانی ترقی مل جائے.مگر وہ ایسی جماعت میں آ جاتا ہے جہاں وہ یہ باتیں سنتا ہے کہ ہم نے

Page 884

خطبات طاہر جلد 16 878 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997 ء کون سے ولی بننا ہے تو وہ گرم لوہا ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ ان پاک لوگوں میں جنہوں نے جماعت کو قبول کیا مزید ترقی کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی.وہ اسی طرح اسی حال پر منجمد ہو جاتے ہیں جس حال میں وہ باقی جماعت کو اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں.اگر وہ اعلیٰ اقدار سے محروم ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں اگر ہم بھی محروم رہیں تو ہمیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا.اکثر خرابی نئے آنے والوں کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے اور نئے آنے والوں کے لئے تقویٰ کا ماحول مہیا نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.پس فرمایا: اُمت میں لوگ آتے ہیں جو نو راور صدق اور وفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قومی سے محروم نہ سمجھے.کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے جس سے سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا.خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا.اس لئے تم کو چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں.رکوع، قیام، قعدہ ( یعنی التحیات کی شکل میں جو بیٹھتے ہیں.) سجدہ وغیرہ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے.فجر ، ظہر ، عصر ،مغرب اور عشاء اور ان پر ترقی کر کے اشراق پر تہجد کی نمازیں ہیں یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه 233 234 ) اب دیکھیں تقویٰ کی بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تان نمازوں پر توڑی ہے.یہ آپ جانتے تھے کہ تقویٰ کی اعلیٰ حالت کا نام بھی نماز ہے اور تقویٰ کو نماز سے الگ کیا جاہی نہیں سکتا.یہ خوش فہمی کہ ہم متقی ہیں جبکہ ہم اپنی نمازوں سے غافل ہیں محض ایک غلط فہمی ہے.خوش فہمی بھی ایسی جو بعض دفعہ ہلاکت کا موجب بن جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے ساتھ تقویٰ کو ملا کر فرماتے ہیں: ور حقیقی راحت اور لذت کا مدار تقویٰ پر ہے.“

Page 885

خطبات طاہر جلد 16 879 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997 ء یادرکھو کچی لذت تقویٰ کے بغیر حاصل ہو ہی نہیں سکتی اور نماز میں بھی سب سے بڑا مسئلہ حقیقی لذت کا مسئلہ ہے.بہت سے لوگ نماز پڑھنے کی کوشش ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں کیونکہ انہیں نماز میں حقیقی لذت محسوس نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حقیقی لذت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور اس خوشی کو دنیا کی خوشیوں سے ملا کر ان کا موازنہ بھی فرماتے ہیں.د و متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں بھی پاسکتا ہے.“ اب یہ ایسا حقیقی امر ہے کہ جن لوگوں کو ایسا تقویٰ نصیب نہ ہو وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک جھونپڑی میں وہ اپنے دل کی مراد پاسکتے ہیں.دو متقی سچی خوش حالی ایک جھونپڑی میں بھی پاسکتا ہے جو دنیا دار اور حرص و آز کے پرستار کور فیع الشان قصر میں بھی نہیں مل سکتی.یہ ایک بالکل حقیقت ہے کہ اولیاء اللہ کی تاریخ اس بات کی گواہ کھڑی ہے ، انبیاء کی تاریخ اس بات کی گواہ کھڑی ہے.وہ اور ان کے ماننے والے جنہوں نے خود محلات کو چھوڑ دیا اور جھونپڑیوں میں آبسے اگر جھونپڑیوں میں ان کی دل کی راحت نہ ہوتی تو وہ اپنے محلات کو ٹھوکر کیوں مارتے.بڑی بڑی جائیدادیں ترک کر دیں، بڑے بڑے مکانات ویران کر دئے اس لئے کہ وہ ان لوگوں سے آباد تھے جو خود ویرانی کا مظہر ہیں.ان کے ایسے رشتے دار، ان کے معاشرے کے دوسرے بااثر لوگ جو ویرانی کا مظہر تھے ان سے وہ گھر آبادر ہے لیکن انہوں نے ان گھروں کو ترک کر دیا اور جھونپڑیوں کو اپنا لیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قول اگر تاریخ پر آپ گہری نظر ڈالیں تو لازماً سچا ثابت ہوگا کہ ابتدائی مقابلے کے وقت یا ابتدائی موازنے کے وقت ایک نیک انسان جو خدا کا تقویٰ دل میں رکھتا ہے اس کی اندرونی حقیقت یہ ہے کہ وہ خدا کے ذکر میں آرام پاتا ہے خواہ وہ ذکر جھونپڑوں میں نصیب ہو.اگر محلات میں نہیں ملتا تو ان محلات کو چھوڑ دے گا.اگر جھونپڑیوں میں ملتا ہے تو جھونپڑیوں میں اپنی پناہ ڈھونڈے گا اور ہمیشہ اسے اس جھونپڑی میں لذت محسوس ہوگی جو خدا کے ذکر سے آباد ہو اور اس کی راہ میں کوئی روک پیدا کرنے والا نہ ہو.جو دنیا دار حرص و آز کے پرستار کو رفیع الشان قصر میں بھی نہیں مل

Page 886

خطبات طاہر جلد 16 880 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء سکتی.جس قدر د نیا زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ سامنے آجاتی ہیں.“ اب یہ بھی ایک ٹھوس ، لازمی، ہمیشہ رہنے والی حقیقت ہے کہ دنیا کے نتیجے میں دائگی امن نصیب ہو ہی نہیں سکتا.دل کا چین ایک ایسی آگ کے لئے جگہ بناتا ہے اور دل سے رخصت ہو جاتا ہے جو هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ ( 3 : 31) کی ایک جہنم بن جاتی ہے.جتنامال بڑھتا چلا جائے اس کی فکریں بڑھتی چلی جاتی ہیں اس کی حفاظت کے سامان کے تقاضے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور انسان کو سمجھ نہیں آتی کہ اس مال سے میں لذت کیسے حاصل کروں.خرچ کرتا ہے تو غلط راہوں پر کیونکہ اگر غلط راہوں پر خرچ کرنے کے نقصان وہ دیکھ رہا ہوتا تو غلط راہوں سے اس مال کو کما تا بھی نہ.پس وہ را ہیں جو انسان کو ، ایک متقی کو غلط دکھائی دیتی ہیں وہ اس کو غلط دکھائی نہیں دیتیں.پس جن راہوں سے وہ مال آتا ہے انہیں راہوں پر خرچ کیا جاتا ہے یعنی اپنی انا کی خاطر، اپنی بڑائی کی خاطر اپنے دکھاوے کی خاطر اور اپنے لئے جاہ و عزت خریدنے کی خاطر.جب بھی ایسا ہوا سے تسکین نہیں ملتی اور دل میں اور طلب پیدا ہو جاتی ہے پھر بھی تسکین نہیں ملتی.لوگ بھاگے بھاگے پھرتے ہیں کسی طرح سکون قلب میسر آئے لیکن بڑے سے بڑے مقامات پر پہنچ جائیں سکون قلب سے عاری رہتے ہیں.بعض بڑے بڑے مالدار لوگوں نے خود کشیاں کرلیں اور ان کے واقعات یہاں آئے دن ٹیلی ویژن کے ذریعے اور اخبارات کے ذریعے منظر عام پر لائے جاتے ہیں.دنیا کی ہر دولت انہیں نصیب تھی.بعض ایسی شخصیتیں بھی تھیں جن کو دولت کے علاوہ بنی نوع انسان کی کشش کا مرکز بنے کی سعادت اگر کہا جائے تو سعادت بھی نصیب تھی لیکن جب ان کے حالات شائع ہوتے ہیں تو آدمی یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ ان کے سینے میں ایک آگ جل رہی تھی جو موت کے آخری لمحے تک بھڑکتی رہی اور آخری الفاظ جو انہوں نے پیچھے چھوڑے وہ یہ تھے کہ لوگ سمجھتے ہیں ہم خوش نصیب تھے اب جبکہ ہم اپنی جان لے رہے ہیں یا بعض دفعہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی جان خود لی ، بعض دفعہ کسی نے زہر دیا، بعض کو کسی بیماری نے گھیر لیا تو ان تینوں صورتوں میں وہ یہ اقرار کرتے جاتے ہیں کہ دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم بڑے امن میں ہیں مگر اب جبکہ رخصت کا وقت آیا ہے ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ ایک آگ کے سوا ہم نے کچھ نہیں پایا جو سرد ہونا جانتی ہی نہیں.ہم اپنے دل کی خواہش کی تسکین کے لئے ہر طرف دوڑے ہیں مگر یہ بد بخت آگ ایسی ہے جو سرد ہونا نہیں جانتی.

Page 887

خطبات طاہر جلد 16 881 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قول سو فیصد درست ہے.جس قدر دنیا زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ سامنے آ جاتی ہیں.پس یاد رکھو حقیقی راحت اور لذت دنیا دار کے حصہ میں نہیں آئی.یہ مت سمجھو کہ مال کی کثرت ، عمدہ عمدہ لباس اور کھانے کسی خوشی کا باعث ہو سکتے ہیں.ہرگز نہیں ، بلکہ اس کا مدار ہی تقویٰ پر ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ: 280) اب اپنی نعمتوں پر غور کر کے دیکھیں جو آپ کو نصیب ہیں.اچھے کپڑے، اچھے کھانے یہ اللہ کے فضل کے سوا آپ کو تسکین نہیں عطا کر سکتے.ایک بیمار شخص جس کو معدے کا کینسر ہے اس کے سامنے آپ ہزار کھانے پیش کریں وہ جھوٹی نظر سے بھی نہیں ان کی طرف دیکھے گا بلکہ اس کے لئے وہ تکلیف میں اضافہ کا موجب بنیں گے.ایک آدمی جو لباس پہن ہی نہیں سکتا، جو فالج کا مریض ہے، جو کبڑا ہو چکا ہے بیماریوں کی وجہ سے، اس کو اچھا لباس کیا تسکین دے گا.پس لباس بھی تسکین اسی وقت عطا کرتا ہے جب خدا ایک تسکین عطا کرنا چاہتا ہے.کھانا بھی اسی وقت تسکین عطا کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ یہ تسکین عطا کرنا چاہے اور متقیوں کے ساتھ خدا کا یہ سلوک ہے.بعض متقی ایک سوکھی روٹی میں بھی وہ لذت پاتے ہیں جو امیر اچھے سے اچھے کھانے میں لذت نہیں پاتا اور بھوک کے وقت وہ روٹی کو اس طرح شکر ادا کرتے کرتے چباتے ہیں کہ ایک شخص جو ان کو چوں سے آگاہ نہیں ہے وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس شخص کو اس سوکھی روٹی میں کیا مزہ آ رہا ہے.مگر بہر حال یہ مضمون میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اس کا جو طبعی فلسفہ ہے وہ بھی آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں.اب میں اسے چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں آگے بڑھتا ہوں.فرمایا: وو در حقیقت متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہوتا ہے.جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مقرب بارگاہ الہی ہیں.“ اگر کسی انسان کو احساس ہو کہ کوئی بڑا آدمی اس کا دوست ہے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنے والا ہے تو دنیا کے کسی بہت بڑے آدمی کا تصور باندھیں جو آپ کا دوست ہو اور آپ کی ضرورتوں کا خیال رکھنے والا ہوتو دیکھیں دل میں کتنا یقین اور اعتماد ہوگا کہ ہمیں کون ہاتھ لگا سکتا ہے، ہم فلاں

Page 888

خطبات طاہر جلد 16 882 خطبہ جمعہ 28 نومبر 1997ء بڑے آدمی کے چہیتے ہیں.مگر زمانے کے ردو بدل اس بڑے آدمی کو بھی آپ سے چھین کے لے جاتے ہیں پھر اللہ اگر آپ کا ولی ہو، آپ کو یقین ہو کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور واقعہ یقین ہو محض خوش فہمی نہ ہو تو حقیقت میں یہی تقویٰ کا نشان ہے اور اس کے بعد دنیا کی کوئی حالت بھی ایسے شخص کو مغلوب نہیں کر سکتی.اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہوتا ہے.جھوٹے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ہم مقرب بارگاہ الہی ہیں اور پھر متقی نہیں.( یہ ہو ہی نہیں سکتا.جو لوگ متقی نہیں ہیں وہ مقرب بارگاہ الہی بھی نہیں ہوا کرتے.متقی نہیں ہیں) بلکہ فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں (وہ کہتے یہ ہیں کہ ہم متقی ہیں، ہم مقرب بارگاہ الہی ہیں اور ایک ظلم اور غضب کرتے ہیں کہ جبکہ ولایت اور قرب الہی کے درجے کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں.ان کا یہ دعویٰ کہ وہ باخدا لوگ ہیں یہ ایک بہت بڑا غضب ہے اور بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ متقی ہونے کی شرط لگادی ہے." اللہ اسی کے ساتھ ہے جو متقی ہے.جو متقی نہیں ہے وہ کتنے بڑے دعوے کرے وہ جھوٹا ہے کیونکہ خدا اگر ساتھ نہیں تو ایسا شخص لا زما تقویٰ سے بھی عاری ہے.پھر ایک اور شرط لگاتا ہے یا یہ کہو متقیوں کا ایک نشان بتاتا ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا الحل: 129) خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں.“ ( پہلی بات ولایت کی ہے یعنی اس کو عرف عام میں ولی اللہ کہتے ہیں.اس سے اگلا مقام اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقوا کا مقام ہے.خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو تقی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے.“ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت دعوے سے نہیں ملتا بلکہ ہر شخص جو خدا تعالیٰ کی معیت واقعۂ رکھتا ہے خدا اس کے ساتھ دکھائی دیتا ہے.یہ ناممکن ہے کہ اسے کسی مدد کی ضرورت ہو اور آسمان سے اس کی خاطر وہ مدد نہ اترے.ہمیشہ ہر مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات آسان کرنے کے لئے گویا اس کی پشت پہ ، پیچھے کھڑا ہے، ہر ضرورت کے وقت اس کی پشت پناہی کرتا ہے.فرمایا یہ اس سے بھی بڑا

Page 889

خطبات طاہر جلد 16 مقام ہے جسے ولایت کہا جاتا ہے.883 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء ”خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے.پہلا دروازہ ولایت کا ویسے بند ہوا اور اب دوسرا دروازہ معیت اور نصرت الہی کا اس طرح پر بند ہوا.“ بتائیں کیسے بند ہوا یہ بات ہے جو ٹھہر کر سمجھنے والی ہے.پہلا دروازہ اُس طرح بند ہوا اور و, دوسرا دروازہ اس طرح بند ہوا.پہلا دروازہ فسق و فجور نے بند کر دیا کیونکہ ان کا دعویٰ جھوٹا نکلا.ولایت اور فسق و فجور اکٹھے نہیں چلا کرتے اور دوسرا دعوی اس طرح بند ہو گیا کہ جب بھی ان کو مشکلات پڑتی ہیں تو ان مشکلات میں چھوڑ دئے جاتے ہیں.ان کا کوئی آسمان سے مددگار نہیں اترا کرتا ، وہ اپنی بلاؤں کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں تو ان کے لئے ولایت کا دروازہ بھی بند ہوا اور معیت کا دروازہ بھی بند ہوا.دوسرا دروازہ معیت اور نصرت الہی کا اس طرح پر بند ہوا.یا درکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت کبھی بھی ناپاکوں اور فاسقوں کو نہیں مل سکتی.اس کا انحصار تقویٰ ہی پر ہے.خدا کی اعانت متقی ہی کے لئے ہے.پھر ایک اور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور حاجات مختلفہ رکھتا ہے.ان کے حل اور روا ہونے کے لئے بھی تقوی ہی کو اصول قرار دیا ہے معاش کی تنگی اور دوسری تنکیوں سے راہ نجات تقومی ہی ہے.“ اب ایک دفعہ تو فرمایا ہے کہ انسان سوکھی روٹی میں بھی چین پاتا ہے اور جھونپڑی میں زیادہ امن محسوس کرتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک مومن کو دنیا کی زندگی میں نعمتیں میسر نہیں آیا کرتیں.جب وہ خدا کی خاطر نعمتیں چھوڑ دیتا ہے جب نعمتیں اس کے پیچھے آتی ہیں.یہ وہ مرکزی نکتہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اب سمجھا رہے ہیں.فرمایا: معاشی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقومی ہی ہے“.فرماياوَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 443) خدا متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مخرج پیدا کر دیتا ہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم

Page 890

خطبات طاہر جلد 16 884 خطبہ جمعہ 28 /نومبر 1997ء پہنچا دیتا ہے.اس کو ایسے طور پر رزق دیتا ہے کہ اس کو پتا بھی نہ لگے.“ (احکام 24 /مارچ 1901ء صفحہ: 3 ) یعنی حضرت مریم کو جیسے مادی رزق بھی دیا جاتا تھا اور حضرت زکریا تک کو پتا نہ تھا کہ کیسے آتا ہے.اس طرح جو خدا تعالیٰ کا تقویٰ رکھنے والا خدا کی خاطر نا پاک رزق سے منہ موڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بعض ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب وہ اپنا جو کچھ بھی ماحصل ہے اسے خدا کی راہ میں صرف کر دیتا ہے تو یاد رکھو اس کو خدا تعالیٰ چھوڑ نہیں کرتا.اس کے لئے دو نعمتیں ہیں ایک یہ کہ ہر مصیبت سے مخلصی کے لئے ایک راہ کھولی جاتی ہے اور دوسرا اس کی رزق کی تنگی دور کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایسی ایسی راہوں سے اس کو رزق عطا فرماتا ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا.ایسے لوگ بکثرت میں نے جماعت احمدیہ میں دیکھے ہیں.اب تو ان کا شمار میرے لئے ممکن نہیں رہا جنہوں نے تقویٰ کی راہ حصول رزق کے لئے اختیار کی اور خدا کی خاطر معمولی مادی قربانیاں کیں جو انسان کی نظر میں معمولی تھیں مگر اللہ کی نظر میں نہیں تھیں اور خدا تعالیٰ ان کو ایسی ایسی نئی نئی راہوں سے عطا کرتا چلا جا رہا ہے کہ ان کو سمجھ نہیں آتی کہ ان کو سنبھالیں کیسے اور کیوں ان پر یہ نعمتیں نازل ہو رہی ہیں.یہ آیت ہے جوان کی ترقیات کا راز ہمیں بتارہی ہے کہ ان لوگوں نے خدا کی خاطر ضرور کوئی ایسی اندرونی یا ظاہری قربانیاں پیش کی تھیں کہ جب دنیا کی نعمتوں کوٹھکرا دیا تھا اور ان کے مقابل پر اللہ کی راہ اختیار کی تھی ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ ضرور ایسے سامان مہیا فرماتا ہے.اب انہیں کیسے پتا چلا کہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت کے طور پر یہ سامان ہیں، دنیا داروں کی طرح یہ ایک ابتلاء ہی نہیں ہے جو ان کو مزید بدیوں پر مجبور کرتا ہے.اس کا علم بالکل ظاہر وباہر ہے اس میں ذرہ بھی شک نہیں.جو کچھ بھی یہ خدا سے پاتے ہیں اسی کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی لذت خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں ہے.مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ یہ مضمون ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ان پر دنیا کے احسانات اللہ ہی کی طرف سے تھے ورنہ اسی کی راہ میں ان احسانات کو خرچ نہ کرتے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس صراط مستقیم کی توفیق عطا فر مائے جس پر یہ ساری منازل آتی ہیں اور یہ منازل مزید ترقی کرتی چلی جاتی ہیں، اونچا ہوتی چلی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مد کا ہاتھ ہمیں ان مشکل راہوں میں آگے بڑھنے کو آسان کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 891

خطبات طاہر جلد 16 885 خطبہ جمعہ 5 /دسمبر 1997ء آئندہ جماعت کے پھیلنے کا ہماری تربیت کی اہلیت سے تعلق ہے (خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کے آغاز میں میں نے کچھ پاکستان کے حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا تھا اور کچھ اندازے پیش کئے تھے جو اندازے دراصل ایک ایمانی کیفیت پر مبنی ہیں مگر ان کے پیش کرنے میں ایک لحاظ سے غلطی ہوئی.میں نے اندازہ پیش کیا تھا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ میرے ایمان کا حصہ ہے کہ پاکستان میں جو فسق و فجور اور فساد کا سیلاب بڑھتا چلا جا رہا ہے، اونچا ہو رہا ہے بالآخر اس نے عدالت عظمیٰ کو بھی ڈبو دینا ہے اور ڈبو رہا ہے.عدالت عظمی کہنا چاہئے یا عدالت علیاء یعنی سپریم کورٹ.اس سلسلے میں میں نے یہ اندازہ پیش کیا تھا کہ ممکن ہے کہ اس سیلاب کے نتیجے میں وہ کانسٹی ٹیوشن ہی بہہ جائے جس کانسٹی ٹیوشن نے ظلم و تعدی کا ایک سلسلہ جاری کیا ہوا ہے.ظاہری لفظوں میں یہ غالباً نہ کہا ہومگر مضمون یہی تھا جس سے بہت سے احمدی یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ اس مرتبہ وہ کانسٹی ٹیوشن جس نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے رکھا ہے وہ پوری طرح اس سیلاب کی نظر ہو جائے گی.یہ اندازہ غلط نکلا اور خدا تعالیٰ کی تقدیر کسی اور طرح ظاہر ہوئی ہے.اس سلسلہ میں چند باتیں جن پر میں اصرار کرنا چاہتا ہوں خواہ آپ اسے سردست پوری ہوتی ہوئی نہ بھی دیکھیں لیکن آئندہ ضرور پوری ہوتی دیکھیں گے وہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں

Page 892

خطبات طاہر جلد 16 886 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء اور موجودہ صورت حال نے جیسے پلٹا کھایا ہے وہ بھی آپ کو بتا تا ہوں.خیال یہ تھا کہ عدالت علیاء یعنی سپریم کورٹ جس آئینی بحران کا شکار ہو چکی ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ آئین جس نے عدالت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے وہ آئین بھی اس دور میں ہم سے رخصت ہو اور نیا آئین بنے جس میں انصاف اور تقویٰ پر بناء ہو.یہ توقع تھی اور اس توقع کی وجہ ملک کی خیر خواہی ہی تھی کیونکہ میں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ اگر یہ آئین جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ اسی طرح رہنے دیا گیا اور کوئی اور تبدیلی کا دور ایسا نہ آیا کہ اس آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دے تو یہ آئین ملک کو برباد کر دے گا اور اگر یہ آئین توڑا گیا تو بہتر ہے ورنہ یہ آئین ملک کو توڑ دے گا.اس لئے آخری بھلائی اور خیر سگالی ملک کی ہے.یہ بات ایسی ہے جس میں کوئی شک نہیں.یا آئین رہے گا ورنہ اس آئین کو ملک کے توڑنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے گی.یہ کیسے اور کب ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے.مگر میرا یہ اندازہ تھا کہ شاید ابھی ارباب حل و عقد کو اتنی ہوش آچکی ہو کہ وہ دیکھ لیں کہ یہ آئین اب ملک کے کسی کام نہیں آسکتا.ردی کا پرزہ ہے جسے پھاڑ دینا ضروری ہے اور اس آئین کے ساتھ اس ظلم کا بھی پھاڑا جانا ضروری تھا جو جماعت احمدیہ سے وابستہ ہے.اس آئین میں جتنی دفعہ بھی تبدیلیوں کی کوشش ہوئی ہے ہر تبدیلی کے وقت انصاف کے اس تقاضے کو بھلا دیا گیا کہ بنیادی طور پر یہ آئین نہ وہ آئین ہے جو قائد اعظم چاہتے تھے، نہ وہ آئین ہے جو انصاف اور تقویٰ کا تقاضا چاہتا ہے اور خصوصاً اس آئین میں بار بار جماعت احمدیہ کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے.یہ وجہ ہے جو میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر یہ قانون یا یہ بنیادی ملک کا قانون جماعتی حقوق کو اسی طرح نظر انداز کرتا رہا اور اس میں مناسب تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو پھر یہ قانون خود اس ملک کو چاٹ جائے گا جس ملک نے ہمارے حقوق چائے ہوئے ہیں.اس میں کسی انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں، کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.اس ملک کے قانون بنانے والوں کا خو داب آئندہ اس میں امتحان ہے کہ وہ ناجائز ، غیر منصفانہ قانون کو ملک پر ٹھونسے رکھیں گے یا اسے تبدیل کریں گے.یہ پہلو جو ہے یہ درستی کے لائق اس لئے ہے کہ احباب نے میرے خطبہ سے کچھ ایسی تو قعات وابستہ کر لی تھیں کہ گویا آئندہ جمعہ سے پہلے پہلے ملک کو ہوش آچکی ہوگی لیکن ان کی بد قسمتی کہئے یا خدا تعالیٰ کی تقدیر کہ کچھ مخفی پہلو تھے جو میری نظر میں نہیں تھے جن کی وجہ سے اب اس معاملے میں کچھ تاخیر ہے.جو مخفی پہلو تھے

Page 893

خطبات طاہر جلد 16 887 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء ان میں سے ایک بات جواب سامنے ابھری ہے وہ یہ ہے کہ جو صدر صاحب پہلے گزرے ہیں وہ خود ایک نامنصف صدر تھے اور جماعت اسلامی سے ان کے گہرے مراسم تھے جو شروع سے چل رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قاضی صاحب ( مراد جماعت اسلامی کے لیڈ رقاضی حسین احمد.مرتب ) بے وجہ اچھلتے رہے ہیں یعنی پہلے میں کچھ ووٹ ہی نہیں تھے ، ملک کی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن شیخیاں ایسی بگھار رہے تھے کہ گویا سارے ملک پر قبضہ کرنے والے ہیں اور اس آئینی بحران سے پہلے ان کے بیانات سے یوں لگ رہا تھا جیسے آئندہ دو سال کے لئے ملک پر صدر کے طور پر ٹھونس دئے جائیں گے یا وزیر اعلیٰ کے طور پر ٹھونس دئے جائیں گے.چنانچہ کراچی میں جو جلسہ ہوا، دوسری جگہ جو انہوں نے بیانات دئے ان سب بیانات میں بچگانہ شوخی پائی جاتی تھی جس کا عقل سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.ایک ایسا جسے قوم بار بار رد کر چکی ہو، بڑے بڑے دعاوی کے باوجود، ٹیلی ویژن کے انتظامات کرنے کے باوجود قوم نے پہلے سے بھی بدتر سلوک کیا ہو اور محض ایک شیخی بگھارنے والے مولوی سے زیادہ اس کو وقعت نہ دی ہو ان کے یہ بڑے اصرار کے ساتھ دعاوی اور اس بحران کے دوران کراچی میں جا کر جلسہ عام میں یہ اعلان کرنا کہ بعید نہیں کہ یہ ملک اب دو سال کے لئے ہمارے سپر د کر دیا جائے.دو سال کی مدت کا تصور کیوں آیا ہے.سوال یہ ہے کہ پانچ یا دس سال بھی تو ہوسکتا تھا.یہ کوئی اندر کھاتے جس کو کہا جاتا ہے ان کا کوئی معاہدہ صدر مملکت سے تھا اور وہ شروع سے ہی جماعت اسلامی کی حمایت کر رہے ہیں اس لئے بعید نہیں تھا کہ وہ اسمبلی کو محروم کر دیتے یعنی Dissolve کر دیتے اور پھر ان کو یہ بہانہ ہاتھ آجاتا کہ وقتی طور پر عبوری طور پر دو سال کے لئے ملک جماعت اسلامی کے سپردکر رہا ہوں اور پھر ان کا خیال یہ تھا کہ جماعت اسلامی جو پر پرزے نکالتی تو اس کے نتیجے میں ہمیشگی کے لئے ان کو ملک پر مسلط کر دیا جاتا لیکن بعید نہیں تھا کہ پر کاٹ دئے جاتے جو جماعت اسلامی نکالتی اور ان کے مسلط ہونے کا سوال ہی کوئی نہیں تھا.اگر صدر صاحب یہ کوشش کرتے تو صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ فوج ان کی حمایت کرتی اور ان کے ذہن میں یہ بات رچی بسی تھی کہ فوج میری حمایت میں ہے.اس بناء پر واقعہ جماعت اسلامی کو مسلط کیا جا سکتا تھا اگر فوج کی پوری پشت پناہی حاصل ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ہے جسے ہم بظاہر ایک اپنے لئے مکروہ فعل دیکھ رہے ہیں کہ وہ انقلاب ابھی نہیں آیا کیونکہ اگر وہ انقلاب ابھی آجاتا اور موجودہ ٹولے کو فوقیت مل جاتی تو یہ اسی

Page 894

خطبات طاہر جلد 16 888 خطبہ جمعہ 5 /دسمبر 1997ء صورت میں ممکن تھا کہ ہماری فوج ان کے ساتھ ہوتی اور اگر فوج صدر صاحب کے ساتھ ہوتی تو لازماً انہوں نے دو سال کے لئے جماعت اسلامی کو مسلط کر دینا تھا.پس جس چیز میں ہم اپنی برائی دیکھ رہے ہیں خدا کی تقدیر کی نگاہ میں وہ بھلائی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کیونکہ یہی تجزیہ جو حالات کا میں پیش کر رہا ہوں پاکستان کے کئی دوسرے دانشوروں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی بلاء سے ملک کو بچالیا ہے مگر کچھ بلائیں ابھی باقی ہیں.وہ جو آئینی بحران ہے وہ تو جاری ہے اور آئندہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے لیکن اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ آئینی بحران اسی طرح جاری ہے اور ابھی حل نہیں ہوا.بہت سے مقدمات جواب جاری ہوئے ہیں بعض لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے.وہ چاہتے تھے کہ سابق چیف جسٹس کو ہٹانے کا یہ اقدام کریں تو اسی اقدام کے تحت آج جو سپریم کورٹ میں بہت سے ججز مسلط ہیں ان کو بھی اسی اقدام کے تابع نکلوا دیا جائے.یہ جھگڑا، پیلڑائیاں، یہ فسق و فجور، یہ فساد آ پس کے یہ الزامات کہ کروڑ روپیہ کھا کر جوں نے اپنے موقف کو بدلا ہے یہ اسی طرح فضا میں اچھل رہے ہیں اور پاکستان کا ایک بھیانک تصور باقی دنیا میں پیش کر رہے ہیں.ان حالات کو مستقل جاری نہیں رہنا.یہ حقیقت ہے اور جاری رہ ہی نہیں سکتے.جس ملک میں اس قسم کا فساد ہو آخر کچھ نہ کچھ اس فساد کے نتیجے میں انقلاب آنا چاہئے.وہ انقلاب اگر قانون یعنی موجودہ آئین کو بہا نہ لے گیا تو پھر وہی بات ہوگی کہ آئین اس ملک کو بہالے جائے گا.یہ فکر ہے جس کے لئے میں جماعت کو بھی متوجہ کرتا ہوں کہ دعاؤں میں اس ملک کو یاد رکھیں.اکثر احمدیوں کا وطن نہیں ہے کیونکہ بھاری اکثریت احمدیوں کی اب دوسرے ملکوں میں پیدا ہو چکی ہے لیکن اگر میرا وطن ہے یا ان کا وطن ہے جن کی کوششوں اور قربانیوں سے دراصل ساری دنیا میں احمدیت پھیل رہی ہے تو پھر تمام دنیا کو اس ملک سے اس قدر ہمدردی ہونی چاہئے کہ اسے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اس ملک کی بھلائی فرمائے اور ملک کی راہیں اور آئین تبدیل ہو لیکن ملک ہاتھ سے نہ جاتا رہے.یہ وہ دعا ہے جس کی طرف میں سمجھتا ہوں کہ توجہ کر نالازم تھا.اور اب میں دعا ہی کے تعلق میں پھر نماز کے مضمون کو شروع کرتا ہوں.مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جماعت کو کس قدر اس مضمون کی ضرورت ہے.ابتداء میں میں نے کہا تھا کہ دو تین خطبوں

Page 895

خطبات طاہر جلد 16 889 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء میں یہ بات ختم کر دوں گا لیکن میں حیران رہ گیا ہوں اس کثرت سے خطوط موصول ہوئے ہیں جو پہلے کبھی شاذ کے طور پر آیا کرتے تھے کہ ہماری نمازوں کے لئے دعا کریں.سینکڑوں سے زیادہ خطوط مل چکے ہیں شاید ہزار تک وہ تعداد پہنچ گئی ہو لیکن ان حالات میں سے جولوگ گزررہے ہیں ، ان تجارب سے جو لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کی تعداد یقیناً بہت زیادہ ہوگی کیونکہ خط لکھنے کی صلاحیت کم لوگوں کو ہوا کرتی ہے اپنے جذبات کو کاغذ پر اتارنے کی طاقت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے لیکن جو خطوط آرہے ہیں ان سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بہت عرصے تک میری کو تا ہی تھی جو میں نے اس مضمون کو اس شدت کے ساتھ نہیں اٹھایا.سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جو لکھ رہے ہیں کہ ہماری نماز کے متعلق کا یا پلٹ گئی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری ساری عمر کی نمازیں ضائع گئی ہیں اب جو مڑ کے دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یونہی نماز کی تصویر کھینچ رہے تھے جس میں جان کوئی نہیں تھی اور وہ لوگ جو نماز کے قریب بھی نہیں جاتے تھے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ سینکڑوں ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر یہ تسلیم کیا ہے کہ ہم نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے لیکن ہمارے خاندان نے ایسے سامان پیدا کر دئے ہیں کہ ہمیں آپ کی وہ ویڈیودیکھنے اور سننے کی توفیق ملی اور اسی وقت ایک دم دل پلٹ گیا، اور اب نمازوں کی طرف توجہ ہے.پس یہ وہ بڑی وقت کی ضرورت تھی جو اس جماعت کے پھیلتے ہوئے دور میں انتہائی اہمیت رکھتی تھی.جماعت جس تیزی سے پھیل رہی ہے سب دنیا میں وہ معاملہ اب ملینز ( Millions) تک جا پہنچا ہے اور بعید نہیں کہ وہ پچاس لاکھ تک اس سال پہنچ جائے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے.مگر موجودہ رفتار پچھلے سال سے بڑھ کر ضرور ہے.اگر چہ اتنی زیادہ نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ پچاس لاکھ کا ٹارگٹ ہم عبور کر لیں گے.یہ اللہ کی شان ہے، اللہ حکمتوں والا ہے وہ جانتا ہے کہ کس حد تک ہم تربیت کے اہل ہوئے ہیں اور آئندہ جماعت کے پھیلنے کا ہماری تربیت کی اہلیت سے تعلق ہے.اگر ہم زیادہ کو سنبھالنے کے اہل ہوئے تو ہمیشہ میری یہی دعا ہے کہ ہماری اہلیت سے زیادہ ہمیں نہ دینا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعا ضروری ہے کہ ہماری اہلیت بڑھا دے.تو اب سمجھ رہا ہوں کہ نماز کے خطبات کے نتیجے میں جو ایک عالمی انقلاب برپا ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے وہ اہلیت بڑھانے کا سامان کیا ہے.اگر اسی طرح ہم اپنی نمازوں کی طرف متوجہ رہے اور تھکے نہ تو بلا شبہ تمام عالم کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کی توفیق

Page 896

خطبات طاہر جلد 16 890 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء ہمیں عطا ہوگی اور تمام نئے آنے والوں کی صحیح تربیت کی توفیق عطا ہوگی.پس اس پہلو سے میں شاید چند خطبے نماز ہی پر دوں کیونکہ جتنا پھل ان خطبوں کو لگا ہے اس سے پہلے شاید کبھی کسی دور کے خطبوں کو ایسا پھل نصیب نہیں ہوا.جن لوگوں کی روحانی کیفیتیں بدل جائیں، جب دل پلٹ جائیں، جب نمازوں کے لئے لوگ الٹ الٹ کر سجدوں میں پڑیں تو اس سے زیادہ اور کیا حاصل ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہو رہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزہ آنا چاہئے وہ مزہ نہیں آتا.دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو.جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ اسے تلخ یا پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو عبادت الہی میں حظ اور لذت نہیں پاتے ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہئے.“ یہ وہ احساس ہے جواب بیدار ہوا ہے.پہلے لوگ بیمار تو تھے مگر بیماری کا فکر نہیں کرتے تھے ، وہ فکر نہیں جاگا تھا.اب بار بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نمازوں کے متعلق اقتباسات پیش کرنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فکر جاگ اٹھا ہے اور بیمار اپنے آپ کو بیمار سمجھنے لگا ہے.اگر کوئی بیمارا اپنے آپ کو صحت مند سمجھ رہا ہو تو وہ بیماری اس کے لئے جان لیوا بھی ثابت ہو تو اس کو پتا نہیں چلتا، اندر ہی اندر سے کھاتی چلی جاتی ہے لیکن بیماری کا احساس پیدا ہونا کہ ہم بیمار ہیں یہی صحت کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہے.دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ صحت کی طرف بڑھنے کے لئے انسان قدم اٹھاتا تو ہے مگر صحت نصیب نہیں ہوتی.بسا اوقات اچھا معالج میسر نہیں آتا بعض دفعہ اچھے معالج کو صحیح علاج نہیں سوجھتا، بعض دفعہ حالات کے تقاضے، غربت اور دوسرے گھر یلو مسائل راہ میں حائل ہو جاتے ہیں.ملک ملک کا فرق ہے.کسی ملک میں ترقی یافتہ علاج نصیب ہیں ،کسی ملک میں نہیں نصیب.غرضیکہ بہت سے ایسے عوامل ہیں جو صحت کا احساس بیدار ہونے کے باوجود ایک مریض کو

Page 897

خطبات طاہر جلد 16 891 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء صحت دینے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں مگر نظام صحت جس کا روحانیت سے تعلق ہے اس میں ایک بڑی خوشخبری یہ ہے کہ احساس کے بیدار ہونے کا نام ہی صحت ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر ہم نماز کے لئے کوشش کریں اور مسلسل کوشش کریں کہ لطف آئے اور مزہ آ جائے اور ہمیں پوری طرح روحانی صحت نصیب ہو اور ایسا نہ ہو تو کیا یہ ساری نمازیں ضائع گئیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہر گز نہیں.یہ ایک جہاد ہے تم یہ جہاد کرتے رہو.بہت سے ایسے جہاد کرنے والے ہیں جن کا جہاد بظاہر بے کار جاتا ہے اور وہ فتح کا منہ نہیں دیکھ سکتے لیکن لڑتے چلے جاتے ہیں.آپ نے فرمایا کیا تم ان کی زندگی کو بریکار سمجھو گے.کیا وہ ایک کامیاب جہاد میں حصہ لینے والے نہیں ہیں.پس تم کوشش کرتے رہو اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم اس کوشش سے ہارو نہیں اور ہمتیں تو ڑ کر نہ بیٹھ رہو تو جس وقت بھی تم پر موت آئے گی تم ایک نمازی لکھے جاؤ گے کیونکہ اللہ کی راہ میں تم نے جہاد سے روگردانی نہیں کی.جو مصیبتیں ٹوٹیں ، گھر والوں کے بعض دفعہ طعنے بھی سننے پڑتے ہیں کہ اس پاگل کو کیا ہو گیا ہے.بعض دفعہ خاوند بیویوں پر ناراض ہوتے ہیں کہ ہر وقت مصلی لئے بیٹھی ہو.یہ درست ہے کہ ہر وقت مصلی لئے اس وقت نہیں بیٹھنا چاہئے کہ خاوند کے حقوق تلف ہوں مگر بعض بے صبرے بھی ہوتے ہیں جن کو مصلی برا لگتا ہے.تو ایسے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں اور ان کے متعلق بھی مجھ سے خطوں میں ذکر ہوتا رہتا ہے.بعض بچے اپنے ماں باپ کا شکوہ کر رہے ہیں کہ ہم نے نمازیں شروع کی ہیں تو ان کے مزاج بگڑ گئے ہیں.بعض بیویاں اپنے خاوندوں کا ، بعض خاوند اپنی بیویوں کے شکوے کر رہے ہیں تو ایک لگن سی لگ گئی ہے.ایک آگ سی دلوں میں مشتعل ہو گئی ہے کہ خدا ہمیں توفیق دے تو ہم جیسا کہ نمازوں کا حق ہے وہ حق ادا کرنے کی توفیق پائیں.یہ گن ہی دراصل صحت کی نشانی ہے اور کامیابی کا اعلان ہے.اگر یگن جاری رہے اور میری دعا ہے، آپ سب کو بھی میں اس دعا میں اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہوں کہ اب بیگن سمجھنے میں نہ آئے.تو دلوں میں ایک آگ سی لگ گئی ہے کہ ہم اپنے گناہوں کو اس آگ میں بھسم کریں اور خدا کے حضور پاک دل لے کر نمازوں میں حاضر ہوا کریں.یہ دعا کریں کہ اب یہ آگ بجھنے میں نہ آئے یہاں تک کہ گناہ بھسم ہو جائیں اور یہی دعائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار جماعت کو دی ہیں اور

Page 898

خطبات طاہر جلد 16 892 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ہمارا قدم کامیابی کی طرف اٹھ رہا ہے اور اس کامیابی نے دنیا کو کامیاب کرنا ہے.اس کامیابی نے اس دور میں احمدیت کی فتح کا اعلان کرنا ہے.پس نمازوں میں مشغول رہیں اور اس سے مزے اٹھا ئیں خواہ لذت آئے یا نہ آئے اگر نہ آئے تو اپنے آپ کو بیمار سمجھیں اور اس بیماری کے علاج کی طرف متوجہ ہوں.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے جو لذت سے انسان کو محروم کر دیتی ہے.دنیاوی مائدے اور کھانے سے اس کی مماثلت دیتے ہیں.فرماتے ہیں: دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا ہوئی ہیں تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حفظ نہیں پاتا ہے؟.( جتنی بھی چیزیں خدا تعالیٰ نے انسان کو ودیعت فرمائی ہیں ان کے ساتھ ایک لذت وابستہ ہے.کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لئے اس کے منہ میں زبان موجود نہیں.“ یہ زبان خدا نے منہ میں رکھی ہے جس کے اور فوائد کے علاوہ ایک یہ ہے کہ بہت سے مزوں سے زبان کے بغیر انسان لذت یاب نہیں ہو سکتا.باہر ایک انتظام ہے اندر اس انتظام کو قبول کرنے کے لئے ایک انتظام مقرر فرمایا گیا ہے.حالانکہ کھانے میں مزہ نہ ہوتا تو تب بھی انسان نے زندہ رہنے کے لئے کھانا کھانا ہی تھا مگر کھانے پر ویسی محنت نہ کرتا جیسے اب اس کے مزے کی وجہ سے کی جاتی ہے.اکثر لوگ کھانے پر اس حد تک محنت کرتے ہیں، اس کو اچھا بنانے میں کہ زیادہ خرچ مزے پر ہے اور کم خرچ کھانے کے مادے پر یعنی وہ کھانا جس سے انسان زندہ رہ سکتا ہے اس پر اگر پانچ روپے میں کام بن جائے تو پچاس یا سو خرچ کریں گے یعنی زندہ رہنے کی خواہش کے علاوہ مزے کی خواہش ہے.اکثر انسان کو مزے کی خواہش اصل مقصد سے دور بھی لے جایا کرتی ہے اس تجزیہ کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انسانی زندگی پر مختلف صورتوں میں اطلاق فرمایا ہے.یہ بحث میں بعد میں چھیڑوں گا لیکن اس وقت یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں: تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حفظ نہیں پاتا ہے؟، کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لئے اس کے منہ میں زبان موجود نہیں.کیا وہ خوبصورت

Page 899

خطبات طاہر جلد 16 893 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات ، حیوانات ہوں یا انسان حفظ نہیں پاتا؟، کیا دل خوش کن اور سریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے ؟“ اب یہ روز مرہ کے ہمارے تجارب ہیں لیکن کم ہیں جو غور کرتے ہیں کہ ایک خوبصورت نظارے سے زیادہ ہمیں کیا حاصل ہوا ہے لیکن لذت محسوس ہوئی ہے جس نے خوبصورتی کا شعور پیدا کیا ہے جس نے تناسب اور توازن کا شعور پیدا کیا ہے یا وہ شعور جو دل میں پیدا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے حسن کے احساس کی خاطر تھا اور وہی خالق کا حسن ہے جو تخلیق میں جلوہ گر ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا حاصل ہوا.اپنے گھر میں بیٹھے رہیں کوئی تکلیف نہ اٹھائیں اور مصیبت کر کے ، تکلیف اٹھا کر، بوجھ اٹھائے ہوئے بڑے بڑے پہاڑوں پر چڑھائیاں کریں.اوپر جا کر آپ کو کیا ملتا ہے؟.خوبصورت نظارے دیکھتے ہیں مگر اس نظارے نے آپ کے جسم یا بدن کو کیا زائد عطا کیا.کچھ بھی نہیں ،صرف ایک احساس ہے عظمت اور بلندی اور رفعت کا اور وہ احساس اتنا عزیز ہوتا ہے کہ گھر کے سارے آرام انسان اس پر حج دیتا ہے ان کو چھوڑ کر، اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال کر بھی یہ کوشش اور محنت کرتا ہے.یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس لئے بیان فرما رہے ہیں کہ یہ بے مقصد نہیں ہے.ان ساری چیزوں کا انسانی تخلیق کے آخری مرحلے سے تعلق ہے جس میں انسان کو تمام مخلوقات پر ایک فضیلت دی گئی ہے.مگر اگر خدا تعالیٰ یہ بھی فرمائے کہ ہم نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جن چیزوں کی خاطر اسے پیدا نہیں کیا جاتا وہ تو لذت دیں اور عبادت لذت سے محروم رہے.یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے اور ایک ایسی منطقی دلیل ہے جسے تو ڑا نہیں جاسکتا.اگر خدا ہے جیسا کہ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ہر ادنی چیز جس نے انسان کی ترقی میں حصہ لیا ہے اس میں تو خدا لذت رکھ دے لیکن عبادت کولذت سے یکانت محروم کر دے.اس دلیل کی بناء پر پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید امور بیان فرماتے ہیں جن پر غور کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں عبادت کا فلسفہ حقیقت میں سمجھ آسکتا ہے اور لذت کا نہ پانا جو بظاہر عجیب لگتا ہے کہ کیسے نماز میں لذت آئے گی یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا.اگر چہ اس کا کرنا

Page 900

خطبات طاہر جلد 16 894 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء آسان نہیں ہوتا مگر اسے کرنے کے لئے اور آخری نتیجہ حاصل کرنے کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے ذہن اس محنت کی ضرورت کا قائل ضرور ہو جاتا ہے.دل اگر چہ اس محنت پر آمادہ نہ ہو مگر ذہنی صلاحیتیں دل کو مجبور ضرور کر سکتی ہیں کہ اس بات میں حقیقت ہے اس لئے آگے بڑھو اور کوشش کر کے بھی اس اعلیٰ مقام کو حاصل کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں اس میں بھی ایک لذت اور سرور ہے اور یہ لذت اور سرور دنیا کی تمام لذتوں اور تمام حظوظ نفس سے بالاتر اور بلند ہے.“ اب یہ ایک عجیب سا تبصرہ ہے جو دنیا میں اکثر انسانوں کو اپنے تجربے میں درست دکھائی نہیں دیتا.بہت بڑے مخلصین دیکھے ہیں ہم نے ، جو عبادت بجالاتے ہیں اور باقاعدگی سے عبادت بجالاتے ہیں لیکن وہ زور لگا کر عبادت بجالاتے ہیں اور ان کی عبادتیں محض اس وقت تک زندہ رہتی ہیں جب وہ اپنی ضروریات مانگنے پر زور دیتے ہیں.مگر محض عبادت میں لذت ہو یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کے صحابہ میں ایسی مثال کثرت سے ملتی تھی کہ جو لوگ عبادت میں اٹک گئے تھے ان لوگوں سے ہم نے مسجدوں کو آباد دیکھا، مسجد مبارک میں بھی مسجد اقصیٰ میں بھی.ان صحابہ کی یاد آتی ہے تو حیرت ہوتی ہے.اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیوں ان کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے.ایک معمولی قلی اور مزدور اور غریب لوگ جن کو باہر کی دنیا میں کمائی کے لئے وقت قربان کرنا پڑتا تھا اس وقت کو خوشی سے قربان کر کے پانچوں وقت مسجد پہنچا کرتے تھے.کچھ حلوائی تھے، کچھ مٹھائیاں بیچنے والے یا دودھ بیچنے والے، دہی بیچنے والے، مونگ پھلیاں بیچنے والے ایسے غریب غریب لوگ جو دوڑے ہوئے مسجد میں چلے آتے تھے اور ہر دفعہ ان کو دکان پر تالے لگانے پڑتے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو بغیر تالوں کے، چونکہ چھا بڑیوں میں تجارت کرتے تھے، بے تالوں کے اپنی چھا بڑیاں چھوڑ جایا کرتے تھے اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تقویٰ کا معیار بھی اتنا بلند تھا کہ کوئی ان چھابڑیوں کی طرف بری نظر نہیں ڈالتا تھا.مٹھائیوں کی دوکانیں خالی پڑی ہوئی ہیں قلاقند سامنے بھی پڑی ہے مجال ہے جو کوئی شخص اسے

Page 901

خطبات طاہر جلد 16 895 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء اٹھانے کی جرات کرے اور یہ واقعہ ایسا ہے جو میں روزانہ دیکھتا تھا.جب بھی اس بازار سے گزر ہو مثلاً سکول آتے یا جاتے اور نماز کا وقت ہو رہا ہو یا ہو چکا ہو تو وہ بھی ہوئی دوکانیں بغیر کسی دوکاندار کے اسی طرح پڑی رہ جاتی تھیں.پس کوئی وجہ ہے ان کو لاز ما لذت محسوس ہوتی تھی نمازوں میں.اگر لذت محسوس نہ ہوتی تو اپنی دنیا کو تج کر اس طرح قربان کر کے وہ مسجدوں کی طرف نہ دوڑتے.پس یہ وہ لذت ہے جس سے دوبارہ آشنائی ضروری ہے اور اس آشنائی کے لئے محنت کرنی ہوگی اور الحمد للہ کہ وہ محنت شروع ہو چکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ لذت تمام حظوظ نفس سے بالا تر اور بلند ہے.یہ مقام حاصل کرنے میں ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس مقام کی طرف آپ چلنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ بھی ایک بہت بڑا اللہ کا احسان ہے جو ہمیں نصیب ہوا ہے.اتنی فکر ضروری ہے.اس فکر کے بغیر ہم زندہ رہ ہی نہیں سکتے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جس طرح پر ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذت سے محروم ہے.“ اگر لذت سے محروم ہے تو دوڑا پھرے گا.فرماتے ہیں انسان اپنی زوجیت کے تعلقات سے محروم ہو جاتا ہے تو کس طرح وہ ڈاکٹروں کے پاس دوڑا پھرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بعض ایسے بھی ہمارے علم میں ہیں جو زوجیت کے فرائض انجام دینے کے قابل نہ تھے اور انہوں نے خود کشی کر لی.فرمایا کہ اصل مقصد جس کے لئے یہ لذتیں نصیب ہوتی ہیں وہ اور تھا لیکن لذت اپنی ذات میں مقصد بن گئی اور ان سے محرومی کے نتیجے میں انسان دنیا چھان بیٹھتا ہے، ہر جگہ پہنچتا ہے کہ کسی طرح علاج ہو لیکن نماز جس کی لذت سب لذتوں سے بڑھ کر ہے اس کے لئے فکرمند نہیں ہوتا.یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مجھ نہیں آرہی اس لئے کہ آپ ہم سے بہت اونچے ہیں اور بہت اونچائی سے نیچے دیکھنے پر بعض دفعہ نیچے کی باریک باریک حرکتیں سمجھ نہیں آ رہی ہوتیں اگر چہ اس مضمون کا فلسفہ آپ سمجھتے ہیں مگر پھر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں.یہ ہو کیسے سکتا ہے اتنی عظیم لذت اور دنیا کی لذتوں کے لئے انسان مارا مارا پھر رہا ہے کیڑوں کی طرح اپنی زندگی ضائع کر رہا ہے لیکن اس طرف توجہ نہیں.فرماتے ہیں:

Page 902

خطبات طاہر جلد 16 896 خطبہ جمعہ 5 /دسمبر 1997ء اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کمبخت انسان ہے جو عبادت الہی سے لذت نہیں پاسکتا.“ اب کمبخت انسان کہہ کر آپ نے اپنے دل کا غبار نکالا ہے.واقعہ دل کا غبار نکالنے کے لئے اس سے بہتر اظہار ممکن نہیں تھا.انبیاء گالیاں تو نہیں دیا کرتے مگر کمبخت لفظ میں ایک قسم کا اظہار افسوس بھی ہے اور حقیقت حال بھی ، اس سے بہتر بیان نہیں ہو سکتی.کم بخت کا مطلب ہے جس کا نصیب چھوٹا ہے، بد نصیب کو تاہ دست ہے.اس اعلیٰ مقام تک ہاتھ پھیلائے بھی تو پہنچ نہیں سکتا.اس لئے فرمایا وہ کمبخت انسان ہے اس پر مجھے افسوس آتا ہے.پھر فرمایا عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ کی حقیقت.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بہت ہی لطیف مضمون چھیڑا ہے جسے دنیا کے جاہل نہیں سمجھ سکتے اور بعضوں نے بہت شوخیاں دکھائی ہیں اس مضمون پر یعنی انسان کو دنیا کی لذتوں میں کھانے کے بعد یا بعض سائیکالوجسٹ کے نزدیک کھانے سے بھی پہلے جنسی تعلقات کی لذت افضل محسوس ہوتی ہے.اس کی طرف زیادہ زور سے کھینچے جاتے ہیں.فرائیڈ نے یہی نظریہ پیش کر کے ایک پوری نفسیاتی طب کی بنیاد رکھی تھی.اگر چہ اس نظریہ سے مجھے اختلاف ہے اور بھی بہت سے آج کل سائنس کے یعنی نفسیات کے ماہرین اس سے اختلاف کرنے لگے ہیں لیکن ایک بات اس نے ضرور محسوس کی تھی جو درست ہے وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ جنسی تعلقات کی لذت دوسرے تمام تعلقات میں ایک غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اور تمام لذتوں میں سے اگر بالا نہیں تو تقریباً بالا ہے.فرماتے ہیں ربوبیت اور بندگی کے رشتے میں بھی ایک ایسا رشتہ ہے جسے کوتاہ عقل لوگ سمجھ نہیں سکتے.وہ کہتے ہیں عبادت کا اس جنسی تعلق سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے، کیا مماثلت ہوسکتی ہے.آپ فرماتے ہیں لذت تو ایک ہی چیز ہے خواہ وہ کسی چیز کی وجہ سے نصیب ہو بالآخر لذت اپنے تصورات کو پالینے کا نام ہے.اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہی لذت ہے اور اگر آپ مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے لذت پاتے رہیں تو کچھ عرصہ کے بعد مقاصد نظر انداز ہو جائیں گے ، لذت باقی رہ جائے گی.یہ وہ فلسفہ ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام علماء اسلام سے بڑھ کر روشنی ڈالی ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک کبھی کسی نے اس گہرائی سے یہ فلسفہ پیش نہیں فرمایا تھا اور

Page 903

خطبات طاہر جلد 16 897 خطبہ جمعہ 5 /دسمبر 1997ء جن جاہلوں کو یہ انعام بانٹے گئے یعنی جہاں اور لوگوں کے علاوہ جاہلوں کو بھی یہ انعام بانٹے گئے وَنَا بِجَانِبِے (بنی اسرائیل:84) وہ تکبر کرتا ہوا، پہلو تہی کرتا ہوا پیچھے ہٹ گیا اور اعراض کیا اس نعمت سے.جماعت احمدیہ کو اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے خواہ وہ شروع میں عجیب لگے لیکن بالکل درست ہے کہ ہر اعلیٰ لذت انسان کی تمنا کے آخری نقطے کے حصول کا نام ہے.اگر دنیا میں رہنا اور دنیا میں رہنے کا ذریعہ لذت کا موجب بن جائے تو اسی کا دوسرا نام جنسی لذت ہے.انسان جنسی لذت اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس ذریعہ سے اس کا دنیا میں ہمیشہ کے لئے رہنا یعنی اس کی بقا ممکن ہے.اللہ تعالیٰ نے اس غرض سے یہ لذت انسان کو عطا فرمائی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ نے یہ لذت نہ عطا کی ہوتی تو کوئی انسان یہ بھیا نک تصور کر بھی نہیں سکتا تھا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے خلاء ملا کریں.وہ پاگل تو نہیں ہو گئے خواہ مخواہ خلاء ملا کریں.ایک دوسرے کو جوتیاں ماریں اور دھکے دیں کہ یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم لوگ اور نسل انسانی دنیا سے مٹ جاتی مگر جنسی تعلقات اس کو جاری رکھنے کے ضامن نہ بن سکتے.فرمایا یہ بقاء لذت ہے اصل میں ، اسے رفتہ رفتہ جنسی لذت سمجھ لیا گیا آخری تجزیہ میں بقاء کی لذت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے.فرمایا بندہ اپنے رب سے تعلق کی بناء پر ایک دائی بقاء حاصل کرتا ہے ایسی بقاء جسے دنیا کی بقاء کے مقابل پر وہی نسبت ہے جیسے آسمان کے مقابل پر زمین کو ہو.زمین زمین ہی ہے آسمان آسمان ہی ہے.پس اس آسمانی تعلق کو لوگ تعجب سے دیکھیں کہ اس کا جنس کے ساتھ کیا رشتہ بنالیکن ناسمجھ ہیں جو اس تعلق کو نہیں سمجھ سکتے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے بقاء کے سوا جنس کی اور کوئی لذت نہیں ہے اور اگر اس بقاء کے خیال کو چھوڑ دو گے تو رفتہ رفتہ یہ لذتیں سب غائب ہو جائیں گی.اس کا ایک ثبوت ہم نے اس دنیا میں اس دور میں دیکھا ہے.ہم جنس پرست رفتہ رفتہ خدا کی لعنتوں کا شکار ہورہے ہیں اور مٹائے جارہے ہیں.ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں اور معاشرے کو مبتلا کر رہے ہیں جو نسل انسانی کی بیخ کنی کر رہی ہیں اور ان کے مقابلے کی کوئی طاقت نہیں ہے.اب یہ آئندہ وقت آئندہ چند سال آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تقدیران لوگوں کا صفایا کر رہی ہے جیسے حضرت لوط کے زمانے میں ان بد بخت بستیوں کا صفایا کیا گیا تھا.

Page 904

خطبات طاہر جلد 16 898 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء تو ایک مقصد بھی ہے اور ایک مقصد پر نظر رکھنے والا بھی ہے یہ ایک دوسری بات ہے.اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے کہ باطل نہیں ہے.جو اس کو باطل سمجھے گا وہ مٹا دیا جائے گا، اس کی ہستی باطل ہو جائے گی.پس لذتیں اس لئے عطا کی گئی تھیں کہ ایک مقصد حاصل کرنا تھا.مقصد کو بھلا کر لذتوں کی پیروی کرو گے تو اسی کا نام دنیا داری ہے، اسی کو مادیت کہا جاتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے تمہیں ملانے کے لئے تمہاری بقاء اپنی ذات سے ملنے کے ساتھ معلق کر دی ہے.اگر تم رب کے بندے بنو گے اور بندے کی عبودیت کا رب سے تعلق قائم ہوگا تو جتنا یہ تعلق حقیقی ہوگا تمہیں اس کی لذت زیادہ محسوس ہوگی یہاں تک کہ دنیا کی ہر لذت اس کے سامنے حقیر ہو جائے گی.یہ وہ مضمون تھا جسے بعض بد بخت مولویوں نے نہ سمجھ کر طرح طرح کی پھبتیاں کسیں اور مذاق اڑاتے رہے، اب بھی اڑاتے ہیں.اپنے لٹریچر میں جواس قسم کی لغویات حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف منسوب کر کے پھیلاتے ہیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں دنیا کی بیویوں کی طرح اپنے رب کے حضور پیش ہوا.اس قدر جاہلانہ حرکت ہے اور ان سے اس جاہلانہ حرکت کے سوا اور کوئی امید ہو بھی نہیں سکتی ، ان کی اڑان ہے ہی نہیں.ان کو تو آسمان کی طرف چھلانگ لگانا بھی نصیب نہیں.یہ دنیا کے کیٹروں کی طرح گندگی چاہتے رہتے ہیں اور اسی مضمون کو خدا کے پاک بندوں کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ان کو بھول جائیں، ان کی ایذارسانی کی پرواہ نہ کریں لیکن اس عرفان الہی پر ہاتھ ماریں اور مضبوطی سے اسے پکڑ لیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے.بندے کا رب سے تعلق اس کی بقاء کا ضامن ہے اور اگر عارضی دنیا کی بقاء لذت کا موجب ہوسکتی ہے تو اپنے رب سے دائمی بقاء کے تعلق میں جو لذت آنی چاہئے اگر وہ نہ آئے تو اپنی فکر کریں یقیناً آپ بیمار ہیں.یہ بیماری ہے جس کی طرف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار بار توجہ فرماتے ہیں اور متوجہ کرتے ہیں.اسی لئے فرمایا: ،، عورت اور مرد کا جوڑ تو باطل اور عارضی جوڑا ہے.“ جو میں آپ سے عرض کر رہا ہوں یہی بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں.عورت اور مرد کا جوڑ ا ہمارے نزدیک اگر بہت ہی اعلیٰ ہو تو عظیم الشان لذتوں کا حامل ہو

Page 905

خطبات طاہر جلد 16 سکتا ہے.فرمایا: 899 خطبہ جمعہ 5 /دسمبر 1997ء عورت اور مرد کا جوڑ تو باطل اور عارضی جوڑا ہے.میں کہتا ہوں حقیقی، ابدی اور لذت مجسم جو جوڑ ہے وہ انسان اور خدا تعالیٰ کا ہے.مجھے سخت اضطراب ہوتا اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے.“ اب دیکھیں کیسی عظیم بات ہے جو آپ فرما رہے ہیں اور ایسی بات ہے جو سراسر حقیقت ہے کچھ بھی اس میں مبالغہ نہیں.فرماتے ہیں: دو کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مزہ نہ آئے تو طبیب کے پاس جاتا اور کیسی کیسی منتیں اور خوشامد میں کرتا ہے ، روپیہ خرچ کرتا ، دکھ اٹھاتا ہے کہ وہ مزہ حاصل ہو.وہ نا مرد جو اپنی بیوی سے لذت حاصل نہیں کر سکتا بعض اوقات گھبرا گھبرا کر خودکشی کے ارادے تک پہنچ جاتا اور اکثر موتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں.مگر آہ! وہ مریض دل ، وہ نامراد کیوں کوشش نہیں کرتا جس کو عبادت میں لذت نہیں آتی ؟.اب مثال دنیا کی دی ہے لیکن اس دنیا کے روحانی پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے اور ایک دنیا کا مضمون کس طرح روحانیت کے مضمون میں تبدیل فرما دیا ہے.د مگر آہ وہ مریض دل ، وہ نامراد کیوں کوشش نہیں کرتا جس کو عبادت میں لذت نہیں آتی.اس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہو جاتی.دنیا اور اس کی خوشیوں کے لئے کیا کچھ کرتا ہے مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پاتا.کس قدر بے نصیب ہے، کیسا ہی محروم ہے.عارضی اور فانی لذتوں کے علاج تلاش کرتا ہے اور پالیتا ہے.کیا ہوسکتا ہے کہ مستقل اور ابدی لذت کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرور ہیں مگر تلاش حق میں مستقل اور پو یہ قدم درکار ہیں...66 کتنا عظیم الشان اور کتنا حقیقی مضمون ہے.فرماتے ہیں جو علاج تلاش کرتا ہے اپنی لذتوں کے کھوئے جانے کو محسوس کرتے ہوئے ان کی تلاش شروع کرتا ہے ان کی کھوج میں مارا مارا پھرتا ہے

Page 906

خطبات طاہر جلد 16 900 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء بسا اوقات وہ اپنے مقصد کو پالیتا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو طب کا نظام اور دانشوروں کے مشوروں کی کوئی بھی اہمیت باقی نہ رہتی لازما وہ پاتا ہے یعنی ہر ایک ان میں سے نہیں پاتا مگر بہت ہیں جو پالیتے ہیں اور اسی وجہ سے دنیا میں بعض علاجوں کی اور بعض معالجین کی شہرت ہوتی ہے.کئی دفعہ میں نے ایسے خطوط موصول کئے ہیں.آج بھی ایک خط ایک ہندو دوست کا میری نظر سے گزرا جو کینیڈا سے تشریف لائے ہیں.وہ کہتے ہیں یہ بیماری ہے بیگم کو سب علاج کر کے دیکھے مگر کہیں کوئی فائدہ میسر نہ آیا.اب وہاں ایک احمدی دوست نے بتایا ہے کہ اس قسم کی بیماری کا آپ مؤثر علاج کر چکے ہیں تو میں اپنے خاندان کو کینیڈا سے لے کے آیا ہوں اور آپ کے پاس وقت نہیں تو کوئی شکوہ نہیں مگر اگر وقت دے سکیں تو میں ضرور ممنون احسان ہوں گا کیونکہ اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا.اب دیکھ لیں انسان اپنی حاجت روائی کے لئے کس طرح در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے.کسی سے سن لیا، کسی سے یہ بات اس تک پہنچی کہ کوئی کامیاب معالج ہے یہاں تک کہ بعض عطائی معالج بھی اس وجہ سے روزی کما رہے ہیں جو پیسہ کمانے کی خاطر جان کر اپنی مصنوعی شہرت کو ہوا دیتے ہیں اور اندر سے بات کچھ بھی نہیں نکلتی.مگر کبھی کسی مریض کو کوئی تکا لگ گیا، کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس کے لئے ہر جگہ اتنی شہرت خود پھیلانے کا انتظام کرتے ہیں کہ دور دور سے لوگ ان کے پاس آکر اپنے پیسے ضائع کرتے ہیں لیکن نماز کی لذت کے لئے کبھی کسی نے ایسے سفر کئے ہیں حالانکہ دنیا کی جستجو کا میاب ہوتی ہے تو یہاں دل میں کامیابی کا یقین کیوں نہیں ہے.یہ یقین کا فقدان ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عبارت میں توجہ دلائی ہے.کیا ہو سکتا ہے کہ مستقل ابدی لذت کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرور ہیں مگر تلاش حق میں مستقل اور پو یہ قدم درکار ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ : 102،101) مستقل تو پتا لگ گیا لوگ عمر بھر ان علاجوں کی تلاش میں وقت لگاتے ہیں کچھ پابھی جاتے ہیں، کچھ نہیں بھی پاتے اس لئے استقلال تو ضروری ہے.پو یہ قدم بہت ہی پیارا محاورہ ہے.پو یہ قدم درکار ہیں، پویہ قدم سے مراد یہ ہے کہ جیسے گھوڑا ایسی چال چلتا ہے جس چال سے وہ تھکن محسوس نہیں کرتا.چلنے سے تھکن محسوس کرتا ہے تیز دوڑنے سے تھکن محسوس کرتا ہے لیکن پو یہ قدم جب اٹھاتا ہے

Page 907

خطبات طاہر جلد 16 901 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء تو وہ چال ہلکی بھی ہوتی ہے اور سواروں کو اس کا تجربہ ہے اس پو یہ چالی پہ پڑ جائے تو وہ سارا دن بھی چلتا رہے اس کو تھکاوٹ نہیں ہوگی اور چال نرم ہوتی ہے.تو اس پو یہ لفظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت سی نصیحتیں ہمارے لئے رکھ دی ہیں.آنحضرت نے یہ جو فرمایا تھا کہ نیکیوں کے حصول میں نرمی کرو اور ایک دم اتنی محنت نہ کرو کہ تمہارے بدن ٹوٹ جائیں تمہاری ہمتیں جواب دے جائیں.کچھ تھوڑ اسا صبح چلو، کچھ دو پہر کو آرام کر لو، کچھ شام کو چلو.آخر یہ سفر کامیابی پر منتج ہوگا.پس پو یہ قدم ، اس لئے ضروری لفظ پو یہ ہے کہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اور نماز اہمیت کے لحاظ سے جتنی بھی اہم ہوا سے افراتفری میں حاصل نہیں کیا جا سکتا یعنی تیز دوڑ کر، بے لگام دوڑ کر آپ اگر کوشش کریں کہ ایک دم نماز کے اعلیٰ مقصد کو حاصل کرلیں، اس پر پنجہ مارلیں تو نامرادی ہوگی اور اس سے دل اور بھی ٹوٹے گا، ہمت اور بھی جواب دے جائے گی اس لئے جماعت کے وہ سب دوست جو اس دور میں داخل ہوئے ہیں ان کو میں اس لفظ پویہ کی طرف متوجہ کر کے نصیحت کر رہا ہوں کہ بے قراری اور بے چینی تو رکھیں دل میں لیکن ایسا اظہار نہ کریں کہ ہفتہ ہو گیا، دس دن گزر گئے ، مہینہ ہو گیا ہمیں وہ مل ہی نہیں رہا ابھی تک، جو ملنا چاہئے.یہ بے چینی اگر آپ دکھا ئیں گے تو آپ کو ثبات قدم نصیب نہیں ہوسکتا.ثبات قدم پو یہ چال سے ہی نصیب ہوگا یعنی صبح بھی کوشش کریں، دو پہر کو بھی، رات کو بھی اور یقین رکھیں کہ اس چلنے سے منزل قریب آ رہی ہے اور کسی وقت بھی آپ منزل تک پہنچ سکتے ہیں.پس اگر اس میں صبر اور استقامت دکھائیں گے اور نرمی اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عظیم الشان فوائد آپ دیکھیں گے اور اس کا کچھ طریق یہ ہے کہ نماز کے معاملات پر تھوڑا تھوڑا غور ہر نماز میں ضرور کریں.میں نے بچوں کی کلاس میں اب نماز کے سبق جاری کئے ہیں اس کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے غیروں کی طرف سے بعض غیر احمدیوں کی طرف سے بھی بہت ہی اعلی تاثرات کا اظہار کیا جارہا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو اردو کلاس سے ایک نعمت مل گئی ہے اور نماز کے متعلق چونکہ بچوں کو سمجھانے میں مجھے محنت کر کے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنی پڑتی ہیں جو دلنشین ہو جائیں اور جنہیں چھوٹی عمر کا یعنی موٹا بچہ بھی سمجھ جائے اور بڑا بچہ یعنی غانا کے ہمارے دوست آڈو صاحب بھی سمجھ سکیں اس لئے اس محنت کے دوران اکثر سمجھ جاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے بعض

Page 908

خطبات طاہر جلد 16 902 خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1997ء ماؤں نے لکھا ہے کہ ہمارے بچے بھی اب سمجھنے لگ گئے ہیں وہ ہمیں بتانے لگے ہیں کہ یہ نماز کا مطلب ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس پو یہ والے حصے کو بھی آپ لوگ ذہن نشین رکھ کر ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے.ان کو جو میں نے ترکیب بتائی تھی پرسوں اردو کلاس کو ، وہ یہ ترکیب تھی کہ ہر نماز میں ساری نماز پر پورا غور ممکن ہی نہیں ہے.اگر آپ پورا غور کرنے کی کوشش کریں گے تو ایک دو نمازوں کے بعد ٹوٹ کر بیٹھ جائیں گے.آپ کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہر نماز میں نماز کا کوئی حصہ اپنے لئے خالص کر لیں اور اس خاص حصے پر غور کریں.مثلاً سورہ فاتحہ اور باقی سب نمازوں کے متعلق میں ان کو بتا چکا ہوں کہ کیسے کیسے غور کریں گے تو کیسے ان کو لذت محسوس ہوگی.یک لخت نہیں ہو سکتی.کوشش کرنی چاہئے مثلاً ایک نماز میں اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ پر غور شروع کر دیں.اب کون بچہ ہے جو رب العلمین کا مضمون نہیں سمجھتا کیونکہ یہ اس کے کھانے کی لذت سے تعلق رکھنے والا ایک مضمون ہے اس سے بہت زیادہ وسیع ہے لیکن کھانے سے تعلق ایک ایسا تعلق ہے جو ہر بچے کو ہے.چنانچہ جب رب کے متعلق وہ کسی ایک نماز میں غور کریں گے تو بڑی آسانی کے ساتھ ربّ العلمین کے ساتھ ایک تعلق بڑھے گا اور اس کی عظمت کا مضمون دل پر کھلے گا.پھر آہستہ آہستہ جب میں نے ان کے کھانے کے حوالے سے باتیں کیں تو چھوٹے سے چھوٹے بچے کا بھی منہ کھل اٹھا کہ اچھا یہ مطلب ہے رب العلمین کا ہمیں جو کھانا دیتا ہے، مزہ آتا ہے، بیمار ہوں تو مزہ نہیں آتا.تو کس کو بلانا ہے یہ باتیں ان کی سمجھ میں آگئیں.اگر ان کی سمجھ میں آگئی ہیں تو جو بڑے مخاطب ہیں ان کی سمجھ میں کیوں نہ آئیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس سبق کو آپ خوب ذہن نشین کریں گے اور آئندہ پھر جو بقیہ اقتباسات ہیں وہ اس کے بعد پیش کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 909

خطبات طاہر جلد 16 903 خطبہ جمعہ 12 دسمبر 1997ء اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمارے دل کی آہوں کو سنتا ہے ( خطبه جمعه فرمودہ 12 دسمبر 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَ يُذِيقَ بَعْضَكُمُ بَأسَ بَعْضٍ أَنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ وَكَذَبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقِّ قُلْ تَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ لِكُلِّ نَبَإِ مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (الانعام: 6866) پھر فرمایا: ان آیات کا ترجمہ یہ ہے ، تو ان سے کہہ دے کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے بھی عذاب نازل کرے اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے بھی یا تمہیں ایک دوسرے کے خلاف آپس میں مختلف گروہوں کی صورت میں لڑا دے اور تم میں سے بعض کی طرف سے بعض کو تکلیف پہنچائے.دیکھ ! ہم دلیلوں کو کس طرح بار بار بیان کرتے ہیں تا کہ وہ سمجھیں اور تیری قوم نے اس امریعنی پیغام محمد رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا قرار دیا ہے حالانکہ وہ سچا ہے.تو ان سے کہہ دے کہ میں تمہارا ذمہ دار نہیں.ہر ایک پیشگوئی کی ایک حد مقرر ہوتی ہے اور تم جلد ہی حقیقت کو جان لو گے.

Page 910

خطبات طاہر جلد 16 904 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء یہ وہ سورۃ انعام کی آیات ہیں جن کا آج کل ہمارے ملک پر بعینہ اطلاق ہو رہا ہے اور اس صلى الله قوم نے جو اپنے وقت کے امام کو جھٹلایا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا سچا نمائندہ تھا تو عملاً انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کا انکار کر کے آپ ہی کی تکذیب کی ہے خواہ یہ منہ سے مانیں یا نہ مانیں اس حقیقت سے کوئی انکار ممکن نہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوئے تھے ، جیسا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی ظاہر ہوئے تو پھر آپ کا انکار آنحضرت ﷺ کے فرمودات کا انکار ہے اور اس انکار کے نتیجہ میں جو کچھ خدا تعالیٰ ایسی قوم سے سلوک فرمایا کرتا ہے ان آیات میں اسی کا ذکر ہے.فرمایا قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمُ ان کو بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے سر کے اوپر سے بھی عذاب لے آئے اور پاؤں کے نیچے سے بھی عذاب نکال دے یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے، گروہ در گروہ بانٹ دے.يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَ يُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ اور تم میں سے ایک گروہ کی طرف سے دوسرے کو تکلیف پہنچے اور آپس میں لڑائی پیدا ہو.اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِفُ الْآيَتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ دیکھ ہم کس طرح کھول کھول کر اپنے نشانات کو بیان کرتے ہیں تا کہ یہ لوگ سمجھ سکیں.وَكَذَبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ اور تیری قوم نے تجھے جھٹلا دیا حالانکہ جو بات تو لے کر آیا وہ حق تھی.قُل لَّسْتُ عَلَيْكُمُ بِوَکیل ان سے کہہ دے کہ میں تم پر نگران نہیں ہوں.اللہ کی تقدیر جو فیصلہ کرنا چاہے گی وہ کرے گی اور میں اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا.تمہیں اللہ کی تقدیر سے نہ میں بچا سکتا ہوں نہ کوئی اور بچا سکتا ہے.یہ مفہوم ہے قُل نَّسُتُ عَلَيْكُمْ بِوَکیل کا تم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہو، ان اعمال کی سزا چکھو گے تو مجھے ذمہ دار قرار نہ دو لیکن اس قوم کو دوسری قوموں کی طرح یہ عادت پڑ چکی ہے کہ اپنے گناہوں کی پاداش کو دوسروں کی طرف منتقل کرتے ہیں.وہ ذمہ داری خود قبول کرنے کی بجائے کسی دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے اس بات کا خوب کھول کر اعلان کیا تھا کہ تو قع تھی کہ یہ ملک اس آئین کو جو عملاً رڈی ہو چکا ہے خود پھاڑ کر پھینک دے گا اور یہ بڑھتا ہوا سیلاب اگر آئین کو غرق نہ

Page 911

خطبات طاہر جلد 16 905 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء کر سکا تو یہ آئین ایسا غلط آئین ہے کہ یہ اس ملک کو غرق کر سکتا ہے.یہ ایک تنبیہ تھی اور بالکل صحیح تنبیہ تھی اس میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ بعینہ یہی بات قوم کی آواز تھی لیکن جیسا کہ ملانوں کی عادت ہے انہوں نے وہ شور و غوغا مچایا سارے ملک میں کہ مرزا طاہر احمد نے اس بحران میں اپنا ملوث ہونا تسلیم کر لیا ہے اور یہ سارا بحران قادیانیوں کی کارروائی ہے.ایسے احمق لوگ ہیں کہ سوچ ہی نہیں رہے کہ یہ بات کیا کر رہے ہیں.اس بحران میں ملوث کون لوگ ہیں؟ ایک نواز شریف صاحب، ایک صدر مملکت ، ایک سجاد صاحب جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور کہتے ہیں کہ اب بھی ہوں اور دوسرے تمام چیف کورٹس کے جسٹس صاحبان اور مختلف صوبوں کی صوبائی عدالت انصاف کے نمائندے بھی.یہ سارے لوگ اس بحران میں ملوث ہیں.اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ بحران قادیانیوں نے پیدا کیا ہے تو ان سب پر مقدمہ ہونا چاہئے.ہر ایک کو عدالت میں پیش ہونا چاہئے اور ان سے پوچھا جائے کہ کیوں نواز شریف صاحب آپ کو جب قادیانیوں نے ملوث کیا تھا تو ملوث ہوئے کیوں؟ کچھ عقل کرنی چاہئے تھی.قادیانی آپ کو اکسار ہے تھے اور آپ اچھل کر پھر اس معاملے میں دخل دینے لگے اور عدالت عالیہ سے ایک بحران میں الجھ گئے اور پھر جسٹس سجاد سے سوال ہونا چاہئے تھا ، چیف جسٹس بنے ہوئے ہو آپ کو اتنی عقل نہیں کہ قادیانیوں کے کہنے پر آپ نے اس بحران میں دخل دیا ہے.پھر باقی سب حجج صاحبان کو پکڑنا چاہئے تھا اور لغاری صاحب کو خصوصیت سے پکڑنا چاہئے تھا اس لئے کہ لغاری صاحب نے اپنے بیان میں بعینہ یہی بات کہی ہے کہ یہ بحران قادیانیوں نے ہم پر مسلط کر دیا ہے.اس کا اول کر دار تو خود لغاری صاحب ہیں.سارا جھگڑا تو ان کے گرد ہی گھوم رہا ہے.وہ اور قاضی صاحب یہ دومل گئے ہیں.اللہ نے ایک جوڑی ملا دی ہے لیکن ان دونوں سے پوچھا تو جائے کہ احمقو! تمہیں جب قادیانیوں نے کہا تھا تم نے انکار کیوں نہیں کر دیا اور قادیانیوں کے کہنے پر تم بگٹٹ (یعنی جس کی باگ ٹوٹ جائے ) دوڑے ہو اور اس بحران میں ملوث ہو گئے ہو اور ملک کو ملوث کر دیا ہے.یہ ان کی حماقت کا حال ہے.در اصل مولویوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ یہ آئین تو ٹوٹنے والا ہی ہے اور اگر یہ آئین ٹوٹ گیا تو احمد یوں والی دفعہ بھی ساتھ ہی نکل جائے گی.اچانک گھبرا کر وہ بیدار ہوئے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے.چنانچہ ان سب نے بظاہر ایکے کا اعلان کیا ہے کہ ہم اس معاملے میں اکٹھے ہو جائیں گے اور

Page 912

خطبات طاہر جلد 16 906 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء یہ تنبیہ تھی قوم کے دانشوروں کو اور سر براہوں کو کہ احمدیوں والی کلاز (Clause) کو آپ ہاتھ نہ لگانا ورنہ ہم فساد برپا کریں گے اور یہ بات بے وقوف بھول گئے کہ یہ فساد بر پا کرنے کی سازش تو قاضی حسین احمد اور لغاری صاحب کی ہے.اگر اس معاملے میں فساد برپا ہوتا ہے تو لیڈرشپ ان کے ہاتھ میں آتی اور سارے ملاں بے وقوف بن جائیں گے اور اگر ابھرے تو اس فساد کے نتیجے میں یہی ابھریں گے.عجیب قوم ہے ان کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے معاملات بھی دکھائی نہیں دے رہے.دکھائی دیتے ہیں تو سمجھ نہیں آرہی ، ہر طرف حماقت کا دور دورہ ہے.اب جو میرے الفاظ تھے وہ یہ تھے ان میں سے ایک تو میں بیان کر چکا ہوں.اگر احمد یوں کو غیر مسلم قرار دینے والا آئین نہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا یعنی وہ آئین ملک کو لے ڈوبے گا.یہ اعلان تھا.اس کے مقابل پر یہ ایک اعلان سن لیجئے.سردار ابراہیم صاحب کہتے ہیں جسٹس سجاد، فاروق لغاری کو بھی لے ڈوبے.بعینہ وہی بات جو میں کہہ رہا ہوں یہ خود مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں.پھر اور بھی (اخبار) جنگ میں اسی طرح لے ڈوبے کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جو شور مچانے والے ہیں وہ یہ اعلان کر رہے ہیں.بات کھل گئی، عدلیہ، پارلیمنٹ کا لڑانا قادیانیوں کی سازش تھی.عدلیہ، پارلیمنٹ اور صدر یعنی سارے اتنے احمق لوگ ہیں کہ قادیانیوں کی باتوں میں آکر ایک دوسرے سے لڑ پڑے.تو جولڑے ہیں ان کو پکڑو، ان کے خلاف مقدمے چلاؤ.غدار تو وہ ہیں جو ہمارے کہنے پر لڑ پڑے، میں لندن میں بیٹھا کیسے غدار ہو گیا.جو پاکستان میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ملک سے غداری کر رہے ہیں ان کو پکڑو.مولانا امجد صاحب آئین توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور مرزا طاہر احمد کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر کے واپس یہاں لایا جائے.مجھے تو جب لائیں گے آپ دیکھی جائے گی.جو ہیں وہاں ان کو تو پکڑ لو پہلے.ان کے خلاف تو غداری کے مقدمے قائم کرو.آگے سنئے بحران قادیانیوں نے پیدا کیا، لغاری نورانی ملاقات میں اتفاق رائے.لغاری صاحب تو شامل ہیں اس اتفاق میں.عجیب و غریب ہستی ہیں یہ.خود صدر ہیں سارا جھگڑا فساد انہوں نے مچایا ہوا تھا.آخر یہ جھگڑا ان کو لے ڈوبا اور ساتھ قاضی حسین احمد کو بھی لے ڈوبا اور آخر پر مل کر یہ بیان جاری کیا ہے کہ قادیانیوں کی سازش تھی جو یہ بحران پیدا ہوا ہے.جسٹس رفیق تارڑ صاحب فرما رہے ہیں، حالیہ بحران کے پیچھے قادیانی تھے.کھیل کی ناکامی سے سب

Page 913

خطبات طاہر جلد 16 907 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء سے زیادہ نقصان مرزا طاہر احمد اور اس کی جماعت کو ہوا ہے، مریدوں میں بھی کمی آگئی.سبحان اللہ احد سے زیادہ احمق قوم ہے.یہ جسٹس ہوا کرتے تھے رفیق تارڑ صاحب، ان کی دماغی حالت یہ ہے.کہتے ہیں سب سے زیادہ نقصان مرزا طاہر احمد اور اس کی جماعت کو ہوا اور اگر مجھے اور میری جماعت کو ہوا تو اس بحران میں کیسے ملوث ہو گیا لیکن مراد ان کی یہ ہے کہ میرا بحران نافذ کرنے کا ارادہ ناکام ہوا اس لئے جماعت کو نقصان پہنچا ہے.نقصان تو سارا ملک رو رہا ہے کہ ملک کو پہنچا ہے اور اس ملک کے لئے میں نے دعا کا اعلان کروایا تھا کہ ساری جماعت دعا کرے کہ اس ملک کو نقصان نہ پہنچے.اگر نقصان پہنچنا ہے تو اس بیہودہ آئین کو پہنچ جائے جو ملک کو ڈبو رہا ہے.یہ مریدوں کی کمی والا واقعہ بھی ان سے پوچھنا چاہئے اور ان سے پتا کرنا چاہئے.آئین کو ختم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں مرزا طاہر پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے.یہ بات صحیح لگتی ہے کہ قادیانی ملک توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہیں.یہ راجہ ظفر الحق صاحب کا بیان ہے.آگے ہے مرزا طاہر کی تقریر ملک کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان ہے.اس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے.قادیانیوں کی سرگرمیوں کا نوٹس لے کر ملک کی سالمیت کا تحفظ کیا جائے.یہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے بیٹے کا اعلان ہے.اب یہ تو وہ الزامات ہیں جو مجھ پر لگائے جار ہے ہیں اور جماعت پر لگائے جارہے ہیں.اور اب وہ ملک کا اپنا حال جو ملک کے اخباروں میں چھپ رہا ہے اس میں سے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.رفیق باجوہ صاحب، آئین متنازعہ ہو چکا ہے ترامیم ختم کر دی جائیں تو 1973ء کا آئین بہترین ہے.یہی تو میں نے کہا تھا کہ وہ ساری ترامیم جو 1973ء کے آئین میں جماعت کے خلاف داخل کی گئی ہیں ان کو ختم کر دینا چاہئے.پھر تمہارے بچنے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے.وہ صاحب جو ہمارے مخالف سمجھے جاتے ہیں اور پہلے سالوں میں بہت مخالفت بھی کی رفیق باجوہ صاحب اب خود یہ اعلان کر رہے ہیں.ترامیم ختم کر دی جائیں تو 1973ء کا آئین بہترین ہے، کیا 1973ء کا آئین نا کام ہو گیا ہے؟ اس موضوع پر دانشوروں کی آراء ہیں.ڈاکٹر باسط صاحب، کوئی آئین موجود نہیں اگر تصور کر لیا جائے کہ 1973ء کا آئین موجود ہے تو یہ بھی موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا.نئے آئین کی ضرورت ہے.جب میں کہوں نئے آئین کی ضرورت ہے تو کہتے ہیں یہ غدار ہے اور سارا ملک کہہ رہا ہے اور کوئی غداری کا مقدمہ قائم

Page 914

خطبات طاہر جلد 16 908 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء نہیں کیا جارہا.پھر رفیق باجوہ صاحب کا اعلان ، موجودہ آئین تضادات کا شکار ہے جس سے فکر اور عقیدہ کا فقدان ہے.73ء کا آئین متفقہ آئین تھا مگر بعد میں حکمرانوں نے اقتدار کو طول دینے اور ذاتی مقاصد کے لئے اس میں ترامیم کیں جن سے آئین متنازعہ ہو گیا.یہ کہہ رہے ہیں میں نے بغاوت کا اعلان کیا ہے.بالکل جھوٹ ہے کہیں سارے بیان میں کسی بغاوت کا کوئی اعلان نہیں لیکن جو کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کر رہے ہیں ان کو نہیں پکڑ رہے.مولانافضل الرحمان نے کہا، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت قوم کے اندرا بھرنے والی بغاوت کو منظم کر کے اس نظام کے خلاف تحریک چلا کر اس کا تیا پانچا کیا جائے.میں نے تو کہا تھا کہ آئین کرے گا اگر کرے گا.آئین غلط ہے وہ ملک کو غرق کرے گا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ سارے ملک میں بغاوت ہونی ضروری ہے یعنی پاکستان میں بیٹھا ملاں بیان دے رہا ہے اور کسی کو جرات نہیں کہ اس کا منہ بند کرے.مسعود صاحب سابق وزیر قانون ہیں وہ فرماتے ہیں ، 1973ء کا آئین تمام ملک کی ضروریات پوری کرتا ہے اس میں ترامیم کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے.فضل الرحمان صاحب وہی ملاں فرماتے ہیں، ملک بے آئین ہو کر رہ گیا ہے اور تمام اقدامات ماورائے آئین اٹھا لئے گئے ہیں.اب دیکھیں جو ملک بے آئین ہو گیا ہواس کے آئین کے متعلق اگر میں تبصرہ کروں تو وہ تو بغاوت ہے لیکن ایک ملاں کہے کہ ملک بے آئین ہو گیا ہے اور ملک کے خلاف بغاوت ہونی چاہئے ، آئین کے خلاف نہیں سارے ملک کے خلاف ،اس کو کوئی نہیں پکڑتا.کموڈور طارق مجید صاحب لکھتے ہیں، اس وقت آئین کا ستیا ناس کر دیا گیا ہے.آئین کی اتنی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں کہ سپریم کورٹ میں خلاء پیدا ہو گیا ہے.آئین ایسے لگے گا جیسے ناقص قسم کا کاغذ کا کوئی ٹکڑا ہو.ناقص رڈی کاغذ کا ٹکڑا مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے کہا ہولیکن اگر میں نے کہا بھی تھا تو یہی تو بات ہے جواب ملک کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ رڈی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اس قانون کی حیثیت نہیں رہی.سلطان سہروردی صاحب ایڈووکیٹ لکھتے ہیں، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بارہ میں کوئٹہ بینچ کے فیصلے کے بعد یہ کہنا کہ آئین ابھی باقی ہے منافقت کے سوا کچھ نہیں.پس یہ ساری قوم جھوٹ اور منافقت اور تضادات کا شکار ہو چکی ہے.غنویٰ بھٹو صاحب لکھتی ہیں ، نظام تبدیل کئے بغیر ملک بحرانوں سے نہیں نکل سکتا.روزنامہ خبریں میں ایک ادار یہ لکھا گیا ہے جس میں بہت سی تفاصیل ، بہت سے مشورے دئے ہیں جو بعینہ ان نتائج کے مطابق ہیں جو میں نے

Page 915

خطبات طاہر جلد 16 909 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء اخذ کئے تھے لیکن بعینہ مطابق ہیں کہنا درست نہیں اس سے بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں اور ملک کے اندر رہتے ہوئے یہ لوگ کھلم کھلا ملک کے خلاف بغاوت کا اعلان کر رہے ہیں.اعلان کے ساتھ آئین کورڈی کا ٹکڑا قرار دے رہے ہیں.وہی الفاظ استعمال کر رہے ہیں کہ یہ بحران اس کو بھی لے ڈوبا ، اسکو بھی لے ڈوبا، عدالت علیاء کو بھی لے ڈوبا اور صدر کو بھی لے ڈوبا.اب بتائیں سازش کس کی ہے.یہ ساری باتیں ہم یہاں بیٹھے قوم سے کروار ہے ہیں؟ اگر ساری قوم اس قدر پاگل ہو چکی ہے کہ یہاں بیٹھے میرے کہنے کے مطابق بحران کے بعد بحران کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے تو ساری قوم کو غدار قرار دے کر پھانسی دے دینی چاہئے پھر لیکن میں یہ نہیں کہتا یہ ایک ملاں کہہ رہا ہے.میرے نزدیک حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے، یہ کوئی غذاری نہیں ہے اور ساری قوم بالکل صحیح کہہ رہی ہے کہ اس قانون کو ، اس آئین کو جواب اس قابل نہیں رہا کہ ملک پر مسلط کیا جائے اسے دور کر دیا جائے تو پھر ملک کو دوبارہ اطمینان کا سانس نصیب ہوسکتا ہے.یہ تو آئین سے متعلق باتیں تھیں.میں قوم کو دوبارہ متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کے قرآن کریم نے جو کچھ فرمایا ہے یہ آپ کے ساتھ ہورہا ہے اور مزید ہوگا.اگر آپ کو کوئی چیز بچاسکتی ہے تو آپ کی ایک دوسرے سے منافقت اور مناقشت نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کی متحدہ دعائیں ہی آپ کو بچا سکتی ہیں.جو بچانے والے ہیں ان کو تو آپ نے اپنا دشمن سمجھ لیا ہے.جن کی دعائیں خدا کے حضور ، خدا کی بارگاہ میں قبولیت کے ساتھ دیکھی جاتی ہیں ان کو آپ نے اپنا دشمن بنا رکھا ہے اور آپ تو دعا کے مضمون سے ہی نا واقف ہیں.صرف چیخ و پکار اور ایک دوسرے کو گالیاں دینا، ایک دوسرے کے گریبان چاک کرنا یہ آپ کا شیوہ بن گیا ہے.اس لئے اس ملک سے بد بخت ملاں کو نکالو، یہ آپ کی گردنوں پر سوار ہے یہی بحران لاتا ہے اور اگر آئندہ کوئی بحران مزید آیا تو یہی ملاں لانے کا سبب بنے گا.اس لئے اپنے دشمن کو پہچانو اور عقل کرو.اگر پاکستان سے ملائیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ ملک دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے گا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، یہ ایک ایسا بیان ہے جسے قلم زد نہیں کیا جا سکتا.آپ چنیں چلا ئیں جو مرضی اس کے خلاف کہیں لیکن اس بات کو اپنے دلوں پر ، اپنے سینوں پر لکھ لیں کہ اس ملک سے اگر ملاں کا فساد دور کر دیا جائے

Page 916

خطبات طاہر جلد 16 910 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء اور اسے اس ملک کے امور سلطنت میں دخل اندازی سے کلیۂ الگ کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ بہت بڑا عظیم ملک بن کر ابھر سکتا ہے.پس ہماری یہ تمنا ہے اور یہ دعائیں ہیں.اب انہیں جس طرح چاہیں غلط رنگ میں آپ پیش کرتے رہیں.مگر وہ غلط رنگ میں ان کا پیش کرنا آپ کے خلاف جائے گا کیونکہ ہمیں ایک قادر مطلق پر ایمان ہے.ہمیں یقین ہے کہ اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمارے دل کی آہوں کو سنتا ہے اور تمہاری یاوہ گوئی جو سنتا ہے تو تمہارے خلاف رد عمل کے لئے سنتا ہے، تمہاری یاوہ گوئی کو خود تمہارے خلاف استعمال کرنے کے لئے تمہاری باتیں سنتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کی تائید میں ہمیشہ ہماری پشت پناہی پہ ہمارا خدا کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا آپ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے.اب میں اس مضمون کو جاری رکھنے سے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب کے وصال سے متعلق چند امور بیان کرنا چاہتا ہوں.آپ کی سوانح الفضل میں بھی شائع ہو چکی ہے، وہاں بھی مختلف جماعتوں میں غالباً انجمن کے ریزولیوشن کے طور پر بھی پھیلائی گئی ہے ، ان تفاصیل میں میں نہیں جانا چاہتا جو پہلے بیان ہو چکی ہیں لیکن آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے کچھ الہامات تھے جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب پر چسپاں کئے گئے اور میں وہ فرد واحد ہوں یا اور بھی شاید ہوں، جو شروع ہی سے یہ یقین رکھتا تھا کہ یہ الہامات اصل میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مرزا منصور احمد صاحب سے متعلق ہیں.یہ امر واقعہ ہے کہ بعض الله پیشگوئیاں ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی ایسا واقعہ ہو چکا ہے، ایک شخص کے متعلق کی جاتی ہیں لیکن بیٹا مراد ہوتا ہے.وہ الہامات جیسا کہ میں اب آپ کے سامنے کھول کر بیان کروں گا بلاشبہ ایک ذرہ بھی شک نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے بیٹے کی صورت میں پورے ہونے تھے اور آپ ہی پر ان کا اطلاق ہوتا ہے.یہ بات میں ہمیشہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے بیان کرتا رہا لیکن یہ ہمارا آپس کا ذاتی معاملہ تھا.شروع میں تو جیسا کہ ان کی بیحد انکسار کی عادت تھی انہوں نے قبول کرنے میں تردد کیا یعنی خاموشی اختیار کر جاتے تھے.بالآخر جب میں نے مسلسل دلائل دئے اور میں نے کہا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ مراد نہ ہوں تو پھر ان کو تسلیم کرنا پڑا اور اس بات کی گہری مسرت تھی کہ الہامات میں میں بھی داخل

Page 917

خطبات طاہر جلد 16 911 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء ہوں.وہ الہامات سنئے.شریف احمد کی نسبت اس کی بیماری کی حالت میں ( یہ 1907ء کا واقعہ ہے) الہامات ہوئے عمرهُ اللهُ على خلاف التوقع ( تذکر : 609) اللہ نے اس کو لمبی عمر دی خلاف توقع.خلاف توقع سے مراد یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ پہلے مر جانا چاہئے تھا مگر خدا تعالیٰ نے بغیر توقع کے بار بار زندگی عطا فرمائی.پھر فرما یا مره الله على خلافِ التّوقع اللہ نے اسے صاحب امر بنایا یعنی امیر اور اس کا یہ امیر بننا خلاف توقع تھا.یعنی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ شخص اتنے لمبے عرصے تک امیر بنایا جائے گا.ان الہامات کے جو ترجمے تذکرہ میں درج ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ ترجمے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک ایسا ترجمہ کر رہے ہیں جو خلاف واقعہ ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ترجمہ کیا جائے.چنانچہ وہ ترجمہ یہ تھا جس کو میں خلاف واقعہ ترجمہ سمجھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ علماء نے اس خواہش میں کہ اس پیشگوئی کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب پر لگا دیا جائے یہ ترجمہ کیا ہے اُس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر امیر کرے گا یعنی مال و دولت دے گا.آمرہ اللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امیر کرے گا ، امرہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اسے امیر بنایا جائے گا یعنی صاحب امر بنائے گا اور ایک دوسرے الہام سے بعینہ یہی بات ثابت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وہ بادشاہ آیا اور اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ قاضی کے متعلق یہ الہام ہوا ہے وہ قاضی یعنی صاحب امر بنایا جائے گا.تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی تشریحات دوسرے الہامات کی روشنی میں اس ترجمے کو جو تذکرے کے نیچے چھپا ہوا ہے غلط قرار دے رہی ہیں اس لئے میں نے جب علماء سے فوری طور پر تحقیق کر کے رپورٹ کرنے کا کہا.مولوی دوست محمد صاحب جو ما شاء اللہ اس مضمون کے ماہر ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ترجمے یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ترجمے نہیں ہیں.صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے 1935ء میں جب تذکرے کی اشاعت پر ایک نوٹ لکھا اس میں یہ وضاحت کی کہ ہم نے تمام ترجمے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے تھے وہ عبارت کے اندر داخل کر لئے ہیں اور حاشئے میں نہیں اتارے گئے.حاشئے میں اتارے جانے والے ترجمے بعد میں علماء نے کئے ہیں.تو یہ جو میری Suspicion تھی یا مجھے شک تھا بلکہ میرا یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ترجمہ ہو نہیں سکتا یہ میں نے ربوہ سے

Page 918

خطبات طاہر جلد 16 912 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء معلوم کروالیا ہے.واقعہ یہی بات درست ہے.دراصل اگر ان تراجم کو مانا جائے اور جو خیال گزرتا تھا علماء کا اس کو مانا جائے تو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی عمر تو لمبی نہیں تھی.اپنے بھائیوں سے چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے اور خلاف توقع لمبی عمر کہنا یہ ایک قسم کا خواہش کا اظہار تو ہے لیکن واقعات کا اظہار نہیں اور آپ کے سپر دامارت کبھی نہیں کی گئی.مجھے نہیں یا دشاید ہی کبھی آپ کو امیر بنایا گیا ہوورنہ آپ امیر نہیں بنائے جاتے تھے.یہ وجہ تھی کہ میں ہمیشہ ان دونوں الہامات کو حضرت مرز منصور احمد صاحب کے متعلق سمجھتا تھا اور آپ کی زندگی اس کی گواہ ہے.اس کثرت سے آپ کو شدید دل کے حملے ہوئے ہیں کہ ہر حملے پر ڈاکٹر کہتے تھے کہ اب یہ ہاتھ سے گئے اور پھر اللہ تعالیٰ خلاف توقع آپ کو ٹھیک کر دیتا تھا اور سب ڈاکٹر حیرت سے دیکھتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.دل کی ایسی بیماریاں لاحق ہوئیں کہ جن سے بچنا محال تھا اور دوسرے دن اٹھ کر نہ صرف یہ کہ کھانا پینا شروع کر دیا بلکہ ڈاکٹر جو بعض چیزوں کو ان کے لئے حرام سمجھتے تھے یعنی مکھن اور گھی کی غذا، رات کو حملہ ہوا ہے ، صبح اٹھ کر کہا کہ مجھے مکھن کے پراٹھے پکا کر کھلا ؤ اور واقعہ پر اٹھے کھایا کرتے تھے اس لئے ان کے متعلق یہ الہامات لازماً پورے اترتے ہیں کہ عَمرَهُ اللهُ على خلاف التوقع بغیر توقع کے لمبی عمر اور بغیر توقع کے بار ہا عمر پانا یہ آپ کی ذات میں دونوں باتیں بعینہ صادق آتی ہیں.پھر امرَهُ اللَّهُ على خلافِ التَّوقع یعنی ان کو امارت بھی ایسی دی جائے گی کہ اس کے متعلق توقع نہیں کی جاسکتی.میں نے حساب لگایا ان کی امارت کا تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے زمانے میں ان کو امیر بنانا شروع کیا گیا ہے اور اس سے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی باون سالہ حکومت میں اتنا عرصہ کبھی کسی کو امیر نہیں بنایا گیا جتنا ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور میرے دور میں امیر بنایا گیا.پینتالیس (45) بار آپ امیر مقامی مقرر ہوئے ہیں اور اس ہجرت کے دور میں تقریباً چودہ سال مسلسل امیر مقامی بنے رہے ہیں.یہ ہے خلاف توقع.سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خلیفہ کی موجودگی میں کوئی شخص اتنا لمبا عرصہ امیر مقامی بنار ہے.وہ امارت مقامی جوخود خلیفہ کے اپنے قبضے میں ہوا کرتی ہے اور اس کی وہاں موجودگی میں صدرعمومی ہے جو عمومی انتظام چلاتا ہے.مگر خلیفہ کی موجودگی میں امیر مقامی وہی ہوتا ہے.پس آپ عملاً میری جگہ بیٹھ گئے یعنی جس کرسی پر میں بیٹھا کرتا تھا اس پر میرے کہنے کے مطابق آپ براجمان ہوئے اور آپ نے تمام

Page 919

خطبات طاہر جلد 16 913 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء امور کو نہایت بہادری سے سرانجام دیا.وہ بادشاہ آیا کے الہام کے متعلق فرماتے ہیں.فرمایا دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے یعنی اس الہام کے ساتھ یہ آواز بھی آئی.قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رد کر دے.یہ خوبی بھی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب میں غیر معمولی طور پر پائی جاتی تھی.باطل کو رد کرنے کے معاملے میں اتنا بہادر انسان میں نے اور شاذ ہی دیکھا ہو.ہوں گے مگر جو میں نے دیکھے ہیں ان میں سے ان سے زیادہ جرات کے ساتھ باطل کو رد کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا.خلافت کے عاشق اور فدائی اور میں جو ان کے سامنے ایک چھوٹا بچہ تھا اور بچپن میں ان کی نظام میں ماریں بھی کھائی ہوئی ہیں اس طرح سامنے وفا کے ساتھ ایستادہ ہوئے ہیں جیسے اپنی کوئی حیثیت نہیں رہی اور بھائیوں میں سے یا اپنے دور سے عزیزوں میں سے اگر کسی نے ذرا بھی زبان کھولی ہے میرے متعلق ، تو اتنی سختی سے اس کا جواب دیا ہے کہ جیسے رد کرنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں، رد کرنے کے عمل کو اتنی سختی سے استعمال کیا ہے کہ میں حیران رہ گیا سن کر.بارہا میں نے سنا اور میں حیران رہ جاتا تھا.نہ بھائی دیکھا ، نہ عزیز دیکھا.اگر وہم گزرا کہ خلافت کے متعلق یہ غلط اشارہ کر رہا ہے تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی سختی سے اس کو رد کر دیا.یہ صورت حال ایک اور الہام کو بھی یاد کرا رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مرزا شریف احمد صاحب کو مخاطب کر کے کشف میں دیکھتے ہیں کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.اب ظاہر بات ہے کہ یہ الہام حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق پورا نہیں ہوا یعنی ان لوگوں کی نظر میں پورا نہیں ہوا جو یہ بات ماننے پر تیار نہیں کہ بعض دفعہ باپ کے متعلق الہامات بیٹے کے لئے پورا ہوا کرتے ہیں.اب یہ بات بعینہ آپ کی ذات پر پوری ہوئی ہے.وہ امارت مقامی جس پر میں بیٹھا کرتا تھا اب ظاہر ہے کہ میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نمائندہ ہوں، اس وقت میاں شریف احمد صاحب موجود نہیں ہیں،اگر کوئی شخص موجود ہے تو یہ آپ کا بیٹا ہے.جس کے متعلق بعینہ یہ الفاظ پورے ہوتے ہیں.اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.پس یہ سارے الہامات اور ان کی واضح تشریحات جو واقعات نے بیان کر دی ہیں ان کورد نہیں کیا جاسکتا.یقیناً آپ کا ایک مقام تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے

Page 920

خطبات طاہر جلد 16 914 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء وہ مقام بنا ہے اور ابھرا ہے اور آئندہ آنے والی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ کا وجود ایک مبارک وجود تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا روحانی بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.جو کچھ بھی اپنے بیٹے کے متعلق دیکھا وہ ان کے بیٹے کے متعلق پورا ہوا.اب جبکہ میں نے ان کی جگہ ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی ان کے صاحبزادے مرزا مسرور احمد صاحب کو بنایا ہے تو میرا اس الہام کی طرف بھی دھیان پھرا کہ گویا آپ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ میری جگہ بیٹھ.یہ ساری باتیں ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی روح ایک پاک روح تھی ، بہت دلیر انسان، خلافت کے حق میں ایک سونتی ہوئی تلوار تھے.یہاں پچھلے دنوں جب آپ نے سفر کیا ہے تو اس سفر کے دوران اس دفعہ اتنے خوش گئے ہیں کہ مجھے وہم آیا کرتا تھا کہ کوئی بات ہے.پہلے کبھی بھی کسی سفر کے دوران نہ اتنا لمبا سفر کیا ، نہ اتنی خوشی کا اظہار کیا.انگلستان دیکھتے ہوئے کہا مجھے تو اب یوں لگ رہا ہے میں نے پہلی دفعہ انگلستان دیکھا ہے.اب جو خوشی اس دفعہ دیکھنے میں ہوئی ہے کبھی ساری عمر نہیں ہوئی.جرمنی گئے وہاں بھی اس بات کا اظہار کیا، ہالینڈ گئے وہاں بھی اس بات کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت خوش گئے ہیں اس دفعہ یہاں سے کہ جس کی نظیر پہلے ان کے آنے میں کبھی نہیں ملتی.اس وقت مجھے شبہ پڑتا تھا جسے میں دوسرا رنگ دے دیا کرتا تھا.مجھے لگتا تھا کہ یہ تو شاید جانے کی تیاریاں ہیں.پس وہ شبہ درست نکلا اس طرح گئے ہیں کہ پھر واپس نہیں آئے.واپس آہی نہیں سکتے کیونکہ اس ملک کو چلے گئے ہیں جو ملک عدم تو نہیں ہے مگر ہمارے لئے عدم ہی کی طرح ہے یعنی جو ایک دفعہ چلا جائے پھر اس کا کوئی نشان واپس نہیں آیا کرتا.مگر وہ شخص جس کے متعلق الہامات دنیا میں باقی رہے ہوں اس کا جانا بھی ایک فرضی جانا ہے.وہ لوگ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، اسی دنیا میں باقی رہتے ہیں.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے.میری بیٹی فائزہ نے مجھے بتایا کہ اتنا خوش تھے اس دفعہ کہ بار بار مجھ سے بھی بے حد محبت کا اظہار کرتے تھے اور ایک بات پر میں نے کہا کہ آپ بہت خوش ہیں تو کہتے تھے خوش کیوں نہ ہوں میرا خلیفہ مجھ سے راضی ہے.میں اسے بار بار دیکھتا ہوں، میں خوش کیوں نہ ہوں؟ وہ بچے نہیں تم نے دیکھے، فائزہ سے کہا، جو خلیفہ کے ساتھ پھرتے ہیں، ادھر اُدھر دوڑے پھرتے ہیں ، ان کی خوشیاں نہیں

Page 921

خطبات طاہر جلد 16 915 خطبہ جمعہ 12 دسمبر 1997ء دیکھیں وہ کیوں خوش ہیں اسی لئے کہ وقت کا خلیفہ ان سے راضی ہے.میں بھی اسی لئے خوش ہوں.یہاں بھی بہت خطرناک حملے ہوئے بیماری کے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان بیماریوں سے نجات ملی.واپس جا کر بھی حملہ ہوا اس سے بھی پھر نجات ملی.بے حد بہادر انسان تھے کہ کم دنیا میں اتنے بہادر انسان دیکھنے میں آتے ہیں.وہم ہوتا تھا تو دوسروں کے متعلق ، اپنے متعلق نہیں.میری بیماری کا خطرہ ، خوف ، اور بچوں کو کہنا خیال رکھیں.اگر کوئی تاخیر ہو جائے کہیں سے آنے میں مثلاً ایک دفعہ یہ پہلے پہنچ گئے اور مجھے آنا چاہئے تھا مگر دیر میں آیا تو بے انتہا گھبراہٹ تھی ، ٹہلتے پھرتے تھے کہ کیوں نہیں ابھی تک پہنچے.تو اپنے متعلق بالکل بے خوف اور دوسروں کے متعلق بے حد خوف رکھنے والے کہ کہیں کسی خطرناک واقعہ میں مبتلا نہ ہو گیا ہو، کسی مہلک حادثے کا شکار نہ ہو گیا ہو.ساری زندگی سادہ گزری ہے.بالکل بے لوث انسان اور سادہ زندگی گزارنے والے.ناظر اعلیٰ بھی اور اور اپنے بچے مسرور کو ساتھ لے کر زمینوں کا دورہ بھی کر رہے ہیں.وہاں زمینداروں کے ساتھ بیٹھ کر اسی طرح باتیں کر رہے ہیں.ذرا بھی ان کے اندر کوئی انا نیت نہیں پائی جاتی تھی.بالکل سادہ لوح، غذا اگر مزے کی ہے تو اچھی لگے گی پر اگر نہیں بھی ہے تو خوشی سے کھاتے تھے اور ہر چیز میں ایک قناعت پائی جاتی تھی.پس اس ذکر خیر میں اگر چہ طول ہو گیا ہے لیکن یہ ذکر خیر ہے ہی بہت پیارا.اب میں ساری جماعت کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے لئے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور بعد میں مرزا مسرور احمد صاحب کے متعلق بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح جانشین بنائے تو ہماری جگہ بیٹھ جا کا مضمون پوری طرح ان پر صادق آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ خودان کی حفاظت فرمائے اور ان کی اعانت فرمائے.اس سفر کے دوران یہاں بعض لوگوں نے آپ کی ایسی خدمت کی ہے کہ اگر ان کا ذکر نہ کروں تو یہ ناشکری ہوگی.سب سے پہلے تو فضل احمد صاحب ڈوگر ہمارے شکریہ اور دعاؤں کے محتاج ہیں.اصل بات کچھ اور تھی اور میں کچھ اور سمجھا کرتا تھا.میں سمجھتا تھا کہ فضل احمد صاحب ڈوگر میاں غلام احمد صاحب جو ان کے داماد ہیں ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے یہ خدمت کر رہے ہیں لیکن جب میری علیحدہ ملاقات ہوئی تو اس وقت انہوں نے ایک راز کی بات بتائی.انہوں نے کہا کہ ہمارے باپ پر ان کا ایک احسان ہے جو میں کبھی بھول نہیں سکتا.صرف یہ احسان تھا جس کی یاد مجھے

Page 922

خطبات طاہر جلد 16 916 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء مجبور کرتی تھی چنانچہ میں نے اپنے بھائیوں کو کہا کہ دیکھو یہ تمہارے باپ کی بجائے ، ان سے بڑھ کر ہیں.ہماری نسلیں بھی اس احسان کو پورا نہیں کر سکتیں اس وجہ سے تم یہی سمجھو کہ تمہارا باپ تمہارے اندر دوبارہ آ گیا ہے.بلکہ اس باپ سے بڑھ کر ایک وجود تمہارے اندر آ گیا ہے.چنانچہ یہ رازاب کھلا ہے مجھ پر کہ کیوں فضل ڈوگر کے بھائی صدیق، بشیر اور غلام احمد اور سارے خاندان نے ان کی ایسی خدمت کی ہے کہ واقعہ کوئی اپنے باپ کی بھی اس سے بڑھ کر خدمت نہیں کرسکتا.سارے سفر میں ساتھ لئے پھرے ہیں.ہر جگہ رہائش کا انتظام کیا ہے اور جب بھی خدمت کا موقع ملا اسے اپنی عزت افزائی سمجھا اور ظاہر یہی کیا جیسا کہ حق تھا کہ یہ ہمارا احسان نہیں ، آپ کے احسان کا پورا بدلہ نہیں ، ایک معمولی سا اظہار ہے جو ہم آپ کی خدمت کر رہے ہیں.پس اللہ کے فضل کے ساتھ ان سب بھائیوں نے بھی آپ کی بہت خدمت کی ہے اور میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ھل جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمن : 61) انہوں نے تو احسان کا بدلہ اتارا ہے مگر ہمارے ایک محبوب قائد جو سارے پاکستان کے ناظر اعلیٰ بھی تھے، امیر مقامی بھی تھے ،صدر انجمن احمدیہ کے صدر بھی تھے ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.یہ تو مضمون ہے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے متعلق ، آج ان کی نماز جنازہ ربوہ میں پڑھائی جا چکی ہے.کثرت کے ساتھ تمام پاکستان کی جماعتیں شریک ہوئی ہیں.یہ میرا اندازہ ہے کہ شریک ہو گئی ہیں، پہلی جماعتوں کی طرف سے یہ اطلاعیں آرہی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ بہت کثرت سے لوگ آرہے ہیں لیکن ابھی تک ربوہ کی طرف سے اطلاع نہیں مل سکی.مجھے تعجب ہے کہ کیوں ایسا ہوا ہے حالانکہ نماز جنازہ کے بعد فوری طور پر مطلع کرنا ان کا فرض تھا کہ مجھے اطلاع دیتے کہ کیسی نماز جنازہ ہوئی، کیا واقعات ہوئے ،لوگوں کا کس قدر ہجوم تھا.اس سارے ماحول کی تصویر کھینچنی ضروری تھی لیکن مجھے بہت تعجب ہے.ہم نے جتنی دفعہ بھی کوشش کی ہے تمام فونوں کو مصروف پایا اور جمعہ پر آنے سے پہلے تک ہمارا رابطہ نہیں ہو سکا.مگر یہ تو سارے پاکستان سے جہاں سے چاہتے رابطہ کر سکتے تھے.اس لئے مرکز کو یا ہمارے ہیڈ کوارٹر ، مرکز تو یہی ہے جہاں میں ہوں ، ہیڈ کوارٹر یعنی ربوہ میں جو نظام جاری ہے ان کو اتنی ہوش کرنی چاہئے کہ بڑے بڑے اہم معاملات ہوتے ہیں اور وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہ جاتے ہیں.اس سے پہلے بھی جو حالات گزرے

Page 923

خطبات طاہر جلد 16 917 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء ہیں ، بہت عجیب و غریب سے ان میں بھی بار بار میرے اصرار پر انہوں نے مجھے اطلاعیں بھیجنی شروع کی ہیں، اس سے پہلے بالکل چپ بیٹھے تھے جیسے کچھ واقعہ ہی نہیں گزرا اور اب جنازے کے متعلق تفصیلات سے آگاہ نہ کرنا یہ بھی ظلم ہے.آئندہ سے یاد رکھیں کہ ہراہم بات جو پاکستان میں ہونظام جماعت کا فرض ہے کہ جہاں سے بھی ہو سکے فوری طور پر مجھے اطلاع دے کر آگاہ کریں اور اس سے دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے.اب جبکہ میں یہ کہہ رہا ہوں منگل صاحب کی ایک اطلاع اب میرے سامنے آئی ہے.آج نماز جمعه مکرم مولا نا سلطان محمود انور نے پڑھائی.جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر ادا کی گئی.حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا تابوت بذریعہ ایمبولینس مسجد اقصی لے جایا گیا جہاں نماز جمعہ وعصر کے بعد مکرم مرزا عبدالحق صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی.مختلف اضلاع کے امراء اور جماعتوں کے نمائندگان بھی آئے ہوئے تھے جن کی تعداد پانچ ہزار سے زائد تھی یعنی باہر سے آنے والوں کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت پیدل کندھوں پر بہشتی مقبرہ لے جائی گئی.جنازہ حضرت اماں جان والے چوک کے پاس سے گزر کر مسجد مبارک کے سامنے سے ہوتا ہوا بہشتی مقبرہ لے جایا گیا.حضرت اماں جان والے چوک سے مراد یہ ہے جہاں حضرت اماں جان کی یادگار تعمیر ہے ، وہ مٹی کا گھر جس میں حضرت اماں جان رہا کرتی تھیں، اس مقام پر ایک یادگار تعمیر ہے.اس چوک سے ہوتا ہوا یہ جنازہ وہاں پہنچا.بہر حال الحمد للہ یہ کارروائی اپنے اختتام کو پہنچی.بہت سی دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کو رخصت کیا مگر جو وہاں پہنچنے والے پانچ ہزار ہیں صرف ان کی بات نہیں.میری میز ان خطوں اور تعزیت کے تاروں اور فیکسوں سے بھر جاتی ہے جو ساری دنیا سے موصول ہو رہے ہیں اور ساری دنیا پر اس وفات کے صدمے سے ایک لرزہ سا طاری ہے.تمام احمدی دعاؤں میں مصروف ہیں.پس صرف وہ پانچ ہزار نہیں بلکہ ساری دنیا کے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اگر پہلے شامل نہیں تھے تو آج نماز عصر کے بعد جب میں نماز جنازہ پڑھاؤں گا، تو ان دعاؤں میں شامل ہو جائیں گے.پس بہت ہی پیارا انداز ہے رخصت کا کہ ساری دنیا کی دعاؤں کو سمیٹے ہوئے کوئی انسان اس دنیا سے رخصت ہو.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے اور ہماری عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمائے.اب دوسرے مضمون کی طرف لوٹنے کا تو وقت نہیں جو نماز کا مضمون تھا اسے انشاء اللہ بعد

Page 924

خطبات طاہر جلد 16 918 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء میں آئندہ بیان کر دیا جائے گا.اگر دو چار منٹ جمعہ کے ایک گھنٹے سے کم بھی ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ( حضور نے اس موقع پر سہواً فرمایا اذان دیں مگر پھر فوراً اس فقرہ کو درست کرتے ہوئے.فرمایا اب میں بیٹھوں گا، پھر تکبیر کہوں گا اس کے بعد نماز جمعہ پڑھ کر پھر نماز عصر جمع کریں گے.نماز عصر کے معاً بعد آپ کی نماز جنازہ غائب ہوگی.منہ سے غلطی سے بعض دفعہ اذان کا لفظ نکل جاتا ہے کیونکہ عادت ہے اذان کے متعلق کہنے کی.اس لئے دنیا والے گھبرایا نہ کریں اس بات پر.یہ کوئی دماغ کی خرابی کی علامت نہیں.یہ بچپن سے میری عادت ہے اس لئے بعض لوگ لکھتے اس طرح ہیں جیسے پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے.کچھ بھی نہیں ہوا.میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں اللہ کے فضل سے.تو ابھی میں بیٹھوں گا پھر میں اٹھ کر مسنون دعائیں آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے بعد پھر نماز جمعہ اور پھر نماز عصر ہوگی.خطبہ ثانیہ سے قبل حضورانور نے فرمایا: اصل میں میرے دماغ کی ساخت یہ ہے کہ جب ایک مضمون قبضہ کر لے دماغ پر جیسے تیز رفتار موٹر کو ایک دم دائیں بائیں موڑا نہیں جا سکتا اسی طرح یہ میری ساخت شروع ہی سے ایسی ہے اور اگر یہ نقص ہے تو اس نقص کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا ہے کوئی ایسا نقص نہیں ہے جو عمر کے تقاضے سے بعد میں رفتہ رفتہ پیدا ہوا ہو.بچپن میں یہی حال تھا اور نماز میں بھولنے کی عادت مجھ میں اور میر محمود احمد صاحب اور نواب محمد احمد خان میں اس وقت سے مشترکہ عادت تھی.یہ باتیں تو لمبی ہیں کیوں بھولتے ہیں اور کیا واقعہ ہوتا ہے یہ میں کسی وقت شاید آئندہ بیان کر دوں لیکن اتنا میں بتا دیتا ہوں کہ جو لوگ بے وجہ گھبرا گھبرا کر خط لکھتے ہیں آپ کو کچھ ہو گیا ہے، آپ کو کچھ ہو گیا ہے.ان کو کچھ ہو گیا ہے، مجھے کچھ نہیں ہوا.میرا بچپن سے یہی حال ہے.اگر اللہ کے نزدیک یہ عادت اور دماغ کی یہ خاص کیفیت خلافت کی راہ میں حائل ہوئی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مجھے ہرگز خلیفہ نہ بنا تا.اس لئے بچپن سے ہی یہی حال ہے.جب میں بعض خاص سوچوں میں الجھ جاؤں تو ناممکن ہے کہ ایک دم ان کا رخ دوسری طرف موڑ سکوں اور یہی بات نواب محمد احمد خان میں مجھ سے زیادہ شد ید پائی جاتی تھی حالانکہ بہت بڑے موجد اور بہت بڑے حکیم انسان تھے.تو یہ فلسفیوں کے متعلق جو کہانیاں سنی ہوئی ہیں آپ نے کہ سوٹی بستر پر ڈال دی اور آپ کونے میں کھڑے ہو گئے ، یہ لطیفے تو ہیں مگر درست بھی ہیں سوچوں کے ہجوم کی وجہ سے ایسا ہو جایا کرتا ہے.اس لئے اس کو کوئی بیماری

Page 925

خطبات طاہر جلد 16 919 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء نہ سمجھیں یہ ایک روزمرہ کے واقعات ہیں جو عام طور پر مفکرین سے وابستہ کئے جاتے ہیں، عام لوگوں میں نہیں کئے جاتے.میں اپنے آپ کو مفکرین کے شمار میں تو نہیں لاتا مگر بیماری وہی ہے جو مفکرین اور فلسفیوں کو ہو جایا کرتی ہے.اس لئے اس میں کسی قسم کی گھبرانے کی ضرورت نہیں.اگر آپ گھبرائیں تو یہ بیوقوفی ہے.بعض لوگوں نے مجھے یہاں تک لکھا ہے کہ آپ کو گویا وہ بیماری ہو گئی ہے جس کو (Arteriosclerosis) آرٹیر یوسیکلر وسس کہتے ہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کو آخری دنوں میں ہو گئی تھی.اس بیماری کی اور بھی علامتیں ہوتی ہیں.یہ بیماری جب شروع ہوتی ہے تو چند سالوں میں انسان کو بالآخر عقل کے لحاظ سے نہیں مگر دوسرے معاملات میں ناکارہ کر دیتی ہے اور میں نے ناکارہ ہونا ہوتا تو جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں یعنی مسجد مبارک میں جب ہم نماز پڑھا کرتے تھے میر محمود احمد اور میں اور ہم سب اور ہمیشہ تو نہیں مگر اکثر نماز کے بعد سجدہ سہو کرنا پڑتا تھا.تو اس وقت سے مجھے گزر جانا چاہئے تھا اس عالم فانی سے اور اس کے بعد میری سوچوں کو معطل ہونا چاہئے تھا.(Arteriosclerosis) آرٹیر و یوسیکلر وسس کی بیماری تو ٹانگوں کا ستیا ناس کر دیتی ہے اور اب تو مجھ میں اتنی طاقت نہیں مگر ایک زمانے میں ٹانگوں میں اتنی طاقت تھی کہ بہت تیز دوڑ نے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا تھا.اور یہ ذہنی بیماری اس وقت بھی تھی.سائیکل پر اتنا تیز چلتا تھا کہ مجھ سے ہیں تمہیں سال چھوٹے تھے ان کو بھی چیلنج کرتا تھا کہ آؤ مقابلہ کر لو لیکن نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ سویڈن میں ایک صاحب نے مجھ سے خود بیان کیا کہ آپ احمد نگر سے پیچھے سامان لا دے آ رہے تھے.وہ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں غالباً آج آئے ہوئے بھی ہیں یہاں ملاقات کے لئے سویڈن سے.کہتے ہیں آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں سائیکل پر تھا بالکل چھوٹا بچہ تھا.آپ نے کہا کرنا ہے مقابلہ؟ میں نے کہا پھر چلتے ہیں.کہتے ہیں شروع میں تو آپ ساتھ ساتھ رہے اس کے بعد اتنا پیچھے چھوڑ گئے کہ بہت ہی پیچھے رہ گیا میں تو یہ بیماری (Arteriosclerosis) آرٹیریوسیکلر وسس نہیں ہے.یہ لوگ جو طبیب بنے پھرتے ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ (Arteriosclerosis) آرٹیر یوسیکلر وسس کیا چیز ہے؟ اس لئے آج کھول کر بتا رہا ہوں خدا کے واسطے میرے ہمدرد بنے پھرنے والے لوگ مجھے یہ باتیں نہ لکھا کریں کیونکہ سوائے اس کے کہ ذہنی الجھن ہو مجھے اور کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچتا یا

Page 926

خطبات طاہر جلد 16 920 خطبہ جمعہ 12 / دسمبر 1997ء نقصان نہیں پہنچتا.جو کینیڈا کے سفر کے دوران کمزوری واقع ہوئی تھی اور جرمنی میں بھی اس کی تفصیل میں آپ کو بتاؤں تو آپ میں سے کمزور دل جو ہیں شاید ان کو دل کی تکلیف ہو جائے.اس قدرسخت بیماریوں میں جو محض دین کی خاطر لاحق ہوئیں یعنی گیمبیا کے حالات اور بعض دوسری پریشانیاں اتنا شدید بیماری کا حملہ ہوا ہے کہ میں حیران ہوں کہ میں نے اس کے باوجود سارے فرائض کیسے ادا کئے اور لوگوں کو تو پتا ہی نہیں میرے دل پر کیا گزر رہی تھی ، میرے جسم پر کیا گزر رہی تھی.مگر یہ گواہ ہے سب دنیا کہ میں نے اپنے فرائض میں ایک ذرہ بھی کمی نہیں آنے دی.ساری نمازیں باجماعت پڑھائی ہیں ، تمام سوال و جواب کی مجلسوں میں بیٹھا ہوں.جماعت سے ملنے کے فیملی ملاقاتوں کے سارے تقاضے پورے کئے ہیں.ایک ذرہ بھی ان میں کمی نہیں آئی اور کن حالات میں کئے ہیں یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں.اللہ جانتا ہے.اب لوگوں نے ہمدردی جتانے کے لئے کہ گویا میرے بہت زیادہ لگتے ہیں، آپ کمزور ہو گئے ، آپ کمزور ہو گئے.ان کو یہ نہیں پتا کہ اس کمزوری کے باوجود آپ کے فرائض تو پورے کر رہا ہوں.آپ کو اس سے کیا ، میں کمزور ہوں یا نہ ہوں اللہ کے فضل سے جب تک زندہ ہوں آپ کے متعلق جو فرائض ہیں ان کو پورا کرتا رہوں گا.اب میں وہ دعائیہ کلمات پڑھتا ہوں اس کے بعد جمعہ ختم ہوگا.چونکہ ابھی وقت باقی تھا میں نے کہا یہ باتیں بھی ساتھ ہی کرلوں.

Page 927

خطبات طاہر جلد 16 921 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء اگر دنیا کے شر و فساد سے بچانے والی کوئی چیز ہے تو وہ نماز ہی ہے.( خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 1997ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ پھر فرمایا: (البقرة: 154 155) یہ دو آیات ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان کے مضمون سے دو باتیں ہیں جو ظاہر ہیں.ایک تو نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استعانت مانگنے کا ارشاد ہوا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگا کرو.اِنَّ اللهَ مَعَ یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور دوسری آیت میں یہ مضمون ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ اور ہرگز اس کو مُردہ نہ کہو جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا.بَلُ اَحْيَا ؟.مُردے نہ کہو اُن کو.اموات جمع ہے اس لئے یوں کہنا چاہئے اُن کو مُردے قرار نہ دو بل احیاء بلکہ وہ تو زندہ ہیں وَلَكِن لَّا تَشْعُرُونَ لیکن تمہیں اس بات کا شعور نہیں ہے کہ ان کی زندگی کی حقیقت کیا ہے.

Page 928

خطبات طاہر جلد 16 922 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء ان دو آیات کی تلاوت کا آج کے خطبے سے اس طرح تعلق ہے کہ نماز کے تعلق میں میں گزشتہ خطبوں میں مضمون بیان کر رہا ہوں اور اس میں صبر کی جو نصیحت ہے اسے خصوصیت کے ساتھ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور دوسرا اس لئے کہ پاکستان سے مظفر احمد صاحب شرما کی شہادت کی اطلاع ملی ہے جن کے متعلق میں کچھ مزید باتیں بیان کروں گا لیکن ایک بات قطعی ہے کہ ان کو مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا.یہ زندہ ہیں لیکن تم لوگ نہیں جانتے.صلى اللهعهم صبر کا تعلق جو نماز سے باندھا گیا ہے اس کے دو پہلو ہیں جن پر نظر رکھنی چاہئے.ایک تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی ہے صبر کے ساتھ یعنی مدد مانگتے چلے جانا ہے اور اس بات میں جلدی نہیں کرنی کہ کب اللہ تعالیٰ کی نصرت آئے اور یہ مددنماز کے ذریعے مانگی جائے اور ایسی نماز کے ذریعے مانگی جائے جس پر صبر ہو یعنی صبر کا ایک معنی جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ نیکیوں پر دوام اختیار کیا جائے.جب ایک دفعہ ان کو پکڑ بیٹھیں تو پھر چھوڑ نا نہیں.یہ صبر کا مضمون دونوں طرف یکساں ں چسپاں ہو رہا ہے یعنی ایک تو صبر کے نتیجے میں تم نے جو خدا سے دعا مانگنی ہے وہ نماز کے ذریعے مانگنی ہے اور نماز پر بھی صبر اختیار کرنا ہے کیونکہ بعد میں نتیجہ یہ نہیں نکالا کہ إِنَّ اللهَ مَعَ المُصلين - فرمایا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ تو دونوں صبروں کا بیک وقت ذکر ہے اور استَعِينُوا بِالصَّبْرِ.سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ کسی غم اور صدمے کی طرف اشارہ ہورہا ہے.عام حالتوں میں بھی نماز پر صبر کرنا چاہئے لیکن جب کسی کی طرف سے کوئی اذیت پہنچے کوئی قومی نقصان کا خدشہ ہو یا قومی نقصان ہو جائے تو اس صورت میں لازمآمد داور صبر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا.اگر صدمے پر بے صبری کرو گے اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا.اگر صدمے کے نتیجے میں صبر اختیار کر کے دعائیں کرو گے جو خصوصاً نماز میں ہونی چاہئیں تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِینَ.دوسرا پہلو لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتُ (البقرة: 155) والا ہے.اگر چہ ہر شہادت کا ہمیں دکھ پہنچتا ہے جو لا زم ہے کہ پہنچے لیکن اللہ تعالی کی اس نصیحت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خدا کی راہ میں جو شہید ہوتے ہیں وہ عام موتیں نہیں ہیں ان میں اور عام اموات میں ایک نمایاں فرق ہے اور اس فرق کو ہم شعور کے طور پر محسوس نہیں کر سکتے یعنی باشعوری طور پر ہم اس فرق کو پہچان

Page 929

خطبات طاہر جلد 16 923 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء نہیں سکتے.ایسے شہداء گزشتہ زمانے میں ، رسول اللہ اللہ کے زمانے میں ہوئے جن کے آسمان پر خدا صلى الله کے حضور حاضر ہونے کا اور جو آپس میں مکالمہ ہوا ہے اس کا الہاما آنحضور ﷺ کو بتا دیا گیا.حالانکہ سوال و جواب تو بہت دور کے قصے ہیں وہ قیامت جس کے بعد یہ سوال وجواب ہونے ہیں اس صلى الله قیامت کی دوری کا تو آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے.پس رسول اللہ یہ معا بعد جب ایک شہید کے واقعات سنائے جاتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ وہ واقعات اگر اسی وقت گزرے تھے اور آئندہ کی خبریں نہیں تھیں ، یعنی اس شرط کے ساتھ میں کہ رہا ہوں کہ اگر وہ اسی وقت گزر چکے تھے، تو پھر یہ عام مُردوں سے ایک الگ مضمون ہے یعنی شہداء کو جنت کی زندگی ان کے قتل کے فورابعد عطا کر دی جاتی ہے.شاید یہی مضمون ہو جو فر مایا گیا ہے کہ تم شعور نہیں رکھتے.اور زندہ ہیں اور تم شعور نہیں رکھتے اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ ان کی وجہ سے قوم زندہ رہتی ہے اور یہ شہادتیں ہیں جو ہمیشہ کے لئے قوم کی زندگی کی ضمانت دیتی ہیں اور تمہیں بھول جاتا ہے تمہیں اس بات کا شعوری طور پر احساس نہیں رہتا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ہم زندہ ہیں.اگر شہادتیں نہ ہوں تو باقی پیچھے رہنے والوں کی زندگی کی بھی کوئی ضمانت نہیں.وہ جو خوشی سے اپنے آپ کو خدا کے حضور شہادت کے لئے پیش کرتے ہیں اُن کو زندہ کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ قوم زندہ ہو جاتی ہے اور جب شہادتیں رہیں گی قوم زندہ رہے گی یعنی خدا کی خاطر جان پیش کرنے والے جب تک موجود ہیں اس وقت تک ناممکن ہے کہ قوم مر جائے اور یہ شعور جو ہے پوری طرح آپ کو حاصل نہیں اور اللہ تعالی گواہی دے رہا ہے کہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے.تیسری بات، ان کی زندگی کا ہمیں علم نہیں یعنی شعور نہیں جب کہ ہر نیک مرنے والا بھی تو عملاً زندہ ہو جاتا ہے یعنی اس کو ایک دوسری زندگی ملتی ہے تھوڑی دیر کے لئے.پھر وہ ایک ایسی حالت میں سے گزرتا ہے جسے عالم برزخ کہا جاتا ہے.پھر لمبے عرصے کے لئے سو جاتا ہے اور اس وقت اٹھایا جائے گا جس زمانے کی دُوری کا ہمیں علم نہیں.اس مضمون کا شہادت کے مضمون سے کوئی فرق ہونا چاہئے.اگر فرق نہیں ہے تو یہ آیت کیوں کہہ رہی ہے کہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں.یہ وہ حالت ہے جس کو واقعہ ہم تصور میں نہیں لا سکتے سوائے اس کے کہ زندگی کی علامتیں ان پر چسپاں کر کے دیکھیں تو باشعور انسان جو زندہ ہو، اس کو اگر پوری طرح شعور ہو تو اس کا اپنے پچھلوں سے بھی

Page 930

خطبات طاہر جلد 16 924 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء ایک تعلق قائم رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ بعد میں آنے والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں، وہ اللہ کے حضور ان سے خیر چاہتے ہیں.پس شہداء کی زندگی کا تعلق خدا تعالیٰ سے اس رنگ میں ہے کہ وہ اس سے عرض حال کرتے ہیں ، دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے پچھلوں کو بھی وہ اپنے فضل سے نوازے اور اپنے پچھلوں کا خیال رکھتے ہیں حالانکہ مردوں کو اپنے پچھلوں کا کوئی خیال نہیں ہوا کرتا.پس یہ ان کا خیال رکھنا بتا رہا ہے کہ ان کی زندگی ان کے پچھلوں کو بھی روحانی لحاظ سے اور مادی دنیوی لحاظ سے زندہ کر گئی ہے یعنی یہ نئی زندگی جو ان کو ملی ہے اس کا ان کے پسماندگان سے ایک ایسا گہراتعلق ہے جو عام مر دوں کو نہیں ہوا کرتا.اور بھی بہت سی باتیں ہوں گی کیونکہ لا تَشْعُرُونَ میں جو خدا تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تم شعور نہیں حاصل کر سکتے اس میں اگر پورا ہمیں شعور حاصل ہو جائے تو پھر وہ بات غلط ہو جائے گی، اس لئے میں اندازے پیش کر رہا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی مراد ہوگی، یہ بھی مراد ہوگی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں پوری طرح شعور ہے.اتنا یقین رکھنا چاہئے بہر حال، خواہ ہمیں شعور ہو یا نہ ہو کہ یہ لوگ زندہ ہیں مردہ نہیں ہیں.اس کے بعد میں مظفر احمد شہید کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جدائیوں کے دکھ تو ہوتے ہیں لیکن ان آیات نے ایسی تسلی دی ہے کہ ان کے بعد غم اور واویلے میں یعنی گہرے غم اور واویلے میں تبدیل نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو یہ وعدہ ہے کہ یہ اور قسم کے لوگ ہیں، یہ بھی زندہ ہیں تمہیں پورا شعور حاصل نہیں ہے اس وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرنا چاہئے کہ ہماری جماعت میں بھی خدا تعالیٰ نے اولین کی طرح شہادتوں کا ایک سلسلہ جاری کر دیا ہے.یہ شہادتیں جو نیک کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دشمن کے چیلنج کے باوجود پیش کی جائیں یہ شہادتیں بہت ہی قابل قدر ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے خوف سے کام نہیں رکنا.دشمن چاہے جو کر گزرنا چاہے کرے لیکن اس ڈر سے کہ ہم قتل نہ ہو جائیں کام نہیں رکنالیکن اس کے ساتھ ہی تبلیغ میں جو اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حکمت سے کام لو وہ بھی ضروری ہے.بیک وقت دو چیزیں ہیں جن کے میزان کا نام کا میاب تبلیغ ہے.اور اللہ تعالیٰ اگر چہ شہادت کے متعلق ہمیں یہ خوشخبری عطا کر رہا ہے کہ بہت بڑی چیز ہے

Page 931

خطبات طاہر جلد 16 925 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء لیکن غازیوں کے متعلق بھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت کچھ لکھا ہے.پس جب بھی مجھے شہادت کے لئے دعا کی درخواست آتی ہے اور شہادت کے متعلق مظفر شہید کو ایک ذرہ بھی اس میں شک نہیں تھا کہ میں یہاں شہید ہو سکتا ہوں مگر ایک لمحہ کے لئے بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے.میرے پاس پتا نہیں ان کے پرانے خطوط محفوظ ہیں کہ نہیں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان خطوں میں شہادت کا ایسا سرسری ذکر ہوا کرتا تھا جیسے کوئی اتفا قاسمی سی چیز ہے اس کا کوئی خوف ان کے دل پر طاری نہیں تھا.یہ عزم صمیم لئے ہوئے تھے کہ میں نے اپنے کام کولا ز ما جاری رکھنا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت مجھے اس کام سے روک نہیں سکتی.ان کے متعلق میں پہلے مختصر تعارف کرا دوں یہ کون تھے؟ کس کے بیٹے تھے اور کس کے پوتے تھے؟ مظفر شر ما شہید قائم مقام امیر اضلاع شکار پور، جیکب آباد، سکھر، گھوٹکی، چاروں الگ الگ اضلاع ہیں جو ان کے تابع تھے.یہ قائم مقام امیر تھے چار اضلاع کے شکار پور، جیکب آباد، سکھر اور گھوٹکی.یہ محترم عبدالرشید صاحب شرما امیر جماعت ہائے اضلاع شکار پور، جیکب آباد، سکھر، گھوٹکی کے صاحبزادے ہیں.ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان چاروں اضلاع کے یہی امیر تھے.ان کے دا دانشی عبدالرحیم صاحب شرما ہندو سے مسلمان ہوئے تھے اور بہت ہی اخلاص رکھتے تھے.یہ انہی کا اخلاص ہے جو آج ان کے پوتوں کی شہادت کی صورت میں بول رہا ہے.تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ 12 دسمبر 1997ء کو محترم مظفر احمد صاحب شام پونے آٹھ بجے اپنی بھا بھی محترمہ غزالہ بیگم صاحبہ بیوہ مبارک احمد مرحوم اور ان کی بچیوں کو گاڑی پر سوار کرنے کے لئے ریلوے سٹیشن لے جا رہے تھے.یہاں لفظ مرحوم لکھنا درست نہیں ہے کیونکہ ان کے بڑے بھائی مبارک بھی شہید ہوئے تھے ( اور اسی مقام پر آپ نے شہادت کا اعزاز پایا تھا جہاں ان کو گولیاں مار کے شہید کیا گیا، عین وہی مقام تھا) مبارک احمد کو میں اس لئے شہید کہہ رہا ہوں کہ اگر چہ دو سال ان زخموں کے بعد زندہ رہے جو کلہاڑیوں سے بڑے گہرے زخم لگائے گئے تھے جسم کے مختلف حصوں پر اور سر پر لیکن یہ وہی زخم تھے جن کے نتیجے میں آخر ان کی وفات ہوئی ہے.پس جو تسلسل قائم ہوا ان زخموں کا جو دین کی دشمنی میں لگائے جائیں اور اسی بیماری کی حالت میں کوئی کچھ دیر بعد فوت ہو اس کو مرحوم کہنے کی بجائے شہید لکھنا چاہئے اور مجھے ذرہ بھی شک نہیں کہ ان کے بڑے بھائی بھی شہید تھے

Page 932

خطبات طاہر جلد 16 926 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء اور جس طرح ان کی بیماری کی اطلاعیں مل رہی تھیں لازماً و ہی زخم تھے جن کا دکھ کچھ دیر اور برداشت کرنا ان کے لئے مقدر تھا.پس شہادت بھی تھی اور شہادت کے ساتھ شہادت کی جو جسمانی تکلیفیں ہوا کرتی ہیں وہ ممتد ہوگئی تھیں.چنانچہ مظفر احمد صاحب اپنی بھا بھی یعنی ان کی بیوہ محترمہ غزالہ بیگم صاحبہ کو گاڑی پر سوار کرانے کے لئے ساتھ لے جارہے تھے.ٹانگے پر وہ سوار تھیں اور مظفر احمد صاحب شہید موٹر سائیکل پر پیچھے پیچھے آرہے تھے.سول ہسپتال کے قریب پٹرول پمپ کے سامنے پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آیا.تانگہ پر جو ان کے بھائی کی بچی بیٹھی ہوئی تھی اس نے اس کو اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے دیکھا اور اس کے فوراً بعد فائرنگ کی آواز آئی اور مظفر احمد شہید اسی وقت زمین پر گر گئے.بھا بھی نے مظفر احمد کو اٹھایا.ابھی وہ زندہ تھے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ شہادت ہی تھی خواہ کچھ دیر بعد ہسپتال میں وفات ہو یا دوسال لٹکنے کے بعد وفات ہو یہ شہادت ہی ہے اس میں کوئی فرق نہیں.چنانچہ ہسپتال لے جایا گیا اور ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر آپ نے جان جان آفریں کے سپرد کی.محترم مظفر احمد شرما کی عمر جب یہ شہید ہوئے ہیں بیالیس سال تھی.نہایت مخلص اور فدائی، پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے لیکن کبھی عملاً وکالت نہیں کی.اس کے باوجود ان کا اتنا اثر ورسوخ تھا اور اتنا ان کی نیکیوں کا سارے شہر میں چر چا تھا کہ بڑے بڑے دانشور بھی آپ کے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو شکار پور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری کے طور پر انہوں نے منتخب کیا ہوا تھا.باوجوداس کے کہ احمدیت کے خلاف وہاں بہت تعصب پھیلایا جاتا ہے ان کے ساتھ ذاتی تعلق کا یہ ثبوت ہے کہ ان کو با قاعدہ غیروں نے مشترکہ طور پر اپنے پریس کلب کے جنرل سیکرٹری کے طور پر چنا ہوا تھا.ایک موقع پر، ایک تقریب پر ان کے اثر کو یہ بات بھی ظاہر کرتی ہے کہ چار ضلعوں کے ڈپٹی کمشنر ان کے بلاوے پر اس تقریب میں شامل ہوئے.1975ء میں بھی اس خاندان نے بہت بڑی مالی قربانیاں پیش کی ہیں.شکار پور میں یہ اکیلا احمدی گھرانہ تھا اور اس خاندان نے پوری ثابت قدمی کے ساتھ ہر مصیبت کو برداشت کیا ہے.ان کے والد کو میں ذاتی طور پر بڑی دیر سے جانتا ہوں ، ان کا کارخانہ تھا جس کے اوپر بہت ہی ظالمانہ حملہ کیا گیا اور سب کچھ برباد کر دیا گیا لیکن ان کے ثبات قدم میں کوئی فرق نہیں پڑا.میں نے ان کو تسلی

Page 933

خطبات طاہر جلد 16 927 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء کا خط لکھا.انہوں نے مجھے تسلی کا خط لکھا.نہایت ہی ذلیل بات حکومت کی طرف سے یہ ہوئی ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو جو دھمکیوں کے خط آتے تھے اور جو چھپتے بھی تھے اخباروں میں اور نام بھی لکھا ہوتا تھا ان مولویوں کا، حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی.یہ جمیعت ہے جس کے سر براہ آج کل مولوی فضل الرحمان ہیں اور وہ الفاظ آپ پڑھیں خطوں کے جو خط ان کے نام آیا کرتے تھے اور جو بیان اخباروں میں چھپتے تھے وہ اتنے گندے ہیں کہ ان کو پڑھ کر سنایا بھی نہیں جاسکتا کسی کو.نہایت ہی غلیظ زبان، ان کے متعلق اور ان کی بیگم کے متعلق ، نہایت ہی کمینی بکواس.سپاہ صحابہ کے سر براہ ، جوسیکرٹری تھا مولانا علی شیر حیدری اس نے اخباروں میں چھپوائے ہوئے ہیں.اب دنیا میں کہیں بھی کوئی شریف حکومت ہے تو ایسا گندہ خط چھپنے کے بعد نوٹس لئے بغیر رہ ہی نہیں سکتی ، نام لکھا ہوا ہے بڑی دلیری کے ساتھ قتل کی دھمکی دی گئی ہے کہ ہم تمہیں ضرور قتل کر دیں گے اور اس بد بخت کی جبڑے نہیں توڑے گئے.دنیا کے کسی ملک میں بھی اگر کھلم کھلا اخباروں میں کسی کا نام لے کر قتل کی دھمکی دی جائے ناممکن ہے کہ حکومت کی مشینری فوری طور پر اس کا رد عمل نہ دکھائے.تو پاکستان میں یہ کچھ ہو رہا ہے مگر ہمیں ان سے توقع نہیں ہے، ان پر انحصار نہیں ہے.ہمارا انحصار اسی پر ب يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ ہم اپنی گریہ وزاری صرف اپنے رب کے حضور پیش کریں گے اور ہمیشہ کرتے چلے جائیں گے کیونکہ صبر نے ہمیں یہ تلقین کی ہے خواہ ظاہری طور پر تمہیں اپنی دعاؤں کا نتیجہ دکھائی دے یا نہ دے تم نے مسلسل دعائیں جاری رکھتی ہیں اور ان دعاؤں کا نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا ہے.پس اس پہلو سے جہاں ان پسماندگان کے لئے آپ دعائیں کریں اور دعائیں جاری رکھیں وہاں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کریں کہ ان ظالموں کو جو اس شدید ظلم میں حصہ ڈالے ہوئے ہیں اور بہت ہیں وہ ان کو کیفر کردار تک پہنچائے کیونکہ ان کی گندی اور خبیث زبان کے بعد میں ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچ سکتا کہ ایسے شخص کے اندر کوئی پاک تبدیلی ہو سکتی ہے.مولوی بنا ہوا ہے، ایسی ناپاک باتیں ہیں جن سے اس کے دل کا بغض کھلتا ہے.آج کل پاکستان کے مولویوں کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے کے رستے اور مقرر کئے ہیں اور غلاظت نکالنے کے اور لیکن ان کا ایک ہی رستہ ہے.جس منہ سے یہ خدا کی باتیں کرتے ہیں، جس منہ سے کلمہ پڑھتے ہیں اسی منہ سے

Page 934

خطبات طاہر جلد 16 928 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء اتنا گند بکتے ہیں کہ اس کو جسمانی فضلے سے تشبیہ دینا بھی اس گندگی کی پوری وضاحت نہیں کرسکتا.جو جسمانی فضلہ ہے وہ کچھ بھی نہیں اس کے مقابل پر جو ان کے منہ سے گند نکاتا ہے اس لئے ان کا ایک ہی رستہ رہ گیا ہے جس رستے سے درود پڑھتے ہیں اسی رستے سے نہایت ہی خبیثا نہ بکواس کرتے ہیں.پس ان کے در و دقبول ہوہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے رستے گندے ہو گئے ہیں.بہر حال اس کی مزید تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ اخباروں میں باتیں چھپتی رہی ہیں بہت یہ گندی ہیں مگر ہمیں صبر بہر حال کرنا ہے اور اس صبر کے ساتھ میں ساری جماعت کی طرف سے ان کے پسماندگان سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ انشاء اللہ بفضلہ تعالیٰ اپنے صبر پر پورے ثبات قدم کے ساتھ قائم رہیں گے.مظفر احمد شہید کی نماز جنازہ غائب جمعہ وعصر کے معا بعد یہاں ہوگی.اب میں نماز کے مضمون پر جانے سے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات پر جو مسلسل دنیا سے خطوط آ رہے ہیں ان کے متعلق یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے میرے لئے اور میرے عملے کے لئے کہ ان کا جواب دے سکیں لیکن یہ میں تسلی دلاتا ہوں کہ تمام خطوط پر میں خود نظر ڈالتا ہوں.دیکھتا ہوں کس نے لکھا ہے کیا لکھا ہے اس لئے جو ان کے دل کی خواہش ہے وہ تو پوری ہوگئی جب میں نے نظر ڈال لی اور اس وقت جو ان لوگوں کے لئے دل سے دعا اٹھتی ہے وہ بھی اس خواہش ہی کا ایک حصہ ہے.پس اگر میری طرف سے رسیدگی کا خط بھی نہ جائے تو ہرگز اس ملال میں نہ پڑیں اور اس شبہ میں مبتلا نہ ہوں کہ وہ خط نظر سے گزرا ہی نہیں ، ایک ایک خط بلا استنی جب تک میں دیکھ نہ لوں اس وقت تک میری رات تک کی کارروائی بند نہیں ہوتی یعنی یہ فائل الگ پڑی رہتی ہے جب تک میں دیکھ نہ لوں اس وقت تک میں اپنا دفتر بند نہیں کرتا، اس لئے آپ لوگ مطمئن رہیں.اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے لئے ضمنا میں نے جو تحقیق اور کی ہے اس پر میں حیران ہوا ہوں ایک بات پر کہ خدا تعالیٰ نے جو غیر معمولی عمر کی خبر دی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام مردانہ اولاد میں ان کے برابر کسی نے عمر نہیں پائی.خلاف توقع' کا لفظ حیرت انگیز طور پر پورا ہورہا ہے.اس خلاف توقع لفظ نے ہی مجھے اس تحقیق پر مجبور کیا.میں پہلے سمجھتا تھا حضرت بھائی جان مرزا عزیز احمد صاحب کی عمران سے زیادہ لمبی تھی اور بھی کئیوں کی طرف خیال گیا،

Page 935

خطبات طاہر جلد 16 929 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے متعلق خیال گزرا کہ ان کی عمر لمبی تھی.ہر ایک کو ان کی پیدائش اور وفات کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ خود بولتے ہیں کہ ہاں ہم اطلاق پارہے ہیں تو یہ الہام بھی اس طرح بول رہا ہے کہ لازماً آپ کا ذکر تھا کیونکہ خلاف توقع بات کی جارہی تھی اور خلاف توقع ایک ہی شخص کے متعلق پورا ہونا تھا.پس اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.آپ کے متعلق جو الہامات کا سلسلہ تھا وہ بہت پختہ اور ایسا یقینی تھا کہ کسی شخص کی خیال آرائی کا اس سے کوئی تعلق نہیں وہ لازماً پورا ہوا ہے.اب میں نماز کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات ہیں دوبارہ ان کو شروع کرتا ہوں کیونکہ اب رمضان بھی آنے والا ہے اور ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی نمازوں کو سنواریں اور یہ ضرورت آج کل کے حالات کی وجہ سے اور بھی زیادہ ہے کیونکہ ہمیں اگر دنیا کے فساد اور شر سے بچانے والی کوئی چیز ہے تو وہ نماز ہی ہے اور اس کے سوا اور کوئی صورت ہم کمزوروں کے بچنے کی نظر نہیں آتی اور اس نماز کو سنوار میں جس میں ہماری زندگی بند ہے.بعض لوگوں کو کہانیوں میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ گویا ان کی زندگی طوطے میں بند تھی جو ایک پنجرے میں بند تھا.اگر واقعہ ایسی بات ہو سکتی تھی ، جو نہیں ہو سکتی ، تو یہ کہا نیاں ضرور پیغام دے رہی ہیں.میرے نزدیک یہ کہانیاں یہی پیغام دے رہی ہیں کہ مومنوں کی زندگی بھی ایک خاص چیز سے وابستہ ہے اگر وہ اس کو زندہ رکھیں گے تو وہ بھی زندہ رہیں گے.پس دنیا کی کہانیوں میں تو طوطا ہے جس میں کسی کی جان بند تھی ہمارا طوطا ہماری نماز ہے.جب نماز مرگئی تو سب کچھ مر گیا، جب نماز زندہ رہی تو ہر مومن زندہ رہے گا کیونکہ نماز ہی سے زندگی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: روح اور جسم کا با ہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے.مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہے اسے ہنسی آہی جاتی ہے.،، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی دنیا میں انکار نہیں کر سکتا.زور لگا کے اگر آپ رونے کی کیفیت طاری کریں گے تو رونا آہی جائے گا، زور لگا کر ہنسی کی کیفیت طاری کریں تو ہنسی آہی جاتی

Page 936

خطبات طاہر جلد 16 930 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان لوگوں کو مخاطب ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں رونا نہیں آتا نماز میں.آپ نے فرمایا تکلف کرو، کوشش کرو اور یہ تکلف جائز ہے، یہ بناوٹ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے جو روح کی کیفیت ہے اس رونے میں مضمر ہے جو خدا کی یاد کے ساتھ آنا چاہئے.اگر وہ نہیں ہے تو یہاں تکلف ناجائز نہیں اور چونکہ اس تکلف کا اپنی ذات سے تعلق ہے، لوگوں کے سامنے منہ بنانے سے تعلق نہیں ہے اس لئے اسے ہرگز منافقت قرار نہیں دیا جاسکتا.فرماتے ہیں: اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا ، رکوع کرنا، اس کے ساتھ روح پر بھی اثر پڑتا ہے.“ یہ مضمون بیان فرمانے کے بعد پھر حضور فرماتے ہیں: ”جب انسان نیازمندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے.جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے.کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آکر اس کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں.“ اب یہ مثال دیکھیں کتنی سچی مثال ہے.کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو اپنا سر اس کے پاؤں پر رکھ دیتے ہیں.میں نے بھی بچپن میں شکار کے شوق میں کتے پالے ہوئے تھے یا گھر کی حفاظت کے لئے اور اسی لئے آخر ان کو رخصت کرنا پڑا کیونکہ مجھے اس سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی کہ وہ اپنی محبت کا اظہار میرے پاؤں چاٹ کر کیا کرتے تھے اور کتوں کے چاٹنے سے جو انسان میں مومنوں میں ایک طبعی کراہت ہے اس کی وجہ سے آخر مجھے ان کو رخصت کرنا پڑا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اس بات کے ساتھ مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا کہ بچپن میں میں نے خود دیکھا ہوا ہے جب مالک گھر میں داخل ہوتا ہے تو جب آپ کتوں سے پیار کرتے ہیں، ان کی روٹی کا خیال رکھتے ہیں، ان کی آسائش کا خیال رکھتے ہیں تو وہ دوڑ کر آ کر پاؤں چاٹنے لگتے ہیں اور ایک قسم کا سجدہ کر دیتے ہیں مالک کو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آکر اس کے

Page 937

خطبات طاہر جلد 16 931 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء پاؤں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدے کی صورت میں کرتے ہیں.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے.ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو جاتا ہے.جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی تو اس کے آثار ظاہر ہوتے ہیں.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ: 696تا697) اس کے نتیجے میں بہت سی جسمانی بیماریاں لگ جاتی ہیں اور ہومیو پیتھی کا آج کل جماعت میں چرچا ہے سب ہو میو پیتھ جانتے ہیں اس اثر کو کہ اگر صدمے کے نتیجے میں فوری طور پر صدمے کا ازالہ نہ کیا جائے تو گہری تازندگی چمٹ رہنے والی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حقیقت کو بھی سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ ہومیو پیتھی سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ روح پر صدمے کے اثر سے لازماً جسمانی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سوال کا جواب دیتے ہیں: و کبھی نماز میں لذت آتی ہے اور کبھی وہ لذت جاتی رہتی ہے اس کا کیا علاج ہے.“ اس ضمن میں ایک بات تو میں یہ بتا دوں اور یہ ایک تنبیہ ہے کہ جس طرح لوگوں نے ہر طرف سے نماز کے خطبات کے نتیجے میں اپنی نمازوں کی طرف توجہ شروع کی ہے مجھے بعضوں کے متعلق خدشہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ نہ کر دیں اس کا دماغ پر اثر ہو سکتا ہے.بہت سے ایسے کمزور انسان ہوتے ہیں جو جلدی میں روحانی مراتب چاہتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد ان کے دماغ کو یہ کوفت اتنی چڑھ جاتی ہے کہ خیالی مراتب کے تصور میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ مذہبی جنونی بن جاتے ہیں.اس لئے آنحضرت میر کی اس نصیحت کو کبھی نہ بھولیں کو جو نیکی کا سفر ہے اس میں آہستگی رکھیں، آرام سے سفر کریں.کبھی قیلولہ بھی کر لیا کریں اور کبھی جب موسم خوشگوار ہو، جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہوائیں چلیں کہ جب اس کی عبادت کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہوتی ہے اس وقت زیادہ زور سے قدم ماریں.یہ طریق ہے جس پر چل کر انشاء اللہ بھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اسی عنوان سے میری توجہ اس طرف گئی ہے کہ بعض دفعہ ویسے کبھی لذت آتی ہے کبھی چلی جاتی ہے اور یہ منافقت کی علامت نہیں ہے.انسانی فطرت ایک زور مارتی ہے پھر کچھ تھک کر آرام کرتی ہے یعنی وہ لوگ جن

Page 938

خطبات طاہر جلد 16 932 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء کے جسم ہمیشہ نماز میں لذت نہیں پاتے ان کا تھکنا لا زمی امر ہے اور یہ کسی بدی کی علامت نہیں ہے.یہ سالک جوابتداء میں سفر کرتا ہے اس کو اسی طرح تجربہ ہوا کرتا ہے کہ دوام کے طور پر اپنی نماز کی حالت کو ایک جیسا نہیں رکھ سکتا.حضور فرماتے ہیں: ہمت نہیں ہارنی چاہئے بلکہ اس لذت کے کھوئے جانے کو محسوس کرنے اور پھر اس کو حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہئے.“ فرمایا آپ کے ہاتھ سے کچھ کھویا گیا اگر آپ احساس رکھیں گے کہ کچھ کھویا گیا ہے تو یہ احساس بہت اہم ہے اور فکر میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ کچھ کھویا گیا ہے.فکر میں مبتلا ہونے کی ضرورت تو ہے مگر اگر فکر میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ جو کھویا گیا تھا وہ پھر حاصل ہوگا، یہ مطلب ہے.فرماتے ہیں: جیسے چور آوے اور وہ مال اڑا کر لے جاوے تو اس کا افسوس ہوتا ہے.(اگر نماز میں لذت جاتی رہے تو افسوس ضرور کرنا چاہئے جیسے مال کے کھوئے جانے کا افسوس ہوتا ہے ) اور پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ آئندہ اس 66 خطرے سے محفوظ رہے.“ جب دنیاوی مال چور اڑا کر لے جائے تو جو دکھ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں بعض دفعہ الارم لگائے جاتے ہیں کھڑکیوں ، دروازوں کو مضبوط کیا جاتا ہے تو حضور فرمارہے ہیں اس کا نتیجہ نکلنا چاہئے کہ تم اپنی نماز کی حفاظت میں مزید سامان کرو.اس لئے معمول سے زیادہ ہوشیاری اور مستعدی سے کام لیتا ہے اسی طرح پر جو خبیث نماز کے ذوق اور انس کو لے گیا ہے اس سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.“ جو خبیث لے گیا ہے، مراد ہے شیطان.جسمانی ڈاکہ مارنے والے بھی گندے لوگ ہوا کرتے ہیں مگر شیطان کو خبیث کہا گیا ہے اور فرمایا: جو خبیث نماز کے ذوق اور انس کو لے گیا ہے.“ ( اس نے گویا ڈا کہ مار دیا ہے اور وہ تمہاری نماز کی لذتوں کو لے اڑا ہے).“

Page 939

خطبات طاہر جلد 16 933 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء اس سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے؟ اور کیوں نہ اس پر افسوس کیا جائے.جسمانی نقصان پر جس طرح آپ افسوس کرتے ہیں اگر روحانی نقصان پر اس طرح افسوس کریں تو اللہ تعالیٰ پھر وہ تقویت عطا کرتا ہے جس کے نتیجے میں آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کر سکتے ہیں.فرماتے ہیں: انسان جب یہ حالت دیکھے کہ اس کا انس ، ذوق جاتا رہا ہے تو وہ بے فکر اور بے غم نہ ہو.نماز میں بے ذوقی کا پیدا ہونا ایک سارق کی چوری اور روحانی بیماری ہے.(ایک چور نے آپ کی چیزیں اڑا لی ہیں.) جیسے ایک مریض کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے.اسی طرح پر جس کا روحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح کی فکر کرنی لازم ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ: 310،309) اب یہاں پہنچ کر جو پہلی مثال تھی اس کو چھوڑ دیا ہے اور عرف عام میں ایک ایسی بات کی ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں واضح طور پر آسکتی ہے.وہ خبیث کی چوری کا جو ذکر ہے وہ ایک ایسا مفہوم ہے جو شاید آپ کا تصور اس کو پکڑ نہ سکے لیکن یہ بات آپ کو معلوم ہے.فرماتے ہیں بسا اوقات اچھا کھانا تو نصیب ہوتا ہے مگر اس کھانے کا ذوق جاتا رہتا ہے اور یہ ذوق کا جانا بیماری کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے.اچھے سے اچھا کھانا آپ کے سامنے پیش ہوا گر آپ بیمار ہوں گے اور ذوق نہیں ہوگا تو کھانے کا کوئی مزہ نہیں آئے گا.پس یہ کھانے کا تو قصور نہیں ہے یہ تو کھانے والے کا قصور ہے.اس کی زبان کا قصور ہے جو اسے چکھ رہی ہے اور مزہ نہیں حاصل کر رہی.پس اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نماز کا تجزیہ فرمایا ہے اس کو پیش نظر رکھیں.اس کے بعد فرماتے ہیں: حقیقی نماز یا درکھو! یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.بہت سے لوگ ہیں جن کو سر دست دنیا تو عزیز ہے نماز اتنی عزیز نہیں.اگر یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ نماز دین کے لئے نہیں دنیا کے لئے بھی ضروری ہے تو یہ بات ایسی ہے جس کو ہر مومن کو یادرکھنا چاہئے کیونکہ دنیا کی ضرورتیں تو لاحق ہیں ہی اس کو ، ان کے لئے دیکھو کیا کیا تدبیریں

Page 940

خطبات طاہر جلد 16 934 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء کرتا ہے، کیا کیا کوششیں بجالاتا ہے.فرمایا: نماز تو وہ چیز ہے جس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر جیسے کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد ،، اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.“ اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ یہ وہی مضمون ہے جو اس آیت سے تعلق رکھتا ہے جس کی میں نے تلاوت کی تھی.فرماتے ہیں: خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.“ پس نماز میں صبر کے ساتھ جو استعانت کی تلقین ہے اس کا مرجع بھی نماز ہی ہے.یعنی خدا سے صبر کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ مدد مانگو مگر اول مدد یہ ہو کہ اللہ تمہیں نماز نصیب کرے.اگر اس طرح آپ دعائیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403) جن لوگوں کے لئے نماز میں لمبا عرصہ کوشش ممکن نہیں یعنی ابھی ان کو اس کا سلیقہ نہیں آیا، ابھی اس کا بوجھ محسوس ہوتا ہے ان کا یہ علاج ہے.عام دن کی گھڑیوں میں جب وہ با قاعدہ نظم وضبط میں باندھے ہوئے نہیں ہوتے وہ آزاد ہوتے ہیں سوچنے میں، چلنے پھرنے میں ، ہر چیز میں فرمایا اس وقت بھی دعائیں کرو.جب بھی خیال آئے دعا کرو کہ اللہ جس طرح ہمیں اس ظاہری آزادی میں مزہ آ رہا ہے اس پابندی میں بھی مزہ آ جائے جو تیری خاطر برداشت کرتے ہیں اور یہ آزادی پابندی دکھائی دے اور پابندی جس میں ہم تیرے حضور حاضر ہوں وہ آزادی دکھائی دے.یہ دعا ہے جس کو اگر آپ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت فرمائی ہے مانگیں گے تو الدنيا سجن للمؤمن وجنة للكافر ( صحیح مسلم كتاب الزهد والرقائق : 14058) کے معنی آپ کو سمجھ آجائیں گے.اصل یعنی حقیقی معنی کہ مومن خود بھاگ بھاگ کر قید خانے میں دوڑتا ہے جس کو کا فرقید خانہ دیکھ

Page 941

خطبات طاہر جلد 16 935 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء رہا ہے اور جس کو وہ جنت پاتا ہے اس سے گھبرا گھبرا کر وہ اپنے قید خانے کی طرف چلا جاتا ہے کیونکہ اس کی جنت وہاں ہوتی ہے.پس یہ بظاہر ایک متضاد بات ہے مگر وہ حدیث جس کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں حقیت میں یہی مضمون ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی جنت میں چلے جاؤ.الدنيا سجن للمؤمن میں یہ نصیحت ہے کہ وہ بجن تو ہے مگر مومن کے لئے وہی ہے.مومن خود چاہتا ہے اس پر کوئی جبر نہیں ہے وہ سجن اس سے چھوڑ انہیں جاتا.بھاگ بھاگ کر قید خانوں میں مبتلا ہوتا ہے.پس آج کے ایام میں جو رمضان کے قریب ہیں اس پر یہ حدیث اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ اطلاق پائے گی کہ رمضان مبارک کی قید جو بظا ہر قید ہے اس میں آپ باہر نکل کر دیکھیں گے تو دنیا طرح طرح کے عیش و عشرت میں مبتلا ہوگی اور پارکوں میں گند ہوگا، گلیوں میں گند ہوگا جہاں سے آپ گزریں گے نظر اٹھانا مشکل ہوگی اور آپ نے خدا کی خاطر ایک قید قبول کی ہوگی.یہی قید ہے جو دراصل جنت ہے اور وہ جنت جو انہوں نے بنائی ہوئی ہے وہ جہنم ہے.اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں تو آپ کا رمضان نسبتاً زیادہ آسانی اور سہولت سے گزرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اب نہایت ہی پیارے الفاظ میں تقویٰ کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ تقومی ہی نماز کی جان ہے اور تقوی نماز کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا ہے اور ایسا گہرا تعلق ہے کہ نماز تقویٰ میں جان ڈالتی ہے، تقوی نماز میں جان ڈالتا ہے.فرمایا: کل یعنی 22 جون 1899 ء بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا.“ 22 جون 1899 ء بار بار یہ الہام ہوا ہے.اب تھوڑا عرصہ رہ گیا ہے اس صدی کے گزرنے میں اور اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام بار بار ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اگلی صدی کا گیٹ ہونا چاہئے.دنیا میں بھی بہت گیٹ سجائے جائیں گے جن سے گزر کر وہ اگلی صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ گیٹ عطا کیا گیا ہے جو تقویٰ کا گیٹ ہے اور جون 1899 ء کا الہام ہے.پس بلاشبہ ہمارے لئے بھی آج یہی الہام ہے جو ہمارے حالات پر چسپاں ہورہا ہے اور اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.فرماتے ہیں ! تم لوگ متقی بن جاؤ یہ الہام ہوا ہے بار بار:

Page 942

خطبات طاہر جلد 16 936 اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہوگا.“ خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء ( ملفوظات جلد اصفحہ : 200) اگر اگلی صدی سے پہلے ہم عزم صمیم لے کر اس الہام کے سہارے سے داخل ہوں اور اس یقین سے داخل ہوں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے تو ساری صدی ہماری ، ساری دنیا ہماری ہے جو خدا کی صدی ہے اور خدا کی دنیا ہے وہ انہی کی ہوگی جن کے ساتھ خدا ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے.اس الہام کے ساتھ بڑا دل میں درد پیدا ہوتا ہے: 66 کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ اور طہارت اختیار کرلے“ یہ کیفیت تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کی آپ لوگوں کے لئے جو اس وقت اگلی صدی کے سر پر کھڑے ہیں.جو کیفیت اس وقت جماعت کے متعلق آپ کی تھی یہ اب بھی وہی کیفیت ہے اور ابھی بھی اس الہام کے تابع ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کے درد ناک دل کی دعائیں پہنچ رہی ہیں.پھر فرمایا: میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے 66 اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے.تقوی کمانا آسان نہیں ہے، جن کو خدا نے امام بنا یا تھا، آپ کے دل کی یہ کیفیت ہے.حقیقت میں اب جو میں یہ نظارے دیکھ رہا ہوں کہ جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی کثرت سے تقوی کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایک ذرہ بھی میرے دل میں یہ وہم نہیں کہ یہ کچھ میری وجہ سے ہے.بلاشبہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.ہرصدی آپ کی ہے اور ہر صدی کے سر پر کھڑے ہو کر آپ بول رہے ہیں اور آپ کی زبان کی طاقت ہے جو خدا سے طاقت پاتی ہے پھر اگلی صدی متبرک ہو جاتی ہے اور اس میں نیکی کی لہریں دوڑ نے لگتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ ہی کی دعاؤں کے ساتھ میں آپ کو وہ عبارت پڑھ کر سناتا ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں.فرمایا:

Page 943

خطبات طاہر جلد 16 937 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء ” جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ 66 کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی.“ اب یہ جو عبارت میں پڑھ کر سنا رہا ہوں یہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ایک خط میں سے لی گئی ہے جو 23 جون 1899ء کو آپ نے لکھا اور الحکم میں شائع ہوا.آپ اسی مجلس میں موجود تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رات کے الہام کا ذکر کیا.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب کی یہ تحریر ہے.جو الفاظ ہیں جس قدر ان کو یاد تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے الفاظ ہیں.فرمایا جو آیا ہے یہاں اس سے میں کہہ رہا ہوں.یہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے الفاظ ہیں.فرمایا: ”جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں منتقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہوسکتی.فرمایا: تقوئی خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت اور انجیل کی تعلیمات کا.‘ ( ملفوظات جلدا، صفحہ: 303) اب اس میں تقویٰ کو اسلام سے خاص نہیں فرمایا گیا.فرمایا تقویٰ تو ہر مذہب کی جان ہے.یہ خیال نہ کرو کہ صرف اسلام ہی تقویٰ کی بات کرتا ہے.تمام مذاہب کی روح اور تمام مذاہب کی جان تقویٰ میں تھی." تقویٰ خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت اور انجیل کی تعلیمات کا.قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے.فرمایا ”میں اس فکر میں بھی ہوں.(اب یہ غور سے سننے والی بات ہے.) میں اس فکر میں بھی ہوں کہ اپنی جماعت میں سے بچے متقیوں ، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ ، ( یعنی وہ لوگ جو اللہ کی خاطر دنیا کو تج دیتے ہیں اور خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں ) کو الگ کر دوں اور بعض دینی کام انہیں سپر د کروں اور پھر میں دنیا کے ہم وغم میں مبتلا رہنے والوں اور رات دن مردار دنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ

Page 944

خطبات طاہر جلد 16 938 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء بھی پرواہ نہ کروں.“ ( ملفوظات جلد 1 ، صفحہ:200) امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی یہ خواہش بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے اور کثرت سے وہ ہیں جو دنیا کمانے والے، دنیا میں جان کھپانے والے تھے مگر اب نہیں رہے اور آپ کے دل کی بے قراری کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح قبولیت بخشی ہے کہ ان کو الگ کر کے باقیوں کو پیچھے چھوڑنے کی ضرورت نہیں رہی اب مسلسل ان لوگوں میں سے وہ نکل رہے ہیں ، ایسے لوگ نکل رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمہ تن خدمت دین میں مصروف ہیں اور زیادہ سے زیادہ مصروف ہوتے چلے جارہے ہیں.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں: رات کسی درد سے حضرت امام فرماتے ہیں آہ اب تو خدا کے سوا کوئی ہمارا نہیں رہا.“ یہ تقویٰ کے الہامات کا نتیجہ تھا جو رات کو ہو رہے تھے.کتنی گہری نظر ڈالی ہے.یہ خیال نہیں کیا کہ تقویٰ کی تعلیم ہے تقویٰ پہ انشاء اللہ ہم عمل کریں گے.یہ محسوس ہوا ہے کہ تقویٰ کے بغیر ہماری زندگی کا کوئی بھی سہارا اب نہیں رہا اور تقویٰ کی طرف توجہ اس لئے دی جارہی ہے کہ اگر نہ دی تو کچھ بھی نہیں رہے گا.یہ غم تھا جو آپ کی جان کو لگ گیا.آہ اب تو خدا کے سوا کوئی ہمارا نہیں رہا.اپنے پرائے سب ہی اس پر تلے ہوئے ہیں کہ ہمیں ذلیل کر دیں.رات دن ہماری نسبت مصائب اور گردشوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں.اب اگر خدا تعالیٰ ہماری مدد نہ کرے تو ہمارا ( ملفوظات جلد 1 ، صفحہ: 200 201) ٹھکانہ کہاں.یہی کیفیت بعینہ اس وقت پوری ہو رہی ہے.صرف پاکستان کا ذکر نہیں ہے دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جماعت ترقی کر رہی ہے رات دن لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور منصوبے بنار ہے ہیں اور طرح طرح کی جھوٹی باتیں جماعت کے اندر مشہور کر رہے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ان ملکوں کی زمینیں ان پر تنگ ہو جائیں، جس کے نتیجے میں ان کے دوست دشمن ہو جائیں.یہ وہ کیفیت ہے جس سے بچنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے.پس آپ فرماتے ہیں:

Page 945

خطبات طاہر جلد 16 939 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1997ء اب اگر خدا تعالیٰ ہماری مدد نہ کرے تو ہمارا ٹھکانہ کہاں.“ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دنیاوی کوششوں کو بجالانے کی طرف محض اس حد تک توجہ کریں کہ انتثال امر ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ امر فرمایا ہے کہ دنیا کی کوششیں بھی تم نے ضرور کرنی ہیں.محض اس خیال سے جس حد تک ممکن ہوتا ہے ہم کوشش کرتے ہیں.ہر تد بیر کو بروئے کارلاتے ہیں لیکن کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی ان تدبیروں پر تو کل نہیں ہوتا کیونکہ ان تدبیروں میں جان خدا نے ڈالنی ہے اور اگر غور سے دیکھیں تو وہ تدبیریں وہی ہیں جو آسمان سے اترتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی دل میں ڈالتا ہے.پس تدبیروں پر انحصار نہیں.تدبیروں پر عمل اس لئے ضروری ہے کہ خدا نے سجھائی ہیں اور یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف صورتوں میں بیان ہوا ہوا ہے کہ إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًان واكِيْدُ كَیدا (الطارق: 16، 17 ) کہ دشمن تدبیریں کرتا ہے خدا قادر مطلق ہے چاہے تو ایک عذر سے ان کی ساری تدبیریں ملیا میٹ کر دے.مگر فرمایا اکیڈ گیدا میں بھی تدبیر کرتا ہوں.کچھ وہ تدبیر ہے جو آسمان پر از خود حرکت میں آجاتی ہے اور ہمیں دکھائی نہیں دیتی لیکن پوری ہو کر رہتی ہے.کچھ وہ تدبیر ہے جو آسمان سے دلوں پر اترتی ہے اور اس کا کچھ ذکر میں نے کل کے ہندوستان کے خطاب میں بھی کیا تھا کہ وہ تدبیریں ہم اس لئے بجالاتے ہیں ان تدبیروں کے احترام کے ساتھ ، ان کو چومتے ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ دل میں ڈالتا ہے اور اکید گیڈا کا یہ بھی ایک مضمون ہے کہ دشمن جو تدبیریں کر رہا ہے اس کے مقابل پر میں بھی اپنی جماعت کو یعنی خدا والوں کو تدبیریں سکھاؤں گا اور ان کے دلوں پہ تدبیریں الہام کروں گا اور ان تدبیروں میں برکت ڈالوں گا.پس ان تدبیروں کو بجا لانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایک تو انتصار امر کا معاملہ ہے، ایک یہ کہ اللہ نے اتاری ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت ایسی ساری تدبیروں کو بڑی کوشش اور ہمت اور دعا کے ساتھ بروئے کار لائے گی جو میری طرف سے ان کو بھیجی جاتی ہیں اور سب دنیا میں ان تدبیروں کو بھجوانے کا ایک سلسلہ جاری ہے.ان کو عزت کے ساتھ قبول کریں ان کو دنیا دار نہ سمجھیں.جان لیں کہ یہی تدبیریں اللہ نے عطا فرمائی ہیں اور پورے احترام کے ساتھ ان پر عمل کرنا ضروری ہے.پس اس نصیحت کے ساتھ میں آج کے اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ انشاء اللہ اس پر پوری طرح عمل کریں گے.

Page 946

Page 947

خطبات طاہر جلد 16 941 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء رمضان کا سب سے بلند مقصد اور سب سے اعلیٰ پھل یہ ہے کہ اللہ مل جاتا ہے ( خطبه جمعه فرموده 26 دسمبر 1997ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَثِرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُ بِكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوْانِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 186، 187) پھر فرمایا: اب رمضان میں داخل ہونے سے پہلے یہ ہمارا آخری جمعہ ہے.جو رمضان کے بغیر جمعے آتے ہیں ان میں سے یہ آخری ہوگا اور باقی جمعے انشاء اللہ رمضان کے دوران آئیں گے تو جیسا کہ ہمیشہ سے میرا دستور رہا ہے میں رمضان آنے سے پہلے جمعہ میں رمضان ہی کے متعلق کچھ امور بیان کرتا ہوں اور بعض دفعہ یہ سلسلہ رمضان کے جمعوں تک بھی پھیل جاتا ہے لیکن یہ ایسے مسائل ہیں جو بار بار سننے

Page 948

خطبات طاہر جلد 16 942 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء کے باوجود پھر بھی فراموش ہو جایا کرتے ہیں.فَذَكِّرْ اِن نَفَعَتِ الذِّكْرَى (الاعلی : 10) میں جو یہ نصیحت ہے کہ زور سے اور بار بار نصیحت کیا کر کیونکہ ایسا نصیحت کرنا جو بار بار ہو بہت فائدہ پہنچاتا ہے.پس اس پہلو سے اگر چہ آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے پہلے بھی یہی مضمون سنا ہوگا مگر ایک بڑی تعداد نئے آنے والوں کی بھی ہے جو کثرت کے ساتھ گزشتہ رمضان کے بعد جماعت میں داخل ہوئے ہیں ان کا بھی حق ہے کہ ان کے سامنے بھی یہی باتیں دہرائی جایا کریں.دوسرے، چھوٹے بچے بڑے ہورہے ہیں.پھر بسا اوقات بعض لوگ جمعہ میں آنہیں سکتے یا پہلے، پچھلے رمضان پر ڈش انٹینا کا نظام اتنا عام نہیں تھا جتنا اب ہو چکا ہے تو یہ سارے امور ایسے ہیں کہ اگر آپ سمجھیں کہ آپ کو ان باتوں کا علم ہے تو پھر بھی تسلی رکھیں کہ اکثر ایسے ہیں جن کو ضرورت ہے اور جو سمجھتے ہیں ان کو علم ہے ان کا یہ وہم ہے کہ ان کو پوری طرح علم ہے.جب مضمون شروع ہوگا تو آپ سمجھ جائیں گے کہ اس علم کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے تا کہ یہ دلوں کی گہرائیوں تک اترے.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ رمضان کا مہینہ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کا ایک ترجمہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا.هُدًى لِلنَّاسِ ہدایت ہے لوگوں کے لئے وَبَيِّنَتِ مِنَ الْهُدى اور ہدایت میں سے بھی ایسی کھلی کھلی روشن ہدایات کہ جو ظاہر و باہر ہوں.وَالْفُرْقَانِ اور فرقان بھی ہے یعنی اپنے اندر بڑے مضبوط دلائل رکھتا ہے.اسی آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ یعنی رمضان کا مہینہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا ہے.جہاں تک پہلے ترجمے کا تعلق ہے عموماً مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان میں قرآن اتارا گیا“ سے مراد یہ ہے کہ رمضان میں پورا قرآن اتارا جاتا تھا.یہ درست نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم تو آہستہ آہستہ نازل ہوا ہے اور سوائے اس کے کہ اس رمضان میں جس میں پورا قرآن مکمل ہو چکا تھا سارا قرآن دہرایا جاہی نہیں سکتا.دوسرے، رمضان بہت بعد میں فرض ہوا ہے اور قرآن تو نبوت کے پہلے دن سے اتارا جا رہا ہے اس کا رمضان سے کیا تعلق ہوا.اس لئے یہ کہنا کہ رمضان میں اتارا گیا یہ اس پہلو سے درست نہیں بنتا.رمضان میں کثرت کے ساتھ جو کچھ اتر اتھاد ہرایا جاتا تھا.أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ کا ایک معنی یہ لیا جا سکتا ہے جو درست ہے کہ جتنا قرآن بھی نازل

Page 949

خطبات طاہر جلد 16 943 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء ہو چکا تھا اس رمضان میں دوبارہ ضرور دہرایا جاتا تھا تو اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کا ایک معنی ہے.قرآن کے معانی کو طاقت بخشنے کے لئے ، اس کو شدت عطا کرنے کے لئے آنحضرت تم پر ہر رمضان میں گزشتہ اترا ہوا قرآن دہرایا جایا کرتا تھا.دوسرا معنی وہی ہے جو میں نے دوسرے پہلو سے کیا ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ رمضان کا مہینہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا ہے اور یہ معنے بڑے وسیع ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی جتنی تعلیم بھی ہے رمضان میں وہ ساری کی ساری تعلیم انسان کے لئے قابل عمل ہو جاتی ہے حالانکہ عام مہینوں میں لازم نہیں کہ وہ تعلیم قابل عمل ہو.یعنی قابل عمل ان معنوں میں تو ہے کہ انسان عمل کر سکتا ہے لیکن عموما اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوا کرتا اور رمضان میں قرآن کریم کی تعلیم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو اس مہینے میں پورا نہ اترتا ہو.تو أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ اتنا عظیم مہینہ ہے کہ گویا قرآن اسی مہینہ کے بارہ میں نازل کیا گیا تھا.اب دیکھ لیں روزہ ایک بہت ہی اہم قربانی ہے اور بہت سے مفسرین لکھتے ہیں کہ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة:154 ) میں صبر سے مراد روزہ ہے تو روزے اور عبادت کے ذریعہ سے مدد مانگا کرو لیکن کتنے ہیں جو سارا سال روزے رکھتے ہیں یا سارے سال میں کسی مہینے میں وہ روزے رکھتے ہوں.بہت بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے جو روزہ نہیں رکھتی.کبھی اتفاق سے کوئی مصیبت ٹوٹ پڑے تو اس وقت روزہ رکھ بھی لیتے ہیں اور بہت ہی تھوڑی تعداد ہے جو با قاعدگی سے رمضان کے مہینوں کے علاوہ بھی روزے رکھتے ہوں.فِيْهِ الْقُرْآنُ سے مراد اس صورت میں، دوسرے معنوں میں یہ بنے گا کہ یہ وہ مہینہ ہے جب سارے مسلمان روزہ بھی رکھتے ہیں.کوئی دنیا میں ایسا مسلمان نہیں جو رمضان میں روزے نہ رکھتا ہو اور وہ جو نماز بھی نہیں پڑھا کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ ہماری نمازیں بخشوانے کا موجب بھی بن جائے گا اور روزوں پر اتنا زور ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی نہیں کرتے سال میں کم سے کم آخری عشرہ کے روزے رکھنے لگ جاتے ہیں.جو شرا ہیں پیتے ہیں، ہر قسم کی بدیاں کھاتے ہیں اور کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کے روزے ان سب کو بخشوانے کا موجب بن جائیں گے.پس اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کی تمام تعلیمات اس مہینے میں

Page 950

خطبات طاہر جلد 16 944 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء شدت کے ساتھ عمل میں لائی جاتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے قرآن کا مقصد ہی اس مہینے کے متعلق تھا، اس کی وضاحت تھا، اس کی خوبیاں بیان کرنا تھا.پس اس پہلو سے اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرآن کے نتیجے میں اب ہمیں غور کرنا ہے کہ اس سے پھر کیا کیا کچھ حاصل ہوگا.پہلی بات تو یہ ہے که اگر اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ کی بات درست ہے تو هُدًى لِّلنَّاسِ یہ مہینہ بھی اور قرآن کریم بھی یہ دونوں انسان کے لئے ہدایت بنا کر بھیجے گئے ہیں.اس مہینے سے گزرنے کے بعد اور قرآن کریم کا کثرت سے مطالعہ کرنے کے بعد ٹھدًی لِلنَّاسِ یہ چیزیں لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوں گی.اگر کوئی رمضان میں سے گزر جائے اور ہدایت نہ پائے تو قرآن سچا ہے یا وہ سچا ہے.اس کا یہ کہنا کہ میں نے رمضان کے روزے پائے ، میں نے رمضان سے اپنے گناہ بخشوالئے یہ ساری باتیں غلط ہو جائیں گی کیونکہ رمضان المبارک کو ضرور ہے کہ اس کے لئے کچھ نہ کچھ ہدایت کا سامان پیدا کرے.قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے ہو یا براہ راست روزوں کے ذریعے ہو دونوں صورتوں میں ہدایت ضرور ملنی چاہئے.وَبَنتِ مِنَ الْهُدی اور وہ لوگ جو پہلے ہی ہدایت پر ہوا کرتے ہیں ان کے لئے وَ بَنتِ مِنَ الْهُدی کی خوشخبری ہے.اتنی عظیم الشان ہدایتیں رمضان کے دوران نصیب ہوں گی کہ آنکھیں کھول دیں گی ، پہلے جن کی طرف توجہ ہی نہیں تھی.بنت وہ ہیں جو آنکھوں کو چندھیا دیں گویا کہ وقتی طور پر اتنے روشن ہوں کہ انسان حیران ہو کے دیکھے اچھا یہ بھی تھی.تو ایسی روشن ہدایات انسان کو اس مہینے میں نصیب ہوتی ہیں جو قرآن میں پہلے سے موجود ہیں.وَبَيْتٍ مِنَ الھدی میں قرآن کی طرف اشارہ ہے کہ اس میں بھی موجود ہیں لیکن ان ہدایات کے لئے آنکھیں کھلتی نہیں ہیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ انسان کی آنکھیں کھلنے کا دور ہر رمضان میں اسی طرح آیا کرتا ہے.ساری زندگی وہ جو سمجھتا ہے کہ میں نے سب کچھ پالیا، رمضان میں کبھی کبھی اچانک یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ابھی یہ آیت نازل ہوئی ہے ، ابھی اس آیت کا مضمون سمجھ آیا ہے.اور اس وقت وہ بسنت میں شمار ہونے لگتی ہے.وَالْفُرْقَانِ اور بڑی قطعی دلیلیں انسان کو عطا کرتا ہے.ایک پہلو سے فرقان سے مراد یہ ہے کہ انسان جو شک میں مبتلا ہوتا ہے کہ نہ معلوم میں ہدایت پر عمل کر بھی رہا ہوں کہ نہیں وہ فرقان میں داخل ہو جاتا ہے.اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی

Page 951

خطبات طاہر جلد 16 945 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء متین دلیل ملتی ہے کہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب میں نے واقعہ سب کچھ پالیا ہے اور وہ باقیوں سے الگ کیا جاتا ہے اور قرآن جس طرح فرقان ہے باقی سب مذاہب سے نمایاں، الگ اور باقی سب کتابوں سے نمایاں الگ اسی طرح انسان بھی اپنی ذات میں ایک فرقان بن جاتا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرقان بنتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور بھی بہت سے مضامین ہیں جو اس آیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وقت کی نسبت سے میں مختصر 1 آگے گزروں گا کیونکہ بہت سی احادیث نبویہ بھی آپ کے سامنے رکھنی ہیں اور ان کی بھی تشریحات کرنی ہیں.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ جو کوئی بھی رمضان کو دیکھ لے فَلْيَصُمْهُ پس وہ اس کے روزے رکھے.شہد سے مطلب یہ ہے کہ ایک تو چاند کی شہادت ہوا کرتی ہے یعنی رمضان کا چاند دکھتا ہے تو لوگ دیکھتے ہیں.دوسرا شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّہر جس نے رمضان کی حقیقت کو سمجھ کر اس مہینے کو پا لیا ہو وہ اس پر گواہ بن گیا ہو ایسے شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کے روزے رکھے.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ اگر ایسا شخص مریض ہو یا سفر کی حالت میں ہو فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ تو پھر دوسرے دنوں میں اس عدت کو پورا کرنا ہے.بہت سے لوگ ہیں جو سفر کی حالت میں بھی روزے رکھتے ہیں حالانکہ یہ آیت کریمہ صاف صاف بتلا رہی ہے کہ سفر کی حالت میں روزے نہ رکھو.اگر سفر کی حالت میں انسان خدا کو زبردستی خوش کرنے کے لئے روزے رکھے گا تو اللہ تعالیٰ کو تو ز بر دستی خوش نہیں کیا جاسکتا.ساری زندگی روزے رکھ رکھ کے مر جائے مگر ز بر دستی خدا کو خوش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ روزوں میں نیکی اس کی رضا کی نیکی ہے.اگر رضا نہیں تو نیکی بھی نہیں.اگر رضا اس بات میں ہے کہ نہ رکھو تو نہ رکھو اور یہ نہ سمجھو کہ تم رمضان کے روزے رکھ کر سفر کی حالت میں بھی اللہ کو خوش کر سکتے ہولیکن رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزے رکھنافی الحقیقت اگر آپ غور کر کے دیکھیں تو نیکی ہے ہی نہیں کیونکہ انسان رمضان کے مہینے میں آسانی سے روزے رکھتا ہے اور وہ روزے جب رمضان کے بعد الگ رکھنے پڑیں پھر اس کو سمجھ آتی ہے کہ مشکل کام تھا.تو بعض لوگ نیکی کے بہانے آسانی چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روزوں کو ٹر خاؤ جتنے نکل جائیں ہاتھ سے نکل جائیں ورنہ مصیبت پڑے گی بعد میں.تو اللہ تو نفس کو جانتا ہے، اس کی گہرائیوں سے باخبر ہے اس لئے اللہ کو آپ دھوکہ نہیں دے سکتے.

Page 952

خطبات طاہر جلد 16 946 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء آپ دوبارہ اپنا تجزیہ کر کے دیکھ لیں آپ کو یہی معلوم ہوگا کہ اکثر سفر میں روزے رکھنے والوں نے اسی وجہ سے روزے رکھے تھے کہ اب مہینہ چل رہا ہے سب روزے رکھ رہے ہیں ہم بھی ساتھ رکھ لیتے ہیں بعد میں کون رکھتا پھرے گا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ آيَامٍ أُخَرَ.اگر سفر میں ہو تو آیا ھے آخر میں روزے رکھو.اب اس میں ایک بہت دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا گیا ہے.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تمہارے لئے یسر چاہتا ہے، آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر واپس اس آدمی کی طرف جائیں جو آسانی اسی میں دیکھتا ہے.کیا اس کو اجازت ہوگی؟ اس کو اجازت نہیں ہوگی کیونکہ اس کے روزے ، روزے ہوتے ہی نہیں.فرماتا ہے اطمینان سے روزے رکھو ٹیسر کے ساتھ ، آسانی ہو ، سارا دل اور دماغ پوری طرح روزے میں لگا ہو اس آسانی کی حالت میں روزے رکھو تنگی اٹھا کر، مصیبت میں پڑ کر روزے نہیں رکھتے.پس وہ شخص جو اپنے روزے ٹالتا ہے وہ دراصل عسر کے روزے رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے لئے اللہ محسر نہیں چاہتا تم نے ٹیسر کے روزے رکھنے ہیں.وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ یہ بعد میں روزے رکھنا اس لئے ہے کہ تم عدت پوری کر لو یعنی تمہیں دن کے روزے ہیں تو تمہیں دن کی عدت کو پورا کیا جائے گا.اگر انتیس دن کے روزے ہیں تو انتیس دن کی عدت کو پورا کیا جائے گا.عدت کو پورا کرنا مقصود بالذات ہے.پس رمضان دیکھا ہو تو رمضان کے روزے نہ رکھنے کا کوئی بھی عذر قبول نہیں ہو گا جب تک اس کے روزے بعد میں پورے نہ کئے جائیں.اس کے نتیجے میں وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تاکہ تم اللہ کی تکبیر بلند کرو، اللہ کی بڑائی بیان کر و عَلى مَا هَدُ بكُمْ اس بات پر جو اللہ نے تمہیں ہدایت دے دی، جس ہدایت کا پہلے ذکر گزر چکا ہے.وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور تا کہ تم اس کے شکر گزار بندے بنو، اس کا شکر یہ ادا کرو.رمضان میں سے گزرنے کے بعد امر واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ نے صحیح روزے اللہ کی خاطر رکھے ہوں تو لازماً رمضان کے بعد بہت شکر کی توفیق ملتی ہے.بعض لوگ اس وجہ سے شکر کرتے ہیں کہ ان پر رمضان بو جھل تھا اور اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی کہ بوجھل ہونے کے باوجود اس کے

Page 953

خطبات طاہر جلد 16 947 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء روزے رکھ لئے.بعض لوگ اس لئے شکر ادا کرتے ہیں ماهَدُنكُمْ کہ رمضان میں انہوں نے بہت سی ہدایتیں دیکھی ہوتی ہیں اور بہت سے رمضان نئی نئی ہدایتیں لے کر ان کے لئے طلوع ہوتے ہیں اور اسی طرح رخصت ہوتے ہیں.تو شکر کا وقت تو رمضان کے دوران ہی ہے اس کے متعلق بھی احکامات ہیں لیکن رمضان کے بعد کا شکریہ معنی رکھتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرے کہ اس نے اس رمضان کو اس پر آسان کر دیا، ہمسر نہیں رہنے دیا.اُس نے آسانی عطا کی.اُس کا ذکر کرنے کے لئے ہم راتوں کو اٹھے، اُس کی خاطر بھوک، پیاس ہر قسم کی بدنی سختی برداشت کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہدایت عطا ہوئی وہ ہدایت جو عام دنوں میں نہیں ملا کرتی تھی.پس یہ شکر رمضان کے کامیابی سے گزرنے کا شکر ہے.لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.اس کا سب سے بڑا پھل، جو رمضان کا سب سے بلند مقصد اور سب سے اعلیٰ پھل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ مل جاتا ہے.ر و چنانچہ اس کے معا بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ.آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے اے رسول! یعنی رسول کا نام تو نہیں مگر مخاطب آنحضور ہی ہیں.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں عینی میرے بارے میں فَإِنِّي قَرِیب تو میں قریب ہوں.اس دعا میں جس کی طرف اشارہ ہے یہاں دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کا کوئی حوالہ نہیں.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّی یعنی جب میرے بندے مجھے ڈھونڈتے پھریں، مجھے چاہتے ہوں اور تجھ سے پوچھیں کیسے ہم اپنے رب کو پالیں تو اس وقت یہ نہیں فرمایا فَقُل إِنِّي قَرِيبٌ تو ان سے کہہ دے اِنّ اللهَ قَرِيبٌ کہ اللہ قریب ہے یا میں قریب ہوں.فوری جواب ہے فَإِنِّي قَرِيب - قریب والا بعض دفعہ دوسرے کا حوالہ بھی نہیں دیتا، کسی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس کو بتا دو کہ میں قریب ہوں.تو اس میں سوال کرنے والے کی نیت کے خلوص کا ذکر ہے.اگر واقعہ کوئی اللہ کو چاہتا ہے تو اے رسول جب بھی وہ تجھ سے پوچھے گا میں اس کوسن رہا ہوں گا.مجھے بتانے کے لئے اس وقت تیرے حوالے کی ضرورت نہیں.اِنِّی قَرِیب میں تو ساتھ کھڑا ہوں، رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہوں لیکن اُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.میں پکارنے والے کی دعوت کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارے.یعنی میرا شوق رکھتا ہو.دنیا طلبی کی خاطر نہ میں یاد آؤں.یہ عجیب منظر ایک کھینچا گیا ہے اِذَا دَعَانِ.جس کا رمضان میں آپ کو زیادہ دیکھنے کا

Page 954

خطبات طاہر جلد 16 948 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء موقع ملے گا، بہت ہی دل کش منظر ہے.کئی لوگ ہیں جنہوں نے زندگیاں وقف کر دیں، جنگلوں میں ڈھونڈتے پھرے، اللہ اللہ پکارتے پھرے اور پھر بھی ان کو اللہ نہیں ملا کئی لوگ ہیں جو بعض دفعہ بے اختیار ہو کر اللہ کہتے ہیں تو اللہ ان کومل جاتا ہے.اس مضمون کا فرق کیا ہے.یہ فرق اب یہاں بیان کیا جائے گا.فَلْيَسْتَجِبوالی ان پکارنے والوں کا فرض ہے کہ میری بات بھی تو مانا کریں.مجھے اس طرح نہ پکاریں جیسے نوکروں کو پکارا جاتا ہے.جب ضرورت پیش آئے آواز دو وہ کہے گا حاضر سائیں! ایسے بندے جو میری باتوں کی طرف دھیان دیتے ہیں جو میری باتوں کے اوپر عمل کرتے ہیں وہ پہلے میرے بندے بنتے ہیں پھر جب وہ پکاریں گے تو ان کو جنگلوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی جہاں بھی پکاریں گے فَإِنِّي قَرِيبٌ میں ان کے پاس ہوں گا.پس وہ لوگ جو یہ فرق نہیں کر سکتے بسا اوقات یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم نے تو اللہ کو بہت پکارا، ہر طرف آوازیں دیں کہیں ہمیں خدا کا نشان نہیں ملا.ان لوگوں میں بڑے بڑے شعراء بھی ہیں جو تعلی بناتے ہیں اس بات کو کہ ہم نے تو خدا کو بلا دیکھا کہیں کوئی نشان نہیں ملا.ان میں اس زمانے کے دہر یہ بھی ہیں جنہوں نے راکٹس کے اوپر سفر کئے اور کہا کہ ہم نے آوازیں دیں خدا کو کہیں خدا کا نشان نہیں ملا.ان لوگوں میں وہ فراعین ہیں اس دور کے جنہوں نے بلند و بالا عمارتوں پہ قبضے کئے اور ان کی چوٹی پر جا کر یہ اعلان کیا ہمیں یہاں کوئی خدا دکھائی نہیں دیتا.مگر اس شرط کو پورا نہ کیا فَلْيَسْتَجِوانِى ان کی زندگی خدا کی خاطر نہیں ہوا کرتی.یہ لوگ بدکردار ہوا کرتے ہیں.اللہ کے بندوں سے وہ سلوک نہیں کرتے جو اللہ اپنے بندوں سے کرتا ہے.پس جب وہ یہ شرط نہیں پوری کرتے تو ان کا بلانے کا دعوی جھوٹا ہے.یہ آوازیں دیتے پھریں ان کی آواز ایک صدا بصحر اثابت ہوگی.جیسے صحرا میں آواز دیں تو اس کی گونج بھی پیدا نہیں ہوتی وہ ایک طرف سے نکلتی ہے تو نکلتی چلی جاتی ہے کہیں قریب ٹیلے ہوں تو ان سے ٹکرا کے آجائے ورنہ صدا بصحر اسے مراد یہ ہے کہ ایسی صدا جس میں گنبد کی آواز بھی پیدا نہ ہو.پس یہ ایسے لوگ ہیں کہ مجھے بلائیں گے تو کوئی نشان نہیں پائیں گے.فَلْيَسْتَجِيْبُوْانِى وَلْيُؤْمِنُوانی پہلے میری باتوں کا جواب دیا کریں پھر مجھ پر ایمان لائیں.جو میری باتوں کا جواب دیتے ہیں ان پر اور طرح ظاہر ہوا کرتا ہوں.وہ ایمان بہت طاقتور ایمان ہے جو ان شرائط کے ساتھ ہو.وہ شخص جس کا خدا اس کے ساتھ ساتھ پھر رہا ہو اس

Page 955

خطبات طاہر جلد 16 949 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء کا ایمان ہی اصل ایمان ہے باقی سب ایمان دُور کی باتیں ہیں.تو رمضان کی یہ خوبی ہے کہ اس کے آخر پر جہاں تَشْكُرُونَ کے بعد وضاحت کی گئی ہے کہ کیوں شکر ادا کرو وہاں یہ وضاحت ہے کہ ہر رمضان تمہارے لئے خدا کو لے کے آتا ہے، ہر رمضان کا پھل اللہ تعالیٰ ہے.اگر خدا مل جائے تو پھر تمہیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ اسے ڈھونڈتے پھرو، اسے پکارتے پھرو.جب اللہ مل جاتا ہے تو پھر یا درکھو فَانّي قَرِيب خدا پھر ساتھ رہا کرتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر مختلف کتب میں اور اپنی ملفوظات کی مجالس میں بہت روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یادرکھو! اللہ اگر واقعہ ایک دفعہ مل جائے تو پھر چھوڑ کے نہیں جایا کرتا.بندے چھوڑ جاتے ہیں مگر اللہ نہیں چھوڑا کرتا.یہ خدا تعالیٰ کی وفا کی ایک صفت ہے جو انسانوں میں ہم نے نہیں دیکھی.شعروں میں بھی آپ نے اس مضمون کو بیان کیا ، نثر میں بھی اس مضمون کو بیان کیا اور اس شدت سے بیان کیا ہے کہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ ضرور خدا رہتا ہے.ورنہ اس طرف توجہ ہی نہیں پیدا ہوسکتی خیال ہی دل میں نہیں گزرتا اور اللہ کے بندوں کے سوا جو دنیا میں خدا کے بندے بنے پھرتے ہیں ان کی تحریرات دیکھ لیں، ان کے خطبات کو سن لیں سب ان چکروں سے خالی ہیں ان کو تجربہ ہی کوئی نہیں ہے.ملائیت کی باتیں سن کر دیکھیں ان باتوں میں کتنا فرق ہے.وَلْيُؤْمِنُوالی پھر مجھ پر ایمان لائیں میرے بن کر ، لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ رشد پالیں.یہ رُشد وہ ہے جو سب سے آخر کی رشد ہے اس کے بعد ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو جاتی ہے.پس یہ رمضان ہے جس میں ہم عنقریب داخل ہونے والے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ میں سے جس نے بھی اس خطبے کو سنا ہے وہ رمضان میں جانے سے پہلے پوری تیاری کرے گا.وہ لوگ جو خوف رکھتے ہیں کہ مشکل ہے ان کے لئے میرا پیغام ہے کہ دیکھنے میں مشکل لگتی ہے ہم سب کو یہ تجربہ ہے کہ رمضان میں داخل ہونے سے پہلے مشکل لگا کرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ مشکل کو آسان بھی کر دیا کرتا ہے اور یہ وعدہ خصوصیت کے ساتھ یاد رکھنا چاہئے.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ.پس اللہ اگر آسانی چاہتا ہے تو وہ آپ کے رمضان کو آپ کے لئے آسان کر دے گا.دعائیں کریں گے تو ایسا ہی ہوگا.اب الله روزے سے متعلق حضرت اقدس رسول اللہ ﷺ کے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.

Page 956

خطبات طاہر جلد 16 950 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء میں ضمنا یہ بھی بتادوں کہ آج صبح سے بہت دیر پہلے سے میں نے عمد آپانی نہیں پیا کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ رمضان کے روزوں میں جو جمعہ کا خطبہ دیا کروں گا تو کس حد تک میرا منہ خشک ہوگا،کس حد تک مشکل پڑے گی.آج میں تجربہ کر کے دیکھ لوں تو اس لئے گھبرائیں نہیں.بعض لوگوں کی عادت ہے میری ہر بات پہ گھبرانے لگ جاتے ہیں بالکل گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ ایک تجر بہ ہے.میں سمجھتا ہوں ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے رمضان میں بھی اسی قسم کے خشک منہ والے لیکن گیلے خطبے ہوں گے.منہ خشک لیکن آنکھیں ترے تو مجھے بار بار یہ بتانا پڑتا ہے کیونکہ لوگوں کو عادت پڑ گئی ہے.وہ اپنے آپ کو میرا زیادہ قریبی دکھانا چاہتے ہیں.فورا فون آنے ، تاریں آنے لگتی ہیں ، آپ کا منہ خشک ہو گیا تھا، آپ کا منہ خشک ہو گیا تھا، ان کو اتنی بھی عقل نہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ساری زندگی ہر خطبے اور تقریر میں پانچ پانچ منٹ کے بعد چائے کی پیالی پیش ہوا کرتی تھی.ان کو بھول ہی گیا ہے.وہ سمجھتے ہیں یہ بلاء صرف مجھ پر پڑی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کا ایک بھی خطبہ، ایک بھی جلسے کی تقریر مجھے یاد نہیں جب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بار بار چائے کی پیالی پیش نہیں ہوا کرتی تھی اور مجھے یاد ہے کہ میں بھی نیچے پاس بیٹھ جایا کرتا تھا کیونکہ اس جھوٹی پیالی کے لئے ، جو تبرک تھی سارے لوگ ایک دم ہاتھ بڑھایا کرتے تھے اور چائے بہت مزیدار ہوتی تھی اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت اللہ بہتر جانتا ہے تبرک کا شوق تھا یا چائے کا تھا مگر اس چائے کو پینے کے لئے ہم بھی قریب ہو کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور خان صاحب جو حضرت صاحب کے لئے چائے او پر بھیجا کرتے تھے وہ بعض دفعہ دیکھ کے تو باری باری کہتے تھے اچھا لو یہ تمہاری پیالی ہے، یہ تمہاری پہالی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا دور تو آپ میں سے اکثر نے دیکھا ہوگا.کیا حضرت خلیفہ اسیح الثالث قہوے کی پیالی نہیں پیا کرتے تھے، اس سے بہت زیادہ جو میں پیتا رہا ہوں.اس قہوے پر بھی ان کو اعتراض نہیں ہوا اور میرے گرم پانی پر اعتراض ہو گیا ہے.عجیب و غریب ہستیاں ہیں جو میری ہمدرد ہیں.ان کو سوچنا چاہئے ، عقل کرنی چاہئے کہ یہ سلسلہ آج سے شروع نہیں ہوا.جو خلافت مجھے یاد ہے اس سے لے کر اب تک تو یہی حال ہم نے دیکھا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ تقریر کے دوران گھونٹ بھر پانی پی لیا کروں تو آپ کو کیا اعتراض ہے اس پر لیکن اب میں پریکٹس کر رہا ہوں کہ نہ پیئوں اور دوائیاں بھی ڈھونڈ رہا ہوں ایسی کہ جس سے لوگوں کو چھٹکارا ہو، مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ، لوگوں کو اس مصیبت

Page 957

خطبات طاہر جلد 16 951 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء سے چھٹکارا ہو جائے جن کو دیکھنا دو بھر ہے.اس لئے بہر حال اب میں ضمنا یہ بات بیان کرنے کے بعد احادیث نبویہ کی طرف آتا ہوں.حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: الصيامُ جُنةٌ وَ حِصْنَّ حَصِيْنٌ مِّنَ النَّارِ (مسند احمد بن حنبل مسند المشركين من الصحابة مسندابى هريرة حديث : 9225 ) مسند احمد سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رمضان ایک ڈھال ہے.ڈھال آگے رکھی جاتی ہے تا کہ تیروں کی بارش نہ ہو.تو رمضان تمہیں ہر قسم کی بدیوں کے مقابل پر ایک ڈھال کے طور پر عطا ہوا ہے.شیطان نے تیر مارنے ہیں ، وساوس ضرور تمہاری طرف اچھالے جائیں گے لیکن رمضان ان وساوس، ان بدخیالیوں کے لئے ایک ڈھال بن جائے گا.وَ حِصْنَ حَصِيْنٌ مِّنَ النَّار اور آگ کے مقابل پر وہ ایک ایسا قلعہ ہے جو حصن حصین ہے یعنی ایسا قلعہ جسے بہت مضبوط بنایا گیا ہو جس تک دشمن کی رسائی ممکن ہی نہ ہوتو اللہ کے فضل سے اب ہم اس حصن حصین میں داخل ہونے والے ہیں.روزہ آگ سے بچانے والی ڈھال ہے اس سے متعلق ایک اور روایت ہے نسائی کی کتاب الصوم سے.مطرف سے روایت ہے کہ میں عثمان بن العاص کے پاس گیا، انہوں نے دودھ منگوایا.صلى الله میں نے کہا میں روزے سے ہوں.عثمان کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ روزہ آگ سے بچانے والی ڈھال ہے اور اس سے پہلے جو ڈھال کا ذکر تھا آگ میں داخل کرنے کے لئے آگ کے تیر آپ کی طرف جتنے کئے جاتے ہیں اگر آپ ان کو اپنے بدن تک پہنچنے دیں، اپنے دل تک پہنچنے دیں تو وہ آگ لگانے والے ہیں ، ان سے روزہ ڈھال ہے جس طرح جنگ سے بچنے کے لئے تم میں سے کسی کی ڈھال ہو.یہ اسی حدیث کی تشریح ایک اور حدیث سے ملتی ہے.اب یہ ایک بہت دلچسپ حدیث ہے جس پر خوب غور کرنے کی ضرورت ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ان فِي الجَنَّةِ عُرَفَاتُرى ظُهُورُهَـامِـنْ بُطُونُهَا وَ بُطُونُهَا مِن ظَهُورِهَا.یہ حدیث جامع ترمذى كتاب البر والصلة عن رول الله باب ماجاء في قول المعروف (سنن الترمذى أبواب البر والصلة باب ماجاء فی قول امعروف حدیث :1984) سے لی گئی ہے.حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت میں بالا خانے ہوں گے جن کے اندرونے باہر سے اور خارجی حصے اندر سے نظر آتے ہونگے.اس حدیث کا مضمون بتا رہا ہے

Page 958

خطبات طاہر جلد 16 952 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء کہ یہ لازماً حضرت اقدس رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے ورنہ جیسا کہ مضمون آگے بڑھے گا آپ حیران ہو جائیں گے کہ کسی اور کے دماغ میں یہ خیال آ نہیں سکتا تھا.عام طور پر انسان اپنے گھر کی پردہ پوشی چاہتا ہے کہ ہر حالت میں لوگ اس کو باہر سے نہ دیکھیں.اگر یکطرفہ شیشے مل جائیں جیسے آجکل میسر ہیں تو اندر سے باہر تو دیکھ سکتا ہے اور باہر سے اندر نظر نہیں آتا.یہ ایک فطری تمنا ہے اور اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ اب ایسی جالیاں بن گئی ہیں، ایسے شیشے مل گئے ہیں جو موٹروں کے اندر لگا دئے جاتے ہیں تا کہ اندر کا مسافر باہر کی سیر کر سکے اور بیرونی آدمی اندر نہ دیکھ سکے یہ ان لوگوں کی ایجادیں ہیں جو بے پرد ہیں، جن کو اپنا اندرونہ چھپانے کا کوئی ہوش نہیں بھی ہوتا لیکن فطرت کو نہیں دبا سکے.فطرت انسانی بہر حال یہی چاہتی ہے کہ وہ خود لوگوں کی نظر سے محفوظ رہے اور لوگ اسے دکھائی دیا کریں لیکن اس حدیث کی عجیب خبر ہے فرمایا کہ بالا خانے ایسے ہوں گے کہ اندر کے لوگ باہر دیکھ سکیں گے اور باہر کے لوگ اندر دیکھ سکیں گے.اب یہ بھی بہت دلچسپ بات ہے.اس زمانے میں اگر اندر کے لوگ باہر دیکھ سکتے تھے تو طبعی لازمی بات تھی کہ باہر کے لوگ اندر بھی دیکھ سکتے ہوں.وہ شیشے تو ایجاد نہیں ہوئے تھے جو یکطرفہ ہوں.تو خصوصیت کے ساتھ بالا خانوں کا اس طرح ذکر کرنا کہ وہ اس زمانے کا کلام معلوم ہی نہیں ہوتا.اس زمانے کی بات ہے جب یکطرفہ شیشے یا جھرو کے ایجاد ہو گئے تھے جن میں سے یکطرفہ نظر آیا کرتا تھا.تو حضرت علیؓ کو رسول اللہ ہی کی طرف یہ بات منسوب کرنے کی ضرورت کیا تھی جو اس زمانے کے لحاظ سے عجیب بات ہے کہ بالا خانے ہوں گے اور اندر کے لوگ باہر دیکھ سکیں گے اور باہر کے لوگ اندر بھی دیکھ سکیں گے تو ان بالا خانوں کا جس میں برسر عام گویا چوک میں پڑے ہوئے ہیں ان کا کیا فائدہ.اس سے آگے جو مضمون ہے وہ بہت دلچسپ ہے وہ اس پر پُر حکمت روشنی ڈال رہا ہے.یہ بات سن کر ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ حضور ایسے بالا خانے جہاں دوطرفہ نظارہ ہوگا یہ کن کے لئے ہوں گے؟.فرمایا یہ ان کے لئے ہوں گے جو خوش گفتار ہوں گے، ضرورت مندوں کو کھانا کھلانے والے روزوں کے پابند اور راتوں کو جب سہ لوگ سوتے ہیں تو وہ نمازیں ادا کریں گے.اس کا اس بات سے کیا تعلق ہے؟ انسان کی نیکی کے کچھ پہلو ہیں جو بنی نوع انسان کی طرف کھلے ہوئے ہیں اور بنی نوع انسان ان کے ان پہلوؤں کو دیکھ رہا ہے.ایک انسان جب ضرورت مند کی ضرورت پوری کرتا ہے جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے تو

Page 959

خطبات طاہر جلد 16 953 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء ضرورت مند اپنے محسن کو جان رہا ہے اور محسن ضرورتمند مند کی ضرورت کو پہچان رہا ہے.یہ دو طرفہ نظر آنے والی بات ہے لیکن اگر وہی شخص راتوں کو اٹھ کھڑا ہو جب کہ سب لوگ سوتے ہیں تو اس کی اس نیکی کو کوئی نہیں جانتا کسی کوخبر نہیں کہ اس نے رات کیسے بسر کی.پس اللہ کی یہ شان ہے کہ جنت میں ان کی اندرونی نیکیاں بھی دکھائی جائیں گی اور چونکہ جنت میں داخل ہونے والوں کے کوئی ایسے کاروبار نہیں جو دنیا کی نظر سے چھپائے جانے والے ہوں وہاں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں ، وہاں جو کچھ بھی ہے نیکی کی بات ہی ہے جس کے ظاہر ہونے میں حرج نہیں مگر دنیا میں جو نیکیاں چھپایا کرتے تھے اور ان کو دوسروں کو دیکھنے نہیں دیا کرتے تھے، تھیں وہ بہت پیاری.اللہ کی شان ہے جنت میں اللہ فرماتا ہے میں دکھاؤں گا ان کو.سب لوگ جان لیں گے کہ یہ وہ لوگ تھے جن کی چھپی ہوئی باتوں کا ہمیں کوئی علم نہیں.اس طرح یہ خدا تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے، اس طرح نیکیاں کیا کرتے تھے.پس یہ خدا کی شان ہے کہ احادیث نبویہ جو کچی ہوں خود بولتی ہیں.ناممکن ہے کہ وہ رسول کے سوا کسی اور کا کلام ہو اور مجھے کبھی بھی ضرورت نہیں پڑی کہ راوی کے حوالے سے حدیث کو سچا جانوں، ہمیشہ میں نے حدیث کے حوالے سے حدیث کو سچا جانا ہے.اتنی قطعی ہدایت اپنے اندر رکھتی ہے، اتنا قطعی ثبوت رکھتی ہے، ایسا فرقان ہوتی ہے کچی حدیث کہ اسے کسی راوی کی حاجت نہیں ہے.ایک اور بات جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اس میں فرمائی رمضان کے متعلق ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، یہ ابن ماجہ کی روایت ہے، ہر چیز کو پاک کرنے کے لئے اس کی ایک زکوۃ ہوتی ہے، یعنی آپ لوگ اپنے وجود میں سے ہر چیز کا کچھ نہ کچھ حصہ خدا کی خاطر جب نکالتے ہیں تو بظاہر وہ کم ہوتا ہے مگر ز کوۃ کا مطلب ہے کہ اللہ کے نزدیک بڑھ جاتا ہے اور اس کے زکوۃ ہونے کا ثبوت یہ ملتا ہے کہ وہ دنیا میں بھی برکت پاتا ہے اور آخرت میں بھی برکت پاتا ہے ضائع نہیں ہوا کرتا.فرمایا: ہر چیز کو پاک کرنے کے لئے ایک زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی ظاہری و باطنی زکوۃ اور پاکیزگی کا ذریعہ روزہ ہے، جب آپ روزہ رکھتے ہیں تو اپنے وجود میں سے ہر چیز میں سے اللہ کا حصہ نکالتے ہیں.بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے، بعض دفعہ شور مچانے کو دل چاہتا ہے، بعض دفعہ لغو باتیں انسان کرتا ہے، جس کو عادت ہے وہ کوئی لغو لطیفے بھی سنانے کی کوشش کرے گا ،

Page 960

خطبات طاہر جلد 16 954 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء کوئی غصے سے بولا ہے تو غصے سے اس کا جواب دینے کو دل چاہے گا.ہر موقع پر، ہر انسانی خواہش پر زنجیریں ڈال دی گئی ہیں اس کے نفس پر باگیں کس دی گئی ہیں.اب ایسا شخص اللہ کے حکم کے تابع ہے اس سے ہٹ کر ادھر ادھر جا نہیں سکتا.یہ اس کی زکوۃ ہے اور اس زکوۃ کا ایک مطلب یہ ہے کہ جب رمضان گزر جائے گا تو اس کے اندر جو اچھی باتیں تھیں وہ بڑھ جائیں گی.پہلے اس کا کلام بیہودہ بھی ہوا کرتا تھا تو رمضان کی باگوں کے ذریعہ رفتہ رفتہ اسے اچھا کلام کرنے کی عادت پڑ جائے گی اور جب سوچے گا کہ میں کیوں کلام نہیں کر رہا تو معلوم ہو جائے گا کہ میرے کلام میں کچھ بدیاں داخل تھیں اب اللہ کی خاطر نہیں کر رہا تو اس خواہش کو آئندہ بھی پورا ہونا چاہئے اور رمضان کے بعد بھی یہ چیز بڑھنی چاہئے.یہ زکوۃ ہے جس کی طرف خصوصیت کے ساتھ حضوراکرم نے یہ حوالہ دیا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں روزے نہیں رکھنے کہ میری صحت ٹھیک نہیں رہتی.یہ بالکل لغو بات ہے.روزوں سے ہی صحت اچھی ہوتی ہے اور کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو رمضان کو ٹھیک حالت میں گزار دے اور وہ پہلے سے بہتر نہ ہو جائے.میں نے گزشتہ رمضان میں یہ ذکر کیا تھا کہ اسرائیل کے ڈاکٹر ز نے غالباً اسلام پر حملے کی نیت سے اور یہ بتانے کی خاطر کہ دیکھو روزے رکھ کر بچوں کی صحت خراب کر دیتے ہیں ، بوڑھوں کمزوروں کی صحت خراب کر دیتے ہیں اس لئے مضر عادت ہے ایک تحقیق شروع کی اور یہ ان کو ضرور ہمیں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کہ تحقیق میں سچے تھے حملہ کی نیت بدی کی ہوگی مگر تحقیق میں بچے تھے.بڑی کثرت سے انہوں نے تحقیق کی.کمزوروں پر، بوڑھوں پر، بچوں پر اور تحقیق کا آخری نتیجہ یہ نکالا اور حیران رہ گئے کہ ہر شخص جس نے روزے رکھے ہیں اس کی صحت رمضان سے پہلے خراب تھی ، رمضان کے بعد اچھی ہو گئی.تو یہ آج کی دنیا میں جو اسلام پر سختی سے تنقید کرنے والے لوگ ہیں وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں.فرمایا : صُومُوا تصحوا نجم الأوسط باب اسم من بقية من أول اسم من اسمه موسی حدیث: 8312) روزے رکھا کرو تمہاری صحت اچھی ہوگی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں جسمانی صحت کی طرف ہی اشارہ نہیں جیسا کہ لوگ عام طور پر سمجھتے ہیں صُومُوا تصحوا سے مراد ہے تم ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ گے.تمہیں بہت سی بدیاں لاحق ہیں، تم روحانی طور پر بیمار ہو، تمہیں علم نہیں ہے روزے رکھو گے تو بہت سی بیماریاں جھڑ جائیں گی اور تمہارے روحانی بدن کو بھی صحت نصیب ہوگی.ایک روایت میں

Page 961

خطبات طاہر جلد 16 955 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء فرمایا صبر کے مہینے یعنی رمضان کے روزے سینے کی گرمی اور کدورت کو دور کرتے ہیں.وہ چونکہ گرم ملک تھا اور گرمی کے نتیجے میں تن بدن کو بعض دفعہ آگ سی لگ جایا کرتی تھی فرمایا، یہ گرمی کے مہینے میں خواہ کیسی ہی شدید گرمی ہو اگر رمضان کے روزے رکھے جائیں تو وہ دل کی سکینت کا موجب بنیں گے اور اس کو ایک اندرونی صحت عطا کریں گے جس کی وجہ سے بھڑ کی ختم ہو جائے گی اور بھر کی اکثر بیماری کے نتیجے میں ہوا کرتی ہے یا بُری باتوں کے لئے ہوا کرتی ہے، ان دونوں صورتوں میں رمضان تمہارے لئے ایک مفید چیز ہے.اس میں کوئی بھی خرابی ایسی نہیں کہ تم اس خرابی کی وجہ سے اس سے دور بھا گو.بدن کے لئے بھی اچھا ہے، روحانی صحت کے لئے بھی اچھا ہے، بھلائی ہی بھلائی ہے اور سب سے بڑی بھلائی تو یہی ہے کہ وہ اللہ سے ملا دیتا ہے.صلى الله ایک اور حدیث میں یہ درج ہے، صحیح بخاری میں ، کہ روزہ فتنوں کا کفارہ ہے.عن حذيفة قالَ كُنَّا جُلُوسًاً عِندَ عُمَر (صحيح البخارى كتاب مواقيت الصلواة باب الصلاة كفارة حديث : 525).حذیفہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے فَقَالَ ، حضرت عمر نے کہا تكُم يَحْفَظُ قَولَ رَسُولِ اللهِ علا تم میں سے کون ہے جسے حضرت اقدس محمد رسول اللہ کا یہ قول یاد ہے فی الفتنة فتنے کے متعلق یعنی چونکہ بہت سے فتنوں نے آنا تھا اور بعض صحابہؓ کو خصوصیت سے شوق تھا کہ وہ فتنوں کی باتوں کو از بر کرلیں تا کہ دنیا کو متنبہ کر سکیں کہ ایسے ایسے فتنے پیدا ہونے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون کو صحیح رخ پر چلانے کے لئے یعنی فتنے سے مراد لوگ یہ سمجھتے ہیں قتل و غارت ہوگا ، لوگ بھاگے پھریں گے، افراتفری پیدا ہو جائے گی ان باتوں کا شوق ہو گیا ہو گا لوگوں کو ، جیسے نجومیوں کے پیچھے جاتے ہیں بتاؤ آئندہ کیا ہونا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خیالات کا رخ صحیح جانب پھیرا ہے اس حدیث میں فرمایا تمہیں کوئی رسول اللہ ﷺ کی باتیں یاد ہیں فتنے سے متعلق.فَقُلتُ حذیفہ بھی ان میں سے ہیں جن کو شوق تھا بڑی فتنوں کی حدیثیں یاد کی ہوئی ہیں ہم نے.حذیفہ نے کہا ہاں مجھے، میں نے فتنہ کی باتیں سنی ہوئی ہیں.قــال إِنَّكَ عَلَيْهِ أَو عَلَيْهَا لَجري کہ تم ان باتوں کے اوپر بڑے دلیر ہو.جری بہادر کو کہتے ہیں.اب اس دلیری میں بظاہر ایک تعریف بھی ہے اور یہ بھی بیان فرما دیا کہ تم ضرورت سے زیادہ بہادر بنے پھرتے ہو.ان فتنوں کی باتوں کو سمجھے بغیر اردگرد بیان کرتے پھرتے ہو اور دلیری دکھاتے ہو اور

Page 962

خطبات طاہر جلد 16 956 خطبہ جمعہ 26 دسمبر 1997ء حذیفہ کو سمجھانا بھی مقصود تھا.فرمایا انكَ عَلَيْهِ أو عَلَيْهَا لَجَرِی جب یہ بات سنی تو تب حذیفہ کو ہوش آگئی اور جو فتنے کی حقیقت تھی جس کے لئے کسی فساد کے زمانے کے دیکھنے کی ضرورت ہی کوئی صلى الله نہیں وہ دائمی حقیقت رسول اللہ یہ بیان کر چکے تھے اور ان کو شوق تھا دوسری باتیں کرنے کا.حضرت عمر نے جب یہ ایک قسم کا ڈانٹا اور حقیقت حال کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت فرمائی تو اب دیکھیں وہی حذیفہ کیا بات کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں قُلتُ فِسَةُ الرّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَ مَالِهِ وَ وَلَدِهِ _ رسول الله یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کا فتنہ اس کے اھلہ اپنے اہل وعیال میں ہے وَ مَالِہ اور اپنے مال میں ہے وَوَلَدِہ اور اپنی اولاد میں ہے وَجَارِہ اور اپنے پڑوس میں ہے تُكَفَّرُهَا الصلوةُ والصومُ وَالصَّدَقَةُ وَالأمر والنهى - اب اس کا جو ترجمہ دیا گیا ہے اس میں یوں لگتا ہے جیسے کفارہ ہے وہ، کفارہ نہیں ہے.تکفر کا مطلب ہے اس کو دور کرتا ہے، ہٹاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جو اصل فتنہ بیان فرمایا ہے اور اس سے مومن کو ہمیشہ کے لئے متنبہ کر دیا وہ یہ فتنہ ہے.یہ مراد نہیں کہ تم ایسے زمانے میں آؤ جس میں ہر طرف فساد پھیلا ہوتب تم ان باتوں کی طرف توجہ کرو کیونکہ فتنے کا جو علاج بتایا ہے یہ روز مرہ کی مومن کی زندگی ہے اور اصل فتنہ ہے ہی وہی.اگر یہ گھر کا فتنہ ٹھیک ہو جائے، اگر آپ اپنے اہل و عیال کو صیح راستہ پر ڈال دیں تو اس سے بہتر اور کوئی فتنوں کا علاج نہیں ہے.پس وہی حذیفہ جن کی اکثر حدیثیں لوگ ایسے ایسے فتنوں کے متعلق پیش کرتے ہیں جن سے انسان کی عقل چکرا جاتی ہے.حضرت عمر کی نصیحت کو سمجھ گئے اور اس فتنے کی بات کی جو سب سے صلى بڑی اہمیت رکھتا ہے اور وہ فتنہان کو یاد تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا ہوا ہے.پس حدیثوں پر غور کرنے اور ان میں ڈوبنے سے بڑے بڑے مطالب ہاتھ آتے ہیں سرسری باتیں کر کے گزرجائیں تو آپ کو کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گی.پس رسول اللہ ﷺ کا کلام جیسے کہ میں نے عرض کیا ہے خود بولتا ہے، عظیم الشان معانی اپنے اندر رکھتا ہے.پس اس فتنے کی فکر کرو جو تمہارے گھروں میں ہورہا ہے، تمہارے بچوں کی صورت میں رونما ہو رہا ہے، تمہارے اموال کی صورت میں رونما ہو رہا ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے الصلوۃ والصوم دو ہی چیزیں ہیں.نمازوں سے گھر کو بھر دو اور جب رمضان کے مہینے کے روزے آیا کریں اور ویسے بھی اپنے گھروں کو روزوں سے بھر دیا کرو ہر قسم کے فتنے سے نجات پاؤ.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 963

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 آنا اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 في الدنيا حسنة (202) آئینہ کمالات اسلام آئیوری کوسٹ 130,138 681 اياما معدودات (204) يايها الذين امنوا استعينوا (155-154) ان الله يحب التوابين (223) آئیوری کوسٹ کے سفیر کا گیمبیا کے احمدیوں کی مدد کرنا 670 حافظوا على الصلوات (239) آیات قرآنیہ الفاتحه الحمد لله (3-2) رب العلمين (4-2) الحمد لله.(2-5) 902 66,67,69,71,813 65 ایاک نعبد و ایاک نستعین (5) 126,207,316,471,819,838,220 اهدنا الصراط (6) اهدنا الصراط المستقيم (7-6) صراط الذین انعمت عليهم (7) البقرة 207,864 610,616 65 الم ذلك الكتاب (4-2) يقيمون الصلوة(4) يخدعون الله (10) ولعبد مؤمن خير من مشرک (222) بشيرا ونذيرا (120) اضربوه (74) استعينوا بالصبر والصلوة (154) 489,864,867 627,797,822,837,884 484 128 474,175 248 943 37 19,941 827 177 يايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام (185-184) شهر رمضان الذي (187-186) و اذا سالک عبادی عنی (187) شديد العقاب (197) ولو لا دفع الله الناس (252) من قبل ان يأتي يوم لا بيع فيه (255) ولا يحيطون بشيء من علمه (256) لا اكراه في الدين ( 257 ) الله ولي الذين (258) اولوا الألباب (270) لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (287) آل عمران اولوا العلم (19) قل ان كنتم تحبون الله (32) لعنة الله على الكاذبين (62) قل ياهل الكتب تعالوا (65) لن تنالوا البر (93) ربنا ما خلقت هذا باطلا (94) فبما رحمة من الله (161-160) ويعلمهم الكتاب والحكمة (165) ان في خلق السموات (192-191) الذين يذكرون الله (192) ربنا اننا سمعنا مناديا () كفر عنا سياتنا (194) النساء لا تقربوا الصلوة وانتم سكرى (44) 332 125 921 300 746,761 383 144 3 400,564 482 803 8,437,579 501 134 27 27 398 500 4,78 223 504 104 347 282 338 756

Page 964

176 77 828 337 386,706 241 320 759 882 529 77 634 424,594,897 78 79 5,329 200 521 76 78 382 455 366 انه هو الغفور الرحيم (99) الرعد ويسبح الرعد بحمده (14) الا بذكر الله تطمئن القلوب (29) الذين امنوا وتطمئن قلوبهم (230) ابراهیم لئن شكرتم لازيدنكم (8) الحجر قال رب بما اغويتي (44-40) النحل للذين احسنوا (31) قانتا تا الله (121) ان الله مع الذين اتقوا (129) بنی اسرائیل وات ذا القربى حقه (28-27) تسبح له السموات السبع والأرض (45) و من اليل فتهجد به (80) واذا انعمنا على الانسان (84) لا اله الا انت سبحانک (88) قل سبحان ربي هل كنت (94) الكهف قل انما انا بشر مثلكم (111) مریم ولم اكن بدعائک رب شقیا (5) الانبياء افلا يرون انا ناتي (45) ففهمتها سليمن (80) لا اله الا انت سبحنک (88) رحمة للعلمين (108) المؤمنون ادفع بالتي هي احسن (97) النور لا شرقية ولا غربية (36) 2 334 397 401 633 319 822 52,55 838,856 14 209 110,497 415 81 357 698 403 474 153 128 211,272 697 581 594 596 590 564 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 ارض الله واسعة (98) المائدة وتعاونوا على البر والتقوى (3) يايها الرسول بلغ ما انزل (68) يايها الذين أمنوا عليكم انفسكم (106) نفصل الايات (56) لا تدرة كه الابصار (104) الانعام قل تعالوا اتل ما حرم ربكم (152) قل ان صلاتي (163) لا تزر وازرة وزر اخرى (165) انه يركم هو وقبيله (28) الاعراف خذوا زينتكم عند كل مسجد (32) استوى على العرش (55) فلما افاق (144) قل يايها الناس انی رسول الله (159) الانفال يجعل لكم فرقانا (30) التوبة ليظهره على الدين كله (33) ان الله اشترى (111) بالمؤمنين رءوف رحيم (128) يونس يعبدون (19) الا ان اولياء الله (63) لهم البشرى في الحيوة الدنيا (65) واتل عليهم نبا نوح (72) فان کنت فی شک (95) ولا تكونن من الذين (98-96) هود باعيننا (38) يوسف ما كان لياخذ اخاه (77)

Page 965

511 319 563 157 158 170 131 149 113 176 139 322 322 773 259,281 16 161 294 382 289,632 880 145 701 608 177 قل يعباد الذين أمنوا اتقوا ربكم (11) قل يعباد الذين أمنوا (13-11) قل انی امرت (16-12) والذين اجتنبوا الطاغوت (18) الذين يستمعون القول (19) قل يعبادي الذين اسرفوا (54) قل يعبادي الذين اسرفوا على انفسهم (55-54) قل يعبادي الذين (56-54) قل يعبادي الذين أسرفوا (59-54) او تقول حين ترى العذاب (59) حم السجدة قل انما انا بشر مثلكم (7) ان الذين قالوا ربنا الله (31) نحن أولياء كم (32) الشورى ليس كمثله شيء(12) وهو الذي يقبل التوبة (27-26) فمن عفا واصلح (41) المؤمن هو الذي يريكم أيته (15-14) الفتح يد الله فوق ايديهم (11) ليظهره على الدين كله (29) محمد رسول الله (30) ق هل من مزيد (31) الذريت ففروا الى الله (51) القمر اقترب الساعة (3-2) فدعا ربه اني مغلوب فانتصر (11) الرحمن والسماء رفعها (810) 3 407 76 542 170 200 187 185 571 353 273 777,813 414,621 9 368 565 163 15,88 155 207 205 76 164 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 والله سری سريع الحساب (40) الم تر ان الله يسبح له من في السموات (42) فاطر ولا تزر وازرة وزر اخرى (19) الفرقان وعباد الرحمن (78-64) ساء ت مستقرا (68) لا يدعون مع الله (69) والذين لا يشهدون الزور (78-73) واجعلنا للمتقين اماما (75) الشعراء لعلک باخع نفسک (4) القصص رب اني لما انزلت (25) العنكبوت اتل ما اوحي اليك من الكتاب (46) والذين جاهدوا فينا (70) الروم هم غافلون (8) ومن آياته خلق السموات (23) فطرت الله التي فطر الناس عليها (31) واذا مس الناس ضر (34) الاحزاب وحملها الانسان (73) سبا افلم يروا الى ما بين ايديهم (10) يس وان اعبدونی (62) الم اعهد اليكم يبني أدم (63-61) انا سخرنا الجبال معه (19) الزمر ثم اذا خوله نعمة منه (9)

Page 966

396 2,17 3 740 767 498,758,840 629 585 659,687 623 246 901 101 551 616 507 166 164 او اطعام في يوم ذى مسبغة ( 17-15) الضحى وللآخرة خير لك (5) التين اسفل سافلین (6) 399,916 494 224 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 هل جزاء الاحسان الاحسان (61) الواقعة لا يمسه الا المطهرون (80) ذلک فضل الله (22) الحديد المجادلة ایدهم بروح منه (23) الحشر كي لا يكون دولة بين الاغنياء (8) يايها الذين أمنوا اتقوا الله (19) من انصارى الى الله (15) الصف الجمعة يسبح الله ما في السموات والارض (2) التغابن فاتقوا ا وا الله ما استطعتم ( 19-17) القلم قالوا سبحان ربنا انا كنا ظالمين (30) الجن 698 49 441,463 234,310 اليس الله باحكم الحاكمين(9) العلق ينهى عبدا اذا صلي (11-10) الماعون فويل للمصلين (56) فويل للمصلين الذين (58) الفلق ومن شر حاسد اذا حسد (6) 73 آبزرور، اخبار حضرت آدم 793 80 373,764 آدم کا استغفار کے پتوں کے پیچھے چھپنا آڑ وصاحب آسٹریلیا آسمان نئی زمین اور نئے آسمان کا قیام 883 نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کرنے کا طریق آصفہ بیگم صاحبہ آمنہ بیگم صاحبہ ابتلا ابتلا اور نقصان کے وقت انسان کا خدا کی طرف جھکنا دنیا جس قدر زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ آتی ہیں 881 نبی پر ابتلا کی بہت باریک راہوں کا آنا 246 بعض نیک لوگوں کا بھی مشکلات میں مبتلا ہو نا مگر اُن کی بعد کی حالت سے معلوم ہونا کہ اللہ کا احسان ساتھ ہے 118، 119 سردار ابراہیم صاحب 906 266 939 320,942 354 835 وان المساجد لله (19) الطلاق ومن يتق الله (4-3) الانشقاق يأيها الانسان انک کادح (7) الطارق انهم يكيدون كيدا (17-16) الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى (10) الفجر يايتها النفس المطمئنة ( 31-28) راضية مرضية (29) البلد

Page 967

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم کے مقام سے مراد 5 326 بعض نیک لوگوں کا بھی مشکلات میں مبتلا ہو نا مگر اُن کی بعد کی حالت سے معلوم ہونا کہ اللہ کا احسان ساتھ ہے 118 119 38 ابراہیم کا حضرت اسماعیل کو گھر کی چوکھٹ بدلنے کا حکم 12 ابراہیم کی اللہ کے ساتھ لوظ کی قوم کی تباہی کے حوالہ سے گفتگو اور دس بھی اُن میں نیک نہ ہونا ابن ماجه حضرت ابوایوب انصاری حضرت ابوبکر صدیق اپنے بیٹے کو کہنا کہ دوران جنگ اگر تُو میرے سامنے آتا تو میں تمہیں قتل کر دیتا ابو جهل 464 والدین سے احسان کے سلوک کی تعلیم یہ خیال کہ انبیا ء احسان کرتے وقت تکلیف اٹھاتے ہیں غلط ہے والدین اور اللہ سے احسان سے مراد 52 451 56 953 چودھری احمد مختار صاحب سابق امیر جماعت کراچی 752 آپ کی وفات پر ذکر خیر اور ان کا نماز جنازہ آپ کی امارت کے متعلق وضاحت کہ وہ چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب کے بعد امیر نہ ہوئے تھے 179 | احمد نگر 197 781 272 787 احمدیت احمدی جتنے تیزی سے پھیلیں گے اتنے ہی زیادہ اس کے خطرات ہیں احمدیت جہاں ترقی کرے گی وہاں حسد پیدا ہو گا احمدیت قبول کرنے کے باوجود غفلت کی حالت حضرت ابو ہریرہ 58,750,761,781,784 والے افراد کی کثرت 788,953 احمدیت کا مزاج تمام دنیا میں ایک بن رہا ہے ابوداؤد ابو طالب ابوقلابہ 89 115 919 526 588 308 238 574 اجر اجر کی نیت ہر آدمی کرتا ہے احتساب احتساب کا طریق قرآن بنماز اور رمضان کا ہمیں احتساب کرنا سکھانا احد 58 63.62 85 666 احمدیت کا مسلک دین اللہ کا مسلک ہے احمدیت کو وہی حیثیت حاصل جو ایک زمانہ میں حضرت نوح کو حاصل تھی 582 احمدیت کی تاریخ میں تین بڑے ابتلا اور غیر معمولی ترقی 693 احمدیت کی تائید میں ہمارا خدا کھڑا ہے احمدیت کی ترقی کے نتیجہ میں آزمائشیں بڑھیں گی احمدیت کی قیادت بالغ اور باشعور ہے 910 386 723 احسان احسان فراموشی کی حرمت احسان کا لطف احسان کے نتیجہ میں شکر کا مضمون اللہ کا بدلہ احسان سے دینے کا طریق اللہ کا سب سے بڑا احسان اللہ کا عدل بندوں کی نظر سے احسان ہے 57 احمدیت کی کامیابیوں کے نتیجہ میں حسد اور اس سے بچنے کی دعا 585 451 528 احمدیت کی نوح سے مشابہت 872 احمدیت کے باعث سارے عالم اسلام کا آگ میں جلنا 631 57 احمدیت کے حوالہ سے پاکستانی عدالتوں کا پہلے انصاف کرنا 52 اور بعد میں چھوڑ دینا ، اس کی وجہ احمدیت کے خلاف عالمی سازشیں اور شرارتیں 868 585

Page 968

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 احمدیت کے خلاف گیمبیا میں ہونے والی سازشوں کی تفصیلات 655 | اللہ کی نصرت ہمیں ضرور عطا ہوگی، اس نصرت کے حصول احمدیت کے خلاف مولویوں کی شرانگیزی کہ کلمہ پڑھتے کے لوازمات وقت مرزا غلام احمد صاحب ذہن میں ہوتے ہیں 560 870 صلاحیت کا گہوارہ خود بنیں پھر دنیا میں اس کی تعبیر ظاہر ہوگی 615 احمدیت کے رستہ میں مشکلات نے ہمیں زندہ رکھا ہوا ہے 385 ایم ٹی اے کا جماعت کی تربیت میں کردار احمدیت کے عددی غلبہ کو صلاحیت کے غلبہ میں بدلنے کی ضرورت 611 ایم ٹی اے کی وجہ سے کئی افراد کا احمدیت سے متعلق 703 کئی نعمتوں سے محرومی کا اظہار کا بتانا احمدیت کے غلبہ کا معجزہ رونما ہونا والا ہے احمدیت کے متعلق قرآنی پیشگوئی کہ اس کے نشو و نما پاکستان سے ہجرت کرنے کے بعد احمد یوں کی ہجرت 632 | کس طرف کو ہے پانے پر دشمن کو آگ لگ جائے گی احمدیت کے متعلق مخالفین کا نظریہ کہ اسلامی عقائد بدل دئے 472 پاکستانی احمدیوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ساری دنیا احمدیت کے مخالفین کا انجام نوح کی قوم کے انجام سے مختلف نہیں 589 میں احمدیت پھیل رہی ہے احمدیت کے مخالفین کا غیظ و غضب ہماری ترقی کو ہر گز نہیں تمہیں لاکھ ایک سال میں احمدی ہوئے روک سکتا احمدیت کے مخالفین کو للکارنا کہ تمہاری باتوں سے احمدیت ٹل نہیں سکتی 632 جرمنی جماعت کو صدی کے سال میں ایک لاکھ احمدی بنانے کی تلقین 238 431 312 888 578 373 22,23 حضرت اقدس کا احمدیت کے اندر پاک تبدیلی کے نشان کا مانگنا 611 احمدیت کے مقابل پر آج ایک نہیں سینکڑوں لیکھر ام حضور کے پیغام پر جماعت کا فوری ردعمل 421 پیدا ہو چکے ہیں 279 دین اللہ کی اطاعت جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 547 احمدیت میں کوئی ایسا زمانہ نہیں آئے گا جب ترقیات کے طاقت ملنے کے وقت جو جذبات ہمارے ہونے چاہئیں 385 386 سوسال بعد لیکھر اموں کی ہلاکت کے لئے جماعت کو دعا بعد بھی مشکلات ہٹ جائیں گی احمدیت میں نیشنلٹی کے حوالہ سے کسی کو داخل نہیں کرنا اس کی طرف متوجہ کرنا 366 نا مجھی میں اسلامی روایات کے خلاف فیصلہ کرنے والی 29 29 سے تو حید ٹوٹ جائے گی احمدیت کے سوا باقی سب جماعتیں اسلام سے خارج سمجھی بچیاں اور بچوں کی طبیعت دعا کی طرف مائل نہیں ہوتی 132 518 نشانات کا غلبہ ہی احمدیت کو تمام دنیا پر غالب کرے گا 611 جاتیں اگر انصاف سے پاکستان میں کام لیا جاتا جماعت کے خلوص میں زندہ اور بے مثال ہونے کی گواہی 71 نوح والا معاملہ اب ہماری آنکھوں کے سامنے رونما اسامکم کی خاطر بعض احمدیوں کا ایک دو سال بہت زیادہ ہونے والا ہے محنت کر کے جماعتی کاموں میں آنا 270 ہر صدی کے موڑ پر اللہ نے ایک انقلاب افریقہ کی تاریخ میں سربراہوں کا اقرار کہ احمد بیت مذہب ( جماعت کے لئے ) بر پا کر رکھا ہے کے نام پر اختلاف نہیں پیدا کرتی افریقہ کے ایک ملک میں جماعت کو پاکستان کی طرح مولویوں کے خلاف کارروائی کرنے کی تلقین غیر مسلم قرار دینے کی کوشش 512 ہندوستان میں مولوی کا جماعت کے خلاف اٹھنا 587 ہندوستان کے احمدیوں کو منصف ہندوؤں کو ساتھ مل کر 594 309 519 515 اگر د گنے کا نظام تبلیغ وتربیت میں نہ چلایا تو ممکن نہیں کہ اور بیعتوں میں کثرت جماعت اپنی موجودہ تعداد کے باوجود ایک ملک بھی فتح کر سکے 383 ہندوؤں سے درخواست کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرارد 517

Page 969

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 7 434 آنے والی اقوام کے اقتصادی پہلو کو درست کریں ہومیو پیتھی کتاب دیکھ کر بیسیوں لوگوں کا احمدی ہونا مولویوں کی جماعت کے خلاف دعا ئیں کہ ترقی رک جائے 340 لیکن تبلیغ کے ساتھ نہیں جوڑنا دعائیں 394 اردو زبان کا احمدیت میں مقام ایسی نئی صدی میں ہم نے داخل ہونا ہے جبکہ ساری دنیا کی احمدیوں پر الزام کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، ذمہ داریاں ہم پر پہلے سے زیادہ ڈالی جائیں گی 430 1984ء کے بعد احمدیوں کے اموال میں غیر معمولی برکت 704 309 اس کا جواب تم آخری خدا کی جماعت ہو اگر تم نہیں بچاؤ گے تو کوئی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا آئین نہ ٹوٹا تو 217 آئین ملک کو لے ڈوبے گا 23 906 بچانے والا نہیں آئے گا جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ کا سلوک کہ سوال کرنے والوں احمدیوں کے خلاف مخالفت پر اللہ تعالیٰ کا نئی زمینیں عطا کرنا 515 339 | اختلاف کی اپنے فضل سے تسلی کراتا ہے جماعت کے بجٹ میں غیر معمولی اضافے 692 توحید کے ذریعہ تمام عالم کے اختلافات کی دوری ہوسکتی ہے 358 جماعت کے کاموں میں جھوٹ کا عنصر 472 | اخلاص جماعت میں کثرت سے عباداللہ ہیں 20 مالی قربانی کے حوالہ سے اخلاص کی وضاحت 377 جماعتی ترقی پر مولویوں کی آنکھوں کا پھٹنا اور اللهم مزقهم كی دعا 400 اراده تھوڑے اور بلند اردہ والوں کا حال حضرت اقدس کا جماعت کے اخلاص اور وفا کی تعریف فرمانا 875 ہالینڈ کا دورہ اردو کلاس کی دیکھ بھال کے لئے حضرت اقدس ہم میں سے ہر ایک کو کم سے کم مرد صالح کے مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں 615 512 دشمن کی مخالفت پر صبر کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا طاقتیں وحدت کو تو ڑ سکتی ہیں، ان کو خدا کے مقابل سہارا نہ بنانا 389 غیروں کے ذریعہ جماعت حفاظت کسی جگہ بڑے بڑے چیف ہمبر ز پارلیمنٹ ملنے پر کس طرح شکر کا اظہار ہونا چاہئے وحدت، توحید اور یکجہتی کی برکت وہ چیز جس سے جماعت کی فتح کی تقدیر کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی وہ نئے لوگ جن کی احمدیت کو ضرورت نہیں 384 حضرت منشی اروڑے خان صاحب آپ میں تبدیلی آپ کے عشق کی حالت اسا مکم 159 639 274 271 اسا سکم سیکر ز کو نصیحت کہ جھوٹ کے ذریعہ پناہ نہ حاصل کرو 818 388 اسائلم کی خاطر بعض احمد یوں کا ایک دو سال بہت احمدیوں 237 زیادہ محنت کر کے جماعتی کاموں میں آنا اسائکم یورپ میں قوانین کی تبدیلی اور جس ملک میں پناہ 270 531 560 لی جائے اس کا کام کہ وہ پناہ دے امیگریشن کے حصول کی خاطر جھوٹ نہ بولنے کی تلقین 478 474 ہم اس دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہمیں دنیا کی جلسہ پر آنے کے لئے اسائکم کے بہانے اور ویزہ کی مشکلات 531 385 استخاره طاقتیں ملنے والی ہیں ، اس حوالہ سے خوف ہم نے جو سو سالہ جشن منانا ہے وہ کس طرح کا ہو 378 استخارہ کے لئے دعا کی قبولیت کا جواب آنا ضروری نہیں 194 آج حضرت اقدس کے غلام دنیا میں پاک تبدیلیاں پیدا استغفار کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں 464 استغفار کا گناہوں کے احتمالات سے بچانا 263

Page 970

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 استغفار کو زندگی کا لازمہ بنانا ہوگا استغفار کی تلقین استغفار کی راہ میں در پیش غلط فہمیاں استغفار کے متعلق قرآنی تعلیم استغفار کے مضمون کی اہمیت استغفار کے نتیجہ میں زندہ ہونا استغفار میں منفی اور مثبت پہلو تو بہ اور استغفار کا تعلق کامل استغفار 248 احمدیت کے سوا باقی سب جماعتیں اسلام سے خارج سمجھی 125 جائیں اگر انصاف سے پاکستان میں کام لیا جاتا 251 کثرت سے قوموں کے اسلام میں داخلہ کے وقت لوگ سفر کر کے 518 78 مدینہ پہنچیں اور تربیت حاصل کر کے اپنی قوم میں پھیل جائیں 390 246 | مسلم کے معانی 332 250 نا کبھی میں اسلامی روایات کے خلاف فیصلہ کرنے والی 273 بچیاں اور بچوں کی طبیعت دعا کی طرف مائل نہیں ہوتی 132 269 وہ حرکتیں نہ کریں جن سے ہمارے داغ اسلام کے داغ بنیں 110 247 یورپ کے بعض علاقے جو مسلمان ہیں مگر اسلام کی نوح کا اپنے بیٹے کی غرقابی کے وقت استغفار کی دعا کرنا 17 حقیقت سے نا آشنا 637 آنحضرت کا مسلسل استغفار 265 اسلام آباد چھوٹی غفلتوں پر استغفار سے کام لینا 471 اسلامی اصول کی فلاسفی 808 231 426 استقاء اسلامی اصول کی فلاسفی کا جگہ جگہ تعارف استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول 546 اسلامی اصول کی فلاسفی کی بہت سے لوگوں کو سمجھ نہ آنا 452 صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں پر حسنات 322 | دنیا کی مختلف لائبریریوں میں یہ رکھوائیں اسلام 413 اسلم خالد صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری 721 اسلام دین کو خدا کے لئے خالص کرنا ہے 563 اسلم شاد منگلا صاحب اسلام کا اعلیٰ مقصد تو حید کا قیام ہے 399 حضرت اسماعیل 573 917 ابراہیم کا حضرت اسماعیل کو گھر کی چوکھٹ بدلنے کا حکم 12 اسلام کی تعریف کا چوٹی کے علماء کو بھی نہیں علم اسلام کے معرض زوال میں آنے کی ایک وجہ نماز کی حقیقت سے غفلت 823 ملک اشفاق احمد صاحب اصلاح بارہ سال کی عمر کے بعد بچوں پر کسی قسم کی سختی نہ کرنے کی اصلاح کا وقت اسلامی تعلیم دنیا کا امن لفظ مسلم میں وابستہ ہے 446 اصلاح کی شرط اول محبت ہے 332 قانون سازی کا تربیت اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے مسلمان سائنسدانوں کی پستی کہ صداقت اسلام کے ثبوت درست ہونا ضروری ہے 256 اطاعت 833 315 135 446 کے لئے غیروں کے پاس جانا مغربی تہذیب میں مختلف جرائم کا مختلف سالوں سے تعلق بخشش اللہ اور آنحضرت کی اطاعت کاملہ سے مشروط ہے 128 446 دین اللہ کی اطاعت جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 547 اور اسلام کی تعیین کردہ عمر وہ شعور جگائیں جس کا جاگنا اسلام کے لئے لازم ہے 316 گناہوں سے بچنے کا طریق، آنحضرت کی اطاعت آنحضرت کی سیرت کے بغیر اسلام کی فتح دیر پانی تھی 285 امام کی اطاعت کے بغیر کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہوسکتی 876 فتح 134

Page 971

9 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 افتخار ایاز صاحب افریقہ 29 اللہ تعالیٰ 166,237 اللہ اور بندہ کے شکر میں فرق افریقن ممالک میں جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش 663 | اللہ اور شیطان کے ولی کی نشانی افریقہ کا دل اور ضمیر روشن ہے افریقہ کی بھاری آبادی کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا 586 اللہ تعالیٰ کا زبان سے اقرار مگر ان دہریت 359 اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی فضل جماعت پر افریقہ کی تاریخ میں سربراہوں کا اقرار کہ احمد بیت مذہب اللہ تعالیٰ کی سورۃ فاتحہ میں بیان کردہ صفات 587 اللہ تعالیٰ کی وفا کا ذکر 460 211 651 705 814 949 کے نام پر اختلاف نہیں پیدا کرتی افریقہ کے ایک ملک میں جماعت کو پاکستان کی طرح اللہ تعالیٰ کے بہت دور اور بہت نزدیک ہونے کا فلسفہ 819 غیر مسلم قرار دینے کی کوشش افریقہ میں ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ 512 اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا قرآن سے ثبوت 586 اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ نماز ہے گیمبیا کی حکومت پر جماعت کے حوالہ سے افریقن ممالک کا دباؤ 723 اللہ سے دائمی تعلق کا طریق 26 اللہ سے راضی ہونے کی انتہا علامہ اقبال اقتصادیات اللہ سے فضل چاہا کرو اللہ کا بدلہ احسان سے دینے کا طریق آنے والی اقوام کے اقتصادی پہلو کو درست کریں لیکن تبلیغ کے ساتھ نہیں جوڑنا الاسکا الاسکا کا حضور کا معلوماتی سفر 394 689,707,725 709 711 الاسکا کا علاقہ اشتہار بازی سے بالکل مختلف ہے الاسکا میں امریکی حکومت کی سیاحوں کو کھینچنے کے لئے اشتہار بازی الاسکا میں گرمی روس کا الاسکا کا علاقہ امریکہ کو بیچنا البانی البرٹا الجزائر الطاف حسین حالی الفضل اللہ کا بطور رحمان و رحیم عطا کرنا اللہ کا بندہ بننے کا طریق اللہ کا سارے نظام کو بنانے کے بعد عرش پر استویٰ اللہ کا سب سے بڑا احسان اللہ کا شریک ٹھہرانا ظلم ہے 79 823 99 835 225 57 214 157 416 52 178 753 52 890 сл 5 708 709 710 951 اللہ کا شریک نہ ٹھہرانے سے مراد اللہ کا شریک نہ ٹھہرانے کی وجہ اللہ کا شکور اور حلیم ہونا اللہ کا عدل بندوں کی نظر سے احسان ہے اللہ کا کائنات کو سنبھالنے کا نظام 726 اللہ کا کائنات کی ہر مخلوق سے تعلق 658 اللہ کا لغو قسموں کی پرواہ نہ کرنا 136 360 480 اللہ کا ہم لفظ استعمال کرنے میں شاہانہ شان و شوکت کا اظہار 561 829,884 اللہ کا ہو جانا ایک بہت بڑا دعویٰ اور کام ہے 725 اللہ کو پکارنے والے جھوٹے فلاسفرز اور فراعین اللہ کو قرض دینے سے مراد 167,707,910 | اللہ کی بخشش سے مایوس نہ ہونے کی تعلیم 100 948 796 153

Page 972

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 اللہ کی بخشش کے حوالہ سے غلط تصور 10 116 اللہ کی یاد سے مخلوق سے بھی محبت پیدا ہونا اللہ کی بخشش کے لئے اس کے وعدہ سے استفادہ کا طریق 206 اللہ کے بدیوں سے عفو کے سلوک کے دو پہلو اللہ کی پناہ اور حسد پیدا کرنے والے امور اللہ کی پناہ میں آنے سے مراد 588 اللہ کے حصول کا ذکر 588 اللہ کے دائروں کا پھیلنا اللہ کی توحید کے نتیجہ میں حقیقی بشر بننے کا ذکر 328 اللہ کے رب العالمین ہونے سے مراد اللہ کی خاطر تحفوں کی علامت اللہ کی خاطر کسی کو خوش کرنے والے 50 50 اللہ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے سے مراد اللہ کے عباد سے مراد اللہ کی ذات میں ہمیشہ عدم ختم ہوتا ہے اللہ کی راہ میں اخفا کی ضرورت 362 | اللہ کے عفو سے مراد 196 اللہ کے لئے تحفہ کی شرط 348 282 948 3 69 801 20 250,268 195 164 اللہ کی راہ میں مشکلات ہماری حفاظت کرتی ہیں 385 ابتلا اور نقصان کے وقت انسان کا خدا کی طرف جھکنا 212 اگر خدا مخلوق میں دیکھتا کہ اس میں گناہ نہیں تو ایک اور مخلوق اللہ کی ربوبیت کو چھوڑنے کا نقصان اللہ کی رحمت اور اس کا عفو اللہ کی رحمت سے انسان محمد رسول اللہ بن سکتا ہے 230 اگر علم سچا ہے اور خدا کی طرف نہ لے جائے تو علم والے 142 | جھوٹے ہیں 351 پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور پھر تو بہ کا سلسلہ شرو ہوتا (حدیث) 262 اللہ کی رحمت کے حصول کا طریق 103 اللہ کی رحمتوں کا ایک نمونہ اللہ کی رضا کے حصول میں کوئی رشتہ داری کام نہ آئے گی 95 بعض نیک لوگوں کا بھی مشکلات میں مبتلا ہو نا مگر اُن کی بعد اللہ کی صفات اپنا کر دنیا کی طرف لوٹنے والا بد اخلاق نہیں ہو سکتا 307 کی حالت سے معلوم ہونا کہ اللہ کا احسان ساتھ ہے 118 119 127 بخشش اللہ اور آنحضرت کی اطاعت کاملہ سے مشروط ہے 128 اللہ کی صفات سے محبت کے نتیجہ میں نفس مطمئنہ کا حاصل ہونا 353 جہاد کی کامیابی اللہ کے منشاء پر مبنی ہے 74 خوف خدا کا معنی 625 651 اللہ کی صفات کا مضمون تسبیح سے شروع ہوتا ہے اللہ کی صفات کی جلوہ گری سے ہم خدا کو دیکھتے ہیں 348 دعا کی طلب نہ ہو تو اللہ کو انسان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا 282 اللہ کی صفات ہی اللہ کو مخلوق سے باندھتی ہیں، دنیا کی کسی چیز میں وہ لذت نہیں جو قرب الہی میں ہے 844 انہی کی وجہ سے مخلوق آپس میں اکٹھی رہتی ہے 360 دین اللہ کی اطاعت جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 547 119 دین کا مقصد اللہ کی جستجو اور اس کی ذات میں سفر ہے اللہ کی طرف انابت سے مراد اللہ کی طرف سارا سفر کوشش سے نہیں کیا جاسکتا 144 ربوبیت سے تعلق توڑنے والوں کی حالت اللہ کی طرف سفر کی آسانی کے ذرائع اللہ کی طرف مسلسل حرکت ہے اللہ کی کنبہ کو کوئی نہیں پاسکتا 175 | رحمانیت کا رحمی رشتوں سے تعلق 123 | رحیمیت کا تذکرہ 73 روزہ کی جزا خدا ہے، اس سے مراد اللہ کی محبت جس قوم کو نصیب ہو اس کی فتح ہی فتح ہے 312 عباد الرحمن کے لئے اللہ کا جاگنا اللہ کی محبت کا دعویٰ آسان نہیں اللہ کی نصرت کبھی ناپاکوں اور فاسقوں کو نہیں ملتی 138 عبادت کے ذریعہ اللہ کی رحمتوں کا حصول 883 عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ کی حقیقت اللہ کی نصرت ہمیں ضرور عطا ہوگی ، نصرت کے حصول کا طریق 560 کائنات کے حوالہ سے ربوبیت کی منظر کشی 628 349 470 816 63 214 126 896 3

Page 973

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 گناہ سے دور ہٹنے کی کوشش مگر طاقت نہیں پاتے ، اللہ کی محبت کا واسطہ دے کر دعا کریں امام 121 متقین کا امام بننے کے لئے دعا کریں اور کوشش کریں 576 643 امام کی اطاعت کے بغیر کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہوسکتی 876 گناہوں سے بچنے کا بڑا ذریعہ خوف الہی ہے گناہوں سے نجات اللہ کی رحمت سے تعلق جوڑے بغیر ناممکن 170 امت مسلمانوں سے اللہ کی ناراضگی کی علامت موسیٰ کا اللہ کا چہرہ دیکھنے کی خواہش نماز اور صبر کے ذریعہ اللہ کی استعانت 163 امت کی زندگی کی ضمانت کسی خلیفہ کی ذاتی صلاحیت نہیں 295 80 آنحضرت کی وساطت سے امت کو فضیلتوں کا ملنا 921 نماز میں التحیات کے اندر اللہ کے لئے تحفے ، ان کی اہمیت 84 نماز میں چار قسم کے کمالات کا اللہ سے طلب کیا جانا وہ وقت جب اللہ کی یاد اطمینان بخشتی ہے جو اپنے آپ کو جھکا کر خدا کے تابع نہیں کرتا اس کی عقل میں لاز ما نقص رہتا ہے 616 مولانا امجد صاحب 475 906 امریکہ 45,101,237,331,367,609,656,806 امریکہ کی تحریک جدید میں بہت بڑی قربانی امریکہ کے جلسہ سالانہ کا آغاز 348 232 ربوبیت سے تعلق جوڑ نا کوئی نیکی نہیں ایک فطرت کی مجبوری ہے 814 رحمان سے تعلق جوڑ نا فطری تقاضا ہے رحمانیت سے تعلق جوڑنے کیسفر کا آغاز رحمانیت کا مغفرت سے تعلق رحمت الہی سے نا امید نہ ہونے کی تعلیم روز مرہ کی زندگی میں خدا سے بے تعلقی ہے تو پھر یہ وہم ہے کہ ہم خدا کے قائل ہیں سبحان اللہ کہنے سے مراد صرف اللہ موت سے زندگی نکالتا ہے 815 171 206 126 98 85 363 صرف تکلیف کے وقت اللہ کو یاد کرنے والوں کا قرآنی تذکرہ 97 365 807 441 امریکہ کے ماحول میں بدیوں کی طرف میلان میں سرعت 443 امریکہ میں اگر پانچ ہزار بھی آنحضرت کے نقوش والے ہو جائیں تو امریکہ کو لازماً بچایا جائے گا امریکہ میں تبلیغ میں تیزی اور اس حوالہ سے پاک تبدیلیوں کی طرف توجہ امریکہ میں تیز دھار آلہ سے عورت کا ہاتھ کاٹ کر زیور لینا روز مرہ کی بات 464 462 215 447 امریکہ میں کئی والدین کا بچیوں کی وجہ سے رونا امریکہ میں آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کی طرف توجہ 442 جرمنی اور امریکہ کی خواہش کہ کوئی ایسا ٹارگٹ مقرر کریں جس میں ساری دنیا سے آگے نکلیں عیسائیت امریکہ کی سیاسی حیثیت کا دوسرا چہرا ہے صفات باری تعالیٰ کا نام زندگی ہے امریکی معاشرہ کو بدلنے کا طریق غیر اللہ سے رہائی کے لئے محبت اور عشق کا ہونا ضروری 150 غیر اللہ کی طرف دوڑنے کا مفہوم قرب الہی کی لذت فرضی نہیں لقاء باری کا انعام مالکیت کا ذکر محبوب الہی بننے کے لئے خوشخبری ہر چیز کے اللہ کی تسبیح کرنے کا طریق ، اس کی تفصیل چوہدری الیاس صاحب 220 304 امن 744 570 462 صلاحیت کا گہوارہ خود بنیں پھر دنیا میں اس کی تعبیر ظاہر ہوگی 615 267 دنیا کا امن لفظ مسلم میں وابستہ ہے 817 دنیا میں بے چینی اور بدامنی کا پھیلنا 138 وہ راز جس سے دنیا کا امن وابستہ ہے 67 امیر 728 وہ امارت جس پر انسان فخر کر سکتا ہے 332 122 334 571

Page 974

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 امیگریشن اسکے حصول کی خاطر جھوٹ نہ بولنے کی تلقین حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ امة المجید صاحبه انابت انابت کے نتیجہ میں گناہوں پر قابو جس کے لئے محبت نہایت ضروری ہے 478 507 507 811 155 12 ہر صدی کے موڑ پر اللہ نے ایک انقلاب ( جماعت کے لئے ) بر پا کر رکھا ہے انکسار انکسار سے نماز کے معراج کا تعلق انکسار عبادالرحمن کی پہلی نشانی ہے انگلستان 309 745 171 44,45,90,676 انگلستان کی جماعت کو تبلیغ میں وسعت اختیار کرنے کی تلقین 522 انگلستان کی جماعت کو حضور کے دورہ کی وجہ سے تحریک کہ انتشار انتشار دور کرنے کا طریق انتشار کی مختلف صورتوں سے بچنے کی تلقین انڈونیشیا انسان انسان کی تمام مخلوقات پر فضیلت انسان کے معاصی اور خجالت کے دو پر 333 332 167,432,808 نیک کاموں کو چاری رکھیں ستی پیدا نہ ہو انگلستان میں بدقسمتی سے بڑی تعداد میں مسلمان نوجوانوں 421 کا سور کا گوشت کھانا 290 انگلستان میں پردہ کے حوالہ سے بچیوں میں خود اعتمادی کی تلقین 453 انگلستان میں پہلے علاج مفت تھا اب حکومت کا مریضوں پر بوجھ ڈالنا 893 انگلستان میں غریبوں کی امداد کے لئے ایک تحریک جس میں 257 | حضور نے خود اور بچوں کو ممبر بنانا چاہا 434 396 اللہ کی رحمت سے انسان محمد رسول اللہ بن سکتا ہے 230 انگلستان میں SOS میں لائبریرین کا کثرت مطالعہ 425 اللہ کی صفات ہی اللہ کو مخلوق سے باندھتی ہیں، انہی کی وجہ تبلیغ کے حوالہ سے انگلستان کی جماعت کا جائزہ سے مخلوق آپس میں اکٹھی رہتی ہے شیطان اور انسان کی ناری اور نمو کی طاقتیں وہ ریاضتیں جن انسانیت بھی جاتی رہتی ہے آکسیجن سے حفاظت کے سامان جو خدا نے انسان 137 864 360 | انگلینڈ چودھری انیس احمد اور میگن سٹیٹ اوکاڑہ 416 اولاد 405 647 89,90 727 808 کے اندر پیدا کئے انصاف ہر حج کا ایک بنیادی نقا ضا جو عالمی قانون ہے انفاق نفس کے لئے انفاق کا ذکر انقلاب 870 500 اولاد سے ایسا تعلق جوڑنے کی تلقین جس کے نتیجہ میں نیکیاں پیدا ہوں اولاد کی تربیت کی تلقین اولاد کی تربیت کے حوالہ سے نگرانی کی تلقین دنیا میں سب سے زیادہ انقلاب شہیدوں کے ذریعہ برپا ہوا ہے 614 اولاد کی تربیت کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی تلقین روحانی انقلاب کے لئے اللہ بندے کے اندر بھی روحانی انقلاب چاہتا ہے 695 اگلی نسلوں کے دین کے لئے خالص ہونے کی دعا 192 442 13 500 578

Page 975

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 13 بارہ سال کی عمر کے بعد بچوں پر کسی قسم کی سختی نہ کرنے کی اردو کلاس کے بچوں کا سیر کے دوران میزبان کے لئے تحفہ 446 دینا اور اس کے شکر کے جذبات اسلامی تعلیم بچوں اور بچیوں کو ایک خاص عمر کی حد تک سختی سے کہا جا سکتا ہے 754 | اردو کلاس میں نماز کے متعلق سکھایا جانا روزانہ کی ڈاک میں کثرت سے ماں باپ کے اولاد کے ایمان حوالہ سے روتے ہوئے خطوط لکھنا عبادت کا فلسفہ بچپن سے سمجھا نا ضروری ہے 456 ایمان کی جڑ نماز ہے ماں باپ کی تختی کا بچوں پر برا اثر مغربی ممالک میں بچپن سے ہی بعض بدیوں میں بچوں کا ایمان سے مراد مبتلا ہونا نوح کی اولاد سے ایک لطیف قسم کی غفلت یورپ کے والدین کو بچوں پر تربیت کے حوالہ سے گہری نظر رکھنے کی تلقین بچپن کی وہ باتیں جو بعد میں انسان کو اچھی لگتی ہیں 193 ایمان کی اصلاح سچی توبہ سے ہوگی 455 ایمان والوں کو تقومی کے حکم سے مراد غیب پر ایمان لانے سے مراد ڈاکٹر باسط صاحب بٹالہ 447 14 653 452 800 770 182 837 32 181 497 907 632 بچوں کو بچپن سے نیکی پر قائم کرنے کی طرف توجہ کا نہ ہونا 444 بخاری 58,752,784,786,788,803,849,955 بچوں کو بچپن میں وہ اہمیت دیں جس کے وہ مستحق ہیں 456 بچوں کو عبادت کا فلسفہ سکھانے کا طریق بڑے لوگوں کی اولادوں میں کمزوری کا بڑا نقصان بخل 459 بخل سے بچنے کا طریق 173 بخیل کا اللہ لوگوں اور جنت سے دور ہونا 135 بدی کی لذت اور اس سے دوری کا طریق بہت سے بچوں کا محبت کے باوجود اپنے نیک ماں باپ بدی ابرائی 795 804 449 کے پیچھے نہ چلنا دس سال کی عمر میں نماز کے لئے بچوں کو سزادینے سے مراد 445 بدی کے بدلہ اور عضو میں تربیت کے لئے توازن ضروری ہے 15 ایڈز ساری دنیا میں بدیوں کا خوفناک انداز میں سر اٹھانا اور 671,807 اللہ کے بدیوں سے عضو کے سلوک کے دو پہلو ایڈز کا بعض لوگوں میں اظہار اور حضور کو اس کا خطوط سے علم 650 ہماری ذمہ داریاں ایم ایم احمد صاحب 311 282 MTA امریکہ کے ماحول میں بدیوں کی طرف میلان میں سرعت 443 MTA کا تربیت میں کردار MTA کا جماعت کی تربیت میں کردار MTA کی وجہ سے کئی افراد کا احمدیت سے متعلق کئی نعمتوں سے محرومی کا اظہار کا بتانا 735 238 بچپن میں بچوں کو نیکی اور بدی کا فلسفہ بتائیں بُرائی کے خلاف جہاد کا طریق 448 455 تو بہ سے لازمی نہیں کہ ہر قسم کی بدیاں اسی وقت مٹ جائیں 281 431 معاشرتی بدیوں کے نتیجہ میں بداخلاقیوں کا پھیلنا 12 MTA کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئی 558 نیک اعمال در اصل بدیوں کو دور کرنے کی ضمانت ہیں 283 اب ممکن نہیں کہ ہر مجلس شوریٰ میں MTA کے ذریعہ برائیوں کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع شامل ہوں 224 | کرنے کی تلقین 110

Page 976

713 721 637 638 14 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 بُرائیوں کو دور کرتے ہوئے تسبیح اور حمد کا مضمون 82 | بورک برٹش کولمبیا برطانیہ بركات الدعاء منگھ بشری آپا، حضرت سیدہ مہر آپا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب 725,726 بورک کا مٹیر یا میڈیکا صاحب علم انگریزی دانوں 808 کے لئے بہت اچھا ہے 31 بوسنیا 833 بوسنین احمدیوں میں فدائیت 374 بہادر 114,507,811,911 بہادر وہ ہے جو طاقت رکھتے ہوئے اصولوں کو بشیر احمد صاحب (داماد حضرت خلیلہ مسیح الرابع) 508 نہ چھوڑے اور انکسار سے کام لے 610 808 218,658,668 38 630 296 310,621 302 310 642 623 624 294 295 293 بھارت بھٹو بیت اللہ بیعت 114 آپ کے نانا کے صحابی ہونے کے متعلق وضاحت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی آپ کی خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ والی رؤیا 244 بیعت کا نام در اصل ایک موت ہے شوری کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات آج بیعت کب فائدہ دیتی ہے بھی رہنمائی کر رہے ہیں تقریر کے دوران بار بار چائے کی پیالی کا پیش کیا جانا 950 بیعت کی وہ روح جو تو بہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے آپ کو آخری دنوں میں آرٹیر یوسی کلر وس بیماری کا ہونا 919 بیعت کے بعد تربیت کی طرف جماعت کو توجہ دلانا بشیر بغاوت بغاوت گناہ کی جڑ ہے سرکش اور باغیوں کے قریب رہنے سے لازماً ان کی عبادت کرنی پڑے گی 225 | بیعت کی حقیقت 916 | بیعت کے بعد وہ مقام جب خدا کو ہماری قدر ہوگی بیعت کے وقت تو بہ کے اقرار میں ایک برکت 261 بیعت کے وقت دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد صحابہ نبی کریم کا بیعت کا مقصد 157 اصل بیعت وہی ہے جو محمد رسول اللہ کی ہے تو بہ بیعت کی جز کیوں ہے بنگال بنگال میں علیحدگی کی تحریک شروع ہونے کی وجہ 368 نئی بیعت کرنے والوں کے لئے حضرت اقدس کی نصائح 621 بو جنگ (وزیر داخلہ گیمبیا) بو جنگ کی بدکرداریاں 659,690 | بیلجئیم 674 | بیہقی اس کو مذہبی امور کی وزارت سے ہٹایا جانا 740 ڈاکٹر پاشا صاحب گیمبیا کے مذہبی وزیر میجر بو جنگ کا پاکستان کا دورہ کرنا 662 گیمبیا میں انہیں مولوی سے مباہلہ کا کہا گیا تھا اس کا گیمبیا کے سٹیٹ ہاؤس کے امام کومسلسل غلط خبریں جماعت کے متعلق پہنچانا 683 پاکستان سے آئے دن گھروں پر قبضوں کی خبریں آنا 334 639,808 951 686 668 پاکستان 585,638,656,726

Page 977

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 15 پاکستان کا وجود بنتے وقت حضرت مصلح موعود نے سمجھایا کہ تم پاکستانی قوم کو متنبہ کرنا اور اعلان کہ صرف ایک قوم تو بن سکتے ہومگر زبانوں کو نہ مٹانا 368 احمدیوں کی دعائیں ہی آپ کو بچا سکتی ہیں پاکستان کو ملاں کے چنگل سے بچانے کے متعلق حضور کی پاکستانی قوم کے لئے دعا نصائح اور اُن پر چنداں توجہ نہ دیا جانا پاکستان کی بھاری آبادی کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا 872 پاکستانی آئین کے حوالہ سے ملاؤں اور سیاستدانوں 359 کے بیانات پاکستان کی پولیس کا ایک احمدی کے قاتل کو گرفتار کرنا 809 پاکستانی آئین میں ہر تبدیلی کے وقت انصاف 224 کے تقاضوں کو بھلایا جانا 909 593 907.906 پاکستان کی مجلس شوری کو غیر معمولی فوقیت پاکستان کے مولویوں میں گندگی اور زبان کی خباثت کا حال 927 احمدیت کے حوالہ سے پاکستانی عدالتوں کا پہلے پاکستان کے آئین کے مطابق حضور کی رائے اور اس کا اور انصاف کرنا اور بعد میں چھوڑ دینا ، اس کی وجہ 885 پاکستان میں احمدیت کے سوا باقی سب جماعتیں اسلام 868 سے خارج سمجھی جاتیں اگر انصاف سے کام لیا جاتا 98 احمدیوں پر الزام کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے ، رنگ میں پورا ہونا پاکستان کے آئینی بحران پر سیر حاصل بحث پاکستان میں الیکشن کے بعد خود کشیاں پاکستان میں تقویٰ کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات 867 اس کا جواب پاکستان میں داعیان کو حکمت کو پیش نظر رکھنے کی تلقین 466 حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا کوئی جرم یا غداری نہیں 886 868 518 23 909 پاکستان میں سیاستدانوں کا گند اور اُن کی کرپشن اور بددیانتی خلیفہ وقت صرف پاکستان کی مجلس شوری پر بنا نہیں کرتا 236 ملائیت کا اگر پاکستان سے خاتمہ کر دیا جائے تو یہ ملک 24 عظیم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے 909 اور وزیر اعظم کا اعلان پاکستان میں قتل و غارت وغیرہ کی بھر مار اور دیگر برائیاں 592 احمدیوں کی دعائیں ہی اس ملک کو بار بار بچانے میں کام آتی ہیں 28 پاکستان میں کامیاب تبلیغ کی توفیق سے بیعتوں کا حصول 833 پاکستان میں مولویوں کے دماغ میں تکبر پاکستان میں ہر شعبہ کا لعنت سے بھرنا، اس کی وجہ پاکستان میں آئینی بحران کے حوالہ سے ملاؤں کا شور مچانا کہ مرزا طاہر احمد اس میں ملوث ہے 383 810 905 اس قوم سے حیا اٹھ گئی ہے 22 کسی صدر کا حکم کہ اعلیٰ عہدہ کا لازم دینی مناصب پر نہیں ہوگا 115 لازماً تم پر ذلتوں کی مار پڑنے والی ہے یانی پانی کو خدا کا اٹھانا اور واپس کرنا اور اس کے فوائد پاکستانی احمدیوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ساری دنیا پانی کی اہمیت اگر خدا اس کو گہرائی میں لے جائے 888 تو کوئی او پر نہیں لاسکتا میں احمدیت پھیل رہی ہے پاکستانی الیکشنز کے متعلق آسٹریلیا کے نمائندوں کا فیصلہ پرده 24 417 458 کہ دیانتدارانہ ہوئے پاکستانی سیاستدانوں کا اپنے آپ کو رحمان سمجھنا 101 پردہ کے حوالہ سے بچیوں میں خود اعتمادی کی تلقین 219 پردہ کے حوالہ سے خود داری پیدا کرنے کی تلقین پاکستانی صدر کی جماعت اسلامی میں سے ملک کا صدر بنانے جلسہ میں شامل عورتوں کو پردہ کے حوالہ سے نصائح کی سازش اور ملک کا اس بلا سے محفوظ رہنا 887 دوسری تہذیب سے متاثر ہوکر اعلیٰ اقدار چھوڑنے سے پاکستانی قوم کا امام وقت کو جھٹلا نا اور اُن کی بری حالت 904 کچھ باقی نہیں رہے گا، اپنے کردار کی حفاظت کریں 453 734 541 733

Page 978

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 16 نن سپیٹ میں بڑی بچیوں کا پردہ میں سائیکل چلانا 639 تبلیغ کے مختلف راستوں کی طرف توجہ اور کرنے کے طریق 409 کینیڈا میں اس دفعہ بچیوں میں پردہ کے حوالہ سے کمی 732 تبلیغ کے معاملہ میں بشیر و نذیر پروین مختار صاحبه پشاور پیشگوئی 476 90 تبلیغ کے معاملہ میں کینیڈا کی جماعت کو توجہ کہ وہ بہت پیچھے ہیں 486 808 تبلیغ کے میدان میں غیر معمولی وسعت تبلیغ کے نتیجہ میں احمدی ہونے والوں کی فوری روحانی پیشگوئیوں میں بعض دفعہ ایک شخص کی بجائے اس کا بیٹا مراد ہوتا ہے 910 تربیت ساتھ ساتھ کی جائے مصلح موعود کی پیشگوئی تبصره 32 تبلیغ کے نتیجہ میں مبلغ کی خود تربیت تبلیغ میں ایک طرح کا جھوٹ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا کوئی جرم یا غداری نہیں 909 تبلیغ میں کامیابی پر وہاں کیمر بی اور کارکن کو مزید خدا کے تبلیغ تبلیغ اور تعوذ کا تعلق حضور جھکنا چاہئے 477 تبلیغی کاموں کی وسعت کی وجہ سے ہماری طرف عدد کی تبلیغ پر بہت زیادہ زور دیں کیونکہ صدی کے اختتام میں طرف نہ ہوتی چلی جائے ،ایک فکر کا اظہار 381 343 441 473 392 569 بہت کم وقت ہے تبلیغ کا نظام بارش کے قطروں کی مانند ہے 693 بعض افراد کا پوری جماعت کا ٹارگٹ پورا کرنا اور 402 اکثریت کا فارغ بیٹھے رہنا 472 ایک قوم کو اپنے ہی افراد کے ذریعہ پیغام پہنچانے کا فائدہ 390 تبلیغ کرنا کوئی زائد کام نہیں، اس کا جواب تبلیغ کی محنت اور کوشش کو کیسے پھل لگ سکتا ہے 694 جرمنی کی جماعت کو تبلیغ و تربیت کے حوالہ سے تبلیغ کی وجہ سے انبیاء کا تکالیف اٹھانا تبلیغ کے بعد پھل لگنا کافی نہیں ان کی نگہداشت بڑی ضروری ہے 402 دو ٹیمیں بنانے کی تلقین کثرت سے قوموں کے اسلام میں داخلہ کے وقت لوگ سفر کر 408 341 620 کے مدینہ پہنچیں اور تربیت حاصل کر کے اپنی قوم میں پھیل جائیں 390 405 مالی قربانی کے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی ضروری ہے 404 تبلیغ کے حوالہ سے انگلستان کی جماعت کا جائزہ تبلیغ کے حوالہ سے کریڈٹ کا تعلق فضول اور ہلکی باتیں ہیں 407 مختلف ملکوں میں ہم قوم افراد کامل کر رہنا، ان کو تبلیغ کا طریق 429 تبلیغ کے حوالہ سے کینیڈا کی جماعت سے شکوہ 693 نو مبائعین کے لئے تربیتی کلاسز کی ضرورت تبلیغ کے حوالہ سے مختلف قسم کے جائزے لینے کی تلقین 405 جس سے وہ اپنی قوم میں تبلیغ کر سکیں تبلیغ کے دوران حکمت پر زور تبلیغ کے سلسلہ میں لٹریچر کا جائزہ لیں 834 ہالینڈ کی جماعت کو تبلیغ و تربیت کی تلقین 410 ہومیو پیتھی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ تبلیغ کے لئے افراد جماعت کے خطوط کہ ہمیں نہیں معلوم آنحضرت کو تبلیغ کا حکم کیسے کی جائے ، لائحہ عمل بنانے کی تلقین 405 آنے والی اقوام کے اقتصادی پہلو کو درست کریں تبلیغ کے لئے قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت لیکن تبلیغ کے ساتھ نہیں جوڑنا کی طرف توجہ تبلیغ کے لئے قرآن کریم کے تراجم اور کتابوں کی مفت دینے کی تلقین 413 اکثر لوگوں کو تبلیغ کی خواہش مگر کرنے کا پتا نہیں اگر د گنے کا نظام تبلیغ و تربیت میں نہ چلائیں تو ناممکن ہے کہ 389 300 432 402 394 408 435 جماعت اپنی موجودہ تعداد کے باوجود کسی ایک ملک کو بھی فتح کر سکے 383

Page 979

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 17 سارے کامیاب مبلغ اپنے ساتھ کچھ آدمیوں کو لگائیں 409 اگر د گنے کا نظام تبلیغ وتربیت میں نہ چلائیں تو ناممکن کہ جماعت کامیاب تبلیغ کی علامتیں 24 اپنی موجودہ تعداد کے باوجود ایک ملک بھی فتح کر سکے 383 کئی لوگ شکایتیں کرتے کہ ہم بہت کوشش کر چکے مگر پھل نہیں لگتا 483 امریکہ میں آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کی طرف توجہ 442 نظارت اصلاح و ارشاد کو حضرت اقدس کی ذات پر ہونے اولاد کی تربیت کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی تلقین 500 والے اعتراضات کی فہرست تیار کرنے کی تلقین 605 | MTA کا تربیت میں کردار وسیع علاقوں میں تبلیغ کرنے کا طریق 735 525 بچوں کو بچپن سے نیکی پر قائم کرنے کی طرف توجہ کا نہ ہونا 444 یورپ اور امریکہ وغیرہ نے تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں کی 402 بچوں کو بچپن میں وہ اہمیت دیں جس کے وہ مستحق ہیں 456 تجارت بچوں کو عبادت کا فلسفہ سکھانے کا طریق تجارت میں نفع نقصان لازمی ہے تحریک 482 بہت سے بچوں کا محبت کے باوجود اپنے نیک ماں باپ کے پیچھے نہ چلنا تحریکات میں مذہبی رنگ بیعت کے بعد تربیت کی طرف جماعت کو توجہ دلانا 399 459 135 310 تبلیغ کے نتیجہ میں احمدی ہونے والوں کی فوری روحانی انگلستان کی جماعت کو حضور کے دورہ کی وجہ سے تحریک کہ یک نیک کاموں کو جاری رکھیں سستی پیدا نہ ہو تحریک جدید تحریک جدید کے 63ویں سال کا اعلان اور کوائف تحفہ اللہ کے لئے تحفہ کی شرط جنت میں سلام اور تحفوں کا مطلب 421 تربیت ساتھ ساتھ کی جائے تبلیغ کے نتیجہ میں مبلغ کی خود تربیت 343 441 ٹیلیویژن کی خرابیاں اور ان کی حکمتیں بچوں کو بچپن سے بتائیں 449 806 روزانہ کی ڈاک میں کثرت سے ماں باپ کے اولاد کے 195 حوالہ سے روتے ہوئے خطوط لکھنا 193 137 شیطان اور انسان کی ناری اور نمو کی طاقتیں 196 عائلی مسائل اور اولاد کی تربیت سے غفلت کے لئے بہترین دعا 187 نماز میں التحیات کے اندر اللہ کے لئے تحفے ، ان کی اہمیت 84 عبادت کا فلسفہ بچپن سے سمجھانا ضروری ہے اللہ کی خاطر تحفوں کی علامت متقیوں کو جنت میں تحفہ ملنے سے مراد مدبیر کوشش اور تد بیر لازمی پھر تو کل کریں وہ تدبیریں جن میں خدا برکت ڈالتا ہے تذکره 50 قانون سازی کاتربیت اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے 195 | درست ہونا ضروری ہے نو مبائعین کے لئے تربیتی کلاسز کی ضرورت جس سے 939 وہ اپنی قوم میں تبلیغ کر سکیں 456 446 389 939 نو مبائعین کے لئے جرمنی میں تربیتی کلاس لگانے کی تلقین 342 549,550,551,269,911 نیکیوں کے مخالف معاشرہ میں بچپن سے ہی نیکیوں سے ذاتی تذکرہ میں ایک الہام کا ترجمہ درست نہ شائع ہونا تربیت تربیت کی کنجی تلاوت قرآن کریم میں ہے 492 گہری نظر رکھنے کی تلقین 453 653 911 لگاؤ پیدا کرنا ضروری ہے یورپ کے والدین کو بچوں پر تربیت کے حوالہ سے تربیت کے لئے حکمت عملی کی ضرورت 736 انگلی نسلوں کی تربیت کے لئے عبادت کے تین پہلو د نظر رکھیں 39 تربیت کے معاملہ میں سختی کا نقصان 443 امریکہ میں بچوں کا کہنا کہ اسلامی طریق پر عمل کے نتیجہ اپنے اندر نقوش مہر محمدی پیدا کرو 464 میں لوگوں کا مذاق اڑانا 443

Page 980

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 18 انسانی تربیت کے لئے طمع اور خوف دو پہیوں کی طرح ہیں 176 سبحان اللہ کہنے سے مراد بارہ سال کی عمر کے بعد بچوں پر کسی قسم کی سختی نہ کرنے کی سچائی اور عدل کا تسبیح سے تعلق 446 کائنات کے ذکر میں اکثر قرآن میں تسبیح کا ذکر 8 899 85 87 74 اسلامی تعلیم بچپن سے ہی کلام الہی سے محبت پیدا کریں 491 ہر گناہ کے بعد بخشش کے مضمون میں سبحان کے لفظ کا استعمال 78 448 ہر چیز کے تسبیح کا کیا طریق ہے، اس کی تفصیل بچپن میں بچوں کو نیکی اور بدی کا فلسفہ بتائیں بچوں اور بچیوں کو ایک خاص عمر کی حد تک سختی سے کہا جاسکتا ہے 754 تعلق بچوں کی حفاظت کریں اور اُن کو چھوٹے چھوٹے خاتم بنائیں دنیا میں تعلقات کے بگڑنے کی بنیادی وجہ جو آنحضرت کی خوبیوں کو رائج کرنے کی طاقت رکھیں 463 لعوز تعوذ اور لاحول کا تعلق بدی کے بدلہ اور عفو میں تربیت کے لئے توازن ضروری ہے 15 تعوذ کی طرف توجہ کی تلقین پیدائش کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر کہنے میں حکمت جو قو میں آ رہی ہیں اُن کو فیض بھی ساتھ ساتھ پہنچانا ہے، اس کے طریق سحری و افطاری کو گیوں کی بجائے انہیں تربیت کے لئے استعمال کریں 443 392 46 تبلیغ اور تعوذ کا تعلق تعويذ گلوں میں تعویذ اور کانوں میں بندوں اور بال کی ترشوائی کے حوالہ سے نصیحت تقدیر الهی گلوں میں تعویذ اور کانوں میں بندوں اور بال کی ترشوائی تقدیر الہی کا محبت سے بننا کے حوالہ سے نصیحت ماں باپ کی تختی کا بچوں پر برا اثر 461 تقوی 455 تقوی بہترین زادراه مغربی ممالک میں بچپن سے ہی بعض بدیوں میں بچوں کا مبتلا ہونا 447 تقویٰ تمام صحف مقدسہ کی تعلیمات کا خلاصہ ہے 12 سال کی عمر میں بچہ میں جنسی خواہشات کا جنم لینا جن تقوی سے اللہ کی نصرت کا حصول سے وہ مغلوب ہوتا ہے 67 470 477 468 477 461 136 493 937 560 448 تقویٰ کا جڑ ہونے کے ساتھ ساتھ آخری مقام بھی ہونا 876 ترکی ترندی تریاق القلوب تسبیح اور تحمید کے درمیان رشتہ تسبیح اور حمد میں فرق تیح سے تحمید اور تحمید سے شکر کا مضمون تسبیح کا مغفرت سے تعلق تسبیح کے متعلق قرآنی آیات 427 تقویٰ کا آغا ز سمع واطاعت سے ہوتا ہے 751،750 | تقوی کمانا آسان نہیں 601,616 تقوی کو ہی زینت کہا گیا ہے تقوی کی اعلیٰ حالت نماز ہے 74 لا لا لا 70 88 تقویٰ کی اہمیت اور اس کا عبادت سے تعلق 794 936 497 878 873 تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے سے خدا کا ساتھ ہونا 935 تقویٰ کی باریک راہوں سے مراد 77 تقوی کے دو پہلو نہاں اور ظاہری 76 تقویٰ کے ساتھ طمع اور خوف کا تعلق 246 338 190

Page 981

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 19 تقویٰ میں ترقی اور روح القدس کا ملنا تقوی نماز کی جان ہے ایمان والوں کو تقویٰ کے حکم سے مراد توفیق کے مطابق تقویٰ اختیار کرنے کی تعلیم 699 توبہ کی حقیقت اور بیعت کی جز 935 توبہ کی حقیقت 32 تو بہ کے بعد گناہوں کی بخشش سے مراد 793 توبہ کے حوالہ سے انسان اپنے تعلقات کا جائزہ لے عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہ ہونے کی وجہ 890 توبہ کے لئے انابت کی شرط قرآن کا تقویٰ سے مطالعہ کرنے کی تلقین متقیوں کی امارت جائے فخر مسجد سے تقویٰ کا گہراتعلق معاشی اور دوسری تنکیوں سے راہ نجات تقومی ہے متقیوں کا امام بننے کی دعا متقیوں کی نشانی 493 تو بہ کے نتیجہ میں بے انتہا فضل 293 133 268 132 120 170 571 تو بہ کے وقت کے گزرنے کا ایک مثال کی روشنی میں ذکر 314 اگر خدا مخلوق میں گناہ نہ ہوتا تو ایک اور مخلوق پیدا کرتا جو گناہ 496 کرتی اور پھر تو بہ کا سلسلہ شروع ہوتا (حدیث) 262 متقیوں کے واسطے اللہ کے وعدے 883 188 882 ایمان کی اصلاح کی توبہ سے ہوگی بخشش کا تو بہ سے تعلق 881 بیعت کی وہ روح جو تو بہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے بیعت کے وقت تو بہ کے اقرار میں ایک برکت 182 133 302 623 171 عذاب کے وقت بعض اوقات تو بہ کی بجائے زیادہ تکبر سے کلیہ نجات کے نتیجہ میں عبد بنتا ہے تکبر کا سب سے پہلا الحاق شیطان سے تکبر کی وہ قسم جس میں انکسار پایا جاتا ہے تکبر کی ہنسی سے ممانعت انبیاء کے تکبر سے بچنے کی وجہ 261 بلند مراتب کی طرف توجہ کا ہونا 455 عذاب کے وقت تو بہ رد کر دی جاتی ہے 172 گناہوں سے توبہ کا طریق 263 باطنی بیداری کا کام بہت لمبا اور بہت صبر طلب ہے احمدیت کو طاقت ملتے وقت ہمارے دماغ میں تکبر کا کیٹر تک نہ ہو 385 جو تو بہ کر لیتے ہیں کیا عذاب کے وقت اگر احسن پر ہاتھ نہ گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر بڑھ جاتا تلاوت 262 ڈالیں تو کیا انہیں عذاب آلے گا، اس کی وضاحت حقیقی توبہ کا عبادت اور صبر سے تعلق جن گھروں میں با قاعدہ تلاوت ترجمہ کے ساتھ نہیں ہوتی حقیقی تو بہ کیساتھ حقیقی طہارت شرط ہے آپ بودی نسلیں آگے بھیجنے والے ہیں تنزانیہ توبه تو بہ اور استغفار کا تعلق 527 کچی تو بہ سے اپنی اور نسلاً بعد نسل کی حفاظت کا طریق 740 کچی تو بہ کا اثر وہ لوگ جن کو تو بہ کا خیال بھی نہیں آتا 269 توبتہ النصوح کی علامتوں کا ہونا ضروری ہے تو بہ سے لازمی نہیں کہ ہر قسم کی بدیاں اسی وقت مٹ جائیں 281 تو بہ کا عام مفہوم توبہ کا فلسفہ توبہ کی اہمیت توجہ 310 انتشار توجہ انسان کو ہر ترقی سے محروم کرتی ہے 286 توحید 131 توحید اور اخلاق کا تعلق 124 117 139 303 118 325 300 286 259 302 182 331 641

Page 982

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 20 توحید باری جو سب اقوام کے درمیان قدر مشترک ہے یہ زمانہ تو حید پر زور دینے کا ہے اور اپنے اخلاق اس میں جاری کریں 641 اس کی طرف بلائیں توحید خالص سے مراد 398 | توکل 326 | تو کل سے مراد توحید عالم اور توحید باری تعالیٰ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 361 صبر اور تو کل کا رشتہ 220,239 520.517 939 238 توحید کامل کا مظہر احسان 57 کوشش اور تد بیر لازمی پھر تو کل کریں توحید کی خاطر حضرت اقدس کی بے چینی 553 اللہ پر توکل کا طریق توحید کی عالمی منظر کشی کا نظارہ تو حید کے حوالہ سے سائنسدانوں کے مؤقف کا ذکر توحید کے دو مظاہر 368 361 تہجد کا مقصد 357 تہجد کے وقت بعض لوگوں کا دنیاوی دعائیں کرنا توحید کے ذریعہ دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے 363 تہجد جہاد ہے توحید کے ذریعہ مرتی ہوئی دنیا پھر سے زندہ ہوسکتی ہے 552 تہذیب توحید کے ذریعہ ہی تمام عالم کے اختلافات کی دوری ہوسکتی ہے 358 تہذیب کے لئے عدل کی ضرورت 373 توحید کے نتیجہ میں خلافت احمدیہ کی علمیت کا قیام توحید کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ کی علمیت کا اظہار ہوگا 372 توحید میں ایک تفریق توحید میں نفی اور مثبت کا پہلو 368 244 کھر (ہندوستان ) 635 634 634 16 16 393 ٹیلیویژن ٹیلیویژن کی خرابیاں اور ان کی حکمتیں بچوں کو بچپن سے بتائیں 449 احمدیت میں نیشنلٹی کے حوالہ سے کسی کو داخل نہیں کرنا اس بی بی سی کے پر گر وام فوکس آن آفریقہ میں گیمبیا کے مولوی سے تو حیدٹوٹ جائے گی اسلام کا اعلیٰ مقصد تو حید کا قیام ہے اللہ کی توحید کے نتیجہ میں حقیقی بشر بننے کا ذکر 366 کے خطبات کا نوٹس لینا اور سازش سے پردہ اٹھانا 399 ثناء اللہ امرتسری 328 657 677 783 45,237,808 951 39 711 930 666 664 391,668,807,919 370 جرمنی جماعت کے سامنے تو حید کے حوالہ سے دو تحریکیں 371 جلسہ کے نتیجہ میں توحید کا مظاہرہ دعا کا توحید سے گہرا تعلق قومیتوں کو مٹانے والی طاقت آج صرف تو حید ہے کائنات کو باندھنے والی چیز صرف تو حید ہے مسیحیت سے ہمیں ایک نسبت ہے جو ایک روح، مزاج کا نام ہے جو ہمیشہ تو حید سے تعلق رکھتی رہے گی یہ سال توحید کا سال ہے آنحضرت کا عالمی توحید کا اعلان مادی لیز رتو حید ہی کا دوسرا نام ہے ہمارے ہر مسئلہ کاحل وحدانیت میں ہے 544 649 365 361 554 551 جابر جاپان جامع ترمذی جانور جانور مر کر نجات پا جاتے ہیں پولر بیٹر کا سردیوں میں ہائبر نیٹ کرنا کتے کا اپنے مالک سے پیار کرنا جبل احد 358 جدہ ائر پورٹ 331 | جرمنی 612 جرمن قوم سے حضور کی توقعات

Page 983

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 21 جرمنی اور امریکہ کی خواہش کہ کوئی ایسا ٹارگٹ مقرر کریں جلسه سالانه جس میں ساری دنیا سے آگے نکلیں جرمنی جماعت کو مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دلانا 744 جلسہ پر آنے کے لئے اسائکم کے بہانے 373 جلسہ پر آنے والوں کو عبادت کی طرف توجہ کی تلقین 531 755 جر منی کو صدی کے سال میں ایک لاکھ احمدی بنانے کی تلقین 373 جلسہ سالانہ کے حوالہ سے مہمان نوازی کے متعلق نصائح 530 جرمنی کو کس طرح کے احمدی کثرت سے بنانے چاہئیں 373 جلسہ سالانہ میں ایک لنگر خانہ کے منتظم کا خلاف دستور مہمانوں جرمنی جماعت کی ترقی اور اس حوالہ سے انکسار عفو کی نصائح 601 کو کھانا کھلانا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوتی 537 جر منی جماعت کی رفتار پر بعض افراد کی پریشانی پر وضاحت 340 جلسہ سالانہ یو کے جو مرکزی جلسہ ہے، اس کی اہمیت جرمنی جماعت کے سامنے توحید کے حوالہ سے دو تحریکیں 371 جلسہ سالانہ یو کے کو مرکزیت حاصل ہونا جرمنی کی جماعت کا مختلف پہلوؤں سے ترقی کرنا 337 جلسہ سالانہ 1897 ء کی الگ نرالی شان اور جلسہ 1997ء جرمنی کی جماعت کو تبلیغ و تربیت کے حوالہ سے دو ٹیمیں کی اس سے مشابہت 341 جلسہ کا مقصد اور شرح نظر بنانے کی تلقین جرمنی کی جماعت کی پھیلنے پر گھبراہٹ کہ سنبھالیں گے کیسے 382 جلسہ کی مرکزیت اور اس کی اہمیت جرمنی کے بائیسویں جلسہ سالانہ کا آغاز 511 547 547 545 543 599 جلسہ کے کارکنان کے لئے سکیورٹی کے حوالہ سے ہدایات 539 جرمنی کے جلسہ پر مہمانوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جانا 619 جلسہ کے نتیجہ میں توحید کا مظاہرہ جرمنی میں اب کثرت سے ایسے آدمی تیار ہوں جو مجالس سوال و جواب میں جواب دینا سیکھیں جلسہ میں شامل عورتوں کو پردہ کے حوالہ سے نصائح 339 جلسہ میں شاملین کے اخلاق اعلیٰ ہوں جرمنی میں ایک منتظم سے مہمانوں کے ساتھ بد اخلاقی کا واقعہ 536 جلسہ میں شرارت کے لئے آنے والوں کے حوالہ سے جرمنی میں غیروں کا جماعت کی طرف تیزی سے رجحان 338 سکیورٹی کی ہدایات جرمنی میں ہمیشہ کثرت سے نئے چہرے دیکھے 706 جلسہ میں شمولیت کی خاطر مہمانوں کی آمد حضور کا جرمنی کی سو مساجد کی تحریک کے سلسلہ میں اپنی طرف سے پچاس ہزار مارک دینے کا اعلان 376 میں سختیاں اور اس کی وجہ 544 541 543 538 529 جلسہ میں شمولیت کے لئے آنے والوں کو ویزہ کے حصول حضور کا مہر آپا کی طرف سے جرمنی جماعت کی سومساجد کی جلسہ میں شمولیت کے وقت نیت 530 530 تحریک کے لئے تین لاکھ جرمن مارک دینے کا اعلان 376 جرمنی کے جلسہ پر مہمانوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جانا 619 جرم اس سال کے جلسہ سالانہ یو کے کی ایک خاص فوقیت 547 مغربی تہذیب میں مختلف جرائم کا مختلف سالوں سے تعلق یہ جلسہ یو کے ہمارے مباہلہ کے سال کے نتیجہ کو دکھانے والا ہوگا 511 اور اسلام کی تعیین کردہ عمر جسم جسم اور روح کا تعلق جغرافیہ 446 جماعت اسلامی جماعت اسلامی کا کراچی میں جلسہ اور بدتر سلوک 929 جمعه جمعہ کی نماز عورتوں کے لئے فرض نہیں جماعت کا جغرافیائی علم بڑھانے کی طرف توجہ 712 جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز اکٹھی ادا کرنے کی وجہ 887 763 810

Page 984

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 جمعہ میں عام طور پر بولنا جائز نہیں بعض دفعہ ایک جمعہ تمام عمر کی خلاؤں کو بھر دیتا ہے 22 811 | جھنگ جھوٹ 94 فرائیڈے دائینتھ کا جمعہ اور آدھ گھنٹہ کی تاخیر 743 جھوٹ اپنی ذات میں شرک ہے 626 480 جھوٹ اس وقت ساری دنیا کا سب سے بڑا دشمن ہے 471 جمعۃ الوداع جمعۃ الوداع کیسے جمعۃ الوداع بن سکتا ہے 111 جھوٹ اور فحشاء میں فرق جمعۃ الوداع کے غلط تصور میں علماء کا ہاتھ جمعۃ الوداع میں مساجد میں سب سے زیادہ رش جنت 99 جھوٹ ایک زہر ہے 93 جھوٹ شیطان کی عبادت کا نام ہے جھوٹ کا بعض اوقات پتہ ہی نہیں چلتا جنت میں اندرونی نیکیاں بھی دکھائی جائیں گی 953 | جھوٹ کے خلاف جہاد کا اعلان جنت میں ایسے بالا خانوں کا ذکر جن میں دو طرفہ رویت ہوگی 952 جھوٹ کے قریب بھی نہ پھٹکنے کی تعلیم جنت میں سلام اور تحفوں کا مطلب جنس 12 سال کی عمر میں بچہ میں جنسی خواہشات کا جنم لینا جن سے وہ مغلوب ہوتا ہے جنگ اخبار جنگ 196 | جھوٹ کے نتیجہ میں معاشرہ پاک نہیں ہو سکتا جھوٹ کے نقصانات 779 471 471 315 483 183 480 479 امیگریشن کے حصول کی خاطر جھوٹ نہ بولنے کی تلقین 478 448 تبلیغ میں ایک طرح کا جھوٹ 906 جماعت کے کاموں میں جھوٹ کا عنصر عائلی معاملات میں جھوٹ کا نتیجہ 473 472 481 لیز ردفاع کی ایک تکنیک جہاد جہاد بالسیف میں جان لینے کا جائز حق جہاد کی راہوں کو حضرت اقدس نے کھول کر دکھایا جہاد کی کامیابی اللہ کے منشاء پر مبنی ہے ابوبکر صدیق کا اپنے بیٹے کو کہنا کہ دوران جنگ اگر تُو میرے سامنے آتا تو میں تمہیں قتل کر دیتا بُرائی کے خلاف جہاد کا طریق آنحضرت کے زمانہ میں جہاد تھا اور اب بھی جہاد ہے جو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے جہلم 785 179 247 625 179 572 480 925 لغو جھوٹ ہوتا ہے اس لئے عباد الرحمن اجتناب کرتے ہیں 186 مولویوں کا پیسے کی خاطر جھوٹ بولنا اور بلوانا لمبا فائدہ پہنچانے والا جھوٹ لمبا نقصان پہنچاتا ہے جیکب آباد چاند شق القمر کا معجزہ اور علم ہیئت کے معترضین کو جواب 455 چشمه معرفت چنده 702 703 403 چندے تب قبول ہوں گے جب نماز پر پوری طرح قائم ہوں 499 808 چوک حضرت اماں جان ربوہ چھیری بیگم صاحبہ جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، اس سے مراد 255 چیچنیا جہنم کے خیال سے اعمال میں درستگی 175 917 721 637 237

Page 985

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 حالات حاضرہ 23 اگر چھوٹی باتوں پر رحمی رشتوں کا لحاظ نہ کرو گے تو پھر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا کوئی جرم یا غداری نہیں 909 اللہ بھی نہیں کرے گا ڈاکٹر حامد اللہ صاحب حج حج کا تعلق خدا کے نیک بندوں سے حدیث صحیح حدیث کی پہچان کا طریق عبادت کے حوالہ سے احادیث کی اہمیت کچی احادیث خود بولتی ہیں احادیث الدنيا سجن للمؤمن وجنة للكافر الصلوة هي الدعا ، الصلوة مخ العبادة الصيام جنة العلم علمان العلم علمان اليد العليا خير من اليد السفلى ان في الجنة غرفا ترى ظهورها من بطونها انا الحاشر الذي يحشر الناس سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم صوموا تصحوا صوموا تصحوا 168 38 804 327 953 اگر خدا مخلوق میں دیکھتا کہ اس میں گناہ نہیں تو ایک اور مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور پھر تو بہ کا سلسلہ شرو ہوتا اللہ رحم کرے اس پر جو رات کو اٹھے نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے انسان کا جماعت سے نماز پڑھنا بازار یا گھر میں نماز سے بیس گنا سے بھی کچھ زیادہ ثواب کا موجب ہے 470 262 782 788 ایک رمضان اگر اچھا گزار گیا تو سارا سال کامیاب ہو گیا 62 ایک صحابی کا پوچھنا کہ کون ساعمل مجھے جنت میں لے جائے گا ، ان میں سے ایک نماز 934 بیوی کے منہ میں لقمہ اللہ کی خاطر ڈالنے کا اجر 852 بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا بھی عبادت ہے 951 433 712 393 951 150 81 752 187 847 تم سے پہلے ایسے بھی گزرے ہیں جن کے سر آروں سے چیرے گئے 595 جب انسان بار بار روروکر اللہ سے بخشش چاہے تو آخر کار خدا بخش دیتا ہے جب دستر خوان بچھ جائے اور کھانا چن لیا جائے تو نماز شروع کرنا اس خراب کرنے کے مترادف ہے جو اللہ کے بندوں کی اعانت میں مصروف رہتے ہیں اللہ 48 ان کی اعانت فرض کر لیتا ہے 267 775 214 954 جو خدا کی طرف بالشت بھر پڑھے گاوہ اس کی طرف گزوں آئے گا 820 فتنة الرجل في اهله وماله وولده تكفرها الصلوة 956 جو شخص رمضان کے مہینے کی حالت ایمان میں احتساب فليبلغ الشاهد الغائب قرة عيني في الصلوة لولاک لما خلقت الافلاک مساجدهم عامرة من قام رمضان ايمانا واحتسابا احادیث بالمعنى 328 کرتے ہوئے روزے رکھتا ہے 851 چند نو جوانوں کا آنحضرت کے پاس آکر دین سیکھنا 806 497 58 اور پھر جاتے ہوئے آنحضرت کی نصیحت حدیثہ میں حدث کے لفظ سے مراد دو بد قسمت شخص جس نے رمضان پایا، والدین کو پایا اور گناہ نہ بخشوا سکا انسان ایک قدم خدا کی طرف جاتا ہے تو خدا دس قدم آتا ہے 108 روزہ آگ سے بچانے والی ڈھال ہے پیدائش کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر کہنا 443 سخی اللہ لوگوں اور جنت سے قریب ہوتا ہے آنحضرت مہ کا فرمانا کہ کیا میں عہد شکور نہ بنوں 88 64 786 790 57.52 951 803 صبح کی نماز پر نہ آنے والوں کے متعلق آنحضرت کا غم 748

Page 986

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 مبر یہ ہے کہ نیکیوں پر دوام اختیار کرنا صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور ہو 24 922 | اخلاق کا تعلق بنی نوع کے حقوق کی ادائیگی سے ہے 305 803 قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا 750 قربانیاں ہمیں پیش کرنی ہوں گی مگر حکمت کے تقاضے ضرور کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازہ کے پاس نہر گزررہی ہو 762 پیش نظر رکھیں گنہ گار بندہ جب تو بہ کر لے تو اللہ کو اتنی خوشی ہوتی ہے کہ 486 مجھعا ئشہ کے بستر کے علاوہ کہیں وحی نہیں ہوئی مکھی ہمیشہ بائیں گرتی ہے مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روزانہ سفر کر رہا ہو 569 حمد حمد کا لامتناہی سفر 256 | حمد کا آنحضرت سے تعلق 493 تسبیح اور حمید کے درمیان رشتہ مہمانی تین دن کی ہوتی کرتی ہے اس کے بعد اجازت سے ٹھہرو 532 تسبیح اور حمد میں فرق میں تم سب کی خدمت کرتا ہوں مگر تم سے اجرت کوئی نہیں چاہتا 370 تسبیح سے تحمید اور تحمید سے شکر کا مضمون میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ گناہ مٹاتا اور درجات بلند کرتا ہے نماز اس طرح پڑھیں کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے 784 849 465 82 71 74 لا لا لا له 70 88 75 سورۃ فاتحہ کا حمد سے آغاز ہونے کا مطلب کائنات کا اپنی پیدائش اور ترقی کے ہر دور میں حمد کے گیت گانا 69 حمید اللہ شاہ صاحب اگر نہیں تو پھر خدا دیکھ رہا ہے نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے 783 حمید صاحب ہالینڈ نماز وقت پر پڑھنا اللہ کو زیادہ پسند ہے 784 حمید نصر اللہ صاحب 901 حیدرآباد نیکیوں کے حصول میں نرمی کرو ہر چیز کو پاک کرنے کے لئے اس کی زکوۃ ہوتی ہے 953 حیدر آباد دکن ہر خون میں شیطان دوڑ رہا ہے آنے والا مہدی خزانے بانٹے گالینے والے کہیں گے 862 | خارق 710 639 811 808 168 بس بہت ہو گیا حضرت حذیفہ حساب احتساب سے مراد احمدیت جہاں ترقی کرے گی وہاں حسد پیدا ہو گا 423 955 59 خارق کے وجود میں آنے کا طریق خوارق سے مراد خانہ کعبہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد خدمت 696 695 664,675 39 588 مسجد سے تعلق جوڑنے سے خدمت دین کے مختلف مواقع کا میسر آنا 94 احمدیت کی کامیابیوں کے نتیجہ میں حسد اور اس سے بچنے کی دعا 585 عوام کی خدمت وہی کر سکتا ہے جو مزا جا خدمت کرنے والا ہو 228 قاضی حسین احمد حفیظ بھٹی صاحب حق 887,906 حضرت خدیجہ 721 آپ کا سب کچھ آنحضرت گود دینا اور آپ کا وہ سب کچھ تقسیم کردینا 395 خطبہ بنی انسان کے لئے عجز کا اظہار 172 خطبہ جمعہ کے دوران لب تر کرنے کے لئے گرم پانی کی طلبی 766

Page 987

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 خطبہ کے دوران سکیورٹی گارڈ کا زیادہ دیر کھڑا رہنے کی وجہ سے گرنا اور حضور کی نصیحت ایک نو مبائع کا کہنا کہ یوں لگتا ہے آپ ہر خطاب میرے لئے کرتے ہیں شوری کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات آج بھی رہنمائی کر رہے ہیں 83 468 25 روزانہ کی ڈاک میں کثرت سے ماں باپ کے اولاد کے ساری جماعت اپنے عزیزوں اور بچوں سے زیادہ پیاری ہے 756 حوالہ سے روتے ہوئے خطوط لکھنا آنحضرت کی عالمیت کا خلفاء کو عطا ہونا خلق 193 370 225 اللہ کی صفات اپنا کر دنیا کی طرف لوٹنے والا بداخلاق نہیں ہو سکتا 307 حضور کا نارتھ کیپ سے خطبہ دینا تاریخی لحاظ سے اہم تو حید اور اخلاق کا تعلق جہاں مسلسل دن یا رات رہتی ہے خط 708 عہدہ کی کوئی حیثیت نہیں اگر آپ با اخلاق نہیں معاشرتی بدیوں کے نتیجہ میں بداخلاقیوں کا پھیلنا مہمان نوازی میں اخلاقیات کا حصہ سینکڑوں لوگوں کا خطوط میں لکھنا کہ ہماری ساری زندگی کی نمازیں جیسے ضائع گئیں خلافت / خلیفہ وقت خلافت راشدہ کے بغیر سچائی کی حکومت نہیں بلکہ ایک سیاسی حکومت ہے 889 یہ زمانہ توحید پر زور دینے کا ہے اور اپنے اخلاق اس میں 285 جاری کریں اخلاق محض کہنے سے نصیب نہیں ہو جاتے اخلاق نے ہی غیروں کو متاثر کرنا ہے 641 231 12 537 641 230 640 اخلاقی اور روحانی بیماری سے شفا کا نسخہ خلافت سب دنیا کی ہو ہی نہیں سکتی اگر صرف کسی ایک قوم اخلاقی حالتوں کی طرف واپسی کے لئے اندرونی گھریلو سے تعلق ہو 369 590 حالتوں پر نظر ضروری ہے اللہ تعالی کا خلیفہ وقت سے الہاما کلام کرنا اغراض سے اخلاق پیدا نہیں ہوتے بڑے بڑے اہم معاملات میں فوری اطلاع خلیفہ وقت کو 916 بدخلقی بہت بڑا جرم اور گناہ بھجوانی چاہئے نہ کہ خاموشی سے بیٹھ جائیں 373 بدخلقی کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ توحید کے نتیجہ میں خلافت احمدیہ کی علمیت کا قیام خلفاء کو دوران تقریر چائے اور قہوہ پیش کیا جانا اور بعض لوگوں بعض لوگوں کو اپنے کردار سے با اخلاق ہونے کا مظاہرہ 950 کرنا مگر دراصل ایسے نہیں ہوتے 295 روز مرہ دلوں کو کھینچنے والے اخلاق کی ضرورت ہے کا حضرت خلیفہ اسیح الرابع پر اعتراض اور ہمدرد بننا خلیفہ کی طاعت محمد سے بیعت کا مفہوم خلیفہ وقت صرف پاکستان کی مجلس شوری پر بنا نہیں کرتا 236 بچے اخلاق کی تعریف خلیفہ وقت کا افریقہ کے لوگوں سے اظہار محبت 370 محمد ملالہ کے اخلاق سیکھو خلیفہ وقت کو الہی صفات کا عطا ہونا جو کل عالم کو ایک ہی رنگ جسٹس خلیل الرحمن میں دیکھنے لگتی ہیں خلیفہ وقت کوئی بھی فیصلہ بغیر مشورہ کے نہیں کرتا 199 14 228 305 230 306 229 305 227 369 احمدیت کے خلاف گندہ اور ظالمانہ فیصلہ لکھنے میں اس کا ہاتھ 869 237 خنزیه امت کی زندگی کی ضمانت کسی خلیفہ کی ذاتی صلاحیت نہیں 295 انگلستان میں بدقسمتی سے بڑی تعداد میں مسلمان نوجوانوں حضور کے پیغام پر جماعت کا فوری رد عمل 421 کا سور کا گوشت کھانا 290

Page 988

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 مسلمانوں کو خنر سیر سے بالطبع کراہت خواب 26 290 دعا کی طلب نہ ہو تو اللہ کو انسان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا 282 دعا کی قبولیت کے لئے اگلے بندے کا بانصیب ہونا حضرت اقدس کا ایک رؤیا جس میں ایک نالی پر بھیٹریں ضروری ہے وہ بدنصیب نہ ہو لٹائی ہوئی ہیں اور ہر قصاب کے ہاتھ میں چھری ہے خواہش 202 دعا کی مقبولیت کا نشان دعا کی آجکل کے زمانہ میں اہمیت خواہش کے ساتھ اس کی تکمیل کی صلاحیت بھی ضروری ہے 694 دعا کے ذریعہ شفا خود اعتمادی خود اعتمادی کے حوالہ سے رہنمائی کرنا پردہ کے حوالہ سے بچیوں میں خود اعتمادی کی تلقین 453 453 نیکی پر خود اعتمادی کے فقدان کے نتیجہ میں نسلوں کو تباہ ہونا 454 خواجہ خورشید احمد صاحب سیالکوٹی ایڈیٹر الفضل کا ذکر خیر خوشاب خوف خوف الہی کی حقیقت خوف خدا کا معنی 167 808 دعا کے ساتھ محنت اور عمل کا تعلق دعا کے سہارے صراط مستقیم پر قائم رہنا دعا کے مقبول ہونے کا نشان دعا کے وقت حضرت اقدس کے دل کی کیفیت دعا گناہوں کے لئے تریاق ہے دعا مقبول بنانے کا طریق دعا میں سوزش کا ہونا ضروری ہے دعاؤں کو پھیلانے سے لذت بڑھنا اور نا کا مقبول ہونا 197 273 194 648 627 245 775 874 291 221 855 189 احمدیوں کی دعائیں پاکستان کو بار بار بچانے میں کام آتی ہیں 28 646 اس رمضان کو مباہلہ کے حوالہ سے دعاؤں کے لئے وقف کر دیں 27 651 استخارہ کے لئے دعا کی قبولیت کا جواب آنا ضروری نہیں 194 خوف کی حقیقت اور جانورں میں خوف پایا جانا اور ان کی اگلی نسلوں کے دین کے لئے خالص ہونے کی دعا مثالوں سے خوف الہی کا تذکرہ 643 بد خلقی کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ داؤ د حنیف صاحب امیر گیمبیا 660 پاکستانی قوم کو متنبہ کرنا اور اعلان کہ صرف احمدیوں کی دعائیں ہی آپ کو بچاسکتی ہیں داؤ دا جوارا حضرت داؤد علیہ السلام حضرت داؤد پر اعتراض در مین درود شریف 661 76,604 603 143,335,423,439,476,872 پاکستانی قوم کے لئے دعا 578 230 909 593 477 تعوذ اور لاحول کا تعلق جماعت کے دعا کے لئے لکھنے پر حضور کے دل کی کیفیت 873 حضرت خلیفہ رائج کی ایک رویا جس میں رب کل شیء خادمک کی دعا تھی 244 200 آنحضرت سے جس قدر زیادہ محبت ہوگی اسی قدر در و د دل کی گہرائی سے ہوگا دعا دعا قبول نہ ہونے میں حکمت دعا کا توحید سے گہرا تعلق حضرت زکریا کی دعا 151 صرف تکلیف کے وقت اللہ کو یاد کرنے والوں کا قرآنی تذکرہ 97 صلوۃ اور دعا میں کوئی فرق نہیں 852 222 عائلی مسائل اور اولاد کی تربیت سے غفلت کے لئے بہترین دعا 187 649 عائلی معاملات میں جنت کے حصول کی دعا 195

Page 989

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 27 حضرت عیسی کی مائدہ کی دعا کی قبولیت 576 | یہ شکوہ کہ پھل نہیں لگتا، اس کا جواب فرعون کی بیوی کی دعا 198 | دکھ 284 کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کوتا ہی نہ ہو 291 صبر کے ساتھ دکھ کا تعلق کئی لوگوں کا کہنا کہ دعا کی مگر پھر بھی نماز میں توجہ پیدا نہ ہوئی 291 دنیا گناہ سے دور ہٹنے کی کوشش مگر طاقت نہیں پاتے ، اللہ کی محبت کا واسطہ دے کر دعا کریں گھروں کی اصلاح پر مشتمل اہم دعا 199 دنیا جس قدر زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ آتی ہیں 881 121 | دنیا کا امن لفظ مسلم میں وابستہ ہے 197 دنیا کی اکثر قو میں اُمی ہیں لیکھرام کے نشان کے سوسال پورے ہونے پرکٹی لیکھر اموں دنیا کی طلب میں اطمینان کبھی نصیب نہیں ہوتا کی ہلاکت کے لئے جماعت کو دعا کی طرف متوجہ کرنا 29 دنیا میں بے چینی اور بدامنی کا پھیلنا 332 359 345 122 متقین کا امام بننے کے لئے دعا کریں اور کوشش کریں 576 قرآن بالکل ہندو سادھو کی طرح دنیا چھوڑنے کی تعلیم نہیں دیتا 347 188 و و راز جس سے دنیا کا امن وابستہ ہے دوالمیال متقیوں کا امام بننے کی دعا نا سمجھی میں اسلامی روایات کے خلاف فیصلہ کرنے والی بچیاں اور بچوں کی طبیعت دعا کی طرف مائل نہیں ہوتی 132 نوح کا اپنے بیٹے کی غرقابی کے وقت استغفار کی دعا کرنا 17 حضرت یونس کی دعا کے متعلق بعض صوفیاء کا کہنا کہ یہ نہیں نمازیں پڑھیں کرنی چاہیئے کیونکہ یہ بہت گرم ہے اجتماعی دعاؤں کی تلقین اللہ کی محبت سے خالی اور انانیت سے بھری دعائیں اللهم مزقهم كل ممزق کی دعا کی تلقین ایاک نعبد و ایاک نستعین کی دعا کی تلقین 78 111 484 28 316 دوالمیال کی مسجد میں احمدیوں کے داخلہ پر پابندی دوالمیال کے احمدیوں کو حضور کی تلقین کہ وہ گلیوں میں دہریت مولا نا دوست محمد شاہد صاحب اللہ تعالیٰ کا زبان سے اقرار مگر ان دہر بیت دہلی 334 505 506 911 651 89 89 متقین کا امام بننے کے لئے دعا کریں اور کوشش کریں 576 دیڑھ چک 29 سانگلہ ہل ضلع شیخو پوره مخالفین کے ہلاک ہونے پر ان لوگوں کو ہلاکت سے بچانے کے لئے حضرت اقدس کی دعائیں 352 دین اللہ کی اطاعت جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 547 نشان نمائی کے لئے دعا مانگنا بدعت نہیں نماز میں دعا کے ذریعہ مشکلات کاحل دین 610 | دین کا کام بھی زمیندارہ ہے 825 دین کا معنی صرف مذہب لینا درست نہیں وہ بد بخت جن کے حق میں دعائیں قبول نہیں ہوتیں 594 دین کا مقصد اللہ کی جستجو اور اس کی ذات میں سفر ہے دعوت الی اللہ ( نیز دیکھیں تبلیغ ) دعوت الی اللہ کی خاطر زبان سیکھنے کی تلقین دین کا مقصد عددی غلبہ پیدا کرنا نہیں 430 دین کی خاطر قربانیوں کرنے والے ہی مومن ہیں پاکستان میں داعیان کو حکمت کو پیش نظر رکھنے کی تلقین 466 دین کی خدمت کی تلقین جرمنی میں اب کثرت سے ایسے آدمی تیار ہوں جو دین کے دو حصے مجالس سوال و جواب میں جواب دینا سیکھیں 339 دین کے مختلف معانی 626 566 628 523 575 874 565 564

Page 990

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 دین کے معاملہ میں لالچ نہیں دیا جاسکتا دین میں کوئی جبر نہیں اسلام دین کو خدا کے لئے خالص کرنا ہے 28 474 روحانی ربوبیت کے آغاز کا وقت 566.564 ربوه 67 21,391,808,809 563 بڑے بڑے اہم معاملات میں فوری اطلاع خلیفہ وقت کو 624 بھجوانی چاہیئے نہ کہ خاموشی سے بیٹھ جائیں بیعت کے وقت دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہ ہونے کی وجہ 890 رحمانیت فاطمہ کی دین سے محبت اور آپ کی نسل کا دین کے لئے خالص رہنا 577 رحمانیت کا گناہوں کی بخشش سے تعلق قرآن سے محبت کے بغیر دین سے محبت رکھنا بے معنی ہے 491 رحمت 916 219 مسجد سے تعلق جوڑنے سے خدمت دین کے متلف مواقع کا میسر آنا 94 گناہوں سےنجات اللہ کی رحم سے تعلق جوڑے بغیر ممکن ہے 170 بعض دفعہ دنیوی مشکلات دینی معاملات میں حارج ہوتی ہیں 854 شیخ رحمت اللہ صاحب دیوان غالب ڈائیٹنگ روزوں سے بڑھ کر ڈائیٹنگ کا کوئی طریق نہیں ذکر الہی 216,536 48 رزق رزق کا ایک الہی نظام ہے رزق میں وسعت کے لئے ہجرت کا جواز رزق وہی ہے جو اللہ کی طرف سے عطا ہو 115 485 478 479 ذکر الہی سے دل کا مطمئن ہونا ذکر الہی سے قلبی اطمینان ذکر الہی ایک روحانی غذا ہے اللہ کی یاد سے مخلوق سے بھی محبت پیدا ہونا رمضان میں ذکر الہی میں بڑھنے کا طریق 828 آنحضرت کی برکت سے عربوں کے لئے رزق کے انتظامات 161 344 48 348 48 پاک رزق کے حصول کی دعا رسالہ قشیریہ 217 804.803 رشید ز میروی صاحب کی وفات اور ان کا ذکر خیر 466 مرزارشید احمد صاحب صرف تکلیف کے وقت اللہ کو یاد کرنے والوں کا قرآنی تذکرہ 97 وہ وقت جب اللہ کی یا داطمینان بخشتی ہے راز وہ راز جس سے دنیا کا امن وابستہ ہے امام راغب راولپنڈی 348 ڈاکٹر رضیہ صاحبہ کا ذکر خیر رفیع صاحب کیلیفورنیا 334 ریق باجوہ صاحب 183,209 808 جسٹس رفیق تارڑ صاحب رمضان 507 168 731 907 906 رباط رباط سے مراد ربوبیت ربوبیت سے تعلق توڑنے والوں کی حالت ربوبیت کے مضمون کا ساری کائنات سے تعلق آنحضرت کربوبیت کا کامل مظہر 785 349 66 67.66 رمضان اور صحت کا اچھا ہونا 48 رمضان ختم ہونے پر اپنی منفی حالتوں کی طرف لوٹنے والے 59 رمضان کا بخشش سے گہرا تعلق رمضان کا عبادتوں کے گر سکھانا رمضان کا قرآن سے تعلق 75 105 942 رمضان کا وہ پہلو جس میں شرک کی نفی ہر پہلو سے ہے 61

Page 991

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 29 رمضان کا ہدایت، گناہوں سے بخشش کا تعلق 944 جسم کی زکوۃ روزہ ہے رمضان کا ہر مرتبہ خدا کو لے آنا 949 جمعہ فرائیڈے دائینتھ سے رمضان کا آغاز رمضان کا شتکاری کا مہینہ ہے رمضان کو ایمانا واحتسابا گزارنے سے مراد 40 60 روزوں سے صحت کا اچھا ہونا روزہ فتنوں کا کفارہ ہے 953 21 954 955 رمضان کی اجتماعی برکتیں 43 سحری و افطاری کو گپوں کی بجائے انہیں تربیت کے لئے استعمال کریں 46 رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا طریق 40 سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کا حکم ، اس کے 935 | باوجودلوگوں کا روزہ رکھنا رمضان کی قید کا ذکر رمضان کے بعد شکر کی تو فیق رمضان کے فدیہ کی وضاحت رمضان کے گنتی کے دنوں سے مراد رمضان کے متعلق احادیث نبویہ رمضان میں اپنے وزن کی کمی کا حساب رکھنے والے رمضان میں احتساب کا طریق 946 مغربی ممالک میں غذا کی بہتات کی وجہ سے رمضان 43 کے فدیہ کی ادائیگی کا طریق 41 | روح اروح القدس اروحانیت 951 روح القدس کی تائید سے مراد 60 روح القدس کی تعریف 62 تقوی میں ترقی اور روح القدس کا ملنا رمضان میں بخشش کے بغیر گزرنے پر نماز ہمارے کام آتی ہے 73 روح اور جسم کا تعلق رمضان میں تین قسم کی عبادتوں کا اجتماع رمضان میں دو بد قسمت لوگ رمضان میں ذکر الہی میں بڑھنے کا طریق رمضان میں سینے کی گردی اور کدورت کا دور ہونا احمدیوں کے دشمنوں کی ذلت ، نکبت اور ہلاکت کی تقدیر کے ظاہر ہونے کا رمضان 945 45 698 699 699 929 39 روحانی مراتب جلد کرنے والوں کے دماغوں پر اثر ہونے کا خدشہ 931 52 ، 57 نظام صحت جس کا روحانیت سے تعلق ہے اس میں احساس 48 کی بیداری کا نام صحت ہے 955 مسیحیت سے ہمیں ایک نسبت ہے جو ایک روح، مزاج کا نام ہے جو ہمیشہ تو حید سے تعلق رکھتی رہے گی 30 جلسہ کی وجہ سے تمام روحوں کا عالمی ہونا ایک رمضان اگر اچھا گزار گیا تو سارا سال کامیاب ہو گیا 62 روزه قرآن نماز اور رمضان کا ہمیں احتساب کرنا سکھانا 85 روزوں سے بڑھ کر ڈائیٹنگ کا کوئی طریق نہیں آنحضرت پر ہر رمضان گزشتہ اترے ہوئے قرآن کا دہرایا جانا 843 روزوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھانے والے اس رمضان سورۃ فاتحہ کو ہی اپنا طمح نظر بنا لیں 65 روزہ کی جزا خدا ہے، اس سے مراد اس رمضان کو مباہلہ کے حوالہ سے دعاؤں کے لئے وقف کر دیں 27 روس افطاری کن لوگوں کی کروانی چاہئے افطاری کے متعلق بعض وضاحتیں افطاری کروانے کا صدقہ سے کوئی تعلق نہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ روزے نہیں رکھتے کیونکہ صحت ٹھیک نہیں رہتی ،اس کا جواب 50 49 50 954 ریاضت 891 554 544 48 627 63 637,710 وہ ریاضتیں جن سے خدا ملنے کی بجائے انسانیت بھی جاتی رہتی ہے 864 ریا کاری ریا کاری کا مطلب بہت بھاری اکثریت کا مسلمانوں میں سے روزے نہ رکھنا 943 ریتی چھلہ 247 114

Page 992

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 رویا 30 صفات باری تعالیٰ کا نام زندگی ہے 365 چوہدری غلام حسین صاحب کے 9 بچوں کا مرنا اور رویا میں عبادالرحمن میں شامل ہونے سے آئندہ زندگی کی ضمانت 241 165 ساری زندگی کو اللہ کے لئے خالص کرنے کا نام عبادت ہے 567 بتایا جانا کہ یہ بچہ زندہ رہے گا حضرت مصلح موعود کی خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ والی رویا 244 وہ موت جو کسی پیارے کی خاطر قبول کی جاتی ہے گیمبیا میں جماعتی حالات کے متعلق حضور کی ایک عجیب رویا 679 اسی کا دوسرا نام زندگی ہے مسجد دوالمیال کے جماعت کو ملنے کے متعلق رویا 833 | زہر حضرت خلیفہ رائیخ کی ایک رؤیا جس میں رب کل شیء زہر کی مختلف قسمیں 244 زہر کے بنانے کی وجہ خادمک کی دعا تھی منیر الاسلام یوسف صاحب کی والدہ کو ان کے مبلغ بنانے کے بارہ میں رویا زبان زبان 167 | زبان کے فوائد ساجدہ حمید زبان پر ہاتھ ڈالنے سے قوموں سے وحدت ٹوٹنا 368 | سال دعوت الی اللہ کی خاطر زبان سیکھنے کی تلقین 856 479 260 892 810,811 430 سال بدلنے پر رات بارہ بجے یورپ میں اخلاقی پابندیوں سے آزادی 2 ہالینڈ کا دورہ اردو کلاس کی دیکھ بھال کے لئے 639 سال بدلنے پر مومن کا رد عمل احمد یوں کو اردوزبان سیکھنے کی وجہ ہر ایک کی زبان کا احترام کرو حضرت زکریا علیہ السلام حضرت زکریا کی دعا زلزلہ عظیم الشان زلازل سے انسانی نسلوں کی تباہی زمین حضور کا نارتھ کیپ سے خطبہ دینا تاریخی لحاظ سے اہم جہاں مسلسل دن یا رات رہتی ہے 430 سال بدلنے کے حوالہ سے دنیا داروں کا رد عمل 2 1 369 چند ایسی باتیں جن کا صدی کے اختتام سے تعلق ہے 381 884 یہ سال مباہلہ کا سال ہے، جماعت کے خلاف دعا نہیں 200 کی جانا کہ ترقی رک جائے پچھلے سال کا محاسبہ کرنے کی تلقین 156 تمیں لاکھ ایک سال میں احمدی ہوئے یہ سیال توحید کا سال ہے سانگھڑ 708 سائنس 340 11 578 551 808 نئی زمین اور نئے آسمان کا قیام 551 | سائنسدانوں کے نزدیک مادہ کا کسی ایسی وحدت نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کرنے کا طریق 616 میں ڈوب جانا جس کی باہر والوں کو کوئی خبر نہیں زنا ات سے پتا با ارٹن کی علامت، اس کی وضاحت زندگی 361 سائنسی علوم کا دولت کمانے سے تعلق اور چاکلیٹ کی مثال 327 180 سائنسی علوم میں عیسائی اقوام کی ترقی ڈاکٹر عبدالسلام کے متعلق دوسرے لوگوں کی 363 زندگی کا ابتدائی ذرہ بھی سائنسدان نہیں بنا سکتے | کا بنا زندگی کا ابتدائی ذرہ بھی سائنسدان نہیں بنا سکتے 821 | سرگوشیاں کہ یہ خدا کا قائل ہے صرف اللہ موت سے زندگی نکالتا ہے 576 103 821

Page 993

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 31 فراعین مصر کی ہڈیوں سے آرسنک کا جائزہ لیا جا سکتا ہے 479 غفلت کی حالت میں گناہ کرنے کی سزا کی وجہ کینیڈا میں الرٹ نامی مقام پر سائنسی سٹیشن کا قیام مادی لیز ر تو حید ہی کا دوسرا نام ہے 710 سعودی عرب 331 سعودی عرب کا جماعت کے خلاف سازش کرنا 9 384,631 656 اللہ کا پرندوں کے لئے رزق فراہم کرنا، seagulls کی مثال 458 سعودی عرب کے احمدیت کے خلاف مخالفت کے اڈے 663 تین سائنسیں جو سائنس کے ہر مضمون پر حاوی ہیں رحم مادر میں ایک بلین سالوں کی تاریخ کا نو مہینے میں دوہرایا جانا 679 کے ایک مسلم ادارہ کا سر براہ بنانا زلازل اور meteros کی وجہ سے تباہی شہابیوں کی وجہ سے ڈائنوسارس کی نسل کا خاتمہ 156 کی سازش اور خوفناک ڈرامہ 730 عبد السلام ڈاکٹر سے حسد کرنے والے شخص کو سعودی عرب کلوننگ کا تذکرہ اور جھوٹی خالقیت کا تذکرہ 156 آنحضرت کی صریح گستاخی اور بد تمیزی پر بنی سعودی عرب 821 585 664 سفر لیزر کا نظام 785 جیٹ لیگ کی وجہ سے سکاری کی کیفیت مسلمان سائنسدانوں کی پستی کہ صداقت اسلام 256 سکیورٹی کے ثبوت کے لئے غیروں کے پاس جانا نظر کے انسانی زندگی سے نکالنے کے نتیجہ میں علمی ترقی کا کروڑوں سال پیچھے چلے جانا 266 756,759 925 جلسہ کے کارکنان کے لئے سکیورٹی کے حوالہ سے ہدایات 539 آکسیجن سے حفاظت کے سامان جو خدا نے انسان کے اندر پیدا کئے 416 خطبہ کے دوران سکیورٹی گارڈ کا زیادہ دیر کھڑا رہنے ساہیوال سپین 681,808 679 سید سجاد صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سچائی سچائی اور عدل کا تسبیح سے تعلق کی وجہ سے گرنا اور حضور کی نصیحت جماعت کی سکیورٹی میں ساری جماعت حصہ دار ہے سلام 905,906,908 جنت میں سلام اور تحفوں کا مطلب سچائی کو اس طرح پہنچا نہیں کہ بارک سے بار یک تقاضے بھی پورے کرنے کی کوشش کریں سچائی کی اپنے اندر باریک راہیں تلاش کریں سچائی کی اہمیت فطرت ہمیشہ سچ بولے گی حضور کا ایک کی بجائے دو سلام کہنا 87 عباد الرحمن کے سلام سے مراد 477 485 83 540 196 559 172 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب 507,929 سلطان سہروردی 484 سلطان محمود انور صاحب 565 حضرت سلیمان علیہ السلام کا قائم کردہ نظام مغربی معاشرہ میں ہمیں سچائی پر قائم ہونے کی ضرورت ہے 483 سلیمہ صاحبہ اہلیہ یوسف احمدی صاحبہ کا ذکر خیر سرسید سرگودها 31 سلیمہ آیا 808 سوال سزا دس سال کی عمر میں نماز کے لئے بچوں کو سزا دینے سے مراد 445 سوال کرنے والے کی تسلی ہوتی ہے اللہ کا اپنے فضل سے دل میں بات ڈال دینا جس سے 908 917 415 167 168 339

Page 994

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 سوانح فضل عمر سود سودی کمائی سے ممانعت اور اس کی حقیقت سوئٹزر لینڈ سویڈن سیاست 32 32 32 481 808 919 شرافت شرافت اور بزدلی میں فرق شرف نامه شرف نامه نظامی از نظامی گنجوی شرک شرک اور نماز کا تعلق 13 121,731 783 خلافت راشدہ کے بغیر سچائی کی حکومت نہیں بلکہ ایک سیاسی حکومت ہے عیسائیت امریکہ کی سیاسی حیثیت کا دوسرا چہرا ہے مذہب کے نام پر سیاست 285 570 570 شرک عدل کے خلاف ہے شرک کی سب سے خطر ناک تعریف شرک کی مختلف قسمیں شرک کے حوالہ سے انتشار توجہ سے بچنے کی تعلیم شرک کے قریب بھی نہ جانے کی تعلیم الیکشنز کے ایام میں ووٹ کے لئے گھروں کے دروازے کھٹکھٹانا اور منتخب ہونے کے بعد نہ آنا 227 سیاستدان صرف اپنے پیچھے چلنے والوں کوفخر کا احساس ہی دیتے ہیں 99 سیالکوٹ 808 سیالکوٹ میں جماعت کی شدید مخالفت اور تبلیغ میں مشکلات 523 سید اللہ کا شریک ٹھہرانا ظلم ہے 8 208 783 331 183 178 753 اللہ کا شریک نہ ٹھہرانے سے مراد رمضان کا وہ پہلو جس میں شرک کی نفی ہر پہلو سے ہے 61 عباداللہ بننے کے لئے شرک سے تو بہ ضروری مشرکین کا گندگی میں منہ مارنا 212 141 حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب 910 ان کا آنحضرت سے خونی رشتہ ہونے کی وجہ سے دین کی آپ کی بیماری کے متعلق حضرت اقدس کا الہام 910,911 عظیم الشان خدمات ادا کرنا سیرالیون سیرالیون میں فاقوں کے خلاف جہاد کی ضرورت سیر 576 166 395 اصلاح وارشاد کے تحت لائبریری کے قیام کے متعلق ہدایات 425 نبیوں کا شعور جب جاگتا ہے تو کل عالم کو ہلا دیتا ہے 316 تو دیتا اردو کلاس کے بچوں کا سیر کے دوران میزبان کے لئے تحفہ وہ شعور جگائیں جس کا جاگنا اسلام کے لئے لازم ہے 316 دینا اور اس کے شکر کے جذبات ملک سیف الرحمن صاحب سینیگال شاہ مدافی سعودی وزیر شاہدہ بیگم صاحبہ چوہدری شاہنواز مرحوم 800 375 662 664 507 145 925 شفاعت بخشش کے حوالہ سے شفاعت کا غلط مضمون شکار پور شکار پور میں شر ما خاندان کی ثابت قدمی اور صبر اور قربانیاں 926 728 احسان کے نتیجہ میں شکر کا مضمون ایک خوبی کہ دوسروں کو امیر بنانے کی خواہش رکھتے تھے 729 اللہ اور بندہ کے شکر میں فرق 528 460

Page 995

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 تسبیح سے تحمید اور تحمید سے شکر کا مضمون 33 88 شیطان اور انسان کی ناری اور نمو کی طاقتیں 137 کسی جگہ بڑے بڑے چیف ہمبر ز پارلیمنٹ ملنے پر شیطان دکھائی نہیں دیتا پر اس کی دشمنی دکھائی دیتی ہے 209 کس طرح شکر کا اظہار ہونا چاہئے انسان کا شکور ہونا ، ایک واقعہ 388 شیطان کا اندرونی طور پر حملہ کرنا 800 شیطان کا خالی نمازوں کو اچکنا جماعتی ترقیات کے حوالہ سے شکر کی بابت ایک صاحب کا سوال 386 شیطان کا ہر خون میں دوڑنا شوری شوری اور توکل شوری پاکستان کا آغاز شیطان کی حقیقت 239 شیطان کی عبادت کا سب سے بڑا محرک 223 شیطان کی عبادت کی پہچان 468 628 862 468 212 215 245 205 252 شوری کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات آج شیطان کی عبادت کے مختلف نام 225 شیطان کی عبادت نہ کرنے کا حکم بھی رہنمائی کر رہے ہیں شوری کے نظام کا دنیا میں پھیلنا ، اب ممکن نہیں کہ ہر مجلس شیطان کی قیامت تک کے لئے مہلت شوریٰ میں ایم ٹی اے کے ذریعہ شامل ہوں 224 شیطان کی نظر مومن کے پھلوں پر پاکستان کی مجلس شوری کو غیر معمولی فوقیت 224 شیطان کے پہلے گناہ کی وجہ خلیفہ وقت صرف پاکستان کی مجلس شوریٰ پر بنا نہیں کرتا 236 شیطان کے پیغام میں انذار اور جھوٹی بشارت مشورہ کا تقاضا ووٹ کی خاطر کبھی اخلاق نہیں بنانے شہید،شہادت 232 | شیطان کے عدو مبین ہونے سے مراد 229 شیطانی طاقت سے بچنے کا طریق اللہ اور شیطان کے ولی کی نشانی قربانیاں ہمیں پیش کرنی ہوں گی مگر حکمت کے تقاضے ضرور تکبر کا سب سے پہلا الحاق شیطان سے پیش نظر رکھیں شہید کا کمال شہید کی موت عام موت نہیں 465 جھوٹ شیطان کی عبادت کا نام ہے 612 دنیا کی بڑی قوموں کے اپنی عظمتوں کے دعوے 922 اور شیطان کے سامنے سر جھکانا 622 261 478 210 244 211 261 471 212 242 469 242 ڈاکٹر نذیر احمد صاحب آف گھو ئینکی ضلع گوجرانولہ کی شہادت 809 | نفس کی عبادت شیطان کی عبادت ہے عتیق احمد باجوہ صاحب کی شہادت اور ذکر خیر 465 | نفس کے شیطان کو انسان کا نہ دیکھ سکنا ان کے جانے کا دکھ ضرور لیکن اس سے بہتر اور کوئی موت ممکن نہیں 834 ہر انسان کبھی نہ کبھی شیطان کا بندہ بن چکا ہوتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ انقلاب شہیدوں کے ذریعہ برپا ہوا ہے 614 صرف ایک غلطی کی وجہ سے شیطان کا بندہ نہیں بن جاتا 254 شہداء کی موت کے بعد زندگی کا ذکر آنحضرت گوشہداء کی آسمان سے خبریں الہاما بتائی جانا 923 شیعہ ائمہ کی ہمارے دل میں گہری عزت اور محبت ہے 576 حضرت مولانا شیر علی صاحب 924 شیر علی صاحب کا ترجمہ قرآن دنیا کا بہترین ترجمہ ہے 413 شیطان شعر اردو اشعار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے 143 شیطان انسان کا دشمن ہے، اس کی دوستی مہلک ہے 482 | اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں 872

Page 996

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 34 بہرہ ہوں میں تو چاہئے دو نا ہوا التفات 536 وہ صبر جس کے نتیجہ میں عبادت خالص ہوتی ہے 335 | صحابہ عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں قادر ہے وہ بار کہ ٹوٹا کام بناوے وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے 439 صحابہ حضرت اقدس کی عبادتوں کا عالم ، ان کی یاد 423 صحابہ نبی کریم کا بیعت کا مقصد ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور 725 اصحاب الصفہ کا جنگلوں وغیرہ میں نکلنا اور کما کر غرباء میں 476 مال تقسیم کرنا ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل ہوفضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی یہ ہو میں دیکھ لوں تقوی سبھی کا 326 894 294 393 352 صحابی کی مہمان نوازی کا واقعہ جس سے خدا بھی بننے لگا 535 216 ایک صحابی کا اپنی شہادت کے وقت کامیابی کا نعرہ 48 486 فارسی شعر سپردم به تو مایه خویش را صاح صالح مرد کا کمال 73,121 614 نظام صحت جس کا روحانیت سے تعلق ہے اس میں احساس کی بیداری کا نام صحت ہے صحیح الجامع صداقت 891 951 حضرت صالح علیہ السلام پر حملے صالح الحمیدی 388 اندر کی صداقت کو پہچا نہیں جس سے قناعت بھی ملتی ہے 484 صدقہ گیمبیا کی سازش میں شریک امام کا سعودی دوست 664 افطاری کروانے کا صدقہ سے کوئی تعلق نہیں مبر صدمہ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں پر حسنات 322 صدمہ کا اگر فوری ازالہ نہ کیا جائے تو تازندگی 517,520 گہری بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں صبر اور توکل کا رشتہ صبر کا اجہ صبر کا روحانی پہلو صبر کا نماز سے تعلق صبر کب صبر کہلاتا ہے صبر کے ساتھ دکھ کا تعلق صبر کے نتیجہ میں نئی زمینوں اور وسعتوں کا حصول حضرت اقدس کی جماعت کو صبر کی تعلیم 514 صديق 325 | صدیق کا کمال 922 صراط مستقیم | 50 931 916 611 323 صراط مستقیم کا سفر 199 صراط مستقیم کی مذہبی دنیا میں اہمیت 521 صراط مستقیم کے حصول کی دعا 600 دعا کے سہارے صراط مستقیم پر قائم رہنا مظلومیت بڑھانا اور صبر کو وسعت دینا دین کا مقصد ہے 523 صلاحیت نصیحت اور صبر کا تعلق نماز اور صبر کے ذریعہ اللہ کی استعانت 450 صلاحیتوں میں وسعت کی بابت قرآنی تعلیم 864 242 884 245 334 921 امن، صلاحیت کا گہوارہ خود بنیں پھر دنیا میں اس کی تعبیر ظاہر ہوگی 615 ہم نے دشمن کی مخالفت پر صبر کا دامن ہر گز نہیں چھوڑ نا 512 خواہش کے ساتھ اس کی تکمیل کی صلاحیت بھی ضروری ہے 694

Page 997

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 صوفی 35 ہو میو پیتھی کتاب کی نظر ثانی کے وقت ایک دوائی کے مطالعہ صوفیاء کا اعتقاد کہ موت وارد کرنے کے بعد زندگی ملتی ہے 633 سے حضور کا نتیجہ اخذ کرنا کہ مسلسل راتوں کی محنت کی وجہ سے مضمون ہی اور ادا کر دیا صوفیاء کا چلہ کشیاں کر کے سلوک کی راہیں اختیار کرنا اور نماز کو چھوڑنا ضیاء الحق 863 ہو میو پیتھی کے متعلق کتاب کے حوالہ سے حضور کی معذرت اور 757 505,658,668,676 اس میں ہونے والی کمیوں کا ذکر اور انہیں دور کرنے کی تلقین 712 ضیاء الحق کا مباہلہ کو قبول کرنے کے باوجود مرنا، اس کی وجہ 27 اللہ تعالیٰ مجھے مطلع فرماتا ہے کہ یہ کام کرو اور وہ کام کرو 590 انگلستان ہجرت کے وقت جماعت کے دو نمائندے آپ 674 ضیاء الحق کے طیارے کا پھٹنا ابھی تک معمہ ہے ضیاء الحق مباہلہ کی صداقت کا نشان بن کر نیست و نابود ہو گیا 22 کے ہمراہ تھے طارق مجید صاحب کموڈور طائف حضرت مرزا طاہراحمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع 908 ایک لڑکے کا آپ سے سائیکل ریس لگانا اور آپ کے 811 919 502 918 384 پیچھے سامان ہونے کے باوجود آپ کا جیتنا 584 بچپن سے ہی جب کوئی سوال اٹھے تو اللہ سے پوچھنا حضرت مہر آپا کی جائیداد کا کلی انتظام آپ کے سپر د تھا 376 بچپن میں نماز میں بھولنے کی عادت اور اس کی وجہ حضور کا جرمنی کی سومساجد کی تحریک کے سلسلہ میں اپنی بعض لوگوں کا لکھنا کہ آپ کمزور ہو گئے ہیں، ان کو جواب 920 طرف سے پچاس ہزار مارک دینے کا اعلان 376 بعض لوگوں کا لکھنا کہ آپ کو آر ٹیر یوسی کلر وسس بیماری ہے حضور کی ضیاء الحق کی ہلاکت کی بابت رؤیا 27,28 | جو حضرت مصلح موعودؓ کو آخری دنوں میں ہو گئی تھی الاسکا کا حضور کا سفر معلوماتی رہا 709 جس طرح حضرت اقدس نے محمد رسول اللہ کے دفاع میں انگلستان کی جماعت کو حضور کے دورہ کی وجہ سے تحریک کہ اپنی چھاتی پیش کی اسی طرح آپ پر جو تیر بر سے ہیں اُن نیک کاموں کو جاری رکھیں ستی پیدا نہ ہو 421 کے کے آگے اپنی چھاتی کردوں پاکستان کے آئین کے مطابق حضور کی رائے اور اس کا اور جماعت کے دعا کے لئے لکھنے پر حضور کے دل کی کیفیت 873 885 حضور کا یورپ کا دورہ رنگ میں پورا ہونا پاکستان میں آئینی بحران کے حوالہ سے ملاؤں کا شور مچانا حضور کو سیر و سیاحت کا شوق کہ مرزا طاہر احمد اس میں ملوث ہے حضور کا ایک کی بجائے دو سلام کہنا 905 دوره جرمنی کے دوران مصروفیت کی انتہاء 919 30 638 689 620 559 دین کی خاطر بیماریوں کا لاحق ہونا مگر فرائض میں کمی نہ آنے دی 920 حضور کا نارتھ کیپ سے خطبہ دینا تاریخی لحاظ سے اہم سائنسی مضامین کی طرف بچپن سے ہی توجہ جہاں مسلسل دن یا رات رہتی ہے 708 غلطی سے بعض دفعہ اور الفاظ کا منہ سے نکل آنا، بچپن سے گیمبیا کے حالات کے حوالہ سے الیس الله بکاف عبده ایسی عادت ہے کوئی دماغ کی خرابی کی علامت نہیں 739 کینیڈا کی سیر کے فوائد کی خوشخبری کا ملنا گیمبیا میں جماعتی حالات کے متعلق حضور کی ایک عجیب رویا 679 کینیڈا میں ایک نماز میں الیس الله باحکم الحاکمین مولویوں کو چیلنج کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر اعلان کر دیں کہ ہم مباہلہ کہنے کی بجائے الیس الله بکاف عبدہ بار بار کہتا تو نہیں کرتے لیکن لعنت ڈالتے ہیں، اگر مولویوں میں ہمت گزشتہ چند سالوں میں سلام کا لفظ خصوصیت کے ساتھ ہے تو اس چیلنج کو قبول کریں پھر دیکھیں خدا ان کا کیا حشر کرتا ہے 36 الہام ہونا، السلام علیکم کیالفاظ بار بارد ہرائے گئے 730 918 727 747 559

Page 998

907 178 178 36 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 گیمبیا میں جماعتی حالات کی وجہ سے پریشانی اور گھبراہٹ 657 راجہ ظفر الحق نئی کتاب کی طباعت کے لئے ایک لاکھ ڈالر کی خواہش اور اس کی تکمیل 731 ظلم کے معانی ہومیو پیتھی کے متعلق لیکچرز پر شاملین مردو خواتین کا تبصرہ اللہ کا شریک ٹھہرانا ظلم ہے اور حضور کا جواب 737 | عاجزی آپ کا افطاریوں سے معذرت کرنا 51 عجز اختیار کرنے کی تلقین آپ کا خود زمینداری کرنا 626 | عادت آپ کا رمضان کی وجہ سے تجربہ پانی نہ پینا اور خطبہ کے بُری عادت ختم کرنے کے لئے بہترین عادت کا اپنا نا 950 | ضروری ہے دوران منہ خشک ہونے پر لوگوں کو نصیحت آپ کی ایک رؤیا جس میں رب کل شی ، خادمک کی دعا تھی 244 عالم الاسلام آپ کی زندگی کے حصول علم کے خلاصہ پرمشتمل کتاب 729 عائشہ بیگم صاحبہ 809 حضرت عائشہ طاہر القادری طب 172 284 954 168 775,803 اس الزام کی تردید کہ آنحضرت گا دل عائشہ میں اٹکا ہوا تھا 569 انگلستان میں پہلے علاج مفت تھا اب حکومت کا مریضوں عائلی معاملات پر بوجھ ڈالنا 434 عائلی جھگڑوں کی وجوہات 470 صدمہ کا اگر فوری ازالہ نہ کیا جائے تو تا زندگی گہری بیماریاں عائلی مسائل اور اولاد کی تربیت سے غفلت کے لئے بہترین دعا 187 لاحق ہو جاتی ہیں ہومیو پیتھی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ 931 عائلی معاملات میں بد خلقیاں 432 عائلی معاملات میں جنت کے حصول کی دعا بعض پر ہیز نہ ہو تو کوئی دوا فائدہ نہیں دیتی 206 207 عائلی معاملات میں جھوٹ کا نتیجہ بعض دوائیں دو تین سال تک کھانی پڑتی ہیں کینسر کے جلد نہ پتہ چلنے کی وجہ 199 230 195 481 ابراہیم کا حضرت اسماعیل کو گھر کی چوکھٹ بدلنے کا حکم 12 314 اخلاقی حالتوں کی طرف واپسی کے لئے اندرونی گھریلو نظام صحت جس کا روحانیت سے تعلق ہے اس میں احساس حالتوں پر نظر ضروری ہے کی بیداری کا نام صحت ہے صاحبزادی طوبی طوبی کے دولہا بشیر احمد کے نانا کے صحابی ہونے کے متعلق وضاحت طہارت حقیقی تو یہ کیسا تھ حقیقی طہارت شرط ہے تو بہ کے حوالہ سے منتظہرین سے مراد مظہر بننے کا طریق 14 891 محبت کے رشتے نہ ہوں تو گھر کے معاملات بھی نہیں چل سکتے 137 508 بعض کا کہنا کہ پندرہ تمہیں سال صبر کیا اب معاملہ ہاتھ سے گیا، کچھ کریں ، حضور کا فرمانا کہ اب لیٹ ہو گئے 114 17 12 بیویوں اور اولادوں سے بد خلقی کرنے والے رحمی رشتوں کا لحاظ نہ کرنے والوں کا چھوٹی باتوں کو بھی اچھالنا 470 300 گھروں میں بداخلاقیوں کے پنپنے کا طریق 307 میاں بیوی ایک دوسرے کے وفادار ہوں تو گھر لذتوں 301 کا مرکز بن جاتا ہے 16 190

Page 999

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 37 وہ گھر جو قبرستان بن جاتے ہیں عبادالرحمن 191 بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا بھی عبادت ہے تقویٰ کی اہمیت اور اس کا عبادت سے تعلق عباد الرحمن میں شامل ہونے سے آئندہ زندگی کی ضمانت 241 تکبر سے کلیہ نجات کے نتیجہ میں عبد بنتا ہے عبادالرحمن کے سلام سے مراد عبادالرحمن کے لئے اللہ کا جاگنا عباداللہ بننے کے لئے شرک سے تو بہ ضروری عبادت اللہ کی چار صفات کا لازمی نتیجہ 172 جلسہ پر آنے والوں کو عبادت کی طرف توجہ کی تلقین 214 روحانی مراتب جلد کرنے والوں کے دماغوں پر اثر ہونے 212 کا خدشہ سرکش اور باغیوں کے قریب رہنے سے لازماً ان کی عبادت 816 کرنی پڑے گی عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہ ہونے کی وجہ 890 صحابہ حضرت اقدس کی عبادتوں کا عالم ، ان کی یاد عبادت پر استقلال کی تعلیم عبادت زندگی کا مرکزی نقطہ، اس سے غفلت سراسر نقصان کا سودا ہے عبادت سب سے اہم چیز ہے عبادت کا انسان کی نیت سے گہرا تعلق 325 عذاب سے رہائی کے لئے عبد غیب بننے کی تلقین 847 873 171 755 931 157 894 161 مسلمان عبد منیب بنے رہتے تو دنیا کی سب سے متمول قوم ہوتے 162 326 822 وہ صبر جس کے نتیجہ میں عبادت خالص ہوتی ہے 100 اگلی نسلوں کی تربیت کے لئے عبادت کے تین پہلو مد نظر رکھیں 39 752 رات کی عبادت اللہ کے حضور خالص ہونے کی ایک عبادت کا فلسفہ بچپن سے سمجھانا ضروری ہے 456 امتیازی شان رکھتی ہے عبادت کو بوجھ سمجھنے والے عبادت کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں عبادت کی تین قسمیں جن کا ہر مذہب سے تعلق ہے عبادت کی حقیقت واہمیت عبادت کی وجہ اور اس کا مقصد عبادت کے حصول کے لئے بعضوں کو وضو اور بعض کونسل کی ضرورت، اس کی وضاحت عبادت کے حوالہ سے احادیث کی اہمیت عبادت کے خالص ہونے کا طریق عبادت کے ذریعہ اللہ کی رحمتوں کا حصول 105 102 99 راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے والے پاگل نہیں 894 ساری عمر کی عبادتوں کا غیر اللہ کے لئے وقف رہنا یا بے شمر رہنا 213 38 سچا عبد بننے کے لئے آنحضرت کی اطاعت لازمی ہے 805 567 سورۃ فاتحہ میں چارا بتدائی صفات اگر کسی میں ہوں تو 817 بے اختیار روح عبادت کے لئے آمادہ ہوتی ہے عباد الرحمان کی علامتیں ہمارے لئے کسوٹی ہیں 109 عبد منیب بننے کی تلقین 327 عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ کی حقیقت 567 مرزا عبدالحق صاحب 126 عبدالحمید عبادت کے ساتھ دوسری نیکیاں ضرور نصیب ہوتی ہیں 108 عبدا کی شاہ صاحب عبادت میں لذت عبادت میں مزہ نہ آنے پر کیا کبھی غور کیا ہے عبادتوں میں خلاء کا نقصان اللہ کی توحید کے نتیجہ میں حقیقی بشر بننے کا ذکر بچوں کو عبادت کا فلسفہ سکھانے کا طریق 894 457 628 328 459 208 170 155 896 917 550 736 آپ سے ہومیو پیتھک کتاب کی ریپرٹری لکھوانا اور خوبی 716 عبد الخالق بنگالی صاحب حضرت عبد الرحمان بن عوف شیخ عبدالرحمن صاحب مدراسی 808 64 549

Page 1000

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 منشی عبدالرحیم شر ما صاحب عبدالرشید شر ما صاحب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب آپ سے حسد کرنے والے شخص کو سعودی عرب کے ایک مسلم ادارہ کا سر براہ بنانا 38 925 925 585 موت کے وقت کے عذاب سے مراد 125 اچانک عذاب آنے پر مومن کا اُن تکلیفوں سے بچایا جانا 123 جو تو بہ کر لیتے ہیں کیا عذاب کے وقت اگر احسن پر ہاتھ نہ ڈالیں تو کیا انہیں عذاب آلے گا، اس کی وضاحت عرب عرب ممالک تبلیغ کے حوالہ سے توجہ ان کے متعلق دوسرے لوگوں کی سرگوشیاں کہ یہ خدا کا قائل ہے 103 ان کا نظریہ کہ کائنات کی تشکیل کے ابتدائی زمانہ میں وجود کا ہر لمحہ خدا کی تسبیح کرنا عبدالقیوم صاحب مولوی عبدالکریم صاحب حضرت عبد اللہ بن مسعود مولوی عبد المغنی صاحب 68 432 938 784 810 آنحضرت کو عرب قوم سے اٹھانے کی وجہ 118 527 365 آنحضرت کی برکت سے عربوں کے لئے رزق کے انتظامات 161 اس سال تین سو سے زائد عربوں کی بیعتیں ہونا عرش عرش سے مراد اللہ کا سارے نظام کو بنانے کے بعد عرش پر استویٰ عرفان 391 416 415 عتیق احمد باجوہ صاحب آپ کی شہادت اور ذکر خیر عثمان بن العاص عدل ان اللہ کا عدل بندوں کی نظر سے احسان ہے تہذیب کے لئے عدل کی ضرورت سچائی اور عدل کا تسبیح سے تعلق 465 951 5 16 87 نبوت کے وہی ہونے کے باوجود اس میں عدل کا مضمون 5 حضرت عدی بن حاتم عذاب 803 عرفان کے لئے عمل اور علم کی ضرورت مرزا عزیز احمد صاحب ملک عطاء الرحمان صاحب عطاء اللہ شاہ بخاری 504 928 681 907 عطاءالمجيب راشد صاحب امام بيت الفضل لندن 111 عفو عفو کا صحیح محل اور مقام عفو کا مطلب اللہ کے بدیوں سے عضو کے سلوک کے دو پہلو عذاب سے رہائی کے لئے عبد منیب بننے کی تلقین 161 اللہ کے عفو کی حقیقت عذاب کی بغتہ کی نوعیت کی وضاحت عذاب کے دو طریق عذاب کے وقت بعض اوقات تو بہ کی بجائے زیادہ بلند مراتب کی طرف توجہ کا ہونا عذاب کے وقت تو بہ رد کر دی جاتی ہے عذاب کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر جہالت میں زندگی گزری 15 250 282 268 118 بدی کے بدلہ اور عفو میں تربیت کے لئے تو ازن ضروری ہے 15 ی یک داروی تربیت کےلئے قرانی ضرور ہے 19 156 | عقل جو اپنے آپ کو جھکا کر خدا کے تابع نہیں کرتا اس کی 124 عقل میں لازماً نقص رہتا ہے 117 قرآن میں عقل کی تعریف 87 علم کی دو اقسام 232 103 433,712

Page 1001

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 علم کی فضیلت اور برکت اور دنیاوی علم میں ترقی کرنے والی اقوام کا حال دنیا کی اکثر قو میں اُمی ہیں عرفان کے لئے عمل اور علم کی ضرورت 39 عهده 101 عہدہ کی کوئی حیثیت نہیں اگر آپ با اخلاق نہیں 359 ساری مجلس عاملہ کی ذمہ داری کہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں 504 وہ آگے پہنچائیں نظر کے انسانی زندگی سے نکالنے کے نتیجہ میں علمی ترقی عیسائیت کا کروڑوں سال پیچھے چلے جانا 266 عیسائیت امریکہ کی سیاسی حیثیت کا دوسرا چہرا ہے اگر علم سچا ہے اور خدا کی طرف نہ لے جائے تو علم والے عیسائیت کے غلبہ کا آغاز 103 عیسائیت میں تعصبات کی کہانی جھوٹے ہیں تعلیم کے ساتھ حکمت بھی بچوں کو لازمی سکھائیں 448 سائنسی علوم میں عیسائی اقوام کی ترقی بے علم کے نتیجہ میں نیکی کا پیدا ہونا 231 406 570 310 367 576 102 عیسی کی زندگی میں عیسائیت کو کامیابی اور بعد میں اُن کا حال 575 علی شیر حیدری سیکرٹری سپاه صحابه 927 ایک فقرہ سے عیسائیت کی عمارت کا انہدام 951 عیسائیوں کا دنیا بھر میں پھیلنے کے باوجود ان میں حضرت علی حضرت عمر 197,955 پاک تبدیلی کا نہ ہونا حضرت عیسی علیہ السلام 255 570 مغربی تہذیب میں مختلف جرائم کا مختلف سالوں سے تعلق عیسی کا بے چینی میں من انصاری کا اعلان اور اسلام کی تعین کردہ عمر عمل عمل صالح کی تعریف جہنم کے خیال سے اعمال میں درستگی 446 عیسی مشرق میں پیدا ہوئے اُن کو مغربی اقوام 7 175 کے قبول کرنے کی وجہ 310 367 عیسی کے متعلق حضرت اقدس کی سخت تحریرات کی وضاحت 552 عیسی کی زندگی میں عیسائیت کو کامیابی اور بعد میں اُن کا حال 575 عرفان کے عمل اور علم کی ضرورت 504 نیک اعمال در اصل بدیوں کو دور کرنے کی ضمانت ہیں 283 اعمل ماشئت سے مراد حسن عمل اور صبر کا نتیجہ 287 520 نیک اعمال در اصل بدیوں کو دور کرنے کی ضمانت ہیں 283 عنایت شاہ عورت عورتوں میں برائیاں عہد عیسی کی مائدہ کی دعا کی قبولیت غالب غانا 576 536 جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش اور ان کی عقلمندی 663 غانا غذا 809 مغرب میں غذا کی بہتات اور اس کا ضیاع غریب 166,740,901 313 غربت کو دور کرنے کی تحریکات جماعت کو اپنے اپنے ملکور میں جاری کرنا چاہیئے بیعت کے وقت دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد 624 انگلستان میں غریبوں کی امداد کے لئے ایک تحریک جس میں دو قسم کے عہد 208 حضور نے خود اور بچوں کو ممبر بنانا چاہا 47 396 396

Page 1002

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 40 سیرالیون میں فاقوں کے خلاف جہاد کی ضرورت 395 | آپ کی نوح کی طرح دعا غزالہ بیگم صاحبہ غسل عبادت کے حصول کے لئے بعضوں کو وضو اور بعض کونسل کی ضرورت، اس کی وضاحت غفلت غفلت کی حالت میں کچھ نصیب نہیں ہوتا 607 925,926 اس زمانہ میں کوئی معجزات اور خوارق میں میر امقابلہ نہیں کر سکتا 696 1897 ء کے سال ہونے والے الہامات کا تذکرہ بعض احمد یوں کا کہنا کہ جو تو قعات ہم سے وابستہ ہیں اس 109 وجہ سے حضرت اقدس کی کتابیں پڑھی نہیں جاتیں بہت بڑا خزانہ حضرت اقدس نے اپنی کتب کی صورت 144 میں ہمارے لئے چھوڑا ہے 548 862 863 غفلت کی حالت میں گناہ کرنے کی سزا کی وجہ غفلت کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کی تعلیم 9 10 تین سال کے اندرا گر نشان ظاہر نہ ہوا تو میرا کذب ظاہر ہو جائے گا 609 احمدیت قبول کرنے کے باوجود غفلت والے افراد کی کثرت 308 چودھری مختار احمد صاحب کا روزانہ 4 گھنٹے کتب حضرت اقدس کا انڈیکس بنانے پر صرف کرنا قوم، مذہبی اور غیر مذہبی اقوام میں غفلت کے وقت سال دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ اور غشی اور ہلاکت تک بدلنے پر رد عمل نوح کی اولاد سے ایک لطیف قسم کی غفلت غفلت کی وہ حالتیں جو اپنی ذات اور دوسروں کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں میاں غلام احمد چوہدری غلام حسین صاحب 1 14 بعض اوقات نوبت پہنچنا دعا کے وقت آپ کے دل کی کیفیت 309 دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کو نبی کا کمال عطا ہوا کشفی نظارے میں فرشتے کو دیکھا جس کے ہاتھ میں چھری تھی اور وہ لیکھرام کا پوچھارہا تھا 915,916 مخالفین کے ہلاک ہونے پر ان لوگوں کو ہلاکت سے بچانے 9 بچوں کا مرنا اور رویا میں بتایا جانا کہ یہ بچہ زندہ رہے گا 165 کے لئے آپ کی دعائیں حضرت ملک غلام فرید صاحب صاحب 435 مولوی عبد الکریم صاحب کی روایت کہ رات کسی درد سے 90 936 874 611 278 352 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی آپ نے فرمایا آہ اب تو خداکے سوا کوئی ہار نہیں رہا 938 معہود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اقدس کا احمدیت کے اندر پاک تبدیلی کے نشان کا مانگنا 61 آپ بھی نوخ ہیں حضرت اقدس کی خواہش کہ ایسی کتاب لکھی جائے جو دنیا کے آپ پر مولویوں کا اعتراض کہ نبوت کا دعویٰ کیا اور اُن کی اس زمانہ کے مربی اور معلم ، انسانی نفسیات کی کمزوریوں کا علم 860 730 اپنی حقیقت اہل علم کو قرآن کی سچائی کا قائل کر سکے عیسی کے متعلق حضرت اقدس کی سخت تحریرات کی وضاحت 552 آپ کا اپنے آپ کو چھپانا مگر خدا کا ظاہر کرنا لیکھرام کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئی 277 آپ کا ایک رؤیا جس میں ایک نالی پر بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں 31 اور ہر قصاب کے ہاتھ میں چھری ہے لیکھرام کے نشان کی تفصیلات نظارت اصلاح وارشاد کو حضرت اقدس کی ذات پر ہونے آپ کا چیلنج کہ مولویوں کے ناک گھس جائیں مگر جماعت والے اعتراضات کی فہرست تیار کرنے کی تلقین 605 ضرور بڑھے گی آپ کی عبارتوں کو سرسری دیکھنے سے بعض ٹھو کر کھا سکتے ہیں 861 آپ کا رحیمیت کا جلوہ کھا 590 829 316 202 582,583 824

Page 1003

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 آپ کا روحانی خزا نے تقسیم کرنا 41 423 | وہ بادشاہ آیا آپ کا فرمانا جو میری کتابوں کو تین دفعہ نہیں پڑھتا وہ متکبر ہے 263 عربی الہامات آپ کا نام حارث رکھا جانا آپ کا آخری جلسہ کی سیر کا واقعہ آپ کا اکثر لٹریچر اردو زبان میں ہے آپ کو کشتی نوح بنانے کا حکم آپ کی بعثت کا مقصد 626 114 430 582 600 آپ کی بعض تحریرات پر مولویوں کا غلط رنگ میں اعتراض کرنا کہ بیویوں کی طرح اپنے رب کے حضور پیش ہوئے 898 | ابراء الارض والسماء معك كما هو معي امره الله على خلاف التوقع ان الذي فرض عليك القرآن لرادک الی معاد ان الله مع الذين اتقوا انا الله لا اله الا انا انا سننذر العالم كله آپ کی تحریرات کو دو تین مرتبہ پڑھنے کے بعد سمجھ آتی ہے 599 بلجت آیاتی آپ کی توحید کی خاطر بے چینی آپ کی جماعت کو صبر کی تعلیم 553 600 اني مع الافواج أتيك بغتة ستعرف يوم العيد والعيد اقرب عمره الله على خلاف التوقع آپ کی صداقت کی دلیل کہ قرب الہی کا ہر راز دنیا کو بتا دیا 327 في مقعد صدق عن مليك مقتدر آپ کے الہام تین کو چار کرنے والے کی وضاحت 507 قل لي الارض والسماء 911 550 557,558 911 550 558 558 558 548,549,550 550 277 911 558 558 آپ کے کلام میں تضاد نہیں آپ کے مباہلے کے پیچ آپ کے یسوع مسیح کی ذات پر حملوں کی حقیقت 264 350 676 قل لي سلام لواء فتح وسع مکانک والله يفعل ما يشاء لا مانع لما اراد آنحضرت پر جتنے اعتراض ہوئے وہ سب میری ذات پر بھی ہوئے الہامات اردو الہامات اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں 604 ياتون من كل فج عميق یاتی نصر ا الله یاتیک نصرتي اني انا الرحمان ذو المجد والعلي فارسی الہام 913 | سلامت بر تو اے مرد سلامت 550 احمدیت کے عددی غلبہ کو صلاحیت کے غلبہ میں بدلنے کی ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور سے رجوع ہوگا 549 غلبہ مخالفوں میں پھوٹ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو ضرورت ہے خدا تمہارے ساتھ ہوگا 925 دین کا مقصد عددی غلبہ پیدا کرنا نہیں میں تجھے برکت دوں گا اور بہت برکت دوں گا 562 مظلومیت کی وجہ سے غلبہ کا عطا ہونا میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں 32 غنویٰ بھٹو میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاری کا کسی امام فاتح طرح فیصلہ ہو جائے 551 558 550 556 557 556 558 650 549 611 523 515 908 گیمبیا کا وہ امام جس نے جماعت کے خلاف خطبہ دیا 658

Page 1004

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 42 گیمبیا کے صدر کا کہنا کہ آئندہ سے امام فاتح کوکسی پلیٹ فارم پر جماعت کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں ہوگی 684 | فطرت کا دین میں حصہ مباہلہ کے ایک ہفتہ بعد ہی ذلیل ورسوا ہونا اس کا پاکستان کا دورہ 674 فطرت کے حوالہ سے اللہ کا یونیورسل قانون 662 فطرت ہمیشہ سچ بولے گی اس کا تعارف اور اس کی جماعت کے خلاف ہرزہ سرائیاں 675 انسانی فطرت میں اثر قبول کرنے کے سارے فاروق لغاری صاحب صدر پاکستان 905,906 | رستے قرآن میں مذکور ہیں حضرت فاطمہ بعض لوگ طبعا سخت دل ہوتے ہیں دین سے محبت اور آپ کی نسل کا دین کے لئے خالص رہنا 577 فلسطین صاحبزادی فائزه فتن فتنہ کا کفارہ اور اس کا علاج فحشاء فحشاء سے مراد جھوٹ اور فحشاء میں فرق نماز کے فحشاء اور منکر سے بچانے سے مراد آج کل بدکاری کا بہت بڑھنا فرعون فرعون کی بیوی کی دعا فرعون کی مرتے وقت کی تو بہ کا کام نہ آنا موسی کو فرعون سے بچایا جانا 914 956 779 فنا فنا کی حالت کنگ فیصل فیصل آباد قادیان 565 565 565 320 229 367 152 668 808 558,679 779 حضور کے زمانہ میں ایک مولوی کا بٹالہ ٹیشن پر لوگوں کو 780 190 244 198 125 383 قادیان جانے سے روکنا قانه 633 810 قانون قانون سازی کاتربیت اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے درست ہونا ضروری ہے 446 قانون قدرت کے دو طرح کے اثرات مثبت اور منفی 645 مغفرت کے نتیجہ میں قانون قدرت اثر نہیں چھوڑتا 648 پہلے فرعون کی لاش بطور عبرت محفوظ مگر اس دور کے فرعون کی خاک بھی نہیں بچی 28 فراعین مصر کی ہڈیوں سے آرسنک کا جائزہ لیا جاسکتا ہے 479 تین لڑکوں کا غلط طور پر اٹھارہ سال تک جیل میں رہنا 147 فرعون کی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی وجہ فرینکفورٹ فضل احمد ڈوگر صاحب مولوی مولا فضل الرحمان عامر 597 قائد اعظم 391 قائد اعظم کے خلاف مولوی کا کھڑا ہونا 915 927 908 872 26 666 قدر دوسری تہذیب سے متاثر ہو کر اعلیٰ اقدار چھوڑنے سے کچھ 833 غیر معاشرے میں غالب معاشرہ کے اندر اپنی اقدار کوزندہ رکھیں 734 مولا نا فضل الرحمن الحاج فضل الہی صاحب بر 833 باقی نہیں رہے گا، اپنے کردار کی حفاظت کریں فضل نور صاحبہ 733

Page 1005

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 43 اعلیٰ اقدار پر سر اٹھا کر چلیں 455 قرآن کے مضامین کی کنجیاں سورۃ فاتحہ میں ہیں اعلیٰ اقدار کے دوام کے لئے ضروری عوامل 463 قرآن کے مفصل آیات ہونے کی وضاحت قدسیہ بیگم صاحبه قربانی 507 قرآن میں تکرار کی حکمتیں قرآن میں حیرت انگیز توازن قربانی کے ضیاع کی وجوہات اور ان سے بعض اوقات لا علمی 798 قرآن میں ذکر کہ جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے قربانیاں ہمیں پیش کرنی ہوں گی مگر حکمت کے تقاضے ضرور اس سے مراد پیش نظر رکھیں 465 | قرآن نے ہماری اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے 575 قرآنی تعلیم انسانی فطرت کی پاتال تک نظر رکھتی ہے جس کی دین کی خاطر قربانیوں کرنے والے ہی مومن ہیں کسی مقصد کے حصول کے لئے اپنی جانیں تک قربان کرنے کی وجہ 98 تعلیم پر عمل ناممکن نہیں 304 انسانی فطرت میں اثر قبول کرنے کے سارے رستے مال اور جان کی قربانی پیش کرنے کی بنیادی تعلیم مالی حرص میں مبتلا بعض لوگوں کا مالی قربانی کو بوجھ سمجھنا 304 قرآن میں مذکور ہیں قرض اللہ کو قرض دینے سے مراد قرآن کریم 796 تبلیغ کے لئے قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت کی طرف توجہ تربیت کی کنجی تلاوت قرآن کریم میں ہے چند قرآنی معجزات کا ذکر 65 319 320 178 255 490 284 320 413 492 701 قرآن بالکل ہندو سادھو کی طرح دنیا چھوڑنے کی تعلیم نہیں دیتا 347 قرآن بچپن سے سکھایا جائے قرآن پڑھنے کے بعد دل میں سوالات کا اٹھنا اور جواب کا طریق 527 501 قرآن سے محبت کے بغیر دین سے محبت رکھنا بے معنی ہے 491 قرآن کا انسانیت کو انتظار قرآن کا تقویٰ سے مطالعہ کرنے کی تلقین 492 حضرت اقدس کی خواہش کہ ایسی کتاب لکھی جائے جو دنیا کے اہل علم کو قرآن کی سچائی کا قائل کر سکے دینی اور دنیاوی ہجرت کا قرآن میں ذکر ذالک الکتاب سے مراد رمضان کا قرآن سے تعلق سورۃ فاتحہ میں چارا ابتدائی صفات اگر کسی میں ہوں تو 493 بے اختیار روح عبادت کے لئے آمادہ ہوتی ہے 730 321 489 942 208 قرآن کریم کی تلاوت کے حوالہ سے کینیڈا کی جماعت کو نصائح 492 صرف تکلیف کے وقت اللہ کو یاد کرنے والوں کا قرآنی تذکرہ 97 171 صلاحیتوں میں وسعت کی بابت قرآنی تعلیم قرآن کریم کی حیرت انگیز منظم تعلیم قرآن کریم میں اخلاقی اور روحانی بیماری سے شفا کا نسخہ 199 نماز اور رمضان کا ہمیں احتساب کرنا سکھانا قرآن کی تلاوت کے ساتھ غیر قوموں کے لئے ترجمہ پڑھنا کائنات کے ذکر میں اکثر قرآن میں تسبیح کا ذکر بھی ضروری ہے 491 نوح کے سیلاب کا نقشہ 334 85 74 869 قرآن کی تلاوت میں صبح کے وقت کمی 490 ہر گناہ کے بعد بخشش کے مضمون میں سبحان کے لفظ کا استعمال 78 قرآن کی زبر دست طاقت یہ ہے کہ اس کے متبع کو معجزات آنحضرت پر ہر رمضان گزشتہ اترے ہوئے قرآن کا دہرایا جانا 843 695 حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ترجمہ قرآن دنیا کا بہترین ترجمہ 413 اور خوارق ملتے ہیں قرآن کے ذریعہ تمام شکوک کا باطل ہونا 498 سورۃ فاتحہ کا حمد سے آغاز ہونے کا مطلب 75

Page 1006

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 سورۃ فاتحہ کی دوحصوں میں تقسیم سورۃ فاتحہ میں روحانی ترقی کی راہیں 44 813 مختلف ملکوں میں ہم قوم افراد کامل کر رہنا، ان کو تبلیغ کا طریق 429 73 غفلت کے وقت سال بدلنے پر قوموں کا رد عمل کوئی بچہ بغیر تلاوت کے سکول نہ جائے بے شک ناشتہ چھوڑ دے 504 قیامت 1 قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا (حدیث) 750 اللہ کا لغوقسموں کی پرواہ نہ کرنا قناعت 480 جب تمام انبیاء کو قیامت کے دن اپنی اپنی قوم پر شہید بنا کر لائے جائے گا تو آنحضرت اُن سب پر شہید ہوں گے 10 اپنے اندر کی صداقت کو پہچانیں جس سے قناعت بھی ملتی ہے 484 کام قوم کام کا بوجھ پڑنے پر وسعت کا زیادہ ہونا 437 قومیتوں کو مٹانے والی طاقت آج صرف تو حید ہے 365 وسعت کے بعد بو جھ بوجھ نہیں لگتا مزے کی بات ہوتی ہے 579 احمدیت میں نیشنلٹی کے حوالہ سے کسی کو داخل نہیں کرنا اس کائنات سے تو حید ٹوٹ جائے گی 366 کائنات کا اپنی پیدائش اور ترقی کے ہر دور میں حمد کے گیت گانا 69 اللہ کی محبت جس قوم کو نصیب ہو اس کی فتح ہی فتح ہے 312 کائنات کو باندھنے والی چیز صرف تو حید ہے توحید کے ذریعہ ہی تمام عالم کے اختلافات کی دوری ہو سکتی ہے 358 کائنات کے ذکر میں اکثر قرآن میں تسبیح کا ذکر جو قو میں آ رہی ہیں اُن کو فیض بھی ساتھ ساتھ پہنچا نا ہے، اس کے طریق خلافت سب دنیا کی ہو ہی نہیں سکتی اگر صرف کسی ایک قوم سے تعلق ہو دنیا کی اکثر قو میں اُمی ہیں د نیادی علم میں ترقی کرنے والی اقوام کا حال زبان پر ہاتھ ڈالنے سے قوموں سے وحدت ٹوٹنا مغربی اقوام کے حضرت عیسی کو قبول کرنے کی وجہ 392 369 359 کا ئنات میں ہمہ وقت ایک تبدیلی ہے اللہ کا کا ئنات کو سنبھالنے کا نظام اللہ کا کائنات کی ہر مخلوق سے تعلق 361 74 3 136 360 مقناطیسی طاقت کے بغیر کائنات بے حقیقت ہو کر بکھر جائے 136 101 کپورتھلہ کپورتھلہ کی جماعت کا خاصہ کتاب 368 367 کثرت سے قوموں کے اسلام میں داخلہ کے وقت لوگ سفر کر حضرت اقدس کی خواہش کہ ایسی کتاب لکھی جائے جو دنیا کے کے دینہ پہنچیں اور تربیت حاصل کر کے اپنی قوم میں پھیل جائیں 390 اہل علم کو قرآن کی سچائی کا قائل کر سکے 366 کراچی 271 730 89,808,887 آنحضرت کا قومی تشخص کو غائب کرنا آنے والی اقوام کے اقتصادی پہلو کو درست کریں لیکن تبلیغ کراچی کی مار کی ترتیب کے حوالہ سے ایک وضاحت 115 کے ساتھ نہیں جوڑنا اقوام کی تباہی کے دو ہی طریق ملتے ہیں 394 156 ستی نوح ایک قوم کو اپنے ہی افراد کے ذریعہ پیغام پہنچانے کا فائدہ 390 کشفی حالت کے صاف کئے جانے کا مطلب 15,759 دنیا کی بڑی قوموں کے اپنی عظمتوں کے دعوے اور شیطان حضرت اقدس نے کشفی نظارے میں فرشتے کو دیکھا جس کے کے سامنے سر جھکانا 212 ہاتھ میں چھری تھی اور وہ لیکھرام کا پوچھار ہا تھا 700 278

Page 1007

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 کشمیر کی جدو جہد آزادی کے حوالہ سے جماعت پر الزام اور حضرت مصلح موعود کا کردار 726 کلام محمود کوریا 26 273 45 کینیڈا کے امیر کو تربیتی کمیٹیاں بنانے کی تلقین 735 کینیڈا میں احمدیوں کی دولتوں میں بے پناہ اضافہ ہونا، اس کی وجہ 691 کینیڈا میں الرٹ نامی مقام پر سائنسی سٹیشن کا قیام کینیڈامیں ایک بچی کا اپنے خاوند کے حوالہ سے حضور سے شکوہ کہ وہ نماز نہیں پڑھتا کینیڈا میں ایک جگہ کے لئے جماعت کا بولی دینا مگر اس میں ایک کورین خاتون خاتون کا اسلام قبول کرنا اور کوریا میں ستی اور تقدیر الہی کے نتیجہ میں وہ جگہ ہمیں ملنا اسلام پھیلانے کے متعلق مشورے دینا کونا صاحب کوئٹہ کویت کہانی 570 671 کینیڈا میں بہت سے امیگرنٹس کا آنا 710 745 691 478 کینیڈا میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن میں شدید کی 503 808,896 | تبلیغ کے حوالہ سے کینیڈا کی جماعت سے شکوہ 693 585,631,656,663 تبلیغ کے معاملہ میں کینیڈا کی جماعت کو توجہ کہ وہ بہت پیچھے ہیں 486 لطف الرحمن صاحب کا کینیڈا میں مسجد کی تعمیر کے لئے نبی کے زمانہ کی کہانی میں دائیں اور بائیں مڑ کر نہ دیکھنے کافی مالی قربانی کرنا کی طرح سے وضاحت آجکل کی کہانیوں کی حالت جن بھوتوں کی پرانی کہانیوں میں سچائی کے سبق کیلگری کیلیفورنیا کینٹ کینٹ کا ہومیو پیتھک بیان کرنے کا فلسفہ کینیڈا کینیڈا کا گیمبیا کے حالات کی وجہ سے مدد کا کہنا کینیڈا کو روحانی طور پر بدلنا ایک بہت بڑا معجزہ ہے کینیڈا کی جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دینے کی تلقین 243 242 گناه گناہ نہ ہونے کا نقصان 242 گناہ اگر ز ہر ہے تو یہ کیوں بنایا گیا، اس کا جواب 726 گناہ پر دلیری کی وجہ 726 گناہ سے بچنے کا طریق، مالک کی غلامی اختیار کرنا گناہ سے دور ہٹنے کی کوشش مگر طاقت نہیں پاتے ، اللہ کی محبت کا واسطہ دے کر دعا کریں گناہ سے نفرت اور دوری کا طریق 692 261 259 644 151 712 808,919 680 704 736 732 کینیڈا کی جماعت کو تربیت کے لحاظ سے کمی پر توجہ کینیڈا کی حکومت اور بااثر لوگوں کا جماعت سے اچھا سلوک اور شکر کا مضمون 706 گناہ سے نفرت شروع ہوئی تو بخشش شروع ہوئی گناہ سے بالطبع کراہت گناہ کا کتے کی دم کی طرح ہونا گناہ کو پیدا کرنے کا ماحصل گناہ کی حقیقت میں اضطرار کا وقت گناہ کی حقیقت 121 290 289 287 133 264 650 255 گناہ کے اثر کو ہم ٹال نہیں سکتا، بخشش کا مضمون بعد کا ہے 647 کینیڈا کی مالی قربانی میں نمایاں فرق ، مالی نظام ستحکم ہو چکا ہے 728 گناہ کے تعلق کو توڑنے کا طریق کینیڈا کے اکیسویں جلسہ سالانہ کا آغاز 467 گناہوں سے بچنے کا بڑا ذریعہ خوف الہی ہے کینیڈا کے امیر صاحب کو مساجد کی آبادی کی طرف توجہ 495 گناہوں سے بچنے کا طریق 132 643 134,650

Page 1008

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 46 گناہوں سے تعلق توڑنے کا طریق گناہوں سے توبہ کا طریق 142 | گوئٹے مالا 139 | گھانا گنا ہوں سے نجات اللہ کی رحمت سے تعلق جوڑے بغیر ناممکن ہے 170 گھانا میں جماعت کے خلاف حکومت کو اکسایا جانا 467 586 گناہوں سے نجات کے لئے موت کا مضمون گناہوں کو ابھارنے میں بد مجالس کا کردار گناہوں کی شناخت نہ ہونے کا نقصان گناہوں کی محبت توڑنے کے لئے فرار کا مضمون گناہوں کے خلاف جہاد استغفار کا گناہوں کے احتمالات سے بچانا 147 652 649 145 247 263 گھوٹکی گھروں کی اصلاح پر مشتمل اہم دعا کی اصلاح پر گیمبیا گیمبیا کی تاریخ کا سب سے سیاہ دن 197 925 920 666 674 اگر خدا امخلوق میں دیکھتا کہ اس میں گناہ نہیں تو ایک اور مخلوق پیدا گیمبیا کی حکومت پر جماعت کے حوالہ سے افریقن ممالک کا دباؤ 723 کرتا جو گناہ کرتی اور پھر تو بہ کا سلسلہ شروع ہوتا (حدیث) 262 گیمبیا کی حکومت کا جماعت کے حوالہ سے پلٹا کھانا انابت کے نتیجہ میں گناہوں پر قابو جس کے لئے محبت گیمبیا کی حکومت کا ڈاکٹروں کے وہاں جانے میں روکیں ڈالنا اور اس کی وجہ امیر ممالک سے مالی امداد لے کر عوام کے نہایت ضروری ہے انسان کے معاصی اور خجالت کے دو پر بغاوت گناہ کی جڑ ہے تو بہ کے بعد گناہوں کی بخشش سے مراد دعا گناہوں کے لئے تریاق ہے رحمانیت کا گناہوں کی بخشش سے تعلق 155 257 261 268 لئے کوئی خدمت کا انتظام کرنا مد نظر ہے گیمبیا کی حکومت کو حضور کی تنبیہہ اور جماعت کے حوالہ سے وارننگ 291 گیمبیا کی حکومت کی کی پینٹ کی میٹنگ اور جماعت احمد یہ 724 723 690 غفلت کی حالت میں گناہ کرنے کی سزا کی وجہ گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر بڑھ جاتا لغویات اور گناہوں میں فرق نفس پر اسراف میں گناہ کبیرہ مراد نہیں 219 9 262 191 116 کے حق میں فیصلے کیے جانا گیمبیا کی حکومت کے نام حضور کے خط اور ان کے ردعمل کا انتظار 741 گیمبیا کے احمدیوں کو دو مہینے کے لئے آئیوری کوسٹ میں ٹھہرنے کی اجازت ملنا 682 گیمبیا کے احمدیوں کو ڈش انٹینا ز زیادہ سے زیادہ لگانے کی ہدایت تا کہ مولوی کے سوالات کے جوابات سن سکیں 675 نماز میں آگے بڑھنے سے گناہوں کے رجحان اور خواہش میں کمی 859 گیمبیا کے احمدیوں کے باہر نکلتے وقت الہی تائید اس سوال کا جواب کہ جب گناہ کی اتنی اہمیت ہے تو چلو گیمبیا کے احمدیوں کے بخیریت گیمبیا سے نکلنے اور واپس کرتے ہیں پھر 267 291 آنے کے متعلق حضور کی خواب 681 671 گیمبیا کے اخبارات کا مولوی کے خطبہ کا سخت نوٹس لینا 659 کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کو تا ہی نہ ہو ہر گناہ کے بعد بخشش کے مضمون میں سبحان کے لفظ کا استعمال 78 گیمبیا کے حالات کی نزاکت کی وجہ سے حضور کو تمام غیر یمین آنحضرت میاہ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی سے مراد 86 خدمت گاروں کو ملک چھوڑنے کا ارشاد اور الہی نصرت 808 گیمبیا کے حالات کے حوالہ سے الیس الله بکاف عبدہ گوجرانوالہ گوجر خان 808 کی خوشخبری کا ملنا 670 739

Page 1009

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 47 گیمبیا کے حوالہ سے تازہ ترین صورتحال 739 آئیوری کوسٹ کے سفیر کا گیمبیا کے احمدیوں کی مدد کرنا 670 گیمبیا کے حوالہ سے ساری دنیا کے احمدیوں کو نرمی کی تلقین 690 حضور کا دو احمدی ڈاکٹروں کو گیمبیا واپس بھیجوانے کا اعلان گیمبیا کے سیکرٹری جنرل کی برطرفی کا اعلان اور ایک نشان 744 اور گیمبیا کی عوام کا مثبت رد عمل گیمبیا کے صدر کا جماعت کے حوالہ سے اعلان کہ کوئی ان کو داؤ دا جوارا کی حکومت میں ایک فوجی افسر کا دوائی کے 685 لئے لائن میں کھڑے ہونا اور ڈاکٹر کو دھمکی دینا 686 661 غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا گیمبیا کے صدر کامذہبی وزیرکو کہنا کہ آئندہ سے امام فاتح کو کسی لائبریری پلیٹ فارم پر جماعت کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں ہوگی 684 لائبریری کے سسٹم کو فعال کرنے کے متعلق ہدایات 425 گیمبیا کے مذہبی امور کی امیر صاحب اور ان کے وفد کے لائبریری کے لئے ایک مرکزی نظام ہونا چاہیئے جس کے ساتھ زیادتی کرنا اور دھمکی دینا 683 تحت سارے ملک میں گھوم کر لائبریریاں چیک کریں 436 گیمبیا کے مذہبی امور کی غلط پر یس کا نفرنس اور دو سابقہ لائبریری میں ہومیو پیتھک دوائیاں بھی ہونی چاہئیں 434 684 لائبریری میں آڈیویڈیوسیٹ اپ کے متعلق ہدایات 428 احمدیوں کو پلانٹ کروانا گیمبیا کے مذہبی امور کے وزیر کی تبدیلی 740 انگلستان میں SOS میں لائبریرین کا کثرت مطالعہ 425 423 گیمبیا کے مذہبی وزیر میجر بو جنگ کا پاکستان کا دورہ کرنا 662 جماعتی لائبریریوں کا حال گیمبیا کے مولوی پر مباہلہ کا بُرا اثر اور گیمبیا کی حکومت کے حلقہ لیول پر چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کے قیام کی بابت تلقین 428 722 دنیا کی مختلف لائبریریوں میں اسلامی اصول کی فلاسفی رکھوائیں 413 گیمبیا کے مولوی کا عربی زبان میں مباہلہ کا اقرار کرنا 668 کینیڈا کی ایک لائبریری جو دیواروں پر پینٹ ہوئی ہے 707 حوالہ سے جماعت کو نصیحت گیمبیا کے مولوی کا مبللہ سے دامن بچانا مگر آخر قبول کرنا پڑا 656 لاہور گیمبیا کے مولوی کا مسلہ کے ایک ہفتہ بعد ہی ذلیل ورسوا ہونا 674 لٹریچر گیمبیا کے مولوی کے مباہلہ کے اعلان کے بعد مباہلہ کی لٹریچر کے نظام کے حوالہ سے مختلف باتوں کا ذکر 683 تبلیغ کے سلسلہ میں لٹریچر کا جائزہ لیں قبولیت اور تقدیر الہی گیمبیا کے وزیر تعلیم کا اقرار کہ احمد یہ مسلم مشن نے تین بنیادی مختلف زبانوں کے لئے لٹریچر کی فراہمی 661 دو کتابوں کے چینی ترجمہ پر ایک مترجم کی تعریف 808 414 410 411 430 امور میں مثبت ترقی کی ہے گیمبیا میں جماعت کے خلاف سازش پر عوام اور اپوزیشن کا اٹھنا 667 مختلف لوگوں کی ذہنیت کے مطابق لٹریچر تیار کرنے کی تلقین 427 گیمبیا میں جماعتی حالات کے متعلق حضور کی ایک عجیب رویا 679 لدھیانہ 662 لذت حقیقی تقوی میں ہے گیمبیا میں حالات کے حوالہ سے حضور کی نصیحت اور اس میں لذت جماعت کی کوتاہی احمدیت کے خلاف گیمبیا میں ہونے والی سازشوں کی تفصیلات 655 لذت کی مختلف اقسام بی بی سی کے پر گر وام فوکس آن آفریقہ میں گیمبیا کے مولوی لذت کے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا کے خطبات کا نوٹس لینا اور سازش سے پردہ اٹھانا 657 | لذتوں کے دیئے جانے کا مقصد کینیڈا کا گیمبیا کے حالات کی وجہ سے مدد کا کہنا 680 نیکی کی لذت حاصل کرنا اور لذت حاصل کرنا سکھانا مسجد نبوی میں گیمبیا کے صدر کی روزہ رسول پر گستاخی 665 ماں باپ کا کام ہے 32 879,881 450 190 898 455

Page 1010

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 جنسی لذت کی وجہ اور اس کی غرض 48 897 | آج ایک نہیں سینکڑوں لیکھرام پیدا ہو چکے ہیں دنیا کی کسی چیز میں وہ لذت نہیں جو قرب الہی میں ہے 844 لیلۃ القدر عبادت میں لذت 894 لیلۃ القدر کا کام نفسانی لذتوں میں مبتلا ہونے پر روحانی لذتیں کم ہو جاتی ہیں 852 ماجد صاحب وکیل التبشیر 892 ماریشس نماز میں لذت کے حصول کا طریق ہر اعلیٰ لذت انسان کی تمنا کے آخری نقطہ کے حصول کا نام ہے 897 مال / مالی قربانی لطف الرحمن صاحب 689,709,729,670,681,720 مال دار لوگوں کے خود کشیاں کرنے کی وجہ لطف الرحمن صاحب کا کینیڈا میں مسجد کی تعمیر کے لئے کافی مال کا سب سے بہترین مصرف مالی قربانی کرنا 692 مال کی کثرت خوشی کا باعث نہیں 279 94 671 808 880 799 881 وینکوور مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے لطف الرحمان صاحب کی مال کے بڑھنے پر اس کی فکر بڑھنا اور ھل من مزید کا مضمون 880 خواہش اور حضور کی مشروط اجازت لغو لغوا مور کا نتیجہ 727 183 لغو جھوٹ ہوتا ہے اس لئے عباد الرحمن اجتناب کرتے ہیں 186 لغویات اور گناہوں میں فرق لغویات سے اجتناب کی تعلیم 191 190 مالی حرص میں مبتلا بعض لوگوں کا مالی قربانی کو بوجھ سمجھنا 304 مالی قربانی کی اہمیت کا احادیث کی روشنی میں تذکرہ مالی قربانی کے حوالہ سے اخلاص کی وضاحت مالی قربانی کے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی ضروری ہے اصحاب الصفہ کا جنگلوں وغیرہ میں نکلنا اور کما کر غرباء میں مال تقسیم کرنا 803 377 404 لندن حضرت لوط علیہ السلام 391,428,906 897 حضرت ابرا ہیم کی اللہ کے ساتھ لوط کی قوم کی تباہی کے حوالہ سے گفتگو اور دس بھی اُن میں نیک نہ ہونا اللہ کو قرض دینے سے مراد جماعت کے بجٹ میں غیر معمولی اضافے خرچ میں توازن عباد الرحمن کی علامت 393 796 692 177 ڈاکٹر لئیق صاحب لیاقت علی خاں لیکھرام 464 686 سائنسی علوم کا دولت کمانے سے تعلق اور چاکلیٹ کی مثال 327 مسلمان عبد منیب بنے رہتے تو دنیا کی سب سے متمول قوم ہوتے 162 368 مہر آپا کی طرف سے جرمنی جماعت کی سومساجد کی تحریک 550 کے لئے تین لاکھ جرمن مارک دینے کا اعلان لیکھرام کا نشان 1897ء میں ظاہر ہوا اور آج سو سال بعد وسیم صاحب کا مشرقی یورپ میں مساجد کی تعمیر کے لئے لیکھراموں کی ہلاکت کے لئے جماعت کو دعا کی طرف متوجہ کرنا 29 بہت بڑی مالی قربانی کرنا لیکھرام کے قاتل کا باوجود تحقیق کے نہ ملنا 376 729 278 تجارت کرنے والوں کے دل میں ترقی کی خواہش کہ کاروبار لیکھرام کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئی 277 | بڑے سے بڑا ہوتا جائے لیکھرام کے نشان کی تفصیلات 31 حضرت خدیجہ کا سب کچھ آنحضرت کو دینا اور آپ کا وہ حضرت اقدس نے کشفی نظارے میں فرشتے کو دیکھا جس سب کچھ تقسیم کر دینا 345 395 کے ہاتھ میں چھری تھی اور وہ لیکر ام کا پوچھارہا تھا 278 ریا کے طور پر قربانی کرنے والوں کو اللہ کا باہر نکال دینا 691

Page 1011

340 688 616 713 755 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 49 غریب قوموں کو عزت نفس بخشیں اور وہاں مالی قربانی کریں 393 یہ سال مباہلہ کا سال ہے، جماعت کے خلاف دعائیں معاشی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقویٰ ہے نئے آنے والوں کو مالی قربانی کے حوالہ سے جوش 883 کی جانا کہ ترقی رک جائے 392 یہ مباہلہ کا سال اپنی پوری شان کے ساتھ احمدیت 1984ء کے بعد احمد یوں کے اموال میں غیر معمولی برکت 704 کی تائید میں ظاہر ہو گا 786,787 مالک بن حویرث مبارک احمد صاحب شہید مبارک ظفر صاحب مباہلہ مباہلہ کا پہلا چیلنج Friday the 10th کو دیا تھا متی 925 مٹیر یا میڈیکا آف بورک 396,397 مجلس مجلسیں لگانے والوں کو نصائح مباہلہ کا چیلنج اور مخالفین کی غیر معمولی ذلت 29 592 583 مباہلہ کا چیلنج دیتے وقت مدنظر امور اور کامیابی مباہلہ کے اس سال کی بہت سی برکتیں ہم نے دیکھی ہیں 834 مباہلہ کے چیلنج کو بعض لوگوں کا دہرانا اور اس کہ ذمہ داریاں 591 مباہلہ میں اصل شرط خدا کی لعنت کا جھوٹوں پر پڑنا ہے 27 351 اللہ کی رحمت کے باوجود مباہلہ میں ہلاکت کی وجہ ضیاء الحق مباہلہ کی صداقت کا نشان بن کر نیست و نابود ہو گیا 22 652 110 کالج کے ایک طالبعلم کے دل میں دہریت کے خیالات کا آنا اور حضرت خلیفہ اول کا اسے جگہ تبدیل کرنے کا کہنا 210 گناہوں کو ابھارنے میں بد مجالس کا کردار اچھی مجلس میں صاف ستھرا ہونا ضروری ہے رات کو بلا وجہ مجلسیں لگائی جانا اور ان کا صبح کی نماز پر برا اثر 747 وہ مجالس جہاں سے قرآن نے اٹھنے کی تعلیم دی محاسبه نفس کے احتساب کا طریق محبت 211 297 گیمبیا کے مولوی کا عربی زبان میں مباہلہ کا اقرار کرنا 668 محبت کے رشتے نہ ہوں تو گھر کے معاملات بھی نہیں چل سکتے 137 گیمبیا کے مولوی کا مباہلہ سے دامن بچانا مگر آخر قبول کرنا پڑا 656 اصلاح کی شرط اول محبت ہے انابت کے نتیجہ میں گناہوں پر قابو جس کے لئے محبت گیمبیا کے مولوی کا مباہلہ کے ایک ہفتہ بعد ہی ذلیل ورسوا ہونا 674 گیمبیا کے مولوی کے مباہلہ کے اعلان کے بعد مباہلہ کی نہایت ضروری ہے قبولیت اور تقدیر الہی 683 آنحضرت سے جس قدر زیادہ محبت ہوگی اسی قدر در و د دل جلسہ یو کے ہمارے مبللہ کے سال کے نتیجہ کو دکھانے والا ہوگا 511 کی گہرائی سے ہوگا پہلے مباہلہ سے گریز کا طریق 26 حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم مبللہ ایک سال کے اندر اپنا کام ضرور دکھائے گا اور دکھا رہا ہے 609 آنحضرت بطور بشیر و نذیر قرب الہی کی نشانی کا مباہلہ بننا گیمبیا کے ایک خبیث مولوی کا مباہلہ کا اقرار 350 آنحضرت بطور محسن انسانیت 655 آنحضرت بطور نذیر 135 155 151 642 227 گیمبیا کے مولوی پر مباہلہ کا بُرا اثر اور گیمبیا کی حکومت کے آنحضرت پر ہر رمضان میں قرآن کا دہرایا جانا حوالہ سے جماعت کو نصیحت 722 آنحضرت خدا کی رحمت کے نشان تھے 475 843 351 مقدر معلوم ہوتا ہے کہ یہی مبالہ کا سال بن گیا 279 آنحضرت خدا کے بندوں کو بندہ بنانے کے لئے وسیلہ تھے 154

Page 1012

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 آنحضرت ربوبیت کا کامل مظہر آنحضرت ساری دنیا کے معلم آنحضرت سے برتر کوئی مقام حمد کا نہیں 50 66,67 | آنحضرت کو تبلیغ کا حکم 390 آنحضرت کو عرب قوم سے اٹھانے کی وجہ 402 365 83 آنحضرت کو کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی پیشگوئیوں اور انعامات آنحضرت سے جس قدر زیادہ محبت ہوگی اسی قدر در و د دل پر شک نہیں ہوا کی گہرائی سے ہوگا آنحضرت شکر گزار بندے اور ان کا اجر آنحضرت بطور ظلوما جهولاً آنحضرت کا اپنی جان پر ظلم آنحضرت کیا اللہ کے نور سے دیکھنا 151 آنحضرت گومردوں کے زندہ کرنے کی توفیق 595 554 386 آپکی ازواج مطہرات کے لئے دوہرے اجر کی حقیقت 578 آنحضرت کی برکت سے عربوں کے لئے رزق کے انتظامات 161 88 140 آنحضرت کی بشریت میں طاقت کا راز 64 آنحضرت کی حفاظت مشرکین کے ذریعہ سے 330 384 462 آنحضرت کا انبیاء میں اپنی ذات کو خدا کے لئے خالص آنحضرت کی خاتمیت سے مراد کرنے کے حوالہ سے ایک خاص مقام آنحضرت کا جنگ بدر کے وقتمشورہ اور انصار کا جواب 402 آنحضرت کی سخاوت کا عالم 568 آنحضرت کی ساری زندگی کا رضائے الہی کے تابع ہونا 569 آنحضرت کا جمیع عالم کی طرف مبعوث ہونا 805 358 آنحضرت کی سیرت کے بغیر اسلام کی فتح در پانی تھی 285 838 آنحضرت کی صریح گستاخی اور بدتمیزی پر مبنی سعودی عرب آنحضرت کا جینامرنا نماز ہے آنحضرت کا چھوٹی سی زندگی میں پیدا کردہ عظیم انقلاب 160 کی سازش اور خوفناک ڈرامہ آنحضرت کا خوفوں میں زندگی بسر کرنا اور خدا کا حفاظت کرنا 272 آنحضرت کی مسجد کا عالم آنحضرت کا ساری دنیا کے لئے رحمت بننا 226 آنحضرت کی نرمی کی وجہ آنحضرت کا سب دنیا اور مشرکین کے لئے بھی دعائیں کرنا آنحضرت کی نمازوں کی طوالت کا باعث امر مگر اللہ کا مستحق کو ہدایت دینا آنحضرت کا سب سے بڑھ کر بوجھ اٹھانا 197 آنحضرت کی وساطت سے امت کو فضیلتوں کا ملنا 664 377 228 825 475 14 آنحضرت کے اپنے رشتہ داروں سے تعلقات اللہ کی خاطر تھے 347 آنحضرت کا سب سے زیادہ بے قرار دل 353 آنحضرت کے اول المسلمین ہونے سے مراد آنحضرت کا عالمی توحید کا اعلان آنحضرت کا فتح مکہ کے وقت داخلہ کا نظارہ 378 آنحضرت کے بیان کردہ ہر روحانی مضمون کی تائید میں 568 358 آنحضرت کے اُمی ہونے کی وضاحت اور اسمیں خوشخبری 359 آنحضرت کا فرمانا کہ دو نمازوں کے دوران میرادل نماز میں اٹکا رہتا ہے آنحضرت کا قومی تشخص کو غائب کرنا آنحضرت کا مسلسل استغفار 769 366 مادی کائنات گواہ ہے آنحضرت کے تمہاری طرح بشر ہونے سے مراد آنحضرت کے زمانہ میں گھر والی مسجد گھر والوں کے لئے 265 ہوتی تھی آنحضرت گا معراج دنیا میں ہر نیکی کا معراج تھا 328 آنحضرت کے زمانہ میں مہمان نوازی کے حوالہ سے سادگی آنحضرت کا وفات کے بعد خدا کی طرف جاری سفر 773 اور بے تکلی آنحضرت کا ہر راز کو دنیا کے سامنے کھول کر بتا دینا 328 آنحضرت کے شیطان کا مسلمان ہونا آنحضرت کو بحیثیت بشریت کے نصرت کی ضرورت تھی 233 آنحضرت کے فیض کا دو زمانوں کو ملنا 143 6 495 534 862 74

Page 1013

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 51 آنحضرت کے کامل بندے یا کامل غلام 129 128 حضرت خدیجہ کا سب کچھ آنحضرت گودینا اور آپ کا وہ سب 366 کچھ تقسیم کر دینا آنحضرت کے نور کی مثال آنحضرت کے ہر پہلو کا آگے سے آگے بڑھنے کا لامتناہی سفر 43 آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی سے مراد آنحضرت کھہ لمحہ کا حساب رکھتے تھے آنحضرت مسیحیت کے جلوہ گر آنحضرت میں زندہ کرنے کی صفات آنحضرت نیکی کرنے پر مجبور تھے 395 86 9 آنحضرت کی شفاعت جن لوگوں کے کام نہ آئے گی 145 554 نواب محمد احمد خان صاحب 364 حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سیٹھ محمد اعظم صاحب 451 اس الزام کی تردید کہ آنحضرت گا دل عائشہ میں اٹکا ہوا تھا 569 محمد حسین صاحب خادم مسجد مبارک آنحضرت بطور رؤوف اور رحیم آنحضرت کا فرمانا کہ کیا میں عبد شکور نہ بنوں 153 88 نواب محمد عبد اللہ خان صاحب آنحضرت کی زندگی اور سیرت کے مطالعہ سے گناہوں سے بچنا 139 چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب آنحضرت سب سے بڑے قانون دان اپنے اندر نقوش مهر محمدی پیدا کرو 446 نواب محمد علی خان صاحب 918 668 168 167 114 89,115 114 464 حضرت بھائی جی ڈاکٹر محمود احمد صاحب 166 918,919 90 اصل بیعت وہی ہے جو محمد رسول اللہ کی ہے 295 میر محمود احمد صاحب اللہ کی رحمت سے انسان محمد رسول اللہ بن سکتا ہے 230 | محمود مختار صاحب بخشش اللہ اور آنحضرت کی اطاعت کاملہ سے مشروط ہے 128 چوہدری مختار احمد صاحب توحید کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ کی علمیت کا اظہار ہوگا 372 ان کو امارت سے معطل کرنے کی وجہ اور حضور کا ان کے انجام جب تمام انبیاء کو قیامت کے دن اپنی اپنی قوم پر شہید بنا کر لائے جائے گا تو آنحضرت اُن سب پر شہید ہوں گے 10 چند نو جوانوں کا آنحضرت کے پاس آکر دین سیکھنا اور پھر جاتے ہوئے آنحضرت کی نصیحت حمد کا آنحضرت سے تعلق خلیفہ کی طاعت محمد سے بیعت کا مفہوم 786 71 بخیر ہونے کا ذکر فرمانا مد بینه مدین مذہب 295 مذہب کے نام پر سیاست 91 27,391,665,871 273 سچا عبد بننے کے لئے آنحضرت کی اطاعت لازمی ہے 805 مذہبی دنیا میں انسان کی موت کا وقت گناہوں سے بچنے کا طریق ، آنحضرت کی اطاعت 134 افریقہ کی تاریخ میں سربراہوں کا اقرار کہ احمدیت مذہب مسجد نبوی میں گیمبیا کے صدر کی روزہ رسول پر گستاخی 665 کے نام پر اختلاف نہیں پیدا کرتی مشورہ کے حوالہ سے آنحضرت کا طرز عمل 236 صراط مستقیم کی مذہبی دنیا میں اہمیت نماز کے قیام کی خاطر آنحضرت گودی جانے والی تکالیف 767 عبادت کی تین قسمیں جن کا ہر مذہب سے تعلق ہے اللہ کو آپ سے پیار کا باعث بعض لوگوں کا غلط خیال که غلام نبی ، غلام محمد و غیره نام شرک میں داخل ہیں 351 ہر مذہب کا بنیادی پیغام مريم 129 مریم کو غیب سے رزق کا ملنا 570 308 587 242 38 300 552 884

Page 1014

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 مساجد کی توسیع اور حضرت اقدس کا الہام 52 دوالمیال کی مسجد احمدیوں کے داخلہ پر پابندی 557 مسجد قبا مسجد بنانا اچھی چیز ہے مگران کے لئے نمازی بنا ناضروری ہے 494 مسجد مبارک ربوہ مسجد سے تعلق جوڑنے سے خدمت دین کے مواقع کا میسر آنا 94 مسجد مبارک قادیان مسجد سے تقویٰ کا گہراتعلق مسجد میں حدث سے مراد مسجد میں زینت اختیار کرنے کی تعلیم مسجد میں زینت کی تعلیم مسجدوں کی ظاہری عظمتوں پر ہی خوش نہ ہو جائیں جمعۃ الوداع میں مساجد میں سب سیز یادہ رش 496 790 497 110 494 93 حضور کا جرمنی کی سومساجد کی تحریک کے سلسلہ میں اپنی طرف س ے پچاس ہزار مارک دینے کا اعلان 376 حضور کا مہر آپا کی طرف سے جرمنی جماعت کی سومساجد کی تحریک کے لئے تین لاکھ جرمن مارک دینے کا اعلان 376 مسجد نبوی 505 666 919 167,894 اس میں گیمبیا کے صدر کی روزہ رسول پر گستاخی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب آپ کا الہامات کے مطابق امیر مقامی و ناظر اعلیٰ بننا اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح جانشین بنائے ، آپ کی خلافت کی خوشخبری مسعود صاحب وزیرقانون پاکستان صحیح مسلم مسلمان 665 914 915 908 150,775,783,784,934 لطف الرحمن صاحب کا کینیڈا میں مسجد کی تعمیر کے لئے کافی مسلمان عبد منیب بنے رہتے تو دنیا کی سب سے متمول قوم ہوتے 162 692 مسلمانوں سے اللہ کی ناراضگی کی علامت مالی قربانی کرنا وسیم صاحب کا مشرقی یورپ میں مساجد کی تعمیر کے لئے مسلمانوں کو خنزیر سے بالطبع کراہت بہت بڑی مالی قربانی کرنا وینکوور مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے لطف الرحمان صاحب کی یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی بُری حالت 727 آنحضرت کے اول المسلمین ہونے سے مراد خواہش اور حضور کی مشروط اجازت آنحضرت کی مسجد کا عالم عورتوں کا مسجد میں جانا منع نہیں نماز سنٹر مسجد کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے 163 290 729 احمدیت کے باعث سارے عالم اسلام کا آگ میں جلنا 631 377 بہترین مسلمان کی علامت 496 مسٹر جے آرر یمنڈ 495 مسند احمد آنحضرت کے زمانہ میں عورتوں کا مسجد میں نماز ادا کرنا 763 مسیح / مسیح موعود آنحضرت کے زمانہ میںگھر والی سب گھر والوں کےلئے تھی 495 مسیح موعود کا کام سارے جہان میں پھیلا ہوا ہے مسجد اقصیٰ ربوه مسجد اقصی قادیان مسجد دوالمیال 917 مسیح پر اعتراض 894 مسیحیت ایک روحانی وجود ہے مسیحیت سے ہمیں ایک نسبت ہے جو ایک روح ، مزاج کا اس کا قانونی طور پر جماعت کے قبضہ میں دوبارہ آنا 832 نام ہے جو ہمیشہ توحیدسے تعلق رکھتی رہے گی مسجد دوالمیال کے جماعت کو ملنے کے متعلق رویا 833 مشرقی برلن 631 568 563 550 951 311 603 553 554 391

Page 1015

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 53 368 شق القمر کا معجزہ مشرقی پاکستان مشوره مشورہ کے حوالہ سے آنحضرت کا طرز عمل مظفراحمد شر ما صاحب آپ کی شہادت معراج 236 آنحضرت کا معراج دنیا میں ہر نیکی کا معراج تھا 656,663 ہر شخص کا معراج الگ الگ ہے معرفت معرفت الہی کی ضرورت سیٹھ معین الدین مغربی پاکستان شکار پور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری تھے مظلوم 922,925 926 مظلومیت بڑھانا اور صبر کو وسعت دینا دین کا مقصد ہے 523 مغفرت مظلومیت کی وجہ سے غلبہ کا عطا ہونا معاشرہ 701 328 850 644 168 368 515 مغفرت کا مضمون بعد کا ہے ورنہ گناہ کا بداثر ایک دفعہ تو ضرور ہوگا 647 12 مغفرت کی توقع نا مناسب اور ناجائز نہیں مغفرت کے تقاضے معاشرتی بدیوں کے نتیجہ میں بداخلاقیوں کا پھیلنا معاشرہ کی حفاظت کی تلقین 211 مغفرت کے نتیجہ میں قانون قدرت اثر نہیں چھوڑتا 799 248 648 287 153 116 قانون سازی کا تربیت اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے اعمل ماشئت سے مراد 446 اللہ کی بخشش سے مایوس نہ ہونے کی تعلیم درست ہونا ضروری ہے نیکیوں کے مخالف معاشرہ میں بچپن سے ہی نیکیوں سے ذاتی اللہ کی بخشش کے حوالہ سے غلط تصور لگاؤ پیدا کرنا ضروری ہے امریکی معاشرہ میں چوری اور ڈاکہ کا رواج 215 | سکتے ہیں غیر معاشرہ میں غالب معاشرہ کے اندر اپنی اقدارکوزندہ رکھیں 734 تسبیح کا مغفرت سے تعلق 453 اللہ کی بخشش کے لے اس کے وعدہ سے ہم کیسے استفادہ کر مغربی معاشرہ میں بوڑھوں کا اولاد کے ساتھ نہ ہونا 147 تو بہ کے بعد گناہوں کی بخشش سے مراد مغربی معاشرہ میں ہمیں سچائی پر قائم ہونے کی ضرورت ہے 483 جب انسان بار بار روروکر اللہ سے بخشش چاہے تو آخر کا رخدا معاشی اور دوسری تنکیوں سے راہ نجات تقویٰ ہے 883 | بخش دیتا ہے (حدیث) معجزه معجزہ سے مراد احمدیت کے غلبہ کا معجزہ رونما ہونا والا ہے رحمانیت کا گناہوں کی بخشش سے تعلق 695 | رحمانیت کا مغفرت سے تعلق 206 77 268 267 219 206 75 703 رمضان کا بخشش سے گہرا تعلق قرآن کی زبردست طاقت یہ ہے کہ اس کے متبع کو معجزات رمضان میں بخشش کے بغیر گزرنے پر نماز ہمارے کام آتی ہے 73 اور خوارق ملتے ہیں چند قرآنی معجزات کا ذکر حضرت اقدس کا دعویٰ کہ معجزات اور خوارق میں میں غالب رہوں گا 695 701 696 آنحضرت مہ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی سے مراد 86 بخشش اللہ اور آنحضرت کی اطاعت کا ملہ سے مشروط ہے 128 بخشش تو ایک منفی صرف ہے بخشش کا تو بہ سے تعلق 127 133

Page 1016

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 54 289 آپ کے انکسار کا عالم بخشش کے حوالہ سے شفاعت کا غلط مضمون 145 آپ کے الہام کی روشنی میں قاضی بنے کی حقیقت کا ذکرہ 913 گناہ سے نفرت شروع ہوئی تو بخشش شروع ہوئی ہر گناہ کے بعد بخشش کے مضمون میں سبحان کے لفظ کا استعمال 78 آپ کے ربوہ میں نماز جنازہ کی منظر کشی 183 منظور چنیوٹی مفردات مکتوبات احمد مکھی کا ہمیشہ بائیں گرنا مکھی کے دو پر اور ان کی تاثیرات ملاں 910 917 584 549 منیر الاسلام یوسف صاحب مبلغ انڈونیشیا 167 26,378,702,871 | منیر جاوید صاحب 256 موت موت کے وقت کے عذاب سے مراد 255 صرف اللہ موت سے زندگی نکالتا ہے 26 گناہوں سے نجات کے لئے موت کا مضمون نیند اور موت میں فرق پاکستان کے مولویوں میں گندگی اور زبان کی خباثت کا حال 927 مذہبی دنیا میں انسان کی موت کا وقت قائد اعظم کے خلاف مولوی کا کھڑا ہونا ملائیت کا اگر پاکستان سے خاتمہ کر دیا جائے تو یہ ملک عظیم وہ موت جو کسی پیارے کی خاطر قبول کی جاتی ہے اسی کا ترین ممالک میں شمار ہونے لگے 909 دوسرا نام زندگی ہے ملفوظات 52,57,255,261,288,293,296 سکوت اور جمود موت کا نام ہے 625,635,652,827,839,846,852,856,859 حضرت موسیٰ علیہ السلام 874,876,878,881,900,931,933,934,938 | موسیٰ پر اعتراض منافق منافق کی علامتیں منافقت سے مراد موسیٰ کا اللہ کا چہرہ دیکھنے کی خواہش 30 50 125 363 147 308 307 856 2 326 602 80 249 موسیٰ کا سارے انبیاء میں نبوت کے حوالہ سے منفرد مقام 273 779 موسیٰ کو اللہ کا قاتل کی تلاش کا سمجھانا موسی کو فرعون سے بچایا جانا حضرت صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے وصال کا موسٹی کا تبلیغ کی خاطر تکالیف اٹھانا موسی کی مدین کے مقام پر دعا 249 383 402 273 910 حضرت مسیح موعود کے الہامات کے روشنی میں تذکرہ حضرت اقدس کی تمام مردانہ اولاد میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانا 928 مولوی 913 مولویوں کا پیسے کی خاطر جھوٹ بولنا اور بلوانا خلافت کے ساتھ آپ کا عشق شدید دل کے حملوں کے باوجود لمبی عمر اور لمبی امارت پانا 912 مولویوں کی حالت جماعت احمدیہ کے حوالہ سے آپ کا انگلستان کے سفر کے دوران غیر معمولی طور پر خوش رہنا 914 پاکستان میں مولویوں کے دماغ میں تکبر آپ کی بہادری کا عالم آپ کی وفات پر دنیا بھر سے خطوط کا سلسلہ اور ان سب کے جوابات دینا ناممکن 572 513 383 915 جماعتی ترقی پر مولویوں کی آنکھوں کا پھٹنا ور الھم منھم کی دعا 400 928 حضرت اقدس پر مولویوں کا اعتراض کہ نبوت کا دعویٰ کیا اور اُن کی اپنی حقیقت 829

Page 1017

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 جمعۃ الوداع کے غلط تصور میں علماء کا ہاتھ یہ سال مولویوں کے قتل کا سال ہے مومن دین کی خاطر قربانیوں کرنے والے ہی مومن ہیں مهدی 99 55 اللہ کی خاطر میز بانی کرنے والے 533 834 صحابی کی مہمان نوازی کا واقعہ جس سے خدا بھی بننے لگا 535 575 میز بان کا کام نہیں کہ وہ ناراض ہو میکائیل جے بے ہے میونخ آنے والا مہدی خزانے بانٹے گالینے والے کہیں گے بس نارتھ پول بہت ہو گیا مہر آیا 423 | نارووال ناروے 535 732 372 707 808 689,707,725,808 710 حضور کا مہر آپا کی طرف سے جرمنی جماعت کی سو مساجد ناروے کے شمالی علاقہ کے حسن کا ذکر کی تحریک کے لئے تین لاکھ جرمن مارک دینے کا اعلان 376 حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث 374 تقریر کے دوران قہوہ پینا ان کی مختلف وقتوں میں مختلف وصیتیں حضرت مہر آپا کی جائیداد کا کلی انتظام حضور کے سپر د تھا 376 آیا نا صرہ سیدہ کی وفات اور ذکر خیر 374 نام آپ کی تعزیت کے لئے خطوط لکھنے والوں کا جواب خطبہ بعض لوگوں کا غلط خیال که غلام نبی، غلام محمد وغیرہ نام شرک میں دینا کیونکہ سب کا جواب دینا ناممکن 419 میں داخل ہیں وفات کے وقت آپ کے کاموں کا ایک نظام کے تحت چلنا 419 نایجیریا مہمان مہمان کے دل نازک ہوتے ہیں مہمان نوازی میں اخلاقیات کا حصہ نبی / انبیاء 950 375 129 740 532 نبوت کے وہی ہونے کے باوجود اس میں عدل کا مضمون 5 537 532 نبی بشیر اور نذیر ہوتے ہیں نبی کا خاص کمال مهمان نوازی میں توفیق کا ہونا ضروری ہے 534 نبی پر ابتلا کی بہت باریک راہوں کا آنا جماعت کا 15 دن کی ذمہ داری قبول کرنا مہمانوں کو ایک ہی چیز بار بار دینے سے چہرہ پر کچھ عرصہ نبی کے زمانہ کی کہانی میں دائیں اور بائیں مڑ کر نہ دیکھنے 845 کی طرح سے وضاحت بعد تھکاوٹ کے آثار آنا 474 246 611 243 جرمنی کے جلسہ پر مہمانوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جانا 619 نبیوں کا شعور جب جاگتا ہے تو کل عالم کو ہلا دیتا ہے 316 جرمنی میں ایک منتظم سے مہمانوں کے ساتھ بداخلاقی کا واقعہ 536 جب تمام انبیاء کو قیامت کے دن اپنی اپنی قوم پر شہید بنا کر جلسہ سالانہ کے حوالہ سے مہمان نوازی کے متعلق نصائح 530 لائے جائے گا تو آنحضرت اُن سب پر شہید ہوں گے 10 جلسہ سالانہ میں ایک لنگر خانہ کے منتظم کا خلاف دستور مہمانوں موسیٰ کا سارے انبیاء میں نبوت کے حوالہ سے منفرد مقام 273 کو کھانا کھلانا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوتی 537 انبیاء اور اولیاء کا محلات کو چھوڑ کر جھونپڑیوں میں رہنا 879 آنحضرت کے زمانہ میں مہمان نوازی کے حوالہ سے سادگی انبیاء بڑے راز کو اتنے ہی زور سے دنیا کے سامنے کھولتے ہیں 327 اور بے تکلفی 534 انبیاء سے دو طرفہ اللہ کا میثاق 208

Page 1018

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 انبیاء کا اپنی نیکیوں کو چھپانا انبیاء کا من انصاری کہنا 56 316 | مرزانیم احمد صاحب کی وفات اور ان کا ذکر خیر 507 233 نشانات کا غلبہ ہی احمدیت کو تمام دنیا پر غالب کرے گا 611 انبیاء کو دوسروں سے ممتاز بنانے والی صفات 297 | نصیحت انبیاء کی تمناؤں میں امنیتہ کا دخل نہیں انبیاء کی گریہ وزاری کی وجہ انبیاء کے بشیر و نذیر ہونے سے مراد انبیاء کے تکبر سے بچنے کی وجہ انبیاء کے قومی بوجھ 592 نصیحت اور صبر کا تعلق 159 642 263 14 نصیحت کا طریق نصیحت کے بار بار کرنے کا فائدہ گلوں میں تعویذ اور کانوں میں بندوں اور بال کی ترشوائی 450 313 942 461 تمام انبیاء پر اعتراضات کا اکٹھا ہونا انبیاء کی صداقت کا نشان ہے 607 گزشتہ انبیاء کے افسانے بنانے کی وجہ ہر نبی پر الزام لگائے گئے ہیں ہر نبی کا بشیر اور نذیر ہونا 141 602 175 یہ خیال کہ انبیاء احسان کرتے وقت تکلیف اٹھاتے ہیں غلط ہے 451 نجات کے حوالہ سے نصیحت نظام امام کی اطاعت کے بغیر کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی 876 جماعت کے کاموں میں جھوٹ کا عنصر نظام بنانا بہت مشکل ہے مگر جب بن جائے پھر آسانیاں ہی آسانیاں ہیں بڑی اور نئی جماعتوں پر بعض ابتلا 472 415 نجات کی راہ کے حصول کا طریق جانور اور انسان کے نجات پانے میں فرق نذیر احمد صاحب علی مبلغ سلسلہ 129 39 166 جماعتی جھگڑوں کی وجوہات نظامی گنجوی نعمت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی وفات پر ان کا ذکر خیر 165 کے حصول سے مراد اور اس کا طریق زندگی وقف کرنے کے بعد افریقہ میں ان کی قربانیاں 166 سید تیم احمد صاحب ڈاکٹر نذیر احمد صاحب آف گھر پینکی ضلع گوجرانوں کی شہادت 809 آپ کی شہادت کے بعد اس علاقہ میں احمدیوں کے خلاف نفس امارہ میں سم قاتل مزید مشکلات نسائی نسل 833 نفس پر اسراف میں گناہ کبیرہ مراد نہیں 64,951 نفس پر غور اور فکر کی عادت کا فائدہ نفس کی عبادت شیطان کی عبادت ہے اگلی نسلوں کے دین کے لئے خالص ہونے کی دعا 578 نفس کے احتساب کا طریق جن گھروں میں با قاعدہ تلاوت ترجمہ کے ساتھ نہیں ہوتی نفس کے خلاف بغاوت آپ بودی نسلیں آگے بھیجنے والے ہیں 527 | نفس کے شیطان کو انسان کا نہ دیکھ سکنا قرآن نے ہماری اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے 490 | نفس مطمئنہ کن لوگوں کو نصیب ہوتا ہے نیکی پر خود اعتمادی کے فقدان کے نتیجہ میں نسلوں کو تباہ ہونا 454 نفس مطمئنہ کی پہچان کا طریق انگلی نسلوں کی تربیت کے لئے عبادت کے تین پہلو مد نظر رکھیں 39 نفس مطمئنہ کی فتح سے مراد 473 469 121,731 867 418 861 116 144 242 297 314 469 347 354 343

Page 1019

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 نفس مطمئنہ کے حصول کی علامتیں 57 346 نماز کی قبولیت کی نشانیاں 778 نفس معلمانہ ہونے کے باوجود دوسروں کے لئے بے قرار نماز کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے موتیوں کو حاصل کریں 769 ہونے سے مراد 352 نماز کے حوالہ سے صبر اور استقامت اور نرمی اختیار کرنے کی تلقین 901 780 822 اللہ کی صفات سے محبت کے نتیجہ میں نفس مطمئنہ کا حاصل ہونا 353 نماز کے فحشاء اور منکر سے بچانے سے مراد نفسانی خواہشات سے دوری کی تلقین 333 نماز کے قیام کی اہمیت آج جماعت کو ضرورت ہے کثرت کے ساتھ نفس مطمئنہ نماز کے قیام کی خاطر آنحضرت گودی جانے والی تکالیف 767 پیدا کرنے والوں کی نماز نماز اور صبر کے ذریعہ اللہ کی استعانت 355 نماز کے قیام کے حوالہ سے تنظیموں کا لائحہ عمل بنانے کی تلقین 106 نماز کے لئے وہ روح جس کا ہونا ضروری ہے نماز کے متعلق احادیث نماز کے متعلق خطبات کے سلسلہ کا جماعت پر اثر 921 788 753 762 831 نماز با جماعت کا اجر نماز با جماعت کی اہمیت اور اس حوالہ سے ایک وضاحت 789 نماز کے متعلق خطبات کے نتیجہ میں ایک عالمی انقلاب کا بر پا ہوں 889 823 نماز کے معاملہ میں بچوں پر تحکم کی تعلیم اسلام نے نہیں دی 445 نماز خدا تک پہنچنے کا ذریعہ نماز خوب سنوار کر پڑھیں کیونکہ یہ ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے 850 نماز کے مقبول ہونے کا وقت جب وہ رضائے الہی بن جاتی ہے 846 495 نماز مومن کا معراج ہے ہمیں اپنی نمازوں کی فکر کرنی ہے 832 نماز سنٹر مسجد کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے نماز سے بڑھ کر کوئی اور وظیفہ نہیں نماز عبادت کا معراج ہے، اس کی اہمیت نماز قائم کرنے کا طریق نماز کا انسان پر لعنتیں ڈالنا نماز کا ایک قسم کا نشہ ہونے کا وقت 828 نماز مومن کا معراج ہے 744 نماز میں اضطرار پیدا ہونے پر ملنے والا انعام نماز میں التحیات سے مراد 499 840 843 850 827 195 نماز میں التحیات کے اندر اللہ کے لئے تھے ، ان کی اہمیت 84 نماز میں جو لوگ لمبا عرصہ کوشش نہیں کر سکتے ، اس کے نماز کا بمنزلہ غذا ہونا اور اس میں لذت و ذوق کا حصول 842 حصول کا سلیقہ نماز کا صبر سے تعلق نماز کا آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے سے مراد نماز کو بار بار کھڑا کریں نماز کو بھرنے کی تلقین نماز کو کھڑا کرنے سے مراد نماز کھڑی کرنے سے مراد نماز کی اہمیت کے متعلق احادیث نماز کی جان تقوی ہے 934 922 نماز میں چار قسم کے کمالات کا اللہ سے طلب کیا جانا 616 851 نماز میں خاص اپنے لئے کوئی حصہ مقرر کر کے غور کرنے کی تلقین 902 نماز میں دل کا اٹکنا خدا سے دل اٹکنے کا دوسرا نام ہے 768 841 630 نماز میں دلچسپی کے حصول کا طریق 766 نماز میں دھیان اللہ کی طرف کرنے کا طریق 839 نماز میں روح کے پگھلنے سے مراد 783 نماز میں رونے کی کیفیت کے حصول کا طریق 935 نماز میں سوزش اور گدازش کا اثر 72 122 857 929 836 نماز کی حقیقت حضرت اقدس کے الفاظ میں 836 نماز میں کبھی لذت آتی اور کبھی جاتی رہتی ہے، اس کا علاج 931 نماز کی حقیقت نماز کی حکمت اولادوں کو سکھائیں 826 نماز میں لذت کا حصول 841 768 | نماز میں مزہ کے لئے کوشش کریں اور پوری زندگی ایسی صحت

Page 1020

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 58 891 کہ وہ نماز نہیں پڑھتا نصیب نہ ہو تو کیا نمازیں ضائع گئیں؟ اس کا جواب 891 745 نماز میں آگے بڑھنے سے گناہوں کے رجحان اور خواہش میں کمی 859 یورپ میں کام کی وجہ سے سمجھا جانا کہ کام کے دوران والی نمازیں نماز میں آگے نکلنے کے حوالہ سے تلقین 744 ضائع کرنا مجبوری ہے 929 آنحضرت کا جینا مرنا نماز ہے نماز ہی مشکلات سے انسان کو نکال سکتی ہے، اس کا طریق 825 آنحضرت کی نمازوں کی طوالت کا باعث امر نماز ہی دنیا کے فساد اور شر سے بچاسکتی ہے نمازوں پر قیام اور صلوٰۃ وسطی کی ادائیگی کی تلقین نمازوں کو پھل لگانے کا طریق نمازیوں پر ہلاکت 749 838 825 756 اس سوال کا جواب کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے 837 85 اگلی صدی سے پہلے ہر ایک خاندان میں ہر شخص نمازی بن جائے 501 629 بعض کا چالیس برس تک نماز پڑھنا مگر پہلے دن کے مقام نماز، اسلام کے معرض زوال میں آنے کی ایک وجہ نماز کی پر کھڑے رہنا حقیقت سے غفلت اقامت صلوۃ سے مراد 823 بغیر نماز کے اندر مردہ ہے 498 بہت جلدی نمازیں پڑھنے والے 627 106 499 اللہ رحم کرے اس پر جو رات کو اٹھے نماز پڑھے اور اپنی پانچوں نمازیں فرض ہیں اگر کسی صورت پانچ نہیں پڑھ سکتے تو بیوی کو اٹھائے (حدیث) انکسار سے نماز کے معراج کا تعلق 782 خدا کے لئے ایک تو پڑھیں 745 پنجوقتہ نمازوں کو خوف اور حضور سے ادا کرنے کے حوالہ سے ایک صحابی کا پوچھنا کہ کون ساعمل مجھے جنت میں لے جائے گا، حضرت اقدس کی نصیحت ان میں سے ایک نماز ایمان کی جڑ نماز ہے تقومی کی اعلیٰ حالت نماز ہے 752 جہاں باجماعت نماز کا انتظام ہو وہاں اہل خانہ کا حق نہیں کہ 837 بعض کو اجازت دیں اور بعض کو نہیں 878 سب سے زیادہ عدم تو جہی صبح کی نماز پر ہے جب دستر خوان بچھ جائے اور کھانا چن لیا جائے تو نماز شروع سکاری کی حالت اور نماز کرنا اس خراب کرنے کے مترادف ہے (حدیث) 775 سینکڑوں لوگوں کا خطوط میں لکھنا کہ ہماری ساری زندگی جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز اکٹھی ادا کرنے کی وجہ 810 کی نمازیں جیسے ضائع گئیں چندے تب قبول ہوں گے جب نماز پر پوری طرح قائم ہوں 499 صلوۃ اور دعا میں کوئی فرق نہیں دس سال کی عمر میں نماز کے لئے بچوں کو سزا دینے سے مراد 445 صلوٰۃ وسطی سے مراد 107 759 764 747 756 889 852 746,766 رمضان میں بخشش کے بغیر گزرنے پر نماز ہمارے کام آتی ہے 73 کئی لوگوں کا کہنا کہ دعا کی مگر پھر بھی نماز میں توجہ پیدا نہ ہوئی 291 628 نوافل کے ذریعہ فرائض کی کمی کا پورا ہونا 751 شیطان کا خالی نمازوں کو اچکنا صبح کی نماز پر نہ آنے والوں کے متعلق آنحضرت کا غم 748 نیکیوں پر قائم ہونے کے حوالہ سے صبح کی نماز کی اہمیت 748 صوفیاء کا چلہ کشیاں کر کے سلوک کی راہیں اختیار کرنا اور وہ نماز جس سے دین اور دنیا سنور جاتے ہیں نماز کو چھوڑنا غفلت کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کی تعلیم نماز اور رمضان کا ہمیں احتساب کرنا سکھانا 933 863 وہ نماز جس کی برکت سے آپ خدا کی طرف بڑھنے لگیں 820 10 85 کینیڈا میں ایک بچی کا اپنے خاوند کے حوالہ سے حضور سے شکوہ وہ نمازیں جو منفعت کے لحاظ سے خالی ہوتی ہیں آنحضرت کا فرمانا کہ دو نمازوں کے دوران میرا دل نماز میں اٹکا رہتا ہے 304 769

Page 1021

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 59 آنحضرت کے زمانہ میں عورتوں کا مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا 763 نومبائعین کا خدا کی ذات میں سفر نن سپیٹ ، ہالینڈ 299 نومبائعین کے لئے تربیتی کلاسز کی ضرورت جس سے وہ اپنی 629 نن سپیٹ کے علاقہ میں حضور کی اردو کلاس 639 قوم میں تبلیغ کر سکیں 389 نن سپیٹ میں بڑی بچیوں کا پردہ میں سائیکل چلانا 639 نن سپیٹ میں لا الہ الا اللہ کا ورد بڑی بچیوں کا پردہ میں نو مباھین کے لئے جرمنی میں تربیتی کلاس لگانے کی تلقین 342 جرمنی جماعت کو صدی کے سال میں ایک لاکھ احمدی بنانے 639 808 218,905 کی تلقین 373 جرمنی کی جماعت کو تبلیغ و تربیت کے حوالہ سے دو ٹیمیں بنانے کی تلقین 341 سائیکل چلانا نواب شاہ نواز شریف حضرت نوح علیہ السلام نوح کے بیٹے کا خیال کہ پہاڑی پناہ دے دے گی نوح والا معاملہ اب ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہونے والا ہے 872 594 607 نوح کی قوم کے بالمقابل دعا نوح کا اپنے بیٹے کی غرقابی کے وقت استغفار کی دعا کرنا 17 نوح کا اکیلے ہونے کے باوجود اپنی قوم کو چیلنج نئے آنے والوں کی غربت کا خاتمہ اور مؤلفۃ القلوب دو الگ باتیں ہیں ایک نو مبائع کا کہنا کہ یوں لگتا ہے آپ ہر خطاب میرے لئے کرتے ہیں نہج الفصاحه نیست 582 عبادت کا انسان کی نیت سے گہرا تعلق نوح کا قوم کو عذاب سے بچانا مگر پھر بھی بیٹے سمیت قوم کا نیک انیکی ایمان نہ لانا 395 468 48,954 752 596 نیک اعمال در اصل بدیوں کو دور کرنے کی ضمانت ہیں 283 نوح کو خدا کا کشتی بنانے کا طریق سمجھانا 590 نیک عمل سے عمل کا محفوظ ہونا نوح کی اولا د سے ایک لطیف قسم کی غفلت نوح کی اولا د کا عمل غیر صالح نوح کے سیلاب کا نقشہ 14 13 622 نیکی پر خود اعتمادی کے فقدان کے نتیجہ میں نسلوں کو تباہ ہونا 454 نیکی کا سفر آہستگی پر مشتمل ہے، جلدی مراتب نہیں ملتے 931 869 نیکی کا آگے بچے دیتی چلے جانا نواحمد بیت کو وہی حیثیت حاصل جو ایک زمانہ میں حضرت نوح نیکی کی تعریف اور اس میں دو طرفہ لذت کو حاصل تھی 582 نیکی کی لذت حاصل کرنا اور لذت حاصل کرنا سکھا نا ماں نو احمدیت کے مخالفین کا انجام نوح کی قوم کے انجام سے باپ کا کام ہے مختلف نہیں 589 نیکی کے ساتھ ذلت کا احسان نہ ہو مولوی نورالدین صاحب حضرت خلیفہ مسیح الاول نیکی کے معاملات میں غیروں سے تعاون کالج کے ایک طالبعلم کے دل میں دہریت کے خیالات کا نیکیاں دوسری نیکیوں کو جنم دیتی ہیں آنا اور آپ کا اسے جگہ تبدیل کرنے کا کہنا نورانی نومبائعین 210 نیکیوں پر صبر کی تعلیم 108 451 455 454 397 289 325 906 نیکیوں پر قائم ہونے کے حوالہ سے صبح کی نماز کی اہمیت 748 نیکیوں کا لامتناہی سلسلہ 122

Page 1022

اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 نیکیوں کے حصول میں نرمی کی تعلیم نیکیوں کے مخالف معاشرہ میں بچپن سے ہی نیکیوں سے ذاتی لگاؤ پیدا کرنا ضروری ہے 60 901 453 727 داشنگٹن سٹیٹ والدین والدین سے احسان کا سلوک نہ کرنے والا خدا کے احسانات نیکی ، ابراہیم کی اللہ کے ساتھ لوظ کی قوم کی تباہی کے کا خیال نہیں رکھتا حوالہ سے گفتگو اور دس بھی اُن میں نیک نہ ہونا 464 والدین سے احسان کے سلوک کی تعلیم 53 32 2 52 اولاد سے ایسا تعلق جوڑنے کی تلقین جس کے نتیجہ میں والدین کو پانے والا اور گناہ نہ بخشوائے جاسکنے والا بد قسمت شخص 52 نیکیاں پیدا ہوں بچپن میں بچوں کو نیکی اور بدی کا فلسفہ بتائیں 192 448 نیکی کی لذت حاصل کرنا اور لذت حاصل کرنا سکھا ناماں باپ کا کام ہے بچوں کی حفاظت کریں اور اُن کو چھوٹے چھوٹے خاتم بنائیں وحی جو آنحضرت کی خوبیوں کو رائج کرنے کی طاقت رکھیں 463 وحی میں قدر مشترک امر برائیوں کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کرنے کی تلقین 455 7 جنت میں اندرونی نیکیاں بھی دکھائی جائیں گی سے علم کے نتیجہ میں نیکی کا پیدا ہونا ہر نیکی نیکیوں کی توفیق کو بڑھاتی ہے آنحضرت گیا معراج دنیا میں ہر نیکی کا معراج تھا آنحضرت نیکی کرنے پر مجبور تھے اللہ کسی کوز بر دستی نیکی پر قائم نہیں فرمائے گا 110 953 102 794 328 451 95 خدا کے پاک بندوں کی ایک نظر میں تبدیلی پیدا کرنے سے مراد 275 انگلستان کی جماعت کو حضور کے دورہ کی وجہ سے تحریک کہ نیک کاموں کو جاری رکھیں سستی پیدا نہ ہو 421 بچوں کو بچپن سے نیکی پر قائم کرنے کی طرف توجہ کا نہ ہونا 444 ایک ہی نظر نے کسی کو پاک کر دیا، اس سے مراد وسعت وسعت کے بعد بوجھ بوجھ نہیں لگتا مزے کی بات ہوتی ہے 579 وسیم صاحب کا مشرقی یورپ میں مساجد کی تعمیر کے لئے بہت بڑی مالی قربانی کرنا 729 وضو عبادت کے حصول کے لئے بعضوں کو وضو اور بعض کو نسل کی ضرورت، اس کی وضاحت 109 وظیفہ اوظائف وظائف و اوراد میں دنیا کا گمراہ ہونا 829 828 نماز سے بڑھ کر کوئی اور وظیفہ نہیں وفات وفات کے وقت سے بندہ کی قبولیت کا پتا چلنا 810 وضیع الزمان صاحب بریگیڈئیر کی وفات پر ان کا ذکر خیر 810 ماں باپ کی نیکیوں سے محروم رہنے والے بچے نیند نیند اور موت میں فرق 250 136 307 لیٹ ہونے کی صورت میں نیند سے اچانک ہڑ بڑا کر اٹھنا 303 نیو مارک واشنگٹن 215 215 ولید منہاس صاحب ولی ولی بننے کا طریق اللہ اور شیطان کے ولی کی نشانی 168 272,877 211 انبیاء اور اولیاء کا محلات کو چھوڑ کر جھونپڑیوں میں رہنا 879 وینکوور 741

Page 1023

61 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 وینکوور مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے لطف الرحمان صاحب ہندوؤں سے درخواست کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دو 517 727 قرآن بالکل ہندو سادھو کی طرح دنیا چھوڑنے کی تعلیم نہیں دیتا 347 کی خواہش اور حضور کی مشروط اجازت وینکووور کینیڈا ہارٹلے پول حضرت ہارون پر اعتراض ہالینڈ ہالینڈ کا یورپ میں الگ ہی مزاج ہالینڈ کی جماعت کو تبلیغ و تربیت کی تلقین ہالینڈ کی جماعت کو قومی ہدیاں دور کرنے کی تلقین 689 ہوشیار پور 810 ہو میو پیتھی 603 ہومیو پیتھی والی کتاب کی اشاعت کے حوالہ سے ایک شخص 299 300 311 کی خواہش کہ وہ خرچ ادا کرے گا ہو میو پیتھک ادویات میں شفا کے سامان ہومیو پیتھک کتاب کی زبان میں غلطیوں کا مثالوں کی روشنی میں ذکر ہالینڈ کی جماعت میں نئے بیعت کرنے والوں میں کمی پر توجہ 312 ہو میو پیتھی پر مشتمل کتاب میں خوفناک علمی غلطیاں ہالینڈ کے جلسہ سالانہ کا آغاز ہالینڈ کا دورہ اردو کلاس کی دیکھ بھال کے لئے ہجرت ہجرت کے ساتھ صبر اور استقامت کا مضمون رزق میں وسعت کے لئے ہجرت کا جواز 299 639 323 478 ہو میو پیتھی سے غیر معمولی شفا ملنا 32 739 647 717 736 433 ہو میو پیتھی کتاب دیکھ کر بیسیوں لوگوں کا احمدی ہونا 434 ہو میو پیتھی کتاب کی نظر ثانی کے وقت ایک دوائی کے مطالعہ سے حضور کا نتیجہ اخذ کرنا کہ مسلسل راتوں کی محنت کی وجہ سے مضمون ہی اور ادا کر دیا 757 ہو میو پیتھی کے متعلق کتاب کے حوالہ سے حضور کی معذرت اور اس میں ہونے والی کمیوں کا ذکر اور انہیں دور کرنے کی تلقین 712 ہومیو پیتھی کے متعلق لیکچرز پر شاملین مردوخواتین کا تبصرہ اور حضور کا جواب ہو میو پیتھی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ حضور کی کتاب کی وجہ سے پاکستان میں فائدہ 737 432 433 721 712 714 714 713 479 168 بورک کا مٹیر یا میڈیکا صاحب علم انگریزی دانوں کے لئے بہت اچھا ہے کینٹ کا ہومیو پیتھک بیان کرنے کا فلسفہ پاکستان سے ہجرت کرنے کے بعد احمدیوں کی ہجرت کس طرف کو ہے دینی اور دنیاوی ہجرت کا قرآن میں ذکر وہ ہجرت جس کی طرف تعداد زیادہ بڑھنی چاہئے ہدا یت ایک موت ہے ہمبرگ 312 321 312 633 337,372 549 359 ہندو ہندو مذہب کے اسلام کی طرف رجوع کی پیشگوئی ہندوستان ہندوستان کی بھاری آبادی کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا پیاس کا بیماریوں سے بہت تعلق ہے ہندوستان کے احمد یوں کو منصف ہندوؤں کو ساتھ مل کر 519 ریپرٹری سے مراد مولویوں کے خلاف کارروائی کرنے کی تلقین ہندوستان کے وسیع علاقوں میں ایک بھی مسلمان نہیں 522 کتاب کی ریپرٹری کا بہت زیادہ خراب ہونا ہندوستان میں مولوی کا جماعت کے خلاف اٹھنا اور بیعتوں آرسنک کھالیں تو وہ ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑتا میں کثرت 515 یارک شائر

Page 1024

62 اشاریہ خطبات طاہر جلد 16 یحیی جامع صدر گیمبیا ی جامع کا صدر بننے کے فوری بعد سعودی عرب جانا 662 بیٹی جامع کا 1994ء میں سٹیٹ ہاؤس پر حملہ کر کے ملک کا کنٹرول سنبھالنا بیٹی جامع کا اقرار کہ جماعت نے جو کام کئے ہیں وہ حکومت 661 660 45,367,609,806 299 نہیں کر سکتی تھی یورپ یورپ کی ہر قوم کا الگ مزاج یورپ کے بعض مسلمان علاقے اسلام کی حقیقت سے نا آشنا 637 یورپ کے والدین کو بچوں پر تربیت کے حوالہ سے گہری نظر رکھنے کی تلقین یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی بُری حالت 653 631 یورپ میں سپیڈ لمٹ کی پابندی نہ کرنا ایک جرم بن گیا ہے 643 یورپ میں قوانین کی تبدیلی اور جس ملک میں پناہ لی جائے اس کا کام کہ وہ پناہ دے یورپ میں کام کی وجہ سے سمجھا جانا کہ کام کے دوران والی نماز میں ضائع کرنا مجبوری ہے 531 749 نئے سال رات بارہ بجے یورپ میں اخلاقی پابندیوں سے آزادی 2 وسیم صاحب کا مشرقی یورپ میں مساجد کی تعمیر کے لئے بہت بڑی مالی قربانی کرنا یوسف احمدی صاحب حضرت یونس علیہ السلام یونس کی دعا کے متعلق بعض صوفیاء کا کہنا کہ یہ نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ یہ بہت گرم ہے یونس کی قوم کا بچایا جانا 729 167 78 597 726 168 Banff Batley 732 Darwins Black Box 637 USSR 707 White Horse, Canada

Page 1024