Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ 1996ء فرمودة سید نا حضرت مالا برای المسیح الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد 15
نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر 15 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ
سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی (2003-1928)
صفحہ نمبر 1 21 41 61 79 99 1 نمبر شمار خطبه فرموده 1 2 3 4 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست خطبات (1996ء) عنوان 5 جنوری حکمت ہی ہے جو دراصل اموال کے حصول کا موجب بن جایا کرتی ہے.12 جنوری ہر ظلمت سے نکلنے کی ایک الگ راہ سلام ہے اور ہر راہ سلام پرمحمد رسول ﷺ روشنی ڈال رہے ہیں.19 جنوری خدا کی خاطر خدا کی عبادتوں کی توفیق مانگنے کیلئے سب سے عظیم مہینہ رمضان کا مہینہ ہے.26 جنوری رمضان کی برکتوں اور اس کے گہرے فوائد کا سب سے بڑا علم حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کو تھا.2 فروری کامل و فاداری اور کامل سچائی کے ساتھ خدا کو بلانے والے الداع حضرت محمد تے تھے ور فروری تمام تر مقصد رمضان کا خدا کا ملنا ہے.5 6 7 16 فروری محض لیلتہ القدر کی تلاش کافی نہیں جب تک قرآن کریم سے ایک دائی، مستقل تعلق قائم نہ ہو.119 8 23 فروری سب نوروں سے بڑھنے والا نور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نور ہے کیونکہ آپ کا ظرف بہت بڑا تھا.139 9 10 11 12 13 1 مارچ جس دعوت کے میدان میں ہمیں جھونکا گیا ہے وہ اسلام کی اشاعت کا میدان ہے.8 مارچ روشنی سمجھتے ہوئے جو اندھیروں کا سفر ہے وہ سب سے خطرناک ہے.159 179 15 / مارچ ہر اندھیرے کے مقابل ایک نور ہے.جب تک یہ اندھیرے موجود ر ہیں گے نور داخل نہیں ہوگا.197 217 235 22 مارچ اللہ تعالیٰ کی عزت، رفعت، غیرت برداشت نہیں کرتی کہ وہاں اپنے نو رکوز بر دستی ٹھونس دے.29 مارچ ایک مرکز پر جمع ہو نا رحمت سے تعلق رکھتا ہے.ممبران شوری کو نصائح.14 | 5 اپریل دعاؤں کے سہارے سے اپنے نفس کے اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کریں.15 12 اپریل جماعت کی طاقت کا راز اس اطاعت میں ہے.جو فرشتوں نے دکھائی تھی.16 19 اپریل اللہ کی یہ تقریر و کھل کر ظاہر ہوگئی ہے کہ آج دنیا کی تقدیر جماعت احمدیہ سے وابستہ ہو چکی ہے.295 17 26 اپریل جب بھی خدا کے لئے خرچ کریں اپنے دل کو ٹولیں اور دیکھیں اس میں کتنی محبت پھوٹی ہے.257 275 313
2 18 19 20 20 21 22 23 24 25 333 3 مئی ہم نے اپنے معاشرے کو تہذیب کو اور تمام دنیا کی جماعتوں کو جھوٹ سے پاک کرنا ہے.10 رمئی مذہب کے نام پر کسی دوسرے انسان کا حق سلب کرنے کی دنیا کا کوئی مذہب اجازت نہیں دے سکتا.353 17 رمئی دنیا اور اس کی چیزیں مومن کی نظر میں فنا ہو جاتی ہیں.24 رمتی نگرانی و بیدار مغزی کے ساتھ جھوٹ سے اپنے معاشرے کو پاک کرنا آپ پر لازم ہے.31 مئی کوئی دنیا کی طاقت عدل پر قائم نہیں ہو سکتی اگر خدا کے حضور اس کی گردن جھکی ہوئی نہ ہو.7 جون اپنی تبلیغ میں وہ کردار پیدا کریں جس کردار کو آپ الہی صفات کی جھلک قرار دے سکتے ہیں.14 رجون کسی امارت پر فائز ہونے پر بہت گہرے تقاضے ہیں انہیں لازماً پورا کرنا ہوگا.21 جون ہر صاحب امر کو اپنے ماتحتوں سے محبت، شفقت اور رحمت کا سلوک کرنا چاہئے.28 رجوان حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی امارت کا دور سب سے اعلیٰ تھا جو قیامت تک جاری رہے گا.27 5 جولائی محبت کی راہیں سیکھنی ہیں تو آنحضرت ﷺ ہی سے سیکھی جائیں گی.26 29 29 12 جولائی MTA کے ذریعہ لوگوں تک علم الادیان وعلم الابدان پہنچنے چاہئیں.371 389 413 435 455 475 495 519 537 19 جولائی جماعت احمدیہ میں مہمان نوازی کا ایک ایسا جذبہ ہے کی جس کی نذیر دنیا میں کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.555 30 26 جولائی ہم دنیا میں توحید کا قیام کر ہی نہیں سکتے جب تک اپنے نفس میں توحید کا قیام نہ کریں.31 2 راگست نظام جماعت کی بقا اطاعت پر منحصر ہے اور اطاعت کی بقا تعاون علی البر پر منحصر ہے.32 و راگست بهترین اطاعت امر بالمعروف ونهى عن المنكر، جبکہ بہترین دعوت الی اللہ دعوت الی الخیر ہے.33 | 16 اگست کامل یقین کے بغیر ہدایت کی طرف بلانا بے کار ہو جایا کرتا ہے.34 23 اگست دنیاوی ہجرت کی طرح خدا تمہاری روحانی ہجرت کو بھی کبھی ضائع نہیں کرے گا.575 593 613 631 651 35 30 اگست جماعت احمدیہ کے پھیلنے اور نشو ونما کا جماعت احمدیہ کے خلق مہمان نوازی سے ایک گہراتعلق ہے.673 36 37 6 ستمبر جماعت کو قول سدید اور دعاؤں کی تحریک 13 ستمبر جو پانی محمد رسول اللہ ﷺ پر اتر اوہ آج جماعت احمدیہ کی روحانی زندگی میں اپنی نشو ونما کھارہا ہے.691 711 729 20 ستمبر ہر احمدی مسلمان کو بد دیانتی کے خلاف مستعد ہو جانا چاہئے.38
3 39 40 27 ستمبر اللہ تعالیٰ کو ادا ئیں وہی پسند آتی ہیں جن کا سچائی و خلوص سے تعلق ہے.4 اکتوبر تفرید الہی ، یعنی کائنات میں صرف اور صرف خدا کی ہستی باقی رہ جانے والی ہے.41 11 اکتو بر خدا کی طرف بلانے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو.42 749 767 787 18 اکتو بر دعا کے بغیر بدیوں سے بچنا ممکن نہیں.مسلسل دعا، تو کل و کوشش سے ہی نئی زندگی حاصل ہوگی.805 43 25 اکتوبر اللہ کا پیار دل میں ہو تو کائنات کے رازوں پر دسترس ہوگی.44 45 45 46 47 48 49 49 50 51 52 1 نومبر تربیت کے مضمون کا اور اصلاح نفس کا سب سے زیادہ تعلق قولا سدید سے ہے.823 841 859 875 8 نومبر جماعت کی مالی قربانی کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے ساری جماعت پر فضل نازل فرمائے.15 نومبر ہر وہ فعل جو خدا کی محبت دلوں میں پیدا کرے اور اسے قریب لائے وہ حقیقی جہاد ہے.22 نومبر جب بھی خدا سے عظمتیں طلب کریں تو انکساری کی عظمتیں اور اس سلام کی عظمتیں طلب کریں.895 29 نومبر اس دور کی کایا پلٹنی ہے تو اعلیٰ اخلاقی نمونوں سے پلیٹی جائے گی.16 دسمبر عفو کے بغیر گھروں میں پاکیزہ فضا پیدا نہیں ہو سکتی.13 دسمبر بنی نوع انسان کی تربیت صرف رسول اللہ ﷺ کے تابع ہو کر ہی کی جاسکتی ہے.20 دسمبر جسے اپنے غصے پر قابو نہیں وہ غیروں سے عفو سے پیش آ ہی نہیں سکتا.27 دسمبر نیکیوں کو نور بنا دینے والا نسخہ یہی ہے کہ ہر نیکی کی نیت میں اللہ تعالیٰ کی محبت اثر انداز ہو.913 933 953 971 989
خطبات طاہر جلد 15 1 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء حکمت تو اموال سے بہت بہتر ہے اور حکمت ہی ہے جو دراصل اموال کے حصول کا موجب بن جایا کرتی ہے.( خطبه جمعه فرموده 5 جنوری 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) / تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُم بِاخِذِيْهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيْهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ الشَّيْطنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ (البقره: 268 تا270) فرمایا: یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ البقرہ کی 268 تا 270 ویں آیات ہیں.ان آیات میں مالی قربانی کی طرف بہت ہی لطیف انداز میں اس طرح توجہ دلائی ہے کہ انسانی فطرت کی ایک کمزوری کو سامنے رکھ کر متنبہ فرمایا ہے کہ خدا کی راہ میں جب خرچ کرنے ہوں تو اپنی اس کمزوری کو پیش نظر رکھنا اور خرچ کرتے وقت ٹھو کر نہ کھا جانا تمہیں علم ہونا چاہئے کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو کس مقصد سے کر رہے ہو ، کس کے حضور پیش کر رہے ہو اور اس کے آداب کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا لازم ہے.
خطبات طاہر جلد 15.2 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء یہ مضمون اس طرح بیان فرمایا کہ دیکھو جب تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو تو اے ایمان والو! طیبات میں سے خرچ کیا کرو مَا كَسَبْتُم جو کچھ بھی تم کماتے ہو ان میں سے بہترین چیز پیش کیا کرو کیونکہ جب ایک دوسرے کو تم تحائف پیش کرتے ہو تو جتنا کسی سے زیادہ تعلق ہو ، جتنا کسی کی عزت ہو ، جتنا کسی کا احترام ہو اسی قدر تحفہ چنتے وقت انسان اپنی ملکیت میں سے بہترین چنتا ہے.اگر باغوں والا ہے تو پھل وہ چنے گا جو چوٹی کا پھل ہے اور تاجروں کی طرح نہیں کرتا کہ گندہ پھل شامل کر کے تو اوپر دو چار پھل رکھ دیئے تا کہ اچھی چیز قبول ہو جائے ، قیمت مل جائے خواہ بعد میں پتا چلے کہ یہ تو نہایت ہی گندی اور غلیظ چیز تھی جس کا سودا کیا گیا ہے تو اللہ سے تو دھو کہ ہونہیں سکتا لیکن دنیا میں بھی انسان اپنی محبتوں اور تعلقات کی قدر کرتا ہے اور اپنے پیاروں سے دھو کے نہیں کیا کرتا.تاجر دھو کے کرتا ہے ،محبت کے ساتھ پیش کرنے والا دھوکہ نہیں کرتا تو فرمایا تمہارا تو میرے ساتھ ایک محبت کا سودا ہے اور دوسرے یہ کہ ہم نے تمہیں دیا ہے.اس لئے جب ہم نے دیا ہے تو پھر اگر تم گندی چیز دو گے تو تمہارا بہت گہرا نقصان ہوگا ایک تو یہ کہ تحفہ نا مقبول ، دوسرے تم یہ ہمیں نمونہ دکھا رہے ہو گے کہ ہم تو گندی چیزیں دیا کرتے ہیں.ہمیں بھی پھر گندی ملنی چاہئے اور احسان فراموش کو تو حقیقت میں کچھ بھی نہیں ملا کرتا.تو خدا نے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے تو نہیں مانگا خدا نے تو ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے لئے مانگا ہے اور یہ ضرورتیں دو طرح سے پوری ہوتی ہیں.اول تزکیہ نفس، دوسرے احسان کا بدلہ اتارنے کی جو تمنا ہے وہ کچھ نہ کچھ پوری ہو جاتی ہے.بسا وقات عید پر بچے بھی ماں باپ کے لئے تحفے لے کر آتے ہیں حالانکہ سب کچھ وہی دیتے ہیں.انہی سے وظیفے ملتے ہیں، انہی سے ماہانہ اخراجات عطا ہوتے ہیں ، انہی کا کھانا کھاتے ہیں ،انہی کے گھر میں رہتے ہیں مگر جب وہ عید یا کسی اور ایسے موقع پر تحفہ پیش کرتے ہیں تو ماں باپ کا دل خوشیوں سے اچھلنے لگتا ہے.اس تھنے کو جو پیار اور محبت سے سجا کر پیش کرتے ہیں وہ قبول کرتے ہیں جیسے ان کو ایک دنیا جہان کی نعمت مل گئی ہو تو یہ محبت کے سلسلے اور ہیں، ان کا نظام اور ہے، ان کے قوانین مختلف ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے جب ہم تجھ سے مانگتے ہیں تو ایک پیار کا اظہار ہے تاکہ تمہیں بھی محبت کے سلیقے آئیں تا کہ تمہاری بھی یہ خواہش پوری ہو کہ جس نے ہمیں سب کچھ دیا ہے کبھی ہم بھی تو اسے کچھ دیں.اگر خدا نے یہ نظام نہ قائم کیا ہوتا تو ناممکن تھا کہ انسان
خطبات طاہر جلد 15 3 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء اس تمنا کو جو اس کی فطرت میں گھول دی گئی ہے کبھی کسی پہلو سے بھی پوری کر سکتا.مگر ماں باپ کے تعلق میں جب انسان یہ کر دیتا ہے اور لذت و خوشی محسوس کرتا ہے تو خدا کے تعلق میں بھی اگر ایسا رشتہ نہ ہو اور ایسی خوشی انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ وابستہ نہ ہو تو انفاق فی سبیل اللہ یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنا ضائع ہو جائے گا، خدا کو نہیں پہنچ سکتا.اس مضمون کو یوں اس مثال کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جو تم کماتے ہو اس میں سے بہترین چیز پیش کیا کرو.وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُمُ مِنَ الْاَرْضِ اور اس میں سے جو زمین میں سے ہم نے تمہارے لئے اگایا ہے.اب اس کے علاوہ دوسری آیات میں اور اس آیت کی طرز بیان میں ایک تھوڑا سا فرق رکھ دیا گیا ہے جو ابتدائی آیت ہے ، جس میں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ: 4) جو کچھ ہم انہیں عطا کرتے ہیں اس میں سے وہ دیتے ہیں اور یہاں فرمایا ہے مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُم جو تم کماتے ہو اس میں سے بہترین دو.یہ اس لئے کہ انسان کے ضمیر کی پیاس بجھے، اس کو وقتی طور پر یہ خیال آئے کہ جو میں نے کمایا ہے اس میں سے دے رہا ہوں.مگر اس جاہلانہ خیال کی نفی کرنے کے لئے کہ جو تم نے کمایا ہے گویا تم ہی گھر سے لے کر آئے ہو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ زمین اگاتی ہے وہ ہم ہی تو اگاتے ہیں عطا کا آغا ز ہم سے ہے مگر پھر بھی تم نے محنت میں حصہ لیا ہے، محنت کر کے اس میں حصہ ڈال لیا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ تم اپنی محنت سمجھو اور اپنی محنت میں سے جو بہتر حصہ ہے وہ ہمارے حضور تحفے کے طور پر پیش کرو اور یہ نہ کرنا وَ لَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ جو پلید چیز ہے جو خبیث اور گندی چیز ہے ہمارے نام پر وہ نہ نکالا کرنا کیونکہ وہ نکالو گے تو تمہارا خبث باطن ہی نکلے گا اور کوئی خبیث اور پلید چیز خدا کو نہیں پہنچ سکتی.وہ چٹی بھی ہے تو ذلیل قسم کی چٹی پڑ گئی ہے تم پر اور اللہ کو ایسی قربانیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور پہچان یہ رکھ دی کہ وہ چیز میں خدا کو مقبول نہیں ہیں جو تم اگر وصول کر و تنفِقُونَ جب تم خرچ کرتے ہو تو اگر وہ چیزیں تمہیں عطا ہوں تو تمہاری آنکھیں شرم سے جھک جائیں وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وہ چیزیں پلید نہ پیش کرو جو تم دیتے ہو خرچ کے طور پر وَلَسْتُم بِاخِذِیہ لیکن جب لینا پڑے تو ایسی پلید چیز قبول نہیں کرتے اِلَّا اَنْ تُغْمِضُوا فِیهِ سوائے اس کے کہ نظریں جھکا کر ، شرم پیتے ہوئے ، بے چینی کے ساتھ ایک مجبوری کے طور پر قبول کر لو لیکن باوجود اس کے سخت خفت محسوس کر رہے ہوتے
خطبات طاہر جلد 15 4 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء ہو.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ اور جان لو کہ اللہ تو غنی ہے اور قابل تعریف ہے.غنی ہونے کے لحاظ سے اس کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے.حمید ہونے کے لحاظ سے اس کو خبیث چیز پہنچ ہی نہیں سکتی.جوگندی چیز کسی کو دے گا ، جو صاحب حمد ہے اس کو گند تو نہیں پہنچ سکتا.ناممکن ہے.اس کو وہی چیز ملے گی جو قابل حمد ہو، تعریف کے لائق ہو.تو تمہارا تعلق خدا سے کٹ جائے گا بجائے اس کے کہ خدا سے تمہارا تعلق قائم ہو.اس کے بعد ایک اور بڑا لطیف مضمون بیان فرمایا کہ تم جب ہاتھ روکتے ہوا اچھی چیزیں پیش کرنے سے تو اس کے پیچھے کوئی بات ہے اور بات یہ ہے کہ شیطان تمہیں ایسے رستے پر ڈال رہا ہے جس رستے پر پڑ کے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے تم محروم ہوتے چلے جاؤ گے اور پھر بھی تمہاری آرزوئیں پوری نہیں ہوسکیں گی.تمہارے نفس کی پیاس کبھی بجھ نہیں سکے گی اور تم بد سے بدتر حال میں مبتلا ہوتے چلے جاؤ گے.اَلشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَر خدا کی راہ میں جو کنجوسی کرنے والے ہیں ان کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ شیطان انہیں فقر سے ڈراتا ہے کہ تم غریب ہو جاؤ گے ،فقیر بن جاؤ گے.جو کچھ آتا ہے تم دیتے چلے جاتے ہو، تمہارے پاس کیا رہے گا تمہاری تجارتیں کیسے چلیں گی ، بیوی بچوں کے حقوق کیسے پورے کرو گے ، روز مرہ زندگی میں جو تم نے ایک عزت بنائی ہوئی ہے اس کے تقاضے کیسے پورے کرو گے تو فقر سے ڈراتا ہے اور جو ڈرنے والا ہے وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ شیطان نے کب دیا تھا جو اس کے تصرفات کے متعلق ہمیں نصیحتیں کر رہا ہے، دیا تو خدا نے تھا اور جس کو ہم دے رہے ہیں وہی ہے جس نے ہمیں دیا تھا تو یہ فقر کا سودا ہو ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے کہ عطا کرنے والا لے اور اس طرح لے کہ اس کو غریب اور فقیر اور منگتا بنا کے چھوڑ دے.اگر یہ تھا تو پھر دینے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ تو ایک ایسی ناممکن بات ہے جو کسی صورت میں بھی عقل میں آنہیں سکتی لیکن پھر بھی ڈر جاتے ہو، تم بڑے بے وقوف ہو.شیطان جس کا کوئی تعلق بھی نہیں تمہارے رزق سے ہاں بعض صورتوں میں تعلق تم خود بنا لیتے ہو جب ناجائز رزق کماتے ہو تو پھر شیطان کا تم پر دخل ہوتا ہے مگر اللہ نے یہاں ناجائز رزق کی بات ہی نہیں شروع کی.فرمایا ہے جو تم کماتے ہو طیبات میں سے تو یہاں اس گروہ کی بات ہورہی ہے جو نا جائز نہیں کمار ہے.جو نا جائز کمانے والے ہیں ان سے تو اللہ مانگتا ہی نہیں کبھی.کب خدا نے کہا ہے کہ اپنی
خطبات طاہر جلد 15 5 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء حرام کی کمائیوں میں سے مجھے پیش کرو.وہ مضمون بحث میں شامل ہی نہیں.پس جن کو خدا نے دیا ہے شیطان نے نہیں دیاوہ بڑے بے وقوف ہوں گے اگر شیطان کے ڈرانے سے ڈر جائیں اور خدا کی راہ میں جس نے ان کو عطا فرمایا ہے خرچ کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں اور شیطان اس کے ساتھ کیا کہتا ہے.یہ بہت ہی گہرا نفسیاتی مضمون ہے کہ فقر سے ڈراتا ہے لیکن فحشاء کا حکم دیتا ہے اور فحشاء وہ زندگی ہے جس میں انسان کو بے حد خرچ کرنا پڑتا ہے اور شیطان کا جھوٹا ہونا اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ تمہیں فقر سے ڈراتے ہوئے ایسی باتوں کے شوق لگا دیتا ہے، ایسی تمناؤں کو بھڑکا دیتا ہے جو بہت مہنگی ہوتی ہیں اور تمہاری زندگی کی عام ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے اس سے زیادہ خرچ کرو تب بھی تمہاری وہ خواہشیں جو فحشاء سے تعلق رکھتی ہیں پوری نہیں ہوسکتیں.تو شیطان کی دھوکہ بازی اور اس انسان کی جو اس دھوکے میں آئے ان کی عقل کا پورا پول کھل جاتا ہے اس سے.اگر وہ تمہارا پیسہ بڑھانا چاہتا ہے تو فحشاء کی طرف کیوں لگاتا ہے تمہیں، کیوں کہتا ہے کہ بہت مہنگی کاریں خرید و تو پھر تمہیں تسکین ملے گی.کیوں کہتا ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ عیاشی کے سامان مہیا کردیا حاصل کرو تب تمہیں صحیح زندگی کا سکون ملے گا اور ایک دوسرے سے دکھاوے میں آگے بڑھو ایسے اخراجات کرو جس سے تمہاری ظاہری طور پر قوم میں یا برادری میں ناک قائم رہ جائے اور اندر سے سب کچھ کٹ جائے اور سب کچھ ختم ہو جائے.یہ تعلیم جو فحشاء کی تعلیم ہے یہ ثابت کر رہی ہے کہ شیطان کو تمہارے اموال میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تمہارے حق میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمنوں والے وساوس میں تمہیں مبتلا کر دیتا ہے.اللہ اس کے مقابل پر کیا کہتا ہے شیطان تمہیں فقر کا اور فحشاء کا حکم دیتا ہے اور اللہ فرماتا ہے يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلا اور اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مغفرت کے وعدے کرتا ہے.پس انفاق فی سبیل اللہ کا تعلق ایک مغفرت سے بھی ہے اور یہ بہت ہی اہم تعلق ہے جس کو آخر پر بیان فرمایا ہے.وہ پہلے تعلقات جو میں نے بیان کئے ہیں قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں ان پر یہ مستزاد ہے کہ یاد رکھو وہ تمہیں چیزیں تو ملیں گی ہی مگر تم اتنے گناہ گار ہو کہ اگر محض نیکیوں اور گناہوں کا آپس میں حساب تکڑی کے تول کیا جائے تو تمہاری بخشش کے سامان بہت مشکل ہیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ اگر با قاعدہ ناپ تول کر حساب ہو کہ نیکیاں کتنی ہو ئیں اور بدیاں کتنی تو بھاری اکثریت انسان کی
خطبات طاہر جلد 15 6 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء ایسی ہے جن کے بدیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے اور نیکیوں کے کم ہوں گے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَّغْفِرَةٌ مِّنْهُ وَفَضْلا ان دونوں کا گہرا تعلق ہے.فرمایا مغفرت کے ذریعے تو ہم تمہارے بوجھ کم کر دیں گے جو بدیوں کے بوجھ ہیں وہ شمار میں نہیں لائیں گے اور فضل کے ذریعے نیکیوں کا پلڑا بھاری کر دیں گے.پس دونوں طرف انفاق فی سبیل اللہ کا فائدہ عجیب طریقے سے پہنچے گا کہ گناہوں کا پلڑا تو ہلکا ہوتا چلا جا رہا ہے اور نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوتا چلا جارہا ہے اور باقی سب چیزیں اس کے علاوہ ہیں جو پہلے نصیب ہو گئیں.اور فضل کا دوسرا معنی ہے کہ اموال میں برکت دے گا کیونکہ لفظ «فضل“ قرآن کریم میں اموال کی برکت سے بھی تعلق رکھتا ہے.واضح طور پر جابجا اس کو دنیاوی نعمتوں کے لئے بھی استعمال فرمایا گیا ہے تو دوہرا فائدہ بھی نکل آتا ہے کہ تمہارے اموال بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے شیطان جھوٹ بول رہا ہے فقر نہیں ہوگا اور شیطان فحشاء کی طرف بلاتا ہے جس سے گناہوں کے پلڑے بھاری ہوتے چلے جائیں گے.ہم مغفرت کی طرف بلا رہے ہیں جس سے تمہارے کئے ہوئے گناہ بھی کالعدم ہونے شروع ہو جائیں گے.وہ فقر سے ڈراتا ہے ہم فضل کے وعدے کرتے ہیں اور ہم اپنے وعدوں میں سچے ہیں شیطان اپنے وعدوں میں جھوٹا ہے.اس صفائی،اس لطافت کے ساتھ ، اس تفصیل سے دنیا کی کسی کتاب میں آپ کو انفاق کا مضمون دکھائی نہیں دے گا.انفاق فی سبیل اللہ کا مضمون قرآن کریم میں مختلف جگہ بیان ہوا ہے ہر جگہ ایک عجب انفرادی حسن کے ساتھ بیان ہوا ہے جو دوسری باتوں کے علاوہ کچھ مزید حکمت کی باتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کو دیکھیں ، اس کو غور سے پڑھیں ،غور سے سنیں اور سمجھیں تو کتنا حسین نظارہ ہے اس تعلیم کا.دنیا کی کوئی تعلیم اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی.پھر فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَا دیکھو خدا کیسی کیسی حکمتیں عطا فرمارہا ہے جس کو چاہتا ہے وہ حکمت عطا کر دیتا ہے اور فرمایا حکمت تو اموال سے بہت بہتر ہے اور حکمت ہی ہے جو دراصل اموال کے حصول کا موجب بن جایا کرتی ہے.وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرً ا اگر اموال کے بدلے صرف حکمت ہی کسی کو عطا کر دی جائے تو اسے بہت بڑا مال عطا ہو گیا اور اموال بھی بڑھائے جائیں اور پھر حکمت بھی بڑھا دی جائے تو بہت بڑی دولت ہے جو
خطبات طاہر جلد 15 7 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء نصیب ہوگئی اور حکمت کی باتیں ہیں ساری جو آپ نے سنی ہیں اور حکمت کے متعلق ایک واضح حقیقت ہے جو آج کے زمانے میں خوب کھل گئی ہے کہ جن کے پاس حکمت ہے وہ امیر ہیں جن کے پاس حکمت نہیں وہ غریب ہیں.ساری قو میں جو آج دنیا کے اموال پر قابض ہوئی ہیں اپنی حکمت کے ذریعے قابض ہوئی ہیں انہوں نے اسرار علوم کو سیکھا ہے.وہ علوم کے پردے میں جو راز تھے ان کو دریافت کرنے والے لوگ ہیں اور اس کے نتیجے میں تمام دولتوں نے اپنے خزانوں کے دروازے ان پر کھول دئے ہیں اور جو بے چاری قو میں حکمت سے عاری ہیں جاہل قو میں ہیں ان کو اموال بھی نصیب نہیں ہوئے ، جو تھا وہ بھی امیر قومیں لوٹ کر لے گئیں.تو قرآنی تعلیم حکمت کے خزانوں سے بھری پڑی ہے.فرمایا: وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا.جو بھی تم میں سے حکمت عطا کیا جائے گا اسے گویا بہت مال و دولت نصیب ہوا.وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ لیکن عقل والوں کے سوا سیکھتا کون ہے.مصیبت تو یہ ہے.اتنی باتیں کھول کر بیان ہوئیں ہیں پھر بھی جب خرچ کے وقت آئیں گے تمہاری مٹھیاں بند ہی ہو جاتی ہیں جن کو کنجوسی کی عادت ہے پھر تمہیں حوصلہ نہیں پڑے گا.وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ اہل عقل کے سوا کون ہے جو نصیحت پکڑتا ہے جو ان نصیحت کی باتوں سے استفادے کی طاقت رکھتا ہے.یہ جو مضمون ہے آگے آیتوں میں بھی یہ چل رہا ہے لیکن میں آج صرف ان دو آیتوں پر اکتفا کرتے ہوئے وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.وقف جدید کا 1995ء میں چالیسواں سال غروب ہو رہا ہے اور 1996ء میں اکتالیسواں سال طلوع ہو رہا ہے.سال 1994 ء انتالیسواں سال تھا، سال 1995 ء چالیسواں اور اب جس سال میں ہم داخل ہو چکے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا اکتالیسواں سال ہے اور جماعت احمد یہ بحیثیت مجموعی جو خدا کی راہ میں خرچ کر رہی ہے اور جس انداز سے خرچ کر رہی ہے اس پہلو سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی یہ ایک ایسی دلیل ہے جو سورج کی طرح روشن ہے.دن کو سورج بن کر چمکتی ہے تو رات کو چاند بن کے نور برساتی ہے.دن رات جماعت احمد یہ جو خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کر رہی ہے ان کے اندر ایسا نور ہے کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.کوئی ہے تو جماعت لا کے دکھائے.ہم نے تو ایسے دیکھے ہیں جو دین کے
خطبات طاہر جلد 15 8 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء نام پر جمیعتیں بھی بناتے ہیں، خدمتیں بھی کرتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک کوئی پیسہ عطا کرنے والا ہاتھ ان کو عطا کرتا رہے.کسی حکومت نے امداد بند کر دی تو ان کی خدمتیں بھی و ہیں ختم ہو جاتی ہیں مگر وہ جماعت جو خدا کے نام پر بنی نوع انسان کی خدمت بھی کر رہی ہو اور مذہب کی خدمت بھی کر رہی ہو یعنی دینی ، روحانی اقدار کی بھی ، ایک ہی ہے کل عالم میں جو جماعت احمد یہ ہے جو یہ سب کچھ کرتی ہے اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے کرتی ہے.کوئی غیر ہاتھ اس کو عطا نہیں کر رہا ،ہاں اللہ کا ہاتھ ہے جو عطا فرماتا ہے.اور یہ بات کہ خدا کی خاطر کرتے ہیں طیبات دیتے ہیں، جو کمایا وہ خدا کی عطا سمجھتے ہوئے اس کے حضور عاجزانہ طور پر پیش کرتے ہیں اور اس میں لذت محسوس کرتے ہیں یہ اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ ہر سال قربانی والا آگے بڑھتا جاتا ہے.وہ شخص جس کو قربانی کرتے ہوئے تکلیف محسوس ہو وہ دو چار سال چلے گا اس کے بعد تھک کے رہ جائے گا.کہے گا بس کا فی ہو گئی ، جو دینا تھا دے دیا ، اب نہ ہمارے دروازے کھٹکھٹائے جائیں اور جن کو یعنی جماعت احمدیہ کے جن مخلصین کو خدا کی راہ میں قربانی کی عادت ہے اگر سیکرٹری مال ان کے دروازے کھٹکھٹانا چھوڑ دے تو وہ جا جا کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں.کہتے ہیں کیا بات ہو گئی تم ہم سے چندہ لینے نہیں آئے اور دیکھو اگر اس طرح ستی کی تو پھر ہوسکتا ہے کہ ہم سے غفلت ہو جائے اور پھر یہ روپیہ کہیں اور خرچ ہو جائے اور جوان سے بھی آگے سبقت لے جانے والے ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ روپیہ جو خدا کے لئے وقف کیا ہے کسی اور جگہ خرچ ہو جائے گاوہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ روپیہ جو ہم نے فلاں غرض کے لئے رکھا ہوا تھا کیوں نہ خدا کی راہ میں خرچ کر دیں کیونکہ پھر توفیق ملے نہ ملے اور ایسے واقعات بڑی کثرت سے ہر سال ہوتے ہیں اور بڑی کثرت سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ جو فضل کی صورت میں ان معنوں میں ہے کہ ہم بڑھانے والے ہیں یہ بھی پورا ہوتا چلا جاتا ہے.ایسے حیرت انگیز واقعات آئے دن میرے سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک آدمی نے وعدہ کیا ہے معین طور پر وعدہ کرتے وقت پوری طرح دل کو اطمینان نہیں ہے کہ میں پورا بھی کر سکوں گا مگر اخلاص تھا ، ہمت تھی وہ وعدہ کر دیا اور پھر دعا کی کہ اللہ اسے پورا کرنے کے سامان فرمائے.پھر جس طرح غیب سے وہ سامان پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات بعینہ اتنی رقم اچانک
خطبات طاہر جلد 15 9 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء ملتی ہے جو وعدہ کی گئی تھی یعنی اگر کسی نے 7572 روپے کا وعدہ کیا تھا تو خدا تعالیٰ یقین دلانے کی خاطر کہ یہ میں نے خصوصیت سے تمہارے اخلاص کو قبول کرتے ہوئے اس لئے دی ہے کہ تم اپنا تحفہ مجھے پیش کر سکو اور جو رقم ملتی ہے 7572 روپے ہی ہوتی ہے.اب یہ جو واقعات ہیں یہ جماعت احمد یہ کی تاریخ میں ایک زندہ اور جاری و ساری حقیقت بن چکے ہیں یہ کوئی ماضی کے قصے نہیں ہیں.جیسے کل تھے ویسے آج بھی ہیں ، جیسے آج ہیں ویسے کل بھی ہوں گے اور یہ نشان صداقت اور عظمت کا نشان سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا میں اور کسی جماعت کو عطا نہیں ہوا.پھر وہ لطف ایسا محسوس کرتے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ وہ ہر سال ہر آنے والے وقت میں قربانی میں پہلے سے بڑھ جاتے ہیں.صاف ثابت ہے کہ وہ محبت ہی کے نتیجے میں خرچ کر رہے ہیں چھٹی والے تو ایسا نہیں کیا کرتے.کل جو لقا مع العرب کا پروگرام تھا اس میں منیر عودہ صاحب نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ نئے سال کی باتیں ہو رہی ہیں پر انا سال جارہا ہے، لوگ خوشیاں منارہے ہیں.جماعت احمدیہ کا کیا موقف ہے.اس میں جو میں نے تفصیل سے ان کو موقف سمجھایا کل ایک یہ بات بھی ان کو سمجھائی کہ جماعت احمدیہ کا ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے لازماً بہتر ہوتا چلا جاتا ہے.یہ ناممکن ہے کہ جماعت احمدیہ پر کوئی ایسا سال طلوع کرے جو پچھلے سالوں سے کسی طرح نیکیوں میں پیچھے رہ جائے وہ ضرور آگے بڑھتا ہے اور اس کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ملے سے براہ راست ہے کیونکہ آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور وہ وعدہ ہر اس شخص کے حق میں اور اس جماعت کے حق میں لازما پورا ہو گا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے اپنا ذاتی تعلق پختہ کر لیتا ہے یا کر لیتی ہے.وہ وعدہ ہے.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ نَّكَ مِنَ الْأولى (الضحی :5) تیرے لئے یہ قانون ہے جو اٹل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ، تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوگا.اس کے باوجود آپ کی زندگی میں ابتلاء بھی آئے، کئی قسم کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے ،جسمانی آزار بھی پہنچائے گئے مگر یہ وعدہ پھر بھی پورا ہوتا رہا.کوئی ایذارسانی، کوئی رستے کی روک آپ کے اور آپ کی جماعت کے قدم آگے بڑھنے سے روک نہیں سکی.پس یہ مراد نہیں ہے کہ وقتی تکلیفیں نہیں آئیں گی.مراد یہ ہے کہ دشمن جو چاہے کر لے ناممکن ہے کہ تیرے آنے والے لمحات کو گزرے ہوئے لمحات سے بدتر کر صلى الله کے دکھا دے وہ لازماً زیادہ شان سے چمکیں گے، لا زما ان کو زیادہ رفعتیں عطا ہوں گی.
خطبات طاہر جلد 15 10 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء پس جماعت احمدیہ، میں نے ان سے مختصر یہ کہا ویسے تو تفصیل سے مضمون بیان کر رہا ہوں مگر اس وقت میں نے ان کو اس معاملے میں کہا کہ ، اس بات کی ایک زندہ مثال موجود ہے اور یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ہمارا تعلق اس رسول سے ہے جس کے حق میں یہ وعدہ فرمایا گیا تھا اور ہمارے حق میں وہ وعدہ پورا ہو رہا ہے اور دوسری جماعتوں کے حق میں نہیں ہورہا.اس لئے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا رسول سے تعلق ہے کس کا نہیں ہے.جب وہ وعدے پورے کرتا ہے تو کھول دیتا ہے اس بات کو کہ جن کا تعلق ہے وہ کوئی کی چھپی بات نہیں ہے.ان لوگوں میں وہ وعدے پورے ہوتے دیکھو گے جو میں نے اپنے پیارے رسول سے کئے تھے.پس جماعت احمدیہ کی مالی قربانیاں ایک حیرت انگیز صداقت کا نشان ہیں اور اخلاص کے بغیر اور محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے لوگ لاکھ طعنے دیں کہ جی یہ تو چندے کی باتیں کرتے ہیں لیکن آپ اس حقیقت پر پوری طرح قائم رہیں.آپ کی سچائی کا قدم ٹلنا نہیں چاہئے اس حقیقت سے کہ آپ جو خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں وہ چٹی نہیں ہے، وہ محبت کے رشتے ہیں، محبت کے اطوار ہیں جو از خود آپ کو خدمت دین پر یعنی مالی خدمت پر مجبور کرتے چلے جاتے ہیں کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے، ہاں نفس کی اپنی ایک تمنا ہے کہ وہ جس نے سب کچھ دیا ہے ہم بھی تو اس کی راہ میں کوئی تحفہ پیش کریں جسے وہ قبول کرے اور ہماری اردنی پیش کش کے مقابلے پر محبت کا سودا ہواس کے پیار کی نظریں ہم پر پڑنے لگیں.اس پہلو سے وقف جدید بھی کوئی مستی نہیں.ساری دنیا میں جماعت احمد یہ جو ہر قسم کے چندے پیش کر رہی ہے ان میں جب وقف جدید کا اضافہ کیا گیا تو دوسرے چندوں میں کمی نہیں آئی.یہ چندہ بڑھنا شروع ہو گیا.یہ عجیب سی چیز ہے کہ جتنا مرضی بوجھ ڈال دو اور بوجھ ڈالو تو رفتار اور بھی تیز ہو جاتی ہے، کم نہیں ہوتی کسی قیمت پر اور اگر بوجھ والی سواریاں ہیں تو جتنی سواریاں بعد میں داخل ہوتی ہیں وہ بھی تیز رفتار اسی طرح اسی شان کے ساتھ آگے بڑھنے والی ہیں.جس پہلو سے بھی دیکھو یہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی علامتیں ہیں اور یہ اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک آپ کے اندر روحانیت زندہ رہے گی، جب تک آپ کے اندر خدا کا تعلق زندہ رہے گا جب تک آپ اپنے خرچ کو اس آیت کے اسلوب کے مطابق ڈھالیں گے جو ہمیں بتاتی ہے کہ تم نے پیار اور محبت کے نتیجے میں خدا کے حضور پیش کرنا ہے اور ڈرنا نہیں.پھر اللہ تعالیٰ تم پر ایسے فضل نازل فرمائے گا کہ تم خود اس کے
خطبات طاہر جلد 15 نتیجے میں حیرت زدہ رہ جاؤ گے.11 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء ہرسال جماعت کی مالی قربانیوں میں اضافہ جہاں ایک طرف اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت احمد یہ اخلاص میں آگے بڑھ رہی ہے وہاں اس بات پر بھی گواہ ہے کہ خدا اپنے وعدے پورے کرتا چلا آرہا ہے اور اتنی قربانیوں کے باوجود جماعت غریب نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بڑھ کر امیر ہوگئی ہے.اب اس پس منظر میں آپ کو وقف جدید کے بعض کوائف پڑھ کے سناتا ہوں.وقف جدید کا آغاز تو 1957 ء کے آخر میں ہوا غالباً ستمبر میں یا اس کے لگ بھگ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بنیاد ڈالی.جوابتدائی ممبر مقرر فرمائے تھے ان میں اس عاجز کے نام کے علاوہ حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کا نام بھی تھا ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ.حضرت مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کا نام بھی تھا جن کا ابھی چند دن ہوئے وصال ہوا ہے اور آج انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے گی اور حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب کا نام بھی تھا.حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کا نام بھی تھا اور بھی ایک دو نام تھے تو کل سات ممبران تھے جن سے اس تحریک کا آغاز ہوا اور ابتدائی وعدہ مجھے یاد ہے اس سال کا شاید ستر بہتر (72) ہزار روپے تھا اور پھر جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ نے اسے ترقی عطا فرمانی شروع کی تو اب آج کے وقت تک پہنچتے پہنچتے بالکل کا یا پلٹ چکی ہے.جو ابتدائی رقمیں تھیں وہ جو لاکھوں کی رقمیں تھیں کروڑوں میں بدل چکی ہیں، جو ہزاروں کی تھیں لاکھوں میں اور لاکھوں کی کروڑوں میں بدل چکی ہیں اور دنیا کی وہ قومیں بھی اب اس قربانی میں شامل ہوگئی ہیں جن کو پہلے وقف جدید کی قربانی میں شامل نہیں کیا جاتا تھا یعنی یورپ اور دیگر مغربی اقوام یعنی یورپ کی اور امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کی اقوام.تو اب میں مختصراً آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح محبت اور پیار سے جماعت احمد یہ وقف جدید کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ 73 ممالک کی رپورٹس کے مطابق 1995 ء کے سال میں جماعت احمدیہ کو تین کروڑ چار لاکھ پانچ ہزار وعدے پیش کرنے کی توفیق ملی تھی اور وصولی تین کروڑ اڑتالیس لاکھ چھیاسی ہزار ہوئی ہے.یعنی وعدے کم اور وصولی بہت زیادہ اور اس میں سب سے آگے امریکہ نے قدم رکھا ہے ماشاء اللہ.اس
خطبات طاہر جلد 15 12 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء کی جب میں تفصیل بیان کروں گا تو انگلستان والوں کے لئے کافی سوچ و بچار کے سامان ہیں اس میں ایک طرف آپ کا امریکہ سے مقابلہ ہے، دوسری طرف ہندوستان سے بھی ہے اور میں آپ کو وقت پر متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان دوڑ میں بہت پیچھے سے شروع ہوا اور آپ کے قریب قریب پہنچ چکا ہے.انٹر نیشنل کرنسی میں اگر اس کو تبدیل کر کے پیش کروں تو 5 لاکھ 77 ہزار 7 صد پاؤنڈ کے وعدے تھے یعنی آپ کی کرنسی ، انگلستان کی کرنسی میں اگر ڈھالوں اس کو ، اور اس کے مقابل پر وصولی خدا کے فضل سے چھ لاکھ ستر ہزار نو صد پاؤنڈ ہوئی.یہ وصولی کی جوخبریں ہیں یہ دراصل ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں کیونکہ وصولی بعد میں بھی ہوتی رہتی ہے.جب رپورٹیں آتی ہیں تو اس وقت تک جور تمہیں آچکی ہوتی ہیں سب رپورٹوں میں شامل نہیں ہو سکتیں کیونکہ حساب کتاب میں دفتری انتقالات میں وقت لگتے ہیں اور بعض لوگ اپنی وصولیاں سال ختم ہونے کے بعد بھی پچھلے سال کے حساب میں کرتے رہتے ہیں اور مرکز کو بھیجتے رہتے ہیں تو یہ جو خدا کے فضل سے حیرت انگیز وصولی کی رقمیں آپ نے سنی ہیں ان سے انشاء اللہ تعالی زیادہ ہوگی کم نہیں ہوگی.اب میں بعض سالوں کے مقابلے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یعنی پچھلے دوسالوں کے مقابلے سال انتالیس میں یعنی 1994ء میں چار لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ کے وعدے تھے اور وصولی پانچ لاکھ چھیں ہزار آٹھ سو چھیاسی کی تھی.تو یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے کہ وعدوں سے وصولی آگے بڑھ گئی ہے پچھلے دو سالوں کے موازنے میں بھی یہی ہوا تھا.سال 1994 ء چار لاکھ بیاسی ہزار کے وعدے اور وصولی پانچ لاکھ چھبیس ہزار کی تھی.سال چالیس میں پانچ لاکھ ستر ہزار سات سونوے پاؤنڈ کے وعدے اور چھ لاکھ ستر ہزار نو سو تیرہ پاؤنڈ کی وصولی اور جہاں تک فی صد اضافے کا تعلق ہے گزشتہ دو سالوں کے موازنے میں اضافہ وعدوں سے بڑھ کر وصولی کی نسبت ی تھی 19.86 فیصد اور یہ جو سال ابھی گزرا ہے اس کو پچھلے سال پر اپنے وعدوں اور وصولی کی جو نسبت بنی ہے.وہ 1995ء میں 27 فیصد وعدوں سے زیادہ وصولی ہوئی ہے.جبکہ گزشتہ سال 19.86 فی صد تھی.جہاں تک مجاہدین کی تعداد کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی خدا کے فضل سے یہ سال بہت بابرکت ہے.سال انتالیس میں ایک لاکھ کا نوے ہزار تین سو چوہتر چندہ دہندگان نے وقف جدید
خطبات طاہر جلد 15 13 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء میں حصہ لیا تھا.ایک لاکھ اکانوے ہزار تین سو چوہتر.سال 1995 ء میں دو لاکھ دس ہزار چھ سو بیالیس افراد نے مخلصین نے وقف جدید کے چندے میں حصہ لیا.جہاں تک امریکہ کی غیر معمولی خدمات کا اور سبقت کے جوش کا تعلق ہے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ امریکہ نے ایک فیصلہ کیا میں جب وہاں گیا تو ایم ایم احمد نے مجھ سے بات کی جو امیر ہیں امریکہ کے کہ ہم نے غور کیا آپس میں کہ جب بھی کسی ملک کے سبقت لے جانے کا ذکر ملتا ہے تو ہمارے دل میں بڑی ایک قسم کی بے چینی سی پیدا ہو جاتی ہے ، جہاں خوشی ہوتی ہے وہاں بے چینی بھی کہ کاش کسی مد میں تو ہماری سبقت کا بھی ذکر آئے تو بہت غور کے بعد ہم نے سمجھا کہ دوسرے بڑے بڑے چندوں میں تو ہم اپنی تعداد اور حالات کے لحاظ سے دنیا کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے تو وقف جدید کے چندے کو اپنے لئے خاص طمح نظر بنا لیں اور یہ فیصلہ کریں کہ سارے مل کر وقف جدید میں بہر حال سب دنیا کی جماعتوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.اس وعدے کو وہ پھر سال بہ سال پورا کرتے رہے اور مسلسل ان کا قدم ترقی کی طرف بڑھا ہے.چنانچہ آپ دیکھ لیجئے کہ اس وقت دنیا بھر کی جماعتوں میں پاکستان کے سوا باقی سب جماعتوں سے امریکہ کی جماعت آگے بڑھ گئی ہے.جو چندوں کے لحاظ سے بھی آگے بڑھ گئی ہے، وعدوں کے مقابل پر وصولی حاصل کرنے کی رفتار میں بھی آگے بڑھ گئی ہے اور تعداد چندہ دہندگان بڑھانے میں بھی آگے بڑھ گئی ہے.امریکہ کا 1995 ء والے سال کا وعدہ ایک لاکھ ستر ہزار ڈالر تھا اور بڑی خوشی سے مجھے فون پر بتایا گیا ہے کہ ہم نے بڑی چھلانگ لگائی ہے اور اس دفعہ وعدہ ایک لاکھ ستر ہزار ڈالر کا ہے.وصولی پتا ہے کتنی ہوئی ہے، دولاکھ نوے ہزار ڈالر.مجھے انہوں نے بتایا خودان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ عجیب بات ہے، اللہ کی شان کہ ہم ایک لاکھ ستر کو زیادہ سمجھ رہے تھے اور خدا نے ایسا ولولہ پیدا کر دیا ہے دلوں میں کہ وصولی کی جو آخری خبر موصول ہوئی ہے وہ دولاکھ نوے ہزار ڈالر کی ہے اور چندہ دہندگان کے اعتبار سے بھی ماشاء اللہ گزشتہ سال کے مقابل پر (49) اُنچاس فی صد اضافہ ہوا ہے اور وہی اضافہ غالباً اس وصولی پر بھی اثر انداز ہوا ہے کیونکہ جن کو بعد میں انہوں نے چندہ دہندہ بنایا ہے ان کا پہلے وعدوں میں نام نہیں آیا ہو گا.ظاہر بات ہے.تو اس کی وجہ سے ان کی وصولی کی پھر رفتار خدا کے فضل سے یا وصولی کی نسبت خدا کے فضل سے بڑھ گئی.
خطبات طاہر جلد 15 14 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء ویسے الحمد للہ کہ آج تک پاکستان کو یہ جھنڈ ا سب جھنڈوں سے بلند رکھنے کی توفیق مل رہی ہے.تمام دنیا میں سب سے زیادہ وقف جدید کے میدان میں قربانی کرنے کی پاکستان کی جماعتوں کو توفیق ملی ہے.پیچھے سے بہت آگے بڑھنے والی جماعتوں میں سے امریکہ اب نمبر دو پر آ گیا ہے.پاکستان کے بعد ان کا نمبر دو ہے لیکن فرق اب تھوڑا رہ گیا ہے.اس لئے بعید نہیں کہ اگلے سال یہ اپنی خواہش کے مطابق دنیا کی وقف جدید کی قربانی میں نمبر ایک جماعت بن جائیں ، جرمنی سب چندوں میں اللہ کے فضل سے اچھا اور مخلص اور متوازن قربانیاں کرنے والا ہے.وقف جدید میں جرمنی کی پوزیشن نمبر تین ہے اور اب آپ انتظار کر رہے ہوں گے کہ برطانیہ کی باری آجائے گی.میں بھی یہاں رہتا ہوں آج کل لیکن افسوس کہ کینیڈا نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ کینیڈا باقی چندوں کے لحاظ سے ان سے پیچھے ہے.اس کی مالی استطاعت جماعت برطانیہ کی مالی استطاعت سے کم ہے مگر اس کو خدا نے توفیق بخش دی کہ کینیڈا کے بتیس ہزار پاؤنڈ کے مقابل پر برطانیہ کی طرف سے چھبیس ہزار پاؤنڈ پیش ہوئے ہیں اور خطر ناک بات یہ ہے کہ انڈیا چھٹے نمبر پر آ کر اکیس ہزار نو سوتریسٹھ پاؤنڈ کی قربانی پیش کر رہا ہے جب کہ اس سے پہلے چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی.اب ہندوستان اور برطانیہ کے اقتصادی حالات کا موازنہ بھی کریں اور احمدیوں کی تعداد کا بھی موازنہ کریں اور پھر ان کو ملا کر دیکھیں تو پھر صحیح تصویر سامنے آئے گی.تعداد کے لحاظ سے اس وقت ہندوستان کی تعداد جو میں نے اندازہ لگایا ہے وہ تقریباً سات گنا زیادہ ہے.یعنی اگر ایک احمدی یہاں ہے تو سات احمدی وہاں ہیں اور جو بہت سے نو مبائعین اب آرہے ہیں ان کو میں شمار نہیں کر رہا کیونکہ ابھی ہم نے ان کو سنبھالا نہیں ہے.پچاس ہزار جو گزشتہ سال آئے تھے ان کو تو فوراً اس میدان میں نہیں جھونک سکتے کیونکہ ان کی تربیت پہ ابھی کچھ وقت لگے گا.وہ احمدی جو ستحکم ہوچکے ہیں ان میں سے اکثر چندہ دہندگان نکلے ہیں جو پرانے احمدی تھے اور اس طرح نسبت ایک اور سات کی ہے.یعنی ان کو عددی فوقیت آپ پر سات گنا کی ہے لیکن اقتصادی نقطہ نگاہ سے اگر دیکھیں تو آپ کو ان کے مقابل پر فی آدمی بارہ گنازیادہ آمد ہوتی ہے اور یہ ایک محفوظ اندازہ لگایا گیا ہے جو یونائیٹڈ نیشنز کے چھپے ہوئے اعداد و شمار سے نکالا ہے.کچھ عرصہ پہلے رفیق چانن صاحب نے جو اقتصادیات سے تعلق رکھتے ہیں مجھے یہ رسالہ بھیجا جو تازہ چھپ کے آیا تھا اور کہا کہ آپ نے چندوں کے موازنے کرنے ہوتے ہیں تو اس پہلو کو
خطبات طاہر جلد 15 15 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء بھی مد نظر رکھ لیا کریں کہ کسی قوم میں مالی استطاعت کیا ہے اور اقتصادی حالت کیسی ہے.تو جواب تو ان کو یہی دیا تھا یا ابھی لکھوانا ہے کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ باتیں تو ہم اقتصادی جائزوں کے طور پر پیش کر ہی نہیں رہے.یہ تو ذریعے ہیں ایک دوسرے سے مقابلہ پیدا کرنے کے ، فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرہ:149) کے بہانے ملتے ہیں اور اللہ کے فضل سے یہ باتیں کام کر بھی رہیں ہیں.اگر میں اقتصادی گہرائیوں میں اتر کر یہ موازنے شروع کر دوں کہ دراصل کیا بات ہے، اصل میں کون آگے ہے تو یہ سارا لطف بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا اور ان باتوں کی اکثر سمجھ بھی نہیں کسی کو آنی تو اس لئے مجھے چلنے دیں اسی طریقے سے.جماعت کو ضرورت ہے اچھی باتوں کی تحریص کی اور تحریک اسی غرض سے کی جاتی ہے اس لئے آپ اپنے نقطہ نظر سے جو مرضی سمجھیں مگر جس انداز سے مجھے خدا کے فضل سے جماعت کے دلوں میں ایک ہلچل پیدا کرنے کی توفیق مل جاتی ہے وہی میرا مقصد ہے اور وہ پورا ہورہا ہے مگر بہر حال انہوں نے چونکہ بھیجا تھا اس لئے میں نے کہا استعمال ضرور کرنا ہے کیونکہ ان کا پہلا وار ہے وہ خالی نہیں جانا چاہئے.چنانچہ میں نے اس کو استعمال کیا.اب اسی کی رو سے میں آپ کو یہ مواز نہ بتا رہا ہوں کہ ہندوستان کی مالی استطاعت اگر دہلی کا لندن سے مقابلہ کیا جائے تو ایک اور بارہ کی نسبت ہے.ہندوستان اگر ایک روپیہ کماتا ہے تو انگلستان بارہ روپے کماتا ہے.تعداد دیکھی جائے تو آپ کے چندہ دہندگان کے مقابل پر ان کی تعداد سات گنا ہے اور اس پہلو سے اس موازنے کے بعد آپ کو ان سے بہت زیادہ آگے ہونا چاہئے لیکن وہ آپ کے قریب پہنچ گئے ہیں اور بعید نہیں کہ اگلے سال یا اس سے اگلے سال آپ کو پیچھے چھوڑ جائیں.اس لئے پتا نہیں میں نے یہ کہہ کر آپ کے دلوں کو ہلایا ہے یا آپ الحمد للہ کر کے بیٹھ گئے ہیں کہ چلو اچھا ہوا ہمارے بھائی کو فوقیت مل گئی.جہاں مقابلے ہوں وہاں بھائی نہیں دیکھے جاتے.قرآن کریم فرماتا ہے: وَلِكُلِّ وجْهَةٌ هُوَ مُوَ لَيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ بھائی بھائی بنا دیا ہے تمہیں لیکن مقابلہ پھر بھی کروانا ہے اور وہ مقابلہ یہ ہے کہ تمہارے لئے ہم نے یہ مح نظر بنا دیا ہے کہ نیکیوں میں ضرور ایک دوسرے سے آگے بڑھو گے.اس لئے جب نیکیوں میں مقابلہ ہو پھر بھائی بھائی نہیں دیکھنا پھر ضرور آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.سوئٹزر لینڈ کا نمبر سات ہے اور سوئٹزر لینڈ اس پہلو سے مالی اقتصادی حیثیت کے لحاظ سے
خطبات طاہر جلد 15 16 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء دنیا کی سب سے اونچی قوموں میں سے ہے.جو یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے چارٹ چھپتے ہیں ان کا طریقہ یہ ہے ، وہ کہتے ہیں فرض کروسوئٹزرلینڈ سو ہے تو امریکہ کتنا ہے، انگلستان کتنا ہے یا وہ شہروں کے مواز نے کر کے بتاتے ہیں کہ اگر زیورچ اتنا ہے تو لندن کتنا ہے اور کوپن ہیگن کتنا ہے وغیرہ وغیرہ تو اس پہلو سے جو میں موازنہ بتا رہا ہوں سوئٹزر لینڈ کو خدا کے فضل سے تمام دنیا میں اقتصادی برتری اگر سب ملکوں پر نہیں تو اکثر ممالک پر حاصل ہے اس لئے ان کا آگے آنا خوشی کی بات تو ہے مگر اتنی تعجب کی بات نہیں.انڈو نیشیا بھی مالی قربانیوں میں ترقی کر رہاہے اس کا نمبر آٹھواں ہے.بیلجیئم کا نواں نمبر ہے اور جاپان کا دسواں نمبر ہے.بعض دوسرے چندوں میں جاپان آگے نکل جاتا ہے.یہ ہوتا رہتا ہے کبھی اس دوڑ میں کوئی کبھی دوسری دوڑ میں کوئی اور تو اس پہ کچھ پژمردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے.کوشش کرتے رہیں خدا جب جس کو توفیق دے اسی کو کامیابی نصیب ہوگی.فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ نمبر ایک ہے اگر سوئٹزر لینڈ کے یونائیٹڈ نیشنز کے چارٹ کی طرح سو نمبر مقرر کیے جائیں تو دوسرے نمبر پر امریکہ آتا ہے اس کے بہتر نمبر بنیں گے تیسرے نمبر پر تھیم آتا ہے جس کے اکسٹھ نمبر بنیں گے، چوتھے نمبر پر کوریا ہے جس کے انتیس نمبر اور جاپان کو پانچویں نمبر پر یہاں رکھا ہوا ہے لیکن دنیا میں وہ سوئٹزر لینڈ کے بعد نمبر دو ہے Per Capita Income کے لحاظ سے سوئٹزرلینڈ کے اگر سو نمبر ہیں تو جاپان کے چھیاسی نمبر یونائیٹڈ نیشنز نے مقرر کئے ہیں یہاں Per Capita Income سے مراد تجارتی انکم مراد نہیں ہے بلکہ Wages یعنی ایک آدمی جب نوکری کرتا ہے تو اس کو جو تنخواہ ملتی ہے اس کے اعداد و شمار سے یونائیٹڈ نیشنز نے یہ موازنہ شائع کیا ہے.سوئیٹر ر لینڈ میں سب ملازموں کی اگر اوسط نکالی جائے تو ملازم پیشہ کو اگر سو پاؤنڈ ملتے ہیں تو جاپان کے ملازم کو پیشہ کو چھیاسی ملتے ہیں.پس اس پہلو سے سوئٹزرلینڈ کی جماعت کا نمبر ایک ہونا نسبت کے لحاظ سے یہ ایک بڑا مبارک قدم ہے اور انہوں نے دنیا کی اقتصادی توقعات کے مطابق جماعتی مالی قربانیوں میں بھی ویسا ہی نمونہ دکھایا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے.پاکستان کے موازنے میں صرف اتنا بتا نا کافی ہے لمبی فہرستیں پڑھنے کا وقت تو نہیں ہے کہ الحمد للہ ربوہ کوگزشتہ سالوں میں ہمیشہ اول آنے کی توفیق ملتی رہی ہے اس دفعہ بھی اول آیا ہے اور نمبر دو جہاں تک بالغان کی قربانی کا تعلق ہے دفتر
خطبات طاہر جلد 15 17 خطبہ جمعہ 5 جنوری 1996ء بالغان الگ ہے دفتر اطفال الگ ہے.ربوہ نمبر ایک ہے، کراچی نمبر دو ہے اور لاہور نمبر تین ہے.جہاں تک اضلاع کا تعلق ہے اسلام آباد پھر سیالکوٹ پھر راولپنڈی پھر فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، شیخو پورہ، سرگودھا، عمرکوٹ، کوئٹہ یہ دس اضلاع ہیں جن کو اسی ترتیب سے خدا تعالیٰ نے زیادہ خدمت کی توفیق بخشی ہے.جہاں تک اطفال کا تعلق ہے وہاں بھی ربوہ نمبر ایک ہے اور کراچی کی بجائے لاہور نے دوسری پوزشن سنبھال لی ہے.چنانچہ ربوہ اول، لاہور دوم اور کراچی سوم ہے.جہاں تک اضلاع کا تعلق ہے گوجرانوالہ بہت پیچھے رہ جانے والی جماعتوں میں سے تھا جو آگے بڑھ کر اس میدان میں اول آگیا ہے اور راولپنڈی اس کے بعد، پھر سیالکوٹ، پھر شیخو پورہ، پھر فیصل آباد، اسلام آباد، اوکاڑہ ،سرگودھا، نارووال اور آخر پر میر پور خاص.یہ ہے خلاصہ اس سال کی مالی قربانیوں کا اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ بھی اسی ذوق و شوق کے ساتھ آپ وقف جدید کے میدان میں ہر پہلو سے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرتے رہیں گے.جماعتوں کو میں پھر دوبارہ یاد دہانی کرواتا ہوں کہ نو مبائعین کو ضرور شامل کریں خواہ معمولی رقم لے کر بھی ان کو شامل کریں.ایک دفعہ جس کو خدا کی راہ میں محبت سے کچھ پیش کرنے کی توفیق مل جائے پھر وہ چسکا پڑ جاتا ہے پھر وہ زندگی بھر اس کا وہ چسکا اتر تا نہیں ہے.اس لئے بڑے بڑے بھاری بھاری چندے وصول نہ کریں شروع میں جتنی توفیق ہے اتنا وصول کریں تا کہ وہ جو محبت کا مضمون ہے وہ قائم رہے چیٹی کا مضمون نہ آجائے.ایک دفعہ آپ نے نئے آنے والوں پر توفیق سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیا اور اصرار کیا کہ تم سولہواں حصہ ضرور دو اور فلاں میں اتنا دو اور فلاں چندے میں اتنا دوتو بعید نہیں کہ وہ چونکہ کمزور ہیں ان کی کمریں ٹوٹ جائیں اور ایمان میں بڑھنے کی بجائے وہ پہلے مقام سے بھی نیچے گر جائیں اس لئے حکمت کے تقاضے پورے کریں.خدا نے جو انفاق فی سبیل اللہ کی روح بیان فرمائی ہے کہ وہ تعلق باللہ ہونی چاہئے اور انسان اپنے شوق سے محبت کے طور پر پیش کرے اس رو سے جتنا کوئی توفیق پاتا ہے اس توفیق کو مدنظر رکھ کر اس سے لیں.لیکن کچھ نہ کچھ کی تو فیق تو ہر ایک رکھتا ہے اگر ایک معمولی رقم بھی وہ دے دے ، خوشی سے دیدے تو وہ بھی قبول کر لیں اور تعداد بڑھانے کی کوشش کریں.
خطبات طاہر جلد 15 18 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء تعداد تو جماعت میں مالوں کی بھی بڑھ رہی ہے اور انفس کی بھی بڑھ رہی ہے اس کے علاوہ ایک نظام ہے کہ جہاں تعداد کم بھی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ موت کے ذریعے خدا کا قطعی اہل نظام چلتا ہے کہ نیک ہوں یا بد ہوں سب نے بالآخر خدا کے حضور واپس جانا ہے.جو ترقی کرنے والی قومیں ہیں ان کے زندوں کی تعداد مرنے والوں کے مقابل پر بہت تیزی سے بڑھتی ہے.جو زندہ رہنے والی قومیں ہیں ان کے اندر صاحب ایمان اور پر خلوص اور تعلق باللہ رکھنے والوں کی تعداد ان کے مقابل پر بہت زیادہ بڑھتی ہے جو چھوڑ کر واپس خدا کے حضور حاضر ہور ہے ہوتے ہیں.حضرت مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کا میں نے ذکر کیا تھا ان کے علاوہ بھی کچھ جنازے ہیں.مولوی امیر احمد صاحب درویش قادیان سلمی صدیقہ صاحبہ امیر صاحب اسلام آباد علیم الدین صاحب کی بیگم، چوہدری فضل الہی صاحب ربوہ منور احمد صاحب لون، ہمکر مہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ علی محمد صاحب.یہ ہمارے شیر محمد کی بھا وجہ تھیں.مکرم ملک ناصراحمد صاحب ہم زلف ملک اشفاق احمد صاحب، افسر حفاظت یا نائب افسر حفاظت، ان سات کے جنازے بھی ابھی نماز جمعہ اور عصر کے بعد پڑھے جائیں گے.مولوی صاحب کے متعلق بالکل مختصر تعارف میں کروا دیتا ہوں کہ آپ کی پیدائش 17 دسمبر 1917ء کی ہے یعنی مجھ سے عمر میں گیارہ سال بڑے تھے اور اللہ کے فضل کے ساتھ بچپن ہی سے خدمت دین کے لئے وقف اور ہمہ تن خدمت دین خصوصاً علمی خدمت میں پیش پیش رہے.آپ کے دادا حضرت حکیم چراغ دین صاحب اور والد حضرت منشی عبدالحق صاحب دونوں صحابی تھے اور منشی صاحب کی اولا دسای خدا کے فضل سے دیندار، بہت نیک ،خدمت کرنے والی اور ان کی اگلی نسلیں بھی آگے پھر اسی رنگ میں رنگین ہیں.حضرت مصلح موعود کا دست شفقت خصوصیت سے حضرت مولوی صاحب پر ہوا کرتا تھا یہاں تک کہ بہت سے لوگ اس سے کچھ حسد نہیں تو رشک محسوس کیا کرتے تھے مگر دیکھنے والوں کو حسد لگا کرتا تھا.اس حد تک مولوی صاحب سے حضرت مصلح موعود شفقت فرمایا کرتے تھے کہ دوسرے علماء کو بھی تکلیف ہوتی تھی کہ اس میں کون سی زیادہ باتیں آگئیں ہیں جو اتنا لا ڈلا ہے اور بڑی بات یہ تھی کہ خدمت دین میں خصوصیت سے علمی خدمت میں مولوی صاحب کو ایک بڑے لمبے عرصے تک توفیق ملی ہے کہ مصلح موعود کی مدد کریں اور اس کا اظہار مختلف
خطبات طاہر جلد 15 19 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء رنگ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بھی فرمایا کہ قادیان میں 1943ء ہی میں جو تعلیمی کمیٹی انجمن کی قائم فرمائی جس کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تھے، اس میں مولوی صاحب کو بھی اپنی کم عمری کے باوجود اس زمانے کے لحاظ سے اس کا ممبر بنایا اور باقی ممبر جو تھے ان کا اندازہ کریں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ ملک غلام فرید صاحب ، مولانا شمس صاحب، ملک سیف الرحمان صاحب وغیرہ یہ اس کے ممبران تھے.پھر ایک موقع پر آپ کو ناظر انخلاء آبادی مقرر فرمایا گیا.جامعتہ المبشرین میں 1949ء میں آپ بطور مدرس مقرر ہوئے ، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جماعت میں جو عہدے ہیں ان کی کوئی خاص قیمت نہیں ہے.خدمت ہے بس.کسی وقت بھی کسی شخص کو کبھی ناظر بنا دیا جائے کبھی استاد بنا دیا جائے ، مجال ہے جو کبھی ماتھے پر بل پڑیں کہ میں ناظر تھا اب میں استاد بنا دیا گیا ہوں.اسی طرح شوق اور ولولے سے ہنستے کھیلتے مسکراتے ہوئے خدمت سرانجام دینے کی روح ہے جو جماعت کو زندہ رکھے ہوئے ہے.تو وہاں میرے بھی استاد تھے.قرآن کریم کے لئے ہمارے مولوی نورالحق صاحب بھی استاد ہوا کرتے تھے اور بڑی شفقت کا تعلق تھا ، بے تکلفی بھی تھی ، بچے ان کو تعلیم میں چھیڑا بھی کرتے تھے اور یہ سکرا کر کافی حوصلے کا ثبوت دیا کرتے تھے.یہ عجیب قسم کے ہمارے تعلقات ہوتے تھے، ادب بھی ہوتا تھا، بے تکلفیاں بھی تھیں.وقف جدید کا قیام ہوا ہے تو آغاز ہی سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ بھی مجلس وقف جدید کے ممبر رہے اور ہم ہمیشہ مالی معاملات میں حضرت مولوی صاحب کو ضرور مقرر کیا کرتے تھے کیونکہ یہ یقین تھا کہ یہ مالی نگرانی میں بہت اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں اور یقین ہوتا تھا کہ کسی غلط خرچ کی اجازت ہی نہیں دیں گے، اس لئے امانتوں پر دستخط کے لئے مولوی صاحب کا نام ضروری تھا اور اکاؤنٹس کو دیکھنے کے بعد جب تسلی کر لیتے تھے کہ ہر چیز درست خرچ ہو رہی ہے تب دستخط کیا کرتے تھے.پھر اراکین افتاء میں بھی آپ رہے، دارالقضاء کے بورڈ میں بھی رہے اور قرآن پبلیکیشنز ناظم بک ڈپو، سیکرٹری نصرت پرنٹرز رہ کر اہم خدمات سرانجام دیں.اب میں جو قرآن کریم کا اردو تر جمہ کر رہا ہوں اس میں بھی حسب سابق جیسا کہ حضرت مصلح موعود البعض علماء سے خدمتیں لیا کرتے تھے میں نے ایک ترجمتہ القرآن کمیٹی بنائی ہے ربوہ میں جو میرے ترجمے پر گہری نظر ڈالتے ہیں کہیں کوئی گرائمر کی غلطی میری لا علمی کی وجہ سے رہ گئی ہو یا کوئی ایسا نقطہ جو میری توجہ میں لانا ضروری ہو وہ بڑی محنت
خطبات طاہر جلد 15 20 20 خطبہ جمعہ 5 /جنوری 1996ء سے اس پر غور کرتے ہیں تفصیل سے چھان بین کر کے اپنا مافی الضمیر میرے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کی بات سے اتفاق کروں یا نہ کروں.بسا اوقات کرتا ہوں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثر تجویز میں رد کرنی پڑتی ہیں وہ سمجھتے ہیں تو بڑی خوشی سے پھر قبول کر لیتے ہیں کہ ہاں یہ بات درست ہے تو اس طرح ہم مل جل کر خدمت کر رہے ہیں.مولوی نورالحق صاحب کو بھی اس میں مقرر کیا گیا تھا اور اس میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے.ہر میٹنگ میں شامل ہوتے تھے اور بڑی گہری نظر سے مشورہ بھیجا کرتے تھے جب میں مشورہ رد بھی کر دیتا تھا تو خوش ہوتے تھے اور کہتے تھے ہاں میں سمجھ گیا ہوں آپ کی بات درست میری غلط اور جب قبول کرتا تھا تو شاید اور بھی زیادہ خوش ہوتے ہوں مگر اچھے تعلقات رہے ہمیشہ ان سے اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے.وہ پود جو واقفین کی اس زمانے کی قادیان کی پود ہے وہ عجیب بے نظیر پود تھی.کچھ رہ گئے ہیں بہت سے رخصت ہو گئے.جو رہ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے پیار اور اپنی رضا کی چادر میں لپیٹ کر یہاں سے لے جائے اور جو چلے گئے ہیں ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.پس نماز جمعہ کے بعد نما ز عصر ہوگی کیونکہ آج کل دن چھوٹے ہیں اور اس کے معا بعد انشاء اللہ ان سب کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.
خطبات طاہر جلد 15 21 24 خطبہ جمعہ 12 جنوری 1996ء ہر ظلمت سے نکلنے کی ایک الگ راہِ سلام ہے اور ہر راہ سلام یر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روشنی ڈال رہے ہیں.( خطبه جمعه فرمودہ 12 جنوری 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) (المائدہ: 16 تا 17) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : يَاهْلَ الْكِتَبِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرً ا مِمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيرِ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتُبُ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوْابِهِ وَعَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِي أنْزِلَ مَعَةَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف: 158) اس سے پہلے جو دو آیات کی تلاوت کی گئی تھی وہ سورہ المائدہ آیات 16 تا 17 ہیں.پس یہ
خطبات طاہر جلد 15 22 22 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء دو مختلف مقامات ہیں جن سے آیات کا انتخاب کیا گیا ہے.پہلی دو آیات سورہ المائدہ سے لی گئیں اور دوسری آیت جو بعد میں پڑھی گئی وہ سورۃ الاعراف سے ہے.ان کو اس لئے اکٹھا تلاوت کیا گیا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور قرآن کریم میں جو ہر قسم کے جوڑوں کا ذکر ملتا ہے ان طیبات کے جوڑوں میں سے آیات کے بھی جوڑے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتی ہیں ایک دوسرے میں اٹھائے ہوئے مضامین کی مزید تشریح بھی کرتی ہیں.پس یہ ایسا ہی ایک آیات کا جوڑا ہے جو بعینہ ایک دوسرے پر منطبق ہو رہا ہے مگر مضامین کھولنے میں مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتی ہیں اس لئے بات بہت زیادہ کھل کر سامنے آجاتی ہے.پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اہل کتاب قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ وہ خوب کھول کر بیان کرتا ہے، بکثرت ایسی باتوں کو مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ کہ جن کے متعلق تم اخفاء سے کام لیا کرتے تھے مِنَ الكتب کتاب میں سے وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرِ اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی فرماتا ہے قَدْ جَاءَ كُمْ مِّنَ اللهِ نُورُ وَ كِتُبُ مُّبِينٌ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک عظیم الشان نور آچکا ہے.وہ کتب مبین اور ایک روشن کتاب آچکی ہے.اس آیت کا جو پہلا حصہ ہے وہ اس آیت کے آخری حصہ پر منطبق ہوتا ہے اور دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر مضمون کھل جاتا ہے.پر قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا کی تشریح میں فرمایا قَدْ جَاءَ كُمْ مِّنَ اللهِ نُور یعنی رسول جو آیا ہے وہ نور ہے اور اس بات میں ایک ادنی سا بھی شبہ باقی نہیں رہتا کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے اس رسول کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتا ہے کہ قَدْ جَاءَ كُمْ مِنَ اللهِ نُور اور لفظ قَدْ جَاءَ كُم وہی ہیں جو پہلی آیت کے شروع میں بیان فرمائے گئے ہیں.دوسرا کتب مبین فرمایا ہے اور پہلی آیت میں رَسُولُنَا کے بعد يُبَيِّنُ کا لفظ جو رکھا گیا ہے وہ دراصل کتب مبین کی طرف اشارہ فرما رہا ہے کیونکہ رسول اپنی طرف سے کوئی تبیین نہیں کرتا، کوئی روشنی مضامین پر اپنی ذات سے نہیں ڈالتا بلکہ کتاب اللہ کے حوالے سے وہ امور کو روشن کرتا ہے.تو يُبَيِّنُ کی تفسیر ہے یہ کتب مبین ایک روشن کتاب بھی اس کے ساتھ آئی ہے اور جب وہ نور، الہی امور پر یا دنیا کے امور پر تمہاری ہدایت کے لئے روشنی ڈالتا ہے تو ہمیشہ وہ اس کتاب کے نور
خطبات طاہر جلد 15 23 23 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء سے استفادہ کرتے ہوئے ان مضامین کو کھولتا ہے.یهْدِى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلمِ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ، اب ضمیر ساری رسول کی طرف ہی پھیری جارہی ہے آغاز ہی سے رسول کے مضمون کو اول طور پر اٹھایا گیا ہے.یهْدِى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ اللہ اس رسول کے ذریعے ، اس نور کے ذریعہ ، جو آسمان سے اترا ہے ہدایت دیتا ہے مَنِ التَّبَعَ رِضْوَانَہ اس کو جو اللہ کی رضا چاہتا ہے.اب جہاں رضوان کا تعلق ہے وہاں رسول کی رضوان کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ رسول کی رضا کامل طور پر اللہ کی رضا کی تابع ہوتی ہے اور رضوان چاہنے میں رسول پیش نظر نہیں بلکہ اللہ پیش نظر ہوتا ہے.جو اللہ کی رضا چاہے اس سے اللہ بھی راضی ، اس کا رسول بھی راضی ، اس پر دیگر تمام ایمان لانے والے بھی راضی ہو جاتے ہیں.اس لئے یا درکھیں تقویٰ کا فیصلہ رضوان اللہ سے ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نمائندوں کے حوالے سے تقویٰ نہیں ہوا کرتا.تقویٰ صرف خدا کا ہے اور اس مضمون میں تقویٰ اور نور در اصل ایک ہی چیز کے دو نام دکھائی دیتے ہیں مگر اس معاملے میں شاید میں کچھ باتیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں سر دست میں ایک دوسرے پہلو سے آپ کے سامنے یہ آیات رکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ جو اللہ کی رضا چاہتا ہے اس کو محمد رسول اللہ ہے ہدایت دیتے ہیں سُبُلَ السّلم سلامتی کے رستوں کی طرف.اب سوال اٹھتا ہے کہ راستہ تو ایک ہی ہے جس کی طرف دعا سکھائی گئی کہ اے خدا ہمیں اس رستے کی طرف ہدایت دے وہ ہے اِھدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ (6) سیدھے رستے کی طرف جس پر انعام یافتہ لوگ سفر کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے کی ہمیں توفیق بخش.یہاں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے يَهْدِى بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ، جو بھی اللہ کی رضا چاہتا ہے اس کو یہ رسول ہدایت دیتا ہے سُبُلَ السَّامِ سلام کے رستوں کی طرف لیکن کیوں ان سلام کے رستوں کی طرف ہدایت دیتا ہے.ان کی اپنی منزل کس طرف ہے.فرمایا وَ يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وہ ان کو مختلف قسم کے اندھیروں میں سے نکالتا ہے نور کی طرف بِاِذْنِ اللہ کے حکم سے يَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مستقیم اور انہیں ہدایت دیتا ہے صراط مستقیم کی طرف تو وہ جو رستوں کا زیادہ ہونا ذہن میں تعجب پیدا کر رہا تھا کہ قرآن کریم تو ایک صراط مستقیم ہی کی طرف بلاتا ہے، اللہ کا رسول مختلف سلام کے
خطبات طاہر جلد 15 24 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء رستوں کی طرف کیوں ہدایت دیتا ہے.یہ مضمون خوب کھل گیا اور مسئلہ حل ہو گیا.فرمایا کہ مختلف سلام کے رستوں پر ان کو چلاتے ہوئے صراط مستقیم تک پہنچا دیتا ہے اور صراط مستقیم تک پہنچنا ہی نور پانا ہے.پس جو بھی اندھیروں سے نکلتا ہے وہ یک دفعہ ایک دم صراط مستقیم پر نہیں آ جایا کرتا.جو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جستجو شروع کرتا ہے آنحضرت ملے جو اللہ کے نور کے نور ہیں وہ اپنی روشنی کے پیچھے پیچھے ان کو چلاتے ہیں اور وہ روشنی ہمیشہ سلامتی کے رستوں پر چلاتی ہے کیونکہ جور ستے روشن ہوں ان میں ٹھوکر کا کوئی امکان نہیں ہوتا.جن رستوں پر اندھیرے ہوں یا سائے ہوں کچھ نہ دکھائی دینے والے خطرات چھپے ہوئے ہوں ان کو سُبُلَ السّلام نہیں کہا جا سکتا.الله پس سُبُلَ السَّلمِ کا ایک تعلق ظلمات کے جمع ہونے سے ہے.ظلمات کا لفظ جمع میں استعمال ہوا ہے یعنی مختلف قسم کے انسان مختلف قسم کے اندھیروں میں مبتلا ہیں.کچھ شرک کے مختلف اندھیروں میں مبتلا ہیں، کچھ بالعمد گناہ کے، کچھ دہریت کے اندھیروں میں مبتلا ہیں، کچھ نفس کی اندرونی کمزوریوں میں طرح طرح سے اس طرح گھرے ہوئے ہیں کہ ان سے نکلنے کی راہ نہیں پاتے ، یہ سب ظلمات ہیں.ہر ظلمت سے نکلنے کی ایک الگ راہ سلام ہے اور ہر راہِ سلام پر محمد رسول الله روشنی ڈال رہے ہیں.یعنی کوئی بھی ایسی پیچیدگی نہیں جس میں انسان گھیرا گیا ہو، جس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا ہو مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہر ایسے موقع پر ہدایت کی راہ دکھائی ہے اور وہ راه سلامتی کا رستہ ہے.اس راہ کو اختیار نہیں کرو گے تو خطرات میں گھرے رہو گے.اس راہ پر نہیں چلو گے تو ان خطرات کا لقمہ بن جاؤ گے ، ان کا نشانہ ہو جاؤ گے اور یہ جو سلامتی کی راہ ہے یہ محض خطروں سے بچانے کی خاطر نہیں بلکہ نور کی طرف لے جانے اور صراط مستقیم تک پہنچانے کے لئے اختیار کرنی ضروری ہے.اس لئے کس طرح رفتہ رفتہ انسانی نفس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.کس طرح وہ مختلف خطرات کے چنگل سے نکل کر آخر صراط مستقیم تک پہنچتا ہے.اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ یہ تب ہی ممکن ہے اگر تم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرو اور اپنی ہر خامی کے مقابل پر وہ تعلیم ڈھونڈ و جس میں اس خامی کا علاج ہے اور ایک بھی انسانی کمزوری ایسی نہیں ، ایک بھی انسانی ظلمت ایسی نہیں ہے جس کے مقابل پر آنحضر طور پر سہارا نہ دے رہے ہوں اور معین طور پر روشنی نہ ڈال رہے ہوں.
خطبات طاہر جلد 15 25 25 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء پس نور ایسا ہے جو رسول کی صورت میں اترا نو را ایسا ہے جس کے ساتھ ایک نورانی کتاب اتری، نورایسا ہے جو ہر اندھیرے کے خواص کے مقابل پر ایک روشنی کا جواب اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ معین رستے بیان فرماتا ہے جہاں سے چل کر بالآخر تمہارا سفرنور کا سفر ہو جائے گا.يُخْرِجُهُم مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ بِاِذْنِهِ بِاِذْنِهِ سے وہی بات پہلے والی دوبارہ سامنے کھول کر رکھ دی کہ نبی کتاب سے تبیین کرتا ہے.اس کتاب سے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے نور نازل فرمائے ہیں.نبی خود نور ہے مگر پھر بھی اپنی ذات سے از خود کو ئی تعلیم نہیں دیتا.وہ تعلیم جو قرآن کریم میں اتری ہے اسی تعلیم سے استفادہ فرماتا ہے.پس یہ جب اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے تو ہر ایسے موقع پر باذن اللہ کی طرف سے مجاز ہوتا ہے، اللہ کی ہدایت کے تابع ایسا کر رہا ہوتا ہے اس لئے اس کے پیچھے چلنے میں کوئی خوف نہیں ہے.کوئی خطرہ نہیں ہے.جو خود بھی نور ہو ، جس کی ہدایت کی کتاب بھی نور ہو، جو ہر قدم پر اللہ کی راہنمائی اور اجازت سے اقدام کرتا ہے.اس سے زیادہ محفوظ را ہنما دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے پس یہ ہے آنحضرت مﷺ کا نزول نور کے طور پر اور قرآن اور بنی نوع انسان سے آپ کے تعلق کے مضمون میں یہ آیت بہت ہی حیرت انگیز طور پر جامع اور مانع ہے مگر ایک پیغام ہے ، ایک ہدایت ہے، اے اہل کتاب ایسا کرو کیونکہ تمہارے پاس وہ رسول آچکا ہے.اس لئے رسول سے مراد وہ رسول ہے جس کا ذکر اہل کتاب کے صحیفوں میں ملتا ہے.جب الکتب کہتے ہیں تو ایک کتاب مراد نہیں ہے.بظاہر عنوان الكتب ہی کا دیا جاتا ہے مگر وہ کتاب جس کو Old Testament کہا جاتا ہے اس میں کئی صحیفے ہیں، کئی کتب ہیں.پس الکتب میں وہ ساری کتب شامل ہیں اور ان سب کتب میں کسی نہ کسی رنگ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی موجود ہے.اب اس کے نتیجے میں کیا واقعہ ہوا؟ کیا کسی نے قبول کیا؟ اگر کیا تو اس کو خدا نے اس کا کیا اجر دیا یہ جواب ہے جو سورۃ الاعراف آیت 158 میں بیان ہوا ہے اور الاعراف میں اس کا بیان ہونا بہت ہی ایک لطیف شان رکھتا ہے کیونکہ الاعراف وہ سورۃ ہے جس میں یہ پیش گوئی فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھی جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایک بہت ہی بلند مقام پر فائز ہوں گے اور آنے والوں کو ان کے چہرے دیکھ دیکھ کر پہچانیں گے.ان کو دیکھتے ہی معلوم ہو جائے گا کہ یہ جہنمی لوگ ہیں یا جنتی لوگ ہیں
خطبات طاہر جلد 15 26 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء اور جنتی لوگوں کو وہ جنت کی خوشخبریاں دیں گے.پس سورۃ الاعراف میں ان کی پہچان بیان فرمائی گئی کہ اب ہم ان لوگوں کا حال بیان کرتے ہیں جنہوں نے اس ہدایت کو قبول کر لیا جو ان کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی.فرماتا ہے الَّذِينَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّورية - دیکھو کیسے خوش نصیب لوگ ہیں، ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اس رسول کی پیروی کی جن کی پیروی کی ان کو ہدایت کی گئی تھی.النَّبِيُّ الْأُتِی ایسا نبی جو امی ہے.پس اگر ہدایت دیتا ہے تو اللہ سے علم پا کر دیتا ہے ورنہ اپنی ذات میں وہ ہدایت دینے کا دعوی ہی نہیں کرتا.الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّورية وہ وہی نبی ہے جس کے متعلق وہ تو رات میں اپنے پاس لکھا ہوا دیکھتے ہیں وَالإِنْجِیلِ اور انجیل میں بھی.پس اہل کتاب کو مخاطب کیا گیا تھا آؤ اور اس نبی کی پیروی کرو جو سراپا نور ہے اور اب بتایا جا رہا ہے کہ ان اہل کتاب میں سے ایسے بھی خوش نصیب ہیں جو پیروی کرتے ہیں يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ اب اندھیروں سے نور کی طرف نکالنے کا مطلب کیا ہے؟ اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے کہ جب یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں تو يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ان کو ہدایت دیتا ہے.امر فرماتا ہے یعنی لفظ امر کا لفظی ترجمہ تو حکم ہے مگر مراد یہی ہے کہ ان کو تلقین فرماتا ہے، ان کو ہدایت دیتا ہے بِالْمَعْرُوفِ نیک کاموں کی وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ اور ان کو معیوب باتوں سے روکتا ہے.الْمُنكَرِ ایسی معیوب باتیں جو ہر جگہ، ہر ملک، ہر قوم میں انسانی فطرت کی رو سے بری سمجھی جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.جھوٹ جھوٹ ہے، ظلم ظلم ہے، دھوکہ دھوکہ ہے، یہ ایسی باتیں ہیں جو کھلی کھلی سب کے علم میں ہیں اور کسی کتاب کے حوالے سے آپ نہیں کہا کرتے ، کتاب کے حوالے سے کہہ تو سکتے ہیں مگر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ جھوٹ بری بات ہے.پس فرمایا وہ ان کو منکر سے روکتا ہے.وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبت اور بہترین چیزیں ان پر حلال کرتا ہے.صرف وہ چیزیں حلال نہیں کرتا جو کھائی جاسکتی ہیں.جو کھائی جا سکتی ہیں ان میں جو سب سے اچھی ہیں وہ ان پر حلال کرتا ہے وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ اور جو خبیث چیزیں ہیں اور پلید چیزیں ہیں وہ ان پر حرام کر دیتا ہے.وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ اور ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے وَالْأَغْلَلَ الَّتِي
خطبات طاہر جلد 15 27 27 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء كَانَتْ عَلَيْهِمُ اور طوق ان کے کھولتا ہے گردنوں سے اور اتار کے پھینک دیتا ہے جو ان کی گردنوں میں مدتوں سے پڑے ہوئے تھے.کیسا عظیم مضمون ہے اندھیروں سے نور کی طرف نکالنے کا.وہ سُبُلَ السَّلمِ بیان فرما دی گئیں جن کا اس آیت میں ذکر تھا کہ امن کی جو راہیں یہ کھولتا ہے یہ تمہیں پکڑ کر امن کے رستوں پر چلاتا ہے، ان سب امور میں یہ محنت کرتا ہے اور تمہیں ہر معاملے میں، ہر مصیبت سے بچاتے ہوئے امن کی راہوں پر ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر لے کے چلتا ہے اور ساری محنت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہوئی ہے.یہ ایک بہت ہی پر لطف بات ہے کہ اگر حضرت محمد رسول اللہ ہم کمزوروں اور گناہ گاروں پر محنت نہ فرماتے تو ممکن نہیں تھا ہمارے لئے ہمیں نصیب نہیں ہو سکتی تھیں وہ امن کی راہیں ممکن نہیں تھا کہ ہم از خود اپنی طاقت سے ان پر چل صلى الله سکتے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر رسول اللہ ﷺ پر سارا بوجھ ڈال دیا ہے اور یہ بوجھ ڈالنا منفی معنوں میں نہیں ہے بلکہ مثبت معنوں میں ہے فرمایا تم کیا چیز تھے یہ سب کچھ یہی رسول کر رہا ہے تمہارے لئے تم نے صرف حامی بھری ہے اس کے پیچھے چلنے کی اور اسی کی جزا تمہیں عطا کی جارہی ہے.گردنوں کے طوق اتارے ، خبیث چیزوں پر مطلع کیا، پاک چیزیں سمجھائیں ، ہر قسم کی اچھی اور بری باتیں ان کو بتلائیں اور ان کے بوجھ اتار لئے.یہ بوجھ کیا ہیں اگر آپ ان کو نہیں سمجھیں گے ،اگر ان طوقوں پر نظر نہیں رکھیں گے جو آنحضرت ﷺ نے گردنوں سے اتار کر پھینک دئے تھے اور یہ خطرہ محسوس نہیں کریں گے کہ کہیں ہم نے ان بوجھوں کو پھر تو نہیں اٹھا لیا.ان گرے پڑے دھتکارے ہوئے بوجھوں کو پھر تو نہیں اٹھا کے اپنے کندھوں پر لگا بیٹھے یاوہ گردن کے طوق پھر تو نہیں پہن لئے جن سے آنحضرت ﷺ نے ہمیں آزادی بخشی تھی.پس وہ تمام رسوم، وہ تمام جاہلانہ باتیں، وہ تصورات ، وہ تو ہمات وہ روایتی ایسی بد عادات جو قوموں کے لئے واقعہ ان کے پاؤں کی زنجیریں بن جاتی ہیں یا گردنوں کے طوق بن جاتی ہیں ان کو راہ راست پر ہدایت کے رستوں پر چلنے کی توفیق نہیں الله رہتی.وہ ساری باتیں ایسی ہیں جن سے آنحضرت ﷺ نے باخبر فرما دیا ہے اور جب تک وہ بوجھ اتارے نہ جائیں، جب تک گردنوں کو طوقوں سے آزاد نہ کیا جائے سُبُلَ السَّلمِ کی طرف لے جایا جا ہی نہیں سکتا.اس لئے آخر پر طوقوں کا ذکر فرمایا ہے.فرمایا ہے جب تک تم آزاد نہیں ہو گے تم کیسے محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چلو گے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تمہیں آزاد کرنے کا بھی ذمہ
خطبات طاہر جلد 15 28 خطبہ جمعہ 12 جنوری 1996ء لیتے ہیں.خود تم پر محنت کریں گے، تمہیں پاک وصاف کریں گے، تمہیں ہلکا کردیں گے تا کہ آسانی سے تم سلامتی کی راہوں پر دوڑ سکو اور پھر تمہاری گردن کے طوق کاٹ کے کہیں گے آؤ اب چلو.جس طرح ڈرائیور دنیا میں بھی انجن چلا کر بر یک سب سے بعد میں اٹھاتا ہے اور یہی سب سے محفوظ طریق ہے تو جب تک بریکوں سے پاؤں نہ اٹھے آزادی نصیب نہ ہو ، موٹر ہر طرح سے تیار بھی ہو تو چل نہیں سکتی.تو پہلے اس کا انجن درست کیا ، اس کے اندر ساری خامیوں سے پاک وصاف کیا.اس کو چلنے کی طاقت بخشی اور پھر گردنوں کے طوق کاٹ کے پھینک دیئے یعنی وہ دنیا کی آلائشیں، وہ دنیا کے تعلقات جو یہ سمجھ آنے کے باوجود کہ یہ اچھی راہ ہے انسان کو اس راہ پر چلنے سے باز رکھتے ہیں.کیا یہ طوق ہماری گردنوں سے ایک دفعہ جو کاٹ کے پھینک دئے گئے دوبارہ ہماری گردنوں میں آتو نہیں گئے ؟ یہ فیصلہ ہر انسان کے لئے بڑا آسان ہے.جب بھی اسے برائیوں سے روکا جاتا ہے ، جب بھی اسے نیک باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے تو اس کے دل سے ہمیشہ بلا استثناء ایک آواز اٹھتی ہے.ایک آواز یہ اٹھتی ہے کہ الحمد للہ میں تو اس معاملے میں تیار بیٹھا ہوں سفر کے لئے سفر پہ روانہ ہونے والا ہوں اور ایک آواز اٹھتی ہے کہ بہت بوجھل تعلیم ہے ، بڑا مشکل کام ہے.اتنی باتوں پہ کون عمل کر سکتا ہے اور ایسا انسان پھر وہیں بیٹھا کا بیٹھا رہ جاتا ہے.پھر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو فیصلہ تو یہی دیتے ہیں کہ یہ بہت مشکل تعلیم ہے ہم سُبُلَ السَّلم پر چلنے کے ابھی اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتے مگر بے چین ضرور ہوتے ہیں.بے قراری دل میں پیدا ہوتی ہے ، اپنے آپ پر حسرت کی نظر ڈالتے ہیں.کہتے ہیں کاش ہم بھی وہ ہوتے جو اس رسول کے پیچھے سلام کے رستوں پر ہلکے قدموں کے ساتھ پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہوتے.ان کا معاملہ ایسا ہے جن پر اکثر اللہ اپنے رحم کی نظر ڈالتا ہے اور سوائے اس کے کہ خدا کی حکمت کا ملہ سمجھے کہ ان کے اندر بعض ایسی بنیادی کمزوریاں ہیں کہ ہدایت کے لائق نہیں ہیں، رفتہ رفتہ ان کے بھی بوجھ اتار دیئے جاتے ہیں.مگر یہ بات کہ بوجھ ہم پر ہیں کہ نہیں، یہ بات کہ ہماری گردنیں طوقوں کے اندر جکڑی ہوئی ہیں کہ نہیں ، یہ کوئی ایسی راز کی بات نہیں ہے جس کو سمجھنا بالکل کوئی دور کی بات ہو، بڑے بھاری علم کی ضرورت ہو، یہ تو کھلی کھلی بات ہے.پس جب بھی خدا اور اس کے رسول کی کوئی آواز آپ کے کانوں میں پڑتی ہے اس وقت آپ کے دل کی کیفیات آپ کو بتا دیتی ہیں کہ کتنا آپ پر بوجھ ہے اور کس حد تک آپ آزاد یا قید
خطبات طاہر جلد 15 29 29 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء ہیں اور بسا اوقات بعض رستوں میں انسان آزاد ہوتا ہے اور بعض رستوں میں قید ہوتا ہے اور بیک وقت یہ سلسلہ جاری ہے.بعض سلامتی کے رستے ایک انسان اپنے مزاج کے مطابق آسانی سے طے کر رہا ہوتا ہے اور اسی وقت وہ دوسرے رستوں میں جکڑا ہوا بھی پایا جاتا ہے.بظاہر ایک شخصیت ہے مگر اس کے مختلف قالب مختلف رستوں پر بیٹھے ہی چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.پس اس پہلو سے یہ جو Split Personality کا مضمون ہے جو گہری حکمت رکھتا ہے.نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں بعض لوگوں کی پرسنیلیٹی Split ہو جاتی ہے.وہ بیک وقت اپنے آپ کو دو مختلف وجود سمجھ رہے ہوتے ہیں اور یہ وہ دیوانہ پن کی نشانی سمجھتے ہیں لیکن دیوانے کا کام نہیں بہت بڑے عارف کا بھی یہی کام ہے کہ اپنی Split Personality کو پہچانے اور دیکھے میں کہاں کہاں تقسیم ہو چکا ہوں.اسی لئے جنت میں جو سات دروازوں کا حکم ہے کہ سات دروازوں سے انسان داخل ہو سکتا ہے یا جہنم کے مختلف دروازوں کا ذکر ہے تو اس میں یہی حکمت ہے.یہ تو نہیں کہ ایک آدمی بٹ کر ، پھٹ کر ، سات چیتھڑے بن جائے گا.ایک چیتھڑا ایک دروازے سے جا رہا ہوگا اور دوسرا چیتھڑا دوسرے دروازے سے جار ہا ہوگا.اس کی جو روحانی طور پر Split Personality ہے وہ جب جنت میں داخل ہوگی تو وہ لطف اٹھائے گی اگر وہ سات دروازوں والی Personality ہے تو سات گنا لطف اس کو دوسروں سے زیادہ آرہے ہوں گے یا ایسے ایسے لطف آرہے ہوں گے جن میں بعض دوسرے شریک نہیں ہورہے ہوں گے.پس ایک سات دروازوں والی جنت ہے اور بظاہر وہی جنت ہے جس میں سب داخل ہورہے ہیں مگر کوئی ایک دروازے سے داخل ہورہا ہے کوئی دو دروازوں سے داخل ہورہا ہے کوئی تین دروازوں سے داخل ہو رہا ہے لیکن اس کے مقابل پر ایک بڑا مکر وہ نظارہ ہے کہ جہنم میں بھی مختلف دروازے ہیں اور کوئی تمام دروازوں سے وہاں داخل ہو رہا ہے.جہنم کی تمام تر بدبختیاں اٹھائے ہوئے ، ہر قسم کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے ہوئے جو جہنم میں بھی اس کی گردن پر اسی طرح پڑے رہیں گے.یہ وہ باتیں ہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر قرآن کی صورت میں نازل ہوئیں اور آپ نے اپنے نور سے ہم پر روشن فرمائیں اور اس کی تفصیل میں کوئی ایک ایسا پہلو بھی باقی نہیں چھوڑا جو سمجھانا ضروری ہو اور آپ نے نہ سمجھایا ہو.اتنی باریکیوں میں اتر نے والا رسول ہے کہ تمام دنیا کے رسولوں کی تعلیمات کو اکٹھا کر کے دیکھ لیں آنحضرت ﷺ نے جس طرح تفصیلی روشنی
خطبات طاہر جلد 15 30 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء ڈالی ہے اس کا عشر عشیر بھی کہیں دکھائی نہیں دے گا اور جو اندھا ہو، بدنصیب ہو، وہ جاہل انہیں باتوں پر آنحضرت ﷺ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.ایسے بدبخت پیدا ہو جاتے ہیں جو نام رشد کا رکھتے ہیں اور مجسم ذلالت ہوتے ہیں.مذاق اڑاتے ہیں، طرح طرح کے آوازے کستے ہیں کہ دیکھو یہ کیسا رسول ہے جس نے وضو کی تفصیل بھی سکھائی ہے یہ بھی بتایا ہے کہ یہاں اس طرح کرو گے تو وضو ٹوٹ جائے گا، یہ بھی بتایا کہ دیکھو ایڑی کا خیال رکھنا ، یہ حصہ جہنم میں نہ چلا جائے ، اتنی بار یک تفصیل کون انسان ان پابندیوں میں جکڑنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے.بڑی مصیبت ہے ، بڑا مصیبت کا مذہب ہے.حالانکہ اس مضمون کو آپ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو اتنا کامل مذہب ہے،اتناAdvanced مذہب ہے کہ کوئی باریک سے باریک ایسا خطرہ نہیں جو ایک مسافر کو رستے میں پیش آسکتا ہو جس کے متعلق کھلے کھلے سائن بورڈز نہ لگا دیئے گئے ہوں روشن حروف میں نہ لکھا گیا ہو اور تفصیل میں خطرات سے آگاہ کرنا اور تفصیل کے ساتھ اس منظر کی خوبیوں پر آگاہ کرنا جس منظر کی تلاش میں انسان نکلا ہے، جس سیر پہ انسان روانہ ہوا ہے، یہ انتہائی ترقی یافتہ صورتیں ہیں نہ کہ وہ جیسے ایک جاہل کو نظر آرہا ہے کہ دخل اندازی ہو رہی ہے.اب وہی جاہل جب انگلستان میں یا امریکہ کی سڑکوں پر موٹر پر روانہ ہوتا ہے تو کبھی اس کو خیال بھی نہیں آیا کہ کس مصیبت میں مبتلا ہو گیا ہے.جگہ جگہ بورڈ لگے ہوئے ہیں کہ یہاں خطرہ ہے آگے ٹریفک بند ہو رہی ہے ، آگے پھسلن آگئی ہے، آگے Black lce ہے ، آگے موڑ بڑا سخت ہے تو اس کو تو اس ملک کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہئے.ایسا جاہلانہ ملک کوئی باریک سے بار یک چیز بھی نہیں ہے جس کو چھوڑ دیا گیا ہو اور ہدایتیں ہیں، سیر پر جارہے ہیں کہ دیکھو فلاں پہاڑی میں فلاں جگہ دیکھنا نہ بھولنا، وہاں ایک غار بھی ہے،اس غار کا منظر بڑا ہی خوبصورت ہے.اس میں آواز دو گے تو نیچے سے تمہیں اپنی آواز سنائی دے گی اور اس رنگ میں سنائی دے گی جیسے وہ کئی آوازیں بن چکی ہیں اور ایک کے بعد دوسری، تیسری، چوتھی ایک کم گہرائی سے پھر دوسری زیادہ گہرائی سے، پھر اس سے زیادہ گہرائی سے آواز آئے گی.ایک حیرت انگیز گوش کی جنت یعنی کانوں کی جنت بن جاتی ہے.یہ شخص وہاں پہنچے، دیکھے کہے کیسا پاگلوں والا ملک ہے ہر خوبصورت جگہ کی تفصیل بے ضرورت خواہ خواہ بیان کی ہوئی ہے.ہم باشعور لوگ نہیں ہیں؟ کیا یہ ترقی یافتہ زمانہ نہیں ہے؟ کیا ہم خود نہیں سمجھ سکتے کہ فلاں چیز دیکھنی ہے اور فلاں نہیں دیکھنی.
خطبات طاہر جلد 15 ہے؟ لیکن کوئی نہیں سمجھ سکتا.31 4 خطبہ جمعہ 12 جنوری 1996ء امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک ان گائیڈ ز Guides کو لے کر ساتھ نہ چلیں جو کسی نئے ملک کے سفر میں آپ کی راہنمائی کرتے ہیں کہ کیا دیکھنا اور کن خطروں سے بچنا، نہ انسان خطروں سے بیچ کر واپس آسکتا ہے نہ ان مناظر کے حسن سے صحیح لطف اندوز ہوسکتا ہے.تو قرآن کریم میں جس رسول ﷺ کا تعارف فرمایا گیا ہے وہ ، وہ نور ہے جس نے ہر چیز کی تفصیل بیان کر دی ہے، ہر خطرے سے آگاہ کر دیا ہے.بات کھولتا ہے پھر گردنوں کے طوق اتارتا ہے پھر کہتا ہے آؤ میرے پیچھے چلو جس راہ پر میں چلوں گا وہ سلامتی کی راہ ہوگی اور یہ راہ ایک ہی طرف چلتی ہے.جس طرف سے بھی آؤ گے میرے پیچھے لگوگے تو لازماً صراط مستقیم پر پہنچو گے اور صراط مستقیم وہ ہے جو نور کا سفر ہے.تو نور پر آنے سے پہلے اندھیروں سے نجات ضروری ہے اور اندھیروں سے بیک وقت نجات ضروری نہیں بلکہ کوشش فرض ہے پھر اگر آنحضرت ﷺ سے استفادہ کرو گے تو ہر اندھیرے سے نکلنے کی ایک راہ آپ بتائیں گے.اس راہ پر چلو اس حد تک تم سلامتی کی راہ پر چل رہے ہو گے.پھر ایک اور راہ اختیار کرو گے وہ بھی سلامتی کی راہ ہوگی یہاں تک کہ اپنے نفس کا جتنا گہرائی سے جائزہ لو گے ، جتنا اپنے اندھیروں سے ، اپنی ذات کے اندھیروں سے آگاہ ہوتے چلے جاؤ گے اتنا ہی حضرت محمد رسول اللہ کی ضرورت تم پر روشن ہوتی چلی جائے گی اور کوئی بھی الجھن ایسی نہیں ہے جس کا حل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے پیش نہ فرما دیا ہو کیونکہ فرمایا : وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ باذنہ ہر قسم کی ظلمات سے وہ اللہ کے حکم سے ان کو نکالتا چلا جاتا ہے وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مستقیم اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے.اس مضمون کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَالَّذِيْنَ آمَنُوْابِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ پس وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لے آئے جس پر ایمان لانے کی اہل کتاب کو اور ان کے حوالے سے سب دنیا کو دعوت دی گئی تھی وَعَذَرُوهُ اور اس کو طاقت پہنچائی.اب ایمان لانا کافی نہیں ہے جب تک اس رسول کو تقویت نہ پہنچا ئیں جس نے سب دنیا کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے.اس کو مددگاروں کی ضرورت ہے اس کو ایسے ہی اور وجودوں کی ضرورت ہے جو اس کے پیچھے چل کر محض اپنی نجات پر مطمئن نہ ہوں بلکہ اسی کے رنگ میں رنگین ہو کر تمام بنی نوع انسان کی
خطبات طاہر جلد 15 32 32 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء نجات کے لئے کوشش شروع کر دیں عَزَّرُوهُ وَنَصَرُوہ وہ اس کو طاقت پہنچاتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اس کی نصرت کرتے ہیں.وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةَ اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے یعنی کتاب.پس بار ہا اس سلسلہ مضامین میں میں نے صلى الله جو آپ کو متوجہ کیا ہے کہ نور کی حیثیت سے حضرت اقدس محمد مصطفی امی اور کتاب میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ کتاب جو کچھ کہتی ہے اسے محمد نے اپنا لیا اور اس لئے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نور اپنی ذات میں نور ہونے کے باوجود بنی نوع انسان پر ہدایت کے لئے نہیں چھکا جب تک کہ وہ کتاب نہ نازل ہو گئی جس میں نور تک پہنچانے کے لئے تمام تفاصیل موجود تھیں، ہر قسم کے احکامات موجود تھے.یہ ہے مضمون جے نُورٌ عَلَی نُورٍ (النور: 36) کہا گیا ہے.اس لئے نُورٌ عَلَى نُورٍ کہہ صلى الله کے محض خالی تصور میں ایک نشے کی حالت پیدا نہ کیا کریں کہ آہاہا! رسول اللہ ﷺ نُورٌ عَلَى نُورِ ہیں جب کہ کچھ بھی آپ کو پتا نہیں کہ مطلب کیا ہے.صرف عظمت کے خیال سے اپنے دل کو مطمئن نہ کیا کریں سمجھنے کی کوشش کریں کہ عظمت ہے کیا، نُورٌ عَلَی نُورِ کہتے کس کو ہیں.جب آپ سمجھیں گے تو آپ حیران ہو جائیں گے یہ دیکھ کر یا آپ کا دل بلیوں اچھلنے لگے گا یہ معلوم کر کے کہ یہ تو وہ نور ہے جس تک پہنچنے کے لئے میں بنایا گیا ہوں.جو میری ہدایت کرے گا خود اپنے نور کی طرف.سارا سفر کروا کے آخر کہاں پہنچا دے گا وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةً اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا یعنی قرآن کریم أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اب آپ یہاں ترتیب پر بھی غور فرمائیے فَالَّذِينَ آمَنُوابِ پہلے ایمان پھر اس کو طاقت پہنچانا.ایمان لا کر خالی بیٹھ رہنے کی اجازت نہیں ہے.جوایمان لاتا ہے کہتا ہے جی میں ایمان صلى الله لے آیا ہوں کافی ہو گیا.صرف ایمان لا کر عمل کرنا بھی نہیں، ایمان لا کر محمد رسول اللہ ﷺ کے مقاصد کو تقویت پہنچانا یہ پہلی شرط رکھی ہے ایمان کے بعد وَ نَصَرُوہ اور ہر طرح سے اس کی مدد کرنا.اس کے بعد فرمایا وَ اتَّبَعُوا التَّوْرَ الَّذِی پھر وہ نور کی پیروی کرتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ اتباع نور ممکن نہیں ہے کہ محض ایمان سے حاصل ہو جائے.تم نور کی پیروی کرنے والے خدا کے حضور اس وقت لکھے جاؤ گے جب تم اپنی تمام تر طاقتیں جو کچھ تمہیں نصیب ہوئی ہیں محمد رسول اللہ اللہ کے رستے
خطبات طاہر جلد 15 33 33 الله خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء میں جھونک دو گے تا کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دین کو طاقت ملے اور ہر طرح سے اس کی نصرت کرو گے جس نے تمہاری نصرت فرمائی ہے.پس دیکھیں وہ کمزور لوگ جن میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ اپنے نفس کے بندھنوں سے آزاد ہو سکتے ان کو محمد رسول اللہ ﷺ نے آزاد کروایا ہے اور آخر پر خدا کی طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ اب اس کی مدد کرو، اب اس کو طاقت پہنچاؤ.ایسے عظیم محسن ہیں کہ تم جو چاروں طرف سے ظلمات میں گھرے پڑے تھے ، ایک قدم اٹھانے کی طاقت نہیں تھی ،سر سے پاؤں تک جکڑے ہوئے تھے تمہارے سارے بندھن توڑے تمہیں طاقت بخشی تمہیں اٹھایا تمہیں پیچھے چلایا.اب تمہارا فرض ہے کہ اس رسول کی مدد کرو، اس کو طاقت پہنچاؤ، کیونکہ صرف تم تک طاقت پہنچانا مقصد کو پورا نہیں کرتا.یہ وہ رسول ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا ہے اور کام ابھی باقی ہے.ابھی بہت بڑا سفر ہے جو طے کرنا پڑے گا اور اس سفر میں جتنے جتنے غلام آزاد ہوتے چلے جائیں گے وہ سارے کے سارے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے معین اور مددگار بن جانے چاہئیں.ایسا کرو گے تو پھر خدا کے نزدیک تمہارے متعلق یہ فیصلہ ہوگا وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَہ ہاں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے فی الحقیقت اس نور کی پیروی کی ہے جو اس کے ساتھ اتارا گیا تھا.أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یقیناً یہی ہیں جو کامیاب ہونے والےلوگ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس عبارت سے میں نے ایک اقتباس پیش کیا تھا اس کا ایک حصہ باقی تھا اور اس کا اسی مضمون سے تعلق ہے.اس لئے اب آخر پر میں اس عبارت کے حوالے سے آپ کو اس مضمون کی بعض اور باریکیاں سمجھاتا ہوں.میں نے گزشتہ خطبے میں یہ عرض کیا تھا کہ ”میرے نزدیک آگ اگر اسے نہ بھی چھوٹی ہوتی تو وہ بھڑک اٹھنے پر تیار تھا“ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آگ کی انتظار تھی آگ چھوٹے گی تو پھر وہ بھڑ کے گا.آگ سے پہلے بھڑک تو سکتا تھا مگر جب آگ کا الله شعلہ پڑا تو بھڑک اٹھا، یہ ہرگز مراد نہیں.آگ کا تو آنحضرت ﷺ کے وجود سے کوئی دور کا بھی تعلق صلى الله نہیں ہے.آگ کے متعلق تو محمد رسول اللہ ﷺ کے کامل غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ فرمایا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے“ تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 584)
خطبات طاہر جلد 15 34 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء وہ آگ جسے ابراہیم پر بھڑکنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیسے اسے اجازت مل سکتی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے اس شفاف نورانی تیل پر بھڑ کے گویا وہ تیل اس کی بھڑک کا محتاج تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اور تیل ایسا صاف اور لطیف کہ بن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ (براہین احمدیہ حصہ سوم جلد 1 صفحہ 195 حاشیہ) یعنی آگ کی ضرورت نہیں ہے اس کو.روشن کیسے ہوگا ؟ یعنی عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ یعنی یہ وہ صفات ہیں جن کی سب سے اعلیٰ درجہ کی صفت نورانیت ہے اور جو نورانیت سے روشن ہونے پر تیار بیٹھا ہواس کو آگ کی کیا ضرورت ہے.فرمایا کہ الہام سے پہلے ہی اب الہام تو آگ نہیں ہے الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے.نُورٌ عَلَى نُورِ یہ ہے نُورٌ عَلى نُورٍ.پس الہام قرآن کریم ہے جو صلى الله کلام کی صورت میں آپ پر نازل ہوا اور نور علی نور سے مراد وحی الہی ہے جو آنحضرت ﷺ پر نور پر چمکی تو ایک نُورٌ عَلَى نُورِ کا منظر پیدا ہو گیا.فرماتے ہیں:.و یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیا ﷺ میں کئی نور جمع تھے سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی و الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود با جو خاتم الانبیا ﷺ کا مجمع الانوار بن گیا.پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نو روحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے براہین احمدیہ حصہ سوم جلد 1 صفحہ 195 حاشیہ) اب جہاں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی گہری سیرت کا بیان فرمایا ہے.اس سیرت کا نہیں جو ان لوگوں کو نظر آتی ہے جن کی نگاہ کملی پر ٹھہر جاتی ہے.اس سیرت کا ذکر فرمایا ہے جسے کملی لیٹے ہوئے ہے یعنی سیرت باطنہ جو آپ کی روح کی سیرت ہے، آپ کے دل کی سیرت ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روشنی ڈالتے ہوئے ہمیشہ کوئی ایسی بات بیان فرما دیتے ہیں جس سے اچانک ہمارا اس نور سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اور ہم پر ایک فریضہ عائد ہو جاتا ہے کہ لطف تو اٹھا لئے قلب و نظر نے ، مگر اب پیچھے بھی چلو.اگر پیچھے
خطبات طاہر جلد 15 35 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء نہیں چلو گے تو نور کی محبت کے دعوے سب جھوٹے اور فرضی ہیں.فرمایا یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر اللہ کا نور چاہتے ہو تو لازماً پہلے نور بنا ہو گا.اگر نہیں بنو گے تو تم وہیں کے وہیں پڑے رہ جاؤ گے اور تمہیں نور عطا نہیں ہوگا.پس جن آیات کی میں نے تلاوت کر کے آخری نتیجہ نکالا تھا یہ بعینہ وہی نتیجہ ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوسری آیت کے حوالے سے نکال رہے ہیں کہ جب تم محمد رسول اللہ ﷺ کی متابعت کرو گے تو پہلے درجہ بدرجہ نور بنتے چلے جاؤ گے.جب بنو گے تو پھر اس نور کی پیروی کے مستحق قرار دیئے جاؤ گے جس پر آسمان سے شعلہ نورا ترتا ہے.یہ اشارہ فرمایا کہ نو روحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے.تاریکی پر وارد نہیں ہوتا“.پس جن جن گوشوں میں تم اندھیروں میں جکڑے ہوئے بیٹھے ہو.اندھیروں میں گھرے ہوئے مقید ہو.ان گوشوں میں بیٹھے ہوئے تم پر خدا نہیں اترے گا.ہراس گوشے سے نکلنا ہوگا.ہر اس قید سے رہائی پانی ہوگی.مگر خوشخبری یہ ہے کہ اللہ کا نور انتظار نہیں فرمائے گا کہ جب تک تم کامل طور پر ہر کمزوری سے آزاد نہیں ہو جاتے وہ تم پر جلوہ گر نہ ہو.جس حد تک بھی آزاد ہو گے تم راہ سلام پر چل پڑو گے.تمہارے وجود کا کوئی حصہ سلامتی کی راہ پر چل رہا ہوگا پھر اور حصے بھی اس کے ساتھ شامل ہوتے چلے جائیں گے اور جن جن راہوں پر تم سلامتی کی راہ اختیار کرو گے وہاں خدا تعالیٰ سے تعلق کے آثار بھی دیکھو گے.اب یہ وہ مضمون ہے جو ہم پر بہت سی بعض ایسی باتیں کھول دیتا ہے جسے لاعلم نہ سمجھ کر بعض نیک لوگوں پر اعتراض کرتا ہے.کئی ایسے لوگ دنیا میں دیکھے گئے ہیں کوئی نمازوں میں بہت اچھا ہے کوئی چندوں میں بہت اچھا ہے، کوئی اور بہت سی خوبیاں رکھتا ہے ،غریبوں کا بے حد ہمدرد ہے.غرضیکہ خوبیاں بہت سی ہیں اور وہ ساری سُبُلَ السَّلمِ ہیں.یہ نہ بھولیں کہ یہی وہ سلامتی کی راہیں ہیں جن پر محمد رسول اللہ ہے آپ کو نجات لے کر چلاتے ہیں، ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھاتے ہیں اور ان راہوں پر اگر یہ سُبُلَ السَّلم ہیں تو نور کا ایک حصہ تو ضرور وارد ہوتا ہو گا کیونکہ یہ سارے رستے صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ کی طرف ہدایت کرتے ہیں.یہ سارے رستے قرآن کے بیان کے مطابق نور کی طرف لے کر جا رہے ہیں.تو کیا پتہ کہ جس راہ میں جا رہا ہوں وہ نور کی راہ ہے بھی کہ نہیں.اس دغدغہ کو دور کرنے کے لئے یا جو بھی وہم ہے اس کو دور کرنے کے
خطبات طاہر جلد 15 36 36 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء لئے ، یقین کی حالت پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جزوی انعامات سے بخشتا رہتا ہے اور جس دائرے میں وہ نیکی اختیار کرتا ہے، جس پاک راہ پر چلتا ہے اس راہ کے انعامات سے اس کو اس لئے محروم نہیں کر دیتا کہ جب تک تم تمام راہوں کو اختیار نہیں کرو گے میں تمہیں کسی راہ کی جزاء نہیں دوں گا.یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے.پس ایسے پاک لوگ جو ابھی پاکی کا سفر کر رہے ہیں ابھی سفر کا آغاز ہوا ہے ان کو آغاز ہی سے اللہ تعالیٰ اپنے انعامات سے نواز نا شروع فرما دیتا ہے اور باہر سے دیکھنے والا جوان انعامات سے محروم ہوتا ہے جس کو پتا ہی نہیں کہ تعلق باللہ کی کیا کیا منازل ہیں، کیسے کیسے اس کے عارفانہ مضامین ہیں وہ اپنی جہالت میں اور کچھ حسد کے نتیجے میں اس کی ایک سچی رؤیا کو دیکھ کر مذاق اڑاتا ہے کہ بڑا نیک بنا پھرتا ہے.ہمیں نہیں پتا فلاں کمزوری اس میں واقع ہے.فلاں معاملہ میں تو یہ ٹھو کر کھا گیا تھا.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیار کے لئے یہی نظر آیا ہو، اب یہ اعتراض تو بظاہر ایک خاص معین طور پر ایک عام انسان پر کیا جا رہا ہے.مگر یہ بھولنا نہیں چاہئیے کہ اپنی مکمل صورت میں یہی اعتراض انبیاء پر بھی کیا جاتا رہا ہے اور قرآن اس ذکر سے بھرا ہوا ہے.ہر نبی کو اسی اعتراض کا نشانہ بنایا گیا کہ خدا کو یہی نظر آیا ہے اپنے کلام کے لئے اور اپنے لئے انتخاب کرنے کی خاطر ! ہم جانتے ہیں عام سا انسان ہے تو ان کی آنکھ جو دیکھ رہی ہے ایک نبی کو، اس کو بھی اس لائق نہیں پا رہی کہ خدا اسے اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور حسد کی آنکھ ہے دراصل.پس حسد کی آنکھ تنگ ہوا کرتی ہے اور حسد کی آنکھ سے جب اپنے بھائیوں کو آپ دیکھتے ہیں تو آپ کوصرف ایک برائی دکھائی دیتی ہے اور ارد گرد کا اس کا جو منظر ہے وہ نظر سے غائب ہو جاتا ہے.پس ایک Slit میں سے آپ دیکھتے ہیں اور اسی لئے چشم حسود کو تنگی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.وہ آنکھیں جو حسد کی وجہ سے نبیوں کی خوبیاں دیکھنے سے بھی عاری ہو جاتی ہیں وہ لازماً یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ اس شخص میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خدا اسے اپنے کلام کے لئے چن لے اور وہ انسان جو کمزور انسان ہیں جن کا نبوت سے کوئی رشتہ ہے تو محض غلامی کا رشتہ ہے ان پر بھی اعتراض اٹھتا ہے.تو یہ فطری اعتراض ہے، انسانی فطرت کی بعض کمزوریاں جن میں حسد سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ کمزوریاں پاکوں پر حملہ کرواتی ہیں اور یہ نہیں دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ملے کے ذریعہ اگر ایک بھی ہدایت کی راہ نصیب کی ہو تو اس ہدایت کی راہ کے نشان اس راہ پر بندے کو
خطبات طاہر جلد 15 37 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء ضرور ملیں گے.اس لئے تم حسد کر دیا نہ کر اس کا کوئی اثر بھی نیک رستوں پر چلنے والوں پر نہیں پڑے گالیکن دوسری طرف بھی ایک خطرہ ہے.جن را ہوں میں تم محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی نہیں کرو گے وہاں ہمیشہ خطروں کی تلوار کے نیچے پڑے رہو گے.اس لئے اللہ بہتر جانتا ہے کہ تمہارا انجام کس الله صورت میں ہو.ایسانہ ہو کہ بعض راہیں جن میں تم آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سلامتی کی راہوں پر قدم مار رہے ہو ان کے مقابل پر ان راہوں کے خطرات بڑھ جائیں جن پر تم زنجیروں میں پڑے بند اندھیروں میں بیٹھے ہوئے ہو.تم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے.اگر ایسے وقت میں موت آجائے تو یہ نا کامی اور نا مرادی کی موت ہے اور اگر ایسے وقت میں آئے کہ ساری را ہیں اس ایک راہ پر اکٹھی ہو جائیں جو نور کی ہے وَاتَّبَعُوا التَّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یقینی طور پر کامیاب ہونے والے لوگ ہیں.پس جہاں ان باریک راہوں پر نظر رکھیں ، اپنے نفس کو ٹولتے رہیں، اپنے پر لازم کر لیں کہ ہم نے ضرور اس سفر میں آگے بڑھنا ہے وہاں اس کی بعض علامتیں اپنے اندر جانچتے رہا کریں، دیکھتے رہا کریں وہ پیدا ہوئی ہیں کہ نہیں ہوئی ہیں تو آگے بڑھ رہی ہیں کہ نہیں.ان میں بعض موٹی موٹی علامتیں یہ ہیں کہ آپ دین کے لئے اپنی طاقتوں کو قربان کرتے ہوئے دین کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نہیں.اگر عَذَرُوہ کا عمل آپ کی ذات پر اثر نہیں دکھا رہا.اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے احسان کی باتیں تو کرتے ہیں، آپ کے نور کے گیت تو الاپتے ہیں لیکن اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے.اگر محسن اعظم کہتے ہیں.کہتے ہیں تو سب دنیا کا محسن ہے اور اپنے احسانوں کو بھول جاتے ہیں.آپ پر جو احسان ہوئے ان کا بدلہ اتارنے کی خواہش ہی دل میں پیدا نہیں ہوتی.تو پھر آپ آنحضرت ﷺ کے احسانات کا بدلہ اس طرح اتارنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ آپ کے دین کے غلبہ کی خاطر اپنی طاقت کو دین کی طاقت کی طرف منتقل کریں.وہ مالی طاقت بھی ہو سکتی ہے ، وہ جسمانی طاقت بھی ہو سکتی ہے.غرضیکہ ہر قسم کی طاقت جو خدا نے آپ کو عطا کی ہے عَذَرُوهُ کا عمل آپ پر ہونا چاہئے.وَنَصَرُوہ میں وہ کون سا زائد مضمون ہے جو عَزَرُوهُ میں نہیں ہے.یہ بھی ایک قابل توجہ بات ہے.نصر کا دائرہ بہت وسیع ہے اور نصر دراصل اللہ کی طرف سے اترتی ہے.پس دعا ئیں جو ہیں وہ خصوصیت کے ساتھ نَصَرُوہ کے تابع آتی ہیں.وہ اپنی
خطبات طاہر جلد 15 38 38 خطبہ جمعہ 12 جنوری 1996ء تمام طاقتوں کو ہی اس راہ میں نہیں جھونکتے ، جان و مال ہی قربان نہیں کرتے مگر نصرت دے کر کرتے ہیں اور نصرت کا بنیادی تعلق آسمان سے اترنے والی نصرت کے ساتھ ہے جو دعاؤں کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.اس لئے دعا ئیں بھی فرض ہیں.دین محمد مصطفی عملے کے لئے دل میں درد اتنا پیدا ہونا چاہئے کہ سب دعاؤں سے دین کی دعا فوقیت لے جائے اور جب بھی آپ پریشانیوں میں مبتلا ہوں تو کبھی کبھی اپنا جائزہ لے لیا کریں کہ آپ کو دین کی بھی ویسی ہی پریشانی لاحق ہوتی ہے جیسے اپنے روزمرہ کے کاموں میں ، اپنی مصیبتوں میں ، اپنے قرضوں میں ، اپنی بیماریوں میں لاحق ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دین کی نصرت فرمائی انہی معنوں میں سب سے بڑھ کر نصرت فرمائی.ایک موقعہ پر بڑی حسرت سے آپ کہتے ہیں کہ تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جن کا تمام ہم و غم بس دنیا ہی کے لئے ہے.اپنی مصیبتوں میں مبتلا ، اپنے قرضوں کے جھگڑوں سے آزادی کی تمنار کھنے والے اور دین کے معاملات سے یا غافل ہیں یا ہلکی سی سرسری سی توجہ ہے، جہاں اپنے لئے دعائیں مانگتے ہیں وہاں ضمنا کہ دیتے ہیں اچھا دین کو بھی فتح عطا فرمادے لیکن وہ دعا ہونٹوں سے اٹھتی ہے، اپنی مصیبتوں میں جو دعا مانگتے ہیں وہ دل کی گہرائی سے مضطر کی دعا بن کے اٹھتی ہے.آپ نے فرمایا تم دین کے لئے ہم وغم لگالو پھر دیکھ کہ تمہارے کام اللہ کے کام بن جائیں گے.تم محمد رسول اللہ کی نصرت پر مستعد ہو جاؤ گے تو خدا تمہاری نصرت پر مستعد ہو جائے گا.بسا اوقات تمہیں خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ میری یہ ضرورت ہے اور آسمان سے اللہ تمہاری ضرورت پوری کر رہا ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا اصل ہم و غم ، اصل فکر دین محمد مصطفی حملے کے لئے ہے جو اس کی جان کو لگ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو بہت ہی بلند اور ارفع صورت میں اس طرح بیان فرماتے ہیں.کہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ دین پر قربان ہو جانا محض وقتی طور پر اپنی جان قربان کر دینے کو نہیں کہتے.نہ اس بات کا نام ہے کہ تم دین کے خیال اور غم سے چھرا گھونپ کر مر جاؤیا سنکھیا (کچلہ ) کھا کر جان دے دو.یہ تو محض جہالت اور ضیاع ہے.دین کی خاطر مرنا اس کو کہتے ہیں کہ دین کا غم تمہیں ایسا لگ جائے کہ تمہارا وجود گھل رہا ہوا ندراندر.وہی غم سب سے زیادہ تم پر کڑا گزرے یہاں تک کہ اس غم میں گھل گھل کر تم جان دے دو.انسان سمجھ رہا ہو گا کہ عام طور پر ایک جان گئی ہے طبعی اسباب نے اپنا اثر دکھایا ہے مگر اللہ جانتا ہوگا کہ یہ جان دین کے غم میں گئی ہے.اس کو
خطبات طاہر جلد 15 39 خطبہ جمعہ 12 /جنوری 1996ء کہتے ہیں جان قربان کرنا.پس آنحضرت ﷺ جن کا ذکر ان آیات میں چل رہا ہے جو مجسم نور ہو چکے تھے اس سلسلہ میں اللہ آپ کے حق میں گواہی دیتا ہے.فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكيف : 7) دوسری آیت ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ ) (الشراء: 4) تو اپنی جان کو ہلاک کر لے گا اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لاتے.تو دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی بیان فرمایا قرآن ہی کی تفسیر میں بیان فرمایا.جو کچھ بھی بیان فرمایا دین کی محبت میں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق میں بیان فرمایا.یہی وہ سُبُلَ السّلمِ ہیں جن پر چل کر آپ صراط مستقیم تک پہنچ سکتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 41 خطبہ جمعہ 19 جنوری 1996ء خدا کی خاطر خدا کی عبادتوں کی توفیق مانگنے کیلئے سب سے عظیم مہینہ رمضان کا مہینہ ہے.( خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا الله عَلى مَا هَدُ بكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لى وَلْيُؤْمِنُوا لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187،186) فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ البقرہ کی 186 اور 187 آیات ہیں.ان میں رمضان مبارک کا ذکر ہے اور اس کے مختلف فوائد اس رنگ میں بیان فرمائے گئے ہیں کہ پڑھنے والا بے ساختہ رمضان مبارک کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے.آغاز ان آیات کا اس عنوان سے ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا یا جس میں قرآن اتارا گیا.اب جس میں قرآن اتارا گیا کا جو پہلا معنی عموماً کیا جاتا ہے اس سے چونکہ بعض دلوں میں سوال اٹھتے ہیں اس لئے بعض لوگوں نے دوسرے معنوں کو
خطبات طاہر جلد 15 42 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء ترجیح دی ہے کہ جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا.پہلے معنی کی رو سے یہ مطلب بنتا ہے کہ رمضان مبارک ہی میں قرآن اتارا گیا اور وہ لوگ جو جانتے ہیں احادیث کے مطالعہ سے یا سن کر بھی کہ قرآن کریم تو سارا سال اتارا گیا ہے اور ایک رمضان اور دوسرے رمضان کے درمیان آنحضرت ﷺ کی جی منقطع نہیں ہو جایا کرتی تھی بلکہ ہمیشہ جاری رہتی تھی ان کے لئے یہ دقت ہے کہ رمضان میں اتارا گیا“ کا ترجمہ کیسے کریں.چونکہ ایک معنی فِیهِ الْقُرْآنُ کا یہ بھی بنتا ہے اس کے بارے میں تو انہوں نے اس ترجمہ کو ترجیح دی اور اس ترجمہ پر بھی بعض سوال اٹھتے ہیں کہ کیا قرآن کریم رمضان کے سوا اور مضمون پر بحث نہیں کرتا کیا تمام تر رمضان ہی کی باتیں ہورہی ہیں.اگر ذرا غور سے ان دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں بالکل درست ہیں اور اعتراض بے محل ہیں.چنانچہ بہت سے وہ علماء جنہوں نے پہلے ترجمہ پر زور دیا فِیهِ الْقُرْآنُ اس مہینے میں قرآن اتارا گیا وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اول قرآن کا آغاز رمضان المبارک سے ہوا ہے.نمبر دو یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ پر جبرائیل اتر کر تے تھے ، روزانہ اترتے تھے اور روزانہ اس وقت تک کا قرآن جو نازل ہو چکا تھا اس کی دہرائی کرواتے تھے.تو لفظا یہ ترجمہ بھی درست ہے کہ پورا قرآن اس ایک مہینہ میں اتارا گیا کیونکہ اور کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں اس طرح وہ قرآن کا حصہ جو نازل ہو چکا تھا اس کی دہرائی کی جاتی تھی یہاں تک کہ جب مکمل ہو گیا تو آخری رمضان میں بلا شبہ پورے کا پورا قرآن ایک ہی مہینہ میں دہرایا گیا اور یہ دُہرانا چونکہ انسانی ذرائع سے نہیں تھا بلکہ جبرائیل علیہ السلام خود اتر تے تھے اللہ کے حکم سے اور آنحضرت ﷺ کو قرآن یاد کرواتے تھے، سنتے تھے.اب تفصیل تو نہیں آتی کہ جہاں کوئی سہو ہوگئی ہوگی وہاں درستی کرواتے ہوں گے.مگر مضمون یہی ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دے ہمارا ذمہ ہے کہ ہم تجھے قرآن یاد کروائیں اور اس کی حفاظت کریں اس لئے تجھے بالکل بے فکر ہو جانا چاہئے نا ممکن ہے کہ تیری یادداشت کی غلطی کے نتیجہ میں قرآن دنیا کے سامنے غلط پیش کیا جائے پھر یہ جو حفاظت فرمائی گئی تھی اس کا یہ بھی ایک طریق تھا.اس حفاظت کے وعدے کو اس طرح پورا فرمایا گیا.پس اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں کہ تراویح میں بہت سی جگہوں پر سارا قرآن دہرایا جاتا ہے تو غالبا اس کی سند یہیں سے ملتی ہے ورنہ کوئی ایسی سند نہیں کہ ضرور قرآن کریم رمضان مبارک میں تہجد
خطبات طاہر جلد 15 66 43 لله خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء یا تر اویح کی نماز میں دہرایا جائے.قرآن خود دہرائی جانے والی کتاب ہے وہ ایک الگ مضمون ہے وہ تو سال میں بار ہاد ہرایا جاتا ہے مگر رمضان میں دُہرانے کا جو مضمون ہے اس کا تعلق ان احادیث سے ہے جن میں آنحضرت ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام خود آپ پر نازل ہو کر آپ پر پورا قرآن جو اس وقت تک اترا ہوتا تھا پڑھتے تھے یعنی گویا کہ قرآن کریم دوبارہ نازل ہوتا تھا اور آپ بھی ساتھ اس قرآن کریم کو جو جبرائیل پڑھ کر سناتے تھے دہراتے جاتے تھے.پس ایک معنی تو یہ ہے.فِيهِ الْقُرآن کا جو دوسرا معنی بیان کیا جاتا ہے اور تفسیر کبیر میں بھی آپ ترجمہ دیکھیں گے تو یہی ملے گا کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا تو جس کے بارہ میں کیوں فرمایا گیا.رمضان کے علاوہ بھی تو بہت سی باتیں ہیں اور بہت کثرت سے ہیں جو رمضان نہیں کہلاتیں مگر قرآن کریم ان کے متعلق مضامین کھولتا ہے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ تمام تر شریعت احکامات اور نواہی جس کثرت کے ساتھ اور جس تکمیل کے ساتھ رمضان میں دہرائے جاتے ہیں یعنی ان پر عمل کیا جاتا ہے اور کروایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک پہلو بھی شریعت کا باقی نہیں رہتا جو رمضان میں نہ ادا ہو.اس پہلو سے کوئی اور مہینہ ایسا نہیں کہلا سکتا کہ گویا قرآن کریم اس کے بارے میں نازل ہوا ہے.جب رمضان کے بارے میں نازل ہوا پڑھتے ہیں تو مراد ہے کہ قرآن کریم نے جتنی بھی انسان سے توقعات کی ہیں ، جتنے بھی ارشادات فرمائے ہیں ، جتنی باتوں سے روکا ہے یا نا پسند فرمایا ہے ان سب کا اس ایک مہینے سے تعلق موجود ہے.پس خدا کی خاطر بھوکے رہ جانا اب یہ بھی ایک عبادت کا مضمون ہے لیکن رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں لازم نہیں ہے.خدا کی خاطر کسی سختی کا جواب بھی سختی سے نہ دینا.جس کا تختی سے جواب دینے کی قرآن بعض حالات میں اجازت بھی دیتا ہے مگر خدا کی خاطر نیکی کو اس کے اعلیٰ درجے پر پہنچ کر ادا کرنا اور ادنی درجے پر بھی ادا کرنا یہ تمام تر مواقع رمضان میں اکٹھے ہو جاتے ہیں.وہ چیز میں جو جائز ہیں ان سے خدا کی خاطر مزید احتر از اور نوافل پر زور یہ روز مرہ کے عام مہینوں میں دیکھنے میں آتا تو ہے مگر شاذ کے طور پر، اس طرح نہیں کہ پوری قوم مسلسل ان باتوں میں ہمہ تن مصروف ہو جائے.پس اس پہلو سے کوئی بھی ایسی نیکی نہیں جس کا قرآن میں ذکر ہو اور رمضان میں خصوصیت کے ساتھ اس کو ادا کرنے کے مواقع نہ ہوں اور کوئی بھی ایسی بدی نہیں ہے جس سے رکنے کا حکم ہو اور
خطبات طاہر جلد 15 44 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء رمضان مبارک میں خصوصیت کے ساتھ ان بدیوں سے روکنے کی تلقین نہ فرمائی گئی ہو.تو گویا اگر رمضان کا مفہوم آپ سمجھ جائیں اور رمضان کو کامیابی سے گزار جائیں تو گویا آپ نے تمام شریعت پر عمل کر لیا، تمام قرآن پر عمل کر لیا اور یہ امر واقعہ ہے اس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہے.پس اس پہلو سے وہ ترجمہ بھی بعینہ درست ہے کہ گویا قرآن رمضان کے مہینے کے بارے میں اتارا گیا ہے.اور جب فرمایا کہ فِيْهِ الْقُرْآنُ تو اس کی تشریح ساتھ ہی فرما دی هُدًى لِلنَّاسِ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے لیکن ہدایت بھی کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک عام ہدایت ایک زیادہ روشن اور کھلی کھلی ہدایت.عام ہدایت تو ہر مہینے میں، روز وشب جاری رہتی ہے.مگر رمضان میں یہ ہدایت خوب کھل کر سامنے آجاتی ہے.چنانچہ ھڈی کہنے کے بعد فرمایا هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ صرف اس مہینے میں ہدایت عام ڈگر پر نہیں چلتی بلکہ غیر معمولی طور پر کھل کر اور روشن ہو کر انسان کے سامنے چمک اٹھتی ہے وَالْفُرْقَانِ اور فرقان بن جاتی ہے.یعنی ایسے دلائل اور ایسے روشن دلائل میں تبدیل ہوتی ہے جو قوی غلبے کی طاقت رکھتے ہیں.پس رمضان مبارک کا حق ادا کرتے ہوئے رمضان مبارک سے گزرنا عام روز مرہ کی ہدایت سے بڑھ کر غیر معمولی ہدایت پانا ہے اور مقام فرقان تک پہنچ جانے کے مترادف ہے.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ اس عظیم عنوان کے بعد یہ جو اس مضمون سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے پھر فرمایا ہے کہ روزے رکھو اور صاف پتا چلتا ہے کہ پہلے ذہن اور قلب کو تیار کیا جارہا ہے، کیا ہونے والا ہے؟ کون سا عظیم مہینہ آرہا ہے؟ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ شهد شهر ا سے مراد ہے جو رمضان کو طلوع ہوتا دیکھے.یعنی رمضان کا چاند جس پر طلوع ہو گاوہ روزے رکھے.اب رمضان کا مہینہ اصل میں بیک وقت، ہر جگہ اکٹھا طلوع نہیں ہوتا اور یہ بخشیں عام اٹھ رہی ہیں کہ کیوں نہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ سب مسلمان بیک وقت روزے رکھیں اور یہ جو جھگڑے چل رہے ہیں آج ان کا رمضان شروع ہو گیا کل ان کا رمضان شروع ہو گیا ان جھگڑوں کا قضیہ ہی چکا دیا جائے مگر قرآن تو نہیں چکا تا.قرآن کریم نے تو اس مضمون کو کھلا چھوڑا ہوا ہے.مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ہو سکتا ہے کہ ایک ہی ملک میں رہتے ہو اور اس ملک کے افق
خطبات طاہر جلد 15 45 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء الگ الگ ہوں اور اگر ایک شخص نے مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّہر کے وقت کو پایا ہو تو اس پر فرض ہے کہ روزے رکھے.ایک وہ جس نے نہیں پایا اس پر فرض نہیں ہے بلکہ مناسب نہیں ہے کہ رکھے.اسے انتظار کرنا ہوگا جب تک اس آیت کا اطلاق اس پر نہ ہو.تو رمضان بھی بعینہ ایک ہی تاریخ کو ہر جگہ شروع نہ ہوتا ہے، نہ ہو سکتا ہے.ممالک بدل جائیں تو پھر تو ویسے ہی ناممکن ہے کیونکہ اگر جب بھی رمضان کا چاند طلوع ہوگا اس وقت کسی جگہ گھپ اندھیرا، آدھی رات ہوگی کسی جگہ صبح کا سورج طلوع ہورہا ہو گا کسی جگہ دو پہر ہوگی، کسی جگہ عصر کی نماز پڑھی جا رہی ہوگی تو کیسے ممکن ہے کہ خدا نے جو نظام پیدا فرمایا ہے اس کے برعکس احکام جاری فرمائے.اس لئے مَنْ شَهِدَ کا مضمون ہے جو بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.ہرگز خدا کا یہ منشاء نہیں کہ سب اکٹھے روزے رکھیں ، اکٹھے ختم کریں.ہر گز یہ منشاء نہیں کہ تمام دنیا میں ایک دن عید منائی جائے یا سارے ملک میں اگر وسیع ملک ہے ایک ہی دن عید منائی جائے.چھوٹے ملک میں تو ممکن ہے مگر وسیع ممالک بعض ایسے ہیں جو شمال سے بہت دور تک جنوب کے ایک حصے میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں.ان کے افق بدل جاتے ہیں یا شرقا غربا بہت وسیع ہیں.اب Chile کو دیکھیں کہ کتنا اوپر سے امریکہ کے وسط سے قریباً شروع ہو کر اور جنوب میں وہاں تک چلا جاتا ہے کہ اس سے آگے کوئی اور ملک نہیں ہے جو قطب جنوبی کے قریب تر ہو اس سے اور روس کی چوڑائی اتنی ہے کہ تین گھنٹے کا فرق پڑ جاتا ہے روس کے اندر بلکہ اس سے بھی زیادہ.امریکہ کی چوڑائی میں وسعت اتنی بڑی ہے کہ وہاں بھی کم و بیش اتنا ہی فرق پڑ جاتا ہے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ایک ملک میں بھی بیک وقت رمضان شروع ہو سکتا ہے یا بیک وقت ایک ملک میں ایک عید کا دن طلوع ہو سکتا ہے.پس قرآن کریم کے جو الفاظ کا انتخاب ہے بہت ہی پر حکمت ہے اور اپنے مضمون کو خو دکھول رہا ہے.اب بنت کہ کر پھر اس مضمون کو کھولنا اور پھر لوگوں کا اس سے غافل ہو جانا یہ بہت بڑا ظلم ہے.وہ سمجھتے ہیں مشکوک معاملہ ہے، پتا نہیں کہ قرآن کیا کہنا چاہتا ہے.قرآن کریم نے تو فرمایا ہے اس میں تو بہت ہیں اس میں الْفُرْقَانِ ہے اس کو پیش نظر رکھو اور پھر غور کرو مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهَرَ فَلْيَصُمْهُ جس پر یہ مہینہ طلوع ہو گا اسی کو روزے رکھنے ہیں.دیکھا دیکھی سنی سنائی بات پر روزے نہیں رکھنے اور یہاں من میں صرف ایک فرد واحد مراد نہیں ہے بلکہ وہ قوم ہے جس کا
خطبات طاہر جلد 15 46 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء افق ایک ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس کا طریق یہ جاری فرمایا کہ اگر ایک ہی افق کے لوگ کسی موسم کی خرابی کی وجہ سے اکثر نہ دیکھ سکتے ہوں تو ان میں دو قابل اعتماد یا چار قابل اعتماد، کچھ قابل اعتماد لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور وہ کہیں گواہی دیں کہ ہم نے دیکھا ہے تو اگر افق مشترک ہے تو سب کا ہی رمضان شروع ہو جائے گا اور اگر افق مشترک ہے تو سب ہی کی عید ہو جائے گی.ނ تو من کا لفظ واحد پر بھی آتا ہے اور جمع پر بھی ، یہ مراد نہیں ہے کہ ہر ایک جب تک آنکھ سے دیکھ نہ لے رمضان شروع نہ کرے.یہ تو ناممکن ہے.جو ہلال ہے خصوصاً پہلے دن کا ہلال وہ تو آنی جانی چیز ہے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتا ہے.انگلیاں اٹھ رہی ہوتی ہیں اتنے میں وہ مطلع سے غائب ہو چکا ہوتا ہے.پس ہلال کا مطلع بھی چھوٹا ہوتا ہے اس لئے مَنْ شَهِدَ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم میں سے جو اپنی آنکھوں سے دیکھے صرف وہی شخص روزے رکھے.مراد ہے وہ لوگ جن کا افق ایک ہے، جن کے ہمیشہ سے ہی چاند ا کٹھے طلوع ہوتے ہیں، جب طلوع ہوتے ہیں سب پر ہی طلوع ہوتے ہیں جب غروب ہوتے ہیں تو سب پر ہی غروب ہوتے ہیں ، پس وہ لوگ جن کا افق مشترک ہو ان میں سے کوئی بھی دیکھے تو سب قوم کے دیکھنے کا حکم ان پر صادق آجائے گا گویا ساری قوم نے دیکھ لیا.پس اس پہلو سے مثلاً انگلستان میں غالباً ایک ہی افق ہے خواہ شمال سے جنوب تک جائیں، چاند کے تعلق میں دو افق میرے علم میں نہیں ہیں.امریکہ میں بعض دفعہ دوافق پیدا ہو جاتے ہیں بعض علاقوں کے لحاظ سے مگر اکثر ایک ہی ہے اور بعض دفعہ امریکہ کا افق عرب کے افق سے مل جاتا ہے.چاند کا جوBehaviour ہے، چاند کا جو طرز عمل ہے یہ عام روز مرہ کے سورج کے طرز عمل سے بالکل مختلف ہے.سورج کے طلوع ہونے میں ایک قطعیت ہے اور سورج کے غروب ہونے میں بھی ایک قطعیت ہے.چاند کے اندر احتمالات اور امکانات ہیں.اس لئے مَنْ شَهِدَ کا جوارشاد فرمایا گیا ہے انہی بدلتے ہوئے امکانات اور احتمالات کے پیش نظر ہے.اب اس مضمون میں ایک پہلورہ جاتا ہے جس کی عموماً آپ بحثیں سنتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں وہ یہ ہے کہ کیا مشینی ذرائع سے چاند کا علم پا نا مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ کے تابع ہوگا یا نہیں ہو گا ؟ اگر ہو تو پھر دیکھنا متروک ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشینوں کے ذریعہ چاند دکھائی دے جاتا ہولیکن نظر سے نہ دکھائی دیتا ہو.تو کیا قرآن کریم کا پہلا عمل یعنی پہلے دور کا عمل اس مشینی عمل کے مقابل پر رد
خطبات طاہر جلد 15 47 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء ہو جائے گا یا پہلے دور کا عمل جاری رہے گا اور مشینی دور کا عمل متروک سمجھا جائے گا؟ یہ بحث ہے جو بہت سے لوگوں کو الجھن میں مبتلا رکھتی ہے حالانکہ اس میں ایک ادنی ذرہ برابر بھی کوئی الجھن نہیں.الجھن لوگوں کی نافہمی اور نا کبھی میں ہے ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ نئے دور میں مشینوں کے حوالے سے یا برقیاتی آلوں کے حوالے سے اگر آپ چاند کے طلوع کا علم حاصل کریں تو وہ مَنْ شَهِدَ کے تابع رہتا ہے اور جہاں مَنْ شَهِدَ سے ہلتا ہے وہاں اس کا عمل درآمد نہیں ہوگا ، وہاں بے اعتبار ہو جائے گا.جو لوگ نہیں سمجھتے وہ ٹھوکر کھاتے ہیں اور پھر آپس میں خوب لڑائیاں ان کی ہوتی ہیں.اس لئے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں آگے عید بھی آئے گی ، یہ بخشیں چلیں گی ، بچوں سے سکول میں بھی گفتگو ہوگی دوسرے بچوں کی کالجوں میں یہ معاملہ زیر بحث آجائے گا، بزنس پر، کاموں پر زیر بحث آئے گا.اس لئے سب احمدیوں کو اچھی طرح ہر ملک کے احمدی جو یہ خطبہ سن رہے ہیں ان کو اچھی طرح اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہئے.چاند جو طلوع ہوتا ہے وہ جب زمین کے کنارے سے اوپر آتا ہے تو اگر چہ سائنسی لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین کے افق سے چاند ذرا سا اوپر آپکا ہے لیکن وہ چاند لازم نہیں کہ نظر سے دیکھا جاسکتا ہو.اس لئے سائنس دانوں نے بھی ان چیزوں کو تقسیم کر رکھا ہے.اگر آپ اچھی طرح ان سے جستجو کر کے بات پوچھیں تو وہ آپ کو بالکل صحیح جواب دیں گے کہ دیکھو ہم یہ تو یقینی طور پر معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ چاند کس دن کتنے بجے طلوع ہوگا، یعنی سورج غروب ہوتے ہی اوپر ہو چکا ہو گا لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھو کہ اگر موسم بالکل صاف ہو اور کوئی بھی رستے میں دھند نہ ہو تب بھی تم اس کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہو کیونکہ چاند کو طلوع ہونے کے ہیں منٹ یا کچھ اوپر مزید چاہئے اور ایک خاص زاویئے سے اوپر ہونا چاہئے.اگر وہاں تک پہنچے تو پھر آنکھ دیکھ سکتی ہے ورنہ نہیں دیکھ سکتی.اس لئے ہو سکتا ہے جیسا کہ پچھلے سال مولویوں نے یہاں یہ کیا کہ آبزرویٹری Observatory سے یہ تو پوچھ لیا کہ چاند کب نکلے گا اور انہوں نے وہی سائنسی جواب دے دیا کہ فلاں دن یہ اتنے بجے طلوع ہو جائے گا اور سورج ڈوبنے کے معا بعد کا وقت تھا.تو مولویوں نے فتویٰ دے دیا کہ اس دن شروع ہو جائے گا رمضان یا عید جو بھی تھی اور بعض دوسرے جو ان میں سے سمجھدار تھے تعلیم یافتہ مسلمان یہاں موجود ہیں احمدی نہیں ہیں مگر وہ ان باتوں پر غور کرتے ہیں انہوں نے انکار کر دیا.انہوں نے کہا ہم تو ایسی
خطبات طاہر جلد 15 48 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء عید نہیں کریں گے یا ایسا رمضان شروع نہیں کریں گے اور وہ بچے تھے کیونکہ اگر وہ مولوی صاحبان ان لیبارٹریز سے یا جو ان کے مراکز ہیں آسمانی سیاروں وغیرہ کو دیکھنے کے ان سے پوچھتے تو وہ صاف بتا دیتے کہ نکلے گا تو سہی لیکن تم اس کی شہادت نہیں دے سکتے ہم اپنی آنکھ سے اس کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ جتنا نکل کے وہ اونچا جاتا ہے اس طلوع سے کوئی آنکھ بھی اس کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کہ وہ زمین کے بہت قریب ہوتا ہے اور زمین کے قریب کی فضا اس کی شعاعوں کو نظروں تک پہنچنے سے پہلے پہلے جذب کر چکی ہوتی ہے.اس لئے عین نشانے پر پتا ہو کہ وہاں چاند طلوع ہو رہا ہے آپ نظر جما کے دیکھیں آپ کو ایک ذرہ بھی کچھ دکھائی نہیں دے گا تو شھد کا مضمون اس پر صادق نہیں آئے گا.شھد کا مطلب ہے جو گواہ بن جائے ، جودیکھ لے، جو پالے.مگر سائنس دان ہی یہ بھی آپ کو بتاتے ہیں اور قطعیت سے بتاتے ہیں کہ اگر اتنے منٹ سے اوپر چاند ہو چکا ہو یعنی سورج ڈوبنے کے بعد مثلاً پندرہ منٹ کی بجائے بیس منٹ تک رہے تو پہلے پندرہ منٹ میں اگر دکھائی نہیں دے سکتا تو آخری پانچ منٹ میں دکھائی دے سکتا ہے یا اس کا زاویہ اتنا ہو کہ وہ زمین کے ایسے افق سے اونچا ہو چکا ہو جو افق چاند اور ہماری راہ میں حائل رہتا ہے، اس سے جب اونچا ہوگا تولا زماد یکھ سکتے ہو.پھر بادل ہوں تو الگ مسئلہ ہے لیکن اگر بادل نہ ہوں تو لاز ماننگی آنکھ سے دیکھ سکتے ہو تو پھر شَهِدَ مِنْكُمُ کا حکم صادق آگیا کیونکہ شَهِدَ میں ساری قوم کا دیکھنا تو فرض تھا ہی نہیں.کچھ بھی دیکھ سکتے ہوں لیکن اس طرح دیکھ سکتے ہوں جیسے انسان کی توفیق ہے کہ منگی آنکھ سے دیکھ سکے وہ فتویٰ لازماً ساری قوم پر برابر صادق آئے گا اور وہ لوگ جن کا افق ایک ہے وہ سائنسی ذرائع سے معلوم کر کے پہلے سے فیصلہ کر سکتے ہیں.تو اس لئے وہ جھگڑے کہ اب اکٹھی کیسے عید کی جائے یا اکٹھا رمضان کیسے شروع کیا جائے یہ جھگڑے تو اس دور میں ختم ہو چکے ہیں اور اگر ہیں تو ان لوگوں نے پیدا کئے ہیں جو بے وجہ نا مجھی سے اختلاف کرتے ہیں.پس یہ جو نظارے یہاں دکھائی دیتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ایک عید آج ہو رہی ہے ایک کل ہو رہی ہے ایک پرسوں ہوگی یہ قرآن کریم کے بیان کا ابہام ہرگز نہیں ہے.قرآن کریم کا بیان بسنت میں سے ہے، صاف کھلا کھلا ہے.اگر اس پر چلیں تو ناممکن ہے کہ یہ اختلاف ہوں.پاننگی آنکھ سے چاند نظر آئے گا یا آلات کے ذریعہ آئے گا اور دونوں ایک دوسرے پر بالکل
خطبات طاہر جلد 15 49 99 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء چسپاں ہوں گے اور ان کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں ہوگا.سائنسی فتویٰ بعینہ وہی ہوگا جن شرائط کے ساتھ میں بیان کر رہا ہوں جونگی آنکھ کے دیکھنے کا فتوی ہے.تو اس لئے یہ دور ایسا ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کو خدا نے خود ہی بندوں کے لئے مسخر فرما رکھا ہے اور نئی نئی باتیں جو ہمارے علم میں آ رہی ہیں ان کو خدمت دین میں استعمال کرنا چاہئے.پس جماعت احمدیہ کی طرف سے جو کیلنڈر شائع ہوتے ہیں اور ابھی بھی یہاں ہو چکے ہیں یا ہر ملک میں ہوتے ہیں ان کی گواہی قطعی ہے کیونکہ ہم کبھی بھی ایسی گواہی کو قبول نہیں کرتے جہاں سنگی آنکھ سے چاند کا دیکھناممکن نہ ہو.جہاں یقینی ہو کہ اگر موسم صاف ہے تو چاند ضرور دکھائی دے گا وہاں قبول کیا جاتا ہے اور مہینوں کے جو دوسرے دن ہیں یا اس کا شروع اور آغاز ، دوسرے مہینوں سے تعلقات وہ ہمیشہ ٹھیک بیٹھتے ہیں.اگر غلطی ہو تو بعض دفعہ عجیب سی غلطی بن جاتی ہے.بعض مہینے اس کے اٹھائیس دن کے رہ جاتے ہیں اور اٹھائیس دن کا مہینہ ہو ہی نہیں سکتا چاند کا.یہ کوئی ضروری تو نہیں ہے جو اٹھائیس دن کا آئے.چاند کا تو ہر مہینہ یا انتیس کا ہو گا یا تھیں کا ہوگا.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جو فیصلہ ہے وہ قطعی اور درست ہے اور قرآن کے عین مطابق ہے.پس وہ دن اب طلوع ہونے والا ہے یعنی رمضان کا دن جو انشاء اللہ تعالیٰ اتوار کی شام کو طلوع ہوگا اور پیر کا پہلا روزہ ہوگا.اب ایک بحث یہ ہے کہ رمضان کو سورج سے کیوں نہیں باندھا؟ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں مثلاً ہر ملک کا موسم الگ الگ ہے.بعض ممالک ایسے ہیں جن میں سردیوں میں دن بالکل چھوٹے رہ جاتے ہیں اور گرمیوں میں بے انتہا لمبے ہو جاتے ہیں.بعض ایسے ہیں جہاں شدید گرمی ہے اور دن برابر ہیں.بعض ایسے ہیں جہاں شدید گرمی ہے اور پھر دن برابر نہیں ہیں.تو اگر ایک ہی سورج کے حساب سے مہینہ مقرر کر دیا جاتا تو وہ مہینہ ہر جگہ ایک ہی طرح ایک ہی موسم میں رہتا، کبھی اس میں تبدیلی نہ ہوتی.ناروے کے لوگوں کے لئے مثلاً اگر وہ مہینہ سردیوں میں ہوتا تو ناروے کے لوگوں کے لئے ادھر روزہ رکھا ادھر کھولنے کا وقت آگیا اور جو جنوبی قطب کے پاس رہتے ہیں ان کا روزہ ختم ہی نہ ہوتا.جو زیادہ قریب ہیں وہ تو سال بھر روزہ چلتا لیکن جو ذرا مناسب فاصلے پر ہیں ان کا بھی ہوسکتا ہے 23 گھنٹے کا روزہ ہو.ایک گھنٹے کے اندر نمازیں بھی پڑھنی ہیں، تہجدیں بھی پڑھنی ہیں ، کھانا بھی کھانا ہے اور پھر 23 گھنٹے کے روزے کے لئے تیاری کرنی ہے.اول تو جو 23 گھنٹے
خطبات طاہر جلد 15 50 خطبہ جمعہ 19 / جنوری 1996ء والا واقعہ ہے وہ احادیث کے مضمون کی روشنی میں حقیقت میں ممکن ہی نہیں ہے یہ بھی میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دوں.اس لئے یہ قرآن کریم نے جو فرمایا ہے علامتیں جاری فرمائی ہیں وہ دو طرح سے.ایک علامتیں وہ ہیں جن کا تعلق چاند سے ہے ، ایک علامتیں وہ ہیں جن کا تعلق سورج سے ہے.رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں عبادتیں دونوں طرح اکٹھی ہو گئی ہیں.کسی اور مہینے میں اس طرح عبادتیں اکٹھی نہیں ہوئیں جس طرح رمضان کے مہینے میں عبادتیں ہر پہلو سے جڑی ہیں.یہی سورج کے سال کا بھی تعلق ہے اور چاند کے سال کا بھی تعلق ہے.جہاں تک قرآن کریم کی عبادات کا تعلق ہے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزانہ نمازیں بھی تو مغرب کے بعد آتی ہیں.آتی تو ہیں مگر وہ سورج کے حوالے سے آتی ہیں چاند کے حوالے سے نہیں.پانچ نمازیں جو فرض ہیں اور تہجد کے وقت یہ سارے کے سارے سورج کی علامتوں سے تعلق رکھے ہوئے ہیں.چاند کے تعلق سے جو عبادت آتی ہے وہ صرف رمضان کی ہے.یا پھر حج ہے جو چاند سے تعلق رکھتا ہے مگر اس کے علاوہ تمام عبادتیں سورج سے تعلق رکھتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے سورج کے ساتھ نمازوں کو باندھ کر یہ بات ناممکن بنادی ہے کہ ایک انسان علامتوں کے مطابق ایسی جگہ پانچ نمازیں ادا کر سکے جو شمالی قطب یا جنوبی قطب کے بہت قریب ہو اور یہ ناممکن بنا کر آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع فرما دی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے، دجال کا زمانہ جب کہ دن دنیا میں بعض جگہ روزمرہ کے چوبیس گھنٹے کے دن ہوں گے اکثر جگہ تو یہی ہو گا لیکن بعض ایسی جگہیں بھی ہوں گی جہاں لمبے بھی ہوں کہیں چھ مہینے کا دن بھی ہو گا کہیں سال کا دن بھی ہوگا.یہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مطلع فرمایا تا کہ آئندہ زمانے کے انسان کے لئے مشکل نہ رہے.اس کے ساتھ ہی صحابہ میں سے کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ہے کیا جب ایک سال کا دن آئے گا تو ہم اس ایک سال میں پانچ نمازیں پڑھیں گے.آپ نے فرمایا بالکل نہیں اندازہ لگا کر اپنے ویسے ہی دن تقسیم کرنا جیسے روزمرہ کے معمول کے دن ہیں اور جب وہ دن گزرے تو اس کے مطابق اپنی پانچ نمازیں پوری کیا کرنا.صلى الله تو جہاں سورج کی ظاہری علامتیں قاصر رہ جائیں کہ وہ ایک دن کے خدو خال کو نمایاں کر سکیں ، جہاں سورج کی ظاہری علامتیں عاجز آجائیں کہ دن کو چوبیس (24) گھنٹے کے اندر باندھے رکھیں وہاں نمازوں کے احکامات بدل گئے ، وہاں اندازے شروع ہو گئے اور اندازوں کی شریعت نے
خطبات طاہر جلد 15 51 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء اجازت دی اور اس میں حکمت ظاہر وباہر ہے.اول تو یہ کہ لمبے روزے میں تو سارے ہی شہید ہو جاتے ایک ہی روزے میں اور چھوٹے روزے کا پتا ہی نہ لگتا کہ کیسے رکھیں وہ ایک تماشا سا بن جاتا مگر جہاں بھی یہ اجنبی دن چڑھتے ہیں خواہ وہ ایک دن کے چوبیس (24) گھنٹے کے دائرے میں بھی رہیں تو قرآن کریم کا کمال یہ ہے عبادت کی علامتیں ایسی بتائی ہیں کہ وہاں علامتیں عبادت کو ان دنوں کے اندر ساکت کر دیتی ہیں اور اندازہ شروع ہو جاتا ہے.یعنی غیر معمولی دن کیلئے ضروری نہیں کہ چوبیس گھنٹے سے لمبا ہو.چوبیس گھنٹے سے قریب دن پہنچا ہوا ہو تب بھی وہ ناممکن دن بن جائے گا اور جہاں وہ ناممکن دن بنے گا وہیں سے اندازہ شروع ہو جائے گا.اس کی مثال میں آپ کو سمجھا دوں کیونکہ ناروے سے بھی مجھے سوال آئے ہوئے ہیں بعض دوسرے ملکوں سے بھی اس لئے میں اس خطبے میں ساری باتیں کھول رہا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے اکثر احمدی جہاں جہاں بھی اب یہ آج کل ٹیلی ویژن پہنچ رہی ہے، یہ خطبہ سنتے ہیں ہن رہے ہیں ، بات یہ ہے کہ اگر دن فرض کریں اٹھارہ گھنٹے کا ہو یعنی سورج نکلنے سے ( روزے کی بات نہیں کر رہا ) دن سورج نکلنے سے سورج غروب ہونے تک اٹھارہ گھنٹے ہوں تو پیچھے چھ گھنٹے کی جورات رہ جائے گی اس رات میں صبح اور شام کی شفق اتنی پھیل چکی ہوں گی کہ ان کے درمیان سیا ہی آئے گی ہی نہیں.پس جب سیاہی غائب ہو گئی تو نمازوں کی تقسیم ممکن نہ رہی.مغرب کس وقت پڑھیں گے،عشاء کس وقت پڑھیں گے ، تہجد کس وقت ہوگی صبح کس وقت طلوع ہوگی یہ ایک ہی چیز ہو جاتی ہے.چنانچہ ہم نے خود یہ ایسے دن دیکھتے ہیں جب ہم گرمیوں میں ایک دو سال پہلے ناروے گئے تھے شمال کی طرف تو جہاں چوبیس گھنٹے کا دن شروع ہو چکا تھا وہاں تو بالکل ہی معاملہ اور ہے.وہاں تو صبح بھی سورج، دو پہر کو بھی ، رات کو بھی ، آدھی رات کو بھی اور سورج نکلے ہوئے میں تہجد پڑھنی پڑتی تھی مگر صلى الله اندازے کر کے کیونکہ آنحضرت له اصدق الصادقین ہیں، سب بچوں سے بڑھ کر بچے اور یہ ایک بات بھی آپ کی سچائی پر سورج سے بڑھ کر زیادہ روشن گواہ بن جاتی ہے.اس اندھیرے زمانے میں اتنی روشنی سے چودہ سو سال بعد کے حالات معلوم کئے اور ان پر روشنی ڈالی.اتنی دور تک روشنی ڈالنے والا نبی اس شان کا کوئی دکھاؤ تو سہی.فرمایا وہ ہوں گے جب بھی وہ دن عام عادت سے بدل چکے ہوں.آپ نے فرمایا ہے روز مرہ کے عادی دنوں کے مطابق انداز سے کرنا.عادی دن وہ ہیں جن میں
خطبات طاہر جلد 15 52 52 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء پانچ نمازیں سورج کی علامتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے ممتاز کی جاسکتی ہیں.جہاں وہ نمازیں ممتاز نہیں ہوسکتیں وہاں اندازہ شروع اور پھر کوئی مشکل باقی نہیں رہتی.تو اس لئے یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ رمضان مبارک کو چاند کے ساتھ جو باندھا ہے اب میں اس طرف واپس آرہا ہوں ، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ مہینہ جگہ جگہ بدلتا رہتا ہے.کبھی یہ جنوب والے لوگوں کے لئے آسان ہو جاتا ہے، کبھی شمال والوں کے لئے.پس ایسے موقع پر اگر یہ سورج والا مہینہ ہوتا تو بعض لوگوں پر ہمیشہ بہت ہی سخت رہتا.لمبے سے لمبا دن اور پر آزار دن جس میں گرمی سے لوگوں کی زبانیں سوکھ جاتیں اور تڑپ تڑپ کے بعض جان دے دیتے.ہمیشہ مسلسل ایسی ہی تکلیف لے کر ان کے لئے آتا اور بعض جگہ اتنا چھوٹا ہوتا اور موسم بھی ٹھنڈا کہ ان کو پتا ہی نہیں لگتا بلکہ ان کے لئے یہ مصیبت ہوتی کہ کھائیں کیسے.ایک روزہ افطار بھی کریں اور سحر بھی کریں ، بیچ میں تہجد بھی پڑھیں، چند گھنٹوں کے اندر یہ ممکن نہیں ہے.پس کتنے گھنٹے کے لئے ممکن ہے اس کی علامتیں ساتھ بیان فرما دی گئیں کہ جہاں سورج کی علامتوں سے عبادتیں کھل کے واضح ہوں ، جہاں رمضان پر یہ بات صادق آئے کہ سفید دھاگہ کالے دھاگے سے ممتاز ہو سکے وہ دن معمول کے دن ہیں.جہاں ان میں کوئی علامت اطلاق نہ پائے وہاں تم نے اندازے کرنے ہیں.مگر معمول کے دنوں میں بھی تو بہت فرق ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا کہ وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِ لُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( آل عمران: 41(1) کا مضمون رمضان سے بھی باندھ دیا اور رمضان چکر کھاتا رہتا ہے.کبھی سخت روزے آتے ہیں اور وہ اپنا سبق سکھا کے چلے جاتے ہیں کہیں نرم روزے آتے ہیں تو راتوں کی جفا کشی بڑھ جاتی ہے.پس کبھی دن کی سختی کے مزے ہیں کبھی رات کی لمبائی کے مزے ہیں.کبھی ایک ابتلاء ہے کبھی دوسرا کبھی ایک انعام ہے کہیں دوسرا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان ایام کو آپس میں پھیر رکھا ہے.پس رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں سورج اور چاند دونوں اکٹھے عبادتوں پر گواہ بنتے ہیں.ورنہ سارا سال سورج تو بنا رہتا ہے چاند گواہ نہیں بنتا.توفیهِ الْقُرْآنُ میں ایک یہ بھی مضمون ہے کہ کوئی چیز رمضان میں باقی ہی نہیں رہی جس کا بیان نہ ہوا ہو قرآن کریم میں.قرآن میں چاند والی عبادتوں کا بھی ذکر ہے، سورج والی عبادتوں کا بھی ذکر ہے ، رمضان میں یہ بھی دونوں اکٹھی ہو گئیں.
خطبات طاہر جلد 15 53 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء پس رمضان کے مہینے کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھیں جہاں ظاہری علامتوں کا نعطل ہو گیا ہے وہاں آپ پر فرض ہے کہ روز مرہ کے معمول کے دنوں کا اندازہ کریں.معمول کے دن قرآن کی تعریف سے یہ بنیں گے کہ جن دنوں میں صبح کی سفیدی اور شام کی شفق کے درمیان میں ایک اندھیرا حائل ہو، تاکہ قرآن کریم کی یہ بات پوری اتر سکے کہ سفید دھاگہ کالے دھاگے سے الگ ہو جائے اور اگر دونوں دھاگے ہی سفید ہوں تو پھر الگ کیسے ہوں گے.اس لئے تمام جماعتوں میں علماء کے ایسے بورڈ بنانے چاہئیں، ان تمام جماعتوں میں جو یا جنوب کے زیادہ قریب ہیں یا شمال کے زیادہ قریب ہیں تا کہ اپنی اپنی جماعتوں کی راہنمائی کر سکیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں بعض دفعہ ایک رمضان ایک جگہ غیر معمولی ہو جاتا ہے، دوسری جگہ معمولی رہتا ہے اور جتنا شمال کی طرف یا جنوب کی طرف جائیں گے اتنا ہی ایک ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی تفریق کرنا پڑتی ہے.پس بجائے اس کے کہ آپ ہر بات مرکز سے لکھ کر ہم سے حساب کروائیں ، اصول سمجھ لیں اور پھر جو آپ کے ہاں مختلف گورنمنٹ کے محکمے ہیں موسمیات کے ان سے مشورہ کریں.آبزرویٹری Observatory جو بھی ہے جو بھی ان کی رصد گاہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے وہ زمین و آسمان کا مطالعہ کرتے ہیں یعنی موسمیات کے دفتر اور ان کے محکمے ان سے مشورہ کر کے تو مختلف جماعتوں کے لئے رمضان سے پہلے ہی ان کے شیڈول Schedule بنانے چاہئیں اور بتانا چاہئے کہ فلاں جماعت کا معمول کا رمضان فلاں دن سے فلاں دن تک ہے اور فلاں سے فلاں دن تک کا جورمضان کا حصہ ہے وہ معمول سے نکل گیا ہے اس لئے وہاں آپ کو قرآن کریم اختیار دیتا ہے اور آنحضرت ﷺ یعنی آنحضرت ﷺ نے جو قرآن کا مفہوم سمجھا اور وہی درست ہے وہ آپ کو اختیار دیتا ہے کہ اندازے کے مطابق اپنی نمازوں کو بھی تقسیم کریں اور روزوں کے وقت بھی مقرر کریں.اور ایسی صورت میں دو طریق ہیں دونوں میں سے ایک آپ اختیار کر سکتے ہیں.ایک یہ ہے کہ معمول کے دن کے روزوں سے مراد بارہ گھنٹے کا دن ، بارہ گھنٹے کی رات لے لی جائے جو وسطی ہے لیکن اگر یوں کریں گے تو ان دنوں کا اس ملک کے باقی دنوں سے بہت زیادہ فرق ہو جائے گا اور جہاں بھی معمول کے دنوں کا غیر معمولی دنوں سے جوڑ ہوگا وہاں تفریق بہت بڑی ہو جائے گی.اس لئے دوسرا جو طریق ہے جو میرے نزدیک زیادہ مناسب ہے وہ یہ ہے کہ اپنے سے قریب تر معمول
خطبات طاہر جلد 15 54 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء کے دنوں کے مطابق عمل کریں.یعنی اگر ساٹھ (60) یا ستر (70) ڈگری شمال پر ایک ملک کا کوئی شہر آباد ہے اور اس ملک کا ایک حصہ پچاس (50) ڈگری یا چالیس (40) ڈگری شمال پر بھی ہے اگر ایک سال میں جو جنوبی حصہ ہے اس کا سارا رمضان معمول کا رمضان ہے یعنی سورج کی علامتیں اور چاند کی علامتیں پوری اس پر صادق آرہی ہیں اور شمالی حصے پر صادق نہیں آرہیں تو بجائے اس کے کہ وہ چھلانگ لگا کر خط استواء تک پہنچے اور وہاں کا معمول پکڑے، عقل تقاضا کرتی ہے کہ اپنے ہی ملک میں جو قریب تر جگہ ہے جہاں معمول کے روزے چل رہے ہیں ان کے اندازے کے مطابق اپنے روزوں کے اندازے کر لیا کریں.تہجد کا وقت بھی اس کے مطابق کرے اور سحری کا وقت بھی اور افطاری کا وقت بھی اور اس طریق پر انشاء اللہ تمام جماعت اسلامی کو وقت کے اختلاف کے باوجود بھی ایک وحدت ضرور نصیب ہوگی اور وحدت کے مختلف رنگ ہیں.ایک وحدت یہ ہے کہ ایک ہی اصول کے مطابق سب چلیں ، نئے اصول اپنی اپنی جگہ الگ نہ گھڑیں.قرآن کریم نے جو اصول بنایا ہے وہ بڑا واضح اور قطعی ہے جو میں آپ کے سامنے کھول چکا ہوں.آنحضرت ﷺ نے جو اس کا مطلب سمجھا اور دنیا پر خوب کھول دیا اس کے بعد آپ اس اصول پر عمل کریں پھر خواہ کسی کا رمضان کسی اور دن شروع ہو اور کسی کا اور دن شروع ہو وحدت میں فرق نہیں آئے گا کیونکہ وحدت تو حید کی اطاعت سے وابستہ ہے انسانی گھڑیوں کے حساب سے وحدت نہیں بنائی جاسکتی.اتنا فرق پڑ جاتا ہے زمین کے دور کی وجہ سے کہ ایک دن یہاں آج جمعہ ہے تو ایک ایسی جگہ ہے جہاں جمعرات ہے اور اسی وقت ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہفتہ طلوع ہو چکا ہے تو زبر دستی وحدت کیسے آپ بنائیں گے.توحید کے خلاف چل کر وحدت بنائی جاسکتی ہے؟ جس خدا نے پیدا کیا ہے اس کی غلامی میں وحدت بنے گی اس سے ہٹ کر نہیں بن سکتی.پس اس کے قوانین کو سمجھنا اور ان پر ایک اصول کے مطابق تمام دنیا میں یکساں عمل کرنا پھر اگر وقت تبدیل بھی ہوں تو وحدت نہیں ٹوٹ سکتی کیونکہ اللہ کے احکام کے تابع آپ منسلک رہیں گے، ایک لڑی میں منسلک رہیں گے کوئی آپ کو الگ نہیں کر سکتا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آج کے بعد اس بارہ میں مجھے مزید خط موصول نہیں ہوں گے ورنہ سارا رمضان کافی ڈاک پر بوجھ پڑ جاتا ہے.ہر آدمی اپنی جگہ سے پوچھتا ہے کہ بتاؤ ہم یہاں کیا کریں، ہم وہاں کیا کریں، تمام ممالک اس خطبہ کی روشنی میں کمیٹیاں بنائیں اور وہ سب کی راہنمائی
خطبات طاہر جلد 15 55 خطبہ جمعہ 19 جنوری 1996ء کریں اور جو اصول میں نے آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں وہ بالکل کھل چکے ہیں، مجھے نہیں سمجھ آ سکتی کہ اس کے بعد پھر بھی کوئی ابہام باقی رہے.اب اگلا حصہ ہے وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرِفَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ پر جو کوئی بھی مریض ہو یا سفر پر ہو فَعِدَّةٌ مِنْ اَيَّامٍ أُخَرَ تو اسے دوسرے ایام میں اس عدت کو پورا کرنا ہوگا یعنی مریض ہو تو روزہ نہ رکھے.سفر کے ساتھ یہ شرط نہیں لگائی کہ اگر سفر مشکل ہو تو روزہ نہ رکھے ،سفر آسان ہو تو رکھ لے.اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس آیت کی رو سے یہ واضح فتویٰ تھا کہ روزے کی آسانی یا مشکل زیر بحث نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت ہی میں آسانی ہے اور اسی میں نیکی ، اسی میں تقویٰ ہے.پس جب رمضان میں سفر آئے تو روزہ نہ رکھو اور جب رمضان گزر جائے تو جتنے روزے چھٹ گئے ہیں فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ پھر دوسرے دنوں میں اس مدت کو پورا کر لیا کرو.بعض لوگ سمجھتے ہیں یہ نیکی ہے کہ سفر میں بھی روزہ رکھ لیا جائے اور یہ زیادہ بہتر ہے حالانکہ بالکل غلط بات ہے.تمام روزہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں روزے آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ سارے ہی رکھ رہے ہوتے ہیں.اس لئے نفس کا بہانہ ہوتا ہے کہ میں نیکی کر کے سفر میں روزے رکھ رہا ہوں.نفس بعض دفعہ دھوکہ دیتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ سفر کے دوران رمضان میں روزے رکھ لئے جائیں تو وہ آسان ہیں.رمضان گزرنے کے بعد پھر وہ روزے پورے کئے جائیں تو یہ مشکل ہے.تو وہ اپنی طرف سے نیکی کر رہا ہوتا ہے، حالانکہ نفس کے بہانے کے تابع وہ خود دھو کہ کھا رہا ہوتا ہے.نیکی تنگی یا مشکل میں نہیں ہے.نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہے.جس بات کا اللہ حکم دے اسے قبول کرو جس کی وہ اجازت دے شوق سے اس اجازت کو استعمال کرو اور یہی انسانی فطرت کا تقاضا ہے.بعض دفعہ کسی کو آپ کوئی چیز دیتے ہیں بعض بچے آتے ہیں کہ نہیں نہیں رہنے دیں، کوئی ضرورت نہیں ، میں نے دیکھا ہے ماں باپ کی لگتا ہے جان نکل گئی ہے، فکر سے وہ ڈانٹتے ہیں ، ضرورت نہیں کیا مطلب لے لو تمہیں خدا نے توفیق دی ہے تمہیں کچھ انعام دیا جارہا ہے اسے ضائع مت کرو اور یہ انسانی فطرت کی آواز ہے کیونکہ وہ جو تکلف ہے جب کوئی دینے والا ایسا ہو جس سے تمہیں پیار ہو یا جس کے لئے تمہارے دل میں عزت ہو اس کا کچھ عطا کرنا اگر تم قبول کرو تو اس کے لئے خوشی کا موجب ہوتا ہے اگر نہ قبول کرو تو اس کے چہرے پر ملال کے آثار
خطبات طاہر جلد 15 56 60 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء آجاتے ہیں، اس کا دل چاہتا ہے میں دے رہا ہوں لے لے، اس کو بھی مزہ آئے مجھے بھی مزہ آئے.تو انسان کو خدا تعالیٰ نے اپنی فطرت کے مطابق پیدا فرمایا ہے.اس کا ایک یہ بھی معنی ہے اگر فطرت سچی اور پاک ہو تو اس کو دیکھ کر خدا کے منشاء کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ رعایت دے رہا ہے وہاں نہیں نہیں جی ہم تو سختی کر سکتے ہیں ، کوئی بات نہیں یہ بہت بے وقوفی کی بات ہے اس رعایت کو پیار اور محبت سے سر جھکا کر عشق کے جذبے سے قبول کرو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو چھ چھ مہینے کے مسلسل روزے رکھے ہیں اور ایسے روزے رکھے ہیں جن میں صبح اور شام کی خوراک اتنی کم ہو چکی تھی کہ ایک عام انسان اس پر زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کے باوجود عبادت کی سختیاں ، تو اس کا فتویٰ ہے یہ ، جس کی اپنی عبادتوں کا یہ حال تھا جس کا مطلب ہے کہ لازماً سراسر ایک عشق کے اعلیٰ مقام کا فتویٰ ہے.ایک ایسے عارفانہ مقام کا فتویٰ ہے جو جانتا ہے کہ نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم کی سختی کے ساتھ نہیں اور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں اور بہت سی باتیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے.پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دوتو چھوڑ دو جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو.پس فرمایا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا جو بیار ہو أَوْ عَلَى سَفَرٍ یا سفر پر ہو فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ تو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ بختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا.اپنی جان کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے.اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا اور کوئی دوست کسی دوست کے لئے سختی نہیں چاہتا.کوئی ماں کسی بچے کے لئے سختی نہیں چاہتی.پس یہ مفہوم بھی ہے جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے اس کے باوجود ماں صبح جلدی بچے کو اٹھا کر تیاری کرواتی ہے ، سکول بھجوانے کے لئے ، روتا پیٹتا بھی رہے تب بھی اس کو زبر دستی ٹھیک ٹھاک کر کے سکول بھیج دیتی ہے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ ماں تختی چاہتی ہے.اس حد تک سختی لازم ہے جس حد تک جس پر سختی کی جائے یعنی اپنا پیار اوہ اس سختی کا محتاج ہے اور اس کے بغیر وہ فوائد سے محروم رہ جائے.پس محبت میں جہاں سختی ہٹائی جا سکتی ہو ، ترک کی جاسکتی ہو ، محبت کرنے والا کبھی سختی میں نہیں ڈالے گا.جہاں تختی لازمہ ہے اس سے گزرے بغیر اپنے محبوب کی بھلائی ممکن نہیں ہے اس حد تک
خطبات طاہر جلد 15 57 خطبہ جمعہ 19 / جنوری 1996ء اور صرف اس حد تک سختی ایک پیار کرنے والے سے اپنے پیارے کے اوپر ڈالی جاتی ہے اور یہی عبادتوں کا سارا مفہوم ہے.جہاں سختیاں ہیں وہاں اس کے بدلے ضرور آسانیاں مقدر ہیں.ورنہ کبھی بھی خدا تعالیٰ انسان پرسختی نہ ڈالتا.چنانچہ فرمایا فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسرًا (الم نشرح: 7،6) دیکھو عبادت کے مضمون میں یہ بات ہو رہی ہے.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ لي وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبُ (الم نشرح : 8، 9) - تو عبادت کے تعلق ہی میں یہ بات ہو رہی ہے رمضان کی.فرمایا دیکھو جوختی بھی ہم ڈالتے ہیں ایک یہ معنی بھی ہے اس آیت کا لازماً اس کے بعد آسانی آتی ہے اور آسانی کی خاطر سختی ڈالی جارہی ہے، بختی کی خاطر سختی نہیں ڈالی جا رہی.پس قرآن کریم کی تمام آیات مسلسل اسی مضمون پر روشنی ڈالتی چلی جا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سختی کو پسند نہیں کرتا ، نہ بختی کی خاطر کسی کو سختی میں مبتلا فرماتا ہے ہاں بعض فوائد ایسے ہیں جو سختی میں سے گزرنے کے بعد آخر پر رکھے گئے ہیں.اب زمیندار ہے جو محنت کرتا ہے تو اس کو چھ مہینے یا سال کے بعد آنے والی فصل دکھائی دے رہی ہوتی ہے.اس کی خاطر وہ خود اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے.کوئی شخص اپنا دشمن نہیں ہوا کرتا سوائے اس کے کہ پاگل ہو.تو وہاں اس کو دکھائی دے رہا ہے کہ یہ بختی ہی مجھے مناسب ہے ، یہی مجھے راس آئے گی اور جہاں ہمیں دکھائی نہیں دے رہا ہوتا وہاں اللہ کو دکھائی دے رہا ہوتا ہے.پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سر تسلیم خم کریں.جو اللہ چاہے جس حد تک سختی ڈالے اسی حد تک قبول کریں اس سے آگے بڑھ کر زبر دستی سے آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے.چنانچہ اس مضمون پر آنحضرت ﷺ نے عبادتوں کے تعلق میں ہی ایک موقع پر بڑے جلال سے فرمایا کہ دیکھو تم اپنے اوپر سختیاں کر کر کے خدا پر غالب نہیں آسکتے.ناممکن ہے کہ تم زبر دستی خدا کو خوش کر سکو ہاں تم ٹوٹ جاؤ گے اور خدا کی تقدیر تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی.پس سختیاں خدا کی طرف سے بھی سختی کی خاطر نہیں ڈالی جاتیں اور انسان کو بھی زبر دستی خدا کو خوش کرنے کی توفیق نہیں ہے.ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو خود مارا جائے گا.اس لئے اس مضمون کو سمجھتے ہوئے اس رمضان میں داخل ہوں تاکہ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا یہ مضمون بھی روشن ہو کہ یہ رمضان ہمارے لئے بہت سی آسانیاں لے کر آئے جو پہلے نہیں تھیں.ان آسانیوں میں
خطبات طاہر جلد 15 58 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء سے عبادت کا سہولت کے ساتھ اور ہلکے مزاج کے ساتھ ادا کرنا ہے.بہت سے ایسے احمدی بڑے اور چھوٹے ہیں جو مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے عبادت بڑی مشکل ہے اور ہم خطبے سنتے ہیں ، سمجھتے بھی ہیں ، دل بھی چاہتا ہے مگر کیا کریں کہ دل کے اوپر وہ جو بو جھ سا رہتا ہے زبر دستی عبادت کرنے کا صلى الله وہ اترتا نہیں.رمضان کا ایک ایسا موقع ہے جس میں یہ بوجھ اتارنا آسان ہو جاتا ہے.رمضان میں عبادت کی جو ورزش کی جاتی ہے اس کے بعد نسبتاً زیادہ طاقت ور اور ہلکے محسوس ہونے والے بدن کے ساتھ انسان رمضان میں سے نکلتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ خدا کی خاطر خدا کی عبادتوں کی توفیق مانگنے کے لئے سب سے عظیم مہینہ رمضان کا مہینہ ہے کیونکہ اس مہینے کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبُ اگر تجھ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو کہہ دے کہ میں قریب ہوں اور بہت سے عارف باللہ ہیں جنہوں نے اس مضمون کو اسی معنی میں سمجھا کہ میں قریب ہوں خصوصیت سے رمضان میں.رمضان کی بات ہو رہی تھی تو کہو میں دور کہاں ہوں ، اب تو میں بہت قریب اتر آیا ہوں اور آنحضرت نے بہت سی احادیث میں بالکل یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ جیسا قریب رمضان میں خدا آتا ہے ویسا قریب نہیں آتا تو سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے بلاتا ہے.ایک شرط ہے فَلْيَسْتَجِيْبُوائی میری باتیں بھی تو مانا کریں.یک طرفہ تو نہیں کہ مصیبت میں پڑ گئے ، پیٹ میں درد ہو رہی ہے ، کینسر ہو گیا، کوئی رشتہ ٹوٹ رہا ہے، کوئی قرضوں میں مبتلا ہو گئے تو دوڑے دوڑے اس خدا کی طرف گئے جس کا عام حالات میں رستہ ہی نہیں آتا تھا.اس کے قریب نہیں ہے اللہ.اس کے قریب ہے جو ہمہ وقت قریب رکھتا ہے اور اگر عام حالات میں نہیں رکھتا تو رمضان میں تو اس نے نمازیں شروع کر دی ہیں نا.اب دیکھیں کتنے لوگوں کے واقعہ خدا قریب آ گیا ہے.بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سارا سال سوائے جمعہ کے کوئی نماز نہیں پڑھتے یا جمعہ بھی نہیں پڑھا کرتے تھے ، رمضان میں یا جمعہ شروع کر دیتے ہیں یا باقی نمازیں بھی شروع کر دیتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کا یہ اعلان رمضان کے تعلق میں کتنا مناسب حال ہے کہ تم میں سے بہت سے تھے جن سے میں دور تھا یعنی تم نے مجھے دور رکھا ہوا تھا.رمضان میں میں ان کے بھی قریب آجاؤں گا.پس رمضان میں مجھ سے دعا ئیں کرو، مجھ
خطبات طاہر جلد 15 59 59 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 1996ء سے مدد مانگو تو تمہاری مشکل آسانی میں تبدیل ہو جائے گی اور عبادت کی مشکل بھی تمہارے لئے آسان ہو جائے گی.اس رمضان سے گزر کے باقی سال کی عبادتیں پھر بڑے ہلکے انداز کے ساتھ تم کر سکو گے.تو دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں اللہ کرے ہم سب کے لئے یہ رمضان وہ تمام برکتیں لے کے آئے جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے اور واقعہ ہم خدا کو اس طرح قریب دیکھ لیں کہ ہم دعا کریں اور وہ ہماری دعاؤں کا جواب دے اور یہ بھی ممکن ہو گا اگر ہم ہمہ وقت اللہ کی پکار پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہیں، اپنی روح کے ساتھ بھی ، اپنے بدن کے ساتھ بھی ، اپنی جانوں کے ساتھ بھی ، اپنے اموال کے ساتھ بھی.اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 61 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء رمضان کی برکتوں ،اس کی مصلحتوں،اس کے گہرے فوائد کا صلى الله سب سے بڑا علم حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو تھا.( خطبه جمعه فرموده 26 جنوری 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّا مَا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) (البقرة: 184 185) فرمایا: گزشتہ خطبہ پر میں نے دو آیات کی تلاوت کی تھی جن کا رمضان سے تعلق تھا آج کے لئے میں نے دو اور آیتوں کا انتخاب کیا ہے جو اسی مضمون پر دوسرے پہلو سے روشنی ڈال رہی ہیں.اے لوگو جو ایمان لائے ہو كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اَيَّامًا مَّعْدُودَتِ گنتی کے چند دن میں فَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا پس تم میں سے جو بھی کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ تو اسے بعد کے ایام میں وہ مدت پوری کرنی ہو گی.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَہ اور وہ لوگ جو اس کی طاقت رکھتے ہیں فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ مسکین کا کھانا فدیہ دینا ہے یعنی ہ سے مراد کھانا
خطبات طاہر جلد 15 20 62 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء دینے کی طاقت رکھتے ہوں وہ کھانا دے دیں.دوسرا معنی ہے وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ اور وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت رمضان کے بعد بھی نہیں رکھتے ان کو چاہئے فِدْيَةٌ طَعَامُ مشکین کہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیں.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ پس جو کوئی بھی خیر کے معاملے میں تطوع کرے تو اس کے لئے بہتر ہے اور اگر تم روزے رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے کہ اس میں کیا فوائد ہیں اور یہ بہتر ہے اِن كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کاش تم جانتے ، کاش تمہیں علم ہوتا یا اگر تمہیں علم ہوتا تو تم یہی نتیجہ نکالتے کہ روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے.یہاں تطوع کا میں نے ترجمہ نہیں کیا فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا کیونکہ اس کے دو ترجمے رائج ہیں.دو ترجمے کئے جاتے ہیں جو دونوں جائز ہیں اور عربی گرائمر دونوں کی اجازت دیتی ہے.ایک ترجمہ جو زیادہ تر معروف ہے وہ یہ ہے کہ جو کوئی بھی بطور نفل نیکی کرے تطوع کے معنی ہیں نفلاً جہاں حکم نہ ہو بلکہ حکم کے بغیر ہی نیکی کی جائے.وہ نفلی نیکی ، طوعی نیکی ،طوعی لفظ جو ہے وہ یہی تطوع والا لفظ ہی ہے.یعنی دونوں ایک ہی روٹ سے نکلے ہوئے ہیں تو جو بھی کوئی نفلی نیکی کرے گا پس وہ اس کے لئے بہتر ہو گا.اس ترجمے میں کچھ وقتیں ہیں وہ یہ کہ اس سے پہلے یہ گزرا ہے فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْعَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پہ ہو وہ بعد کے ایام میں روزے رکھ لے.پھر اگر یہ کہا جائے کہ پس جو کوئی نفلی طور پر نیکی کرے وہ اس کے لئے بہتر ہے تو اس سے اس طرف ذہن جاتا ہے کہ اگر چہ اجازت ہے کہ رمضان کے دوران بیماری کی حالت میں اور سفر کی حالت میں روزے نہ رکھے جائیں مگر رکھ لوتو بہتر ہے کیونکہ یہ ایک نفلی نیکی ہوگی لیکن اس میں یعنی ترجمہ تو یہ کیا جاتا ہے مگر اس میں ایک بڑی دقت یہ ہے کہ فرض کے وقت نفلی نیکی نہیں کی جاسکتی.اگر فرض ادا ہو تو فرض ادا ہو گا فرض کے بدلے نفلی نیکی کا کوئی تصور نہیں ہے.پس یہ ناممکن ہے کہ نفلی طور پر فرضی روزے رکھ لو.اس لئے یہ ایک تضاد پیدا ہوجا تا معنی میں اور محل میں جو موقع ہے اس کے ساتھ یہ معنی ٹھیک نہیں بیٹھتا.دوسرا معنی ہے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرُ له جو کوئی اطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے.یعنی نیکی اطاعت ہی کا نام ہے کوئی اطاعت کی روح کو پیش نظر رکھے اور پھر نیکی کرے وہ نیکی ہے وہ اس کے لئے بہتر ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات طاہر جلد 15 83 63 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء کا فتویٰ میں نے پہلے آپ کے سامنے رکھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں مریض ہو یا سفر پر ہو تو یہ نیکی نہیں ہے کہ انسان زبر دستی روزہ رکھے.جب اللہ نے فرمایا ہے کہ پھر دوسرے ایام میں رکھو تو نیکی اطاعت میں ہے.پس اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس وقت روزے نہ رکھے اور بعد میں رکھے تو یہ دوسرا معنی جو ہے بعینہ اس کے ساتھ مطابقت کھاتا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے معنی پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے.Lane نے یہ دونوں معنی بیان کئے ہیں لکھتا ہے who so does good that is not obligatory on him یعنی نیکی نفلی نیکی.Or does good in Obedience نیکی کرے اطاعت کو اپناتے ہوئے.تو یہ جو اطاعت کو اپنانے والا معنی ہے یہ بہتر ہے اور مضمون کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی ترجمہ کیا ہے اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو وہ اس کے لئے بہتر ہے.بعد کا جو آخر پہ مضمون ہے وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ یہ رمضان کے متعلق عمومی حکم ہے اس کا اس استثنائی حکم سے کوئی تعلق نہیں کہ رمضان کے مہینے میں جو روزے ہیں وہ تمہارے لئے بہر حال بہتر ہیں.تمہیں علم نہ ہو تو الگ بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر تم علم رکھتے کہ روزوں کے کیا کیا فوائد ہیں تو تم جان لیتے اور یہی بات خود کہتے کہ یہ اچھی چیز ہے ہمارے فائدے میں ہے.اب وہ علم سے تعلق میں آنحضرت ﷺ کے کچھ ارشادات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ جب علم نہ ہو تو صاحب علم سے علم حاصل کرنا چاہئے اور رمضان کی برکتوں،اس کی مصلحتوں،اس کے گہرے فوائد کا سب سے بڑا علم حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو تھا.پس اسی حوالے سے اس علم کے تعلق میں چند احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں،ایک حدیث نسائی کتاب الصوم سے لی گئی ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ہو نے رمضان مبارک کا ذکر فرمایا اور اسے تمام مہینوں سے افضل قرار دیا اور فرمایا جو شخص رمضان کے مہینے میں حالت ایمان میں ثواب اور اخلاص کی خاطر عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا تو ہر رمضان ہمارے لئے ایک نئی
خطبات طاہر جلد 15 پیدائش کی خوشخبری لے کے آتا ہے.14 64 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء (سنن نسائی کتاب الصيام باب من قام رمضان و صامه ایماناو احتسابا) اگر ہم ان شرطوں کے ساتھ رمضان سے گزر جائیں جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تو گویا ہر سال ایک نئی روحانی پیدائش ہوگی اور گزشتہ تمام گناہوں کے داغ دھل جائیں گے.ایک دوسری حدیث بخاری کتاب صلاة التراویح سے لی گئی ہے بـاب فـضـل مـن قـام رمضان “.حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.ان دونوں حدیثوں میں تھوڑا سا فرق ہے.پہلی حدیث میں عبادت کا عمومی ذکر تھا جو اخلاص کے ساتھ ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عبادت کرتا ہے اس کی گویا کہ از سرنو روحانی پیدائش ہوتی ہے، یہاں تہجد کی نماز کا خصوصیت سے ذکر فرمایا گیا ہے جو رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.پس رمضان خصوصیت کے ساتھ تہجد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی تہجد کی نمازیں یوں کہنا چاہئے خصوصیت سے رمضان سے تعلق رکھتی ہیں اگر چہ دوسرے مہینوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں اور اس پہلو سے وہ سب جو روزے رکھتے ہیں ان کے لئے تہجد میں داخل ہونے کا ایک راستہ کھل جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر اگر عام دنوں میں تہجد پڑھنے کی کوشش کی جائے تو ہو سکتا ہے بعض طبیعتوں پر گراں گزرے مگر رمضان میں جب اٹھنا ہی اٹھنا ہے اور پیٹ کی خاطر اٹھنا ہے تو روحانی غذا بھی کیوں انسان ساتھ شامل نہ کر لے.اس لئے اسے اپنا ایک دستور بنالیں اور بچوں کو بھی ہمیشہ تاکید کریں کہ اگر وہ سحری کی خاطر اٹھتے ہیں تو ساتھ دونفل بھی پڑھ لیا کریں اور اگر روزے رکھنے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں پھر تو ان کو ضرور نوافل کی طرف متوجہ کرنا چاہئے.یہ درست نہیں کہ اٹھیں اور آنکھیں ملتے ہوئے سیدھا کھانے کی میز پر آجائیں ، یہ رمضان کی روح کے منافی ہے اور جیسا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا اصل برکت تہجد کی نماز سے حاصل کی جاتی ہے اور امید ہے کہ اب اس کو رواج دیا جائے گا، بچوں میں بھی اور بڑوں میں بھی.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے قادیان میں جو بچپن ہم نے گزارا اس میں تو یہ تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی شخص تہجد کے بغیر سحری
خطبات طاہر جلد 15 65 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء کھانا شروع کر دے، ناممکن تھا، بڑا ہو یا چھوٹا ہو وقت سے پہلے اٹھتا تھا اور توفیق ملتی تھی تو تہجد کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت بھی پہلے کرتا تھا پھر آخر پر سحری کے لئے وقت نکالا جاتا تھا اور سحری کا وقت تہجد اور تلاوت کے وقت کے مقابل پر ہمیشہ بہت تھوڑا سا رہتا تھا.بعض دفعہ جلدی جلدی کر کے ان کو کھانا پڑتا تھا کیونکہ اگر دیر میں آنکھ کھلی ہے تو کھانے کا حصہ نکالتے تھے تہجد کے لئے ، تہجد کا حصہ نکال کر کھانے کو نہیں دیا جاتا تھا.پس یہی وہ اعلیٰ رواج ہے جسے اس زمانے میں بھی رائج کرنا چاہئے اور اس پر قائم رہنا چاہئے.مسند احمد بن مقبل میں سے یہ حدیث ہے بحوالہ فتح الـربـانـی ، ابوسعید خدری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا اور ان کو پورا کیا اور جو رمضان کے دوران ان تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہنا چاہئے تھا یعنی جس نے ہر قسم کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو ایسے روزہ دار کے لئے اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں.پس وہ دیگر شرائط جو تہجد کی نماز یا عبادت ادا کرنے کے علاوہ لازم ہیں وہ یہ ہیں کہ تقاضوں کو پورا کیا جائے اور تقاضے پورے کرنے میں اہم بات یہ ہے کہ وہ ان تمام باتوں سے محفوظ رہے جن کے متعلق قرآن کریم میں یا احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ خصوصیت سے رمضان کے مہینے میں ان سے پر ہیز کیا جائے اور ہر قسم کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائے ایسا روزے دار اگر رمضان کے مہینے روزہ رکھتے ہوئے گزار دے تو اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے.بخاری کتاب الصوم سے ایک اور حدیث لی گئی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے.(صحیح بخاری کتاب الصوم باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأى كله واسعاً) اس ضمن میں ایک خطبے کا بڑا حصہ پہلے بھی اس حدیث کے لئے وقف کر چکا ہوں تا کہ عامۃ الناس کو جو اس حدیث کے الفاظ سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے اس کا ازالہ کیا جائے.ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ رمضان کے مہینے میں دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو دوزخی کام کرے اور ہر وہ شخص جس
خطبات طاہر جلد 15 60 66 خطبہ جمعہ 26/جنوری 1996ء پر رمضان کا مہینہ گزر رہا ہے خواہ مومن ہو یا کا فر ہو اس کے لئے جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور جہنم کے دروازے بند ہو جائیں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر مومن بھی ہو یعنی ظاہری طور پر ایمان لاتا ہولیکن رمضان کا مہینہ دیکھنے کے بعد اس کے تقاضوں کے خلاف بات کرے اور عمداً ایسی باتوں کا ارتکاب کرے جو رمضان کے منافی ہیں بلکہ عام دنوں کے بھی منافی ہیں تو ایسے شخص پر تو جہنم کے دروازے زیادہ زور سے کھولے جائیں گے.دراصل یہ خوشخبری ہے محض ان مومنوں کے لئے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہیں اور قرآن کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہیں.اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں مگر قرآن کریم بھی اللہ اور رسول کی اطاعت الگ الگ بیان فرماتا ہے.یہ بتانے کے لئے کہ اگر تمہیں براہ راست قرآن کریم میں کوئی حکم دکھائی نہ بھی دے رہا ہو مگر آنحضرت نے وہ حکم دیا ہو تو چونکہ اللہ کے حکم کے سوا وہ بات کرتے ہی نہیں تھے اس لئے یقین جانو کہ آپ کی اطاعت ویسی ہی ہے جیسے اللہ کی اطاعت ہے.پس اس وجہ سے قرآن کریم بار بار اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت پر زور دیتا ہے مگر حقیقت میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں کیونکہ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ رسول خدا کی اطاعت کے سوا کوئی اطاعت نہیں جانتا تھا.پس اس پہلو سے دروازے جب کھولے جاتے ہیں تو ان پر کھولے جاتے ہیں جو اللہ اور رسول کی اطاعت میں وقت گزارتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کے لئے جن پر یہ مبارک مہینہ طلوع ہوا لیکن اس کی طرف پیٹھ پھیر کے اس کے سارے تقاضوں کو جھٹلا دیا، اس کے سارے تقاضوں کو رد کر دیا، ایسے لوگوں پر تو جہنم پہلے سے زیادہ بھڑ کنے کے احتمالات ہیں بجائے اس کے کہ جہنم کے دروازے بند ہوں.تو امت محمدیہ جو حقیقی معنوں میں اطاعت خداوندی اور اطاعت رسول کی پابند ہو اس کے لئے خوشخبری ہے کہ ان پر دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ دوزخ کے دروازے ان پر رمضان کے بعد کیا کھول دئے جاتے ہیں ، رمضان ہی میں بند ہوتے ہیں؟ تو مراد یہ ہے کہ رمضان ان کے لئے اتنی نیکیوں کے پیغام لاتا ہے اور اتنی تقوی کی تعلیم دیتا ہے کہ ان کے لئے ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ کوئی ایسی حرکت کریں جو ان کو دوزخ میں لے جائے مگر عام دنوں میں بے احتیاطیاں ہو جاتی ہیں اور اتنی توجہ ، اتنے انہماک سے
خطبات طاہر جلد 15 67 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء نیکیوں پر عمل اور بدیوں سے بچنے کی طرف توجہ نہیں رہتی.اس لئے رمضان کا مہینہ مومن کے لئے سب سے زیادہ پر سکون مہینہ ہے ، سب سے زیادہ محفوظ مہینہ ہے.اس مہینے میں مومن کے لئے کوئی خطرہ در پیش ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہمہ وقت اس کی توجہ اس طرف رہتی ہے کہ اس رمضان سے میں نیکیاں کما کرگزروں اور بدیاں جھاڑ کر نکلوں.پس اس پہلو سے اس حدیث کو سمجھنا چاہئے کہ وہ مومن ہے جس پر یہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے لئے یہ سب کچھ ہوتا ہے جہنم کے دروازے بند ، جنت کے دروازے کھلے اور شیطان جکڑ دیا جاتا ہے.یعنی مومن کا شیطان، وہ شیطان بھی ہے جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور وہ ہر انسان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے.پس آپ دیکھ لیں کہ رمضان کے مہینے میں کتنی ایسی عادتیں تھیں جو نیکی کے اعلی معیار کے مطابق نہیں تھیں مگر اب جب آپ کی وہ عادتیں آپ کو اپنی طرف بلاتی ہیں تو بارہا آپ کے دل سے یہ آواز اٹھتی ہے ”نہیں“.معلوم ہوتا ہے کہ ایک قید ہے اور بہت سے روزے دار قید کا احساس نمایاں طور پر رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بھوک کوئی چیز نہیں ہے جو دراصل مشکل ہو.صبح سحری کھائی اس کا لطف الگ آتا ہے جب افطاری کا وقت آتا ہے تو اس کا ایک الگ لطف ہے.بیج کا جو وقت ہے وہ بھول جاتا ہے ان دو وقتوں کے درمیان.جو اصل چیز ہے وہ آزادی کا احساس ہے جس کی کمی محسوس ہوتی ہے.ہر شخص ہر روزے دار جانتا ہے کہ دن رات جو ہر وقت پابندی میں جکڑے ہوئے وقت گزرتا ہے اور نفس کے اوپر ہمیشہ یہ خیال غالب رہتا ہے کہ دیکھو تم آزاد نہیں ہو.یہ وہ چیز ہے جو در حقیقت مومن پر ، روزے دار پر بطور قید کے عیاں ہوتی ہے اور یہ شیطان کی قید ہے ورنہ نماز پڑھنے میں تو اس کو کوئی تنگی محسوس نہیں ہوتی قید کی.نیک کام کرنے میں ، اچھی بات کرنے میں جس کی اس کو پہلے سے ہی عادت ہو وہ بڑی بشاشت محسوس کرتا ہے اس کو کوئی قید محسوس نہیں ہوتی لیکن وہ عادتیں ہیں دراصل جو ظاہری طور پر اس کے سامنے اس کے دماغ میں ابھریں یا نہ ابھریں مگر قید کا احساس بعض ایسی بد عادتوں سے تعلق رکھتا ہے جو پہلے زمانے میں تھیں اور رمضان میں آکر محسوس ہوتا ہے کہ اب میں یہ نہیں کرسکتا.پس وہ قید شیطان کی قید ہے اور یہاں شیطان سے مراد عام شیطان نہیں ہے کیونکہ عام شیطان ہو تو وہ سب کے لئے جکڑا جائے گا ، عام شیطان اگر جکڑا گیا تو کیا مومن کیا کا فرسب کا شیطان
خطبات طاہر جلد 15 68 88 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء جکڑا گیا لیکن یہ وہ شیطان ہے جس کا ذکر احادیث میں دوسری جگہ ملتا ہے جہاں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر انسان کی رگوں میں ، اس کے خون میں ایک شیطان دوڑ رہا ہے وہ قید ہو جاتا ہے اور بڑی مشکل سے بعضوں کا وقت گزرتا ہے.وہ عید میں داخل ہوتے ہیں تو کہتے ہیں چلور ہائی ہوئی لیکن اگر وہ غور کریں تو سوچیں گے کہ بعض بد عادتوں کی طرف لوٹنے کو وہ رہائی کہتے ہیں اور بعض اچھی عادتوں سے بچ نکنے کو وہ رہائی سمجھتے ہیں لیکن انسان بسا اوقات باشعور طور پر اپنے نفس کا جائزہ نہیں لیتا خود اپنے حالات سے بھی بے خبر رہتا ہے اس لئے بس ایک مبہم سا احساس، ایک قید ہے جس میں سے وہ نکل کر پھر آخر عام دنوں میں داخل ہو جاتا ہے.تو یہ جو شیطان کا جکڑا جانا ہے یہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے ایک پیغام ہے، ایک نصیحت ہے جو گہری نفسیاتی نصیحت ہے.اس پر غور کر کے اگر آپ اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ شیطان کیا ہے؟ کیسے جکڑا جاتا ہے؟ تو پھر ممکن ہے کہ رمضان کے بعد بھی آپ اس شیطان کو باندھ کر رکھنے کی کوئی تدبیر سوچیں یا ہمہ وقت بیدار رہنے کی کوشش کریں کہ اب جب قید کیا ہے تو پھر قید ہی رکھا جائے تو بہتر ہے.ورنہ پھر یہ چھٹ جاتا ہے اور اگلے رمضان سے پہلے پہلے وہ ساری عادتیں ڈھا جاتا ہے جن سے بچنے کے لئے رمضان آپ کے لئے اس کی قید کا اور آپ کی رہائی کا پیغام لایا تھا.دراصل مومن، اعلی درجے کا مومن تو وہ ہے جو مسلسل جکڑا رہتا ہے.وہ ایک رمضان سے آزاد ہو کر نہیں نکلتا بلکہ قید ہی کی حالت میں جاتا ہے.یعنی اس کے نفس کی خواہشات کا جہاں تک تعلق ہے وہ قید رہتا ہے.پس شیطان مومن کے اندر کا شیطان ہے جو قید ہوتا ہے اور وہ قید ہو جائے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے گو یا مومن قید ہے تو وہ آزاد نہیں رہتا.چنانچہ اسی بات کو آنحضور ﷺ نے ایک اور محاورے میں یوں بیان فرمایا کہ الدنيا سجن للمومنين وجنته الكافر (صحیح مسلم كتاب الزهد والرقائق ) کہ دنیا تو مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے.اب آپ دیکھیں کہ یہاں شیطان کے لئے نہیں فرمایا بلکہ مومن کے لئے قید خانہ فرمایا ہے.پس وہی معنی بنتے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں کہ شیطان کا لفظ ہر شخص کے اندر کے شیطان پر اطلاق پاتا ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 69 69 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء ہر مومن کے اندر بھی ایک شیطان ہے جو ہمہ وقت اس کو آسانیوں کی طرف بلاتا اور خدا کی راہوں میں تکلیفوں سے ڈراتا ہے.ہر وقت اس کو من مانی کرنے کی تلقین کرتا اور اطاعت کے رستوں سے پیچھے ہٹاتا ہے.یہ شیطان ہے جو قید ہو جائے اور اگر اسے عمر قید ہو جائے تو پھر آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث صادق آئے گی.الدنيا سجن للمومنين وجنته الكافر.دنیا تو مومن کے لئے ساری زندگی قید ، خانہ بن جاتی ہے.پس عجیب بات ہے کہ لفظ مومن اور شیطان یہاں دونوں بظاہر ایک دوسرے پر انطباق کر رہے ہیں مگر معنی اگر سمجھ لئے جائیں تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے.مومن کے اندر نفس امارہ کا شیطان ہے جو زندگی بھر ہمیشہ قید رہتا ہے اور ان معنوں میں دنیا مومن کا قید خانہ بنتی ہے.پھر ایک اور حدیث میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے یہ بھی حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور جن جکڑ دیئے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں.(سنن الترمذى كتاب الصوم باب ماجاء في فضل شهر رمضان ) شیطان اور جن ! یہ جن کیا چیز ہے جو شیطان کے ساتھ جکڑا جاتا ہے.شیطان اگر نفس امارہ ہے تو جن غصے کی حالت میں اور اشتعال کی حالت میں اپنے حواس کو بے قابوکر دینا یا حواس پر سے قابو اٹھا لینے کا نام ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے غصے کو بھی ”جن“ کے لفظ سے یاد فرمایا ہے.پس شیطان کے علاوہ جن اس طرح قید ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو ہیں بڑی جلدی مشتعل ہونے والے لوگ ہوتے ہیں اور مغلوب الغضب ہوتے ہیں مگر روزے کی حالت میں جب کوئی ان سے ایسی بات کہے جس کو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری بے عزتی ہو گئی ، ہم پر چوٹ ماری گئی ہے تو اچانک آنحضرت ﷺ کی آواز سنائی دیتی ہے کہ کوئی غصہ کرے، کچھ زیادتی کرے تم نے آگے سے ویسا جواب نہیں دینا.تم یہ کہو میں روزے سے ہوں، میں مجبور ہوں.تو قید جو ہے وہ جن کی بھی ساتھ ہوگئی ہے اور جن سے مراد غصے کا جن ہے.تو اشتعال کی حالت میں جو لوگ بدیاں کرتے اور بعض دفعہ ایسے ظلم کر جاتے ہیں کہ پھر ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ اپنے جن کی سزا پاتے رہتے ہیں.ایک اشتعال کی حالت کا فعل عمر بھر کی قید میں اس کو مبتلا کر سکتا ہے یا پھانسی کے تختے پر لٹکا سکتا ہے یا اور کئی قسم کے عوارض میں مبتلا کر سکتا ہے کئی قسم کے پچھتاوے لگ جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 70 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء تو جن بھی بڑی خطرناک چیز ہے مگر اگر آپ کو پتا ہو کہ جن ہے کیا ؟ ورنہ اور جن اگر آپ تلاش کرتے پھریں کہ باہر سے کوئی جن آیا تھا یا نہیں آیا تھا تو کچھ بھی نہیں ملے گا آپ کو اور آپ کو پتا بھی نہیں لگے گا کہ جن آزاد ہے حالانکہ آپ کی خاطر قید کیا جانے والا جن یہ غصے کا جن ہے اور شیطان نفس امارہ کا شیطان ہے.یہ دونوں قید ہو جائیں تو آگ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ان کا آپس میں تعلق ہے.ہر ایک کے لئے آگ کے دروازے بند نہیں ہوتے جن کا جن قید ہو جائے ،جن کا شیطان پکڑا جائے ان کے لئے آگ کے دروازے بھلا کیسے کھل سکتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں یہ ایک طبعی نتیجہ ہے.نفس امارہ کو لگا میں دے دیں اور غصے کو قابو میں کر لیں تو اس کے نتیجے میں لازم ہے کہ آپ سے ایسی نیکیاں سرزد ہوں جو خدا کے ہاں آپ کو مقبول بنا دیں چنانچہ فرمایا جنت کے دروزے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک منادی کرنے والا منادی کرتا ہے اسے خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے شر کے چاہنے والے رک جا اور اللہ کے کئی ایسے بندے ہیں جنہیں آگ سے نکالا جاتا ہے یہ ہر رات کو ہوتا ہے.تو یہ ایسی تجربہ گاہ ہے رمضان جس میں انسان کو موقع ملتے ہیں اپنے اوپر تجربات کرنے کے ،نیکیوں میں آگے بڑھنے کے، بدیوں سے روکنے کے تجربے ، غصے کی حالتوں پہ قابو پانے کے نفس امارہ کے خلاف ایک جہاد کرنے کا موقع ، ان موقعوں سے جو کامیابی سے گزر جاتا ہے اس کے متعلق کیا ہی سچ فرمایا ہے کہ ایسے بندے ہیں جنہیں آگ سے نکالا جاتا ہے.ہر رمضان ایک شخص کو ہمیشہ کے لئے جہنم سے نکال لیتا ہے اس جہنم سے جس کی طرف وہ روز مرہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کا کوئی اس کو خیال نہیں ہوتا کوئی شعور نہیں ہوتا اور فرمایا ایسا ہر رات کو ہوتا ہے.پس بڑے ہی وہ خوش نصیب ہیں جو رمضان کی راتوں میں کسی رات کو اُٹھ کے جب تہجد پڑھ رہے ہوں تو دل پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جائے کہ انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دے.ان کو خواب غفلت سے بیدار کر دے.انہیں احساس ہو کہ اب مجھے لازماً ایک نئے وجود کے طور پر زندہ رہنا ہوگا اور اس پہلو سے اس احساس کے بعد جب وہ خدا تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے تو ہر رات خدا کے ایسے بندے ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ جہنم سے نکل گئے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا
خطبات طاہر جلد 15 66.71 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء الصيام جُنّة“ کہ روزہ ڈھال ہے.(صحیح مسلم ،کتاب الصيام باب فضل الصيام) ڈھال وہ چیز ہے جس سے ہر قسم کے خطروں کا مقابلہ کیا جاتا ہے.پس روزے کی پناہ میں آجاؤ تو ہر قسم کے فساد، ہر قسم کے خطروں سے بچ جاؤ گے لیکن اگر روزہ رکھا ہو اور منہ پر وہی پہلے کی طرح لغو باتیں یا گالی گلوچ یا اشتعال انگیز باتیں کرنا اور اشتعال انگیز باتوں کے جواب میں بے قابو ہو جانا یہ ادائیں پہلے کی سی اگر جاری رہیں تو اس روزے کا کیا فائدہ؟ ایسا روز محض بھوک کی سزا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں رہتی.آج صبح جب پاکستان کی خبروں سے متعلق جنگ اخبار دیکھا تو اس امید سے دیکھا کہ شاید اب یہ خبر مل جائے کہ رمضان کے مہینے میں کوئی قتل و غارت نہیں ہوگا، کوئی فساد نہیں ہوگا، پاکستان کی گلیوں میں کم سے کم کچھ عرصے کے لئے تو امن آجائے گا اور اس خوف سے دیکھا کہ کہیں یہ میری امید جھوٹ ہی نہ نکلے تو خوف سچا نکلا اور امید جھوٹی نکلی.کیونکہ اخبار اسی طرح گناہوں کی خبروں سے کالا ہوا پڑا ہے.ہر قسم کے فساد کی خبریں موجود ہیں اور رمضان شریف کے احترام کے ذکر شاید مسجدوں میں ملتے ہوں مگر پاکستان کی گلیاں، پاکستان کے گھر ، پاکستان کے بازار، پاکستان کے دن، پاکستان کی راتیں اس رمضان سے بے خبر ہیں جس رمضان کا ذکر میں حضور اکرم ﷺ کی زبان سے آپ کے سامنے کر رہا ہوں کسی بے چارے کو وہ ڈھال ہی میسر نہیں.ایک ہی شہر میں ایک خاندان کو اس طرح ذبح کر دیا جاتا ہے.آج ہی کی خبر میں تھا کہ ایک شخص جو اپنی فیکٹری میں سویا ہوا تھا وہ روزہ رکھنے کی نیت سے گھر گیا تو بیوی نے کہا کہ سوئی گیس بند ہو گئی ہے اس لئے روٹی نہیں پکا سکی.وہ واپس اپنی فیکٹری کی طرف گیا کہ شاید بازار سے چیز لے کے کھائے لیکن اس کے بعد دیکھا نہیں گیا.تو دوسرے دن جب پتا چلا کہ وہ چور یا ڈا کو یا اس کے دشمن اس وقت آئے ہیں جبکہ سحری کا وقت تھا اور پہلے اس کو وہاں ذبح کیا پھر اس کو گھسیٹ کر باہر لائے اس کے اپنے دفتر کا سامان ٹیلی ویژن وغیرہ کا الا ولگا یا اور اس آگ میں اس کو جلا کر خاکستر کر دیا.یہ جہنم کا دروازہ بند ہے یا کھلا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے.پس جہنم کا دروازہ کھل بھی جاتا ہے اور اس طرح بھڑک بھی اٹھتا ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو آنحضرت مہ اور قرآن کے احکامات کے دائرے سے باہر زندگی بسر کرتے ہیں.پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا: ان لكل شئی بابا و باب العبادة الصيام - يي جامع
خطبات طاہر جلد 15 الصغیر سے حدیث لی گئی ہے.72 14 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء (الجامع الصغير في احاديث البشير النذیر از امام جلال الدین سیوطی صفحہ نمبر 146 حدیث نمبر (2415) اسی طرح ایک دار قطنی بحوالہ جامع الصغیر حدیث ہے.اذا سلم رمضان سلمت السنة (الجامع الصغير في احاديث البشير النذیر از امام جلال الدین سیوطی صفحہ نمبر 48 حدیث نمبر (685) پہلی حدیث کا ترجمہ ہے ہر چیز کا ایک دروازہ ہے اور عبادت کا دروازہ روزے ہیں.دوسری حدیث کا ترجمہ ہے کہ جب رمضان سلامتی سے گزر جائے تو سمجھو کہ سارا سال سلامت ہے.جب رمضان سلامت رہا تو سارا سال سلامت رہا.یہ ترجمہ ہے.پہلی حدیث میں جو یہ فرمایا گیا کہ عبادت کا دروازہ رمضان ہے تو اس سے کیا مراد ہے کیا رمضان کے بغیر عبادت نہیں ہوتی.پانچوقتہ نماز جو فرض ہے اس کے علاوہ بھی تو بہت سی عبادت ہے تہجد کی نمازیں بھی ہیں یہ سارا سال ہوتی رہتیں ہیں تو صیام کو عبادت کا دروازہ کیوں فرمایا گیا ہے؟ ایک تو یہ معنیٰ ہے کہ عبادت کا وسیع تر مفہوم جس میں بندگی بھی شامل ہے جیسا رمضان سکھاتا ہے ویسا کوئی اور مہینہ نہیں سکھاتا.دوسرے یہ کہ رمضان کے وقت عبادت کے لئے ایسا جوش پیدا ہوتا ہے اور ایسی گرمی پیدا ہوتی ہے کہ حقیقت میں اگر عبادت کی لذت پانی ہو تو رمضان کے رستے سے داخل ہو پھر تمہیں یہ بات سمجھ آئے گی کہ عبادت کیا ہوتی ہے؟ پس یہ مفہوم ہے ” عبادت کا دروازہ “ ورنہ یہ مراد نہیں کہ رمضان کے بغیر عبادت نہیں ہوسکتی.دوسری حدیث میں ہے رمضان سلامت رہا تو سارا سال سلامت رہا.اس حدیث میں جو مومن سے توقع ہے کچھ اس کا بھی بیان ہے کہ وہ مومن جو حقیقت میں رمضان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور کوئی تقاضا تو ڑتا نہیں اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اس کا آئندہ سارا سال سلامتی سے گزرے گا.پس پہلی جو احادیث تھیں ان میں ماضی کے تعلق سے خوشخبری دی گئی تھی یعنی پچھلے جو گناہ ہیں وہ معاف کر دیئے جائیں گے ، گزشتہ کو تا ہیاں جو ہوئیں ان سے صرف نظر فر مایا جائے گا اس لئے فکر نہ کر واگر رمضان نصیب ہو گیا تو جو کچھ پہلے لغزشیں ہوئیں، کوتاہیاں ہوئیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی معاف فرمادے گا.اب اس حدیث میں یہ خوشخبری ہے کہ اگر تم صحیح طور پر رمضان کے تقاضے پورے کرو گے
خطبات طاہر جلد 15 73 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء تو رمضان کا مہینہ تمہیں بچالے جائے گا اور تمہارا پورا سال بچادے گا.پس تم نے رمضان کے مہینے میں جو رستہ اختیار کیا ہے وہ پورے سال تک کے لئے رمضان سے طاقت پائے گا اور سیدھا رہے گا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی گولی بندوق کی نالی سے نکلتی ہے اگر چھوٹی نالی ہو تو بہت جلدی وہ رستے سے بھٹک جاتی ہے اور جتنی لمبی نالی ہو اتنی زیادہ دیر تک سیدھی نشانے کی طرف حرکت کرتی رہتی ہے.پس اسی لئے لمبی نالیوں سے دور کے نشانے لئے جاتے ہیں، چھوٹی نالیوں سے نزدیک کے نشانے لئے جاتے ہیں.پس تمہیں دن کا جو خدا تعالیٰ نے رمضان رکھا.یہ ایک ایسی نالی ہے جس میں اگر آپ سیدھے رہ کر گزریں اور رمضان کے حقوق ادا کرتے ہوئے گزریں تو سارا سال آپ کو سیدھا رکھے گی یہاں تک کہ اگلا رمضان آجائے گا اور پھر اگلے رمضان میں ایک اور نالی میں پھر دوبارہ داخل ہوں گے پھر آپ کو سیدھا کیا جائے گا، آپ کی کجیاں صاف کی جائیں گی تو ساری زندگی بچتی ہے اصل میں.ایک رمضان کو آپ سلامتی سے گزار لیں تو گویا اگلا سال سلامتی سے گزر گیا اور جب ہر دور مضان کے درمیان سال سلامتی سے گزرے تو دوسرے معنوں میں ساری زندگی سلامتی سے گزر جائے گی.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے ابن ماجہ سے لی گئی ہے.فرمایا: ہر چیز کو پاک کرنے کے لئے ایک زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوۃ اور پاکیزگی کا ذریعہ روزہ ہے.“ (سنن ابن ماجه کتاب الصيام باب في الصوم زكاة الجسد) زکوۃ اموال کو پاک کرنے کے لئے بھی دی جاتی ہے اور اعمال کی نشو و نما کے لئے بھی دی جاتی ہے دونوں معنی بیک وقت اس میں موجود ہیں اور تزکیہ نفس کے لئے بھی دی جاتی ہے.پس آپ نے فرمایا کہ جسم کو اگر پورے طور پر اس کے ہر پہلو سے دیکھا جائے تو روزہ ایسی چیز ہے جو سارے جسم کی زکوۃ بن جاتا ہے اور اس کے متعلق تشریح ایک اور حدیث میں یوں بھی آئی ہے کہ صوموا تصحو اگر تم روزے رکھو گے تو صحت مند رہو گے.(المعجم الأوسط للطبراني ، باب الميم ، من بقية من اول اسمه.میم ، موسى بن ذكريا التسترى) پس صرف روحانی زکوۃ ہی نہیں بدنی زکوۃ بھی ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روزے کے نتیجہ میں صحت بہتر ہوتی ہے خراب نہیں ہوا کرتی بشر طیکہ بیماری کی شرط کو
خطبات طاہر جلد 15 74 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء پیش نظر رکھے.جب اللہ فرماتا ہے کہ بیمار ہو تو روزے نہیں رکھنے.اگر اس شرط کو نظر انداز کریں گے تو پھر صحت بگڑے گی تو آپ کی اپنی غلطی سے بگڑے گی.رمضان کے نتیجے میں صحت نہیں بگڑا کرتی بلکہ صحت عطا ہوتی ہے.وہ لوگ جو ڈائٹنگ Dieting کرتے ہیں مثلاً، بڑی مصیبت پڑی ہوتی ہے سارا سال کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی وزن کم نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ضروری نہیں کہ وہ کھانا زیادہ کھاتے ہوں.کئی ایسے موٹے میں نے دیکھتے ہیں میرے پاس مریض آتے رہتے ہیں جن کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ کھانا کم کر دیں تو خون کم ہو جاتا ہے مگر جسم کم نہیں ہوتا اور کئی ایسی مریضا ئیں آئیں ہیں جن کو بیچاروں کو انیمیا ہو گیا اس کوشش میں کہ کسی طرح وزن کم ہو یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے مجبور کیا کہ اپنی غذا نارمل کرو خواہ وزن کم ہو یا نہ ہو تو یMetabolism کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ موٹاپا ہوتا ہے.لازم نہیں کہ کوئی انسان زیادہ کھائے تو موٹا ہو.Metabolism اس کو کہتے ہیں کہ ایک انسان جب خوراک لے رہا ہے تو وہ خوراک جسم میں ہضم ہو رہی ہے اور دوسری طرف جسم کے اندر ایسا نظام ہے کہ اس خوراک کو دوبارہ Energy میں یعنی توانائی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور وہ توانائی اس کے مختلف کاموں میں استعمال ہوتی ہے.دماغ کے لئے بھی ،سانس لینے میں، دل کے دھڑ کنے میں خواہ انسان کوئی حرکت دوسری کرے یا نہ کرے ہر وقت استعمال ہو رہی ہے اور گرمی بھی بناتی ہے حرارت غریزی بھی اسی سے ملتی ہے.اگر یہ توازن بگڑ جائے اور ایک انسان جتنا کھاتا ہے اتنا وہ گرمی میں تبدیل نہ کر سکے تو لازماً جو بقیہ بچی ہوئی Enegy ہے وہFats میں یا گوشت میں تبدیل ہو گی.صحت اچھی ہو گی ورزش کی عادت ہو گی تو وہ Muscles میں تبدیل ہوتی ہے پھر اور پروٹیز بنتی ہیں اس سے، اور اگر صحت خراب ہو اور جگر کی خرابی سے عموماً ایسا ہوتا ہے تو پھر صرف چربی بنتی ہے اور مسلز نہیں بنتے اور ایکسر سائز اس کا علاج ہے بعضوں کو اتنی توفیق نہیں ہوتی بعض بیچارے اتنے بیمار ہوتے ہیں کہ Excercise یعنی ورزش کے باوجود وہ یہ توازن برقرار نہیں رکھ سکتے.یہ ہے وہ صورتحال جس کا علاج روزہ ہے اور روزے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو دو کھانوں کے درمیان فاصلہ ڈالا جاتا ہے وہ بعض دفعہ خوابیدہ ایسی طاقتوں کو بیدار کر دیتا ہے جوانر جی بنانے کی کارروائی کو تیز کر دیتے ہیں.ایسے لوگ جن کو عام طور پر بھوک نہیں لگتی روزے میں سے گزریں
خطبات طاہر جلد 15 75 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء تو بھوک ان کی ٹھیک ہو جاتی ہے.بعض لوگ ڈائٹنگ کرتے ہیں لیکن روزے کے بعد ان سے ڈائٹنگ نہیں ہو سکتی کیونکہ جسم کی طرف سے ایسی بھڑ کی لگتی ہے کہ مجبور کرتی ہے کہ ضرور انسان کچھ نہ کچھ کھائے ورنہ بے چینی رہتی ہے یعنی بے چینی زیادہ بڑھ جاتی ہے.یہ وہ مضمون ہے جو صحت سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی اور بھی بہت سی شاخیں ہیں.تمام تفصیل شاخوں کی بحث، میں اس خطبے میں نہیں اٹھانا چاہتا مگر یہ یقین کریں کہ جنہوں نے غور کیا ، جنہوں نے تحقیق کی وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ روزہ صحت کا ضامن ہے، روزہ صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا.چنانچہ ایک تحقیق کا شاید میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا.اسرائیل میں اس مضمون پر ریسرچ ہوئی اور ان کی نیت بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ مسلمانوں کا جو یہ طریق ہے روزے رکھنے کا یہ ان کے لئے نقصان دہ ہے اور بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے بڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے.چنانچہ پوری گہری ریسرچ کی گئی ، ایک بڑی ٹیم نے اس پر کام کیا اور یہ بھی پیش نظر تھا کہ روزے کے دنوں میں تو بعض لوگ پہلے سے بھی بڑھ کر کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے نتیجے میں اور بیچ میں فاقے رہنے کے نتیجے میں ایسا نقصان ان کو پہنچ سکتا ہے کہ پھر وہ بعد میں سنبھل نہ سکیں.جوریسرچ کا ماحصل تھا اس نے ان کو حیران کر دیا بالکل برعکس نتیجہ نکلا.جس چیز کی تلاش میں تھے اس کی بجائے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جتنی تحقیق کی گئی ہے اس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے کے بعد انسان بہتر صحت کے ساتھ باہر نکلتا ہے، کمزور ہو کے نہیں نکلتا.ہر پہلو سے اس کے جائزے لئے گئے.کولیسٹرول لیول کے لحاظ سے جائزے لئے گئے Metabolism کی Ratios کے آپس میں توازن کے لحاظ سے لئے گئے غرضیکہ باقاعدہ ریسرچ کا جو حق ہے وہ ادا کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا ہے.پس آنحضرت صلى الله نے چودہ سو سال پہلے جو بات فرمائی دیکھیں کیسی صحت کے ساتھ وہ بات فرمائی ،کتنی سچی بات فرمائی صـومـو تـصـحـوا روزے رکھا کر و صحت اچھی ہو جائے گی ، یہ خیال نہ کرنا کہ تمہاری صحت بگڑے گی.پھر ایک موقع پر فرمایا صبر کے مہینے کے روزے سینے کی گرمی اور کدورت دور کرتے ہیں اور رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ کہلاتا ہے کیونکہ اپنی خواہشات پر صبر کرنا ہے اپنے غصوں پر صبر کرنا ہے نیکیوں پر جم کے بیٹھنا ہے.بدیوں کی طرف جو تحریک ہے اس کا مقابلہ کر کے رک جانا ہے.ان سب چیزوں کو صبر کہا جاتا ہے.تو فرمایا صبر کے مہینے یعنی رمضان کے روزے سینے کی گرمی اور کدورت کو دور
خطبات طاہر جلد 15 76 خطبہ جمعہ 26 /جنوری 1996ء کرتے ہیں.سینے کی گرمی میں ایک وہ گرمی بھی ہے جو میں نے بتایا ہےHeart Burns اور اس قسم کی چیزیں لیکن اصل سینے کی گرمی میں روحانی طور پر نقصان دہ جذبات اور اشتعال انگیز باتیں ہیں.بعض لوگوں کے سینے کھولتے رہتے ہیں بعض بری نیتوں کے ساتھ بعض بدیوں کے ساتھ ، کچھ غصوں کے ساتھ تو اول معنی وہ ہے جو سینے کی گرمی کو دور کرنے کا ہے ورنہ جہاں تک Heart Burns کا تعلق ہے وہ بسا اوقات بعض لوگوں کو رمضان کے مہینے میں زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے اس کو ظاہری معنوں میں اس طرح محمول نہیں کیا جا سکتا.ہاں یہ درست ہے کہ کولیسٹرول لیول گرنے کے نتیجے میں رمضان کے بعد اس کا رجحان کم ہو جائے گا لیکن بعض لوگ ہیں جو فوری طور پر اگر کوئی دو او غیرہ استعمال نہ کریں تو ان کے روزوں کی وجہ سے ان کے معدے میں ایک قسم کا تیز اب کھولنے لگتا ہے.اس کا علاج بھی میں آپ کو بتادیتا ہوں.عام طور پر میرے تجربے میں ہے کہ Bryonia 200 کی اگر ایک خوراک رات کو روزہ کھولنے کے دو تین گھنٹے کے بعد یا صبح تہجد کے وقت کھالی جائے تو ایسے مریضوں کو عموما اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور رمضان کے نتیجے میں جو تیزابی تلخی ہے اس سے بچت ہو جاتی ہے.جن کو اس دوا سے فائدہ نہ ہو ان کو 30 Nux Vomica کی ایک خوراک بہت فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح Acid معدے کا تیز اب مارنے کے لئے بعض دوسری ہومیو پیتھک دوائیں ہیں وہ استعمال کی جاسکتی ہیں ان میں 200 Iris Versicolor اگر کبھی کبھی کھائی جائے تو یہ بھی مفید ہے.Robina بھی ایک دوا ہے جو 30 یا 200 طاقت میں کھائی جاسکتی ہے.تو جو جسم کی اندرونی تیزابی گرمی ہے اس کے لئے یہ علاج موجود ہے لیکن یہاں ظاہر ہے کہ مراد وہ سینے کے طیش ، سینے کے کھول ، غصے کی حالت میں سینے میں جو باتیں ابلتی رہتی ہیں یا نفسانیت کے جوش سے جو سینے میں جذبات کھولتے رہتے ہیں رمضان ان کا بہترین علاج ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے اور بھی بہت سی نصیحتیں ہیں انشاء اللہ ان کو پھر میں آئندہ خطبے میں بیان کروں گا.اب ایک دو باتیں ایسی ہیں جو اس کے علاوہ کرنے والی ہیں.ذکر کرنا ہے MTA کا،MTA کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو تمام دنیا میں اسلام اور احمدیت کا فیض پہنچایا جارہا ہے اس کے رستے میں کچھ روکیں پیدا ہوئی تھیں جس کے لئے میں نے جماعت کو دعا کے لئے بھی تحریک کی اور امید بھی دلائی تھی کہ انشاء اللہ یہ سب روکیں دور ہو
خطبات طاہر جلد 15 77 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء جائیں گی.تو پہلی خوشخبری تو یہ ہے کہ وہ جو مستقل انتظام ہمارا، اس کو عالمی تو نہیں کہنا چاہئے اردو میں اس کا ترجمہ مشکل ہوگا لیکن ایسا ٹرانسپانڈر Transponder جو آدھی دنیا کو بیک وقت تمام سگنلز دے سکتا ہے اور بڑی صفائی کے ساتھ دے سکتا ہے وہ ٹرانسپا نڈر Transponder جس کی موجودہ طاقت جتنے بھی ٹرانسپانڈر رائج ہیں ان میں اوپر کی ، چوٹی کی طاقت ہے وہ لینے کی کوشش ہو رہی تھی تا کہ جو سرسری انتظام ہے تین چار مہینے کے لئے اس کی خامیوں سے بچا جاسکے.جو سرسری انتظام ہے اس میں ہمیں دو ہیمی ، بیمز Hemi-Beams لینی پڑتی ہیں اور یہ جو میں کہ رہا ہوں اس کو گلوبل ہیم کہا جاتا ہے اگر چہ یہ آدھی دنیا کی بیم ہوتی ہے پوری دنیا کی نہیں.مگر نصف کرہ ارض کے لئے یہ ہیم ہوتی ہے وہ مل نہیں رہی تھی.اس کے اوپر بہت سے پہلے سے ہی ان کے تقاضے موجود تھے اور ایک ایسی بیم تھی جس کے متعلق خیال تھا کہ اگر ہمیں مل جائے تو ہماری ساری مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا اور وہی گلوبل ہیم ہی تھی اور اس کی طاقت بھی زیادہ تھی صرف مشکل تھی کہ اس میں خرچ زیادہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ بہت قیمتی بیم ہے وہ.مگر میں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے، پہلے بھی اللہ ہی پورے کر رہا ہے ہم کونسا اپنے زور بازو سے پیسے لا رہے ہیں انتظام ہو جائے گا لیکن لینی ضرور ہے.کمپنی نے جواب دیا کہ لینی تو ضرور ہے مگر مشکل ہے کہ ایک آدمی نے پہلے سے ریز رو کرائی ہوئی ہے یا ایک کمپنی نے ریز رو کروائی ہوئی ہے اور ہمارا قانون یہ ہے کہ اگر تم نے ضرور لینی ہے تو اتنے پیسے پیشگی جمع کراؤ جو اس بہیم پر لگیں گے اور پھر پینتالیس دن انتظار کرو.اگر اس پینتالیس دن کے عرصے میں اس نے اپناClaim کر دیا تو تمہارا کلیم ختم اور ہم اسے مجبور کریں گے کہ اب پیسے دے اور بیم سنبھالے.آپ اندازہ کریں کہ وہ ایک ایک دن کتنا بھاری ہوگا، بہت دعائیں کرتے ہوئے وقت گزرا ، ہر روز یہی فکر تھی کہ خدا کرے آج نہ کہیں اس نے کہہ دیا ہو یہاں تک گزشتہ پیر پہلا روزہ تھاوہ آخری دن تھا اور بڑی مشکل سے روزہ کٹا ہے لیکن اللہ نے خوشخبری دی اور وہ دن پورا گز ر گیا اور اس کمپنی یا اس شخص کو توفیق نہ ملی کہ وہ اپنی ریز رو کی ہوئی ہیم کو سنبھال لے.پس جونہی ہمیں اطلاع ملی اسی وقت کنٹریکٹ فائنلی سائن کر دیئے گئے ہیں.اب یہ خوشخبری ہے سارے عالم احمدیت کو اور دوسری دنیا کو بھی کیونکہ وہ سب فیض اٹھارہے ہیں کہ بیچ میں جو خلا رہ گئے تھے اس عارضی انتظام میں مثلاً مشرق وسطی میں جو سعودی عرب کے بعض علاقے اور ابوظہبی وغیرہ وہاں موجودہ انتظام نہیں
خطبات طاہر جلد 15 78 خطبہ جمعہ 26 جنوری 1996ء - دیکھا جاسکتا کیونکہ دو بیمز کے درمیان بیچ میں ایک سایہ سا بن جاتا ہے اور اس سائے پہ کچھ بھی نہیں دیکھا جا سکتا.اب جو گلوبل ہیم ہمیں ملی ہے یہ جہاں ٹیلی ویژن دیکھا جا رہا ہے وہاں پہلے سے زیادہ روشن اور صفائی سے دیکھا جا سکے گا کیونکہ اس کی طاقت Maximum ہے.جتنی طاقت بھی استعمال کی جاتی ہے اس سے زیادہ نہیں کرتے اور جہاں پہلے آدھی ہیم کے ذریعے پاکستان وغیرہ میں اطلاعیں مل رہی تھیں کہ اچھا بھلا صاف ہے پہلے سے بہتر ہے ان کے لئے خوشخبری ہے کہ پہلے سے بہت بہتر ہو جائے گا.ایسا ہی ہوگا جیسے لوکل ٹیلی ویژن دیکھا جارہا ہو.تو یہ ایک مسئلہ خدا تعالیٰ نے حل فرما دیا اور ایک اور مسئلہ بھی حل کے قریب پہنچ گیا ہے اور وہ ہے امریکہ کے لئے ٹیلی ویژن کا مستقل انتظام.عارضی طور پر ہندو پاکستان، ایشیا کے لئے تو ہم نے انتظام کر دیا تھا مگر امریکہ کے ساتھ سوائے جمعہ کے ایک گھنٹے کے تعلق کے باقی تعلق کٹ چکا ہے اور اس کے رستے میں بہت سی مشکلات تھیں جو تفصیل سے بیان کرنے کا موقع نہیں لیکن بہت سخت مشکلات حائل تھیں.آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ایسا انتظام کر دیا ہے جس کو ہم اب Finalise کر رہے ہیں.آخری مراحل پر ہے.آپ دعا کریں یہ مراحل بھی خیریت سے گزر جائیں تو اس انتظام میں امریکہ شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ ، مرکزی امریکہ، وسطی امریکہ یہ سارے پوری طرح کور Cover ہوں گے اور انشاء اللہ پہلے انتظام سے بہتر ہو گا اس سے کم تر نہیں ہوگا اور چوبیس گھنٹے کا انتظام ہوگا بجائے چند گھنٹے کے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ رمضان جماعت کے لئے بہت مبارک چڑھایا ہے خدا کرے کہ ہر اگلا دن بھی مبارک آئے اور سلم رمضان والی حدیث جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی تھی خدا کرے کہ ان معنوں میں بھی یہ رمضان ہمارے لئے ایسا سلامت گزرے کہ اس کے بعد ہر سال سلامت گزرتا چلا جائے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 70 79 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء کامل وفاداری اور کامل سچائی کے ساتھ خدا کو بلانے صلى الله والے الدَّاعِ “ حضرت محمدمہ تھے.( خطبه جمعه فرموده 2 فروری 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَتَجِيُوالِى وَلْيُؤْمِنُوْابِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187) پھر فرمایا: رمضان کے تعلق میں اس آیت کی پہلے بھی کئی بار تلاوت کی جاچکی ہے.اس کے مضمون پر مختلف پہلوؤں سے جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں.اب جب کہ رمضان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہم اس کے دوسرے دہا کے یعنی عشرے میں داخل ہو چکے ہیں.تو جب دوسرا عشرہ لگ جاتا ہے تو عموماً تجربہ یہی ہے کہ پھر تیزی سے رمضان آگے بڑھتا ہے جیسے ایک لٹو چل گیا ہو اور پندرہ دن آئے تو پھر آگے اعتکاف کے دن شروع ہو جائیں گے اور اعتکاف آیا اور گیا پتا نہیں چلتا کہ کب آیا اور کب نکل گیا ، تو جو دن باقی ہیں اگر چہ بظاہر بارہ کے مقابل پر ابھی اٹھارہ دن باقی ہیں مگر چونکہ اب دنوں کی رفتار اور راتوں کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے اس لئے اب جو کچھ بھی کرنا ہے ابھی کر لیں ، دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور رمضان کے دن تو ویسے ہی اللہ نے فرمایا ہے آیا مًا مَّعْدُودَةٍ (البقرة: 185) بڑی برکتوں والے ہیں اس پہلو سے اَيَّامًا مَّعْدُودَت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مشکل ہے تو تھوڑے دن ہی ہے.اصل معنی اس کا یہ ہے کہ اتنے اچھے دن مگر کتنے تھوڑے ہیں.آئے اور نکل گئے.تو اس لئے جو کچھ بھی کمانا ہے اس عرصے میں کما لو جو محنت کرنی ہے کر لو اور اس حد تک کمالو کہ سارا سال کام آئے.
خطبات طاہر جلد 15 80 60 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء پس اس پہلو سے زاد راہ لے کر آگے بڑھو یہ مضمون ہے جو میں آپ کے سامنے بڑی وضاحت کے ساتھ کھولنا چاہتا ہوں اور اس تعلق میں اس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ جب میرے بندے تجھ سے یہ پوچھیں یا تجھ سے سوال کرتے ہیں میرے متعلق فَانِي قَرِیب میں تو قریب ہی ہوں أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے فَلْيَسْتَجِوانِی وہ بھی تو میری باتیں مانیں وَلْيُؤْمِنُوا بِی اور مجھ پر ایمان لائیں لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ ہدایت پا جائیں.سوال یہ ہے کہ لوگ آنحضرت ﷺ سے سوال کرتے تھے.اللہ فرماتا ہے میرے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں.اس حد تک تو بات درست اور سمجھ میں آنے والی ہے جس نے کوئی گھر دیکھا ہو اسی سے اس کا پتا پو چھا جاتا ہے، اسی سے اس کے رستے کی تلاش میں مدد مانگی جاتی ہے.جس نے کوئی گھر دیکھا ہی نہ ہواس سے تو نہیں پوچھا جاتا.حضرت گوتم بدھا کے متعلق یہ آتا ہے کہ کچھ پنڈت ان کے پاس آئے جو ایک ایسے گاؤں کے رہنے والے تھے جو تمام ہندوستان میں پنڈت پیدا کرنے کے لحاظ سے سب سے چوٹی کا گاؤں تھا اور انہوں نے حضرت گوتم بدھ سے کچھ سوالات کئے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت گوتم بدھ کے متعلق جیسا کہ عام انبیاء کے متعلق یہی طریق ہوتا ہے یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ دہر یہ ہیں ، بے دین ہیں ، خداؤں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں.پس اس خیال سے ان کو دلچسپی پیدا ہوئی کہ ان سے انہوں نے سوال کیا.تو بہت ہی پر حکمت جواب دیا.انہوں نے کہا تم کس گاؤں سے آئے ہو.فلاں گاؤں سے ، اس لئے اگر کوئی شخص اس گاؤں جانا چاہے تو تم سے رستہ پوچھے گا ،کسی اور سے تو نہیں پوچھے گا اور جو کسی گاؤں کا رہنے والا نہ ہو ، جس نے کبھی دیکھا تک نہ ہو اس سے کون رستہ پوچھا کرتا ہے.تو وہ بات سمجھے.انہوں نے کہا پھر تم مجھ سے کیا پوچھنے آئے ہو.مراد یہ تھی کہ خدا کی باتیں مجھ سے پوچھتے ہو جس پر الزام یہ ہے کہ وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے.مگر پھر کہا تم لوگوں کو تو اپنے گاؤں کا بھی نہیں پتا.تمہارے پنڈتوں کو بھی اس کا رستہ نہیں آتا.میں اس ملک کا رہنے والا ہوں جو خدا کا ملک ہے.میں اس ملک کا باشندہ ہوں جو بقا کا ملک ہے.میں وہاں کی بھی خبر جانتا ہوں اور یہاں کی بھی جانتا ہوں اس لئے جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھو.یہ بہت ہی پیارا گہرا کلام ہے قطعی طور پر
خطبات طاہر جلد 15 81 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء ثابت کرتا ہے کہ حضرت بدھ علیہ السلام خدا کے ایک پیارے پاکیزہ نبی اور خدا کی ہستی کے گہرے قائل بلکہ اس کے عرفان کے دعویدار تھے.تو اس لئے جو جس ملک کا ہو، جس جگہ کا باشندہ، جس ذات کے ساتھ گہرا تعلق ہو اس کے متعلق اسی سے پوچھا جائے گا.یہ پہلو تو ہر گز تعجب انگیز نہیں وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ اے محمد ملے جب یہ میرے بندے تجھ سے پوچھتے ہیں تو اس پہ تو کوئی اعتراض نہیں مگر وہ کہتا ہے میں قریب ہوں تو کیوں اس کو محسوس نہیں کر رہے؟ کیوں اس کے قرب کا احساس نہیں پیدا کرتے؟ رستہ پوچھتے پھرتے ہیں وہ تو ٹھیک ہے پوچھتے بھی اس سے ہیں جو درست ہے اسی سے رستہ پوچھنا چاہئے تھا مگر وہ وجود جو ہر وقت ساتھ رہتا ہو اس کے متعلق پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَادَعَانِ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے بلاتا ہے اور یہ جو دعوت ہے یہاں یہ عام دعوت مراد نہیں.ایسی دعوت جس میں گہری سچائی پائی جائے ، جس میں اخلاص ہو ، جس میں یقین ہواس دعوت کا خدا جواب اس حد تک دیتا ہے کہ فرماتا ہے جب وہ لوگ جو کشتیوں میں سفر کرتے ہیں نرم خو ہواؤں میں چلتے ہیں یہاں تک کہ وہ ہوائیں بدل جاتی ہیں اس سے پہلے خدا کے قائل بھی نہیں ہوتے مگر اس وقت جب کہ موت سامنے کھڑی نظر آتی ہے جب ان کو غرقابی دکھائی دیتی ہے تو گھبرا کر پھر مجھے پکارتے ہیں میں پھر بھی ان کی سن لیتا ہوں، انہیں بچالیتا ہوں.جانتے ہوئے کہ جب وہ ساحل کے امن تک پہنچ جائیں گے تو وہ اس وقت پھر اسی شرک میں مبتلا ہو جائیں گے جو پہلے کیا کرتے تھے.تو خدا تعالیٰ کا سننا ایک قطعی ثابت شدہ حقیقت ہے یہاں تک کہ دہریوں کی بھی سن لیتا ہے، مشرکوں کی بھی سن لیتا ہے اس سے زیادہ قریب اور کیا ہوسکتا ہے اور ہر موقع پر جب کہ بیچ میں کوئی اور راہ بتانے والا نہ ہو خدا وہاں موجود ہے.تو اس پہلو سے توجہ یہ دلائی گئی ہے کہ میں جو ہمیشہ قریب ہوں تم مجھے دور نہ رکھو.اتنا دور نہ رکھو کہ میرے متعلق تمہیں پوچھنا پڑے، پوچھتے پھرو کہ میں کہاں ہوں.پس ایسی ذات جو دور بھی ہے اور قریب بھی ہے تم چاہو تو اسے دور بھی بنا سکتے ہو، چاہو تو اسے قریب بھی سمجھ سکتے ہو، میرا وعدہ ہے کہ اگر تم مجھے قریب سمجھو گے تو میں قریب ہو کر تمہیں دکھائی دوں گا.تمہاری باتوں کا جواب دوں گا جیسے قریب بیٹھا شخص بولتا ہے تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسے بہت چیخنا نہیں پڑتا.اسی مضمون میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے اپنے سفر کے اُن
خطبات طاہر جلد 15 82 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء ساتھیوں کو جو بہت اونچی آواز سے تسبیح کر رہے تھے فرمایاذ راتل سے کرو، آرام سے بات کرو، جس خدا کو تم پکار رہے ہو وہ بہرہ تو نہیں ہے، وہ دور تو نہیں ہے، وہ سن رہا ہے.حالانکہ بسا اوقات بلند آواز سے بھی آنحضرت ﷺ نے تکبیر کی اور نبیح وتحمید میں بھی بلند آواز سے کام لیا.مگر مراد یہ تھی کہ بعض دفعہ انسان محض دکھاوے کے لئے ، رسم و رواج کے طور پر ، ایک مشغلہ بنا کر اونچی آواز میں کرتا ہے جو حضور اکرم ﷺ کو پسند نہیں تھی.اس لئے آنحضور ﷺے مومن کو ہمیشہ معنی خیز کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں.بامعنی بات، سچی بات، دل کی گہرائی تک سچی ہو.اونچی آواز ہو تو وہ بھی ایک سچی وجہ سے اونچی آواز ہو.دھیمی آواز ہو تو وہ بھی ایک کچی وجہ سے دھیمی آواز ہو.مگر ضمنا یہ بھی تو بتایا کہ وہ تو ساتھ ہی ہے.تم دل میں بھی بات کرو گے تو وہ ضرور سن لے گا اور وہ جانتا ہے، ہر بات پر نظر رکھتا ہے.پس فَإِن قَرِيیب کا یہ معنی ہے اور جو اتنا قریب ہو اس کا قرب محسوس ہو اس کے متعلق یہ نہیں پوچھا جائے گا وہ ہے کہ نہیں ہے ، وہ کہاں ہے، پس یہ سوال ناجائز ہیں.یہ پہلو جائز ہے کہ آپ جانتے ہیں اس کے رستے کو ہمیں بھی وہ طریقے دکھائیں، ہمیں بھی وہ سکھائیں گر جن پر چل کر ، جنہیں استعمال کر کے ہم اللہ کے ان معنوں میں قریب ہو جائیں جن معنوں میں آپ ہیں اور اس پہلو سے قریب کا معنی یہ ہوگا أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ آپ کی دعا ئیں وہ سنتا ہے.آپ جب بھی اسے پکارتے ہیں وہ جواب دیتا ہے.ہم اپنی ذات پر فضل نازل ہوتے اس طرح نہیں دیکھ رہے.پس وہ خدا جو قریب ہے اور ہم نے جان لیا آپ کے وجود پر غور کر کے کہ یقیناً قریب ہے اس کا ہمیں تو بتائیں کہ کیسے اس تک پہنچنا ہے.یہ اس پہلو سے اور معنی بن جاتے ہیں.اس مضمون کے ایک پہلو سے دعوت عام ہے کہ ہر کوئی شخص مطمئن ہو جائے تسلی پا جائے کہ اس کا خدا دور نہیں ہے.ہر وقت اس کے ساتھ ہے مگر اسے محسوس کرنا ہوگا.دوسرا یہ کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ دعوتوں کا جواب ویسا آنا چاہئے جیسا کہ تم چاہتے ہو تو تم نے ٹھیک پوچھا ہے محمد مصطفی صلی اللہ جانتے ہیں اور آپ ہی کی زندگی کا لمحہ لحہ اس بات پر گواہ ہے کہ میں قریب ہوں.پس فَانّي قَرِيب ان معنوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کے حوالے سے یہ معنی دے گا کہ ان کو بتاؤ مجھے دیکھتے نہیں مجھ سے جو پوچھ رہے ہو تمہیں پتا نہیں کہ خدا میرے کتنے قریب ہے، ہر وقت میری دعاؤں کو سنتا ہے ، ہر پکار کا جواب دیتا ہے، پس اگر تم نے طریق پوچھنا ہے تو وہ
خطبات طاہر جلد 15 83 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء طریق یہ ہے فَلْيَسْتَجِیبُو الى الله مخاطب ہے مگر چونکہ سوال رسول اللہ لہ سے کیا گیا تھا اس لئے صلى الله رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک جواب دیا جا رہا ہے اور گویا آپ کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ تم یہی جواب دینا جو اصل اور حقیقی جواب ہے میں تو اتنا قریب ہوں کہ جب بندے سے مخاطب ہوتا ہوں تو بیچ سے سارے سلسلے اڑ جاتے ہیں اور کوئی بیچ میں نہیں رہتا.اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ تو جواب دے.فرمایا میں قریب ہوں جواب خود ہی شروع کر دیا ہے اور اس مضمون میں اس کو آپ غور سے پڑھیں تو یہ ساری باتیں شامل ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ جس شخص سے تم نے پوچھا درست پوچھا ہے مگر تمہیں پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی.وہ خدا جو ہر وقت پاس رہتا ہے ہمیشہ قریب رہتا ہے اس کے متعلق یہ سوال نہیں پوچھا جا سکتا کہ وہ کہاں ہے.پس ابتدائی سوال کے لحاظ سے جس میں خدا کی ہستی کے متعلق سوال ہو ، ہے بھی کہ نہیں؟ ہے تو کہاں ہے؟ کیسے مل سکتا ہے؟ اس کے جواب میں قریب کا یہ معنی بنے گا کہ تم عجیب لوگ ہو، میں تو ہر وقت تمہارے ساتھ رہتا ہوں اور تم میرے متعلق پوچھتے پھر رہے ہو مگر جس سے پوچھا ہے وہ گواہ ہے اس بات کا کہ انی قریب اور اس کی گواہی اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.صلى الله یہاں ان معنوں میں دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں الدَّاعِ سے مراد آنحضرت بن جاتے ہیں.سب سے بڑا ، سب سے خلوص کے ساتھ اور پیار کے ساتھ ، کامل وفاداری کے ساتھ اور کامل سچائی کے ساتھ خدا کو بلانے والا الدَّاعِ حضرت محمد تھے اور اس لحاظ سے یہ معنی بالکل ٹھیک بیٹھتے ہیں کہ اجیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جس کے پاس تم آئے تھے اس کو دیکھو، قربت کے معنی کیا ہیں.وہ جب مجھے بلاتا ہے میں اس کا جواب دیتا ہوں فَلْيَسْتَجِيبُوالی اب دیکھیں وہ ضمیر سب انسانوں کی طرف پھیر دی ایک دعوت والے کا ذکر فرما کر فَلْيَسْتَجِيبُوا پس اے میرے متلاشیو! تم میرا جواب دو.محمد رسول اللہ مجھے اس لئے پیارے ہیں کہ میری ہر بات کا جواب لبیک کہتے ہوئے دیتے ہیں.ایک بھی میری منشاء نہیں ہے جسے انہوں نے پورا نہ کیا ہو.ان کا تو کامل وجود میری رضا کا مظہر بن چکا ہے، سر سے پاؤں تک میری رضا پر ان کی نظر ہے.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : 163) اے محمد و تو اعلان کردے، بتادے کہ تو میرے کتنے قریب ہے یعنی بندے کا بھی تو قریب ہونا ضروری ہے.وہ قرب یہ ہے کہ اِنَّ صَلَاتِي
خطبات طاہر جلد 15 84 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي میری تو نمازیں، میری عبادتیں، میری قربانیاں، میرا تو جینا مرنا کلیهٔ خدا کا ہو چکا ہے.پس فَلْيَسْتَجِوانی کا یہ معنی ہے، اس طرح میری باتوں کا وہ جواب دیں جس صلى الله طرح محمد رسول الله ل لے میری باتوں کا جواب دیتے ہیں اور انہی سے تم پوچھ رہے ہو، انہی کا حوالہ ہے کہ ان سے سیکھو.اگر ایسا کرو گے تو تم وَلْيُؤْمِنُوالی دوسری شرط لگائی ہے یہ ایمان ہے، محض فرضی ایمان کوئی حقیقت نہیں رکھتا.پس وہ مجھ پر حقیقی معنوں میں ایمان لائیں.اب اس مضمون کا فَلْيَسْتَجِيبُوا کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا اس پر روشنی ڈالی ہے اور بڑی اہمیت دی ہے اس بات کو کہ تم اپنے ایمان کو پر کھتے رہا کرو.اگر ایمان ہو تو استجابت یعنی خدا کی باتوں کے جواب میں لبیک کہنا ایک طبعی نتیجہ ہے اس کے لئے کسی منطق کی ضرورت نہیں ، زور لگانے کی ضرورت نہیں ، وہ از خود قاعدے کی طرح خود بخود ایک نتیجہ پیدا کرے گا اور وہ ہے خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم تو جانوروں پر بھی زیادہ ایمان لاتے ہو اس کے مقابل پر جتنا خدا پر لاتے ہو.فرمایا سانپ کا بل ہو اور اس میں سانپ تمہارے سامنے داخل ہوا ہو کبھی جرات ہوگی کہ اس میں انگلی ڈالو؟ یا زہر کے متعلق معلوم ہو کہ یہ زہر ہے اور زہر قاتل ہے اور اٹھو اور جس طرح میٹھے کی ایک مٹھی بھر کے بعض دفعہ منہ میں ڈال لیتے ہو اور اس کو پکڑو مٹھی بھرو اور منہ میں ڈال لو کیا یہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ تمہارا ایمان سچا ہے.پس جب ایمان سچا ہو تو جس ذات پر ایمان ہے اس کے تقاضے کوشش سے نہیں بلکہ بے اختیاری سے پورے ہوتے ہیں.انسان چاہے بھی تو سانپ کے سوراخ میں انگلی نہیں ڈال سکتا.اگر ز بر دستی اس کی انگلی پکڑ کے ڈالنے کی کوشش کی جائے تو بہت زور لگائے گا، بہت جھگڑا کرے گا.ناممکن ہے کہ جب تک اس کے اندر طاقت ہو وہ آخری وقت تک اس سے بچنے کی کوشش نہ کرے یہاں تک کہ بے اختیار ہوکر نڈھال ہو کر جا پڑے.یہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ کھولا ہے.تو استجابت اور ایمان کا یہ تعلق ہے جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے.فَلْيَسْتَجِيبُوائی وَلْيُؤْمِنُوالی حالانکہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ایمان پہلے آیا ہے پھر استجابت ہے اور ہے یہی بات.مگر استجابت کا دعوی دائر کرنے والوں کے لئے خدا کو ڈھونڈ نے میں سچے لوگوں کی علامت کے
خطبات طاہر جلد 15 59 85 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء طور پر یہ بتایا ہے کہ وہ لوگ جو واقعہ خدا کی طلب میں بچے ہوتے ہیں وہ اپنے اعمال سے پہچانے جاتے ہیں اور وہ اعمال گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایمان لا رہے ہیں ورنہ محض ایمان گواہی نہیں دیا کرتا کہ کس کے اعمال بچے ہیں.ایمان سچا ہو تو وہ اندر کی بات کیا ہے پتا کیسا ہے لیکن جو اعمال اس ایمان کے نتیجہ میں ظہور میں آتے ہیں وہ تو سب دنیا کو دکھائی دیتے ہیں.تو لاکھ انسان دعوی کرے کہ میں خدا کی تلاش میں سچا ہوں لاکھ یہ کہے کہ میں مومن ہوں ، ایمان دار ہوں جب تک اعمال کی گواہی ساتھ نہ ہو اس وقت تک اس کے ایمان کی سچائی کے اوپر کوئی دلیل نہیں.تو اگر یہ معنی اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے آنحضرت ﷺ کے حوالے سے کئے جائیں کہ میں دیکھو الدَّاعِ کی اس بلانے والے کی آواز کا ہمیشہ جواب دیتا ہوں جس کی طرف تم آئے ہو.تو پھر دوسرے معنے اس کے یہی بنیں گے فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی پس تم جس طرح یہ میرے لئے ہر بات پہ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور گردن جھکا دیتا ہے تم بھی ویسا ہی کرو.وَلْيُؤْمِنُو الي تب تم حقیقت میں ایمان والے کہلا سکتے ہو.پھر تم جو ایمان لاؤ گے وہ مقبول ایمان ہو گا.یہ باتیں ان کو سمجھا دے.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ عقل کریں وہ سمجھیں کہ سچائی کی حقیقت کیا ہے.الله پس اس پہلو سے رمضان کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور یہاں جس خدا کا ذکر ہے کہ میں قریب ہوں میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رمضان میں یہ قریب تر آجاتا ہے.پس یہاں قریب کا ایک اور معنی بھی ہے کہ اگر چہ ہمیشہ قریب ہوں مگر بعض دن قربت کے دن ہوتے ہیں، بعض وصال کے دن آجایا کرتے ہیں ، وصال کے موسم ہوتے ہیں، بہار کے بھی موسم ہوتے ہیں ، خزاں کے بھی موسم ہوتے ہیں.پس فرمایا کہ یہ موسم میرے ملنے کا موسم ہے یہ وہ موسم آیا ہے جب میں قریب ہوں.پس اس قرب کے دور میں جو زادراہ آپ نے کمانا ہے وہ خدا خود ہے کیونکہ اگر خدا کمالیں گے تو سارا سال وہ آپ کا بنارہے گا اور گزشتہ سال کی نسبت سارا سال آپ کو زیادہ قریب محسوس ہوگا اور یہ قرب جو ہے یہ کسی ایک مقام کا نام نہیں بلکہ ہمیشہ ایک بڑھتے رہنے والے متحرک مقام کا نام ہے جسے ایک جگہ قرار نہیں ہے، آگے بڑھ رہا ہے.پس قربت کا مضمون لامتناہی ہے.
خطبات طاہر جلد 15 98 86 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء فَإِنِّي قَرِيب سے مراد یہ ہے کہ میں ہمیشہ قریب رہوں گا لیکن جب تم استجابت کرو گے، میری باتوں کا جواب دو گے تو ایک اور ایمان تمہارے اندر پیدا ہو گا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس اور ایمان کے مضمون کو بھی بڑی شان اور وضاحت کے ساتھ پیش فرمایا ہے.فرماتے ہیں انسان کو پتا نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرے تعلقات کسی سے درست ہیں مگر جب حقیقت میں درست ہوتے ہیں تو ان تعلقات میں سے ایک اور روشنی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ تعلقات ایک اور شان کے ساتھ قائم ہو جاتے ہیں.جو خواب میں سوتے ہوئے سمجھ رہا ہے کہ میں جاگا ہوا ہوں اس کو بھی تو ایک ہوش ہے مگر جب جاگنے کے بعد اسے ہوش آتی ہے تو وہ اور ہی قسم کی ہوش ہوتی ہے لیکن جہاں تک خدا کا تعلق ہے ہم ہمیشہ ہی سوئے رہیں گے اور ہمیشہ ہی جاگتے رہیں گے اور ہمارا جا گنا ایسا ہی ہو گا جیسے خواب کے اندر سلسلہ بہ سلسلہ ہم جاگتے چلے جارہے ہیں اور وہ بھی ختم ہی نہیں ہوسکتا.پس خدا تعالیٰ کا تصور، اس کا عرفان ، اس کے قریب ہونے سے پیدا ہوتا ہے اور جتنا عرفان بڑھتا ہے اتنا وہ قریب ہوتا ہے.جتنا عرفان بڑھتا ہے اتنا ہی حقیقت میں ایمان بڑھتا ہے کیونکہ عرفان اور ایمان کا آپس میں گہرا جوڑ ہے.یہ دوالگ الگ چیزیں نہیں ہیں.الگ الگ کی بھی جاتیں ہیں مگر در حقیقت الگ ہونی نہیں چاہئیں کیونکہ ایک چیز جس کی صفات کا آپ کو علم نہ ہو اس پر ایمان بھی ہو تو وہ کافی نہیں ہے.ایک جنگل کا پھل آپ دیکھتے ہیں بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور خوشبو بھی اچھی ہے ، دل چاہتا ہے آپ تو ڑ کر اسے کھائیں ایمان تو ہے کہ یہ پھل ہے، خوبصورت بھی ہے لیکن یہ پتا نہیں کہ وہ کڑوا کیوں ہے، کسیلا ہے یا میٹھا ہونے کے باوجود بھی زہریلا ہے.یہ جو دوسرا پہلو ہے اس کو عرفان کہتے ہیں.یہ علم ہی کی ایک قسم ہے لیکن وہ علم جو آہستہ آہستہ گہرائی میں اترتا چلا جاتا ہے اسے عرفان کہا جاتا ہے ورنہ حقیقت میں علم ہی کی شاخیں ہیں سب.تو علم کے بغیر اور عرفان کے بغیر خدا تعالیٰ پر ایمان مکمل ہو ہی نہیں سکتا اور نہ اس سے انسان پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے.پس فَلْيَسْتَجِوانِى وَلْيُؤْمِنُوالی میں یہ دوسرا ایمان یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ وہ میری باتوں کا جواب دیں گے تو ایک اور ایمان ان کو نصیب ہوگا میں نسبتاً زیادہ قریب آؤں گا اور یہ قربت جو ہے یہ نہ ختم ہونے والی ہے.بعض دوریاں بھی نہ ختم ہونے والی ہوتی ہیں.بعض قربتیں بھی نہ ختم ہونے والی ہوتی ہیں.جہاں تک انسان کا تعلق ہے انسان کو بھی یہ تجربے ایک دوسرے سے تعلقات میں ہوتے رہتے
خطبات طاہر جلد 15 87 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء ہیں.بعض لوگوں کا قرب دکھائی دیتا ہے کہ بہت قریب ہیں لیکن پھر بھی اس ذات میں اور قرب چاہنے والے کے درمیان ایک فاصلہ رہتا ہے اور جوں جوں وہ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہیں ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ کسی انسان کی کتنی گہرائی ہے جتنی طبیعت میں گہرائی ہوگی اتنا قرب رفتہ رفتہ ملے گا اور بیک وقت یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے فلاں شخص کا قرب نصیب ہو گیا ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے وہ قریب تر ہوتے ہوئے بھی تو اتنا دور ہے کہ اس کے متعلق لوگ پوچھتے پھرتے ہیں.اس سے صاف پتا چلا کہ قریب سے مراد کوئی ایک ایسا مقام نہیں ہے جو حاصل ہو گیا، آپ نے پکڑ لیا اور قریب چیز ہاتھ آگئی..قرب کی اتنی منازل ہیں کہ قریب ہونے کے باوجود دکھائی نہیں دیتا، سنائی نہیں دیتا.اس کا شعور پیدا نہیں ہوتا اس پر ایمان نہیں آتا اور قریب پھر بھی ہے.جب شعور پیدا ہوتا ہے تو ایمان بڑھنے لگتا ہے وہ حقیقت میں کچھ اور قریب ہونے لگتا ہے اور یہ قرب ایسا نہیں کہ چیز چیز سے ٹکرا گئی اور بات ختم ہو گئی.یہ قرب ایسا ہے جو لامتناہی سفر ہے کبھی نہ ختم ہونے والا اور اسی لئے سیر فی الله کا مضمون قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.تو ایک سیر ہے جو کسی جگہ پہنچ کر اس کو دیکھا جاتا ہے اس کا نظارہ کیا جاتا ہے.ایک سیر ہے جو ڈوب کر ہوتی ہے.تو سیر فی اللہ کا جومحاورہ ہے اس میں یہی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ڈوب کر اس سے زیادہ قریب تو ہو نہیں سکتے کہ کسی کی ذات میں ڈوب جاؤ مگر وہاں پہنچ کر اتنے قرب کے بعد تمہیں یہ سمجھ آئے گی کہ منزل آنہیں گئی ،منزل کی طرف سفر شروع ہوا ہے اور یہ وہ سفر ہے جو غیر متناہی سفر ہے اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے کیونکہ غرق ہونے کے بعد، ایک ایسی ذات میں غرق ہونے کے بعد جس کی کوئی اتھاہ نہیں ، جس کی کوئی آخری حد نہیں ہے، کوئی نیچے ایسی چٹان نہیں کہ پہنچ کے آپ کہہ دیں کہ یہ اس کی آخری حد تھی بلکہ اس کی گہرائی لامحدود ہے کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کے پاؤں لگ سکیں انسان کے.پس اس پہلو سے قریب کے معنی جو ہیں وہ یہ ہوں گے کہ وہ جب میری باتوں کا جواب دیں گے تو اس کا مجھ پر ایمان ہمیشہ بڑھتا رہے گا اور ایمان بڑھنا یہاں ان معنوں میں ہے کہ عرفان بڑھتا رہے گا.ایمان بڑھنا یہاں ان معنوں میں ہے کہ میری ذات کا علم ان کو ایسا نصیب ہوگا کہ ہر دفعہ وہ کہیں گے، ہیں! یہ خدا تھا، ہم تو دھوکے میں رہے ، ہم تو کچھ اور سمجھتے رہے لیکن اللہ یہ بھی
خطبات طاہر جلد 15 88 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء ہے اور یہ بھی ہے اور یہ بھی ہے اور یہ بھی ہے.ایک ایسی خوبصورت وادی کا سفر جو نہ ختم ہونے والی ہو ہر موڑ پر ایک نیا حسن دکھائے اس سفر کی طرف اشارہ ہے وَلْيُؤْمِنُوابی استجابت کریں.میری باتیں مان کے تو دیکھیں ان کو پتا تو لگے کہ ایمان کیا ہوتا ہے.پھر وہ مجھ پر ایمان لائیں گے اور وہ ایمان جو ہے وہ نہ ختم ہونے والا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن : 30) پھر وہ مجھے دیکھیں گے کہ میری تو ہر دن ہرلمحہ جوان پر گزرتا ہے شان بدلتی چلی جا رہی ہے.ایک شان کے ساتھ میں آج ان پر طلوع ہوا ہوں، ایک نئی شان کے ساتھ کل طلوع ہوں گا.جب ہر لمحہ شان بدلے گی تو علم کامل ہو ہی نہیں سکتا مگر علم صحیح رخ پر رواں ہوسکتا ہے اس سے زیادہ انسان کو کوئی طاقت نہیں اس سے زیادہ وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے عرفان یا اس کے علم کے سفر میں انسان غرق ہو جائے اور آگے بڑھتا چلا جائے یہاں تک کہ وہ خود راہنمائی کر کے ہاتھ پکڑ کر پھر اپنی طرف لے کر جائے.اب یہ عجیب بات لگتی ہے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف لے جانا مگر قران کریم یہی فرماتا ہے آنحضرت ﷺ کے روحانی سفر کے متعلق آسرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا ( بنی اسرائیل :2) اللہ نے محمد رسول اللہﷺ کا گویا ہاتھ پکڑا ، ہاتھ پکڑ کر وہ ایک سفر پر ساتھ روانہ ہوا جو خدا کی طرف کا سفر تھا.تو ظاہر بات ہے کہ اس میں جسمانی سفر مراد ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کوئی شخص کسی کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے وہ اپنی طرف اس کو روانہ کر ہی نہیں سکتا.مگر اگر لامحدود ذات ہو اور اس کی ذات کے اندر کا سفر ہو تو وہ ہاتھ پکڑنے والا جہاں ہاتھ پکڑتا ہے وہاں بھی ہے اور اپنی جن گہرائیوں کی طرف لے کر جا رہا ہے وہاں بھی ہے.پس وہ ہاتھ پکڑتا ہے اور اپنی ذات کے اندر کا ایک ایسا سفر شروع کرواتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا.پس ان معنوں میں وَلْيُؤْمِنُوالی کے مضمون کو آپ سمجھیں تو فرمایا لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ یہ حقیقت لوگ سمجھ جائیں تو پھر وہ ہدایت پا جائیں گے.ہو سکتا ہے وہ ہدایت پا جائیں لَعَلَّهُمْ ان کے لئے امکان پیدا ہو گا.پس اس رمضان مبارک میں یہ مزے چکھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ عبادتوں کا کیا مقصود ہے؟ بھوکا رہنا کیوں ہے؟ ور نہ خالی بھوکا رکھنے سے اور تکلیف دینے سے تو خدا کو کوئی مزہ نہیں
خطبات طاہر جلد 15 89 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء آتا.وہ تو رزاق ہے وہ تو جب اپنے بھوکے بندے کو کھانا کھاتے دیکھتا ہے تو جو لذت بھی خدا کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے وہ محسوس فرماتا ہے یہاں تک کہ لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کیوں نہ کھلایا.گویا ایسی لذت محسوس کرتا ہے گویا بھوکا کھاتے وقت محسوس کر رہا ہو.ہم تو ہر بھوکے کی ذات میں ڈوب کر اس کی بھوک کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ، اس بھوک کے مٹنے پر اس کی لذت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.مگر وہ ذات جو ہر جگہ ہے، ہر کنہ سے واقف ہے وہ جانتی ہے کہ بھوک کیا تھی.وہ ذات جانتی ہے کہ بھوک مٹنے پر جو لطف آیا ہے یا سکون نصیب ہوا ہے وہ کیا چیز ہے.تو خدا تعالیٰ کی جہاں اس حد تک باریک نظر ہو اپنے بندوں پر کہ ان کی بھوک بن جائے ، ان کی سحری خدا کی سحری ہو جائے اس ذات کے متعلق یہ کہنا کہ ہم نے اسے حاصل کر لیا ہم جان گئے ہیں یہ درست نہیں ہے.یہ تو تجربہ ہوگا تو پتا چلے گا، رفتہ رفتہ اس میں سفر ہوگا.پس رمضان کے مہینہ میں وہ آپ کو بھوکا رکھنے سے کیا مزے اٹھا سکتا ہے جو خود بتا رہا ہے کہ میں تو تمہاری بھوک مٹا کے لطف اٹھاتا ہوں.آپ کو پیاسا رکھ کے وہ کیسے مزے اڑا سکتا ہے جب کہ وہ خود کہتا ہے کہ میں پیاسے کی پیاس بجھاتا ہوں، ننگے کو کپڑے دیتا ہوں ،جس کی چھت نہیں ہے اس کے لئے چھت کا سامان کرتا ہوں اور جو ایسا کرتا ہے وہ گویا میری خاطر ایسا کرتا ہے، مجھے دیتا ہے.پس یہ معنے ہیں بھوک اور تکلیف کے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بنی نوع انسان کی تکلیفوں کو سمجھتا ہے اور جس حد تک سمجھتا ہے اس حد تک کوئی اور ذات سمجھ نہیں سکتی.تکلیفوں کے دور ہونے کا لطف جو خدا کو علم ہے دنیا میں کسی اور ذات کو علم نہیں تو ہمیں بھی اپنے عرفان کی خاطر ان باتوں میں سے گزارتا ہے اور عرفان الہی کا ایک یہ بھی مضمون ہے کہ جیسے خدا اپنے بندوں کے حال پر گہری نظر رکھتا ہے ان کی بھوک پر بھی نظر رکھتا ہے، ان کی پیاس پر بھی ، ان کی غربت پر بھی ، ان کی بھوک مٹنے کے لطف بھی جانتا ہے، پیاس بجھنے کے لطف بھی جانتا ہے ، غربت سے امیری کی طرف سفر کی جولڈ تیں ہیں ان سے بھی آشنا ہے، اس خدا کی طرف تم نے حرکت کرنی ہے تو وہ طریق اختیار کرو.اس لئے جو بھوک ہے وہ خدا تعالیٰ کے مزید عرفان کی خاطر ہے اور ہمیں وہ عرفان اپنی ذات کے حوالے سے دیا جا رہا ہے ورنہ خدا کو ہم بذات خود پہچان سکتے ہی نہیں کیونکہ وہ ذات ہی الگ ہے.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی (شوری :12) اسی جیسی تو کوئی ذات ہے ہی نہیں.پس خدا کے سکھانے کے
خطبات طاہر جلد 15 90 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء ڈھنگ بھی دیکھیں کتنے پیارے ہیں.ہمیں ہمارے حوالوں سے سکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ دیکھو جب تم بھوکے رہو گے تو اس بھوک کے نتیجہ میں تمہیں اپنے بھائی کی تکلیف کا احساس ہوگا اور یہ اس وقت تمہیں یاد آنا چاہئے کہ خدا کو احساس ہے اور وہ بھوک بھوک کی خاطر نہیں ڈالتا بلکہ اس سے اور بہت سے عظیم مقاصد ہیں جو حاصل ہوتے ہیں اور بھوک اور تکلیف کے نتیجہ میں اگر وہ خدا کی خاطر برداشت کی جائیں تو اللہ کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے اور انسان ان ذرائع سے اپنے آپ کو مزید چمکاتا ہے، اس اہل بنا دیتا ہے کہ وہ خدا کا قرب حاصل کر سکے.پس جب رمضان شریف میں ایک انسان کسی غریب بھو کے کو کھانا کھلاتا ہے اور اس کی لذت محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بھوک کیا ہے.پہلے بھی جانتا تھا مگر پہلے علم اور تھا اور اب ایک لمبا روزہ رکھا ہے اس نے اب جو وہ بھوک کو پہچانے لگا ہے ویسا پہلے نہیں پہچانتا تھا پھر وہ کسی کو کھلاتا ہے اور خدا کی خاطر کھلاتا ہے.تو خدا نے جو بھوک کی تکلیف کا ذکر فرمایا کہ میں محسوس کر رہا تھا اور بھوک مٹنے کی خوشی کا اظہار فرمایا بعض لوگوں سے کہے گا تم نے مجھے کھانا کھلایا تھا جب میں بھوکا تھا تو یہ مراد ہے.یہ دونوں تجربے آپ رمضان میں دیکھیں کس شان اور صفائی کے ساتھ اور کس گہرائی کے ساتھ حاصل ہو سکتے ہیں.لیکن اگر یہ نہ ہو بلکہ افطاریاں کرانا ایک رسم بن جائے اور نام و نمود کا ذریعہ ہو جائے تو یہ رمضان بالکل فضول ، خالی خالی چلا جائے گا.نہ آپ کو اللہ کا عرفان نصیب ہوگا ، نہ اس کے وہ فوائد ملیں گے نہ اس کے نتیجہ میں قرب الہی کا احساس پیدا ہوگا کیونکہ رمضان کمانا ہے تو اس طرح کمائیں جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے کمایا اور آپ سے بڑھ کر قربت کسی نے کمائی نہیں.اگر چہ یہ بھی خدا کا فضل ہی تھا جو آپ کو عطا ہوا.مگر قربت کمانے کے بھی تو کچھ راز ہوا کرتے ہیں، کچھ ڈھنگ ہوتے ہیں.بیٹھے بٹھائے تو قربت نہیں کمائی جاتی.آپ سمجھتے ہیں حسن ایسی چیز ہے جس میں کوئی محنت نہیں از خود اس کے نتیجہ میں ایک شخص دوسروں کو قریب کر لیتا ہے مگر روحانی حسن کمانے پڑتے ہیں.یہ یا درکھیں خلق اور خلق میں ایک نمایاں فرق ہے.خلق تو وہ تحفہ ہے جو آپ کو بنا بنایا نصیب ہو گیا اور خلق میں سے ہر خلق کی قیمت دینی پڑتی ہے.پس باوجود اس کے کہ بعض لوگ اعلیٰ اخلاق کی صلاحیتیں لے کے پیدا ہوتے ہیں مگر یہ خیال غلط ہے کہ ان کے خلق کی ان کو قیمت نہیں دینی پڑتی.ہر
خطبات طاہر جلد 15 91 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء خلق کے بدلے کوئی قربانی کرتے ہیں اور خلق نام ہے مسلسل قربانی کا.مسلسل ایثار کے بغیر آپ کو خلق کا معنی سمجھ آہی نہیں سکتا.ایک آدمی کسی نا پسندیدہ بات کو دیکھتا ہے اگر بے اختیار اس کا ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے، گالی منہ سے نکلتی ہے، مشتعل ہو جاتا ہے کبھی ہاتھ اٹھا بیٹھتا ہے، کبھی کسی اور ایسے طریق پر اس کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے کہ اس کے دل سے اس کی بھڑاس نکل جائے اس کو خلق تو نہیں کہتے.یہ تو بنیادی ہمیت ہے.وہ فطرت ہے جو Raw حالت میں ہے جو اپنی کچی حالت میں ہے.خلق کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے.ایسا شخص جب برداشت کرتا ہے تو بسا اوقات دیکھنے والے کو پتا ہی نہیں کہ اس کے دل پہ بھی تو کچھ گزر رہی ہے یہ بھی محسوس کر رہا ہے محسوس ہونے کے باوجود برداشت کرتا ہے.تو دیکھیں ایک دیکھنے والے کے نزدیک تو کوئی آواز ہی نہیں آئی ، چپ کر کے ایک آدمی بیٹھا رہا ہے کہتے ہیں یہ بڑا خلیق ہے اس نے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا مگر اس مظاہرے کے دوران اندر اس کے کیا کیفیت تھی یہ آپ کو کیا پتہ لگ سکتا ہے.خلق میں اگر آپ تفصیل سے غور کریں گے اپنے تجربات پر غور کریں گے تو لازماً آپ کو دکھائی دے گا کہ ہر خلق کے اندر ایک مشقت اور محنت ہے اور بغیر محنت کے خلق کمائے نہیں جاتے.پس یہ کہہ دینا کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں زیادہ بخشی تھیں اس لئے آپ نے تو او پر آنا ہی تھا.جتنی صلاحیتیں آپ کو بخشی ہیں آپ نے استعمال کرلی ہیں؟ کیا اپنی استعداد کے مطابق آپ خلیق ہو گئے ہیں ان معنوں میں کہ آپ کو جو استعدادیں ملیں تھیں آپ نے ان کو اس طرح زیر نگین کر لیا اور ہرلمحہ اپنے جذبات کے حوالے سے آپ نے قربانیاں دے دے کر اپنے آپ کو چمکایا ہے.اگر یہ درست ہے تو پھر تو ٹھیک ہے کہ آپ کہیں جہاں تک ہم پہنچ سکتے تھے ہم پہنچ گئے ہیں جہاں تک محمد رسول اللہ کی پہنچ سکتے تھے پہنچ گئے اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں ،مگر یہ درست نہیں ہے.صرف یہ بات نہیں ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو وسیع تر اخلاق کی صلاحیتیں بخشی گئی تھیں بلکہ یہ بھی درست ہے کہ آپ اس کنارے تک پہنچے ہیں، اپنی حدود کے آخری کناروں کو چھوا ہے اور اس سفر کے لئے بے انتہا قربانیاں دی ہیں.ایک ایک لمحہ آپ کا خلق کماتے ہوئے گزرا ہے تب جا کے وہ معراج نصیب ہوا جس کو لوگ دیکھتے ہیں اور عش عش کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کی حقیقت کیا ہے.پس ہر شخص کا اپنا بھی تو ایک معراج کا مقام ہے.ہر شخص کو جو صلاحیتیں بخشی گئی ہیں ان کو اگر بروئے کارلائے ، ان کا
خطبات طاہر جلد 15 92 92 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء حق ادا کرے، ان کا حساب دے سکتا ہو تو ہر شخص سے ایک خوبصورت وجود رونما ہو گا جو ایک خلق آخر کہلائے گا اور یہی خلق کمانا ہے.اس مضمون کو سمجھے بغیر آپ خلیق بن ہی نہیں سکتے ، خلق کما ہی نہیں سکتے.پس صلاحیتیں سب کو بخشی گئی ہیں لیکن یہ مضمون ہے فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی کہ خلق کمانے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنی رضا کی گردن اس کے سامنے جھکا دیں اور اس سے بہتر خلق کمانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.جب رضائے باری تعالیٰ کی خاطر آپ ایک کام کرتے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ آپ کو خلق کی تعریف آتی بھی ہے کہ نہیں آتی آپ خلیق ہورہے ہوں گے.دن بدن آپ زیادہ با اخلاق ہوتے چلے جائیں گے.پس اس کے لئے کسی علم کی بھی ضرورت نہیں ہے.یہ ہے لطف کی بات جو اس آیت میں ہمیں سمجھائی گئی ہے کہ جس سے پوچھا ہے اس کی پھر ادا ئیں بھی تو سیکھو.یہ منہ سے کہہ دینا تو آسان ہے کہ قرب الہی ، خدا ہر جگہ ہے ہم ہر وقت خدا کے قریب ہیں تو اب جس سے پوچھ بیٹھے ہو اب اس کی ادائیں بھی دیکھنی ہوں گی تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قریب ہے تو کن معنوں میں قریب ہے.ان معنوں میں قریب ہے کہ ہمہ وقت ، ہرلحہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو رہا ہے ایک لمحہ بھی جدائی کا نصیب نہیں ہوا اور اس لئے ہوا ہے کہ ہرلمحہ حضرت محمد ہو نے استجابت سے کام لیا ہے یعنی خدا کی باتوں پر لبیک اللهم لبیک “ کہا ہے.اپنے سارے وجود کو ایک سواری جس طرح اپنے آپ کو سوار کے حضور پیش کرتی ہے آپ نے اللہ کی رضا کو اپنی جان پر سوار کر لیا اور اس سواری کے خوب حق ادا کئے.یہ کرو گے تو پھر وَلْيُؤْمِنُوالی پھر تمہیں ایک عجیب ایمان نصیب ہوگا.ایک ایسا عرفان نصیب ہوگا کہ اس وقت تم کہو گے کہ ہیں، ہیں! ہم تو یو نہی سوئے ہوئے تھے.جاگے تھے تو خواب ہی میں جاگے تھے ،اب صلى الله پتا چلا ہے کہ خدا ہے کیا ؟ اب سمجھے ہیں کہ قرب اس کو کہتے ہیں.پس قرب کی خاطر اس مہینہ میں جب خدا قریب تر آیا ہوا ہے یعنی ہماری پہنچ کے نزدیک ہے اب اسے ایسا پکڑ لیں کہ پھر وہ سارا سال اس سے پیچھے نہ ہٹ سکے.یہ وہ بات ہے جس کی طرف میں آپ کو خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اگلا جمعہ جو آئے گا اس وقت تک رمضان اپنے نصف سے پلٹ کر دوسرے نصف کی طرف ڈھل چکا ہو گا اور اس سے اگلا جمعہ جو آئے گا تو عین ان راتوں میں آئے گا جب کہ سب کو ليْلَةُ الْقَدْرِ کی تلاش ہوتی ہے گہما گہمی ہوتی ہے، مسجد میں بھر جاتی ہیں وہ نمازی بھی جو
خطبات طاہر جلد 15 93 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء کبھی ویسے توفیق نہیں پاتے ، گھر میں بھی نماز پڑھنے کی توفیق نہیں پاتے وہ بھی مسجدوں کی طرف دوڑتے ہیں.تو اس سے پہلے پہلے باتوں کو سمجھ لیں ورنہ افراتفری میں کچھ بھی کمائی نہیں ہوتی.آپ سمجھ رہے ہوں گے بڑا مزہ آیا بڑا جوش و خروش ہے لیکن بعد میں جب حساب کریں گے تو ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ہو گا.اس لئے ہاتھ پلے کچھ اگر رکھتا ہے تو خدا کو کمائیں اس طرح کمائیں کہ وہ قریب دکھائی دینے لگے اور ایسا قریب ہو کہ اس کی قربت کے اثرات آپ کی ذات میں ظاہر ہوں.اگر وہ اثرات ظاہر نہیں ہوں گے تو وہ قریب نہیں ہے.اگر وہ اثرات ظاہر نہیں ہوں گے تو آپ کا ایمان اسی طرح خالی ہے جیسے پہلے تھا.پس یہ تو اتنا واضح کھلا کھلا مضمون ہے کہ جیسے ایک دکاندار سارے دن کی محنت کے بعد رات کو بہی کھاتے لے کر بیٹھ جاتا ہے اور جمع تفریق کرتا ہے اور جانتا ہے کہ مجھے یہ فائدہ ہوا اور نقصان ہوا.پس رمضان کے دوران ہر رات اپنا ایک بہی کھاتہ کھول لیا کریں اور غور کیا کریں کہ خدا کو آپ نے پایا بھی ہے کہ نہیں.اس طرح کا پانا ایک فرضی بات ہے کہ اب میرا خدا ہو گیا بس چھٹی ہوگئی.یہ پانا جو ہے انچ انچ لمحہ بہ لمحہ اس کی طرف بڑھنا اسے اپنا نا ہوگا اور یہ اگر سفر آپ سیکھ لیں قرب کے یہ معنی آپ سمجھ جائیں ان معنوں کے مطابق اللہ کے قریب ہونا شروع ہوں تو اس رمضان کے آخر تک ہم یقین سے کہ سکیں گے کہ اب خدا ہمارے اس سے زیادہ قریب ہے جتنا پچھلے سال رمضان کے آخر پر تھا اور یہ جو قرب ہے یہ پھر واپس نہیں ہوا کرتا.نیکیاں اور نیکیوں کے جذبے بڑھتے بھی ہیں کم بھی ہو جاتے ہیں مگر قرب جس کی بات میں کہہ رہا ہوں اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی.وہ ایک دائمی حقیقت ہے اور اسی کا دوسرا نام روح القدس ہے.روح القدس ایک زندہ حقیقت بھی ہے لیکن ہر انسان کو جو روح القدس نصیب ہوتی ہے وہ اس طریق پر نصیب ہوتی ہے کہ اس کا ساتھ دائمی ہوا کرتا ہے.آنحضرت ﷺ نے بھی روح القدس کو اسی معنی میں سمجھا.اسی معنی میں بیان فرمایا اور قرآن کریم نے اس مضمون کو خوب کھول دیا ہے کہ روح القدس ایک ایسی برکت ہے جو آکر پھر جایا نہیں کرتی.کہیں قرآن کریم میں اشارہ بھی یہ نہیں بیان فرمایا کہ روح القدس آکر چھوڑ کر چلی جاتی ہے.وہ ساتھ رہنے والی حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام نے بھی روح القدس کو اسی معنی میں وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے رکھا ہے کہ یہ تو ایک دائمی برکت ہے.پس خدا تعالیٰ کا قرب ایسا جو آ کر ٹھہر جائے ٹھہر ان معنوں میں نہ جائے کہ بڑھے نہیں بلکہ ان معنوں میں ٹھہر جائے
خطبات طاہر جلد 15 94 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء کہ آپ کے گھر کا ہو چکا ہو اور پھر آپ کو یہ خطرہ نہ ہو کہ یہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا.اتنا خدا آپ کمالیں کہ پھر جو مستقلاً آپ کا ضرور ہو چکا ہو.یہ ہے قرب الہی تا کہ اتنے حصے پر تو جب بھی ہاتھ بڑھا ئیں آپ کا ہاتھ پڑ جائے ، آپ دیکھ لیں ٹولیں کہ ہاں یہ ہے.پس یہ وہ معنی ہیں قرب کے جن معنوں کی طرف متوجہ کر کے میں آپ کو بقیہ رمضان میں دعاؤں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اپنے لئے دعا کریں اور ہر روز یہ پہچان کرنے کی کوشش کریں کہ آپ نے خدا کو کس حد تک پایا ہے کہ نہیں پایا اور کیا اس حد تک پایا ہے کہ وہ آپ کا اپنایا گیا ہے اور اگر اس حد تک نہیں پایا تو پایاہی نہیں.یہ بالکل جھوٹ ہے کہ کوئی یہ سمجھے میں نے خدا کو پایا تو تھا مگر وہ چھٹ گیا، جاتا رہا کیونکہ خدا کی حقیقت ایک حسن ہے اور ایسا کامل حسن ہے کہ پھر اسے چھوڑا جا سکتا ہی نہیں.تو اس خدا کو پائیں جو حسن کامل ہے جو دور سے بھی دکھائی دیتا ہے اور غیروں کی نظروں سے بھی دکھائی دیتا ہے مگر قریب سے بھی دکھائی دیتا ہے اور اپنی نظر سے بھی دکھائی دیتا ہے اور اپنی نظر سے دکھائی دیتا ہے تو رگ جان سے بھی قریب تر ہو جاتا ہے.یہ معنی ہے قرب الہی کا جو پھر کبھی بے وفائی نہیں کرتا، کبھی چھوڑ کر نہیں جا تا.رگ جان سے قریب تر ہو گیا تو کیسے ممکن ہے کہ آپ زندہ رہیں اور وہ چھوڑ کر چلا جائے.رگ جان چھٹے گی تو پھر وہ خدا چھٹے گا اور رگ جان کا رشتہ کٹا تو موت واقع ہوگئی تو خدا تو اس سے بھی قریب تر ہے.پس یہ دوام ہے قرب الہی کا جس کی طرف اس آیت کریمہ میں بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ خدا تمہارا ہوگا لیکن جب بھی ہوگا ، جتنا بھی ہو گا تب تمہارا ہو گا اگر وہ تمہارا ہو چکا ہو اور پھر کبھی تمہیں نہ چھوڑے یعنی تم پھر کبھی اس کو چھوڑ نہ سکو.چھوڑو تو تمہاری جان اس چھوڑنے میں جائے.یہ وہ مضمون ہے جس کو آپ سمجھ کر رمضان میں اپنی نگرانی کریں اور اپنی دعاؤں میں یہی باتیں مانگیں جس طرح ظفر نے کہا ہے: اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں کئے لاکھ فریب کر وڑ فسوں ، نہ رہا ، نہ رہا ، نہ رہا، نہ رہا تو دنیا کے محبوب تو ایسے بھی ہوتے ہیں ، انسان چاہے بھی پیار ہو جائے عشق ہو جائے واقعہ یہ چاہتے ہوں کہ ”میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں“ مگر جب (بہادرشاہ ظفر )
خطبات طاہر جلد 15 95 55 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء جاتے ہیں تو لاکھ فریب کریں، کروڑوں فسوں کریں نہ رہا، نہ رہا، نہ رہا مگر خدا تو ایسا محبوب نہیں ہے.وہ تو جب آپ کا بنتا ہے جتنا بن جاتا ہے پھر ممکن ہی نہیں کہ وہ آپ کو چھوڑ کر چلا جائے ، آپ کے لئے بھی ممکن نہیں رہتا کہ اسے چھوڑ دیں اور یہ مضمون جو ہے یہ رفتہ رفتہ خدا کو پانے کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ سارا خدا مل جائے.سارا خدا تو بندے کو مل سکتا ہی نہیں.سارے خدا کی طرف دائمی حرکت ہو سکتی ہے اور سارے خدا کی طرف دائمی حرکت کے لئے یہ شرط ہے کچھ تو ملے.کچھ تو ہاتھ میں ہو کہ جس کو آپ سمجھیں کہ ہاں یہ خدا تھا ، خدا ہے یہ میرا ہو چکا ہے.یہ ي تعلق قائم ہوگا تو سفر شروع ہوگا.اگر قائم نہیں ہو گا تولا کھ رمضان آئیں اور گزرجائیں آپ کو رمضان کے بعد یہی واویلا کرنا ہو گا نہ رہا، نہ رہا، نہ رہا، نہ رہا لگتا تھا کہ آیا ہے، لگتا تھا کہ ہمارے دل پہ بھی رونق کی ہوائیں چلی ہیں مگر وہ آئیں اور گزرگئیں اور دل کی ویرانی نہ گئی.خزاں خزاں ہی رہی اور بہار کے موسم میں تبدیل نہ ہوئی کیونکہ بہار کی علامتیں باقی نہیں دکھائی نہیں دے رہیں.پس خواہ تھوڑا کمائیں اتنا کمائیں جو واقعہ خدا کا کمانا ہواور جب خدا کمایا جائے گا تو فَلْيَسْتَجِيبُوا کی علامتیں آپ کی ذات میں بولنے لگیں گی.پھر آپ کا دعوئی ایمان کا نہیں ہوگا ، دنیا دیکھے گی کہ ہاں ان کی ذات میں ہمیں خدا کی استجابت کے نظارے دکھائی دے رہے ہیں ،اس کی علامتیں ظاہر ہو گئیں ہیں.اس طرح اگر آپ کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ رمضان ہمارا بہت ہی بابرکت رمضان گزرے گا.اس ضمن میں میں نے ایک مختصر سی بات کہی تھی اب پھر اسی کو یاد کرا کے اس خطبہ کو ختم کروں گا کہ افطاری کروانا اچھی بات ہے مگر افطاریوں میں جان ڈال دینا ان معنوں میں کہ خوراک کی باتیں ہوتی رہیں.کس نے زیادہ اچھا کھلایا، کس نے زیادہ اچھا پکایا یہ تو رمضان کے مضمون کے منافی ہے، سوشل فنکشن منا لینا اس حد تک کہ بعض جگہ اطلاعیں ملی ہیں کہ چندے اکٹھے ہو رہے ہیں کہ افطاریاں کروائیں.کل کی بات میں نے ٹیکس پہ ان کو کہا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ہرگز اجازت نہ دیں.انہوں نے کہا کہ کیا جماعت کی طرف سے کر لیں.میں نے کہا جماعت کی طرف سے یہ بھی رمضان کا ایک حصہ ہے کبھی اکٹھا بیٹھنے سے ایک محبت بڑھتی ہے اگر جماعت اپنی طرف سے کرتی ہے تو کرے بے شک لیکن افطاریاں کروانے کو رسم بنالینا اور اس کے لئے چندے اکٹھے کرنا اور جو پیسے
خطبات طاہر جلد 15 96 96 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء دے سکتا ہے وہ آئے ، یہ بالکل ظلم ہے، رمضان کی روح کے بالکل منافی اور اس سے متصادم ہے.رمضان کی روح تو یہ ہے کہ آپ بھوکے رہتے ہیں، ان بھوکوں کی خاطر جن میں خدا آپ کا انتظار کر رہا ہے جن کی تکلیف میں خدا موجود ہے آپ وہاں پہنچیں گے تو خدا کو پہچانیں گے ان کی خدمت کریں.اصل افطاری وہ ہے کہ جب جہاں آپ کو بھوکوں کی تلاش ہو جہاں غریبوں کی جستجو ہو دیکھیں کہ کون کون ہیں جو دکھوں میں مبتلا ہیں ، ان تک پہنچیں ، ان کے دکھ دور کریں، وہ لذت جو آپ محسوس کریں وہ لذت خدا محسوس کر رہا ہوگا یہ ہیں وصل کے ذریعے.اس بھوک میں بھی آپ کو وصل نصیب ہو گا جو غیر کی ، خدا کے بندے کی بھوک آپ کے دل میں مچل رہی ہوتی ہے.اس سحری میں بھی آپ کو خدا محسوس ہو گا جو سحری ایک خدا کے غریب بندے کی کروا کر آپ ایک لذت محسوس کرتے ہیں تو قرب کے ذریعے ایسے بھی نہیں ہیں جو فرضی ہیں ، وہ دکھائی دیتے ہیں اور ان غریبوں میں خدا کا قرب بھی تلاش کریں ان کے حقوق ادا کریں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ اپنے سینے کھولیں تو ان سینوں میں خدا ضرور بس جائے گا اور پھر ہمیشہ بس جائے گا.یہ بھی ایک تجربہ ہے جس کو غریب کی خدمت کی لذت آجائے ناممکن ہے کہ زندگی بھر پھر وہ لذت اس کا ساتھ چھوڑ دے.یہ تو ایسا چسکا ہے جو جان کا حصہ بن جاتا ہے.کسی کا دکھ دور کرنا ایک ایسی لذت ہے جو کسی اور جزا کو چاہتی ہی نہیں ہے.دکھ دور کرنا خود ایک لذت ہے.تو فَانِي قَرِيب کا یہ معنی ہے.اس کو سمجھیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا قرب عطا فرمائے جو دوام رکھتا ہے جسے روح القدس کی برکت بھی کہا جاتا ہے.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا:.ابھی نماز جمعہ اور عصر کے بعد ایک بیعت ہوگی.عام طور پر تو یہ رواج نہیں ہے، مطلب ہے دستور نہیں ہے مگر روس سے ہمارے ایک دوست تشریف لائے ہوئے ہیں جن کا نام آذر بائیجان ہے اور یہ ایک بہت بڑے آرٹسٹ ہیں اور اس ملک کے تھیٹرز ایسوسی ایشن کے صدر اور انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف تھیٹر زایسوسی ایشن کے ممبر ہیں.گوربا چوف کے زمانے میں سینٹ کے ممبر بھی رہے ہیں.یہ احمدیت کی جستجو میں یہاں نہیں آئے تھے ان کے اپنے آرٹس کے کام تھے جن کی خاطر یہ یہاں تشریف لائے مگر چونکہ ان کا وہاں احمدیوں سے تعارف تھا انہوں نے ہمارا بھی حوالہ دیا.یہاں
97 خطبہ جمعہ 2 فروری 1996ء خطبات طاہر جلد 15 کر ہے.آتے رہے درس میں شریک ہوتے رہے اور ہمیں دیکھتے رہے نمازیں پڑھتے ہوئے.کل مجھے ملے ہیں تو مجھے کہا کہ میں پہلے مسلمانوں کو جو عام طور پر دیکھا کرتا تھا اس سے مجھے کبھی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی اسلام میں.مگر میری خوش نصیبی ہے کہ رمضان کے مہینے میں میں یہاں آ گیا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں دیکھا ہے تو یہ عجیب پر کیف نظارہ ہے.یہ اسلام ہے جو حقیقت میں لوگوں کو زندہ کر سکتا ہے.یہ مختصرسی بات کی تھی اور جانے کے بعد پیغام ملا کہ میری خواہش ہے کہ میں جمعہ کی نماز کے بعد بیعت کروں.تو اگر چہ عام طور پر اس وقت اتنا وقت نہیں ہوا کرتا مگر یہ چونکہ یہ ایک خاص موقع ہے اور بہت ہی معزز انسان اور پاکباز ، پاک دل ہیں بالکل ، کوئی لمبی بحثیں نہیں کیں ،صرف دیکھا ہے، ہاں ایک اور بات بھی کی ہے انہوں نے کہ جو میرے گزشتہ مضامین چھپے ہیں روس کے متعلق یا ویڈیوز تیار ہوئی ہیں.بیٹھ کے پورا د یکھتے بھی رہے ہیں.اندر اندر ذہنی اور علمی تیاری بھی کی ہے مگر بحث کے طور پر نہیں بلکہ خود دیکھ کر تو اس وجہ سے ان کے احترام میں میں نے اجازت دے دی کہ جمعہ اور عصر کی نماز کے معا بعد ان کی بیعت ہوگی اگر چہ یہ ٹیلی وائز نہیں ہوگی مگر لوگ چونکہ سن چکے ہیں اس لئے اپنے طور پر دعا میں شامل ہو جائیں.
خطبات طاہر جلد 15 99 99 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء تمام تر مقصد رمضان کا خدا کا ملنا ہے.( خطبه جمعه فرموده 9 فروری 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّا مَا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرُنَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة: 184 185) فرمایا: اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے جاتے رہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اَيَّامًا مَّعْدُودَتِ گنتی کے چند دن ہیں یا چند دن جنہیں گنا جاتا ہے فَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ پس تم میں سے جو بھی کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں وہ یہ گنتی پوری کرلے وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسکین اور وہ لوگ جو طاقت نہیں رکھتے یعنی روزے کی طاقت نہیں رکھتے ان پر مسکین کو کھانا کھلانا فدیہ ہے.یا وہ لوگ جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں ان کو فدیہ دینا چاہئے.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرُ نه پس اس پہلو سے جو طوئی نیکی ،شوق سے نیکی کرنے والا ہو وہی اس ل کے لئے اچھا ہے یعنی نیکی میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اور اگر تم روزے رکھ سکو تو یہ بہتر ہے اگر تم اس کو جانتے کہ اس میں کیا فوائد ہیں.یہ آیت پہلے بھی میں نے رمضان ہی میں تلاوت کی تھی پہلے بھی اس کے متعلق کچھ باتیں
خطبات طاہر جلد 15 100 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء آپ کی خدمت میں عرض کی تھیں مگر قرآن کریم کے مضامین تو بے انتہا ہیں ہر آیت کو بار بار پڑھنے سے کچھ نئے مضامین سامنے آتے چلے جاتے ہیں.رمضان کے تعلق میں سب سے پہلے تو میں ” گنتی کے چند دن کی بات کرتا ہوں جیسا کہ میں نے کہا تھا ایک پہلو اس کا یہ ہے کہ تھوڑے دن ہی تو ہیں چند دن کی بات ہے اور یہ پہلو کمزوروں کے لئے ہے.وہ لوگ جو روزے کا خوف کھاتے ہیں جو روزے سے ڈرتے ہیں جن کو نیکیوں کی عادت نہیں جن کو خدا کی راہ میں قربانیاں دینے کی مشق نہیں ہے ان کے لئے یہ بات کیسے پیارے انداز سے ایک سہارا ہے.چند دن کی بات ہے کچھ کر لو، جو کچھ کر سکتے ہوکر لواس سے تمہیں فائدہ پہنچے گا اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کاش کہ تم جانتے تمہیں پتا ہوتا کہ یہ چند دن کی قربانی تمہارے لئے کیسی دائمی برکتیں لے کے آئے گی.ایک دوسری بات معدُو رت میں یہ ہے کہ افسوس کہ یہ چند دن کی باتیں ہیں بہت پُر بہار موسم آنے والا ہے مگر وہ لوگ جن کو محبت ہو جن کو ہر بار رمضان سے گزرنے کے بعد ایسے روحانی تجربات ہوئے ہوں ایسے لطف انہوں نے اٹھائے ہوں تو وہ جب رمضان گزرنے لگتا ہے پھر حسرت سے دیکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں چند دن کی باتیں تھیں جو گزرگئیں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی سال میں وہ کیوں انہی نیکیوں کو برقرار نہیں رکھ سکتے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر بات کے موسم ہوا کرتے ہیں.بہار کا بھی ایک موسم ہے، خزاں کا بھی ایک موسم ہے اور موسم پر انسان کو اختیار نہیں.یہ تو ممکن ہے کہ خزاں کا موسم ہو اور کچھ پودے پھول پھل رہے ہوں لیکن عمومی کیفیت یہی ہے کہ جہاں تک قاعدہ کلیہ کی بات ہے خزاں میں کم ہی سبزہ دیکھنے میں آتا ہے اور کم ہی پودے ہیں جنہیں خزاں موافق آجاتی ہے اور بہار میں بھی یہی صورت ہے کہ عمومی طور پر ہر چیز سرسبز و شاداب دکھائی دیتی ہے، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہونے لگتے ہیں ،شاخیں کونپلیں نکالتی ہیں اور رونق پھر دوبارہ لوٹ آتی ہے لیکن کچھ ایسے بھی سوکھے درخت ہیں جو بہار آنے پر بھی سوکھے رہ جاتے ہیں تو موسم کی بات ہے.رمضان ایک موسم لے کے آتا ہے یہ موسم قرب الہی کا موسم ہے.یہ موسم فضا تبدیل کر دیتا ہے کمزور بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور طاقتوروں کے اردگرد سہارے بن جاتے ہیں طاقتوروں کو اور آگے بڑھنے کی توفیق ملتی ہے.تو موسم کے جھرمٹ میں جو چیزیں ہوتی ہیں وہ بے موسم میں چاہو بھی تو ہو نہیں سکتیں سوائے اس استثناء کے سوائے ان لوگوں کے جن کو خدا کے حضور
خطبات طاہر جلد 15 101 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء ایک دائمی حضوری حاصل ہے مگر وہ کم ہوتے ہیں وہ استثناء ہیں.پس آیا ما مَّعْدُودَتِ کے دوسرے معنی یہ بنیں گے کہ گنتی کے چند دن آ کے گزر جانے والے ہیں اور کاش یہ جاری رہ سکتے مگر جتنے دن ہیں ان سے تو پورا فائدہ ہم اٹھا ئیں اور مَّعْدُودَت میں جو حرص پیدا ہوتی ہے کہ یہ گزرنے والے دن ہیں اس کی مثال وصل کی گھڑیوں سی ہے.وصل کی گھڑیاں بھی تو بعض دفعہ مقرر ہوتی ہیں معین ہو جایا کرتی ہیں.پتا ہے کہ محبوب کتنی دیر کے لئے آیا ہے اور انسان چاہتا ہے کہ اس کا ہر لمحہ اس کے قرب میں گزر جائے.یہ بھی أَيَّا مَا مَّعْدُو رت ہیں اور سزا کی گھڑیاں بھی معین ہوتی ہیں ،فراق کے لمحے بھی آیا ما مَّعْدُودَتٍ بن سکتے ہیں لیکن کتنے مشکل لمحات ہیں کہ ایک ایک گھڑی ، ایک ایک دن ایک ایک رات گن گن کے کاٹنی پڑتی ہے.تو مَّعْدُودَت کے دونوں معنے ہیں اور ان دونوں معنوں میں یہ مضمون رمضان مبارک پر صادق آتا ہے اور پھر عجیب بات ہے کہ اس کے دن واقعی جس طرح گنے جاتے ہیں اس طرح کسی اور مہینے کے دن گنے نہیں جاتے.آج پہلا روزہ ہو گیا، آج دوسرا ہو گیا ، آج تیسرا ہو گیا اور دن گنتے وقت بھی وہی کیفیت گننے والے کی الگ الگ کیفیت اس کے لئے الگ الگ پیغام لے کے آتی ہے.آخر پر جب پہنچ جاتے ہیں تو وہ لوگ جو ڈرتے ڈرتے رمضان میں داخل ہوئے تھے کہ کتنا لمبا رمضان پڑا ہوا ہے آج ایک روزہ گزرا ہے اور بڑی مشکل سے گزرا ہے ،کل دوسرا ہوگا پھر تیسرا پھر چوتھا لیکن جب رمضان الٹ پڑتا ہے جب اپنے اختتام کے پاس پہنچتا ہے تو اس کی کیفیت ویسی ہو جاتی ہے جیسے آبشار کے قریب پہنچتے پہنچتے دریا کی کیفیت ہوتی ہے.اس میں ایک روانی آتی ہے ایک تیزی آتی ہے ایک بہاؤ ہے جو موجیں مارتا ہوا اس کنارے کی طرف بڑھتا ہے.پس رمضان بھی جب بیچ کا نصف گزر چکا ہو تو الٹنے لگتا ہے، رفتہ رفتہ انسان محسوس کرتا ہے کہ اب یہ اس کنارے پر پہنچنا ہے جس کے بعد یہ آبشار بن جائے گا اور آبشار بننے کے دن دراصل یہ آخری دس دن ہیں.اس قدر جوش اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے رمضان میں جیسے طغیانی آئی ہوئی ہو اور ہم ان دنوں کے قریب ہیں اس لئے آپ دیکھیں کہ پچھلے پندرہ دن جب پندرہ روزے گزرے ہیں اس کے اور اب کے درمیان تو وقت کا پتا ہی نہیں چلا کہ کیسے گزر گیا تو اس لئے کہ ہم اس آبشار کے دہانے پر کھڑے
خطبات طاہر جلد 15 102 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء ہیں آج انیسواں روزہ ہے کل اعتکاف شروع ہو جائے گا.عام طور پر اکیس سے تھیں تک کے دس دن اعتکاف کے ہونے چاہئیں مگر چونکہ یہ پتا نہیں لگ سکتا تھا کہ آخری دس دن نصیب ہوں گے کہ نہیں اس لئے احتیاطاً گیارہ دن کا اعتکاف ہونے لگا کیونکہ اگر انتیس کے روزے ہو جائیں اور آپ دس دن کے خیال سے اعتکاف بیٹھیں تو اعتکاف نو دن کا رہ جائے گا اور اعتکاف کے لئے دس دن کی شرط ہے.اس لئے فقہاء اور علماء نے اس کے سوا چارہ نہ پایا اور یہی دستور ، یہی سنت آنحضرت ﷺ کی کہ رمضان مبارک کے آخر پر اس احتمال سے کہ کہیں انتیس کا رمضان نہ ہو ایک دن پہلے اعتکاف بیٹھتے تھے.اب جبکہ یقینی طور پر ہمیں پتا چل چکا ہے کہ آخری دس دن ہمیں میسر آسکتے ہیں اگر تمہیں کا رمضان ہے، اس کے باوجود ہم اعتکاف کو ایک دن پہلے ہی شروع کرتے ہیں کیونکہ ایک دن کم کرنے کا فائدہ تو کوئی خاص نہیں مگر ایک دن بڑھانے کی برکت بڑی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سنت یہ تھی.آپ بھی تو اسی طرح کبھی گیارہ دن کبھی دس دن بیٹھتے تھے مگر اس احتمال سے کہ دس نو نہ رہ جائیں آپ گیارہ قبول کر لیتے تھے.پس اگر اس احتمال سے کہ دس کہیں نو نہ رہ جائیں گیارہ قبول کئے جاسکتے ہیں تو اس ذوق و شوق سے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل ہو جائے کیوں دس کو گیارہ نہ بنایا جائے.پس اس لئے ہم نے باوجود یقینی علم ہونے کے اس طریق کو تبدیل کرنا پسند نہیں کیا اور اب بھی تمام احمدی مساجد میں قطعی طور پر علم ہونے کے باوجود کہ یہ ہمیں دن کا رمضان ہے گیارہ دن کا اعتکاف بیٹھا جاتا ہے، بجائے دس دن کے اور جب انتیس کا ہوتو پھر وہ طبعی طور پر دس ہی دن کا بن جاتا ہے.پس اعتکاف کل سے شروع ہونے والا ہے اور جب اعتکاف آجائے تو پھر تو آبشار کا منظر بالکل سامنے کھل کے آجاتا ہے.کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ آدمی خود چل رہا ہے یا چلایا جارہا ہے.کشتیاں کئی دفعہ چلائی جاتی ہیں کئی دفعہ وہ تمہیں بہا کے لے جاتی ہیں.تو رمضان کے آخری دس دن تو انسان کو بہالے جاتے ہیں اور اور قسم کی بھی آبشار میں پیدا ہوتی ہیں جو آنسوؤں سے جاری ہوتی ہیں ، دلوں سے پھوٹتی ہیں اور دعاؤں کی آبشاریں ہیں جو ان آنسوؤں کے ساتھ ساتھ گرتی ہیں.پس عجیب مناظر ہیں جو آخری دس دن ہمارے سامنے لانے والے ہیں اور ان مناظر کو دیکھتے ہوئے اگر ان کی کیفیات سے گزریں پھر اس آیت کا مفہوم سمجھ آتا ہے آیا مَا مَّعْدُو دَتِ چند گنتی کے دن تھے گزر گئے پتا نہیں ہم خدا کو راضی کر سکے کہ نہیں کر سکے.پتہ نہیں ہمارے گناہ بخشے گئے کہ نہیں بخشے
خطبات طاہر جلد 15 103 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء گئے.پتہ نہیں ہم ویسے ہی تو نہیں نکل رہے جیسے داخل ہوئے تھے.چکنا گھڑا لا کھ سال بھی پانی میں رہے جب نکلتا ہے اسی طرح چکنا، پانی کے بغیر، اس کے اندر پانی کا ایک ذرہ بھی سرایت کیا ہوا محسوس نہیں ہوتا Scientifically تو معلوم کرلیں گے مگر انسانی تجربے کے لحاظ سے چکنا گھڑا کہتے ہیں لاکھ سال بھی رہے گا تو چکنا گھڑا ہی نکلے گا.پس ایسے بھی تو ہیں بدنصیب جو جیسے داخل ہوتے ہیں ویسے ہی نکل آتے ہیں.مگر ایسے بھی ہیں جو جیسے داخل ہوتے ہیں اس سے بدتر نکلتے ہیں اور ان سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہئے ان کے متعلق ڈرنا چاہئے کہ بعض دفعہ ایسے لوگ قوموں کو تباہ کر دیتے ہیں.رمضان کے مہینے میں جو لوگ شرارت سے باز نہیں آرہے، جو فتنہ فساد پھیلانے سے باز نہیں آتے ، جو دنیا کا امن اٹھانے کی تدبیریں سوچتے ہیں اور خدا کے نام پر منبر پر کھڑے ہو ہو کے ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے بعضوں کے دل بعض دوسروں سے نفرت کرنے لگیں اور بعض صورتوں میں غیظ و غضب سے بھر جائیں ، رمضان کے مہینے میں مذہبی منافرت کی تقریریں بھی خوب چلتی ہیں.پس ایسے بھی ہیں جو داخل تو کچھ نسبتا بہتر ہوتے ہیں لیکن جب نکلتے ہیں تو بہت بدتر ہو کے نکلتے ہیں تو یہ تینوں امکانات ہیں اور یہ گنتی کے چند دن دیکھیں کیسے کیسے انقلاب لے آتے ہیں.پس دعا کریں اور توفیق پائیں اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے ساتھ محنت کے ساتھ کہ جو دن باقی ہیں ان کا حق ادا کریں ان کو اس طرح اپنا لیں کہ آپ کو ان دنوں سے پیار ہونے لگے ، وہ دن آپ ایسا اپنالیں کہ اپنی برکتیں آپ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ جائیں ، پس جب نکلیں تو دامن بھرے ہوئے ہوں نکلیں تو کچھ پیاس بجھی ہوئی ہو، کچھ پیاس لگی ہوئی ہو، پیاس بجھے اس پہلو سے کہ خدا کے قرب کی علامتیں دیکھیں اور اس کے لطف اٹھا ئیں.پیاس لگے اس پہلو سے کہ جو مزہ ایک دفعہ پڑ گیا ہے اس کی یاد آپ کو پھر ان مزوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے بے قرار کر دے، تو یہ وہ چند دن ہیں جن کے تقاضے ہیں.ان تقاضوں کے متعلق جو مختلف نصیحتیں آنحضرت ﷺ کی احادیث سے میں نے اخذ کی ہیں اور کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات یا تحریرات سے اخذ کی ہیں.میں آپ کے سامنے وہ رکھتا ہوں.صحیح بخاری کتاب الصوم باب الريان للصائمين میں درج ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں.قیامت کے
خطبات طاہر جلد 15 104 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء دن روزہ دار اس سے داخل ہوں گے اور ان کے سوا کوئی اس میں سے داخل نہ ہو گا اور جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ بند کر دیا جائے گا اور پھر کوئی اس سے جنت میں داخل نہیں ہوگا.یہ جو ریسان لفظ ہے یہ دراصل سیری کا نام ہے.سخت پیاس اور طلب کے بعد کوئی چیز حاصل ہو تو اس سے جو لطف حاصل ہوتا ہے اس کا نام دیان ہے.پانی تو ہم روز مرہ پیتے ہی ہیں مگر ریان اصل میں اس پانی پینے کو کہیں گے جس میں پیاس بھڑک اٹھی ہو اور پھر جب آپ پانی پیتے ہیں تو جو سیرابی نصیب ہوتی ہے اس کو ریان کہا جاتا ہے.پس ریان کا معنی ہے جو خاص طور پر قابل توجہ ہے اور دوسرا جنت کا گیٹ یا جنت کا دروازہ ایک ہی معنے رکھتے ہیں ، اس ضمن میں پہلے بھی میں سمجھا چکا ہوں کہ یہ تمثیلات ہیں.یہ تو نہیں کہ لوہے، لکڑی یا اینٹ پتھر کا کوئی گیٹ بنا ہوا ہے.مراد یہ ہے کہ انسانی فطرت اس طرح تیار کی گئی ہے کہ بعض نعمتیں جنت میں انہی کو حاصل ہوں گی جن کے لئے پہلے انسانی فطرت کو ان کے مطابق تیار کر دیا گیا.پس ریان کے دروازے سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں جنہوں نے خدا کی خاطر اپنی خواہشات کو روک دیا اور پیاس سے مراد صرف پانی کی بحث نہیں ہے ،تمام خواہشات پیاس کا مقام رکھتی ہیں، تمام خواہشات ایک بھڑ کی پیدا کرتی ہیں جو پیاس سے مشابہ ہے اور دنیا کے ادب میں ان کو ہمیشہ پیاس ہی قرار دیا گیا.پس ریان کا معنی صرف پانی کی پیاس نہیں، ہر طلب، ہر خواہش جو فطر تا انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے اور ایک بھر کی لگا دیتی ہے جب وہ بھڑکتی ہے اور جوش مارتی ہے اس وقت جو لوگ خدا کی خاطر رکے رہتے ہیں جب وہ اپنی پیاس کو خدا کی اجازت سے بجھاتے ہیں تو جو لطف اس کا ہے وہ عام حالات میں نہ پیاس بجھانے کا لطف ہے نہ ویسے خواہش کو پورا کرنے میں کوئی لطف ہے.بھڑ کی ہوئی خواہش کو پورا کیا جائے تو لطف اور ہی بڑھ جاتا ہے.مگر اگر کسی محبوب کی رضا کی خاطر ایسا کیا جائے تو پھر جو لطف ہے وہ دہرا لطف ہے اور اسی کا نام وہ دروازہ ہے جس میں سے وہ داخل ہوں گے.ورنہ پیاس کے مضمون کو تو سب جانتے ہیں.پیاس کی سیری سے بھی سب واقف ہیں.کوئی طوعاً کوئی مجبوراً یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ امیر آدمی کو کبھی پیاس کا تجربہ ہی نہ ہوا ہو یا خواہش ہوگئی ہو تو اسے دبانے کی توفیق نہ ملی ہو یا اس کا تجربہ نہ ہوا ہو.بعض دفعہ توفیق مجبوری کی توفیق ہوتی ہے.پس امیر سے امیر آدمی کی ہر خواہش کہاں پوری ہوتی ہے.بعض خواہشیں زور مارتی رہتی ہیں جب پوری ہوں تب پتا چلتا ہے.مگران
خطبات طاہر جلد 15 105 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء سب کو جنت کے اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی جو الریان کہلاتا ہے.یہاں مراد یہ ہے کہ خدا کی خاطر، خدا کی رضا کی خاطر جب خواہش پوری کر سکتے تھے اور نہیں کی گئی، جب پیاس بجھا سکتے تھے اور نہیں بجھائی اس وقت تم جانتے ہو کہ دنیا میں روزے نے تمہیں سکھا دیا ہے کہ جب پیاس بجھاتے ہو تو دوہری لذت حاصل کرتے ہو کہ اپنے رب کی خاطر میں ایک امتحان سے کامیابی سے گزرگیا اور گھونٹ گھونٹ پانی اپنے اندر دہری لذتیں رکھتا ہے کہ اب خدا کی اجازت سے میں نے اپنی پیاس کو بجھایا اپنی دوسری خواہشات کو پورا کیا.تو یہ جو جنت کا ایک زائد مضمون ہم یہاں اپنے لئے پیدا کر دیتے ہیں یہی وہ دروازہ بنانا ہے.یعنی ہم اس دنیا میں خود اپنے اس دروازے کو تعمیر کر رہے ہیں جو آخری دنیا میں ہمارے سامنے پیش ہو گا اور جس نے دروازہ بنایا ہے جس کا وہ مالک وہی اس دروازے سے گزرے گا اور کوئی نہیں گزرسکتا.پس یہ مراد نہیں کہ ایک گیٹ اکٹھا ایک جگہ کھڑا ہوا ہے اور کروڑہا آدمی اس کے سامنے Que ( لائن ) لگا کے کھڑے ہیں کہ ہمیں اجازت ہو تو ہم بھی اس میں سے گزریں کیونکہ جنت میں تو دوسرے دروازوں سے بھی گزرے ہیں تو کیا بار بار نکلنا پڑے گا ؟ پھر اگر یہ منظر ہو تو کوئی روزے کے دروازے سے گیا ہے، کوئی نماز کے دروازے سے گیا ہے، کوئی جہاد کے دروازے سے گیا ہے اور جو روزے دار جہاد کے دروازے سے گیا ہے وہ کہے گا روزے کا مزہ تو میں نے چکھا کوئی نہیں اب چلو پھر دوبارہ باہر نکلتے ہیں اور روزے والے دروازے سے داخل ہوتے ہیں.یہ سوچ ان لوگوں کی ہے جو د نیا داری کے مضامین کو دین پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں.دین کے اپنے محاورے ہیں اور دین کی الگ کیفیات ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ بیک وقت ایک انسان مختلف لذتیں حاصل کر رہا ہو گویا دروازے بظاہر الگ الگ ہیں لیکن آپ ان سب دروازوں سے بیک وقت داخل ہورہے ہیں.مثلاً ایک مجاہد ہے اس کو جہاد کی ایک لذت حاصل ہوئی جو اس دنیا میں ہوئی اور روزہ دار ہے جو مجاہد تھا روزے دار بن گیا اس کو روزے کی ایک لذت حاصل ہوئی.یہ دونوں چیزیں ایک دوہری لذت کی صورت میں اس دنیا میں پیدا ہو سکتی ہیں اور یہی لذتیں جو ایک کے اوپر دوسری منازل بنا رہی ہوں.یہ جب جنت میں متمثل ہوں گی تو بیک وقت ایک ہی گیٹ کے ساتھ اور گیٹ اس کے اوپر ایک اور گیٹ گویا کہ گیٹ کے اوپر ایک گیٹ چڑھا ہوا
خطبات طاہر جلد 15 106 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء ہوگا.داخل آپ ایک ہی دفعہ ہوں گے مگر ہر گیٹ اپنی تاثیر آپ کے اوپر ڈال رہا ہوگا.ہر گیٹ کا لطف آپ کو محسوس ہو رہا ہو گا مگر ہرگز یہ مراد نہیں کہ اس گیٹ سے داخل ہو جاؤ پھر واپس نکلو ، پھر دوسرے گیٹ سے جاؤ ، پھر تیسرے گیٹ سے جاؤ یہ تو ایک بچگانہ تصور ہے جو آنحضرت ﷺ کی طرف کسی صورت میں منسوب نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے مگر اگر اس کا عرفان آپ سمجھیں اس پر نظر ڈالیں تو بہت ہی عجیب پر لطف مضمون ہے جو روزمرہ ہمارے تجربہ میں آتا ہے.پس جس کو ایک خاص لذت نصیب ہو وہی جانتا ہے کہ وہ لذت کیا ہے اور جب وہ دوسروں سے باتیں کرتا ہے تو کہتا ہے تمہیں کیا پتا.یہاں تک کہ شراب پینے والے بھی نہ پینے والوں کو کہتے ہیں ” ظالم تو نے پی ہی نہیں تجھے کیا پتا کیا چیز ہے جو تو چھوڑ رہا ہے، بیٹے گا تو پتا چلے گا ، تو شراب معرفت کے متعلق یہ کہنا کہ جنہوں نے پی ہے انہیں کو پتا ہے باقی کوئی اندازہ کر ہی نہیں سکتے اگر بیچ ہے تو یہ بیچ ہے.شراب کا تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا نشہ ہے مگر اس سے زیادہ نشہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی مے کے دنیا میں بسا اوقات ایک انسان پالیتا ہے اور اس کے مقابل پر ہر نشہ ختم ہو جاتا ہے.پس قیامت کے دن جو ریان کا دروازہ ہے وہ یہ دروازہ ہے جو اس دنیا میں ہم تعمیر کرتے ہیں اور صرف پیاس کی بات پانی سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ دنیا کی ہر خواہش جو ہم خدا کی خاطر چھوڑتے ہیں اور ہمارے دل میں وہ ایک بھڑ کی لگا دیتی ہے جب خدا کی خاطر اس کو پورا کرتے ہیں تو وہ لذت ہے جو جنت میں متمثل ہوگی اور بہت بڑھ جائے گی اتنی کہ اس دنیا کی لذت سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہوگی یا اس کے ساتھ اس دنیا کی لذت کو کوئی نسبت نہیں ہوگی.ایک دوسری حدیث ہے یہ بھی صحیح بخاری سے لی گئی ہے ابراہیم بن سعد نے بتایا کہ ابن شہاب نے ہمیں خبر دی عبید اللہ بن عبد اللہ بن عقبہ سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نبی اکرم نیکی میں سب لوگوں سے زیادہ بھی تھے اور رمضان میں بہت ہی سخاوت کرتے تھے.جب جبریل آپ سے ملتے اور جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا.نبی ﷺ قرآن کا دور کرتے جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تو آپ نیکی میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ بھی ہو جایا کرتے تھے.(صحيح البخارى كتاب الصوم باب أجود ما كان النبي ع يكون في رمضان )
خطبات طاہر جلد 15 107 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء تو وہی موسم والی بات ہر ایک پر اطلاق پاتی ہے.آنحضرت ﷺ سارا سال نیکیوں میں بہت تیز رفتار تھے تو رمضان میں کیا اسی رفتار سے چلتے تھے یا اس میں ایک نئی شان پیدا ہو جاتی تھی ،نئی جان آجاتی تھی.حدیثیں بتاتی ہیں کہ ان نیکیوں میں جو روز مرہ آپ کی عادت تھی ان میں ایک نئی جلاء الله پیدا ہو جاتی تھی ، ایک نیا جوش پیدا ہو جاتا تھا.پہلے سے بڑھ کر تیزی سے آنحضرت ﷺ اپنی روزمرہ کی نیکیوں میں بڑھ جایا کرتے تھے.اب اس حدیث نے ہمیں ایک بڑا وسیع مضمون سمجھا دیا اپنے موازنے کا مضمون، اپنے سال پر نظر ڈالیں ، اپنی نیکیوں پر نظر ڈالیں ہر انسان خواہ نیک ہو یا بد ہوا سے کچھ نہ کچھ نیکی کی توفیق تو مل ہی جاتی ہے یعنی بد بھی ہو تو مل جاتی ہے، نیک ہو تو اس کو بہر حال کچھ نہ کچھ تو فیق ملتی رہتی ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ رمضان میں وہ نیکیاں جو ہم نے سارا سال کی تھیں ان میں ایک نئی جلا پیدا ہوئی ہے.کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے جس طرح عبادت کیا کرتے تھے اس سے زیادہ بڑھ کر اس سے زیادہ توجہ سے عبادت کر رہے ہیں، جس طرح پہلے صدقہ دیا کرتے تھے اس سے زیادہ توجہ کے ساتھ اور دلی خواہش کو ملا کر صدقے دیتے ہیں محض بوجھ اتارنے کے لئے نہیں بلکہ محبت کے جذبے کے ساتھ ، جیسے محبت کے جذبے سے جب تحفے پیش کئے جاتے ہیں تو بعض دفعہ بڑے بڑے خوبصورت کاغذوں میں یا ڈبوں میں لپیٹ کر دئیے جاتے ہیں بعض دفعہ تو اتنے زیادہ خوبصورت کر دیئے جاتے ہیں کہ اندر کا تحفہ کم اور باہر کی سجاوٹ زیادہ لیکن اللہ کے حضور بھی کسی حد تک سجاوٹ تو ضروری ہے اور وہ سجاوٹ جو ہے وہ خدا تحفوں کی طرح قبول فرماتا ہے وہ اس کا جزا بنا دیتا ہے.تو دیکھنا یہ ہے کہ ہماری قربانیوں میں کیا کوئی نئی حسن کی بات بھی پیدا ہوئی ؟ ہم نے انہیں سجانے کی کوشش کی؟ جو نمازیں پہلے پڑھتے تھے ان کو اگر ہم بے خیالی سے پڑھ جایا کرتے تھے اور خیال کو خدا تعالیٰ کی طرف مرکوز رکھنے پر محنت نہیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ چار رکعتیں پوری ہو گئیں یا تین رکعتیں پوری ہو گئیں تو بات ختم ہوگئی آؤوا پس اب دنیا کی طرف چلتے ہیں بلکہ بسا اوقات دنیا چھٹی رہتی تھی اور نماز کے دوران وہ پیچھا چھوڑتی ہی نہیں تھی.پس محض ایک ظاہری بندھن تھا جس کے ٹوٹنے کے بعد کوئی بھی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی.ویسی ہی بات ہوتی ہے بعض دفعہ نماز پڑھنے والوں سے جس طرح غالب نے کہا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 108 تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا تو ایسے لوگوں کی نماز سے جب آنکھ کھلتی ہے تو ہاتھ خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء میں کچھ نہیں ہوتا.نہ زباں نہ سود لیکن ایک زیاں ضرور ہوتا ہے.غالب کا شعر (دیوان غالب : 27) تو ایک انسانی حالت پر طاری ہونے والا ہے، اطلاق پانے والا ہے.نماز کے معاملے میں ہاتھ تو کچھ نہیں آتا مگر وہ وقت ضائع ہو جاتا ہے جس میں ہاتھ آ سکتا تھا اور اس لحاظ سے زیاں کا پہلو غالب رہتا ہے.پس یہ بھی دیکھیں کہ رمضان میں آپ کی وہ نیکیاں جن کی آپ کو پہلے توفیق ملا کرتی تھی کسی نئے جذبے سے جاگ اٹھی ہیں کہ نہیں.ان نیکیوں کی آنکھیں کھلی ہیں کہ نہیں یا غفلت کی حالت میں سوئے سوئے ادا ہو رہی ہیں.آنحضرت ﷺ کے متعلق قطعی طور پر ثابت ہے ایک حدیث نہیں اور بہت سی احادیث میں یہی مضمون ہے کہ رمضان کے دنوں میں تو آپ کی نیکیاں اس قدر جوش دکھاتی تھیں کہ جیسے ہوا آندھی میں تبدیل ہو جائے اس طرح آپ ہر نیکی میں آگے بڑھ جایا کرتے تھے.تو یہ جو نیکیوں کا موازنہ ہے یہ بعض دفعہ دل کے طبعی جوش سے پیدا ہوتا ہے بعض دفعہ بالا رادہ کرنا پڑتا صلى الله ہے.یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو تو اس بارے میں ارادے کے ساتھ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی.محنت تو بہت کرنی پڑتی تھی کیونکہ جب خدا کی رضا کی خاطر انسان پورا زور لگا تا ہے تو کچھ نہ کچھ جسمانی محنت اور اس کی تھکاوٹ کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں.مگر وہ محنت خود اپنے آپ کو سنبھال لیتی ہے کیونکہ ولولے اور محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اس لئے محنت تو ہے مگر اس طرح تھکا دینے والی محنت نہیں جیسے ایک آدمی ایسا کام کرے جس میں دل نہ ہو، اس کو بیگار کہتے ہیں.مزدور کو بھی اگر پوری مزدوری دو بلکہ اس سے کچھ زیادہ دے دو تو سخت محنت کر کے بھی وہ اتنا نہیں تھکتا جتنا کسی مزدور کو پکڑ لیا جائے اور کہا جائے چلو محنت کرو ورنہ تمہیں ماریں گے.وہ بے چارہ ہر قدم جواٹھاتا ہے وہ منوں بوجھل ہو جاتا ہے خواہ ہلکا کام ہی اس کے سپر د ہو.تو محنت کے بھی مختلف مدارج ہیں، مختلف کیفیتیں ہیں ، ان کے تابع ہمیں اپنے آپ کو دیکھنے جانچنے کا بہت اچھا موقع ہے خصوص رمضان شریف میں.رمضان میں ہم جتنا قدم نیکیوں میں آگے بڑھاتے ہیں اول تو جانچ سکتے ہیں کہ کیا آنحضرت ﷺ کی طرح
خطبات طاہر جلد 15 109 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء ایک طبعی جوش سے ہم آگے بڑھے ہیں اور اس کی تکلیف کی بجائے جو محنت ہم کر رہے ہیں ہم اس سے لذت پارہے ہیں اگر چہ جسم کمزور ہے اور روح کی تازگی کا ساتھ نہیں دے سکتا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے بھی کہا کہ روح جوش رکھتی ہے لیکن جسم کمزور ہے ویسی ہی کیفیت ہر انسان کو اپنے زندگی کے تجارب میں محسوس ہوتی ہے.ایک پیارے کی خاطر جاگتا ہے اور ایک مصیبت کے طور پر فرض کے طور پر جاگتا ہے، ان دونوں میں فرق ہے اور وہ مزدور جس کو تھوڑی مزدوری ملتی ہے اس کی محنت اس کے لئے بہت ہی مشقت اور مصیبت لے کے آتی ہے.وہ مزدور جس کو زیادہ مل جاتی ہے وہ زیادہ وقت چاہتا ہے اگر اس سے زیادہ محنت نہ لیں تو وہ شکوہ کرتا ہے.اب آپ کو پاکستان یا ہندوستان میں شاذ ہی یہ احتجاج ملیں گے کہ ہمیں Overtime نہیں دے رہے مگر یہاں اگر فیکٹریاں overtim نہیں دیں گی تو خاص طور پر آزاد کشمیر کے جو آنے والے ہیں وہ تو بڑا شور مچاتے ہیں.ان کا بدن زیادہ سخت جان ہے اور اس کو وہ پیسے میں تبدیل کر سکتے ہیں.تو کہتے ہیں یہاں Overtim نہیں دیا جار ہا بڑا ظلم ہو رہا ہے ہمارے اوپر اور اگر وا پس وہاں چلے جائیں اور تھوڑے پیسے دے کovertime لیں تو کہیں گOvertime لیا جارہا ہے بڑا ظلم ہو رہا ہے.ایک ہی چیز ہے صرف کیفیت اور رجحان بدلنے سے وہ مختلف اثرات پیدا کر دیتی ہے.تو رمضان مبارک کو اس طرح بھی جانچیں.کچھ تو اس طرح، دیکھیں کہ آپ نے جو کہ گزشتہ نیکیاں کی تھیں کیا رمضان کے مہینے میں ان میں ایک نئی زندگی پیدا ہوئی ؟ کیا آپ نے ان نیکیوں میں کچھ قدم آگے بڑھایا جو رمضان کے بغیر آپ کو توفیق نہیں ملی تھی ؟ اور پھر نیکیوں میں آپ نے پہلے سے بڑھ کر لذت محسوس کی کہ نہیں ؟ اگر لذت محسوس کی ہے تو لازماً آپ کو کچھ ملا ہے اور یہی وہ ملنا ہے جس کی طرف رمضان ہمیں متوجہ کر رہا ہے اور وہ خدا کا ملنا ہے.تمام تر مقصد رمضان کا خدا کا ملنا ہے اور یہ لذتیں جن کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں یہ تمام لذتیں خواہ کسی نوعیت کی ہوں تب پیدا ہوتی ہیں جب وصل کا احساس پیدا ہو، جب قرب الہی کا احساس پیدا ہو اس کے بغیر کوئی لذت ،لذت بن ہی نہیں سکتی.نماز میں بھی اگر مزہ آئے گا تو لازماً ان لمحات میں مزہ آئے گا جب آپ کو خدا کے قرب کا احساس ہوگا ورنہ یہ نماز بور ہی رہے گی.روزوں کے درمیان بھوک اور پیاس میں بھی اگر کوئی مزہ آئے گا تو محض اس وقت جب آپ کی توجہ اللہ کی طرف ہوگی اور آپ دل سے محسوس کریں گے کہ
خطبات طاہر جلد 15 110 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء ہاں میں نے اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے تکلیف اٹھائی ہے اور مجھے خوشی ہے.وہ جو خوشی ہے وہ زبان کی بات نہیں ہوتی وہ دل کا تجربہ ہوا کرتا ہے.واقعہ روزے دار جب یہ احساس پیدا کرے تو اس کو لطف آتا ہے کہ آہا بہت اچھی بات ہے.کچھ غریب ایسے بھی ہیں جو بے اختیار ہیں وہ بھو کے رہنے پہ مجبور ہیں مجھے تو اختیار تھا میں تو خدا کی خاطر رکا ہوں.پس اس پہلو سے رمضان ہوش کے ساتھ گزاریں اور جو گنتی کے چند دن باقی رہ گئے ہیں ان میں اپنا موازنہ کرتے رہیں.اس دوران کی کیفیت کا موازنہ اپنی پہلی کیفیات سے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے احساس کا موازنہ اپنے پہلے احساسات سے.اگر آپ ایسا کریں گے تو میں امید رکھتا ہوں کہ اگلے دن آپ کے لئے بہت کچھ فائدہ چھوڑ جائیں گے اور زیاں کا کوئی احساس نہیں ہوگا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا، ابو ہریرہ سے روایت ہے یہ بھی صحیح بخاری سے حدیث لی گئی ہے کہ روزے ڈھال ہیں، ہو کوئی شخص مخش بات نہ کرے اور نہ جہالت کی بات اور اگر کوئی آدمی اس سے لڑے، گالی دے تو چاہیئے کہ اس سے دوبار کہے کہ میں روزہ دار ہوں.اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے.(صحيح البخارى كتاب الصوم باب هل يقول اني صائم أذا شتم اب یہ حدیث جو ہے اس میں جو بُو کا بیان ہے یہ ویسا ہی بیان ہے جیسا کہ ریان “ کی بات ہو رہی ہے کہ وہ ایک دروازہ ہو گا جنت میں.وہ کوئی ظاہری لکڑی کا دروازہ نہیں ہوگا.اور یہاں جو بو ہے خدا کو تو بو آتی ہی نہیں ان معنوں میں جن معنوں میں ہمیں آتی ہے.اگر خدا کو ان معنوں میں بو آئے تو دنیا کی اکثر جگہوں پہ ہرقسم کی بد بو پائی جاتی ہے اور گناہوں کی بدید تو اتنی عام ہے کہ زمین کے قریب بھی خدانہ چھلکے بھی.مگر خدا کو ان معنوں میں بو نہیں آتی.نہ ظاہری نہ روحانی معنوں میں بلکہ اس کا علم ہے اور اسی علم کا نام بعض دفعہ، یہ رکھا جاتا ہے کہ خدا نے محسوس کیا، خدا کو اس بو کا علم ہوا.تو علم اور چیز ہے اور ویسے تجربے میں سے گزرنا اور چیز ہے.تو مراد یہاں صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے صاف ستھرے ہوں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندوں میں سے خوشبو اٹھے ظاہری خوشبو بھی اور باطنی خوشبو بھی اور یہ ایک امر واقعہ ہے جو ہر مذہب میں ہمیں اسی طرح ملتا ہے.تمام مذاہب میں رواج ہے کہ
خطبات طاہر جلد 15 111 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء کہیں وہ اپنے مندروں میں لوبان جلاتے ہیں، کہیں کئی قسم کی خوشبودار چیزیں چھڑکتے ہیں کہیں وہ عطر خود پہن کر یا لگا کر چلتے ہیں تو مسجد کے ساتھ خوشبو کا ایک تعلق ہے ، گرجوں کے ساتھ بھی خوشبو کا تعلق ہے، مندروں کے ساتھ بھی خوشبوؤں کا تعلق ہے تو مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خوشبو پسند ہے اس لئے نہیں کہ وہ خود سونگھتا ہے.اس لئے کہ تم سے محبت ہے تم سے پیار ہے تم جو اچھے لگتے ہو تو خدا کو بھی یہ اچھا لگتا ہے تم جب خوشبودار ہوتو اللہ کو گو یا تمہاری خوشبو کا لطف آ رہا ہے اور اس کے باوجود رمضان میں تمہارے منہ کی بدبو کا اس کو علم ہے اور جانتا ہے کہ تم تکلیف میں ہو لیکن خدا کی خاطر ہو، یہ تکلیف خدا کی خاطر اٹھارہے ہو، بد بو سے گزارا کر رہے ہو اللہ کی خاطر.تو یہ بات اللہ کو پسند ہے کہ دیکھو میرا بندہ جس کو میں نے بہت ہی پاکیزگی کی تعلیم دی ، پاکیزگی کی عادات ڈالیں ،جس کو بار بارصاف ستھرا ہونے کے سلیقے سکھائے، پانچ دفعہ وضو کرتا ہے، ہر گندی چیز سے بچنے کی کوشش کرتا ہے آج میری خاطر ایک ایسا کام کر رہا ہے کہ اتنے لطیف مزاج کا، اتنے صاف ستھرے مزاج کا انسان منہ میں بد بولئے پھر رہا ہے اور بے بس ہے.تو یہ پیار کی کیفیت ہے.اپنا بچہ، اپنا عزیز جب کسی کی خاطر کوئی گند بھی لگا بیٹھے تو وہ گند اس وقت اچھا لگتا ہے کہ اس نے اس کی خاطر کیا ہے.کئی دفعہ ایک انسان کسی چیز کو پکڑنے لگتا ہے جو نسبتا گندی ہو تو کوئی پیار کرنے والا آگے بڑھ کر لپک کر اس کو ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے.اب اس وقت کا اس کا گندا ہا تھ اس کو برا تو نہیں لگا کرتا.کون کہہ سکتا ہے اوں ہوں تم نے تو ہاتھ گندا کر لیا.ہاتھ گندا کیا محبت کی خاطر اور وہ گندا ہاتھ پیارا لگ رہا ہوتا ہے اس پر رحم تو آتا ہے اس سے نفرت پیدا نہیں ہوتی.پس یہ معنی ہے کہ خدا کو روزے دار کے منہ کی بد بو بھی پیاری لگتی ہے اور رسول اللہ اللہ فرماتے ہیں کہ خوشبوؤں میں کستوری کو ، مشک کو ایک مقام ہے تو ساری دنیا میں شاعروں کی زبان پر جاری رہتا ہے کہ مشک کی خوشبو بہت ہی پاکیزہ اور عظیم خوشبو ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مشک کی خوشبو سے زیادہ خدا کو روزے دار کے منہ کی بدبو پسند ہے جو خدا کی خاطر اس بد بو کے ساتھ نبھانے کی کوشش کرتا ہے.پھر فرمایا کہ جب جھگڑیں تو جواب میں کہے ” میں تو روزے دار ہوں یہ بحث ہے جواب میں کہے ”میں تو روزے دار ہوں یہ ایک ایسی دلچسپ چیز ہے جس کے کئی پہلو ہیں اصل میں.ایک تو یہ کہ جب آدمی کہے میں تو روزے دار ہوں تو اس وقت اس کا کسی اشتعال سے رک جانا اس اشتعال سے رک جانے کو ایک نیکی بنادیتا ہے اور اس کے دل میں احساس جاگ اٹھتا ہے کہ میں خدا کی خاطر
خطبات طاہر جلد 15 112 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء رک رہا ہوں.دوسرا یہ کہ جو سننے والا ہے جس نے زیادتی کی ہے اس کو یہ کہہ کر انسان ایک تسکین پالیتا ہے کہ کہیں مجھے کمزور ہی نہ سمجھ رہا ہو اور بعض ایسے جو شیلے ہیں کہ ان کو صرف غصہ دبانا مشکل نہیں بلکہ یہ برداشت کرنا مشکل ہے کہ اگلا مجھے نکما ہی نہ سمجھ رہا ہو.وہ سمجھتا ہے کہ میری بے عزتی کر جائے جو مرضی کر جائے میں اسی طرح بیٹھا رہ جاؤں گا.چنانچہ ایسے مزاج کے لوگ بعض دفعہ اپنے کپتے پن پہ بھی فخر کرتے ہیں.خبر دار ہے جو ہمارے متعلق کوئی کہے ہم بڑے کپتے ، بدمعاش لوگ ہیں.ہم یوں جواب دیا کرتے ہیں.اب وہ بے چارے کتے بدمعاش اگر تھے روزے میں پھنس گئے ہیں تو کس طرح برداشت کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے طریقہ سکھا دیا ہے تم یہ کہ دیا کرو کہ میں پھنسا ہوا ہوں، مجبور ہوں ، بندھا ہوا ہوں ورنہ میرا دل تو بڑا چاہ رہا ہے اس وقت کہ جوابی حملہ تم پہ کروں تو نفسیاتی طور پر جو ایک کمزوری کا احساس پیدا ہوتا ہے یہ بات کہنا اس کمزوری کے احساس کو دور کر دیتا ہے کہ میں تو خدا کی خاطر ر کا ہوا ہوں اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کو آئندہ جوشوں پر قابو پانے کی توفیق عطا فرماتا ہے.ایک انسان جب اپنے جوشوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے تو یاد رکھیں کہ ہمیشہ وہ چھٹی آگے بڑھتی جاتی ہے.مونہ تھوڑ اسا کھلتا ہے تو پھر پھٹنے لگتا ہے.پھر ایسے لوگ مستقلاً منہ پھٹ ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ جو منہ کو سنبھالتے ہیں وہ سنبھالتے سنبھالتے منہ کو ادب سکھا دیتے ہیں اور پھر بے اختیار منہ سے کوئی سخت لفظ نکلتا ہی نہیں.تو رمضان مبارک میں جو یہ بات زور سے کہی جاتی ہے آواز کے ساتھ کہ میں خدا کی خاطر رکتا ہوں تو کسی انسان میں تو یہ جذبہ جاگتا ہو گا کہ اللہ کی خاطر ان باتوں سے رکنا اگر اچھی بات ہے تو رمضان کے بعد میں کیوں پھر ایسی باتوں کو جاری رکھوں اور رمضان کی ایک مہینے کی پریکٹس اس کے گیارہ مہینے کے کام آسکتی ہے اور وہ واقعہ رمضان سے نکلتا ہے تو پہلے سے زیادہ اپنے جذبات پر قابو پا کر اور قابو پانے کی صلاحیت حاصل کر کے نکلتا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں یہ بھی بخاری ہی سے حدیث لی گئی ہے اور ابو ہریرہ کی روایت ہے، کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ بولنے پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.(صحيح البخارى كتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم ) اور یہاں روزے کے دوران کی بحث نہیں ہے بلکہ رمضان کی بات ہورہی ہے.رمضان کا
خطبات طاہر جلد 15 113 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء مہینہ آتا ہے اور کوئی شخص جس کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے وہ اس سے باز نہیں آتا تو ایسے شخص کا بھوکا اور پیاسا رہنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل ستائش ہے ہی نہیں ، قبولیت کے لائق نہیں ہے اور وہ بھوکا پیاسا گزر جائے گا اور اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.تو جھوٹ کی طرف بھی توجہ کریں یہ آج کل بہت پھیل رہا ہے اور میں پہلے بھی بارہا جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں کہ جھوٹ کے خلاف ایک عالمی جہاد کی ضرورت ہے جو ہمارے گھروں سے شروع ہوگا ، ہمارے نفوس سے شروع ہوگا ، بسا اوقات لوگ ملتے ہیں کہ جی آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا.میں کہتا ہوں اناللہ وانا اليه راجعون میرے سامنے نہیں بولنا خدا کے سامنے بولتے چلے جانا ہے کیونکہ خدا سے چھپ کے کہاں جھوٹ بولیں گے بہت ہی پاگلوں والا محاورہ ہے.اب اگر کسی کے منہ پر آئے گا تو مجھے یقین ہے ملاقات کے وقت ہاتھ رکھ کے اپنے آپ کو روک لے گا مگر کئی ہیں جن کو عادت ہے وہ کہتے ہی ہیں.میں نے اس پہ خطبے دیئے تب بھی کئی آدمی کہتے ہیں.میں نے کہا واقعہ یہ اسی طرح ہوا تھا؟ کہ جی میں آپ کے سامنے جھوٹ بول سکتا ہوں؟ میں نے کہا جو خدا کے سامنے بول سکتا ہے وہ سب کے سامنے بول سکتا ہے.یہ بھی جھوٹ ہے کہ آپ کے سامنے نہیں بول سکتا بلکہ ایسے ہی لوگ ہیں جو سامنے جھوٹ بولتے ہیں.اس لئے جھوٹ ایک بڑی لعنت ہے اور جب یہ عادت بن جائے تو انسان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں یہ بڑی بدنصیبی ہے اور اتنی عادت بن چکی ہے دنیا میں کہ آپ دیکھ کے حیران ہوں گے.بعض ملک کے ملک قوموں کی قومیں جھوٹ کے سمندر میں ایسا غرق ہو چکے ہیں کہ ان کو پتا ہی نہیں کہ ہم ڈوب چکے ہیں اور فنا ہو چکے ہیں احساس ہی نہیں رہا اور سب سے بڑا عذاب اسی احساس کا مٹ جاتا ہے کہ جھوٹ ایک لعنت ہے اور ہمیں سچائی کی طرف لوٹنا ہو گا.یہ جو جھوٹ کا سیلاب ہے اس نے اب بڑی بڑی ایسی قوموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو کسی زمانے میں سچائی پر فخر کرتی تھیں اور یہ جو قوموں کا معاملہ ہے یہ ہر ملک میں الگ الگ قبائل سے بھی تعلق رکھتا ہے.مجھ سے ملنے کے لئے ایک معزز دوست پاکستان سے تشریف لائے جن کے قبیلے کی بعض روایات ہیں بڑی بلند اور مقدس روایات ہیں کہ ظلم نہیں کرنا ، جھوٹ نہیں بولنا فلاں کام نہیں کرنا.تو انھوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ اب تو سارے ملک میں اپنے علاقے میں جدھر نگاہ ڈالتے ہیں سب
خطبات طاہر جلد 15 114 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء قومیں غرق ہو چکی ہیں اس بات میں.دعا کریں کہ ہمیں یہ جھنڈا اٹھائے رکھنے کی توفیق ملے.اب تک تو خدا کے فضل سے ہم نے بڑی محنت اور کوشش کے ساتھ اس جھنڈے کو بلند رکھا ہے اور اپنی قومی روایات کو جو اعلیٰ روایات ہیں مرنے نہیں دیا مگر ایسے لوگ کم رہ گئے ہیں جزائر کی صورت میں ہیں اور ان میں بھی پھر انفرادی طور پر بہت سے نوجوان ایسے بھی ہوں گے جو رفتہ رفتہ دوسرے سیلاب میں بہہ گئے ہیں یا بہہ جانے والے ہیں.تو ان کے لئے دعا کرنی چاہئے جن کو احساس ہے کہ ہم ان خوبیوں کو زندہ رکھیں اور قوم میں بالعموم گردو پیش میں اس کا درس دینا چاہئے کہ جھوٹ سے بڑی دنیا میں اور کوئی لعنت نہیں ہے.قوموں کے اعتبار سے اور ملکوں کے اعتبار سے وہ ممالک جن میں یہ فخر ہوتا تھا کہ ہم کم سے کم اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولتے اور سیاستدان جو قوم سے جھوٹ بولے اس کا تصور بھی نہیں تھا لیکن اب تو یہ روز مرہ کی بات بن گئی ہے.ایسے ممالک ہیں جہاں پولیس کے متعلق تقریباً یقین ہوا کرتا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گی مگر اب تو روز مرہ دستور بن گئے ہیں ان ممالک میں کہ پولیس بھی جھوٹے مقدمے بناتی اور اس کے نتیجے میں بعض معصوموں کو مظالم کا نشانہ بنا دیتی ہے ایسے واقعات ہوتے ہیں ان ملکوں میں کہ ایک آدمی بے چارہ دس پندرہ سال کی قید برداشت کر کے اپنے جوانی کے دن قید میں گلا کر اور ضائع کر کے باہر نکلتا ہے اس لئے کہ پندرہ سال کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ پولیس نے سارا کیس ہی جھوٹا بنایا ہوا تھا.تو جھوٹ کا تو اب یہ حال ہو گیا ہے اور جھوٹ کے خلاف جو جہاد کرنا ہے اس کا جھنڈا جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں تھمایا گیا ہے.اگر آپ نے اس جھنڈے کوگر نے دیا تو کوئی ہاتھ نہیں ہو گا جو اس کو اٹھا سکے گا.اس لئے ساری دنیا میں جھوٹ کے خلاف جہاد جاری رکھیں اور یہ جہاد اپنے نفوس سے شروع ہو گا اپنے گھروں سے شروع ہوگا اور رمضان مبارک میں تو بالخصوص آپ کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ رمضان کی ہوائیں آپ کی تائید کر رہی ہیں.رمضان سچ کی ہوائیں چلاتا ہے اور یہ ہوائیں جو ہیں یہ آپ کی مددگار بن گئیں ہیں.پس جھوٹ سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے بچوں پر بھی نظر رکھیں ، اپنی بیوی پر اپنے ماحول اپنے گردو پیش پر ، اپنے دوستوں پر کہ ان کی جو عادت بن گئی ہے روز مرہ جھوٹ بولنے کی اس سے وہ نکل کے باہر آئیں.بعض لوگ کہتے ہیں جی یہ تو عادت کی بات ہے معمولی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ عادتیں جو ہیں
خطبات طاہر جلد 15 115 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء یہ دراصل پیش خیمہ ہیں بڑے جھوٹوں کا.جب ایک جگہ سے حیا اٹھ جائے تو پھر آگے حیا اٹھتی چلی جاتی ہے.دنیا میں کہیں کوئی مقام ٹھہراؤ کا مقام نہیں ہے یا آپ جوان ہورہے ہیں یا آپ بوڑھے ہو رہے ہیں تیسری کوئی چیز نہیں.اگر جوانی کے بعد کہیں قدم رکے ہیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ قدم رو کے ہوئے ہیں.حقیقت میں مسلسل یا آپ جوانی کی طرف مڑ جائیں گے یا بڑھاپے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ جائیں گے کھڑے ہونے کا کوئی مقام نہیں ہے.پس بدیوں کا بھی یہی حال ہے جب آپ ان سے تعلق بڑھاتے ہیں تو پھر وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں یا تعلق کاٹنے ہوں گے اور پھر وہ کٹتے چلے جائیں گے یا بڑھیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے بیچ کی کوئی حالت نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ دیکھو بعض دفعہ ایک کالا ساتل چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور وہ بیماری کا تل ہوتا ہے وہ پھیلنے لگتا ہے تو دیکھو تمہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے کیسی گھبراہٹ ہوتی ہے کیسی کیسی فکروں میں مبتلا ہو جاتے ہو ڈاکٹروں کے دروازے کھٹکھٹاتے طبیبوں کے پاس پہنچتے کہ یہ داغ تو پھیلتا جا رہا ہے اور بسا اوقات اگر صحیح علاج نہ ہو تو وہ چھوٹا سا داغ سارے چہرے کو بدنما کر دیتا ہے اور یہ داغ بعض دفعہ سفیدی کا داغ سفید برص کی صورت میں آتا ہے حالانکہ سفیدی کو لوگ پسند کرتے ہیں مگر جب یہ بیماری بن جائے تو وہ پھیلتے پھیلتے سارے جسم پر قبضہ کر جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دیکھو گناہوں کا یہی حال ہے.یہ نہ سمجھو کہ تم نے بہت معمولی معمولی ابتدائی گناہ کئے ہیں اور وہ کرتے چلے جاؤ اور ان کے خلاف تمہارے دل میں کوئی نفرت پیدا نہ ہو.اگر نہیں ہوگی تو پھر یہ داغ پھیلیں گے.پھر چھوٹے گناہ بڑھ کر بڑے گناہ بنیں گے اور بڑے گناہ بڑھ کر تمہیں گھیر لیں گے اور جہاں تک گھیر نے کا تعلق ہے قرآن کریم میں ایک ایسی آیت ہے جو بہت ہی انذاری آیت ہے.فرماتا ہے وہ لوگ نہیں بخشے جائیں گے جن کو ان کی سیات نے گھیر لیا ہو.(البقرہ:82) یعنی خدا تعالیٰ اپنی بخشش کا ذکر فرماتا ہے کہ میں اگر چہ ہر گناہ کو بخش سکتا ہوں لیکن وہاں ایک بہت ہی بار یک تعلیم یہ بھی دی کہ وہ لوگ جن کو ان کی برائی نے گھیر لیا ہو وہ نہیں بخشے جائیں گے.مطلب یہ ہے کہ بعضوں کو کینسر کی بیماری گھیر لیتی ہے بعضوں کو دوسری بیماریاں ہیں سل ہے یا دوسری ایسی بیماریاں وہ گھیرے میں لے لیتی ہیں ان کا گھیر انہیں ٹوٹا کرتا پھر تم گناہ کے گھیرے میں نہ آؤ یہ تعلیم ہے.اگر تم گھیرے میں آگئے تو پھر تمہاری
خطبات طاہر جلد 15 116 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء جوابی جدو جہد ہی ختم ہو جائے گی یا بے معنی ہو جائے گی اور بسا اوقات ختم ہو جاتی ہے پھر انسان اس چیز کو ایک تقدیر کے طور پر ایک قانون کے طور پر قبول کر کے اس پہ راضی ہو بیٹھتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ایک اور گناہ ایسا پیدا ہوتا ہے جس کا دائرہ پھر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.تو رمضان مبارک میں جھوٹ کے خلاف اگر آپ جہاد کریں تو یا درکھیں اس کے نتیجے میں آپ کے روزے میں بھی برکت ہو گی.آپ ویسے بھی تو خدا کی خاطر کھانے سے رک رہے ہیں، پینے سے رک رہے ہیں مگر اگر ساتھ یہ جہاد بھی شروع ہو جائے جو جھوٹ کے خلاف ہے، اس جھوٹ کے خلاف جوروزے کا زہر قاتل ہے،اگر جھوٹ کھالیا تو گویا سب کچھ روزے میں کھالیا اور روزے کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا.پس جھوٹ کے خلاف اگر آپ جہاد شروع کریں گے اور باریکی سے گردو پیش میں نظر صلى الله رکھیں گے تو آپ کے روزے کی بھوک آپ کے لئے زیادہ ثواب لے کے آئے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قبولیت کی شرط سچائی رکھ دی ہے.پس جتنا آپ سچائی کی طرف بڑھیں گے اتنا ہی آپ کے روزے مقبول ہوتے چلے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں آپ کو دنیا میں بھی یہ محسوس ہوگا کہ یہ روزہ آپ کے لئے روحانی صحت کا موجب بنا ہے.پس سارے عالم کو جھوٹ سے صاف کرنے کے لئے ایک بڑی عظیم جدو جہد کی ضرورت ہے.تبلیغ کے ذریعے جہاں لوگ احمدیت کو قبول کرتے ہیں وہاں ان کے اوپر اصلاحی تربیتی کام کا آغاز وہیں سے شروع ہو جانا چاہئے اور جن قوموں میں جھوٹ پایا جاتا ہے وہاں اس کے خلاف جہاد کریں.بعض قو میں ہیں جو غریب بھی ہیں مگر سچی ہیں مگر بعض ہیں جو امیر بھی ہیں اور جھوٹی ہیں اور اسی طرح خاندانوں کا حال ہے، اسی طرح افراد کی کیفیت ہوتی ہے.تو آپ کو بیدار مغزی کے ساتھ جس شخص کو احمدیت کے دائرے میں لے کے آتا ہے اس کی کمزوریوں پر نظر ڈالنی ہوگی اور ان کی اصلاح کا جہاد فورا شروع کرنا ہے کیونکہ کسی کا احمدیت میں آنا اس کے سوا کوئی معنے نہیں رکھتا کہ اب مجھے جو ٹھیک کرنا ہے کر لو میں حاضر ہوں، میں نے قبول کر لیا، جو اصلاح کا دور ہے وہ ختم نہیں ہوا ، شروع ہوا ہے.قرآن کریم اسی مضمون کو بیان فرماتا ہے یہ کہہ کر ہمیں یہ دعا سکھا کر کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمُ فَامَنَّا ( آل عمران :194) اے ہمارے رب ہم نے سنا ایک منادی کرنے والے کو ، ایک اعلان عام کرنے والے کو کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ
خطبات طاہر جلد 15 117 خطبہ جمعہ 9 فروری 1996ء پس ہم ایمان لے آئے تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سفر ختم ہونے کا اعلان ہے ہم ایمان لے آئے الحمد للہ بچ گئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کے بعد وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں.رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ - اب ہماری زندگی کا وہ دور شروع ہوا ہے جہاں ہم نے ایک نئے تخلیق کے عالم میں دوبارہ ابھرنا ہے ، پھر سے پیدا ہونا ہے.اس کے لئے ہماری درخواست یہ ہے، ہماری التجا یہ ہے کہ پرانے گناہوں کو ، پرانی غلطیوں کو بخش دے اور جاری غلطیوں کی اصلاح فرماتا جا اور اس وقت تک ہمیں یہ توفیق دے، اس وقت تک ہم زندہ رہیں جب تک تیری نظر میں ہم نیکوں میں جان دے رہے ہوں، بدوں میں جان نہ دے رہے ہوں.پس ہر آنے والے کے لئے یہ کوشش ضروری ہے اور اپنی ذات کے لئے اگر یہ نہیں ہوگی تو آنے والے کے لئے بھی نہیں ہوسکتی.پس اس رمضان میں ان باتوں کو سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادے کی کوشش کریں.خدا کرے کہ یہ رمضان ہمارے لئے ایسا زندہ ہو جائے کہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی دے کر جائے ، زندگی لے کر واپس نہ جائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 119 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء محض لیلۃ القدر کی تلاش کافی نہیں جب تک قرآن کریم سے ایک دائمی مستقل تعلق قائم نہ ہو.(خطبه جمعه فرموده 16 فروری 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : حمةُ وَالْكِتَبِ الْمُبِينِ فُ إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ قُبُرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيْهِ أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ أَ رَحْمَةً مِنْ رَّبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ رَبِّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ فرمایا: (الدخان : 1 تا 8 ) یہ سورۃ دخان کی پہلی آٹھ آیات ہیں جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.ان کا تعلق ماہ رمضان میں آنے والی ایک رات سے ہے.رمضان کے آغاز میں میں نے جس آیت کی آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس میں سارے رمضان سے متعلق یہ فرمایا گیا تھا کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة : 186 ).رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کہ اس کے بارے میں قرآن اتارا گیا یا اس مہینے میں قرآن اتارا گیا هُدًى لِّلنَّاسِ ہدایت ہے لوگوں کے لئے وبنت اور کھلی کھلی آیات رکھنے والا روشن نشان رکھنے والا منَ الْهُدی ایسی کھلی آیات جن کا ہدایت سے تعلق ہے، ایسے روشن نشان جن کا ہدایت سے تعلق ہے وَ الْفُرْقَانِ اور ایسے عظیم دلائل رکھتا ہے جن
خطبات طاہر جلد 15 120 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء کو فرقان کہا جاتا ہے جو کھرے کھوٹے میں اس طرح تمیز کر دیتی ہیں جیسے دن چڑھ جائے تو اندھیرے اور روشنی میں تمیز ہو جاتی ہے.تو الفُرْقَانِ ہر اس غالب اور طاقتور دلیل کو کہتے ہیں جس کے بعد کسی ابہام کا کوئی سوال باقی نہ رہے.یہ رمضان کے تعلق میں جو قرآن اتارا گیا، قرآن کی تفصیل ہے کہ قرآن کیا کچھ کہتا ہے.یہ آیات جو میں نے آج تلاوت کی ہیں ان میں یہی باتیں جو سارے رمضان کے متعلق فرمائی گئیں ہیں ایک رات کے متعلق فرمائی جا رہی ہیں گویا رمضان میں ایک رات ایسی آتی ہے جو سارے رمضان کا خلاصہ ہے.پس وہ لوگ جو یہ اصرار کرتے ہیں کہ قرآن کریم رمضان ہی میں اتارا گیا ہے اس آیت کو کہاں لے جائیں گے اور اس کا کیا معنی کریں گے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ مبرَكَةِ ہم نے قرآن کو ایک رات لَيْلَةِ قُبُرَكَةِ میں اتارا ہے تو لازماً اس کے وسیع تر معنے ہیں اور اسی سے استنباط ہوتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ دراصل اس رات سے مراد محض ایک رات نہیں بلکہ وہ اندھیری راتوں کا دور ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے زمانے میں بے حد گہری ہو چکی تھیں.ظلمت نے ڈیرے ڈال دیئے تھے ،نور کا کوئی نشان باقی نہیں رہا تھا اس رات میں یعنی زمانہ محمد مصطفی ﷺے میں قرآن کریم اتارا گیا.تو پھر کسی ایک مہینے کی بات بھی نہیں رہتی اور کسی ایک رات کی بات بھی نہیں رہتی وہ سارا دور ہی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا ایک عظیم دور بن جاتا ہے.جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تفسیر پیش فرمائی تو بہت سے علماء نے آپ کے خلاف زبانیں دراز کیں ، بہت بے ہودہ تبصرے کئے کہ ساری امت تو سمجھتی ہے کہ ایک ہی رات مراد ہے اور آپ نے سارا زمانہ مراد لے لیا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں ان کو سمجھایا کہ تم کیوں قرآن کریم کے بطن کو محدود کرتے ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ ایک رات بھی تھی یا اب بھی آتی ہے جس رات میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کا خاص نزول ہوتا ہے اس رات کی جستجو کا احادیث میں کثرت سے ذکر ملتا ہے.فرمایا میں کب کہتا ہوں کہ کوئی ایسی رات نہیں آتی مگر قرآن کریم خود اس رات کی جو تفاصیل بیان فرما رہا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ دراصل زمانہ نبوی ہے اور اعلی درجہ کے معنی اس کے یہی ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک
خطبات طاہر جلد 15 121 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء الله زمانے کے اندھیروں کو ہمیشہ کی روشنی میں تبدیل کر دیا کیونکہ اس زمانے کے بعد جو صبح پھوٹی ہے پھر وہ دائمی صبح ہے.یہ معنے جو بہت ہی اعلیٰ ہیں اور قرآن سے ثابت ہیں ان کو کیوں چھوڑتے ہو.پس یہ جو آیت ہے جب یہ رمضان والی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھی جائے تو اس بات کو خوب کھول دیتی ہے کہ باوجود اس کے کہ رمضان والی آیت میں یہ فرمایا گیا تھا کہ اس مہینے میں قرآن اترا ہے اس آیت میں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے فرمایا اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ مبرَكَةِ گویا اس کو ہم نے ایک ہی رات میں اتارا ہے.اب امر واقعہ یہ ہے کہ رمضان ہی میں قرآن نہیں اترا آنحضرت ﷺ کے تمام وسیع دور میں قرآن اترا ہے جو نئیس سال تک پھیلا ہوا ہے اور مسلسل اتر تا رہا ہے.اسی لئے مفسرین کو مشکل پیش آئی اور انہوں نے یہ ترجمہ کیا کہ مراد یہ ہے کہ قرآن کریم اترنا شروع ہوا ہوگا.پھر یہ بھی اس کا معنیٰ لیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کا جو دور ہوا کرتا تھا وہ ایک رات میں یا ایک مہینے میں مکمل ہوتا ہو.مگر اب تو قرآن فرما رہا ہے کہ ایک ہی رات میں اتارا گیا اور پھر دور سارے قرآن کا ہر سال کیسے مکمل ہوسکتا تھا جب کہ قرآن ابھی پورا اتر ہی نہیں تھا.قرآن کریم تو تئیس سال میں پھیلا ہوا ہے، نئیس سال تک اتر تا رہا ہے.اس سے پہلے جتنے رمضان آئے تھے ان کے متعلق لفظ یہ کہا جاہی نہیں سکتا کہ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ خواہ اس کی دہرائی ہو چکی ہو، اس کی دہرائی وہاں تک ہوتی تھی جہاں تک قرآن اتر چکا تھا.پس در حقیقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عظیم معنی اس آیت کے سمجھے اور ہمارے سامنے پیش فرمائے اس نے بہت سے تفسیری اندھیروں کو دور کیا اور یہ معنی بھی ایک قسم کی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا منظر پیش کرتے ہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کا نزول ہوا اور اندھیرے روشنیوں میں تبدیل کئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر کے مقابل پر باقی پرانی باتیں تو واقعہ یوں لگتا ہے جیسے روشنی کے پیچھے اندھیرا ہو.عظیم الشان تفاسیر ہیں جو نور کے سوتے پھوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.پس اس تعلق میں آج آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا ہوں.مگر سب سے پہلے جمعتہ الوداع کی بات کرتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ تو جمعتہ الوداع ہی کا انتظار کرنے میں سال گزارتے ہیں اور مہینہ پھر گزارتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جمعتہ الوداع ہی ہے جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا اور نہ قرآن میں جمعتہ الوداع کا ذکر ملتا ہے نہ
خطبات طاہر جلد 15 122 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء احادیث میں ملتا ہے کہ اس دن کوئی خاص برکتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں.سلامتی اور برکتیں یہ دولفظ ہیں دونوں کا تعلق لَيْلَةُ الْقَدْرِ سے ہے.اور جمعتہ الوداع کے تعلق میں کہ اس جمعہ کا خیال کرو اس جمعے کا نتظار کرو، اس دن جو کچھ مانگنا ہے مانگ لو، آخری جمعہ ہو گا اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا.مگر یہ عجیب بات ہے کہ ساری اُمت محمدیہ میں،صلی الله علیه و آله وسلم ، یہ بات رواج پاچکی ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ وہ لوگ بھی جنہوں نے سارا سال نماز نہ پڑھی ہو وہ جمعتہ الوداع کے دن اکٹھے ہو جاتے ہیں.مسجدیں بھر کر اچھل پڑتی ہیں یعنی وہاں سے نمازی چھلک کر باہر نکل آتے ہیں.گلیوں میں تمبوتان لئے جاتے ہیں، بازار بند ہو جاتے ہیں اور ہر طرف ایک عظیم منظر دکھائی دیتا ہے عبادت کرنے والوں کا جودیکھنے میں بہت اثر ڈالتا ہے لیکن جو دردناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ کہتے تو ہیں کہ خدا کی عبادت کے لئے ہم اکٹھے ہوئے ہیں اور خاص برکتیں حاصل کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں مگر جمعتہ الوداع کو اس طرح وداع کہتے ہیں کہ جمعوں کو ہی وداع کہہ جاتے ہیں اور جمعوں سے بھی چھٹی ، نمازوں سے بھی چھٹی اور اگلے جمعہ جا کر دیکھیں تو بازار ہی خالی نہیں مسجدیں بھی خالی ہو چکیں ہوتی ہیں اور حیرت ہوتی ہے وہ لوگ آئے کہاں سے تھے ؟ گئے کہاں ؟ جو شمع کا پروانہ ہونے کے دعویدار تھے.پروانے تو ہر رات میں جب شمع جلتی ہے پھر بھی آجاتے ہیں.ان کا عشق تو اس سے ثابت ہے کہ وہ اپنی جان نچھاور کر دیتے ہیں.جل جاتے ہیں مگر ان کی محبت کی شمع نہیں جلتی.وہ ہمیشہ روشن رہی ہے ہمیشہ روشن رہے گی.تو یہ کیسی محبت ہے رمضان سے اور جمعۃ الوداع سے کہ آئے اور پھر اس طرح چلے گئے جیسے کبھی کوئی تعلق ہی قائم نہیں ہوا تھا.پس یہ ایک جذباتی بات ہے دیکھنے میں بہت ہی اثر پذیر منظر ہے کہ دیکھو کتنا عظیم جمعہ آیا ہے سارے بازار بھر گئے گلیاں بھر گئیں لیکن بعد کے آنے والے جمعہ کا بھی تو خیال کرو جب مسجدیں بھی خالی ہو چکی ہوں گی.وہی چند نمازی جو پہلے آیا کرتے تھے وہی آئیں گے شاید ان میں بھی کمی آجائے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ایک مہینہ خوب محنت کی ہے اب چند جمعہ آرام بھی تو کر لیں.قرآن کریم جو منظر پیش کرتا ہے اس کے پیش نظر جیسا کہ میں نے بیان کیا اول تو جمعہ کا ذکر نہیں ہے، ذکر ہے تو رات کا ہے یا ذکر ہے تو سارے رمضان کا ہے اور سارے رمضان میں قرآن کریم جو خصوصیت سے اتارا گیا اس کا وہ معنی بھی درست ہے جو عموم مفسرین کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات طاہر جلد 15 123 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں اس کی تردید نہیں کرتا وہ بھی ایک حد تک چسپاں ہوتا ہے.مگر عظیم تر معنے جو ہے اس کو کیوں چھوڑتے ہو.رمضان کے مہینے میں قرآن کریم جستہ جستہ اتارا گیا ہے اور جتنا بھی اتارا گیا ہے اس کی دہرائی بھی ہوتی رہی.جبرائیل خصوصیت کے ساتھ نازل ہوتے رہے.مگر جو بنیادی اور مرکزی معنی ہے وہ یہی ہے کہ قرآن کریم رمضان کے مہینے میں جو برکتیں ہیں جس میں تمام عبادتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں ان کے متعلق اتارا گیا ہے.یہ سمجھانے کے لئے کہ اس مہینے کی برکتیں ایسی ہیں جن کو حاصل کرو، ورنہ قرآن کے فیض سے محروم رہ جاؤ گے.اگر قرآن اس مہینے کی برکتوں کے متعلق اتارا گیا ہے تو پھر ان برکتوں سے جب محروم ہو گے تو پھر قرآن کے فیض سے محروم رہو گے.مگر اس آیت میں جو بات پیش کی گئی ہے اس میں ایک اور بہت ہی عظیم اشارہ بھی ملتا ہے.فرمایا إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبْرَكَةِ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ (الدخان: 4) کہ دیکھو ہم نے اس قرآن کو لَيْلَةِ قُبُرَكَةِ کے متعلق اتارا ہے یا ایک لَيْلَةٍ قُبُرَكَةِ میں اتارا ہے اور یہ جو برکت ہے اس کے ساتھ انذار بھی داخل ہے.اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ یا درکھنا یہ برکتوں والی رات ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے یا جس کے متعلق اتارا گیا ہے مگر ہم متنبہ کرتے ہیں کہ بہت ہی انذار کا پہلو بھی داخل ہے اس برکت کی خوشخبری کے ساتھ اور وہ یہ ہے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِیمِ.یہ وہ رات ہے جس میں تمام حکمت کی باتوں میں فرق کر کے دکھایا جائے گا اور کھول کھول کر پیش کی جائے گی.اَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا ہماری طرف سے یہ ایک فیصلہ شدہ تقدیر ہے.إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِینَ یقیناً ہم ہی ہیں جو ہمیشہ مرسلوں کو بھیجا کرتے ہیں رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ یہ تیرے رب کی طرف سے رحمت ہے.اِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِيْمُ یقیناً وہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.رَبِّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وہ آسمانوں کا رب بھی ہے اور زمین کا بھی اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ کاش تم ایمان لے آتے تم ایمان لانے والے کیوں نہیں بنتے؟ یہاں جو إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِینَ ہے اس آیت کے اس ٹکڑے نے دراصل وہی بات پیش فرمائی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے تعلق میں بیان فرمائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا تم زمانہ اتنا محدود کرتے
خطبات طاہر جلد 15 124 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء الله ہو کہ رمضان کی ایک رات ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ زمانہ نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کا تمام زمانہ ہے بلکہ ہر نبی کا زمانہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہوا کرتا ہے کیونکہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہی ہے جس میں نبوت کا ظہور ہوتا ہے.لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہی ہے جس کو روشنی میں تبدیل کرنے کے لئے آسمان سے نور اترتا ہے.فرمایا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہی میں تمام انبیاء بھیجے جاتے ہیں.چنانچہ یہ جو آیت ہے یہ اس بات کو کھول رہی ہے اَمْرَا مِنْ عِنْدِنَا ہماری طرف سے ایک تقدیر ہے إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِینَ کہ ہم ہمیشہ مرسل بھیجا کرتے ہیں اور جو مرسل بھیجتے ہیں ان کا اس لَيْلَةٍ مُ برَكَةٍ سے تعلق ہے اور جو مرسل بھیجے جاتے ہیں.فرمایا مرسلین ان کے متعلق یاد رکھیں کہ وہ نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.ڈرانے والے بھی ہیں اور خوشخبریاں دینے والے بھی ہیں.پس مبارک لفظ کے ساتھ منذر کہ دینا صاف بتاتا ہے کہ یہ دو پہلو ہیں جن کا اس رات سے تعلق ہے.اور ایک اور پہلو جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ فرمایا قرآن کریم اس رات کے متعلق اتارا گیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس رات کے تمام مضامین قرآن کریم میں موجود ہیں.یہ ایک بہت اہم پہلو ہے رات تو آ کے گزر جاتی ہے قرآن تو نہیں گزر جاتا، قرآن تو ہمیشہ ہمارے سامنے رہتا ہے.پس یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ایک رات میں برکتیں ڈھونڈ نہیں سکتے جب تک ان برکتوں سے دائی تعلق نہ قائم کر لو جو تمام تر قرآن میں موجود ہیں.اس لئے ایک رات اٹھ کر شور مچادو اور یہ سمجھو کہ تم نے جو کچھ مانگا تھا سب کچھ مل گیا اور اب مزید تمہیں کوئی حاجت نہیں رہی اگلے سال پھر مانگنے آجاؤ گے.یہ ایک بالکل غلط تصور ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، قرآن کریم میں جو باتیں ہیں وہ ساری اس رات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.گویا اس رات کے ساتھ جتنی برکتیں ہیں وہ قرآن میں موجود ہیں.رات گزر جائے گی مگر قرآن تو تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا.اگر اس سے دائمی تعلق رکھتے ہو تو رات کی برکتیں بھی ملیں گی.اگر اس سے تعلق نہیں ہے تو رات کی برکتوں سے بھی محروم رہو گے کیونکہ یہاں قرآن کو لَيْلَةُ الْقَدْرِ سے کاٹا جاہی نہیں سکتا.نہ قرآن کریم کو رمضان مبارک سے کاٹا جا سکتا ہے، نہ قرآن کریم کو لَيْلَةُ الْقَدْرِ سے کاٹا جا سکتا ہے.یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن سے تم کاٹے جاؤ اور رمضان نصیب ہو جائے.اس لئے محض لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی تلاش کافی نہیں ہے جب تک قرآن کریم سے ایک دائمی مستقل تعلق قائم نہ ہو اور قرآن کریم کے مضامین پر غور نہ کرو.
خطبات طاہر جلد 15 125 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء ایک اور بات اس میں جو قابل توجہ ہے.فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ اس رات میں ہرا ہم اور حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہ فیصلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تقدیروں کی صورت میں کیا جاتا ہے.ایک تو ایسے معاملات ہیں جن کا تعلق زمانے کی تقدیر سے ہے اور ہر زمانے میں ایک لَيْلَةُ الْقَدْرِ جب آتی ہے یعنی وہ دور جس میں خدا تعالیٰ مرسل بھیجتا ہے وہ دور جس میں خدا تعالیٰ غیر معمولی طور پر بشیر اور نذیر بنا کر اپنے نمائندے بھیجا کرتا ہے اس دور میں تقدیروں کے فیصلے ہوتے ہیں.قوموں کی تقدیریں بنائی جاتی ہیں اور جو بد نصیب ہوں ان کی بگڑی ہوئی تقدیر کے فیصلے کھول دیئے جاتے ہیں لیکن ایک اور بات بھی اس میں ہے وہ ہے انفرادی فیصلے، ہر انسان کی تقدیر کا فیصلہ اس رات میں کیا جاتا ہے اور وہ ایسا فیصلہ ہے جس کا آپ کو علم ہو سکتا ہے.وہ جو عظیم فیصلے ہیں ان کے متعلق تو آپ کہ سکتے ہیں کہ ہمیں پتا نہیں وہ کیا فیصلے ہوئے ہیں.کون سی قو میں بچیں گی ، کون سی زندہ رکھی جائیں گی اور باقی رکھی جائیں گی.کون سی قوموں کی صف لپیٹ دی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لئے ماضی میں دفن ہو جائیں گی.یہ سب اہم فیصلے جو ہوتے ہیں اور ہوتے چلے آئے ہیں.مگر ہر ذات سے بھی تو کچھ فیصلے متعلق ہوا کرتے ہیں.ہر فرد بشر سے بھی تو کچھ فیصلے متعلق ہوتے ہیں.وہ بھی اسی رات میں کئے جاتے ہیں اور ان کا علم ہر انسان کو ہوسکتا ہے اور ہونا چاہئے کیونکہ جب وہ خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو اس کے متعلق کیا فیصلے ہوئے ہیں اس کا اس کو پتا نہ لگے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اور پہچان کیا ہے؟ کس طرح پتا چلے گا کہ اس کے متعلق اچھے فیصلے ہوئے ہیں، برکتوں والے فیصلے ہوئے ہیں ، انذار والے فیصلے نہیں ہوئے.وہ اس طرح پتا چلتا ہے کہ انسان جب لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی تلاش میں راتیں گزارتا ہے تو کچھ اسے خود فیصلے کرنے پڑتے ہیں جن فیصلوں کی اس کو توفیق ملے.جو نیکی پر قائم ہونے کے فیصلے ہیں اور گناہوں کو چھوڑنے کے فیصلے ہیں وہی فیصلے ہیں جو آسمان پر اس کے متعلق ہوتے ہیں اور خدا ان کی توفیق عطا فرماتا ہے.پس اگر آپ اپنے دل میں کوئی ایسے فیصلے نہ کریں جو آپ کو ایک نئی زندگی عطا کرنے والے فیصلے ہوں ، جزوی طور پر بھی آپ کو یہ توفیق نہ ملے کہ بعض بدیوں کو ہمیشہ کے لئے ترک کرنے کا ایک عزم کر لیں اور فیصلہ کریں کہ ہم کبھی اب اس بدی کے قریب تک نہیں پھٹکیں گے اور بعض نیکیاں اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیں اور کہیں کہ ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ آئندہ ہمیشہ اس نیکی کو مقدم رکھیں گے تو یقین جانیں کہ وہی فیصلے ہیں جو لَيْلَةُ الْقَدْرِ میں
خطبات طاہر جلد 15 126 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء آپ کی ذات کے متعلق آسمان سے ہوں گے کیونکہ یہ قبولیت کی رات ہے.ہر نیکی میں آسمان سے مددگار اترتے ہیں مِنْ كُلِّ امْرِفُ سَلم (القدر : 5 تا6) ہر بات میں سلامتی ہوتی ہے.مگر انسان کی اپنی تقدیر کے فیصلے کا اس کی اپنی ذات کے ریزولیوشن سے ،اس کے اپنی ذات میں کئے ہوئے عہدوں سے ایک گہرا تعلق ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:12) اب فیصلہ تو اللہ نے کیا ہے اور یہاں بھی یہی فرمایا گیا ہے يُفْرَقُ فیصلے کئے جائیں گے كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ ہر فیصلہ جو کیا جائے گا وہ امر حکیم ہو گا یعنی حکمت کے ساتھ فیصلے ہوں گے.یونہی اندھا دھند فیصلے نہیں ہیں کہ جس طرح بعض دفعہ بڑے لوگ بیٹھ جاتے ہیں کہ چلو جی یہ اس کو دے دو اور فلاں اس کو دے دوان کو پتا ہی کچھ نہیں ہوتا کہ جس کے حق میں فیصلے کر رہے ہیں وہ اس لائق بھی ہے یا نہیں.تو قرآن کریم فرما رہا ہے کہ اللہ اس رات جو فیصلے کرتا ہے وہ تمام فیصلے حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور انسانی فیصلوں کا جہاں تک تعلق ہے وہ پہلے ہوتے ہیں ان کے مطابق پھر ان کی سچائی پر نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک فیصلہ صادر فرماتا ہے.اس کی تائید میں یہ دلیل ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِم اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت بدلتا نہیں جب تک پہلے وہ خود اپنی حالت نہ بدل لے.اب سوال یہ ہے کہ اگر اس نے اپنی حالت بدل لی ہے تو اللہ پھر کیسے بدلے گا.وہ تو بدلی گئی ،تبدیل ہو گئی، غور کی بات ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُوْا مَا بِأَنفُسِهِم جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں خدا ان کی حالت نہیں بدلتا مگر یہ جوتر جمہ ہے یہ درست نہیں.ترجمہ ہے مَا بِأَنفُسِهِمْ جب تک وہ اپنے دل کی اندرونی نیتوں کو تبدیل نہ کریں ، وہ اپنے دلوں میں کچھ فیصلے نہ کریں، اس وقت تک ان کی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی.اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان خواہ کیسے ہی اچھے فیصلے کرے محض اپنے فیصلوں سے توفیق نہیں پاسکتا کہ ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کر لے جن کی خاطر فیصلے کئے ہیں.فیصلوں کے پورا ہونے کی توفیق آسمان سے اترتی ہے.پس انفُسِهِم نے ہمیں بتایا کہ دراصل قوم اپنی حالت تبدیل نہیں کیا کرتی حالت تبدیل کرنے کے ارادے باندھا کرتی ہے، حالت تبدیل کرنے کی تمنائیں دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور
خطبات طاہر جلد 15 127 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء چونکہ اخلاص کے ساتھ ایسا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ جب جان لیتا ہے کہ واقعہ ان کے دلوں میں پاک ارادے ہیں ، یہ چاہتے ہیں کہ بدیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیں چاہتے ہیں کہ بدیوں سے رہائی حاصل کر کے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی آزادی کے دور میں داخل ہو جا ئیں تب آسمان سے تقدیر اترتی ہے.یہ ہے يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمِ ہر بات کا فیصلہ ہوتا ہے مگر فیصلہ حکمت والا ہوتا ہے حکمت سے عاری نہیں ہوتا.پس اب سوال یہ ہے کہ یہ جو راتیں لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی راتیں کہلاتی ہیں، جمع کا صیغہ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ کوئی پتا نہیں کہ کون سی رات وہ رات ہے ، ان راتوں میں ہمارے حق میں ، انفرادی طور پر ہم سب کے حق میں کون کون سے فیصلے ہوں گے، اگر بغیر فیصلوں کے گزر گئے تو جیسے تھے ویسے ہی رہے اور بڑی محرومی ہے کہ کسی عظیم دربار میں آپ پہنچیں اور اپنے خالی دامن کو پیش کر کے اس سے کچھ مانگیں اور کچھ بھی نہ ملے.ساری رات چلاتے رہیں مگر کشکول خالی کا خالی رہے اور اس میں کچھ بھی نہ اترے.جو اترنا ہے اس کے لئے یہ شرطیں ہیں جو میں آپ کے سامنے قرآن کے حوالے سے رکھ رہا ہوں کہ آپ کو اس رات میں در حقیقت کچھ فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ اس کی برکتیں بارش کی طرح خود بخود نہیں اترتیں.ان برکتوں کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اللہ فرماتا ہے کہ ان برکتوں کا تعلق کچھ فیصلوں سے ہے اور وہ تقدیر خیر وشر کے فیصلے ہیں.ان فیصلوں کا تعلق تمہاری اپنی ذات سے ہے.تمام تر اپنے نفوس میں پاک تبدیلیاں لے کر اس رات حاضر ہو گے تو یاد رکھو کہ تمہارے حق میں آسمان سے ویسی ہی تقدیریں جاری کی جائیں گی.اگر تم خالی خولی لفظوں کے تحفے لے کر آؤ گے تو خالم خولی لفظ تمہارے اوپر لوٹا دئیے جائیں گے جیسے خالی وہ گئے تھے خدا کے حضور ویسے ہی خالی اتر آئیں گے.تو دراصل لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے جس کا مضمون رمضان میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے.پس جہاں تک زمانے کا تعلق ہے میں پچھلی دفعہ، پچھلے رمضان میں اس پر روشنی ڈال چکا ہوں.اب میں انفرادی پہلو کو نمایاں کر کے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زمانہ خیر و شر کی بات کی ہے پورے زمانہ نبوی کو ایک لَيْلَةُ الْقَدْرِ قرار دیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا کہ ایک رات واقعہ بھی ایسی آتی ہے جو ساری زندگی سنوار دیتی ہے یا اگر
خطبات طاہر جلد 15 128 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء محرومی ہو تو ساری زندگی کی محرومیاں چھوڑ کے چلی جاتی ہے.اسی لئے فرمایا کہ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ وہ رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.ہزار مہینے تقریباً اسی (80) سال بنتے ہیں.انسان کی عمر بھی اتنی (80) سال کے لگ بھگ شمار کی جاتی ہے.یعنی غریب قوموں میں تو اگر چہ زندگی کی اوسط کم ہو گئی ہے مگر احقاب کا لفظ جو عربی میں آتا ہے وہ اسی (80) سال کا ہی ہے اور قرآن کریم نے بھی ایک صحتمند آدمی کی اوسط عمر اسی (80) سال ہی مقرر فرمائی ہے.خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرِ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسی (80) سال سے اوپر کچھ مہینے تو اب یہ دیکھ لیجئے کہ ایک رات ایسی آتی ہے جو ساری زندگی کی راتوں سے ، ساری زندگی کے دنوں سے، ہر ہر لمحے سے برکتوں میں بڑھ جاتی ہے اور بڑی فضیلت والی رات ہے جو ساری زندگی پر بھاری ہے.ایک طرف سیہ رات اور دوسری طرف باقی ساری راتیں ، سارے دن ، تمام لمحات ، جن کو وہ راتیں اور دن سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں.اس رات کی تلاش بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہاں اسی (80) مہینوں والی رات سے مراد واقعہ ایک ایسی رات ہے جو قبولیت کی رات ہے.آنحضرت ﷺ نے اس رات کا تعلق بخشش سے باندھا ہے اور سب سے بڑی برکت یہ بیان فرمائی ہے کہ پچھلے سارے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس بخشش کا تعلق سچی توبہ سے ہے.پس وہ رات جو تو بہ کی رات ہے وہ نصیب ہو جائے یہ مراد ہے.ایسی رات جس میں انسان اپنے ماضی پر نگاہ ڈال کر اپنی کمزوریوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے اور ایک ایک کر کے ان کو رد کرتا چلا جائے اور ایک ایک کے تعلق میں خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجائے اور ان سے دور ہٹنے کا فیصلہ کر لے.یہ جو اپنی زندگی کا تفصیلی جائزہ ہے یہ وہ جائزہ ہے جو اس رات کو آپ کے لئے برکتوں سے بھر سکتا ہے.ورنہ چند باتیں آپ مانگ کر آجائیں کہ ہمیں دولت مل جائے ، زمین مل جائے ،مقدموں کے فیصلے ہو جائیں اولاد نہیں ہو رہی اولا دعطا ہو جائے تو اس سے ان دعاؤں کے قبول ہونے یا نہ ہونے سے آپ کی زندگی کی برکتوں کا اصل میں کوئی تعلق نہیں ہے.وہ زندگی کی برکتیں اس فیصلے سے تعلق رکھتی ہیں کہ تم خدا کے ہو گئے ہو ، اس فیصلے سے تعلق رکھتی ہیں کہ اب یہ برکتیں زندگی بھر تمہیں کبھی نہیں چھوڑیں گی اور ہمیشہ کے لئے تمہارے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جائے گی.وہ پاک تبدیلی کیا ہے هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ کہ تمہارے اندر سے
خطبات طاہر جلد 15 129 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء ایک صبح پھوٹ پڑے گی اور جب صبح پھوٹ پڑے گی تو رات کے سارے اندھیرے ماضی بن گئے وہ خوابوں کی باتیں ہو گئیں اور صبح جب پھوٹتی ہے تو پھر اندھیروں کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا وہ زمانہ گزر جاتا ہے.پس اسی لئے میں نے کہا کہ دائمی ہے.یہ فرشتے اترتے ہیں اور جب اندھیری رات صبح میں تبدیل ہو جاتی ہے پھر ہمیشہ انسان اسی نور میں رہتا ہے ، اسی نور میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے.اس پہلو سے اس رات کی تلاش کرنی چاہئے جو انفرادی رات ہے.اس تعلق میں احادیث کا مطالعہ کریں تو آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ خصوصیت سے اس رات کی تلاش آخری دس راتوں میں کیا کرتے تھے اور بہت ہی غیر معمولی انہماک سے نیکیاں بڑھا دیا کرتے تھے.جب پہلی دفعہ میں نے اس حدیث کو پڑھا تو مجھے بڑا تعجب ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں جولمح لمحہ خدا کے لئے وقف تھا نیکیاں بڑھانے کی گنجائش کہاں تھی کیونکہ وہ حد استطاعت تک پہنچی ہوئی تھیں.مگر پھر مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ ہر لمحے کے اندر بھی اپنی ایک شان ہوا کرتی ہے اور روح پکھل کر ہر لمحے کو ایک نئی شان بھی عطا کرسکتی ہے.پس آنحضرت ﷺ ان معنوں میں تو نیکیاں نہیں بڑھا سکتے تھے کہ بعض لمحے جو نیکیوں سے عاری تھے ، خالی تھے ، ان میں بھی نیکیاں بھر دیں کیونکہ آپ کا تو لحہ لمحہ مجسم نیکی تھا.مگر خدا تعالیٰ کی عبادت میں ، اس کے حضور گریہ وزاری میں ایک ایک لمحے کو ایک نیا نور عطا کرنے کے لئے آپ جو محنت فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ ﷺ اپنی کمرکس لیا کرتے تھے اور راتوں کو خود بھی جاگتے تھے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے.کہتے اٹھو اٹھو یہ سونے کے دن نہیں ہیں جا گوتا کہ تمہاری زندگی دن میں تبدیل ہو جائے.یہ بخاری کتاب فضل ليلة القدر سے حدیث لی گئی ہے.(صحیح بخاری کتاب فضل ليلة القدرباب العمل في العشر الأواخر من رمضان ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے ایک دفعہ پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے تو اس میں کیا دعا مانگوں.اس پر حضور نے فرمایا تم یوں دعا کرنا : اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عنى ،،
خطبات طاہر جلد 15 130 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء (سنسن ابن ماجه كتاب الدعاء باب الدعا بالعفو و العافية ) کہ اے میرے اللہ تو بہت بخشش کرنے والا ہے تحب العفوتو تو بخشش سے محبت کرتا ہے فاعف عنی پس مجھ سے بخشش کا سلوک فرما.اب یہ دیکھنے کی بات ہے بڑی اہم بات ہے کہ کوئی مثبت چیز مانگنے کی نصیحت نہیں فرمائی گئی.بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک منفی دائرے کی دعا ہے کہ جو پہلے گناہ تھے وہ مٹ جائیں اور پہلے گناہوں سے خدا تعالیٰ ہمیں بخشش عطا فرمائے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ اس کے بعد کیا مانگو.امر واقعہ یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا مضمون ہی اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ اگر بخشش ہوئی تو صبح ہوگئی اور جو صبح ہے وہ پھر ایک مثبت دائمی رہنے والی حالت کا نام ہے جو پھر کبھی رات میں تبدیل نہیں ہوگی یعنی انسان کی باقی تمام زندگی اس صبح کی حالت میں کئے گی.تو استغفار کا مضمون سکھایا ہے.فرمایا ہے اگر تمہیں یقین ہو جائے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے تو پھر بخشش ہی کی دعا کرنا یہی تمہارے لئے بہت کافی ہے.اگر خدا تعالیٰ تمہارے پچھلی زندگی کے سارے گناہ باطل کر دے اور ان پر بخشش کی اور رحمت کی چادر ڈال دے تو پھر تم امن میں آگئے ہو تمہیں اس کے سوا اور کسی چیز کی ضرورت نہیں.پس سب سے پہلے تو اس دعا پر زور دینا چاہئے کہ اے خدا تو عفو ہے بہت ہی بخشش کرنے والا ہے، بخشش سے محبت کرتا ہے ہم سے بھی یہ سلوک فرما اور بخشش کی طلب کے لئے جو پہلے فیصلہ ہونا ضروری ہے اس کا اسی مضمون سے تعلق ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُخَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم یہ ناممکن ہے کہ آپ بخشش کے لئے دعا مانگیں اور گناہوں پر اصرار کا عزم ساتھ ساتھ جاری رہے.یہ ناممکن ہے کہ دل کی گہرائی سے آپ یہ چاہیں کہ اے خدا میرے گناہ بخش دے اور فیصلہ کریں کہ تو بخش دے میں نے پھر بھی کرنے ہیں اور نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.یہ جو ایک منفی پہلو ہے وہ دل میں موجودرہتا ہے خواہ انسان باشعور طور پر اسے سمجھے نہ سمجھے اور اکثر لوگ بخشش کی دعا اس فیصلے کے بغیر مانگتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ کیا کیا برائیاں ان کے اندر ہیں.وہ جانتے ہیں کہ سارا سال انہوں نے کیا کیا گناہ کئے ،کس کس قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہوئے.سب کچھ سمجھنے کے باوجود وہ خالی بخشش مانگتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تو باز نہیں آنا ہم تو نا فرمانی پر قائم رہیں گے.اس لئے تیرا کام ہے تو بخش تو بخشتا
خطبات طاہر جلد 15 131 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء چلا جائے.یہ جذباتی باتیں ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.ایسے لوگوں کی بخشش اگر ہوئی ہے تو رمضان کے بعد کی زندگی بتائے گی کہ بخشش ہوئی تھی کہ نہیں.اگر خدا نے بخشا ہے تو ان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہو جانا چاہئے اور رمضان کے بعد کی حالت رمضان کی ایک رات پر گواہی دینے والی بنے گی.اگر باقی سب زندگی خواہ اسی (80) برس کی بھی ہو یعنی باشعور آدمی جب دعا مانگتا ہے تو اس کے بعد اسی (80) سال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسی (80) سال کے اندر مر جائے گا ہو سکتا ہے اس کو اسی (80) سال اور نصیب ہوں.اسی (80) سال بھی زندگی رہے تب بھی پرانی حالت واپس نہ آئے تب وہ ایک رات باقی زندگی پر بھاری ہوگی ورنہ نہیں ہو سکتی.کیسے ممکن ہے کہ ایک رات بھاری تو ہو مگر آنے والی زندگی میں کچھ بھی تبدیل نہ کر سکے.پس لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے مفہوم کو سمجھیں.یہ ایک بہت ہی گہری حقیقت ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی مقبولیت کے نتیجہ میں آپ کی زندگی میں ایسا انقلاب برپا ہو سکتا ہے کہ ساری زندگی اُس کا لمحہ لحہ کی برکتیں پا جائے اور اُس کا لمحہ لمحہ اس رات کے نور سے منور ہو جائے.یہ مقصد حقیقی بخشش کی طلب کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا.اگر فرضی بخشش کی باتیں ہیں تو وقتی طور پر ہو سکتا ہے آپ اپنے بعض جرائم کی سزا سے بچ بھی جائیں.کوئی آدمی بددیانتی کرتا ہے اور ساری رات لَيْلَةُ الْقَدْرِ میں روتا ہے کہ اے اللہ میں پکڑا نہ جاؤں ،مقدمہ چل رہا ہے میرے حق میں فیصلہ ہو جائے.یہ بعید نہیں کہ ہو جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ مضطر کی دعا قبول فرما لیتا ہے.یہ جانتے ہوئے بھی قبول فرمالیتا ہے کہ اس نے پھر دوبارہ یہ حرکت کرنی ہے.مگر اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں پیدا کرتا.تبدیلی کا مضمون اور ہے وہ لَا يُخَيَّرُ والی آیت سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ مشرک کے متعلق بھی فرمایا کہ اگر وہ سیلاب میں اور طوفانوں میں گھر کرموت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے اور پھر دعا کرے کہ اے خدا مجھے بچالے تو اللہ تعالیٰ پھر بھی بچالیتا ہے لیکن جب وہ خشکی کی طرف لوٹتا ہے تو خدا کی طرف نہیں لوٹا ، اپنے شرک کی طرف لوٹتا ہے.تو باوجود علم کے محض کسی وقتی سزا سے خدا کا بچادینا یہ اس کی عظیم مغفرت کے نتیجہ میں تو ہے مگر اس کے نتیجے میں جس کے ساتھ یہ سلوک ہو اس کی زندگی تبدیل نہیں ہوتی.زندگی تبدیل ہونے کے اور راز ہیں جن سے لَيْلَةُ الْقَدْرِ والی آیات پردہ اٹھا رہی ہیں اور جن سے لَا يُخَيَّرُ والی آیت جو میں نے بیان کی
خطبات طاہر جلد 15 132 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء وہ پردہ اٹھا رہی ہے.تم اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرو جو واقعہ تمہاری زندگی تبدیل کر دینے والی ہو تو یا درکھو تمہارے حق میں آسمان سے یہ تقدیر نازل ہو گی کہ تم نے دیانت داری سے فیصلہ کیا ہے تو فیق تمہیں نہیں مل رہی خدا تو فیق عطا فرمائے گا.واقعہ تمہارے ارادوں کو عملی طور پر تمہاری زندگی میں رائج ہونے ، ثابت ہونے ، اطلاق پانے کی توفیق بخشے گا اور لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی بخشش اس کے بعد ایک نیا آدمی پیدا کرتی ہے.ویسا آدمی پیدا کرتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس کی بخشش ہو جائے وہ پھر وہ تو نہیں رہتا جو پہلے تھا.فرمایا وہ تو ایسا ہوتا ہے جیسے ماں نے ابھی جنا ہے.ایک نوزائیدہ بچے کی طرح ہو جاتا ہے جو کوئی داغ لے کے نہیں آیا بلکہ ایک فطرت سلیمہ، پاک اور نیک فطرت اور نیک مزاج لے کر پیدا ہوا ہے.تو آپ یہ کہہ دیں کہ عفو ہو گیا ، رات نصیب ہوگئی اور باقی زندگی اسی طرح پہلے کی طرح ہو تو یہ ایک جھوٹ ہے جس میں آپ زندگی بسر کر رہے ہوں گے.خوش فہمیاں ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.پس یا درکھیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ یہ دعا کرنا تو اس سے مراد عفو کے عام معنی نہیں بلکہ وہ عفو مراد ہے جس کی تشریح خود رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ عضو ہو گی تو نئی زندگی پاؤ گی.عفو خدا کی طرف سے نصیب ہوگی تو گویا تم نئی پیدا ہوئی ہو تم پر کوئی داغ باقی نہیں رہے گا، ایک خلق آخر بن کر تم دنیا میں ظاہر ہوگی.یہی مضمون ہے جو ہر طلب کرنے والے کے لئے ہے.جو راتیں باقی ہیں اگر لَیلَةُ الْقَدْرِ ان میں ہے تو پھر اس توجہ سے اس دعا کو مانگیں اور اس کے معانی کو سمجھتے ہوئے اس دعا کو مانگیں.بخاری کتاب فضل ليلة القدر میں ایک اور روایت ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے کچھ صحابة ولَيْلَةُ الْقَدْرِ خواب میں رمضان کے آخری سات دنوں میں دکھائی گئی.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب رمضان کے آخری ہفتے پر متفق ہیں اس لئے جو شخص لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی تلاش کرنا چاہے وہ رمضان کے آخری ہفتے میں کرے.(صحیح بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب التماس ليلة القدر في السبع الأواخر ) یہاں ہفتے سے مراد سات دن ہیں.آخری سات راتوں میں اور آخری دس راتوں کی محنت اپنی جگہ لیکن لَيْلَةُ الْقَدْرِ کو آخری سات راتوں میں مخصوص کرنا آنحضرت ﷺ کی اپنی رویا
خطبات طاہر جلد 15 133 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ صحابہ کی ایسی رویا سے تعلق رکھتا تھا جن کا اتفاق ہو گیا اور یہ ایسا مضمون ہے جو ہمیشہ کے لئے اسی طرح جاری ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی فضل نازل ہونا ہو تو اکثر لوگوں کو جور و یا دکھائی جاتی ہیں وہ ایک ہی مضمون کی ، ایک ہی طرح کی اور بہت سے امور میں اتفاق کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.اس وقت اگر اس سے برعکس کوئی رؤیا آجائے تو یہ صاف پتا چلتا ہے کہ یہ اس کے نفس کی رؤیا ہے کیونکہ آسمان سے جو برکتوں کا نزول ہورہا ہے اس کی روشنی میں تو رویا اور طرح کی دکھائی جارہی ہیں.ایک اکیلا آدمی کوئی بدنصیبی کی رؤیا دیکھ لیتا ہے ، کوئی غلط مضمون اس کو دکھایا جاتا ہے تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس کے نفس کا تاثر ہے.حقیقت میں ان رویائے صادقہ کے خلاف اس رویا کو نہیں لیا جا سکتا جو کثرت سے دنیا میں دوسری جگہ لوگوں کو دکھائی جا رہی ہیں اور جب بھی ایسا ہو ہمیشہ یہ نتیجہ درست ثابت ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے اگر کوئی خاص فضل نازل فرمانا ہے تو مختلف ممالک کے احمدیوں کو ویسی ہی خوا میں آنے لگ جاتی ہیں اور موسم کے طور پر آتی ہیں.صاف پہچانی جاتی ہیں کہ یہ الہی خوا میں ہیں.کچھ ایسے لوگ ہیں جن کو ہمیشہ ایک ہی طرح کی خوا ہیں اپنے نفس کے مطابق آتی رہتی ہیں.بعضوں کے نفوس ایسے ہیں جو خود ڈرے ہوئے ہیں اور ہر وقت ڈراتے رہتے ہیں.ان کو جب خواب آئے نحوست کی خواب ہی آتی ہے اور وہ لکھ لکھ کے مجھے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ڈر نہیں آپ کی خوابوں کا.آپ نے جتنا ڈرنا ہے ڈرتے رہیں.بے شک ان میں کوئی حقیقت نہیں.یہ وہ خوا میں ہیں جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی بائیں طرف تھوک دیا کرو خواہیں اور لاحول پڑھ کے سو جایا کرو کیونکہ جو عالمی مضمون ہے رویا کا وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے اور دیا اپنی اندرونی صفائی ، اپنے اندرونی نشانات سے صاف پہچانی جاتی ہے کہ الہی رویا ہے.ایک یہ بات ہے جو اس حدیث سے ضمناً ہم نے پائی یعنی زائد فائدے کے طور پر پائی.دوسری یہ کہ آنحضرت ﷺ نبی ہیں.عالم الغیب سے سب سے زیادہ تعلق آپ کا ہے لیکن اس کے باوجود آپ کے غلاموں سے بھی خدا ایسا تعلق رکھتا تھا کہ ان کو ایسی سچی خوا ہیں دیکھا تا تھا کہ وہ مبشر بن کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور یہ مضمون کہ کسی اور شخص کو نبی کو خوشخبری دینے کے لئے چنا جائے یہ قرآن کی دوسری آیات سے بھی ثابت ہے.چنانچہ وہ جو
خطبات طاہر جلد 15 134 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء فرشتے حضرت ابراہیم کے متعلق آتا ہے کہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور ان فرشتوں کے متعلق بھی اور بعض دوسرے فرشتوں کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ دراصل وہ انسان تھے لیکن نیک اور بزرگ انسان تھے جن کو خدا تعالیٰ نے پیغام دیا اور وہ پیغام ان کے پاس امانت تھا.وہ لے کر وقت کے نبی کے پاس حاضر ہوئے کہ خدا نے ہمیں یہ پیغام بھیجا ہے اور یہ ہوسکتا ہے.اگر آنحضرت ﷺ کے تعلق صلى الله میں ہوسکتا ہے تو باقی انبیاء کے تعلق میں تو ضرور ہوا ہو گا اس لئے وہ تفسیر لازماً غلط نہیں ہوسکتی.یہاں یہ مضمون ہے اور ایک اور جگہ اذان کے متعلق ہمیں پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کے الفاظ بتائے گئے اور بعض صحابہ کو بھی بعینہ وہی الفاظ دکھائے گئے تو آنحضرت ﷺ ہر پیغام کو قبول نہیں فرمالیا کرتے تھے.اس کا جائزہ لیتے تھے اور اپنے نور فراست سے معلوم کرتے تھے کہ کیا یہ واقعہ الہی پیغام ہے اور ایک آپ کا طریق یہ تھا کہ ایک دوسرے کی تائید ڈھونڈتے تھے.نبی کا تو اکیلا رویا سب دوسری خوابوں پر حاوی ہوتا ہے.اس کا اکیلے کا پیغام ساری دنیا کے لئے کافی ہے.مگر جب دوسرے بزرگ کوئی دعوی کریں کہ ہمیں خدا نے کچھ بتایا ہے تو ان کا اکیلا پیغام کافی نہیں.تب بھی بعض لوگ استخارہ کے جواب میں جب مجھے کہتے ہیں کہ جی ہمیں تو یہ خواب آئی ہے.میں ان سے کہتا ہوں تم کون سے نبی ہو کہ تمہاری ایک ہی خواب پر ہم اعتماد کر جائیں اور بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھو سب کی جو مجموعی خوا میں تاثر پیدا کریں گی وہ درست فیصلہ ہوگا.ورنہ ایک آدھ آدمی پیٹ خراب ہوا سو یا اس کو ڈراؤنا خواب آ گیا اس نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ اب یہ شادی نہیں ہونی چاہیئے.یہ بالکل غلط طریق ہے اور بعض لوگ تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ حکماً رشتے دار کو منع کر دیتے ہیں کہ رات میں نے یہ رویا دیکھی ہے خبر دار ہے جو تم نے یہ شادی کی.میں ان سے کہتا ہوں کہ خبر دار ہے جو اس کی بات مانی.بالکل لغو بات ہے.دعا کرو، استخارہ کرو اور پھر اگر تمہیں خدا تعالیٰ روکتا نہیں ہے، اگر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ خود گانٹھ نہیں ڈال دیتا اور لڑکا یا لڑکی نیک ہیں تو رسول اللہ ﷺ کے اس فیصلے کو قبول کردو کہ نیکی کو تم نے ترجیح دینی ہے.کوئی اس کے اندر برائی نہیں دیکھتے.تم نے دعائیں کیں تو خدا نے تم کو نہیں روکا اس لئے ایک آدھ آدمی کو اگر کوئی منذر خواب بھی آگئی ہے تو پرواہ نہ کرو جبکہ اس کے مقابل پر مبشر خوا ہیں بھی آرہی ہوتی ہیں.چنانچہ بعض لوگ جب مجھے ساری خوا میں لکھ کے بھیجتے ہیں استخاروں کے بعد تو عجیب منظر نظر آتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں منذر ہے بالکل نہ کرو.بعض لوگ
خطبات طاہر جلد 15 135 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء کہتے ہیں مبشر ہے کر لو کر لو.اب سوال یہ ہے کہ کیا خوابوں سے اعتبار اٹھ جائے.ہرگز نہیں.ان خوابوں کے مطالعہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ کس نوع کی خواہیں ہیں جو روحانی ہیں اور کس نوع کی خواہیں ہیں جو رد کرنے کے لائق ہیں اور یہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہے کہ خوابوں کو پہچان سکے اور الگ الگ کر سکے.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت عطا ہوتی ہے، ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھو خدا نے کیسا عظیم ملکہ عطا فرمایا لیکن پہلے بچپن کے زمانے میں جب تک یہ ملکہ نہیں ملا تھا خود اپنے خواب کی تعبیر بھی نہیں کر سکے.بھائیوں کے ہاتھوں مار کھا گئے.تو یہ نعمت ہے جو ہبہ کے طور پر آسمان سے اترتی ہے اس لئے اس میں تکبر نہیں کرنا چاہئے.جو بھی خدا کے فضل سے صاحب علم لوگ ہیں ان کی خدمت میں بھیجو اور کئی ایسے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے رویا کا بہت اچھا علم عطا کیا ہوتا ہے صرف ایک شخص کی بات نہیں ہے.ان سے بات کرو اور پھر عمومی فیصلہ کرو یہ تو میں اس سے استنباط کر کے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.مگر حضور اکرم ﷺ کا انکسار بھی تو دیکھیں.جن پر وحی نازل ہوئی ہے، جن پر فرمایا کہ ہر روشن نشان عطا کر دیا گیا جس کو زمانے کی تقدیریں تبدیل کرنے کے راز عطا کر دیئے گئے کتنا منکسر المزاج نبی تھا کہ اپنے غلاموں کی بات کو غور سے سنتا ہے.کہتا ہے ہاں ہوسکتا ہے خدا نے تمہارے ذریعے مجھے پیغام بھیجا ہو لیکن میں چھان بین کر لوں اگر یہ علامتیں ملیں تو پھر مانوں گا.چنانچہ اس بارے میں آپ نے ان رویا کو قبول فرما لیا اور یہ فیصلہ دیا کہ آئندہ سے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کو آخری سات دنوں میں تلاش کرو.فرمایا نویں رات، یا ساتویں، یا پانچویں کیونکہ سات راتوں میں اکیس اور ئنیس کی نکل جاتی ہے.یہ پہلی تین کے اندر داخل ہو جاتی ہیں.پہلے یہی خیال تھا کہ یہ بھی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی راتوں میں شامل ہیں مگر آنحضور نے ان رویائے صادقہ کی روشنی میں جو دوسروں کو عطا ہوئیں اور آپ کو پیغام کے طور پر بھیجی گئیں یہ فیصلہ فرمایا کہ آئندہ سے چھپیں ،ستائیس اور انتیس کی راتوں میں لَيْلَةُ الْقَدْرِ کو تلاش کرو.چپس کی رات تو گزر چکی ہے لیکن دورا تیں ابھی باقی ہیں.سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک رات معین کیوں نہ بتا دی ؟ آنحضرت ﷺ کو معین بتائی تھی.عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائے کہ ہمیں
خطبات طاہر جلد 15 136 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے بارے میں بتائیں کہ کون سی رات ہے اور کیا کرنا چاہئے.دومسلمان آپس میں جھگڑنے لگے.آپ نے فرمایا میں تو تمہیں شب قدر کے بارے میں بتانے آیا تھا لیکن ان کے آپس کے جھگڑے کی وجہ سے مجھ سے یہ علم اٹھا لیا گیا.(بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب رفع معرفة ليلة القدر لتلاحي الناس) اب ایک اور سوال اٹھ جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اگر ایک خوشخبری عطا ہوئی تھی سب کو بتانے کے لئے تو لوگوں کے جھگڑے کی وجہ سے وہ واپس کیوں لے لی گئی؟ ایک خیر کے بدلے شر پیدا ہو گیا.مگر یہ درست نہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ہو سکتا ہے اس میں تمہاری بھلائی ہو.پس وہ جو ایک رات بتائی گئی تھی وہ در اصل رسول اللہ ﷺ کو اپنی ذات کے لئے بتائی گئی تھی اور جہاں تک امت کا معاملہ ہے تقدیر یہی تھی کہ ان کو پتا نہ چلے کہ کونسی رات ہے اور بھلائی اس میں وہی ہے جو ایک کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے بیان کی جاتی ہے.کہتے ہیں ایک شخص مرنے لگا تو اس نے اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور نصیحت کی کہ دیکھو میں نے کھیت میں، جو جتنا بھی کھیت اس کے پاس تھا، اس کھیت میں میں نے ایک جگہ خزانہ دفن کیا ہے تو میرے مرنے کے بعد کھود کے تلاش کر لینا یہ نہ ہو کہ وہ دبا ہی رہ جائے.اس کے بعد انہوں نے کدالیں اٹھا ئیں اور اتنی محنت کی کہ اس ساری زمین کا چپہ چپہ کھود ڈالا اور کوئی خزانہ نہ ملا.تو ایک عقل والا راہ گیر تھا اس نے کہا یہ کیا کر رہے ہو تم نے تو حشر کر دیا ہے زمین کا.انہوں نے کہا ہمارے ابا نے یہ کہا تھا مرتے مرتے کہ یہاں تمہارے لئے خزانہ دفن ہے.ہم نے تو ڈھونڈا ہمیں تو کچھ نہیں ملا.تو انہوں نے کہا یہی تو خزانہ ہے.تم نے اس زمین پر اتنی محنت کی ہے کہ اب جو کچھ بھی ڈالو گے وہ سونا اگائے گا.جو بیج ڈالو گے وہ سونا اگائے گا اور واقعہ جب اس زمین کو انہوں نے کاشت کیا تو ایسی فصل حاصل ہوئی کہ کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں تھی.تو آنحضرت ﷺ تو ہر رات ہی کو سجایا کرتے تھے آپ کو اگر وہ رات بتا دی گئی تو یہ مطلب نہیں تھا کہ باقی راتوں میں آپ آرام فرمائیں اور کہیں کہ بس اسی رات کو جاگوں گا.ہم کمزوروں میں کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو ایک جمعہ کی انتظار میں سارا سال گزارتے ہیں اور اس کے بعد جمعوں سے بھی چھٹی ،نمازوں سے بھی چھٹی.اگر ان کو رات بتا دی جاتی تو رمضان کی راتیں بھی چھوڑ بیٹھتے.ایک رات کے لئے سارا دن سوتے اور پھر اس رات ساری رات جاگتے تو دین ایک مذاق بن جاتا.پس آنحضرت مے جس
خطبات طاہر جلد 15 137 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء فائدے کا ذکر فرمارہے ہیں وہ یہ ہے کہ تمہیں خوب محنت کرنی پڑے گی.اگر تمہیں دس راتوں کی محنت کی توفیق نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے آخری سات راتوں کے اندر اس مضمون کو اکٹھا کر دیا ہے.یہ سات را تیں تو محنت کر لو.ان سات راتوں میں سے اب دو راتیں باقی ہیں.یعنی ایک رات نسبتا آرام ،مگر وہ بھی یہ نہیں ہے کہ تجد چھوڑ دینا ہے اس رات کوشش کریں اور نسبتا آرام.مگر پھر دوسری رات جو طاق راتیں ہیں ایک ستائیس اور ایک انتیس کی.ان راتوں میں خوب محنت کریں اور وہی مانگیں جس کی نصیحت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمائی ہے کہا اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی یہ دعا بہت عظیم دعا ہے اس دعا کی قبولیت کا نشان آپ کی بعد کی زندگی بنے گی.ایک تو یہ بات یا درکھیں.دوسرے مختصر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ راتوں کو عبادت میں محنت کیا کرتے تھے اور دن کو خدمت خلق میں محنت کیا کرتے تھے.محض آپ کی راتیں نہیں جاگتی تھیں آپ کا دن بھی غیر معمولی طور پر جاگ جایا کرتا تھا.اتنا صدقہ و خیرات کرتے تھے اتنی غریب کی خدمت کرتے تھے کہ صحابہ حیران رہ جاتے تھے کہ اتنی محنت ، اتنی مشقت جیسے آندھی چل پڑی ہو صدقہ و خیرات کی اور غریب پروری کی ، یہ آپ کا دستور تھا.تو صرف راتوں کو نہ جاگیں آپ دن کو بھی یہ سوچیں کہ آپ کے گردو پیش میں کون غریب ہیں، کون محروم ہیں، کن کی خدمت سے خدا تعالیٰ آپ کی راتوں کی دعائیں قبول کر لے گا.پس یہ بھی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں آپ کی تقدیر کے فیصلے ہوں گے.آپ غریب کی حالت بدلنے کی کوشش کریں اللہ آپ کی حالت کو تبدیل فرمائے گا.اور آئندہ عید میں بھی میرا پیغام یا درکھیں کہ آپ کی سچی عید تب ہوگی جب آپ غریبوں کی عید کریں گے.ان کے دکھوں کو اپنے ساتھ بانٹیں گے ، ان کے گھر پہنچیں گے ،ان کے حالات دیکھیں گے، ان کی غریبانہ زندگی پر ہو سکتا ہے آپ کی آنکھوں سے کچھ رحمت کے آنسو برسیں.کیا بعید ہے کہ وہی رحمت کے آنسو آپ کے لئے ہمیشہ کی زندگی سنوارنے کا موجب بن جائیں.ہوسکتا ہے آپ کو پہلے علم نہ ہو کہ غربت کیا ہے اس وقت پتا چلے اور آپ کے اندر ایک عجیب انقلاب پیدا ہو جائے.پس لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا صرف رات سے تعلق نہیں ہے.لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا دنوں سے بھی تعلق ہے اور آنحضرت ﷺ کے متعلق ثابت ہے کہ راتوں کی عبادتیں غیر معمولی شان کے ساتھ بڑھ
خطبات طاہر جلد 15 138 خطبہ جمعہ 16 فروری 1996ء جایا کرتی تھیں اور دنوں کی غریبوں کی خدمتیں ایسا رنگ اختیار کر لیتی تھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں یوں لگتا تھا کہ ایک تیز رفتار ہوا میں اور بھی تیزی آگئی ہو اور ایک جھکڑ بن جائے تو اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت ﷺ کے دنوں اور آپ کی راتوں کی پیروی کی توفیق بخشے اسی میں ہمارا مقدر سنورے گا ان مبارک دنوں اور ان مبارک راتوں کی پیروی جو محمد رسول اللہ ﷺ کے صلى الله مبارک دن اور مبارک راتیں تھیں یہی ہیں جو ہماری زندگی کے اسی (80) برس سنوار سکتے ہیں.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 139 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء سب نوروں سے بڑھنے والا نور حضرت محمد مصطفی محل الا اللہ نور ہے کیونکہ آپ کا ظرف بہت بڑا تھا.(خطبه جمعه فرموده 23 فروری 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: رمضان مبارک بہت سی برکتیں لے کے آیا اور بہت سی برکتیں پیچھے چھوڑ گیا اور بہت سی برکتیں ساتھ لے گیا خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان برکتوں سے حصہ پایا جو رمضان مبارک پیچھے چھوڑ گیا اور محروم ہیں وہ جو کچھ برکتیں رمضان کے مہینے میں حاصل تو کرتے رہے مگر جب وہ نکلا تو سب برکتیں ساتھ لے کر واپس چلا گیا.برکت وہی ہے جو دائمی طور پر ساتھ رہتی ہے برکت وہی ہے جو آ کر ٹھہر جاتی ہے اور پھر کبھی انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتی باقی یو نہی نفس کی لذتیں ہیں، اگر ہیں، ورنہ محض ایک مشقت ہی تھی اور کچھ بھی نہیں.جنہوں نے لذت پائی ہو اور وہ لذت وقتی ہو اس میں کوئی دوام کا پہلو نہ ہو.وہ لذت بھی ایک فرضی روحانی لذت ہے، روحانی لذت سے اس کا تعلق نہیں.روحانی لذت میں ابدیت پائی جاتی ہے اور یہ ایک بہت بڑا فرق ہے اور امتیاز کرنے والا فرق ہے جو روحانی لذت اور مادی لذت میں پایا جاتا ہے اور غور کرنے سے صاف کھلا کھلا دکھائی دینے لگتا ہے.مادی لذت جب آ کے گزر جاتی ہے تو پیچھے ایک تکلیف دہ یاد چھوڑ دیتی ہے.اس لذت میں ایک قسم کا مزہ بھی ہے مگر اس مزے کے ساتھ ایک تلخی بھی وابستہ ہوتی ہے.کسی نے کہا ہے.وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
خطبات طاہر جلد 15 140 اچھا کیا مجھ کو فراموش کر دیا خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء یرے مضمون بعینہ اس طرح تو پورا نہیں آتا مگر اچھی یادوں کے ساتھ تلخیاں ویسے ہی وابستہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ یادیں کھوئے ہوئے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں ایسی (محمدحسن لطیفی ) چیز جو پیاری لگی اور اب نہیں ہے.مگر وہ یادیں جو ایک دائمی وجود سے تعلق سے وابستہ ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت ، اس کے پیار، اس کی محبت کے اظہار کے جلوے ، وہ یادیں ایسی ہیں جوان جلوؤں سے،ان پیار کے اظہار سے وابستہ ہوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک دوام رکھتی ہیں اور محرومی کا احساس نہیں چھوڑتیں.پس حقیقی نیکی وہی ہے یا حقیقی روحانی لطف وہی ہے جو دوام اپنے اندر رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنت کو دائمی قرار دیا گیا ہے.اس سے پہلے میں نے خطبے میں مختصراً، غالباً عید کے خطبے میں ہی عذاب کے متعلق ذکر کیا تھا، تکلیف کے متعلق ذکر کیا تھا کہ اس میں دوام نہیں پایا جاتا مگر تھوڑا ہونے کے باوجود لمبا دکھائی دیتا ہے اور جتنا اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی لطف بڑھتا جاتا ہے اور اس کی یاد محض ان معنوں میں فائدہ دیتی ہے کہ شکر ہے اب ہمارا تعلق ٹوٹا اور اس تعلق کے دوبارہ قیام سے ہی جسم لرز اٹھتا ہے تو تلخ یادوں میں جتنی دوری ہوا تنا لطف بڑھتا ہے اچھی اور پیاری یادوں میں جتنی دوری ہو اتنی تکلیف بڑھتی ہے کہ کیا ہوئے وہ دن جن میں یہ کچھ ہوا کرتا تھا.بعض شعراء اپنے بچپن کی یادوں کو پھر اتنا پیار دیتے ہیں اور اتنے پیار سے پالتے ہیں کہ وہ یادیں ان کی راتوں کی لوریاں بن جاتی ہیں.ایک انگریزی نظم کا کسی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے اور ترجمہ ایسا کیا کہ گویا اس نظم کو اپنا گیا ہے اور میں نے دونوں کا موازنہ کر کے دیکھا ہے جو تر جمہ ہے وہ اپنی خوبی میں اصل سے بھی اونچا نکل گیا ہے اور وہ نظم ہے.اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے گزری ہوئی دلچسپیاں، بیتے ہوئے دن عیش کے بنتے ہیں شمع زندگی، اور ڈالتے ہیں روشنی میرے دل صد چاک پر اسی طرز پر وہ مضمون کو بڑھاتا ہے.(ترجمہ: نادر کاکوروی)
خطبات طاہر جلد 15 141 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء وہ بچپن اور وہ سادگی ، وہ رونا وہ ہنسنا کبھی پھر وہ جوانی کے مزے، وہ دل لگی ، وہ قہقہے غرض یہ کہ ہر پرانی یاد کو وہ رات کو اس طرح اپنے سینے سے چمٹا تا (ترجمہ: نادر کاکوروی) ، اپنے دماغ میں الٹ پلٹ کے اس کے مزے لیتا ہے کہ وہی اس کی لوریاں بن جاتی ہیں مگر حسرت پھر نہیں جاتی.ان چیزوں کو واپس لانے کی جو حسرت ہے وہ اس نظم میں جوں جوں آگے بڑھتی ہے وہ اور کھلتی چلی جاتی ہے.ان حسرتوں کی قبر پر پھر آخر پر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ یادیں پتیاں برسا رہی ہیں پھول کی ان حسرتوں کی قبر پر.تو وہ چیزیں، جو یا د میں ایسی ہوں جن میں دوام پایا جائے ان میں حسرت کوئی نہیں ہوتی اور نور میں بھی یہی ایک خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ نور جو خدا کا نور ہے وہ آتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے اور اندھیرا پھر اس کی جگہ دوبارہ نہیں لے سکتا.وہ مستقلاً زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے جو جگہ بنالے وہ بنا بیٹھتا ہے.اس لئے انبیاء کا نور ہمیشہ دائمی ہوتا ہے.انبیاء کے اوپر کوئی ایسا دور نہیں آتا کہ جونو رانہوں نے خدا کی محبت اور پیار میں کمایا ہو وہ نور ظلمتوں نے واپس چھین لیا ہو.وہ بڑھتا ہے ، پھولتا ہے، پھیلتا ہے اور جگہیں بناتا چلا جاتا ہے، بدن کے روئیں روئیں میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے اور اس میں ایک دوام پایا جاتا ہے.وہی دوام ہے جو جنت بنے گا.جیسا کہ تلخ تجر بہ جو ہے وہ اپنی ذات میں اگر لمبا ہو جائے تو ایک عذاب بنتا ہے اور تھوڑا بھی ہو تو اس میں ایک لمبائی کا مضمون پایا جاتا ہے.چند لمحے عذاب کے بعض دفعہ ساری زندگی کو تلخ کر دیتے ہیں.تو جہنم میں بھی جس حد تک دوام ہے وہ اسی حد تک ہے کہ خواہ تھوڑی بھی ہو، وہ سزا ابدی تو بہر حال اس رنگ میں نہیں ہوگی، جس رنگ میں جنت ہے مگر تھوڑی بھی ہو تو یوں لگے گا جیسے ابد ہورہی ہے انسان پر ، ایک دو لمحے بھی گزرنے کا نام نہیں لیں گے مصیبت پڑ جائے گی.بعض گھڑیاں تکلیف میں اتنی بڑی ہو جاتی ہیں کہ قرآن کریم ان کے متعلق فرماتا ہے کہ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (الانعام: 16) یہ ایک عظیم دن کا عذاب ہے جو دن ختم ہونے میں نہ آئے.تو دنوں کا لمبے اور بڑے ہو جانا اس کا تعلق عذاب سے ہے اور سکرہ جانا اور اس کے باوجود ختم نہ ہونا اس کا تعلق نیکی اور ثواب سے ہے وہ ثواب جو اللہ کی طرف سے آتا ہے وہ ان معنوں میں دوام پکڑتا ہے کہ اس لذت کی یاد ہمیشہ دل میں ٹھہرتی ہے اور لطف پیدا کرتی ہے کوئی حسرت نہیں پیدا کرتی
خطبات طاہر جلد 15 142 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء کیونکہ لذت ایک زندہ لذت ہے.جس کے ساتھ تعلق ہو گا جس نے احسان فرمایا اس نے احسان سے ہاتھ نہیں کھینچا.جس نے پیار کی نظر ڈالی اس نے نظر پھیری نہیں اور بے اختیار ایسے شخص کا دل یہ پکار اٹھتا ہے.سبحان من یرانی.پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ مجھے دیکھتی چلی جارہی ہے، ہرلمحہ میں اس کی نظر کا پیار محسوس کرتا ہوں.پس ان معنوں میں رمضان مبارک جو آ کے گزر گیا ہے وہ کچھ ایسی لذتیں عطا کر گیا جو دوام رکھتی ہیں اور وہ کبھی مٹ نہیں سکتیں.جن بدیوں کو مٹا گیا وہ پھر زندہ نہیں ہوسکتیں.جن نیکیوں کو قائم کر گیا ان کو پھر کوئی چیز جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی.یہ وہ دائی لذت ہے جن سے ہم اپنی آئندہ جنت بنائیں گے اور بنا رہے ہیں اور اس کا فیصلہ اسی دنیا میں ہو جاتا ہے.ابھی رمضان کو گزرے جمعہ، جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کیونکہ جو پچھلا جمعہ تھا وہ رمضان کے اندر تھا اس کے بعد بھی ہم نے تین دن یا چار دن رمضان کے دیکھے تو اب دیکھ لیجئے کہ اتنے تھوڑے سے وقفے میں بھی رمضان بعض لوگوں کو اپنے سے کتنا دور ہٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے.اتنا دور چلا گیا ہے کہ وہ چیزیں جن کی کبھی جرات کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا ان کی طرف طبیعتیں مائل ہو رہی ہیں ، انہی غفلتوں کی طرف انسان لوٹ رہا ہے ، وہ تہجد کی رونقیں ختم ، صبح کی نمازیں بھی قضا ہونے لگیں اور لوگ مزے کی نیندیں سونے لگے کہ اب رمضان کی تھکاوٹ دور کر لیں.حالانکہ رمضان کی تھکاوٹ تو قرب الہی دور کیا کرتا ہے اس کے سواتو رمضان کی تھکاوٹ دور نہیں ہوسکتی.جس چیز کو آپ تھکاوٹ دور کرنا کہتے ہیں وہ تھکاوٹ کی طرف لوٹنا ہے اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں.دنیا کی مشقت اور محنت ایک بے معنی اور بے حقیقت تھکاوٹ ہے جس کے آگے کوئی جنت نہیں ہے.اس کے آگے سراب ہے.تھکا وٹ جس کا نتیجہ سراب ہے.چنانچہ قرآن کریم ایسے شخص کی مثال جو دنیا کی لذتوں کی طرف دوڑ رہا ہے ایسے شخص سے دیتا ہے جو پیاسا بہت ہو مگر سراب کی طرف دوڑ رہا ہو.اسے دور سے پانی دکھائی دے لیکن وہ پانی نہیں نظر کا دھوکہ ہو اور صحرا میں جولق و دق صحرا ہو اس میں پانی کی بوند بھی دکھائی نہ دے وہیں وہ پانی دکھائی دیتا ہے جو نظر کا دھوکہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی پیروی کرتا ہے دوڑتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ تھک کر وہ جگہ جہاں اس کا دم ٹوٹتا ہے وہ وہی سراب کا مقام ہے جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا
خطبات طاہر جلد 15 143 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء سوائے اس کے کہ اللہ اسے جزاء دینے کے لئے وہاں موجود ہو.تو دنیا کی لذتوں کی بھی ایک تھکاوٹ ہے اور امر واقعہ ہے کہ جو لوگ غور کریں ان کو محسوس ہو گا کہ ضرور اس میں تھکاوٹ پائی جاتی ہے کیونکہ انسان جو دنیا کی لذتوں کی طرف دوڑتا ہے اور مگن ہو کر پیروی کرتا ہے جہاں پہنچتا ہے کہ اب مجھے کامل تسکین نصیب ہو جائے گی اسے کامل تسکین نصیب نہیں ہوتی.وہی جگہ جو بہت ہی پیاری دکھائی دیتی تھی وہ لڈتوں سے خالی ہوتی ہے اور خالی ہونے میں وقت نہیں لیتی.تھوڑی دیر ہی میں آنا فانا اس کا حسن زائل ہو جاتا ہے، اس کے حسن کی عادت پڑ جاتی ہے ،اس کا آرام مزید آرام نہیں رہتا، اسی آرام میں کچھ تکلیف محسوس ہونے لگتی ہے اور انسان بہتر اور اعلیٰ لذتوں کی طرف یعنی نسبتا کامل حسن کی طرف زیادہ آرام کی طرف حرکت شروع کرتا ہے.اگر نہ کرے تو جس کو اس نے جنت سمجھا تھا وہ اس کی بوریت بن جائے گی.وہ ایک جگہ ٹھہر کر دنیا کی پیروی میں کوئی ایسا مقام قرار نہیں دے سکتا کہ میں اب یہاں ٹھہر گیا ہوں یہاں میری تسکین ہے.سراب کی طرح اس کی تسکین اس کے آگے دوڑتی ہے اور اس سے بہتی ہوئی دور دکھائی دیتی ہے اور پھر وہ کوشش کرتا ہے اور پھر اس سے یہی ہوتا ہے منزل بہ منزل اس کی لذتیں اس سے بھاگتی چلی جاتی ہیں.جب وہ پاتا ہے تو تھکاوٹ تو پاتا ہے لیکن وہ تھکاوٹ دور نہیں ہوتی.وقتی طور پر ایک جھلکی سی محسوس ہوتی ہے کہ مجھے امن ملا ہے لیکن تھوڑی دیر میں وہ امن کا تصور غائب، وہ حسن کو پالینے کا لطف جاتا رہتا ہے صرف ایک پیروی، دوڑ کی تمنا ہے جو اسے پھر اور آگے لے جاتی ہے.یہ سراب کی پیروی ہے.مگر جو دینی لذتیں ہیں انکی بالکل اور مثال ہے ان میں جو آپ نیکی کمالیں وہ ہمیشہ کے لئے آپ کی تسکین کا موجب بن جاتی ہے.بعض ایسی نیکیاں ہیں کہ جو اپنی تکلیف کے لحاظ سے تو تھوڑی دیررہ کر گزر گئیں مگر اپنے سکون کے لحاظ سے وہ کبھی بھی مٹتی نہیں یہاں تک کہ مدتوں ان کی یاد دل کی تسکین کا موجب بنتی ہے.جب انسان کو خوف دامن گیر ہو جائیں تو وہی ایک آدھ نیکی جو کسی وقت اس کو توفیق ملی وہ ایک ہی سایہ رہ جاتا ہے جس میں وہ ماحول کی تکلیف اور اس کے عذاب سے امن ڈھونڈتا ہے وہاں کچھ تسکین پاتا ہے.آنحضرت ﷺ ایسے آدمیوں کی مثال پیش کرتے ہیں کہ تین آدمی ایک غار میں اس طرح پھنس گئے کہ زلزلے کی وجہ سے ایک بہت بڑا پتھر اُن کے سامنے آگیا اور وہ اس سے نکل نہیں سکتے تھے.انہوں نے بھی یہی نفسیاتی تسکین کی راہ ڈھونڈی اور آپس میں
خطبات طاہر جلد 15 144 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء باتیں کیں کہ ہم کوئی ایسی نیکی سوچیں جس نیکی کی یاد ہمارے دل میں ابھی بھی تروتازہ ہے.ہم جانتے ہیں کہ خدا کو وہ پسند آئی ہوگی اور اس نیکی کی یاد کر کے، اس کا حوالہ دے کر خدا سے دعا مانگتے ہیں یہ پہلے آپ کے سامنے کئی بار میں بیان کر چکا ہوں.مختصر یہی کہ انہوں نے اپنی اپنی اس نیکی کی یاد کی جو ابھی تک ان کے ذہن میں تاز تھی اور اتنا یقین تھا کہ یہ نیکی اتنی پیاری ہے کہ خدا اس کے حوالے سے دعا کو ضرور قبول کرے گا.انہوں نے اس نیکی کا ذکر دعا میں کیا اور اللہ سے عرض کیا کہ اگر واقعہ یہ تیری خاطر ایسا کیا گیا تھا تو اس پتھر کو ہٹا دے اور وہ پتھر کسی حد تک ایک اور زلزلے کی جنبش سے سرک کر آگے سے ہٹ گیا لیکن ابھی نکل نہیں سکتے تھے یہاں تک کہ دوسرے نے بھی اسی طرح اپنی پرانی نیکی کو یاد کیا اور پھر ایک تیسرے نے بھی.یہ تو انفرادی نیکیوں کا حال ہے مگر نہ صرف یہ کہ وہ لذتیں رکھتی ہیں، فائدے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں.یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.نیکی مرتی نہیں ہے صرف یاد کے طور پر زندہ نہیں رہتی اس میں نشو ونما کی صلاحیت ہوتی ہے.ان تین کی مثال جن کی آنحضرت ﷺ نے مثال دی ان کی مثال ایسے اشخاص کی مثال تھی جو بدیوں سے رکے ہیں.حقیقت میں انہوں نے نیکیاں نہیں کی تھیں.ان کے بدیوں سے رکنے کے نتیجے میں وہ ادا خدا کو پسند تو آئی اس کو خدا نے دعا کے حوالے میں قبول بھی فرمایا مگر ان میں سے کسی ایک کے لئے اس کی ایک نیکی نجات کا موجب نہیں بن سکتی تھی اور یہاں جب اجتماعی نیکی بنی ہے.تب ان کو نجات ملی ہے.اس حصے پر بھی غور کرو کہ ایک شخص کی نیکی کے نتیجے میں جو بدیوں سے بچنے والی نیکی تھی وہ اکیلا بھی نجات نہیں پاسکا اور اس کی اکیلے کی دعا سے پتھر اتنا نہ سر کا کہ وہ اس کے رستے سے نکل جاتا اور دوسرے بھی فائدہ اٹھاتے.دوسرے نے جب دعا کی تو پھر سر کا کہ بمشکل گھسٹ کے شاید کوئی آدمی نکل سکتا ہو مگر جو مضمون بیان ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ اتنا راستہ نہ بن سکا تھا کہ اس سے انسان گزرسکتا اور تیسرے نے جب دعا کی تو اتنا سرک گیا کہ اس میں سے ایک آدمی نکل سکتا تھا چنا نچہ تینوں اس میں سے نکل گئے.انبیاء کی نیکی کا مقام بہت بلند ہے اور ابرار کی نیکی کا مقام بھی اس سے بہت بلند ہے.اس لئے وہ لوگ جو اس نیکی کی مثال سے متاثر ہو کر سمجھتے ہیں کہ اسی قسم کی کوئی ایک نیکی ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے نجات کا موجب بن جائے گی.ان کو غور کرنا چاہئے کہ ان میں سے کسی کی نیکی بھی اس نجات
خطبات طاہر جلد 15 145 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء کا موجب نہ بن سکی کیونکہ اس میں ایک منفی پہلو تھا.بدی سے رکنا بھی ایک نیکی ہے مگر اگر اس کی جگہ اعلیٰ خوبیاں نہ لے لیں تو وہ نیکی نیکی نہیں رہتی.یہ اللہ کا احسان تھا کہ اس کو قبول فرما لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بہت روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ترک شر اپنی ذات میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی اگر اس کی بجائے خیر کو اپنا نا اس کے ساتھ شامل نہ ہو، اس کا لازمی نتیجہ نہ نکلے.جہاں شر کو دور کر ووہاں خیر کو قبول کرو.وہ خیر ہے جو حقیقت میں ترک شر کا اجر ہے اور اس کے نتیجے میں تمہیں ایک مثبت چیز ایسی حاصل ہو جاتی ہے، ایسی دولت ہاتھ میں آجاتی ہے جو پھر خرچ کرنے پر کم نہیں ہوتی ، بڑھتی ہے.چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ بدی کے ترک کرنے کے ساتھ جو انسان کو روحانی قوت ملتی ہے اس سے نیکی کو قبول کرنے کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان لوگوں کا جن کا ذکر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ان لوگوں کا حال بنظر غور دیکھو کہ ان کو اس کے بعد کسی بڑی نیکی کی توفیق ملی نہیں ہے.اگر ملی ہوتی تو وہ اس نیکی کا ذکر کرتے.انہوں نے ایک پرانی ایسی نیکی کا ذکر کیا ہے کہ اے خدا ہم یہ شر کر سکتے تھے اس بدی میں مبتلا ہو سکتے تھے مگر تیرےخوف سے، تیرے ذکر سے مرعوب ہو کر ہم نے وہ کام نہیں کیا.اس کے بعد تو فیق ملنی چاہئے تھی آگے بڑھنا چاہئے تھا مگر چونکہ وہ نہ کر سکے اس لئے ایک کی نیکی خود اس کے لئے بھی کافی نہیں ہوئی.تینوں کی نیکی نے مل کر ان کی نجات کے سامان کئے.مگر ابرار کی نیکی کا یہ حال ہے کہ ایک کی نیکی کثرت سے دوسروں کے کام آتی ہے اور ایسے لوگوں کے بھی کام آتی ہے جو گناہوں میں ملوث ہوں ، جن کا کچھ بھی نہ ہو.بسا اوقات ان کی نجات کا موجب بھی بن جاتی ہے.اب دیکھیں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو جب تک تو اس شہر میں ہے میں عذاب نہیں دوں گا.(انفال :34) کتنی عظیم بات ہے جو فرمائی گئی کہ تیرے ہوتے ہوئے عذاب دیا جائے تو یہ تیری شان کے خلاف ہے اور اس عذاب میں تو بھی کسی حد تک ملوث ہوگا اور پھر اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھے گا تو تجھے بھی تکلیف پہنچے گی بہت سے مضامین ہیں اس میں.مگر ایک محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود اہل مکہ کو عذاب سے بچا گیا جب کہ وہ دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا اگر یہ سچا ہے ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر پتھر برسا مگر اس وقت تک نہیں برسائے گئے جب تک حضرت محمد
خطبات طاہر جلد 15 146 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء رسول اللہ ﷺ ان میں جسمانی طور پر موجودر ہے اور جب وہ مقابل پر نکلے تو جنگ بدر میں دیکھو ایک مٹھی پتھر بن گئی اور پتھروں کا طوفان لے آئی ایسا طوفان جس نے اس عظیم لشکر کے منہ پھیر دیے اور ناکارہ اور ذلیل کر دیا.تو یہ مثبت نیکیوں کا حال ہے.ابرار کی نیکیاں اپنے لئے ہی نہیں بلکہ عالم کی نجات کا موجب بن جاتی ہیں.اس پہلو سے آنحضرت ﷺ وہ کامل نور تھے جنہوں نے بدیوں کا ازالہ ہی اپنی ذات سے نہیں کیا یعنی بدیوں کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیا اور ہر پہلو سے اپنے وجود کونور مجسم کر دیا.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نور کی تفسیر میں بڑے پیارے انداز میں بیان فرمایا ہے اور تمام انبیاء کی یہی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ اپنی اپنی حیثیت تو فیق کے مطابق وہ یہ کچھ کرتے ہیں تو خدا کی نظروں میں بچتے ہیں اور خدا ان سے پیار کا وہ سلوک کرتا ہے جو عام انسانوں سے نہیں کرتا.پس اس رمضان المبارک کے حوالے سے بھی ہمیں اپنے نفس کو ٹولنا چاہئے ، اپنے تجربے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر یہ دیکھنا چاہئے کہ کون ساحصہ رمضان کا ایسا ہے جس کو ہماری ذات میں کچھ دوام ملا ہے.کون سا رمضان کا حصہ ہے جو ہمارے ساتھ ٹھہر گیا ہے، ہمارے ساتھ ہمارے بدن میں ٹھہر گیا ہے اور ہمارے ساتھ حرکت کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے.اگر نہیں ہے تو پھر وہ ترک شریعنی بدیوں سے رکنا یا گالیاں نہ دینا یا اور خدا کی خاطر بعضوں کے ظلم برداشت کر لینا وہ تو ماضی میں دب جائیں گے اور ان کا کچھ بھی ایسا فائدہ نہیں ہے جو آپ کو مستقلاً نجات کی طرف لے جائے.مستقلاً نجات کی طرف جانا یہ اصل مضمون ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے یعنی نیکی وہ ہے جو ہاتھ پکڑ لیتی ہے، آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے.کہیں بھی دامن نہیں چھوڑتی اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ آپ نیکی پر اس پیار اور محبت سے ہاتھ ڈالیں کہ اسے اپنانے کی کوشش کریں.وہ آپ کو واقعہ اتنی اچھی لگنے لگے کہ وہ چھوڑی نہ جائے.اس سے محبت ہو جائے اس سے پیار ہو جائے اور یہی ہے جو دراصل نور کمانے کا ایک ذریعہ ہے ورنہ محض نور کی باتیں کرنا فرضی قصے ہیں ان کی کوئی اور حقیقت نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو تحریرات میں آپ کے سامنے پیش کر رہا تھا اب ان میں سے جو بعض رہ گئی تھیں یا کچھ حصہ شاید میں پڑھ بھی چکا ہوں مگر یہ جو صفحہ میرے سامنے ہے اس کا ایک حصہ تو یقینا رہ گیا تھا جہاں سے بات آگے بڑھانی تھی.اس تعلق میں جو تمہید باندھی ہے اس کا
خطبات طاہر جلد 15 147 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء اس سے گہرا تعلق ہے یہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے اور تاریکی کو نور سے کچھ منا سبت نہیں بلکہ نور کونور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.(براہین احمدیہ حصہ سوم، حاشیہ نمبر 11 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 195) حکیم مطلق جسے عقل کل بھی ایک موقع پر فرمایا یعنی کامل حکمتوں والا وہ ایک ہی ہے جو خدا کی ذات ہے وہ مناسبت کے بغیر کوئی فعل نہیں کرتا.نور کو ظلم سے نہیں ملا تا یہ نا مناسب بات ہے.کہتے ہیں ایک قطرہ بھی گندگی کا ڈھیروں دودھ میں ملا دو تو سارا دودھ گندا ہو جائے گا تو یہ غیر مناسب فعل ہے غیر حکیمانہ فعل ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نوراترتا ہے مگر انہی جگہوں پر جنہیں پہلے صاف کر لیا جائے اور انہیں گندگیوں سے پاک کیا جائے اور اندرونی نور انسان کو نصیب ہو، تاکہ اس نور پر نورا اترے.جیسے آپ بھی باہر سفر کے دوران کسی جگہ بیٹھنا چاہیں تو بعض دفعہ ہاتھ سے یا رومال نکال کے وہ جگہیں صاف کرتے ہیں پھر بیٹھتے ہیں.آپ کو اگر صفائی کا یہ احساس ہے اور اس قدر اہتمام ہے کہ جب تک صاف نہ کرلیں آپ کے کپڑے بھی اس معمولی سی میل کو نہ چھوئیں تو اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ نعوذ بالله من ذالک ہر گندگی پہ اپنانو را تا رتا رہے.یہ ناممکن ہے.اس لئے کوئی گوشہ تو صاف کرنا ہوگا.کسی گھر میں اگر کوئی اچانک معزز مہمان آجائے سارے گھر کی تو صفائی ممکن نہیں ہوتی مگر بچے اور عورتیں دوڑتے ہیں کہ کم سے کم کچھ حصہ تو صاف کر لیں اور وہ بیٹھنا چاہے بھی تو بیٹھنے نہیں دیں گے ذرا ایک منٹ ٹھہریں، ایک منٹ موقع دیں ذرا ہم اس سیٹ کو صاف کر لیں.یہ آپ کے بیٹھنے کے لائق نہیں ہے.انسان انسان کی عزت کرتا ہے تو یہ سلوک کرتا ہے.کیسے ممکن ہے کہ خدا کی عزت کا احساس اس کے دل میں ہو اور اپنے دل کو صاف کئے بغیر کہے مجھے نور عطا کر.عطا تو وہ کرے گا پر وہ اترے گا کہاں؟ جگہ کون سی تم نے بنائی ہے جہاں آکر وہ بیٹھے گا اور قیام کرے گا اور اگر تم نے جگہ بنا دی تو یا درکھو کہ پھر وہ نور خود اپنے ارد گرد روشنی کو اس طرح پھیلاتا ہے کہ اس کے قریب سے گند دور ہونے لگتا ہے.وہ گندگی پر نہیں آتا مگر ماحول سے گندگی اس کا خوف کھاتی ہے اور اس سے پرے ہٹنے
خطبات طاہر جلد 15 148 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء لگتی ہے.یہی مضمون ہے جو ہم دنیا میں ہالوں کی صورت میں دیکھتے ہیں.ایک روشنی کسی جگہ مرکز ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ایک ہالہ بن جاتا ہے اور ظلمت سرکنے لگتی ہے.اس جگہ کو چھوڑتی ہے اور بھاگتی ہے جہاں نو را تر آیا ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل: 82) حق سے باطل گھبراتا ہے جیسے نور سے ظلمت گھبراتی ہے اور جہاں وہ ایک دفعہ جگہ بنالے اردگرد سے تاریکیاں زائل ہونے لگتی ہیں شروع میں سایہ دار جگہ دکھائی دیتی ہے کچھ اندھیرے، کچھ روشنی مگر پھر جب پوری پا کی اور صفائی عطا ہو جائے تو نور پھیل کر اپنی جگہ اور بنالیتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان الفاظ میں کھول رہے ہیں: نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.ایسے ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اسی کو اور نور بھی دیا جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے اور انبیاء من جملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے.( براہین احمدیہ حصہ سوم، حاشیہ نمبر 11 روحانی خزائن جلد 1 صفحه 195 تا 196 ) انبیاء وہ انسان ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اول فطرتاً اپنا نور ودیعت فرمایا، نور حق ودیعت فرمایا اور پھر انہوں نے اپنے سارے وجود کو اس نور میں رنگ دیا ہے جیسے مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225 )
خطبات طاہر جلد 15 149 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء یہاں وہبت کے ساتھ کسب شامل ہو جاتا ہے.ایک نور ہے جو فطرت میں ودیعت ہوا ہے اور ہر انسان کو ضرور نور عطا ہوا ہے.یہ مکن نہیں کہ کوئی انسان بھی نور کے بغیر پیدا ہو.اگر آپ حواس خمسہ پر غور کریں تو یہ مضمون اور بھی کھل جائے گا.جو حواس خمسہ میں سے کچھ بھی نہیں رکھتا وہ مرگیا ہے، وہ پیدا ہی نہیں ہوا.نور سے مراد صرف آنکھوں کا نور نہیں ہے.نور سے مراد وہ ذریعہ ابلاغ ہے جو باہر کے حالات کو روح کے اندر تک پہنچاتا ہے اور ذہن کے آخری نقطے میں جو شعور کا آخری نقطہ ہے باہر کی دنیا کی باتیں معلوم ہونے لگتی ہیں جن کا اس ذریعہ ابلاغ کے سوا معلوم ہوناممکن ہی نہیں.پس اگر ایک آدمی اندھا ہے، بہرہ ہے، گونگا ہے ، اگر وہ لمس کی صفت بھی نہیں رکھتا، اگر مثبت صفات سے عاری ہے اور منفی صفت بھی نہیں رکھتا ، یعنی بھوک محسوس نہیں کرتا ، دکھ محسوس نہیں کرتا ، جلن کا احساس نہیں ، سردی کا گرمی کا احساس نہیں ، نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے تو مردہ اور کس کو کہتے ہیں.پس کوئی انسان ایسا نہیں جو نور کے بغیر ہو اور ہم اسے زندہ کہہ سکیں.ہر انسان کو خواہ وہ کمزور ہے یا زیادہ ہے کچھ نہ کچھ نور فطرت عطا ہوا ہے اور جس حد تک کسی کو نو ر فطرت عطا ہوا ہے اسی حد تک اللہ تعالیٰ کا نور اس سے رابطہ کرتا ہے اگر وہ چاہے.اگر اس کی توجہ اس طرف ہو اور اپنے نور کو نور الہی سے ملانے کے لئے وہ محنت کرے جس کو کسب کہتے ہیں واقعہ توجہ کرے.اس محنت کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ملتا ہے یا يُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِم إلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيْهِ (الانشقاق : 7 ) یعنی اے انسان نور تو تجھے عطا ہوا ہے نور فطرت سے تو کسی کو بھی خدا نے خالی نہیں چھوڑ ا مگر ملے گا وہی خدا سے جس کے متعلق فرمایا: انك كَادِ إِلى رَبِّكَ گُن گا تو اپنے رب کی طرف جانے کے لئے بڑی محنت کر رہا ہے فَمُلْقِیهِ پس یا درکھ کہ تیری محنت کام آئے گی اور رائیگاں نہیں جائے گی جس طرح دنیا کی محنت کو پھل لگتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری طرف آنے کے لئے تو نے جو محنت کی یا جو کرے گا یا کر رہا ہے میں تجھے خوشخبری دیتا ہوں فَمُلْقِیهِ تو اپنے اس رب کو پالے گا جس کے لئے تو محنت کر رہا ہے.یہی محنت تھی رمضان کی جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ روزے کی میں جزا ہوں کیونکہ یہ محنت خدا کی طرف تھی.پس اگر کوئی پھل نہ لگا ہواگر ہمارے اندھیرے کسی معنوں میں بھی روشنی میں تبدیل نہ ہوئے ہوں تو ہم پر نہ اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم
خطبات طاہر جلد 15 150 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء نے اس رمضان سے کوئی ادنیٰ بھی نور کمایا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.فرماتا ہے اِنک كَادِ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا اے انسان ضرور تو محنت کرے گا اور کر رہا ہے اور انگ میں جو مضمون ہے یہ شرط پیدا کر رہا ہے بڑی شدت کے ساتھ کہ یادر کھ تیرے لئے لازم ہے کہ محنت کرے یہ معنی بھی اسی میں سے نکل رہا ہے ہاں ہم جانتے ہیں کہ تو ضرور محنت کر رہا ہے اور گڈ گا اس لفظ کو اس کے Infinitive کو، اس کے مصدر کو زور پیدا کرنے کے لئے دہرایا ہے کہ بڑی محنت کر رہا ہے تو فَمُلقِیه پس خوشخبری ہو کہ تو اسے ضرور پالے گا.پس یہ جو پانا ہے یہ نور کمانے والی بات ہے جس کو اردو میں ہم نور کمانا کہتے ہیں.نور تو ہے مگر اس کو صیقل نہیں کیا گیا اور دروازے کھولے نہیں گئے اور غفلتوں اور سستیوں کے پردوں کو ہٹا کر آسمان کے نور کو اندر پہنچنے کے لئے رستہ نہیں دیا گیا ہو تو اندر کا نور کچھ بھی کام نہیں آسکتا.پس یہ تین چیزیں ہیں جن کا اکٹھا ہونا ضروری ہے.ایک اندر کی صلاحیت اور وہ نور جو خد اعطا کرتا ہے پیدائش کے وقت ہر انسان کو حصہ رسدی اس کی توفیق کے مطابق جو تو فیق خدا کی تقدیر نے بنائی ہوتی ہے اس کو ایک نور ملتا ہے.پھر گنگا کے دور میں وہ ڈالا جاتا ہے اور ایسی آزمائشوں میں مبتلا کیا جاتا ہے جہاں اس کو اس نور کو چمکانے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اور ان روکوں کو دور کرنا پڑتا ہے جو غفلت کی وجہ سے ایسے نوروں کی راہ میں ضرور حائل ہوتی ہیں.غفلت کی مثال نیند کی ہے.اب سورج چمک بھی رہا ہو تو تھکے ہوئے آدمی کو مین دو پہر کوسورج کے نیچے بھی نیند آجاتی ہے اور آنکھیں کھولنا بھی چاہے تو مند جاتی ہیں پھر کچھ بھی اس کو دکھائی نہیں دیتا.تو وہ شخص جو اپنی آنکھوں کو کھولنے کے لئے محنت نہیں کرتا اس پر نیند کا غلبہ آ جائے وہ غفلت کی حالت میں اس روشنی کے وقت سے محروم رہ جاتا ہے اور جہاں تک روحانی آنکھوں کا تعلق ہے ان کا مضمون اس سے زیادہ گھمبیر اور مشکل ہے جو ظاہری روشنی دیکھنے والی آنکھوں سے تعلق رکھتا ہے.ظاہری روشنی دیکھنے کا تعلق ہماری بسر اوقات سے ہے اور ہم سست بھی ہوں تو مجبوراً کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم بیرونی نور دیکھ سکیں اور اسے حاصل کر سکیں لیکن روحانی بقا میں انسان کو بسا اوقات محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ مر رہا ہے اور اس لئے وہ اپنے لئے لازم نہیں سمجھتا کہ میں ضرور اپنے نور کو چپکاؤں اور اپنی آنکھوں کو کھولوں یہی بڑی وجہ ہے کہ روحانی دنیا میں اندھیرے زیادہ ہیں اور ان کو صاف کرنا ، ان کے پردوں کو چاک کر کے آگے نکلنا زیادہ محنت کو چاہتا ہے اور زیادہ شعور کو چاہتا ہے.جب تک شعور
خطبات طاہر جلد 15 151 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء بیدار نہ ہو اس محنت کی طرف توجہ پیدا ہوہی نہیں سکتی.اب دیکھیں دن میں پانچ مرتبہ ہم کھانا کھاتے ہیں یعنی ترقی یافتہ ملکوں میں پانچ دفعہ تو ضرور کچھ نہ کچھ منہ میں ڈالتے ہی رہتے ہیں اور اگر سارا دن پانچ دفعہ نہ کھائیں بلکہ دو دفعہ ہی کھائیں جس کو ہم روزہ کہتے ہیں تو کتنی مشکل سے وقت گزرتا ہے.ایسے سخت روزے بھی آتے ہیں کہ اس کا لمحہ لمحہ یاد کروا رہا ہوتا ہے کہ تم کسی چیز سے محروم ہو مگر روحانی دنیا میں بعض لوگ عمر بھر نماز نہیں پڑھتے ان کو پتا بھی نہیں لگتا کہ ہم بھو کے ہو کر مر ہی چکے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ بھوک کسی حد تک تو محسوس ہوتی ہے جب وہ موت میں تبدیل ہو جائے تو پھر کیسے محسوس ہوگی.اکثر تو غفلت کی حالت میں نہیں بلکہ موت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں.مگر اس موت کا اور مادی موت کا ایک فرق ہے.مادی موت ایک دفعہ آجائے تو پھر ہمیشہ کے لئے چمٹ جاتی ہے اس سے انسان نکل نہیں سکتا لیکن روحانی موت اگر چہ موت کی ساری علامتیں رکھتی ہے یعنی کھائے پیئے بغیر انسان پھر بھی جیسے دنیا میں سانس لے رہا ہے یہ امکان رکھتا ہے اپنے اندر کہ پھر وہ آنکھیں کھول دے.پس روحانی موت کے مردوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ رسول.اللہ کا رسول محمد رسول اللہ ﷺ تمہیں بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو استجابت کیا کرو، لبیک کہا کرو.اب دیکھ لیں بظاہر تو ایک ہی قسم کی اصطلاحیں ہیں مگر ان دونوں میں فرق ہے.پس جب مثالیں دی جاتی ہیں یا اصطلاحیں پیش کی جاتی ہیں تو آنکھیں بند کر کے مادی اصطلاحوں یا مثالوں کو بعینہ روحانی اصطلاحوں یا مثالوں پر چسپاں کرنا بیوقوفی ہے.غور کر کے دیکھیں تو مضمون خود سمجھ میں آ جائے گا.زندگی اور موت کی باتیں ہوتی ہیں مادی زندگی میں تو خدا کہتا ہے ایک دفعہ مر گیا تو کبھی زندہ ہو ہی نہیں سکتا.پس جہاں موت کی اور زندگی کی اکٹھی باتیں کرتا ہے وہاں ضرور روحانی زندگی مراد ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جب عرض کیا رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى (البقرة: 261 ).تو خدا نے مردہ زندہ کرنے کا گر سکھا دیا.صاف پتا چلتا ہے کہ وہاں روحانی موت مراد تھی، جسمانی موت کا تو حال ہی مختلف ہے.پس جہاں آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا کہ اے لوگو! جو ایمان لاتے ہو جب تمہیں یہ خدا کا رسول بلاتا ہے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو لبیک کہا کرو.تو وہاں بھی روحانی زندگی مراد ہے.تو ہر دفعہ
خطبات طاہر جلد 15 152 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء جوانسان بیرونی نیکیوں سے محروم رہتا ہے تو بعض دفعہ غفلت اور بعض دفعہ موت حائل ہو جایا کرتی ہے، جہاں تک موت کا تعلق ہے وہ تو دوبارہ اس مردے کا جی اٹھنا ایک غیر معمولی روحانی وجود کو چاہتا ہے اسی لئے انبیاء کا سلسلہ جاری ہے.انبیاء آتے ہیں تو پھر مردے زندہ ہونے شروع ہوتے ہیں.جب وہ نہیں ہوتے تو بسا اوقات غفلت سے پردے اٹھانے کے انتظام تو دیگر بزرگ بھی کرتے ہی رہتے ہیں مگر مردوں کو زندہ کرنے کی توفیق شاذونا در کسی کو ہوتی ہے.انبیاء وہ ہیں جو ان غفلتوں کے پردے چاک کر دیتے ہیں ، دبے ہوئے نوروں کو اٹھا دیتے ہیں ، آنکھیں کھلنے لگتی ہیں سوئی ہوئی جستیں جاگنے لگتی ہیں اور انسان پھر بیرونی نور سے رابطے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں کہ : جس کے آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے اور انبیاء من جملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے.یہ مشکل الفاظ ہیں مگر جب بڑے مضمون کو کوزے میں بند کرنا پڑتا ہے تو پھر عام جو زبان ہے وہ متحمل ہی نہیں ہوتی اس کے لئے اعلیٰ درجے کی زبان جو عامتہ الناس کے لئے مشکل ہے اس کو استعمال کرنا ضروری ہو جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں سلیس اردو لکھتے ہیں وہاں حیرت انگیز خود روی کے ساتھ وہ زبان چلتی ہے اور ساتھ پڑھنے والے کو بھی بہاتی چلی جاتی ہے.جہاں بہت گہرے اور مشکل مضامین بیان ہونے ہوں وہاں آپ کی زبان اسی طرح مشکل ہو جاتی ہے اسے سمجھانا پڑتا ہے.”سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی مراد یہ ہے کہ تمام فطرت انسانی کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی حال ، ایک ہی صلاحیت ، ایک ہی حدود اربعہ کے ساتھ پیدا نہیں کیا.فطرت انسانی نیک اور پاک تو ہے مگر کوئی چھوٹا ہے کوئی بڑا ہے.کہیں کوئی کوزہ ہے کہیں کوئی وسیع دریا کے بہاؤ کا برتن ہے یا ظرف ہے جس میں دریا بہتا چلا جاتا ہے، کہیں وہ سمندر کا ظرف ہے جولا متنا ہی دکھائی دیتا ہے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر دیکھو تو کچھ سمجھ نہیں آتی.
خطبات طاہر جلد 15 153 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسا ہی انسانی فطرت میں خدا تعالیٰ نے مختلف صلاحیتیں مختلف ظرف رکھے ہیں.اور انبیاء وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں اب نور مجسم کیا چیز ہے؟ نور تو جسم نہیں رکھتا.اگر اس بات کو سمجھیں تو پھر وحی و الہی اور انبیاء کے عالی مرتبہ کا کچھ تصور دلوں میں باندھا جا سکتا ہے.جسم کے اندر مختلف صلاحیتیں ہیں اور ہر صلاحیت کا خدا تعالیٰ کی کسی صفت سے تعلق ہے اور اس صفت کے شکر کا حق ادا کرنے کا مضمون ہمیشہ انسان کو بعض نیکیوں کی طرف بلاتا ہے.آنکھ ہے، آنکھ کا بھی شکر ادا کرنے کا حق ہے.آنکھ پہلے خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھنے سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرے.جن جگہوں سے روکا جا رہا ہے وہاں سے رکے جن جگہوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو وہاں دیکھے.اس کا دیکھنا اور اس کے دیکھنے کی سچائی یہ سارے وہ مضامین ہیں جن کا آنکھ کے نور سے تعلق ہے.صرف ظاہری طور پر شعاعوں کے منعکس ہونے سے انسان نہیں دیکھ سکتا.جب روحانی دنیا میں بات کرتے ہیں تو یہ ساری باتیں آجاتی ہیں یعنی وہ مقام جہاں خدا فرماتا ہے رک جاؤ یہاں ٹھوکریں ہیں اگر آپ ان مقامات سے گزرجائیں اور وہ مقامات آپ کو دکھائی نہ دیں تو لا ز ما ٹھو کر کھائیں گے اور اسی کا نام اندھے کا بھٹکنا ہے.ظلمات میں بھٹکنے والے اسی طرح بے چارے ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انبیاء وہ ہیں جو نور مجسم ہو جاتے ہیں یعنی ان کے جسم کا کوئی ذرہ بھی ایسا نہیں رہتا جس کی صفات پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کا نور جلوہ گر نہ ہو چکا ہو.ان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا ، ان کی ہر حرکت ، ان کا ہر سکون خدا کے تابع ہو تو تب اسے نور مجسم کہیں گے نا.اس کے بغیر وہ نور مجسم کیسا ہو سکتا ہے اور جب نو ر ہر چیز کو ڈھانپ لیتا ہے تو گویا جسم غائب ہو گیا، جسم برتن بن گیا، اس برتن کو نور نے بھر دیا ہے اور پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ جسم ہے اور یہ نور ہے.ان معنوں میں واقعہ بندوں کے نور مجسم بنتے ہیں مگر ان بندوں کے جو بندگی کا حق ادا کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ بھی نور مجسم تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء نور مجسم تھے.نور مجسم ہوئے بغیر ان پر وحی کا نزول ہو ہی نہیں سکتا تھا اور نور مجسم ہونے
خطبات طاہر جلد 15 154 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء کے لحاظ سے ان میں اور حضرت اقدس محمد مصطفی حملے میں ایک فرق رہ جاتا ہے کہ ایک چھوٹا و جو دنور مجسم بنا ہے یا ایک بڑا وجود نور مجسم بنا ہے.ایک چھوٹا ظرف بھرا ہے یا ایک بڑا ظرف بھرا ہے.پیالہ بھی تو بھرتا ہے، کشکول بھی بھرتا ہے مگر وہ خزانہ بھی بھرا ہوتا ہے.بسا اوقات جس سے لاکھوں کروڑ وں کشکول بھرے جاسکتے ہیں ایک تالاب بھی بھرتا ہے اور سمندر بھی بھرتا ہے.تو یہ کہہ دینا کہ انبیاء کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو شامل کیا گیا یہ گویا کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ ﷺ کی تخفیف فرمائی، ہرگز درست نہیں.آپ یہ فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء نور مجسم تھے مگر ان سب نوروں سے بڑھنے والا نور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نور ہے کیوں کہ آپ کا ظرف بہت بڑا تھا اور جتنا بڑا ظرف تھا اتنی آپ کو محنت کرنی پڑی ہے اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا کی دین تھی اس کو بنادیا، اس کو نہ بنایا.یہ بات نہیں ہے.جس کو جتنا زیادہ دیا اس کو اتنا ہی زیادہ محنت کرنا پڑے گی اسے بھرنے کے لئے کسی نے ایک گلاس بھرنا ہے، کسی نے جگ بھرنا ہے، کسی نے مشکا بھرنا ہے، کسی نے پورا تالاب بھرنا ہے، کسی کو کہا ایساسمندر بھر دو کہ کل عالم کی پیاس بجھا دو تمام بنی نوع انسان کا رسول تمہیں بنا کے بھیجا جارہا ہے.فرق تو ظاہر ہے زمین و آسمان کا فرق ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا ذکر کرتے ہوئے آگے اس مضمون کو بڑھاتے ہیں.اس جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کا نام نو اور سراج منیر رکھا ہے جیسا کہ فرمایا: قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللهِ نُورُو كِتَبٌ مُّبِينٌ (المائدة 16 - وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ( الاحزاب : 47) اور اللہ کی راہ میں بلانے والا اس کے اذن کے ساتھ جو سِرَاجًا منيرا ہے.تو جو کل عالم کو نور بخشے اس کو سورج ہی کہنا چاہئے جب کہ کسی اور نبی کو سورج نہیں فرمایا گیا مگر سارے ہی روشن تھے.سارے ہی سرتا پا روشن تر تھے.کوئی ان کے وجود کا حصہ اندھیرا نہیں تھا مگر خدا نے ان کو جتنا ظرف دیا تھاوہ بھر گیا اس ظرف کو بھرنے میں ان کو نسبتاً آسانی تھی کم محنت کرنی پڑی اس لئے جزا سزا کا مضمون بھی اسی طرح جاری ہے انصاف کے ساتھ زیادہ دیا تھا تو زیادہ محنت کے تقاضے بھی تو
خطبات طاہر جلد 15 155 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء پورے کرنے پڑے اور جس نے سب تقاضے پورے کر دیئے اپنے ظرف کے مطابق بعینہ اس کی طاقتوں کے مطابق اس پر بوجھ ڈالا گیا لیکن جو فرق ہے وہ نمایاں فرق ہے.بہت سے اور پہلو بھی ہیں فی الحال میں ان کا ذکر چھوڑ رہا ہوں.آخر پہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا خلاصہ یوں نکالتے ہیں، میں مضمون جو نور کے تھے بیان کروں گا لیکن اس موقع پر کیونکہ مضمون وہاں تک پہنچ گیا ہے جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر کا پڑھنا عین مناسب حال ہے.آپ فرماتے ہیں.وجود مبارک حضرت خاتم الانبیا ہ میں کئی نور جمع تھے سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہوا اور اس کے وارد ہونے سے الله وجود با وجود خاتم الانبیاء ﷺ کا مجمع الانوار بن گیا (براہین احمدیہ حصہ سوم، حاشیہ نمبر 1 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 195) وہ حوالہ ایک اور بھی ہے جو اس موقع پر بہت ہی برمحل چسپاں ہو رہا ہے لیکن اس وقت اس کی تلاش میں دقت پیش آرہی ہے شاید اللہ کا منشاء یہی ہے کہ باقی مضمون کو آگے بڑھانے کے بعد پھر آخر پر ہی اس کو پیش کروں.اب وقت بھی چونکہ ختم ہو رہا ہے اس لئے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں اور یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ جتنی باتیں میں نے کہی ہیں یہ گزشتہ رمضان کے حوالے سے کہی ہیں.ابھی وقت ہے کہ ہم ہاتھوں سے جاتے ہوئے رمضان کا جتنا حصہ روک سکتے ہیں روک لیں اور دامن پکڑیں کوشش کریں کچھ تو ہاتھ آجائے.اس لئے یہ وقت سوچ میں اور فکر میں اور نفس کے مطالعہ میں اور کھوج میں خرچ کریں کہ رمضان آیا تھا، چلا بھی گیا، کچھ دقتیں لے کے آیا کچھ سہولتیں باقی چھوڑ گیا مگر وقتوں نے کچھ ایسی سہولتیں بھی عطا کی ہیں جو دائمی ہو چکی ہیں، جن کے نتیجے میں آپ کہہ سکتے ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے کچھ ایسا تعلق قائم کر لیا ہے جواب مجھ سے وفا کرے گا مجھے کبھی چھوڑ کے نہیں جائے گا.اگر اس مضمون پر غور کریں اور ہاتھ کچھ نہ آئے جیسے خالی برتن لے کے داخل ہوئے تھے ویسے خالی برتن ہو کے نکلے ہیں، اگر آپ کا غصے پر کنٹرول اتنا نہیں ہے ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھا یعنی کوئی اس میں فرق نہیں پڑا.اگر نفس کی پیروی سے رکنے کی مزید طاقتیں نصیب نہیں ہوئیں ،اگر نیکی کا ایسا لطف نہیں آیا کہ اور نیکیاں کرنے کو جی چاہنے لگے اور جو نیکیاں ہو گئیں ان کو چھوڑنے کو دل
خطبات طاہر جلد 15 156 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء نہ چاہے بلکہ رستے تلاش کریں کہ میں پھر دوبارہ ایسی ہی نیکیاں کروں، یہ مضامین ہیں جن پر غور کرنے سے آپ حقیقت میں اس دکاندار کی طرح ہوں گے جو سارا دن کی کمائی کے بعد رات کو بیٹھتا ہے ، رات کے چراغ جلاتا ہے، دیکھتا ہے کہ کیا پایا اور کیا کھویا اور جو نہیں کرتا اس کو کچھ پتا نہیں چلتا.پس میں پسند نہیں کرتا کہ جماعت غافلین کی جماعت ہو.ہم نے دنیا میں بہت سے ایسے کام کرنے ہیں جن کی توفیق غافلوں کومل نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھو سِرَاجًا منیرا کی تعریف کے ساتھ داعی الی اللہ کے مضمون کو جیسا کہ قرآن نے فرمایا باندھ کر نمایاں طور پر دکھایا ہے.داعی الی اللہ کے لئے سراج منیر ہونا ضروری ہے ،اس داعی الی اللہ کے لئے سراج منیر ہونا ضروری ہے جو سب دنیا کو بلا رہا ہے جو سب دنیا کو روشنی کی طرف بلاتا ہے روشنی دے گا تو بلائے گا نا.جس کی اندھیروں تک رسائی ہی نہیں ہے وہ کیسے لوگوں کو کھینچ کر روشنی کی طرف نکالے گا.پس آنحضرت ﷺ داعی الی اللہ بنائے گئے اس لئے اللہ فرماتا ہے سِرَاجًا منيرا بنائے گئے.طبعی تقاضا تھا دعوت الی اللہ کا.ہماری جماعت آج یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ہم داعی الی اللہ بنائے گئے ہیں تمام دنیا کے انسانوں کو محمد مصطفی اللہ کے نور سے منور کرنے کے لئے.اب دامن میں کچھ نور ہو گا تو لے کے چلیں گے نا اور کچھ نہیں ہے تو اپنے رومال میں جگنو ہی اکٹھے کر لئے ہوتے.وہ کچھ روشنیاں چھوٹی چھوٹی جو چمکتی بھی ہیں اور بجھ بھی جاتی ہیں اگر زیادہ اکٹھی ہو جائیں تو اس سے بھی کچھ رستہ دکھائی دینے لگتا ہے تو نور کی تلاش کریں.تب داعی الی اللہ بنیں گے اور نور کو محفوظ کریں اور اس نور کو پھر چمکائیں اور صیقل کریں تا کہ آپ کے آگے آگے بھاگے جیسا کہ قرآن کریم فرما رہا ہے آپ کا رستہ بھی صاف کرے تو دشمن بھی دیکھے تو جان لے کہ نجات اسی میں ہے کہ اس صاحب نور کے ساتھ چلیں.جب اندھیرے گھیر لیں، رستے خطرناک ہوں تو کوئی ایک صاحب چراغ بھی ہو سب اکٹھے ہو کر اس کے پیچھے چلتے ہیں اس کا دامن پکڑتے ہیں اس کے ساتھ قدم پر قدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ خود اپنا نقصان ہے، تو ایسے چمکتے ہوئے نورانی وجود کے طور پر دنیا کے سامنے ابھریں جہاں آنحضرت ملے کے سراج منیر کا کچھ حصہ موجود ہو.سراج منیر کا لطف یہ ہے کہ سراج منیر ہر نور پیدا کرتا ہے، وہ شمع جو جلائی جاتی ہے وہ بھی
خطبات طاہر جلد 15 157 خطبہ جمعہ 23 فروری 1996ء سورج کے نور سے بنی ہوئی ہے وہ تیل جس کی طاقت سے ہوائی جہاز اڑائے جاتے ہیں اور بڑے بڑے کارخانے قائم کئے جاتے ہیں وہ بھی سراج منیر سے بنا ہوا ہے اور سِرَاجًا منیرا کی آگ سے نہیں سِرَاجًا منیرا کی روشنی سے.میں پہلے بھی یہ مضمون آپ پر کھول چکا ہوں میں صرف حوالہ دے رہا ہوں اس حوالہ کو ذہن میں یا درکھیں کہ نو ر الہی ہے جو سورج میں بھی چپکا ہے اور سورج اس صلى الله نور کا پردہ ہے خود نور الہی بذات خود نہیں ہے لیکن وہ پردہ چمک اٹھا ہے نورالہی سے.آنحضرت یہ وہ نور کا پردہ ہیں.جس میں خدا اس شان سے چپکا ہے کہ گویا وہی خدا دکھائی دینے لگے.یہ مضمون ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سِرَاجًا منیرا سے کچھ نور مانگیں.اپنی جھولی اس کے آگے پھیلائیں صلى الله اس نور سے اپنا کوئی گوشہ تو منور کریں.اگر پیار اور محبت سے آپ نے محمد رسول اللہ ﷺ کا نور ما نگا اور اپنایا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ نورا اپنے ارد گرد بھی نور کے لئے جگہیں پیدا کرنا شروع کر دے گا اس نور میں بڑھنے کی صلاحیت ہے اس نور میں پھیلنے کی صلاحیت ہے اور پھر آپ کا سفر حقیقت میں زندگی اور نور کا سفر ہو گا پھر آپ کا سفر بے ثمر نہیں رہے گا.دعوت الی اللہ کے پھل جب ایسے دائمین الی اللہ کو لگنے لگتے ہیں جونور کی روشنی لے کر چلتے ہیں تو اس نور سے وہ بھی حصہ پاتے ہیں ورنہ بسا اوقات اندھی تبلیغ سے بھی کچھ لوگ احمدی ہو جاتے ہیں اسلام قبول کر لیتے ہیں مگر وہ بھی مردہ مردہ سے رہتے ہیں ، ان میں جان نہیں پڑتی.آپ وہ نئے ہونے والے مسلمان بنا ئیں آپ وہ نئے ہونے والے احمدی پیدا کریں جو آپ کے نور سے منور ہوں جو محمد رسول اللہ اللہ کے نور کا ایک جلوہ ہے اور آپ کی زندگی سے ان میں بھی جھلکنے لگے.آپ کی قربانی کی روح ان کے دل میں بھی دھڑ کنے لگے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اس کے بغیر دنیا زندہ نہیں ہوسکتی.اس کے بغیر اس دنیا کے اندھیرے تبدیل نہیں ہو سکتے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 159 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء جس دعوت کے میدان میں ہمیں جھونکا گیا ہے وہ اسلام کی اشاعت کا میدان ہے.( خطبه جمعه فرموده یکم مارچ 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی: يَايُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَك شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيران (الاحزاب : 47،46) فرمایا: اے نبی ﷺ ہم نے تجھے نگران بنا کر بھیجا ہے وَ مُبَشِّرًا اور خوش خبری دینے والا ونَذِيرًا اور ڈرانے والا وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِاِذْنِهِ اور اللہ کی طرف سے داعی، داعی الی اللہ، اس کے حکم کے ساتھ وَسِرَاجًا منيرا اور ایک روشن سورج.یہ وہ صفات حسنہ ہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بیان ہوئیں اور ان صفات کا جو مرکزی نکتہ ہے وہ نور ہی ہے اور غرض دعوت الی اللہ ہے تو وہ صفات حسنہ جونور کے گرد گھوم رہی ہیں یا نور کی تشکیل کر رہی ہیں اور مقصد دعوت الی اللہ ہے یہ مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا اور چونکہ یہ جونور کے مضامین کا سلسلہ ہے میں آج کے خطبے میں سردست اس کو ختم کر کے پھر دوسرے مضامین کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہوں اس لئے یہ آیت میں نے عنوان بنائی ہے آج کے خطبہ کی کیونکہ نور کے تعلق میں سب سے زیادہ ضرورت ہمیں دعوت الی اللہ کے لئے پیش آرہی ہے اور کوئی دعوت الی اللہ کی سکیم دنیا میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتی جب تک دعوت الی اللہ کرنے والا نور سے کچھ حصہ پائے ہوئے نہ ہو.جونور سے حصہ پاتا ہے اور پھر دعوت الی اللہ، اللہ کے اذن سے کرتا ہے وہی ہے جو کامیاب
خطبات طاہر جلد 15 160 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء بنایا جاتا ہے، وہی ہے جس کی دعوت کے کچھ معنی ہیں.ورنہ ایسے دعوت الی اللہ کرنے والے بھی دنیا میں بے شمار ہیں بلکہ اکثریت میں ہیں جو دعوت تو کرتے ہیں مگر بے نور اور بے اذن.نہ ان کو خدا نے اس دعوت کا اذن دیا نہ اس نور سے ان کا ماحول، ان کا دل ، ان کا سینہ اُجالا کیا گیا جس نور کے بغیر خدا کی طرف بلانا بے معنی ہے.اس مضمون کا سب سے پہلا نکتہ جو سمجھنے کے لائق اور دل میں بٹھا دینے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نور بلکہ وراء النور ہے اور ہر پر دہ خدا کا ایک نور کا پردہ ہے.اس کی طرف دعوت دینے والا اگر اندھیرا ہو تو اس کو اس دعوت کا حق ہی نہیں پہنچتا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی نے نور سے حصہ پایا ہو اور اس کا دل، اس کا سینہ اور اس کا دماغ ،اس کی تمام صلاحیتیں روشن نہ ہوئیں ہوں.روشنی کا کچھ نہ کچھ پر تو تو اس کے اندر ہونا ضروری ہے اور اگر کسی کے پاس وہ روشنی ہے جو خدا سے ملتی ہے تو پھر وہ خدا کی طرف بلانے کا حقدار بنتا ہے.پھر اس کی دلیل اس کے ساتھ چلتی ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل اس کا نور ہے اور اس سے بہتر کوئی دعوت الی اللہ کی طرف بلانے کا اور نسخہ نہیں ہے اور کوئی طریق نہیں ہے کیونکہ ہر دوسرے طریق میں خامیاں ہیں اور نقصانات ہیں اور ایسی دعوتیں جھگڑوں اور فساد پر منتج ہوتی ہیں اور بسا اوقات دنیا میں دعوت الی اللہ ہی کے بہانے فسادات کئے جاتے ہیں.اس لئے مرکزی نکتہ یہی ہے کہ نور کے بغیر دعوت کا کوئی تصور نہیں.نور میسر ہو تو دعوت کا حق پہنچتا ہے مگر تب بھی لازم ہے کہ خدا کا اذن بھی ہو اور بغیر اذن کے کوئی دعوت نہیں ہے.پس اذن الہی کے نتیجے میں جس دعوت کے میدان میں ہمیں جھونکا گیا ہے وہ اسلام کی اشاعت کا میدان ہے.وہ اللہ کی طرف بلانے کا میدان ہے.مگر اس نور کی طرف جس کے بغیر خدا کی طرف سفر ممکن نہیں ہے یعنی سراج منیر کی طرف.سراج منیر جو سورج ہے وہ خود اپنی ذات میں خدا کا نور نہیں مگر خدا کے نور کا جو اس کے ماوراء ہے، پر لی طرف ہے ،اس کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے.ایسا پردہ ہے جو خو د روشن ہو گیا ہے.پس جو سب سے زیادہ روشن پر دہ خدا کا ہمیں اس دنیا میں دکھائی دیتا ہے وہ سورج ہے اور سورج کی طرف کا سفر ہی حقیقت میں ماوراء نور کی طرف کا سفر قرار دیا جا سکتا ہے.پس جیسے دنیاوی نظام میں سورج کی مثال ہے ویسا ہی روحانی نظام میں حضرت اقدس صلى الله محمد مصطفی علیہ کا وجود ہے جو خدا کے نور کا وہ پردہ ہے جس سے زیادہ روشن تر پردہ ہماری دنیا کے انسانوں کو دکھائی نہیں دیا، نہ دے سکتا ہے.وہ ایسا نور کا روشن پر دہ ہے کہ جب ظاہر ہوتا ہے تو ہر نور
خطبات طاہر جلد 15 161 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء والا اس کے سامنے مٹ جاتا ہے نہ چاند کا وجود رہتا ہے ، نہ ستارے چمکتے ہیں کوئی اور نور دنیا کا اس کے سامنے چمکنے کی مجال نہیں رکھتا.روشنیاں جو انسان بناتا ہے وہ بھی بجھ جاتی ہیں یا بجھا دی جاتی ہیں اگر نہیں بجھتیں تو نور دینا چھوڑ دیتی ہیں.پس یہ وہ نور ہے جس کی طرف ہم نے تمام دنیا کو بلانا ہے اور اسی کا ہمیں اذن دیا گیا ہے.ایسے نور کیسے پیدا ہوتے ہیں اور کیسے ہم اس نور سے حصہ پاسکتے ہیں اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھے تھے جو ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے تھے یعنی جو اقتباسات میں نے چنے تھے ان کا مضمون جاری تھا.پہلے اقتباسات ہیں جو پچھلے خطبے میں ، اس سے بھی پہلے آپ کے سامنے پڑھتا رہا ہوں ان کا مرکزی نقطہ نبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل نور اور کامل نور خدا کے کامل بندوں کو دیا جاتا ہے اور اس نور میں غیر نبی شریک نہیں ہے.انبیاء کی ساخت ایسی ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے اس کامل نور کا محافظ اور امین بنانے کی خاطر پیدا فرمایا ہے.اس لئے ان کے اندروہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو نور کو اپنانے اور اس کو بغیر نفسی میل کے چمکا کر باقی دنیا کو دکھانے کی طاقت بخشتی ہیں، وہ صلاحیتیں ان کے اندر موجود ہیں اور اس نور وحی کو جو انبیاء کے ساتھ خاص ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض مثالیں دے دے کر سمجھا رہے ہیں اور یہ واضح فرما ر ہے ہیں کہ یہ نور صرف نبیوں کے لئے ہے غیر نبی اس میں شریک نہیں ہوسکتا.یہ اقتباس جو بقیہ حصہ ہے میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.”وہی ہے جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذلتہ واجب اور قدیم ہو.“ که خود صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے جس نے انسان کو ظلمت خانہ قدیم سے باہر نکالا یعنی عدم کا نام ظلمت خانہ رکھا ہے فرمایا ہے خدا کے سوا ہر طرف تاریکی ہے یعنی عدم ہے اور وہی وجود ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ سے عدم سے وجود پیدا کرتا ہے اور عدم سے وجود میں آنا ایک نور کو چاہتا ہے کیونکہ عدم کو ظلمات سے تشبیہ دی ہے.پس ایک وہ نور ہے جو فطری نور ہر انسان کو ، ہر وجود کو ملتا ہے اور اس میں درحقیقت انسان اور غیر انسان ، زندہ اور مردہ کی کوئی تمیز نہیں ہے بغیر نور کے وجود کا تصور ہی ممکن نہیں کیونکہ ہر وجود نور سے عدم سے نکل کے وجود کی روشنی میں آیا ہے اس لئے جب وہ اندھیرے
خطبات طاہر جلد 15 162 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء سے نکل کے روشنی میں آیا ہے تو بغیر روشنی کے ہو ہی نہیں سکتا.پس وہ تمام صفات جن کو ہم مادی صفات کہتے ہیں وہ بھی نور رکھتی ہیں اور ان میں سے ہر صفت خدا تعالیٰ کے کسی نور کا پر تو ہے اور اس کے بغیر عدم ہے.پس جب وہ صفات مر جائیں تو کائنات عدم ہو جاتی ہے.اس لئے یہاں زندگی اور موت کی وہ بحث نہیں ہے جس کا انسان سے یا دیگر حیوانوں سے تعلق ہے.یہاں زندگی اور موت کی وہ بحث ہے جس کا عدم اور وجود سے تعلق ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اول نور وہی ہے جس کے ذریعے عدم کو وجود میں تبدیل کیا گیا اور اس پہلو سے ہر موجود میں خدا تعالیٰ کا نور کسی رنگ میں ضرور چمک رہا ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر وہ چیز نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے.اس تفسیر میں فرماتے ہیں.وو..کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذلتہ واجب اور قدیم ہو.یا اس سے مستفیض نہ ہو.خاک اور افلاک...“ یعنی اللہ سے استفادہ کئے بغیر کوئی نور یا وجود موجود ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا.”خاک اور افلاک ان کو بھی اللہ کے نور کا مورد قرار دیا.پس یہ جو نور کی تفسیر بیان فرما رہے ہیں اس کا سفر لفظ خاک سے کیا ہے جس میں کوئی زندگی نہیں ہے اور افلاک یعنی زمین اور کائنات ساری."..اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور : 36) میں ظاہر فرمایا گیا...“ فرمایایہ فیضان عام ہے جس کو اللهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ میں بیان فرمایا گیا.وو...یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں...“ اس میں کسب کا کوئی دخل نہیں یہ روحانیت کی جلوہ گری سے پیدا ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے رحمانیت سے خلق کو منسوب فرمایا.رحمانیت ہی سے انسان کا وجود ظہور پذیر ہوا ہے.رحمان ہی ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے وہاں خالق نہیں فرماتا اللہ تعالیٰ ، رحمان فرماتا ہے کیونکہ رحمن کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی ہو اور اس سے فیض طلب کرے رحمن کے لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی
خطبات طاہر جلد 15 163 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء فیض کا مستحق وجود ہو.وجود نہ بھی ہو تو رحمان خدا، از خود اپنے کرم اس طرح نچھاور کرتا ہے جیسے خودرو چشمے سے پانی ابلتا ہے.قطع نظر اس کے کہ کوئی پیاسا وہاں موجود ہے کہ نہیں ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ پانی کسی ایسی زمین تک پہنچتا ہے کہ نہیں، کہ وہ سیراب ہونے کا تقاضا کر رہی ہو.پس اس پہلو سے یہ فیضان عام ہے جس کو نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ میں فرمایا گیا.اس کا دوسرا نام رحمانیت ہے....یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے وو جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہی افراد خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت واستعداد موجود ہے یعنی نفوس کا ملہ انبیاء یھم السلام پر...“...تو جس نور عام کا ذکر خاک کے ذکر سے شروع فرمایا اب اس کا انتہائی مقام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں وہ وجود خاصہ ان افراد پر مشتمل ہے.جنہیں ہم انبیاء علیہم السلام کہتے ہیں.”...جن میں سے افضل اور اعلی ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفی امی ہے.دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا...“ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے جو سب انبیاء سے افضل جامع برکات ہے.اس گروہ کے سوا وہ نور ” دوسروں پر ہر گز نہیں ہوتا یعنی وہ نور جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ ان کے سوا کسی اور پر نازل نہیں ہوتا.وو...اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت باریک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے.اس لئے خدا وند تعالیٰ نے اول فیضانِ عام کو ( جو بدیہی الظہور ہے ) بیان کر کے پھر اس فیضانِ خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ ایک مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے.مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحُ (النور: 38 ).فرمایا چونکہ اصل غرض نور کی جلوہ گری کی جس کا آخری جلوہ پیدا کرنا تھا جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں وجود میں آیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے کلام میں یہ شان دکھائی دیتی ہے کہ آغاز فرماتا ہے کا ئنات کا بے جان چیزوں سے خاک سے ، مادے سے، دنیا سے، زمین و آسمان 66
خطبات طاہر جلد 15 164 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء اور جو کچھ ان میں ہے ان کے ذکر سے اور پھر فرماتا ہے اور خدا کے نور کی مثال جو اعلیٰ مثال ہے، جو ارفع مثال ہے وہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحُ اور یہاں آنحضرت ﷺ مراد ہیں لیکن آپ کے متعلق فرمایا آپ منجملہ گروہ انبیاء میں سے ہیں اور یہ جونور کا عطا ہونا ہے اس نور وحی کا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخری درجہ کمال کی صورت میں پیش فرمارہے ہیں یہ انبیاء کے سوا دوسروں کو نہیں ملتا.کوئی ان میں انبیاء کا شریک نہیں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں، میں کچھ حصے چھوڑ کر آپ کو وہ باتیں بتانا چاہتا ہوں جن پر اس مضمون کو میں ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.فرمایا؛ وو...ورنہ نور کے فیض کے لئے نور کا ضروری ہونا ایسی بدیہی صداقت ہے کہ کوئی ضعیف العقل بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا..نور تو ملتا ہے انسان کو مادے کو بے جان چیزوں کو بھی ملا اور جتنا ان کے اندر ظرف ہے اتنا ہی آسمان سے نو را ترتا ہے ان پر ، اسی قدر ان کا تعلق اللہ جل شانہ کے ساتھ قائم رہتا ہے.اب انبیاء کو جونور ملا ہے وہ ان کے اندرونی نور کا مظہر ہے اور ان کے اندرونی نور سے ایک مناسبت رکھتا ہے.فرماتے ہیں یہ تو ایک ایسی ظاہری سچائی ہے کہ ایک ضعیف العقل کو بھی معلوم ہو جاتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عقل اتنی روشن تھی کہ آپ کے معیار کے مطابق ایک ضعیف العقل کو بھی معلوم ہونی چاہئے مگر وہ دنیا والے جو نبی کے نور سے روشن نہ ہوں وہ قوی العقل بھی اس بات سے محروم ہیں بے چارے کیونکہ ان کے اندر وہ نور نہیں ہے جونور کی باتیں سمجھ سکتا ہو.مگر ان کا کیا علاج اب ان کا ذکر بھی فرمارہے ہیں.ضعیف العقل کو بھی معلوم ہونا چاہئے مگر ضعیف العقل سے مراد ہے وہ عقل کی تعریف جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے وہ جن لوگوں پر صادق آتی ہے وہ تھوڑی عقل بھی رکھتے ہوں تو ان کو بھی پتا لگ جائے گا اس مضمون کا.مگر جہاں تک دنیا والوں کی باتوں کا تعلق ہے فرماتے ہیں.مگران کا کیا علاج جن کو (اس) عقل سے ( یعنی اس کا لفظ نہیں ہے مگر مراد یہ ہے اس عقل سے) کچھ بھی سروکار نہیں اور جو کہ روشنی سے بغض اور اندھیرے سے پیار کرتے ہیں اور چمگادڑ کی طرح رات میں اُن کی آنکھیں خوب کھلتی ہیں.“ یعنی مذہب کے علاوہ بات ہو د نیا داری کے اندھیرے ہوں جن کا خدا سے تعلق وہ نہ باندھ
خطبات طاہر جلد 15 165 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء سکیں ان مضامین میں ان کی آنکھیں خوب کھل جاتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ کا دجال کو یک چشمی قرار دینا اور دائیں آنکھ کا کلیۂ اندھی اور بائیں بہت بڑی اور روشن، یہ اسی مضمون کی وضاحت کی خاطر تمثیل پیش کی گئی ہے کہ ان کا الہی نور سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوگا گویا کلیۂ اندھے ہیں اور جہاں تک دنیا کے اندھیروں کا تعلق ہے خدا کے نور کے مقابل پر دنیا اندھیری ہے وہاں چمگادڑوں کی طرح ان کی آنکھیں خوب کھل جاتی ہیں اور بہت روشن ہو جاتی ہیں.وہ کچھ دیکھنے لگتی ہیں جو نور سے دیکھنے والے کی آنکھ کو وہاں اندھیرے میں دکھائی نہیں دے رہا ہوتا.تو یہ دوالگ الگ دنیا ئیں ہیں جن کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمائی کہ جن کو اندھیروں سے پیار ہے چمگادڑ کی طرح رات کو ان کی آنکھیں خوب کھلتی ہیں.لیکن روز روشن میں وہ اندھے ہو جاتے ہیں.خدا اپنے نور کی طرف اور یہاں نور سے مراد قرآن شریف لیا گیا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نور آنحضر کا بھی نام ہے اور قرآن کا بھی نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ خدا اپنے نور کی طرف (یعنی قرآن شریف کی طرف) جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اورلوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہر یک چیز کو بخوبی جانتا ہے“ اس کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں.”...پس اس مثال میں جس کا یہاں تک جلی قلم سے ترجمہ کیا گیا ہے.“ وہاں اصل عبارت میں وہ آیات جو ہیں اور مثال ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلی قلم سے ذکر فرمایا ہے تا کہ دیکھنے والا معلوم کرے کہ یہ مرکزی چیز ہے، بڑے قلم سے اس کو لکھا ہوا ہے لیکن یہ جو میرے سامنے تحریر ہے اس میں جلی قلم نہیں ہیں مگر میں آپ کو سمجھارہا ہوں کہ جلی قلم کے مضمون کا مطلب Underline ہے جو خاص طور پر Emphasized ایسی بات جس کو نمایاں روشن کر کے دکھایا گیا ہے، وہ کیا ہے.فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کے دل کو شیشہ مصفی سے تشبیہ دی“ یعنی دل کا جہاں تک تعلق ہے وہ شیشہ ہے جو بالکل پاک اور صاف ہو اس میں کوئی داغ نہ ہو.
خطبات طاہر جلد 15 166 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء وو...پھر آنحضرت اللہ کے فہم و ادراک و عقل سلیم اور جمیع اخلاق.فاضلہ جبلی و فطرتی کو ایک لطیف تیل سے تشبیہ دی“ اب یہ آپ کو سمجھانا پڑے گا کیونکہ اس میں سے کچھ نہ کچھ سب نے اخذ کرنا ہے اگر سمجھ نہیں آئے گی تو پھر لیں گے کیا.ایک چیز ہے دل.دل نیتوں کی آماجگاہ ہے اور میلانات رکھتا ہے جو طبعا ہر دل میں موجود ہیں.اگر نیتیں بگڑیں تو دل اسی حد تک میلا ہوتا چلا جاتا ہے.اگر میلانات غلط ہو جائیں تو وہ دل نور کی حفاظت کا اہل نہیں رہتا اور اس کے غلط استعمال کی طرف مائل ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے دل سے سفر کا آغاز فرمایا کہ دل، جہاں تک حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے آپ کا دل روشن اور مصفی تھا کہ اس میں فطرتا ہی کسی غیر اللہ کی طرف کوئی میلان نہیں تھا.تکدر نہیں تھا.یعنی غیر کا سایہ بھی آپ کے دل پر نہیں پڑا تھا.کوئی خوف نہیں تھا جس نے آپ کے دل کو میلا کر دیا ہو.پس لا حول ولا قوۃ کی یہ غیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضور کے دل کے تعلق میں بیان فرمائی.کوئی خوف غیر اللہ کا آپ کے دل پر نہیں تھا، کوئی تکد رنہیں تھا، کوئی محبت خدا کے سوا کسی اور چیز کی نہیں تھی.یہ وہ دل ہے جو نور کی آماجگاہ بنانے کے لئے یعنی نور کامل کے اظہار کے لئے چنا گیا اور دوسری چیز اس کے لئے کیا ضروری تھی.صرف دل کافی نہیں ہے.وہ چیز یہ ہے.فہم اور ادراک عقل بھی ہونی چاہئے ، باتوں کو صحیح سمجھنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے محض نو راپنی ذات میں دل پر نازل ہو تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا اگر اسے سمجھنے کی ، اس نور کے باریک لطائف تک نظر پہنچانے کی استطاعت نہ ہو.تو فرمایا اس کے بغیر کچھ بن نہیں سکتا پر آنحضرت ﷺ کو اس دل کے بعد فہم و ادراک عقل سلیم عقل سلیم اس عقل کو کہتے ہیں جو تعصب سے پاک ہوکر سوچتی ہے.جو کسی دلی خواہش یا کسی اور مقصد کی خاطر اپنے غور کو گندہ اور میلا نہیں کرتی بلکہ جب بھی غور کرے گی ہر رجحان ، ہر میلان ، ہر تعصب سے بلند ہو کر کرے گی اسے عقل سلیم کہا جاتا ہے.فرمایا عقل سلیم عطا فرمائی گئی آپ کو اور جمیع اخلاق فاضلہ جتی و فطرتی وہ تمام اخلاق فاضلہ جو آپ کی بناوٹ سے تعلق رکھتے تھے یا اس پاک فطرت سے تعلق رکھتے ہیں جو ہر ایک کو دی جاتی ہے ان اخلاق فاضلہ کو اور اس عقل کو اس دل کے بعد ایک لطیف تیل سے تشبیہہ دی.پس یہ عقل ہے جو دل میں وہ دیا روشن کرتی ہے جس دیئے کے روشن ہونے سے خدا کا نور پھیلتا ہے اور خدا کے نور کا شعلہ دل میں 66
خطبات طاہر جلد 15 167 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء جگمگانے لگتا ہے.تو دل اگر برتن ہے تو اس کا پاک اور صاف ہونا ضروری ہے.اس برتن میں چپکے گا کیا.وہ تیل جلے گا جو انسان کی صفات حسنہ کا خلاصہ ہے.اس میں اس کے تمام اخلاق فاضلہ شامل ہیں ، اس کی عقل سلیم شامل ہے، اس کی فہم اور ادراک کی طاقتیں شامل ہیں.یہ سب ہوں تو انہی کا نام خدا نے وہ تیل رکھا ہے جس کا بیان فرمودہ تمثیل میں ذکر ہے.فرمایا؛ وو....یہ نور عقل ہے ( پہلا نور قلب تھا).کیونکہ منبع و منشاء جمیع لطائف اندرونی کا قوت عقلیہ ہے“ ہر چیز کا منبع قوت عقلیہ ہے.یہ وہ تفسیر ہے جو مذہب کو Rationality یعنی عقلی تقاضوں کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیتی ہے کہ اسلام کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مذہبی عقائد ایک طرف کھڑے ہیں اور عقل دوسری طرف کھڑی ہے.مذہبی نور بنتا ہی عقل کی آمیزش سے ہے اور عقل کی آمیزش نہ ہو تو مذہب میں کوئی نور باقی نہیں رہتا.مگر عقل سلیم ہونی چاہئے.ہر میلان سے پاک اور صاف ہونی چاہئے اور دل کی آماجگاہ ایسی روشن ہونی چاہے کہ وہ عقل کو دھندلا نہ دے اور کسی بیرونی بداثر کے نتیجے میں وہ نور اس سے باہر دکھائی نہ دے.یعنی شیشہ میلا کر دیں گے تو نو راسی حد تک دھندلا یا ہوا دکھائی دے گایا اور میلا کر دیں گے تو دکھائی دینا ہی بند کر دے گا تو یہ نو عقل ہے.کیونکہ منبع ومنشاء جميع لطائف اندرونی کا قوت عقلیہ ہے“ قوت عقلیہ کو تیز کرو گے تو تمہارے اندر لطائف جو ہیں وہ اور زیادہ چمکتے چلے جائیں گے.اب آپ دیکھ لیں کہ مثلاً ایک دوست ہے وہ خالص دوست ہے، اس کا مخلص ہونا اس کے دل سے تعلق رکھتا ہے مگر آپ کے کسی کام کا ہے بھی کہ نہیں اس کا تعلق اس کی عقل سے ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ بے وقوف دوست سے تو عقلمند دشمن بہتر ہے کیونکہ وہ کچھ مارے گا تو عقل سے مارے گا.بے وقوف دوست تو اپنی طرف سے بھلائی کر رہا ہو گا وہاں پھینکے گا جہاں سے تمہارے لئے نجات کی کوئی راہ نہیں ملے گی.تو حقیقت یہ ہے کہ عقل نیت سے تعلق نہیں رکھتی ، نیت دل سے تعلق رکھتی ہے اور دوستی اور دشمنی کا تعلق دل سے ہے وہ اس کی آماجگاہ ہے.عقل نہ ہو تو یہ دوستی کسی کام کی نہیں.عقل نہ ہو تو انسان دشمنی بھی نہیں کر سکتا.دشمنی بھی بھونڈے طریق پر کرے گا اور بعض دفعہ وہ دشمنی اپنے اوپر الٹ پڑے گی.تو جمیع لطائف جس کا انسان کی ذات سے تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات طاہر جلد 15 168 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء والسلام فرماتے ہیں وہ عقل کے چشمے سے پھوٹتے ہیں.پس اپنی عقلوں کو صیقل کر اور نہ تمھیں کچھ سمجھ نہیں آئے گی کہ نور ہے کیا؟ کیا پاؤ گے، کیسے سمجھو گے، جب تک عقل سلیم اور وہ ایک چمکتی ہوئی معقل جس کو ایک تیل سے تشبیہہ دی گئی ہے جب تک وہ تمہیں میسر نہیں آئے گی.پھر فرماتے ہیں.پھر ان تمام نوروں پر ایک نور آسمانی جو وحی ہے.نازل ہونا بیان فرمایا.یہ نو روحی ہے.“ یہ کمل تصویر بنتی ہے.دل ہو تو ایسا ہو ، عقل ہو تو ایسی ہو پھر اس پر وہ آسمان سے وحی کا نور اترے، پھر وہ شخص ہے جو دعوت الی اللہ کا مستحق بنتا ہے.تو نو روحی نے اذن کا کام کیا ہے.نور وحی کے بغیر اذن ہے ہی نہیں.نور وحی کے بغیر کسی کو اس کے پیچھے چلنے کی ہدایت بھی موجود نہیں ہے.فرمایا: فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُّوحِي ( الحجر : 30) - میں آدم کو ٹھیک ٹھاک کرلوں گا یعنی اس کو عقل بخش دوں ، اس کا توازن پیدا کر دوں، اس کی صفات حسنہ کو متوازن بنا دوں پھر بھی تم نے اس کی پیروی نہیں کرنی.وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ روحی جب میرا اذن اس پر اترے، شعلہ امر نازل ہو تب وہ اس لائق ہو گا کہ تم نے اس کی پیروی کرنی ہے تب وہ داعی الی اللہ کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر سب دنیا کو اس نور کی طرف بلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے.فرماتے ہیں.”...یہی حقانی اصول ہے جو وحی کے بارے میں قد وسِ قدیم کی طرف سے قانون قدیم ہے اور اس کی ذات پاک کے مناسب.پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب و نور عقل کسی انسان میں کامل در جے پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نو روحی ہرگز نہیں پاتا جب تک یہ دونوں نور کامل نہ ہوں یعنی اس کے اندر ظرف کے مطابق کامل سے مراد ہر شخص کا اپنا ظرف ہے اس کو بھی دیکھنا ہوگا.تو مراد یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کو ایک ہی جیسا نو روحی عطا ہوتا ہے.فرمایا اس کی ذات میں جو کچھ بھی صلاحیتیں ہیں جب وہ درجہ کمال کو پہنچ جائیں تب ان پر یہ شرط ہے کہ ان کے درجہ کمال پر پہنچنے کے بعد نور وحی نازل ہوگا اور نہ ہرگز نہیں.ایسا نو ر اس کو عطا نہیں ہوتا جو
خطبات طاہر جلد 15 ان صفات کو کمال تک نہ پہنچائے.169 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء اور پہلے اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کمال عقل اور کمال نورانیت قلب صرف بعض افراد بشریہ میں ہوتا ہے کل میں نہیں ہوتا.اب ان دونوں ثبوتوں کے ملانے سے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ وحی اور رسالت فقط بعض افراد کاملہ کوملتی ہے نہ ہر یک فرد بشر کو ( براہین احمدیہ حصہ سوم ، روحانی خزائن جلد نمبر 1، صفحات 191 تا198) پس وحی اور رسالت کے مرتبے پر کھڑا کرنا کہ میرے اذن کے ساتھ آگے پیغام پہنچاؤ یہ ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتا صرف انبیاء کا ملہ کو نصیب ہوتا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم پھر دعوت الی اللہ کیسے کریں.نہ ہماری عقل میںقل ہو، نہ درجہ کمال تک پہنچے.نہ دل اتنا صاف اور پاک ہو کہ ہر دوسرے میلان سے بچا ہوا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اور کسی کو یہ وحی کا درجہ نصیب ہی نہیں ہوتا.تو ان اندھیروں میں ہم کس کی طرف بلائیں گے.جو بے نور جھولیوں میں اندھیرے لئے پھرتے ہوں ان کو حق کیا ہے؟ ان کو تو اذن بھی نہیں ملا ، پھر یہ وہ الجھن ہے جسے میں دور کرنے کی خاطر اب اس اقتباس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھ کے سناتا ہوں.فرماتے ہیں.پس گنا ہوں سے بچنے کے لئے اس نور کی تلاش میں لگنا چاہئے جو یقین کی کتار فوجوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہوتا اور ہمت بخشا اور قوت بخشا اور تمام شبہات کی غلاظتوں کو دھودیتا“ فرمایا تم سراج منیر تو نہیں بن سکتے مگر سراج منیر کا فیض تو پاسکتے ہو اور جب تک وہ فیض نہیں پاؤ گے تمہارے اندر یقین پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور غلاظتیں صاف نہیں ہوسکتیں.سب سے اچھا ذریعہ Disinfect کرنے کا سورج کی روشنی کے سامنے ڈال دینا ہے.جیسے اعلیٰ پائے پر سورج کی روشنی Disinfect کرتی ہے یعنی جراثیم کی آلودگیوں سے پاک کرتی ہے ویسی کوئی اور چیز نہیں ہے.اب دیکھ لیں کب سے کائنات وجود میں آئی ہے کب سے دنیا اپنی ان کیمیاوی ترقیات کے بعد اور حیات کی نشو ونما کے بعد غلاظتوں میں ملوث ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ جہاں ایک طرف کسی غذا کا فیض پانا
خطبات طاہر جلد 15 170 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء ہو وہاں دوسری طرف اس غذا کی گندگی اور بد بودار صورت کا جسم سے نکالنا بھی ایک لازمی امر ہے.بیکٹیریا بھی کھاتے ہیں اور بیکٹیریا بھی اپنے فضلوں کو باہر پھینکتے ہیں.تو اگر یہ سلسلہ جاری ہے کروڑ ہا سال سے تو یہ ساری دنیا غلاظتوں سے بھی بھر جاتی یہاں تک کہ بیکٹیریا کے لئے بھی سانس لینے کی جگہ باقی نہ بچتی.وہ کونسی طاقت ہے جو اس سارے نظام کو از سر نو صحت بخشتی ہے ہر غلاظت کو دور کرتی ہے اور اس کی جگہ پاکیزگی پیدا کرتی ہے.یہ نظام شمسی ہے.سورج روز آتا ہے اور ساری رات کے گند دھو کر پھر دوسرے دن چلا جاتا ہے اور پھر دوبارہ آتا ہے اور پھر وہ اس کی صفائی کرتا ہے.آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ سورج کی صفائی کا نظام کتنا وسیع ہے.کیسی کیسی شعاعیں اس میں موجود ہیں وہ کس کس چیز پر کیا اثر ڈالتی ہیں.مگر یہ امر واقعہ ہے کہ اگر سورج نہ نکلتا تو ساری دنیا گندگی سے بھر جاتی.پس آنحضرت ﷺ کو سراج منیر جو فرمایا گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم پر لازم ہے کہ شبہات کی غلاظتوں کو دھوؤ اور وہ بھی ممکن ہے کہ روشنی کے سامنے نکلو اس سراج منیر سے فیض پاؤ جسے خدا نے تمہیں پاک صاف کرنے کے لئے بنایا ہے وہ کیا کرتا ہے.آسمان سے نازل ہوتا ہے اور ہمت بخشتا ہے اور قوت بخشتا ہے اور تمام شبہات کی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے اور دل کو صاف کرتا اور خدا کی ہمسائیگی میں انسان کا گھر بنا دیتا ہے.پس افسوس ان لوگوں پر کہ بچوں کی طرح گردو غبار میں کھیلتے اور کوئلوں پر لیٹتے ہیں اور پھر آرزو کرتے ہیں کہ ہمارے کپڑے سفید رہیں اور حقیقی نور کو تلاش نہیں کرتے اور پھر چاہتے ہیں کہ ظلمت سے نجات پاویں.“ پس ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں دنیا کو ظلمت سے نجات بخشنے سے پہلے اس الہی نور سے تعلق باندھنا ہے جس کو سراج منیر فرمایا گیا اور وہ اذن الہی سے چپکا ہے.اس سے اذن پائیں گے تو ہم بھی اذن کے مقام پر کھڑے ہوں گے.اگر اس سے اذان نہیں پائیں گے تو ہم بھی اذن کے مقام پر کھڑے نہیں ہوں گے.اذن کا مقام دو طرفہ مقام ہے.ایک طرف سے انسان اذن پاتا ہے اور دوسری طرف اذن جاری کرتا ہے اور آدم کو جو سجدے کی تعلیم دی گئی وہ یہی مضمون ہے جو بیان ہوا ہے کہ جب ہم نے اسے اذن دیا تو اسے صاحب اذن بھی بنا دیا اور پھر تمھیں مجبور کیا گیا کہ اس کو سجدہ کرو، اس کی اطاعت کرو اور یہ سجدہ بعض دفعہ طوعی ہوتا ہے، بعض دفعہ جبری ہوتا ہے طـوعــأو كرهاً
خطبات طاہر جلد 15 جیسا کہ فرمایا ہے.171 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء اور یہ امر واقعہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کے نور سے باشعور طور پر، آنکھیں کھول کر تعلق باندھتے ہیں اور اپنے اندر اس کی گرمی محسوس کرتے ہیں ان کی باتوں میں ایک ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ سنتے ہیں اور مانتے ہیں اور بعض دفعہ بڑے بڑے سرکش بھی اپنی گردنیں ان کی آواز کے سامنے جھکانے پر مجبور ہو جاتے ہیں.حالانکہ وہی دلائل جب کوئی دوسرا شخص دیتا ہے تو ان کے دل پر کوئی اثر نہیں کرتے پس یہ نور کی صفت ہے اور اس نور کی صفت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اذن کے مقام پر فائز فرمایا ہے اور وہ سب سے اعلیٰ درجے کا نور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا نور ہے جو سراجاً منیر ابن کے چمکا.پس آج اگر کسی احمدی نے دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنا ہے تو اس نور سے فیضیاب ہوئے بغیر وہ ہرگز اس حق کو ادا نہیں کر سکتا.وہ نور ہے جو اپنے دلوں میں سمانا پڑے گا.اس کی کچھ روشنی اپنے اخلاق میں ڈال کر اپنے اخلاق کو جگمگانا پڑے گا.جتنی جتنی روشنی تم پاؤ گے اتنا ہی تم صاحب نور ہوتے چلے جاؤ گے اتنا ہی تم خدا کی طرف بلانے کے حق دار بنتے چلے جاؤ گے ورنہ تمہیں یہ حق نصیب نہیں ہوگا.فرماتے ہیں در حقیقی نور کیا ہے؟ وہ جو تسلی بخش نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اترتا اور دلوں کو سکینت اور اطمینان بخشتا ہے“.پس ایک طرف فرمایا کہ وحی صرف ان کے لئے ہے جن کو انبیاء کا مقام عطا کیا گیا ہے، زمرہ انبیاء کہا جاتا ہے.دوسری طرف تعلق باللہ کی نفی نہیں فرمائی گئی ، الہام کی نفی نہیں فرمائی گئی ، اس وحی کی نفی نہیں فرمائی گئی جو وحی نبوت سے علاوہ ہے.پس بالکل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ باقی سب بالکل کورے اور بے فیض ہی رہیں گے.نور سے آپ کا تعلق باندھنا ضروری ہے کیونکہ وحی مقام نور پر اترتی ہے خواہ وہ غیر نبی کی وحی بھی ہو وہ بھی مقام نور چاہتی ہے.پس محمد رسول اللہ ﷺ کے نور سے فیضیاب ہونے کا صل الله صلى الله مطلب یہ نہیں کہ یہی آخری مقام ہے، آخری مقام کی طرف یہ تعلق یا لے کر جائے گا.ان حضرت تمایل یا علی سے تعلق آپ کو اس مرتبے تک پہنچا دیتا ہے جہاں خدا کی تو جہات اترتی ہیں جہاں خدا کا پیار نازل ہوتا ہے اور یہ تو جہات اور یہ پیار انبیاء کے لئے خاص نہیں بلکہ ہر انسان کو عطا ہوتی ہیں.جو تسلی بخش نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اتر تا اور دلوں کو سکینت
خطبات طاہر جلد 15 172 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء اور اطمینان بخشتا ہے.اس نور کی ہر ایک نجات کے خواہش مند کوضرورت ہے.“ فرمایا کوئی بھی نجات کا خواہش مند ایسا نہیں جو اس نور کے بغیر گزارہ کر سکے اور یہ نور ہر ایک کو عطا ہوسکتا ہے مگر اس دور میں وساطت حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے بغیر نہیں عطا ہو سکتا.کیونکہ جس کو شبہات سے نجات نہیں اس کو عذاب سے بھی نجات دو نہیں.جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت میں بھی تاریکی میں گرے گا.خدا کا قول ہے کہ مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ آغمی (بنی اسرائیل:73).یعنی اس کا مطلب ہے جو کوئی بھی اس دنیا کی زندگی میں اندھا ہوگا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھایا جائے گا.اور خدا نے اپنی کتاب میں بہت جگہ اشارہ فرمایا ہے کہ میں اپنے ڈھونڈنے والوں کے دل نشانوں سے منور کروں گا.“ پس وحی اگر انبیاء کے لئے مخصوص ہے تو وحی و رسالت ہے جس کی بات حضرت مسیح موعود فرمارہے ہیں.دوسری وحی کی بہت سی اقسام ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہم سب کو نصیب ہو سکتی ہیں بلکہ ہوتی ہیں اور اپنے ساتھ نشانات لے کر آتی ہیں اور ان کے بغیر ہمیں نور کو آگے پہنچانے کا حق ہی نہیں ملتا اذن ہی نصیب نہیں ہوتا.تو بغیر اذن کے تبلیغ کرو گے تو اندھیروں سے اندھیروں کی طرف ہی بلاؤ گے کوئی بھی اس کا فائدہ نہیں ہے اور تمہاری تبلیغ میں برکت بھی کوئی نہیں ہوگی.جو لوگ پیدا ہوں گے وہ ویسے ہی اندھیرے ہوں گے جیسے پہلے تھے.پس وہ لوگ جو تعداد کی خاطر تبلیغ کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے دنیا کو کوئی بھی فیض نہیں پہنچایا.جیسے سیاہ بخت پہلے تھے وہ لوگ ویسے ہی سیاہ بخت بعد میں رہے، نام بدل گئے.کسی کو آپ نے غیر احمدی مسلمان سے احمدی مسلمان کہہ دیا کسی کو عیسائی سے مسلمان بنا دیا، کسی کو بت پرست سے اسلام کے دائرے میں لے آئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں ان کو کوئی ایسی روشنی نصیب ہوئی ہے جو پہلے نہیں تھی.اگر ہوئی ہے اور وہ وہ روشنی ہے جو آپ نے فیضان محمد ﷺ سے پائی تھی یہ تو پھر ان کو زندہ کرنے کے سامان پیدا کر دیئے.پھر وہ نورجیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے.اس میں پھر
خطبات طاہر جلد 15 173 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء طاقت ہے کہ آگے نشو و نما پائے مگر اس کا پہلا بیج بویا جانا لازم ہے اس کے بغیر از خود کوئی شخص اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر نہیں کر سکتا.پھر فرماتے ہیں.”یہاں تک کہ وہ خدا کو دیکھیں گے، يعنى فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ آغمی کی تشریح میں فرماتے ہیں: اور خدا نے اپنی کتاب میں بہت جگہ اشارہ فرمایا ہے کہ میں اپنے ڈھونڈنے والوں کے دل نشانوں سے منور کروں گا.“ یہاں انبیاء کی کوئی شرط نہیں ہے.”یہاں تک کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اور میں اپنی عظمت انہیں دکھلا دوں گا یہاں تک کہ سب عظمتیں ان کی نگاہ میں بیچ ہو جائیں گی ی بھی ایک بہت اہم نکتہ ہے جس کا دعوت الی اللہ سے تعلق ہے وہ یہ ہے جن کی نظر میں خدا کے سوا اور عظمتیں ہیں ان کو وہ جرات اور وہ سر بلندی نصیب ہی نہیں ہوتی جو خدا کی طرف سے نمائندہ بن کر کلام کرنے والے کو ہوتی ہے.کئی بار میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ کی مثال دے چکا ہوں جن کا اسی مسجد فضل سے تعلق تھا جن کی ابتدائی کوششوں کے نتیجے میں یہ جگہ خریدی گئی ہے.حضرت مصلح موعود یہ جاننے کے باوجود کہ آپ کو اپنے کپڑوں کی ہوش نہیں ، جوتوں کی ہوش نہیں اور اپنی چیزیں جگہ جگہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں جب گورنر وغیرہ یا بڑی بڑی دنیاوی شخصیتوں کو کوئی پیغام دینا ہوتا تو چوہدری فتح محمد صاحب کو ہی بھجوایا کرتے تھے بلکہ بسا اوقات آپ کو بھجوایا ایک معین پیغام دے کر.اب کسی نے یہ دیکھا کہ چوہدری صاحب تو بالکل سادہ سے آدمی ہیں بعض دفعہ جاتے ہیں تو اپنے بچے کی چھوٹی شلوار پہن کر باہر نکل جاتے ہیں جو گھٹنے تک رہتی ہے صرف اور کوئی ہوش نہیں کہ میں نے کیا پہنا ہوا ہے یہ جب گورنر سے ملتے ہوں گے جاکے، تو پتا نہیں ان کے دل کا کیا حال ہوتا ہو گا، کس طرح یہ کانپتے ہوں گے اس کے سامنے ، تو اس نے سوال کیا کہ آپ جاتے ہیں تو آپ کو کیا لگتا ہے بتا ئیں تو سہی.تو انہوں نے کہا لگتا کیا ہے.مجھے لگتا ہے کہ میرے سامنے پنجابی میں کہا ”کوئی چڑی دا بوٹ پیا ہوئے کہتے ہیں میں خدا کا نمائندہ ، وہ دنیا کا نمائندہ مجھے کیا لگنا ہے اس کے سوا جیسے
خطبات طاہر جلد 15 174 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء سامنے چڑی کا بوٹ یعنی وہ بچہ جو بھی انڈے سے نکلا ہے جس کے پر و بال نہیں نکلے، مرغی کا بچہ نہیں فرمایا جو بڑا خوبصورت دکھائی دیتا ہے کیونکہ جتنا بے چارہ بے اختیار بچہ چڑی کا بوٹ ہے ویسا کوئی بچہ بے اختیار نہیں ہوتا.نہ بال، نہ شکل نہ صورت، وہ کچے گوشت کی بوٹ سی پڑی ہوتی ہے نہ کھا سکتا ہے نہ مدد کے بغیر ایک دن بھی زندہ رہ سکتا ہے.گرمی بھی ماں سے پاتا ہے تو گرمی ملتی ہے ورنہ اس کی ذات میں کوئی گرمی بھی نہیں ہوتی حقیقت میں فرمایا مجھے تو لگتا ہے کہ میرے سامنے چڑی کا بوٹ بیٹھا ہوا ہے تو یہ ہے وہ نور کی عظمت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے عطا کی جاتی ہے.فرماتے ہیں خدا کہتا ہے کہ میں اپنی عظمت انہیں دکھلا دوں گا یہاں تک عظمتیں ان کی نگاہ میں بیچ ہو جائیں گی.یہ مرتبہ اور مقام ہے داعی الی اللہ کا کہ ہر دوسری عظمت بیچ ہو چکی ہو اور جو عظمت اس طرح جلوہ گر ہو کہ اس کے سامنے ہر عظمت بیچ ہو جائے اس کی طرف بلانے کا آپ کو حق بھی ہے اور آپ کو طاقت بھی ہے اور آپ کی آواز میں دیکھیں کیسی شوکت پیدا ہو جائے گی.یہی باتیں ہیں جو میں نے براہ راست خدا کے مکالمات سے بھی سنیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں.دوا پس میری روح بول اٹھی کہ خدا تک پہنچنے کی یہی راہ ہے اور گناہ پر غالب آنے کا یہی طریق ہے.حقیقت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت پر قدم ماریں فرضی تجویز میں اور خیالی منصوبے ہمیں کام نہیں دے سکتے.ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہے.ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے اور ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں“ یہ ہے بصیرت کی راہ جو داعی الی اللہ کے لئے ضروری ہے، فرماتے ہیں.”ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلماتی پردے اٹھ جاتے
خطبات طاہر جلد 15 175 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء ہیں اور غیر اللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے.یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی پیچلی سے 66 (کتاب البرية مع آيات رب البريه ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 65،64) یعنی اپنی کینچلی کو جب سانپ چھوڑتا ہے تو پھر کبھی اس کی طرف نہیں لوٹتا.بظاہر سانپ کی مثال تو بڑی بھیانک سی مثال ہے لیکن زندگی کی مثالوں میں اس سے بہتر مثال نہیں دی جاسکتی کہ کوئی ایسی حالت سے اس طرح باہر آجائے کہ دوبارہ پھر کبھی اس طرف لوٹنے کا خیال بھی نہ کرے بے کار وجود کے طور پر پہلے وجود کو ختم کر دے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نور کی طرف بلاتے ہوئے اس کی کامل مثال آنحضرت ﷺ کی صورت میں پیش فرماتے ہیں ؛ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.“ اب یہ جو اقتباس ہے یہ ہمارے جلسوں میں بسا اوقات اس لئے پیش کیا جاتا ہے کہ بہت پر شوکت کلام ہے اور فصاحت و بلاغت کے آسمان پر ایسا بلند اور ارفع چمک رہا ہے کہ حیرت کے ساتھ نظریں اٹھتی ہیں کہ کسی قلم میں یہ طاقت ہو کہ ایسا عظیم بیان کر سکے لیکن اسی ظاہری چمک میں ہی لوگوں کی آنکھیں الجھی رہتی ہیں آواز کی شوکت اور اس کے حسن میں ہی کان لگے رہتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ یہ وہ مضامین ہیں جن میں ڈوبے بغیر آپ کو ان مضامین سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.محض یہ دعوی کر دینا کہ فلاں میں تھا فلاں میں نہیں تھا.ایسے دعوے تو سب مذہب والے کرتے ہی رہتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں ادنی درجہ بھی مبالغے کا وجود نہیں.جب آپ فرماتے ہیں تو سچ فرماتے ہیں اور حقیقت پر نظر رکھ کے جیسے سامنے دیوار پر لکھا ہوا دیکھ رہے ہوں اور اسے پڑھ رہے ہوں اس طرح آپ کے سامنے عرفان کے مضمون بیان فرماتے ہیں.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا...“ اب ملائک میں کون سا نور ہے جو نہیں تھا.وہ نور سے پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس مضمون کو کھولا اور آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا
خطبات طاہر جلد 15 176 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء ہے جب کہ شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک اس حدیث کی رسائی نہیں تھی.نعوذ باللہ من ذالک.آپ سمجھتے تھے کہ ملائکہ نور سے پیدا ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ عبارت سو فیصدی درست ہے اس میں ادنی بھی شبہ کی گنجائش نہیں.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا وہ ملائک کو نہیں ملا اور وہ اعلیٰ درجہ کا نور اعلیٰ تھا.اس کا ثبوت خود حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے معراج نے ہمارے سامنے پیش کر دیا.ملائک میں سے اعلیٰ فرشتہ ، سب سے اعلیٰ وجود روح القدس ہے اس سے اونچا فرشتوں کا وجود متصور نہیں ہوسکتا اور معراج کی شب جو عجیب روحانی کشف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو دکھایا گیا ایک ایسے مقام پر آپ پہنچے جہاں جبرائیل کے پروں نے جواب دے دیا یعنی اس کی اڑان کی طاقتیں ختم ہوگئیں.اس نے کہا اس سے آگے میں نہیں جاسکتا، تیرا مقام ہے تو آگے چل.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہر گز کسی بھی زبان کی خوبصورتی کی خاطر کلام نہیں فرماتے.یہ دل کی قوت سے جو نو ر صداقت پھوٹتا ہے وہ ہے جو کلام میں حسن پیدا کر رہا ہے.ادنی بھی اس میں جھوٹ اور مبالغے کا شائبہ نہیں.د یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا اب نجوم کے اندر نور تو ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی لکھ چکے ہیں کہ ہر چیز کا آغاز ہی نور سے ہوا ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ نجوم میں نور نہ ہو.مگر اس نور میں وہ زندگی نہیں وہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کی صلاحیتیں موجود نہیں ہیں جو انسان کو اس کے درجہ کمال تک پہنچانے کی خاطر عطا کیا جاتا ہے.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا“ یعنی یہ نور جو ہیں قمر اور آفتاب کے یہ دنیاوی زندگی تو پیدا کر سکتے ہیں مگر دنیاوی زندگی پیدا کرنے کا جو مقصد ہے وہاں تک نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ مقصد وہی اعلیٰ مضمون ہے ، بالا مضمون ہے.یہ زندگی بے کار ہے اگر بالآخر خدا سے نہ جا ملے.تو اس کے لئے دنیا کا سورج نہیں سِرَاجًا منيرا چاہئے ،اس کا نور اس سے اعلیٰ اور ارفع نور ہے.فرماتے ہیں یہ ظاہری باتوں میں بھی جونور ہے وہ بھی محمد رسول اللہ اللہ کے نور کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور جو چھپے ہوئے نور ہیں خزانوں کی
خطبات طاہر جلد 15 177 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء صورت میں ان کی بھی کوئی حیثیت محمد رسول اللہ اللہ کے نور کے مقابل پر نہیں.فرماتے ہیں: قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمر داور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی و سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں اب انسان سے مراد یہاں رسول اللہ ﷺہ نہیں ہیں، یاد رکھیں.وہ تمام کامل وجود جن کے متعلق فرمایا وہ نور سے مرصع ہوتے ہیں ان پر وحی اترتی ہے یعنی منجملہ انبیاء سب کو آپ کامل بیان فرما رہے ہیں.د یعنی انسان کامل میں.جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ وارفع فرد ہمارے سیڈ یعنی تمام کاملین میں سے سب سے اکمل.تمام انبیاء بلند ہیں مگر بلند تر ان سے.سب سے بڑی شان والے ہیں مگر اس شان کا حامل جیسے محمد رسول اللہ لیے ہیں ان میں اور کوئی نہیں تھا.علی اور ارفع فرد ہمارے سید و مولا سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ پائے ہیں.ے ہیں.سو وہ نو ر اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی پس وہ جو درجہ کمال والے تھے وہ حسب مراتب ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے ہم رنگ قرار و یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر روہی رنگ رکھتے ہیں“ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 161،160) یہاں اُمتِ محمدیہ کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے.اس کا ایک اشارہ سابقہ انبیاء کی طرف بھی ہے اور ایک اشارہ آنے والے امت کے افراد کی طرف بھی ہے جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہوں یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے نور سے آپ منور ہونے شروع ہوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر بھی نور ضرور اترے گا اور آپ بھی اس مقام پر کھڑے ہوں گے کہ ایک طرف سے اذن الہی کے سامنے اپنا سر جھکا رہے ہوں گے اور دوسری طرف اذن الہی تمام دنیا کی گردنیں آپ
خطبات طاہر جلد 15 178 خطبہ جمعہ یکم مارچ 1996ء کے سامنے جھکا دے گا اور آپ کی آواز میں وہ قوت اور شوکت اور عظمت پیدا ہوگی جس کی دنیا کو انکار کی مجال نہیں رہے گی.خدا کرے کہ یہ دعوت الی اللہ کا نور ہماری آوازوں کو روشن کر دے اور ہم تمام دنیا کو محمد رسول اللہ اللہ کے نور سے بھر دیں.اس مقصد کے ساتھ آپ اپنے بقیہ سال کے مہینوں میں محنت کریں.اگر پہلے کوئی اندھیرے تھے، کوئی اور نیتیں تھیں ، کچھ اور نفس کی بڑائی کی تمنا ئیں تھیں تو ان سب کی گردنوں پر چھری پھیر دیں اور پاک اور صاف دل کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 179 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء روشنی سمجھتے ہوئے جواند ھیروں کا سفر ہے وہ سب سے خطر ناک ہے.( خطبه جمعه فرموده 8 / مارچ 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں: وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ بِقِيْعَةِ يَحْسَبُهُ الظَّمْانُ مَاءَ حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدُهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفْهُ حِسَابَهُ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ أَوْ كَظُلُمَةٍ فِي بَحْرِلُ عِى يَخْشُهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَتُ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدُ يَابهَا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَالَهُ مِنْ نُوْرٍ (النور: 41،40) پھر فرمایا: سورۃ النور آیت چالیس اور اکیالیس کی میں نے تلاوت کی ہے.اس سے پہلے قرآن کریم اور احادیث نبی ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پیش کر کے نور کے مضمون پر میں نے چند خطبات دیئے تھے.اب نور کا بر عکس ظلمت ہے اور ظلمتیں بھی کئی قسم کی ہیں اور پھر ظالم جسے گناہ گار کہا جاتا ہے یا حد سے بڑھا ہوا گناہ گار ظالم کہلاتا ہے اس کا بھی ظلمت سے تعلق ہے.تو نور تو آتے آتے آئے گا مگر جب ظلمت جاتے جاتے جائے گی اور دونوں بیک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے.اس لئے اس مضمون کو نسبتاً آسان کرنے کے لئے کہ نور کی محبت پیدا ہوئی ، اس کے لئے دل میں ایک تڑپ اٹھی کہ ہم بھی صاحب نور ہو جائیں.یہ تو ہر سننے والے کے دل میں طبعا یہ
خطبات طاہر جلد 15 180 خطبہ جمعہ 8 / مارچ1996ء جذبات اٹھتے ہیں اور اکثر خطوں سے پتا بھی چلتا ہے کہ لوگ اس طرف متوجہ ہور ہے ہیں مگر جو مشکل کام ہے وہ منفی حصے کی صفائی ہے.جب تک پہلے دل کی جڑی بوٹیاں اور وہ گند نہ دور کئے جائیں جو ظلمات کی پیداوار ہیں اس وقت تک فی الحقیقت نور سے محبت ہونے کے باوجود بھی نور وہاں اپنی جگہ نہیں بناتا.عام زمیندارہ تجربے میں یہ ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ بیج بو دینا اور پانی ڈالنا آسان ہے مگر کھیتوں کو جڑی بوٹیوں سے صاف کرنا اور ایسے ذرائع اختیار کرنا کہ بار بار محنت کے ذریعے جڑی بوٹیوں کے آئندہ ہونے کا بھی امکان نہ رہے اور مسلسل ان پر نگاہ رکھنا یہ بیج بو دینے کے مقابل پر بہت زیادہ مشکل کام ہے.اچھے اور برے زمیندار میں یہی ایک فرق ہے.بُرا زمیندار بھی تو بیج ڈالتا ہی ہے اور پانی بھی دیتا ہے مگر بعض دفعہ اس کی کھیتی میں سوائے جھاؤ کے اور گند کے اور کچھ بھی نہیں اگتا اور اکثر جو اس کا پیچ تھا اس کی پرورش کو وہ بوٹیاں کھا جاتی ہیں جن کا اس کھیت سے تعلق کوئی نہیں یا اس کھیت پر حق نہیں بنتا تو نور اور ظلمت کی باہمی جدوجہد میں بھی ایسے ہی مناظر دکھائی دیتے ہیں.ایک طرف یہ مضمون ہے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا یعنی نور آگیا اور ظلمتیں جاتی رہیں اور دوسری طرف یہ بھی مضمون دکھائی دیتا ہے کہ ظلمتوں نے جہاں ایک دفعہ جڑیں پکڑیں وہاں پھیلتے پھیلتے نور کو اس علاقے سے نکال دیا.تو پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ تضاد کیوں ہے اور حقیقت کیا ہے.اگر نور میں غالب آنے کی طاقت ہے تو جب ایک دفعہ آجائے تو پھر کیوں آخر اس نور کو ظلمتیں دھکیل کے باہر کر دیتی ہیں اور یہ جو سوال ہے یہ ایک ازل کا سوال ہے ہمیشہ سے اٹھا ہے تمام دنیا کے فلاسفرز نے اس مضمون کو کسی نہ کسی رنگ میں ضرور چھیڑا ہے کہ ظلمت اور نور کی جنگ کیا چیز ہے.چنانچہ حضرت زرتشت کا مذہب ظلمت اور نور کی لڑائی پر ہی مینی دکھائی دیتا ہے.اگر چہ ہر مذہب میں ظلمت اور نور کی لڑائی ہے کسی نے کسی رنگ میں اس کا ذکر کیا ہے، کسی نے کسی رنگ میں لیکن حضرت زرتشت نے اس کو اس طرح دو متقابل طاقتوں کی طرح کھول کر بیان کیا کہ بعد میں آنے والوں کو یہ دھو کہ ہو گیا کہ نور کا الگ خدا ہے اور ظلمت کا الگ خدا ہے.پس اس پہلو سے یہ مسئلہ سمجھنے والا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ ہم ظلمت سے اگر بچنا چاہتے ہیں تو نور اختیار بھی کر لیتے ہیں پھر بھی بچ نہیں سکتے تو آخر کیا وجہ ہے.یہ مسئلہ حل کرنے کی خاطر میں اب یہ
خطبات طاہر جلد 15 181 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء ظلمتوں کا مضمون آپ کے سامنے کھولوں گا انشاء اللہ اور بتاؤں گا کہ کون کون سی احتیاطوں کی ضرورت ہے تا کہ نور آپ کے اوپر غالب رہے کبھی مغلوب نہ ہو سکے.اس سلسلے میں سب سے پہلے تو میں سورہ نور ہی کی ایک آیت آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ قرآن کریم جو ایک مکمل کتاب ہے جب ایک پہلو پر روشنی ڈالتا ہے تو دوسرے پہلو کو بھی ضرور بیان فرماتا ہے اور اسی سورت میں دونوں مضامین کھول دیتا ہے اور اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں کہ ایک ہی سورت میں ایک مضمون کا ایک پہلو کھولا گیا ہے تو کسی اور جگہ اسی سورت میں اس مضمون کا دوسرا پہلو بھی کھولا گیا ہے اور جو اشتباہات کے احتمالات ہیں ان کو کلی دور کر دیا جاتا ہے.پس ظلمات والی آیت بھی اسی سورۃ نور میں ہی ہے اور بتارہی ہے کہ ظلمات کی قسمیں کتنی ہیں اور کیسے کیسے ظلمات ہیں جن سے تمہیں واسطہ ہوگا.اور سب سے پہلی بات جو حیرت انگیز ہے لیکن غور کرو تو حیرت انگیز نہیں رہتی ظلمت کی ایک قسم وہ ہے جس کا روشنی سے تعلق ہے اور پہلے اسی کا بیان ہوا ہے.جیسے کہ دوسری جگہ قرآن کریم بعض ظلم کی باتیں کرتا ہے مگر وہ حد سے زیادہ روشنی کے معنوں میں کرتا ہے، بے انتہا روشنی ہو تو اس کو بھی ظلم کے تابع شمار فرمایا گیا اور صاحب نور کو ظالم قرار دے دیا گیا.وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب :73 ).نور آسمانی کو کوئی اور مخلوق کوئی اور انسان اٹھا نہیں سکا، مگر دیکھ محمد مصطفی ﷺے انسان کامل آگے بڑھا اور اس نور کو اٹھا لیا.اِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا یہ تو حد سے زیادہ ظلوم والا ہے، ظلموں والا ہے یا ظالم ہے تو ظالم کے مبالغے کا صیغہ ظلوم ہے بہت زیادہ ظلم کرنے والا لیکن وہ تعریف کا کلمہ ہے.پس ایک ہی لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اور بالکل ایک دوسرے سے الٹ معانی بن جاتے ہیں.اب بُلا کا لفظ کوئی بہت ہی ذلیل، گھٹیا، خوفناک چیز ہو تو اس پر یہ ’بلا کا تصور اطلاق پاتا ہے.ہم کہتے ہیں یہ بڑی بلا ہے لیکن بعض دفعہ نہایت ہی اعلیٰ درجے کی چیز ہو تو کہتے ہیں بلا چیز ہے، آج تو بلا کی خوشی پہنچی ، آج تو بلا کا دن چڑھا ہے کہ اتنی خوشیاں اتنی چیزیں اکٹھی ہو گئیں جو ہمیں تر و تازگی بخش رہی ہیں، ہمارے لئے طمانیت کے سامان لائیں.علماء کے متعلق بھی بلا کا لفظ استعمال ہوتا ہے بلا کا عالم ہے.چنانچہ میں نے ایک دفعہ مثال دی تھی کہ حضرت حافظ شاہ جہانپوری صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی تو
خطبات طاہر جلد 15 182 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء اس ملاقات میں کچھ تھوڑے سے بجھے بجھے دکھائی دے رہے تھے اور کسی سوچ میں تھے.وہ مسئلہ یہ نکلا بعد میں کہ مجھ سے پہلے ان سے کوئی مقامی بڑا زمیندار ملنے آیا تھا اور وہ پنجابی کا بہت ماہر ، جو خاص جھنگ کی پنجابی ہے چوٹی کا زبان دان تھا اس نے کچھ دیر حضرت شاہ جہانپوری صاحب کی صحبت میں وقت گزارا اور آپ کی علمی باتیں اور ادبی چٹکلے اور عظیم الشان مضامین ان سے سنے جو ایک علم و عرفان کا بہتا ہوا سمندر تھا تو اتنا متاثر ہوا کہ جاتے ہوئے وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ”بلا بدھی ہوئی اے بلا بدھی ہوئی اے کہ اندر تو ان لوگوں نے بلا باندھی ہوئی ہے اور یوں جھٹکتا جاتا تھا اور حافظ صاحب اس سے مغموم تھے کہ میں نے اتنی اچھی اچھی باتیں کیں مجھے جاتے جاتے بلا کہہ گیا.میں نے کہا حافظ صاحب اس سے بڑا آپ کو Compliment دے ہی نہیں سکتا تھا.یہ تو چوٹی کا کلام ہے کہ بلا بدھی ہوئی ہے.تو حیرت انگیز چیز ہے اس کا اپنے دائرہ علم میں جس طرح اس کو حاصل ہے اس شان کا اور کوئی آدمی نہیں تو دیکھیں لفظ " بلا بھی کبھی کسی معنے میں کبھی کسی معنے میں مگر دونوں جگہ انتہا کے معنوں میں ہے.پس ظلم پر بھی اور انتہا کی نیکیوں پر بھی بولا جاتا ہے.پس اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں ظلمت کا ذکر فر مایا ، دیکھیں کیسی عظیم کتاب ہے، حیرت انگیز پہلو ہے جو بالکل عقل پر ایک عالم حیرت ہی طاری کر دیتی ہے یعنی پہلے روشنی کی مثال سے ظلم کی بات شروع کی.فرمایا ایک وہ ظلم ہے جو روشنی کے سفر کرنے والوں کے مقدر میں ہوتا ہے وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ بِقِيْعَةٍ يَحْسَبُهُ الثَّمَانُ مَآءَ کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کئے ان کے اعمال تو ایسی سراب کی طرح ہیں بِقِیعَةٍ جو ایک ایسے چٹیل میدان میں ہو جہاں دور دور تک پانی دکھائی نہ دے.يَحْسَبُهُ الثَّمَانُ مَآءَ پیاسا اس سراب کو پانی سمجھتا ہے جو روشنی کی تیزی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اگر روشنی نہ ہو تو سراب کا بھی کوئی وجود نہیں.مگر روشنی ہی کا ایک دھو کہ بھی ہے.دیکھنے میں وہ روشنی ایک پانی کا ، ایک زندگی بخش پیغام لے کر آتی ہے مگر حقیقت میں موت کی طرف بلا رہی ہوتی ہے.انہی معنوں میں قرآن کریم فرماتا ہے: كَذلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إلى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمُ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: 109) کہ اس طرح ہم نے ہر امت کو اس کے لئے ان کے اعمال خوبصورت کر کے دکھا دیئے ہیں.کچھ زِيْنَةَ الْحَيُوةِ
خطبات طاہر جلد 15 183 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء الدُّنْيا (الكهف:29) میں محو ہیں اور اسی کے عاشق ہو کر اسی میں کھوئے گئے ہیں کچھ اخروی زینت جسے تقویٰ کی زینت کہا گیا ہے اس کے دلدادہ ہیں اور اسی کی جانب سفر رہتا ہے.مگر زمینیں دونوں ہی زینتیں ہیں مگر کتنا فرق ہے.ایک جگہ زِينَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْیا فرمایا دوسری جگہ تقویٰ کو زینت قرار دیا گیا اور فرمایا اسی زینت کو ہر جگہ لئے پھر و، جہاں سجدہ کرو یہ زینت تمہارے ساتھ ہو.پس انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے پہلے روشنی سے متنبہ فرمایا ہے جو دنیا کی چمک اور اپنی نفس کی تمناؤں کے نتیجے میں تمہیں غلط پیغام پہنچاتی ہے اور اندھا پن جو روشنی کا اندھا پن ہو بہت ہی خطرناک ہے ایسے آدمی کو ہر طرف روشنی ہی روشنی دکھائی دیتی ہے اور وہ کوشش ہی نہیں کرتا کہ اس مصیبت اس اندھیرے سے نکل سکے.پس وہ لوگ جو اندھیروں میں لیٹے ہوئے ہیں ان کا بھی بہت بدتر حال ہے لیکن کم سے کم کوشش تو کرتے ہیں جن کو شعور پیدا ہو جائے جیسا کہ انگلی مثال میں اللہ فرماتا ہے وہ اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر بے بسی کا عالم ہے.یہ اندھیرا جو ہے یہ ایسا ظالمانہ اندھیرا ہے روشنی کا اندھیرا کہ اس میں انسان سمجھتا ہے میں تو دیکھ رہا ہوں مجھے کوئی کیوں رستہ دکھا رہا ہے مجھے تو سب پتا ہے.ایسے آدمی کو آپ حق کا پیغام دیں، نصیحت کریں، جو چاہیں آپ زور آزمالیں وہ آپ کو یہ کہے گا کہ تم کو کیا ہو گیا ہے پاگل ہو گئے ہو ، میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں مجھے ضرورت ہی کوئی نہیں.فرمایا ایسا آدمی جو ہے وہ پھر بے روک ٹوک اپنے بدانجام کی طرف بڑھتا ہے.اس کے رستے میں کوئی نہیں ہے جو اسے روک سکے اور اسے ہدایت دے سکے اور جب وہ آخری انجام کو پہنچتا ہے اس وقت اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں جس زندگی کے پیچھے دوڑ تار ہا ہوں وہ دراصل موت کی پیاس تھی اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی.وہ آگ تھی جو ہر سراب ایک حد سے بڑھے ہوئے پیاسے کے لئے تحفہ پیش کرتا ہے جس کے بعد پانی کی ایک بوند کو ترستے ہوئے مرنا مقدر ہے،اس کے سوا کچھ نصیب نہیں ہوتا.فرمایا: أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ بِقِيْحَةٍ ایسے لوگوں کے اعمال تو ایسے سراب کی طرح ہیں جو دور.دور سے پانی دکھائی دیتا ہے بِقِیعَةٍ ایک چٹیل میدان میں واقع ہے.يَحْسَبُهُ الظُّمُانُ ماء اسے پیاسا جو ہے وہ پانی سمجھتا ہے.اب پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہ بھی ایک بہت اہم مضمون ہے
خطبات طاہر جلد 15 184 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء جس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.جتنی دنیا کی پیاس بڑھے اتنا ہی انسان اپنے نفس کو دھوکا دیتا چلا جاتا ہے اور اگر آپ کو بالکل پیاس نہ ہو پانی ہو تو آپ اس سراب کو دیکھتے بھی ہیں متوجہ نہیں ہوتے اور آپ کا دل بتا تا ہے کہ یہ پانی نہیں ہے محض دھو کہ ہے لیکن وہ جس کی جان نکل رہی ہو پانی کی بوند کے لئے اس کو تو ہر چمکنے والی چیز پانی دکھائی دینے لگتی ہے.تو فرمایا کہ تم دنیا کی طلب میں ایسے اندھے نہ ہو جاؤ ، ایسے پاگل نہ بن جاؤ کہ جہاں کچھ سیرابی کے لئے نہ ہو وہاں بھی تمہیں پانی دکھائی دے اور تم پھر اس کے پیچھے دوڑنے لگو اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا طلبی کی اس سے زیادہ حسین مثال دی جاہی نہیں سکتی.روشنی ہے انسان اس روشنی میں ایک اور چمکتی ہوئی چیز کو دیکھتا ہے اور اس کے پیچھے بگٹٹ دوڑا چلا جاتا ہے اس خیال سے کہ میری پیاس بجھے گی.پس دنیا والے جن بدیوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پیاس بجھے گی ان کی پیاس نہیں بجھا کرتی یہ ایک اور پیغام ہے جو اس آیت میں دیا گیا ہے.ان کی روشنی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور دن بدن جوں جوں موت کے قریب ہوتے ہیں ان کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے اور بالآخر یہ یقین کر کے مرتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا ساری عمر ضائع کر دی.چنانچہ اکثر پیٹے ہوئے سیاستدانوں سے آپ بات کر کے دیکھیں ، یا بڑی بڑی نوکریوں سے اترے ہوئے لوگوں سے ملیں یا ریٹائرڈ جرنیلوں سے بات کریں تو ان سب کی باتوں میں آپ کو یہ بات دکھائی دے گی جی کچھ بھی نہیں ہم نے اتنی خدمتیں کیں آخر کچھ نہ نتیجہ نہ نکلا.کل تک جو پوجتے تھے آج ملتے ہیں تو دیکھتے ہی نہیں اس طرف کئی ایسے جو بڑے بڑے وزیر یا گورنر رہ چکے ہوں جب وہ دوبارہ اترنے کے کچھ عرصے کے بعد سیکرٹریوں کے کمروں میں داخل ہوتے ہیں تو سیکرٹری اس طرح ان پر نظر ڈالتا ہے جیسے کوئی مصیبت داخل ہو گئی اب یہ مانگیں گے کچھ اب تقاضا کریں گے پہلے آتے تھے تو اٹھ کر ملا کرتے تھے.تو زندگی کی پیاس جو خدا کے فیض سے خالی ہو زندگی کی پیاس جو عشق الہی سے عاری ہواس زندگی کی پیاس کا مقصد سوائے سراب کی پیروی کے اور کچھ بھی نہیں ہے اور کبھی بھی طمانیت قلب نہیں بخشتی.انفرادی طور پر بھی یہی اصول کارفرما ہے اور اس میں کوئی استثناء نہیں اور اجتماعی طور پر بھی یہی اصول کارفرما ہے چنانچہ Materialist Society جہاں طرح طرح کی ایجادات کی گئی ہیں عیش وعشرت کے سامان کی ، وہاں پیاس بڑھ رہی ہے لیکن بجھ نہیں رہی اور سوسائٹی کی بڑھتی ہوئی
خطبات طاہر جلد 15 185 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء بے چینی اور خلاء کا احساس اور مزید کی تلاش یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن پر اگر آپ عمومی نظر ڈالیں تو ادنی بھی اس بات میں شک نہیں رہے گا کہ ایسی سوسائٹیاں پھر سراب کے پیچھے دوڑتی چلی جاتی ہیں اور جانتی ہیں کہ ہمارا حال بد سے بدتر ہو رہا ہے ، اب مغربی دنیا میں تو اللہ کے فضل کے ساتھ سچائی کا عصر اکثر مشرقی دنیا سے زیادہ ہے کیونکہ جہاں گناہوں کے بڑھ جانے نے ان کو نقصان پہنچائے وہاں کچھ ضمنی فائدے بھی پہنچائے.یہ بات یعنی منافقت کم ہو گئی اور عام دنیا کے حالات میں اپنی کمزوریاں کھل کر بیان کرنے کے حوصلے ہو گئے اور یہ بات بُرائی تک بھی پہنچاتی ہے اور بعض فائدے بھی رکھتی ہے.بے حیائی کے نقصان تو بہر حال ہیں مگر کچھ فوائد بھی ہیں یہ اپنے امراض کو باہر سب کے سامنے کھول کر اور دکھا کر بتاتے ہیں کہ یہ مرض ہیں یہ بڑھ رہے ہیں، یہ یہ مصیبتیں ہیں.چنانچہ ان کے دانشور جب ان موضوعات پر ٹیلیویژن وغیرہ میں گفتگو کریں تو آپ دیکھیں ہر ایک کے اوپر یہ مایوسی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، جو چاہیں زور لگالیں ہمارے نو جوان ہاتھ سے نکل گئے ہمارا امن اٹھ گیا.دن بدن یہاں چوری، ظلم ، سفا کی بڑھتے چلے جارہے ہیں ،امن وامان قائم کرنے والی طاقتوں میں بھی رفتہ رفتہ فتور آگیا ہے ،ان کے اندر بھی بدیاں داخل ہو رہی ہیں.قانون بناتے ہیں چیزیں روکنے کے لئے وہی قانون ظالموں کو مزید پیسے حاصل کرنے کے ذرائع مہیا کر دیتا ہے.جتنا جرم کے خلاف سختی بڑھے گی اتنا ہی جرم پکڑنے والے ادارے،اگر بددیانت ہوں، ان کی فیسیں بھی ساتھ ساتھ بڑھیں گی ان کی طلب بھی اور اونچی ہوتی چلی جائے گی.تو جو اصل بنیاد ہے جہاں جڑیں قائم ہیں وہاں ہاتھ ڈالے بغیر معاشرے کے اندھیرے دور نہیں ہو سکتے اور یہ آیت ان تمام اندھیروں پر برابر چسپاں ہو رہی ہے جو انسان اپنے آپ کو روشنی میں سمجھ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ میں اپنی عقل سے اپنے لئے کچھ حاصل کر سکتا ہوں اور بظاہر وہ دیکھ رہا ہے اور اس طرح دیکھتا ہے جیسے دوسروں کو دکھائی نہیں دے رہا اس کو زیادہ پتا ہے کہ اس کا مفاد کیا ہے ایسے شخص کی زندگی اکیلی بھی اسی طرف سفر کرتی ہے اور اپنے معاشرے کی مجموعی زندگی بھی اسی رخ پر سفر کرتی ہے جس رخ پر قرآن کریم نے دکھایا ہے.یہاں تک کہ جب وہ آخر پر پہنچتا ہے.وَوَجَدَ اللهَ عِنْدَهُ فَوَقْهُ حِسَابَہ.وہ اللہ کو وہاں دیکھتا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے.اب دیکھیں روشنی کے سفر کا نتیجہ روشنی ہی ہونی چاہئے.کیسے اندرونی آپس میں تعلقات ہیں مضمون کے اور لفظوں کے.یہ نہیں کہا
خطبات طاہر جلد 15 186 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء وہاں خدا کو نہیں دیکھتا.فرماتا ہے دیکھتا تو خدا ہی کو ہے مگر حساب دینے کی غرض سے.اس غرض سے کہ اسے سزا دے.پس لقاء باری تعالیٰ بھی تو دو طرح کی ہے.جانا تو خدا ہی کی طرف ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ ( البقرہ:157 ).ہم اللہ ہی کے ہیں اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اور لازماً اس کی طرف ہی لوٹیں گے مگر کیسے لوٹیں گے.رحمان اور رحیم کے رستے سے یا مغضوب اور ضالین کے رستے سے.اگر مغضوب اور ضالین کے رستے سے لوٹیں گے تو وہ ملاقات بہت بری ملاقات ہوگی مگر یہاں دیکھیں روشنی کا سفر بھی ہے اور روشنی تک پہنچا بھی رہا ہے مگر جیسے وہ روشنی کا تصور جھوٹا تھا ویسے اس روشنی تک پہنچ کر اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور سوائے گناہ کی پاداش کے اور کچھ اس کے حصے میں نہیں آیا.فَوَقْهُ حِسَابَہ اللہ وہاں اسے اس کا حساب دے گا اور پورا پورا حساب دے گا.وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ اور اللہ تعالیٰ بہت تیز حساب کرنے والا ہے.اب تیز حساب اور اس موقع کا آپس میں کیا تعلق ہے.اس سلسلے میں میں پہلے بھی روشنی ڈال چکا ہوں مگر بعض لوگوں کے خیال پھر بھی الجھے رہتے ہیں کیونکہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے خطبے میں پوری تفصیل سے بات کی لیکن ہو سکتا ہے اس میں میں مضمون ٹھیک بیان نہ کر سکا ہوں وہ لوگ جو خطبے میں موجود تھے پھر دوبارہ وہی سوال کرتے ہیں یہ بات نہیں بتائی آپ نے.میں کہتا ہوں بتا تو چکا ہوں اور کس طرح بتاؤں مگر پھر بتا تا ہوں کوشش کرتا ہوں.بعض دفعہ ایک انسان کے خیال بہک جاتے ہیں خطبہ سنتے سنتے اس کو کوئی گھر کی بات یاد آ جاتی ہوگی یا کوئی تجارت کا مسئلہ آگیا اس نے دماغ پر قبضہ کر لیا یا کوئی پروگرام بنانا ہے یا کسی بچے کی بیماری کی پریشانی ہے تو یہ انسان کے ساتھ اندھیرے اور روشنی چلتے رہتے ہیں ساتھ ساتھ کبھی اندھیرا آجاتا ہے تو اس لئے بتانا ضروری ہے اس لئے اس مضمون کو بھی میں دوبارہ سمجھاتا ہوں کہ سَرِيعُ الْحِسَابِ ہونے کے باوجود اتنا لمبا انتظار کہ ایک آدمی کا ہر قدم گناہ کی طرف اٹھ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچتا ہے اس تمام سفر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَرِيعُ الْحِسَابِ کہ میں حساب میں بہت تیز ہوں.سَرِيعُ الْحِسَابِ سے مراد یہاں یہ نہیں ہے کہ جزا د ینے میں تیز ہوں.یہ دو الگ الگ مضمون ہیں.اگر جزا دینے میں تیز کہا جاتا تو پھر وہ آیت کہاں جائے گی جو کہتی ہے میں ڈھیل دیتا تیز ہوں وَأُهْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِينُ (الاعراف:184) میں انہیں ڈھیل دیتا چلا جاتا ہوں
خطبات طاہر جلد 15 187 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء مگر میری پکڑ ہے بہت سخت.تو حساب سے مراد یہ ہے کہ اس کے اس تمام سفر کے قدم قدم کا حساب اسے وہاں پورا دیا جائے گا.تیز حساب سے مراد یہ ہے کہ ایک لمحہ بھی حساب کا ایسا نہیں گزرا جب کہ خدا غافل ہوا ہو اس کے حساب سے.اس پر ایسے حساب کرنے والے مقرر ہیں جولح لمحہ بلکہ اس سے بھی کم عرصے کی اس کی نیتوں کی خرابیاں ، اس کی تمناؤں کے فساد، اس کے اعمال کے جو فتنے پیدا ہوتے ہیں لوگوں کو ضرر پہنچتے ہیں ان سب باتوں کا ایک ایک ضرر کا حساب خدا تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے.پس جو ساتھ ساتھ حساب کرتار ہے اس سے زیادہ سَرِيعُ الْحِسَابِ اور کیا ہو سکتا ہے.حساب میں اگر تاخیر ہو جائے تو بعض دوسری چیزیں رہ جایا کرتی ہیں.اللہ کی یادداشت سے تو کچھ نہیں رہ سکتا.مگر یہ ایک بہت ہی حسین انداز ہے خدا کے حساب کے متعلق اطمینان دلانے کا کہ اس نے چھوڑا کچھ بھی نہیں کیونکہ جو ساتھ ساتھ حساب کر رہا ہے اس سے کچھ نہیں چھٹا کرتا.جو کہتا ہے کل کر لیں گے ، پرسوں کر لیں گے اس سے کئی چیزیں رہ جایا کرتی ہیں.تو فرمایا جو حساب دے گا وہ یقیناً پورا ہو گا اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی کیونکہ وہ ساتھ ساتھ حساب کر رہا تھا ایک لمحہ کی تاخیر نہیں ہوئی.پس ایسے حساب کرنے والے سے ڈرو جب وہ پورا حساب دے گا تو تمہارے گناہوں کی تمام تر پاداش تمہیں مل جائے گی.یہ وہ اندھیروں کا سفر ہے جو روشنی کے نام پر کیا جا رہا ہے اور دنیا کی بھاری اکثریت جس روشنی میں سفر کر رہی ہے وہ یہ خوفناک اندھیرا ہے اور پہلے اس لئے رکھا کہ اس اندھیرے کا شعور تک بیدار نہیں ہوتا.روشنی سمجھ رہا ہے انسان ، ساری عمر روشنی سمجھتا رہے گا کوئی کہنے والا بتائے گا آواز بھی دے گا تو کہے گا تم پاگل ہو گئے ہو مجھے پتا ہے میں کیا کر رہا ہوں وہ دیکھو سامنے پانی ہے اور پاگل کو جب یقین ہو جائے کہ میں جس طرف جارہا ہوں وہ ٹھیک ہے تو وہ پھر کسی کی بات سنتا ہی نہیں اس کو لاکھ سمجھائیں کہ تمہیں سمجھ نہیں آ رہی یہ نقصان دہ ہے، کہے گا جاؤ جاؤا پنا رستہ لو بڑے آئے ہو میرے ہمدرد مجھے تم سے زیادہ پتا ہے.بالکل ٹھیک ہے میرے لئے.ایسے کئی لوگ ہیں جو پھر بات نہیں مانتے جب وہ نقصان اٹھا لیتے ہیں پھر واپس آتے ہیں اس وقت دل کی شرم ہے جو روک ڈال دیتی ہے کہ ان کو کیا کہا جائے کہ کل تک تو تم ضد کر رہے تھے کہ اچھی چیز ہے اب آگئے ہو کہ نقصان پہنچ گیا.یہ بھی ایک طبعی بات ہے اور انسان کو مناسب نہیں ہے کہ بے وجہ کسی کو اس کی غلطی یاد دلا کے اس کو رگڑے اور تکلیف پہنچائے کہ دیکھا تم کل تک کیا کہہ رہے تھے اب تمہیں پتا لگ
خطبات طاہر جلد 15 188 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء گیا.بعض دفعہ آئندہ کے لئے بچانے کی خاطر نصیحتاً یہ بات کہنی پڑتی ہے مگر اس کے اندر کسی قسم کی تعلی نہیں ہونی چاہئے ورنہ کہنے والے کو نقصان پہنچ جائے گا ورنہ یہ مضمون تو شاعری میں عشق و عاشقی میں برابر چلتا ہے جہاں زیادہ پیار ہو وہاں کم طعنہ دیا جاتا ہے جتنا پیار بڑھے گا اتنا ہی طعن کی طرف طبیعت کم مائل ہوگی.غالب کہتا ہے.گئے وہ دن کہ نادانستہ، غیروں کی وفاداری کیا کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے ے بس اب بگڑے پر کیا شرمندگی، جانے دوہل جاؤ قسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں، کیوں ہم نہ کہتے تھے کہتا ہے گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری.اب دیکھیں یاد دلانے میں بھی کتنی احتیاط برتی ہے غالب نے ذہین شاعر تھا اور فطرت کے باریک امور پر نظر تھی (دیوان غالب : 391) کہتا ہے جب تم کیا کرتے تھے ہمیں پتا ہے نا دانستہ کرتے تھے.بھولے آدمی تمہیں پتا ہی نہیں تھا کہ غیر دشمن ہیں " کیا کرتے تھے تم تقریر بڑا اچھا آدمی ہے تم کیا روک رہے ہو مجھے کہتا ہے ہم خاموش رہا کرتے سنا کرتے تھے کہ ہاں ہوگا.بس اب بگڑے پر کیا شرمندگی اب جب اس سے بگڑ گئی ہے تمہارے اوپر اس کا اصل حال کھل گیا ہے تو شرمندگی کی کوئی ضرورت نہیں ہم سے ہے قسم لے لو اگر جو یہ بھی کہیں ” کیا ہم نہ کہتے تھے، کبھی یہ بھی کہہ کے تمہیں جتائیں کہ ہم نے کہا نہیں تھا.اب یہ غالب کے اندر بھی ایک کمال ہے فصاحت کا پہلے جب یہ جو کہہ دیا کہ ہم خاموش رہتے تھے تو پھر قسم بھی کھا سکتا ہے کہ ہم نہ کہتے تھے ہم نہیں کہیں گے.کہا ہی نہیں مگر خاموشی بھی تو زبان رکھتی ہے.مراد یہ نہیں ہے کہ ہم نے تم پر ظاہر نہیں ہونے دیا ، مراد یہ ہے کہ تم دیکھ لیتے تھے سمجھنا چاہئے تھا جب ایک آدمی کسی کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہو اور دوسرا ہوں“ بھی نہ کہے تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس کے دل کو لگی نہیں بات.کہتا ہے ہم خاموش رہا کرتے تھے، سنتے تھے یک طرفہ، کیا ضرورت تھی تمہاری مخالفت کرنے کی مگر پیغام پہنچ جاتا تھا اس لئے کہہ تو سکتے ہیں کہ ہم کہتے تھے مگر چونکہ منہ سے نہیں بولے اس لئے قسم کھاتے ہیں کہ اب نہیں کہیں گے، کیوں ہم نہ کہتے تھے.
خطبات طاہر جلد 15 189 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء تو امر واقعہ یہ ہے کہ گناہ گار جس کو آپ روشنیوں کی طرف بلاتے ہیں اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ روشنیاں ہیں تمہیں کیا اس سے.مجھے نظر آرہا ہے.روشنی ہے اس کا کچھ حساب تو ہے جو انجام کا رخدا اسے دیتا ہے.بسا اوقات چھوٹے چھوٹے سفر در پیش ہوتے ہیں زندگی کے اندر اور وہ ہر سفر سراب کی طرح ہوتا ہے اس کا حساب ملتا چلا جاتا ہے اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری موت کے وقت اگر حساب ملا بھی اور آنکھیں کھلیں بھی تو کیا فائدہ.میں جانتا ہوں کہ بسا اوقات ایسے لوگوں کو اپنے زندگی کے چھوٹے سفروں میں قرآن کریم کی اس آیت کی صداقت کا مزہ چکھنے کا موقع مل جاتا ہے.روشنی سمجھتے ہوئے جاتے ہیں دھو کہ کھاتے ہیں پھر واپس آتے ہیں پھر اگلی دفعہ پھر دھو کہ کھاتے ہیں پھر واپس آتے ہیں.اگلی دفعہ پھر دھو کہ کھاتے ہیں تو جو آخری حساب ہے وہ ان لوگوں کے لئے مشکل ہے جو وقتی حسابوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور سَرِيعُ الْحِسَابِ ان معنوں میں بھی ہے کہ ہر منزل پر تمہارے دھو کے کا حساب چکا دیا گیا تھا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج اتنی دیر کے بعد بتایا 66 اب کیا فائدہ جب سارا وقت گزر گیا اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں تو یہ وہی مضمون ہے قارعہ “ والا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم صرف آخری لمحوں میں تمہاری موت کے قریب آکے تمہیں جھنجوڑ کے جگاتے نہیں ہیں بلکہ پہلے بھی جگاتے رہتے ہیں یا تم پر قارعہ اترتی ہے.ایسی بلا اور ایسی آفت یا ایسی تنبیہہ کہ جو تمہارے گھروں کے بڑے زور کے ساتھ دروازے کھٹکھٹاتی ہے اور یا ساتھ کے گھروں کے کھٹکھٹاتی ہے اور تمہیں آواز آرہی ہوتی ہے.تم جانتے ہو کہ ایک بیدار کرنے والی آگئی ہے اس لئے خدا کو یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اب بتایا جب کہ وقت گزر گیا جب کہ کچھ باقی ہی نہیں رہا.فرمایا ہم وہ حساب تو دیں گے مگر اس سے پہلے بھی تو ہم سَرِيعُ الْحِسَابِ تھے اور ان معنوں میں کہ جو جو حساب پہلے ہوتے رہے ان کی جزا بھی تمہیں ملتی رہی ہے.سَرِيعُ الْحِسَابِ یہ دوسرے معنی ہیں جو یہاں اختیار کر لیتا ہے اور ان کی تائید وہی قارعہ والی آیت اور بعض دوسری آیات بتاتی ہیں کہ وقتا فوقتا انسان کو تنبیہات ملتی رہتی ہیں جان لیتا ہے کہ یہ بات غلط تھی مگر پھر جب وہ حرکت اسی طرح جاری رکھتا ہے تو ساری زندگی سرابوں کا سفر بن جاتی ہے اور اس سے بڑی ظلمات اور کیا ہوسکتی ہیں کوئی دکھانے والا دکھائے نظر نہ آئے یہاں تک کہ بالآخر خدا ہی اسے بتائے کہ یہ اندھیرے تھے یہ روشنیاں نہیں تھیں ان سے پناہ کی ضرورت ہے اور ان سے بچنے کی ضرورت ہے اور اس دھوکے سے
خطبات طاہر جلد 15 190 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء بچنے کی صرف ایک راہ ہے کہ انسان انکساری اختیار کرے.جب اسے کوئی بات کہتا ہے مشورہ دیتا ہے سب سے پہلی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ مشورہ دینے والا اپنا کوئی مطلب رکھتا ہے یہ اپنی غرض رکھتا ہے یا اسے کوئی غرض نہیں ہے؟ اگر وہ بے غرض ہے تو پھر اس کی بات نہ سننا تمہاری جہالت ہے.اتفاق کر دیا نہ کرو مگر یہ کہہ کر اس سے بات نہ توڑو کہ ہمیں پتا ہے، ہمیں نظر آ رہا ہے، ہمیں دکھائی دے رہا ہے.آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر روشنیوں کی طرف بلانے والا اور کوئی نہیں تھا، نہ ہے، نہ ہوگا مگر آپ کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ساتھ یہ احتیاط برتی ان دشمنوں کی خاطر فر مایا ان کو کہہ دے تو اپنی ذات کے لئے ان سے کوئی اجر بھی نہیں مانگ رہا ہر گز کسی قسم کا اجر ان سے طلب نہیں کر رہا.إِنْ أَجْرِئَ إِلَّا عَلَى اللهِ (سبا:48) میرا اجر تو خدا کے سوا کسی پر ہے ہی نہیں.اس لئے تم کیوں اتنے بے وقوف ہو کہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے مطلب کی خاطر بات کر رہا ہوں.ایسا نا صح جو اپنی غرض نہ رکھتا ہو یا اپنی غرض کی طلب نہ کرے وہ ناصح اس لائق ہے کہ اس کی بات توجہ سے سنی جائے اور انکسار کی راہ اختیار کرتے ہوئے انسان یہ سوچے کہ ہو سکتا ہے میری غلطی ہو اور دوسرے پہلو سے بھی دیکھ لے اور یہ جو دوسرا پہلو ہے یہ زاویہ بدلنے سے نظر آیا کرتا ہے.ایک زاویئے سے ایک بات دیکھی پھر دوسرے زاویئے سے جاکے دیکھا تو اس کے نتیجے میں وہ آنکھیں جو پہلے اندھی تھیں انہیں دکھائی دینے لگتا ہے.وہ جو پہلے ایک بات کو روشنی دیکھ رہا تھا وہ اسے اندھیرا دیکھنے لگ جاتا ہے.دراصل ایسا انسان تکبر کے اندھیرے میں بھی رہتا ہے ایک اور اندھیرے کا سایہ اس کے اوپر رہتا ہے اور متکبر کے لئے پھر کوئی روشنی کا سامان نہیں.انسان انکسار سے کام لے اور زاویہ بدل کے دیکھے تو اس سے بسا اوقات وہ تکبر کا پردہ اٹھ جاتا ہے اور دوسرا پہلو صاف دکھائی دینے لگتا ہے.(اس موقع پر بعض لوگ لاؤڈ سپیکر سٹم میں خرابی کو درست کرنے والے منتظمین کی طرف دیکھنے لگے اس پر حضور نے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا، مگر اگر آپ وہ پہلو دیکھتے رہیں گے تو یہ پہلو دکھائی نہیں دے گا.اس لئے بعض نظریں جو بے وجہ اس بے غرض تماشے میں لگ گئی ہیں اس سے ان کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا تا ر ہی ہلتی دکھائی دے گی نا.میں آپ کے دلوں کے تار ہلانے کی کوشش کر رہا ہوں) پس ایسا شخص جو تکبر کا اندھیرا رکھتا ہو اس کو اگر آپ روشنی دکھانے کی کوشش بھی کریں گے تو
خطبات طاہر جلد 15 191 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء ہرگز نہیں دیکھ سکے گا ایسا تجربہ بسا اوقات ہوا ہے.بنگلہ دیش میں ایک دفعہ ایک واقعہ گزرا کہ وہاں کے کچھ دینی مدرسے کے طالب علموں نے یہ سوچا کہ احمدیت کو ہم جانتے ہیں جھوٹی ہے لیکن چلو دیکھیں تو سہی ایک بحث کر کے دیکھیں کہ دوسری طرف کے دلائل ہیں کیا ؟ اور اگر ہم طلبہ میں ایسی بحث تیار کر کے پیش کریں تو پھر قادیانیوں کو یا مرزائیوں کو جو بھی وہ کہتے تھے یہ موقع تو نہیں ملے گا کہ بعد میں اپنے دلائل دیں اور ہمارے طلبہ متاثر ہو جائیں مگر کوشش یہ کرنی چاہئے کہ جس طرح قادیانی بات کرتے ہیں ویسی کی جائے.چنانچہ وہ وفد جس نے Debate کا ایک حصہ اپنے لئے اختیار کیا تھا وہ ہمارے مربی صاحب اور امیر وغیرہ کی خدمت میں پہنچ گیا انہوں نے کہا یہ مقصد ہے ہمیں صرف آپ اپنے دلائل بتا ئیں اور یہ سمجھا ئیں کہ آپ کس طرح پیش کرتے ہیں.چنانچہ جب انہوں نے دلائل احمدی نقطہ ء نظر سے دیکھے تو سب کا دل قائل ہو گیا.انہوں نے کہا او ہو یہ تو ہیں ہی بچے.اب مجھے یہ یاد نہیں کہ وہDebate اساتذہ نے پوری ہونے بھی دی تھی کہ نہیں مگر وہ احمدی جو اس میں شامل تھے انہوں نے بتایا کہ ان کا پلڑا اتنا بھاری رہا کہ علماء میں وہاں سراسیمگی پھیل گئی کہ یہ کیا واقعہ ہوگیا ہم تو کچھ اور کرنے نکلے تھے کچھ اور نکل آیا.تو زاویہ بدلنے سے بعض چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور انسان کا فرض ہے کہ تکبر سے کام نہ لے.یہ دیکھ لے کہ ناصح خود غرض ہے اور بدیہی طور پر غلط چیز کی طرف بلا رہا ہے یا ہماری بھلائی کی طرف بلا رہا ہے.اب بدیہی طور پر بعض چیزیں غلط ہوتی ہیں مثلاً ایک آدمی کہتا ہے جھوٹ بولو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں تمہارے فائدے کی چیز ہے.روشنیوں سے جو شخص بظاہر روشنی میں دیکھ رہا ہے اس کو اس وقت یہ نظر ہی نہیں آئے گا کہ جھوٹ سے تو کوئی فائدہ وابستہ ہو ہی نہیں سکتا.صاف دیکھتا ہے کہ ہاں ہے.اگر کوئی دوسرا کوئی اس کو کہے کہ دیکھو جھوٹ نہ بولو تو اسے وہ دھتکارنے کا حق نہیں رکھتا کیونکہ جھوٹ نہ بولنا ایک بدیہی صداقت ہے جس کے خلاف فطرت از خود کوئی آواز نہیں اٹھاتی.اگر کسی کو کہو جھوٹ نہ بولیں تو یہ نہیں کہ سکتا کہ تم بد انسان ہو، گندے ارادے کے ساتھ بات کر رہے ہو.وہ تو یہ کہہ سکتا ہے جاؤ جاؤ اپنا رستہ لو میں زیادہ سمجھدار ہوں مجھے پتا ہے جھوٹ سے فائدہ ہوتا ہے مجھے پتا ہے بعض جگہ جھوٹ بولے بغیر گزارہ ہی کوئی نہیں.اگر ایسے شیطان کی بات انسان مان لے تو بظاہر وہ ایک روشنی کا فیصلہ کر رہا ہے وہ جانتا ہے کہ یہی قاعدہ ہے جھوٹ سے فائدہ ہے مگر
خطبات طاہر جلد 15 192 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء دراصل یہ ایک اور اندھیرے کی طرف قدم ہوگا.پس یہ سراب کی جو مثال قرآن کریم نے پیش کی ہے اس پر آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں اور نئے نئے پہلو اس کے نکلتے آئیں گے.ابھی کچھ عرصہ پہلے یہیں واقعہ ہوا ہے ویسے تو مخلص نوجوان ہے وہ لڑکا لیکن اسے ایک تجربہ کار نے یہ نصیحت کی کہ فلاں انٹرویو کے لئے جارہے ہو یہ بات نہ صحیح بتا دینا.ہر سچ بولنا یہ نہ کہہ دینا ورنہ وہ تمہیں رد کر دیں گے.یہ بات جو کمزوری ہے، پتا لگ گئی تو ضرور رد کر دیں گے.چنانچہ اس بے وقوف نے بجائے اس کے کہ مجھ سے بات کرتا آنکھیں بند کر کے وہ بات مان لی اور ساری باتیں سچی کہیں وہی ایک جھوٹ بولا.اس کی نوکری کی درخواست صرف اس وجہ سے رد ہوئی کہ تم نے وہ جھوٹ بولا ہے اس لئے ہم رد کرتے ہیں.بعد میں بے چارہ سر جھکا کے آیا کہ جی یہ غلطی ہوگئی ہے.میں نے کہا جھوٹ تو ہے ہی غلطی.تمہیں اس گند پہ منہ مارنا ہی نہیں چاہئے تھا.زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ نا کام ہوتے مگر یہ تو خوشی ہوتی کہ شیطان کے ہاتھوں سے نہیں کھا یا خدائے واحد و یگانہ کے ہاتھ سے ملا ہے جو بھی ملا ہے.پس روشنی سمجھتے ہوئے جو اندھیروں کا سفر ہے وہ سب سے خطرناک ہے.ہم جانتے ہیں ہمارے کیا مفادات ہیں ، عدالتوں میں لوگ جھوٹ بولتے ہیں تو اسی روشنی میں جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں.اگر وہ سیاست میں جھوٹ بول رہے ہیں یا دھو کے دے رہے ہیں یا مذ ہب میں جھوٹ بول رہے ہیں یا دھو کے دے رہے ہیں.یہ سارے سفر سراب کے سفر ہیں.ایک مقصد لے کر نکلے ہیں اس پیاس بجھانے کی خاطر ہر ظلم کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حساب نہی تو مکمل ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقتا فوقتا تمہیں اس کے مزے چکھائے جائیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالآخر اگر وہ شخص ایسا ظالم ہو کہ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہو کہ کوئی تنبیہ کام آہی نہیں سکتی کوئی امکان ہی نہیں ہے ضروری نہیں کہ اس کو ضرور پہلے قارعہ ہی نصیب ہو.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کوئی شخص اپنے اندر کیسی تاریکی رکھتا ہے تو ایسے شخص کو پھر مسلسل اسی طرف بڑھنے دیا جاتا ہے جس طرف وہ اپنی ہلاکت کے آخری کنارے کی طرف جارہا ہے.سب سے زیادہ استغفار کا یہ موقع ہے کہ اللہ ہمیں نفس کے ایسے دھوکے سے بچائے کہ جب اندھیرے کو روشنی دیکھنے لگیں اور روشنی کو اندھیرا دیکھنے لگیں.یہ بیماری سب سے خطر ناک اور سب
خطبات طاہر جلد 15 193 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء سے زیادہ لاعلاج ہے.اس کے علاوہ دوسری بیماریاں ہیں جو بیرونی اثرات کے نتیجے میں اندھیرے پیدا کرتی ہیں.ان کے تعلق میں قرآن کریم کی اس سے اگلی آیت روشنی ڈال رہی ہے جہاں تک من شرور انفسنا کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں یہ آیت ان سارے مضامین پر حاوی ہے.ایک شخص کسی اور کا نہ محتاج ہے نہ کچھ، اپناہی نفس اس کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے اور کسی غیر کے دھوکے کا اس میں دخل نہیں ہے.اب یہ دیکھیں مضمون بالکل واضح ہے اس کا سراب کو دیکھنا اس لئے نہیں ہے کہ بادل آئے ہوئے ہیں.اس کا سراب کو دیکھنا اس لئے نہیں ہے کہ اندھیرا ہے رات ہوگئی ہے.رات ہوگئی تو سراب نہیں دکھائی دے گا، بادل آئے ہوں گے تو سراب نہیں دکھائی دے گا.پس روشنی میں اندھیرا یہ بہت خطرناک ظلم ہے اور اس میں غیر کی محتاجی ہی کوئی نہیں کسی باہر سے آنے والے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ آپ کو اشارہ کر کے بتائے دیکھو وہ پانی ہے اور وہ پانی نہ نکلے آپ کا نفس ہی کافی ہے اس دھو کے کے لئے.اگلی جو آیت ہے اس میں بیرونی محرکات کا اور بیرونی پردوں کا ذکر ہے جو ایک انسان پر بعض دفعہ ایک بعض دفعہ دو، بعض دفعہ تین تین اندھیرے ، بعض دفعہ ظلمات کی کئی کئی قسمیں وارد کر دیتے ہیں اور ایسے شخص کا سفر بھی اندھیروں کا رہتا ہے مگر اندھیرا سمجھتے ہوئے دھکے کھاتا پھرتا ہے کہیں اس کو نور کی راہ نہیں ملتی.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اگلی آیت فرماتی ہے.اَو كَظُلُمتِ فِي بَحْرِتُى يَخْشُهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ یا اس کی مثال ایسی ظلمتوں کی سی ہے فِي بَحْرِن جی جو بہت ہی گہرے اور بھر پورسمندر میں واقع ہوتی ہیں.اب یہاں نجی کہنے کی کیا ضرورت تھی.سب سے پہلے تو اس پر غور کریں.سمندر کے اندر جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ یہ ہے فِي بَحْرِلٌ غِى يَغْشَهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابُ ایسے اندھیرے کہ ایک موج کے بعد دوسری موج نے ڈھانپا ہوا ہو اور اس کے اوپر بھی سورج دکھائی نہ دے.سَحَاب دن بھی اندھیرا جہاں سورج کی روشنی کی راہ میں بادل حائل ہو گیا ہو اور پھر موج در موج وہ انسان ہو، اسے اس کے علاوہ نجی سے کیا فرق پڑے گا.سمندر گہرا ہو یا کم گہرا ہو لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سمندر سب سے زیادہ روشنی کو کاٹنے والا ہوتا ہے اور جتنا گہرا ہوتا جائے اتنا اندھیرا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ گہرے سمندروں میں کوئی نور کا اشارہ بھی نشان دکھائی
خطبات طاہر جلد 15 194 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء نہیں دیتا.مکمل اندھیرا اگر ممکن ہے تو باہر کی فضاؤں میں ممکن نہیں ہے.جن کو آپ مکمل اندھیرا سمجھے ہیں اگر تیز حساس فلموں سے اس اندھیرے میں تصویر کھینچیں اور وقت زیادہ دیں تو تصویریں پھر بھی آجاتی ہیں ، میں نے خود بعض ایسے کیمروں سے تصویریں کھینچی ہیں کہ مکمل اندھیرا تھا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا آنکھ سے لیکن ہلکی ہلکی روشنی کہیں سے ستاروں سے کوئی ایسی روشنی پہنچتی ہے جو انسان جس کے ذریعے دیکھ تو نہیں سکتا مگر موجود ہے اور فلم کی حساس سطح اسے قبول کر لیتی ہے.تو تصویر میں جب دھل کے آئیں تو خود فوٹو گرافر جس نے یہ تصویریں صاف کی تھیں حیران رہ گیا جب اس کو بتایا کہ یہ اندھیرے کی تصویر ہے.اس نے کہا یہ تو پھولوں کے رنگ بھی صاف آگئے ہیں.مگر سمندر کی تہہ کا جو اندھیرا ہے اس میں کچھ نہیں ہو سکتا.ناممکن ہے.میں پچپیس گز نیچے سے ہی اندھیرے شروع ہو جاتے ہیں اور گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں جہاں دس ہزارفٹ نیچے تک سطح واقع ہو یا پندرہ یا تمیں ہزارفٹ تک وہاں جائیں تو روشنی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.تو ایک شخص اندھیروں میں سفر کر رہا ہے، اس کے او پر بھی اندھیروں کی تہ اور نیچے بھی اندھیرے ہیں مگر وہ بَحْرِنجِی کے اندھیرے ہیں اس لئے وہاں سے روکنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں.روشنی آسکتی تھی تو اوپر سے آسکتی تھی گہرے سمندر میں نیچے سے روشنی آہی نہیں سکتی.تو اوپر بھی اندھیرا نیچے بھی اندھیرا اور نیچے کا اندھیرا جو خدا سے بے تعلق یعنی آسمان کی بجائے زمین سے اٹھتا ہے یا گہرے سمندر سے پیدا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ خطرناک اندھیرا ہے.فرمایا ایسا شخص إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرهَا اپنا ہاتھ دیکھے تو نہیں دیکھ سکتا، ہاتھ بڑھائے یوں کر کے کہ کہاں ہے تو کچھ دکھائی نہیں دے گا.مگر یہاں ہاتھ کا قصور نہیں ہے ،اس کے نفس کا قصور نہیں ہے اور اس کی آنکھوں کا قصور نہیں ہے کیونکہ لَمْ يَكَدُ يَرَی کا مضمون بتا رہا ہے کہ آنکھوں کا نور باقی ہے مگر غیر اندھیرے چھا گئے ہیں.تو فرمایا اگر تم نے نور پانا ہے تو بیرونی طور پر خود اپنے نفس کے تکبر کے اندھیروں میں بھی تم سفر کر سکتے ہو ، روشنی ہوتے ہوئے بھی تمہیں اندھیرے سے زیادہ اور کچھ فائدہ نہیں پہنچائے گی.ویسا ہی ہے جیسے اندھیرا ہو ، ویسے ہی روشنی ہوگی اور روشنی تمہیں فائدہ دینے کی بجائے وہ نقصان ضرور پہنچا دے گی جواند ھیرا پہنچا سکتا ہے.مگر نفس کی روشنی جو دھو کے والی ہے وہ لازماً پہنچا دے گی.یہ فرق ہے.اگر آپ اندھیرے میں سفر کریں تو کسی سمت غلطی سے منہ اٹھ جائے ہو سکتا ہے وہاں پانی نکل آئے مگر جو نفس کے دھوکے کی روشنی ہے وہ آپ
خطبات طاہر جلد 15 195 خطبہ جمعہ 8 / مارچ 1996ء کولازماً غلط سمت میں لے کے جائے گی اور اندھیرے میں سراب دکھائی دے ہی نہیں سکتا.اگر کچھ نہ دکھائی دے تو کم سے کم چند منٹ چین سے تو انسان بیٹھ سکتا ہے مرے تو وہیں نسبتاً زیادہ آرام کی حالت میں جان دے ورنہ ہر قدم جو سراب کی طرف اٹھاتا ہے اس کی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے.تو سب سے خطرناک وہ اندھیرا ہے جیسا کہ قرآن کی کریم آیات کی ترتیب نے بھی ہمیں سمجھا دیا جو بظا ہر روشنی ہے مگر اپنے نفس کا اندھیرا ہے جس نے ہر روشنی کو بے معنی اور بے حقیقت کر دیا ہے اور اس میں غیر کی مدد کی حاجت نہیں ہے.کوئی شیطان بیرونی ہو یا نہ ہو تمہارا اپنا شیطان بہت کافی ہے.پس اس لئے جو یہ دعا ہے من شرور انفسنا کہ اے اللہ ! ہمیں اپنے نفس کے شرور سے بچا یہ بہت اہم دعا ہے جس کے بغیر ہمارا اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر ممکن نہیں ہے.پس باقی مضمون انشاء اللہ اگلے جمعہ میں شروع کروں گا جو زیادہ تر اس آیت کے دوسرے حصہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن پہلے حصے کا دوسرے حصے سے موازنہ کرنے کی خاطر آپ کو یہ سمجھانے کے لئے کہ پہلا اندھیر انفس کا اندھیرا ہے دراصل اور اس اندھیرے کا سوائے اس کے کوئی علاج نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے ورنہ کان سنیں گے اور سننا نہ چاہیں گے.سنتے بھی ہوں تو سننا نہیں چاہیں گے.آنکھیں دیکھ بھی رہی ہوں آپ دکھا ئیں وہ دیکھنا نہیں چاہیں گی ایسے شخص کا کیا علاج ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس کے دل میں ایک تغیر پیدا فرمادے.اسی لئے آنحضرت میں نے شرور انفسنا کی دعا سکھا کر دیکھیں ہم پر کتنا بڑا احسان فرمایا ہے تاکید فرمائی خطبات میں اس کو ہمیشہ بیان کیا انہی آیات کو پڑھاتا کہ ہم اپنے نفس کے شر سے بچتے رہیں اس سے بڑا اور کوئی شر نہیں جو انسان کے اندر سے پیدا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ اس شر سے بچیں تو پھر ہماری آنکھیں کام کریں اور ہمیں دکھائی دینے لگے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 197 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء ہر اندھیرے کے مقابل ایک نور ہے.جب تک یہ اندھیرے موجودرہیں گے نور داخل نہیں ہوگا ( خطبه جمعه فرموده 15 / مارچ 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ بِقِيْعَةِ يَحْسَبُهُ الظَّلَمَانُ مَاءَ حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدُهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَقْهُ حِسَابَةَ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ أَوْ كَظُلُمةٍ فِي بَحْرِتُحِيْ يَغْشُهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَت بَعْضُهَا في فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْيَريَهَا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُوْرِ (النور: 41،40) پھر فرمایا: یہ جو دو آیات ہیں ان سے متعلق میں نے گزشتہ خطبے میں یہ بیان کیا تھا کہ ان دونوں کا تعلق دراصل اندھیروں ہی سے ہے اگر چہ پہلی آیت میں بظاہر روشنی کا منظر کھینچا گیا ہے.مگر ایسی روشنی جو روشنی کے فائدے سے محروم رکھے بلکہ الٹا اندھیروں والا نقصان پہنچا دے وہ اندھیروں سے بھی بدتر ہے کیونکہ اندھیروں میں تو انسان جانتا ہے کہ میں اندھیرے میں ہوں ،ٹول کر چلتا ہے ، احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے ، کوشش ضرور کرتا ہے کہ اندھیرے کے نقصان سے بچ سکوں مگر جسے روشنی ہی روشنی دکھائی دے رہی ہو اس کا دھو کہ سب سے بڑا دھوکہ ہے.پس قرآن کریم نے پہلی مثال اس روشنی کی دی ہے جو دراصل اندھیروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اس روشنی کی مثال
خطبات طاہر جلد 15 میں کس قسم کے اندھیرے ہیں.198 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء ان دونوں آیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں نفس کے اندھیروں کی طرف زیادہ اشارہ ملتا ہے جو اپنے نفس سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسری آیت میں بیرونی اثرات کے اندھیرے ہیں جو بیرونی عوامل کے نتیجے میں انسان کو نور یا بصیرت سے محروم کر دیتے ہیں.مثلاً بادل ہے وہ نفس سے نہیں اٹھتا باہر کی چیز ہے اس کے نیچے بھی ایک اندھیرا ہوتا ہے.موج ایک بیرونی چیز ہے جو بادل کے نیچے ہو تو اور بھی اس کا اندھیرا گہرا ہو جائے گا.اس کے نیچے ایک اور موج ہو وہ اور بھی زیادہ گہری ہو جائے گی.تو اگلی مثال میں تین اندھیرے جو بیان فرمائے وہ تینوں بیرونی محرکات سے یا وجوہات سے تعلق رکھتے ہیں.پہلا اندھیرا جو ہے وہ نفس سے تعلق رکھتا ہے مگر وہ بھی ایک اندھیرا نہیں ہے اس میں بھی کئی اندھیرے ہیں اور قرآن کریم کی ہر آیت پر کوئی نہ کوئی دوسری آیت روشنی ڈال رہی ہے اور اس طرح آیات کے بھی جوڑے جوڑے ہیں.پس اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ پہلی آیت کی مثال قرآن کریم میں کس آیت میں ملتی ہے تو اس مضمون پر مزید روشنی پڑ جائے گی اور معین ہو جائے گا کہ کون کون سے خطرات نفس سے وابستہ ہیں جو اٹھ کر اندر سے پیدا ہوتے ہیں اور انسان کو اندھیروں میں غرق کر دیتے ہیں اور انسان سمجھتا یہی ہے کہ میں اچھی چیزوں کی پیروی کر رہا ہوں.دیکھ رہا ہوں اور جو دیکھ رہا ہوں وہ میرے فائدے میں ہے اور اس کے باوجود وہ چیز ضرور اس کے نقصان میں ہوتی ہے.یہ مضمون ہے جو اس پہلی آیت میں بیان ہوا ہے.ان لوگوں کی مثال جنہوں نے کفر کیا ایک ایسے سراب کی سی ہے جو ایک بہت بڑے چٹیل میدان میں واقع ہو ،اسے پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب وہ وہاں پہنچتا ہے جہاں سمجھتا تھا کہ پانی ہے اس کی پیاس بجھانے کے لئے کوئی چیز وہاں نہیں ملتی ہاں اس کے گناہوں کی سزا دینے کے لئے خدا وہاں ملتا ہے جو اس کا حساب چکا دیتا ہے.اس سے ملتی جلتی دوسری آیت جس میں ان نفسانی اندھیروں کی تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَزِينَةً وَتَفَاخُرٌ
خطبات طاہر جلد 15 199 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَهُ مُصْفَرَّاثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانُ وَمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (الحدید : 21) یہ پانی کی بجائے یا سراب کی بجائے ایک اور مثال پیش فرمائی گئی مگر دونوں کا نتیجہ بعینہ وہی نکلتا ہے اور آخری خلاصہ یہ ہے.وَمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ دنیا کی زندگی دھو کے کے سوا کچھ نہیں ہے.جس طرح سراب ایک دھوکہ ہے اس میں پیاس بجھانے کی کوئی طاقت نہیں اور زندگی بخشنے کی کوئی طاقت نہیں.اسی طرح دنیا کی زندگی کی اور بھی ایسی چیزیں ہیں جو محض ایک دھوکہ ہیں تم سمجھتے ہو کہ ان میں تمہارے لئے بقاء کے سامان ہیں لذتیں ہیں مگر جب تم ان کو پاتے ہوتو اس سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ بسا اوقات ان کو ایسا ضائع کر دیتا ہے کہ جو کچھ تمہاری محنتیں ہیں سب اکارت جاتی ہیں.جن چیزوں کی تمہیں تلاش تھی وہ وہاں نہیں ملتیں.پس وہی مضمون ہے جو سراب والا مضمون ہے مگر اس میں زیادہ تفصیل سے ان اندھیروں کا ذکر فر ما یا گیا تا کہ انسان ان کو پہچان لے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے.دنیا کی زندگی کی مثال ”جان لو سے شروع ہوتی ہے آیت اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيُوةُ الدُّنْیا جان لو کہ دنیا کی مثال لَعِبٌ وَلَهُو کھیل اور تماشا محض ایک کھیل اور دل بہلاوہ ہے.یہ ایک جوڑا ہے.اصل میں ، ایک ہی مضمون سے تعلق رکھنے والا.وَزِينَةً وَتَفَاخُرُ بَيْنَكُم اور زینت سجنا دھجنا اور پھر اس زینت کو ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے استعمال کرنا تا کہ تم ایک دوسرے پر فخر کر سکو کہ دیکھو ہماری چیز اتنی خوبصورت اور اس کی ایسی بے کار اور مقابل پر بھدی دکھائی دینے والی.یہ دوسری ظلمت ہے جس کا ذکر فرمایا.تیسرا ہے وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ تکاثر کے نیچے دو باتیں ہیں جو ایک اور قسم کے اندھیرے سے تعلق رکھتی ہیں اور پہلا جو اندھیرا ہے وہ بھی جوڑے میں بیان فرمایا لَحِب وَلَهُوَ.پس دوسری آیت میں جو میں نے پہلے تلاوت کی تھی اس میں بھی تین ظلمات کا ذکر ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 200 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء الله جو اندرونی اندھیرے ہوتے ہیں ان کی بھی دراصل تین ہی قسمیں ہیں.تین قسموں کے اندھیرے ہیں جو انسانی نفس سے وابستہ ہیں اس سے پیدا ہوتے ہیں اور انسان کو اس دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں اور آخری نتیجہ یہی ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے.اس کی مثال بیان فرمائی: كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہ اس کی مثال ایسی بارش کی سی ہے جو کھیتی اگاتی ہے تو وہ کھیتی کفار کو بہت ہی اچھی معلوم ہوتی ہے ثُمَّ يَهِيجُ پھر وہ لہلہاتی ہے مگر پھر فَتَرَبهُ مُصْفَرًّا پھر وہ زرد ہو جاتی ہے ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا پھر وہ خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتی ہے.بیجان کہتے ہیں لہلہانے کو اور حرکت کو تو بھیج کا مطلب ہے وہ خوب نشو ونما دکھا کے ہوا کے ساتھ لہلہانے لگتی ہے لیکن بالآخر زرد پڑ جاتی ہے اور يَكُونُ حُطَامًا وہ خشک ہو جاتی ہے.وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِید اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے جو اس سے زیادہ تکلیف دہ ہے.دنیا کی ناکامی اور نامرادی جن کاموں میں محنت کی تھی وہ دراصل نیک انجام کو نہ پہنچیں اور انسان کو جو تو قعات وابستہ تھیں وہ تو قعات پوری نہ ہوں یہ اس کھیتی کی سی مثال ہے جو شروع میں بہت اچھی لگتی ہے مگر بالآخر انجام اس کا ناقص اور خراب ہے.فرمایا فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ آخرت میں عذاب شدید بھی ہے مگر ومَغْفِرَةٌ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانُ مغفرت بھی ہے اور رضوان بھی.مغفرت اورضوان کے لئے کوئی الگ بنیاد قائم نہیں فرمائی ، کوئی ایسا مضمون نہیں فرمایا کہ یہ تو عذاب والا مضمون تھا اب مغفرت اور رضوان والا مضمون یہ ہے.وجہ یہ ہے کہ وہی دنیا کی زندگی مغفرت اور رضوان کا موجب بھی بن سکتی ہے اور وہی دنیا کی زندگی سزا اور عذاب کا بھی موجب بن سکتی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ وہ جو خدا سے دور ہیں ان کو دنیا کی زندگی فائدہ نہیں پہنچاتی اور بسا اوقات بد انجام مرتے ہیں اور اپنی محنتوں کے لطف نہیں اٹھا سکتے.اگر اسی دنیا کی زندگی ان تین بلاؤں سے محفوظ رکھو جو اندھیروں کی بلائیں ہیں جن کا پہلے ذکر فر ما دیا گیا تو پھر وہی دنیا کی زندگی مغفرت کا موجب بھی بن سکتی ہے اور اللہ کے رضوان کا موجب بھی بن سکتی ہے کیونکہ نتیجہ وہی باتیں بنیادی ایک نتیجہ نکال سکتی تھیں دوسرا بھی نکال سکتی تھیں اس لئے الگ مضمون باندھنے کی بجائے اسی پہلے مضمون کے آخر پر دو نتیجے رکھ دیئے.ایک آخرت میں عذاب شدید کا نتیجہ دوسرا مغفرت اور رضوان کا نتیجہ.
خطبات طاہر جلد 15 201 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء اب آپ اس پر غور کریں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ وہ تمام چیزیں جو انسانی نفس سے تعلق رکھتی ہیں ، باہر سے نہیں آئیں.جو ہم یہ کہتے ہیں.”نعوذ بک من شرور انفسنا ومن سيئت اعمالنا“ (سنن ابن ماجه ، كتاب النكاح ، باب خطبة النكاح) تو اس دعا میں یہی اندھیرے ہیں ، یہی برائیاں ہیں جن سے بچنے کے لئے ہم خدا سے التجا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں.من شرور انفسنا ان شرور سے جو ہمارے اندر پھوٹ رہے ہیں اور ان برائیوں سے جو ہمارے اعمال سے پیدا ہوتی ہیں.تو دیکھیں بیرونی کوئی چیز نہیں ہے تمام اندھیرے اس آیت سے تعلق رکھنے والے اور اس سے پہلی آیت سے تعلق رکھنے والے نفس کے اندھیرے ہیں اور نفس کے اندھیرے روشنی کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے جو نفس سے اٹھتی ہے وہ خوبصورت بن کے دکھائی دیتی ہے اور انسان پہچان نہیں سکتا کہ یہ ظلمت ہے یا روشنی ہے.قرآن کریم میں دنیا کی زندگی کا جو خلاصہ نکالا گیا ہے یہی ہے جس کے دائرے میں دنیا کی زندگی محدود ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے.تمام دنیا میں جو قوموں کی ایک دوسرے سے برتری کی دوڑ ہورہی ہے اقتصادی جنگیں ہیں یا سیاسی جنگیں ہیں یا اور معاشرتی مقابلے ہو رہے ہیں ان کا یہ آیت مکمل احاطہ کئے ہوئے ہے کچھ بھی اس سے باہر نہیں.پس اس زندگی میں جس کا ہم خصوصیت سے آج کل اس زمانے میں مشاہدہ کر رہے ہیں اس سے بہتر خلاصہ نکالا جا ہی نہیں سکتا، ہوہی نہیں سکتا، کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا.پہلا پہلو لَعِب وَلَھو کھیل کو داور دل بہلاوا جوں جوں یہ زمانہ ہلاکت کی طرف بڑھ رہا ہے لعب اور لہو کو زیادہ اہمیت ہوتی چلی جا رہی ہے اور زندگی کی اہم چیزوں کو نسبتاً کم اہمیت دی جا رہی ہے یہاں تک کہ اکثر دنیا کی امیر قوموں کا پیسہ زیادہ لہو ولعب پر خرچ ہو رہا ہے اور ایک معمولی حصہ ہے جو ان کی روز مرہ کی زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے پر خرچ ہوتا ہے.جو روز مرہ کی زندگی کی ضرورتوں پر انسان خرچ کرتا ہے وہ تو بنیادی طور پر اتنا تھوڑا ہے کہ امیر قومیں اگر صرف اسی پر راضی رہیں تو ان کو سمجھ نہ آئے کہ ہم اس دولت کو کہاں پھینکیں کیونکہ ایک ملک کے اکثر نہیں ، تمام انسانوں کی تمام تر ضرورتیں جہاں تک امیر قوموں کا تعلق ہے ان کی کل
خطبات طاہر جلد 15 202 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء آمد کے سوویں حصے سے پوری ہوسکتی ہیں، باقی صرف عیاشی کے ذریعے ہیں عیش وعشرت کے سامان، مکانوں کی دوڑ ، جائیدادوں کی دوڑ مگر پہلے لہو و لعب کی بات کرتے ہیں کھیل تماشہ تھیٹر، سینما اور عیاشی کے اڈے یہ وہ جگہیں ہیں جہاں پر ملک کی اکثر دولت خرچ کر دی جاتی ہے اور اسی کے مقابلے کے نتیجے میں پھر اندھیروں کے بطن سے اور اندھیرے پیدا ہوتے ہیں، جرائم پھیلتے ہیں اور اکثر جرائم پھیلنے کی وجہ لہو و لعب کی تلاش اور ان کی جستجو ہے اور ان کا منبع ، ان کے پیچھے چلتا ہے.اکثر آدمی غریب ہیں یعنی دنیا کے اکثر آدمی غریب ہیں امیر ملکوں میں غربت کا معیار بدل جائے گا مگر غریب وہاں بھی ہیں اور اکثر غریب ہی ہیں.انگلستان میں بھی اکثر غریب ہیں،امریکہ میں بھی اکثر غریب ہیں جرمنی میں بھی کوئی دنیا کا ترقی یافتہ ایسا ملک نہیں جہاں آپ یہ کہہ سکیں کہ اکثر امیر ہیں تو اکثریت غریبوں کی ہے اور لہو ولعب کا معیار امیرانہ بن جاتا ہے.لہو ولعب میں غریبانہ لہو ولعب کوئی چیز ہی نہیں رہتی جو بھی لہو و لعب ہے وہ امیرانہ ٹھاٹھ ہیں اور وہ ٹیلی ویژن پر دکھائی جاتی ہے وہ اخبارات میں اشتہاروں کے طور پر دی جاتی ہے وہ ریڈیو پر سنائی جاتی ہے کبھی گانوں کی صورت میں کبھی یہ بتا کر کہ یہ نئی قسم کا ایک البم نکلا ہے تو اس میں فلاں گانے والے حصہ لے رہے ہیں اس پر روپیہ خرچ کرو اور اسی طرح عیش و عشرت کے دوسرے سامان ہیں میوزک کا دلدادہ انسان کو بنا کر ایک قسم کی Drug Adiction پیدا کر دی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں لہو ولعب سے تعلق رکھتی ہیں.اب دیکھیں پہلا عنوان خدا نے یہ لگایا ہے دنیا کی زندگی تو لہو و لعب ہے اور اگر لہو ولعب کی تم پیروی کرو گے تو تمہیں سوائے ناکامی، نامرادی اور بالآخر تکلیف اٹھانے کے اور کچھ میسر نہیں آسکتا کیونکہ لہو ولعب کی پیروی ہی خود کئی قسم کے جرائم پیدا کرتی ہے اور وہ لوگ جو غریب ہیں ان کا دل بھی تو چاہتا ہے کہ وہ بھی امریکہ کے ہالی وڈ کے طریقے پر ویسی ہی زندگی بسر کریں اور وہ میوزک خریدیں جو دوسرے امیر لوگ خریدتے ہیں ویسے وہ Deck خریدیں جن پر Three Dimensional اثر پیدا کرنے والی میوزک پیدا ہوتی ہے.وہ جب یہ چیزیں خرید نہیں سکتے تو پھر چاقو لے کر نکلتے ہیں یا رات کو کسی گھر کے دروازے توڑتے ہیں.انہوں نے پیسے تو حاصل کرنے ہیں کیونکہ لہو ولعب کے رسیا بن جاتے ہیں اور پھر لہو و لعب کا رسیا انسان دوسرے انسانوں کی ہمدردی سے دن بدن محروم ہوتا چلا جاتا ہے.جس کو لہو ولعب کی عادت پڑ جائے اس کی بلا سے کوئی غریب فاقے مر رہا ہے یا نہیں
خطبات طاہر جلد 15 203 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء مر رہا.اپنے ملک کے غریبوں کی اس کو ہوش نہیں رہتی کجا یہ کہ افریقہ کے غریبوں کی فکر کرے یا اور دوسرے دنیا کے فاقہ کشوں کی فکر اس کو لاحق ہو جائے پس سوال ہی اس کا پیدا نہیں ہوتا.اپنے گھر کے، اپنے بھائی اور بہن کی ضرورتوں کی فکر سے بھی وہ مستثنیٰ اور آزاد ہو جاتا ہے.لہو ولعب کا رسیا تو بعض دفعہ اپنے بچوں کی فکروں سے بھی آزاد ہو جاتا ہے صرف اپنی فکر لگی رہتی ہے.چنانچہ کئی دفعہ بعض خواتین کے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ خاوند نے جتنا بھی کمایا وہ اپنے عیش وعشرت پر خرچ کرتا ہے اتنا تھوڑا بیوی بچوں کے لئے بچاتا ہے کہ اس سے ان کی بمشکل روز مرہ کی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوتیں.وہ غریبانہ زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ باپ ٹھاٹھ سے رہ رہا ہے.ماں سارا دن محنت کرتی ہے اور مرتی ہے گھر میں اور خاوند آتا ہے اور اپنے حکم جتا کر اور کچھ تختیوں کے احکامات دے کر کچھ تھوڑے سے پیسے پکڑائے اور باہر جا کر ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ، اپنے دوستوں کے ساتھ عیش و عشرت کرتایا اور لہو و لعب کے سامان ڈھونڈتا پھرتا ہے.تو لہو ولعب ایک بہت ہی اہم چیز ہے جس کا انسانی زندگی کے سدھارنے یا بگاڑنے سے گہرا تعلق ہے اور یہ اندھیر انفس سے پیدا ہوتا ہے جہاں انسان سمجھتا ہے کہ میرے اس میں مزے ہیں اور لہو ولعب ایسی چیز ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ از خود دور ہونے لگتی ہے یعنی لہو ولعب کی تمنا از خود ڈھلنے لگتی ہے.یہ ناممکن ہے کہ ایک انسان اس دور کو نہ پہنچے سوائے اس کے کہ جوانی میں مر جائے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَتَرهُ مُصْفَرَّاثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ایسے بڑھے ملیں گے جن کی گناہوں کی حسرتیں پوری ہی نہیں ہوئیں اور گناہوں کی طاقتیں ختم ہو گئیں.چلنے پھرنے کی طاقت باقی نہیں رہی، جوڑ جوڑ دکھنے لگے لیکن گناہوں کی حرص مٹی نہیں.غالب نے جس طرح کہا ہے کہ: دریائے معاصی ، تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا (دیوان غالب : 83) عجیب حال ہے میرا گناہوں کا دریا تو اپنے جوش و خروش میں اور لہریں مار مار کے اس تیزی سے بہہ گیا کہ اب وہ خالی برتن رہ گیا ہے دریا کا اس میں کچھ بھی نہیں رہا سب پانی بہہ گیا اور : میرا سر دامن بھی ،ابھی تر نہ ہوا تھا
خطبات طاہر جلد 15 204 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء میرے تو دامن کا کنارہ بھی ابھی پوری طرح نہیں بھیگا تھا جو میری گناہوں کی حسرت ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جتنا میں کر سکا ہوں یا کر سکتا ہوں اور بعینہ یہی انسانی زندگی کی صورت ہے.حقیقت میں ہر انسان پر سوائے اس کے کہ اللہ اسے بچالے یہی مضمون صادق آتا ہے.ہر انسان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو اس کے گناہوں کی حسرت اس کے گناہوں کی حد سے ہمیشہ آگے بھاگ رہی ہوتی ہے سو قدم آگے چلتی ہے اور تلاش جو ہے وہ پھر بھی جاری ہے پیاس پھر بھی باقی ہے.پس عملاً دیکھا جائے تو ہر قدم ہی وہ قدم ہے جہاں خدا تعالیٰ اس کا حساب چکانے کے لئے کھڑا ہے مگر جو اندھا ہو جو نفس کا اندھا ہو وہ بظاہر روشنی میں قدم اٹھا رہا ہے مگر وہ ہر چیز کی حقیقت جاننے سے عاری ہے.اس میں یہ صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی کہ وہ دیکھے وہ کیا کر رہا ہے اور یہ صلاحیتیں انفرادی طور پر بھی ظاہر ہو جاتی ہیں قومی طور پہ بھی ظاہر ہو جاتی ہیں.اب بسا اوقات مسائل سامنے آتے ہیں قومیں کہتی ہیں ہمارے ان مسائل کا کیا حل ہے، چوریوں کا کیا حل ہے، ڈاکوؤں کا کیا حل ہے اور وہ جو سکولوں میں داخل ہورہے ہیں بچے اٹھتے ہیں بغاوت کرتے ہیں اور اپنے پر نسپل کو قتل کر دیتے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں دن بدن یہ باغیانہ رویہ بڑھتا چلا جا رہا ہے وہ یہ سوچتے نہیں کہ جو بنیادی وجوہات ہیں وہ فطرت کے اندر ہیں انسانی فطرت کے اندر ان کی تلاش کرو اور ان کا وہاں علاج کرو جہاں سے وہ سر اٹھا رہی ہیں اور قرآن کریم نے اس تجزیے میں ہر چیز کو کھول دیا ہے کہ تمہارے اندر جولاہو ولعب کی جو جاہلانہ، پاگلوں والی تمنا ہے وہ تمہیں لے ڈوبے گی اور بالآخر تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا.دوڑ و جتنا مرضی دوڑنا ہے.ایک مثال میں فرمایا پیاسے کی طرح تم سراب کی پیروی کر رہے ہو آگے پہنچو گے تو حسرت کے سوا تمہیں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا.یہ جو پاگل پن ہیں یہ بھی اسی سے پیدا ہوتے ہیں.لہو و لعب کی تمنا زیادہ ہو، اسے پانے کی توفیق کم ہو ہر وقت بے چینی میں ایک انسان جلتا رہے وہ نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے.ابھی حال ہی میں جو سکاٹ لینڈ میں ایک نہایت دردناک واقعہ ہوا ہے ساری قوم یہ سوچ رہی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک پاگل اتنے معصوم بچوں کو اٹھ کر ذبح کر دے اور قتل کرے.گولیوں سے بھون دے.چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جن کے اوپر شاید کوئی جانور بھی حملہ نہ کرے، بسا اوقات جانور بھی چھوٹے بچوں کو چھوڑ دیا کرتے ہیں.چنانچہ جو شکار کے مضمون پر مستند کتابیں ہیں وہ بتاتی
خطبات طاہر جلد 15 205 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء ہیں کہ شیر اگر بکری کا لیلا وہاں کھڑا رہ جائے اور باقی سارے دوڑنے والے جانور بھاگ چکے ہوں یا ہرن کا بچہ رہ جائے تو اس کھڑے بچے کو شیر کبھی کچھ نہیں کہے گا، بھوکا بھی ہوتو کچھ نہیں کہے گا.انسانی فطرت میں خدا تعالیٰ نے یہ بات رکھ دی ہے کہ جو معصوم بے سہارا ہو جس کو اپنے دفاع کی طاقت نہ ہو اس پر جانور بھی رحم کرتے ہیں لیکن اس بدبخت نے کوئی رحم نہیں کیا.یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہوئی ہے کیوں ایسا ہوا.آؤ ہم ان وجوہات کی تلاش کریں قانون بدلیں فلاں بات کریں فلاں بات کریں.مگر جو مرضی قانون بدلیں جب تک قرآن کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق فطرت میں اتر کر جائزہ نہیں لیں گے اس وقت تک ان کو کوئی سمجھ نہیں آئے گی.جس معاشرے میں عیش و عشرت کی طرف توجہ دلانے کے لئے تمام ذرائع اختیار کئے جار ہے ہوں اور عیش وعشرت سے منہ پھیرنے کے لئے کوئی ذریعہ اختیار نہ کیا جائے ، جہاں کھلی دعوت ہو بے حیائی کی ، جہاں لہو ولعب اس طرح پلیں اور پنپیں جیسے ماں کے دودھ پر بچہ پلتا ہے اس قوم میں محرومیاں تو لازمی ہوں گی.یہ ناممکن ہے کہ تمنائیں اونچی ہو جا ئیں اور حصول کی طاقتیں کم ہوں اور محرومیاں پیدا نہ ہوں.تمناؤں اور حسرتوں کا ایک طبعی تعلق ہے ایک چولی دامن کا ساتھ ہے.پس یہ حسرتیں ہیں جو پاگل کرتی ہیں لوگوں کو اور یہ حسرتیں کئی قسم کی ہیں.کئی ایسی حسرتیں ایسی ہیں جن کا اپنے بچپن کی حسرتوں سے تعلق ہے اور بچپن میں ایک انتقامی جذبہ پیدا ہوا ہے جو دب گیا ہے اُس وقت.جب وہ پاگل پن دوبارہ کو دا ہے تو بچوں پر ظلم کی صورت میں وہ جذبہ اٹھا ہے اور اس نے وہ بہیمانہ ظلم کیا ہے جو جانور بھی نہیں کرتا.تو کہاں کہاں روکیں گے قانون سے، قانون کے ذریعے جرائم کو نہیں روکا جاسکتا قانون کے ذریعے اگر بڑھتے ہوئے ، اونچے ہوتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کریں گے تو بسا اوقات وہ دوسرے رستے نکال لے گا مگر سیلاب روکا نہیں جاسکتا ، بندٹوٹ جایا کرتے ہیں.چنانچہ ایسا وقت بھی آیا یہاں کہ جب Drug کو روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی تو انہوں نے یہ آواز اٹھانی شروع کی کہ اب Drug کو جائز ہی قرار دے دو.جھگڑا ہی ختم کرو چنانچہ ایک بندھن ٹوٹتا ہے تو دوسرا بندھن آگے کھڑا کر دیا جاتا ہے وہ بھی ٹوٹ جاتا ہے تو پھر تیسرا.مگر جو سیلاب ہیں جو اندر سے قوت سے اٹھتے ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی کیونکہ وہ قوانین قدرت کے تابع اٹھتے ہیں اور قوانین قدرت میں ان کی وجوہات تلاش کرو اور یہ قوانین قدرت کو سمجھنے کے بعد وہاں روک پیدا کرو جہاں ان کے اٹھنے کی جگہ
خطبات طاہر جلد 15 206 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء ہے تب ممکن ہو گا.پس یہ وہ جگہ ہے جہاں اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے لہو ولعب یا لعب اور لہو، جب ساری سوسائٹی لعب اور لہو کی مریض بن جائے اس میں تو یہ چیزیں از خود ہوں گی کوئی روک سکتا ہی نہیں ہے.اب لعب اور لہو جتنا آگے بڑھے گی اتنا ہی کئی قسم کے بھیانک جرم از خودان کے پیٹ سے پھوٹیں گے.بعض جگہ محض لعب ہے جو پاگل پن پیدا کر دیتی ہے، بعض جگہ لہو ہے جو پاگل پیدا کرتی ہے بعض جگہ دونوں مل کر پھر ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کھیلتی ہیں اور عجیب وغریب نتیجے نکالتی ہیں.اب کرکٹ کا میچ ہوا ہے اور اس کا ایک بخار چڑھا ہوا ہے قوموں کو اور حیرت کی بات ہے لعب ہے صرف لہو نہیں ہے.وہ اکیلی لعب ، کھیل اور وہ لوگ جن کا کوئی دور سے تعلق ہی نہیں ہے وہ دوسرے ملکوں میں بیٹھے خود کشیاں کر رہے ہیں کہ ٹیم ہارگئی.جنہوں نے کبھی کرکٹ کے بلے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ان کا حال یہ ہے کہ وہ Criticize کر رہے ہیں کہ کیپٹن نے یہ غلطی کی.آئیں سہی ہم اس کا سر پھوڑیں گے.اب یہ کھیل ہے کہ پاگل پن ہے.یہ وہی پاگل پن ہے جس کے اندھیرے کی طرف ذکر فرمایا ہے کہ لعب ولہو کو اگر تم نے کھلی چھٹی دے دی تو جان لو کہ متاع غرور کے سوا یہ کچھ بھی نہیں ہے تم نے ایک دھوکے کی بات کھڑی کر لی ہے تمہارے نفس نے دھو کے کے مزے پیدا کر لئے ہیں ان میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے.اب پاکستان جیسا ملک جہاں اسلامی معاشرہ اور اسلامی اقدار کی باتیں ہو رہی ہیں ایک صاحب اٹھے جب پاکستان ہارا ہے تو پہلے ٹیلیویژن کو اپنی گولیوں سے بھون دیا پھر خود کشی کر لی خود گولیاں مار کے.پیچھے اس کے بیوی بچے یا جو بھی عزیز تھے ان کو کس قدر دردناک تکلیف میں مبتلا کر گیا اور قوم کا منہ کالا کر گیا لیکن لعب بھی جب سر پر سوار ہو جائے تو جنون بن جاتی ہے اور جنون ہی اندھیرا ہے بالکل پاگل کر دیتی ہے مخبوط الحواس کر دیتی ہے.کھیلوں کی لڑائیوں میں بڑے قتل ہوئے ہیں ہندوستان میں بھی اب.اس بناء پر کہ ہندوستان کو سری لنکا نے ہرا دیا سری لنکا کی ایمبیسی پر حملہ ہو گیا.اگر حملہ کرنا ہے تو اپنے فارن آفس پر یا اپنے ہوم آفس پر حملہ کرو تم ہارے ہو.سری لنکا کا کیا قصور ہے جس نے تمہیں ہرایا ہے.قصور تمہارا ہے تم ہارے ہولیکن انہوں نے ایک دوسرے کو بھی کاٹا ہے کئی قتل ہوئے ہیں اس غصے میں آکے اور پاکستان میں ایک نانی نے اپنے نواسے کی ٹانگ توڑ دی
خطبات طاہر جلد 15 207 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء غصے میں.یہ اندھیرے ہیں اور دکھائی روشنی دے رہی ہے.دن دہاڑے کرکٹ کے میچ دیکھے جارہے ہیں، آگیں لگ رہی ہیں قتل عام ہو رہے ہیں، گندی گالیاں دی جارہی ہیں ،اب ہمارے ملک میں بھی پاگل پن، انڈیا میں بھی پاگل پن دونوں جگہ پاگل پن لیکن لعب کا پاگل پن ہے.پاکستان میں یہ پاگل پن کہ اپنے کھلاڑیوں کو گالیاں دے رہے ہیں کہ آؤ تو سہی ہم تمہاری ٹانگیں توڑیں گے تمہیں قتل کر دیں گے تم کیوں ہارے ہو اور جھوٹے الزام سراسر کہ تم پیسے لے کے ہار گئے ہو.یہ الزام اب دیکھیں ایک اندھیرے کی پیداوار ہے اور ایک اندھیرا ہے.جس قوم میں رشوت ستانی عام ہو جس قوم میں پک جانا عام بات ہو جس قوم کے ممبرز آف پارلیمنٹ کے متعلق اس گروہ کے آدمی بھی دوسرے گروہ کے آدمی بھی جو خود ممبر پارلیمنٹ ہیں اخباروں میں کھلم کھلا بیان دیں کہ یہ سارے بکاؤ ہیں ، ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے.ہماری ڈیما کریسی اور ہارس ٹریڈنگ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.یعنی گھوڑوں کی منڈی ہے جو زیادہ پیسے دے آکے وہ گھوڑ ا خرید کے لے جائے یہ حال ہو جہاں، وہاں اپنے کھلاڑیوں بے چاروں پہ انہوں نے کون سا احسان کرنا تھا.ساری عمر انہوں نے محنتیں کیں ، تکلیفیں اٹھائیں، ورزشیں کیں، ڈسپلن کئے ، بال پکڑ پکڑ کے ہاتھ کی انگلیاں توڑیں اور آخر پر ان کو بدلہ یہ ملا ہے کہ تم ضرور پیسے کھا گئے ہو جو ہار گئے.اس پر بعض کھلاڑیوں نے استعفے دے دیئے ہیں.انہوں نے کہا ہماری تو بہ جواب ہم کبھی اپنی قوم کے لئے کھیل گئے.اور لعب کو آپ کچھ سمجھتے ہی نہیں قرآن کریم کہ رہا ہے بہت بڑی چیز ہے جو قوم لعب کی غلام بن جائے گی وہی پاگل ہو جائے گی.وہ بھی اندھیرے پیدا کرے گی اور جو قوم لہو کی غلام ہو جائے گی وہ تو اور بھی زیادہ پاگل ہو جاتی ہے اور یہ دونوں چیزیں اگر اکٹھی ہو جا ئیں تو ساری قوم کا دماغ بالکل مختل ہو جاتا ہے وہ اندھیروں میں مبتلا ہوتی ہے جو اس کے نفس سے اٹھ رہے ہیں.اب یہ دیکھیں یہ مضمون کس طرح سب دنیا کے اوپر کس صفائی کے ساتھ پورا آ رہا ہے مگر دیکھا اس لئے نہیں جاتا کہ نفس کا اندھیرا ہے اور نظر ہی نہیں آتا.اپنا نفس انسان کو دکھائی نہیں دیتا یہ بھی بڑی مصیبت ہے اور اس کے اندھیرا کہلانے میں ایک یہ بھی حکمت ہے اپنا قصور نظر نہیں آرہا اپنی آنکھ کا تنکا بھی دکھائی نہیں دیتا جبکہ دوسرے کی آنکھ کا تنکا شہتیر بن کے دکھائی دے رہا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر.غلط کہہ گیا اس لئے دماغ میں شہتر نہیں آتا کہ آنکھ میں شہتیر آہی نہیں سکتا.مگر محاورے میں ہے بہر حال، تو تنکا دماغ میں آیا مگر بہر حال محاورہ
خطبات طاہر جلد 15 208 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء یہ ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی دکھائی دے دیتا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی اندھیرے ہیں جو نفس کے اندر سے پیدا ہوتے ہیں اور تہہ بہ تہہ اندھیرے ہیں جن کی تقسیم اگر کی جائے تو ایک قسم یہ ہے لعب اور لہو کی.تو جہاں قرآن کریم نے اندھیرے بیان فرمائے وہاں ایسے بھی اندھیرے بیان فرمائے جو تمہیں روشنی دکھائی دیتے ہیں بظاہر ان میں کوئی بھی اندھیرے کا پہلو دکھائی نہیں دیتا.بچے بھی کھیلتے ہیں بڑے بھی کھیلتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں آنکھ کوئی اندھیر انہیں دیکھتی.لیکن قرآن توجہ دلا رہا ہے کہ جہاں بھی تم نے توازن کھو دیا وہاں یہی طبعی حالتیں اندھیروں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں اس لئے ان اندھیروں سے بچو جو تمہیں اندھیرے دکھائی دیں گے.ایک بچہ کھیلتا بھی ہے پڑھتا بھی ہے اس کی اس حالت کو اندھیر انہیں کہا جا سکتا.اس کا کھیلنا اس کی پڑھائی کو طاقت بخشتا ہے اور اس کی صحت کو بحال رکھتا ہے اور بسا اوقات وہ دونوں میدانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہے اور زیادہ تسکین پاتا ہے.ایک بچہ ہے جو پڑھائی کی قربانی دے کر کھیل میں وقت ضائع کر دیتا ہے.ایک بڑا ہے جو عیش وعشرت کی خاطر اپنی زندگی کے فرائض سے منہ پھیر لیتا ہے.اب ان دونوں قسموں کی مثالیں دراصل اندھیروں میں پلنے والوں کی سی ہیں مگر اگر دنیا کی لذتیں اس حد تک رکھی جائیں جس حد تک فرائض پر اثر انداز نہ ہوں تو اس صورت میں اس بچے کی طرح جو کھیلتا بھی ہے اور پڑھتا بھی ہے ایک انسان جائز حد تک اپنی خواہشات کو بھی پورا کر لے جو طبعی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فرمان کی حدود کو نہ پھلانگے تو یہی دو چیزیں جو ایک جگہ ہلاکت کا موجب بنتی ہیں ایک جگہ مغفرت اور رضا کا موجب بن جاتی ہیں.متنا سب کھیل، متناسب پڑھائی اور دونوں کے درمیان توازن رکھنا دنیا کی نعمتیں بھی عطا کرتا ہے اور دین کی نعمتیں بھی عطا کرتا ہے اگر انسان دین دار ہو، تو کھیل کی کامیابیاں بھی بخشتا ہے اور علم کی کامیابیاں بھی بخشتا ہے.تو مغفرت اور رضا کا یہ تعلق ہے ان باتوں سے کہ لعب تو وہی رہے گی لہو بھی وہی ہو گی لیکن کسی حد تک اگر خدا کی رضا کے تابع تم لعب سے بھی تعلق رکھو گے اور لہو سے بھی تعلق رکھو گے تو وہ بدی والی لہو نہیں رہے گی ، وہ بدی والی لعب نہیں رہے گی.چنانچہ قرآن کریم نے انسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ، ہر خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک جائز طریق بھی بیان
خطبات طاہر جلد 15 209 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء فرما دیا ہے.اس جائز طریق کی حدود میں رہ کر وہ باتیں جو دوسری طرح لہو دکھائی دیں گی وہاں لہو نہیں رہتیں.میاں بیوی کے تعلقات ہیں، دوسرے اور ایسے سیر گاہوں پہ جانا ہے،تفریحات سے استفادہ کرنا ہے،کھیلنا ہے، یہ سب چیزیں وہی ہیں جن کا انسانی فطرت کے طبعی تقاضوں سے تعلق ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر جگہ ان کی محدود اجازت دے کر یہ نہیں فرمایا کہ تمہیں ہم نے یہ طاقت بخشی تو ہے مگر اس طاقت سے فائدہ نہیں اٹھانا، فرمایا طاقت تو بخشی ہے مگر اس حد تک فائدہ اٹھانا ہے اس سے آگے نہیں جانا.یہ بات لوگ بھول جاتے ہیں کہ جس حد تک خدا نے فائدے کی اجازت فرمائی ہے لذت و ہیں ختم ہو جاتی ہے، پوری لذت زیادہ سے زیادہ وہیں تسکین پاتی ہے اس سے آگے بڑھیں تو پھر وہی لذت اور وہی تسکین تکلیف کا سامان بن جاتی ہے.مثلاً کھانے کے متعلق فرمایا كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا (الاعراف:32) کھاؤ پیونگر اسراف نہ کرنا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کھانا کھانے کا صحیح طریق یہ ہے کہ ابھی بھوک ہو تو ہاتھ کھینچ لو.اب لذت ایسے شخص کو بھی ملتی ہے مگر ایسے شخص کی لذت نقصان سے پاک ہے.اس لذت کے بعد کوئی بدی اس کی لذت میں رخنہ نہیں ڈالتی.مگر وہ شخص جو ہاتھ نہیں کھینچتا وہ سمجھتا ہے میں زیادہ لذت اٹھا رہا ہوں.وہ کھاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ پیٹ تن جاتا ہے اور اس وقت جبکہ جس نے ہاتھ کھینچ لیا تھا وہ آرام کی نیند سویا ہوا ہے ، مزے لے رہا ہے، کھانے کا مزہ بھی باقی ہے، اس کے بعد جو غنودگی ہے اس نے بھی لطف دیا ایک سایہ تسکین کا پیدا ہوا اور کوئی تکلیف نہیں اور جو لگتا تھا کہ بھوک رہ گئی ہے بھوک خود بخو دمٹ جاتی ہے کیونکہ اس بات کو ڈاکٹر جانتے ہیں کہ انسان جب بھوک مٹائے تو اصل میں ضرورت سے زیادہ کھا چکا ہوتا ہے ابھی بھوک کچھ باقی ہو اور چھوڑ دے تو تھوڑی دیر میں ہی وہ کھانا میٹھے میں تبدیل ہو کر خون میں گھلنے لگتا ہے تو بھوک مٹادیتا ہے اور جتنا کھانا وہ بھوک مٹانے کے لئے کافی ہے وہ بھوک مٹنے سے پہلے کافی ہوتا ہے.جب مٹتی ہے بھوک اس وقت ضرورت سے زیادہ کھایا جاتا ہے تو دیکھیں جو قرآن کریم نے فرمایا اور حدیث نے جس پر روشنی ڈالی وہی مضمون ہے جس میں تسکین بھی ہے اور لذت بھی ہے.تو اللہ تعالیٰ آپ کو لذتوں سے محروم نہیں کرتا.یہ فرماتا ہے کہ اگر ہمارے کہنے میں آؤ ہماری ہدایت کے مطابق لذتوں کی پیروی کرو تو ان میں کوئی بھی نقصان کا پہلو نہیں ہو گا.کوئی حسرتیں اس کے بعد تمہارا دامن نہیں پکڑیں گی.اگر تم خود بخود بھاگے پھرو گے تو لذت ایک حد کے بعد حاصل ہونا
خطبات طاہر جلد 15 210 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء ایسے ہی بند ہو جاتی ہے.جو لوگ بھوک کے ساتھ کھانا کھانے کا مزہ جانتے ہیں ان کو پتہ ہے جوں جوں بھوک مٹنے کے قریب پہنچ رہے ہوتے ہیں وہی کھانا جو پہلے بہت مزیدار لگ رہا تھا آہستہ آہستہ کم مزیدار ہوتا چلا جاتا ہے اور آخری لقمے جو وہ لوگ زبر دستی زہر مار کرتے ہیں.ان میں مزہ وزہ کوئی خاص نہیں ہوتا صرف ایک لالچ ہی ہے.بھوک ہی میں مزہ ہے طلب میں مزہ ہے طلب نہ رہے تو مزہ بھی مٹ جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے طلب بھی پیدا فرمائی ہے اور مزے لوٹنے کاScientific طریق بھی بیان فرمایا ہے.فرمایا اس کی حد کے اندر رہنا ورنہ نہ مزہ رہے گا نہ تسکین رہے گی اور مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ گے.اس کے بعد جو اس کے عوارض ہیں وہ جھیلتے جھیلتے عمر کٹ جائے گی.چنانچہ جتنے بھی عیاشی کے ذریعے ہیں ان سب سے عوارض کا تعلق ہے ، جو ویسے گناہ نہیں کرتا مگر کھانے میں بے اعتدالیاں کرتے ہیں ان کے اپنے عوارض کا اک پورا سیٹ ہے.ایک فہرست میں بیان کئے جاسکتے ہیں کہ یہ کھاؤ پیو لوگوں کے عوارض ہیں اور وہ تھوڑی سی زندگی عیش کر گئے ، باقی زندگی کھانا سامنے ہے دکھائی دے رہا ہے کھایا ہی نہیں جاتا.کسی کو شوگر لگ گئی ہے کسی کو اور مصیبت واقع ہو گئی آنکھوں کے سامنے ہے اور کچھ نہیں حاصل کر سکتے کہ نہیں چلو جی منہ میں طاقت نہیں ہے.کہتے ہیں ہم تو دودھ پینے سے بھی گئے.ہم تو روٹی چکھنے سے بھی محروم ہو گئے تو پہلے حرکتیں کیوں کی تھیں.تو جتنی لذت مقدر ہے اس سے آپ ویسے بھی نہیں بچ سکتے جو مرضی کر لیں.پنجابی میں خوب کہا ہے کہ اس کے دانے مک گئے وہ پنجابی محاورہ ہے وہ ختم ہو گیا ہے اس کے دانے مک گئے ہر انسان کے دانے مقرر ہیں اس سے زیادہ کھا ہی نہیں سکتا جو جلدی کھا لے گا اس کی باقی عمر کم کھانے پہ مجبور کرے گی اس کو اور زیادہ تو فیق ہی نہیں ہو گی تو یہ بھی بے وقوفوں والی بات ہے کہ ہم بے پناہ ، بے حد لذت حاصل کر سکتے ہیں ہم تو محض مجبور لوگ ہیں جتنے خدا نے تقدیر میں مزے لکھے ہیں اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتے.جب بڑھیں گے تو اول تو وہ مزے کر کرے سے ہوں گے اور دوسرے وہ سزا دیں گے پھر.پھر چوری کے مزے ہوں گے اور چوری کی سزا ملے گی.ڈاکے کے مزے ہوں گے تو ڈاکے کی سزا ملے گی.پس ہر قسم کے گناہ گار اپنے گناہوں کی شامت اعمال اس دنیا میں بھی دیکھ لیتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ کھیتیاں ان کے سامنے زرد ہو جاتی ہیں ان میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور حسرتیں باقی رہ جاتی ہیں.دل چاہتا ہے کہ کچھ حاصل ہو مگر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.اس کی بجائے وہ و,
خطبات طاہر جلد 15 211 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء کیوں نہیں کرتے کہ جس کے نتیجے میں مزے بھی زیادہ اور پھر مغفرت بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا مضمون اس تھوڑی سی بھوک سے تعلق رکھتا ہے جو آپ نے خدا کے حکم کے تابع برداشت کی اور آپ سمجھتے ہیں کہ بھوک برداشت ہوئی فورا پتہا چل گیا اس کے بعد کہ یہ تو یونہی دھوکہ تھا.اصل میں تو کچھ بھی نہیں تھا مجھے تو جتنا کھانا تھا سب مل گیا ہے مزہ بھی پورا ہو گیا ہے بعد کی تسکین بھی مل گئی لیکن وہ تھوڑا سا ٹکڑا ایک آزمائش کا ہلکا سا دور، چونکہ رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں اختیار کیا گیا ، طوعی طور پر اختیار کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پھر لامتناہی مغفرت کا مضمون ہے جو آئندہ دنیا میں پیش آئے گا پھر تمنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ تو بدیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کی حدود میں محمد ودر ہنا بظاہر ایک قربانی ہے اور بظاہر حد بندی ہے لیکن اگر اس میں رہنے کی عادت ڈالو پھر آنکھیں کھلتی ہیں اور سمجھ آتی ہے کہ کتنی مصیبتوں سے نجات ملی ہے اور نفس کے اندھیرے سے بڑا اور کوئی اندھیر انہیں کیونکہ انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مجھے اس میں فائدہ ہے اور فائدہ وائدہ کچھ نہیں.دوسرا پہلو بیان یہ فرما رہے ہیں وَزِيْنَةٌ وَتَفَاخُرُ بَيْنَكُمْ زینت اور تفاخر کا جو مزہ ہے اس کے مقابل پر محض ایک تصویر ہے اور ٹھوس چیز نہیں ہے.کھیل بھی ایک ٹھوس چیز ہے جس کا بدن سے تعلق ہے انسان کچھ لذت پاتا بھی ہے پھر کچھ نہیں بھی پاتا.لہو کا بھی یہی حال ہے کچھ لذت تو پاتا ہے پھر بعد میں کچھ محروم بھی ہو جاتے ہیں بعد میں وہی لذت سزا بھی بن جاتی ہے.مگر زینت جو ہے وہ صرف دکھاوا ہے یعنی وہ زینت مراد نہیں جس کو قرآن کریم زینت قرار دے رہا ہے.یہاں منفی معنوں میں زینت کا ذکر پہلے آئے گا جس کو ہم اندھیرا کہتے ہیں وہ زینت ہے کہ صرف دکھاوے کا ہی شوق ہے اور یہ زینت بھی اپنے اندر بڑے اندھیرے رکھتی ہے کیونکہ اس زینت کے ساتھ تفاخر بھی وابستہ ہے.بعض زیشیں ہیں جو انسان کی اپنی ذات سے وابستہ ہیں.ایک انسان کو اچھا پہنے کا شوق ہے، خوبصورت بننے کا شوق ہے وہ اچھے کپڑوں پر خرچ کر دے گا اور کچھ کریمیں لگائے گا، چاہے رنگ سفید ہو یا نہ ہو مگر کوشش تو ضرور کرے گا کہ کچھ رنگ میں، سیاہی میں کمی واقع ہو جائے گی.یہ جو کوششیں ہیں زینت کی یہ نسبتا معصوم ہیں.اپنی ذات میں بے چارہ کرتا رہتا ہے کسی کو اچھا لگے نہ لگے کم سے کم اپنے آپ کو تو اچھا لگتا ہے مگر جو تفاخر ہے وہ اسی کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور اصل ہلاکت جو ہے وہ تفاخر میں ہے.
خطبات طاہر جلد 15 212 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء تفاخر کا مطلب یہ ہے کہ زینت اس غرض سے کی جائے کہ دنیا کو دکھایا جائے اور اپنے بھائیوں کو یا بہنوں کو نیچا دکھایا جائے.دنیا کو یہ بتایا جائے کہ ہم زیادہ رکھتے ہیں اور دل میں یہ شوق ہو کہ ہمارا بھائی یا ہماری بہن ہم سے نیچے اور چھوٹے دکھائی دیں اور اس مقابلے کا مزہ ہم دیکھیں کہ ہم اونچے ہو گئے.یہ زینت کے پاگلوں والے شوق کا طبعی نتیجہ ہے ورنہ انبیاء بھی زینت کا خیال رکھتے ہیں اور قرآن کریم فرماتا ہے قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ (الاعراف:33) کون ہے جس نے اللہ کی زینت کو حرام کر دیا ہے وہ زیشنیں یا وہ طیبات جو رزق سے پیدا کیے گئے ہیں.کون ہے جس نے حرام کیا ہے.یہ تو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں اور دوسروں کے لئے بھی وہ فائدہ اٹھاتے ہیں مگر آخرت میں ان زمینوں سے، ان طیبات سے دوسرے محروم رہ جائیں گے اور خدا کے نیک بندے یہاں بھی فائدہ اٹھائیں گے وہاں بھی فائدہ اٹھائیں گے.تو زینت کی بھی دو قسمیں ہیں جیسے لَعِبٌ وَلَهُو کے متعلق میں نے بیان کیا ہے ان کی بھی دو قسمیں ہیں زینت میں ایک زینت ہے جو انسان اس لئے اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفائی کو پسند فرماتا ہے، نزاکت کو پسند فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے صاف ستھرے، اچھے ہو کر نکلیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ بھی اپنی زینت کا خیال رکھتے تھے اس زینت میں کوئی اندھیرا نہیں ہے کیونکہ یہ نفس سے نہیں پیدا ہوئی یہ تعلق باللہ سے پیدا ہوئی ہے.یہ خدا کی رضا کے تابع رہنے کے نتیجے میں اس طرف دیکھنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور زینت کا دیکھنے سے تعلق ضرور ہے ورنہ اپنی ذات میں زینت کوئی چیز نہیں.اندھیرے میں بیٹھا ہوا کسی کی بلا سے، وہ اچھا دکھائی دے رہا ہے یا برا دکھائی دے رہا ہے، دکھائی ہی نہیں دے رہا اس کو اس سے کیا غرض.عورتیں جو گھر میں بیٹھی ہوتی ہیں پتا نہیں ہوتا کہ کوئی آئے گا تو اپنے حال میں اسی طرح رہتی ہیں گندی، یعنی سب نہیں بعض ، کوئی اچانک مہمان آجائے پھر دیکھیں کس طرح دوڑتی ہیں وہ چادر ڈھونڈ نے کیلئے غسل خانے میں جائیں گی وہ منہ پہ چھینٹے ماریں گی صاف ستھری ہو کر نکلنے کی کوشش کریں گی تو زینت کا دیکھنے سے تعلق ہے.خدا کے پاک بندے انبیاء بھی زینت کرتے ہیں مگر اللہ دیکھ رہا ہے اس لئے زینت کرتے ہیں اور اسی لئے اصل زینت تقویٰ بن گئی.فرما یا خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 213 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: 32) ہر مسجد میں اپنی زینت لے کے جایا کرو اور زینت کی تعریف اس آیت میں دراصل تقویٰ کی تعریف ہے تو زینت کا تعلق ظاہری زینت سے بھی ہے وہ بھی خدا کی خاطر ہوسکتی ہے، باطنی زینت سے بھی ہے وہ بھی خدا کی خاطر ہو سکتی ہیں اور یہاں زینت حرام نہیں بلکہ مغفرت اور رضا کا نتیجہ پیدا کرنے والی زینت ہے لیکن وہ زینت جس کا دنیا کی آنکھ سے تعلق ہے وہ بھی دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوگی اگر وہ پیدا ہوگی تو ضرور تفاخر میں تبدیل ہوگی اور جو تقویٰ کی بچی زینت ہے وہ تفاخر میں تبدیل نہیں ہو سکتی اس کے قدم وہیں رک جاتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان غیر معمولی انعامات کا ذکر فرمایا جو آپ کی زینت تقوی کے نتیجے میں آپ کو حاصل ہوئے اور ہر بار جب ایک انعام کا ذکر فرماتے تھے تو فرماتے تھے ولا فخر، ولا فخر.مجھے خدا نے تم سب پر فضیلت دے دی ہے تمام انبیاء پر فضیلت دے دی ہے اولین پر دے دی ہے آخرین پر دے دی ہے و لا فخر کوئی فخر نہیں اس کے باوجود میں تم سے بڑا بنے کی تمنا ہی نہیں رکھتا نہ اس بات کو بیان کر کے تمہارے دل جلانا چاہتا ہوں.یہاں تک کہ یونس ابن متی پر بھی جب کسی اُن کے ماننے والے نے آنحضرت کے فضیلت دیئے جانے کو پسند نہیں کیا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابی کو روک دیا جس صلى الله نے یہ کہا تھا.ایک صحابی نے یونس ابن متی کے مرید اُن کے ماننے والوں پر رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کا ذکر فرمایا کہ تمہارے نبی سے ہمارا نبی زیادہ افضل ہے.اس کو تکلیف پہنچی.یہ جھگڑا جب آنحضرت کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا لا تفضلو نی علی یونس ابن متی.مجھے یونس ابن متی پر کوئی فضیلت نہ دو.یہ مراد نہیں ہے کہ مجھے فضیلت نہیں ہے.فضیلت تو اللہ نے دے دی ہے.خود ذکر بھی فرماتے ہیں.فرماتے ہیں ولا فخر پس اس حدیث کا حل لافخر کے اندر ہے کہ مجھے فخر کی عادت نہیں ہے.فخر سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے اور مومن کی زینت کا دوسروں سے تکلیف پہنچانے سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے.پس تم مجھے فضیلت نہ دووہاں جہاں یہ فخر کے طور پر دوسروں کو تکلیف دے رہی ہو اور اگر گہری نظر سے مطالعہ کریں تو جب تو میں آپس میں اپنے اپنے انبیاء کے مقابلے کرتی ہیں تو بنیادی طور پر فخر کی خواہش ہی ہے جو ان مقابلوں پر ان کو آمادہ کرتی ہے محض اپنے رسول کی محبت نہیں ہوتی.بسا اوقات دوسرے کو نیچا دکھانا ہے یہ مضمون ہے جس کے نتیجے میں اپنوں کا ذکر مبالغہ آمیزی کے ساتھ اور دوسروں کی خوبیوں کو گھٹا کے
خطبات طاہر جلد 15 دکھایا جاتا ہے.214 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء پس زینت کا بھی تفاخر سے تعلق ہے اور وہ زینت جو دنیا کی زینت ہے اس کے پیٹ سے ضرور تفاخر کا بچہ پیدا ہو گا.اگر وہ ہو گا تو بڑی بڑی جہالتیں اس سے پیدا ہوں گی.اب لہو و لعب میں بھی ایک تفاخر ہے روزمرہ کی زندگی کے ایسے کاموں میں جن کا ہر انسان سے تعلق ہے ان میں بھی تفاخر بے وجہ آکر زندگی کو کرکرا کر دیتا ہے.آپ دیکھیں ہمارے زمینداروں میں شادی کے موقع پر جو دکھاوے کا شوق ہے کتنی مصیبتیں ہیں اس کے نتیجے میں، کتنے گھر برباد ہوتے ہیں اور اتنے اس کے بد اثرات ہیں ہر طرف کہ بعض دفعہ وہ اس بیٹی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جس کو بیاہا جا تا ہے.اگر اس کے ماں باپ نے جہیز اتنا نہیں دیا جو خاوند کے گھر والوں کی توقع تھی تو وہ صرف یہ نہیں کہتے کہ ہمیں جہیز کیوں کم دیا ہے وہ کہتے ہیں ہماری ناک کٹوادی.ہم ایسی گھر میں بیاہ کے لائے یہ فقیر نی کچھ بھی اس کے پاس نہیں تھا، جہیز کیا ساتھ آیا تھا جو ہماری عزت سوسائٹی میں ہوتی اور جو اس ڈر کے مارے پھر بیٹیوں کو دیتے ہیں وہ اپنی عزتوں کی ناک کاٹ کر دیتے ہیں منتیں کرتے ہیں ، قرضے مانگتے ہیں ایسے قرضے لے لیتے ہیں جو واپس کر ہی نہیں سکتے اور ساری عمران قرضوں کے بوجھ کے نیچے خود بھی دیتے ہیں اور اپنی عزتیں بھی برباد کراتے ہیں.قرض خواہ تو پھر کوئی عزت نہیں کرتا کسی کی.عدالتوں میں گھسیٹے جاتے ہیں گھروں کی قرقیاں بھی ہو جاتی ہیں بعض لوگوں کی ، مگر تفاخر کے نتیجہ میں جو اخراجات ہیں وہ تمام تر وہ ہیں جو بنیادی ضرورتوں سے بالکل بے تعلق ہیں مگر اس کا نمبر دوسرا ہے.پہلا جو تعلق ہے لعب ولہو ان کا ایک حصہ بنیادی ضرورتوں میں داخل ہے مگر تفاخر جو ہے اس کا کوئی جواز نہیں.تفاخر کی خاطر قرض اٹھانے ، تفاخر کی خاطر اپنی حیثیت سے بڑھ کر چھلانگ لگانا یہ ایک ایسی مصیبت ہے جو انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اس کے نتیجے میں گناہ بھی پیدا ہوتے ہیں اور معاشرہ دکھوں سے بھر جاتا ہے.ایسے خاندانوں کے جھگڑے لڑائیاں، آگے ساس بہو کی آپس کی ایک دوسرے سے بد زبانیاں یہی نہیں بہت سے ایسے مسائل ہیں جو سو سائٹی کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور یہ نفس کے اندھیرے ہیں باہر سے کہیں سے نہیں آئے.تیسرا جو ہے ذکر وہ فرمایا ہے.وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ لیکن چونکہ اب وقت ختم ہو گیا ہے میں انشاء اللہ تعالی آئندہ خطبے میں یہاں سے پھر مضمون کولوں گا.ابھی بہت سا ایسا
خطبات طاہر جلد 15 215 خطبہ جمعہ 15 / مارچ 1996ء مضمون ہے جس کا اندھیروں سے تعلق ہے اب ان کی نشاندہی کر کے آپ کو دکھانا ہے کہ یہ اندھیرے ہیں جب تک یہ رہیں گے نور داخل نہیں ہو گا اور ہر اندھیرے سے تعلق رکھنے والا ایک متقابل نور ہے وہ بدبخت اندھیرا دل سے نکالیں گے تو پھر نور وہاں قدم رکھے گا اور پھر جب قدم رکھے گا حقیقت میں اور وہ اندھیرا نہیں رہا ہوگا تو پھر وہ نور نہیں مٹ سکتا.میں نے آپ سے یہ بھی بات کی تھی کہ جب نور طاقتور ہے تو اس کے آنے کے بعد اندھیرے واپس کیوں آتے ہیں وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات انسان کا ابھی اندھیر انہیں مٹا ہوتا تو اللہ اپنی رحمت سے کچھ نور کا حصہ مزے کے طور پر دے دیتا ہے.نفس کا اندھیرا باقی رہتا ہے ابھی ، پھر انسان اس کی پرورش شروع کر دیتا ہے اور نور کی ناقدری کرتا ہے تو نور از خود نکلتا ہے اندھیرے سے ہٹتا نہیں ہے.وہ شخص جس کا ظرف اندھیرے رکھتا ہے وہ شخص ہار جاتا ہے.نور کو تو وہ خود پھر کہتا ہے کہ بھئی میرا پیچھا چھوڑ واب اور نور ز بر دستی نہیں ملتا.نور تو عطا ہے.اگر کوئی شخص مستحق ہے اور قدر دان ہے تو اس کے پاس رہے گا ورنہ نہیں.اندھیرے کو فی ذاتہ نور کے اوپر غالب آنے کی توفیق نہیں ہے ہاں وہ مالک جس نے کچھ اندھیرے سے حصہ پایا ہے، کچھ روشنی سے حصہ پایا ہے اس کا اپنار جحان ،اس کا اپنا طرز عمل ہے جو یہ فیصلہ کرے گا کہ بالآخر نور باقی رہے گا یا ظلمت باقی رہ جائے گی.مگر یہ بھی ایک نسبتاً زیادہ تفصیل کا محتاج مضمون ہے.اب میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے اندھیروں سے ہمیں پاک وصاف کر دے اور ہر اندھیرے کے بدلے وہ نور عطا فرمائے جو آکر ٹھہر جانے والا ، بس جانے والا ہو اور پھر ہمیں کبھی نہ چھوڑے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 217 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء اللہ تعالیٰ کی عزت، رفعت، غیرت برداشت نہیں کرتی کہ وہاں اپنے نور کوزبردستی ٹھونس دے.( خطبه جمعه فرموده 22 / مارچ 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی: وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ بِقِيْعَةِ يَحْسَبُهُ الظَّلَمَانُ مَاءَ حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدُهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللهَ عِنْدَهُ فَوَقْهُ حِسَابَهُ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (النور: 40 ) پھر فرمایا: سورۃ النور کی اس آیت کے حوالے سے میں نے اس آیت کو اس سے مشابہ ایک دوسری آیت کی مدد سے حل کیا اور ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ خطبے کا وقت ختم ہو گیا.دوسری آیت جو اس آیت کے مضمون کے بالکل مشابہ ہے اور اس تفصیل کو بیان فرمارہی ہے جس کا مجملاً یہاں ذکر موجود ہے کہ ایک ایسا انسان جو سراب کی پیروی کرتا ہے اسے بالآخر کچھ بھی نہیں ملتا سوائے اس کے کہ اپنے اعمال کی جزا کو اس وقت پاتا ہے جب کہ اس کی طلب، اس کی پیاس کی شدت اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہوتی ہے اور سوائے محرومی کے اور سزا کے کچھ بھی اس کے حصے میں نہیں آتا.یہ روشنی کا اندھیرا ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا کہ اسے ہم روشنیوں کے اندھیرے کہہ سکتے ہیں یعنی ایسا سفر جو بظاہر روشنی میں ہو ، سفر کرنے والا یہ مجھتا ہو کہ روشنی ہے مگر فی الحقیقت وہ اندھیرا ہی ہو، نتیجہ وہی ہو جواند ھیرا پیدا کرتا ہے.پس ایک انسان جب کسی چیز کو پانی سمجھ کر اس کی پیروی کرتا ہے تو بظاہر دیکھ رہا ہے مگر جب اس مقصد کو پاتا ہے جسے وہ اپنا مطلوب بنا کر اس کے پیچھے چلتا ہے تو اس وقت اس کو سمجھ آتی ہے کہ وہ
خطبات طاہر جلد 15 218 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء دھوکہ ہی تھا.اسی لئے قرآن کریم نے آخر پر یہ رکھا.وَمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ کہ دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، محض دھوکے کی پیروی ہے.پس روشنی کا دھو کہ سب سے خطرناک دھوکہ ہے اور اس کی بھی تین منازل ہیں یا تین اس کی قسمیں ہیں جس طرح دوسرے اندھیرے کی جو بعد کی آیت میں بیان ہوا ہے تین قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں اور اس اندھیرے میں بھی نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ظلمات کے اندر چلنے والے کا حاصل ہے یعنی ٹھوکریں کھانا، رستے سے ہٹ جانا ، تباہی کے گڑھے میں جا پڑنا ، ہر قسم کے خطرات درپیش ہوں لیکن معلوم نہ ہو کہ وہ خطرات ہیں کیا.یہی نتیجہ ہے روشنی کے اس سفر کا جو غرور کے نتیجے میں ہو، دھو کے کے نتیجے میں ہو اور یہ اندھیرا ایسا ہے جو نفس سے پیدا ہوتا ہے.یہی مضمون تھا جو میں نے آپ کو پچھلی دفعہ سمجھایا کہ ان تمام قسم کے اندھیروں کا جن کا اس آیت میں ذکر موجود ہے من شرور انفسنا سے تعلق ہے.تب ہی خدا نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ اے خدا ہمیں اپنے نفس کے شرور سے بچا کیونکہ اپنے نفس کا شر انسان کو دکھائی نہیں دیتا.سب سے زیادہ مخفی حملہ کرنے والا شیطان نفس کا شیطان ہے اور یہی شیطان غرور بھی کہلاتا ہے یعنی سب سے بڑا دھو کے باز اور اس کے پیدا کردہ اندھیروں کو خدا تعالیٰ نے غرور فرمایا یعنی دھو کے محض دھو کے، اس کے سوا ان کی کوئی حقیقت نہیں.اب اس دوسری آیت کے حوالے سے جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ مضمون کھل رہا ہے اور دوبارہ اب میں اسی مضمون کو پھر لیتا ہوں کیوں کہ لعب اور لہو کا ایک ترجمہ تو میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کچھ اس پر روشنی ڈالی مگر اسی آیت پر قرآن کریم دوسری جگہ مزید روشنی ڈالتا ہے.لعب اور لہو کا دھوکہ کیا ہے.یہ کن کن منازل سے گزر کر کہاں تک پہنچاتے ہیں.پس ظلمات ثلاث ان اندھیروں کے اندر بھی تہ بہ تہ موجود ہیں.کہنے کو تو تین اندھیرے ہیں مگر آگے ان کی قسمیں اور پھر ہر قسم کے اندھیرے میں تہہ بہ تہہ اندھیروں کا وجود ملتا ہے اور قرآن کریم ان کے اوپر سے پردے اٹھاتا اور ایک ایک چیز کھول کر دکھا دیتا ہے تا کہ پھر ٹھوکر کھانے والے کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے کہ میں نے لاعلمی میں ٹھو کر کھائی.پس اندھیروں کو بھی خدا دکھا رہا ہے یہ دیکھو یہ اندھیرے ہیں ان سے بچ کر گزرنا ہے.لعب اور لہو ، کھیل اور تماشہ بظاہر دیکھنے میں معصوم سی باتیں دکھائی دیتی ہیں.بچے بھی کھیلتے ہیں، بڑے بھی کھیلتے ہیں اور تماشے بھی دیکھتے ہیں بسا اوقات ایسے تماشے انبیاء بھی دیکھ لیتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد 15 219 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء تماشہ اپنی ذات میں کوئی بری بات نہیں ہے.کھیل اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں، انبیاء بھی کھیل کود میں حصہ لیتے ہیں.سوال صرف یہ ہے کہ یہ پہلی منزل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے دائرے کے اندر رہنے والی منزل ہے.اندھیر اتب بنتا ہے جب اس رضا کی منزل سے انسان اگلی منزل میں قدم رکھتا ہے اور لعب بھی اور لہو بھی یہ دونوں انسان کو بعض دفعہ انتہائی گناہ میں مبتلا کر دیتے ہیں، ایسے گناہ جسے خدا تعالیٰ شرک قرار دیتا ہے جو ظلم کی انتہائی صورت ہے یعنی اندھیروں کی آخری شکل شرک ہے اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یہ دونوں باتیں انسان کو اس آخری شکل تک بھی پہنچا دیتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میں تو معمولی کھیل کو د اور تماشوں میں مصروف ہوں اس میں کون سا گناہ ہے مگر جب یہ دونوں باتیں خدا کی رضا سے باہر قدم رکھتی ہیں تو پھر ایسے ظلمات میں تبدیل ہو جاتی ہیں جن کا کوئی کنارہ نہیں ہے.بالآخر انسان کی کامل ہلاکت تک اسے پہنچا دیتی ہے.اس تعلق میں جو آیات میں نے سامنے رکھی ہیں ان کو ایک ایک کر کے آپ کے سامنے رکھنے سے پہلے میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ لعب اور لہو روز مرہ کی عام زندگی میں بھی گناہ کی شکل اختیار کرنے لگتی ہیں اور اکثر ہمیں دکھائی نہیں دیتا اور لازم ہے کہ آپ اپنے ماحول پر یہ نظر رکھیں کہ لعب کو اپنی حدود کے اندر رکھیں، لہو کو اپنی حدود کے اندر رکھیں اور اپنی اولا د کو ان حدود سے تجاوز نہ کرنے دیں.اس سے پہلے جو عبادات کے سلسلے میں میں نے خطبے دیئے تھے ان میں یہ بات کھولی تھی کہ مثلاً ایک انسان معصومانہ کھیل میں مصروف ہے، بچے ہیں وہ مصروف ہیں، بڑے ہیں وہ کوئی کھیل دیکھ رہے ہیں مثلاً کرکٹ کا کھیل جو گزرا ہے اور اسی قسم کے ٹینس کا زمانہ آتا ہے تو ٹینس میں مصروف ہو جاتے ہیں Boxings ہو رہی ہیں تو باکسنگ کے تماشے دیکھے جاتے ہیں.وہ لوگ جو کھیل نہیں سکتے وہ کھیلتا دیکھ تو لیتے ہیں اور یہ ان کی کھیل ہے.مگر ادھر عین اس وقت جب کہ کوئی میچ اپنے انتہا کو پہنچا ہوا ہے اس وقت اذان کی آواز آتی ہے نماز کے لئے بلایا جاتا ہے کتنے ہیں جو اس معصوم کھیل میں مصروف رہنے کی وجہ سے نماز کا حق ادا کرنے کو فوقیت دیتے ہیں.کتنے ہیں جو بلاتر در اس ٹیلی ویژن کو بند کر دیں گے یا اس ریڈیو کوختم کر دیں گے یا چھوٹے بچوں کو یا بیویوں کو جنہوں نے مسجد میں نہیں جانا ان کو بیٹھا چھوڑ کر مسجد کا رخ کریں گے.وہ جو ایسا کرتے ہیں ان کے کنارے محفوظ ہیں، ان کی سرحدوں پر پہرے بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی سرحد میں اللہ کے فضل سے محفوظ ہیں اور ہمیشہ محفوظ رہیں گی.لیکن وہ لوگ جوان مصروفیتوں کے
خطبات طاہر جلد 15 220 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء وقت ان فرائض کا خیال نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کی عبادت اور دیگر فرائض کو ان مشاغل پر قربان کر دیتے ہیں خواہ وہ کھیل ہو یا لہو ہو یعنی تماشہ، تو ایسے لوگوں کے لئے خطرہ درپیش ہے اور ان کے قدم پھر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور مزید اور بھی زیادہ سفر اند ھیروں میں جا کر کلیہ ہدایت کے رستے سے عاری ہو جاتا ہے.اس مضمون میں جو قرآن کریم کی آیات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں بہت سی ہیں مثلاً ان میں سے دو فرما رہی ہیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبَّا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلوةِ اتَّخَذُو هَا هُزُوا وَ لَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْم لَا يَعْقِلُونَ (المائدة: 59:58) وہی مضمون جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے اس کو زیادہ تفصیل کے ساتھ یہاں بیان فرمایا گیا.فرمایا ہے کہ یاد رکھو ایسے لوگ بھی ہیں جو جب کھیل کود میں مصروف ہوں یا لہو میں مبتلا ہو جا ئیں تو پھر اپنے معصوم دائروں میں نہیں رہتے بلکہ آگے قدم بڑھا کر دین سے بھی ایسا ہی سلوک کرنے لگتے ہیں اور دین کو بھی کھیل کو د بنا لیتے ہیں.جس طرح کھیل کود پر تبصرے ہوں تو کسی انسان کو گناہ کا احساس نہیں ہوتا.کیا فرق پڑتا ہے کوئی کسی ایک کھلاڑی کے خلاف بات کر دے یا دوسرے کے خلاف بات کر دے.مگر جب کھیل کود کے دائرے پھلانگ کر یہ لوگ مذہب کے دائرے میں داخل ہو کر خدا کے برگزیدہ لوگوں پر زبانیں کھولتے ہیں، ان پر تبصرے شروع کر دیتے ہیں، اپنی مجالس میں ان تبصروں کا نشانہ دین والوں کو بناتے اور ان کے دین کو بنا دیتے ہیں تو پہلی ہدایت یہ دی ہے کہ یہ ظالم لوگ ہیں ان سے بچ کے رہو، ان کی سوسائٹی سے قطع تعلقی کرو اور اگرتم ایسا نہیں کرو گے تو بالآ خرتم انہی جیسے ہو جاؤ گے.پس جہاں ایسے لوگ مخاطب ہیں جو بالعموم اپنے روز مرہ کے مشاغل میں کھیل کو داور لہو کو اپنی حدود میں رکھتے ہیں ان کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ یہ مقام محفوظ نہیں ہے اگر تم ان لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہو جو یہاں رعایت نہیں کرتے یعنی یہ خیال نہیں کرتے کہ کن لوگوں کی باتیں ہو رہی ہیں کس مضمون کی بات ہو رہی ہے اور ادب کی رعایت سے نکل کر پھر وہ گستاخی کی حدود میں
خطبات طاہر جلد 15 221 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء داخل ہو جاتے ہیں لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا يْنَكُمْ هُزُوًا وَ لَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الكتب ایسے لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو کتاب دی گئی ہے.مِن قَبْلِكُمْ تم سے پہلے وَالْكُفَّار اور دوسرے بھی ہیں ان کو اولیاء نہ بناؤ.ان کو اپنا دوست نہ ٹھہراؤ.وَاتَّقُوا اللهَ إِن كُنتُم مُؤْمِنِينَ اگر تم مومن ہو تو پھر اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بچ کے رہو.ان کی نشانی کیا ہے.کون لوگ ہیں جو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں.جب ایسے لوگ جو عبادت کو فوقیت دیتے اور ترجیح دیتے ہیں، دنیا کے مشاغل چھوڑ کر عبادت کے لئے اٹھتے ہیں تو اس وقت اس سے برداشت نہیں ہوتا ان کی باتوں سے خود ان کے سینے کا گند فوراً اچھل پڑتا ہے.وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلوةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَ لَعِبًا جب تم خود بھی نماز کے لئے اٹھتے ہو اور لوگوں کو بھی بلاتے ہو، کہتے ہو اٹھو جی اب نماز کا وقت آ گیا چلو چلیں تو کچھ ایسے ہیں جو اسی مجلس میں بیٹھے رہیں گے اور اس وقت مذاق کے رنگ میں بات کریں گے کہ یہ بڑا عبادت گزار آ گیا ہے، اس کو زیادہ خدا کو راضی کرنے کا شوق ہے.یہ چھپے ہوئے کا فر ہیں اگر ظاہر نہ بھی ہوں اور اس کے بعد تمہارے لئے جائز نہیں کہ ان کو اولیاء بناؤ اور ان کو ہم نشین بناؤ.ان کی مجلسوں میں بیٹھنا ترک کر دو اور ان سے تعلقات کاٹ لو ورنہ دوسری جگہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ بالآ خرتم انہی جیسے ہو جاؤ گے اور پھر رفتہ رفتہ تم میں اور ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا.دوسری آیت جو اس مضمون پر ایک اور پہلو سے روشنی ڈالتی ہے فرماتی ہے.وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهُوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا (الانعام: 71).یہاں اس آیت میں اور اس آیت میں فرق یہ ہے کہ یہاں یہ فرمایا گیا تھا کہ تمہارے دین کو وہ مذاق بناتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بیماریاں آگے بڑھنے والی ہیں.یہ ایک جگہ رکا نہیں کرتیں.جو لوگ تمہارے دین کو تماشہ بناتے ہیں اور اس پر تمسخر سے کام لیتے ہیں ایسے لوگوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ پھر اپنے دین کو بھی کھیل تماشہ ہی بنا لیتے ہیں اور خود اپنے دین کی بھی کوئی عزت ان کے دلوں میں باقی نہیں رہتی ، کوئی احترام باقی نہیں رہتا.فرمایا وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِینَهُم محض اس وجہ سے تم نے ان سے بے تعلقی نہیں کرنی کہ تمہارے دین کو نا جائز تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور تماشے کے طور پر اس کو Treat کرتے ہیں اس سے معاملہ کرتے ہیں.فرمایادین کا معاملہ تو خدا سے تعلق رکھتا ہے اس لئے
خطبات طاہر جلد 15 222 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء کوئی انتقامی کارروائی نہیں اگر یہ لوگ اپنے دین کو بھی اسی طرح لیں اور لعب اور لہو سے کام لیں اور دین کو کھیل کو ہی سمجھیں.ذَرِ الَّذِینَ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو.دیکھیں کیسی کامل تعلیم ہے قرآن کریم کی.ہر معاملے کو وضاحت سے پیش کر رہی ہے.اب اندھیروں کا مضمون بھی اتنی روشنی سے دکھاتی ہے کہ ہر اندھیرا اپنے اپنے مقام پر ٹھہرا ہوا دکھائی دے رہا ہے.اس کی حد بندی کرتی ہے مختلف قسم کے اندھیروں کی تفصیل بیان فرماتی ہے کچھ بھی انسان پر اندھیرا نہیں رہنے دیتی.وَغَرَّتُهُمُ الْحَيَوةُ الدُّنْیا اور ان کو اپنے دین سے مذاق کرنا اور دین کو تخفیف سے دیکھنا، اپنے دین کا تخفیف سے ذکر کرنا اس مرتبے تک پہنچا دیتا ہے.غَرَّتُهُمُ الْحَيُوةُ الدُّنْيَا کہ دنیا کی زندگی ان کو دھو کے میں مبتلا کرتی ہے.پس وہ غرور جس کا ذکر پہلے گزرا ہے کہ انسان پیروی تو کرتا ہے پانی دیکھ کرلیکن دھو کے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا پانی کی بجائے وہاں سراب ملتا ہے.فرمایا یہی لوگ ہیں جو اس مرتبے کو پھر پہنچتے ہیں.ان کو اپنے دین سے مذاق بھی راس نہیں آتا اور رفتہ رفتہ ان کو دنیا کی زندگی دھو کے میں مبتلا کر دیتی ہے یعنی دین سے جہاں حقیقت میں انسانی روح کی سیرابی اور شادابی کا سامان ہے اس سے نظریں پھر جاتی ہیں وہاں ان کو سراب دکھائی دیتا ہے اور جہاں سراب ہے الْحَيَوةِ الدُّنْيَا میں ، وہاں وہ پانی دیکھتے ہیں اور اسی کا نام غرور ہے، اس کو دھوکہ کہتے ہیں.فرمایا آن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی جان جو کچھ بھی اس نے کمایا ہے اس کے ذریعہ ہلاکت میں مبتلا ہو جائے ، تباہ و برباد ہو جائے اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے آن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ یہ بہت ہی اہم بات ہے ایسے لوگ پھر دنیا میں جو بھی کماتے ہیں نیکیاں بھی دکھائی دیں ان کی ، تو وہ فائدہ نہیں پہنچاتیں کیوں ، غرض دنیا ہے اور دنیا کا پلڑا دین پر بھاری ہو جاتا ہے.رفتہ رفتہ دین سرکنے لگتا ہے اور دنیا غالب آتی جاتی ہے.پھر ان کا جو کچھ بھی کمایا ہے وہ ان کے کچھ کام نہیں آتا سوائے اس کے کہ ان کو ہلاک کر دے.لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِیع ہر ایسی جان کو یہ تنبیہ ہے کہ اللہ کے سوا اس کا درحقیقت کوئی بھی ولی یا شفیع نہیں.کوئی نہیں ہے جو اس کے ساتھ دوستی کرے اور اس کی دوستی اس کو فائدہ پہنچائے.کوئی نہیں جس کی شفاعت اس کے حق میں کام آ جائے مگر اللہ ہی شفیع ہے.یہاں اللہ کے شفیع ہونے کا کیا
خطبات طاہر جلد 15 223 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء نی ہے.شفیع تو دوسرے کی شفاعت کرتا ہے، دوسرے کے پاس شفاعت کرتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ شفیع المذنبین ہیں، وہ گنہ گاروں کی شفاعت کرنے والے ہیں.مگر قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی اپنی ذات میں شفاعت کا حق نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ اللہ اسے شفاعت کا حق عطا کرے.پس یہاں شفیع سے مراد یہ ہے کہ شفاعت بھی خدا کی مرضی کے بغیر کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی.وہی اصل شفیع ہے یعنی شفاعت کو سننے والا اور شفاعت کو قبول کرنے والا.پس ایسا شخص جو دنیا کی زندگی کے پیچھے لگ جائے اس کا سفر آغاز میں بظاہر معمولی دلچسپیوں کا سفر ہوتا ہے، ایسی دلچسپیوں کا سفر جو انسانی فطرت سے تعلق رکھتی ہیں اور مذہب ان میں دخل نہیں دیتا اور مذہب انہیں جائز قرار دیتا ہے لیکن جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو یہ سفر پھر اندھیروں کے بعد دوسرے اندھیروں میں مبتلا ہونے لگتا ہے.اب دیکھ لیں پہلی قسم کا اندھیرا یہ ہے کہ دوسرے کے دین کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں اور اس ضمن میں مسلمانوں کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے.جب دوسرے کے دین کی بات بھی کرتے ہیں تو یہ احترام ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ابتداء وہ بھی خدا کا کلام تھا اور پوری وضاحت کے ساتھ جو خدا کا کلام ہے اس کو الگ کر کے اگر تنقید کا نشانہ بنانا ہے تو دوسرے حصے کو جو انسانوں نے داخل کر دیا اس پر بے شک تنقید کرومگر کلام اللہ پر تنقید کے قریب تک نہ پھٹکو اور کوشش کرو کہ دوسرے ادیان کی جو غلط تشریحات ان ادیان کے پیروکار خود کرتے ہیں وہ بے چارے خود اندھیروں میں مبتلا ہیں ان پران کے اپنے مذہب کو روشن کرو اور بتاؤ کہ اس تمہارے مذہب میں کیا کیا خوبیاں ہیں تم غلط سمجھ رہے ہو یہ توحید کا علم بردار ہے.چنانچہ اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ویدوں کی بھی تعریف فرمائی جن میں سے اکثریت انسان کی خرد برد کے نتیجے میں بالکل محفوظ نہیں رہی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیغام صلح میں ویدوں کے متعلق بہت ہی عمدہ خیالات کا اظہار فرمایا ان معنوں میں کہ آغاز میں خدا ہی کی طرف سے یہ نازل ہوئی تھیں، بندوں نے ان میں دخل اندازی کر کے ان کا حلیہ بگاڑ دیا مگر آج بھی اگر آپ غور کریں تو اللہ تعالیٰ کے کلام کا نوران میں دکھائی دیتا ہے اور خدا کا نور کلیہ بجھ نہیں سکتا، کلیۂ مٹایا نہیں جا سکتا.انسان کے اندھیرے وقتی طور پر اس پر پر دے ڈالتے ہیں مگر ایک انسان فراست کی نظر سے اگر اس نور کی تلاش کرے تو کوئی بھی الہی کتب
خطبات طاہر جلد 15 224 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء ایسی نہیں ہیں جن میں خدا کے نور کی اصلی شان جگہ جگہ جھلکتی ہوئی دکھائی نہ دے.پس اس پہلو سے فرمایا کہ اگر تم محض تمسخر کی خاطر بد تمیزی کے لئے دوسروں کے مذاہب پر زبا نہیں کھولو گے جیسا کہ بعض لوگ تمہارے مذہب پر زبانیں دراز کرتے ہیں تو انجام کیا ہوگا ؟ جو ان کا انجام ہے وہی تمہارا بھی ہوگا.تم پھر خود اپنے دین کے معاملے میں بھی گستاخ ہو جاؤ گے.بدتمیز اور بے ادب بن جاؤ گے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے، ایسی گہری نفسیاتی حقیقت ہے کہ اگر اس پر آپ غور کریں تو انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.کوئی بھی زبانیں کھولنے والے ٹولے جو آپ کے ذہن میں آئیں یا فرد کوئی آپ کے ذہن میں ہو اس کی تاریخ کا جائزہ لیں کس طرح اس کی زبان آغاز میں پہلے دوسروں پر کھلتی تھی پھر رفتہ رفتہ قریب آنے لگی خود اپنے دین کے متعلق وہ بد تمیز ہوا اور پھر وہ مجلسیں بن گئیں جن کا ذکر ہے کہ وہ اکٹھے بیٹھتے ہیں لہو و لعب میں مشغول ہوتے ہیں پھر اپنے دین پر بدتمیزی کی باتیں شروع کر دیں یہاں تک کہ خود اپنے مفاد کے خلاف پھر ان کی زبانیں چلنے لگتی ہیں.چنانچہ ذَكْرُ بِةٍ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ یہ بہت ہی اہم مضمون ہے.ذَكْرُ بِہ اس کو خوب کھول کھول کر بیان کر.اس کو بار بار نصیحت کے طور پر بیان کر مبادا کوئی جان جو کچھ اس نے کمایا ہے اس کے ذریعے اور اس کے باوجود ہلاک نہ ہو جائے.وَاِنْ تَعْدِلُ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا کہ ایسی جان جو تمسخر اور مذاق کر کے دین کے معاملوں کو کھیل تماشہ بنا کر ہر اس نتیجے سے محروم رہ جاتی ہے جو اس کی کمائی کا نتیجہ ہے اور سوائے ہلاکت کے اس کی دنیا کی محنت اسے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچاتی اس کے متعلق فرمایا کہ پھر وہ وقت آ جائے گا کہ اگر وہ ہر قسم کا بدلہ جو بھی دے سکتی ہے اپنی جان کو عذاب سے بچانے کے لئے وہ بھی دے دے گی تو بھی لَا يُؤْخَذُ مِنْهَا اس سے قبول نہیں کیا جائے گا.اس میں دوروکیں ہیں اول تو بدلہ دینے کی توفیق ہی کوئی نہیں کیونکہ قیامت کے دن تو انسان بے مالک ہو کر جائے گا.کوئی بھی اس کی ملکیت نہیں ہو گی.وہ بدلہ کس چیز سے دے گا.تو یہ ایک نظریاتی دلیل ہوا کرتی ہے جس کا معنی صرف یہ ہے امکانی دلیل ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ واقعہ کچھ لوگ یا کچھ جانیں قیامت کے دن سونوں کے پہاڑ لے کر خدا کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے کہ یہ قبول کرلے اور ہماری جان چھٹ جائے.فرمایا اگر ایسا ہو کہ دنیا جہاں کی دولتیں بھی پیش کر دیں تب بھی ایسے لوگوں کا کوئی بدلہ قبول نہیں کیا جائے گا.وہ جان کسی بدلے کو دے کر اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتی.
خطبات طاہر جلد 15 225 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء دوسرا اس میں مومنوں کے لئے یہ اشارہ ہے کہ اس دنیا میں تمہیں پتا ہے کہ تم سے بدلے قبول کئے جاتے ہیں صدقے قبول کئے جاتے ہیں نیکی کے کاموں پر خرچ کرتے ہو وہ تمہارے گناہوں کی بخشش کا موجب بن جاتے ہیں تو اب جبکہ وقت ہے تو تم کرو.کیوں کہ تمہارا آج کا خرچ تمہاری آج کی مالی قربانی قیامت کے دن وہ بدلہ بنے گی جو دوسروں کے کام نہیں آسکتا مگر تمہارے کام آئے گا.أُولَيكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ہلاکت میں ڈال دیئے جائیں گے.بِمَا كَسَبُوا اس وجہ سے جو انہوں نے کمایا لَهُم شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (الانعام: 71) ان کے لئے کھولتا ہوا پانی ہے.اب پیاس بجھانے کے لئے جو سراب کا نقشہ ہے وہ اور یہ اس پہلو سے ملتے جلتے ہیں کہ کھولتا پانی بھی کسی کی پیاس نہیں بجھا سکتا بلکہ اس کی پیاس کو اور بھڑکا دیتا ہے، اس کے لئے اور بھی درد کا موجب بن جاتا ہے.جس طرح سمندر کا پانی کسی کی پیاس کو بجھا نہیں سکتا بلکہ اس کو اور بھی کھولا دیتا ہے فرما یا شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَ عَذَاب الیم پیاس بجھانے کی بجائے ان کے لئے یہ چیز درد ناک عذاب کا موجب بنے گی.بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ اس وجہ سے کہ وہ جو دنیا میں کام کیا کرتے تھے بسبب اس کے جو وہ انکار کیا کرتے تھے.اب ایک جگہ جب ہمیں ہدایت فرمائی ہے کہ ان لوگوں کو چھوڑ دو، ان کی مجلسوں میں نہ بیٹھو کیوں کہ یہ ظلماتی لوگ ہیں، یہ تمہیں بھی روشنی سے ظلمت کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے تو پیچھے پھر باقی کیا رہ جاتا ہے.کن لوگوں میں گزارہ کرنا ہے اور کن لوگوں میں اپنا دل بہر حال لگانا ہے اس کے سوا چارہ کوئی نہیں ہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاصْبِرُ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدُوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَكَ عَنْهُمْ (الكهف: 29) - وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم ان لوگوں کے ساتھ اپنا دل لگالے اور اس پر صبر کر یعنی اپنی تمام کائنات کو ان لوگوں کی حد تک سمیٹ لے یعنی دلچسپیوں کی ساری کائنات کو جو لوگ خدا کو پکارتے ہیں صبح کے وقت بھی اور رات کے وقت بھی يُرِيدُونَ وَجْهَهُ اور اسی کی رضا چاہتے ہیں، اسی کا چہرہ مانگتے ہیں.وَجْهَهُ سے مراد ہے چہرہ یعنی توجہ اور رضا دونوں باتوں کے لئے وجہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 226 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء.تو فرمایا جب کچھ لوگوں کو چھوڑو گے تو پھر کن لوگوں میں تمہاری دلچسپیاں محدود ہونی چاہئیں، کن میں تمہارا اٹھنا بیٹھنا ہونا چاہئے.ان لوگوں میں جن کی اپنی توجہ کا مرکز خدا کی ذات ہے اور ان کی ساری رضا، ان کی ساری دلچسپیاں اللہ کی وجہ میں ہیں.یعنی یہ مراد نہیں ہے کہ یہ لوگ بور ہیں یا ان کے ساتھ زندگی جو ہے اس میں وہ اکتاہٹ والی اور بے لذت ہو جاتی ہے.فرمایا وہ لوگ جو دنیا کی لذات کی اندھا دھند پیروی نہیں کرتے ، ان حدود میں رہتے ہیں جن حدود تک خدا تعالیٰ اجازت دیتا ہے ان کو بھی لذتیں ملتی ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے پچھلے خطبے میں کھول کر بیان کیا تھا سراب کی پیروی کرنے والوں سے بہت زیادہ لذتیں پاتے ہیں.مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ان سے سوا بھی لذتیں ملتی ہیں اور وہ لذتیں وجہ اللہ میں ہیں، اللہ کے چہرہ میں ہیں ، اللہ کی توجہ میں ہیں ، اللہ کی رضا میں ہیں.پس ایک طرف سے تو تم آنکھیں بند کرو گے تو اس کے مقابل پر کچھ اور چیز تمہیں میسر آنی چاہئے ورنہ ناممکن ہے کہ خدا کی خاطر انسان ایک مثبت چیز کو چھوڑ دے اور یہاں اندھیروں سے روشنی کے سفر کا طریقہ سمجھا دیا گیا.یہ نہیں فرمایا کہ ان کو چھوڑ کر الگ ہو کر اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے بیٹھ رہو.فرمایا ایک سوسائٹی سے دوسری سوسائٹی کی طرف منتقل ہو، تمہیں سہارا چاہئیے.اور وہ سوسائٹی ایسی ہے جس سوسائٹی کا نقشہ کھینچتے وقت فرماتا ہے ان کی اللہ کی رضا پر آنکھ رہتی ہے اور جو رضائے باری تعالیٰ ہے اس میں بے انتہا لذتیں ہیں اور اندھیرے سے روشنی کے سفر کا دوسرا نام یہی ہے کہ انسان خدا کی رضا سے محروم لوگوں سے جدائی اختیار کر کے اس جگہ سے ہجرت کرتے ہوئے ان لوگوں کی طرف ہجرت کرے جن لوگوں کو ہمیشہ صبح بھی اور شام کو بھی اللہ کی رضا مطلوب ہے.وَلَا تَعْدُ عَيْنُكَ عَنْهُمْ اور تیری آنکھیں ان سے ہٹ کر دوسری طرف نہ دیکھیں.یعنی صبر کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ تجھے کافی ہوں اور یہ نہ ہو کہ اچھوں کی صحبت میں کچھ دیر دل لگے بھی لیکن نظر یہ رہے کہ کب یہ صحبت ختم ہو تو ہم اس صحبت میں واپس لوٹ جائیں.یا ہمیشہ دل للچایار ہے کہ وہ بھی تو چیزیں ہیں ان کی طرف بھی تو جانا چاہیئے کچھ ان میں سے بھی دیکھ لیا جائے.فرمایا یہ بس ہوں تمہارے لئے ، یہ تمہاری کائنات بن جائیں، تمہارا سب کچھ یہی ہو جائیں اور تمہاری ساری لڈ تیں اپنی تسکین ان لوگوں کی صحبت میں پالیں.چنانچہ فرمایا تیری دونوں آنکھیں ان سے ہٹ کر پرے دیکھنے کی کوشش ہی نہ کریں، خیال تک نہ ان کو آئے کہ اس سے پرے بھی کوئی دنیا بستی ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 227 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی کو روشنی کا سلیقہ ہو اور واقعہ روشنی کو روشنی سمجھ رہا ہو تو ارد گرد کے اندھیروں میں اس کی آنکھ وہ دیکھ ہی نہیں سکتی جو روشنی سے آشنا ہے.نظر ہی کچھ نہیں آتا تو وہ ہٹے گی کیسے.تو فرمایا اپنی نظر کواتنا Tune کر لو روشنی کے ساتھ کہ روشنی ہی دکھائی دے اور اردگردد یکھنے کا موقع ہی پیدانہ ہو.تمہاری ساری کائنات وہی ہو جو اللہ کے نور کی پیدا کردہ کا ئنات ہے اس کو دیکھو اور وہیں تک تمہاری سرحد میں ہوں.اس سے ارد گرد چونکہ اندھیرا ہے اس لئے آنکھیں وہاں سے ہٹ کر کسی اور چیز کی تلاش کر ہی نہیں سکتیں.اگر تو ایسا کرے گا تو فرمایا تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا توتو اصل میں ابھی تک دنیا کی زینت کی تلاش میں ہی ہے اور اس مصیبت نے تیرا پیچھا نہیں ابھی تک چھوڑ ا.اگر تو ایسا کرے تو پھر تیرا حال یہ ہے ابھی بھی تجھے دنیا کی زینت ہی کی تلاش ہے جس زینت کو اللہ تعالیٰ جھوٹ اور غرور کہہ چکا ہے، جس کو بے حقیقت اور بے معنی اور بے مقصد بتا چکا ہے.وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَونَهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (الكيف: 29) اور ہرگز اس کی پیروی نہ کر.مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے.وَاتَّبَعَ ھونے وہ بھی خلا میں نہیں رہ سکتا.جب ہماری یاد سے غافل ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے وَاتَّبَعَ ھونے اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتا ہے، اپنی دلی آرزو کے پیچھے لگ جاتا ہے.وَاتَّبَعَ هَونَهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا معاملہ ہوتا ہے یعنی ایسا معاملہ ہے کہ جو حدیں پھلانگ چکا ہے اور اب اس کا ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دائمی سفر ہے یعنی یہ مراد نہیں کہ ایک مقام پر کھڑا ہو گیا اور وہ آخری تجاوز کا مقام ہے.تجاوز سے مراد ایک سفر ہے جہاں ہر اگلی حالت پہلے سے زیادہ بے اعتدالی کی حالت ہوتی ہے.ہرا گلا اندھیرا پہلے سے زیادہ سخت اور ظالم اندھیرا ہوتا ہے.مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا یہاں ضمیر خدا تعالیٰ نے اپنی طرف پھیری ہے کہ ہم اس کے دل کو اپنے ذکر سے غافل کر دیتے ہیں.دراصل یہ ایک جزا ہے جس کا ذکر کیا جا رہا ہے اور ایک ایسے انداز میں ذکر کیا جا رہا ہے جس سے خدا کی شان تمجید ظاہر ہوتی ہے.اس کا مسجد ، اس کی عزت ، اس کا وقار، اس کی بلندی.ہم جب کسی کو چاہتے ہیں اور وہ ہمیں نہیں چاہتا تو اس کے باوجود ہم اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور بسا اوقات انسان اپنی زندگی اسی طرح کے سراب کی پیروی میں بھی ضائع کر دیتا ہے.جو لذت اس کو نصیب
خطبات طاہر جلد 15 228 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء ہونی ہی نہیں جو اس کے حصے کی چیز نہیں ہے اکثر اس کی پیروی میں لگا رہتا ہے یہ بھی ایک اندھیرا ہے.مگر جب نہیں بھی پاتا یا رڈ بھی کیا جاتا ہے تب بھی بسا اوقات وہ طلب مرتی ہی نہیں ہے یہ اس کے ادنیٰ مقام کا نشان ہے، یہ اس کے احتیاج کی علامت ہے.پس جو عشاق اپنے محبوب، اپنے مطلوب کو نہ پائیں اور پھر بھی اس کے پیچھے لگے رہیں اور اکثر دنیا کے عشاق کا یہی حال ہوتا ہے یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کا مقام در اصل ادنی ہے.وہ اپنی ذات میں غنی نہیں ہیں، مستغنی نہیں ہیں اور وہ جس کی طلب ہے اگر وہ ان کو جواب میں پیار عطا نہ کرے تو ان کی زندگی محرومیوں کا شکار رہے گی.ایسی صورت میں وہ اپنے دل پر ان کی یاد کے خلاف کوئی پردہ نہیں ڈالتا بلکہ پردہ پڑنے بھی لگے تو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے.وہ سمجھتا ہے میں ساری عمر اسی کی پوجا کروں اسی کے پیچھے لگار ہوں کسی اور کا خیال تک میرے دل میں نہ آئے ٹھوکریں لگتی ہیں تو ٹھوکریں لگتی رہیں مگر آخر دم تک میں اسی محبوب کا پجاری بنا رہوں.یہ انسانی فطرت ہے جو اسے اپنے لا حاصل عشق پر ثبات قدم عطا کرتی ہے.ایسا عشق جو لا حاصل ہے اس کا فائدہ کوئی نہیں پھر بھی اسے ثبات قدم ہے.یہ ثبات قدم خوبی کا ثبات قدم نہیں ہے.یہ استقلال ایسا نہیں جس کی تعریف کی جائے.یہ اس کی کمزوری کا مظہر ہے وہ بے چارہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ایسا بے چارہ نہیں ہوں کہ تم مجھے نہ چاہو اور میں تمہارے بغیر نہ رہ سکوں بلکہ میں تو بے نیاز ہوں.حقیقت میں میں جو تمہارے دل میں آتا ہوں تو تمہاری ضرورت کے خیال سے.اگر تم نہ چاہو گے تو مجھے کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ تمہارے دل میں براجمان ہوں.اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا ایسا شخص جو ہماری یاد کو پیار اور محبت سے نہیں دیکھتا یعنی جس طرح اُردو میں تو ہم کہتے ہیں ہماری بلا سے، خدا فرماتا ہے مجھے اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں پھر کہ میں اسے یادر ہوں یا نہ رہوں بلکہ ہم خود اپنی عزت اور اپنی شان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کے دل پر اپنی طرف سے پردے ڈال دیتے ہیں.اس کے مددگار بن جاتے ہیں ان چیزوں میں جو وہ خود اپنے لئے پسند کر بیٹھا ہے.تو وہ موقع ہی ہاتھ سے جاتے رہتے ہیں جن موقعوں میں خدا کی یاد اس کو آسکتی ہے اور جتنا انسان خدا کے مخالف سمت سفر اختیار کرتا ہے، جو اندھیروں کا سفر ہے، اتنا ہی خدا کی سمت میں اور پر دے اترتے جاتے ہیں اور ہر پردہ اس کے اندھیروں کو زیادہ گہرا کر دیتا ہے.تو فرمایا کہ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ اس کے پیچھے نہ لگ جانا اس کی
خطبات طاہر جلد 15 229 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء پیروی نہ کرنا.یعنی اس کی تمنائیں، اس کی آرزوئیں، اس کی خواہشات، جب وہ تم میں بیٹھے گا تو بتائے گا کہ میں نے یہ یہ چیزیں حاصل کیں، اس طرح میں نے دنیا کمائی ، اس طرح میں نے دوست کمائے ، اس طرح عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتا ہوں، یہ یہ چیزیں چاہتا ہوں، یہ جب سنو گے تو تمہارے دل میں ادنیٰ بھی حرص پیدا نہیں ہونی چاہئے.اس کا تم سے کیا تعلق جس کا خدا سے تعلق نہیں.اس کی پیروی نہیں کرنی سے مراد ہے اس کی تمناؤں کی پیروی نہیں کرنی ، اس کے طرز زندگی کی پیروی نہیں کرنی.اس طرح بے نیاز ہو کر اس کو دیکھو جیسے خدا بے نیاز ہو کے اس کو دیکھتا ہے.وَاتَّبَعَ هَونے اور پھر اپنے ”ھوای“ کی پیروی کرتا ہے.تم تو ہوا و ہوس کی پیروی کرنے والے نہیں ہو.وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا اور اس کا معاملہ حد سے تجاوز کر نے لگ گیا ہے.جب تجاوز کرتا ہے تو پھر ایک اور مقام ایک تیسری منزل اندھیرے کی اس کے سامنے لے آتا ہے.فرماتا ہے اِنَّ السَّاعَةَ أُتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (طه: 16) قیامت یقیناً آنے والی ہے اَكَادُ أُخفيها قریب ہے کہ میں اسے ظاہر کر دوں.لِتُجرى كُلُّ نَفْسٍ یہاں اُخْفِيهَا کا جو مضمون ہے اس کے دونوں معنی ہیں مخفی رکھنا بھی اور ظاہر کرنا بھی.اس آیت کی تفسیر کا یہاں اس وقت موقع نہیں، باقی اس کے پہلوؤں پر اس وقت تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، اس تعلق میں اس کا یہی معنی ہوگا.اِنَّ السَّاعَةَ أُتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا بعید نہیں کہ میں اسے ظاہر کر دوں یا قریب ہے کہ میں اسے ظاہر کر دوں كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَی ہر نفس پر اس معاملے میں جس کی اُس کو جزا دی جائے گی جس کے لئے وہ کوشش کر رہا ہے.جزا کا تعلق لتجزے سے ہے اور بِمَا تَسعی کا مطلب ہے جس کی وہ کوشش کر رہا ہے.پس اس ترجمے کی تفصیل یوں بنے گی کہ قیامت تو بہر حال آنے والی ہے.تم لوگوں کو دکھائی نہیں دے رہی ایسا شخص جو دنیا کی پیروی کر رہا ہے، دنیا کے دھوکوں میں مبتلا ہے، اسے آئندہ کی زندگی کی طرف اپنے بڑھنے کا احساس تک نہیں لیکن ایک ایسی منزل ضرور آئے گی جہاں پچھلی دنیا دکھائی دینی بند ہو جائے گی اور اگلی دنیا دکھائی دینے لگے گی.وہ وقت ہوگا یعنی موت کا وقت جب وہ جانتا ہے کہ اس کا پچھلا سفر تو ختم ہوا اس کا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اگلا سفراب قریب ہے.اسے سوائے آخرت کے پھر اور کوئی خیال نہیں آتا وہ کون سا وقت ہے.لِتُجْزُ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعی تا کہ جزا دی جائے ہر اس جان کو جس
خطبات طاہر جلد 15 230 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء نے کچھ دنیا میں کمایا ہے یا کچھ کوشش کی ہے.فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا پس وہ لوگ جو اس پر ایمان نہیں لاتے جب تک وہ اس آخری منزل تک نہیں پہنچتے اگر تم ان کے قریب رہو گے تو وہ تمہیں بھی اس سے ہٹالیں گے تمہیں بھی اس راہ سے روک دیں گے.پھر عجیب بیان ہے ایک طرف یہ قطعی خبر ہے کہ ہر جان لازماً اس مقام تک پہنچائی جائے گی جہاں اس پر بعد کی زندگی روشن کر دی جائے گی اور پردے اٹھائے جارہے ہوں گے.لیکن جن کو اس وقت دکھائی دے گا فرمایا وہ پہلے ایمان نہیں لاتے.اگر پہلے ایمان لاتے تو انہیں پہلے بھی دکھائی دیتا.ایسے لوگوں کے قریب نہ رہو، ایسے بے ایمانوں کے ساتھ دوستی نہ کرو جن کو آخرت پر یقین نہیں ہے.یقین تو ہو گا لیکن اس وقت ہوگا.جب ان کے لئے دیر ہو چکی ہوگی اور بے فائدہ ہو چکا ہوگا.جب موت کے چنگل میں مبتلا ہوں گے اس وقت وہ دیکھ لیں گے اور فرمایا ضرور ایسا وقت آنے والا ہے.مگر جب تک وہ نہیں دیکھتے وہ دوسروں کو اس راستے سے روکتے ہیں.فرمایا تجھے ایسے لوگوں کا تعلق روک نہ دے.مَنْ لا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوْنَهُ فَتَر دی (طہ: 17) وہ اپنی ہوا کی پیروی کرنے والے لوگ ہیں وہ رضائے باری تعالیٰ کی پیروی نہیں کرتے.پس اگر تو ایسے لوگوں سے دوستی رکھ کر ان کے پیچھے لگے گا تو تو بھی ہلاک ہو جائے گا.فَتَر دی لازم تو ہلاک ہو گا اور ہلاکت کی آخری شکل کیا ہے.فرماتا ہے اَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ الهَهُ هَومَهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان: 44).کیا تو نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کی ظلمت پھر بالآ خرکتنی گہری ہو جاتی ہے.پہلے وہ اپنی ھوی کے پیچھے چلتے ہیں پھر اپنی خواہش کو معبود بنالیتے ہیں.پہلے اس کی پیروی کرتے ہیں اس کو حاصل کرنے کے لئے.پھر جس کو وہ حاصل کرنے کی پیروی کرتے ہیں وہ چیز ان پر سوار ہو جاتی ہے ان پر قبضہ کر لیتی ہے اور یہ لوگ اپنی خواہش کے غلام بن جاتے ہیں اور جب خواہش کا غلام ہوں تو اس کی عبادت کرنے لگتے ہیں اور یہ وہ مضمون ہے جو ایک گہری انسانی فطرت پر روشنی ڈال رہا ہے جس سے تمام دنیا کے مذاہب کا تعلق ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ بے خدا کوئی انسان رہ نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا کے بغیر رہ سکے کیونکہ خدا کی طلب اس کی فطرت میں مرتسم فرما دی گئی ہے.قول بلی سے ہر روح نے یہ اقرار کیا.ہے کہ ہاں ہمارا ایک رب ہونا چاہئے اور ہے، کیوں نہیں ہے.پس وہ لوگ جو حقیقی رب سے تعلق توڑتے ہیں یہ وہم ہے کہ وہ بے خدا رہتے ہیں.فرمایا ان پر ان کی خواہشات اس طرح غالب آ جاتی
خطبات طاہر جلد 15 231 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء ہیں جیسا مومن بندوں پر خدا کا تصور غالب آتا ہے اور اندھا دھندان خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ جرائم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ خواہش کا شیطان ان کو کسی برے رستے سے روکتا نہیں بلکہ برے رستوں کی طرف بلاتا اور اکساتا ہے اور آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے لیکن عبادت کے بغیر وہ نہیں رہتے.پس دنیا ان کی عبادت کی جگہ بن جاتی ہے.دنیا کی پیروی ان کی عبادت ہو جاتی ہے اور دنیا ان کا معبود بن جاتی ہے.اب جتنی بھی تو میں خدا سے ہٹی ہیں ان کو دیکھ لیں دنیا ان کا معبود ہے، سب کچھ دنیا ہے اور اتنے انہماک سے ان کی پیروی کرتے ہیں کہ وقتی طور پر خداہی کے قانون کے تابع اس معبود باطل کی پرستش کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ اپنے مقاصد کو حاصل بھی کرتے رہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے جو فرمایا: أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُ وا لَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِى أَوْلِيَاءَ اِنَّا اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ نُزُلًا قُلْ هَلْ تُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَانَا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَانِ (الكيف: 103 تا 105) یہ جو آخری ٹکڑا ہے اس آیت کا یہ ہے جس کا اس آیت سے جو زیر نظر ہے اس سے گہرا تعلق ہے.الَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْیا جب دنیا ان کی معبود ہو جائے تو ان کی تمام تر کوششیں اس معبود کی عبادت میں خرچ ہوتی ہیں اور کچھ حاصل بھی کرتے ہیں.یہ نہیں کہ کچھ حاصل نہیں ہوتا.دنیا ان کو ضرور حاصل ہونے لگتی ہے اور اسی دھوکے کی زندگی میں، اسی روشنی میں جس کو میں قرآن کی تعریف میں اندھیرا کہ رہا ہوں اس میں وہ دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم نے تو بہت کچھ حاصل کر لیا ہم تو صنعتوں پر غالب آگئے ہیں ہمارے جیسا کا ریگر تو دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا اور صنعتوں کی وجہ سے ہم دنیا پر غالب آئیں گے اور دنیا کو نیچا دکھا دیں گے یہ مضمون ہے جو اس پیروی سے وابستہ ہے.اَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا گھانا کھانے والے تو ہیں مگر آخرت میں گھاٹا کھانے والے ہیں.دنیا کی زندگی تو ان کو ملے گی مگر یہ دنیا کا معبود آخرت میں ان کے کام نہیں آئے گا.اس معبود کو وہ پیچھے چھوڑ کر آگے جائیں گے.نہ ان کا ولی ہو سکے گا، نہ ان کا شفیع ہو سکے گا.
خطبات طاہر جلد 15 232 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء تو هوای“ جو ہے یہ دیکھنے میں تو ایک دل کی تمنا تھی اور انسان کہتا ہے کہ کیا حرج ہے کہ انسان اپنی خواہش کو پورا کر لے.خدا ہی نے تو فطرت میں پیدا کیا ہے اور کئی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں.کہتے ہیں عجیب ہے اللہ تعالیٰ ، ایک طرف دل میں طلب رکھ دی ہے کہ یہ بھی لو، وہ بھی لو، یہ بھی مزہ کرو اور جنسی طلب بھی ہے، مال و دولت کی بھی طلب ہے اور فخر و مباہات کی بھی طلب ہے اور دوسری طرف رستے بند کر دیئے ہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے لکھا وہ اپنی طرف سے نفسیات کے ماہر تھے انہوں نے لکھا یہ تو نفسیات کے خلاف بات ہے.کیا آپ کا مطلب ہے کہ ہر انسان مریض بن جائے.میں نے کہا آپ کا سوال جو ہے یہاں نہیں ٹھہر رہا آگے بھی چلتا ہے.آپ جب کسی سٹور میں جاتے ہیں وہاں آپ کو اچھی پیاری پیاری چیزیں ملتی ہیں کیا آپ کے دل میں آرزو نہیں ہوتی کہ اس کو اٹھا لیں.اٹھاتے کیوں نہیں؟ کیوں نفسیاتی مریض نہیں بن جاتے ؟ کوئی خوب صورت لڑکی دکھائی دیتی ہے دل چاہتا ہے کہ اپنے خاوند کے ساتھ نہ ہو میرے ساتھ چلے کیا کبھی آپ نے جھپٹ کے اس کو کھینچ کر اپنے خاوند سے الگ کیا ہے؟ کسی خوب صورت کوٹھی، کسی محل کو دیکھتے ہیں آپ کا طبعی دل بتائیں چاہتا ہے کہ نہیں ؟ کیا فطرت کی یہ آواز اٹھتی ہے کہ نہیں کہ ہاں کاش یہ میرا ہوتا؟ تو پھر دندناتے ہوئے چلے جائیں کیوں اپنی خواہش کو دباتے ہیں؟ نفسیاتی مریض کیوں نہیں بن گئے ؟ محض جہالت ہے.نفسیات کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ماہرین نفسیات نے بڑے بڑے بے ہودہ اور پاگلوں والے نتیجے نکالے ہیں اور اسی کے نتیجے میں آج کل کے اس تعلیمی ماحول پر بہت ہی بداثر پیدا ہوا ہے.جہاں نیکی کے معاملات ہوں، جہاں خدا کی حدود کی باتیں ہوں وہاں سکول کے بچوں کو کہتے ہیں ہیں ہیں ، تمہیں کیوں روکتے ہیں ماں باپ.ان کا کیا حق ہے.تمہاری فطرت کی آواز ہے جاؤ بدمعاشیاں کرو، آوارگی کرو، جو چاہو کرو، کوئی تمہیں روکنے والا نہیں.جب دنیا کے قوانین کو توڑتے ہیں تو وہاں ان کی پکڑ کے ہاتھ سخت ہو جاتے ہیں.محض ایک منافقت ہے، ایک دھوکہ ہے اور متاع الغرور میں منافقت کی زندگی بھی داخل ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ھوی کو معبود بناؤ گے تو پھر کوئی حد باقی نہیں رہے گی کیونکہ معبود تک پہنچنے کے لئے رستے میں کوئی قانون حائل نہیں ہوسکتا.معبود تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے دوڑ و اور اس کی طرف چلے جاؤ.تو اس کے آخری نتیجے تک تم پہنچو گے.دنیا تمہاری معبود ہوگی تو رستے کے تمام
خطبات طاہر جلد 15 233 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء قوانین، تمام انسانی فطرت کے تقاضے جو تمہیں تہذیب سکھاتے ہیں جو تمہیں بعض مقامات پر رکنے کی تعلیم دیتے ہیں، جو آواز دیتے ہیں کہ اس سے آگے تم نے قدم نہیں رکھنا ہر ایسے موقع پر تمہیں اپنی خواہش کی گردن پر چھری پھیرنی پڑتی ہے.تب دنیا میں امن قائم ہوتا ہے.اگر خواہش تمہارا معبود بن گئی تو دنیا کی گردن پر چھری پھیر نی پڑے گی ، دنیا کے حقوق برباد کرنے پڑیں گے تب تم اپنی خواہش کی پیروی کر سکتے ہو ورنہ یہ طاقت تمہیں نصیب ہی نہیں ہوسکتی.یہ لہو ولعب کے تعلق میں وہ آخری اندھیرا ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے دوسری آیت میں کھول کر بیان فرمایا.فرمایا اس کو معبود نہ بنا بیٹھنا.اگر یہ معبود بن جائے گا تو ہر بات جس کی تمہاری فطرت میں طلب ہے وہ جائز رستوں پر نہیں رہے گی.وہ تمہاری قربانی کے نتیجے میں نہیں بلکہ دنیا کی قربانی کے نتیجے میں زندگی پائے گی، زندگی کا پانی حاصل کرے گی یعنی دوسروں کا خون تمہاری غذا بن جائے گا اور ایسی دنیا بے امن ہو جاتی ہے.ایسی دنیا میں ہر طرف ایک لاقانونیت کا دور چلتا ہے.ہر سکون چھینا جاتا ہے.ہر امن کی پناہ گاہ میں ظالم داخل ہو جاتے ہیں اور ہر گھر میں سند لگ جاتی ہے یعنی ہر گھر میں نقب لگ جاتی ہے اور کوئی گھر ، گھر باقی رہتا ہی نہیں ہے.یہ آج کا دور جو ہے اس میں لعب ولہو نے بعینہ یہ نقشہ پیدا کر دیا ہے.پس قرآن کریم نے جو یہ فرمایا کہ خدا کے سوا اگر کوئی اور معبود ہوتے تو دنیا تباہ و برباد ہو جاتی ، فساد برپا ہو جاتا.وہ ایک دوسرے کی بادشاہی سے چیزیں لے اڑنے کے لئے کوشش کرتے.یہ ایک پہلو سے اس کی تفصیل ہے.جب غیر اللہ کی عبادت کرو گے تو سب سے خطر ناک عبادت اپنے نفس کی عبادت ہے.اپنے نفس کی عبادت کے نتیجے میں جہاں خدا کی ملکیت ہے، جہاں تمہارے ہاتھ روکے گئے ہیں، جہاں تمہارے قدم تھا مے گئے ہیں نہ ہاتھ رکیں گے نہ قدم چلنے سے باز آئیں گے.اس طرف بڑھیں گے اور وہ جس طرف بڑھیں گے وہ عملاً خدا کی ملکیت ہے مگر عطا اس کے بندوں کو ہوئی ہوتی ہے.براہ راست خدا سے نہیں کوئی چھین سکتا کچھ.خدا کی تقسیم میں رخنہ ڈالتا ہے.جن خدا کے بندوں کو عارضی ملکیت نصیب ہوئی ہے ان کا امن ٹوٹتا ہے اور اس دور میں جیسے شیشے میں تصویر دکھائی دیتی ہے اور شیشہ اس تصویر کو اچھال کر باہر پھینکتا ہے اس طرح سوسائٹی تمہاری تصویر کو اچھال کر تمہارے منہ پر مارے گی.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تم لوگوں کے امن اٹھاؤ، اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے لوگوں کے امن بر باد کرو اور تمہارا امن برباد نہ ہو.ایسی سوسائٹی میں پھر ہر ایک کا
خطبات طاہر جلد 15 234 خطبہ جمعہ 22 / مارچ 1996ء امن برباد ہو جاتا ہے اور جھوٹے خدا کی عبادت یہاں تک پہنچائے گی اس کے سوا تمہیں کچھ نہیں پہنچا سکتی.تو ایسا طبعی منطقی نتیجہ ہے کہ اس سے مفر ہی کوئی نہیں ہے.جو چاہو کر لو، جتنی چاہو، دلیلیں تلاش کرو جو نتیجہ قرآن نے نکالا ہے کہ اندھیرے کی پیروی میں ٹھوکریں ہی ٹھوکریں ہیں اور ہلاکت ہی ہلاکت ہے، جتنا آگے بڑھو گے اتنے ہی زیادہ خوفناک نتائج منہ پھاڑے تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے اور تم ان چیزوں کے غلام بن جاؤ گے جن کو اپنا غلام بنانے کے لئے ان کی پیروی شروع کی تھی.پس اللہ تعالیٰ ان سب اندھیروں سے ہمیں بچائے اور اس کی مزید تفصیلات کی بھی ضرورت ہے.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اس مضمون کو روز مرہ کی انفرادی زندگی میں مزید چسپاں کر کے آپ کو دکھانے کی کوشش کروں گا کہ کن اندھیروں سے بچنا ہے تا کہ خدا کا نور حاصل کرنے کے لئے جگہ تو بنے.جس دل کو اندھیروں نے گھیر رکھا ہو، وہاں کوئی جگہ نہ ہو خدا کے نور کے لئے وہاں خدا کا نور نہیں آئے گا کیونکہ وہ اندھیرے سے شکست نہیں کھاتا ، خدا کی غیرت اسے واپس کھینچ لیتی ہے.پس یہ وہم ہے کہ خدا کا نور اندھیروں سے شکست کھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی رفعت اور اس کی غیرت برداشت نہیں کرتی کہ جس دل میں اس کے نور کی طلب نہ رہے وہاں اپنے نور کو زبردستی ٹھونس دے.وہ واپس بلاتا ہے اور پر دے ڈالتا رہتا ہے کہ تمہیں میں اس نور سے خوب بچاؤں گا جس نور سے تم خود بچنے کی کوشش کر رہے ہو، جس سے تم متنفر ہو چکے ہو.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور عملی زندگی میں جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.کیونکہ یہ حض علمی دلچسپی کی باتیں نہیں ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ٹھوس حقائق ہیں جن کے سمجھنے کے نتیجے میں، جن پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہماری زندگی بھی تبدیل ہو سکتی ہے اور ہمارے ماحول بھی سدھر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 235 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء ایک مرکز پر جمع ہونا رحمت سے تعلق رکھتا ہے ممبران شوری کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده 29 / مارچ 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: فَمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ إنْ تَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ ه لَكُمْ ۚ وَاِنْ يَخْذُ لكُم فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِّنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران: 161,160 ) پھر فرمایا: ان آیات کا تعلق اسلام کے نظام شوری سے ہے اور اس کی بنیادی صفات ان آیات میں بیان فرمائی گئی ہیں.ذکر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے شروع ہوتا ہے اور اس رحمت کے ذکر سے جو خدا تعالیٰ نے آپ پر بطور خاص فرمائی.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ تو مومنوں کے لئے نرم ہو گیا اس رحمت کی بناء پر جو تجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی.پس مجلس شوری کا آغاز اس رحمت سے فرمایا گیا یعنی نظام شوری کا آغاز اس رحمت سے فرمایا گیا ہے جو صلى الله خدا کی طرف سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) کے مضمون کے تابع آپ سے پھر وہ رحمت دوسرے بنی نوع انسان میں اس طرح جاری ہوئی کہ جو
خطبات طاہر جلد 15 236 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء قریب تر تھا اس نے سب سے زیادہ فیض پایا.ورنہ رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا مضمون بتا رہا ہے کہ آپ کی رحمت محض صحابہ کے لئے خاص نہیں تھی تمام بنی نوع انسان کے لئے تھی جیسا کہ اللہ کی رحمت سب بنی نوع انسان کے لئے ہے بلکہ ہر مخلوق پر حاوی ہے.پر فَبَمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللہ سے طبعا اور علی نتیجہ یہ کہتاہے کہ آنحضور ﷺ کی رحمت جو خدا سے آپ پر اتری وہ اسی طرح بندوں میں تقسیم ہوئی بلکہ مخلوق نے بھی اس سے حصہ پایا اور یہ وہ رحمت ہے جو بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے ورنہ کوئی نظام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر جمع نہیں کر سکتا.یہ مرکزی نکتہ ہے جو بہت ہی قابل توجہ ہے اور اگر یہ رحمت نہ ہو جو بندوں کو آپس میں باندھے تو ان کا کوئی نظام شوری بھی فائدہ مند نظام شوری نہیں ہوسکتا.اگر نفرتوں سے دل پھٹے ہوئے ہوں اور ایک نیشنل اسمبلی کی چھت کے نیچے وہ شوریٰ کی خاطر ، مشوروں کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو جوتیوں میں دال تو بٹ سکتی ہے مگر فائدے کی چیزیں رونما نہیں ہوسکتیں.پس قرآن کریم کی تعلیم دیکھیں کیسی کامل ہے اور کیسی پر حکمت اور کتنی گہری اور کتنی باہم مربوط ہے.ذکر رحمت کا چلا ہے بات شوری پر ختم فرماتا ہے کیونکہ یہ بنیادی شرطوں میں سے ایک شرط ہے.کوئی انسان جو رحمت سے عاری ہو یا اپنے بھائی کے لئے اس کا دل محبت سے خالی ہو وہ نہ مشورہ لینے کا اہل ہوتا ہے نہ مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ مشاورت کا لفظ بولا ہے یا شوری کا بالامانة کہ شوری یا مشاورت یعنی ایک دوسرے سے باہمی مشورہ کرنا ایک امانت ہے اور جس سے مشورہ کیا جائے اس کا فرض ہے کہ بعینہ وہی بیان کرے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے لئے بہتر ہے اور اپنے مفاد کی خاطر نہیں بلکہ مشورہ کرنے والے کے مفاد کی خاطر مشورہ دے اور جب وہ مشورہ طلب کرے گا تو اس سے بھی بعینہ یہی سلوک ہوگا.پس یہ بات آپس کے تعلقات ہی میں نبجھ سکتی ہے ورنہ ناممکن ہے.ورنہ اگر آپس میں محبت نہ ہو، ایک دوسرے کے بدخواہ لوگ ہوں تو جب بھی مشورہ مانگا جاتا ہے کوئی چکر والا مشورہ دیا جاتا ہے تا کہ اس سے مشورہ لینے والا تباہ ہو جائے اور دنیا کا نظام، نظام شوری اگر بعینہ ایسا نہیں تب بھی اس میں فساد کی را ہیں اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی ایک نظام شوری بھی نہیں جس کے متعلق ہم یہ کہہ سکیں کہ وہاں ہر مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے.بلکہ وہ نظام شوری جو پارٹیوں میں تقسیم ہو چکا ہے اس میں مخالفت برائے
خطبات طاہر جلد 15 237 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء مخالفت، پارٹی کی تائید یا پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے ایک ایسا روز مرہ کا دستور بن جاتا ہے کہ اس سے ہٹنے والا قوم کا یا اس پارٹی کا بے وفا سمجھا جاتا ہے.ابھی انگلستان کی پارلیمنٹ میں بھی ایسے واقعات ہوئے.ایک پرانے کنزرویٹو ممبر نے کسی اختلاف کی وجہ سے جس کو اس نے اصولی اختلاف قرار دیا پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور بہت شور پڑا اس پر اور ان کی اپنی Constitution میں بھی ان کے خلاف مخالفت کی آوازیں اٹھائی گئیں مگر یہ ضرور ہے کہ ان کا حق ضرور تسلیم کیا گیا.چھوٹے اور غریب ملکوں میں تو حق کے ساتھ ایسا حق استعمال کرنے والا بھی مارا جاتا ہے.مگر بہر حال نظام ہے نظام میں کبھی ہے اور اس نظام کی رو سے الا ما شاء اللہ جیسا کہ میں نے مثال دی ہے خواہ انسان حق سمجھے یا نہ سمجھے پارٹی کی وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ پارٹی کے ساتھ رہیں اور اسلامی نظام میں پارٹی کا وجود ہی کوئی نہیں ہے اور پارٹی کا وجود منا اپنی ذات میں ایک بہت بڑی رحمت ہے کیونکہ ہر شخص اپنے نفس کی خاطر نہیں بلکہ اپنے نفس کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ محض اللہ کی خاطر فیصلہ کرنا ہے.محض اللہ کی خاطر مشورہ دینا ہے.یہ اصولاً تو بات ٹھیک ہے مگر چل نہیں سکتی جب تک کہ رحمت کا مضمون اس کے ساتھ شامل نہ ہو.اس کا قطعی ثبوت قرآن کریم کی یہ آیت اس رنگ میں پیش کرتی ہے کہ تمہارے قومی معاملات میں جو باہمی محبتیں اور باہمی ربط کے سلسلے جاری ہوں گے ان کی بناء عقلی نہیں ہے، ان کی بناء دلائل پر نہیں ہے.یہ جو قومی وحدت ہے محض رحمت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اس سے بڑا اس کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ فرمایا لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ کہ اے محمد ﷺ ! تیرے جیسا کامل فہم والا انسان، اولوالالباب کا سردار تو بھی ان کو اکٹھا نہیں کر سکتا تھا اگر رحمت سے خالی ہوتا.پس عقل کبھی بھی قوموں کو اکٹھا باندھ نہیں سکتی.تدبیریں کبھی قوموں کو اکٹھا نہیں رکھ سکتیں.ایک مرکز پر جمع ہونا رحمت سے تعلق رکھتا ہے.باہمی محبت اور پیار اور ایک دوسرے کا ادب، ایک دوسرے کا خیال، ایک دوسرے کے مفادات کو اپنے مفاد سمجھنا یہ سب رحمت کے تقاضے ہیں جن کے نتیجے میں قومی وحدت ظہور میں آتی ہے.پس فرمایا فَمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ تجھ پر جو خدا کی رحمت ہے وہ تو اتنی ہے کہ اسی رحمت کا ایک طبعی تقاضا تھا کہ تو ان کے لئے نرم پڑ گیا.آنحضرت ﷺ کو یہ کیوں فرمایا ہے کہ رحمت کی وجہ سے تو نرم پڑا ہے.وجہ یہ ہے کہ جہاں
خطبات طاہر جلد 15 238 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء Absolute Leadership ہو وہاں ماتحت کے لئے نرمی رفتہ رفتہ غائب ہونی شروع ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ اللہ کا حوالہ ہمیشہ پیش نظر رہے اور یہ ایک ایسا طبعی اصول ہے جس کے تابع جتنا بلند مرتبہ اور زیادہ طاقتور بادشاہ ہو گا اتنا ہی اپنے آپ کو غریبوں کے مسائل کا خیال کرنے کا کم پابند پائے گا.اتنا ہی اس میں ایک ایسی غناء پیدا ہوتی چلی جائے گی جو قابل تعریف غناء نہیں بلکہ قابلِ مذمت غناء ہے.وہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ اس سے ہنس کے ہی بات کروں.پس یہ وہ مضمون ہے جس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو بطور خاص خدا تعالیٰ نے چن کر فرمایا کہ تو اپنی تمام عظمتوں کے باوجود اگر خدا کی رحمت تجھے بطور خاص عطا نہ ہوتی تو ضروری نہیں تھا کہ ان کے لئے نرم ہوتا کیونکہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں.یہ فطرت انسان کو بعض دفعہ اپنے بہاؤ پر اس طرح لے کے چلتی ہے کہ چلنے والے اور بہنے والے کا کوئی اختیار نہیں ہوا کرتا.Moving Plateforms ہوتے ہیں.کشتیوں میں سمندروں میں، دریاؤں کے بہاؤ کے ساتھ مسافر خود بخود آگے بڑھتے ہیں.پس یہ وہ مضمون ہے جو فطرت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کبھی بنی نوع انسان میں کسی کو اپنے غلاموں پر اختیار نہیں دیا گیا.اور غلام بھی ایسے کامل تھے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ آنحضور نے کے حوالے کر رکھا تھا یہاں تک کہ یہ بھی دستور تھا کہ جب آپ مشورہ مانگتے تھے تو عرض کیا کرتے تھے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.ہم کون ہوتے ہیں مشورہ دینے والے.اسی لئے قرآن کریم فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِی اے صلى الله محمد رسول اللہ ! یہ تو تیرے کامل غلام بنے ہوئے ہیں یہ بندوں کی طرح تیرے حضور حاضر رہتے ہیں ان کو کہہ اے میرے بندو! یہاں بندے کہہ کر خدا سے الگ بندگی مراد نہیں بلکہ یہ پیغام ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کیوں کہ عبد کامل ہیں اس لئے جو ان کا بندہ بنتا ہے وہ خدا کے سوا کسی کا بندہ بن ہی نہیں سکتا اس لئے محمد رسول اللہ اللہ کو حکم ہے کہ تو ان کو اپنا بندہ کہہ دے تا کہ ان کی توحید پرستی کی صلى الله تعریف ہو کیونکہ محمدﷺ کا بندہ خدا کا بندہ ہے اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن ہی نہیں ہے.پس اس پہلو سے فرمایا کہ تو اتنی عظمتوں کا مالک، تجھے خدا نے سارے اختیار دے دیئے یہ بھی تیرے حضور اپنی گردنیں جھکائے بیٹھے ہیں لیکن اگر تجھے وہ رحمت عطا نہ ہوتی جس کے نتیجے میں طبعی محبت کے جوش سے تو ان پر جھکا ہے، عقلی تقاضوں کی وجہ سے نہیں محبت کی وجہ سے، تو پھر ان کو تو
خطبات طاہر جلد 15 239 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء التعليسة.علية اکٹھا نہیں کرسکتا.کیوں کہ محبت محبت کو پیدا کرتی ہے اور محبت کے بغیر محبت پیدا ہو نہیں سکتی.اس لئے ظاہری عقلی اطاعت اور چیز ہے محبت کے تقاضوں کے نتیجہ میں اطاعت اور چیز ہے.محمد رسول ے کے غلام کبھی آپس میں جڑ نہ سکتے خواہ حضور کے سامنے گردنیں جھکا دیتے اگر رسول اللہ اللہ کی محبت کا فیض نہ ہوتا یہ وہ مضمون ہے اور پھر بالآخر آ نحضرت ﷺ سے بھی دور ہٹنا شروع ہو جاتے کیوں کہ جس کو محبت سے نہ باندھا گیا ہو وہ عذر ڈھونڈتا ہے.ذرا سا بھی عذر پیدا ہو جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے اور دور نکل جاتا ہے لیکن محبت ہو تو بڑی سے بڑی سزا کو بھی انسان خوشی سے قبول کر لیتا ہے.محبت ہو تو بڑی سے بڑی سختی بھی دل پر اتنی ناگوار نہیں گزرتی کہ انسان کا دل اپنے محبت کے رشتے تو ڑ کر الگ ہو جائے.کچھ دیر غم کی حالت رہے گی مگر پھر رہے گا وہیں کا وہیں اس سے دور ہٹ نہیں سکتا.یہ جوکشش ثقل ہے یہ بھی تو محبت ہی ہے اس کے سوا اس کی اور کوئی طاقت نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ محبت دنیا کی ہر طاقت سے بڑھ کر طاقت ہے.چنانچہ کشش ثقل کا راز سائنس دان اتنی ترقی اور غور و فکر کے باوجود بھی آج تک سمجھ نہیں سکے اور جو زیادہ دانشور ہیں اور حق پرست ہیں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی سمجھ نہیں آئی.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ڈاکٹر عبدالسلام سے گفتگو کے دوران وہ جانتے ہیں جو چار بنیادی طاقتوں کو آپس میں ملانے کے لئے دو کا راز سمجھ گئے اور چار کی بجائے تین طاقتیں رہ گئیں ہیں جن کے متعلق رشتے ڈھونڈے جارہے ہیں کن رشتوں سے ان کو باہم ملا کر ایک بنایا جائے لیکن آخری طاقت کشش ثقل کی ہے.کشش ثقل کی طاقت اتنی مشکل ہے سمجھنے کے لحاظ سے کہ حساب بے کار ہو جاتے ہیں.کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس کو کس طرح ظاہر کیا جائے کہ یہ طاقت ہے کیا چیز ؟ جس قوت کے ساتھ زمین ہر چیز کو اپنے گرد سمیٹے ہوئے ہے جو Energy خرچ ہورہی ہے اس پر وہ اتنی بھی نہیں کہ انسان اپنے ہاتھ میں کسی وزن کو اٹھائے تو اس پر جو خرچ ہوتی ہے اتنی ہو.چونکہ محبت دونوں طرف ہے زمین جن چیزوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے وہ چیزیں زمین کی طرف کھنچتی چلی آرہی ہیں.اس لئے محبت کے مضمون کو سمجھے بغیر یہ سائنس کا مضمون حل ہو ہی نہیں سکتا.پس اللہ تعالیٰ نے بھی محبت کے کرشمے سے تمام کائنات کو آپس کے بندھنوں سے باندھا ہے.اور اسی محبت کے نتیجے میں پھر دوسری طاقتیں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً بجلی کی طاقت ہے Electricity یہ کشش ثقل کی براہ راست مرہون منت ہے.اگر کشش ثقل نہ ہو تو کوئی چیز اوپر اٹھ کر نیچے نہیں ہے.یہ
خطبات طاہر جلد 15 240 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء گرے گی تو طاقت نہیں پیدا کرے گی.بارش کا پانی جب گرتا ہے تو پھر اس سے بجلی بنتی ہے.وہ گرتا لیوں ہے؟ کشش ثقل کی وجہ سے گرتا ہے.لیکن یہ مضمون بہت تفصیلی ہے اس کی بحث میں نہیں میں جاؤں گا.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رحمت کا جو ذکر ہے.یہ سب سے بنیادی طاقت ہے.جس سے آگے سب طاقتیں پھوٹتی ہیں اور آنحضرت ﷺ ایک ہی نبی ہیں جن کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ قرار دیا گیا ہے.ورنہ دنیا کی تمام کتب کا آپ مطالعہ کر لیں کہیں بھی کسی نبی کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ قرار نہیں دیا.قوموں کے لئے رحمت تو پیدا ہوئے لیکن عالمین کے لئے ایک ہی نبی تھا جسے رحمت کا مظہر بنا کر بھیجا گیا اور یہی رحمت ہے جس کو شوری کی بناء بنایا گیا ہے، شوریٰ کی بناء قرار دیا گیا ہے.اگر رحمت کے بغیر محض عقل کے بندھن ایک قوم کو باندھے ہوئے ہوں تو ان کے مشوروں میں سچا تقویٰ اور دیانت پیدا ہو ہی نہیں سکتے.اس کے لئے رحمت اس لئے ضروری ہے کہ اگر آپ کو کسی سے محبت ہو اور وہ آپ سے پوچھے کہ رستہ کون سا ہے تو آپ بے اختیار ہیں.آپ کی دیانت کی بحث نہیں ہے، آپ کی محبت کی بحث ہے.آپ اسے ضرور صحیح رستہ بتا ئیں گے ، غلط رستے پر ڈال سکتے ہی نہیں.ایک ماں اپنے بچے کو غلط مشورہ نہیں دے سکتی.لاعلمی اور جہالت کی اور بات ہے، مگر جہاں تک اس کی تمام تر کوشش کا تعلق ہے، وہ سچا مشورہ ہی دے گی.پس مشوروں میں سچائی کے پیدا ہونے کے لئے رحمت ضروری ہے ورنہ مشوروں میں سچائی پیدا نہیں ہو سکتی اور اگر مشورے سچائی سے عاری ہوں تو ان میں طاقت پیدا نہیں ہوتی.پس جس طرح کشش ثقل پر آپ غور کریں تو تمام تر طاقتیں بالآخر اسی کشش کی مرہون منت بنتی ہیں.اسی طرح محبت ہی کی مرہون منت تمام انسانی تعلقات ہیں اگر وہ صحیح ہیں اور اسی کے تصرف کے نتیجے میں پھر نئی نئی طاقتیں وجود میں آتی ہیں، نئے نئے تعلقات ابھرتے ہیں.پس مجلس شوری جو اس وقت ربوہ میں ہو رہی ہے ان کو میں سمجھا رہا ہوں کہ یہ وہ شوریٰ کا مضمون ہے جسے وہ ہرگز کبھی نظر انداز نہ کریں اور ان کے حوالے سے تمام دنیا کی جماعتیں بھی اس بات کو سمجھیں.وہ لوگ جو کسی عہدیدار کا عناد لے کر اس کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں مومن مشورے کے لئے بیٹھے ہیں وہ دودھ میں زہر گھولنے کی خاطر آتے ہیں.وہ حقیقت میں اس بات
خطبات طاہر جلد 15 241 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء کے اہل نہیں ہیں کہ اس جگہ داخل ہو سکیں.وہاں محض رحمت والے لوگوں کا کام ہے رحمت کے نتیجے میں ہی شوری کا نظام بنتا ہے رحمت کے نتیجے میں ہی یہ نظام زندہ اور دائم ہوسکتا ہے ورنہ نہیں.پس سب سے اہم مشورہ اس آیت کے منطوق کے پیش نظر ربوہ میں جو پاکستان کی مجلس شوریٰ ہو رہی ہے، ان کو میرا یہی ہے کہ اپنے دلوں کو ٹولیں کیا ان سب بھائیوں سے آپ کا باہمی محبت کا تعلق ہے یا کچھ کی رائے آپ کو بری لگی ہے.کچھ ایسے بھی ہیں جو تقریر کے لئے آتے ہیں تو آپ بل کھاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس کے دلائل کا کیا تو ڑ کروں.اگر یہ ہے تو جہاں جہاں ہے وہاں وہاں مجلس شوری کے نظام میں رخنہ پیدا ہو گیا ہے.پس اگر تعلقات بگڑے ہوئے بھی ہوں تو خدا کی خاطر ایسے موقع پر جب کہ خدا کے نام پر مشورے کے لئے بلایا جائے اپنے بگڑے ہوئے تعلقات کو باہر پھینک کر آئیں اور اگر ایسا کریں گے اور خدا کی خاطر ایسا کریں گے تو باہر نکل کر بھی آپ کا دل پھر ان کو اٹھانے کو نہیں چاہے گا.وہ مکروہ مردہ صورتیں دکھائی دیں گے اور حقیقت میں ایک نیکی دوسری نیکی کو ضرور پیدا کرتی ہے.پس اللہ کی خاطر اپنے دلوں کو باہمی رنجشوں سے پاک کریں اور ساری دنیا میں نظام جماعت کی بناء چونکہ شوری پر رکھی گئی ہے اور شوریٰ کا خلیفہ وقت سے وہ رابطہ ہے جو قرآن نے محمد رسول اللہ ﷺ کا مومنوں کی جماعت سے قائم فرمایا تھا اور وہی رابطہ ہے جو زندہ رکھنے کے لائق ہے ورنہ کوئی رابطہ زندہ رکھنے کے لائق نہیں.اسی رابطے کے نتیجے میں جماعت کو تقویت نصیب ہوگی، اسی رابطے کے نتیجے میں جماعت کو وحدت نصیب ہوگی، اسی رابطے کے نتیجے میں جماعت کو سرخروئی عطا ہوگی ، اسی رابطے کے نتیجے میں جماعت اپنے مسائل پر ایسے غور کرے گی کہ دنیا بھر کی بڑی سے بڑی طاقتیں بھی اس قسم کے پاکیزہ غور سے محروم ہوں گی جو اس چھوٹی سی جماعت کو اللہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرمائے گا جیسا کہ ہمیشہ فرماتا رہا ہے.تو پہلا نکتہ حکمت کا یہ ہے کہ مشوروں سے پہلے اپنے دلوں میں نرمی پیدا کیا کریں اور رحمت کا نمونہ دکھائیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک اور لطیف انداز میں بھی بیان فرمایا.فرمایا جب رسول کی خدمت میں مشورے کے لئے حاضر ہوا کرو تو کچھ صدقہ دیا کرو.وہاں صدقے سے مراد ہدیہ بھی ہے جیسا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے مثلاً اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور یہ مسلمہ ترجمہ چلا آ رہا ہے، ہدیہ بھی ہے اور اگر کسی غریب کو صدقہ دیا جائے خدا کی رضا کی خاطر کہ اللہ تعالیٰ صحیح معنوں
خطبات طاہر جلد 15 242 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء میں اپنا مضمون پیش کرنے کی توفیق بخشے اور صحیح مشورہ حاصل کرنے کی توفیق بخشے تو یہ بھی اس میں شامل ہے اس لئے ہرگز ا سے ہدیہ پر محدود نہیں کیا جا سکتا.ہرگز لازم نہیں کہ جو بھی پیش ہو وہ ہدیہ دے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے بعض لوگوں کو شاید یہ سن کر شاق گزرے تو فرمایاء أَشْفَقْتُم کیا تم ڈر گئے ہو اس بات سے کہ کچھ دینا ہو گا.نہیں دے سکتے ، استغفار کرو، کچھ نہ دو.مگر وہ دینے میں حکمت کیا ہے.وہ حکمت وہی محبت کے رشتے ہیں.اس کے نتیجے میں ایک طبعی محبت کا رشتہ پیدا ہوتا ہے جو دو طرفہ ہے اور دونوں طرف برابر اثر دکھاتا ہے.اس مضمون سے ہٹ کر عام انسانی تعلقات پر غور کریں تو آپ کو آسانی سے بات سمجھ آ جائے گی.جب بھی آپ کسی کو محبت کی وجہ سے تحفہ دیتے ہیں تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کو زیادہ خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو زیادہ خوشی ہوئی ہے.تحفہ دینے والا کبھی بھی گھٹن محسوس کر کے تحفہ نہیں دیا کرتا.وہ تو ٹیکس ہوگا یا چٹی ہوگی.تھنے کے اندر محبت کا مضمون ایسا داخل ہے کہ اسے الگ کیا جاہی نہیں سکتا.پس یہ خیال کہ جو تحفہ دیتا ہے وہ دوسرے کو خوش کرتا ہے یہ بالکل سادہ بچگانہ خیال ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ تحفہ دیتا ہے تو اس کو سجا تا اس لئے ہے کہ دوسرا خوش ہو، ورنہ دینے والا خوش نہیں ہوگا.پس در حقیقت دینے والے کو اپنی خوشی زیادہ منظور ہوا کرتی ہے کیونکہ اس تحفے کے بدلے وہ پیار جیتنے جاتا ہے اور جانتا ہے کہ پیار ملے گا اس لئے وہ زیادہ پیار لینے کی خاطر تحفے کو اس طرح سجا کر بنا کر پیش کرتا ہے اور نظر رکھتا ہے کہ دیکھیں کیا اثر ہوا ہے اس کا.اور بعض لوگ کہتے ہیں ہم آپ کے سامنے کھول کے دکھاتے ہیں کیا چیز ہے.یہ کوئی رسمیں نہیں ہیں ، دکھاوا نہیں ہے.یہ محبت کے رشتے ہیں اور محبت سے ایسی باتیں خود بخود پیدا ہوتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ سے بھی جہاں مشورہ لینے کا ارشاد ہے.وہاں اس مضمون کو پھر داخل فرما دیا گیا اور خدا تعالیٰ سے رشتے باندھنے کے لئے فرمایا اپنا سب کچھ اپنے ارادے کے لحاظ سے اس کے حضور حاضر کر دو.التحیات اللہ ہر روز نماز میں ہمیں یہ عہد یاد دلاتا.ہر نماز کے تشہد میں ہمیں یہ بات یاد دلائی گئی کہ تم نے خدا سے ایک سودا کیا ہوا ہے.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبہ: 111 ) کہ اللہ نے سب مومنوں سے ایک ایسا سودا کر لیا ہے کہ اب نہ ان کے اموال ان کے رہے ، نہ ان کی زندگیاں ان کی رہیں، سب کچھ خدا کے ہو گئے ہیں.پس جب ہو چکے، تو جب چاہے، جتنا چاہے اس میں سے طلب کر لے اور اس مضمون کو فرمایا یہ
خطبات طاہر جلد 15 243 خطبہ جمعہ 29 مارچ 1996ء تحیات ہیں، یہ تھتے ہیں، کوئی ٹیکس نہیں ہے.پس چندوں کا نظام آپ دیکھیں اس میں ادنی بھی ٹیکس کی بونہیں ہے.ورنہ جو ٹیکس ادا نہ کرے اسے کئی قسم کی سزائیں ملتی ہیں اور پکڑا جاتا ہے، مجبور کیا جاتا ہے.مگر چندے کے نظام میں ایک پوری آزادی حاصل ہے.جو چاہے قربانی پیش کرے جو چاہے نہ کرے کیونکہ یہ تحفہ ہے.اگر خدا سے اتنا سا اس کا تعلق ہے کہ جو کچھ اس نے دیا تھا وہ بھی اس کے حضور لوٹا نہیں سکتا تو اسی حد تک وہ عہد کی پابندی سے الگ ہو گیا اور جو سزا کا تصور ہے وہ صرف بدعہدی کے نتیجے میں طبعی نتائج ہیں حقیقت میں Coercion نہیں ہے.مثلاً ہم کہتے ہیں کہ جو چندے نہیں دیتا اس کو مجلس شوری میں ووٹ دینے کا حق نہیں، کسی مرکزی عہدے کو سنبھالنے کا حق نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کی محبت کے تحفے اس کو اس بات کا اہل بناتے ہیں اس کے نتیجے میں اس کے دل میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور جس سے وہ محبت کرتا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنی جان عزیز کو بھی اس کے حضور میں پیش کر دیتا ہے اپنے کمائے ہوئے مالوں کو بھی جو اسے بہت محبوب ہوتے ہیں اس کے حضور پیش کرتا ہے.اگر ایسا کرتا ہے تو محبت کے رشتوں میں باندھا ہوا ہے اس کا مشورہ قیمتی ہے.اس کے مشورے کی قدر ہے.اس کے کام میں برکت ہو گی.مگر اگر ایسا نہیں کرتا تو خدا کو ایسے شخص کے مشوروں کی ضرورت کیا ہے یعنی خدا والوں کو ، اس کا نظام چلانے والوں کو ایسے شخص کے مشوروں کی نہ ضرورت ہے، نہ ان کی نظر میں کوئی قیمت ہے.پس اگر یہ سزا آپ سمجھتے ہیں تو یہ ایسی سزا تو نہیں کہ اس کے نتیجے میں وہ پیسے دینے پر مجبور ہو جائے.بعض لوگ جو خدمت نہیں کر سکتے چندے نہیں دے سکتے وہ وقت بھی قربان نہیں کرتے ، بہت کم ہیں جو ایسا کرتے ہیں کہ چندوں میں ہاتھ روک لیتے ہیں اور وقت کی قربانی کے لئے آ جاتے ہیں.ان میں بھی یاد رکھو کہ ان کی وقت کی قربانی محبت کی وجہ سے نہیں ہوتی دکھاوے کی وجہ سے ہوتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں عہدے سنبھالنا ہماری دنیاوی عزت کا موجب ہے.وہ سمجھتے ہیں ہم اگر کاموں میں آگے آئیں گے تو ہماری چودھراہٹ بڑھے گی.پس ایسے لوگ ابتلاؤں میں سب سے پہلے مارے جاتے ہیں.اسی لئے میں جماعت کو بار بار نصیحت کرتا ہوں کہ خدمت کے کام لیں لیکن یا درکھیں جو خدا کی راہ میں مالی قربانی کرتا ہے وہی وفادار ہے وہی وقت پر آپ کے کام آئے گا ورنہ
خطبات طاہر جلد 15 244 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء ویسے چودھراہٹ کے لئے آگے آنے والے ہر ابتلا میں ٹھوکر کھا سکتے ہیں اور بنیادی طور پر ٹھوکر کھائے ہوئے لوگ ہیں.وہ فتنوں میں مبتلا لوگ ہیں جن سے آپ کام لے کر دھو کہ کھا رہے ہیں کہ گویا وہ خدا کی خاطر خدمت کر رہا ہے.چنانچہ بسا اوقات میں نے عملاً اس غرض سے جائزہ لیا ہے کہ وہ لوگ جو منافقانہ رنگ رکھتے تھے جن کے نفاق ننگے ہوئے ان کی مالی قربانی کا جائزہ لیا تو صفر نکلا یا اتنا معمولی کہ گویا وہ سانس اٹکانے کی خاطر کچھ دے رہے ہیں مگر سخت مجبوری کے پیش نظر.اور اس کی مثال ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں جب بھی کوئی ابتلا آیا ہے میں نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ریکارڈ نکلوائے اور دیکھا تو پتا چلا کہ پتا نہیں کیوں دھوکے کی وجہ سے کسی کو پتا ہی نہیں چلا کہ یہ تو خالی کھو کھلے لوگ تھے ان سے کام لینا ہی نہیں چاہئے تھا.ان کے سپر اہم ذمہ داریاں کرنی ہی نہیں چاہئیں تھیں.مگر لاعلمی میں یا بظا ہر بعض دفعہ کسی کی شان و شوکت ایسی ہوتی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ اتنا مخلص آدمی ہو سکتا ہے بھلا کہ یہ قربانی میں پیچھے ہو اس لئے مزید جستجو ہی نہیں کی جاتی اور ان کو کاموں میں قبول کر لیا جاتا ہے اور جب وقت آتے ہیں تو ان کے کاموں میں خلاء نکلتے ہیں، ان کے کاموں میں کمزوریاں رہ جاتی ہیں.بعض دفعہ ان کے جماعت کے نام پر کئے ہوئے معاہدوں میں ایسے رخنے ملتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو محبت کی وجہ سے خدا کی خاطر قربانی دینے والا ہو وہ بے اعتنائی سے وہ معاہدے کر ہی نہیں سکتا.ایک ایک پیسے کی خاطر اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے.اپنی خاطر نہیں بلکہ اللہ کی خاطر کہ میں خدا کا امین ہوں کہیں کوئی ایسا سودا نہ ہو جائے جس سے ہمیں کوئی نقصان پہنچے.تو یہ سارے مضامین آپس میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں.پس شوری کے لئے دوسرا مشورہ یہ ہے اور بڑا اہم ہے کہ جو خدا کی خاطر قربانیاں دینے والے ہیں ان کو آگے لایا کریں اور اپنی سوچوں میں اس مضمون کو ہمیشہ داخل کریں کہ انتخاب کرتے وقت محض ظاہری طور پر اچھے، سمجھدار لوگ آپ کے پیش نظر نہ رہیں.یہ دیکھا کریں کہ ان میں ٹھوس خدمت کرنے والا ، تقویٰ سے مشورہ دینے والا کون ہے اور کس کا سب کچھ خدا کے لئے حاضر رہتا ہے.وہ غریب ہو یا امیر ہو کا لا ہو یا گورا ہو یہ بخشیں بالکل بے تعلق ہیں.پس جو خدا کو تحفے دیتا ہے جس کے التحیات اللہ خدا کے حضور اس کا ایک تعلق قائم کرتے ہیں وہ زیادہ اہل ہے کہ وہ مشورے دے.پس مجلس شورای میں انتخاب کے وقت جانی اور مالی قربانیاں دونوں ہی پیش نظر رہنی چاہئیں
خطبات طاہر جلد 15 245 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء اور عادتا اس کا مزاج دیکھنا چاہئے کہ یہ عبد بن چکا ہے کہ نہیں.ایسے عباد جو ہیں جب وہ مشورہ دیں گے تو پھر لازماً ان مشوروں میں وقعت پیدا ہوگی ان کے اندر قدر و قیمت ہوگی کیونکہ یہ مشورے محض قانون سازی نہیں بلکہ ان کے اندر کچھ اور مضمون ہے.اب بقیہ نصیحتوں سے پہلے میں اس مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں.یہ مشورے ہیں کیا، ان کی حیثیت کیا ہے.فرمایا فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ یہ لوگ جو ہیں جن سے تجھے پیار ہے تیرا دل ان پر جھکا ہوا ہے کیونکہ تو نے خدا کی رحمت سے حصہ پایا ایسا حصہ پایا کہ کبھی کسی اور نے نہیں پایا تو تمام وہ عالم جو خدا کی مخلوق ہے جو خدا کی رحمت سے کسی نہ کسی رنگ میں حصہ پاتا ہے وہ سارا عالم تیری رحمت کے تابع کر دیا گیا.پس ان سے وہ سلوک کر جو اللہ تعالیٰ اپنے پاک اور اپنے پیارے بندوں سے کرتا ہے خواہ وہ گنہ گار بھی ہوں.فرمایا فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمُ ان کو بخش دے.ان سے عفو کا سلوک کر اور ان کے لئے بخشش طلب کر.اس سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت می اور اللہ تعالیٰ میں جو ایک ایسا فرق ہے جو خالق اور مخلوق میں ہے جو رحمت کے اکٹھا ہونے کے باوجود لازماً ر ہے گا وہ استغفار کا مضمون ہے.جو خدا کے گناہ (حقوق اللہ ) ہوتے ہیں ان کو نبی بخش نہیں سکتا.نبی اپنے خلاف باتوں کو نظر انداز فرما دیا کرتا ہے.فَاعْفُ عَنْهُمْ کا مطلب یہ ان سے جو کمزوریاں لاحق ہوتی ہیں جہاں تک ممکن ہو نظر پھیر لیا کر ، پرواہ نہ کیا کر کیونکہ جب پیار ہو تو ایسا ہوتا رہتا ہے.ایک ماں کا محبوب بچہ ہو اس سے برتن ٹوٹ بھی جائے تو ماں دوسری طرف دیکھ لیتی ہے.کوئی اور کام ایسا سرزد ہو جائے جسے بعض دوسرے کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے جان بوجھ کر وہ غفلت دکھاتی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں ہوا تو یہ حصہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے.اس معاملے میں کوئی مسابہ الامتياز بندے اور خدا کے درمیان نہیں.فرمایا تجھے محبت ہے ہم جانتے ہیں تجھے ان سے پیار ہے تو ان پر جھک گیا ہے لِنتَ لَهُمْ بہت ہی عظیم مضمون ہے.تیرا دل نرم پڑ چکا ہے ان کے لئے ،تو ان پر اس طرح بچھا جا رہا ہے جیسے ماں بچے پر پچھتی ہے اس لئے عفو کی حد تک جہاں تک ممکن ہے ان سے یہ سلوک کر.لیکن ان سے ایسی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں جو خدا کو ناراض کر دیں.پس ہمیشہ ان کے لئے بخشش طلب کرتارہ.شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ اب باری آئی ہے شوری کی.وہ لوگ جن سے ایسا پیار ہو، جن
خطبات طاہر جلد 15 246 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء کی اس طرح تربیت کی جا رہی ہو ، جن کے لئے دعائیں مانگی جارہی ہوں، جن کی کمزوریوں سے جہاں تک ممکن ہے صرف نظر کیا جا رہا ہو ان سے مشورہ مانگ فِي الْأَمْرِ الْأَمْرِ کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے اہم معاملات میں.ورنہ روز مرہ کی ہر بات میں تو مشورہ نہیں چل سکتا.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ لیکن ان کے مشورے کی حیثیت مشورے ہی کی ہے.امر تیرے پاس ہے.خدا کی طرف سے تو مجاز بنایا گیا ہے.پس جب یہ مشورہ دے بیٹھیں تو فیصلہ ان کا نہیں تیرا چلے گا.فَإِذَا عَزَمْتَ پس جب تو ایک فیصلہ کر لے فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ تو تو کل پھر اللہ پر کرنا ہے، ان پر نہیں کرنا.ان پر تو کل نہیں کرنا، اللہ پر توکل کرنا ہے اس میں ایک اور مضمون ہے جوان الفاظ کے لباس میں لپٹا ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ جس نے آخری فیصلہ کرنا ہے وہ پابند تو نہیں کہ بات مانے.وہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند آدمیوں کی مان لے اور اکثر کی رڈ کر دے.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب کی رڈ کر دے مشورہ کرے اور کہے میں اس کو درست نہیں سمجھتا جو کچھ تم نے کہا ہے غلط ہے میں اب فیصلہ کروں گا.تو مراد یہ نہیں کہ مشورہ بے کار تھا.مراد یہ ہے کہ ہر مشورہ دینے والا اپنی ایک عقل و فہم رکھتا ہے اور نسبتا کم عقل و فہم رکھنے والوں کی اکثریت بھی ہو جائے تو ممکن ہے ایک اکیلا شخص جو ان میں سے ہر ایک سے زیادہ عقل و فہم رکھتا ہو اس کا فیصلہ ان سب پر غالب ہو.اس لئے بسا اوقات ایک عقل مند کی بات دوسرے نسبتاً کم عقل مندوں کی بات پر حاوی ہو جاتی ہے باوجوداس کے کہ کم عقل مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے.اور یہ ایک طبعی امر ہے، ایک حسابی امر ہے، اس میں کسی وہم کا کوئی شائبہ تک نہیں، حقیقت ہے.ہر بات ہر شخص کو سمجھ نہیں آتی لیکن ایک صاحب فہم آدمی کی جب دوسرے نسبتاً کم فہم لوگ مدد کرتے ہیں تو اس کی فہم میں ان کی فہم کے مثبت پہلو شامل ہو جاتے ہیں اور وہ اور زیادہ جلاء کے ساتھ ، اور زیادہ بلند مقام پر فائز ہوتے ہوئے فیصلے کی اہل بنتی ہے.پس مشورہ بے کار نہیں ہے.یہ نہیں کہا گیا کہ چونکہ رسول اللہ اللہ سب سے زیادہ صاحب عقل ہیں، سب سے زیادہ اولوالالباب میں آپ کا مقام ہے اس لئے آپ کو مشورے کی ضرورت نہیں.مشورے کی ضرورت اس لحاظ سے ہے کہ عقل کل صرف اللہ ہے اور اس کے نیچے آنحضرت ﷺ نے سب سے زیادہ عقل سے حصہ پایا لیکن اور بھی ہیں جو اولوالالباب ہیں کثرت سے ان کا وجود موجود ہے خاص طور پر غلامان محمد مصطفی ﷺ میں اولوالالباب کی کثرت تھی.ان سے بھی پوچھو، ہوسکتا ہے
خطبات طاہر جلد 15 247 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء بعض باتوں پر تمہاری نگاہ نہ پڑی ہو یا بعض باتیں تمہیں معلوم نہ ہوں جو ان کو معلوم ہیں.اب یاد رکھیں مشوروں میں صرف عقل کام نہیں کیا کرتی علم کا بھی ایک تعلق ہے.Facts جو Feed کر رہے ہیں ان Facts کے مطابق کمپیوٹر فیصلہ کرتا ہے.کیسا ہی اعلیٰ کمپیوٹر کیوں نہ ہو اگر اس میں بعض Facts ڈالے ہی نہ گئے ہوں تو بعید نہیں کہ اس کا فیصلہ غلط نکلے.تو مشورے میں صرف عقل کا مقابلہ نہیں ہے.مجموعی علم کا بھی سوال اٹھتا ہے اور عالم الغیب چونکہ صرف خدا ہے اور کوئی رسول بھی عالم الغیب نہیں اس لئے تمام وہ اولوالالباب جن کی عقلیں تقویٰ کی وجہ سے صیقل کی جاچکی ہیں اور مختلف زاویوں سے مختلف باتوں کا علم رکھتے ہیں وہ سب جب اکٹھے ہوں گے تو اپنے اپنے علم کو اپنی اپنی عقل کے ساتھ ملا کر کچھ باتیں پیش کریں گے.صاحب تقویٰ ہیں اس لئے جان بوجھ کر کسی غلط بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اللہ سے محبت رکھتے ہیں ، رسول ﷺ سے محبت رکھتے ہیں، اس لئے جان بوجھ کر ان کو غلط رستے پر چلانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ان حالات میں مجلس شوری بنتی ہے اور مجلس شوری پر عمل ہوتا ہے اور پھر جو بات کی جاتی ہے اس کے بعد جس کو مشورہ دیا جائے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی بات ہو رہی ہے اس وقت فرمایا کہ مشورے کو سننا ہے، فیصلہ تو نے کرنا ہے اور چونکہ بعید نہیں کہ تیرا فیصلہ ان سب سے جدا ہو اس لئے پھر خوف نہیں کرنا کہ اتنی کثرت رائے کو میں نے رد کر دیا ہے تو میرے فیصلے پر عمل کیسے ہوگا، کیسے میں کامیاب ہوں گا.فرمایا یہ اللہ کی باتیں ہیں، اللہ ہی والی ہے.فَتَوَكَّلْ عَلَى الله پس فیصلہ کرتے وقت ادنی خیال بھی اکثریت کا یا بندوں کا، اپنے مشیروں کا دل میں نہیں لانا کیونکہ وہ شرک ہے پھر.فیصلہ چونکہ تو نے اللہ کی خاطر کیا ہے اس لئے تو کل علی اللہ ہی ہو گا اس کے سوا تو تو کل کسی پہ تصور کیا جاہی نہیں سکتا اور تو کل کا مطلب ہے کہ ضرور اللہ تیری مدد فرمائے گا.اللہ تو کل کرنے والوں کو خالی نہیں چھوڑا کرتا.تو اس رنگ میں جو بھی فیصلے جماعت احمدیہ کرتی ہے.چونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں جس زمانے میں جو بھی امیر بنایا گیا ہو اسی کو مشورے پیش ہوں گے اور اس کو یہ اختیار ملتا ہے پھر کہ چاہے تو فیصلے کو قبول کرے چاہے تو رد کر دے اور اگر رد کرے گا تب بھی خدا اس کا سہارا بنے گا.اگر قبول کرے گا تب بھی تو کل اللہ پر ہو گا ، اکثریت پر نہیں ہو گا.اس طرح فیصلوں میں وہ برکت پڑتی ہے جس کا دنیا والے تصور بھی نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ کی زندگی سے اس کی بہت سی مثالیں ہیں
خطبات طاہر جلد 15 مگر اس آیت کو پہلے میں مکمل کرلوں.صلى الله 248 خطبہ جمعہ 29 مارچ 1996ء إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِينَ اب محبت کی بات میں نے شروع کی تھی دیکھیں بات بھی محبت پر ہی ختم ہوئی ہے.رحمت کا مضمون جیسے میں سمجھا تھا اگر وہ درست نہ ہوتا تو آخر پر محبت کہنے کی کیا ضرورت تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ متوکلوں کو خدا ضائع نہیں کرتا.فرمایا یہ سب تو کل کرنے والے محبت کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں.رحمت کے نتیجے میں ان میں یہ صفات پیدا ہوئی ہیں.رحمت کے نتیجے ہی میں فیصلہ رڈ ہونے کے باوجود ذرا بھی دل پہ میں نہیں آتا.فیصلے دیئے بہت سوچ بچار کے دیئے بعض دفعہ لمبی لمبی تقریریں کیں اور آخر پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ نہیں یہ درست ہے، مجال ہے جو کسی دل پر میل آگئی ہو.تو یہ محبت کے رشتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم نے تو کل کیا، محبت کے نتیجے میں سارے تمہارے کا روبار تھے ، میں بتاتا ہوں کہ اللہ متوکلین سے محبت کرتا ہے اور چونکہ تو کل کے امر میں محمد رسول اللہ ﷺ واحد کے طور پر مخاطب ہیں اس لئے متوکلین کہہ کر سب کے لئے خوش خبری تو ہے مگر بطور خاص حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے لئے خوش خبری ہے اے تو کل کرنے والے یا درکھ کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تیرا ساتھ چھوڑ دوں اور تجھ پر دوسروں کو ترجیح دے دوں.پس یہ وہ اسلامی مجلس شوریٰ ہے جسے ہم نے ورثے میں پایا ہے.اِن يَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلا غَالِبَ لَكُمْ یاد رکھو جب اللہ نے فیصلہ کر لیا تمہاری مدد کا تو کوئی دنیا کی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی.وَاِنْ يَّخْذُلْكُمُ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُ كُمْ مِنْ بَعْدِ؟ اگر تم نے سب باتیں خدا کی خاطر نہ کیں، تو کل خدا پر نہ رکھا اور خدا نے تمہیں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر کوئی دنیا کی طاقت تمہاری مددگار نہیں بن سکتی.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ وہاں تو کل صیغہ واحد میں محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا یہاں مومنوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ اس مثال کے بعد ہو کیسے سکتا ہے کہ خدا کے سوا کسی اور پر تو کل کرو یا خدا پر توکل نہ کرو.تم نے اپنے سامنے ایک تو کل کرنے والے کا حال دیکھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اعلان عام فرما دیا کہ اللہ متوکلوں سے محبت کرتا ہے اور محبت کا ثبوت لمحہ لمحہ اس کی زندگی میں تمہارے سامنے ہے.پس اس سارے ماجرے کے بعد جس کو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو خدا تم سے یہی توقع رکھتا ہے.وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ کہ اللہ ہی پر تمام تو کل کرنے
خطبات طاہر جلد 15 والے تو کل کریں.249 خطبہ جمعہ 29 مارچ 1996ء آنحضرت ﷺ کی زندگی میں جو مشوروں کے واقعات ہیں.ان کی تفصیل میں جانے کا وقت تو نہیں مگر ہر قسم کی مثالیں موجود ہیں.کہیں آپ نے ایک خاتون سے مشورہ کیا ہے، کہیں چند صحابہ سے مشورہ کیا، کبھی پوری جماعت سے مشورہ کیا ہے.صلح حدیبیہ کے وقت پوری جماعت سے مشورہ کیا اور پوری جماعت کے فیصلے کو رڈ فرما دیا.سب نے متفق علیہ یہ فیصلہ کیا اور مشورہ دیا کہ اہل مکہ اجازت دیں یا نہ دیں، تلوار میں چلتی ہیں تو چلیں ، خون بہتا ہے تو ہے لیکن حج کے ارادے سے ہم نکلے ہیں حج کر کے چھوڑیں گے یہ ہمارا مشورہ ہے، یا رسول اللہ ﷺ ! آگے قدم بڑھائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.آپ نے فرمایا نہیں یہ نہیں ہوگا.آپ اللہ کی منشاء کو زیادہ سمجھتے تھے.پس اللہ پر توکل کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ خدا کی منشاء پر نظر رکھا کرو اور جو فیصلہ بھی تم رضائے باری تعالیٰ کی خاطر کرو گے اور انسانی رضا کو چھوڑ دو گے اور اکثریت کو رد کرنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوگے محض اس لئے کہ اللہ کی رضا دوسری طرف ہو تو اللہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور صلح حدیبیہ میں یہ اس کی مثال ہے.خلفاء کے زمانے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے کہ آنحضور کے وصال کے بعد جب ارتداد کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا، اس کا نام طوفان ارتداد ہے مگر دراصل وہ ٹیکس چوری کا مسئلہ تھا.وہاں التحیات للہ کی بحث نہیں تھی وہاں یہ بحث تھی کہ خدا نے جو سٹیٹ کے لئے اور قومی کاموں کے لئے بطور فرض زکوۃ مقرر کی ہے اس سے وہ انکار کر بیٹھے تھے کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر ایک حیرت انگیز عزم کا مظاہرہ کیا ہے جو انسانی تاریخ میں انبیاء کے بعد آپ کو اور کہیں دکھائی نہیں دے گا.اس موقع پر ایک لشکر ایسا تھا جس کی سرداری ایک غلام ابن غلام حضرت اسامہ بن زیڈ کے سپرد کی گئی تھی اور یہ شکر شام کے لئے روانہ ہونے والا تھا اور خود آنحضرت ﷺ نے اس لشکر کا سپہ سالار مقررفرمایا تھا اور اس کی منزل بہت دور تھی.اتنی دور کہ اگر پیچھے کوئی خطرناک واقعہ ہوتا تو کانوں کان بھی ان کو خبر نہ ہوتی کہ پیچھے کیا ہو گیا ہے، مدد کے لئے واپس لوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.چنانچہ تمام صحابہ نے بالا تفاق حضرت ابو بکر کو یہ مشورہ دیا کہ اس موقع پر نہ بھیجیں بہت خطرناک حالات ہیں، کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے جوان اور آزمودہ سپاہی ہم سے نکل جائیں اور پھر ہم باقیوں
خطبات طاہر جلد 15 250 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء کا مقابلہ کرسکیں گے.بہت خطرناک حالات ہیں اس کو Postpone کر دیں ، ٹال دیں اس کے وقت کو.حضرت ابو بکر نے جو جواب دیا حیرت انگیز ہے.فرمایا ابن ابی قحافہ کی مجال کیا ہے کہ جو فیصلہ محمد رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ ہو، آپ کی کرسی پر بیٹھ کر میں پہلا فیصلہ اس فیصلے کو منسوخ کرنے کا کروں.میں ہوتا کون ہوں.اس پر آپ قائم رہے اور سارے صحابہ کا فیصلہ رد کر دیا.صلى الله اگر مجلس شوریٰ کا یہ تصور ہوتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو تو اختیار تھا مگر آپ کے مسند پر بیٹھے ہوئے ، آپ کے غلاموں کو اختیار نہیں ہے، تو صحابہ اٹھ کھڑے ہوتے.کہتے ابوبکر ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کے اس فوقیت رکھنے والے حق کو تو تسلیم کر لیا تھا، مگر تیرے حق کو تسلیم نہیں کریں گے.ہمارا سوچا سمجھا اکثریت کا فیصلہ ہے، تجھے مانا ہو گا.کبھی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا اور حضرت ابوبکر کا فیصلہ چلا اور آپ نے اس کے ساتھ جو الفاظ بیان فرمائے ، اس سے آپ کا تو کل ظاہر ہوتا ہے.کیسے میں اس فیصلے کو بدلوں.اگر تم کہتے ہو کہ نقصان ہے تو خدا کی قسم اگر مدینے کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں بھی کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں یہ فیصلہ نہیں بدلوں گا، کیونکہ میرے آقا و مولا محمد رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ تھا.ایسے لوگ ہیں جو تو کل کرتے ہیں خدا پر اور ایسے لوگ ہیں جن کے تو کل کو خدا سچا کر دکھاتا ہے.پس یہ روح لے کر مجلس شوری کو ہمیشہ زندہ رکھیں ، اسی روح کے ساتھ مجلس شوریٰ زندہ رہے گی.متقی لوگوں کو چنیں.ان لوگوں کو چنیں جو خدا کے حضور محبت کے ہدیئے پیش کرتے ہیں.جن کی نہ جانیں اپنی رہیں نہ ان کے مال اپنے رہے وہ تمام تر خدا کے ہو گئے.پھر نہ دنیا کی پرواہ کریں، نہ دنیا کی خیریتوں کی پرواہ کریں محض اللہ کی خاطر فیصلے کریں اور یہ فیصلہ جب منظور ہو تو تمام تر آپ کی جانیں آپ کے دل اس کی منظوری کے ساتھ شامل ہو جائیں.جب یہ فیصلہ رد ہو تو تمام جان اور تمام دل کے ساتھ اور اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اس کے رد کرنے پر ا کٹھے ہو جائیں.یہ وہ طبعی مجلس شوری ہے جس کے بعد پھر دل پھٹ نہیں سکتے.امتِ واحدہ کو پھر کوئی ٹکڑے ٹکڑے کر کے الگ نہیں کرسکتا.اور لِنْتَ لَهُمُ کے اندر اس کی جان ہے.آپ بھی آپس میں محبت رکھیں اور پیار کے رشتوں پر کسی نفرت کے رشتے کو غالب نہ آنے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اللہ تعالیٰ جماعت کی اس مجلس شوریٰ کو ہمیشہ زندہ رکھے کیونکہ اس شوریٰ ہی میں جماعت احمدیہ کی جان ہے.
خطبات طاہر جلد 15 251 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء اب میں کچھ اعلان کرنا چاہتا ہوں.انسانی زندگی بھی شب و روز کی طرح سیاہ وسفید کے دھاگوں میں بٹی ہوئی ہے.رات اور دن دو سفید اور سیاہ دھاگے ہیں.انسانی زندگی میں غم اور خوشی ، کامیابیاں اور بعض پہلوؤں سے ناکامیاں یہ دور رہے ہیں جن کے ساتھ انسانی زندگی بٹی ہوئی ہے.پس بیک وقت غم کی بھی خبر ہوتی ہے خوشی کی بھی خبر ہوتی ہے مومن کا کام یہ ہے کہ راضی برضا رہتے ہوئے اپنے قدم ہمیشہ آگے بڑھاتا رہے.نہ کسی غم کی وجہ سے اس کے قدم رکیں ، نہ کسی خوشی کی وجہ سے اس کے اندر سہل انگاری پیدا ہو اس کے اندر جھوٹے فخر و مباہات کے زہر اس کے عزم کو کمزور نہ کر سکیں.یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے ہمیں سمجھنا ضروری ہے.سب سے پہلے میں جماعت احمد یہ یو.کے کے لئے اور ان کے حوالے سے سب دنیا کے لئے یہ خوش خبری پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مسجد کی زمین جس کے متعلق بہت جھگڑے اٹھے، بہت مخالفتیں ہوئیں ، کوشش کی گئی کہ ہمیں اس حق سے محروم کر دیا جائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ آخری Deel طے ہو گئی ہے، پیسے ادا ہو گئے ، امیر صاحب نے آج آکر خبر دی ہے کہ وہ قبضہ لے آئے ہیں ماشاء اللہ.بہت ہی اہم جگہ ہے شہر کے اندر گھری ہوئی اور بہت وسیع جگہ، بہت بڑی عمارت ہے، حفاظتی انتظامات خدا کے فضل کے ساتھ سارے ہیں، ایسی مضبوط چاردیواری ہے جسے اگر عام جگہ لی جاتی تو کونسل نے ہمیں ایسی بنانے کی اجازت ہی نہیں دینی تھی کیونکہ انڈسٹری وہاں تھی اس لئے اس کی حفاظت کے لئے کونسل مجبور تھی اور پھر خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ تمام حفاظتی نظام جو بہت قیمتی نظام اس کمپنی نے قائم کیا ہوا تھا وہ سب کل پرزے ہر چیز ہمارے سپر د کر کے وہ الگ ہو گئے ہیں.ہمیں تو اللہ کی حفاظت ہی ہے مگر جو دنیا کا نظام ہے حفاظت کا وہ بھی خدا کے فرمان کے مطابق ہمیں اختیار کرنا ہوتا ہے.پس اللہ کے فضل سے بہت ہی اچھا سودا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور تمام دنیا کی جماعتوں کو بھی مبارک کرے.اس کے ساتھ جو خدشات لاحق ہیں ، اگر کوئی ہیں، تو اللہ خود ہی ان سے بیٹے اور جماعت کو ہرگزند سے محفوظ رکھے اور جو اچھی باتیں اور امید افزاء باتیں وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہماری توقعات سے بھی زیادہ بڑھا دے.جو غم کی خبر ہے وہ اکثر پہنچ ہی چکی ہوگی دوستوں کو ، ہمارے زندہ بھائیوں میں سے سب سے بڑے بھائی کی بیگم اور زندہ بھابیوں میں سب سے بڑی بھا بھی کا کل انتقال ہوا ہے.حضرت سیده آمنه، سیده ان معنوں میں کہ عزت کے لحاظ سے کہہ رہا ہوں ورنہ وہ ذات کے لحاظ سے پٹھان
خطبات طاہر جلد 15 252 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء تھیں.آمنہ طیبہ ان کا نام تھا.میری چھوٹی پھوپھی جان کی سب سے بڑی بیٹی تھیں.ہمارے دوسرے بھائی حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی اہلیہ تھیں.ان کا رشتہ ازدواجی تقریباً پچاس سال سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے اور مثالی رشتہ تھا یعنی سارے خاندان میں اگر کسی کو کوئی مثالی رشتہ پیش کرنا ہو تو ان کی طرف اشارہ ہوتا تھا.میاں بیوی کے آپس میں تعلقات بگڑتے بھی ہیں یعنی وقتی طور پر رنجشیں بھی پیدا ہوتی ہیں مگر ان کی رنجشیں کبھی دکھائی نہیں دیں.بہت ہی گہرے فہم کے ساتھ اور باہم افہام تفہیم کے ساتھ اگر کوئی کبھی آپس میں رنجش ہوئی ہے تو خود ہی اندر ہی طے کر لیا گیا لیکن جہاں تک ایک مثال کا تعلق ہے مجھے آج تک کبھی یاد نہیں کبھی بھی میں نے ان کو ملتے ہوئے اس طرح دیکھا ہو یعنی دعوتوں میں یا باہر گھروں میں یا ہمارے وہاں جانے پر یا ان کے ہمارے ہاں آنے پر کہ ان کے چہروں پر کبھی بھی کوئی رنجش کے آثار ہوں.اس پہلو سے بہت مثالی رشتہ تھا.اور ان کا نام آمنہ تھا اور طیبہ اور امر واقعہ یہ ہے کہ آمنہ حقیقی معنوں میں آمنہ تھیں.طیبہ حقیقی معنوں میں طیبہ تھیں.شاید ہی کوئی بیوی ایسی ہو جس کے متعلق انسان اس وثوق کے ساتھ کہہ سکے کہ اس نے اپنے خاوند کی ہر امانت کا حق ادا کیا ہے اور ہر طیب بات کسی بھی طیب بات میں وہ چوکی ہو.عقل کا مجسمہ، بہت ہی سلجھی ہوئی طبیعت اور حضرت چھوٹی پھو پھی جان کی تمام خوبیوں کی وارث اور حضرت چھوٹے پھوپھا جان نواب محمد عبداللہ خان صاحب کی خوبیوں کی بھی وارث تھیں.آخری دنوں میں یعنی پچھلے عرصے سے یہ تشویشناک خبر مل رہی تھی کہ ان میں کمزوری بہت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے گرنے لگ گئی تھیں اور اس کی وجہ سے بہت تشویش تھی کہ خدانخواستہ کہیں ایسی حالت میں گریں کہ ہڈی ٹوٹ سکتی ہے.تو جہاں تک زندگی کے ان لمحات کا تعلق ہے آپ کے لئے تو یہ وقت خدا تعالیٰ نے جس وقت واپس بلایا ہے یہ بہر حال رحمت ہی تھا اور خدا کا کوئی فیصلہ بھی ایسے لوگوں کے لئے رحمت کے بغیر نہیں ہوا کرتا مگر جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے بہت بڑا ابتلاء ہے.خاص طور پر ہمارے بھائی کے لئے ، ان کے لئے دعا کریں ان کی مجھے بہت فکر ہے کیونکہ بے حد محبت کی بات نہیں تھی ، ایک دوسرے پر ایسا سہارا تھا کہ ناممکن تھا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہ سکیں.یہی کیفیت ان کی ہے وہ بے اختیار ہیں اس معاملے میں.بڑے صابر ہیں، حوصلے والے ہیں، صاحب عزم ہیں مگر وہی بات محبت کے او پر بس کس کا ہے، بے اختیاری کے معاملات ہیں.ان کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.ان کے بچوں کو
خطبات طاہر جلد 15 253 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء اللہ تعالیٰ ان میں بھی وہ ساری خوبیاں جاری کرے اور ان کا خودرفیق ہو بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا.ان کا ساتھی بنے ان کا رفیق ہواور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی باقی زندگی صحت و عافیت کے ساتھ اور اپنے بچوں کی طرف سے آنکھیں ٹھنڈی رکھتے ہوئے گزارے.اور ان کے علاوہ کچھ اور بھی ایسے جنازے ہیں جن کے متعلق کچھ کی درخواست تھی ، کچھ کے متعلق میرے دل میں خود ہی خواہش پیدا ہوئی اور جن کی درخواستیں تھیں یہ، وہ وہ درخواستیں ہیں جو میرے منع کرنے سے پہلے آچکی تھیں اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ انہوں نے میرے منشاء کو جاننے کے با وجود پھر بھی درخواستیں بھیجی ہیں.پس ان کے جنازے بھی اس جنازہ غائب کے ساتھ جو آج عصر کی نماز کے بعد پڑھا جائے گا.جنازہ غائب میں ان کو بھی شامل کیا جائے گا جس کی لسٹ میں سناتا ہوں.مکر مہ امتہ الحمید بیگم صاحب اہلیہ مکرم خان ثناء اللہ خان صاحب مرحوم عمر 96 سال.حضرت مولوی شیخ محمد صاحب آف لاہور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور ہمارے امیر صاحب یو.کے آفتاب احمد خان صاحب کی والدہ تھیں.آخر وقت تک ان کے ذہن اور دل ایسے روشن تھے کہ ادنی سا بھی عمر کا سایہ اس پر نہیں آتا تھا، کسی وقت بھی ، ہمیشہ حاضر دماغ، روشن دماغ خدا تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر قلبی اور ذہنی صحت عطا فرمائی تھی.دوسری بلقیس بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب مرحوم.یہ موصیہ تھیں.ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب کا نام بھی بہت جماعت میں معروف ہے، بہت بزرگ انسان تھے.مکرمہ امتہ الرحمن صاحبہ والدہ مکرم عطاء الرحمن صاحب غنی آف لاہور، میاں اٹو کہتے تھے ہم میاں عطاء الرحمن کو.بہت ہی پیاری شخصیت ، بہت محبت کرنے والی اور ساری اولاد ہی بہت نیک اور نیک مزاج ہے.ان کی والدہ امتہ الرحمن بھی خدا کے فضل سے بھی عمر پا ک فوت ہوتی ہیں.حضرت خلیفہ ایج الاول کی نواسی تھیں.حکیم فضل الرحمن صاحب کی بیوی سے آپ حضرت خلیفتہ امیج اول کی نواسی تھیں.ایک اور نام ہے زبیدہ پروین، پروین تو میں نے پہلی دفعہ سنا ہے آپا زبیدہ کہتے تھے ہم ان کو.میجر سردار بشیر احمد خان صاحب کی بیگم، مالیر کوٹلے کے خاندان سے، مگر ان کا جواصل اعزاز ہے وہ اس بات میں ہے کہ محمد خان صاحب جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ان سے نرم سلوک کیا جائے اور ان سے بہت ہی محبت اور پیار کا سلوک فرمایا، ان کو اہل بیت میں سے
خطبات طاہر جلد 15 254 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء ہونے کا خطاب دیا.یہ ان کی صاحبزادی تھیں اور ہمارے چھوٹے بھائی مرزا اظہر احمد کی ساس بھی تھیں.( مرحومہ در اصل مکرم مرزا اظہر احمد صاحب کی ساس کی ہمشیرہ تھیں.خطبہ جمعہ میں سہو حضور کی زبان سے ساس کا لفظ ادا ہو گیا.اس بارہ میں حضور نے بعد کے ایک خطبہ میں وضاحت فرمائی ہے.مرتب) اور ایک حمید احمد صاحب لا سکپوری جو لندن کے ہیں ان کا وصال غالباً پچھلے جمعہ سے پہلے بدھ کو ہوا ہے یا منگل کو ہوا ہو گا.مجھے پیغام ان کی طرف سے ملا تھا کہ میرا جمعہ کے دن جنازہ پڑھانا.تو آج اتفاق ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل کی خواہش اس طرح پوری ہو رہی ہے کہ جمعہ کے دن ہی نماز جنازہ ہو رہی ہے اس میں میں ان کو بھی شامل کر رہا ہوں.یہ عصر کی نماز کے بعد نماز جنازہ غائب ہوں گے.آج جمعہ اور عصر کو جمع کرنے کا آخری دن ہے اس سردیوں کا.آئندہ سے یادرکھیں چونکہ وقت بدل جائیں گے اور گرمیوں کا موسم شروع ہو چکا ہو گا اس لئے جمع کرنے کی کوئی جائز مجبوری نہیں.تو اس جمعہ کے بعد آئندہ جمعہ اپنے وقت پر جیسا کہ ہمیشہ ہوا کرتا تھا جمعہ کی نماز جمعہ کی رہے گی اور عصر کی نماز اپنے وقت پر بعد میں ادا کی جائے گی.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.ایک منٹ ٹھہریں، ایک اور اعلان ہونے والا ہے.جو MTA ہےاس کے متعلق.چونکہ مضمون نے وقت لے لیا اور جیسا کہ حق تھا مضمون کا وقت لینا ہی چاہئے تھا ابھی بہت سی باتیں رہ بھی گئیں اس لئے زائد دوسری باتوں کا وقت نہیں مل سکا.انشاء اللہ کل یا پرسوں سے غالباً کل ہی سے ہمارا MTA انٹرنیشنل کا جو دوسرا نظام ہے وہ پورے عالمی نظام کے طور پر شروع ہو جائے گا.امریکہ سے بھی رابطہ بحال ہو جائے گا، چوبیس گھنٹے کا نظام ہو گا لیکن میں یہ آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ شروع میں جیسا کہ Teething problems ہوتی ہیں دانت نکالنے کی ایک مہینہ، ڈیڑھ مہینے تک زیادہ سے زیادہ کچھ مشکلات درپیش ہوں گی.مثلا اب جب یہ شروع ہو رہا ہے تو باوجود اس کے کہ وہ بڑا ڈش انٹینا جس سے ہم نے اس پروگرام کو اٹھانا تھا وہ تیار تھا، آ رہا تھا مگر کسی قانونی دقت کی وجہ سے اس کو یہاں پہنچنے میں کچھ دیر ہو جائے گی دو تین دن اور لگیں گے.اس عرصے میں جو موجودہ نظام ہے اس کے انٹینا کو ہی غیر معمولی طاقت دے کر اور جو عالمی کمپنی سیٹلائیٹ کی ہے
خطبات طاہر جلد 15 255 خطبہ جمعہ 29 / مارچ 1996ء اس نے یہ تعاون کیا ہے کہ وہ ان سیٹلائیٹس کو بھی زیادہ سے زیادہ طاقت دیں گے اس لئے اس وقتی خلا کو پر کرنے کی خاطر یہ انتظام ہے کہ جب تک اصل انٹینا جو ہونا چاہئے وہ نہیں پہنچتا موجودہ انٹینا سے ہی پروگرام اٹھایا جائے گا.اس لئے اہل امریکہ ہوں یا دوسرے لوگ وہ جب اگر اس میں کوئی ہلکی سی دھند پائیں یا کوئی خرابی دیکھیں تو صبر سے کام لیں.چند دن کی بات ہے انشاء اللہ پھر جب اصل انٹینا آ جائے گا تو بہت واضح تصویر میں آئیں گی اور ابھی بھی انہوں نے ہمیں امید یہی دلائی ہے کہ اگر نقص ہے تو معمولی ہوگا بہت زیادہ قابل فکر نقص نہیں ہوگا اور وہ جو پاکستان کے لئے چوبیس گھنٹے کا نظام ہے اس کا سیٹلائیٹ ہمیں دراصل پوری طاقت کا مئی میں ملے گا، ایشیا کے لئے میرا مطلب ہے.اس سے پہلے عارضی طور پر ہمیں دو ہیمی بیمز Hemi-Beams مل چکی ہیں.چند دنوں تک وہ بھی شروع ہو جائیں گی تو افریقہ کا جو حصہ کٹا ہوا تھا وہ بھی اس کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ ان پروگراموں میں پوری طرح شامل ہو جائے گا.بہر حال یہ اپریل اور مئی یہ دو مہینے ہیں جو اس پہلو سے خدا کے فضل سے غیر معمولی برکتیں لے کے آئیں گے اور جماعت کو دعا میں یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی عارضی روکیں یا مستقل بعض دفعہ روکیں بنتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دور فرمادے اور کل عالم کو ہم بہترین پیغام پہنچاسکیں.اتنا خدا کے فضل سے اس کا Impact ہو رہا ہے دنیا پر ، خاص طور پر عربوں پر کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایسے ایسے حیرت انگیز خطامل رہے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اتفاقاً MTA دیکھنے لگے اور اب تو اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے اور بعض لکھتے ہیں کہ ہمیں پتا نہیں بیعت کس طرح کی جاتی ہے مگر آپ ہمیں احمدی سمجھیں اور ہمیں بتائیں کہ کس طرح ہم نے باقاعدہ داخل ہونا ہے.ایک خاتون نے لکھا ہے کہ میں حاضر ہوں اگر بیعت کے لئے لندن پہنچنا ضروری ہے تو میں لندن پہنچوں گی مگر اب میں بیعت کے بغیر رہ نہیں سکتی.تو یہ بہت ہی غیر معمولی برکتیں ہیں اور رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ ہی کی برکتیں ہیں اسی لئے کل عالم پر برس رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا فیض سارے زمانے پر عام کر دے اور ہمارے مشکلات کو دور فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 257 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء دعاؤں کے سہارے سے اپنے نفس کے اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کریں.(خطبه جمعه فرموده 5 را پریل 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی : أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوىهُ وَأَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشْوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ أَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ وَقَالُوْا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَالَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (الجاثیہ: 24 ،25) پھر فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے.سورۃ الجاثیہ کی چوبیسویں اور پچیسویں آیات ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ الهَهُ هَویه کیا تو نے ایسے شخص کی حالت پر بھی غور کیا ہے.جس نے خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنالیا ہو، اپنے نفس کی خواہش کو اٹھے اپنا معبود بنالیا ہو.وَ أَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ اور اللہ تعالیٰ نے اسے خاص علم کی بناء پر گمراہ ٹھہرایا ہو اور ایک دوسرا ترجمہ جو اس پہلے مضمون سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے یا دونوں کو برابر بھی سمجھیں تو بیک وقت دونوں جائز بھی ہیں اور اس مضمون سے گہرا تعلق رکھنے والے تراجم ہیں وہ یہ عَلَى عِلْمٍ اپنے علم کے باوجود اس کو اندھا کر دیا ہو یعنی ایسا شخص جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنالیاوہ علم کے باوجود اندھا ہوتا ہے.دیکھتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا، سنتے ہوئے سن نہیں سکتا اور اس کے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 258 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء دل و دماغ کی حالت یہ ہے کہ ویسے وہ غور کرنے کی قابلیت تو رکھتے ہیں مگر الہی مضامین پر اور روحانی مضامین پر غور سے بالکل عاری ہوتے ہیں.فرمایا أَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِے اور اس کی شنوائی پر بھی مہر لگا دی.وَقَلْبِہ اور اس کے دل پر بھی وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِم غِشَوَةً اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایک پردہ ہے یا پردہ ڈال دیا فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ پس کون ہے جو اللہ کے بعد اس کو ہدایت دے.اَفَلَا تَذَكَّرُونَ کیا تم نصیحت نہیں پڑتے.وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْیا وہ لوگ جن کی تعریف کی گئی ہے یعنی جن کی صفت بیان فرمائی گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا ہماری زندگی تو بس یہی کچھ ہے جو ہمارے سامنے ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں.نَمُوتُ وَنَحْیا ہم یہیں مرتے اور یہیں جیتے ہیں.مرکز دوبارہ جینے کی بات نہیں کرتے.کہتے ہیں یہی ہمارا مرنا، یہی ہمارا جینا ہے.وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ کوئی خدا نہیں ہے جو ہمیں موت دے گا زمانہ موت دیتا ہے.گزرتا ہوا وقت ہے جس کے نتیجے میں بالآخر ہر ایک نے مرنا ہی ہے.وَمَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ ان کو حقیقت میں اس بات کا علم نہیں ہے کہ موت کا نظام ہے کیا اور کیسے موت آتی ہے اور کس طرح کام کرتی ہے.اِن هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ یہ محض اندازے لگا رہے ہیں.ان کے خیالات ہیں کہ ایسا ہوتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ موت کا فلسفہ بھی بہت گہرا فلسفہ ہے.اسے سمجھنا، اس کے عوامل پر غور کرنا ، اس کے محرکات کو جانچنا اور علم رکھنا کہ موت کی راج دہانی کتنی وسیع ہے، کیسے کیسے کام کرتی ہے، کون سے قوانین اس راج دہانی میں جاری ہیں، ان کا ان کو کچھ علم نہیں ہے.صرف ایک اندازہ ہے کہ زمانے کے نتیجے میں مرورِ زمانہ سے لوگ مر ہی جایا کرتے ہیں.تو کہتے ہیں ہم بھی اسی طرح اس دنیا میں رہیں گے اور اسی دنیا میں مر جائیں گے اور گویا پھر دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے.یہ وہی مضمون ہے جو میں اس سے پہلے دوسری آیات کے حوالے سے شروع کر چکا ہوں اور ان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور ایک دوسرے پر یہ مزید روشنی ڈالنے والی آیات ہیں.پہلی آیت جس کا حوالہ میں نے دیا تھا یا جس سے بات شروع کی تھی وہ تھی.وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيْعَةٍ (النور: 40) وہ لوگ جو کافر ہوں جو خدا کا انکار
خطبات طاہر جلد 15 259 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء کر دیں ان کے اعمال ایسے ہی ہیں جیسے ایک چٹیل میدان ہو اس میں دور کہیں پانی کا دھوکہ ہو جسے سراب کہتے ہیں اور زندگی بھر یہ لوگ اس پانی کی تلاش میں اس کے پیچھے سر گرداں دوڑے چلے جاتے ہیں اور بالآخر پیاس نہیں بجھتی.پس دنیا کی زندگی میں جو لوگ مگن ہیں جو کہتے ہیں یہی ہماری زندگی ہے ان کی یہی مثال ہے.عمر بھر وہ ایک ایسی پیاس کی طلب میں سرگرداں رہتے ہیں جس کی پیاس کبھی زندگی میں بجھ سکتی ہی نہیں.کوئی شخص بھی جو دنیا کی خواہشات کی پیروی کرنا اپنا مقصد بنالے اس کو کبھی عمر بھر وہ لئے نصیب نہیں ہوتے کہ وہ کہے کہ ہاں میری تمنا ئیں پوری ہو گئیں، میری سب پیاس بجھ گئی.بلکہ جس قدر بجھتی ہے اس سے زیادہ بھڑک اٹھتی ہے.سمندر کا پانی پینے والی بات ہے یا پھر سراب کی پیروی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.جوں جوں پانی قریب آتا دکھائی دیتا ہے اور جوں جوں انسان اس کی پیروی کرتا ہے وہ اور بھی پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے اور اس مقام کو پھر بھی انسان نہیں پہنچ سکتا جہاں اسے پانی میسر آ جائے اور پیاس بجھ جائے ہاں اللہ تعالیٰ کا حساب کا نظام اسے پہلے آلیتا ہے اور موت ایسی حالت میں واقع ہوتی ہے کہ ابھی اس کی پیاس تو بجھی نہیں مگر جو کچھ بھی اس نے کیا اس کا حساب دینے کے لئے تقدیر الہی اسے وہاں موجود دکھائی دیتی ہے.یہ جو مثال تھی میں نے کہا تھا یہ نفس کے اندھیروں کی مثال ہے جو انسان کے نفس کے اندر سے پیدا ہوتے ہیں مگر دیکھنے میں نظر کام کرتی ہے ، نظر کے لئے روشنی جو ضروری ہے وہ بھی بظا ہر موجود ہوتی ہے اور سب کچھ ہونے کے باوجود پھر دکھائی نہیں دیتا.ورنہ سراب تو چمکتے ہوئے سورج کے ساتھ دکھائی دیتا ہے جب ایسی تیز روشنی ہو کہ نظریں چندھیا جایا کرتی ہیں.تو اسے اندھیرا قرار دینا یہ معنوی لحاظ سے اور آخری مقصد کے لحاظ سے ہے یعنی تیز روشنی ہے اور پھر بھی صحرا کو انسان پانی سمجھ رہا ہے، پنپتی ہوئی ریت کو انسان پانی سمجھ رہا ہے اور روشنی ہوتے ہوئے بھی اندھا ہے.چنانچہ یہ جو میں نے ترجمہ کیا تھا اس آیت کا جو میں نے تلاوت کی ہے کہ عَلیٰ عِلم کا مطلب ہے اپنے علم کے باوجود وہ نہیں دیکھ رہا.اس کا اس آیت سے قطعی طور پر ایک تعلق ہے جو کھلم کھلا دکھائی دینے لگا ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے شخص کی مثال ایسی ہی ہے جو جو أَضَلَّهُ الله عَلَى عِلْمٍ کہ اسے اللہ نے گمراہ اس طرح کیا ہے کہ علم ہے بھی اور پھر بھی گمراہ ہے ورنہ صاحب علم کو تو گمراہ نہیں کہا جاتا اور اس گمراہی کی جو تفصیل ہے وہ اسی آیت کے مضمون کو آگے بڑھا
خطبات طاہر جلد 15 260 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء.کر دکھا رہی ہے.اس آیت کی تشریح میں ایک اور آیت میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی جس میں بتایا تھا کہ وہ اندھیرے جو نفس سے پیدا ہوتے ہیں، جو اس آیت میں مذکور ہیں.وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ ان اندھیروں کی تین حصوں میں تقسیم کر کے خدا تعالیٰ نے ایک اور آیت میں اس مضمون کو ہم پر خوب کھول دیا ہے.وہ ایک اندھیرا ہے لعب اور لہو کا.انسان کا دل پہلا وا خواہ وہ معصوم کھیلوں کی وجہ سے ہو یا نفس کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے جنسی تعلقات وغیرہ قسم کی چیز میں اور جو ابازی، یہ تمام لہو کے اندر چیزیں آتی ہیں جس سے انسان اپنے نفس کی پیاس کسی ذریعے سے بجھانے کی کوشش کرتا ہے، ایک بھڑ کی سی لگی ہوتی ہے کہتا ہے میں کسی طرح اسے پورا کرلوں.لیکن دوسری قسم ہے زِيْنَةٌ وَ تَفَاخُر.اب لعب اور لہو والی جو قسم ہے اندھیرے کی اس کا زینت و تفاخر والی قسم سے کوئی براہ راست جوڑ نہیں ہے.یہ دو الگ الگ بیماریاں ہیں.کئی ایسے لوگ ہیں جو کھیل کود میں مصروف اور نفسانی خواہشات کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہوتے ہیں مگر ان کو زینت اور تفاخر کی ہوش نہیں ہوتی کیونکہ زینت اور تفاخر میں اپنے نفس کو ہمیشہ سجا کر رکھنا ہے.کوئی ضروری تو نہیں کہ ایک جوئے باز جس کی ھوی ہی جوا ہو وہ ہمیشہ سج دھج کر رہے یا ایک ایسا شخص جو کھلاڑی ہو وہ ہمیشہ بہت خوب صورت بن کے رہے.کئی کھلاڑی ہیں ان کو اپنے جسم ، اپنے لباس کی ہوش ہی کوئی نہیں ہوتی مگر کھیل کے لئے وقف ہوتے ہیں تو دوالگ الگ چیزیں ہیں.کچھ لوگ ہیں جن کو اپنے آپ کو ہمیشہ سجا کر رکھنا پیارا لگتا ہے وہ غریب بھی ہوں تو غریبانہ سجاوٹ کریں گے اس کے بغیر رہ نہیں سکتے.عورتوں میں سجاوٹ کا ایک طبعی مادہ ہے لیکن ہر عورت میں نہیں ہے.کئی ایسی ہیں جو سارا دن نہ گھر صاف کرتیں، نہ جسم صاف رکھتیں، نہ بال بناتی ہیں اور خاوند واپس آتے ہیں تو عجیب حالت میں وہ گھر کو پاتے ہیں گھر والی بھی اسی طرح بے ہنگم اور گھر بھی اسی طرح بے ہنگم اور بال بھی بکھرے ہوئے.بعض ایسی عورتوں کو یہ بھی ہوش نہیں ہوتی کہ باہر نکلیں تو پھر بھی ٹھیک ہو جائیں لیکن تفاخر والا جو مضمون ہے وہ زیادہ اہم ہے.زینت ہر انسان کی تمنا ہے.ہر مرد کی بھی اور عورت کی بھی لیکن ہر ایک میں نمایاں نہیں ہوتی.یہ آیت جو بیان فرما رہی ہے.یہ ان لوگوں کا حال بیان فرمارہی ہے جو زینت کو خاص اہمیت دیتے ہیں.گھر میں رہیں یا با ہر ہمیشہ ان کو سجا دھجنا اچھا لگتا ہے.بعض بچوں میں فطری طور پر یہ بات
خطبات طاہر جلد 15 261 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء پائی جاتی ہے.ایک ایسا بچہ تھا جسے بچپن سے ایسا شوق تھا صاف ستھرا رہنے کا کہ اگر اس کے جسم پر ایک معمولی سا چھینٹا بھی کسی چیز کا پڑ جائے.مثلاً کھانا کھاتے ہوئے سالن کا، تو بھاگ کر وہ اپنے کمرے میں چھپ جاتا تھا.جب تک ماں اس کے کپڑے نہ بدلائے وہ روتا رہتا تھا.ایک دفعہ میں گیا تو وہ لپک کر پیچھے چھپ گیا.میں حیران تھا کہ ہوا کیا اس کو.تو اس کی اماں نے بتایا کہ اس کے کپڑوں پر ایک چھوٹا سا داغ پڑا ہوا ہے اور اچانک آپ آگئے ہیں تو اس نے یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے دیکھ لیا تو اس کا کیا بداثر مجھ پر پڑے گا.تو شرم کے مارے وہ چھپ گیا ہے.اب اس میں بناوٹ کوئی نہیں تھی ، تفاخر کوئی نہیں تھا لیکن زینت کی ایک لگن تھی جو طبعی طور پر دل میں موجود تھی.تو مختلف انسان مختلف حالتوں میں پیدا ہوتے ہیں.بعضوں کو زینت کا شوق ہے.بعضوں کو پرواہ ہی کوئی نہیں اکھڑے پکھڑے حال میں رہتے ہیں، نہ لباس کی ہوش اور ویسے بڑے صاحب علم ، صاحب وقار، صاحب مرتبہ، بڑے بڑے سائنس دان ہیں، بڑے بڑے فلسفی ہیں.جن کو اپنے لباس کی کوئی ہوش نہیں تو الگ الگ فطرت کے تقاضے ہیں اور قرآن کریم نے ان سب تقاضوں کو جوڑے جوڑے کر کے ہمارے سامنے رکھ دیا.مگر زینت سے اگلا قدم ہے تفاخر کا.اپنے نفس میں کوئی انسان اپنے آپ کو اچھا بنا کے رکھے یہ منع نہیں ہے بلکہ زینت کی تو خدا تعالی تعریف فرماتا ہے اور ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہوئے فرماتا ہے قل مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِى اَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ (الاعراف:33) - آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تو کہہ دے کہ کون ہے جو اس زینت کو حرام قرار دیتا ہے.الَّتِى أَخْرَجَ لِعِبَادِہ وہ زینت جسے خدا نے اپنے بندوں کی خاطر بنایا ہے، اپنے خاص بندوں کے لئے جو اسی کے ہوتے ہیں.وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ اور کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو اچھی چیزیں ہیں کون ہے جس نے ان کو حرام قرار دیا ہے.مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو نیک بننے کی خاطر یا اپنے آپ کو نیک دکھانے کی خاطر بُرے لباس پہنتے ہیں ، بے ہنگم لباس پہنتے ہیں تا کہ لوگ سمجھیں کہ یہ تو بڑا ہی پہنچا ہوا اور درویش ہے، اس کو تو ہوش ہی کوئی نہیں کہ کپڑے کیسے ہوتے ہیں اور اچھا کھانا دیکھا تو منہ پھیر لیا کہ جی ہمیں نہیں ان کھانوں سے کوئی دلچسپی ، گھر میں جاکے کھالیں گے، لوگوں کے سامنے اچھا کھانا نہیں کھانا، یہ بھی تفاخر کی قسمیں ہیں.پس زینت کو غیر معمولی طور پر اختیار کرنا بھی ایک اندھیرا ہے اور زینت سے جہاں جائز ہو
خطبات طاہر جلد 15 262 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء وہاں منہ پھیرنا بھی ایک اندھیرا ہے.مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ کون ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے جو زینت بنائی ہے وہ حرام ہے یا اچھے کھانے پیدا کئے ہیں تو نیک آدمی اس کو پسند نہیں کرتے.فرماتا ہے هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا صرف آخرت میں نہیں اس دنیا میں بھی یہ دونوں چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کی خاطر پیدا کی ہیں اور خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيمَةِ لیکن قیامت کے دن صرف انہی کے لئے ہوں گی.وہ لوگ جو دنیا کی زیتوں میں، دنیا کے اعلیٰ کھانوں میں ان کے ساتھ یہیں شریک ہیں ان کے لئے ، خدا نے پیدا نہیں کیا مگر نیک بندوں کا صدقہ وہ بھی کھا رہے ہیں.بنایا اپنے بندوں کے لئے ہے مگر وہ جو رفتہ رفتہ شیطان کے بندے بن جاتے ہیں وہ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ان سے بلکہ نیک بندوں سے زیادہ چھین کے لے جاتے ہیں.مگر فرمایا مرنے کے بعد ان کو کچھ نہیں ملے گا پھر.یہ چیزیں خالصہ زینت اور اچھا طعام ان کے لئے ہو گا جو خدا کے حقیقی بندے ہیں.تو دیکھیں منع نہیں ہے زینت اور خدا تعالیٰ نا پسند فرماتا ہے اس بات کو کہ زینت کو حرام قرار دیا جائے مگر وہاں اس آیت میں اندھیروں کی مثال کے طور پر زینت کو بھی پیش فرمایا.وَزِينَةً وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمُ وہ زینت جو مقصود بن جائے وہ گناہ ہے وہ زینت جو ایک دوسرے پر فخر کا موجب بنے یا ایک دوسرے پر فخر کی وجہ سے اختیار کی جائے وہ منع ہے.اور اگلا حصہ آیت کا ہے.وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَا دِ مال میں اور اولاد میں بڑھنا اور تکاثر، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنا.اب مال کی تمنا بھی اپنی ذات میں منع نہیں ہے.قرآن کریم فرماتا ہے يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا (الحشر : 9) وہ اللہ کے فضل یعنی یہاں مال مراد ہے، دنیاوی رزق کے لئے اللہ کی طرف جھکتے ہیں اور اسی سے رضوان چاہتے ہیں.اولاد کی بھی خواہش منع نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسی عورتوں سے شادی کرو جو خوب بچے پیدا کریں تا کہ میری اُمت بڑھے اور یہاں بھی مقصد تفاخر نہیں ہے.تَكَاثُر ان معنوں میں نہیں کہ لوگوں کے بچے کم ہو جائیں اور مر جائیں اور میری اُمت کے بڑھیں ، مراد یہ ہے کہ نیک لوگ بڑھیں.اُمت محمدیہ تو وہ ہے جو آنحضرت ﷺ کے پیچھے چلنے والی ہے.یہاں نام کی اُمت ہرگز مراد نہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نام کی اُمت کا تو آنحضور نے سے
خطبات طاہر جلد 15 263 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء کوئی بھی تعلق نہیں وہ تو شرم کا موجب ہیں.اُمت محمدیہ سے مراد وہ حقیقی امت ہے جو اللہ کے عباد ہیں جو محمد رسول اللہ لہ کے توسط سے حقیقی عباد بن گئے.آپ کی برکت سے لوگوں کو عبد اللہ بننے کے گر آگئے ، ایسے عباد اللہ ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی امت ہیں ان کو بڑھانے کے لئے آنحضرت نے بھی دعا مانگی اور امت کو ہدایت بھی کی.تو یہ ساری باتیں جو تین جوڑوں کی صورت میں آپ کے سامنے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو اپنی ذات میں گناہ ہو.ہر چیز وہ ہے جو فطرتا، طبعا انسان کے اندر رکھی گئی ہے اور اس کی حرمت فی ذاتہ کوئی بھی نہیں لیکن حرمت بنتی کب ہے.وہ آیت ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے اس میں یہی تین مضمون ہیں جیسے وہاں تین امور کا ذکر کر کے متنبہ فرمایا گیا تھا اس میں بھی تین باتیں بیان ہوئی ہیں.أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوىه کیا تو نے غور کیا ایک ایسے شخص کے اوپر جو اپنے نفس کی خواہشات کو معبود بنا بیٹھے، اس کے تابع ہو جائے ، اس کا غلام بن جائے.ایسی صورت میں لعب بھی حرام ہو جائے گی ، بہو بھی حرام ہو جائے گی ، ایسی صورت میں ہر قسم کی زینت بھی حرام ہو جائے گی اور زینت کے ساتھ تفاخر بھی حرام ہو جائے گا.مال کی زیادہ کی خواہش بھی حرام اور اولاد کی زیادہ خواہش بھی حرام.یہ ساری چیزیں تب حرام ہوتی ہیں جب قرآن کی اس آیت کی رو سے یہ معبود بن جائیں اور ھوی کا معبود بننا یہ سب سے بڑا اندھیرا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ أَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ ایسے شخص کو علم ہو بھی تو اندھا ہوتا ہے، گمراہ ہو جاتا ہے.خَتَمَ عَلَى سَمْعِے کان ہیں لیکن سننے کے کان نہیں ہیں.دل ہے مگر غور کرنے کے قابل دل نہیں ہے.آنکھیں ہیں مگر پردہ پڑا ہوا ہے تو تین اندھیرے ہی تو ہیں.ہمارے اندر روشنی کے داخل ہونے کے یہی تین رستے ہیں.یعنی سماعت کی روشنی علم کی روشنی جو سننے سے تعلق رکھتی ہے اور بصر کی روشنی جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے بعد غور کرنے کی صلاحیت، یہ وہ اندرونی روشنی ہے جو مختلف ان علوم کو جو کانوں کے ذریعے یا آنکھوں کے ذریعے انسان کے دماغ تک پہنچتے ہیں اور دماغ انہیں آپس میں جس طرح جانور جگالی کرتا ہے اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ، الٹ پلٹ کے ان سے نئے مضامین کے رس نکالتا ہے.یہی تین ذریعے ہیں جو اس کو اندھیروں سے روشنی میں لاتے ہیں اور یہ سارے ذرائع اگر بند ہو جائیں تو
خطبات طاہر جلد 15 264 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء انسان روشنیوں سے اندھیرے میں چلا جاتا ہے.پس وہ تین اندھیرے جن کا ذکر پہلی آیت میں گزرا تھا وہی تین اندھیرے دوسری آیت میں اور طریق سے بیان کر کے دکھائے گئے ، انہی تین اندھیروں کا ذکر اسی آیت میں ملتا ہے اور ان کی آخری صورت ہے کہ ان کو اپنا معبود نہ بنا بیٹھنا.اور پھر اس آیت میں ایک اور حسن یہ ہے کہ جو آیت میں نے آپ کے سامنے پہلے پڑھی تھی کہ جو تین حصے فرمائے گئے ہیں وہ انسانی زندگی کے تین مشاغل کی قسمیں ہیں جن میں انسانی زندگی ہمیشہ منہمک رہتی ہے.لہو و لہب تو ظاہر بات ہے جو Social Pursuits ہیں انسان کی اپنی ذات کو خوش رکھنے کے لئے جو مختلف قسم کے بہانے انسان نے تراشے ہوئے ہیں، ذرائع اختیار کئے ہوئے ہیں، ہر قسم کی زائد دلچسپیاں جو کھانے پینے کے علاوہ محض زندہ رہنے سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ زندگی کو ایک شغل میں ہمیشہ غرق کر دینے سے تعلق رکھتی ہیں.لعب میں غرق رہے یا لہو میں غرق رہے انسان ایک قسم کا ڈرگ ( Drug) کا Adict ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی سوائے اپنے آپ کو سکون بخشتے کے اور کچھ نہیں رہتی یا سکون کی تمنا میں ہمیشہ دوڑتے چلے جانے کے سوا اور کچھ نہیں رہتی.دوسرا مضمون ہے زِينَةٌ وَتَفَاخُر اس میں ہر قسم کے زیب وزینت کے سامان جتنی کاسمیٹک انڈسٹری ہے، مکانوں میں صرف ضرورت کی خاطر اضافے نہ کرنے بلکہ محض اس لئے کہ فلاں کے مکان سے زیادہ خوب صورت ہو اور اس سے زیادہ اونچا دکھائی دے اس طرح ایک دوسرے سے دوڑ شروع ہو جائے.یہ جو دوڑ ہے یہ بھی انسانی زندگی کو خاص مقاصد کے لئے وقف کر دیتی ہے اور ایسے لوگوں کو دوسری چیزوں کی ہوش نہیں رہتی.اور تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ در اصل سیاسی غلبے سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے کیونکہ قرآن کریم نے اموال اور اولا د کو دوسری آیات میں سیاسی غلبے سے باندھا ہے اور بڑے بڑے بادشاہوں کو ، جب ان کے تکبر کا حال بیان فرمایا اس طرح ظاہر کیا گیا کہ ان کا فخر یہی تھا کہ ہماری اولا د زیادہ ہے، ہمارے اموال زیادہ ہیں.اموال والوں نے اپنے آپ کو سمجھا کہ ہم اموال کے ذریعہ ہمیشہ زندہ رہیں گے.صاحب اولا دلوگوں نے سمجھا کہ اولاد کے ذریعے ہمارا غلبہ باقی رہے گا.تو نفس کی انا جو حکومت چاہتی ہے جو سیاست کے ذریعے یا حربی ذرائع سے ایک شخص یا ایک قوم کو دوسروں کا آقا بنادیتی ہے.یہ وہ تمنا ہے جس کا تعلق اموال اور اولاد کی کثرت سے ہے.
خطبات طاہر جلد 15 265 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بارہا یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو ان کے اموال اور اولاد کی کثرت نے اندھا کر دیا اور اس کے نتیجے میں وہ قہری بادشاہ بن کے ابھرے اور انصاف کا خون کرنے والے ہوئے کہ ان کی غرض سوائے حکومت کے اور کچھ نہیں تھی.تو اولاد سے مراد یہاں قوم کی کثرت ہے، اپنی اولا د صرف نہیں ، وہ تو ہے ہی لیکن اس مضمون میں اولاد کا تعلق جمیعت سے ہے اور اولاد کا تعلق ایسے مالی ذرائع سے ہے جن کے نتیجے میں انسان ہمیشگی کی برتری حاصل کر لیتا ہے.وہ قو میں جو زیادہ مال دار ہوں وہ سمجھتی ہیں اب ہمیں دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکے گا.جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ ثُمَزَةِ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَةَ اخْلَدَهُ الهمزه:2 (4) هُمَزَةٍ تُمَزَةٍ جولوگ ہیں یہ تفسیر پر دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں ایسی قوم کا بیان ہے یا ہر ایسے شخص کا بیان ہے جو مال جمع کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ مَالَة اخْلَدَه کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر دے گا.اب لوگ جانتے ہیں کہ مال سے ذاتی طور پر تو ہمیشہ کی زندگی نہ ملتی ہے ، نہ کوئی سوچ سکتا ہے لیکن مال کے ذریعے قومی غلبہ ضرور ہوا کرتا ہے اور دولت مند قو میں سمجھتی ہیں کہ اب ہمیں دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا کوئی انقلاب ایسا نہیں آسکتا کہ ہم سے طاقت چھین کر نسبتا غریب قوموں کے سپر د کر دی جائے.تو یہ بھی ایک طبعی حالت کے حد سے زیادہ تجاوز کر جانے کی وجہ سے بیماری بنتی ہے اور خلاصہ اس کا قرآن کریم نے یہ نکالا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنالیا، جس کسی نے بھی اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اس کے تینوں علم کے رستے بند ہو جاتے ہیں اور اس سے بڑا اندھیرا اور کیا ہے کہ ایک اندھیرے کے بعد دوسرا، نہ کان سے سن سکے، نہ آنکھ سے دیکھ سکے، نہ دماغ اور دل سے غور کر سکے.تو وہ جو ظلمات ثلاث ہیں، کچھ باہر کی ہیں کچھ جسم کے اندر سے پیدا ہوتی ہیں اور ان پر آپ غور کر کے اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تو ہر ایسا موقع جس سے اندھیرا پیدا ہوتا ہے، ہر اس موقع سے روشنی بھی پیدا ہوتی ہے اور وہاں صحیح طریق اختیار کرنے کا نام ہی اندھیرے سے روشنی میں آنے کا نام ہے.پس یہ نفس کے اندھیرے ہیں اور ان اندھیروں سے متعلق خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ بھی ہمیں یہی سمجھایا کہ جو ان اندھیروں میں مبتلا ہو جائے اللہ کے سوا پھر اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.
خطبات طاہر جلد 15 266 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے کیونکہ عَلیٰ عِلْمٍ یہ لوگ دیکھنے کے باوجود اندھیروں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو کیا دکھاؤ گے اور کیا سمجھاؤ گے؟ ان کی مزید تعریف یہ فرمائی کہ وہ کہتے ہیں کہ یہی دنیا کی زندگی ہے اسی میں ہم نے رہنا ہے، یہیں ہم نے مرنا ہے.پس آج کل خصوصیت سے جہاں مادیت کا دور ہے جماعت احمدیہ کو اپنی تبلیغ کی راہ میں بھی سب سے بڑی مشکل یہی در پیش ہوتی ہے.غریب ملک ہو یا امیر ملک ہو جہاں مادہ پرستی اور سیاسی غلبہ اور زیادہ اموال اور ایک دوسرے پر تفاخر کرنا اور لہو ولعب میں مبتلا ہونا یہ تینوں قسم کے اندھیرے قوم کے افق کو ڈھانپ لیں اور کوئی کسی طرف سے بھی روشنی کی امید دکھائی نہ دے ایسی قوم کو راہ حق کی طرف بلانا سب سے بڑا مشکل کام ہے کیونکہ ان کے دل کی آواز یہ ہوتی ہے کہ یہی تو زندگی ہے جس میں ہم نے رہنا ہے، سب کچھ یہی ہے، یہیں رہنا ہے یہیں مرنا ہے تو ہم کیوں ایک فرضی موت کے بعد کی زندگی کی خاطر اس دنیا کی لذتوں کو چھوڑیں.ایک فرضی موت کے بعد کی دنیا کے تصور میں اپنا یہاں محاسبہ شروع کریں اور بدیوں سے احتراز اور نیکیوں کی طرف رغبت کریں جو قربانی چاہتی ہیں.عمر ضائع کرنے والی بات ہے.اس لئے یہیں کھیلو،کودو، کھاؤ، پیو، مرجاؤ یہی کچھ تو ہے ہمارے مقدر میں.ایسے لوگوں کو آپ نیکی کی طرف بلانہیں سکتے کیونکہ اس کے آخر پر خدا نے یہی نتیجہ نکالا فَمَنْ يَهْدِيْهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ اَفَلَا تَذَكَّرُونَ جو اس قسم کی گمراہیوں میں مبتلا ہو جائیں ان کو اللہ کے بعد ہدایت دے کون سکتا ہے؟ اور دوسری اس دعا میں جو ہمیں آنحضرت ﷺ کی طرف سے سکھائی گئی اور جمعہ کے وقت بھی ہم وہ دعا پڑھتے ہیں وہ دعا ہے.ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيات اعمالنا اے خدا ہم تیری پناہ میں آتے ہیں.من شرور انفسنا اپنے نفس کے شرور سے ومن سیات اعمالنا اور خود اپنے ہی اعمال کی بدیوں سے.اب یہاں باہر کے خطرات کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ باہر سے بھی خطرات انسان کو درپیش ہوتے ہیں.وہ پہلی آیت جس کی میں نے تلاوت کی تھی اس کے بعد والی آیت سے تعلق رکھتے ہیں اس کی طرف میں ابھی نہیں آ رہا.جہاں نفس کے اندھیروں کا تعلق ہے اس کے تعلق میں ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيات اعمالنا اگرایا نہ ہو تو کیا ہے ومن يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا ھادی لہ جسے اللہ ہدایت دے
خطبات طاہر جلد 15 267 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء اسے پھر کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.ومن يضلله فلا هادى له جسے خدا گمراہ ٹھہرا دے پھر اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.یہ لا هادی له والا مضمون ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا ہے جو ایسا شخص ہو کہ اضَلَّهُ الله جسے اللہ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہو ان حرکتوں کی وجہ سے فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ تو اللہ کے بعد ہے کون جو پھر اس کو ہدایت دے سکے.تو ایسی دنیا جہاں مادہ پرستی کے اندھیروں نے قوم کو ڈھانپ لیا ہو اور ہر طرف سے مادہ پرستی اور اس کے مشاغل میں انسان اپنی ساری زندگی کھویا رہا ہو، اس کے سوا کچھ دکھائی نہ دے، ان سے آپ مذہب کی باتیں کریں مرنے کے بعد کے قصے سنائیں یہ بالکل بے کار بات ہے دیوار سے باتیں کرنے والی بات ہے.ان کے کانوں میں تو پڑہی کچھ نہیں سکتا.ان کا کیا علاج ہے؟ ان کا علاج یہ ہے کہ ان کے لئے دعالا زم ہے.جب تک دعا کے ذریعے خدا تعالیٰ سے مدد طلب نہ کریں اس وقت تک ان کی آنکھیں کھل نہیں سکتیں.اس لئے وہاں بھی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے اللہ کے سوا کوئی ہدایت نہیں دے سکتا تمہیں اختیار نہیں ہے، تم ان کی آنکھیں نہیں کھول سکتے لیکن اللہ کھول سکتا ہے.اسی تعلق میں ان ماں باپ کو میں نصیحت کرتا ہوں جو اپنے بچوں میں سے بعض کے متعلق سخت مایوس ہو جاتے ہیں.کوئی ذریعہ نہیں ان کے پاس رہتا وہ سمجھا کے بلا سکیں.ان کے ہاں پیدا ہوئے ، نیک باتیں سنیں اور بعض ایسے بد نصیب نکلتے ہیں کہ اچانک ان سب باتوں سے ایمان اٹھ جاتا ہے اور وہ مادہ پرستی کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں، اسی سے متاثر ہو جاتے ہیں، اسی سے مغلوب ہو جاتے ہیں اور پھر مائیں کہتی رہتی ہیں ویلک تجھے کیا ہو گیا ہے، کیوں اپنے آپ کو ہلاک کر رہا ہے، خدا کی طرف آ.کوئی توجہ نہیں دیتے کیونکہ ان کی آنکھیں بھی اندھی ہو چکی ہیں ان کے کان بھی بہرے ہو چکے ہیں ان کے دل سوچنے کی طاقت سے عاری ہیں.ایسے لوگوں کے لئے دعا کرنی چاہئے اور دعا اگر سنجیدگی سے ہو اور توکل کے ساتھ ہو تو غیر معمولی طاقت رکھتی ہے کیونکہ پھر آپ کی تدبیر، تقدیر کے ساتھ آسمان سے اتری ہے ورنہ دنیا کی تدبیر آسمانی تقدیر کے خلاف کچھ بھی کر نہیں سکتی، کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی.اس لئے یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں ہدایت موجود ہے، ابھی تک پر تمہارے ہاتھ میں نہیں رہی تمہارے بس کا روگ نہیں رہا.یہ لوگ اگر کبھی ہدایت پائیں
خطبات طاہر جلد 15 268 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء گے تو خدا کے فضل سے پائیں گے ورنہ نہیں.پس مردوں کو زندہ کرنا اس کو کہتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، وہ صدیوں سے جو قبروں میں دبے پڑے تھے وہ زندہ ہو گئے.وہ کیا بات ہوئی، کیا ماجرا گز را، فرمایا ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں.وہاں یہ نہیں فرمایا کہ تعلیم ، کتاب تھی یا حکمتیں بیان کرنے کا طریق تھا جس کی وجہ سے وہ گڑے مردے جو صدیوں سے مرے پڑے تھے وہ زندہ ہو گئے.دیکھیں ایک عارف باللہ ہی ایک عارف باللہ کی حقیقت کو سمجھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا وہی حق ہے اس کے سوا اور کوئی حق نہیں کہ نہ نصیحت کام آئی، نہ دلائل کام آئے اور نہ تلوار نے کام کیا جیسا کہ مودودی کو دکھائی دیا.اگر کام آئیں تو دعائیں کام آئیں.فرمایا یہ جو عجیب معجزہ تم نے بیابان عرب میں رونما ہوتے دیکھا وہ ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں.پس جہاں تک ہماری اگلی نسلوں کا تعلق ہے جو ان اندھیروں میں مبتلا ہو چکی ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے، یہ اللہ کا احسان ہے کہ نسبتا بہت کم ہیں ،مگر مغربی دنیا میں خاص طور پر دنیا کی چمک دمک سے مرعوب ہو کر ایک غیر معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے یہاں کے ٹیلی ویژن وغیرہ کے نظام سے متاثر ہو کر بعض دفعہ یہاں پیدا ہونے والے بچے اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہیں.پیشتر اس کے کہ ان کی آنکھیں اندھی ہوں لازم ہے کہ ان کی فکر کی جائے اور محسوس کیا جائے کہ بیماری کیا ہے اور کہاں تک پہنچی ہے.اندھے ہونے سے پہلے پہلے ان کو روکنا ہمارے بس میں ہے.اگر اندھے ہو ہی چکے ہوں تو پھر یہ بھی سوال ہے کہ کیا تینوں رستے بند ہو گئے ہیں.اب دیکھیں قرآن کریم کی حکمت کا بیان کہ تین رستوں کے لئے الگ الگ بیماریاں بیان فرمائی ہیں.کان کا رستہ ایک نور کا رستہ ہے.آنکھ کا رستہ ایک نور کا رستہ ہے اور تذکیر کی قوت اور فکر کی قوت جو ماحصل کو آپس میں ملا کر نئے نتائج پیدا کرتی ہے اس کو دل کی قوت کہا جاتا ہے، وہ بھی ایک نور کا رستہ ہے.ورنہ ایک شخص جس کے دماغ میں نتائج اخذ کرنے کی قوت نہ ہو وہ دیکھتا بھی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.وہ سنتا بھی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.بعض بیمارا ایسے ہیں ان کی اطلاع دیتے ہیں کہ آنکھیں تو کھول لی ہیں، آواز بھی آرہی ہے مگر کچھ پتا نہیں کہ کیا سن رہا ہے اور کیا دیکھ رہا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 269 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء تو خدا کے کلام کی شان دیکھیں کس طرح ان تینوں کو آپس میں اکٹھا کر کے ایک واحد مضمون پیدا فرمایا ہے.فرمایا ہے روشنی کے یہ تین رستے ہیں ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی روشنی.ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو کمی آ جائے گی.مگر کوئی بھی نہ ہو تو پھر تمہارا کیا بس ہے کہ تم اسے ٹھیک کر لو.اسی کو موت کہتے ہیں.جب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ صدیوں کے گڑے ہوئے مردے زندہ کر دیئے تو یہ موت کی علامتیں پیدا ہو چکی تھیں اس عرب میں جس میں آنحضرت ﷺ کا نور ظاہر ہوا ہے.اندھیروں میں آپ نے قدم رکھا ہے اور اندھیروں کو روشنیوں میں تبدیل فرمایا ہے.وہ ذاتی کوشش سے علم کی کوشش سے، تقریر کی کوشش سے تحریر کی کوشش سے ممکن نہیں تھا.فرمایا ایک فانی فی الله کی راتوں کی دعائیں ہی تو تھیں.پس وہ لوگ جو اس مضمون کی انتہائی ظلمت کے کنارے تک جا پہنچے ہیں ان کو بھی ہم نے بلانا ہے خواہ وہ ہمارے علاوہ ہوں یا ہمارے اندر کے بسنے والے لوگ ہوں ، ہمارے گھر کے بچے ہی کیوں نہ ہوں.اگر یہ حالت پہنچ گئی ہے سنتے بھی نہیں ہیں اور سوچتے بھی نہیں ہیں اور دیکھنے سے ویسے ہی عاری ہو چکے ہیں تو آپ کیسے ان کو ہدایت دیں گے.میرے سامنے مسئلے لاتے ہیں، میں کہتا ہوں یہ وقت گزر چکا ہے اب تمہیں جلدی ہوش چاہئے تھی.اس وقت بیمار کو لے کے آئے ہو جب آنکھیں کھلی ہیں مگر دکھائی نہیں دے رہا، کان موجود ہیں مگر سنائی نہیں دے رہا، قوت فکر سے خالی ہو گیا، موت اور کہتے کس کو ہیں پھر ؟ تو موت کا تو کوئی علاج نہیں.مردہ کو کوئی زندہ نہیں کر سکتا مگر اللہ اور ظاہری مردے تو وہ اس دنیا میں زندہ نہیں کرتا مگر روحانی مردوں کو ضرور زندہ کرتا ہے ورنہ قرآن کریم کے یہ مضامین اور بار ہا اس کے تذکرے بالکل بے معنی اور لغو ہو جائیں گے اور ہو نہیں سکتا کہ قرآن کریم کسی مضمون کو محض لغو قصوں کے طور پر بیان فرمائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابراہیم نے بھی تو سوال کیا تھا.رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى (البقرہ:261)اے میرے خدا! بتا مردوں کو تو کیسے زندہ کرے گا یہ مردے کیسے زندہ ہوں گے؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ایک طریق سکھایا جس کے متعلق میں پہلے اس سے ایک خطبے میں روشنی ڈال چکا ہوں.اب وہ ظاہری مردے مراد نہیں تھے روحانی مردے تھے اور وہ مردے ایسے ہیں جو ایک صاحب فہم ، صاحب عقل انسان دیکھ کر یہی فیصلہ کرتا ہے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد 15 270 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء آج ہمارے اردو کے سوال و جواب کے موقع پر بھی یہی سوال اٹھایا گیا ایک دوست کی طرف سے کہ تبلیغ پہ آپ نے بڑا زور دیا ہے مگر یہ بتائیں کہ جس سے بات کرو جس کو دنیا کی ہوش اور لالچ کے سوا دلچسپی کوئی نہ ہو اس کو کس طرح ہم بلائیں ، کیسے سمجھائیں ، کون سی آواز دیں جو اس کے کانوں کے پردوں کے پار اتر سکے جہاں مہریں لگی ہوئی ہیں.تو ان کو بھی میں نے ایک جواب دیا.اب میں اس مضمون کو خاص طور پر اس حوالے کی وجہ سے زیادہ اٹھا رہا ہوں کیونکہ آج صبح کی ابھی چند گھنٹے پہلے کی یہ تازہ تازہ بات ہے.اس کا اصل علاج دعا ہے.یا فیصلے میں جلدی سے پہلے آپ غور کریں کہ کیا سارے نور کے رستے بند ہو چکے ہیں یا کچھ کچھ رمق باقی ہے.اگر رمق باقی ہو تو وہ زندہ ہے مردہ نہیں ہے.رمق باقی ہو تو اس سے فائدہ اٹھا کر اس کے بچنے کے، اس کی شفا کے سامان کئے جاسکتے ہیں.پس اول دعا کا ذریعہ ہے اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے.جس میں دلچسپی ہو اور اپنوں کا چونکہ زائد حق ہوتا ہے دوہرا تہراحق ہوتا ہے، اپنوں کے لئے خصوصیت سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان اندھیروں کی مار سے بچائے کہ روشنی کی کوئی بھی راہ باقی نہ رہے، دیکھتے دیکھتے زندوں سے یہ مردوں میں نکل جائیں اور اگر نکل بھی جائیں تو مایوسی نہیں کرنی چاہئے.رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُنِي الْمَوْتی کی دعا کو یاد کرو.یاد کرو کہ کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا مانگی تھی اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کے ہاتھوں یہ معجزہ دکھا دیا.کس طرح ایک نبی نے ایک اجڑی ہوئی بستی کو دیکھا اور یہی سوال دہرایا کہ اے خدا یہ مرے ہوئے کیسے زندہ ہوں گے.یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ خدا کے ایک نبی عزرا اس بستی سے گزرے جسے یروشلم کہا جاتا ہے، اس حالت میں گزرے جب کہ ایک بادشاہ نے اسے کلیۂ برباد کر دیا تھا، کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا تھا.Soloman's Temple بھی Completely Destroy ہو کر یعنی کلیۂ منہدم کر دیا گیا اور ایک ملبے کا ڈھیر بن گیا.چھتیں گر پڑیں ، کھو کھلی دیوار میں کھڑی تھیں.اس نے دیکھا اس نے کہا اے خدا تو نے زندہ تو کرنا ہے ان کو ، تیرے وعدے ہیں، مگر کیسے زندہ ہوں گے.تب اللہ تعالیٰ نے اسے سوسال کی خواب دکھائی اور عجیب لطف کی بات ہے قرآنی فصاحت و بلاغت ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک نہایت شاندار مضمون سے ایک نہایت بد زیب مضمون لوگ نکال لیتے ہیں.فرمایا خود اسے سوسال کی موت دی، پتا لگے کہ زندہ ہوتے کیسے ہیں سوسال میں اور اس نیند کی حالت میں تمام
خطبات طاہر جلد 15 271 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء سوسال کے واقعات جو گزرنے تھے اور جس کے بعد ایک عجیب انقلاب بر پا ہونا تھا، ان لوگوں نے جی اٹھنا تھا، اس بستی نے دوبارہ زندہ ہو جانا تھا، وہ اسے سمجھائے اور سمجھانے کے بعد پھر یہ غلط فہمی دور کرنے کی خاطر کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ واقعہ سو سال کے مرے ہوئے جئیں گے.فرمایا اپنے گدھے کو دیکھ لے اسی طرح کھڑا ہے کچھ بھی نہیں ہوا اس کو.اپنے کھانے کو دیکھ اگر واقعہ سوسال ہوتے تو سٹرئیس جاتا.اسی طرح تازہ کا تازہ ہے.تو جو ہم تجھے سمجھا رہے ہیں یہ تمثیلات ہیں.یہ مری ہوئی بستی ضرور زندہ ہوگی جیسا کہ تجھے رویا میں دکھایا گیا اور واقعہ یہ ہوا کہ اس واقعہ کے سوسال کے اندر اس عظیم بادشاہ نے جس کے متعلق بائبل میں ذکر ملتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کو دوبارہ زندہ کر دینا تھا جس نے اس اجڑے ہوئے شہر کو آباد کرنا تھا.خورس بادشاہ تھا جس کا ذکر یسعیاہ میں ملتا ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تم میں سے نہیں ہے مگر میں اس سے کلام کروں گا اور اس کا ملہم ہونا قرار دیا اور یہ بتایا کہ اس کے ذریعے جو اسرائیل کی اجڑی ہوئی رونق ہے وہ دوبارہ قائم کی جائے گی.بنو کد نضر کے برعکس یہ بادشاہ خدا ترس تھا.غیر معمولی طور پر بنی نوع انسان کی خیر خواہی کرنے والا تھا.ایسا بادشاہ تھا جس کی ایسی تعریف مؤرخین نے کی ہے کہ اس کی کوئی مثال کہیں دکھائی نہیں دیتی.ایک بادشاہ ہے جس میں ہر پہلو سے وہ تعریف دیکھتے ہیں، ایک بھی گند نہیں نکال سکے.یہ وہ خورس ہے.تو خورس نے اس کے سو سال کے بعد اس کو آباد کر دیا اور اس کی کھوئی ہوئی رونقیں واپس آگئی Soloman's Templ دوبارہ بنایا اور بائبل کی از سرنو تدوین ہوئی اس کے نتیجے میں.خورس کے زیر اثر ایسے اہل ایران کے علماء پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے آپ کو بائبل کے ترجموں کے لئے وقف کیا اور ایسی زبان میں جو فارسی اثر کے تابع Hebrew کے ساتھ مل کر ایک نئی زبان بنی تھی اس میں تراجم کئے گئے ، بہت بڑی خدمت ہوئی ہے.مگر یہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کی بات ہو رہی ہے اور ان معنوں میں خدا زندہ کیا کرتا ہے.جہاں سب امید میں خطا ہو جائیں کوئی امید کی راہ باقی نہ رہے ایک قوم کے متعلق کہ دیا جائے کہ مرگی ، کھپ گئی ختم ہوگئی ، پھر بھی خدا زندہ کر سکتا ہے اور ایسے معجزے پہلے دکھا چکا ہے.پس آنحضرت ﷺ کی امت جس کے نبی کو خدا تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے والا قرار دیتا ہے، جس کی تعریف یہ فرمائی گئی کہ اے دنیا کے مُر دو جب یہ تمہیں اپنی طرف بلائے کہ تمہیں زندہ کرے تو تم
خطبات طاہر جلد 15 272 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء اٹھ کھڑے ہوا کرو اس کی آواز پر لبیک کہا کرو.ایسے نبی کی امت کے متعلق جب یہ حالات پیدا ہو جائیں تو ہرگز مایوسی کا کوئی سوال نہیں.پس پہلے تو میں آپ کو مغربی دنیا میں تبلیغ کے متعلق توجہ دلاتا ہوں کہ وہاں بھی خواہ کس حال کو یہ لوگ پہنچ چکے ہوں یا درکھیں کہ دعاؤں کی برکت سے مردے پہلے بھی زندہ ہوئے ، آج بھی ہو سکتے ہیں، کل بھی ہوں گے.اور جہاں تک امت مصطفی ﷺ کا تعلق ہے خواہ وہ نام ہی کی کیوں نہ ہو، منسوب محمد رسول صلى الله اللہ ﷺ کی طرف ہوتے ہیں ان کے متعلق آج کل یہ عام چر چاہے کہ وہ تو گئے اور احمدی کی بات نہیں غیر احمدی دانشور بڑے بڑے لکھنے لگے ہیں کہ کوئی زندگی کے آثار باقی نہیں رہے، آئے دن ایسے مضامین چھپتے ہیں کیا باقی رہا ہے سوائے نام کے.ان کے متعلق بھی کسی احمدی کو زیب نہیں دیتا کہ ان سے مایوس ہو جائے اور یہ کہہ دے کہ ان کے دن گنے گئے اور یہ ہمیشہ کے لئے مٹی میں غرق ہو گئے.اگر بنی اسرائیل کے سوسالہ گڑے مردوں کو خدا اٹھا سکتا ہے، اگر عرب کے مشرکوں کے سینکڑوں سال کے گڑے ہوئے مردوں کو خدا زندہ کر سکتا ہے تو آنحضرت ﷺ سے دعاؤں کے گر سیکھتے ہوئے ،ان کے لئے دعائیں کریں اور بڑے الحاح اور یقین سے دعائیں کریں تو دیکھو یہی جی اٹھیں گے، ان کے کان سنے لگیں گے.ان کی آنکھیں دیکھنے لگیں گی ، ان کی زبانیں بولنے لگیں گی، ان کے دلوں میں غور و فکر کی صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی اور قوم کے دن پھر سکتے ہیں اور پھریں گے انشاء اللہ.مگر پہلے اپنے دن پھیریں.اپنی آنکھوں سے ان پر دوں کو دور کریں جن کا ذکر قرآن کریم میں بیان ہوا ہے.اپنے کانوں سے ان بوجھوں کو نکالیں جو آپ کی سماعت پر بداثر ڈال رہے ہیں اور اپنے دلوں سے ان میلوں کو دھوئیں جو میلیں آپ کے دلوں میں سوچنے اور سمجھنے کی طاقتوں کو مدھم کر دیتی ہیں یا دھندلا دیتی ہیں یا بعض دفعہ ایسا الجھا دیتی ہیں کہ تاریکی ہی تاریکی رہ جاتی ہے، حقیقی سوچ کا مادہ دل سے نکل جاتا ہے.یہ جو دوسرا حصہ ہے اس آج کے خطبے کا اس کے متعلق میں انشاء اللہ اگلے خطبے میں کچھ مثالیں دے کر آپ پر بات کھولوں گا.محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ اپنی آنکھوں سے پردے ہٹاؤ، اپنے کانوں سے بوجھ نکالو.مثالیں دے کر ، روز مرہ کی زندگی کے تجربے آپ کے سامنے رکھ کر بتانا ہوگا کہ یہ بدیاں ہیں جو ہمارے اندر راہ پا رہی ہیں ان سے اپنے آپ کو چھڑا ئیں ورنہ یہ تین قسم کی
خطبات طاہر جلد 15 273 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء بدیاں، تین صلاحیتوں کے اوپر حملہ آور ہیں.لہو و لعب، زینت اور تفاخر اور کثرت اموال اور اولاد کی تمنا ئیں جب یہ معبود بن جائیں تو پھر یہ اندھیرے ہیں جو ان تینوں صلاحیتوں پر چھا جاتے ہیں.پھر آپ کے دیکھنے کی طاقت بالکل سلب ہو جاتی ہے کچھ بھی آپ نہیں کر سکتے اسی کا دوسرا نام موت ہے.پس دعائیں کریں ان کے لئے جن کو آپ زندہ کرنا چاہتے ہیں.دعائیں ان کے لئے کریں جن کے معاشرے میں آج بہت سے احمدی اپنے وطن کو چھوڑ کر آ بسے ہیں اور ان کے اندھیروں کے رحم وکرم پر پڑے ہوئے ہیں.روشنی دکھائی دے رہی ہے اور علی عِلم ہونے کے باوجود وہ اندھیرے ہیں ان سے سب سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے.ان سے ڈرنا سب سے اہم ہے کیونکہ وہ روشنی کے اندھیرے ہیں، یہ میں آپ کو سمجھانے کی بات کر رہا ہوں.عَلَى عِلْمٍ ہیں.جانتے بوجھتے ہوئے یہ برائیاں ہیں پھر بھی آپ کو وہ روشنیاں دکھائی دے رہی ہیں ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں.تو اس سلسلے میں جب آپ تبلیغ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مایوسی کے کئی مراحل سامنے آتے ہیں جب سمجھتے ہیں کہ آگے رستہ ہی کوئی باقی نہیں رہا.ان باتوں کو یا درکھیں کہ یہ سارے مراحل دعا کے ذریعے طے ہوں گے اور رکی ہوئی نبضیں پھر چل پڑیں گی ایسے دوست جن سے آپ کو کلیہ مایوسی تھی وہ از خود جاگ اٹھیں گے اور یہ بات حقیقہ دنیا کے مختلف کونوں سے جہاں داعی الی اللہ نئے جوش کے ساتھ اٹھ رہے ہیں لوگ مجھے لکھ رہے ہیں.ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں.بارہا یہ باتیں سامنے آتی ہیں.ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں شخص تھا اس پر ہم نے اس طرح توجہ دی، یہ کوشش کی ، بالکل پتھر کی طرح تھا جس سے سر ٹکرانے سے اپنے آپ کو نقصان پہنچے اور اس پتھر پہ کوئی اثر نہ پڑے لیکن ہم نے دعائیں کیں اور اب یہ واقعہ ہوا ہے اور حیرت ہوتی ہے دیکھ کر کہ کس طرح خدا نے اس شخص کا دل بدلا ہے.کس طرح اس کی تقدیر جاگ اٹھی اور اچانک وہ جو دشمن تھا وہ احمدیت کا فدائی دوست بن گیا.یہ دعاؤں کی برکت سے ہوا ہے.ایک دفعہ نہیں بارہا یہ ہو چکا ہے اور بارہا اس کی قطعی واضح اطلاعیں مجھے ملتی ہیں اس لئے میں کوئی فرضی کہانی آپ کے سامنے نہیں رکھ رہا بلکہ تجربے میں آئی ہوئی ، یہ مجرب نسخہ ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.تو دعائیں کریں اور دعاؤں کے دامن میں ، دعاؤں کے سہارے سے دعوت الی اللہ کے میدان میں آگے بڑھیں.
خطبات طاہر جلد 15 274 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1996ء پھر جو ابھی آپ کو کھوئے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت کے نو نہال آپ کو ضائع ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ان کی فکر کریں.یہ نہ ہو کہ دوسروں کو زندہ کر رہے ہوں اور اپنے ہاں قبرستان بن رہے ہوں.بہت ضروری ہے کہ ان کی فکر کریں اور پھر سب سے زیادہ اُمت محمدیہ کی فکر کریں جو کم سے کم نام کے ساتھ تو آنحضرت ﷺ سے وابستہ ہیں ان کی زندگی کی دعائیں مانگیں، ان کی زندگی کے لئے جو چارہ آپ کے بس میں ہو کریں اور پھر آخر پر اپنے اندر بھی نگاہ ڈالیں.غور کریں کہ آپ کی ذات جو آپ کو روشن دکھائی دے رہی ہے اس میں کہیں اندھیرے تو نہیں لیٹے ہوئے.تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ روشنیوں کے لباس میں اندھیرے لیٹے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بصیرت عطا فرمائے ،سمجھ اور غور کی طاقت بخشے ، ہمارے کان بھی سننے والے ہوں، ہماری آنکھیں بھی دیکھنے والی ہوں ، ہمارے دل بھی غور کرنے والے ہوں اور ہم حقیقت میں مردوں کو زندہ کرنے کا ذریعہ بن جائیں اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 275 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء جماعت کی طاقت کا راز اس اطاعت میں ہے جوفرشتوں نے دکھائی تھی.( خطبه جمعه فرمودہ 12 را پریل 1996 ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَونَهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشْوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (الجائیه: 24) پھر فرمایا: گزشتہ دو خطبوں سے یہ مضمون چل رہا ہے کہ اگر نفس کے اندھیروں کو نفس سے دور نہ کیا جائے تو روشنی وہاں جگہ نہیں بنا سکتی.اس میں بظاہر ایک تضاد بھی ہے.روشنی ہی تو ہے جو اندھیروں کو دھکیل کے باہر کرتی ہے مگر قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ ایسا ہے کہ نفس کے اندھیرے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب روشنی کے رستے بند کر دیے جائیں.روشنی کی جو راہیں اللہ نے بنائی ہیں ان سے اگر داخل بھی ہو تو وہ ادراک کی قوت جو آخری صورت میں ہر آنے والے پیغام کو بجھتی ہے اور اس کا تجزیہ کرتی ہے اس سے ایک آخری شکل نکالتی ہے وہ اس لائق نہ ہو کہ اس پیغام کو سمجھ سکے.پس کوئی تضاد نہیں ہے اس بات میں.روشنی میں طاقت تو ہے کہ وہ اندھیروں کا ازالہ کرے مگر وہ پر دے جو روشنی کی راہ میں حائل کر دیے جائیں پھر جو اندھیرے پیدا ہوتے ہیں ان کے وجود میں روشنی کا کوئی قصور نہیں.پس یہ جو مثال دی أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَویه کہ وہ شخص جو اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنالے اس کی مثال ایسی ہے کہ اسے اللہ تعالی گمراہ قرار دے دے اور باوجود علم
خطبات طاہر جلد 15 276 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء کے گمراہ ہو یعنی روشنی ہو تو سہی مگر ایسی روشنی نہ ہو جس سے وہ فائدہ اٹھا سکے اور یہ کس صورت میں ممکن ہے فرمایا خَتَمَ عَلَى سَمْعِہ اس کے کانوں پر بھی مہر کر دے یعنی قوت شنوائی پر وَ قَلْبِہ اور اس کے دل پر بھی مہر لگا دے.وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشْوَةً اور اس کی آنکھوں پر پردہ تان دے.یہ اگر صورت پیدا ہو تو روشنی خواہ وہ سمعی روشنی ہو یا بصری روشنی ہو وہ پردوں سے ٹکرا کر نا کام واپس لوٹ جائے گی اور اندھیروں کو روشنی میں تبدیل نہیں کر سکے گی اور یہ جو صورت حال ہے یہ ایک انسان کی اندرونی بیماری سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بیماری باہر سے نہیں آتی کیونکہ خدا نے تو کہیں نہیں فرمایا کہ اپنے نفس کو اپنا معبود بنالو.اللہ تعالیٰ نے تو بار بار یہی فرمایا اور اسی طرف توجہ دلائی کہ میں ہی تمہارا ایک معبود ہوں اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس وہ شخص جو جان بوجھ کر سنتے ہوئے بھی نہ سنے، دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھے اور خدا کو چھوڑ کر اپنے نفس کی خواہشات کو معبود بنالے اس پر اگر یہ پردے اترتے ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی جبر نہیں ہے ہر انسان کا اپنا اختیار ہے.اگر خدا کو معبود بنائے گا تو روشنی بغیر تردد کے بغیر روک کے سارے وجود کو روشن کر دے گی اور اگر نہیں بنائے گا، اپنے نفس کو معبود بنائے گا تو وہ پر دے حائل رہیں گے.یہ پردے کیا ہیں یہ دراصل نفس کی غلط فہمی کے پردے ہیں اور اس غلط فہمی کو سمجھے بغیر آپ ان پر دوں کو اتار نہیں سکتے یا آخری تجزیہ کو اگر پیش نظر رکھیں تو جب تک اپنے نفس کو خدا کے تقاضوں پر ترجیح دیتے رہیں گے یہ پردے آپ کی آنکھوں، آپ کے کانوں، آپ کے دل پر سے اتر نہیں سکتے ، ناممکن ہے.چنانچہ فرشتوں کی مثال اور شیطان کی مثال نے یہی بات ہم پر کھولی فرشتوں پر کوئی انا کا پردہ نہیں تھا اور شیطان پرانا کا پردہ تھا.شیطان نے اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھا اور اپنے نفس کو خدا بنالیا اپنی ”ھوی“ کو خدا بنایا ہوا تھا فرشتوں اور شیطان میں یہی فرق ہے.فرشتوں نے خدا کو خدا بنایا تھا اس لئے جب خدا نے فرمایا کہ اس کو سجدہ کرو تو اس کے سامنے جھک گئے کیونکہ اللہ کا حکم تھا اور معبود خدا تھا.پس خدا کے حکم کے تابع اگر کسی کی اطاعت کی جائے تو وہ انسان کی اطاعت نہیں ہے وہ اس وجود کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اللہ کی اطاعت ہے.وہ بہتر جانتا ہے کس کے سامنے کس کو جھکا دے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ہمیشہ اس کا اپنا نفس ہوتا ہے جس کو وہ خدا سمجھتا ہے.اور اس آیت کی تفسیر اور اس کی ساری روئداد آدم کی تخلیق اور فرشتوں اور شیطانوں کے اس
خطبات طاہر جلد 15 277 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء حکم پر رد عمل میں ہمارے سامنے ہے جو قرآن کریم نے محفوظ فرمایا.حکم ہو اسجدہ کر دو، فرشتوں نے کہا حاضر ہیں ہم سجدہ کرتے ہیں.یہ نہیں دیکھا کہ یہ کیا چیز ہے ہمارے مقابل پر اس کی کیا حیثیت ہے لیکن تھا ضرور خیال.اگر خیال بھی نہ ہوتا تو یہ نہ کہتے کہ کیا تو اس کو بنائے گا زمین میں اپنا خلیفہ، اس کو بنائے گا جس سے فساد برپا ہوں گے جس سے خون خرابہ ہوگا، زمین خون سے رنگی جائے گی.اس لئے یہ غلط بات ہے کہ انہوں نے لاعلمی میں خدا کے حکم کے سامنے سر جھکایا ہے.علم تھا اور ایسی بات کا علم تھا کہ جو واقعہ ہو کے رہنے والی تھی.وہ دیکھ رہے تھے کہ آدم کے وجود کے نتیجے میں جب اس کو اختیار ملے گا.نیک و بد میں فیصلہ کرنے کا ، چاہے تو نیکی اختیار کرے، چاہے تو بدی اختیار کرے تو اپنی سرشت کے اعتبار سے یہ ایسا ہے کہ خود سری بھی کرے گا مخالفتیں بھی ہوں گی آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑے اٹھیں گے حسد کار فرما ہو گا.جو بھی باتیں ہوں اس وجود نے تو ضرور دنگے فساد کرنے ہیں اور خون خوب بہائے گا فساد برپا کرے گا اور خدا کہہ رہا ہے کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ.مگر فرشتے جانتے تھے کہ ہم خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اس لئے خدا جس کے سامنے کہے ہم اسی کے سامنے سجدہ ریز ہیں.تو کوئی بے وقوفی کا فیصلہ نہیں تھالا علمی کے نتیجے میں، لاعلمی تھی تو عرفان کی کمی کی وجہ سے.جو عرفان خدا نے ان کو عطا نہیں فرمایا اس کے فقدان کی وجہ سے ان کے دل میں وسوسے پیدا ہوئے مگر ان وسوسوں کے باوجود اطاعت کی ہے اس میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نفس کے اندھیرے وسوسوں سے پیدا ہوتے ہیں اور وساوس ہی ہیں جو یقین کو شک میں بدل دیتے ہیں.پس وہ شخص جو اپنے وسوسوں کا شکار نہ ہو اور اس آخری حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ جسے خدا نے مامور بنایا ہے اس کے سامنے میں سر جھکاؤں گا، جسے خدا نے ایک امارت بخشی ہے ایک حکم بخشا ہے میں نے تو خدا کی عبادت کرنی ہے اس بندے کی تو کوئی حیثیت نہیں.اگر میں نے خدا سے روگردانی کی تو میں کہیں کا بھی نہیں رہوں گا اور جتنا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو اپنے سے چھوٹا دیکھے اور پھر بھی سر جھکائے اتنی ہی بڑی اس کی عظمت ہے.وہاں جھکنا عظمت کی دلیل ہے وہاں سراٹھانا ذلت کا نشان ہے.اب دیکھوفرشتوں کو کیسا مرتبہ اور مقام حاصل ہوا انہوں نے آدم کو ایک معمولی حقیر چیز دیکھتے ہوئے بھی اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ خدا کا حکم تھا اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر الزام سے پاک رکھا لیکن
خطبات طاہر جلد 15 شیطان نے کیا کہا اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ - 278 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء تو پہلا پردہ جو انسان کو اندھیروں میں مبتلا کرتا ہے وہ انانیت کا پردہ ہے اور یہی اس آیت کی تفسیر ہے.مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَونہ وہ جو اپنی خواہشات کو، اپنے نفس کو ، اپنے طبعی میلانات کو اپنا معبود بنا بیٹھے وہ مجسم شیطان ہے اور اس کے لئے کوئی روشنی نہیں ہے.اس کی آنکھیں دیکھتے ہوئے بھی اندھی ہوں گی اس کے کان سنتے ہوئے بھی بہرے ہوں گے اس کا دل ان پیغامات کو آخری صورت میں ترتیب نہیں دے سکتا جس ترتیب کے ساتھ انسان کو خیالات سمجھ آتے ہیں اور حقائق کی پہچان ہوتی ہے، جس ترتیب کے ساتھ ایک پاک دل اپنی شنید کو اور اپنی بصر کے پیغامات کو مرتب کرتا ہے اور نتائج نکالتا ہے.پس واقعات تو وہی رہتے ہیں جو ہیں، اب ان کو کیسےسمجھنا ہے ان کے کیا نتائج نکالنے ہیں ان باتوں میں فرق ہے.اب دونوں باتیں درست تھیں جو خدا کے حکم کے بعد فرشتوں کی طرف سے بطور عذر پیش ہوئیں اور شیطان کی طرف سے بطور عذر پیش ہوئیں.اب یہ بھی ایک بہت دلچسپ حقیقت ہے کہ ایک کو روشنی کیوں قرار دیا دوسری کو اندھیرا کیوں قرار دیا.ایک روشنی کی راہ میں پردہ نہ بنی اور دوسرا عذر جو فی الواقعہ درست تھا روشنی کے سامنے پردہ بن گئی.ان دونوں کا اگر آپ تجزیہ کریں اور تفریق کریں تو پھر اس حکمت کی سمجھ آ جاتی ہے پھر اسے اپنے روز مرہ حالات پر آپ چسپاں کریں تو آپ کے لئے ، اپنے لئے روزانہ صحیح فیصلے کرنا ممکن ہو جاتا ہے.فرشتوں نے جو کہا تھا کہ فساد کرے گا زمین میں اور خون خرابہ ہو گا یہ ضرور کہا لیکن ہوا بھی ایسا ہی.جب سے نبوت دنیا میں ظاہر ہوئی ہے نبوت کے انکار کے نتیجے میں فساد برپا ہوئے ہیں اور فساد بر پا کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ نبوت کے دشمنوں کے سر پر رہی.تو فرشتوں نے بات ٹھیک کی مگر نتیجہ ٹھیک اخذ نہیں کر سکے کیونکہ ان کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا جو خدا تعالیٰ نے ابھی ان پر ظاہر نہیں فرمائی تھیں.اس لئے ان کے اندھیرے لاعلمی کے اندھیرے تھے انا کے اندھیرے نہیں تھے اور لاعلمی کے اندھیرے جب علم آتا ہے تو اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مضمون سکھایا اور سمجھایا کہ دیکھو اصل بات یہ ہے تو انہوں نے کہا پاک ہے تو ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا ، تو ہمیں یہ پہلے بتا دیتا تو ہم یہ بات ہی نہ کرتے.اب تو نے فرمایا تو بالکل ٹھیک ہے یہی مضمون ہونا چاہئے اور شیطان نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں.اب بہتر ہونے کا نتیجہ نکالنے کا اس کا کیا حق تھا
خطبات طاہر جلد 15 279 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء جب کہ حکم وہ دے رہا تھا جو اس سے بہتر تھا.جانتا ہے کہ حکم دینے والا مجھ سے بہتر ہے اور اس بات کو بھلا کر اپنے نفس کی خاطر دلیل کو نیچے سے شروع کر کے نیچے ہی ختم کر دیتا ہے کہتا ہے تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اس میں کون سا جھوٹ ہے آگ ہی سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا یہ بھی بالکل سچ ہے اور اس کے باوجود خدا ناراض ہو جاتا ہے.ناراض اس لئے ہوتا ہے کہ اہلیت کو اصل مقام پر نہیں رکھا گیا بلکہ ایک ایسی ضمنی بحث میں مبتلا ہو گیا جس ضمنی بحث کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں تھا.خدا بہتر ہے کہ نہیں، یہ بحث تھی.صاحب امرکون ہے.اگر انسان صاحب امر ہوتا اور خدا کہتا یہ صاحب امر ہے تو پھر دلیل اس کے خلاف قائم کی جاسکتی تھی یہ جو کمزور ہے نالائق ہے یہ مجھ پر کیسے حکومت کرے گا لیکن اگر خدا صاحب امر ہے تو پھر یہ بحث ہی بے کار اور بے معنی ہے اس کی مثال مذہبی تاریخ میں طالوت اور جالوت کی مثال ہے.جب قوم کے مطالبے پر اس وقت کے نبی نے طالوت کو نمائندہ بنایا اور ان پر بادشاہ مقرر کیا تو انہوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ نہ اس کے پاس دولت نہ علم ہم سے زیادہ.ان دونوں باتوں میں اور اس کے کیا اعتراض ہیں دو! بہر حال جو اس وقت میرے ذہن سے فوری طور پر دماغ منتقل ہو تو وہ مضمون پوری وضاحت سے سامنے نہیں رہتا، اعتراض وہ اٹھایا جو اس سے ملتا جلتا تھا کہ ہم بہتر ہیں اور طالوت ہمارے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اس کو وہ مرتبہ حاصل نہیں اس کو وہ عزت حاصل نہیں جو ہمیں حاصل ہے تو مرتبہ اور عزت کا جو اعتراض ہے یہ وہی ہے جو شیطان نے اٹھایا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کو علم اور جسم میں ہم نے تم پر فضیلت بخشی ہے اور جس مقصد کے لئے ہم اس کو امارت بخش رہے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے والی یہ دو چیزیں ہیں.پس اس پہلو سے مطالب کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اگر سوال اٹھتے ہیں، اگر انانیت کی وجہ سے نہیں اٹھتے تو وہ منع نہیں ہیں.اگر انانیت کی وجہ سے اٹھتے ہیں تو وہ گناہ بن جاتے ہیں اور اس کا فیصلہ اس وقت ہوتا ہے جب آزمائش کا موقع آتا ہے.پس اس موقع پر خدا تعالیٰ نے ساری قوم کو مردود نہیں قرار دیا جیسا کہ شیطان کو کہا کہ تو اب مردود ہو گیا ہے، تیری دلیل ہی جھوٹی اور گندی ہے.تو نے میرے خلاف بغاوت کی ہے اور بہانہ بنا رہا ہے کہ میں نے آدم کے خلاف بغاوت کی ہے کیونکہ میں نے اسے مقرر کیا تھا.اس کے ساتھ اس واقعہ کا موازنہ کریں خدا نے وہاں فیصلہ نہیں دیا خدا نے کہا
خطبات طاہر جلد 15 280 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء نہیں یہی بہتر ہے جو میں نے بنایا ہے لیکن بعد میں آزمائش ہوئی اور آزمائش اس طرح ہوئی کہ ایک دریا کو پار کرنے کے بعد مقابلہ ہونا تھا اور دشمن سے جو بہت بڑا اور طاقتور تھا.اس سے اس قوم کی لڑائی ایک ایسی سرزمین میں تھی جو دریا پارتھی اور وہاں سے گزرتے ہوئے ان لوگوں کو پیاس بہت لگی ہوئی تھی.اس پر خدا تعالیٰ کے حکم سے طالوت نے ان کو کہا کہ ایک دو گھونٹ یا ایک دو اوک یعنی چلو میں جتنا بھی پانی آتا ہے وہ پی لو تو اور بات ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے.اب ان کو یہ بھی حکمت سمجھ نہیں آئی.انہوں نے کہا نہیں یہ تو ہماری عقلیں مانتی نہیں.اکثر ان میں سے وہ تھے جنہوں نے پی لیا اور جو تھوڑے تھے وہ بچ گئے اس بات سے، اب لطف کی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنے والے وہ بھی تھے جو اس امتحان میں پورا اترے انہوں نے اپنی عقل کو استعمال کیا مگر فیصلہ خدا کا مانا اور وہ بھی تھے جو پہلے بھی اپنی عقل کو برتری دے رہے تھے ، فضیلت دے رہے تھے بعد میں جب موقع پیش آیا تو اس امتحان میں اسی لئے ناکام رہے کہ اپنے عقلی فیصلے پر قائم رہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ اس پانی میں ضرور کوئی زہر تھایا کوئی تاثیر تھی ہوسکتا ہے گندہ پانی ہو جس کے نتیجے میں اسہال بھی لگ جاتے ہیں، پیچش بھی ہو جاتی ہے کئی قسم کے مخفی معاملات ہیں جن کا خدا کو علم ہے بندوں کو نہیں کئی ایسی بیماریاں لگ جائیں جس سے ہمت جواب دے جائے تو وہ جو بڑے لڑا کے بن کے نکلے تھے وہ کہتے تھے طالوت سے ہم زیادہ قابل ہیں ان سب نے یہ عذر رکھ کر لڑنے سے جواب دے دیا کہ دشمن بہت بڑا اور طاقت ور ہے اور ہم تھوڑے ہیں اور جو تھوڑے تھے جو خدا والے تھے وہ اور بھی تھوڑے رہ گئے اگر وہ سارے بھی لڑتے تب بھی تھوڑے تھے مگر جولڑے وہ اور بھی تھوڑے رہ گئے اور اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كثِيرَةً (البقرہ: 250) جس کا حکم ہے وہ کر کے دکھاتا ہے وہ طاقت ور ہے.دیکھوکئی بار ایسا ہوا کہ تھوڑی سی معمولی جماعت نے ایک بڑی اور طاقتور جماعت کو شکست دے دی اور یہ ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب امر الہی کو فوقیت دو اور اپنے نفس کو اس کے نیچے کر دو، اس کے بغیر نہیں.مذہبی قوموں میں بھی غلبے کی جان اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور چمٹے رہتے ہیں.جہاں اس سے سرکنے لگتے ہیں وہیں ان کی موت کا آغاز شروع ہو جاتا ہے.بسا اوقات میں نے ایسے بعض لوگوں پر جو پرانے خدمت کرنے والے بھی تھے اس وجہ سے سختی
خطبات طاہر جلد 15 281 خطبہ جمعہ مورخہ 12 / اپریل 1996ء کی کہ انہوں نے امیر کے ایک حکم کو ٹالا اور اس کے مقابل پر ایک اڈہ بنایا اور یہ بحث شروع کی کہ ہم زیادہ حیح کہہ رہے ہیں تم غلط کہہ رہے ہو اور بعض دفعہ ایسے لوگوں کے معاملے کو خطبوں میں بھی مجھے خوب کھولنا پڑا اور بتانا پڑا کہ یہ بہت ہی نا قابل برداشت حرکت ہے.کسی قیمت پر بھی میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ امیر مقرر ہو اور اس کی اطاعت سے تم بہانے بنا کر باہر نکلنے کی کوشش کرو.یہ بحث بے تعلق ہے کہ اس کی بات درست ہے کہ تمہاری بات درست ہے.اگر تمہیں اختلاف ہے تو ہر وقت اس کے خلاف اپیل کر سکتے ہو.آپس میں باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، آپس میں مشوروں کی کوئی اجازت نہیں.اگر خلیفہ وقت کا بنایا ہوا امیر ہے تو لازم ہے کہ اس امیر کے متعلق اگر کسی حکم سے اختلاف ہو تو بالا افسروں یا خلیفہ وقت کو مطلع کرو اور جب تک اوپر سے فیصلہ نہ آ جائے اس کی اطاعت کرو.یہ وہی پہلا سبق ہے جسے گزرے ہوئے چھ ہزار سال گزر گئے ہیں.اس چھ ہزار سال میں حضرت داؤڈ کا زمانہ بھی گزر گیا ، نبیوں کے بعد نبی آئے مگر بعض انسان ایسے جاہل ہیں کہ ہمیشہ اسی مقام پر ٹھوکر کھاتے ہیں جہاں سب سے پہلے شیطان نے کھائی تھی.یہ وہ اندھیرا ہے جو د یکھنے بوجھنے کے باوجود اور عَلَى عِلْمِ ہے اور علم ہی کا اندھیرا ہے.ہمیشہ یہ سرکش لوگ کہتے ہیں ہمیں زیادہ علم ہے امیر تو بے وقوف آدمی ہے اس کی تو تعلیم ہی کوئی نہیں.ہم لوگ صاحب علم لوگ ہیں ہم جانتے ہیں.ہم دانشور ہیں یہ پاگل جیسا آدمی آپ نے بنا دیا امیر ہمارے اوپر ،اس کو کیا پتا کہ معاملات کیا ہوتے ہیں اس لئے ہمارے پیچھے لگے گا تو ہم مانیں گے ورنہ نہیں اور وہی دلیل ہے جو شیطان نے دی تھی اور رڈ کر دی گئی اور کبھی بھی ان کا کچھ نہ بنا.ایسے لوگوں کونہ دنیا میں کبھی کامیابی ہوئی نہ آخرت میں کبھی کامیابی ہوسکتی ہے اگر اس طرز عمل کو جماعت میں برداشت کر لیا جائے تو ساری جماعت ظلمات کا شکار ہو جائے گی اندھیروں میں مبتلا ہو جائے گی.جماعت کی طاقت کا راز اس اطاعت میں ہے جو فرشتوں نے دکھائی تھی.جانتے تھے کہ یہ وہ وجود آنے والا ہے جس کے نتیجے میں خوب خون خرابہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں فسادات سے زمین بھر جائے گی.یہ نہیں جانتے تھے کہ کیوں بھرے گی یہ معاملہ بعد میں ان پر کھلا جب شیطان نے بغاوت کی اور خدا کو یہ چیلنج دیا کہ میں تیرے بندوں کو کھینچ کر اپنی طرف لے جاؤں گا اور اس طرح ان پر حملہ آور ہوں گا کہ ان کو کچھ دکھائی نہیں دے گا کہ میں کہاں سے آ رہا ہوں.ان کے دائیں سے بھی
خطبات طاہر جلد 15 282 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء حملہ کروں گا بائیں سے بھی حملہ کروں گا آگے سے بھی پیچھے سے بھی اوپر سے بھی نیچے سے بھی اور تو دیکھے گا کہ سارے یہ لوگ بکھر گئے اور تجھے چھوڑ کر میرے پیچھے لگ گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری یہ بات بھی جاہلانہ ہے جیسے پہلی بات جاہلانہ تھی.جو میرا بندہ ہے اس پر تیرا کوئی اثر نہیں ہے.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اس لئے یہ خیال کہ انسان پیدا ہونے کے بعد خدا کا بندہ بن جاتا ہے یہ خیال ہی غلط ہے.کثرت سے لوگ پیدا ہور ہے ہیں، بندے وہی ہیں جو گم مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةِ کے ہیں جن کے مقصد میں لکھ دیا گیا ہے کہ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً وہ تھوڑے ہونے کے باوجود ضرور غالب آئیں گے، ان میں غلبے کی طاقتیں بخشی گئی ہیں اور یہ بات امر الہی سے پیدا ہوتی ہے اس کے بغیر نہیں.پس سب سے بڑا اندھیر انفس کا یہ اندھیرا ہے جو میں سمجھ رہا ہوں یہ اگر خدا کے منشاء سے ٹکراتا بھی ہو اور نظام جماعت سے مختلف فیصلہ بھی ہوتب بھی میں ٹھیک ہوں اور نظام جماعت غلط.اس اندھیرے نے ہمیشہ لوگوں کو ہلاک کیا اور کچھ عرصے کے بعد یہ ٹولے جو بڑے بڑے سر اٹھانے والے تھے، جتھے بنانے والے، سازشیں کرنے والے، ان کا نام ونشان باقی نہیں رہا.جس طرح ودھ سے مکھی کو نکال کے باہر پھینک دیا جاتا ہے خدا تعالیٰ نے ان کی برائیوں سمیت ، ان کی انا سمیت، ان کے بڑے بڑے دعاوی سمیت ان کے ٹولوں سے جماعت کو صاف ستھرا کر کے نتھار لیا اور اب ان کا حال دیکھو کہاں پہنچے ہیں.کوئی ہے جو جماعت کے مقابل پر فتنے کے سراٹھانے کے بعد اس سر کو اپنے وجود پر قائم رکھ سکا ہو.ان کی سرداریاں ہی ختم ہو گئیں.وہ سب سرداریاں جماعت کی برکت تھی ، جماعت ہی کی وجہ سے عطا ہوئی تھیں اور ان ظالموں کو پتا نہیں لگا کہ ہم ہیں کیا ، ہماری حیثیت کیا ہے.یہ جماعت کی برکت ہے جو ہمیں کچھ لوگ عزت سے خطاب کرتے ہیں اور ان عزتوں کو جماعت کے بعد ہم زندہ نہیں رکھ سکیں گے اور نہ کبھی رکھ سکے.تو عزتوں کا معاملہ ہے تو قَوْلُهُمْ اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (یونس: 66) عزت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے.انانیت سے کوئی عزت نصیب نہیں ہوسکتی.تو نفس کو ” ھوی “ بنانے کی ایک وجہ اور اول اور غالب وجہ انا نیت ہے یا اپنے نفس کی عزت اور اسی کی ایک شکل تکبر ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ تکبر بھی اور یہ انانیت بھی دراصل ہمیشہ احساس کمتری سے پیدا ہوتے ہیں اگر چہ نظریہ آتے ہیں کہ یہ احساس برتری ہے.وہ شخص جو جانتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 15 283 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء اصل مالک خدا ہے اگر اس کے دل میں ایک خلش سی ہے کہ میرا پھر کیا ہے میرے پاس تو کچھ بھی نہیں وہ خدا کی اطاعت میں بھی مخلص نہیں ہے.وہ آزادی چاہتا ہے.اس وجہ سے جب بہانہ ملتا ہے تو خدا کو تو ر نہیں کر سکتا مگر اس کے بنائے ہوئے کو رڈ کر دیتا ہے.اس طرح اس کے نفس میں جو کمتری کا احساس تھا کہ اچھا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے.یہ بات وہی ہے جیسے جنگ احد میں ظاہر ہوئی آنحضرت ﷺ نے جو فیصلے فرمائے ان پر عمل ہوا اور اس کے بعد منافقین نے یہ باتیں شروع کر دیں کہ گویا کہ سارے فیصلے انہی کے ہاتھ میں ہیں ہمارے پاس کیا رہا ہمارے پاس امر میں سے کچھ بھی نہیں رہا تو دیکھیں ہے وہی شیطان پرانا ، امر کا مطالبہ کر رہا ہے، میرے ہاتھ میں امر ہونا چاہئے اور وہی قلت اور کثرت والی بات بھی پھر دوبارہ پیدا ہوتی ہے.پہلے ہی وہ صحابہ جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے یا وہ جمیعت جو آنحضور ﷺ کے ساتھ تھی تعداد میں تھوڑی تھی ، دشمن ان سے بہت زیادہ تعداد میں بڑا اور طاقت میں بھی زیادہ تھا لیکن منافقوں کا ٹولہ یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ اگر ہماری بات مانی ہی نہیں جانی ہمارے مشوروں پر عمل ہی نہیں ہونا تو ہمیں کیا ضرورت ہے آپ کے ساتھ رہنے کی، ہماری آپ کی جدائی اور وہ لوگ چھوڑ کر الگ ہو گئے اور دیکھیں کس شان سے دوبارہ خدا کا یہ کلام ظاہر ہوتا ہے.كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كثِيرَةً تھوڑی تعداد نے بڑی کے چھکے چھڑا دیئے اور پھر جب خدا کے فرمان کی اطاعت میں کمزوری واقع ہوئی تو بھاگے ہوئے دوبارہ واپس آئے اور پھر غالب آنے لگے.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت رکھی اور انہیں بخش دیا اور پھر تھوڑوں کو بڑوں پر غلبہ عطا کر دیا.اس ادلنے بدلنے نے، اس زیر و بم نے ثابت کر دیا کہ خدا کا کلام ہی سچا کلام ہے اور اس میں کسی اتفاق کا کوئی دخل نہیں.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں کو اس طرح ایک نشے میں مبتلا کر دیا گیا تھا جیسے بعض دفعہ بعض لوگ جھوٹے دعاوی کے ذریعے بھی ایک قربانی کا نشہ پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس سے پہلے اسلامی تاریخ میں بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں.حسن بن صباح کا واقعہ ہے.اس نے بھی ایک مذہبی دیوانوں کی جماعت تیار کی تھی اس نے بھی یہ کوشش کی تھی کہ اس مذہبی دیوانگی کے برتے بڑی بڑی حکومتوں پر غالب آ جائے.Assassins تیار کئے ان کو دھو کے دینے کے لئے کئی طریق اختیار کیئے گئے مگر کہاں گیا وہ.اس کی جماعت ، وہ جو اس نے حکومت قائم کی تھی
خطبات طاہر جلد 15 284 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء تھوڑے ہی عرصے میں دیکھتے دیکھتے اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہا.عبرت کے لئے وہ تاریخ کی کتابوں میں تو ملتا ہے مگر حقیقت کے طور پر اس کی بنائی ہوئی جماعت کی کوئی حیثیت، کوئی وجود کہیں دکھائی نہیں دیتا.پس بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ فرضی طور پر کسی کو ایک کہانی میں مبتلا کر دیا جائے خواہ وہ سچی نہ بھی ہو.بعض دفعہ کہانی کی دھن ہے جو انسان کے جسم و دماغ اس کے قومی پر قبضہ کر لیتی ہے فرضی باتوں کے نتیجے میں بھی انسان بڑی بڑی قربانیوں کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مگر فرضی باتوں میں ہر ادلتے بدلتے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی.وہ اونچ نیچ جو زمانے کے ہیں ان کے ساتھ ساتھ ان کی فرضی باتیں ہمیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں اور ان کا کبھی کچھ نہیں رہتا.پس فرضی باتوں نے فرضی جنون تو پیدا کئے ہیں مگر وقتی ، عارضی طور پر کچھ عرصے کے لئے تماشہ دکھایا اور چلے گئے لیکن ایک دائمی تبدیلی پیدا کر دیں اور دائمی غلبہ پیدا کر دیں یہ ناممکن ہے، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہر اس احتمال کو دور کر کے دکھا دیا کہ آنحضرت ﷺ کو غلبہ کسی انسانی تدبیر کے نتیجے میں ہوا.جنگ احد کا واقعہ اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے، تھوڑے تھے اور بہت بڑی اور غالب جماعت جس میں بڑے بڑے چوٹی کے سپہ سالار تھے ان کے آنافا نا چھکے چھڑا دیئے.جب پہاڑی پر نگران، جو رسول کریم ﷺ کے حکم سے ایک وفد یا کہنا چاہئیے ایک جماعت کام کر رہی تھی غالبا تمیں چالیس یا اس کے لگ بھگ ہوں گے، جتنی بھی وہ جماعت تھی انہوں نے اس درہ کی حفاظت کا کام نہایت بہادری سے سرانجام دیا اور بڑے زبر دست تیرانداز تھے اور دشمن جانتا تھا کہ ان کے ہوتے ہوئے اس درہ سے ہم گزر کر مسلمانوں کے عقب سے حملہ نہیں کر سکتے اور جب وہ فتح نصیب ہوگئی اور وہ امر سے نکل گئے اور نیچے اتر آئے تو پھر دشمن نے دیکھا کہ وہ خلاء پیدا ہوا ہے اور وہ اس طرف سے حملہ آور ہوئے اور ایک دفعہ اس فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا.صاف ثابت ہوا کہ امر کے نتیجے ہی میں دراصل غلبہ تھا لیکن جب خدا نے فیصلہ کیا کہ پھر اس شکست کو فتح میں بدلا جائے تو ایک حیرت انگیز چیز ہے.انتہائی زخم خوردہ، انتہائی تھکاوٹ سے چور، بے سروسامان ایسے جن کے کثرت سے شہداء تھے جن کو سنبھالنا مشکل ہوا ہوا تھا کثرت سے زخمی تھے ان کو خدا نے فرمایا کہ تم عزم کرو اور ان کا پیچھا کرو اور آنحضرت ﷺ انہی زخمیوں کو لے کر اس غالب جماعت کے پیچھے چل پڑتے ہیں.دنیا کی تاریخ میں کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا کہ قسمت سے جان بچی ہوا تفاق سے پھر انسان اس خطرے کے منہ
خطبات طاہر جلد 15 285 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء میں خود چھلانگ مارنے کے لئے لیکے اور پیروی کرے اور آواز میں دے کہ آؤ ہمیں ختم کرو ہم ابھی باقی ہیں اور حیرت انگیز رعب ہے جو ان کے دلوں پر چھا گیا، وہ واپس نہیں لوٹ سکے، حملہ نہیں کر سکے.جانتے تھے کہ یہی وہ ہیں جن کو کل ہم نے مار مار کر ان کی ساری طاقت کے پرخچے اڑا دیئے تھے.اب وہی زخمی ، مارے ہوئے ، کوٹے ہوئے جن میں کوئی نیا آدمی شامل نہیں، کچھ بھی کمک نہیں ہے، تعداد میں کم ہوئے ہوئے پہلے سے اور طاقت میں کم یعنی زخموں سے چور وہ پیچھا کر رہے ہیں اور بیٹھتے ہیں وہ ایک جگہ غور کرتے ہیں فیصلے ہوتے ہیں کہ کیوں نہ اب ان پر حملہ کر کے ان کو ختم کر دیا جائے لیکن تو فیق نہیں ملتی.ی خدا بتانا چاہتا ہے کہ میرے ہی امر کا کام ہے کہ وہ تمہیں طاقت بخشے.میرا ہی امر ہے جو تمہاری پشت پناہی کرتا ہے.میرا ہی امر ہے جو تمہیں دشمن کے غلبے سے بچاتا ہے اور تمہاری اقلیت کو بڑی بڑی طاقتوں پر غالب کر دیتا ہے.یہ ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک مستشرقین حل نہیں کر سکے.سر ٹکراتے ہیں، ان کی وہ عبارتیں وہاں پڑھیں، شروع میں تو بڑے فخر کی عبارتیں ہیں کہ اس طرح پھر کافروں نے مار مار کے اڑا دیا مسلمانوں کو یہ حال ہوا رسول اللہ ﷺ کا یہ حال ہوا، فلاں کا یہ حال ہوا، درہ میں پناہ لینی پڑی اور جب آگے چلتے ہیں تو پاؤں اکھڑ جاتے ہیں.عقل پر لگتا ہے لزرہ طاری ہو گیا ہے.کئی ایک نے سوال اٹھایا کہ کیا ہو گیا تھا ان کو ، بڑے بڑے دانشور بنے پھرتے تھے کیوں نہیں پلٹے اور ایک دفعہ صفایا کر دیا ہمیشہ کے لئے ہم اسلام سے نجات پا جاتے.وہ تھے کون؟ کیونکہ خدا کا امر تھا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پشت پناہی کر رہا تھا اس لئے آپ کی یعنی زندہ روحانی جماعتوں کی طاقت کا راز امرالہی میں مضمر ہے یہاں سے آپ ملے تو آپ کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا اور پھر سارے اندھیرے آپ کو گھیر لیں گے کیونکہ جب امرالہی سے واسطہ ٹوٹتا ہے تو ہزار قسم کے دوسرے امرسراٹھاتے ہیں اور ایک کی غلامی سے نکل کر آپ کو اربوں کی غلامی اختیار کرنی پڑتی ہے لا تنا ہی خدا اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں.نفس کا اللہ بناتے ہی ایک اللہ نہیں رہتا بلکہ ہر چیز معبود بن جاتی ہے.اس کو سیاست میں دیکھیں.اس کو تجارت اور اقتصادیات میں دیکھیں.اس کو معاشرتی امور میں دیکھیں.ہر پہلو سے ہمیشہ آپ کو تمام اندھیروں کی جڑ اس امر الہی سے انحراف میں نظر آئے گی.اس وقت جب اپنی خواہش کو معبود بنا لیں گے.یہ جتنی بے راہروی ہورہی ہے، عورتوں پر ظلم ہورہے ہیں، بچوں الله
خطبات طاہر جلد 15 286 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء پر ظلم ہورہے ہیں ہمعصوم انسانوں کو شہوت کا شکار بنا کر اور ذبح کر دیا جاتا ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اور اتنے دردناک واقعات ہوتے ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی قوم ذلت کی اس انتہاء کو پہنچ سکتی ہے جہاں کوئی جانور دنیا کا ایسی کمینگی نہیں دکھا سکتا جتنا انسان دکھاتا ہے.اس لئے کہ اس نے امرالہی میں آنکھ کھولی اور امرالہی سے انکار کر دیا.پھر اسفل سافلین اس کا مقدر ہو گیا اور خدا کی یہ بات ضرور پوری ہونی تھی کہ ہم نے تمہیں بڑے کاموں کے لئے بنایا تھا مسلسل لا متناہی ترقی کے لئے پیدا کیا تھا اور یہ ایسا سفر ہے جو اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر ہے اور نہ اندھیروں کی کوئی انتہا ہے، نہ روشنی کی کوئی انتہا ہے.اگر تم اس سفر پہ جاری نہ رہے تو تمہارا رخ واپسی کی طرف پلٹے گا.ہراس اندھیرے میں واپس جاؤ گے جس سے نکل کر تم روشنی کی طرف آئے تھے.پس اب جو انسانی شہوات کی دنیا ہے قرآن کریم نے اس میں جو دوسری مثال دی ہے اس میں لہو ولعب کو پیش کیا ہے اندھیروں کی ایک شکل میں.اب لہو ولعب میں انسان کو جنسی خواہشات، اس کے عیش وعشرت کے سامان کی تمنا، اس کا دل بہلاوے کے سامان کرنا خواہ جنسی نہ بھی ہوں یہ ساری چیز میں اس دائرے میں آتی ہیں.جو لوگ اپنے نفس کو خدا بناتے ہیں ان کا خدا ان کو ان ساری چیزوں میں مبتلا رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بے شمار ایسے احتمالات ہیں جو اس کے سامنے جگہ جگہ سے اٹھتے رہتے ہیں.وہ ہر احتمال گویا ایک فرضی بت ہے جو اس کے سامنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے.ایک انسان کہتا ہے کہ میں اس معاملے میں اگر صحیح راہ اختیار کروں تو میرے ہاتھ میں ایک آئی ہوئی چیز ہے مگر مجھے حق نہیں ہے اس لئے کہ میرا معبود اور ہے اس نے اجازت نہیں دی میں اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا.یہ ایک خیال ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.اس کے مقابل پر نفس کا شیطان اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ تم نے کس کو معبود بنالیا ہے میں تمہارا معبود ہوں اس لئے جو ہاتھ میں ہے اسے استعمال کر و قطع نظر اس کے کہ خدا کیا چاہتا ہے.تو ایک خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا کے سامنے سر جھکانا پڑا اور یہ وہ خدا ہے جو ہمیشہ دھوکہ دیتا ہے اور اس کے امر کے نتیجے میں کبھی بھی فائدہ نصیب نہیں ہوا اور جب اس پیروی کے نتیجے میں انسان دکھوں میں مبتلا ہوتا ہے تو لوشا خدا ہی کی طرف ہے مدد کے لئے.اس وقت شیطان یعنی اس کے نفس کا شیطان کہتا ہے کہ میں نے تو تمہیں دھوکہ دیا تھا اس طرف چلانے کے لئے.اب میں ایک طرف اور تم ایک طرف اب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا
خطبات طاہر جلد 15 287 خطبہ جمعہ مورخہ 12 / اپریل 1996ء اور اس وقت پھر خدا ہی کو پکارتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے جانتا ہے کہ معبود اور ہے اور اس کے باوجود دیدہ دانستہ جھوٹے معبودوں کی پیروی کرتا ہے یہ ہے.عَلیٰ عِلْمٍ حقیقت میں علم ہے یہ خدا نہیں ہے.حقیقت میں ہر نفس کا ضمیر اسے تنبیہ کرتا ہے اسے جگاتا ہے، اسے جھنجھوڑتا ہے کہ دیکھو یہ غلط رستہ ہے.تو ہر جگہ غلط خدا کو معبود بنا لینا یہ تو زندگی کو عذاب بنادینے والی بات ہے اور اسی سے بنی نوع انسان کی زندگی آج کی دنیا میں جہنم بن گئی ہے اور بنتی چلی جارہی ہے.اب اس سے اگلا جو معاملہ ہے اس میں ہے زِيْنَةٌ وَتَفَاخُرُ.اب زینت اور تفاخر کے لحاظ سے آپ دیکھیں کہ کس طرح ہماری روز مرہ کی زندگی میں زینت اور تفاخر نے کتنی بڑی تباہی پھیلا رکھی ہے.ہماری شادی بیاہ کے موقع پر، ہمارے تعلقات میں ، ہم جب ایک دوسرے کو دعوتوں پر بلاتے ہیں، کسی کی ضروریات پوری کرنے کے بہانے اپنی انا کو دنیا پر ظاہر کرتے ، اپنی انا کے دکھاوے کی خاطر بظاہر نیکی کے کام کرتے ہیں یہ زینت اور تفاخر ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.اگر زینت اور تفاخر کو آپ نکال لیں تو اکثر شادی بیاہ نا کامی سے بچ سکتے ہیں اور وہی اندھا پن جو آدم کے وقت سے شروع ہوا ہوا ہے آج بھی جاری ہے یعنی دیکھ رہے ہیں، ہن رہے ہیں لیکن اندھے ہیں اور بہرے بھی ہیں اور سوچنے کی طاقتوں سے محروم ہیں.یہ کیوں ہے؟ یہ وہی کہانی ہے جو شروع سے آخر تک چلتی ہے کیونکہ شیطان نے قیامت تک مہلت مانگی تھی اور قیامت تک یہی کہانی ہے جو آپ کے سامنے بار بارظاہر ہوگی.پہچا نہیں تو سہی اس کو کہ ہو کیا رہا ہے.اب لوگ قرض اٹھا لیتے ہیں شادیوں کی خاطر یا اپنے دکھاوے کے لئے کوئی دعوتیں کر رہے ہیں بڑی بڑی مہمان نوازی میں غلو کر رہے ہیں.جو بھی خرچ ہیں ان میں اگر نفس خدا ہے تو خرچ ایک تو بے محل ہو گا اور دوسرے ضرورت سے زیادہ ہوگا اور یہ جو ضرورت سے زیادہ کا شیطان ہے اسے خدا تعالیٰ نے شیطان ہی قرار دیا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت بڑی تباہی ہوتی ہے، معاشرے کا سکون برباد ہوتا ہے اور انسانی رہن سہن پر ایک بہت بڑی تباہی وارد ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے.وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَ الْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ( بنی اسرائیل : 27) کہ دیکھو جب خدا نے تمہیں خرچ کا حکم دیا ہے تو خدا کی خاطر خرچ کرنا ہے.اگر تم خرچ تو کرو مگر اپنی خاطر کرو تو پھر تم خدا کی عبادت نہیں
خطبات طاہر جلد 15 288 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء کر رہے کسی اور کی عبادت کرو گے.اللہ تعالیٰ تو تمہیں یہ فرماتا ہے کہ آتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ جو اقرباء ہیں ان کا حق ادا کرو.کتنے ہی ہیں جو امیر ہو گئے اور اقرباء کا حق بھول گئے اور اپنی دولتیں اکٹھی کرنے ، اپنے دکھاوے میں مگن رہے، یہ نہیں دیکھا کہ فلاں قریبی ، فلاں عزیز کس حال میں زندگی بسر کر رہا ہے.وَ الْمِسکین اور جو قریب نہیں بھی ہے ویسے مسکین ہے بے چارہ گرا پڑا اس کی ضرورتوں کا خیال کر کے جو خدا نے تمہیں زائد عطا فرمایا ہے اس میں اس کو شریک کرنے کی کوشش کرو.یہ تب ہو سکتا ہے اگر خدا معبود ہو.وَابْنَ السَّبِیلِ اور راستہ چلتے کا بھی خیال رکھو.اب دیکھیں خدا تعالیٰ نے انسانی برادری کو کتنی وسعت عطا فرما دی اور نفسانیت کے ہر پہلو کا ازالہ فرما دیا.اقرباء کے ساتھ تعلق بعض جگہ بہت ملتا ہے یعنی ہر جگہ ایک ہی بیماری نہیں ہے.بعض جگہ تو اقرباء سے تعلق تعصبات کی شکل میں ڈھل جاتا ہے، اتنا زیادہ تعصب کہ غیر کے حقوق کا خیال ہی نہیں رہتا اور ٹولے بنائے جاتے ہیں جتھے بنائے جاتے ہیں کہ جی ہم اقرباء کے حقوق کا خیال رکھ رہے ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو اتنا متوازن کر دیا ہے کہ ایک تعلق دوسرے کی راہ میں حائل ہو ہی نہیں سکتا.فرمایا اقرباء کا حق ادا کرنا ہے مگر مسکین کے حق کو پیش نظر رکھنا ہے.یہ نہیں کہ مسکین کا حق لے کے اقرباء کو دیدو اور وہ بے یار و مددگار لوگ ترستے رہ جائیں اور جو کچھ بھی ہے تمہارے اپنے ٹولے کے اندرہی پھرتا رہے اور فرمایا مسکین بھی صرف وہ نہیں جو تمہاری آنکھوں کے سامنے مسکین ہے اور اس سے تمہارے دل میں ایک جذبہ پیدا ہوا ہے.وَابْنَ السَّبِيلِ مسافر کا کیا ہے آیا اور چلا گیا اور اس کے ساتھ کون سے رابطے ہونے ہیں.مسکین تو اگر مقامی ہے وہ ہمیشہ آپ کے احسان کو یادر کھے گا.بسا اوقات جتنا احسان ہے اس سے بھی زیادہ مسکین شکریے کے جذبے سے مجبور ہو کر آپ کی خدمتیں کرتا ہے.اب ہمارے معاشرے میں یہ جو بے چارے نسبتاً غریب لوگ کمی کاری کہلاتے ہیں ان پر کون سا احسان زمیندار کرتے ہیں.یہی احسان کرتے ہیں نا کہ شادی کے موقع پر ہمارے آ کے برتن مانجھو، ہماری چار پائیاں درست کرو، ہمارے شامیانے لگاؤ اور خدمتیں کرو اور مٹھیاں چا پیاں کرو یہ احسان ہے اور بعد میں کچھ دے دیا اور دیا تو خیرات کے طور پر کہ دیکھو ہم کتنے سخی لوگ ہیں ہم تمہیں دے رہے ہیں.کام لینا بھی احسان اور محنت کا بدلہ دینا بھی احسان.ایسے ذلیل معاشرے میں خدا کہاں سے داخل ہو جائے گا.یہ جو معاشرہ ہے یہ مسکین سے اپنے نفس کی عبادت کرواتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 289 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء اِلهَهُ هَولہ کا مضمون یہاں بھی کارفرما ہے.مگر ابنَ السَّبِيلِ بھی ہے تو اس کا بھی خیال رکھو ہر مسافر کا تم پر حق ہے.لیکن یہ یاد رکھنا وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا کہ جتنی طاقت ہے اس سے آگے نہیں بڑھنا کیونکہ اگر تم نے طاقت سے بڑھ کر خرچ کیا تو خدا کی خاطر یہ خرچ نہیں ہوگا یہ نفس کی خاطر ہوا کرتا ہے.جو خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں وہ اپنی طاقت سے بڑھ کر نہیں کیا کرتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے قانون بنایا ہے کہ جتنا میں تمہیں دیتا ہوں اس سے زیادہ میں مانگتا ہی نہیں.تو اگر خدا کا قانون یہ ہے کہ جتنا میں تمہیں دوں اس سے زیادہ میں مانگتا ہی نہیں تو آپ کون ہیں جو خدا کے دیئے ہوئے سے بڑھ کر اسے دینے کی کوشش کریں.اس لئے ہر وہ خرچ جو طاقت سے بڑھ کر ہے وہ شیطان کی راہ کا خرچ ہے اور وہ ثابت کر دیتا ہے کہ خدا کا یونہی نام تھا اصل میں نفس کی خاطر خرچ ہورہا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا دیکھو حد سے زیادہ اسراف سے کام نہ لینا کہ کھلے خرچ کرتے پھرو،اس بہانے کہ خدا نے فرمایا ہے اقرباء کے لئے خرچ کرو مسکینوں کے لئے خرچ کرو مسافروں کے لئے خرچ کرو بعض لوگ سبیلیں لگوادیتے ہیں اور کئی قسم کے ایسے کام کرتے ہیں.اگر یہ تمہاری توفیق سے بڑھ کر ہوا اور حد سے زیادہ ہوا اور توازن بگڑ گئے تو فرمایا اِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا اِخْوَانَ الشَّيْطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ( بنی اسرائیل: 28) پھر تو شیطان کے دھوکے میں آگئے اس کے چنگل میں پھنس گئے کیونکہ مبذر شیطان کا بھائی ہوتا ہے.اِخْوَانَ الشَّيْطينِ یعنی کئی قسم کے شیطانوں کا بھائی ہوتا ہے.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اسی آیت میں ایک جگہ شیطان فرمایا ہے ایک جگہ شیاطین فرمایا ہے.اس میں کیا حکمت ہے؟ وہ شیاطین اچانک ایک شیطان کیسے بن گئے کیونکہ فرماتا ہے اِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا - مبذر یعنی اسراف کرنے والے، حد سے زیادہ بڑھنے والے یہ تو شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا تھا.تو دراصل شیطان کی تمثیل پر جو انسان پیدا ہوتے ہیں وہ ہمیشہ نفس کی خاطر خرچ کرنے والوں کو گھیر لیا کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ خائب و خاسر رہتے ہیں، بد انجام کو پہنچتے ہیں.وہ جوان کے ماں باپ نے محنت سے کمائے تھے وہ سب چیزیں ضائع کر بیٹھتے ہیں تو ایک
خطبات طاہر جلد 15 290 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء شیطان نہیں کئی شیاطین لگ جاتے ہیں.ان کے ارد گرد جو ٹولہ ہے وہی ان کی بڑی تعریفیں کر رہا ہوتا ہے.کہتا ہے واہ جی واہ کوئی خرچ سیکھے تو آپ سے سیکھے.کیا بات ہے آپ نے تو مہمان نوازی کی حد ہی کر دی اور اس طرح آپ نے خرچ کیا اور بڑی شہرت ہوئی.آپ نے جو اپنی بیٹی کی شادی کی ہے بہت ہی مشہور ہوئی ہے کتنے لوگ باتیں کر رہے ہیں.کہتے ہیں بلے بلے شادی ہو تو یوں ہو اور اس طرح پاگل بنا بنا کے ان کی جائیدادیں بکوا دیتے ہیں، ان پہ قرضے چڑھوا دیتے ہیں اور جب سب کچھ ہاتھ سے جاتا ہے تو آپ بھی ہاتھ سے چلے جاتے ہیں.پھر وہ اگر ان کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں گے.یہ شیاطین ہیں.اور شیطان کی جہاں خصلت کی بات کی گئی ہے وہاں اکیلا شیطان استعمال فرمایا.ایک شیطان ہوں یا دو ہوں یا دس ہزار ہوں شیطان کی خصلت یہ ہے کہ اپنے رب کا ناشکرا ہوا کرتا ہے.اور کسی چیز کو محل پر نہ خرچ کرنا یہ بھی ناشکرا اپن ہے.بے محل استعمال کرنا یا جتنی طاقت ہے اس سے بڑھ کر استعمال کرنا یہ بھی ناشکر اپن ہے.شیطان نے جتنی صلاحیتیں خدا نے اس کو دی تھیں ان کو بے محل استعمال کیا یہ اس کا ناشکرا پن تھا ورنہ صلاحیتیں بہت تھیں.تھا تو آگ سے پیدا ہوا ہوا لیکن یہ صلاحیتیں نہ ہوتیں تو ساری دنیا پر اپنے دھو کے کے ذریعے اتنا بڑا کنٹرول، اتنا عروج کیسے حاصل کر لیتا.اکثر خدا کے بندے جو اصل میں اس کے بندے نہیں تھے ان پر قبضہ کر بیٹھا ہے اور دنیا کو فساد سے بھر دیا ہے اور فرشتوں بے چاروں کا صرف اتنا قصور تھا کہ فساد سے شیطان نے بھرنا تھا، فرشتے سمجھ رہے تھے آدم بھرے گا.انہوں نے دنیا کو فساد سے بھرنا تھا جنہوں نے آدم کی اطاعت سے انکار کرنا تھا اور آدم نے تو دوبارہ اس حالت کو بدلنے کی ایک کوشش کرنی تھی.وہ جو منکرین ہیں جو ناشکرے ہیں انہیں واپس اقرار اور شکر کے مقام پر لا کے کھڑا کرنا تھا.تو یہ کہانی جو ازل سے چلی آرہی ہے ازل (ازل کا لفظ سہوا بولا گیا ہے غالباً ابد مراد ہے) تک اسی طرح جاری رہے گی.جب تک دنیا، زمین و آسمان قائم ہیں یہی کچھ ہم ہوتا دیکھتے آئے ہیں، یہی کچھ ہوتا رہے گا اور یہ اندھیرے علم کے اندھیرے ہیں اور روشنیوں کے اندھیرے ہیں.وہ شخص جو اسراف کر رہا ہے آنکھیں اس کی کھلی ہیں وہ دیکھ رہا ہے کہ کتنا مجھے مزہ آ رہا ہے، کتنی میری شہرت ہو رہی ہے، کتنی میری ناموس بڑھ رہی ہے.کیوں اس کا مزہ آ رہا ہے؟ نفس کی عبادت ہو رہی
خطبات طاہر جلد 15 291 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء ہے.وہ سمجھتا ہے یہ سارے میرے نفس کے سامنے سر جھک رہے ہیں.تو وہ دراصل اپنی عبادت کا مزہ اٹھا رہا ہے اور جو اپنی عبادت کرواتا ہے اور اپنی عبادت کرتا ہے اس کے مقدر میں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.اس کے علاوہ بھی اس کی بہت سی شکلیں ہیں جو میں انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں آپ کے سامنے پیش کروں گا اور یہ بہت اہم مضمون ہے اندھیروں کی نوعیت کو سمجھنا اور ان کی نشاندہی کرنا.اگر آپ اندھیرے دیکھنے لگ جائیں تو روشنی کیوں نظر نہیں آئے گی آپ کو اندھیرے سمجھ آئیں گے تو پھر روشنی سمجھ آئے گی.ان سے بچ سکتے ہیں تو پھر روشنی کی طرف رخ کریں گے.پتا لگے گا کہ کون سے پردے پڑے ہوئے ہیں جو کانوں پر بھی ہیں، آنکھوں پر بھی ، دل کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں.پھر آپ کو تدبیر سمجھ آئے گی کہ کیسے ان سے نجات حاصل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین یہ مضمون بظاہر باریک ہے مگر باریک نہیں بہت موٹا مضمون ہے.پہلی کہانی کے خدوخال ہی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.قرآن کریم اٹھالیں کہانی ہی آدم اور شیطان اور فرشتوں کی باتوں سے شروع ہوتی ہے لیکن عجیب کہانی ہے چند لفظوں میں بیان ہوئی اور ساری انسانی تاریخ کو ڈھانپ لیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ساری انسانی تاریخ پر حاوی ہوگئی.یہ ہے وہ کہانی جس سے بہتر کبھی کوئی کہانی نہ بنائی گئی، نہ بنائی جاسکتی ہے اور حقائق پر مبنی کہانی ہے اپنے آپ کو دہرانے والی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی بظاہر جو باریکیاں ہیں ان کو ایسے دیکھیں جیسے آنکھوں کے سامنے کھڑی دکھائی دے رہی ہیں.آمین اب اندھیرے بھی کئی قسم کے ہیں.نفس انسان کو بعض باتیں بھلا دیتا ہے اور اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے شیطان نے بھلا دیا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا انبیاء کو شیطان نہیں بھلایا کرتے وہاں شیطان سے مراد نفس کے اندر جو بشری کمزوریاں ہیں وہ مراد ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ بھی بھولتے رہے.ثابت ہے قطعی طور پر.مگر کوئی شیطان نہیں تھا جو آپ پر غالب آ سکتا.آپ کے تو نفس کا شیطان بھی مسلمان ہو چکا تھا.اس لئے وہاں شیطان سے مراد صرف اتنی ہے کہ نفس کے اندر مخفی جو خدا تعالیٰ نے بعض کمزوریاں رکھی ہیں بھول چوک مثلاً ، ایک بات پوری طرح نہ دیکھ سکے، بعض دفعہ غلطی سے لوگوں کے کہنے پر غلط فیصلے بھی ہو جاتے ہیں تو یہ سارے وہ شیطان ہیں جو گناہ
خطبات طاہر جلد 15 292 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء والے شیطان نہیں ہیں، یہ مجبوریوں کے شیطان ہیں.اس کی مثال یہ ہے کہ جب گزشتہ خطبے میں نماز جنازہ کے وقت میں نے یہ کہا تھا کہ ہماری آپاز بیده مرحومہ جن کی میں نے نماز جنازہ پڑھائی تھی یہ مرزا اظہر احمد صاحب ہمارے بھائی کی ساس ہیں تو یہ بھی ایک قسم کی ایک غلطی تھی.ان کی ساس تو آپا حمیدہ ہوا کرتی تھیں.یہ دونوں بہنیں تھیں.اور مجھے پتا ہے لیکن چونکہ خطبے میں دماغ ایک خاص مضمون میں الجھا ہوا ہوتا ہے اچانک اس سے نکل کر دوسری طرف جا کر پوری طرح اس کو دیکھ لینا یہ بسا اوقات ممکن نہیں ہوتا.تو خیالات کو ایک دم تبدیل کر کے دوسرے مضمون کو فوکس کر کے دیکھ لینا ایک طبعی مجبوری ہے کہ بعض دفعہ نہیں ہوتا.تو مجھے اچھا بھلا پتا تھا آپا حمیدہ بہت شفقت کرنے والی تھیں اور ہمارے گھر تو ان کا بہت ہی آنا جانا تھا کیونکہ میری والدہ سے تعلق کی وجہ سے وہ بہت ہم سے پیار کرتی تھیں.ان کی بیٹی ہیں ہماری قیصرہ بیگم جو میاں اظہر کی بیوی ہیں اور ان کے دو بھائی اور بھی ہیں شہزاد اور انیس، انہیں تو کینیڈا میں ہے اور کرنل شہزاد پتا نہیں امریکہ میں ہیں یا کہاں ہیں.مگر بہر حال یہ ساری اولاد ہی اللہ کے فضل سے جماعت سے گہرا تعلق رکھنے والی ہے.آپاز بیدہ ان کی چھوٹی بہن تھیں جو بیگم سردار بشیر احمد صاحب مالیر کوٹلوی تھیں.اس خاندان کا تعارف میں نے پہلے اس غرض سے کروایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو الہاما ان کے بعض مراتب بتائے گئے اور فرمایا گیا کہ یہ بھی اپنے اخلاص میں اتنی غیر معمولی ترقی کر چکے ہیں کہ گویا اہلِ بیت میں سے ہیں اور ان کی دل جوئی کی جائے ، ان کا خیال رکھا جائے.تو ان کے جو دادا تھے محمد خان صاحب انہی کی خاطر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود نرمی کے سلوک کا حکم دیا ہے اس لئے جہاں بھی موقع مل سکے ان کا ذکر خیر چلانا یہ بھی کار ثواب ہے.یہ عبدالمجید خان دو ہیں.ایک محمد خان صاحب کے بیٹے اور ایک عبد المجید خاں دیر ووال والے.عبد المجید خاں صاحب جو دیر و وال والے ہیں یہ آپا طاہرہ صدیقہ کے والد اور اسی طرح نصیر خان صاحب مرحوم کے والد اور عبدالمجید خان صاحب کے خسر بھی عبدالمجید خاں تھے اور عبدالمجید خان صاحب کے خسر جو عبدالمجید خان تھے وہ محمد خان صاحب کے صاحبزادے تھے.تو وہ پہلی بیوی تھیں یعنی عبدالمجید خان صاحب ویر و وال والے جن کو ربوہ کے تو اکثر لوگ جانتے ہیں باہر کے بھی جانتے ہیں پروفیسر نصیر خاں صاحب کے والد ان کی شادی محمد خاں صاحب کی پوتی سے ہوئی تھی اور
خطبات طاہر جلد 15 293 خطبہ جمعہ مورخہ 12 اپریل 1996ء عبد المجید خان صاحب کے خسر کا نام بھی عبدالمجید خان تھا.ان کی صاحبزادی امتہ اللہ بیگم پروفیسر نصیر خاں صاحب کی والدہ تھیں.اس لئے یہ اگر رشتہ کی صاف سمجھ نہ بھی آئی ہو تو میں نے چونکہ ذکر چھیڑ ا تھا میں ایک دفعہ کھول دوں.نصیر خاں صاحب بہت مشہور انسان ہیں پروفیسر کے طور پر علمی لحاظ سے بھی ، شاعر کے لحاظ سے بھی، بحیثیت ایک نہایت اعلیٰ درجے کے انسان اور مجلسوں کی رونق ہونے کے لحاظ سے بھی.کم انسان ہیں جو ایسے مزین ہوتے ہیں جیسے پروفیسر نصیر خاں صاحب مرحوم تھے.تو ان کے والد بزرگوار عبدالمجید خان صاحب ویر و وال والے بھی بہت بڑے مرتبے کے بزرگ تھے اور ان کی جو والدہ تھیں اس طرف سے بھی بہت بڑا مرتبہ انہوں نے پایا کیونکہ وہ ان کی والدہ محمد خاں صاحب کی پوتی تھیں.ان کی اور بھی اولاد ہے خدا کے فضل سے.جن کو میں جانتا ہوں وہ تو بڑے مخلص ہیں دونوں خاندانوں کے.جن کو میں نہیں جانتا وہ اس لئے نہیں جانتا کہ وہ غائب ہو گئے تو دعا کریں اللہ ان کو بھی غائب نہ رہنے دے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 295 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء اللہ کی یہ تقدیر خوب کھل کر ظاہر ہوگئی ہے کہ آج دنیا کی تقدیر جماعت احمدیہ سے وابستہ ہو چکی ہے.( خطبه جمعه فرموده 19 اپریل 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوىهُ وَأَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشْوَةً فَمَنْ يَهْدِي مِنْ بَعْدِ اللهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (البانيه :24) پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ پہ میں نے اسی آیت کی تلاوت کے بعد چند ایسی انسانی غفلتوں کی طرف اشارہ کیا تھا جو اس کی ذات کے اندھیرے ہیں.وہ غفلتیں جو انسان کی ذات پر اندھیرے بن کے وہ چھا جاتی ہیں اور اسے حصول مقصد سے بے خبر رکھتے ہیں اس کی پہچان سے ہی نا آشنا ر کھتے ہیں وہ سب سے خطرناک اندھیرے ہیں جن سے آگے پھر ہر قسم کے گناہ پھوٹتے ہیں اور قرآن کریم نے ایک بڑی ترتیب کے ساتھ اور ایک تدریج کے ساتھ اول معمولی ابتدائی حالتوں کا ذکر فرمایا پھر ان سے پھوٹنے والی زیادہ سخت اور زیادہ خطرناک حالتوں کا ذکر فرمایا پھر آخری نتیجہ نکالا کہ اگر یہ مضمون اسی طرح تدریجا بڑھتار ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے ایک روئیدگی شروع میں تو نظر کو بھلی لگتی ہے سرسبز و شاداب کو نپلیں جب پھوٹ رہی ہوتی ہیں تو انسان کی نظر کو بہت پیاری لگتی ہیں اور ان کے حسن سے استفادہ ایک معصوم سی چیز دکھائی دیتی ہے لیکن پھر وہی کھیتی لہلہانے لگتی ہے اور خوب تموج اختیار کرتی ہے، ہواؤں کے ساتھ ناچتی ہے، رقص کرتی ہے اور پھر اس کے بونے والوں کے دل کو
خطبات طاہر جلد 15 296 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء خوش کر دیتی ہے لیکن انجام کار پھر اس پر ایک ایسا دور آتا ہے وہ زرڈ رو ہونے لگتی ہے اور خشک ہو کر ایسے پورے کی طرح جو پاؤں تلے روندا جاتا ہے اس حالت میں وہ اپنے انجام کو پہنچتی ہے.یہ وہ مثال ہے جس کے متعلق میں اس آیت کے پہلے حصے کے مختلف امور پر یا مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد پھر متوجہ ہوں گا.میں ذکر کر رہا تھا کہ اول ہے لَعِب اور لَھو ، اسی سے ہر قسم کی دنیاداری کا آغاز ہوتا ہے.کھیل کو تماشہ ایک معصوم سی چیز دکھائی دیتی ہے انسانی فطرت کے ساتھ اس کا ایک گہرا تعلق ہے بچے بھی اپنا دل کھیل کو دہی میں بہلاتے ہیں.لیکن جوں جوں جوانی کے ساتھ ساتھ کھیل کو دانسانی مزاج پر غلبہ پانے لگتے ہیں تو ان کے اندر گناہوں کی آمیزش ہونے لگتی ہے.کھیل کود کا انسانی مزاج پر غلبہ اس کو اعلیٰ مقاصد سے غافل کرتا چلا جاتا ہے اور تو جہات کو تمام تر اپنی طرف کھینچنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے جو زندگی کا مقصد نہیں ہے.اس پہلو سے میں نے متوجہ کیا تھا کہ اپنے بچوں کو بھی اس پہلو سے بر وقت متنبہ کرتے رہا کریں.جہاں ان کی دلچسپیاں کھیل کود میں اتنی بڑھ جائیں کہ ان کی زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی راہ میں حائل ہونے لگیں ، جہاں پڑھائی اور تعلیم ثانوی ہو جائے اور زندگی کے دنیا کے تماشے جو ہیں یہ بنیادی اور اصل مقصد بن جائیں ایسے بچے ایسی جوان نسل میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے اپنی منزل کھو دیتی ہے اور غلط سمت میں روانہ ہو جاتی ہے.یہ اگلا قدم جو تھا اس کے متعلق میں نے گزشتہ خطبے میں روشنی ڈالی یہ پھر زینت اور تفاخر میں تبدیل ہو جاتی ہے.دیکھیں لھو اور لَحِب کا اپنی ذات سے تعلق ہے.ایک انسان کسی چیز کو پسند کرے اس میں کھویا جائے کوئی بیٹھا اپنا ٹیلی ویژن دیکھ رہا ہے تو کسی کا کیا لیتا ہے.اس کا کسی اور کے ساتھ کوئی تصادم نہیں، کوئی ٹکراؤ نہیں، کوئی مقابلہ نہیں.ایک انسان جوان باتوں میں مثلاً میوزک ہے اس میں بھی مگن رہتا ہے تو وہ کہتا ہے تمہیں اس سے کیا میں اپنا وقت خرچ کر رہا ہوں اپنا پیسہ لگارہا ہوں اور اگر شور پڑتا ہے تو اپنے کان میں وہ ٹوٹیاں دے دیتے ہیں اور جہازوں میں بھی بجائے اس کے کہ ان پر یہ اعتراض ہو تم نے سب کا امن برباد کر رکھا ہے شور ڈالا ہوا ہے وہ آرام سے اپنی ٹوٹی اپنے کان میں لگا لیتے ہیں اور جہاز والوں نے بھی اب سب کو ٹوٹیاں مہیا کر دی ہیں.ٹیلویژن دیکھنا ہے،
خطبات طاہر جلد 15 297 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء میوزک سننی ہے اپنی مرضی کے پروگرام دیکھو لیکن ساتھ والوں کو نقصان نہ پہنچے.پس لھو اور لَعِب کا جو آغاز ہے وہ نفسانی، ذاتی خواہشوں سے تعلق رکھتا ہے اور دوسروں سے متصادم نہیں ہے پھر یہ چیز پھوٹ کر باہر نکلتی ہے اور زینت اور تفاخر میں تبدیل ہو جاتی ہے.زینت کا اختیار کرنا یہ بھی ہر انسان کی فطرت میں ہے لیکن جب وہ زینت دکھا وا بن جائے تو پھر تفاخر کے رنگ میں تبدیل ہونے لگتی ہے.ہر وہ نعمت جو خدا تعالیٰ نے ایسے انسانوں کو دی ہے وہ خدا کا شکر کرنے کی بجائے انہیں اپنا فخر دوسروں پر ظاہر کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور خدا کے سامنے سر جھکانے کی بجائے وہ لوگ لوگوں کے سامنے سراٹھانے لگتے ہیں تو یہ تفاخر ہے یعنی جس ذات نے دی تھیں، جو نعمتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے میسر آئیں بجائے اس کے کہ ان نعمتوں کے شکر پر سراس کے حضور جھکتا چلا جائے اس کے عاجز اور کمزور بندوں پر اٹھتا چلا جاتا ہے اور یہ تفاخر جو ہے یہ ہمیشہ نچلوں پر ہے.یہ لفظ تفاخر میں ایک داخل بات ہے جو اپنے سے بڑے ہوں ان کے سامنے کوئی تفاخر کیسے کر سکتا ہے ان کی مجلس سے تو دور رہے گا تاکہ ان کے سامنے سبکی نہ ہو.جو غریب لوگ نسبتا کمزور لوگ ہیں ان کے سامنے دکھاوے ہوتے ہیں یا برادری کے لئے بھی دکھاوے ہوں تو جب تک ان سے زیادہ خرچ کر کے ان سے زیادہ دکھا وانہ ہو اس وقت تک ان کا سر اونچا ہو ہی نہیں سکتا.پس اپنا جھوٹا سر اونچا کرنے کی خاطر وہ اپنی آئندہ اولادوں کے سر ہمیشہ کے لئے نیچے کر دیتے ہیں.قرضوں میں جکڑے جاتے ہیں، جائیدادیں بک جاتی ہیں بجائے اس کے کہ دنیا ان کی تعریف کرے کہ واہ واہ انہوں نے خوب کیا چند دن کی اس تعریف کے بعد پھر لعنتیں پڑنے لگتی ہیں کہ اس نے تو جو کچھ ورثے میں پایا تھاوہ بھی گنوا دیا کچھ بھی باقی نہ رکھا تو یہ بھی ایک اندھیرے کی بڑی خوفناک قسم ہے مگر جب یہ آگے بڑھتی ہے تو سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ آخری شکل جو اس کی بنتی ہے وہ ہے تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ (الحديد :21 ).اب تدریج دیکھیں کیسی عمدہ اور متناسب تدریج ہے.ایک نفس کے اندھیرے نے نفس کو ایک سایہ مہیا کیا اور اس سائے تلے نفس نے آرام پایا لیکن جب وہ گہرا ہو گیا تو رستہ دیکھنے کی صلاحیت سے بھی اس کو عاری کر دیا.پھر وہی چیز آگے بڑھی تو اپنی نعمتوں کو دکھانے پر منتج ہو گئی اور اکیلا اپنی ذات میں انسان سکون پا ہی نہیں سکتا پھر جب تک دوسروں کے اوپر وہ فخر نہ کر لے جب تک
خطبات طاہر جلد 15 298 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء دوسروں سے زیادہ اپنے آپ کو دکھا نہ لے اس وقت تک اس کے نفس کو تسکین نہیں ہو سکتی.اب یہ Social evil میں تبدیل ہو گئی ہے.جو پہلے ذاتی نقص تھا اب یہ تمدنی اور سوشل نقص میں تبدیل ہو گیا اور ان کی جو دو باتیں ایک بریکٹ میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کا تعلق انسانی اقتصادیات اور سیاست سے ہے.تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کا تعلق انسانی اقتصادیات سے ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ایسا رابطہ رکھتی ہیں کہ گویا با ہم چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتیں.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ جوڑے بھی خوب بنائے ہیں ایسے جن کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاہی نہیں سکتا.جب سیاست انسانی دماغ پر قابض ہو جائے ، جب قوموں کے اجتماعی دماغ پر قبضہ کر لے تو یہ سیاست محض اپنے رعب کو دنیا پر قائم کرنے کے لئے نہیں ، اپنی بڑائی کو قانونی طور پر اپنے اہل وطن پر مسلط کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہر قسم کی دولت کمانے کا ذریعہ بن جاتی ہے اور یہی سیاست جب بین الاقوامی سطح پر سر اٹھاتی ہے تو اس کے ساتھ دولت کا کمانا ایک لازمی جزو ہے اس کو الگ کیا ہی نہیں جا سکتا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ انگریزوں سے یعنی انگریزی حکومت سے آزادی کا گر ان لوگوں کو کسی کو بھی علم نہیں جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور انگریزوں کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں کوئی ہتھیاروں کے ساتھ انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تعلیم دیتے ہیں کوئی عدم تعاون کے ساتھ جیسے گاندھی جی کی تحریک تھی ان کو اپنے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کی تحریک کرتے ہیں.آپ نے فرمایا ایک ہی طریق ہے کوئی دنیا کی قوم اپنی سیاست کو دوسری قوم پر غالب کر کے محض یہ لطف نہیں لیا کرتی کہ ہم حاکم ہیں جب تک اس کے نتیجے میں اس ملک کی دولت ان کے ملک میں منتقل نہ ہو.اگر کسی ملک کی دولت کسی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونا بند کر دے تو کوئی پاگل نہیں ہے کہ وہاں جا کر کوئی سیاسی نظام اپنا جاری کرے اور محض اس وجہ سے کہ ہماری سلطنت بڑی ہوگئی ہے سیاسی غلبے کو جاری رکھنے کی فطرت اجازت ہی نہیں دیتی کیونکہ کچھ دیر کے بعد یہ مصیبت بن جاتی ہے.نظم و ضبط قائم رکھنا، اپنے خرچ پر قائم رکھنا کسی اور جگہ جا کر ایسی قوم پر اپنی حکومت جتانا جس قوم کو تمہاری حکومت پسند نہیں ہے اور نتیجے مالی لحاظ سے کوئی بھی فائدہ نہیں.کبھی بھی دنیا میں ایسی سیاست زیادہ دیر چل نہیں سکتی تو میں خود ہی اپنا بور یا بستر لپیٹتی ہیں اور ایسے ملکوں کو چھوڑ دیتی ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 299 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء پس حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا اور کئی دفعہ جو نجی مجالس میں بھی آپ ان باتوں کا ذکر چھیڑا کرتے تھے تو اس میں بھی یہ باتیں آتی رہیں.آپ نے فرمایا کہ اصل نجات کا راز تحریک جدید کی اس سکیم میں ہے جس کے انیس نکات ہیں.وہ تحریک جدید کی سکیم ایسی ہے کہ اگر کسی قوم میں رائج ہو جائے تو دنیا کی کوئی قوم بھی وہاں سے مالی فائدہ نہیں اٹھا سکتی.جو قوم اپنی زندگی کے رہن سہن کو سادہ اور غریبانہ بنالے، جس کو نہ بدیشی کپڑوں میں دلچسپی رہے، نہ بدیشی زیورات میں دلچسپی رہے، نہ بدیشی کھانوں میں دلچسپی رہے، جن کو روز مرہ کی ساگ اور روٹی گھر میں میسر آ جائے اسی پہ راضی رہیں، جو اپنا کپڑا کا تیں اور اس کھدر پہ راضی رہیں.جن کو دکھاوے کے لئے کسی سے قرض لینے کی ضرورت نہیں کسی بینک کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں وہاں کا بینکنگ نظام بھی زیادہ دیر نہیں چل سکتا یعنی ان کے خون نہیں چوس سکتا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسی قوم ہی ہے جو درحقیقت دنیا میں آزادی کے سانس لے سکتی ہے اور غیروں کو اس میں دخل دینے کا کوئی موقع ہی میسر نہیں آ سکتا.آپ نے فرمایا کہ جرم بھی ان چیزوں کے ساتھ وابستہ ہے.جتنے جرائم ہیں وہ اخلاقی کمزوریوں سے وابستہ ہیں اور جس قوم کی اخلاقی حالت درست ہو جائے جرائم اس کو اس طرح چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جیسے صحت مند بدن کو جراثیم چھوڑ دیتے ہیں.موجود ہیں فضا میں وہی سانس ہم سب لے رہے ہیں جو بیمار لوگ بھی لیتے ہیں مگر جراثیم سانس سے اندر جاتے ہیں اور باہر نکل آتے ہیں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اس بدن میں جو صحت مند ہو.ہاں جہاں بیماری کے آثار دیکھیں گے وہاں ان کے اڈے بنیں گے وہاں ان کا Foot Hold یعنی قدم جمانے کی جگہ بن جاتی ہے اور پھر آگے وہاں سے وہ باقی علاقوں کی فتوحات کے انتظام کرتے ہیں.تو حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی گہری فراست کے ساتھ تحریک جدید کو جاری فرمایا تھا تا کہ جماعت کے اندر جو لہو ولعب کی دلچسپیاں ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر ایک دوسرے پر تفاخر ہے ان سے آزادی ملے تو ان قوموں کو جماعت پر حکومت کرنے کا شوق ہی باقی نہیں رہے گا، مصیبت لگے گی ایسی جماعت پر حکومت کرنا جن قوموں کا مقصد تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ہے اور سیاست کا اس سے اعلیٰ نچوڑ دو لفظوں میں بیان ہو ہی نہیں سکتا اموال کی کثرت اور اولاد کی کثرت.یہاں قرآن کریم کا محاورہ اولاد محض بچوں کے زیادہ پیدا کرنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ
خطبات طاہر جلد 15 300 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء قرآن کریم نے خوب اس مضمون کو کھولا ہے، بار بار کھولا ہے کہ وہ قو میں جو دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہیں ان کو عددی قوت میں دلچسپی ہوتی ہے اور اولاد یہاں بمعنی عددی قوت ہے یعنی جسمانی غلبہ جو فوجی غلبہ بھی کہلا سکتا ہے.بہر حال ایک قوم کو دوسرے پر جو فوجی یا عددی برتری حاصل ہو قرآن کریم نے ایسی قوموں کے حوالے کے ساتھ جن کا ذکر قرآن کریم میں تاریخی طور پر ملتا ہے ہمیشہ ان کی اموال کی کثرت اور اولاد کی کثرت کے طور پر اسے پیش فرماتا ہے.پس یہ آیت قرآنی محاورہ ہے اور قرآنی محاورے کی مدد ہی سے اس کو حل کیا جاسکتا ہے جو دوسری جگہ کثرت سے کھلے کھلے طریق پر استعمال فرمایا گیا ہے.تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ لہو ولعب جب زینت اور تفاخر میں بدلتے ہیں تو انسان ضرور اپنی توفیق سے بڑھ کر خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس کی غلامی کا یہ پہلا قدم ہے.پہلا اندھیرا جو اس کی ذات پر چھا جاتا ہے اور اس سے دیکھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے.ایسے لوگ جب مجبور ہوتے ہیں تو قرض اٹھاتے ہیں جو جانتے ہیں کہ واپس نہیں کر سکتے.وہ ایسی تجارتوں کی سکیمیں بناتے ہیں جن میں ہوتا کچھ بھی نہیں ہے اور لوگوں کو دھو کے دے کے ان کے پیسے کھا جاتے ہیں کیونکہ کسی طرح سے اب نفس کی اس حرص کو پورا کرنا ہے اور دوسری شکل اس کی بنتی ہے وہ ہوشیار لوگ جن کو کمانا آتا ہے اور کمانے کے بعد وہ اعلیٰ مقاصد پر خرچ کرنے کی بجائے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور محض دولت میں کسی دوسرے پر فوقیت لے جانا ان کے لئے ایک روحانی یا جو بھی اس کا نام رکھیں ایک قلبی تسکین کا ذریعہ بنتا ہے لیکنی قلبی تسکین کا ذریعہ در حقیقت ان کے لئے دھو کہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب تک ایک شخص کا پیسہ دوسرے کے مقابل پر بڑھتا ر ہے اس کو یہ معلوم ہو کہ اب میں ایک ملین سے دوملین میں داخل ہو گی Millionaire کے دائرے سےBillionaire میں داخل ہو گیا تو دائرے جب تک وسیع ہوتے چلے جاتے ہیں کسی حد تک سکون ملتا ہے لیکن جو نہی یہ دائرہ اپنی حد استطاعت پر پہنچ کر ٹھہر جاتا ہے وہاں وہ نفس کی بے قراری ، مزید کی طلب، سینے کی آگ کہ میں اور کیا کروں، کس طرح بڑھاؤں اور بڑھانے کی بجائے جب وہ چیز گھٹنی شروع ہو جاتی ہے تو اس کی بالکل وہی مثال ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا فَتَرهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا.(الحديد :21) وہ چیز جو اس کے سامنے نشو و نما پاتے ہوئے بڑی ہوئی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور یوں معلوم
خطبات طاہر جلد 15 301 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء ہوا جیسے اب اس کو پھل لگنے کے وقت آگئے ہیں تو پھل کچھ بھی نہیں لگتا.یہ جو حرص ہے یہ اور بڑھ جاتی ہے.طلب کی کوئی حد نہیں ہے اور بالآخر ایسے انسان ہمیشہ محروم دنیا سے جاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھ آتی کہ ہم کیا کریں.کچھ ان میں سے ایسے ہیں جو اپنی دولت کو پھر سیاست پر استعمال کرتے ہیں اور تَكَاثُرُ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَولاد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہاں جا کر یہ دونوں مجرم ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پھر آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں.یہ جو گٹھ جوڑ ہے سیاست اور دولت کا آج کی دنیا میں تمام ملک جن سے امن اٹھ چکا ہے ان کا آخری نقطہ یہی ہے کہ وہاں دولت نے سیاست سے سمجھوتہ کر لیا ہے یا دولت سیاست کو غلام بنائے ہوئے ہے یا سیاست دولت پر غالب آ گئی ہے اور دولت کھینچنے کا ذریعہ بنا کر حکومت ہو رہی ہے.جن جن ممالک میں یہ بات ہوئی پھر ان کے سنبھلنے کا بعد میں کوئی سوال باقی نہیں رہتا.ہر قسم کی کرپشن، بددیانتیاں اور جرائم پھر بڑی سطح پر وہاں پرورش پاتے ہیں.اور بدقسمتی ہے اب مغربی دنیا میں جہاں سیاست نسبتا زیادہ صاف اور پاک تھی ، ابھی بھی ہے نسبتا دولت کی آمیزش کے نتیجے میں گندی ہو رہی ہے.دن بدن یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ سیاست کو دولت کمانے کا ذریعہ کیسے بنایا جائے اور باوجود اس کے کہ یہ لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں، عوام کے سامنے ان کو ذلیل اور رسوا بھی کیا جاتا ہے مگر جس نہج پر ایک دفعہ قوم کا مزاج چل پڑے پھر رک نہیں سکتا.پس تكاثر ایک بیماری ہے یعنی پیسہ بڑھانا ایسی بیماری ہے جو از خود اپنے آپ سے ضرب کھاتی رہتی ہے، سیاسی طاقت بڑھانا ایک ایسی بیماری ہے جو از خود اپنے آپ سے ضرب کھاتی رہتی ہے.پس تکاثر سے بہتر ا سے پیش نہیں کیا جاسکتا تھا اور قرآن کریم نے تکاثر کے مضمون کو اور جگہ بھی خوب عمدگی سے کھولا ہے اور بعض اور مثالوں کے ساتھ بھی اسے واضح فرمایا ہے اور اس انجام کو ہمارے سامنے ننگا کر کے دکھا دیا ہے.فرماتا ہے اَلْهُكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَة (التكاثر : 2، 3) که اے انسان! تجھے تو ایک دوسرے سے بڑھنے ، یہاں تَكَاثُر فِي الْأَمْوَالِ نہیں فرمایا.تَكَاثُرُ اے انسان! تجھے بڑھتے چلے جانے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے یعنی اموال میں اور طاقت میں سبقت لے جانے نے بالکل اندھا کر دیا ہے.الهی معنی غافل کر دیا یا ہلاک کر دیا دونوں معنی
خطبات طاہر جلد 15 302 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء اس مضمون میں یہاں پائے جاتے ہیں.انھكُمُ التَّكَاثُرُ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون تم پر سوار ہو چکا ہے اس نے تمہیں اپنے مفادات سے، اپنے مقاصد سے بالکل غافل کر دیا ہے اور ہلاک کر دیا ہے.حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِر یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت کرنے لگے.اب جو قبروں کی زیارت کرنا ہے یہ بھی بہت ہی دلچسپ محاورہ ہے اس میں دونوں معنی بیک وقت پائے جاتے ہیں یعنی کم سے کم دو معنی بیک وقت پائے جاتے ہیں.ایک یہ کہ تم اپنے اموال اور اولاد، اپنی طاقت، سیاست اور اپنی اقتصادیات کو ترقی دینے کی خاطر اتنے گر چکے ہو کہ قبروں سے بھی مانگنا پڑے تو نہیں رکو گے اور قبروں سے بھی مانگو گے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ان معنوں میں بعینہ یہی صورتحال تیسری دنیا پر مسلط ہو چکی ہے.مذہب چاہے اسلام ہو یا ہندو ہو یا جو مذہب کا نام رکھ لیں.ان میں بعضوں میں عقیدہ ، بعضوں میں تو ہمات کے رنگ میں مردہ پرستی شروع ہو چکی ہے، مردوں سے مانگنے کا رجحان ہے اور یہ جو مردہ پرستی ہے اس نے جاپان کو بھی خالی نہیں چھوڑا اور کوریا کو بھی اور چین کو بھی خالی نہیں چھوڑا.آباؤ و اجداد کی روحوں کے سامنے سر جھکانا اور ان سے امیدیں وابستہ کرنا اب یہ روز مرہ کا بڑھتا ہوا فیشن ہے اور ہمارے ملک میں آپ دیکھیں داتا کے دربار پہ پہنچ جاتے ہیں.جن کو اپنے گھروں میں خدا کے حضور سر ٹیکنے کا موقع نہیں ملتا، جورا توں کو اٹھ کے اس کے حضور سجدہ ریز ہونا جانتے ہی نہیں، وہ دن کی روشنی میں لوگوں کے سامنے داتا کے دربار پہنچتے ہیں اور دو مقاصدا اپنی طرف سے حاصل کرتے ہیں.اول اپنے لئے اموال ان سے طلب کرتے ہیں دوئم اپنے لئے اولا دان سے طلب کرتے ہیں.اپنی سیاست ان سے مانگتے ہیں اور اس دکھاوے کے ذریعے کہ ہم نے داتا کے دربار پر چادر چڑھائی ہے عوام سے بھی اپنی ہر دلعزیزی کی بھیک مانگتے ہیں.کہتے ہیں اگر تم نے ہم میں اور کچھ نہیں دیکھا تو یہ تو دیکھو کہ وہ مردے جن سے تم مانگتے ہو ہم بھی انہی سے مانگ رہے ہیں اور اتنا احترام ہے تمہارے مذہبی جذبات کا ہمیں کہ آگے پیچھے کبھی توفیق ملے نہ ملے مگر اب ہم جب کہ حکومت پر قابض ہو گئے ہیں یا ہونے والے ہیں.تو دیکھو حضرت داتا کے دربار پر جا کر ان کے سامنے ماتھے ٹیک رہے ہیں ان پر چادریں چڑھا رہے ہیں تو بھیک ہے ، سوائے خدا کے ہر طرف بھیک ہی بھیک.دائیں طرف بھی بھیک ، بائیں طرف بھی بھیک ،عوام سے بھی بھیک، بڑے لوگوں سے بھی بھیک، اور مردوں سے بھی تو زُرتُمُ الْمَقَابِرَ کا اس سے بہتر نقشہ اور کیا ہوسکتا
خطبات طاہر جلد 15 303 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء ہے ایسے پاگل ہو گئے ہو تم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں کہ قبروں کی زیارت کرنے لگے ہو.اور دوسرا معنی جو آخری اور بہت ہی پر جلال معنی ہے کہ تم تو قبروں کے کنارے تک جا پہنچے ہو.حَتَّى زُرتُمُ الْمَقَابِرَ کیا تمہیں اپنا انجام دکھائی نہیں دے رہا تمہارے سامنے مقبرے پھیلے پڑے ہیں تم سے پہلے ایسے ہی لوگ تھے جیسے تم ہو جن کو اس ظلم نے مقبروں تک پہنچا دیا وہ دفن ہیں زیرزمین دفن ہیں ان کو دیکھو اور ہوش کرو کہ تم نے اپنا کیا انجام بنا رکھا ہے.پس وہ جو حُطاما ہو کر وہ کھیتی جس سے توقع تھی کہ بہت بار آور ثابت ہوگی، گھر ہمارے غلوں سے بھر دے گی.اگر بار آور ہونے سے پہلے اس پر کوئی ہوا چل پڑے اور وہ زرد ہو جائے اور زرد ہو کر پارہ پارہ ہو جائے اور زمیندار کو اس میں کوئی دلچسپی نہ رہے.ہوائیں، آندھیاں چلیں رگیدتی ہوئی اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، مٹی میں ملا دیں اور پھر اس پر پاؤں پڑنے لگیں.یہ جو نقشہ ہے یہ وہ آخری نقشہ ہے جو تکاثر کا نقشہ ہے، مقابر تک پہنچے کا یہ نقشہ ہے جو کھینچا گیا ہے تو فرمایا اس کی خاطر تم اپنی زندگیاں برباد کرتے ہو.اب آپ دیکھ لیں کہ سیاست نے مال کے ساتھ مل کر دنیا میں کیا تباہی مچائی ہے اور انسان نے خود بھی ذاتی طور پر اموال کی طلب میں اور جو سیاسی طاقت ہے اس کی خواہش میں دنیا میں کتنے مصائب بر پا کر رکھے ہیں.ہمارے ملک پاکستان میں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تیسری دنیا میں ہر جگہ قریباً یہی کچھ ہو رہا ہے انسانی زندگی کی قیمت ہی کوئی نہیں رہی انسانی عزت کی کوئی تو قیر باقی نہیں رہی اور ہر دفعہ جب آپ سوال کریں کیوں؟ تو یا پیسے کی خاطر یا سیاست کی خاطر.یہ دو چیزیں ایسی غالب آ جاتی ہیں پھر اور انسانی دماغ پر ایسا قبضہ کر لیتی ہیں کہ دیکھنے کی ہوش ہی باقی نہیں رہتی.یہ آخری طبعی لازمی نتیجہ ہے جس سے انسان بچ نہیں سکتا اور ہوتا ہے روزانہ گھروں میں.آپ کی اولاد میں اس کے آثار نمایاں ہو کر آپ کی آنکھوں کے سامنے آتے ہیں.آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.آپ کی بیویوں میں، آپ کی بچیوں میں، آپ کے لڑکوں میں یہ آثار ظاہر ہوتے ہیں.آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اگر متوجہ ہوں تو وہ وقت ہے کہ آپ ان کی بیخ کنی کریں ورنہ بعد میں پھر پچھتاتے رہ جائیں گے اور کچھ بھی آپ کے ہاتھ نہیں آئے گا..عورتیں ہیں مثال کے طور پر، ان کو ہم پردے کے متعلق تاکید کرتے رہتے ہیں لیکن سو عذر ہیں جن میں جائز بھی بہت ہیں.کہتے ہیں ہم نے کمانا ہے، ہم نے باہر نکلنا ہے تعلیم حاصل کرنی ہے
خطبات طاہر جلد 15 304 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء.بچیوں نے ، اب ہم کیسے بند ہو کے گھروں میں بیٹھ رہیں.ہم ان کو کہتے ہیں بالکل گھروں میں بند ہو کر نہ بیٹھو لیکن اپنی عزتوں کو بند رکھو، ان کو کھلی چھٹی نہ دو، ان کو سرعام بے راہروی کی اجازت نہ دو تو پھر پردے کی جو بھی مشکل ہے وہ ٹھیک ہے لیکن اجازت مانگتے ہوکسی اور بہانے سے اور اجازت کو استعمال کرتے ہو کسی اور غرض کے لئے اور وہ غرض زینت اور تفاخر ہے.پس ہر وہ بظاہر نیک اور شریف عورت ، بظاہر ان معنوں میں کہ اس کے اندر کوئی ایسی بدی نہ آپ دیکھیں گے کہ جس پر اس کو ملزم کرسکیں ، اس کو مجرم دکھا سکیں لیکن ایک کمزوری اس کی آپ کو دکھائی دیتی ہے اور اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی وہ جب باہر نکلتی ہے تو صرف ضرورت پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس طرح بن ٹھن کر نکلتی ہے اس ارادے کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کرتی ہے کہ غیر نظروں کو اپنی طرف کھینچے اور اپنے حسن کو نمایاں کرے.جب کہ قرآن کریم نے پردے کی جو تعریف فرمائی ہے اس کی مرکزی تعریف یہ ہے کہ اپنی زینت کو غیر آنکھوں کے سامنے ابھارا نہ کرو.پس وہ ضرورت کیسی ضرورت ہے جس کی خاطر اجازت لے کر اس کو بے محل استعمال کرو اور اپنے ہی خلاف استعمال کرو اور اپنی اولادوں کے خلاف استعمال کرو.تو یہ جو زینت ہے، یہ تو قوموں کی عصمت برباد کر دیتی ہے.ان کو اعلیٰ مقاصد کے لئے خدمت کی توفیق ہی باقی نہیں رہتی.اس کے برعکس وہ بچیاں بھی ہیں ، خواتین بھی ہیں جو زیادہ اس طرح کا پردہ نہیں کرتیں جیسے برقع پوش ہوں لیکن آپ ان کو خدمت دین پر مامور دیکھیں گے.دیکھیں کتنی سادگی ان کے اندر خود بخود آ جاتی ہے اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ تیار ہو کے باہر نکلیں MTA کا وقت ہو رہا ہے، ان کو اور گھر کے کام بھی کرنے ہیں، ناشتے بھی تیار کرنے ہیں، بچوں کو رخصت کرنا ہے افرا تفری میں جس حال میں ہیں دوڑی دوڑی مسجد آ کر وہ خدمت دین میں مصروف ہو جاتی ہیں اور ان کو دیکھ کر کوئی بیمار نظر بھی اگر پڑے تو صحت مند ہو سکتی ہے مزید بیار نہیں ہوسکتی ان سے دل پاک ہوتے ہیں.یہ وجود ہیں جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.سوسائٹی میں ایک مضبوط قوی حصہ جو بھر پور زندگی میں حصہ لیتا ہے اور کسی زندگی کی جائز ضرورت سے محروم نہیں رہتا.مگر نسوانیت کو لوگوں کی رجولیت ضائع کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کی اسلام اجازت نہیں دے سکتا.نسوانیت کے خاص مقاصد ہیں جس ماحول میں وہ مقاصد ہیں وہاں اس کو ابھارنا، اس کی
خطبات طاہر جلد 15 305 خطبہ جمعہ 19 / اپریل 1996ء زینت سے فائدہ اٹھانا قرآن کریم اس کی اجازت دے رہا ہے اس کی حد بندی کر رہا ہے اس کے اردگرد خطوط کھینچ رہا ہے.دیکھو تمہارے بچے ہیں جن کے سامنے اچھی دکھا کرو یہ نہیں کہ جھاٹے پھلا کر بچوں کے سامنے آجاؤ اور مارکیٹ میں جانا ہو تو خوب بال سنوار کر بلکہ ابھار کر اور بکھیر کر اس طرح نکلو کہ تمہارے پیچھے ان کی جھالریں لہراتی ہوئی چل رہی ہوں.یہ غلط طریق ہے.تم اپنے گھر میں اپنے بچوں کے سامنے پیاری کیوں نہیں بنتیں.اپنے بھائیوں، اپنی ماؤں، اپنے باپوں کے سامنے کیوں اچھی نہیں بنتیں.ان کی نظر میں چونکہ پاکیزگی ہے اس لئے جب تک تم ان کے سامنے اچھی نہیں بن سکتیں جب تک تمہاری نظر میں پاکیزگی کی قیمت نہ ہو.پس زِيْنَةٌ وَتَفَاخُر میں یہ سارے پیغام ہمارے سامنے رکھ دیئے اور امر واقعہ یہ ہے آپ انسانی نفسیات پر غور کر کے دیکھیں کہ انسان کی نیتیں قیمتوں سے طے پاتی ہیں اور انسان کی نظر میں جس چیز کی قیمت ہے وہی فیصلہ کرتی ہے کہ نبیت کیسی ہوگی اور اس نیت کو کس شکل میں عملی دنیا میں ڈھالا جائے گا.پس اگر نیت میں پاکیزگی نہ ہو تو جہاں پاکیزہ آنکھیں ہیں وہاں دکھانے کا شوق ہی کوئی نہیں رہتا.اپنی بلا سے ہوں یا نہ ہوں جیسی وہ آنکھیں ہوں ویسی وہ آنکھیں نہ ہوں.مزہ کیا کہ جو نظر پڑتی ہے، پاکی سے پڑتی ہے ہاں ذرا سا تھوڑا سا ہیجان پیدا ہو جائے ، جہاں نظر میں طلب پیدا ہونی شروع ہو جائے ، جہاں ہمیں محسوس ہو کہ ہماری پوجا کی جارہی ہے.اب وہ عورتیں جن کے متعلق میں نے کہا ہے بظاہر آپ ان میں کوئی جرم نہیں دیکھیں گے اپنی ذات کی حفاظت کرتی ہیں مگر قرآن کریم نے جو یہ تعریف فرما دی کہ اس نے اپنی ھوی کو اپنا معبود بنا لیا ہے یہ بیماری شروع ہو چکی ہے اور جب تک کوئی نظر عبادت نہیں کرتی اس وقت تک پورا سکون نہیں ملتا اور یہ نظروں کی عبادت کروانا بہت ہی خوفناک اور مہلک بیماریوں پر منتج ہو جایا کرتا ہے اور یہ مرض آگے بڑھتا ہے اور پھر اس کو روکا نہیں جاسکتا.وہ نسلیں جو دیکھ رہی ہیں کہ ہمارے ماں باپ میں زینت اور تفاخر ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ان قدروں کو اپناتے ہوئے بڑے نہ ہوں.ان کو اپناتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں، وہی چیزیں ان کے اندر سموئی جاتی ہیں اور پہلے سے زیادہ نشو ونما پاتی ہیں.یہ صورت حال اگر اسی طرح جاری رہنے دی جائے تو پھر ان چیزوں سے بھی لذت یابی کی طاقت ختم ہونے لگتی ہے.اس کے بعد دل خشک ہو جاتے ہیں اور خالصہ اپنی بڑائی یعنی معبود ہونے کی
خطبات طاہر جلد 15 306 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء آخری منزل جہاں دنیا کا سر اپنے سامنے جھکاؤ اپنے اموال کو زیادہ کر کے یا اپنی طاقتوں کو بڑھا کر اس حد تک تمہیں چین نصیب نہیں ہوگا.ایسے لوگ بعض دفعہ زینت اور تفاخر کے دائروں سے نکل ہی چکے ہوتے ہیں.بعض آپ سیٹھوں کو دیکھیں گے کہ ان کو قطعاً کوئی ہوش نہیں اپنے کپڑوں کی بلکہ بال بکھیرے ہوئے برے حال میں بٹن کھلے ہوئے وہ تجوریوں پر بیٹھے ہوتے ہیں مگر جانتے ہیں کہ یہ ہے ہماری شان، ہمارے پاس دولت ہے ان لوگوں کے پاس دولت نہیں ہے اور بغیر زینت کے بھی وہ اپنی بڑائی خود محسوس کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی نظر دولت میں مزہ دیکھ رہی ہے.تو ہر انسان جو معبود بن کر ابھرتا ہے وہ کسی نہ کسی خاص اپنی نفسانی الہی غرض کے ساتھ معبود بنتا ہے.جس کی نظر زینت پر زیادہ ہے وہ زینت کا معبود، دکھاوے کا بت بن جاتا ہے.جس کی نظر دوسروں پر اپنی تمدنی برتری حاصل کرنے کا شوق ہے وہ پھر رسم و رواج کے بت کو اپناتا ہے اور رسم و رواج کا خدا بن کر ابھرتا ہے اور آخری صورت اس کی یہ ہے کہ دولت کے سرچشموں پر قبضہ کر لے اور طاقت کے سرچشموں پر قبضہ کر لے جب یہ معبود بن جائے تو دنیا کی ہر دوسری قدر اپنی قیمت کھو دیتی ہے.کوئی اس راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرے گا اس کا سر توڑ دیا جائے گا.خواہ ان لوگوں کے بچے اغواء کر کے آپ اپنی سیاسی طاقت کو بحال رکھیں، خواہ معصوم آدمیوں کا قتل عام کروا کر اپنا رعب قائم رکھیں کہ ہم ہیں صاحب اولا د ہم جتھے والے لوگ ہیں تم کیا چیز ہو تم ہماری مخالفت کرنے کی جرات کیسے کر سکتے ہو اور پھر اموال کے تمام ذریعوں پر قابض ہونے کے ذریعے، وہ جو سر چشمے ہیں اقتصادی دولت کے ان پر قابض ہونے کے ذریعے وہ اپنی بڑائی کو جاری رکھتے ہیں اور اس کو دائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ خلاصہ ہے ساری انسانی زندگی کا.اب آپ دوبارہ ان باتوں کو سن کر اور سمجھ کر جب بھی پاکستان کا کوئی اخبار اٹھائیں گے یا ہندوستان کا کوئی اخبار اٹھائیں گے یا دوسرے ملکوں کے اخبار اٹھائیں گے آپ کو ہر جگہ یہی خلاصہ نظر آئے گا.ساری افراتفری ، سب دوڑ ، سب چکر اسی مرکز کے گرد گھومتے ہیں.تو تَكَاثُر فِي الْاَمْوَالِ اور تَكَاثُر فِی الْاَوْلَادِ ہے اور ساری دنیا کو مصیبت ، دیکھیں کتنی ڈالی ہوئی ہے اس نے.تمام دنیا کا امن جہنم میں تبدیل ہو چکا ہے اور وہ لوگ جو دکھاوے کی راہ سے ان چیزوں تک
خطبات طاہر جلد 15 307 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء پہنچتے ہیں ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ دنیا میں حقیقت وہ انسان کی یا اپنی قوم کی خدمت کرتے ہیں کہ نہیں.ان کو اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ دنیا ان کو خدمت گار کے طور پر دیکھ رہی ہے کہ نہیں یا ان کی قوم ان کو اپنے خادم کے طور پر اگر دیکھتی نہیں تو کم سے کم دل میں گمان کرتی ہے کہ یہ ہمارے خادم ہیں.یہ تاثر قائم کرنے پر سارا زور رہتا ہے اور اس سے نیچے اس تاثر کو قائم کرنے کی جہاں تک ٹھوس بنیادوں کا تعلق ہے اس میں ان کو ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں رہتی.مومن ان چیزوں کے بالکل برعکس ہے.مومن ان سب اندھیروں سے آزاد ہے.وہی ہے جو دیکھتا ہے اور وہی ہے جو نیک انجام کو پہنچتا ہے.وہی ہے جس کی آخرت کی ضمانت دی جاتی ہے.پس قرآن کریم نے ان تمام انسانی کمزوریوں کا ذکر فرماتے ہوئے انہیں کلیۂ رد نہیں فرمایا کہ ان کے اندر کچھ بھی تمہارے لئے باقی نہیں.تو اس پہلو کے ساتھ اگر آپ اپنے اعمال کا اپنے نفس کا جائزہ لینا شروع کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کا نجات دہندہ بنا سکتا ہے اور نجات دہندہ بننے کے لئے پہلے اپنے نفس کو نجات دینی ضروری ہے اور اس کے لئے سب سے اعلیٰ ، سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کی نظر میں رکھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ اسی نظر کی ہمارے نزدیک قیمت ہے باقی کسی نظر کی قیمت نہیں.اس نظر کا عجیب حال ہے بعض دفعہ آپ کو دولت مند دیکھ کر خوش ہو گی بعض دفعہ غریب دیکھ کر خوش ہو گی.اس لئے اگر اس نظر کو خوش کرنا ہے تو اس کی خاطر غربت اختیار کرنا بھی آپ کے لئے لذت پیدا کرے گا کیونکہ اس کی رضا کے تابع ہے.پس ایسے انسان کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے، اس کی زندگی کے قوانین بدل جاتے ہیں، اس کا اٹھنا بیٹھنا لوگوں میں رہنا سہنا ، ان سے معاملات کرنا، ایک نئے رنگ پر آ جاتا ہے جس کا عام انسانوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.اب جن کو تَكَاثُر فِي الْأَمْوَالِ کا جنون ہو وہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اپنے نفس کی پرستش کرنی ہے اور اگر وہ خدا کی پرستش کرنے لگیں تو اسی تَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ میں ان کو کوڑی کی بھی دلچسپی نہیں رہتی.پھر وہ مال جو خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کی راہ میں لٹانے میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور جتنا مزہ ایک کمانے والا کما کر اکٹھا کرنے میں محسوس کرتا ہے اس سے بہت زیادہ مزہ خدا کے بعض بندے اس کمائی کو خدا کے بیان کردہ شرائط کے تابع حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ، متوازن طریق پر خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور لذت پاتے ہیں.کبھی آپ کسی چندہ دینے والے احمدی کو جو اس
خطبات طاہر جلد 15 308 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء وجہ سے چندہ دیتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو راضی کرنا ہے چندہ دینے کے بعد مغموم نہیں پائیں گے.ٹیکس دینے کے بعد تو آپ کئی چہرے دیکھیں گے وہ چہرے اتر گئے مصیبت پڑی.کیوں جی کیا ہوا؟ آج تو جی بڑی چٹی پڑگئی وہ ٹیکس جو ہم نے اتنی دیر سے چھپایا ہوا تھا وہ نگا ہوگیا پکڑے گئے آج ہمیں دینا پڑا ہے لیکن کبھی کسی چندے دینے والے کو آپ سر پھینک کر چلتے ہوئے مغموم نہیں دیکھیں گے کہ کیوں جی کیا ہوا کہ جی آج اتنا چندہ دنیا پڑا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، ناممکن ہے.ہاں ایسے مغموم لوگ ضرور دیکھیں گے جو چندہ نہیں دے سکے اور ان کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں میں نے خود دیکھے ہیں بارہا دیکھتے ہیں آتے ہیں تھوڑی رقم پیش کرتے ہیں اور اس قدر بے چینی محسوس کرتے ہیں اتنادکھ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں زیادہ کی توفیق نہیں.ہم چاہتے تھے کہ زیادہ دیں دعا کریں کہ اللہ ہماری حسرتیں پوری کرے.ایسی دنیا بھی آپ نے کہیں اور دیکھی ہے جو جماعت احمدیہ کی دنیا ہے.پس یہی وہ مضمون ہے ان کے ہاں تكاثر کی تمنا ہے خدا کی خاطر خرچ کرنے کی خاطر، ان کے ہاں تكاثر کی تمنا ہے تا کہ اپنے غریب رشتے داروں کی ضرورتیں پوری کر سکیں اپنے دکھی ہمسایوں کی ، اپنے بیمار ساتھیوں کے لئے کچھ شفا، کچھ صحت کے لئے ، کچھ ان کے پیٹ بھرنے کے سامان کر سکیں ان کو لگی ہوتی ہے کہ خدا ہمیں اور دے تو ہم اور خرچ کریں اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے مجھے دعا کے لئے اس طرح بار ہا لکھا کہ ہمارے دل میں ہر وقت ایک آگ سی سلگتی رہتی ہے کاش ہمیں توفیق ہو تو ہم فلاں غریب رشتے داروں کی مدد کر سکیں، فلاں مصیبت زدہ کی مدد کر سکیں دعا کریں اللہ ہمیں تو فیق دے اور پھر خدا ان کو توفیق دیتا ہے اور وہ خرچ کرتے ہیں اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24 ) یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے دلوں میں قربانیوں کی راہ میں اپنا جان مال فدا کیا دیکھو کیسے مطمئن ہو گئے.قَضَى نَحْبَه مدتوں کی آرزوئیں پوری کر لیں.اورد وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو انتظار میں بیٹھے ہیں کب خدا ہماری حسرتیں پوری کرنے کے سامان کرے گا.تو دیکھو تَكَاثُرُ تو تَكَاثُر ہی ہے مگر نیتوں نے ان دونوں تکاثر کی قسموں میں کتنا زمین آسمان کا فرق ڈال دیا.ایک تکاثُر ہے نیک ارادوں کی خاطر، نیک راہوں پر خرچ کرنے کے لئے.اسی طرح اولاد کا حال ہے.آنحضرت می
خطبات طاہر جلد 15 309 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء نے بھی اپنی امت کے لئے کثرت کی دعا مانگی بلکہ نصیحت فرمائی کہ ایسی عورتوں سے شادی کرو جووَلُودًا وَدُودًا ہوں محبت بھی بہت کریں تم سے اور بچے بھی بہت پیدا کریں.اس لئے بسا اوقات جب فیملی ملاقات میں میں اچھے خوش جوڑوں کو دیکھتا ہوں ان سے کہتا ہوں اور بچے پیدا کرو.وہ سمجھتے ہیں میں مذاق کر رہا ہوں حالانکہ مذاق وذاق نہیں، میرے ذہن میں ہمیشہ یہی رسول اللہ ﷺ کی نصیحت ہے اور مجھے بھی خوشی ہوتی ہے احمدی بچے پیدا کر کے بھی بڑھیں اور تبلیغ کے ذریعے سے بھی بڑھیں اور خوب نشو و نما پائیں کیونکہ یہی تو ہیں جن کے ساتھ دنیا کا امن وابستہ ہو چکا ہے دنیا کا نیک انجام اب ان پر اپنی بناء رکھتا ہے.یہ قائم رہیں گے تو دنیا کا نیک انجام قائم رہے گا، اس کی امیدیں قائم رہیں گی.اگر یہ کمزور ہو گئے یہ مٹ گئے تو دنیا کے نیک انجام کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے.پس اپنی قدروں کو جو اس آیت کے حوالے سے میں نے آپ پر کھولی ہیں ان کو پہچا نو اور ہر وہ اندھیرا جس کا ان آیات میں بیان ہوا ہے اس کے قلع قمع کرنے ، اس کو اپنے سینے سے نوچ پھینکنے کی کوشش شروع کر دو اور یہ تفصیل اس لئے میں بیان نہیں کر سکتا بعض پہلے خطبوں میں میں نے بسا اوقات تفصیل سے بھی یہ بیماریاں بیان کی ہیں اس لئے کہ اگر ایک دفعہ شروع ہو جائے تو یہ سلسلہ پھر ختم ہی نہیں ہو گا.انسان کس کس قسم کی اندرونی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہے کیسی کیسی غلط فہمیاں اپنی ذات کے متعلق رکھتا ہے اپنی اولاد کے متعلق رکھتا ہے، اپنے پیاروں سے جو امیدیں.وابستہ کر لیتا ہے، اپنے دشمنوں کے متعلق کیا کیا غلط رویے اختیار کرتا ہے، ایسا مضمون ہے جو ساری انسانی زندگی پر محیط ہے.کس کس کو بیان کروں اور کس کس کو چھوڑوں.اس لئے اصولاً میں نے آج آپ کے سامنے وہ خلاصہ پیش کر دیا ہے جو قرآن کریم نے نکالا ہے.تین قسم کے اندھیرے ہیں جو اگر تم پر چھا گئے تو تمہارے کانوں پر بھی مہر لگ جائے گی ، تمہارے دلوں پر بھی مہر لگ جائے گی اور تمہاری آنکھوں پر پردے پڑ جائیں گے.پھر دیکھ بھی نہیں سکو گے کہ تمہارا مفاد ہے کس چیز میں.دیکھو گے بھی تو غلط فیصلے کرو گے کیونکہ قوت ادراک بیمار ہو چکی ہوگی.دل وہ قوت ادراک ہے جوان پیغامات کو پرکھتا ہے اور ان سے نتائج اخذ کرتا ہے جو آنکھ یا کان کے سوراخ سے انسان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور بھی ذرائع ہیں مگر یہی دو ہیں جن پر بناء ہے، اصل ہے فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا
خطبات طاہر جلد 15 310 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء (الدھر: 3) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب سے بڑا احسان جو انسانی نفس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ دیکھو تم ماں کے پیٹ میں کس حیثیت میں تھے اندھے.تین قسم کے اندھیروں میں گھرے ہوئے.اب وہاں بھی دیکھو تین اندھیروں کا ذکر ملتا ہے اور اچانک کیا دیکھتے ہو کہ تم ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہو.فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا اس بچے کو ہم نے سمیع بھی بنا دیا اور بصیر بھی بنادیا.وہ سنے بھی لگ گیا اور دیکھنے بھی لگ گیا اور سمیع کو پہلے رکھا ہے اور بصیر کو بعد میں.اس میں اور بھی حکمتیں ہیں مگر ایک یہ بھی ہے کہ ماں کے پیٹ سے بچہ پہلے سننا شروع کرتا ہے بعد میں دیکھنے لگتا ہے اور شروع میں ماں کے پیٹ میں بچے کا بیرونی دنیا سے رابطہ صرف کان کے ذریعے ہے اور جب باہر نکلتا ہے پھر آنکھیں کھلتی ہیں ورنہ پیٹ میں تو آنکھیں ہوں بھی تو دکھائی کچھ نہیں دیتا اندھے کا اندھا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا باہر آیا تو ہم نے اسے سنے والا بھی بنا دیا اور دیکھنے والا بھی بنادیا اور آواز کے ذریعے ماں کے پیٹ میں پیغام دینے کا نظام خدا تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے اسی لئے اس زمانے میں دعاؤں کا ذکر ہے ذکر الہی کا ذکر ہے کیونکہ بچہ ان باتوں کوسنتا ہے اور بسا اوقات جو ماحول میں شور پڑ رہا ہے اس سے بداثر قبول کرتا ہے.ماحول میں پرسکون باتیں ہو رہی ہیں اس سے سکون حاصل کرتا ہے اور اب تو سائنس دانوں نے اس کی تحقیق کر کے اسے واہمے کا حصہ نہیں بلکہ ایک حقیقت میں سائنسی دریافت کا حصہ بنالیا ہے قطعی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے.تو سَمِيعًا بَصِيرًا ہے یہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے انسان تمام ماحول گردو پیش بلکہ بہت دور دور کی باتیں بھی اخذ کرتا ہے اور لیکن اگر اندر اس کے تجزیے کے لئے دماغ نہ ہو تو آنکھیں کھلی ہیں، کان موجود ہیں لیکن کہتے ہیں جی اس کا دماغ Dead ہو گیا ہے آکسیجن جانی بند ہوگئی اور وہ دماغ جس نے ساری کمپیوٹنگ کرنی تھی وہ کرنے سے عاری ہو گیا حالانکہ آنکھ دیکھ رہی ہے کان سن بھی رہے ہیں ان کا نتیجہ کو ئی نہیں نکل رہا.وہی آنکھ اندھی نہیں ہوئی ہوتی بلکہ جو دیکھتی ہے اس کا پیغام اندر نہیں پہنچتا جو وہ کان سنتے ہیں اس کا کوئی مقصد دماغ حاصل نہیں کرتا کہ کیا سنا جا رہا ہے.یہی نقشہ ہے قرآن کریم نے جو کھینچا ہے کہ پھر ایسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اندھے ہو جاتے ہیں ، وہ بہرے ہو جاتے ہیں، ان کے دل مہر زدہ ہیں ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ جو کچھ گردو پیش میں دیکھ رہے ہیں اس سے استفادہ کر سکیں.
خطبات طاہر جلد 15 311 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء پس ان خطرات کے خلاف آپ بیدار ہو جائیں اپنے آپ کو ان پیغامات کے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ زندہ رکھیں کیونکہ اگر یہ صلاحیت مرگئی تو آپ مر جائیں گے.وہ پیغامات جو آپ کے کان سنتے ہیں وہ پیغامات جو آپ کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں ان دونوں صلاحیتوں کو زندہ رکھیں تو لازم ہے کہ آخر پر جو ان سے نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ نتیجہ نکالنے کی صلاحیت کو بھی زندہ رکھا جائے ورنہ فائدہ کچھ نہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ہی چیز کچھ لوگ دیکھتے ہیں دو مختلف نتیجے نکالتے ہیں اور وہاں دل کی مہر کی بات کھل کر سامنے آجاتی ہے.بہت سے بچے ہیں جن کے مزاج اس لئے بگڑے ہیں کہ انہوں نے ٹیلی ویژن کے اوپر جرائم دیکھے ہیں اور قتل و غارت دیکھا ہے اور فخر دیکھا ہے کہ اس طرح کسی نے کسی کو مارا اور پھر فخر کرتا ہو وہاں سے نکل گیا.وہ بچے ایسے بھی ہیں ،اکثر آج کل کی دنیا میں ایسے بچے ہیں جو اس کو اپنا طمح نظر بنا لیتے ہیں کیونکہ ان کو روز مر وہ اپنے گھر میں تفاخر کی عادت ہوتی ہے چھوٹے بچے کو Bully بنانے کی عادت پڑی ہوئی ہوتی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بغلیں بجانے کی عادت پڑی ہوئی ہوتی ہے.پس وہ بیج جو بچپن ہی سے گھر میں بیمار بن کر اٹھ رہا ہے اس سے جب کونپلیں پھوٹیں گی تو ضرور بیمار پھوٹیں گی.بارش تو ایک ہی طرح کی ہے مگر بعض جگہ زہر یلے پودوں کی نشو ونما کو بڑھاتی ہے بعض جگہ اچھے پودوں کی صحت مند پودوں کی نشو ونما کو بڑھاتی ہے.پس ایسے بچے جب وہ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں اچھا یہ بات ہوئی اور اگر وہ پکڑا گیا بے ایمان تو کہتے ہیں ہم نے یہ چالا کی کرنی ہے، ہم نہیں پکڑے جائیں گے اور ارادے کر کے بچپن سے ہی دلوں میں جرموں کی تمنائیں پالنے لگتے ہیں اور جب بڑے ہو کر باہر نکلتے ہیں تو پھر ان سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے.کچھ ایسے شریف النفس بچے بھی ہیں جن کے گھر کا ماحول پاکیزہ ہے اور پیارا ہے وہ ان کو دیکھ کر متنفر ہوتے ہیں ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہمیں توفیق ملے تو ہم ایسے ذلیل لوگوں کو پکڑ کر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کریں گے.وہ جو جوابی کارروائی کرنے والی طاقتیں ہیں ان کا دل ان کے ساتھ ہو جاتا ہے اور یہ فیصلہ گھروں میں ہو رہا ہے.آپ نے جس طرح اپنے بچوں کو پالا ہے آپ ہی اگلی قوم کے اگلے حصے کی تقدیر بنارہے ہوتے ہیں ٹیلی ویژن وغیرہ تو بعد میں آئیں گے.بچپن سے آپ کے رجحانات کو بچے جو پڑھتے ہیں آپ کی اداؤں کو جو دیکھتے ہیں یہ جانتے
خطبات طاہر جلد 15 312 خطبہ جمعہ 19 اپریل 1996ء ہیں کہ آپ کا حقیقی لطف کس چیز میں ہے.دنیا کی دولت میں ہے یا اچھی پیاری باتوں کے تذکرے میں ہے.خدا اور رسول کے ذکر میں آپ کو مزہ آ رہا ہے یا بے ہودہ باتوں میں.ایسے لوگ اپنے بچوں کی تقدیر بنادیتے ہیں خواہ ان کا ارداہ ہو یا نہ ہو خود بخود بنتی ہے.اب یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہماری نئی نسل کے لئے اللہ تعالیٰ نے MTA کا نظام جاری فرما دیا اور اب وہ بگڑے ہوئے ماں باپ جن کی دلچسپیاں دوسری ہیں اپنے بچوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں یعنی منفی رنگ میں اثر انداز ہونے کی اور بچوں کو عادت پڑ گئی ہے احمد یہ ٹیلی ویژن کی.اب ماں باپ دوسری لگانے لگیں تو کہتے ہیں نہیں بالکل نہیں لگانی ہم نے تو یہی دیکھنی ہے اور بعض ماں باپ کی اصلاح بچے شروع کر چکے ہیں.تو یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے جب عالمی ذمہ داریاں ہم پر ڈالی ہیں تو عالمی ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنے کے سامان بھی وہ خود فرما رہا ہے.اور میں تو محض قرآن کریم کی نصیحتوں کی طرف اشارے کر کے آپ کو بار بار متوجہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں مگر مجھے دل میں یقین ہے کہ خدا کے ہاں آسمان پر یہ فیصلے ہو چکے ہیں.اللہ کی یہ تقدیر خوب کھل کر ظاہر ہوگئی ہے کہ آج دنیا کی تقدیر جماعت احمدیہ سے وابستہ ہو چکی ہے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین اور آپ کی سنت کا غلبہ اب اگر دنیا میں ہوگا اور ضرور ہوگا تو جماعت احمد یہ ہی کی خاطر ہو گا جماعت احمدیہ کے وسیلے سے ہی ہوگا.پس اپنے دل کو ہر قسم کی ظلمات سے پاک وصاف کر لیں تا کہ محمد مصطفی میں ﷺ کا نور جو آپ نے تمام تر خدا سے پایا ہے وہ ہمارے سینوں کو روشن کر دے، منور کر دے اور ہمیشہ کے لئے وہاں اپنی جگہ بنالے تا کہ ظلمات پھر ان سینوں میں جھانک بھی نہ سکیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 313 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء جب بھی خدا کے لئے خرچ کریں اپنے دل کو ٹولیں اور دیکھیں اس میں کتنی محبت پھوٹی ہے.(خطبه جمعه فرموده 26 را پریل 1996 ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُنْفَقُوا مَّا رَزَقْنَهُمُ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِي يَوْمُ لا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلل پھر فرمایا: (ابراہیم : 32) آج چھبیس (26) اپریل ہے اور چند دن پہلے شیخ ناصر احمد صاحب سوئٹزر لینڈ والے جو ہمارے سلسلے کے پرانے مبلغ رہے ہیں اور ساری عمر خدمت دین میں انہوں نے صرف کی ہے ان کو بہت سی باتیں ایسی ہیں جو یا د رہتی ہیں اور وقت پر یاد دلاتے بھی رہتے ہیں چنانچہ ان کا خط آیا کہ وہ 26 اپریل کا دن طلوع ہونے والا ہے جو منحوس بھی تھا اور بہت مبارک بھی تھا اور واقعہ یہی ہے کہ اس دن کی اس سے بہتر تعریف نہیں ہو سکتی کہ ایک ایسا منحوس دن طلوع ہوا جو بہت ہی مبارک ثابت ہوا مگر بیک وقت بعضوں کے لئے منحوس اور بعضوں کے لئے مبارک.آج جمعہ کا دن ہے اور چھبیس (26) اپریل کا وہ دن ہے جب 1984ء کو ضیاء الحق پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر نے ایک ظالمانہ آرڈینینس کے ذریعے جماعت احمدیہ کی آزادیاں چھینیں اور ان آزادیوں کی چوٹ آزادی ضمیر پر تھی.اصل میں پیغام حق سنانے پر ضر میں لگائی گئی تھیں.ہرممکن کوشش کی گئی تھی کہ جماعت احمدیہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا اعلان
خطبات طاہر جلد 15 314 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء کرنے سے روک دیا جائے اور زبان کی حد تک یہ پابندیاں نہیں لگائی گئیں بلکہ یہاں تک بھی اس آرڈنینس میں ان پابندیوں کو سخت کرنے اور احمدیوں کو جکڑنے کا خیال رکھا گیا کہ کوئی احمدی اپنی طرز سے بھی ،اگر بولے نہ بھی محض اپنی طرز زندگی ہی سے مسلمان دکھائی دے تو یہ بھی اس کا جرم ہوگا تاکہ احمدیت کا اسلام سے تعلق کلیہ ہر پہلو سے کاٹ دیا جائے صوتی لحاظ سے بھی اور تصویری لحاظ سے بھی.یہ اس آرڈینینس کا آخری مقصد تھا اور اس کے بعد جو حالات رونما ہوئے ہیں اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے منحوس دن ثابت ہوا ہے.اس دن کے بعد پھر پاکستان کی ساری برکتیں ایک ایک کر کے اٹھائی گئیں.ہر اچھی بات پاکستان سے رخصت ہوئی جیسے پرندہ گھونسلے کو چھوڑ دیتا ہے ویسے ہی ہر نیکی، ہر خوبی، ہر اعلیٰ قدر پاکستان کو چھوڑنے لگی اور اب وہ فسادات کا ایک ایسا اکھاڑہ بن گیا ہے کہ نہ دوست کو دوست پر اعتبار رہا ہے نہ دشمن سے کسی خیر کسی انسانی قدر کی کوئی دور کی توقع بھی کی جاسکتی ہے.کوئی قانون حائل نہیں رہا، کوئی انسانی قدر کا ضابطہ حیات ایسا نہیں جو پاکستان کے عوام کو دوسرے عوام کے حقوق سلب کرنے سے باز رکھ سکے.ہر ایک کی کوشش ہے اور کھلی کوشش ہے ایک انگریزی محاورہ ہےFree for allاب آئے دن اخباروں میں یہ خبریں شائع ہوتی ہیں کہ حکومت کی غنڈہ گردی ہے یا عوام کی غنڈہ گردی ہے یا کسی سیاسی پارٹی کی غنڈہ گردی ہے یا بعض مفاد پرستوں کی غنڈہ گردی ہے کسی نہ کسی ایک کی غنڈہ گردی کے الزام تو آپ کو ملتے ہیں اور حقیقت میں اس کے دفاع میں کبھی بھی کوئی قطعی ثبوت پیش نہیں کیا گیا.سب کی ہے، سارے ملوث ہیں Free for all ہے اور مظالم کی داستان ایسی بھیانک ہے کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.چھوٹے بچوں پر مظالم ، ناموس کی حفاظت کرنے والے اداروں کا غریبوں اور بے کسوں کی ناموس سے کھل کھیلنا اور ایسے ظالمانہ طریق پر ان کی عصمتوں کو پامال کرنا کہ دنیا کے کسی ملک میں جہاں جنگ جاری نہ ہو عام امن کے حالات ہوں ایسے واقعات آپ کو دکھائی نہیں دیں گے.ساری دنیا کے جغرافیہ پر نظر ڈال کر دیکھ لیں اس طرح آئے دن ان اداروں کی طرف سے جو اس بات پر مامور ہیں کہ وہ انسانوں کی عزت، مال، جان، مکان کی حفاظت کریں گے ان کی طرف سے عزت، جان ، مال اور مکان پر ایسے حملے ہور ہے ہوں بلکہ ان سے بڑھ کر معصوم عورتوں کی ناموس پر ایسے حملے ہورہے ہوں کہ کھلم کھلا بازاروں اور گلیوں میں شیطانی
خطبات طاہر جلد 15 315 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ناچ ناچے جائیں اور کوئی نہ ہو جو ان کو روک سکے.یہ ساری نحوستیں اس دن کی نحوستیں ہیں اور مسلسل بڑھ رہی ہیں.کوئی تحریک ان کو روک نہیں سکتی، کوئی عدالتی کوشش ان کو روک نہیں سکتی، کوئی قانونی کوشش ان کو روک نہیں سکتی ، کوئی سیاسی پروگرام ان بد بختوں کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایسے انسان، ایسے بد بخت دل کی کمائی ہوئی بدبختیاں ہیں جس نے خدا کی ناراضگی مول لی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قوم کی قوم مول لے لے، صرف ایک شخص نہیں اس کی متابعت میں ساری قوم قبول کر لے تو اس کو پھر کوئی بچانے والا نہیں.پس آج کے دن سب سے پہلی جو تنبیہ ہے اور ضروری ہے کہ اس تنبیہ کو بار بار دہرایا جائے وہ یہی ہے کہ میں اپنی قوم کو متنبہ کرتا ہوں ، ان کے دانشوروں کو، جن میں کچھ دانش باقی ہے کہ غور کر کے دیکھیں تو سہی کہ ان سارے ظلموں کی جڑ ہے کہاں؟ 26 اپریل کے دن جو منحوس فیصلہ ہوا ہے ان تمام خوستوں کی جڑ اس فیصلے میں ہے اور اس کا ایک قطعی ثبوت یہ بھی ہے کہ جس نے خدا کے نام پر اور اسلام کی محبت کا دعویٰ کر کے اور ایک خادم اسلام کا روپ دھار کر یہ کارروائی کی خدا کی تقدیر نے اس کے پر نچے اڑا دیے اس کی خاک اڑ گئی اس کا نام ونشان باقی نہیں رہا.ایک بھیا نک آواز کے ساتھ وہ آسمان پر پھٹا ہے اور اس کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں مل کر بگولوں کی نظر ہو گیا.ایک جبڑے کا نشان ہے مگر وہ بھی مصنوعی ہے جس کو ڈ نچر کہتے ہیں اس کے سوا اس کا کوئی نشان باقی نہیں.تو کیا اللہ تعالیٰ اپنی محبت میں قربانیاں پیش کرنے والے، اپنے دین کے دفاع کے لئے عظیم کارنامے کرنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کیا کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کی انگلی نے تو نشاندہی کر دی ہے، دکھا دیا ہے کون بد بخت تھا، کس کی نحوست ہے جو آج تک ساری قوم پر چھائی ہوئی ہے.جب تک اس فیصلے کو تبدیل نہیں کرو گے تمہارے دن پھر نہیں سکتے ناممکن ہے.مگر یہ ایک بابرکت دن بھی تھا اور اس کی برکتیں اسی آسمان سے نازل ہو رہی ہیں جس آسمان نے اس ظالم کی خاک اڑادی اور دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہیں.یہ MTA جسے ہم کہہ رہے ہیں یہ حقیقت میں وہ آسمان سے نازل ہونے والی برکتیں ہیں جو نور کی صورت میں اتریں اور اتر رہی ہیں اور تصویروں میں ڈھل رہی ہیں اور آوازوں میں ڈھل رہی ہیں اور دن بدن زمین کے کناروں تک یہ تصویر میں اور یہ آوازیں پہنچتی چلی جا رہی ہیں.پہلے سے زیادہ عمدگی اور قوت کے
خطبات طاہر جلد 15 316 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ساتھ ان کے پہنچانے کے انتظامات ہو رہے ہیں اور اب تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جیسا کہ یورپ میں چوبیس گھنٹے MTA کا نظام جاری ہوا اور ہر لمحہ جب بھی کوئی احمدی اپنا ٹیلی ویژن on کرے گا یعنی کھولے گا اسے اسلام کی حمایت میں کوئی نہ کوئی آواز اٹھتی ہوئی دکھائی دے گی، کوئی نہ کوئی دینی پروگرام ضرور دکھائی دے گا.آج کے دن میں اہل پاکستان اور اہل ہندوستان اور اہل بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک کو یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ آج کے دن ایشیا کا پروگرام بھی چوبیس گھنٹے کا کیا جا چکا ہے.رات بارہ بجے جب کہ مغربی دستور کے مطابق ، جمعہ کا دن طلوع ہو رہا تھا وہ دن احمد یہ MTA کے چوبیس گھنٹے تک مشرق میں جاری رہنے کی خوشخبری لے کر طلوع ہوا ہے یعنی سورج کے لحاظ سے طلوع نہیں بلکہ دن کے حساب کے لحاظ سے وہ دن چڑھا ہے عین بارہ بجے اور اس وقت سارے مشرق میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدی MTA کا پروگرام چوبیس گھنٹے کا ہو چکا ہے.جو اس وقت پاکستان میں میری آواز سن رہے ہیں یا ہندوستان میں یا بنگلہ دیش میں اس غلطی سے اپنے ٹیلی ویژن بند نہ کریں کہ ساڑھے تین گھنٹے میں یہ پروگرام ویسے ہی ختم ہو جائے گا.اب رات کے جس حصے میں بھی چاہیں صبح کے جس لمحے میں بھی ان کے دل میں خواہش اٹھے صرف وہ اپنا سونچ On کریں اور ان کو خدا تعالیٰ کے فضل سے MTA کے پروگرام دکھائی دے رہے ہوں گے.امریکہ میں بھی یہ ہو چکا ہے اور ایک حصہ کچھ باقی ہے یعنی افریقہ کا وہ حصہ جس کے لئے ہمارا، جس کو کہتے ہیں عالمی نظام جس کے تحت افریقہ میں بھی اور باقی دیگر ممالک میں بھی یکساں آسمان سے نور کی بارش اترنی ہے اس میں ابھی کچھ تاخیر تھی اس وجہ سے افریقہ کو ہم نے ابھی شامل نہیں کیا لیکن یہ جو کوشش کی گئی کہ عارضی طور پر افریقہ بھی شامل ہو جائے اس کے رستے میں کچھ روکیں پڑتی رہیں اور بالآخر یہی بات بہتر نظر آئی کہ افریقہ کو عارضی انتظام میں شامل نہ کیا جائے لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے آپ کو یہ خوش خبری بھی سنا سکوں گا کہ وہ عالمی نظام جس کو وہ گلوبل ٹرانسمشن کہتے ہیں یعنی ایساTransponder جو پورے گلوب پر اپنی روشنی پھینکتا ہے اور وہ ہے بھی اس موجودہ نظام سے بہت طاقتور ، اس گلوبل نظام کے ذریعے یعنی کرہ ارض پر یکساں نورا تارنے کے لئے جب انشاء اللہ تعالٰی MTA پاکستان اور ہندوستان میں دکھائی دے گا تو
خطبات طاہر جلد 15 317 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء افریقہ کے ممالک میں بھی دکھائی دے گا اور آسٹریلیا میں بھی دکھائی دے گا اور جاپان میں بھی دکھائی دے گا، انڈو نیشیا میں بھی بالکل صاف اور واضح دکھائی دے گا.غرضیکہ شاید ہی کوئی ایشیا یا افریقہ کا ملک ایسارہ جائے جہاں وہ عام ڈش انٹینا پر صاف دکھائی نہ دے جہاں نہیں دے گا وہاں ذرا ڈش انٹینا کا سائز بڑا کرنے کی ضرورت ہوگی اور وہاں بھی وہ دکھائی دینے لگے گا.مگر اب تک جتنے بھی ایسے نظام جاری ہیں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جو عطا کیا ہے وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے اور کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے جو ہم لے سکتے اور پھر آئندہ ساڑھے پانچ سال تک کا معاہدہ ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب آئے دن کی یہ سردردی کہ Transponder بدلا ہے یا سیٹلائیٹ بدلا ہے اس لئے اب اپنی ڈشوں کے رخ بدلیں اس سے چھٹکارا مل جائے گا.یہ نظام انشاء اللہ اس صدی کے آخر تک بھی چلے گا اور انگلی صدی کا پہلا حصہ بھی دیکھے گا.چنانچہ اگلی صدی میں دو سال تک بلکہ اڑھائی سال تک یہ نظام جاری رہے گا.تو اس لئے میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں اور سمجھا رہا ہوں کہ خدا کی تقدیر بعض دنوں کو بیک وقت منحوس بھی بناتی ہے اور بابرکت بھی بناتی ہے اور ایک ہی دن کا منحوس ہونا، ایک ہی دن کا مبارک ہونا ، بعضوں کے لئے منحوس ہونا، بعضوں کے لئے مبارک ہونا یہ صداقت کا ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے جس پر انسان کا بس نہیں ہے، اسے کوئی اختیار حاصل نہیں.تقدیر ہی ایسے دن تراشا کرتی ہے.آسمان ہی سے وہ طاقتیں اترتی ہیں جو بعض گھروں اور بعض ملکوں پر نحوستیں بن کر اترتی ہیں اور بعض گھروں اور بعض ملکوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بن کر اترتی ہیں.اب دیکھنے والے کی آنکھ ہے جیسا بھی دیکھے یہ نشان تو کھلے کھلے ہیں روز روشن کی طرح بات ظاہر ہوگئی ہے.مگر جس نے نہ دیکھنا ہو اس کی آنکھیں اندھی رہتی ہیں.دعا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نور بصیرت عطا فرمائے ، دعا ہی ہے کہ اللہ ان کے دلوں کے تالے کھولے کیونکہ اس کے بغیر دیکھیں گے بھی تو اس کا فائدہ کوئی نہیں.سنیں گے بھی تو پیغام کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکیں گے.پس ایک تو یہ خوش خبری تھی جو میں نے آپ کو سنانی تھی.الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ اب ہم پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر مشرقی ممالک میں چوبیس (24) گھنٹے کا پہلا ٹیلی ویژن سٹیشن پیش کر رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی وہاں نہیں ہوا.بڑی بڑی حکومتیں ہیں، بڑے بڑے نظام جاری
خطبات طاہر جلد 15 318 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ہیں مگر چوبیس (24) گھنٹے مسلسل ٹیلی ویژن جو چوبیس (24) گھنٹے اللہ کا ذکر کرے، چوبیس (24) گھنٹے دینی پروگرام پیش کرے اس کی کوئی مثال دنیا میں پیش نہیں کی جاسکتی.وہ سیٹلائیٹ کے ڈائریکٹر جن سے گفت و شنید ہو رہی تھی ان سے ہم نے درخواست کی تھی کہ ہمیں جو آپ نے وقت دیا ہے اس سے پہلے کر دیں کیونکہ لوگوں کے شوق بڑے بڑھے ہوئے ہیں اور بھوک اتنی تیز ہو گئی ہے کہ اب ان سے برداشت نہیں ہوتا اور آئے دن خط ملتے ہیں کہ بس کرو، جلدی کرو اور جلدی کرو کب تک انتظار کراؤ گے.انہوں نے ایک خوشخبری یہ دی کہ یہ انتظام تو مکمل ہو گیا ہے اور دوسری خوشخبری یہ دی کہ وہ جو عالمی نظام تھا جس کو یہ کہتے تو ہیں کل گرہ کا لیکن عالمی نظام سے مراد صرف اتنا ہے کہ ایک طرف کا نصف گرہ زمین پورے کا پورا اس نظام میں شامل ہو جاتا ہے.پس اس کی بھی ساتھ انہوں نے یہ خوش خبری دی اور کہا کہ مزید خوش خبری یہ ہے کہ آپ سے جو ہم نے وعدہ کیا تھا کہ فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو یہ پروگرام شروع کریں گے ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ غیر معمولی حالات میں ہمیں توفیق ملی ہے کہ ایک مہینہ پہلے شروع کر دیں گے.اب اس پر پیغام سننے والے نے کہا میں آپ کا بے حد ممنون ہوں بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے اتنی اچھی خبر سنائی مگر مجھے اپنے بڑے ڈائریکٹر کا پتا دیں تا کہ میں ان کو شکریے کا خط لکھوں.انہوں نے جواب دیا شکریے کا خط ان کو کیا لکھو گے، جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے یہ تمہارے اللہ نے تمہارے لئے کیا ہے اس لئے شکریہ ادا کرنا ہے تو اپنے خدا کا کرو.ایک عیسائی جس کو دنیا میں بظاہر مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس سے معمولی سا واسطہ جماعت کا ہے وہ بار بار ایسے نشان دیکھ رہا ہے کہ اس کا دل یقین سے بھر گیا ہے کہ اللہ اس جماعت کے ساتھ ہے.پس اس کی طرف سے یہ پیغام اتنا پیارا لگا کہ میری آنکھیں جذبہ تشکر سے لبریز ہوگئیں، دل میں تو تھا ہی آنکھوں سے اٹڈ نے لگا کہ اللہ کی شان دیکھیں ایک عیسائی ڈائریکٹر امریکہ سے جہاں احمدیت کا کوئی خاص تعارف بھی نہیں ہے وہ اس موقع پر کہ ہم چاہتے ہیں اس کے بڑے ڈائر یکٹر کا شکریہ ادا کریں ہمیں بتا رہا ہے کہ ڈائریکٹر وائریکٹر کی کوئی بات نہیں ہے اپنے اللہ کا شکریہ ادا کرو جو تمہاری حمایت کر رہا ہے غیر معمولی حالات میں یہ باتیں ہورہی ہیں.پس آج ہی کے مبارک دن یہ خوشخبری بھی ہمیں ملی کہ خدا تعالیٰ دنیا کی آنکھیں کھول رہا ہے.ان کو دکھا رہا ہے مگر ” جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے جن کو نظر آنا چاہئے ان کو نہیں دکھائی دے
خطبات طاہر جلد 15 319 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء رہا.بالکل اندھے کے اندھے بنے بیٹھے ہیں.پس آج کے دن میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی قوم اور اپنے وطن کے لئے وہ جو پاکستانی ہیں دنیا میں جہاں بھی بستے ہوں پاکستان کی بقاء کی خاطر ان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہوش کی آنکھیں کھولے کیونکہ دن بدن یہ ملک اب ہلاکت ہی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ان کو دکھائی نہیں دے رہا.ان کو پتا نہیں لگ رہا کہ ہماری قوم کر کیا رہی ہے.اتنی مجرم ہو چکی ہے کہ نیکی، عدل، احسان کا تصور ہی اب اٹھ چکا ہے اور بے حیائی کے ساتھ عام باتیں ہوتی ہیں اس میں.اخباروں میں چرچے ہوتے ہیں اور کسی کو کچھ فکر نہیں.قاری صاحب ہیں قرآن کریم پڑھنے بچی آتی ہے اس کو اغوا کر کے دوڑے پھرتے ہیں ادھر ادھر اور واپس آکے جب لوگ پوچھتے ہیں کہ جناب قاری صاحب یہ کیا ہوا انہوں نے کہا کہ بس شیطان غالب آ گیا اتنی سی بات ہے کچھ بھی نہیں کوئی ایسا بڑا واقعہ نہیں ہوا یعنی ساری قوم پر ہی شیطان غالب آ رہا ہے تو وہاں ناموس رہے گی کیا.مگر اس دن کو میں اپنے ملک کے حالات کھولنے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتا وہ تو روز اخبار میں کھلتے ہی ہیں وہ پردہ دری جو خدا کر رہا ہے اس میں کسی مزید انسانی کوشش کی ضرورت نہیں ہے، دن بدن پردہ دری ہو رہی ہے اور دن بدن پردہ پوشی بھی ہو رہی ہے.یہ بھی ایک خدا تعالیٰ کی جاری تقدیر ہے کہ کہیں ستاری کے پر دے ڈالتا ہے کہیں سے ستاری کے پردے اٹھالیتا ہے.اور یہ آیت جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی.اس میں یہی مضمون بیان ہوا ہے.سِرًّا وَ عَلَانِيَةً کا.اس تعلق میں اس آیت کے ترجمے کے بعد میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس عظیم MTA کے عالمی نظام کے لئے جو مالی قربانی جماعت احمدیہ نے پیش کی ہے اور جس ولولے کے ساتھ آگے بڑھ بڑھ کر قربانی کی ہے اور جس تاکید کے ساتھ اپنے ناموں کو چھپانے کی درخواستیں کی ہیں.اس کی بھی کوئی مثال آپ کو دنیا کے پردے پر کہیں دکھائی نہیں دے گی.لوگ دس روپے کا نوٹ دیتے ہیں تو اونچا کر کے دکھا کے دیتے ہیں اور اگر کہیں کیمرہ ہو تو کیمرے کے سامنے اس کو کرتے ہیں کہ نظر آ جائے کہ اس نے دس روپے کا نوٹ پھینکا ہے اور لاکھ لاکھ ڈالر دینے والے بڑی منت سے درخواست کرتے ہیں کہ کسی کو خبر نہ ہو.آپ چندہ ادا کر دیں اور ہمیں مطلع کر دیں بس یہی بہت کافی ہے.کسی کو پتا نہ چلے کہ اس نے کیا دیا ہے.لاکھ لاکھ پاؤنڈ دینے والے دے کر چلے جاتے
خطبات طاہر جلد 15 320 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ہیں.مجھے ملتے ہیں مجھ سے بھی ذکر نہیں کرتے کہ یہ رقم ہم نے دین کی خاطر پیش کی ہے اور ہم آپ کو بتا دیں کہ ادائیگی کر چکے ہیں.بعد میں جب با قاعدہ عام رپورٹ ملتی ہے تو میں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ابھی کل پرسوں تو یہ لوگ مل کر گئے تھے کوئی اشارہ بھی ذکر نہیں کیا اور کھاتوں میں دبی ہوئی یہ رپورٹ نظر آ گئی ہے.یہ کیوں ہو رہا ہے؟.قرآن کریم نے اسی مضمون کو یہاں پیش فرمایا ہے.قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ کہہ دے کہ اے میرے بندو! الَّذِينَ آمَنُوا وہ لوگ جو ایمان لائے ہو.يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ نماز کو قائم کرو اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے ان کو عطا کیا ہے.سِرًّا وَ عَلَانِيَةً چھپ چھپ کر اور ظاہری طور پر بھی مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمُ لا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلل اس دن سے پہلے جس دن سب سودے بند ہو چکے ہوں گے.تجارتوں کے دفتروں کو تالے لگ جائیں گے.جیسے چھٹی کا دن آ جاتا ہے اور بینک بند ہو جاتے ہیں وہی نقشہ اللہ تعالیٰ کھینچ رہا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اس دن سے پہلے پہلے کر لو جب بینکوں کے دروازے مقفل ہو جائیں گے جب خدا کی راہ میں پھر کوئی تجارت قبول نہیں کی جائے گی اور کیسے خرچ کرو؟ مخفی ہاتھ کے ساتھ بھی اور کھلم کھلا بھی ، چھپ کر بھی اور علانیہ بھی.پسMTA کا نظام جو خاموش کہانی بتا رہا ہے ایک یہ کہانی بھی ہے کہ آج بھی خدا کے وہ بندے ہیں اور کثرت کے ساتھ ہیں اور دنیا کے ہر خطے میں ہیں جنہوں نے اتنا بڑا مالی بوجھ اٹھایا ہے مگر ایک آواز بلند نہیں کی کہ ہم ہیں جو یہ چندے دے رہے ہیں.ایک فہرست شائع نہیں ہوئی، ایک اعلان نہیں کیا گیا اور اس کے باوجود مسلسل وعدے آتے چلے جاتے ہیں، قربانیاں پیش ہوتی چلی جاتی ہیں، عورتیں ہاتھوں سے زیور اتارتی ہیں ، گلوں کے زیور نوچ پھینکتی ہیں اور خدا کی راہ میں پیش کرتی ہیں کہ ہمیں ان میں اب کوئی دلچسپی نہیں رہی اور کوئی شور نہیں ، کوئی مطالبہ نہیں بلکہ تاکید ہے کہ خاموش رہیں.وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ یہ بندے پیدا ہو گئے ہیں جن کی خدا نے اس قرآن کریم صلى الله میں یہ خوشخبری دی تھی اور محمد رسول اللہ ﷺ کوفرمایا تھا کہ اے محمد یہ ان سے کہہ دواے میرے بندویا عِبَادَ اللہ نہیں فرمایا عبادی فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی عظیم تفسیر فرمائی ہے فرماتے ہیں آنحضرت صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 صل الله 321 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء کا ایک عجیب مرتبہ ہے خدا کی کامل نمائندگی کا حق آپ کو دیا گیا اور چونکہ تمام عبادت کے حق ، تمام عبادت کے اسلوب بنی نوع انسان نے آپ سے سیکھے اس لئے خدا کی نمائندگی میں کہتے ہیں.لِعِبَادِی اے میرے بندو ! محمد مصطفی ﷺ کی سنت پر چل کر ان کے بندے بنو گے تو خدا کے بندے بنو گے یہ اس میں پیغام ہے اور دوسرا یہ پیغام بھی ہے کہ اگر میری غلامی اختیار کرتے ہو تو میں تو ایسا ہوں کہ خدا کی راہ میں سستا بھی خرچ کرتا ہوں علانیہ بھی کرتا ہوں، دن کو بھی کرتا ہوں رات کو بھی کرتا ہوں، مقصد اللہ ہے اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہے.تم بھی اپنی قربانیوں کو یہ رنگ دے دو پھر تم میرے عباد کہلا ؤ گے.پس اس آیت کا مضمون آج سب دنیا پر حیرت انگیز صداقت کے ساتھ جماعت احمدیہ کی قربانی کی صورت میں پیش ہو رہا ہے اب یہ ماضی کی باتیں نہیں رہیں آج بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے ایسے عباد ہیں جو آپ کے نقشے قدم پر چل کر وہ رنگ سیکھ گئے ہیں جو آپ کے رنگ تھے.آج بھی کروڑہا کی قربانیاں پیش کرنے والے ایسے خاموش ہیں کہ ان کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی مگر سارے عالم میں اللہ اور محمد کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں.یہ وہ قربانی کا رنگ ہے جو اسلام نے ہمیں سکھایا.پس اس سے زیادہ پیارا، اس سے زیادہ عظیم، اس سے زیادہ دائمی حسن والا مذہب اور کوئی دنیا میں نہیں ہے جو ہر وقت ، ہر زمانے میں اپنے پھل دیتا ہے اور محض تاریخی قصوں کے طور پر اپنی عظمتیں بیان نہیں کرتا مستقبل کے متعلق بھی بتاتا ہے کہ ایسا ہو گا آخرین میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوں گے اور ہو جاتے ہیں.اس مضمون کے تعلق میں میں آپ کو اب یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ خدا کی خاطر خرچ کرنا اور خاموش رہنا یہ آتا کیسے ہے اور کیسے اس اعلیٰ قدر کی حفاظت کی جانی چاہئے.وہ کیا کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں ہماری یہ صفت دائمی ہو جائے اور اس میں پھر کوئی تزلزل نہ آئے.سوال یہ ہے کہ جب بھی کوئی انسان اپنے عزیز مال کو کسی بات پر خرچ کرتا ہے تو کوئی مقصد اس کے پیش نظر ہوتا ہے.صرف پاگل ہے جو اسے پھینکتا ہے ورنہ کوئی ادنی سودا کرتا ہے کوئی اعلیٰ سودا کرتا ہے کوئی کم قیمت لے لیتا ہے کوئی زیادہ قیمت لے لیتا ہے مگر قیمت کے بغیر انسان مال خرچ نہیں کرتا.ہاں ایک قیمت ہے جو تحفے کا رنگ رکھتی ہے وہ قیمت ہے جس میں محبت ملتی ہے اور کوئی مادہ چیز ہاتھ نہیں بدلتی اور نہ تجارتوں میں اور نہ دوسرے سودوں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مادی قدر ہے جو روپے خرچ کرنے کے بدلے میں ملتی
خطبات طاہر جلد 15 322 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ہے آپ کہیں گے ٹیکس جب ہم دیتے ہیں تو کیا قدر ملتی ہے جب ٹیکس دیتے ہیں تو ساری قوم کی طرف سے جو تحفظ ملتا ہے جو بنی نوع انسان کے فائدے کے، رفاہ عامہ کے کام کئے جاتے ہیں ملکوں میں جو حفاظت کا نظام قائم ہے فوج اور پولیس کے ذریعے اور عدلیہ کے ذریعے ان کے پیسے کہاں سے آتے ہیں.وہی جو ہم ٹیکس دیتے ہیں اس کی قیمت ہے.پس یہ وہم ہے کہ ہم بغیر قیمت کے اپنا روپیہ پھینک سکتے ہیں سوائے ایک سودے کے جو محبت کا سودا ہے جو عشق کا سودا ہے اور اگر محبت اور عشق کا سودا خدا سے ہے تو پھر دنیا کو دکھانے کا کوئی تصور بھی ذہن میں نہیں آنا چاہئے ، نہ آ سکتا ہے کیونکہ وہ محبت کا تحفہ جو دنیا کو دکھا کر دیا جائے جس کو پیش کیا جاتا ہے اس کے ہاں قبول کے لائق ہی نہیں رہتا، اسے رڈ کر دیتا ہے کیونکہ ایک چیز کی آپ دو مختلف سمتوں سے قیمت وصول نہیں کر سکتے.جس کو بیچا ہے اس سے قیمت وصول کر سکتے ہیں لیکن ارد گرد کھڑے ہوئے گا ہکوں سے آپ اس کی قیمت وصول کر لیں اور بیچیں کسی اور کو یہ ناممکن ہے.پس جب بھی آپ خدا کی راہ میں چندہ دیتے ہیں تو یا درکھیں یہ چندہ اگر خدا کی خاطر اور اس کی محبت کی وجہ سے نہیں دیا جارہا تو آپ کا مال ضائع ہو گیا.یہ ایک ایسا سودا ہے جو پاگل کا سودا ہے اس نے روپیہ پھینکا اور اس کے بدلے میں اسے کوئی قدر بھی نصیب نہیں ہوئی.اسی لئے قرآن کریم ایسے لوگوں کو سب سے زیادہ گھاٹا پانے والا بیان فرماتا ہے.بڑے بیوقوف لوگ ہیں جس کے منہ کی خاطر یہ قربانی کی وہ منہ تو جیتا نہیں.اس منہ کا فیض تو پایا نہیں اور دنیا کی نظر میں وہ مال دکھا کر ان سے کچھ بھی ان کو نہ ملا سوائے اس کے کہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم قابلِ تعریف ہو گئے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ دکھاوا کرنے والا کبھی بھی قابل تعریف نہیں ہوتا.یہ عجیب بات ہے خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں ایک ایسا قانون بنا دیا ہے کہ دکھاوے کرنے والے کو کبھی بھی کوئی جز انہیں ملتی کیونکہ وہ لوگ جو دکھاوے کو دیکھتے ہیں دکھاوے کو سمجھتے بھی ہیں اور جہاں دل میں یہ شک گزرا کہ کوئی دکھاوا کر رہا ہے وہاں اس کی پہلی عزت ، پہلی قدر ومنزلت بھی دل سے اتر جاتی ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.وہ بے وقوفی میں سمجھ رہا ہے کہ میں نے اپنی بڑی شان کمائی ہے آج میں نے لوگوں کو دکھا کر ایک ہزار روپیہ خدا کی راہ میں پھینکا اور لوگ جو ہیں وہ منہ دوسری طرف کر کے یا ہنستے ہیں یا حقارت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں یا گھروں میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں بڑا بے وقوف آدمی ہے یہ بھی کوئی طریق ہے چندہ دینے کا.صاف نظر آ رہا تھا کہ ریا کاری ہے،
خطبات طاہر جلد 15 323 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء دکھاوا ہے، دنیا کے کھیل ہیں اس سے زیادہ کوئی بھی حقیقت نہیں.پس نہ دنیا کمائی جاتی ہے نہ دین کمایا جاتا ہے نہ انسان کی محبت جیتتا ہے ایسا شخص نہ اللہ کی محبت حاصل کرتا ہے: نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے یہ شعر ہے جو ایسے لوگوں کے حال پر صادق آتا ہے پس اللہ تعالیٰ بار بار قرآن کریم (مرزا صادق شرر ) میں سدا کے ساتھ علانیہ کا بھی ذکر فرماتا ہے.سوال یہ ہے کہ اگر میسا ہی ضروری ہے اور اس قدر کی حفاظت کے لئے لازم ہے کہ ہم چھپا کر پیش کریں تا کہ ہمیں یقین رہے کہ خدا د یکھ رہا ہے اور یہی کافی ہے.اگر اس یقین سے ہمارے دل سرور سے بھر جاتے ہیں تو پھر ہمیں علانیہ کا حق ہے ورنہ نہیں اگر ہمارے مخفی ہاتھ کی قربانی ہمیں پوری لذت عطا نہیں کرتی بلکہ خلا سا محسوس کرتے ہیں تو پھر اگر ہم نے علانیہ قربانی کی تو مخفی قربانی میں جتنا نیکی کا حصہ تھا وہ بھی ضائع ہو جائے گا کیونکہ علانیہ پھر جب جائے گا وہ نیت کے اندر ایک بیماری کا کیڑا ہے جو بالآ خر نیت کو کھا جاتا ہے.پس قرآن کریم نے سیڈا کو اس لئے پہلے رکھا ہے اور عَلَانِيَةً کو اس لئے بعد رکھا ہے کہ یاد رکھو مخفی قربانی اصل ہے.خدا کی خاطر ، صرف خدا کی خاطر قربانی کرو کوئی اور دیکھے نہ دیکھے تمہاری بلا سے کوڑی کا بھی فرق نہ پڑتا ہو.ہاں کبھی یہ فرق ضرور پڑ جائے کہ دیکھے تو تمہیں تکلیف محسوس ہو، کسی کو علم ہو تو تم بے چینی محسوس کرو.یہ سرا کی قربانی ہے اور ایسی قربانی کرنے والوں کی علانیہ قربانی ہر خطرے سے محفوظ ہو جاتی ہے بلکہ بعض زائد فائدے اپنے اندر رکھتی ہے.پھر ایسے لوگ جو کمزور ہیں جن کو پتا نہیں کہ لوگ بڑھ بڑھ کر کیسی قربانی کر رہے ہیں ان کے اندر جو استباق کی روح ہے وہ بیدار نہیں ہوتی.علانیہ کے نتیجے میں دو باتیں پیدا ہوسکتی ہیں اول دکھاوے کی خاطر قربانیاں کرنا.اس کو تو خدا رڈ ہی کر چکا ہے جب سیڈا کا ذکر پہلے کر دیا تو دکھاوے کا دور کا بھی تصور اس آیت کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا.پھر علانیہ کا دوسرا فائدہ کیا ہوتا ہے وہ یہ کہ ایک دوسرے سے نیکیوں میں بڑھنے کا جو حکم قرآن کریم نے دیا ہے وہ حکم انسان کو جھنجھوڑ کے جگا دیتا ہے.انسان کہتا ہے میں تو غفلت میں پڑا رہا، میرا فلاں بھائی خدا کی راہ میں اتنا آگے بڑھ گیا.اس نے یہ قربانی پیش کر دی وہ قربانی پیش کر دی.تو
خطبات طاہر جلد 15 324 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ اپنی سابقہ سنتی اور غفلت کے ازالے کی خاطر ایسا شخص بیدار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثرت کے ساتھ ایسے لوگ پیدا ہونے لگتے ہیں کہ جب وہ بیدار ہوتے ہیں تو پھر دکھاوے کی خاطر علانیہ قربانی سے بات شروع نہیں کرتے بلکہ مخفی قربانی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور مخفی قربانی میں لذت پاتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کو پھر خدا بعد میں علانیہ کی بھی توفیق بخشتا ہے.مگر اگر اعلان ہی نہ ہو، اگر پتا ہی نہ ہو قوم میں کیسے کیسے قربانی کے مظاہرے ہورہے ہیں تو قوم کا ایک بڑا حصہ اپنی لاعلمی اور غفلت میں سویار ہے گا اور اسے خدا کی راہ میں قربانی پیش کرنے کی تحریک ہی نہیں ہوگی.یہ وہ حکمت ہے جس کے پیش نظر قرآن کریم نے سڑا کے ساتھ عَلَانِيَةً کا مضمون لگایا اور آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ایسا کیا.قُلْ لِعِبَادِی میں یہ مضمون ہے کہ محمد رسول الله الله اعلان کریں لوگوں میں کہ اے میرے بندو! میں اسی طرح کرتا ہوں تم بھی ایسا کرو.عبادی کہہ کر میں ایسے کرتا ہوں“ کا مضمون بیچ میں شامل کر دیا.تم نے مجھے آقا مانا ہے، مجھے مالک بنا بیٹھے ہو.اپنا سب کچھ میرے سپرد کر دیا ہے میرے ہاتھ پر اپنی ہر چیز کا سودا کر لیا ہے تو پھر جیسے میں کرتا ہوں ویسا تم بھی تو کرو.میں ایمان لایا خدا پر نماز کے حق کو قائم کیا اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں مخفی طور پر بھی اور کھلے طور پر بھی.پس آنحضرت ﷺ کا ایک منفی ہاتھ تھا اور وہ ایسا مخفی ہاتھ تھا کہ حدیثوں میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا کیسے وہ ہاتھ چلتا تھا، سوائے اللہ کے کسی کو خبر نہیں لیکن اگر وہ کھلا ہاتھ لوگوں کے سامنے نہ آتا تو صحابہ کی کثیر جماعت قربانیوں سے محروم رہ جاتی.وہ ہاتھ جو آج تک ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے اور قربانی کی دعوتیں دے رہا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہمیں بلاوے بھیجتا ہے.اکثر وہ کھلا ہاتھ ہے جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے اور نبوت سے پہلے بھی آپ کا کھلا ہاتھ اسی طرح چلتا تھا.حضرت خدیجہ سے جب آپ کا عقد ہوا ہے تو جو کچھ دولت حضرت خدیجہ کی تھی وہ آر نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈال دی اپنے لئے کچھ بھی نہیں رکھا اور جو کچھ آپ نے حاصل کیا وہ تمام تر ضرورت مندوں اور غرباء میں تقسیم کر دیا اور نہ اپنے پاس کچھ رہنے دیا نہ خدیجہ کے ہاتھ میں کچھ رہنے دیا.ہاں وہ فن تجارت تھا جو وقتاً فوقتاً دولت کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے.اس سے خدا تعالیٰ نے پھر اور برکتیں ڈالیں مگر یہ ایک علانیہ خرچ تھا یہ کوئی بندھا ہوا چھپا ہوا خرچ نہیں تھا.یہ وہ خرچ ہے جس کی یاد آج تک دلوں کو کسمساتی رہتی ہے، اس کے اندر مزید قربانیوں کی تحریک پیدا کرتی الله رض
خطبات طاہر جلد 15 325 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء چلی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ جو کھلا ہاتھ چلتا تھا جس کا ذکر رمضان کے مہینے کے خطبات میں میں نے کیا صحابہؓ کہتے ہیں اس طرح خرچ کرتے تھے جیسے ایک تیز چلنے والی ہوا آندھی بن جائے.بہت ہی حیرت انگیز قربانیاں، مالی قربانیوں کے نمونے آپ دکھایا کرتے تھے لیکن دکھاتے تھے خدا کی خاطر، بندے کی خاطر نہیں.آپ کا دل سیسا میں تھا اسی لئے راتوں کا اکثر حصہ جاگتے تھے جب کوئی آنکھ آپ کو نہیں دیکھ رہی ہوتی تھی.پس یسرا کا ذکر نماز کے بعد کرنا ایک یہ بھی معنی رکھتا ہے.اوّل تو عبادت کو ویسے ہی انفاق سے پہلے کا حق ہے یعنی مرتبہ اس کا ایسا ہے کہ انفاق سے پہلے ہی اس کا بیان ہونا چاہئے تھا مگر جس کی عبادتیں ایسی ہوں کہ جو سرا بھی ہوں اور عَلَانِيَةً بھی ہوں راتوں کو اٹھ کر بھی ہوں اور دن کی روشنی میں بھی ہوں اس کو حقیقت میں انفاق فی سبیل اللہ کا سلیقہ بھی سرًّا وَ عَلَانِيَةً آتا ہے اور وہ کر سکتا ہے.جس کی نمازیں صرف دکھاوے کی ہوں وہ بے چارہ کہاں خدا کی راہ میں مخفی خرچ کر سکے گا.پس جس نے اپنی راتوں کو چھپ کے جگایا ہواس کی مخفی قربانی واقعہ خدا کی خاطر ہے اور کسی سوچ و بچار کسی منطقی فارمولے کا نتیجہ نہیں بلکہ دل کا کاروبار ہے اور یہ بھی ایک خاص بات قابل توجہ ہے کہ محبت کے کاروبار اپنے اندر اخفاء رکھتے ہیں اور اخفاء کو پسند کرتے ہیں.پس ایسا تحفہ کسی کو دیا جائے کہ کسی دوسرے کو کانوں کان خبر نہ ہو اور اس کی رضا انسان جیت جائے اور کسی کو پتا ہی نہ ہو کہ کیسے جیتی گئی.یہ محبت ہی کا کرشمہ ہے، اس کے بغیر ہو نہیں سکتا.پس یہ وہ بات ہے جو میں آج آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں ، ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں اس کو کبھی نہ بھولیں ورنہ یہ ہمارے اطوار یہ اعلیٰ نمونے جو خدا نے ہمیں عطا کئے ہیں یہ رفتہ رفتہ ہمارے ہاتھوں سے ضائع ہو جائیں گے.جو بھی مالی قربانی کرتے ہیں اللہ کی محبت کے نتیجے میں کریں محض ذمہ داری ادا کرنے کی خاطر نہیں یا محض ثواب حاصل کرنے کی خاطر نہیں.ایک انفاق فی سبیل اللہ ثواب کی خاطر بھی ہوتا ہے.اس انفاق فی سبیل اللہ کو اللہ تعالیٰ تجارت کہہ کر بیان فرماتا ہے.هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابِ اَلِيْمِ (القت:11) وہ تجارت کے سودے ہیں جس میں یہ سودا ہے کہ عَذَابِ اَلِیمِ سے بچایا جائے اور اس میں انسان غور کرتا ہے فکر کرتا ہے کہتا ہے دیکھو خدا کی خاطر قربانی کا وقت ہے میرے گناہ بخشے جائیں گے میری کمزوریاں دور ہوں گی.کئی قسم کے ایسے ذہن میں مفادات رکھتا ہے جن کو قربانی سے وابستہ کرتا ہے یہ ہے تو
خطبات طاہر جلد 15 326 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء تجارت ہی مگر مقبول تجارت ہے وہ تجارت ہے جسے اللہ محبت کی نظر سے دیکھتا ہے.مگر جس سودے کی بات میں کر رہا ہوں وہ خالصتاً محبت کا سودا ہے جیسے مائیں اپنے بچوں کے لئے کرتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بعض عاشق اپنے محبوبوں کے لئے کرتے ہیں ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ دنیا میں کسی کو علم ہوا ہے کہ نہیں ہوا.ہاں یہ فکر ہوتا ہے کسی اور کو علم نہ ہو جائے.پس یہ محبت کا سودا ہے جو خدا سے کریں تو پھر آپ کو یسرا قربانی کا لطف عطا ہوگا اور یہ لطف آپ کو ہمیشہ کے لئے ایسی قربانی کا Adict کر دے گا.اس کا ایسا عادی بنادے گا کہ اس نشے سے پھر آپ کو چھٹکارا مشکل ہو جائے گا.پس خدا کے لئے جو کچھ بھی کریں اس کی محبت میں کریں اور اگر محبت کا جذ بہ اس وقت موجزن نہیں ہوتا تو فکر کریں کہ آپ کی قربانی کو دوام کیسے ملے گا.اس کے لئے ایک دعا ہے جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں سکھائی ہے اسے آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.عربی زبان میں تو سب کے لئے بلکہ اکثر کے لئے یاد کرنا مشکل ہے مگر مضمون اس کا اتنا سادہ سا ، پیارا سا ہے کہ ہر شخص کو وہ اپنی زبان میں آسانی سے یاد ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اے خدا مجھے اپنی محبت عطا کر.ان لوگوں کی محبت عطا کر ، جن کی محبت مجھے تیری طرف لے جائے ، ان لوگوں کی محبت عطا کر جن سے تو محبت کرتا ہے، ان چیزوں کی محبت عطا کر جو مجھے تیری محبت کی طرف کھینچ لے جائیں اور ایسی محبت عطا کر کہ شدید پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو لطف آتا ہے مجھے اس سے زیادہ تیری محبت میں لطف آنے لگے.یہ دعا اگر آپ کریں گے تو وہ چیز جو بظاہر ہمارے ہاتھ میں نہیں ، ہمارے بس میں نہیں ہے وہ ممکن ہو جاتی ہے.پھر انسان ایک نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے.ایسا شخص جو مذہب پر محبت کے نتیجے میں عمل کرتا ہے وہی ہے جو بقا اختیار کر جاتا ہے.وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دوسری دنیا کا انسان بن جاتا ہے اور اسے کوئی خطرہ نہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا ذکر أَلَا إِنَّ اولیاء اللہ کر کے فرمایا ہے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کچھ لوگ ہیں جو خدا کی خاطر استقامت دکھاتے ہیں ان کا ذکر الگ فرمایا ہے وہاں بھی لاخوف اور لاحزن کی بات ہے مگر اس آیت کی شان ہی الگ ہے فرماتا ہے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمُ يَحْزَنُونَ خبر دار سنو! جو اللہ کے دوست بن جاتے ہیں ان کو کوئی غم نہیں ، کوئی حزن نہیں ان سب باتوں سے بالا ہو جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 327 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء پس محبت کی قربانی سے بہتر کوئی دنیا میں قربانی نہیں سب سے محفوظ قربانی یہ ہے اور یہی وہ قربانی ہے جو اس دنیا سے اس دنیا میں منتقل ہونے کا اول حق رکھتی ہے.اسی لئے فرمایا کہ وہ دن آنے والا ہے جب کہ یہ دفتر بند ہو جائیں گے.یہ قربانیوں کے سلسلے، یہ خدا کی خاطر خرچ کرنا چند روزہ زندگی ہی کے لئے ہے اس کے بعد یہ سب سلسلے ختم ہیں.اس سے پہلے پہلے کر لو اور خدا کو راضی کر لو خدا سے وہ محبت کے سودے کرو جو پھر ہمیشہ ہمیش تمہارے کام آئیں گے کوئی دنیا کا کھاتہ اس دنیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا مگر یہ کھاتہ جس کا قرآن کریم ذکر فرما رہا ہے ضرور تبدیل ہوگا.پس اس نقطہ نظر سے جب آپ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو وہ خرچ کرنا ایک عجیب لطف پیدا کرتا ہے اس خرچ میں قطعا ذرہ بھر بھی دل پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ حیرت انگیز سرور پیدا ہوتا ہے اور انسان اس دنیا میں دوام.کے لمحات حاصل کر لیتا ہے.اسے ازل کا مزہ آنے لگتا ہے کہ ازل ہوتی کیا ہے.وہ لطف جو خدا کی محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر ایک ازلیت پائی جاتی ہے.وہ نہ ختم ہونے والا ہے، ہمیشہ ہمیش کا ساتھ دینے والا ہے.پس اس پہلو سے آپ جو قربانیاں پیش کرتے ہیں اور کر رہے ہیں ان میں اور نکھار پیدا کر لیں.کرتے تو خدا ہی کی خاطر ہیں اگر خدا کی خاطر نہ کرتے تو شور پڑتا اور MTA اس بات کے لئے وقف رہتی کہ فلاں نے اتنے روپے دے ریے الله اکبر فلاں نے اتنے روپے دے دیئے اللہ اکبر.اشارہ بھی کسی کا نام نہیں لیا جارہا.ان کا ذکر ہی نہیں وہ فہرست ہی موجود نہیں.ہاں اللہ اکبر کے نعرے ہیں جو بلند ہورہے ہیں.اس لئے کرتے تو آپ خدا کی خاطر ہیں مگر خدا کی خاطر جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں نئے رنگ بھرے جاسکتے ہیں، اسے نئے حسن کے ساتھ نکھارا جا سکتا ہے اور یہ وہ حسن کا طریق ہے جو محسن بننے کا طریق ہے جو میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں.اپنے اپنے رنگ میں ، اپنی اپنی مالی قربانیوں یا خدا کی خاطر جو وقت آپ خرچ کرتے ہیں اس پر بھی آپ نگاہ رکھیں اور اپنے نفس کا یہ امتحان لیتے رہیں کہ اس کے نتیجے میں آپ کو کتنا سرور حاصل ہوا ہے.بوجھ پڑا تھایا مزہ آیا تھا اور اگر مزہ آیا تھا تو محبت کے بغیر آ نہیں سکتا.پھر خدا کے فضل سے آپ کو کم سے کم آشنائی ہو گئی ہے اس طریق کی اور اگر بوجھ پڑتا ہے اور طبیعت میں ایک قسم کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کب تک میں یہ کام کھینچ سکتا ہوں ایسے لوگ اپنی قربانیوں کو ضائع کر دیتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد 15 328 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ان کو مزید قربانیوں کی توفیق نہیں رہتی پھر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض ایسے لوگ تھے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت زچ ہوتے تھے.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ لکھتے ہیں کہ ٹیکس کے بعد ٹیکس نکلتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی ایسے ہیں کہ کیا تم نے ٹیکسوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ایک قربانی دوسری قربانی.ابھی MTA بند نہیں ہوئی تھی تو مسجد لندن کی بات شروع کر دی اور پھر یہ مسجد برمنگھم آ گئی اور فلاں آگئی بوسنیا کا فنڈ آ گیا ایمنسٹی کی خاطر جو ہم نے بنائی ہے ہیومینیٹی فرسٹ Humanity First کیا کیا سلسلے شروع کر رکھے ہیں، اوپر سے انصار الله ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ ، چندہ عام، وصیت، تحریک جدید، وقف جدید.ایک آدمی نے مجھے واقعہ لکھا کیا دفتر کھل گئے ہیں بند کریں ان کو ، ایک کر دیں سب کچھ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس طرح لوگ بعض دفعہ لکھ دیا کرتے تھے بڑا زچ ہو کے آپ فرماتے ہیں کیا کہہ رہے ہو.یہ تو احسان ہیں اللہ تعالیٰ کے جو تم پر جاری ہوئے ہیں.کون ہے اور قوم جس پر خدا نے ایسے احسان فرمائے ہوں کہ آئے دن ان کے لئے خدا کی محبت کی راہیں کھولی جا رہی ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو صرف محبت کی راہیں دکھائی دیتی تھیں اور ہیں بھی محبت ہی کی راہیں.اس طرح ان کو شناخت کریں گے تو دل دوڑے گا اگر جسم کو توفیق نہیں ملے گی اور واقعہ یہ ہے کہ جب محبت کی راہیں کھلتی ہیں تو جسم کو توفیق ملے نہ ملے دل دوڑتا اور اڑتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں.جسمـى يـطـيـر اليك من شوق علا کہتے ہیں جسم ہیں مگر دل کی بات ہے اصل میں جسمـى يـطـيـر اليك من شوق علا ياليت كانت قوة الطيران آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 594) اے میرے محبوب آقا! میرا تو جسم ہر لحظہ تیری طرف پرواز میں ہے لیکن جسم نہیں ، دل ہے کیونکہ کہتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 329 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء ياليت كانت قوة الطيران اگر جسم ہی ہوتا تو یہ کیوں کہتے کہ مجھے کاش اڑنے کی طاقت نصیب ہوتی.مراد یہ ہے کہ دل اس طرح اڑتا چلا جا رہا ہے گویا جسم بھی ساتھ ہی لپٹا ہوا ہے.اتنا ولولہ ہے اتنا جوش ہے مگر اے حسرت ! کاش مجھے طاقت ہوتی میں واقعہ اسی طرح اڑتا ہوا تیرے حضور حاضر ہو جاتا.یہ عشق کے سودے ہیں.پس عشق میں جو رستے کھلتے ہیں وہاں جسم کو آگے بڑھنے کی توفیق ہو یا نہ ہو دل بڑھتے چلے جاتے ہیں روحیں لیکتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں.پس جتنی بھی قربانی کی راہیں آپ کو دکھائی جاتی ہیں اگر آپ یہی جذبہ اپنے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اسی طرح لبیک اللھم لبیک کہنا چاہتے ہیں جواب حج کے دنوں میں تمام دنیا سے صدائیں بلند ہوں گی تو محبت کے سودے کریں.حج بھی محبت ہی کا سودا ہے.اول سے آخر تک محبت کی کہانی ہے جو اس حج میں دہرائی جائے گی.سرمنڈا کر ایک بے سلے کپڑے میں لیٹے ہوئے، دیوانہ وار ننگے پاؤں لوگ طواف کریں گے بیت اللہ کا.لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کرتے ہوئے لا شریک لک لبیک لک الحمد اور پھر و النعمۃ ہے ایک لفظ اور میرے ذہن سے اتر گیا ہے مگر بہر حال یہ جو تلبیہ ہے بار بار اس کی آوازیں بلند ہوں گی یہ محبت کے سودے ہیں.سارا نقشہ ہی محبت کا ہے.تو دین کا انجام محبت ہے دین کا آغاز محبت ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو سر منڈا دیا جاتا ہے پیدا ہوتا ہے تو ایک کپڑے میں لپیٹ دیا جاتا ہے جب اس کو دوبارہ روحانی ولادت نصیب ہوتی ہے تو پھر وہ سر منڈا کر ایک کپڑے میں لپٹا ہوا خدا کے حضور حاضر ہوکر لبیک اللهم لبیک کی آوازیں بلند کرتا ہے.یہ ہے دین کا خلاصہ جس کی تعریف عشق کے سوا ممکن ہی نہیں ہے.کوئی دنیا کا فلسفہ عشق کے سوا اس کی اور کوئی تعبیر نہیں کر سکتا.پس خدا کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کریں محبت اور عشق کے جذبے سے خرچ کریں.اس کا ایک بہت بڑا فائدہ آپ کو یہ پہنچے گا کہ کبھی دل میں کسی قسم کا تکبر پیدا نہیں ہوگا کیونکہ جو عشق کی خاطر خرچ کرتا ہے وہ قبولیت پر بہت ممنون ہوا کرتا ہے.وہ قبولیت پر احسان نہیں جتاتا بلکہ اس کی خدمت، اس کا تحفہ قبول ہو تو زیرا احسان ہو کر اس در سے لوٹا کرتا ہے.پس خدا کے حضور جو محبت سے قربانیاں آپ پیش کریں گے ہمیشہ احسان کے جذبے سے لدے ہوئے اور
خطبات طاہر جلد 15 330 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء دہرے ہوتے ہوئے واپس لوٹیں گے کہ اللہ کی شان اس نے ہماری حقیر قربانی کو قبول فرمالیا اور اگر عشق کا جذبہ نہ ہوا تو بسا اوقات شیطان آپ کے دل میں رعونت پیدا کر دے گا.آپ کہیں گے ہم نے اتنی قربانیاں کیں، ہم نے فلاں وقت اتنے چندے دیئے آج جماعت ہم سے یہ سلوک کر رہی ہے، آج ہم نے کوئی نادانی کی تو ہمیں بھی سزا دی جاتی ہے حالانکہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے کیا کیا چندے دیئے تھے کتنی بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں.یہ تکبر ہے جو کلیۂ ہر نیکی کو اس طرح چٹ کر جاتا ہے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.نیکی کو تو چٹ کر جاتا ہے مگر اپنے گند پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور جتنی بیماریاں ہیں وہ ان کیڑوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے گند کے نتیجے میں ہوتی ہیں.انسان سمجھتا ہے کہ میں بیمار ہو گیا لیکن اس کو پتا نہیں کہ دکھ ہے کس بات کا.کیڑوں کے داخل ہو کر اس کے خون کے ذروں کو کھانے کا دکھ نہیں ہوتا.اس وقت تو انسان کو پتا ہی نہیں ہوتا مجھ سے کیا ہو رہا ہے.جب وہ کیڑے اپنا گند جسم میں پھینکتے ہیں، جب وہ ٹوٹتے ہیں اور ان کے گندے ذرات بکھرتے ہیں تو اس غلاظت کا دکھ ہے جو انسان کا دکھ ہے جو انسان محسوس کرتا ہے بخار کی صورت میں یا اور جسمانی دردوں کی صورت میں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ نقشہ کھینچا ہے کہ اگر تمہارے اندر محبت کے سوا کوئی اور کیڑا داخل ہو گیا اور ریاء کے ذریعے تم نے خرچ کرنا شروع کیا تو یہ ایسا بد بخت کیڑا ہے کہ تمہاری ہر نیکی کو چاٹ جائے گا کچھ بھی اس میں باقی نہیں رہنے دے گا.مگر میں نے اسی مضمون پر سوچا تو مجھے خیال آیا کہ ہاں ایک چیز وہاں باقی رہے گی ان کیڑوں کے ٹوٹے ہوئے بدن، ان کی گندگی ، ان کا زہر جو سارے مالی وجود میں تعفن پیدا کرے گا اور بیمار مرتے ہوئے مریض پیچھے چھوڑ جائے گا.پس اپنی بقاء کی خاطر ، اپنے ہر اس مفاد کی خاطر جو انسان کی روحانی زندگی سے وابستہ ہے، جس مفاد کا آپ کی اولاد سے بھی تعلق ہے، آپ کے حال سے بھی تعلق ہے، آپ کے مستقبل سے بھی تعلق ہے، اُس دنیا سے بھی تعلق ہے اور اس دنیا سے بھی تعلق ہے ہر اس مفاد کی خاطر محبت کے محفوظ قلعے میں داخل ہو جائیں.جو بھی خدا کے لئے خرچ کریں، جب بھی خدا کے لئے خرچ کریں اپنے محبت کے دل کو ٹولیں اور دیکھیں اس میں سے کتنی محبت پھوٹی ہے.یہ آب زمزم ہے جو آپ کا آب حیات بن جائے گا.یہ ایڑیاں رگڑنے سے پیدا ہوتا ہے اور محبت
خطبات طاہر جلد 15 331 خطبہ جمعہ 26 اپریل 1996ء میں بھی ایڑیاں رگڑی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو سمجھنے اور اس کو اپنے وجود میں جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ایک دفعہ پھر میں اہل پاکستان، اہلِ بنگلہ دیش، اہل ہندوستان اور دیگر مشرقی ممالک کو چوبیں (24) گھنٹے تک مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے اجراء کی خوشخبری دیتے ہوئے ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں.ہم سب کی طرف سے آپ سب کو مبارک ہو.اللہ وہ دن بھی جلد دکھائے جب کہ عالمی رابطے کے ذریعے ہم زیادہ شان کا پروگرام آپ کے سامنے چوبیس (24) گھنٹے مسلسل پیش کر سکیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.
خطبات طاہر جلد 15 333 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء ہم نے اپنے معاشرے کو، تہذیب کو اور تمام دنیا کی جماعتوں کو جھوٹ سے پاک کرنا ہے.( خطبه جمعه فرموده 3 رمئی 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) لله ق تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی : لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُوْمت عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيْمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَابِسَ الْفَقِيرَةُ ثُمَّ ليَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلَيُوفُوانُذُورَهُمْ وَلْيَطَوَفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظْمُ حُرُمَتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهِ وَمَنْ تُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ پھر فرمایا: (الج : 29 تا 32) ابھی حج کو یا عید کو جو حج کے ساتھ آتی ہے گزرے ہوئے چند دن ہی ہوئے ہیں اور حج ہی کا مہینہ چل رہا ہے.آج کے خطبے کے لئے میں نے انہی آیات سے مضمون کو ترتیب دی ہے جو حج سے تعلق رکھتی ہیں.میرے ذہن میں MTA کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذمہ داریوں کا مضمون تھا اور ایک خاص پہلو کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا جب اس تعلق میں قرآنی آیات پر نظر ڈالی تو یہی وہ آیات
خطبات طاہر جلد 15 334 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء تھیں جو اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتی ہیں اور کئی طرح سے تعلق رکھتی ہیں ، ایک ہی نہیں بلکہ مختلف جہتوں سے یہ اس مضمون سے بہت ہی گہرا رابطہ رکھتی ہیں.پس ان آیات کی تلاوت کی غرض دراصل ایم.ٹی.اے کے تعلق میں پیدا ہونے والے بعض خطرات کی نشان دہی کرنا تھی اور ان آیات میں اس مضمون کو اس طرح مربوط طور پر بیان فرمایا گیا کہ اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو ذہن میں نہیں تھے وہ ان آیات کی تلاوت کے بعد سامنے ابھر آئے.ان کا ترجمہ یہ ہے لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومت تا کہ وہ اپنے منافع کو پہچانیں " لِيَشْهَدُوا کالفظی ترجمہ تو ہے دیکھیں مگر اس طرح دیکھنا کہ گواہ بن جائیں اس میں مضمون کو پہچانے کا معنی بھی شامل ہوتا ہے، وہ اچھی طرح اس سے واقف ہو جائیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے ان منافع کو دیکھ کر ان سے استفادہ کریں.وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِى اَيَّامٍ مَّعْلُومَةٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ اوراللہ کا نام لیں، اللہ کا نام پڑھیں ان چند دنوں میں عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ اس پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشیوں میں سے مختلف چوپائے عطا فرمائے ہیں.فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَابِسَ الْفَقِيرَ.پس اس میں سے کھاؤ اور تکلیف میں مبتلا اور فقیر کو دونوں کو جو تکلیف میں مبتلا ہوں یا ناداری کا شکار بن کر فقیر کی حد تک پہنچ گئے ہوں ان کو اس میں سے حصہ دو ثُمَّ ليَقْضُوا تَفَثَهُمْ پھر تا کہ یہ ہو کہ وہ اپنی میلوں کو دور کریں جو میل ان کے بدن کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں اور ان کی روح کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے.وَلْيُوفُوانُذُورَهُمْ اور اپنی مانی ہوئی منتوں کو یا نذروں کو پورا کریں.وَلْيَطَوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ اور اس قدیم ترین گھر کا طواف کریں.ذلِک یہ اسی طرح ہے جو بات بیان کی گئی ہے.وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرمتِ اللہ اور جو اللہ تعالیٰ کے محرمات یعنی قابل عزت ، قابل تعظیم نشانات کی عزت کرتا ہے ان کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.حُرمت میں حرام کا ایک مضمون منفی معنوں میں بھی پایا جاتا ہے لیکن یہاں حُرمت میں ایک عزت اور احترام کا مضمون ہے اور اس کا بھی حرام کے عرف عام والے مضمون سے ایک گہرا تعلق ہے.حرام چیز کو انسان ہاتھ نہ لگائے یہ اس کی حرمت کے مضمون میں داخل ہے اور عزت کے مقام پر بھی ہاتھ نہ ڈالے اور خدا کا تقویٰ اختیار کرے.بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر زبان کھولنا، ان پر تخفیف کے ساتھ ان کا
خطبات طاہر جلد 15 335 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء ذکر کرنا یا بدتمیزی کرنا خدا کے حضور بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے تو ان معنوں میں حرمت کا مضمون ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے شعائر جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حرمتیں وابستہ فرما دی ہیں وہ خواہ زندہ وجود ہوں، خواہ نشانات ہوں جن کو زندہ وجودوں نے عزت بخشی اور عظمت عطا کی، دونوں صورتوں میں ان کا احترام لازم ہے.وَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ اور تمہارے لئے انعام حلال کر دیے گئے ہیں.اب اس مضمون کا حرمت کا جو دوسرا پہلو تھا یہ تعلق قائم کر دیا اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کی یہ شان ہے کہ دو مختلف مضامین کو اس طرح ایسے لفظوں سے باندھ دیتا ہے جن لفظوں میں دونوں مضامین کے ساتھ ایک طبعی تعلق ہوتا ہے.پس حرمت کا مضمون جہاں عزت اور احترام کا ہے وہاں شعائر سے مراد اور صاحب حرمت جگہ سے مراد بیت اللہ اور خانہ کعبہ ہے اور جہاں حرام چیزوں سے اس کا تعلق ہے وہاں یہ فرمایا أُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ ان چیزوں کے سوا جو تم پر پڑھ دی گئی ہیں جن کے متعلق تمہیں تعلیم دی جاتی ہے، ان کے سوا باقی تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں.پس کھانے پینے کی اور استعمال کی چیزوں میں بھی بعض حرام چیزیں ہیں ان سے بھی بچنا ہے مگر ان دونوں مضامین میں لفظ حرمت واحد ہونے کے باوجود ان دونوں مضامین میں بعد المشرقین ہے.یعنی ایک جگہ حرمت سے مراد عزت کی وجہ سے اس کا ذکر احترام سے کرنا ہے، بات کرتے ہوئے خوف کھانا ہے.آنحضرت ﷺ کے حضور جب صحابہ حاضر ہوتے تھے ان صحابہ کا ذکر محبت اور پیار سے ملتا ہے جو ادب سے اپنی آواز کو دھیما کر لیتے تھے اور جو بلند آواز سے پکارتے تھے اور حجرات سے پرے آوازیں دیتے تھے ان کا قرآن کریم نے ناراضگی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.اور خانہ کعبہ کے گرد گھومنا، وہاں اس تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذکر الہی کرنا یہ اس کی عزت کا تقاضا ہے اور کسی قسم کی گندگی کو ساتھ نہ لے جانا اور پاک وصاف رہنا اور اپنی روح کو بھی ہر قسم کے گندے خیالات سے پاک رکھنا یہ بھی اس کی حرمت کا تقاضا ہے اور اس حرمت کے تقاضے کو گندگی دور کرنے سے جس طرح پورا کیا جاتا ہے اسی طرح ان گندی چیزوں سے دور رہنا بھی لازم ہے جو گندگی کا کوئی بھی مضمون رکھتی ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے حرام کے دو انتہائی معنی یہاں اکٹھے کر دیئے اور ایک مضمون سے دوسرے مضمون کے لئے لفظ حرمت کو گویائیل کے طور پر استعمال فرمایا.
خطبات طاہر جلد 15 336 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء ایک خانہ کعبہ کی حرمت ہے اور شعائر اللہ کی حرمت ہے جو ان کے تقدس کی وجہ سے ہے اور ان سے احتیاط کا معاملہ ہے.ایک خبیث اور گندی چیزوں کی حرمت ہے ان سے بچنا اس حرمت کا تقاضا ہے اور ان سے دور رہنا اس حرمت کا تقاضا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو یہاں تم روح کی بالیدگیوں اور گندگیوں سے پاک صاف ہو کر پہنچے ہو اور تمہیں ایک روحانی رزق مل رہا ہے.تمہیں جسمانی رزق بھی اسی حوالے سے عطا کیا جا رہا ہے اور جسمانی رزق جو عطا کیا جا رہا ہے اس میں پاکیزگی پیش نظر رکھی گئی ہے.تمہارے لئے صرف وہ چیز میں حلال کی گئی ہیں جو پاکیزہ ہیں.جو گندگی کا پہلو رکھتی ہیں ان کو تمہارے لئے حرام فرما دیا گیا اور گند کے مضمون کو جو جسمانی گندگی سے تعلق رکھتا ہے روحانی گندگی کے مضمون کی طرف منتقل فرماتے ہوئے فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ اس موقعہ پر حضور کی خدمت میں اطلاع دی گئی کہ مواصلاتی رابطہ کے ذریعہ خطبہ کی تصویر باہر نہیں جارہی.حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو ہمارے سامعین اور ناظرین ہیں دنیا بھر میں ان کو آواز تو صاف جارہی ہے اور وقتی طور پر تصویر نہیں دیکھ سکتے، وہ انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا تصویر بھی دیں گے اور دوبارہ اس خطبے کی وڈیو دکھائی جائے گی تو آواز اور تصویر کے ساتھ وہ اکٹھا دیکھ بھی سکیں گے اور سن بھی سکیں گے.اس کے بعد حضور نے خطبہ کے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.) میں یہ بیان کر رہا ہوں کہ قرآن کریم نے حج کے مضمون میں حرمت کے لفظ کو اس طرح مضمون کے ایک پہلو سے دوسرے پہلو کو باندھا ہے اور اس سے پھر دوسرا پہلو یا تیسرا پہلو نکال لیا ہے.ایک ایسا دھاگہ ہے حرمت کے مضمون کا جو ہر بدلتے ہوئے مضمون میں مشترک ہے اور بظاہر الگ الگ باتیں ہو رہی ہیں لیکن بنیادی طور پر یہی بات ہے جو آگے جاری وساری ہے.اس تعلق میں میں نے بیان کیا کہ اللہ کی طرف سے جن چیزوں کو محرم کر دیا گیا ہو ان کی عزت لازم ہے اور اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو حرم فرما دیا اور بیت اللہ سے تعلق والی بہت سی اور باتیں ہیں جو محرمات میں شامل ہو گئیں.حرمت کا دوسرا معنی ہے گندی اور ناپاک چیزوں سے اجتناب ، تو پہلے معنوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس محرم گھر میں کوئی گندی چیز داخل نہ ہو، کوئی ناپاک چیز نہ ہو اور قربانیاں جن کا گوشت تمہارے لئے حلال فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ تسلی دیتا ہے کہ وہ پاک چیزیں ہیں اسی لئے خانہ کعبہ تک ان
خطبات طاہر جلد 15 337 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء کی رسائی بھی ہے.مگر ان کی پاکیزگی صرف بدنی پاکیزگی نہیں بلکہ روحانی معنوں میں بھی ان کو پاکیزگی نصیب ہونی چاہئے.وہ صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ ان کو پیش کرتے ہوئے غیر اللہ کا کوئی تصور نہ آئے اور خالصہ اللہ، نہ کہ اصنام کے نام پر ، ان کو ذبح کیا جائے.اس سے جو رجس کی انتہائی بدترین صورت ہے یعنی شرک وہ ناپاکی جس سے پاک کرنے کے لئے خانہ کعبہ بنایا گیا وہ نا پا کی تم سے دور ہو جائے گی.اگر تم اپنی کھانے کی چیزیں بھی پاک کرو گے اپنے بدن کو بھی پاک کرو گے اور اپنی روح کو ہر قسم کی گندگی سے پاک کرو گے جس کی انتہا شرک ہے اور شرک کہنے کے بعد فرمایا وَ قَوْلَ النُّورِ اور یاد رکھو جھوٹ جو ہے یہ سب برائیوں کی جڑ ہے.سب سے بڑی گندگی جھوٹ ہے جو شرک پر منتج ہو گی.یہ ناممکن ہے کہ جھوٹ ہو اور انسان مشرک نہ بنے.شرک کے ہر پہلو کا جھوٹ سے تعلق ہے.پس یہ جو چھوٹی سی آیت ہے اس میں اتنے مضامین اس طرح پیک (Pack) کر دیئے گئے ہیں، اکٹھے کر دیئے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ایک ایک مضمون پر اگر آپ گفتگو شروع کریں تو ایک ایک پورا خطبہ اس مضمون کی وضاحت پہ خرچ ہوسکتا ہے.مگر میرے پیش نظریہ مضمون تھا کہ اس کاMTA کے نظام سے کیا تعلق ہے اور یہ آیات میرے ذہن میں جو مضمون تھا اس مضمون کو واضح کرنے میں کس حد تک اور کن معنوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں.اس مضمون کے تعلق میں میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بیت اللہ کا قبلے سے بھی ایک تعلق ہے.توحید کا ہر قسم کی گندگی سے پاک ہونے کا تعلق ہے.جب آپ کا قبلہ بدلتا ہے تو شرک ہوتا ہے اور جب شرک ہوتا ہے تو نجس پیدا ہوتی ہے یا دل گندہ ہو تو شرک پیدا ہو گا ور نہ ہوہی نہیں سکتا.ہر قسم کا خبث، ہر قسم کی گندگی ، ہر قسم کی غلاظت جو ہے وہ شرک پر لازما منتج ہوگی اور اوثان اٹھ کھڑے ہوں گے.خدائے واحد کی بجائے بت سامنے آجائیں گے اور بت پیدا ہو جائیں گے اور یہ عجیب ایک توارد ہے کہ MTA نے اپنا قبلہ ان دنوں میں تبدیل کیا ہے اور اس قبلے سے کلیۂ احتراز کر لیا ہے جس قبلے پر گندے پروگرام آتے ہیں اور رجس ہے.چنانچہ جب ہم نے اس کو بدلا تو بعض دوستوں نے ہمیں یہ لکھا کہ اسے پھر وہ لوگ نہیں سن سکیں گے آپ نے بدل تو دیا ہے جو مشہور اور ہر دل عزیز پروگرام سننے کے لئے اسی سمت میں اپنے ڈش انٹینا کو سیٹ کئے بیٹھے تھے.ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ وہ تو گندگی کی خاطر اس سمت میں انٹینا کو Fit کئے بیٹھے ہیں.وہاں اگر شرک کی بجائے
خطبات طاہر جلد 15 338 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء تو حید کا مضمون چلا اگر گندگی کی بجائے نفس کی پاکیزگی کا مضمون جاری ہوا تو ان کی بلاء کو بھی دلچسپی نہیں ہوگی.ہاں وہ لوگ جو اس ٹیلی ویژن کے ذریعے اچھی باتیں سنتے ہیں، اچھی باتیں دیکھتے ہیں ان کو اور ان کی اولادوں کو ہمیشہ خطرہ رہے گا کہ اسی زاویے، اسی سمت، اسی قبلے سے گندگی کو بھی دیکھیں اور رفتہ رفتہ گندگی ان کو کھینچ کر دوسری سمت میں لے جایا کرتی ہے.یہ وہ مضمون تھا جو میرے پیش نظر تھا اور یہ بعینہ ان آیات کے مضمون کے دائرے میں ہے.پس ہم نے جو قبلہ بدلا ہے یہ مسیح قبلہ ہے.یہ اس رخ کا قبلہ ہے جہاں گندگی چلتی ہی نہیں اور یہ وہ سیٹلائیٹ سسٹم ہے جہاں تمام اہم سنجیدہ پروگرام جاری ہوتے ہیں کیونکہ یہ حکومتوں کے حکومتوں سے رابطے اور بین الاقوامی خبروں کے رابطوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور براہ راست عوام الناس کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں اس لئے Institutions اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور عوام الناس اس قسم کے انٹینے لگاتے ہی نہیں کہ وہ اس پر وگرام کو دیکھ سکیں، ان کو دلچسپی کوئی نہیں.پس ہم نے اپنا قبلہ وہاں اس طرف معین کر لیا ہے جہاں ایک ہی ٹیلی ویژن ہے جولوگوں کے گھروں تک بھی پہنچے گا اور پاک باتیں بیان کرے گا ، اسلام کی کچی اور پاکیزہ تصویر کھینچے گا، تو حید کے گیت گائے گا اور اس میں کوئی گندگی نہیں ہوگی.پس یہ جو تبدیلی ہے یہ بہت ہی اہم اور بابرکت تبدیلی ہے اور اس تبدیلی نے ہمیں ایک اور بھی فائدہ پہنچا دیا.وہ فائدہ یہ ہے کہ جب بھی کسی چیز کا قبلہ تبدیل ہو تو کچھ لوگ جو اعلیٰ مقصد سے وابستہ نہیں ہوتے بلکہ محض جسمانی طور پر یا رسمی طور پر اس طرف منہ کئے بیٹھے ہوتے ہیں اور اصل دلچپسی ان کی توحید میں نہیں ہوتی، اصل دلچسپی ان کی اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں ہوتی.جب قبلے تبدیل ہوں تو پھر وہ لوگ پیچھے رہ جایا کرتے ہیں اس وقت وہ ننگے ہو جاتے ہیں.وہ مضمون قرآن کریم نے خود کھول کر بیان فرمایا ہے اگر چہ اس موجودہ مضمون کے مقابل پر وہ ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کا مضمون ہے لیکن آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کے مضامین کے سائے میں ہی آگے چھوٹے چھوٹے مضمون، انہی کی مطابقت میں پیدا ہوتے ہیں.پس آج کا جو یہ مضمون ہے تحویل قبلہ کے سائے کے تلے ہے، اسی کے تابع ہے.MTA نے جو اپنا قبلہ بدلا تو گندگی سے دور ہٹا اور اعلیٰ مقاصد کی طرف مائل ہوا اور اپنے پروگراموں کو گندگی سے اور بھی زیادہ دور کر دیا جتنے وہ پہلے دور تھے.
خطبات طاہر جلد 15 339 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء یعنی احتمال کے طور پر بھی کوئی گندہ پروگرام اس چینل پر سنائی نہیں دے سکتا، دکھائی نہیں دے سکتا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب تحویل قبلہ کیا گیا تو اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ جن کے نفس بیمار ہیں وہ الگ ہو جائیں ، وہ ننگے ہو جائیں، وہ پہچانے جائیں.وہ جو اخلاص میں کامل ہیں الله جن کو اللہ کی توحید سے اور محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے ان کے لئے قبلے کی تبدیلی ذرا بھی گراں نہیں گزرتی کیونکہ اصل مقصد کے ساتھ وابستہ رہتے اور چھٹے رہتے ہیں.ان کو تکلیف ہوتی ہے جن کے مقاصد کے حصول میں فرق پڑ جاتا ہے.پس یہ وہ مضمون تھا جو میرے ذہن میں آیا جس کے لئے مجھے قرآن کریم کی آیات کی تلاش تھی تو حج کی جو آیات ہیں وہ بعینہ اس مضمون پر چسپاں ہوتی دکھائی دیں.فرمایا ہے رجس سے اوثان پیدا ہوتے ہیں.گندگی سے بت بنتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت جو اطلاعیں پاکستان سے مجھے ملی ہیں اس سے نہایت ہی خوفناک تصویر اس بات کی ابھری ہے کہ لوگ گندگی میں مبتلا ہو کر ٹیلی ویژن کے ذرائع کو ایسے ناپاک استعمال میں لے آئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں گھر گھر میں گندگی داخل ہوگئی ہے اور گھر گھر میں بت داخل ہو گئے ہیں.اس کے متعلق ایک پاکستانی رسالے نے جو اعداد وشمار شائع کئے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ لکھتے ہیں اس وقت سیٹلائٹ پر موجود کم و بیش 136 چینلوں کومختلف ڈشوں سے دیکھا جاتا ہے.پاکستان میں 136 چینلز کو مختلف ڈشوں سے دیکھا جاتا ہے جن میں صرف انڈیا کے 36 چینلز ہیں.اس کے علاوہ امریکہ کے 17، برطانیہ کے 9، فرانس کے 5 اور چین کے 17 چینل شامل ہیں.ایک ہفتے میں سات چینلوں کے ذریعے جس کا انہوں نے حساب کیا ننانوے (99) بھارتی فلمیں دکھائی جاتی ہیں.ایک ہفتے میں ننانوے فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور بھارتی فلمیں جو دکھائی جاتی ہیں سراسر گند سے بھری ہوتی ہیں.اوپر سے نیچے تک نہ صرف گندی بلکہ کھوکھلی اور روزمرہ کے مذاق کو تباہ و برباد کر دینے والی.نہ ادب کا کچھ رہنے دیتی ہیں، نہ شعریت کا کچھ باقی رہنے دیتی ہیں.محض بے ہودہ، گندگی اور پھر ایسے تو ہمات میں مبتلا کرنے والی ہیں جن کا تو حید کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بلکہ ان تو ہمات کے ساتھ تو حید مٹنے لگتی ہے.یعنی جب وہ تو ہمات دل پہ قبضہ کریں تو ایسا رجس ہے، ایسی ناپا کی آ جاتی ہے جس کے ساتھ تو حید پھر اکٹھی رہ نہیں سکتی تو تو حید اپنے ڈیرے ان دلوں سے اٹھا لیتی ہے.
خطبات طاہر جلد 15 340 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء یہ وہ خطرناک صورتحال ہے جس کے پیشِ نظر آج کے خطبے میں میں خصوصا جماعت احمد یہ کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں.میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ احمدی اس گندگی میں بالکل ملوث نہیں کیونکہ بعض اطلاعیں مجھے ملتی ہیں اور اس سے میرے دل کو گہری تکلیف پہنچتی ہے.نہ صرف یہ کہ ملوث ہیں بہت سے گھر بلکہ بعض لوگ رت جگے مناتے ہیں انڈین فلمیں دیکھنے کے لئے ، کہ ایک کے بعد دوسری آئے گی دوسری کے بعد تیسری آئے گی ان کے دن اور رات کے اوقات ہی بدل گئے ہیں اور پاکستان میں تو کثرت سے ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں بہت کم مگر ہے ضرور اور خصوصیت سے بڑے شہروں میں ہے کراچی میں ہے، لاہور میں ہے اور شاید پنڈی میں بھی ہو یا اسلام آباد میں.مگر بالعموم جو خبریں ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ بہت بھاری رجحان جماعت احمدیہ کا نئے ڈشوں کے ذریعے ہمارےMTA سیٹلائٹ کے نئے پروگرام دیکھنے کی طرف ہے اور جو اطلاع مل رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے چوبیس گھنٹے کا پروگرام شروع ہوا ہے اور خصوصیت سے جب سے نئے ڈش کے ذریعے ہم نے جو بہت بڑا ڈش ہے اس کے ذریعے پروگرام کو اٹھایا ہے وہاں پکچر کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے.تصویر بالکل صاف آنے لگ گئی ہے.بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو مقامی ٹیلی ویژن اور اس میں کوئی بھی اب فرق دکھائی نہیں دیتا.آواز بھی صاف ہے، تصویر بھی صاف ہے.جب سے یہ ہوا ہے جو لوگ سیٹلائیٹ کا کاروبار کرتے ہیں ان کی اطلاع یہ ہے کہ اچانک اتنے آرڈر بڑھ گئے ہیں کہ ہم سے سنبھالے نہیں جارہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت کا قبلہ درست ہی ہے لیکن جن کا ٹیڑھا ہے انہوں نے بہت ہی خطرناک اقدام کئے ہیں.ان کو اور ان کی نسلوں کو یہ بات بالکل ہلاک کر دے گی.ناممکن ہے کہ وہ روحانی طور پر اس گندگی کے ساتھ زندہ رہ سکیں.وجہ یہ ہے کہ جہاں جہاں یہ بات بڑھ رہی ہے اور بہت بڑھ رہی ہے ان کی جو تصویر میں مجھ تک مختلف خطوں کے ذریعے پہنچتی ہیں وہ یہ شکل ہے کہ بعض گھر ڈش انٹینا کے ذریعے دن رات ہندوستانی فلموں میں مگن رہتے ہیں ان کی اولادوں کی شکلیں بدل چکی ہیں، ان کی روز مرہ کی طرز کلام میں فرق پڑ چکا ہے، ان کے ہاں ہیرو کا تصور ہی بدل گیا ہے اور گندگی، بے حیائی اور بے غیرتی یہ نئی نسل کا طرہ امتیاز بنتا جا رہا ہے اور نہ عبادت کی ہوش، نہ کسی اور اعلیٰ مقصد کی یہاں تک کہ یہ لوگ اب اعلیٰ درجے کے لٹریچر سے بھی بالکل
خطبات طاہر جلد 15 بے بہرہ ہو گئے ہیں.341 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی فلموں میں ادبی لحاظ سے بھی ایسی مکر وہ چیزیں ہیں اور زبان کا معیار اتنا گرا ہوا ہے کہ جس قوم کو اپنی زبان سے پیار ہو، جس کو اپنی اعلیٰ قدروں کا خیال ہو وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتی کہ ان کی نئی نسلیں اپنا کلچر، اپنا ادب، اپنی شعریت، اپنا مذہب ، اپنی روحانی، اخلاقی قدریں ساری کی ساری ہندوستانی فلموں کی نذر کر دیں.یہ جب گندگی مزید بڑھتی ہے تو آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ ان گھروں میں ہندوا یکٹروں کی، ہندو ایکٹرسوں کی تصویریں بڑی بڑی چارٹ کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں.بعض لڑکیوں اور لڑکوں کے کمروں میں ، لڑکوں کے کمروں میں ایکسرسوں کی تصویریں اور لڑکیوں کے کمروں میں ایکٹروں کی تصویریں اور بڑے فخر سے لگاتے ہیں اور ماں باپ دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں بڑے ہوشیار بچے ہیں، کہاں سے تصویر حاصل کی تم نے ، خوب گھر سجایا ہے.یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت نے چودہ سو سال پہلے اعلان کر دیا تھا کہ رجس جو ہے یہ بہتوں میں ضرور تبدیل ہو گا.یہ بد بخت بت تم نے اپنے گھر میں پال لئے ہیں.ان لوگوں کے کردار کو نزدیک سے دیکھو تو کوئی شریف آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان کے ساتھ آنا جانا رکھے، ان کو اپنے گھروں میں بلائے ، ان کے گھروں میں جائے ان کی دنیا ہی اور ہے صرف مادہ پرستی ہے، صرف بے حیائی کو ترغیب دیتا ہے، صرف بناوٹ ہے، سچائی تو قریب تک نہیں پھٹکی اور یہ جو بناوٹ ہے یہ جھوٹ ، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں.دیکھیں قرآن کریم کی آیات نے اتنی صفائی کے ساتھ اس مضمون کے ہر پہلو کو کھول دیا تھا.فرمایا دیکھو فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ تم رجس سے تو بچ رہے ہو، تمہیں بیت اللہ نے یہ تعلیم دے دی کہ رجس کے ساتھ یہاں نہیں آنا.رجس کو ترک کرو اور ہمیشہ کے لئے صاف کرو اپنے بدن سے، اپنی روح سے اور یا درکھو خاص طور پر بچو الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ ایسے جس سے جو لازماً بتوں کی طرف لے جائے گا.بت پرستی کے رجس سے بچو.وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ اور جھوٹ سے بچو.تو ہندوستانی فلموں کی پرستش کرنے کے نتیجے میں ، ان ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی پرستش شروع ہو چکی ہے، جو خود اپنی ذات میں ایک جھوٹ کا ملمع ہیں ، جھوٹ کا مجسمہ ہیں.ایکٹنگ ہے ہی جھوٹ.ان کے بیانات آپ پڑھ لیں ، ان کے متعلق اخباروں میں ان کے تبصرے پڑھ لیں ، ساری
خطبات طاہر جلد 15 342 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء زندگی جھوٹ ہے.ایک مصنوعی کھوکھا سا بنا ہوا ہے اس کے اندر کچھ بھی نہیں اور ان کے متعلق باتیں اس فخر سے بعض لوگ اپنے اخباروں میں اچھالتے ہیں، پاکستان کے مسلمان اخبار، اور اس طرح ان کی تصویریں روزانہ شائع کرتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ ان کو کوئی ہوش ہی نہیں کہ کتنا زندگی میں تضاد پیدا ہو چکا ہے اور یہ بت روزانہ اخبار بھی ان کو مہیا کرتے ہیں، وہ پھر کاٹ کاٹ کے بچے اپنے ڈرائنگ روم میں سجاتے ، اپنی دیوار میں ان سے کالی کرتے ہیں.تو ایک طرف یہ رجس ہے جو ٹیلی ویژن کے ذریعے گھروں میں داخل ہو گیا ہے اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کا وہ قبلہ بن چکا ہے ان کی طبیعتوں پر گراں ہے یہ بات کہ ہم نے اپنا رخ بدل لیا ہے.کبھی کبھی وہ دونوں طرف قدم رکھ لیا کرتے تھے.اکثر گند دیکھ لیا کبھی وہ اس طرف بھی نگاہ ڈال لیا کرتے تھے کہ دیکھیں یہاں کیا آ رہا ہے.کس حد تک ہم میں بور ہونے کی طاقت ہے.تو دم گھٹ کر جس طرح انسان غوطے مارلیا کرتا ہے ایسے گھروں میں یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ دم گھٹ کر ٹیلی ویژن MTA کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ اپنے گند کو صاف کرنے کا انتظام کر لیا کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ تو پھر اس نظام پر راضی نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اس جھوٹ پر اس گند پر راضی ہوں اللہ اس کو بڑھا دیا کرتا ہے.یہ قانون قدرت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلى رِجْسِهِمُ وہ لوگ جن کے دل بیمار ہو گئے ہوں خدا کی یہ تقدیر ہے کہ ان کے رجس پر اور رجس کا اضافہ کرتا ہے ان کے دل کے خبث ، ان کے دل کی گندگی ، ان کی دنیا پرستی پھر کم نہیں ہوا کرتی وہ بڑھتی رہتی ہے اور یہی وہ صورت حال ہے جو نہایت بھیانک طریق پر پاکستان کے امیر خاندانوں کو مکمل اپنے پنجے میں جکڑے ہوئے ہے، شکنجے میں آئے ہوئے لوگ ہیں.پاکستان اتنی خوفناک تہذیبی خود کشی کر چکا ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی بس نہیں، کوئی اس کا تو نہیں.اس لئے تو ڑ نہیں کہ اگر ایسی قوم جس کا ذوق بد ہو چکا ہو جو کھلے عام گندگی کرے اور دعوتیں دے اپنے دوستوں اور حلقہ احباب کو کہ آؤ فلاں رات ہم ساری رات ٹیلی ویژن پر ہندوستانی فلمیں دیکھیں گے آ جاؤ اور شامل ہو جاؤ تو قوم کا باقی کیا ر ہے گا.ایک طرف مولویت ہے جو بپھر رہی ہے اور زور مار رہی ہے.مولویت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ صرف اس ایک ٹیلی ویژن کو بند کر دیا جائے جو خدا اور خدا کے رسول مل ہی کی طرف بلائے.ایک طرف یہ اعلان ہو رہے ہیں کہ اتنے چینل 136
خطبات طاہر جلد 15 343 خطبہ جمعہ مورخہ 3 رمئی 1996ء چینلز گندگی کی طرف بلا رہے ہیں اور اس ایک چینل کے ذکر سے بھی اس مولوی کا جس نے یہ مضمون لکھا ہے طبیعت گھبراتی ہے.جو ایک ہے جو صرف اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلا رہا ہے اور وہ MTA ہے.اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں، کہتے ہیں جب تک اس کو نہ مٹا دیں گے ہمیں چین نہیں آئے گا.پاکستان ہوتا کون ہے خدا اور اس کے رسول کا ذکر سننے والا.وہ غرق ہو جائیں بدبختیوں میں ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.دن رات ہندوا یکٹروں اور ایکٹرسوں کی پرستش کریں اور واقعہ پرستش ہے، تصویر میں لگا کر دیکھنا ان میں مگن ہونا، اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا اور پرستش کس کو کہتے ہیں.پرستش کا نام ہے عبادت اور عبادت کا لفظ غلامی سے تعلق رکھتا ہے.تم جس کو اپنا معبود بناؤ گے اس کی غلامی کرو گے اس کے انداز سیکھو گے ویسی شکلیں بناؤ گے.پس جب یہ شروع ہو جائے تو اس کا نام عبادت ہی ہے کوئی اس میں مبالغہ آمیزی کا کوئی سوال نہیں اور یہ عبادت جو وہاں ہو رہی ہے جھوٹ کی عبادت ہے کیونکہ ایکٹنگ اور جھوٹ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس قرآن کریم کی اس آیت کا اطلاق ایسی وضاحت کے ساتھ پاکستان کے معاشرے کی خرابیوں کے ہر جز و پر اطلاق پا رہا ہے.میرے تصور میں بھی نہیں تھا جب تک یہ آیت نظر کے سامنے نہ آئی اس وقت تک میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ اتنا واضح نقشہ اس بیماری کا کھینچا گیا ہے جس کے تعلق میں مجھے قرآن کریم کی کسی آیت کی تلاش تھی تا کہ اس کے حوالے سے میں خطبہ دے سکوں.اب آپ دیکھیں کہ یہ حالت اگر احمدی گھروں میں بھی داخل ہو جائے اور چاہے ہزار میں سے ایک میں ہو گئی ہو، ہو چکی ہے بعض جگہوں پہ، تو ہماری اگلی نسلوں کا کیا بنے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ دن بدن توجہ MTA کی طرف بڑھ رہی ہے اور جہاں جہاں یہ آواز پہنچی ہے جہاں جہاں یہ تصویر پہنچی ہے اس نے دلوں کی پاکیزگی کا سامان شروع کر دیا ہے.سب سے بڑی خوشی کی خبر یہ ہے کہ ہمارے بچے تو اس شدت کے ساتھ اس سے وابستہ ہو چکے ہیں کہ جیسے انہیں Addiction ہوگئی ہو اور ہر جگہ سے یہی اطلاع ملتی ہے.بعض جگہ بڑوں کو بچے مجبور کرتے ہیں کہ ہم نے اور کچھ نہیں دیکھنا ہمیں یہ دکھاؤ.یہ اللہ کی شان ہے اس نے اپنے فضل سے اس ٹیلی ویژن کی محبت دلوں پر نازل فرما دی ہے.اگر یہ نہ ہو تو آپ بتائیں کہ ہم جماعت کی تربیت کے لئے کیا کر سکتے تھے.کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے.اتنے بڑے ملک میں بلکہ اتنے وسیع علاقوں میں جس میں ہندوستان بھی شامل
خطبات طاہر جلد 15 344 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء ہے، بنگلہ دیش بھی شامل ہے اور دیگر مشرقی ممالک شامل ہیں جن سب پر یہ ہندوستان سے پیدا ہونے والی ٹیلی ویژن کی گندگی کا اثر پڑ چکا ہے اور بڑھتا جارہا ہے، اتنا بڑھتا جا رہا ہے کہ ملائشیا میں جن کو اردو نہیں بھی آتی وہ بھی یہ گندی فلمیں دیکھتے ہیں ، انڈونیشیا میں جن کو اردو نہیں بھی آتی وہ بھی یہ گندی فلمیں دیکھتے ہیں، وہاں ان کو سنبھالنے کے لئے کر کیا سکتے تھے.کیسے ممکن تھا کہ ہم گھروں میں داخل ہو کر ان کے بچوں ، ان کی بچیوں پر اثر انداز ہوتے اور ان کو اس غلاظت سے بچانے کی کوئی کوشش کر سکتے.اوّل تو ایسے لوگ پھر نمازوں سے بھی تعلق توڑ بیٹھے ہیں.کبھی جمعہ پر جو را بطے ان کے ہو جایا کرتے تھے اس کی بھی توفیق نہیں ملتی اور رفتہ رفتہ دین سے سرک کر اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ پھر ان تک آواز پہنچنا ہی ممکن نہیں رہتا.کیسے ان تک آواز پہنچائیں کہ واپس آ جاؤ.پسMTA ایک بہت ہی بڑا احسان ہے، اتنا بڑا احسان ہے کہ ناممکن ہے کہ ہم اس کا شکر ادا کر سکیں اللہ تعالیٰ کے حضور.سارے عالم میں جو جماعت نے ہم پر تربیت کی ذمہ داری ڈالی اور وہ بڑھ رہی ہے، تبلیغ کے تقاضوں کے بڑھنے کے ساتھ یہ ضرورت اور زیادہ بڑھتی چلی جا رہی ہے ہم کیسے ادا کر سکتے تھے.ناممکن تھا اور لاکھوں بنا کر ان کو پھر اندھیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا یہ کون سی حکمت کی بات تھی.اب اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں یہ استطاعت ہے کہ یہ نظام مسلسل چوبیس (24) گھنٹے تمام دنیا ئے احمدیت میں ہر جگہ اللہ اور اس کے رسول کی باتیں پہنچائے گا اور دنیا میں کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے جو اس نور سے خالی ہو.پس جس قدر بھی خدا کا شکر ادا کیا جائے کم ہے.پاکستان کی جماعتوں کو خصوصیت سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ جائزے لیں کہ کہاں کہاں یہ گندگی ہے اور ان کو سمجھا کر منتیں کر کے ان کو بچانے کی کوشش کریں.بعض معین گھروں کے متعلق مجھے علم ہوا ہے کہ رات دو تین بجے تک جا گنا ان کا دستور بن چکا ہے کیونکہ وہ ایک فلم کے بعد دوسری گندی فلم نہ دیکھنے کی زحمت برداشت ہی نہیں کر سکتے.اس گند کے بعد گلا کیا گند ہے،اس کے بعد پھر اور کیا گند آئے گا، یہاں تک کہ بدن ٹوٹ جاتا ہے تو اس وقت ان کو نیند آتی ہے جب کہ خدا کے بندوں کے جاگنے کا وقت ہوتا ہے.تہجد کا سوال ہی کوئی نہیں، صبح کی نماز بھی ضائع جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو رفتہ رفتہ ذوق عبادت رہتا ہی کوئی نہیں کیونکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جہاں رجس ہو جائے وہاں پھر ضرور بت قبضہ کیا کرتے ہیں.ناممکن ہے کہ تو حید وہاں بیٹھی رہے.جس کی تم بے حرمتی کرو گے وہ
خطبات طاہر جلد 15 345 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء پھر تمہارے پاس نہیں رہے گی.پس ایک ہی ذریعہ ہے کہ ایم.ٹی.اے کی طرف ان کو واپس لایا جائے اور اب اللہ کا فضل ایسا ہے کہ اس کا رخ اتنا بدل گیا ہے ان گندے پروگراموں سے کہ ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر روز بار بار اس کا رخ تبدیل کریں.پس یہ اللہ کا احسان ہے اور جوں جوں وقت گزرے گا انشاء اللہ ہمارے پروگرام اور بہتر بھی ہوں گے اور اور متنوع بھی ہوتے چلے جائیں گے.ابھی ابتدائی دقتیں بہت زیادہ ہیں.بڑی بڑی مشینیں ہیں جن کا سمجھنا ہی بہت پر پیچ کام ہے اور اس کے لئے والٹیئر ز (Volunteers) کا دن رات اس پر نگران رہنا اور بر وقت صحیح کل کو دبانا اور غلط کل کو روک دینا، یہ بھی حیرت ہوتی ہے دیکھ کر ان نو جوانوں کو جب میں سٹوڈیو میں دیکھتا ہوں کہ کس طرح ان کی انگلیاں ٹھیک چلی جاتی ہیں تو لگتا ہے ایک بڑا جھنجھٹ ہے جیسے کوئی پائلٹ بہت ہی جدید قسم کا ہوائی جہاز اڑا رہا ہو پائلٹ اس کو جس طرح بڑے وسیع علم کی ضرورت ہے ورنہ اس کا ہاتھ صحیح Knob کی طرف جاہی نہیں سکتا.اسی طرح یہ نظام بھی بہت پیچیدہ نظام ہے.اس کا توازن قائم رکھنا اس کی اور بہت سی ایسی ضروریات ہیں جن کو گنا نہیں جا سکتا عام مجلس میں، کیونکہ وہ ٹیکنیکل تفاصیل ہیں کہ ان کو سمجھے بغیر ، ان پر عبور حاصل کئے بغیر ہم اس نظام کو پوری طرح بر محل استعمال نہیں کر سکتے.مگر انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جوں جوں وقت آگے بڑھے گا ہمارے والنٹیئر ز (Volunteers) اور تیار ہوتے چلے جائیں گے اور خدا کے فضل سے عارضی روکیں جو تھیں وہ دور ہو جائیں گی.اب آخری پہلو آخری امر جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دلچسپی کا انسانی فطرت سے ایک گہرا رابطہ ہے کہ محض یہ کہ کر کہ گندگی سے بچو آپ ان کے رخ پاکیزگی کی طرف پھیر نہیں سکتے.تحویل قبلہ کے وقت جو رخ بدلے ہیں وہ اللہ اور رسول کی محبت کی وجہ سے بدلے ہیں ورنہ پرانی رسموں کو انسان اچانک چھوڑ نہیں سکتا.وہ محبت اتنی قوی تھی کہ جیسے طاقتور مقناطیس کم طاقتور مقناطیس سے اس سوئی کا منہ چھین لیتا ہے جو کسی کم طاقت ور مقناطیس کی طرف مڑی ہوئی ہو.اس بیماری کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں دنیا کی گندگی کا مقناطیس زیادہ طاقتور ہے اور وہ لوگ جو پاک ہیں ان کے دل میں تو ہمیشہ ہی ایک مقناطیس ہے دوسرا ہے ہی کوئی نہیں.ان کا قبلہ تو ہمیشہ درست رہے گا.جو بیچ کے لوگ ہیں ان کے لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنے مقناطیس کی طاقت کو
خطبات طاہر جلد 15 346 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء اس طرح بڑھائیں کہ کچھ ان کی دلچسپیاں بیچ میں شامل ہو جائیں.کچھ تو ایسے سامان ہوں کہ جس کے نتیجے میں وہ دیکھیں تو پھر نظریں ٹکی رہ جائیں اور رفتہ رفتہ ان کے ذوق درست ہونے لگیں اور رفتہ رفتہ ان کو ہمارے پروگراموں سے محبت ہونے لگے.اس سلسلے میں میں نے دنیا بھر کی جماعتوں سے اپیل کی تھی کہ صرف تقریروں کے پروگرام ہمیں نہیں چاہئیں، دلچسپ پروگرام بنا کے بھیجیں.مختلف ملکوں کی مختلف ایسی جو جغرافیائی یا نباتاتی یا تمدنی یا معد نیاتی یا زندگی سے تعلق رکھنے والی ایسی خصوصیات ہیں جن میں فی ذاتہ انسان کو دلچسپی ہوتی ہے ان کو اس طرح پیش کرنا کہ ایک انسان خواہ اس کو نیکی سے محبت ہو بھی یا نہ ہو وہ اس چیز کو دیکھے تو انسان کی عالمی توجہ کی دلچسپی ہوتی ہے ان باتوں میں، اس ذریعے سے وہ اس کے ساتھ وابستہ ہو جائے ، اس کے ساتھ اس کا دل لگ جائے ، یہ ہمارا فرض ہے.بیچ بیچ میں جو خالص نیکی کے پروگرام آئیں گے ان سے بھی پھر ان کی محبت بڑھنی شروع ہو جائے گی کیونکہ ذوق پیدا ہو جائے گا.پہلے ذوق کو درست کرنا پھر اس کو بڑھانا ، اس کی تربیت کرنا یہ بہت ہی وسیع کام ہے جو محض مشینوں سے نہیں ہوسکتا محض چوبیس (24) گھنٹے کے ٹیلی ویژن سے نہیں ہوسکتا اس کے لئے ذہن اور فدائی دماغوں کی ضرورت ہے.وہ تجربے کریں اور ہر ملک میں با قاعدہ نگرانی میں ایسے پروگرام بنیں جو کثرت کے ساتھ اپنے ملک کے ایسے حالات کو نمایاں طور پر پیش کر سکیں جس میں غیروں کو دلچسپی ہو، صرف احمدیوں کو نہیں ، انسان کو بحیثیت انسان دلچسپی ہو.اب افریقہ ہے، ہم سمجھتے ہیں افریقہ ایک اندھیری جگہ ہے حالانکہ افریقہ کے اندر بڑے نور ہیں.بہت ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے عظیم خوبیاں ہیں اس ملک میں رہنے والوں کی ، ان کے علاقوں کو خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا ہے، ان کے حالات ، پھر ان کے سابقہ رسم و رواج کا بیان کرنا ، پھر کس طرح ان پر عیسائیت نے قبضے کئے ، کس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو ان کو اس چنگل اور پھر شرک کے چنگل سے نجات دینے کی توفیق بخشی اور اس تعلق میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو اعجاز ظاہر ہوتے رہے ہیں ان کا بیان ایک ایسا بیان ہے جو دہریہ کے لئے بھی بالآ خر دلچسپی کا موجب بن جاتا ہے.کئی مجھے ایسے خط ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو بالکل دہر یہ اور بے تعلق تھا اس نے جماعت احمدیہ کے MTA کے پروگرام دیکھے تو محض اس وجہ سے اس کو دلچپسی پیدا ہوئی
خطبات طاہر جلد 15 347 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء کہ اس کو نظر آیا کہ خدا ان کے ساتھ ہے اور اس کی زندگی کی کایا پلٹ گئی.جود ہر یہ تھاوہ نہ صرف باخدا ہوا بلکہ اس نے پہچان لیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں خدا ملے گا.پس باخدا لوگوں کے تجارب بھی تو دنیا کے سامنے پیش کرنے ہیں اور ہر ملک سے پیش ہونے چاہئیں.ہر جگہ خدا کے فضل ایسے نازل ہورہے ہیں جہاں یہ تجارب بڑی قوت کے ساتھ لوگوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ سچ ہیں.پس سچائی کی طاقت ہے جو تو حید کی تائید کے لئے آپ کے کام آئے گی.جھوٹ اور مکر کی طاقت ہے جو مشرکین کے کام آ رہی ہے.تو یہ ٹکر ہے اور اس چیلنج کو ہم نے قبول کیا ہے اور کریں گے اور توحید کی خدمت کے تمام تقاضے پورے کریں گے.ہم ان بزدلوں میں سے نہیں ہیں جو یہ دیکھ کر کہ دشمن بڑا طاقت والا ہے، پیٹھ دکھا سکیں.ہم تو حید کے لئے سینہ سپر ہو کر آخری دم تک کوشش کرنے والے لوگ ہیں.کبھی دنیا ہمیں پیٹھ دکھاتے ہوئے نہیں دیکھے گی.پس اس کے وہ طریق اختیار کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھائے ہیں قرآن کریم میں اور اسی آیت کے اندر یہ مضمون ہے کہ تم اگر سچائی سے چمٹ جاؤ گے تو یہ توحید کا نشان ہے اور یہ شرک کو اجازت نہیں دے گا کہ تمہارے اندر داخل ہو جائے.اب یہ سچائی کا مضمون بھی بہت پھیلا پڑا ہے وہ لوگ جو گندگی اختیار کرنے والے ہیں آپ ان کے معاشرے میں جا کر دیکھیں، ان کی باتیں سنیں اکثر جھوٹ کے عادی ہوتے ہیں.ان کے بچے ان کے بڑے بات بات پہ جھوٹ بولتے ہیں اور اس سے لطف اٹھاتے ہیں.ان کی مجالس میں اکثر جھوٹ کی بکواس کو مذاق سمجھا جاتا ہے اور کوئی عار ہی نہیں رہتی جھوٹ ہے.تو وہ جو کلام کا جھوٹ سے وہ ان کی زندگی کا جھوٹ بن جاتا ہے.وہ زہر ان کی رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے.وہ منحوس تصویریں ابھرتی ہیں جو دنیا کے ایسے ہیروز کی ، ایسے ادا کاروں کی پرستش کرنے لگتی ہیں جن کو دنیائے اداکاری میں بھی کوئی مقام حاصل نہیں ہے.جن کے سکرپٹ لکھنے والے بے ادب لوگ یعنی ادب سے عاری اور بے ادب.وہ شعریت کے نام پر شعریت کا ستیا ناس کر دیتے ہیں.ایسا بھونڈا مذاق ہے کہ کوئی شریف انسان جس میں ذرا بھی ذوق کی قدر ہو وہ تھوڑی دیر بھی یہ پروگرام دیکھ نہیں سکتا.لیکن مذاق بگاڑ دیئے گئے ہیں.تو ایک بات یاد رکھیں کہ ہم نے اپنے معاشرے اور اپنی تہذیب کو اور تمام دنیا کی جماعتوں کو جھوٹ سے پاک کرنا ہے اور جھوٹ سے پاک کرنے کی مہم جاری ہونی چاہئے اور اگر طبیعت میں سچائی
خطبات طاہر جلد 15 348 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء پیدا ہو جائے تو ساری دوسری بدیوں کا ازالہ کر دیتی ہے.تو ایک طریق تو یہ ہے کہ اس رجس سے ان کو چھڑا ئیں جو لا ز ما جھوٹ پر منتج ہو گا اور بت پرستی کے ذریعے داخل ہوگا.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّورِ ایسے جس سے پناہ مانگو، دور ہٹو جو ضرور بتوں تک پہنچا دے گا اور یاد رکھو قَولَ النُّورِ سب سے خطرناک بت جھوٹی بات ہے، جھوٹ کا قول ہے ، جھوٹ کی عبادت ہے.تو بعض دفعہ ایک سرے سے مہم چلائی جاتی ہے، بعض دفعہ دوسرے سرے سے چلائی جاتی ہے.اب وقت ہے کہ ہر سمت سے مہم چلائی جائے.منتیں کر کے جس طرح بھی ہو، سمجھا کر ان لوگوں کو اس گندگی سے نکالنے کی کوشش کریں اور ان کو سمجھائیں کہ ان لغویات سے منہ موڑو اور اپنا قبلہ سیدھا کرو.خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک عظیم الشان زندگی بخش نظام جاری فرما دیا ہے.اس میں اگر چہ ویسے گندے پروگرام تو نہیں جو ہر انسان کو اس کی نفسانی لذات کی وجہ سے فور او یسے ہی کھینچ لیں مگر ایسے پاکیزہ پروگرام ہیں جو ذوق کو بلند کریں گے اور ایسا لطف دیں گے جو باقی رہنے والا ہے.اس کے بعد کوئی سر دردی اور کوئی نفس کی ملامت نہیں ہوتی ورنہ یہ لوگ جس گندگی سے لطف اٹھاتے ہیں ساری رات کے بعد وہ سارے دن کی سر در دی بنا رہتا ہے.اچھے کاموں سے محروم، بیج مطالعہ سے محروم ، اپنی زندگی کے اعلیٰ مقاصد سے دور ہٹتے ہوئے اور لطف اٹھاتے ہوئے ایسی بے چینی دل میں محسوس کرتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ ساری گندگی ہم اپنے اندر داخل کر لیں اس سے چمٹ جائیں اور وہ چیزیں جو دور سے اچھی دکھائی دیتی ہیں ہمارے قریب آجائیں تو حسرتیں پیدا ہوتی ہیں جن کو پورا کر ہی نہیں سکتے.وہ ایکٹر اورایکٹرسیں جو ان کی زندگی کا مرکز بن گئے ہیں ان کی تعداد اگر ان کے حواری و حواشی مواشی سارے اکٹھے کر لو تو زیادہ سے زیادہ ہیں تمہیں ہزار ہوگی ، ایک لاکھ بھی بنا لو تو ان کے پہلے دعوے دار تو ہندوستان کے ایک ارب باشندے ہیں یا ایک ارب کے لگ بھگ.وہ ایک لاکھ ایک ارب میں کیسے تقسیم ہوں گے اور کتنے بچیں گے کہ پاکستان کے دس بارہ کروڑ کے ہاتھ آئیں اور ہو کیسے سکتا ہے کہ ان سے وہ اپنی نفسانی لذت، بھوک کی تسکین کر سکیں.اس کا نام سراب ہے.جس کو قرآن کریم میں دوسری جگہ یوں بیان فرمایا کہ بے وقوف اندھے دن کی روشنی میں اندھیروں کی پیروی کر رہے ہیں، ایسی چیزوں کی پیروی کر رہے ہیں جو ہاتھ آہی نہیں سکتیں.پیاس کو بڑھاتی ہیں مگر پیاس کو بجھانے کی ان میں صلاحیت ہی
خطبات طاہر جلد 15 349 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء نہیں ہے.صلاحیت اس لئے نہیں کہ وہ تھوڑے لوگ ہیں اور ہر انسان کی پہنچ سے بہت دور ہیں اور اگر دس بارہ کی پہنچ میں ہوں تو ان کے لئے ناممکن ہے کہ دس بارہ کی تسکیں بھی پوری کر سکیں، اپنی نہیں ہوتی ان کی.خود کشیاں کر لیتے ہیں اپنی عمروں کے بعد کیونکہ جتنے پرستار ہیں وہ بھی جھوٹے نکلتے ہیں.اور ان کے جو Confessions ہیں وہ آپ پڑھیں جو انگلستان اور یورپ کے ایکٹرز سے تعلق رکھنے والے ہیں مستند مل جاتے ہیں.بڑی بڑی ایسی معبودا ئیں، جو جھوٹی معبودا ئیں تھیں، ان کا انجام یہ ہوا کہ خود کشی کر کے مرگئیں.بڑے بڑے ایکٹر خود کشی کر کے مر گئے کہ تم ہمیں دور سے دیکھ کر پرستش کر رہے تھے اندر دیکھو تو سہی کہ آگ کے سوا ہے ہی کچھ نہیں.پس ان بتوں کی پرستش کر کے تمہیں ملے گا گیا.ساری رات عبادت کرو گے، سارا دن ان کی بدمزگی میں مبتلا رہو گے، دل میں امنگیں بھڑک اٹھیں گی اس کو بھی حاصل کر لو اس کو بھی حاصل کر لو.نہ یہ حاصل ہوگا نہ وہ حاصل ہوگا.صرف تصویروں کی پرستش کر سکتے ہو، اس کو سینے سے لگا سکتے ہو، اس کو چمٹ سکتے ہو،اسے پیار کر سکتے ہو،اسے خوب صورت فریموں میں جکڑ سکتے ہو، اس سے زیادہ تمہارے کچھ ہاتھ نہیں آسکتا.مگر کیا تصویر بھی کبھی دل بہلا سکتی ہے.متحرک تصویر بھی نہیں بہلاسکتی ، کھڑی تصویر بھی نہیں بہلا سکتی.ہاں تصویر سے وابستہ مضامین بعض دفعہ تسکین بخشتے ہیں.مگر ان تصویروں سے وابستہ تو کوئی مضمون بھی ایسا نہیں جو دل کی تسکین کا موجب بن سکے.صرف آگ بھڑ کانے والے مضامین ہیں اور ہر شخص جانتا ہے، جس کو یہ تجربہ ہوگا وہ جانتا ہوگا کہ میں جھوٹ کی پرستش کر رہا ہوں.ایک بھر کی لگی رہتی ہے جو بجھتی نہیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ ہو کیا رہا ہے.جتنا آگے بڑھتے ہیں پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے.یہ سمندر کے پانی پی کر پیاس بجھانے والے جاہل سوائے اس کے کہ ہلاکتوں کی طرف بڑھ رہے ہوں اور ان کا کوئی مقصد نہیں ہے.تو معاشرے کونگر ان ہو جانا چاہئے.احمدی نظام کو ہر جگہ مستعد ہو جانا چاہئے.جہاں جہاں یہ بیماریاں داخل ہو رہی ہیں ان کا دائرہ کر لیں کیونکہ وہ فحشاء کی بیماریاں ہیں جو پھیلنے والی ہیں.ایسی بیماریاں ہیں جو آگے لگیں گی اور پھر سارے معاشرے کو بے کار کر دیں گی.اس لئے ان کے گرد گھیرے ڈال لیں تا کہ ان کا گند آگے دوسرے پاک گھروں میں منتقل ہی نہ ہو سکے.بائیکاٹ اس طرح نہ سہی مگر جو جانے والے ہیں ان کو سمجھا ئیں تو سہی.جب بھی وہ ایسا گند دیکھیں اٹھ کر آجائیں
خطبات طاہر جلد 15 350 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء وہاں سے کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.اگر تم نے یہ کرنا ہے تو ہمارا آنا جانا تمہارے گھر میں منقطع ہو جائے گا.جو بھی ذریعے اختیار کریں نیچے سے اوپر کی طرف سفر کریں یعنی رجس سے پاک کریں.آخری مقام یعنی جھوٹ کے قلع قمع کرنے کے ذریعے سے سفر اختیار کریں اور معاشرے سے جھوٹ کی بیخ کنی کے پروگرام بنا ئیں.کسی بچے کا جھوٹ برداشت نہ کریں چاہے وہ مذاق میں ہو.یہ وہ ایک صورت ہے جس کے نتیجے میں یہ جو بہت بڑی اور بھیا نک جنگ ہمارے سامنے ہے، معاشرتی خباثتوں سے اپنے خاندانوں کو اگلی نسلوں کو پاک اور محفوظ رکھنا ، یہ نصیب ہوگی تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے MTA کا فیض بھی عام ہونا شروع ہو جائے گا اور جب ذوق درست ہوں گے تو پھر اس مضمون میں بھی لوگوں کو دلچسپی ہوگی جو MTA کا مضمون ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کی باتیں اور معلومات جو حق پر مبنی ہیں اور مصنوعی نہیں ہیں، جو سرتا پانچ ہیں.ایسا ایک نظام ٹیلی ویژن کا جس میں ادا کاری کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے یہاں تک کہ جب ایک عرب عورت نے ایک خبر پڑھنے والے کو اس طرح دیکھا کہ اس نے ایک پاؤں موٹر کے او پر رکھا ہوا تھا ایک باہر تھا تو مجھے احتجاج کا خط لکھا.ابھی وہ احمدی نہیں ہوئی تھیں اب خدا کے فضل سے مخلص احمدی بن چکی ہیں.اس نے کہا مجھے تو آپ کے پروگرام سے محبت اس لئے تھی کہ محض سچ ہے اس میں کوئی بھی ادا کاری نہیں.جب آپ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں جب بیٹھے ہوئے بچوں کے چہرے مہرے اور زبان پر ہو جو آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوتے ہیں.کہتی ہیں میں تو Fascinate ہو جاتی ہوں ان باتوں سے، کہ شکر ہے خدا کا کہ ایک ٹیلی ویژن تو ایسا ہے جو سچ پر مبنی ہے.کہتی ہیں جب میں نے اس خبریں پڑھنے والے کودیکھا جو مصنوعی ادا کاروں کی نقل کر رہا ہے اور اپنی طرف سے خبروں کا معیار بڑھا رہا ہے تو اسی وقت میرا دل بے قرار ہو گیا، میں نے کہا ابھی آپ کو بھتی ہوں کہ خبروں کا معیار بڑھا نہیں رہا، گرا رہا ہے.آپ کی خبروں کا معیار تو سچائی سے اونچا ہوتا ہے.آپ کے ٹیلی ویژن کا تو لطف ہی یہ ہے کہ اس میں کوئی اداکاری کا دخل نہیں.پس جوں جوں آپ سچ کی خدمت کریں گے، سچ کا ذوق بڑھائیں گے MTA کو اللہ تعالیٰ نئی وسعتیں عطا فرمائے گا، نئے افق عطا فرمائے گا اور جوں جوں MTA کے ساتھ لوگوں کا تعلق بڑھے گا انشاء اللہ تعالیٰ وہ اسلام کی قدروں کے دائرے میں آجائیں گے اور پھر ان کو باہر نکلنے کا وہم بھی پیدا نہیں ہوگا کیونکہ یہ وہ دائرہ
خطبات طاہر جلد 15 351 خطبہ جمعہ مورخہ 3 مئی 1996ء ہے جو دن بدن ان کو بڑی قوت کے ساتھ خدائے واحد اور محمد رسول اللہ ہی کی طرف کھینچ لے گا.اللہ کرے کہ ہمیں ان تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 15 353 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء مذہب کے نام پر کسی دوسرے انسان کا حق سلب کرنے کی دنیا کا کوئی مذہب اجازت نہیں دے سکتا.( خطبه جمعه فرموده 10 رمئی 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) ستم تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی: عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ سَوَا مِنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَبِ وَمَنْ هُوَ نْ هُوَ مُسْتَخْفِ بِالَّيْلِ وَسَارِبُ بِالنَّهَارِه لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللهِ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءَ افَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّالٍ پھر فرمایا: (الرعد: 10 تا 12 ) میہ وہ آیات کریمہ ہیں جن کی گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے تلاوت کی تھی اور انہی کے حوالے سے جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے جھوٹ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی.آج کے جمعہ کے لئے بھی میں نے انہی آیات کو عنوان کے طور پر چنا تھا تا کہ اس مضمون کے وہ پہلو جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالوں سے میں نے پیش کرنے تھے اور گزشتہ جمعہ پر رہ گئے تھے ان کو انہی حوالوں سے دوبارہ بیان کروں یعنی مضمون تو وہی ہو گا مضمون دوبارہ ہوگا مگر وہ پہلو دوبارہ نہیں ہوں گے، وہ نئے پہلو ہیں جو آپ کے سامنے آئیں گے.اس دوران یعنی گزشتہ خطبہ اور اس جمعے کے دوران مختلف جگہوں سے ایسے خطوط آنے
خطبات طاہر جلد 15 354 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء th th شروع ہوئے کہ جوا گلا جمعہ ہے وہ " 10 Friday The ہے یعنی مئی کی دس تاریخ ہوگی اور جمعہ ہوگا اس لئے " 10 Friday The کے حوالے سے دیکھیں کیا ہوتا ہے اور زیادہ تر رجحان اس طرف تھا کہ میں اسی کو جمعہ کا موضوع بناؤں اور جہاں تک گرد و پیش پر نظر ڈالنے کا تعلق ہے مجھے کوئی ایسی نئی بات دکھائی نہیں دے رہی تھی جس کو " 10 Friday The کی اہمیت کے ساتھ باندھ کر میں پیش کرسکوں.اس لئے کوئی ارادہ بھی نہیں تھا کہ اس پر گفتگو کروں گا.اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون پہلے بارہا th th th th روشن کیا ہے.بارہا ایسے جمعہ آئے ہیں جو دسویں جمعہ تھے اور خدا تعالیٰ نے کئی قسم کے نشان دکھائے اور انذار بھی جاری فرمائے.تو یہ ضروری نہیں کہ قیامت تک اب " 10 Friday The کا کشف جو ہے وہ ضرور اس جمعہ کو ہمیشہ اسی طرح پورا ہوتا رہے.بعض اوقات ایک خوشخبری آتی ہے یا ایک انذار جو ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ پورا ہوا یا پھر وقفے کے بعد، لمبے انتظار کے بعد ایک دفعہ پھر بھی پورا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی ایسے الہامات ہیں جو یہ رنگ رکھتے ہیں.اس لئے اوّل تو جماعت کا یہ خیال کر لینا کہ گویا کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے کشفاً " 10 Friday The کو دکھایا اور بار بار چمکتے ہوئے دکھایا اس لئے ضرور ہر " 10 Friday The کو کوئی نشان ہوگا یہ درست نہیں ہے.لیکن ایک اور پہلو بھی ہے کہ سب سے پہلا " 10 Friday The جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھائے جانے والے اس کشف کے بعد آیا تھا اس میں دو بڑے نمایاں انذاری نشان تھے اور بسا اوقات انذار کے ساتھ تبشیر بھی وابستہ ہوتی ہے، بشارتیں بھی وابستہ ہوتی ہیں اور اس وقت میں نے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی کہ انذار کی کوکھ سے بھی بسا اوقات بشارتیں جنم لیا کرتی ہیں اور اس پہلو سے اندار محض کوئی ڈرا کر جان نکالنے والا مضمون نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر انذار سے فائدہ اٹھاؤ گے تو بہت سے نقصانات سے بچ سکو گے اور اگر باز نہیں آؤ گے تو جن کے لئے یہ انذار کا نشان ہے وہ تو مٹادیئے جائیں گے مگر جن کے حق میں یہ نشان ہے ان کو بشارتیں عطا ہوں گی.اب دیکھیں حضرت نوح کا جو سیلاب کا واقعہ ہے یہ بھی تو ایک انذاری نشان تھا مگر ایسا انذاری نشان جس نے ایک طرف تو ایک قوم کی صف لپیٹ دی.دوسری طرف آنے والی سب قوموں کا باپ نوح کو بنادیا اور دور دراز تک بہت وسیع علاقوں میں حضرت نوح کے فیض کو جاری فرمایا یہاں تک کہ چین میں بھی حضرت نوح کی طرح کے ایک بزرگ کا ذکر ملتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے سیلاب کا نشان دیا تھا اور ہندوستان میں بھی
خطبات طاہر جلد 15 355 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء ایسے ایک سیلاب کا ذکر ملتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ انذار جتنا بڑا ہو اس کے ساتھ تبشیر بھی اتنی ہی بڑی وابستہ ہوا کرتی ہے.آج میں نے کیوں یہ مضمون چھیڑا ہے جب کہ میں نے بیان کیا کہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا.اس لئے کہ آج کی خبروں میں ہندوستان میں رونما ہونے والے بعض واقعات جب صبح میں نے دیکھے تو معا میری توجہ اس پہلو پر گئی کہ یہ ایک بہت بڑا انذاری نشان ہے جو مسلمانوں کو ہوش دلانے کے لئے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کے لئے دکھایا جارہا ہے.ہندوستان میں ایک پارٹی جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی ہے، ابھی حالیہ انتخاب جو ہوئے ہیں آج صبح اخبارات میں جو ان کے نتائج میں نے دیکھے تو اس وقت میری توجہ اچانک اس طرف مبذول ہوئی کہ آج کے دن یہ بھی ایک انذاری نشان کا رنگ رکھنے والا واقعہ ہے.کبھی بھی بھارت میں ایسے نہیں ہوا تھا کہ تشدد پرست، یعنی لوگوں کی نظر میں تشدد پرست اور اپنے آپ کو وہ کہتے ہیں تشدد سے پاک ہیں، ایک خالصتا مذہبی جماعت جو ہندومت کے نام پر ابھری ہوا سے اکیلی کو باقی سب جماعتوں پر اکیلے اکیلے اگر مقابلہ کیا جائے تو اکثریت حاصل ہوگئی ہے یعنی ہندو جنتا پارٹی کو بحیثیت پارٹی ہندوستان میں سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور کانگریس بھی پیچھے رہ گئی ہے اور نیشنل پارٹی بھی پیچھے رہ گئی ہے اور آزاد ممبران اور متفرق چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی پیچھے رہ گئی ہیں.یہ ایک بہت اہم واقعہ ہے.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور اس کے اثرات ہندوستان تک محدود نہیں رہیں گے.لازماً اس کا اثر گردو پیش کے ممالک پر بھی پڑے گا اور خصوصیت سے پاکستان اور کشمیر پر یہ بات اثر انداز ہوگی اور کچھ تعلقات کے دائرے بدلیں گے، کچھ ایسے واقعات رونما ہوں گے جن کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے دونوں طرف اللہ تعالیٰ عقل و فہم عطا کرے اور اپنے مذہبی جنون کو مناسب حد اعتدال تک لانے کی توفیق عطا فرمائے.یہ وہ پہلو ہیں جو انذار کے اندر سے تبشیر کے نکل سکتے ہیں.مگر کیا ہوتا ہے؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ان حالات پر بھی بعینہ اسی طرح اطلاق ہو رہا ہے جیسے دوسرے مضمون پر ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ وہی ایک خدا ہے جو علِمُ الْغَيْبِ بھی ہے اور علمُ الشَّهَادَةِ بھی ہے.وہ اس کو بھی جانتا ہے جو غیب میں ہے لیکن
خطبات طاہر جلد 15 356 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء اس کو بھی جانتا ہے جو سامنے ہے اور ہم اس کو بھی نہیں جانتے جو ہمارے سامنے ہے.جونتائج ظاہر ہوئے ہیں ان کو پڑھنے والے سیاسی پنڈت بڑے بڑے مضامین لکھیں گے لیکن امر واقعہ ہے کہ سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے کیا اثرات رونما ہوں گے لیکن اگر یہ استنباط درست ہے کہ Friday The 10 th کے ساتھ اس کا تعلق ہے تو میں جماعت کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی اثرات رونما ہوں گے جماعت احمدیہ کے حق میں بہتر ثابت ہوں گے اور جوا بتلا آئے گا ہمارا فرض ہے کہ اس ابتلا میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور فہم عطا کرے اور اگر اس میں کوئی ان کے لئے آزمائش ہے سر بلندی کے ساتھ گزرنے کی توفیق بخشے.الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ظا ہر ہو یا مخفی ہو جو خدا تعالیٰ کے کبر پر منفی رنگ میں اثر انداز ہو سکتی ہو.اس کے متعال ہونے پر منفی رنگ میں اثر انداز ہوسکتی ہو.ہر قسم کے حالات، ہر قسم کے انقلابات میں سے خدا کبیر اور اکبر کے طور پر ہی ابھرے گا اور اس کی سر بلندی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑ سکتا.وہ رفعتوں والا ہے وہ متعال ہے وہ رفعتوں والا ہی رہے گا اور متعال رہے گا.پس وہ جو اپنا تعلق ایسے خدا سے جوڑ لیں جیسا کہ ہم بھی جوڑے بیٹھے ہیں یعنی جو کچھ بھی ہے ہمارا خدا ہی ہے.اس کے سوا دنیا کی نہ کوئی طاقت ہمیں سہارا دینے والی ہے، نہ کسی طاقت کے سہارے کی ہم پر واہ کرتے ہیں تو اس لئے ہمارے لئے تو ایک دوہری یقین دہانی ہے کہ کیسے بھی انقلاب برپا ہوں بالآخر وہ انقلاب ہمارے خدا کے غلبہ پر ہی منتج ہوں گے اور ہم بھی اس غلبہ سے خدا کی وجہ سے فیض پائیں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَوَآءِ مِنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهِ - اب یہ دونوں طرف پاکستان کی طرف سے بھی اور ہندوستان کی طرف بھی ایک آسر الْقَولَ کا مضمون ظاہر ہوگا اور ایک جَهَرَ الْقَولَ کا مضمون بھی ظاہر ہوگا.آسر الْقَوْلَ کا مطلب ہے وہ اپنی بات کو بتائیں گے، اونچی کر کے سنا کر جتلائیں گے اور دونوں طرف سے یہ دعوے ہوں گے کہ ہم تو صداقت پر قائم ہیں، ہم تو انصاف کے قائل ہیں، ہماری طرف کسی قسم کی بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی اور اس پارٹی نے ابھی سے یہ اعلان کرنے شروع کر دیئے ہیں کہ لوگ خواہ مخواہ ہمیں بدنام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی انتہا پسند جماعت ہے اس لئے مسلمانوں پر ظلم ہوں گے، اس لئے
خطبات طاہر جلد 15 357 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء ہم اور بھی خونی انقلاب برپا کریں گے، کہتے ہیں بالکل غلط ہے.آپ دیکھنا کہ کانگرس سے بھی بڑھ کر ہم انصاف پسند ثابت ہوں گے.حالانکہ کل تک ان کے اعلانات یہ تھے کہ ہندوستان میں صرف ہندو کی جگہ ہے، مسلمان کی کوئی جگہ نہیں.وہ باہر سے آ کر آباد ہونے والی قوم ہیں ان کو اپنے گھر واپس چلے جانا چاہئیے.یا رہنا ہے تو ہمارے سامنے گردنیں جھکا کر رہنا ہوگا ، مجال نہیں کہ کوئی ہمارے سامنے گردن اٹھا کے یہاں پھرے.تو ویسا ہی اعلان ہے جیسا پاکستان میں جماعت احمدیہ کے متعلق پہلے کیا جا چکا ہے.کے اشارے ” چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھا کے چلے وہی رسم جو یہاں جاری تھی وہ ہندوستان میں بھی اب جاری کی جارہی ہے.مگر احمدی بطور خاص نشانہ نہیں، تمام ہے مسلمان اس کا نشانہ بنائے جائیں گے.یہ ان کا (فیض احمد فیض) اسر القَوْلَ ہے یعنی اسر القَولَ سے تعلق رکھنے والی بات ہے.آسر تو ماضی کا صیغہ ہے، مطلب ہے جس نے اپنے قول کو چھپایا مگر آیت میں چونکہ اس کا لفظ آیا ہے اس لئے میں اس آپ کو سمجھا رہا ہوں.سَوَاءٍ مِنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهِ تم میں سے جو بھی خواہ بات کو چھپائے خواہ اسے ظاہر کرے.سَوَا مِنْكُم خدا کے نزدیک سب برابر ہیں.وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کہہ کیا رہے ہو، اندر سے کیا منتیں ہیں.تو دیکھیں اس عنوان کو بدلنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی.اسی کے تابع یہ مضمون بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اور قطعی رشتوں کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے اور کیا جارہا ہے.جو انقلاب بر پا ہورہا ہے اس میں دعاوی تو کچھ وہ تھے جو پہلے تھے ، فتح سے پہلے، وہ تو یہ تھے کہ ہم ہندوستان سے اسلام کا نام مٹادیں گے.مسلمان اگر ہماری تہذیب اختیار کر کے، ہمارے رنگ اختیار کر کے اپنی گردنیں ہمارے سامنے جھکا کر رہے گا تو رہے گا ورنہ اسے اس ملک سے باہر نکال دیا جائے گا اور ہندو مذہب کے اوپر عمل ہوگا.اس بات میں اہل فکر ونظر کے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے اور بہت بڑا عبرت کا سامان ہے کیونکہ میرے نزدیک اس انتہا پرستی کا ذمہ دار پاکستان کا ملاں ہے.اگر پاکستان کا ملاں نہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ ہندوستان میں مذہبی جاہلیت اس زور کے ساتھ سراٹھاتی.امر واقعہ یہ ہے کہ 1953ء کے فسادات کی تحقیق کے دوران اس وقت جو تحقیقی کمیشن کے
خطبات طاہر جلد 15 358 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء دو بڑے منصف تھے جن کا تعلق پاکستان کی سپریم کورٹ سے تھا یعنی جسٹس منیر اور جسٹس کیانی، یہ دونوں بہت بلند عالمی شہرت کے مالک اور ایسے جج تھے جن کے متعلق تمام دنیا میں ان کی قانون دانی ہی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا بلکہ ان کی ذات کی عظمت، ان کی شرافت، ان کی بلند اقدار کی بھی ہمیشہ عزت کی گئی ہے.کبھی ان کے اوپر کوئی طعن کا داغ آپ لگتا ہوا نہیں دیکھیں گے.بڑے صاحب فراست تھے اور عدلیہ کے مضمون کو خوب سمجھتے تھے.انہوں نے جو 1953ء کے فسادات کی تحقیق کا مطالعہ کیا تو یہ سمجھ گئے کہ ملاں بہت بڑے فساد کی طرف ہمیں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کو بھی لے جا رہا ہے.چنانچہ معین طور پر ہر مولوی سے یہ سوال کیا گیا کہ دیکھو تم کہتے ہو اسلام کی بالا دستی کے نام پر تمہیں حق ہے کہ شریعت کو جیسا تم سمجھو، خواہ اس شریعت کو قبول کرنے والا اس سے اختلاف بھی رکھتا ہو اور قرآن ہی کے حوالے سے شریعت کو کچھ اور سمجھتا ہو، مگر تمہیں حق ہے کہ تم جیسا شریعت کو خود سمجھتے ہو دوسرے پر اسی شریعت کو ٹھونسو خواہ وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف بات ہو.انہوں نے کہا ہاں بالکل ہمیں حق حاصل ہے.ایک نے بھی نہیں کہا کہ نہیں ہمیں حق حاصل نہیں.ہر ایک کی شریعت کا تصور مختلف تھا.ہر ایک نے یہ اقرار کیا اور بڑے زور اور فخر کے ساتھ سر بلند کر کے کہاہاں ہمیں اختیار ہے ہم شریعت کو زیادہ سمجھتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں خدا کے نام پر اسے جاری کرنے کا ہمیں حق ہے اور یہ ہما را دستوری اور جمہوری حق ہے ، صرف مذہبی حق نہیں.اس کے جواب میں ہمیشہ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر یہ جمہوری اور بنیادی حق ہے محض اسلام سے اس کا تعلق نہیں تو کیا آپ ہندوستان کے ہندوؤں کو یہ حق دیں گے کہ وہ اپنے مذہب میں خصوصیت سے منوسمرتی کے حوالے سے وہ قوانین مسلمانوں پر جاری کریں جو ہر غیر ہندو پر جاری کرنے کا ان کا مذہبی حق ہے اور ان تمام بنیادی حقوق سے مسلمانوں کو محروم کر دیں جو ہندو مذہب کی انتہا پسند کتا ہیں مسلمانوں کو دینے پر آمادہ نہیں ہیں یا کسی غیر ہندو کو دینے پر آمادہ نہیں ہیں.ہر مسلمان مولوی کا یہ جواب تھا ”ہاں یہ حق حاصل ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ تمہیں کوئی خدا کا خوف نہیں ہے، ذرا بھی حس نہیں کہ کروڑوں مسلمان تم ہندوستان میں پیچھے چھوڑ کے آئے ہو.یہاں تم ایسا ظالمانہ موقف اختیار کرو گے تو کل ان پر کیا بنے گی.ان کے خون کی ہولی کھیلی جائے گی اور تم ذمہ دار ہو گے کیونکہ تم نے جو اپنی ٹیڑھی سوچ کو شریعت کے نام پر پاکستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے
خطبات طاہر جلد 15 359 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء یہی کوشش کل ان پر ایک مذہبی جنون طاری کر دے گی اور تمہیں جو مذہبی آزادی کا تصور ہے کہ تم آزاد ہو اور ہر دوسرا غلام ہو یہی مذہبی آزادی کا تصور لے کر ہندو اٹھیں گے اور ہندوؤں کے سوا ہر دوسرا شہری ہندوستان کا ان کا غلام ہو جائے گا اور ایسے ظلم کئے جائیں گے جو تمہاری شریعت میں تصور بھی نہیں کئے جاسکتے.مودودی صاحب نے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے، یہ جواب دیا ہاں میں خوب سمجھتا ہوں اور اس کے باوجود میں اس مؤقف پر قائم ہوں.بے شک کریں ان کا حق ہے.ہمارا بھی ایک حق ہے، ان کا بھی حق ہے.یہ باتیں ہیں جو 1953ء میں دانشور، چوٹی کے عدلیہ کو سمجھنے والے وہ جسٹس، وہ حج جن کا مرتبہ تمام ہندوستان میں مانا گیا انہوں نے اس وقت محسوس کر لیا تھا کہ انتہا پسند ملاں صرف پاکستان ہی کو نہیں پورے ہندوستان کو کس سمت میں لے جارہے ہیں اور آخر اس کا انجام کیا ہوگا.تو آج دسویں تاریخ کو جمعہ کو جو یہ اعلان ہو رہے ہیں یہ لازماً کوئی گہرا پیغام لے کر آئے ہیں.ان کو معمولی سمجھ کر ایک اتفاقی ہونے والا الیکشن سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.جب میں نے یہ خبریں پڑھیں تو سارا پس منظر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا جس سے میں واقف تھا کہ اس طرح مولوی کی سازش سے اسلام کے نام پر ظلم کئے جانے تھے اور ان مظالم کی بازگشت کی صدا الا زماً ہندوستان سے آئی تھی اور اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چوٹی کے جوں نے اس زمانے میں اس بات کو بھانپ لیا اور گویا ایک پیشگوئی کر دی کہ تم ایسا کرو گے تو پھر اس کے لئے تیار رہو.آج وہ دن چڑھا ہے جس میں ہندوستان کے مسلمان کو یہ ظلم کا دور دیکھنے کی بدنصیبی بھی نصیب ہوئی ہے.پہلے ہی ہندوستان کے مسلمان پر بہت ظلم ہوتے رہے ہیں، ابھی بھی ہورہے ہیں لیکن جب یہ ظلم مذہب کے نام پر قانون بن کر کئے جائیں تو بظاہر انفرادی طور پر بھیا نک نہ بھی دکھائی دیں قوموں کی روح کچلی جاتی ہے.ایک بڑے وسیع پیمانے پر قوم قتل کی جاتی ہے.اب یہ جو قو می قتل ہے یہ انفرادی قتل اور انفرادی ظلم سے بہت زیادہ سنگین بات ہے.ہندوستان میں مسلمان پہلے ہی اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جب ان کی تمام تہذیبی اقدار کو یکسر پامال کر دیا جائے گا اور اس قانونی حق سے محروم کر دیا جائے گا کہ اسلام ایک مذہب ہے جسے اختیار کرنے کی جیسا کہ مسلمان سمجھتے ہیں ان کو اجازت نہیں.تو پھر جو بھیانک نقشہ نمودار ہوگا اس کا آپ اس وقت تصور
خطبات طاہر جلد 15 360 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء بھی نہیں کر سکتے.احمدی اس دور سے گزرے ہیں.احمدی جانتے ہیں کہ پھر ایسے دلوں پر کیا گزرتی ہے جن کے بنیادی مذہبی حقوق ان سے چھین لئے جائیں اس نام پر کہ ہم جو مذہب کا مطلب سمجھتے ہیں ہمیں حق ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں تم جو مذہب کا مطلب سمجھتے ہو تمہیں حق نہیں ہے کہ اس کے مطابق عمل کرو کیونکہ تم ایک اقلیت ہو.بالکل یہی دلیل ہے سو فیصد، جس کے نتیجے میں اس پارٹی نے بعض دوسری باتوں سے تو تو بہ کی ہے مگر اس بات سے تو بہ نہیں کی اور فتح کے بعد بھی قائم ہے اس بات پر اور الیکشن میں قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کو جو حقوق اپنے مذہب پر عملدرآمد کے دیئے گئے تھے ہم وہ سارے حقوق واپس لے لیں گے کیونکہ ایک ملک میں دو مذہبی حکومتیں جاری نہیں ہو سکتیں.تو یہ تو ابھی آغاز ہے آگے آگے دیکھئے کہ ہوتا کیا ہے.پس بہت ہی تاریخ ساز دور میں ہم داخل ہوئے ہیں جو تاریخ ساز بھی ہے اور جس کا آغاز بہت ہی بھیانک ہے اور بہت ہی دل پر ایک لرزہ طاری کرنے والا آغاز ہے.لیکن جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھیں گے جن کی آنکھیں نہیں ہیں وہ اندھے مارے جائیں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو اب بھی یہ ضرورت ہے کہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرے.مذہب کے نام پر ظلم اول تو بہت بڑی جہالت ہے مگر چونکہ خدا کے نام پر کیا جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کبھی ایسے لوگوں کو بے سزا نہیں چھوڑا کرتا.لمبے عرصے تک ایسی قوموں کو سزائیں ملتی ہیں اور وہ ان سزاؤں میں پیسے جاتے ہیں.یورپ کی تاریخ میں سپین کا تجربہ ہمارے سامنے ہے.سپین میں عیسائیت کے نام پر اور عیسائیت کی سر بلندی کے نام پر پہلے مسلمانوں پر ظلم کئے ، پھر یہود پر ظلم کئے، پھر عیسائیت کے دوسرے فرقوں پر ظلم کئے اور اس دن کے بعد سے یہ عظیم ملک جو پہلے بہت عظیم تھا ایسا تاریکی میں ڈوبا ہے کہ آج بھی یورپ کا سب سے پیچھے رہ جانے والا ملک ہے.یہ سوال اٹھتے رہے ہیں ، دانشوراس پر گفتگو کرتے رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پین کی قسمت میں ایک بدنصیبی گویا لکھ دی گئی ہے.سارا یورپ ترقی کر رہا ہے اور یہ سب سے پیچھے رہ گیا ہے اور یہی نہیں بلکہ سپینش اثر جہاں جہاں پہنچے ہیں اُن سب کو ہی یہ ملک لے ڈوبا ہے.Latin America جس کو کہتے ہیں وہ دراصل سپینش امریکہ ہے.یعنی سپین کے نفوذ والا وہ جنوبی امریکہ جس پر شروع سے ہی سپین کا تسلط رہا اور اب بھی
خطبات طاہر جلد 15 361 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء وہاں سپینش طرز فکر کی حکومت ہے اور معدنیاتی ذرائع کا جہاں تک تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ نے جنوبی امریکہ کو شمالی امریکہ سے کم عطا نہیں فرمائے.بہت ہی غیر معمولی طور پر زرخیز بھی ہے اور معدنیاتی دولتیں بھی اس کو عطا فرمائی گئی ہیں لیکن دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے.اس پہلو سے کہ جتنا قرضہ سارے جنوبی امریکہ نے عالمی بینک اور دوسرے اداروں کا دینا ہے اگر ان کی ساری زمینیں بھی بک جائیں تو وہ قرض ادا نہیں ہو سکتا.اس کی Re-Servicing میں ان کی ساری دولت خرچ ہو رہی ہے یعنی جو Debt Re-Servicing کہلاتی ہے، قرضہ اتارنے کے لئے توفیق نہیں ہوتی بالآ خر سود دینے کی بھی توفیق نہیں رہتی.جنوبی امریکہ کی حکومتیں وہ قرضے کا سودا تار نے میں ہی اس وقت مصروف ہیں اور ان کو اصل زرا تارنے کی توفیق ہی کوئی نہیں ، نہ ہو سکتی ہے، نہ کوئی نظر آتی ہے.لوگ جود انشور اس سوال پر غور کرتے ہیں اپنی کتابوں میں لکھ چکے ہیں کہ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ چین نے اس دور میں جو مظالم کئے تھے خصوصیت سے وہ مسلمانوں کے مظالم کو تو نظر انداز کر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں یہود پر جو مظالم کئے تھے وہ ان کو بہت مہنگے پڑے ہیں لیکن ظلم خواہ یہود پر ہو یا ہنود پر ہو یا مسلمان پر ہو ظلم ظلم ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ ظالم کوضرور اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے،جلد پکڑتا ہے یا بد سر پکڑتا ہے پکڑتا ضرور ہے.پس یہ جو تاریخی جرائم ہیں ان کا جرائم کا دور بھی لمبا ہوا کرتا ہے اور پکڑ کا دور بھی بعض دفعہ بہت دیر میں آتا ہے.بعض دفعہ قو میں ان واقعات کو بھول بھی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نہیں بھولتا.قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو اعلان ہے یہ قرآنی صداقتوں پر مبنی ہے.پس جب تم نے ایک ظلم کا دور، خدا کے نام پر ظلم شروع کیا اور خدا (در نمین: 151) کے ان بندوں کو جن کو سب سے زیادہ اسلام سے محبت تھی سب سے زیادہ عشاق محمد مصطفی ملے تھے اسلام کے دشمن اور رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرنے والوں کے طور پر مجرم بنا بنا کر عدالتوں میں پیش کیا تو کیسے تم خدا کی پکڑ سے اور اس کے غیظ سے بچ سکتے ہو.یہ قانون بن گیا ہے.انفرادی طور پر تو احمدیت کو عادت ہے ہمیشہ ہی مظالم دیکھتی رہی ہے اور کبھی کسی جگہ کوئی شکایت نہیں ہوئی.ہم جانتے ہیں کہ مذاہب کی تاریخ میں انفرادی طور پر مذہبی جماعتوں کو مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، قربانیاں دینی
خطبات طاہر جلد 15 362 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء پڑتی ہیں.شروع سے ہی ہم دیتے آئے ہیں.مگر جب حکومت قانون سازی کے ذریعے ظلم شروع کرتی ہے تو پھر قوموں کے قبضہ اختیار میں یہ بات نہیں رہتی.اس وقت ان کی قوم کی زندگی اور سلامتی پر حملہ ہوتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو فرعون کے حوالے سے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور کسی اور حوالے سے اس طرح بیان نہیں فرمایا.فرعون نے قانون سازی کر کے بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے زندگی کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی اور قانون سازی کے ذریعے ان کی قومی صلاحیتوں کو کچل کے رکھ دیا تھا.ان کے مردوں کو عورتیں بنادیا تھا یعنی وہ مردانہ صفات جو مقابلہ کی طاقتیں ہیں ان کو کچل کے رکھ دیا، ان کے اندر کوئی دم خم باقی نہیں رہنے دیا.یہی وہ کوشش تھی جس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیاب جدو جہد کے بعد بالآخر الہی تقدیر سے فرعونیت ناکام ہوئی ہے، نہ کہ انسانی تدبیر سے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں میں تو کوئی طاقت نہیں تھی.پس اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں جماعت کو جو سرخروئی عطا فرمائی ہے.بڑی کامیابی اور ہمت کے ساتھ ان حملوں کو پسپا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، ان قوانین کو نا مرا در کھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.تمام تر حکومت کی کوششوں اور سخت مظالم کے باوجود احمدیت کا نام مٹانے کی بجائے احمدیت کو پاکستان میں پہلے سے زیادہ پیوستہ کر گئے ہیں.یہ وہ تو فیقات ہیں جو خدا کی طرف سے اترا کرتی ہیں.بندوں کے بس کی بات نہیں ہے.ورنہ دنیاوی تاریخ میں تو جب بھی ممالک نے قانون سازی کے ذریعے بعض قوموں کو کچلنے کی کوشش کی ہمیشہ کچل دیا.نائسی جرمنی کے سامنے ان یہود کی کیا حیثیت تھی جو ہٹلر کی قانون سازی سے پہلے تمام جرمنی پر ایک غیر معمولی طاقت اور رعب رکھتے تھے.تمام جرمنی کی اقتصادیات ان کے قبضے میں تھیں.تمام جرمنی کی سیاست سے وہ کھیل رہے تھے اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہود کی آئندہ تاریخ جرمنی سے وابستہ ہو چکی ہے.جرمنی کے ذریعے یہ تمام دنیا پر قبضہ کریں گے لیکن جب ایک حکومت اٹھی ہے اور قانون سازی کی ہے تو دیکھیں کچھ بھی باقی نہیں رہا.ساری طاقتیں ان کی ٹوٹ گئیں.سائنس پر قبضہ تھا تو سائنس دانوں کو نکال کر باہر پھینکا اور کوئی پرواہ نہیں کی.آرٹ پر قبضہ تھا، میوزک پر قبضہ تھا، تصویر کشی ، بت بنانے پر بھی انہی کا قبضہ تھا اور بتوں کی تصویریں کھینچے پر بھی انہی کا قبضہ تھا.وہ جو فائن آرٹس کہا جاتا ہے اس پر بھی یہی قوم قابض تھی.فلسفے
خطبات طاہر جلد 15 363 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء پر یہ قوم قابض تھی.سیاست پر یہ قوم قابض تھی.تمام تعلیمی اداروں پر ان کا قبضہ تھا.تمام Professions پر ان کا قبضہ تھا.ڈاکٹر بھی یہی چوٹی کے تھے.سرجن بھی یہی چوٹی کے تھے.سائنس دان بھی یہی تھے اور اقتصادیات کے ماہرین بھی یہی اور اقتصادی دولتوں پر قابض بھی یہی تھے لیکن دیکھیں حکومت کے سامنے کچھ پیش نہیں گئی.تو قانون سازی ایک بہت بڑی طاقت ہے.اور جب قانون سازی کے ذریعے کسی قوم پر مظالم کئے جائیں تو پھر اس کا کوئی جواب اس قوم کے پاس نہیں رہتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور وہ ان کی حمایت میں کھڑا ہو جائے.پس ہندوستان میں اب یہ ہوا ہے.ایک ایسی حکومت کے آنے کا احتمال پیدا ہو گیا ہے جو حکومت قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے پر تلی بیٹھی ہے.وہ قانون سازی کے ذریعے اسلام کے سارے تاریخی نشان مٹا دینے کا تہیہ کر کے آ رہی ہے.وہاں وہ سابقہ باتیں جو کسی زمانے میں بعض مسلمان بادشاہوں کی یاد گاریں تھیں ابھی بھی ان کو نظر انداز کر کے فضائی پولوشن (Pollution) کا نشانہ بننے دیا گیا ہے ان کے خلیے بگاڑ دئے گئے ہیں.مگر یہ اتفاقی باتیں ہیں.جو میں دیکھ رہا ہوں آگے آنے والی باتیں اگر بی.جے.پی کوحکومت نصیب ہوگئی جو ا بھی تک تو لٹکا ہوا معاملہ ہے یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا تو پھر دیکھیں کہ وہاں کس تیزی سے کیسے گہرے اور دیر پا اثر کرنے والے واقعات رونما ہوں گے اور اس پہلو سے مسلمانوں کو ہر جگہ اپنے کردار، اپنے اعمال،اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنی چاہئیے.مذہب کے نام پر کسی دوسرے انسان کا حق سلب کرنے کی دنیا کا کوئی مذہب اجازت نہیں دے سکتا.اگر دیتا ہے تو جھوٹا ہے.تو اسلام کو جھوٹے مذاہب کی صف میں کیوں لاکھڑا کیا ہے.اسلام تو انصاف کا ایسا علم بردار ہے کہ دنیا کی کسی مذہبی الہی کتاب میں انصاف کی حمایت میں ایسے عظیم الشان احکام موجود نہیں ہیں، ایسی واضح تعلیمات موجود نہیں ہیں جیسی قرآن کریم میں ہیں.مذہبی حکومت، مذہبی حکومت کا شور ڈالا ہوا ہے ان مولویوں نے اور قرآن کریم پڑھ کے دیکھیں وہاں کسی مذہبی حکومت کا ذکر ہی نہیں ملتا.صرف ایک مذہبی حکومت کا ہے اس کے سوا سارے قرآن میں دوسری مذہبی حکومت کا کوئی تصور نہیں.وَإِذَا حَكَمْتُمُ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ.اے مسلمانو! تمہارے لئے ایک ہی قانون ہے حکومت کا اس کے سوا اور کوئی نہیں.اگر تم حکومت میں آ جاؤ اگر حکومت کی باگ تصور
خطبات طاہر جلد 15 364 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء ڈور تمہارے سپرد کی جائے.اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ عدل سے حکومت کرنا ہوگی.عدل کے تقاضوں کو چھوڑ نہیں سکتے.اب عدل تو توازن کو کہتے ہیں.عدل کے تصور کے ساتھ یہ تصور ا کٹھا بیک وقت زندہ رہ ہی نہیں سکتا کہ عدل کے تقاضے ایک مذہب والے کو زیادہ سیاسی یا اقتصادی حقوق دیں اور دوسرے مذہب والے کو کم سیاسی یا اقتصادی حقوق دیں.Civil Rights تو تمام شہریوں کا برابر کا حق ہے اور عدل اور Civil Rights یعنی شہری حقوق میں تفریق ، بیک وقت یہ دو چیزیں رہ ہی نہیں سکتیں.تو ایسے جاہل لوگ ہیں جو اس وقت ہمارے مذہب کی سیاست پر قابض ہیں کہ خدا کے نام پر نا انصافی کی تعلیم دیتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام کی یہ تعلیم ہے، اسلام مسلمانوں کوحق دیتا ہے کہ اپنے لئے جتنے حقوق چاہے اسلام کے نام پر لے اور دوسرے کو جتنے حقوق سے چاہے محروم کرے مگر ہو اسلام کے نام پر ، دنیا کے نام پر نہیں.یہ تو نا جائز بات ہے.خدا کے نام پر جتنے مظالم کرنے ہیں کر لو ، جب وہ کھلی چھٹی دیتا ہے تو تمہیں کیا تکلیف ہے.قتل و غارت کرو، خون بہا ؤ، گھر لوٹو ، لوگوں کو اپنے وطن سے بے وطن کرو، جیلوں میں ٹھونسو، جھوٹے مقدمات بناؤ مگر دیکھو یا درکھنا خدا کے مقدس نام پر بناناور نہ خطرناک بات ہے.تو اس تقدس کی حفاظت جس قوم کو نصیب ہو جائے جس کا تصور ہی تقدس سے خالی ہے تو ایسی جاہلانہ مذہبی حکومت ظاہر ہوتی ہے جس کے ساتھ ملک کا تمام امن وامان اٹھ جاتا ہے اور ملک کی گلی گلی سے نا انصافی کے واویلوں کی آواز میں سنائی دیں گی.یہ کر بیٹھے ہوا اپنے ملک میں اور تمہاری بد بختی ابھی تمہیں دکھائی نہیں دے رہی.یہ کچھ کر بیٹھے ہو یہاں اور اب اگلے ملک میں کروانے کے انتظام کروا ر ہے ہو تم ذمہ دار ہو اور خدا کے حضور تم ذمہ دار ہو، تم نے خدا کے نام پر اور اسلام کے نام پر سب سے زیادہ اسلام پر، خدا پر ظلم کئے اور اس کے بندوں پر ظلم کئے.اب یہی طریق کار مظالم کے تمہاری ہمسایہ قوم نے سیکھ لئے ہیں جو تعداد میں تم سے زیادہ ہے اور وہاں ابھی بھی اتنی تعداد میں مسلمان موجود ہیں کہ تقریباً پاکستان کی آبادی کے برابر ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد ہے.تمہیں تو کچھ نصیب ہوگا یا نہیں اور میں جانتا ہوں کہ کچھ نصیب نہیں ہو گا مگر ان کے نصیب مارے گئے جو تمہارے ہم مذہب، اسی خدا کو ماننے والے، اسی رسول کے عشاق تو ضرور ہیں خواہ عشق کے تقاضے پورے کریں یا نہ کریں جس خدا کو تم مانتے ہو جس رسول کے عشق کا تم دم بھرتے ہو.ان
خطبات طاہر جلد 15 365 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء کے ساتھ اگر کوئی ظلم ہوا تو تم ذمہ دار ہو اور اس ذمہ داری میں مرنے کے بعد تو جو ہوگا وہ تو اللہ جانتا ہے کہ تم سے کیا سلوک ہو گا مگر تاریخ بھی تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی.ہمیشہ اگر ہندوستان پر لعنتیں ڈالی گئیں تو ہندوستان سے گزر کر تم پر پڑیں گی کہ تم وہ بد بخت لوگ ہو جنہوں نے ان مظالم کا آغاز کیا تھا.اس لئے کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے جو آج ہوا ہے.یہ ایک بہت ہی خطرناک آئندہ رونما ہونے والی تبدیلیوں کا آغاز ہے.ایسی تبدیلیاں ہیں جن کی داغ بیل رکھی جا چکی ہے.اور اس وقت اس صورت حال میں جماعت احمد یہ پر سب سے زیادہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ محض اپنی برتری دکھانے کے لئے کہ دیکھو دانے ہمیں سچا کر دکھایا ہرگز کمینگی کا مظاہرہ نہ کریں.ہماری قدر مشترک ہے.اسلام کی تہذیب، اسلام کے تمدن، اسلام کی طرز زندگی پر حملہ ہونے والا ہے.یہاں کسی مسلمان یا کسی مولوی کی بات نہیں ہو رہی.وہ حملہ ہے جو مجھے دکھائی دے رہا ہے اور اس میں جماعت احمدیہ کو قربانیوں کی صف میں آگے بڑھنا ہوگا.ہر قیمت پر اس کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی ، اپنے ملک میں بھی اور اس دوسرے ملک میں بھی.دونوں جگہ اگر کوئی عقل اور نصیحت کی بات کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.اس لئے کہ کچی جماعت ہے.اس لئے کہ اخلاص کے ساتھ بات کرتی ہے.انصاف کے ساتھ بات کرتی ہے اور اخلاص اور انصاف میں اگر آغاز میں طاقت نہ بھی ہو تو اس کی ذات میں یہ طاقت ہے کہ وہ بڑھتا جاتا ہے.اس کی ذات میں غلبے کی طاقت موجود ہے.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو سب سے پہلے دعاؤں کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے اور پھر یہ یقین ہمیشہ اپنے دل میں قائم رکھنا چاہئے کہ انقلاب جو بھی رونما ہوں گے ضرور ہے کہ دکھوں سے ہم گزریں اور ابتلاؤں میں گھیرے جائیں.مگر جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے ہمارا خدا کبیر بھی ہے اور متعال بھی ہے اور انجام کا رہمارے لئے ہر گز نہ مایوسی ہے، نہ ناکامی ہے.مگر رستوں کی تکلیفیں تو بہر حال رستے میں آئیں گی.سر بلندیوں کے دعوی کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم چڑھائیاں چڑھو اور تمہیں کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے.چڑھائیوں کے اپنے کچھ آزار ہوا کرتے ہیں ان آزار میں سے تو گزرنا پڑتا ہے.پس اس پہلو سے دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور نصیحت کے ذریعے قوم کو دکھانا شروع کریں کہ کیا ہورہا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 366 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء ہندوستان کے احمدیوں کا فرض ہے کہ تمام سیاسی سطح پر خواہ وہ مقامی ہو یاوہ ملکی ہو ،ضلعی ہو یا صوبائی ہو، ہر سطح پر دانش وروں سے ملاقاتیں کریں، ان کو بتائیں کہ کیا کیا ظلم ہونے والے ہیں.ہندوستان اور پاکستان کے جو اقتصادی حالات ہیں وہ اس قسم کے ظالمانہ دور کو برداشت ہی نہیں کر سکتے.سب کچھ مٹ جائے گا.نہ ہندو کو فتح ہوگی نہ مسلمان کو ہوگی.سوائے بربادی کے مذہبی انتہا پسندی نے کبھی بھی دنیا کو کچھ نہیں دیا.ان کو سمجھائیں کہ پاکستان سے نصیحت پکڑ وعبرت حاصل کرو د یکھتے نہیں وہاں کیا ہوا ہے اور کس حال میں قوم پہنچ گئی ہے.بھائی بھائی سے الگ ہو گیا، گھر گھر ڈا کے پڑنے لگے.نہ عورت کی عزت محفوظ، نہ بچیوں کی عزت محفوظ ، نہ بیٹوں کی ، نہ باپوں کی گلی گلی ظلم کے ناچ ہونے لگے اور کسی گھر میں کوئی امن باقی نہیں رہا.پولیس کی وردیوں میں ڈاکو نکلتے ہیں اور جو پولیس کی وردیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی ڈاکوؤں سے کم نہیں ان کا بس چلے تو سب کچھ لوٹ لیتے ہیں.ایسی خوفناک صورتحال ہے اخلاقی لحاظ سے کہ جو رپورٹیں بھی مجھے ملی ہیں قتل کے مقدمات کے تعلق میں وہ کہتے ہیں کہیں قتل ہو سہی پھر دیکھو تھانے داروں کی کیسی چاندی ہوتی ہے.سارا جو عملہ ہے تھانے کا اس میں ایک سنسنی سی ہو جاتی ہے گویا عید کی خبر آئی ہے اور پھر وہ دونوں فریق سے زیادہ سے زیادہ لوٹنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور اگر کوئی غریب اس موقع پر جہاں بے چاروں پر پہلے ہی قتل پڑ چکا ہے، اگر جھوٹا قتل پڑا ہوا ہے پولیس کی پوری خدمت نہ کریں تو پھر وہ ان پر ایسا پکا قتل کا مقدمہ باندھتے ہیں کہ معصوم گردنیں پھانسیوں کے حوالے کر دی جاتی ہیں اور کسی کو کوئی حس نہیں ہے.یہ ایک دفعہ نہیں، دودفعہ نہیں سینکڑوں مرتبہ پاکستان میں ہو چکا ہے کہ پولیس کو خوش نہ کر سکے تو ایک معصوم آدمی کی گردن پھانسی کے حوالے کر دی گئی اور جو ظالم ہے اس کو تو پیسے دینے کی عادت ہی ہے.اسے تو جو رشوت خور ہے بہت خوش رہتا ہے کیونکہ جو جائیدادیں بیچ کر دیتے ہیں ان کو پتا لگتا ہے کہ کیا تکلیف ہے رشوت دینے کی.جو جائیداد میں غصب کر کے رشوت دیتے ہیں ان کو کیا تکلیف ہے.آج ایک جائیدادلوٹی ہے کل پولیس کی مدد سے دوسری جائیداد لوٹ لیں گے اور ان کے ہاں کی نہیں آتی.سیاست میں بھی جب سیاست گندی ہو جائے یہی کچھ ہوتا ہے.وہ خرچ کرتے ہیں، بڑا بڑا خرچ کرتے ہیں، مگر جانتے ہیں کہ سارے خرچ ہم نے ، ایک دفعہ سیاست میں کامیاب ہو جائیں تو انہی لوگوں سے نکالنے ہیں.وہ جو انتخاب سے پہلے منتخب ہونے
خطبات طاہر جلد 15 367 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء والے امیدواروں سے پیسے لیتے ہیں یہ تو چند دن کی بات ہوتی ہے.پھر عرصہ انتخاب پانچ سال ہے تو پانچ سال ان لوگوں کو منتخب کو پیسے دینے پڑتے ہیں اور کئی کئی گنا واپس کرنے پڑتے ہیں.ہر روز کوئی نہ کوئی کام کسی بے چارے کو نکل آتا ہے، کبھی پٹواری سے نکل آیا، کبھی تھانے دار سے نکل آیا، کبھی افسر مال سے نکل آیا، کبھی ڈپٹی کمشنر سے اور اس منتخب امیدوار کے گھر کے دروازے کھٹکتے ہیں اور ہر خدمت کی قیمت ہوتی ہے اور قیمت کے بغیر خدمت لی ہی نہیں جاسکتی.تو جہاں اقتدار کو دولت کا ذریعہ بنا لیا جائے ، جہاں اقتدار و ظلم کا ذریعہ بنالیا جائے ایسے ملک میں امن کیسے ہوسکتا ہے اور اسلام وہاں کیسے گھس سکتا ہے.اسلام تو ایسے ملک میں جھانکتا تک نہیں اور نام اسلام کالے رہے ہیں.اگر یہ فصیحتیں نہیں سنی ، اگر ان پر عمل نہیں کرنا جو میں تمہیں دکھا رہا ہوں، تم جانتے ہو کہ بیچ ہے، ایک ایک لفظ سچ ہے.اگر یہ دیکھنے کے باوجود اپنے اخلاق میں اور اپنے اعمال میں تبدیلی نہیں کرنی تو خدا کے واسطے خدا کا نام لینا تو چھوڑ دو.جھک مارنی ہے تو کسی اور نام پر مارو، اسلام کے نام پر نہ مارو.محمد رسول اللہ ﷺ کے نام پر ظلم نہ کرو.یہ سب سے بڑا ظلم ہے جو میں نے کہا تھا کہ رسول پر بھی کر رہے ہیں اور خدا پر بھی کر رہے ہیں اور اس کی سزا ضرور ملے گی.کس طرح ملے گی اللہ بہتر جانتا ہے.کچھ تو مل رہی ہے وہی اتنی زیادہ ہے کہ جو جاتے ہیں وہ پر پھڑ پھڑاتے ہوئے پاکستان سے نکلتے ہیں.کہتے ہیں ہم نے جو دیکھا تھا کچھ اور تھا یہ تو کچھ اور ہی بن چکا ہے.نہایت ہی بھیا نک نقشے لے کر آتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں اور تعجب ہوتا ہے کہ یہ قوم پھر کس طرح زندہ ہے.غربت کا حال یہ ہے کہ دن بدن دولت جو ہے چند نہیں بلکہ چند سویا چند ہزار خاندانوں میں اکٹھی ہو رہی ہے اور جو سڑکوں پر پلنے والا غریب ہے اس کا کوئی حال نہیں.کوئی پرسان حال نہیں.قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور غریب کو تو قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے.اگر طاقت ہے تو ان کو جن کے پاس اپنی غربت کو دور کرنے کے لئے دوسرے ذرائع بڑی کثرت سے موجود ہیں.یہ عجیب واقعہ ہوا ہے ابھی کہ پاکستان کے کلرکوں نے احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل آئے اور بھوک کے خلاف احتجاج تھا اس لئے قمیضیں اتار کر باہر نکلے اور آپ حیران ہوں گے دیکھ کر اتنے موٹے موٹے پیٹ ہیں ان تصویروں میں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے.بھوک کے خلاف ایسا احتجاج کبھی انسانی تاریخ میں نہیں کیا گیا ہوگا.بڑے بڑے موٹے پیٹ والے کلرک سڑکوں پر نکلے ہوئے
خطبات طاہر جلد 15 368 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء ہیں، پیٹ سے کپڑے اٹھائے ہوئے کہ دیکھو جی ہم بھو کے.وہ بھو کے نہیں بھوکا بنانے والے لوگ ہیں.ہر کام جو کرتے ہیں غریب کا پیسے لے کر کرتے ہیں.پیٹ کے کپڑے تو ان غریبوں کو اٹھانے چاہئیں جن کو گھروں سے نکلنے کی طاقت نہیں ہے.وہ گولیوں کا نشانہ بنائے جائیں تو کوئی ان کا حامی و ناصر نہیں ، کوئی ان کے ظلموں کا حساب لینے والا نہیں ہے یعنی ان پر ظلم کرنے والوں کا حساب لینے والا نہیں ہے.یہ ملک اس حال کو پہنچا ہوا ہے اوپر سے لڑائی کی تیاریاں.اوپر سے ہندوستان میں آنے والے مذہب کے نام پر نئے انقلابات اور مذہبی شریعت جوان کی ہے اس کے تصور سے بھی آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے.اگر اس شریعت پر صحیح عمل کروایا جائے تو اگر کہیں کوئی پنڈت وید پڑھ رہا ہو اور کوئی مسلمان شو در پاس سے گزرے کیونکہ ہر غیر مذہب والا پھر شودر ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کے کان میں اس وید کی آواز آ جائے تو ویدک وفاداروں کا فرض ہے کہ پگھلا ہوا سیسہ اس کے کان میں ڈالیں کہ تم بد بخت ہوتے کون ہو اس مقدس کلام کوسن کر اس کو نا پاک کرنے والے.یہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہندو گیتا اور ویدک تعلیم ہے تو یہ بھی ظلم ہے.یہ ویدک تعلیم حقیقت میں نہیں ہے.یہ پنڈت کی تعلیم ہے جو ہندو ملاں ہے اور اس نے ویدوں پر پہلے ظلم کیا اور پھر بنی نوع انسان پر ظلم کیا اور یہ جو ویدک تعلیم ہے یہ تو پاکستان میں بھی مل رہی ہے.کوئی احمدی کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ دے تو کہتے ہیں اس کی زبان نوچ لواس نے کلمہ کو نا پاک کر دیا ہے.کسی کے گھر سے بسم الله الرحمن الرحیم لکھی ہوئی نکلے تو اس کو جیلوں میں ٹھونسو اور جوتیاں مارتے ہوئے تھانوں میں لے کے جاؤ کہ اس کے گھر سے بسم اللہ دریافت ہوئی ہے.یہ بد بخت ہوتا کون ہے بسم اللہ کو اپنے گھر میں رکھ کر اس کو نا پاک کرنے والا.تو یہ و یدک تعلیم بھی خدا کی تعلیم نہیں تھی ، نہ ویدک میں تھی.یہ تعلیم جو میں بیان کر رہا ہوں پاکستان کی یہ کب قرآن اور سنت میں ہے.اس لئے جیسا ظلم اپنے تاریک زمانوں میں وید کے پجاریوں نے اپنے مذہب پر کیا تھا وہ قرآن کے ماننے والے خود اپنے دین پر آج کل ہی کر رہے ہیں اور کر چکے ہیں.تو اگر مقابلہ ہو گا تو دو جہالتوں کا بڑا سخت مقابلہ ہوگا.اسلام بھی یہاں سے اپنے ، جس طرح کہتے ہیں بوریا بستر لپیٹ کر اٹھ کھڑا ہو گا اور ویدک دھرم بھی ہندوستان سے نکل جائے گا کیونکہ نہ وہاں وید کے نام پر جنگ ہو رہی ہو گی، نہ قرآن کے نام پر جنگ ہوگی.ملائیت یعنی مسلمان ملائیت ، ہندو ملائیت
خطبات طاہر جلد 15 369 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء سے ٹکرائے گی اور بہت ہی بھیانک مناظر ابھریں گے اور ان مظالم کا شکار تمام اعلیٰ انسانی اقدار ہو جائیں گی.مظلوم مارے جائیں گے اور ظالم، مظلوم پر پھبتیاں اڑاتے پھریں گے.پس ایسے ملک میں جہاں خدا کے نام پر مظالم ہوں، ایسے ملک میں جہاں رام کے نام پر مظالم ہوں، جہاں برہمو کے نام پر مظالم ہوں تو نہ خدا نہ رام، نہ برہمو، کوئی بھی نہیں ملتا.سب ان ملکوں سے نکل چکے ہوتے ہیں تب یہ توفیق ہوتی ہے.ان کا حال تو ویسا ہی ہو چکا ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایسے چرچ میں جو سفید فاموں کا چرچ تھا ایک کوئی بڑھا سیاہ فام عیسائی اندر داخل ہو گیا.جب لوگوں کو پتا چلا کہ یہ سیاہ فام ہو کر سفید فام لوگوں کے چرچ میں آ گیا ہے تو انہوں نے مار کے دھکے دے کر باہر نکال دیا.انہوں نے کہا تمہاری یہاں کوئی جگہ نہیں ہے.عیسائیت جو بھی تھی وہ محبت ضرور رکھتا تھا عیسائیت سے.وہ باہر نکل کر ساری رات اس چرچ کی سیڑھیوں پر روتا رہا کہ اے یسوع ! میں تو تیری محبت اور پیار میں یہاں آیا تھا.مجھے اس چرچ سے دھکے دے کر نکال دیا گیا ہے.اس کو اسی حالت میں اونگھ آگئی اور رویا میں حضرت یسوع دکھائی دئے.اس نے کہا تجھے کیا ہو گیا ہے کیوں رورہا ہے.اس نے جب بتایا.اس نے کہا دیکھو میں تو دو ہزار سال ہو گئے ہیں ایسے چرچوں میں میں نے گھس کر بھی نہیں دیکھا.تمہیں تو آج دیس نکالا ملا ہے چرچ سے، مجھے دو ہزار سال سے دیس نکالا ملا ہوا ہے.اگر میں رؤوں تو میری بقیہ ساری عمر روتے روتے کٹ جائے گی.تم میرے ساتھ ہو خوش نصیب ہو.پس ایسے ملکوں میں جہاں اسلام کے نام پر ظلم ہوں یا ہندومت کے نام پر ظلم ہوں یا عیسائیت کے نام پر ظلم ہوں اگر کوئی نہیں ہوتا تو خدا نہیں ہوتا باقی سب چیزیں پھر چلتی ہیں اور پنپتی ہیں.دعا کریں کہ اللہ ان کو ہوش دے ان کو عقل اور ہوش کے ناخن دے مگر وہ ناخن لوگوں کو چھیلنے والے نہ ہوں.ظلم کے ناخن نہ ہوں.اللہ ان کو عقل دے، ایسی عقل نہ دے جو گھاس چرتی ہے.ایسی عقل دے جو جانوروں کو انسان بنانے والی عقل ہوا کرتی ہے نہ کہ انسانوں کو جانور بنانے والی.پس دعا ئیں سب سے بڑی طاقت ہیں.اپنی دعاؤں کو ان مقاصد کے لئے استعمال کرو اور نصیحت کو ان مقاصد کے لئے استعمال کرو.اپنے گرد و پیش درد کے ساتھ ، دل کی گہرائی کے ساتھ ، ان حق کی آوازوں کو بلند کرو اور پھر انتظار کرو.میں تمہیں ایک یقین ضرور دلاتا ہوں اور آج تک کبھی میرا یہ یقین متزلزل نہ ہوا ہے، نہ مرتے دم تک ہوگا کہ تم ضرور سرفراز ہو گے.تمہاری قسمت میں ناکامی کا
خطبات طاہر جلد 15 370 خطبہ جمعہ مورخہ 10 مئی 1996ء خمیر نہیں ہے.تم خدا کے عاجز بندے ہو.کبیر اور متعال کے بندے ہو اسی کے بندے بنے رہو تو کبھی دنیا کے انقلابات تم پر کوئی منفی اثر پیدا نہیں کرسکیں گے.اللہ ہمارا حامی وناصر ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 15 371 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء دنیا اور اس کی چیز میں اس کی نظر میں فنا ہو جاتی ہیں.( خطبه جمعه فرموده 17 رمئی 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی : علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ سَوَاءٍ مِنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ مَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفِ بِالَّيْلِ وَسَارِبُ بِالنَّهَارِ لَهُ ـتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُوْنَ مِنْ امْرِ اللهِ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا اَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءٍ أَفَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّالٍ پھر فرمایا: (الرعد: 10 12) یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ الرعد کی دسویں تا بارہویں آیات ہیں اور پہلے بھی دوگزشتہ خطبات کے موقع پر میں انہی کی تلاوت کرتا رہا ہوں.آج خصوصیت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان اقتباسات کے حوالے سے میں نے ان کی تلاوت کی ہے جن کے متعلق میں نے وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات جو اس آیت کی تفسیر میں آپ نے لکھے اور بیان فرمائے ہیں وہ آپ کے سامنے رکھوں گا.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وہ غیب کا بھی عالم ہے اور شہادت کا بھی.الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ کبیر ہے اور متعال ہے.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا ایک تعلق اس کے الْكَبِيرُ اور اس کے الْمُتَعَالِ ہونے سے ہے جس کے متعلق میں نے پہلے ذکر کیا تھا لیکن اس طرز بیان میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہی ہے جو ظاہر کو بھی جانتا ہے اور وہی ہے جو غیب کو بھی جانتا ہے.بندوں کو نہ تو ظاہر کا
خطبات طاہر جلد 15 372 خطبہ جمعہ مورخہ 17 مئی 1996ء کچھ علم ہے نہ غیب کا کچھ علم ہے اور چونکہ علم سے ہی کبر اور علم ہی سے بلندی عطا ہوتی ہے.تمام سر بلندی علم کے نتیجہ میں ہے تمام عظمت علم کے نتیجہ میں ہے.اس لئے نہ انسانوں میں کوئی کبیر ہے نہ انسانوں میں کوئی متعال ہے.اگر کبیر ہے تو اللہ کی ذات ہے.اگر متعال ہے تو وہ اللہ ہی کی ذات ہے اور جہاں تک بندوں کا تعلق ہے وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ، جو ظاہر کرتے ہیں اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں.سب برابر ہیں اس کی نظر میں.مِّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَبِهِ جهر به.خواہ وہ بلند آواز میں اونچی اونچی باتیں کرے اور اپنے بلند بانگ ارادوں کا اظہار کرے یا دعاوی کرے یا کوئی مخفی باتیں دل میں چھپائے پھرتا ہو.فرمایا خدا کی نظر میں سب برابر ہیں.وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفِ بِالَّيْلِ وَسَارِبُ بِالنَّهَارِ اور جو رات کے پردوں میں چھپتا پھرے اور دن کو کھلم کھلا باہر نکلے ان دونوں کی حقیقت کو بھی وہی جانتا ہے اور ان سب کے لئے ہر حال میں خدا ہی کی تقدیر کے تابع مقرر کردہ ایسے محافظ ہیں جو ان کی حفاظت فرمارہے ہیں اور اگر خدا کی حفاظت نہ ہوتی تو نہ رات کو زندگی کا قیام ممکن تھا، نہ دن کو زندگی کا قیام ممکن تھا.تو اللہ کی حفاظت کی تقدیر کے تابع یہ جو آگے پیچھے، دائیں بائیں ان کے ساتھ جاری ہے ان کو ہر لحظہ موت سے بچارہی ہے.اس موقعہ پر مسجد کے لاؤڈ سپیکر کی آواز میں خرابی کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے حضور نے خطبہ روک دیا اور اس ضمن میں ضروری ہدایات جاری فرما ئیں.اس نظام کی درستگی کے بعد حضور انور نے خطبے کے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا ) میں یہ بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم میں جہاں علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا مضمون ہے وہاں یہ بھی ہے کہ تمہیں جب کسی حال کا علم نہیں ، نہ ظاہر کا ، نہ غیب کا تم اپنی حفاظت کا کیا انتظام کر سکتے ہو، کچھ بھی نہیں اور جو اندرونی خطرات ہیں اور اکثر اندرونی ہیں اور جو خفی خطرات ہیں اور اکثر مخفی ہیں ان سے انسان کے اندر مقابلے کی طاقت ہی نہیں کیونکہ علم کے بغیر مقابلہ ممکن نہیں.تو اللہ تعالیٰ نے جہاں جس جس پہلو سے کسی انسان کو علم سے محروم رکھا ہے وہاں اس کی نگرانی کی ذمہ داری خود سنبھالی ہے.پس یہ تعلق ہے اس مضمون کا لَهُ مُعقبت مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَ مِنْ امْرِ اللهِ کہ انسان کے آگے اور پیچھے خدا کے حکم سے ایسے کارندے چلتے ہیں جو
خطبات طاہر جلد 15 373 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء اس کی تقدیر سے ، اسی کے حکم سے حفاظت کر رہے ہیں.ورنہ موت کی تقدیر بھی خدا ہی کی ہے زندگی کی تقدیر بھی خدا ہی کی ہے.اس تعلق میں نیکی کو چھپ کر کرنا اور نیکی کو اعلانیہ کرنا یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روشنی ڈالی ہے اور بہت ہی گہری پر حکمت نصائح پر مشتمل مضمون ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس آیت کریمہ کے بہت سے پہلو ہیں بے شمار ایسے ہیں جن پر ایک وقت میں اکٹھے روشنی ڈالنا تو در کنار اس کا ذکر بھی ممکن نہیں ہے.بہت ہی وسیع مضامین پر پھیلی ہوئی یہ آیات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نیکی کے چھپانے اور نیکی کے ظاہر کرنے کے مضمون کو خصوصیت سے پیش نظر رکھا ہے.فرماتے ہیں: پس مومنوں کو بھی دو ہی قسم کی زندگی بسر کرنے کا حکم ہے سراؤ عَلَانِيَةً (ابراہیم:32) (یادہ مخفی زندگی بسر کریں گے یا کھلی کھلی علامیہ زندگی ) بعض نیکیاں ایسی ہیں کہ وہ علانیہ کی جاویں اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا اس کی وجہ سے دوسروں کو بھی تحریک ہو.یعنی علانیہ نیکی میں ایک حکمت یہ ہے تا کہ لوگوں کو بھی تحریک ہو ورنہ مخفی نیکیاں ہر انسان کی ذات میں ڈوبی رہیں گی اور معاشرے میں عموماً نیکی میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوگی.اس سے غرض یہ ہے کہ تا اس کی وجہ سے دوسروں کو بھی تحریک ہو اور وہ بھی کریں.جماعت نماز ( یعنی با جماعت نماز ) علانیہ ہی ہے اور اس سے غرض یہی ہے کہ تا دوسروں کو بھی تحریک ہو اور وہ بھی پڑھیں اور میرا اس لئے کہ یہ مخلصین کی نشانی ہے جیسے تہجد کی نماز ہے.یہاں تک بھی سرا نیکی کرنے والے ہوتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے خیرات کریں اور دوسرے کو علم نہ ہو.اس سے بڑھ کر اخلاص مند ملنا مشکل ہے ( کہ نیکی کو عدا اتنا چھپائے گویا اس کے وجود کے دوسرے حصے کو بھی اس نیکی کی خبر نہ ملے ) انسان میں یہ بھی ایک مرض ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے سمجھیں.لوگ بھی اس کو سمجھیں“ سے مراد یہ ہے کہ اس کے خرچ کے معاملات پر لوگوں کی بھی نظر
خطبات طاہر جلد 15 374 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء ہو.سمجھیں کا مضمون یا تو کوئی غلط لکھا گیا ہے یا حضرت مسیح موعود لبعض دفعہ بعض الفاظ کو زیادہ وسیع معنوں میں استعمال فرماتے ہیں جو روز مرہ کے استعمال سے ہٹ کر ہوتا ہے.جو الفاظ یہاں لکھے ہوئے ہیں یہی ہیں.یہ بھی ایک مرض ہے کہ جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے سمجھیں.شاید مراد یہ ہو کہ لوگ بھی اسے کچھ سمجھیں، اس کو عزت دیں، اس کو مرتبہ دیں.مگر میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں یہ وہ اصل بات جس کی طرف توجہ دلانے کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت کو چنا ہے.آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیا توقع ہے اور آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتنی گہری دلی رضامندی کا اظہار فرمایا ہے.مگر میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ میری جماعت میں ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو بہت خرچ کرتے ہیں مگر اپنا نام تک ظاہر نہیں کرتے.بعض آدمیوں نے مجھے کئی مرتبہ پارسل بھیجا ہے اور جب اسے کھولا ہے تو اندر سے سونے کا ٹکڑا نکلا ہے یا کوئی انگشتری نکلی ہے اور بھیجنے والے کا کوئی پتاہی نہیں.کسی انسان کے اندر اس مرتبہ اور مقام کا پیدا ہونا چھوٹی سی بات نہیں اور نہ ہر شخص کو یہ مقام میسر آتا ہے.یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے ساتھ اسے ایک صافی تعلق پیدا ہوتا ہے.دنیا اور اس کی چیزیں اس کی نظر میں فنا ہو جاتی ہیں.(ملفوظات جلد 4 صفحہ 665) یہ ہے سدا کا مضمون جو بہت ہی گہرائی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.بسا اوقات انسان نیکی کرتا ہے اسے دکھاوے کا تو خیال نہیں ہوتا لیکن بالا رادہ اخفاء کا بھی کوئی طریق اختیار نہیں کرتا.ایسے لوگوں پر کوئی حرف نہیں کیونکہ چھپانا بھی ایک زحمت ہے اور کوشش کر کے کسی چیز کو چھپانا کسی غیر معمولی ارادے کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ورنہ یہ نارمل نہیں ہے یہ عام انسانی طریق نہیں ہے.ایک انسان ریا سے پاک نیکی کرے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی وہ دیکھتا ہے یا
خطبات طاہر جلد 15 375 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء نہیں دیکھتا اور اسی تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنا بھی ایک تجربہ بیان فرمایا ہے.کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ جب نماز پڑھتے ہیں اور خاص کیفیت طاری ہوتی ہے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کو بھی خیال نہیں آتا کہ وہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں.آپ نے فرمایا جیسے انسان طویلہ میں نماز پڑھے اردگر دگھوڑے بندھے ہوں تو کسی کو خیال آئے گا کہ گھوڑے دیکھ رہے ہیں؟ وہم وگمان میں بھی نہیں یہ بات آتی کہ کوئی دیکھ رہا ہے کیونکہ میری نماز کا ان سے تعلق ہی کوئی نہیں.جس کے ساتھ ہے وہ دیکھ رہا ہے اور اسی کا خیال ایسا غائب ہو جاتا ہے کہ کسی اور طرف توجہ جاتی ہی نہیں تو ضروری نہیں کہ ہر نماز کو چھپا کر ہی پڑھا جائے تو وہ سری نماز بنے گی ورنہ علانیہ ہو جائے گی.یہ مضمون بھی سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے.ہر چیز جو ظاہر ہے وہ ظاہر نہیں ہے بعض دفعہ سر “ ہی ہوتی 66 ہے اور اس کے اندر سر ہوتے ہیں پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو نما ز لوگ دیکھتے تھے اور وہ نمازیں جو دوسروں کی دیکھتے تھے بظاہر تو ان میں فرق نہیں تھا.اگر خشوع و خضوع ہے تو بعض دفعہ غیروں میں بھی بڑے زور سے خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے مگر یہ سری“ کیفیت کہ پرواہ ہی کوئی نہیں کوئی دیکھ رہا ہے کہ نہیں دیکھ رہا ان کی حیثیت ، حقیقت ہی کوئی نہیں.جس نے دیکھنا تھا وہ جانتا ہے اور وہی میرے لئے کافی ہے.یہ بھی ایک سر“ ہے جو علانیہ نمازوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے اور نیکی کا بھی یہی حال ہے.بعض دفعہ ایک انسان چندے لکھواتا ہے چندے ادا کرتا ہے اس کے نام رسیدیں کٹتی ہیں اور اکثر یہی ہوتا ہے کیونکہ ہم نے چندے کے نظام کی بھی حفاظت کرنی ہے.مگر دیکھنے والے کے ذہن میں کسی طرح بھی کسی قسم کا کوئی ریاء کا پہلونہیں ہوتا.مگر اس کے باوجود کچھ ایسے بھی ہیں جو محنت کر کے اپنی نیکی کو خود اپنی ذات سے بھی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو فر مایا کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی یہ بہت اہم مضمون ہے.یہ کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہے.ورنہ لفظا تو ایک ہاتھ سے آپ نیکی کریں تو دوسرے ہاتھ کو ضرور خبر ہوگی کیونکہ آپ ایک ہی وجود کے حصے ہیں.مگر یہ جو مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عشاق کے حوالے سے بیان فرمایا کہ میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ ایسے ایسے بھی ان میں ہیں کہ جو مجھ تک سے نام چھپاتے ہیں اور مومن کا اپنے آقا سے اتنا بھی فرق نہیں ہوتا جتنا ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ سے ہوتا ہے.پس ایک ہاتھ سے نیکی کرنا اور دوسرے ہاتھ سے چھپانا اس سے بہتر انداز میں ظاہر نہیں فرمایا جا سکتا کہ
خطبات طاہر جلد 15 376 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی لوگ بعض دفعہ زیورات بھیجتے تھے اور خود آپ پر بھی نام ظاہر نہیں کرتے تھے لیکن بہت سے ایسے تھے جو آپ پر ضرور ظاہر کرتے تھے اور دونوں باتیں اخفاء میں ہیں.جس نے نہیں ظاہر کیا اس نے اپنے پر اعتماد نہیں کیا.یہ نہیں کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتماد نہیں تھا.اس نے اپنے اوپر اعتماد نہیں کیا اس کو یہ یقین نہیں تھا کہ اگر میں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی نام ظاہر کر دیا تو شاید میں اپنے نفس کی انا کی پیاس بجھانے کے لئے ایسا کر رہا ہوں اور دل چاہتا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اپنی نیکی کو ظاہر کروں تا کہ دعائیں بھی حاصل کروں لیکن دعاؤں کے ساتھ جہاں نفس کی ملونی کا خطرہ ہوا وہاں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو خود اپنے اوپر اعتماد نہیں تھا اور اعتماد نہ ہونے کے نتیجے میں اس نے اپنے ہاتھ سے اپنی انا کی گردن پر چھری پھیری ہے.گویا اب کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ میری انا کسی طرح بھی خوش ہو سکے اس لئے یہ قربانی تو ضرور خالصہ اللہ کے لئے ہوگی.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود نے ایک ہی تحریر میں ایک بات بیان فرما کر اس کا ایک پہلو روشن فرمایا اور اس بات سے پردہ اٹھا دیا کہ کیسے ایک ہاتھ کی نیکی کی دوسرے ہاتھ کوخبر تک نہیں ہوتی.پھر ایسے بھی ہیں جو یہ اس غرض سے کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ میرے اور خدا کے درمیان ایسا تعلق قائم ہو جائے کہ اس کے اندر کسی انسان کا کوئی واسطہ نہ رہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب نام چھپاتے تھے تو کسی تکبر کی بناء پر نہیں کہ میرا خدا سے براہ راست تعلق ہے بلکہ خدا کی توجہ اپنی طرف پھیرنے کے لئے کہ میں بھی ایک تیرا بندہ ہوں میری نیکی براہ راست تجھ تک پہنچے اور کسی اور کا دخل نہ ہو.یہ مضمون ہے جو عین ایسے بار یک کنارے پر کھڑا ہے کہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی ہو سکتا ہے.اگر غلط ہو تو ایسا آدمی ٹھوکر کھا کے گر بھی سکتا ہے.اگر صحیح ہو تو بہت بلند مقام تک اس کو پہنچا دیتا ہے اور گرتا ہے تو خدا کی جھولی میں گرتا ہے.پس اس پہلو سے سر “ کا مضمون بہت ہی گہرا اور باریک ہے اور جب تک ہم اس مضمون کو نہ سمجھیں زیادہ ترقیات نہیں کر سکتے کیونکہ سر“ کہ اندر جو اندھیرے ہیں وہ اپنی ذات کی راہ میں بھی حائل ہوتے ہیں.سر “ کو پہچاننا بہت مشکل کام ہے اس لئے جو اپنی نیتوں کو ٹولتا رہتا ہے اسے رفتہ رفتہ وہ بصیرت عطا ہوتی ہے جیسے اندھیرے کمرے میں رہنے کے عادی کی آنکھوں کو عطا ہوتی ہے.وہ آنکھیں رفتہ رفتہ کھل وو 66
خطبات طاہر جلد 15 377 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء جاتی ہیں اور بہت مدھم روشنی بھی ہو تو اس میں کچھ دکھائی دینے لگتا ہے.گویا جن کی آنکھیں ہمیشہ باہر ہی کھلی رہیں ان کو نفس کے اندھیروں میں کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ نیتوں کا آغاز انا سے ہوا تھایا رضائے باری تعالیٰ کی خاطر قربانی سے ہوا تھا.پس یہ وہ سر کا پہلو ہے جس پر جماعت کو غور کرتے رہنا چاہئے اور جب تک یہ محاورہ نہ ہو جائے کہ ہم اپنی نیتوں کو خوب پہچان لیں اور ہماری نیتوں کے گرد لیٹے ہوئے کوئی پر دے حائل نہ ہوں ، ہماری نظر اور اس نیت کے درمیان اس وقت تک قلب کی صفائی ممکن نہیں ہے.جب صفائی ہو جائے پھر وہ مقام آتا ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ اب یہ باتیں ختم ہو چکی ہیں، پرانی باتیں رہ گئی ہیں.کوئی دیکھتا ہے کہ نہیں دیکھتا ان سے میری تو جہات کا مضمون بہت بالا ہو چکا ہے.پس وہاں تک پہنچنے کے لئے بیچ کی منازل ہیں اس لئے ہر انسان کو اپنی نیتوں پر نظر رکھنا خواہ وہ عبادت کے تعلق میں ہوں ، خواہ وہ مالی قربانی کے تعلق میں ہوں یا وقت کی قربانی اور خدمات کے تعلق میں ہوں نہایت ضروری ہے اور خطرات اس وقت تک در پیش ہوتے ہیں جب غیر کی تحسین کی آوازیں آنے لگتی ہیں.وہی وقت ہے جو ایک قسم کی طمانیت کا وقت بھی ہے اور خطرات کا وقت بھی ہے اور یہ بھی ایک ایسا مضمون ہے جو یہاں اس سے مفر کوئی نہیں ، بھاگ سکتے ہی نہیں.اب ہم جتنے بھی خدمت کرنے والے ہیں ان پر ہمیشہ نظر رکھتے ہیں اور امراء بھی نہ صرف نظر رکھتے ہیں بلکہ شکریوں کی چھٹیاں لکھتے ہیں اور مجھے بھی ساتھ بھیجتے ہیں.امیر صاحب UK کی بہت سی چٹھیاں میرے پاس آتی ہیں جو نقول ہیں ان لوگوں کے نام لکھی ہوئی چٹھیوں کی جن کو یہ لکھا گیا کہ آپ کی مالی قربانی جس انداز سے آپ نے کی، جس پیار اور خلوص سے کی وہ ہم تک پہنچی اور درج ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے بدلے دین و دنیا کی حسنات سے نوازے.غرضیکہ اسی قسم کا مضمون ہے جو سب لکھنے والے لکھتے ہیں اور مجھے چٹھی بھیج دیتے ہیں اور مجھے جو چٹھی بھیجنا ہے اس نیت سے نہیں کہ دیکھو ہم کتنی عمدگی سے اور فوری کام کر رہے ہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ اس غرض سے بھیجتے ہیں کہ جو دعائیں ان کے دل سے ایک اچھے خدمت کرنے والے کے لئے اٹھی ہیں وہ میرے دل سے بھی اٹھیں.اب لکھتے ہیں ہم تو تک بھی آواز پہنچتی ہے کہ میری نیکی محسوس کی گئی ہے.ان کے نفس کو بھی ایک طمانیت نصیب ہوتی ہے اور یہ طمانیت ہے جو خطرے پر بھی منتج ہو سکتی
خطبات طاہر جلد 15 378 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء ہے اور یہاں لازم ہے کہ ہم اس خدا کی پناہ مانگیں جس کی طرف سے مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِه مقرر ہیں کہ ہمیں ہر قسم کے خطرات سے بچاتے رہیں.تو نیکی کا مضمون جتنا گہرائی میں جا کر دیکھا جائے اتنا ہی زیادہ باریک سے باریک تر ہوتا چلا جاتا ہے اور بہت رفعتوں میں جا پہنچتا ہے یعنی جتنی گہرائی ہے اتنی ہی رفعتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس پر ان رفعتوں کے سمجھنے کے نتیجے میں پھر انسان کو رفعتیں نصیب ہوتی ہیں.ان کو سمجھے بغیر نیکی کے عام پھل تو اسے ملیں گے مگر وہ پھل جو لا متناہی ہیں وہ پھل ان کے حصے میں آتے ہیں جن کی نیتیں لا متناہی طور پر خدا کے لئے وقف ہو چکی ہوں.پس خرچ تو ہم نے کرنے ہی کرنے ہیں جس نے دس روپے چندہ دینے کی توفیق پائی ہے اپنی توفیق کے مطابق وہ دس ہی دے سکتا ہے جس نے لاکھ یا کروڑ کی پائی ہے اس نے بھی توفیق کے مطابق ایسا کیا.مگر نہ دس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے ہاں غیر معمولی مقبولیت پا گیا ، نہ کروڑ کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کے ہاں غیر معمولی مقبولیت پا گیا.خدا کے ہاں ہند سے ختم ہو جاتے ہیں اور وہ آخری نیت ہے جس پر خدا کی نظر ہوتی ہے.غربت اور امارت کی تفریق مٹ جاتی ہے.ہر پیش کرنے والا برابر ایک صف میں کھڑا ہو جاتا ہے.پس ان معنوں میں وہ آیت ایک مضمون پیش کر رہی ہے سَوَا مِنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَبِ؟ اب خدا کے حضور تم سب برابر ہو گئے ہو خواہ تم نے بڑھ بڑھ کے پیش کئے چھپ چھپ کے کئے لازم نہیں کہ چھپا ہوا آگے بڑھ گیا ہے کیونکہ چھپے ہوئے کی نیکیوں میں بعض چھپی ہوئی بدیاں بھی داخل ہو جاتی ہیں اور علانیہ نیکی کرنے والے کے اندر بھی بعض اخفاء کے ایسے پہلو ہیں جن پر خدا کے سوا کسی کی نظر نہیں.پس یہ عجیب مضمون ہے کہ امیر اور غریب، ظاہر اور مخفی سب برابر ہو جاتے ہیں خدا کی نظر میں اور وہی ایک ہے جو جانتا ہے کہ نیکی کیا ہے، کس حد تک ہے اور اگر ہم محنت کر کے اپنی نیکیوں کو خدا کے لئے خالص کرنے کی کوشش شروع کر دیں تو یہ زندگی بھر کا سفر ہے.یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ آج آپ کے دل میں خیال اٹھا اور کل وہ بات ختم ہوگئی.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ زندگی کے ہر شعبہ پر یہ مضمون حاوی ہے اور تمام زندگی ختم نہیں ہو سکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر روز ہم کچھ نہ کچھ کرتے ہیں اور جو بھی کرتے ہیں اس میں ہماری نیتیں شامل ہوتی ہیں خدا کے یا غیر اللہ کے کام کرنے کی.اپنے بچوں کو پالتے ہیں ، اپنی بیویوں کی
خطبات طاہر جلد 15 379 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء ضروریات پوری کرتے ہیں ، اپنے دوستوں کا خیال رکھتے ہیں ،تعلقات کے دائرے میں جکڑے ہوئے ہم آگے چلتے ہیں اور ہر تعلق کے دائرے کے اندر خدا تعالیٰ موجود ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا.اگر اس کی طرف دھیان جاتا ہے اور وہ ایک موجود حقیقت کے طور پر ہر تعلق کے دائرے میں دکھائی دینے لگتا ہے تو یہ وہ ہے جو اس دنیا میں بقاء نصیب ہو جاتی ہے اور باقی اور لافانی سے ایک تعلق شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہر تعلق کے وقت انسان اس انسان سے بہتر جس نے یہ باتیں محسوس کی ہیں سوائے خدا کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ اس نے خدا کی موجودگی کو کیسا پایا.کیا خدا کی موجودگی کے نتیجہ میں اسے کوفت ہوئی اور طبیعت مکدر ہوئی اور اس کا جو لطف تھا وہ کچھ بک بکا سا ہو گیا یا خدا کی موجودگی کے خیال سے اس کے لطف میں مزید چمک پیدا ہوگئی اور اس کا لطف ایک آسمانی نوعیت کا نا قابل بیان لطف بن گیا.یہ دو انتہا ئیں ہیں جن کے درمیان ہر مومن کا قدم یا ایک انتہا کے قریب ہے یا دوسری انتہا کے قریب ہے اور یہ منازل لا متناہی ہیں ایک مبتدی جو سفر کرتا ہے وہ پہلی حالت ہے اس کے قریب رہتا ہے یعنی خدا کا تصور تو بار بار اٹھتا ہے لیکن گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ یہ میرے دنیا کے تعلقات اس کے مزے میں اب میں خدا کا مضمون داخل کروں تو یہ مزا کرکرا ہو جائے گا.سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے ، گفتگو میں یا خاموشی میں ہر حال میں انسان پر یہ کیفیت طاری ہو سکتی ہے کہ وہ خدا کی ہستی کا تصور باندھے اور وہ تصور یا اجنبی لگے یا ایسا تصور ہو جس کی تلاش تھی جو ایک خلاء کو بھر دینے والا ہو.یہ جو آخری بات ہے یہ آسان نہیں ہے اور محض یہ کہ دینا کہ خدا سب سے پیارا ہے بالکل غلط ہے جب تک پیارا بن کے نہ دکھائے اور پیار یونہی پیدا نہیں ہو جایا کرتے.انسان سے ہمارے پیار جو ہیں وہ تعلقات کے نتیجے میں لمبے عرصے میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنائیت ہو کر جب دوئی مٹتی ہے تو پھر تعلق ایک اور منزل پہ جا پہنچتا ہے ایک اور بلندی حاصل کر لیتا ہے.تو خدا تعالیٰ کی ذات اور انسان کی ذات میں اتنا بعد ہے کہ انسان سے تعلق میں بھی اگر پیچ کی منازل بہت ہیں اور وہ آخری یک جان ہونے کی منزل بہت بعد میں آتی ہے تو خدا کے تعلق میں تو بہت ہی مشکلات ہیں اور دعا کے بغیر یہ مضمون حل ہو ہی نہیں سکتا یہ سفر طے ہو نا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ شروع میں تو انسان کی طبیعت یہ اجنبیت محسوس کرتی ہے کہ جب میں انسان سے پیار کرتا ہوں
خطبات طاہر جلد 15 380 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء ، انسان کی خوبصورتی کو دیکھتا ہوں ، اس کے احسانات کو دیکھتا ہوں تو یہ ساری باتیں قرب سے معلوم ہورہی ہیں اور اس میں ہم جنس ہونے کی وجہ سے کوئی بعد نہیں ، کوئی اجنبیت نہیں ، ایک طبعی چیز ہے.مگر اس تعلق کو اہمیت نہ دوں اس کو ادنی سمجھوں اور واقعی دل کے ولولوں کے ساتھ اپنی محبتوں کا مرکز خدا کو بنالوں یہ جب تک حقیقتاً اس کو سمجھ نہ آئے اگر وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے.یہ آسان کام ہے ہی نہیں کیونکہ جو یکسانیت ہے جب تک وہ نہ ہو اس وقت تک محبت پیدا نہیں ہوسکتی.سب سے بلند تر محبت وہ ہے جو یکسانیت سے پیدا ہوتی ہے اس میں پھر کبھی کوئی دوری نہیں ہوتی.جو محبتوں کا سفر کرتے ہیں آغاز میں جو محبت بہت ہی غیر معمولی طور پر طاقتور دکھائی دیتی ہے جب بھی اس میں رخنہ پڑتا ہے یکسانیت کے فقدان سے پڑتا ہے.میاں بیوی خواہ کیسے ہی پیار سے زندگی کا سفر شروع کریں جوں جوں وقت کے ساتھ مختلف صورت حال پر ردعمل میں اختلاف دکھائی دیتا ہے.جوں جوں نظریات کے اختلاف جو ہیں وہ روزمرہ کی زندگی پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں.وہ جو دخل اندازی ہے وہ محبتوں کے اندر ایک رخنہ ڈالنے والی دخل اندازی ہوتی ہے جو یکسانیت کے فقدان سے پیدا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ وہی چیز جو پہلے خوبصورت دکھائی دیتی تھی اس کی خوبصورتی کے باوجود اس میں وہ دلچپسی باقی نہیں رہتی.دل پیچھے ہٹ جاتے ہیں حالانکہ جسم وہی رہتے ہیں.تو اس وجہ سے در حقیقت محبت کا فلسفہ ہی یکسانیت ہے اور جب تک یکسانیت پیدا نہ ہوا گر جنسیں بھی الگ الگ ہوں تو محبت کا پیدا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے.اسی لئے وہ بزرگ جن کا میں ذکر کیا کرتا ہوں بابا عبدالستار صاحب بزرگ صاحب“ کہتے تھے، عبدالستار خاں.قادیان میں ایک پٹھان مہاجر تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے غیر معمولی عشق تھا اور خدا پرست ایسے تھے کہ جو دل سے دعا اٹھتی تھی بہت جلد اس کا جواب ملتا تھا اور سادہ انسان مگر بہت گہرا اور بار یک مزاج.چنانچہ ان کا جو واقعہ میں نے پہلے بھی بارہا آپ کے سامنے رکھا ہے وہ اس موقع پر بھی چسپاں ہوتا ہے.انہوں نے ایک دفعہ یہ دعا شروع کر دی کہ اے خدا میں نے تو ملکہ وکٹوریہ کودیکھا نہیں ہے ان کا نام سنا ہے.نہ اس کے ساتھ میرا کوئی قومی تعلق ہے، نہ جسمانی طور پر کوئی تحریک میرے دل میں اس کے لئے پیدا ہوسکتی ہے ، ہاں اس کی نیکی کے تذکرے سنے ہیں کہ اچھا بادشاہ ہے.تو اگر کوئی مجھے کہے کہ ملکہ وکٹوریہ سے عشق شروع کر دو میں کیسے
خطبات طاہر جلد 15 381 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء کر سکتا ہوں.یہ تو ممکن ہی نہیں ہے، میری طاقت میں نہیں ہے اور پھر عرض کیا کہ اے خدا پھر جنسوں کا بھی تو اختلاف ہے.اب کہاں میرا اور ملکہ وکٹوریہ کا فرق ، کہاں میرا اور تیرا فرق.کوئی نسبت ہی نہیں ہے.تو جہاں قدر مشترک ہی کوئی نہیں وہاں کیسے میں تجھ سے محبت کروں مجھے یہ سمجھا دے.یہ دعا کرتے ہوئے کشفی حالت طاری ہوگئی اور اس کشفی حالت میں ان کو ایک شعر الہام ہوا کہ عشق اول در دل معشوق پیدا می شود تا نسوزد شمع کے پروانہ شیدا می شود کہ عشق تو پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوتا ہے.اگر شمع جلے نہیں تو پروانے کو کیا پاگل پن ہے کہ وہ شمع پر بجھی ہوئی شمع پر جا کر اپنی جان نچھاور کرے.حوالہ :...پروانہ جلتا تو ہے مگر پہلے شمع جلتی ہے.معشوق پہلے جلتا ہے عاشق بعد میں جلتا ہے.عجیب جواب تھا یہ اور چونکہ وہ بہت ہی گہرے عارف باللہ تھے وہ اس مضمون کو سمجھ گئے کہ دراصل خدا سے محبت خدا ہی کی محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوسکتی ہے اور ساری کائنات میں خدا کی محبت کے مظاہر بکھرے پڑے ہیں.کوئی بھی زندگی کا سانس ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کے لطف واحسان کا مظہر نہ ہو.وہ ہماری طلب کر رہا ہے، وہ ہمیں بلا رہا ہے.تو اس مضمون کو سمجھیں تو پھر ایک یکسانیت کے مضمون کا آغا ز شروع ہو جاتا ہے.پھر جو کچھ وہ ہے ویسا بننے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اگر خدا محسن ہے اور بندہ محسن بنتا ہے اور خدا کے احسانات کا دائرہ جو لا محدود ہے اس پر نظر رکھ کر محسن بننے کی کوشش کرتا ہے تو خدا سے ایک قسم کی یکسانیت پیدا ہونے لگتی ہے اور پھر خدا کا فضل ہے جو اس کی اس دل کی تمنا کے تیل پر آسمان سے اپنی محبت کا شعلہ برساتا ہے اور نُورٌ عَلَى نُورِ بن کر وہ انسان جو خدا سے کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا محبت میں اس کا شریک ہو جاتا ہے.تو شمع پہلے جلتی ہے پروانہ بعد میں ، یہ مضمون ہے کہ وہ شمع روشن ہے اور اس کی روشنی ساری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے.اللَّهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور : 36) اس پر غور تو کرو جب تم اس کے نور کے پردوں کو دیکھتے ہو جو پردوں کے پیچھے ہے لیکن پر دے چمک اٹھے ہیں تو دراصل تمہیں اسی سے تو محبت ہو رہی ہے.ان کو بیچ میں حائل کیوں رہنے دیتے ہو.حسن خواہ انسان کا ہو پھولوں کا ہو، خواہ پہاڑوں کا ہو، ندی نالوں کا ہو یا صحراؤں کا حسن وہ بھی تو ایک حسن ہے.صحراؤں کا حسن ہو، ہر حسن پر جب انسان غور کرتا ہے تو اس کے پیچھے اللہ
خطبات طاہر جلد 15 تعالیٰ کا حسن کارفرما ہے.382 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.چشم مست ہرحسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا یعنی ہمیں تو خوبصورت آنکھیں بھی تیری ہی طرف لے جاتی ہیں اور ان کی (در مشین: 10) زلفیں خمدار ہوں بھی تو ان کا ہاتھ تیری ہی طرف اٹھتا ہے.یہ ساری نظر اسی مضمون کی مظہر ہے کہ کس طرح خدا کا حسن روشن ہو چکا ہے اور جگہ جگہ ذرے ذرے پہ روشن ہے اور جدھر بھی نظر ڈالو تمہیں خدا کی محبت کی راہیں دکھائی دیں گی لیکن پہلے یہ شعر تو پیدا کرو کہ حسن ہے کیا اور کس کا ہے.اس مضمون میں جب تم داخل ہوتے ہو تو ہر قدم پر اذن اللہ کی ضرورت ہے.اللہ کے اذن کے بغیرا گلا قدم اٹھانے کی توفیق نہیں.ورنہ اس مضمون میں بھی ہر قدم پر وہ خطرات ہیں جن سے بچانے کے لئے آیت کے اس حصے کی ضرورت پڑتی ہے لَهُ مُعَقِّبت مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَ مِنْ امْرِ اللہ کیونکہ یہ مضمون بسا اوقات حقیقت سے مجاز کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو مجاز ہی میں غرق کر دیتا ہے اور جتنے قدم خدا کی طرف بڑھنے کے ہیں اتنی ہی ٹھوکریں اس راہ میں حائل ہیں.ہر قدم پر ایک ٹھو کر بھی ہے اور آگے بڑھنے کے امکانات بھی ہیں.تو جس کو سب کچھ دکھائی دے رہا ہے اس کی طرف کیوں نہ توجہ دی جائے.لَهُ مُعَقِّبت اس کے پاس ایسے معقبات ہیں جو تمہاری حفاظت کر سکتے ہوں ، تمہارے آگے اور پیچھے چلیں تمہاری نیتوں پر نگران ہو جائیں.مگر اگر اس سے مدد مانگتے ہوئے آگے بڑھو گے تو یہ نصیب ہوگا ورنہ نصیب نہیں ہو سکتا.باقی جتنے دعوی کرتے ہیں سب جھوٹے ہیں کہ ہم نے تو خدا کی محبت کو پالیا ہے، ہم سمجھ گئے ہیں ، ہم نے قربانی خدا کی خاطر کر دی ایک آدھ دفعہ نیت صاف کر کے خدا کی خاطر چھپ کر ضرور ہوگی اور بسا اوقات انسان کو تو فیق ملتی ہے.مگر ایک قدم ہی تو سفر کا نام نہیں.خدا کی طرف سفر تو لا متناہی ذات کی طرف سفر ہے.اس کا تو ہر قدم ایک مشکل قدم بھی ہے اور قدم بھی لا متناہی ہیں ، نہ ختم ہونے والے قدم ہیں.تو ایک آدھ نیکی کر کے اس پر خوش ہو کے بیٹھ جانا اور یہ سمجھ لینا کہ ہم نے سب کچھ پالیا ، یہ انتہائی بے وقوفی ہے اور اس کے نتیجے میں جو کچھ
خطبات طاہر جلد 15 پایا ہے وہ بھی کھویا جاتا ہے.383 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء ایسے ایسے لوگ بھی آپ دیکھیں گے جنہوں نے کچھ پایا اور اس پانے کے تکبر نے ہی ان کو ہلاک کر دیا.بڑے بڑے سر اونچا لئے پھرتے ہیں.کوئی ایک راز اتفاقاً مل گیا جو معمولی بات ہے.عارف باللہ کو تو روزانہ خدا تعالیٰ بے شمار نکات عطا فرماتا ہے اور وہ جھک کر قبول کرتا ہے، وہم وگمان میں بھی نہیں آتا کہ میری کوئی چالا کی ہے لیکن ایسے ایسے بے وقوف بھی آپ کو نظر آئیں گے جو ایک بات پکڑ کے بیٹھ گئے ہیں اور بار بار وہ پوچھتے پھرتے ہیں لوگوں سے کہ اس کا جواب دو.گویا میرے سوا کوئی اس کا جواب نہیں جانتا.وہ چھوٹا سا کوئی چٹکلہ بے حقیقت ، بے معنی اور اسی چٹکلے کے تکبر میں مبتلا ہو کر اگر کوئی نیکی تھی بھی تو وہ بھی برباد کر بیٹھتے ہیں.کئی ایسے آدمی میرے علم میں ہیں بعضوں سے میری گفتگو ہوئی، بعضوں کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ انہوں نے یہ سوال کیا ہم نے بہت پھرا ہے بہت دیکھا ہے اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا.مراد یہ نہیں کہ سوال کے جواب کی تلاش ہے.مراد یہ ہوتی ہے کہ ہمیں پتہ ہے تمہیں کچھ پتا نہیں اور آپ لاکھ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں وہ سر ہلاتے رہیں گے کہ نہیں.اصل بات بتائیں گے نہیں کیونکہ وہ بات ہوتی کچھ نہیں ، بے حقیقت کی بات ہوتی ہے اور سر پھیر کے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں یہاں سے بھی جواب نہیں ملا.ایسے ایک دو آدمیوں سے واسطہ پڑا اور اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ ان کی نفسانی حالت کو سمجھتے ہوئے ان کو لوگوں کے سامنے بہر حال لاجواب کر دیا.وہ سراٹھا کے نہیں واپس جا سکا اور اتنی بھی توفیق نہیں ملی کہ کہہ دے کہ ہاں میری تسلی ہوگئی ہے.تو تسلی بھی خدا کا کام ہے وہ بھی بندے کے بس کی بات نہیں.حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھی ایک ایسا صوفی پہنچا تھا ایک بار اور بڑے اس نے تکبر کے ساتھ کہا کہ میں چند سوال لے کے آیا ہوں میرے جواب دیں آپ فوری طور پر.آپ نے فرمایا بتاؤ.اس نے کہا کہ یہ بتائیں اگر کوئی کشتی پر سفر کر رہا ہواور کنارہ آجائے اور کنارے پر پہنچنے کے بعد کشتی میں بیٹھا ر ہے اس کو آپ کیا سمجھیں گے.اس کو آپ بے وقوف اور پاگل کہیں گے یا دانا سمجھیں گے.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا میرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ لامتناہی سمندر میں سفر کر رہا ہے تو جہاں کنارہ سمجھ کے اتر او ہیں ڈوبا اور اچانک وہ سمجھ گیا.جس مسئلے کا جواب اس کو دنیا میں کہیں نہیں ملا تھا وہ بے اختیار بول اٹھا کہ مسئلہ حل ہو گیا.وہ صوفیوں کا ایک فرقہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ جب خدا کو
خطبات طاہر جلد 15 384 خطبہ جمعہ مورخہ 17 مئی 1996ء پالیا تو عبادتوں کی کیا ضرورت ہے.خواہ مخواہ پانچ وقت کی نمازیں اور شریعت کی پابندی یہ چیزیں تو خدا کے حصول اور اس کی تلاش کے لئے ہیں.جب ہم نے پاہی لیا تو پھر کیا ہے.مگر حضرت مصلح موعود بات کو سمجھ گئے اور کیسا عمدہ جواب دیا کہ تم اس کو پانے کا دعویٰ کر رہے ہو جو لا محدود ہے اور تم محدود ہو.اس لئے جہاں یہ دعویٰ کیا وہیں غرق ہو جاؤ گے.تو تکبر ہے جو انسان کو غرق کر دیتا ہے اور تکبر بھی اندھیروں کی پیداوار ہے.کبیر کہلانے کا حق صرف اس کا ہے جو جانتا ہے.پس دیکھیں اس آیت کے ہر لفظ کو ہر لفظ کے ساتھ خدا نے ایسے رشتوں میں باندھا ہے کہ وہ ظاہری طور پر بھی دکھائی دیتے ہیں اور گہرائی میں بھی مسلسل چلتے ہیں.پس اگر تم کوئی بلندی چاہتے ہو ، اگر عظمت چاہتے ہو تو اللہ کے علم میں غرق ہو جاؤ اس کے علم کو اپنالو، اس کے علم کے سائے تلے چلو تب تمہارے لئے بچنے کا امکان ہے اور پھر تمہاری حفاظت ہوگی.اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہاری نہ نیکی کی کوئی قیمت ہے نہ بدی کی کوئی حیثیت سب کچھ خدا کی نظر میں برابر ہی ہیں.یکساں دنیاوی زندگی بسر کر رہے ہو کبھی نیکی کے نام پر کبھی بدی کے شوق میں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے پھر فرماتے ہیں: یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے ساتھ اسے ایک صافی تعلق پیدا ہوتا ہے.دنیا اور اس کی چیزیں اس کی نظر میں فنا ہو جاتی ہیں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 665) یعنی اخفاء کی انتہا جو ہے یہ تب ہی نصیب ہوتی ہے کہ سب دنیا نظر سے غائب ہو جائے کوئی دیکھ ہی نہ سکے یہی میں آپ کو سمجھا رہا تھا کہ یہ وہ حالت تھی جس کو مسیح موعود نے پایا اور ایک اور سوال کے جواب میں اس کو ظاہر فرما دیا.یہاں آپ غائبانہ حوالے سے باتیں کر رہے ہیں اپنا مضمون نہیں بتار ہے.اس کو بھی اخفاء میں رکھا ہوا ہے کہ میں خود اس تجربے سے گزرا ہوں.میں جانتا ہوں کہ اس کے بغیر یہ بات نصیب ہو ہی نہیں سکتی کہ اللہ کا تعلق اتنا بڑھ جائے اور اس کی ہمہ وقت حاضری اس کے سامنے یا آپ کی خدا کے حضور ہمہ وقت حاضری یہ مضمون ساری زندگی کے ہر پہلو پر اتنا غالب آجائے کہ باقی گویا کچھ بھی نہیں رہا، ہر دوسری چیز فنا ہوگئی ہے پیچھے ہٹ گئی ہے.اس وقت پھر خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 15 385 خطبہ جمعہ مورخہ 17 مئی 1996ء اس آخری مقام کی نیکی کی توفیق بخشتا ہے جو اسرار میں سب سے بڑھ کر سر ہے یعنی دنیا سے چھپا ہوا اور خدا کے تعلق کا وہ سر جس کا اس بندے کے سوا جس کا خدا سے وہ تعلق ہے کسی کو علم نہیں ہوتا.پس یہاں سر دو معنوں میں ہے ایک یہ کہ دنیا کی نظر سے جب وہ غائب ہو جاتا ہے یا دنیا کو غائب کر دیتا ہے تو ایک راز ہے جو کسی کو معلوم ہو ہی نہیں سکتا.جس نے مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اپنی نیکی چھپائی جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اب اس کے دفاع میں بیان فرمار ہے ہیں کہ میں اس کے اس فعل کو تکبر نہیں سمجھتا بلکہ اس کی ایک حالت ہے اور اس حالت کے بغیر اگر ایسا کرو گے تو یہ بھی ریا کاری ہے اور یہ بھی اپنے نفس سے چھپنے کی بات ہے.اس لئے طبعی حالتوں کے ساتھ ان نیکیوں کو ادا کرو یہ بھی بڑا ضروری ہے.یہ نہیں کہ آج میرا خطبہ سنا تو کل مجھ سے چھپا چھپا کے کریں اور سمجھیں کہ آپ نے اس مقام کو پالیا ہے.کسی بت بنانے سے بت کی شکل کا وہ انسان تو نہیں بن جایا کرتا یہ وہ گہری حقیقتیں ہیں جو زندہ حقیقتیں ہیں.بت بنانے سے ان بتوں میں جان نہیں پڑ سکتی.اس لئے یہ حقیقتیں آپ کو بھی تب زندہ کریں گی اگر یہ خود زندہ ہوں گی.تو جہاں تقویٰ کے ساتھ سچائی کے ساتھ دل کا ایک جذ بہ مختلف امکانات سے گزرتا ہوا آخر ایک فیصلہ تک پہنچتا ہے اور وہ ایک ایسے اختفاء کا فیصلہ ہے جس میں اور کوئی دنیا کا انسان اس سے باخبر نہیں ہوتا یہ وہ سر ہے جو اس کی نیکی کو حاصل ہوا جو ہر چیز سے چھپ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ اس شخص کو زیبا ہے اور اسی کو اس کی توفیق ہے جس کی نظر میں ہمہ وقت خدا موجود ہے.یہ ہے وہ اہم نکتہ جس کو سمجھے بغیر آپ اس نیکی کی نقل بھی ماریں گے تو نیکی کو ضائع کر دیں گے.اگر انسان کلیتہ اپنی نیکی کو ہر دوسرے وجود سے چھپالے تو اس سے بڑا پاگل پن کوئی نہیں سوائے اس کے کہ اس وجہ سے چھپایا گیا ہو کہ جس کی خاطر ہے جو ہمہ وقت حاضر ہے اس کی نظر میں آچکی ہے اور مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اب کوئی اور اس کو دیکھے یا نہ دیکھے.پس ہمہ وقت خدا کے وجود کا تصور اور اس کی حاضری ہی ہے جو سر کو نیکی بنادیتی ہے اور یہ سر جب نیکی بنتا ہے تو ایک سرنہاں بن کر جو اللہ کے عشق اور اللہ کی محبت کا سر ہے اس کے دل کو روشن کر دیتا ہے.اچانک اس سو میں سے ایک اور سر جاگ اٹھتا ہے وہ اللہ کی ایسی محبت کا سر ہے جو خدا کو اس سے ہے، اس کو خدا سے ہے.دنیا میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں کسی کو علم نہیں ہوتا کہ یہ محبت کیسے پیدا ہوئی، کیا ہے، کیا اس کی حقیقت ہے
خطبات طاہر جلد 15 386 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء اور کس عالی مرتبہ تک خدا اس محبت کے ذریعے اس کو پہنچا دے گا.یہ جو صورت حال ہے یہ چند مالی پیسوں کی قربانی کے تعلق میں بیان ہو رہی ہے لیکن آپ دیکھیں اس کا کتنا وسیع مضمون ہے.زندگی کی ہر نیکی کے ساتھ اس کا تعلق ہے.ہر انسانی جذبہ پر یہ بات چھائی ہوئی ہے.اس کے ساتھ ایک صافی تعلق پیدا ہو جاتا ہے ( یہ الفاظ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہیں ) دنیا اور اس کی چیزیں اس کی نظر میں فنا ہو جاتی ہیں اور اہل دنیا کی تعریف یا مذمت کا اسے کوئی خیال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ نہیں کہ دکھاوے کی خاطر تعریف سے بھی چھپتا پھرتا ہے اس کی بلاء سے ہورہی ہے یا نہیں ہورہی.ہوتی ہے تو معنی کوئی نہیں.بسا اوقات ایسا انسان کو تجربہ ہوتا ہے کوئی شخص جس نے کسی کے ساتھ نیکی کی ہو بعض دفعہ وہ اس کی تعریف میں خط لکھتا ہے تو جس نے واقعہ اللہ کے لئے کی ہوتی ہے اس کو پرواہ کوئی نہیں ہوتی.یہ الفاظ اس کے دل میں کوئی کسی قسم کی بھی تحریک نہیں پیدا کرتے جو تعریف کو کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنی تعریف خدا سے وصول کر چکا ہوتا ہے.اس لئے دوسری دفعہ وہ وہی سودا کسی اور کو نہیں بیچتا.تو اس طرح انسان اپنی نیکیوں پر نظر رکھ سکتا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار یک بار یک مقامات پر نظر رکھتے ہوئے آپ کی رہنمائی فرمائی ہے.غرض بدیوں کے ترک پر اس قدر ناز نہ کرو ( اب ایک اور مضمون شروع ہو گیا ) غرض بدیوں کے ترک پر اس قدر ناز نہ کرو.جب تک نیکیوں کو پورے طور پر ادا نہ کرو گے اور نیکیاں بھی ایسی نیکیاں جن میں ریاء کی ملونی نہ ہو اس وقت تک سلوک کی منزل طے نہیں ہوتی.“ یعنی بعض ترک شریر ہی نازاں ہوتے ہیں ہم نے فلاں بدی چھوڑ دی ہم نے فلاں بدی چھوڑ دی.فرمایا بدی چھوڑ نا تو کوئی حقیقت نہیں ہے.کس نیکی نے اس بدی کی جگہ لی ہے؟ یہ ہے اصل مضمون.اگر آپ صفائی کر کے بیٹھ جائیں اور کچھ بھی وہاں نہ لگائیں وہ خلاء کی خلاء ہی رہے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا.صفائی اس لئے کی جاتی ہے کہ گندگی پھینکی جائے اور اچھی چیز اس کی جگہ رکھی جائے یا اچھوں کو وہاں آنے کی دعوت دی جائے.اگر خالی صفائی ہی ہے، نہ اچھا سامان ، نہ اچھے آنے والے لوگ تو اس صفائی کا کیا فائدہ.فرمایا نیکیوں سے اپنے دلوں کو بھرنا یہ وسعت بناؤ اگر نیکیوں سے دلوں
خطبات طاہر جلد 15 387 خطبہ جمعہ مورخہ 17 مئی 1996ء کو نہیں بھرو گے تو سلوک کی کوئی منزل طے نہیں ہوگی.پس بدیوں کا ترک نیکیوں کے استقبال کا ذریعہ ہے اور جب تک نیکیاں حاصل نہ ہوں خدا کی طرف آگے بڑھنے کے لئے قدم اٹھانے کی توفیق نہیں مل سکتی.آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یا درکھو کہ ریاء حسنات کو ایسے جلا دیتی ہے جیسے آگ خس و خاشاک کو ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 666،665) اور جو نیکیاں ہیں ان کی حفاظت کے لئے پھر ایک اور مشکل بدیاں دور کرو اور نیکیاں اختیار کرو اور ریاء کا ڈاکو ساتھ ساتھ چل رہا ہے.ہر قدم پر دکھاوے کا جو شیطان ہے وہ ابتلا لے کر آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ تو ایسے ہے جیسے خشک گھاس پھوس کو آگ دکھا دی جائے اس طرح یہ نیکیاں جل جاتی ہیں.دراصل اس میں ایک اور گہر ا مضمون ہے وہ یہ ہے کہ نیکی جس کے ساتھ دکھانے کی تمنا ہو وہ ہری ہوتی ہی نہیں وہ ہوتی ہی خشک گھاس کی طرح ہے اور ریاء بس وہ تیلی بنتی ہے جو خشک گھاس پھوس کو دکھا دی جاتی ہے اس نے تو پھر بھڑ کنا ہی ہے ،اس کے مقدر میں جل جانا ہے.ورنہ نیکیوں میں گیلی مٹی کا مضمون پایا جاتا ہے.اس کے اندرطراوت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ روئیدگی ہوتی ہے، سبزی اس سے نکلتی ہے اس کو تو تیلی جلا نہیں سکتی اور تیلی کا دماغ میں تصور بھی نہیں آتا اس کے ساتھ.پس وہ جس کو لوگ نیکی سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً ان کے جلانے کا انتظام بھی کرتا رہتا ہے یہ قانون قدرت ہے.جیسے گھاس پھوس کسی باغ میں زیادہ اکٹھا ہو جائے تو مالی ایک طرف کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ پھر اس ڈھیر کو ایک دن تیلی دکھا کر اس خس و خاشاک سے اپنے چمن کو پاک کر لیتا ہے.تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکی کا سفر کرنے والوں کا حال ہے جوان کے ریاء کی باتیں ہیں شیطان ان کو تیلی لگاتا ہے اور وہ جل کر خاک ہو کر جو اگر باقی کوئی نیکی رہ گئی ہے تو وہی رکھیں گی باقی سب باتیں اس دنیا میں خاک ہو کر اڑ جاتی ہیں.تو کوئی پتا نہیں کہ ہم کتنی نیکیاں لے کر خدا کے حضور حاضر ہوں گے.اب اس مضمون پر نظر رکھیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے ہم نے بظاہر پھل پھول اکٹھے کئے کتنے ہی سرو و سمن سے اپنے نیکی کے چمن کو سجایا اور سمجھتے یہ ر ہے کہ یہ لہلہاتا ہوا باغ ہے لیکن وہ تھا خشک گھاس پھوس.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں یا سوکھی ہوئی ٹہنیاں تھیں اور ریاء کے ہر
خطبات طاہر جلد 15 388 خطبہ جمعہ مورخہ 17 رمئی 1996ء شیطان نے ہر موقع پر اسے تیلی دکھائی اور آگ لگادی اور اگر آخر پر جا کر یہ آنکھ کھلے اور انسان کو پتہ چلے کہ مضمون کیا ہے تو مڑ کر دیکھے گا تو جلے ہوئے چمن کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.پس اس حال میں خدا کے سامنے پہنچنا ہے کہ کچھ لے کر پہنچیں اور یہ وہ بات ہے جس کے لئے مسلسل تیاری ، ہمہ وقت نگرانی کی ضرورت ہے اور وہ جماعت جو مالی قربانیوں میں اس قدر عظیم بلند منازل طے کر رہی ہے اس کے لئے تو اور بھی زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے.پس وہ سارے جو خدا کی خاطر ایک آنہ پیش کرتے ہیں یا کروڑوں روپے پیش کر رہے ہیں وہ اپنی قربانیوں کی نگرانی کریں اور اس نگرانی کے تعلق میں جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سکھایا ہے اس کے ذریعے ان کو باقی نیکیوں کی حفاظت کی بھی توفیق ملے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو سمجھنے کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین آج کیونکہ میں نے ایک جماعتی سفر پر جانا ہے اس لئے نماز جمعہ کے بعد اس کے ساتھ ہی عصر کی نماز یہاں جمع ہوگی.)
خطبات طاہر جلد 15 389 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء نگرانی و بیدار مغزی کے ساتھ جھوٹ سے اپنے معاشرے کو پاک کرنا آپ پر لازم ہے.( خطبه جمعه فرمودہ 24 رمئی 1996ء بمقام باد کر وکس ناخ “Badkreuz Nach، جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان : 73) پھر فرمایا : آج مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور آج کے خطبہ ہی میں مجھے خدام سے بھی افتتاہی خطاب کرنا ہے.اس سلسلے میں میں نے آج کے خطبہ کا موضوع یہ آیت چنی ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی صفات بیان فرماتے ہوئے جو رحمان خدا کے بندے ہیں فرماتا ہے وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الرُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے یا جھوٹ کی زیارت نہیں کرتے.يَشْهَدُونَ الزور کے دونوں معانی ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں رمضان کے مہینہ کے متعلق فرمایا فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ جس نے اس رمضان کے مہینہ کا منہ دیکھا وہ یہ کرے.تو لَا يَشْهَدُونَ الزُّور کا جو عام معروف ترجمہ ہے وہ تو یہ ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے.مگر اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ جو مضمون بیان ہے اس میں یہ ترجمہ کرنا بدرجہ اولیٰ ہوگا کہ وہ جھوٹ کا منہ تک نہیں دیکھتے.وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا اور جب وہ لغو بات سے گزرتے ہیں تو عزت اور وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں.تو چونکہ لغو بات بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے اس لئے
خطبات طاہر جلد 15 390 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء جھوٹ کو دیکھتے تک نہیں کا مضمون اس آیت کے سیاق و سباق میں بالکل صحیح بیٹھتا ہے.آج خصوصیت کے ساتھ مشرقی قو میں جھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں اور اگر چہ مغرب میں بھی یہ بیماری داخل ہو رہی ہے مگر عملاً دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے.ہمارے ملک پاکستان میں بھی اور ہمسایہ ملک ہندوستان میں بھی ، بنگلہ دیش میں بھی اور افریقہ کے اکثر ممالک میں بھی جھوٹ اب ایک روز مرہ کی عادت بن چکا ہے اور دنیا میں سب سے بڑی تباہی مچانے والی کمزوری جھوٹ ہے جو ایک عام کمزوری بن کے شروع ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ بن جاتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جھوٹ سے باز رکھنے کے لئے جو نصائح فرمائی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے.حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں گناہوں میں سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ یعنی ایسے گناہ جو بہت بڑے ہیں ان میں وہ جو بہت ہی بڑے بڑے ہیں ان کے متعلق میں تمہیں نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کیا ،ضرور بتائیں یا رسول اللہ ے تو آپ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا.یہ دونوں باتیں بیان فرمانے کے بعد آپ تکیے کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں آکر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا الاوقول الزور الاوقول الزور الاوقول الزور الاوقول الزور سنو خبر دارا جھوٹ نہ بولنا، جھوٹ نہ بولنا، جھوٹ نہ بولنا، جھوٹ نہ بولنا.آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش حضور خاموش ہو جائیں.(بخاری کتاب الادب ،باب عقوق الوالدين من الكبائر ) اگر چہ جھوٹ کا ذکر تیسرے نمبر پر آیا مگر سب سے زیادہ حضرت اقدس محمد مصطفی اعلی اللہ نے جھوٹ پر آ کر جوش کا اظہار فرمایا اور بے اختیار بار بار یہ نصیحت فرماتے رہے کہ خبر دار ! جھوٹ کے قریب تک نہ جانا.وجہ یہ ہے کہ جھوٹ سب گناہوں کی جڑ ہے.شرک بھی جھوٹ ہی کا نام ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا بھی ایک جھوٹ ہے.در حقیقت جھوٹ کا جتنا بھی آپ تجزیہ کریں آپ اسی حد تک یہ معلوم کریں گے کہ ہر بدی کی جڑ جھوٹ کی سرزمین ہے.جھوٹ کی زمین سے ہی تمام بدیاں
خطبات طاہر جلد 15 391 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء پھوٹتی ہیں.یہ وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ نے جھوٹ کا ذکر فرماتے ہوئے بار بار یہ تاکید فرمائی کہ خبر دار جھوٹ سے پر ہیز کرو، جھوٹ سے پر ہیز کرو، جھوٹ سے پر ہیز کرو.جھوٹ کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ہر بیماری کی جڑ ہے اور شرک بھی جھوٹ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور جھوٹ ہی درحقیقت سب سے بڑا شرک ہے کیونکہ آپ اپنی روز مرہ کی زندگیوں کا گہری نظر سے مشاہدہ کر کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر جھوٹ جو بولا جاتا ہے وہ کسی جھوٹے معبود کی خاطر بولا جاتا ہے اور فی ذاتہ انسان کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے.ہمیشہ سچ بولنا فطرت کے مطابق ہے اور ایک انسان کچی بات کرنا ہی پسند کرتا ہے مگر اس کے باوجود جتنا روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ داخل ہو اتنے ہی جھوٹے خدا انسان کی زندگی میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں اور جھوٹ ہمیشہ ایک فرضی معبود کی عبادت کی خاطر بولا جاتا ہے مثلاً آپ کو روزمرہ کی باتیں کرتے ہوئے کوئی ایسی بات بیان کرنا ہو جس سے آپ اپنے کسی جرم پر پردہ ڈالنا چاہیں ، وہ خواہ شہادت کے دوران ہو یا بغیر شہادت کے ہو، تو اس وقت آپ جھوٹ کا سہارا لے کر حقیقت سے دنیا کی نظر پھیر دیتے ہیں یعنی جب اپنی نظر حقیقت سے پھیرتے ہیں تو دنیا کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور ایک مقصد حاصل کرتے ہیں اور اللہ کی عبادت اس سے تمام خوبیاں ، تمام نیکیاں ، تمام اچھی باتیں حاصل کرنے کی خاطر کی جاتی ہیں وہ لوگ جن کی زندگیوں سے خدا نکل چکا ہو وہ یہی کام جھوٹ سے لیتے ہیں اور ہر مقصد کو جھوٹ کے ذریعہ سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جھوٹ کا کاروبار اتنا چل پڑتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہو جاتا ہے.سیاست جھوٹی ہو جاتی ہے، تجارت جھوٹی ہو جاتی ہے ،میاں بیوی کے تعلقات جھوٹے ہو جاتے ہیں ، ماں باپ اور بچوں کے تعلقات جھوٹے ہو جاتے ہیں.دوستوں کے تعلقات جھوٹے ہو جاتے ہیں.زندگی محض ایک دکھاوا بن کے رہ جاتی ہے اور اس ساری زندگی میں انسان جھوٹ کی عبادت کرتے کرتے دم تو ڑ دیتا ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ میں ایک مشرک کے طور پر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونے والا ہوں.وہ جھوٹ جو فائدہ نہ دے وہ بولا ہی نہیں جاتا.یہ بنیادی حقیقت ہے جسے آپ یا درکھیں اور روزانہ جتنی مرتبہ آپ کو جھوٹ بولنے کی عادت ہو اتنی مرتبہ ہی آپ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں.پس ہر انسان کی توحید کا معیار اس کے جھوٹ اور بیچ سے پہچانا جائے گا.ہاں اس میں ایک استثناء بھی ہے
خطبات طاہر جلد 15 392 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء اور یہ کہ بعض لوگوں کو جب جھوٹ کی عادت پڑ جاتی ہے تو پھر وہ عادت ان کو روز مرہ ایسے جھوٹ بولنے پر بھی مجبور کرتی ہیں جس کا کوئی واضح مقصد پیش نظر نہیں ہوتا.اس لئے آپ اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی با مقصد جھوٹ کی عبادت کی گئی ہے.جیسے نیک لوگ بھی جب نمازوں کے عادی ہو جاتے ہیں تو بعض دفعہ یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں.بے خیالی میں بھی نماز تو پڑھتے ہیں کہ وہ عادت ہے لیکن بسا اوقات بالا رادہ نماز پڑھی جاتی ہے اور جو بالا رادہ نماز ہوہ کچی عبادت ہے.جو عادت کی نماز ہو وہ فرض تو پورا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں عبادت کی روح نہیں رکھتی.پس منفی طور پر جھوٹ کی بھی یہی کیفیت ہے.کبھی تو یہ مخلصانہ غیر اللہ کی عبادت بن جاتا ہے.کبھی یہ روز مرہ کی عام عبادت بن جاتا ہے جس میں وہ عبادت کا مفہوم کم رہ جاتا ہے اور عادت کا مفہوم زیادہ ہو جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اسی مضمون سے متعلق فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں تمہاری قسموں سے متعلق پکڑے گا مگر لغو قسموں کو نظر انداز فرمادے گا.جو لغو قسمیں ہیں یعنی جھوٹی ، بے ہودہ قسمیں ان پر خدا تمہاری پکڑ نہیں کرے گا.یہ بھی اس کا احسان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ قسمیں عادتا کھائی گئی ہیں یعنی جو جھوٹ بولا جارہا ہے یہ عادتا بولا جارہا ہے، اس میں حقیقت کچھ نہیں لیکن آنحضرت ﷺ نے عادتاً جھوٹ بولنے کو بھی ایک نہایت ہی خطرناک بات قرار دیا ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ رفتہ رفتہ جھوٹ بولنے سے ہی عادت بنتی ہے اور جب عادت بنتی ہے تو ایسے انسان کو یہ عادت لازماً جہنم کی طرف لے جاتی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ” حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے تمہیں سچ بولنا چاہئیے کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے.انسان بیچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حضور صدیق لکھا جاتا ہے.(یعنی یادرکھیں ” سچ بولتا ہے“ کے ساتھ آپ نے فرمایا کہ سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے اور کوشش کرنے کے بعد فرمایا یہاں تک کہ وہ خدا کے حضور صدیق لکھا جاتا ہے پس اس میں ہمارے لئے ایک بہت ہی بڑی خوش خبری ہے کہ اگر ہم فوری طور پر اپنے آپ کو جھوٹ سے کلیۂ پاک نہ بھی کر سکیں.اگر خدا کی خاطر دل
خطبات طاہر جلد 15 393 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء میں ارادہ باندھیں اور مسلسل توجہ کے ساتھ محنت کرتے چلے جائیں اور جھوٹ سے چھٹکارے کی کوشش اور سچ بولنے کی عادت کو اپنانے کی کوشش کرتے چلے جائیں.اس حالت میں آنحضرت یہ فرماتے ہیں کہ ایسا وقت آتا ہے کہ وہ خدا کے حضور صدیق لکھا جاتا ہے.یعنی جب سچا ہو جاتا ہے اور یہ محنت ضائع نہیں جاتی اس کے برعکس فرمایا ) اور تمہیں جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجور آگ کی طرف لے جاتے ہیں.ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.(بخاری کتاب الادب، باب قول الله تعالى اتقو الله وكونوامع الصادقين) پس اگر چہ جھوٹ کا عادی انسان بعض دفعہ بے خیالی میں بھی جھوٹ بولتا ہے مگر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ عادت ایک لمبے عرصے کی بدیوں کی وجہ سے پختہ ہوئی ہے.اس کا مزاج بن گیا ہے اور ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کذاب لکھ دیتا ہے یعنی انتہائی جھوٹ بولنے والا اور کذاب کے لئے جہنم مقدر ہے وہ جنت کا منہ نہیں دیکھے گا.پس لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ میں جو شہادت بیان فرمائی گئی ہے وہ درحقیقت اسی غرض سے ہے کہ اگر آپ جھوٹ کا منہ نہیں دیکھیں گے تو آپ جہنم کا منہ بھی نہیں دیکھیں گے.اگر آپ جھوٹ کا منہ دیکھیں گے تو جنت کا منہ نہیں دیکھیں گے.یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں چل سکتیں.اس کے باوجود ہم جھوٹ سے بہت بے پرواہ ہیں اور بسا اوقات ایک کام کرنے سے پہلے ہی جھوٹ کا ارادہ باندھ کر گھر سے چلتے ہیں.کوئی تجارت ہو یا کوئی معاہدہ کرنا ہو یا کسی ملک میں داخل ہونا ہو، پاسپورٹ کا ناجائز استعمال کرنا ہو یا کوئی اور غرض پیش نظر ہو بسا اوقات انسان دل میں یہ ارادہ باندھ کر گھر سے نکلتا ہے کہ میں جھوٹ بولوں گا اور مطمئن ہو جاتا ہے کہ اب میرے کام بن جائیں گے کیونکہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جھوٹ سے فائدہ اٹھاؤں گا.یہ جو اطمینان قلب ہے جو جھوٹ کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے یہ شرک ہے اور یہ پکی علامت ہے کہ یہ انسان مشرک ہے، بت پرست ہے، اگر چہ اپنا نام اس نے موحد رکھا ہے.عبادت کرتا ہے خدا کی بظاہر ہجدے کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد 15 394 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء حضور لیکن اس کی ساری فطرت ، ساری روح جھوٹ کے حضور جھکی رہتی ہے اور اسی کو سجدے کرتی ہے.پس یا درکھو کہ جھوٹ کوئی معمولی بیماری نہیں.یہ ایسی بیماری ہے جو ہر شرک کی جڑ اپنے اندر رکھتی ہے.ہر ناشکری کی جڑ اپنے اندر رکھتی ہے.پس تو حید کے منافی ایک ایسا گناہ ہے جو تو حید کے ہر پہلو سے اس کی حقیقت کو چاٹ جاتا ہے، کچھ بھی باقی نہیں رکھتا اور احسان مندی ، احسان کے خیال یا شکرگزاری کے جذبات کو بھی کلینتہ چٹ کر جاتا ہے.جھوٹے لوگ نہ اپنے ماں باپ کے ہوتے ہیں ، نہ خدا کے ہوتے ہیں اور ماں باپ کا ذکر خدا کے بعد اس تعلق میں بیان فرمایا گیا ہے، اس نسبت سے بیان فرمایا گیا ہے کہ سب سے بڑا رشتہ تخلیق کا رشتہ ہے.خدا چونکہ خالق ہے اس لئے سب سے زیادہ اس کا حق ہے اور خدا کے بعد چونکہ ماں باپ تخلیق کے عمل میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ حصہ لیتے ہیں، تمام رشتوں میں سب سے زیادہ تخلیقی عمل میں حصہ لینے والے ماں باپ ہوتے ہیں اس لئے خدا کے بعد اگر کسی کا حق ہے تو ماں باپ کا ہے اور جھوٹ ان دونوں حقوق کو تلف کر دیتا ہے.دوستیوں کے حقوق کو بھی تلف کر دیتا ہے کیونکہ وہ نسبتاً ادنی ہیں.میاں بیوی کے حقوق کو بھی تلف کر دیتا ہے کیونکہ وہ نسبتا ادنی ہیں.قومی حقوق کو بھی تلف کر دیتا ہے کیونکہ وہ نسبتاً ادنی ہیں اور حکومت کی اطاعت، فرمانبرداری اور انصاف کے ساتھ اس سے معاملہ کرنے کو بھی تلف کر دیتا ہے کیونکہ یہ بھی لوگوں کے نزدیک ایک بہت ہی معمولی بات ہے.پس یہ دیکھیں کہ جھوٹ آپ کی مجالس میں پلتا کیسے ہے؟ آپ کے گھروں میں کس طرح بار بار استعمال ہوتا ہے اور کیوں آپ کی طبیعت پر اس کا برا اثر نہیں پڑتا ؟ جب تک یہ احساس بیدار نہیں کریں گے آپ جھوٹ کی بیماری سے شفایاب نہیں ہو سکتے.آپ ایک ایسی قوم میں آئے ہیں، ایک ایسے ملک میں آپ نے پناہ ڈھونڈی ہے جو اس پہلو سے بالعموم آپ سے بہتر نمونے دکھانے والا ملک ہے بلکہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اور اس میں رعایت مقصود نہیں بلکہ حقیقت حال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.تمام یورپ میں میرے نزد یک جرمن قوم سب سے زیادہ سچ بولنے والی ہے.اللہ کرے یہ ان کی نیکی اور سچائی ان کو بالآخر تو حید کی طرف لے جائے.خدا کرے یہ نیکی قائم رہے اور جیسا کہ آج دنیا میں سچ زائل ہو رہا ہے اس قوم میں یہ بیماری داخل نہ ہو جو عموماً ترقی یافتہ ملکوں میں بھی داخل ہو چکی ہے اور یہ قوم اپنے سچ کی حفاظت کر سکے.مگر حقیقت یہی ہے کہ ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد گہری نظر سے جائزہ لینے کے بعد
خطبات طاہر جلد 15 395 خطبہ جمعہ مورخہ 24 رمئی 1996ء میں نے یہ حقیقت معلوم کی ہے، دریافت کی ہے یہ بات کہ تمام یورپین یا مغربی قوموں میں سب سے زیادہ فطرتا کچی قوم جرمن قوم ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ لوگ ان کو اکھڑ سمجھتے ہیں.بعض دفعہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سخت مزاج ہیں حالانکہ ان کے اندرسچائی کی وجہ سے ایک ڈسپلن پیدا ہو گیا ہے اور اسی بناء پر بعض معاملات میں یہ بختی سے عمل کرتے ہیں.مگر حقیقت میں اس کی وجہ طبیعت کا اکھڑ پن نہیں ہے کیونکہ اس کے برعکس میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہ قوم سچ کی قدردان بھی ہے اور جہاں یہ لوگ سچے لوگ دیکھتے ہیں وہاں ان سے طبعاً ان کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور دنیا کی سچی قو میں ہی ہیں جو بچوں سے محبت کرتی ہیں یا کرسکتی ہیں.پس آپ کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ آپ ایک ایسے ملک میں آئے ہیں جہاں کم سے کم آپ کے بیچ پر کوئی ابتلا نہیں آیا اور آپ سچ بولنا چاہیں تو ان کے مزاج کے موافق رہیں گے ان کے مزاج کے بر عکس بات نہیں کریں گے.اس کے باوجود اگر آپ اپنی پرانی گندی عادتوں کو ساتھ لے کر یہاں داخل ہوں اور ان سے جھوٹ کا معاملہ کریں تو بہت ہی بڑا گناہ ہے، بہت ہی بڑی ناشکری بھی ہے.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کے مضمون کے ساتھ ناشکری کے مضمون کو باندھا ہے یا درکھیں یہاں بھی آپ کا یہی معاملہ ہے.اگر آپ جھوٹ بولیں گے اس ملک میں رہ کر تو اس قوم کی مہمان نوازی ، اس کے اعلیٰ اخلاق کی بھی ناقدری اور ناشکری کرنے والے ہوں گے.وہ فوائد جو یہ آپ کو ویسے دیتے ہیں اگر آپ جھوٹ کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو محض یہی نہیں کہ آپ ان کے ناشکر گزار ہوں گے، آپ خدا کے ناشکر گزار ہوں گے اور آپ کا کوئی نیک اثر اس قوم پر پھر قائم نہیں ہوسکتا.نہ آپ کا ، نہ آپ کے دین کا ، نہ آپ کی قوم کا.پس آپ جھوٹ کے ایمبیسیڈر بن کر ، جھوٹ کے سفیر بن کر اگر غیر قوموں میں یا دوسری قوموں میں زندگی بسر کرتے ہیں تو حقیقت میں شیطان کے سفیر بن کر زندگی بسر کرتے ہیں.اللہ کے سفیر تو سچ کے علمبردار ہوتے ہیں ، سچ کے نقیب بنا کرتے ہیں اور آپ کو خدا تعالیٰ اگر سچائی کا موقع عطا فرمائے تو بہت تیزی کے ساتھ آپ اس قوم کے دلوں کو فتح کر سکتے ہیں.پس اگر آپ نے اپنی میزبان قوم کے دلوں کو فتح کرنا ہے تو اس کی چابی بھی سچائی میں ہے.سچ بولیں سچا کر دار بنائیں ، سچ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں.آپ کے چہروں سے سچائی ظاہر
خطبات طاہر جلد 15 396 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء ہو.آپ کے اطوار سچے ہوں.آپ کی طرز گفتگو سچی ہواور جھوٹ کا تصور تک آپ کے قریب نہ آئے.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق پھر کہا جا سکتا ہے کہ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ احمدی وہ لوگ ہیں جو جھوٹ کا منہ تک نہیں دیکھتے.اگر آپ یہ کریں تو آپ زندہ رہیں گے.آپ کی بقاء کی قطعی ضمانت دی جاسکتی ہے کیونکہ جو سچا ہو خدائے واحد دیگا نہ اس کی حفاظت فرماتا ہے اور خدا اس کی پشت پناہی فرماتا ہے.ہر خطرے سے اس کو بچاتا ہے کیونکہ اس نے جھوٹ کا سہارا موجود ہونے کے باوجود جھوٹ کا سہارانہیں لیا.پس یہ بندہ رحمان خدا کا بندہ بن جاتا ہے اور وہ اس کی حفاظت کرنا خود اپنے ذمہ لے لیتا ہے.یہ وہ حقیقت ہے جس میں ادنیٰ بھی شک نہیں.یہ وہ حقیقت ہے جس سے اکثر دنیا منہ پھیرے بیٹھی ہے.پس آپ نے ایک بہت ہی بڑی ذمہ داری اس قوم میں ادا کرنی ہے اور وہ اسلام اور احمدیت کا نقیب بنتا ہے اور یہ ایک ایسی ہم آہنگی ہے جس کے نتیجے میں آپ دونوں کے درمیان گفت و شنید میں کچھ فاصلے دکھائی نہیں دیں گے.بچے بچوں سے ملتے ہیں تو ان کے اندر ایک فطری اور طبعی لگاؤ ہوتا ہے جو ان کو ایک دوسرے کے قریب کر دیتا ہے.اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ اکثر داعی الی اللہ وہی کامیاب ہیں جن کے اندر سچائی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ سچی بات کرتے ہیں خواہ تھوڑی کریں.سچی بات کرتے ہیں خواہ زیادہ دلائل نہ بھی جانتے ہوں.ان کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے اور وزن سچائی کا نام ہے چالا کیوں کا نام نہیں.ایک چھوٹی سی بات بھی جو سچی ہو بعض دفعہ غیر معمولی وزن اختیار کر لیتی ہے.اس کے مقابل پر ہزار دلائل بھی کام نہیں کرتے اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں.یہاں جو خاص کا میاب داعی الی اللہ ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کو جرمن زبان بھی بہت تھوڑی آتی ہے.ایسے ہی ایک داعی الی اللہ سے ملاقات کے دوران میں نے پوچھا کہ بتائیں آپ کیا کرتے ہیں.تو انہوں نے بڑی سادگی سے کہا کہ دو ہی باتیں ہیں جو میں جانتا ہوں.ایک یہ کہ مجھے کوئی علم نہیں زبان بھی نہیں آتی اور اس کا ایک ہی تو ڑ ہے کہ میں لوگوں کو دعوت دے کر اپنے گھر مہمان بلا لیتا ہوں اور جس حد تک بھی جو کچھ مجھے کہنا آتا ہے سادہ لفظوں میں ان کو کہتا ہوں اور اس مہمان نوازی کے نتیجے میں وہ چند منٹ جو میرے پاس بیٹھتے ہیں میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ میرے بہت قریب آرہے ہیں اور وہ مجلس ختم نہیں ہوتی مگر ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہوتے ہیں.تب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ پسند کریں تو میں
خطبات طاہر جلد 15 397 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء آپ کو کچھ لڑ پیچر دوں.تو اکثر وہ کہتے ہیں ہاں ہمیں ضرور دیں اور جب میں لٹریچر دیتا ہوں تو وہ بسا اوقات مثبت نتائج ظاہر کرتے ہیں اور صرف اتنی سی میری تبلیغ ہے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے ایک سال میں تمیں احمدی مل چکے ہیں جو بہت مخلص اور فدائی ہیں اور پوری طرح جماعت کے نظام کا حصہ بن چکے ہیں.دوسری بات مجھے انہوں نے یہ بتائی کہ دوسرا راز یہ ہے کہ میری بیوی بہت مہمان نواز ہے.وہ کہتے ہیں بیوی مہمان نواز نہ ہوتی تو مجھے جرات ہی نہ ہوتی کہ اس طرح وقت بے وقت گھروں میں مہمان لے آتا.کوئی پہلے سے طے شدہ پروگرام تو ہوتا نہیں.رستہ چلتے کسی سے باتیں شروع ہوئیں تھوڑی سی ہم آہنگی دیکھی اور اس سے پوچھا کہ کیوں جی آپ پسند فرما ئیں گے کہ تھوڑا سا پاکستانی کھانا چکھ لیں.اکثر تعجب کی وجہ سے یا انوکھی بات سمجھ کر وہ کہتے ہیں ہاں ٹھیک ہے.کہتے ہیں میں اس یقین کے ساتھ گھر میں آتا ہوں کہ کوئی بھی وقت ہو، کسی قسم کی بھی مشکل ہو میری بیوی ضرور میرا ساتھ دے گی اور ہمیشہ دیتی ہے.ہنستے ہوئے مسکراتے ہوئے وہ اس طرح ان کو Welcome کرتی ہے کہ اپنے مہمانوں کو ، جو ذاتی مہمان ہوں ان کو بھی شاید اس طرح شوق سے کوئی Welcome نہ کر سکے کیونکہ اس کی زبان پر سبحان اللہ ہوتا ہے.کہتی ہے اللہ کے مہمان آئے ہیں اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جوش اور ولولے کے ساتھ وہ مہمان نوازیاں کرتی ہے اور کبھی بھی حرف شکایت زبان پر نہیں آیا.اس نے کہا یہ دو باتیں ہیں جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل فرمایا اور میرے جاہل اور لاعلم ہونے کے باوجود مجھے، میری دعوت الی اللہ کو پھل لگائے اور ہمیشہ لگاتا ہے.اس شخص کی طرز گفتگو سے میں نے یہ اندازہ لگایا اور بالکل واضح تھا یہ کہ اصل میں اس کی سچائی کا اثر ہے.بات کرنے کا طریقہ بالکل سادہ مگر بالکل سچا اور وہ ایسی بات تھی جو میرے دل پر اثر کر رہی تھی کیسے ممکن تھا کہ یہ بات دوسرے دلوں پر اثر انداز نہ ہو.پس یا درکھیں اگر آپ نے کامیاب داعی الی اللہ بنا ہے تب بھی آپ کو سچ کی طرف آنا پڑے گا اور سچائی کی راہ میں بہت روکیں حائل ہیں.جو قو میں بچپن سے اپنے گھروں میں جھوٹ بولتی پل کے جوان ہوئی ہوں، جس کے جھوٹ بولنے کی عادت جس کے ہاں اعزاز سمجھی جاتی ہے.جتنا بڑا جھوٹا اور لپائی ہو اتنا ہی مجلسوں کا وہ ہیرو بنتا ہو، ایسے
خطبات طاہر جلد 15 398 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء بیمار کا اس بیماری سے نجات پانا ایسا ہی ہے جیسے کسی گہرے کینسر کے مریض کا کینسر کی بیماری سے شفاء پا جانا اور جھوٹ واقعہ ایک کینسر بن جایا کرتا ہے.وہ رگ وریشہ میں داخل ہو جاتا ہے.ایک طرف سے اکھیڑیں تو دوسری طرف کسی اور جگہ اپنی جڑیں گاڑ دیتا ہے.پس یا درکھیں کہ بڑی نگرانی اور بیدار مغزی کے ساتھ جھوٹ سے اپنے معاشرے کو پاک کرنا آپ پر لازم ہے اور اگر آپ یہ ہم شروع کریں گے تب آپ کو معلوم ہوگا کہ کتنا مشکل کام ہے.کہنے میں آسان ہے مگر کرنے میں بے انتہا مشکل کیونکہ آپ صبح اٹھ کر جب اپنا پروگرام شروع کرتے ہیں تو ہر قدم پر آپ کے سامنے سچ اور جھوٹ کی دوراہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور ہر قدم پر بسا اوقات آپ بیچ کی عبادت کی بجائے جھوٹ کی عبادت پر اپنے آپ کو آمادہ پاتے ہیں اور جب عادت بن جائے تو پتا بھی نہیں چلتا کہ آپ کیا کر رہے ہیں.بعض دفعہ جھوٹ بولنے والے سے آپ کہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو اللہ کی قسمیں کھا کے کہے گا کہ میں جھوٹ نہیں بولتا اور اتنا جوش ہوتا ہے اس کی قسموں میں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایک ایسا شخص جس کو میں جانتا تھا کہ سخت جھوٹا ہے اس نے عدالت میں نظام جماعت کے سامنے قضا میں جھوٹی گواہی دی اور اس پر اسے بڑا جوش آیا کہ میرے خلاف فیصلہ ہو گیا ہے.اس نے مجھے خط لکھا کہ آپ تو مجھے جانتے ہیں کہ میں کتنا سچا ہوں.اس لئے میری اپیل ہے آپ کی عدالت میں کہ قضا نے جو مجھے جھوٹا قرار دیا ہے اس کو صاف کریں اور میں جانتا تھا کہ وہ جھوٹا ہے لیکن اتنے یقین سے اس نے مجھے لکھا کہ میں حیران رہ گیا.اس کی عادت میں اتنا جھوٹ تھا کہ ہر بات میں جھوٹ تھا اور یہی وہ جھوٹ ہے جب عادت بن جائے تو انسان کو چاروں طرف سے لپیٹ لیا کرتا ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایسا شخص خدا کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.اپنے بچوں میں دیکھیں، اپنے عزیزوں میں دیکھیں، اپنی بیویوں میں دیکھیں ، بیویاں اپنے خاوندوں میں دیکھیں که روز مرہ کتنی بار آپ لوگ بے تکلفی سے جھوٹ بولتے ہیں اور اگر یہ عادت اسی طرح جاری رہی تو آپ کے دین کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا اور خدا کے ساتھ آپ کا تعلق قائم ہو ہی نہیں سکتا.یا درکھیں اللہ سے سچا تعلق صادق کا ہی قائم ہوا کرتا ہے.کاذب کا نہیں ہوا کرتا.یہ الگ بات ہے کہ کوئی کاذب اپنا نام صادق رکھ لے.کوئی کاذبہ اپنا نام صادقہ رکھ لے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کی نظر میں سب کچھ ہے اور خدا کا تعلق سچے سے ہوتا ہے جھوٹے سے نہیں ہوتا.اگر دنیا کی
خطبات طاہر جلد 15 399 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء زندگی میں بھی آپ کا یہی تجربہ ہے کہ بچوں سے آپ کا تعلق بڑھتا ہے خواہ جھوٹے بھی ہوں تو خدا جو جھوٹا نہیں ہے، خدا جو سچ کا سرچشمہ ہے وہ کیسے جھوٹوں سے تعلق قائم کرے گا.اللہ تعالیٰ سب گناہوں سے بڑھ کر ظلم اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہے اور ظلم اور جھوٹ یعنی شرک اور جھوٹ دراصل ایک چیز کے دو نام ہیں.پس اپنے حالات پر غور کریں ، جائزہ لیں.میں نے جو کہا کہ آپ اگر جھوٹے بھی ہوں تو بچے کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے یہ بالکل درست بات ہے.بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں حج خواہ کیسا بھی تھا اس کے سامنے جب ایک آدمی نے وقار کے ساتھ سچائی بیان کی تو وہ اس سے متاثر ہوا اور اس نے صاف لکھ دیا کہ یہ شخص جھوٹ بولنے والا نہیں ہے.میں اس کی قدر کرتا ہوں اور اس کے حق میں فیصلہ کیا.تو انسان کی فطرت میں گہری بات، گہرا تعلق دراصل سچائی ہی سے ہے کیونکہ انسان سچائی کی طرف سے آیا ہے.اللہ کی تخلیق ہے اور اللہ کی صفات کی چھاپ اس کی ہر تخلیق پر ہوتی ہے.پس آپ نے اگر جھوٹ کا سفر اختیار کیا ہے، جھوٹ کو اپنی زندگی کی عادت بنایا ہے تو فطرت کے خلاف قدم اٹھایا ہے.ایک بچہ عام حالات میں کبھی جھوٹ نہیں بولے گا.جب بھی جھوٹ شروع کرے گا کسی سزا کے ڈر سے شروع کرے گا.جب بھی جھوٹ شروع کرے گا کسی لالچ سے متاثر ہوکر کرے گا.مگر عام طور پر جس گھر میں جھوٹ نہ بولا جائے وہاں بچے لالچ کے باوجود بھی جھوٹ نہیں بولتے اور خوف کے باوجود بھی جھوٹ نہیں بولتے اور بچے گھروں کا یہ طرہ امتیاز ہوتا ہے کہ ان کے بچے بالکل صاف اور سچی بات کرنے والے ہوتے ہیں.پس اس منزل سے اپنی سچائی کی حفاظت شروع کریں.اپنے بچوں پر نگاہ ڈالیں ان کی عادتیں دیکھیں.اپنے میاں بیوی کے تعلقات پر نظر ڈالیں.اپنے بہن بھائیوں کے تعلقات پر نظر ڈالیں.بیوی کے تعلق جو اس کی بہو سے ہیں یا بیوی کا تعلق جو اپنے داماد سے ہے اور اسی طرح داماد اور بہوؤں کا تعلق اپنی ساسوں سے ہے، یہ سارے زندگی کے ایسے رشتے ہیں جن کو جھوٹ کی ملونی گدلا کر دیتی ہے اور زہریلا کر دیتی ہے.تمام انسانی فساد کی جڑ جھوٹ ہے.ہر جگہ ظلم اور ستم جھوٹ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.اگر ایک انسان خواہ کتنا ہی مجرم کیوں نہ ہو یہ قطعی فیصلہ کر لے کہ جو کچھ بھی ہوگا میں نے بہر حال جھوٹ نہیں بولنا تو اسی دن اس کے جرائم کی جان نکلنی شروع ہو جائے گی.ان
خطبات طاہر جلد 15 400 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء میں کوئی زندگی باقی نہیں رہے گی.پس اپنا غور سے جائزہ لیں اپنا گہری نظر سے مطالعہ کریں.نفس کا اندرونی سفر اپنے جھوٹ کی تلاش میں شروع کریں تو پہلے دن ہی آپ کو بہت سے جھوٹ دکھائی دیں گے اور عجیب بات ہے کہ جب آپ ان کو صاف کر لیں گے تو اس کی تہہ میں پھر کچھ اور بھی جھوٹ دکھائی دیں گیا اور یہ سفر بہت لمبا اور صبر آزما ہے.بچے لوگ بھی جن کو آپ بہت اعلیٰ درجے کا سچا سمجھتے ہیں جھوٹ کے خلاف نگرانی کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی نہ کسی پہلو سے چھپا ہوا د شمن کسی تہہ میں ضرور موجود ہوگا.پس نیتوں کے بننے کی آماجگاہ جو دل کی گہرائیاں ہیں یا روح کی گہرائیاں ہیں ان تک جھوٹ کی رسائی ہو جاتی ہے اور جب وہاں جھوٹ پہنچ جائے تو اسی بیماری کا نام دراصل کینسر ہے جو تہہ بہ تہہ درجہ بدرجہ نیچے اتر تا چلا جاتا ہے.پس اپنے سب پہلوؤں ، سب گوشوں کو صاف کریں اور اس کے لئے آپ کو بیدار مغزی کے ساتھ ، ہوشیاری کے ساتھ ، بہت باریک نظر سے جائزہ لینا ہوگا.روز مرہ کاموں میں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو میں باتیں کر رہا ہوں جب تک آپ تجربہ نہ کریں گے آپ کو تصور بھی نہیں ہوسکتا کہ میں آپ سے کیا کہہ رہا ہوں.خدام الاحمدیہ کے کاموں میں آپ مصروف ہیں وہاں بھی کئی بار جھوٹ بول جاتے ہیں.کوئی پوچھتا ہے کیوں جی لیٹ کیوں ہو گئے تو بے اختیار دل سے ایک عذر نکل آتا ہے اور اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو پتا چلے گا کہ وہ عذر پورا سچا نہیں تھا.اس میں کوئی نہ کوئی پہلو جھوٹ کا موجود تھا.کوئی سوال کیا جائے آپ سنی سنائی بات آگے پہنچا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی جھوٹ نہیں.مگر آنحضرت ﷺ نے جھوٹ کی جو تعریف فرمائی ہے اس میں اسے جھوٹ قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک انسان کے لئے یہ جھوٹ کافی ہے جیسا کہ فرمایا: كفى بالمرء كذباً ان يحدث بكل ماسمع کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو سنے وہ آگے چلا دے (مسلم باب النهي عن الحديث بكل ماسمع) اب یہ بات جو ہے جو سنے اور آگے چلا دے اس کو جھوٹا کہنا یہ آنحضرت ﷺ کا مرتبہ اور مقام تھا کیونکہ آپ کو شافی مطلق نے اپنی نمائندگی میں تمام بنی نوع انسان کی ہر بیماری کی شفاء کے
خطبات طاہر جلد 15 401 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء لئے بھیجا تھا.پس دیکھیں کیسی گہری نظر ہے آپ کی.جو کوئی بات سنتا ہے اسے آگے چلا دیتا ہے فرمایا یہ جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ اس کی بربادی کے لئے کافی ہے.جب تک کسی بات کے متعلق آپ کو یقین نہ ہو ، آپ تحقیق نہ کر لیں ، اسے آگے چلانا گناہ ہے اور بعض دفعہ یہ جھوٹ بہت بڑی بڑی معاشرتی خرابیوں پر منتج ہو جاتا ہے.ایک بہن نے اپنی بہن کے متعلق کوئی بات سنی ، اگر اس کے دل میں اس کی محبت نہیں ہوگی تو وہ اس بات کو کچا جانتے ہوئے بھی آگے بیان کرے گی.ایک بھائی جب اپنے بھائی کے خلاف کوئی بات سنتا ہے اگر اس سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو بلکہ معمولی سی پر خاش ہو اور نفرت ہو تو وہ بہت جلد اس کے خلاف بات کو لوگوں میں پھیلائے گا اور اکثر معاشرتی خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں لیکن جہاں اپنے دوست کے متعلق اپنے عزیز کے متعلق کوئی انسان بات سنتا ہے تو اسے آگے نہیں چلاتا اور آگے نہیں پھیلا تا بلکہ اس پر مٹھی کس کر بیٹھ رہتا ہے کہ آگے بات نکلے نہیں اور یہ بھی ایک جھوٹ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں باتیں بچی بھی ہوسکتی ہیں اور جھوٹی بھی ہوسکتی ہیں.مگر اگر آپ نے اپنی نفرت کی وجہ سے کسی کے خلاف بات کو اچھال دیا تو یہ بھی ایک جھوٹ ہے اور اگر محبت کی وجہ سے اس بات کی تحقیق ہی نہ کی اور اس سے آنکھیں بند کر کے بیٹھ رہے تو یہ بھی ایک جھوٹ ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جو فطرت پر بہت گہری اور باریک نظر رکھتے تھے ہر پہلو سے ہمارے گناہوں کو کھنگال کر ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور ہر خطرے سے ہمیں متنبہ فرما دیا ہے.اب یہ عادت اگر آپ اپنے معاشرے سے دور کر دیں تو منافقوں کو منافقت پھیلانے کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا.جتنی قو میں منافقتوں سے ہلاک ہوا کرتی ہیں ان کی ہلاکت کا راز اس بات میں ہے کہ جو بات سنی آگے چلا دی اور اس سے رفتہ رفتہ قوموں کے کر دار تباہ ہو جاتے ہیں ،ان کی ہمتوں کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تو ایسا ہی ہوتا ہے.فحشاء بھی اسی لئے جھوٹ کی ایک بدترین قسم ہے.جب آپ بری بات کسی جگہ سنتے ہیں اور سنتے ہی اسے آگے بڑھا دیتے ہیں تو اس سے صرف یہی نہیں کہ آپ جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ وہ معاشرہ جس میں ایسی باتیں عام ہونے لگیں وہاں وہ بدیاں بھی جڑیں پکڑنے لگتی ہیں اور انسان فطرتا یہ سوچتا ہے کہ اگر یہ باتیں چل رہی ہیں، فلاں بھی ایسا کر رہا ہے یا فلاں بھی ایسا کر رہی ہے تو ہم
خطبات طاہر جلد 15 402 خطبہ جمعہ مورخہ 24 رمئی 1996ء بھی کر لیں تو کیا فرق پڑتا ہے اور جھوٹ کی جرات بدکاری کی جرات میں تبدیل ہو جاتی ہے.ایک گناہ دوسرے گناہ پر منتج ہو جاتا ہے.پس آپ اگر اپنے معاشرے کی خرابیوں پر نظر رکھیں تو بلا مبالغہ آپ یقین کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اکثر بیماریاں ، اکثر گناہ جھوٹ کی سرزمین پر پرورش پاتے ہیں اور جھوٹ کے پانی ہی سے سیراب ہوتے ہیں.پس جھوٹ کا قلع قمع کریں، اپنی زندگیوں کو سچا بنا ئیں اور اگر آپ اپنی زندگیوں کو سچا بنالیں تو اس دنیا میں جنت حاصل کر لیں گے.جو سچ میں تسکین دینے کی طاقت ہے وہ دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں.سچائی طمانیت بخشتی ہے.سچائی سادگی پیدا کرتی ہے.سچائی قناعت پیدا کرتی ہے.سچائی نہ ہوتو دکھاوے کی زندگی آپ کو طرح طرح کے قرضوں میں مبتلا کر دیتی ہے.طرح طرح کے مصنوعی ایسے طریق اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے جس کی آپ کو استطاعت نہیں ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے حالانکہ یہ جھوٹ ہے.سچ صرف یہ ہے کہ خدا نے جو آپ کو دیا ہے وہی آپ کا ہو اور جو آپ کے پاس نہیں ہے دنیا دیکھ لے کہ آپ کے پاس نہیں ہے چونکہ آپ دنیا کی نظر سے ڈرتے ہیں اور دنیا کو اپنا خدا بنا لیتے ہیں اس لئے دینے والا آپ کو کچھ اور دیتا ہے اور جس کو آپ نے دکھانا ہے اس کا اور تقاضا ہے.آپ پھر قرض لے کر بھی اپنی زندگی کا معیار مصنوعی طور پر بنا لیتے ہیں.مانگ کر بھی اپنی عزت پر داغ ڈال لیتے ہیں.قرض لے لے کر اس نیت سے لینا کہ واپس نہیں کروں گا یہ بھی ایک بہت گندی قسم کا جھوٹ ہے.تو آپ کسی بھی بیماری کا تجزیہ کریں جو روز مرہ ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے تو پہلے اگر آپ کا دھیان اس طرف نہیں بھی گیا تو یہ جھوٹ تھا جس میں آپ زندگی بسر کر رہے تھے تو اب میرے بتانے پر، نشان دہی پر جب آپ دوبارہ غور کریں گے تو آپ اس کو جھوٹ ہی پائیں گے.ایک سادہ آدمی جو جھوٹا نہ ہو وہ قانع ضرور ہوا کرتا ہے.ایک آدمی کے گھر میں کچھ بھی نہیں اگر کوئی مہمان آتا ہے تو یہ بالکل جھوٹا خیال ہے کہ اگر آپ اس کی کچھ خاطر نہ کرسکیں تو آپ اس کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے.اگر ایک سچا آدمی اپنی غربت کی وجہ سے کسی مہمان کی عزت نہیں کر سکتا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ مہمان اس کی عزت دل میں لے کر واپس جایا کرتا ہے.کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ اسے ذلیل سمجھے یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے.اس کی سادگی ،اس
خطبات طاہر جلد 15 403 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء کی سچائی ایک چادر ہے، جو ہے وہی بچھا دی کہ آؤ اب بیٹھ جائیں.ٹھنڈا پانی نلکے سے نکال کر پلا دیا.یہ ان باتوں میں بہت گہری طاقت ہے اس کے مقابل پر کہ آپ کسی کے گھر دوڑے جائیں اور وہاں سے کسی یا چائے مانگ کر لائیں اور مانگے ہوئے برتنوں میں آپ مہمان کی خدمت کر رہے ہوں.افراتفری گھر میں آئی ہو.آپ کو وہم ہے کہ مہمان پہچانتا نہیں ہے وہ خوب جانتا ہے، خوب پہچانتا ہے.سادگی ہے جو دراصل سچائی سے پیدا ہوتی ہے اور سچائی سادگی کو طاقت بخشتی ہے.جو کچھ ہے، جو کچھ خدا نے آپ کو دیا ہے وہی کچھ پہنے رہیں ، اس سے زیادہ بننے کی کوشش نہ کریں.ایسے موقعوں پر کتنی مصیبتیں حل ہو جاتی ہیں ، کتنے سمجھٹوں سے آپ کو چھٹکارا مل جاتا ہے.کئی لوگ لکھتے ہیں کہ ہماری اتنی بچیاں ہیں، اتنے بچے ہیں ان کی شادیاں کرنی ہیں کچھ بھی نہیں ہے دعا کریں.میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں اور صرف یہ دعا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرورتیں پوری فرمائے بلکہ یہ بھی کرتا ہوں کہ خدا ان کو قناعت بخشے اور جیسا سادہ زندگی کے ساتھ آنحضرت م ان ضروریات زندگی کو پورا کیا کرتے تھے اسی سادہ زندگی سے ان کو بھی توفیق ملے لیکن ان کی راہ میں ایک مشکل پیدا ہو جاتی ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تو آنحضرت ﷺ کے نیک نمونے کے نتیجے میں اکثر معاشرہ اصلاح پذیر تھا اور وہاں تکلفات تھے ہی نہیں.وہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی معاشرے میں پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ فرائض آسان ہو گئے.کوئی تکلف بھی انسان کی روزمرہ کی ضرورتوں کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا تھا.آپ میں سے اکثر کو شاید علم نہ ہو کہ حضرت امان جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب اپنی بیٹی امتہ الحفیظ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جو سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں رخصت کیا تو پتا ہے کیسے رخصت کیا.بیٹی کو کپڑے پہنائے صاف ستھرے اور یکہ لیا اور نواب محمد علی خان صاحب کے گھر جن کے بیٹے نواب عبداللہ خان سے شادی ہوئی تھی ، ان کے گھر بیٹی کو پہنچا دیا کہ لو جی اپنی امانت سنبھالو، میں چلتی ہوں ، یہ شادی تھی.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کی یہ شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت اور آپ کے خاندان کے وقار کے منافی نہیں تھی بلکہ اس کی عزت اور وقار کو چار چاند لگانے والی تھی تو پھر مسئلہ کیا ہے.پھر کیا مشکل در پیش ہے.اگر یہی سادہ معاشرہ جو سچائی کا معاشرہ ہے، جو کچھ ہے اسی طرح کرنا ہے، جو کچھ نہیں ہے اس کے متعلق تصور بھی
خطبات طاہر جلد 15 404 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء نہیں کرنا.یہ سچا معاشرہ ہے جو دنیا میں ایک جنت پیدا کر دیتا ہے.اس کے بغیر زندگی کا ہر مرحلہ کٹھن ہو جاتا ہے.ہر انسانی تعلق عذاب بن جاتا ہے.مگر مشکل جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ ہے کہ بعض غرباء ایسے ہیں جو خود سادہ ہونا چاہیں بھی تو دوسرے فریق ان کو سادہ رہنے نہیں دیتے ، مطالبے شروع ہو جاتے ہیں اور تقاضے شروع ہو جاتے ہیں.مطالبے بعض دفعہ ظاہری طور پر ہوتے ہیں.بعض اشاروں سے بعض دفعہ بعد کے رد عمل سے نظر آتے ہیں.مثلاً ایک غریب نے غریبانہ طور پر اپنی بیٹی رخصت کی تو ساری عمر اس پر لعن طعن کی جاتی ہے، اس کو طعنے دیئے جاتے ہیں،اس سے نوکرانیوں کی طرح کام لئے جاتے ہیں کہ تم گھر سے لائی کیا ہو.یہ وہ ہمارے معاشرے کی لعنت ہے جو جھوٹ کی پرورش کرنے والی اور سچائی کی مخالف ہے.حالانکہ جب رشتے کئے جاتے ہیں تو آنحضرت یہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ دین کو اہمیت دو ، دوسری کوئی بات نہ دیکھو، اور دین سے مراد محض کسی کا نمازیں پڑھنا نہیں بلکہ اس کا رہن سہن، اس کی طرز زندگی کی شرافت ہے.ایک انسان دین دار ہو اور آپ اس سے شادی کر دیں تو یقیناً یہ شادی دنیا میں بھی اس بچی کے لئے جنت کا موجب بن سکتی ہے.اگر آپ خاندانی پس منظر دیکھیں، دنیا کی دولت دیکھیں علم دیکھیں اور آدمی اپنی ذات میں بدخلق ہو، بدتمیز ہو تو ایسی بچی کی زندگی آغا ز ہی سے جہنم بن جائے گی اور کبھی اسے زندگی میں سکون کا سانس نصیب نہیں ہوگا.پس جتنی بھی تفصیل کے ساتھ آپ کے معاشرے پر اور روزمرہ زندگی کے تعلقات پر نظر ڈالیں یہ یقین پہلے سے بڑھ کر آپ کے دلوں میں جاگزیں ہوتا چلا جائے گا ،جگہ بناتا چلا جائے گا کہ ہر مشکل کا حل سچائی ہے.ہر زندگی کا سکون اور طمانیت سچائی سے ملتی ہے.جھوٹ ایک لعنت ہے جس نے ہمارے معاشرے کو ہر پہلو سے برباد کر کے رکھ دیا ہے.ایسی قومیں ہیں جن کو خدا نے بہت کچھ دیا لیکن محض جھوٹ کی وجہ سے ان کا سب کچھ برباد ہو گیا.آج ہی اس وقت یوگنڈا میں مثلاً خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہورہا ہے اور انہوں نے مجھ سے یہ درخواست کی ہے کہ میں اپنے خطبہ میں ان سے بھی کچھ کہوں اور یہ جو میں نے مثال دی ہے اس میں سب سے پہلے یوگنڈا میرے ذہن میں آیا تھا.بہت ہی خوش نصیب ملک ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کا تعلق ہے.وہاں کے موسم ، وہاں کی زمین کی شادابی ، وہاں کے پھول اور پھل کے اندر جو
خطبات طاہر جلد 15 405 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء خدا تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتیں رکھی ہیں اس کی وجہ سے اور پھر وہ بڑی جھیل Lake وکٹوریہ، جس میں بے شمار ایسی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جو دنیا بہت زیادہ قیمت دے کر بھی خریدنا پسند کرتی ہے.تمام نعمتیں ، تمام معدنیات ہر قسم کی ، تمام وہ قدرتی وسائل جو ایک قوم کو خوشحال بنا سکتے ہیں یوگنڈا کو میسر ہیں لیکن انتہائی نا گفتہ بہ حال ہے کیونکہ اتنا جھوٹ آ گیا ہے اس کی زندگی میں کہ جھوٹ نے ان کی ہر چیز بر باد کر دی ہے.جھوٹ کے نتیجے میں چوری پیدا ہوئی ہے.چوری کی عادت نے تمام تجارتوں کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے.کوئی تجارت پنپ ہی نہیں سکتی کیونکہ ہر شخص جب اس کو موقع ملے گا جھوٹ بولے گا اور چوری کرے گا اور علاوہ ازیں ایڈز کی بیماری جتنی یوگنڈا میں ہے اتنی دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے.بعض حصے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بیج سے خالی ہو جائیں گے اس تیزی کے ساتھ انسانوں کو بعض خاص خاص حصوں میں ہلاک کر رہی ہے اور وجہ یہ ہے کہ جہاں جھوٹ ہو وہاں چوری ہوگی اور جہاں جھوٹ ہو اور چوری ہوں وہاں انسانی تعلقات مکمل طور پر جھوٹے ہو جاتے ہیں.نہ بیوی خاوند سے وفادار رہتی ہے، نہ خاوند بیوی سے وفادار رہتا ہے.نہ بہن بھائی سے نہ بھائی بہن سے.تمام رشتے گندے ہو جاتے ہیں اور اس وقت پھر یہ بیماریاں اپنا (Tool) ٹول لیتی ہیں یعنی خراج وصول کرتی ہیں.پس جھوٹ کی بیماری بہت ہی گہری بیماری ہے ، بہت ہی وسیع اثر رکھنے والی بیماری ہے.قوموں کو خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے، جو کچھ بھی نعمتیں عطا کی ہوں ان کے باوجود اکیلا جھوٹ کافی ہے کہ ان تمام نعمتوں سے جو خداداد ہیں اس قوم کومحروم کر دے.صرف یہی نہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے ظاہر نعمتیں عطا فرمائی ہیں یوگنڈا ایک ایسا ملک ہے جس میں عام طور پر اس کے باشندے زیادہ ذہین اور روشن دماغ ہیں.وہاں ایک زمانے میں تعلیم کا معیار اتنا اونچا تھا کہ تمام افریقہ میں یوگنڈا کے تعلیمی معیار کو سب سے اونچا قرار دیا جاتا تھا اور اسے سارے افریقہ کے لئے ایک نمونہ سمجھا جاتا تھا.اس کے باوجود آج ان کا یہ حال ہے کہ وہی حسن عقل ایک عقل کی بد زیبی بن چکا ہے کیونکہ اس عقل کی تیزی کو وہ اپنی بدیوں کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں.جھوٹ کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں.ایسی ہوشیاری سے جھوٹ گھڑتے ہیں کہ بسا اوقات ان کے جھوٹ کو پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے اور چوری جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ تو عام روز مرہ زندگی کا حصہ ہے.
خطبات طاہر جلد 15 406 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء لیکن یوگنڈا کے متعلق جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو اس لئے نہیں کہ وہ ایک اور قوم ہے.حقیقت یہ ہے کہ یوگنڈا کی کوئی بھی ایسی بیماری نہیں جواب پاکستان میں یوگنڈا سے کم ہو.وہاں بھی جھوٹ سے آغاز ہوا ہے اور ہر چیز جھوٹ ہو گئی ہے.جھوٹ کی عبادت واقعہ بعض اوقات انسان کو جھوٹے خداؤں کے سامنے جسمانی طور پر بھی سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا کرتی ہے کیونکہ جھوٹ کے بعد پھر کسی چیز کا اعتماد نہیں رہتا.خدا سے تعلق ہے کوئی نہیں.انسانوں سے لینا ہے جو کچھ لینا ہے.اگر زندہ انسانوں سے نہیں ملتا تو مردہ انسانوں سے مانگیں گے.چنانچہ کسی کہنے والے نے یہ کہا کہ اسلام آباد مشرکوں کی آماجگاہ بن گیا ہے اور اسلام کا کیپیٹل اسلام آباد ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ بت پرست رہتے ہیں کیونکہ جھوٹ کی عبادت کرنے والے ،جھوٹ سے مانگنے والے، قبروں کے سامنے سجدے کرنے والے ، ان کو چادریں پہنانے والے ، مردوں سے مانگنے والے، تمام وہ لوگ جھوٹے پیروں فقیروں کے آگے جا کر اپنے ماتھے رگڑتے ہیں کہ ہمیں کچھ دلوا دو یہ سب بت پرست ہیں اور اس خوفناک سفر کا آغا ز جھوٹ سے شروع ہوا ہے.پس جتنا بھی آپ جھوٹ کی برائی سوچ سکتے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ میں موجود ہے.یہ غلط ہے کہ آپ جھوٹ کی برائی کا سوچیں اور وہ اس میں نہ ہو.میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کا تصور پیچھے رہ جائے گا اور جھوٹ کی برائیاں ہیں جو آپ کے تصور کی حد سے آگے جا چکی ہوں گی.یہی وجہ ہے کہ اس جھوٹ کی تلاش اپنی ذات میں مشکل ہے.اپنی ذات کے حوالے سے جب آپ جھوٹ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو آج جس حد تک آپ جھوٹ کو پہچانتے ہیں کل اس سے زیادہ پہچاننے کی استطاعت پیدا ہوگی اور پھر رفتہ رفتہ آپ کے دل میں ایک قسم کی گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.اگر آپ یہ سفر اختیار کریں گے تو آپ پھر یہ سوچنے لگیں گے کہ ہمارا کوئی عمل ایسا ہے بھی کہ خدا کے حضور پیش کر سکیں یا نہ کر سکیں.ہر نیکی کے پیچھے بھی ایک جھوٹ تھا، ایک دکھاوا تھا، ایک دنیا داری تھی ، ایک ذاتی طلب تھی ، ایک ضرورت تھی جس کے ساتھ نیکی کو ملا دیا گیا.آواز اچھی ہے تو تلاوت اس غرض سے کی جارہی ہے کہ داد ملے.کوئی پڑھنا اچھا آتا ہے تو اس غرض سے پڑھا جا رہا ہے کہ اس کی داد ملے.ہر چیز میں انسان سے داد طلب کی جاتی ہے، یہ بھی ایک جھوٹ ہے کیونکہ ایک ہی ہے جو داد دیتا ہے تو کچی داد دیتا ہے وہ اللہ ہے اور ایک ہی ہے جس کی داد کی قیمت ہے اس کے سوا
خطبات طاہر جلد 15 407 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء سب جھوٹ ہے.تو اتنا بڑا گھیرا ڈال رکھا ہے جھوٹ نے ہماری زندگی اور معاشرے کا کہ اس سے بچنا اور بچ نکلنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.پس میں آپ کو بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں یہ نہ سمجھیں کہ میں ایک بات کو دہرا رہا ہوں حالانکہ آپ سمجھ چکے ہیں.مجھے ڈر یہ ہے کہ جتنی دفعہ بھی دہراؤں ابھی بھی آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو سمجھ نہیں آئی اور جن کو کم سمجھ آئی ہے وہ زیادہ جھوٹے ہیں کیونکہ ان کو اپنے جھوٹ کی پہچان ہی نہیں ہے.ان کو پتا ہی نہیں کہ وہ روز مرہ کے معاشرے میں اس حد تک جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی عادات میں جھوٹ داخل ہے ان کی نیتوں میں جھوٹ داخل ہے.پس جماعت جرمنی کو خصوصیت کے ساتھ اور مجلس خدام الاحمدیہ کو اس سے بھی بڑھ کر اپنی اہم تعلیمی ذمہ داری یہ بنالینی چاہئے کہ وہ جھوٹ کے خلاف ایک جہاد شروع کریں گے.خدام الاحمدیہ اس لئے کہ اطفال ، خدام الاحمدیہ کے سپرد ہیں اور اطفال کی منزل پر ہی دراصل جھوٹ کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے.اگر اطفال کی منزل پر آپ جھوٹ کی بیخ کنی نہیں کر سکیں گے تو بڑے ہوکر یہ ایک مشکل کام بن جاتا ہے.اب یہ بات سننے کے بعد جب آپ گھروں میں جائیں گے اور روزمرہ اپنے دوستوں کی مجالس میں بیٹھیں گے تو کوشش تو کر کے دیکھیں کہ آپ پتس کریں کہ کس حد تک آپ میں یہ بیماری پائی جاتی ہے.یا آپ کے دوستوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے.تب آپ کو پتہ چلے گا کہ صورت حال کتنی بھیانک ہے.باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ دوسری تمام مسلمان جماعتوں میں سب زیادہ سچ بولنے والی ہے اور سب سے کم جھوٹ کا سہارا لینے والی ہے لیکن یہ بیرونی نظر کا مطالعہ ہے.میں اندرونی نظر سے دیکھتا ہوں.جس نے گھر کی صفائی کرنی ہو وہ اس بات پر مطمئن نہیں ہوا کرتا کہ اس کے گند چھپے ہوئے ہیں.باہر سے آنے والا مطمئن ہوسکتا ہے.اگر گھر میں پردوں کے پیچھے اور دروازوں کی اوٹ میں کونے کھترے میں ، دریوں کے نیچے گند پڑے ہوئے ہوں تو باہر والا آدمی آکر شاید محسوس نہ کرے اور وہ خوش ہو کر وہاں سے چلا جائے کہ گھر صاف ہے.مگر گھر کا مالک یہ نہیں کر سکتا.اگر اس میں شرافت ، کوئی حیاء ہے تو جب تک اس کے گھر میں گند ہے نا ممکن ہے کہ وہ اس سے آنکھیں بند کر لے.
خطبات طاہر جلد 15 408 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء پس میں جو اتنے اصرار کے ساتھ بات کر رہا ہوں ، نعوذ باللہ یہ مراد نہیں کہ میں خواہ مخواہ بے وجہ جماعت کی بدنامی کرا رہا ہوں.میں جماعت کی نیک نامی چاہتا ہوں اور بڑے گہرے درد کے ساتھ یہ باتیں محسوس کر کے آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ جھوٹ سے پاک نہیں ہوئے.آپ کے گھروں کے کونوں کھتروں میں، آپ کے دلوں میں کواڑوں کی اوٹ میں ابھی جھوٹ کے گند پڑے ہوئے ہیں.ان ڈھیروں کو اٹھا کر باہر نکالیں.خدا کے حضور گر کر ،گریہ وزاری سے اپنے آنسوؤں سے اپنے باطن کی صفائی کریں، اپنے باطن کو ہر گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے بہت فضل فرمائے ہیں ہم پر اور جماعت جرمنی بطور خاص ان فضلوں کا مظہر بنی ہوئی ہے.دو باتیں ایسی ہیں جماعت جرمنی کی جن کی وجہ سے خصوصیت سے اس جماعت کے لئے میرے دل میں محبت بھی ہے اور دعائیں بھی نکلتی ہیں.ایک یہ کہ جب بھی میں نے کوئی نیک کام کہا اتنی سنجیدگی کے ساتھ ، اتنی محنت اور کوشش کے ساتھ ساری جماعت جت جاتی ہے کہ تناسب کے لحاظ سے مجھے اور کہیں یہ تناسب دکھائی نہیں دیتا.بہت سے ممالک میں بہت اچھے اچھے کام ہور ہے ہیں.آپ کی طرح بہت اچھی ٹیمیں کام کر رہی ہیں مگر جس نسبت سے جماعت جرمنی کے افرادان نیک کاموں میں باقاعدہ منظم طور پر حصہ لیتے ہیں اس تناسب کے متعلق میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ تناسب آپ کو باقی سب جماعتوں سے زیادہ حاصل ہے.دوسرا یہ کہ دعوت الی اللہ کے معاملے میں جس ہمت اور صبر اور استقلال کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ باقاعدہ مضبوط اور مربوط ٹیمیں بنانے کے ساتھ آپ لوگوں نے محنت کی ہے ایسی محنت مجھے دنیا کی کسی اور جماعت میں دکھائی نہیں دیتی.ہاں افریقہ میں ضرور یہ ہورہا ہے اور آپ کے مقابل پر زیادہ پھل لگ رہے ہیں.مگر ان افریقی جماعتوں میں احمدی بحیثیت احمدی افراد کے ہرگز اس نسبت سے خدمت دین میں ملوث نہیں ہیں جس طرح آپ ہیں.وہاں کا نظام اور ہے.وہاں مربی چند ٹیمیں اپنے ساتھ بنالیتے ہیں اور چونکہ اس قوم میں ایک خاص قسم کی سعادت پائی جائی ہے اس لئے بعض دفعہ ایک ایک وقت میں دس دس ہیں ہیں ہزار آدمی بھی جب ان کے مقامی لیڈر بات مانتے ہیں تو وہ بھی ساتھ مان جاتے ہیں.یہاں یہ صورت حال نہیں.مگر جہاں تک افراد جماعت کی نسبت کا تعلق ہے میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ تناسب کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد 15 409 خطبہ جمعہ مورخہ 24 رمئی 1996ء فضل سے جماعت جرمنی کو جو دعوت الی اللہ میں حصہ لینا نصیب ہوا ہے دوسرے ممالک میں اگر ہے تو میرے علم میں نہیں ہے.پس یہ دو آپ کی خاص باتیں ہیں جن کی وجہ سے میں آپ کی عزت کرتا ہوں.آپ کے لئے میرے دل میں محبت کے جذبات ہیں.آپ کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں اور اسی جذبے کے ساتھ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ آپ کے اندر جو جھوٹ موجود ہے اس کو ختم کریں.اس لئے موجود ہے کہ آپ جن جگہوں سے آئے ہیں، جن دیہاتی علاقوں سے آئے ہیں، جس قسم کی سوسائٹی سے آپ اکھڑ کر پہنچے ہیں وہاں ہمارے ملک میں جھوٹ خصوصیت کے ساتھ جاگزیں ہو چکا تھا.اس معاشرے میں اب جھوٹ بولنا بالکل بھی کسی پہلو سے بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا.اس لئے وہ عورتیں خصوصیت سے اور وہ نسبتاً بڑی عمر کے لوگ جن کی ساری زندگی اس معاشرے میں جھوٹ کو معمولی بات سمجھتے ہوئے گزری ہے ان کے لئے اس بیماری کو اکھیڑ پھینکنا بہت مشکل کام ہے اور چونکہ ان کے لئے مشکل ہے اس لئے ان کی اولاد کے لئے بھی مشکل ہے.گھر میں جو کچھ بڑوں کو کرتے دیکھتے ہیں ویسے ہی بچے سیکھتے ہیں.اسی صورت پر وہ جوان ہوتے ہیں.پس یہ ایک جہاد ہے، تیسرا جہاد ہے.جس طرح آپ نے میری ہر بات کو مانا ہے اور پورے اخلاص اور محبت اور محنت کے ساتھ لبیک کہا میری دعا ہے کہ اس پر بھی آپ اسی طرح لبیک کہیں.نئے عزم اور ارادے کے ساتھ اب واپس لوٹیں کہ آپ جھوٹ کے خلاف ایک عظیم جہاد شروع کریں گے اور اس کی بیخ کنی کر دیں گے.اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے.اگر آپ ایسا کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کوشش ہے مگر یہ کوشش کامیاب ہوگی کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ جو سب بچوں سے بڑھ کر بچے تھے آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ کوشش کرتا ہے میں اسے خوش خبری دیتا ہوں کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور صدیق لکھا جائے گا.پس کیوں آپ بھی اس خوش خبری سے محروم رہیں.دیانت داری سے کوشش کریں ، اخلاص کے ساتھ کوشش کریں، ارادے باندھ لیں اور دن رات اپنے شعور کو بیدار رکھیں ،نگرانی کریں.تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ صدیقیت کے مقامات بھی آپ کو عطا ہوں گے اور آپ کے اندر ایک نئی طاقت پیدا ہو جائے گی.آپ کے اندر ایک نیا وقار پیدا ہو جائے گا.ابھی بھی یہ محسوس کر رہا ہوں کہ احمدیوں کے گرد و پیش جو جر من اہل وطن ہیں اور وہ قریب
خطبات طاہر جلد 15 410 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء سے احمدی کو دیکھتے ہیں ابھی بھی وہ ان سے فرق محسوس کرتے ہیں اور نسبتا ان سے باقی مشرقی مہاجرین کے مقابل پر زیادہ محبت کرتے ہیں.یہ روزمرہ میرے تجربے میں یہ بات آتی رہتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو بیان کیا ہے اگر آپ اسلامی نمونے کے خدا کے سفیر بن جائیں تو اس طرح آپ ان کے دلوں میں گھر کر جائیں گے کہ ان کے لئے ناممکن ہو گا کہ آپ کے محبت کے پیغام کو رد کر سکیں.پس اللہ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو.اب چونکہ دیر زیادہ ہو چکی ہے میں خود دیر سے اس لئے پہنچا ہوں کہ ہماری مجبوری تھی.سارا راسته السارش ملا ہے کہ اس سے پہلے جو آنا جانا تھا اس میں میں نے کبھی نہیں دیکھا.چنانچہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ پینتالیس منٹ کا رستہ ہے اگر گھنٹہ پہلے بھی چل پڑیں تو آرام سے پہنچ جائیں گے اور وہ پینتالیس منٹ کی بجائے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر بن گیا.پس یہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے.یہاں کسی عذر یا بہانے کی بات نہیں واقعہ ایسا ہی ہوا ہے.تو میں معذرت خواہ ہوں دیر سے شروع کرنے پر لیکن اب مجھے یہاں اس خطاب کو ختم کرنا ہے اس وجہ سے نہیں کہ میں وقت کی کمی کی وجہ سے افراتفری کرنا چاہتا ہوں.میں نے گھڑی دیکھی ہے تو وقت عین مناسب ہے.** میں جو کہنا چاہتا تھا وہ میں نے کہہ دیا ہے.قرآن وحدیث کے حوالے سے کہہ دیا ہے.اپنے زندگی کے تجربے کے لحاظ سے کہہ دیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو سننے والے کان عطا کرے.اذن واعیه عطا کرے.جو کان سنتے ہیں اور پھر ان حکمت کی باتوں کو خزانہ بنا کر اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں.آئیے اب ہم اس کے بعد افتاحی دعا میں شریک ہو جائیں.اللہ آپ کا حامی وناصر ہو.اس اجتماع کے دوران ایک دوسرے سے محبت اور اخلاص کے معاملات کریں.کسی قسم کی بدمزگی نہیں ہونی چاہئے.کسی قسم کی بد کلامی نہیں ہونی چاہئے.احتیاطیں کریں کہ کھیل کے میدانوں میں جہاں تک ممکن ہو احتیاط ہو اور کسی خادم کو چوٹ نہ آ جائے.اللہ کرے کہ نہایت پاکیزہ ماحول میں آپ ذکر الہی کرتے ہوئے اپنے دلوں کو ذکر الہی سے شاداب رکھتے ہوئے یہ وقت گزاریں.اللہ آپ سب کا حامی وناصر ہو.خیریت سے آئے ہیں، خیریت ہی سے واپس لوٹیں.کسی قسم کی کوئی دیکھ کی خبر نہ ملے.آمین.دعا کر لیجئے.اس موقع پر حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے والے تھے کہ عرض کی گئی کہ جمعہ کا خطبہ ثانیہ ابھی باقی ہے.اس پر حضور نے فرمایا) میرے ذہن میں اجتماع کا خطاب رفتہ رفتہ غالب آ گیا.یہ یاد بھی نہیں رہا
خطبات طاہر جلد 15 411 خطبہ جمعہ مورخہ 24 مئی 1996ء کہ اصل میں تو یہ خطبہ ہے.مجھے تو ابھی خطبہ ثانیہ کہنا ہے.پھر حضور نے فرمایا.افتتاحی دعا جیسا کہ کی جاتی ہے اس کی ضرورت نہیں.نماز جمعہ کے اندر ہی ہمیں اپنے اجتماع اور اپنی ساری زندگیوں کی کامیابی کے لئے دعا کرنی چاہئے.
خطبات طاہر جلد 15 413 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء کوئی دنیا کی طاقت عدل پر قائم نہیں ہو سکتی اگر خدا کے حضور اس کی گردن جھکی ہوئی نہ ہو.خطبه جمعه فرموده 31 مئی 1996 بمقام بیت النورین سپیٹ ہالینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوْ كَالًا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَّزَقْنَهُ مِنَارِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَ جَهْرًا هَلْ يَسْتَوْنَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ (انحل: 76) فرمایا: آج جماعت احمدیہ ہالینڈ کا سترھواں (17) جلسہ شروع ہورہا ہے اور یہی جمعہ کا خطاب ہی ان کے اس جلسے کا افتتاحی خطاب بھی ہے.اس موقع پہ جماعت ہالینڈ کو اور جماعت ہالینڈ کی وساطت سے باقی تمام دنیا کی جماعتوں کو نصیحت کرنے کے لئے میں نے اس آیت کا انتخاب کیا ہے جس کی ابھی تلاوت کی ہے.یہ سورۃ النحل کی چھہترویں (76) آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَّزَقْنَهُ مِنَّارِزْقًا حَسَنًا اللہ ایک ایسے مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جو کسی چیز پر بھی کوئی قدرت نہیں رکھتا پھر ایسے شخص کی وَمَنْ زَزَقْنَهُ جس کو ہم نے اپنی طرف سے احسن رزق عطا فرمایا.فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرَّاقَ جهرا پس وہ اس میں چھپ کر بھی خرچ کرتا ہے اور کھلم کھلا بھی هَلْ يَسْتَونَ کیا وہ دونوں ایک جیسے ہو سکتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ بلکہ اکثر لوگ جانتے نہیں.
خطبات طاہر جلد 15 414 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء اس آیت میں جو غلام کی مثال دی ہے اس کے مقابل پر ایک ایسے بندے کی جو خدا سے رزق پاتا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ غلام بھی تو خدا کا بندہ تھا جسے کسی نے غلام بنالیا اور اس کا بظاہر تحقیر سے ذکر قرآن کریم میں کیا معنے رکھتا ہے.وہ قرآن کریم جس کی تعلیم نے آقا اور غلام سب کو برابر صف میں کھڑا کر دیا.وہ قرآن کریم جس نے حقیقت میں غلامی کو نیست و نابود کرنے کے لئے ایسے ذرائع پیش کئے کہ ان کی کوئی مثال دنیا کے کسی مذہبی یا غیر مذہبی تحریک میں دکھائی نہیں دیتی.وہ اسلام جس نے حضرت محمد ﷺ کا نمونہ غلاموں کے حق میں ان سے پیار کا پیش کیا اور ایسا نمونہ پیش کیا کہ اس کی مثال تاریخ انبیاء میں دکھائی نہیں دیتی.وہ اسلام جس کے ابتدائی مومنین میں سے وہ غلام بھی تھا جس کو خلفائے وقت سیدنا بلال کہا کرتے تھے.اتنی عظمتیں ہیں غلامی کے لئے.وہ اسلام جو فتح مکہ کے وقت آنحضرت ﷺ کے ذریعے اس شان کے ساتھ ظاہر ہوا کہ بلال کا ایک جھنڈا بھی اس دن گاڑا گیا اور وہ آزاد لوگ جو اس غلام پر ظلم کیا کرتے تھے ان کو جان بچانے کے لئے اسی جھنڈے کی پناہ لینے کا حکم دیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ جو بھی اس غلام کے جھنڈے تلے آئے گا اس کی جان بخشی جائے گی ، اس کو کوئی نقصان نہیں ہے.تو ایک طرف یہ سارے امور ہیں جو غلامی کے متعلق ایک حیرت انگیز اعلیٰ اور نفیس اور پاکیز تعلیم پیش کرتے ہیں اور پھر غلامی کی تعلیم میں جو تفصیل میں خدا تعالیٰ نے بار بار غلام آزاد کر نے کا حکم فرمایا اور پھر اس سے حسن سلوک کا حکم فرمایا اور آنحضرت ﷺ نے جس طرح غلاموں پر ظلم کرنے والوں کی نہایت سختی سے تنبیہ فرمائی.یہاں تک کہ عبد اللہ بن مسعودؓ کو جب وہ ایک غلام کو مار رہے تھے اس طرح ڈپٹ کر اس سے روکا ہے کہ بلا تاخیر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میں اس کو آزاد کرتا ہوں.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.اگر نہ کرتے تو جہنم تمہاری سزا تھی.(جامع الترمذي، أبواب البر والصلة ، باب النهي عن الضرب الخدم و شتمهم ) تو ایک طرف غلامی کا یہ عظیم مرتبہ ہے اور دوسری طرف یہ آیت ہے جو کہہ رہی ہے ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ زَزَقْنَهُ مِنَارِزْقًا حَسَنًا گویا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ہیں ہی الگ الگ چیزیں.یہاں دراصل دنیا کے مملوک غلام کا
خطبات طاہر جلد 15 415 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء ذکر چل رہا ہے اور اس کے مقابل پر اس کا جسے رِزْقًا حَسَنًا عطا کیا جاتا ہے.مَّمْلُوكًا کا لفظ ، حالانکہ غلام مملوک ہی ہوا کرتا ہے، زائد طور پر یہ بتانے کے لئے ظاہر فرمایا گیا کہ وہ شخص جو دنیا کا غلام ہو جائے ، دنیا کا بندہ بن جائے وہ ہر پہلو سے مملوک، یعنی اس کی آزادیاں ہر طرح سلب ہو چکی ہوتی ہیں.کسی ایک پہلو سے بھی وہ کوئی آزادی کا سانس نہیں لے سکتا ، سو فیصدی دنیا کا غلام بن کے رہتا ہے اور اسے بھی تو خدا رزق دیتا ہے مگر اس رزق پر اس کا اپنا اختیار کوئی نہیں ہوتا.اپنی مرضی سے خرچ بھی نہیں کر سکتا اور شیطان اور دنیا کی غلامی اس پر بھی قابض ہو جاتے ہیں اور اس کے رزق پر بھی قابض ہو جاتے ہیں.پھر وہ ایسی منحوس چیز بن جاتا ہے کہ جہاں بھی جائے اچھی خبر کبھی نہیں لاتا بلکہ اس کے ہر کام میں نحوست اور بے برکتی ہوتی ہے.یہ دنیا کا غلام ہے جس کی بات ہورہی ہے اور جو پوری طرح غلامی کے بندھنوں میں جکڑا جائے اسے عبد مملوک فرمایا گیا ہے.اس کے مقابل پر اپنے بندوں کا ذکر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عبد کا لفظ جب خدا کے تعلق میں بولا گیا ہے تو سب سے اعلیٰ ایک اعزاز ہے جس سے اوپر اعزاز کبھی کسی نبی یا غیر نبی کو نہیں دیا گیا.عبادالرحمن بھی ہیں اور بھی عباد کا ذکر ملتا ہے مگر آنحضرت ﷺ کو جب عبد اللہ کہا گیا تو یہ ایک لقب تھا اور اس لقب سے بڑھ کر کبھی کسی نبی کو کوئی لقب عطا نہیں کیا گیا.تو دیکھیں ایک وہ عَبْدَا مَّمْلُوكًا ہے جس کا تحقیر سے ذکر ہے، بالکل ظاہر بات ہے اور ایک وہ عہد ہے جو تمام دنیا کا سردار ہے.پس یہاں دنیا کے غلام اور اللہ کے غلام کا موازنہ ہورہا ہے.عام غلام کی بات نہیں ہو رہی اور وہ جو اللہ کا غلام ہو جائے جو بھی خدا اس کو رزق احسن عطا فرماتا ہے پھر وہ اپنا ہوتے ہوئے بھی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے.ایک وہ دنیا کا غلام ہے جس کو اپنے مال پر بھی کوئی اختیار نہیں ہے، کوئی اس کو دسترس نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے کچھ کر سکے.ایک وہ ہے جسے مالک خود دیتا ہے اور بہت دیتا ہے.پاکیزہ رزق عطا فرماتا ہے اور کہتا ہے یہ تیرا ہو گیا اور وہ پھر اس کی راہ میں پیش کر دیتا ہے.تو ایک مجبوری کی غلامی ہے ، ایک طوعی غلامی ہے اور طوعی غلامی کے یہ انداز ہیں.جو محبت کے بندھن میں باندھے ہوئے غلاموں کے اطوار ہیں، جو ان کے طریق ، ان کے اخلاق ہیں وہ حضرت محمدعلی کی سیرت میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں اور دراصل یہاں انہی کا ذکر چل رہا ہے.فرمایا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَ جَهْرًا وہ چھپ کر بھی اس رزق سے جو خدا اسے
خطبات طاہر جلد 15 416 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء عطا فرماتا ہے، اس کا رب اسے عطا کرتا ہے خرچ کرتا ہے اور کھلے بندوں سر عام بھی خرچ کرتا ہے.هَلْ يَسْتَوْنَ کیا وہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں.کسی پہلو سے بھی کیا ان میں کوئی برابری ہو سکتی ہے.اَلْحَمْدُ لِلہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ لیکن اکثر ان میں سے جانتے نہیں.اس کے بعد فرماتا ہے.وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلهُ أَيْنَمَا يُوَجْهُهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرِ هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (اخل : 77) اس مضمون کو خوب کھول دیا ہے کہ اب یہاں دراصل دنیا کے غلاموں اور خدا کے غلاموں کے درمیان ایک موازنہ کر کے دکھایا جا رہا ہے اور بتایا یہ جارہا ہے کہ کوئی موازنہ کا پہلو موجود ہی نہیں ہے.ایسا غیر برابر موازنہ ہے کہ کوئی ایک چیز بھی ان دونوں کے درمیان مشابہ نہیں ہے.پس يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ تو بالبداہت حضرت محمد ﷺ کی صفات ہیں.سب سے بڑا عدل کی تعلیم دینے والا پیمبر آپ تھے، سب سے بڑا صراط مستقیم پر چلنے والا رہنما آپ تھے.پس میرے نزدیک دنیا کے غلاموں کی حیثیت پہلے ایک طرح بیان فرمائی گئی.اب دوسری طرح بیان فرمائی جارہی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ابكُمُ ہے، گونگا ہے اور لَا يَقْدِرُ عَلَى شَئُ اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے.وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلهُ وہ اپنے مالک پر بھی ایک بوجھ ہے.آبگم در اصل علم و حکمت سے عاری ہونے کے لئے فرمایا گیا ہے.گونگا وہ شخص جسے کچھ بیان کرنے کی مقدرت نہ ہو اور آنحضرت امی ہونے کے باوجود سب سے زیادہ علموں کے خزانے لٹانے والے تھے.پس آپ کے مقابل پر وہ شخص جو بظاہر عالم بھی ہو اگر وہ دنیا کا غلام ہے تو اس سے کوئی بھی فیض دنیا کے لئے جاری نہیں ہوتا.گویا کہ وہ گونگا ہے.اس کے پاس کچھ بتانے کے لئے ہے ہی نہیں.اگر ہے تو بیان نہیں کر سکتا.وَهُوَ كَلْ عَلَی مَوْلہ جو بھی اس کا مالک ہے اس پر وہ بوجھ ہے یعنی جس چیز کا وہ غلام ہے اس کے لئے وہ بوجھ ہے.یہ بہت ہی گہرا اور دلچسپ مضمون ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا دار لوگ جو دنیا کے ہو جاتے ہیں اور اس حد تک وہ دنیا پر جھک جاتے ہیں کہ ان کا مالک بھی ان پر اعتماد نہیں کرسکتا اور جو کام ان سے لیتا ہے اس کا فیض ان کو نہیں پہنچتا اور رفتہ
خطبات طاہر جلد 15 417 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء رفتہ ایسے لوگ خود دنیا کی نظر میں جس کے کیڑے بن چکے ہوں اپنی عظمت اور قد رکھو بیٹھتے ہیں.پس ایسا خوفناک نقشہ دنیا کی غلامی کا جو دو مختلف مثالوں میں بیان فرمایا گیا ایک طرف ہے اور دوسری طرف اللہ کے غلاموں کا نقشہ ہے جو ہر آزاد سے بڑھ کر قابل تعریف اور ہر آزاد سے بڑھ کر آزادی کا متحمل ہے اور حقیقت میں خدا کی غلامی کے سوا آزادی کا تصور ہی کوئی نہیں ہے.یہ پہلو جو ہے اس کو میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.جو علامتیں ہیں وہ واضح ہیں.اگر کسی شخص میں دنیا داری کا اتتار جحان ہو کہ وہ ہر طرح اپنے مال و دولت جس کی خاطر جیتا ہے اس کا غلام ہو کر رہ جائے تو ایسا شخص خدا کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ نہ چھپ کر خدا کی راہ میں خرچ کر سکتا ہے نہ ظاہر ہو کر خرچ کر سکتا ہے اور پھر دنیا بھی اسے قبول نہیں کرتی اور دنیا میں اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی.جس کام پر ہاتھ ڈالتا ہے وہ اس کے لئے ، اس کی اولاد کے لئے ، اس کی دنیا کے لئے ، اس کی عاقبت کے لئے دراصل خیر و برکت سے عاری ہوا کرتا ہے.پس آپ کے لئے دو ہی رستے ہیں یا دنیا کی غلامی قبول کریں یا خدا کی غلامی میں آجائیں اور خدا کی غلامی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر دوسرے بندھن سے آزاد کرتی ہے اور اس میں ایک ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جو اللہ کا غلام ہو وہ ہر بات میں فیصلہ خدا سے چاہتا ہے اور ہر فیصلہ اس کی رضا کی خاطر کرتا ہے اور دنیا کی رضا یا ان کی خاطر بیچ میں سے بالکل نکل جاتی ہے پس وہ نہ بادشاہ کی خاطر کچھ کرتا ہے، نہ اپنے ملک کے سربراہ کی خاطر یعنی اس سے ڈر کر.نہ اپنے عزیزوں سے ڈر کر یا ان کی خاطر.جو بھی بھلائی کرتا ہے، جو بھی خیر کرتا ہے اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھتا ہے.تو جو شخص ہر دوسرے کی رضا سے آزاد ہو جائے ، جو ہر دوسرے کے خوف سے آزاد ہو جائے اس سے بڑا آزاد کوئی دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا.اس کی سوچیں آزاد ہو جاتی ہیں.اس کی نیتیں آزاد ہو جاتی ہیں اور چونکہ اللہ کی غلامی ہے اس لئے اس کی ہر بات میں ایک برتری ، ایک بالا دستی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اللہ کی رضا کے اندر ایک غیر معمولی طاقت ہے اور اللہ کی رضا سچائی ہی کا دوسرا نام ہے.اللہ کی رضا ہی سے عدل پیدا ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس مضمون کا آخری نچوڑ یہ نکالا کہ وہ شخص جو خدا کا غلام ہے اس غلام کے مقابل پر اس کی شان دیکھو کہ وہ عدل کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے یعنی اس کے اندر ایک توازن پیدا ہو جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 418 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء عدل اللہ کے تصور کے بغیر پیدا ہونا ممکن ہی نہیں ہے.کوئی دنیا کی طاقت خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو عدل پر قائم نہیں ہوسکتی اگر خدا کے ہاں اس کی گردن نہ جھکی ہوئی ہو.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کبھی دنیا میں کسی نے نہ تبدیل کیا نہ آئندہ کوئی تبدیل کر سکتا ہے.آج کی دنیا کو عدل کے متعلق احساس ہو چلا ہے کہ بہت اہم چیز ہے.بڑے بڑے سیاستدان بھی بات کرتے ہیں کہ عدل ہونا چاہئے مگر خدا سے تعلق کے بغیر عدل قائم ہو نہیں سکتا.یہ وہم ہے کیونکہ اللہ کے تعلق میں دو باتیں ہیں اس کی محبت اور اس کا خوف اور محبت اور خوف کے درمیان جو توازن ہے وہ عدل کے قیام کا ذمہ دار ہے اس کے بغیر عدل پیدا ہو نا ممکن نہیں.یہ جو میں باتیں کہ رہا ہوں بظاہر ایک دعویٰ ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ بہت گہری سوچ اور بہت تفصیلی جائزوں کے بعد میں قطعی نتیجے پر پہنچا ہوں اور اس کو تفصیل کے ساتھ اگر بیان کیا جائے تو ایک لمبا مضمون ہوگا.مگر انسانی زندگی کے ہر پہلو پر یہ بات صادق آتی ہے کہ جو پہلو بھی خدا کے خوف سے باہر ہو جائے ، خدا کی محبت سے باہر ہو جائے ، وہ عدل سے خالی ہو جاتا ہے.اس میں یا ایک طرف جھکاؤ ہو جائے گا یا دوسری طرف جھکاؤ ہو جائے گا.پس دنیا والے بھی جو عدل کرتے ہیں بعض عدل ان کے میکینکل عدل ہیں.ان کے اندران کی روح کی گہری لطافت سے کوئی تعلق نہیں ہے.ان کی روح کی گہری لطافت تب پیدا ہوسکتی ہے اگر خدا سے تعلق ہو.ورنہ جو ظاہری عدل ہے بعض دفعہ ایک جج بھی جو دنیا دار بلکہ دہر یہ ہے وہ بھی عدل کرتا ہے.مگر اس کا عدل اور چیز ہے اور خدا کا عدل اور چیز ہے.اس کے عدل کے اندر ایک بے اختیاری ہے.وہ مالک نہیں ہے کسی چیز کا اور ملازم ہے ایک ایسے منصب پر جہاں اس کے فرائض میں عدل داخل ہے اس لئے وہ عدل کرتا ہے لیکن وہ شخص جو مالک بھی ہو، جسے اختیار بھی ہو، مواقع بھی میسر آئیں کہ عدل کروں یا نہ کروں وہ اگر عدل کرتا ہے تو وہ اسلامی عدل کے تصور کے نسبتاً زیادہ قریب ہے.پھر ایسے حج بھی ہیں جو عدالت کی کرسی پر بیٹھتے ہیں عدل کرتے ہیں.جب گھر آتے ہیں تو بیوی سے عدل نہیں کر سکتے.اپنے دوستوں سے عدل نہیں کر سکتے.اپنے ماتحتوں سے عدل نہیں کر سکتے.اپنے ماتحتوں سے جو گھر کے ملازم ہیں ان سے عدل نہیں کر سکتے اور اپنے ملنے جلنے والوں سے ، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے بیوی بچوں تک سے عدل نہیں کر سکتے.تو عدل کا مضمون کوئی معمولی مضمون نہیں.یہ ساری زندگی کے ہر پہلو پر چسپاں ہونے والا ایک بار یک مضمون ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے سے عدل نہیں کر سکتے.
خطبات طاہر جلد 15 419 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء اپنے سے عدل کی تفصیل میں اگر آپ جائیں تو آپ کو انسان کی جسمانی صحت اور روحانی صحت کے تمام پہلوؤں پر نظر ڈالنی پڑے گی.وہ شخص جو اپنی ذات سے عدل کرتا ہے اس کے لئے ایک ایسی با قاعدہ زندگی ہونی ضروری ہے کہ جہاں وہ آرام کے وقت آرام کرے گا اور محنت کے وقت محنت کرے گا اور یہ وہ عدل ہے جس سے بعض دفعہ خدا کے بندے بھی جو بہت بلند مرتبہ والے ہیں کسی حد تک عاری ہو جاتے ہیں.پس اللہ کے سوا کسی کو نہ کامل عدل کی توفیق ہے ، نہ وہ اپنے سے عدل کرسکتا ہے ، نہ غیر سے عدل کر سکتا ہے.مگر ہاں جو خدا والے ہوں ان کو کم سے کم غیروں کے معاملے میں عدل کرنے کی ضرور توفیق مل جاتی ہے.پس ایک ہی موقع ہے جہاں خدا کے بندے عدل سے عاری دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی ذات کے معاملے میں عدل ہے.اس پہلو سے وہ ظالم کہلاتے ہیں مگر ان کے ظلم میں ایک احسان کا پہلو ہوتا ہے.اس لئے یہاں عدل کا فقدان ایک بدصورتی کی بجائے ایک خوبصورتی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عام دنیا میں ماں بچے سے پیار کے نتیجہ میں اپنے سے عدل نہیں کرتی.اب عدل نہ کرنا ایک خرابی ہے.جو انسان اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھالے اس کو اس کا نقصان پہنچے گا اور یہ عدل کے فقدان کی ایک طبعی سزا ہے جو قانون قدرت میں جاری ہے، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے.تو ایک ماں جب اتنا جاگتی ہے کہ اس کے بدن میں طاقت نہیں ہے اتنا جاگنے کی، اتناغم دل پہ لے لیتی ہے کہ اس کے اعصاب میں طاقت نہیں کہ وہ غم برداشت کر سکے.اس کی سزا تو اس کو ضرور ملتی ہے.مگر یہ گناہ کی سزا نہیں یہ خطا ہے جس کا بدلہ دیا جاتا ہے.پس عدل کے فقدان میں بعض دفعہ خطا ہوتی ہے بعض دفعہ گناہ بن جاتا ہے یعنی عدل کا فقدان گناہ بن جاتا ہے.پس وہ عدل کا فقدان جو کسی پر احسان کے نتیجہ میں ہوا سے گناہوں میں شمار نہیں کیا جاتا.وہ عدل کا فقدان جو احسان کے نتیجہ میں ہوا سے ایک بشری کمزوری کہا جاتا ہے.یا حسن میں اتنا بڑھ جانا اور احسان میں اتنا آگے نکل جانا کہ اپنے بدن کو قربان کئے بغیر انسان وہ خدمت نہیں کر سکتا.صلى الله اس پہلو سے حضرت اقدس محمد ملنے کے لئے جہاں بھی ظلم کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں آپ کے بے انتہا احسان کو ظاہر کرنے کے لئے ہوا ہے.اب وہ آیت کریمہ جس کی بار بار آپ کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے میں کئی دفعہ حوالے دے چکا ہوں.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا
خطبات طاہر جلد 15 420 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر لے گا اس غم میں کہ وہ مومن نہیں ہوتے ، وہ ایمان نہیں لاتے.اب ظاہر بات ہے کہ عدل کا فقدان تو ہے یعنی اپنے نفس کا جو حق ادا کرنا تھا وہ ادا نہیں کیا جارہا اس لئے کہ دوسرے بچ جائیں اور یہ غم جن دعاؤں میں ڈھلتا ہے وہ دعائیں ان کو بچالیں.تو طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھایا گیا ہے اور جس طرح مائیں جب طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھاتی ہیں تو یہ عذر ان کا پیش نہیں جاتا کہ ہم نے تو بچے کی خاطر، نیکی کی خاطر قربانی کی تھی اس لئے قانون قدرت کو اپنا ہاتھ روک لینا چاہئے.قانون قدرت کا جو عدل ہے وہ سب سے بالا ہے اور وہ اللہ کا عدل ہے.وہ اپنے انبیاء پر بھی چلتا ہے اور ان پاکبازوں پر بھی چلتا ہے جو خدا کی خاطر عدل سے گریز کر رہے ہیں بظاہر.تو دیکھو کتنا باریک مضمون ہے.میں نے آپ کو جو مثال دی تھی وہ یہی سمجھانے کے لئے کہ آپ یہ سن کر کہ جی عدل بڑا ضروری ہے سب جگہ ہونا چاہئے ہر گز اطمینان نہ پائیں کہ آپ کو اس مضمون کی سمجھ آگئی ہے.بہت ہی گہرا اور بہت ہی لطیف مضمون ہے.پس حضرت اقدس محمدی ﷺ نے جب اپنی جان پر بوجھ اٹھایا اور زیادہ اٹھایا اور اللہ نے نصیحت فرمائی کہ کیا تو ان ظالموں کی خاطر اپنے پاک نفس کو ہلاک کر لے گا تو اس کا نتیجہ بھی نکلا اور وہ یہ تھا کہ آپ کے بال عمر سے پہلے ہی سفید ہو گئے اور بالوں کا سفید ہونا بعض دفعہ گہرے غم کے نتیجے میں ہوتا ہے.پس لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ کا مضمون تھا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تو ہو د قوم نے بوڑھا کر دیا.وہ ہود قوم جس کے لئے سورہ ہود نازل ہوئی.کیسا گناہ انہوں نے کیا، کیسا ظلم کمایا کہ پوری قوم صفحہء ہستی سے مٹادی گئی کتنی دیر پہلے، ہزاروں سال پہلے کا ایک واقعہ رسول اللہ اللہ کے دل پر اتنا گہرا اثر ڈال دیتا ہے کہ وہ ہود کے غم میں بوڑھے ہو جاتے ہیں.فرماتے ہیں تمہیں تو اور چیزوں نے بوڑھا کیا ہوگاشیتنی هود مجھےتو سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا ہے.(جامع الترمذي ، أبواب تـفسيـر القـرآن ، باب ومن سورة الواقعة ) مگر بوڑھے ہوئے تو ہوئے ، بال تو سفید ہوئے قانون قدرت نے اپنا ہاتھ نہیں روکا.تو دیکھیں عدل کا مضمون جب ایک دوسرے کے متقابل آتا ہے تو کتنے نئے رنگ دکھاتا ہے.اللہ کا عدل ہے جس نے کہا کہ میرا قانون ہر انسان پر برابر چلے گا اور سب سے زیادہ محبوب نبی ﷺ کے او پر بھی اس وقت اثر دکھا رہا ہے جب وہ خدا کی خاطر کر رہا ہے.فرمایا اس کی قیمت تو تمہیں دینی
خطبات طاہر جلد 15 421 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء پڑے گی.یہ میرا قانون قدرت ، عام قانون کا عدل ہے اور جہاں تک تمہاری قربانی کا تعلق ہے وہ میرے ذمہ ہے.اس کا اتنا بدلہ ہو گا کہ اس کا تصور بھی عام انسان نہیں کر سکتا.تو احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ جاری ہے.عدل کا بدلہ عدل کے ساتھ جاری ہے اور پھر عدل کرنے والوں کے اندر بھی بڑا فرق دکھایا گیا ہے.کچھ اپنے نفس کی خاطر عدل کرتے ہیں ، کچھ اور مقاصد کی خاطر عدل کرتے ہیں، کچھ حسن واحسان کی خاطر عدل کرتے ہیں.اسی عدل کی ایک عجیب مثال ایک بزرگ کے واقعہ میں یا اس کی کہانی میں بیان کی گئی ہے جس میں حسن اور عدل کا موازنہ کیا گیا ہے یا حسن واحسان اور عدل کا موازنہ کیا گیا ہے.کہتے ہیں ایک بزرگ جنگل میں بیٹھا اللہ تعالیٰ کی یاد میں محو تھا کہ اتنے میں ایک ڈری ہوئی، پھڑ پھڑاتی ہوئی فاختہ اس کی گود میں آگری ، جو زندہ تھی لیکن جیسے گھبرا کر کسی خطرے سے بھاگتے ہوئے اس کے اندر مزید دم نہیں رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ سکے اور اس نے اس کو اپنی جھولی میں لیا اور پیار سے اس کو سنبھالا تو اتنے میں ایک باز اس کا پیچھا کرتا ہواوہاں پہنچا.اب یہ کشفی نظارہ اس نے دیکھا کہ باز اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ یہ خدا نے میرے لئے شکار بنایا ہے اور قانون قدرت ہے.تم مجھے ظالم نہیں کہ سکتے.جس نے میری غذا یہ مقرر کی ہے وہ جانتا ہے کہ کیوں ایسی غذا مقرر کی گئی ہے.مگر یہ میری غذا ہے اور میں نے بڑی محنت کی، میں اچک لیتا اس کو مگر تم بیچ میں حائل ہو گئے ہو.تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ اس پرندے کو مجھ سے روک لو کیونکہ مجھے تو خدا نے یہی رزق عطا فر مایا ہے اور اب عدل اس کا للکارا گیا اور عدل کے تقاضے کے پیش نظر اسے وہ فاختہ بہر حال واپس کرنی تھی.مگر احسان اس فاختہ کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس بزرگ نے اس پرندے کو یعنی باز کو اس کشفی حالت میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں خدا نے گوشت رزق کے طور پر بخشا ہے.لیکن کہیں خدا نے یہ قانون نہیں بنایا کہ فاختہ ہی کا گوشت ہوگا.انسانی گوشت اس سے بھی بہتر ہے.پس میں اپنے جسم کا ایک ٹکڑا اتنا کاٹنے کے لئے تیار ہوں جتنا تمہارا پیٹ بھر جائے اور یہ کہہ کر اس نے چاقو نکالا اور اپنی ران سے ایک گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر اس پرندے کو دے دیا.یہ احسان اور عدل کا ایک عجیب موازنہ ہے جو کشفی صورت میں پیش کیا گیا کہ ایک شخص جب احسان کرتا ہے تو پھر اسے قربانی کرنی پڑتی ہے.عدل کو پھر بھی قائم رکھنا ہو گا مگر وہاں عدل کا قیام اس کی ذاتی قربانی چاہتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 422 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء آنحضرت ﷺ نے جہاں بھی عدل سے گریز فرمایا ہے اپنی قربانی دے کر عدل سے گریز کیا ہے، اپنے خلاف عدل سے گریز کیا ہے.کسی دوسرے کے خلاف نہیں کسی دوسرے کی خاطر کیا ہے اور اس قربانی میں آپ کی بدنی قربانی ضرور شامل ہوئی اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے صرف نظر نہیں فرمایا.تو ان تمام باتوں کو سمجھتے ہوئے سب سے پہلے تو آپ کو معاشرے میں عدل کا قیام کرنا ہے، اپنے تعلقات میں اور اپنے گھر میں، اپنی اہلیہ سے،اپنے بچوں سے،اپنے عزیز و اقارب سے، اپنی حکومت سے، نظام جماعت سے، جو ان کے حقوق ہیں وہ ان کو ادا کرنے ہیں.جوان کے تقاضے ہیں وہ آپ نے پورے کرنے ہیں.عدل پر قائم ہوں گے تو پھر اگلا قدم احسان کا شروع ہوگا اس سے پہلے ناممکن ہے.جرمنی کے اجتماع میں بھی میں نے خدام کو کچھ عدل کے متعلق سمجھایا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہ مضمون بہت ہی وسیع ہے اس لئے آج آپ کے اجتماع میں جو جماعت کا اجتماع ہے اسی مضمون کے بعض دوسرے پہلوؤں کو روشن کرتا ہوں.نظام جماعت میں عدل کے تقاضے بعض دفعہ بہت باریک ہو جاتے ہیں اور الجھے ہوئے ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایک انسان ان کو پوری طرح نہ سمجھنے کے نتیجے میں کئی دفعہ نظام جماعت کی بے حرمتی پر اتر آتا ہے اور اس کی سزا اس کو ضرور ملتی ہے کیونکہ خدا کے نظام سے جو شخص ٹکرائے اسے کبھی صحیح سالم بچتا ہوا نہیں دیکھا گیا.یہ بالکل الگ بحث ہے کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا.نظام ایک ایسی چیز ہے جیسے قانون قدرت ہے.کوئی شخص اپنا حق سمجھتے ہوئے اگر آگ میں ہاتھ ڈالے گا اور اس کی کوئی چیز اس میں گری ہوئی ہے وہ کہے کہ میرا حق ہے میں ضرور نکالوں گا تو آگ اسے ضرور جلائے گی.یہ ناممکن ہے کہ خدا کے نظام کے اوپر کوئی غالب آ سکے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو.اس کی میں مثال آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں.پس نظام جماعت کوئی معمولی نظام نہیں ہے.یہ قانون قدرت کی مثال ہے جس کے اوپر خدا تعالیٰ نے روحانی نظام جاری فرمائے ہیں اور جیسے قانون قدرت آپ کی بقا کے لئے لازم ہے اور اس کے بہت سے پہلو ہیں اسی طرح نظام جماعت بھی آپ کی انفرادی بقا کے لئے لازم ہے.اگر نظام جماعت نہ ہو تو کسی کی روحانی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.باقی لوگوں کا حال دیکھو کیا ہوا ہے.کس طرح تتر بتر ہو کر بکھر گئے ہیں.کیسے اجتماعیت بٹ کر آخر انفرادیت میں بدل گئی اور ہر شخص آزاد ہے اور وہ اس آزادی کے مزے لے رہا ہے یعنی بظاہر
خطبات طاہر جلد 15 423 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء وہ سمجھتا ہے کہ میں آزاد ہوں اور احمدی غلام ہیں اور ہر وقت کی مصیبت.یہ بات ہو تو نظام سے پوچھو، بیٹھنا ہو تو نظام سے پوچھو، کیا مصیبت ہے یہ.کہاں یہ اور کہاں ہم جو مرضی کریں.سکھ سے شادی کریں ،عیسائی سے کریں، کسی دہریہ سے کرلیں.رسمیں منانی ہوں تو منائیں.کون ہے جو ہمارے معاملے میں دخل دے.شراب خانے کھولیں ، ان کے اوپر ختم قرآن کروائیں.لوگ آئیں اور شوق سے حصہ لیں.مجال ہے کسی کی جواب کھولے کہ تم نے کیوں ایسا کیا.ایک یہ وہ آزادی ہے اور ایک طرف نظام جماعت ہے جس نے دیکھو کتنا پابند کر رکھا ہے لیکن مملوک وہ ہے جس کا اپنا کچھ بھی نہ رہا، کلیہ اس کی ہر چیز دنیا کے لئے ہو گئی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں آزاد ہوں حالانکہ وہ ہر پہلو میں، ہر بات میں غلام بن گیا ہے رسم و رواج کا ، لوگوں کے دیکھنے کا ، ریا کاری کا اور نفسانی خواہشات کا.پس جو اپنے نفس کا غلام بن جائے ، جو دنیا کی نظروں کا غلام ہو جائے ، جس کا اٹھنا بیٹھنا خدا کےسوا دوسرے مقاصد کے لئے ہو جائے وہ مملوک ہوتا ہے اور وہ شخص انصاف سے عاری ہو جایا کرتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کا جو نظام ہے اب میں نظام کی بات کر رہا ہوں.نظام جماعت ایک ایسا نظام ہے جو قانون قدرت کی طرح آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے.اب کوئی شخص کہہ سکتا ہے دنیا میں کہ عجیب قدرت ہے مصیبت پڑی ہوئی ہے.آگ میں ہاتھ نہ ڈالو اور زیادہ ٹھنڈی ہوا نہ کھاؤ ، کپڑے گرم پہنو سردیوں میں گرمیوں میں ٹھنڈے کپڑے پہنو اور بھوک لگے تو یہ کرو، بھوک نہ لگے تو فلاں کام کرو، اٹھو بیٹھو، سوؤ ، جا گومگر توازن رکھو.کھانا کھاؤ مگر بھوک ختم ہونے سے پہلے ہاتھ روک لو یعنی وہ قانون قدرت جو تقاضے کرتا ہے.عیش کرو مگر ایک حد تک.جا گومگر ایک حد تک.دیکھو پابندیاں ہیں کہ نہیں اور یہ وہ پابندیاں ہیں جوخدا تعالیٰ نے خود کہہ کر عام بندوں پر نہیں لگائیں مگر تمام دنیا کا نظام برابر ہر انسان پر پابندی لگائے ہوئے ہے اور جہاں بھی اس پابندی کے تقاضے سے بچ کر کوئی انسان نہیں چلتا وہاں ضرور اس کو سزا ملتی ہے.کئی لوگ وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں.کئی لوگ ہیں جو پہلے اپنی امارت کی وجہ سے خوب کھاتے ہیں ، خوب عیش کرتے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد معدے بھی جواب دے جاتے ہیں ، دوسرے اعضاء بدن کے جواب دے دیتے ہیں اور ساری زندگی پھر رونے پیٹنے اور مصیبتوں میں صرف ہوتی ہے.تو قانون قدرت اپنی سزا دیتا ہے اور اس نے پابند رکھا ہوا ہے.مگر جو قانون قدرت کا پابند رہتا ہے دیکھو کتنی آزادی سے سانس لیتا
خطبات طاہر جلد 15 424 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء صلى الله ہے.وہ دوڑتا پھرتا ہے، صحت اس کی اچھی ، اس کے سانس ہلکے، وہ ہر اچھے کام میں حصہ لے سکتا ہے شوق سے.اس کا سونا آرام دہ ہے.اس کا جاگنا آرام دہ ہے.اس کے روز مرہ کے کاموں میں کوئی تکلیف نہیں.نہ گھٹنوں میں دردیں ہیں نہ کو ہنیوں میں.ہر بدن کا حصہ ہلکا پھلکا اور ہر کام کے لحاظ سے متوازن ہے.تو ایک طرف غلامی ہے دوسری طرف اسی غلامی کے نتیجے میں ایک آزادی نصیب ہوتی ہے اور جہاں قانون قدرت کی یعنی خدا کے نظاموں کی غلامی ہو وہاں اس کے مقابل پر ضرور آزادی ملتی ہے.بعینہ یہی حال الہی مذہبی نظام کا ہے اور خدا تعالیٰ واضح فرماتا ہے کہ دیکھو یہ ہے غلامی ہی مگر دراصل یہ ہر آزادی سے بہتر غلامی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ دنیا کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے.(مسلم، کتاب الزهد والرقائق ) اب دیکھو خدا کے رسول ﷺ نے اس دنیا کو قید خانہ بتا دیا ہے اور مومن کی ساری زندگی قید خانے میں بسر ہوگی اور کافر کے لئے جنت قرار دیا ہے اس کو مگر وہ جو مومن بھی ہوں اور آزاد بھی ہوں پھر وہ کس شمار میں آئیں گے.پس مومن کے ساتھ نظام صلى الله جماعت کی قید و بند ایک لازمہ ہے اس کے بغیر آپ آنحضرت ﷺ کی بیان کردہ مومن کی تعریف میں داخل ہی نہیں ہوتے لیکن ایک دفعہ داخل ہو جائیں وہ پابندیاں قبول کر لیں تو آپ کا روحانی بدن اتنا ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے، اتنے مزے کی زندگی بسر ہوتی ہے کہ کسی قسم کی عقوبت کا خوف نہیں رہتا، کچھ چھپانے کی ضرورت پیش نہیں آتی.سِرًّا وَ عَلَانِيَةً میں ایک یہ بھی مضمون ہے کہ جو کچھ چھپاتے ہیں وہ ظاہر بھی کر سکتے ہیں.جو ظاہر کر سکتے ہیں وہ چھپا بھی سکتے ہیں.وہ وقت اور محل کی بات ہے ورنہ اپنی ذات میں جوان کا سرا ہے اگر ظاہر ہو تو ان کے لئے ایک بے حیائی اور شرمندگی کا موجب نہیں بن سکتا.وہ جب چاہیں اسے ظاہر کریں وہ ظاہر ہوگا تو حسن میں اضافہ ہی کرے گا ، اس میں کمی نہیں لائے گا.پس عجیب وغریب ایک یہ بظاہر متضاد مضمون ہے مگر ہے بالکل سچا کہ جو دنیا کا غلام ہے اس کا اپنا کچھ بھی نہیں.وہ ہر چیز سے عاری ہے اور حقیقت میں اس کے باوجود وہ آزاد محسوس کرتا ہے اپنے آپ کو.دنیا کا غلام ہونے کے باوجود وہ سمجھتا ہے کہ میں جنت میں ہوں اور امر واقعہ یہ ہے کہ جنت میں نہیں ہوتا اور جو دنیا کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے جو خدا کا غلام بن جاتا ہے اس کے اوپر پابندیاں
خطبات طاہر جلد 15 425 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء تو ہیں لیکن وہ پابندیاں اس کو دکھ نہیں دیتیں کیونکہ وہ پابندیاں نظام قدرت کی پابند ہیں.نظام قدرت کی کوئی پابندی آپ کو دکھ نہیں دیتی.نظام قدرت آپ کو یہی بتائے گا نا کہ آگ میں اپنے ہاتھ نہ ڈالو، پانی میں ڈو بو نہیں اور زیادہ دیر دھوپ میں نہ بیٹھو.اب یہ پابندیاں ہی تو ہیں مگر دیکھو کتنی فائدہ مند پابندیاں ہیں.ضرورت سے زیادہ نہ جاگنا اور جو بدنی عیش کی خدا نے تمہیں طاقت بخشی ہے وہ توفیق کے مطابق رکھنا.جہاں زیادتی کرو گے وہاں سب کچھ گنوا بیٹھو گے.تو یہ پابندیاں ہیں جن کے اندر آزادیاں مضمر ہیں.پس آپ اگر نظام جماعت کے ساتھ عدل کریں گے اور اس عدل کے تمام بار یک تقاضے پورے کریں گے تو آپ کو آزادی کے سانس نصیب ہوں گے.آپ کو چین اور گہری طمانیت کے سانس نصیب ہوں گے.پس اس پہلو سے آپ نظام جماعت کی حفاظت پر مستعد ہوں اور اس کے سامنے سر جھکا ئیں کیونکہ یہ خدا کے سامنے سر جھکانا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں نظام کیا چیز ہے یونہی صلى الله خواہ مخواہ بنایا ہوا ہے نظام.امر واقعہ یہ ہے کہ نظام خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے، حضرت محمد رسول ال کا قائم کردہ ہے اور یہ جو بیعت ہے نظام کی خاطر کی جاتی ہے.ورنہ آنحضرت ﷺ کو ماننے والے جو آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے بیٹھے تھے انہیں ایک کے بعد دوسرے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی کیا ضرورت تھی.اس بیعت میں جو اطاعت کا اقرار ہے اور پھر اس پر اصرار ہے اور بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم ضرور اطاعت کریں گے یہ صاف بتا رہا ہے کہ محض دین عقائد کا نام نہیں ہے یا شریعت کے عام فرائض کو پورا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ جو شخص با قاعدہ نظام کا جزو بن کر اس کے سامنے سر نہیں جھکاتا وہ عملاً دین سے باہر رہتا ہے.پس آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ، قرآن کو سچا سمجھنا اپنی جگہ الگ مضمون تھا اور آپ کی بیعت میں داخل ہونا ایک الگ مضمون تھا.پھر آپ کے وصال کے بعد وہ بیعت کام نہیں آئی حالانکہ محمد رسول اللہ ﷺ سے کی ہوئی بیعت سے بڑھ کر اور کون سی بیعت ہو سکتی تھی.ہر شخص کو مجبور کر دیا گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت کرے اور جب آپ کا وصال ہوا تو حضرت عمر کے ہاتھ پر بیعت پر مجبور کر دیا گیا.حضرت عمرؓ کا وصال ہوا تو عثمان کے ہاتھ پر.آپ کا وصال ہوا تو حضرت علیؓ کے ہاتھ پر.رضوان اللہ علیہم.وہ لوگ جب نظام کا نمائندہ بنے ہیں تو ان کے سامنے تمام مسلمانوں
خطبات طاہر جلد 15 426 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء کی جماعت کو سر جھکانے پر مجبور کیا گیا ہے.یہ نظام ہے جس کی غلامی میں آنا آپ کے لئے آزادی کا پیغام ہے.یہی وہ نظام ہے جس کا آغاز ہی فرشتوں کو اس حکم سے ہوا تھا جب میں آدم کو ٹھیک ٹھاک کرلوں ، جب میں اس میں روح پھونک دوں تو سجدہ کر دینا.اب لفظ سجدہ بڑا بھاری لفظ ہے.بہت سے علماء کو مصیبت پڑی ہوئی ہے یہ مسئلہ حل کرنے میں کہ سجدہ غیر اللہ کو اور حکم اللہ دے رہا ہے.اگر کسی اور کا حکم ہوتا تو وہ کہہ بھی دیتے کہ غلط فہمی ہوئی ہے.اللہ حکم دے رہا ہے کہ اے فرشتو! جو بظاہر دنیا کی سب سے بلند مخلوق ہو جب آدم کو میں برابر کر لوں.اب دیکھیں سوی“ کا جو مضمون ہے وہ عدل کا ہے.تو جب آپ قرآن کریم کی بچی تفسیر کرتے ہیں تو ہر آیت اس کی تائید میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے ایک مضمون دوسری آیتوں کو دعوت دے کے بلاتا ہے کہ آؤ میرے حق میں گواہی دو.پس عدل وہ سوی“ کا مضمون ہے جس کے بعد آسمان سے امرا تر تا ہے اور عدل کے بغیر کسی کو مامور بنایا جا ہی نہیں سکتا کیونکہ عدل اور ماموریت کا ایک از لی تعلق ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ یہ آدم ہے جب اس کے اخلاق درست ہو جائیں ، جب اس کے اندر توازن پیدا ہو جائے ، جب اس کا بدن درست ہو جائے ، جب اس کی روح درست ہو جائے ،اس کا مزاج درست ہو جائے پھر میں اس میں اپنی روح پھونکوں گا.فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سُجِدِینَ ( الحجر : 30).جب میں اپنی روح پھونک دوں پھر تمہارا فرض ہے کہ اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ.پس لفظ سجدہ پر جو مفسرین کو اور علماء کو مصیبت پڑ گئی ہے کہ یہ خدا نے کیا کر دیا کہ غیر اللہ کے سامنے فرشتوں کو حکم دے دیا کہ سجدہ کریں.تو امر واقعہ یہ ہے کہ سجدہ میں جو کامل اطاعت کا مضمون ہے وہ یہاں پیش نظر ہے کیونکہ جو شخص سر ٹیک دیتا ہے زمین پر، جس کے ہاتھ بھی سامنے بندھے ہوئے ، جس کے پاؤں بھی ایسی حالت میں ہیں کہ کلیہ نہتا ہو جاتا ہے ، اپنے دفاع کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا اور وہ فیصلہ کرنے کی بھی کوئی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ اس کو کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا سوائے مٹی اور زمین کے، جس مٹی سے وہ نکلا تھا وہی مٹی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے اگر انسان ہو تو.تو اس سے بڑھ کر بے اختیاری اطاعت کی اور کیا ہوسکتی ہے.مگر خدا نے حکم دیا ہے.پس وہ نظام کا قیام ہے جس کی حفاظت حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے اس حد تک فرمائی
خطبات طاہر جلد 15 که فرمایا 427 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء " (من أطاعنى فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله و من أطاع أميرى فقد أطاعني ومن عصى أميرى فقد عصانی کہ جو میرے امیر کی اطاعت کرے گا اس نے میری اطاعت کی اورومن عصی امیری فقد عصانی و من عصاني فقد عصى الله (مسلم كتاب الأمارة ، باب وجوب طاعة الأمراء في غير المعصية و تحريمها في المعصية ) جس نے میرے مقرر کردہ امیر کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا ہے، جس نے میرا انکار کیا اس نے خدا کا انکار کر دیا.تو اب بتائیں نظام جماعت کی کتنی اہمیت نکلتی ہے.رسول اللہ ﷺ کی براہ راست اطاعت سے باہر جانے کا تو کوئی مومن تصور بھی نہیں کر سکتا ہے اور حیرت انگیز اس تشریح میں رفعت بھی ہے اور انکساری بھی ہے.فرمایا کہ میری خاطر بیعت نہ کرنا، میری اطاعت نہ کرنا.میں تو کچھ بھی نہیں اگر خدا میرا نہ ہو.اگر خدا کا امر مجھ پر نازل نہ ہو تو میری کوئی حیثیت نہیں ہے.پس جس کو میں امیر مقرر کرتا ہوں اس کی حیثیت بھی نہ دیکھنا اس کی تو حیثیت بنتی اس بات سے ہے کہ میں اسے کچھ کہتا ہوں.ویسی ہی بات ہے جیسے غالب کہتا ہے.ہوا ہے شہہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے کہ بادشاہ کا مصاحب ہو گیا، بادشاہ نے اس کو عظمت بخشی ، اس پر رحم کیا ، اسے اپنے قریب آنے کی توفیق دی تو دیکھو گلیوں میں بھی بڑے اتراتے ہوئے پھرتا (دیوان غالب : 279) ہے اور بڑی شان سے قدم اٹھاتا ہے کہ میں بادشاہ کے پاس سے ہو کر آیا ہوں.ورنہ غالب کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں ورنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے.کوئی عزت نہیں ، کچھ بھی نہیں تو نبی کی عزت خدا کی مصاحبت سے پیدا ہوتی ہے اور اگر چہ وہ اتراتا تو نہیں پھرتا مگر دل میں جانتا ہے کہ خدا کے قرب کی وجہ سے اس نے سب عزتیں پائی ہیں.پھر جب وہ کسی کو اپنا نمائندہ بنائے تو اس کو بھی کچھ ملتا ہے اس کی اطاعت میں ، اس کی غلامی میں، اس کی مصاحبت کے نتیجے میں ہی ملتا ہے ورنہ اپنی ذات میں تو کوئی آبرو نہیں.
خطبات طاہر جلد 15 428 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء پس وہ لوگ جو امراء سے بدتمیزیاں کرتے ہیں ، جو امراء کے خلاف سراٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کیا امیر ہے.اس نے فلاں بات کی ، فلاں بات غلط ہوئی ، فلاں بات غلط ہوگئی ، اس کی بات سن لی، اس کی نہیں سنی ، ان لوگوں کو مذہب کی الف ب کا بھی نہیں پتا اور یہ عدل کا فقدان ہے نظام جماعت سے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کر رہا ہوں اور ہالینڈ میں خصوصیت سے اس کی ضرورت ہے یا ضرورت تھی اور خدا کرے کہ اب نہ رہی ہو اور اسی طرح ڈنمارک کی بات ہے وہاں میں نے ابھی ایک وفد بھیجا تھا.وہ ملک بھی بیمار ہے کئی پہلو سے اور بیماری کی جو بنیا د ہے اصلی آخری نقطہ یہی ہے کہ جو بھی امیر مقرر کیا جائے اس کے نقص نکالتے اس سے بدتمیزی کرتے ہیں اور ایک کے بعد دوسرے کو استعمال کر لیا جائے لیکن ان کے چال چلن میں کوئی فرق نہیں.بوڑھے کو کیا تب اس کی عزت نہ کی ، جو ان کو کیا تب اس کی عزت نہ کی ، صاحب علم کو کیا، تب اس کی عزت نہ کی ایک عام آدمی مگر منکسر مزاج کو مقرر کیا تو تب بھی اس کی عزت نہ کی.تو اگر ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دین پر قائم ہیں اور نظام جماعت کیا چیز ہے، معمولی سی حیثیت ہے ، ہم اس کا اگر نوٹس بھی نہ لیں ، اس کو کسی خاطر میں نہ لے کے آئیں تو ہماری احمدیت تو اپنی جگہ ہے.ہم چندے بھی دیتے ہیں ، ہم نماز بھی پڑھتے ہیں ، ہم نے خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے ہمیں اور کیا ضرورت ہے.یہ امیر اس کی کیا حیثیت ہے، یہ تو جاہل آدمی ہے.کبھی اس کی سنتا ہے، کبھی اس کی سنتا ہے، ہماری بات تو سنتا ہی نہیں.اس قسم کے نفس کے بہانے ہیں جو انسان کو طرح طرح کے دھوکے دیتے ہیں اور ایسا شخص عدل سے گر جاتا ہے.عدل کا یہی تقاضا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جو حق جس کو دیا ہے اس کا حق سمجھو اور اس کے سامنے پوری محبت سے جھکو.اب اس کی ایک اور مثال ہے کہ دیکھیں ماں باپ کے متعلق فرمایا کہ اگر بوڑھے ہو جائیں تو ان کے سامنے اف بھی نہیں کرنی.اف نہ کرنے کا مطلب صاف ہے کہ انہوں نے کوئی زیادتی کی ہے، کوئی سختی کر بیٹھے ہیں.یا روز مرہ کی عادتیں ایسی ہیں جو تنگ کرتی ہیں.تو فرمایا ان کے سامنے اف بھی نہ کرنا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق فرمایا کہ جس شخص کو اپنے ماں باپ ، رشتہ داروں، عزیزوں سب سے زیادہ پیارا یہ وجود نہیں ہے اس کو ایمان کا پتا ہی کچھ نہیں.جس کے دل میں سب سے زیادہ قدر محمد رسول اللہ نے کی نہیں ہے وہ جانتا ہی نہیں کہ ایمان کیا
خطبات طاہر جلد 15 429 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء ہوتا ہے.تو دیکھو نظام کا نمائندہ چونکہ خدا کے نظام کے آپ نمائندہ ہیں آپ کا یہ مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے.پس زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے نا کہ ایک امیر نے جو درجہ بدرجہ ،سلسلہ بہ الله سلسلہ آخر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ ہی کا تو نمائندہ ہے ورنہ اس کی امارت کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے.اگر یہ سلسلہ وہاں سے شروع نہ ہوتا تو نہ خلیفہ کی کوئی اہمیت ، نہ امیر کی کوئی اہمیت ، نہ کسی عہدیدار کی سب بے معنی مٹی کے مادھو بن جاتے کیونکہ ان میں امر نہ رہتا.ان میں وہ روح نہ پھونکی جاتی جو آسمان سے اترتی ہے اور محمد رسول اللہ اللہ کے وسیلے سے پھر آگے نظام جماعت کے کل پرزوں کو نصیب ہوتی ہے.پس اس پہلو سے یا درکھیں کہ وہ شخص جو رسول اللہ ﷺ کی نمائندگی میں آپ پر مقرر ہے اگر وہ زیادتی بھی کرتا ہے تو یہ کیوں نہیں یاد کرتے کہ ماں باپ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اف بھی نہیں کرنی.تو اگر یہ زیادتی کرتا ہے تو اس کی شکایت کا ہمیں حق ہے لیکن بدتمیزی کا کیا حق ہے.اف نہ کرنے کا کم سے کم اتنا مطلب تو لیں کہ اس کے سامنے آواز اونچی نہ کریں.ادب اور پیار کے ساتھ اسے سمجھانے کی کوشش کریں کہ دیکھیں آپ نے مجھ پر زیادتی کی ہے اور اگر وہ نہیں مانتا تو پھر جیسا کہ نظام جماعت آپ کو اجازت دیتا ہے آپ اس کی شکایت بالا افسروں تک کر سکتے ہیں اور پھر سارا نظام عدل پر مبنی ہے اس لئے لازم ہے کہ اس کی شکایت کا ازالہ ہوا گر وہ عدل کے او پرمبنی شکایت تھی.لیکن دوسری نا انصافی پھر یہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ جس کو بھیجا جائے اگر اس کا فیصلہ کسی ایک کے خلاف ہو اور کسی دوسرے کے حق میں ہو تو ہمیشہ بلا استثناء یہ چٹھی لکھتے ہیں کہ آپ کے نمائندوں نے عدل سے کام نہیں لیا، انصاف سے کام نہیں لیا اور بعض ایسی جماعتیں ہیں دنیا میں جہاں تھیں تھیں، چالیس چالیس سال سے یہی جھگڑا چلا آ رہا ہے.وہ ناسور ایسا ان کے اندر داخل ہوا ہے کہ کینسر بن کے سارے بدن میں پھیل گیا ہے.کبھی آج تک ایسا نہیں ہوا میں پرانی یاد سے جب میرا خلافت سے ایک محض غلامی کا ، اب بھی غلامی کا تعلق ہے مگر اور رنگ کا ہے، پہلے بھی غلامی کا تعلق تھا.اس وقت وقف جدید کی حیثیت سے یا خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے میں جماعتوں کے دورے کرتا تھا اور ان جماعتوں کو دیکھتا تھا ، جانتا ہوں، ابھی بھی جانتا ہوں ، ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.ہر کوشش آپ نظام جماعت کر دیکھے.ایسے لوگوں کو بھی چنے جو ان کے نمائندے ہوں.ان سے کہا جائے کہ جناب
خطبات طاہر جلد 15 430 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء ب آپ اپنا نمائندہ مقرر کریں اور وہ ان کے خلاف فیصلہ دے تو کہتے ہیں دیکھا نا انصافی کر گیا ہے یہ شخص.فلاں کی روٹی کھا گیا تھا ، فلاں نے اس وقت ایک دفعہ اس پر یہ احسان کیا تھا.کم عقل آدمی ہے ہماری پوری بات سنی نہیں دوسرے کی باتوں میں آ گیا.الله تو وہ لوگ جو یہ عذر رکھتے ہیں کہ نظام عدل نہیں کرتا ان سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں کیونکہ وہ خود نظام سے عدل نہیں کر رہے کیونکہ نظام سے عدل کا مطلب ہے کہ وہ جب بھی کوئی فیصلہ کرے پھر اس کے سامنے سر جھکاؤ.یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ اپنے متعلق فرماتے ہیں اگر میں بھی کسی چرب زبان انسان کی دلیل سن کر اس بات میں مطمئن ہو جاؤں کہ کوئی جائیداد اس کی ہے دوسرے کی نہیں تو اگر وہ اسے لے لے گا تو آگ کا ٹکڑا ہے جو وہ قبول کرے گا اور آگ کا ٹکڑا ہے جو وہ کھائے گا.اس لئے اسے چاہئے کہ وہ اسے واپس کر دے.مگر یہ احتمال ایک کھول دیا ، ایک ایسا احتمال کھولا جو عملاً آپ کی ذات میں ممکن ہی نہیں تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ سے زیادہ صاحب فراست اور باریک اور لطیف نظر سے دیکھنے والا کبھی دنیا میں نہ پیدا ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تعریف کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، سب سے زیادہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر صادق آتی ہے.اس کے باوجود آپ کا یہ کہنا کہ میں بھی غلط فیصلہ کر دوں تو قبول ضرور کرنا ہوگا لیکن از خود پھر غلط فیصلے کو درست کرنے کی خاطر جو حق تمہیں دیا گیا ہے ، جب کہ تمہاراحق نہیں تھا ، اسے شوق سے خود واپس کرو لیکن تعمیل ضرور ہوگی.یہ نکتہ لوگ نہیں سمجھتے یعنی حضور اکرم ﷺ تو غلط فیصلہ کر ہی نہیں سکتے مگر فرماتے ہیں اگر میں بھی کروں.حضرت فاطمہ سے متعلق چوری کا کوئی دور کا تصور بھی ممکن نہیں مگر فرماتے ہیں کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا.یہ عدل ہے، حیرت انگیز عدل ہے اور انسانی بشری کمزوری کے حق کو اپنی ذات میں تسلیم کرنا دراصل عدل کا تقاضا تھا.آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ میں نبی اللہ ہوں، نبیوں کا سردار ہوں، مجھ سے کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں ہوسکتا.مگر یہ عدل کے خلاف ہوتا کیونکہ آپ بشر بھی تھے اور ایک بشر لاعلمی میں بعض دفعہ کوئی بات سن کر ایک غلط نتیجہ نکال بھی سکتا ہے.پس عدل کا عجیب مضمون ہے وہ بڑوں پر بھی چسپاں ہوتا ہے، چھوٹوں پر بھی چسپاں ہوتا ہے، ہر زندگی کے پہلو پر مختلف بھیس بدل کر آتا ہے مگر اسے پہچاننا ہوگا کیونکہ عدل ہی میں ہماری زندگی ہے اور عدل ہی کے نتیجہ میں پھر امر پیدا ہوتا ہے اور اگر آپ امر سے عدل نہ کریں تو یہ سب سے بڑا گناہ
خطبات طاہر جلد 15 431 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء ہے.صاحب امر سے عدل کرنا لازم ہے اور اس عدل کا یہ تقاضا ہے کہ آپ اس کے فیصلے کے سامنے سر جھکا ئیں اور پھر اگر آپ کا کوئی حق ہے تو یا بالا نظام سے مانگیں یا خدا کے سپرد کر دیں.اور وہ لوگ جو سچے دل سے خدا کے قائم کردہ امر کے سامنے سر جھکاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا کبھی کوئی نقصان نہیں ہونے دیتا.اگر وہ ایک غلط فیصلے کو غلط سمجھتے ہوئے بھی قبول کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ آسمان سے ان کی کمی پوری کرتا اور اس کثرت سے ان کو نعمتیں عطا فرماتا ہے کہ اگر ان کو شعور ہو تو اس تصور سے بھی وہ شرم سے پانی پانی ہو جائیں کہ ہم اپنے آپ کو بڑا کوئی تمیں مارخان سمجھ رہے تھے کہ ہم نے دیکھو عدل کی خاطر ایک غلط فیصلے کو قبول کر لیا.معمولی سا ایک قصہ ہے جو دنیا میں ہر روز کرتے ہی ہیں.اب دیکھو دین کے معاملے میں کتنے نخرے شروع ہو جاتے ہیں.چھوٹے چھوٹے سر دیکھو کتنا بلند ہونے لگتے ہیں.عام عدالتوں کے سامنے مجال ہے ان کی یہ بات کہیں کہ تم نے عدل کے خلاف بات کی ہے اس لئے ہم یہ بات نہیں مانیں گے.حکومت جوتیاں مار کے ان سے بات منوائے گی.مگر چونکہ خدا کی جوتی دکھائی نہیں دیتی اس لئے چھوٹی سی بات کے اوپر سر اٹھاتے اور زبانیں دراز کرتے اور کہتے ہیں دیکھوا میر نے عدل نہیں کیا اس لئے ہم بکلی آزاد ہیں.ہم پابند نہیں ہیں کہ اس کی بات کو مانیں.لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی سوٹی یا اللہ کی جوتی دکھائی نہ بھی دے تو موجودضرور ہے اور وہ ضرور گرتی ہے اور ضرور سرکوبی کرتی ہے ایسے باغیوں کی جو خدا کے قائم کردہ اس کے ایسے نمائندوں کو جو اس کی طرف سے صاحب امر بنائے جاتے ہیں ان کو حقیر سمجھتے اور اس کی شان میں گستاخی سے پیش آتے ہیں.سمجھتے ہیں کہ ہم نے کہہ دیا کچھ بھی نہیں ہوا.تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا تو کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے لیکن اس بے چارے نے کیا بگاڑنا ہے جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں.اس کی تو حیثیت بنی ہی اس وقت تھی جب اس کو کوئی امارت سونپی گئی.اس سے پہلے عام شہری آپ کی طرح چلتا پھرتا تھا اس کو کسی کو کچھ کہنے کا اختیار ہی نہیں تھا.تو جس نے سب کچھ خدا کی خاطر قبول کیا ذمہ داری کے لئے اور دراصل امر ایک مصیبت ہے.امران معنوں میں مصیبت ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری آپڑی ہے بیٹھے بٹھائے ایک انسان کے اوپر کہ اس کے مقابل پر جو بے امر کا روز مرہ پھرنا ہے وہ بہت زیادہ آسان اور دلکش دکھائی دیتا ہے لیکن یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ امر آ گیا ہے اچھا جی بڑا ہی اونچا چڑھ گیا ہے یہ شخص، ہم پر حکومتیں جتانے لگا ہے، ہمیں حکم دیتا ہے.حالانکہ اس بے
خطبات طاہر جلد 15 432 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء چارے غریب کے دل کا یہ حال ہوگا کہ اسے یہ بھی مصیبت ہوگی کہ کسی بھائی کو کسی معاملے میں مجبور کرے اور خدا کے نام پر اس سے تعاون کی درخواست کرے.تو تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ آپ لوگ نظام جماعت سے عدل سیکھیں اور عدل کے مضمون پر غور کرتے رہیں.ابھی تو میں نے آپ کو ہزارواں حصہ بھی وہ نہیں بتایا جو خدا تعالیٰ نے مجھے عدل کے مضمون کے اوپر نظر ڈالنے کی توفیق بخشی ہے.زندگی کے ہر شعبے پر گہری نظر ڈال کر آپ کو عدل کے ایسے لطیف مظاہر دکھائی دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان خدا کی عظمت کے سامنے ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے.پس آپ بھی ان باتوں پر غور کیا کریں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے عدل کے مضمون کو جتنا سمجھیں گے، جتنا اس کا عرفان ہوگا اتنا ہی آپ کو عدل کرنے کی توفیق ملے گی.ورنہ موٹا موٹا عدل ہے جو آپ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کر سکتے اور جوں جوں انسان ترقی کرتا ہے موٹے عدل کا مضمون پیچھے نیچے رہ جاتا ہے.اوپر کی ترقی بار یک عدل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.درجے و ہیں کھڑے ہو جائیں گے جہاں موٹے عدل کا مقام آگیا ہے اور باقی ساری ترقیاں بار یک عدل کے تقاضوں کے پورا کرنے سے آتی ہیں.پس خدا کے قرب کے مزے لوٹنے ہیں ، روحانی لذتیں حاصل کرنی ہیں ، بلند فضاؤں میں اڑنا ہے تو عدل کو اختیار کریں لیکن عدل کو سمجھیں گے تو اختیار کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے اور آپ کے حوالہ سے میں دنیا کی تمام جماعتوں کو بھی اس مضمون کی طرف متوجہ کرتا ہوں.ایک دو جماعتوں کے میں نے نام لئے ہیں مجبوراً کیونکہ بعض کی طرف سے بہت دیر سے تلخیاں پہنچ رہی ہیں.صرف ان کو سمجھانے کے لئے کہ اب خدا کا خوف کرو ور نہ پھر نظام عدل تم سے کچھ اور سلوک کرے گا اور باقی اور بھی ہیں جن کا نام نہیں لیا گیا مگر میں جانتا ہوں.مختلف ملکوں میں کئی ایسے گڑھ ہوتے ہیں جہاں ایک دو یا چند بیمار ایک بیماری کی گھٹلی بنا لیتے ہیں.ارد گرد کا بدن صحت مند بھی ہو تو وہ گھٹلی اکیلی ہی اس کو کمزور کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے.ہر وقت زہر اس گھٹلی سے گھل گھل کر سارے بدن کو دکھوں میں مبتلا کرتا رہتا ہے.پس یہ میں نہیں کہتا کہ جن جماعتوں کا میں نے حوالہ دیا ہے ان میں سارے ہی بیمار ہیں مگر یہ میں ضرور کہتا ہوں کہ گھٹلیاں ضرور ہیں اور ساری گھٹلیاں ظلم کی گھٹلیاں ہیں، عدل کے فقدان کی گھٹلیاں ہیں، تکبر کی گھٹلیاں ہیں.یا تو ان کو کچل کے باہر نکال کے پھینکا جائے یا ان کو کاٹ کر باہر پھینکا
خطبات طاہر جلد 15 433 خطبہ جمعہ مورخہ 31 مئی 1996ء جائے یا پھر وہ سارے بدن میں زہر سرایت کر گیا ہے تو اس کا علاج تو پھر یہی ہے کہ اس سارے بدن سے قطع تعلقی اختیار کر لی جائے.اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا.مگر میں امید رکھتا ہوں کہ جو فکر کرنے والے لوگ ہیں اس مضمون کے اوپر غور کریں گے اور نظام جماعت کی پابندی خدا کی خاطر اس کی رضا کے لئے ، نہ کہ بندوں کے منہ دیکھ کر کریں گے.اگر ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ آپ پر بے شمار برکتیں نازل فرمائے گا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی.پس نظام عدل ہی سے ہماری زندگی اور ہماری ترقیاں وابستہ ہیں.اللہ ہمیں اس کو قائم رکھنے اور اس کی وفا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 435 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء اپنی تبلیغ میں وہ کردار پیدا کریں جس کردار کو آپ الہی صفات کی جھلک قرار دے سکتے ہیں.( خطبه جمعه فرموده 7 جون 1996ء بمقام ببيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (حم سجده : 34) پھر فرمایا: اور اس شخص کے قول سے زیادہ خوب صورت کس کا قول ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے مگر شرط یہ ہے کہ خود نیک اعمال بجالانے والا ہوا چھے اعمال کے نمونے دنیا کے سامنے پیش کرے پھر یہ کہے وَقَالَ إِنَّنِى مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور کہے میں تو مسلمان ہوں ،مسلمانوں میں سے ہوں.یہ وہ آیت کریمہ ہے جس کے متعلق میں نے ہالینڈ کی جماعت کے سالانہ اجلاس سے خطاب کیا تھا اور یہ وہ آیت کریمہ ہے جس کے پہلو لا متناہی ہیں، جو ختم ہوتے ہی نہیں.اس پر آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں آپ کو مزید اس کے گہرے راز دکھائی دینے لگتے ہیں اور وہ موتیوں کی طرح چمکتے ہیں اور ماحول کو روشن کر دینے کی طاقت رکھتے ہیں اور اس آیت کا تعلق ہی ماحول کو روشن کرنے سے ہے.دعوت الی اللہ کے مقاصد بھی بیان ہوئے ، اس کے طریق بھی بیان ہوئے ،اس کے سر بستہ راز بھی اس میں کھولے گئے اور ہر اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کی ایک داعی الی اللہ کو ضرورت پیش آتی ہے.آج کل چونکہ دعوت الی اللہ کا کام دنیا میں زوروں پر ہے کیونکہ اس دعوت کا نتیجہ ہمارے جلسہ سالانہ UK کے اختتامی دن میں نکلتا ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے یہ روایات بن
خطبات طاہر جلد 15 436 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء رہی ہیں کہ جتنے بھی تمام نئی بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوتے ہیں ان کو اس آخری روز یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے ذریعے عالمی بیعت میں شامل ہو جائیں اور یہ درست ہے کہ سب کے لئے تو ناممکن ہے مگر ان کے نمائندے ضرور دنیا کی ہر قوم میں سے، ہر ملک میں سے ، ہر فرقے میں سے نمائندگی کے ذریعے بیعت کرتے ہیں اور یہ بیعت واقعہ کل عالم میں ہو رہی ہوتی ہے اور ان کی اپنی اپنی زبان میں ہورہی ہوتی ہے.پس یہ ایک ایسا خوب صورت نظارہ ہے اور ایسا روح پرور نظارہ ہے جس کی مثال اس سے پہلے سوائے بائبل کی پیشگوئی کے اور کسی جگہ دکھائی نہیں دیتی.عہد نامہ جدید میں پیش گوئی کے رنگ میں تو یہ بات بتائی گئی تھی مگر واقعہ جو بات بیان کی گئی وہ حضرت مسیح کے زمانے میں کبھی رونما نہیں ہوئی اس لئے آئندہ مسیح کے متعلق پیشگوئی تھی اور اس کو چونکہ پیشگوئی سے تصدیق حاصل ہے اس لئے اس سنت کو کوئی بدسنت قرار نہیں دے سکتا.ایک ایسی سنت حسنہ ہے جس کی دو ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے بنیاد درکھی تھی اور پیشگوئی کے ذریعے اس پر صاد فر مایا تھا کہ ایک بہت عظیم واقعہ ہونے والا ہے کہ بے شمار زبانیں بولی جائیں گی ، بے شمار زبانوں میں خدا کی تسبیح وتحمید کی جائے گی اور لوگوں کو یہ عجیب دکھائی دے گا کہ وہ زبانیں جو وہ جانتے نہیں ہیں وہ کچھ نہ کچھ پیغام کسی نہ کسی سننے والے کو ضرور دے رہی ہیں یعنی سننے والے کے اگر وہ اردو جانتا ہے تو اردو میں تو پیغام مل رہا ہے باقی شور سنائی دیتا ہے.اگر وہ انگریزی جانتا ہے تو اردو بھی شور میں شامل ہو جاتی ہے اسے صرف انگریزی کی سمجھ آتی ہے.اگر وہ کوئی غانین زبان جانتا ہے تو وہی معنی خیز آواز بن کر اس کے کانوں میں پڑتی ہے باقی سب زبانیں انگریزی اردو ہر چیز محض ایک شور بن جاتی ہے.تو یہ جو واقعہ ہے یہ الہی تائید یافتہ واقعہ ہے.اس لئے یہ جب جلسے کے دن قریب آتے ہیں تو میں جماعت کو یاد دہانی کراتا ہوں کہ امسال پھر کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو جماعت کو اس سے پہلے چند سالوں میں تو فیق بخشی ہے کہ ہر سال عالمی بیعت کی تعداد دگنی ہو رہی ہے تو خدا تعالیٰ امسال بھی اسے دگنا کر دے.مگر جب دگنا کرے تو اس کے تقاضے بھی ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں اس لئے گزشتہ سال چونکہ ایک ایسی جگہ تعداد پہنچ چکی تھی جہاں دگنے کے تصور سے جہاں لطف آتا تھا وہاں خوف بھی پیدا ہوتا تھا.اس لئے میں نے جماعت سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ یہ دعا کریں کہ اے اللہ اگر یہ دگنا پھل ہمیں سنبھالنے کی تو فیق
خطبات طاہر جلد 15 437 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء ملنی ہے تو پھر دگنا کر دے ورنہ پھر ہماری توفیق بڑھا.جب تک توفیق نہ بڑھائے پھل سمیٹنے کی طاقت ہی انسان کو نہیں ہو سکتی.اس لئے پھل پیدا کرنا تو اس کا کام ہے.پھل سمیٹنے کی تو فیق تو ہماری توفیق ہے.جب تک ہمیں عطا نہیں کرے گا اس وقت تک ہم ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکتے جو آنے والے مہمانوں کی ذمہ داریاں ہیں.پس یہ جلسہ جو آنے والا ہے یہ کچھ مہمان تو لے کے آئے گا، کچھ کل عالم میں آنے والے خدا کے مہمان ہیں جو اس پہلو سے عزت کے لائق بھی ہیں ، خدمت کے حقوق بھی رکھتے ہیں مگر تربیت کے بھی محتاج ہیں اور تربیت کے پہلو سے جماعت احمد یہ پر اس کی اولین ذمہ داری ہے.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں یہ تربیت کا راز بھی سکھا دیا گیا.فرمایا بات تو بہت خوب صورت ہے کہ خدا کی طرف بلاتے ہو اور ہر بلانے والا جو مذہب سے تعلق رکھتا ہے خدا ہی کی طرف بلاتا ہے لیکن اس قول کی خوب صورتی تمہارے عمل کے حسن سے تعلق رکھتی ہے.اگر تمہارا کر دار حسین ہے تو پھر بلانے والا بھی حسین دکھائی دے گا اور جس طرف بلایا جارہا ہے وہ بھی حسین دکھائی دے گا اور پھر اس بات میں حسن پیدا ہوتا ہے.مگر بلاؤ اس نام پر کہ وہ بہت ہی پیارا اور کامل خدا ہے تمام قدرتوں کا مالک ہے ، سب حسن کا منبع ہے اور تم خود بدیوں کے منبع بنے ہو، تم سے بداخلاق پھوٹ رہے ہیں ، تمہاری ادائیں ناپسندیدہ ہوں ، تمہارا معاشرے میں کردار ناپسندیدہ ہو، تمہارا گھر میں کردار نا پسندیدہ ہو تمہارا دوستوں سے لین دین میں معاملات میں کردار نا پسندیدہ ہواگر یہ حالت ہے تو خدا کی طرف بلانے کا تمہیں حق بھی کیا پہنچتا ہے اور اگر بلاؤ گے تو نا واقف سمجھیں گے کہ ایسے خدا کا مرید ہے جیسا یہ آپ ہے اور اس خدا میں کس کو دلچسپی پیدا ہوگی.پس لازم ہے کہ تم بلانے کے ساتھ اپنے کردار کو شایانِ شان بناؤ.جس ذات کی طرف بلا رہے ہو اس کی کچھ صفات اپنے اندر جلوہ گر کرو اور کوئی سنے والا تمہاری دعوت پر کان نہیں دھرے گا جب تک اس کی آنکھیں تمہاری ذات میں وہ حسن نہیں دیکھتیں جو حسن اس خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے جو کل عالم کا خالق ہے.پس یہ وہ مضمون ہے عَمِلَ صَالِحًا والا جس کی طرف توجہ دلانا اس لئے بھی مقصود ہے کہ تربیت کے لئے یہ بہت ضروری ہے.دنیا میں تربیت کے لئے قول اور عمل یہ دو ہی چیزیں ہیں جو کام کیا کرتی ہیں.مگر ہر وہ قول جو عمل کی تائید سے خالی ہو وہ تربیت میں بھی ناکام رہتا ہے اور تبلیغ میں
خطبات طاہر جلد 15 438 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء بھی ناکام رہتا ہے.پس تبلیغ کی کامیابی کا راز بھی جہاں ایسے عمل میں ہے جو خوب صورت قول کی تائید کرنے والا ہے وہاں تربیت کی کامیابی کا راز بھی اس نیک عمل میں ہے جو خوب صورت قول کی تائید کرنے والا ہے.یہ جب کرو پھر تمہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ کہو میں مسلمان ہوں.اب اس میں دیکھیں آج کی دنیا کی کتنی خرابیوں کا حل موجود ہے جو عالم اسلام کے راہنماؤں کی طرف سے دنیا میں پھیل رہی ہیں.جو مرضی کردار ہو، قتل وغارت کی تعلیم دے رہے ہوں ، دنیا کے امن بر باد کر رہے ہوں اور بڑے زور سے دعوی کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.اگر عمل بد ہوں تو کم سے کم چھپانے ہی کی کوشش کرو.حیا کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت اپنے رشتے ظاہر نہ کرو.وہ لوگ جو جرموں میں پکڑے جاتے ہیں بسا اوقات اپنے ماں باپ کا نام نہیں بتاتے اگر ان کو علم ہو کہ ماں باپ کی عزت کو خطرہ ہے.ان کا بڑا نام جو ہے وہ گلیوں میں رسوا ہو جائے گا تو اس سے آپ لاکھ پوچھیں وہ کہے گا نہیں میں نے کچھ نہیں بتانا.جو احمق ہیں وہ ماں باپ کے اونچے نام کی حفاظت میں آنے کی خاطر اپنی بدیوں کے وقت بھی ان کو استعمال کر لیتے ہیں.تو دیکھنا یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ کیا رنگ رکھتی ہے.کیا تم خدا کے نام کے اندر ، اس کی حفاظت میں اپنی بدیاں لا رہے ہو اور خدا کا نام لے کر ، اس کی طرف دعوت دے کر اپنے اعمال سے دنیا کی نظروں میں پوشیدہ ہور ہے ہو یا دنیا کی نظروں سے اپنے اعمال پوشیدہ کر رہے ہو کہ یہ تو خدا کی طرف بلانے والا ہے یہ تو اچھا ہی ہوگا.اگر یہ بات ہے تو یہ منافقت ہے.اس کا حقیقت سے سچائی سے اور آپ کے خدا کی طرف دعوت دینے سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے بلکہ ایسے معاملات ہمیشہ دین کو نقصان پہنچاتے ہیں.اس لئے تبلیغ کے ساتھ ساتھ یا دعوت الی اللہ کا جو معاملہ ہے.دعوت الی اللہ ہی کے ساتھ ساتھ میں کہوں گا، تربیت کے وہ تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے جو آپ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے جو آنے والوں کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں.اور وہ تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے جن کے نتیجہ میں آنے والے آتے ہیں.وہ تقاضے پورے نہ ہوں تو آتے ہی نہیں.پس یہ وہ تین پہلو ہیں عَمِلَ صَالِحًا کے جو میں ایک دفعہ پھر اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ تقاضے جو بلانے والے تقاضے ہیں ان میں یاد رکھیں کہ تب تک کسی تبلیغ میں کسی سننے
خطبات طاہر جلد 15 439 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء والے کو دلچسپی پیدا نہیں ہوتی جب تک تبلیغ کرنے والے کی ذات میں دلچسپی پیدا نہ ہو.ذات میں دلچسپی ضروری ہے اور اگر ایسا کوئی شخص جو بد اعمالیوں میں مشہور ہے تو اس کی ذات میں بھی دلچسپی لینے والے ہوں گے اور جو نیکیوں میں شہرت پا جاتا ہے اس کی ذات میں بھی دلچسپی لینے والے ہوتے ہیں لیکن کند ہم جنس باہم جنس پرواز ایک تھیلی کے چٹے بٹے ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں.پس خدا کی طرف بلانے والے کے لئے اگر وہ خدا کی صفات سے عاری ہے کامیابی سے تبلیغ کرنے کا کوئی بھی امکان نہیں ہے کیونکہ جب تک کوئی شخص خدا کی صفات کسی ذات میں جلوہ گر نہ دیکھے اس کو خدا کی طرف توجہ نہیں ہو سکتی اور اگر صفات کو جلوہ گر دیکھے گا تو وہ لوگ جو بد ہیں وہ اس طرف رخ بھی نہیں کرسکیں گے.سوائے ان بدوں کے جن کے دلوں میں اس کے حسن کردار کی وجہ سے ایک انقلاب برپا ہو رہا ہے.پس سب سے پہلے تو تبلیغ Selective ہو جاتی ہے اور یہ بہت ہی اہم کام ہے.ورنہ لوگ عمل کی تائید کے بغیر جو تبلیغ کرتے ہیں تو اینٹ پتھر روڑے کو بھی تبلیغ کرتے چلے جاتے ہیں اور کہیں اتفاق سے اچھی زمین بھی مل جاتی ہے اور وہ بیج پتھریلی زمینوں پر بھی پھینکتے رہتے ہیں اور عام بیج کو قبول کرنے والی زمینوں پر بھی کبھی کوئی بیج پڑ جاتا ہے.مگر انہیں تمیز کوئی نہیں ہوتی اور کوئی ذریعہ تمیز ان کو میسر نہیں ہوتا.اگر ایک احمدی سوسائٹی میں اس طرح مل جل کر رہ رہا ہے کہ اسے کوئی وجہ امتیاز نصیب نہیں ہوئی ، اس کے عمل کی خوبی نے اسے اپنی ذات میں ایک Class بنا کر، ایک پہچان بنا کر اسے ابھارہ نہیں ہے تو اس کے گرد ہر قسم کے لوگوں کا اجتماع ویسے ہی رہے گا جیسے ہر شخص کے گر در وزمرہ کے کاموں میں کچھ نہ کچھ لوگوں کا اجتماع ہو ہی جایا کرتا ہے.دفتر میں جاتا ہے،سکول میں جاتا ہے، کالج میں جاتا ہے جیسا بھی زندگی بسر کر رہا ہے وہ لوگوں میں سے ایک انسان ہے اور نیک و بد ہر قسم کے اس کے گرد موجود رہیں گے.اب وہ تبلیغ کرے گا تو نیک و بد سب کو ہی کرے گا اور چونکہ اس کی ذات میں نہ نیک کو دلچسپی ہے نہ بد کو دلچسپی ہے اس لئے سارے ہی سنی ان سنی کریں گے اور خصوصیت کے ساتھ جو بد ہیں وہ پھر بسا اوقات ایسے شخص کی کوششوں میں روک ڈالنے کے لئے شرارت بھی شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ پہلو وہ ہے جو میں ایک دفعہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.اس وقت پیش نظر نہیں ہے.پیش نظر یہ ہے کہ اگر ایک انسان کا کردار اچھا ہو اور نمایاں طور پر اچھا ہو تو لازماً معاشرے کے بہترین لوگ اس کے گردا کٹھے ہونے لگتے ہیں اور وہ لوگ جو عملاً
خطبات طاہر جلد 15 440 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء اصلاح شدہ نہ بھی ہوں مگر دل میں نیکی کا بیج ہے وہ بھی اس کی طرف مائل ہوتے ہیں.دیکھو گند کی مکھی گند ہی کی طرف جاتی ہے اور شہد کی مکھی پھولوں کا رس چوستی ہے.یہ فطری تقاضے ہیں جو ان دونوں کی ان آماجگاہوں کی تفریق کرتے ہیں جہاں انہیں جا کر اترنا ہے اور وہاں سے کچھ پھل یا گندگی کا رس چوسنا ہے.تو اس پہلو سے پہلی تفریق تو آپ کے اعمال اس طرح کریں گے کہ آپ کے گردا گر آپ اچھے ہیں تو اچھے لوگ اکٹھے ہوں گے.اگر بد ہیں تو بدلوگ اکٹھے ہوں گے اور بد کے لئے تو تبلیغ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جب نیک انسان اچھے ماحول میں نیک لوگوں کو تبلیغ کرتا ہے تو اس کے لئے پھل لگنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں.پس ایک نیک عمل کا یہ نتیجہ ہے.دوسرا یہ کہ باوجود نیک ہونے کے لوگوں کو عملاً آج کی دنیا میں خدا میں دلچسپی نہیں رہی اور اس عدم دلچسپی کی وجہ محض ذاتی بدی نہیں ہے نیکوں میں بھی عدم دلچسپی پائی جاتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا ان کے لئے ایسی حقیقت ہے جو دنیا سے دور ہٹ چکا ہے.اس کا دنیا کے روز مرہ کاموں سے تعلق نہیں رہا اور تمام مذاہب میں یہ بد بختی آچکی ہے کہ ان کے رہنما عقائد کے لئے تو بھرتے ہیں اور فرقوں کو فرقوں سے اور مذاہب کو مذاہب سے لڑا دیتے ہیں مگر نیک اعمال کے لئے ان کے اندر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کوئی ہیجان پیدا نہیں ہوتا، کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی.ایسے فرقے جہاں نیکی پر اس قدر رزور ہو کہ اگر کوئی شخص اصلاح نہ کرے تو ایک پورا نظام اس کے ساتھ اس کے اوپر اپنے آپ کو وقف کر دے، اس کا گھیرا لے لے، اس کی برائیاں دور کرنے کی کوشش کرے.ایسے فرقے کہاں ہیں سوائے جماعت احمدیہ کے.صرف جماعت احمد یہ ہے جہاں یہ ایک نظام کے طور پر کل عالم میں کام ہو رہا ہے کہ بدی کی بیخ کنی کرنی ہے، نیکی کو نافذ اور ثابت کرنا ہے اور نیکی کی نشو و نما کے لئے انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرنی ہیں.دنیا کے جتنے مذاہب ہیں ان کے ماننے والے اکیلی اکیلی بھیڑوں کی طرح ہیں جو ایک ہی جنگل میں ملتی ہیں.مگر کوئی ان بھیٹروں کا نگہبان نہیں ہے، کوئی گڈریا نہیں ہے جو ان کی حفاظت کرے.پس اس پہلو سے لوگوں کے اندر عملاً نیکی اور نیکی کے منبع یعنی خدا تعالیٰ کی ذات میں دلچسپی کم ہوتے ہوتے تقریباً مٹ چکی ہے.پس جن لوگوں کو میں نے نیک کے طور پر تعارف کروایا تھا میری مراد عرف عام کی نیکیاں ہیں.عرف عام میں نیکیاں طبیعت کا حصہ ہوتی ہیں.بعض لوگ ایسے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں سلیقے والی مائیں ، سلیقے
خطبات طاہر جلد 15 441 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء والے باپ ان کو میسر آتے ہیں، خاندانی روایات ہیں جو بڑی دیر سے بعض اخلاق کی حفاظت کر رہی ہیں اور ان کو خود بخود بڑے ہو کر نیک ہو جانا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں اور نہ ان کے خدا رسیدہ ہونے کی علامت ہے.پس نیکیوں میں بھی ضروری نہیں کہ خدا رسیدگی پائی جائے نیکیوں میں بھی ایک ایسی کیفیت پائی جاسکتی ہے جو نیکیاں دنیا کے اتفاقات کے نتیجہ میں معاشرے کے از خود پیدا ہونے والے امن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور ان کا مذہب اور خدا سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا.تو ایسے نیک لوگ بھی آپ کو دکھائی دیں گے جن کو آپ تبلیغ کریں گے تو نیکی کی وجہ سے، مزاج کی ہم آہنگی کی وجہ سے آپ کی طرف آئے تو ہیں لیکن جب آپ تبلیغ کریں گے تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہیں اور تم ہمیں کیا بنا لو گے.جھوٹ ہم نہیں بولتے ،کسی کا مال نہیں کھاتے.جہاں تک خدمت کا تعلق ہے بنی نوع انسان کی جو خدمت ہے وہ ہم کرتے ہیں اور اخلاق سے پیش آتے ہیں.تمہارے خلاف بھی جب کوئی بدتمیزی یا غلط بات کرے تو ہم ہمیشہ تمہاری حمایت کرتے ہیں تو اور انسانیت کیا ہے.پس یہ سب کچھ ہم میں ہے.مگر خدا تعالیٰ نے جو نیکی کی تعریف کی ہے وہ محض عمل تک محدود نہیں رکھی دعوت الی اللہ کو اس میں شامل کر دیا ہے.پس نیکی کا ایک اور مضمون اس سے ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص جو خدا سے نیکیاں پاتا ہے اسے تو ایک جنون سا لگ جاتا ہے کہ اتنی حسین ذات ہے اور اتنی دلکشی اس میں پائی جاتی ہے کہ میں نے جو کچھ پایا اس سے پایا ہے، میں لوگوں کو بھی اس کی طرف بلاؤں.اب اس مضمون کو سمجھ کر حضرت مسیح موعود کے کلام کی آپ کو سمجھ آئے گی ورنہ اس کا کوئی شعور آپ کو میسر نہیں آسکتا.درنمین اردو پڑھیں یا فارسی پڑھیں یا عربی پڑھیں بے اختیار دعوتیں پائی جاتی ہیں.اس قدر بے اختیار ہیں اور نثر میں بھی کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان تڑپ رہا ہے بے چینی سے کہ جو کچھ میں نے پایا ہے میں لوگوں کو کیوں نہ دکھاؤں.وہ دوا کہاں سے لاؤں جو کانوں کو شفا بخشے کہ وہ آوازوں کو سن سکیں.اس قسم کے غیر معمولی قوت کے جذ بے کہ سب کچھ ہم نے خدا سے پایا ہے، ہم اس خدا کو تمام دنیا سے روشناس کرا دیں یہ وہ دعوت الی اللہ ہے جو نیک عمل کے ساتھ ملحق ہو جاتی ہے اور چونکہ نیک عمل اللہ کا ممنون احسان ہے، اللہ کے نتیجہ میں ہے اس لئے ایسا نیک عمل کرنے والا ضر ور خدا کی طرف بلائے گا اور اس کے اعمال کا اور عام دنیا دار کے اعمال کا یہ فرق ہوگا کہ
خطبات طاہر جلد 15 442 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء دنیا دار کی نیکیاں کسی خدا کے تصور کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتیں اور ان کی نیکیاں ان کی ذات کے ساتھ مرجاتی ہیں اور ان میں بقاء اور استحکام کی صلاحیت نہیں ہوتی.ایک یہ بھی فرق ہے جس کا تعلق استقرار اور استحکام سے ہے.خدا کی طرف سے جو نیکیاں آتی ہیں چونکہ خدا کی ذات کو دوام ہے اور ہمیشگی پائی جاتی ہے اس لئے انسان کی وہ نیکیاں جو خدا سے سیکھتا ہے ان میں بھی ایک دوام ہے اور ایک استقلال پایا جاتا ہے.انفرادی ہوں یا قومی ہوں ، حالات گردو پیش خواہ کیسے ہی بدلتے رہیں ان کی نیکیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن وہ تو میں جو دنیا میں نیکیاں دنیا کے اطوار سے سیکھتی ہیں یا اپنی خاندانی روایات سے سیکھتی ہیں ان کی نیکیوں میں کوئی استقلال نہیں ہوا کرتا.جب قو می ابتلا آتے ہیں تو ان میں سے نیچے سے سچا بھی جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے قوم کی خاطر جھوٹ بولنا جائز ہے.وہ جو عام دنیا میں روزمرہ کے کاموں میں کسی شخص کو دھوکہ نہیں دیتا جب قوم کی کسی مسند پر براجمان ہو اور باقی دنیا کے ساتھ معاملات میں دھوکے کی ضرورت پیش آئے تو اس کا دھوکہ نہ دینا قوم سے دھو کہ سمجھا جاتا ہے.اگر وہ غیر قوموں کو دھوکہ نہیں دیتا تو اس کی قوم اسے دھو کے باز کہے گی کہ اس نے قوم کے حقوق کو جیسا کہ ادا کرنے کا حق تھا ادا نہیں کیا.تو ساری تعریفیں بدل جاتی ہیں اور نیکی کے ساتھ استقلال کا کوئی جوڑ دکھائی نہیں دیتا.صرف ایک ذات ہے جس سے پیدا شدہ نیکی میں استقلال اس شان کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ کائنات الٹ پلٹ جائے تب بھی نیکی کی تعلیم وہی رہے گی.انبیاء علیہم السلام اس کی بہترین مثال ہیں.ان کی نیکیاں وقت سے آزاد ہیں اور حالات سے بالا ہوتی ہیں.وہ امن کے حالات ہوں یا جنگ کے حالات ہوں ان کی سچائی ہمیشہ سچائی رہے گی.سچائی ان کے خلاف جائے گی تب بھی سچ ہی بولیں گے اور یہ خدائی نیکی کی پہچان ہے اس لئے تبلیغ کے دوران ایسے لوگوں سے جب آپ گفتگو کرتے ہیں جو نیک مزاج کی وجہ سے آپ کے گرد اکٹھے ہوئے ہیں تو آپ کو یہ فرق ان کو دکھانا ہوگا.ورنہ ان کو خدا میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوگی.ان کو بتانا ہوگا کہ تمہارے اور میرے درمیان یا تمہارے اور خدا والوں کے درمیان ایک فرق ہے اور بڑا نمایاں فرق ہے اور جب تک وہ فرق پیدا نہ ہو کسی انسان کی نیکی کسی معاشرے کی نیکی بھی بنی نوع انسان کو بچانے کے کام نہیں آسکتی.
خطبات طاہر جلد 15 443 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء پس دیکھئے انبیاء کا آغاز ہی ایک ایسی نیکی سے ہے جس کے ساتھ جتنا تعلق جوڑیں ان کے خلاف جاتی ہے.سچائی کا اعلان کرتے ہیں.توحید کامل کا اعلان کرتے ہیں اور یہ نیکی کا اعلان ہی ہمارے لئے ابتلاء کا موجب بن جاتا ہے.جس نے سچائی کی خاطر ہر مصیبت سہیڑ لی اس کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی نیکی عارضی تھی اور وقت بدلنے کے ساتھ بدل سکتی تھی اور یہی انبیاء کی اپنی صداقت کا ایک ثبوت ہے اور خدا کی ہستی کا ثبوت ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے ایک نیک وجود کا ہونا ضروری ہے.انبیاء کے بغیر کوئی دنیا کی دلیل خدا تعالیٰ کی ہستی کو اس طرح لوگوں کے دلوں میں جانشین نہیں کر سکتی یعنی حقیقت کے طور پر جانشین نہیں کرسکتی کہ جو ان کے اعمال اور اخلاق کی کایا پلٹ دیں.یہ ایمان جو خدا کی ذات پر پیدا ہوتا ہے اس کے لئے ثبوت ضروری ہے صلى الله اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور ہر شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ میں خدا کا قائل ہوں اور وسیلے کے بغیر بھی گزارا ہوسکتا ہے ، جھوٹا ہے کیونکہ بچے خدا کا یقین کامل اسی ہستی کے ذریعے ممکن ہے جس کی سچائی کو بار بار زلزلے در پیش آئے ہوں ، ہر قسم کے جھٹکے ملے ہوں اور وہ سچائی یوں لگے جیسے ان کی جان لے کر رہے گی اور وہ جان دینے پر آمادہ رہے مگر سچائی کو ہاتھ سے نہ چھوڑے.وہ سچائی اگر آسمان سے تعلق رکھتی ہے تو آسمان بھی ایک حقیقت بن کے آپ کو دکھائی دینے لگے گا اگر اخروی دنیا سے تعلق رکھتی ہے تو اخروی دنیا بھی ایک حقیقت بن کے آپ کو دکھائی دینے لگے گی.انہی معنوں میں شہید کو شہید کہا جاتا ہے.گواہی وہ جس میں غائب کی خاطر حاضر کو قربان کر دیا جائے.اس سے بڑی قوی گواہی اور ممکن ہی نہیں ہے.ورنہ تمام دنیا کا تجربہ یہ ہے اور دنیا کی حکمتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ہاتھ میں آجائے وہی حق ہے اور جو ہاتھ میں نہیں ہے اس کی خاطر خواہ وہ ہزار بھی ہو ہاتھ میں آئے ہوئے ایک کو بھی نہیں چھوڑو کیونکہ جو موجود ہے وہ غیر موجود کے لئے قربان نہیں کیا جاسکتا اور اگر کیا جاتا ہے تو یا تو و شخص سب سے بڑا پاگل ہے یا وہ شخص سب سے زیادہ سچا ہے.اس نے کچھ ایسی بات دیکھ لی ہے جس کے نتیجہ میں موجود کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ غیر موجود زیادہ یقینی ہے اور ان معنوں میں زیادہ یقینی ہے کہ موجود کے اوپر تو کبھی بھی موت وارد ہوسکتی ہے اور ہونی ضروری ہے لیکن وہ دنیا جو لا محدود ہے وہ غیر فانی ہے.اس لئے وہ جانتا ہے کہ اس فانی کیفیت کو جو مجھے نصیب ہے اس لافانی کیفیت پر قربان کرنا عقل اور میرے ذاتی منافع کا طبعی تقاضا ہے.پس جسے.
خطبات طاہر جلد 15 444 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء لوگ بے غرضی سمجھتے ہیں وہ حقیقت کی دنیا میں سب سے بڑی خود غرضی یعنی معقول خود غرضی ہے.ایک شخص کو جہاں فیصلہ کرنا ہو کہ یہ ایک لاکھ کی رقم وصول کرنی ہے یا ایک روپیہ لینا ہے تو ظاہر بات ہے اگر اسے واقعہ دکھائی دے رہا ہے ایک لاکھ تو ایک لاکھ ہی لے گا روپے کو چھوڑ دے گا مگر روپیہ اس کی جیب میں ہے تو جیب سے نکال کر پھینکنا ہو گا یہ شرط ہے پھر وہ لاکھ بھی ملے گا.لیکن اگر لاکھ دکھائی نہ دے رہا ہو اور لوگوں کو بھی دکھائی نہ دے رہا ہو اور ایک شخص ایک چھوڑ کر ہزار بھی پھینک دیتا ہے جیب سے نکال کے تو اس سے بڑا یقینی گواہ اس لاکھ کے حق میں میسر نہیں آسکتا.عدم ہونے کے باوجود اتنا حقیقی ہو گیا کہ جو موجود چیزیں تھیں وہ اس کی خاطر قربان کر دی گئیں.پس انبیاء کی امتیں جب اخروی دنیا کی شہادت اس طرح دیتی ہیں کہ وہ زندگی جو ہاتھ میں ہے جو رگوں میں دوڑ رہی ہے اسے اس یقین پر کہ ہم نے لازماً زندہ ہونا ہے اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہونا ہے اس طرح نکال کر پھینک دیتے ہیں جیسے کوئی گلی سڑی چیز کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا.یہ وہ لوگ ہیں جن کو شہید کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اخروی دنیا کو دیکھ لیا ہے اور ان کی گواہی قابل قبول ہوگی.اب دیکھیں نبی نے بھی جو کچھ قربان کیا ہے وہ ایک غیر مرئی ذات کی خاطر کیا ہے اور وہ لوگ جو اس سے مقابلہ کر رہے ہیں وہ دیکھی ہوئی چیزوں کو اور دیکھی جانے والی چیزوں کو اس غیر مرئی چیز پہ ترجیح دیتے ہیں.سورج کی عبادت کرنے والے ہیں ، چاند کی عبادت کرنے والے ہیں، دنیا کے بتوں اور دنیا کے بڑے بڑے طاقت ور انسانوں کی عبادت کرنے والے ہیں ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سب چیزیں ہمارے پاس ہیں، موجود ہیں ان کی ایک حقیقت ہے.یہ کس طرف بلا رہے ہیں وہ غیر مرئی ذات جس کو نہ چھو سکے، نہ سونگھ سکے، نہ چکھ سکے، نہ دیکھ سکے، نہ ہاتھ ملا سکے، اس کی خاطر پاگل اپنے ان مفادات کو قربان کر رہا ہے جو سب اس کو میسر ہیں اور جو میسر نہیں ہیں وہ دینے کی کوشش کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ دیکھو تمہیں ہم دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے سر براہ بنانے پر آمادہ ہیں.دنیا کی سب سے خوب صورت عورت مہیا کرنے کے لئے تیار ہیں.تمہیں دنیا کا سب سے زیادہ مال دار انسان بنانے پر تیار ہیں مگر یہ پاگلوں والا ذکر چھوڑ دو کہ کوئی غیر مرئی چیز ہے اس کی خاطر ہم اپنے ہاتھ میں آئی ہوئی چیزوں کو قربان کر دیں لیکن وہ ان سب کو رڈ کر دیتا ہے.پس ایسا شخص ہی ہے جو حقیقت میں خدا کی ہستی کا قائل ہے اور ایسا شخص ہی ہے جو پھر یہ حق رکھتا ہے کہ خدا
خطبات طاہر جلد 15 445 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء کی طرف بلائے کیونکہ جس کی طرف بلایا اس کے وجود کے متعلق اس نے اپنی تمام قربانیوں کے ذریعے ثابت کر دیا کہ اس کا یقین درست ہے اور فرضی اور وہمی یقین نہیں ہے.اور بلایا ہے پھر یہ کہہ کر اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ میں تو مسلمان ہو چکا ہوں.میں نے تو اپنی فرمانبرداری کی گردن اس رب کے حضور جھکا دی ہے جس کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں.اس لئے میرا حق ہے اب تمہیں بھی اس طرف بلاؤں.آؤ اور پھر کیسے اس کو پاؤ گے.اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِينَ میں جو مسلمان ہوں تمہیں مجھ جیسا بنا ہوگا.اگر مجھ جیسا بننے میں دلچسپی ہے تو پھر دعوت کو قبول کرو ورنہ نہ کرو.تو وسیلے کی اہمیت جو انبیاء کے تعلق میں ہے وہی اہمیت ہر داعی الی اللہ کو حاصل ہو جاتی ہے.اگر وہ وسیلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو دعوت الی اللہ کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا.پس آپ جب مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ہماری دعوت کو پھل نہیں لگ رہے.لوگ دلچسپی نہیں لے رہے ،لوگ دنیا دار ہو گئے ہیں تو اپنی ذات سے کیوں نہیں پوچھتے کہ آپ کی ذات میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے.جب آپ کوئی دنیا کا فن حاصل کرتے ہیں اور ایسی چیز میں کمال حاصل کرتے ہیں جود نیا کو دکھائی دیتی ہے تو ضرور آپ میں دلچسپی لیتے ہیں.تو انبیاء نے وہ کیا کر کے دکھایا جس سے غیر مرئی ، مرئی سے بھی بڑھ کر حیثیت اختیار کر گیا.انہوں نے خدا کی صفات کو اپنی ذات میں جاری کیا ہے اور ان صفات کی طاقت ہے جو ایک وجود میں دکھائی دینے لگتی ہے اور وجود سے دوسرے وجودوں پر اثر پذیر ہو جاتی ہے.پر اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ کے دعوے تک پہنچنے سے پہلے عَمِلَ صَالِحًا کی جو منزل ہے اس میں سے گزرنا پڑتا ہے اور جب اس میں سے گزرتے ہیں تو آپ میں خدائی صفات کا جلوہ گر ہونا لازم ہے اور صفات باری تعالیٰ ضرور طاقت رکھتی ہیں.ان میں صلاحیت ہے کہ وہ دوسرے پر غالب آسکیں تبلیغ میں میرا تجربہ، میرے گردو پیش جو تبلیغ کرنے والے تھے ان کا تجربہ، جن اداروں سے میں منسلک رہا ہوں، جو تبلیغ کے لئے وقف تھے ان کا تجربہ مسلسل بلا استثناء یہی ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت میں کچھ خدائی صفات کو اپنا کر باعث کشش بن جاتے ہیں خواہ وہ آن پڑھ ہوں ، خواہ سادہ لباس رکھنے والے ہوں ، غریب ہوں ، ضعیف ہوں ، بات کرنے کا سلیقہ بھی نہ آتا ہو، ان کے اندر ، ان کی تبلیغ میں لوگ زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور وہ جو علم کی شوخیاں دکھانے والے ہیں
خطبات طاہر جلد 15 446 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء وہ اور اچھے لباس پہن کر یا اپنی دولت کے برتے پر خدمتیں کرتے ہیں تبلیغ کی خاطر لیکن اندر سے و صفات باری تعالیٰ سے عاری ہوتے ہیں ان کی ان سب کوششوں کو خدا رائیگاں کر دیتا ہے.اس کو کوئی بھی پھل نہیں لگتا چنانچہ ضیافت کرنے والے دو قسم کے میں نے دیکھے ہیں.بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے تو مہمان نوازی کی بھی حد کر دی، بڑا خرچ کیا ان لوگوں پر، بڑی خدمتیں کی ہیں، کوئی سنتا ہی نہیں کسی کو دلچسپی ہی نہیں ہے.ایک صاحب جن کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ان پڑھ یا قریباً ان پڑھ اپنے آپ کو کہتے تھے میں تو کورا چٹا بالکل لیکن غیر قوموں کو جن کی زبان بھی وہ نہیں جانتے ان کو کامیابی سے تبلیغ کرنے والے یہاں تک کہ ایک سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تمہیں پھل انہوں نے جماعت کی خدمت میں پیش کر دئے.بڑے مخلص اور باعمل اور نیک لوگ.ان سے میں نے پوچھا کیا بات آپ کیا کرتے ہیں.انہوں نے کہا آتا جاتا مجھے کچھ نہیں صرف پیار کے ساتھ کہتا ہوں جی بات سچی سن لو، ہماری بات.یہ کہ دیتا ہوں مجھے بات نہیں آتی ہماری ویڈیو دیکھ لو ہمارے گھر کھانا کھالو یہی میری تبلیغ ہے.لیکن چونکہ ان کے اندر نیکی اور سچائی ہے اس لئے ان دو تین باتوں کا اتنا گہرا اثر پڑ جاتا ہے ان لوگوں پر کہ وہ گھر کا کھانا کھاتے ہیں تو دراصل وہ اسلام کی غذا کھارہے ہوتے ہیں.ویڈیودیکھتے ہیں تو وہ اسلام کو جلوہ گر دیکھ رہے ہوتے ہیں.ورنہ دیکھنے والے غلط نظریں لے کر آئیں تو وہی ویڈیو ان کو اور متنفر کر دیتی ہے.غلط ذوق لے کر آئیں تو وہی کھانا ان کو دھکیل دیتا ہے کہ یہ کیسا کھانا پکا ہوا ہے اس میں مرچوں نے میر استیا ناس کر دیا.مگر وہاں کے جو لوگ ہیں جن کو مرچوں کی عادت نہیں پیار سے پیش کئے ہوئے کھانے کو بڑی محبت سے کھاتے ہیں اور پھر بہت تیزی کے ساتھ ان کی دعوت الی اللہ ان کے دل پر اثر کرنے لگتی ہے.پس وسیلہ بننے کے لئے ظاہری اخلاق کام نہیں آتے وہ گہرے اخلاق کام آتے ہیں جو ذات باری تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ کے تصور میں ان کی جڑیں ہوں اور ظاہر ان کی تمیز کرنا، ان کا فرق کرنا الفاظ میں ممکن نہیں ہوتا.ایک آدمی جی آیاں نوں کہہ کے بات کرتا ہے.”حاضر سائیں کہتا ہے.ایک دوسرا بھی کہتا ہے.ایک کے کہنے میں تصنع دکھائی دیتا ہے، بناوٹ کی بات نظر آتی ہے اور انسان ذرا بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا.بعض بڑے بڑے لفاظیاں کرنے والے، بڑے بڑے جھک کر کلام کرنے والے ایسے ہمارے ملک میں موجود ہیں جن
خطبات طاہر جلد 15 447 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء کا وہ جھکنا ، جن کا کلام کرنا ہی نہایت ہی کراہت پیدا کرتا ہے اور دل متنفر ہو جاتا ہے کہ ان کی صحبت سے کسی طرح نجات ملے.بات بات پہ وہ حضور کہیں گے.کہیں گے ہم حاضر ہیں ، ہم خدمت کے لئے ، ہم حقیر چیز ہیں ہمارا کچھ بھی نہیں ہے جناب ہی جناب ہیں، جناب والا ہی کی سرکار ہے آپ کا ہی حکم چلتا ہے اور جتنا وہ کہتے ہیں اتنا دل متنفر ہوتا چلا جاتا ہے کناروں تک بھر جاتا ہے اور لگتا ہے قے کر دے گا آدمی اور کچھ لوگ سادہ سی ایک آدھ بات کرتے ہیں جی جیسا فرما ئیں گے.اتنی اس میں طاقت ہوتی ہے کہ انسان جانتا ہے کہ اگر ان سے جان پیش کرنے کا کہیں گے تو جان ہی پیش کریں گے.اب کہاں ان کی بات کہاں ان پہلوں کی بات زمین و آسمان کا فرق ہے ان کے نتائج میں اور اخلاق کی تعریف سچائی کے سو ممکن ہی نہیں ہے اور سچائی کی تعریف خدا کے حوالے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.پس ہر وہ خلق سچا ہے جو سچائی اپنے اندر رکھتا ہے اور ہر وہ خلق سچا ہے جس کی سچائی کا خدا کی ذات سے تعلق ہے.وہ سچائی غیر مبدل ہے اس سچائی کو کسی اور کی لالچ نہیں.اس کا استغناء بھی اپنے اندر ایک عجیب شان رکھتا ہے.ورنہ کوئی شخص آپ سے مستغنی ہو جائے تو آپ کو اس میں دلچسپی نہیں رہے گی.مگر خدا مستغنی ہے اور پھر بھی دلچسپی ہے.وہ مستغنی ہے آپ کے ظلموں سے ، آپ کی وہ بد کرداریوں سے.آپ ٹھو کر والی بات بھی کرتے ہیں تو وہ پھر بھی احسان کا سلوک جاری رکھتا ہے.تو استغناء کیا ہے؟ اس کی حقیقی تعریف بھی اللہ کے حوالے سے ہی سمجھ آتی ہے.بعض لوگ آپ سے زیادتی کرتے ہیں آپ اس کے باوجود ان سے حسن سلوک کرتے چلے جاتے ہیں اور دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ آپ کے مزاج میں یہ بات داخل ہے.میرے سامنے بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ لوگ حیران ہوتے ہیں ہمیں غصہ آتا ہی نہیں جتنا وہ کوشش کر لیں وہ ہمیں چھیڑتے ہیں کہ کیا ہو گیا ہے تمہیں.تمہیں غصہ کیوں نہیں آتا.تو ان کو ہم کیسے سمجھائیں کہ ہمارے مزاج میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہی نہیں ہوئی.ہم ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں، بے عزتی بھی برداشت کر جاتے ہیں اور ایسے لوگ پھر ہر دلعزیز ہوتے چلے جاتے ہیں.پس آپ کی ذات میں جو دلچسپی ہے حسن خلق سے تو ہے لیکن اس حسن خلق سے جو اللہ کی طرف بلانے والے کے اندر ہونا چاہئے.جس ذات کی طرف سے کوئی آیا ہے ،اس کا پیمبر بن کے آتا ہے اور اس کا پیمبر بنتا ہے تو پھر اس کے ہرحسن کی جس کی وہ تعریف کرتا ہے کوئی جھلک اس کی ذات میں ملنی چاہئے اور وہ جھلک جو ہے وہ دنیا کے حسن سے ممتاز
خطبات طاہر جلد 15 448 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء اور بالکل الگ ہے، کوئی ان میں اشتباہ نہیں ہوسکتا.پس وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ دنیا میں بھی بڑے نیک لوگ موجود ہیں وہ کیوں ہم سے افضل یا بہتر نہیں ہیں جبکہ وہ بعض خوبیوں میں ہم سے بڑھ گئے ہیں تو ان کو علم نہیں ہے کہ ان کا حسن ایک خالی حسن ہے جس کے اندر خدا کے نور کی سچائی نہیں ہے اور اگر خدا کے نور کی سچائی نصیب ہو جائے تو ضرور وہ چمک اٹھیں گے.اس میں کوئی شک کی بات نہیں.پس اپنی تبلیغ میں وہ کردار پیدا کریں جس کردار کو آپ الہی صفات کی جھلک قرار دے سکتے ہیں.الہی صفات کا پوری طرح جلوہ گر ہونا تو آپ کے بس کی بات نہیں ہے.مگر کوشش کرنا آپ کے بس کی بات ہے.یہ کہہ دینا کہ ہم حضرت محمد رسول اللہ نے نہیں بن سکتے یہ کہنا نیکی بھی ہو سکتا ہے اور ظلم اور گناہ بھی بن سکتا ہے.بعض لوگ یہ اس لئے کہتے ہیں کہ ہر بدی کے لئے ایک Licence صلى الله حاصل کر لیں.آپ ان سے کہیں کہ دیکھو سول اللہ ﷺ تو یوں کیا کرتے تھے کہ چھوڑ و جی کون رسول اللہ بن سکتا ہے اور تم کون سے بن گئے ہو.یہ بات محبت کی نہیں بے ادبی کی ہے.اس بات میں گہری گستاخی پائی جاتی ہے اور استغناء ہے وسیلے سے.یہ مستغنی اور ہے اور خدا کی ذات کے حوالے سے مستغنی بنے والا بالکل اور شخص ہوا کرتا ہے.ایسے شخص کو جب محمد رسول اللہ ﷺ کے کردار کا حوالہ دیا جائے جو حقیقت میں آپ سے پیار اور محبت رکھتا ہے تو وہ اس حوالے کے بعد یہ کبھی نہیں کہے گا کہ جی کون رسول اللہ اللہ بن سکتا ہے.ہو سکتا ہے کہ آپ کے سامنے آبدیدہ ہو جائے ہوسکتا ہے ،راتوں کو اٹھ کے روئے اور عرض کرے کہ اے خدا میں بنا تو چاہتا ہوں مگر میری مجبوری ہے، بے اختیاریاں ہیں ، تو میری مدد فرما کہ میں ویسا بن سکوں.یہ وہ شخص ہے کہ وہ جتنا بھی بنتا ہے اتنا ہی خدا اسے زیادہ مقبول بناتا چلا جاتا ہے.حسن کی تھوڑی جھلکی بھی اگر سچائی کی خاطر قبول کی جائے ،سچائی سے قبول کی جائے اس میں طاقت پیدا ہو جاتی ہے.پس ہر داعی الی اللہ اگر چہ حضرت محمد رسول اللہ ہی نہیں بن سکتا مگر اگر دل کی گہرائی سے بنا ضرور چاہتا ہے تو پھر اس کا تھوڑا بننا بھی بہت ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے تھوڑے میں بھی بہت برکت رکھ دیتا ہے.پس اس پہلو سے آپ کو دعوت الی اللہ کی حکمتوں کو تو سمجھنا ہوگا اس کے بغیر آپ کیسے دعوت الی اللہ کر سکیں گے.حکمتیں سمجھیں، ان کو اپنانے کی کوشش کریں.ان کو اپنی ذات میں جاری کریں اور پھر یہ دیکھیں کہ آپ کے اندر کوئی ایسی تبدیلی پیدا بھی ہوئی ہے کہ نہیں کہ آپ کی بات
خطبات طاہر جلد 15 449 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء میں کشش پیدا ہو جائے.اگر گھر میں ہی نہیں ہورہی تو باہر کیسے ہوگی.حلقہ احباب اگر محسوس نہیں کرتے تو دوسرے کیسے محسوس کریں گے.اس لئے تبدیلی ہونا ایک فرضی قصہ نہیں ہے یہ روز مرہ کے حساب کی بات ہے.وہ مومن جو اپنی ذات میں تبدیلی کرتا ہے وہ ہر وقت دیکھتا رہتا ہے، پرکھتا رہتا ہے.اس کی برائیاں کھل کر اس کے سامنے ہوتی ہیں.جو نہیں ہوتیں ان کی تلاش میں رہتا ہے، ان کی کھوج میں رہتا ہے اور پھر وہ ان کو اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اس سے بھی میں نے نجات حاصل کرنی ہے ، اس سے بھی حاصل کرنی ہے.پھر ان بھدے نقوش کو دور کر کے ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان داغوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے، دھوتا چلا جاتا ہے اور یہ جوزندگی بھر کا کام ہے یہ ہے وہ دعوت الی اللہ جس کا قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے.عَمِلَ صَالِحًا میں ہرگز یہ مضمون نہیں کہ کامل عمل صالح پر اسے اختیار نصیب ہو گیا ہے.دعوت الی اللہ دے کر عمل صالح کی طرف توجہ کرنا اور کرتے چلے جانا یہ وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ عَمِلَ صَالِحًا کو پہلے رکھتا اور پھر کہتا کہ دعوت الی اللہ دے رہا ہے.پھر ہم سمجھتے کہ دعوت الی اللہ دینے کا حق اس وقت قائم ہوگا جب آپ عمل صالح کا حق ادا کر چکے ہوں گے.مگر اس طرح تو پھر دنیا کی اکثریت دعوت الی اللہ سے محروم ہو جائے گی.دعوت الی اللہ عمل صالح کا احساس اور شعور بیدار کرتی ہے اور جب یہ شعور بیدار ہوتا ہے تو اس کی آواز پر لبیک کہنے والے وہ ہیں جو عَمِلَ صَالِحًا کا تعریف میں داخل کئے جاتے ہیں.اس شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ آپ کی ذات میں ایک ارتقائی عمل شروع ہو جاتا ہے اور جب آپ اس عمل کے نتیجے میں اپنے آپ کو ایک خوبی پر پوری طرح مستحکم دیکھتے ہیں تو دل کی بے اختیار یہ آواز نکلتی ہے اِنَّنِى مِنَ الْمُسْلِمِینَ کہ میں تو مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں.پس اس کیفیت کے ساتھ دعوت الی اللہ کو سمجھ کر آپ تبلیغ کریں تو پہلے اپنی تربیت کی توفیق ملے گی پھر دعوت الی اللہ کی توفیق ملے گی، پھر وہ جو دعوت الی اللہ میں آپ کی آواز پر لبیک کہہ کر آئے ہیں ان کی تربیت کی بھی آپ کو توفیق ملے گی.یہ وہ تیسری بات ہے جس سے میں نے آغاز کیا تھا مگر پہلی دو باتیں سمجھائے بغیر اس تک پہنچ نہیں سکتا تھا.نئے آنے والے کثرت سے آرہے ہیں اور ان کی تربیت کے تقاضے پھیلتے جا رہے ہیں اور
خطبات طاہر جلد 15 450 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء ب سے زیادہ مشکل وہاں ہے جہاں تو میں داخل ہو رہی ہیں.ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی طرف رجوع کر رہے ہیں.ان سب کو عمل صالح کی تلقین کرنا محض تلقین کے طور پر کافی نہیں.وہ نیک نمونہ جس نے ان کو کھینچا تھا اس نیک نمونے کو ان میں جاری کرنا اور ان کے لئے اس نمونے کو ان کا عرضہ بنادینا وہ مقصود بنادینا، جو اس کی پیروی کریں یہ ضروری ہے.مگر انفرادی تبلیغ میں تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے اگر ایک انسان نیت رکھتا ہو.لیکن اجتماعی تبلیغ میں مشکل پیش آجاتی ہے اور اس وقت میرے پیش نظر صرف انفرادی تبلیغ نہیں بلکہ وہ دنیا کے علاقے ہیں جو امریکہ میں تو ابھی نہیں مگر افریقہ میں کثرت سے ہیں اور بعض مشرقی ممالک میں بھی پیدا ہور ہے ہیں یعنی غیر افریقی ممالک میں بھی اور یورپ میں بھی بعض علاقے ایسے ابھر رہے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے بکثرت لوگ احمدیت کی طرف رجوع کر رہے ہیں.جن کا رجوع فوج در فوج کہلا سکتا ہے.ان کی تربیت کا کیا طریق ہے؟ کیونکہ ان تک تو آواز پہنچانے والے چند تھے اور ان چند کے لئے ممکن نہیں ہے کہ اپنے نمونے ان سب کو عملاً دکھا کر ان کا مزہ ان کو چکھا سکیں اس لئے وہ ان کی نظر میں اجنبی رہتے ہیں.ابھی حال ہی میں البانیہ ہم نے ایک وفد بھجوایا اور اسی غرض سے کہ وہاں کے تبلیغی اور تربیتی تقاضوں کو زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو پتا چلا کہ اکثر لوگ جو ہیں وہ احمد بیت کو قبول تو کر چکے ہیں لیکن ان کے سامنے وہ احمدیت کا عملی زندہ نمونہ موجود نہیں ہے جو دراصل اب ان کو سنبھالنے کے لئے ضروری ہے.سوال یہ ہے کہ قرآن کریم اس مسئلے کا کیا حل پیش فرماتا ہے.اس مسئلے کا حل قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ تم ان تک پہنچتے رہو گے تو یہ کافی نہیں ہوگا.اب ان کا فرض ہے یا تمہارا فرض ہے کہ یہ انتظام کرو کہ وہ تم تک پہنچیں اور انہی میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں جو نیک اعمال کے نمونے دکھا سکیں اور پھر نیکی کی طرف بلاسکیں.یہ وہ حیرت انگیز نظام ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے اور جہاں تک میرا مذہب کا مطالعہ ہے مجھے کہیں اور دکھائی نہیں دیا کہ باہر سے لوگ آئیں، وفود کی صورت میں آئیں تمہارے پاس ٹھہریں تربیت حاصل کریں اور پھر واپس اپنی قوم کی طرف جا کر ان کے سامنے وہ پختہ باتیں دکھائیں جن کی تائید ان کے عمل کر رہے ہوں.یہ وہ طریق ہے.ایک یہ طریق ہے جو آج جماعت احمدیہ کے کام آسکتا ہے.چنانچہ اس طریق پر عمل کروانے کے لئے گزشتہ سال
خطبات طاہر جلد 15 451 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء جن جماعتوں کو میں نے ہدایت دی ان میں سے جنہوں نے عمل کیا وہ حیران رہ گئے کہ کتنا حیرت انگیز پاک نتیجہ ظاہر ہوا اور دہشت زدہ ہو گئے یہ دیکھ کر کہ اگر یہ نہ ہوتا تو ہماری تبلیغ ساری بے حقیقت ثابت ہو جاتی.بعض علاقے تھے جہاں ستر ہزار، ایک علاقے کے لوگ ہیں جنہوں نے اکٹھے احمدیت کو قبول کر لیا اور جماعت یہ سمجھی کہ الحمد للہ بہت بڑی کامیابی ہوئی.چونکہ واقعہ وہ احمدی ہوئے تھے اس لئے اس میں کوئی جھوٹ نہیں تھا کوئی مبالغہ نہیں تھا، رپورٹ بھیجنے کا حق بھی تھا لیکن جب یہ نصیحت میں نے کی کہ ان کے آدمی بلائیں اور ان کی تربیت کا انتظام کریں پھر ان کو سکھائے ہوئے پرندوں کی طرح جو ابراهیمی طیور ہیں واپس اپنی جگہ بھیج دیں پھر وہ ہمیشہ آپ کے رہیں گے.پھر جب آپ ان کو بلائیں گے تو ضرور لبیک کہیں گے اور جہاں جہاں جا کر ٹھہریں گے وہاں اپنے جیسے پاک نمونے پیدا کریں گے.جب یہ انتظام شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی خود آنکھیں کھل گئیں کہ یہ لوگ جو تربیت کے لئے آئے تھے اور وہ تھے جو چنیدہ تھے ، جو اپنی قوم میں سے خاص اچھے سمجھے گئے تب ہی ان کو بلایا گیا تھا اکثر خالی تھے ان کو بعض بنیادی باتوں کا علم ہی کوئی نہیں تھا اور پھر نظام جماعت کے آداب کا علم نہیں تھا کیونکہ نظام جماعت کے آداب کا علم تمام نیکیوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے، تقویٰ کی حفاظت کے لئے ضروری ہے اور مستقل تسلیم ورضا کے نظام کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے.اس لئے اس کا فقدان بہت ہی خطرناک فقدان ہے.جب وہ آئے تو اس کے بعد دیکھتے دیکھتے رپورٹوں سے پتا چلا کہ ان کی تو کایا پلٹ گئی ، ان کے آثار ہی بدل گئے اور واپس اس حال میں جارہے تھے کہ اچھلتے کودتے.اب مزہ آئے گا ہمیں تبلیغ کرنے کا.اب ہمیں لوگوں کی تربیت کا لطف آئے گا پہلے تو ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے.چونکہ یہ بھی اب ممکن نہیں رہا کہ ہر ملک کے مرکز میں تمام ایسے لوگوں یا قوموں کے نمائندوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکے جنہوں نے واپس جا کر پھر قرآن کے بیان کے مطابق یا قرآن کے سکھائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی اپنی قوم کی تربیت کرنی ہے.اب ہم نے یہ حل نکالا ہے کہ ہر علاقے میں ایک مرکز بنایا جائے اور وہ احمدیت کا مرکز ہو جہاں ہمہ وقت تربیت کے دور چلتے چلے جائیں.وہاں کچھ لوگ ایسے تربیت یافتہ بٹھا دئے جائیں جن کا کام ہی یہ ہو کہ لوگ باہر سے آئیں، ان کے پاس رہیں ، پندرہ پندرہ دن ہیں ہیں دن کے لئے مہینہ دو مہینہ ٹھہر سکتے ہیں تو اور بھی
خطبات طاہر جلد 15 452 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء بہتر ہے.ان کی رہائش کا انتظام ہو، ان کے کھانے کا انتظام ہو اور وہ تربیت حاصل کر کے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹیں.ورنہ آپ کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا کہ افریقہ کے ممالک میں رسل ورسائل کی کیا حالت ہے اور ایک علاقہ جس کو میں ستر ہزار کا علاقہ کہتا ہوں وہ ایک جگہ نہیں ہے، وہ پھیلا پڑا ہے جنگلوں میں.ان میں سے ہر گاؤں ہزار بارہ سو یا آٹھ سو افراد پر مشتمل ہے وہ آپس میں کئی کئی میل کے فاصلے پر بھی ہو سکتا ہے اور دشوار گزار راستے ہیں ان کو باہر سے جانے والا طے بھی نہیں کر سکتا آسانی سے اور پھر رستے کے خطرات کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا.وہ اس طرح احمدی ہوئے کہ ان کے لیڈرز ایک جگہ اکٹھے ہوئے تھے اور بات سنی اور پورے اطمینان سے احمدیت کی تائید کی اور اپنے سارے علاقے سے پوچھا اور ان کے نمائندے بلوائے اور ان سے پوچھا اور سب نے جب توثیق کی تب وہ احمدی شمار ہوئے لیکن تربیت کے لئے اب احمدی مبلغین جو تربیت یافتہ ہیں ان کی تعداد کیا ہے اور حیثیت کیا ہے.کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ.وہ اتنے بڑے قافلوں کے کام آ سکتا ہے؟ وہ اتنی بڑی فوجوں کی بھوک مٹاسکتا ہے؟ ممکن ہی نہیں ہے.مگر قرآن نے یہ مضمون سکھا کر کتنا آسان کر دیا.فرمایا ان کو کہو وہ آئیں اور ان کے لئے مراکز قائم کرو.وہ تربیت پائیں اور پھر واپس جائیں.وہ جانتے ہیں اپنی قوم کے اسلوب کو ، اپنی قوم کی زبان کو ، اس کے اطوار کو ، وہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر کیا کیا برائیاں ہیں.وہ اگر ان کی برائیاں کہیں کہ یہ برائیاں ہیں تو وہ مان جائیں گے اور بسا اوقات تم کہو گے تو وہ برا منائیں گے.پس ان وفود کو بلا کر یہ بھی تجربہ ہوا کہ بڑے بڑے نیک لوگ جو بڑے اخلاص سے احمدی ہونے والے تھے جب بعض رسموں کے خلاف ان سے بات کی تو بھڑک اٹھے ابتداء میں، کہ نہیں نہیں یہ غلط ہے ہمیں تو یہی سکھایا گیا ہے، یہی اسلام ہے کہ جب کوئی فوت ہو تو اتنے بکرے لوگوں کو کھلاؤ اور اتنے پیسے آئمہ کو تقسیم کرو اور ساتویں دن یہ کرو اور بارھویں دن یہ کرو.یہ سارے قصے اپنے اپنے خیالات کے مطابق مختلف ملکوں میں رائج ہیں اور بعض ظالمانہ ایسی رسوم بھی ہیں جو محض یہ نہیں کہ سنت نہیں ہے بلکہ سراسر سنت کے مخالف ہیں.تو ان کی تربیت میں وہاں پتا چلا جب وہ چند تھے کہ اگر ان کی قوم کے اندر رہتے ہوئے ان سے یہ ساری بات کی جاتی تو ساری قوم نے ان کی تائید میں اٹھ کھڑے ہونا تھا اور ہرگز بعید نہیں تھا کہ یہ تربیت ارتداد کا موجب بن جاتی.مگر چونکہ احمدی ماحول جو
خطبات طاہر جلد 15 453 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء مرکزی ماحول تھا اس کے غلبے کے اندر آئے ہوئے تھے، مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ، اپنی حدود کو سمجھتے تھے اور سارا ماحول جوارد گر د تھا جو ان کی کلاسوں میں آیا بھی کرتا تھا جن سے روز ملاقاتیں ہوتی تھیں اور سارے انہی عقائد کے قائل تھے جو جماعت ان کو سکھا رہی تھی تو اس سے وہ مرعوب ہو گئے اور زیادہ پھر اصرار نہیں کیا بدیوں پر.جب ان لوگوں نے جا کر ان کو سکھایا کہ ہم یہ سیکھ کر آئے ہیں ہم واقعہ غلط سمجھتے تھے تو ان کی باتوں کا نیک اثر ہوا.اور قرآن کریم جب یہ تعلیم دیتا ہے تو اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے اور عجیب کامل کتاب ہے.کوئی بھی ایسی تعلیم نہیں جس کی ایک نہایت ہی اعلیٰ اور پاکیزہ مثال ہمارے سامنے نہ رکھ دی ہو.اس مضمون کی مثال ان جنوں کے واقعات میں دی گئی جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.بعض لوگ انہیں جنوبی عرب کے قبائل قرار دیتے ہیں مگر زیادہ مستند تحقیق یہ ہے کہ وہ افغانستان کا ایک وفد تھا اور پٹھان قبائل تھے چونکہ یہ روایت سارے افغانستان میں تمام قبائل میں موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہمارا ایک وفد مخفی طور پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور انہوں نے واپس آکر جب تعلیم دی تب ہم مسلمان ہوئے ہیں.اب یہ اگر ایک فرضی روایت ہوتی تو چند قبائل کی ہو سکتی تھی ساری قوم کی متفق علیہ گواہی نہیں بن سکتی تھی اور قرآن کریم نے جو ذکر فرمایا ہے وہاں یہ بات بطور خاص ہے کہ ان کی Identity مخفی رکھی گئی ، ان کے تشخص کو ظاہر نہیں فرمایا گیا.یہاں تک آنحضرت ﷺ ایک صحابی کو ساتھ لے کر چلے تو اسے دور کھڑا کر دیا کہ اب یہاں سے آگے تم نے قدم نہیں رکھنا.میں اکیلا جاؤں گا اور پھر ساری رات ان سے تبلیغ کی ہے.وہ زبان سمجھنے والے ہوں گے، کوئی ایسے مترجمین ان کے ساتھ ہوں گے.جو بھی صورت تھی وہ جب واپس گئے ہیں تو قرآن کریم فرماتا ہے یہ باتیں کر رہے تھے کہ ہم بھی کیسے پاگل تھے یہ یہ رسمیں، یہ یہ خیالات ہم میں پائے جاتے تھے.اب عرب وفد اگر کوئی جاکے افغانستان میں جن کے آغاز ہی سے شدید مزاج ہیں باتیں کرتا تو شاید زندہ بیج کے واپس نہ آتا.مگر قوم نے جو وفد بھیجا تھا جب وہ سیکھ کر واپس گیا ہے تو قرآن کہتا ہے کہ بڑے عزم کے ساتھ وہ یہ کہتے ہوئے واپس جارہے تھے کہ ہاں ہم جا کے قوم کی اصلاح کریں گے.بتائیں گے کہ پاگل تھے وہ ہمارے آبا ؤ اجداد جو یہ یہ باتیں کیا کرتے تھے یہ یہ سوچا کرتے تھے ، اصل حقیقت یہ ہے اور اسی وقت انہی
خطبات طاہر جلد 15 454 خطبہ جمعہ 7 / جون 1996ء صلى الله باتوں کے درمیان ختم نبوت کا مسئلہ بھی حل کر جاتے ہیں.وہ جو بیوقوفیاں آباؤ اجداد کی تھیں ان میں ایک یہ بھی بیان کرتے ہیں.عجیب بے وقوف لوگ تھے کہتے تھے اب نبی کبھی خدا نہیں بھیجے گا اور دیکھو نبی سے مل کر آ رہا ہے.تو یہ ختم نبوت کا عقیدہ ہے مولوی جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے بعد جاری ہوا.قدیم سے اس قسم کے عقیدے مختلف رنگوں میں قوموں میں پائے جاتے تھے.پس رسول اللہ ﷺ نے اس کی تردید فرمائی اور یہ بات اپنے پلے باندھ کر وہ واپس لوٹے کہ اس قسم کی ختم نبوت کوئی چیز نہیں کہ جس کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے ہدایت دینے والے ہی بند ہو جا ئیں.نئے مذہب کی بات اور ہے مگر ہدایت دینے والے خدا کی طرف سے آنے لازم ہیں.تو دیکھو وہ وفد کا طریق جو خدا نے ہمیں سکھایا اس کی ایک سچی حقیقی مثال ہمارے سامنے تاریخ اسلام سے رکھ دی کہ اسی طرح تم سے بھی ہو گا.تم اس طرح تربیت کے انتظام کرو گے تو پھر یہ لوگ بڑے اعتماد کے ساتھ واپس جا کر اپنی قوم کی بدیوں کو دور کریں گے.الحمد للہ غانا نے بڑی ہی سعادت مندی سے اس سکیم پر عمل کیا ہے اور ان کے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ حیرت انگیز فائدے پہنچے ہیں.پس باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی خواہ وہ مغرب کی ہوں یا مشرق کی ہوں میں یقین دلاتا ہوں کہ دعوت الی اللہ اگر آپ ڈھب سے کریں گے تو جب تک قرآن کے بیان کردہ طریق پر آنے والوں کی تربیت کا انتظام نہیں کریں گے ہو سکتا ہے کہ جو بیج آپ ہوتے چلے جائیں وہ آگ بھی جائے تو پیچھے جانور اسے چر جائیں یا پرندے کھا جائیں آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے.پس یہ وہ منتظم مربوط نظام ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جو بقیہ وقت ہے ہمارا تبلیغی سال پورا ہونے میں اس میں جماعتیں پورے زور سے کوشش کریں گی اور افراد بھی اور افراد کی ذمہ داری اس لئے اہم ہے کہ جب تک وہ اپنے اخلاق اور اعمال میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے جماعت میں طاقت پیدا ہو ہی نہیں سکتی.جماعت نام ہے افراد کے مجموعے کا اور جو اجتماعی حسن ہے اس میں بڑی طاقت پیدا ہو جاتی ہے مگر وہ حسین قطروں سے بن کر بنا کرتا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 455 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء کسی امارت پر فائز ہونے پر بہت گہرے تقاضے ہیں انہیں لازماً پورا کرنا ہوگا.( خطبه جمعه فرموده 14 / جون 1996ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبات میں جرمنی کے سفر کے دوران بھی اور بعد ازاں بھی میں نے جماعت کو امارت کی عزت اور احترام کی طرف توجہ دلائی اور جماعت کو نصیحت کی کہ اپنی اطاعت میں محبت اور خلوص کا رنگ پیدا کریں کیونکہ یہی کچی اور حقیقی اطاعت ہے جو انسان کو ابتلاؤں سے بچاتی ہے.اگر محض میکانیکی یعنی مینیکل اطاعت ہو تو ایسی اطاعت بعض دفعہ ٹھوکر کے مقام پر انسان کو سہارا نہیں دے سکتی اور معمولی عذر پر بھی انسان اپنی اطاعت کا تعلق تو ڑ کر خودسری کی طرف مائل ہو جاتا ہے یعنی جہاں محبت اور ادب کے رشتے ہوں وہاں یہ دونوں رشتے اطاعت کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے اندر ایک وارفتگی سی پیدا کر دیتے ہیں ، ایک ایسا رجحان جس کے بعد انسان اطاعت کی سختیوں کو برداشت کرنے کا اہل ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ماں کو جو تربیت میں مرتبہ اور مقام حاصل ہے اتنا کسی اور رشتے کو نہیں کیونکہ ماں کی سختیاں بسا اوقات رد عمل کے بغیر بچہ جھیلتا ہے اور جہاں ردعمل دکھاتا ہے وہاں ماں کا کوئی قصور ہوا کرتا ہے.وہ ماں جو فطری تقاضے پورے کرتی ہے، بچوں سے پیار اور محبت کے تعلق قائم رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کا خیال رکھتی ہے اس ماں کے بچے بختی کے وقت بھی دکھ تو محسوس کریں گے، بغاوت نہیں کریں گے.پس جہاں جماعت کو میں نے توجہ دلائی ہے وہاں اب میں امراء کو بھی نصیحت کرنا چاہتا ہوں بلکہ ہر جماعتی عہد یدار کو کہ اس نے اگر خدمت لینی ہے اور اطاعت کے اعلیٰ نمونے دیکھنے ہیں تو
خطبات طاہر جلد 15 456 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء خود اس کے لئے لازم ہے کہ اول وہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ بنے.یعنی اپنے سے بالا ، اس پر نظر رہے اور وہ بہترین اطاعت کا ایک نمونہ بن جائے اور دوسرے جس طرح آنحضرت مے کے لئے اطاعت کا حکم ہے آپ کے لئے اگر ہے تو اس کے تابع ہی ہے مگر اس کے ہم مرتبہ نہیں ہوسکتا.گو منطقی نقطہ نگاہ سے ہم کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں آپ کے مقرر کردہ امراء کی اور غلاموں کی اطاعت بھی داخل فرما دی گئی ہے اس لئے ان سب امراء کو جو نظام جماعت کے نمائندہ ہیں یا صدر ہیں یا قائدین ہیں یا زعماء ہیں یا لجنہ کی صدرات ہیں ان سب کو اطاعت کا اپنے منصب کے لحاظ سے ایک حق حاصل ہو گیا ہے اور اس میں ان کی ذات کا کوئی دخل نہیں.یہ نصیحت جہاں میں کر رہا ہوں وہاں یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ اہم ترین اطاعت کا حکم حضرت محمدﷺ ہی کے لئے ہے اور آپ ہی کی ذات کے حوالے سے پھر آگے یہ حکم پھیلا ہے.مگر آپ کے متعلق بھی قرآن کریم نے متنبہ فرمایا کہ اگر تجھے وہ رحمت کا دل نہ دیتے جو ہر وقت ان پر جھکا رہتا ہے، ہر وقت ان کے خیال میں مگن رہتا ہے ، ان کی تکلیف تجھ پر مصیبت بن جاتی ہے عَزِيز عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ (التوبہ: 128 ) جو دکھ اٹھاتے ہیں تجھے بھی مصیبت پڑ جاتی ہے.اگر یہ نہ ہوتا اس قسم کی کیفیات تو تیری اعلیٰ عظمت اور تیرے متعلق خدا تعالیٰ کے اعلیٰ فرمان بھی ان کو اکٹھے نہ رکھ سکتے اس لئے کہ تو تو صحت مند ہے یہ سارے صحت مند نہیں اور جو علی صحت اطاعت کے لئے درکار ہے جو ہر ٹھوکر سے بالا ہو جاتی ہے، ہر ابتلاء سے ثابت قدم گزرتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور وہ صحابہ اکرام جو آنحضرت ﷺ کی صحبت میں قریب تر رہتے تھے ان کا ایک الگ مرتبہ تھا.ان کے متعلق اس آیت میں ہرگز یہ نہیں فرمایا گیا کہ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ( آل عمران: 160 ) انہوں نے تو رہنا ہی تھا ساتھ.ان پر تو یہ مضمون صادق آتا تھا کہ ”ہمیں تو را ہرووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا یعنی محبوب کی گلیوں میں.اس لئے قرآن کریم کی ہر آیت کو اس کے موقع محل کے مطابق چسپاں کرنا چاہئے لیکن ایک بڑی جماعت ایسی تھی جو تربیت میں وہ مرتبہ نہیں رکھتی تھی.وہ ہر لمحہ دلداری کے محتاج تھے اور دلداری کے رستوں سے وہ رفتہ رفتہ محمد رسول اللہ ﷺ کے قریب آتے رہے، قریب تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ پھر اس مرتبہ اور مقام پہ پہنچے کہ جس کے متعلق قرآن کریم نے ان کے ثبات قدم کی گواہیاں دیں.پس وہ جو مضمون ہے وہ عمومی تربیت
خطبات طاہر جلد 15 457 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء کا مضمون ہے کہ جو امیر مقرر ہو اور خاص طور پر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے امیر مقرر ہو اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.انسانی فطرت کو نظر انداز کر کے محض اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے مامور بنا دیا ہے وہ یہ سمجھے کہ اب ہر شخص کا فرض ہے میری اطاعت کرے اور اطاعت میں حد کمال کو پہنچ جائے مگر میں بس صرف ما مور بن کر بیٹھا رہوں گا میرا کام اطاعت قبول کرنا ہے اس سے بڑھ کر نہیں.یہ درست نہیں ہے.یہ فطرت انسانی کے خلاف بات ہے اور قرآن فطرت کے مطابق ہے.الله اور قرآن یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خدام میں جو اطاعت کے بے مثال نمونے تم دیکھتے ہو اس میں تم ان کے لئے جتنی بھی دعائیں کرو بے شک کرو مگر یاد رکھو کہ اس کا اصل کریڈیٹ ،اس کا اصل سہرا حضرت محمد رسول اللہ کے سر پر ہے کیونکہ آپ نے اپنے پیار محبت، مغفرت عفواور ان کی خاطر تکلیفیں اٹھا کر خود ایک مقام پیدا کر لیا اور ایک ایسا مقام پیدا کیا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی یہ صفات نہ ہوتیں تو ان میں جو نمونے تم دیکھتے ہو وہ نظر نہ آتے.پس یہ ان کی ذاتی خوبی نہیں.یہ اطاعت بھی محمد رسول اللہ اللہ کے حسن کا ہی ایک عکس ہے.تو یہ آیت کریمہ ہمیں اس طرف بھی متوجہ کر رہی ہے کہ ہر وہ شخص جو مامور ہے کسی پہلو سے خواہ محدود دائرے میں ہو، ایک زعیم بھی جو انصار اللہ کا زعیم ہے وہ بھی محدود دائرے میں ایک مامور ہے، ایک زعیم بھی جو خدام الاحمدیہ کا زعیم ہے وہ بھی تو اپنے دائرے میں اور محدود دائرے میں ایک مامور ہے.تو ہر شخص جس کا حکم مانا جائے اسے مامور کہا جاتا ہے یعنی اس کی بات مانی جائے گی.ان معنوں میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کوئی منصب ماموریت عطا فرمایا ہے جو انبیاء کو دیا جاتا ہے، یہ الگ مضمون ہے.مگر مامور کا عام معنی یہی ہے کہ اپنے دائرے میں صاحب اختیار ہو ، صاحب امر ہو.اس پہلو سے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہوا سے یاد رکھنا ہوگا کہ جن لوگوں پر مامور ہے ان کے دل جیتنے میں اسے لازماً محنت کرنی ہوگی اور ان کے طبعی فطری تقاضے پورے کرنے ہوں گے.پس وہ امیر جو امیر بن کر یہ اہم اور بنیادی نکتہ نظر انداز کر دیتا ہے وہ بیوقوف بھی ہوگا اور ایک قسم کا اس میں تکبر بھی پایا جائے گا.بیوقوف اس لئے کہ جو مرکزی نکتہ قرآن کریم نے بار بار سمجھایا جس کے بغیر امارت مکمل ہو ہی نہیں سکتی اسے نظر انداز کر بیٹھا ہے اور تکبر ان معنوں میں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرآن یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ صفات تجھ میں نہ ہوتیں تو انہوں نے بھاگ جانا تھا ، اپنے متعلق وہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ مجھ میں نہ بھی ہوں تو فرق کوئی نہیں پڑتا انہوں نے مانی ہی
خطبات طاہر جلد 15 458 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء مانتی ہے.اگر وہ مانتے ہیں تو پھر تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ عمومی نظام جماعت کی برکت سے مانتے ہیں اور وہ بھی آنحضرت ﷺ کی خاطر مانتے ہیں.وہ دہرے ثواب کماتے ہیں اور تم مجرم بن جاتے ہو.پس کسی امارت پر فائز ہونا کوئی معمولی امر نہیں ہے، اس کے بہت گہرے تقاضے ہیں، انہیں لازماً پورا کرنا ہوگا.مگر جہاں تک نافرمانی والے کا تعلق ہے اس کا یہ عذر کبھی قبول نہیں ہوسکتا کہ چونکہ اس نے مجھ سے حسن سلوک نہیں کیا تھا اس لئے میں نافرمانی کا حق رکھتا ہوں.یہ بات بھی یاد رکھیں.قرآن کریم نے ان کو جو رسول اللہ ﷺ کی اگر سختی کی وجہ سے دور ہٹے ہوں ہرگز یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ ان کو ہٹنے کا حق تھا.ان کی ایک نفسیاتی کمزوری بیان فرمائی ہے.ورنہ جو اطاعت کا اعلیٰ حق ہے اس میں کسی شخص کی ذاتی کمزوری یا ذاتی صفات کا کوئی بھی دخل ہونا نہیں چاہئے.اطاعت کے زاویے سے دیکھیں یعنی مطیع کے زاویے سے دیکھیں تو پھر یہ مضمون یوں نکلے گا کہ مطیع کو اگر اس کا مطاع یعنی جس کو امر کا اختیار دیا گیا ہے باوجود اس کے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا اپنے دائرہ اختیار میں حکم دیتا ہے تو مطیع کا فرض ہے کہ لازما قبول کرے اور یہ عذر نہیں رکھے کہ چونکہ اس نے مجھ سے حسن سلوک نہیں کیا اس لئے میں حق رکھتا ہوں کہ اس کی اطاعت سے باہر چلا جاؤں.یہ حق قرآن کریم نے کہیں بھی کسی کو نہیں دیا.جہاں تک مومن کا تعلق ہے ان کی ایک ہی آواز بیان فرمائی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ کی آواز کے تابع اٹھی اور یک جان ہو کر اٹھی ہے اور یہ آواز تھی سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة: 286) ہمیں تو اس کے سوا کچھ نہیں پتا.ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی.جو سنا اس پر عمل کیا.سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ اور سنے اور اطاعت ہی میں اے رب ہمیں تیری غفران کی حرص ہے.ہم جو سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں تو اس غرض سے نہیں کہ جس کی اطاعت کرتے ہیں اس سے کوئی فیض ہمیں پہنچے گا یا اس کی محبت بذات خود ہمارا مطمع نظر ہے.یہ سب کچھ تو اس لئے ہے کہ غُفْرَانَكَ رَبَّنا تا کہ تو ہم سے مغفرت کا سلوک فرمائے.وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ہم نے آخر تیرے حضور پہنچنا ہے.سارا حساب کتاب تیرے حضور پیش ہوگا.تو سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا کا مضمون ایک وہ ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے خدا تعالیٰ کی جانب رخ سے ہمیں معلوم ہوا.جب خدا کی طرف اپنا رخ فرمایا تو ہر وہ شخص جو اللہ کی
خطبات طاہر جلد 15 459 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء طرف سے تھا اس کے متعلق یہ اعلان ہوا ہے سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا ہمارا اور کوئی کام نہیں ہے لیکن جہاں جس کو مامور بنایا گیا ہے اس کے رخ سے دیکھیں تو اسے سمع اور اطاعت کی روح پیدا کرنے کے لئے اپنی جان کی قربانی کرنی پڑتی ہے.اپنے آرام کو قربان کرنا پڑتا ہے.وہ تمام نفسیاتی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جن کے نتیجہ میں پھر یہ ایسی جماعت پیدا ہو.تو ایک طرف سے مضمون کو دیکھا جائے تو مضمون بعض دفعہ بگڑ جاتے ہیں اور غلط استدلال پیدا ہو جاتے ہیں اور لوگ غلط استدلال کے نتیجہ میں خود اپنی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں.اب یہی صورت حال اگر آج کل کے حالات پر جو جماعتوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں چسپاں کر کے تفصیل سے دیکھیں تو آپ کے سامنے یہ مسئلہ خوب کھل کے آجائے گا.ایک امیر ہے جو اپنی رحمت اور شفقت کے تقاضے پورے نہیں کرتا.ذاتی تعلقات کو محض اس لئے نہیں بڑھاتا کہ خدا کی خاطر اب وہ مجبور ہے اور برداشت اور حوصلہ پیدا نہیں کرتا اور اس فکر میں نہیں رہتا کہ جس طرح بھی ممکن ہے مجھ سے محبت اور احسان کے رشتوں میں یہ لوگ باندھے جائیں.وہ امیر اپنی جماعت میں ویسی اطاعت کے نمونے نہیں دیکھ سکتا.ناممکن ہے بلکہ بسا اوقات وہاں ٹھوکر کے واقعات کثرت سے دکھائی دیں گے.چھوٹی سی بات ہوئی اور لوگ ناراض ہو کے بھاگ گئے.امیر سے نہیں بھاگے اپنی عاقبت سے بھاگ گئے.اپنی آخرت تباہ کر لی.لیکن اس صورت میں دونوں یکساں ذمہ دار نہیں ہیں تو کم سے کم کچھ نہ کچھ ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے.برابر کا لفظ کہنا مشکل ہے اللہ بہتر جانتا ہے.بعض دفعہ ایک ذمہ داری کسی پر کم کسی پر زیادہ مگر ذمہ دار دونوں ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے.ان لوگوں کی بدنصیبی ہے جو ایسے امیر کی امارت میں ہیں جو ان سے رحمت اور شفقت کا سلوک نہیں کرتا اور اس امیر کی بھی بدنصیبی ہے جو کرتا بھی ہو تو کچھ خودسروں کا امیر بنایا گیا ہے کیونکہ بعض دفعہ یہ امیر کے قصور کی وجہ سے خودسری نہیں آتی بعض جماعتوں میں کچھ گھٹلیاں بن جاتی ہیں.کچھ شریروں کی گھٹلیاں جن کا شغل ہی یہ رہتا ہے کہ کچھ ایک گروہ یہاں بنالیا ایک گروہ وہاں بنالیا اور تاک میں رہتے ہیں کہ امیر سے جو بھی ہو جب بھی کو ئی غلطی ہو اس کو پکڑیں اور بلند آواز سے کہیں کہ یہ دیکھو یہ حرکتیں کر رہا ہے ہم اس کے ساتھ نہیں چل سکتے.موقع ملے تو دھمکیاں بھی اس کو دیں.ایسے ظالموں کی کینسر کی گھٹلیاں بھی کئی جگہ موجود ہیں اور جہاں یہ موجود ہیں وہاں امیر کو ہم نے بدل بدل کے دیکھ لیا.انتہائی رافت کرنے والا ، شفقت
خطبات طاہر جلد 15 460 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء کرنے والا امیر بھی بھیجیں تو اس کے ساتھ وہی بد تمیزی کا سلوک ہوگا بلکہ بعض دفعہ نسبتا سخت امیر کے سامنے یہ لوگ جھک جاتے ہیں اور بعض دفعہ اس نیت سے سخت امیر مقرر کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ لوگ نیکی اور شفقت اور رحمت کی زبان سے بالکل نابلد ہو جاتے ہیں.ان کو پتا ہی نہیں یہ زبان ہوتی کیا ہے.وہ دوسری زبان کسی حد تک سمجھتے ہیں.کوئی مضبوط امیر ہو جو بد تمیزیاں برداشت نہ کرے اور آگے سے اسی طرح دوٹوک جواب دے سکے تو وہ ماحول تو نہیں ہے جو اسلامی ماحول ہے اس کو تو میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا.مگر بیماروں کی دنیا میں صحت مند قانون چلا بھی تو نہیں کرتے.وہاں پھر یہ مضمون صادق آتا ہے جیسی روح ویسے فرشتے.روح ہی بد ہے تو فرشتے بھی تو ویسے ہی سخت گیر ہوں گے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو جہنم کے تعلق میں بیان فرمایا ہے.کہتا ہے جہنم کے فرشتے بھی بڑے سخت گیر ہیں.کوئی رحم نہیں جانتے.وہ جہنمی چیختے چلاتے رہتے ہیں کہ اے جہنم کے داروغے ہمارے لئے خدا سے کچھ مانگ.وہ کہتا ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ان کی سخت گیری جو ہے وہ اٹل ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.تو جیسی روح ویسے فرشتے کا مضمون محض محاورہ نہیں.قرآن سے ثابت ہے کہ جیسے جیسے لوگ ہوں ویسے ویسے ہی فرشتے ان پر مسلط کئے جاتے ہیں.چنانچہ مرتے وقت کے فرشتے آتے ہیں.جو نیک لوگوں کے فرشتے ہیں وہ ان کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں ان کو محبت اور پیار سے تیار کرتے ہیں اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے لئے اور خوشخبریاں دیتے ہیں کہ تم ایک تکلیف کے مقام سے ایک آرام کے مقام کی طرف منتقل ہور ہے ہو اور جو سخت گیر فرشتے ہیں وہ ان لوگوں پر آتے ہیں جو ظالم ہیں.ساری عمر انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہوں.ان کو کہتے ہیں خود اپنی جانیں نکال کر باہر لاؤ.اب اس قسم کا سخت منظر ہے کہ اس کو قرآن کریم میں پڑھتے ہوئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تو اس لئے یہ کہنا کہ بعض دفعہ لوگ سخت گیر مزاج کے مستحق ہو جاتے ہیں یہ قرآنی مضامین سے مختلف نہیں.مگر اسے مثالی ماحول بہر حال نہیں کہا جا سکتا.مثالی ماحول تو وہی ہے جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہو اور آپ نے اپنی تمام زندگی میں اطاعت کو قائم کرنے میں جو نمونے دکھائے ہیں ان نمونوں کی پیروی کر رہا ہو.اگر سو فیصدی نہیں تو کوشش ضرور ہو کہ ویسے نمونے پیدا ہوں.جہاں یہ صورت حال ہو وہاں حضرت مسیح موعود کی جماعت میں یہ خوبی ہے کہ وہ پھر اپنی جان بھی ایسے امیروں پہ نچھاور کرنے لگتی ہے.صدر ہو خدام الاحمدیہ -
خطبات طاہر جلد 15 461 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء کا، قائد ہو، زعیم ہو ان سب سے قطع نظر اس کے کہ ان کا کوئی رشتہ کوئی دوستی کا تعلق ، کچھ مزاج میں ہم آہنگی ہے کہ نہیں وہ لوگ گہری محبت کا سلوک کرتے ہیں.ان کا خیال رکھتے ہیں.ان کی ہر بات کو قبول کر کے ہر پہلو سے اس پر عمل درآمد کی کوشش کرتے ہیں.پس اس پہلو سے جماعت کی تاریخ میں بہت سی بڑی بڑی جماعتوں کی ایسی مثالیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کسی ایک امیر نے ایسا سلوک کیا تو آج تک ان جماعتوں کو اسی امیر کا فیض نصیب ہو رہا ہے اور اس کی نیکیوں کا پھل آج تک کھا رہے ہیں.اس کے لئے دعائیں نہ کریں تو ان کی بے پرواہی ہے ، ناشکری ہے.مگر جو شخص نیک روایات پیچھے چھوڑ جائے ، جس نے عرق ریزی کے ساتھ اور اپنا خون بہا کر محنت کر کے وہ پاکیزہ ماحول بنایا ہو جو بہترین اسلامی ماحول ہے جس میں امیر اپنے ماتحتوں پر خدا اور ماتحت اپنے امیر پر فدا، اس کی رضا پر نظر رکھنے والے ہوں یہ ماحول پھر بعض دفعہ نسلاً بعد نسل ان لوگوں پر احسان کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض شریر اس کو بدلنے کی کوشش کریں، اس کے مزاج کو بگاڑ دیں.پس یہ وہ باریک باتیں ہیں جن میں سے ہر بات پر نظر رکھنی ہوگی.جماعت کو سمجھنا چاہئیے کہ ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے.اطاعت کہتے کس کو ہیں اور یہ یا درکھنا چاہئے کہ اطاعت تو اصل وہ ہے کہ مرضی کے خلاف ہو اور جان کی قربانی پیش کرنی پڑے.امیر، بحیثیت امیر جماعت کے تصور میں نہیں وہ بھی ، جو بھی جس کو خدا نے کسی حکم پر فائز فرمایا ہو ، جس دائرے میں بھی ہو ، اس سے اگر غلطی بھی ہو جاتی ہے تو اس غلطی کو نظر انداز کر کے اپنے اطاعت کے فرائض میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہونے دیں اور اس مضمون کو یا درکھیں کہ میں اپنی جان ، مال، عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا.یہ اطاعت کا وہ مضمون ہے جس کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس عہد کی صورت میں ہمیں سمجھایا کہ اطاعت محض خشک اطاعت کا نام نہیں ہے کہ مرضی کی بات ہو تو اطاعت کرو، جہاں تکلیفیں اور آزمائشیں سامنے آئیں وہاں اطاعت سے پیچھے ہٹ جاؤ.جان، مال عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گا.بعض لوگوں کو تو میں نے دیکھا ہے کہ یہ بھی لکھتے ہیں اس امیر نے لمبی باتیں کیں ، ہمارا وقت ضائع کیا.فلاں بات کی ہمارا وقت ضائع کر دیا.اگر وہ ٹھیک ہے تو میرا فرض ہے کہ اس امیر کو سمجھاؤں اور اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو وہ سرزنش کا
خطبات طاہر جلد 15 462 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء سزاوار ہو گیا ہے لیکن آپ کا یہ کام نہیں کہ امیر پر روز مرہ اٹھ کر ایسی باتیں کریں تم مجلسوں میں لمبی باتیں کرتے ہو ہمارا وقت ضائع کرتے ہو، بلایا ہے کوئی خاص بات بھی نہیں تھی.یہ دل کی بدتمیزیاں ہیں.ان کو حقوق قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ماتحت کے حقوق ہیں.ماتحت کا حق ہے تو امیر پر ہے کہ ان کے حقوق کا خیال رکھے لیکن ماتحت اس قسم کی باتیں خود نہیں کہا کرتا.آنحضرت ﷺ کو اپنے غلاموں کا اتنا خیال تھا کہ نماز سے بڑھ کر اور کون سا لمحہ ہے جو آپ کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہومگر ایک بچے کے رونے کی آواز آپ کو نماز چھوٹی کرنے پر مجبور کر دیتی تھی.اس خیال سے کہ اس کی دردناک آواز اس کی ماں کے دل پر کیا اثر کرتی ہوگی نماز جلدی ختم کر دی لیکن کہیں ہم نے نہیں سنا کہ مائیں چیخ اٹھی ہوں کہ اے خدا کے رسول ﷺ تجھے نمازوں کی فکر پڑی ہوئی ہے ہمارے بچے رور ہے ہیں اور تجھے پرواہ ہی کوئی نہیں.یہ جہالت تھی اگر ہوتی.لیکن یہ شان محمد مصطفی ﷺ ہے کہ ایسا موقع آنے کا سوال ہی نہیں پیدا کبھی ہوا.وہ شخص جو دوسروں سے بڑھ کر ان کی تکلیفوں کا خیال رکھتا ہو اس کے اوپر جائز حملہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ تم نے بے پرواہی کی ہے اور اس پہلو سے آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی میں ایک مرتبہ بھی کسی مسلمان کو یہ کہنے کا حق نہیں ملا کہ آپ نے ہم سے بے پرواہی کی اس کے نتیجہ میں ہم سے یہ واقعہ ہوگیا کیونکہ آپ سب کی ضرورتوں پر اپنی ضرورتوں کو قربان کر دیا کرتے تھے اور اس حد تک کرتے تھے کہ تعجب ہوتا ہے کہ انسان میں اتنی طاقت کیسے ہے، ناممکن دکھائی دیتا ہے.بعض دفعہ بعض چیزیں اچھی بھی لگتی ہیں لیکن انسان اس حد تک ان پر عمل کر ہی نہیں سکتا جب تک اس کے سارے نظام کے اندر ، اس کے اندرونی نظام کے اندر گہری تبدیلیاں واقع نہ ہوں.پس آنحضرت ﷺ کے بعض کردار ایسے ہیں جن کو دیکھ کر ان کی عظمت کی وجہ سے سر سے ٹوپی گرتی ہے.اتنے بلند ہیں.مکارم الاخلاق پر آپ کو فائز کیا گیا ہے.اس لئے یہ بھی درست ہے کہ ہم پر لازم ہے کہ ان کی پیروی کریں لیکن یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تو یہ کیا تھا تم نے تو بالکل ویسا نہیں کر کے دکھایا.اخلاق کے مضمون میں اور انصاف کے مضمون میں ایک فرق ہے.انصاف کے تقاضے اگر امیر پورا نہیں کرے گا تو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کو پکڑوں لیکن قربانی کے وہ نمونے نہ دکھا سکے جو آنحضرت ﷺ نے دکھائے ہیں تو صرف یہ نظر ہوگی کہ کوشش کرتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 15 463 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء نہیں.اسے نصیحت تو کی جا سکتی ہے کہ تم یہ بھی تو کر سکتے تھے.اس طرح بھی دل جیت سکتے تھے.یہ قربانی ، اس قربانی کا مظاہرہ کر سکتے تھے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے سرزنش کی جائے اور سختی کی جائے کیونکہ دو الگ الگ مضمون ہیں.آنحضرت ﷺ صرف فرائض کی دنیا تک نہیں رہے.آپ کا قدم احسان کی طرف بلند ہوا ہے اور احسان سے ایتاء ذی القربی میں جا کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بلندیوں میں آر کا وجود ہماری نظر کی رسائی سے بھی آگے نکل چکا ہے.اس لئے ہر ایسی کوشش جو آپ ﷺ کی سنت کے مطابق ہے وہ بھی تجزیہ کے لحاظ سے مختلف مراتب رکھتی ہے.بعض جگہ وہ کوشش فرض میں داخل ہے.بعض جگہ وہ کوشش نوافل میں داخل ہے لیکن نوافل کہہ کہ اسے نظر انداز کرنے والا بھی فرض کو نظر انداز کر رہا ہے.اب بظاہر اس بات میں تضاد ہے لیکن کوئی تضاد نہیں ہے.ایک فرائض کی دنیا ہے اس میں امیر کا فرض ہے کہ ان سب تقاضوں کو پورا کرے جو امیر کے اوپر لازماً عائد ہوتے ہیں اور جماعت سے ایک خاص رنگ کا سلوک جس کی تفصیل میں آپ کو بتاؤں گا اس طرح وہ سلوک کرے اور کسی سے کوئی امتیاز نہ کرے لیکن کس حد تک وہ ان کی بد تمیزیوں کو برداشت کرے گا ، کس حد تک ان کے دکھوں پر شکوہ نہ کرتے ہوئے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ان کی مدد چاہے یہ وہ احسان والا مضمون ہے جس کے متعلق ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہیں ، اپنی اپنی صلاحیتیں ہیں.ان صلاحیتوں کے علاوہ ہر شخص کا پس منظر الگ الگ ہے، اس کا خاندان الگ الگ ہے.جس خاندان میں وہ پل کر بڑا ہوا ہے اس کے روز مرہ کے معاملات کے طریق اس پر اثر انداز ہیں ، اس کی طبیعت پر ایک چھاپ لگ گئی ہے.یہ خیال کر لینا کہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کا حوالہ دے کر اچانک اس کو نرم رو بنا دو گے یہ ممکن نہیں ہے.لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں چونکہ سخت رو ہوں اور میں نے اپنے ماں باپ سے یہ سختیاں سیکھی ہوئی ہیں اس لئے مجھے حوالہ نہ دوسنت کا یہ اس کی فرض ناشناسی ہوگی بلکہ گستاخی اور بد تمیزی ہوگی.اس کا صرف یہ کام ہے کہ ہاں میں نے سن لیا، میں ادب کرتا ہوں ، احترام کرتا ہوں جو تم نے حوالہ دیا ہے بہت بڑا ہے.میری مجال نہیں ہے کہ اس کے خلاف کچھ کہ سکوں مگر تم بھی دعا کرو میں بھی کوشش کروں گا کہ آئندہ اس پہلو سے بہتر نمونہ دکھا سکوں.پس جو فرائض جس جس پر عائد ہوتے ہیں، جو جو حسن واحسان کے تقاضے جس جس پر عائد
خطبات طاہر جلد 15 464 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء ہوتے ہیں ان کی کوشش کرنا اور دیانتداری سے کوشش کرنا نظام جماعت کی حفاظت کے لئے اور اس کے استحکام کے علاوہ اس کی بقاء اور ہمیشہ ہمیش جاری رکھنے کے لئے بڑا ضروری ہے، بہت ضروری ہے.یہ باریک پہلو ہیں جن کے اندر نظام جماعت کی جان مضمر ہے.ان باریک پہلوؤں سے نظر اٹھائیں گے تو اسی حد تک نظام جماعت بیمار پڑنا شروع ہو جائے گا.اس کے اندر ایسی کمزوریوں کی علامتیں ظاہر ہو جائیں گی جو رفتہ رفتہ پھر ایسے نظاموں کو پارہ پارہ کر دیا کرتی ہیں.تو میں جن باتوں کی طرف آپ کو توجہ دلا رہا ہوں ان کو معمولی نہ سمجھیں.میری نظر آئندہ لمبے عرصے تک ہے.میری یہ تمنا ہے کہ جماعت احمدیہ ان اعلیٰ اخلاق پر اور ان اقدار پر اتنی مضبوطی سے قائم ہو جائے کم سے کم ان اقدار پر جو نظام جماعت کے لئے لازم ہے کہ پھر ہم اطمینان کی حالت میں اپنی جانیں خدا کے حضور سپرد کر سکیں.ہم کہہ سکیں کہ اے خدا جہاں تک ہم میں طاقت تھی ، جہاں تک کوشش تھی ہم نے تیرے نظام کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانیاں پیش کر دی ہیں اور ہم خوشی سے تیرے حضور آرہے ہیں یہ کہتے ہوئے ، جانتے ہوئے کہ یہ جماعت اب ایک نسل میں تباہ ہونے والی جماعت نہیں رہی.نسلاً بعد نسل ان کی خوبیاں تیرے قائم کردہ آسمانی نظام کی حفاظت کے لئے ہمیشہ قربانیاں پیش کرتی رہیں گی.یہ وہ روح اور جذبہ ہے جس کی خاطر میں آپ کو یہ باتیں سمجھا تا ہوں اور ان کی آزمائش کا وقت آپ پر روازنہ آتا ہے اور اس وقت اگر آپ بیدار مغزی سے اپنے حالات کا جائزہ لیں.یہ نہ دیکھیں کہ آپ کتنی دفعہ کامیاب ہوئے ہیں، کتنی دفعہ نا کام ہوئے ہیں تو اس وقت تک آپ کو یہ باتیں سننے کے باوجود بھی عمل کی توفیق نہیں مل سکتی.روزمرہ اپنی زندگی کے حالات میں ان کو جاری کر کے دیکھیں.اب میں واپس آتا ہوں امیر کی ذمہ داریوں کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے.جہاں تک امیر کے فرائض کا تعلق ہے اس پر لازم ہے کہ وہ سب سے یکساں ہو جائے اور سب سے یکساں ہونے کے لئے ایک اور اس میں خوبی پیدا ہونا ضروری ہے کہ وہ چند لوگوں کو اپنے اوپر قبضہ نہ کرنے دے.یہ فطری کمزوری کا رجحان ہے جو ہمیں دنیا میں ہر نظام میں ملتا ہے جو بالآخر اس نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے.بھٹو صاحب جب برسر اقتدار آنے والے تھے اور ان کی مجلس لگی ہوئی تھی ایک ہوٹل میں تو میرا چونکہ ان کے ساتھ آنا جانا تھا، تعلقات تھے، میں بھی ان کو مبارک باد دینے گیا.تو
خطبات طاہر جلد 15 465 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء انہوں نے مجھے یہ کہا کہ ملتے رہا کرو آئندہ بھی.مطلب یہ تھا کہ اب میں حکومت میں آگیا ہوں لیکن یہ مطلب نہیں کہ میں اپنے تعلقات کو اس وجہ سے قربان کردوں کہ میں کوئی بڑا آدمی بن گیا ہوں.شاید ان کے ذہن میں یہ تھا یا کچھ اور بات ہوگی.میں نے ان سے کہا کہ میں تو آئندہ ملنے جلنے کا وعدہ لینے کے لئے نہیں آیا.یہ بتانے آیا ہوں کہ اب ملنا جلنا ختم ہو گیا ہے.اچانک ساری مجلس پر ایک سناٹا سا چھا گیا کہ کیسی عجیب بات کر گیا ہے یہ اور بھٹو صاحب نے ایک دم سب باتیں چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہو کے سوال کیا، کیا؟ یہ کیا کہہ رہے ہو تم.یہ کہنے آئے ہو کہ اب تم مجھ سے ملنا جلنا بند کر دو گے.میں نے کہا ہاں میں یہی کہنے آرہا ہوں.کہتے ہیں کیا مطلب ہے.میں نے کہا مطلب یہ ہے کہ میں نے سیاست کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور مشہور جو بڑی بڑی شخصیتیں ہیں ان پر میری نظر رہی ہے.میں جانتا ہوں کہ اچھے سے اچھا سیاست دان بھی نیک سے نیک نیتیں لے کے بھی جب او پر آتا ہے تو اس کے اردگرد جو جھوٹی تعریفیں کرنے والے اس کی طاقت میں Share کرنے کی خاطر ، اس میں حصہ ڈالنے کی خاطر اس سے چمٹ جاتے ہیں جیسے کبھی گڑ پہ بیٹھ جائے آئے.وہ ہیں جو اس گڑ کو نا پاک کر دیتے ہیں پھر اور بڑے بڑے سیاست دان جو بڑی نیک اور پاک نیتیں لے کے آئے تھے جب طاقت پر قابض ہوئے تو ان ظالموں نے جوار دگر دا کٹھے ہو جاتے ہیں انہوں نے ان کو خراب کر دیا اور میں جھوٹی تعریف لے کر کبھی کسی سے نہیں مل سکتا اور سچی بات پھر حا کم کو بری لگتی ہے اور سیاست دان برداشت کر لیتا ہے جب تک وہ حاکم نہ ہو.اب آپ صرف سیاست دان ہی نہیں رہے آپ حاکم ہو گئے ہیں اور میں وہی ہوں مجھ پر کوئی تبدیلی نہیں.نہ مجھے آپ سے کوئی حرص ، نہ کوئی لالچ اور ملنا نہ ملنا اس پہلو سے برابر ہے.تو مجھے خطرہ ہے کہ اب میں ملا اور میں نے کچی باتیں کیں تو پھر آپ کو تکلیف پہنچے گی تو بعد میں جو تعلق تو ڑنے ہیں ابھی کیوں نہ توڑ لئے جائیں.یہ باقی جو باتیں ہیں اس کو میں چھوڑتا ہوں.میں مثال دے رہا ہوں کہ یہ جو مضمون ہے کہ ایک صاحب اقتدار کولوگ گھیرے میں لے لیتے ہیں یہ ایک دائمی مضمون ہے.تمام دنیا کی تاریخ پر اس کا برابر اطلاق ہوتا ہے اور اس تاریخ کا محض سیاست سے تعلق نہیں.اقتصادیات سے بھی تعلق ہے اور دوسرے انسانی زندگی کے دائروں سے بھی تعلق ہے.جہاں کسی آدمی کو بڑا ہوتے دیکھیں وہاں پرانے رشتے یاد آ جاتے ہیں.پرانے
خطبات طاہر جلد 15 466 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء تعلقات کے حوالے سے انسان اس کے گردا اکٹھا ایک جمگھٹ شروع کر دیتا ہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ مجھے یاد ہے مجھے اس پہ ہنسی بھی بہت آئی مگر واقعہ ہے جو انسانی فطرت کی کمزوری کو ظاہر کرنے کے لئے دلچسپ ہے.ایک احمد نگر کی خاتون تھیں ان کے بیٹے نے ذکر کیا کہ ضیاء الحق صاحب کا یہ حال ہے دیکھوذ را اخلاق.میری ماں نے فون کیا تو فون ہی نہیں اٹھایا اس کا اور ہونے ہی نہیں دیا حالانکہ وہ بھی آرائیں ہم بھی آرائیں.اب آرائیں کا رشتہ اور وہ بھی جالندھر کے یہ بھی جالندھر کے تھے یہ اتنا پکا ہو گیا کہ پہلے ساری عمر تو ضیاء کا خیال نہیں آیا ان کو ، وہ حکومت پر آیا تو آرائیت جاگ اٹھی اور اس خیال سے اس کے گردا کٹھے ہونے لگ گئے.یہ گردا کٹھے ہونے والے بعض دفعہ بہت ہی خطرناک نتیجے پیدا کرتے ہیں اور جماعت میں یہ نہیں ہونے دینا چاہئے کسی قیمت پر بھی.اگر آپ کے گرد کچھ لوگوں نے ایسا گھیراؤ کر لیا جو آپ کو جماعت سے الگ کر دیں ان معنوں میں کہ جماعت کے تمام تاثرات ان سے فلٹر ہو کر آپ تک پہنچیں اور براہ راست جماعت میں یہ اعتماد نہ رہے کہ آپ ان کے اسی طرح برابر ہیں اور ان کے خلاف اسی طرح بات سننے کے لئے تیار ہیں جیسے ان کی بات سنتے ہیں تو پھر آپ کی امارت اسی حد تک کمزور پڑ جائی گی.اس لئے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے.کچھ لوگوں نے جنہوں نے خدمتیں کرنی ہیں انہوں نے اکٹھے ہونا ہی ہونا ہے لیکن اب یہ آپ کا کام ہے کس کو اکٹھے کرنا ہے.کس کو اکٹھے اپنے گرد جمع نہیں ہونے دینا اور اگر ہوتے ہیں تو اس کو اپنے مرتبے اور مقام پر رکھیں.ان کی مجال نہیں ہونی چاہئے کہ آپ کے ان معاملات میں دخل انداز ہوں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپر د فرائض منصبی کے طور پر کئے ہیں.ایسی صورتوں میں صرف یہ جماعت کے دوسرے افراد کا تعلق نہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بیویوں کے زیر اثر آجاتے ہیں اور فرائض ہیں امارت کے یا صدارت کے اور بیوی کے جو تعلقات ہیں دوسری عورتوں سے وہ تعلقات اس کے فرائض منصبی پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں.وہ یہ بتاتی ہے فلاں جو عورت ہے نا اس کا خاوند تو بہت بے ہودہ ہے اور وہ ایسا ہے یا فلاں عورت جو ہے وہ بیچ میں سے آپ کو پسند نہیں کرتی.فلاں ماحول میں یہ باتیں ہو رہی ہیں.وہ کچے کانوں والا خاوند، وہ زنخوں کی طرح اپنے فیصلے پر چلنے کی بجائے اپنی بیوی کے تابع چلتا ہے جب کہ یہ دلداری اور اخلاق نہیں ہیں.یہ بزدلی اور نا مردی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ نظام جماعت سے
خطبات طاہر جلد 15 467 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء بے وفائی ہے.کسی عورت کا کوئی کام نہیں ہے کہ جس منصب پر اس کا خاوند فائز ہوا ہے اس منصب سے تعلق میں کسی طرح بھی اس پر اثر انداز ہو.سوائے مغفرت رحم اور شفقت کے.یہ الگ مضمون ہے.شفقت اور رحمت اور مغفرت کی استدعا کرنا یہ تو بالکل اور بات ہے مگر پولیٹیکل Issue بنالینا اس کو کہ چونکہ میرا خاوند ایک مامور ہے کسی منصب پر اس لئے میں اس کو بتاؤں کہ فلاں اچھا ہے،فلاں برا ہے ، فلاں یوں کرتا ہے ، فلاں یوں کرتا ہے.یہ باتیں بالکل ناجائز ہیں کسی قیمت پر قبول نہیں ہونی چاہئیں.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میں نے جو اپنی بیوی سے تعلق رکھا ہمیشہ صرف ایک دفعہ ایک واقعہ ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا مجھ پر تو میری بیوی کے دل پر چوٹ لگی تو اس نے کچھ لفظ کہے.اس دن میں نے ان کو کہ دیا کہ آج کے بعد پھر یہ نہیں ہوگا.کبھی ہوا تو تم سے کاٹا جاؤں گا اور خلیفہ وقت کا ہو کے رہوں گا.چاہے وہ مجھے جوتیاں ماریں چاہے مجھے غلام رکھیں مجھے تمہاری محبت پسند نہیں ہے اس غلامی کے بدلے جس پر تمہارے الفاظ کا منفی اثر میں نے دیکھا ہے.وہ دن اور موت کا دن ایک دفعہ بھی کبھی ساری عمر انہوں نے میرے فرائض کے تعلق میں کبھی اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی.میں صدر خدام الاحمدیہ رہا، میں وقف جدید میں رہا ، میں انصار اللہ میں بھی رہا اشارہ یا کنایہ بھی انہوں نے مجھے کبھی کوئی بات نہیں کہی اور یہی حال ہمارے گھر کے ماحول کا تھا ہمارے نوکروں، ہمارے بچوں کا.بعض دفعہ لوگ ایسے بے وقوف ہیں اور ایسے کچی فطرت کے لوگ ہوتے ہیں، کچھی عادتوں کے، کہ وہ اپنی عادتیں دوسرے کی طرف اس طرح منتقل کر دیتے ہیں.ایک لکھنے والے نے مجھے لکھا کہ وہ جو ساری عمر آپ کے گھر نو کر رہی ہے وہ آپ کے اوپر چونکہ اثر انداز ہو جاتی ہے باتیں کر کے اس لئے آپ نے بعضوں کے متعلق اچھی رائے قائم کر لی ہے بعضوں کے متعلق نہیں.اس بے چاری کا تو یہ حال ہے کہ اس کے داماد کو میں نے جماعت سے خارج کیا اور مجال نہیں کہ اشارہ بھی کبھی کوئی زبان پہ حرف لائی ہو.وہ جانتی ہے اس کی تربیت میرے گھر میں ہوئی ہے اس کو پتا ہے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ جماعتی معاملات میں اسے زبان کھولنے کی اجازت دی جائے گی.پس یہ میں اس لئے مثالیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ میں ان تجربوں سے گزرا ہوا ہوں.میں جانتا ہوں کہ یہ
خطبات طاہر جلد 15 468 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء صلى الله الله کوششیں ہوتی ہیں اور مہلک ہوتی ہیں اور جو لوگ پھر قریبی بن جائیں،مصاحب بن کے رہیں جماعت میں ، وہ سارے تقویٰ کا نظام بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں کیونکہ پھر لوگوں کی نظر اللہ پر نہیں بلکہ ان کو خوش کرنے پر ہوتی ہے.یہ کوئی معمولی مصیبت نہیں ہے یہ تو ایک عذاب ہے جو امیر یا عہد یدار سہیڑ لے گا اگر وہ لوگوں کی باتوں میں آئے اور لوگوں کی باتیں سنے.یہ درست ہے کہ اگر نہ بھی سنیں گے تو الزام تو لگتے ہی ہیں جیسا کہ میں نے اپنے متعلق بتایا ہے الزام لگانے والے نے لگا دیا.مگر اس الزام تراشی سے تو محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی الگ نہیں رکھا گیا، میری کیا حیثیت ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی لوگ بد تمیزی سے زبانیں دراز کرتے ہیں اذن ہے یہ تو.یہ تو کان ہے لوگوں کی باتیں سنتا ، ان پر عمل کرتا.فرمایا اذن خیر لکم اذن تو ہے مگر اچھی باتوں کا اذن ہے.جہاں تمہاری بھلائی دیکھتا ہے اس کا کان جھک جاتا ہے اس طرف قبول کر لیتا ہے.جہاں برائی کا سوال ہے وہاں سوال ہی نہیں ، ہرگز ممکن نہیں کہ آپ اس رسول کو اذن کہہ سکیں کسی پہلو سے بھی.ہر بات کی تحقیق کرتا ہے ، جائزہ لیتا ہے ، انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے، پھر تسلیم کرتا ہے ورنہ سنی سنائی باتوں کو نہیں مانتا.تو خیر کے حق میں سنی سنائی بھی قبول کر لیتا ہے.جہاں بھلائی پہنچنی ہو وہاں ضروری نہیں کہ پہلے سو فیصدی ثابت ہو جائے کہ اتنا اچھا ہے اس لئے اس کو انعام دیا جائے.کسی نے اچھا کہا تو انعام کے لئے طبیعت کھل گئی اور انعام کا سلسلہ جاری بھی ہو گیا.یہ اذن خیر ہے.کسی نے کسی کی بھلائی کی اچھی بات کہی تو فور ادل پر قبول کر لیا کیونکہ اس سے پہلے ہی محبت ہے اور تعلق ہے.یہ نظام جو ہے اذن کا یہ مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں انسانی زندگی میں جاری ہے.تو بعض لوگ اذن سیئہ ہوتے ہیں اذن خیر کی بجائے.یعنی برائی کے کان ہو جاتے ہیں اور بھلائی کے کان نہیں رہتے.ایسے لوگوں کو پھر جتنی بھی آپ برائیاں پہنچائیں گے وہ قبول کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ برائی کی بات سننا ان کا چسکا بن جاتا ہے اور اس عادت نے محض نظام پر بعض دفعہ برے اثر نہیں ڈالے بلکہ اکثر گھروں کے امن کی تباہی کی یہی وجہ بنتی ہے.اگر گھر کے بڑے، خاوند یا بیوی یا ساس یا سر یا ماں باپ جس حیثیت سے بھی آپ ان کو دیکھیں ان کے اندر یہ عادت ہو کہ برائی سنیں اور اسے قبول کریں اور اسے قبول کرنے میں لطف اٹھا ئیں اور یہ سمجھیں کہ اب ہمیں فلاں کے خلاف ایک بات ہاتھ آگئی ہے.یہ جو ہاتھ آنے والا مسئلہ ہے اور یہ مزہ کہ نظام
خطبات طاہر جلد 15 469 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ فلاں میں کیا برائی ہے یہی انسانی زندگی میں ایک تباہی مچا دیتی ہے انسانی زندگی کا امن لوٹ لیتی ہے.مگر نظام جماعت میں تو اگر داخل ہوگی تو اس کے بہت ہی بداثر پیدا ہوں گے اور دیر تک ، دور تک اس کے اثرات جائیں گے.اس لئے ہم نے اگر نظام جماعت کی حفاظت کرنی ہے تو ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا.کسی امیر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ چند لوگوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن جائیں یا چندلوگوں کے گھیرے میں اس طرح دکھائی دے کہ دوسری باقی جماعتوں پر یہ تاثر ہو کہ یہ ہم سے الگ ہو گیا ہے اور ان کی باتیں سنتا ہے.ایسی صورت میں پھر میرا تجربہ ہے کہ لوگ پھرا میر کو نہیں ان لوگوں کو باتیں سناتے ہیں اور ان سے تعلقات بڑھاتے ہیں ان کی خدمت میں تحائف پیش کرتے ہیں اپنی جہالت کی وجہ سے کہ اس کو خوش رکھیں گے تو ہماری باتیں ہوگی.تو تقویٰ کہاں باقی رہا ؟ تقویٰ تو خدا کو خوش کرنے کا نام ہے اور ایسی صورت میں فیصلے سارے ہی غلط ہوتے ہیں اور اس مزاج کے لوگ اگر امیر کو براہ راست خوش کرنے کی کوشش کریں گے وہ بھی تقویٰ سے خالی بات ہوگی کیونکہ ان کو پتا نہیں کہ امیر کا مزاج اور خدا کا مزاج ہم آہنگ ہیں.اگر ہم آہنگ ہوں تو کوئی خطرہ نہیں لیکن اگر امیر کے مزاج پر ان کی نظر ہے اور وہ صحیح جانتے بھی نہیں کہ امیر کا مزاج ہے کیسا تو اس مزاج کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں بسا اوقات وہ اللہ کی رضا کے خلاف ہوتے ہیں اور امیر کوخوش کرنے کی خاطر خدا کو ناراض اور بعض دفعہ امیر کو بھی ناراض کرتے ہیں کیونکہ امیر کا مزاج غلط سمجھے ہوتے ہیں.اپنی ٹیڑھی سوچ کو ایک بچارے امیر کی طرف منسوب کر دیا اور پھر اس سوچ کی خدمت کرتے ہوئے ،اس کی مطابعت کرتے ہوئے غلط کام کر بیٹھے اور جب ناراضگی ہوئی تو پھر ان کے لئے اور مصیبت اور ٹھوکر کا موجب.تو یہ جو میں عمومی حوالے دے رہا ہوں یہ فرضی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو بات بھی میں کہہ رہا ہوں اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے.میرے سامنے لمبے ذاتی تجارب ہیں اور ہر بات کے پیچھے ایک ٹھوس حقیقت ہے.اس کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں.اپنی بات میں نے ذاتی تجربے کے طور پر تو بیان کر دی مگر اب سب کا حال کھولنا اس لئے بھی مناسب نہیں کہ بعض باتیں جب میں بیان کروں گا تو آپ میں سے بعض جماعتوں کے لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ یہ فلاں کے متعلق بات ہو رہی ہے، یہ فلاں کے متعلق بات ہو رہی ہے.پھر اور بھی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.مگر تقویٰ کو فوقیت دیں اور امیر
خطبات طاہر جلد 15 470 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء کا یہ فرض ہے کہ ایسے تاثرات کو اپنے سے زائل کرنے کی کوشش کرے اگر اس میں کچھ بھی جواز ہے اور اگر جواز نہیں ہے تو پھر بھی ظالم لوگ تو ایسی باتیں کرتے ہی رہتے ہیں پھر اس کا فرض ہے مستغنی ہو جائے اور یہ ایک دوسری صفت ہے جو امیر میں ہونی ضروری ہے جو حضرت رسول اللہ ﷺ میں تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس صفت کو بڑے پیار کے ساتھ نہ صرف قبول فرمایا بلکہ اسے فروغ دینے کے لئے قرآن کریم میں آپ کے اس مزاج کو صادر فرما دیا.حضرت عائشہ صدیقہ پر جو بہت ظالمانہ بہتان لگا ہے.اس بہتان کے تعلق میں سب سے زیادہ صدمہ تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو تھا لیکن آپ نے اس ذاتی صدمے کی وجہ سے ان ظالموں سے خیر کے سلوک کو بند نہیں کیا، نہ پسند کیا.یہاں تک کہ حضرت ابوبکر کے متعلق روایت ہے آپ نے بعض ایسےلوگوں سے جو اس ظلم میں بالواسطہ شریک ہو گئے تھے احسان کا سلوک بند کر دیا، جو خدمت کیا کرتے تھے ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اس سے ہاتھ روکا تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ وہ انسانی ضرورتیں اور محتاجیاں الگ مسئلہ ہے.اس وجہ سے ایسا فعل نہ کرو.تو دیکھیں قرآنی تعلیم سنت محمدی ﷺے میں ڈھل کر کیسے عظیم نمونے پیدا کر رہی ہے جن کی کوئی تصویر سارے جہان میں نیکیوں کے اندر بھی دکھائی نہیں دیتی.بہت بار یک لطائف ہیں جو محمد رسول اللہ نے کے اعلیٰ کردار کی باتیں ، جو نظام جماعت سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں صرف ان پر میں کہتا ہوں اگر نظر رکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.خدا تعالیٰ بار بار بیان فرمارہا ہے کہ فلاں شخص منافق ہے ، دھو کے باز ہے، قسمیں کھاتا ہے تجھ پر ایمان لایا مگر نہیں لایا.مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ اپنے روز مرہ کے کردار میں اور اپنے نظام کے فرائض کی ادائیگی کے تعلق میں ان سے قطعاً ادنی بھی نا انصافی کا سلوک نہیں کرتے.یہ خدا نے راز کی بات بتائی ہے.یہ اللہ کی مرضی ہے جس پر جس کا عیب چاہے کھول دے.مگر جہاں تک دنیا کے تقاضے ہیں اس علم کے باوجود آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ جب تک انصاف کے پورے تقاضے انسانی سطح پر پورے نہ ہوں کوئی قانونی رد عمل دکھانے کا حق نہیں ہے.کچھ مزاج ہی ایسا تھا مگر مزاج کے علاوہ بھی عدل کے اعلیٰ مضامین کو اور اعلیٰ اصولوں کو جس باریکی سے آنحضرت ﷺ سمجھتے تھے دنیا میں کوئی نہیں سمجھ سکتا.پس اس پہلو سے آپ کا جو نمونہ ہے وہ یہاں بھی تو جاری ہونا چاہئے.
خطبات طاہر جلد 15 471 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء اب بعض لوگ امیر کے متعلق بعض باتیں کہتے ہیں اور وہ اُس تک پہنچ جاتی ہیں.اس کے متعلق پہلا رد عمل تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر اس نے واقعی سنجیدگی سے بات کو لینا ہے تو فرض ہے کہ وہ تحقیق کرائے اور پوری تحقیق انصاف سے کروائے.اس وقت تک جب تک تحقیق نہ ہوایسے شخص سے اپنے تعلقات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی پیدا نہ کرے اور اگر تحقیق کر والے تو پھر یہ دیکھے کہ کس حد تک اس میں عفو کا حوصلہ ہے ، مغفرت کا حوصلہ ہے اور یہ دیکھے کہ کس حد تک عفو اور مغفرت ان کی اصلاح کا موجب بن سکتے ہیں.تو پھر اپنے عفو اور مغفرت کی جھولی میں ہاتھ ڈالے اور ان سے وہ احسان کا سلوک کرے جو ان کی اصلاح کا موجب ہو سکتا ہے.اس طرح جو بگڑے تگڑے جیسے کہتے ہیں محاورے میں، بگڑے تگڑے لوگ جو ہیں وہ بھی ٹھیک ہونے لگتے ہیں اور دن بدن سرکشوں اور بدوں کے دائرے تنگ ہونے لگتے ہیں اور یہ نہ ہو تو پھر ان کے دائرے رفتہ رفتہ بڑھنے لگ جاتے ہیں.اور یہی ہے جو مجھے فکر لاحق ہے کہ امارت کے حقوق ادا کرنے کی طرف تو میں نے جماعت کو توجہ دلائی اگر امیر کو اپنے حقوق ادا کرنے کی طرف تفصیل سے توجہ نہ دلائی تو جماعت میرے تعلق میں اس اعلیٰ تقویٰ پر قائم ہو تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے فرمان اور قرآن کے فرمان کے پیش نظر عمل درآمد کرے گی بھی تو اس میں جان نہیں ہوگی.بچی جان پڑ ہی نہیں سکتی اور پھر اس حالت کو کوئی بقا نصیب نہیں ہو سکتی.کوئی ایسا وقت آ سکتا ہے بیماری کا جیسے موسم بدلیں تو بعض بیماریاں سراٹھا لیتی ہیں.کوئی ایسے حادثے پیش ہو سکتے ہیں ایسی جماعتوں میں کہ جہاں دبی ہوئی نا انصافی کے احساس اس وقت سر اٹھا لیں اور ایک باغیانہ رجحان پیدا ہو جائے.تو بعض کمزوریاں ایسی ہیں جن کے بیج بعض دفعہ باقی رہتے ہیں اور بیج ان کے کلیتہ مٹائے جاہی نہیں سکتے.اصل میں صرف دیکھنا یہ ہے کہ بیج نشو و نما پا کر بڑھ رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں یا پھیلے ہوئے سکڑنے لگ گئے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنے تنے تک آگئے اور تنے سے بھی ٹوٹ کر ، مرجھا کر پھر وہ جڑوں تک پہنچ گئے ہیں اور جڑیں بھی پھر مرجھانے لگیں.یہ دو ہی رجحان ہمیں قدرت میں ملتے ہیں.اب دیکھیں بعض موسموں میں بعض درخت کس طرح زور کے ساتھ پتے نکالتے اور نشو و نما پاتے ہیں.وہ جو دور ہٹے ہوتے ہیں راستوں کے کناروں پر رفتہ رفتہ راستوں پر قبضہ کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ کھلے راستوں سے بھی گزرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی شاخیں ہر طرف سے آکر خالی جگہوں پر قابض ہو جاتی ہیں اور جب ان
خطبات طاہر جلد 15 472 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء پر بُرے دور آتے ہیں تو وہ سکڑنے لگتے ہیں، ان کی شاخیں ہٹتی ہیں پھر ٹوٹنے لگتی ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی اصل جگہ پر پہنچیں تو سڑک ساری کھلی کھلی صاف دکھائی دینے لگتی ہے.تو اسی طرح جماعتوں میں منافقوں کا حال ہے اور بدکاروں کا حال ہے.باغیوں کا حال ہے.وہ فضا ان کے لئے پیدا نہ کریں کہ ان کی شاخیں آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر قبضے کرنے لگیں.اگر آپ نے توجہ نہ کی تو یہ خطرہ ہے کہ ایسا ہو جائے گا.ان کے لئے وہ ماحول رکھیں کہ ان کو صراط مستقیم میں داخل ہو کر راہرووں کے لئے مشکل پیدا کرنے کا وہم و گمان بھی باقی نہ رہے.بیماریاں پالے ہوئے بیٹھے ہیں تو بیٹھے رہیں، اپنے دلوں میں سکیڑے رہیں.مگر امارت کا اور نظام جماعت کا یہ کام ہے کہ ان کی بیماریوں کی نشو ونما کے حق میں کوئی فضا پیدا نہ ہونے دیں.جوامیران فرائض کو اس طرح سمجھ کر اپنی جماعت کی عمومی صحت پر نظر رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہاں یہ مریض سکڑنے لگتے ہیں، ان کے اردگرد بیٹھنے والے کم ہونے لگتے ہیں، ان کی مجلسیں اجاڑ ہونے لگتی ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ وہ اکیلے اکیلے رہ جاتے ہیں یا دو تین ساتھ کے اور ان سے لوگ خود ہی تعلق تو ڑ لیتے ہیں.وہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم تنہا چھوڑ دیئے گئے ہیں.بے چین ہوں گے تو اپنی جگہ ہوتے رہیں مگر جماعت کی صحت پر وہ کبھی بداثر پیدا نہیں کر سکتے.اب اپنے تجربے سے آپ جن جن جماعتوں کو، جن جن حالات کو جانتے ہیں اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کریں اور نظر دوڑائیں تو آپ کو سب کچھ دکھائی دینے لگ جائے گا کہ ہر جگہ یہی ہوتا رہتا ہے.بعض جگہ بیماریوں کے اڈے بڑے ہو جاتے ہیں.لگتا ہے ایک عام فتنہ آ گیا، ایک زلزلہ برپا ہو گیا ، اس طرح لوگ تباہ ہو جائیں گے.بعض دفعہ اس کا برعکس منظر ہے.لیکن یہ مضمون چونکہ لمبا ہے ابھی.اس لئے میں سمجھتا ہوں وقت ہو گیا ہے.سردست یہاں اس کو ختم کرتا ہوں.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نوٹ کرلیں جہاں سے بات ختم کی تھی تا کہ پھر آئندہ خطبے میں انشاء اللہ تعالیٰ اسی مضمون کو آگے بڑھاؤں گا.مگر آئندہ خطبہ یہاں نہیں دیا جائے گا وہ کسی اور ملک میں ہوگا اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ براہ راست وہاں سے یہاں آپ اسے سن سکیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ توفیق بخشے گا تو جن کے پاس یہ ڈش انٹینا نہیں ہیں وہاں جماعتوں کو چاہئے ان کے لئے انتظام کریں کہ جماعتی مراکز میں اکٹھے ہو کر وہ اس خطبہ کو براہ راست سن سکیں.باقی آخر پہ دعا
خطبات طاہر جلد 15 473 خطبہ جمعہ 14 /جون 1996ء کی درخواست ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ یہ سفر ہر پہلو سے ، ہر لحاظ سے اپنوں اور دوسروں سب کے لئے مبارک فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 475 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء ہر صاحب امر کو اپنے ماتحتوں سے محبت، شفقت اور رحمت کا سلوک کرنا چاہئے (خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جون 1996ء بمقام بیت السلام ٹورانٹو.کینیڈا) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی: فَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ اِلَهَا أَخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذِّبِينَ وَانْذِرُ عَشِيْرَ تَكَ الْأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ® فَإِنْ عَصَوكَ فَقُلْ إِنِّى بَرِئَ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ الَّذِي يَرُبكَ حِيْنَ تَقَوْمُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الشعراء: 214 (221) پھر فرمایا: ان آیات کے مضمون سے متعلق کچھ گزارشات کرنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمد یہ کینیڈا کو اپنا بیسواں جلسہ منعقد کرنے کی توفیق عطا ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گزشتہ جتنے جلسے ہیں ان میں ہر سال قدم ترقی کی طرف آگے بڑھتا رہا ہے اور ہر سال کوئی نہ کوئی نیا سنگ میل رکھنے کی توفیق ملتی رہی ہے.امسال کا جلسہ سالانہ اپنے ساتھ ایک اور قسم کی خوش خبری بھی لایا ہے جس کا تعلق صرف جماعت کینیڈا سے نہیں بلکہ بطور خاص جماعت انگلستان سے بھی ہے اور عموماً تمام دنیا کی جماعتوں سے ہے.اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹیلی ویژن کے ذریعے مرکزی پیغام اور مرکزی مجالس تمام دنیا میں دیکھی اور سنی جاسکتی تھیں..
خطبات طاہر جلد 15 476 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء گزشتہ ایک موقع پر میں نے جماعت سے یہ گزارش کی تھی کہ میں امید رکھتا ہوں کہ وہ دن بھی آئیں گے جب ہم دو طرفہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے.پس آج کے مبارک جمعہ سے اس دن کا آغاز ہو رہا ہے.اس وقت انگلستان میں مختلف مراکز میں بیٹھے ہوئے احمدی دیکھ رہے ہیں اور ان کی تصاویر یہاں پہنچ رہی ہیں اور بیک وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں مگر جو منتظمین Mix کرنے پر مقرر ہیں ان کو یہ خیال کیوں نہیں آرہا کہ جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو وہ بھی دکھا دیں جو لوگ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں.اب یہ بھی دکھائے ہیں تو شیخ مبارک احمد صاحب دکھائے ہیں جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.اب سامنے، اب دیکھ لیجئے امام مسجد فضل لندن عطاء المجیب راشد وہ ہمیں سامنے دکھائی دے رہے ہیں.وہ مجھے دیکھ رہے ہیں ، میں انہیں دیکھ رہا ہوں.ان کے پیچھے جو مختلف احباب جماعت لندن کھڑے ہیں وہ بھی ہاتھ ہلا رہے ہیں اور بیک وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے سن رہے ہیں لیکن ان کے دل کی دھڑکنیں مجھے بھی سنائی دے رہی ہیں.یہ دراصل ایک عظیم پیش گوئی تھی جو ایک پہلو سے تو بارہا پوری ہو چکی اب ایک نئے پہلو سے بھی پوری ہورہی ہے.حضرت امام صادق سے مروی ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.بہت بڑے بزرگ، بہت پائے کے امام تھے اور عارف باللہ تھے اس میں قطعاً ایک ذرے کا بھی شک نہیں.آپ نے فرمایا ہمارے امام القائم کے زمانے میں یعنی حضرت مسیح موعود مہدی موعود کے زمانے میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے اپنے دینی بھائی کو دیکھ سکے گا، اسی طرح مغرب میں بیٹھا ہوا مومن اپنے مشرق میں مقیم بھائی کو دیکھ سکے گا.جہاں تک دو طرفہ روایت کا تعلق ہے وہ تو بالبداہت درج ہے اور بعینہ اسی طرح آج ہو رہا ہے لیکن جہاں تک آواز کا تعلق ہے یہ پیش گوئی نہیں تھی کہ دونوں ایک دوسرے کوسن بھی سکیں گے.پس ایک طرف سے تو یہ آواز بھی پہنچ رہی ہے اور تصویر بھی اور دوسری طرف سے تصویریں بھی پہنچ رہی ہیں اور یہ ابھی آغاز ہے.آگے انشاء اللہ ایسے دن آئیں گے کہ مشرق و مغرب کی جماعتیں ٹیلی ویژن کے ذریعے اعلیٰ انتظامات کے ذریعے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں گی.ایک ایسا عالمی جلسہ ہوگا جس کی کوئی نظیر کبھی دنیا میں پیش نہیں کی جاسکتی ، نہ کی جاسکے گی.اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اتنے ہیں اور اتنے برس رہے ہیں کہ بارش کے قطروں کی طرح ان کا شمار ممکن نہیں رہا لیکن
خطبات طاہر جلد 15 477 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء اس کے باوجود جو عشق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ سے تھا اس میں بارش کے قطروں کے ان گنت ہونے سے ذرہ بھر بھی اظہار محبت میں کمی نہیں آتی تھی بلکہ آنحضور ﷺ کے متعلق یہ پختہ مصدقہ روایت ہے کہ بعض دفعہ بارش ہوتی تو بارش کا پہلا قطرہ اپنی زبان نکال کے زبان پر لے لیا کرتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے.وہ بارش جو بے انتہا ہوتی ہے جس کے قطروں کا شمار ممکن نہیں اس میں پہلے قطرے کو زبان پر لے لینا ایک بے انتہا عشق کا اظہار ہے.پس جتنی بھی بارشیں فضلوں کی ہم پر ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہر قطرے کو اپنی زبانوں پر ، اپنے دل کی زبانوں پر لیں اور حمد کے گیت گاتے رہیں اس سے زیادہ شکر کا اظہار ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور جہاں تک شکر کے اظہار کا اعمال سے تعلق ہے وہ ایک الگ مضمون ہے.آنحضرت ﷺ کا اظہار تشکر محض زبان سے نہیں ہوا کرتا تھا.آپ کی ساری زندگی ایک تشکر کے جذبات میں ڈھل چکی الله تھی.ساری زندگی تشکر کے جذبات میں اس طرح ڈھل چکی تھی کہ شکر اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان کوئی فرق کہیں بھی ممکن نہیں رہا.اس پہلو سے حضور اکرم ﷺ نے جو پاک نمو نے ہمارے سامنے پیش کئے اب بھی ہمارے لئے وہی راہنما ہیں اور ان نمونوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں آپ کے قدموں کو چومتے ہوئے نقش پا کو چومتے ہوئے آگے بڑھنا ہے.اس مضمون سے متعلق ایک خطبات کا سلسلہ لندن میں شروع ہوا ، سلسلہ اس لئے کہ وہ ایک خطبہ میں بات ختم نہیں ہو سکتی تھی اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ باقی بات میں اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.اگلے خطبہ میں بھی مجھے ڈر ہے کہ یہ بات ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ مضمون نسبتا لمبا ہے اس لئے غالباً دو تین یا ہوسکتا ہے چار خطبوں میں یہ مضمون مکمل کرنے کی کوشش کروں.الله یہ مضمون ہے امام اور ان کو جو اطاعت کرتے ہیں، جو مقتدی ہیں،ان کا رابطہ ،ان کا تعلق.ان کے درمیان کیا وہ اسلوب ہونا چاہئے تعلقات کا جو آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور آپ کی سنت پر مبنی ہو.اس پہلو سے جہاں تک ان کا تعلق ہے جن کو خدا تعالیٰ نے اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے ان کے متعلق میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ اطاعت کے مضمون میں کیا کیا خطرات درپیش ہیں ، کیسے کیسے نفس سر اٹھاتا ہے اور خود اپنے خلاف فتوے دیتا چلا جاتا ہے.ایسی ہدایت دیتا جاتا ہے جو انسان کو ہلاکت میں ڈالنے والی ہو اور انانیت کا سر جب اٹھتا ہے تو اس کے
خطبات طاہر جلد 15 478 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء خطرے سے بچنا بہت ہی مشکل کام ہے.یہ انانیت کا ہی سر ہے جو شیطان کہلاتا ہے اور ہر نفس میں موجود ہے، ہر نفس میں ہمیشہ ہر لحظہ اپنے نفس کو ڈسنے کے لئے تیار رہتا ہے.اس پہلو سے میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ اطاعت سے کبھی بھی قدم باہر نہ نکالیں اور اطاعت میں بڑے اور چھوٹے کا کوئی فرق نہیں رہتا کیونکہ اطاعت محض خدا کی خاطر ہوتی ہے اور اللہ کے حکم کے تابع ہی انسان اطاعت پر مجبور فرمایا گیا ہے.پس وہ اطاعت جو اللہ ہوگی اس میں نہ بڑے کا کوئی فرق رہے گا ، نہ چھوٹے کا.نہ اعلیٰ نبی کا نہ ادنی نبی کا.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقرة : 286) کا اقرار کرتے ہوئے مطبع جماعت ہمیشہ اطاعت کے رستوں پر آگے قدم بڑھاتی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ جن کی اطاعت کرنا ہے ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں.ان کے بھی تو کچھ فرائض ہیں.وہ اگر ان فرائض کو ادا نہیں کریں گے تو ناممکن ہے کہ جماعت حقیقی معنوں میں سنت رسول اللہ اللہ کے مطابق اطاعت کے حق ادا کر سکے.اس ضمن میں میں نے وہ آیت کریمہ پیش کی تھی کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو ان لوگوں کے لئے نرم نہ ہوتا ، اگر تیرے دل میں ان لوگوں کی محبت اور پیار نہ پیدا ہوتے تو پھر تو ان لوگوں کو کبھی بھی اکٹھا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اطاعت کے لئے محض امر کافی نہیں ہوا کرتا ، اطاعت کے لئے ایک گہرا قلبی تعلق ہے جس پر قائم ہونا ضروری ہے.پس میں نے جماعت کو سمجھایا کہ اگر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے لئے بھی آپ کی رحمت کو ، آپ کی شفقت اور رافت کو موجب اطاعت قرار دیا گیا اور فرمایا کہ اے مومنو! تم میں اپنے ایمان کے لحاظ سے اتنی استطاعت ہی نہیں کہ اطاعت کر سکو.تمہاری اطاعت بھی محمد رسول اللہ اللہ کی ممنون احسان ہے.آپ شفقت نہ فرماتے ، آپ رحمت کا سلوک نہ فرماتے تو تمہیں اطاعت کی تو فیق بھی نہیں مل سکتی تھی.یہ وہ مضمون ہے جو ہمیشہ ہمیش کے لئے ہر اس امیر پر اطلاق پاتا ہے جو ملک کا امیر ہو یا صوبے کا یا علاقے کا یا ضلع کا یا شہر کا یا اس کے تابع اور صاحب امرلوگ ہوں جو اپنی امارت کے اختیارات اوپر سے لیتے ہیں.ان میں سے چھوٹے سے چھوٹا صاحب امر بھی اسی مضمون کے تابع ہے اور جماعت احمدیہ کے لئے لازم ہے کہ ہر شخص جس کو کوئی امر کا اختیار بخشا گیا ہے وہ اپنے ماتحتوں سے محبت اور شفقت اور رحمت کا سلوک کرے اور جس طرح ان لوگوں کی اطاعت میں اس کی ذات
خطبات طاہر جلد 15 479 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء پیش نظر رہتی ہے، اس کے ساتھ اختلافات اس کی اطاعت میں حائل نہیں ہو سکتے اور ما اور تو کا تفرقہ مٹ جاتا ہے، اسی طرح لازم ہے کہ ہر شخص جس کے سپرد کوئی امر فرمایا گیا ہو وہ اپنے ماتحت لوگوں سے قطع نظر اس کے کہ ان سے اس کے پہلے کیسے تعلقات تھے قطع نظر اس کے کہ شریکے کے لحاظ سے یا اور تعلقات کی نسبت سے ان کے درمیان ایک طبعی یکسانیت نہیں پائی جاتی بلکہ ایک قسم کی دوری ہے پھر بھی اللہ کی خاطر لازم ہے کہ وہ ہر ایک سے برابر شفقت کا سلوک کرے اور سب پر اپنی رحمت کے پر جھکائے.اس ضمن میں جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اس مضمون کو آگے بڑھایا گیا ہے اور اس کے علاوہ چند اور آیات بھی ہیں جن کے حوالے سے میں اس مضمون پر مزید روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.پہلے جو ہے فَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ اِلَهَا أَخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذِّبِينَ ہر بات توحید سے چلتی ہے اور توحید کے سوا مذہب کا کوئی مضمون بھی نہیں جاری ہوتا.ہر بلندی کا چشمہ توحید ہے.ہر عجز کا چشمہ بھی تو حید ہے.ان معنوں میں رفعتیں بھی تو حید سے وابستہ ہیں اور جو انسان کے نفس کی پستیاں ہیں وہ بھی تو حید ہی سے وابستہ ہیں.اگر توحید سے تعلق نہ ہو تو رفعتیں بھی ذلتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.اگر تو حید سے تعلق نہ ہو تو پستیاں بلندیوں میں تبدیل نہیں ہو سکتیں.چنانچہ ہر نماز میں سجدے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم نے اگر اللہ سجدہ کیا تو پھر یہ دعاسبحان ربی الاعلیٰ ،سبحان ربی الاعلیٰ ،سبحان ربی الاعلی.اس موقع پر سپیکر کے نظام میں ایک نقص کی طرف توجہ دلائی گئی تو اس پر حضور نے فرمایا: لندن والے کہتے ہیں کہ مائیکروفون ذرا نیچے کر دیں اور یہ مائیکروفون میں اونچا کر دوں.رفعتوں اور پستیوں کا یہ بھی ایک مضمون ہے کوئی چیز نیچے کی جاتی ہے اور کوئی چیز اونچی کی جاتی ہے.پھر مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اب سبحان ربی الاعلی کا مضمون اس وقت ہے جب انسان کا سرانتہائی پستی کی حالت میں خدا کے حضور جھکا ہوا ہوتا ہے اور اسے یاد دلایا جارہا ہے کہ تمہاری رفعتیں تمہاری پستیوں سے وابستہ ہیں کیونکہ تم خدائے واحد کے حضور جھکے ہو جب کہ ہر دوسرے کی غلامی سے تم آزاد کئے جا رہے ہو.
خطبات طاہر جلد 15 480 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء اور تمام رفعتیں اس پستی میں ہیں جو خدا کی خاطر قبول کی جاتی ہے پس کہو سبحان ربی الاعلیٰ.پاک ہے میرا رب جو بہت اعلیٰ ہے اور ربنا نہیں ربی الاعلیٰ فرمایا گیا ہے.ہر شخص کا رب اس پر اپنی رفعتوں کے ساتھ اس کی پستیوں کی نسبت سے ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ جب بھی خدا کا بندہ عجز اختیار کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان تک اٹھالیتا ہے اور زنجیر کے ذریعے سے لپیٹ کر اوپر لے جایا جاتا ہے.اب استدلال کے طور پر ہم اسے غیر احمدیوں کے سامنے جو رفعت کا معنی نہیں سمجھتے یہ پیش کیا کرتے ہیں.مگر یہاں اس موقع پر میں کسی بحث کی خاطر نہیں بلکہ ایک عرفان کے نکتے کے طور پر آپ کو سمجھا رہا ہوں.تو وہ زنجیر جو اترتی ہے اس سے مراد درجہ بدرجہ انسان کی پستی خدا کے حضور اور درجہ بدرجہ اس پستی کی نسبت سے رفعت ہے.ساتویں آسمان سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ ہر شخص جوخدا کے حضور جھکتا ہے اسے سیدھا ساتویں آسمان تک رفعت دی جاتی ہے.ساتویں آسمان تک کی رفعت اس کا انتہائی مقام ہے.جتنا تذلل اختیار کرے گا اتنا اس کی رفعت کے سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں گے یعنی یہ پستیاں بذات خود رفعتوں میں تبدیل نہیں ہوا کرتیں اس لئے آسمان سے زنجیر اترنے کا ذکر فرمایا یعنی تم تذلل اختیار کرو مگر یہ وہم بھی نہ کرنا کہ تمہارا تذلل ہی تمہیں کچھ عطا کر دے گا.تمہارے تذلیل کو رفعتوں میں بدلنے کے لئے آسمان سے ایک زنجیر کا اتر نالازم ہے اور وہ اترے گی تو تمہارے تذلل کے متعلق فیصلہ کرے گی کہ کس حد تک اس میں رفعت کی طاقت موجود ہے اور اسی نسبت سے تمہیں اٹھایا جائے گا.ساتویں آسمان سے آگے ذکر نہیں ملتا کیونکہ اس سے آگے جانے والا صرف ایک ہی وجود ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺے ہیں جن کا خدا کے حضور تذلل اس ہر انتہاء سے آگے بڑھ گیا جس انتہاء کو کبھی کسی انسان کا تذلل پہنچ سکا یا پہنچ سکے گا.پس آپ کا جو سلسلہ ہے وہ اس عام قانون سے بالا سلسلہ ہے اور اس سلسلے کا ذکر یہاں مذکور نہیں.پس اس پہلو سے یاد رکھیں کہ ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ تم جتنا جھکو گے اگر وہ خدا کی خاطر ہوگا، اگر خدا کی خاطر تم نے تذلل اختیار کیا ہے تو بسا اوقات ممکن ہے کہ یہ تذلیل کسی انسان کے سامنے دکھائی نہ دے کیونکہ صاحب امر ایک غیر بھی ہو سکتا ہے یعنی ہوگا ہی غیر کیونکہ خدا تعالیٰ براہ راست تو ہر ایک کو حکم نہیں دیا کرتا.مراد یہ ہے کہ الف، ب، ج، د، جو بھی ان کا نام رکھیں جو صاحب امر ہے جس
خطبات طاہر جلد 15 481 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء کے سامنے آپ سر جھکا رہے ہیں اس کا وجود ایک دکھائی دے رہا ہے.مگر آپ کے لئے یہ ہدایت ہے کہ اس وجود کو نظر سے ہٹا دو کیونکہ تمہارا تذلل اللہ ہونا چاہئے اور اپنے رب کی خاطر ہونا چاہئے.جب اپنے رب کی خاطر ہو تو کسی غیر کے سامنے جھکنا نشان ذلت نہیں بلکہ نشان عظمت بن جاتا ہے.ایک بڑا آدمی ایک چھوٹے کے سامنے جھک رہا ہے محض اس لئے کہ خدا نے اسے اس معاملے میں مامور فرمایا ہے اس لئے اس کا جھکنا ذلت کا نشان نہیں بلکہ رفعت کا نشان بن جاتا ہے اور جس حد تک اس کے نفس کی قربانی اس میں داخل ہوتی ہے اسی قدروہ رفعتوں سے نوازا جاتا ہے.لیکن ایک اور جھکنا بھی ہے جو اپنے غلاموں کے سامنے جھکنا ہے،اپنے غلاموں پر جھکنا ہے.اس مضمون کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے.وَاخْفِضْ جَنَا حَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اے میرے حضور جھکنے والے تو ان پر بھی جھک جو تیرے حضور جھک رہے ہیں اور میری خاطر جھک رہے ہیں اور اپنی رحمت اور شفقت کا پر ان پر جھکا.دیکھیں کتنا عظیم مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں ایسی رفعتوں تک اس مضمون کو پہنچا رہا ہے جن تک عام انسان کے تصور کی رسائی ممکن نہیں محض خدا کا کلام ہے.سوائے خدا کے کلام کے کوئی کلام اس شان کا کلام نہیں ہوسکتا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ان پر جھکنے کی تاکید فرمائی جن کی گردنیں ان کے حضور جھکا دی گئی تھیں.اس سے پہلے فرماتا ہے وَانْذِرُ عَشِيْرَ تَكَ الْأَقْرَبِينَ اپنے قریبیوں کو بھی ڈراؤ.اب پیشتر اس کے کہ میں وَاخْفِضْ والے مضمون کو دوبارہ اٹھاؤں اور مزید تفصیل بیان کروں میں چاہتا ہوں کہ پہلی آیت کے بعد دوسری آیت کے تعلق کو بیان کر دوں پھر اس کے بعد بات آگے بڑھے گی.توحید سے ہر مضمون شروع ہوتا ہے، تو حید کے بغیر دنیا میں کوئی بھی سچائی نہیں.سب جھوٹ اور بے معنی اور بے حقیقت باتیں ہیں.توحید کے نتیجے میں وَانْذِرُ عَشِيْرَ تَكَ الْأَقْرَبِينَ فرمایا گیا.دیکھو تمہارا تعلق اللہ سے ہے اور تمہارے اقرباء، تمہارے قریبی نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اس لئے ان کو ڈراؤ اور ان کو متنبہ کرو اور ہرگز اس بات کو خوف نہ کرو کہ اپنے اقرباء کو بھی ڈرا دھمکا کر اگر تم نے پرے پھینک دیا تو تمہارا کیا بنے گا.اب اس مضمون کے حوالے سے پڑھیں کہ اگر تو نرم دل اور رحم دل اور صاحب شفقت نہ ہوتا تو یہ لوگ تجھ سے بھاگ جاتے.سوال یہ ہے کہ کیا ان دو باتوں میں تضاد ہے ؟.تضاد نہیں بلکہ وہ بار یک تقویٰ کی راہیں ہمیں
خطبات طاہر جلد 15 482 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء دکھائی جارہی ہیں جن پر ہر صاحب امر کا چلنا ضروری ہے اس کے لئے لازم ہے کہ ان باتوں سے نصیحت پکڑے.وہ نرم ہوتا ہے تو دل کی کمزوری کی وجہ سے نرم نہیں ہوتا.وہ شفقت کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ یہ لوگ اگر میں شفقت نہیں کروں گا تو مجھے چھوڑ دیں گے اور پھر میں اکیلا رہ جاؤں گا.اس لئے یہ وہم دل سے نکال دینا لازم ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شفقت ان کا دل ، ویسے محاورے میں تو ہے دلر بائی کے لئے تھا یا دل چوری کرنے کے لئے کیونکہ اردو میں تو آنحضرت ملے کے تعلق میں تو یہ محاورہ منہ سے نکلتا نہیں ، تو ان کے دل کو اپنے قدموں سے ہمیشہ کے لئے وابستہ کرنے کی خاطر تھا.آنحضور کے ذہن میں کسی شفقت کے وقت کبھی بھی یہ پہلو نہیں آیا کہ میں اس لئے شفقت کروں کہ لوگ میرے گرویدہ ہو جائیں ، لوگ مجھ سے محبت کرنے لگیں کیونکہ آپ کا ہر فعل تو اللہ کی رضا کی خاطر تھا.پس اگر اللہ کی خاطر آپ کا ہر فعل تھا تو آپ کی شفقت کا تعلق اپنے غلاموں کے دل جیتنے سے ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ جو مضمون ہے وَانْذِرْ عَشِيْرَ تَكَ یہ اس تعلق میں آپ سمجھیں تو بات روشن ہو جائے گی کہ ایسا شخص جب خدا کی خاطر ڈراتا ہے تو قطع نظر اس کے کہ اس ڈرانے کا کیا اثر پڑے گا چونکہ رضائے باری تعالیٰ اس کے پیش نظر ہے اس لئے وہ بے خوف ہو کے ڈرائے گا.ورنہ جو صاحب خوف ہے وہ ڈرا بھی نہیں سکتا اور ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں کہ ایک شخص دنیا کے ڈر کے مارے انذار بھی نہیں کر سکتا.وہ کہتا ہے اگر میں نے انذار کیا تو یہ لوگ مجھے ماریں گے پس آنحضرت ﷺ کا اندار توحید سے پھوٹا تھا اس لئے پہلے تو حید کا ذکر فرمایا.پھر فرمایا اپنے جتنے تیرے قریبی ہیں ان سب کو ڈرا دے اور جب ڈرایا تو سارے بدک کے بھاگ گئے.اب بتائیں یہ کیسا حیرت انگیز مضمون ہے.لیکن اس کے ساتھ فرمایا ہاں جو اس کے باوجود تجھ پر ایمان لے آئیں اور تیرے قریب آئیں.وَاخْفِضْ جَنَا حَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ تو جو بھی ان میں سے تجھ پر ایمان لائیں اور تیری پیروی کریں تو ان پر جھک جا یعنی تیرے دل میں کوئی سختی نہیں ہے.تو ڈراتا ہے تو ان لوگوں کی خاطر ڈراتا ہے.ڈراتا ہے تو رضائے باری تعالیٰ کی وجہ سے ڈراتا ہے.پس جب وہ تجھے قبول کر لیں تو پھر رحمت کے پر ان پر جھکادے لیکن اس وجہ سے نہیں پھر کہ مومن ہیں ، مان گئے ہیں اب یہ نہ کہیں ہاتھ سے نکل جائیں.باقیوں کو تو ڈرا دھمکا کے دور کر دیا اب یہ جو قریب آئے ہیں یہ نہ کہیں جاتے رہیں.فرمایا ہر گز یہ بات نہیں.فان
خطبات طاہر جلد 15 483 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء عَصَوكَ فَقُلْ إِنّى بَرِى مِمَّا تَعْمَلُونَ اگر یہ سب تیری نافرمانی کریں گے تو کہہ دے میں اس سے بری الذمہ ہوں جو تم کرتے ہو.میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.تمہاری ذات سے میرا تعلق نہیں ہے.ان اعمال سے میرا تعلق ہے جو خدا کی خاطر تم بجالا رہے ہو.وہ اعمال نہیں ہوں گے تو تم میری رحمت کے حق دار نہیں رہوگے، میری شفقت کے حق دار نہیں رہو گے.پس یہ وہ مضمون ہے جو ہر صاحب امر کے لئے سمجھنا ضروری ہے وہ جب کسی سے پیار کرتا ہے اپنے ماتحتوں پر جھکتا ہے تو اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہیں آنا چاہئے کہ میں ان پر اس لئے جھک رہا ہوں کہ یہ میری تائید کرنے والے لوگ ہیں.اس لئے جھک رہا ہوں کہ یہ میرا عشیرہ ہے، میرے اقر بین ہیں کیونکہ اقر بین سے تو بات شروع ہوئی تھی.فرمایا ان کو تو ڈرا دے تو مانیں گے حق پر چلیں گے حق پر قائم رہیں گے تو پھر تیری رحمت ان پر ہوگی ورنہ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں.پس وہ امیر جو اس وجہ سے بعض لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے زیادہ قریب ہیں ان کے حق میں باتیں کرنے والے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ جو بھی میں کہوں گا اس کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوں گے وہ جانتے نہیں کہ توحید کے مضمون کے یہ بات خلاف ہے اور جو بات بھی تو حید کے برخلاف ہو وہ خدا تعالیٰ کے نظام میں کہیں بھی کوئی مقام نہیں رکھتی.وہ نظام اللہ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس میں ہر پہلو کا توحید سے تعلق ہے.پس باریک راہیں ہیں مگر ان باریک راہوں کا اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ جماعت کے تقویٰ کی زندگی ان راہوں سے وابستہ ہو چکی ہے.ان راہوں کو چھوڑ دیں گے تو آپ بھی کبھی نیک انجام نہیں ہو سکتے ، آپ کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس ہرا میر کے لئے ان آیات سے میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہوں لازم ہے کہ جھکے اور رحمت کے ساتھ سب لوگوں سے انکساری کے ساتھ ، بجز کے ساتھ تعلق قائم کرے.اپنے مرتبے کا خیال نہ کرے.اس کا مرتبہ بڑا ہے تو محض اس لئے کہ خدا نے اسے ایک مقام پر فائز کیا ہے.مگر جس مقام پر فائز کیا ہے اس مقام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خود نیچے اتر آئے.اب یہ خود نیچے اترنے والا مضمون ہے.یہ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سے نکلتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سیرت ان پر خوب روشنی ڈال رہی ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق روایات اور کثرت سے روایات بتاتی ہیں کہ آپ مومنوں کے لئے ایسی شفقت رکھتے تھے اور ایسے منکسر المزاج تھے کہ اگر رستہ چلتے
خطبات طاہر جلد 15 484 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء کسی عورت نے بھی آواز دی تو کھڑے ہو جایا کرتے تھے.پوری توجہ سے اس کی بات سنتے تھے.ایک غلام اور بے حیثیت آدمی کبھی آپ کو مدد کے لئے کہتا تھا تو اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا کرتے تھے.ایک یتیم بچہ بھی آپ کو بلاتا تھا تو آپ اس کے ساتھ روانہ ہو جایا کرتے تھے.حیرت انگیز وجود تھا جس کی نہ رفعتیں ہماری پہنچ میں ہیں، نہ اس کی خدا کے حضور پستیاں ہماری پہنچ میں ہیں.دونوں طرف کے کنارے ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہیں لیکن وہ ایسا ہی تھا جس کو خدا نے ساتویں آسمان سے بھی بلند کر دیا.جب وہ جھکا تو ان لوگوں پر جھک گیا جو پستیوں کی انتہا تک پہنچے ہوئے تھے.مومنوں پر بھی جھکا اور غیروں پر بھی جھکا لیکن مومنوں کے متعلق تو اس کے دل کی کیفیت ہی اور تھی.یہ وہ حقیقت ہے جو مصطفوی حقیقت ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی جان ہے.پس اس پہلو سے ہر امیر کا کام ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں سے نرمی اور محبت اور عجز کا سلوک کرے اور ان کی خاطر نہیں بلکہ محض اللہ کی خاطر.ان کی خاطر تو کرے گا مگر خدا کی خاطر.اب یہ ایک اور سلسلہ بیچ میں داخل ہو جاتا ہے.بندوں سے پیار ہے بندوں کی خاطر، مگر بندوں سے بندوں کی خاطر جو پیار ہے اس کا آغاز اللہ کے پیار سے ہوا اور یہ وہ مضمون ہے جسے قرآن کریم کی ایک اور آیت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمارہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ صلى الله عظم قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی (النجم : 9، 10 ) کہ محمد رسول الله و عظیم الشان وجود ہیں دَنا وہ خدا کی طرف بڑھا اور اتنا قریب ہو گیا کہ اس سے زیادہ قرب الہی ممکن نہیں رہا.اتنے قرب کے باوجود وہ ٹھہر نہیں گیا.فَتَدَلی پھر وہ نیچے اترا اور بنی نوع انسان کو اس قرب، اس عظیم ذات کے لئے بلانے کے لئے نیچے اترا.وہ عظمتیں اور رفعتیں جو اس نے اپنے رب سے حاصل کیں اپنے آپ تک محدود نہیں رکھیں بلکہ اس کی خاطر اس کے بندوں میں تقسیم کرنے کے لئے وہ رحمتیں بانٹنے کے لئے نیچے اترا اور اس کی مثال ایسی ہوگئی.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی جیسے دو قوسیں ہوں یعنی کما نہیں جن کا ایک ہی وتر ہو، ان کے درمیان ایک ہی تنی ہو.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمانیں کس شکل کی ہو سکتی ہیں؟ عام طور پر اس کی جو شکل بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف کمان نیچے سے آرہی ہے اوپر کی طرف ،ایک اوپر سے کمان اتری ہے اللہ کی محبت کی اور بیچ میں ایک ہی وتر ہے.وہ تنی ایک ہی ہے.یہ مضمون بھی بہت باریک اور
خطبات طاہر جلد 15 485 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء لطیف ہے لیکن میں جو سمجھتا ہوں وہ اس سے مختلف ہے.اس کو غلط نہیں سمجھتا کیونکہ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں.مگر میرے نزدیک ان دونوں کمانوں کا رخ ایک ہی طرف ہے یعنی ان کا جو بیچ کا دھاگہ یاتنی ہے اس سے ایک کمان محمد رسول اللہ ﷺ کی کمان اور ایک خدا کی کمان ہے وہ اس طرح ایک سمت میں ہیں کہ ناممکن ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی کمان چلے اور خدا کی کمان میں حرکت نہ آئے.ناممکن ہے کہ اللہ کی کمان کو کھینچا جائے اور وہ بچلی کمان اس کے ساتھ حرکت میں نہ آئے کیونکہ دونوں کا ایک ایسا گہرا اٹوٹ رشتہ قائم ہو چکا ہے کہ جب ایک کو کھینچا جائے دوسری کھینچ جاتی ہے ہے جب دوسری کو کھینچا جائے تو پہلی کھینچ جاتی ہے اور اس تنی سے جو تیر نکلتا ہے وہ بیک وقت محمد رسول اللہ سے کی طرف سے نکلا ہوا تیر بھی ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے نکلا ہوا تیر بھی ہوتا ہے.اس تفسیر کی تائید کرنے والی میرے نزدیک وہ آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى (الانفال:18) اگر کمانوں کو برعکس سمت میں رکھا جائے تو وہ دونوں کا چلایا ہوا تیر ایک دوسرے کی طرف جائے گا.اگر تیر چلانے کا مضمون اس سے نکالا جائے تو سوائے اس کے ممکن ہی نہیں کہ جو نقشہ میں نے ذہن میں رکھا اور آپ کے سامنے پیش کیا اسے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی تائید میں سمجھا جائے تو بات یہ بنے گی کہ آنحضرت ﷺ کی صلى الله کمان سے چلا ہوا ہر تیر اللہ کی کمان سے چلا ہوا تیر تھا.اللہ کی کمان سے جو تیر چلتا تھا محمد رسول اللہ کی کی وساطت سے چلتا تھا.پس اس پہلو سے دَنَا فَتَدَتی کا مضمون یہ بنا کہ اتناوہ قریب ہو گیا کہ جس سے زیادہ ممکن نہیں تھا اور فَتَدَٹی پھر وہ جھک گیا اور اس جھکنے کے نتیجے میں وہ قَابَ قَوْسَيْنِ ہو گیا.اب قَوْسَيْنِ کا مضمون یہاں ایک اور معنے اختیار کر جاتا ہے.فرماتا ہے انسانیت کے ساتھ اس کا تعلق اس کے جھکنے کے نتیجہ میں خدا کے تعلق کے ساتھ ایسا مدغم ہو گیا کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا.اس کی بشریت نور ہو گئی ،اس کا نور بشریت بن گیا.پس اس پہلو سے وہ بندوں پر جب جھکا ہے تو خدا کا نور بن کر اپنے ہم جنسوں پر تو جھک گیا اور اس کی بشریت نے صلى الله وہ علاقہ قائم کر دیا.جیسے ایک تنی دو کمانوں کے درمیان علاقہ بن جاتی ہے.پس رسول اللہ ﷺ کا بنی نوع انسان پر جھکنا ان کی خاطر تھا مگر خدا کی خاطر ان کی خاطر ہوا.یہ وہ مشکل فقرہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا اس کی تشریح ہے.ورنہ بندے کی خاطر بھی ایک انسان رحمت کا سلوک کرتا ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 486 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء آنحضرت مہ نبوت سے پہلے ذاتی شفقت سے لوگوں پر اسی طرح جھکا کرتے تھے.مگر جب نُوْرٌ عَلَى نُورٍ (النور: 36) ہوئے تب کیفیت بدل گئی.اس کے بعد ہر رافت ، ہر شفقت، ہر رحمت خدا کے تعلق سے اوپر سے اترا کرتی تھی اور بنی نوع انسان سے آپ کی محبت کو الہی محبت کی تائید حاصل ہوگئی اور آپ کی الہی محبت بنی نوع انسان کی محبت میں تبدیل ہونے لگی.یہ وہ پہلو ہے جو امارت کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور اسی پہلو کو ہر صاحب امر کو سمجھنا ضروری ہے.صلى الله میں جب امیر کہتا ہوں تو ہر گز مراد یہ نہیں کہ محض وہ امیر جوملکوں یا شہروں یا محلوں کے بنائے جاتے ہیں.امیر سے مراد ہروہ شخص جسے کچھ بھی امر سونپا جائے اور خدا کی خاطر سونپا جائے اور خدا کے نام پر سونپا جائے.اس کی تربیت کے لئے یہ مضامین ہیں جو قرآن کریم نے ہم پر کھولے ہیں.فرمایا کہ تم امیر ہومگر اب یا درکھنا کہ اللہ کی خاطر جس طرح محمد رسول اللہ ﷺے ان پر جھک گئے تھے جن کے سرخدا کی خاطر ان کے سامنے جھکائے گئے تھے تم بھی ان پر جھک جانا اور ان کی خاطر نہیں، اللہ کیونکہ ان کی خاطر جھکو گے تو تمہارے اندر شرک کے شائبات داخل ہو جائیں گے.شرک کے خطرات تمہیں ہوسکتا ہے واقعہ ہلاک کر دیں کیونکہ جب بھی انسان کسی سے رحمت کا تعلق رکھتا ہے یہ خطرہ موجودرہتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں جو پیار اور محبت کا سلوک اس سے کیا جاتا ہے وہ ان دونوں کو ایسے رشتوں میں باندھ دے کہ خدا کا مضمون بیچ میں سے غائب ہو جائے.اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں خوب اچھی طرح وضاحت کے ساتھ یاد کرایا.میرے وہ بندے جو میری خاطر بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہیں اور ان سے محبت کا سلوک کرتے ہیں جب ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدم : 10) کہ کیا کر رہے ہو ہم تو خدا کی خاطر تم سے پیار کر رہے تھے تم شکریے ادا کر کے ہمارے پیار کو کیوں میلا کرتے ہو.ہمیں تم سے کسی خیر کی توقع نہیں.یعنی توقع سے مراد یہ ہے کہ چاہتے نہیں ہیں کہ تم ہم سے کوئی سلوک کرو، ہماری نیکی محض اس کی خاطر تھی جس کی ہماری نیکی پر نظر ہے.اسی سے ہم پیار چاہتے ہیں.اسی کی رضا تلاش کرتے ہیں.پس شکریہ ادا کر کے ہماری نیکی کو میلا نہ کر دینا.اور پھر قرآن کریم نے اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ یوں بیان فرمایا وَلَا تَمْنُنْ
خطبات طاہر جلد 15 487 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء تَسْتَكْثِرُ (المدثر: 7) تو اس وجہ سے کسی پر احسان نہ کر کہ اس کے بدلے میں تجھے زیادہ دیا جائے گا.پس نہ ان کی نیت میں کچھ زیادہ لینا شامل ہوتا ہے نہ ان کی نیت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ خدا کی رضا کی بجائے کسی اور کی خاطر ان پر جھکیں اور جب کلیۂ خدا کی خاطر جھکتے ہیں تو ان کا احسان ، ان کا شکریہ، ان کا تشکر بجائے دل کو ایک غذا دینے کے لئے اندر ایک قسم کا ایک زلزلہ طاری کر دیتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا.ہم تو بہت بالا قیمت چاہ رہے تھے.ہم نے تو اپنے اللہ کی خاطر یہ کیا تھا.ان کے شکریے کہیں ہمارے نفس کو موٹا نہ کر دیں.تو واقعہ ان کے دل پر ایک زلزلے کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ گھبراتے ہیں اور لازم نہیں کہ وہ اس بات کو ظاہر کریں.مگر قرآن کریم نے ان کی زبان سے ظاہر کیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس سوسائٹی میں ہمیشہ یہ نہیں ہوا کرتا تھا کہ ہر وہ شخص جس کا شکریہ ادا کیا جائے وہ آگے سے انہی الفاظ میں جواب دیا کرتا تھا.بعض باتیں ایسی ہیں جو صحابہ کے دل میں وارد ہوتی تھیں اور اللہ کے پیار کی نظر ان پر پڑتی تھی اور وہ آنحضرت ﷺ پر روشن کر دیا کرتا تھا کہ اے میرے پاک غلام ، غلام کامل تو نے آگے بھی دیکھو کیسے کیسے پیارے غلام پیدا کر دیئے ہیں.تیرے ہی رنگ میں رنگین ہیں.ان کا شکر یہ ادا کیا جائے تو ان کا دل آوازیں دیتا ہے کہ نہ نہ ہمارا شکر یہ ادا نہ کرو ہم تو محض خدا کی خاطر ایسا کرتے تھے.پس اگر وہ خدا کی خاطر ہی یعنی ہر صاحب امر خدا کی خاطر اپنے ماتحتوں سے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے تو ان کے شکریے کی نہ تو اسے توقع ہوتی ہے اور نہ اسے پر واہ ہوتی ہے.جب توقع نہیں تو اس کے برعکس پہلو بھی ہے اور وہ ہے پر واہ بھی کوئی نہیں.اس لئے کہ اگر جب ذاتی تعلق ان سے نہیں تھا جس کی خاطر ان پر رحمت کی جارہی تھی تو اللہ سے اگر وہ دور ہٹیں گے تو یہ شفقت کرنے والا اسی حد تک ان سے دور ہٹ جائے گا اور ان کی اس بارے میں کچھ بھی پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ اس سے کیسا پیار کا تعلق رکھتے تھے.بے انتہا محبت اور فدائیت کا اظہار کرنے والے بھی جب ایسی روش اختیار کرتے ہیں جس سے خدا ناراض ہو تو جن کو پیار دیا جاتا ہے ان کو اس بات کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں رہتی کہ یہ تو مجھ سے محبت کرنے والا تھا.وہ اسی طرح جیسا کہ خدا کی آنکھ انہیں دیکھتی ہے انہیں ناراضگی سے دیکھتا ہے اور ان کے چھوڑ کے چلے جانے کی ادنیٰ بھی پرواہ نہیں کرتا.پس توحید کا یہ مضمون بالآخر تو کل پر منتج ہو جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 صلى الله 488 صلى الله خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء چنانچہ قرآن کریم اس کے بعد فرماتا ہے فَاِنْ عَصَوكَ فَقُلْ إِنِّى بَرِئَ مِمَّا تَعْمَلُونَ تمہیں کیوں وہم ہو گیا ہے کہ میں تم پر رحمت سے جھکا ہوا تھا اس لئے کہ تم مجھے ذاتی طور پر پیارے لگتے ہو.وہ تو اللہ کی خاطر تھا.اگر تم خدا کی نافرمانی کرو گے یہاں عَصَوكَ میں محمد رسول الله له پیش نظر ہیں لیکن آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے.اس کے سوا کوئی اور نافرمانی ممکن ہی نہیں کہ انسان حضرت محمد رسول اللہ اللہ سے نافرمانی کرے اور وہ آپ کی نافرمانی ہو، خدا کی نہ ہو.اس مضمون کو قرآن بھی کھول چکا ہے بار بار رسول اللہ نے خود بھی اس مضمون کو کھول چکے ہیں اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، مزید دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں.ایک مسلمہ غیر مبدل حقیقت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی لاز مأخدا کی نافرمانی ہے اور اس کے سوا اس نافرمانی کو کوئی اور معنے نہیں پہنائے جاسکتے.فَاِن عَصَوكَ میں اس لئے مخاطب " تجھے“ کہہ کر رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں پر جھک رہے تھے ، آپ لوگوں سے رحمت کا سلوک فرما رہے تھے، یہ گواہی دینا مقصود ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ کی رافت ، آپ کی شفقت اللہ کی خاطر تھی ، ان کی خاطر نہیں تھی.فرمایا پس جب یہ تیری نافرمانی کریں تو ان کی پہلی اطاعتوں کی ، ان سے پہلے تعاون کی کچھ بھی پرواہ نہ کر.تو کہ دے میں تم سے بیزار ہوں.تم یہ جو حرکتیں کر رہے ہو یہ میرے محبوب آقا کی مرضی کے خلاف ہیں اس لئے تم بھی میری مرضی کے خلاف ہو گئے ہو.اگر ایسا کرو گے تو ان کے چھوڑ جانے کا تمہیں کوئی بھی غم نہیں ہونا چاہئے.وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ جب تو یہ کرے تو یا درکھ اللہ جو عزیز ہے، اللہ جو رحیم ہے، جو غالب اور بزرگی والا ہے، جو بار بار رحم فرمانے والا ہے اس پر تو کل رکھ.وہ تجھے کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ جس سفر کا آغاز توحید سے ہوا ، جس کا بنی نوع انسان سے تعلقات کا آغاز اس طرح ہوا کہ خدا کی خاطر لوگوں کو ڈرا دھمکا کر دور کر دیا، جو قریب آئے ان کو بھی جب بھی وہ خدا سے دور ہوئے اپنی ذات سے دور کر دیا جب یہ سلوک ہو تو پھر تو کل علی اللہ کا ایک لازمی نتیجہ ہے.اس کے سوا کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.ا الله پس ہر وہ صاحب امر جو اس اسلوب پر چل پڑے حضرت رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو اپنالے اس کو کوئی بھی خطرہ نہیں.وہ جب سزا دے گا تو خدا کی خاطر دے گا ، جب تعلق بڑھائے گا تو خدا کی خاطر بڑھائے گا اور ان لوگوں کا اس تعلق کی پرواہ نہ کرنا یا نہ کرنا اس کی نظر میں کوئی بھی حقیقت
خطبات طاہر جلد 15 489 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء نہیں رکھے گا اور یہ وہ امارت ہے جو غیر متزلزل ہے کیونکہ اس کو کلیة اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوگی اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس امارت کا تعلق ایک چھوٹے سے، معمولی افسر کے حکم سے بھی ہو جو کسی خاص معین کام پر مامور کیا گیا ہے.اگر اس کی نافرمانی کرو گے تو یادرکھو یہ سلسلہ آخر خدا تک پہنچے گا اور جہاں تک اس شخص کی ذات کا تعلق ہے اس کو سمجھنا چاہئے کہ بڑے بڑے لوگ جو میرے سامنے جھک رہے ہیں اس میں میری تو کوئی بڑائی نہیں ، میری تو کوئی بھی حیثیت نہیں ، خدا کی خاطر میری طرف جھک رہے ہیں.پس اسے مزید خدا کے حضور جھکنا چاہئے اور پھر نافرمانی کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.دنیا کی مثالوں میں اس کی وہ مثال ہے جو حضرت مصلح موعود بار ہا پیش کیا کرتے تھے اور موعود بار کرتے اور میں بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں لیکن وہ مثال ہی ایسی عظیم ہے اور اس موقع پر ایسی چسپاں ہوتی ہے کہ بے اختیار سے بارہا پیش کرنے کو دل چاہتا ہے.زار جب صاحب سطوت تھا ، جب اس کا رعب بہت کثرت سے وسیع ممالک پر طاری تھا یہاں تک کہ سلطنت برطانیہ کے بعد اگر کوئی حقیقت میں سلطنت کہلاتی تھی تو وہ زار روس کی سلطنت تھی.اس زمانہ میں ایک دفعہ زار کسی بہت ہی اہم کام میں مصروف ہوا اور اس نے اپنے اردلی کو یا فوجی سپاہی کو بلا کر یہ تاکید کی کہ کسی کو بھی تم نے میرے کمرے میں نہیں آنے دینا خواہ کوئی بھی ہو کیونکہ میں اتنا مصروف ہوں کہ میں اس وقت کسی قسم کی دخل اندازی برداشت نہیں کر سکتا.اس نے کہا درست اور یہ کہہ کر ، یہ بات سن کر وہ باہر دروازے کی حفاظت پر مامور ہوگیا.اب خدا تعالیٰ نے ، دیکھیں کیسے اس کی اطاعت کو عظیم نعمت کے، رحمت کے پھل لگائے ، ایسی عظیم جز آ کے پھل لگائے اور ہمارے سامنے کیسا عظیم نمونہ اطاعت کے مضمون کا رکھ دیا اور اس کی گہرائی کو سمجھانے کے لئے یہ واقعہ آج مذہبی دنیا میں بھی بار بارد ہرایا جارہا ہے.بادشاہ کے یہ کہنے کے بعد جب وہ مصروف ہو گیا کام میں ، تو بادشاہ کا ایک بیٹا ،ایک شہزادہ، وہ اپنے باپ سے ملنے آیا تو وہ معمولی حیثیت کا سپاہی سامنے سینہ تان کے کھڑا ہوگیا کہ شہزادے آپ کو اندر جانے کی اجازت نہیں.اس کا تو غصے سے پارہ چڑھ گیا.اس نے کہا تم کون ہوتے ہو، تمہاری حیثیت کیا ہے.میں اپنے باپ سے ملنے جارہا ہوں.اس نے کہا آپ کے باپ ہوں یا نہ ہوں ، اس سے بحث نہیں.مجھے حکم ہے کہ کسی شخص کو میں اندر نہ جانے دوں پس میں آپ کو
خطبات طاہر جلد 15 490 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء اندر نہیں جانے دوں گا.اس پر وہ شہزادہ آپے سے باہر ہو گیا ، اس نے اپنا کوڑا نکالا اور اس پر برسانا شروع کیا یہاں تک کوڑے مار مار کے اسے ادھ موا کر دیا.اس نے ہاتھ نہیں اٹھایا مگر اس طرح چھاتی تانے سامنے کھڑا رہا.اس نے کہا شہزادے آپ مارنا ہے جتنا چاہے مار لیں مگر میں بادشاہ کی حکم عدولی نہیں کروں گا میں تمہیں نہیں جانے دوں گا.جب یہ شور سنا اور کوڑوں کے برسنے کی آواز اندر گئی تو بادشاہ با ہر نکلا.اس نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے.شہزادے نے کہا اے میرے باپ اس نے میری گستاخی کی ہے بہت بے ادبی کا سلوک کیا ہے.کیا ہوا ؟ میں اندر آنا چاہتا تھا آپ سے ملنے کے لئے اور اس کمترین انسان کو دیکھیں میرے سامنے کھڑا ہو گیا کہ میں تمہیں اندر نہیں جانے دوں گا.بادشاہ جان کے بھولا بنا اور اس سپاہی سے پوچھا کہ بتاؤ یہ کیا بات ہے کیوں تم اس کو اندر نہیں آنے دیتے تھے.اس نے کہا بادشاہ سلامت آپ کا حکم تھا.آپ کے حکم کی اطاعت کی خاطر میں نے یہ قربانی دی ہے.بادشاہ نے کہا اچھا یہ بات ہے ، تو نے اسے بتایا تھا.اس نے کہا ہاں میں نے اسے بتایا تھا.اس نے بیٹے سے کہا جب تم نے سنا تھا کہ بادشاہ کا حکم ہے تو تم نے کیوں نافرمانی کی.اس نے سپاہی کو نام لے کر مخاطب کیا اور کہا یہ کوڑا اٹھا اور اس بیٹے کو اسی کوڑے سے اسی طرح مار جس سے اس نے تجھے مارا تھا.اس پر شہزادے کی غیرت بھڑ کی اور روس کا قانون اس کی مدد کے لئے آیا.اور اس نے بادشاہ سے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ ملک روس کا قانون ہے کہ کوئی غیر افسر سپاہی اپنے افسر کو مار نہیں سکتا، جب کہ میں فوج میں ایک بڑا افسر ہوں اور یہ شخص ایک عام سپاہی ہے.اس لئے آپ کا قانون اس حکم کی ، جو آپ نے حکم دیا ہے اس کی راہ میں حائل ہو رہا ہے.بادشاہ نے کہا ہاں قانون نہیں ٹوٹے گا.سپاہی کو مخاطب کر کے اسے فوج کا ایک بڑارتبہ عطا کرتے ہوئے کہا.اے جرنیل یا اے کر نیل جو بھی تھا اس سانٹے کو اٹھا اور میرے بیٹے کو مار.اس پر شہزادے کو ایک اور قانون یاد آ گیا.اس نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت ایک یہ بھی قانون ہے کہ کوئی غیر شہزادہ کسی شہزادے کو نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا ہاں اس قانون کا بھی احترام کیا جائے گا.اس نے کہا اے شہزادے! فلاں سانٹا اٹھا اور میرے بیٹے کو مار.چنانچہ اپنے سامنے اس نے اس بیٹے کو سانٹے لگوائے کیونکہ اطاعت کی عظمت کو وہ سمجھتا تھا اور اطاعت کی خاطر قربانی دینے والوں کی حفاظت کے لئے وہ کھڑا تھا.تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ اس بادشاہ سے کم اپنے غلاموں کی غیرت رکھتا ہے.خدا کی قسم
خطبات طاہر جلد 15 491 خطبہ جمعہ 21 جون 1996ء خدا کے نام پر، اس کی اطاعت کی خاطر اپنی چھاتیاں تان دیں اور خدا کی خاطر اگر آپ کسی سے ناراض ہوں گے یا کسی کی ناراضگی مول لیں گے تو ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہ کریں.جو سانٹے آپ پر برسائے جائیں گے آسمان سے وہی سانٹے اس شخص پر برسائے جائیں گے جو محض اس لئے آپ کا دشمن ہوا ہے کہ آپ نے اطاعت کی خاطر اس سے دشمنی مول لے لی.ایسی الہی جماعت کو دنیا کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے.دنیا کے بادشاہوں کی تو کوئی حیثیت نہیں.آج مرے کل دوسرا دن لیکن اللہ کی بادشاہت تو دائمی ہے.اس سلطنت میں کبھی کوئی زوال نہیں آسکتا.پس وہ امراء جو محبت سے جھکتے ہیں تو خدا کی خاطر جھکتے ہیں وہ امراء جو ناراض ہوتے ہیں اور ناراضگی مول لیتے ہیں تو ان پر بڑی بڑی طعن کی زبانیں دراز کی جاتی ہیں، ان کے خلاف اڈے بنائے جاتے ہیں محض اس لئے کہ انہوں نے رضائے باری تعالیٰ کی خاطر ایک کڑوا فیصلہ کیا ہے ان کو ان نافرمانیوں کی بھی ، ان بد تمیزیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.خدا کی خاطر وہ ڈٹے رہیں اور یاد رکھیں کہ خدا کا وعدہ ہے وَتَوَكَّلُ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ کہ تو پھر اللہ پر توکل رکھ جو عزیز ہے.وہ غالب ہے اور فائق ہے ہر دوسری چیز پر.صاحب عزت و عظمت ہے اور رحیم ہے اور بار بار رحم فرمانے والا بھی ہے.تو تمام دنیا کے امراء جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں اگر وہ امارت کے ڈھنگ اختیار کریں گے تو یاد رکھیں کہ جماعت ایسے عظیم رشتوں میں منسلک ہو جائے گی جہاں جماعت کا ہر بڑا اپنے ماتحتوں کے لئے چھوٹا ہو جائے گا اور جماعت کا ہر چھوٹا اپنے افسروں کے لئے بڑا بن جائے گا.یہ وہ وحدت کا ایک نمونہ ہے جو اس دنیا میں توحید کی برکت سے پیدا ہوسکتا ہے ورنہ ناممکن ہے.پس وہ تو حید جو ہم آسمان کی بلندیوں پر دیکھتے ہیں وہ ہماری خاطر نیچے اترتی ہے اور ہمیں ایک ایسے عظیم رشتے میں منسلک کر دیتی ہے کہ جہاں چھوٹا خدا کی خاطر بڑا ہورہا ہے جہاں بڑا خدا کی خاطر چھوٹا ہورہا ہے ، اس سے زیادہ مساوات کا ، اس سے اعلیٰ اور پاکیزہ مساوات کا کوئی تصور دنیا میں ممکن نہیں ہے.پس آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ فرمایا اور پھر دیکھیں کیا فرماتا ہے الَّذِي يَرُبكَ حِينَ تَقُوْمُ اے میرے بندے تو میری خاطر لوگوں کو ناراض کرتا ہے پھر کیا ڈر ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ جس کی خاطر تو توکل کر رہا ہے الَّذِي يَرْبكَ حِينَ تَقُومُ وہ خدا جو تجھے دیکھتا ہے جب تو کھڑا ہوتا ہے، اس کی نظر تجھ پر پڑ رہی ہوتی ہے ایک لمحہ بھی وہ
خطبات طاہر جلد 15 492 خطبہ جمعہ 21 جون 1996ء تیرے حال سے غافل نہیں ہے.پس زار کو تو اس کی آواز ہوسکتا ہے نہ بھی پہنچتی ، ہوسکتا ہے یہ واقعہ ایک فاصلے پر ہوتا اور اس کی نظر بھی نہ پڑتی بعد میں اس سے جو سلوک ہوگا اس کا بھی زار کو کچھ پتہ نہیں چل سکتا تھا.گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ہر حال تجھ پر کھڑا ہے.سبحان من یرانی کا مضمون ہے جو یہاں بیان ہوا ہے.حضرت مسیح موعود کے اس شعر میں جو آپ بار بار سنتے ہیں سبحان من یرانی ، سبحان من یرانی تو ایک صاحب عرفان کا کلام ہے جو جانتا ہے کہ ہرلمحہ میرے خدا کی مجھ پر نظر ہے.اس سے کوئی حال بھی میراغافل نہیں.نہ میرا نہ ان لوگوں کا جو میرے ساتھ کوئی معاملہ کرتے ہیں پس فرمایا تو کل اس ذات پر تو نے کرنا ہے جو ہمیشہ تجھ پر نگران کھڑا ہے اس کی پیار کی نگاہیں تجھ پر پڑتی ہیں بلکہ وہ اس حد تک تیرے حال سے واقف ہے وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ (الشعره : 220 ) وه سجدہ کرنے والوں میں تیرے تقلب کو بھی دیکھ رہا ہے.اب دیکھیں کتنا عظیم مضمون ہے جس کا پہلے مضمون سے کیسا حیرت انگیز تعلق ہے.تقلب کا یہ مضمون بعض مفسرین نے بلکہ اکثر نے یہ بیان کیا ہے کہ جب مومن سجدہ کرتے ہیں تو ان کے درمیان تیرا پھر نا اللہ دیکھتا ہے کیونکہ تقلب کا ایک معنی ہے پھر نا لیکن تقلب کا یہ معنی اس صورت حال پر اطلاق نہیں پاتا.سجدے کے وقت تو سب سے آگے سجدہ ریز محمد رسول اللہ ملے ہوا کرتے تھے.اس وقت آپ کے تقلب کا کیا مطلب.یہاں تقلب کا جو میں معنی سمجھتا ہوں وہ یہی ہے کہ آپ کا سجدے میں خدا کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ کروٹیں بدلنا اور سجدے میں بے چینی سے جب انسان دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوتا ہے جب لوٹتا پوٹتا ہے تو تقلب کا معنی ہی لوٹنا پوٹنا ہے.تو تیری بے قراریاں خدا کے حضور سجدہ ریز لوگوں کے حضور، خدا کی نظر میں رہتی ہیں.پس چونکہ سجدے کا مضمون ہی چل رہا ہے اطاعت ہی کا مضمون چل رہا ہے تو فرماتا ہے کہ تیرے خدا کی تجھ پر اس وقت بھی نظر ہوتی ہے جب سجدہ کرنے والوں میں سب سے زیادہ بے قرار سجدہ تیرا ہوتا ہے.سب سے زیادہ اللہ کی محبت میں گوندھا ہوا اور اللہ کی محبت میں تڑپتا ہوا تیرا سجدہ ہے.پس تقلب سے مراد وہ تڑپنا ہے سجدے کا جو آنحضرت ﷺ کو نصیب تھا اور فرمایا تجھے پھر کیا پر واہ.میں تجھے دیکھ رہا ہوں ، ہر حال میں دیکھ رہا ہوں اور تیرے تقلب پر بھی نظر ہے.جو دکھ تجھے پہنچتا ہے وہ سجدوں میں تو میرے حضور پیش کر دیتا ہے.تیری بے قراریاں میری نظر کے سامنے رہتی ہیں.اِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ
خطبات طاہر جلد 15 493 خطبہ جمعہ 21 / جون 1996ء الْعَلِيْمُ جان لے کہ وہ بہت سنے والا اور بہت جاننے والا ہے.تو نہ بھی کہتا تو وہ جانتا تھا لیکن جب تو گریہ وزاری خدا کے حضور پیش کرتا ہے تو وہ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ ہے.وہ سنے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے.پس مومن اگر یہ رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا جو آقا کے رنگ ہیں یعنی حضرت محمد مصطفیٰ کے رنگ تو اس کی اطاعت میں بھی رفعتیں ہیں ، اس کے مطاع ہونے میں بھی رفعتیں ہیں.ہر حال میں وہ سر بلند ہے لیکن اس حالت میں سر بلند ہو گا جب خدا کے حضور اس کا سر جھکار ہے گا.جب سجدوں میں تقلب نصیب ہوگا اور جب بنی نوع انسان کے سامنے اس کی انکساری خدا کی خاطر ہوگی نہ کہ نفس کی عزت کی خاطر اللہ کرے ہمیں یہ توفیق نصیب ہو اور جماعت کینیڈا کو بھی اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرمائے.آمین اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے مگر میں ایک بات جماعت کینیڈا کو خصوصیت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس اطاعت کے مضمون کو سمجھ کر یا درکھیں.میں سال ہا سال سے آپ کو تبلیغ کی طرف توجہ دلا رہا ہوں اور ہر طرح جس حد تک مجھے خدا نے توفیق بخشی بلند آواز سے بھی ، آہستہ بھی ، خطوں میں لکھ لکھ کر بھی ، پیار سے بھی سمجھا کر کبھی ناراضگی کا اظہار کر کے بھی آپ کو بتارہا ہوں کہ دیکھو یہ زمانہ وہ آ گیا ہے کہ جب تبلیغ کے تقاضے ہر دوسرے تقاضے سے بالا ہو گئے ہیں.اب قوموں کی تقدیریں پلٹنے کا زمانہ آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم وہ ہیں جن کے ہاتھوں میں قوموں کی تقدیروں کی باگ ڈور تھا دی گئی ہے.اگر ہم اس فریضے کو ادا نہیں کریں گے تو پھر اور کوئی کبھی اس فریضے کوا د نہیں کرے گا اب تو دوسروں کی طرف سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں.ابھی پرسوں کینیڈا کے ایک مخلص احمدی جو ابھی حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ میں شکریہ بھی ادا کرنے آیا ہوں اور شکوہ بھی کرنے آیا ہوں.شکریہ اس بات کا کہ مجھے وہ نعمت نصیب ہوئی جس کے لئے میرا دل ہمیشہ بے قرار رہتا تھا اور ایک پیاس تھی جو بجھتی نہیں تھی.صرف احمدیت میں آکر وہ پیاس بجھی ہے اور شکوہ اس بات کا کہ آپ لوگ پہلے کہاں رہے ہیں کیوں ہم تک اپنی آواز نہیں پہنچائی.اس نے کہا آپ کو پتا نہیں کہ لاکھوں روحیں ہیں میری طرح جو بے تاب ہیں.ان کے کان ترس رہے ہیں آپ کی آواز سنے کو اور آپ خاموش بیٹھے ہیں.کون اس کا ذمہ دار ہے.میں نے جس حد تک ممکن تھا سمجھانے کی کوشش کی
خطبات طاہر جلد 15 494 خطبہ جمعہ 21 جون 1996ء مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو بھی آپ کے ساتھ مل کر ایک مجرم سا محسوس کر رہا تھا.جو حق تھا جیسا کہ حق تھا ہم نے ادا نہیں کیا.اور امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں کینیڈا کو ایک خاص سعادت نصیب ہوئی ہے.جس کا ذکر میں ہمیشہ کرتا چلا آیا ہوں.ان لوگوں میں ایک بھولا پن ہے، ایک سادگی ہے جو باقی مغربی دنیا میں اس حد تک نہیں ہے.جرمن قوم کی بھی میں تعریف کرتا ہوں اور قوموں کی بھی اپنی خوبیوں کے لحاظ سے تعریف کرتا ہوں لیکن ان کا ایک الگ انداز ہے سادگی اور بھولے پن کا جو اس قوم کا ایک خصوصی نشان بن چکا ہے.ان کو باوجود اس کے کہ یہ دنیا داریوں میں پھنس گئے ہیں اور دن بدن ان کی تو جہات لذت کی پیروی میں منعطف ہو چکی ہیں لیکن ابھی ان کے دل میں ایک پیاس موجود ہے اچھے ہونے کی بھلائی کی ، بنی نوع انسان کی خدمت کی.پس یہ قوم آپ کو بلا رہی ہے اور اگر آپ نے ان تک پہنچ کر ان کی اس طبعی پیاس کو نہ بجھایا تو پھر آپ خدا کے حضور کیا جواب دیں گے.آپ کوثر کے مالک تو بن بیٹھے مگر کوثر کی تقسیم کا حق ادا نہ کیا.پس آپ کی مثال تو ایسی ہی ہوگی جو زندگی کے چٹے پر قبضہ کرلے اور کسی کو اس سے سیراب نہ ہونے دے.پس اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو آنحضرت ﷺ کے کوثر کا ساقی بنا دیا ہے اس ساقی بننے کے حق کو ادا کریں اور چین سے نہ بیٹھیں جب تک آپ کینیڈا کی سعید روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف دعوت نہ دیں اور پھر ان کی تربیت نہ کریں ، ان کو اپنا ئیں نہیں ، ان کو پیار نہ دیں.یہ ایک اور مضمون ہے جس کا میں انشاء اللہ آئندہ کسی موقع پر ذکر کروں گا.سردست اتنا ہی پیغام دینا کافی سمجھتا ہوں.آپ کی وساطت سے چونکہ دنیا ساری براہ راست اس وقت اس خطاب کو سن رہی ہے اور کینیڈا کی جماعت کو یہ توفیق ملی ہے کہ یہ دو طرفہ تعلقات کے رشتے قائم کر دیئے ہیں.اس لئے میں اس مبارک موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دفعہ پھر دعوت الی اللہ کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 495 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی امارت کا دور سب سے اعلی تھا جو قیامت تک جاری رہے گا.(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جون 1996ء بمقام بیت الرحمن واشنگٹن.امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ پھر فرمایا: (التوبہ: 128 تا 129) آج جماعت ہائے احمدیہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ (USA) کا تین (3) روزه اڑتالیسواں (48) جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے اور آج ہی جماعت احمد یہ گوئٹے مالا کا بھی تین (3) روزہ ساتواں (7) جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے پس اس موقع پر جبکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے عالمی روابط قائم کر دئے ہیں میں دونوں جلسوں کے مبارک آغاز کا آج جمعہ کے دن اعلان کرتا ہوں.جہاں تک آج کے خطبہ کے موضوع کا تعلق ہے یہ وہی موضوع ہے جو آج سے پہلے دو تین خطبوں میں جاری ہے.جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ اس کثرت سے پھیلا رہا ہے اور اس تیزی سے نئی قو میں اور نئے ممالک کے بسنے والے جماعت احمدیہ میں داخل ہورہے ہیں کہ میرے نزدیک اب سب سے بڑا اہم مسئلہ ان کی تربیت کا ہے اور تربیت کے تعلق میں سب سے اہم مضمون اطاعت کا مضمون ہے کہ آنے
خطبات طاہر جلد 15 496 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء والوں کو اطاعت کے آداب سکھائے جائیں اور وہ جنہوں نے انہیں دین سکھانا ہے انہیں اطاعت کروانے کے آداب سکھائے جائیں.ورنہ بہت سی غلط فہمیاں ایسی پیدا ہوسکتی ہیں جو نئے آنے والوں کو اسلام اور اسلام کے نظام سے متنفر کر دیں یا کم سے کم سخت غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیں.علاوہ ازیں جماعت میں پرانے داخل ہونے والوں کو بھی اس بات کی ضرورت رہتی ہے کہ بار بار ان کے سامنے اس مضمون کو تازہ کیا جاتا رہے.اطاعت کے تعلق میں گزشتہ دو خطبوں سے پہلے ایک خطبات کا سلسلہ شروع کیا تھا اس میں اطاعت کے تمام پہلوؤں پر قرآن کریم اور سنت کے حوالے سے روشنی ڈالی تھی.اب میں ان لوگوں کے فرائض کا یا ان ذمہ دار افسروں کے فرائض کا ذکر کر رہا ہوں جو اطاعت لینے پر مامور کئے گئے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کی اطاعت کا حکم دیا جاتا ہے اسے خود بھی اپنے اندر بعض صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں جن صلاحیتوں کے بغیر وہ حقیقت میں کسی کو اطاعت کے آداب سکھا ہی نہیں سکتا، نہ کسی مطیع سے اس رنگ کی اطاعت کروا سکتا ہے جو اطاعت اسلام چاہتا ہے.چنانچہ سب سے اعلیٰ نمونہ جو اطاعت لینے والے کا نمونہ ہے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا نمونہ ہے.سب سے زیادہ جس کی اطاعت فرض تھی سب سے زیادہ اطاعت لینے کے گر اسی نے سکھانے تھے اور اسی نے سکھائے اور آنحضرت ﷺ کے انداز امارت میں اتنی دلکشی ہے اور اتنا گہرا جذب حسن ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ امارت سے متعلق ہر قسم کی غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے بلکہ غیر معمولی طاقت اور جذب کے ساتھ لوگوں کو اطاعت کی طرف کھینچتا ہے.یہی وہ مضمون ہے جو کچھ عرصے سے میں نے جاری کیا ہے.اب اسی کے کچھ پہلو ہیں جو آج انشاء اللہ میں آپ کے سامنے رکھوں گا.اطاعت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دنیا میں اگر کبھی کسی کی ہمیشہ کے لئے فرض ہوئی ہے تو وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے کیونکہ قیامت تک آپ کی امارت کا دور ہمیشہ جاری رہے گا.اس پہلو سے آپ حقیقت وہ زندہ رسول ہیں جن کی اطاعت سے سر موبھی انحراف کی طاقت نہیں ہے اور اجازت نہیں ہے.ان غیر معمولی امارتوں کی صلاحیتوں کے ساتھ جو آنحضرت ﷺ کو فطرتاً نصیب تھیں اللہ تعالیٰ نے وقتا فوقتا وحی کے ذریعے آپ پر امارت کے اسلوب روشن فرمائے اور وہی آیات ہیں جن کے حوالے سے میں اس مضمون کو جماعت پر کھول رہا ہوں.آج کے لئے جس آیت
خطبات طاہر جلد 15 497 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء کا میں نے انتخاب کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُم دیکھو تم میں ایک رسول آیا جو تم ہی میں سے ہے اور وہ شخص جو تم ہی میں سے ہے اس کی اطاعت تم پر لازم کر دی گئی ہے لیکن تم میں سے ہونے کے باوجود وہ کچھ مختلف صفات رکھتا ہے.ایسی عظیم الشان صفات ہیں جو اسے تم میں سے ہونے کے باوجود تم سے جدا بھی کر رہی ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ جب بھی تمہیں کوئی دقت پیش آئے جب بھی تم کسی مشکل میں مبتلا ہو اس پر یہ بات شاق گزرتی ہے.ہر اس شخص کی تکلیف جس کا آپ کو مطاع بنایا گیا آپ کے دل پر چوٹ لگاتی ہے اور آپ کے اندر کرب کے آثار پیدا کر دیتی ہے.صرف انہی کی نہیں جو آپ کے غلام ہوئے بلکہ ان کی بھی جن تک آپ کا پیغام پہنچنا تھا اور جن تک پیغام پہنچانے کے باوجود یہ مقدر تھا کہ وہ انکار کر دیں گے ان کے انکار کا تصور بھی آپ کو اذیت پہنچاتا ہے.پس یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہرا میر کو اپنے دل اور اپنے نفس میں ٹولنا چاہئے کہ موجود ہے بھی کہ نہیں اور یہ وہ بنیادی صفت ہے جو اسلامی اطاعت کے تصور کو ڈکٹیٹر شپ کے تصور سے بالکل جدا کر دیتی ہے.لوگ حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کے رنگ دیکھ کر بسا اوقات غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یعنی وہ لوگ جو غیر ہیں اور بعض مستشرقین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے تو ایک بہت ہی خطرناک اور مکمل ڈکٹیٹر شپ کا نظام پیش کیا ہے.دیکھو جیسی اطاعت حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی آپ کے زمانے میں کی گئی اور جس طرح ہر فرد بشر اپنے آپ کو آپ کے حکم کے تابع سمجھتا تھا اتنی سخت اطاعت تو دنیا کی کسی ڈکٹیٹر شپ میں نہ دیکھی گئی ، نہ سنی گئی.پس گویا اسلام ایک شخصی حکومت کی اور ایسی شخصی حکومت کی بنیاد ڈال رہا ہے جس کی نظیر انسانی شخصی حکومتوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.یہ ایک محض سطحی اعتراض ہے اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں اور یہ وہ اعتراض ہے جس کو آج پیش نظر رکھ کر میں وضاحت کے ساتھ ڈکٹیٹر شپ اور اسلامی نظام امارت میں فرق کر کے دکھانا چاہتا ہوں.کچھ امور تو وہ ہیں جن کا قرآن کریم نے یہاں ذکر فرمایا یعنی وہ شخص جو ہمہ وقت اپنے پیچھے چلنے والوں ، اپنے مطیع افراد جماعت کے لئے بے چین رہے اور بے قرار رہے، ایک ادنی سی تکلیف ان کی اسے ہمیشہ گہری تکلیف میں مبتلا کر دے اس شخص کے متعلق ڈکٹیٹر شپ کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں.کوئی دنیا کا ڈکٹیٹر کھا ئیں تو سہی جسے ان لوگوں کے تعلق میں جن پر اسے حکومت نصیب ہوا یسی
خطبات طاہر جلد 15 498 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء لگن لگ جائے ان کی تکلیفوں کے احساس کی کہ کوئی دور کسی جگہ بھی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہاں وہ خود بے قرار ہو جائے.آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے وہ تو قعات رکھیں جو آپ اپنے دل میں ، اپنی ذات میں محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس سے پتا چلتا ہے کہ حضور اکرم ہے جو خود تھے ویسا ہی دوسروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے اور بسا اوقات آپ کا یہ انداز تھا کہ نیکی کی باتیں اپنی ذات سے منسوب کرنے کی بجائے مثالوں کی صورت میں بیان فرمایا کرتے یا صحابہ سے توقعات کی صورت میں بیان فرمایا کرتے.مثلاً یہ کہنے کی بجائے کہ میں وہ ہوں جس کے متعلق خدا نے یہ کہا آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت ،مومنوں کی جماعت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک بدن ہو اور سب ایک بدن کے اعضاء ہوں.اگر کسی کے پاؤں کے انگلی کے کنارے پر بھی کانٹا چبھے تو سارا بدن اس سے اذیت محسوس کرے.غور طلب بات یہ ہے کہ یہ مثال جب تک حضرت اقدس کی اپنی ذات کی نہ ہو آپ آگے بیان فرما ہی نہیں سکتے تھے اور سب سے زیادہ یہ مثال خود آپ کی ذات پر چسپاں ہوتی تھی.کسی مومن کی کوئی تکلیف آپ کے لئے قابل برداشت نہیں تھی.پس آپ نے جب خود اپنے متعلق کھول کر بات بیان نہ فرمائی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کے متعلق کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ تمہیں بسا اوقات خیال بھی نہیں ہوگا کہ تم تکلیف میں مبتلا ہو اور کوئی تمہارے لئے بے قراری سے راتوں کو جاگ کر دعائیں کر رہا ہے لیکن محمد مصطفی اے جیسا مطاع تمہیں نصیب ہوا ہے کہ تمہاری خاطر تمہاری تکلیفوں میں مبتلا رہتا ہے.حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ تمہارے لئے حریص ہے یعنی صرف تمہاری تکلیف کے احساسات میں شدت نہیں رکھتا بلکہ تمہاری بھلائی کے خیال میں ایک حریص کی طرح اس کی حالت ہے.حریص ایسے شخص کو کہتے ہیں جسے ایک طلب کی لگن لگ جائے جو اور چاہے، اور چاہے اور پھر بھی اس کی پیاس نہ بجھے.تو فرمایا تمہارے متعلق خیر کی ایسی تمنا اس کے دل میں ہے کہ جتنی بھی تمہیں خیر عطا ہو اس سے بڑھ کر یہ تمہارے لئے چاہتا ہے.پس تکلیف کا یہ احساس اور خیر کی یہ تمنا کیا کبھی دنیا کے کسی ڈکٹیٹر میں ایسی یا اس سے کروڑواں حصہ بھی دکھائی دی ہے.ڈکٹیٹر اگر کچھ تعلق اپنی ذات کا رکھتے ہیں تو ان لوگوں سے جو ان کی سچی جھوٹی ہر بات مان کر ان کے مظالم میں ان کے شریک اور ان کی حکومت کی بقاء کے لئے ہر دوسرے پر ہر ظلم کرنے کے
خطبات طاہر جلد 15 499 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء لئے تیار رہتے ہیں.مگر آنحضرت ﷺ کی امارت کا اس بات سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.پھر فرمایا حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ یہاں عَلَيْكُمْ کے لفظ نے یہ بتا دیا کہ آپ کا یہ رجحان تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے کیونکہ جہاں تک مومنوں کا تعلق ہے ان کے متعلق الگ مضمون بیان فرمایا گیا ہے بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ یعنی اس آیت کا خطاب دراصل تمام بنی نوع انسان سے ہے.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ اے بنی نوع انسان تم ہی میں سے ایک رسول مبعوث ہو چکا ہے، مبعوث فرما دیا گیا ہے.وہ تمہاری ہر تکلیف کے لئے پریشان رہتا ہے.تمہاری ہر تکلیف محسوس کرتا ہے اور تمہارے لئے خیر کا اتنا خواہاں ہے کہ گویا اسے حرص لگ گئی ہے اور جہاں تک مومنوں کا تعلق ہے رؤف رحیم ہے.رؤف خدا کا نام ہے، خدا کی صفت ہے اور رحیم بھی خدا کی صفت ہے.یہ وہ خاص موقع ہے جہاں صفات باری تعالیٰ سے آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے یا آپ کی ذات میں ان صفات کا اطلاق دکھایا گیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے بھی اس آیت کے حوالے سے اس مضمون پر بہت روشنی ڈالی کہ یہ ایک غیر معمولی آیت ہے جو خدا کی صفات رَءُوفٌ اور رَّحِیم کو حضور اکرم ﷺ کی ذات میں جاری دکھاتی ہے یعنی مومنوں کا جہاں تک تعلق ہے اس کی رافت گویا خدا کی رافت ہے.مومنوں کا جہاں تک تعلق ہے اس کی رحمت گویا خدا کی رحمت ہے لیکن اس لگن میں جو مومنوں کی تکلیف کے خیال کی لگن بھی ہے اور ان کی بھلائی دیکھنے کی لگن بھی ہے ایک ادنی سا بھی تعلق اپنے نفس کا شامل نہیں.کوئی غرض یہ نہیں ہے کہ اگر میں اس طرح سلوک کروں گا تو میری اطاعت کی جائے گی.جہاں تک آپ کی اطاعت کا تعلق ہے آپ جانتے ہیں کہ محض خدا کی خاطر میں اطاعت کا حق دار ہوں اور میری رافت اور رحمت کا اطاعت حاصل کرنے سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں اس سے بے نیاز ہیں.چنا نچہ فرمایا فَإِن تَوَلَّوْا پس اگر یہ لوگ پھر جائیں اور تیری طرف پیٹھ پھیر کر چلے جائیں فَقُلْ حَسْبِيَ الله کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو.یہ نہ سمجھنا کہ میں تم پر اس لئے مہربان تھا ، اس لئے رؤف اور رحیم تھا کہ تمہاری اطاعت چاہوں اور مجھ سے ذاتی تعلق کی وجہ سے تم میرے زیادہ مطیع ہو جاؤ.فَقُلْ حَسبی اللہ اللہ میرے لئے بہت کافی ہے لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس میں ہر جھوٹے معبود کا انکار کرتا ہوں.مجھے اور کسی پر نہ تو کل ہے ، نہ کسی کی ضرورت ہے
خطبات طاہر جلد 15 500 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ اس پر میں تو کل کرتا ہوں وَهُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ اور وہ بڑے وہ عظیم عرش کا رب ہے.اب عظیم عرش کا رب کہنے میں یہاں کون سی حکمت ہے جو اس مضمون کے ساتھ اس بیان کو باندھ رہی ہے.اصل میں عرش تخت کو کہتے ہیں اور اطاعت کروانے کا مضمون تخت سے تعلق رکھتا ہے.شہنشاہی کے تصور کے ساتھ امارت کا تعلق ہے جو اٹوٹ تعلق ہے.جہاں بھی آپ بڑے عظیم شہنشاہ یا بادشاہ یا جابر کی بات کرتے ہیں وہاں اس تخت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جس پر بیٹھ کر وہ حکومت کرتا ہے.فرمایا کہ میں تمہاری چندلوگوں کی اطاعت پر کیسے نازاں ہوسکتا ہوں تم کر دیا نہ کرو میرا اس ذات سے تعلق ہے جو رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیم ہے.جس کی تخت گاہ کائنات میں ہر چیز پر حاوی ہے اور کوئی ادنی ذرہ بھی کائنات کا اس کی اطاعت اور اس کی عظمت سے باہر نہیں ہے.پس میں اگر تمہارا مطاع بنایا گیا ہوں تو اپنی ذات کی وجہ سے نہیں رب عرش عظیم کے تعلق کی وجہ سے بنایا گیا ہوں.تمہاری خاطر میں قربانیاں دوں گا، قربانیاں دیتا ہوں تم پر مہربان ہوں، مہربانی کا سلوک کرتا رہوں گا مگر اس وجہ سے نہیں کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے.تمہیں میری ضرورت ہے.اس لئے کہ میں رب عرش عظیم کا نمائندہ ہوں.یہ وہ پہلو ہے امارت کا جس کو ہمیں ہر احمدی امیر میں دیکھنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر وہ لوگ جو اطاعت کرتے ہیں انہیں نہ اطاعت کا سلیقہ عطا ہو سکتا ہے، نہ حوصلہ مل سکتا ہے، نہ ان کا دل ہر قسم کی نفسانی ملونی سے پاک ہوسکتا ہے.اطاعت کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ ہر انسان اپنی انا کا غلام ہے اور جب اس کی انا کسی اور کی راہ میں حائل ہوتی ہے تو ہمیشہ ان دل میں ایک کہرام مچا دیتی ہے.ہر اطاعت کے وقت اس کا دل چاہتا ہے کہ میں آزاد ہوں ہر قسم کی غلامی سے باہر نکل آؤں.پس یہ جو آزادی کا پیغام انا دیتی ہے وہ ہر دوسرے کی اطاعت سے متصادم ہو جاتا ہے اور جہاں تک دنیا کی اطاعتوں کا تعلق ہے یہ انا ضرور سر اٹھاتی ہے مگر اندر ہی اندر بڑبڑاتی رہتی ہے اگر زور نہ چلے اور جب بس چلے وہ اطاعت کا جوا اتار پھینکنے کی پوری کوشش کرتی ہے.پس یہ بھی ایک فرق ہے جو ڈکٹیٹر شپ کی اطاعت اور اللہ کی طرف سے ماموروں کی اطاعت کا فرق ہے.وہاں انا کو دبانے کے لئے تمام بیرونی سامان مہیا ہوتے ہیں تمام بیرونی طاقتیں
خطبات طاہر جلد 15 501 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ڈکٹیٹروں اور جابروں کے ہاتھوں یا دست قدرت کو نصیب ہوتی ہیں.وہ جو چاہے کریں جیسے چاہیں کریں اور جتنا بڑا ڈکٹیٹر کوئی ہو اتنا ہی زیادہ مطبع کے دل میں بغاوت کے جذبات بھڑ کتے رہتے بھڑکتے ہیں اور جب ایک ڈکٹیٹر اپنی کرسی کو چھوڑتا ہے خواہ وہ مر کے چھوڑے یا کسی اور ذریعہ سے تو وہ نفرت کے دبے ہوئے جذبات یک دم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.مگر جس اطاعت کا ذکر میں کر رہا ہوں یعنی اللہ کی طرف سے ماموروں کی اطاعت ، مامور من اللہ کی اطاعت اس اطاعت کا بالکل برعکس حال ہے.وہاں ان صفات کا انسان جن کا بیان ان آیات میں کیا گیا ہے وہ نہ تو اطاعت لینے کی خاطران پر مہربان ہوتا ہے اور نہ ان کے عدم اطاعت کے جذبات سے ایک ذرہ بھر بھی متاثر ہوتا ہے.اور ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ اس کی اطاعت باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ سخت ہے پھر بھی ایک آزادی کا پہلو بھی اپنے اندر رکھتی ہے.جو چاہے اس کی اطاعت سے جب چاہے پھر کر، پیٹھ پھیر کر الگ ہو جائے اور اس کا اختیار ہر اطاعت کرنے والے کو دیا گیا ہے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف: 30) میں یہ مضمون بیان ہوا ، فرمایا کہ تجھ میں جو اطاعت کروانے کی غیر معمولی طاقتیں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود ہم نے تیری اطاعت کرنے والوں کو کھلی اجازت دی ہے جب چاہیں وہ تیری طرف پیٹھ پھیر کر تجھ سے الگ ہو جائیں اور اس اجازت کے نتیجہ میں جو لوگ تجھے چھوڑیں گے ان کے متعلق ہماری ہدایت یہ ہے کہ تو نے ذرا بھی غم نہیں کرنا کیونکہ یہ خدا کے کام ہیں اور تیری طرف پیٹھ پھیر کر جانے والے حقیقت میں اللہ کی طرف پیٹھ پھیر کر جاتے ہیں.ان کا حساب اللہ پر ہے.تجھے نہ ان کی فکر ہے نہ ان کے لئے تو جوابدہ ہوگا.پس آنحضرت ﷺ کی بطور اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کے جو مضامین ان آیات میں بیان ہوئے ہیں وہ کلیہ اللہ کی خاطر اطاعت کے مضمون کو غیر اللہ کی اطاعت کے مضمون سے جدا کر دیتے ہیں ان میں کوئی بھی آپس میں باہمی اشتباہ باقی نہیں رہتا.عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ کا مضمون پہلے بھی ایک آیت میں بیان ہوا اور وہ یہی امارت کے تعلق والی آیت تھی.اس سلسلے میں اب میں احمدی امراء کو اور ہر اس شخص جو کسی پر کسی کام میں کسی دائرے میں امیر بنایا گیا ہے کچھ نصیحتیں کرنی چاہتا ہوں.بہت سے نئے آنے والے جماعت میں داخل ہوں گے.آپ ان سے توقع رکھیں گے کہ وہ نظام جماعت کا ایک اٹوٹ انگ بن جائیں.ایک نہ جدا
خطبات طاہر جلد 15 502 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ہونے والا حصہ ہو جائیں.وہ نظام جماعت کی اطاعت کریں اور ایک دن کا وہ منظر جو آنحضرت کے نے ہمارے سامنے پیش کیا وہ کسی ایک قوم سے تعلق نہ رکھے بلکہ دنیا کی تمام قو میں ایک بدن بن جائیں اور ایک بدن جہاں اپنے ہر عضو کی تکلیف میں تکلیف کا احساس رکھتا ہے وہاں اس کا ہر عضو اس کی مرکزی قیادت کی اطاعت بھی کرتا ہے اور یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں اور اطاعت کا جہاں تک تعلق ہے یعنی بدن کی اطاعت کا اس کا تعلق حسیات سے ہے.اس حوالے سے میں اس مضمون کو مزید کھولنا چاہتا ہوں.جب حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ مومنوں کی جماعت سے مجھے توقع ہے کہ وہ ایک بدن کی طرح ہو جائیں.انگلی پر بھی زخم آئے یا گزند پہنچے تو سارا بدن اس کے لئے بے قرار ہو جائے.اس مضمون کا تعلق زود حسی سے ہے اور زود حسی کے بغیر نہ تکلیف ساری جماعت میں یکساں محسوس ہوسکتی ہے اور نہ خوشی سب جماعت میں برابر تقسیم ہو سکتی ہے.پس اس امر کے لئے زود سی پیدا کرنا ضروری ہے جس کا جذبات سے تعلق ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں جذبات کو ایک گہرا دخل ہے اور یہ مضمون ہے جو ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جذبات پیدا کرنا یہ امیر کا کام ہے وہاں سے جذبات شروع ہونے چاہئیں.اگر امیر ہمدرد ہے اگر امیر دوسرے کی تکلیف پر بے چین ہو جاتا ہے اگر ہر تکلیف پر اس کا ذہن از خود کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح میں اپنے زیر نگیں یعنی خدا کی خاطر زیر نگیں لوگوں کی بھلائی کے لئے تدبیریں سوچتا ہوں تو یہ وہ سچا امیر ہے جو آنحضرت ﷺ کے نقش قدم پر ہے اور ایسے امیر کے لئے محبت پیدا ہونا لازمی ہے.یہ ناممکن ہے کہ ایسے امیر کی جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے اطاعت ایک خشک منطقی اطاعت ہو.خشک منطقی اطاعت کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں.خشک منطقی اطاعت ہے جو ڈکٹیٹروں سے تعلق رکھتی ہے وہ دنیا کے بادشاہوں اور حکومتی نظاموں سے تعلق رکھتی ہے.اس میں جہاں انسان چاہے جہاں بس چلے وہ اطاعت سے فرق کرے گا اطاعت سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا اور وہاں کی اطاعتیں مجبوری کی اطاعتیں ہیں.خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کی اطاعت مجبوری تو رکھتی ہے مگر وہ ایک دل کی مجبوری ہے اور ان دو مجبوریوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک شخص کو اجازت ہو کہ وہ ایک چیز کو اختیار کرے یا دوسری کو اختیار کرے اور پھر ایک کٹھن راہ کو اختیار کرلے تو یہ محبت کے تعلق
خطبات طاہر جلد 15 503 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء کے بغیر ممکن نہیں.جب آسان راہ بھی کھلی ہو اور مشکل راہ بھی کھلی ہو تو دنیا کی حکومتیں تو مشکل راہ پر ڈنڈے کے زور سے چلاتی ہیں اور سزا کے خوف سے وہ اپنی اطاعت کا سکہ منواتی ہیں.مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی یہ بات ہر وہ رستہ کھلا رکھتی تھی جس رستے پر چل کر اطاعت کرنے والے ہر قسم کی تکلیف سے بچ سکتے تھے اور امن کی راہیں ان پر ہمیشہ کشادہ رہتی تھیں.جب چاہتے حضور اکرم ﷺ سے تعلق توڑ کر وہ اپنی تکلیفوں میں کمی کر سکتے تھے بلکہ ان سے نجات حاصل کر سکتے تھے.پس اس اختیار کے باوجود جہاں اطاعت سے نکلنے کا رستہ بھی کھلا ہو اور اس رستے کے ذریعے ہر قسم کی تکلیفوں سے نجات کا رستہ بھی کھلا ہو پھر اطاعت کے رستے پر قائم رہنا اور تکلیفوں کو برداشت کرنا اور خوشی سے برداشت کرنا یہ محبت کے تقاضے ہیں، اس میں کوئی میکانکی حالت نہیں پائی جاتی.پس ڈکٹیٹر شپ کا اس قسم کی اطاعت کے ساتھ کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں.کوئی پاگل ہوگا جو یہ وہم کرے کہ یہ اطاعت جس کا نقشہ اسلام کھینچ رہا ہے یہ ڈکٹیٹر شپ کی اطاعت ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے زمانے میں بعض صحابہ کو دشمنوں نے دھوکے سے گھیر کر ان کو یا تو ایک ٹیلے پر ہی ہلاک کر دیا تیروں کے ذریعے یا بعض کو پکڑ لیا اور جن جن قبیلوں کو کوئی شکوہ تھا کہ کسی شخص نے جہاد کے دوران ان کے قبیلے کے کسی آدمی کو مارا تھا یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو شخص بھی قیدی ہاتھ آئے اسے اس قبیلے کے سپرد کیا جائے ، وہ اپنا انتقام لے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ایک صحابی ایک ایسے ہی قبیلے کے ہاتھ آئے جو اپنی دشمنی کا انتقام لینا چاہتا تھا.جب ان کے قتل کا فیصلہ ہو گیا تو ان سے سوال کیا گیا کہ اب بتاؤ موت سے پہلے اگر تمہیں یہ اختیار دیا جائے کہ تمہاری جگہ محمد رسول اللہ کے ہوں اور وہ پکڑے جائیں اور تمہیں آزادی مل جائے تو بتاؤ تمہارا فیصلہ کیا ہوگا.اس نے کہا خدا کی قسم یہ تم کیا کہہ رہے ہو.میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا، میں تصور نہیں کر سکتا کہ میری زندگی کے بدلے محمد رسول اللہ ﷺ کو مدینے کی گلیوں میں ایک چھوٹا سا کانٹا بھی چبھ جائے.یہ وہ اطاعت ہے جو محبت کی اطاعت ہے جس کا ڈکٹیٹر شپ کی اطاعت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں اور پھر ان قیدیوں میں سے ایک نے آخری خواہش کا یہ اظہار کیا کہ مجھے دو نفل پڑھ لینے دو، میری دلی آخری تمنا یہی ہے کہ میں خدا کے حضور عبادت کرتا ہوا حاضر ہوں.پس دو نفل انہوں نے پڑھ لئے اور نیزہ ان کی چھاتی سے آر پار گزرا تو ایک ہی لفظ ، ایک
خطبات طاہر جلد 15 504 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ہی نعرہ تھا جو ان کے منہ سے نکلا فزت برب الكعبة، فزت برب الكعبة رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.اب یہ اطاعت کیا ڈکٹیٹر شپ کی اطاعت ہے! ہم نے جس اطاعت کے مضمون کو آج سب دنیا کو سمجھانا اور سکھانا ہے وہ یہ اطاعت ہے جس کی میں باتیں کر رہا ہوں قرآن وحدیث اور سنت محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابی کی سنت کے حوالے سے آپ کو سمجھا رہا ہوں اور یہ اطاعت ممکن نہیں جب تک اطاعت کروانے والا حضور اکرم ﷺ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مطیعوں کی محبت میں مبتلا نہ ہو جائے.میں جب کہتا صلى الله ہوں، مبتلا نہ ہو جائے تو یہ ایک بے اختیار کیفیت ہے اور حضور اکرم ﷺ اس کیفیت میں مبتلا تھے اس کے سوا آپ کے پاس چارہ کوئی نہیں تھا.آپ ان لوگوں کے غم میں بے قرار ہو جایا کرتے تھے جن کی ہلاکت کے فیصلے آسمان پر ہوتے تھے اور اتنے بے قرار ہوتے تھے کہ آسمان سے خدا آپ کو مخاطب کر کے فرماتا تھا کہ اے میرے بندے کیا تو ان دشمنوں کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا.یہ ہی وہ کیفیت ہے ، وہ آسانی راز ہے جو کبھی بھی حضور اکرم ﷺ خود نہ کھولتے مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان آیات کے ذریعے ان مضامین کو ہم پر روشن فرمایا.لیکن اس کے باوجود ایک ادنیٰ بھی خوف اپنے ماننے والوں یاوہ جن کے لئے مامور تھے ان کے پیٹھ پھیر کر چلے جانے کا ، آپ کے دل میں لاحق نہیں تھا اور قرآن کریم کی دوسری آیت اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتی ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدر:7) اے محمد ہے کیونکہ آپ اولین مخاطب ہیں آپ کے حوالے سے دوسرے بھی مخاطب ہیں مگر اولین مخاطب آپ ہیں تو کبھی بھی اس غرض سے احسان نہ کر کہ اپنا رسوخ بڑھا.تَسْتَكْثِرُ یہاں اس تعلق میں یہ ہے.ہرگز اس خیال سے کسی پر احسان نہ کر کہ تو اپنا رسوخ بڑھا.تجھے اپنا رسوخ بڑھانے کی ضرورت نہیں.خدا تیرے لئے کافی ہے اور وہی ہے جو ہمیشہ تیرا رسوخ بڑھاتا رہے گا.پس عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ کا مضمون اس بات کو کھول رہا ہے کہ اطاعت میں، اطاعت کروانے میں جذبہ محبت کا ہے جو کام کرے گا.جذ بہ فدائیت کا ہے جو کام کرے گا لیکن ایسی فدائیت ہے جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انسان اس میں مبتلا ہو گیا ہے اس کا بس ہی کوئی نہیں.لوگ جب ماؤں کو کہتے ہیں کہ اپنے بچے کی تکلیف میں غم چھوڑ دے یا اپنے فوت شدہ بچے کے لئے اس قدر اندوہناک نہ ہو تو وہ نصیحت کرنے والوں کو محبت اور احسان کی نظر سے تو نہیں
خطبات طاہر جلد 15 505 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء دیکھتی.وہ شکوے اور تکلیف کی نگاہ سے دیکھتی ہے.وہ کہتی ہے تمہیں پتا کیا ہے کہ محبت ہوتی کیا ہے.تم کیا جانتے ہو کہ اپنے پیاروں کے دکھ کو انسان کس مشکل سے برداشت کرتا ہے.پس یہ سمجھانے کے قصے نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جب بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو یہ سمجھایا گویا سمجھایا کہ یہ نہ کر تو ہر گز مراد یہ نہیں تھی کہ آپ کو باز رکھا جارہا تھا.یہ ایک محبت اور پیار کا اظہار ہے.محض اس بات کا اظہار ہے کہ میری تیرے دل پر ہمیشہ نظر رہتی ہے اور یہ کبھی ایسا نہیں ہوا اور ایک بھی اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ ایسی دو آیات جو نازل ہوئیں جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ دشمنوں کے لئے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر ان آیات کے نزول کے بعد آپ نے غم چھوڑ دیا ہو.سورۃ ہود کے متعلق فرمایا اس نے تو مجھے بوڑھا کر دیا ہے کیونکہ یہ غم بناوٹ کا غم نہیں تھا.جو بناوٹ کا غم نہ ہو جو بے اختیار ہو اس پر نصیحت کا کوئی اثر ویسے ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ دل کے معاملات میں نصیحت کا کیا تعلق.پس وہ غلط سمجھتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے گویا آپ کو حکم دیا کہ آج کے بعد غیروں کی فکر کرنا چھوڑ دے.یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی فکر ہی تو تھی جس نے دنیا کی کایا پلٹی ہے.اس فکر مند اور بے قرار کی دعائیں ہی تھیں جس نے ایک عظیم انقلاب بر پا کر کے دکھا دیا.پس حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ در حقیقت جو انقلاب عرب میں رونما ہوا جو حیرت انگیز انقلاب بر پا ہوا کہ صدیوں کے مردے جاگ اٹھے اور قبروں سے باہر آگئے.یہ انقلاب محمد مصطفی ﷺ کی دعاؤں کا انقلاب تھا.پس خدا کیسے آپ کو بے قرار دل کی دعاؤں سے باز رکھ سکتا تھا ، باز کرتا یہ خیال ہی بالکل باطل اور بے حقیقت ہے.بعض پیار کے اظہار ہوا کرتے ہیں.یہ محض اللہ کے پیار کا اظہار ہے کہ میری تجھ پر نظر ہے.تو لوگوں کے لئے بے قرار ہے میں تیرے لئے بے قرار ہوں اور ان معنوں میں خدا کا بے قرار ہونا ایک محاورہ ہی نہیں حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے یہ ثابت ہے کہ جس رنگ میں بھی یہ ممکن ہے ہم نہیں جانتے کہ کیسے ممکن ہے بعض دفعہ اپنے بندوں کی خوشی پر اللہ خوش ہوتا ہے اپنے بندوں کی ہنسی کے ساتھ اللہ ہنستا ہے اپنے بندوں کے غم میں خدا گو یا مبتلا ہو جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک حدیث جس کا میں بار بار ذکر کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے پوچھے گا کہ جب میں مصیبت میں مبتلا تھا تم نے کیوں میری فکر نہ کی.جب میں بھوکا تھا تو نے مجھے کیوں کھانا نہ کھلایا.جب میں ننگے بدن تھا تو نے مجھے کیوں کپڑے نہ پہنائے.اس مضمون
خطبات طاہر جلد 15 506 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء کی تفصیلی حدیث ہے.ہر ایسے موقع پر وہ بندہ جسے خدا مخاطب ہوگا بے قرار ہو کر جواب دے گا کہ اے رَبِّ الْعَلَمِينَ تو کب بھوکا تھا.کیسے ممکن ہے کہ تو بھوکا ہو.تو کب ننگے بدن تھا.کیسے ممکن ہے کہ تو ننگے بدن ہو.کب تجھے بھوک اور پیاس نے تڑپایا کہ میں تیری خدمت کر سکتا.اللہ تعالیٰ یہ جواب دے گا کہ جب میرا ایک غریب بندہ ننگے بدن تھا تو میں ننگے بدن تھا.تم نے کیوں اس کا خیال نہ کیا.پس یہ جو اختیار ہے نیک و بد کا اس سے بعض بڑے کر یہہ مناظر پیدا ہوتے ہیں تکالیف کے مگر ی بھی خدا تعالیٰ کے ایک عظیم پر حکمت نظام کا حصہ ہیں لیکن یہ خیال کر لینا کہ اللہ رحیم نہیں ہے ورنہ وہ ان تکلیفوں کو دور کر دیتا ایک جاہلانہ خیال ہے یہ حدیث ان خیالات کا بطلان کرتی ہے.اللہ کو اپنے سب بندوں کا احساس ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس تکلیف کے بدلے جو انہیں عارضی طور پر دنیا میں پہنچے گی انہیں وہ اتنا خوش کر سکتا ہے ، اتنا خوش کرے گا کہ وہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ جو کچھ ہمیں نصیب ہو رہا ہے اس کا ، ہمارے دکھوں سے اس کی کوئی بھی نسبت نہیں.وہ دکھ ان کو حقیر محسوس ہوں گے بے معنی دکھائی دیں گے کیونکہ جب ایک معمولی تکلیف کا بہت بڑا انعام دیا جاتا ہے تو تکلیف بالکل کالعدم ہو جایا کرتی ہے.پس اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے جب یہ کہتا ہے کہ اے میرے بندے بے قرار نہ ہو تو یہ کہنا ہرگز جائز نہیں کہ دراصل یہ پیغام ہے کہ اے میرے بندے میری خاطر تو دنیا کے دکھوں سے بے قرار ہورہا ہے اس طرف نظر کر کہ تیرے لئے آسمان پر بے قرار ہوں.ورنہ یہ نصیحت کبھی خدا تعالیٰ نہ فرماتا.یہ وہ جذبہ ہے جو ایک حیرت انگیز لافانی اطاعت کی روح پیدا کرتا ہے اور اطاعت امارت سے شروع ہوتی ہے.پس آپ میں سے ہر وہ شخص جس کے سپرد کسی قسم کے امارت کے مناصب سونے جائیں وہ یاد رکھے کہ ایک ہی اطاعت کروانے کا رنگ ہے اور وہ محمد مصطفی ﷺ کا رنگ ہے.اس رنگ کو اپنا ئیں گے تو خدا کے رنگ اپنا ئیں گے.اگر اس رنگ کو نہیں اپنا ئیں گے تو آپ اس بات کے اہل ہی نہیں ہیں کہ آپ کی کسی معنے میں بھی اطاعت کی جائے.اس تعلق میں بعض اور آیات بھی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مگر چونکہ وقت کم ہے اس لئے صرف ایک سورہ مدثر کی بعض آیات ہیں انہی پر میں قرآن کریم کے حوالے کو ختم کروں گا.پھر احادیث کے حوالے سے چند اور امور آپ کے سامنے رکھوں گا.فرمایا يَا يُّهَا الْمُدَّثِرُ ( المدر: 2) اے فرغل پہنے ہوئے یا کوٹ پہنے ہوئے ، جو اوپر کا کوٹ
خطبات طاہر جلد 15 507 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ہے کھڑے ہونے والے قُمْ فَانْذِرُ (المدثر: 3) کھڑا ہوجا اور ڈراوَ رَبَّكَ فَكَبِّرُ (المدثر :4) اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر وَثِيَابَكَ فَطَرُ (المدر:5) اور اپنے کپڑوں کو پاک کر.یہاں جوامیر کے فرائض ہیں ان میں ایک بہت اہم فریضہ اپنے ساتھیوں کا پاک کرنے کا فریضہ ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.فرمایا وَ ثِيَابَكَ فَطَبَر جہاں تک شفقت اور رحمت کا تعلق ہے یہ کوئی نفسانی کمزوری کی شفقت اور رحمت نہیں ہے.پس اگر کوئی امیر یا کوئی شخص کسی معنوں میں بھی مامور بنایا گیا ہو وہ سمجھے کہ اس کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگوں کے لئے مہربان ہو تو یہ اس کی غلط فہمی ہے.بعض دفعہ دل کی کمزوری کی مہربانی فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتی ہے جو مہربانی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی مہربانی تھی اس مہربانی کے بہت گہرے فرائض تھے اور وہ مہربانی محض پیار کی بات تک محدود نہیں تھی بلکہ بنی نوع انسان کے دنیا اور آخرت کے عظیم فوائد تک ممتد تھی.اس پہلو سے آپ کے فرائض کو بطور مطاع کے یوں بیان فرمایا گیا.قُمْ فَانْذِرُ.اوّل تو المدثر کا معنی کپڑے میں لیٹے ہوئے یا وہ جس نے اپنے اوپر ایک اوپر کا کوئی لبادہ اوڑھا ہوا ہے.یہ سمجھنے والی بات ہے.مراد یہ ہے کہ جیسے بارانی کوٹ سے انسان بارش اور موسم کے بد اثرات سے محفوظ رہتا ہے.اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کی تعریف فرمارہاہے کہ تو ہر قسم کے بداثر سے بالکل پاک اور محفوظ ہے.کوئی دنیا کا بداثر تیری ذات میں سرایت نہیں کر سکتا بلکہ تیرے کپڑوں تک جو تیرے بدن سے چمٹے ہوئے ہیں وہ سرایت کرنے کی توفیق نہیں پائے گا.تو ہر وقت غیر اللہ کے اثرات سے محفوظ ہے اور خدا کی حفاظت میں لپٹا ہوا ہے.قُم فَانْذِر اس حالت میں کھڑا ہو اور لوگوں کو ڈرا وَ رَبَّكَ فكتر اور محض اپنے رب کی بڑائی بیان کر کسی دنیا کے ملاحظے کی خاطر یا دنیا کو خوش کرنے کی خاطر غیر اللہ کی تعریف کا تو حضور اکر مہینے کے لئے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.پس جہاں یہ حکم دیا گیا ہے اس سے یہ صلى الله مراد نہیں کہ پہلے رسول اللہ کے اس فریضے سے غافل تھے مراد یہ ہے کہ اپنے رب کی تکبیر کرتا چلا جا.اس کا ڈرانے سے یہ تعلق ہے کہ جب تو ڈرائے گا تو لوگ تجھ پر ، تیرے خلاف انتقامی کروائی کر سکتے ہیں لوگ تجھ سے دور بھاگ سکتے ہیں.مگر اس کے نتیجہ میں رب کی تکبیر کرنا اس کی بڑائی بیان کرنا تیرا ایک جاری فریضہ رہنا چاہئے.تجھے ذرا بھی متاثر اس بات سے نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ کیا اثر لیتے ہیں.اثر قبول کرتے ہیں یا رد عمل دکھاتے ہیں.وَثِيَابَكَ فَطَرْ اور اپنے کپڑوں کو پاک کر.اب سوال یہ ہے کہ جو پہلی آیت کا مضمون ہے وہ اس آیت سے متضاد کیوں ہو گیا
خطبات طاہر جلد 15 508 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء یعنی بظاہر دیکھنے میں متضاد دکھائی دیتا ہے.پہلے تو یہ صفت بیان فرمائی کہ تو ایسے لبادے میں ملبوس ہے جس پر کوئی بداثر بیرونی اثر کا پڑ ہی نہیں سکتا بلکہ وہ تیرے بدن اور اندرونے کو کلیتہ غیر اللہ کے اثر سے محفوظ رکھ رہا ہے.اب وَثِيَابَكَ فَطَتر سے کیا مراد ہے پھر.ثیاب کا ایک معنی ہے ساتھ اور اسی پہلو سے مرد کو عورت کا لباس اور عورت کو مرد کا لباس قرار دیا گیا ہے.فرمایا تیرا پاک ہونا اور تیری پاکیزگی کی حفاظت اور ضمانت ہونا کافی نہیں ہے.تجھے اس لئے قائم نہیں فرمایا گیا کہ تو محض اپنے بدن کی حفاظت اور پاکیزگی کا خیال کرے.تجھ پر یہ فریضہ ہے کہ اپنے اردگر داپنے ماحول کو پاک اور صاف کرتارہ.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ اور شرک اور ناپاکی کو کلیتہ چھوڑ دے.اب یہ بھی ایک عجیب مضمون ہے کہ خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرمارہا ہے کہ رجز کو پوری طرح چھوڑ دے حالانکہ رجز تو آپ کے قریب تک نہیں پھٹکا تھا.تمام موحد انبیاء میں سب سے بلند مرتبہ آنحضرت ﷺ کا تھا.تو حید کی خاطر تو آپ نے سب کچھ لٹا دیا.تو خدا کی نصیحت کیا معنے رکھتی ہے کہ شرک کو چھوڑ دے.اس کا حوالہ تیاب‘ کی طرف ہے اور چھوڑ دے کا معنیٰ ہجرت سے تعلق رکھتا ہے جو قر آن کریم میں بھی بیان ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی روشنی ڈالی.فرمایا وہ کپڑے جن کو تو نے پاک کرنا ہے اگر وہ شرک سے آلودہ ہو گئے ہوں یعنی وہ لوگ جو تیرے اردگر درہتے ہیں اگر ان میں تو شرک کے آثار دیکھے تو ان سے ہجرت کر جا.ان کو قریب تک نہ پھٹکنے دے.ہجرت کرنے کا یہ مضمون ہے.تیرے ماحول میں محض موحد بندے رہنے چاہئیں.ہر قسم کے مشرکوں سے اپنے آپ کو پاک کر لے.مراد یہ نہیں کہ آپ کے اندر شرک ہے جس سے نعوذ باللہ من ذلک علیحدگی کا حکم دیا جارہا ہے.آپ کے اردگرد بسنے والوں میں اگر کوئی شرک کے آثار ہوں تو ان سے علیحدہ ہو جا.اور یہ وہ ہ مضمون ہے جس کا سمجھنا امارت کے تعلق میں بہت ہی لازم ہے ، بہت ہی ضروری ہے کیونکہ ہر وہ شخص جس کو امارت کے اختیارات سونپے گئے ہوں اس کے اردگر دالا زماً ایسے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں جو اس کی بڑائی کے گیت گانے لگتے ہیں.جو اسے بڑا بتاتے ہیں اور اس پہلو سے اس کی امارت میں شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ جو ایک طبعی انسانی فطرتی کمزوری ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ نے یہاں توجہ دلائی ہے ورنہ دنیا کے بادشاہ اور صاحب امر لوگ تو ہمیشہ ان لوگوں کے گھیرے میں آجایا کرتے ہیں.جوان کی بڑائی بیان کرے وہ اس کو بڑا سمجھتے ہیں اس کو اور زیادہ
خطبات طاہر جلد 15 509 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء قریب کرتے ہیں اور جتنا ان کو قریب کرتے ہیں اتنا عوام الناس ان سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ تمہارے اردگرد جو لوگ ہیں انہیں پاک رکھنا تمہاری امارت کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور ان کی کمزوریوں سے صرف نظر کی تمہیں اجازت نہیں.یہ وہ پہلو ہے جس میں میں کئی صاحب امرلوگوں کو ملوث پاتا ہوں.ایسی کمزوری ہے جو بسا اوقات دکھائی دیتی ہے.جہاں تک مجھے علم ہوتا ہے جہاں تک میرا بس چلتا ہے انہیں سمجھا کر اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن پھر بھی مخفی طور پر یہ فطری کمزوری اندر سے سر اٹھا لیتی ہے اور امارت کو اس طریق سے کئی طرح سے نقصان پہنچادیتی ہے.بہت سے امیر ہیں جو میرے پیش نظر ہیں جب میں یہ بات کر رہا ہوں کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں مگر بہت سے متقی امراء بھی ایسے ہیں جن کے اندر یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ چند لوگوں کے ہاتھ میں وہ گویا کھلونے بن جاتے ہیں اور اپنی طرف سے وہ تقویٰ کے ساتھ یہ فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے اس وجہ سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے مددگار، ان کی تائید کرنے والوں میں یہ لوگ سب سے آگے آگے ہیں اور اس بات کو بھلا دیتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں میں مریض بھی شامل ہو سکتے ہیں اور ان کے مرض کی شناخت شرک کے ذریعے ممکن ہے اس کے سوا کوئی ممکن نہیں.پس جہاں بھی کوئی شخص کسی کے اچھے بھلے فیصلے کی تائید کرتا رہے اور ہمیشہ تائید کرے اور اس کے برعکس جب بعض لوگ اس سے اختلاف کریں تو اس بات کو بھلا دے کہ اختلاف کرنے والے بچے ہیں یا غلط ہیں اور یہ سمجھے کہ میری اطاعت کا تقاضا ہے کہ میں امیر کی ہر بات کی ہاں میں ہاں ملاؤں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں شرک پیدا ہو چکا ہے اور امراء کو نصیحت ہے کہ وہ ایسے شرک کی تلاش میں رہیں.گہری نظر سے مطالعہ کریں اور ایسے لوگوں کو اپنا خیر خواہ نہ سمجھیں جو ہر اچھے بھلے میں ان کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان سے متنبہ ہو جائیں اور ان سے فاصلہ اختیار کریں.جس حد تک ان میں تقویٰ کی کمی دیکھیں اسی حد تک ان سے اپنے آپ کو الگ کر لیں.یہ معنی ب وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ جہاں شرک کے آثار دیکھو گے ان لوگوں سے ہجرت کر جاؤ ان سے اپنا تعلق ہی تو ڑلو.وہ اس لائق نہیں ہیں کہ تمہارے ماحول میں رہیں.پس اس نظر سے جب آپ اپنے ماحول کی شناخت کرتے ہیں تو اس وقت آپ کو حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ آپ کس حد تک خدا کی خاطر لوگوں سے اطاعت کے خواہاں ہیں اور کس حد تک
خطبات طاہر جلد 15 510 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء اپنے نفس کی خاطر اطاعت کے خواہاں ہیں کیونکہ شرک کا مضمون دوطرفہ ہے جہاں کوئی امیر ایسے لوگوں کی باتوں سے خوش ہوتا ہے جو دکھائی دے دینا چاہئے کہ محض خوشامد کی خاطر اس کی بڑائی کرتے ہیں اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہاں وہ خود بھی شرک میں شریک ہو گیا اور شرک ایک ایسی لعنت ہے کہ شرک کرنے والا بھی پوچھا جائے گا اور جس کو شریک ٹھہرایا جائے گا وہ بھی پوچھا جائے گا اور دونوں ہی لعنتیں ہیں.پس اگر چہ یہ شرک خفی ہے.اس کے بہت باریک پہلو ہیں.مگر ہم نے جو دنیا کو اطاعت کے اسلوب سکھانے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی امارت کے رنگ دکھانے ہیں ہمیں لازماً اپنی ذات میں یہ باریک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی ورنہ نظام جماعت کی حفاظت کی کوئی ضمانت ممکن نہیں ہے.ہر آنے والے کو سمجھانا ہے اور یہاں امریکہ میں بھی اس کی ضرورت ہے اور ان میں بھی ضرورت ہے جو آج سے پہلے ایمان لا چکے ہیں.کئی قسم کے میں افریقن احمدی دیکھتا ہوں جو امریکہ میں آباد ہو کر اب امریکن افریقن احمدی ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ان شکوک میں مبتلا رہتے ہیں کہ جو امارت کی باتیں ہو رہی ہیں جو اطاعت کی باتیں ہو رہی ہیں گویا ایک حاکم کے بدلے تم اور حاکم بیرونی ہم پر نافذ کر دئے گئے ہو اور کیوں ہم آخر اس طرح اطاعت کریں.یہ جوان کے ایمان کی کمزوری ہے یہ دراصل فہم کی کمزوری سے ایمان کی کمزوری پیدا ہوئی اور اس فہم کی کمزوری میں ان لوگوں کا دخل ہے اور وہ ذمہ دار ہیں جن کا فرض تھا کہ ان کو اسلامی اطاعت کی روح سکھا ئیں اور بتائیں کہ امارت کی اطاعت کیوں ہوتی ہے اور کس کی خاطر ہوتی ہے.پس اگر اطاعت اللہ کے لئے ہے جیسا کہ ان آیات میں آخر پر مضمون کو اپنے انتہائی نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے تو پھر اگر وہ اس بات کو سمجھ لیں کہ اطاعت رب کی ہے ، بندے کی نہیں ہے تو وہ اس فکر سے آزاد ہو جائیں گے ،اس احساس کمتری کا شکار نہیں رہیں گے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ان سب پر جن کا ذکر گزرا ہے ان پر اس غرض سے احسان نہیں کرنا کہ تیرا اثر اور رسوخ بڑھے کیونکہ اگر شرک کو تو نے برداشت کر لیا اپنی ذاتی بڑائی کو پسند کیا اور ان کمزور لوگوں پر جو بیمار ہو گئے ہیں ان کو اپنے اردگر درہنے دیا تو اس بیماری کا اثر تیرے گردو پیش پر پڑے گا.تمام دائرے کو یہ بیماری بیمار کرسکتی ہے جن کا تیری امارت سے تعلق ہے اور امر واقعہ ہے کہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے.جہاں لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا امیران پر نافذ کیا گیا
خطبات طاہر جلد 15 511 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ہے جو خوشامد کو پسند کرتا ہے یا محض تائید کو دیکھتا ہے اور یہ نہیں پہچانتا کہ تائید برحق اور مناسب ہے یا ناحق ایک قسم کی جنبہ داری کے تعلق میں ہے تو وہ خود بھی مریض ہو جاتا ہے اور ساری جماعت میں یہ مرض پھیل جاتا ہے کہ جی اچھی بات کہو تو فائدہ ہوگا.تعریفیں کرو گے تو تمہیں کچھ حاصل ہوگا اور نہ تم جماعت کے پسندیدہ دائرے سے باہر نکال کر پھینک دیئے جاؤ گے.جہاں تک اس اعتراض کا حق ہے خدا تعالیٰ یہ اعتراض کا حق کسی کو نہیں دیتا.یہ ایک الگ مضمون ہے اس کی طرف میں پھر آؤں گا لیکن جہاں تک امیروں کو ہدایت دینے کا تعلق ہے فرمایا ہے تم نے ہرگز اپنے رسوخ کو بڑھانے کی خاطر کوئی احسان نہیں کرنا.اگر کوئی مریض ہے تو اسے کاٹ کر الگ کر دو اور اس معاملے میں احسان کو عدل کی راہ میں حائل نہ ہونے دو.یہ وہ مضمون ہے جس کی بار یکی کو سمجھنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے اور ہر سطح پر اس کی باریکی کو سمجھنا ضروری ہے.احسان عدل سے اوپر کا مرتبہ ہے مگر عدل کو احسان پر ہمیشہ یہ فوقیت حاصل ہے کہ جب احسان عدل سے ٹکراتا ہے تو احسان گر جاتا ہے عدل باقی رہتا ہے.پس ایک احسان کا تقاضا ہے جو رؤف رحیم میں بیان ہوا ہے.ایک عدل کا تقاضا ہے جو گندے اور مشرک لوگوں کو اپنے سے ہٹا کر باہر دور پھینک دینے کا تقاضا ہے.یہ تقاضا ہمیشہ غالب رہے گا اور کوئی احسان بھی عدل کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو اپنے حوالے سے یوں کھولا کہ ایک موقع پر جب ایک سردار کی بیٹی کے ہاتھ کاٹے جانے تھے اس وقت کسی نے حضرت اسامہ بن زید کو اس خیال سے کہ آپ کو اپنے غلام کا بیٹا بہت پیارا ہے سفارش کے لئے بھیجا.جہاں تک مجھے یاد ہے وہ اسامہ ہی تھے مگر کوئی اور بھی ہو سکتا ہے.جو بھی تھا اسے اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ کو بڑا پیارا ہے سفارش کے لئے بھیجا اور یہ کہا کہ آنحضور سے عرض کرو کہ یہ وہ عورت جس کے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا گیا ہے یہ ایک بہت بڑے رئیس اور صاحب اختیار انسان کی بیوی یا اس کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ہے.اگر اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو ہو سکتا ہے اس سارے قبیلے پر ابتلا آئے.جب آپ نے یہ بات سنی تو جلال سے آپ کا چہرہ تمتما اٹھا.اتفاق کی بات تھی کہ اس کا نام بھی فاطمہ تھا اور آپ کی بیٹی کا نام بھی فاطمہ تھا.آپ نے فرمایا اس فاطمہ کی تم سفارش کرتے ہو، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹنے کا بھی اسی طرح حکم دیتا.یہ عدل ہے.
خطبات طاہر جلد 15 512 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء (صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره ، والنهي عن الشفاعة في الحدود) سب سے زیادہ احسان کا تعلق آپ کو امت کے علاوہ اقرباء سے تھا کیونکہ قرآن کریم نے اقرباء کا حق زیادہ بتایا ہے اور اس مضمون کو جگہ جگہ کھولا ہے.پس اپنے اہل سے جو رحمت اور شفقت کا تعلق تھا وہ اسی الہی ہدایت کے تابع تھا کہ ساری امت سے تیرا تعلق ہے مگر اقرباء کا پھر بھی ایک فائق حق ہے جس کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہے.تو مثال فاطمہ کی دی اپنی پیاری بیٹی کی جو ایک پاکیزگی کا بھی مجسمہ تھی اگر یہ بھی چوری کرتی تو میں ہرگز اپنے احسان کو عدل کی راہ میں حائل نہ ہونے دیتا.پس یہاں عدل کی بحث ہے اور عدل کے اوپر جب احسان کو غالب کیا جائے تو شرک شروع ہو جاتا ہے.اس میں ہمیشہ کوئی مخفی خوف ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان عدل سے باز آتا ہے.یادرکھو عدل کے قیام میں ہمیشہ شرک روک بنتا ہے.آپ جتنی گہرائی سے اس مضمون کا جائزہ لیں اس کے سوا کوئی نتیجہ نکال ہی نہیں سکتے کہ عدل کی راہ میں ہمیشہ شرک حائل ہوگا.تو فرمایا کہ تو نے کمال عدل سے کام لینا ہے.رجز کو چھوڑنا ہے بہر حال چھوڑنا ہے اور تیرا احسان اس راہ میں حائل نہ ہو اور یہ خیال دل میں جاگزیں نہ ہو کہ اس طرح تیرا رسوخ کم ہو جائے گا.وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ (المدثر : 8) اور جو کچھ کرنا ہے اپنے رب کی خاطر کرنا ہے اور اپنے رب کی خاطر صبر سے کام لینا ہے.اب ایک اور مضمون ایسا بیان ہو گیا جس کا دنیا کی ڈکٹیٹر شپ سے دور کا بھی تعلق نہیں.ڈکٹیٹر اور صبر کا کیا تعلق ہے.جو ڈکٹیٹروں کے ماتحت ہوتے ہیں وہ بے چارے صبر کرتے کرتے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جانیں دے دیتے ہیں مگر ڈکٹیٹر کے لئے تو صبر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آنحضرت ﷺ کو اس موقع پر جو یہ فرمایا وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ یہ ایک بہت گہرا اور وسیع مضمون ہے جس کو سمجھ کر اپنی ذات سے جاری کرنے کی ضرورت ہے.فَاصْبِرُ سے مراد ایک تو یہ ہے کہ دشمنوں کی ایذا رسانی، دشمنوں کی تکلیف پر جو عدل کے نتیجے میں ضرور عادل کو پہنچا کرتی ہے تو نے صبر سے کام لینا ہے.دوسرے یہ کہ عدل کے اجراء میں صبر سے کام لینا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ جب خدا کی خاطر کوئی فیصلہ فرمایا کرتے تھے تو ہمیشہ اس کا دکھ محسوس کرتے تھے اور کبھی بھی کوئی تلخ فیصلہ غصے اور نفرت کے جذبے سے نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ عدل سے ڈرے ڈرے جہاں تک ممکن
خطبات طاہر جلد 15 513 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ہے اس فیصلے کا اطلاق نہ ہو جو آپ کے دل پر شاق گزرا کرتا تھا.ایک موقع پر ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺے مجھے سے وہ گناہ سرزد ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں مجھے سنگسار کرنے کا حکم ہونا چاہئے.آپ نے بات سنی اور منہ دوسری طرف کر لیا.وہ شخص دوسری طرف سے آیا اور پھر یہی بات عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھ سے وہ گناہ سرزد ہوا ہے جس کے نتیجہ میں مجھے سنگسار کرنے کا حکم جاری فرمائیں.یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ ابھی وہ آیت نازل نہیں ہوئی تھی جس میں سنگساری کی بجائے سو کوڑے کی سزا مقرر فرمائی گئی.آپ نے پھر منہ دوسری طرف کر لیا.پھر وہ دوبارہ اس طرف سے آیا پھر آپ نے منہ پھیر لیا.پھر جب چوتھی بار آیا تو آپ نے فرمایا اس کو لے جاؤ اور سنگسار کر دو.اب یہ تین مرتبہ انحراف اور چوتھی بار توجہ فرمانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دل میں یہ بات بہت گراں گزرتی تھی کہ عدل کی خاطر ہی سہی مگر کسی کو سزادی جائے اور دل نے یہ ایک جائز عذر اس وقت تراشا جو جائز تھا کہ اسلام نے چار گواہیوں کا حکم دیا ہے اس لئے جب تک یہ چار دفعہ اقرار نہ کرے میں اس کو سزا نہیں دوں گا.کتنا عظیم خیال ہے، کتنا لطیف خیال ہے.ایک عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ محبت میں مبتلا کا قصہ ہے.وو مجھ سے بڑھ کر میری بخشش کے بہانوں کی تلاش“ اس کو کہتے ہیں.مجرم حاضر ہے کہ مجھے قتل کیا جائے ، مجھے دفنا دیا جائے زندہ درگو کر دیا جائے.آپ اس سے احتراز کر کے دوسری طرف منہ پھیر لیتے ہیں.کیا محبت کے بغیر یہ ممکن ہے اور جب حکم دیا تو اس وقت بھی دل بے قرار رہامگر دل کی خاطر یہ مجبوری تھی.قیام عدل پر ایک بالا تقاضا تھا لیکن اس کے بعد ایک اور واقعہ ہوتا ہے.وہی شخص جب اس پر پتھر برسائے جانے لگے تو پہلے تو وہ بڑی بہادری سے کہتا تھا مجھے سنگسار کیا جائے اس وقت تکلیف سے اٹھ دوڑا اور بعض صحابہ نے اس کا پیچھا کیا اور ایک نے اس کو پکڑ لیا اور پھر اسے سنگسار کر دیا.جب یہ واقعہ فخر سے محمد رسول اللہ اللہ کے سامنے بیان کیا گیا تو آپ کو بے انتہاء تکلیف پہنچی.آپ نے کہا بھاگتا تھا تو بھاگنے دیتے.تمہیں کیا مصیبت پڑی ہوئی تھی کہ اس کے پیچھے پڑ کے اسے پکڑ کے پھر ذبح کرتے.(صحیح مسلم، كتاب الحدود ، باب من اعترف على نفسه بالزني)
خطبات طاہر جلد 15 514 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء یہ ہے احسان اور عدل کا ایک ایسا رابطہ جس سے بلند تر رابطہ ممکن نہیں ہے.نہ پہلے انبیاء میں کوئی اس کی مثال دکھائی دیتی ہے، نہ آئندہ کبھی کسی انسان میں اس کی مثال دکھائی دے سکتی ہے.اور یہ امر واقعہ ہے کہ خدا کی خاطر جب انسان سزا دیتا ہے اگر واقعتہ خدا کی خاطر دیتا ہے تو ضرور اس کا دکھ محسوس کرتا ہے.میں ایک حقیر ، عاجز ، ادنی غلام ہوں محمد رسول اللہ ﷺ کا مگر میں گواہی دیتا ہوں کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا کی خاطر مجھے کسی کو سزا دینی پڑے اور میں خود تکلیف میں مبتلا نہ ہوں.بعض دفعہ ساری ساری رات میں بے چین رہا ہوں کہ کیوں مجھے اتنا سخت اقدام کرنا پڑ رہا ہے لیکن دشمن اعتراض سے باز نہیں آتے کہتے ہیں دیکھو تم نے جاری کردی سزا.تمہارے دل میں کوئی رحم نہیں ہے.میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ دیکھو رحم اور عدل کا ایک ایسا رشتہ ہے جسے محمد رسول اللہ ﷺ سے ہم سیکھیں گے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر عدل اور احسان کا کوئی رشتہ استوار ہو ہی نہیں سکتا.پس اپنی تکلیف کو میں خدا پہ چھوڑتا ہوں اور تمہارے اعتراض کو بھی میں خدا پہ چھوڑتا ہوں مگر احسان کے نام پر مجھ سے عدل کے تقاضوں سے بے اعتنائی کی کبھی توقع نہ رکھنا کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایسا نمونہ نہیں دکھایا.پس یہ وہ امارت کے حقوق ہیں جو آپ سب کو ہم سب کو ادا کرنے ہیں اور یہ معنی ہے وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ان کی تکلیفیں بھی خدا کی خاطر برداشت کر اور خدا کی خاطر جو تجھے تلخ فیصلے نافذ کرنے پڑتے ہیں ان کا دکھ بھی خدا کی خاطر برداشت کر.یہ وہ صبر عظیم ہے جس کا ذکر آنحضرت مے کے حوالے میں بعض دفعہ نام لے کر ، کھلے اشارے میں بعض دفعہ مخفی اشاروں میں ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے اور یہ وہ حفظ عظیم ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوا اور جس کے نتیجہ میں پھر دشمن دوست بنائے جاتے ہیں.پس ایسے ہی امیر کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.پہلے یہ حدیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں، وقت تھوڑا ہے، دوحدیثیں شاید پیش کر سکوں گا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی کو نہیں مارا نہ کسی عورت کو ، نہ خادم کو یعنی آپ کی قلبی کیفیت یہ تھی.البتہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں آپ نے خوب جہاد کیا.آپ کو جب کسی نے تکلیف پہنچائی آپ نے کبھی اس سے انتقام نہیں لیا ہاں جب اللہ تعالیٰ کے کسی قابل احترام مقام کی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں خدا کی طرف سے معزز محترم چیزیں قرار دی گئی ہیں ان
خطبات طاہر جلد 15 515 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء کی ہتک ہوئی اور ان کی بے حرمتی کی گئی تو پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ نے ضرور ان سے انتقام لیا.(صحیح مسلم ، كتاب الفضائل ، باب مباعدته للاثم واختياره من المباح ، أ سهله و انتقامه لله عند انتهاك حرماته ) آنحضوری اطاعت کے دائرے کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ متنبہ فرماتے ہیں کہ امیر کی اطاعت کرو، میری خاطر اطاعت کرو اس لئے کہ میرے نظام کا وہ ایک حصہ ہے اور خدا سے تعلق میں وہ تمہیں اطاعت کا حکم دیتا ہے یا بعض باتوں سے بچنے کا حکم دیتا ہے.فرمایا اس تعلق میں یاد رکھو کہ کبھی غیر اللہ کی اطاعت نہیں کرنی.یہ محض اللہ کی اطاعت ہے جس کی خاطر تم بندے کے سامنے سر جھکا رہے ہو.پس اس کی پہچان یہ ہوگی کہ اگر وہ کبھی معصیت کا حکم دیتا ہے تو ہرگز اس کی امارت کے نام پر اس کی معصیت میں اور اس کے سامنے سر نہیں جھکانا اور کبھی معصیت کے کام میں خدا تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کے معاملے میں کسی بندے کی اطاعت نہیں کرنی..اس کی ایک مثال حضرت علی یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کو اطاعت کی ہدایت فرمائی.ایک موقع پر اس امیر نے جو کم فہم تھا لوگوں کی اطاعت کو آزمانے کی خاطر آگ جلوائی اور حکم دیا اور پوچھا کہ اگر میں تمہیں اس آگ میں کود جانے کا حکم دوں تو کیا تم میری بات مانو گے تو بعض سادہ لوح لوگوں نے عرض کیا ہاں آپ ہمارے امیر ہیں.آپ اگر ہمیں آگ میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم مان جائیں گے اور بعض نے کہا کہ معصیت میں امیر کی کوئی اطاعت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے جس فعل سے منع فرمایا ہے اس میں ہم ہرگز تمہاری اطاعت نہیں کریں گے.جب واپسی پر یہ معاملہ آنحضور کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا اگر یہ لوگ آگ میں کو دجاتے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم امیر کی اطاعت کی خاطر کود جائیں گے تو ہمیشہ اس آگ میں جلتے رہتے کیونکہ امیر کی اطاعت محض معروف اور جانے پہچانے اچھے امور میں ہے.کھلی معصیت والے کاموں میں امیر کی کوئی اطاعت نہیں.(صحيح مسلم ، كتاب الأمارة باب وجوب طاعة الأمر في غير معصية، وتحريمها في المعصية ) پس دیکھو خدا تعالیٰ نے آپ کو بندے کی اطاعت سے کیسے آزاد فر ما دیا ہے.امیر کی اطاعت جتنی بھی کامل ہے وہ محض خدا کی اطاعت ہے اور جہاں بھی امیر خدا کی اطاعت کے دائرے سے سرمو بھی فرق کرتا ہے آپ کی گردنیں اس کی اطاعت سے آزاد فرما دی گئی ہیں.اس اطاعت کا نام
خطبات طاہر جلد 15 516 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء ڈکٹیٹرشپ رکھنا اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے.پس ہم نے تمام دنیا میں اسلامی اطاعت کی روح پیدا کرنی ہے، اس کے نمونے دکھانے ہیں اور تمام دنیا میں اسلامی اطاعت حاصل کرنے کے سلیقے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے حوالے سے بتلانے ہیں اور تمام ملکوں میں جہاں کثرت سے اس وقت احمدیت پھیل رہی ہے ہمیں اس کی شدید ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم فریضے کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.وہ ہمارا حامی وناصر ہو اور ہمیشہ ہم اسلام کے نظام اطاعت کو جاری وساری رکھ سکیں اور اس کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرسکیں کیونکہ اسی میں ہماری زندگی ہے اور اسی میں ہمارا اطمینان ہے اور اسی میں ہماری صلاحیت ہے.آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ بہترین وہ لوگ ہیں جن کے امیر اپنے ماتحتوں کو دعائیں دیتے رہیں.یہ وہ بہترین اطاعت ہے جو اسلامی اطاعت ہے.اللہ ہمیں اس اطاعت کے نمونے دنیا میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین چار بجے چونکہ وقت ختم ہو جاتا ہے کیونکہ دو طرفہ تعلق ہمارا رابطہ کٹ جاتا ہے اس لئے جلدی میں مجھے بعض اہم امور چھوڑ نے بھی پڑے اور آپ نے دیکھا ہوگا میرے طرز بیان میں کچھ تھوڑی سی افراتفری پائی جاتی تھی وہ وقت کی طرف خیال جاتا تھا تو طبیعت میں ایک جلدی پیدا ہو جاتی تھی.کوشش کرتا تھا کہ کوئی قابل ذکر امر رہ نہ جائے.مگر جہاں تک میرا خیال ہے جو نہی چار بجے ہیں اس وقت تک میں اپنی بات ختم کر چکا تھا.اگر کوئی ٹکڑا تھوڑ اسارہ بھی گیا ہو تو انشاء اللہ بعد میں انگلستان سے جب ہم اسی خطبہ کو اٹھا کر عالمی روابط کے ذریعے دنیا میں پھیلائیں گے تو سب تک پہنچ جائے گا.مجھے بتایا گیا ہے کہ ابھی چند منٹ اوپر دیئے گئے ہیں اور یہ بات جاری ہے تو آخر پر میں تمام دنیا کی جماعتوں کو جو اس وقت یہ خطبہ سن رہی ہیں امریکہ کے اس اجتماع کے لئے اور اس کی کامیابی کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ امریکہ کی جماعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہر پہلو سے آگے قدم بڑھا رہی ہے.ابھی تربیت کی بہت حد تک کمی ہے اور خصوصاً ان بچوں میں کمی ہے جو یہاں پیدا ہوئے اور ان نو مبائعین میں کمی ہے جو بڑی عمر میں آکر جماعت میں شامل ہوئے ہیں.یہ بہت ہی اہم ذمہ داری کے تقاضے ہیں جو ہمیں پورے کرنے ہیں اور اطاعت کے مضمون پر جو میں
خطبات طاہر جلد 15 517 خطبہ جمعہ 28 جون 1996ء نے زور دیا ہے وہ خالصہ اس خاطر دیا ہے کہ سب قومیں خدا کی مہمان بن کر ہمارے اندر داخل ہورہی ہیں.ان کی کمزوریوں پر ہمیں نظر رکھنا ہے.ان کے رجز کو ہر طرح پاک کرنا ہے اور اپنی کمزوریوں کو ان سے دور رکھنا ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ ہماری کمزوریاں ان میں منتقل نہ ہو جائیں ورنہ آئندہ قوموں کی خرابیوں کے ہم ذمہ دار قرار دیئے جائیں گے.پس جہاں خدا تعالیٰ انعامات کی کثرت سے بارش فرمارہا ہے.نئ نئی قومیں لکھوکھا کی تعداد میں احمدیت میں داخل ہورہی ہیں.وہاں ہمارے ثواب کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں اور ہماری سزا کے احتمالات بھی بڑھ رہے ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے امارت کے تعلق میں متنبہ فرمایا ہے کہ ہرا میر اپنے ماتحت جو بھی ہیں ان کے بارہ میں پوچھا جائے گا.اگر وہ ان کے اوپر شفقت کا حق ادا کرے گا تو اس کی جزا اس کو نصیب ہوگی اور اگر وہ اس حق سے غفلت کرے گا تو خدا کے حضور وہ اس سے پوچھا جائے گا.مگر ایک اور دوسرے موقع پر آپ نے اس مضمون کے اس پہلو کو بھی خوب کھول دیا کہ تم سے جو پرسش ہوگی اس میں تمہاری بے اختیار کمزوریوں کو خدا تعالیٰ نظر انداز فرما دے گا.اس لئے ایسے ذمہ دار کاموں کو قبول کرنے سے احتراز نہ کرنا اس ڈر سے کہ تم ہو سکتا ہے اس کے فرائض کا حق ادا نہ کر سکو.آپ نے فرمایا کہ اسلام میں امارت کا نظام اس طرح قائم ہوا ہے کہ جو شخص بھی پوری دیانتداری کے ساتھ جاری کرنے کی کوشش کرے گا اس کا دوہرا ثواب خدا اس کو دے گا اور اگر پوری دیانتداری سے کوشش کے باوجود کوئی اچھا فیصلہ جاری نہ کر سکے اور غلطی کا مرتکب ہوتو اللہ تعالیٰ اس کو ایک جزا دے گا اس کی.پس اگر نیتوں کے دائرے میں ہم پاک صاف ہو جا ئیں محض للہ نیتیں ہوں تو ہماری کامیابیاں بھی باعث ثواب میں اور ہماری ناکامیاں بھی باعث ثواب ہیں.اس لئے الہی سلسلے کے اندر ہر پہلو سے فائدہ ہی فائدہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 519 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء محبت کی راہیں سیکھنی ہیں تو آنحضرت لعل الله ہی سے سیکھی جائیں گی.(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 جولائی 1996ء بمقام بیت الرحمن واشنگٹن.امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ پھر فرمایا: ( آل عمران : 32) آج میرا خیال تھا کہ محبت الہی کے تعلق میں ہی ایک مضمون کو جو میں پہلے شروع کر چکا ہوں آگے بڑھاؤں گا لیکن بیچ میں کچھ اور باتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.مثلاً مجھے مرکز سے یہ اطلاع ملی ہے کہ ہمارا پہلا مالی سال ختم ہو کر دوسرا شروع ہو رہا ہے اور نئے سال کا آغاز جولائی کے پہلے ہفتے ہی میں کیا جاتا ہے.اس ضمن میں میں پچھلی دفعہ بھی یہ گزارش کر چکا ہوں کہ اب ہم نے کچھ طریق کار بدلا ہے.اگر چہ اگلے مالی سال کا اعلان تو آج ہی ہوگا لیکن مالی تفاصیل اور مختلف ممالک کے چندوں کے مواز نے آج نہیں ہوں گے بلکہ جلسہ سالانہ کی جو اعداد و شمار کی تقریر ہوا کرتی ہے جس میں سارے سال کے کوائف پیش کئے جاتے ہیں اسی دوران انشاء اللہ اس سال بھی وہ کوائف پیش کئے جائیں گے.صرف ربوہ سے آئے ہوئے اعداد و شمار کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کی تین بڑی جماعتوں کا موازنہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے پاکستان میں اہل ربوہ کو مالی سال میں سب سے زیادہ بجٹ ادا کرنے کی توفیق ملی ہے اور جماعت ربوہ کراچی سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور لاہور سے بھی اور
خطبات طاہر جلد 15 520 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء جماعت لاہور کراچی سے آگے بڑھ گئی ہے.یہ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں.جو پیچھے رہ جانے والی جماعتیں ہیں ان کو اپنی فکر کرنی چاہئے.مگر جہاں تک نیکی کی دوڑ کا تعلق ہے اس میں جو بھی آئے وہ خدا ہی کا گھوڑا ہے جو اول آرہا ہے.وہ ایک کہہ لیں یا دو کہہ لیں یا تین کہہ لیں مگر ہیں تو سب خدا ہی کے گھوڑے، سب پر خوشی ہوتی ہے.وہ جو مثال عرب گھوڑوں والی میں نے پہلے بھی آپ کے سامنے رکھی غالبا اس سے پہلے دو تین دفعہ اس کا ذکر کر چکا ہوں مگر ہے بہت پیاری اور چندوں کے مقابلوں کے تعلق میں وہ بیان کر دی جائے تو دلوں میں ایک تحریک پیدا ہو سکتی ہے.ایک عرب کو اپنا ایک گھوڑا بہت پیارا تھا جو کبھی کسی گھوڑے سے ہارا نہیں تھا اور جتنے بھی عرب میں مقابلے ہوئے ان میں ہمیشہ وہی اول آتا تھا.ایک اسی کا نمبر دوگھوڑا تھا جو نمبر دو آیا کرتا تھا.چوروں کو بھی بڑے فن آتے ہیں اور جو مویشیوں کے چور ہیں وہ تو بڑے ماہر ہوتے ہیں اپنے فن کے.ہم چونکہ جھنگ میں آباد ہیں، ربوہ جھنگ میں آباد ہے جو چوروں کا گڑھ ہے خاص طور پر مویشی چوروں کا، تو مجھے پتا ہے بڑے بڑے ماہر فن لوگ ہیں یہ.تو ایک چور نے اس کا نمبر ایک گھوڑا چرا لیا.جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت تک وہ اس گھوڑے پر سوار ہو کر آگے جا چکا تھا.اس نے اپنے نمبر دو گھوڑے کو پکڑا اور اس کے پیچھے بھگایا چونکہ وہ گھوڑوں کے مزاج کا واقف تھا اس لئے باوجوداس کے کہ گھوڑا نمبر دو تھا اس مالک کے اشاروں کو زیادہ سمجھتا تھا اس لئے وہ پہلے گھوڑے کے قریب آگیا.جب وہ اس کو پکڑنے لگا تو اس کو خیال آیا کہ او ہو میرا گھوڑا تو کبھی کسی سے نہیں ہارا.کیا آج یہ میرے نمبر دو گھوڑے سے ہار جائے گا.تو چور کو کہا جا اسی خاطر میں تجھے چھوڑتا ہوں کہ میں اپنے گھوڑے کو بے عزت نہیں کرنا چاہتا اس کا ریکار رہیں تو ڑ نا چاہتا کہدہ بھی کسی سے نہیں ہارا.تو جب جماعتیں مجھے کھتی ہیں کہ ہمارے لئے دعا کرو کہ ہم اول آئیں اور ہم اپنی اولیت کو برقرار رکھیں تو مجھے یہ لطیفہ یاد آجاتا ہے.مگر فرق یہ ہے کہ سارے ہی گھوڑے خدا کے گھوڑے ہیں.سارے اس کو پیارے ہیں.جو بھی آئے ہمیں اس کی خوشی میں شریک ہونا چاہئے لیکن آپس میں بہر حال ان کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں.جو عالمی مقابلے ہورہے ہیں مال کے ان میں انشاء اللہ میں جماعت امریکہ کے کوائف بھی آپ کے سامنے رکھوں گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ان جماعتوں میں ہے جو بڑی تیزی سے مالی قربانی میں آگے بڑھ رہی
خطبات طاہر جلد 15 521 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء ہیں.سردست مختصراً میں اس سال کے دو سالانہ جلسوں پر تبصرہ کرتا ہوں.ایک کینیڈا کا اور ایک جماعت یونائیٹڈ سٹیٹس کا.کینیڈا کا جلسہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے بہت کامیاب رہا.انتظامات میں کچھ نقائص جو پیدا ہوتے رہے اس میں بعض مجبوریاں بھی در پیش تھیں مگر جہاں تک کارکنوں کا تعلق ہے بہت ہی اخلاص سے انہوں نے کام کئے ہیں.ایک بھی واقعہ کسی بدمزگی کا نہیں آیا اور ہر ایک نے اطاعت کو درجہ کمال تک پہنچایا ہے.اس پہلو سے کینیڈا کا جلسہ خاص طور پر طبیعتوں پر اثر انداز تھا.دوسرا پہلو جو کینیڈا کا خصوصی ہے جس میں کینیڈا ہمیشہ ہی امریکہ سے آگے بڑھا ہے وہ ایسے غیروں سے روابط ہیں جن پر وہ سارا سال نیک اثر ڈالتے ہیں اور جب وہ ہمارے جلسوں میں شریک ہونے کے لئے آتے ہیں تو پہلے ہی دل ان کے جماعت کی طرف مائل ہوئے ہوتے ہیں.اس کے نتیجہ میں جلسے میں شامل ہو کر ان کے اندر بڑی تیزی سے پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ہمیشہ اپنے تعلق کو نبھاتے ہیں.اس پہلو سے امریکہ کے جلسے میں اگر چہ غیر بھی آئے ،متاثر بھی ہوئے لیکن ان کی بڑی تعداد وہ تھی جن سے تمام سال تعلق نہیں رکھا گیا بلکہ ان میں ایک اجنبیت سی تھی اور شاید یہ امریکہ کے مزاج کی بات ہے کہ دوستی جلدی کر بھی لیتے ہیں اور جلدی بھلا بھی دیتے ہیں.مگر وہ جو ایک مستقل تعلق کی لہریں ہیں وہ ان کے دلوں سے نکلتی ہوئی محسوس نہیں ہوئیں.جبکہ کینیڈا میں غیر معمولی انسانی جذبے کے ساتھ ان کے دلوں سے لہریں نکلتی ہیں جو دلوں کو گرماتی ہیں اور ان کو میں نے اس پہلو سے مبارک باد بھی دی ہے کہ آپ نے جو نیکی کی باتیں جب بھی سنی ہیں بڑی غیر معمولی سنجیدگی کے ساتھ ان پر لبیک کہا ہے اور باقی ممالک میں کم ہیں جن کے متعلق میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کو نیک مشورے دیئے جائیں تو وہ واقعہ سنجیدگی سے ان کا جواب دیں.اس پہلو سے ان کو ایک فوقیت حاصل ہے کہ ان کے سیاست دانوں میں انکسار پایا جاتا ہے کوئی رعونت میں نے نہیں دیکھی.جب بھی اور بار ہا ایسا ہوا ہے جب بھی ان کو کوئی ایسا مشورہ دیا جو ان کے لئے اور انسانیت کے لئے مفید ہے تو بڑھ چڑھ کر انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہاں ہم اس بات کو نوٹ کر رہے ہیں اور اس پر عمل کریں گے اور بعد میں ان کی تقاریر سے اور جو پروگرام انہوں نے اپنی قوم کے لئے تجویز کئے ان سے صاف کھل جاتا تھا کہ محض منہ کی باتیں نہیں تھیں دل کے جذبے سے وہ ایسا کہا کرتے تھے.یہاں تک کہ ان میں
خطبات طاہر جلد 15 522 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء مرکزی وزراء بھی ایسے ہیں اور جو ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ بنے ان کا بھی یہی حال ہے.جب میرا خطاب ختم ہوا تو مجھے اٹھ کر انہوں نے کہا کہ دیکھیں آپ نے جو باتیں کہی ہیں میرے دل پر نقش ہوگئی ہیں اور آئندہ ہم اس پر عمل کریں گے اور واقعہ پھر انہوں نے جو پروگرام بنایا اس میں انہوں نے اسی طرح اُس وعدے کو پورا کیا اور اس لئے کہ ان کے حق میں تھا.اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اچھی بات جہاں سے ملے اسے قبول کرنا انسان کی بڑائی کے خلاف نہیں بلکہ بڑائی کی نشانی ہے اور یہی وہ مضمون ہے جسے آنحضرت ﷺ نے مومن کو سکھایا کہ الحكمة ضالة المؤمن " (سنن ابن ماجه ، كتاب الزهد ، باب الحكمة) کہ حکمت کی بات تو مومن کی گمشدہ اونٹنی ہے جہاں بھی ملے اپنی سمجھ کے لے لے.اوپرا پن محسوس نہ کرے کہ غیر سے میں نے حکمت سیکھی تو گویا میں ذلیل ہو جاؤں گا.جس کی اپنی چیز گی ہوئی ملے وہ اس کو حاصل کرنے سے ذلیل تو نہیں ہوا کرتا.پس حکمت تمام بنی نوع انسان میں سانجھی ہے اور خصوصیت سے مومنوں کا خاصہ ہے کہ وہ پر حکمت باتیں کریں اور پر حکمت باتوں کو اپنا ئیں.پس اس حوالے سے میری امریکہ کو یہ نصیحت ہے کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی ہے لیکن اب ایسے پروگرام بنا ئیں کہ جب اہل امریکہ سے آپ لوگوں کے ذاتی روابط سنجیدگی سے اور اخلاص کے ساتھ آگے بڑھیں یہاں تک کہ وہ آپ کا اثر قبول کرنے لگیں اور جب تک ہم امریکہ پر اثر انداز نہیں ہوتے تمام بنی نوع انسان پر اثر انداز ہونا بہت مشکل کام ہے.اس دفعہ جب کینیڈا کو میں نے بعض باتیں سمجھا ئیں تو ان کو یہی کہا تھا کہ آپ اگر ان باتوں پر عمل کریں تو تمام دنیا کی سیاست کے لئے ایک اچھی مثال قائم ہوگی مگر دوسرے سیاست دان ممالک ضروری نہیں ہے کہ کینیڈا کی پیروی کریں لیکن امریکہ اس پہلو سے ایک فوقیت رکھتا ہے اور بھاری امکان ہے کہ جو لوگ امریکہ سے متاثر ہیں اور بڑی بڑی حکومتیں امریکہ سے متاثر ہیں اگر یہاں کے سیاست دان سنور جائیں تو وہ بھی اپنے انداز تبدیل کر لیں گے.وہ تو ایسے عاشق ہیں امریکہ کے کہ اس کی ہر برائی کو قبول کرنے پر بھی تیار ہیں.اگر خوبیاں بھی پیدا ہو جائیں تو کیوں ان خوبیوں کو نہیں اپنا ئیں گے.امریکہ کے جلسے کی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیرت انگیز طور پر خوشکن ثابت
خطبات طاہر جلد 15 523 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء ہوئی.امیر صاحب نے مجھے بتایا کہ گزشتہ سال اجتماع پر تقریباً تین ہزار (3000) مہمان تشریف لائے تھے یعنی کل حاضری تین ہزار (3000) تھی باہر سے آنے والوں سمیت اور اس سال انہوں نے اندازہ لگایا کیونکہ میری آمد متوقع ہے اس لئے ڈیڑھ ہزار (1500) کا اضافہ کر دیا جائے اور ساڑھے چار ہزار (4500) کے اندازے پر انہوں نے کھانوں کے سامان خریدے اور تیاریاں کیں اور کھانا کھانے والوں کی آخری حاضری سات ہزار تک پہنچ چکی تھی خدا کے فضل سے اور یہ جو حاضری ہے یہ قطعی اور یقینی ہے.اس میں اضافہ ہو سکتا ہے کمی نہیں کیونکہ وہ لنگر جہاں سالن تقسیم ہوتے ہیں اور روٹیاں دی جاتی ہیں وہاں بعض دفعہ ایک کی بجائے دو یا تین حاضریاں بھی لکھوا دی جاتی ہیں.بعض ہمارے زمیندار بہت کھانے والے بھی ہیں وہ پانچ پانچ چھ چھ حاضریاں لکھوا کر اپنا پیٹ بھرتے تھے اور یہ گناہ نہیں تھا.وہ کہتے تھے تمہاری دو روٹیوں سے ہمارا کیا بنے گا اس لئے سات آدمیوں کا کھانا دوتو پھر ہمارا پیٹ بھرے گا تو ہم دے دیتے تھے مگر تعداد بڑھ جایا کرتی تھی اور ہمیشہ یہ خطرہ رہتا تھا کہ جو تعداد لنگر کی پرچی کی ہے اصل مہمانوں کی اس سے کم ہوگی لیکن یہاں تو کوئی ایسا سوال نہیں.یہاں برعکس صورت ہوتی ہے.بعض دفعہ مہمان یہاں کھانا نہیں کھاتے ان کے اپنے انتظامات ہوتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے بہت ہی خوشکن حاضری تھی.سات ہزار کی حاضری امریکہ کے لئے ایک نیا سنگ میل ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اسے اور آگے بڑھانے کی توفیق بخشے اور آگے بڑھانے میں یادرکھیں تبلیغ کے ذریعے آگے بڑھیں.پیدائش کے ذریعے تو آپ بڑھتے ہی ہیں.جو نہیں بڑھتے ان کو میں ملاقات کے دوران سمجھا دیتا ہوں اور حوالہ دیتا ہوں ایسا جس کا انکار کر نہیں سکتے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تم شادی کیا کروتو ولوداً و ودوداً عورتوں سے شادی کیا کرو.ایسی عورتیں جو و دود بھی ہوں یعنی بہت پیار کرنے والی ہوں اور و لو دہوں جو بچے بھی بہت دیں تا کہ میری امت بڑھے.(سنن أبی داؤد، كتاب النكاح ، باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء) یہ بہت ہی ایک پیاری توقع ہے.پس جب میں کچھ بے چینی کے آثار دیکھتا ہوں تو یہ حوالہ دے دیتا ہوں اور اللہ کے فضل سے باقی کام یہ حوالہ کر دیتا ہے تو بڑھیں بے شک اور وہ تو بڑھنا ہی ہے
خطبات طاہر جلد 15 524 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء انشاء اللہ یعنی اولاد کے ذریعے.مگر جو تبلیغ کے ذریعے بڑھنا ہے وہ آج وقت کی ضرورت ہے.سب سے زیادہ بڑی ضرورت تبلیغ کے ذریعے بڑھنا ہے اور اس سال خدا کے فضل سے امریکہ میں اس پہلو سے ترقی کے آثار دکھائی دیئے ہیں اور بہت سے نئے چہرے جو افریقن امریکنوں کے بھی تھے اور سفید امریکنوں کے بھی ، وہ سارے خدا کے فضل سے احمدیت کے رنگ میں رنگین ہو چکے تھے.ان میں کوئی تفریق باقی نہیں رہی تھی.بہت ہی محبت و خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھرتے تھے تو یہ تمام عالم کو ایک بنانے کا نسخہ ہے جو احمدیت کے سوا اور کہیں نصیب نہیں ہے.اللہ کرے اس پہلو سے آپ امریکہ کو بھی ایک قوم بنا دیں اور امریکہ کے حوالے سے ہم کل عالم کو ایک قوم بنانے میں کامیاب ہوسکیں.اب میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو آنحضرت ﷺ کے تعلق میں قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ تو کہہ دے کہ اگر تم واقعہ اللہ سے محبت کرتے ہو تو پھر محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرو.یعنی خدا مخاطب ہوتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ سے اور فرماتا ہے کہ تو کہہ دے بنی نوع انسان سے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنے کے دعوے دار ہو، واقعہ محبت کرتے ہو تو پھر میری پیروی کرو تب اللہ تم سے محبت کرے گا اور نہ تمہاری محبت رائیگاں جائے گی.پس آنحضرت ﷺ کے حوالے سے اللہ کی محبت کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری بھی ہے اور اس محبت کو نہایت ہی آسان اور پر لطف بنا دینے والا ہے.اس میں فَاتَّبِعُونِی کا جو چیلنج ہے وہ محض اس لئے نہیں کہ جیسے فخر میں کہا جاتا ہے کہ میری پیروی کر کے دکھاؤ.آنحضرت ﷺ کا جو مزاج ہے خدا تعالیٰ آپ کو خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ اس مزاج کو بھی ملحوظ رکھتا ہے.آپ کے مزاج میں کوئی تفاخر نہیں تھا.جب بھی آپ ان انعامات کا ذکر فرماتے تھے جو اللہ نے آپ پر نازل فرمائے تو ساتھ ساتھ فرماتے تھے.ولافــخــر ولا فخر، ولا فخر، ولا فخر ایک موقع پر بار باران عظیم مناقب کا ذکر کیا جن میں آپ تنہا تھے.کل عالم میں سوائے آپ کے اور کسی کو وہ فضیلت نہیں ملی لیکن ساتھ ساتھ فرماتے جاتے تھے ولا فخر.مجھے اس پر فخر کوئی نہیں ہے.فخر اس لئے نہیں ، قابل فخر بات پر اگر کہا جائے فخر نہیں ہے تو مراد یہ ہے کہ میں صلى الله سمجھتا ہوں کہ میں نے کمائی نہیں ہے یہ اللہ کا احسان ہے.یہ بھی ایک غیر معمولی آنحضرت ﷺ کا
خطبات طاہر جلد 15 525 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء انداز انکساری ہے جو آپ ﷺ کو خدا سے اور بھی زیادہ قریب کر دیتا ہے اور آپ کی محبت کا ایک ذریعہ ہے.ہم دنیا کے تجربہ میں یہ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات شعری ذوق سے انسان پہچانا جاتا ہے.اگر کسی سے پیار ہو تو جس انداز کا پیار ہو اسی انداز کے شعر پسند آتے ہیں اور اگر ایک انسان خشک مزاج کا ہے تو اسے خشک مزاج کے گرامر کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے بنے ہوئے شعر اچھے لگتے ہیں.غرضیکہ ہر شخص کا مزاج اس کے شعروں کے انتخاب پر اثر انداز ہوتا ہے.اسی پہلو سے ایک شاعر نے کہا ہے کہ کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ؟ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے میرا حال تو نہیں کھلنا تھا مگر میرا شعروں کا انتخاب ایسا تھا جس نے دل کی بات کہہ دی.تو آئیے اب میں آنحضرت ﷺ کی پسند کا (دیوان غالب صفحہ 232) شعر آپ کو سناتا ہوں تا کہ آپ کے دل کا معاملہ بھی ہم پر کھلے کیونکہ یہ معاملہ کھلے بغیر ہمارے دلوں کو حقیقت میں اللہ کی محبت نصیب نہیں ہو سکتی.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے لبید شاعر کے متعلق یہ فرمایا کہ بہت سے شاعر بہت کچھ کہتے ہیں مگر جو بات لبید نے کہہ دی کوئی اور شاعر ویسی بات نہیں کہہ سکا.لبید کے شعروں کو ایسا خراج تحسین بلکہ دنیا کے کسی شاعر کے شعروں کو ایسا خراج تحسین کبھی نہیں نصیب ہوا جیسے آنحضرت ﷺ نے لبید کو دیا.فرماتے ہیں ، وہ شعر کیا ہے.الا كـل شـيــي ء مــاخـلا الله باطل (صحيح بخارى، كتب مناقب الأنصار، باب أيام الجاهلية) سنو ہر چیز خدا کے سوا باطل ہے.اب یہ شعر آنحضرت ﷺ کے دل میں اس لئے جاگزین ہوا ہے کہ دل کی بات تھی.جو بات دل میں ہو اور کوئی دوسرا کہہ دے تو ایسے دل میں جا کے ڈوبتی اور ٹک جاتی ہے کہ اپنی محسوس ہوتی ہے.جیسا کہ غالب کہتا ہے.دیکھنا تقریر کی لذت کہ، جو اس نے کہا
خطبات طاہر جلد 15 526 ے میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء مگر اس معاملے میں لبید کا شعر جو آنحضور کے دل پر اثر انداز (دیوان غالب صفحہ: 242) ہوا ہے یہ اس لئے نہیں کہ جو اس نے کہا وہ بھی دل میں ہے.بلکہ جو آپ کے دل میں تھا وہ اس کی زبان سے جاری ہوا ہے اور معاملہ برعکس ہے.پس آنحضرت ﷺ کو اس لئے یہ شعر پسند آیا اور یاد رکھیں کہ محبت الہی میں جو نمو نے آنحضرت ﷺ نے پیش کئے ہیں ان کا ایک نمایاں فرق دنیا کی محبت سے دکھائی دیتا ہے.دنیا میں جنسی محبتیں بھی ہوتی ہیں اور غیر جنسی محبتیں بھی.جنسی محبت کا یہ خاصہ ہے کہ جس سے محبت ہوا گر کوئی اور اس سے محبت کرے تو اس سے نفرت ہو جاتی ہے.یہ عجیب قصہ ہے جتنا آپ کسی کو چاہیں اتنا ہی کسی اور کی محبت دخل انداز ہوتی ہے اور آپ کو بری لگتی ہے.آپ چاہتے ہیں کہ بس آپ اتنا ہی چاہیں.مگر روحانی محبت اس کے بالکل برعکس ہے.آپ جسے چاہتے ہیں، جتنا چاہیں دل چاہتا ہے سب ہی اسے چاہیں ، ہر شخص اس کے عشق میں دیوانہ ہو جائے.یہ وہ نمونہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے پیش فرمایا اور حیرت انگیز طریق پر دلوں کو چھیڑا کہ ہر دل اللہ تعالیٰ کی محبت میں مبتلا ہو جائے اور ویسے ہی مبتلا ہو جائے جیسے آپ ہیں.پس یہ وہ مزاج ہے جسے اس آیت کریمہ نے کھول کر بیان فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اے محمد ﷺ! تیرے دل کی بات یہ ہے تو بتانا چاہتا ہے کہ اگر تم محبت کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے سیکھو اور مجھ سے سیکھو گے تو تمہاری محبت آسان ہو جائے گی مجھ سے سیکھو گے تو تمہاری محبت کو پھل لگنے لگیں گے.اس لئے جو بے اختیار گہری تمنا ہے کہ سب اللہ تعالیٰ کو ویسا چاہیں جیسے آنحضرت ﷺ نے چاہا یہ اسی جذبے کا اظہار ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں یوں بیان فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبُكُمُ اللهُ اے محبت کے دعویدارو تمہیں کیا پتا کہ یہ محبت کیا ہوتی ہے.آؤ اور میرے پیچھے چلو محبت کی ساری راہیں میں تم پر آسان کر دوں گا.محبت ایک بوجھ نہیں ہوگی بلکہ ایک ایسا پر لطف جذبہ ہو جائے گا جو ایک غیر معمولی طاقت اور جذب کے ساتھ تمہیں کھینچے گا اور تمہارا ہر قدم محبت کی راہ میں آسانی سے اٹھے گا.یہ وہ محبت کی کیفیت ہے جو آنحضرت ﷺ کو صلى الله نصیب تھی اور آپ ہی نے ہمیں سکھائی اور آپ ہی سے ہم سیکھیں گے کیونکہ اس سے بڑھ کر خدا کی
خطبات طاہر جلد 15 527 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء محبت سکھانے والا اور کوئی نہیں اور بہت ہی بار یک راز آپ ﷺ محبت کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے جن میں ہمیشہ ڈوب کر بہت ہی گہرا فلسفہ محبت کا معلوم ہوتا تھا اور بظاہر وہ جواب ایک الگ سا جواب ہے لیکن جب آپ غور کریں تو حیرت انگیز وہ عارفانہ کلام ہے.ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ ایسا کام بتائیں کہ میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے.اب یہ سوال وہی ہے جو اس آیت سے تعلق میں ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے.وہاں یہی تو مضمون ہے کہ دنیا کو بتادو کہ اگر محبت کرنی ہے تو پھر میرے پیچھے چلو تب اس محبت کو پھل لگے گا تب اللہ تم سے محبت کرے گا.تو اس نے بعینہ یہی سوال کیا کہ مجھے ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے.اب آیت کریمہ کے مضمون کے مطابق جواب ہونا چاہیئے اس لئے اس جواب کو اس آیت کے حوالے کے بغیر سمجھا جاہی نہیں سکتا.یہ کوئی خشک جواب نہیں ہے بلکہ اپنے دل کی واردات کو آپ نے اس کے سامنے کھول دیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہی طریقہ سکھایا ہے کہ جیسے میں کرتا ہوں تم بھی ویسے ہی کرو تو خدا تم سے ضرور محبت کرے گا.تو فرمایا ” دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور جہاں تک بنی نوع انسان کی محبت کا تعلق ہے فرمایا ” جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دولوگ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے.اب یہ دو بڑی گہری حکمت کی باتیں ہیں.تعلق باللہ اور تعلق بالناس یعنی ہم جنس لوگوں سے تعلق بڑھانا ہو تو یہ طریق ہے اور خدا سے تعلق بڑھانا ہو تو وہ طریق ہے.خدا کے تعلق میں یہ نہیں فرمایا کہ جو خدا کا ہے اسے مانگنا چھوڑ دو، اس کی حرص ترک کر دو بلکہ وہاں کچھ اور بات فرمائی ہے جس کی طرف میں واپس آتا ہوں.بنی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے اس کی حرص چھوڑ دو اور یہ خدا اور بنی نوع انسان کے رجحانات کے اندر جو نمایاں فرق ہے یہ اس کو ظاہر کرنے والی بات ہے.اگر آپ کی نظر کسی کی دولت کسی کے محل کسی کے مکان، کسی کی عورت پر لگ جائے تو وہ ہمیشہ آپ کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کرے گی کیونکہ انسان فطرتا کنجوس ہے اور یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی چیز پر کسی اور کی نظر لگ جائے.بعض دفعہ نوکریوں پر جب لوگوں کی نظر لگ جاتی ہے تو کئی قسم کی شرارتیں اور فساد کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ایک جوابی نفرت پیدا ہوتی ہے.ہر شخص جو اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے
خطبات طاہر جلد 15 528 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء ہرایسے شخص سے جو اس کی چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور حرص کی نگاہ سے اس کی ملکیت کو دیکھتا ہے اس کو طبعا اس سے ایک خطرہ محسوس ہوتا ہے اور خطرے کے مطابق ایک قسم کی بیگانگی پیدا ہو جاتی ہے یا نفرت پیدا ہو جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی نوع انسان میں تو یہ طاقت نہیں ہے کہ تم ان کی چیزیں چاہو اور وہ پھر بھی تم سے پیار کریں.اس لئے ان چیزوں کو دیکھنا ہی چھوڑ دو اور پھر بنی نوع انسان تم سے محبت کرنے لگیں گے.مگر سوال یہ ہے کہ اس کا پہلے جواب سے تعلق کیا ہے.اگر آپ غور کریں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ ایک ہی بات کے دو پہلو بیان ہوئے ہیں.اگر آپ بنی نوع انسان کی چیزوں سے ، بنی نوع انسان کی مملوک سے ، جن کے وہ مالک ہیں ان سے غیر معمولی حرص کا تعلق توڑ لیتے ہیں تو ساری حرص کا تعلق تو ڑ لیتے ہیں اور یہی پہلا جواب تھا کہ تم دنیا سے حرص کا تعلق توڑ لو، بے نیاز ہو جاؤ تو خدا تمہارا ہو جائے گا.وہ تم سے پیار کرنے لگے گا.لیکن وہ تعلق توڑنا جو ہے اس کی ترکیب ہی ایسی بتائی کہ انسان بھی محبت کرنے لگے اور خدا بھی محبت کرنے لگے.سوال چھوٹا سا تھا لیکن جواب بہت عظیم ہے.سوال میں ایک دائرے کی محبت پوچھی گئی تھی جواب میں ہر دائرے کی محبت شامل فرما دی گئی اور بنی نوع انسان سے تعلق توڑنے کا نہیں کہا یہ ایک اور حکمت کی بات ہمیں سمجھائی گئی.یہ نہیں فرمایا کہ بنی نوع انسان سے تعلق توڑ لو تو خدا تمہارا ہو جائے گا.جو بنی نوع انسان سے تعلق توڑتے ہیں خدا ان کا نہیں ہوا کرتا.ہاں لوگوں کی ملکیتیوں.نعمتیں جو خدا نے ان کو عطا فرمائی ہیں ان نعمتوں سے حرص کا تعلق کاٹ لو یہ بے نیازی ہے.پس بے نیازی ایک عظیم دولت ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے.بے نیازی سے زیادہ متمول کرنے والی اور کوئی چیز نہیں اور بے نیازی میں غیر کی چیز کو غیر کا سمجھنا اور اس پہ جلن محسوس نہ کرنا یہ سب سے پہلی سچی علامت ہے کہ آپ کو واقعہ اس کی حرص نہیں ہے.اب جتنے بھی دنیا میں شریکے ہیں اور شریکوں کے مقابلوں میں مصیبتیں دنیا میں پڑی ہوئی ہیں.قوموں کی قوموں سے ایک قسم کی جلن پیدا ہو جاتی ہے، حسد پیدا ہو جاتا ہے.انسانوں کو انسانوں سے عورتوں کو عورتوں سے، مردوں کو مردوں سے، بچوں کو آپس میں جلن اور حسد اور اس سب کی بنیادی وجہ وہی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو ایک دوسرے کی چیزوں کو حرص سے دیکھتے ہیں وہ تب ہی حرص سے دیکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ہے، ہمارے پاس نہیں ہے اور جتنی ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے پاس نہیں وہ اس کے پاس سے وہ
خطبات طاہر جلد 15 529 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء ہے.یہ حسد کا جذبہ پیدا کرنے والا ایک خیال ہے جس کے نتیجہ میں نفرتیں پھیلتی ہیں اور اگر ہر شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا ہے اور میرا بھائی اس کو پسند کرتا ہے، اس پر غصہ نہیں کرتا تو اس سے ضرور محبت کرے گا اور یہ روز مرہ کا تجربہ ہے.اگر ایک انسان کسی بھائی کی دولت پر ،اس کے اچھے مکان پر، اس کے اچھے مویشیوں پر ، اس کے اچھے فن پر ، اس کے ذوق وادب پر خوش ہوتا ہے تو ثابت ہو گا کہ اس کو اس سے کوئی حسد نہیں ہے اور اس حدیث کا مضمون اس پر پوری طرح صادق آئے گا کہ تم تمام انسانوں کی مخلوقات سے، جو کچھ خدا نے ان کو عطا فرمایا ہے ان سے اس حد تک بے نیاز ہو کہ ان کو جو خدا نے نعمتیں بخشی ہیں اس سے تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے بلکہ خوشی نصیب ہو.پس اپنے جب کوئی چیز حاصل کرتے ہیں تو دیکھیں آپ کتنا خوش ہوتے ہیں.ایک بچے کو کامیابی نصیب ہوگئی سارا گھر خوش ہو جاتا ہے.ایک عزیز نے کوئی بڑی نوکری حاصل کر لی سارا گھر خوش ہو جاتا ہے.کسی کو کوئی اعزا ز مل جائے تو سارا گھر خوش ہو جاتا ہے بلکہ دور والے جو پہلے زیادہ تعلق نہیں بھی رکھتے تھے مگر دل میں تھا وہ ایسے موقعوں پر پہنچ جاتے ہیں مبارکباد دینے کے لئے.کچھ جھوٹے بھی چلے جاتے ہیں یہ دکھانے کے لئے کہ ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ جو سچی محبت ہے اس میں اپنے پیارے کو جو ملے گا وہ اپنے آپ کو ملتا ہے اور اس پہلو سے ایک انسان صرف بے نیاز ہی نہیں ہوتا بلکہ متمول ہو جاتا ہے.وہ شخص جو سب کی خوشیوں میں شریک ہے اس کی عجیب زندگی ہے.جہاں اسے خوشی کی خبر ملتی ہے اس کا دل خوش ہو جاتا ہے.وہ جو ہر ایک کے ماحصل کو ناپسندیدگی سے دیکھتا ہے ہر بات پہ جلتا ہے ساری زندگی وہ آگ میں جلتا رہتا ہے.پس وہ لوگ جو اس دنیا میں اپنے لئے آگ جلائے رکھتے ہیں اور اس پر جلتے ہیں کیسے ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں انہیں جنت اور طمانیت کی خوش خبری دی جائے.یہاں ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی جہنم بنانی ہے، اپنی جنت بنانی ہے اور اس پہلو سے یہ نسخہ جو حضور اکرم ﷺ نے بیان فرمایا بہت گہرا ہے اور آپ کی قلبی کیفیات کا مظہر ہے کیونکہ جواب اس آیت کا جواب ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں.اس نے پوچھا تو آیت کا حوالہ تو نہیں دیا.پوچھا یہی تھا کہ بتائیں کہ اللہ مجھ سے کیسے محبت کرے میں تو کرتا ہوں.تو اپنے دل کی کیفیات ہیں جو کھولی ہیں.جس کا مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے غلاموں کی ہر کامیابی پر خوش ہوتے تھے
خطبات طاہر جلد 15 530 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء اور اپنے غلاموں کی کسی کامیابی پر آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی.بلکہ آنحضرت ﷺ کا جو قلبی احساس تھا اس میں تمام صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا اس کے ساتھ میں ایک لذت کا جذبہ پیدا کر دیتا تھا.پس دیکھو کتنی عظیم کامیابی ہے.پہلا طریق وہ ہے جس پہ ہر وہ شخص جو آپ کے قریب نہیں ہے جب اس کو کچھ ملتا ہے آپ کے لئے ایک عذاب بن جاتا ہے.اس کا ملنا آپ کے لئے عذاب بن جاتا ہے.یہ دوسری صورت میں جو کچھ آپ کے عزیزوں ، اقرباء کو یا جاننے والوں کو ملتا ہے آپ کے لئے ایک لذت کا سامان پیدا کر دیتا ہے.یہ وہ چیز ہے جو اس دنیا میں ایک جنت بنادیتی ہے اور زندگی کو کتنا آسان کر دیتی ہے.اب اسی بات کو جواب کے پہلے حصے کے تعلق میں ہم مزید دیکھتے ہیں.فرمایا اگر تم دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا.سوال یہ ہے کہ کس دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ.جو اللہ کی دنیا ہے اس سے تو بے نیازی ممکن نہیں ہے.دنیا سے بے نیازی کا مطلب ہے غیر اللہ سے بے نیازی.ورنہ جو اللہ کی چیز ہے اس سے تو انسان کو پیار ہوتا ہے اگر اللہ سے پیار ہے.یہ یہ مضمون آنحضور ﷺ نے دوسری جگہ خوب کھول کر بیان فرمایا ہے.پس بے نیازی سے مراد دو ہیں.ایک یہ کہ دنیا اگر تمہیں تکلیف پہنچاتی ہے اور اس تکلیف کو تم خدا کی خاطر برداشت کرتے ہو اور پرواہ نہیں کرتے کہ دنیا نے تمہیں کیا کہا ہے اور تم سے کیسا سلوک کیا ہے ایسے موقع پر اللہ تم سے ضرور محبت کرے گا اور یہ جو مضمون ہے یہ گہرا انسانی فطرت میں رچا بسا مضمون ہے.آپ دیکھیں آپ کے بچے بھی بعض ایسے ہیں جو خود جواب دیتے ہیں دوسرے کی باتوں پر بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں.کچھ ایسے ہیں جو خاموش ہو جاتے ہیں اور صبر سے برداشت کر جاتے ہیں.ماں باپ کی نظر ان کے چہروں پر رہتی ہے اور ان کی تکلیف کو زیادہ محسوس کرتے ہیں، ان سے زیادہ پیار کرتے ہیں.پس دنیا سے بے نیازی اگر ان معنوں میں ہے کہ دنیا خدا کی خاطر تکلیفیں پہنچاتی ہے اور آپ خدا کی خاطر خاموش ہو جاتے ہیں اور صبر کرتے ہیں تو یہ وہ بے نیازی ہے جو لا زما اللہ کی محبت کو کھینچے گی.دوسرے بے نیازی اللہ کے تعلق کے حوالے سے ہے.اگر آپ کو دنیا سے ایسا پیار ہے کہ خدا کے پیار کے رستے میں حائل ہو جاتا ہے تو اسے دنیا سے بے نیازی نہیں کہا جاسکتا.دنیا سے بے نیازی اللہ کے تعلق میں صرف یہ معنے رکھتی ہے کہ جہاں بھی دنیا خدا سے ٹکراتی ہے اور خدا کے تعلق اور
خطبات طاہر جلد 15 531 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء دنیا کے تعلق کے درمیان ایک فیصلہ کرنے کا وقت آتا ہے ہر ایسے موقع پر دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ.مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا ہر ایسے موقع پر بے نیاز ہو جاؤ.آپ فرماتے ہیں دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ.یہ اس لئے ہے کہ ہر ایسے موقع پر بے نیاز ہی ہے جو کامیابی سے اس امتحان سے گزرتا ہے.بے نیازی ایک دائمی کیفیت کا نام ہے.یہ مطلب نہیں کہ اس موقع پر سوچ کر یہ فیصلہ کرو کہ اللہ کو لینا ہے اور دنیا کو چھوڑنا ہے.آپ نے ایک دائگی کیفیت کا ذکر فرمایا ہے.ایک انسان کے دل میں ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ جذبہ مرتسم ہو جائے ، اس پر لکھا جائے ، چھپ جائے کہ خدا کے سوا مجھے کسی چیز سے پیار نہیں ہوگا اگر وہ خدا سے ٹکراتی ہے.لیکن اللہ کے حوالے سے غیروں سے پیار کرنا یہ فطرت کے خلاف نہیں ہے بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے.پس اس دوسرے پہلو کی طرف بھی میں آنحضرت ﷺ کے حوالے سے روشنی ڈالوں گا کیونکہ گزشتہ خطاب کے بعد مجھے ایسے پیغامات ملے ہیں جس میں کچھ لوگ بے چارے پریشان سے ہو کے رہ گئے ہیں.کہتے ہیں آپ نے تو کہا ہے اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے کہا ہے کہ خدا کی محبت کے سوا باقی سب کچھ فانی ، جھوٹ ہے.سب قصہ ہے اس کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہے گا.تو ہمیں تو اپنے ایمانوں پر شبہ پڑ گیا ہے.ہم تو اپنے ماں باپ سے بھی محبت کرتے ہیں ، اپنے پیاروں سے بھی محبت کرتے ہیں ، بیویاں خاوندوں سے محبت کرتی ہیں، خاوند بیویوں سے محبت کرتے ہیں.ہم کہاں جائیں گے اگر یہ سب شرک ہی کی نشانی ہے.اگر ان محبتوں کے نتیجہ میں ہم خدا کی محبت سے محروم ہو جائیں گے تو ہمیں سمجھا ئیں کہ پھر کیا علاج ہے.ہم کیسے اس مقصد کو پالیں جو آپ نے اللہ کی محبت کے حوالے میں بیان فرمایا.تو میں پھر اس مضمون کی طرف لوٹوں گا مگر سر دست ایک حدیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو دل کے اوپر ایک غیر معمولی ، ایک بہت ہی گہرا اثر کرنے والی حدیث ہے.دل پہ قابض ہو جاتی ہے لیکن یہ ایک ایسی حدیث ہے جسے سمجھنا آسان بھی نہیں ہے.کئی غلط فہمیاں بھی ہو سکتی ہیں.حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس کوئی جنگی قیدی لائے گئے جن میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے.ان عورتوں میں سے ایک عورت جس کسی بچے کو دیکھتی اس کو دودھ پلانا شروع کر دیتی ،اس سے محبت کا اظہار کرتی اور لوگ سمجھتے تھے کہ دیوانی ہوگئی ہے.اس کیفیت کو
خطبات طاہر جلد 15 532 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء جب دیکھا تو آنحضرت ﷺ نے ہمیں فرمایا.ہاں اس کا قصہ یہ تھا کہ اس کا بچہ کھویا گیا تھا اور چونکہ بچے سے پیار تھا اس لئے اس کے حوالے سے ہر بچے سے پیار ہو گیا.ہر بچہ اپنا دکھائی دینے لگا اور یہی مضمون ہے جو ایک عرب شاعر نے اس حوالے سے بیان کیا ہے کہ میرا بھائی جس مقام پر دفن ہے وہ اگر چه الگ مقام ہے لیکن مجھے تو جہاں بھی کوئی قبرستان دکھائی دیتا ہے اس کا نام وہی لگتا ہے جو میرے بھائی کے مدفن کی جگہ کا نام ہے.میں ہر قبر پر اسی طرح گریہ وزاری کرتا ہوں جیسے اپنے بھائی کی قبر پر گریہ وزاری کرتا تھا کیونکہ یاد رکھو کہ ایک غم دوسرے غم کو ابھار دیا کرتا ہے، ایک محبت دوسری محبت کو چھیڑ دیتی ہے.پس یہی کیفیت اس عورت کی تھی کہ جس بچے کو دیکھتی اسے سینے سے لگالیتی ، اسے دودھ پلاتی ، اس سے پیار کا اظہار کرتی.آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو دکھا کر صحابہ سے پوچھا کہ صلى الله بتاؤ کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہرگز نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس عورت کے اپنے بچے پر رحم کرنے سے زیادہ رحم کرنے والا ہے وہ کیسے بندوں کو آگ میں پھینک دے گا.(صحیح بخاری ، كتاب الأدب ، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته) اب یہ جو مضمون ہے یہ بہت ہی لطیف ہے بہت ہی دل پر اثر پیدا کرنے والا ہے مگر اس کی حکمت سمجھنی ضروری ہے ورنہ یوں معلوم ہوگا جیسے قرآن کریم کے ان تمام وعید کو آنحضرت ﷺ غلط قرار دے رہے ہیں جہاں جہنم کی باتیں ہیں اور بڑے یقین اور تحدی کے ساتھ فرمایا جا رہا ہے کہ لازماً یہ بات ہو کے رہے گی اور خدا کی طرف سے ایک حقاً وعدہ ہے جوٹل نہیں سکتا کہ لازماً جہنم کو بد لوگوں سے بھر دیا جائے گا.تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ حدیث اس کے مقابل پر کیا معنے رکھتی ہے اور حدیث بھی ایک عام کتاب کی نہیں بلکہ بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے جو مستند کتابوں میں سے ایک اہم مستند کتاب ہے.تو اصل بات یہ ہے کہ یہاں اس مضمون کی چابی لفظ بندے میں ہے.وہ بچے جو ماؤں کے بچے بن کے نہیں رہتے جو ماؤں کے بچے ہوتے ہوئے بھی غیروں کے ہو جاتے ہیں بسا اوقات مائیں ان کو بد دعائیں بھی دے دیتی ہیں اور خود میرے سامنے ایک ایسا واقعہ ہوا کہ ایک عورت نے بستر مرگ پر اپنے بچے کو بد دعا دی صرف اس لئے کہ اس کا خدا سے تعلق ٹوٹ گیا تھا اور چونکہ اس
خطبات طاہر جلد 15 533 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء عورت کا خدا سے گہرا تعلق تھا اس لئے اس نے بددعا دی اور میں حیران رہ گیا لیکن اس وقت میں سمجھا کہ خدا کا عشق اس پر اتنا غالب ہے کہ اپنے بیٹے کو بد دعا دے رہی ہے کیونکہ اس کا خدا سے تعلق ٹوٹ گیا تھا.پس یہ چیز حقیقہ ممکن ہے اور انسانی فطرت میں بھی اس کے نظارے دکھائی دیتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا بیان کرتے ہوئے شیطان کے ساتھ ایک گفتگو کو ایک تمثیل کے طور پر پیش فرمایا ہے.جب شیطان نے یہ کہا تو یہ جو مخلوقات ہیں آدم کی اولادان پر مجھے اپنا اثر ڈالنے کے لئے قیامت تک کے لئے چھٹی دیدے اور پھر دیکھ کہ کتنے ہیں جو تیرے ساتھ رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا چھٹی ہے.تو اپنے گھوڑے بھی چڑھا لا ان پر ، اپنے پیارے بھی لے آؤ.ان کے آگے سے، پیچھے سے دائیں اور بائیں سے ان پر حملے کرو اور جو کچھ بن سکتا ہے بناؤ اور ان بندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرو مگر یہ یا درکھو جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے کوئی دسترس نہیں ہوگی.جو تیرے ہیں تو ان کو لے جاوہ تو میرے نہیں ہیں اور پھر قیامت کے دن میں تجھے بھی اور ان کو جنہوں نے تیرا ساتھ دیا تھا جنہوں نے مجھ سے بندگی کے تعلق توڑ لئے تھے آگ میں پھینک دوں گا.تو یہ جو حدیث ہے یہ قرآن کریم کی اس آیت کے حوالے سے حل ہوتی ہے.صلى الله آنحضرت ﷺ یہ فرمارہے ہیں کہ تم اگر خدا کا بندہ بنا سیکھ جاؤ اگر اس کے بندے ہو جاؤ اور عبادالرحمن والی صفات اپنے اندر پیدا کرو تو خدا کی قسم خدا تمہیں کبھی آگ میں نہیں ڈالے گا.ناممکن ہے کہ تمہیں آگ چھوٹے اور اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار ( در مشین اُردو : 154) اور اس دنیا میں بھی اس مضمون کو اطلاق فرمایا ہے.فرمایا بڑے بڑے ابتلا آئیں گے دنیا میں خوفناک جنگیں ہوں گی بڑی بڑی ہلاکتیں ہیں جو تمہارے سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہیں لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں.آگ تو ہے مگر جو خدائے ذوالعجائب سے محبت کرتے ہیں ان پر آگ حرام کر دی جائے گی.پس اس دنیا کی جہنم سے بچنے کا بھی یہی طریق ہے کہ ہم اللہ کے بندے بن جائیں اور بندہ بنے بغیر یہ توقع رکھنا کہ خدا کا رحم غالب ہے یہ حماقت ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس
خطبات طاہر جلد 15 534 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء مضمون کو خوب کھول کر الگ الگ بیان فرما دیا ہے.اس میں کوئی جذباتیت نہیں ہے ، گہرے حقائق ہیں جو قرآن اور احادیث ہمارے سامنے رکھتے ہیں.پھر آنحضرت ﷺ کے اظہار محبت کے متعلق کہ کیسے آپ خدا کی محبت اور پیار اور جلال کے احساس سے لرزاں ہو جایا کرتے تھے ایک حدیث ہے.یہ مسند احمد بن جنبل سے لی گئی ہے.حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ آیت پڑھی وَالسَّمُوتُ مَطوِيتُ بِيَمِينِهِ سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (الزمر:68) کہ آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہیں یا لیٹے جائیں گے.پاک ہے وہ ان باتوں سے جو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی میں اللہ نے یہ آیت پڑھی تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بڑی طاقتوں والا اور نقصان کی تلافی کرنے والا ہوں میرے لئے ہی بڑائی ہے.میں بادشاہ ہوں.میں ایک بلندشان والا بادشاہ ہوں.تمام بادشاہوں میں سب سے بڑھ کر اور صلى الله میرے لئے ہی بڑائی ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی ذات کی مجد اور بزرگی بیان کرتا ہے.آنحضرت مو خدا کے مجد اور بزرگی کے اس بیان کو اس طرح دہرانے لگے اور ایسے وجد میں آئے کہ راوی بیان کرتا ہے کہ سارا منبر لرز نے لگا اور اس قوت اور شان کے ساتھ اس گہرے جذ بہ عشق کے ساتھ آپ اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے لگے اور یہ فقرے بار بار دہرانے لگے کہ ہمیں ڈر تھا کہ منبر اس لرزش سے ٹوٹ کر کہیں آپ کو بھی ساتھ نہ لے گرے.یہ وہ کیفیت تھی جو بنائے نہیں بنا کرتی ، ایک بے اختیار کیفیت ہے.پس اس پہلو سے اگر ہم اپنی محبت کو جانچنا چاہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا اللہ کے ذکر پر ہمارے دل پر ایک زلزلہ طاری ہوتا ہے کہ نہیں.کیا ہمارے بدن اور روئیں روئیں میں خدا کا پیار دوڑنے لگتا ہے یا نہیں اور اگر ایسا نہیں ہے اور وہ ذکر محض ایک ذکر ہے جو زبان پر جاری ہوکر دوسرے کانوں تک تو پہنچتا ہے مگر دل تک نہیں پہنچتا تو پھر یہ محبت نہیں ہے.اس کا جو چاہیں نام رکھ لیں یہ محبت نہیں.خدا کا نام تو اتنا پیارا نام ہے کہ جب وہ محبت کرنے والے کے دل پر پڑتا ہے تو اس سے بڑی میوزک اور کوئی نہیں.اس سے اعلیٰ درجے کا پر سرور نغمہ ممکن نہیں ہے.ذکر الہی اپنی ذات میں ایک ایسا نغمہ ہے جس کی کوئی مثال دنیا کے نغموں میں نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اس ذکر الہی کے متعلق فرماتا ہے تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ (الزمر: 24) یہ ذکر تو ایک ایسی شان رکھتا ہے کہ خدا سے محبت کرنے والوں کے
خطبات طاہر جلد 15 535 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء بدن پر ان کی جلدوں پر جھر جھریاں طاری ہو جاتی ہیں اور واقعہ جب کسی سے محبت کا جذ بہ بھڑ کے تو کئی دفعہ انسان کانپ جاتا ہے اور ایک جھر جھری سی طاری ہو جاتی ہے.پس یہ وہ محبت کا انداز ہے جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں سکھایا.اس محبت کے بغیر ہماری زندگیاں کامیاب نہیں ہوسکتیں.ہم حقیقت میں اللہ کی محبت کے دعوے تو کریں گے مگر محبت کی حقیقت کو نہیں پاسکیں گے.حضرت مسیح موعود اس محبت کے اظہار کو جس طرح ، جس جس طریق سے بیان فرماتے ہیں اس کی کوئی مثال اس زمانے میں ہمیں دکھائی نہیں دیتی.در شمشین کے حوالے سے جو میں نے مضمون شروع کیا تھا انشاء اللہ میں آئندہ کسی وقت اس کو آگے بڑھاؤں گا.چونکہ آج ہمیں باہر بھی جانا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود کے حوالے ہی سے ایک اور نظم سے میں چند شعر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.تیرے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں اللہ تعالیٰ سے پوچھتے ہیں کہ بتا میں کن رستوں سے تیرے کوچے تک آؤں.کون سی خدمت ہے جو مقبول ہوگی.آنحضرت ﷺ کے دل سے یہی سوال اٹھتے رہے جن کے جواب قرآن الله کریم میں نازل ہوتے رہے.حضرت ابراہیم کے متعلق بھی آتا ہے.آپ نے عرض کیا وَارِنَا مَنَاسِكَنَا (البقرة: 130) اے اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تیری راہ میں وہ قربانیاں پیش کریں جو تجھے پسند ہیں مگر جانتے نہیں کہ وہ کیا ہیں.اس لئے تو ہمیں دکھا کہ یہ بھی قربانی کی راہ ہے جو مجھے پسند ہے.وہ بھی قربانی کی راہ ہے جو مجھے پسند ہے.تو راہیں کھول اور پھر ان راہوں میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرما.یہی جذبہ ہے جو حضرت مسیح موعود کے دل سے اٹھتا ہے: تیرے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں
خطبات طاہر جلد 15 536 خطبہ جمعہ 5 جولائی 1996ء ایک ہی رستہ دکھائی دیا ہے کہ محبت کروں اور خدا کے نام سے اپنی خودی کو جلا دوں.تو جو بے نیازی کا مضمون ہے وہ بھی محبت کے ذریعے نصیب ہوسکتا ہے ورنہ ناممکن ہے کہ انسان دنیا سے بے نیاز ہو جائے.اب یہ نکتہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا کہ آنحضرت ﷺ جب فرماتے ہیں کہ بے نیازی کرو تو کس چیز سے، جب تک کسی اور سے اس سے بڑھ کر محبت نہ ہو، بے نیازی نہیں ہوسکتی.یہ قانون قدرت ہے جس پر لازما عمل درآمد ہوگا.اس میں کوئی تبدیلی نہیں.کتنا ہی کسی سے پیار ہوا اگر وہ اس کی گستاخی کرتا ہے جس سے زیادہ پیار ہے ، اس کے رستے میں حائل ہوتا ہے جس سے آپ زیادہ محبت کرتے ہیں تو اچانک وہ بالکل بے حیثیت اور بے حقیقت ہو کے دکھائی دے گا.اس کی ساری محبت زائل ہو جائے گی.پس فرمایا: خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں خدا کو اپنے اوپر طاری کر دوں اور اپنی نفسانیت کے ہر پہلو کو خاکستر دوں.محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اڑاؤں ( در مین اردو : 54) فرمایا میرے دل میں تو آندھی چل پڑی ہے اللہ کی محبت کی.کیسے چھپاؤں؟.میرا جسم خاک ہو کے اڑ جائے اس آندھی سے تو یہ بھی مجھے منظور ہے.مگر کاش دنیا کو پتا چلے کہ محبت الہی ہوتی کیا ہے.پس محبت کی راہیں سیکھنی ہیں تو آنحضرت ﷺ سے ہی سیکھی جائیں گی اور اس دور میں اس صل الله محبت کے عنوان کو دوبارہ جس نے زندہ کیا ہے وہ حضرت اقدس مسیح موعود ہیں.پس آنحضور ﷺ کو دیکھنا ہے تو حضرت مسیح موعود کی آنکھ سے دیکھیں اور خدا کو دیکھنا ہے تو محمد ﷺ کی آنکھ سے دیکھیں.یہی ایک رستہ ہے جو محبت الہی پیدا کرنے والا ہے،اس کے علاوہ سب قصے اور کہانیاں ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 537 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء MTA کے ذریعہ لوگوں تک علم الأديان و علم الأبدان پہنچنے جائیں.MTA کے لئے متنوع پروگراموں کی تیاری سے متعلق تفصیلی ہدایت ( خطبہ جمعہ فرمودہ 12 / جولائی 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کینیڈا اور امریکہ کے دورے کی توفیق ملی اور اگر چہ مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر حسب توفیق ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے ہمت عطا فرمائی.مگر کمزوریاں بھی رہ جاتی ہیں جو بشری کمزوریاں بھی ہیں اور بعض دفعہ اتفاقات کی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں.بعض انتظامات کے نقص ہیں جو بے اختیاری کے عالم میں ہوتے ہیں ، بعض بھول چوک کے نتیجے میں تو یہ تو ممکن نہیں کہ ایسے جلسوں میں جہاں ملک کے طول وعرض سے احباب خلوص کے ساتھ تشریف لائے ہوں ان کی تمام ضروریات کا پوری طرح خیال رکھا جا سکے.یہاں تک کہ بعض دفعہ جذباتی تکلیفیں بھی پہنچ جاتی ہیں اور ان کا علم بعد میں ہوتا ہے اس لئے ان کا ازالہ کرنا بھی ممکن نہیں رہتا.مگر وہ جلسے جو گزرے ہیں ان کے بعد ایک اور جلسہ آنے والا ہے جو بہت قریب آرہا ہے اور اس کے پیش آثار جو پہلے ظاہر ہونے والے آثار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مسجد میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں.انگلستان میں مسجد کے ارد گرد اور بازاروں میں بھی وہ چہرے دکھائی دیتے ہیں جو محض اللہ بڑے دور کے سفر کر کے اس جلسے میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہیں.سب سے پہلے تو میں دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ ان سب کو جو آ گئے اور ان سب کو بھی جو آنے والے ہیں اور ان سب کو بھی جو آنہیں سکے اپنی دعاؤں میں یادرکھیں اور ان انتظامات کے سلسلے میں جو بشری کمزوریاں رونما ہوں ان سے صرف نظر فرما ئیں اور جہاں تک ہو سکے عفو کا سلوک کریں اور بخشش کا
خطبات طاہر جلد 15 538 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء سلوک کریں کیونکہ انسان جو اپنے بھائیوں سے عفو اور بخشش کا سلوک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی عفو اور بخشش کا سلوک فرماتا ہے.پس عفو اپنی ذات میں ایک بہت اعلیٰ خلق ہے اور بخشش بھی اپنی ذات میں ایک بہت اعلیٰ خلق ہے لیکن اگر خدا کے حوالے سے کئے جائیں تو یہ دوہرا فائدہ ہے دنیا کا بھی اور دین کا بھی کیونکہ جو اللہ کی خاطر عفو کیا جائے ، اللہ کی خاطر مغفرت کی جائے اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اوپر یہ حق بنا لیتا ہے کہ ایسے بندے سے میں بھی عفو کا سلوک فرماؤں اور مغفرت کا سلوک فرماؤں.تو بہت ہی اچھا موقع ہے کہ بظاہر ایک تاریکی سے نور نکال لیا جائے اور یہ جو Blessing in Disguise کہا جاتا ہے انگریزی میں ، دنیا میں تو صحیح معنوں میں اس محاورے کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں مگر دین میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعینہ اس کا اطلاق ہوتا ہے.ہر بدی سے جو بدی دکھائی دیتی ہے اللہ تعالیٰ نے بھلائی نکالنے کے پہلو خود ہمیں سمجھا دیئے ہیں اور ان کی ذمہ داری خود ادا فرماتا ہے.اس مختصر تمہید کے بعد اب میں جو جلسہ کینیڈا اور امریکہ ہے اس کے حوالے سے ایک دو باتیں اور کہوں گا اور پھر ایک ایسی بنیادی ضرورت کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراؤں گا جس کے متعلق پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں مگر ابھی تک میرے اس منشاء کو پوری طرح جماعتیں سمجھ نہیں سکیں اس لئے بعض دفعہ تکرار کرنی پڑتی ہے.ایک بات آمنے سامنے بھی سمجھائی جائے بٹھا کر تو تب بھی بسا اوقات وہ پوری طرح سمجھ نہیں آتی.انسان سمجھتا ہے میں نے ابلاغ کا حق ادا کر دیا مگر سننے والا اس مفہوم کو صحیح سمجھتا نہیں.اس لئے اس پر عمل درآمد کے وقت نقص رہ جاتے ہیں اور یہ جو نقائص ہیں یہ MTA سے تعلق رکھنے والے نقائص ہیں جن کی طرف میں آپ کو متوجہ کروں گا.کینیڈا اور امریکہ کے جلسوں میں جو خصوصیت سے میں نے بات محسوس کی بہت سے لوگ جو بہت دور سے تشریف لائے تھے ان کو ملاقات کا موقع نہیں مل سکا یعنی ذاتی ملاقات کا موقع نہیں مل سکا اور اس کے لئے دونوں ممالک نے کچھ قوانین اپنے لئے بنا لیے تھے کہ اس دفعہ ان کو موقع دیا جائے جن کو کبھی بھی ملاقات کا موقع نہیں ملا اور اس پہلو سے اگر چہ ہزار ہا ملاقاتیں ہوئیں لیکن جو خاص طور پر دور سے ملاقات کی نیت سے آئے تھے اور اپنا حق کسی پہلو سے بالا سمجھتے تھے ان کو اس ملاقات نہ ہونے کے نتیجہ میں ٹھوکر لگی ، صدمہ پہنچا.بعض نے اظہار کیا، بعض کے اظہار ان کے چہروں پر لکھے ہوئے ، رستہ چلتے دکھائی دے رہے تھے مگر تکلیف کا بہر حال ایک موقع تھا.تو میں ان سب
خطبات طاہر جلد 15 539 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء سے معذرت خواہ ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اتنی بڑی ملاقاتوں میں یہ حقیقت ہے کہ ہر شخص سے ملاقات ناممکن ہے اور جب ہوتی ہے تو پھر اتنی مختصر ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ملاقات کے بعد جانے والے بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اچھا وقت ختم بھی ہو گیا ہے.ہم تو پندرہ سومیل سے آئے تھے یا دو ہزار میل سے آئے تھے تو آپ نے بس اتنا سا ہی وقت رکھا تھا.تو میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وقت میں کہاں رکھتا ہوں ، وقت تو اللہ نے رکھے ہوئے ہیں.مجھے چوبیس (24) گھنٹے کے دن کی بجائے اڑتالیس (48) گھنٹے کا دن دے دیں تو پھر میں آپ کے وقت کو بھی بڑھا دوں گا اور اپنی خدمت کے وقت کو بھی بڑھا دوں گا مگر یہ بے اختیاریاں ہیں.ایک طرف یہ مطالبہ کہ ہر ایک سے ملاقات ہو دوسری طرف یہ مطالبہ کہ ہر ملاقات سیر حاصل ہو تو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے اور جب میں دیکھتا ہوں بعض خاندان بے چارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کئی کئی گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں تو مجھے خود تکلیف ہوتی ہے اور شرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ یہ بے چارے صرف دو منٹ کی ملاقات کے لئے بیٹھے ہیں.مگر وہ دومنٹ کو بڑھانا میرے قبضہ قدرت میں نہیں کیونکہ ایک طرف جب بڑھاؤں گا تو دوسرے بچوں کی دل آزاری ہوگی جو ان کو اور بھی لمبا بیٹھنا پڑے گا اور ان کی ملاقات کا وقت اور بھی مختصر ہو جائے گا.اس لئے میں آپ کا وقت بانٹتا ہوں اصل میں.میرا وقت تو آپ کے لئے حاضر ہے.مگر جو وقت آپ سب کا مشترک ہے اس کو مجھے جس حد تک ممکن ہے انصاف سے بانٹنا پڑتا ہے.اب جو آنے والے ہیں وہ بھی اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ملاقاتوں کا جوسلسلہ ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ چکا ہے اور میں نے دو خلفاء کا زمانہ پہلے دیکھا ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کے وقت کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں جو سلسلہ کے لٹریچر میں موجود ہیں، انفرادی طور پر اس طرح فیملی ملاقات کی جو توفیق خدا تعالیٰ نے اس دور میں مجھے بخشی ہے اس کی کوئی مثال آپ کو پہلے دکھائی نہیں دے گی.ان کے وقت مجھ سے زیادہ مصروف رہے ہیں ، زیادہ عمدہ نیکی کے کاموں میں وہ مشغول رہے ہیں.یہ مراد نہیں کہ نعوذ بالله من ذالک انہوں نے اپنے وقت کو بچالیا، اپنی ذات کے لئے بچایا، صرف یہ مراد ہے کہ اب جماعت کے تقاضے اور طرح کے ہو گئے ہیں اور تربیت کے حقوق میں ملاقات بھی ایک اہم جزو کے طور پر داخل ہو گئی ہے.اس زمانے میں جتنے احمدی تھے ان کو قریب رہنے کا موقع مل جایا کرتا
خطبات طاہر جلد 15 540 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء تھا، جلسوں میں شامل ہو کر قریب بیٹھنے کا موقع مل جایا کرتا تھا.اب تو یہ دُور درشن کے زمانے آگئے ٹیلی ویژن کے ذریعے پھیلے ہوئے خطبات اور تصویروں کے ذریعے دیکھنا یہ دور بدل گیا ہے اور اگر اس دور میں انفرادی طور پر خاندانوں سے تعلق قائم نہ کیا جائے تو ان کے اندروہ گہرا ذاتی رابطہ خلافت سے قائم نہیں ہو سکتا.وہ جو تعلق ہے دور سے دیکھنے سے یا سننے سے اس میں وہ مضبوطی نہیں جو اس تعلق میں ہوتی ہے جو میں نے بیان کیا ہے اور پھر اگلی نسل کو سنبھالنے کے لئے یہ بہترین ذریعہ ہے کیونکہ چھوٹے بچے جب مل کے جاتے ہیں تو بسا اوقات ان کی طرف سے خطوط ملتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ بچے پھر اپنے ماں باپ کو سنبھالتے ہیں اور اگر وہ ٹیلی ویژن کسی اور جگہ لگانا چاہیں تو کہتے ہیں نہیں ہم نے احمدیہ پروگرام دیکھنا ہے اور ملاقات کی یادیں ان کے دلوں پر ہمیشہ کے لئے نقش رہتی ہیں.تو یہ بے اختیاریاں ہیں ملنا تو ہے بہر حال ملنا ہے مگر ہر ملاقات کو لمبا نہیں کیا جا سکتا اور ہر ملنے والے کی خواہش کو پورا کرنا بھی ممکن نہیں رہا.ایک اور بات پیش نظر رکھیں کہ ملاقات کوئی ایسا معاملہ نہیں جو انصاف کے دائرے سے تعلق رکھتا ہو، جس میں لازم ہو کہ ہر ملاقات کی خواہش والے کو ملاقات کا وقت دیا جائے.جو وقت کی مجبوری ہے اس کے علاوہ بھی بعض ذاتی تقاضے ہوتے ہیں.یہ کہنا درست نہیں کہ اگر ایک کو وقت دیا گیا اور وہ پہلے سال بھی مل چکا تھا اور دوسرے کو اس بناء پہ وقت نہیں دیا گیا کہ وہ پچھلے سال مل گیا تھا تو یہ نا انصافی ہے.ملاقات ایک ذاتی حق ہے اور قرآن کریم نے اس حق کو تسلیم فرمایا ہے اور قرآن کریم نے اس حق کو ہر مومن کے لئے تسلیم فرمایا ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ جو حق خدا تعالیٰ ہر مومن کو دے خلیفہ کو اس سے محروم کر دے اور اس پہ لازم ہو جائے کہ ہر ملاقاتی سے ضرور ملے اور اگر خوداس کو خواہش ہو کسی سے ملنے کی تو وہ اس وجہ سے نہ ملے کہ پھر دوسروں کی دلآزاری ہوگی.یہ تو بالکل ایک غلط بات ہے اور قرآن کریم تو یہ فرماتا ہے کہ اگر تم کسی سے ملنے جاؤ دروازہ کھٹکھٹاؤ، السلام علیکم کہو اگر اجازت ملے تو ملوور نہ بغیر دل پر میل لئے واپس لوٹ جاؤ.تو ہر شخص کو اگر یہ ملاقات کا حق ذاتی طور پر خدا عطا نہ فرما تا تو ان آیات کے کیا معنی ہیں.پس اگر میں ذاتی طور پر کسی سے ملتا ہوں تو اس کو بعد میں طعن آمیزی کا ذریعہ بنانے کا کسی کو حق نہیں ہے کیوں ملتا ہوں، اللہ بہتر جانتا ہے.بعض دفعہ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ بعضوں کے مشورے کی ضرورت پڑتی ہے اور ، اور بھی بہت سے ایسے ملاقات کے
خطبات طاہر جلد 15 541 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء اسباب ہیں جن کا اس وقت احاطہ نہیں کیا جا سکتا.مگر متفرق ضروریات ہیں انسان کی اور ان وجوہات سے ملنا پڑتا ہے.کسی کو زیادہ وقت دینا پڑتا ہے تو اس میں شکوے کا کوئی حق نہیں.جن سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ چونکہ محض اللہ ہے اس پر بھی شکریے کا محتاج نہیں ہوں.میں نے بھی محض اللہ کیا ، آپ نے بھی محض اللہ کیا.نہ میں آپ کا ممنون ، نہ آپ میرے ممنون مگر شکوؤں کا بھی مضمون کوئی نہیں ہے یہاں.جو نہیں ملنے آتا مجھے کبھی بھی اس سے شکوہ نہیں ہوا.سرسری ملاقات ہو جائے تو وہ بھی بہت ہے.جلسوں کے وقت جو ملاقاتیں ہوتی ہیں وہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ملاقات نہیں ہے.حالانکہ یہ بھی تو ایک ملاقات ہے اور بڑی اہم ملاقات ہے.جب سوال و جواب کی مجالس میں ہم اکٹھے بیٹھتے رہے اور بار بار بیٹھتے رہے، ہر ایک کو موقع تھا اٹھ کر سوال کرتا انہوں نے جب اپنی ذاتی باتیں کہنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کو بھی موقع دیا گیا ہاں آپ کہیں شوق سے، اپنی ضروریات بتائیں.تو اگر یہ ملاقات نہیں تو پھر اور کیا ہے اور اس ملاقات سے تو بہتر ہے جو ٹیلی ویژن کے ذریعے ہوتی ہے.وہاں تو یک طرفہ ہے، وہاں ایک طرف سے انسان بات کر سکتا ہے اور دوسری طرف سے ایک بے اختیاری ہے.تو یہ کہنا کہ ملاقات سب سے نہیں ہوئی یہ بھی غلط ہے.ہوتی رہی ہے، بار بار ہوتی رہی ہے، رستہ چلتے ہوتی رہی ہے، آتے جاتے مسجد میں اور دوسرے مقامات پر ایک دوسرے کو ہم دیکھتے ، ایک دوسرے کے لئے ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے رہے تو یہ بھی ملاقاتیں ہی ہیں.پس اس پہلو سے آئندہ جلسے پر آنے والوں کو میں نصیحت کر رہا ہوں حوالہ امریکہ اور کینیڈا کا دے رہا ہوں لیکن مخاطب وہ بھی ہیں جو اس جلسے پر تشریف لائیں گے.اس مضمون کو پیش نظر رکھیں دعا کریں اللہ تعالیٰ وقت میں برکت دے اور زیادہ سے زیادہ دوستوں سے ملنے کی توفیق بخشے لیکن اگر نہ ہو سکے تو پھر جلسے کی ملاقات ہی کو ملاقات سمجھیں.گھنٹوں جب آپ کے سامنے میں کھڑا ہوتا ہوں، باتیں کرتا ہوں تو وہ ملاقات ہی کی ایک صورت ہے.اب میں ایک اور بات امریکہ کے ایک خطبہ کے حوالے سے یہ کرنی چاہتا ہوں.ملک لال خان صاحب کینیڈا نے خط لکھا ہے جو مجھے کل ملا ، اس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ آپ نے جب آنحضرت ﷺ کی پسند کے شعر کی بات کی تو وہ ایک تمہید تھی جو بہت ہی دلچسپ اور پر لطف تھی جس سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے ذوق میں جو دل کی کیفیت تھی جھانکنے کا موقع ملا لیکن غالباً
خطبات طاہر جلد 15 542 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء آپ اگلا مصرعہ پڑھنا بھول گئے اور شاید وہ مصرعہ پڑھ کر مضمون مکمل ہونا تھا.اس لئے ہم انتظار کرتے رہے کہ وہ مصرعہ بھی پڑھا جائے تو بات مکمل ہوگی.اس میں میرے بھولنے کا کوئی دخل نہیں ہے.بھول تو میں جایا کرتا ہوں وہ قصور اپنی جگہ ہے لیکن اس موقع پر میری بھول چوک کا کوئی دخل نہیں ہے.اس حدیث میں ایک ہی مصرعہ تھا تو میں حدیث کی طرف دوسرا مصرعہ کیسے منسوب کر دیتا.میں شاعر کی نمائندگی تو کر ہی نہیں رہا تھا.میں تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جذبات کی نمائندگی کر رہا تھا.الا كـل شـيء ما خلا الله باطل یہ مصرعہ تھا جس کا ذکر حضور نے فرمایا کہ کیاہی پیارا شعر ہے لیکن اگلا مصرعہ جو ہے وہ ان کو پسند آیا لکھنے والے کو ، اچھا مصرعہ ہے لیکن حدیث میں موجود 66 نہیں.’و کل نعيم لا محالة زائل ہر نعمت لامحالہ، بے شک ضرور زائل ہو جائے گی اور باقی نہیں رہے گی.تو یہ مصرعہ تو اچھا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے کیا عمداً اسے نظر انداز فرمایا اور ایک ہی مصرعہ کو پسند کیا یا راوی نے پورا شعر یاد نہیں رکھا اور صرف ایک مصرعہ بیان کر کے آنحضوری کی تحسین کا ذکر فرما دیا.میرے نزدیک راوی کی یادداشت کا قصور نہیں ہے کیونکہ یہ ایک معروف شعر تھا جس کے متعلق اور بھی واقعات بیان کئے جاتے ہیں اور عرب تو شعر یا در کھنے میں تمام دنیا پر فوقیت رکھتے تھے.بعض ایسے عرب تھے جو ایک ایک لاکھ شعر یادرکھتے تھے یا جن کو یاد ہوتے تھے.بڑے لمبے لمبے قصیدے یاد ہوتے تھے.اس لئے وہ مصرعہ حضور اکرمے نے نظر انداز فرمایا ہوگا یہ میرا رجحان ہے اور اس کی ایک وجہ ہے.وکل نعیم لا محالة زائل میں ایک ایسا مضمون ہے جس کا مذہب سے تعلق نہیں ہر انسان کی ایک بے ساختہ مجبوری ہے جس سے اس کا تعلق ہے.ہر نعمت ہر شخص کو پیاری لگتی ہے اور نعمت کے زائل ہو جانے کے شکوے ہر زبان پر رہتے ہیں خواہ وہ دہر یہ شاعر ہو یا غیر دہر یہ ہو.تو وہ چیز جو ہر انسان کی بے اختیاری سے تعلق رکھتی ہے وہ تو آنحضور کو پسند نہیں آئی.جس چیز نے دل پر اثر کیا ہے وہ پہلا مصرعہ ہی تھا.الا كل شيء ما خلا الله باطل خبر دار خدا کے سوا کوئی چیز بھی سچی نہیں ، صرف ایک ہی سچا ہے.ایک ہی ہے جو اپنی ذات میں حق ہے باقی ہر چیز باطل ہے.اب یہ مصرعہ ایسی بلندشان کا ہے کہ دوسرا مصرعہ اس کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتا.شعری مضمون کے لحاظ سے تو مناسبت رکھتا ہے لیکن عرفان کے اعتبار سے یہ اس مصرعہ سے مناسبت نہیں رکھتا.پس اس پہلو سے میرا یہ تصور ہے جو میں نے غور کیا ہے کہ آنحضور ﷺ نے عمداً اس کو چھوڑا
خطبات طاہر جلد 15 ہوگا اور اس مصرعہ کو بیان فرمایا ہوگا.543 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء اب رہا MTA کے تعلق میں جو میں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں.یہ مضمون بھی ایسا ہے جو میں بار ہا بیان کر چکا ہوں اور مختلف مواقع پر مثلاً جرمنی میں ، ہالینڈ میں کینیڈا میں، اور پھر امریکہ میں بھی جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ چوبیس (24) گھنٹے MTA کو ایسے وڈیوز سے بھرنا، ایسے پروگراموں سے بھرنا کہ وہ سارے دلکش بھی ہوں اور معلومات سے بھی لبریز ہوں اور رجحانات کو مادہ پرستی سے دین کی طرف مائل کرنے والے ہوں یہ ہمارا ایک بہت عظیم چیلنج ہے جو ہم نے قبول کر لیا ہے اسے نبھانا ہے.اب اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور بہت عقل اور فہم کے ساتھ پروگرام بنانے کی ضرورت ہے.کیسے پروگرام بنائے جائیں.یہ وہ تفاصیل ہیں جو میں پہلے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے جرمنی میں، ہالینڈ میں اور کینیڈا اور امریکہ میں کسی حد تک بیان کر چکا ہوں اور ان کے خلاصے تیار کروا کے افریقہ میں تمام جماعتوں کو بھجوا دیئے تھے تا کہ جو افریقہ کا دن ہم منائیں اس میں ان کی طرف سے ایسی وڈیوز مل جائیں جو میری خواہش کے مطابق دلچسپ بھی ہوں اور معلوماتی بھی ہوں.دینی رنگ ان میں غالب ہو اور ایک جشن کی کیفیت بھی ہو لیکن جو وڈیوز آئیں اور آپ نے دیکھیں ان میں مشکل سے چند ایسے مقامات دکھائی دیئے جو ان کوائف پر پورے اترتے ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں اور بڑی افراتفری میں جہاں سے بھی کوئی ٹکڑا ایسا ملا جو دلچسپ بھی ہو اور کچھ دوسرے فوائد بھی رکھتا ہو وہ نکال کر آپ کے سامنے رکھا گیا.ہوسکتا ہے کہ لمبے عرصے کے انقطاع کی وجہ سے وہاں کے ہمارے مختلف ممالک کی جو جماعتیں ہیں انہیں میری پہلی ہدایات پہنچی نہ ہوں اور جو خلا صے لکھے گئے وہ پوری طرح واضح نہ ہوں.مگر اکثر ممالک جیسا کہ منشاء تھا اس کے مطابق وڈیو نہیں بنا سکے.اگر یہ عذر ہو کہ ان کے پورے سامان نہیں ہیں تو پہلے خط کے جواب میں ان کو لکھنا چاہئے تھا.پھر ہمارا فرض تھا کہ جب ان سے توقع رکھتے ہیں تو اس کے ذرائع بھی مہیا کریں لیکن وہ نہ لکھنا اور ذہن پر یہ اثر رہنا کہ وہ سامان موجود ہوں گے اور پھر وہ چیز نہ بنے تو اس سے بہت کوفت ہوتی ہے اور دنیا جو تو قعات رکھ رہی تھی وہ پوری نہ ہوں تو احمدی ، غیر احمدی ہر قسم کے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کے اوپر ایک احمدیت کی Efficiency کا، اس کی کارکردگی کا اچھا اثر نہیں پڑتا.پس اس پہلو سے آپ یا درکھیں وہ پروگرام جو میں نے بیان
خطبات طاہر جلد 15 544 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء کئے ہوئے تھے وہ ہم نے بہر حال بنانے ہیں.اور افریقہ کے حوالے سے خصوصیت سے میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں مثلاً یوگنڈا کی بات تھی.یوگنڈا کو چاہئے تھا کہ اپنے تاریخی اہم واقعات کو ٹیلی ویژن میں پیش کرنے کے لئے اس کا کوئی طریقہ اختیار کریں.اپنے جغرافیائی اہمیت کے مقامات کو پیش کرنے کے لئے اور ایسے مقامات جہاں تاریخ اور جغرافیہ دونوں مدغم ہو جاتے ہیں ان کے متعلق بڑے دلچسپ پروگرام پیش کئے جاسکتے تھے.وہاں کی اقتصادیات ، وہاں کا رہن سہن ، وہاں کی قوموں کے اختلافات اور تاریخ میں یوگنڈا نے کیا کردار ادا کیا اور وہ زمانہ جب کہ سارے افریقہ میں تعلیم کے لحاظ سے سب سے اونچا ملک یوگنڈا سمجھا جاتا تھا.اس کی پیدا وار کیا کیا ہے؟ وہاں Lake Victoria کیا کردار ادا کرتی ہے اور دریائے نیل کا دہانہ کیا ہے اور اس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے کیا فرمایا تھا اور کس شان کے ساتھ اس زمانے میں وہ پیش گوئی پوری ہوئی.یہ ساری باتیں ایسی دلچسپ ہیں کہ اگر کبھی کوئی خوب صورت مناظر دکھائے جائیں پھر کچھ تبصرے ساتھ ساتھ چل رہے ہوں تو بہت لمبا مضمون ہے وڈیوز کا جو یوگنڈا سے ہی تعلق رکھتا ہے.احمدیت وہاں کب آئی ؟ کون تھے احمدیت لانے والے ؟ وہ کہاں دفن ہیں ؟ ان کی قربانیاں ، ان کے کتبے دکھائے جانے ، کس سن میں آئے تھے، کیا کیا قربانیاں کیں؟ ان کے خاندان اب کہاں پھیل گئے ہیں ؟ اور سیاست کے لحاظ سے یوگنڈا کن کن ادوار سے گزرا ہے.اس پر غیر قوموں نے کب قبضہ کیا.اس سے پہلے کیا کیفیت تھی.اتنے مضامین ہیں کہ وہ اگر حقیقت میں اچھی فلموں میں ڈھالے جائیں تو ساری دنیا کے لئے بے حد باعث کشش بھی ہیں اور علم میں اضافہ کرنے والے بھی ہیں.مبلغین کی تاریخ مبلغ پہلے کون آیا تھا پھر کون آیا ؟ کن حالات میں انہوں نے وہاں گزارے کئے ہیں، کس تنگی ترشی سے انہوں نے وقت گزارے ہیں اور دین کی خدمت میں کیا کیا بہادری کے کارنامے سرانجام دیئے ہیں وہاں کے مقامی خاندان ، اولین کون تھے ، کیسے آئے ، انہوں نے کیا کیا دکھ دیکھے ، کن کن مصیبتوں پر صبر دکھایا.وہاں کے معاندین کے حالات اور جب خوب جوش کے ساتھ مقابلے ہوئے ہیں تو کس طرح اللہ تعالیٰ کی تائید ظاہر ہوئی ہے اس شان کے ساتھ کہ مخالف کو نا مراد اور ناکام بنا کے دکھا دیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے پاک بندوں کی تائید فرمائی.یہ یوگنڈا
خطبات طاہر جلد 15 545 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء کی تاریخ سے تعلق رکھنے والے واقعات ہیں.ان کو سجا کر ایسی دلکشی کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی یہ نہ سمجھے کہ تقریر ہورہی ہے.اب جب بھی وڈیو کی توقع کی جاتی ہے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک آدمی آ کے بیٹھ جائے اور تقریر شروع ہو جائے.تقریریں تو بہت ہوتی ہیں ہمارے ہاں اور احمدیوں میں تقریر سنے کا حوصلہ بھی بڑا ہے.چھ چھ سات سات گھنٹے بیٹھ جانا کوئی معمولی بات تو نہیں.دنیا میں ہے کون جو اتنے صبر کے ساتھ تقریریں سن سکے.مگر یہ تو نہیں کہ اب صبر کا امتحان ختم ہی نہ ہو اور یوں صبر پر بوجھ ڈالیں کہ یہاں تک کہ صبر ٹوٹ جائے.اس لئے یا درکھیں ٹیلی ویژن کا مقابلہ دوسرے دنیا کے ٹیلی ویژنز کے ساتھ ہے.وہاں بہت بڑے بڑے دلچسپ ایسے پروگرام پیش کئے جاتے ہیں جو اکثر مخرب الاخلاق ہیں ، اکثر اخلاق کو برباد کرنے والے ہیں اور کوئی بھی ٹیلی ویٹرن خواہ وہ دینی کہلائے یا غیر دینی جب تک میوزک نہ پیش کرے اس وقت تک اس کی بات نہیں بنتی.جب تک لغو اشتہار نہ دکھائے اس وقت تک اس کا گزارا نہیں ہوتا.تو ہم ایک ہی وہ ٹیلی ویژن کا نظام پیش کر رہے ہیں جو سب سے مستنی ، سب سے الگ ہے اور اس میں جان ڈالے رکھنا یہ ہمارا فرض ہے اور اپنی جان ڈالنی پڑتی ہے.ہم کوئی خدا تو نہیں کہ ہمارے امر کے ساتھ جان پڑ جائے.ہر بندہ جو محنت کرتا ہے ، دل لگا کے محنت کرتا ہے فی الحقیقت تو اپنی جان ہے جو اپنے پروگراموں میں، اپنی تخلیق میں ڈالتا ہے.اس پہلو سے ایسی ٹیموں کی ضرورت ہے جو ہر ملک میں طوعی طور پر اپنے سپر د ذمہ داریاں کر لیں اور جب وہ پروگرام بنا ئیں تو اس سے پہلے پروگرام بنانے کے تعلق میں جتنی میں نے نصیحتیں کی ہیں ان سب کو یکجائی صورت اپنے پاس رکھیں اور ان کو غور سے سنیں یا تحریر میں ہیں تو ان کو غور سے پڑھیں تا کہ یہ نہ ہو کہ پروگرام بنائیں اور بعد میں پتا چلے کہ یہ ہمارے مقصد کا نہیں اس میں یہ نقص رہ گئے ہیں.تو پروگرام کا تجربہ یہ بھی تو ایک لمبا عرصہ چاہتا ہے.اس لئے کچھ بنانے تو شروع کریں اور ہر پہلو سے اپنے اپنے ممالک کی تصویر کو اس طرح پیش کریں کہ ایک سننے والے کی تشنگی دور ہو اور امکانات جو ہیں اس ملک کے ان کو بھی کھول کر سامنے رکھیں.اب یوگنڈا کی بات ہو رہی تھی اسی حوالے سے یوگنڈا میں تجارت کے کیا کیا امکانات ہیں.کون سی انڈسٹری لگ رہی ہے.اس کا کیا حال ہے، اس کی مشکلات کیا کیا ہیں.اگر بد دیانتی
خطبات طاہر جلد 15 546 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء عام ہے ، اگر چوری کی عادت ہے، اگر جھوٹ کی عادت ہے تو باہر سے آنے والے مفادات کی کیسے حفاظت کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں کہ نہیں.یہ تمام امور ایسے ہیں جن کا MTA پر ذکر آنا ضروری ہے تا کہ تمام دنیا میں سننے والے اپنے اپنے حالات کے مطابق یہ جائزہ لیں کہ کیا وہ بھی اس ملک سے روابط میں حصہ لے سکتے ہیں کہ نہیں؟ ایکسپورٹ ، امپورٹ ہے، انڈسٹری کا قیام ہے.وہاں سے چیزیں منگوانا ہے یہ بھی ایک پہلو ہے جو MTA میں تمام عالم کی خدمت کے طور پر پیش ہو سکتا ہے اور پھر اگر وہاں جماعت کی وساطت سے بعض تصدیقات حاصل کی جاسکتی ہیں تو یہ بتانا چاہئے کہ یہاں ہمارا یہ مرکز ہے جس نے معلومات حاصل کرنی ہوں وہ یہاں سے معلومات حاصل کر سکتا ہے.ملکی زبانیں ہیں ان کا تعارف ہونا چاہئے.پھر شعراء ہیں ملک کے ان کا تعارف ہونا چاہئے.ادیب ہیں ان کا تعارف ہونا چاہئے.ہر ملک میں کچھ لکھنے والے موجود ہیں ضروری تو نہیں کہ صرف انگریزی میں ہی یا عربی یا اردو میں ہی لکھنے والے ہوں.ہر ملک کی زبان ایک فصاحت و بلاغت کا رنگ رکھتی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہے اس لئے ہر زبان جو طبعی ہو، جس میں ملاوٹ نہ ہواس میں حیرت انگیز طور پر فصاحت و بلاغت کے امکانات رہتے ہیں اور مقامی شعراء ان پڑھ بھی ہوں تو عظیم فصیح و بلیغ کلام کہنے کی استطاعت رکھتے ہیں.کس مضمون میں ان کی دلچسپی تھی اس پر بھی اگر روشنی ڈالی جائے تو بہت حد تک اس ملک کی تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آجائے گی اور یہ ایک ایسی سیر ہے جو بسا اوقات ملکوں میں جانے والے بھی نہیں کرتے.اکثر جا کر ظاہری صورتیں دیکھ کر واپس آ جاتے ہیں اور بعد میں آکر ان کو پتا چلتا ہے کہ وہ جو چیز ہم نے دیکھی تھی اس کے اندر تو یہ بات مخفی ہے اس کے پیچھے یہ تاریخ ہے، تو پہلے تاریخ ہو پھر آپ موقع پر جا ئیں تو ایک اور لطف ہے.MTA میں دونوں چیزیں اکٹھی نظر آنی چاہئیں.مناظر کے ساتھ اس کے پس منظر بھی اور تاریخ بھی اور معلوماتی خبریں جو سیاست سے بھی تعلق رکھتی ہوں.ان کی کھیلیں ،ان کے بچوں کے مشاغل ، ان کے کھانے کے طریق ، پھل کون کون سے ہیں ، کیا کیا نعمتیں خدا نے عطا فرمائی ہیں ،ان کی کاشت کاری کے طریقے.بے شمار معلومات ہیں جو فلمائی جاسکتی ہیں اور ان میں دلچپسی تو ہے، کوئی بد پہلو نہیں ہیں یعنی ایسا لطف ہے جس کے بعد کوئی سردر دی نہیں ہوتی بعد میں اور علم کے بڑھنے کا جو لطف ہے اگر کسی کو یہ عادت پڑ جائے تو یہ عادت ایسی ہے جو چھٹ نہیں سکتی ،سب سے بڑا نشہ یہی
خطبات طاہر جلد 15 547 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء ہے.تب ہی صاحب علم لوگ دنیا کی لذتوں کے محتاج ہی نہیں رہتے.ایسے سائنسدان ہیں جو صبح پوپھوٹنے سے پہلے اپنی لیبارٹریز میں پہنچتے ہیں اور رات بارہ کا گھنٹہ وہ اپنی لیبارٹریز میں سنتے ہیں اور ان کے ذکر محفوظ ہیں.ان کو سوائے اس علم کے جس کی ان کو جستجو ، دل میں ایک لگن کے طور پر لگ گئی کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہتی.نیوٹن کا بھی یہی حال تھا، دوسرے بڑے بڑے سائنسدان جنہوں نے ایجادات کی ہیں اور ہمیشہ کے لئے علم کی دنیا میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا گیا ، ان مٹ حروف سے لکھا گیا ان کا مطالعہ کریں ان کو کوئی مجبوری نہیں تھی کہ وہ اتنا وقت اپنے خاندان سے کٹ کر اپنے کاموں میں لگائیں.مجبوری صرف یہ تھی کہ علم میں ایک نشہ ہے.علم میں ایک ایسی لذت ہے جس سے انسان کے اندر وسعتیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ جوانا کا ایک مطالبہ ہے کہ میں پھیلوں علم اسے عطا کرتا ہے اور اعلیٰ رنگ میں عطا کرتا ہے.ایک انا کا مطالبہ ہے کہ میں پھیلوں ، وہ سیاست کے ذریعے پورا ہوتا ہے ، خدا کے بندوں پر حکومت کے ذریعے پورا ہوتا ہے اور اکثر اس صورت میں ظلم کرتا ہے انسان، اکثر حقوق تلفی کرتا ہے اور سیاست کے ذریعے جو اپنی قوت اور اپنی انا کو پھیلانے کا مضمون ہے یہ نقصانات سے خالی نہیں ہے بلکہ اکثر اس کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں اور علم ایک ایسی چیز ہے جس میں کوئی نقص نہیں ہے.تب ہی آنحضور ﷺ نے سیاسی رسوخ کے ذریعے اپنی شخصیت بڑھانے کا کہیں ذکر نہیں فرمایا لیکن علم کے متعلق فرمایا کہ علم حاصل کرو خواہ چین بھی جانا پڑے.اس زمانے میں چین عرب سے بعید ترین جگہ تھی ، اس سے زیادہ بعد کا تصور نہیں باندھا جاسکتا تھا.فرمایا چین کی مسافت بھی طے کرنی پڑے تو وہاں بھی جاؤ اور علم سیکھو.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ علم میں اپنی ذات میں ایک ایسی کشش ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی شخصیت پھیلتی ہے اور اس کا فائدہ لوگوں کو پہنچتا ہے ، نقصان کوئی نہیں اور اگر علم کی لذت دل میں جاگزیں ہو جائے تو اس سے کردار کی عظمت بھی پیدا ہوتی ہے.صاحب علم میں ازخود ایک کردار کی عظمت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.وہ اپنی ذات میں غنی بنتا چلا جاتا ہے یعنی لوگوں کا ہمدرد بھی ہو تو لوگوں کی ستائش سے بالا ہوتا چلا جاتا ہے.اس کو پھر اس کی پرواہ نہیں رہتی کہ کوئی دیکھتا ہے مجھے کہ نہیں دیکھتا.کسی کو میں اچھا لگ رہا ہوں یا بد لگ رہا ہوں تو علم کا نشہ ہے اس میں وہ اپنی مصروف زندگی کے وقت گزار دیتا ہے.تو MTA علم کی طاقت سے دنیا کے دلوں پر قبضہ کرے گا اور صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 548 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء وہ علوم جو دین کے بھی ہیں اور دنیا کے بھی ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جو علم کی تعریف فرمائی کہ العلم علمان علم الادیان و علم الابدان - موضوعات الصغاني،رقم الحديث (20) میرے ذہن میں جو MTA کا تصور ہے وہ بعینہ اس تعریف کے مطابق ہے کہ علم الادیان بھی ہم لوگوں تک پہنچائیں اور علم الا بد ان بھی پہنچائیں.علم الا بد ان کا جو یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ صحت کا علم ، یہ غلط تو نہیں مگر یہی ترجمہ نہیں ہے.ابدان سے مراد سائنس کا علم ہے Matter کا علم اور دوہی چیزیں ہیں یا خدا نے روحانی دینی کائنات پیدا فرمائی یا مادی جسمانی کائنات پیدا فرمائی.تو آنحضور نے فرمایا کہ باقی جو کہانیاں اور اس قسم کے شعر و شاعری کے قصے ہیں یہ تو ایک غیر حقیقی قسم کا علم ہے.اصل علم وہ ہے جو سچا ہو.علم الادیان بھی سچا علم ہے اور علم الا بدان بھی سچا علم ہے.جہاں مادے کی حرکتیں اور اس کی صفات ، اس کے آپس کے تعلقات، ایک دوسرے سے مل کر وہ کیا نئی صفات پیدا کرتے ہیں، جہاں یہ مضمون چلے، یہ علم الا بدان ہے اور اس پہلو سے سائنس کی ترقی مسلمانوں سے بطور خاص وابستہ ہونی چاہئے کیونکہ کوئی دنیا کا نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو علم کے متعلق ایسی اعلیٰ صفت، ایسی اعلیٰ تعریف میں متوجہ فرمایا ہو.اس سے بہتر تعریف علم کی ممکن نہیں اور متوجہ فرمایا کہ یہ تمہاری زندگی کے مشاغل ہیں.تمہیں یا علم ادیان حاصل کرنا ہے یا علم ابدان حاصل کرنا ہے.تو MTA کا کام بھی یہی ہے کہ اپنے ملک کے علم الا بدان بھی بتائے.وہاں کس قسم کے بڑے بڑے سائنس دان پیدا ہوئے ، اگر ہوئے اور ان کے جو اقتصادی حالات ، ان کے معاشرتی حالات،ان کے ادب کی تاریخ یہ اگر چہ بعینہ علم الابدان تو نہیں مگر اس مضمون کو جب وسعت دیں تو علم کے کسی نہ کسی دائرے میں تو بہر حال آتے ہیں.تو علوم میں دلچسپی کے لئے ان کو داخل کرنا ضروری صلى الله ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو آنحضور ﷺ خود شعروں کو نہ سنتے.حالانکہ قرآن کریم نے شاعر کے متعلق جو فرمایا ہے اس کے باوجود آنحضور علے اشعار کو سنتے بھی تھے اور صحابہ کو بھی بکثرت اشعار یاد تھے.پس اگر چہ براہ راست علم الا بدان تو نہیں ہے یہ مگر علم کی وسیع تر تعریف میں یہ باتیں بھی داخل ہیں.اس لئے میں یہ بھی نصیحت کرتا رہا ہوں کہ اپنے ملک کے سائنس دانوں ہی کا نہیں بلکہ ادیبوں کا تعارف بھی کروائیے اور شعراء کا تعارف بھی کروائیے.ڈرامہ نگاروں کا تعارف بھی کروائیے.وہ کہانیاں جو بہت شہرت پا گئیں ان کا تعارف بھی کروائیے.صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 549 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء یہ علوم جو ہیں یہ بے فائدہ بہر حال نہیں ہیں کیونکہ ان میں بہت سے حکمت کے موتی بکھرے ہوئے آپ کو ملیں گے.ہر قوم کے لکھنے والے نے حکمت کی باتیں کی ہیں ورنہ اسے وہ مرتبہ حاصل ہی نہ ہوتا جو اسے ادب کی دنیا میں حاصل ہوا.تو ان کو ابھارا جائے ،ان کی لغویات کو بے شک دبی زبان سے ذکر کر کے چھوڑ دیں مگر جو اعلی پائے کی باتیں مختلف قوموں کے شعراء اور ادیبوں نے لکھی ہیں اور کہی ہیں ان کا تعارف تو کروائیے.اپنے ملک کے لطائف بتا ئیں اور کھیلوں کے ساتھ وہ لطائف کی مجلس بھی لگ سکتی ہے.ہر ملک کا اپنا ذوق ہے، بعض ان کے لطائف پر آپ کو شاید ہنسی نہ بھی آئے مگر ان کو تو آئے گی بہر حال اور ہمارے علم میں تو اضافہ ہوگا کہ ان لوگوں کا ذوق کیا ہے.کس قسم کی چیزیں پسند کرتے ہیں.پھر قومی تعارف میں یہ ضروری ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کون سی چیزیں ناپسند کرتے ہیں اور یہ ہمارے مبلغین کے لئے اور ویسے تبلیغ کرنے والوں کے لئے بڑی ضروری بات ہے.بعض دفعہ ایک بات کا کچھ اور معنیٰ لے لیا جاتا ہے.ایک ملک کے ایک دوست نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ پاکستان میں یہ رواج ہے اور ہندوستان میں بھی کہ جب ملتے ہیں تو پیار سے پیچھے تھپکی بھی دیتے ہیں.اول تو چھوٹا اگر بڑے کو دے تو یہ ایک بے وقوفی کی بات ہے لیکن یہاں بغیر دیکھے یہی رواج چلتا ہے اور دوسرا یہ کہ بعض ملکوں میں اس کو برا سمجھا جاتا ہے، اس کو ایک گندی علامت سمجھا جاتا ہے اور وہاں اگر دیں تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں لوگ.اب اس بے چارے کو کیا پتا کہ میں نے تو بہت پاکیزہ محبت کا اظہار کیا تھا اس نے کیا سمجھا ہے.تو اس لئے ہر قوم کے رسم ورواج کا علم بھی ضروری ہے اور ایک تبلیغ کرنے والی جماعت کے لئے یہ علم کا انتشار کل عالم میں اس طرح ہونا چاہئے کہ ہمیں ہر قوم کے مزاج ، ان کی عادات، ان کی پسند، ان کی ناپسند کا علم ہوتا کہ ہم عالمی حیثیت سے ایک داعی الی اللہ کے طور پر ابھر سکیں.اس لئے یہ باتیں بھی بیان کرنی ضروری ہیں.پھر جب آپ شعراء کا ذکر کرتے ہیں تو ضروری تو نہیں کہ محض تقریر میں ہی ان کے شعراء کی بات ہو.بچے اچانک وہ نغمہ شروع کر دیں، کہیں بڑے اس آواز کو اٹھا لیں اور پھر آپ اس کے ترجمے بیان کریں.اور اس کے برعکس اپنی زبانوں میں بھی پروگرام بنا ئیں.یہ پہلو جو ہے اب تک بالکل تشنہ پڑا ہے اب ہم جب کہتے ہیں کہ ہم افریقہ کے لئے دو گھنٹے، کم از کم دو گھنٹے اس طرح ریز رو کرنا چاہتے ہیں کہ افریقن زبانوں ہی کی باتیں ہوں اور غیروں کے لئے ان کے ترجمے پیش ہوں.بجائے اس
خطبات طاہر جلد 15 550 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء کے کہ اصل مضمون اردو یا انگریزی میں ہو اور ترجمے دوسری زبانوں میں ہوں.تو ان زبانوں میں اگر آپ پروگرام بنا ئیں گے نہیں تو ہم کیسے آپ کو دکھا سکیں گے.اب یوگنڈا کی جوز با نیں مشہور ہیں ، جو زیادہ کثرت کے ساتھ سنی اور سمجھی جاتی ہیں، بولی جاتی ہیں یا لکھی جاتی ہیں ان زبانوں میں ہمیں پروگرام ملنے چاہئیں لیکن ابھی تک یورپ کی طرف سے بھی پورے پروگرام نہیں مل رہے.سب سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اگر کام ہوا ہے تو جرمنی میں ہوا ہے یا پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناروے کو تو فیق ملی ہے کہ وہ اس معاملے میں کافی سنجیدگی سے ، دیانتداری سے پروگرام بنانے کی کوشش کر رہا ہے.فرانسیسی زبان میں ہمارے نوید مارٹی صاحب کو توفیق ملی ہے اور اب ہمارے جہانگیر صاحب جو مبلغ سلسلہ ہیں وہ بھی اس کام کو بڑھا رہے ہیں لیکن اکثر زبانوں میں ایک خلاء ہے، ایک تشنگی کا احساس ہے.پس نہ صرف یہ کہ ہمیں ایسی زبانوں میں پروگرام دیں جو انٹر نیشنلی (Internationally) سمجھی جانے والی زبانیں ہیں جہاں زیادہ تر احمدی ہیں مثلاً اُردو اور انگریزی میں اور اپنے ملک ، اپنے ملک کی تاریخ ، اپنے ملک کے ادب، اپنے ملک کے دینی حالات، ملک کی دینی جماعتیں ، ملک کے علماء کا حال اور دینی تعلقات کے معاملات، اخلاقی حالات، یہ سارے مضامین ہیں جو بہت وسعت رکھتے ہیں.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انڈسٹری ، اقتصادیات ، ان کی اخلاقی حالتیں ، بین الاقوامی تجارتیں اور یہ سارے امور ہیں ان کے ذریعے آپ اپنے ملک کو باہر روشناس کرائیں گے مگر باہر کی دنیا کا علم آپ کو بھی تو پہنچنا چاہئے.جب تک آپ اپنی زبانوں میں باہر کی دنیا کا تعارف نہیں بنائیں گے اس وقت تک یوگنڈا میں براہ راست MTA سے وہ محبت پیدا نہیں ہوسکتی جو اپنی زبان میں سن کر پیدا ہوتی ہے.اسی طرح سواحیلی ہے اس کا بہت وسیع اثر ہے اور سواحیلی میں ہمیں بکثرت پروگرام چاہئیں.اب وہاں تنزانیہ نے اللہ کے فضل سے اچھادلچسپ پروگرام بنایا تھا مگر بالکل چھوٹا سا اور نہ کوئی احمدی مسجد دکھائی، نہ مبلغ کے آنے کا ذکر کیا، نہ وہ مراکز جہاں جماعت پھیلی ہے ، نہ وہاں کے مبلغین اور ان کی خدمت کا کوئی تذکرہ تو ملکی لحاظ سے تھوڑی سی چیزیں دکھا دینا کافی نہیں ہے.مراد یہ تھی کہ وسیع تر تعارف ہو اور ہو دلچسپ طریق پر.اب سیرالیون کے جو پروگرام ملے یا دوسری جگہوں کے ان میں وہ بات نہیں ہے جو میں نے خود جا کر وہاں دیکھی تھی.وہاں جب میں گیا ہوں تو ان کے بچے ، وہاں کے بڑے از خود وارفتگی کے ساتھ جو اپنے دل کی خوشیوں کا اظہار ، اپنے
خطبات طاہر جلد 15 551 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء جذبات کا اظہار کرتے تھے اس میں ایک ایسی زندگی تھی کہ وہ حیرت انگیز طور پر دل پر اثر انداز ہو جاتی تھی.ان کا ناچنا وہ مغربی تہذیب کے ناچنے کی طرح نہیں ہے.ان کا ناچنا اس کے زیادہ مشابہ ہے جیسا کہ مصلح موعودؓ کی پیش گوئی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا خوشی سے اچھلو اور کو دو.تو یہ سوچ لینا کہ ناچنا کو دنا ہے ہی حرام بالکل ناجائز بات ہے، یہ بے وقوفی ہے.ناچنا کودنا کیسا ہے.کیا دکھاوے کا اور نفسانی خواہشات کے اظہار کا ہے یا بے ساختہ اچھی باتوں پر ایک خوشی کا پھوٹتا ہوا چشمہ ہے.جیسے چشمہ ابلتا ہے، اس میں زیر و بم پیدا ہوتے ہیں، اونچ نیچ ہوتی ہے.اسی طرح انسانی بدن بھی بعض دفعہ خوشیوں کے ساتھ ، خوشیوں کے جذبے کے مطابق اچھلتے بھی ہیں ، کودتے بھی ہیں، پیچ وخم بھی کھاتے ہیں مگر اس میں بناوٹ نہیں ہوتی.یہ بے ساختگی اور بناوٹ سے پاک ناچنا مجھے سب سے زیادہ افریقہ میں دکھائی دیا ہے.وہاں قطعا کوئی بھی جنسی پہلو اس میں نہیں ہے یعنی احمدیت کی دنیا جو افریقہ میں میں نے دیکھی ہے وہ اپنے اس طبعی شوق اور جذبے کو جو ان کی فطرت میں ودیعت ہے کہ آواز کے ساتھ بدن میں ضرور حرکت پیدا ہو اس عمدگی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں کوئی گندا پہلو نہیں مگر حسن کا پہلو بہت نمایاں ہو کے ابھرتا ہے.مثلاً خوش آمدید میں آپ بعض دفعہ ہاتھ اونچے کر دیتے ہیں مگر رومال کو لہراتے وقت بدن بھی ساتھ لہراتے جائیں اسی طرح اور پتا بھی نہ ہو لہرانے والے کو کہ میں کیا کر رہا ہوں.یہ نظارے جو ہیں ساتھ اس کے نغمے الاپے جارہے ہوں اور ان کی لے کے مطابق رومال بھی حرکت کریں ، بدن بھی حرکت کریں اب کوئی اس کو نا جائز نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ ایک طبعی فطرت کے پاکیزہ اظہار ہیں اور اگر یہ ان کو وہ نہ کریں تو پھر دوسرا گندرہ جائے گا باقی.افریقن میوزک کا اور بدن کی حرکت کا ایسا عاشق ہے اور اس طرح بے ساختہ اس کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اسے دبایا جا ہی نہیں سکتا.صرف یہ سوال ہے کہ اس رستے پر چلایا جائے یا اس رستے پر چلایا جائے.تو جو دین کا رستہ ہے اس پر چلیں اور وہاں بھی جس حد تک ممکن ہے کچھ ان کی تادیب ہو ، کچھ ان کو ادب سکھایا جائے کہ اتنا زیادہ بھی نہ کیا کرو.عورتیں اگر کرتی ہیں تو ان کو کہا جائے کہ ایک حد ہے اس سے زیادہ نہ نکلو.مگر یہ کہ اس جذبے کو ختم کر دیا جائے یہ ممکن نہیں ہے.کوئی دنیا کی طاقت یہ نہیں کر سکتی.یہ بعض قوموں کے فطری جذبے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمار کھے ہیں.ان کو ان سے کھینچ کر نکالا نہیں جا سکتا.پس ان کا اظہار کہیں دکھائی نہیں دیا یعنی یوگنڈا
خطبات طاہر جلد 15 552 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء کی فلم میں سکول ہی دکھایا جارہا ہے، لیبارٹری دکھائی جارہی ہے.کیا یوگنڈا سے اچھی لیبارٹری اور کہیں موجود نہیں ہے.اس میں کیا دلچسپی ہے ہمیں.ہاں سرسری طور پر بتا دیتے کہ یہ لیبارٹری باقی سب سے بہتر ہے اور خدا نے احمدیت کو توفیق بخشی ، بات ختم کرتے.یوں لیبارٹری میں داخل کیا ہے باہر نکلنے کا رستہ ہی نہیں دکھایا یہاں تک کہ میں نے کہا کہ آئیے ہم کہیں اور چلتے ہیں.پس جب فلم بناتے ہیں تو سوچا تو کریں.یہ سوچا کریں کہ آپ پر اگر یہ فلم ٹھونسی جائے تو آپ کا کیا حال ہوگا.ایسی فلم بنائیں کہ جب آپ اسے دیکھنے لگیں تو پھر نظریں الگ نہ ہوسکیں ،اٹھ نہ جائیں اور ہر تعلیم میں دلچسپی کا پہلو پیدا کرنا یہ ہمارا اولین فریضہ ہے ورنہ دنیا کے مقابل پر ہم مات کھا جائیں گے اور اللہ کے فضل سے بہت حد تک خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ توفیق بخشی ہے کیونکہ جب غیر مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے MTA دیکھنا شروع کیا تو پھر نظر الگ نہیں ہوتی تھی اور اب اس کی عادت پڑ گئی ہے تو وہ جو احمدی نہیں جو مسلمان بھی نہیں جو عیسائی ہیں یا بعض ہندو بھی ان میں شامل ہیں جب وہ یہ باتیں لکھتے ہیں تو پھر یہ ایک تصدیق ہے کہ واقعہ ہمارے پروگرام میں کوئی نہ کوئی جذب ضرور ہے اور وہ جذب اصل میں سچائی کا جذب ہے.پروگراموں میں لطف پیدا کرنے کے وقت بناوٹ نہ آنے دیں جہاں آپ کے پروگراموں میں بناوٹ آگئی وہاں یہ پروگرام مر جائیں گے اور اکثر لوگ یہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ہم کیوں ان پروگراموں کو پسند کر رہے ہیں کیوں دوسروں کو نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو دل اتر گیا ہے ان سے.اصل بنیادی وجہ یہ ہے کہ احمدیت کے پروگرام جو MTA پر دکھائے جاتے ہیں ہماری کوشش یہ ہے کہ وہ سارے زندہ ہوں اور ہر طرح کی بناوٹ سے پاک ہوں.غلطیاں بھی ہوں تو غلطیوں کی معافی مانگ لی جائے.اگر صحیح بھی کرائی جائے تو سب کے سامنے کروائی جائے.پس آپ نے کئی دفعہ دیکھا ہوگا پروگرام میں بیٹھا ہوں ساتھ کہ رہا ہوں جی اچھا یہ نہ کرو وہ کرو.کبھی دنیا میں ایسے پروگرام کہیں اور بھی دیکھتے ہیں آپ نے کہ ٹیلی ویژن جاری ہے اور وہاں تصحیح ہورہی ہے اور ادا ئیں بتائی جارہی ہیں یہ نہیں کرنا وہ کرتا ہے لیکن اس میں اپنا ایک مزہ ہے اور یہ وہ مزہ ہے جو کہیں اور آپ کو نہیں ملے گا کہ سچائی جس طرح پھول کھلتا ہے اس طرح کھل رہی ہے.اس کا ہر پہلو دکھائی دے رہا ہے اور پھولتا ہوا پھیلتا ہوا، پھولتا، پھلتا دکھائی دے رہا ہے.یہ وہ خصوصیات ہیں MTA کی جو
خطبات طاہر جلد 15 553 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء آپ کے تمام پروگراموں میں ہمیشہ باقی رہنی چاہئیں اور ان کے بغیر MTA دنیا کے دل جیت نہیں سکتی مگر جیت رہی ہے خدا کے فضل سے حالانکہ خامیاں بھی بہت ہیں.میری دعا یہ ہے کہ آپ سب کو تمام دنیا کے احمدیوں کو اپنے اپنے ملک اور علاقوں کے پروگرام بنانے کی توفیق عطا فرمائے.کی اب چین میں بھی ہمارے احمدی بس رہے ہیں ان سے میں نے کہا تھا جماعت آپ کو کہاں کیمرے لے لے کے دے گی ہر جگہ سے.آپ میں کھاتے پیتے لوگ ہیں اپنا کیمرہ خود خریدیں اور ہم سے یہ پوچھ لیں کہ کون سا خریدا جائے.اب مجھے اطلاع ملی ہے کہ میری اس نصیحت کے بعد کیمرہ خریدا گیا ہے اور تجربے کریں.مگر چین جیسے ملک میں تو بے شمار واقعات ہیں جو ماضی میں پھیلے پڑے ہیں.ان کے ماضی کو ہی اگر ٹیلی ویژن پر ان کے باقیات کے حوالے سے دکھایا جائے تو بہت عظیم الشان مضمون ہے.دیوار چین کب بنی ، کیسے بنی، اس کے مناظر کہاں سے کہاں تک پھیلے ہیں.کبھی آپ کو جنوب میں دکھانی پڑے گی.کبھی شمال میں دکھانی پڑے گی اور اندازہ کریں کہ وہ تین ہزار میل کے قریب لمبی دیوار ہے.اتنی چوڑی کہ اس کے اوپر بگھیاں دوڑتی ہیں اور مسلسل چلتی چلی جاتی ہیں اور پہاڑیوں کی بلندیوں پر چڑھتی ہے، کھڈوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے اور مسلسل جاری ہے اور اتنی مضبوط ہے کہ دشمن پھر اس کو تو ڑ کر چین پر حملہ آور نہیں ہوسکا.اب یہ جو مضمون ہے اپنی ذات میں اس کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے اور اس مضمون کو اس دیوار کے ساتھ بھی لگایا جا سکتا ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ یا جوج ماجوج کے خطرے سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک بادشاہ کو تو فیق عطا فرمائی تھی اور وہ کون بادشاہ تھا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں خورس تھا، دارا نہیں تھا اور جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے ایک ذرہ بھی مجھے شک نہیں کہ وہ خورس ہی تھا اور خورس کے سوا کوئی اور ہو نہیں سکتا.جس کی اتنی تعریف بائبل میں کی گئی ہو اور اس کی عظمتوں کے ذکر کے ترانے غیر مذہب کی کتاب گا رہی ہے جس کا اس کے ساتھ تعلق نہیں ہے اور پھر خدا اس کو توفیق بھی بخشتا ہے اسرائیل کی خدمت کرنے کی اس کا ذکر بھی ملتا ہے.اس نے بہت دور دور کے سفر کئے اس نے بھی دیوار میں بنائی ہیں تو یہ تحقیق کہ آیا چین کی دیوار پر کیا اس کا بھی کوئی اثر تھا کہ نہیں.جہاں تک زمانے کا تعلق ہے یہ دیوار اتنی پرانی ہے کہ ممکن تو ہے کہ اسی کے دور میں بنی ہولیکن براه راست یا بالواسطہ اس کا اثر تھا کہ نہیں یہ بھی ایک تحقیق ط
خطبات طاہر جلد 15 554 خطبہ جمعہ 12 جولائی 1996ء تو ہر ٹیلی ویژن کے پروگرام کے پیچھے ایک تحقیق ہونی چاہئے اور صرف ظاہری نظاروں پر اس کو کھڑا نہ کریں.میں نے ملکوں سے درخواست کی تھی جہاں جہاں میں گیا کہ اپنے بچوں، بچیوں کولڑکوں کو بڑوں کو بعض تحقیقات کے لئے وقف کریں اور ان کو معین کام دیں کہ یہ ٹیلی ویژن ہم نے بنانی ہے، ٹیلی ویژن کے لئے یہ پروگرام بنانا ہے اور اس کے لئے ہمیں اس اس تحقیق کی ضرورت ہے اور اس میں جب میوزیم آپ دکھاتے ہیں تو جب تک پتا نہ ہو کہ یہ میوزیم کن کن چیزوں کو سمیٹے ہوئے ہے، ان کا پس منظر کیا تھا آپ کا محض تصویریں دکھا دینا تو کوئی کام کی بات نہیں ہے.پس گھر بیٹھے دنیا کے ہر احمدی کو تمام دنیا کی وہ باتیں معلوم ہوں جن کا معلوم ہونا انسان کے علم میں بھی اضافہ کرتا ہے اور اس کے لطف میں بھی اضافہ کرتا ہے اور اسے ایک بہتر داعی الی اللہ بنانے میں بھی مددگار ہوتا ہے.یہ پروگرام ہیں جو صرف انگلستان کے خدمت کرنے والے پورے نہیں کر سکتے.لازم ہے کہ تمام دنیا کی جماعتیں مددگار ہوں اور ہر جگہ لوگ یہ اپنے آپ کو لگن لگا بیٹھیں کہ ہم نے بہترین، دلچسپ اعلیٰ درجے کے معلوماتی پروگرام اور پھر نغماتی پروگرام دنیا کے سامنے پیش کرنے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.اب جلسے سے پہلے وقت تو تھوڑا رہ گیا ہے مگر چونکہ براہ راست سب سن رہے ہیں کوئی نہ کوئی نمونے کی فلم ضرور بنا کے لائیں.وہ دو چار دن میں بھی بن سکتی ہے تا کہ وہ آپ کی طرف سے ہم پیش کریں اور پھر آپ کو بتا سکیں کہ اس میں کیا کیا نقائص ہیں.آئندہ جب آپ وڈیو تیار کریں تو ان باتوں کا خیال رکھیں.پس جو تحفہ لانا ہے ان میں سے ایک یہ تحفہ ضرور ہو.بیعتوں کا تحفہ تو اول ہے لیکن نمبر دو یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی وڈیوز آپ کے ملک کی نمائندگی کرتی ہوئی آپ کے ساتھ آئیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 555 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء جماعت احمدیہ میں مہمان نوازی کا ایک ایسا جذبہ ہے جس کی نظیر دنیا میں کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: هَلْ أَتَكَ حَدِيثُ ضَيْفِ ابْرُ هِيْمَ الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَمَّا قَالَ سَلَمُ قَوْمُ مُنْكَرُونَ فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنِ فَقَرَّبَةَ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ پھر فرمایا: (الذاریات : 25 تا 28) جلسہ سالانہ UK کے دن بہت قریب آگئے ہیں اور یہ وہ جلسہ سالانہ ہے جو ایک عالمی نوعیت اختیار کر چکا ہے.سب جلسے بہت اچھے ہوتے ہیں محض اللہ کی خاطر دور دور سے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں بہت سے فوائد باہمی محبت کے ذریعے بھی بڑھتے ہیں اور دیگر روحانی اور آسمانی برکات بھی بکثرت نازل ہوتی ہیں.جرمنی کا جلسہ بھی بہت غیر معمولی نوعیت اختیار کر چکا ہے کینیڈا کا بھی اپنا رنگ رکھتا تھا امریکہ کا بھی، دور دور سے مہمان آتے ہیں اور ان سے مل کر محبتیں تازہ ہوتی ہیں پرانی یادیں پھر تازہ ہو جاتی ہیں اور آئندہ کے لئے گویا ز ادراہ مل جاتا ہے.بعض جلسے ایسے ہیں اتنا روحانی زاد چھوڑ جاتے ہیں ایسی غذا پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ سارا سال یادوں میں ان کو کھایا جاتا ہے اور وہ ختم نہیں ہوتیں.مگر UK یعنی United Kingdom کا جو جلسہ ہے اس کی اپنی ایک شان ہے.اس کثرت سے دور دراز سے مشرق و مغرب، شمال و جنوب سے دنیا کے کسی جلسے میں لوگ اس
خطبات طاہر جلد 15 556 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء طرح اکٹھے نہیں ہوتے جیسے انگلستان کے جلسے میں آتے ہیں اس لئے اس پہلو سے اسے ایک مرکزیت حاصل ہو گئی ہے اور وہ آتے ہیں جن کا انتظار رہتا ہے.بعض چہرے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں.خاص طور پر اپنے مظلوم بھائی ،مظلوم بہنیں ، مظلوم بچے جو پاکستان سے آتے ہیں.اترے ہوئے، دکھے ن چہرے آتے ہیں تو کھلکھلا اٹھتے ہیں.نئی زندگی نئی تازگی پیدا ہوتی ہے.خوشیاں بھی لاتے ہیں غم بھی لاتے ہیں اور بیک وقت ایسی کیفیت میں وقت گزرتا ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں لیکن جلسے کی عادت یہ ہے کہ مدتوں انتظار کراتا ہے راہ دیکھتے چلے جاتے ہیں.جب آتا ہے تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے پلک جھپکنے میں نکل گیا.یہ وصل کی کیفیت کا حال ہے اور محبت کے طبعی تقاضے ہیں.ایک ایسی ہی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے میں نے ایک دفعہ، اپنے ایک شعر میں یوں کوشش کی تھی کہ لمحات وصل جن یہ ازل کا گمان تھا چٹکی میں اڑ گئے وہ طیورِ سُرور شب یعنی وہ لمحات وصل کے جب تھے تو لگتا تھا کہ ازل آگئی ہے ، وقت ٹھہر گیا ہے اور جب گزرے تو یہ رات کے پرندے لگتا تھا ( کلام طاہر: 111) کہ چٹکی میں اڑ گئے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ یہی وہ کیفیت ہے جو بعض از لی صداقتوں کی طرف انسان کے ذہن کو منتقل کر دیتی ہے.چنانچہ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے مجھے جنت کی ازل کی حقیقت سمجھ آگئی اور جہنم تھوڑے وقت کے ہونے کے باوجود کیوں لا متناہی دکھائی دے گی اور کیوں جہنم کو بھی ابدی کہا گیا ہے وہ راز بھی سمجھ میں آ گیا.جنت کا ہمیشہ ہمیش کے لئے ہونا ایک لازمی حقیقت ہے جس کے سوا چارہ نہیں ہے کیونکہ اگر دنیا میں انسانی وصل کے تجارب اتنا گہرا اثر انسان پر چھوڑتے ہیں کہ آنے والوں کی موجودگی میں تو وقت لگتا ہے ٹھہر گیا ہے، ہمیشہ کے لئے یہی وقت ہے اس سے زیادہ آگے اور پیچھے کا کوئی دھیان باقی نہیں رہتا اور جب گزرتا ہے تو یوں لگتا ہے آنا فانا گزر گیا ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ٹھہرا.اگر وصل الہی، جس کو دنیا کے وصل کے مقابل پر ایک لامتناہی عظمت حاصل ہے اس کی رفعتوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا، اس کا سوچیں اگر وہ کسی محدود عرصے کے لئے جنت ہوتی تو وہ جنت
خطبات طاہر جلد 15 557 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء جو لطف لا تی جب جاتی تو جتنے دکھ دے جاتی اس کا کوئی تصور بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے.ایک دنیا کے محبوب کی جدائی سے دیکھو کتنا دکھ پہنچتا ہے.چند لمحے کے وصل کی گھڑیاں جو سکھ لاتی ہیں وہ بعض دفعہ عمر بھر کا دکھ پیچھے چھوڑ جاتی ہیں.یہ وہ فلسفہ ہے ازل اور ابد کا جس کی حقیقت ہمیں قرآن کریم کے مابعد الموت کے پیش کردہ مناظر سے سمجھ آتی ہے.جتنا بڑا دکھ ہو جتنی شدید تکلیف ہوا تنا ہی وقت لمبا ہو جاتا ہے اور اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا.بعض دکھ کی راتیں لگتا ہے ساری زندگی پر محیط ہو گئی ہیں اور سکھر کی زندگیاں جب ختم ہوتی ہیں تو انسان کہتا ہے: خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا کچھ بھی ہے نہیں رہا چند دن کی باتیں تھیں اور پھر بعض شعراء خدا کو (خواجہ میر درد) طعنے دیتے ہیں: ٤ دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے (فیض احمد فیض) یہ دو چار دن کی زندگی یہی دی تھی نالیکن جب گزرگئی تو دنیا کے عیش کی کچھ سمجھ نہیں آتی کہاں چلا گیا سوائے ان بداثرات کے جو باقی رہ جائے کچھ پیچھے چھوڑ کر نہیں جاتا.تو ازل کی محبت اور ازلی محبوب سے یہ دو لازم وملزوم چیزیں ہیں.اس لئے جنت لامتناہی بھی ہوگی تو وہ بور نہیں کرسکتی اس سے انسان اکتاہٹ محسوس نہیں کرسکتا کیونکہ اصل اکتاہٹ کا فلسفہ تعلق کی کمی میں ہے اور جو شخص بھی تعلق رکھنے کے باوجود پرانا ہو جائے اور اس کی جاذبیت ختم ہو جائے وہ شخص اکتاہٹ پیدا کرنے لگتا ہے.ایک اللہ کی ذات ہے جس کا تعلق نہ صرف یہ کہ بے انتہا لذتیں لاتا ہے، لامتناہی سرور بخشتا ہے جیسے قرآن کریم فرماتا ہے تم اس دنیا میں تصور بھی نہیں کر سکتے، ناممکن ہے.مثالیں ہم دیتے ہیں مگر تمہارے لئے ممکن نہیں کہ سوچ سکو کہ وہ چیز کیا ہے.نعماء جنت کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا.وہ دراصل محبت کی جنت ہے اور اس محبت کا دائمی ہونا ایک لازمی نتیجہ تھا.پس اس پہلو سے جنت کے ازلی ہونے کی سمجھ آگئی اور پھر یہ کہ جب محبوب اپنے حسن میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہو پھر تو کسی جگہ اس کا انقطاع ممکن نہیں.غَيْرُ مَمْنُونِ (حم السجدہ : 9) کے سوا کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا.پس یہی ہے اللہ تعالیٰ نے جو نتیجہ نکالا کہ یہ وہ جنت ہوگی تمہاری جزا کی جو غَيْرُ مَمْنُونٍ ہے.وہ کائی جاہی نہیں سکتی.جہاں بھی کائی
خطبات طاہر جلد 15 558 خطبہ جمعہ 19 / جولائی 1996ء جائے گی تمہیں یوں لگے گا جیسے آنا فانا گزرگئی.لیکن جہنم کا ابدی ہونے کے باوجود ابدیت کا معنی اور ہے.جہاں ایک ایک لمحہ ایک عذاب دکھائی دے اور یوں محسوس ہو کہ ساری عمر دکھ ہی کاٹے ہیں.چنانچہ بہت سی ناشکری عورتیں خاوند کے ہاتھوں اگر کوئی ظلم دیکھ لیں تو کہتی ہیں ہم نے تو ساری عمر دکھ ہی کاٹے ہیں.ہوسکتا ہے مبالغہ بھی ہو لیکن ہو سکتا ہے ایک طبعی مجبوری کی کیفیت کا نام ہو.وہ طبعی مجبوری کی کیفیت یہ ہے کہ دکھ کا زمانہ لمبا لگتا ہے اور احسان کا زمانہ چھوٹا دکھائی دیتا ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اس طرف بھی توجہ جاتی ہے کہ ہم خدا کے احسان کا شکر یہ ادا کرنے کی کماحقہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ نہیں اور اس کے احسان تو اتنے محیط ہیں کہ ان کے محیط ہونے کی وجہ سے وہ نظر سے اوجھل ہو گئے ہیں اور یاد کرانا پڑتا ہے ایک ایک لمحے کی یاد دلانی پڑتی ہے اور ان کا شکر ادا نہ کرنے کا رجحان انسان میں پایا جاتا ہے.اس میں ایک حد تک تو یہی نفسیاتی مجبوری ہے کہ جو انسان بعض احسانات میں ڈوب جائے وہ رفتہ رفتہ سمجھتا ہے کہ یہ میرا روز مرہ زندگی کا حق ہے.ہاں جب احسان کا ہا تھ کھینچا جاتا ہے تب سمجھ آتی ہے کہ احسان کس کو کہتے ہیں.ایک صاحب تشریف لائے کل، بیماریوں کے سلسلے میں لوگ آتے رہتے ہیں کہ رات گردے کی بہت تکلیف تھی ، رات ہی نہیں کٹتی تھی.کسی کو دانت کی تکلیف ہوئی تو ساری رات عذاب میں گزری ، زمانہ ٹھہر گیا.تو دکھ بھی ٹھہر جاتے ہیں مگر تھوڑے ہوں تب بھی بہت لمبے دکھائی دیتے ہیں.جب گزرتے ہیں تو ان کی یاد کا دکھ ختم نہیں ہوتا اور سرور کی اور کیفیت ہے.پس ہمارے جلسے بھی اسی طرح آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ابھی کچھ دیکھا بھی نہیں تھا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا، گزر گیا.پس جتنے بھی لمحات ہیں ان کی قدر کریں اور جو مقامی ہیں.میں جانتا ہوں کہ بہت خدمت کرتے ہیں ، غیر معمولی اور مجھے کبھی جماعت U.K سے یہ شکوہ نہیں ہوا کہ انہوں نے جو خدمت کا حق تھا اس میں کمی کی یا عمداً ان سے کوتاہی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود مہمان کا دل نازک ہوتا ہے اور مہمان کی عظمت کا اور اس کی عزت کا جو تصور قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے اس کا ذکر چند آیات میں ملتا ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں.هَلْ أَنكَ حَدِيثُ ضَيْفِ ابْرُ هِيمَ الْمُكْرَمِینَ کیا تجھ تک ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے.وہ معزز تھے مگر فرمایا قَوْم مُنكَرُونَ اجنبی لوگ تھے.تو مہمان اپنی
خطبات طاہر جلد 15 559 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء اجنبیت میں بھی معزز ہے.یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم کا یہ بیان ہمیں سکھا گیا اور حضرت ابراہیم کا حال دیکھیں فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنِ یہ نہیں پوچھا کھانا کھانا ہے کہ نہیں، بھوکے ہو کے نہیں.اجنبی مہمانوں سے یہ سلوک ہے.جو اپنے پیارے جن کا انسان منتظر ہو وہ آئیں تو پھر کتنا اس سے بڑھ کر دل کے طبعی جوش سے ان کا اعزاز ہونا چاہئے.یہ پتا ہی نہیں کیا کہ تم ہو کون لوگ اجنبی لوگ تھے جا کے بچھڑا تیار کیا، ذبح فرما دیا اور فَقَرَّبَةً إِلَيْهِمْ پیش کیا اور حیرت سے پوچھا اَلَا تَأْكُلُونَ کھاؤ گے نہیں تم.اب یہاں مُنْكَرُونَ کا معنی ایسا اجنبی جس سے انسان خوف کھا تا ہو اس جگہ درست نہیں ہے کیونکہ ان کی وہ خوف والی اجنبیت کا علم بعد میں ہوا ہے.پہلی اجنبیت تھی وہ ان کی ذاتی اجنبیت تھی ، ان کو کبھی نہیں دیکھا تھا، ان سے آشنائی نہیں تھی اور تھے وہ منگرُونَ.تب ہی بسا اوقات میں مغرب کے خطبات میں یہ نہیں کہتا کہ معزز مہمانو اور دوسرے مہمانو! میں کہتا ہوں تم سارے معزز مہمان ہو کیونکہ قرآن کریم کی اصطلاح میں مہمان کے لئے معزز ہی کا لفظ ہے اپنا ہو یا پرایا ہو، اجنبی ہو یا دیکھا بھالا ہو سب مہمان معزز ہیں.اس پہلو سے جس حد تک بھی ممکن ہے مہمانوں کی خدمت کرنا لازم ہے مگر یہ خیال کہ ہم نے خدمت کا حق ادا کر دیا.یہ کافی نہیں ہے کیونکہ بعض مہمان اپنی نزاکتیں ساتھ لے کے آتے ہیں اور جتنا وہ خود مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ کی اپنے لئے توقع رکھتے ہیں.پھر بہت سے ایسے مہمان ہیں ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دیکھو ہم کتنی دور سے چل کے آئے ہیں، کتنی محنتیں کیں، کتنے کتنے دن ویزوں کے لئے گزار دیئے، انتظار میں Que میں لگے بیٹھے رہے تو یہ ان کی یادیں واقعہ ان کے اندر صحیح جذبہ پیدا کرتی ہیں کہ ہم ایسے مہمان نہیں کہ ہمیں یونہی السلام علیکم اور جزاک اللہ کہہ کے ٹال دیا جائے ، ہماری پوری عزت ہونی چاہئے محض اللہ آئے ہیں اور اس پہلو سے اللہ کے مہمان ہیں اور اللہ کے مہمانوں کا حق باقی مہمانوں سے زیادہ ادا ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ، مہمانوں کے انتظام میں مہمان نوازی کی نسبت یہ فرمایا: ”میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے
خطبات طاہر جلد 15 560 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہوسکے مہمانوں کو آرام دیا جائے.مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے...66 یہ ہے وہ مہمان کی خصوصیت اور اس کے لئے ایک نفسیاتی وجہ موجود ہے.وہ اپنے گھر نہیں ہوتا دوسرے کے گھر ہوتا ہے اور اپنے گھر کی تکلیفوں کو وہ روز مرہ کا اپنا ایک معمول سمجھتا ہے لیکن جب دوسرے کے گھر جائے تو یہ ایک نفسیاتی خوف ہوتا ہے کہ کہیں میں بے طلب کا مہمان تو نہیں، کہیں میں ایسا مہمان تو نہیں جس کو یہ چاہتے نہیں تھے.اس لئے وجہ بے وجہ نفس بہانے ڈھونڈ لیتا ہے، اس کو ڈراتا ہے کہ دیکھا تم یہاں پسندیدہ مہمان نہیں ہو.تمہاری جو خدمت ہونی چاہئے تھی وہ نہیں کی جارہی ، معلوم ہوتا ہے تمہیں چاہتے نہیں یہ لوگ.تو جو خوف ہیں نفسیاتی خوف وہ طرح طرح کے قصے گھڑ لیتے ہیں.پس یہ بھی وجہ ہے اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہمان کی عمومی صفت یہ ہے کہ وہ نازک دل ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں شیشے کی طرح نازک ہوتا ہے.فرماتے ہیں: 66 ”...اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہوگئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے مجبوری علیحدگی ہوئی.ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے.بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے.(ملفوظات جلد سوم :292) یہ جو مضمون ہے اس پر غور کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں کتنے مہمان ہوا کرتے تھے.چند تھے مگر اپنے گھر میں رکھنے کے شوق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑتے تھے اور پھر وہ کثرت ایسی ہوئی کہ اپنے گھر میں نہیں رکھے جاسکے تو مہمانوں میں پہنچتے تھے اور مہمان خانوں میں بھی پہنچنے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذاتی توجہ نہیں دے سکتے تھے ہر ایک کی طرف.اس لئے اب تو یہ معاملہ بہت آگے جاچکا ہے لیکن اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان ہے اور آپ نے جس رنگ میں مہمان نوازی
خطبات طاہر جلد 15 561 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء میں تربیت فرمائی کہ جو کچھ آپ چاہتے تھے اب ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.ساری دنیا میں جماعت میں مہمان نوازی کا ایک ایسا جذبہ ہے کہ جس کی کوئی مثال دنیا میں کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.حیران کن ہے.اتنی تکلیفیں اٹھاتے ہیں مہمان کی آمد کے انتظار میں اور اس کی سہولت کی خاطر کہ جب میں ان کے وقار عمل دیکھتا ہوں ، جب بچوں کو دیکھتا ہوں بڑوں کو عورتوں کو ، مردوں کو بعض کئی کئی مہینے سے مسلسل اپنے آنے والے مہمانوں کے انتظار میں وہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو احتیاطاً ان کو تکلیف سے بچانے کے لئے اور آرام پہنچانے کے لئے کرنی پڑتی ہیں.وہ انتظامات خود اپنے ہاتھ سے درست کرتے ہیں.ہاتھ سے اس لئے کہ ہمارے پاس مہمان نوازی کے لئے جذ بے تو بہت ہیں لیکن پیسہ اتنا زیادہ نہیں کہ ہر کام پیشہ وروں سے کروا سکیں اور اگر وہ ہوتا تو اچھا نہ لگتا کیونکہ جو لطف اپنے ہاتھ سے مہمان کی خدمت کا ہے وہ پیشہ وارانہ کام سے ممکن ہی نہیں ہے.اس لئے شروع شروع میں تو یہی دقت شاید ہو مگر میں نے تجربے سے محسوس کیا ہے کہ خدا کی تقدیر یہ ہے.جن کاموں میں روپے کی ضرورت پڑے بے شمار عطا فرماتا ہے.تو وہ ہمیں اسی طرح دیکھنا چاہتا ہے کہ مہمان کی خدمت کے لئے روپے پر انحصار نہ ہو، ذاتی قربانی پر انحصار ہو اور جولطف اس خدمت کا ہے وہ کسی اور خدمت میں ممکن نہیں ہے.میں نے دیکھا ہے مہمان نوازی کے تعلق میں اگر کسی مہمان سے تعلق ہو تو گھر والی خود صفائیاں کرتی پھرتی ہے.نوکر ہوں بھی تو اعتماد نہیں کرے گی.وہ ایک ایک چیز کو خود دیکھے گی ، خود سلیقے سے لگائے گی اور چند لمحے ہیں مہمان نوازی کے جو آیا اور گزر بھی گیا لیکن اس کی دیکھیں تیاریاں کیسی کی جاتی ہیں اور یہ محبت کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور محبت کے علاوہ اس سلیقے کے نتیجہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بخشا ہے مہمان نوازی کے لئے آپ کی مثالیں حیرت انگیز ہیں کس طرح آپ مہمان نوازی کیا کرتے تھے.بعض دفعہ پڑھتے وقت آنکھوں سے جذبات کا سیلاب الد جاتا ہے.سردی کی راتیں، اتنی سخت را تیں کہ مہمانوں کے لئے وہ راتیں برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا.مطالبے آرہے تھے کہ یا حضرت وہاں تلائی کم ہوگئی وہاں رضائی کم ہو گئی وہاں کمبل کی ضرورت ہے آپ گھر سے سب کچھ بانٹتے چلے گئے.آخر ایک دفعہ ایک اطلاع دینے والے نے آکر کمرے میں دیکھا تو آپ اپنا جبہ لے کر کرسی پر پڑے ہوئے تھے کوئی چیز گھر میں سونے کے لئے اپنے اوپر اوڑھنے کے لئے نہیں تھی.آپ نے فرمایا کہ یہی کچھ ہے.اللہ کا
خطبات طاہر جلد 15 562 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء کتنا احسان ہے کہ اسی میں مجھے آرام اور سکون مل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مهمان نوازی کی لطافتیں آپ دیکھیں تو عقل حیرت میں ڈوب جاتی ہے.کیسی لطافت تھی کیسی باریکیاں تھیں اس مہمان نوازی کی.پس وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جذبے ہیں جو آسمان سے اب احمدیوں پر فضلوں کی صورت میں نازل ہورہے ہیں اور دنیا میں ایک ایسی جماعت رونما ہوئی ہے جس کے متعلق انسان یقین سے کہہ سکتا ہے کہ دنیا کی کوئی قوم مہمان نوازی میں اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتی.موسم بدلتے ہیں تکلیفیں آتی ہیں کبھی اچھے موسم کبھی برے موسم کبھی سردیاں زیادہ کبھی گرمیاں زیادہ کبھی آندھی، کبھی جھکڑ چل رہے ہیں مگر احمدی مہمان نوازی پہ کوئی فرق نہیں پڑتا.وہ ہر بدلتے ہوئے وقت کی تکلیفیں خود اپنے اوپر لیتا ہے اور مہمان کی خدمت میں ہمیشہ، ہمہ وقت مستعد رہتا ہے.ان روایتوں کو آپ زندہ رکھیں کیونکہ یہ وہ روایتیں ہیں جن کا ذکر حضرت ابراہیم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ پرانے انبیاء کی باتیں محض عام نصیحتوں کے لئے نہیں بلکہ بعض محبت کے جذبوں کی وجہ سے بھی محفوظ فرماتا ہے اور جن انبیاء سے زیادہ پیار ہے ان کے ذکر میں بسا اوقات محبت کے تذکرے زیادہ چلتے ہیں.یوں لگتا ہے کہ بات لمبی ہو رہی ہے ضرورت کیا تھی اتنی لمبی بات کی لیکن جب محبت ہو تو پھر باتیں نبی کی جاتی ہیں.حضرت موسی" کے ساتھ دیکھیں بات ختم ہوئی ایک دفعہ کہ دی لیکن اللہ تعالیٰ اس کو کرتا چلا جاتا ہے کہ اس نے یوں کیا ، پھر اس نے یوں کیا ، پھر اس طرح ڈرا، پھر ہم نے اس طرح بلایا.وہ پیار کے قصے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بھی اکثر پیار کے طویل نقشے ہیں جو کھینچے گئے ہیں اور اس آیت میں بھی یہی مضمون ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنایا.خدا کے پیار کی نظر اس پر پڑی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر صرف انبیاء پہ نہیں پڑتی عامتہ الناس کے سلوک پر بھی پڑتی ہے.آنحضرت ﷺ نے اس کے متعلق بہت سے واقعات میں بعض دفعہ مثالیں دے کر مہمان نوازی کا ذکر فرمایا ہے، بعض دفعہ نصیحتیں کر کے، بعض دفعہ نصیحت پر عمل جس طرح ہوا اس پر خدا تعالیٰ نے جو آپ کو خبریں دیں ان کا ذکر فرما کرمہمان نوازی کی عزت افرائی فرمائی.یہ واقعہ آپ کو کئی دفعہ سنایا جا چکا ہے مگر بعض واقعات ہیں جن کی لذت کم ہو ہی نہیں سکتی.جتنی دفعہ چاہیں سنیں وہ زندہ واقعات ہیں اور جس طرح ایک انسان زندہ ہو اور محبوب ہو آپ یہ
خطبات طاہر جلد 15 563 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء تو نہیں کہتے کہ تم کل بھی آئے تھے ، پرسوں بھی آئے تھے اب پھر کیا کرنے آگئے ہو، وہ جب بھی آتا ہے اچھا لگتا ہے.تو آنحضرت ﷺ کی زبان سے مہمان نوازی کے پیارے واقعات کبھی پرانے ہو ہی نہیں سکتے کم سے کم میرے دل پہ تو کبھی بھی انہوں نے یہ اثر نہیں ڈالا کہ ہم نے کئی دفعہ سنا ہے اب کیا ضرورت ہے.پس میں جب تکرار کیا کرتا ہوں تو مجبوراً کرتا ہوں مجھے پتا ہے کہ جس طرح مجھے لطف آ رہا ہے سب کو آئے گا اس لئے ایسی تکرار اچھی لگتی ہے.یہ واقعہ بھی ویسا ہے جو چاہیں لاکھ بار آپ سنائیں اور سنیں اس کی لذت ختم نہیں ہوسکتی.بخاری کی حدیث ہے کتاب مناقب الانصار سے باب ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصتہ وہ اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ولو كان بهم خصاصته خواه ان کو خود بھوک کی تنگی مشکلات میں مبتلا کئے ہوئے ہو.خصاصہ ایسی حالت کو کہتے ہیں جب خرچ کرنے کے لئے کچھ نہ ہو، کچھ دینے کے لئے نہ ہو.ایسی حالت میں جب کہ خود وہ تنگی محسوس کر رہے ہوں پھر وہ دوسروں پر اپنے آپ کو قربان کر دیتے ہیں.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور ﷺ کی خدمت میں آیا.آپ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھیجواؤ.جواب آیا کہ پانی کے سوا گھر میں کچھ نہیں.اس سے آنحضرتﷺ کے روز مرہ کی زندگی کے حالات کا بھی تصور ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بہت دیتا تھا لیکن صلى الله جس رفتار سے آتا تھا اسی رفتار سے آپ آگے چلا دیا کرتے تھے.اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ گھر میں اور کچھ نہیں تھا مگر یہ مطلب نہیں تھا کہ آنحضور نے اپنے اہل وعیال کو بھی ان کی خواہش کے بغیر مشکل میں ڈالتے تھے.بعض لوگ یہ حدیثیں پیش کر کے یہ تصور باندھتے ہیں، یہ تاثر پیدا کرنے صلى الله کی کوشش کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ اپنے اہل و عیال کو مشکل میں ڈالتے تھے.یہ درست نہیں ہے.آپ بے حد خیال فرماتے تھے مگر بعض واقعات بعض ایسے زمانوں میں بھی ہو سکتے ہیں جبکہ بہت زیادہ تنگی کا دور تھا اور بعض مہینوں بلکہ سال ایسے آئے ہیں جبکہ سارے مسلمان بھوک میں مبتلا رہتے تھے اور آنحضرت ملا کیونکہ سب سے زیادہ ایثار کرنے والے تھے اور اس دور میں یقیناً آپ نے اپنی تنگی کے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی شامل فرمایا مگر ان کے جذبے اور شوق ساتھ ساتھ چلاتے ہوئے ، یہ نہیں کہ ان پر مجبوراً کوئی چیز ٹھونسی گئی ہو.اس کی بہت سی مثالیں میرے سامنے ہیں مگر اس
خطبات طاہر جلد 15 564 خطبہ جمعہ 19 / جولائی 1996ء وقت اس تفصیل میں جانے کا موقع نہیں.یہ واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گھر کہلا بھجوایا مہمان کے لئے کچھ لاؤ.عرض کیا گیا پانی کے سوا کچھ نہیں.اس پر حضور نے صحابہ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندو بست کون کرے گا ؟ ایک انصاری نے عرض کیا حضور میں انتظام کرتا ہوں.اب یہ جو واقعہ ہے میرے اس نتیجہ کی تائید کر رہا ہے.ایک عام دور تھا تنگی کا اس زمانے کی بات ہو رہی ہے اور صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا میں کرتا ہوں اور لوگ سمجھے ہوں گے کہ اس کے پاس بہت زیادہ کھانا ہے اس لئے اس نے کہا لیکن کیسے کیا؟ اس کا حال سنئے.چنانچہ وہ گھر گیا اپنی بیوی سے کہا آنحضرت ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارت کا انتظام کرو.بیوی نے جواباً کہا آج گھر میں تو صرف بچوں کے لئے کھانا ہے.نہ میرے لئے نہ تمہارے لئے.انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر بہلا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا چراغ جلایا ، بچوں کو بھوکا سلا دیا پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جیسے پلو لگ جاتا ہے اس طرح گویا حادثے کے طور پر چراغ بجھا دیا.پھر دونوں مہمان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے اور آوازیں منہ سے ایسے نکالتے رہے جیسے چٹخارے لے رہے ہوں حالانکہ وہ بچوں کا کھانا بھی معلوم ہوتا ہے اتنا نہیں تھا کہ بچوں کا بھی پیٹ بھر سکے کیونکہ بمشکل ایک مہمان کے کام آیا اور مہمان یہ سمجھتارہا کہ میزبان بھی میرے ساتھ کھانا کھا رہے ہوں گے.منہ سے چٹیاروں کی آوازیں سن رہا تھا.جب صبح وہ انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہنس کے فرمایا تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی آسمان پر ہنس پڑا.ایک روایت یہ بھی میں نے سنی ہے کہ خدا بھی چٹخارے لینے لگا جب تم چٹخارے لے رہے تھے.یہ پاک باطن ، ایثار پیشہ لوگ کس طرح اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ اللہ کا احسان دیکھیں کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ حالت کی قربانی کو بھی خدا نے نظر انداز نہیں فرمایا.جیسے قرآن میں حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کے ذکر کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا اور اس طرح محفوظ کیا کہ جب بھی پڑھیں دل اس طرح پگھل جاتا ہے حضرت ابراہیم کی محبت میں اور اس واقعہ کو آنحضرت ﷺ کی زبان سے محفوظ فرما دیا اور الہاماً آپ کو خبر دی کہ اے محمد ! تیرے غلاموں میں یہ پیدا ہوئے ہیں.پس
خطبات طاہر جلد 15 565 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر:10) کے سردار تو خود محمد رسول اللہ اللہ تھے اور دوسری مثالیں جو میں پہلے بھی بار بار دے چکا ہوں دل تو چاہتا ہے کہ ہمیشہ دہرائی جائیں مگر وقت کی کمی کی وجہ سے میں نہیں پیش کر سکتا.ان سے پتا چلتا ہے کہ آنحضور نے اپنے پاک نمونے کے ذریعے مہمان نوازی کا ایسا لطیف جذبہ صحابہ میں سرایت کر دیا کہ وہ انبیاء کی شان کو چھونے لگا.آسمان سے خدا کی تحسین کی نگاہیں اس پر پڑنے لگیں اور وحی کے ذریعے محمد رسول اللہ ﷺ کو مطلع فرماتا ہے.یہ وہ مرتبہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بے شمار درود ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں پہلے اپنی ذات میں زندہ کیا پھر ہم میں زندہ کر دیا.جتنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احسان پر آپ کے لئے دعائیں کی جائیں کم ہوں گی.دیکھو چودہ سو سال پہلے کے واقعات مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تیرہ صدیاں گزر چکی تھیں.کئی تاریک صدیاں ان کے درمیان حائل ہو چکی تھیں.حضرت مسیح موعود نے ان میں سے صلى الله ایک ایک کو پکڑا اور آنحضور ﷺ اپنے محبوب آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایک روایت کو زندہ کیا ہے اور پھر اپنے صحابہ اپنے غلاموں میں اس جذبے کو کس شان کے ساتھ جاری فرما دیا.سو سال سے زائد ہو گئے لیکن یہ جذبہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے.یہ نیکی کا حسن ہے، یہ زندگی کی علامت ہے.زندگی ہمیشہ بڑھا کرتی ہے اور وقت کے گزرنے سے کم نہیں ہو جایا کرتی.یعنی وہ لوگ جو زندہ ہوں مر بھی جائیں تو وہ نشو ونما کے ذریعے اپنے پیچھے اپنی مثالیں چھوڑ جایا کرتے ہیں.اس لئے زندگی کی صفت ہے کہ وہ بڑھتی ہے اور جب تک خدا تعالیٰ نے اس کے بڑھنے کے دائرے مقررفرمائے ہیں وہ نشو و نما پاتی چلی جاتی ہے اور پھر جب اس دائرے کو پہنچتی ہے تو اگلی نسل میں اس کی زندگی کی نشو نما اسی طرح پھولنے پھلنے لگتی ہے، اسی طرح رونما ہونے لگتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک زندگی آج دیکھو کروڑ زندگیوں میں بدل چکی ہے.آپ کی مہمان نوازی کا ہر لطیف جذ بہ احمدیوں کے دلوں میں کیسی لطافتیں اور رس گھول رہا ہے اور جو مہمان نوازی کی لذت.
خطبات طاہر جلد 15 566 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء آشنا ہو جائیں ان کو پھر اس سے کبھی الگ نہیں کیا جاسکتا.پس اس جذبے سے آپ بھی مہمان نوازی کریں.آنے والوں کی عزت اور وقار کا خیال رکھیں اور ان کے لئے ہر قربانی پیش کریں.لیکن مہمانوں کے لئے بھی ایک نصیحت ہے.بسا اوقات مہمان ضرورت سے زیادہ اور سنت کی اجازت سے زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے جہاں میز بانوں کو نصیحتیں فرمائی ہیں وہاں مہمانوں کے لئے بھی تو نصیحتیں فرمائی ہیں.مثلاً تین دن سے زیادہ اپنا مہمانی کا حق نہ سمجھو.اس سے زیادہ اگر ہے تو وہ آپس کے تعلقات کے سلسلے ہیں.مگر تین دن کی حد مقرر کر دینا یہ ایک بہت بڑا احسان ہے امت پر.ورنہ وہ لوگ جن کی سرشت میں یہ داخل کر دیا گیا ہو کہ تم نے ایثار کرنا ہے ان کا تو کچھ بھی نہ رہے.دن رات ایسے لوگ جو بے حسی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دوسروں کے گھروں پہ قبضے کر جائیں اور ان کے لئے نہ کوئی اپنا وقت چھوڑیں نہ اپنا ساز وسامان لینے دیں.اس عرب کے مہمان والا قصہ ہو جائے جو ایک بدو کے گھر ٹھہرا تو چند دن کے اندراندر اس کا سب کچھ چٹ کر گیا.نہ بھیڑیں رہیں نہ بکریاں اور اونٹ بھی ذبح ہونے لگے.آخر ایک دن اس نے پوچھا کہ یا حضرت سر آنکھوں پر لیکن کیا ارادہ ہے.مطلب تھا کہ اس کو اگر یہ سفر پر جارہا ہے تو سفر یا دکراؤں لیکن عربوں میں مہمان نوازی دیکھیں کتنی غیر معمولی تھی.اس مہمان نوازی کو محمد رسول اللہ ﷺ نے چمکایا ہے اور کیسے بلند تر ارفع مقامات تک پہنچا دیا.چنانچہ مہمان نے جواب دیا کہ مشکل یہ ہے کہ میرا معدہ خراب ہے، بھوک نہیں رہی اور سنا تھا کہ کوئی بہت بڑا حکیم ہے جو بھوک پیدا کرنے کا ماہر ہے اور میں اس کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں.تب اس مہمان نواز نے کہا : يا ضيفنا ان زرتنا لوجدتنا نحن الضيوف وانت رب المنزل صلى الله کہ اے میرے معزز مہمان اب کہ اگر لوٹے تو میں تمہارا مہمان اور تم گھر کے مالک ہو جاؤ گے.تو یہ بھی مہمان نوازی کی قسمیں ہیں.مگر میزبانوں کے علاوہ مہمانوں کی قسمیں بھی ہیں.آنحضرت ﷺ نے دیکھیں کس طرح اس کو محدود فر ما دیا.اب سنت کے حوالے سے مہمان مجبور ہو گیا ہے کہ تین دن تک حق سمجھے اور اس کے بعد کہے کہ مجھے اجازت دیں اور پھر وہ آثار میں بھی دیکھے کہ اجازت نہ دیتے ہوئے بھی کوئی میزبان تکلیف
خطبات طاہر جلد 15 567 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء میں ہے تو اس کا اخلاقی فرض ہے کہ لفظوں کے بہانے نہ ڈھونڈے.جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے مہمان سے نہیں پوچھا تھا کہ کھانا کھاؤ گے کہ نہیں اس میں ایک نفسیاتی نکتہ ہے.اگر مہمان سے پوچھا جائے کہ کھانا کھاؤ گے کہ نہیں تو بسا اوقات وہ کہتا ہے نہیں ضرورت نہیں ہے.جن لوگوں میں جھوٹ کی عادت ہے وہ بعض دفعہ جھوٹ بولتے ہیں کہ جی کھا کے آئے ہیں.جہاں سچ پر زور دیا جاتا ہے وہ کوئی اور بہانہ چالاکی سے بات کو ٹالتے ہیں اور ہمارے تجربے میں خدا کے فضل سے یہ بات بہت زیادہ دیکھی جاتی ہے یعنی ایک مہمان جو جھوٹ بول نہیں سکتا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتا وہ ادھر ادھر کے بہانے بنائے گا اور سیدھابات کا جواب نہیں دیتا.میزبان کا بھی یہی حال ہے.یہ یک طرفہ قصہ نہیں ہے.جب آپ میزبان سے اجازت مانگیں گے تو وہ یہی کہے گا کہ نہیں نہیں ٹھہریں بڑے شوق سے ، آپ کا اپنا گھر ہے اور اگر اسی طرح رہے تو اس کا گھر کہاں رہے گا، بے چارے کا وہ تو آپ کا گھر بن جائے گا.اس لئے نـحـن الضيوف و انت رب المنزل والا مضمون بھی یادرکھیں.جب آپ تین دن دیکھیں پورے ہو گئے اور جلسے کی خصوصی ضرورت کے دوران ہم نے چودہ دن تک بھی اس بات کو ممتد کر دیا ہے یعنی جماعتی مہمان نوازی.اس کے بعد آپ کو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اور ٹھہروں کہ نہ ٹھہروں.آپ اجازت چاہیں اور اصرار کریں کہ اب مجھے جانا چاہئے یا میں اپنا انتظام کروں گا.اگر میزبان بضد ہو اور آپ کو دکھائی دے کہ وہ مصر ہے کہ آپ اپنے قیام کو لمبا کریں تو اس کو تکلیف نہیں ہوگی تو پھر شوق سے آپس کے سلسلے ہیں ، اس میں کوئی حکم نہیں ہے کہ لازماً تین دن کے بعد جدائی اختیار کی جائے یا چودہ دن کے بعد جدائی اختیار کی جائے.مگر اب نیتوں کا حال ہے اپنی نیتوں کو ٹولا کریں اور نیتوں کو صاف رکھیں گے تو پھر کبھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی.اگر نیتوں میں بھی ٹیڑھا پن آ گیا تو پھر آپ کے نکالے ہوئے سب نتیجے غلط ثابت ہوں گے.دوسری باتیں جو اور کرنے والی تھیں وقت تو تھوڑا ہے اور جو بھی احادیث کے یا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے میں نے اکٹھے کئے تھے وہ آئندہ ایسے موقعوں پہ کام آتے رہیں گے.اب میں ایک اور بات کی نصیحت آپ کو کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس جلسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ پہلے سے بھی بڑھ کر غیر معمولی فضلوں کو نازل ہوتا دیکھیں گے اور ان فضلوں
خطبات طاہر جلد 15 568 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء کے دیدار کی جو خدا نے توفیق عطا فرمائی ہے اس کا شکر ادا کرنا واجب ہے.یہ دن ذکر الہی میں گزاریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اس کے احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے وقت کو کاٹیں اور اس جنت سے لطف اندوز ہوں.جو شکر کی جنت ہے ویسی کوئی جنت نہیں.شکر ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ شکر گزار بندہ جو ہے وہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے اس دنیا میں ہی جنت پا جاتا ہے اور اس کے عظیم فوائد ہیں جو اپنی ذات میں الگ خطاب کو چاہتے ہیں.مگر اتنا میں آپ کو کہوں گا کہ خدا کے فضلوں کا شکر کیسے ممکن ہوگا جو بارش کی طرح برس رہے ہوں ، ان گنت ہوں، ناممکن ہے کہ آپ ان کا احاطہ کر سکیں.تو جہاں تک ہمارا فرض ہے ہمیں چاہئے کہ جس حد تک ممکن ہے خدا کے فضلوں پر نظر کریں اور خدا کے احسان کا بدلہ تو انسان اتار ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے.ایک ذریعے سے وہ احسان کا بدلہ اتارنے کا احساس اور شعور بیدار کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) جتنا خدا عطا فرماتا ہے اتنا ہی وہ آگے بنی نوع انسان پر اور نیک کاموں پر خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.تو احسان کا جو سلسلہ ہے وہ جو آسمان سے اترتا ہے وہ نیچے ہی کی طرف بہتا ہے.مگر جب خدا کے نام پر خرچ کیا جائے تو یہ ایک احسان کے شعور کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بن جاتا ہے.ایک کوشش تو ہے.انسان یہ تو کہ سکتا ہے کہ اے خدا تیرے احسانات کا بدلہ تو ممکن ہی نہیں ، تجھے ضرورت کوئی نہیں ہے مگر تیرے بندوں کو تو ضرورت ہے.تیرا دین آج جس حالت میں ہے اس دین کو تو ضرورت ہے تو میں تیرے احسان کا حقیقی شکر ادا کرتے ہوئے ان باتوں پر میں خرچ کرتا ہوں، اپنا وقت بھی زیادہ خرچ کریں.اور وہ احسانات جو خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا میں بکثرت احمدی ہونے کے ذریعے نازل ہورہے ہیں ان کا حق ادا کرنے کے لئے لازم ہے کہ اپنی تربیت بھی کریں اور دوسروں کی تربیت کے لئے اپنا پہلے سے زیادہ وقت دیں.ان کو کسی نہ کسی نے تو سنبھالنا ہے.جو ہزاروں آیا کرتے تھے اب لاکھوں ہیں اور لاکھوں سے بھی اب ملین سے بھی اوپر نکل چکے ہیں.تو سوال یہ ہے کہ ان کو کیسے سنبھالنا ہے.ان کو سنبھالنے کے لئے آپ کو اپنے گھروں کی صفائی کرنی ہے، اپنے باطن کی صفائی کرنی ہے، دلوں کی صفائی کرنی ہے اور ہر جگہ ان کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہوئے ہاتھ دکھائی دیں.پھر اگر مہمان نواز تھوڑے بھی رہ جائیں تو مہمان جانتا ہے کہ مجبوری کے قصے ہیں لیکن ہر
خطبات طاہر جلد 15 569 خطبہ جمعہ 19 / جولائی 1996ء طرف سے اسے لبیک لبیک کی آوازیں آنی چاہئیں.اس دفعہ جب امریکہ اور کینیڈا کے نومبائعین سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں وہ جو واقعہ حقیقہ احمدی ہوئے تھے ، بعض تھوڑی دیر میں کچے توڑے گئے تھے ان کی شکل بتا دیتی تھی کہ ان کی کیا کیفیت ہے مگر اس کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ پہلے کسی دورے میں مجھے اتنے مخلص اور واقعۂ صمیم قلب کے ساتھ ہوتے ہوئے احمدی دکھائی نہیں دیئے تھے.یہ جو عام دور چل پڑا ہے تبلیغ عام یعنی دعوت الی اللہ ، دعوت الی اللہ کے چرچے چل رہے ہیں یہ امریکہ جیسے مادہ پرست ملک میں بھی ایک ہنگامہ برپا کرنے لگے ہیں اور اتنا اثر ہے اس کا لوگوں پر کہ جو بھی ملنے والے آتے رہے ہیں انہوں نے اس بات کا ذکر اگر سب نے نہیں کیا تو اکثر نے کیا کہ ہم تو جب سے آئے ہیں لگتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ معزز مہمان ہیں.ہر احمدی ہم سے محبت کرتا ہے اور حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگئی.پتا چلتا ہے نو مبائع ہیں تو بے اختیار ان کے دل اچھلتے ہیں سینوں سے اور ہمارے دلوں کو لینے کے لئے آگے بڑھتے ہیں استقبال کے لئے.یہ وہ مضمون ہے جو تربیت کے تعلق میں ہر احمدی کو یادرکھنا چاہئے.اب آنکھیں بند کر کے اور منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھنے کے وقت نہیں رہے.اب تو آپ کو کھل کر لبیک کہنا پڑے گا اور آگے بڑھ کر جس اجنبی کو دیکھیں قَوْم مُنْكَرُونَ کا خیال کریں.ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو اجنبی دیکھا تھا اور دیکھیں کیسا ان کی مہمان نوازی کا انتظام فرمایا.یہ اجنبی لوگ جو آ رہے ہیں ان کو زیادہ دیر اجنبی نہ رہنے دیں تیزی سے اپنے اندر ملائیں تا کہ پھر یہ مہمان نواز بن جائیں اور زیادہ دیر تک یہ مہمان نہ رہیں جلد جلد مہمان نوازوں میں تبدیل ہونے لگیں.اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو بڑھتے ہوئے تقاضوں کو ہم پورا نہیں کر سکیں گے.عظیم انقلاب برپا ہو رہا ہے جس کا آج سے دس سال پہلے مثلاً کوئی آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا خود میرے ذہن میں بھی نہیں آسکتا تھا.ایک دفعہ میں نے بڑی چھلانگ لگائی تھی تو میں نے سوچا تھا کہ ایک سال میں ایک لاکھ احمدی ہو جائے تو کتنا مزہ آئے گا.مگر اللہ تعالیٰ بعض دفعہ بے اختیار بے سوچی سمجھی سکیم کے الفاظ منہ پر ایسے جاری کر دیتا تھا کہ میں خود بھی حیران تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.لیکن یقین کے ساتھ خدا کی قسمیں کھا کھا کر میں جماعت کو
خطبات طاہر جلد 15 570 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء بتارہا تھا کہ میں بکثرت فوج در فوج لوگوں کو احمدیت میں داخل ہوتا دیکھ رہا ہوں.اس کثرت سے آئیں گے ہر طرف سے کہ آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے.ایسے ہی ایک خطاب کے موقع پر ایک ہندو پنڈت جو باہر سے آیا ہوا تھا اس نے ایک احمدی سے کہا کہ آج تو مجھے لگتا ہے میں نے کرشن دیکھ لیا ہے کیونکہ جس یقین کے ساتھ اس نے خدا کی باتیں کی ہیں وہ سچے انسان کے سوا کوئی کر نہیں سکتا.اور لوگ کہتے تھے یہ کیسے ہوگا.مانتے تو تھے، دل بھی چاہتا تھا مان جائیں مگر آثار نہیں تھے.اب دیکھو کیسا خدا نے موسم بدل دیا ہے، کایا پلٹ گئی ہے.وہ جماعتیں جن کے متعلق سالہا سال کی کوششیں بے کار گئیں ان میں زندگی کے آثار پیدا نہ ہو سکے.اب وہ جب خبریں بھیجتے ہیں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ میں نے تو ان سے اتنی توقع نہیں رکھی تھی یہ اس سے آگے نکل گئے ہیں.پھر میں ان کو کہتا ہوں اچھا غلطی ہو گئی اب آپ کا ہم ٹارگٹ بڑھا رہے ہیں اور اس پر وہ ناراض نہیں ہوتے.وہ کہتے ہیں اچھا دعا کریں ہم یہ ٹارگٹ بھی پورا کریں ، اس سے بھی آگے نکلیں اور اللہ کے فضل سے یہ بھی ہو جاتا ہے.تو دن ایسے آرہے ہیں یعنی پھل پک رہے ہیں اور خدا پکا رہا ہے ، موسم لے آیا ہے.ہماری کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے، ہمیں کوششوں کی توفیق بھی خدا نے بخشی ہے.اس بات کا جتنا میں قائل ہوں کوئی مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ میں تو جوانی کے آغاز سے ہی تبلیغ تبلیغ کی رٹ لگائے رکھتا تھا خدام الاحمدیہ میں بھی ، وقف جدید میں بھی جہاں بھی میری پوسٹنگ ہوئی جہاں جاتا تھا تبلیغ کرو تبلیغ کرو، اٹھو اور دعوت دو مجلسیں لگاتا تھا ہر جگہ سوال وجواب کی گویا ایک جنون کی سی کیفیت خدا تعالیٰ نے خود میرے دل میں ڈالی تھی.میری اس میں قطعا کوئی خوبی نہیں تھی.اب میں سمجھا ہوں کہ مجھے تیار کیا جارہا تھا اور اب دیکھیں باوجود ان سب کو ششوں کے کبھی بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا.ان معنوں میں کہ میں کوئی انقلاب ہوتا دیکھوں، واقعہ لوگ تبلیغ شروع کر دیں.یہی مسجد لندن ہے یہاں کے امام صاحب کو میں چٹھیاں لکھتا تھا تو جواب آتا تھا کہ یہاں حالات اور ہیں آپ نہیں سمجھتے.جرمنی والوں کو کہتا تھا تو کہتے تھے یہاں تو کوئی نہیں سنتا.یہ دنیا ہی اور ہے آپ کس دنیا میں بسے ہوئے ہیں.امریکہ والے ہوں یا غیر، دوسرے ملکوں کے ہوں.اب وہاں حالات ایسے پلیٹ گئے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس یقین سے دن بدن میرا دل بھر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہنے
خطبات طاہر جلد 15 571 خطبہ جمعہ 19 جولائی 1996ء کی بھی توفیق بخشی ہے اور جب اثر ڈالنا تھا تو آسمان سے اثر اترا ہے.ورنہ میری زبان تو وہی تھی کوئی مزید اضافے تو مجھے مضمون نگاری کے معلوم نہیں ہو سکے.اسی طرح کہتا رہا مگر جب خدا نے فضل اتارا اور جب پھل پکنے کے وقت آئے ہیں تو اب سنبھالنے کی فکر ہوگئی ہے.اس لئے سنبھالنے کے تعلق میں میں آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ یہ بھی ایک مہمان نوازی ہے اس کا بھی حق ادا کریں اور اس کے لئے آپ کو تیاری کرنی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے صحابہ نے اپنے نفوس کو جھاڑو دے دے کے صاف کیا ہے.تو آپ بھی نفسوں میں جھاڑو دیں.اپنی ان کمزوریوں کو دور کریں جو آنے والوں کے اوپر بعض دفعہ بداثرات چھوڑ جاتی ہیں ،ان کے جذبوں کو بجھا دیا کرتی ہیں.پس اس موقع پر ہم سب ہی مہمان نواز ہیں جو مہمان ہیں وہ بھی مہمان نواز ہیں اور جو میزبان ہیں وہ بھی مہمان نواز ہیں.کیونکہ بہت سے اجنبی ایسے بھی آئیں گے جن کا جماعت سے تعلق نہیں ہے اور ان کے لئے پہچاننا بھی ضروری نہیں، پوچھنا بھی ضروری نہیں.وہ سب آپ کے معزز مہمان ہیں.قَوْم مُنْكَرُونَ بھی ہیں اور ضیوف مکرمین بھی ہیں.ایسے ضیوف ہیں جو مکرم ہیں یعنی ان کی عزت کی جاتی ہے.پس ہر ایک پر عزت کی نگاہ ڈالیں ، ہر ایک سے محبت سے پیش آئیں اور اس بڑھتے ہوئے تعلق کے نتیجہ میں ایک اور تقاضا ہے جو طبعا خود بخود پورا ہوگا اور وہ یہ ہے کہ خدا کے فضلوں کے نتیجہ میں حسد بھی بہت بڑھ رہا ہے.اتنا بڑھ رہا ہے کہ لگتا ہے لوگ اپنے غیظ وغضب کی آگ میں جل کے مر جائیں گے.چنانچہ قرآن کریم میں اس مضمون کو یوں فرمایا گیا ہے مُوْتُوْا بِغَيْظكُمْ ( آل عمران : 120 ) یہی سلسلہ ہے تو مر جاؤ اپنے غیظ میں لیکن یہ خدا کی طرف سے ہے ارشاد یعنی مومن کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ تم نہیں مرو گے ان کے غیظ سے یہ مریں گے لیکن احتیاطی تدابیر کے متعلق دعائیں سکھا دیں وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (الفلق :6).تو اسے از خود جاری ہونے والی ایسی تقدیر نہ سمجھیں جس میں آپ کو زبان ہلانے کی ضرورت نہیں ہے یا دعاؤں کے ذریعے مدد مانگنے کی ضرورت نہیں ہے.اب یہ دیکھیں کیسا عجیب مضمون ہے شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَاس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بعض طبیعتیں حاسد ہوا کرتی ہیں اور ہر حاسد طبیعت ہر وقت حسد نہیں کر رہی ہوتی بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ جب حاسد حسد کے لئے بھڑک اٹھتا ہے اور غیر
خطبات طاہر جلد 15 572 خطبہ جمعہ 19 / جولائی 1996ء حاسد حسد نہیں کرتا.تو انسانوں کی بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہیں جو حاسد ہیں اور ایک ہیں جو دوسروں کی خوشیوں سے خوش ہوتے ہیں یہی مومن ہیں.یہی وہ سچے خدا کے بندے ہیں جن کے لئے آسمان سے حقیقت میں دائمی برکتیں اتاری جائیں گی مگر حاسد بھی ہیں.تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ پہلے اپنے نفس کو صاف کرنا چاہئے.اس ضمن میں جہاں آپ لوگوں سے ملیں گے وہاں نظر بھی رکھیں کہیں کوئی حسد جماعت کو نقصان پہنچانے والا تو نہیں.ایک نگرانی کی آنکھ کے ساتھ بھی دیکھیں مگر ادب اور احترام کے ساتھ.شک کی نظر اور ہے اور احتیاط کی نظر اور ہے.آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر احتیاط کی نظر کوئی نہیں رکھتا تھا اور آپ سے بڑھ کر شک کے خلاف کسی نے تعلیم نہیں دی.ایک عجیب حسین توازن ہے ان دونوں باتوں کے درمیان تو آپ نے ناحق بدظنیاں تو نہیں کرنی مگر احتیاط کے وہ سارے تقاضے پورے کرنے ہیں جو آنحضرت اللہ نے ہمیں سکھائے اور قرآن کریم کی اس آیت نے ان کی طرف متوجہ کر کے ہمیں ہمیشہ دعا کرتے رہنے کی طرف ہدایت فرمائی.و مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اور گھر صاف کرنے کا جہاں تک مضمون ہے ، اپنے دل کو ٹولیں کہ آپ کہیں حاسد تو نہیں.ہم میں بھی حاسد مزاج کے لوگ ہیں.وہ جب بھی نظام پر تنقید کرتے ہیں بھلائی کی خاطر نہیں، حسد کی وجہ سے کرتے ہیں.کوئی اور آگے بڑھ گیا تو ان کو آگ لگ جاتی ہے اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم نیک نصیحتیں کر رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ دیکھیں برا نہ منانا ہم تو سچی بات کریں گے لیکن اللہ بہتر جانتا ہے اور وہ بھی اگر چاہیں تو پہچان سکتے ہیں اپنی ذات میں ڈوب کر اگر اس کی جڑ تلاش کریں کہ کہاں تھی تو مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ کا مضمون ان کو دکھائی دے گا وہ فطرتاً حاسد ہیں اور ایسا حسد عورتوں میں بدقسمتی سے زیادہ ملتا ہے.اب MTA کے تعلق میں مجھے پتا چلتا ہے بعض دفعہ کسی کی بچیاں زیادہ آگئیں تو اس پر بھی حسد شروع ہو گئے اور یہ صیحتیں ہوتی ہیں کہ بعض لوگوں کو بار بار زیادہ نہیں دکھانا چاہئے اور اس سے لوگ بور ہوں گے.اب لوگوں کے لئے نام لئے اور اپنے دل کی تکلیف کا اظہار کر دیا اور پردے کی بات کی تو اس وجہ سے نہیں کہ پردے کی محبت ہے.اس لئے کہ اگر کسی اور کی بچی سے بے احتیاطی ہو جائے تو یہ اب موقع ہے اس کو زخم پہنچانے کا.آپ نے اس کو موقع دے دیا دیکھیں ذرا ٹیلی ویژن پہ آئی تھی تو پردے کی احتیاط ہی کوئی نہیں تھی سب دنیا دیکھ رہی تھی.اب یہ باتیں اگر دل کے درد کے
خطبات طاہر جلد 15 573 خطبہ جمعہ 19 / جولائی 1996ء ساتھ مخفی طور پر مجھے پہنچائی جائیں تو میں اسے یہ نہیں کہوں گا کہ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ لیکن اگر عورتوں میں بیٹھ کے عورتیں باتیں کریں تو اس کے سوا اس کا کوئی نام نہیں رکھا جاسکتا کہ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ.تو جو خدمت کرنے والے ہیں وہاں بھی وہ حاسدین کی نگاہ میں آسکتے ہیں.بعض لوگ خدمت کے ایسے مقام پہ ہوتے ہیں زیادہ قرب ان کو ملتا ہے ، زیادہ آگے آتے ہیں بعض دوسرے ان کے متعلق تکلیف محسوس کرتے ہیں اور حاسد کی آنکھ کئی طرح سے نقصان پہنچادیا کرتی ہے.پس اللہ کی پناہ میں آنا ضروری ہے.جماعت کے حاسدوں سے بھی بچنے کی کوشش کریں اور محبت کے نتیجہ میں جب آپ قرب کو حاصل کریں گے تو احتیاط کی نظر کو نہ بھولیں.محبت کی الله نظر بعض دفعہ غافل بھی کر دیا کرتی ہے مگر مومن غافل نہیں ہوا کرتا.آنحضرت ﷺ سے زیادہ مومنوں سے اور کون محبت کیا کرتا تھا.بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبہ: 128) لیکن باریک سے بار یک ان کی فطرت کے وہ خطرات جو ان کے اپنے نفس کے خلاف تھے ان سے آپ آگاہ فرماتے تھے.وہ جانتے بھی نہیں تھے لیکن آنحضور ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات یوں نہیں کرنی چاہئے تھی.یوں کرنی چاہئے تھی.پس یہ جلسہ بھی پہلے جلسوں کی طرح ہمارے لئے ایک عمومی عالمی تربیت کے پیغام بھی لایا ہے.مواقع بھی لایا ہے.دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ ہمیں سب تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے.سب مہمان ہم سے خوش جائیں ہم مہمانوں سے خوش رہیں اور اب یہ جلسہ آیا تو گیا.اب اس کے جانے کا خوف دل کو لاحق ہو گیا ہے.میرا بھانجا بہی اس کو کہتے تھے اس کی بات مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے بہت پیاری لگتی تھی.یہاں انگلستان ہی میں جب وہ بالکل چھوٹا تھا اس کی والدہ میری ہمشیرہ ہیں میر داؤ داحمد صاحب مرحوم کی بیگم تو وہ ایک خاص کیفیت تھی وہ مجھے بھی بلا لیا کرتی تھیں کہ دیکھ لو اس کو اب انڈا شروع ہوتے ہی رونے لگ جاتا تھا.کیا اچھا نہیں لگا ؟ کیابات ہے؟ کہ نہیں کچھم ہو جائے گا یعنی ختم بھی نہیں کہہ سکتا تھا ھم ہو جائے گا.تو اب تو وہی آنسو ہیں جو میری آنکھوں سے بھی بہنے لگے ہیں.جلسہ آیا تو ہے مگر ختم ہو جائے گا.اللہ خیر وعافیت سے ختم کرے فضلوں کی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور ان جلسوں میں ہمیشہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر خدا کے فضلوں کی زیارت کی توفیق ملے اور اس کے احسانات کا شکر ادا کرنے کی توفیق ملے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 575 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء ہم دنیا میں تو حید کا قیام نہیں کر سکتے جب تک اپنے نفس میں توحید کا قیام نہ کریں.(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 / جولائی 1996ء بمقام اسلام آباد، ٹلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : شَهِدَ اللَّهُ اَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَابِما بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران: 19) پھر فرمایا: الحمد اللہ کہ آج یونائیٹڈ کنگڈم (U.K) کے سالانہ جلسہ کا پہلا روز ہے جو جمعہ سے شروع ہو رہا ہے.آج جمعہ کا خطبہ الگ ہوگا اور اس کے بعد افتتاحی اجلاس کچھ عرصے کے بعد اس سے الگ ہوگا لیکن دونوں کا مضمون جو میں نے آج کے لئے اختیار کیا ہے ایک ہی ہے یعنی توحید باری تعالیٰ.امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے تمام مسائل کا تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سب دنیا شرک میں ڈوب چکی ہے اور تمام مرضوں کا آخری مرض ، وہ جڑ جس سے سب مرضیں پھوٹ رہی ہیں وہ شرک ہے اور شرک کے سوا اور کچھ نہیں.تو حید کے نام لیوا بھی مشرک ہو چکے ہیں اور وہ جو مشرک ہیں وہ تو مشرک ہیں ہی اور ہر مذہب اس وقت عملاً خدا کے سوا دوسرے خداؤں کی پوجا کر رہا ہے اور سب سے بڑا بت جو آج دنیا کے سامنے سراٹھا کر خدا کا دعوے دار بن کے نکلا ہے وہ انا کا بت ہے.درحقیقت انسان خود اپنی ہی پرستش کر رہا ہے.اس پہلو سے آج کا یہ مضمون تو حید کا اختیار کرنے میں میرے پیش نظر یہ تھا کہ خطبہ کے دوران آپ کو اپنی ذات میں تو حید قائم کرنے کی طرف متوجہ کروں اور افتتاحی اجلاس میں تو حید کے جو
خطبات طاہر جلد 15 576 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء تقاضے ہم نے کل عالم میں پورے کرنے ہیں ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح ان کو سمجھا اور جس طرح پیش فرمایا آپ کے حوالے سے توحید کا وہ مضمون آپ کے سامنے رکھوں.خطبہ میں توحید کے مضمون کا تعلق ہر احمدی کی ذات سے ہے اور خود میری ذات سے بھی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہم دنیا میں توحید کا قیام کرہی نہیں سکتے جب تک اپنے نفس میں تو حید کا قیام نہ کریں اور قیام توحید کا فقسط سے ایک گہرا اور اٹوٹ تعلق ہے.قسط سے مراد ہے انصاف.انصاف کے لئے اگر چہ مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن قسط اس مضمون میں ایک خاص مناسبت رکھتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہاں لفظ قسط کو اختیار فرمایا.قرآن کریم فرماتا ہے شَهِدَ اللهُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے وَالْمَلَكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ اور ملائک بھی یعنی فرشتے اور صاحب علم لوگ بھی اسی طرح خدا کے ساتھ گواہی دے رہے ہیں.مگر ان کی گواہی اللہ کے ذیل میں آکر کام دکھاتی ہے اپنی ذات میں اس کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ بعد میں یہ نہیں فرمایا قائمين بالقسط یہ سب کے سب انصاف کو قائم کرنے والے ہیں بلکہ قائما بالقسط کہ کر فرمایا کہ اللہ کی گواہی سب سے اہم اور سب سے زیادہ قابل قبول ہے کیونکہ وہ قسط پر قائم ہے اور قسط کو قائم کرنے والا ہے.قسط سے مراد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عرف عام میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انصاف ہے اور کوئی گواہ بھی جب تک انصاف پر مبنی نہ ہو اس کا انصاف پر قدم نہ ہو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوسکتی.پس ملائکہ اور اُولُوا الْعِلْمِ اس لئے قابل قبول ہیں کہ خدا ان کو اپنی گواہی کے ساتھ شامل فرماتا ہے اور اس کے قسط کی ذیل میں ملائکہ بھی آجاتے ہیں اور اُولُوا العِلمِ بھی آجاتے ہیں.مگر اصل گواہی خدا ہی کی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی گواہی ممکن نہیں ہے.لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے الْعَزِیزُ وہ غلبے والا اور بزرگی والا ہے الْحَکیم اور حکمت والا ہے.پس ساری کائنات میں یہ گواہی پھیلی پڑی ہے اور جب خدا کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں تو ہم اس وجہ سے نہیں مانتے کہ ہمیں آواز آرہی ہے قرآن کی طرف سے کہ اللہ نے گواہی دے دی.وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِيمُ میں اس گواہی کی عظمت اور اس کا وقار اور حکمت سب بیان ہوگئیں گویا تمام کائنات پر نظر ڈال کے دیکھو اس میں ایک عزیز اور حکیم خدا کا ہاتھ دکھائی دے گا.پس جب
خطبات طاہر جلد 15 577 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء عزیز اور حکیم ہونے میں کائنات کی ہر چیز خدا کی عزت اور اس کی حکمت پر گواہ ہے تو اللہ کی گواہی خود عدل پر قائم ہے.اگر محض اس وجہ سے خدا اپنی گواہی لوگوں سے منوائے کہ میں غالب ہوں میری گواہی مان لو تو یہ گواہی اپنی ذات میں بھی عدل کے خلاف ہو جائے گی لیکن اگر کوئی منصف یہ کہے کہ میری گواہی مانو کیونکہ میں علم کے زور سے اور حقیقت کے زور سے غالب ہوں نہ کہ جبر کے زور سے عزیز میں اور جابر میں یہی بڑا فرق ہے.عزیز اس ذات کو کہتے ہیں جو علم کی طاقت سے عزت والا غلبہ حاصل کرے اور بزرگی پائے اور صاحب علم کی بزرگی میں کوئی جبروت نہیں کوئی زبردستی نہیں کوئی ڈکٹیٹر شپ نہیں ہے بلکہ علم اپنی ذات میں ایک طاقت بھی ہے اور عزت بھی ہے اور پھر اس کے ساتھ اگر حکمت بھی آجائے، ہر علم کے پیچھے جو حکمتیں ہیں تہہ بہ تہہ نہ ختم ہونے والی حکمتوں کا سلسلہ ہے.وہ بھی اگر اس بات پر گواہ ٹھہرے کہ یہ گواہی دینے والا جس نے یہ کائنات بنائی صرف اس کائنات میں ایک ہی وجود کا ثبوت ملتا ہے جو عزیز ہے اور جو حکیم ہے.پس اس پہلو سے اس گواہی میں ایک بڑی عظمت پیدا ہو جاتی ہے.مگر جس تعلق میں خاص طور پر میں آپ کے سامنے یہ آیت رکھ رہا ہوں وہ آپ کی ذات کا تعلق ہے اور میری ذات کا تعلق ہے.ہم جب کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری گواہی کے حق میں ہمارے اندر کون سے ایسے شواہد ہیں یعنی گواہی کے حق میں کون سے گواہ ہمارے اندر موجود ہیں جو دنیا کو یقین دلا سکیں کہ ہم اس گواہی میں سچے ہیں.وہ گواہی کردار کی گواہی ہو سکتی ہے اور علم کی گواہی ہوسکتی ہے اور حکمت کی گواہی ہو سکتی ہے.علم اور حکمت کی گواہی سے مراد یہ ہے کہ ہم جب گواہی دیتے ہیں مثلاً روزانہ نماز میں پانچ وقت یہ پڑھتے ہیں اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمداً عبده ورسوله تو کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم گواہی کس برتے پر دے رہے ہیں.ہمیں خدا کا کیا ذاتی علم ہے اور خدا کی حکمتوں سے ہم نے کس حد تک حصہ پایا ہے.آج کون سا نیا مضمون لے کے ہم اٹھے ہیں کہ از سرنو گواہی کو دہرارہے ہیں اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهدان محمداً عبده ورسوله اگر یہ گواہی خالی ہو، نہ ہمیں خدا کا علم ہو، نہ خدا کی حکمتوں سے واقف ہوں.خدا کا علم مکمل تو ناممکن ہے اتنا ہی ہوتا ہے جتنا وہ عطا فرماتا ہے مگر عطا انہی کو فرماتا ہے جو اس میں جستجو کرتے ہیں اور حکمتوں پر بھی کوئی محیط نہیں ہوسکتا وہ
خطبات طاہر جلد 15 578 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء لا متناہی سلسلہ ہے.مگر ہر روز خدا نے علم کے ساتھ اپنے بندوں پر ظاہر ہوتا ہے نئی حکمتوں کے ساتھ مگر اپنے بندوں پر ظاہر ہوتا ہے.پس ہم کس حد تک خدا کے بندے بن رہے ہیں بالا رادہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمارا قدم اٹھ رہا ہے اور کیا ہر صبح ہم یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ہاں ایک ہی خدا ہے اور کوئی خدا نہیں اور اس گواہی کے حق میں ہمارا کون سا علم ہے جو بطور دلیل کے ہم دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں.اپنی ذات پر آپ غور کر کے دیکھیں تو روزانہ صبح سے رات تک اور پھر رات کو سوتے وقت بھی آپ کی خوا ہیں آپ پر گواہ بن جاتی ہیں.صبح سے شام تک ہونے والے واقعات اور ان واقعات میں وہ فیصلے جو آپ کرتے ہیں وہ آپ پر گواہ بن جاتے ہیں اور آپ کی شخصیت کو خود آپ سے ہی تعارف کرواتے رہتے ہیں آپ کی خواہیں بھی وہی کردارادا کرتی ہیں.پس سوتے اور جاگتے ہم اپنی ذات سے متعارف ہورہے ہیں اور اس تعارف کے نتیجہ میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم جب التحیات للہ میں خدا کے حضور جو تحیہ پیش کرتے ہیں اس تحیہ میں سچائی ہے بھی، کہ نہیں اور جب ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ آج ہم گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو کس برتے پر گواہی دیتے ہیں.کون سا نیا علم ہم نے خدا کی ذات کے تعلق میں حاصل کیا ، کون سی ایسی حکمت کی بات ہمیں معلوم ہوئی جس پر ہم کہ سکیں کہ ایک ہی خدا ہے اور کوئی خدا نہیں.تو محض اشھد کہہ کر انگلی اٹھا دینا اور گواہی دے دینا یہ ہماری نجات کا موجب نہیں بن سکتا نہ ہی یہ گواہی کسی کے لئے قابل قبول ہوسکتی ہے کیونکہ ایسی ہی گواہی دینے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ بعض اوقات ایک گواہی دیتا ہے جیسا کہ سورۃ المنافقون میں آیت دو تا چار میں ذکر ہے.إِذَا جَاءَ كَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْانَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ (المنافقون: 2) جب منافق تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں، وہی اشهد جو ہم پڑھتے ہیں، وہ کہتے ہیں نَشْهَدُ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ کہ تو اللہ کا رسول ہے وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُه اب وہی علم کا مضمون یہاں اس گواہی کے تعلق میں آیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں یعنی گواہی سچی ہونے کے باوجود جھوٹی ہو جاتی ہے.اس حقیقت پر اگر آپ آگاہ نہ ہوں اگر آپ شعوری طور پر یہ سوچیں نہیں کہ آپ کی گواہیاں
خطبات طاہر جلد 15 579 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء اپنے مضمون کے اعتبار سے بچی بھی ہوں تو آپ بطور جھوٹے گواہ لکھیں جائیں گے تو اس وقت تک آپ کو ایک گھبراہٹ پیدا نہیں ہوگی ، اپنے دل میں ایک پریشانی اور انتباہ کی کیفیت محسوس نہیں کریں گے.پریشانی اس بات پر کہ ہم منہ سے جو کہتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں، ہم کہہ کیا رہے ہیں اور واقعہ جو کہتے ہیں وہ دل میں ہے بھی کہ نہیں اور اگر سچ سمجھ کے بھی کہہ رہے ہیں تو اس کے حق میں ہمارے پاس کیا ثبوت ہیں اور انتباہ ان معنوں میں کہ اگر یہ صورت حال غفلت کی اسی طرح رہے اور اسی حال پر انسان جان دے دے تو تمام عمر کی نمازوں کی ہر گواہی جھوٹی لکھی جائے گی.آج جو دنیا میں بدکرداری کا دور ہے جس کی طرف میں نے شروع ہی میں اشارہ کیا کہ شرک ہی شرک پھیلا ہوا ہے اس میں یہی تو ہو رہا ہے.کتنے مذاہب ہیں جو یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے یا ایک سے زیادہ بھی مانیں تو ایک خدا کے حق میں بھی گواہی دیتے ہیں مگر عملاً ان کے کردار پر اس گواہی نے کیا اثر ڈالا اور ان کا کردار اس گواہی کے حق میں کیا ثبوت پیش کر رہا ہے.پس اس پہلو سے ہم نے جو تمام دنیا کو تو حید پر اکٹھے کرنا ہے اور تمام دنیا کو شرک سے نکال کر تو حید کی پناہ گاہ میں لانا ہے ہم پر کس حد تک یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کا تصور کیجئے کہ ہم تو حید کا سفر اپنی ذات سے شروع کریں.اگر غفلتوں کی حالت میں ہم نمازیں پڑھتے رہے تو نہ ہم موحد بن سکیں گے نہ دنیا کو موحد بناسکیں گے کیونکہ تو حید کا مضمون سچائی سے تعلق رکھتا ہے.ایسے علم سے تعلق رکھتا ہے جو معز ز علم ہے جو عزت لاتا ہے اور غلبہ لاتا ہے اور پھر حکمت سے تعلق رکھتا ہے.تو اس تعارف کے ساتھ میں آپ کے سامنے یہ ضمون نسبتاً زیادہ کھولتا ہوں ، روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہم اگر سارا دن جھوٹ بولتے ہوں ، سارا دن بدکلامیاں کرتے ہوں ، جہاں اپنی ذات کا تعلق ہو وہاں انصاف کا گز اور طرح کا بنائیں ، جہاں غیر کی ذات کا تعلق ہو وہاں انصاف کا گز اور طرح کا بنالیں ، پیمانے بدلتے رہیں اور روزمرہ کی زندگی میں جھوٹ کی اتنی عادت ہو چکی ہو کہ جو سچے ہیں وہ بھی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر ضرور پھسل جاتے ہیں اور سچائی اس حد تک اپناتے ہیں جس حد تک اس کا اپنانا ہمیں نقصان نہیں پہنچا تا اور جہاں سچائی اور نقصان آمنے سامنے کھڑے ہوئے وہاں کب اور کس حد تک ہم سچائی کو پکڑتے اور جھوٹ کو ترک کر دیتے ہیں ، مردود کر دیتے ہیں یہ وہ سوال ہے جو پہلے نفس میں اٹھنا چاہئے اور روزانہ اٹھنا چاہئے.اگر ہماری یہی کیفیت رہے کہ ہمیشہ
خطبات طاہر جلد 15 580 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء جب بھی ہمارا مفادسچائی سے ٹکرائے تو سچائی اس مفاد سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہم اس دن نماز میں ، ہر نماز میں یہ گواہی دیں اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمداً رسوله تو خدا آسمان سے یہ گواہی دے گا کہ میں جانتا ہوں کہ میں ایک ہوں اور میں جانتا ہوں کہ محمد ﷺ میرا رسول ہے اور میرا عبد ہے لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو کیونکہ صلى الله اس یقین اور علم کے بعد کہ خدا ایک ہے اور اس یقین اور علم کے بعد کہ خدا کے بندہ محمد رسول اللہ کے اس کا بندہ بھی ہیں اور رسول بھی ہیں پھر ہم اپنی ذات میں ایک تضاد قائم رکھیں اور روزمرہ کی زندگی میں جہاں بھی تو حید کو اختیار کرنا ہو اور غیر اللہ کو چھوڑ نا ہو بلاتر ددغیر اللہ کو اختیار کر لیں اور تو حید کو چھوڑ دیں تو یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے.یہ محض ایک تقریر کا فقرہ نہیں کہ خدا آسمان سے گواہی دے تقریروں میں ایسے فقرے آجاتے ہیں.مگر میں نے اس فقرہ کی بناء اس گواہی پر رکھی ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ جب بھی منافق تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے.اللہ جانتا ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے.وَاللهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكْذِبُونَ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں.اب وہ منافق تو خدا جانے کتنی دفعہ آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوں گے.ہر روز تو ان کو توفیق نہیں ملتی ہوگی.کبھی کبھار ہفتے میں ایک یا دو بار شاید جب ملتے ہوں اور ملتے ہوئے یہ گواہی دیتے ہوں مگر خدا کے سامنے ہم روز حاضر ہوتے ہیں.پانچ نمازوں میں حاضر ہوتے ہیں ، ہر نماز میں ایک ایسا قعدہ بھی آتا ہے جس میں ہمیشہ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ اے خدا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ایک ہے تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں.اب وہ خدا جو ان منافقوں سے یہ سلوک کرتا ہے وہ اگر صاحب قسط ہے جیسا کہ گواہی دیتا ہے تو اس کے قسط کا، اس کے انصاف کا تقاضا ہے کہ جب بھی تو حید کے بارے میں یا آنحضرت ﷺ کی صداقت کے بارے میں کوئی جھوٹی گواہی دے تو آسمان سے خدا اس گواہی کا انکار کرے اور اعلان کرے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو.کیا ہم نمازوں میں اس قسم کی لعنتیں تو نہیں سمیٹ رہے؟ پس قرآن کریم جن نمازوں کے متعلق فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ( الماعون :5) اس مضمون پر غور کر کے اس ویسل کی سمجھ آجاتی
خطبات طاہر جلد 15 581 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء ہے، ہلاکت ہو نماز پڑھنے والوں پر لعنت ہو نماز پڑھنے والوں پر ، اب نعوذ بالله من ذلک نماز پڑھنے والوں پر تو لعنت کا تصور بھی نہیں ہو سکتا لیکن یہ خدا کا کلام ہے اور قرآن کی عظمت کا نشان ہے.تمام دنیا کی الہی کتابوں میں آپ تلاش کر کے دیکھ لیں وہاں نمازیوں پر لعنت نہیں ڈالی جائے گی مگر بعض نمازیوں پر قرآن لعنت ڈالتا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے قرآن سے یہ مضمون سیکھا ہے وہ بزرگ اور صوفیاء بھی ایسے نمازیوں کا ذکر کرتے ہیں اور لعنت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں مگر اصل اعلان قرآن کا اعلان ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ( الماعون : 5,6).وہ نماز پڑھنے والے جو نماز سے غافل ہیں ان پر لعنت ہو اور ان کی غفلت کی سب سے بڑی پہچان یہ گواہی ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے: اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهدان محمداً عبدہ و رسولہ میں گواہی دے رہا ہوں کہ خدا ایک ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.یہ صرف ایک ایسا اقرار نہیں ہے جو ساکت اور جامد ہو.جو خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ بات ہے کہ یہ ایک جاری اعلان ہے اور ہر نماز اور ہر دو نمازوں کے درمیان آپ کا ضرور خدا تعالیٰ کے متعلق کچھ علم بڑھنا چاہئے.ورنہ ایک ہی گواہی آپ دیتے چلے جائیں اور دیتے چلے جائیں اور اس کا تجربہ کچھ نہ ہو یہ ایک بے معنی سی بات بن جائے گی.لوگ کہتے ہیں نماز میں جب ہم ایک ہی جیسی باتیں دہراتے ہیں اور ہر نماز میں دہراتے ہیں اور دہراتے چلے جاتے ہیں تو کیا یہ بات اکتاہٹ پیدا نہیں کرتی اور بعض معترضین یہ سوال اٹھاتے ہیں جس کو بوریت کہتے ہیں تو کیا نماز آپ کو بور نہیں کر دے گی ہر نماز میں وہی باتیں.مگر اس مضمون پر ایک دفعہ میں نے پہلے تفصیل سے روشنی ڈالی تھی ہر نماز کی وہ باتیں برتن ہیں جو ہر روز نئے مشروب سے بھرتی ہیں.وہ باتیں چاہے ایک ہی ہوں مگر وہ تو محض ظروف کا کام دیتی ہیں ، برتنوں کا کام دیتی ہیں اور ان برتنوں میں ضرور آپ نے کچھ بھرنا ہے اور وہ کچھ ہے جو آپ لے کر پیش ہوتے ہیں.اگر آپ ان برتنوں کو خالی رکھیں کوئی نئی بات اس میں نہ بھریں تو لازم ہے کہ آپ بور ہوں گے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ آپ ہزار مرتبہ کہیں اور حمد کا ایک ہی معنی دماغ میں رہے ، ربوبیت کا ایک ہی معنی رہے اور اپنے ربوبیت کے تجارب کو آپ اَلْحَمْدُ کے ساتھ وابستہ نہ کریں، اگر آپ اپنے ربوبیت کے تجارب کو اَلْحَمْدُ کے ظرف
خطبات طاہر جلد 15 582 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء میں نہ بھریں اور رب العلمین کہتے ہوئے جب حمد کہتے ہیں تو آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آج آپ کیوں رَبُّ الْعَلمِین کہنے کے مستحق ہیں.آج کیا نئی بات آپ نے دیکھی جس کی وجہ سے آپ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ ہی رب العلمین ہے.یہ جونئی باتیں ہیں ان کا تعلق علم اور حکمت دونوں سے ہے.علم کی رو سے آپ کا جوں جوں علم بڑھتا ہے کا ئنات پر آپ غور کرتے ہیں نظام کائنات کو دیکھتے ہیں، اس کے ربوبیت کے نشان دیکھتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ ایک لا متناہی سلسلہ ہے ربوبیت کا جو ختم ہونے میں آہی نہیں سکتا.اس کی ربوبیت کا نظام کب سے جاری ہوا کب تک جاری رہے گا انسان اس کے تصور میں اگر ساری زندگی گزارے اور نسل انسانی ، ایک کے بعد دوسری نسل مسلسل اس تصور میں ، اس کھوج ، اس جستجو میں اپنی زندگیاں لٹا دے تو تب بھی خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے علم پر حاوی نہیں ہوسکتی اور یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ میں ہی نہیں کہہ رہا دنیا کے تمام سائنس دان جو اس مضمون سے واقف ہیں وہ یہی کہتے ہیں.ابھی تک ہمیں یہ بھی پتا نہیں چلا کہ ہماری کائنات میں جو ربوبیت کے لئے سامان رکھے گئے کب کب، کیسے رکھے گئے اور اب تک جو دریافت ہوئے ہیں ان کے علاوہ اور کتنے باقی ہیں.ابھی کل ہی کی تو بات ہے یعنی زمانے کے لحاظ سے اگر ہمارا دنیا کا دور ساڑھے چار ارب سال ہو تو زمانے کے لحاظ سے اگر یہ کہیں کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ انسان کو درخت کی لکڑی جلانا بھی نہیں آتا تھا اور بے شمار لکڑی اس کے لئے پڑی ہوئی تھی.اس کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اس کا ئنات ، اس زمین پر کیا کیا چیزیں میری خاطر پیدا کی گئی ہیں، ان کی صفات کیا ہیں، کون سی میرے کھانے میں کام آئیں گی، کون سے زہر ہیں جو میرے کھانے کے کام تو نہیں آئیں گے مگر میرے علاج میں کام آسکتے ہیں اور اگر میری ربوبیت براہ راست نہیں کرتے تو کسی اور وجود کی براہ راست ربوبیت کر رہے ہیں.ایسے ایسے زہریلے مادے ہیں کہ انسان ان کو چکھنے کا تصور نہیں کر سکتا مگر ان میں زندگیاں چل رہی ہیں.بے شمار زندگی کی قسمیں ہیں جو ان سے استفادہ کرتی ہیں اور پھر وہ آپ کے کام آتی ہیں.ربوبیت کا ایسا حیرت انگیز نظام ہے کہ اس کا مختصر تعارف کروانا بھی ممکن نہیں ہے میں نے بار ہا اپنی مجالس میں اس تعارف کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر کچھ دیر مضمون کو آگے بڑھا کر بالکل بے طاقت ہو جاتا ہوں.ناممکن ہے کہ وہ شعبے ہی گنوا سکوں اور وہ شعبے جن پر میں نظر ڈالتا ہوں اور
خطبات طاہر جلد 15 583 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء میری روح حمد میں ڈوبتی ہے.مگر میر اعلم محدود ہے اور اتنا محدود ہے کہ سائنس نے اب تک ان امور پر جو روشنی ڈالی ہے اس کا ایک بہت ہی معمولی حصہ ہے جس کو میں جانتا ہوں اور سائنس اس مضمون میں آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.ابھی کچھ عرصہ ہوا ایک جگہ میں نے ایک جھیل پہ جو بہت ہی گندے پانی کی جھیل تھی ایسی کہ اس سے گزرتے ہوئے بدبو آتی تھی اور طبیعت چاہتی تھی کہ جلدی سے جس حد تک ممکن ہو سانس روک کر انسان آگے نکل جائے وہاں میں نے گل بکاؤلی کھلتے ہوئے دیکھا ہے اور اتنے خوبصورت پھول تھے ایسا سبزہ تھا ایسی اس پر شادابی تھی کہ عقل دیکھ کر حیران رہ گئی.اس وقت میں نے سوچا کہ جس گندگی کو ہم حقارت سے دیکھ رہے ہیں اسی گندگی سے تو اللہ حسن نکال رہا ہے اور اس کی ربوبیت کی عجیب شان ہے کہ گندگی کا کوئی پہلو بھی نہ ان پتوں میں جاسکا ، نہ ان پھولوں میں ظاہر ہوا.انتہائی بد بودار چیز سے بہت ہی خوشبودار پھول لہلہاتے ہوئے اور خوشبودار پھول نکلے اور اتنے بڑے اور چوڑے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے جیسے تھالیاں لگائی گئی ہوں، حسن اور رنگ کی تھالیاں لگا دی گئی ہوں اور ان میں خوشبو پیش ہو رہی ہو.میں نے کہا انسان کتنا جاہل ہے گندگی کو بھی تکبر سے دیکھتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ بھی تو گندگی ہی سے نکلا ہے اور گندگی سے نکلی ہوئی چیزیں ہی اس کی بقا کا موجب ہیں.اب یہ ایک پہلو ہے ربوبیت کا جس کی طرف توجہ پھرتی ہے تو انسان خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے سمندر میں اپنے آپ کو ایک قطرے سے بھی کم سمجھتا ہے یعنی قطرہ دیکھنے والا نہیں کیونکہ اس سمندر میں وہ بھی تو ایک قطرہ ہے جو عجائبات کا ایک سمندر ہے.پس یہ عجیب مضمون ہے کہ جو دیکھنے والا ہے وہ بھی تو اسی قدرتوں کے سمندر کا ایک معمولی ساذرہ ہے مگر ایسا ذرّہ جس پر کوئی دنیا میں محیط نہیں ہوسکتا خود انسان کا علم انسان نہیں پاسکتا.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيُّ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ (البقرة:256) اللہ تعالیٰ کے علم پر کون ہے جو احاطہ کر سکے.صرف اسی حد تک احاطے کی توفیق ملے گی جس حد تک خدا خود توفیق دے گا اور وہ احاطہ ایک نسبتی احاطہ ہے اور وہ احاطے کے ایسے دائرے ہیں جو دائرہ در دائرہ پھیلتے چلے جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میں نے احاطہ کر لیا اور پھر پتا چلتا ہے کہ احاطہ کہاں کیا تھا.اس احاطے کے اندر سے اور دائرے پھوٹ رہے ہیں جن تک میری رسائی نہیں.آج تک سائنس کسی ایک جستجو میں بھی اور یہ میں
خطبات طاہر جلد 15 584 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء بلامبالغہ پورے یقین کے ساتھ آپ کو بتا رہا ہوں آج تک سائنس کسی ایک جستجو میں بھی یہ نہیں کہ سکی کہ ہم نے آخری کنارے کو پالیا ہے.جس کو وہ آخری کنارہ سمجھتے ہیں اس کنارے سے اور کنارے پھوٹ جاتے ہیں جیسے پانی پہ پتھر پھینکیں تو جو پہلی ہر اٹھتی ہے وہ کم دائرے کی ہوتی ہے، تھوڑے دائرے میں محدود ہوتی ہے مگر وہ ہر در پہ پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر وہ ساری کائنات پر محیط ہو جاتی ہے اور کبھی مٹ نہیں سکتی.اگر اس کا دائرہ محدود نہ ہو جس میں وہ ہمٹی پڑی ہے یعنی وہ سمندر تو جواہر اٹھے گی اگر دوسرے عوامل اس کو ختم کرنے کے لئے مقابل کی کوشش نہ کریں تو اپنی ذات میں جواہر اٹھتی ہے وہ پھیلتی چلی جائے گی اور اس کے دائرے وسیع تر ہوتے چلے جائیں گے.پس خدا کی کائنات کا یہ علم تو لامتناہی ہے.مگر ہر ذرے کا علم لا متناہی ہے یہ ہے مضمون جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.کوئی ایک ذرہ بھی ایسا نہیں کائنات کا جس میں آپ خدا کے علم پر محیط ہوسکیں اور ربوبیت کے تعلق میں جب آپ غور کریں تو وسیع علمی غور اگر نہ بھی کر سکیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے انفس میں تو دیکھو.دوہی ذریعے ہیں خدا کو پانے کے یا آفاقی نظر پیدا کر واور ساری کائنات پر نظر دوڑ او یا پھر اپنے نفوس میں سمٹ جاؤ ، اپنی ذات میں ڈوبو اور وہاں تلاش کرو کہ تم میں خدا تعالیٰ نے ربوبیت کے کیسے کیسے عظیم الشان راز پنہاں کر دیئے ہیں.ایسے راز ہیں جن کا سلسلہ ختم ہو ہی نہیں سکتا.اگر یہ بھی توفیق نہیں تو یہ تو دیکھو کہ خدا نے روزانہ تمہارے لئے کیا کھانے پینے کا انتظام کیا ہوا ہے اور ہر بندے کے لئے جو زندہ ہے کچھ نہ کچھ اس کی غذا کا انتظام موجود ہی ہے اور ہر پرندے کے لئے موجود ہے ہر چرندے کے لئے موجود ہے.آج صبح جب میں سیر پر گیا تو ایک چھوٹا سا پرندہ بہت ہی خوبصورت گھاس پر کچھ چگ رہا تھا.مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا وہ کیا کھا رہا ہے لیکن اس کی باریک نظر اس کو بتارہی تھی کہ فلاں جگہ چونچ مارو اور اس کی چونچ ہمیشہ بھری ہوئی نکلتی تھی.اب اس کو سکھایا کس نے.یہ پہلو جو ہے یہ بھی تو عزیز حکیم سے تعلق رکھتا ہے.صرف کھانا رکھ دینا کافی نہیں، کھانے تک پہنچنے کی استطاعت پیدا کرنا بھی تو کام ہے اور ہر وجود کو پتا ہے کہ میرا کھانا کہاں ہے.وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْ دَعَهَا ( صور : 7) وه جانتا ہے کہاں میں عارضی قرار پکڑوں گا اور کہاں میں نے لوٹ کر جانا ہے.پس آج میں اس پرندے کو دیکھتا دیکھتا ظاہری سیر کو بھول کر ایک اور ہی سیر میں ڈوب گیا.میں نے سوچا کہ اللہ کی شان دیکھو
خطبات طاہر جلد 15 585 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء ان سب کو خدا نے علم بخشا ہے اس گھاس میں، اس مٹی میں تمہارے لئے غذا موجود ہے اور کہاں ہے اور کس طرح تم نے حاصل کرنی ہے اور وہ روزانہ صبح اس یقین کے ساتھ نکلتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان ہر قسم کے جانوروں کی غذا ہم نے اپنے اوپر رکھی ہے تم تو نہیں پیدا کرتے.اے انسان تم کہاں ان کو پال رہے ہو اور ہر چیز کی غذا موجود ہے.ایک چیز کا گند ہے دوسرے کی غذا بن جاتا ہے اور وہی گند صاف اور ستھرا ہو کر ایک اور پاکیزہ غذا کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.پس اس پرندے کو دیکھ کر میں نے جب نظر دوڑائی تو ہر قسم کے پرندے اپنے اپنے مقصد کی جستجو میں مصروف دیکھے.کہیں کوئی جس کو لکڑ ہارا کہتے ہیں وہ ٹک ٹک کر کے ایسے درخت جو کھائے ہوئے ہوں ، جواندر سے کھو کھلے ہوں ان کے اوپر چونچیں مارتا اور اندر سے اپنی غذا کے نکلنے کی انتظار میں ہوتا ہے.اب کس نے اس کی عقل میں یہ بات ڈالی ہے؟ یہ سب ربوبیت کی تو باتیں ہیں.جوں جوں آپ کا علم بڑھتا ہے آپ ہر دفعہ جب کہتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تو عجیب شان اور ذوق کے ساتھ آپ کے دل سے بے ساختہ آواز نکلتی ہے سب حمد اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور وہ لکڑ ہارا جس کی میں بات کر رہا ہوں اس کو لکڑ ہارا اردو میں کہتے ہیں مگر انگریزی میں وڈ پیکر Woodpecker وہ پرندہ ہے جس کے اوپر مزید تحقیق ہوئی تو مزید خدا کی قدرت کے عجائب سامنے آئے.وڈ پیکر بہت تیزی کے ساتھ چونچ مارتا ہے درخت کے تنوں کے اوپر اور ہم سمجھتے ہیں ٹک ٹک ٹک ٹک کی دو چار آوازیں ہیں.سائنس دانوں نے جب بہت ہی حساس کیمروں کے ذریعے جو بہت تیز رفتار تھے اس کی چونچوں کی ٹک ٹک کو دیکھا تو حیران رہ گئے کہ جو ایک ٹک ہے اس کے اندر سینکڑوں بار وہ سر نیچے اترتا ہے اور اس تیزی سے وہ ٹکر مارتا ہے کہ ہماری آنکھ کو ایک یا دو یا تین حرکتیں دکھائی دیتی ہیں مگر تیزی کی وجہ سے وہ حرکتیں مل جاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں ایک اب اس نے گردن جھکائی اور ایک ٹکر ماری پھر دوسری ٹھوکر ماری تیسری ماری، اس کے اندر سینکڑوں دفعہ وہ ٹھوکر مار چکا ہوتا ہے یعنی درخت سے اپنی چونچ کر اچکا ہوتا ہے اور کیوں کرتا ہے اس لئے کہ اس کو خدا نے یہ علم بخشا ہے کہ ان کھائے ہوئے درختوں کے اندروہ کیڑے ہیں جو تمہارے لئے بہترین غذا ثابت ہوں گے اور جب تک تم ان کو بیدار نہیں کرو گے وہ باہر نہیں نکلیں گے اور جب تم بار بارا اپنی چونچ ٹکراؤ گے تو پھر وہ باہر نکلیں گے اور جب وہ باہر نکلیں گے تو تم اس غذا کو کھا لینا.اب اس کے اندر بھی عجائبات
خطبات طاہر جلد 15 586 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء ہیں.Evolution کے ذریعے یعنی ارتقاء کے ذریعے اس پرندے کو کیسے سمجھ آئی کہ تیز رفتار سے میں جب چونچیں ماروں گا تو کیڑے نکلیں گے ورنہ نہیں نکلیں گے اور کتنے لاکھ سال اس ارتقاء کو چاہئے تھے.اس سے پہلے وہ کیسے زندہ رہتا تھا لیکن صرف یہی بات نہیں وہ حرکت اتنی طاقت ور ہوتی ہے وہ چونچ اس زور سے لگتی ہے کہ سائنس دان کہتے ہیں کہ دماغ پھٹ جائے اس کا اگر اس کا کوئی خدا تعالیٰ نے دفاع مقرر نہ کیا ہو.پس یہ ایک ہی پرندہ ہے جس کی چونچ اور اس کے دماغ کے درمیان خدا تعالیٰ نے ایک کشن Cushion رکھ دیا ہے اور جب وہ چونچ مارتا ہے تو وہ کشن دیتا ہے اور دماغ کو ٹھوکر سے بچالیتا ہے.اب آپ دیکھیں کہ کیا کوئی بھی ارتقاء کا نظریہ اس مسئلے کوحل کر سکتا ہے.اگر زور کی ٹکر مارنا ان کیڑوں کو نکالنے کے لئے ضروری ہے تو دو چار ٹکروں میں ہی وہ پرندہ پاگل ہو کے مر چکا ہوتا اور وہ کشن بنانے میں کتنی دیر لگی اور کون سے ارتقاء کے طبعی تقاضے ہیں جنہوں نے وہ کشن بنایا اس کا Mechanism پیدا کیا.اس پر آپ غور کریں تو یہی ایک پرندہ انسان کی عقل کو حیرت کے سمندر میں ڈبونے کے لئے کافی ہے اور پھر وہ کس طرح جا کر اپنے بچوں کو یہ خوراک دیتا ہے اور روزانہ اسی پر پل رہا ہے.کس نے اس کو سکھایا کہ تمہاری غذا کہاں کہاں ہے.کوئی بھی ایسا پرندہ نہیں جس کو علم نہ ہو کہ میری غذا کہاں ہے اور وہ بچہ جو پہلے دن مثلاً گھوڑے کا بچہ پیدا ہوتا ہے یا ہرن کا بچہ پیدا ہوتا ہے یا بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اٹھتا ہے اور ماں کے تھن کی طرف دوڑتا ہے اور انسان کا یہ حال ہے کہ اسے سکھائیں بھی تو بسا اوقات وہ سیکھ نہیں سکتا.بعض بچوں کو دودھ پلانا بڑی مصیبت بن جاتا ہے.مگر اکثر خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنا علم یافتہ ضرور ہوتے ہیں کہ ماں کا دودھ چوسنا ان کو آجاتا ہے.کیوں آتا ہے؟ کیسے پتا چلتا ہے کہ یہ میری غذا ہے؟ یہ ساری وہ باتیں ہیں جو جب تک دماغ کے اندر کندہ نہ ہوں اس وقت تک انسان کی اپنے رزق تک رسائی ہو نہیں سکتی.پس رزق کا پیدا ہونا الگ مضمون ہے.یہ علم کہ یہ میرا رزق ہے یہ ایک الگ مضمون ہے.ہر وہ پھل یا پھول جو ہمیں دکھائی دیتا ہے ہمیں علم نہیں کہ اس میں غذا کون سی ہے، بڑے لمبے تجربہ کے بعد ہمارا علم کچھ بڑھا ہے لیکن ہر جانور کو پتا ہے کہ فلاں جو پھل ہے میں نے کھایا تو میں اس سے مر جاؤں گا.فلاں پھول کا رس میرے لئے زہر ثابت ہوگا.ہر ایک کو اپنی اپنی غذا کا علم ہے اور کیسے حاصل کرنی ہے؟ کیسے اس تک رسائی ہوئی ہے
خطبات طاہر جلد 15 587 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء لیکن عجیب بات ہے کہ جب اس لکڑ ہارے کے چونچ ٹکرانے کے مضمون پر آپ غور کریں تو آپ کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ اس کی چونچوں کے ٹکرانے سے جو قارعہ پیدا ہوتی ہے وہ چھوٹے چھوٹے ایسے کیڑے مکوڑے بھی جو دماغ کے لحاظ سے یار رکھتے ہی نہیں یا نہایت معمولی دماغ رکھتے ہیں وہ بیدار ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ہمیں اذن ہے باہر نکلنے کا اور وہ باہر نکل آتے ہیں.مگر انسان کی کیا حالت ہے کتنی دفعہ خدا کی قارعہ اسے جگاتی ہے کیسے بار بار اس کی چھاتی پر خدا کی طرف سے وہ چوٹیں پڑتی ہیں جو اسے جگانے کے لئے اور خدا تعالیٰ کا شعور بیدار کرنے کے لئے بعض دفعہ ایک ابتلا کے طور پر ماری جاتی ہیں.کتنے غم ہیں جو چوٹیں مار جاتے ہیں اور کتنی چوٹیں ہیں جو ہمیں بیدار کرتی ہیں؟ یہ ہے سوال.کیڑے تو اٹھ جاتے ہیں ،سنڈیاں اٹھ جاتی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں حکم ہے باہر نکلنے کا مگر انسان اپنی جہالت کے قید خانے میں اسی طرح پڑا رہتا ہے اور آئے دن ہمیں بیدار کرنے کے لئے آسمان سے اور زمین سے بھی نشان ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں.پس اگر ان نشانوں پر ہم غور کریں تو پھر ہماری نماز زندہ ہوگی پھر ہم خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ایک ہے اور تیرے سوا اور کوئی نہیں.جہاں بھی رزق دیکھا تیرا ہی دیکھا ہے.جہاں بھی پناہ پائی تیری ہی پناہ پائی ہے.نہ تیرے سوا کوئی رازق ہے، نہ تیری پناہ کے سوا کوئی پناہ ہے.تو ہی ہے جو پالتا ہے تو ہی ہے جو دردوں کو ٹالتا ہے.تیرے سوا کوئی نہیں ہے اور یہ جو ” نہیں ہے“ کی گواہی ہے یہ وہ گواہی ہے جو ہر روز انسان جھوٹی گواہی دیتا ہے کیونکہ اگر اس کو یقین ہو کہ خدا ہی ہے اور کائنات میں دیکھتا ہے تو خدا ہی دکھائی دیتا ہے، ساری کائنات کا علم گواہ بن جاتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی رازق ہے اور وہی پالنے والا ہے، وہی ہر چیز کی پناہ گاہ ہے پھر بھی جب اپنے لئے پنا ہیں ڈھونڈتا ہے تو غیر اللہ کے لئے پنا ہیں ڈھونڈتا ہے.اپنے لئے جب رازق تلاش کرتا ہے تو جھوٹ کو رازق بناتا ہے اور بد دیانتی کو رازق بناتا ہے.کسی کا حق تلف کرنے کو رازق بناتا ہے.تو یہ وہ وجہ ہے کہ قسط کا مضمون میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.قسط کے بغیر گواہی سچی ہو ہی نہیں سکتی.پس ایک اندرونی انصاف اپنے اندر پیدا کریں جب تک آپ اپنے نفس کے خلاف گواہی دینے پر تیار نہ ہوں اور پورے یقین اور قوت کے ساتھ ہر روز اپنے نفس کو جھوٹا قرار دینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اس وقت تک آپ کا نفس سچ سیکھ ہی نہیں
خطبات طاہر جلد 15 588 خطبہ جمعہ 26 جولائی 1996ء سکتا اور یہ تجربے ہر روز بے شمار ہوتے ہیں اور ہرگز یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نماز میں، ہر تشہد کے وقت جب آپ کہیں اشهد ان لا اله الا اللہ تو آپ واقعہ بعض باتوں کو ذہن میں رکھ کر یہ کہیں کہ ہاں ہم نے ایک اور راز پالیا ہے جو تو حید کا راز ہے.آج ہم نے ایک اور راز دریافت کیا وہ بھی توحید کا راز ہے اور ہر انگلی جو اٹھتی دیکھی اے خداوہ تیری ہی طرف اٹھتی ہے.یہ وہ گواہی ہے جو تجارب سے حاصل ہوتی ہے، جو مشاہدے سے ملتی ہے اور اس کے سوا اس تشہد کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.حضرت مسیح موعود جب فرماتے ہیں: چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا تو یہ تصور کیوں پیدا ہوا.یہ تصور ایک عارف باللہ کے ذہن میں آسکتا ہے اور وہ سارا نظم کا مضمون ہی ایسا ہے جو ذاتی مشاہدے اور عرفان کے بغیر (در مشین اردو : 10) ایک شاعر کے دماغ میں آہی نہیں سکتا.ہر بات پر غور کیا اور کہا کہ ہاں اے خدا ہر انگلی تیری طرف اٹھتی دیکھی ہے ہم نے : ند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا ے کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا دو اب یہ گواہی دیتے وقت بھی دیکھیں کیسی احتیاط برتی جارہی ہے ” کچھ (درشین اردو :10) کچھ تھا نشاں اور گواہی سچی ہے.دنیا کے عاشق جب باتیں کرتے ہیں اور چاند کے حوالے سے کریں یا سورج کے حوالے سے تو ایسا مبالغہ کرتے ہیں کہ اپنی گواہی کو خود جھوٹا بنادیتے ہیں.کہتے ہیں چاند کو دیکھا تو اس میں تو کچھ بھی نہیں تھا، پھیکا پڑ گیا تھا، تیرے اس نور کے سوا کوئی نو ر ہے ہی نہیں.چاند میں کچھ بھی نہیں تھا.اب دیکھو کتنا بڑا جھوٹ ہے بعض ایسے محبوبوں کی تعریف کر رہے ہیں جو اندھیرے میں دکھائی بھی نہ دیں.ان میں جگنو جتنی روشنی بھی نہیں ہے مگر چاند کو اس کے مقابل پر پھیکا اور بے معنی اور بے حقیقت دکھاتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود چاند کے نور کا اعتراف کرتے ہیں.ایک بھی جگہ آپ کے عشق میں مبالغہ نہیں.ایک بھی جگہ آپ کے عشق میں جھوٹ کی ادنی سی بھی آمیزش نہیں ہے.تھا تو سہی ” کچھ
خطبات طاہر جلد 15 589 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء کچھ تھا نشاں ہم نے چاند سے تجھے دیکھا میرے آقا لیکن اس کے نور میں کچھ معمولی سی جھلک تھی تیری روشنی کی ، اس روشنی نے ہمیں تیرا دیوانہ بنایا اور تیری تلاش میں چاند سے پرے نکل کھڑے ہوئے.یہ وہ مضمون ہے جو اس ساری نظم کی جان ہے، ہر مصرعے کی جان ہے اور ذرے پر غور کیا ان کے خواص پر غور کیا ایک ایسا جہان پایا جو نہ ختم ہونے والا جہان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کلام سے تعارف حاصل کریں تو پھر بھی آپ کو پتا چلے گا کہ یہ گواہی کیسے دی جاتی ہے کہ اشهدان لا اله الا الله واشهدان محمداً عبده ورسوله“.ہر روز جو آپ کے لئے خدا تعالیٰ نشان دکھاتا ہے اور ہر شخص کے لئے کچھ نہ کچھ نشان خواہ وہ دہر یہ بھی ہوضرور ظاہر ہوتے ہیں اس کو وہ اتفاقات کے حوالے کر دیتا ہے.کہتا ہے اتفاقا میری جان بچ گئی ، اتفاقاً یہ واقعہ ہو گیا.اگر بارش اتنے دن کے بعد نہ ہوتی تو پتا نہیں کیا ہو جاتا.اس بے وقوف کو علم نہیں کہ ہر چیز کے اندازے ہیں اور پہلے سے مقدر ہیں.ہر چیز ایسے اندازوں پر چلائی جارہی ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہونے والے اندازے ہیں.وَ انٌ مِّنْ شَيْ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا تُنَزِّلُةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر: 22) وَإِنْ مِنْ شَيْ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ فرمایا کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو تم سوچ سکتے ہو مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور خَزَ آپنے میں جو حرا تصور ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ لامتناہی ، لا محدود خزانوں کی بات ہورہی ہے وَمَا نُنَزِّلُة إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُو هِر اس چیز کو جس کے خزانے ہیں ہم اتارتے ہیں اندازوں کے ساتھ ساتھ اور اندازے میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے تمہارے اندر وہ ظرف پیدا ہو چکا ہے کہ نہیں ، کہ ان خزانوں کو استعمال کر سکو.اب جس بچے کے دانت نہ نکلے ہوں اس کے منہ میں آپ اچھا بھونا ہوا مرغا ڈال دیں تو اسے جان سے مارنے والی بات ہوگی.ہر شخص کا اپنا ایک ظرف ہے اس ظرف کے مطابق خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی غذا ضرور بنا رکھی ہے اور انسان کا بھی ایک ظرف ہے جو بڑھتا چلا جارہا ہے اور اس بڑھتے ہوئے ظرف کے مطابق خدا تعالیٰ اپنے خزانے اس پر اتارتا چلا جارہا ہے.اِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات (48) کا یہ مضمون ہے جو ہمیں لامتناہی کائنات پر پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے آج تک کب وہ دن چڑھا کہ انسان کا دماغ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں سے آگے بڑھ گیا ہو.اسے ضرورت ہو کسی چیز کی ، اپنے دماغ کے نتیجے میں یعنی دماغی صلاحیتوں کے نتیجے میں اس نے کچھ ایسی باتیں دریافت کی
خطبات طاہر جلد 15 590 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء ہوں جنہیں وہ عمل میں پورا کرنا چاہتا ہو اور کائنات میں اس کے پاس اس کا مصالحہ موجود نہ ہو وہ مادہ موجود نہ ہو.ایک بھی دن ایسا نہیں چڑھا.جب انسان اتنے درجہ حرارت پر قابو پانے کے خواب دیکھنے لگا جو اس کی ضرورت بن گیا تھا یعنی لاکھوں درجے کی گرمی کی اس کو ضرورت پیش آگئی اور کوئی ایسا مادہ نہیں تھا اس کے ہاتھ میں جس مادے سے وہ برتن بنا سکے جس برتن میں وہ اس درجہ حرارت کی چیز کو سنبھالے اور اس پر تجربے کر سکے تو اس کی آنکھیں کھلیں اور خدا نے ایک اور خزانہ اس پر اتارا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( یعنی خدا تعالیٰ ) گویا فرمارہا ہے کیونکہ اللہ کے اذن سے ہی یہ خزانے نکلتے ہیں کہ تم مقناطیس کا برتن بناؤ اور مقناطیس کی قوت سے اس قسم کا مضبوط برتن بناؤ کہ مقناطیس کا برتن جو نہ دکھائی دینے والا ہے اس کے اندر لاکھوں کروڑوں درجہ حرارت کی چیزیں پگھل رہی ہوں اور کھول رہی ہوں اور ایک دوسرے سے عمل دکھا رہی ہوں لیکن وہ گر نہ سکیں کیونکہ مقناطیس کے برتن کو کوئی گرمی پگھلا نہیں سکتی اور مقناطیس میں یہ طاقت موجود ہے کہ اگر اس کا خول بنایا جائے تو اس خول کے اندر چیز ٹھہر جائے.اب ہم بھی تو مقناطیس کی طاقت ہی سے یعنی زمین کے مقناطیس کی طاقت سے زمین پر لگے ہوئے ہیں.ساری دنیا جو گھوم رہی ہے ساری کائنات جو ایک دوسرے سے متصل ہے وہ نہ نظر آنے والے ستون جن پر یہ کائنات قائم ہے یہ سب کچھ اس غیر مرئی زمین کی کشش ہی سے تو پیدا ہورہی ہے یہ طاقت.ہم جو کائنات کو اور اتنے درجہ حرارت کے ستاروں کو ہوا میں معلق دیکھ رہے ہیں جس درجہ حرارت کا تصور باندھنا بھی ممکن نہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو ایک درست بات کہہ رہا ہوں.سائنس دان کو اس دنیا میں جتنی درجہ حرارت کی ضرورت پیش آتی ہے وہ تو اس درجہ حرارت کے مقابل پر کچھ بھی نہیں ہے جو ایک سمٹتے ہوئے ستارے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی تمام گرمی اور تپش کے باوجود وہ فضا میں اسی طرح معلق ہے جس طرح باقی ستارے متعلق ہیں.کون سا برتن ہے جس نے اسے تھاما ہوا ہے.کون سے ستون ہیں جسے آپ دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے اٹھایا ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظر اس طرف پھیر دی کہ ممکن ہی نہیں تمہارے لئے کہ تم اپنے شعور کوکسی ایسی چیز کے لئے بیدار کرو جو ہم نے تمہیں اصل میں سکھائی ہے لیکن تمہیں علم نہیں کہ کون سکھا رہا ہے اور پھر تمہیں مناسب حال برتن نہ ملیں ، مناسب حال اوزار نہ ملیں.تمام مناسب حال برتن تمام مناسب حال اوز ار اسی دنیا میں موجود پاؤ گے اور ہم ان کی طرف تمہاری نشان دہی کریں گے.
خطبات طاہر جلد 15 591 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء پس خزا نہ محض خزانے کے طور پر نہیں اترتا.خزانہ عقلوں کی روشنی لے کر اترتا ہے.وہ آسمان سے نور جب تک نہ اترے کہ خزانے کو کیسے استعمال کرنا ہے اس وقت تک خزانہ بھی بے کار ہے.پس یہ وہ رب ہے جس کے حق میں ہمیں ہر روز اپنی نماز میں گواہی دینی ہے.مگر اگر آفاق کے حوالے سے نہیں دے سکتے تو نفس کے حوالے سے تو دے کے دیکھیں.اپنے آپ کو تو سچا بنا ئیں.یہ تو دیکھیں کہ خدا کے رزق میں اگر چہ ہم اس کے شکر کا حق ادا کر ہی نہیں سکتے اس کے ادا کردہ رزق سے ہم نے کیا فائدہ اٹھایا.کس حد تک ایسا استعمال کیا کہ اس کی رضا کے تابع ہو.اب جہاں رزق کمانے کی میں نے بات کی ہے وہاں رزق کے خرچ کی بات بھی تو ہے.اگر انسان رزق کماتا بھی حرام کے ذریعے سے یا جائز بھی کماتا ہے اور حرام کا موقع ملتے ہی حرام کے موقع پر بھی ضرور منہ مارتا ہے تو اس کا سارا رزق گندا ہو جاتا ہے.پھر جب خرچ کرتا ہے اگر اس کے اندر طاقت ہو کہ اس کی انا کا بت اس سے پل سکے.اگر یہ کیفیت ہے تو پھر لا الہ الا اللہ کی گواہی اسے کب زیب دیتی ہے.بہت ہی دردناک منظر ہے، بہت ہی دل دہلا دینے والا مضمون ہے.پس ہر نماز ہمیں جھنجھوڑتی ہے ہم سے گواہی مانگتی ہے ہم دے کر چلے جاتے ہیں اور سوچتے بھی نہیں کہ ہماری ہر گواہی آسمان سے جھٹلا دی گئی ہے.صلى الله پس اے امت محمدیہ اتم اگر محمدرسول اللہ ﷺ کے غلام ہو اگر تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول اور اس کے بندے تھے تو اس گواہی کو اس طرح دو جس طرح اس رسول اور اس بندے نے گواہیاں دی تھیں.ایک بھی گواہی جو محمد رسول اللہ ﷺ نے دی وہ ایسی نہیں تھی جس کا آپ کو ذاتی طور پر علم نہ ہو.اب دیکھیں علم سے اس کا کتنا گہرا تعلق ہے.بے علم کی گواہی بھی جھوٹ ہوتی ہے، ظن کی گواہی کی کوئی حقیقت نہیں ہے.مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنَّ ( النساء: 158) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس گواہی کا کیا حال ہے جو عیسائی دیتے ہیں یا یہود دیتے ہیں.جب علم ہی کچھ نہیں تو ظنی باتیں ہیں.تو یہ بات ہم پر لازم کرتی ہے، ہر نماز ہم پر لازم کرتی ہے کہ اپنا علم بڑھا ئیں اور ہر قسم کا علم بڑھا ئیں.اس میں مذہبی علم کی کوئی پابندی نہیں ہے.کوئی بندش نہیں ہے کہ ہم صرف مذہبی علم بڑھائیں کیونکہ اللہ جس کا ئنات کا خدا ہے جس کا ئنات کا رب ہے اس کی تخلیق میں مذہب اور غیر مذہب کے درمیان حقیقت میں کوئی تفریق ہی نہیں رہتی.جو مذہبی لوگ اس کی کائنات پر غور کرتے ہیں وہ دنیا کا علم ان کے لئے دنیا کا علم نہیں، دین کا علم بن جاتا ہے اور جو صاحب عقل دنیا کے علوم پر
خطبات طاہر جلد 15 592 خطبہ جمعہ 26 / جولائی 1996ء غور کرتے ہیں وہ لا زم خدا کی طرف حرکت کرتے ہیں.پس اس پہلو سے بھی وہاں کوئی تضاد نہیں کوئی دو آوازیں نہیں ہیں ، کوئی دو سمتیں نہیں ہیں.ایک ہی سمت ہے وہ توحید کی سمت ہے جہاں قرآن اور کائنات ایک ہی ہو جاتے ہیں.پس اس مضمون کو اپنے دلوں میں ، اپنی روحوں میں جاری کریں کیونکہ ہم نے تمام دنیا کو تو حید کی طرف بلانا ہے اور توحید کے کچھ اور تقاضے ہیں جو انشاء اللہ میں افتتاحی اجلاس میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالوں سے آپ کو سمجھاؤں گا کہ ہمیں توحید کے میدان میں ابھی کیا کچھ کرنا ہے اور کیسی کیسی زمینیں ہم نے سر کرنی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے مگر یاد رکھیں کوئی زمین، کوئی مملکت کوئی جہان آپ سر نہیں کر سکتے جب تک اپنے نفس کو سر نہ کر لیں.آمین.
خطبات طاہر جلد 15 593 خطبه جمعه 2 راگست 1996ء نظام جماعت میں اطاعت کی بقاء تَعَاوَنُوا عَلَى الْبَرِّ وَالتَّقْوَى پر منحصر ہے.( خطبه جمعه فرموده 2 /اگست 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْالَا تُحِلُّوا شَعَا بِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَابِدَ وَلَا أَمِينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوْاعَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدہ 3) پھر فرمایا: اس آیت کریمہ میں جو نصائح فرمائی گئی ہیں ان میں سے ابتدائی نصائح کا تعلق تو حج سے تعلق رکھنے والے مناسک اور محرمات اور حرمات سے ہے.جو عزت کے لائق ہیں ان کی عزت کرو، ان کی عزت کے حق ادا کرو اور ہر گز کسی پہلو سے بھی کوتاہی نہ کرو اور حج کے فریضے کے وقت جن جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رُکے رہو، یہ عمومی نصیحت ہے جو فرمائی گئی ہے.اس کے بعد آیت کا وہ آخری حصہ جس کے پیش نظر میں نے اس آیت کا آج انتخاب کیا ہے وہ تعاون سے تعلق رکھتی ہے.فرمایا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو اور اس سے پہلے اس آیت کا جو حصہ ہے وہ یہ ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ
خطبات طاہر جلد 15 594 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوا یہ وہ لوگ جنہوں نے مذہب کی دشمنی میں تمہیں حج بیت اللہ سے باز رکھا، روکے رکھا اور اس لحاظ سے انہوں نے تم پر ظلم کیا ان کی یہ دشمنی بھی تمہیں ان سے انصاف کرنے سے مانع نہ بنے.جہاں تک انصاف کے تقاضے ہیں ان کے معاملے میں پورے کر ولیکن صرف انصاف کے تقاضے پورا کرنا ہی تمہاری شان نہیں ہے.وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ان سے تقویٰ اور نیکی میں تعاون بھی کرو.یع عظیم الشان عالمگیر تعلیم ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان علماء بعض دوسری آیات سے ایسا استنباط کرتے ہیں جو ان آیات کے واضح مضامین سے متصادم ہے، بیک وقت دونوں اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے.پس قرآن کریم میں جو محکمات ہیں ان کے تابع متشابہات کی تاویل کی جاتی ہے نہ کہ متشابہات کے تابع محکمات کی.یہ وہ آیت ہے جو محکمات میں سے ہے.نہایت ہی اہم فرائض بلکہ تمام امت مسلمہ کے فرائض میں سے سب سے مرکزی فریضہ جو حج کا ہے اس کے متعلق تعلیم دی جارہی ہے.قطعیت کے ساتھ یہ محکمات میں داخل آیت ہے اور اس تعلق میں دو نصیحتیں جوفرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ تم جب صاحب اختیار ہو تو ہر گز ایسی قوم سے بھی نا انصافی سے پیش نہ آؤ جو تم سے نا انصافی سے پیش آتی رہی ہو اور تمہارے دینی فرائض میں بھی مل رہی ہو ان کے تعلق میں بھی یاد رکھو کہ تم نے مضبوطی کے ساتھ عدل کا دامن پکڑے رکھنا ہے اور مزید برآں اگر وہ نیک کام کریں تو ان سے نیک کام میں تعاون کرو اور تقویٰ میں تعاون کرو.اب اکثر وہ تقویٰ سے تو عاری ہوتے ہیں اس لئے یہاں تقویٰ کا کیا مضمون ہے.تقویٰ کا جو مضمون یہاں پیش نظر ہے وہ ابتدائی ، بنیادی انسانی فطرت میں ودیعت شدہ تقویٰ ہے یہ بات غلط ہے کہ ہر قوم کلیۂ تقویٰ اللہ سے عاری ہو چکی ہوتی ہے.مشرکین بھی بعض کام اللہ کے تقویٰ سے اختیار کرتے ہیں.چنانچہ ہندو مشرکین میں داخل ہیں ان میں ایسے لوگ بھی بت پرست ہیں جو محض خدا کی خاطر اور اللہ کے خوف کی خاطر صرف بنی نوع انسان میں سے ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتے بلکہ جانوروں کو بھی روٹی ڈالتے اور دانے پھینکتے ہیں.ایک موقع پر ایک ایسے ہی مشرک نے جو اپنے شرک کے زمانے میں پرندوں کو روٹی ڈالا کرتا تھایا دانے پھینکا کرتا تھایا گوشت پھینکتا تھا، چیلیں اٹھا کے لے جائیں ، اس نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ ﷺ وہ باتیں جو میں خدا کی خاطر اس زمانے میں کیا کرتا تھا ان کا بھی کوئی اجر
خطبات طاہر جلد 15 595 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء ہے.آپ نے فرمایا اجر تو مل گیا تمہیں تم جو ہدایت پاگئے تو اور اجر تمہیں کیا چاہئے.یہ انہی نیکیوں کا اجر ہے.پس تقویٰ ان میں بھی ہوتا ہے جو مشرک ہوں مگر محدود تقویٰ ہے اور تقویٰ کے جو ابتدائی معنی ہیں، ان میں آپ کو تقویٰ کی جھلکیاں دکھائی دیں گی اور دنیا میں کوئی انسان بھی نہیں ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے تقویٰ کے مضمون پر عمل نہ کرتا ہو.بعض دہر یہ ہیں لیکن تقویٰ کا وہ مضمون جو سچائی سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کے اندر بھی آپ کو دکھائی دے گا.تقویٰ کے بغیر کوئی ہدایت نہیں ہے.سوال یہ ہے کہ یہ مغربی قومیں جو خدا کے تصور کے بغیر ایک تحقیق کا سفر اختیار کئے ہوئے ہیں کیوں ان کو جزامل رہی ہے، کیوں ان کی تحقیقات کو بے شمار پھل لگ رہے ہیں.اس لئے کہ وہاں بھی جب تک یہ تقویٰ پر قدم رکھتے ہیں ان کو پھل ملتا ہے، جہاں تقویٰ سے ہٹ جاتے ہیں ان کو کوئی پھل نہیں ملتا.چنانچہ ایک لمبا عرصہ انہوں نے سائنس کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے اپنے تصورات کی متابعت کرتے ہوئے دولتمند بننے کی کوششیں کی ہیں.جس طرح ہمارے ملک میں کیمیا گری کی تلاش رہی ہے مغربی قوموں میں بھی کئی قسم کے نسخے استعمال ہوا کرتے تھے اور مذہب کے غلط تصورات کے نتیجہ میں یہ جستجو کیا کرتے تھے کہ کس طرح ہم جلد سے جلد اپنے مقصد کو حاصل کر لیں.ان میں منفی مقاصد بھی ہوتے تھے اور مثبت بھی لیکن کبھی کسی کو کوئی پھل نہیں لگا.ان میں بعض دفعہ یہ بھی رواج تھا کہ اپنے دشمن کو مارنے کے لئے یہ اس کے بت بناتے ، موم کے بت بناتے اور عین اس کے دل میں سوئیاں سپیوست کر دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اب یہ سوئی جو ہے یہ اس کے دل میں چھے گی.اب یہ ساری جہالت کی باتیں ہیں تقویٰ سے عاری ہیں یعنی تقویٰ کے ان معنوں سے بھی عاری ہیں جو بنیادی طور پر ہر انسان کو کسی نہ کسی حد تک نصیب ہوا ہے.در اصل تقویٰ دل کی سچائی کا دوسرا نام ہے اور اگر دل سچا ہو تو پھر خدا تعالیٰ سے ہٹ کر الگ راہ اختیار نہیں کر سکتا.اسی لئے قرآن کریم نے ہدایت کے آغاز میں ہی یہ فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرۃ:3) کتاب میں تو کوئی شک نہیں ، اس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ کتاب اللہ کا کلام ہے.اس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ یہ الکتاب ہے یعنی کامل ہدایت ہے اور اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ اس میں ہدایت کے سوا اور کچھ بھی نہیں لیکن هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ہدایت متقیوں کو ہی دے گی.جن میں تقویٰ نہیں ان کو کوئی ہدایت نہیں بخشے گی.پس یہاں بھی وہی تقویٰ کا ابتدائی معنی
خطبات طاہر جلد 15 596 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء ہے کہ اگر دل میں سچائی ہے تو پھر یہ ہدایت دے گی اگر دل میں سچائی نہیں ہے تو ہدایت نہیں دے گی.تو یہ سچائی کا مضمون تقویٰ کے آغاز سے تعلق رکھتا ہے.بغیر سچائی کے تقویٰ قائم نہیں ہوسکتا اور اگر تقویٰ کا خدا کے حوالے سے مضمون پیش نظر نہ بھی ہو تو ہر انسان کی سچائی اس کا تقویٰ بن جاتی ہے کیونکہ تقویٰ کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ ٹھوکروں کی جگہ سے بیچ کر چلنا، جہاں نقصان ہو اس سے ہٹا کر قدم رکھنا اور ان معنوں میں تقویٰ کا سب سے عام معنی یہی ہے کہ انسان سچائی کو اختیار کرے سچائی کی روشنی میں آگے بڑھے اور جہاں جہاں ٹھوکر کا مقام ہے اس سے بچے.پس اس پہلو سے ہر انسان کا تقومی کوئی نہ کوئی مفہوم رکھتا ہے یا رکھ سکتا ہے اور جتنی انسانی ترقی ہدایت کی طرف ہوئی ہے خواہ وہ مادی ترقی ہی کیوں نہ ہو وہ تمام تر تقویٰ پر مبنی ہے.جہاں انسان نے جھوٹ کی پیروی کی وہاں اس کو کوئی بھی پھل نہیں ملا محنت کا.پس یہاں جو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى اور ان قوموں سے تعاون خاص طور پر پیش نظر ہے جنہوں نے شرک اختیار کیا، جنہوں نے ظلم کیا ہے اس لئے تقویٰ کا وہ معنی لینا پڑے گا جو سب سے عام اور وسیع تر معنی ہے.ان لوگوں سے بھی اچھی باتیں ہوتی ہیں ان میں ان سے تعاون کرو.حلف الفضول کی مثال وہ مثال ہے جو مشرکین کے دور میں تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے.اس زمانے میں بھی ان میں نیک لوگ تھے اور مظلوم کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور اس حمایت کے جذبے ہی نے ان کو مجبور کیا جو تین فضل نامی اشخاص تھے کہ ایک معاہدہ کی بنیاد ڈالیں جس میں شامل ہونے والے خواہ ان کے نام فضل ہوں یا نہ ہوں ، جو بھی شامل ہوں یہ عہد کریں کہ ہم ضرور مظلوم کی حمایت کریں گے.تو یہ تقویٰ ہے جس پہ آنحضرت ﷺ نے رسالت سے پہلے بھی تعاون فرمایا اور یہ وہ تعاون ہے جس کی امت کو تعلیم دی جارہی ہے اور اس میں مذہب کا فرق مٹادیا گیا ہے.بدقوموں سے بھی ہمشرک قوموں سے بھی نیکیوں میں تعاون کرو.یہ اتنی اہم تعلیم ہے کہ اگر اس کو ہم سمجھ لیں تو کسی اطاعت کے جذبے پر زور دینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ تعاون میں طوعی مضمون داخل ہے.نیک کام ہو رہا ہے دیکھتے ہو تو آگے بڑھو اس میں حصہ لو.تو جو لوگ نیکیوں میں تعاون کرتے ہوں اور یہ نہ پوچھتے ہوں کہ کیوں کریں ، آخر کس کا حکم ہے، ان لوگوں کو جن کو اس سوال کی عادت نہ رہے نیکی اپنی طرف کھینچے اور
خطبات طاہر جلد 15 597 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء بے اختیارا اچھی بات ہوتی دیکھیں تو آگے بڑھ کر اس میں حصہ لینے کی کوشش کریں ان کو کیا ضرورت ہے کہ ان کو زور سے کہا جائے اطاعت کیا کرو کیونکہ اطاعت تو ہے نیکی میں.جن کو تعاون کی روح سے نیکیاں اختیار کرنے کا جذبہ ہو، وہ اس میں بے اختیار پائیں اپنے آپ کو وہ نیکی میں حصہ لئے بغیر رہ نہ سکیں ان کی اطاعت کامل ہو جایا کرتی ہے، ناممکن ہے کہ وہ اطاعت سے پیچھے ہیں.پس آپ جماعت کے نظام پر غور کر کے دیکھیں اطاعت سے باز رہنے والے وہی ہیں جن کو نیکیوں میں تعاون کی عادت نہیں ہے.وہ سوال کرتے ہیں کیوں کریں؟ کس نے آپ کو اتھارٹی دی ہے؟ حالانکہ جو نیک کام میں تعاون کی ہدایت فرمائی گئی ہے اس میں کسی اتھارٹی کا ذکر نہیں.نیک صلى الله کام میں تعاون کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر پہلو سے اپنے ماتحتوں سے ان کے کاموں میں تعاون فرمایا کرتے تھے.رستہ دکھانے میں تعاون، بوجھ اٹھانے میں تعاون،گھر کے کاموں میں ، مشاغل میں تعاون ، کوئی سوال کرنے والی بڑھیا آکے سوال کرتی تھی تو تعاون کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے.کسی بچے کا پیغام آگیا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے اٹھ کے اس کے گھر روانہ ہوئے.جو سب سے زیادہ مطاع بنایا گیا جس سے بڑھ کر مطاع کا مضمون کسی کی ذات میں تصور نہیں کیا جا سکتا یعنی آنحضرت ﷺ ہر نیکی کے مضمون میں، ہر الہی مضمون سے تعلق رکھنے والے معاملات میں سب کے سردار بنائے گئے اور سب کو آپ کے تابع فرما دیا گیا.وہ آدم کو فرشتوں کا سجدہ کرنا جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے وہ خلیفہ کے سامنے سجدہ تھا، خلیفتہ اللہ کے سامنے اور وہ اپنے اعلیٰ معانی کے طور پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ ہی تھے حالانکہ اس سے پہلے تمام انبیاء بھی خلفاء ہی ہیں یعنی براہ راست اللہ کے خلیفہ اور ان کے ساتھ نیکیوں میں تعاون کرنے کا تمام کائنات کو حکم دیا گیا ہے.اس میں فرشتہ صفت لوگ بھی شامل ہیں، فرشتے بھی شامل ہیں.جب فرشتے شامل ہو جائیں تو کائنات کا سارا نظام داخل ہو جایا کرتا ہے.اس لئے بسا اوقات آپ جو اعجازی نشان دیکھتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ قانون قدرت کو توڑا گیا ہے.قانون قدرت کو تو ڑا نہیں جاتا بلکہ فرشتوں کے سجدے کا ایک یہ بھی مضمون ہے کہ خدا تعالیٰ کے قوانین میں جہاں جہاں گنجائشیں موجود ہیں وہاں خلیفتہ اللہ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ان کو استعمال کرو اور وہ انسان جو ابھی سائنسی لحاظ سے ترقی کی ادنی منازل پر ہو وہ اپنے وقت میں اس مضمون کو مجھ نہیں سکتا.وہ سجھتا ہے معجزہ ہو گیا.مجزہ تو
خطبات طاہر جلد 15 598 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء ہوالیکن قانون قدرت کو توڑنے کا معجزہ کبھی نہیں ہوا کرتا کیونکہ وہ قانون دان جو قانون بناتے وقت ضرورت کا خیال نہ رکھے اور اسے علم نہ ہو کہ کبھی میرا قانون نا کافی ہو جائے گا اور میرے مقاصد کی راہ میں حائل ہوگا اس کو توڑے بغیر میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا وہ قانون ناقص ہے.پس اللہ کا قانون قدرت کامل قانون ہے اس میں ادنیٰ بھی آپ تضاد نہیں پائیں گے.جتنا چاہیں نظر دوڑائیں ، نظر تھکی ہوئی واپس آ جائے گی اور کوئی تضاد نہیں پائے گی یہ مضمون ہے قانون کے کمال کا.تو نبیوں کے لئے قانون توڑنے کا کیا مطلب ہے.اس لئے نبیوں کے لئے جو قانون ٹوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ہمیں اپنے وقت کی معلومات کے لحاظ سے ان کی کمی کے پیش نظر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے قانون توڑا گیا ہے.بعض لوگ آگ پر چلتے ہیں ، قانون نہیں ٹوٹتا کیونکہ ایسے مادے موجود ہیں جن کو اگر استعمال کیا جائے اور پاؤں پر اچھی طرح ان کو مل لیا جائے تو انسولیشن پیدا کر دیتے ہیں اور جلنے والے احساسات کو وہ ختم کر دیتے ہیں ، ان کی قوت سلب ہو جاتی ہے، ایک قسم کی فالجی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.اول تو جلنے کی راہ میں وہ مادے روک بن جاتے ہیں اور دوسرے احساس میں کمی آنے کی وجہ سے ایک انسان کوئلوں پر چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور البانیہ میں یہ بہت رواج ہے کہ بعض صوفی اپنا رعب ڈالنے کی خاطر وہ لوگوں کو یہ تماشے دکھاتے ہیں کہ دیکھو آگ کے کوئلے سلگاؤ ہم اس پر چل کر دکھائیں گے ہم خاص خدا والے لوگ ہیں اس لئے ہر معاملے میں ہماری اطاعت کرو.یہ بالکل جھوٹ ہے اور فرضی بات ہے.مگر آگ ٹھنڈا کرنے کے قوانین خدا نے خود بنائے ہوئے ہیں.ان قوانین کا علم ہو جائے تو پھر آپ کے لئے آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کا قانون ایک بالا قانون ہے اور تعاون کے ذریعے جب انسان نیکیوں میں تعاون کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے قوانین کی تائید ہوتی ہے، ان کی مخالفت نہیں ہوتی اور تعاون کے ذریعے انسان قوانین کی اطاعت کے لئے پہلے سے بڑھ کر آمادہ ہو جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو بتایا گیا ہے یعنی اگر مشرک سے تمہیں تعاون کرنے میں باک نہ رہے تو کیا نیک بندوں سے تعاون میں تمہیں باک ہوگی.آنحضرت ﷺ نے جو عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ الفاظ بیچ میں رکھے کہ ہم معروف میں آپ کی اطاعت کریں گی تو معروف سے مراد یہی تعاون کی باتیں ہیں.دراصل ہر بات کو خدا تعالیٰ نے فرض قرار نہیں دیا.بہت سی نیکیاں ہیں، راہ چلتے آپ
خطبات طاہر جلد 15 599 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء ان نیکیوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں مگر ہر انسان کے لئے ضروری نہیں ہے کہ رستہ چلتے ہوئے ضرور کھڑا ہو اور ہر آدمی کی ضرورت پوری کئے بغیر آگے نہ بڑھے.اگر یہ ہو تو ساری دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے لیکن کچھ نہ کچھ کو ضر ور توفیق ملنی چاہئے.پس تعاون کا مضمون عام بھی ہے اور Selective بھی ہے یعنی حسب ضرورت تم میں روح ہونی چاہئے.جہاں تمہاری ضرورت ہو تم سمجھو کہ تمہاری ضرورت کے بغیر کوئی نیک کام ہونے سے رہ جائے گا وہاں امت محمدیہ سے یہ اللہ تعالیٰ کو توقع ہے کہ یہ پوچھے بغیر کہ یہ کس نے کہا ہے، کیوں ہم تعاون کریں، کس کا حکم آیا ہے فرمایا تمہاری فطرت کے اندر خدا نے داخل فرما دیا ہے نیکی کے کاموں میں تعاون کرنا ہے یہاں تک کہ بدوں سے بھی تعاون کرنا ہے مشرکوں سے بھی تعاون کرنا ہے.یہ فطرت ثانیہ بنالوتو نظام اسلام کو پھر کبھی کوئی ٹھوکر نہیں لگ سکتی کیونکہ نظام اسلام تو نیکیوں کے رائج کرنے کا نام ہے.حاکم اور محکوم کے جھگڑے مٹا دیتا ہے تعاون اور وہ احساس کمتری جو بسا اوقات اطاعت کی راہ میں حائل ہوتا ہے وہ احساس کمتری تعاون کرنے والوں میں ہوتا ہی نہیں.اگر ہے تو وہ تعاون نہیں کر سکیں گے.ایک انسان جب ایک غریب آدمی کے کاموں میں اس کا مددگار بنتا ہے تو اس کو جھکنا پڑتا ہے اور جو احساس کمتری کا شکار ہو وہ سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ اگر میں نے کام کیا، اس کے لئے اگر میں جھکا تو گویا میری عزت میں فرق آجائے گالیکن جسے کوئی احساس کمتری نہ ہو وہ ہر ایک کا کام کرتا ہے اور شرم محسوس نہیں کرتا بلکہ وہ کام کرنے سے اپنے نفس میں ایک عزت پاتا ہے.وہ احساس عزت اس کا مقصود نہیں ہوتا مگر جزا کے طور پر ملتا ہے.اور ہر انسان جو نیکیوں میں تعاون کرنے والا ہو وہ معزز سے معزز تر ہوتا چلا جاتا ہے.وہ لوگ صاحب اکرام ہو جاتے ہیں اور نبوت کا بھی یہی رستہ ہے جس رستے سے بالآخر نبوت تک بھی انسان پہنچ سکتا ہے.چنانچہ حضرت خدیجہ نے جب آنحضرت میے کو وحی کے بعد بہت ہی دردناک حالت میں پایا اور آپ نے زملونی زملونی کہ کر یہ متوجہ کیا کہ میں تو نفسیاتی لحاظ سے شدید بحران کا شکار ہو چکا ہوں مجھے سخت سردی لگ رہی ہے.یہ ایک سردی کا لگنا جیسے ملیر یا بخار میں لگتی ہے یاSeptic بخاروں میں لگتی ہے اس کا ایک تعلق اندرونی نفسیاتی بحران سے بھی ہے.بعض دفعہ جب کسی کو اچانک صدمہ پہنچے یا اچانک گھبراہٹ کی خبر ملے تو اچانک اسی طرح بہت تیزی کے ساتھ ہاتھ
خطبات طاہر جلد 15 600 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.کوئی ایسی خبر ہو جس کی توقع نہ ہو جس کو انسان اپنے متعلق سوچ بھی نہ سکتا ہو.پس جتنا شدید حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا بحران تھا اتنا ہی آپ کی سچائی پر گواہ تھا اور آپ کی انکساری پر گواہ تھا.یہ وہم وگمان میں بھی نہیں آپ کے آسکتا تھا میں خدا کا نمائندہ بن کے بنی نوع انسان کو مخاطب ہوں گا.اگر نفس میں ادنیٰ بھی یہ خواہش ہوتی تو وہ بحران پیدا ہونا ناممکن تھا.اس حالت میں جب آپ کی بے قراری دیکھی تو حضرت خدیجہ نے تسلی دینے کے لئے یہ الفاظ عرض کے کلا والله ما یخزیک الله ابدا ہرگز نہیں، ہرگز نہیں ،خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں.وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کا نام ہے یہ وہ رشتے جو قریب کے رشتے ہیں ان کو جوڑنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں.ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے آپس کی خاندانی محبتیں بڑھیں اور ہر ایک کے ذمے یہ کام ہے نہیں کہ گویا فرض ہے اس کے لئے.اپنے معاملے میں تو حقوق ادا کرنا فرض ہے مگر ایسے کام کرنا کہ رشتے جڑتے چلے جائیں اور رحمی تعلقات آپس میں مضبوط تر ہوں یہ وہ نیکی کا کام ہے جو وَ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ ہے.کمزوروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں.اب کس پر یہ فرض ہے کہ ہر وقت کمزوروں کے بوجھ اٹھاتا پھرے اور شریعت تو ابھی نازل بھی نہیں ہوئی تھی.آنحضرت یہ شریعت کے نزول سے پہلے مفلوک الحال ، غریب لوگوں کے لئے ایک رحمت تھے، مجسم رحمت تھے.ان کا ہر دکھ بانٹا کرتے تھے.ان کی ہر مصیبت کو دور کرنے کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے اور معدوم اور نا پید نیکیاں کماتے ہیں.وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کی مثالیں دیکھیں کیسی عجیب مثال ہے.الله عام نیکیاں جو معروف ہیں ان کو کرنا بھی تعاون ہی ہے لیکن جو نیکیاں ناپید ہو چکی ہوں، انسانی نظر سے غائب ہوگئی ہوں ان کو دوبارہ زندہ کردیں اور پھر ان پر عمل کر کے دکھائیں.انہوں نے عرض کیا آپ میں تو یہ باتیں ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں.جو پھر تعاون کا معنیٰ ہے ورنہ مہمان نوازی کب فرض ہے.اگر فرض ہوتا تو زبر دستی کوئی حکومت کوئی مذہب لوگوں کے گھروں میں مہمان داخل کر لیتا.یہ تعاون کا مضمون ہے.تبھی حضور اکرم ﷺ کے جب مہمان آتے تھے تو مسجد میں بعض دفعہ اعلان کیا کرتے تھے کون ہے جو میری مدد کرے گا.یہ تعاون مانگنے کا ایک طریق تھا.حکم دے سکتے تھے مگر نہیں دیتے تھے.جانتے تھے کہ مہمان نوازی کا دائرہ حکام کے
خطبات طاہر جلد 15 601 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء دائرے سے الگ ہے.پس جب بھی آپ آواز بلند کرتے ضرور لبیک کی آواز میں اٹھا کرتیں اور ضرورت حقہ میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں یعنی وہ تمام ضروریات حلقہ جو جائز ضروریات ہیں ان میں آپ کا جہاں تک بس چلے آپ مدد کرتے ہیں.یہ وہ صفات ہیں جن کو خدا کبھی ضائع نہیں کر سکتا اور جس وجہ سے آپ گھبرا رہے تھے اس کا جواب اسی میں ہے.اس سے بہتر کون ہے جو خدا کی طرف سے مامور کیا جائے.جس میں یہ صفات پائی جائیں وہی تو مطاع بننے کے اہل ہے.جو خود سب کا مطیع ہو گیا، تمام نیک کاموں میں ہر ایک کے سامنے جھک گیا وہی اس لائق ہے کہ اسے مطاع بنایا جائے اور یہی وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو آج خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ دنیا میں دعوت الی اللہ کا پیغام لے کے نکلیں ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ لوگ آپ سے نہ صرف تعاون کریں گے بلکہ آپ کو اپنا سردار مانیں گے.جو آپ کہیں گے کہ دین یہ ہے وہ آپ کی بات تسلیم کریں گے.جس طرف بلائیں گے آپ کے پیچھے چلیں گے.تو اس سے پہلے ایک نبوت کا مرتبہ حاصل کرنا ضروری ہے یعنی نبوت کا وہ مرتبہ جو نبوت کے انعام سے پہلے صفات کی صورت میں عطا کیا جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی اور غلامی کے لئے لازم ہے کہ ان تمام صفات کو اختیار کیا جائے جو حضرت اقدس کی نبوت سے پہلے بھی تھیں اور جن کو تفصیلاً بیان فرمائے بغیر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی اور اس میں مشرکوں سے تعاون بھی تھا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آنحضرت ﷺ کو صلى الله جب بعد ازاں ، نبوت کے بعد حلف الفضول کا حوالہ دے کر ابو جہل سے کسی کا حق دلوانے کے لئے بلایا گیا تو آنحضورہ اسی وقت روانہ ہو گئے یعنی مشرکوں سے تعاون اور مشرکوں سے تعاون لے رہے ہیں اور یہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی کی بہترین مثال ہے.دوسری بات وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی میں یہ بھی داخل ہے یعنی علی کا جو صلہ ہے یہ دو معنی پیدا کرتا ہے.نیک کاموں میں تعاون کرو اور تقویٰ میں تعاون کرو اور نیکی کی بناء پر تعاون کرو اور تقویٰ کی بناء پر تعاون کرو.یہ جو مضمون ہے یہ دوسرے دنیا کے بہت سے تعاون کرنے والے مضامین سے اس مضمون کو الگ کر دیتا ہے.آپ دیکھتے ہوں گے دنیا میں نیک کاموں کے لئے تعاون غیر قوموں میں بھی ملتا ہے مگر اللہ کی خاطر تعاون اور نیکی سے محبت کی بناء پر تعاون دو چیز یں اکٹھی کم ملتی ہیں.ملتی تو ہیں لیکن شاذ کے طور پر، ایک قومی کردار کے طور پر نہیں ملتیں.بسا اوقات یہ جوتحریکات ہیں غریبوں کی ہمدردی
خطبات طاہر جلد 15 602 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء کی ، بہت اچھی تحریکات ہیں ان میں گہرے انسانی جذبات ہی کارفرما ہوتے ہیں مگر اللہ کا خوف دامن گیر ہو یہ لازم نہیں ہے.بعض دہر یہ بھی اس میں شامل ہوتے ہیں.بہت سی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو افریقہ کے مظلوموں کی مدد کر رہی ہیں.جہاں پانی نہیں ملتا ان کے لئے پانی کی اپیلیں ہیں.آپس کی جنگوں میں اور فسادات میں جو لوگ مجروح ہو جاتے ہیں، مظلوم ہوتے ہیں ، ان کی مدد کے لئے یہ محض انسانی ہمدردی سے تعاون ہوتا ہے مگر لازم نہیں کہ وہ خدا کی خاطر ایسے کرتے ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میں جانتا ہوں بہت سے ان میں ایسے ہیں جن کا عیسائیت سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں رہا صرف بنی نوع انسان کی ہمدردی ان کا مذہب بن جاتا ہے.تو تقویٰ کا وہ مضمون جو اللہ سے ملاتا ہے وہ اس سے خالی ہوتے ہیں.تو مومن کو نصیحت فرمائی گئی کہ ”بر “ وجہ سے صرف نہ کرو تقوی“ کی وجہ سے بھی کرو.اگر تقویٰ کی وجہ سے کرو گے تو تمہاری یہ نیکی دونوں جہان کی سعادتیں دلوانے کا موجب بن جائے گی.اگر محض نیکی کی خاطر کرو گے یعنی دل کی ہمدردی سے تو اس کی جزا تو پاؤ گے مگر وہ اعلیٰ جزا جو تمہیں مل سکتی ہے اس سے محروم رہ جاؤ گے.اب ظاہر بات ہے کہ تقوی کا یہ معنی بلند تر معنی ہے اس معنی سے جو میں " " نے پہلے بیان کیا تھا.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ آپ کوئی کام کریں اور کسی کی خاطر کرتے ہوں اور اس کو علم ہو کہ یہ تکلیف میری خاطر اٹھا رہا ہے تو کام خواہ نیکی کا ہو خواہ عام کام ہومگر جس کی خاطر آپ کرتے ہیں وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر اس کا ایک قسم کا احسان ہو گیا ہے.یہ اگر احسان نہیں رکھا جا سکتا تو کم سے کم اس نے تو میری محبت کی خاطر یہ تکلیف اٹھائی ہے اعلیٰ اخلاق کا تقاضا ہے کہ میں بھی اس کی خاطر کچھ ایسا کام کروں جو میرے لئے کرنا فرض نہ ہو یعنی فرض سے بڑھ کر اس کے لئے کوئی خدمت کروں.پس اللہ تعالیٰ کے احسانات کو کھینچنے کے لئے یہ آیت کریمہ ایک بہت ہی عمدہ گر ہمیں بتلاتی ہے.بنی نوع انسان کی ہمدردی تو جس کے دل میں ہوگی اس نے تو کچھ کرنا ہی کرنا ہے اگر رضائے باری تعالی پیش نظر ہو اور اس کی خاطر آپ تعاون کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نگاہیں آپ پر پڑیں گی ، آپ کی ہر نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا موجب بن جائے گی.جس کی دنیا سنوار میں گے اس کا دنیا سنوارنا آپ کی دنیا بھی سنوار جائے گا اور آپ کی عاقبت بھی سنوار جائے گا.یہ وہ دوسرا پہلو ہے وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوىی کا جسے ہمیں لازماً پیش نظر رکھنا چاہئے.
خطبات طاہر جلد 15 603 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء پھر یہ تو عام نصیحت ہے جو وسعت کے لحاظ سے تو بہت ہے یعنی انسانی زندگی کے ہر دائرے پر محیط ہے مگر مضمون کے تحکم کے لحاظ سے ، لازم ہونے کے اعتبار سے یہ ایک نرم آیت ہے.یعنی مثبت پہلو میں اس میں ایک نرمی پائی جاتی ہے.نہ بھی کرو تو تمہارا گزر ہو جائے گا اس کے نتیجہ میں تمہیں جہنم نہیں ملے گی لیکن اعلیٰ خوبیوں سے ، اعلیٰ مراتب سے محروم رہ جاؤ گے.اس کی ایک مثال ایک ایسے شخص کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس نے نیکیوں کی تعریف پوچھی کہ کیا کیا باتیں ہیں.جب اس کو پتا چلا کہ فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی ہیں اس کے علاوہ نوافل کو حسین بنا کر اس رنگ میں کرنا کہ گویا نیکی کرنے والا محسن ہو گیا.تو اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺے مجھے میں ان باتوں کی طاقت نہیں ہے ، مجھے تو صرف فرائض بتا ئیں.جتنے فرائض ہیں وہ میں کرلوں گا اس سے آگے نہیں بڑھوں گا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم اس عہد پر قائم رہو تو تمہیں کوئی خطرہ نہیں.اس سے پتا چلتا ہے کہ تعاون کا مضمون طوعی ہے.اگر یہ لازم ہوتا تو پھر ان معنوں میں لازم کہ گویا اگر نہ کریں گے تو سزا ملے گی تو اس پہلو سے آنحضرت یہ اس کو نوافل سے آزاد نہ کرتے.مگر اگلا پہلو اس آیت کا وہ قطبیعت رکھتا ہے.وہ تھوڑے دائرے پر اطلاق پاتا ہے لیکن بڑی شدت کے ساتھ اطلاق پاتا ہے اور وہ یہ ہے وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ جہاں گناہ کا تعلق ہو اور جہاں بعض لوگ بعضوں پر زیادتی کر رہے ہوں وہاں ہرگز تعاون نہیں کرنا.وہاں اگر تعاون کرو گے تو تم یاد رکھونَ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ اللہ تعالیٰ سخت پکڑنے والا ہے، سخت عذاب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ سے بچو.تو بعض دفعہ مثبت مضمون نرم ہو جاتا ہے اور منفی مضمون زیادہ شدید ہو جاتا ہے یہ اس کی ایک مثال ہے اور نیکیوں میں تعاون کرنا ہے ، بدیوں میں ہرگز نہیں کرنا اس کی ایک مثال آنحضرت ﷺ ایک تمثیل کے طور پر پیش فرماتے ہیں.بخاری کی یہ حدیث ہے کتاب الشركة باب هل يقرع في القسمة والاستهام فيه) اسكا ترجمہ بہر حال پیش کر دیتا ہوں.حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اللہ تعالی کی حدود کو قائم کرتا ہے اور اس شخص کی مثال جو ان حدود کو تو ڑتا ہے ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں الله
خطبات طاہر جلد 15 604 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء نے ایک کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لئے قرعہ ڈالا.کچھ لوگوں کو اوپر کا حصہ ملا اور کچھ کو نیچے کی منزل میں جگہ ملی.جو لوگ نیچے کی منزل میں تھے وہ اوپر والی منزل میں سے گزر کر پانی لیتے تھے.بظاہر آپ سمجھتے ہیں کہ الٹ ہونا چاہئے ، اوپر والوں کو پانی کے قریب آنے کے لئے نیچے آنا چاہئے مگر اگر چاروں طرف سے دیوار میں اٹھی ہوئی ہوں اور پانی کو اندر آنے کی راہ نہ ہو تو آپ کیسے نیچے کی منزل سے پانی لے سکتے ہیں.تو جہاں کشتی کا اوپر کا کنارہ ہے وہاں سے ڈول پھینکا جاسکتا ہے اندر سے ڈول نہیں پھینکا جا سکتا.تو یہ مضمون ہے کہ نیچے کی منزل والوں کے لئے ضروری تھا کہ اوپر جائیں اور او پر جا کر وہاں سے ڈول ڈالیں اور اپنا پانی حاصل کریں اور اوپر کی منزل والوں کو یہ آرام تھا کہ اوپر بیٹھے بیٹھے وہ پانی حاصل کر لیا کرتے تھے.اس پر جو نیچے کی منزل والے تھے ان میں سے ایک بیوقوف نے یہ مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم یہیں سوراخ کرلیں اور سوراخ کر کے اپنا پانی نیچے سے حاصل کر لیں.اب صلى الله وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کی مثال رسول اللہ لہ پیش فرما ر ہے ہیں.اوپر کی منزل والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر وہ یہ خیال کر کے کہ ان کا کام ہے یہ جو مرضی کرتے پھریں ہمیں کیا اس سے، اس میں دخل نہ دیں تو یہ لوگ خود بھی غرق ہوں گے اور اوپر والوں کو بھی غرق کر دیں گے.اس لئے یہاں اوپر والوں کا فرض ہے کہ ان کو ان کے اس بظاہر حق سے محروم کر دیں کیوں کہ یہ بدی کر رہے ہیں اور بدی میں کوئی تعاون نہیں ہے.پس اس پہلو سے جب نھی عن المنکر کی بات ہوتی ہے تو یہ مراد ہے کہ بدیوں سے روکنا ہے لیکن اگر بدیوں سے روکنا اس مرتبے تک جا پہنچے کہ ساری قوم کی ہلاکت کا موجب بنے تو پھر خدا تعالیٰ اسی حد تک دخل اندازی کا بھی حق دیتا ہے اور اگر انسان یہ کہے کہ یہ تو تعاون کی روح کے خلاف ہے، ہم کیوں نہ ان سے تعاون کریں، ان کو کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں تو یہ جہالت ہوگی.فرمایا کہ اگر وہ ان کو نہیں روکیں گے تو تمام غرق ہو جائیں گے.ایک اور حدیث میں آنحضرت مے کی طرف سے، یہ ترمذی ابواب الفتن باب امر بالمعروف ونهی عن المنکر سے لی گئی ہے.یہ چونکہ ہم اب تعاون کی گفتگو کرتے ہوئے امر بالمعروف اور نهي عن المنکر کی بات شروع کر بیٹھے ہیں تو اس مضمون پر ایک حدیث میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ
خطبات طاہر جلد 15 605 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء قدرت میں میری جان ہے یا تو تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ور نہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تمہیں سخت عذاب سے دو چار کرے پھر تم دعا ئیں کرو گے لیکن وہ دعائیں قبول نہیں ہوں گی.پس یہ اہمیت ہے وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کی ، جس کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ آپ کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے.پس بظاہر تعاون کرنا ایک نفلی کام ہے مگر جب اس پر غور کریں تو پتا چلے گا کہ یہ نفلی کام ایسا ہے جو آپ کی قومی بقاء کے لئے ضروری ہے اور اگر آپ نیکیوں میں تعاون کرنا سیکھ جائیں اور برائیوں سے روکنے کی عادت ڈال لیں خواہ آپ کو امارت نصیب ہو یا نہ ہولیکن عادت بنالیں کہ جہاں اچھا کام ہے آپ نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی کوشش کرنی ہے جہاں بری بات ہورہی ہے وہاں کچھ اور نہیں تو زبان سے روکیں.پس یہ تصور جو مولویوں والا ہے کہ کسی نے سر پہ دو پٹہ نہیں رکھا ہوا تو اس کو تھپڑ مارو اور اس کے سر پہ زبر دستی دو پٹہ پہنا دو یہ ہرگز اس آیت کا مضمون نہیں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی مسلمان عورت کو زبر دستی برقعہ نہیں پہنایا.قرآن کریم میں نصیحتیں آتی رہی ہیں.یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے.مگر ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ کوئی صلى الله عورت آنحضور کی خدمت میں گھسیٹ کے لائی گئی ہو کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ پردہ نہیں کر رہی تھی ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہی تھی تو خدا اس کے ساتھ نپٹے گا لیکن پردے کی نصیحت کرنا یہ سوسائٹی کا شیوہ تھا.نیک باتوں کی تاکید کرنا بری باتوں سے روکنا یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی کی آیت میں اور معروف کے حکم اور بدی کے روکنے کے مضمون میں ہمارے سامنے کھولتا ہے.پس یہ اپنی عادت بنا ئیں کہ اچھی بات میں اس لئے تعاون کریں کہ اچھی بات ہے.آپ نے اچھی بات کو اپنا کر اس کے لئے ایسی کوشش کرنی ہے جیسے اپنی چیز ہے اور جب برائی سے روکتے ہیں تو اس وقت آپ کو اختیار ہے طاقت کے استعمال کا جب خدا تعالیٰ آپ کو اس پر مامور کرتا ہے اور جب ایسے معاملات میں کوئی شخص بعض احمقانہ فیصلے کر کے ان پر عمل کر رہا ہے جس سے ساری قوم کی بر بادی لازم ہو جاتی ہے اس صورت میں قوم کو اجازت ہے ، انفرادی طور پر ہر شخص کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ بیچ میں دخل اندازی کرتا پھرے.
خطبات طاہر جلد 15 606 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء بہر حال یہ عمومی مضمون ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو جب میں کہتا ہوں کہ اطاعت کریں ، اطاعت کی روح اختیار کریں ، چھوٹے سے چھوٹے عہدے دار کی بھی اطاعت کریں تو یا درکھیں وہ چھوٹے سے چھوٹے عہدے دار کی اطاعت کا صلى الله اختیار کرنا آپ کے تعاون کی روح سے تعلق رکھتا ہے.آنحضرت ﷺ نیک کاموں میں تعاون مانگا کرتے تھے.بسا اوقات صحابہ سے سوال کیا کرتے تھے کون ہے جو اس معاملے میں میرا مددگار ہوگا.قرآن کریم میں حضرت مسیح کے تعلق میں یہ بیان ہوا ہے اور کسی نبی کے تعلق میں اس طرح بیان نہیں ہوا کہ اس نے یہ اعلان کیا ہو مَنْ اَنْصَارِی اِلَى اللهِ ( آل عمران : 53) کون ہے جو اللہ کی خاطر میرامددگار ثابت ہو یعنی تعاون مانگا گیا ہے اور حضرت مسیح کے تعلق میں اس کا بیان کرنا دراصل جماعت احمدیہ کے لئے ایک پیغام رکھتا ہے کہ تم اگر واقعی سچے مسیح ثانی کے غلام ہو تو اس بات کو یا د رکھنا کہ وہ جب نیکی کے کاموں کے لئے تم سے خدا کی خاطر تعاون مانگے تو ضرور تعاون پیش کرنا ہے اور اس تعاون کے ساتھ اطاعت جب وابستہ ہو جائے تو اطاعت میں ایک لذت پیدا ہو جاتی ہے.اس سے احساس کمتری کا ہر شائبہ نکل جاتا ہے.جو شخص یہ پوچھے بغیر تعاون کرتا ہے کہ کوئی حاکم ہے بھی کہ نہیں، جو شخص آنحضرت ﷺ کی غلامی میں اپنے غلاموں سے تعاون کرتا ہے،اپنے نوکروں سے تعاون کرتا ہے ، اپنے بچوں سے تعاون کرتا ہے ، اس شخص کے لئے یہ کہاں کا موقع ہے کہ جب اس کو خدا کے نام پر کچھ کہا جائے اطاعت کرو تو کہے میں کیوں کروں.نیکی سے محبت ، نیکی سے تعاون اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے اور جب وہ کرتا ہے تو پھر دراصل اپنی ہی اطاعت پوری کرتا ہے، غیر کی اطاعت اڑ جاتی ہے اور تقویٰ کا مضمون بتاتا ہے کہ اللہ کی خاطر وہ اپنے نفس کی نیک باتوں کی اطاعت ا کرتا ہے، اپنے نفس کی بد باتوں سے رک جاتا ہے.تو یہ ایک بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے جو تمام انسانی زندگی پر محیط ہوجاتا ہے اگر قرآن کریم کی نصائح پر غور کرے ان کو سمجھے اور آنحضرت ﷺ کی ذات اور آپ کی صفات کے حوالے سے اس مضمون پر عمل کرے نہ کہ کسی مولویانہ تفسیر کے تابع اس پر عمل کرے.پس جماعت کو تعاون اختیار کرنا، ایک دوسرے سے تعاون کرنا حرز جان بنا لینا چاہئے یعنی ایسی بات کہ ان کی زندگی کی گہرائی تک ، پاتال تک اتر چکی ہو.ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہو.ان کی
خطبات طاہر جلد 15 607 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء فطرت ثانیہ نہیں ، فطرت اولیٰ جاگ اٹھے کیونکہ یہی تو فطرت ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے.ہر اچھی بات میں تعاون کرو، ہر بات جو خدا سے تعلق والی ہو جو خدا چاہتا ہے،تقویٰ کا مضمون یہ ہے جو اللہ چاہتا ہے ویسا ہی کرو تو پھر جھگڑے اٹھ جاتے ہیں کون حاکم ، کون محکوم.تمام حاکم اور تمام محکوم ہو جاتے ہیں.یہ وہ ایک عظیم مساوات ہے جس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور انسان کسی کے سامنے گردن جھکانے پر کسی پہلو سے بھی عار محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری گردن تو خود میرے اندر کی نیکیوں کے سامنے خم ہو چکی ہے.میں تو اپنے دل کی نیک آوازوں کے خلاف سراٹھا ہی نہیں سکتا تو جب باہر سے وہ آواز آئے کیسے میں اس کی مخالفت کروں گا.پس اگر اس پہلو کے پیش نظر ہم اپنی تمام زندگی کو تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کے تابع کرلیں گے تو جماعت کو پھر کسی قسم کے کوئی خطرات در پیش نہیں ہوں گے اور جماعت کی بقاء کا راز اس میں ہے کیونکہ نظام جماعت کی بقاء اطاعت پر منحصر ہے اور اطاعت کی بقاء وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ منحصر ہے.یہ وہ مزاج ہے جو اطاعت کی روح پیدا کرتا ہے.پس اس پہلو سے اگر آپ اطاعت کو اختیار کریں تو جماعت کی ساری زندگی میں ہر جگہ ایک حیرت انگیز دلکشی پیدا ہو جائے گی.ایک آدمی آپ کو بلاتا ہے آؤ یہ کام کریں، یہ پوچھے بغیر کہ اسے بلانے کا اختیار ہے کہ نہیں اگر اچھی بات کی طرف بلا رہا ہے آپ دوڑے ہوئے چلے جائیں گے.مشرک بلاتا ہے تو چلے جاتے ہیں تو مومن بلاتا ہے کیوں نہیں جائیں گے.ہراچھے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ ، ایک دوسرے سے بڑھ کر آپ تعاون اختیار کرنا شروع کریں گے اور یہ جو جذبہ ہے اس سے قوموں کی تقدیر بدل جائے گی.اس کے بغیر ناممکن ہے کہ آپ دنیا میں عظیم روحانی انقلاب برپا کر سکیں.آنے والے آرہے ہیں آپ کو دیکھ رہے ہیں اور سب سے زیادہ ان کی ذات پر آپ کا یہ اندرونی تعاون ہے جو اثر انداز ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر البانیہ کے آئے ہوئے ایک عالم نے یہ بیان کیا کہ میں تو جب آپ کو ایک ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں ، وہ یہ بیان نہیں کر سکا کہ کیا بات ہے وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ تھا جس کو وہ دیکھ رہا تھا.بوڑھے، بچے ، جوان ہر نیکی کی آواز پر آگے بڑھے اور لبیک کہا اور ہر بوجھ اٹھا لیا.حالانکہ ان پر فرض نہیں تھا، کوئی زبردستی نہیں تھی، کوئی طاقت نہیں تھی نظام کے پاس کہ زبر دستی ان کو ان کاموں پر مامور کرے کس نے ان کو کہا تھا کہ اپنے دفتروں
خطبات طاہر جلد 15 608 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء سے چھٹیاں لیں کس نے سکول کے بچوں اور کالج کے طالب علموں کو کہا تھا کہ اپنی پڑھائیاں ایک طرف کردو آج اور دوڑتے ہوئے خدمت دین کے لئے حاضر ہو جاؤ.کوئی حکم ایسا نہیں تھا جس کی پابندی ان پر لازم ہوتی.جو نہیں تھے ان کو کبھی کوئی سزا نہیں ملی.سینکڑوں ہیں جو محروم رہے ہیں کبھی کسی نے آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھا کہ تم کون لوگ ہو.اگر دیکھا ہے تو رحم کی نظر سے دیکھا ہے کہ بے چارے محروم رہے مگر غصے کی نظر کبھی کسی پہ نہیں ڈالی گئی.یہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى تھا جس نے ان کو حیرت زدہ کر دیا اور انہوں نے کہا کہ اب میں سمجھا ہوں یہ صداقت ہوتی کیا ہے.اب میں سمجھا ہوں کہ سچائی کس کا نام ہے اور اس اقرار کے بعد انہوں نے فوراً بیعت کر لی اور یہ عہد کر کے واپس گئے ہیں کہ اب میں اپنی ساری قوم کو جب تک احمدی نہ بنالوں میں چین سے نہیں بیٹھوں گا.وتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى تو ایک عظیم الشان نعمت ہے اس کے ایسے پھل ہیں جو پھر آگے پھل پیدا کرنے والے درخت بن جایا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہو جاتا ہے.ابھی کل ہی اس کی ایک اور مثال میرے سامنے آئی جب سینیگال کا وفد مجھے آخری دفعہ جانے سے پہلے ملنے کے لئے آیا تو ان کے ساتھ گیمبیا کے ایک بہت بڑے چیف بھی تھے جو احمدی نہیں تھے.نہ چلتے وقت احمدی تھے نہ یہاں پہنچ کر انہوں نے احمدیت کا کوئی اظہار کیا، بالکل خاموش رہے ہیں.مسئلہ بھی کوئی نہیں پوچھا لیکن ان کی خواہش تھی میں بھی جاؤں دیکھوں کیا ہوتا ہے تمہارے ہاں، ان کو بلا لیا گیا.جب وفد سے میری باتیں ختم ہوئیں اس میں مضمون یہی چل رہا تھا جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اس طرح اب آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو سچائی کی طرف بلانا ہے کیونکہ آپ کو اللہ نے یہ نعمت عطا کی ہے.آپ پر فریضہ تو نہیں ہے ان معنوں میں کہ آپ نہ کریں تو ہم آپ کو پوچھ سکتے ہیں مگر اس کو اپنے دل کا جذ بہ بنالیں.ایسا جذ بہ بنائیں کہ آپ بے اختیار ہو جا ئیں ، آپ سے ہو نہ سکے کہ لوگوں کو دعوت الی اللہ کے بغیر آپ چین سے بیٹھ سکیں.یہ جب باتیں میں کر رہا تھا تو ان کے چہرے کے آثار بتا رہے تھے کہ وہ پہلے ہی اس کے لئے تیار بیٹھے تھے اور ان کے دل کی آواز تھی جو میری زبان سے نکل رہی تھی.جب ہماری باتیں ختم ہوئیں تو سیمبین چیف نے ہاتھ اٹھایا کہ میں کوئی بات کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا فرما ئیں.انہوں نے بتایا کہ دیکھیں میں چلتے وقت احمدی نہیں تھا میرا احمدیت قبول کرنے کا کوئی دور کا بھی خیال نہیں
خطبات طاہر جلد 15 609 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء تھا اور امیر صاحب نے جو ان کے ساتھ تھے بتایا کہ وہاں یہ ہم سے تعاون کرتے تھے مگر صاف کہتے تھے کہ احمدی میں نے نہیں ہونا.ان کی اپنی مجبوریاں تھیں.تو اب یہ دیکھیں ایک تعاون ایک اور نیکی پر منتج ہوتا ہے اور پھر اس شخص کو جو تعاون کے نتیجہ میں نیکی پاتا ہے کس طرح ہدایت کی طرف گویا پکڑ کر لے جاتا ہے، ہاتھ پکڑ کر وہاں پہنچا دیتا ہے.انہوں نے کہا یہاں جب میں نے آکے دیکھا تو آپ لوگوں کو میں نے عجیب پایا.محض نیکی کی خاطر اس طرح کیٹریوں کی طرح دن رات کام ہور ہا تھا.سب خوش تھے، سب ایک دوسرے سے محبت کر رہے تھے.ہر ایک کو دوسرے سے تعاون کے لئے دل کے جذبے تھے جو مجبور کر رہے تھے، میں نے کوئی بیرونی دباؤ ایسا نہیں دیکھا جس کے نتیجہ میں یہ ہوا ہو.انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنے کے بعد میں غیر احمدی کیسے رہ سکتا ہوں.آج میں ابھی اعلان کرتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ میں احمدی ہوں بلکہ واپس جا کر چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک اپنی ساری قوم کو احمدی نہ بنالوں.اب اس کے نتیجہ میں دیکھیں میں آپ کو ایک ایسی مثال دے رہا ہوں جس طرح حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے شرک کے زمانے کی نیکیاں ہی تو تھیں جو تمہیں ہدایت تک لے آئی ہیں اور کیا جزاء چاہتے ہو.تو ان کے تعاون کی جزا تھی جو ان کو خدا نے یہاں پہنچنے کی توفیق بخشی اور تعاون ہی تھا جسے دیکھ کر ان کے دل کی کایا پلٹ گئی اور جو ایمان افروز نظارہ اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ ممبر پارلیمنٹ جو سینیگال سے آئے ہوئے تھے اس بات کو سن کر اتنا خوش ہوئے کہ اس کے ہاتھ پکڑ پکڑ کے چومنے لگے کہ تم نے ہمارے دل کو ٹھنڈا کر دیا ہے.یہ جذ بہ بنائے نہیں بن سکتا.یہ اللہ کا احسان ہے اور تعاون ہی کے پھل ہیں.پس بر اور تقویٰ پر تعاون کو آگے بڑھاتے رہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جب مجھے امریکہ اور کینیڈا کے جلسے میں شامل ہونے کی توفیق ملی تو شروع ہی میں میں نے ان کو چند نصیحتیں کی تھیں جو جلسہ سالانہ کے آغاز پر کی جاتی ہیں اور انہوں نے اس طرح اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا کہ خود وہاں کے جو شر کا ء کار تھے انہوں نے مجھ سے ملاقات کے دوران کہا کہ آج تک ہم نے اتنی حیرت انگیز تعاون کی روح پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی.بچہ بچہ، بوڑھا، جوان اس طرح تعاون کر رہا تھا کہ یہ فرق ہی مٹ گیا تھا کہ کیوں کوئی کام کرے.حاکم اور محکوم کے تفرقے مٹ گئے تھے.ایک آواز اٹھتی تھی نیکی کے لئے سارے دوڑے چلے آتے تھے اور یہ جو تعاون ہے پہلے آپ کو
خطبات طاہر جلد 15 610 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء گھروں میں کرنا ہوگا.اس بات کو ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ جب ہم قومی باتیں کرتے ہیں تو ان باتوں کا آغاز گھروں سے ہوا کرتا ہے.بچوں کی تربیت میں میرا ساری زندگی کا تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ ان سے آپ نیکی کے معاملات میں تعاون کریں اور تحکم کی بجائے تعاون لیں تو کبھی وہ معصیت نہیں کریں گے.کبھی آپ کی نافرمانی کا تصور بھی ان کے دماغ میں نہیں آسکتا.اور یہ ہر اس گھر کا جائزہ بتاتا ہے جہاں بچوں کی تربیت اس رنگ میں کی گئی ہے کہ ماں باپ ان کے کاموں میں ان کے لئے جھکتے ہیں ، ان سے تعاون کرتے ہیں اور حکم دیئے بغیر تعاون چاہتے ہیں اس وقت بچوں کی نگاہیں اپنے ماں باپ کی رضا پر لگی رہتی ہیں.ان کو ہرگز ڈانٹنے کی کوئی ضرورت نہیں کسی سزا کی ضرورت نہیں ، آپ کی نظروں میں ذراسی مایوسی کے آثار پائیں بے قرار ہو جاتے ہیں ،تڑپ اٹھتے ہیں.جب تک وہ آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار نہ دیکھ لیں ان کو چین نہیں ملتا.ایسے بچے نافرمان کیسے ہو سکتے ہیں.ایسے بچے آپ کی اطاعت کے دائرے سے دور کیسے جا سکتے ہیں.تو جہاں اپنے گھر میں یہ تجربہ نہ کیا ہو وہاں جماعت میں بھی یہ تجربہ نہیں ہوگا.گھروں کو تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقوی کی آماجگاہ بنا دیں.یہاں یہ تعاون کی روح پرورش پائے پھر جب گھروں سے نکل کر گلیوں میں جائے گی تو اسی طرح تعاون کی روح ماحول کو تعاون کرنے پر مجبور کرتی چلی جائے گی.یہ طاقت ور اور غالب آنے والی روح ہے اور لازماً اس کو غلبہ نصیب ہوتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اس تعلق میں خواہ جلسوں کے انتظام ہوں ، مہمانوں کا تعلق ہو، یہاں بھی آپ نے دیکھا ہر آنے والے سے تعاون کیا گیا ہے خواہ وہ جرمنی جماعت تھی یاBelgium کی جماعت تھی یا اکیلا کہیں سے آنے والا تھا.قطع نظر اس کے کون آیا ، کہاں سے آیا ، اس کا حق کیا بنتا ہے؟ خدا کے فضل سے UK جلسے کی انتظامیہ نے ہر ایک سے تعاون کیا اور جرمنی میں بعینہ یہی ہوتا ہے، ایک ذرہ بھی فرق نہیں Belgium میں بعینہ یہی ہوتا ہے ، ہالینڈ میں بالکل اسی طرح ہوتا ہے، ناروے میں اسی طرح ہوتا ہے.جہاں جہاں میں جاتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پہلو سے میں جماعت کو بہت مستعد پاتا ہوں کہ ہر آنے والے کے ساتھ نیکی کی وجہ سے تعاون ہو رہا ہے اس سے کوئی غرض نہیں، کچھ دینا نہیں ، تکلیف اٹھا کے بھی تعاون کیا جاتا ہے.پس اس میں ہماری زندگی کا راز ہے ہماری بقاء کا راز ہے اور قوموں میں جس اصلاح کے
خطبات طاہر جلد 15 611 خطبہ جمعہ 2 راگست 1996ء لئے ہم مامور کئے گئے ہیں وہ اصلاح تب ہی ممکن ہوگی اگر ہم تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کی روح پر قائم ہوں.وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کی ہدایت پیش نظر رکھیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 613 خطبہ جمعہ 9 راگست 1996ء بهترین اطاعت امر بالمعروف ونهى عن المنكر ، جبکہ بہترین دعوت الی اللہ دعوت الی الخیر ہے.(خطبه جمعه فرموده 9 اگست 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) ( آل عمران : 105 ) پھر فرمایا: قرآن کریم کی جس آیت کو میں نے گزشتہ خطبہ کا عنوان بنایا تھا وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدہ: 3) والی آیت تھی یعنی وہ آیت جو نصیحت کرتی ہے کہ اچھی باتوں میں نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور بری باتوں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو.قرآن کریم بہت سے مضامین کو جوڑوں کی صورت میں پیش کرتا ہے.ایک آیت کا جوڑا ایک اور جگہ ملتا ہے اور دونوں جوڑے ایک دوسرے کے مضمون کو تقویت دیتے ہیں.تو تعاون سے مراد کیا ہے؟ صرف تعاون سے مراد یہ نہیں کہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہے وہ مانگو اور وہ دوسرا فریق تعاون کرتے ہوئے چیز تمہیں دے دے.تعاون کا اصل حقیقی مضمون اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے جو میں نے آج تلاوت کی ہے اور اسی لئے گزشتہ خطبہ کے آخر پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے وہ ارشادات بھی آپ کے سامنے رکھے جن کا تعلق نیکیوں کا حکم دینے اور بلدیوں سے روکنے سے ہے.
خطبات طاہر جلد 15 614 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء پس تعاون کس بات پر کرو.اگر آپ کسی کو کچھ کہیں تو پھر تعاون کا سوال پیدا ہوتا ہے کسی بات سے روکیں پھر تعاون کا سوال پیدا ہوتا ہے اور ہر جگہ کسی طاقت کے حوالے کی ضرورت نہیں ہے.قرآن کریم اس پہلو سے ساری امت کو ہی صاحب امر بنا دیتا ہے.اب حقیقت میں صاحب امر ہونے کا راز اس میں ہے ان دو آیات کے مضمون کو سمجھ لیں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ اسلام میں کوئی ڈکٹیٹر شپ نہیں ہے.جہاں اطاعت کا حکم ہے وہ پابند ہے نیکی کی باتوں کے ساتھ ، اتنا پابند ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی کی عورتوں کو بیعت لیتے وقت جو الفاظ وحی کے ذریعے سکھلائے گئے جو قرآن کریم میں موجود ہیں ان میں یہ ہے کہ ان سے بیعت کے وقت یہ عہد لیا کرو کہ معروف باتوں میں تیری اطاعت کریں گی.میں نے پہلے ایک دفعہ اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی کہ معروف باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ بالله من ذلک حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ غیر معروف باتوں کا حکم دے سکتے تھے.معروف باتوں سے مراد آپ کے دائرہ حکم کو محدود کرنا نہیں بلکہ بڑھانا اور وسعت دینا ہے.قرآن کریم میں جو او امر اور نواہی ہیں جو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہیں یا مومنین کو مخاطب کرتے ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سی نیکی کی باتیں ہوتی ہیں جو ان کی تشریحات سے تعلق رکھتی ہیں اور براہ راست تشریح کا حوالہ دے کر کی جائے یا نہ کی جائے ہراچھی بات کی بنیاد قرآن کریم میں موجود ہے اور یہ بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں کہ قرآن کریم کی فلاں آیت میں یہ بات اس طرح ہے اس لئے اس کے تعلق میں تمہیں میری ہدایت پر عمل صلى الله کرنا چاہئے.پس آنحضرت ﷺ تو تمام تر وحی کی بات فرمایا کرتے تھے پھر یہ جوفر مایا گیا کہ معروف میں میری اطاعت کرو گی اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں میں اس بات کا کوئی واہمہ تک نہ رہے کہ جب بھی ہمیں حکم ملے ہم یہ پتا کریں کہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ نہیں.معروف تو ایسی چیز ہے جو ہر زمانے کے ہر انسان پر ، خطہ ارض کے ہر انسان پر برابر اطلاق پاتی ہے.معروف بات وہ ہے جو عرف عام میں دیکھنے سے اچھی معلوم ہو.اس کے لئے حکم کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے.صاحب امر کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے.تو مراد یہ ہے کہ زندگی کے کسی شعبے سے تعلق رکھنے والی بات ہو خواہ واضح طور پر قرآن کریم کے اوامر اور نواہی میں اس کا ذکر ہو یا نہ ہو تم پھر بھی اطاعت کرو گی اور اوامر و نواہی میں اطاعت کے لئے تو لازم ہے کہ ہر مومن جو بیعت کرتا ہے وہ ضرور
خطبات طاہر جلد 15 615 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء اطاعت کرے کیونکہ اس کی بیعت ہی اللہ کے ساتھ ہے وہ سب کچھ بیچ بیٹھتا ہے خدا کے حضور.پس یہ جو مضمون ہے معروف میں اطاعت کا یہ اطاعت کے دائرے کو تنگ نہیں کرتا بلکہ بہت وسیع کر دیتا ہے.جو بات میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب تمام امت کو صاحب امر بنایا گیا ہے اور قرآن کریم کی مختلف آیات سے پتا چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ امتوں کو اپنا جانشین بنایا کرتا ہے.آیت استخلاف میں بھی آنحضرت ﷺ کے تمام نیکو کار غلاموں کو جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ ہم تمہیں اپنا خلیفہ بنائیں گے یاز مین میں خلیفہ بنائیں گے جیسا کہ پہلوں کو بنایا.یہ تفصیل تو بہت لمبی ہے.میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب ایک صاحب امر کے ذریعے کسی قوم کے سپر د دنیا کی اصلاح کی جائے تو اس قوم کا ہر فرد صاحب امر ہو جاتا ہے اور اس پہلو سے بڑے اور چھوٹے حاکم اور محکوم کی کوئی تفریق باقی نہیں رہتی.اس کی شرط یہ ہے کہ ہر شخص امر بالمعروف کرے اور نھی عن المنکر کرے.ہر شخص اچھی باتوں کا حکم دے اور نیکیوں کی طرف بلائے.اب نبی اور کیا کرتا ہے.یہی تو کرتا ہے لیکن نبی ان معنوں میں بھی مامور ہے کہ اس کے سامنے بات سمجھ آئے یا نہ سمجھ آئے انسان کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کر سکتا، کوئی پس و پیش نہیں کر سکتا.مگر عامتہ المسلمین کے لئے صاحب امر بننے کے لئے لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ایسی اچھی باتیں کریں ایسی بری باتوں سے روکیں کہ جس کے لئے کوئی شخص حوالہ مانگے ہی نہیں اور قرآن کریم کی نیکیاں دراصل تمام تر اسی نوع سے تعلق رکھتی ہیں مگر بعض اپنی نوع کے اندر ایسا مقام حاصل کر لیتی ہیں کہ ہر کہنے والے کو یہ سمجھانے کی طاقت نہیں ہوتی کہ یہ کیوں تمہارے لئے مفید ہے.جھوٹ کے متعلق تو کہہ سکتا ہے کہ جب میں تمہیں کہتا ہوں جھوٹ نہ بولو اور سچ بولوتو سب دنیا جانتی ہے کہ اچھی بات ہے.مگر پانچ وقت نماز اس طرح ادا کرو اور اس طرح نہ کر دیا سورج ڈھلے پر کس طرح کی عبادت کر سکتے ہو یا نہیں کر سکتے کتنی دیر بعد اور کتنی دیر پہلے اور روزمرہ وضو کیسے کرنا ہے نماز کے لئے کیسے کھڑا ہونا ہے اس کے لئے صاحب امر ہی ہے جو آنحضرت ﷺے ہیں جن پر قرآن نازل ہوا.ان کا صرف یہی حوالہ کافی ہے کہ صاحب امر کو اللہ تعالیٰ نے مامور فرمایا اور یہ ہدایتیں دی ہیں اور تم پر اس کا ماننا فرض ہے.پس ان معنوں میں بھی مومن حقیقت میں صاحب امر بن جاتا ہے.جب وہ قرآن کا حوالہ
خطبات طاہر جلد 15 616 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء دے گا تو اس وقت یہ سوال اٹھ ہی نہیں سکتا کہ تمہیں کیا خدا نے الہام کیا تھا.وہ کہے گا جس کو اپنے اس زمانے کے لئے یا ہر زمانے کے لئے خدا نے مامور بنایا ہے اس کو تو الہام کیا تھا اب میں وہی باتیں تمہیں کہہ رہا ہوں.لیکن یہ جو نصیحت ہے یہ مومنوں کے دائرے تک محدود رہتی ہے اور ان میں بھی ہر مومن صاحب امر ہے اور ہر روکنے والا خدا تعالیٰ کے نواہی کے دائرے میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اختیار رکھتا ہے کہ روکے.پس یہ جب مضمون وسعت کے ساتھ سمجھ آتی ہے تو نظام اسلام میں کسی ڈکٹیٹر شپ کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.یہاں تک کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ کو جب یہ علم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی امارت کا رعب جمانے کے لئے یاد یکھنے کے لئے کہ میری امارت کا حق ادا کرتے ہیں کہ نہیں آزمانے کی خاطر کہا کہ میں تمہیں کہتا ہوں تم سمندر میں چھلانگ لگا دو یا آگ میں کود جاؤ ، آگ کا موقع تھا وہ خاص طور پر ، تو جب یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ آگ میں کود جاتے تو جہنم میں کود جاتے.پس امر کے نام پر کسی مومن کو یہ کھلا اختیار ہی نہیں دیا قرآن کریم نے کہ جو چاہے اس کا امر دے دے.اوامر اور نواہی کھلے کھلے ہیں اور ہر بات کھول کر واضح طور پر بیان فرما دی گئی ہے.ہاں متشابہات کی دنیا ایسی ہے جس میں ہر شخص کو پتا نہیں چلتا کہ مجھے کچھ کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے.امر بالمعروف میں جہاں عہد بیعت لیا گیا ہے وہاں بہت سا حصہ متشابہات سے بھی تعلق رکھتا ہے.قرآن کریم میں واضح طور پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ عورت اس طرح پردہ کرے.اگر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اس طرح پردہ کرو تو جنہوں نے بیعت کی تھی ان کا فرض ہے کہ وہ اسی طرح پردہ کریں.تو یہ وہ وسیع مضمون ہے جس میں تمام کی تمام امت خلیفہ بن جاتی ہے اور صاحب امر ہو جاتی ہے.شرط یہ ہے کہ نیکی کی بات کرے اور برائی سے روکے.شرط یہ ہے کہ بھلائی کی طرف بلائے اور یہ وہ مضمون ہے جو مومن اور غیر مومن سب پر یکساں اطلاق پا جاتا ہے.کوئی دنیا کی قوم ایسی نہیں جس کو آپ نیکی کی تعلیم دیں اور آگے سے وہ کہے کہ تم کون ہوتے ہو تمہیں کس نے مقرر کیا ہے کسی حکومت کا کوئی پروانہ تولا کے دکھاؤ جس نے تمہیں مقرر کیا ہو کہ ہمیں نیکیوں کی تعلیم دو.بے بس ہو جائے گا نہیں کرے گا، زیادہ سے زیادہ عمل نہیں کرے گا مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم ہوتے کون ہو مجھے اچھی باتیں کہنے والے.کسی کو آپ کہیں دھوپ سے اٹھو، سائے میں بیٹھوگرمی زیادہ ہے، پاگل ہی ہوگا
خطبات طاہر جلد 15 617 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء جو کہے گا کہ تم کون ہوتے ہو تمہیں کس نے ٹھیکیدار بنایا ہے میرا.پس ٹھیکیدار تو نبی بھی نہیں ہوتا لیکن ٹھیکیدار نہ ہونے کے باوجود اس کے حکم میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا انکار کرنے والا پاگل ہوگا کیونکہ وہ سچائی پر بنی حکم دیتا ہے وہ معروف کے حکم دیتا ہے بدیوں سے روکتا ہے.تو دراصل طاقت مضمون میں ہوتی ہے اور جو مضمون کو ئی شخص اختیار کرتا ہے اسی لحاظ سے یا وہ طاقتور ہو جاتا ہے یاوہ کمزور ہو جاتا ہے.اچھی بات اور سچی بات میں ایک طاقت ہے اور جو بھی کچی اور اچھی بات اختیار کرے گاوہ لازماً طاقتور ہو گا.خواہ خدا تعالیٰ نے اس کو مامور کیا ہو یا نہ کیا ہو پھر بھی وہ مامور ہوگا.لیکن خدا اسے مامور کرتا ہے کیونکہ یہ باتیں جو سچائی اور نیکی کی باتیں ہیں یہ ہر مذہب کا خلاصہ ہیں.پس خدا نے جب بھی کبھی کسی مذہب کو نازل فرمایا اس میں اچھی باتوں اور کچی باتوں پر مامور کیا گیا اور ہر شخص آزاد ہے جب چاہے جتنا چاہے اپنا دامن ان سے بھر لے اور جتنا سچائی اور بھلائی سے وہ اپنا دامن بھرتا چلا جاتا ہے وہ مامور ہوتا چلا جاتا ہے، صاحب امر ہوتا چلا جاتا ہے.پس یہ وقت ہے کہ جماعت احمدیہ کو صاحب امر بننا ہو گا اور ان شرائط کے ساتھ بننا ہوگا جو قرآن کریم نے پیش فرمائی ہیں کیونکہ دعوت الی اللہ کا صاحب امر ہونے سے بہت گہرا تعلق ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس مضمون پر بہت ہی دل پذیر رنگ میں جو دلوں کو کھینچنے والا رنگ ہے اس سے روشنی ڈالی ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے کلام کا جو جذب ہے اس کی کوئی مثال آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.چند فقروں میں اتنی گہری باتیں فرما جاتے ہیں، اتنی دلوں کو کھینچنے والی باتیں ہیں کہ اس کا کوئی تو انہیں کسی کے پاس، مجبور ہے کہ کھنچا چلا آئے.پس اس حوالے سے میں نے اس مضمون کو سمجھانے کی خاطر حضرت رسول اللہ اللہ کی کچھ احادیث آج کے لئے چینی ہیں اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اقتباسات ہیں جو اسی مضمون پر قرآن اور سنت کے لحاظ سے روشنی ڈال رہے ہیں.ترجمہ سورہ آل عمران کی اس آیت کا جو نمبر 105 آیت ہے یہ ہے وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ لا ما تم میں ایک امت ایسی رہنی چاہئے يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ جو بھلائی کی طرف بلاتی رہے اور اس امت کی تعین نہیں ہے.یہ تو ناممکن ہے کہ ہر فرد بشر خیر کی طرف بلانے کی طاقت رکھتا ہو.اپنی ذہنی قلبی صلاحیتوں کے اعتبار سے، اپنے دائرہ اثر کے لحاظ سے، اپنی دیگر مصروفیات کے لحاظ سے ،صحت اور
خطبات طاہر جلد 15 618 خطبہ جمعہ 9 راگست 1996ء بیماری کے لحاظ سے ہر شخص کی طاقتیں الگ الگ ہیں لیکن ایک صالح امت میں ایک بڑا حصہ ایسا ضرور موجودرہتا ہے جو اپنے آپ کو بھلائی کی طرف بلانے پر وقف کر دے اور یہی وہ ہدایت ہے جو اس آیت کے آغاز میں دی گئی ہے.وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وہ وقف ہو جائے اس بات پر کہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور بھلائی کی طرف بلانا اور يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ میں ایک فرق کیا گیا ہے.بھلائی کی طرف بلانا ایک دعوت عام ہے جس کا در اصل تعلق دعوت الی اللہ سے ہے کیونکہ قرآن کریم نے جہاں دعوت الی اللہ کا پیغام دیا ہے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا سب سے اچھی بات ،سب سے پیاری بات ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ( حم السجدہ:34) اس سے زیادہ خوبصورت بات کیا ہوگی جو خدا کی طرف دعوت دے اور نیک عمل کرتا ہو، جس کے اعمال اس کی اس دعوت کو سچا کر دکھا ئیں.تو یہ خیر جو ہے یہ دراصل خدا کی طرف بلانا ہے اور نیک کاموں کی طرف بلانا ایک ہی بات بن جاتا ہے.نیک کاموں کی طرف بلانے کا مطلب لازم نہیں کہ خدا کی طرف بلایا جائے مگر خدا کی طرف بلانے کا لازماً یہ مطلب ہے کہ نیک کاموں کی طرف بلالیا جائے.پس خدا کی طرف بلانا حاوی ہے ہر نیکی کے اوپر.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ رَوت اور امر میں دیکھیں کیسا فرق کر کے دکھا دیا.اگر خیر عام معروف ہوتی تو اس کے لئے بھی امر کا لفظ استعمال ہونا تھا.پھر دعوت ایک ایسی چیز ہے جسے اگلے رڈ بھی کر لیتے ہیں قبول بھی کر لیتے ہیں مگر امر میں ان کو اختیار نہیں ہے رڈ کرنے کا تو فرمایا تم خدا کے رستوں کی طرف بلاؤ خواہ لوگ مانیں یا نہ ما نہیں بلاتے چلے جاؤ ان کو اختیار ہے قبول کریں یا نہ کریں لیکن جب تم نیک کاموں کی طرف بلاؤ جو عرف عام میں نیک ہیں تو تم صاحب امر ہو جاؤ گے.پھر وہ خدا کو نہ بھی مانیں تو تمہاری باتوں کو انہیں ماننا پڑے گا کیونکہ اچھی باتوں کا انکار پاگل پن ہے اور کبھی بھی کوئی شخص اچھی باتوں کے تعلق میں حوالے نہیں مانگا کرتا کہ تمہیں کس نے اختیار دیا تھا.پس يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ایک عام حکم ہے نیکی کا جسے جماعت کو اختیار کرنالازم ہے.وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بدیوں سے روکتے چلے جائیں.ان باتوں میں بہت سی
خطبات طاہر جلد 15 619 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء نصیحتیں ہیں اور بہت سے فوائد مضمر ہیں.اول تو میں نے جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا وہ قوم جسے نیکی کی باتیں کہنے کی اور نیکی کی باتوں میں تعاون کرنے کی عادت ہو کیونکہ دوسرا جوڑ اس آیت کا وہ ہے کہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى تمہیں جب نیکی کی طرف بلایا جائے تو تعاون کیا کرو پیچھے نہ بیٹھ جایا کرو.فرمایا جن کو یہ توفیق ہو وہ لوگ اطاعت کے گویا مرقع بن جاتے ہیں کیونکہ اطاعت کا مضمون اوپر سے نیچے تک نیکیوں سے تعلق رکھتا ہے.جن کو یہ پوچھے بغیر اطاعت کی عادت پڑ جائے کہ تم مامور ہو بھی کہ نہیں کیسے ممکن ہے کہ جن کو خاص کاموں پر مامور کیا جائے ان کی اطاعت کے متعلق سوال اٹھا ئیں.پس بہترین اطاعت وہ ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے شروع ہوتی ہے اور بہترین دعوت الی اللہ وہ ہے جو دعوت الی الخیر سے شروع ہوتی ہے.یہ تین باتیں ہیں اگر جماعت احمد یہ مضبوطی سے پکڑلے تو جماعت احمدیہ کی ہمیشہ کی بقاء کے لئے جب تک وہ ان باتوں پر قائم رہے یہ ضمانت ہو جائے گی.یہ تین باتیں اگر جماعت مضبوطی سے پکڑلے تو ان کی دعوت الی اللہ میں بھی غیر معمولی طاقت پیدا ہو جائے گی اور بنی نوع انسان ان کو اپنا سچا ہمدرد سمجھنے پر مجبور ہوں گے لیکن ایک اور فائدہ جو میرے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے ساتھ جب یہ فرمایاوَعَمِلَ صَالِحًا تو اس کا تعلق صرف دعوت الی اللہ سے نہیں بلکہ يَدْعُونَ إلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ سے بھی ہے کیونکہ قرآن کریم یہ بات خوب کھول رہا ہے کہ اگر تم بد کردار ہو تو تمہیں نیکیوں کی طرف بلانے کا حق نہیں رہتا.اگر تم جھوٹے ہو تو تم سچائی کی طرف بلانے کی طاقت نہیں رکھتے.بعض دفعہ ایک کمزور آدمی بھی مجبور ہے ان اوامر کی طرف بلانے پر جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں اوامر کے طور پر لیکن جتناوہ ان اوامر پر خود عمل نہ کرتا ہو، ان احکامات پر جس حد تک ہو خود عاری ہو عمل کرنے سے اس حد تک اس کی طاقت کم ہو جاتی ہے اور ضروری نہیں کہ ایک شخص جب تک کمال درجے کی نیکی کی انتہاء تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک کسی کو نیکی کی طرف بلائے نہ.یہ تو ناممکن ہے کیونکہ اس صورت میں سب نیکی کی طرف بلانے والے ہار کے بیٹھ رہیں گے.اگر وہ اپنی بدیوں پر نظر ڈالیں اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھیں تو کوئی بھی اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھے گا کہ وہ لوگوں کو نیکی کی
خطبات طاہر جلد 15 620 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء طرف بلا سکے.پس مراد یہ ہے کہ توجہ رکھنا اس بات کی طرف تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جب تم بلاؤ تو اپنے نفس کی بھی نگرانی کرو.جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تمہاری بات میں طاقت تب ہی پیدا ہوگی اگر دنیا کو کم سے کم یہ معلوم ہو کہ جن باتوں کی طرف تم بلاتے ہو تم دیانت داری سے ان کو قبول کرتے ہو، جہاں تک توفیق ہے ان پر عمل کی کوشش کرتے ہو.یہ جو شرط ہے ” جہاں تک تو فیق ہے، یہی وہ شرط ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت میں داخل فرما دی.بیعت کے الفاظ میں داخل فرما کر ہر ایسے شخص کو ایک قسم کی جرات تو نہیں کہنا چاہئے ایک قسم کا حوصلہ دے دینا جو اتنا بڑا عہد کرتے ہوئے ڈرتے ہیں.مجھ سے ایک دفعہ ایک غیر مسلم نے جو بیعت کا ارادہ کر چکا تھا یہی سوال کیا کہ دل تو میرا بہت چاہ رہا ہے مگر اتنا بڑا وعدہ ہے جس کے لئے ہمت نہیں پڑتی.تو میں نے کہا تم الفاظ پر غور کرو اس میں یہ ہے کہ میں کوشش کرتا رہوں گا.کیا تم دیانت داری سے نیکی کی کوشش بھی نہیں کرو گے تو فورا اس کو شرح صدر نصیب ہو گیا.اس نے کہا نیکی کے جس مقام پر بھی ہو کوشش تو کرنی ہی کرنی ہے اور بدی سے چھٹکارے کی بھی کوشش ہی ہوتی ہے.مگر کوشش میں اور کوشش میں جو فرق ہوتا ہے.ایک کوشش وہ ہے جو خالص نیت کے ساتھ اس پختہ ارادے کے ساتھ کی جاتی ہے کہ جب تک طاقت ہے میں یہ ہمت نہیں چھوڑوں گا ، یہ کوشش نہیں چھوڑوں گا کہ بدیوں کو ترک کروں اور نیکیوں کو اختیار کروں.ایک کوشش کا مطلب ہے کہ خیال ہے کہ ہاں چھوڑ دیں گے لیکن با ہمت ارادہ پیدا نہیں ہوتا اور باہمت عمل اس کے پیچھے نہیں آتا.ایسی کوشش بے معنی ہے.پس نیکی اور بدی کا آخری فیصلہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے وہ اس بات پر ضرور نگاہ رکھتا ہے اور احادیث نبویہ سے یہ قطعاً ثابت ہے کہ کوشش میں سچائی تھی کہ نہیں اگر کوشش سچی ہے تو عہد بیعت سچا ہے اگر کوشش سچی ہے تو آپ کو خیر کی طرف بلانے کا حق ہے.اگر کوشش کچی ہے تو معروف کی طرف بلانے کا حق ہے چاہے آپ میں خامیاں بھی موجود ہوں.کوشش سچی ہے تو بدیوں سے روکنے کا حق ہے چاہے آپ میں خامیاں موجود ہوں.مگر خامیوں کو پالتے ہوئے ، ان کو اس طرح قبول کرتے ہوئے گویا وہ آپ کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں پھر جب آپ یہ کام کریں گے تو اس کو منافقت کہتے ہیں اور منافقت میں کوئی برکت نہیں ہوتی.پس آپ نے اپنی کمزوریوں کے باوجود دعوت الی اللہ کرنی ہے.آپ نے اپنی کمزوریوں کے باوجود نیکیوں کی طرف یا معروف باتوں کی طرف بلانا ہے اور بد باتوں سے روکنا ہے اور آپ نے پوری کوشش کرنی ہے کہ آپ
خطبات طاہر جلد 15 621 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء میں نفاق نہ ہو.نفاق تب پیدا ہوتا ہے اگر انسان ایک چیز کو قبول کر کے اس پر قائم ہوتے ہوئے راضی ہو کر پھر یہ دکھاوا کرے کہ میں تو روک رہا ہوں ، میں تو نہیں ایسا.اگر اس پہلو سے کوئی شخص کرتا ہے تو وہ بہت بڑا جرم ہے جو کفر سے بھی بڑھ جایا کرتا ہے.اس لئے ان احتیاطوں کو پیش نظر رکھیں کیونکہ نیکی کا مضمون احتیاط کے تقاضے رکھتا ہے اور ان تقاضوں کا مثبت جواب نہیں دینا ہوگا.بہت بار یک محنت کا مضمون ہے ، بار یک نظر کا مضمون ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں جماعت احمد یہ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حق ادا کرنے کی کوشش کرے گی.اس کے ساتھ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کی اصلاح لازم ہے جب بھی ایک شخص کہتا ہے یہ کام نہ کرو تو اگر اس کا ضمیر زندہ ہے تو اسے خود بخود بتائے گا، ہیں ہیں تم کس بات سے روک رہے ہو تم تو یہی کام کرتے ہو.پھر اگر وہ مجبور ہے دعوت دیتے چلے جانے پر تو اس کے اندر ایک عجز پیدا ہوگا، ایک انکساری پیدا ہوگی ، ایک غم پیدا ہو گا دعاؤں کی طرف متوجہ ہوگا.وہ کہے گا اے خدا مجھے تو نے مامور کر دیا میں بے اختیار ہوں میری بدیاں بھی مجھ پر قابو پائے ہوئے ہیں تو ہی ہے جو مجھے ان سے نجات بخشے.تو اس احساس کے ساتھ نیکی کے حصول کے لئے ایک ایسی گہری تڑپ پیدا ہو جاتی ہے اور دعاؤں کے ذریعے اس تڑپ کو ایک تقویت نصیب ہوتی ہے.ایک اندرونی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اس تڑپ میں جس کی وجہ سے بالآخر نیکیوں کو غلبہ مل جاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو مثبت فوائد نصیحت کرنے والے کے لئے رکھتا ہے اور نیکی کی طرف بلانے والے کے لئے رکھتا ہے.بدیوں سے روکنے والے کے لئے رکھتا ہے.اگر اس طریق پر آپ اس آیت کریمہ پر عمل کریں تو ایک مسلسل اصلاح کا نظام جاری ہوگا.آپ صاحب امر ہوں گے دوسروں کے لئے تو اپنے لئے بھی صاحب امر ہوں گے اور وہی امر کا مالک ہے جو اپنی دنیا پر بھی حکومت کرتا ہے اور غیر کی دنیا پر بھی حکومت کرتا ہے اور غیر پر امر کی طاقت اپنے پر امر کی طاقت سے پیدا ہوتی ہے.اسی کا نام قوت قدسیہ ہے.ورنہ قوت قدسیہ کا اور کوئی مضمون نہیں ہے، کوئی مفہوم نہیں بنتا.آپ جتنی سچائی کے ساتھ اپنے آپ کو نیکیوں کے حکم دیں گے اور اپنے وجود کو بدیوں سے روکنے کی کوشش کریں گے جوں جوں آپ کا قدم آگے بڑھے گا آپ میں ایک قوت قدیسہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.پھر جب آپ غیروں کو روکیں گے اور غیروں کو بلائیں گے کسی اچھی
خطبات طاہر جلد 15 622 خطبہ جمعہ 9 راگست 1996ء بات کی طرف تو آپ کی آواز میں طاقت پیدا ہو جائے گی، کسی دلیل کی محتاجی نہیں.یہ طاقت آنحضرت ﷺ میں اس درجہ بڑھ گئی کہ آپ کا قرب ہی نیک کر دیتا تھا.آپ کا محض تلاوت کرنا ہی اتنی بڑی طاقت پیدا کر دیتا تھا کہ کسی سمجھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی.کسی حکمت کی ضرورت نہیں رہتی تھی.اپنی ذات میں آپ زندہ کرنے والے وجود بن گئے تھے ،مردوں سے زندہ کر دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو آپ کے حوالے سے کھولا اور بیان فرمایا کہ یہ فرق ہے پہلے انبیاء میں جن کے مطیع دوسرے انبیاء ہوا کرتے تھے اور اس نبی میں جس کا مطیع آج میں ہوں.عیسی نہیں کہہ سکتا، نہ اس نے کبھی کہا کہ اے موسیٰ تجھ پر سلام تو نے مجھے زندہ کر دیا مگر میں اپنے آقا پر سلام بھیجتا ہوں دن رات درود بھیجتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں اور کامل یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ہاں اے میرے آقا تو نے مجھے زندہ کر دیا اگر تو نہ ہوتا تو میں بھی نہ ہوتا اور فرمایا یہ قوت قدیسہ تیرہ سو سال میں بھی کمزور نہیں پڑی.آج بھی اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے صلى الله جیسے اس وقت رکھتی تھی جب حضور اکرم ﷺ اس دنیا میں موجود تھے اور قیامت تک یہ زندہ کرتی رہے گی.پھر جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں ان میں بھی درجہ بدرجہ یہ قوت آتی ہے اور آسکتی ہے اگر ان نصائح پر عمل کیا جائے جو قرآن کریم نے پیش فرمائیں ہیں اور جن کی تشریحات احادیث نبویہ سے ملتی ہیں.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے اور یہ حدیث مسند حضرت امام اعظم کتاب الادب سے لی گئی ہے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا نیک باتوں کا بتانے والا ان پر عمل کرنے والوں کی طرح ہوتا ہے.اب دیکھیں کیسا پیارا کلام ہے، حیرت انگیز ، عام طور پر لوگ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں صرف کہ جو نیک باتوں کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی ثواب ملے گا گویا اس نے عمل کر لیا حالانکہ یہ مضمون زیادہ وسیع ہے.فرمایا میری امت کے نیکی کی طرف بلانے والے عمل میں بھی نیک ہوتے ہیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ نیکی کی طرف بلائیں اور خود نیک نہ ہوں.اور پھر دوسرا وعدہ بھی اس میں شامل ہو گیا تمہارے بلانے کی وجہ سے اگر نیک عمل پیدا ہوں گے تو ان کا ثواب بھی تمہیں ملے گا.تھوڑے سے کلام میں کتنے حیرت انگیز مضامین کے سمندر آنحضرت ﷺ سمو دیا کرتے تھے.ان کتابوں میں جب آپ دیکھیں گے تو ساتھ ہی یہ لکھا ہوتا ہے
خطبات طاہر جلد 15 623 خطبه جمعه 9 اگست 1996ء یعنی عمل کرنے والے کا ثواب بھی اس کو ملے گا اور اصل بات بھول جاتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ میری امت میں مجھ سے نیکی سیکھنے والوں میں یہ بات ناممکن ہے کہ کسی نیک عمل کی طرف بلا رہے ہوں اور اس نیک عمل کی ان کو توفیق نہ ہو.پس اس پہلو کو مد نظر رکھ کر ہم نے داعی الی اللہ بھی بننا ہے اور امر بالمعروف اور نهي عن المنکر بننا ہے.یعنی معروف باتوں کی طرف بلانے والا ، ان کی ہدایت کرنے والا اور بدیوں سے روکنے والا.حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتیں پوری کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہتا ہے.(المعجم الكبير للطبرانی ، باب الزاى ، من اسمه زيد، زید بن ثابت الانصاری ،رقم الحديث :4663) اب اس حدیث کو میں نے عمداً یہاں رکھا ہے حالانکہ بظاہر اس مضمون سے تعلق نہیں ہے.کسی بھائی کی حاجت روائی کرنا ایک نیکی ہے جو کسی اور کی ضرورتیں پوری کرتا ہے اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرتا ہے.پس اگر کوئی محض اللہ کی خاطر کسی کی نیکی کی ضرورتیں پوری کر رہا ہوا سے بدیوں سے روک رہا ہوا اور اللہ کر رہا ہو اور اس کے اندر کمزوریاں ہوں اور نیت پاک ہو تو یہ حدیث اس کے لئے بھی ایک خوش خبری ہے کہ جب تک وہ خدا کی خاطر بھلائیوں کی تعلیم دی دیتا ہے اور بدیوں سے روکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر بھلائیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور بدیوں سے اس کو روکتا چلا جاتا ہے.اور یہ میرا ساری زندگی کا تجربہ ہے مختلف تنظیموں میں میں نے کام کیا ہے وہ کام کرنے والے جو اللہ ان باتوں پر مامور ہو جایا کرتے ہیں، مقرر کر دئیے جاتے ہیں ہمیشہ ان کے اخلاق ، ان کے اعمال میں ترقی ہوتی ہے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک شخص خدام الاحمدیہ کے کسی چھوٹے سے عہدے سے کام شروع کرے اور اس میں کمزوریاں ہوں اور اوپر تک جاتے جاتے وہ ساری کمزوریاں اسی طرح رہیں یا خوبیاں کم ہوں اور پھر بھی کم خوبیوں کے ساتھ وہ اوپر بڑھتا چلا جائے، کم خوبیوں کے ساتھ ہی وہ اوپر ترقی کرتا جائے.اس کا ہر دن بدلتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے اندر پاک اخلاق پیدا ہوتے ہیں اس کی شخصیت میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور لازماً اگر وہ اخلاص کے ساتھ خدمت کرتا ہے تو بالآخر نیک انجام کو پہنچتا ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مدد ہے جو فطری تقاضوں کے طور پر بھی ہے اور غیر معمولی بیرونی مدد کے طور پر بھی آتی ہے اور صاحب تجر بہ جانتے ہیں
خطبات طاہر جلد 15 624 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء کہ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریاں دور کرنے کے لئے ایسے سامان پیدا کرتا چلا جاتا ہے کہ اچانک اس کو نصیحت آتی ہے.بعض دفعہ ٹھوکریں کھاتا ہے، بعض دفعہ محبت اور پیار کے رستے سے اس کی تربیت فرماتا ہے.مگر جب تک وہ دوسروں کی تربیت میں ہے خدا ضرور اس کی تربیت کے سامان پیدا کرتا ہے.یہ وعدہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں دیا.ایک اور حدیث ہے جو حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے مسلم کتاب الذكر(و الدعاء و التوبة والاستغفار میں باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر، يه عنوان ہے اس حدیث کا.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیا وی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیف کو اس سے دور کرے گا.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا یہ عمل جس کا وعدہ فرمایا گیا ہے وہ محض دنیا کی اصلاحوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس دنیا کی زندگی میں جو باتیں ٹھیک ہونے سے رہ بھی جائیں ، ان کی اصلاح نہ بھی ہو سکے خدا تعالیٰ اتنا اجر عطا فرماتا ہے نیکی کی طرف بلانے والے اور بدیوں سے روکنے والے کو کہ اس کی وہ بے چینیاں دور کر دیتا ہے جو ان اعمال کے نتیجہ میں ہیں جو اصلاح پذیر نہ ہوسکیں، ان کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جن کی اصلاح نہ ہوسکی، جن کو دور نہ کیا جا سکے تو اللہ تعالیٰ کا اجر کا معاملہ اس دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے اس دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے.اس سے زیادہ عظیم نصیحت کرنے والا کب دنیا میں کسی نے دیکھا.ناممکن ہے.ساری صلى الله کائنات میں مصلحین پر نظر ڈال کر دیکھ لیں محمد رسول اللہ سے بڑھ کر، گہرائی میں اتر کر نصیحت کرنے والا اور ایسی نصیحت کرنے والا جو کھینچ لے بڑی قوت کے ساتھ کبھی آپ کہیں دنیا میں نہیں دیکھیں گے نہ ہو سکتا تھا ، نہ ہوا ہے، نہ آئندہ ہو گا مگر آپ جو ہیں آئندہ کسی الگ ناصح کی اس لحاظ سے ضرورت نہیں کہ جو ناصح بھی اٹھے گا آپ ہی کی نصیحتیں لے کے اٹھے گا.حضرت مسیح موعود نے کب اپنی طرف سے کچھ مزید اضافہ کیا وہی کاروبار ہے جسے لے کر چلے ہیں اور اسی میں طاقت ہے.مگر ضرورت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نصیحت کو یا نصائح کو غور سے دیکھیں اور ان میں جوڑ ملائیں اور معلوم کریں کہ یہ کس مضمون سے تعلق رکھنے والی ہیں.جب آپ ان کو سمجھیں گے تو حیرت کے سمندر میں غرق ہو جائیں گے یہ کتنا عظیم نبی ہے.
خطبات طاہر جلد 15 625 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء اور اب اصلاح کی طرف بلانے کے لئے دیکھیں کتنی پیاری بات ہے کہ تمہارا اس سے بہتر سودا اور کیا ہوسکتا ہے.تم نیکیوں کی طرف بلا رہے ہو خدا کی خاطر کرو تمہاری کمزوریاں ہیں جنہیں تم دور کرنے کی کوشش کرو گے تو تمہاری نیکیوں کی آواز میں طاقت پیدا ہو جائے گی اور جو تمہاری طاقت نہیں ہے وہ آسمان سے اترے گی اور اللہ تمہارا مددگار بن جائے گا.تمہاری کمزوریاں دور کرتا رہے گا اور تمہاری نصیحت پر جو نیک عمل کرے گا اس کے اجر بھی تمہیں دیتا رہے گا اور اگر کمزوریوں سمیت تم مر گئے اور اس سفر کا ابھی انجام نہیں تھا یعنی اس کی آخری منزل نہیں پہنچی تھی اور تم پہلے مر گئے تو اللہ تعالیٰ اس بات کا بھی ضامن ہے کہ تمہاری کمزوریوں کے نتیجہ میں جو بے چینیاں اور کرب تمہیں آخرت میں ستانے تھے ان کو دور فرمادے گا.کتنا عظیم سودا ہے، کتنا عظیم الشان وعدہ ہے جو ایک چھوٹی سی بات سے تعلق رکھتا ہے کہ خلوص نیت سے نیکی کی طرف بلائیں ، خلوص نیت اور پیار کے ساتھ بدیوں سے روکنے کی کوشش کریں.اس حدیث کی آگے تفاصیل ہیں.ان کو براہ راست اس مضمون سے اگر نہ بھی باندھا جائے تو پھر بھی وہ بہت ہی گہرا اثر رکھنے والی نصیحتیں ہیں اس لئے میں وہ ساری آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرمایا جس شخص نے کسی تنگ دست کو آرام پہنچایا اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا.اب تنگ دست کے لئے آسانی مہیا کرنا جو شخص ایسا کرتا ہے وہ نصیحت بھی تو کرتا ہے.اس لئے کلیۂ بے تعلق بات نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد :18) مومن وہ ہیں جو کمزوروں اور مجبوروں کو صبر کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں اور آگے رحمت کی نصیحت کرتے ہیں کہ تم بھی لوگوں سے رحمت کا سلوک کرو اور سب سے زیادہ غریبوں کی ضرورت پوری کرنے کی طرف رسول اللہ ﷺ نے توجہ دلائی ہے.تو آپ بتا تو نہیں رہے کھل کے کہ تم سب کی نیکیوں کا اجر خدا مجھے بھی دے گا مگر آپ کو سمجھانے کی خاطر آپ کے نفس کے حوالے سے وعدے دے رہے ہیں کہ تم اگر کرو گے تو تمہارے دائرہ کار میں جہاں جتنی جتنی بھی نیکی پھیلے گی اللہ اس کا اجر دے گا، جتنے دکھ دور ہوں گے خدا تمہیں ان کا اجر دے گا.پھرفرماتے ہیں جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اب یہ جو نصیحت ہے اس کا ہمارے معاشرے سے بڑا گہرا تعلق ہے.پردہ پوشی کا مضمون
خطبات طاہر جلد 15 626 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء بہت اہم ہے.انفرادی کمزوریاں جو ہیں ان میں پردہ پوشی کا ہی حکم ہے لیکن وبائی کمزوریوں میں پردہ پوشی کا حکم نہ صرف یہ کہ نہیں ہے بلکہ ایک جرم بن جاتی ہے.ہر وہ معاملہ جس کا دین کی بقاء سے تعلق ہو ہر وہ معاملہ جس کا اسلامی معاشرے کی حفاظت سے تعلق ہو اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے جو اس معاشرے میں رخنہ ڈالنے والی ہو جو نظام کو کمزور کرنے والی ہو اس کے متعلق پردہ پوشی کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے.بلکہ قرآن فرماتا ہے لازم ہے کہ وہ تم اولوالا مرلوگوں کی طرف پہنچایا کرو.جب ایسی باتیں سنو تمہارا فرض ہے کہ وہ جن کو خدا نے عقل اور فہم عطا کیا ہے، جو جانتے ہیں کہ پیچھے کیا کیا محرکات کام کر رہے ہیں جو تجزیہ کر سکتے ہیں یعنی اس کی بدیوں سے جماعت کی حفاظت کر سکتے ہیں فرمایا ان تک ضرور پہنچاؤ اور وہاں صرف رسول اللہ مکہ تک پہنچانے کا حکم نہیں بلکہ سب ایسوں کی طرف پہنچانے کا حکم ہے.یعنی جمع کا صیغہ ایسا استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں اگر ایک جگہ کوئی امیر ہے اس کے چھوٹے دائرے میں بھی کوئی ایسی حرکت ہو رہی ہے تو پردہ پوشی کے نام پر آپ کہیں کہ اس نے بات تو ایسی کی تھی جس سے جماعت کو نقصان پہنچتا تھا.جس سے جماعت کے وقار کو ٹھوک لگتی تھی ، جس سے لوگوں کے اخلاص کو صدمہ پہنچتا تھا مگر ہم نے دیکھو پردہ پوشی کر لی، یہ پردہ پوشی نہیں ہے.یہ بے وفائی ہے سلسلہ کے اعلیٰ مفادات سے اور جماعت سے بے وفائی ہے جس کو نقصان پہنچے گا.مگر ایک شخص کمزوری چھپ کے کرتا ہے، وہ خدا کی آنکھوں سے تو چھپ نہیں سکتا بنی نوع انسان سے کم سے کم شرم تو کرتا ہے، آپ اس کی کمزوری پر اطلاع پاتے ہیں اور اس کا چرچا کر دیتے ہیں یہ پردہ پوشی کے خلاف ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا اپنی ستاری کا پردہ تم سے بھی اٹھالے گا اور اگر خدا کی ستاری نہ رہے تو ہر انسان ننگا ہے.یہ تو وہ حمام ہے جس میں سب کی نظر ہے.شیشے کا حمام ہے ہر کوئی دیکھ لے گا اگر خدا کی طرف سے ستاری کا پردہ نہ ہو.ہرلمحہ خدا کی ستاری کے اندر چھپے ہوئے ہم زندگی بسر کر رہے ہیں.اگر یہ نہ ہوتا تو یہ زندگی دنیا ہی میں جہنم بن جاتی.تو اس لئے یہ مضمون اچھی طرح سمجھ لیں جب حضور اکرم نے پردہ پوشی کا حکم دیتے ہیں تو و با والی بیماریوں سے پردہ پوشی کا حکم نہیں دیتے.جس شخص میں وبائی بیماری ہے اور آگے پھیلا سکتا ہے اس کی اطلاع اولوالا مر کو کرنا جہاں جہاں بھی وہ اولوالامر ہو لازم ہے اور جہاں اس کی ذاتی کمزوری ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 627 خطبہ جمعہ 9 اگست 1996ء اس کمزوری کے علم سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان کا خطرہ ہے ایسی صورت میں اگر کوئی پردہ دری کرتا ہے تو اپنا نقصان کرے گا، اپنی عاقبت خراب کرے گا اور قوم کو نقصان پہنچائے گا.قوم کو نقصان اس طرح پہنچتا ہے کہ مثلاً بعض جماعتوں کی طرف سے مجھے بعض لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں امیر صاحب ہیں ان میں یہ یہ کمزوریاں ہیں اور ہم نے جب یہی بات کی تھی تو لوگ ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں.ہمارا کیا جرم ہے؟ سچ بولا ہے ہم نے.سوال یہ ہے کہ تمہارے متعلق بھی اگر سچ بولے جائیں اس طرح تو تمہارا کیا حال رہے گا؟ تمہاری بیوی بچوں کے متعلق ایسے سچ بولے جائیں تو تمہارا کیا حال رہے گا؟ اگر وہ ایسی کمزوریاں ہیں جو منظر عام پر نکلی ہیں تو پھر بھی تمہارا فرض یہ نہیں ہے کہ تم لوگوں کو بتاؤ.پھر تم پر لازما یہ فرض بن جاتا ہے کہ بالا افسران تک اس کو پہنچاؤ یا اس کومل کر نصیحت کرو.اگر وہ کام نہیں کرتی تو بالا افسران تک پہنچاؤ.اگر وہاں شنوائی نہیں ہوتی تو اوپر پہنچاؤ جہاں تک بندوں میں تمہاری رسائی ہے تمہارا فرض ہے کہ پہنچاتے چلے جاؤ کیونکہ اب یہ کمزوری ذاتی نہیں رہی بلکہ فحشاء بن گئی ہے.مگر ذاتی کمزوریوں کا جہاں تک تعلق ہے قرآن حدیث میں پردہ پوشی کا ہی حکم ہے اور اللہ بھی پردہ پوشی فرماتا ہے.پس ایسے لوگ جو لوگوں کے پردے کھینچتے ہیں اللہ ان کے پردے کھینچ لیا کرتا ہے.اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قیامت کے دن بھی یہی حیاء کا پردہ ہے جو آپ اپنے لئے رکھتے ہیں اور اپنے بھائی کے لئے بھی رکھتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ستاری کا پردہ بن جائے گا.اگر اس دنیا میں آپ یہ حیاء کا پردہ چاک نہ کر دیں، نہ اپنے لئے رکھیں نہ غیر کے لئے رکھیں تو قیامت کے دن بھی آپ کے لئے کوئی ستاری کا پردہ آپ کی بدیوں کو ڈھانپنے کے لئے نہیں اترے گا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے یہ حوالہ دیا ہے جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.یہ ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام، حیرت انگیز ہے.کوئی اپنی طرف سے بنانے والا جس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے روشنی نہ اتری ہو اس قسم کی باتیں نہیں کیا کرتا.وہ نقد نقد سودے کی باتیں کرے گا.وہ کہے گا تم پردہ پوشی کرو تمہاری بھی پردہ پوشی ہوگی لیکن آخرت کا حوالہ دے کر اس مضمون کو بہت وسعت دے دی ہے.فرمایا اس دنیا کی پردہ پوشی نہ بھی ہو تو اتنا فرق نہیں پڑتا مگر اس بھری دنیا میں جو پردہ دری ہو رہی ہو جبکہ اگلے پچھلے سب جمع ہوں اور وہ کیسے ہوگی اللہ بہتر جانتا ہے ورنہ ہماری محدود عقل میں ان صلاحیتوں کا تصور ہی نہیں کہ آغاز سے لے کر انجام تک کے
خطبات طاہر جلد 15 628 خطبہ جمعہ 9 راگست 1996ء انسان اکٹھے ہوں اور ان کی باتوں پہ کہیں پردے ڈالے جارہے ہیں کہیں پردہ دری ہورہی ہے اور ہر انسان سمجھ رہا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو صلاحیتوں کے تیز ہونے سے تعلق رکھتا ہے ،حسیات کے دائروں کے پھیلنے سے تعلق رکھتا ہے اور قرآن کریم یہی وعدے فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن تمہیں تیز حسیں عطا کی جائیں گی کہ جن باتوں کا تم پہلے کوئی شعور نہیں رکھتے تھے وہ شعور تمہیں نصیب ہو جائے گا.پس ہوگا ضرور.جو بات آنحضرت ﷺ نے فرمائی لاز م ہو کر رہنے والی بات ہے.پس ڈراتے ہیں کہ تم آخرت کی پردہ دری سے ڈرو.یہاں اگر تم اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرو گے تو یا درکھو قیامت کے دن یا قیامت کے بعد جب آخری حساب فہمی ہو گی اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک فرمائے گا.اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کیلئے تیار ہو.اب ان سب باتوں میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا وَ تَوَاصَوْا کا مضمون داخل ہے.اس لئے آپ اگر یہ سمجھیں کہ یہ بے تعلق باتیں ہیں، کلیۂ بے تعلق نہیں ہیں.مومن وہ ہے جو نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے نیکیوں میں ایک دوسرے کا مددگار بنتا ہے اور یہ دونوں باتیں اکٹھی ہو کر وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ کی نصیحت بن جاتی ہیں.پس بظاہر یہاں تعاون کی بات ہورہی ہے.اپنے بھائی سے تعاون کرو، اس کی ضرورتیں پوری کرو، اس کی پردہ پوشی کرو اس کے حوائج جتنے بھی ہیں اس کو پورا کرتے ہوئے تمہیں تکلیف بھی اٹھانی پڑے تو تکلیف اٹھاؤ.معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کا نصیحت سے تعلق نہیں مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو کام تم نیک کرتے ہو اس کی نصیحت بھی کیا کرو.غریبوں سے ہمدردی کرو تو ہمدردی کی نصیحت بھی کیا کرو.پس اس مضمون کا نصیحت کے ساتھ از خود تعلق قائم ہو جاتا ہے.پس آنحضور ﷺ کی نصیحت کا انداز بھی درجہ بدرجہ آگے بڑھتا ہے.پہلے ان بنیادی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں جن کے بغیر انسان اعلیٰ مضامین کی طرف بڑھ ہی نہیں سکتا اور پھر ان مضامین کا ذکر کرتے ہیں تو بے اختیار روح سے آنحضرت ﷺ کے لئے درود کی آواز میں اٹھتی ہیں.دعا ئیں تو سوچ کر کی جاتی ہیں مگر اگر آنحضور کے احسانات پر آپ نظر ڈالیں تو بے اختیار آپ کی روح سے آواز میں اٹھیں گی ناممکن ہے کہ ان آوازوں کے ساتھ درد کی چیچنیں شامل نہ ہوں کیونکہ ایک محسن کا احسان جب غلبہ کر لیتا ہے، جب چھا جاتا ہے اس کی روح پر تو اس وقت بے اختیار ان آوازوں میں ایک
خطبات طاہر جلد 15 629 خطبه جمعه 9 اگست 1996ء درد پیدا ہو جاتا ہے، ایک قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ آوازیں لازماً آسمان کی بلندیوں تک پہنچتی ہیں.پس صلى الله آنحضور پر علم کا مضمون سکھا کر پھر درس و تدریس کی روحانی تربیت کی باتیں فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ اسے سکینت عطا فرمائے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو ڈھانپ لے گی.اللہ تعالیٰ کی رحمت اسے ڈھانچے رکھتی ہے، فرشتے اسے گھیرے رکھتے ہیں جب تک کہ وہ ان باتوں میں مصروف رہتا ہے.پھر رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دیکھیں ترقی کہاں سے کہاں تک جا پہنچی ہے.اب ایسا شخص جو علم کو خدمت دین کے لئے ، خدمت بنی نوع انسان کے اعلیٰ تقاضوں کی خاطر استعمال کرے.فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں اس کا ذکر کرتا ہے.اس دنیا میں آپ باتیں کر رہے ہیں نیکی کی اور آپ کا ذکر اوپر کی مجلسوں میں چل رہا ہے.غالب تو کہتا ہے: ے گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے بایں ہمہ ، ذکر میرا، مجھ سے بہتر ہے کہ، اس محفل میں ہے (دیوان غالب : 242) برائی کے باوجود اگر چہ برا ہی ذکر ہے مجھے خوشی ہے کہ میرا ذکر اس محفل میں ہے مگر آنحضرت ﷺ جو ان محافل کے راز دان ہیں ، آپ فرماتے ہیں کہ تمہارا بھلائی سے ذکر چلے گا اور اللہ اپنے مقربین میں تمہارا پیار سے ذکر کرے گا.جو شخص عمل میں ست رہے اس کا نسب اور خاندان اس کو تیز نہیں بنا سکتا یعنی وہ خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو ہر شخص کے لئے برابر یکساں مہیا ہیں اور حسب نسب کا اس کا کوئی دور سے بھی تعلق نہیں ، قومیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں.سب کے لئے دعوت عام ہے.تم اس پر عمل کرو اور یہ ساری بلندیوں کے وعدے جو تم سے کئے گئے ہیں یہ سب رفعتیں جن کے تمہیں وعدے دئے جارہے ہیں یہ تمیں عطا کی جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 631 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء کامل یقین کے ساتھ دنیا کو ہدایت کی طرف بلانا ہے اور کامل یقین کے بغیر ہدایت کی طرف بلانا بے کار ہو جایا کرتا ہے.( خطبه جمعه فرموده 16 راگست 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اهْدَى سَبِيلًا (بنی اسرائیل: 85) پھر فرمایا: قرآن کریم کی بعض آیات کے حوالے سے میں نے گزشتہ خطبات میں وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المائدہ:3) کے مضمون پر روشنی ڈالی تھی کہ نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور بدیوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو.اسی تعلق میں اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے دعوت الی اللہ کا مضمون بیان کیا تھا.دعوت الی اللہ بھی دراصل وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی کے نتیجے میں طبعا پیدا ہوتی ہے اور اس پہلو سے میں مضمون کے کچھ حصے کو بیان کر سکا تھا کچھ باقی تھا کہ وقت ختم ہو گیا.آج میں نے اس مضمون کے ایک اور پہلو کو اٹھایا ہے جو دراصل بعض ذہنوں میں ایک اشتباہ پیدا کرتا ہے اس کی وجہ سے وضاحت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَاهُدى سَبِيلًا کہ تو کہہ دے کہ ہر شخص اپنی تخلیق ، اپنی تشکیل کے مطابق کام کرتا ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، وہی جانتا ہے جو تمہارا رب ہے کہ تم میں سے کون زیادہ صحیح رستے پر تھا یا زیادہ صحیح رستے پر ہے.دوسری طرف قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ جو بت پرست ہیں ، جو شرک
خطبات طاہر جلد 15 632 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء کرنے والے ہیں ان پر بھی تم تحکم نہ کرو اور اس یقین کے باوجود کہ خدا ایک ہے ان کے بتوں کو بھی گالیاں نہ دو.وجہ کیا ہے : كَذلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: 109) کیونکہ ہم نے اس طریق پر ہر شخص کو اس کا مسلک خوب صورت کر کے دکھایا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں ہی ٹھیک ہوں.ہاں جب تم مرجاؤ گے ثُمَّ إِلى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ ان لوگوں کا ،سب کا جب رجوع خدا کی طرف آخر پہ ہو گا تو وہ فیصلہ کرے گا کہ کون صحیح تھا اور کون غلط تھا.ان دو آیات کے پیش نظر کیا دعوت الی اللہ کرنا درست بھی ہے کہ نہیں.کیا ہم یقین کے ساتھ یہ کہہ بھی سکتے ہیں کہ نہیں کہ ہم حق پر ہیں؟ کیا ان آیات کا مضمون اس زعم سے متصادم تو نہیں کہ ہر انسان کہے کہ میں حق پر ہوں؟ زیادہ گہرائی سے جب ان آیات کے مضمون پر غور کیا جائے تو یہ متصادم نہیں ہے بلکہ بالکل اور مضمون ہے جو بیان ہورہا ہے.جہاں یہ فرمایا : كُلُّ يَعْمَلُ عَلى شَاكِلَتِه جب یہ فرمایا فَرَ بُكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَاهُدى سَبِيلًا وہاں ساتھ یہ بھی تو اعلان فرمایا عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيُّ (يوسف: 109 ) کہ میں اور میرے ماننے والے تو بصیرت پر قائم ہیں ، دن کی روشنی کی طرح صداقت کو دیکھ رہے ہیں اور پہچان رہے ہیں اور تم اندھیروں میں بھٹک رہے ہو تو چونکہ قرآن کریم کی کوئی آیت کسی دوسری آیت سے ٹکراتی نہیں ہے اس لئے بظاہر متصادم آیات کو اکٹھا دیکھ کر ایسا نتیجہ نکالنا پڑے گا جو ان تینوں کے اندر تصادم نہیں پیدا کرتا بلکہ تعاون پیدا کرتا ہے اور تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَی کا ایک یہ بھی مضمون ہے.تو نیکی کے حصول کے لئے تم خود جیسے دوسروں سے تعاون کرتے ہو ،تعاون چاہتے ہو قرآن کریم کی آیات بھی ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ تم قرآن کریم کی متعلقہ آیات کو اکٹھا دیکھو اور ان کو متصادم پاؤ کیونکہ ایک آیت جب دوسرے سے متصادم ہو تو ان کے مصنف کے دماغ میں خلل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ تمام حکمتوں کا سر چشمہ ہے.اس لئے یہ یقینی اور قطعی حقیقت ہے ، اہل بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کبھی بھی متضاد کلام نازل نہیں ہوسکتا، نہ ہوا ہے.پس جہاں تصادم دکھائی دے وہاں مومن کا فرض ہے ،اس کے تقویٰ کا تقاضا ہے کہ تصادم کے پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے تعاون کا رنگ نکالے اور جب آیات ایک دوسرے سے
خطبات طاہر جلد 15 633 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء ہے تعاون کریں گی تو مضمون بالکل کھل جائے گا.پس اس پہلو سے جہاں تک اپنے اشتباہ کا تعلق میں اس کی طرف واپس آتا ہوں.یہ خیال کر لینا کہ ان آیات کا یہ معنی ہے کہ انسان کو اس دنیا میں کسی قطعی حقیقت کا علم ہو نہیں سکتا یہ غلط ہے.یہ اگر مضمون ہو تو سارا نظام دین درہم برہم ہو جائے.اس لئے یہاں ایک اور بات کی بحث چل رہی ہے وہ بنیادی حقوق کی بحث ہے.انسان کے خدا پر بھی حقوق ہیں، بندوں پر بھی حقوق ہیں اور خدا کے انسان پر بھی حقوق ہیں اور بندوں پر بھی حقوق ہیں.یہ مضمون قرآن کریم کی رو سے کامل عدل پر قائم ہے اور عدل کا جو نظام ہمیں ان حقوق کے معاملات میں ملتا ہے وہ حیرت انگیز ہے.چنانچہ جو مضمون ان دو آیات کے حوالے سے میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے یعنی ہر شخص شاکلیہ پر کام کرتا ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون صحیح ہے اور ہر شخص کو اپنی چیز اچھی دکھائی دیتی ہے اور قیامت کے دن جب تم خدا کی طرف لوٹ جاؤ گے تو وہ فیصلہ کرے گا.ان باتوں میں کہیں تضاد تو نہیں.یہ مضمون ہے جو میں آپ کے سامنے کھول رہا ہوں.کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک ایسا مضمون بیان ہو رہا ہے جو انسان کو بشریت کے تقاضے سکھاتا ہے ،اس کو عجز کی اعلیٰ تعلیم دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس سے خدائی کے حق کو چھینتا ہے اور اس کو بتا تا ہے کہ تم اپنی عقل پر بھروسہ کرنے کے باوجود خدائی اختیارات اپنے قبضے میں لینے کے اہل نہیں ہو، نہ تمہیں یہ دیئے جائیں گے.یعنی دو آیات ہیں جو انسان اور انسان کے درمیان ایک بنیادی عدل کی تعلیم دینے والی ہیں.پس ہر شخص جو کسی بات کو حق سمجھے خواہ وہ حق ہو یا نہ ہو، یہ قرآن کریم نہیں کہہ رہا کہ ہر بات جو انسان سمجھتا ہے وہ حق ہی ہوتی ہے ، یہ بحث یوں ہے کہ اگر ایک انسان کسی بات کو حق سمجھتا ہے تو یہ فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ واقعہ وہ حق سمجھ بھی رہا تھا کہ نہیں ، جھوٹا تو نہیں تھا اور اگر وہ سچا ہو حق سمجھنے میں تو اس کو سزامل ہی نہیں سکتی.پس سزا کا تعلق لازماً اس احساس کے ساتھ ہے جو انسان کو مجرم کرتا ہے اور اس کا ضمیر ہے جو ہمیشہ اس کو مجرم کرتا ہے.پس جہاں تک دنیا کے دیکھنے کا تعلق ہے، دنیا اس کے ضمیر کی آواز تو نہیں سنتی ، اس کو پتہ ہی نہیں کہ اس کے اندر کیا کیا آواز میں اٹھتی رہیں اور کیوں یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کو اپنی غلطی کا چاہے تو علم ہو سکتا ہے.چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِیرَهُ (القیامہ: 15، 16 ) کہ یہ کہہ دینا
خطبات طاہر جلد 15 634 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء کہ ہم کسی کو ہر بات اس کو اچھا کر کے دکھاتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ ہر شخص جو جھوٹا ہوغلط کار ہو وہ جائز طور پر اس بات کو اچھا دیکھتا ہے اور اس کا یہ اچھادیکھنا اسے سزا سے بری کرتا ہے.یہ دوالگ الگ مضمون ہیں چونکہ باریک ہیں اس لئے میں آپ کو سمجھانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ روز مرہ زندگی میں ان کا سمجھنا ضروری ہے.ہر چیز کو اچھا دیکھنا یہ نفس کے اندر جو دھوکہ دینے کی صفت ہے اس کی طرف اشارہ ہے.ہم دکھاتے ہیں سے مراد یہ ہے کہ ہم نے نفس کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ ہر انسان اپنے نفس کے دھو کے میں مبتلا رہتا ہے ہمیشہ.لیکن اس کے باوجود ہم نے اسے یہ طاقت بخشی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اندر کی خرابیوں کو دیکھے، جانچے ، پہچان لے اور معلوم کر لے کہ وہ غلط ہے.یہ بصیرت والے مضمون کے وَلَوْ الْقَی مَعَاذِیرَہ والے مضمون کے علاوہ یہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے بھی ثابت شدہ مضمون ہے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ انسان جو بھی فیصلہ کرتا ہے اس کے اندر خدا تعالیٰ نے طاقت رکھی ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر سکے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ (الرحمان : 4، 5) بیان کا معنی بعض لوگ صرف اظہار بیان کی طاقت سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ بات غلط ہے.بیان کا تعلق بینہ سے ہے اور بینہ ان صداقتوں کو کہا جاتا ہے جو لازمی اور حقیقی اور دائمی ہیں.وہ صداقتیں جو انسان کی ضمیر پر کندہ ہیں.ہرانسانی فطرت ان صداقتوں کے خمیر سے اٹھائی گئی ہے اور ان کو پہچانا اور ان کے مقابل پر بدی سے ان کی تمیز کرنا یہ بیان ہے یعنی کھرے کھوٹے کی تمیز کی طاقت صحیح کو غلط سے جدا کرنا.پس بیان اگر اندر ہو تو پھر وہ بیان بن سکتا ہے.باہر کوئی انسان بھی جو اپنے مضمون پر پورا عبور نہ رکھتا ہوا سے پتا نہ ہو کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے.اس مضمون پر بات نہیں کر سکتا.پر چہ دینے والا طالب علم پر چہ بھی نہیں دے سکتا کیونکہ بیان کا ایک اندرونی تعلق ہے اور ایک بیرونی تعلق ہے.جس شخص کو اندرونی طور پر اپنی کیفیات کا قطعیت سے علم ہو ، جس مضمون کو بیان کرنا چاہتا ہے اس کے سب پہلوؤں پر حاوی ہو وہ جب بیان کرے گا تو کھل کر بیان کرے گا.جب یہ علم نہ ہو تو پھر اس کو مضمون بیان کرتے وقت المجحصن محسوس ہوتی ہے.وہ کبھی ادھر بھٹکتا ہے کبھی ادھر بھٹکتا ہے.الفاظ کی تلاش کرتا ہے وہ صحیح ملتے نہیں.غرضیکہ اس کا سارا بیان ہی الجھا ہوا دکھائی دیتا ہے.تب ہی غصے کی حالت میں بیان کی طاقت ختم ہو جاتی ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 635 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء قرآن کریم سے صاف پتا چلتا ہے کہ غصے کی حالت میں جب غلبہ ہو کسی وقت کسی جنون کا اس وقت انسان بیان کرنے کی طاقت سے محروم ہو جاتا ہے.فی الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينِ (الزخرف: 19) اور غصے کا مضمون خصام کے لفظ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.فرمایا جب یہ عورتیں جھگڑا کرتی ہیں تو کھل کر بات نہیں کر سکتیں یا انسان جو بھی ہوں سب پر یہ برابر مضمون آتا ہے کہ جب وہ جھگڑنے کے موڈ میں ہوں تو چونکہ غصے کی حالت میں جھگڑا پیدا ہوتا ہے اس لئے وہ بیان کی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں.تو بیان کو صرف ظاہری کلام پر محمول کرنا غلط ہے.بیان اس اندرونی طاقت کا نام ہے جو کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرتی ہے اور اگر یہ طاقت ہے تو ہر انسان کو قطعیت سے معلوم ہو جانا چاہئے کہ میرا مسلک درست ہے کہ غلط ہے.اگر نہیں ہوتا تو نفس کا بہانہ ہے اور نفس کا بہانہ ہے جو چیز کو خوب صورت دکھاتا ہے اور نفس کے بہانوں کے باوجود انسان اپنی غلطی کو سمجھ سکتا ہے.یہ ہے تمام مضمون جوان آیات کے باہمی تعاون سے ابھرتا ہے.وَلَوْ الْقَی مَعَاذِيْرَہ کے مضمون کو آپ دیکھ لیں اور پھر یہ دیکھیں کہ باوجود اس کے کہ نفس بہانے بناتا ہے پھر بھی انسان پہچان سکتا ہے تو اس کے بعد زینا کا معنی پھر ایسا کرنا جو اس آیت سے متصادم ہو جائز ہی نہیں ہے.زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایک غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے، کھوئی کھوئی حالت میں رہتا ہے، جو کچھ کرتا ہے اسے اچھا دکھانے میں یہ بات بھی شامل کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھا دیکھے اور اچھا دکھائے.اس وجہ سے وہ بسا اوقات صداقتوں پہ بھی پردے ڈال لیتا ہے لیکن چاہے تو اپنے نفس کو معلوم کر سکتا ہے اور وہ لوگ جو صداقت پر ہیں یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي یہ اعلان کرتے ہیں کہ یقینا ہم کھلی کھلی واضح روشن صداقت پر قائم ہیں.فیصلہ تو مرنے کے بعد ہو گا لیکن یقین اس دنیا میں بھی ہوتا ہے.دوسرا جب کہتا ہے مجھے بھی اسی طرح یقین ہے پھر بحث اٹھتی ہے کہ کس کو کیا اختیار ہے.اب یہ مضمون اس منزل میں داخل ہو جاتا ہے جہاں دو دعوے دار آمنے سامنے کھڑے ہو گئے.ایک نے کہا تم کہتے ہو ہم بصیرت پر ہیں ، ہم بھی یقین سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم بصیرت پر ہیں.تم کہتے ہو تمہیں کامل یقین ہے تم بچے ہو، ہم بھی کہتے ہیں ہمیں کامل یقین ہے کہ ہم سچے ہیں.اب وہاں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسانی ضمیر کی آزادی کے ساتھ جو خدا نے انصاف فرمایا ہے
خطبات طاہر جلد 15 636 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دے کر سزا دینے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے.تو جو مضمون ہے ثُمَّ اِلى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ اِس میں یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ اس دنیا میں جھوٹے تو ہیں بہر حال یہ تو نہیں کہ سارے بچے ہیں.ہر ایک کو یہ بھی حق ہے کہ کہہ لے کہ ہم سچے ہیں.ہر ایک اپنی بات کو اچھا دیکھ بھی لیتا ہے اگر کچھ منفی اور غفلت کی آنکھوں سے دیکھے لیکن اس میں یہ طاقت ضرور موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے نفس کو ٹولے اور صداقت معلوم کر لے.اگر یہ طاقت نہ ہوتی تو قیامت کے دن اس کو سزادینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.اب یہی آیت جو زینا والی آیت ہے جب یہ کہتی ہے کہ جب ہمارے سامنے پیش ہو گے تو ہم پھر برے اعمال کے مطابق اس کو سزا دیں گے تم نہیں دے سکتے یعنی اے انسان ہم کریں گے یہ کام.تو صاف ثابت ہوا کہ سزا کا جواز موجود ہے اور وہ جواز اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہر انسان اپنے ضمیر کی آواز کوسنتا ہو یا ایک لمبے عرصے تک سنتے سنتے جب اس کو نظر انداز کر دے تو بہرا ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے خلاف یہ ثابت کر چکا ہو کہ میں جھوٹا ہوں اور صحیح آواز میں مجھے ملی تھیں اور میں نے ان کورڈ کر دیا تھا.یہ وہ حتمی فیصلہ ہے جو اس دنیا میں ہر انسان کر سکتا ہے اور کر لیتا ہے.پھر جو حالتیں ہیں وہ دھوکے کی حالتیں ہیں، وہ بے ایمانی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں، دہریت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں نفس کے غلبے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں لیکن جب یہ پیدا ہو جائیں تو پھر خدا کیا حق دیتا ہے یہ سوال ہے جو اٹھایا جارہا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ ہر بندے سے یہ حق لے لیتا ہے کہ دنیا میں خدا بنے اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے.کہتا ہے تم وہیں کھڑے ہو جاؤ جہاں دوسرا کہتا ہے میں بھی سچا ہوں.تم اپنی طرف سے دلائل دے بیٹھے اس نے انکار کر دیا اور کہہ دیا نہیں میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں.پھر معاملہ حوالہ بخدا کرو پھر تمہیں اختیار نہیں ہے کہ قانونِ خداوندی کو اپنے ہاتھ میں لو اور اس کی سزا کا، دنیا میں سزا کا فیصلہ کرو.یہ بات کہ دنیا میں سزا کا فیصلہ کرنا انسان کو خدا تعالیٰ نے اختیار دیا ہی نہیں یہ بات اس مضمون کو مزید کھول دیتی ہے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے اور اسی آیت میں وہ دلیل موجود ہے جس سے آپ ثابت کر سکیں کہ آپ بچے ہیں اور فلاں جھوٹا ہے کیونکہ جب اختلاف پیدا ہوں اور خدا کے اس فیصلے کے خلاف کوئی فریق یہ اعلان کرے کہ چونکہ میں تمہیں جھوٹا دیکھتا ہوں اس لئے میرا
خطبات طاہر جلد 15 637 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء حق ہے کہ تمہاری گردن ماروں.میں تمہیں جھوٹا سمجھتا ہوں اس لئے میرا حق ہے کہ تمہیں سزائیں دوں ، تمہیں تمہارے بنیادی حقوق سے محروم کروں تو وہیں اس کا جھوٹا ہونا اس دنیا میں ثابت ہو گیا کیونکہ قرآن کریم کے اس بیان سے وہ متصادم ہو گیا.اللہ فرماتا ہے کہ میرا حق ہے کہ میں فیصلہ کروں اور جب تم میری طرف لوٹائے جاؤ گے تب میں فیصلہ سناؤں گا.ایک مولوی کہتا ہے کہ.میرا حق ہے کہ میں فیصلہ کروں اور میں اتنا سچا ہوں کہ مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور میں پوری استطاعت رکھتا ہوں کہ اس کے دل کے حالات بھی پڑھ لوں اور فیصلہ کر دوں کہ یہ جھوٹا ہے اور میں سچا اور اتنا سچا ہوں کہ مجھے مالکیت کے اختیار بھی مل گئے ہیں.اتنا سچا ہوں کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں اس انتظار کی کہ مریں گے تو خدا فیصلہ کرے گا.زندگی میں میں فیصلہ کر سکتا ہوں مجھے طاقت ہے میں مارسکتا ہوں میں کیوں نہ ماروں.جوں ہی وہ یہ موقف اختیار کرتا ہے اس آیت کی رو سے وہ جھوٹا ثابت ہو گیا.پس یہ آیات جو ہیں وہ اپنے اندر استدلال رکھتی ہیں اور یہ غلط ہے کہ کوئی کہہ دے کہ عَلى بَصِيرَةِ ہو ہی نہیں سکتا.جوں ہی آپ کے سامنے کوئی یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ نہ صرف میں سچا ہوں بلکہ تمہیں جھوٹا ہونے کی سزا دینے کا بھی اختیار رکھتا ہوں وہیں وہ جھوٹا ثابت ہو گیا اور جھوٹا بھی اور جھوٹا خدا بھی.نہ اس کا دین رہا نہ اس کی دنیا ر ہی ہر حالت سے وہ ذلت اور تباہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے.اور عَلَى بَصِيرَةِ کا دعویٰ یہاں سے شروع ہوتا ہے وہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور سب دنیا دیکھ لیتی ہے کہ یہ آدمی سچا ہے کیونکہ اپنے انسانی دائرے سے آگے نہیں بڑھتا.اپنے اختیارات کے دائرے میں رہتا ہے، خدا کے اختیارات پر قبضہ نہیں کرتا.پس دنیا بھی دیکھ سکتی ہے کہ وہی سچا ہے لیکن مذہبی جھگڑوں کو نپٹانے کے لئے فسادات سے انسان کو بچانے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے یہ عدل کا قانون جاری فرما دیا کہ تم میں سے ہر ایک خواہ اپنے آپ کو سچا سمجھے بھی ، یقین کا بھی اظہار کرے اسے اپنے یقین کے نتیجہ میں دوسرے کو اس دنیا میں گمراہی کی سزا دینے کی اجازت نہیں ہے.سب گمراہ خدا کی خدمت میں لوٹائے جائیں گے اور یہ فیصلے مرنے کے بعد ہوں گے کہ کون حقیقت میں سچا تھا ، کون حقیقت میں جھوٹا تھا اور کس کے ساتھ خدا کو کیا سلوک کرنا ہے.اس وضاحت کے بعد اب میں آپ کو سمجھاتا ہوں آپ کا حق ہے اُدْعُ اِلی سَبِیلِ
خطبات طاہر جلد 15 638 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء ربك (النحل: 126 ) پر عمل کریں کیونکہ آپ نے جب یقین کے ساتھ سمجھ لیا کہ آپ بیچ پر قائم ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی راہ کی طرف بلانا آپ کا حق ہے اور اس وہم کی ضرورت نہیں کہ چونکہ مرنے کے بعد فیصلے ہونے ہیں اس لئے میں کیوں خواہ مخواہ اس دنیا میں مصیبت مول لے بیٹھوں.پس فیصلہ ہی اللہ نے کرنا ہے تو ہو سکتا ہے میں جھوٹا ہوں.یہ ہوسکتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں کا مضمون بچے مومن کی ذات سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ اس کے نفس نے کبھی کوئی بہانہ تراشا نہیں ہے.وہ نفس کے تقویٰ پر قائم ہوتا ہے اور اپنے نفس کو بھی پہچانتا ہے اس کے حالات پر نظر رکھتا ہے اور وہ بصیرت اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے کے نفوس کو بھی پہچانے لگتا ہے.اگر وہ تعدی نہیں کرتا اور تعلی نہیں کرتا تو خدا کے ڈر سے ایسا نہیں کرتا اور نہ بالکل صاف دیکھ رہا ہوتا ہے کہ حقیقت حال کیا ہے اور اس کی ساری زندگی اس کی سچائی کی گواہ بن جاتی ہے.پھر خدا کی تائیدات ہیں چنانچہ آنحضرت ﷺ کو یہ حکم فرمایا گیا کہ اعلان کر دو کہ میں اور میرے ماننے والے بصیرت پر قائم ہیں وہاں یہ مضمون ساتھ شامل ہے کہ اللہ کی تائید ہمارے ساتھ ہے اور وہ گواہ ہے کہ ہم بصیرت پر قائم ہیں.پس اگر دنیا میں یہ گواہیاں خدانہ دیتا تو قیامت کے دن ان لوگوں کو مجرم کیسے قرار دے دیتا.اگر یہ مضمون سمجھا جائے کہ ہر ایک دھو کے میں مبتلا ہے پتا ہی نہیں لگ سکتا کسی کو میں سچا ہوں کہ جھوٹا ہوں ،مرنے کے بعد پتا چل جائے گا تو جزاء سزا کا نظام ہی سارا درہم برہم ہو جائے گا اور اگر پھر بھی خدا سزا دے گا تو عدل کے تقاضوں کو چھوڑ کر سزا دے گا جو ناممکن ہے.پس ہر شخص کو پتا ہے وہ اپنی حقیقت سے، اپنی کمزوری سے آگاہ ہوتا ہے، اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور اس کا اپنے آپ دھوکہ دینا چونکہ انا کی فطرت میں داخل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے اچھا بنا کے دکھایا ہے.وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ میں اچھا ہوں لیکن تلاش کرنا چاہے اپنے ضمیر کو کریدے تو اس کو حقیقت معلوم ہو جائے گی.پس آپ کامل یقین پر ہیں، آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بے شمار تائیدات ہیں جو بڑے زور اور طاقت کے ساتھ ایک سو سال سے زائد عرصے پر پھیلی پڑی ہیں.ایک لمحہ بھی احمدیت کا ایسا نہیں جب خدا کی غیبی تائیدات نے آپ پر آپ کا سچا ہونا ثابت نہ کر دیا ہواور محض نفس کے خیال کا جو پہلو ہے وہ اس کے مقابل پر ایک معمولی پہلو رہ جاتا ہے.جس کی پوری تاریخ اللہ کی تائیدات سے بھری ہوئی ہو اور روشن ہو چکی ہو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی شک کے اندھیروں میں مبتلا نہیں ہوسکتا.پس آپ
خطبات طاہر جلد 15 639 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء نے کامل یقین کے ساتھ دنیا کو ہدایت کی طرف بلانا ہے اور کامل یقین کے بغیر ہدایت کی طرف بلانا بے کار ہو جایا کرتا ہے.کامل یقین کے بغیر بلانے والا وہ طاقتیں ہی حاصل نہیں کرتا جو بلانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں.مثلاً ایک شخص مذاق سے کہہ دیتا ہے یعنی بعض لوگوں میں رواج ہے وہ سمجھتے ہیں مذاق میں جھوٹ بولنا جائز ہے کہ آگ لگ گئی گھر میں.لوگ سمجھتے ہیں شاید یہ کہہ رہا ہے تو لگ گئی ہوگی لیکن ایک دو دفعہ کے جھوٹ سے پتا چل جاتا ہے کہ اس آواز میں وہ بات ہی نہیں تھی لیکن جب سچ سچ کی آگ لگے اس وقت جو آواز نکلتی ہے وہ بالکل اور طرح کی آواز ہوتی ہے.ڈرانے کے لئے تمہارے پیچھے سانپ ہے ایک آواز اٹھ سکتی ہے، وقتی طور پر ایک انسان اس سے مرعوب بھی ہو جاتا ہے.مگر جو سچ سچ کا سانپ ہے وہ نکلے تو وہ خود بھی ایسا اچھلتا ہے اور اس کی آواز میں ایسی طاقت آجاتی ہے کہ ہر پہچانے والا پہچان لیتا ہے کہ یہ سچی آواز ہے اور یہ بیان کی ایک مثال ہے.انسانی فطرت میں خدا تعالیٰ نے بیان کرنے کی صلاحیت رکھی ہوئی ہے اور اسی وجہ سے دھو کے کی آوازیں اگر وقتی طور پر مرعوب کریں تو لمبا عرصہ نہیں کرتیں.جو سچ کی آواز ہے وہ اس طاقت کے ساتھ اٹھتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں دوسرے کے لئے پہچانا مشکل نہیں رہتا.اس کے علاوہ ایک اور مضمون ہے جو اس کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے جو ہر داعی الی اللہ کو سمجھنا چاہئے اور اس کا تعلق آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث سے ہے.آپ نے فرمایا تمہاری اور میری مثال تو ایسی ہے جیسے تم آگ کے گڑھے کی طرف تیزی سے دوڑے چلے جارہے ہو میں تمہارے پیچھے آوازیں دیتا بھاگ رہا ہوں خبر دارو کوردو کو اپنے قدم کیونکہ تم آگ کے گڑھے میں گرنے والے ہو اور تم میری کچھ نہ سن رہے ہو یہاں تک کہ میں تمہاری کمر پہ ہاتھ ڈالوں ، تمہارے کندھوں سے پکڑوں ، تمہارے بدن کو گھسیٹنے کی کوشش کروں کہ کسی طرح باز آجاؤ اور آگ کے گڑھے میں نہ گرویہ کیفیت کامل یقین کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.( بخاری کتاب الرقاق باب الانتهاء عن المعاصى) انبیاء جو وارنگی کے ساتھ ایک جنون کی کیفیت کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں وہ اس کامل یقین کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے کہ ہم سچے ہیں اور ہمارا منکر لازماً ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے گا.اب دعوت الی اللہ کرنے والا اگر اس یقین سے دعوت الی اللہ نہیں کرتا تو اس کی آواز میں طاقت ہی نہیں پیدا ہوگی.وہ گھبراہٹ اور بے چینی کہ یہ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور میں نے لازماً ان کو بچانا ہے یہ
خطبات طاہر جلد 15 640 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء ایک غیر معمولی قوت ہے جو یقین سے اٹھتی ہے اور صاحب فہم لوگ اس کو پہچانتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اس آواز میں سچائی ہے.اگر وہ نہ بھی مانیں تو اپنی دوسری مجبوریوں کی وجہ سے اس کو رڈ کرتے ہیں لیکن آواز کی شوکت ان کو ضرور بتادیتی ہے کہ بلانے والا کچھ مختلف ہے.چنانچہ بعض بیعت کرنے والوں نے مجھے یہی بات بتائی کہ ہم نے ایک احمدی کی بات پر جو کان دھرا ہے وہ اس وجہ سے کہ اس کی آواز میں وہ غیر معمولی صداقت کا نشان تھا کہ جب ہمیں بلاتا تھا تو اس کے اندر ایک بے چینی پائی جاتی تھی کہ اگر ہم نہیں جائیں گے تو نقصان ہوگا.اس لئے ہم مسلک کو سمجھ کر احمدی نہیں ہوئے.مسلک کو بعد میں سمجھا ہے.پہلے جو احمدیت کی طرف ہمیں کسی چیز نے مائل کیا ہے وہ بلانے والے کی آواز کی سچائی اس کی شوکت تھی اور ایسا ایک دفعہ نہیں بارہا میرے علم میں آچکا ہے کہ کامیاب داعی الی اللہ وہی ہے جس کی آواز یقین سے بھری ہوئی ہو اور وہ یقین اسے بے چین رکھے اور آخری وقت تک بے چین رکھے.اس کی ایک مثال ہمارے ایک ایسے سلسلے کے خادم مربی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جو دو دن پہلے پین میں وفات پاگئے ہیں.ان کی نماز جنازہ بھی بعد میں پڑھاؤں گا لیکن میں آپ کو ان کے ذکر خیر میں اس مضمون کو واضح کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کی زندگی اور یہ مضمون ایک دوسرے میں مدغم ہو چکے تھے.دعوت الی اللہ ا ان کو ایسا جنون تھا کہ کبھی میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں آیا جو اس طرح دعوت الی اللہ کے جنون میں مبتلا ہو چکا ہو.اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، آتے جاتے ، سیر پر جائیں، کہیں تفریح ہو رہی ہو انہوں نے اپنے بعض دفعہ جیبوں سے بعض دفعہ بیگ سے پمفلٹ ضرور نکالنے ہیں.ادھر ہم ایک جگہ ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہیں اور اچانک اٹھے اور سارے پمفلٹ تقسیم کرنے شروع کر دئے.بیرا آیا تو اس کو کہا کہ ٹھہرو یہ لے لو اور یہ پڑھو.بعض دفعہ تعجب ہوتا ہے اور کچھ وقتی طور پرEmbarrasment جس کو کہتے ہیں وہ بھی محسوس ہوتی تھی کیونکہ دعوت الی اللہ کا جنون تو ہے اور بہت اچھا ہے مگر حکمت کے بھی تقاضے ہیں.قرآن کریم نے دعوت الی اللہ سے پہلے حکمت کا مضمون باندھا ہے.ایک موقع پر میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ کی یہ بات بہت ہی پیاری ہے کیونکہ میں آپ کو جانتا ہوں سچائی ہے، آپ کے دل میں جنون ہے لیکن آپ نے حکمت کے تقاضے چھوڑے ہیں.اس کی وجہ سے ہمارا کھانا بھی خراب کیا اور اردگرد مہمانوں کے
خطبات طاہر جلد 15 641 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء کھانے بھی خراب کئے.کئی خاندان ہیں جو سیر کی خاطر بڑی دور سے خرچ کر کے آئے ہیں وہاں آپ زبر دستی ان کو مذہب کی طرف لا رہے ہیں ان کا بالکل دل نہیں چاہ رہا، ان کے چہرے بتارہے تھے کہ وہ گھبرا رہے ہیں صرف شرافت کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہتے.بیرا بے چارہ گھبرا گیا.یہ کیا ہو گیا میں نے تو کھانے کی پلیٹ رکھی ہے تو اس نے آگے سے ایک پمفلٹ پکڑا دیا ہے.تو حکمت کے لحاظ سے آپ بے شک یہ کہہ سکتے ہیں کہ بسا اوقات وہ اپنے جنون کی وجہ سے حکمت کے تقاضے بھی بھول جاتے تھے اور مجھے ان کو سمجھانا پڑا اور اس وجہ سے چونکہ میں ان کے ساتھ سفر کر چکا تھا ، میں دیکھ چکا تھا، مجھے یہ بھی پتا چل گیا کہ اتنا بے شمار پمفلٹ کا خرچ کیوں ہو رہا ہے کیونکہ چین میں اتنے احمدی نہیں تھے جتنے پمفلٹ چل رہے تھے.تو ان کا یہ شغل تھا زندگی میں.بازار میں چلتے پھرتے ہر جگہ وہ پمفلٹس کے بیگ انہوں نے اٹھائے ہوتے تھے وہ خالی کر کے واپس آیا کرتے تھے.تو میں نے پھر ان کو سمجھایا میں نے کہا دیکھیں خرچ سے کوئی عار نہیں ہے، خرچ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر بر محل تو ہونا چاہئے کیونکہ مجھے یہ اطلاع ملی کہ وہ ادھر پمفلٹ دے کے گئے ادھر لوگوں نے پھینک دئے اور بعض دفعہ پھر وہ قدموں تلے روندا بھی جاتا تھا.تو جب میں نے ان کو پیار سے یہ باتیں سمجھا ئیں تو سمجھ گئے اور اس کے بعد پھر انہوں نے اپنے طرز تبلیغ میں کچھ تبدیلی کی جو مناسب حال تھی لیکن تبلیغ آخری دموں تک کرنے کا ایسا جنون تھا کہ وفات سے چند منٹ پہلے چوٹی کا ڈاکٹر ان کو دیکھنے آیا کہ کیا حالت ہے اور اسی حالت میں منہ میں آکسیجن لگی ہوئی ہے یا ہٹا کر یا کچھ زور لگا کر اپنی بیوی کو کہا فوراً اسلامی اصول کی فلاسفی اس سرجن کو دے دو.ان کی بیگم سے جب میں نے تعزیت کا فون کیا تو انہوں نے کہا سر جن مجھے کہتا تھا یہ کیا شخص ہے.زندگی آخری دموں تک جا پہنچی ہے ، جان لبوں پر آگئی ہے اور میں اس کی طبیعت پوچھنے آرہا ہوں یہ مجھے کہتا ہے فلاں کتاب پڑھواور ہر ایک سے یہی حال تھا.سارے اردگرد کے مریض اس وقت ان کی تبلیغ کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور بہت نرم دل سے لوگوں سے ملتے تھے ، اپنے خاندان کے جو افراد ملنے آتے تھے صرف ایک دفعہ غصہ آیا وہ اس بات پر کہ انہوں نے کہا تھا کہ فلاں لٹریچر دولٹریچر تھا نہیں ، کہا کہ میری عیادت کرنے کیا تم آئے ہو.اگر لٹریچر ہی نہیں لے کے آتے تو اس عیادت کا کیا فائدہ.ان کی ایک بیٹی امریکہ ہے اس نے فون کیا اور یہ آخری دموں کی بات ہے کچھ یعنی آخری چند دنوں کے اندر اس کو خیال تھا کہ پتا نہیں ابا ابھی زندہ بھی
خطبات طاہر جلد 15 642 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء ہیں کہ نہیں.گھبراہٹ میں اس نے فون کیا تو فون پہ کہا ہاں ہاں میں نے پہچان لیا ہے.یہ بتاؤ کرتی ہو کہ نہیں.وہ حیران کہ اچھا مریض ہے، میں پوچھ رہی ہوں حالت کیا ہے ابا کی اور پھر کہا دیکھو فرض کر لو اپنے اوپر ایک احمدی ضرور بنانا ہے.یہ وعدے لیتے لیتے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو دعوت الی اللہ کا جو ایسا جنون کہ ساری زندگی پہ قبضہ کر لے یہ خدا کا خاص انعام تھا جو ان پر تھا.مسلسل پچاس سال انہوں نے سپین میں دعوت الی اللہ کا کام کیا ہے اور شوق ایسا تھا کہ جب ایک زمانے میں جماعت کی غربت کی وجہ سے 1947ء کی بات ہے یہ چھیالیس میں وہاں گئے ہیں اور ایک سال کے اندراندرجو مبلغ باہر بھجوائے گئے تھے جماعت کے پاس پیسے نہیں تھے کہ ان کو ان کے روز مرہ کی زندگی کے اخراجات دے سکے ، بڑی تنخواہوں کی تو بحث ہی نہیں ہوا کرتی تھی.یہ بات چلتی تھی کہ روز مرہ زندہ رہنے کے لئے جو کم از کم ضرورتیں ہیں وہ جماعت پوری کر سکتی ہے کہ نہیں.آخر حضرت مصلح موعودؓ نے بادل نخواستہ یہ فیصلہ کیا کہ بہت سے مبلغوں کو واپس بلا لیا جائے یا ان کو کہہ دیا جائے کہ اب ہم تمہیں کچھ نہیں سپورٹ کر سکتے اس لئے فارغ ہو.تو جب ان کو یہ پیغام ملا تو انہوں نے فوری طور پر رابطہ کیا اور کہا کہ میں تو کسی قیمت پر فارغ نہیں ہو سکتا.گزارے کی بات ہے میں اپنا گزارہ خود کروں گا اور حضرت مصلح موعود اتنا متاثر ہوئے اس سے کہ بعد میں ایک خطبہ کے دوران فرمایا کہ دیکھو ہمارا ایسا بھی مبلغ ہے اس نے کہا میری پرواہ نہ کریں میں اپنا گزارہ کروں گا بیوی بچوں کا کروں گا لیکن تبلیغ نہیں میں نے چھوڑنی ، خدا کے لئے مجھے فارغ نہ کریں.جب ایک موقع پر میں نے فیصلہ کیا کہ اب ان کو بہت بیمار بھی ہو گئے تھے ریٹائر کر دیا جائے تو ان کا بڑا دردناک خط ملا کہ ریٹائر نہ کریں جس طرح بھی ہے میں گزارہ کروں گا مجھے اسی حالت میں رہنے دیں.چنانچہ پچاس سال مسلسل ، ستائیس سال کی عمر میں پیین گئے تھے، وہاں رہے اور اس عرصے میں ایک بڑا عرصہ وہ تھا جب جماعت سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا ، عطر بیچتے تھے خود ہی عطر بنانے سیکھے اور پولیس آتی تھی ، حملے کرتی تھی، پکڑتی تھی ، پھر چھوڑ بھی دیا کرتی تھی.یہ مسئلہ نہیں سمجھ آرہا تھا کہ پولیس نے قید کیوں نہیں کیا اور چھوڑ کیوں جایا کرتی تھی.یہ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک بڑے سینئر پولیس افسر نے ان کے بیٹے سے بعد میں بیان کیا کہ ہم اسے اس لئے چھوڑ دیتے تھے کہ ہمیں خطرہ تھا کہ جیل میں سب کو احمدی بنالے گا.اس لئے کوئی احسان نہیں تھا، مجبوری تھی.ڈرانے دھمکانے کے
خطبات طاہر جلد 15 643 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء لئے پکڑا ، قید خانے میں ڈالا اور دوسرے دروازے سے باہر نکال دیا کیونکہ جاتے ہی تبلیغ شروع کر دیتے تھے.تو اس حالت میں انہوں نے زندگی بسر کی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کے ساتھ اور مجھے بھی موقع ملا ہے ان کو تبلیغ کرتے ہوئے دیکھنے کا.عطر چھڑکنا اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کو اس طرف بلانا کہ ایک ایسا عطر ہے جس کی خوشبو کبھی ختم نہیں ہوگی اور اس عطر کے سوا جو میں نے تم پر چھڑ کا ہے وہ بھی ایک عطر ہے اگر کہو تو میں تمہیں بتاؤں.تو جو تجسس کا ہر انسان کے اندر مادہ ہے لوگ پوچھتے تھے ہاں ہاں بتاؤ تو اسی وقت وہ تبلیغ شروع کر دیتے تھے تا کہ یہ ثابت کر سکیں میں نے نہیں کی تھی انہوں نے پوچھا تو میں نے تبلیغ شروع کی.بہر حال بہت لمبا عرصہ تک بہت شاندار، عظیم الشان خدمت کی توفیق پائی.کامل وفا کا نمونہ تھے، کامل اطاعت کا نمونہ تھے کبھی اطاعت سے سرموبھی فرق نہیں کیا اور اپنی اولاد کی بہت اچھی تربیت کی.ساری اولا د خدا کے فضل سے خدمت دین پر مامور رہی ہے.جس حالت میں بھی ہے لیکن وہ اطاعت شعار ہے اور دین سے محبت کرنے والی ہے.تو ان کی نماز جنازہ ہوگی اور میں امید رکھتا ہوں دنیا بھر میں احمدی اس نماز جنازہ میں تو شامل نہیں ہو سکتے لیکن دعا میں شامل ہوں اور اپنے اپنے ہاں ان کی نماز جنازہ پڑھیں.اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت عطا فرمائے کیونکہ واقعی عجب آزاد مرد تھا.دنیا کے دھندوں سے آزاد اور خدمت دین پر جتا ہوا.اب میں واپس اسی مضمون کی طرف آتا ہوں.یہ بھی واپس کیا ، یہی مضمون ہے جو جاری ہے یہ مثال دی ہے دعوت الی اللہ کی.اس رنگ میں آج آپ کو دعوت الی اللہ یہ وقف ہو جانا چاہئے اور تعاون کے رنگ میں ایسا کریں تحکم کے رنگ میں نہ کریں.کامل یقین کے باوجود اس انکسار پر قائم رہیں جو قرآن کریم کی آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ کامل یقین کے باوجود حکم کا رنگ اختیار نہ کر واور حکمت کے ساتھ پیغام کو پہنچاؤ اور بجز کے ساتھ اصولوں پر قائم رہو کہ فیصلہ خدا کرے گا لیکن پیغام دینا ہمارا کام ہے اور پیغام دو تو دل کا اضطراب لوگوں کو دکھائی دینے لگے.وہ اضطراب جس کا ذکر آنحضرت ﷺ نے اپنی تبلیغ میں آپ کے سامنے پیش فرمایا ہے یعنی میں کیسا تبلیغ کا جذبہ رکھتا ہوں وہ اضطراب کامل یقین کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا.وہ اضطراب نصیب ہو جائے تو پھر آواز میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.آج جبکہ احمدیت تبلیغ کے ایک بالکل نئے دور میں داخل ہوگئی ہے جس کا وہم و گمان بھی کوئی نہیں
خطبات طاہر جلد 15 644 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء کرسکتا تھا.اس وقت ابھی بہت سے احمدی افراد ایسے ہیں جو ابھی تبلیغ میں داخل نہیں ہوئے.اس لئے جب آپ دیکھتے ہیں کہ سولہ لاکھ ہو گئے تو یہ نہ سمجھیں کہ سارے احمدیوں کی اجتماعی کوشش سے جو خدا نے قبول فرمائی سولہ لاکھ ہوئے.یہ بعض علاقوں کے بعض احمدیوں کی کوشش سے ہوئے ہیں.جرمنی میں اگر تمیں ہزار ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری جرمن جماعت ہی مشغول ہے.ان کا ایک حصہ فعال ہے اور ایک حصہ دوسروں کی مدد بھی کرتا ہوگا، بیویاں خاوندوں کی مدد کرتی ہیں ، بچے بھی ماں باپ سے تعاون کرتے ہیں مگرا بھی ایک تعداد ہے اور میرے نزدیک خاصی تعداد ہے جو براہ راست تبلیغ میں ملوث نہیں ہوئی.انگلستان کی حالت آپ کے سامنے ہے.یہاں پہلے کی نسبت بہتری ہے مگر ابھی بھاری تعداد U.K کے احمدیوں کی ایسی ہے جو براہ راست تبلیغ کا سلیقہ ہی نہیں جانتی پتا ہی نہیں کہ ہوتی کیا ہے اور وہ چند جو مستعد ہیں ان کا پھل ساری جماعت اپنی طرف منسوب کر رہی ہے کہ جماعت U.K نے ایک سو ستر کی بجائے اس سال دوسوستر احمدی بنائے اللہ کے فضل کے ساتھ ،مگر دوسوستر کتنوں نے بنائے ؟ چھ ہزار میں سے چھ ہزار نے بنائے یا چالیس پچاس نے یا ہمیں پچیس نے بنائے.تو جو بنائے ہیں وہ ہمیں چھپیں کے دائرے میں ہی ہیں باقی تو صرف کریڈٹ لینے کے لئےU.K جماعت کے ممبر بنے ہوئے ہیں.اگر چہ کریڈٹ سے مراد یہ نہیں کہ بالا رادہ وہ دھوکہ دے رہے ہیں نعوذ باللہ من ذالک.مراد یہ ہے کہ کریڈٹ ملتا ہے تو کیوں نہ لے لیں ، ہاں ہم U.K کی جماعت کے ہیں اور ہماری تبلیغ پہلے سے بڑھ رہی ہے.چندوں میں حصہ لیتے ہیں، وقار عمل میں حصہ لیتے ہیں ، دوسروں کی خدمتوں میں آگے ہیں مگر یہ پہلوذ رالنگڑا ہے.پس آج وقت ہے کہ ساری جماعت پوری طاقت کے ساتھ اپنے غیر فعال ممبروں کو یا جماعت کے وہ وجود جو ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ان کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں اور نظام جماعت وقتاً فوقتا نگرانی کرتا رہے، معلوم کرتا رہے کہ اس تبلیغ میں حصہ کتنوں نے لیا تھا اور جنہوں نے حصہ نہیں لیا ان کی طرف متوجہ ہو.یہ وہ طریق ہے جو میں نے چندوں کے نظام میں آزما کے دیکھا ہے اور غیر معمولی برکت پڑی ہے.اس سے اور یہی طریق تبلیغ کے نظام میں بھی کارآمد ہوگا کیونکہ ایک ہی بات ہے.نظام کا جہاں تک تعلق ہے اس کی نوعیت کا ، اس کی فعالیت، اس کی مستعدی کا، وہ دونوں طرف ایک ہی طرح کے اصول کارفرما ہوتے ہیں.اپنی تبلیغ کو منظم کرنا زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو اس میں جھونک کر
خطبات طاہر جلد 15 645 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء ان کو فعال داعی الی اللہ بنانا اور پھر ان کو جو چندہ، یعنی ان کی بیعتیں ان کا چندہ ہے، اس کا حساب رکھنا یہ نظام جماعت کا کام ہے.اس پہلو سے بار بار سمجھانے کے باوجود ابھی مزید سمجھانے کی ضرورت ہے.میں نے چندے کے نظام کے متعلق یہ جماعتوں کو نصیحت کی کہ جو دے رہے ہیں ہر دفعہ انہی پر نہ توجہ دئے جائیں.جب تحریک ہو آپ انہی کے پاس پہنچتے ہیں جو پہلے دے رہے ہیں.جو نہیں دے رہے ان کا بھی تو کھانہ بنائیں، کوئی رجسٹر تیار کریں کہ جو نہ دینے والوں کا رجسٹر ہو اور پھر دیکھیں کہ وہ کتنے ہیں ان کا تناسب کیا ہے اور ان میں سے آپ نے کتنوں کو نا دہندہ رجسٹر سے دہندہ کے رجسٹر میں منتقل کیا ہے.جب عملاً بعض جماعتوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ اور سنجیدگی کے ساتھ اس پر عمل کیا تو ان کے مالی نظام میں حیرت انگیز برکت پڑی ہے اور اس پہلو سے امریکہ کی جماعت کی مثال بھی خدا کے فضل سے بڑی نمایاں ہے.انہوں نے جب بھی میں نے ہدایت دی اسی طرح سنجیدگی کے ساتھ لفظاً لفظا عمل کی کوشش کی اور دیکھتے دیکھتے ان کا مالی نظام کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے.اب میں ان کو یہ بھی.سمجھا رہا ہوں کہ دعوت الی اللہ کا پروگرام بھی تو اسی طرح ایک اہم پروگرام ہے یعنی دونوں ایک دوسرے کے لئے دست و بازو ہیں اور دو بازوؤں کا جس طرح آپس میں تعلق بھی ہوتا ہے اور تعاون بھی ضروری ہے ویسا ہی آپ کا فرض ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام کو بھی مالی نظام کے پہلو بہ پہلو کم سے کم اتنی سنجیدگی کے ساتھ لیں اور دونوں کو آگے بڑھا ئیں.اس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے تبدیلیاں تو ہیں لیکن ابھی بہت ضرورت ہے.الله یہ جو مختلف نظاموں کا آپس کے تعاون کا مضمون ہے یہ ہر زندہ جماعت کے اندر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا نافذ فرما دیا گیا ہے کہ جماعت کی کثرت کے باوجود ایک جسم دکھائی دیتی ہے اور آنحضرت ﷺ نے جب مومنوں کی جماعت کی تعریف ہی یہ فرمائی کہ خواہ کثرت سے ہوں دکھائی ایک جسم دیں اور جب تک ایک عضو دوسرے عضو سے تعاون نہ کرے جسم بن ہی نہیں سکتا.اگر آنکھ، آنکھ سے تعاون نہ کرے تو ایک ادھر دیکھ رہی ہوتی ہے ایک ادھر دیکھ رہی ہوتی ہے اور ٹیڑھی نظر ہو جاتی ہے.ٹانگ ، ٹانگ سے تعاون نہ کرے تو ایک ٹانگ دائیں طرف اٹھ رہی ہے ایک بائیں طرف اٹھ رہی ہے اور آدمی لڑکھڑا کے گر جاتا ہے یا کھڑا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے
خطبات طاہر جلد 15 646 ہوئے تعاون کی بعض لطیف مثالیں ہمارے سامنے رکھی ہیں.آپ فرماتے ہیں: خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء...یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے یہ کس قدر نا مناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ایک تیرنا جانتا ہے دوسرا نہیں.تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے.اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے.اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى ) کہ نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرو) کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ عملی ، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ.بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو.کوئی جماعت، جماعت نہیں ہوسکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے...“ تو جو دل کے غریب ہیں ان کو مالی قربانی میں آگے بڑھانا، ان کو سہارا دینا ہے.جو تبلیغ میں کمزوری دکھاتے ہیں ان کو قدم قدم ساتھ چلاتے ہوئے ان کی رفتار بڑھانا اور ان کو طاقت دینا یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تشریح کے عین مطابق تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِ کی مثال ہے.پھر آپ اس مضمون کا دوسرا پہلو بیان کرتے ہیں.جو نہیں ہونا چاہئے.وو...دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے 66 کو کھائے...“ اگر مالی معاملات میں جماعت میں حرص پیدا ہو جائے بعض لوگوں میں اور وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو کھانے لگیں تو تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوی کا مضمون غائب ہو جائے گا اور نفرتیں پھیل جائیں گی ، اعتماد اٹھ جائیں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے تابع اس کے باریک پہلو بیان فرمائے ہیں جو جماعت کو سمجھنے چاہئیں کیونکہ جب تک ایک جماعت نہ بن جائے اس وقت تک تبلیغ کے میدان میں غیر معمولی کامیابیاں نصیب نہیں ہوسکتیں.فرماتے ہیں:...جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں
خطبات طاہر جلد 15 647 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں.ایسا ہرگز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں...کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی ، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم، ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے.ذرا ذراسی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں (ملفوظات جلد دوم صفحہ 200-263) پھر حضور فرماتے ہیں : منجملہ انسان کے طبعی امور کے جو اس کی طبیعت کے لازم حال ہیں ہمدردی خلق کا ایک جوش ہے، قومی حمایت کا ایک جوش بالطبع ہر ایک مذہب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور اکثر لوگ طبعی جوش سے اپنی قوم کی ہمدردی کے لئے دوسروں پر ظلم کر دیتے ہیں.گویا انہیں انسان نہیں سمجھتے تو اس حالت کو خلق نہیں کہہ سکتے.یہ فقط ایک طبعی جوش ہے ( اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 363) تو جہاں تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ کی تلقین فرمائی، ایک دوسرے کو سہارا دینا اور کمزوروں کو اٹھا کر اپنی سطح پر لانے کی کوشش کرنا ایک دعوت الی اللہ کی روح کے طور پر ہمارے سامنے رکھا اور فرمایا کہ اسے اختیار کرو گے تو ایک جماعت بنو گے.ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ایک جماعت کے بعض نقصانات بھی ہیں یعنی ایک جماعت بننے کے اگر اس میں عصبیت آجائے.اگر وحدت ملی کے نتیجہ میں دوسروں سے نفرت اور دوسروں پر برتری کے جذبات پیدا ہو جا ئیں تو یہ وحدت ملی تو حید کی مظہر نہیں بلکہ شیطان کی مظہر بن جاتی ہے.دنیا میں اکثر مظالم وحدت ملی کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اگر قومی کردار بگڑا ہوا ہو، جتنا وہ اکٹھے ہوں گے اتناہی نقصان پہنچے گا.پس اس پہلو کو کھول رہے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں سب اچھی باتیں ہیں ہمدردی خلق، جوش ، اپنے بھائی کو برابر کر کے اپنے ساتھ شامل کر لینا مگر جو لوگ اس کے نتیجہ میں دوسری قوموں پر ظلم کرتے ہیں.گویا انہیں انسان نہیں سمجھتے سو اس حالت کو خلق نہیں کہہ
خطبات طاہر جلد 15 648 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء سکتے یہ فقط ایک طبعی جوش ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حالت طبعی کو ؤں وغیرہ پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ ایک کو لے کے مرنے پر ہزار ہا کوے جمع ہو جاتے ہیں لیکن یہ عادت انسانی اخلاق میں اس وقت داخل ہوگی جب یہ ہمدردی انصاف اور عدل کی رعایت سے محل اور موقع پر ہو.اس وقت ایک عظیم الشان خلق ہوگا جس کا نام عربی میں مؤاخات اور فارسی میں ہمدردی ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ قرآن کریم میں اشارہ فرماتا ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ - پس جب قوم کا ایک فرد کسی دوسری قوم پر ظلم کرتا ہے اور آپ قومی حمیت کی وجہ سے اس کی مدد کرتے ہیں اس کی رعایت کرتے ہیں، اس کے پہلو پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ آیت کے دوسرے ھے وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ سے بغاوت ہوتی ہے.پس ان دونوں کے درمیان ایک حسین اور کامل توازن پیدا کرنا ضروری ہے اور اندرونی عادتوں میں جو آپ کی نیکی کی عادتیں ہیں ان میں بھی ایک توازن پیدا کرنا ضروری ہے جیسا کہ مالی اخراجات کے وقت آپ کے دل کھل چکے ہیں خدا کے فضل کے ساتھ ، وہاں وقت کے خرچ پر اگر نہیں کھلے تو یہ عدم تعاون کی ایک مثال ہے.آپ کی صلاحیتیں آپ کی دوسری صلاحیتوں سے پورا تعاون نہیں کر رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی مثال یوں دیتے ہیں: ”ہمارے ہاتھ اور پاؤں اور کان اور ناک اور آنکھ وغیرہ اعضاء اور ہماری سب اندرونی اور بیرونی طاقتیں ایسی طرز پر واقع ہیں کہ جب تک وہ باہم مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تب تک افعال ہمارے وجود کے علی مجری الصحت ہرگز جاری نہیں ہو سکتے اور انسانیت کی کل ہی معطل پڑی رہتی ہے جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہئے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہو سکتا“ براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 59) پس صلاحیتوں کا آپس کا تعاون اور انسان کی اندرونی صفات کا ایک دوسرے سے تعاون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جوارح کے تعاون کی مثال سے ہمارے سامنے کھول دیا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مومن ایک بدن کی طرح ہیں جیسے ایک بدن کے اعضاء
خطبات طاہر جلد 15 649 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء ہوں.حضرت مسیح موعود اسی مضمون کے ایک اور پہلو کو ہمارے سامنے کھولتے ہیں کہ بایاں ہاتھ اور دایاں ہاتھ جب ضرورت ہوگی از خود تعاون کرتے ہیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ بایاں ہاتھ کوئی کام میں مشغول ہواس کو ضرورت ہو اور دایاں ہاتھ بے اختیار اس کی مدد کو نہ لیکے.یا دائیں ہاتھ میں کمزوری واقع ہو اور بایاں ہاتھ بے اختیار اس کی مدد کو نہ لیکے.بعض مریض میں نے دیکھے ہیں جن کا بدن کا ایک حصہ فالج میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بایاں ہاتھ اگر مفلوج ہے تو دایاں ہاتھ ہر وقت اس ہاتھ کو اٹھائے پھرتا ہے یعنی اپنے بھائی کی خدمت پر مامور رہتا ہے.یہ وہ تعاون کی روح ہے جو اندرونی طور پر مضبوط ہوتو بیرونی طور پر بھی اپنے جلوے دکھائے گی.پھر تبلیغ میں صرف زبانی نصیحت اور ہمدردی نہیں رہے گی.اگر ہمدردی کی وجہ سے تبلیغ ہے جو تبلیغ کا اصل ہے تو جب ایسا شخص ضرورت محسوس کرے گا ، جب تنگی میں ہوگا ، جب بیمار ہوگا ، جب پریشان ہوگا تو آپ لازماً از خود اس کی ظاہری عملی مدد پر آمادہ ہو جایا کریں گے اور یہ بات جب پیدا ہو جائے داعی الی اللہ میں تو اس کی آواز میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور خدمت خلق کرنے والوں کی دعوت الی اللہ بہت زیادہ پھول اور پھل لاتی ہے بہ نسبت ان کے جو زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہاری مدد میں یہ کام کر رہے ہیں مگر ضرورت کے وقت اس کی ہمدردی ان کے دل سے، ان کے اعضاء سے ظاہر نہیں ہوتی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ ان مضامین کے ان باریک پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے جماعت احمد یہ اپنی دعوت الی اللہ کے مضمون کو تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى کے تابع رکھتے ہوئے اس میدان میں آئندہ مزید بلند منازل کی طرف قدم بڑھانے پر مستعد ہو جائے گی.یہ جو خدا تعالیٰ نے اب تک ہم سے فیض کا سلوک فرمایا ہے کہ ہر سال ہم دگنے ہور ہے ہیں، اب منزل ایسی آگئی ہے یہ یقین نہیں آتا کہ اب کیسے دگنے ہو جائیں گے لیکن یہ یقین کا نہ ہونا بھی ایک اندرونی بے ایمانی پر دلالت کرتا ہے، بے ایمانی اس طرح نہیں کہ جیسے خوفناک بے ایمانی ہوتی ہے.مطلب ہے ایمان میں کچھ کمزوری.گویا ہم اپنی طاقت سے بڑھے تھے اور ہماری طاقت اپنی آخری منزل کو پہنچ گئی ہے.ہم تو اپنی طاقت سے بڑھے ہی نہیں.ہمارے خلوص کو خدا نے قبول فرمالیا اور ہمارے بدن کو خود تھام لیا ہے.اسی نے یہ پھل پیدا کیا ہے ہم نے اپنی طاقت سے نہیں کیا ، نہ کر سکتے تھے ، نہ پہلے کبھی کیا.اس لئے آئندہ بھی اگر اسی نے کرنا ہے تو اپنی امیدوں کا سر بلند رکھیں.اپنی اطاعت کا سر ہمیشہ
خطبات طاہر جلد 15 650 خطبہ جمعہ 16 راگست 1996ء خدا کے حضور جھکائے رکھیں لیکن امیدوں کے سر بلند رکھیں اور بیک وقت یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہونی چاہئیں.پس بے دھڑک ہو کر یہ فیصلہ کریں کہ آپ نے اس سال پھر دگنا ہونا ہے اور خدا کے فضل سے اگر یہ فیصلہ یقین اور سچ پر قائم ہے اور آپ کا عمل آپ کے اس حو صلے سے تعاون کرے گا تو میں کامل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ضرور دگنے ہوں گے.کوئی دنیا کی طاقت آپ کو دگنا ہونے سے روک نہیں سکے گی.انشاء اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 15 651 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء جس خدا نے دنیاوی ہجرت کے نتیجہ میں اپنے وعدے پورے فرمائے وہ تمہاری روحانی ہجرت کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.( خطبہ جمعہ فرمودہ 23 /اگست 1996ء بمقام مئی مارکیٹ من ہائم.جرمنی ) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ * وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرِيةِ وَالْإِنْجِيْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ اَوْ فِى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة: 111 ) پھر فرمایا: یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں تو بہ کا بھی مضمون ہے اور ہجرت کا بھی اور جہاد فی سبیل اللہ کا بھی.ان تین پہلوؤں سے اس کا اطلاق آج دنیا کی ان تمام جماعتوں پر خصوصیت سے ہو رہا ہے جو اللہ کی خاطر ہجرت اختیار کرنے کے بعد پھر اللہ ہی کی خاطر ایک دوسری ہجرت بھی کر رہی ہیں اور اس دور میں ہیں.یہ وہ مضمون ہے جس کا تعلق بدنی ہجرت سے نہیں بلکہ روحانی ہجرت سے ہے اور اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کریمہ کو جسے میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ، آیت تو بہ بھی سمجھا ہے اور آیت ہجرت بھی اور اس کی
خطبات طاہر جلد 15 652 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء ایک ایسی تشریح فرمائی ہے کہ اس کی کوئی نظیر کہیں آپ کو اسلامی لٹریچر میں نہیں ملے گی مگر یہ تمام تشریح قرآن اور حدیث پر مبنی ہے اس سے باہر نہیں.پس آج جماعت جرمنی ہی کے حالات کے پیش نظر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس کو چنا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ نصیحت اس آیت کریمہ پرمبنی اور ان احادیث کے مضامین پر مبنی ہے جن کا تعلق ہجرت سے ہے.آنحضرت ﷺ نے ہجرت کا جو مضمون بیان فرمایا ہے اس پر میں تفصیلی روشنی پہلے ڈال چکا ہوں اور وہ حدیث جس کا ہجرت سے تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جب ہجرت کرتا ہے تو اس کی ہجرت بدنی ہوتی ہے اور ایک نیت اور روح کی ہجرت ہوتی ہے.جو بدنی ہجرت ہے وہ خواہ کوئی بھی رخ اختیار کرے اللہ کے ہاں وہی ہجرت مقبول ہوتی ہے اور وہی ہجرت کا رخ معین ہوتا ہے جو نیت کا رخ ہو جس طرف نیت نے ہجرت کی ہو.اس تعلق میں آنحضرت ﷺ نے اور بھی نصائح فرمائیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اور یہ مسلم کتاب البر والصلة سے حدیث لی گئی ہے.حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو کہ خوب صورت ہو یا بد ہو بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے کہ ان میں کتنا خلوص اور حسن نیت ہے.(مسلم کتاب البر والصلة والأدب باب تحريم ظلم المسلم و خذله و احتقاره ودمه و عرضه و ماله ) پس ہر وہ عمل جو مومن سے صادر ہوتا ہے اس کا مرکزی نقطہ اس کا دل اور اس کی نیت ہے اور اللہ تعالیٰ بدنوں اور جسمانی حسن یا بد زیبی سے قطع نظر دل کے اس حسن پر نظر ڈالتا ہے جس کا نیت ے تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر جو نصیحت فرمائی ہے وہ میں اب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.میرے تمام خطبے کا مضمون اور اس افتتاحی خطاب کا جو جرمنی کے اس سالانہ اجتماع کے موقع پر دے رہا ہوں اور یہاں خطبہ اور افتتاح دونوں اکٹھے ہو گئے ہیں اسی اقتباس سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس میں آپ کے سامنے رکھوں گا.میرے ذہن میں پہلے بھی اسی قسم کا مضمون تھا لیکن جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس سامنے نہ آیا اس کے تمام پہلو ذہن پر روشن نہیں ہو سکے تھے.اب جب اقتباس کا جو میں آپ کے سامنے رکھوں گا گہری نظر سے مطالعہ کیا تو میں حیران و ششدر رہ گیا کہ ہجرت اور توبہ کے
خطبات طاہر جلد 15 653 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء مضمون پر کبھی اسلامی لٹریچر میں اس سے زیادہ مفصل سیر حاصل اور گہری گفتگو نہیں فرمائی گئی قلم نہیں اٹھایا گیا جیسے حضرت مسیح موعود نے یہ قلم اٹھایا ہے.وہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی تھی اس کا بنیادی تعلق بیعت سے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ لَه اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں وَاَمْوَالَهُمْ اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں اور یہ سودا اس بات پر ہے کہ ان کو جنت عطا کی جائے گی.اب یہ جانوں اور اموال کا سودا کیا چیز ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اسے حقیقی توبہ قرار دیتے ہیں.فرماتے ہیں تو بہ کا اصل مضمون وہی ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے تو بہ کے نتیجہ میں جو بچی تو بہ ہو انسان اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے اور اس کے بدلے اپنی جان بخشوا تا ہے.جو اس کے اعمال گزشتہ میں سرزد ہوئے جو کچھ وہ کارروائیاں کرتا رہا جب تو بہ کرتا ہے اور خدا سے عہد بیعت کرتا ہے تو گویا اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر کے اپنی جان کی بخشش چاہتا ہے اور یہ وہ مضمون ہے جو اس دنیا میں تو ممکن ہے مگر مرنے کے بعد پھر یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ مرنے کے بعد وہ لوگ جو پکڑے جائیں گے وہ چاہیں گے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیں.یہاں تک کہ مائیں اپنی بیٹیاں، اپنی اولاد بھی پیش کریں گی لیکن کچھ بھی مقبول نہیں ہوگا کیونکہ وہ وقت گزر چکا ہے.پس وہ وقت جو مرنے کے بعد آنا ہے جب ہم سے ہماری ملکیت واپس لے لی جائے گی یا خدا اپنی ملکیت ہم سے واپس لے لے گا اس وقت کوئی تو بہ نہیں ہے.زمین و آسمان تمام کائنات کا سب کچھ بھی دے کر ہم اپنی جانوں کو چھڑا نہیں سکیں گے.آج اس دنیا میں ،اس زندگی میں یہ وقت ہے کہ ہم ایسا کریں اور اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا قطعی وعدہ ہے فرماتا ہے تم یہ کرو اور تمہاری تو به قبول کرنا تمہیں بخشا میر ازمہ ہے.یہ قطعیت کے ساتھ وعدہ اس آیت میں دیا گیا ہے.اس سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بیعت میں جاننا چاہئے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شئے کا فائدہ اور قیمت معلوم نہ ہو.تو اس کی قدر آنکھوں کے 66 اندر نہیں سماتی...“ فرمایا تم بیعت تو کرتے ہو اور قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ اسی بیعت کی طرف بلا رہی ہے
خطبات طاہر جلد 15 654 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء جو حقیقی اور اصلی اور آخری بیعت ہے لیکن اگر تمہیں اس کی قدر و قیمت معلوم نہ ہو تو تمہاری یہ بیعت تمہیں فائدہ نہیں دے گی اور اس بیعت کی تم حفاظت نہیں کر سکتے.فرماتے ہیں جس چیز کی قدر و قیمت معلوم ہو انسان اسی نسبت سے اس کی حفاظت کرتا ہے پس بیعت کی قدرو قیمت معلوم ہونی چاہئے.فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کیا ہے.فرماتے ہیں: جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کے مال واسباب ہوتے ہیں مثلاً روپیہ، پیسہ، کوڑی لکڑی وغیرہ تو جس قسم کی جو شئے ہے اسی درجے کی اس کی حفاظت کی جاوے گی.ایک کوڑی کی حفاظت کے لئے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لئے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تو یونہی ایک کو نہ میں ڈال دے گا.علیٰ ہذا القیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے اس کی زیادہ حفاظت کرے گا...“ پس تم معلوم کرو کہ تمہاری جتنی بھی قیمتی اشیاء ہیں جو سب سے زیادہ تمہیں عزیز ہیں ان میں سب سے بیش قیمت سب سے بالا قیمت وہ کیا چیز ہے.فرمایاوہ عہد بیعت ہی ہے پس اگر تمہیں معلوم ہو کہ اس کی قدرو قیمت کیا ہے تو تم اس کی سب سے زیادہ حفاظت کرو گے اور قدرو قیمت کے نہ معلوم ہونے کے نتیجے میں انسان اپنے عہد بیعت کی سب سے کم حفاظت کرتا ہے اور بسا اوقات انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو بیعت کرنے کے باوجود اس کی حفاظت پر نگاہ ہی نہیں رکھتے اور بنیادی مرکزی وجہ جو انسانی فطرت پہ گویا مرتسم ہے لکھی ہوئی ہے وہ اس کی قدرو قیمت کا نہ جاننا یا اس کی قدرو قیمت کے احساس کی کمی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:...اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات تو بہ ہے جس کے معنی رجوع کے ہیں تو بہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بود و باش مقرر کر لی ہوئی ہے ( تو تو بہ کے معنے یہ ہیں کہ ) اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا...“ پس ایک انسان ظاہری طور پر بھی اپنے وطن کو چھوڑتا ہے.فرمایا ہے جب تم بیعت کرتے ہو تو
خطبات طاہر جلد 15 655 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء یا درکھو ایک وطن کو چھوڑتے ہو اور اس کا حقیقی نام تو بہ ہے اور رجوع اس وطن کو چھوڑ کر دوسرے وطن کی طرف ہجرت کا نام ہے.پس چونکہ جماعت جرمنی دنیا کی سب ہجرت کرنے والی جماعتوں سے تعداد میں زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں ہجرت کی پاک علامتیں بھی ظاہر ہورہی ہیں اس لئے آپ کے اس اجتماع کے لئے اور اس خطبہ کے لئے بھی میں نے اسی مضمون کو اختیار کیا ہے.فرماتے ہیں:...اب وطن کو چھوڑ نا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں وو ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدرا سے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اُس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے...“ اب دیکھیں آپ میں سے کتنے ہیں جن کے عزیز پیارے رشتہ دار سال ہا سال سے ان سے جدا ہیں، بعضوں کی مائیں وفات پاگئیں.ان کی جدائی میں بعضوں کے باپ فوت ہو گئے تو ہجرت کا جو ظاہری مضمون ہے اس کو آپ سے زیادہ اور کون بہتر جانتا ہے.بہت بڑی بڑی تکلیفیں جذباتی تکلیفیں ایسی کہ بعض خاندان مجھے ملتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ آٹھ سال ہو گئے ہیں نہ ماں باپ کا منہ دیکھ سکے، نہ بیوی بچوں کا اور یہ کہتے کہتے ان کی آنکھیں بھرا جاتی ہیں ، بہت لمبا تکلیف کا زمانہ ہے جو انہوں نے دیکھا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ظاہری ہجرت کے حوالے سے آپ کو روحانی ہجرت کے راز سکھا رہے ہیں: وو...ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدرا سے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اُس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چار پائی ، فرش و ہمسائے ، وہ گلیاں کوچے ، بازار سب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے...“ دیکھیں کتنی تفصیل سے آپ نے ہجرت کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے.گلیاں، کوچے ، چار پائیاں تک بیان فرما دیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ وہ جن کو ہجرت کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ گھر کی چار پائیاں خواہ کیسی بوسیدہ ہی کیوں نہ ہوں وہ گلیاں بازار خواہ کیسے ہی غریبانہ کیوں نہ ہوں جن میں ان کا بچپن کھیلتے ہوئے گزرا وہ پیاری رہتی ہیں اور ہمیشہ پیاری رہتی ہیں، کبھی بھول نہیں سکتے.یہ وہ تعلقات ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہوئے پھر آپ کا رخ روحانی ہجرت کی طرف موڑیں گے.
خطبات طاہر جلد 15 656...یعنی اس سابقہ وطن میں کبھی نہیں آتا...“ خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء فرمایا یہ وہ مضمون ہے.پھر جب اس کو چھوڑتا ہے تو اس سابقہ وطن میں پھر کبھی نہیں آتا.یہ جو دوسرا پہلو ہے یہ صرف روحانی پہلو ہے.دنیا کے وطن میں تو یہ امید لگی رہتی ہے کہ ہم کبھی کسی دن ملکی قوانین اجازت دیں گے یا اقتصادی حالات اجازت دیں گے تو پھر اپنے وطن میں جائیں گے ، ان گلیوں میں گھوم پھر کر دیکھیں گے، ان گھروں میں جائیں گے جہاں ہم رہا کرتے تھے لیکن روحانی ہجرت کا اور اس میں ایک فرق ہے.روحانی ہجرت اور دنیاوی ہجرت کا فرق زندگی اور موت کا فرق ہے.موت کے وقت جو ہجرت ہوتی ہے اس سے واپسی نہیں ہوا کرتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ سمجھا رہے ہیں کہ جب تم روحانی ہجرت کرتے ہو تو وہ موت ہی کی طرح ہے اور اس ہجرت میں پھر کبھی واپسی ممکن نہیں ہے.یہ ہجرت کرو گے تو تمہاری تو بہ تو بہ بھی جائے گی.یہ ہجرت کرو گے تو توبہ قبول ہوگی جس کی قبولیت پر تمہاری آئندہ زندگی کا دارو مدار ہے.فرماتے ہیں:..جو تو بہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور کچی تو بہ کے وو وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطا نہ فرمادے نہیں مارتا...“ کتنا عظیم الشان کلام ہے، کتنا گہرا عارفانہ کلام ہے.فرماتے ہیں تم نے خدا کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا لیکن یا درکھو ہجرت کے ساتھ ایک وسعت کا بھی وعدہ ہے اور وہ وسعت ہم نے دنیا کی ہجرتوں میں دیکھی ہے.ہم جانتے ہیں ، آپ سب جانتے ہیں کہ جب خدا کی خاطر کچھ چھوڑ کر وطن سے نکلے تو اللہ نے اس سے بہت بہتر اس سے زیادہ دیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ تو بہ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، (یعنی) مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، جو اس زندگی میں تم کرتے ہو اور اپنے گناہوں کے وطن کو چھوڑ کر خدا کی طرف ہجرت کرتے ہو یہ بچی تو بہ تب ہوگی جب دوبارہ پھر اس پر انے وطن کی طرف جانے کا خیال دل سے نکال دو گے جسے چھوڑ کر خدا کی خاطر تم ایک نئی روحانی دنیا میں آئے ہو تو خدا تمہیں نہیں مارے گا جب تک ہر تکلیف کی جزا نہ دے دے گا.جو کچھ تم نے چھوڑا ہے جب تک اس سے بہتر تمہیں عطا نہ کر دے گا تم پر موت وارد نہیں ہوگی.یہ ایک حیرت انگیز مضمون ہے جو اس سے پہلے آپ نے کبھی کہیں نہیں سنا ہوگا کہ خدا تعالیٰ کچی تو بہ کرنے
خطبات طاہر جلد 15 657 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء والے کو صرف آخرت کا وعدہ نہیں کرتا اس دنیا میں بھی وعدہ پورا فرما دیتا ہے اور سچی توبہ کی قبولیت کی نشانی یہ ہے کہ اس دنیا میں جن جن لذتوں سے اس نے روگردانی کی ہوتی ہے جن چیزوں کو خدا کی خاطر چھوڑ دیتا ہے اس سے بہتر لذتیں اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرماتا ہے اس سے بہتر تسکین کی چیزیں اس دنیا میں اس کو عطا کرتا ہے اور یہ روحانی لذتیں جو جزا کے طور پر آتی ہیں یہ دائمی ہوتی ہیں.یہی وہ جنت ہے جس کو وہ سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اگلی دنیا میں اس سے بڑھ چڑھ کر اسی جنت کو پاتا ہے.پس فرماتے ہیں:...وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطا نہ فرما دے نہیں مارتا، اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ (البقره: 223) میں یہی اشارہ ہے (اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ) یہی اشارہ ہے کہ وہ تو بہ کر کے غریب بے کس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور اسے نیکیوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.دوسری قومیں خدا کو رحیم کریم خیال نہیں کرتیں ( یعنی یہ جو مضمون ہے خدا رحیم و کریم ہے یہ حقیقی طور پر مسلمانوں پر ہی روشن ہوا) عیسائیوں نے خدا کو تو ظالم جانا اور بیٹے کو رحیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دے کر بخشوائے...“ وو 66 فرماتے ہیں عیسائیوں کے مذہب میں بھی ایک رحیم و کریم کا تصور ہے مگر خدا کو رحیم نہیں جانتے بیٹے کو رحیم جانتے ہیں.باپ تو بغیر سزا دیئے بخشے نہ اور بیٹا اپنی جان دے کر بخشوائے.فرمایا دیکھو کون زیادہ رحیم و کریم ہوا؟ باپ کہ بیٹا ؟.والد مولود میں مناسبت اخلاق عادات کی ہوا کرتی ہے.فرماتے ہیں:...بڑی بے قوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق ہو والد مولود میں مناسبت اخلاق ، عادات کی ہوا کرتی ہے مگر یہاں تو بالکل ندارد.اگر اللہ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گزراہ نہ ہوتا.جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اس کے لئے مفید بنا ئیں تو کیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ تو بہ اور عمل کو قبول نہ کرے...“ پھر فرماتے ہیں تو بہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے گناہ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 15 658 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء ”...گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سوجھے جیسے مکھی کے دو پر ہیں ایک میں شفا اور دوسرے میں زہر...“ فرمایا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کا جاہلانہ تصور نہ باندھو کہ گویا خدا تعالیٰ نے گناہ پیدا کر کے تمہیں پہلے ملوث کر دیا اور پھر ہزاروں سال کے بعد خیال آیا او ہو یہ تو غلطی ہوگئی چلو اب ان کی معافی کا بھی کوئی سامان کیا جائے.فرمایا یہ تو مکھی کے پروں کا کھیل ہو گیا.کہا جاتا ہے کہ مکھی کے دائیں پر میں شفا ہے اور بائیں پر میں بیماری ہے.جب وہ دودھ پر بیٹھتی ہے تو بایاں پر یعنی بیماری کا پر جھکا دیتی ہے اور دودھ گندا ہو جاتا ہے.اگر اسے ڈبو دیں اور دایاں پر بھی ڈوب جائے تو اسی پر میں اس بیماری والے پر کے خلاف شفا کی طاقت ہوتی ہے اور وہ اس کا دایاں پر اس کی شفا کا موجب بن جاتا ہے.فرماتے ہیں کہ اپنے خدا کو وہ لکھی تو نہ سمجھو جس کے دو پر ہیں ایک پر میں بیماری یعنی گناہ اور دوسرے میں شفا، پہلے وہ عادتا گویا اپنا دایاں پر ہی دودھ میں ڈالے گا تو تمہاری زندگی کو بائیں پر کے جھکنے سے گندا کر دے گا اور جب تم گناہ میں ملوث ہو جاؤ گے تو پھر اگر اس مکھی کو خیال آ گیا تو آگیا ور نہ کوئی اور اسے غوطہ دے دے تو اس کا بایاں پر بھی اندر ڈوب جائے گا.فرمایا یہ تو جاہلانہ تصور ہے اس کو خدا کی طرف منسوب نہ کرو.فرماتے ہیں: وو...اسی طرح انسان کے دو پر ہیں ایک معاصی کا دوسرا خجالت، تو بہ، پریشانی کا.یہ ایک قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اس کے بعد پچھتاتا ہے گویا کہ دونوں پر اکٹھے حرکت کرتے ہیں...“ یہ جو مضمون ہے اس کا پہلے مضمون سے تعلق ہے مگر اب انسان کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے.فرماتے ہیں اللہ تعلی کو تو نعوذباللہ من ذالک لکھی کی طرح سمجھنا اس کی گستاخی ہے لیکن انسان میں اس کی فطرت میں یہ بات ضرور داخل ہے کہ اس میں یہ دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں وہ غلطی بھی کرتا ہے اور بائیں پر کو پہلے جھکاتا ہے اور پھر معا تو بہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور دائیں پر کو جھکاتا ہے.پس یہ جو تمثیل ہے یہ خدا پر نہیں ، بندوں پر عائد ہوتی ہے اور اگر بندوں میں یہ صفت موجود ہے کہ گناہ کر کے غلطی کر کے پشیمان ہوتے ہیں اور پھر خود اپنی غلطیوں کے ازالے کی کوشش
خطبات طاہر جلد 15 659 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء کرتے ہیں تو اگر خدا تعالیٰ کو تم اس سے بھی عاری سمجھوتو خدا تعالیٰ کی مثال تو بدتر ہوگی یعنی ایسا خدا ہے جو گناہوں کی بخشش کے لئے کوئی طاقت ہی اپنے اندر نہیں رکھتا ، صلاحیت ہی نہیں پاتا.انسان تو گناہ کے ساتھ پشیمانی کے ذریعے گناہ کے ازالہ کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن خدا ایسا ہے کہ نعوذ بالله من ذالک جس میں یہ صفت بھی نہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تریاق کے ساتھ زہر بنایا کیوں؟.اگر یہ بات درست ہے اور روز مرہ کے تجربے میں آتی ہے کہ جہاں زہر ہیں ، جہاں گندگی ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے شفا کا نظام بھی جاری فرمایا ہے.اس سے ایک چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اخذ فرمائی اور جس کی طرف ہمیں متوجہ فرمایاوہ سمجھنے والا نکتہ ہے.وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندوں میں جہاں کمزوری کا مادہ رکھ دیا ہے کہ اگر چاہیں تو کمزوری اختیار کریں وہاں ہر کمزوری کے لئے نجات کی راہ بھی خود ہی خدا نے کھولی ہے اور ہر زہر جو پیدا فرمایا ہے اس کا ایک تریاق بھی پیدا فرما دیا ہے.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کو مغفرت سے عاری سمجھنا اس کی کائنات کی سکیم کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہے.خدا تعالیٰ نے جس نہج پر، جس فلسفے پر اس تمام کائنات کی تخلیق کی ہے اس پر غور کرو تو تمہیں سمجھ آجائے گی کہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں گناہ کا اختیار تو دیا ہو لیکن گناہ سے بچنے کے سامان پیدا نہ کئے ہوں اور گناہ کرنے کے باوجود ان گناہوں کے بداثرات کو دھونے کے سامان نہ کئے ہوں.یہ وہ مضمون ہے جو چل رہا ہے، ٹھہر ٹھہر کر آپ کو سمجھانا پڑتا ہے کیونکہ بہت سے یہاں ایسے ہیں جن کو دینی امور کا زیادہ علم نہیں اور ذہنی اور تعلیمی لحاظ سے بھی ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بار بار بات سمجھانے کے محتاج ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات چونکہ بہت ہی گہری اور عارفانہ ہیں اس لئے عام تعلیم یافتہ آدمی کو بھی سمجھانے کے لئے انہیں ٹھہر ٹھہر کر دہرانا پڑتا ہے.فرماتے ہیں: وو...اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا؟ (اللہ تعالیٰ نے آخر زہر بنایا ہی کیوں تھا اگر تریاق بنا کر اس کو شفا دینی تھی ) تو جواب یہ ہے کہ گو یہ زہر ہے مگر گشتہ کرنے سے حکم اکیسر کا رکھتا ہے...“ اب یہ بھی ایک عظیم نکتہ ہے اور حیرت انگیز ہے اس لحاظ سے، میرے لئے تو دوہرے معنوں میں حیرت انگیز ہے کیونکہ ہو میو پیتھی کا تو بنیادی فلسفہ ہی یہی ہے کہ ہر زہر اگر گشتہ کر دیا جائے یعنی
خطبات طاہر جلد 15 660 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء اس کا زہریلا مادہ ختم کر دیا جائے اور خفیف کر دیا جائے تو اسی زہر میں شفا ہو جاتی ہے.تو فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی تخلیق کائنات کے فلسفے پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ کوئی زہر بھی ایسا نہیں جو اپنی ذات میں شفا کا مادہ نہ رکھتا ہومگر اس میں شفا کا مادہ تب پیدا ہوتا ہے اگر اسے کچل کر خاکستر کر دیا جائے اور یہ صفت بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھی ہے کہ اپنے گناہوں سے وہ نیکی پالے، اپنی بدیوں میں سے نجات تلاش کر لے لیکن شرط یہ ہے کہ جیسے حکیم زہر کا کچلہ بناتا ہے اور اس کے زہریلے مادے کو بے اثر کر دیتا ہے تب اس میں شفا کا ایک مادہ پھوٹتا ہے.اسی طرح انسان کے اندر جو گناہ کے میلانات ہیں یہ محض ہلاکت کے لئے نہیں بلکہ انہی میلانات پر اگر انسان قابو پالے، ان کے خلاف ایک جہاد کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہو تو حیران ہو جائے گا کہ انہی گناہوں میں دراصل اس کی نجات پنہاں تھی ، اس کی نجات چھپی ہوئی تھی.فرماتے ہیں: وو...اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا...“ ایک اور لطیف پہلو یہ ہے کہ گناہ کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک انکساری پیدا ہوتی ہے اور اگر گناہ نہ کرتا یعنی تمام انسان اس بات کی طاقت پاتے کہ گناہ نہ کریں تو انسان جیسا کہ خود سر ہے وہ خدا بن بیٹھتا اور گناہ ہی ہے دراصل جو اگر قابو میں رکھا جائے اور اس سے تو بہ کی جائے اور اسے کچل کر بالآخر خاک بنا دیا جائے تو گناہ ہی میں انسان کی نجات ہے کیونکہ اس سے انکسار پیدا ہوتا ہے اور اگر گناہ نہ ہوتو رعونت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے بھی اس مضمون کو بعض حکایات کی صورت میں پیش فرمایا ہے کہ وہ نیکی جو انسان کے علم میں محض نیکی ہی ہو اور اس کی اپنی کمزوریوں کی طرف اس کی نظر نہ ہو وہی نیکی اس کو ہلاک کرنے کا موجب بن جاتی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں وہ رعونت اختیار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں پاک ہوں اور باقی سب بد ہیں اور گویا ایک قسم کی خدائی کا دعویدار بن بیٹھتا ہے.فرماتے ہیں: وو...کبر اور عجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے کبر اور مجب.کبر کا مطلب ہے اپنی بڑائی ، مجب پسند کو کہتے ہیں اور پسند کے نتیجہ میں ایک فخر کا اظہار اس کو عجب کہتے ہیں ) جب نبی معصوم ستر بار استغفار
خطبات طاہر جلد 15 661 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے...‘ ( ملفوظات جلد اول صفحہ: 2 ، 3 ) فرمایا یہ بھی یاد رکھو کہ جن کو تم معصوم جانتے ہو اور واقعہ معصوم بھی ہوتے ہیں ان کے اندر کبر اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بار یک دربار یک غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں اور ہلکے سے داغ کو بھی گناہ سمجھتے ہیں.وہ بشری کمزوریاں جو ان سے سرزد ہوتی ہیں وہ بھی ان کو تمہارے گناہ کبائر کی طرح دکھائی دیتی ہیں.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر نبی ستر بار استغفار کرتا ہے تو اپنا حال سوچو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے.تمہاری تو ساری زندگی استغفار میں ڈھل جانی چاہئے اور وہ استغفار ایک فرضی استغفار نہیں ہے بلکہ عارفانہ استغفار ہے اور اس پہلو پر میں پہلے بھی آپ کو متوجہ کر چکا ہوں.انبیاء کے متعلق یہ خیال غلط اور جھوٹا ہے کہ وہ تصنع سے استغفار کرتے ہیں ، جانتے ہیں کہ وہ معصوم ہیں اور پھر بھی استغفار کرتے ہیں.انبیاء کا کوئی زندگی کا ایک لمحہ بھی جھوٹا نہیں ہوا کرتا ، ان کی ہر حالت سچی ہوتی ہے.پس انبیاء جب اپنے حال پر نظر کرتے ہیں تو جس بلندی سے وہ اپنے حال کو دیکھتے ہیں انہیں اپنے حال کی ہر پستی اور ہر گہرائی جو بشریت کی پستی اور بشریت کی گہرائی ہوا کرتی ہے وہ دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنے آپ کو گنا ہوگا سمجھتے ہیں.بسا اوقات جو نیکیاں کرنا چاہتے ہیں جتنی چاہتے ہیں، ہمیں تو علم نہیں کہ وہ کتنی چاہتے ہیں ،مگر اتنی زیادہ چاہتے ہیں کہ ان کے بس میں نہیں ہوتی.اگر ان کا دل چاہے جیسا کہ دل چاہتا ہے تو آنا فانا ساری دنیا کو سچا مسلمان بنادیں اس کے لئے تڑپتے ہیں ، بے قرار ہوتے ہیں اور وہ مواقع جو ان کے ہاتھ سے جاتے رہے ان پر نظر ڈالتے ہیں گویا کہ ہر کام جو نیکی کا کام ہے جس کو کرنے سے وہ عاجز آگئے وہ اپنی فہرست میں گناہوں میں داخل سمجھتے ہیں.پس انبیاء کا ستر بار استغفار ایک بہت گہرا اور بہت اعلیٰ مضمون ہے.بلند مضمون بھی ہے اور گہرا مضمون بھی ہے.اس کو سمجھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ رنگ اختیار فرمایا.پہلے کہا کہ گناہ نہ ہوتا تو انسان متکبر ہو جاتا.پھر فرمایا کہ نبی تو معصوم ہوتا ہے اس کے متعلق غور کرو کہ وہ اس لئے معصوم ہے کہ متکبر نہیں ہوتا اور اس کا انکسار، اس کا اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھنا جب اس کو ستر بار تک استغفار پر آمادہ کرتا ہے تو یہ استغفار ہے جو اس کے لئے متکبر ہونے کا کوئی دور کا امکان بھی باقی نہیں رہنے دیتا.پس عام انسان جب گناہ کو اس طرح دیکھے اور اس سے بچنے کے لئے ویسی کوشش کرے جیسے انبیاء کرتے ہیں تو یہی وہ بچی تو بہ ہے جو انسان کو انکسار سکھاتی ہے اور بلندیاں
خطبات طاہر جلد 15 662 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء بھی عطا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور مضمون پر حیرت انگیز روشنی ڈالتے ہیں جو حدیث میں آیا ہے اور جس سے عموماً لوگ ناواقفیت کی وجہ سے غلط نتیجہ نکالتے اور نیکی اختیار کرنے کی بجائے بدیوں پر جرات کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ خدا کے بعض بندے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اعمل ماشئت فقد غفرت لک کہ اے میرے بندے جو چاہے کرتا پھر ، میں نے تجھے بخش دیا ہے.(صحیح مسلم ، کتاب التوبة ، باب قبول التوبة من الذنوب و أن تكررت الذنوب و التوبة) کئی ایسے علماء بھی جو اپنی دانست میں بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں اس حدیث سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو ہر گناہ کی چھٹی دے بیٹھتا ہے اور فرماتا ہے کہ اب تم آزاد ہو میں نے تمہیں بخش دیا ہے اب ساری زندگی گناہوں میں ملوث رہو ، ڈوبے رہو ،غرق ہو جاؤ ، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں اور تمہیں بھی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ میں تمہیں بخش چکا ہوں.یہ مضمون بالکل غلط اور جھوٹا ہے جو اس طرف منسوب کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ...جب انسان بار بار رو رو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھے بخش دیا اب تیرا جو جی چاہے سو کر.اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اور اب گناہ اسے بالطبع بُر ا معلوم ہوگا...“ فرمایا جب اللہ کہتا ہے کہ میں نے بخش دیا ہے تو اسے بخشتا ہے جسے بخشنے کی پہلے اسے اہلیت عطا کر دیتا ہے.بخشا اس کو ہے جو گناہوں سے پاک ہو چکا ہو، جسے وہ خود گناہوں سے پاک کر دیتا ہے.اس لئے بخشش کا یہ مطلب نہیں کہ گناہوں میں ملوث رکھتے ہوئے کہتا ہے میں نے تمہیں بخش دیا ہے.پہلے اس کا دل گنا ہوں سے دھو دیتا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ میں نے تجھے بخش دیا ہے.اب جو چاہے کر یعنی سوائے اس کے اب تو کچھ نہیں کرے گا جو میری رضا ہوگی.اب میں نے تیرے دل کی کایا پلٹ دی ہے.یہ بخش کا مضمون ہے جو ایک عارف باللہ کے سوا کسی دوسرے کے دل پر روشن نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان مانگنے والوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹیاں اتار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پڑھیں تو
خطبات طاہر جلد 15 663 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء بعض دفعہ ایک فقرے کا ایک حصہ ہی بلاشبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو روز روشن کی طرح ثابت کرنے کے لئے کافی ہو جاتا ہے.اب یہ مضمون جو ہے وہ کسی گنہگار کے دل پر نہیں اتر سکتا.ناممکن ہے ایک ایسا شخص جو خدا سے دور ہو وہ آنحضور ﷺ کے اس ارشاد کے یہ معنی پالے.کوئی بہت ہی جاہل اور فطرتی طور پر پیدائشی اندھا ہوگا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکالے کہ اتنا عارفانہ مضمون ایک خدا اور نبی سے دور انسان کے دل پر روشن ہو گیا.فرماتے ہیں: وو...اب گناہ اسے بالطبع بُرا معلوم ہوگا جیسے بھیڑ کو میلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسرا حرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے..66 فرمایا بھیٹر جب گندگی پر منہ مارتی ہے تو وہ شخص جس کے دل کو خدا تعالی نے پاک کیا ہو یعنی انسانی صفات حسنہ اس کو عطا کی گئی ہوں کیا تم سوچ سکتے ہو کہ بھیڑ گند پر منہ مارے اور کسی انسان کا سخت دل چاہے کہ میں بھی کھاؤں اسی طرح جو گند بھیڑ کھا رہی ہے میں بھی اسی پر منہ ماروں....مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے حالانکہ وو اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھا دیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہو جاوے...پس وہ شخص جسے خدا فرماتا ہے کہ میں نے تجھے بخش دیا اب جو چاہے کرتا پھر، مراد یہ ہے کہ اب مجھے تجھ پر کامل یقین ہے اب میں تیری ڈور ڈھیلی چھوڑتا ہوں ، میں جانتا ہوں کہ جسے میں نے بخش دیا ہو وہ کبھی گناہ کی طرف کسی غفلت کی نظر سے بھی نہیں دیکھے گا، معمولی نگاہ سے بھی گناہ کو چاہت اور پیار سے نہیں دیکھے گا بلکہ جب دیکھے گا نفرت سے دیکھے گا ، جب دیکھے گا کراہت کے ساتھ دیکھے گا.پس وہ کھلی چھٹی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں پر جو بخش دئے گئے ہوں کامل اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے اور مرتے دم تک وہ اس اعتماد کو ٹھیس نہیں لگاتے اور یہی بقاء کا مضمون ہے.اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ عالم بقاء میں چلے جاتے ہیں.اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ جنت کی زندگی پالیتے ہیں.جس طرح جنت میں گناہ کا کوئی تصور نہیں جب یہ کیفیت انسان کو اس دنیا
خطبات طاہر جلد 15 664 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء میں نصیب ہو جائے تو یقیناً اور بلاشبہ اس دنیا ہی میں جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ حدیث اس مضمون کا ذکر فرما رہی ہے.اعمل ماشئت فقد غفرت لک کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے میں تجھے بخش چکا ہوں اب تو جو چاہے کرے تو ہمیشہ میری رضا کی باتیں کرے گا ، میرے پیارے کو جیتنے والی باتیں کرے گا اور گناہ کی طرف تیرا میلان اختیار کرنا ناممکن ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کوتا ہی نہ ہو.فرماتے ہیں بعض دفعہ انسان اس خیال سے کہ میرے گناہ بہت بڑھ گئے ہیں دعا میں بھی کوتاہی کرتا ہے.سمجھتا ہے کہ اب کہاں بخشا جاؤں گا.اب تو معاملہ حد اختیار سے آگے نکل ہو چکا ہے.اتنے گناہوں کو اب کون بخشے گا تو فرمایا یہ بھی جرم ہے.کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کو تاہی نہ ہو،...گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کر کے وو دعا سے ہرگز باز نہ رہے.دعا تریاق ہے.آخر دعاؤں سے دیکھ لے گا کہ گناہ 66 اسے کیسا برا لگنے لگا..“ پس گناہ سے بچنے کا طریق بھی دعائیں ہی ہیں جوفضل الہی کوکھینچتی ہیں اور بخشش کا مضمون صرف خدا سے تعلق رکھتا ہے.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ گناہ چھوڑ دیں اور گناہوں کی دنیا سے ہجرت کر کے روحانی دنیا کی طرف چلے جائیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام ہے کہ تمہارے گناہ کتنے بھی بڑھ چکے ہوں ایک ہی راہ ہے تمہاری ہجرت کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو وہ تمہیں بدی کی دنیا سے نیکی کی دنیا کی طرف ہجرت کی توفیق عطا فرمائے.فرماتے ہیں: "...جو لوگ معاصی میں ڈوب کر ( یعنی گناہوں میں غرق ہونے کے بعد ) دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور تو بہ کی طرف رجوع نہیں کرتے ، آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں...“ فرماتے ہیں یہ جو مایوسی ہے ایک بہت بڑا گناہ ہے جو دراصل انسان سے اس کا سارا دین چھین لیتا ہے.وہ لوگ جو گناہوں میں پڑ کر سمجھتے ہیں کہ اب تو ہم ڈوب گئے اور اب تو دعا بھی ہمیں نہیں بچا سکتی بالآخر وہ انبیاء کے بھی منکر ہو جاتے ہیں اور ایمان کے ہر پہلو سے وہ منہ پھیر کر کفر کی بچاسکتی طرف مائل ہو جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 665 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء وو..یہ تو بہ کی حقیقت ہے جو اوپر بیان ہوئی اور یہ بیعت کی جز کیوں ہے؟ ( فرمایا) تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے.جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں...66 اب دیکھیں بیعت کا مضمون اپنی ذات میں خوب کھول کر یہ بیان کر کے کہ یہ بیعت جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان وہی خدا کے ہاتھ مقبول ہوتا ہے جو اپنی جان بھی بیچ دے، اپنے مال بھی بیچ دے، اپنا سب کچھ خدا کے ہاتھ پر بیچ دے اس بات کا اقرار پھر وہ بیعت کے ذریعے کرتا ہے اور بیعت انسان کے ہاتھ پر کی جاتی ہے اور یہ بیعت جو ہے اس کا بہت ہی باریک اور لطیف مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ بیان فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ پر تم بیعت کرتے ہو اس کی اپنی تاثیرات کا بھی تمہاری بیعت سے ایک گہرا تعلق ہوتا ہے.آنحضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرنا ایک اور بات تھی اور باوجود اس کے کہ حضرت ابو بکر آپ کے بچے برحق اور صدیق خلیفہ تھے پھر بھی وہ بیعت جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر کی گی وہ اور بیعت تھی اور جو حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر کی گئی وہ اور بیعت تھی.پس خلافت کی بیعت کو جو حضرت رسول اللہ ﷺ کی اپنی خلافت تھی وہ بیعت نہیں قرار دیا جس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے ، جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر کی جانے والی بیعت تھی اور یہ فرق کیوں ہے جبکہ عہد بیعت ایک ہے.عہد بیعت دونوں جگہ برابر ہے.دونوں جگہ یہ عہد باندھا جارہا ہے خدا سے کہ اے ہمارے آقا ہم نے وہ سب جانیں جو تو نے عطا فرمائیں اپنی، اپنے عزیز واقارب کی تیرے حضور پیش کر دی ہیں، اب یہ ہماری نہیں رہیں.وہ تمام اموال، وہ تمام نعمتیں جو تو نے ہمیں عطا فرما ئیں اب ہم یہ تیرے حضور پیش کرتے ہیں تا کہ ہماری جان بخشی جائے.اس عہد بیعت میں کوئی فرق نہیں ہے.یہی وہ عہد بیعت ہے جو نبیوں کے ہاتھ پر لیا جاتا ہے، یہی وہ عہد بیعت ہے جو خلفاء کے ہاتھ پر لیا جاتا ہے لیکن فرق ایک ہے.وہ فرق کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 15 علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: 666 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء ’...جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں بشرطیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو، خشک شاخ کی طرح نہ ہو...“ اب ایک اور عظیم الشان مضمون ہے جو آپ نے ہم پر کھول دیا.اب آپ دیکھیں درختوں کے ساتھ بھی تو پیوند کیا جاتا ہے.آموں کے ساتھ آموں کا پیوند کیا جاتا ہے.مگر اس پیوند میں مماثلت ضروری ہے اور طبیعت کا میلان ایک جیسا ہونا ضروری ہے.ورنہ پھل دار درختوں میں سے ہر درخت کا ہر دوسرے درخت سے پیوند ہو ہی نہیں سکتا.بعض پھل دار درختوں کا بعض پھل دار درختوں سے پیوند ہوتا ہے اور اکثر سے نہیں ہوتا.تو اس لئے پہلی بات جو سمجھنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ جب تم بیعت کا ارادہ کرتے ہو تو خدا تعالیٰ نے ایک انسان کو تمہاری بیعت لینے کا ذریعہ بنایا ہے اس سے تمہاری فطرت کو پیوند ہونا چاہئے.وہ اگر فطرت کا پیوند ہوگا تو پھر اس شخص سے جس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہو تمہاری طرف فیوض جاری ہوں گے اور جتنا خالص پیوند ہوگا اتنا ہی تمہارا وجود اس شخص کے رنگ اختیار کر لے گا جس کے ہاتھ پر تم بیعت کرتے ہو اور اس بیعت میں خشکی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ خشک لکڑی کا پیوند ایک سرسبز درخت سے نہیں ہوسکتا یا ایک سرسبز درخت کی خشک شاخ سے اگر کوئی تر و تازہ شاخ بھی باندھ دی جائے تو وہ پیوند نہیں ہو سکے گا تو دونوں طرف زندگی کی علامتیں ہونا ضروری ہیں.جس کی بیعت کی جاتی ہے وہ بھی ایک زندہ شعور کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ تمہاری بیعت لے رہا ہو اور تم بھی ایک زندہ شعور اور دعاؤں کے ساتھ اس کی بیعت کر رہے ہو اور جانتے ہو کہ اب ایک نیا پیوند ہے جس کی بناء پر ہماری صفات میں تبدیلی پیدا کی جائے گی.فرماتے ہیں یہ تبدیلی ضروری ہوتی ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو یعنی بیعت میں صرف ایک خشک رسمی الفاظ کا دہرانا نہیں ہے اگر خشک لفظی الفاظ دوہرا کر تم بیعت کرو گے تو ایسا ہی ہوگا جیسے خشک شاخ کو ایک سرسبز شاخ سے باندھ دیا گیا ہو وہ ہزاروں سال بھی بندھی رہے تو سرسبز شاخوں کی
خطبات طاہر جلد 15 667 خطبہ جمعہ 23 اگست 1996ء تر و تازگی تو حاصل نہیں کر سکے گی.پس ذاتی خلوص کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بیعت کے لئے انتہائی ضروری ہے.وو...جس قدر یہ نسبت ہوگی اسی قدر فائدہ ہوگا...“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ: 2 تا 3 اب دیکھیں یہ مضمون کتنا وسیع ہو گیا ہے اور کتنی اس میں عظمت آگئی ہے.ایک چھوٹی سی بات جو عام انسان کے لئے مسئلہ بنی رہتی ہے اور بعض دفعہ عمر بھر کی دانشوری بھی اس بات کا حل نہیں دے سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو دیکھیں کیسی وضاحت کے ساتھ کھول دیا ہے روز روشن کی طرح روشن کر دیا ہے بیعت کے الفاظ وہی ہیں جو قرآن نے بیان فرمائے ،عہد بیعت کا مضمون وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمایا لیکن کس کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہو یہ مضمون ہے جو بیعت کے الفاظ میں ایک نئی زندگی اور ایک نئی عظمت پیدا کر دیتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی گئی پھر ویسی بیعت کبھی نہیں ہوئی ہاں اس دور میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تو چونکہ آپ نے اپنی ذات کو کامل طور پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں کو دیا تھا اور اپنا کچھ بھی باقی نہیں رکھا تھا اس لئے آپ کی بیعت اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت قرار دی جاسکتی ہے تو یہی وہ بیعت ہے جس کو اس دور میں پھر دہرایا گیا ہے مگر ذاتی طور پر نہیں آنحضرت ﷺ کے عشق کامل کے لحاظ سے اپنے سارے وجود کو کھو دینے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ فیض عطا کیا گیا.آگے جتنی بھی بیعتیں ہیں، ہوئی ہیں یا ہوں گی ان میں عہد بیعت وہی رہے گا مگر درجہ بدرجہ اس کا تعلق اس کی ذات سے ضرور رہے گا جس نے بیعت لی ہے.اگر خدا کے حضور اس کا ایک خلوص اور تقویٰ کا مقام مسلم ہے تو ہر بیعت کرنے والے کے اندر اسی قدر خلوص اور تقویٰ سرایت کرے گا اور بیعت کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حال کو درست کرتا رہے اور درست رکھے جہاں تک اس کا بس چلے جہاں تک زور لگ سکتا ہے دعاؤں کے ذریعے اور مسلسل کوشش کے ذریعے اپنا حال بہتر بناتا رہے کیونکہ اس کے ساتھ بہت سی زندگیوں کا انحصار ہے.بہت سے اور وجود ہیں جنہوں نے اس سے مل کر زندہ ہونا ہے.اگر وہ اپنی زندگی سے ہی غافل ہو گیا تو دوسروں کی زندگی کے کیا سامان
خطبات طاہر جلد 15 668 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء کرے گا.یہ ایک اور پہلو اس مضمون سے نکلتا ہے جو بہت ہی گہرا اور بہت ہی دل دہلا دینے والا پہلو ہے.حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک لڑکا جو بارش ہو رہی تھی پھسلن تھی بے دھڑک اس میں دوڑا چلا جارہا تھا.آپ نے اس بچے کو آواز دی اور فرمایا میاں احتیاط سے پھسلن ہے، کہیں گر نہ جانا.وہ بچہ حیرت انگیز طور پر ذہین تھا اس نے حضرت امام ابوحنیفہ کی طرف دیکھا، اس نے کہا امام صاحب! میں گرا تو میں ہی گروں گا آپ احتیاط سے قدم رکھیں کیونکہ آپ گرے تو ایک زمانہ گر جائے گا، آپ کے ساتھ بہت سی زندگیاں وابستہ ہیں.کتنا حیرت انگیز مضمون ہے جو اس لڑکے نے اپنی حاضر جوابی کے نتیجہ میں حضرت امام ابوحنیفہ کے سامنے رکھ دیا اور ہمیشہ وہ اس سے لطف اندوز ہوتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مضمون بیان فرمایا ہے یہ بہت ہی وسیع ہے اس کا ایک پہلو یہ ہے.مگر جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے کھولا ہے بہت ہی وسعت رکھنے والا مضمون ہے.جو مسائل بڑے بڑے دانشوروں سے حل نہیں ہو سکے کہ بیعت اگر ایک ہی ہے تو پھر فرق کیوں پڑتے ہیں.بیعت اگر ایک ہی ہے تو نبی کی بیعت اور کیوں ہے ،خلیفہ کی بیعت اور کیوں ہے،ایک خلیفہ کی بیعت کیوں اور ہے دوسرے کی کیوں اور ہے ،مجدد کی بیعت ایک اور رنگ کیوں رکھتی ہے.یہ سارے مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مختصر تحریر میں کھول دئے اور ایک اور مضمون ہم پر یہ روشن کر دیا ہے کہ تم اگر بیعت سے استفادہ نہیں کرتے لازم نہیں کہ قصور اس کا ہے جس کے ہاتھ پر تم نے بیعت کی ہے کیونکہ اگر تم نے اپنا پیوند صحیح نہ باندھا، اگر سچائی اور خلوص کے ساتھ بیعت نہ کی اگر تم اس عہد بیعت پر کامل خلوص اور وفا سے قائم نہ رہے اور جس کی بیعت کر رہے ہو اس سے پیار اور محبت کا سچا گہرا تعلق نہ رکھا تو پھر وہ بیعت تمہیں فائدہ نہ دے گی بلکہ پیوند ہونے کے باوجود وہ صفات تم میں سرایت نہیں کریں گی.جہاں تک درجہ بدرجہ صلاحیتوں کا مضمون ہے یہ تو ایک ایسا مضمون ہے جس میں کوئی بھی ایسی لکیر نہیں کھینچی جاسکتی کہ جس سے یہ کہا جائے کہ اس مقام پر آکر کوئی بیعت لینے والا بیعت لینا چھوڑ دے کیونکہ اس کا وہ مرتبہ نہیں جو پہلوں کا مرتبہ تھا.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے ایک منافقانہ حالت میں کہا کہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کی بیعت کرتے تھے ان کے اندر تو یہ یہ
خطبات طاہر جلد 15 669 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء باتیں تھیں جو آپ کی بیعت کر رہے ہیں ان میں وہ باتیں نہیں ہیں.آپ نے فرمایا کہ جو وہ بیعت کرنے والے تھے وہ اور تھے اور جو میری بیعت کرنے والے ہیں وہ اور ہیں اس پر تو غور کرو.تو ہر بیعت کرنے والے کا اپنا مقام اور مرتبہ بھی ایک ہے، اس کا اپنا اخلاص بھی ہے.پس لازم نہیں کہ جس کی بیعت کی جائے اسی کا قصور ہو کہ تم بیعت تو کرتے ہو مگر فائدہ نہیں اٹھا سکتے.تمہارا بھی قصور ممکن ہے.ممکن ہے تم نے پورے خلوص کے ساتھ اپنی سرسبز شاخوں کو اس کے ساتھ پیوند کے لئے آگے نہیں بڑھایا بلکہ ایک خشک ہاتھ بڑھایا ہے گویا خشک ٹہنی کا پیوند اس سے کر دیا.پس یہ بہت ہی وسعت والا مضمون ہے اور یہی حقیقی ہجرت ہے.روحانی ہجرت کی اس سے بہتر تمثیل ممکن نہیں کیونکہ جب آپ آم کے ایک پودے کو اکھیڑتے ہیں ایک جگہ سے خواہ اس کی کیسی ہی بدصفات کیوں نہ ہوں جب اس کو زمین سے اکھیڑتے ہیں اور اس کی شاخ کو کسی ایسے سرسبز آم کی شاخ سے پیوند کر دیتے ہیں جو آم تو ہے لیکن مختلف صفات کا آم ہے ، اعلیٰ درجے کی صفات کا آم ہے تو اس سے جو آم پیدا ہوتے ہیں وہ وہی مزہ رکھتے ہیں، وہی رنگ و بور رکھتے ہیں جو اس آم کے ہیں جس کے ساتھ پیوند کیا گیا بشرطیکہ وہ شاخ جو کائی گئی تھی یا جو پودا اکھیڑ کر دوسری جگہ لے جایا گیا تھا اس کے اندر خلوص نیت ہو یعنی مالی نے خلوص نیت کے ساتھ، احتیاط کے تقاضے پورے کرتے ہوئے یہ پیوند کیا ہو.اگر ایسا ہوتو پھر لازمآوہ صفات تبدیل ہو جاتی ہیں اور نئی صفات پیدا ہو جاتی ہیں.اب آموں کی بھی کئی قسمیں ہیں.ہمارے قادیان کے باغ میں جو حضرت مصلح موعودؓ نے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے شوق سے لگوایا تھا اس میں ایک سوسترہ یا اس سے کچھ زائد قسمیں تھیں اور ساری پیوند تھی.اگر کوئی یہ کہے کہ میرا پیوند جب تک خاص الخاص‘یا شمر بہشت سے نہ ہو ویسے ہی ٹھیک ہوں تو اس کی بڑی جہالت ہوگی.اس لئے اگر آج کوئی یہ کہے کہ پہلے خلفاء نہیں رہے جن کے تقدس اور علو مرتبت کا یہ حال تھا اس لئے ہمیں اس خلیفہ کی بیعت کی کیا ضرورت ہے تو ویسا ہی جاہل ہوگا کیونکہ خلفاء آپس میں ، مرتبہ میں ویسی ہی کمی بیشی رکھتے ہیں جیسے انبیاء خدا کے نزدیک کمی بیشی رکھتے ہیں.فرمایا تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقره:254) یہ وہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض دوسروں پر فضیلت بخشی ہے.پس کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے رسول ابراہیم کو تو یہ عظمت تھی اس لئے اس کی بیعت کی گئی ، اب
خطبات طاہر جلد 15 670 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء میں داؤد کے ہاتھ پر بیعت نہیں کروں گا ، اب میں اسماعیل کے ہاتھ بیعت نہیں کروں گا،اب میں سلیمان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کروں گا، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں.وقت کے لحاظ سے جو تمہیں نصیب ہے وہ خلافت ہے اور خلافت اگر اپنے آپ کو سنوار نے میں پوری طرح کامیاب نہ بھی ہو سکی ہو اور دعاؤں میں کمی کی وجہ سے یا اپنے نفس کی نگرانی کی وجہ سے اس میں رخنے بھی ہوں تب بھی تمہارے لئے وہی سب سے پاک نمونہ ہے اور اس سے پیوند کے سوا تمہارے لئے چارہ کوئی نہیں ہے.اگر اس کے پیوند سے منہ موڑو گے تو دنیا میں کہیں کے بھی نہیں رہو گے.ایک نا پاک اکھڑے ہوئے پودے کی طرح تمہاری مثال ہو جائے گی جس کی جڑیں ایک دفعہ اکھڑ جائیں تو نہ وہ مشرق کا رہتا ہے نہ مغرب کا.ہوائیں جس طرف چاہیں اسے اکھاڑ کر لے جاتی ہیں.پس پیوند لازم ہے اور پیوند بیعت لازم ہے ہاں تمہارا بھی فرض ہے کہ دعائیں کرو کہ جس کے ساتھ پیوند بیعت کرتے ہو اللہ تمہیں پورے اخلاص اور محبت کے ساتھ اس پیوند کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے اور تمہارا بھی فرض ہے کہ دعائیں کرو اللہ اس کو بھی توفیق بخشے کہ وہ خدا کی نظر میں جو اس سے تقاضے کئے جاتے ہیں وہ ان کو پورا کرنے کی توفیق پائے اور اللہ تعالیٰ دن بدن اس کی حالت بہتر کرتا چلا جائے کیونکہ جب اس کی حالت بہتر ہوگی تو تمہاری بھی حالت بہتر ہوگی.پس بیعت کر کے عناد اور دشمنی اور طعن و تشنیع کا تعلق جو ہے اس عہد بیعت کو فسخ کر دیتا ہے.بیعت کے بعد تمہارا بھی فرض ہے اور اس شخص کا بھی فرض ہے جس کی تم بیعت کرتے ہو کہ مسلسل دعاؤں کے ذریعے یہ توفیق مانگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سچی توبہ کی توفیق عطا کرے، ایسی مغفرت کی توفیق عطا فرمائے جس کا دوسرا نام ہجرت ہے، جس کے بعد گناہوں کی ادنی زندگی کی طرف لوٹنے کا دھیان تک دل میں کبھی نہ آئے.ہمیشہ کے لئے وہ دھیان وہ تعلق دلوں سے لوٹ کر ایسا نابود ہو جائے جیسا کبھی تھا ہی نہیں.حضرت خلیفتہ اصبح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ کو ایک صدیقیت کا مقام حاصل تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی ہے اس میں یہی ہجرت کا مضمون ہے جو ظاہری طور پر بھی ہوئی اور روحانی لحاظ سے بھی ایسی کامل ہوئی کہ جس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر میں ہمیں ملتی ہے.حضرت خلیفہ اسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات طاہر جلد 15 671 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خیال یہ تھا کہ چند دن ٹھہریں گے ،استفادہ کریں گے اور پھر واپس چلے جائیں گے.اس نیت سے آئے کہ گھر بنا رہے تھے وہ ابھی تکمیل کے مراحل کو نہیں پہنچا تھا، دیواریں کچھ کھڑی تھیں، کچھ بھی بنی نہیں تھیں، کچھ چھتیں پڑ گئیں، کچھ نہیں پڑی تھیں اور ا بھی بہت سے کام تھے جو ادھورے چھوڑ آئے تھے.اس نیت سے آئے کہ میں امام سے فیض حاصل کر کے واپس جاؤں گا اور پھر آؤں گا اور پھر جاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب اجازت مانگتے تھے تو حضور فرماتے تھے کچھ دیرا بھی اور ٹھہریں ، پھر کچھ عرصے کے بعد اجازت مانگتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے ابھی کچھ دیر اور ٹھہریں.یہاں تک کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اپنے گھر پیغام بھجوادیں کہ آپ نے اپنا یہ وطن بنالیا ہے آپ یہیں کے ہو گئے ہیں.حضرت خلیفہ اسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کے سوال کے جواب میں یہ بیان فرمایا وہ دن اور آج کا دن یعنی موت تک ، آخری وقت تک مجھے اس گھر ، اس وطن کا خیال تک دل میں نہیں آیا.کوئی دل میں اشارہ بھی یہ حسرت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ مکان جس کو میں بنا رہا تھا میں اسے مکمل تو کر والوں کبھی دل میں یہ واہمہ تک نہیں گزرا کہ کاش میں دیکھ تو لوں کہ وہ کیا چیز تھی اور اب بن کے کیسا لگتا ہے.فرماتے ہیں وہ تو مٹ گئیں چیزیں ، وہ ساری یا دیں محو ہو گئیں گویا موت کے بعد انسان ایک نئی دنیا میں آپہنچا ہے.یہ وہ ہجرت ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقبول تو بہ قرار دیتے ہیں ، یہی وہ عہد بیعت ہے جس کی طرف قرآن ہمیں بلاتا ہے.پس جب آپ کو خدا تعالیٰ نے خلافت کی نعمت عطا فرمائی تو اپنے عہد بیعت کو پورے خلوص اور سچائی کے ساتھ قائم رکھیں اور محبت اور دل کی گہرائی کے تعلق سے یہ تعلق باندھیں اور اس کی حفاظت پر مامور ہو جائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اگر تمہیں اپنی کسی چیز کی قدر نہ ہو تو تم اٹھا کے گھر کے ایک کونے میں پھینک دیتے ہو مگر جو سب سے زیادہ قیمتی چیز ہو دیکھو کتنی کتنی حفاظت کے سامان تم نہیں کرتے ، کیسا کیسا خیال کرتے ہو کہ اس طرف سے بھی خطرہ ہے، اس طرف سے بھی خطرہ ہے.ہر خطرے کی راہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہو.پس یہ عہد بیعت ہے جو سب عزیز چیزوں سے عزیز تر ہے یہ اگر مقبول ہو جائے تو تمہاری اس دنیا کی زندگی بھی مقبول ہے اور تمہاری زندگی یعنی اس دنیا کی زندگی بھی مقبول الہی ہوگی اور اس سے بہتر اور کوئی سودا نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد 15 672 خطبہ جمعہ 23 راگست 1996ء پس اے پاکستان سے ہجرت کرنے والو! تم جہاں کہیں بھی ہو خواہ جرمنی میں ہو یا فرانس میں یا ہالینڈ یا پولینڈ یا امریکہ یا افریقہ یا دوسرے ممالک میں ہو یاد رکھو ایک ہجرت تو ہوگئی اور اس ہجرت سے جو خدا نے وعدے فرمائے تھے پورے کر دئے تم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا کہ اس ہجرت کے نتیجے میں تمہیں تنگیاں نہیں بلکہ وسعتیں عطا کی گئی ہیں اور خدا نے ایک بھی وعدہ نہیں جو ٹال دیا ہو ، ہر وعدہ ہجرت کی برکتوں کا تمہارے ساتھ پورا کر دیا.پس اب پوری مستعدی کے ساتھ ، کامل خلوص کے ساتھ وہ ہجرت کرو جو ہجرت بدیوں کے ملک سے نیکیوں کے ملک کی طرف ہجرت ہوا کرتی ہے لیکن یہ وہ ہجرت ہے جس کے بعد لوٹ کر جانا نہیں ہے، جس کے بعد مڑ کر دیکھنا نہیں ہے کہ کن لوگوں ، کن بدلوگوں سے ہم نے نجات پائی ہے، کن دوستوں کو چھوڑا ہے، کن تعلقات سے روگردانی کی ہے، کن عزیز آرام گاہوں کو ہم ترک کر کے آئے ہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی مثال میں نے اسی لئے پیش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر کے عین مطابق یہ مثال ہے کہ جب چھوڑتے ہو تو بالکل چھوڑ جاؤ اور بھول جاؤ کہ تم کہاں رہا کرتے تھے، کس دنیا میں بستے تھے.وہ سب آرام حج کردو اور ایک نئی زندگی میں داخل ہو جاؤ اور یا درکھو کہ جس خدا نے دنیوی ہجرت کے نتیجہ میں اپنے کئے گئے وعدے تمہاری تو قعات سے بھی بڑھ کر پورے فرمائے وہ تمہاری روحانی ہجرت کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.تم پر موت نہیں آئے گی جب تک تمہارا دل تسکین سے نہ بھر جائے جب تک وہ سب لذتیں سینکڑوں گنا زیادہ تمہیں عطا نہ کی جائیں جن لذتوں کو خدا کی خاطر تم نے چھوڑا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ ہجرت آپ کریں تو سب دنیا آپ کے ساتھ ہجرت پر تیار ہوگی.یہی وہ ہجرت ہے جو انسانی زندگی کا آخری مقصد ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 673 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء جماعت احمدیہ کے پھیلنے اور نشو و نما کا جماعت احمدیہ کے خلق مہمان نوازی سے ایک گہرا تعلق ہے.( خطبه جمعه فرموده 30 راگست 1996ء بمقام نوئے فارن میونخ.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ پھر فرمایا: (الزمر: 54) یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس تعلق میں میں انشاء اللہ مضمون کو واضح کروں گا اور حضرت اقدس مسیح موعود کے ایک اقتباس کے حوالے سے آپ کو کچھ نصیحتیں کروں گا لیکن سردست میں اس خطبے کا آغاز جماعت احمدیہ جرمنی کے اس دورے کے تاثرات سے کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سفر ہر پہلو سے بابرکت رہا اور جماعت احمد یہ جرمنی کومختلف پہلوؤں سے دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا اور میں بڑے ہی اطمینان کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حضور جذبات تشکر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ امسال بھی حسب سابق جماعت جرمنی کا قدم میں نے ترقی کی طرف دیکھا ہے اور ہر پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل سے کمزوریاں دور کرنے اور نیا حسن پیدا کرنے کی طرف توجہ مسلسل جاری رہی ہے.چنانچہ جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والے جتنے بھی بیرونی مہمان تشریف لائے تھے وہ گواہ
خطبات طاہر جلد 15 674 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء بھی ہیں اور میرے سامنے ذکر بھی کرتے رہے کہ جتنا ہم نے سنا تھا اس سے بہتر پایا اور ہمہ تن مصروف ہو کر ، دن رات ایک کر کے جماعت جرمنی نے ہر پہلو سے اتنا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ ہم تو رشک سے دیکھتے رہے.ہم سمجھتے تھے کہ ہم بہت بہتر کام کرنے والے ہیں مگر یہاں اس سے بھی بہت اچھا کام دکھائی دیا.خاص طور پر اس دفعہ جلسہ سالانہ کی صفائی کا معیار بہت ہی غیر معمولی طور پر بلند تھا اور ساتھ ساتھ صفائی اس طرح جاری تھی کہ صفائی کرنے والے دکھائی نہیں دیتے تھے مگر صفائی دکھائی دیتی تھی اور بڑی ہی خاموشی اور نظم وضبط کے ساتھ غالبا راتوں کو جب مہمان فارغ ہو جاتے تھے اس وقت بھی وہ صفائی کرتے تھے اور دوران جلسہ بھی مسلسل صفائی جاری رہی.علاوہ ازیں خدمت کا جہاں تک تعلق ہے بہت بڑی خدمتیں ان کے سپرد تھیں مثلاً بیرونی مہمانوں کے علاوہ جماعت جرمنی میں جو نئے احمدی ہوئے ہیں ان کی خدمت کے تقاضے کافی پھیلے ہوئے تھے.ان میں عرب بھی تھے، ان میں افریقن ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی تھے، ان میں مشرقی یورپ کے مختلف قوموں کے لوگ بھی تھے اور وہ بھی جو مستقلاً جرمنی میں بستے ہیں لیکن دوسرے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر ایک کا انتظام بہت ہی عمدہ کیا گیا اور جوٹیم بھی جس کام پر مامور تھی اس نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ بلکہ ذمہ داری سے بڑھ کر دل لگا کر اپنائیت کے ساتھ خدمت کی.چنانچہ ہمارے ساتھ جو قافلے کے لوگ مختلف جگہوں پر ٹھہرے ہوئے تھے ہر ایک کا یہی تاثر ہے.انگلستان میں بھی خدا کے فضل سے خدمت کا معیار بڑھ رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی عزت کی جاتی ہے.بہت احترام کے ساتھ ، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جاتا ہے لیکن ایک فرق ہے کہ اکثر وہ مہمان جو انگلستان میں خصوصاً لندن میں جلسے کے دنوں میں ٹھہرتے ہیں وہ زیادہ تر رشتے داریوں کی وجہ سے اور پرانے تعلقات کی بناء پر ٹھہرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے ساتھ جو حسن سلوک ہے وہ محض ایک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان کے تعلق سے نہیں ہے.وہ تعلق نہ بھی ہوتا تو رشتے داروں کی خدمت کرنا ہمارے مشرقی معاشرے کا حصہ ہے اور ایک طبعی ذوق کے ساتھ دونوں طرف لطف اٹھاتے ہوئے یہ خدمتیں کی جاتی ہیں مگر یہاں جو میں تجربہ بیان کر رہا ہوں جن خاندانوں کو ہم نے جن خاندانوں میں ٹھہرایا ان کا کوئی بھی رشتے کا تعلق نہیں تھا.بہت سی سیر گاہوں پر بھجوایا وہاں بھی وہ پہلے واقف ہی نہیں تھے ، اجنبی تھے
خطبات طاہر جلد 15 675 خطبہ جمعہ 30 اگست 1996ء لیکن جس طرح انہوں نے خدمت کی مجھے انہوں نے بتایا کہ بالکل لگتا تھا کہ بہت ہی معزز مہمان آیا ہوا ہے جس کے لئے فرش راہ بن گئے تھے.انتظار کرتے کرتے راتیں آنکھوں میں انہوں نے کاٹیں.اپنا سب گھر بار ہمیں پیش کر دیا.ان کے بچے محبت سے ملے ، ان کے بڑوں نے خدمت کی اور تھکے نہیں ، ان کے چہرے پر مسلسل بشاشت کے آثار تھے.یہ وہ خوبی ہے جس پر اللہ پیار کی نظر ڈالتا ہے.پس میں جماعت جرمنی کومبارکباددیتا ہوں.الله میں پہلے بھی کئی دفعہ وہ واقعہ بیان کر چکا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک مہمان کی خدمت پر آنحضرت ﷺ کو اللہ نے اطلاع دی اور ایک روایت میں آتا ہے کہ اللہ آسمان پر ہنس رہا تھا جب وہ خدمت کرنے والے اس رنگ میں خدمت کر رہے تھے اور ایک روایت میں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جب وہ مہمان کو یہ بتانے کے لئے کہ گویا ہم بھی کھا رہے ہیں مچا کے مار رہے تھے یعنی چٹخارے جس طرح کھاتے ہوئے انسان بھرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان پر مچا کے مار رہا تھا.یہ ایک بہت ہی عظیم اظہار ہے خدا تعالیٰ کا اپنے پیارے بندوں کے ہر حسن پر نگاہ رکھنے کا.نعوذ باللہ من ذالک اللہ تعالیٰ تو مچا کے نہیں مارا کرتا.نہ وہ ہنستا ہے ان معنوں میں جن میں ہم ہنستے ہیں.تو یہ انسانی محاورے کی مجبوریاں ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے بھی ان محاوروں کو استعمال کر کے ایسی زبان میں ہمارے دل کو پیغام دیا کہ دل اللہ کی محبت میں گرفتار ہو جائے.اس سے بہتر اظہار ممکن نہیں تھا.پس ہرگز یہ وہم نہ لائیں کہ نعوذ بالله من ذالک، اللہ تعالیٰ کوئی بیٹھا آسمان پر کسی کے مچاکوں کے ساتھ مچا کے مارنے لگ جاتا ہے.وہ تو وہ خدا ہے جو غریبوں کے ساتھ غریب ہو جاتا ہے ، اپنے خدمت کرنے والے بندوں کے ساتھ ان کی خدمتوں میں شامل ہو جاتا ہے، اس کی جو عظمت ہے وہ اس بات میں ہے کہ وہ اپنے ذلیل سے ذلیل بندے پر بھی جھک سکتا ہے اور یہی اس کی عظمت کے اظہار کے قصے ہیں کہ ایک معمولی سی بات کے اوپر بھی اللہ تعالیٰ اتنے پیار سے شکریہ ادا کرتا ہے ان بندوں کا جو احسانات کے تلے دبے ہوئے ہیں اور وہ احسانات کا شکر یہ ادا ہی نہیں کر سکتے.تو یہ حسن خدا کی ذات کا ہے.اس کی عظمت اور اس کی رفعت اس میں ہے کہ وہ اپنے کمزور سے کمزور بندوں میں بھی جب کوئی اچھی بات دیکھتا ہے تو ان پر جھک جاتا ہے اور ان کو اپنے جھکنے کے ساتھ رفعت بخشتا ہے.پس یہ خوبی جو مہمان نوازی کی خوبی ہے اس کے متعلق بھی جیسا کہ حضرت رسول اللہ اللہ
خطبات طاہر جلد 15 676 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء کے حوالے سے میں نے آپ کو بتایا ایسی خوبی نہیں ہے جو نظر انداز کی جاتی ہے.یہ مشہود خوبی ہے.اس پر نظر پڑتی ہے آسمان سے ،مگر اس کی وجہ اللہ ہونی چاہئے.ورنہ بے شمار مہمان نوازیاں ہیں جو رشتوں کی خاطر ، ذاتی محبتوں کی خاطر کی جاتی ہیں، مجبوراً کی جاتی ہیں ، دکھاوے کے لئے کی جاتی ہیں، ان کی کوئی قدر آسمان پر نہیں ہوتی.مگر جو اللہ کی خاطر کرتا ہے یہ مہمان نوازی زمینی نہیں رہتی بلکہ آسمانی بن جاتی ہے.پس یہی بیان مقصود تھا جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی بھی پیار کی نظریں اس پر پڑ رہی تھیں.تو اس حسن خلق کو بڑھائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو پانچ بنیادی شاخوں میں سے ایک قرار دیا ہے.اور یہ حیرت انگیز بات ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کے کارخانے کا ذکر فرماتے ہوئے کہ جو الہی کا رخانہ قائم فرمایا گیا ہے اس کی پانچ مستقل شاخیں ہیں ان میں ایک مہمان نوازی کو قرار دیا ہے اور یہ ایک پیش گوئی کا رنگ بھی رکھتا تھا کیونکہ جماعت احمدیہ کے پھیلنے اور نشو ونما کا جماعت احمدیہ کے خلق مہمان نوازی سے ایک گہرا تعلق ہے.پھر تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کا جماعت احمدیہ کے خلق مہمان نوازی سے بہت گہرا تعلق ہے.سب دنیا میں جہاں جلسے منائے جاتے ہیں وہاں بسا اوقات خصوصاً ان دنوں جبکہ کثرت سے نئے مہمان تشریف لا رہے ہیں مہمان نوازی کے تقاضے اونچے ہو جاتے ہیں اور ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو اس زمانے میں جبکہ گنتی کے چند افراد کی آمد آمد تھی ساری جماعت کو ایک عظیم ذمہ داری کے لئے تیار کرنے کی ہدایت فرمائی اور ہدایت کی کہ آنے والے مہمانوں کا خیال رکھنا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خود اتنا خیال تھا کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایک وقت قادیان میں ایک دفعہ جلسے کے دنوں میں چند مہمان بھوکے رہ گئے اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے بچوں کی وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ ان کے بچوں نے مجھے بڑی تفصیل سے وہ دلائل پیش کئے جس سے پتا چلتا ہے کہ اول طور پر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب گویا مقصود تھے مگر اول طور پر تھے یا ضمنا تھے یہ بحث بے تعلق ہے.امر واقعہ یہ ہے وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے اور اس کی انہوں نے گواہی دی ، تو وہ مہمان جو چند مہمان تھے جو بغیر کھانے کے سورہے تھے یا سونے لگے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً فرمایا اطعموا الجائع والمعتر کہ جو بھوکا ہے اور
خطبات طاہر جلد 15 677 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء تکلیف میں مبتلا ہے اس کو کھانا کھلا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بے قراری سے باہر آگئے رات کو اٹھ کے اعلان کروایا کہ گلیوں میں اعلان کر دو کون ہے جو بھوکا ہے اسے کھانا کھلایا جائے اور راتوں کو اٹھا اٹھا کر ان لوگوں کو کھانا پیش کیا گیا.مطر تو مہمان نوازی کی جو میں تعریف کر رہا ہوں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جماعت احمدیہ کے ساتھ اس کا بہت گہرا تعلق ہے اور ہمارے مستقبل سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے.مہمان نوازی کے ذریعے ہی ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں اور ہر جلسے پر، ہر اجتماع پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ پہلے سے بہتر مہمان نواز بنتی چلی جارہی ہے.یہ جو دوسرا پہلو ہے اور یہ بھی زیادہ شکر کے لائق ہے.ورنہ لوگ مہمان نوازیاں کرتے تو ہیں چند دنوں کے بعد ، چند مہینوں کے بعد، چند سالوں کے بعد تھک جاتے ہیں.مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سوسال سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن جماعت نہ تھکی ، نہ ماندہ ہوئی بلکہ ہر سال پہلے سے بڑھ کر اس میں مہمان نوازی کے اخلاق سنورتے رہے اور زیادہ روشن اور صیقل ہوتے رہے.پس اس اعلیٰ خلق کی حفاظت کریں.ساری دنیا میں چونکہ یہ جمعہ نشر ہو رہا ہے اس لئے آپ کی جماعت جرمنی کے حوالے سے میں ان سب کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرة: 149) تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے ایک سمح نظر بنا دیا ہے لِكُلّ وِجْهَةٌ هُوَمُوَ لَيْهَا ہر ایک کے لئے ایک صبح ہے، ایک دوڑ کا نشانہ ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ پر تمہارے لئے دوڑ کا نشانہ یہ مقرر کیا گیا ہے کہ تمام خوبیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو.پس امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس پہلو سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو صرف ذمہ داریاں سمجھ کر ادا کرنے کی توفیق نہیں بخشے گا بلکہ محبت کے ساتھ ان فرائض کو ادا کرنے کی توفیق بخشے گا.دل ڈال کر، اپنی روح ڈال کر یہ خدمتوں کی توفیق بخشے گا کیونکہ اگر یہ خدمتیں دل اور روح کے ساتھ کی جائیں تو پھر بوجھ نہیں بنتیں ، پھر لطف بن جاتی ہیں.تو جو کام لمبے ہوں جو لیکھے لمبے ہوں ان میں ایسی محنت جو بوجھ بن جائے وہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتی.پس ہماری بقاء کا راز اس میں ہے، ہمیشہ کے لئے اپنی نیکیوں کو قائم رکھنے کا راز یہ ہے کہ نیکیوں سے محبت کریں اور محبت کے ساتھ ان باتوں کو سر انجام دیں اس کے نتیجے میں کوئی بوجھ ، بوجھ نہیں رہے گا بلکہ زندگی کا ایک لطف بن جائے گا اور یہی بڑی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے جماعت مطمن
خطبات طاہر جلد 15 678 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء احمد یہ جرمنی کو خدا یہ توفیق بخش رہا ہے.جب بعض ان میں سے مجھے ملے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا آپ کے متعلق بہت اچھی رپورٹ ملی تو انہوں نے کہا کس بات کا شکریہ.ہمیں تو بڑا ہی لطف آیا ہے، مزہ آگیا، زندگی کے بہترین دن تھے.تو چونکہ دل ڈال کر خدمت کی جائے تو وہ مصیبت نہیں بنتی بلکہ خود اپنی جزا بن جاتی ہے.وہی خدمت انسان کو وہ لطف عطا کر دیتی ہے جو اس خدمت کو ہمیشگی بخش جاتا ہے.پس تمام دنیا کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس پہلو سے وہ اپنے مہمانوں کے لئے ، آنے والے مہمانوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور ان آنے والے مہمانوں میں سب سے زیادہ اہم مہمان اس وقت نو مبائعین ہیں.نومبا ئعین کا اب سلسلہ ایسا بڑھ چکا ہے کہ ان کے لئے ہمیں وسیع تر انتظامات کرنے ہوں گے.اب انفرادی کوشش پر ان کو چھوڑا نہیں جاسکتا.اگر اتفاقات پر ان کو چھوڑ دیں گے، انفرادی کوشش پر چھوڑ دیں گے تو ایک بھاری تعداد ان میں سے ایسی رہ جائے گی جن کو پوچھنے والا ، دیکھنے والا کوئی نہیں رہے گا اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جو تالیف قلب کی ہدایت دیتا ہے، مؤلّفة القلوب بیان کرتا ہے ان لوگوں کو ، یہ وہ لوگ ہیں جو ابتدائی دور میں اگر محبت پالیں تو ہمیشہ کے لئے آپ کے ہو جائیں گے.اگر ابتدائی دور میں ان سے سردمہری کا سلوک ہو اور ان کا کوئی نہ ہو جو انہیں اپنا سکے اور سینے سے لگا سکے تو بعید نہیں ہوتا کہ یہ لوگ آہستہ آہستہ سرک یا پیچھے ہٹ جائیں یا اپنی ایک بے عملی کی سی حالت میں ٹھنڈے پڑ جائیں اور جیسے لوہا گرم ہوتو اس وقت اسے شکلیں عطا کی جاتی ہیں اور ٹھنڈا ہو جائے تو وہ شکلیں قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے.پس یہی دور ہے جبکہ آپ کی مہمان نوازی کا خلق ایک ایسے اجتماعی رنگ میں ان آنے والے مہمانوں کے دل جیتنے والا بنے جس کے ساتھ منصوبہ ضروری ہے.پس تمام جماعتوں کو اس پہلو سے منصوبہ بنانا چاہئے کہ کثرت سے آنے والے نئے احمدیوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے جسے جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان کے طور پر سر آنکھوں پر نہ لے اور جس کی خدمت ایک دلی جذبے سے نہ کرے.یہ کچھ دیر کی بات ہے.یہ مہمان وہ ہیں جو چند دنوں میں میزبان بننے والے ہیں.اگر پہلی زندگی کے چند مہینوں کے تجربے میں یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کے تجربے میں یہ آپ کے حسن خلق سے متاثر ہو گئے ، آپ نے ان کی خدمتیں کیں تو ان میں ایسے پیدا ہوں گے جو آپ سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہوں گے اور آنے والے وقتوں کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو یہ آپ کے ساتھ شانہ بشانہ
خطبات طاہر جلد 15 679 خطبہ جمعہ 30 اگست 1996ء مل کر پورے کریں گے.پس ہر پہلو سے یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے کہ ہم اپنی مہمان نوازی کے خلق کو انفرادی طور پر بھی بڑھا ئیں اور اجتماعی طور پر بھی ایسا منظم کریں کہ اس کے نتیجے میں آئندہ صدیوں میں جو پھیلے ہوئے تقاضے ہیں ان کو ہم بہترین رنگ میں پورا کرنے والے ہوں.اب میں آپ کو اس آیت کریمہ کے حوالے سے کچھ باتیں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ لَه يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہیں لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ - اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اللہ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ تمام تر گناہوں کو بخش دے کوئی بھی باقی نہ چھوڑے اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ یقینا وہ وہی ہے جو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.اس مضمون کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں میں جب میں آپ کو تقویٰ کی طرف بلانے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے کی نصیحت کرتا رہا ہوں اور شرک سے کلیۂ پاک ہونے کے متعلق آپ کو سمجھا تا رہا ہوں تو بعض دلوں میں ممکن ہے بے حد خوف پیدا ہو گیا ہو اور بعض نے دبی زبان سے مجھے سے اظہار بھی کیا کہ اگر نیکی کے یہ تقاضے ہیں اور اتنی بلندیاں ہیں جنہیں ہم نے طے کرنا ہے اور بعض صورتوں میں ادئی لغزش بھی ہمیں ہلاک کر سکتی ہے.اگر ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک مشر کا نہ حالت میں سانس لے رہے ہیں اور بسا اوقات سمجھے بغیر خدا کی محبت کے مقابل پر دنیا کی محبتوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کو دین کے مقابل پر برتر سمجھتے ہیں ،اس کو اولیت دیتے ہیں تو ہمارا بنے گا کیا؟ یہ چیزیں تو وہ ہیں جو ہمیں روز مرہ دکھائی بھی نہیں دیتیں.نشان دہی کی جاتی ہے تو پھر کچھ کچھ دکھائی دینے لگتا ہے لیکن نظر کا ہر روشنی کے درجے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا محنت چاہتا ہے، یکدم نہیں ہوا کرتا.آپ باہر سے کسی اندھیرے کمرے میں آئیں تو کچھ دیر کے لئے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہوتا پھر رفتہ رفتہ ایک مدھم سی روشنی ابھرتی ہے وہ پھیل جاتی ہے.دراصل آپ کی روشنی دیکھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ کمرہ جو بالکل اندھیرا تھا اس میں کہیں سے رفتہ رفتہ چھن چھن کر روشنی آرہی ہے اور وہ کمرہ دکھائی دینے لگتا ہے.تو انسان جب توجہ
خطبات طاہر جلد 15 680 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء کرتا ہے اور محنت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی دیکھنے کی صلاحیت کو روشنی بخشتا ہے.اس کی بصیرت روشن ہو جاتی ہے، کہیں باہر سے اور کوئی روشنی نہیں آرہی ہوتی اس وقت لیکن وہ لوگ جن کی بصیرت خدا بڑھاتا ہے پھر بسا اوقات ان کے لئے مزید نور کا بھی سامان کرتا ہے.چنانچہ دونوں طرف سے یہ سلسلہ اس کا مددگار بن جاتا ہے.دیکھنے کی طاقت بڑھتی ہے اور اس کی مدد کے لئے آسمان سے نور بھی اتر تا رہتا ہے اور قرآن کریم نے یہی دو سلسلے ہیں جن کا ذکر فرمایا ہے کہ اس طرح انسان رفتہ رفتہ نور کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور دنیا میں کوئی خدا کے نور کا مظہر ہے تو محمد رسول اللہ ﷺے ہیں.پس اس پہلو سے جب میں آپ سے کہتا ہوں کہ نور کی جانب قدم بڑھا ئیں تو آنحضرت ﷺ ہی ہمیشہ پیش نظر ہوتے ہیں لیکن نور تک رسائی بہت مشکل ہے سوائے اس کے کہ نور آپ تک پہنچ جائے.یہ مضمون بہت پیچیدہ اور باریک ہے مگر اس کا سمجھا نالازم ہے.جب آپ کو یہ مضمون سمجھاؤں گا تو پیچیدہ نہیں رہے گا ، بالکل صاف دکھائی دینے لگے گا.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو ہمارے لئے خود واضح فرمایا ہے.اہمیت بھی روشن کی ہے اور ساتھ یہ بھی سمجھایا ہے کہ کس طرح مایوس ہوئے بغیر ہمیں رفتہ رفتہ ترقی کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں....نہایت ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو حق کی طلب میں نکلے اور پھر حسن ظن سے کام نہ لے...“ یعنی نیت یہ کر کے نکلے کہ میں نے حق کو تلاش کرنا ہے یا حق تک پہنچنا ہے اور پھر حسن ظن سے کام نہ لے.یہاں حسن ظن کا کیا معنی ہے؟ فرماتے ہیں ایک گل گوہی کو دیکھو کہ اس کو مٹی کا برتن بنانے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے.یعنی وہ جو مٹی کے برتن بنا رہا ہے اس کو کبھی آپ غور سے دیکھیں اور کئی دفعہ میں نے بھی دیکھا ہے اور بہت ہی دلچسپ نظارہ ہوتا ہے وہ بہت ہی جاذب نظر چیز ہے کس طرح ایک مٹی کے گولے کو مختلف شکلوں میں ڈھالتا ، اچانک اس کے اندر سوراخ پیدا کرنا پھر اردگرد وہ نقوش بھرنا.سکاٹ لینڈ ایک دفعہ ہم گئے تو وہاں رستے میں مٹی کے برتن بنانے والے بہت بڑے ماہرین تھے تو وہاں کھڑے ہو کر دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ اس نظارے کو چھوڑ کر آگے جائیں.ربوہ میں ہمارے ایک مٹی کے برتن بنانے والے تھے ان کے ہاں بھی کئی دفعہ سائیکل پر
خطبات طاہر جلد 15 681 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء جاتے جاتے میں ٹھہر جایا کرتا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی مثال دی ہے جوحسن اتفاق سے میرے دل پر پہلے ہی بہت اثر انداز ہو چکی ہے.فرماتے ہیں مٹی کے برتن بنانے والے کو دیکھو.اس مثال کا انسان کی ذات سے بھی ایک تعلق ہے کیونکہ انسان مٹی سے بنا ہوا ہے اور مٹی سے ایک برتن بنانے والا اس پر جو محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس سے بہت زیادہ محنت کی ہوئی ہے.کوئی نسبت ہی نہیں اس مٹی سے برتن بنانے والے کی اس خالق ازلی سے.اس کے ساتھ اس کی کوئی نسبت نہیں جس نے ابتدائے آفرینش سے انسان کی تخلیق کا نقشہ بنایا اور مٹی ہی کو مختلف رنگ میں ترقی دیتے دیتے زندگی کی منازل میں داخل کر دیا.اب یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ ساری دنیا میں بے شمار سائنس دان اس مضمون کی کھوج میں وقف ہیں لیکن اس کی کنہ کو نہیں پاسکے اور اقرار کرتے ہیں کہ ایک جگہ پہنچ کر گویا آگے ایک چٹان آکھڑی ہوتی ہے اور آگے راستہ نہیں ملتا.جو راز معلوم کرتے ہیں کچھ دیر کے بعد پتا چلتا ہے کہ یہ راز معلوم نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک معمہ معلوم ہوا تھا جو اتنے اور راز ہمارے سامنے ، ان کھلے راز ، وہ راز جو سر بستہ ہوں وہ راز لے کے آیا ہے کہ جسے ہم حل سمجھ رہے تھے وہ تو ایک معمہ بن گیا اور یہ جو میں آپ سے بات کہہ رہا ہوں علم کی بناء پر کہہ رہا ہوں.میں جانتا ہوں ان سائنس دانوں کو جنہوں نے بعض بڑی بڑی دریافتیں کیں اور بڑے فخر سے اعلان بھی کر دیا کہ اب ہم زندگی کی ابتداء کا راز سمجھ گئے ہیں اور ساری دنیا نے ان کو بہت اٹھایا اور بڑھایا کہ یہ وہ شخص پیدا ہوا ہے جس نے زندگی کی ابتداء کا راز معلوم کر لیا.دس پندرہ سال بعد وہی سائنس دان یہ کہتا ہے کہ بڑی ہی نا سمجھی تھی جو یہ اعلان ہوا، کچھ بھی معلوم نہیں کر سکے.جس کو ہم زندگی کے آغاز کا راز سمجھے تھے وہ تو ایک ایسا معمہ نکلا ہے جو بیچ در پیچ اور بھی اپنے خم میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کو کچھ نہیں سمجھ سکتے.پس یہ وہ کائنات کا خدا ہے جس نے مٹی سے انسان بنایا ہے اور وہ مٹی کا بنا ہوا انسان خود اپنی حقیقت کو نہیں سمجھ سکا، نہ سمجھ سکتا ہے.وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میں دیکھوں تو سہی مجھے کیسے بنایا گیا ہے لیکن بہت دیر کے بعد اسے یہ ہوش آئی ہے.آج وہ مڑ کر دیکھنا چاہتا ہے کہ چار ارب سال پہلے یا ساڑھے چار ارب سال پہلے اس مٹی سے میرا خمیر کیسے اٹھایا گیا تھا.اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے آثار کو بھی آج تک باقی رکھا ہے اور ساری جو کہانی ہے انسانی ارتقاء کی وہ ایسی جگہوں پر مرتسم کر دی ہے نقش کر دی ہے کہ آج تک وہ آثار پڑھے جاسکتے ہیں
خطبات طاہر جلد 15 682 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء اگر بصیرت ہو.تو بصیرت کے ساتھ ساتھ روشنی بڑھتی ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے اور وہ آثار جو پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے دکھائی دینے لگتے ہیں.مگر اس کے باوجود وہ ایک جگہ پہنچ کر اندھے کے اندھے رہ جاتے ہیں کیونکہ آسمان سے نور نہیں ان پر اتر تا اور جب تک آسمان سے نور نہ اترے انسانی بصیرت کی ترقی اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.دنیا کے چند راز اس کو معلوم ہو جاتے ہیں لیکن اصل الحقیقت اس پہ نہیں کھلتی.وہ گہری بنیادی حقیقت جو تخلیق کائنات میں موجود ہے وہ اسے پوری طرح دکھائی نہیں دیتی.خدا تک پہنچتے پہنچتے رہ جاتا ہے اور پہنچ نہیں سکتا.پس اس پہلو سے ایک مومن کی بصیرت اور غیر مومن کی بصیرت میں ایک فرق ہے.مومن کی بصیرت کے ساتھ آسمان پر سے نور اترتا ہے اور وہ نور اس کو وہ روشنی عطا کرتا ہے جو دنیا کی محنت کرنے والوں کو نصیب نہیں ہوتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گل گوہی کی مثال ہمارے سامنے رکھی کہ گل گوہی کو دیکھو وہ کیسے مٹی کے برتن بناتا ہے اور حسن ظن کا مضمون یہ ہے کہ وہ ایک مٹی کے گولے کو پکڑتا ہے اور یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ اس سے یہ کچھ بن جائے گا جو میں بنانا چاہتا ہوں اور تھکتا نہیں.وہ مختلف شکلیں دیتا ہے اور لگا رہتا ہے اس کو مزید خوبصورت شکلوں میں ڈھالنے میں اور یقین رکھتا ہے کہ ایسا ہو جائے گا.پس مومن جس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی مٹی کی تشکیل ایک عظیم تاریخ کے طور پر موجود ہے وہ کیسے مایوس ہوگا.اگر وہ مایوس ہوگا تو وہ اس روز مرہ کے پتھیرے سے بھی ذلیل اور بدتر ہو جائے گا جو صرف اینٹیں ہی بناتا ہے.خود جومٹی کا بنا ہوا ایک شاہکار ہو وہ اپنی تشکیل سے مایوس ہو جائے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ تمہیں زیب نہیں دیتا.مگر اگر آپ بنا کے دیکھنا چاہیں تو اینٹ بھی نہیں پتھی جاسکتی.پہلی دفعہ آپ کوشش کر کے دیکھیں وہ چار کونوں کی اینٹ کی بجائے یا چار او پر اور چار نیچے کے آٹھ کونوں کی اینٹ کی بجائے وہ چالیس پچاس کونوں کی اینٹ بن جائے گی اور بعض دفعہ اینٹ کی بجائے تھو با بن جائے گا.تو محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ حسن ظن ہو کہ محنت کام آئے گی تو پھر انسان حقیقت میں ترقی کرسکتا ہے،اس کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ہر گنہگار کو، ہر اس شخص کو جو خدا کی راہ میں آگے قدم بڑھانا چاہتا ہے دیکھیں کیسی پیاری پیاری مثالیں دے کر سہارا دے رہے ہیں.فرمایا حسن ظن سے کام لو، محنت کرنی ہوگی ، وقت لگے گا بعض چیزیں ایک دم ہاتھ نہیں آیا کرتیں رفتہ رفتہ ہوگا.
خطبات طاہر جلد 15 683 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء چنانچہ فرماتے ہیں ” دھوبی ہی کو دیکھو کہ وہ ایک ناپاک اور میلے کچیلے کپڑے جب صاف کرنے لگتا ہے تو کس قدر کام اس کو کرنے پڑتے ہیں.کبھی کپڑے کو بھٹی پر چڑھاتا ہے، کبھی اس کو صابن لگا تا ہے، کبھی اس کی میل کچیل کو مختلف تدبیروں سے نکالتا ہے“.یہ دھوبی کی مثال بھی بہت ہی بر محل ہے کیونکہ انسان اپنے صاف ستھرے لباس کو داغ دار کر لیتا ہے اور خود کر لیتا ہے.جب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو گویا گل گوہی نے اس شکل میں ڈھال دیا جس شکل میں ڈھالنا اس کو مقصود تھا.بے داغ ، پاک صاف معصوم ایک صحت مند بچہ ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے اور جوں جوں انسان کے زیر اثر آتا چلا جاتا ہے اس کی معصومیت داغ دار ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ اس کپڑے کی طرح جسے آپ پہلی دفعہ نیا سمجھ کر پہنتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس پر دھبے ڈال دیتے ہیں، کئی طرح کے اس پر نشان پڑ جاتے ہیں اسی طرح وہ بچہ بھی پھر گندہ ہونے لگتا ہے لیکن بہت سے ایسے داغ ہیں جو محنت کے ساتھ دھل جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے انہی داغوں کی مثال دے رہے ہیں.اب دھوبی کو دیکھیں وہ بھی صبح صبح اٹھ کر جاتا ہے اور بعض دفعہ تالابوں کے کنارے، بعض دفعہ ہم جہاں قادیان میں ہوتے تھے تو دھوبی ڈھاب پر پہنچا کرتے تھے اور صبح سیر کے وقت کئی دفعہ ان کو دیکھ کر وہیں پاؤں جم جایا کرتے تھے کہ دیکھیں کیا کر رہے ہیں.وہ کپڑوں کی ایک ڈھیری لے کے آتے تھے جسے پہلے ساری رات وہ سوڈے والے پانی میں ابالتے تھے اور ابالنے کے باوجوداگر اسے عام اسی حالت میں دھو لیں تو پھر بھی داغ نہیں اترا کرتے.چنانچہ وہ ان کپڑوں کو پٹختا تھا اور مختلف جگہ ان دھوبیوں نے اپنے اپنے پتھر بنارکھے تھے یا پھر اپنار کھے تھے.بنی بنائی پتھریلی جگہیں تھیں اور پھر وہ ساتھ چھوا چھو“ کی آوازیں نکالتا تھا اور ہر دفعہ اس کپڑے کو پٹختا تھا پتھر کے اوپر اور چھوا چھو، چھوا چھو سارے ڈھاب کے کنارے پر چھوا چھو کے گیت اٹھ رہے ہوتے تھے اور بڑا دلچسپ نظارہ تھا مگر بڑی محنت کرتا تھا وہ اور بار بار پتھر پر پیٹھنے سے پھر وہ داغ کپڑے کو چھوڑ دیتے تھے.تو گناہوں کے داغوں کی بھی تو ایسی ہی کیفیت ہوا کرتی ہے.کچھ ہلکے اور کچے داغ ہوتے ہیں.کچھ کو تو ٹھنڈے پانی سے دھو کر اسی وقت مل دیں تو وہ اتر بھی جاتے ہیں.تازہ گناہوں کی یہی کیفیت ہوتی ہے.داغ جتنا پرانا ہوتا جائے اتنا ہی اس کا دور کرنا مشکل ہوتا جاتا ہے.پس اس
خطبات طاہر جلد 15 684 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء صلى الله مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زبان میں سمجھیں تو آپ کو بہت سے معرفت کے راز ہاتھ آئیں گے.پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو خدا نے جس مٹی سے تشکیل دیا ہے وہ ایک ایسا شاہکار ہے کہ اس کا عام انسان بلکہ بڑے سے بڑا سائنس دان بھی تصور نہیں کر سکتا کہ کتنا عظیم شاہکار ہے.اس کو تشکیل کے بعد پھر آپ گندا کرنے لگتے ہیں.اس کی شکلیں بدلنے لگتے ہیں.بعض دفعہ ایسا مکروہ ہو جاتا ہے کہ پہچانا ہی نہیں جاتا کہ کس ہاتھ کا بنا ہوا تھا اور پھر اس کو داغ دار کرنے لگتے ہیں.تو جیسے کپڑا داغ دار ہوکر جب پرانا ہو جائے تو پھر وہ داغ نہیں ہٹتے ، کپڑا مٹ جاتا ہے مگر داغ نہیں مٹتے.وہی حال انسان کا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دھوبی سے بھی نصیحت پکڑو.وہ دیکھو کتنی محنت کرتا ہے کپڑوں کے داغ دھونے پر اور اگر دیر تک وہ کپڑا دھوبی کے جائے ہی نہ ، اگر اس پر محنت کی ہی نہ جائے تو ایسے کپڑے کے داغ پھر بعض دفعہ اس کا ہمیشہ کے لئے جز بن جاتے ہیں اور ان کا مٹنا اور مٹانا ایک امر محال دکھائی دیتا ہے.مگر انسان کے لئے اس صورت میں بھی کسی مایوسی کا کوئی مقام نہیں کیونکہ یہ آیت کریمہ یہی بتا رہی ہے کہ اے محمد ﷺ یہ اعلان کر دے کہ اے میرے بندو! اور یہاں بندوں کا جو حوالہ ہے رسول اللہ ﷺ اپنی طرف دے رہے ہیں.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوا عَلَى اَنْفُسِهِمْ تو کہہ دے اے میرے بندو یعنی جو خدا کے عباد میں داخل ہو چکے ہو اور میری غلامی قبول کر چکے ہو، تم میرا دامن تھام چکے ہو اور یہ فیصلہ کر چکے ہو کہ میرے پیچھے چلو گے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرا رب اتنا عظیم ہے کہ وہ ہر گناہ کو بخشنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہی ہے جو گناہوں کو بخشنے کی طاقت رکھتا ہے اور پھر رحیم بھی ہے جو گناہ بخشنے کے بعد پھر بار بار رحم لے کر آتا ہے اور ترقی کے مثبت دور میں داخل فرما دیتا ہے.پس اس پہلو سے جب آپ اس مثال کو سامنے رکھیں تو اول تو یاد رکھیں کہ جتنی دیر تک آپ اپنے گناہوں پر راضی رہیں گے اور ان کے خلاف جدو جہد کا آغاز نہیں کریں گے اتنا ہی آپ کے لئے ان کو دور کرنا مشکل ، دو بھر یہاں تک کہ ایک وقت میں ناممکن ہو جائے گا یعنی انسانی کوششوں کے بس کی بات نہیں رہے گی.پھر آسمان ہی سے کوئی فضل نازل ہو تو ان کو دور کر سکتا ہے ورنہ زندگی بھر پھر آپ کو انہی داغوں میں رہنا ہوگا ، انہی داغوں میں دفن ہونا پڑے گا.پس اس پہلو سے توجہ کریں کہ الله
خطبات طاہر جلد 15 685 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء اگر چه سفر بہت لمبا ہے اور کمزوریاں بہت زیادہ ہیں مگر مٹانے کا سفر شروع ہو جانا چاہئے یعنی داغوں کو مٹانے کا سفر لازماً شروع ہو جانا چاہئے اور جتنی توفیق ملتی ہے اپنا جائزہ لے کر انصاف کی نظر سے، تقویٰ کی نظر سے یہ دیکھیں کہ آپ میں کہاں کہاں، کیا کیا خامیاں ہیں اور کچھ کو آپ پکڑ لیں.کچھ کو پکڑ کے فیصلہ کر لیں کہ ان کو تو میں لازماً چھوڑ کے رہوں گا اور پھر دعا کریں.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ راز سکھایا ہے کہ پھر اللہ سے مدد مانگنا کیونکہ اس کے بغیر تم کچھ نہیں کر سکتے.وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة مبر کے ذریعے یعنی اس حسن ظن کے ذریعے کہ یہ داغ مٹ جائیں گے اور پھر اس کوشش پر ہمیشہ قائم رہتے ہوئے وَالصَّلوۃ اور عبادت کے ذریعے نمازیں پڑھ پڑھ کے خدا سے مدد مانگتے رہو اور ان داغوں کو مٹا کے چھوڑ و جو بد زیب لگتے ہیں اور آپ کی نظر کو بھی برے لگتے ہیں.یہ وہ داغ ہیں جو بعد میں پڑے ہیں، جو ابھی نئے ہیں، ابھی آپ ان کو پہچانتے ہیں کہ بری باتیں ہیں تو آپ سمجھیں گے کہ یہ جو نئے نئے داغ مجھے دکھائی دے رہے ہیں ان کو صاف کر کے میں کام سے فارغ ہو جاؤں گا لیکن جب آپ ان داغوں کو دور کریں گے تو آپ کو دکھائی دے گا کہ ان کے نیچے چھپے ہوئے داغ اور بھی زیادہ بدزیب تھے بدصورت تھے اور زیادہ پکے ہو چکے ہیں.تو اگر سفید کپڑے کے اوپر چند داغ ہوں تو اس کا مٹانا یعنی دھوبی کی طرح اس کو چیخ چیخ کر پتھروں پر یا ابال ابال کر ان کا صاف کرنا نسبتاً بہت زیادہ آسان کام ہے.مگر انسان کے معاملے میں یہ داغ کی نہیں ہیں جو تہہ بہ تہہ جمتی چلی جاتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ اوپر کی تہ نیچے کے داغوں کو دیکھنے بھی نہیں دیتی.انسان کی نظر ان تازہ داغوں پر ہوتی ہے جو ابھی ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہوا اور اس کی وجہ سے اسے وہ داغ دکھائی دیتے ہیں.کوئی نئی بد تمیزی سیکھی ہے انسان نے تو کچھ دن تک نظر آتی ہے کہ ہاں یہ میں نے ایک نئی بد تمیزی سیکھی ہے اور جب وہ اس کو مثالے گا تو اس کی نظافت کا معیار بلند ہو جائے گا اور اس معیار کی بلندی کے نتیجے میں اس کو وہ بصیرت عطا ہوگی جس کا ذکر میں نے کمرے کے حوالے سے کیا تھا یعنی نظر کو عادت پڑ جائے گی داغ دیکھنے کی اور وہ داغ جو پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے اب ان مٹتے ہوئے داغوں کے نیچے دیکھیں گے تو آپ کہیں گے ابھی تو بہت کچھ باقی ہے اور ان کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کے لئے پھر صبر اور صلوۃ کی ضرورت ہے.بہت استقامت کے ساتھ اس عزم پیہم یا عزم صمیم کے
خطبات طاہر جلد 15 686 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء ساتھ کہ آپ چھوڑیں گے نہیں جب تک ان داغوں کو مٹا نہیں لیں گے جب آپ خدا کی طرف متوجہ ہوں گے دعائیں کریں گے صبر سے کام لیں گے تو ایک ایسا بھی وقت آئے گا کہ آپ ان خوش نصیبوں میں داخل ہو جائیں گے جن کے کچھ پرانے داغ بھی مٹ گئے اور ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور پھر ایک اور داغوں کی منزل ہے ، داغ دیکھنے کی منزل ہے جو سامنے آکھڑی ہوگی.غرضیکہ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر کسی کو توفیق بخشے اور وہ اس دنیا میں صدیقوں میں داخل ہو جائے ورنہ صالحیت کا سفر ہی طے نہیں ہوتا اور بسا اوقات انسان صالحیت کے جھگڑے حل کرتے کرتے ہی مرجاتا ہے.مگر اگر صالحیت کی منزل پر بھی مر جائے تب بھی وہ خوش نصیب ہے کیونکہ وہ اس گروہ میں داخل ہو جائے گا.مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا (النساء: 70) تو صالحیت کا سفر بھی بہت لمبا سفر ہے یہ جب داغ مٹیں گے تو پھر اور، پھر اور ، پھر اور لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سفر بھی شروع ہو جائے گا جو خوبیوں کا حاصل کرنے کا سفر ہے.ہر مٹتے ہوئے داغ کے ساتھ ایک خوبصورتی ہے جو آپ کو عطا ہو گی.اللہ تعالیٰ کا حسن مثبت صورت میں آپ کو دکھائی دے گا ، آپ کو اس سے محبت ہوگی ، آپ اسے اپنا ئیں گے تو داغوں کا مٹنے کا سفر اپنے ساتھ حسن کو اختیار کرنے کے سفر کو بھی رکھتا ہے اور بیک وقت یہ دونوں چیزیں پہلو بہ پہلو جاری رہتی ہیں.اس جدو جہد میں داخل ہونا ہی حقیقی جہاد ہے اور اس جدو جہد میں پڑنے کے بعد جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ یہ صلاحیت بخشے گا کہ وہ بہت جلد سب دنیا پر غالب آجائے گی.جب تک غالب آنے کے لئے سلیقے معلوم نہ ہوں وہ تربیت نہ ہو جس تربیت کے گزرنے کے بعد ایک سپاہی بنتا ہے اور خدا کا سپاہی بننا عام سپاہی بننے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے.آسان ان معنوں میں تو ہے کہ جس حالت میں بھی ہے خدا قبول فرما لیتا ہے کہتا ہے جو کچھ ہے لے کر داخل ہو جاؤ لیکن مشکل ان معنوں میں کہ اس سپاہی کے بننے کے تقاضے پورے کرنا عام دنیا کے سپاہی بننے کے تقاضوں سے بہت زیادہ سخت ہوتے ہیں.دنیا میں جتنی بھی بڑی بڑی قومیں سپاہیوں کی تربیت کرتی ہیں انہوں نے سالوں پہ معیار بنارکھے ہیں کہ بعض قوموں میں تین سال تک سپاہی کی تربیت کافی ہوتی ہے اور بعض اس کو چار یا پانچ سال تک لے جاتے ہیں.تو پانچ سالہ تربیت عموماً امریکہ میں مثلاً سپاہی تیار کرتے وقت دی جاتی ہے اور یورپ میں بھی غالباً یہی
خطبات طاہر جلد 15 687 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء معیار ہوگا اور پھر ان میں سے جن کو آگے بڑھانا ہو ان کی تربیت کے سال اور لمبے ہو جاتے ہیں.مگر خدا کے سپاہی بنے میں یہ عجیب بات ہے کہ جنگ میں داخل تو آپ کو فورا کر لیا جاتا ہے لیکن تربیت کا دور آخری سانس تک جاری رہتا ہے کیونکہ کام بہت وسیع ہیں اور ممکن نہیں کہ انسان ان تقاضوں کو پورا کر سکے اور وقت کی کمی تقاضا کرتی ہے کہ جلدی سپاہی پیش کرو.تو کچے پکے جتنے بھی سپاہی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری خاطر تم آتے ہو تو آجاؤ میں تمہیں اپنی فوج میں داخل کرتا ہوں لیکن شرط ہے کہ ساتھ ساتھ سیکھنا ضرور ہوگا اور اپنا معیار ضرور بلند کرنا ہوگا.پس موت تک جو ہم سپاہی بنتے ہیں اکثر صورتوں میں اور بڑی بھاری اکثریت کی صورتوں میں ہم صالح بنے کی ٹریننگ حاصل کر رہے ہوتے ہیں.صالح ہو جائیں اور صالح بننا جس کو نصیب ہو جائے ایسی حالت میں کہ جب وہ مرے تو اللہ تعالیٰ فرمائے کہ یہ صالحین میں تھا اور صالحین کی جماعت میں اس نے دم تو ڑا ہے یہ بہت ہی بڑا اعزاز ہے کیونکہ صالحیت کا لقب نجات کا لقب ہے.جس کو خدا صالح قرار دے دے وہ نجات پا گیا اور مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ میں جو خدا تعالیٰ نے مَعَ کا لقب رکھا ہے پہلے مین نہیں رکھا اس کی ایک بڑی حکمت یہ ہے تا کہ ان کو نبیوں کا ساتھ نصیب ہو سکے.ہرایک تومن النبین نہیں ہوسکتا ہر ایک تو من الصدیقین نہیں ہو سکتا.ہر ایک تو من الشهداء نہیں ہوسکتا پس وہ صالح کیا کریں گے جو سب سے نچلی منزل پر بیٹھے رہے یا چلتے چلتے ایسی حالت میں دم توڑ دیا کہ ابھی وہ ابتدائی منزل پر ہی تھے.کیا ان کو ان بلند تر وجودوں کا ساتھ نصیب نہیں ہوگا ؟ پس پہلا مع یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ مبارک ہو تمہیں کہ تم اب انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ شمار ہوگے كُوْنُوْا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبہ: 119 ) میں یہی پیغام ہے کہ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران: 194) کہ اے اللہ میں ابرار کے ساتھ موت دے.تو کتنے بڑے احسانات ہیں.ایسے احسانات کہ نہ گنے جا سکتے ہیں نہ گنوائے جا سکتے ہیں جو ذوالمنن کے احسانات اپنے بندوں پر ہیں کیسی کیسی شفقتوں کا سلوک فرماتا ہے، کتنے پیار کا اظہار کرتا ہے گنہگاروں کو بخشنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے اور پھر یہ دستور بنالیا ہے کہ تم سفر شروع کرو جہاں بھی تمہارا انجام ہوگا ہم تمہیں صالحین میں شمار کر لیں گے مگر سفر شرط ہے.پس آپ یہ سفر کریں اور لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں اور یقین رکھیں کہ یہ چیزیں جو بہت مشکل دکھائی دیتی ہیں یہ وقت کے ساتھ ساتھ آسان ہوتی چلی
خطبات طاہر جلد 15 688 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء جائیں گی اور ہر قسم کے داغ مٹائے جاسکتے ہیں اگر خدا تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہو اور وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة: 45) پر عمل ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وو...جب ادنی ادنی چیزوں کے لئے اس قدر صبر سے کام لینا پڑتا ہے تو پھر کس قدر نادان ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کی اصلاح کے واسطے اور دل کی غلاظتوں اور گندگیوں کو دور کرنے کے لئے یہ خواہش کرے کہ یہ پھونک مارنے سے نکل جائیں اور قلب صاف ہو جائے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ: 459) یعنی پھونک مارنے سے یہ سارے گناہ دور ہو جائیں اور قلب اچانک صاف ہو جائے.یہ پھونک مارنے والے پیر اور فقیر سب دنیا کو دھو کے دیتے پھرتے ہیں اور ان کی پھونک سے تو ان کا اپنا نفس بھی کبھی صاف نہیں ہوا.تعفن کی پھونک ہے جو شرک پھیلاتی ہے.ایک بد بوجس کے پاس کوئی شریف النفس انسان کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اور اتنی جہالت ان لوگوں نے پھیلائی ہے اور ہر سال یورپ کے سفر کرنے والے بڑے بڑے پھونک مارنے والے صوفی آتے ہیں اور درویش اور فقیر پہنچتے ہیں، ان کے اخباروں میں اشتہار چھپ جاتے ہیں کہ وہ بہت پہنچا ہوا صوفی آگیا ہے جو ایک نظر سے تمہیں آر پار کر دے، یہاں سے کہیں اور پہنچا دے گا اور اس کی ایک پھونک سے تم ہر بیماری سے شفا پا جاؤ گے.یہ سب جھوٹ ہے.سب ظلم کے قصے ہیں.شرک کی تعلیم ہے جو یہ دینے آتے ہیں اور جنت کی بجائے جہنم کی گارنٹی ہوتی ہے.یہ کہنا ان کے لئے جائز ہے کہ ایک پھونک میں ہم تمہیں جہنم میں پہنچادیں گے.احمدیت نے اللہ کے فضل کے ساتھ آپ کو ان اندھیروں سے نکالا ہے.اتنا بڑا احسان ہے کہ کوئی انسان اس پر غور کرے تو وہ ساری عمر یہ شکر ادا کرتے کرتے مرجائے تو شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا.اللہ نے آپ کو کہاں پیدا کر دیا.کس روشنی میں پیدا فرما دیا ہے.امام مہدی کا زمانہ عطا کیا ، اس کی جماعت میں داخل کیا ، اس کی جماعت میں شامل ہو کر محض اللہ نے اپنے فضل سے آپ کو مزید ترقیات کی طرف قدم بڑھانے کی توفیق بخشی.تو یہ بہت احسانات ہیں جس نے آغاز سفر کے سامان مہیا کئے ہیں لیکن یہ سفر کا انجام نہیں ہے.یہ بات ہے جو میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا
خطبات طاہر جلد 15 689 خطبہ جمعہ 30 راگست 1996ء ہوں.آئندہ بھی سمجھاتا رہوں گا کہ احمدیت ایک بہت بڑا احسان ہے.اندھیروں سے نکل کر آپ آئے ہیں لیکن روشنی میں پہنچ کر سفر ختم نہیں ہوا بلکہ روشنی میں پہنچ کر سفر کا آغاز ہوا ہے اور توحید کا سفر لامتناہی ہے ، اپنے نفس کو شرک سے پاک کرنے کا سفر لا متناہی ہے.ان معنوں میں لامتناہی ہے کہ وہ جو خدا کی طرف سے توحید کے نور سے مزین کئے جاتے ہیں یا روشن کئے جاتے ہیں یعنی انبیاء کا گروہ، ان کے سوا باقی ہر طبقے کے بزرگوں اور نیکوں کے لئے توحید کے متعلق محنت کرنی پڑتی ہے، مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے اور توحید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اس لئے سفر لا متناہی رہتا ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شرک کا حملہ ان کے اوپر ہوتا ہی رہتا ہے.کبھی اولا د کی طرف سے ابتلاء آ گیا، کبھی نظام جماعت کی سزا کے طور پر ابتلاء آ گیا، کبھی مالی ابتلاء آ گیا، کبھی قریبیوں کی موت ابتلاء بن گئی.تو انسانی زندگی میں جو تو حید کا سفر ہے وہ بظاہر مکمل ہونے کے باوجود ایک انسان یہ سمجھ بھی لے کہ میں تو حید کامل پر قائم ہو گیا پھر بھی یہ سفر مکمل نہیں ہوتا کیونکہ ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے چلے جاتے ہیں ، نئی نئی آزمائشیں آتی چلی جاتی ہیں ، نئے نئے امتحان در پیش ہوتے ہیں تو اللہ کرے ہمیں ان سب تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا ہو کیونکہ ہم پر ذمہ داریاں بہت ہیں.بہت بڑے کام ہیں جو ہمارے سامنے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو فضلوں کی رفتار بڑھا دی ہے اسے دیکھ کر جہاں روح سجدہ ریز ہو جاتی ہے وہاں خوف بھی پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم سے بڑی تو قعات رکھی ہیں.کہاں آٹھ دس ہزار احمدیوں کا سال بھر میں ساری دنیا میں جماعت میں داخل ہونا یعنی غیر احمدیوں کا احمدی بنا یا غیر مسلموں کا مسلم بننا، کہاں سولہ لاکھ کا ایک سال میں مہمان بن کر چلے آنا.تو میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اللہ نے ہم پر نظر رحمت فرماتے ہوئے ہم سے تو قعات رکھی ہیں اور جتنے فضل عطا کئے ہیں اتنی ہی ہم سے توقعات بڑھ گئی ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نظر میں ہم اصلاح پذیر ہیں.خدا تعالیٰ کی نظر میں ہماری وسعتیں پھیل رہی ہیں ، ہماری صلاحیتیں بڑھ رہی ہیں اور ان کے مطابق اس کے فضل نازل ہورہے ہیں اور ان کے مطابق ہم سے توقعات اونچی ہورہی ہیں.پس دعا کرتے رہیں اور تھکے بغیر ، پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر مسلسل قدم آگے بڑھاتے رہیں.اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور خدا ہم سب کو جو آج زندہ ہیں اس آنے والی صدی کا امام بنادے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 15 691 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء عالمی جلسوں میں خدا کے فضلوں کے نظارے دیکھتے ہوئے جماعت کو قول سدید اور دعاؤں کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده 6 ستمبر 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب : 72،71) پھر فرمایا: پچھلے دو مہینے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دوا ہم مرکزی جلسوں کی وجہ سے بہت مصروفیت میں گزرے ایک U.K کا جلسہ اور ایک جماعت جرمنی کا جلسہ، دونوں کے اپنے اپنے رنگ اور الگ الگ مزاج ہیں.جہاں تک جماعت U.K کے جلسے کا تعلق ہے یہ فی الحقیقت عالمی نوعیت کا ان معنوں میں ہے کہ تمام دنیا سے، ہر جگہ سے کچھ نہ کچھ لوگ جو تو فیق رکھتے ہیں ضرور اس جلسے پر پہنچ جاتے ہیں اور وہ مرکزی حیثیت جو کبھی ربوہ کے جلسوں کو نصیب تھی اس شان کے ساتھ تو نہیں ،اس کثرت کے ساتھ تو نہیں مگر مزاج کے طور پر ضرور U.K کی جماعت جلسے کو نصیب ہو چکی ہے.جرمنی کا جلسہ اپنی نوعیت کی الگ شان رکھتا ہے اس میں جو آنے والوں کا ہجوم ہے اور شامل ہونے والوں کی کثرت وہ محض کثرت کی بناء پر نہیں بلکہ مختلف قوموں کی نمائندگی کے لحاظ سے جو چند ہیں ایک
خطبات طاہر جلد 15 692 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء غیر معمولی حیثیت اختیار کر چکی ہے.وہ صرف افراد کی کثرت نہیں بلکہ قوموں کی بحیثیت قوموں کی شمولیت کی کثرت بھی ہے.ربوہ کے جلسے میں بھی U.K کے جلسے میں بھی اگر چہ ہر قوم کے لوگ آتے رہے، ہر ملک کے لوگ آتے رہے، آتے ہیں، انشاء اللہ آتے رہیں گے مگر باقاعدہ اس طرح جماعت کے طور پر کثرت سے دوسری قوموں کے لوگوں کا آنا یہ جرمنی کا ہی حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز جرمنی کو بخشا ہے.چنانچہ اس سال جو ہجوم کی کثرت دیکھی تو امیر صاحب نے اس بارے میں مجھ سے ذکر کیا کہ اب اتنے مختلف زبانوں والے بیک وقت سنبھالنے مشکل ہورہے ہیں اور اس کا کیا حل ہوسکتا ہے.اتفاق سے جو حل میرے ذہن میں آیا اسی حل کا وہ بھی سوچ رہے تھے کہ جرمنی کا جلسہ بیک وقت دو تین قوموں کا جلسہ ہورہا ہو اور ایک جلسہ اور ایک پنڈال نہ ہو بلکہ بوسنین مقررین بوسنین زبان میں اپنا جلسہ جاری رکھیں اور البانین مقررین البانین زبان میں اپنا جلسہ جاری رکھیں.ان کے علماء ان سے اسی طرح گفتگو کر رہے ہوں جیسے ہمارے ہاں لجنہ کا جلسہ ،خواتین کا الگ ہو رہا ہوتا ہے اور مردوں کا الگ اور بعض تقریبات اکٹھی ہو جاتی ہیں.تو اب جو قومی پھیلاؤ کے دن آئے ہیں جب فوج در فوج لوگ داخل ہو رہے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ ایک جلسہ اپنے بہت سے پہلو دائروں کی صورت میں رکھتا ہو اور ایک وسیع جلسہ ان سب دائروں پر محیط ہو اور اس میں بعض ایسی مصروفیات ہوں جن میں سب کو اکٹھا شریک ہونے کا موقع ملے.مثلاً جو بھی خلیفہ ا مسیح ہو اس وقت اس کی تقریر اور بعض مرکزی علماء کی تقاریر یا بعض بیرونی وفود کی آمد پر ان کو جو موقع دیا جاتا ہے کچھ بات کرنے کا ایسی تقریبات ہیں جو سب میں مشترک ہو سکتی ہیں تاکہ جلسے کی واحدانیت بھی قائم رہے اور اس کے جو پھیلاؤ کے تقاضے ہیں وہ بھی پورے ہوں.ورنہ مشکل یہ پیش آتی ہے کہ البانین لوگوں کے لئے صرف وہ خطاب ہی رکھا جائے جو میں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مجلس کرتا ہوں تو باقی وقت جلسے میں ان کا دل نہیں لگتا اور اکثر صبح آئے اور پھر رات کو واپس چلے گئے اور اس افراتفری کے عالم میں وہ اپنے آپ کو جلسے کا اس طرح جزو نہیں سمجھ سکتے جیسا ہر شامل ہونے والے کو سمجھنا چاہئے.ایک حل اس کا ہم نے یہ کیا تھا کہ البانین اور بوسنین مہمان جو ہزارہا کی تعداد میں آتے ہیں ان
خطبات طاہر جلد 15 693 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء کے سپر دبعض ذمہ داریاں کر دی تھیں اور جن کے سپر دوہ ذمہ داریاں کی گئیں ان کے اخلاص میں غیر معمولی ترقی ہوئی.انہوں نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی باتوں میں پرانے کارکنوں سے بھی بڑھ کر نمونے دکھائے مگر وہ چند لوگ ہیں جو اس طرح منسلک ہو جاتے ہیں ، اکثریت اجنبی رہتی ہے اور سوائے اس خطاب کے یا ان خطبات کے جوان کو سامنے رکھ کر ان سے کئے جاتے ہیں وہ جلسے کا حصہ نہیں بنتے.تو اس تجویز کو ابھی تک ہم نے آخری صورت تو نہیں دی مگر مجھے لگتا ہے کہ آئندہ زمانوں کے جو نقشے ابھر رہے ہیں ان میں ایک یہ بھی نقشہ ہوگا کہ ایک عظیم عالمی جلسے میں جہاں کئی ملین احمدی شامل ہو رہے ہوں گے وہاں بیک وقت دس پندرہ بڑی بڑی زبانوں میں جلسے ہو رہے ہوں گے.ان کے علماء ان سے خطاب کر رہے ہوں گے اور جہاں مرکزی خطبات آئیں گے وہاں سب اس میں شریک ہو جائیں گے.تو یہ نقشہ جو ابھر رہا ہے اس کا آغاز جرمنی سے ہونے والا ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ امیر صاحب جرمنی اس بات کو یاد رکھتے ہوئے اس کا جو انتظامی ڈھانچہ ہے وہ تیار کریں گے اور آئندہ سال ہم اس پر تجربہ کر کے دیکھیں گے.انشاء اللہ تو یہ مصروفیات جو جلسہ جرمنی کی وجہ سے تھیں وہ بھی بہت گہری اور اپنی تو جہات کے لحاظ سے بہت پھیلی ہوئی تھیں.نہ صرف یہ کہ وہ پروگرام جو آپ نے بھی ٹیلی ویژن پر دیکھے ہیں ان میں حصہ لینے کا موقع ملا بلکہ بہت سے ایسے امور تھے جو ٹیلی ویژن پر دکھانے والے امور نہیں تھے ، آپس کے مشورے تھے ہمنصوبہ بندیاں تھیں اور ان پر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ٹھوس کام کرنے کی توفیق بھی ملی اور بہت سی نی نی را ہیں احمدیت کی ترقیات کی خدا تعالیٰ کے فضل سے روشن ہوئی ہیں اور جرمنی کے جلسے میں ضمنی جلسے جو آ جاتے ہیں ایک اس میں سے ہالینڈ ہے، ایک تحکیم ہے اور آتے جاتے ان دونوں جماعتوں کو بھی اللہ کے فضل سے فائدہ پہنچ جاتا ہے.پس یہ جو غیر معمولی جلسوں کی مصروفیت کا کام تھا جس میں زیادہ تر بیرونی مہمانوں کے آنے کے تقاضے جو ہیں اور آئندہ جلسے کے پروگرام بنانے اور نئی راہیں جو کھلتی ہیں ان پر زیادہ ہمت اور خلوص کے ساتھ قدم آگے بڑھانے کے منصوبے طے کرنے ہیں یہ ایک حصہ تو پورا ہوا لیکن کچھ حصہ ایسا ہے جو ابھی پھیلا پڑا ہے آئندہ سال پر اور وہ انشاء اللہ جاری رہے گا.اس کی سوچ بچار، فکر کرنا ، منصوبے بنانا لیکن وہ جو مرکزی کام مستقل نوعیت کے ہیں اب میں ان کی طرف لوٹا ہوں تو بہت بڑا انبار لگا ہوا ہے کاموں کا اور حیرت ہوتی ہے
خطبات طاہر جلد 15 694 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء کہ اتنی دیرا لگ رہ کر یہ ضروری کام کیسے پیچھے رہ گئے.تو اب انشاء اللہ تعالی زیادہ تر توجہ انہی امور کی طرف دی جائے گی جو مستقل ہیں اور اس کی Volume یعنی اس کی مقدار اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایک دن بھی اگر باہر رہ جائے یہاں سے تو پیچھے جو کام ہیں وہ ڈھیریوں میں اونچے ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ڈھیر لگ جاتے ہیں ان کے.مگر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے.یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے جسے آپ کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ جو کام ڈالتا ہے وہ توفیق بھی دیتا ہے اس لئے اس بارے میں آپ کو قطعاً فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے.کام بڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وقت میں برکت بھی بڑھا دیتا ہے.کام کرنے والے ، خدمت کرنے والے از خود دلوں میں جوش لے کر آگے آتے ہیں اور کبھی بھی اس پہلو سے کمی محسوس نہیں ہوئی اور جو کام مجھے کرنے ہیں وہ مجھے ہی کرنے ہوتے ہیں ، وہ بانٹے نہیں جاسکتے اور ان کاموں کے بڑھنے کے باوجود خدا تعالیٰ نے یہ مددکا سلسلہ ایسا جاری رکھا ہے کہ کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کام حد استطاعت سے آگے نکل گئے ہیں.تو بعض لوگ گھبراتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں کہ آپ پر اتنے بوجھ پڑ گئے ہیں.اب آپ ان کو بانٹنا شروع کریں.جو فیصلے والی باتیں ہیں آخری وہ اس لئے ہمیشہ خلافت کے ساتھ منسلک رہیں گی کہ فیصلوں کے ساتھ بہت سے غور ہیں، بہت سی باتیں ہیں جو عمومی نظر رکھنے کے بغیر فیصلے ہو ہی نہیں سکتے اور جہاں بھی وہاں کمی آئی ہے وہاں فیصلے غلط ہو گئے ہیں.اس لئے جو کام سارے عالم کے ایک مرکزی نمائندے کو کرنے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے کہ مرکزی دماغ کا کام کرے وہ کام بانٹے نہیں جاسکتے سوائے اس کے کہ کوئی آفت آ جائے تو بعض دفعہ دل میں بھی ایک مرکز بن جاتا ہے لیکن اصل مرکز جو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے وہ ایک مرکز ہے سوچ کا اور بدن کے کام بھی تو دیکھیں کتنے پھیل چکے ہیں.اگر آپ کو پتا لگے کہ کتنے کام ہیں جو انسان کا وجود کرتا ہے تو اس کے تصور سے ہی دماغ مختل ہو جائیں.ان کی تفاصیل لکھنے بیٹھیں تو عمریں گزر جائیں تو تفاصیل لکھ نہیں سکتے.اس میں راز یہ ہے کہ تدریج اور ترقی کی جو Evolution کا رنگ رکھتی ہو اس کی برکتوں سے بعض کام اپنی ذات میں مکمل ہوتے چلے جاتے ہیں اور سوچنے والا دماغ ان سے بالا ہو کر ان پر نظر تو رکھتا ہے مگر وہ کام پھر اتنی توجہ نہیں چاہتے یہاں تک کہ ہر سال ایک منزل اونچی ہو جاتی ہے اور ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (يونس: 4) کا مضمون انسان پر روشن ہو جاتا ہے کہ کتنا عظیم کائنات
خطبات طاہر جلد 15 695 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء کا کام ہے جس کا وہم و گمان بھی اگر انسان کروڑ ہا کروڑ سال تک زندہ رہے تو نہیں کرسکتا.ناممکن ہے اس کی اتھاہ کو پہنچ سکے لیکن اس کے باوجود خدا نے وہ کام کئے اور کروائے اور اس کی تربیت دی اور نظام از خود جاری ہو گیا گویا کہ از خود جاری ہو گیا حالانکہ از خود جاری نہیں ہے.اس پر فرشتے مقرر فرمائے ، ہر ایک کا ایک نگران مقرر کیا، ان نگرانوں کے اور نگران بنائے یہاں تک کہ سارے کام اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یوں چل پڑے جیسے کوئی نگران ہی نہیں ہے، از خود ہی جاری ہو گئے ہیں.یہ جو نظام کا ئنات ہے خدا تعالیٰ نے مذہب میں بھی یہی نظام جاری فرمایا ہے اور ذمہ داریوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی حکمت اور اللہ تعالیٰ کی دکھائی ہوئی راہوں پر چلتے ہوئے انسان کام کرے تو اس فکر کی ضرورت نہیں رہتی کہ کام بہت بڑھ گیا ہے.دماغ سے زیادہ اپنے وجود کو سنبھالنے کا جو کام ہے وہ ہو ہی نہیں سکتا.ہر شخص کا دماغ اپنی ذات کے محدود دائرے میں ہی اتنے کام کرتا ہے کہ میں نے جیسے کہ بیان کیا ہے اگر آپ اس کا تصور باندھنے کی کوشش کریں تو آپ کی طاقت ہی نہیں ہے.ہر حکم جو دماغ دیتا ہے ہر حرکت کے لئے اس کے ساتھ جو بجلی کی لہریں دماغ کے چھوٹے سے محدود دائرے میں آگے پیچھے حرکت کرتی ہیں اور تمام نظام کو منسلک کرتی ہیں اس ایک حکم کے ساتھ اور اس کے نتائج کے ساتھ اس کے متعلق سائنس دان کہتے ہیں کہ لاکھوں میل کا سفر بجلی کے کوندوں کا ہر حکم کے ساتھ ہو جاتا ہے.اس نے یادداشت کے مرکز تک بھی پہنچنا ہے اور اس نے جسم کے ہر خلیے کو اس کی تعلیم دینی ہے کہ اس کا نتیجہ تم پر کیا ہوگا کیا اثر اس پر پڑے گا.یہ بہت ہی تفصیلی اور گہرا مضمون ہے لیکن ہر حکم کے وقت دماغ کے اندر جورابطے ہیں وہ بجلی کے رابطے وہ لاکھوں میل سفر کر جاتے ہیں اور یہ نظام آنا فانا تو نہیں پیدا ہوا.اس کے لئے ایک ارب سال لگے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہ آگے بڑھا ہے لیکن جب بڑھ گیا تو ایسا آسان ہو گیا یوں لگا جیسے کام ہو ہی نہیں رہا.ہر آدمی اپنی ذات سے غافل سویا رہتا ہے ، اس کا نظام خود بخود حرکت میں رہتا ہے لیکن سوتے ہوئے بھی دماغ کوئی کام ضرور کر رہا ہوتا ہے.یہ جو پہلو ہے یہ روحانی دنیا میں بھی اسی طرح جاری ہوتا ہے اور آگے بڑھتا ہے اور کام اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ منظم ہوتے چلے جاتے ہیں اور استَوٰی عَلَی الْعَرْشِ والا مضمون روشن ہوتا جاتا ہے اور انسان ایک عرش سے دوسرے عرش ، دوسرے عرش سے تیسرے عرش پر ترقی کرتا ہے.یہ وہ دور ہے جس میں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیابی
خطبات طاہر جلد 15 696 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء سے داخل ہو کر اب آگے بڑھ رہی ہے.اس لئے جتنے بھی کام بڑھیں گے ایک ذرے کا بھی وہم نہ کریں کہ خلیفہ کی طاقت سے بڑھ جائیں گے.جو مرکزی نظام خدا نے قائم کیا ہے وہی جاری رہے گا اور وہی سارے کام سنبھالے گا اور ساری ذمہ داریاں ادا کرے گا اور ساتھ ساتھ جو تائیدی نظام ہے سلطان نصیر بنتے چلے جاتے ہیں وہ اپنا اپنا کام کرتے چلے جائیں گے لیکن ہر دفعہ ریفرنس دماغ کو جاتا ہے اور یہ جور یفرنس جانے والی بات ہے یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے.سوتے ہوئے میں بھی جسم کے اعضاء میں جگہ جگہ جو تبدیلی واقع ہورہی ہے ان کا ریفرنس ایک دماغ کو ضرور جاتا ہے یعنی ایک حوالہ جاتا ہے کہ یہ یوں ہو رہا ہے اس کو ریکارڈ کر لو اور یہ یوں ہونا چاہئے کہ نہیں ہونا چاہئے تو اس لئے ریفرنسز جتنے بھی ہوں گے اگر نظام مرتب ہو تو اس کے نتیجے میں طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں پڑتا.مگر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس رفتار سے جماعت ترقی کر رہی ہے اس میں مزید دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ مضمون میں نے اس لئے کھول کر بیان کیا ہے باوجود اس کامل یقین کے که خدا تعالی خود توفیق دے گا اور بڑھائے گا دعا کا خانہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے اور اس سے فرق پڑتا ہے.جتنی زیادہ دعائیں مددگار ہوں اتنا ہی انسان اللہ تعالیٰ کی تائید کو آسمان سے اتر تا دیکھتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ دعائیں ہیں جو پھل لا رہی ہیں.اس لئے جماعت دعاؤں سے غافل نہ ہو اور دعاؤں والا جو مضمون ہے اس میں فتنوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے.ایک انسان اگر لاعلمی میں کوئی فیصلے کرتا ہے تو ان فیصلوں میں اسی حد تک خامی پیدا ہوسکتی ہے اور دشمن ہمیشہ چھپ کر وار کرتا ہے اور جب تک اس کے وار کا طریقہ معلوم نہ ہو اس کی واردات کا اندازہ ،طریق معلوم نہ ہواس وقت تک انسان صحیح طرح اس کے خلاف اگر طاقت رکھتا بھی ہو تو دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا.اچانک حملے کا جو فلسفہ ہے جنگوں میں استعمال ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک چھوٹا دشمن بھی بڑے دشمن پر غالب آجاتا ہے اگر سر پرائز Surprise کا ایلیمنٹ (Element) آجائے ،اچانک پین اس میں آجائے.تو دشمن چونکہ ہمیشہ سازش مخفی کرتا ہے اور قرآن کریم نے شیطان کے حوالے سے یہ بات ہم پر خوب کھول دی ہے کہ شیطان تمہیں وہاں سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اسے دیکھ نہیں رہے وہاں سے وار کرتا ہے جہاں تمہیں پتا نہیں.اس لئے خدا کی پناہ میں آنے کا مضمون ہمیشہ یاد رکھنا
خطبات طاہر جلد 15 697 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء چاہئے.انسان اپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود ان دیکھے حملے کے خلاف مؤثر دفاع نہیں کرسکتا لیکن وہ حملے جو دکھائی دیں اس میں بھی بسا اوقات مزید مدد کی ضرورت پڑتی ہے.مگر ان دیکھے حملے تو بہت ہی شدید اور مہلک ہو جاتے ہیں.پس اس پہلو سے دعا جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان دیکھی چیزوں کو ہمیں دکھا دے اور وقت پر دکھا دے اور پھر ان کی جوابی کاروائی کی تو فیق عطا فرمائے ، حکمت بخشے اور اس حکمت کے منصوبے کو جو انسان بناتا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین تو دعاؤں کا خانہ تو اپنی جگہ ہمیشہ رہے گا اسے نظر انداز کرنا بے وقوفی اور خود کشی ہے.پس جہاں خدا ما لک اور انسان متوکل ہے اور خدا اس کا وکیل ہے یعنی تو کل کرنے والا انسان ہے اللہ تعالیٰ اس کا وکیل بن جاتا ہے ایسی صورت میں بھی قرآن کریم بار بار دعاؤں کی طرف متوجہ فرماتا ہے.جو زیادہ دعائیں کرے گا اس کا زیادہ وکیل اللہ ہو جائے گا اور جو جتنا تو کل کرے گا اتنا ہی ساتھ دعائیں بھی بڑھائے گا کیونکہ تو کل کا مضمون دعا چاہتا ہے.تو کل کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو کرنا تھا کر لیا مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں، نااہل ہیں، ہر چیز پہ ہماری نظر نہیں، عالم الغیب تو درکنار، عالم الشهادہ بھی پورے نہیں ہیں ،اس لئے ہمارے منصوبوں میں ضرور خامیاں رہ گئی ہیں لیکن جو پوری کوشش کے باوجود خامیاں رہ جائیں ان میں انسان کہتا ہے کہ اے اللہ میں تجھ پر توکل کرتا ہوں اور تو اب ان کمزوریوں کو سنبھال لے اور ان کے بداثرات سے ہمیں بچالے.یہ تو کل سب سے زیادہ آنحضرت میے میں تھا اور اس تو کل کے مضمون کو سمجھنے کی وجہ سے آپ کی دعائیں بے انتہا ہو گئیں یعنی اتنی دعا ئیں تھیں کہ ہم عام زندگی میں اس کا تصور نہیں کر سکتے.سوتے بھی دعا ئیں جاری ہوتی رہتی تھیں.بدن سو بھی جائے تو دماغ جاگتا رہتا تھا اور ہر لحظہ، ہر ہر لمحہ خدا کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھا رہتا تھا.پس تو کل کے مضمون کو اگر آپ سمجھ جائیں تو دعا کا مضمون از خود زیادہ واضح اور روشن ہوتا چلا جائے گا.پس یہ جو سارے کام میں نے بتائے ہیں بڑے عمدہ چل رہے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خامیوں کے احتمالات نہیں.خامیوں کے بہت سے احتمالات ہیں اور علم کی کمی منصوبے کی خامیوں کی ذمہ دار بنتی ہے اور انسان عالم الغیب ہے ہی نہیں میں نے جیسا کہ عرض کیا عالم الشهاده بھی نہیں.کئی لوگ آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جی ہم نے خواب میں دیکھا اور بڑا اخلاص کا اظہار کرتے ہیں ہم احمدی ہو گئے اور سادہ لوح انسان جو اللہ کے نور سے نہیں دیکھتے وہ دھوکے میں آجاتے ہیں حالانکہ
خطبات طاہر جلد 15 698 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء مومن ہوتے ہیں اور بعد میں وہ پھر چقمہ دے کر ان کی رقمیں لے کر بھاگ جاتے ہیں، ان کی جائیدادوں کو نقصان پہنچا جاتے ، ان کو فتنوں میں ملوث کرتے، پولیس میں جا کے رپورٹیں کرتے.یہ آج کل تو آئے دن ایسی خبریں آتی ہیں اور اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے مگر وجہ وہی ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا که آدمی عالم الغیب نہیں ہے اور ہر شخص کا عالم الغیب نہ ہونا الگ الگ معنے رکھتا ہے.مومن جو گہری فراست رکھتا ہے وہ بھی عالم الغیب نہیں مگر عام انسانوں کے مقابل پر گویا عالم الغیب ہے.اس کو اتنا زیادہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ عام آدمی کو اس کا عشر عشیر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا لیکن مومن ہوتے ہوئے یعنی عام باتوں میں ہوتے ہوئے جب تقوئی زیادہ گہرا نہ ہو تو پھر فراست پر اثر پڑتا ہے.بعض لوگوں کو جو تبلیغ کا جوش ہے، اب وہ تقوی کی باریکی کا حال میں آپ کو بتاؤں ، کہاں اس کی بار یکی فائدہ بھی دے سکتی ہے نقصان بھی دے سکتی ہے.اگر جوش یہ ہے کہ میں نے نمبر بڑھانا ہے ضرور، اگر جوش یہ ہے کہ مجھے سو کا ٹارگٹ ہے میں نے پورا کرنا ہی کرنا ہے،اگر جوش اس بات کا ہو کہ ایک آدمی چونکہ اچھی باتیں بتا رہا ہے اس لئے اگر میں مان کر اس کو پیش کروں گا تو اور بھی زیادہ اثر پڑے گا کہ میں نے ایک بڑا حقیقی بزرگ دعا گوانسان جماعت کو تحفہ دے دیا.یہ فراست کی بات نہیں تقویٰ کی کمی کی بات ہے.مومن کی نظر اس لئے محتاط ہوتی ہے کہ اس کی ذات ملوث نہیں ہوتی.جہاں اپنے نفس کی کمائی کا اظہار کرنا پیش نظر ہو کہ میرے نفس نے محنت سے یہ بات کمائی ہے اور اس کا مجھے کریڈٹ ملنا چاہیئے وہاں ضرور تقوی میں کمی آنے کی وجہ سے دھو کہ ہوگا اور بعض چیزیں نظر دیکھ نہیں سکتی اور دیکھنے میں وہ لوگ متقی ہیں نمازیں ہیں، وقت دیتے ہیں، دین کی خدمت میں وقت دیتے ہیں تبلیغ پر وقت خرچ کرتے ہیں، اموال کی قربانی کرتے ہیں لیکن تقویٰ بہت ہی بار یک مضمون ہے.جہاں نیکی دکھانے کی بھی خواہش پیدا ہو جائے وہاں بھی یہ شیطان وہاں سے حملہ کرتا ہے جہاں دکھائی نہیں دیتا.یہ جو مضمون میں نے بیان کیا کہ دکھائی نہیں دیتا یہ مضمون ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ موٹی موٹی باتوں میں دکھائی نہیں دیتا.موٹی باتوں میں تو شیطان دکھائی دے دیتا ہے پھر بھی انسان ٹھوکر کھاتا ہے، جانتے بوجھتے بھی کھاتا ہے لیکن جہاں دکھائی نہیں دیتا وہ یہ لطیف باتیں ہیں.اگر آپ خالصہ اللہ ہو کر اپنی نگرانی کریں تو آپ کی نظر بڑھ جائے گی ، زیادہ لطیف ہو جائے گی ، گہرائیوں میں اترنے کی
خطبات طاہر جلد 15 699 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء صلاحیت پا جائے گی پھر بھی سب کچھ نہیں دیکھ سکے گی.یہ فرق ہے عالم الغیب میں اور اس مومن میں جو اللہ کی نظر سے دیکھتا ہے.جب سب کچھ ہو جائے اور انسان اپنی خدا داد صلاحیتوں کو حد کمال تک پہنچا دے پھر جو باقی حصہ ہے وہ بھی بے انتہا ہے اور وہاں تو کل شروع ہوتا ہے.وہاں سے وہ مضمون شروع ہوتا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم سور ہے ہوتے ہو خدا تمہارے لئے جاگ رہا ہوتا ہے.تم دشمن سے غافل ہوتے ہو خدا اس پر نظر رکھتا ہے.تمہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس چیز کی مجھے ضرورت ہے اللہ کو معلوم ہوتا ہے اور وہ ضرورتیں پوری کر رہا ہوتا ہے.یہ جو تو کل والا مضمون ہے اس میں دعاؤں کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں مانگنے والے کو دیا جاتا ہے اور دعاؤں کی اس لئے ضرورت ہے کہ اگر وہ نہیں مانگے گا تو اپنی ذات پر تو کل ہے اس لئے اس کے بغیر چارہ نہیں ہے.بعض لوگ کم نہی میں یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کو کیا منگوانے کا شوق ہے.ہم نے تو کل کر دیا خدا اب سنبھال لے حالانکہ جو وہ تو کل ہے وہ نفس کا دھوکہ ہے.اس تو کل کا مطلب ہے کہ ہم نے جو چیزیں پوری کر دیں اب لازماً سب کام ٹھیک ہونے چاہئیں اور بالآخر وہ اپنی ذات پر تو کل ہی بن جاتا ہے لیکن جہاں خطرات کا احساس ہو اور پتا ہو کہ سب چیزیں کافی نہیں ہیں وہاں کسی مددگار کی ضرورت پیش آتی ہے اور لازما دل سے دعائیں اٹھتی ہیں کہ اے ہمارے مددگار ، اے خدا ان ضرورتوں کو پورا کر دے جن پر ہماری نگاہ ہی نہیں ہے.ان خامیوں کو دور کر دے جن پر ہماری نظر نہیں ہے اور پھر ہمارے ان کا موں کو سنبھال لے جو ہمارے بس میں نہیں ہیں.تو یہ وہ مضمون ہے جس کی اس وقت جماعت کو سمجھنے کی بڑی گہری ضرورت ہے.ہمارے کام پھیل رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اتنے پھیل رہے ہیں کہ اگر اپنی طاقت کو دیکھیں تو ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ ہم انہیں سنبھال لیں.وہ ارتقائی دماغ جس کی میں بات کر رہا ہوں اس کو بھی تو وقت چاہئے اور جب ترقیات تیزی سے آگے بڑھ جائیں تو اس ارتقائی اجتماعی دماغ کے لئے جتنا وقت درکار ہے وہ ہی نہیں ملتا اور وہاں لازماً اللہ تعالیٰ کے براہ راست دخل کی ضرورت پیش آتی ہے.یہ جو مضمون ہے اس پر غور کر کے جو جدید سائنس دان ہیں انہوں نے یہ راز معلوم کر لیا کہ جو Evolution کا وقت ہم نے دیکھا ہے وہ Evolution کے لئے کافی نہیں ہے یعنی حیرت انگیز دریافت انہوں نے کی ہے اور اب اس میں ہی وہ غرق ہوئے بیٹھے ہیں.کہتے ہیں ہم نے جو حساب
خطبات طاہر جلد 15 700 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء لگایا انسانی زندگی تک پہنچنے کے لئے زندگی نے جتنے مراحل کا سفر کیا ہے ایک بلین سال اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، بالکل معمولی حیثیت ہے اور یہ سوچ آگے بڑھی تو اب یہ اس منزل میں داخل ہوگئی ہے کہ ہم جو کہتے تھے Big Bang سے بیس ملین سال کے اندر یہ سارا نظام وجود میں آ گیا اب جونئی دریافتیں ہو رہی ہیں وہ دیکھنے کے بعد اور جو کائنات کے انتظام کے پیچ وخم دکھائی دے رہے ہیں اب یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں ملین سال میں تو یہ ممکن ہی نہیں.وہاں ان کو تو کل کا پتا نہیں.تو کل بتاتا ہے کہ خدا ہے جو اس جاری کارخانے کے علاوہ اپنے عرش سے ان باتوں پر نظر رکھتا ہے اور اگر ایک بیرونی دماغ فیصلے کرنے والا ان کے کمپیوٹر میں داخل کر دیا جائے تو ایک بلین سال میں آسانی سے وہ سارے مراحل طے ہو سکتے ہیں لیکن فیصلے باہر کرنے پڑیں گے.اتفاقات سے مضمون آگے نہیں بڑھتا بلکہ اتفاقات جو دکھائی دیتے ہیں ان کو اگر کوئی جوڑنے والا ہو اور اس کا ہاتھ دکھائی نہ دے رہا ہو تو وہ سفر جو اتفاقات کے لئے لاکھوں سال کا سفر ہوگا وہ ایک جوڑنے والا ہاتھ چند سالوں میں طے کر سکتا ہے.پس خدا کی ہستی کی طرف یہ ہنگائے لئے جارہے ہیں اور ابھی تک ان کو ہوش نہیں آتی پوری طرح.بعض کو آگئی ہے ، بعضوں نے کھلم کھلا کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ حقائق ہیں ، ہم ان سے کب تک آنکھیں بند کریں گے.جو حقائق اب تک معلوم ہوئے ہیں وہ اس بات کو ناممکن دکھا رہے ہیں کہ کسی بیرونی باشعور اور عالم ہستی کے بغیر یہ کارخانہ اس رفتار کے ساتھ آگے بڑھ ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے.تو اس لئے تو کل کا مضمون کا ئنات میں بھی ایک ہے جسے اب آہستہ آہستہ سائنس دانوں نے دیکھنا شروع کیا ہے لیکن ہمیں تو خدا تعالیٰ نے پکی پکائی دی ہے.قرآن کریم نے یہ ساری باتیں کھولیں اور آنحضرت ﷺ نے ان کے باریک رازوں سے پردے اٹھا دئے.پس اس پہلو سے جماعت کو جب سب کچھ خدا تعالیٰ نے شعور بخش دیا تو اس آخری مقام سے غافل ہو جانا ان کی ساری محنت کو ضائع کر سکتا ہے اور توکل کے لئے جو اس مضمون کا تو کل ہے کہ لوگ کثرت سے آئیں گے تو کیا کرنا ہے قرآن کریم نے ہمیں صاف نصیحت فرمائی ہے: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر : 42)
خطبات طاہر جلد 15 701 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء اس وقت خدا کی تسبیح کرو.اپنے آپ کو خالی کر لو ہر تسبیح سے یعنی یہ یقین کر لو کہ تم غلطیوں سے پاک نہیں ہو.اللہ ہی ہے جو غلطیوں سے پاک ہے اور یہ اقرار ہے اپنی کم مائیگی کا جو پھر حمد کے مضمون میں داخل کرتا ہے.غلطیوں سے پاک ہی نہیں، ہر حمد کا حامل وہی ہے مالک وہی ہے وَاسْتَغْفِرُہ اس سے پھر بخشش طلب کرو.اِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا پھر وہ تمہاری ہر غلطی کو معاف کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور ہر غلطی کو معاف کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے خمیازے سے تمہیں بچائے گا.یہ مضمون ذہن نشین رکھیں تو اب میں آپ کو بتا تا ہوں کہ اس آیت کا انتخاب میں نے کیوں کیا جس کی میں نے ابتداء میں تلاوت کی تھی.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ فَوْزًا عَظِيمًا حاصل کرلے گا.پس ہمارا سر فَوْزًا عَظِيمًا کا سفر ہے اور اس میں تو کل کے مضمون اور اپنی خامیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ لازم ہے کہ ہم اپنی اصلاح بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں اور بغیر اصلاح کے کوئی ارتقاء ممکن نہیں ہے اور جھوٹ کے متعلق جو میں نے جہاد کا اعلان کیا اس اعلان سے جو بھی جرمنی میں میں نے تازہ کیا ہے اس مضمون کا بڑا گہرا تعلق ہے.جھوٹ نہ بولنا ایک بات ہے اور قَوْلًا سَدِيدًا ایک اور بات ہے.محض جھوٹ نہ بولنے کے باوجود انسان کی خامیاں اس کی نظر سے غافل رہ سکتی ہیں اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ انسان ایسا ہوشیار جانور ہے کہ بغیر جھوٹ بولے بھی اگلے کو دھوکہ دے دیتا ہے اور بغیر جھوٹ بولے بھی اپنی کمزوریوں پر پردے ڈال لیتا ہے اور جو شخص سچا ہومگر انسانی فطرت کی مجبوری کے تحت وہ سچ کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی اپنی خامیوں کو اپنی نظر سے تو نہ چھپائے.اگر اس کو حیا مانع ہے، شرم مانع ہے تو اول حکم یہ ہے کہ وہ خود اپنی خامیوں کا نگران رہے.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ جب وہ کہتا ہے تو یہ چیز اس کا لازمی حصہ بن جاتی ہے کہ اگر اللہ
خطبات طاہر جلد 15 702 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء خامی سے پاک ہے تو میرے اندر خامیاں ہوں گی.ہوں گی پر بات نہ رہنے دے، تلاش کرے کہ وہ کیا ہے اور جب خامیوں کی نشاندہی کرے گا معلوم کر لے گا کہ یہ یہ خامیاں ہیں تب حمد کا سفر شروع ہوسکتا ہے اس کے بغیر ممکن نہیں ہے پس یہ ان آیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو مزید واضح اور آسان کر دیا یہ کہہ کر ، یہ نہیں فرمایا کہ سچ بولو فرمایا قول سدید کہو.اگر تم سچ کے دائرے میں قول سدید کی جو بار یک سڑک ہے اس پر چلتے رہو تو پھر خدا کا وعدہ ہے کہ وہ تمہاری ضرور اصلاح کرے گا اور یہ بہت عظیم وعدہ ہے.قَوْلًا سَدِيدًا کے متعلق میں پہلے بھی ایک دفعہ خطبے میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں اب جو ہمارے مختلف کام سر پر آپڑے ہیں جو منتظمین ہیں ان کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ قَوْلًا سَدِيدًا سے کام لینا چاہئے اور ایک دوسرے کے دائرے میں دخل دینے سے باز رہنا چاہئے اور اگر دے دیں تو پھر مان لیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے.بہت سے انتظامی جھگڑے جو انتظامات کے پھیلنے کی وجہ سے میرے سامنے آرہے ہیں ان میں یہ پتا چل رہا ہے کہ قَوْلًا سَدِيدًا کی کمی ہے ابھی.سچ بولتے بھی ہیں تو قَوْلًا سَدِيدًا کے کام نہیں لیتے.اگر پکڑے جاتے ہیں تو ضرور بہانے بناتے ہیں کہ نہیں نہیں ہم تو اس وجہ سے اس جگہ دخل دے رہے تھے، یہ ہمارا دائرہ اختیار ہے اس کا نہیں ہے.تو قَوْلًا سَدِيدًا میں دو باتیں ہیں سیدھی بات کہنا اور سیدھی راہ پر چلنا.اگر انسان بات سیدھی کہے اور بل اور فریب اس میں نہ دے تو ایسا آدمی جھوٹا ہو ہی نہیں سکتا.ایسے آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں.بعض حد سے زیادہ بے وقوف اور وہ ہر جگہ اٹھ کے بات کر دیتے ہیں کہ جی ہم تو سچی بات کریں گے اور یہ جو ہے یہ قَوْلًا سَدِيدًا نہیں ہے کیونکہ قَوْلًا سَدِيدًا میں بھی کچھ حکمت کے تقاضے ہوا کرتے ہیں.یہ مضمون بہت گہرا اور باریک ہے اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ، میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی پہچان متقیوں سے کیا ہے.ایک ہے وہ بڑی واضح ہے.وہ لوگ جو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے سیدھی بات کرتے ہیں اور اپنے رشتے داروں عزیزوں کے لئے ہر جگہ ایک مصیبت بن جاتے ہیں شرمندگی کا موجب بنتے رہتے ہیں وہ اور قسم کے لوگ ہیں اور مومن جو اللہ کی آنکھ سے دیکھنے والا وہ جو قَوْلًا سَدِيدًا اختیار کرتا ہے وہ اور طرح کا انسان ہے کیونکہ تقویٰ کے ساتھ فراست کا تعلق ہے اور یہ جو سادہ بات سیدھی ہے اس کا بے وقوفی سے تعلق ہے اور یہ دو باتیں الگ الگ ہیں ، پہچانی
خطبات طاہر جلد 15 703 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء جاتی ہیں.ایک صاحب فراست انسان جانتا ہے کہ اگر میں بل دینا چاہوں تو بل دے سکتا ہوں وہ جانتا ہے کہ اگر میں بات کو چھپانا چاہوں تو چھپا سکتا ہوں، بے اختیار نہیں ہوتا وہ اور اس کے باوجود وہ وہ راہ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی خاطر جو اس کے لئے کچھ مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہیں، کچھ شرمندگی کا موجب بھی بن سکتی ہیں لیکن ایک بے وقوف تو اس طرح نہیں کرتا.اس کو تو پتا ہی نہیں کہ کوئی اور راہ ہے بھی کہ نہیں وہ تو بات بنائے بھی تو نہیں بنتی ، بنا سکتا ہی نہیں ہے.تو میں بے وقوفیوں والے قَوْلًا سَدِيدًا کی طرف آپ کو نہیں بلا رہا بلکہ مؤمنانہ قَوْلًا سَدِيدًا کی طرف آپ کو بلا رہا ہوں.جہاں آپ کے اندر صلاحیتیں موجود ہیں کہ ہر بات کو سجا کر سلیقے سے پیش کر سکیں مگر جہاں یہ دیکھیں کہ اس میں تقویٰ کا نقصان ہے وہاں بات کو اتنا کہیں جتنا اللہ کے تقویٰ کا تقاضا ہے.اب یہ فیصلہ کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے معیار کے مطابق تقوی کو پورا سمجھتا ہی نہیں ہے.اس لئے جس راستے سے بھی آپ اصلاح کا رستہ اختیار کریں، جس طریق سے بھی اختیار کریں آخرتان دعا پر ٹوٹے گی.لیکن قَوْلًا سَدِيدًا میں اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے جو باقی باتوں میں نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اگر تم سچائی کے دائرے کے اندر یہ باریک راہ اختیار کرو گے جو قَوْلًا سَدِيدًا کی ہے تو میرا وعدہ ہے کہ تمہاری اصلاح کروں گا اور یہ انسانی فطرت کی بات ہے ایک شخص اگر کسی خاص نقص میں مبتلا ہے کسی بیماری کا شکار ہے اور بے وجہ قولًا سَدِيدًا اس کو ہر دفعہ نگا کرنا پڑتا ہے اپنے آپ کو اور شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور جانتا ہے کہ جب بھی اس محل پر ، اس موقع پر مجھ سے کوئی بات ہوگی مجھے یہی بتانی پڑے گی تو ایسا شخص خود اپنے نفس کی شرمندگی کی وجہ سے مجبور ہے کہ اپنی اصلاح کرے یہاں تک کہ اس شرمندگی کے محل سے نکل جائے.پس يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ میں ایک گہرا انسانی فطرت کا راز ہے جو بیان ہو رہا ہے.جو شخص اپنی خامیوں کو بہادری کے ساتھ ، جرات کے ساتھ اس حد تک قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس حد تک اللہ نے اجازت دی ہے اور یہ اجازت والی شرط بھی ساتھ ہے ورنہ وہ مؤمنانہ فراست نہیں رہے گی بے وقوفی ہو جائے گی.بعض جگہ اللہ تعالیٰ نے اجازت بھی نہیں دی کہ تم اپنے گناہوں کا حال لوگوں کو بیان کرتے پھرو.ایسے شخص کے متعلق رسول اللہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ
خطبات طاہر جلد 15 704 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء خدا کا مغضوب ہو جاتا ہے اللہ اس کو غضب کی نظر سے دیکھتا ہے.بظاہر وہ سچ بول رہا ہے ، بظاہر قَوْلًا سَدِيدًا سے کام لے رہا ہے کہتا ہے جی میں نے یہ بھی گناہ کیا ہے وہ بھی گناہ کیا ہے یہ یہ باتیں میرے اندر پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مجھے شرم سے پسینے آنے لگتے ہیں کہ بظاہر انہوں نے صرف دعا کی درخواست کی ہے مگر یہ بتانے کے شوق میں کہ اتنے اتنے گناہ ہیں وہ حد سے زیادہ تفاصیل بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ گویا بظا ہر سامنے نگے ہو کے کھڑے ہو گئے ہیں اور وہاں غض بصر کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس بات کو دل سے بھلا کر نکال دیا جائے.ان کو میں سمجھا تا بھی ہوں بعض دفعہ کہ تمہیں خدا نے اجازت ہی نہیں دی.اپنی کمزوریوں کو جن پر خدا نے ستاری کا پردہ ڈالا ہے ان کو نکال کر باہر پھینکنا یہ قول سدید کے خلاف ہے.اس لئے قَوْلًا سَدِيدًا اسلامی اصطلاح ہے.قَوْلًا سَدِيدًا میں جو بات آپ بیان کرنے پر مجبور ہیں اور مختار ہیں خدا کی طرف سے وہاں قَوْلًا سَدِيدًا سے کام لیں.جہاں آپ کو اپنی اندرونی کمزوریاں اچھال کر باہر پھینکنے کی اجازت نہیں سوائے خدا کے حضور، وہاں وہ قَوْلًا سَدِيدًا نہیں ہے وہ حد سے زیادہ جہالت ہے اور اس لئے خدا نے اجازت نہیں دی یعنی اور باتوں کے علاوہ کہ اس سے فحشاء پھیلتی ہے.ایک دفعہ اجازت ہو جائے تو ہر انسان اگر اپنا اندرونہ سارا کھول دے تو دنیا اتنی گندی دکھائی دے گی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ دنیا کتنی گندی ہوگئی ہے اور یہ دنیا کا بڑھتا ہوا گند ہر اصلاح کرنے والے کو مایوس کر دے گا، وہ سوچ بھی نہیں سکے گا کہ اس دنیا کی اصلاح ہوسکتی ہے، وہ کہے گا چلو پھر میں بھی ساتھ ہی بہتا ہوں.تو فحشاء کا یہ مضمون ہے جس کی روک تھام کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ خوب صورت ستاری کا پردہ اتارا ہے کہ تم چھپے رہو بے شک جہاں تمہاری ذاتی کمزوریاں ہیں اور دکھانے کی اس لئے بھی ضرورت نہیں کہ تم بے حیا ہوتے چلے جاؤ گے اور اگر ظاہر کرو گے تو اور زیادہ بے حیا ہو کر بے دھڑک ان گناہوں میں آگے بڑھ جاؤ گے اور ساری قوم کو بے شرم کر دو گے اس لئے وہاں خدا تعالیٰ نے حکماً روک دیا ہے اور یہ منافقت نہیں ہے ، اس میں گہرا اصلاح کا راز ہے.پس قَوْلًا سَدِيدًا کا یہ مطلب بھی نہ نکال لیں.قَوْلًا سَدِيدًا کا مطلب یہ ہے کہ جہاں آپ سے کوئی بات پوچھی جاتی ہے یا جہاں آپ نے بیان کرنی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کے دائرے میں ہے وہاں لازماً آپ نے قَوْلًا سَدِيدًا سے کام لینا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 705 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء اب اس کی مثال ابھی حال ہی میں ایک شادی بیاہ کا جھگڑا میرے سامنے آیا.ایک لڑکی جو بیاہی گئی دو دن یعنی دو دن صرف بیاہی گئی ، گھر واپس آگئی.اس نے کہا مجھے یہ اعتراض نہ ہوتا شاید کہ میرے خاوند کی عمر مجھ سے ہیں سال زیادہ ہے مگر اس نے دس سال بتائی ہے اور نکلی ہیں سال ہے اس لئے ایسے جھوٹے شخص کے ساتھ میں نہیں رہ سکتی.وہ اسی طرح واپس آ کے گھر بیٹھ گئی اور ایسے واقعات کثرت سے میرے سامنے آتے ہیں.یہاں چھپانا اس مضمون سے تعلق نہیں رکھتا جو میں نے بیان کیا ہے کہ اپنی کمزوریاں نہیں دکھانی.عمر کا ظاہر کرنا یہ کمزوری نہیں ہے جس پر خدا نے ستاری کے پر دے ڈالے ہوئے ہیں یہ روز مرہ کے حقائق ہیں اور ان سے روگردانی کرنا اور ان کو چھپانا دوطریق سے ممکن ہے.ایک یہ کہ انسان سچ بول رہا ہو اور بات ہی نہ کرے، بات گول کر جائے ،عمر کی بات آئے تو ادھر ادھر مونہ کر جائے.ایسا شخص جو ہے اس کو جھوٹا تو نہیں کہیں گے وہ قَوْلًا سَدِيدًا نہیں ہے اور ایک وہ ہے جو واضح طور پر جھوٹ بول دیتا ہے اس کی ذات کے اندر قول سدید کا تو کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا وہ جھوٹا ہے.پس جہاں آپ جھوٹ سے نجات حاصل کر رہے ہیں وہاں یا درکھیں کہ ایسے بہت سے معاملات ہیں جہاں قول سدید کی ضرورت ہے اور وہاں ان باتوں کو ظاہر کرنا خدا کے منشاء کے خلاف نہیں، خدا کے منشاء کے مطابق ہے وہاں ستاری کا مضمون داخل ہی نہیں ہوتا اگر وہاں آپ قَوْلًا سَدِيدًا سے کام نہیں لیں گے تو آپ دھو کے باز ہوں گے.پس جتنے رشتوں کے معاملات ہیں ان میں اکثر صورتوں میں یہی قول سدید کی کمی ہے جس نے بہتوں کی زندگیاں برباد کر کے رکھ دی ہیں.مجھے ایک لڑکی کا بڑا دردناک خط ملا کہ جو نقشہ کھینچا گیا خاوند کا اتنا اچھا صحت مند ، یہ کرتا ہے ، وہ کرتا ہے اور جب میں گھر آئی ہوں تو شاید مرگی کا مریض ہے جو میرے لئے برداشت کرنا مشکل ہے اور اب میں بے بس ہو چکی ہوں.اب میرے ماں باپ نے باندھ دیا ہے.اب یہی میری زندگی ہے جو رہے گی.کچھ ایسی ہیں جو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ رشتے تو ڑ کر گھر آجاتی ہیں.کچھ ایسی ہیں جو کہتی ہیں بس اب ماں باپ نے جھونک دیا تو اسی میں اب ساری زندگی کٹے گی تو کتنا بڑا گناہ ہے.قَوْلًا سَدِيدًا ان معنوں میں ہے کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سے انہوں نے پوچھا ہی نہیں تھا مگر کوئی یہ تو نہیں پوچھا کرتا ہر ایک سے کہ مرگی کا بیمار ہے کہ نہیں.جب رشتوں کی باتیں ہوں تو یہ ان
خطبات طاہر جلد 15 706 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء برائیوں میں سے نہیں ہے جس کا ظاہر کرنا گناہ ہے.ان بیماریوں کا مضمون ہی بالکل الگ ہے.یہ وہ صلى الله باتیں ہیں جہاں ظاہر کرنا لازم ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ دو آیات نکاح کے موقع پر تلاوت کے لئے خود چنی ہیں یعنی وحی الہی کے تابع.اس لئے ہمیں یہ سمجھایا گیا کہ رشتوں میں لازماً قَوْلًا سَدِيدًا سے کام لینا ورنہ بہت تکلیفیں پہنچیں گی معاشرے کو اور اکثر جو تکلیفیں ہیں وہ اسی طرح پہنچتی ہیں.آئے دن مجھے خط ملتے ہیں کہ جی ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس کی پچاس ہزار روپے ماہانہ آمد ہے اور آکے پتا چلا کہ پانچ سو مشکل سے لیتا ہے اور وہ بھی ماں باپ کے اوپر پل رہا ہے.اب بتائیں یہ تو خیر جھوٹ ہو گیا مگر قَوْلًا سَدِيدًا میں اور باتیں آجاتی ہیں اس طرح کی.مثلاً یہاں انگلستان میں ایک کمانے والا جو ہے وہ اگر پانچ سو پاؤنڈ مہینے کا لیتا ہے تو پچیس ہزار روپیہ ہے وہ.اب قَوْلًا سَدِيدًا کا تقاضا ہے کہ وہ جا کے بتائے کہ کچھ بھی نہیں ہے مجھے جو پانچ سو ملتا ہے اس سے ہمشکل دو وقت کی روٹی کھاتا ہوں.وہاں جا کے نادانوں بے چاروں کو ، نا واقفوں کو کہے مجھے پچھیں ہزار روپے مل رہے ہیں ، بڑی شاندار نوکری ہے تو وہ دھوکے میں آجاتے ہیں اور جب بیٹیاں رخصت کر کے بھیجتے ہیں تو یہاں آکے پتا چلتا ہے کہ کھانے کو کچھ بھی نہیں ان کے پاس.تو قول سدید کا جو تعلق ہے یہ خانگی معاملات میں بھی ہے اور جماعتی معاملات میں بھی بہت ہے اور میں جماعتی معاملات کے پہلو سے اب آپ کو خصوصیت سے متوجہ کر رہا ہوں اگر چہ حوالے بعض خانگی معاملات کے دئے ہیں.ہمارے نظام میں جہاں بھی کہیں رخنے پیدا ہوتے ہے، عام طور پر اللہ کے فضل سے اب جماعت کی اتنی تربیت ہوگئی ہے کہ جھوٹ نہیں بولتی شاذ ہی شاید کبھی کوئی اتفاق سے واقعہ ایسا علم میں آئے کہ کسی نے جھوٹ بولا ہواور اس کی وجہ سے نظام جماعت میں رخنہ پیدا ہو وہ اب قَوْلًا سَدِيدًا کی کمی سے ضرور پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے بہت سے معاملات ہیں جن کے تجربے آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور انگلستان کے جلسے کے تعلق میں بھی امیر صاحب کے سپر د میں نے کام کئے ہیں کہ کمیشن بٹھا ئیں غور کریں یہ واقعہ ہوا کیوں آخر ، ہونا چاہئے نہیں تھا.جب پوچھا جاتا ہے تو جو جواب دیتے ہیں وہ اگر چہ اپنی ذات میں سچا ہو گا مگر پردے ڈالے جاتے ہیں.جب تحقیق کی جائے تو وہاں پر دے اتارنے کا وقت ہے وہ ستاری کے وقت نہیں ہوا کرتے اس لئے آپ لوگ جب تک تقویٰ کی باریک راہوں کے مضامین کو سمجھیں گے نہیں اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کیسے
خطبات طاہر جلد 15 707 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء کریں گے.ایک آدمی جب پوچھتا ہے کہ بتائیں کون ذمہ دار ہے تو اس وقت جن لوگوں سے پوچھا جاتا ہے ان کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے دوست یا تعلق والے پر پردہ ڈالیں.رپورٹ یہ بھیج دیتے ہیں کہ ایک کارکن سے غلطی ہو گئی.وہ ایک کارکن کون ہے.آپ کے علم میں ہے تو میرے علم میں کیوں نہیں آتا ، اس کا نام کیوں نہیں لیتے ، اس کا بتاتے کیوں نہیں کہ اس کا پس منظر کیا ہے اور اندر اندر چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی کرتے چلے جاتے ہیں کہ جب غلطیاں ظاہر ہوتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ چونکہ انہوں نے وہ ریفرنس نہیں کیا تھا اس لئے غلطیاں ہوئی ہیں.جو ذہنی ریفرنس کی میں نے مثال دی تھی یہاں میں مضمون جوڑ کر آپ کو بتا رہا ہوں، بہت سے ایسے امور ہیں جہاں اگر خلیفہ وقت کو آپ ریفر کر دیا کریں وقت کے اوپر تو بہت بڑی بڑی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کچھ بھی حرج نہیں مگر خلیفہ وقت دیکھتا ہے کہ حرج ہے، اس کو بعد میں پتا چلتا ہے اور اس وقت بہت بڑا نقصان ہو چکا ہوتا ہے.تو ریفر کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ جی ہم آپ کا وقت بچاتے ہیں.اچھا وقت بچاتے ہیں کہ جو نقصان پہنچ گیا اس کے بعد جو روحانی عذاب میں مبتلا کر دیا جو جماعت کے نقصان کی تکلیف پہنچادی جو تحقیق کے وقت میرے وقت ضائع کئے وہ وقت ہی نہیں ہے میرا؟ تو اس لئے جب بات پوچھی جائے تو قَوْلًا سَدِيدًا سے کام لیں کہ جی ہاں یہ اختلاف ہوگیا تھا اس نے کہا میرا ڈیپارٹمنٹ ہے، اس نے کہا میرا ڈیپارٹمنٹ ہے ، اختلاف بتاتے نہیں.اگر اختلاف بتا ئیں تو مجھے فورا پتا چل جائے گا کہ کس کی غلطی ہے.تو اس لئے قولًا سَدِيدًا کی طرف میں آپ کو متوجہ کر رہا ہوں کہ انتہائی ضروری ہے کہ بڑھتے ہوئے نظام کے لحاظ سے صاف بات کہیں اور جہاں تک ممکن ہے خلیفہ وقت کو ریفر کریں اور جو اطلاعیں دیں وہ صحیح اور واضح دیں وہاں محض سچ کافی نہیں وہاں قَوْلًا سَدِيدًا لازم ہے کیونکہ انسانی جسم جو اپنے دماغ کو پیغام پہنچاتا ہے وہ خالصہ سچائی ہوتی ہے، بالکل قَوْلًا سَدِيدًا کی بات ہوتی ہے، اس میں کوئی فریب نہیں ہوتا اور وہ جسم جس کے دماغ کو بغیر قریب کے اطلاعیں پہنچ رہی ہیں وہ سب سے زیادہ صحت مند ہوتا ہے.جہاں فریب آجائے وہاں مثلاً فالج ہو گیا ایک انسان کی Nerves کو اعصاب کو، فالج کی وجہ سے یہ طاقت ہی نہیں کہ پوری بات پہنچا سکے وہاں دماغ ہمیشہ غلطی کرتا ہے پوری بات نہیں پہنچتی.تو یہ بھی وہ مضمون ہے جہاں انسان کی مجبوریاں اور کمزوریاں ہیں.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ کا
خطبات طاہر جلد 15 708 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء مضمون اس سے پھر دوبارہ ابھرتا ہے.تو آپ کی جو قولًا سَدِيدًا کی کمزوریاں ہیں وہ خلافت پر اثر انداز ہوں گی یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں سمجھانے کی خاطر اپنے آپ کو بھی اس سے بالا نہیں کیا.حالانکہ جو آنحضرت ﷺ نے امکانی بحث چھیڑی ہے وہ کبھی ایک دفعہ بھی نہیں ہوا کہ ایسا واقعہ ہو گیا ہو اس لئے محض امکانی بحث ہے ہمیں سمجھانے کی خاطر فرماتے ہیں جب میں دو جھگڑنے والے فریقوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں تو صاف اور کھلی بات مجھے بتایا کرو.ہو سکتا ہے کہ کوئی چرب زبان ، یہ چرب زبانی جو ہے یہاں جھوٹ نہیں فرمایا یہ قول سدید سے ہٹی ہوئی بات ہے.فرمایا سچ بولنا ہوگا مگر زبان کی چالاکیوں سے ہلمع کاری کی وجہ سے وہ اس طرح اپنا کیس پیش کر رہا ہے میرے سامنے کہ ہوسکتا ہے اس کی کوئی زمین ، کوئی جائیداد میں اس کو دے دوں جو اس کا حق نہ ہو.اگر رسول کریم ﷺ کے لئے ممکن ہے تو خلیفہ کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اس سے بالا ہو ، ناممکن ہے.پس آپ کا مجموعی تقوی ہے جو خلافت کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے اور وہاں آپ کا سدھرنا اور قَوْلًا سَدِيدًا اختیار کرنا ساری جماعت کی صحت کا ضامن بن جاتا ہے.پس اگر آپ ایسا کریں گے ، غلط فیصلہ ہو تو اس کی ذمہ داری آپ پر بھی ہوگی اور مجھے بھی متوجہ کیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ کہ پھر زیادہ دعائیں کیا کر و جماعت کے لئے بھی ، ان کے تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے بھی اور جماعت بھی تمہارے لئے پہلے سے بڑھ کر دعائیں کرے تا کہ جو بڑھتے ہوئے وقت کے تقاضے ہیں ترقیات کے ہم ان کو احسن رنگ میں پورا کر سکیں.احسن رنگ سے مراد ہے اس حد تک پورا کر سکیں جس حد تک ہماری استطاعت ہے اور ابھی اس وقت جو ترقیات ہیں وہ ہماری استطاعت سے آگے نکل چکی ہیں.میں آپ کو بتارہا ہوں بہت آگے نکل چکی ہیں اور کل آنے والی جو تر قیات ہیں وہ اور بھی زیادہ آگے نکل جائیں گی.پس جب اپنی استطاعت ختم ہو جائے اور اللہ کی استطاعت سے آپ کا پیوند ہو جائے تو پھر ہر چیز ممکن ہو جاتی ہے.اس پیوند کے لئے دعا کی ضرورت ہے.وہ پیوند ہے جو ان خلاؤں میں آپ کے خلاؤں کو آبادیوں سے بھر دے گا یعنی غیر معمولی طور پر ان کے اندر رونق پیدا کر دے گا جو اس وقت ہمارے لئے خلا ہیں، مگر اللہ کرے گا.اگر آپ خدا سے پیوند کر لیں تو آپ کی طاقت میں جب اللہ کی
خطبات طاہر جلد 15 709 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء طاقت شامل ہو جائے تو اس نسبت سے جس حد تک آپ کا خدا سے پیوند ہے آپ کی طاقتیں لا متناہی ہوسکتی ہیں اور ہو جاتی ہیں اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ہو جائیں گی.پس تو کل کرتے ہوئے اگر آپ دعاؤں سے غافل نہ رہیں، اپنے بجز سے غافل نہ ہوں اور کامل طور پر توکل کا مضمون سمجھتے ہوئے اللہ سے التجا کرتے رہیں کہ خدا ہمارے کاموں کو سنوار دے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ وقت کے تقاضے ہم پورے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.تین نماز جنازہ پڑھنے کا میں نے فیصلہ کیا ہے غائبانہ، اگر چہ میں نے جماعت کو یہ نصیحت کی ہے کہ آئندہ سے مجھے درخواست نہ کیا کریں نماز جنازہ غائب کی کیونکہ یہ مضمون جو ہے یہ طاقت سے بڑھ چکا ہے اور ایک بہت بڑا پھر آگے ایک قسم کا اسلام کے اندر گویائی چیزیں داخل ہو جائیں گی مستقل حصہ بن کے.اس لئے ان چیزوں سے گریز کریں ورنہ میرے لئے الجھن ہو جاتی ہے مجھے مشکل پڑ جاتی ہے.کئی لوگ اس طرح جذباتی رنگ میں اپنے ماں باپ کی خدمتوں کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ میرے لئے ان کو رد کرنا ان کی دل شکنی کا موجب بن سکتا ہے ، قبول کرنا اس اپنے فیصلے کی خلاف ورزی ہے کہ میں آئندہ سے ان رجحان کو روکوں.اس لئے میں دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ آپ لوگ درخواستیں نہ دیا کریں.بعض فیصلے میں خود کروں گا.نماز جنازہ پڑھنا غا ئب حرام تو نہیں ہے.جائز ہے ممکن ہے لیکن موقع اور محل کے مطابق تو بعض دفعہ میں اپنے بعض ایسے تعلقات کی بناء پر جن کی وجہ سے میرا حق ہے کہ میں ان کو استعمال کر کے کسی کی نماز جنازہ پڑھوں.بعض دفعہ کسی کی جماعتی خدمات کو جماعتی نقطہ نظر سے ایسا وسیع دیکھوں کہ میں یہ فیصلہ کروں کہ ہاں یہ حق دار ہے، رشتے داروں کی نظر میں نہیں بلکہ میری نظر میں بھی واقعہ یہ حق رکھتا ہو کہ غیر معمولی استثنائی حالات میں اس کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے.تو اب میں یہ تو تفصیل بیان نہیں کروں گا کہ کس نقطہ نگاہ سے مگر زیادہ تر ذاتی تعلقات یا بعض پرانی خدمات میرے پیش نظر ہیں یا بعض فوت شدہ نوجوان کی غیر معمولی صلاحیتیں جنہوں نے دل پر غیر معمولی اثر کیا ہے اس لئے میں آج نماز جمعہ کے بعد تین مرحومین کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.ایک تو مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی کی بیگم صاحبہ ہیں جو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ میاں ابراہیم جمونی صاحب کو بنانے میں اور ان کی اخلاص کے معیار کو بڑھانے میں اور قائم رکھنے میں
خطبات طاہر جلد 15 710 خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1996ء بہت غیر معمولی طور پر حصے دار تھیں اور عشق تھا ان کو نظام جماعت سے اور خلافت سے اور انکسار کا ایک عجیب عالم تھا تو اس لئے ان کے لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.ایک ہمارے سکول کے زمانوں کے پرانے دوست محمد اسحاق صاحب تھے.چوہدری محمد اسحاق صاحب جو چوہدری الیاس کے والد جن کو خدا تعالیٰ نے بہت جماعت کی خدمت کی توفیق بخشی ہے.وہ قادیان میں ہائی سکول میں میرے واقف تھے اور تعلقات تھے اور انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت بہت اچھی کی ہے، غیر معمولی.مگر اس کو آپ میرے ذاتی کھاتے میں ڈال لیں کیونکہ بچپن کے تعلقات کی وجہ سے میرا دل چاہتا ہے میں بھی ان کی نماز جنازہ میں شامل ہوں.اور ایک ان کا الیاس کا بیٹا ، چھوٹا بیٹا جن کا نام دانیال تھا ، غیر معمولی اخلاص رکھنے والا انسان تھا وہ بہت تو کل.کینسر تھا، کینسر کے جتنے علاج تھے سب تکلیف دہ تھے مگر ایک دفعہ بھی شکوہ زبان پر نہیں لا یا پوری طرح کامل راضی برضا، اتنا کہا کرتا تھا کہ میرے لئے حضرت صاحب کو دعا کے لئے لکھ دینا.جب بڑا آپریشن ہوتا تھا تو کہتا تھا فون کر دیں اور میری طرف سے اطلاع ملتی تھی کہ میں دعا کر رہا ہوں تو پوری طرح سکون مل جاتا تھا، کہتا تھا مجھے بڑا ہی سکون ملتا ہے.آخری لمحات خدا نے اس کے آسان فرما دیے.لیکن اس کا جو راضی برضا ر ہنے کا انداز تھا اس نے اتنا میرے دل پر اثر کیا ہے کہ میرے دل سے یہ خواہش اٹھی ہے کہ میں اس مخلص کی بھی نماز جنازہ ادا کروں.تو یہ تین ہوں گی نماز جنازہ غائب اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب کی دعائیں مل کر ان کی روحوں کے ثواب کا موجب بنیں گی.آمین
خطبات طاہر جلد 15 711 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء الله آسمان سے جو پانی محمد رسول اللہ ﷺ پر اتر اوہ آج جماعت احمدیہ کی روحانی زندگی میں اپنی نشو و نما دکھارہا ہے (خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انورن نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَا اَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَدِرُونَ عَلَيْهَا أَتْهَا أَمْرُنَا لَيْلًا اَوْنَهَارًا فَجَعَلْنَهَا حَصِيْدًا كَانْ لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ پھر فرمایا: (یونس: 25) یہ سورۃ یونس کی پچیسویں آیت ہے جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.زندگی کی نا پائیداری سے متعلق قرآن کریم میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن کا انسانی زندگی کی نا پائیداری سے اور پھر اچانک خدا کے حضور جواب دہی کی حالت میں حاضر ہونے سے تعلق ہے.یہ وہ آیت ہے جس کا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق ہے ، زندگی کی ہر قسم سے تعلق ہے اور اس عالم میں جو کچھ بھی ہے اس کی بے ثباتی کا ذکر ہے اور اچانک خدا کی تقدیر جب نازل ہوتی ہے تو پھر وہ لوگ جو صاحب فکر ہیں
خطبات طاہر جلد 15 712 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء وہ جانتے ہیں کہ ان کے لئے پھر کوئی چارہ نہیں رہے گا کچھ بھی ، خدا کی تقدیر کے سامنے اس سے بچنے کی ،اس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ بھی نہ وہ سوچ سکتے ہیں ، نہ ان میں طاقت ہے کہ وہ کچھ کرسکیں اور ساری کائنات یہی منظر پیش کر رہی ہے.چنانچہ فرمایا اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَا أَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ کہ انسانی زندگی کو اس کی نا پائیداری سکھانے کے لئے مادی دنیا میں جو زندگی کا آغاز ہے اس کی طرف متوجہ فرمایا ہے یعنی نباتات کی طرف اور یہ جو آیت ہے یہ فصاحت و بلاغت کا ایک ایسا حسین مرقع ہے کہ جتنا اس پر غور کریں اتناہی طبیعت اس کی شان و شوکت کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی جاتی ہے.دنیا کی زندگی کی مثال اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا اور دنیا میں روحانی زندگی کی بنا بھی پانی ہی پر ہے اور جسمانی زندگی کی بناء بھی پانی ہی پر ہے.اسی لئے جب قرآن فرماتا ہے وَالسَّمَاءَ بِنا کہ ہم نے آسمان کو بنا بنایا تو بعض مفسرین مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ بنا تو نیچے ہوتی ہے.زمین کو بچھونا بنا دیا اور آسمان کو بنیاد بنا دیا.آسمان کیسے بنیاد بن گیا ؟ تو اس کا ترجمہ پھر عمارت کرتے ہیں.کہتے ہیں ایک ایسی عمارت ہے جیسا کہ ستارے ایک خاص قسم کی شکل میں ڈھلے ہوئے ہیں اور بناء سے مراد آسمان پر بھی ایک عمارت کی بناء رکھی ہے.میں نے جو تر جمہ کیا اس میں بناء کو بناء ہی رکھا مگر بریکٹ میں زندگی کی بناء “لفظ زندگی داخل کر دیا جس سے سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے.پانی ہی پر زندگی کی بناء ہے جو آسمان سے اترتا ہے اور الہام پر زندگی کی بناء ہے جو آسمان سے اترتا ہے تو بناء سے مراد زندگی کی بناء ہے.زمین کو بچھونا بنادیا یعنی ہموار کر دیا ورنہ جو پانی آسمان سے اترتا ہے یہ کبھی نہ ٹھہر سکتا.زمین میں ایسی صلاحیتیں پیدا کیں کہ اس کو اپنے اندر جذب کرے اور اس کو کچھ دیر کھلے اس کے نتیجہ میں پھر نباتات کی نشو و نما ہوتی ہے.چنانچہ جہاں پہاڑوں پر بھی نشو و نما ہوتی ہے وہاں پتھر روک بنتے ہیں کچھ تب جا کر زندگی پھولتی پھلتی ہے مگر انسانی زندگی کے لئے تو تمدن کی ترقی مقصود تھی وہ پہاڑی زندگی سے وابستہ نہیں ہوسکتی لازم تھا کہ زمین کو بچھونا بنا کر زندگی کونشو ونما کے لئے مزید مواقع مہیا کئے جائیں.بر حيوةِ الدُّنْیا کی مثال پانی ہی سی ہے اَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ جے ہم نے آسمان سے اتارا فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْاَرْضِ اس کے ساتھ پھر زمین کی نباتات مل جل گئیں.مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ
خطبات طاہر جلد 15 713 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء اب اس میں یہ نہیں فرمایا کہ نباتات محض پانی سے پیدا ہوئی ہیں.نباتات کی بنیاد پہلے رکھی جا چکی تھی.نباتات کا بیج موجو دتھا اور اگر کہیں بچ نہ ہوتو پانی کچھ بھی نہیں کر سکتا.جتنا چاہے پانی اترے اگر وہ صلہ پر اتر تا ہے چٹیل چٹان پر اترتا ہے اسے زندگی نہیں بخش سکتا اور یہی حال آسانی پانی کا بھی ہے.اگر فطرت میں نیکی کا بیج ہوگا تو پھر آسمان کا پانی فائدہ دے گا، اگر نیکی کا بچ نہیں ہوگا تو وہ اسی طرح بنجر کا بنجر رہے گا پانی خواہ لاکھ اس پر اترے اسے کوئی زندگی نہیں بخش سکتا.پس زندگی کی گہری حقیقتیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں اور جتنا ان پر غور کریں اتنا ہی ان امور کو جب سب ایک آیت میں سمیٹے گئے ہیں قوانین قدرت کے مطابق ہی نہیں بلکہ قوانین قدرت کے گہرے راز بیان کرتے ہوئے پاتے ہیں.ما يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ پھر اس ابتدائی زندگی کی شکل سے بلند درجے کی زندگی استفادہ کرتی ہے اور تھوڑی ادنی زندگی اس بالا شعر کو پیدا کر دیتی ہے جو انعام میں دکھائی دیتا ہے اور پھر ان سے بڑھ کر انسانوں میں اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی بناء آسمان پر ہے اس کی زندگی کی بناء اس آسمان پر ہے.جو پانی اترتا ہے وہ کئی مراحل سے گزرتے ہوئے اس کی نشو ونما کا سامان کرتا ہے پہلے نباتات اور پھر حیوانات.اگر نباتات نہ ہوں تو براہ راست پانی سے حیوانات زندگی نہیں پاسکتے اور اگر نباتات ہوں اور حیوانات ہوں تو انسان اول تو بن ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی اعلیٰ درجے کی ایک صورت ہے اور دوسرے حیوانات کو انسانی زندگی سے نکال دیں تو انسانی زندگی کے محض نباتات پر نہیں پل سکتی.ایک پیج کا درجہ ہے جو نباتات کو پروٹینز میں بدلنے کے لئے اور اعلیٰ درجے کی زندگی کی غذا ئیں بنانے کے لئے حیوانات کی صورت میں بیچ میں داخل فرمایا گیا ہے.فرماتا ہے یہ ہے تمہاری زندگی کی حقیقت.پھر اس میں سے انسان بھی کھاتے ہیں اور حیوان بھی کھاتے ہیں.اب نباتات میں سے پہلے انسانوں کے کھانے کا فرمایا ہے کیونکہ اصل مقصود انسان ہی ہے اور جو آسمانی پانی ہے اس کی غذا تو خالصہ انسان ہی کے کام آتی ہے اس لئے اولیت انسان کو دی ہے حالانکہ حیوانات کو ایک پہلے نچلے درجے کے طور پر قرآن کریم پیش فرماتا ہے.مگر جہاں تک مقصود ہے جہاں تک اس کائنات کے نقشے کی آخری غرض وغایت ہے وہ چونکہ انسان کی پیدائش ہے اور اس کا اللہ سے تعلق قائم کرنا ہے اس لئے جہاں غرض کا بیان ہوا ہے وہاں انسان کو پہلے رکھ دیا.اس میں سے انسان بھی کھاتے ہیں اور حیوان بھی.حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَيَّنَتْ یہاں تک کہ جب زمین کی جو سبزی ہے وہ پر رونق ہو جاتی ہے اور زینت اختیار کر جائے اس میں خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے.وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قُدِرُونَ
خطبات طاہر جلد 15 714 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء عَلَيْهَا اور زمین کے بسنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ اب وہ اس پر قدرت پاگئے ہیں وہ چیز ان کی ہوگئی ہے اتهَا أَمْرُنَا لَيْلًا اَوْنَهَارًا ہماری تقدیر نازل ہوتی ہے کبھی رات کے وقت کبھی دن کے وقت یا رات کو یا دن کو فَجَعَلْنَهَا حَصِيدًا كَانْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ اس طرح وہ کٹا ہوا جیسے فصل برباد ہو جائے اور کٹنے کے بعد خشک اور بھوسہ بن جائے اس کی مثال دی گئی ہے فَجَعَلْنَهَا حَصِيْدًا ایسی کٹ کے برباد ہو جاتی ہے کہ جیسے کل بھی نہیں تھی.جو بھی نشو ونما کا دور ہے اس کی طرف تو دھیان دور کی بات ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کل بھی یہ نہیں تھی کچھ بھی نہیں اس کا رہا باق - كَذلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لئے جو غور کرنے کی عادت رکھتے ہیں اپنی آیات کھول کھول کر اور پھیر پھیر کر بیان فرماتے ہیں.نُفَصِلُ میں تفصیل ہے اور دوسری جگہ قرآن کریم تصریف کا لفظ استعمال فرماتا ہے تو وہ تصریف براہ راست یہاں مذکور نہیں چونکہ اس مضمون کو تعریف کے حوالے سے بھی قرآن پیش فرما چکا ہے اور وہ بھی تفصیل کا ایک حصہ ہوتی ہے اس لئے میں نے معنا وہ ترجمہ کیا ہے ورنہ لفظا وہ موجود نہیں ہے، لفظا صرف اتنا ہے کہ اسی طرح ہم آیات کو خوب کھول کھول کر اور قابل فہم بنا بنا کر تمہیں دکھاتے ہیں.اس سارے مضمون کا آخری مقصد کیا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل فکر کے لئے اس میں کون سی نشانیاں ہیں.وہ کون ہیں جو فکر کر کے اس سے کچھ ایسی حقیقتیں پا جاتے ہیں جو ان کے لئے دین اور دنیا میں فائدہ مند ثابت ہوں.اس کے بہت سے پہلو ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آپ سے فیض پاتے ہوئے خوب کھول کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمایا.پس وہ آیات جو کھول کھول کر مضمون کو بیان کرتی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس ان سے گزرتے ہوئے فوراً ان کے مطالب کی تہہ تک اتر جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جن کو خدا تعالیٰ نے عرفان کی طاقت بخشی ہو یعنی آنحضرت ﷺ جن پر ان آیات کا نزول ہوا اور وہ جنہوں نے آنحضور سے فیض پایا ہو، ان کو یہ باتیں کھلی کھلی دکھائی دیتی ہیں اور اگر مخفی آنکھ سے،غفلت کی نظر سے آپ دیکھیں گے تو ان کھلی کھلی باتوں میں بھی آپ کو کچھ دکھائی نہیں دے الله گا.ایک منظر کشی ہے بس اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ کبھی فصلیں برباد ہو جایا کرتی ہیں.مگر قرآن کریم یہاں انسان کی زندگی کی بے اعتمادی ،اس کی بے ثباتی کا منظر پیش کر کے
خطبات طاہر جلد 15 715 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء یہ فرماتا ہے کہ تمہارے اختیار میں آخر تک بھی دراصل کچھ نہیں ہے جب تک کہ تقدیر الہی تمہیں اجازت نہ دے اور تقدیر الہی اور اس کے منشاء کے بغیر تم اس تمام نظام کائنات سے یا نظام ربوبیت سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.پس آخری لمحے تک یہ خدا کا فضل ہے جو تمہارے لئے ربوبیت کے سامان کو مہیا فرماتا ہے اور تمہیں طاقت بخشتا ہے، تو فیق دیتا ہے کہ اس ربوبیت کے سامان سے فائدہ اٹھا سکو.اس بے ثباتی کا تعلق زندگی کے دونوں پہلوؤں سے ہے مادی پہلو سے بھی انسان بہت کچھ بناتا ہے سوچتا ہے کہ میں اس سے یہ کروں گا وہ کروں گا مگر یہاں آتی آمرُ اللهِ ( انحل:2) ان معنوں میں آتا ہے کہ جب وہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ بن گیا اور میرے قبضہ قدرت میں آگیا تو بعض دفعہ زندگی کے آخری لمحے اس کے لئے وہ حسرتیں لے کے آتے ہیں اس کا کچھ بھی نہیں ہوا ہوتا.آئے دن ایسی خبریں ملتی ہیں کہ دنیا کی دولتوں کے پیچھے پڑنے والے بڑے بڑے دھو کے دے کر ، بڑے بڑے مال کما بیٹھے، اپنی مال و دولت کی سلطنتیں بنالیں ، آج کے اخبار میں بھی ایسے بعض اشخاص کا ذکر موجود ہے لیکن جو کچھ بنایا مرنے سے پہلے وہ حسرتوں میں تبدیل ہو گیا ،سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا اور سزا اور پکڑ کے سوا ان کے لئے کچھ باقی نہ رہا.ایسے واقعات انگلستان میں بھی ، امریکہ میں بھی آئے دن منظر عام پر ابھرتے رہتے ہیں.ہیں بہت زیادہ مگر ابھی دکھائی کم دے رہے ہیں لیکن ہوتا یہی ہے.تقریباً ہر انسان کی زندگی کا تجربہ اسے بتاتا ہے کہ جن چیزوں پر بناء کر کے وہ توقع رکھتا ہے کہ ایک میرا بہت ہی شاندار مستقبل ہوگا طمانیت سے لبریز لذتوں سے بھر پور، وہ بسا اوقات ایسے دکھوں میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جو کچھ اس نے کمایا تھا اس کے لئے طمانیت کا اور لذت کا موجب نہیں بنتا بلکہ سب کچھ بے کار چلا جاتا ہے.الله صلى الله یہ جو دنیا کی بے ثباتی ہے اس کا مذہب سے بھی ایک تعلق ہے اور بہت گہرا تعلق ہے.آنحضرت ﷺ ایک دعا کیا کرتے تھے.آپ کی ایک زوجہ مطہرہ نے پوچھا کے یا رسول اللہ ﷺ ! آپ یہ دعا کیوں کرتے ہیں کہ اے خدا مجھے ہدایت پر ثبات بخشا جو سچائی ہے اس پر ثبات بخشا.اب آنحضرت ﷺ جو تمام دنیا کے لئے ثبات کا نمونہ تھے ، آپ کے عجز وانکساری کا یہ عالم ہے خدا سے دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا مجھے ثبات بخشنا کیونکہ اس راز کو جو ان آیات میں بیان ہوا ہے آپ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ جب سوال کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو دل خدا کی دوانگلیوں میں ہیں
خطبات طاہر جلد 15 716 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء جب چاہے ان کو یوں پلٹ دے، جب چاہے انہیں یوں پلٹ دے کسی انسان کی کسی چیز کا بھی کوئی اختیار ایسا نہیں کہ وہ اس پر حقیقی ملکیت رکھتا ہو، حقیقی مالک صرف اللہ ہے.تو آنحضرت ﷺ اس بلندی مرتبہ کے با وجود جہاں آپ کو آخرت کی سب سے بڑی بادشاہی عطا فرمائے گا ، وعدہ فرما دیا گیا، تمام انبیاء پر آپ کو ایک فوقیت بخشی گئی جو سب انبیاء کے سردار کے طور پر آپ کو بعثت ثانیہ، دوسری دنیا میں یعنی اخروی زندگی میں ایسے وعدے فرمائے گئے جن کا ٹلنا ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود اپنا وہ مقام آپ نے نہیں چھوڑا کہ سب کچھ، جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے.وہ جب اپنے فضل کو مجھ سے اٹھانا چاہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں روک سکتا اور جس دل کی یہ قدر دانی ہورہی ہے وہ دل بھی تو اسی نے بخشا اور اسی کی طاقت اور اسی کی غلامی میں ہے جب وہ دل بدل دے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.بہت بڑے بڑے نیک انسان بعض دفعہ زندگی کے آخری لمحوں میں پکے کا فر اور مرتد اور ناشکرے ہو کے مرتے ہیں.اس کے برعکس بعض لوگ زندگی ضائع کر دیتے ہیں گناہوں اور بدیوں میں لیکن ان کا انجام ایسے حال میں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کو یک دم پلٹتا ہے اور وہ دل کا پلٹنا ان کی کائنات میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے، ایسا انقلاب برپا ہوتا ہے کہ ساری پرانی بدیوں کو وہ انقلاب کھا جاتا ہے، کالعدم کر دیتا ہے گویا ایک قیامت صغریٰ ہے جو ان کی ذات میں برپا ہوتی ہے.پہلے سب اعمال، پہلی ساری زندگی مر کے مٹ جاتی ہے اور ایک نیا وجود ابھرتا ہے.تو دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ جو اس آیت میں کھینچا گیا ہے وہ بہت ہی اہم ہے ہمارے لئے اپنے اعمال کی جانچ کی غرض سے اور یہ شعور پیدا کرنے کے لئے کہ اس چند روزہ زندگی کے لئے ہم کیوں خواہ مخواہ دنیا میں لوگوں پر ظلم کریں، کسی کے مال چھینیں، کسی کا مال غصب کریں، کسی پر تکبر کے رنگ میں اپنی دولت کی برتری اور اپنی امارت اور اپنی حکومت کی برتری جتائیں اور اسی فخر کی حالت میں مر جائیں اور ایسی حالت میں مریں کہ جب بھی مریں گویا کل کچھ بھی نہیں تھا.یہ جو آیت ہے گویا کل کچھ بھی نہیں تھا یہ ہر مرنے والے پر صادق آتی ہے.جو کچھ بھی وہ کر چکا ہو، جو کچھ بھی کما بیٹھا ہو ، جب موت کی ساعت آتی ہے تو یہ جو قرآن کریم کا بیان ہے اس پر بعینہ صادق آتا ہے.اس کی سوچ اس وقت اسے بتاتی ہے کہ ہیں یہ تو یوں ہاتھ سے نکل گیا گویا کل تک، کل بھی کچھ نہیں تھا ، کچھ بھی ہمارا نہیں تھا.خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا (خواجہ میر درد)
خطبات طاہر جلد 15 717 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء درد کا یہ مصرعہ میں پہلے بھی بارہا پڑھ چکا ہوں کیونکہ بہت عارفانہ بات ہے.مرتے وقت انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ خواب ہی تھی کچھ بھی نہیں تھی تو اس دنیا کے لئے اتنی جان مارنا کہ بنی نوع انسان پر ظلم کرنا بہانے بنا بنا کر ، ملک گیری کی ہوس کو پورا کرنا ، مظلوم قوموں کو دبانا اور طاقت کے نشے میں اپنے اردگر داپنے ماحول کے حقوق کو بھی غصب کرتے چلے جانا ، دولت کمائی ہے تو اتنی کماتے چلے جانا کہ ایک دنیا غریب ہو جائے آپ کی دولت کی وجہ سے آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو اور آپ اس کو اکٹھے رکھتے چلے جائیں، ایک جگہ جمع کرتے چلے جائیں جو بنی نوع انسان کے فائدے میں کام نہ آئے یہ ساری انسانی زندگی کا خلاصہ ہے.آج کی دنیا میں جتنی تباہیاں ہیں وہ اسی وجہ سے ہیں حکومتوں کے رویے کو دیکھیں انسانوں کے رویے کو دیکھیں.قرآن کریم دولت کمانے کو منع نہیں فرما تا کیونکہ یہ سارا مضمون خاک سے زندگی پیدا کرنے کا اور اس کی نشو و نما کا مضمون ہے خدا کیسے کہہ سکتا ہے کہ تم بھی بڑھنے کی تمنا سے ہاتھ دھو بیٹھو یا دل سے نکال بیٹھو اور جہاں ہو وہیں کھڑے ہو کر جامد ہو جاؤ.ہرگز اللہ تعالیٰ یہ تعلیم نہیں دیتا مگر یہ وہ مضمون ہے جو جاری اور ساری ہے.آسمان سے پانی اترتا ہے اپنے آپ کو مٹی میں ملا دیتا ہے نئی زندگی کی صورت میں ابھرتا ہے اور سب کچھ ہونے کے بعد پھر وہ دوبارہ آسمان پر چڑھتا ہے اور پھر اسی سفر کو از سر نو دوبارہ شروع کرتا ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ:4) کا ایک ایسا خوب صورت نظارہ ہے کہ جس کے بغیر زندگی قائم رہ ہی نہیں سکتی.تو اللہ تعالیٰ نے یہ جو مثال دی ہے پانی کی اس میں یہ بھی سبق دے دیا کہ اگر تم خدا کی راہ میں خرچ کرو گے اور اعلیٰ مقاصد کی خاطر اپنی طاقتوں کو استعمال کرو گے تو یاد رکھو کہ یہ کبھی ضائع نہیں جائیں گی بار بار دوبارہ تمہارے ہی کام آئیں گی.وہ پانی پھر آخر تم پر نازل کیا جائے گا جو تمہارے ہاتھ سے ایک دفعہ نکل جاتا ہے مگر دوسروں کو زندگی بخشتے ہوئے جائے گا.ایک لامتناہی سلسلہ ہے فیوض کا جو جاری کرنے کے بعد پھر وہ پانی پلٹا کرتا ہے اور اگر ایک جگہ جمع ہو جائے ،ایک حوض میں بند ہو جائے تو سوائے تعفن کے وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا اور ایسا زہریلا ہو جاتا ہے پھر کہ اس میں زندگی بھی نہیں پنپ سکتی.پس یہ کائنات کا نقشہ کہ آسمان سے پانی کا اترنا اور پھر بہتے چلے جانا، تمام فیوض بخش دینا اور پھر جو کچھ بھی اس نے کیا اس کے فائدے سے آخر وقت تک اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی
خطبات طاہر جلد 15 718 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء استفادہ نہیں کر سکتا اس کو اگر انسان پیش نظر رکھے تو دنیا میں اس کے رہنے کے سلیقے بدل جائیں ،اس کے آداب تبدیل ہو جائیں، اس کی سوچیں مختلف رستوں پر چلیں گی پھر.پھر وہ دنیا میں ایسا رہے گا کہ وہ بنی نوع انسان کے لئے فائدہ دے گا اور ہر حال میں ہمیشہ اٹھنے کی تیاری رکھے گا.ایسا شخص جس کو یہ نہ پتا ہو کہ میرا کوچ کا حکم کب آتا ہے اس کو ہمیشہ تیار رہنا پڑتا ہے.اس سلسلے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ایک بات میں نے آپ کے سامنے پہلے بھی بیان کی تھی وہ لاعلم آدمی تھے مگر بہت ہی باطنی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے علم یافتہ تھے.بہت ذہین اور عالم اور منصف مزاج سکھ بادشاہ تھے.وہ ایک دفعہ پگڑی باندھ رہے تھے بہت بڑی پگڑی باندھتے تھے تو کسی حواری نے ان سے سوال کیا کہ آپ جو اتنا لمبا کام کر رہے ہیں غالباً وہ ان کے مسلمان مرید تھے.ان کی طرف سے سوال تھا کہ اتنی لمبی جو پگڑی باندھتے ہیں اگر اچانک پتا چلے کہ فلاں جگہ یہ واقعہ ہو گیا تو کیا کریں گے آپ ، پگڑی باندھتے باندھتے بڑا وقت لگتا ہے.تو اپنی تلوار سے جو ساتھ ہی تھی یوں پگڑی کاٹ کے کہا کہ میں یوں کروں گا کہ جہاں وقت آیا وہیں پگڑی ختم اور جو ضرورت کی آواز ہے اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا تو ہمہ وقت تیار رہنے کا جو مضمون ہے وہ اس مثال سے بھی نظر آتا ہے.کاروبار تواب ہمیشہ انسانی زندگی سے آگے بڑھے ہوتے ہیں.م سامان سوبرس کا ہے پل کی خبر نہیں (حیرت الہ آبادی) مگر وہ لوگ جو صاحب عرفان ہوں وہ ان سامانوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنی زندگی پر بھروسہ نہیں کرتے ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ جہاں بھی وقت ختم ہوا پگڑی بھی و ہیں ختم ہو جائے گی اور پھر اس کو آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا.ایسی تیاری کی حالت میں انسان زندگی بسر کرے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کامیاب ہوتا ہے اور جب بھی مرے وہ اپنے حساب کے لئے تیار رہتا ہے.جولوگ غفلت کی حالت میں اس مضمون سے لاعلمی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں ان کا حساب تیار ہی نہیں ہوتا کبھی بعض لوگوں سے آپ پوچھیں وہ ہر وقت ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں اپنے کاروبار میں وہ سمیٹے رکھتے ہیں کاموں کو اور جو کام آگے آنے والے ہیں ان کے متعلق وہ بعض دفعہ ہدایتیں چھوڑتے جاتے ہیں تا کہ کسی وقت بھی بلا وا آئے تو پچھلوں کو تکلیف کا سامنا نہ ہو، جو کچھ حساب ہے صاف ہے،سب کو پتا ہو کہ کیا میں چاہتا تھا، کیا کرنا ہے لیکن جو لوگ غافل ہیں نہ وہ اپنی دنیا کے کاروبار کو سنبھال سکتے ہیں کیونکہ جب بھی خدا کی طرف
خطبات طاہر جلد 15 719 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء اچانک وقت آتا ہے تو ان کا کیا کرایا سب بھوسہ بن جاتا ہے اور نہ آخرت کے لئے تیار رہتے ہیں اور آخرت میں جب حاضری کا وقت آتا ہے تو بے سروسامان بغیر کسی تیاری کے اسی طرح حاضر ہو جاتے ہیں تبھی آنحضرت ﷺ نے ذہنی طور پر تیاری کا حکم دیا.ایک شخص نے قیامت کے متعلق عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! قیامت کب ہوگی ؟ آپ نے فرمایا پوچھتے ہو، تیاری بھی کی ہے؟ اگر ہو بھی اور تیاری نہیں کی تو تمہیں اس سے کیا کب ہوگی.چھوٹی سی بات میں دیکھیں کتنی عظیم نصیحت فرما دی ہے.قیامت ہوگی ضرور.کب کا سوال تب ہوا گرتم تیار ہو کیونکہ تمہاری قیامت آج بھی آسکتی ہے، ہر لحہ آسکتی ہے اور تیاری سے مراد ہے کہ ہرلمحہ تیار رہو گر ہرلمحہ تیار ہو تو پھر پوچھو بے شک کہ کب ہوگی.وہ اب ہوگی یا کل ہوگی تم ہر حالت میں مطمئن رہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تم نجات یافتہ حالت میں دنیا سے رخصت ہو گے لیکن اگر تیاری کوئی نہیں کی ہوئی تو پھر کیا فائدہ؟ پس جماعت کو ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے بہت سے الجھے ہوئے اخلاقی معاملات اس شعور کی کمی کی وجہ سے ہیں کہ ہم دنیا میں گویا آکر ٹھہر جانے کے لئے آئے ہیں.تمام دنیا کی حکمتوں کی بد چلنیاں اور ظلم وستم اس احساس اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہیں مگر دنیا کی حکومتوں کو تو بعض دفعہ یا حکومت والوں کو بعض دفعہ بار بار کی ٹھوکروں سے کچھ تجربہ ہو جاتا ہے کئی ایسے وزیر ہیں جو بے چارے اترنے کے بعد گلیوں میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں تو ان کا بے حیثیت ہونا ، ان کا بے اختیار ہونا نہ صرف دکھائی دیتا ہے بلکہ باتوں میں بتاتے بھی ہیں کہ جی کل تک تو ہمارا یہ حال تھا آج ہمارا یہ حال ہے.ایک صاحب ایک دفعہ مجھے اسٹیشن پر ملے تھے اچھے معزز عہدوں پر فائز ، ان سے میری گفتگو ہوئی میرے وہ احمدی دوست نہیں باہر کے کوئی تھے وہ کہتے کیا حال پوچھتے ہیں آپ پہلے بڑے بڑے سلام کیا کرتے تھے جھک کے اب ہمارا چپڑاسی بھی ملے تو نظر ادھر ادھر پھیر لیتا ہے کہ مجھے کوئی کام نہ بتا دیں.دنیا کی بے ثباتی کا کچھ ذاتی احساس بڑے لوگوں کو دنیا میں ہوتا رہتا ہے لیکن جو خدا تعالیٰ کے حضور اعمال پیش کرنے کا مضمون ہے اس میں بسا اوقات یہ احساس پیدا ہی نہیں ہوتا.اس وقت شعور آتا ہے جب کہ وقت ہاتھ سے گزر چکا ہے اور پھر آدمی کچھ بھی نہیں کر سکتا.پس بے ثباتی کا مضمون آپ کے اعمال کی نگرانی کے لئے ضروری ہے لیکن اگر مرنے کے بعد جی اٹھنے کا مضمون ساتھ نہ ہو تو پھر بے ثباتی بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ بعض بے ثباتی گناہ
خطبات طاہر جلد 15 720 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء بڑھانے کا موجب بن جاتی ہے.اس صورت میں یہ مضمون پیدا ہوگا کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوباره نیست کہ تم عیش کر جاؤ جو کرنا ہے کیونکہ دوبارہ پھر اس عالم میں نہیں آنا.تو ایک ہی مضمون ہے ایک حوالے کے ساتھ نیکی کی تعلیم دینے والا بن جاتا ہے ایک حوالے کے ساتھ بدی کی تعلیم دینے والا بن جاتا ہے.یہ دنیا میں جتنے بھی بدکردار لوگ یا حکومتیں ہیں ان کو یہ تو پتہ ہے کہ ہے بے ثباتی مگر مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں ہے ، مرنے کے بعد حساب دینے کا خیال نہیں ہے اس لئے بابر بہ عیش کوش کی آواز ان کے دل سے اٹھتی ہے.عیش کر جاؤ پھر دوبارہ نہیں آنا دنیا میں ایک ہی دفعہ جو کچھ ہونا ہے ہو جانا ہے جتنے دن ہیں مزے میں اڑا دو.لیکن اگر بے ثباتی کو جی اٹھنے کے بعد حساب کتاب کے ساتھ باندھا جائے تو ناممکن ہے کہ انسان اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہو.ہرلمحہ وہ متوجہ ہو جائے گا اور اگر یہ یقین ہو کہ کسی لمحہ میں میں جاسکتا ہوں تو پھر تو اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے اعمال پر نظر رکھنا ہوگا.وہ یہ دیکھتا رہے گا کہ میں اب بھی تیار ہوں کہ نہیں ، اب تیار ہوں کہ نہیں.آج اگر اس وقت جان جائے تو کس حالت میں جان دوں گا.پس وہ جماعت جس نے سب دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے جس کے سپر دخدا نے یہ ذمہ داری فرما دی ہے.کچھ اس میں دیکھا ہے تو خدا نے یہ ذمہ داری سپر دفرمائی ہے ورنہ ہر کس و ناکس کو تو یہ توفیق نہیں ملی.بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بہت ہی بڑا انعام ہے.آسمان سے جو پانی محمد رسول اللہ ﷺ پر اتر اوہ آج جماعت احمدیہ کی روحانی زندگی میں اپنی نشو ونما دکھا رہا ہے اور سر سبزی دکھائی دے رہی ہے ، طراوت دکھائی دے رہی ہے، ہر قسم کی زندگی کی شکلیں ابھر رہی ہیں لیکن اگر ہم اس بات کو بھلا دیں کہ ہم اس کے جوابدہ ہیں اور مستغنی ہو جائیں ، یہ سمجھیں کہ گویا ہمارا حق تھا ہم پر یہی ہونا تھا تو کسی وقت بھی جان ایسی حالت میں نکل سکتی ہے کہ ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہا ہو اور انفرادی طور پر لازم نہیں کہ ایک نیک جماعت میں شامل ہو کر ہر فرد برابر فائدہ اٹھا سکے بلکہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن پر جتنا بڑا انعام ہو اتنا ہی بڑا نقصان اٹھا سکتے ہیں.صلى الله تو اجتماعی زندگی میں یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اپنے فضل سے بڑے مقاصد کے لئے چنا ہے یہ ایک بات ہے مگر یہ کہ ہر شخص محفوظ اور مامون ہے یہ بالکل اور بات ہے.ہرگز ہر
خطبات طاہر جلد 15 721 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء الله شخص مامون و محفوظ نہیں ہے.اگر کسی دماغ میں یہ وہم و گمان کا کیڑا اپنی پیدائش میں ہی کروٹ بدل رہا ہو یعنی ابھی پیدا بھی نہ ہوا ہو اور پیدائش کی حالت میں اس کا بیج بن رہا ہو تو ہمیشہ یادر کھے اس دعا کو جو رسول اللہ ﷺ اپنے لئے کیا کرتے تھے کہ اے خدا مجھے نیکی پر ثبات عطا فرما، مجھے ہدایت پر قائم رکھنا.تو آپ کی اس نیکی کی کیا ضمانت ہے؟ آپ کی تو کوئی حیثیت نہیں.آپ کی تو نیکی میں ایسی بدیاں لگی رہتی ہیں جو گھن کی طرح آپ کی نیکیوں کو کھاتی چلی جاتی ہیں.ہم میں سے ہر ایک کا یہی حال ہے، کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے.تو اس کا بغیر دعا کے سہارے کے اور بغیر ہمیشہ اس بات پر مستعد رہنے کے کبھی نیک انجام نہیں ہوسکتا کہ وہ دیکھتا رہے کہ میرے اعمال اب کس رخ پر ہیں.کیا میرا رخ مسلسل ہدایت کی طرف آگے کی طرف ہے یا نہیں ہے اور دنیا سے میرا کتنا تعلق ہے.دنیا سے تعلق کے مضمون میں ہر چیز کا اپنا اپنا ایک امتحان ہے جو انسان کو در پیش رہتا ہے.کبھی عام طور پر انسان سوچتا بھی نہیں.بے ثباتی کا یہ مطلب نہیں کہ میں چلا جاؤں گا بے ثباتی کا تو یہ مطلب ہے کہ میرے تعلقات، میرے رشتے، میری کمائیاں مجھ سے چھٹ جائیں گی اور وہ بسا اوقات اس طرح بھی چھٹتی ہیں کہ آپ رہتے ہیں اور وہ چلی جاتی ہیں.کبھی آپ دولتیں چھوڑ کر مر جاتے ہیں کبھی دولتیں آپ کی زندگی میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاتی ہیں.کبھی آپ اپنے پیاروں سے اچا نک جدا ہو جاتے ہیں اور کبھی آپ کے پیارے آنکھوں کے سامنے آئے دن آخرت کا سفر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آپ کو کوئی اختیار نہیں ہوتا.بعض لوگ بڑے دردناک خط لکھتے ہیں کہ ہم پر تو ابتلاؤں کا ایک دور آ گیا ہے کل فلاں فوت ہوا آج وہ فلاں فوت ہو گیا، اب فلاں کی بیماری کی خبر ملی ہے اور یہ سلسلہ جو ہے وہ ایک سال سے یا دو سال سے ہم پر ابتلاؤں کا جاری ہے.کبھی حادثات کا کوئی شکار ہو گیا تو مجھ سے پوچھتے ہیں ہم کیا کریں.ان کو میں یہی کہتا ہوں کہ انا للہ جو ہے وہ صرف گنوانے کے مضمون میں نہ پڑھا کریں کہ ہاتھ سے چیز جاتی رہی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا انہ للہ جو مرنے والا ہے وہ اللہ کا تھا اس لئے چلا گیا یہ سکھایا انا للہ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.تو ان کے لوٹنے کا غم کرنے کی بجائے اپنے لوٹنے کی فکر کیا کرو.یہ سوچا کرو کہ تم ایسی حالت میں تو نہیں لوٹو گے کہ خدا کے بنے بغیر چلے جاؤ واپس.جو مرنے والے تھے وہ تو اپنا حساب لے کر حاضر ہو گئے اگر ان کی خاطر تم واویلا کر کے خدا کو بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھو تو انا اللہ کیسے پڑھو گے اور اگر واویلا کرو گے تو وہ تو آہی نہیں سکتے ،ناممکن
خطبات طاہر جلد 15 722 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء ہے، خدا جا سکتا ہے.تو یہ دو ٹوک بات ہے اس کے سوا تمہارا چارہ ہی کوئی نہیں ہے.جو مرضی کر لو سر پیٹتے رہو ساری عمر، چھاتیاں پیٹ مگر جانے والا واپس نہیں آئے گا تم ضرور جاؤ گے.ایسی حالت میں نہ جاؤ کہ جانے والا تمہیں وہاں بھی نہ ملے کیونکہ تم خدا و گنوا بیٹھے ہو تو اس کے سوا اور کوئی حل ہی نہیں ہے اس کا.اگر اس مضمون پر انسان غور کرے تو تکلیف ہوتی ہے مگر تکلیف پر اس کا رد عمل ایک مثبت ردعمل ہوگا وہ ضائع نہیں ہوسکتا بلکہ ہر ایسی تکلیف جس کو خدا کی خاطر وہ برداشت کرتا ہے اس کے لئے بھی جزائے خیر پر منتج ہوتی ہے.اللہ تعالی اس سے اس کے کئی گناہ جھاڑ دیتا ہے ، کئی گناہوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے کئی ایک سے اعراض فرما دیتا ہے اور پھر اصلاح فرما دیتا ہے اس کی.یہ بہت سے فوائد ہیں جو کسی کھوئی ہوئی چیز کے وقت جو رد عمل انسان میں پیدا ہوتا ہے اس سے وابستہ ہوتے ہیں اور اگر صحیح ردعمل نہ ہو تو جو کچھ ہے وہ بھی گیا.جو کچھ تھا وہ تو جا چکا، جو کچھ ہے وہ بھی جاتا رہے گا اور رونے پیٹنے کے سوازندگی اور کسی کام نہیں آئے گی اور مرنے کے بعد اور بھی زیادہ رونا پیٹنا ہے.بڑا ہی بے وقوف ہے جو دنیا کی بے ثباتی کے مضمون کو نہیں سمجھتا.دو چار اوپر تلے چلے گئے تو کیا دو چار دس ہزار سال میں نکل گئے تو کیا.یہ قطعی بات ہے کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہم اللہ ہی کے ہیں اسی کی طرف ہم نے جانا ہے آج نہیں گئے تو کل گئے اس لئے دوسروں کی فکر کی بجائے جب کوئی مرے اپنی فکر کیا کرو.یہ ہے بے ثباتی کا مضمون جو اِنَّا لِلہ نے ہمیں سکھلا دیا اور لوگ ان کی فکر کرتے ہیں اپنی نہیں کرتے.خطرہ ہے کہ جب تم کسی کو جاتے دیکھو تو تم بھی ضائع نہ ہو جاؤ.یاد رکھنا تم اللہ کے ہو اللہ ہی کی طرف سے آئے تھے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے سب سے بڑی فکر تو اپنی کرنی چاہئے.آنحضرت ﷺ نے جو نماز جنازہ کی دعا سکھائی وہ عجیب ہے اللهم اغـفـر لـحـيـنــا وميتنا مرنے والوں کو بعد میں رکھا ہے زندہ کو پہلے کر دیا.فرمایا مرنے والے کی اب تم کیا فکر کرو گے وہ تو چلا گیا ہاتھ سے.سب سے زیادہ ضرورت ہے زندوں کی بخشش کی دعا مانگو کہ وہ مرنے سے پہلے بخشے جاچکے ہوں.مرنے کے بعد دعائیں بھی کام آتی ہیں مگر وہ دعا جو زندگی میں کسی کو بخشوا دے اس سے بڑھ کر اور کوئی دعا نہیں ہو سکتی اور پھر غائب سے پہلے شاہد کو کر دیا وشاهدنا وغائبنا مرنے والے غائب ہو گئے ہیں لیکن جو موجود ہیں ان کی فکر کرو کہ اللہ ان کو صحیح حال پر قائم رکھے یہاں تک کہ جب وہ مر رہے ہوں تو ایمان پر جان دینے والے ہوں.پس آنحضرت ﷺ کی دعا ئیں بھی قرآنی
خطبات طاہر جلد 15 723 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء تعلیم کے رنگ ہی میں رنگی ہوئی ہیں.کہیں بھی آپ ان میں کوئی قرآن سے فرق نہیں دیکھیں گے.ان کے اندر قرآن ہی کا رنگ ہے جو مختلف صورتوں میں دکھائی دیتا ہے اور ایک ادنیٰ بھی کہیں آپ تضاد نہیں دیکھیں گے آنحضرت ﷺ کی دعاؤں میں اور قرآنی تعلیمات میں بلکہ جوں جوں آپ غور کرتے چلے جائیں گے آپ حیران ہوتے چلے جائیں گے بلکہ حیرت کے سمندر میں غرق ہو جا ئیں گے کہ کتنی تفصیل کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی سوچیں قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں ایک ادنیٰ بھی کہیں اختلاف یا فرق دکھائی نہیں دے گا، ایک ہی کا ئنات ہے.پس اس پہلو سے آنحضرت ﷺ کی نصائح پر بھی غور کریں تو یہی مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.ثبات دنیا کا مضمون بھی اسی طرح دکھائی دیتا ہے جیسا کہ قرآن پیش فرماتا ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی نصائح پر غور کرنے ہی سے حقیقت میں قرآن کا مضمون کھلتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے.تفصیل سے بیان کر دیا ہے مگر ان کے لئے جو يَتَفَكَّرُونَ (انحل: 12) اس پر بھی تو غور کرو.مضمون تو کھلا کھلا ہے لیکن تقومٍ يَتَفَكَّرُونَ ایسی قوم کے لئے جو فکر کرتی ہے اور ایسی کھلی بات نہیں ہے کہ ہر جاہل عالم کو برابر یکساں اچانک سمجھ آجائے گی.ایسی بات جو سب کو برابر سمجھ آئے وہ سطحی ہوا کرتی ہے اور قرآن کریم سطحی باتیں بیان نہیں کرتا.ایسی باتیں جو قر آنی حقائق ہیں جب وہ کھلی کھلی بھی ہوں تو ان میں گہرائی ہوتی ہے اس لئے اس کی سطح دکھائی دینے کی یہ مراد نہیں کہ آپ کو سب کچھ دکھائی دے گیا.مراد یہ ہے کہ سطح دیکھو گے تو پھر نیچےڈو بو گے پھر اور نیچے ، پھر اور نیچے تمہیں تہ بہ تہ حقائق کی نہیں دکھائی دیں گی اور ہر اس تہہ میں مزید تم حقائق اور ہدایات کے موتی پاؤ گے ان کے جواہر جڑے ہوئے ہوں گے.بے شمار مفادات ہیں جو قرآن کریم کی تہوں سے وابستہ ہیں جو اس کے بطن میں درجہ بدرجہ نیچے ڈوبنے سے دکھائی دیتی ہیں یا نظر آتی ہیں.تو آنحضرت ﷺ کی نصائح کے ذریعے ہی ہم اس مضمون کو سمجھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی مضمون پر مختلف رنگ میں روشنی ڈالی کہ بے ثباتی کے ساتھ ، وہ دنیا جو بے ثبات ہے اس سے ایسا تعلق نہ جوڑ بیٹھو کہ تمہارے لئے دین ودنیا دونوں میں نقصان کا موجب ہو اور جب وقت آئے تو تم یہ دیکھو کہ تمہارا وجود کل بھی کسی فائدے کا نہیں تھا لمبی زندگی تم نے فائدے میں گزارنی ہو یہ تو اور مضمون ہے.جا ایسی حالت میں رہے ہو کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں رہا.ساری سرسبزی جو ہے وہ پاؤں تلے روندے جانے
خطبات طاہر جلد 15 724 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء والے بھو سے میں تبدیل ہو چکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، میں آپ کے اقتباسات میں سے چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سب سے پہلے تو آنحضرت ﷺ کی ایک نصیحت جو حضرت ابن عمرؓ کو آپ نے کی.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں عنهما عمر پر بھی اللہ کی رحمت ہو ان کے بیٹے پر بھی اللہ کی رحمت.آنحضرت ملے نے میرے کندھوں کو پکڑا اور فرمایا تو دنیا میں ایسا بن گویا تو پر دیسی ہے یا راہ گزر مسافر ہے.پردیسی جو ہے وہ بے چارہ بے اختیار ہوتا ہے اس کا بھی کوئی اختیار نہیں.راہ گزر مسافر کی بھی یہی کیفیت ہے وہ اپنی ملکیت میں نہیں پھر رہا ہوتا.پر دیسی سے مراد ہے اس کے وطن کے حقوق نہیں ہیں وہ کسی اور وطن میں ہے.مسافر سے مراد یہ ہے وہ چلتا پھرتا ہے لیکن کہیں بھی اس کا قیام نہیں ہے وہ کسی جگہ کو اپنا بنا کے وہاں ٹھہر نہیں سکتا.تو دنیا کی بے ثباتی کا یہ نقشہ آنحضرت ﷺ نے کھینچا اور ایک چھوٹی عمر کے بچے کو کندھے سے پکڑ کر بتایا کہ ساری زندگی اسی طرح رہنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس تعلق میں فرماتے ہیں یعنی ایک یہ روایت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق جو یوں درج ہے کہ ایک معزز خاندانی ہندو دیوان صاحب جو صرف حضرت کی ملاقات کے واسطے قادیان آئے تھے قبل نماز ظہر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواہش ظاہر کی کہ ان کو کچھ نصیحت کی جائے.حضرت نے فرمایا ہر ایک شخص کا ہمدردی کا رنگ جدا ہوتا ہے.( ہر ایک شخص کی ہمدردی کا رنگ جدا ہوتا ہے اور آگے جو رنگ ہے وہ بتارہا ہے کہ یہ کون شخص ہے جس کی ہمدردی کا یہ رنگ ہے.اگر آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ آپ کے ساتھ یہی ہمدردی کر سکتا ہے کہ آپ کی کسی بیماری کا علاج کرے اور اگر آپ حاکم کے پاس جائیں تو اس کی ہمدردی یہ ہے کہ کسی ظالم کے ظلم سے بچائے.ایسا ہی ہر ایک کی ہمدردی کا رنگ جدا ہے.ہماری طرف سے ہمدردی یہ ہے کہ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا روزے چند ہے اگر یہ خیال دل میں پختہ ہو جائے تو 66 تمام جھوٹی خوشیاں پامال ہو جاتی “ تمام جھوٹی خوشیاں پامال ہو جاتی “ کیونکہ جس کو یہ پتا ہو کہ یہ جو میں نے سب کچھ حاصل
خطبات طاہر جلد 15 725 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء کیا ہے کسی وقت مجھ سے جدا ہوسکتی ہے.یہ دولت یا وہ بچے یا عزیز جو مجھے پیارے ہیں کسی وقت یہ مجھ سے جدا ہو سکتے ہیں یا میں ان سے جدا ہو سکتا ہوں تو اس کو تو ہر وقت کا دھڑ کا لگ جائے گا اور جتنا زیادہ وہ اگلی دنیا کے خیال سے غافل ہو گا اتنا ہی یہ دھڑ کا شدید اور ظالم دھڑ کا ہو جائے گا.بعض لوگوں کو جب یہ وہم پیدا ہوجائے کہ ہمارے بچے نہ مر جائیں تو ان کی اپنی زندگی موت کا شکار ہو جاتی ہے.کئی عورتیں جن کی بیماریاں جو اپنے علاج کے لئے کئی دفعہ ملتی ہیں یا خط لکھتی ہیں ان میں ایک یہ بھی بیماری ان میں زیادہ دکھائی دیتی ہے.وہ کہتی ہیں ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہمارا خاوند واپس ہی نہ آئے شاید ہمارا بچہ نہ مرجائے ، اب سکول گیا ہے تو پتا نہیں اس پہ کیا آفت ٹوٹ گئی ہے اور اس وہم میں جو حقیقت بھی بنا نہیں ، ہو سکتا ہے اس کی ساری زندگی کبھی بھی نہ بنے ،اس میں وہ اپنی زندگی کی موجود حقیقوں کو ذبح کر دیتی ہے اور نہایت وحشت کی حالت میں زندگی بسر کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ دیکھو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر یہ خیال دل میں پختہ ہو جائے تو تمام جھوٹی خوشیاں پامال ہو جاتی ہیں.اب آپ دیکھیں ”جھوٹی خوشیاں“ کیا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت کا ایک ایک لفظ ایک ایسا قیمتی موتی ہے جسے وہاں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا اس کی جگہ تبدیل نہیں کی جاسکتی.ایک عام آدمی کہتا ہے خوشیاں برباد کر دیتا ہے تو پھر اچھی نصیحت کر رہے ہو.جو خوشیاں ہیں وہ بھی گئیں ساری کی ساری.فرماتے ہیں جھوٹی خوشیاں پامال کر دیتا ہے یہ خیال اور غیر اس کے جھوٹ سارا‘ یہ مضمون ہے جو اس ایک لفظ میں بیان فرما دیا.فرماتے ہیں سچی خوشیاں بھی ہیں.یہ خیال سچی خوشیاں کو تقویت بخشتا ہے اور جھوٹی خوشیوں کو پاؤں تلے پامال کر دیتا ہے اور انسان خدا تعالیٰ کی طرف اپنا دل لگا تا ہے.یہ جو نصیحت تھی اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس معزز ہندو دیوان کو سمجھ آئی یا نہ آئی لیکن اس کے حالات دیکھتے ہوئے غالباً اس سے بہتر نصیحت اس کو کی نہیں جاسکتی تھی.ایک ہندو دیوان ہی صاحب حیثیت انسان تھا کیونکہ ہندو دیوان بڑے معزز لوگ تھے دنیا کے لحاظ سے بھی اور مال و دولت کے لحاظ سے بھی ، رعب اور مرتبہ کے لحاظ سے بھی.تو فرمایا کہ یہ دنیا کی چند دن کی باتیں ہیں تم اپنے اثر رسوخ کو ظلم میں استعمال نہ کرنا.اپنی دولت کا بے جا استعمال نہ کرنا ، اس کا بے محل استعمال نہ کرنا ورنہ تم جھوٹی خوشیوں میں رہو گے.تم سمجھتے رہو گے کہ تم بڑی چیز ہو لیکن جب وقت آئے گا تو کچھ بھی نہیں نکلو گے.پس یہ وہ نصیحت
خطبات طاہر جلد 15 726 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء ہے جو صرف ایک دیوان کے نہیں سب دنیا کے دیوانوں کے اور فرزانوں کے کام برابر آتی ہے اس سے اعلیٰ نصیحت ہو نہیں سکتی کہ انسان دنیا کی ناپائیداری کا خیال کرے.فرماتے ہیں وو...لمبے منصوبے اور نا جائز کارروائیاں انسان اسی واسطے کرتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ زندگی کے ایام کتنے ہیں.جب انسان جان لیتا ہے کہ موت اس کے آگے کھڑی ہے تو پھر وہ گناہ کے کاموں سے رک جاتا ہے خدا رسیدہ لوگوں کو ہر روز اپنے اور 66 اپنے دوستوں کے متعلق معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے...“ وہ گر دو پیش سے دیکھ کر اپنی فکر کرتے ہیں یہی بات ہے جو میں نے انا للہ کی تشریح میں آپ کے سامنے رکھی تھی کہ جب کوئی جایا کرے تو اپنی فکر کیا کرو اس سے بہت بڑھ کر تمہاری توجہ اپنے ضمیر کی طرف پھرنی چاہیئے کہ ہم بھی تو اسی طرح نکل جائیں گے تو ہمارا کیا بنے گا اور جانا وہاں ہے جس کی سرکار میں جواب دہی ہے جس کے سوالوں سے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے.فرماتے ہیں وہ رک جاتا ہے اور خدا رسیدہ لوگوں کو گردو پیش کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے ”...اس واسطے وہ دنیا کی باتوں پر خوش نہیں ہو سکتے اور نہ ان پر تسلی پکڑ سکتے ہیں...“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ: 40-39) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طاعون کی مثال دیتے ہیں یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ طاعون عام تھی غالباً یہ پھر 1900ء کے بعد بیسویں صدی کے آغاز کی بات ہوگی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو...یاد رکھو کہ زبان سے خدا کبھی راضی نہیں ہوتا اور بغیر ایک موت کے کوئی اس کے نزدیک زندہ نہیں ہوتا...“ یہ جو دوسرا پہلو ہے اس کے متعلق پہلے بھی میں نے متوجہ کیا ہے جماعت کو مگر اب پھر میں عرض کرتا ہوں کہ صوفی جو کہتے ہیں کہ مرجاؤ پہلے اس سے کہ تم مار دیئے جاؤ.یہ جس رنگ میں انسان سمجھتا ہے اس سے ڈر جاتا ہے اور خوف زدہ ہوتا ہے میں کیسے مر جاؤں اور زندہ رہتے ہوئے بھی اپنے پر ایک موت قبول کرلوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو بڑی حکمت اور پیار کے ساتھ سمجھاتے ہیں فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 15 727 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء ”...یاد رکھو زبان سے خدا کبھی راضی نہیں ہوتا اور بغیر ایک موت کے کوئی اس کے نزدیک زندہ نہیں ہوتا.جس قدر اہل اللہ ہوتے ہیں سب ایک موت قبول کرتے ہیں اور جب خدا ان کو قبول کرتا ہے تو زمین پر بھی ان کی قبولیت ہوتی ہے...“ یہ کہہ کر وہ لوگ جو اپنے رشتوں ، اپنے اثر رسوخ کے تعلقات کو توڑنے سے گھبراتے ہیں ان کو تسلی بھی دیدی کہ جس موت کی ہم بات کرتے ہیں وہ ایسی خوفناک چیز نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو کہ انسان سب دنیا سے کٹ جائے سب دنیا کے تعلقات توڑ دے.اللہ تعالیٰ موت کو قبول کرتے ہی وہ نئی زندگی ضرور بخشتا ہے جو مادی موت سے بھی متعلق ہے اور مرنے کے بعد اسے مردہ نہیں رہنے دیتا.جس خدا کا یہ قانون ہے کہ ہر مردے کو جی اٹھائے گا دوبارہ اٹھالے گا وہ اس دنیا میں بھی تم سے یہی سلوک کرے گا اس لئے موت سے ڈرتے کیوں ہو.مرکر دیکھو پھر تمہیں پتا چلے گا کہ تمہارے مراتب ، تمہارے دوستوں کے تعلقات تمہارے اردگرد ماحول پر جو تمہیں شان و شوکت نصیب ہوئی تھی اس پر بھی موت آجائے گی.وہ ایسی حقیر اور بے معنی چیز میں دکھائی دیں گی کہ جو چیز میں خدا تمہیں دے گا ان کے مقابل پر ان کی کوئی حیثیت دکھائی نہیں دے گی کیونکہ فرماتے ہیں ” جب خدا ان کو قبول کرتا ہے تو زمین پر بھی ان کی قبولیت ہوتی ہے.پہلے خدا تعالیٰ خاص فرشتوں کو اطلاع دیتا ہے کہ فلاں بندے سے میں محبت کرتا ہوں اور وہ سب اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں حتی کہ اس کی محبت زمین کے پاک دلوں میں ڈالی جاتی ہے اور وہ اسے قبول کرتے ہیں جب تک ان لوگوں میں سے کوئی نہیں بنتا تب تک وہ پیتل اور تانبا ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کی قدر کی جاوے پس موت کا جو تصور ہے وہ بڑا بھیا نک ہے مگر اس تصور کے بھیانک پین میں کمی تب آتی ہے اگر جی اٹھنے کا مضمون ساتھ باندھا جائے اور جی اٹھنے کا جو مضمون ہے وہ مرنے کے بعد ہی انسان مشاہدہ نہیں کرتا اس دنیا میں دیکھ سکتا ہے.اس لئے جب میں آپ کو جی اٹھنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں یعنی دوبارہ زندہ ہو جانے کی طرف، مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی زندگی عطا کرنے کی بات کرتا ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ حوالہ اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ آپ نے ( ملفوظات جلد سوم صفحه : 620)
خطبات طاہر جلد 15 728 خطبہ جمعہ 13 ستمبر 1996ء اس کا ایک قطعی ثبوت ہمارے سامنے رکھ دیا ہے.فرمایا جتنے خدا کے بنے ہیں ان کو دیکھو وہ خدا کے لئے مر گئے تھے اور کوئی بھی ایسا نہیں رہا جسے مردہ حالت میں خدا نے چھوڑ دیا ہو اسی دنیا میں ان کو ایسی عزت ، ایسی زندگی کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ جو اس نئے دور کے ساتھ اپنے پرانے دور کا موازنہ کر کے دیکھیں تو ان کو اپنی جو خود قبول کی ہوئی موت ہے وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک حقیر قربانی دکھائی دے گی.وہ اس لئے کہ جو پہلے کی زندگی تھی اس کی نعمتیں جو انہوں نے چھوڑی تھیں ان نعمتوں کے مقابل کچھ بھی نہیں جو خدا نے ان کو عطا کر دی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے تجربے سے یہی مضمون بیان فرماتے ہیں کہ: اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا (در تشین (117) وہ کیا خاک تھی ، وہ قطرہ کیا تھا؟ وہ وہ قربانیاں تھیں وہ پہلے کی زندگی تھی جسے آپ نے خدا کی خاطر مٹی میں ملا دیا.اسے خود اپنے ہاتھوں سے خدا کی راہ میں قربان کرتے ہوئے گویا دنیا کی زندگی کے ذرائع سے اپنا تعلق قطع کر لیا.دنیا کی زندگی کے ذرائع میں دو ہی چیزیں ہیں پانی اور مٹی.فرمایا کہ جو کچھ میں نے خدا کی راہ میں قربان کیا وہ پانی کا ایک قطرہ اور تھوڑی سی مٹی تھی اس کے سوا کوئی حیثیت نہیں تھی مگر : اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے ثریا بنادیا اب دیکھیں کل عالم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر خدا نے کیسا بلند فرمایا ہے.زمین کے کنارے گونج اٹھے ہیں اس نام سے اور یہ ذکر بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے.وہ خاک کی مٹھی جو آپ کہتے ہیں میں تھا اس نے تو کل عالم بنا ہی بننا ہے.کوئی دنیا کی طاقت اسے روک نہیں سکتی.وہ قطرہ جو آپ تھے جب اسے خدا کی راہ میں قربان کیا تو وہ ساری دنیا کے لئے زندگی بخش پانی بن رہا ہے اور بنتا چلا جائے گا.پس یہ حقائق ہیں جو آپ کے سامنے رکھے جارہے ہیں کوئی فرضی قصے نہیں ہیں جن کی بناء پر آپ کو اصلاح احوال کی طرف متوجہ کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو سمجھنے کی اور ان پر عمل پیرا ہونے کی اور ان سے استفادے کی ہمیں توفیق بخشے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 729 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء ہر احمدی مسلمان کو بد دیانتی کے خلاف مستعد ہو جانا چاہئے.( خطبه جمعه فرموده 20 ستمبر 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَاَنِيْبُوا إِلى رَبَّكُمْ وَأَسْلِمُوْالَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (الزمر : 55،54) پھر فرمایا: یہ آیات کریمہ جو سورۃ الزمر کی نمبر ۵۴ اور نمبر ۵۵ آیتیں ہیں.(ان کا ترجمہ پیش کرنے سے پہلے میں گزشتہ خطبہ میں جو آیت تلاوت کی گئی تھی اس کے حوالے کی درستی کا اعلان کرنا چاہتا ہوں وہ سورۃ یونس کی آیت پھپیں تھی لیکن لکھنے والے نے غلطی سے سورہ الرعد لکھ دیا تھا تو میں نے بھی جولکھا تھا وہی پڑھ کے سنا دیا.آیت تو وہی تھی مگر صرف سورۃ کا حوالہ تھا آیت کا نمبر بھی وہی ہے یعنی پچیس نمبر مگر رعد کی بجائے اس کو یونس سمجھیں اب.یعنی جس نے بھی حوالہ دیکھنا ہو وہ یونس میں سے حوالہ دیکھے.) یہ دو آیتیں جو تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا توان سے کہہ دے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.اَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ اپنی
خطبات طاہر جلد 15 730 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء جانوں کے مفاد کے خلاف اعمال کئے ہیں یہ مراد ہے جانوں پر ظلم کیا ہے.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رحْمَةِ اللهِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اللہ تعالیٰ تمام گنا ہوں کو تمام تر گناہوں کو بخشتا ہے ، بخش سکتا ہے اگر وہ چاہے.اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ اگر وہ چاہے، کہ الفاظ یہاں نہیں ہیں.مگر دوسری جگہ جہاں بھی یہ مضمون آیا ہے اگر وہ چاہے کہ الفاظ ہیں تو اس لئے وہ اس مضمون میں شامل ہیں اس لئے میں نے وہ الفاظ پڑھے ہیں مگر لفظی ترجمے میں نہیں ہیں.لفظی ترجمہ صرف اتنا ہوگا کہ یقینا اللہ تعالیٰ تمام تر گناہوں کو بخش دیتا ہے.اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ یقیناً وہی ہے جو بہت زیادہ بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.وَاَنِيْبُوا إلى رَبَّكُمْ وَأَسْلِمُوالَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ اور اپنے رب کی طرف جھکو وَأَسْلِمُوا اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو.مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ پیشتر اس کے کہ تمہارے پاس عذاب آجاۓ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ پھر تم مدد نہیں دئے جاؤ گے.تو یہ جو آیت ہے خدا تعالیٰ کی غیر معمولی بخشش اور بے انتہا بخشش کا مضمون پیش کر رہی ہے اس کے ساتھ ایک تنبیہ بھی فرما رہی ہے.اگر انسان اس خیال سے کہ خدا ہر گناہ بخش سکتا ہے بخش دے گا ، گنا ہوں میں دلیر ہوتا رہے اور آگے بڑھتار ہے تو پھر عین ممکن ہے کہ اس کی موت ایسے وقت میں آئے جبکہ خدا کی ناراضگی کا اظہار اس دنیا میں اس سے شروع ہو چکا ہو اور جب پکڑ کا وقت آ جائے پھر کوئی بخشش نہیں ہے.تبھی فرعون نے جب آخری ڈوبتے ہوئے ایمان کا اقرار کیا ،موسیٰ کے اور ہارون کے خدا پر ایمان لانے کا اقرار کیا اور بخشش مانگی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آلن یعنی بچانے کا ذکر کیا کہ مجھے بچالے اب کون سا وقت ہے اور پھر پکڑ آ گئی.پس یادرکھنے کی بات ہے کہ ان دو انتہاؤں کے درمیان جو راہ اختیار کرنی ہے یہی دراصل وہ راہ ہے جسے پل صراط کہا جاتا ہے.ایک طرف یہ کامل یقین کہ خدا گناہ بخش سکتا ہے انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے جو اپنی ذات میں ایک بہت بڑا گناہ ہے.جب بھی نصیحت آموز خطبات دیتا ہوں تو بعض احمدیوں کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک سے بڑی سخت پریشانی کا اظہار آتا ہے کہ ہم تو فلاں چیز میں ڈوبے ہوئے ہیں ہم نے اب کہاں بخشے جانا ہے یعنی توجہ پیدا ہوتی ہے گنا ہوں سے تو بہ کی مگر سمجھتے ہیں کہ اب ہمارا بخشش کا زمانہ گزر چکا ہے.یہ اپنی ذات میں ایک کفر ہے اور خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 15 731 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء کی عظمت شان کے خلاف ایک گستاخانہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بدظنی کے طور پر بیان فرماتے ہیں کہ اپنے رب پر بدظنی نہ کرو.بندوں پر بدظنی بھی بڑا گناہ ہے مگر رب پر بدظنی بہت ہی بڑا گناہ ہے اور یہ جو بدظنی ہے یہ گناہوں سے باز آنے میں مدد نہیں دیتی بلکہ گناہوں میں آگے بڑھا دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جو عبارت ہے میں نے اس مضمون کی تائید میں رکھی ہے وہ میں پڑھوں گا تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ اگر انسان مایوس ہو جائے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا پھر اور گناہ کرتا ہے.چنانچہ ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ وہ شخص جس نے ننانوے قتل کئے تھے اور وہ جگہ جگہ پھرتا تھا یہ سوال لئے ہوئے کہ کیا میں بخشا جا سکتا ہوں اور کیسے بخشا جا سکتا ہوں تو ہر طرف سے جب مایوسی ہوئی اور ایک بہت بڑے بزرگ جس پر اس کی توقع تھی کہ وہ تو ضرور میری صحیح راہنمائی کریں گے انہوں نے کہا کہ نہیں کوئی رستہ نہیں ہے.اس نے کہا پھر جہاں ننانوے وہاں سو بھی ہو جا ئیں پورے تو اس کو قتل کر دیا.تو اب یہ دیکھیں کہ بعض دفعہ مایوسی گناہ کو بڑھانے میں مددگار ہو جاتی ہے اور انسان کو زیادہ جرات بخش دیتی ہے کہ اب جو کچھ ہو چکا، ہو چکا پھر سب کچھ صحیح ہے.اور وہ لوگ جن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَحَاطَتْ بِه خطيته (البقرہ:82) کہ ایسا شخص جس کو اس کی برائی نے گھیرے میں لے لیا ہو وہ ایسے ہی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اب تو ہم گھیرے میں آچکے ہیں اب بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے تو پھر پڑے رہو اسی میں آگے بڑھتے رہو او را کثر گناہوں میں جو شدت اختیار ہوتی ہے وہ خدا کے فضل سے مایوسی کے نتیجہ میں ہوتی ہے.پس یہ آیت گناہوں پر انگیخت کے لئے نہیں بلکہ گناہوں سے بچنے کے لئے امید پیدا کرنے کے لئے ہے.ابھی بھی وقت ہے تم واپس لوٹ سکتے ہو، ابھی بھی وقت ہے تم واپس لوٹ سکتے ہو، ابھی بھی وقت ہے تم واپس لوٹ سکتے ہو کوئی تمہارے ایسے گناہ نہیں ہیں جن کو خدا بخش نہ سکتا ہو.پس یہ بہت ہی عظیم اظہار ہے اللہ تعالیٰ کی بخشش کا جو گنہگاروں کے لئے سب سے بڑا سہارا ہے.اگر وہ اس سہارے کا مضمون سمجھیں اگر واپسی کی تلاش شروع کریں اگر ان کے نفس کی پشیمانی بڑھنے لگے اگر وہ تو بہ کی طرف مائل ہوں تو یہ آیت گنہ گاروں کا سب سے بڑا سہارا ہے لیکن اگر یہ کہیں کہ خدا نے تو بخشنا ہی نہیں اب تو ہم بہت آگے گزر گئے ہیں اور اس کے نتیجہ میں گناہوں میں
خطبات طاہر جلد 15 732 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء آگے بڑھیں تو پھر ان کے لئے اس آیت کا اگلا حصہ ہے جو اطلاق پاتا ہے.وَانِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہے تو بہت بخشنے والا لیکن اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھک جاؤ اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دو.أَسْلِمُوا میں فرمانبرداری بھی ہے اور سپردگی بھی ہے.اس کے سپر د کر دو اپنے آپ کو ، اس پر پھینک دو کہ اب تو تو نے ہی کچھ کرنا ہے ، کرنا ہے ہم سے تو یہ داغ مٹتے نہیں اور أَسْلِمُوا میں پھر دعا کا مضمون داخل ہو جاتا ہے.جب آپ کسی کے سپر د اپنے آپ کو کر دیں تمام تو کل اس پر کریں تو ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب تو تیرے سوا کوئی سہارا رہا ہی نہیں ہم نے اپنا سارا وجود تیرے حوالے کر دیا اس لئے تو مددگار ہو جا.پس اسلِمُوا کے نتیجے میں جو عاجزانہ دعائیں اٹھتی ہیں وہ بخشش کے لئے اور گناہوں سے بچنے کے لئے بہت ہی مددگار ثابت ہوتی ہیں.فرمایا یہ کر لو مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ اس وقت سے پہلے کہ عذاب آجائے.جب عذاب آجائے گا تو پھر بچ نکلنے کا، پھر بخشش کا کوئی وقت باقی نہیں رہے گا.ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ پھر تم کسی طرف سے مدد نہ دیئے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پھر اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا.تم لا تُنصَرُونَ جب پکڑ کا وقت آئے گا تو پھر کوئی بھی تمہارا مددگار نہیں ہوگا.جب اللہ مددگار نہیں ہوگا تو کسی اور کو بھی توفیق نہیں ہوگی کہ وہ تمہاری مدد کر سکے اور تُنصَرُونَ میں وہ دعا والا مضمون بھی ظاہر ہو گیا جس کی طرف میں نے اَسْلِمُوا کے حوالے سے اشارہ کیا تھا.اَسْلِمُوا میں جو سپردگی ہے اس کے ساتھ دعا کا ایک لازمی تعلق ہے اور تُنصَرُونَ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو گنا ہوں سے تو بہ کی توفیق ملے گی اللہ کی مدد کے بغیر نہیں مل سکتی.اگر عذاب سے پہلے پہلے تو بہ کرو گے تو اللہ کی مدد تمہیں نصیب ہوگی اور وہ مدد ہی ہے جس کی وجہ سے تم گناہوں سے نجات پاسکتے ہو.اگر وہ مدد نہ آئی اور تم نے مدد نہ مانگی یعنی تم نے اس کی طرف توجہ ہی نہ کی اور پکڑ کا وقت آگیا تو پھر نہ خدا کی طرف سے کوئی مددا ترے گی نہ دنیا کا کوئی بچانے والا تمہیں بچا سکے گا.اس لئے بہت ہی اہم اور گہرا مضمون ہے اور جونفس کی تربیت کا مسئلہ ہے یہ ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے.شاذ ہیں جو معصوم ہیں یعنی انبیاء علہیم السلام باقی سب کسی نہ کسی پہلو سے غیر محفوظ رہتے ہیں اور جب تک دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے سہارے تلاش نہ کریں اور اس کی پناہ گاہ کی طرف ان کی نظر نہ رہے اور جب وہ یہ کہیں اعوذ بالله من الشیطن الرجیم تو اس کی پناہ گاہ پر نظر ہو پھر دعا
خطبات طاہر جلد 15 733 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء کریں ورنہ منہ سے کی ہوئی دعا کے کوئی بھی معنے نہیں بنتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تمہارے منہ کی باتوں سے خدا خوش نہیں ہوسکتا، کچھ بھی نہیں ہوگا.تو میں نے جو پناہ گاہ پر نظر کا محاورہ استعمال کیا ہے یہ ایک اہم بات ہے جواب سمجھانا چاہتا ہوں.اللہ پناہ گاہ ہے اور جب آپ کہتے ہیں کہ ہم شیطان سے تیری پناہ میں آتے ہیں اور تیری پناہ مانگتے ہیں تو ہر گناہ کے مقابل پر ایک پناہ گاہ ہوا کرتی ہے اور ہر گنہگار جواپنے گناہ کو جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس گناہ کی پناہ گاہ کیا ہے.پس جب وہ اس پناہ گاہ پر نظر رکھے گا، کسی خاص گناہ کے حوالے سے جانے گا کہ اس حفاظت میں آؤں گا تو میں بچوں گا تو اس کی دعا معنی خیز ہو جائے گی وہ صرف منہ کی باتیں نہیں رہیں گی.پھر جب وہ کہے گا اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم تو شیطان رجیم کے ان خطرات سے وہ پناہ میں آئے گا جو اس کے ذہن میں حاضر ہوں گے.وہ جانتا ہوگا کہ ان سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کی یہ رحمت نازل ہو تو پھر میں ان سے بچ سکتا ہوں اور اس کے نتیجہ میں ایک اور مضمون بھی انسان کے ذہن پر روشن ہوتا ہے جو قرآن کریم کی ان ہدایات سے تعلق رکھتا ہے جو ہر گناہ سے بچنے کے تعلق میں ہیں.پس دعا کے ساتھ انسان کو عرفان نصیب ہونا چاہئے.دعا کے ساتھ انسان کا ذہن زیادہ روشن ہونا چاہئے اور وہ روشنی اس طرح ملتی ہے آپ کہتے ہیں اے خدا فلاں گناہ ہے میں تو گھیرے میں آ گیا مجھے معاف کر دے مجھے بچالے لیکن پھر کیسے خدا بچایا کرتا ہے ان گناہوں سے.قرآن کریم میں جو انبیاء کے اور ان کی قوموں کے حالات کے ذکر ہیں ان گنہگاروں کے اور ان کے بچنے کے حالات مذکور ہیں وہ ساری معین پناہ گاہیں ہیں جن میں آپ پناہ ڈھونڈ سکتے ہیں.دیکھیں حضرت یوسف نے بھی ایک دعا کی تھی اور عجیب دعا ہے کہ جیل خانے کو پناہ گاہ سمجھا اور اے خدا میں ان کے شر سے بچنے کی تیری مدد کے بغیر طاقت نہیں رکھتا.جو میرا ذ ہن کام کرتا ہے وہ تو یہ ہے کہ اگر جیل خانے میں جانا پڑے اس بدی سے بچنے کے لئے تو میں تجھ سے یہی مانگتا ہوں.اب معلوم ہوتا ہے کہ ان عورتوں کا مکر اتنا شدید تھا اور ان کی جو دنیاوی کشش تھی وہ اتنی فتنہ پرداز تھی کہ ایک نبی نے جب دعا مانگی ہے تو پناہ گاہ کا تصور سامنے رکھ کر دعا مانگی ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے تجربہ سے معلوم ہو چکا تھا کہ ان شیطانوں سے بچ نکلنے کی نہ مجھ میں طاقت ہے اگر خدا مدد نہ کرے اور نہ ان حالات میں مجھے کوئی پناہ گاہ نظر آرہی ہے سوائے
خطبات طاہر جلد 15 734 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء اس کے کہ میں جیل میں چلا جاؤں.پس جیل سے بچنے کی دعا نہیں مانگی تھی جب ان کے فتنے سے بچنے کی دعا مانگی کہ خدا ہمیں بچالے.تو بعض لوگ اس کے بعد جب پڑھتے ہیں کہ اس کے باوجود جیل میں چلے گئے اور فتنہ نا کام نہ ہوا تو وہ فتنہ جیل بھیجنے کا فتنہ نہیں تھا، فتنہ جیل سے باہر رکھ کر گنا ہوں میں قید کرنے کا فتنہ تھا.اس قید پر جو گناہوں کی قید تھی آپ نے مادی قید کو ترجیح دی اور اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کی تائید فرما دی.اگر خدا تعالیٰ سمجھتا کہ اس نبی کو علم نہیں ہے یہ دعا اس کو نہیں کرنی چاہئے تھی تو اللہ تعالیٰ دوسرا مضمون سمجھا دیتا.اللہ تعالیٰ نے یہی فیصلہ فرمایا کہ ہاں جیل ہی میں جانا بہتر ہے لیکن اس پناہ گاہ کے ساتھ جو اور بہت سی رحمتیں وابستہ تھیں وہ ساری عطا کر دیں.اس لئے جب میں پناہ گاہ کی بات کرتا ہوں کہ اس کو معین کرو تو اس لحاظ سے کہ وہ ایک حقیقی دعا بنے گی پھر معین ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ جان لے گا کہ تمہارے دل میں کتنا خلوص ہے.کس حد تک تم ان گناہوں سے بچنے کے خواہاں ہو.پھر جو مشکل قربانیاں دکھائی دیتی ہیں نہ صرف یہ کہ وہ آسان ہو جائیں گی بلکہ ان کے اندر بے شمار رحمتیں اور برکتیں رکھ دی جائیں گی.ورنہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ سکتا تھا کہ جیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں میں تمہیں ویسے بچالوں گا.مگر جیل کی قربانی کو قبول کرنے میں دیکھیں کتنی لامتناہی حکمتیں تھیں.ایک مثلاً یہ کہ سات سال تک جس قحط کے عذاب میں مصر نے مبتلا ہونا تھا اور گردو پیش کے تمام ممالک نے بھی بھوکے مرنا تھا.اس ابتلاء سے یوسف کی قید نے بچایا ہے، باہر رکھ کر اللہ تعالیٰ اگر بچانے کے سامان کرتا تو یہ واقعہ پیدا ہوا ہے جس میں جیل بہانہ بنی ہے.بادشاہ کی رؤیا کا حضرت یوسف تک پہنچنا یہ مکن نہیں تھا عام حالات میں کون عزیز مصر کے پاس بادشاہ کا یہ پیغام لے کے جاتا کہ اس رویا کی تعبیر بتاؤ.پس خدا تعالیٰ کی جو حکمتیں ہیں وہ بہت ہی عظیم اور حیرت انگیز ہیں انسانی عقل کی رسائی وہاں ہو ہی نہیں سکتی جب تک ان حکمتوں کو ہم رونما ہوتے نہ دیکھ لیں.پس دیکھو کتنا بڑا انعام ہوا ہے یوسف کی قربانی کا ، اس دعا کا، وہ نہایت ہی خوف ناک پناہ گاہ جو اپنے لئے مانگی ہے چونکہ اخلاص سے مانگی گئی تھی وہ دعا قبول کی گئی اور اس کے ساتھ ایسی برکتیں رکھ دی گئیں کہ وہ جیل کے چند تنہائی کے سال ان برکتوں کے مقابل کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے اور یہ جو حضرت یوسف کی پناہ گاہ تھی غور کریں یہ ساری دنیا کی پناہ گاہ بن گئی.دور دور سے جو پناہ ڈھونڈتے ہوئے آتے تھے وہ حضرت
خطبات طاہر جلد 15 735 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء یوسف کی اس پناہ گاہ کی برکت سے آتے تھے، اس کے صدقے سے آتے تھے اور اپنے بھائی آئے اور اپنے باپ سے ملاقات ہوئی یہ سارے جو خدا تعالیٰ نے انعامات وابستہ فرمائے یہ اسی گناہ سے بچنے کی پناہ گاہ تھی اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی.وہ بچپن کی رؤیا پوری ہوئی ، چاند ستاروں نے سجدہ کیا یعنی اطاعت میں آگئے.یہ دیکھیں کتنے عظیم الشان فوائد ہیں جو ایک مخلصانہ دعا سے وابستہ ہوتے ہیں.بظاہر انسان سمجھتا ہے سرسری مطالعہ کرنے والا کہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی یوسف کو اس مصیبت میں ڈالتا وہیں دعا قبول کر لیتا.مگر چونکہ برکتیں بہت تھیں اور یہ بتانا تھا کہ خدا کی خاطر جوختی کی پناہ گاہ ڈھونڈتے ہو وہ لوگوں کے لئے آرام کی پناہ گاہ بنے گی اور کثرت سے لاکھوں لوگ اور بڑی بڑی قو میں اس سے فائدہ اٹھا ئیں گی اور لمبے عرصے تک اس کی برکتیں پھیلتی چلی جائیں گی.پھر حضرت یوسف کے بھائی آئے وہاں ان کے ساتھ رہے اس کے نتیجہ میں حضرت یوسف کی قوم کو پھر اس بادشاہ ، وہ بادشاہ فرعون نہیں تھا بلکہ باہر کے آئے ہوئے بادشاہ تھے، ان کے علاقے میں دیر تک بنی اسرائیل کو وہ سارے حقوق ملے اس سے پہلے جن سے وہ محروم تھے اور بنی اسرائیل پھر مصر میں جو آباد ہوئے ہیں تو اسی کی برکت سے آباد ہوئے ہیں.اور جب اس قوم نے خدا کو بھلا دیا جو حضرت یوسف کی دعا اور قربانی کے نتیجہ میں اس پناہ گاہ تک پہنچی تھی تو وہ پناہ گاہ نہ رہی بلکہ اس پناہ گاہ سے لوگ پنا ہیں مانگنے لگے.حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں نے دعائیں کیں کہ اے خدا ہمیں اس پناہ گاہ سے نجات بخش ، ہمیں نکال دے اس سے اور ایک وہ بھی ہے جب اس پناہ گاہ سے رہائی نصیب ہوئی ہے جس کو لوگوں کے اپنے اعمال نے گندا کر دیا تھا.تو قرآن کریم نے جو قصص بیان فرمائے ہیں وہ سلسلہ بہ سلسلہ گہری حکمتوں کے راز رکھتے ہیں اور وہ عقلوں کو روشن کرتے ہیں اور انسانی ، مذہبی تاریخ کو سمجھنے کی توفیق عطا کرتے ہیں تو ان باتوں پر غور کرو.میں یہ مضمون اس لئے کھول رہا ہوں کہ میں نے عمداً ایک لفظ استعمال کیا آپ کو سمجھانے کے لئے اگر میں یہ باتیں نہ بتا تا تو آپ کو سمجھ نہ آتی کہ کیوں کہہ رہا ہوں کہ پناہ گاہ کومعین کرو.تم جانتے ہو کہ بعض گناہوں سے بچنے کی کیا راہ ہے جو تم اختیار کر سکتے تھے اگر تم سوچتے ،غور کرتے تمہیں طاقت نہیں ہے وہ راہ تو ہے.ہر انسان جانتا ہے اگر یہ ہو جائے تو پھر میں
خطبات طاہر جلد 15 736 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء بچ سکتا ہوں تو اس کو معین کرو اور پھر خدا سے یہ دعا مانگو کہ اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس گناہ سے اس کمزوری سے، اس لغزش سے، اس بد عادت سے، اس بدخلقی سے اور میں جانتا ہوں کہ میرے بس میں نہیں کہ میں یہ حل کر سکوں مگر میں جانتا ہوں کہ حل ہے کیا اور ہر انسان پر روشن ہوتا ہے وہ حل اور اگر نہ ہو تو پھر منجملہ یہ دعا کر سکتا ہے کہ تو بہتر جانتا ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ہر گناہ گار، ہر کمزور، ہر مصیبت میں پھنسا ہوا انسان اس کے حل سے واقف ضرور ہوتا ہے کہ اگر یہ ہو تو پھر میں بچ سکتا ہوں تو اسے معین رکھ کر پھر دعائیں کرے پھر اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا اور اس وقت سے پہلے جو اس کی پکڑ کا وقت ہے وہ ضرور آپ کو بچالے گا.یہ وعدہ جو ہے پکڑ کا وقت اس میں ایک ایسا لفظ ہے جو بڑا ہی ڈرانے والا لفظ ہے یا ڈرانے والا محاورہ ہے کیونکہ ہمیں پتا نہیں پکڑ کا وقت کب آجاتا ہے.اس میں دو پیغام ہیں ایک تو یہ کہ زیادہ دیر نہ لٹکا و بات کو کیونکہ تمہارے اختیار میں نہیں ہے یہ فیصلہ کہ کب پکڑ کا وقت شروع ہوتا ہے، میں اس سے پہلے پہلے بیچ جاؤں.بعض دفعہ لوگ دریاؤں میں بہتے ہیں جو بعد میں آبشاروں میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں ان کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ آگے آبشار آنے والی ہے اور جب وہ پانی تیز ہو جاتا ہے اور اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ وہ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اس وقت وہ وقت ہاتھ سے گزر چکا ہوتا ہے پھر جتنے مرضی چپو مار میں ناممکن ہے کہ اس بہاؤ کی طاقت کے برخلاف چل سکیں.تو اچانک آتا ہے اور اس وقت تد بیر کا وقت گزرجاتا ہے.اسی طرح دنیا کے ابتلاؤں اور آزمائشوں اور گناہوں کا حال ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تو آپ کے بس میں نہیں ہوگا آپ کے علم میں نہیں ہوگا کہ کب کیسے آنا ہے اس لئے اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے.اور اگر آپ کسی معین بچنے کی جگہ کا تصور باندھنے کے بعد پھر دعائیں کریں گے تو یہ سب سے بڑی ضمانت ہے اس بات کی کہ آپ اچانک پکڑے نہ جائیں گے کیونکہ جو خلوص سے دعائیں مانگنے والا ہے اللہ تعالیٰ کبھی اس کو اچانک نہیں پکڑتا اگر اس کی کمزوری لمبی ہورہی ہے تو اس کو وہ مہلت دیتا ہے جس سے رفتہ رفتہ وہ کمزوری سے بچ نکلنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہے یا جانتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گناہوں کے کنارے بھرنے لگے ہیں.میں آگے نہیں بڑھ رہا گناہوں سے پیچھے ہٹ رہا ہوں، میں مزید شکنجے میں نہیں آرہا بلکہ کچھ نہ کچھ آزادی حاصل کر رہا ہوں.یہ کچھ نہ کچھ کا جومضمون ہے یہ خدا کے
خطبات طاہر جلد 15 737 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء غضب سے بچانے کے لحاظ سے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اگر فوری طور پر آپ نجات نہ بھی حاصل کر سکتے ہوں اگر کامل یقین کے ساتھ معین دعا کریں اور پھر اس کے لئے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ایسے مخلص کو پکڑا نہیں کرتا یا اس کی مہلت کو کاٹ نہیں دیا کرتا جو واقعہ اس کی طرف بڑھ رہا ہو اور پھر وہ مضمون جو حضور اکرم ﷺ نے اسی مغفرت کے تعلق میں ہمیں سمجھایا ہے کہ پھر اگر وہ بدیوں سے بچ نہ بھی سکا ہو اگر بیچ رہا ہو اور اس حالت میں بھی جان نکل جائے تب بھی خدا تعالیٰ کی بخشش اس پر غالب آجائے گی.تو یہ وہ اللہ ہے یہ وہ ہمارا رب ہے جس سے ہمارا معاملہ ہے اور اس نے اس معاملے کی ساری راہیں کھول کھول کر ، آسان کر کر کے ہمیں سمجھا دی ہیں.اگر اس کے باوجود ہم ان سے استفادہ نہ کریں تو بہت بڑا نقصان ہے اور بہت بڑی حماقت ہے.پس ایک یہ بات ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور دوسرے اس کے اور بھی پہلو ہیں جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روشنی ڈالی ہے.اب میں آپ کے الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو یہ سمجھ آئے کہ اس جدو جہد میں جو بہت ہی بڑا جہاد ہے نفس کا اس میں ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے ، کن چیزوں سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمارے سامنے ایک عالمی جہاد در پیش ہے.وہی ہے جو ہمیشہ مجھے پریشان رکھتا ہے کہ اتنی بڑی قوموں کو ہم نے دعوتیں دے دی ہیں اور خدا تعالیٰ بھی اس کثرت سے ہمیں وہ قو میں عطا فرما رہا ہے کہ اب ایک فوج کا سوال نہیں فوج در فوج Armies پر Armies آرہی ہیں اور ان کو سنبھالنا ہے.ان کو سنبھالیں گے کیسے اگر اپنی کمزوریوں کا یہ حال ہو کہ ان سے تو ہم نپٹ نہیں سکتے ان سے نجات نہیں حاصل کر سکتے اگلوں کو کیسے بچائیں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر میں نے یہ تمہید باندھی اور اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالوں سے آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہم پر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں.ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ”کشتی نوح میں جو زبان استعمال فرمائی ہے یعنی جو محاورے استعمال فرمائے ہیں ان کو پڑھ کے تو لگتا ہے کہ کوئی بیچ ہی نہیں سکتا کیونکہ آپ نے دوسرے کنارے بتائے ہیں بخشش والا وہ بہت وسیع ہے لیکن جہاں پہنچ کر انسان گر جاتا ہے وہ بھی تو ایک کنارہ ہے.اس کنارے پر کھڑا ہو کر کوئی آدمی بتارہا ہو کہ یہ دیکھو اس قسم کی کھڈ ہے، یہاں پہنچے تو تم گئے ، یہ قدم نہ اٹھا بیٹھنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان احتمالات کے پیش نظر کہ کوئی
خطبات طاہر جلد 15 738 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء بھی آپ کی جماعت میں داخل ہونے والا ضائع نہ ہو جائے ، کوئی بھی اس Precipice پر جو چٹان کا کنارہ ہے قدم نہ رکھے جہاں سے گرنے کے بعد پھر واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہا کرتا.تو فرماتے ہیں یہ بھی میری جماعت میں نہیں ہے ، وہ بھی میری جماعت میں نہیں ہے، وہ بھی میری جماعت میں نہیں ہے اور جماعت میں نہ ہونے والے کی جو کمزوریاں ظاہر کی ہیں ان کو پڑھتے ہوئے بعض دوست کہتے ہیں مجھ سے ذکر بھی کیا کہ ہماری تو جان نکل جاتی ہے ڈر کے مارے جب کشتی نوح اٹھاتے ہیں، پڑھی ہی نہیں جاتی کیونکہ ہر بات پر لگتا ہے کہ ہم جماعت سے نکل گئے.کوئی بھی ایسی ہدایت نہیں ہے جس پہ ہم یقین سے کہہ سکیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہیں.تو یا درکھیں وہاں جماعت میں داخل سے مراد وہ حصار ہے جس کے بعد خدا کی پناہ میں انسان آجاتا ہے اور ناممکن ہے کہ اس کو کوئی نقصان پہنچ سکے.پس جب یہ کہتے ہیں کہ میری جماعت میں نہیں ہے تو اس چار دیواری کی بات کر رہے ہیں جس کے متعلق اللہ نے خوش خبری دی تھی کہ جو تیری چار دیواری میں ہے اس کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا.ناممکن ہے کہ اسے کوئی شیطان ،شیطانی وسوسہ یا شیطانی کوششیں نقصان پہنچا سکیں تو ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جماعت کے اس دائرے سے بھی نکال کے پھینکا جارہا ہے جو جد و جہد کا دائرہ ہے، جو اس دار کی طرف رخ کئے ہوئے ہے جس دار میں آخری پناہ مل جاتی ہے.چنانچہ یہ جو عبارت ہے یہ تشریح کی تائید میں ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.آپ فرماتے ہیں گناہوں کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے حد سے تجاوز نہ کرنا.اگر حدوں کے اندر رہو گے تو عیش وعشرت میں بھی بخشش ہو سکتی ہے.اگر ظلم کرتے ہولیکن حد سے آگے نہیں بڑھتے ،اگر غریبوں سے بے پرواہ ہومگر کچھ پرواہ ضرور رکھتے ہو تو یہ وہ سارے رستے ہیں جن سے تمہیں مغفرت کی طرف راہ مل سکتی ہے اور میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ دوسری طرف حد سے تجاوز نہ کر جانا.پس یہ دوسرا کنارہ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں جس سے واپسی ممکن ہے.اگر آپ اس سے آگے نہیں جائیں گے تو واپسی ممکن ہوتی ہے اور اس آیت کا اطلاق اس مضمون پر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ بخش سکتا ہے، ہر چیز بخش بھی دیتا ہے لیکن ایسے حد سے نہ بڑھ جانا کہ پھر تم پر عذاب آجائے اور پھر عذاب آنے کے بعد تم
خطبات طاہر جلد 15 اس کی زد سے نکل نہ سکو.فرماتے ہیں: وو 739 ’حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے“ خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ : 71) حد سے زیادہ عیاشی یہ کیا چیز ہے حد سے زیادہ عیاشی.عیاشی کا ایک معنی تو ہے جو تن آسانی کی زندگی بسر کرتے ہوئے آرام کی راہیں تلاش کرنا اور ان میں ڈوبے رہنا اور مزید کی ہوس باقی رکھنا کہ جس حد تک بھی ممکن ہے ہم دنیا میں وہ سارے آرام اور عیش حاصل کر سکیں جن کی انسان تمنا کر سکتا ہے.اس آرزو کو لے کر جو صاحب حیثیت اور امیر لوگ آگے بڑھتے ہیں.پھر وہ آگے بڑھتے چلتے جاتے ہیں یہاں تک کہ پھر وہ دنیا کے مصائب اور مسائل اور تکلیفوں سے اس وقت تک ناواقف رہتے ہیں جب وہ تکلیفیں ان پر جب تک پڑ نہ جائیں اور آخر پڑ جایا کرتی ہیں.تو وہ عذاب والا مضمون جب تک ظاہر نہ ہو ان کو ہوش ہی نہیں آتی.وہ عیش وعشرت میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں.تو وہ عیاشی حد سے زیادہ لعنتی ہے جو توازن نہیں رکھتی جہاں واپسی کے لئے انسان اپنی را ہیں کھلی نہیں رکھتا، جب بگٹٹ آگے دوڑا چلا جاتا ہے اور پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتا.تو فرماتے ہیں یہ عیاشی کی زندگی لعنتی زندگی ہے.’حد سے زیادہ بدخلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے“ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی نوح میں یہ فرمایا کہ جو اپنے بھائی سے ذرا سا بھی تکبر سے پیش آتا ہے ذرا سا بھی بدخلقی سے پیش آتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اس کا کیا مطلب ہے.یہ اس کی تشریح ہورہی ہے.فرمایا ہے وہ جماعت جو میں کہہ رہا ہوں وہ پاکوں کی وہ جماعت ہے جس کی حفاظت کا خدا نے وعدہ کر دیا ہے.اگر تم میرے ہو جاؤ اور میرے گھر والے بن جاؤ تو اس کے لئے یہ یہ صفات تم میں ہونی چاہئیں.اب وہ فرمارہے ہیں کہ اگر تمہارے اندر یہ برائیاں اس حد تک قبضہ نہ کریں تو پھر مایوسی کی وجہ کوئی نہیں تم پھر بھی بیچ سکتے ہو.تو بدخلقی کو پسند تو نہیں فرمار ہے.حد سے زیادہ بد خلقی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی زبان ، اپنی روش اور رویے پر کوئی اختیار بھی نہیں پھر رہتا.لوگ ایسے بدتمیز ہو جاتے ہیں بعض دفعہ کہ نہ اپنوں سے اخلاق سے پیش آتے ہیں ، نہ غیروں سے پیش آتے ہیں، نہ موقع دیکھتے ہیں نہ محل.اپنے بچوں سے بھی بد تمیز، اپنی
خطبات طاہر جلد 15 740 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء بیویوں سے بھی بدتمیز، اپنے رشتے داروں سے، اپنے بڑوں سے، اپنے چھوٹوں سے اور نا قابل برداشت وجود بن جاتے ہیں.فرمایا اگر یہ کرو گے تو پھر واپسی نہیں ہوگی.بدخلقی کے ساتھ اگر شرمندگی کا احساس رہے تو ایسی بدخلقی کو حد سے بڑھی ہوئی بدخلقی نہیں کہا جاسکتا.بعض بدخلق میں نے دیکھے ہیں بد خلقی سے پیش آتے ہیں اور بعد میں پھر رورو کے معافیاں بھی مانگتے ہیں اور بعض جلدی بعض ذرا دیر میں.تو بد خلقی خواہ کتنی ہی بڑھی ہوئی ہو اگر کچھ ندامت کا احساس زندہ ہے، کچھ حیا باقی ہو تو ایسی بدخلقی کو انسان حد سے بڑھی ہوئی بدخلقی نہیں کہہ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعریف فرما دی کہ حد سے بڑھی ہوئی بدخلقی ، آپ کے الفاظ ہیں سے زیادہ بدخلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے بے مہر ہونے سے مراد پھر یہ ہے کہ انسان کے دل میں جو خدا نے نرمی اور شفقت رکھی ہوتی ہے وہ اٹھ جاتی ہے اور پھر دل ایسا سخت ہو جاتا ہے کہ پھر اس الله 66 حد پر خدا تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہوتی.ایک شخص نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیا جہالت کے زمانے میں اور بڑی دردناک کہانی ہے.کس طرح وہ بیٹی پوچھتی رہی کیا ہو گیا تم مجھ پہ کیوں مٹی ڈال رہے ہو.اس نے توجہ نہیں دی.بار بار وہ یہ بیان کرتا رسول اللہ ﷺ کے سامنے کہ آواز آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی مٹی میں دیتی چلی گئی.میں نے کوئی پرواہ نہیں کی نظر اٹھا کے دیکھا تو آنحضرت ﷺ زار و قطار رو رہے تھے.آنسوؤں کا دریا تھا جو آنکھوں سے بہ رہا تھا اور یہ فرمارہے تھے کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا اور وہ بدنصیب کیسا بد نصیب تھا جس کی زندگی میں اس کی آخرت کا فیصلہ ہو گیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں جو بے مہر ہو جائے ، جس کے دل سے محبت مٹ جائے بنی نوع انسان سے یا خدا تعالیٰ کی مخلوق سے شفقت کو بھول چکا ہو اس کی پھر کوئی نجات نہیں ہے.وہ عنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ خدایا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پرواہ ہو نا لعنتی زندگی ہے...66 یعنی خدا یاد ہی نہ رہے اور کروڑوں انسان ایسے ہیں جو مسلمان کہلاتے ہیں اور خدا اپنی عظمت اور اپنی ان صفات کے ساتھ یاد نہیں جو بندوں میں بھی عظمت پیدا کرتی ہے بندوں کی صفات بھی تبدیل کر دیتی ہے.اس لئے خدا یاد نہیں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ نہیں کہتے.ان میں بعض نمازیں بھی پڑھتے ہیں.ایسے بھی ہیں جو مسجدوں کو آباد کئے ہوئے ہیں مگر خدا کو نہیں جانتے خدا سے ناواقف ہیں.اگر
خطبات طاہر جلد 15 741 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء یہ بات درست نہ ہوتی تو آنحضرت ﷺ آخری زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ کبھی نہ فرماتے : مساجدهم عامرة وهى خراب من الهدى (مشكاة المصابيح ، كتاب العلم الفصل الثالث ) کہ نماز میں خدا کے ذکر کی یقینی علامت نہیں ہیں.یہ خیال دل سے نکال دو کہ تم مسجدیں آباد کئے ہوئے ہو، نمازیں پڑھ رہے ہو اور واقعہ تم ذکر الہی کر رہے ہو.اگر دنیا میں ذکر الہی کے آثار تم میں ظاہر نہیں ہوتے ، دنیا کی زندگی تمہاری ویسی ہی رہتی ہے جیسی پہلے تھی جیسے مسجد میں داخل ہوئے ویسے مسجد سے باہر نکل آئے.تو فرمایا مساجدهم عامرة وهى خراب من الهدی آباد تو ہوں گی ان کی مسجدیں اور ہدایت سے بالکل خالی.کوئی ہدایت نہیں ہوگی ان میں.تو یہ بھی ایک بڑا اہم مضمون ہے کہ خدا یاد ہی نہ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں حد سے زیادہ خدایا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پرواہ ہونا خدا سے لا پر اوہ ہونا تو میں نے آپ کو بتا دیا ہے جس کی مثال آپ کے سامنے رکھی ہے.اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پرواہ ہونے کا حال یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کو اپنے بچوں ، اپنے قریبی رشتہ داروں کے سوا عامتہ الناس دنیا کی مصیبت اور تکلیف کا احساس ہی کوئی نہیں ہوتا.وہ بعض بڑے بڑے ریسٹورانٹس میں جہاں مشہور ہیں تکے اور کباب اور بعض جگہ وہ کہتے ہیں یہاں بریانی اچھی پک رہی ہے یہاں فلاں قورمہ اچھا بن رہا ہے وہاں گزر کے جار ہے ہوتے ہیں اور بعض ایسی بستیوں سے گزر رہے ہوتے ہیں جہاں مفلوک الحال لوگ رہتے ہیں اور ان کے اگر بارش ہو جائے تب بیچنے کے سامان نہیں ، گرمی بڑھے تب بیچنے کے سامان نہیں ، سردی بڑھے تب بیچنے کے سامان نہیں اور فاقہ کش بچے گلیوں میں گند میں کھیلتے ہیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ بھی خدا کی مخلوق ہے ہم نے ان کے لئے کیا کیا ہے.اگر یہ احساس ہو تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یعنی مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر احساس پیدا ہو کچھ نہ کچھ تو انسان ان کی فکر کرے.یہ تو نہ ہو کہ بالکل بے نیاز اور بے حس ہو کر ان لوگوں کے پاس سے گزر جاؤ اور تمہیں کبھی خیال ہی نہ آئے کہ تمہارے آرام و آسائش میں ان کا بھی کچھ حق ہے.تو فرمایا یہ ایک لعنتی زندگی ہے.
خطبات طاہر جلد 15 742 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء وو ’...ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ...“ ہر وہ شخص جس کو خدا نے دولت بخشی ہے جس کے حالات بہتر بنائے ہیں فرمایا وہ ویسا ہی خدا کے ہاں پوچھا جائے گا جیسے ایک فقیر جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ کیونکہ فقیر کے پاس تو خرچ کرنے کا کچھ ہے ہی نہیں.اس پر یہ آزمائش آئی ہی نہیں کہ مصیبت زدگان اور غریبوں کو دیکھے اور اس کے باوجود اس کا دل سخت رہے مگر امیر پر تو یہ آزمائش روز آتی ہے اور روز بسا اوقات بعض امیر اس میں ناکام رہ جاتے ہیں.فرمایا پوچھا جائے گا یہ یا درکھنا کہ تم میں سے ہر ایک پوچھا جائے گا.فرماتے ہیں:...جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا وو ہے اور خدا کے حرام کو ایسی بے باکی سے استعمال کرتا ہے کہ گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے..(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ : 71) اب یہ وہ تعریف ہے گئے گزروں کی جواب ہو رہی ہے.جو کشتی نوح کی تعریف تھی وہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو ان کے مقام سمجھائے جا رہے تھے کہ اس مقام پر ذرا بھی تم نے ٹھوکر کھائی تو اعلیٰ درجے کے لوگوں میں شمار نہیں ہو سکو گے.اب یہاں بدترین لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ بدترین اگر اس حد تک ہو جاؤ گے جیسا کہ ذکر کیا جارہا ہے تو پھر تمہاری واپسی نہیں.واپسی نہیں کا مضمون لعنت سے ظاہر ہوتا ہے کیونکہ لعنت کا مطلب ہے دوری اور لعنت جب کسی کو کہا جائے کہ لعنت ہے تو ایک تو جذبات کے غصے کے اظہار کے لئے آپ کہہ دیتے ہیں لعنت.مگر انبیاء اور عارف باللہ لوگ لعنت کو ان معنوں میں استعمال نہیں کرتے.لعنت کا وہ جو مذہبی مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ وہ خدا سے دور چلا گیا اور اتنا دور ہٹ گیا کہ اب وہ واپس نہیں آسکتا اس کو ملعون کہتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لعنتی زندگی کہہ کر یہ بیان فرمارہے ہیں کہ ان چیزوں میں اگر تم حد سے تجاوز کر گئے تو یا د رکھنا خدا کی تقدیر میں تم لعنتی لکھے جاؤ گے اور پھر تمہاری واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا.فرمایا جو حلال اور حرام کا فرق نہیں کرتا اور حرام کو حلال کی طرح کھاتا ہے اور کتنے ہیں ہمارے مسلمان بھائی جو پاکستان میں ہیں یا باہر ہیں وہ جن کو خدا تعالیٰ نے سب سے زیادہ حلال اور حرام کھول کھول کے بتایا اور دیکھیں کس طرح حرام رزق
خطبات طاہر جلد 15 743 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء پر منہ مارتے ہیں کہ ادنی سا بھی احساس نہیں ہوتا کہ حرام ہے.ذکر ہی کوئی نہیں اس بات کا.فرمایا یہ لعنتی زندگی ہے.اب جتنے مرضی ان کے خلاف اسلام کے فتوے دیئے جائیں وہ فتوے دینے والے خود بھی حرام پر ایسا منہ ماریں جیسے اپنی ماں کے دودھ پر بچہ منہ مارتا ہے تو وہ دوسروں کو لعنت سے کیسے بچاسکیں گے؟ اور رزق حلال کے متعلق اس لئے اور بھی زیادہ زور کی ضرورت ہے کہ یہ وہ فتنہ ہے جو نیکوں میں بھی داخل ہوتا ہے، نسبتاً آسانی سے داخل ہو جاتا ہے کیونکہ مالی منفعتوں سے اس بنا پر رک جانا کہ خدا کے منشا کے خلاف ہیں یہ مشکل کام ہے اور کچھ نہ کچھ انسان نفس کے لئے بہانے ڈھونڈ ہی لیتا ہے.چنانچہ آج جو ہماری اردو کی سوال و جواب کی مجلس تھی اس میں ایک صاحب نے یہی سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ناممکن ہے کہ ہم تجارت کریں اور بے ایمانی نہ کریں یعنی تجارت کرنا اور حرام کھانا ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں اس لئے اب بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں.مجبور ہیں.یعنی خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے کے لئے یہ عذر تھا کہ جب وہ حرام سے بیچ ہی نہیں سکتے تو پھر جو مرضی کریں سب کچھ ٹھیک ہے.ان کو میں نے سمجھایا کہ جس دوست نے آپ سے سوال کیا ہے ، ان کا اپنا نہیں تھا کسی دوست نے بات کی تھی پاکستان سے آیا تھا اور ان سے ملا تھا، ان کو میں نے سمجھایا کہ دیکھیں اگر انسان کا ضمیر گندہ نہ ہو تو ہر قسم کے حالات میں وہ پاک زندگی بسر کر سکتا ہے.اب یہ درست ہے کہ ایک انسان تجارت میں جتنا بچنے کی کوشش کرے کسی نہ کسی جگہ اسے کچھ تھوڑ اسا اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے بعض دفعہ کچھ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے جسے عامتہ الناس میں لوگ رشوت بھی کہتے ہیں حالانکہ بعض شرائط کے ساتھ وہ رشوت نہیں رہتی.مگر اس کے علاوہ اور بعض ایسی باتیں ہیں آپ اپنے دودھ دہی کی دکان کریں ، دودھ میں پانی نہ ڈالیں اور اس کے باوجود منافع تھوڑا رکھتے ہوئے بھی آپ گزارہ کریں تو یہ کہہ دینا کہ دودھ میں پانی نہ ڈالیں تو تجارت نہیں چل سکتی کیونکہ سب دنیا دودھ میں پانی ڈالتی ہے یہ ہے ہی غلط کیونکہ دنیا جو پانی ڈالتی ہے اس سے باقی ساری دنیا جو انہی کی دنیا ہے بیزار بھی ہے اور اگر قسمت سے کوئی ایسا دودھ والا مل جائے جس پر آپ کو یقین ہو کہ یہ پانی نہیں ڈالتا تو آپ اس کو دگنی تگنی قیمت دے کر بھی اس سے وہ دودھ لیں گے.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ ایسے لوگوں کی تجارت چلتی ہی نہیں جھوٹ ہے بالکل.بہت سے ایسے تجربے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان لوگوں
خطبات طاہر جلد 15 744 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء کی تجارت نہ صرف چلتی ہے بلکہ باقی تجارتوں پر غالب آجایا کرتی ہے.قادیان میں ایسے فقیرانہ مزاج کے مہاجر تھے جو بڑے عزت والے خاندانوں سے وابستہ ،سید زادے اور بعض معزز پٹھان شہزادوں سے تعلق رکھنے والے قادیان آئے دودھ دہی کی دکان کھولی اور اتنا لوگ امڈ امڈ کر آتے تھے کیونکہ ان کی دیانت اور تقویٰ کی وجہ سے وہاں ہر چیز صاف ستھری اور خالص اور اس کے نتیجہ میں باقی دکانوں سے زیادہ مزے دار ملتی تھی.تو اسی سے انہوں نے پھر جائیدادیں بنائیں ، اسی سے ان کی اولادیں بڑی بڑی تعلیم حاصل کر کے دنیا میں پھیل گئیں.تو دو طریق سے اللہ تعالیٰ تقویٰ کی زندگی بسر کرنے والوں کی مددفرماتا ہے ایک تو یہ کہ اگر واقعہ کچی دیانت ہو تو ایسی تجارتوں میں خدا برکت عطا فرما دیتا ہے اور جو اس تجربہ کو جانتے نہیں وہ دور بیٹھے ڈر کر ان باتوں سے ویسے ہی احتراز کر جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور دوسرا آسمان سے لازماً برکتیں نازل ہوتی ہیں.ان کے اموال میں برکتیں پڑتی ہیں.ان کے زندگی کے حالات میں ، ان کی اولاد میں ، ان کی صلاحیتوں میں، اور ان کی دین سے وابستگی اور وفا میں برکتیں پڑتی ہیں اور ایسے بچے پیچھے چھوڑ کے جاتے ہیں جو نسلاً بعد نسل دنیا میں بھی اعلی ترقی حاصل کرتے ہیں اور دین میں بھی وہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں جو دیانت کی معمولی باتیں ہیں اب دودھ دہی کی دکان کیا ہوئی مگر دیکھو آپ حالات پر نظر ڈال کے دیکھیں ان کی اولادوں کا جائزہ لیں وہ دنیا میں پھیلی گئی ہیں.وہ بڑی عزت اور عظمت سے یاد کئے جانے والے لوگ ہیں.اب ان کا نام آپ کو تاریخ احمدیت میں ملے گا تو آپ کا سر جھکے گا ادب سے اور آپ میں سے اکثر کو شاید پتا ہی نہ ہو کہ وہ ایک دودھ کی دکان کرنے والا آدمی تھا.کچھ کھیر بنانی سیکھ لی، کچھ دہی اچھی بنانی سیکھ لی اور اسی سے خدا تعالیٰ نے اس کے گھر کو برکتوں سے بھر دیا.اب ہمارے ماٹا ہوتے تھے، ان کی اولاد دیکھیں خدا نے کیسی پھیلا دی ہے دنیا میں ، اور کتنی ان کو برکتیں دی ہیں وہ آلو چنے بیچنے والے تھے بس ، مگر تھے دیانتدار.تو دیانت میں بہت سی برکتیں وابستہ ہیں جو فوری بعض دفعہ دکھائی نہیں دیتیں مگر ہوتی ضرور ہیں اور یہ سفر اس لئے ضروری ہے کہ انفرادی طور پر برکتوں کی خاطر نہیں خدا کی خاطر جب آپ دیانت اختیار کریں تو برکتیں ضرور ملتی ہیں.مگر اگر یہ نہیں کریں گے تو ساری قوم لازماً بددیانت
خطبات طاہر جلد 15 745 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء ہو جائے گی اور جو قو میں بددیانت ہو جائیں وہ ایک دوسرے کا خون پی رہی ہوتی ہیں اور دنیا سے ان کی تجارتیں بے سود بے معنی ہو کے رہ جاتی ہیں اور دنیا ان کو دھتکار دیتی ہے.اس لئے دن بدن ان کی روپے کی قیمتیں گرتی ہیں ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں ان کی منڈیاں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خوشحال ہیں کیونکہ ہر بے ایمان معاشرے میں وقتی طور پر خاندانوں کو خوشحالی ملتی ہے اور حکومتیں بدحال ہو جاتی ہیں کیونکہ ٹیکس نہیں جاتا ان کو.اب ٹیکس کی بات وہاں چلی تھی اسی سوال جواب میں.میں نے ان سے کہا تھا کہ یہ میں جانتا ہوں کہ اگر انسان کتنی بھی دیانتداری اختیار کر لے بعض ملکوں میں جب ٹیکس کی جگہ آئے گی تو وہاں ٹیکس والے مجبور کر دیں گے بد دیانتی پر اور بددیانتی پر مجبور کریں گے اور ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ یا وہ اپنی جائز آمد سے بہت بڑھ کر ٹیکس ادا کرے اور تجارت کا ایک دم صفایا ہوتا چلا جائے یا پھر بددیانتی میں ملوث ہو جائے.میں نے کہا اس سے بھی بچنے کی راہ ہے کیونکہ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ جب وہ ایک ٹیکس والے کو پیسے دیتے ہیں تو محض اس لئے نہیں دیتے کہ ان کا جائز ٹیکس لگے وہ پھر اپنا جائز ٹیکس بھی بچاتے ہیں اور ناجائز فائدے اور بھی حاصل کر لیتے ہیں.تو انسان اگر تقویٰ سے بچنا چاہے تو بچ سکتا ہے.ان سے کہے کہ تمہارا منہ جو بھرنا ہے وہ مجھے بتاؤ اپنے منافع میں سے بھرنا پڑے گا نسبتا منافع کم ہو جائے گا اگر دیانتداری پر قائم رہے اور اپنے منافع سے اس ظالم کا منہ بھرتا ہے تو میں جانتا ہوں کہ خدا ایسی تجارت کو بے برکت نہیں کیا کرتا.ہمیشہ اللہ تعالیٰ غیر معمولی حالات پیدا کر دیتا ہے اور ایسا تاجر بیچ جاتا ہے اگر بچنے کی خواہش ہو.یہ باتیں میں باہر بیٹھا نہیں کر رہا مجھے تجارت کی دنیا کی خبر نہیں ہے میں دور سے دیکھ کر ایک فرضی ہدا یتیں دے رہا ہوں.جماعت احمدیہ کی بعض تجارتوں میں خلیفہ اسیح نے مجھے نہ صرف ڈائریکٹر مقرر فرمایا بلکہ ایسا اختیار دیا کہ گویا میرا مشورہ جو تھا وہ حاوی تھا باقی سب مشوروں پر اور کاٹن کی تجارت تھی بعض دوسری چیزیں ایسی تھیں.اس حال میں ہم نے شروع کیا کہ بہت ہی برا حال ہو چکا تھا سب کچھ بکنے کو تیار تھا لیکن خدا نے سہارے دئے اور ہر مشکل کے وقت مددفرمائی صرف فیصلہ یہ تھا کہ ہم جس حد تک ممکن ہے دیانتداری سے کام کریں گے اور اگر کسی محکمے سے اس قسم کا رابطہ کرنا پڑتا ہے تو بعض ایسے آدمی تھے جو اس بات کے ماہر تھے ان کے ذریعے رابطہ کرنا پڑتا تھا لیکن
خطبات طاہر جلد 15 746 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء ہدایت ہماری یہ تھی کہ ایک دمڑی بھی حکومت کی یا ملکی دولت کی ہم اپنے لئے نہیں لیں گے.صرف ہمیں امن سے کام کرنے دیں اور خدا نے برکت ڈالی.سود سے کہتے ہیں، سود سے کیسے بچو گے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ بسا اوقات انسان نہیں بچ سکتا لیکن اگر ارادہ ہو، نیت ہو اور اخلاص ہو اور دعا ہو تو بیچ بھی سکتا ہے.ہمارے ایک کاروبار میں مسلم کمرشل بینک سے واسطہ تھا اور کاٹن کے یعنی اس روئی کے کاروبار میں بہت بڑے قرضے لازماً اٹھانے پڑتے ہیں اور ان قرضوں کے بغیر وہ کاروبار چل ہی نہیں سکتے کیونکہ عام جو کارخانے دار ہیں یا جینگ فیکٹریوں کے مالک ہیں ان کے پاس اتنا سر ما یہ تو ہوتا ہی نہیں کہ وہ بڑی قیمت دے کر وہ زمینداروں کو ان کی کاٹن کی قیمت پہلے ادا کر دیں.بہت سی مجبوریاں ہیں ، قرضے لینے پڑتے ہیں.اب میرے دل پہ یہ بڑا گراں تھا اور میں نے دعا بھی کی.میں نے کہا اللہ میاں جماعت احمدیہ کی فیکٹری ہے ہم نمونہ بننا چاہتے ہیں ہمیں بچا اس مصیبت سے اور ایک دوست کے تعارف سے مسلم کمرشل بینک کے جو جنرل مینجر بلکہ پریذیڈنٹ تھے ان سے ملا اور ان سے میں نے کہا کہ دیکھیں اتنے لاکھ قرضہ آپ سے لینا چاہتے ہیں لیکن سود نہیں دینا.اب وہ بہت ذہین آدمی تھے اور بڑے حوصلے والے انسان تھے.اب خدا نے واسطہ بھی ایسے شخص سے ڈالا جس میں یہ طاقت تھی اس بات کو سنے اور سمجھنے کی.تو تھوڑا سا تعجب ہوا.وہ کہتے ہیں اچھا اب بتائیں کیا بات ہے.میں نے کہا ہمارا دین ہمیں اجازت نہیں دیتا اور تجارت مجبور کرتی ہے لیکن ایک بات ہے کہ آپ کمرشل ادارے ہیں ، آپ کا کاروبار ہی منافع پر ہے اس کا مجھے احساس ہے.مگر یہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جیسا کہ ہمیں ہمیشہ منافع ہوتا ہے اگر منافع ہوا تو ہم آپ کو جتنا سور دیتے ہیں اس سے زیادہ پیسہ تحفہ دیں گے ،شرط نہیں ہے، کوئی اس کا تناسب مقرر نہیں کرنا.تو مجھے دیکھ کے انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے منظور ہے اور جس بینک کے آفیسر کی طرف انہوں نے حوالہ دیا ان سے نچلا وہ بھی بہت بڑا اونچے مقام کا افسر تھاوہ حیران رہ گیا.اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے.میں نے کہا ہو گیا تم جاکے پوچھو اور اس کے بعد پھر میں بھی ان کی موجودگی میں الگ ان سے ملا اور ان سے میں نے بھی یہی سوال کیا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کام تو آپ نے کر دیا ہے.اتنا بڑا فیصلہ جو آپ کے سارے حصہ داروں کے سامنے بہت ہی ایک نا قابل قبول حالت پیش کرتا ہے.اس نے کہا بات یہ ہے، میں ابھی بتا تا ہوں میرے فیصلے میں راز کیا
خطبات طاہر جلد 15 747 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 1996ء ہے.کہتے ہیں میں نے اپنے تجربے سے مردم شناس ضرور ہوں اور میرا یہ تجربہ ہے کہ بے ایمان لوگ کاغذ بڑے بھر کے لاتے ہیں اور کاغذوں کے منہ پکے کر لیتے ہیں اور جتنے مرضی پکے کاغذات ہوں دھوکہ دے جاتے ہیں لیکن اگر آدمی دیانتدار ہو تو وہ دھوکہ نہیں دے گا.میں نے تو آپ کو دیکھا مجھے یہ پتا لگ گیا کہ ہے دیانتدار اور اس لئے میں نے آپ سے کاغذ بھی نہیں مانگے ، فیکٹری کے کاغذ نہیں مانگے کہ رکھواؤ اس کے مقابل پر.مجھے پتا تھا اور میں اپنے اس فیصلے پر ایسا اعتما درکھتا ہوں کہ اس اعتماد کی خاطر مجھے پتا تھا کبھی غلطی نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہوا.مسلسل اس بینک نے ہمیں بغیر سود کے قرضہ دیا ہے اور مسلسل ہمارے او پر پورا اعتماد کیا اگرہمارا منافع کم ہوا تو ہم نے کچھ کم تحفہ دیا، زیادہ ہوا تو زیادہ خوشی سے قبول کیا مگر سودی کاروبار پھر نہیں ہوا.تو اللہ تعالیٰ کفیل بن جاتا ہے، رستے نکال لیتا ہے.اس لئے یہ بہانے نہ بناؤ کہ ہم بددیانتی پہ مجبور ہیں.ہر احمدی مسلمان کو بددیانتی کے خلاف مستعد ہو جانا چاہئے.جو روز مرہ کے اپنے اموال میں بددیانتی نہیں کرے گا اس کے بھائی کو بھی پھر اس سے خطرہ نہیں ہوگا.آج جو بعض شکایتیں آتی ہیں اور بڑی بھاری تعدا د شکایتوں کی وہ ہے جو مالی لین دین کی خرابی سے تعلق رکھتی ہے ان سے جماعت کو نجات ملے گی اور اگر ایک انسان اپنے ذاتی معاملات میں جو عام تجارتی کاروبار ہیں ان میں دیانتداری کے لئے محنت کرتا ہے تو نفسیاتی لحاظ سے اس کے لئے ناممکن ہے کہ حیلے تراش کر کسی بھائی کے پیسے پر نظر رکھ کر اسے دھو کہ دینے کی کوشش کرے.تو اس اعلیٰ معیار تقویٰ پر قائم ہوں تو جماعت کو بہت سے جھمیلوں سے نجات ملے گی اور ایسی جماعت جو خدا کی خاطر تقویٰ پر اور دیانت پر قائم ہو اس کے اموال میں لازماً برکت دی جاتی ہے.آگے جو بڑے بڑے کام در پیش ہیں ان کے لئے آپ حیران ہو جائیں گے کس طرح خدا تعالیٰ غیب سے، اپنے فضل سے روپے مہیا کرتا چلا جائے گا جیسا کہ اب کر بھی رہا ہے مگر اپنی دیانت کی حفاظت کرنی ہوگی.اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.باقی اقتباس اور باقی حوالے انشاء اللہ اگلے جمعے میں پیش کروں گا.انشاء اللہ
خطبات طاہر جلد 15 749 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء اللہ تعالیٰ کو ادا ئیں وہی پسند آتی ہیں جن کا سچائی وخلوص سے تعلق ہو.( خطبه جمعه فرموده 27 ستمبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد :22) پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ میں جو مضمون چل رہا تھا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس کے حوالے سے تھا اس کی چونکہ ابھی صرف دو سطریں ہی ختم ہوئی تھیں اس لئے میں نے وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں اسی اقتباس کو اور اس سے تعلق رکھنے والے مضمون کو آگے بڑھاؤں گا.پہلے ایک اور آیت تھی جس کے تعلق میں یہ اقتباس پیش کیا جارہا تھا اب ایک اور آیت ہے جس کے تعلق سے اقتباس پیش کیا جائے گا اور ان دونوں میں بھی گہرا تعلق ہے.لیکن اس سے پہلے کہ اس مضمون پر میں مزید روشنی ڈالوں یا اس آیت کریمہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس سے مزید روشنی حاصل کروں اور آپ کے ساتھ شریک ہوں میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ ماریشس کا آج سالانہ جلسہ شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح
خطبات طاہر جلد 15 750 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء جماعت احمدیہ پین کا بارھواں (12) سالانہ جلسہ شروع ہو رہا ہے اور ان دونوں جماعتوں نے بار بار اصرار کیا ہے کہ اس خطبہ جمعہ میں ان کا بھی ذکر خیر چلے اور ان کو مخاطب کر کے بھی کچھ باتیں کی جائیں.پس مضمون تو وہی رہے گا اس کے حوالے سے ان کو بطور خاص مخاطب کرنے کے لئے مجھے یاد آیا تو موقع محل کے مطابق وہ ذکر کروں گا مگر اس ابتدائی عمومی ذکر میں ہی ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ذکر جو آج یہاں چل رہا ہے یہ ساری دنیا میں اس وقت جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ کا سیٹلائٹ کے ذریعہ رابطہ قائم ہے وہاں چل رہا ہے اور دنیا کے ہر خطے میں چوبیس گھنٹے کے ہر منٹ یا ہر لمحے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ باتیں پہنچ رہی ہیں اور جہاں جہاں بھی احمدی انہیں سن رہے ہوں گے طبعا ان کے دل میں ان دونوں جماعتوں کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک ہوگی اور یہ غالباً ان کا مقصد ہے.باقی نصیحتیں تو سب کے لئے مشترکہ ہی ہوا کرتی ہیں ہاں اگر کوئی ایسی بات ذہن میں آئی جو ان دونوں جماعتوں کو بطور خاص کہنی ہو تو انشاء اللہ میں اس کا ذکر کروں گا.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَابِقُوا الی مَغْفِرَةٍ - سَابِقُوا میں تیزی سے بڑھنے کا مضمون ہے اور ایک دوسرے سے مسابقت کا مضمون بھی ہے.سبق کہتے ہیں ایسے شخص کو جو تیزی سے آگے نکل گیا یعنی ایک شخص جو آگے نکل جائے تیزی سے خواہ وہ شخص ہو یا گھوڑا بھی ہو اس کے لئے سبق کا لفظ آئے گا.سبقت لے گیا.مگر سبق کا مطلب ہے کہ مقابلہ میں سبقت لے گیا تو یہ مضمون زیادہ تحریص کی خاطر، زیادہ توجہ دلانے کی خاطر ایسا صیغہ بیان فرمایا ہے جس میں مغفرت کے تعلق میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کا مضمون داخل فرما دیا.ہر شخص کے لئے مغفرت حاصل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے لیکن سابقوا کہہ کر یہ فرما دیا کہ تم ایک دوسرے سے بھی مغفرت میں مقابلے کرو یعنی یہ مطلب نہیں کہ کھلم کھلے چیلنج دے کر مقابلے کرومگر کوشش کرو کہ اپنے ان بھائیوں سے آگے بڑھو جو ہمیشہ مغفرت طلب کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور مغفرت طلب کرنے کی تائید میں ان کے اعمال رونما ہوتے رہتے ہیں.پس ایسا چیلنج نہیں کہ جو اکٹھا ایک لائن پر کھڑا کر کے بھگایا جارہا ہو.مراد یہی ہے کہ ہر مومن کو محض یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میں آگے بڑھ رہا ہوں بلکہ باقیوں کو دیکھ کر اپنی حیثیت کی تعیین کرے.اگر مغفرت کے میدان میں اسے اپنے سے آگے بہت سے دکھائی دے رہے ہوں تو پھر مقابلہ کرے اور یہ کوشش
خطبات طاہر جلد 15 751 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء کرے کہ سب سے آگے بڑھ جائے.سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمُ اپنے رب کی طرف سے مغفرت میں مقابلہ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھو.وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ اور جنت کی طرف آگے بڑھو جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے.اس میں بہت سے پہلو ہیں جو تفصیل طلب ہیں ان کی تفصیل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں مگر یا درکھیں کہ یہاں جنت کو اور مغفرت کو گویا ایک دوسرے کا متبادل پیش کیا گیا ہے یعنی اگر تم مغفرت کی طرف تیزی سے آگے بڑھو گے جنت کی طرف بھی آگے بڑھو گے اور گویا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور جہاں تک یہ مضمون ہے کہ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ اگر چہ اسے محض جنت کی وسعت کے بیان کے تعلق میں پیش کیا جاتا ہے مگر میرے نزدیک اس کا تعلق ویسا ہی مغفرت سے ہے کیونکہ مغفرت کی وسعت کے ساتھ جنت کی وسعت کا تعلق ہے.جتنی بھی کسی کو خدا کی رحمت سے مغفرت نصیب ہوگی اسی قدر اس کی جنتوں کو وسعت ملے گی اور یہ دونوں مضامین ایک دوسرے سے باہم پیوستہ ہیں اور مغفرت کا تعلق چونکہ رحمت سے ہے اور رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور جنت بھی رحمت ہی کے نتیجہ میں ہے اس لئے یہ دونوں مضامین ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں.یہ وہ جگہ ہے جہاں اعمال کا ذکر نہیں اور جنت کا ذکر ہے.یہی وہ ایک مقام ہے جہاں کسی اور مضمون کے بیان کرنے کی بجائے محض مغفرت ہی کو جنت کی کنجی کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے.اس لئے اس کو بہت غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس مضمون کو میں نے یہاں اس لئے اٹھایا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو اقتباس میں آپ کے سامنے رکھ رہا تھا اس میں خوف کے بہت سے پہلو ہیں اور جوں جوں وہ اقتباس آگے بڑھتا چلا جاتا ہے انسان بہت زیادہ خوف زدہ ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تجزیہ کر کے ، کھول کھول کر انسانی نفوس کے دھو کے اور وہ گناہ بیان کئے ہیں جن میں وہ ملوث ہوتا ہے اس کو پڑھتے پڑھتے ہر انسان کی طبیعت خوفزدہ ہو جاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں اسے اپنی تصویر دکھائی دیتی ہے.وہ ساری بیماریاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں وہ تمام تر ایک شخص میں اگر ہوں تو وہ شیطان کا دوسرا مظہر ہوگا ایک اور شیطان اور اس شخص کے دو نام ہوں گے گویا کہ وجود ایک ہی
خطبات طاہر جلد 15 752 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء ہوگا.مگر جب یہ بیماریاں بیان کی جاتی ہیں تو مراد یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو ان عبارتوں کو پڑھتا ہے وہ اپنے نفس پر ان کا اطلاق کرتا ہوا آگے بڑھے اور جہاں بھی اس کا نفس اس کو متنبہ کرے کہ یہ تو تمہاری تصویر ہے وہاں ٹھہرے اور غور کرے اور پھر فیصلہ کرے کہ کس طرح اس الجھن سے نجات مل سکتی ہے.اس مصیبت سے کہ انسان ایک گناہ میں پھنس گیا ہے اور نجات کی راہ دکھائی نہیں دیتی اس غیر معمولی خوفزدہ حالت سے نکالنے کے لئے مغفرت کا مضمون ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مغفرت یعنی اللہ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور مغفرت کی وسعت کے مضامین اور بھی بہت سے بیان ہوئے ہیں.مگر اس آیت کریمہ میں مغفرت کی وسعت اور عظمت کا جو بیان ہے ویسا اور کسی آیت میں آپ کو نہیں ملے گا کہ مغفرت کو ہر دوسری چیز پر حاوی کر دیا گیا، ہر چیز سے وسیع کر دیا گیا اور جنت ہی کا نام مغفرت رکھ دیا ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جنت کسی کے اعمال کے زور سے نصیب نہیں ہوسکتی کیونکہ عقل کے خلاف بات ہے کہ ایک انسان کو اپنے اعمال کی وجہ سے وہ جنت ملے جس کی وسعتوں کی انتہا کوئی نہیں.انسانی اعمال اگر کامل طور پر اللہ کی رضا کے تابع بھی ہوں تب بھی انسانی زندگی محدود، اس کے عمل کے دائرے محدود اور ایک محدود چیز کی جو اپنی مکانیت کے لحاظ سے بھی محدود ہو ، زمانی لحاظ سے بھی محدود ہو لا متناہی جزا اور ایسی وسعت والی جزا جس کا جنت میں نقشہ کھینچا جاتا ہے یہ عقل کے خلاف بات ہے یعنی اس کا سبب اور نتیجہ کے ساتھ تعلق نہیں ہے.سبب بہت ہی محدود ہے اور نتیجہ بہت وسیع اور لا متناہی.اس لئے اس مضمون کا مغفرت سے تعلق ہے اور مغفرت سے جب تعلق ہوتا ہے تو کمزور آدمی بھی اس میں داخل ہو جاتے ہیں اور بہت بڑے بڑے پاکباز بھی اس میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس پہلو سے جو وسعت جنت کی بیان کی گئی ہے اس مضمون میں بھی وہی وسعت شامل ہو جاتی ہے یعنی یہ وہ مغفرت کی آیت ہے جو ذلیل ترین گنہگار کے اوپر بھی سایہ کئے ہوئے ہے اور وہاں بھی جو انسانی کمزوریاں اس بزرگ نبی کو اپنے اندر دکھائی دیتی ہیں ان پر بھی اس کی رحمت کا سایہ ہے.تو جہاں وسعتوں کا مضمون ہو وہاں اس سے بہتر انداز بیان اختیار ہونہیں سکتا کہ مغفرت جنت ہی کا دوسرا نام ہے اور مغفرت کا سایہ اتنا وسیع ہے کہ اس سے کائنات کا کوئی پہلو باہر نہیں
خطبات طاہر جلد 15 753 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء رہتا.عرض کا معنی میں وسعت کر رہا ہوں کیونکہ عربی لغت میں اس کا ایک معنی وسعت بھی ہے.بہت سے معانی ہیں ایک معنی قیمت بھی ہے.اس لحاظ سے اس کا ترجمہ یہ بنے گا کہ اپنے رب کی طرف سے ایسی مغفرت کی طرف آگے بڑھو اور ایسی جنت کی طرف آگے بڑھو جس کی قیمت زمین و آسمان کی قیمت کے برابر ہے.مگر میں نے جو ترجمہ کیا ہے وہ بھی عربی لغت سے ثابت مگر اس سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کا تصدیق یافتہ ترجمہ ہے کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ میں سے بعض نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی جو وسعتیں ہیں ان تمام وسعتوں پر جنت حاوی ہے یعنی ان سے کم نہیں پوری کی پوری ان پر اتر رہی ہے.اگر یہ بات ہے تو جہنم کہاں ہے؟ اس کا جواب رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں دیا کہ قیمت ہے یہ مراد جسے تم غلط سمجھ صلى الله رہے ہو.آپ نے تسلیم کیا اور فرمایا کہ جہنم بھی وہیں ہے لیکن تم سمجھ نہیں سکتے ان باتوں کو.اس دور کا انسان ابھی اپنے علم میں اتنا آگے ترقی نہیں کر سکا تھا کہ وہ جہتوں کو سمجھ سکتا ہو اور Dimensions جو بڑھ رہی ہیں، انسانی تصور جن پر محیط ہوتا چلا جارہا ہے اس کا کوئی ادنی تصور بھی اس وقت موجود نہیں تھا صرف شش جہات تھیں جن سے وہ جانتا تھا اور ایک وقت کی جہت جس کو وہ شامل کر لے اس کے سوا اس کے سامنے کوئی چیز نہیں تھی اور شش جہات بھی دراصل تین جہات ہیں.اس کو ہم شش اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا ایک کنارا اگر یوں پھیلی ہوئی جہت ہے تو ایک بائیں طرف پھیلا ہوا سمجھتے ہیں اور ایک دائیں طرف پھیلا ہوا سمجھتے ہیں حالانکہ جو حساب دان ہیں وہ اس کو ایک جہت کہتے ہیں کیونکہ کسی ایک انسان کے حوالے سے تو ہے نہیں کہ وہاں کھڑا ہو تو اس کے بائیں طرف اور اس کے دائیں طرف یہ جہت ہے ، لامتناہی پھیلی ہوئی ہے.تو جس کو ہم شش جہات اردو میں کہتے ہیں انگریزی میں اس کو Three Dimensions کہتے ہیں اگر وقت کو داخل کر لیں تو Four Dimensions.تو چار Dimensions میں گھرا ہوا انسان یہ تصور کر ہی نہیں سکتا تھا اس زمانے میں کہ کوئی چیز بھی ہے جہت کے اعتبار سے جو اپنی ضد کے ساتھ ایک جگہ اکٹھی ہو جائے.اب تین چیزوں کو اکٹھا فرمایا گیا ایک زمین و آسمان اور اس میں ہمیں جنت تو دکھائی دے ہی نہیں رہی کہیں.اس لئے پہلا سوال تو یہ اٹھنا چاہئے تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ ہے کہاں؟ جنت صلى الله کہاں چلی گئی ؟ ہم تو زمین و آسمان کو صبح بھی دیکھتے ہیں شام کو بھی ، رات، دو پہر اور ہمیں تو یہ زمین
خطبات طاہر جلد 15 754 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء آسمان خالی خالی نظر آتے ہیں کوئی جنت ہی نہیں دکھائی دے رہی.تو اس سوال کا جواب جو انہوں نے دیا، اسی آیت کریمہ میں موجود تھا کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی وسعت کے برابر ہے تو ظاہر بات ہے کہ یہ کوئی اور طرح کی چیز ہے جس کے مادی وجود جس سے متصادم نہیں ہوتے.گویا Dimensions اور ہیں.ایک ہی وقت میں ، ایک ہی مقام ، ایک ہی وقت کی قدر کو اکٹھا کر دیں تب بھی وہ ایک دوسرے کو دکھائی نہیں دیں گی ، ایک دوسرے سے کوئی تعلق ہی قائم نہیں ہوگا.میں نے اس کی مثالیں بار بادی ہیں کہ یہاں جو ریڈی ایشن ہے فضا میں اس کی جہتیں مختلف نہیں ہیں.یہ Four Dimensions Three Dimensions کے اندر ہے.اس کے باوجود محض اس کی لطافت کے فرق کی وجہ سے ہمیں محسوس نہیں ہوتی.اگر Dimensions بدل جائیں تو اس کے وجود کا کوئی تصور ہی نہیں ہو سکتا ، اس کی نوعیت ہی نہیں سمجھ آسکتی.موجود رہے گی مگر کسی پہلو سے بھی انسان اس کو اپنے دائرہ تصور میں کھینچ کر لا نہیں سکتا.یہ Dimensions کا فرق ہے.لطافت کا فرق اور ہے.لطافت کے نتیجہ میں ٹیلی ویژن کی لہریں آپ یہاں نہ دیکھ رہے ہیں، نہ سن رہے ہیں مگر گھر جا کے ٹیلی ویژن ON کریں گے تو آپ ان کو پکڑ لیں گے.مگر کوئی ٹیلی ویژن ایسی نہیں ہے، نہ ہو سکتی ہے جو دوسری جہت کی اس چیز کو کھینچ لائے جو ہمارے ساتھ ہے مگر ہمیں معلوم نہیں ہے، ہمیں دکھائی بھی نہیں دے رہی ، ہمیں تصور ہی نہیں ہے صلى الله اس کا کوئی.تو یہ فرق ہیں جو قرآن کریم کی آیات بتاتی ہیں اور ایسا عظیم علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آئندہ زمانوں کی باتیں ہو رہی ہیں جس کا وہم و گمان بھی انسان نہیں کر سکتا تھا کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا، یہ ناممکن ہے.پس اسی آیت کریمہ نے یہ مضمون پیش کیا ہے کہ تین چیزیں ایک دوسرے سے مل گئی ہیں جہنم بھی یہیں ہے ، جنت بھی یہیں ہے اور یہ دنیا جس میں ہم بس رہے ہیں یہ زمین و آسمان یہ بھی یہیں ہیں اور ان کی وسعتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور کیسے ملتی جلتی ہیں ”س“ کے لفظ نے ہمیں دعوت دی ہے کہ غور کریں اور معلوم کریں یہ وسعتیں کیا ہیں اور جو فرق ہے جہنم اور جنت کے درمیان وہ مغفرت کا ہے، صرف اعمال صالحہ کا سوال نہیں کیونکہ اعمال صالحہ اگر اپنی انتہا کو بھی پہنچ جائیں تو جیسا کہ میں نے ثابت کیا ہے ان کی منصفانہ جزا یہ نہیں ہوسکتی.جتنے اعمال
خطبات طاہر جلد 15 755 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء اس کو دس گنا کر دیں سو گنا ، ہزار، لاکھ گنا کر دیں محدود اعمال کی لامتناہی جزا تو عقل میں آہی نہیں سکتی اس لئے اس کا مغفرت سے تعلق ہے اور بہت ہی اہم مضمون ہے.چھوٹے سے چھوٹے انسان کو بھی ایک حیرت انگیز طور پر خوش خبریوں ، لا متناہی انعامات کی دعوت دے دی گئی اور عظیم سے عظیم انسان کو بھی انکسار سکھا دیا گیا کہ یہ جو عظمتیں اور وسعتیں ہیں یہ تمہیں اللہ کے فضل سے ملیں گی اس کے بغیر تو ممکن نہیں.چنانچہ اس کے معا بعد یہی فرمایا ذلك فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ ۖ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ یہ باتیں فضل کی ہیں.فضل جیسے ”جھونگا دیا جاتا ہے ”جھونگے“ کا نام ہے مگر بندوں کے جھونگے اور اللہ کے جھونگے میں دیکھو کتنا فرق پڑ گیا ہے.بندہ ایک چیز خریدتا ہے اس کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ معمولی سا کچھ اور حاصل کر لیتا ہے جھونگے کے طور پر اور جو رقم دیتا ہے وہ اس چیز کے برابر ضرور ہوتی ہے جو چیز خریدی جارہی ہے.مگر خدا کے سودے دیکھو بندوں سے کیسے عجیب ہیں.وہ رقم بھی نہیں دیتا جس سے اس کے عمل کے برابر جزا ئیں مل سکیں.اکثر اعمال کھو کھلے، ننگے، دھو کے، انسان ساری زندگی غفلت کی حالت میں بسر کر دیتا ہے سمجھتا ہے کہ میں بڑے نیک اعمال کر رہا ہوں ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ہوتا اور اللہ اس گھٹیا سی چیز کو جس میں کچھ نیکی کا عنصر بھی آجائے اس کو قبول فرما لیتا ہے اور پھر جھونگا وہ جولا متناہی ہے.قیمت وہ جو وصول ہی نہیں ہوئی اور اس کے برابر نہیں دے رہا بلکہ ایسا دے رہا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا.وہ مضمون، یہ وہ بات ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس موقع پر یوں کھول دیا.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ یہ نہ سمجھنا کہ تم اپنے اعمال کے نتیجہ میں کچھ بھی حاصل کر سکو گے، مغفرت ہے جس کے نتیجہ میں اعمال نظر انداز ہو جائیں گے.مغفرت کی چادر یہ نہیں دیکھا کرتی کہ اعمال کیسے ہیں.جب وہ ڈھانپ لے گی تو ہر کمزوری کو ڈھانپ لے گی اور وہ چادر اتنی وسیع ہے کہ زمین و آسمان کی وسعتوں پر محیط ہے.اور اب وسعتوں کا حال بھی عجیب ہے.ان پر آپ غور کریں تو وہ وسعتیں لامتناہی نہیں بلکہ ہمیشہ آگے بڑھتی چلی جانے والی ہیں.لامتناہی ان معنوں میں ہیں یعنی کہ ہمیشہ آگے بڑھتی چلی جانے والی ہیں.اب زمین و آسمان اور کائنات کا تصور جس لمحے بھی آپ باندھیں گے کہ یہ اتنا فاصلہ ہوگا اسی لمحے آپ غلط ثابت ہو جائیں گے کیونکہ وہ فاصلے اور بڑھ چکے ہوں گے اور اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ انسانی تصور اس کا ادنی سا حصہ بھی پانہیں سکتا کیونکہ ایک سیکنڈ میں اگر آپ لاکھوں
خطبات طاہر جلد 15 756 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء حصہ کی رفتار کے ساتھ بھی سوچ رہے ہوں، ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصے کے حساب سے بھی تو زمین و آسمان کی وسعتیں اس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور انسان کو ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں سوچنے کی طاقت ہی نہیں ہوتی بہت معمولی سے طاقت ہے.اتنی معمولی سی ہے کہ اگر فلم کو اٹھارہ فریم فی سیکنڈ کے لحاظ سے آگے بڑھایا جائے تو انسانی دماغ یہ معلوم ہی نہیں کر سکتا کہ کھڑی چیز ہے یا چلتی چلی جارہی ہے.یہ تو اس کی وسعت کا حال ہے اور وعدے وہ دیئے جارہے ہیں جولا متناہی کبھی ختم نہ ہونے والے اور آگے بڑھتے چلے جانے والے.تو یہ خدا کے مغفرت کے سودے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ بلا رہا ہے.اس کے لئے سَابِقُوا کا لفظ فرمایا کہ جلدی کرو، ایسی حالت میں نہ مرجانا کہ تمہیں مغفرت نصیب نہ ہوئی ہو.تم اگر مغفرت کے نصیب ہونے سے پہلے مر گئے تو کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہے گا.پس بہت ہی اہم مضمون ہے اور اس میں جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نتیجہ میں انسان کے دلوں کو ٹھہرایا گیا ہے ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جاتے گناہوں کے تصور سے، ان کو سنبھالا گیا ہے.وہاں خوف بھی دلایا گیا ہے کہ سنبھلنے کے دن خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے ہیں جہاں مغفرت کا تصور تمہیں سنبھالے رکھے گا جب آنکھیں بند ہوئیں تو مغفرت کا مضمون ہاتھ سے نکل جائے گا اس سے پہلے پہلے حاصل کر لو اور اس معاملے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ مغفرت کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرو.پس جہاں مغفرت کا مضمون ہے وہاں گناہوں کو جرات نہیں دلائی جارہی بلکہ نیکیوں کو جرات دلائی جا رہی ہے.یہ بھی عجیب اس کلام الہی کا کمال ہے کہ جب اتنی بڑی مغفرت کا مضمون ہو تو گنہ گار انسان تو یہی سمجھے گا کہ اب میں یہیں بیٹھ رہوں جب مغفرت لامتناہی ہے تو میرے گنا ہوں کی کیا بات ہے میں تو بخشا ہی جاؤں گا.اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا.متنبہ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ گناہ چھوڑنے میں جلدی کرو کیونکہ مغفرت کا تعلق گناہ چھوڑنے کی کوشش سے ہے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھو کیونکہ تمہیں پتا کوئی نہیں اس کا وقت کب آئے گا تمہارا وقت کب آئے گا.اگر اس نے پہلے سے زیادہ کمائیاں کرلی ہوں تم سے زیادہ کمائیاں کرلی ہوں اور تم جلدی مرجاؤ تو تم اس سے بہت پیچھے رہ جاؤ گے اس لئے اس حرص کے ساتھ آگے بڑھو کہ کہیں وہ زیادہ ہی نہ لے گیا ہو مجھ سے.یہ زیادہ کی تمنا بعض دفعہ لطیفوں کی صورت میں بھی بیان ہوتی ہے مگر وہ لطیفے دراصل انسانی فطرت کی
خطبات طاہر جلد 15 757 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء نقاشی کرتے ہیں.ان میں محض ہنسی کی بات نہیں بہت سنجیدہ پیغامات ہوتے ہیں.پس جیسا کہ میں نے ایک دفعہ آپ کے سامنے پہلے بھی بیان کیا تھا ایک اندھے نے ایک سو جا کھے کے ساتھ مل کر، پیسے ڈال کے حلوہ بنوایا اور یہاں کے ملکوں میں تو اس کی کوئی بھی قیمت نہیں ہے مگر غریب ملکوں میں بڑی قیمت ہے کیونکہ وہاں تو شعراء بھی یہ کہتے ہیں کہ ہر روز عید نیست که حلوہ خورد کیسے کہ روز روز عید نہیں ہوا کرتی کہ وہ حلوہ کھائے اور ان ملکوں میں تو اس کا وہم و گمان بھی نہیں آسکتا کہ سال میں ایک دن کسی عید میں بعض لوگوں کو حلوہ ملتا ہے تو میں اس ملک کی بات کر رہا ہوں یہ مغرب کے حافظ صاحب نہیں تھے بلکہ مشرقی ملک کے رہنے والے تھے.تو انہوں نے بے چاروں نے کچھ پیسے جوڑے، کچھ ایک سو جاکھے نے اور دونوں نے مل کر حلوہ تیار کروایا.جب کھانے لگے تو کچھ دیر کے بعد حافظ صاحب کو خیال آیا مجھے کیا پتا یہ کتنا تیز کھا رہا ہے.میں اندھا بے چارہ ، پیسے برابر کے ہیں تو مجھے تیز کرنا چاہئے کچھ.اس نے ذرا رفتار تیز کر دی جلدی جلدی لقمے کھانے شروع کر دیئے.تھوڑی دیر کے بعد خیال آیا کہ مجھے کیا پتا کہ وہ ایک ہاتھ سے کھا رہا ہے کہ دو ہاتھ سے کھا رہا ہے تو چلو دونوں ہاتھوں سے کھاتے ہیں.اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا اور وہ بے چارہ جو دوسرا تھا وہ حیران ہو گیا حافظ صاحب کو دیکھ کے کہ یہ کر کیا رہے ہیں.وہ تو کھانا ہی چھوڑ بیٹھا.وہ دیکھتا ہی رہ گیا.کھاتے کھاتے حافظ صاحب کو خیال آیا کہ کوئی ترکیب اس نے کی ہوگی مجھے نظر نہیں آرہی.حلوہ سارا اٹھایا انہوں نے کہا جی باقی میرا حصہ ہے.تو اندھے کو بھی جو چیز پسند ہے اس میں سبقت کی روح تو ہے نا اور جس کو نظر نہیں آ رہا.ہم بھی تو اندھے ہی ہیں.ہمیں نہ اپنے اعمال نظر آرہے ہیں نہ یہ پتا ہے کہ کب مرنا ہے.زمین و آسمان کی حقیقت سے نا آشنا یہ پتا نہیں کہ کب خدا کی مغفرت نصیب ہوسکتی ہے، کون ساعمل ہے جو اسے پسند آ جائے گا.تو اس دنیا کے اندھے سے بہت بڑھ کر سبقت کی روح اختیار کریں.اس میں جنسی کی بات نہیں ہے.آپ دونوں ہاتھوں سے مغفرت طلب کریں،سارا تھال اٹھا لیں اعمال کا تب بھی محدود ر ہیں گے اور جو مغفرت کا مضمون ہے وہ آگے بہت آگے بڑھ جائے گا.اس کی جو وسعت ہے وہ وسعت والی مغفرت آپ کے ان اعمال سے نصیب نہیں ہوسکتی وہ فضل سے نصیب ہوگی اور فضل کا وعدہ ہے اگر کوشش کرتے رہو.تو اگر کوشش کرو کہ اللہ ہمیں ان محدود، گندے ناپاک اعمال کے نتیجہ میں بھی بخش دے تو اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے یعنی اپنے
خطبات طاہر جلد 15 758 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء اعمال کو رفتہ رفتہ جہاں تک ممکن ہو ان گندے اعمال کو دور کر کے نیک اعمال میں داخل ہونے کی سعی مسلسل سعی بلکہ سبقت لے جانے کی کوشش اور پھر آخر پر پھر وہی بات کہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد پھر بھی پتا نہیں کیا حالت ہے تو پھر اس دنیا کے اندھے کی طرح نیک اعمال پر ایسے ہاتھ مارو کہ گویا کہ سب کچھ سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہو.اس حالت میں اگر موت آتی ہے تو خدا کا یہ وعدہ لازماً پورا ہوگا سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ اس مغفرت کی طرف آگے بڑھو یعنی اس جنت کی طرف ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، ان کا عرض ، ان کا پھیلاؤ، ان کی وسعتیں زمین اور آسمان کی وسعتوں کی طرح ہیں.لامتناہی ہیں.کبھی ختم نہیں ہوں گی.جلدی کر لو کیونکہ تمہاری زندگی محدود ہے یہ جنتیں محدود نہیں ہیں اور لامتناہی جنتوں کی طرف بلانے کا عمل فضل اللہ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے فضل طلب کرتے رہو اور والله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیم میں ان وسعتوں سے بھی زیادہ مضمون بیان ہو گیا ہے جو پہلے پیش کی گئی ہیں کیونکہ لفظ عظیم ایک معنی میں اعظم سے بھی زیادہ وسیع لفظ ہے.اس لئے اللہ کا نام اعظم نہیں رکھا.خدا تعالیٰ نے خود اپنے نام کو اعظم کے طور پر پیش نہیں فرمایا کیونکہ اعظم میں پھر بھی مقابلہ ہے کوئی چھوٹی چیزیں بھی ہیں.مگر عظیم میں اصل میں یہ معنی ہے کہ اس کے سوا عظمت ہے ہی کسی کو نہیں.اعظم اگر کہا جائے تو مراد ہے دوسرے بھی عظیم لوگ ہیں وہ نسبتاً کم عظمت والے ہیں خدا نسبتاً زیادہ عظمت والا ہے مگر عظیم میں ایک ایسی حیرت انگیز شان ہے کہ وہ کامل طور پر عظمت کے مضمون کو سمیٹ لیتی ہے، اس میں مقابلہ کی ضرورت ہی کوئی نہیں.وہی عظیم ہے اور کوئی عظیم ہے ہی نہیں ، ہر عظمت اس کی ہے.اس کے سوا کسی اور کی عظمت نہیں.حمد وثنا والے مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے اسی رنگ میں کہ عظمت ہے اس کی عظمت.اب دیکھیں قرآن کریم سے کتنا گہرا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لیکن پڑھنے والا اگر غور نہیں کرے گا تو اسے نہیں سمجھ آئے گی.عظمت ہے اس کی عظمت سے مراد یہ ہے کہ اور کسی کی عظمت ہے ہی کچھ نہیں.یہ وہم دل سے نکال دو.مقابلے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ایک ہی جو عظیم ہے.تو وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ میں وہ جو وسعتوں والی جنت ہے اس سے بھی زیادہ وسیع تصور پیش فرمایا گیا ہے اور اس تصور نے ایک
خطبات طاہر جلد 15 759 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء اور مضمون پیدا کر دیا کہ انسان جو اس کائنات کو بہت وسیع سمجھتا ہے اس سے زیادہ اس کا تصور پہنچ ہی نہیں سکتا.چنانچہ بعض سائنس دان اور اونچے درجے کے حساب دان یہ سمجھتے ہیں کہ حسابی رو سے اس کائنات کے سوا دوسری کائنات ہو ہی نہیں سکتی بس یہی ہے لیکن اب جونئی دریافتیں ہو رہی ہیں ان سے یہ امکانات کھل رہے ہیں اور وہ حیران اور ششدر رہ گئے ہیں کہ یہ کائنات بھی کسی اور طرف متحرک ہورہی ہے ، وسعتوں کے علاوہ کسی اور طرف بڑھ رہی ہے اور وہ کیا چیز ہے جس کی طرف بڑھ رہی ہے.کوئی کشش ہونی چاہئے اس میں.اگر ہے تو وہ کیا ہے.اس کی ہمیں کوئی خبر نہیں.ت وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تم کائنات کے حوالہ سے یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ خدا کے پاس بس یہی کچھ ہے جو تمہیں دے گا.تمام کائنات کی وسعتیں بھی مانگ لو تب بھی خدا کے خزانے ختم نہیں ہوتے اور یہی مضمون ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے بعینہ اسی طرح ہمیں سمجھایا.آپ فرماتے ہیں کہ ساری کائنات بھی اس سے مانگ لو تو اس کے فضلوں میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی ، اس کی طاقتوں میں، اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی.اتنی بھی نہیں آئے گی جیسے سوئی کو کسی وسیع سمندر میں ڈبو کر باہر نکال لو اس کے ناکے پہ جتنا پانی چھٹا ہو گا اتنی کمی بھی نہیں آئے گی اللہ کے خزانوں میں اگر تم اس ساری کائنات کو مانگ لو تو وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ نے اس مضمون کو بے انتہا وسعت عطا فرما دی ہے مگر فضل کے طالب ہمیشہ رضا پر نظر رکھا کرتے ہیں.مغفرت کے ساتھ جہاں رحمت کا تعلق ہے وہاں فضل کے ساتھ رضائے باری تعالیٰ کا تعلق ہے.اس میں کوئی دلیل نہیں کوئی استدلال نہیں ، ایک انسان کی کوئی ادا کسی کو پسند آ جائے اسے جو چاہے دے جتنا چاہے دے.اس کا مغفرت سے تعلق نہیں ہے کیونکہ مغفرت میں تو اس کی کمزوری کے نتیجہ میں سزا نہ دینے کا مضمون ہے ، اس کی غفلت کے نتیجہ میں اسے بعض نعمتوں سے محروم نہ کرنے کا مضمون ہے.فضل کا مضمون اس سے آگے بلند تر مضمون ہے جس میں پسند کی بات ہے.اب بعض لوگ ایسے بھی ہیں ساری عمر گناہوں میں مبتلا ان کی کوئی ایسی ادا خدا تعالیٰ کو پیاری لگتی ہے کہ سارے گناہ بخش دیئے لامتناہی جنتوں میں داخل کر دیا یہ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ۖ کے ساتھ تعلق ہے اور اس کے لئے ہمیشہ انسان کو رضا کا طالب رہنا چاہئے.
خطبات طاہر جلد 15 760 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء مغفرت کے طالب کے لئے اپنے گناہوں پر نظر رکھ کر ان کو کم کرنے کی کوشش کرنا ہے.اس کوشش میں وہ کامیاب نہ بھی ہوتو اللہ کی مغفرت اسے ڈھانپ سکتی ہے لیکن نیت کا خلوص لازمی ہے.نیت صاف ہو، کچی ہو، کوشش ضرور ہو اور جاری رہے اور کسی مقام پر ٹھہرے نہیں اور کوشش یہ ہو کہ رفتار بڑھتی رہے ، کم نہ ہو.یہ ہے وہ مضمون جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا وعدہ ہے جو لا متناہی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس حد تک لا متناہی کہ کائنات کی وسعتوں پر محیط ہے اور انسانی جنت بھی جو انسان کو ملے گی وہ بھی کائنات کی وسعتوں پر محیط ہے لیکن اس کا دائرہ بڑھ رہا ہے اور آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.فضل یہ کہتا ہے کہ ایسی باتیں کیا کرو جو پیاری لگیں.بعض دفعہ کسی کی ایک ادا ہی ایسی پیاری لگتی ہے کہ انسان اس کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے اور ہمیشہ کے لئے اسی کا ہو جاتا ہے.چھوٹی سی بات ہوتی ہے.اب وہ بادشاہ جہانگیر جس نے نور جہاں کو دل دے دیا تھا.ایک لونڈی تھی.دل اتنی سی بات پہ دیا کہ اس سے ایک بھولے پن کی ادائگلی.اس نے اس کو دو کبوتر پکڑا ئے تھے کہ یہ کبوتر میں تمہارے پاس رکھا رہا ہوں ان کو ذرا مضبوطی سے پکڑے رکھنا میں ابھی کام کر کے آؤں گا تو تم سے لے لوں گا.اس بے چاری سے، ڈھیلا ہاتھ تھا، وہ شاید رحم دل تھی زور سے نہیں پکڑا ایک کبوتر ہاتھ سے نکل کر اڑ گیا.جب بادشاہ واپس آیا تو اس نے اس سے پوچھا کہ ہیں ! ایک کبوتر !! میں تو تمہیں دو دے کے گیا تھا.اس نے کہا اڑ گیا ، کہ کیسے اڑ گیا ؟ اس نے دوسرا ہا تھ چھوڑ دیا کہ ایسے اڑ گیا.کیسے کا مضمون یہ مجھی کہ طریقہ پوچھ رہے ہیں کیسے اڑا.اس ادا پہ وہ بجائے اس کے کہ ناراض ہوتا فریفتہ ہو گیا اور اس سے وہ شادی ہوئی جس کے نتیجہ میں ہندوستان کی تاریخ میں عظمتوں کے رنگ بھرے گئے.بہت عظیم شادی تھی یہ بادشاہوں کی تاریخ میں اور بات ایک بھولی سی ادا تھی جو بظاہر نقصان کی تھی.تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے پیار سے بعض دفعہ دیکھتا ہے کہ چھوٹی سی ادا بھی اس کو پیاری آتی ہے جو بظا ہر نقصان کی ادا ہے.اس مضمون کو آنحضرت مہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑے لطف سے اس بندے صلى الله کو دیکھ رہا ہے بہت ہی پیار کرتا ہے، پیار سے اس کو یہ بات پسند آئی کہ ایک دعا کرنے والے نے اس جوش میں کہ میں اپنا انکسار ظاہر کروں خدا کو یہ کہنے کی بجائے کہ اے میرے رب! تو میرا رب میں تیرا بندہ، یہ کہ دیا کہ اے میرے رب میں تیرا رب اور تو میرا بندہ.اب کتنا کفر کا کلمہ ہے ،مولوی ہوتا تو وہیں
خطبات طاہر جلد 15 761 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء ختم کر دیتا اسے لیکن اللہ ہے ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظیمِ اس کو ایسا پیار آیا اس ادا پر کہ جان بوجھ کے نہیں کیا، محبت کے جوش میں افراتفری کے عالم میں خدا کو بندہ کہہ بیٹھا ہے اپنے آپ کو رب کہ بیٹھا ہے اور اللہ اسی پہ پیار کی نظر ڈال رہا ہے.تو اس کے ہاں ہر ادا مطلوب ہو سکتی ہے اس میں کوئی گہراحسن ہونا چاہئے جو اس کے فطرت کے خلوص کا مظہر ہواس کی اداؤں کی سچائی ہو.تو اس کی تلاش کرو اور ایک ہی ذریعہ ہے اس کی تلاش کا کہ اپنے آپ کو سچا کر لو کیونکہ جہاں بھی خدا کی ایسی اداؤں پر پیار کی نظر کا مضمون ملتا ہے وہاں میں نے غور کر کے دیکھا کہ ہر جگہ سچائی کے نتیجہ میں یہ بات پیدا ہوتی ہے.اگر نور جہاں نے بناوٹ سے وہ بات کی ہوتی تو اس زمانے کے بادشاہوں کے نزدیک تو وہ گردن زدنی تھی.اگر وہ ذہین بادشاہ بناوٹ کے کوئی بھی آثار دیکھتا تو ہوسکتا تھا اسے دیوار میں چنوا دیتا لیکن صرف سچائی تھی اور سچائی کے نتیجہ میں غلطی بھی پیاری لگتی ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کا فضل اللہ سے تعلق ہے اس کو سمجھیں اور مغفرت کی کوشش کا جہاد تو کرنا ہی کرنا ہے کیونکہ اگر نہیں کریں گے اور محض فضل کے لئے بیٹھے رہیں گے تو یہ سچائی کے خلاف ہوگا اور فضل سچائی کے نتیجہ میں اترتا ہے سب سے زیادہ فضل سچوں کو ملتا ہے.تمام انبیاء کو نبوت کا فیض فضل کے نتیجہ میں ملا ہے اور فضل کے بغیر نبوت مل ہی نہیں سکتی کیونکہ فضل میں اس کی کوششوں محنتوں، اس کی انتہا سے زیادہ دینے کا مضمون ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ایسا جھونگا جو اصل سے بے انتہا آگے بڑھ جائے اس کی کوئی بھی نسبت باقی نہ رہے.آنحضرت ﷺ کی بعثت کا ذکر سورہ جمعہ میں ملتا ہے پھر آپ کی بعثت ثانیہ کا ذکر ملتا ہے اور آخر پر تان اس بات پر ٹوٹی ہے ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ عظیم نعمتیں جو تمہیں بتائی جارہی ہیں پہلے ایک بار، پھر اس کا اجراء نعمت کا ایک ایسے زمانے میں جو بہت دور کا زمانہ ہے وہاں جا کر حضرت محمد رسول اللہ اللہ کا فیض پھر نازل ہو جائے ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ اللہ ہے جو فضل نازل فرماتا ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.پر کیا بغیر وجہ کے دیتا ہے؟ خدا کے ہاں ایک گہری اندرونی منطق ہے ایک ایسا انصاف کا مضمون ہے جو فضل کے
خطبات طاہر جلد 15 762 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء ساتھ ساتھ جاری ہے اور بہت لطیف ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ دکھائی نہیں دیتا مگر گہرے نظام پر ہر چیز مبنی ہے.اللہ تعالیٰ کو ادا ئیں وہی پسند آتی ہیں جن کا سچائی سے تعلق ہے اور خلوص سے تعلق ہے اور اس کے بغیر کوئی ادا اس کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے.جب ایسی بات کوئی دیکھ لے پھر خدا اس کو اپنا دل دے دیتا ہے اور فضل کے مضمون کا تعلق دل دینے سے ہے اصل میں.جس طرح ایک عظیم مغل بادشاہ نے ایک اپنی لونڈی کو دل دے دیا وہ دل دے بیٹھا تو اپنی ساری سلطنت دے دی ،سب سے عظیم مقام دے دیا.اب کبوتر اڑانے سے اس سلطنت کا کیا تعلق ہے.یہ مضمون دل دینے کے مضمون کے سوا سمجھ آہی نہیں سکتا تو وہ دل دے بیٹھا.تو اللہ بھی گویا اپنے بندوں کو ان کی بعض حقیر سی پیاری سی ادا پہ جو حقیر تو ہے مگر پیاری ہے دل دے بیٹھتا ہے جب دل دے بیٹھتا ہے تو سارا اس کا فضل، اس کی ساری عظمتیں اس کو عطا ہونے لگتی ہیں.اس مضمون کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی عارفانہ رنگ میں بیان فرمایا ہے لیکن ابھی تو اس کی باری ہی نہیں آئی جو پہلا اقتباس میں پڑھ رہا تھا یہ تمہید میں نے اس لئے باندھی تھی کہ میں آپ کو بتاؤں کہ آپ ڈریں گے بہت اس اقتباس سے ، بعضوں کی تو جان نکل جائے گی ڈر کے مارے کہ یہ اگر ہمیں بخشش کے تقاضے اور دنیا میں نئی زندگی پانے کے تقاضے تو ہم تو گئے.ان کو بتا تا ہوں کوئی بھی نہیں جائے گا اگر وہ ان باتوں پر نظر رکھے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں کہ مغفرت کی طرف آگے ضرور بڑھو.جتنی طاقت ہے اتنا بڑھو اور پھر یقین رکھو کہ مغفرت نصیب ہو جائے تو تمام کائنات کی نعمتیں نصیب ہو گئیں اور وہ نعمتیں نصیب ہوں گی جو بڑھتی چلی جائیں گی اور پھر فضل کا مضمون اس پر مستزاد ہے جو میں بیان کر چکا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ( یہ میں شاید پڑھ چکا تھا یا نہیں ) کہ: وو ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسان کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر یہ پڑھ لیا تھا پچھلی دفعہ؟ بعض کہتے ہیں پڑھ لیا بعض نہیں میں پھر بھی پڑھ دیتا ہوں کوئی حرج نہیں ، امیر بھی اسی طرح پوچھا جائے گا جیسے ایک فقیر.اب کیا اس میں نا انصافی ہے.امیر کو تو اور طرح پوچھنا چاہئے فقیر کو اور فقیر بے چارہ تو غریب ہے لیکن وہی مضمون آپ کو بتا رہا ہوں کہ خدا کے ہاں
خطبات طاہر جلد 15 763 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء نہایت لطیف توازن ہے.امیر کس نے بنایا ؟ خدا نے بنایا اور فقیر کس نے بنایا ؟ وہ بھی تو خدا ہی نے بنایا ہے.اس لئے پوچھنے میں فرق نہیں کرے گا.امیر کو اس کی حیثیت کے مطابق پوچھا جائے گا یہ مضمون ہے اور فقیر کو بھی اس کی حیثیت کے مطابق پوچھا جائے گا.یہ ضروری نہیں کہ صرف امیر ہی نیکی کر سکتا ہو یا عطا کر سکتا ہو، فقیر بھی عطا کر سکتا ہے اور بعض دفعہ فقیروں کی عطائیں امیروں پر سبقت لے جاتی ہیں.تو جب انعام کا مضمون جاری ہوگا تو پھر پکڑ اور سزا کا مضمون بھی جاری ہو گا ہاں ان کی غلطیاں ، ان کے ماحول کے مطابق دیکھی اور پرکھی جائیں گی اور استطاعت کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے گا.لیکن یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ فقرہ یا درکھنے کے لائق ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.اس سے بھی زیادہ کا پھر کیا مضمون ہے.ایک طرف فرماتے ہیں ہاں اسی طرح دیکھا جائے گا.اس سے بھی زیادہ سے وہ مضمون مراد ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے کہ امیر کو چونکہ نعمتیں زیادہ ملی ہیں اس لئے اس کی ذمہ داریاں پھیل گئی ہیں.ان معنوں میں امیر سے زیادہ پوچھا جائے گا کیونکہ فقیر کے پاس تو ہے ہی تھوڑا سا کسی کو آپ چار آنے دیں کہ چار آنے کا سودالے آؤ اور پھر اس سے حساب کریں تو وہ ایک منٹ کے تھوڑے سے حصے میں حساب ہو جائے گا.دو پیسے کا تیل لیا ایک پیسے کا فلاں لیا.کسی کو لاکھ روپیہ دیں تو حساب میں وقت لگتا ہے.تو زیادہ پوچھنے سے یہ مراد ہے کہ چونکہ امیر کی استطاعت زیادہ ہے اس لئے اس سے زیادہ تفصیلی حساب ہوگا بہ نسبت ایک غریب کے جس کی استطاعت ہی تھوڑی ہے.پس کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 71) پس کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو اس عارضی دنیا پر معمولی ی زندگی پر بھروسہ کر کے بکنی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے.آپ سے میں نے گزشتہ خطبہ میں گزارش کی تھی کہ یہ مضمون ”کشتی نوح“ کے حوالے سے پڑھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی یہ اس کا دوسرا کنارا ہے جو بیان ہو رہا ہے.کشتی نوح کے مضمون میں یہ تھا کہ ادنی سی بھی غفلت کرے گا تو مارا جائے گا.مطلب ہے کہ وہ سزا کے نیچے آجاتا ہے ، ایسی تلوار کے نیچے آجاتا ہے جوٹوٹ کے گر سکتی ہے اس کے اوپر.یہاں چونکہ مغفرت کے مضمون کے ساتھ تعلق ہے اس
خطبات طاہر جلد 15 764 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء لئے فرمایا ہے کہ جتنا بھی تم بے اعتنائیوں میں آگے بڑھو اگر گل تعلق نہ توڑ بیٹھ تو امکان ہے کہ تم بچ جاؤ.اس لئے کیا ہی بد قسمت ہے وہ شخص جو دنیا کی زندگی پر بھروسہ کرتے ہوئے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے.کلی والوں کے لئے مغفرت کا کوئی مضمون نہیں ہے.جن کی برائیاں ، زندگی کی بدیاں ان کو گھیرے میں لے لیں اور پھر خدا سے کلیۂ غافل ہو جائیں ان کی دنیا ہی بدل جاتی ہے وہ اور ہی قسم کے لوگ بن جاتے ہیں.بعض ملکوں میں بھاری کثرت ان لوگوں کی ہے جو بکلی خدا سے منہ پھیر بیٹھے ہیں اور یہ زمانہ بڑا نازک ہے جس میں ہم اس وقت گزر رہے ہیں.تو یاد رکھو کہ اگر انسان خدا سے جدائی کرتے کرتے بغیر کسی ضمیر کی آواز کے آگے بڑھتا چلا جائے یا یوں کہنا چاہئے ضمیر کی آواز پر دھیان دیئے بغیر آگے بڑھتا چلا جائے تو لازماً ایک ایسا مقام آئے گا جہاں وہ حد سے گزر جائے گا اور اس سے تجاوز کرنے کے بعد پھر واپسی کی راہ کٹ جاتی ہے، تو وہ راہیں ہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان را ہوں یا ان حدود کی نشان دہی کر رہے ہیں جن حدود سے آگے پھر مغفرت کا مضمون ختم اور پکڑ اور جہنم کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.تو یا درکھو کہ وہ شخص بڑا ہی بدنصیب اور بد قسمت ہے جو مختصر زندگی پر بھروسہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اتنا دل لگا بیٹھتا ہے کہ گویا خدا اس کے تصورات سے باہر نکل چلا ہے، اس کا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہا.اگر یاد آتا ہے تو ایک خادم کے طور پر یاد آتا ہے کہ یہاں ضرورت پڑی ہے اے خدا ! میرا کام کر دے.بیمار ہوتا ہے تو یاد آنے کا یہ مطلب نہیں کہ بکلی نہیں نکلا ، بکھی نکلا ہوا ہے اور یا دخدا کے طور پر نہیں آتا بلکہ نوکر کے طور پر آتا ہے.ایک متکبر شخص اپنے سے ادنی وجود کو جس طرح سمجھتا ہے کہ میری خدمت کے لائق بنایا گیا ہے جب ضرورت پڑے گی آواز دے گا تو خدا سے وہ تعلق ہرگز نہیں ہے وہ خدا اس کی دنیا سے نکل چکا ہے اور تب ہی پھر وہ آتا نہیں.ایسا شخص لاکھ آوازیں دیتارہ جائے خدا اس کی دنیا میں نہیں آتا کیونکہ اس کی آواز اس کو پہنچتی نہیں.پس بکلّی خدا سے تعلق توڑ بیٹھنا ایک اتنا خطرناک مضمون ہے کہ جو روز مرہ زندگی میں در پیش آنے کے باوجود ہم سوچتے نہیں ہیں کیونکہ تعلق جب ٹوٹے تو ٹوٹتے ٹوٹتے ٹوٹتا ہے.جڑے تو جڑتے جڑتے جڑتا ہے ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمارا رخ ٹوٹنے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے یا جڑنے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اتنا ساشعور ہے
خطبات طاہر جلد 15 765 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء جس کے پیدا ہونے سے آپ کتنی بڑی خطرناک ٹھوکروں سے بچ سکتے ہیں.پس اس بات کو سمجھانے کی خاطر یہ ساری میں نے تمہید باندھی ہے خدا سے بکلی تعلق نہ ٹوٹ جائے اگر یہ ٹوٹا تو کچھ بھی نہیں رہے گا اور بکلی تعلق تب نہیں ٹوٹے گا جب آپ نگاہ رکھیں گے کہ آپ کا تعلق ٹوٹ رہا ہے یا مضبوط ہو رہا ہے ، بڑھ رہے ہیں اس کی طرف یا اس سے دور ہٹتے ہیں.دور ہٹتے ہوئے بھی جہاں یہ شعور پیدا ہو گیا کہ ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہمیں واپسی چاہئے وہیں سے واپسی کا رستہ شروع ہو جائے گا، وہیں سے مغفرت کا مضمون شروع ہو جائے گا لیکن اگر اتنی تاخیر ہو جائے کہ معاملہ حد سے بڑھ جائے تو پھر آپ کا تعلق ٹوٹ چکا ہوگا ، آپ کو وہم میں بھی نہیں آئے گا کہ آپ کیا کھو بیٹھے ہیں اور اس وقت پھر خدا سے دوری کی لذتیں شروع ہوتی ہیں ، انسان آزاد ہو جاتا ہے وہ کہتا ہے میں ہی مالک ہوں میں سب کچھ ہوں پھر جو کچھ ہو وہ کر گزرتا ہے.اگر حاکم ہے تو ایسا خود مختار حاکم ہے ایساڈکٹیٹر بن کے ابھرتا ہے کہ اس کے لئے ہر فعل جائز ہے.اگر وہ ملازم ہے تو بددیانتی میں اس کے مالک کے معاملات میں ظالمانہ طور پر تصرف کے معاملے میں اس کو ذرہ بھی پرواہ نہیں ہوتی.حکومتوں کے ملازم دیکھ لیں اب ہمارے ممالک میں جہاں بدقسمتی سے بددیانتی زیادہ ہوگئی ہے وہاں یہی حال ہے.حکومت کے مال کو تو یوں سمجھتے ہیں اس کی کوئی حقیقت، حیثیت ہی کوئی نہیں اس میں سے وہی مال ہے جو ہمارا بن سکتا ہے باقی جائے جہنم میں کوئی پرواہ نہیں تو اکثر ان کا بن جاتا ہے اور ایسی حکومتوں کے خزانے جب خالی ہوتے ہیں تو اس میں اوپر سے لے کے نیچے تک سب شریک ہوتے ہیں ، سب مجرم ہیں.وہ جو حکومت کر رہے ہیں وہ بھی مجرم ہیں ، جو حکومت کی تمنا لئے باہر بیٹھے ہیں وہ بھی مجرم ہیں کیونکہ ہر ایک کی تمنا میں حکومت کو منفعت میں تبدیل کرنے کی نیت شامل ہوتی ہے ایسے لوگوں کا پھر کچھ بھی نہیں بنا کرتا.اس وقت یہ سوال نہیں ہوا کرتا یہ جائے تو فلاں آئے ، اس وقت تو یہ حالت ہو جاتی ہے کہ یہ جائے گا بھی تو کیا آئے گا.یہ جائے یا وہ آئے یا وہ جائے اور یہ آئے ایک ہی بات کے دو نام ہیں، کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.پس اس مضمون کو اس عربی شعر پر میں اب ختم کرتا ہوں جو پہلے بھی سنا چکا ہوں لیکن امراؤ القیس کا یہ شعر بہت ہی گہری حکمتوں پر مبنی ہے اور لطف دینے والا ہے اس شعر کے حوالے سے آپ کو یہ مضمون یادر ہے گا وہ کہتا ہے:
خطبات طاہر جلد 15 766 خطبہ جمعہ 27 ستمبر 1996ء أَلَا أَيُّهَا اللَّيْلِ الطَّوِيلُ أَلَا انْجَلى بِصُبْحِ وَمَا الْاصْبَاحُ مَنْكَ بِأَمْثَلِ کہ اے طویل رات ظلم کی اندھیروں کی تکلیفوں کی ”انجلی“ روشن ہو جاؤ ، دن میں تبدیل ہو جا لیکن ٹھہر والا ايها لليل الطويل الا انجلی بصبح صبح میں بدل جا فما الاصباح منک با مثل لیکن میں کیا کہہ رہا ہوں وہ صبح جو آنے والی ہے وہ تجھ سے بہتر تو نہیں آئے گی.جو صبح آنے والی ہے وہ تاریک تر صبح ہے ہماری.پس وہ بدنصیب قومیں جن کا ہر انقلاب بدتر اندھیروں میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے ان قوموں کو روشنی دینے کے لئے خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے ، ان کی کامل مایوسیوں کو مغفرت کی امیدوں میں تبدیل کرنے کے لئے خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے.پس ہم نے صرف اپنا بوجھ نہیں اٹھانا ان بدنصیبوں کا بوجھ اٹھانا ہے جن کی تعداد ، جن کی طاقت ہم سے بہت زیادہ ہے اور جن کے نزدیک ہماری کوئی بھی حیثیت نہیں.وہ نہیں جانتے کہ ان کی زندگی ہم سے وابستہ کر دی گئی ہے.آج خدا کے فضل سے ہم ہی ہیں اس مغفرت کے طالب جس کا ذکر یہاں موجود ہے اور جس مغفرت کے طالبوں کے سپردخدا نے دوسروں کی مغفرت کے کام بھی فرما دیئے ہیں.پس ایسے ملکوں کے لئے ، ایسی قوموں کے لئے خواہ وہ مغربی ہوں یا مشرقی دعا ئیں بھی کریں اور کوششیں بھی کریں کہ ان کو اپنے گناہوں کا احساس ہو جائے ، یہ معلوم ہو کہ ہے تکلیف دہ بات ، ہم جس راہ پر چلے ہیں وہ اچھی راہ نہیں ہے پیشتر اس کے کہ وہ وقت آجائے جہاں سے کوئی واپسی نہیں ہوا کرتی.اگر ہماری دعائیں اور ہمارا توجہ دلانا ان کے اندر یہ شعور پیدا کر دے تو پھر آخری کنارے سے پہلے پہلے یہ مڑ سکتے ہیں اور واپسی ممکن ہے.اللہ کرے ہمیں اپنی آخرت کو بھی محفوظ کرنے یعنی خدا کے فضل کی مغفرت کی چادر میں لپیٹنے کی توفیق ملے اور تمام بنی نوع انسان میں جہاں تک ہمارا اثر پہنچتا ہے ان سب کی بدحالت کو ایسی حالت میں تبدیل کرنے کی توفیق ملے جہاں سے مغفرت کا مضمون شروع ہوتا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 767 خطبہ جمعہ 4 را کتوبر 1996ء تفرید الہی ، یعنی کائنات میں صرف اور صرف خدا کی ہستی باقی رہ جانے والی ہے.( خطبه جمعه فرموده 4/اکتوبر 1996ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَالسَّمَوتُ مَطْوِيتُ بِيَمِينِهِ سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ وَنُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ أُخْرَى فَإِذَاهُمْ قِيَام يَنْظُرُونَ وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتَبُ وَجَاءَ بِالنَّبِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ (الزمن 71:68) پھر فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے ان کا عنوان اس پہلی آیت کا یہ پہلا ٹکڑا ہے وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وائے حسرت انسانوں پر جو اللہ کی قدر نہیں کرتے جیسا کہ اللہ کی قدر کرنی چاہئے اور اگلا مضمون جو ہے وہ قدر کے ان پہلوؤں کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن میں بنی نوع انسان اکثر غافل ہیں اور اللہ کی قدر نہیں کرتے.وَالْاَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ
خطبات طاہر جلد 15 768 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء خدا وہ ہے جس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے.کائنات کی کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اس کے قبضہ قدرت سے باہر ہو.وَالسَّمُوتُ مَطوِيتُ بِیمینہ یعنی زمینیں بھی اور آسمان بھی ، زمینی لوگ بھی اور آسمانی لوگ بھی سب خدا کے حضور ایسے ہوں گے جیسے ان کی صف لپیٹ کر گویا خدا کے ہاتھوں کے گرد لپیٹ دی گئی ہو.وَنُفِخَ فِی الصُّورِ یہ وہ وقت ہوگا جب کہ پھر صور پھونکا جائے گا اور پہلا صور جو ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ پہلے صور کے نتیجہ میں جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے وہ غش کھا کے جاپڑے گا یعنی وہ تفرید کا ایک ایسا لمحہ ہے جس کی کوئی اور مثال کہیں دوسری جگہ دکھائی نہیں دیتی یعنی قرآن کریم کی آیات میں جیسا تفرید الہی کا مضمون یہاں بیان ہوا ہے اس کامل اطلاق کے ساتھ کہ وہ ہر کائنات کی شے پر حاوی ہو کہیں اور مضمون بیان نہیں ہوا.یہ ہے اللہ کی قدر کہ خدا کے سوا ہر چیز عملاً ایسے ہو جیسے غائب ہو چکی ہو، اس کا کوئی وجود نہیں رہا اور مَنْ جو لفظ ہے وہ تمام ذی شعور ہستیوں کے اوپر اطلاق پاتا ہے، جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو بھی زمین میں ہے سب کے اوپر یہ لفظ اطلاق پا رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ شعور کے لحاظ سے وہ مالکیت کا عروج ہے ایسی مالکیت جلوہ گر ہوگی کہ جس کی کوئی مثال آپ کو کہیں اور پہلے دکھائی نہیں دے گی ایک ہی ذی شعور ہستی رہ جائے گی تمام کائنات میں آسمانی وجود ہوں یا زمینی وجود ہوں سب کچھ وقفے کے لئے ، جس کا اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں اپنے ہوش و حواس سب کھو دیں گے اور ملکیت کا تصور تمام تر مکمل ہو کر خدا کی طرف لوٹے گا.اس کے بعد مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا دور شروع ہوتا ہے.ہر چیز جو خدا نے پیدا کی ہر شعور جو خدا نے بخشا زمینی ہو یا آسمانی ہو وہ ایک وقت میں واپس لوٹ جائے گا خدا کی طرف.اس کے سوا کوئی بھی نہیں ہوگا.اس کو تفرید کہتے ہیں یعنی اکیلا رہ جانا اور یہی ملکیت کا مفہوم ہے کہ حقیقی مالک چونکہ وہی ہے اور ثانوی ملہ ی ملکیتیں جو اس نے بخشی ہیں وہ چونکہ واپس لے لی جائیں گی کیونکہ اس کے بعد پھر فیصلوں کا مضمون شروع ہوگا.ایسے فیصلے جو کائنات کے آغاز سے لے کر آخر تک تمام اہم امور سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے فیصلے پھر اس دن کئے جائیں گے.اس لئے خدا کی ملکیت کا ظہور اس سے پہلے، حشر نشر سے پہلے مکمل ہو جانا چاہئے لیکن اس میں ایک الا بھی ہے جس کے متعلق اس سے پہلے میں روشنی ڈال چکا ہوں.إِلَّا مَنْ شَاءَ اللہ سوائے اس کے جسے اللہ چاہے.مفسرین اس
خطبات طاہر جلد 15 769 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء بحث میں الجھے رہے ہیں ، بعض احادیث سے بھی بعض استنباط ہوتے ہیں گویا حضرت موسیٰ“ وہ پہلے ہوں گے جو اٹھیں گے ، دوبارہ ہوش میں آئیں گے.اس پہلو سے اگر وہ پہلے ہوش میں آنے والے بھی ہوں تو پھر وہ کون ہے جسے خدا بے ہوشی سے محفوظ رکھے گا اور اس کے باوجود اس کی ملکیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا.یہ وہ مضمون ہے جو میں آپ پر آج کھولنا چاہتا ہوں.مالکیت تام ہوگی ایسی تام کہ اس میں کسی اور کے حصے کا کوئی شک شبہ کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.اس کے باوجود پھر بھی جسے اللہ چاہے گا اسے اس بے ہوشی سے مستشفی کر دے گا یعنی پہلے صور پھونکا جاتا ہے اس کی بے ہوشی.ہے.میرے نزدیک باوجود دوسرے علماء کے اختلاف کے یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ اس میں صلى الله من سے مراد رسول اللہ لے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتے خواہ کیسے بھی مرتبے رکھتے ہوں کبھی کسی فرشتے کے تعلق میں ان کو ملکیت میں خدا تعالیٰ کے پورے سائے تلے ، خدا تعالیٰ کی مالکیت کے سائے تلے ایک ہو جانے کا تصور نہیں ملتا.گویا صفت مالکیت کا کامل ظہور ہوا ہے.سوائے آنحضرت ﷺ کے جن کو خدا نے اس دنیا میں اپنی مالکیت کا مظہر بنایا ہے اور کسی نبی کا وجود نہیں ہے جو اس تصور میں رسول اللہ اللہ کا شریک ہو سکے تبھی تاکستان والی تمثیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی مضمون پیش کیا ہے کہ جب بیٹے کی بھی بات نہیں سنی جائے گی تب مالک آئے گا.یہی وجہ ہے کہ ایک ہی نبی ہے جس کو تمثیل اللہ کا نام دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی نبی کو اللہ صلى الله کا نام نہیں دیا گیا.اللہ کا نام کسی اور نبی کو دینا محفوظ نہیں تھا کیونکہ خدا کا نام کامل طور پر آنحضرت ﷺے صلى الله پر اطلاق پا کر محفوظ رہتا ہے اور اس بات کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ اللہ بن گئے ہیں یا اللہ کی صفات میں برابر کے شریک ہو گئے ہیں.پس مالکیت بھی اسی کو سونپی جانی تھی جس کے پاس مالکیت محفوظ ہے.جو اس کامل طور پر اپنے وجود کو کھو چکا ہے کہ واہمہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا کہ یہ وجود جسے خدا اپنی مالکیت میں شریک کر رہا ہے خود واقعہ مالک بن بیٹھے گا.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 163 ) تو کہہ دے کہ میرا اپنا تو کچھ رہا ہی نہیں باقی.میرا مرنا جینا، میری عبادتیں میری قربانیاں سب کچھ کلیۂ خدا کی ہو چکی ہیں.ایک ایک سانس ،ایک ایک لمحہ میرے اللہ کا ہوچکا ہے یہ وہ وجود ہے جسے خدا نے مالک فرما دیا ، مالکیت میں اپنا شریک کرلیا.پس اگر قیامت کے دن مالکیت کلیۂ خدا کی طرف لوٹ جائے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا
خطبات طاہر جلد 15 770 خطبہ جمعہ 4/اکتوبر 1996ء وجودا شارہ بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا.ہاں اس مالکیت کا نظارہ کرنے والا کوئی ہونا چاہئے تھا ورنہ یہ انتہائی لطف کا لمحہ کا ئنات کی دسترس سے باہر ہو جاتا.پس وہ ایک منظر ہے جس کو میرا دل قبول کرتا ہے اور میرا ذہن اس کی تصویر کھینچتا ہے ، روح صلى الله کا ذرہ ذرہ اس پر فدا ہوتا ہے.تمام مالکیت خدا کی طرف لوٹ گئی اور محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود اس میں باشعور ہونے کے باوجود اس میں حائل نہیں ہے.اس وقت پھر ایک صور پھونکا جائے گا.احادیث میں آتا ہے سب سے پہلا شخص جو سر اٹھائے گاوہ موسیٰ ہوں گے تو اس کو دیکھنے والا بھی تو کوئی تھا یعنی خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو، میرے نزدیک، پہلے کامل ہوش میں رکھا تھا.آپ گویا یہ نظارہ کر رہے ہیں کہ سب سے پہلے کون رسول سراٹھاتا ہے وہ حضرت موسی“ ہیں.”سب سے پہلے میں علماء رسول اللہ اللہ کو اس طرح نکال دیتے ہیں کہ گویا آپ بھی تمام میں شامل تھے اور اس کے باوجود موسی" کو پہلے ہوش آئی رسول اللہ ﷺ کو نہیں آئی.یہ جو حدیثیں ہیں بہت الجھاؤ والی ہیں اور ان پر تفصیل سے میں ایک دفعہ روشنی ڈال چکا ہوں لیکن منطقی بحثوں میں پڑے بغیر میں پھر اپنے اس کامل ایمان کا اظہار کرتا ہوں کہ وہ حدیثیں درست روایت کے لحاظ سے تھیں یا نہیں ان کا جو بھی مفہوم 6* صلى الله ہے اس آیت کریمہ میں جو من ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺہے ہیں.ورنہ مالکیت میں کوئی اور حق دار ہو ہی نہیں سکتا.اگر خدا کے علاوہ کوئی اور شعور میں رکھا جائے اور مالکیت اس کی طرف کامل طور پر لوٹ جائے تو ہر باشعور اس مالکیت میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ پائے گا اور اپنے انفرادی وجود کی حیثیت سے وہ باقی رہے گا.مگر وہی ہے جو رکھا جاسکتا ہے جس کا باقی رہنا نہ رہنا ان معنوں میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا کہ گویا وہ خدا کی کسی صفت میں اس سے برابری کا کسی پہلو سے بھی دعویدار رہا ہو یا اس کے وہم وگمان سے بھی یہ بات گزر سکے یہ کامل وجو د سوائے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اور کوئی نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر بھی اسی بات پر روشنی ڈالتی ہیں.آپ فرماتے ہیں مالکیت میں سورہ فاتحہ میں جو لفظ ما لک آتا ہے آخر پر یہ ظاہر کر رہا ہے، ثابت کر رہا ہے کہ وہ آخری رسول الله ، و آخری پیغمبر بن کے خدا کا پیغام لے کے دنیا کے سامنے آئے وہ خدا کی مالکیت کے صلى الله مظہر تھے اور وہ رسول اللہ کے ہیں اور اس صفت میں آپ کا کوئی اور شریک نہیں.پس اس پہلو سے یہ اللہ کی قدر ہے جو کسی کو علم نہیں کوئی اس کا حق ادا نہیں کرتا.
خطبات طاہر جلد 15 771 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِمِ اللہ کے سوا کسی کو اس قدر کا علم نہیں جو یہ قدر ہے کہ ہر چیز جو اس نے پیدا کی ہے بالآخر کا لعدم ہو جائے گی.صرف ایک وجود جسے وہ چاہے گا رکھے گا.اس وجہ سے نہیں کہ مالکیت میں کوئی رخنہ پیدا ہوگا ، اس لئے کہ مالکیت میں اس کے ہونے سے کوئی رخنہ پیدا نہیں ہو سکتا.پھر کیا ہوگا.وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتُبُ وَجَاءَ بِالنَّبِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ تب خدا تعالیٰ کی طرف سے وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبَّهَا - ارض سے مراد یہاں وہ محل ہے، ارض سے مراد ہر جگہ زمین نہیں ہوا کرتی ، ارض سے مراد وہ Expanse ہے ، وہ دائرہ وسعت ہے جس میں کوئی واقعہ رونما ہورہا ہو گا وہ اللہ کے نور سے روشن ہو جائے گا.ایک حیرت انگیز نور کا جلوہ ہوگا جو ہر چیز کو ڈھانپ لے گا.اس وقت کتاب پیش کی جائے گی.وَجاءَ بِالنَّبِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ اور نبیوں کو شہداء کے طور پر لایا جائے گا.اب اس میں بھی بعض دفعہ غلطی سے رسول اللہ ﷺ کو اس لئے داخل کیا جاتا ہے آپ بھی نبی ہیں.آپ بھی شہید ہیں.مگر قرآن کریم کی دوسری آیت یہ بتارہی ہے کہ تمام نبی جب شہداء کے طور پر پیش ہوں گے تو آپ ان سب پر ان سب کے شہید کے طور پر پیش ہوں گے.اس لئے وہاں الگ ذکر جو شہید کا ہے یہ بتا رہا ہے کہ جو مضمون میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اس کے ساتھ وہ متصادم نہیں ہے، یہ آیت کہ نبی شہداء کے طور پر پیش ہوں گے.دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے کھول دیا ہے کہ سب نبی بطور شہداء آئیں گے اور اے محمد ﷺ ! پھر تو ان سب کے اوپر شہید بن کر آئے گا یعنی ان کا شہید بنا دیا جائے گا.وَقُضِيَ بَيْنَهُمُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ حق کے ساتھ ان کے درمیان پھر فیصلہ کیا جائے گا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جس پر ظلم کیا جائے.وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ ہر جان اس وقت جو کچھ اس نے کیا ہے وہ پورا پورا اس کا بدلہ دیا جائے گا.وَهُوَا عْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ اور وہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں.اس آیت کا تعلق محض اس المناک وفات سے نہیں ہے جو ہمارے پیارے بھائی آفتاب احمد خان کی وفات سے ہمیں صدمہ پہنچا ہے.اس موقع پر اس وفات کے حوالے سے اس آیت کا مضمون آپ کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ یاد رکھیں سب نے وہیں جانا ہے، کوئی مستی نہیں.یا درکھیں کہ
خطبات طاہر جلد 15 772 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء وہی ایک ہے جو باقی رہنے والا ہے ، وہی ہے جو باقی رہے گا.باقی سب ثانوی وجود یہاں تک کہ اپنے نفس کا احساس تک سب کچھ مٹ جانے والا ہے.پس اس کی تیاری کرنی چاہئے کہ وہ وقت جو سب پر آنا ہے اس کی فکر کریں.جو بھائی اچھے حال میں خدا کی رضا کی راہوں پر چلتا ہوا رخصت ہو گیا اس کی فکر کا تو موقع نہیں اپنی فکر کا موقع ہے کیونکہ ابھی ہمارا دار اعمل باقی ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم نیک اعمال پر ، اگر کچھ ہیں قائم رہیں گے کہ نہیں رہیں گے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم اپنے بد اعمال کے داغ دھو سکیں گے کہ نہیں دھو سکیں گے.وہی جانتا ہے کہ کس صورت میں ہم اس آواز پر لبیک کہیں گے جو سب کو آنے والی ہے.اسی لئے انا للہ کے تعلق میں میں نے پہلے بھی یہ بات آپ کے سامنے کھولی تھی کہ جب ہم اِنَّا لِلہ پڑھتے ہیں تو پہلے اپنے اوپر پڑھا کریں اور مرنے والے پر اس کا اطلاق آپ پڑھیں نہ پڑھیں ویسے ہی ہوتا ہے، وہ تو لوٹ بھی گیا.اللہ للہ وانه اليه راجعون تو نہیں فرمایا کہ یہ مرنے والا اللہ ہی کی طرف سے آیا تھا اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا.اس مضمون کو تو خدا نے نکال ہی دیا ہے یہاں سے فرمایا اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہم جو زندہ ہیں اس وقت ، ہم بھی تو اسی کی طرف سے آئے ہیں اور ہم سب بھی اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.پس جو پیچھے رہ جاتے ہیں ان کو اپنی فکر زیادہ چاہیے جانے والے کی فکر کے مقابل پر کیونکہ جب خدا نے اس کے اعمال کا دروازہ بند کر دیا تو پیچھے رہنے والوں کا اس میں دراصل کچھ بھی دخل باقی نہیں رہتا.دعائیں ہیں ، دعا ئیں تو ہوتی رہتی ہیں ہمیشہ لیکن زندوں کے لئے پہلے اور مرنے والوں کے لئے بعد میں.ہر جنازے پر آنحضرت ﷺ کا یہی طریق تھا کہ پہلے اللهم اغفر لحينـا وميتنا اے اللہ ہمارے زندوں پر اپنی مغفرت فرما اور میتیوں، مردوں کی بھی مغفرت فرما.تو جس مضمون کو حضور اکرم ﷺ نے جہاں بیان فرمایا ، جہاں رکھ دیا ناممکن ہے کہ اس کو اپنی جگہ سے اٹھا کر کسی صلى الله اور جگہ رکھا جائے اور بدزیبی پیدا نہ ہو.وہ محل جہاں رسول اللہ ﷺ نے ایک لفظ رکھ دیا وہیں رہتا ہے اور اس کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اس کو ہلایا نہیں جاسکتا.پس اس سے پیغام ہمیں یہ ملنا چاہئے کہ ہر وہ موت جو کسی نیک صالح انسان کی موت ہو جس نے اپنی زندگی کو خدا کے لئے خدمت میں وقف کر رکھا ہواس سے سب سے پہلی توجہ اپنے اعمال کی طرف پھرنی چاہئے اور اپنی بقیہ زندگی کی بے اختیاری کی طرف
خطبات طاہر جلد 15 773 خطبہ جمعہ 4/اکتوبر 1996ء.نگاہ جانی چاہئے اور یہ ایک عزم صمیم پیدا ہونا چاہئے کہ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا یہ نہ ہو کہ مجھے ایسے وقت میں آواز آجائے کہ جب بے خبری کی حالت میں، میں اپنی حالت سے بے خبر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں اور اس کوشش میں مصروف نہ ہوں کہ میرے گناہوں کے داغ مٹ رہے ہوں.اس جد و جہد میں میری جان نہ جائے ، نعوذ باللہ من ذالک کہ جس سے پتا چلتا ہو کہ میں خدا کی راہ میں سرک سرک کے بھی زور سے طاقت کے ساتھ، کبھی کمزوری کے ساتھ ،مگر آگے بڑھ رہا ہوں مسلسل آگے بڑھ رہا ہوں.یہ وہ انسان کی سوچ ہے جو اس کی آئندہ زندگی کی ضمانت ہے ،اس بات کی ضمانت ہے کہ جس حال پہ بھی اس پر موت آئے گی وہ خدا کی رضا پر مرے گا.پس اس پہلو سے آفتاب احمد خان صاحب کے وصال کے نتیجہ میں جو ہمارے اندر خلاء پیدا ہوا ہے وہ خلاء اسی طرح بھر سکتا ہے کہ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے اور آپ کی وفات سے سبق لینے والے بکثرت پیدا ہوں اور انگلستان کے چونکہ امیر تھے اور بہت ہی شاندار امارت رہی ، بہت ہی کامیاب رہی ہے اس لئے انگلستان کی جماعت میری اولین مخاطب ہے.یہ تو ہمیں وہم پیدا ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کے چلے جانے سے خدا کے کام بند ہو سکتے ہیں ، ناممکن ہے.ہاں کسی کے چلے جانے سے اس سے نقوش قدم پر چلنے والے اگر نئے پیدا ہو جائیں تو وہ اس کا وصال کام آگے بڑھانے والا تو بنتا ہے، کام کو پیچھے دھکیلنے والا نہیں بنتا.اور یہی وہ شعر ہے جو ایک عربی شاعر نے کہا جو خود زندہ جاوید ہے: اذا سید منا خلا قام سید قؤول لـمــا قــال الـكــرام فعول (السموأل بن غريض) ،، ہم تو ایک زندہ قوم ہیں ہم میں کسی بڑے آدمی کے مرنے سے قوم نہیں مرا کرتی.ہمارا تو یہ حال ہے کہ اذا سـیـد مـنــاخـلا ، جب ایک سردار، عظیم الشان خوبیوں کا مالک ہم میں سے نکل جاتا ہے گزر جاتا ہے قام سید ایک اور سردار اٹھ کھڑا ہوتا ہے قؤول لما قال الكرام جو معزز لوگ کہا کرتے تھے ویسی ہی باتیں وہ بھی کہتا ہے فعول اور اسی طرح عمل کرنے والا ہے.محض زبانی جمع خرچ پر بات کو نہیں چھوڑتا بلکہ اپنے افعال ، اپنے نیک اعمال سے ثابت کرتا ہے کہ وہ ان نیکوں میں اسی طرح ایک زندہ وجود ہے جس طرح مرنے والا اس کی ذات میں ہمیشہ زندہ رہے گا.
خطبات طاہر جلد 15 774 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء پس جب ہم کہتے ہیں وہ زندہ رہے گا یا ہمیشہ زندہ رہے تو مراد یہی ہوتی ہے کہ اپنے پیچھے ایسے وجود چھوڑ جائے جن میں ہو کر پھر وہ زندہ رہے اور ایک سے زیادہ ہوتے چلے جائیں ، بجائے کم ہونے کے.یہ تصویر دنیا میں بھی پایا جاتا ہے مگر ایک بھیانک صورت میں.سچی حقیقی صورت میں جو بھیا نک نہیں بلکہ بہت ہی دلربا ہے وہ اسلام ہی میں پایا جاتا ہے یہ تصور.کہانیوں میں ذکر ملتا ہے ایک Hydra-Headed جن کا، ایک ایسے بھوت کا جس کے ایک سے زیادہ سر تھے اور جتنے سر کاٹتے تھے اتنے ہی زیادہ اگتے چلے جاتے تھے اور ناممکن تھا کہ اس کوختم کیا جاسکے.یہ تصور پرانے زمانے کی کہانیوں میں ملتا ہے مگر ایک حقیقت پر مبنی ہے محض ایک وہم نہیں محض ایک کہانی نہیں.Hydra ایک ایسا جانور ہے جو واقعہ یہ صفات رکھتا ہے.اس کے سرکو اگر کاٹا جائے تو وہ کٹا ہوا سر اپنے نیچے سے ایک اور وجود پیدا کر کے سارا جسم مکمل کر لیتا ہے اور کٹا ہوا جسم ایک سر نکال کر ایک اور وجود مکمل کر لیتا ہے.پس عجیب جانور ہے کہ جس کو کاٹ کر ختم نہیں کیا جاسکتا، جسم اپنا سر پیدا کر لے گا ،سر اپنا جسم پیدا کر لے گا.پس اس قسم کے واقعات پرانے زمانوں میں سائنس دانوں نے مشاہدہ کئے ہیں.اس زمانے کے سائنس دان بھی بہت غور کرنے والے لوگ تھے ، بڑے بڑے فلسفی تھے جنہوں نے Hydra کا یہ حال دیکھا ہو گا اس سے یہ کہانیاں بن گئیں.کوئی جن بھوت ہے جس کو جتنا کاٹو وہ اور بڑھتا چلا جاتا ہے.مگر اسلام میں جو یہ تصور ہے یہ نیکی کی ترویج سے تعلق رکھتا ہے اور اس مضمون سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی بھی ایک نہیں ہے اور اللہ قائم رہتا ہے اور اگر اللہ قائم رہے تو اس سے تعلق رکھنے والے بھی قائم رہا کرتے ہیں ان معنوں میں.پس اگر خدا سے تعلق جوڑے رکھو گے تو تم نیک معنوں میں Hydra بن جاؤ گے جس کا ایک سر جدا ہو تو دوسرا سر بھی اگ.آتا ہے اور ایک اور جسم بھی نکل آتا ہے اس سر کے نیچے سے، تو وہ بڑھتا ہے، کم نہیں ہوسکتا.پس وہ لوگ جو اپنے بڑوں ، بزرگوں ، نیکیوں کی وفات کے اوپر یہ عزم لے کر زندہ رہتے ہیں کہ ہم نے ان نیکیوں کو نہیں مرنے دینا.جس خدا نے ان کے وجود کو یہ نیکیاں بخشی تھیں ہم اسی سے اپنا تعلق بڑھائیں گے اور اس تعلق کے نتیجہ میں ہمارے اندر کمزوری پیدا ہونے کی بجائے پہلے سے بڑھ کر تقویت آئے گی.جو قو میں ، جو روحانی، مذہبی قو میں اس راز کو سمجھ لیں ان کے اوپر کبھی موت نہیں آسکتی.ناممکن ہے کہ وہ ختم ہو جائیں ، ہمیشہ بڑھتی چلی جائیں گی لیکن بدنصیبی ہے کہ مذہبی قوموں میں
خطبات طاہر جلد 15 775 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء اکثر اپنی زندگی کو کسی موت پر آگے بڑھانے کی بجائے ماضی کی موتوں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے.وہ قو میں مردہ لوگوں کے ساتھ زندہ ہونے لگ جاتی ہیں یعنی ان معنوں میں نہیں کہ ان کی خوبیوں کو لے کر خودان نیکیوں کو آگے بڑھائیں بلکہ مردوں کے تصور سے اپنے آپ کو ایسا باندھ لیتی ہیں کہ گویا ہماری زندگی ان کی زندگی تک تھی اور اب بھی اگر ہم زندہ ہیں تو ان کے واسطے زندہ ہیں.خوبیوں سے نہیں، ان کی عطاؤں سے زندہ ہیں.پس جتنے بھی بزرگ ہیں جن کی قبروں پر سجدے کئے جاتے ہیں، جتنے بھی داتا ہیں جن سے مرادیں مانگی جاتی ہیں یہ سارے اس برعکس صورت کا مظہر ہیں کہ قوم اپنی زندگی ماضی کے حوالے کر کے ایک مردہ جسم کو آگے دھکیلتی چلی جاتی ہے، جو کتنا مختلف مضمون ہے اس مضمون سے جو قرآن کریم آپ کے سامنے رکھتا ہے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق رکھو اور بڑھتے چلے جاؤ.ایک کامل وجود سے دوسرے وجود پیدا ہوں.صلى الله بار بار میں اس مضمون کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آنحضرت ﷺ کے حوالے سے رکھتا ہوں.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح : 30) - مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ﷺ ہیں اور اکیلے نہیں رہنے والے وَالَّذِينَ مَعَةَ پہلے کہاں تھے جب ان کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا اکیلے تھے لیکن آپ اٹھے تو آپ کے ساتھ جو لوگ اٹھے وہ آپ نے اٹھائے ہیں.جو معیت والے خوش نصیب یہاں مذکور ہیں وہ معیت محمد رسول اللہ نے خودان کو عطا کی اور آپ کی بدولت، آپ کی قوت قدسیہ سے وہ لوگ زندہ ہو ہو کر آپ کے ساتھ شامل ہونے لگے.پس یہاں وہ Hydra کا برعکس مضمون ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا کہ مومنوں میں سے اگر ایک سردار پیدا ہوتا ہے تو وہ کم نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خود پھیلتا چلا جاتا ہے اور یہ مضمون ایک فرق رکھتا ہے Hydra کے ساتھ.Hydra میں اس کا بڑھنا اس کی موت سے لازماً وابستہ ہے.مگر مومن کی نشو و نما موت سے پہلے یقینی طور پر ہو کر اس بات کو ناممکن بناتی ہے کہ ان کا سردار مر جائے تو قوم بھی ساتھ مر جائے.اپنے جانے سے پہلے اپنے زیرتر بیت ، اپنے پروں کے نیچے پہلے ہوئے لوگوں کو وہ وجود چھوڑ جاتا ہے.تب ہی خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ اللہ کے اسوہ کے ساتھ الله آپ کے صحابہ کے اسوہ کا ذکر فرمایا.یہ تو مراد نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے موجود ہوتے ہوئے کسی اور اسوہ پر نظر پڑ سکتی تھی.وہ تو مٹے ہوئے اسوہ نظر آتے تھے.وہ ایسے تھے جیسے سورج کے سامنے
خطبات طاہر جلد 15 776 خطبہ جمعہ 4/اکتوبر 1996ء شمعیں بجھ چکی ہوں.کون تھا جو اس وقت حضرت ابو بکر کے اسوہ کی تلاش کیا کرتا تھا ، کون تھا جو عمر اور عثمان صلى الله اور علی کے اسوہ کے پیچھے بھاگتا تھا.ایک ہی تھا محمد رسول اللہ ہے جن کا اسوہ تھا اور باقی سب اسوے اس کے سامنے مٹے ہوئے تھے.پس قرآن کریم کی یہ ہدایت کہ ان کے اسوہ کی پیروی کرو، بتارہی ہے کہ صلى الله حضرت محمد رسول اللہ اللہ جب جدا ہو جائیں گے تو یہ لوگ اپنی ذات میں محمد رسول اللہ ﷺ کی شمعوں کو زندہ رکھنے والے ہوں گے کہ آپ اپنے وصال سے پہلے یہ کر چکے ہیں.وَالَّذِينَ مَعَةً کا مضمون صا در آچکا ہے.اس لئے زندگی ہی میں ایسا ہونا لازم ہے.مگر اگر نہ ہوا ہو تو پھر کسی کی موت اگر کچھ زندہ لوگ پیدا کر دے تو کتنی خوش قسمت موت ہوگی اور وہ لوگ بھی خوش قسمت ہوں گے جو کسی کے مرنے سے مرنہیں جایا کرتے بلکہ زندہ ہو جاتے ہیں.یہ وہ سارا مضمون ہے جس کے پیش نظر میں نے اس آیت کریمہ کی آپ کے سامنے تلاوت کی اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کی ان آیات کے مصداق بنیں گے.جب ان کے وصال کی خبر ملی اس وقت میں ہارٹلے پول میں تھا اور سوائے اس کے میرے دل سے کوئی آواز نہیں اٹھی کہ اِنَّا لِلہ ہمارا ایک بھائی ہم سے جدا ہو گیا.میں نے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہا کہ تذکرہ کا مطالعہ کرو مجھے بتاؤ یہ جو اچانک سا واقعہ ہوا ہے عجیب، کیا اشارہ کسی جگہ ذکر ملتا ہے الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں تو ایک ایسا الہام انہوں نے نکالا ہے جو میں یہ نہیں کہتا کہ لازماً اس واقعہ پر اطلاق پاتا ہے مگر مشابہ بہت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، یہ ذکر حبیب میں مفتی صاحب کی روایت ہے، حضرت مفتی صاحب کی.فرمایا سے چل دیا.“ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا اِنَّا لِلہ ہمارا بھائی اس دنیا اور یہ وہ خبر ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں.مصداق ذہن میں نہیں آیا“ (تذکره:664) حالانکہ اکثر الہامات جو اشارہ بھی ہوتے رہے ہیں مثلاً پل ٹوٹ گئے یا دو شہتیر ٹوٹ گئے ،شاتان تذبحان ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک توجیہہ پیش فرمائی ہے ایک
خطبات طاہر جلد 15 777 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء تعبیر بیان کی ہے کہ میرے نزدیک یہ وہ امکانی طور پر مصداق ہے اس الہام کے یعنی اپنے صحابہ میں سے بعض کے نام لئے.بعض جگہ یقینی مگر بعض جگہ امکانی طور پر فرمایا.یہ وہ الہام ہے جو خاموش پڑا ہوا ہے آج تک تذکرہ میں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے بعد اور کچھ نہیں فرمایا اور کسی صحابی نے پھر اس کی کوئی اور توجیہہ کر کے کسی پر اطلاق نہیں کیا اور چونکہ یہ فقرہ ویسا ہی تھا جیسا کہ بے اختیار میرے منہ سے نکلا، کوئی الہام نہیں تھا مگر ایک دل کا بے ساختہ اظہار تھا اس کے سوا میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا.تو یہ پڑھ کر مجھے بہت تعجب ہوا اور دل کو ایک سکینت بھی نصیب ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر دور تک نظر رکھتا ہے اور بعض ایسے الہامات جو بظاہر بے عنوان ہوں یہ خدا کے بہت سے بندوں پر اطلاق پائیں گے اور پاتے چلے جائیں گے.پس یہ بھی میں نہیں کہتا کہ آفتاب احمد خان ہی ہیں جوا کیلے با قاعدہ مراد تھے.یہ تو ایک بہت بڑا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو نعوذ باللہ سمجھ نہیں آئی مگر مجھے آگئی مگر میری مراد صرف اتنی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معین شخص بتا کر نہ سمجھانا یہ ایک حکمت رکھتا ہے کہ ایسے کئی پاک وجود اس دنیا سے رخصت ہوتے رہیں گے جن کے وصال کی خبر سے بے ساختہ مومنوں کے دل سے یہ آواز اٹھے گی انا للہ !ہمارا بھائی اس دنیا سے چل دیا.پس ایک بھائی چل دیا مگر دعا کریں کہ کثرت سے ایسے اور بھائی پیدا ہوتے رہیں.آپ کے ذکر خیر میں میں کچھ باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کی نیکیوں سے باقی لوگوں کو بھی نصیحت ہو اور وہ ویسا بننے کی کوشش کریں.مختصراً آپ کے حالات زندگی یہ ہیں کہ 24 رستمبر 1924ء کو آپ محترم خان ثناء اللہ خان صاحب اور محترمہ امتہ المجید صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے.آپ کے نانا مکرم شیخ محمد صاحب صحابی تھے اور آفتاب خان صاحب مجھے بتایا کرتے تھے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے آباؤ اجداد میں سے کسی طرف سے ہیں.پس اندھیروں سے دن نکلنے کا جو مضمون ہے وہ اس پر بھی چسپاں ہوتا ہے.محمد حسین صاحب بٹالوی کی اوّل تو ان کا اپنا ایک نواسہ سعید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر اپنے نانا کے کذب پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.کذب پر بھی ایک تصدیق ہوا کرتی ہے اور بڑے کھلم کھلا اعلان کیا کرتے تھے کہ میرا نا نا جھوٹا نکلا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے تھے.تو اب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
خطبات طاہر جلد 15 778 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء محمد حسین صاحب بٹالوی کی اولاد میں سے تصدیق کرنے والے اور اول درجے پر خادم، خدمت کا مقام حاصل کرنے والوں میں ایک ہمارے آفتاب خان صاحب بھی بنتے ہیں.آپ کے نانا شیخ محمد صاحب تھے.بڑے ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور سے آپ نے تاریخ میں MA کیا.میں مختصر بتا رہا ہوں آپ کی والدہ بھی ایک صحابی کی اولاد تھیں.1945ء تا 1947 ء تک گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں پڑھاتے رہے.گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کی وہاں سے MA کیا ہے آپ نے.اس کے بعد گورنمنٹ کا لج راولپنڈی میں پڑھایا، پھر 1947ء میں انکم ٹیکس افسرلاہورمقرر ہوئے.پھر 1948ء میں فارن سروس آف پاکستان میں آئے ہیں پہلی بار اور 1948ء سے 1989 ء تک سیاسی مبصر اور سفیر کے طور پر پاکستان کی خدمت کرتے رہے.اس سلسلہ میں واشنگٹن نیو یارک جکارتہ، لندن، دہلی ،اٹلی وغیرہ وغیرہ اور یوگوسلاویہ، یہ لکھا تو نہیں ہوا مگر مجھے یاد ہے آپ یوگوسلاویہ میں بڑی خدمت سرانجام دیتے رہے ہیں.یہ آپ کی جو پروفیشنل زندگی ہے ایک بیوروکریٹ کے طور پر اس کا یہ خلاصہ ہے.50.1949 ء میں UNO کی میٹنگ میں شمولیت کی جبکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ تھے.مسئلہ کشمیر، لیبیا، تیونس، مرا کو اور الجیریا کے مسائل پیش کئے گئے جن میں آپ کو پاکستان کی طرف سے نمائندگی یعنی بیور کریٹک لیول پر نمائندگی میں خدمت کی توفیق ملی.وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بھی آپ کی پوسٹنگ رہی ، اٹلی اور یوگوسلاویہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور جماعتی خدمات کا جہاں تک تعلق ہے پہلی بار آپ کو 1981ء میں جلسہ سالانہ ربوہ میں تقاریر کا انگریزی ترجمہ پیش کرنے کا موقع ملا.یہ وہ ابتدائی تجربہ تھا جو خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ کروایا اور مجھے پتا نہیں تھا کہ آئندہ خدا تعالیٰ مجھ سے اس نہج میں کام لینا چاہتا ہے اس لئے مجھے خیال آیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے زمانے میں ، آخری دو تین سال کے اندر بہت اصرار کے بعد میں نے یہ نظام شروع کیا کہ کیسٹس کی صورت میں حضرت خلیفہ مسیح کے خطبات افریقہ اور دوسرے ایسے ممالک میں جہاں پاکستانی سمجھنے والے موجود ہیں پھیلائے جائیں اور کیسٹس کی ترسیل کا سلسلہ اس وقت شروع ہو گیا تھا.اس وقت تک جو باہر سے آنے والے مہمان تھے ان کے لئے جلسہ سالانہ میں ساتھ ساتھ جاری تقریر کا ترجمہ کرنے کا رواج نہیں تھا.کچھ لوگ بیٹھے ہوتے تھے ساتھ وہ کچھ بتا دیا کرتے تھے مگر اکثر تو بے چارے بت بن کر محض ادب میں جلسے پر حاضر رہا کرتے تھے.تو
خطبات طاہر جلد 15 779 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء خدا تعالی نے یہ توفیق عطافرمائی کہ پہلے ترجمہ کرنے کا جاری نظام جو ہے وہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی زندگی کے آخری ایام میں شروع ہو چکا تھا اور آفتاب احمد خان صاحب لندن سے تشریف لائے تھے میں جانتا تھا کہ ان کی اردو بھی بہت اچھی ہے ، انگریزی بھی بہت اچھی ہے اس لئے ان سے درخواست کی اور انہوں نے ماشاء اللہ بہت عمدہ طریق پر اس ترجمہ کا حق ادا کیا.مختلف وقتوں میں مختلف کمیٹیوں میں قرآن کریم کے جو تر جمہ کا سلسلہ چلا تھا میں نے اپنے ساتھ ایک کمیٹی بنائی ہوئی تھی اس میں بھی یہ شامل رہے اور صدر قضا بورڈ کے طور پر بھی کام کرتے رہے.1986ء میں پہلی بار امیر UK مقرر ہوئے.جب امیر مقرر ہوئے ہیں تو جہاں تک ان کی نیکی اور تقویٰ کا تعلق تھا ایک ذرہ کا بھی مجھے کبھی شک نہیں پڑا لیکن جہاں تک ان کی بیوروکریٹک تربیت کا تعلق تھا اس کے پیش نظر مجھے لازماً ساتھ ساتھ چلنا پڑتا تھا اور یہ بھی جانتے تھے کہ نظام جماعت کو چلانا اور چیز ہے اور بیورکریٹ ہو کر ایک بہترین مثال قائم کرنا ایک اور بات ہے.حکومت کی ملازمتیں ، دنیا کی اعلیٰ تعلیمات کے باوجود ، ایک شخص کی نیکی کے باوجود اسے جماعتی خدمات کے لحاظ سے پوری طرح صیقل نہیں کرسکتیں.یہ قصہ ہی اور ہے.انہی لوگوں کو یہ طریقہ آتا ہے جو بچپن سے خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، انصار اللہ ان کی تنظیموں سے جو طوعی کام کرنے والی تنظیمیں ہیں ان سے گزرے ہوں اور ان کو پتا ہو کہ طوعی کام لینا ہوتا کیا ہے.ایک بیوروکریٹ نے تو جب حکم دے دیا وہ حکم ہو گیا کام چل پڑا خواہ کوئی دل سے قبول کرے یا نہ کرے.مگر نظام جماعت میں لوگوں کے دلوں کو ساتھ لے کر چلنا یہ راز ہے نظام جماعت کی کامیابی کا اور اس کے علاوہ ہر بندے کی پہچان صحیح ہو کہ یہ اس قابل ہے بھی کہ نہیں.ظاہری طور پر بعض دفعہ لوگ قابل ہوتے ہیں باطنی طور پر قابل نہیں ہوتے.تو اس پہلو سے ان کو میں نے سمجھایا کہ جہاں تک ممکن ہے جو اہم فیصلے ہیں ان میں مجھ سے بات کر لیا کریں.چنانچہ اس دن کے بعد تا وفات انہوں نے مسلسل اس بات کو اپنائے رکھا، کبھی بھی کوئی فیصلہ آخری نہیں کرتے تھے جب تک پہلے مجھے سے بات نہ کر لیں.اکثر یہ ہوتا تھا کہ ان کے مشوروں کو میں مان جاتا تھا اور کئی دفعہ کہتا تھا کہ میرے نزدیک تو یہ ٹھیک نہیں.چھوڑ دیں اس بات کو اور بڑے شرح صدر کے ساتھ مسکراتے ہوئے چھوڑ دیا کرتے تھے.چونکہ ایک دوستانہ رنگ تھا بھائیوں کی طرح اس لئے میں ہمیشہ اپنے اس اختیار کو بلکہ
خطبات طاہر جلد 15 780 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء اکثر اپنے اس اختیار کو کام میں لاتا ہی نہیں تھا کہ اگر مجھے تسلی نہیں ہے تو میں ان کو مجبور کروں کہ وہ اپنا مشورہ بدلیں اور اسی پر عمل کریں جو میں کہ رہا ہوں.آپس میں گفت و شنید میں کہتا تھا اچھا آپ تجربہ کرلیں مگر میری رائے یہی ہے.اب یہ بھی ان کے تقویٰ کی نشانی ہے.لوگ سمجھتے ہیں لوگ جو میرے اردگرد ہیں وہ ہاں ہاں کر کے ہی ارد گرد ہوتے ہیں ، بالکل جھوٹ ہے.بہت سے میرے قریب ایسے ہیں جو اس لئے قریب ہیں کہ بڑی جرات اور اعتماد کے ساتھ ،اخلاق کے ساتھ اپنی رائے پیش کرتے ہیں جو میری رائے کے مخالف ہو لیکن شرط یہ ہے کہ جب میں فیصلہ دے دوں کہ یہ کرنا ہے ، وہ نہیں کرنا اپنی رائے کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس کا وجود ہی کوئی نہیں تھا.یہ بات سو فیصدی آفتاب خان صاحب کی امارت پر اطلاق پاتی ہے.چنانچہ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے کہا جی میرے نزدیک فلاں فلاں جو دوست ہیں وہ فلاں کام بہترین کر سکتے ہیں اور ساتھ معذرت کے ساتھ کہتے تھے مجھے پتا ہے آپ کو اتفاق نہیں.میں جانتا ہوں آپ کو اختلاف ہے مگر مجھے یقین ہے.میں نے کہا اگر آپ کو یقین ہے تو شوق سے کریں ، میری طرف سے اجازت ہے.خدا کرے آپ کا یقین درست نکلے.تو اس کے بعد چھے مہینے کبھی سال کے بعد سر پھینکا ہوئے آتے تھے کہ وہی بات ہوئی جو آپ کہتے تھے.مجھے یقین تھا مگر غلط نکلا.تو یہ جو لمبے تجربے سے ایک فراست نصیب ہوتی ہے یہ بیورو کریسی کوملتی ہی نہیں کیونکہ ان کا ماحول مختلف ہے.نہایت ذہین ہونے کے باوجود اعلیٰ سے اعلیٰ افسر بھی اس تجرباتی فراست سے محروم رہتے ہیں جو لمبے عرصے کے ایسے کاموں سے نصیب ہوتی ہے جس میں جبر کو کوئی دخل نہیں ہے.طوعی کام ہیں اور اس میں وہی افسر کامیاب رہتا ہے جو طوعی خدمت لینے کا سلیقہ سیکھ جاتا ہے اور اس کے لئے پھر تجربے کی ضرورت پڑتی ہے.مجلس شوری کے موقع پر اور ایسے مواقع پر کئی دفعہ بعض غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں مگر فوراً اس کی تصحیح فرماتے تھے.جب بھی میں ان کو کہتا تھا یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب بالکل صیقل ہو گئے اور اس جلسے کے بعد ایک موقع پر مجھ سے کہا کہ اب تو دیکھیں سب کچھ ٹھیک ہو گیا.اس مجلس شوریٰ کے بعد بھی یہی بات کی گویا یہ بتانا چاہتے تھے کہ جس طرح آپ نے مجھے تیار کیا میں پوری طرح تیار ہو گیا لیکن جب تیار ہوئے تو اللہ نے واپس بلا لیا.اس کی رضا پر ہم راضی ہیں.وہ اور بھی ایسے ہمیں عطا کر دے گا لیکن خلاء جو چھوڑا ہے وہ بہت بڑا ہے، معمولی خلاء نہیں کیونکہ جماعتی کاموں کے علاوہ
خطبات طاہر جلد 15 781 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء جو جماعتی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں میں نے ان سے بیرونی تعلقات میں بہت کام لئے ہیں کیونکہ بحیثیت ایک نہایت ذہین ، کامیاب اور شریف النفس بیوروکریٹ کے ان کا تعلق اپنے ماتحتوں سے بھی گہرا تھا اور اپنے افسران سے بھی بہت گہرا تھا اور ارد گرد جو بھی ان سے ملنے، ان سے رابطے میں آئے ان سے بھی تعلقات ہو جاتے تھے اور بیوروکریسی سے نکلنے کے بعد میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے تعلقات اس قدر گہرے اثر انداز ہوئے ہوں ان لوگوں پر جن سے بھی گورنمنٹ کی خدمت کے دوران واسطے پڑتے تھے.لوگ تو اس وقت سر جھکاتے ہیں کسی افسر کے سامنے ، جب اس کی افسری ختم ہوئی تو ان کا سر بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن ماتحتوں کا بھی یہی حال ہے ان کے سامنے ان کی اطاعت کے جذبے بڑے اخلاص سے قبول کرتے ، جب بات ختم ہوئی تو ان کو کوئی چھوٹا سا بھی کام کہیں ان کی مجال ہے جو یہ سن لیں کہتے ہیں تم اپنی جگہ ہم اپنی جگہ، اب ہم آزاد ہیں.ان کے حسن خلق سے کبھی کوئی آزاد نہیں ہوا اور یہ حسن خلق کی وجہ سے تھا اس لئے کبھی بھی کسی افسر کے ساتھ کبھی رابطہ ہوا ہے تو جب بھی اس سے کوئی کام پیش آیا اس نے بڑی محبت سے ان کے تقاضوں کو پورا کیا ہے.اس لئے اس تعلق میں میں ان سے سیاسی راہنماؤں سے تعلقات میں بھی کام لیتا رہا ، یورپین معاملات میں بھی ان سے کام لیتا رہا اور پاکستان ، ہندوستان کے پرانے تعلقات میں بھی ان سے کام لیتا رہا اور خدا کے فضل سے ہمیشہ انہوں نے کامیابی کے ساتھ وہ کام سرانجام دیئے لیکن انکساری کا یہ عالم تھا کہ جانے سے پہلے ضرور پوچھا کرتے تھے کہ میری یہ رائے ہے کہ اس طرح میں بات کروں گا.آپ اگر اس میں تبدیلی چاہتے ہیں تو مجھے بتادیں.چنانچہ اب آخری جوان سے خصوصی کام لیا گیا ہے وہ انٹرنیشنل فورم میں جو امریکہ میں منعقد ہوا جس میں مسلمانوں اور یہود کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا تجاویز ہو سکتی ہیں، اس عنوان کے تابع انہوں نے جن کو دعوت دی ان میں آفتاب خان صاحب کا نام بھی شامل تھا.یعنی ان کی جو آواز ، ان کا جو رسوخ ہے، ان کا کردار ہے وہ سیاست دانوں کی وساطت سے ان کو پہنچا ہے.بہت سے امریکہ یا کینیڈا یا یورپ کے لوگ ہیں چونکہ اس تعلق میں آپ کے بہت قریب رہے ان میں سے کسی نے ان کا نام بھیجا ہے کہ اس کو بھی شامل کرنا چاہئے.چنانچہ مجھ سے ذکر کیا کہ مجھے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مفید ہے جماعت کے لئے تو میں چلا جاتا ہوں.میں نے کہا ٹھیک ہے آپ ضرور جائیں اور آپ کو تو اس
خطبات طاہر جلد 15 782 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء دودو مضمون پر کافی عبور ہے.انہوں نے کہا ہاں میں گلف کرائسز بھی پڑھ چکا ہوں سنا بھی ہوا ہے اور بھی آپ کو جانتا ہوں ، آپ کے خیالات کو ان موضوعات پر تو میں تیاری کرلوں گا فکر نہیں.جانے سے پہلے نماز کے وقت میرے دفتر تک چھوڑنے گئے تو کہا کہ مجھے ابھی تسلی نہیں ہو رہی.میرا دل چاہتا ہے آپ مجھے دوبارہ خود بتائیں کہ کیا کرنا چاہئے.اس پر جو میں نے ان کو بات بتائی تو چمک اٹھے.انہوں نے کہا یہ میرے دماغ میں نہیں تھی پہلے.اس سے تو سارا مضمون کا رخ ہی بدل گیا ہے.اب میں اسی طرح پیش کروں گا اور واپس آکر اتنا خوش تھے ، کہتے تھے ساری مجلس میں اسرائیل کے نمائندے بھی تھے ، مقامی یہودی بھی مسلمانوں کے ممالک کے نمائندے ہر قسم کے مگر سب سے زیادہ میری تقریر کو سراہا گیا اور لوگ بعد میں دوڑ دوڑ کر آ کے مجھ سے ملتے رہے اور گرم جوشی سے در ہاتھوں سے مصافحے کئے اور اسرائیل کے نمائندے نے معذرت کی کھڑے ہو کر کہ مجھ سے جو اپنی تقریر میں گستاخانہ باتیں ہوگئی ہیں رسول اللہ ﷺ کے متعلق یا دوسرے میں معذرت کرتا ہوں میری غلطی تھی اور اس مقرر نے آفتاب خان نے مجھے درست کیا ہے اور بعد میں پھر بھری مجلس میں وہ معافی مانگنے کے لئے پھر آیا.تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی فراست تھی.جو بات سمجھتے تھے اسے پیش کرنے کا سلیقہ جانتے تھے ، بہترین انگریزی بولتے تھے اس پر عبور تھا مگر ساتھ انکسار تھا اور واپس آکر خوشی سے جس طرح انسان ایک چیز میں ابلتے ہوئے بلبلے پیدا ہوتے ہیں اس طرح آپ ہنتے جاتے تھے اور خوش تھے، کہتے خدا نے دیکھو کیسا عمدہ موقع دیا.اگر میں نہ جاتا اور جس رنگ میں آپ نے اسرائیل کی بات چھیڑنے کا کہا تھا نہ چھیڑتا تو اس گستاخ کو کسی نے درست نہیں کرنا تھا اور وہ ایک ایسی بد تمیزی کی بات کر گیا تھا کہ اس کے نتیجے میں سب پر یہ تاثر پڑتا تھا کہ نعوذباللہ من ذالک، رسول اللہ یہود کے معاملے میں ظالم تھے لیکن جس رنگ میں میں نے بات کی اور کھڑے ہو کر احتجاج کا حق استعمال کیا اور کھول کر ان کو بتایا کہ بالکل جھوٹ ہے.کہتے صرف ایک بات میں حیران ہوں کہ ہمیں تو تجربہ تھا مولویوں کا لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسرائیلی یہودی، اسرائیل کا نمائندہ اتنا جلدی اپنا موقف بدل لے گا.یہ بھی یہ کہتے ہیں میرے لئے نیا تجربہ تھا.میرے دلائل کوسنا اور سر تسلیم خم کیا ، اٹھ کر سب کے سامنے معذرت کی ، اپنی غلطی پر معافی مانگی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صلى الله خلاف گستاخی کر کے دل آزاری کا کام کیا ہے اور نا جائز کام کیا ہے.یہ بات درست نہیں ہے جو میں
خطبات طاہر جلد 15 783 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء نے کہی تھی.پس اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کی مخلصین کی مدد بھی فرماتا ہے اور جس جذبہ سے آپ نے صلى الله رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا تھا مجھے یقین ہے آسمان سے وہ طاقت اتری ہے جس نے اس کے دل پر رعب ڈالا ہے اور ساری مجلس اس بات پر متفق تھی کہ یہی وہ تقریر ہے جو سب سے اعلیٰ ،سب سے عمدہ تھی تو کامیابی کی اس لوٹ پر ، اس آخری مہر پر آپ کا وصال ہوا ہے.جملہ فرائض کو جب بھی ، جو بھی سپرد کئے گئے بڑی کامیابی سے سرانجام دیا اور ان فرائض کی سرانجام دہی کے بعد ہمیشہ جب لوٹتے تھے تو بلا شبہ یہ کہا کرتے تھے کہ اس میں میری قابلیت کا کوئی دخل نہیں.میں نے نشان پورے ہوتے دیکھے ہیں اللہ کی مدداتر تی دیکھی ہے اور چونکہ دین کا کام تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کو قبول فرما لیا.یہی ان کا طریق بیان تھا جو امریکہ سے واپس آکر تھا اور جیسا کہ واقعات ثابت کرتے ہیں ، واقعتہ خدا کی طرف سے نصرت اترے بغیر اتنی بڑی تبدیلی نہیں ہوسکتی کہ اسرائیل کا نمائندہ یہودی مسلمانوں کے مقابل پر رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات کہہ کر معافیاں مانگے ، ساری مجلس میں معافی مانگے اور پھر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں واقعہ مطمئن ہو گیا ہوں کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجلس کے اختتام کے وقت فوراً اٹھا ہے اور تیزی کے ساتھ آفتاب خان صاحب کی طرف لپکا، مصافحہ کیا اور کہا میں پھر معافی مانگتا ہوں، مجھے معاف کر دیں.تو یہ رعب جو نصرت کا ہے یہ خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں کو ہی عطا کرتا ہے،ان کے اخلاص کی قدر کے ساتھ عطا کرتا ہے.پس بہت نیک انجام کو پہنچے ہیں اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے اور کام تو اس نے بنانے ہی بنانے ہیں مگر خدا کرے ان کی اولاد میں پھر ایسے اور بہت سے اٹھیں اور ہمیشہ اٹھتے رہیں جو ان کی یادوں کو اپنے نیک اعمال سے زندہ کیا کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی نیکیوں کو اپنانے اور زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.حقیقةً اِنَّا لِلہ ہمارا بھائی اس دنیا سے چل دیا اور اس دنیا میں چلا گیا جو دائمی ہے جہاں خدا تعالیٰ کی جبروت اور جلال اور مالکیت جلوہ گر ہوگی.اللہ اس وقت آپ کو اپنی رحمت کے سائے تلے رکھے.نماز جنازہ کے تعلق میں کچھ اور بھی نام ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں ان کو بھی نماز جنازہ میں یادرکھیں.مبارک محمود صاحب پانی پتی لاہور جماعت کے مخلص ، فعال کارکن جن کے ساتھ بچپن ہی سے مجھے خدام الاحمدیہ کے سلسلہ میں کام کرنے کا موقع ملا اور ہمیشہ بہت ہی اخلاص
خطبات طاہر جلد 15 784 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء کے ساتھ یہ مفوضہ فرائض سرانجام دیا کرتے تھے.لاہور کے دوستوں کا ایک گروہ تھا جس میں یہ بھی تھے صدیق شاکر صاحب بھی تھے اور نیلا گنبد فیملی کے بیٹی صاحب وغیرہ قیوم صاحب یہ سب ہمارا ایک گروہ تھا جو خدمات دین کے معاملات میں ہم مل کر مشورے کرنے کے بعد لاہور کے دائرے میں کام کرتے تھے.میں تو لاہوری نہیں تھا مگر ربوہ سے آکر جس گروہ میں مل کر مجھے کام کا مزہ آتا تھا وہ بہت ہی سعادت کے ساتھ یہ خدمت کیا کرتے تھے ان میں مبارک محمود پانی پتی کا نام بھی انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا کیونکہ بڑا سلیقہ تھا خدمت کا.اور پھر چوہدری محمد طیف صاحب ہیں سیکرٹری وقف جدید آف گھٹیالیاں ان کو میں نے اس لئے چنا ہے کہ ان کے متعلق رپورٹیں مرکز سے یہ ہیں کہ بے انتہا مخلص داعی الی اللہ تھے اور جب بھی ان کے سپر د کوئی کام ہوا ہے انہوں نے بہت آگے بڑھ کر کام کیا اور یہ وفات ان کی ، یہ ایک شہادت کا رنگ اس لئے رکھتی ہے کہ آپ کسی دوسری جگہ گھٹیالیاں دینی کام میں یا ڈش پر خطبہ سننے جارہے تھے یا اس قسم کا کوئی سلسلہ یا دعوت الی اللہ کا کام تھا یا ایسے لوگ جن کے پاس ڈش نہ ہوں وہ ساتھ کے گاؤں میں جایا کرتے ہیں تو مقصد دین کا ہی تھا جس سفر میں بس کے حادثے میں آپ شہید ہو گئے.تو ان کے متعلق مرکز سے خاص طور پر یہ خط ملا تھا کہ ان کی ساری زندگی خاموش لیکن بہترین خدمت میں صرف ہوئی ہے اس لئے اگر ممکن ہو تو ان کو بھی نماز جنازہ میں شامل کر لینا چاہئے.یہ جو آخری ہے نا اگر ممکن ہو یہ میں نے اپنی طرف سے بتایا ہے یعنی زبان یہ بول رہی تھی لیکن چونکہ میں نے منع کیا ہوا ہے کہ نام نہ لیں اس لئے کہا نہیں مجھے.سارا خط یہ بتا رہا تھا کہ سمجھے جائیں ہماری بات اور اس بھائی کو بھی شامل کر لو تو ، چنانچہ میں نے اسی وقت لبیک کہا.عالم بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری فضل دین صاحب آف گھسیٹ پورہ یہ فضل الہی صاحب عارف مربی سلسلہ کی والدہ ہیں.سادہ مزاج ، نیک طبع اور دعا گو جو مثالی بزرگ عورتیں ہمارے معاشرے میں ہوا کرتی تھیں، ابھی بھی ہیں، ان میں سے ایک تھیں.ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ایک آخری تازہ اطلاع جو ملی ہے وہ سیدہ منیرہ ظہور جو بہت ہی اعلیٰ پائے کی شاعرہ بھی تھیں ، الفضل سے آپ کو ان کے ساتھ تعارف ہوا ہوگا ، اکثر ان کے شعر الفضل میں چھپا کرتے تھے ، مجھے پہلے لکھ کے بھیجا کرتی تھیں.بعض دفعہ کوئی تھوڑی سی ترمیم میں تجویز کر دیتا تھا تو خوشی سے قبول کرتی
خطبات طاہر جلد 15 785 خطبہ جمعہ 4 اکتوبر 1996ء تھیں.ان کا اخلاص کا تعلق بھی بہت گہرا تھا ان کو بھی میں نے اس فہرست میں شامل کر لیا ہے.اس لئے چار غائبانہ جنازے اس ایک حاضر جنازے کے ساتھ ہوں گے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: ایک بات جو میں نے کہنی تھی وہ ایسے لوگوں کے لئے دعا کی تحریک ہے جو نا دانستہ طور پر یا دانستہ طور پر آفتاب خان صاحب کا دل دکھاتے رہے اور ان کا مزاج ایسا تھا کہ خاموشی سے مجھے بتائے بغیر کہ کس نے کیا گستاخی کی ہے بڑے تحمل کے ساتھ بات سن کے وہ گنوا دیتے تھے.مجھے اطلاع ملتی تھی مجھے بہت تکلیف پہنچتی تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ جو الزامات لگا کر آپ کے خلاف گستاخی کی ہے تم نے انصاف کا سلوک نہیں کیا تم نے فلاں نہیں کیا ان سب میں یہ بالکل بے قصور ہوتے تھے.مگر چونکہ طبیعت میں تحمل اور حوصلہ بڑا تھا اس لئے جرات کے ساتھ کئی لوگ آ کے جسے بے با کی کہنا چاہئے نہایت بد تمیزی کے کلمے بھی لکھ دیتے تھے کہہ بھی دیتے تھے وہ چپ کر کے دبا کے بیٹھ جاتے تھے.جب مجھے یہ علم ہوا میں نے ان کی طرف سے بے چین ہوکر ، بے قرار ہو کر ان کو سمجھانے کی بعض دفعہ کوشش کرتا رہا.بعض سمجھے ، بعض نہیں سمجھے.مگر اللہ بہتر جانتا ہے اور کتنے واقعات ہوئے ہوں گے جس کی انہوں نے مجھے کانوں کان خبر نہیں ہونے دی.تو ان کے لئے بھی دعا کریں جو گستاخیوں کے مرتکب ہو گئے.اب وہ معافی بھی نہیں مانگ سکتے کیونکہ ہم میں یہ نہیں رہے.تو حیا میں ان کو بھی شامل کر لیں اللہ ان کو بھی ہدایت دے، جو ان سے زیادتیاں ہوئیں اللہ معاف فرمائے اور ان کی زیادتیاں آفتاب خان صاحب کی نیکیوں کے پلڑے میں ڈال دے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 15 787 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء خدا کی طرف بلانے والے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں عالمی صفات ہوں.وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو.( خطبه جمعه فرموده 11 اکتوبر 1996ء بمقام اوسلو، ناروے) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (حم السجده : 34) پھر فرمایا: اگر چہ آج کل دنیا میں دعوت الی اللہ پر زور دینے کی شدید ضرورت ہے اور آسمان سے جو ہوائیں چل رہی ہیں وہ دعوت الی اللہ کی محمد اور معاون ہیں اور انہی ہواؤں کی برکت ہے کہ جماعت احمدیہ کی کوششوں کو پھل لگ رہے ہیں ورنہ پھل دار ہوائیں اگر خدا نہ چلائے تو وہ کھیتیاں بھی جو بیجوں تک پہنچ جاتی ہیں وہ بیجوں سے خالی مرجایا کرتی ہیں.ایسی ہوا ئیں بھی ہم نے پنجاب میں چلتی دیکھی ہیں کہ کھیتیاں پھل لانے پر تیار ہوں تو ایسی جنوبی ہوا چلتی ہے جو ان کے پھلوں کو وہیں سکھا دیتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہی ہے جو جب چلتی ہے تو محنتیں پھل لاتی ہیں بلکہ محنتوں سے بہت زیادہ پھل نکلتے ہیں اتنے کہ ان کو محنتوں سے کوئی نسبت باقی نہیں رہتی.یہی وہ عالمی دور ہے دعوت الی اللہ کا اور اس کے پھل دار ہونے کا جس دور کی طرف میں سب جماعت کو بار بار بلا رہا ہوں اور متوجہ کر رہا ہوں.
خطبات طاہر جلد 15 788 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء ناروے میں بھی مجھے اس مضمون پر آپ سے کچھ کہنا ہے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ناروے کا یہ خطبہ تمام دنیا میں ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھا اور سنا جارہا ہے اور اس کے لئے اگر چہ جماعت کا فیصلہ تھا کہ جو بھی خرچ ہو جماعت برداشت کرے گی مگر ناروے کے تین مخلصین نے پیش کش کی کہ ان کی خواہش ہے کہ یہ تینوں خطبات ان کے مشتر کہ خرچ پر ہی تمام دنیا کو بھجوائے جائیں یعنی عالمی طور پر نشر کئے جائیں اس لئے میں نے ان کی یہ پیش کش قبول کر لی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے.اس کے علاوہ میں یہاں کے ٹیلی ویژن کے سر براہ کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں ، میں یہ نہیں جانتا کہ پورے ٹیلی ویژن کے سر براہ ہیں یا اس شعبہ کے سر براہ ہیں جس کے ذریعے سے ہمیں یہ سہولت مہیا ہوئی ہے مگر وہ بہت ہی مخلص اور نیک طبیعت انسان ہیں.ان سے ہمارا پہلے ایک دفعہ رابطہ ہوا اور اس سلسلہ میں ان کے تعاون کی ضرورت پیش آئی جو انہوں نے بڑی خوشی سے مہیا کی.اب دوبارہ جو ہم نے ٹیلی ویژن کے یہاں سے پروگرام اٹھانے کا ان سے ذکر کیا اور تعاون چاہا تو با وجود اس کے کہ بہت ہی مشکلات حائل تھیں اور کئی چیز میں ایسے وقت پر مہیا نہیں تھیں جن کے ذریعے یہ انتظام ہوسکتا مگر انہوں نے اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر ذاتی اخلاص سے کوشش کی اور آج اللہ کے فضل کے ساتھ یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم اس خطبہ کو تمام عالم کے لئے ٹیلی وائز کر رہے ہیں تو ایسے نیک طبع لوگ دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں.ہمیں چاہئے کہ ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اللہ انہیں اور بھی نیکی اور اپنے قرب کی راہیں عطا فرمائے.اب میں اس مضمون کی طرف پھر واپس آتا ہوں.ناروے کا جو مسئلہ ہے وہ بعض اور شمالی یورپین کی طرح زیادہ سنگین ہے.اگر چہ یورپ میں بلکہ سب دنیا ہی میں دہریت کی ہوائیں چل رہی ہیں اور خدا عملاً انسانی زندگی سے الگ ہو چکا ہے مگر بعض ممالک میں یہ دہریت کا زہر باقی ممالک کے مقابل پر زیادہ گہرا جا چکا ہے اور اس نے تمام فضا کو مسموم کر دیا ہے.ان ممالک میں شمالی یورپ میں سوئٹزرلینڈ بہت آگے ہے.سوئٹزر لینڈ کے تمام تعلیمی ادارے عملاً دہریت کی آماجگاہ بن چکے ہیں اسی طرح شمالی یورپ میں سب سے زیادہ اس Peninsula کو دہریت میں آگے بڑھنے کی توفیق تو نہیں کہنا چاہئے ، آگے بڑھنے کی جسارت ہوئی ہے یعنی سیکنڈے نیوین Peninsula ڈنمارک سے لے کر ناروے کے شمال تک باقی شمالی ممالک کے مقابل پر دہریت
خطبات طاہر جلد 15 789 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء میں بہت آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ان کے بھی تعلیمی ادارے ہیں زیادہ تر جو دہریت کی آماجگاہ ہیں.اس وجہ سے ان کو خدا تعالیٰ کے دین کی طرف بلانا ایک مشکل کام ہے اگر اس کا سلیقہ نہ ہواگر انسان صورت حال کا تجزیہ کر کے مناسب رستے اختیار نہ کرے اس وقت تک جب تک ایسا نہ ہوان لوگوں کو اسلام کی طرف بلا نا ممکن نہیں ہے.بہت طرح سے، بہت طریقوں سے ان جگہوں پر کوششیں کی گئیں اور ان سارے ممالک میں وہی ایک ہی رد عمل ہے یعنی سوئٹزرلینڈ ہو یا ڈنمارک یا سویڈن یا ناروے.جو قسمت سے پھل ملتا ہے وہ اللہ کے فضل سے اچھا ہوتا ہے لیکن بہت شاذ کے طور پر ملتا ہے اور جماعتی لحاظ سے ان چاروں ممالک میں کوئی مقامی ایسےمخلصین پیدا نہیں ہو سکے جو اپنی جماعت بنا سکیں اور جن کو کہا جاسکے کہ یہ اس ملک کے باشندے ہیں اور ملک کے باشندوں کے لحاظ سے ان کی ایک بڑی جماعت ہے.کہیں کچھ آتے بھی ہیں تو چلے بھی جاتے ہیں اور آکر قرار پکڑنے والے جو ہیں اگر چہ ان کا معیار اللہ کے فضل سے بہت اونچا ہے اور وہ بچے خدا کے مخلص بندے ہیں لیکن شاذ کے طور پر ہیں، بہت ہی کم تعداد ہے.اس پہلو سے فکر کی بات ہے لیکن مایوسی کی بات نہیں.فکر کی اس پہلو سے کہ ہمیں معلوم کرنا چاہئے کہ کون سے طریق ہیں جن سے ان قوموں کو دین کی طرف بلایا جاسکتا ہے.اس آیت کریمہ سے متعلق ، جس کی میں نے تلاوت کی ہے، میں پہلے بھی اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ قرآن کریم نے کسی حکمت کے پیش نظر دعوت اسلام کا ذکر نہیں فرمایا، کسی مذہب کا نام نہیں لیا بلکہ دعوت الی اللہ کا ذکر فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ کو بھی داعی الی اللہ کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے.اس میں بہت گہری حکمت ہے اور بہت بڑی غلطی ہوگی اگر ہم اس حکمت کو نظر انداز کر کے کوئی تبلیغی منصوبہ بنا ئیں.وہ قومیں جو مذہب سے دور جا چکی ہیں ان میں بہت حد تک ان مذاہب کے بگڑے ہوئے عقائد کا تعلق ہے جو ان کی عقل سے متصادم ہو چکے ہیں.پس ان کا دہر یہ ہونا ویسا قصور نہیں جیسا کہ سرسری نظر سے دکھائی دیتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک مذہبی پس منظر بگڑ چکا ہو،اگر اس میں سے معقولیت کلیۃ خارج ہو چکی ہو، اگر انسانی سوچ اور فکر سے مذہبی عقائد متصادم ہو جائیں تو ایسی جگہوں میں مذہب کا پایا جانا ان کی خوبی نہیں ہے بلکہ ان کی دماغی حالت کے خلاف ایک الزام ہے کہ یہ بڑے بے وقوف اور کم نظر
خطبات طاہر جلد 15 790 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء لوگ ہیں جو ایسے الجھے ہوئے بیوقوفوں والے عقائد پر اس قدر شدت کے ساتھ عمل پیرا ہیں.پس یہ صورت حال ہے جس کا ہمیں تجزیہ کرنا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یورپ میں ہر جگہ جہاں بھی دہریت پھیلی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ عیسائیت کے بگڑے ہوئے عقائد ہیں اور یہ سلسلہ آج اور کل کی بات نہیں صدیوں سے شروع ہے اور مسلسل عیسائیت کے بگڑے ہوئے عقائد کے خلاف یورپ کے دانشوروں نے احتجاج کئے اور جب ان احتجاجات کے نتیجہ میں اولین طور پر ان کو سزائیں دی گئیں اور ان سزا پانے والوں میں بہت بڑے بڑے ان کے چوٹی کے سائنسدان بھی ہیں جن میں نیوٹن بھی ہے ایک.بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ نیوٹن نے مذہب کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور عیسائیت کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کے بگڑے ہوئے عقائد کے خلاف بغاوت کی تھی.نیوٹن کو کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر شپ عطا ہوئی اور اس کے ساتھ بڑے بڑے فوائد بھی وابستہ تھے لیکن نیوٹن چونکہ بے حد ذہین انسان تھا خدا تعالیٰ نے اسے چوٹی کا دماغ دیا تھا اور تقویٰ عطا کیا تھا یعنی جس بات کو سچ نہیں سمجھتا تھا اس پر ایمان نہیں لاتا تھا یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں جو اس نئے ، جدید سائنسی دور کا جد امجد ہے وہ نیوٹن ہے.آئن سٹائن نے بھی کام کئے اور بھی بڑے بڑے دانشور یہاں پیدا ہوئے ہیں مگر نیوٹن کے مقام سے اس کو ٹلا نہیں سکتے.تو بلاشبہ اس نئے سائنسی دور کا جدامجد ہے جس نے بہت ہی حیرت انگیز انکشافات کئے اور قدرت کو جیسی صفائی کے ساتھ ، جیسے روشن دماغ سے وہ سمجھا، کم اس کی نظیر دنیا میں ملتی ہے.پس نیوٹن نے جو ایک عیسائی تھا اور Trinity یعنی تثلیث کے عقیدے پر پیدا ہوا تھا اس نے جب غور شروع کیا تو ، اب اس کی وہ نوٹ بک بھی شائع ہو چکی ہے جس نوٹ بک پر اس نے حاشیے پر تحریریں لکھی ہیں، غور کرتے کرتے وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ بات اب کسی طرح قبول نہیں ہے کہ خدا تین ہوں کیونکہ ساری کائنات کا مشاہدہ ایک خدا کی گواہی دے رہا ہے اور جو دلائل ہیں عیسائیت کے وہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان دلائل کا مسیح کی عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں ہے.اب دیکھیں ایک دانشور ایسا ہونا چاہئے.لمبے عرصے تک تحقیق کی صرف سائنس کی گواہی پر عیسائیت کو رد نہیں کیا بلکہ پھر جستجو کرتا ہوا مسیح تک جا پہنچا ہے اور بائبل کی اولین آیات پر جن پر در حقیقت عیسائیت کی بنیاد ہے اور پھر پرانی بائبل یعنی تو رات پر اور اس کے بعد دوسری کتب پر سب پر گہرے مطالعے کے بعد اس نے غور کیا ہے.پس عہد نامہ جدید ہو یا قدیم
خطبات طاہر جلد 15 791 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء دونوں کا مطالعہ کر کے ان کے حوالے نکالے اور قطعی طور پر ثابت کیا کہ یہ عیسائیت نہ عہد نامہ قدیم سے تعلق رکھتی ہے ، نہ عہد نامہ جدید سے تعلق رکھتی ہے.یہ بگڑے ہوئے عیسائی پادریوں کے دماغ کی پیداوار ہے اور اس پر میں ایمان نہیں لاسکتا.ایک ہی خدا ہے جو موسیٰ کا بھی خدا تھا اور عیسی کا بھی خدا تھا اور ان میں کوئی تفریق نہیں ہے ، ساری کائنات کا وہی خدا ہے.جب اس عقیدے کا اس نے اعلان کیا تو باوجود اس کے کہ وہ علمی لحاظ سے بہت ہی چوٹی کا انسان بلکہ ایسا انسان جس کی ساری دنیا میں قدر کی جاتی تھی اس کو پروفیسر شپ پیش کر کے یونیورسٹی نے اپنا فخر سمجھا تھا کہ ہماری یو نیورسٹی میں یہ پروفیسر بن کر آجائے لیکن اس کو بے عزت کر کے یونیورسٹی سے نکالا گیا.اس کے خلاف با قاعدہ چرچ کی طرف سے ریزولیشن پیش ہوئے.انہوں نے کہا کہ یہ لا مذہب ہو چکا ہے حالانکہ وہ تثلیث سے خدا کی طرف لوٹا تھا اور اس نے قطعاً پرواہ نہیں کی.وہ Stipend جو اس کے لئے یونیورسٹی کی طرف سے مقرر تھا ساتھ پاؤنڈ سالانہ اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی چیز تھی یعنی آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ساٹھ پاؤنڈ کی اس وقت کیا قیمت تھی اس نے سب قربان کر دیا مگر اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کیا.اس نے کہا ایک ہی خدا ہے اس کے سوا میں کسی اور عقیدے کا قائل ہو نہیں سکتا کیونکہ میرا دماغ اس کو تسلیم نہیں کرتا.تو یورپ کے دانشوروں نے سچائی کی قیمتیں ادا کی ہیں اور جو چوٹی کے خدا پرست تھے ان کو عیسائیت نے دہریہ کر کے باہر نکالا ہے.اس کی اور بھی مثالیں ہیں یہاں بڑے بڑے دانشور جو فلسفہ دان اور حساب دان جنہوں نے خدا کی توحید کی خاطر علم بلند کیا اور عیسائیت کے غلط عقیدوں کو رڈ کیا ان کو ان کے منصفین نے جو ان کی بائیو گرافی لکھنے والے ہیں، انہوں نے بھی دہریہ قرار دیا ، انہوں نے کہا مذہب سے متنفر اور دور ہو چکے تھے.بہر حال یہ ایک بڑا دردناک باب ہے یورپ کی تاریخ کا جس کا مطالعہ ہمارے لئے کئی پیغام لے کر آتا ہے.اول یہ کہ یورپ کو دہریہ کہ کر یا دہریت یا دہریت کی طرف مائل ہو کر کلیۂ رڈ کر دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ لوگ خدا کے دشمن ہیں یہ درست نہیں ہے.وہ لوگ جو دہریہ کہلائے ہیں ان میں بڑے بڑے خدا پرست تھے انہوں نے اپنے توحید کے عقیدے کی قیمت ادا کی ہے.اور آج بھی اکثر جود ہر یہ ہو چکے ہیں یہ سوچ کر کہ وہ دہر یہ ہیں وہ مذہب کو مانیں گے نہیں
خطبات طاہر جلد 15 792 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء اس لئے ان سے نا امید ہو جانا ، ان سے تبلیغ کا رابطہ قائم نہ کرنا یہ بھی بہت بڑی بے وقوفی ہوگی.مگر اسلام کی طرف اگر آپ ان کو بلاتے ہیں تو یہ بھی قرآنی حکمت کے خلاف ہے کیونکہ وہ لوگ جن کو خدا پر یقین نہ ہو وہ کسی مذہب کی طرف آئیں گے کیوں؟ پہلی بنیاد تو خدا ہے یعنی خدا پر ایمان کا عقیدہ.تو آپ لوگ بے شمار بخشیں ان سے کرتے رہیں کہ عیسائیت ایسی ہے، اسلام ایسا ہے.اسلام میں یہ فضیلت ہے،عیسائیت میں یہ نقائص ہیں.وہ لوگ جو اپنی دانشوری اور عقل کی وجہ سے خدا ہی سے پیچھے ہٹ چکے ہیں کیونکہ خدا کا غلط تصور ان کو پیش کیا گیا وہ آپ کے اسلام کی کیا قدر کریں گے.شرافت کے ساتھ ہنرمی کے ساتھ باتیں سنیں گے اور ہاں میں ہاں بھی ملا دیں گے اگلا قدم نہیں اٹھائیں گے.اس لئے جہاں بیماری ہے اس جڑ کو پکڑ نا ضروری ہے.پس دعوت الی اللہ کا مطلب یہ ہے ان کو اس خدا کی طرف واپس لاؤ جوان سے کھو چکا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان کی طرف واپس لے کے آؤ.اگر یہاں لے آؤ گے تو پھر رسالت کا ذکر شروع ہوگا اس سے پہلے نہیں ہو سکتا.یہی سبق خدا تعالیٰ نے ہمیں کلمہ میں دیا لا الہ الا الله محمد رسول اللہ اور لا اله الا اللہ پر اتنا زور دیا گیا کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: " من قال لا اله الا الله دخل الجنة (صحیح ابن حبان، کتاب الایمان ، باب فرض الايمان ،رقم الحديث: 171) وہاں اپنی رسالت کا بھی ذکر نہیں فرمایا کیونکہ لا الہ الا اللہ میں در اصل تمام قسم کی رسالتوں کا تصور موجود ہے.اگر اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس معبود سے رابطہ ہوگا کیسے؟.وہ رابطہ ہے جس کا نام رسالت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کے بعد لا الہ الا اللہ کے بعد اگلا سبق یہ سکھایا لا الله الا الله محمد رسول الله يا اشهدان محمداً عبده ورسوله تو رسالت کی طرف آپ پہلے بلانا شروع کریں.لا الہ الا اللہ کی طرف توجہ نہ ہو اور خالی ایسی سختی پر جو چکنی ہو چکی ہو اس پر لکھنے کی کوشش کریں ، کچھ بھی لکھا نہیں جائے گا.وہ چکناہٹ دہریت کی چکناہٹ ہے.اس کو پہلے دھوئیں اور صاف کریں پھر آپ دیکھیں کہ کس طرح یہ اسلام کی طرف مائل ہوں گے اور دانشور اگر خدا کا قائل ہوگا تو اس کے لئے اسلام کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں کیونکہ وہ لوگ جو عیسائیت میں متشدد ہیں اکثر بے وقوفی کی وجہ سے ہیں انہوں نے اپنے دماغ بند
خطبات طاہر جلد 15 793 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء کر لئے ہیں.وہ کہتے ہیں عقیدہ جو بھی ہو بس سچا ہے ہم نے ماننا ہی یہی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جو انتہا پرست مسلمانوں میں بھی مل رہے ہیں، ہندوؤں میں بھی ملتے ہیں، دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہیں اور ان کی انتہا پسندی ان کی بے وقوفی کا مظہر ہے جنہوں نے عقل سے کچھ سوچا ہی نہیں جنہوں نے کہا بس جو کچھ کہا گیا درست ہے، جو کچھ لکھا گیا صحیح لکھا گیا اور لکھنے والے کون تھے وہ ازمنہ وسطیٰ کے وہ مذہبی راہنما یا سکالرز جنہوں نے جو سمجھا وہ لکھ لیا اور یہ سمجھے کہ یہ خدا کا نوشتہ ہے.پس ان کے لکھے ہوئے پر ایمان لانا فی الحقیقت خدا کے لکھے پر ایمان لانا نہیں بلکہ بگڑے ہوئے دور کے علماء کے لکھے پر ایمان لانا ہے اور سوائے بے وقوف کے کوئی ان علماء کی تحریروں پر ایمان لا ہی نہیں سکتا کیونکہ ازمنہ وسطی کے جو علماء تھے ان میں بڑے بڑے چوٹی کے بزرگ اور علماء بھی تھے مگر جن کو انہوں نے پیروی کے لئے چنا ہے ان لوگوں کو چنا ہے جن کا دنیا کے متعلق کوئی علم نہیں تھا اور باوجود علم نہ ہونے کے انہوں نے دنیا کے غلط نقشے کھینچے اور قرآن کریم کی غلط تفسیریں کیں اور قرآن کریم کی طرف وہ تحکم منسوب کیا جو قرآن میں موجود نہیں تھا یعنی جبر کے ساتھ دنیا میں اسلام کا پھیلاؤ ، اسلام تمہیں حق دیتا ہے کہ جو کوئی بھی اسلام کے خلاف بات کرے یا کسی بزرگ کے خلاف بات کرے اس کی گردن اڑا دو.یہ باتیں نوشتہ خدا تو نہیں تھیں، نہ تمام علماء نے لکھیں مگر جنہوں نے لکھیں ان کی انہوں نے پیروی کی اور ان کی نیک باتوں کو چھوڑ بیٹھے.پس اس پہلو سے بے وقوفی ہے کہ اول تو قرآن اور رسول کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے انہوں نے اسلام ازمنہ وسطی کے علماء سے سیکھا اور پھر ان کی ہر اچھی بات کو رڈ کرتے ہوئے ، بے اعتنائی کرتے ہوئے ، اس کی کوئی پرواہ نہیں کی.صرف ان باتوں کو چنا جن میں انسان کو انسان کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے، جن میں مذہب کے نام پر تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے، جن میں مسلمان کو محکم کا حق دیا جا رہا ہے اور یہی حال عیسائیوں کا بھی ہے ، یہی حال ہندوؤں کا بھی ہے کوئی مذہب بھی اس صورت حال سے مستشفی نہیں ہے.تو ایسے لوگ جو ان لوگوں کو ر ڈ کر بیٹھے ہوں ان کو اگر آپ مذہب کی طرف بلائیں گے تو جس مذہب کی طرف بلائیں گے اس مذہب کی ایک بھیانک تاریخ ان کی آنکھوں کے سامنے ابھر آئے گی.اسلام کی طرف بلائیں گے تو وہ سمجھیں گے ثمینی کی طرف بلایا جارہا ہے.اسلام کی طرف بلائیں گے تو قذافی کی طرف سمجھیں گے بلایا جارہا ہے، سعودی
خطبات طاہر جلد 15 794 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء عرب کے شہزادوں کی طرف بلایا جارہا ہے.ہر دفعہ جب بھی آپ اسلام کا نام لیں گے ان ممالک میں کسی ایک کا تصور ابھرنا لازم ہے.جیسے کہ جو ان کی درمیانی زمانے کی تاریخ ہے پین وغیرہ کے دور کی اس میں جب عیسائیت کا نام لیتے ہیں تو سپین کے ظالم بادشاہوں کا تصور انسان کی نظر کے سامنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اسی تصور کو انسان عیسائیت کا نمائندہ سمجھتا ہے.پس اس طرز عمل میں بہت سے خدشات ہیں اول تو یہ کہ جن کو مذہب سے اس بناء پر دوری ہوئی ہو کہ مذہب ان کی عقل میں نہیں آتا ان کو مذہب کی طرف بلائیں، کسی نام سے بھی بلائیں، وہ دور بھاگیں گے لیکن خصوصیت سے اس زمانے میں اگر آپ اسلام کا نام لیں گے تو وہ بھڑک اٹھیں گے.بعض دفعہ تشدد کا اظہار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جائیں گے.بعض لوگ شرافت سے باتیں سن لیں گے اور کوئی دلچسپی نہیں دکھا ئیں گے.پس یہاں آپ عیسائیت اور اسلام، اسلام اور دوسری تحریکات کے یا مذاہب کے موازنے کے ذریعے ان لوگوں کے دلوں میں جانہیں پاسکتے.وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللہ ایک ہی رستہ ہے.اللہ کی طرف بلائیں اور اللہ کی طرف بلانے کی مختلف راہیں ہیں.ہر شخص کے لئے وہ راہ کھلی ہے اور ہر شخص خدا کی طرف آنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہے.اب منصوبے بننے چاہئیں.اسی محور کے گرد بننے چاہئیں.اللہ کی طرف بلانے کے طریق کیا کیا ہیں اور کس طرح یہ خدا کی طرف مائل ہو سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ایک عالمی تصور رکھتا ہے یعنی اسلام نے اسے ایک عالمی خدا بلکہ ساری کائنات کے ایک ہی خدا کے طور پر پیش فرمایا ہے.اس لئے خدا کی طرف بلانے والے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں عالمی صفات ہوں وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو.وہ یورپ اور غیر یورپ میں تفریق نہ جانتا ہو یعنی ان معنوں میں کہ اس کا عمل کسی قسم کے مشرقی تعصب کے زیر اثر نہ ہو.مذہبی طور پر بھی وہ محض نام کی طرف نہ بلانے والا ہو بلکہ ایسے خدا کی طرف بلانے والا ہو جو ساری کائنات کا خدا ہے،سب انسانوں کا رب ہے اور اس کے لئے اس پر لازم ہے کہ اپنے اندر خدا کے وہ رنگ پیدا کرے ورنہ زبانی طور پر خدا کی طرف بلانے سے کوئی خدا کی طرف نہیں آئے گا.یہ وہم ہے محض.ہاں آپ کے اندرا گر خدائی رنگ دیکھے گا ، خدائی صفات دیکھے گا جو ایسی صفات ہیں جن میں بے انتہا جذب ہے متنفر بھی اپنی نفرت کی دیوار میں تو ڑتا ہوا اس حسن کی طرف بڑھے گا اگر واقعۂ صفات الہی کی طرف سے اس کو دعوت ملے
خطبات طاہر جلد 15 795 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء اور صفات الہی کا انسان میں جلوہ گر ہونا ہی ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے یعنی اسی آیت میں ذکر ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا.اب عمل صالح بھی محض اسلام کے ساتھ خاص نہیں ہے.عمل صالح، قرآن کریم کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، ہر مذہب کی طرف منسوب فرمایا گیا ہے.ہر شخص جو ایمان لاتا ہے اور عمل صالح کرتا ہے خواہ وہ یہودی ہو خواہ عیسائی ہو اللہ تعالیٰ نے اس کو پیار کی نظر سے دیکھا ہے اگر اپنے ایمان میں سچا ہو اور اس میں دوغلا پن نہ پایا جاتا ہو، اگر یوم آخرت کا قائل ہو اور اس کے مطابق اپنے اعمال کی نگرانی کرتا ہو.یہ وہ شرائط ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ نے عمل صالح کو تمام بنی نوع انسان کی طرف منسوب فرمایا ہے خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں.تو دعوت الی اللہ دراصل دو دعوتیں ہیں یہ بات ہے جو دعوت الی اللہ کرنے والے بعض دفعہ بھول جاتے ہیں.ایک دعوت ہے لوگوں کو خدا کی طرف بلانا اور ایک دعوت ہے اپنے آپ کو خدا کی طرف بلانا.اپنے آپ کو جو خدا کی طرف بلانا ہے یہ اصل مشکل کام ہے اور جب تک یہ مشکل حل نہ ہوگی ، بات ہو نہیں سکتی کیونکہ منحصر ہے اس پر کہ آپ پہلے اپنے نفس کو خدا کی طرف بلائیں اور ہر دعوت جواپنے نفس کو دیں اس پر لبیک کہیں.پس عَمِلَ صَالِحًا اور دعوت الی اللہ در اصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف مخاطب بدل گئے ہیں.دعوت الی اللہ کرنے والا داعی الی اللہ ہے جب لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے اور داعی الی اللہ ہی ہے جب وہ اپنے وجود کو، اپنے نفس کو خدا کی طرف بلاتا ہے اور اس کے نتیجے میں عمل صالح کا دور شروع ہو جاتا ہے، اعمال صالحہ کو اپنانے کا دور جس کو ہم صبغتہ اللہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی اللہ کے رنگ کو اپنانا اور اس سے بہتر اور کون سے رنگ ہو سکتے ہیں.وَمَنْ اَحْسَنُ کا جو تر جمہ ہے اس کا مطلب ہے اس سے زیادہ حسین کون ہو سکتا ہے.حسن میں ایک کشش ہے ، حسن میں ایک جاذبیت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کر کے دیکھو جو ہم تمہیں بتارہے ہیں، اللہ کی طرف بلا ولیکن اپنے نفس کو بھی بلا ؤ اور جب اپنے نفس کو بلا چکو گے تب تم کہہ سکو گے کہ میں مسلمان ہوں.مسلمان کا مطلب یہاں صرف مسلم بمعنی مسلمان جو عام طور پر معروف معنے ہیں وہ نہیں بلکہ وہ وسیع معنے ہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے، جس کی رو سے حضرت ابراہیم بھی مسلمان تھے، اس سے پہلے دیگر انبیاء بھی سب مسلمان تھے، ان معنوں میں مسلمان تھے کہ جب خدا نے کہا اسلم (البقرہ: 131) اسلام لے آؤ یعنی گویا اپنے آپ کو میرے سپرد کر دو تو انہوں
خطبات طاہر جلد 15 796 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء نے اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دیا.پس ہر وہ انسان جو دعوت الی اللہ کا شغف رکھتا ہے، اس میں مگن ہو جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے نفس کو بھی دعوت دیتا ہے کہ خدا کی طرف لوٹو ورنہ کوئی بھی تمہاری آواز پر تمہارے کہنے پر خدا کی طرف منہ نہیں کرے گا یہ ایک سوال اٹھتا ہے کہ پھر کیسے اس میں طاقت پیدا ہوتی ہے.اس کا جواب تو اس آیت کا عنوان بن چکا ہے وَمَنْ اَحْسَنُ اس سے زیادہ بھی حسین قول کسی کا ہوسکتا ہے جولوگوں کو بھی خدا کی طرف بلائے اور اپنے آپ کو بھی خدا کی طرف بلا رہا ہو اور اس کے اعمال خوب صورت ہوتے ہوتے ایسے حسن میں ڈھل جائیں کہ اس کے قول کی تائید کرنے لگیں اور ہر دعوت سننے والا یقین کر لے کہ یہ خدا کی طرف سے آیا ہے جو مجھے خدا کی طرف بلا رہا ہے.یہ آپ کر کے دیکھیں دہریت کی طاقت نہیں ہے کہ اس عظیم قوت کا مقابلہ کر سکے کیونکہ حسن میں ، جوحسن خدا تعالیٰ نے اس آیت میں پیش فرمایا ہے اس میں اس قوت جاذبہ سے زیادہ طاقت ہے جس کو ہم کشش ثقل کہتے ہیں جس کا راز نیوٹن نے سمجھا اور جس کی وجہ سے آج تک سائنسی دنیا اس کی عظمت کے گیت گاتی ہے.کشش ثقل سے بالا وہ طاقت ہے جو زمین سے رفعت عطا کرتی ہے اور آسمان کی طرف بلند کر دیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بچے قول اور کلمہ حق کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ عمل صالح اس کو رفعت عطا کرتا ہے، اس کو بلندی دیتا ہے.پس وہ طاقت جو کشش ثقل پر غالب آجائے وہ اس آیت میں مذکور ہے.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا اس کا قول سب دوسری جاذب نظر طاقتوں سے بڑھ جائے گا.وہ شخص ہر دوسری کھینچنے والی طاقت پر غالب آجائے گا ورنہ ایسا نہیں ہو سکتا.جس کا مطلب ہے سب سے زیادہ حسین اور جوسب سے زیادہ حسین ہے وہ لازماً اپنی طرف کھینچے گا.جتنے مرضی لوگ بیٹھے ہوں بعض دفعہ عالمی طور پر حسیناؤں کے اجتماع ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی اس کے متعلق کارروائیاں ہوتی ہیں اخباروں میں ان کی تصویریں چھپ جاتی ہیں مگر انسانی فطرت ہے کہ لوگوں کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے نفس کے لحاظ سے جس کو حسین سمجھا جاتا ہے اسی کی طرف دوڑتا ہے.نہ اس میں رنگ کی شرط ہے، نہ اس میں نقوش کے موٹے یا پتلے ہونے کی کوئی شرط ہے.افریقہ میں حسن کا ایک الگ معیار ہے ، یورپ کے مختلف ممالک میں ایک الگ معیار ہے.مغربی ممالک میں اور مشرقی ممالک میں اور.
خطبات طاہر جلد 15 797 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء لیکن حسن پھر حسن ہی ہے کوئی نہ کوئی اس میں موزونیت ضرور پائی جاتی ہے یعنی اس تصویر، اس حسن میں جو مختلف شکلیں ہونے کے باوجود انسانوں کو کھینچتا ہے.اب یہ کہنا کہ مغربی قوموں کے رنگ سفید ہیں اس لئے حسین ہیں افریقہ کے رنگ سیاہ ہیں اس لئے وہ بدصورت ہیں بڑی جہالت ہوگی کیونکہ سیاہ رنگ میں بھی ایک حسن ہے جو خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے اگر موزونیت ہو.اگر توازن ہو تو سیاہ رنگ میں بھی ایسی جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جن آنکھوں کو شناسائی ہو اس حسن سے، جس کا ذوق اس حسن کی شناسائی کے مطابق ڈھل چکا ہو وہ بے اختیار اس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں.پس احسن کا مطلب ہے ہر قسم کے حسن سے بڑھ کر جتنی بھی جاذب نظر چیزیں ہیں جو بھی دوسرے کو کھینچنے کا ادعا کرتی ہے یا کھینچنے کی طاقت رکھتی ہے ان سب سے بڑھ کر اس میں داعی الی اللہ میں حسن ہے جو خدا کی طرف بلاتا ہے غیروں کو بھی اور اپنے نفس کو بھی اور بلاتے بلاتے خدا کی آواز کے سامنے ایسا کامل طور پر جھک جاتا ہے کہ اپنے سارے وجود کو اس کے سپر د کر دیتا ہے.مسلمین کا یہ مطلب ہے اس کا وجود اپنا نہیں رہتا خدا کا وجود بن جاتا ہے اور جب خدا کا وجود بن جائے اور خدا اس میں جلوہ گر ہو تو کو ئی سفلی طاقت اس وجود سے کسی کو ہٹا نہیں سکتی اسے اپنی طرف کھینچ نہیں سکتی تمام انبیاء کی متحدہ مشتر کہ گواہی اس کے حق میں ہے.آغاز سے لے کر آخر تک جہاں بھی جب بھی نبی آئے ان کے اندر خدا تعالیٰ نے ایسی طاقت پیدا کر دی کہ دشمنوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا اور جو ایک دفعہ کھینچے گئے پھر ان سے توڑے نہیں گئے.بڑے بڑے مظالم ہوئے عیسائیت گواہ ہے کہ عیسائیت سے تڑوانے کی خاطر بعض مسیح کے ماننے والوں کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا.جانوروں کے سامنے ، بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا گیا لیکن وہ اپنے ایمان پر قائم رہے انہوں نے مسیح کا دامن نہیں چھوڑا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس دامن کے ساتھ خدا کا دامن وابستہ ہے اگر مسیح کا دامن چھوڑیں گے تو خدا کا دامن چھوڑ دیں گے.وہ کون سا حسن تھا جس کو مسیح نے ایسا طاقتور بنا دیا.یہی مسلمین والا حسن تھا کہ وہ خدا کے ہوئے ، خدا کی خاطر لوگوں کو بلا یا خدا کی صفات کو اپنی ذات میں جاری کر دیا اور پھر خدا نما بن کر اٹھے اور جب ایک خدا نما کی محبت دل میں پیدا ہو جائے تو کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو اس کے خلاف کھینچ سکے.میں نے کشش ثقل کی مثال دی تھی اب یہ کوئی فرضی مثال نہیں کہ عملاً اس صورت حال پر
خطبات طاہر جلد 15 798 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء 1 چسپاں ہوتی ہے.دنیا کی طرف بلانا، دنیا کے آرام کی طرف بلانا ، دنیا کی عزتوں کی طرف بلانا ، دنیا کی وجاہتوں کی طرف، مال و دولت اور حکومتوں کی طرف بلانا یہ سب کشش ثقل کا مظہر ہے.وہ کشش جو بلندی سے نیچے کی طرف کھینچ رہی ہے اور بڑی طاقت ورکشش ہے.ہر چیز بلندی پہ ہے اگر وہ محفوظ طور پر انکائی نہ گئی ہو کہیں ذرا بھی بہانہ ملے کشش ثقل کو تو وہ اپنی طرف کھینچ لے گی کسی چیز کو بلندی پر رکھنا ایک حکمت کو بھی چاہتا ہے اور ایسے مضبوط سہاروں کو چاہتا ہے جن میں کشش ثقل پہنچی ہوئی ہے لیکن آپ کو دکھائی نہیں دے رہی یعنی پہاڑوں کی چوٹی پر وہ پتھر جو اٹکا ہوا ہے اور ایسے پتھر بھی ہیں جو لاکھوں سال سے، کروڑوں سال سے شاید اسکے ہوئے ہوں.کئی ایسے بھی ہیں جوار بوں سال سے اٹکے ہوں گے لیکن وہ ہل نہیں سکتے اور آپ سمجھیں گے کہ کشش ثقل کمزور ہے اور دیکھ لو اس پتھر کو تو کھینچ کر نیچے نہیں لاسکی.کشش ثقل اس پتھر تک پہنچی ہوئی ہے وہ اس لئے مضبوطی سے قائم ہیں کہ کشش ثقل نے اسے تھاما ہوا ہے.اس لئے کشش ثقل کا بلندی اور ڈھلائی سے جو تعلق ہے یا اتران سے ، یہ تعلق آپ کو دکھائی نہیں دے رہا مگر عملاً ڈھلوان ہو یا نشیب ہو ،نشیب اور ڈھلوان ہم اس چیز کو کہتے ہیں جہاں کشش ثقل آکر ایک مقام پر ایک چیز کو روک لیتی ہے ،اس بلند مقام پر کشش ثقل پہنچ جاتی ہے، اس کو کھینچ رہی ہوتی ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پہاڑ جو ہیں یہ کبھی چند سیکنڈ کے لئے بھی وہاں اٹک نہیں سکتے تھے اگر کشش ثقل سے ان کو طاقت عطا نہ کی ہوتی تو یہ چٹان یہ پہاڑ سارے کے سارے یہ ہوا کے ہلکے سے جھونکے کے ساتھ بھی زمین کے ساتھ ہموار ہو جاتے اور کوئی ان کی حرکت کو روک نہ سکتا.پس کشش ثقل کے مضمون کو سمجھیں.یہ بلندی تک اثر انداز ہوتی ہے مگر اگر مقناطیس کی طاقت کو ایسے استعمال کیا جائے کہ کوئی دوسرا سہارا نہ ہو مقناطیس اس چیز کو اٹھا لے تو یوں محسوس ہوگا جیسے کشش ثقل نا کام ہوگئی لیکن یہ بھی درست نہیں ہے وہاں بھی کشش ثقل ہی کامیاب ہوتی ہے کیونکہ وہ اٹھانے والا وجود جو مقناطیس کو پکڑے ہوئے ہے یا جس کے ساتھ مقناطیس لگایا گیا ہے وہ خود کشش ثقل کے اوپر سہارا لئے ہوئے ہے.لیکن آسمان سے کوئی طاقت جیسا کہ سیاروں کی طاقت ہے سورج کی طاقت ہے دوسری بڑی طاقتیں ہیں وہ زمین کو اس کی کشش ثقل سمیت کھینچ رہی ہیں اور ساری کائنات کو کوئی ایک طاقت ہے جو کسی طرف کھینچ رہی ہے جس کے متعلق سائنسدان کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کامیاب نہیں
خطبات طاہر جلد 15 799 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء ہوئے.پس وہ آسمانی طاقت ہے جو غالب آتی ہے کشش ثقل پر تبھی قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ سب چیزیں جو تمہیں فضا میں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے سہارا دیا ہوا ہے اور یہ کھڑی ہیں ورنہ زمین کی کشش اور ان چیزوں کی آپس کی ایک دوسرے کی کشش ان کو اکٹھا کر کے فنا کر دیتی.تو آسمانی طاقت ہر دوسری طاقت پر غالب ہے یعنی سائنسی لحاظ سے بھی کوئی ایک خدا تعالیٰ ، ایک ایسا کارساز ہے، ایسا ایک کائنات کا خالق اور مالک ہے جس کی طاقت ہر لمحہ تمام کائنات کے ہر وجود کو جو معلق دکھائی دے رہا ہے سہارا دیے ہوئے ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم دیکھ نہیں رہے اس کو.پس وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا میں جس طاقت کا ذکر ہے یہ اللہ کے ساتھ وابستہ ہونے کا حسن ہے اور یہ حسن جو ہے یہ ہر دوسری چیز پر غالب آتا ہے.پس دیکھئے عیسائیت کی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی کس طرح اس راہ میں وہ کاٹے گئے اور مارے گئے اور انہوں نے کچھ بھی پرواہ نہ کی لیکن سب سے بڑا مظہر اس دعوت الی اللہ کے حسن کا حضرت محمد رسول اللہ لہ کی صورت میں پیدا ہوا.دیکھیں کس شان کے ساتھ کس قوت کے ساتھ اپنے دور میں ان لوگوں کو بھی کھینچا جو آپ سے نفرت کرنے والے تھے اور ایسا کھینچا کہ جو خون کے پیاسے تھے وہ خون فدا کرنے کے لئے ترسنے لگے کہ کاش محمد رسول اللہ ﷺ پر ہمارا خون بھی نچھاور ہو سکتا.یہ وہ آسمانی قوت ہے جو زمینی قوتوں پر غالب آنے والی ہے اور یہی محمد رسول اللہ ﷺ کی قوت حسن تھی دراصل جس نے عرب میں ایک حیرت انگیز معجزہ بر پا کیا جو پھر عرب کی سرحدوں سے چھلک کر دوسری زمینوں میں جا پہنچا اور بڑی قوت کے ساتھ ، بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا رہا ہے اور اس وقت تک یہ پھیلا ہے جب تک آنحضرت ﷺ کے حسن سے یہ لوگ حصہ پاتے رہے اور اس حسن کی کشش سے دنیا کو اپنی طرف کھینچتے صلى الله رہے اور اپنا بناتے رہے.اب نیا دور آگیا ہے جب بیچ میں ، اس کشش اور آج کے زمانے کے درمیان ایک بڑا انقطاع پیدا ہو چکا تھا اسلام نے بڑھتے بڑھتے اپنے قدم روک لئے.اسلام نے نہیں رو کے بلکہ در حقیقت مسلمانوں نے قدم روک لئے اور اسلام کے مظہر بنے ہوئے تھے اس لئے دنیا کو یہی دکھائی دیا کہ اسلام نے اپنے قدم روک لئے ہیں لیکن کیوں رو کے؟ کیا واقعہ ہوا؟ اس لئے کہ وہ لوگ خود دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور جس کشش ثقل کے خلاف ان کو جہاد کرنا تھا جس سے لوگوں کو نوچ کر بلندی
خطبات طاہر جلد 15 800 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء کی طرف لے جانا تھا خود اس کشش کے شکار ہو گئے تو کیسے اس حسن کا مظہر بنتے جنہوں نے زمین سے تو ڑ کر سب رشتے اور تعلق کاٹ کر آسمانوں کی طرف رفعتیں عطا کرنی تھیں اس کے سوا اور کوئی اس کا منطق نہیں ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسلام باوجود اس کے کہ قرآن وہی قرآن ہو، حدیث وہی حدیث ہو، اسلام کا عمل خواہ فقہاء میں اختلاف بھی ہو بنیادی طور پر ایک ہی ہو خدا کی عبادت کرنا ہے روزے رکھنے ہیں، نمازیں پڑھنی ہیں ،زکوۃ دینی ہے، تو جو منی اختلافات ہیں آپ ان کو بھلا بھی دیں اور یہ سوچیں کہ اسلام اپنی ماہیت کے لحاظ سے، اپنی قوت کے لحاظ سے، اپنی تعلیم کے لحاظ سے قرآن میں بھی محفوظ تھا ،سنت میں بھی محفوظ تھا اور اس کے باوجود اسلام نے آگے بڑھنا بند کر دیا اس لئے کہ مسلمان جو علم بردار تھے وہ خود کشش ثقل کا شکار ہو گئے.وہ زمین کی طرف جھک گئے اور پھران میں یہ طاقت نہیں تھی کہ آسمان کی طرف بلائیں.اب یہ نیا دور شروع ہوا ہے.آپ اس تاریخ کے پر حکمت مطالعہ سے فائدہ اٹھائیں.وہ تمام امور جو اسلام کی راہ میں حائل ہوئے ہیں، وہ تمام روکیں جنہوں نے اسلام کی ترقی کی راہیں بند کر دیں ان کو دور کرنا ہے لیکن ان روکوں کی تلاش میں باہر نہ نکلیں اپنے نفس میں ڈوبیں، دیکھیں یہ تو وہی روکیں ہیں جو آپ کے اندر موجود ہیں کیونکہ اسلام کی راہ میں کوئی باہر کی روک کامیاب نہیں ہوسکی تھی.دیکھو کتنی بڑی بڑی طاقتیں تھیں جو اسلام سے ٹکرائیں اور اسلام کا رستہ روکنے کی دعویدار بن کے اٹھیں لیکن پارہ پارہ ہو گئیں.اس لئے اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کوئی بیرونی طاقت کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہاں اندرونی خامیاں ہیں جو اسلام کا رستہ روکتی ہیں.اب عالم اسلام کی طاقت دیکھو ایک ارب سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اس ساری عالم اسلام کی ایک ارب کی جمعیت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسرائیل کے ایک چھوٹے سے علاقے کا مقابلہ کر سکیں.دندناتا ہوا مسلمانوں کو مقابلے پر بلاتا ہے اور ظلم اور تشدد میں بے باکانہ کارروائیاں کرتا ہے.طاقت نہیں ہے ایک ارب مسلمانوں میں کہ اس کا مقابلہ کرسکیں.پس انہوں نے دعوت الی اللہ کیا کرنی ہے یہ تو اپنے وزن ہی سے بیٹھ گئے ہیں.کشش ثقل جتنا بڑھتی ہے اتنا ہی بے کار کرتی چلی جاتی ہے.ایسا وابستہ کر دیتی ہے سطح زمین سے اور اس کے نشیب سے کہ پھر اس میں اٹھنے کی طاقت نہیں رہتی.ایک شاعر کہتا ہے:
خطبات طاہر جلد 15 801 بسان نقش پائے رہ رواں کوئے تمنا میں خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لا چار بیٹھے ہیں ( انشاء اللہ خان انشاء) یہ تو اپنی عظمتوں کے نقش پا بن چکے ہیں اور اپنی تمنا کے غلام اس کے کوچے میں نقش بن کر بیٹھ گئے ہیں ان میں کہاں اٹھنے کی طاقت ہے.وہ قدم جن کے یہ نقوش پاتھے وہ تو ان کو چھوڑ کر عظیم رفعتوں کی طرف روانہ ہو چکے ، وہ دور بدل گئے.مگر یہ نقوش پابے طاقت ، بے سہارا آج بھی ان راہوں میں ملتے ہیں جن کا نام آج مسلمان لیا جاتا ہے.مگر اسلام کی شان ، اسلام کی شوکت ، اسلام کی تمام صفات حسنہ جو غیر معمولی جذب کی طاقت رکھتی تھیں ان سے غائب ہو چکی ہیں.اگر نہ ہوتیں تو یہ دردناک منظر جو آج ہر ایک کو دکھائی دے رہا ہے یہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا تھا.آپ نے بدلنا ہے اس کو ورنہ آپ وہ جماعت نہیں ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں انقلاب کے لئے پیدا کیا ہے.آپ نے لازماً بدلنا ہے اور بدلنے کے لئے اپنے گھر سے باہر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اپنے نفس کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ تبدیل کرنا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 12) اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ نہ بدل دیں جو ان کے نفوس میں ہے.پس دیکھیں دعوت الی اللہ کی اس آیت نے آپ کو کتنا وسیع اور عظیم اور کامل پیغام دیا ہے.فرمایا خدا کی طرف بلاؤ اس سے زیادہ اچھی بات ہو نہیں سکتی.اس سے زیادہ حسین اور دلکش جاذب نظر بات ہو نہیں سکتی لیکن اپنے آپ کو بھی بلاؤ اس کے بغیر یہ بات مکمل نہیں ہوگی.عَمِلَ صَالِحًا نیک اعمال کی طرف رخ کرو تب تم داعی الی اللہ بننے کے اہل ہو گے اور اگر ایسا ہو جاؤ گے تو خدا تمہیں اجازت دیتا ہے کہ تم کہو کہ میں مسلمان ہوں اس کے بغیر تمہیں مسلمان کہلانے کا بھی حق نہیں ہے اور وہ شخص جسے خدا کہے کہ تم مسلمان ہو اور کہے کہ اعلان کرو جیسا کہ آنحضرت ﷺ سے اعلان کروایا کہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 164).میں تو ہر مسلمان سے بڑھ کر سب سے پہلا مسلمان ہوں.تو مسلمین کا یہ مطلب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی عمل ہے جن صفات حسنہ کی وجہ سے مسلمان کہلائے آپ کو خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اعلان کر دو کہ ہاں میں مسلمان ہوں وہ صفات حسنہ پیدا کئے بغیر آپ خدا کی طرف نہیں بلا سکتے کیونکہ وہ سوسائٹی ہے خاص طور پر
خطبات طاہر جلد 15 802 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء ناروے کی جو مذہب سے متنفر ہونے کے بعد خدا سے متنفر ہو بیٹھی ہے ،خدا سے روٹھ چکی ہے.خدا کی طرف واپس بلانے کے لئے ان کی کشش ثقل سے بڑھ کر ایک روحانی جذب آپ کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا جس کو قرآن کریم کی یہ آیت مَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً کہہ کے اس کی طرف متوجہ فرما رہی ہے.بڑا ہی حسین اور دلکش اور قوت جاذبہ رکھنے والا وجود آپ کا وجود بن جائے گا اگر آپ اس قرآنی نصیحت پر عمل کریں اور پھر تجربہ کر کے دیکھیں.ناروے میں کثرت سے ایسے نوجوان ہیں جو سعید فطرت ہیں.وہ چند جو شریر ہیں ان کو تو یہاں کا ٹیلی ویژن ، یہاں کے اخبار اچھالتے ہیں اور کہتے ہیں ان میں Racism ہے ان میں غیر قوموں سے نفرت پائی جاتی ہے ان میں تشدد پایا جاتا ہے مگر وہ چند ہیں.ناروے کی قوم بحیثیت قوم نیک مزاج اور سعید فطرت ہے اور جب بھی ان کا واسطہ کسی ایسے انسان سے ہو جس میں وہ قدریں ہوں جن کو یہ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو لازماً اس کی طرف مائل ہوتے ہیں.ہمارے بہت سے احمدی ہیں جن کے ساتھ پاکستان میں ظالمانہ سلوک ہوئے اور یہاں کی حکومت نے بھی اپنی لاعلمی کی وجہ سے ان کے حق میں فیصلے نہیں دئے.خود یہاں سے لوگ اٹھے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز طور پر محنت کی اور ان کی تائید شروع کی.یہاں سے ایک خاتون گئیں پاکستان جاکر ان کے ساتھ رابطے کئے ان کے حالات دیکھے واپس آکر یہاں رپورٹیں شائع کیں اور کہا کہ بڑا بھاری ظلم ہوا ہے ہماری قوم پر داغ لگ گیا ہے.جو ایسے ایسے شریف النفس لوگ ہوں ان کو دہر یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے بہت بڑی بے وقوفی ہے اور ظلم ہے.یہ دہر یہ عقل کی وجہ سے ہیں.اگر یہ دہر یہ نہ ہوتے تو بہت بڑے پاگل ہوتے کیونکہ جو عقائد خدا کے متعلق ان کو بتائے گئے تھے ان پر قائم رہنا ہی دنیا پر ایک ظلم ہے.پس لا اللہ والی تختی تو صاف ہو چکی اب الا اللہ آپ نے بھرنا ہے اور جہاں الا اللہ بھریں گے وہاں لازماً اس کا قطعی منطقیانہ نتیجہ نکل کر رہے گا کہ محمد رسول اللہ اس سے پیدا ہوگا.پس لا الہ کا کام یہ تو میں کر چکی ہیں الا اللہ کے رنگ آپ نے بھرنے ہیں مگر اگر اپنے وجود میں اللہ کا رنگ نہ بھرا ہوا گر صفات باری تعالیٰ کی واقفیت ہی کوئی نہ ہواگر انصاف، تقویٰ، سچی ہمدردی ہچائی اور بنی نوع انسان کی خدمت پر ہمہ وقت تیار رہنا جیسے خدا رحمن ہے قطع نظر رنگ نسل ، مذہب کے ہر ایک سے سچا پیار رکھنا اور اس کا عملی نمونہ دکھانا ،شرافت سے بات کرنا عقل سے بات کرنا یہ سب الہی رنگ کے
خطبات طاہر جلد 15 803 خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1996ء نمونے ہیں.پس الہی رنگ اختیار کریں اور آپ کا عمل صالح پیدا ہوگا.عمل صالح اور دعوت الی اللہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.جب یہ دو طاقتیں اکٹھی ہو جائیں تو نا قابل تسخیر طاقت بن کر ابھرتی ہیں کسی دنیا کی طاقت کی مجال نہیں ہے کہ ان کا مقابلہ کر سکے.پس آپ ہی میں وہ وجود ہیں جو ناروے کی تقدیر بدل سکتے ہیں جو اس دہر یہ ملک کو خدا کی محبت سے بھر سکتے ہیں.اگر اپنے آپ کو اس کا لائق بنائیں کہ وہ خدا کی طرف بلانے والے بن سکیں.پس یہی میرا پیغام آپ کو بھی ہے اور ان سب ملکوں کے احمدیوں کو جہاں دہریت نے کئی لحاظ سے انسان کی اعلیٰ قدروں کو بالکل کھا کر کھو کھلا اور ویرانہ بنا دیا ہے.جیسے تیز اب بعض دھاتوں کو کھا جاتا ہے اسی طرح دہریت تمام انسانی قدروں کو کھا جاتی ہے اور اگر اس کے باوجود شرافت دکھائی بھی دے تو ایک کھوکھلی شرافت ہوتی ہے.وہ اس لائق نہیں ہوتی کہ اپنی قوم کو اعلیٰ قدروں پر قائم رکھ سکے.پس میں امید رکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ تمام دنیا کے احمدی خصوصیت کے ساتھ دہریت کے خلاف ایک جہاد شروع کریں گے اور دہریت کے خلاف جہاد کا یہی ایک طریق ہے اس کے سوا اور کوئی طریق نہیں کہ اللہ کی طرف بلائیں تو اپنے نفس کو بھی بلائیں.اپنے اندر الہی صفات پیدا کریں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح دنیا آپ کی طرف دوڑی چلی آتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 805 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء دعا کے بغیر بدیوں سے بچنا ممکن نہیں.سلسل دعا، تو تکل و کوشش سے ہی نئی زندگی حاصل ہوگی.( خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1996ء بمقام بيت النور اوسلو، ناروے) حضور نے تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے ناروے کی جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ دعوت الی اللہ گھر سے شروع ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا.جب تک تم اپنے نفس کو دعوت الی اللہ کی طرف نہیں بلاتے اور تمہارا نفس لبیک کہتا ہوا اللہ کی طرف آنہیں جاتا اس وقت تک عمل صالح ہو نہیں سکتا اور اگر عمل صالح نہ ہو تو دعوت الی اللہ جو غیروں کو دی جاتی ہے وہ بے معنی اور بے کار ہو جاتی ہے اس کا حسن زائل ہو جاتا ہے.پس دعوت الی اللہ کی خوبصورتی کے لئے قرآن کریم نے کیسی عمدہ شرط باندھی ہے کہ دوسروں کو دعوت کرو مگر اپنے آپ کو بھی بلکہ اپنے آپ کو کرو گے تو تمہارا حق ہے کہ دوسروں کو دعوت دوورنہ تمہارا دعوت دینا بے کار ہوگا.جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں Physician, heal thyself دنیا کہہ سکتی ہے کہ اے علاج کرنے والے اپنا تو علاج کر.پس جتنی جتنی اصلاح ہوتی چلی جائے اسی حد تک اتنی اتنی انسان کو دعوت الی اللہ کی توفیق ملتی چلی جاتی ہے مگر اس کا انتظار نہیں کیا جاتا.یہ وہ دوسرا نکتہ ہے جو میں آج آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.اس انتظار میں آپ نہیں بیٹھ سکتے کہ جب تک میں اپنے نفس کی پوری اصلاح نہ کرلوں اس -
خطبات طاہر جلد 15 806 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء وقت تک قرآن مجھے دعوت الی اللہ کا حق نہیں دے رہا، یہ بالکل غلط استنباط ہے کیونکہ نفس کی اصلاح تو ایک لا متناہی سلسلہ ہے، نہ ختم ہونے والا.اس کا ماڈل جو قرآن کریم نے ہمارے لئے مقرر فرمایا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ اور آپ کے عقب میں چلنے والے تمام انبیاء ، آپ کے عقب میں چلنے والے ان معنوں میں کہ صفات حسنہ میں قرب الہی کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ نے جو نمونے قائم فرمائے کوئی نبی ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا.پس زمانے کے لحاظ سے وہ پہلے تھے مگر چلنے کے لحاظ سے وہ پیچھے رہ گئے.ان معنوں میں یہ کوئی فرضی بات نہیں ہو رہی ایک حقیقی تعریف ہے جو سو فیصد درست ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عقب میں تمام انبیاء کا سفر ہے اور صراط مستقیم کا جو پہلا گروہ ہے وہ یہی ہے جو آگے آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں دعا سکھاتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ وَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحه: 6,7) کی پیروی کرنی ہے جو اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ بلا شبہ آنحضرت ﷺ کی صفات حسنہ کا نیک سے نیک انسان بھی حقیقی تصور نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو اور اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلام احمد کا لقب دے کر آپ کو اس کام پر مامور فرمایا صلى الله اور آپ کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت حسنہ میں اس طرح جھانکنے کی توفیق عطا فرمائی کہ پہلے کبھی کسی نے اس پیار اور محبت اور اس قرب کے ساتھ آپ کی سیرت کا سفر نہیں کیا تھا.آپ کی سیرت کے مطالعہ میں کوئی فرق نہیں ہوا تھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود آپ کی سیرت کے مطالعہ میں اللہ کی توفیق سے غرق ہوئے ہیں یعنی ایسی دنیا میں چلے گئے جو ہمیشہ کے لئے آپ کی دنیا بن گئی.آپ کا کوئی مضمون ، آپ کی کوئی تحریر، نثر ہو یا نظم ہو اس ذکر سے خالی نہیں ملتی کہ جو کچھ آپ نے پایا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے پایا.پس اللہ کی تعریف کے بعد بار بار حضرت رسول اللہ صلى الله کی طرف لوٹتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب مجھے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے ملا ہے.یہ وہ ہے جو اندر کی راہ دکھاتا ہے.یہ باہر دروازے تک نہیں پہنچا تا.یہ وہ رسول ہے جو ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتا ہے اور حسن کی بارگاہ کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے.پس اس پہلو سے آنحضرت ﷺ کا بلند مرتبہ، عالی مقام اور وہ منزل جس منزل پر آپ ہم سے آگے جاپہنچے ہیں اس کا کوئی تصور عام انسان نہیں کر سکتا.ہم بھی جوں جوں آپ کے حسن کا مطالعہ کرتے ہیں حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 15 807 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھ سے دیکھیں تو مزہ آتا ہے ورنہ باہر کی سطح پر ہی نظریں گھومتی رہتی ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جن کو مرتبہ حاصل ہوا کہ جیسے حضرت محمد رسول اللہ نے اللہ کے گھر کے اندر کی راہ دکھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں اس کا مطالعہ کریں نظموں میں اس کا مطالعہ کریں تو انسان اگر یہ سوچے کہ میں نے اس نبی کی پیروی کرنی ہے تو لرز جائے گا.تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ انسان ساری زندگی کبھی اس نبی کی پیروی کرتے ہوئے حقیقت میں پیروی کا حق ادا کر سکے.یہ باتیں روحانی دنیا کی باتیں ہیں.بہت سے آدمی شاید اس کو نہ سمجھ سکیں مگر عام دنیا میں آپ روز مرہ کا تجربہ رکھتے ہیں.ایک دنیا کا چیمپیئن کسی کھیل میں بھی ہو آپ جب اس کو جیتتا ہوا دیکھتے ہیں اور بڑے بڑے چیمپیئنز کے سامنے، بڑے بڑے دنیا کے ہیروؤں کے اور چیمپیئنز کے ساتھ اس کے مقابلے دیکھتے ہیں تو حقیقت میں آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کتنا بڑا انسان ہے اس نے اپنی کھیل میں کتنا بڑا مرتبہ حاصل کیا ہے.جن ملکوں کو ہرا کر وہ اوپر آیا ہے ان ملکوں کے چیمپیئنز کے متعلق بھی آپ تصویر نہیں کر سکتے کہ وہ آپ سے کتنا آگے ہیں اور وہ جب اپنے ملک میں جیتے ہیں تو اپنے ملک میں جن کو ہراتے ہیں ان کا بھی آپ صحیح تصور نہیں کر سکتے.جو آپ کے ضلع اور آپ کی تحصیل، آپ کی کاؤنٹی میں جو چیمپیئن ہیں ان سے دو دو ہاتھ کر کے دیکھیں تب آپ کو پتا چلے گا کہ ان کے مقابل پر آپ کی کچھ بھی حیثیت نہیں ، کچھ بھی مقابلہ ممکن نہیں ہے.عام روز مرہ کے آدمی کی بات کر رہا ہوں وہ اپنے ضلع کا چیمپیئن چھوڑ کے اپنے سکول کے چیمپیئن سے مقابلہ نہیں کر سکتا.اب دیکھیں درجہ بدرجہ ان لوگوں کا مقام کتنا بلند ہو چکا ہے جو عالمی مقابلوں میں اول مقام پر پہنچتے ہیں اور آپ گھر بیٹھے آرام سے دیکھ رہے ہیں.اس کی غلطیاں بھی دیکھتے ہیں اس کی کامیابیاں بھی تبصرے بھی کرتے ہیں کہ یہ کرتا تو بہتر تھا، یہ ہوتا تو اچھا ہوجا تا لیکن کوئی تصور بھی نہیں کر سکتے حقیقت میں کہ آپ کے اور ان کے درمیان فاصلے کتنے ہیں.روحانی دنیا میں تو یہ تصور اور بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کسی ایک دور کے چیمپین نہیں ہیں کل عالم کے ہر دور کے چیمپین ہیں تو ایسا وجود جس کو خدا یہ قرار دے دے کہ تمام زمانوں میں ، ہر ملک میں، ہر قوم میں جب سے دنیا بنی ہے جب تک دنیا قائم رہے گی اس وقت تک تو ہی ہے جو سب پر بالا رہے گا اور سب پر فائق رہے گا
خطبات طاہر جلد 15 808 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء اس کے پیچھے چلنے کا ادعا لے کر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اور جو منزل ہے وہ آپ نے دیکھ لیا کہ کتنی دور کی ہے.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ اس منزل تک پہنچیں گے تو پھر تبلیغ شروع کریں گے حد سے زیادہ بے وقوفی ہوگی کیونکہ وہ منزل نہ آپ کے ہاتھ آنی ہے نہ کہیں تبلیغ ہوگی.اپنے وجود کو ضائع کر دیں گے اور جو کچھ ہاتھ میں ہے وہ بھی جاتا رہے گا.اس لئے یہ مقصد، یہ مضمون کہ آپ اپنے نفس کو خدا کی طرف بلائیں اور اس کے نتیجہ میں عمل صالح پیدا ہو اور آپ کی آواز میں طاقت پیدا ہو ہرگز آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ جب تک آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے اپنی سب بدیاں دور کر دی ہیں اور سب نیکیاں حاصل کر لیں اس وقت تک آپ کو میدان عمل میں جانے کی اجازت نہیں ہے.اس کا مطلب ہے کہ تمام دنیا میں سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی کو تبلیغ کا حق نہیں رہتا پھر کیونکہ اس مرتبہ کو جو آنحضور ﷺ نے حاصل فرمایا آپ کے صحابہ بھی نہیں پہنچ سکے تھے بڑے سے بڑے صحابہ بھی بہت پیچھے رہ گئے تھے تو اس لئے یہ وہم دل سے نکالیں لیکن وہ مضمون اپنی جگہ اہم ضرور ہے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اصلاح نفس کے بغیر آپ دنیا کی اصلاح کے لئے قدم اٹھا سکتے ہیں.پس ان دونوں کے درمیان توازن کا قیام ضروری ہے اور یہی بات ہے جو میں آپ کو سمجھا کر حوصلہ دینا چاہتا ہوں کہ جتنے قدم بھی آپ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف اٹھائیں گے اور دعا کر کے توجہ سے اٹھا ئیں گے اس کا نتیجہ ضرور ظاہر ہوگا.یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ دعائیں کرتے ہوئے اپنی بدیوں کو کم کرنے کی کوشش کریں، اپنی نیکیوں کو بڑھانے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کا ساتھ نہ دے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا کی طرف جو ایک قدم بڑھاتا ہے اللہ اس کی طرف دس قدم بڑھاتا ہے.پہلے فرمایا ایک بالشت بڑھاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی طرف کئی قدم بڑھاتا ہے اور چل کے جاتا ہے تو وہ دوڑ کے آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دعاؤں کے نتیجے میں جو ہمیں پھل ملتا ہے وہ ہماری کوششوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے.پس اپنے نفس کا جائزہ لیں.ہر انسان بے شمار کمزوریوں میں مبتلا ہے اور یہ ایک فیصلے کا دن ہونا چاہئے کہ آج کے بعد میری زندگی کا سفر کمزوریوں سے دوری کا اور نیکیوں کے قرب کا سفر ہوگا.جس دن آپ یہ فیصلہ کر لیں اسی دن آپ کو دعوت الی اللہ کی توفیق ملے گی اور دعوت الی اللہ کا حق
خطبات طاہر جلد 15 809 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء بھی نصیب ہو جائے گا کیونکہ آپ اپنی کوششوں سے اگر چہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکیں کوئی منزل سر نہ کرسکیں لیکن جب دعا کریں گے اور قرب الہی کی طرف قدم بڑھائیں گے تو آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان لازماً صادق آئے گا اور اس کے نتیجے میں جو روز مرہ کی صحت کی حالت ہے یعنی روحانی صحت کا نصیب ہونا وہ غیر معمولی فرحت بخشنے والی بات ہے اور طاقت عطا کرتی ہے اس کے نتیجے میں انسان کی صلاحیتیں بڑھتی ہیں اور خود اچھی چیزوں کی طلب پیدا ہو جاتی ہے.ہر انسان کو بیماریوں کا تجربہ ہے بیماری کی انتہائی حالت میں بھی انسان سمجھتا ہے کہ میں زندہ ہوں لیکن نہ بھوک ، نہ پیاس نہ کچھ کھانے کو دل چاہے، نہ کسی سے ملنے کو ، نہ بات کرنے کو اور سمجھ رہا ہے آدمی کہ میں زندہ ہوں لیکن جب زندگی لوٹتی ہے اس کی طرف تو ہر لحہ وہ اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کرتا ہے اور اس کی بھوک واپس آنے لگتی ہے اس کی طلب واپس آنے لگتی ہے.وہ چیزیں جن میں مزہ باقی نہیں رہا تھا وہ مزہ دینے لگتی ہیں.وہ دوست جن سے ملنے کی کوئی خواہش نہیں رہی تھی وہ نظر آئیں تو طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے.اپنے زیادہ اپنے لگنے لگتے ہیں.یہ زندگی کا سفر ہے جو بیماری کے وقت ہر انسان اس سے نجات کے وقت شروع کرتا ہے اور یہ سفر بتاتا ہے کہ ہر لحہ جو قدم اٹھاتا ہے وہ ایک بشاشت کا قدم ہے اس میں ایک طلب پیدا ہو جاتی ہے اور یہی صورت حال ہے جو انسان کو روحانی سفر میں نصیب ہوتی ہے.جب بھی آپ بدیوں سے دور ہونے کا سفر کریں گے اور دعا کریں گے کیونکہ دعا کے بغیر یہ سفر ممکن نہیں ہے تو آپ کے اندر ایک نئی زندگی جاگ اٹھے گی.جو آپ سب سے زیادہ اس کے گواہ بنیں گے کہ ہاں میں زندہ ہو رہا ہوں.وہ زندگی ہے جو آپ کو دعوت الی اللہ کی توفیق عطا کرے گی اور جتنا بھی آپ دعوت الی اللہ اس زندگی کے حصول کے ساتھ کریں گے اتنا ہی اس دعوت الی اللہ یعنی اللہ کی طرف بلانے میں برکت نصیب ہوگی اور لوگ آپ کی طرف متوجہ ہونے لگیں گے.پس انتظار نہیں کرنا کہ جب تک بدیاں ہٹ نہ جائیں اس وقت تک دعوت نہیں کرنی ، نہ اس بات پر تسلی رکھ کر اپنی عمر ضائع کرنی ہے کہ عمر بڑی پڑی ہے کسی وقت بھی ٹھیک ہو جائیں گے اب چلنے دو.جدو جہد کا آغاز فوری طور پر ضروری ہے اور دعا اور توکل کے بغیر یہ جدوجہد زندہ نہیں رہ سکتی مسلسل دعاء مسلسل تو کل اور پھر کوشش اور اخلاص کے ساتھ کوشش ، یہ وہ چیز ہے جو آپ کو ایک نئی
خطبات طاہر جلد 15 810 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء زندگی بخشے گی نئی طاقتیں عطا کرے گی اور اپنے گردو پیش کو آپ زندہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے.اگر یہ نہیں کرتے تو پھر آپ کی دعوت الی اللہ بے کار ہے، بے ثمر رہے گی.لوگ جو نظریاتی لحاظ سے بات مان بھی جائیں گے لیکن جو تبدیلی پیدا کرنے کی طاقت ہے وہ عمل صالح سے ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جو اچھے قول کی مثال دی ہے وہاں عمل صالح کے متعلق فرمایا وہ اس کو رفعت بخشتا ہے.تو اچھا قول ان معنوں میں بھی وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ (ختم السجدہ: 34) اس سے بہتر کون سا قول ہو سکتا ہے اس سے زیادہ خوبصورت کون سی بات ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے اللہ کی طرف بلا رہے ہوں لوگوں کو.ایسا بلا نا ہے جس پر دنیا کا کوئی انسان اعتراض نہیں کر سکتا.جو نہیں بھی مانتے وہ بھی نہیں اعتراض کر سکتے.وہ کم سے کم گردن جھکا کے سنیں گے.کہیں گے ہم مانتے تو نہیں خدا کو لیکن آدمی اچھا ہے جو خدا کی طرف بلا رہا ہے.اس دعوت کی طرف بلائیں تو یہ قول حسن یعنی سب سے خوبصورت قول ہے مگر اس کو رفعت کیا چیز بخشتی ہے آپ کا نیک عمل.اگر نیک عمل ساتھ نہ ہو تو بعض دفعہ یہ قول الٹا پڑ جاتا ہے.بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں حالت دیکھوذ را بلا کس طرف رہا ہے اور اپنا کیا حال ہے.گنجا سر کے گنجے پن کی دوائیں بیچتا پھرتا ہو تو کون ہے جو اس کی طرف توجہ دے گا سوائے اس کے کہ لوگ ہنسیں اور مذاق اڑا کر الگ ہو جائیں.اس لئے آپ کا بنیادی فرض ہے کہ یہ روز مرہ کی حکمت کی عام باتیں ہیں ان کو تو سمجھیں ان میں کوئی ایچ بیچ نہیں، کوئی گہرا فلسفہ نہیں ہے، بڑی معرفت کی بات نہیں ہے ، سادہ سی بات ہے کہ جس کی طرف آپ نے بلانا ہے اس کی طرف بڑھنے کی خود کوشش شروع کریں اور جب آپ کوشش شروع کریں گے تو اس کے نتیجہ میں ایک تو برکت وہ ہے جو سچائی کی برکت ہوتی ہے.ایک انسان جب یقین کرتا ہے کہ اللہ ہی ٹھیک ہے، اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو اس کے اندر ایک سچائی کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور اس کی کوششوں کے بعد وہ سچائی کی طاقت ہے جو اس کے قول کو نصیب ہوتی ہے.بیچے آدمی کی بات دنیا سنتی بھی ہے اور دنیا پر وہ اثر انداز بھی ہوتی ہے اور یہاں سچائی کا ایک معنیٰ ہے جو آپ کے لئے سمجھنا ضروری ہے.کئی لوگ ہیں ویسے سچ بولتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کو جھٹلا رہا ہے.بچے لوگ ہیں مگر خدا کی طرف بڑھنے کے لئے وہ مخلصانہ کوشش نہیں کرتے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں تو جب وہ خدا کی
خطبات طاہر جلد 15 811 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء طرف بلائیں گے تو قول سچا ہوگا اور عمل جھوٹا ہوگا اور ایسے قول کو بھی خدا جھوٹا قرار دیتا ہے اور وہ شخص سمجھ بھی نہیں سکتا کہ میں نے کون سا جھوٹ بولا ہے میں تو اللہ کی طرف بلا رہا ہوں اور سچے دین کی طرف بلا رہا ہوں.یہ تو سچی باتیں ہیں لیکن اس کا عمل اس کو جھٹلا رہا ہو گا اور ایسے شخص کے قول کو خدا جھوٹا قرار دیتا ہے.اس کی مثال میں نے آنحضرت ﷺ کی سچائی کی گواہی دینے والے منافقین کی صورت میں آپ کے سامنے بار بار رکھی ہے.اس سے سچی گواہی کیا ہوسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے کوئی کہے کہ تو خدا کا رسول ہے.اس گواہی کو پیش کر کے چونکہ وہ منافق لوگ ہیں ان کی زندگی کا عمل اس کی تائید نہیں کرتا کہ وہ عملاً آنحضرت ﷺ کو سچا سمجھ رہے ہوں.اللہ ان کی گواہی پیش فرما کر کہتا ہے خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں.خدا گواہی دیتا ہے کہ تو سچا ہے لیکن تیرے سچ کی گواہی دینے والے جھوٹے ہیں.تو دیکھیں بظاہر ایک متضاد بات ہے لیکن کتنی گہری صداقت اس میں پائی جاتی ہے اور تضاد نہیں ہے.اس میں ایک مفہوم ہے وہ سمجھنا چاہئے.مفہوم یہ ہے کہ ایک انسان جب قول سے کچھ کہتا ہے تو اس سے بحث نہیں کہ وہ سچی بات کر رہا ہے یا جھوٹی بات کر رہا ہے اگر اس کے دل کا اندرونہ اس قول کی تائید میں نہیں ہے ، اگر عمل اس کی موافقت نہیں کرتا تو جھوٹا ہے خواہ وہ قول بظاہر سچاہی ہو.تو یہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ جب آپ دعوت الی اللہ کریں گے اور آپ خود خدا کی طرف حرکت کرنا شروع کریں گے تو آپ کے اندر ایک سچائی کی گواہی اٹھ کھڑی ہوگی اس سے آپ کے قول میں برکت پڑے گی اور طاقت نصیب ہوگی اور بات بات میں فرق ہوتا ہے.صرف چالا کی اور لفاظی کا فرق نہیں بلکہ سچائی کے وزن کا فرق ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کو دنیا سمجھے نہ سمجھے لیکن تسلیم کئے بغیر رہ نہیں سکتی.ایک سچے آدمی کی بات میں جو وزن ہے اس کے ساتھ ایک جھوٹے چالاک آدمی کی بات کا مواز نہ ہو ہی نہیں سکتا.بڑے بڑے آپ نے دیکھے ہوں گے بڑی لفاظیاں کرنے والے مجلسیں لگانے والے اور سجانے والے ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں.نہ ان کے اوپر نہ دوسروں پر.جیسے جیسے لطیفے چھوڑ جائیں گے لوگ ان پر نہیں گے.کوئی ایسا بے وقوف ہے وہ ایسا ہے وہ ایسا ہے اور ایسے ریڈیو پر بھی بڑے آتے ہیں بیان کرنے والے لیکن اپنا کر دار دیکھو تو ان باتوں سے کوئی بھی متاثر نہیں ہوا.نہ ان کی باتیں سن کر کسی میں نیکی پیدا ہوتی ہے.پروگرام پنجابی کے بھی ہیں ،اردو کے بھی
خطبات طاہر جلد 15 812 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء ہیں.ایسے بڑے بڑے لفظ آتے ہیں اور پاکستان میں بڑے وہ ہر دلعزیز پروگرام ہیں لیکن ان پروگراموں کو دیکھ کر ایک بھی آدمی صالح کبھی نہیں بنا لیکن ایک آدمی جو خد ا والا ہو وہ چھوٹی سی بات کرتا - ہے اس کی بات میں وزن پیدا ہوتا ہے اس میں ایک تبدیلی پیدا کرنے کی طاقت ہوتی ہے.حضرت خلیفۃ امسیح الاول اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ بتاتے ہیں کہ میری ایک کمزوری تھی ، میں دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا بہت لمبے عرصے سے مگر نہیں ہو رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بغیر سامنے مخاطب کرتے ہوئے کہ تم یہ کمزوری چھوڑو ایک بات کی ہے اور وہ ایسا گہرا اثر کر گئی کہ جیسے وہ کمزوری تھی ہی نہیں لیکن ایک دفعہ نہیں ایسا با رہا ہوا ہے.بہت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آنے والا آیا اور حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق اس کو سمجھانے کے لئے یا عام سب حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کوئی نصیحت شروع کر دی.مثلاً ایک ان میں سے تھا جو شراب کا عادی تھا اور ایسا سخت عادی تھا کہ اس کے لئے شراب چھوڑ نا کسی صورت ممکن نہیں تھا.حضرت خلیفتہ اسی الاول کا غالبا بیان ہے، مگر وہ نہ بھی ہو تو کسی اور مقتدر صحابی کا بیان ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے بھی اس کو سمجھایا اور کوشش کی مگر اس کے پلے بات نہیں پڑی.باتیں ٹھیک تھیں مگر اثر نہیں پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے عموماً شراب کے متعلق بات شروع کر دی حالانکہ اس نے سوال کیا بھی نہیں تھا اور چند فقروں میں اس کے متعلق کچھ ایسی باتیں کیں کہ وہیں اس کا دل پاک ہو گیا، ہمیشہ کے لئے شراب نوشی سے نفرت ہوگئی.تو یہ وہ قوت قدسیہ ہے جس کا ذکر آنحضرت مے کے حوالے سے قرآن میں ملتا ہے اور یہ قوت قدسیہ آپ کے غلاموں میں پیدا ہوتی ہے.جتنا کوئی آپ کے قریب ہو اتنی ہی زیادہ وہ قوتِ قدسیہ حاصل کرتا ہے.یہ جو مثال دی ہے اس کی تفاصیل چونکہ مجھے یاد نہیں مگر جو مرکزی نکتہ ہے وہ بالکل یہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں کہ بسا اوقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی کوششوں سے جو برائی کسی کی دور نہ ہوسکی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند فقروں نے اس برائی کو کاٹ پھینکا اور کثرت سے آپ کے صحابہ اس بات کے گواہ ہیں.یہ قوت قدسیہ کا مشاہدہ تھا جو انہوں نے کیا اور یہی وہ چیز تھی جس نے ان کے اندر حیرت انگیز انقلاب بر پا کر دیا.
خطبات طاہر جلد 15 813 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء پس قوت قدسیہ کوئی فرضی چیز نہیں ہے.قوت قدسیہ سچائی کے ایک معیار کا نام ہے وہ سچائی جو انسان کے ظاہر و باطن پر پوری طرح قبضہ کرلے وہ ایک اتنی بڑی طاقت بنتی ہے کہ کوئی دنیا کی دوسری طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.آنحضرت ﷺ اس مرتبہ اور مقام پر پہنچے تھے کہ جہاں ذات حق سے آپ نے اپنا وجود پوری طرح ملا دیا.ایسا ملا دیا کہ خدا کی طاقت جو حق کی طاقت ہے وہ آپ کی ذات میں جلوہ گر ہوئی اور یہی وہ قوت قدسیہ ہے جس کا قرآن پہلے ذکر کرتا ہے اور ہر علم اور حکمت کی بات کا بعد میں ذکر کرتا ہے.بارہا میں نے سمجھایا ہے جماعت کو کہ اس نکتہ پر غور کرو کہ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل فرمائی اور قرآن سکھایا، آیات سکھائیں تو آیات کی تلاوت کے بعد پہلی طاقت آپ کی یہ تھی یزكِّيهِمْ - هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ (الجمعه 3) - صلى الله وہ تلاوت قرآن کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ نے جو آپ پر آیات نازل فرمائیں وہ بیان کرتا ہے ساتھ ہی یز بھم ان کا تزکیہ شروع کر دیتا ہے.حالانکہ سب دنیا یہ بجھتی تھی بڑے بڑے انبیاء بھی اسی غلط فہمی کا شکار رہے کہ جب تک علم نہ دیا جائے ، جب تک علم کی حکمتیں نہ سمجھائی جائیں تزکیہ ہو نہیں سکتا.مگر آنحضرت ﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے عظیم الشان نبی سے بھی ایک بالا قدم ہے، اوپر کا مقام ہے.ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ اے خدا میری اولاد میں سے اور ذریت میں سے ایک ایسا نبی بر پا فرما جس کو تو کلام عطا کرے اور پھر وہ لوگوں کو علم سکھائے اور پھر وہ ان کو علم کی معرفتیں یعنی حکمتیں بتائے پھر ان کو پاک کرے.اب یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دیکھو کتنی منطقی دعا ہے جو ایک عام انسان بلکہ ایک نبی کی سمجھ کے مطابق بھی اس طرح ہونی چاہئے اس کے سوا ممکن نہیں ہے.اللہ پہلے اسے چنے ، اس کو آیات عطا کرے پھر وہ اللہ سے علم پا کر لوگوں کو علم سکھائے ، پھر وہ اس علم کی حکمتیں بیان کرے اور مولویوں کی طرح تشدد کے ساتھ یہ نہ کہے کہ علم ہے خدا کا مانوتو ما نو نہیں تو جاؤ جہنم میں.محنت کرے ان پر ، ان کو ہر علم کی پس پردہ یا اس کے اندر چھپی ہوئی حکمتیں سمجھائے تا کہ دماغ بھی مطمئن ہوں اور دل بھی مطمئن ہو جائیں یہ جب کیفیت ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نتیجہ نکالا کہ اس کے بعد ایسے شخص میں تزکیہ کی طاقت پیدا ہو جائے گی.محض علم دینے والا کسی کو پاک نہیں کر سکتا کیونکہ علم دماغ
خطبات طاہر جلد 15 814 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء کو قائل کرتا ہے حکمتیں دل کو قائل کرتی ہیں کیونکہ جب ایک علم کے متعلق پورا یقین ہو جائے کہ یہ سچا ہے اور سمجھ آجائے کہ کیوں یہ سچا ہے تو طبعا دل پوری طرح اس کا قائل ہو جاتا ہے اور دماغ اور دل کا یہ اتحاد ہے جو تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے.جب یقین ہو جائے اور دل مطمئن ہو جائے تو حضرت ابراہیم نے پھر یہ نتیجہ نکالا کہ اس کے بعد ایسا وجود ان کا تزکیہ بھی کرے گا اور یہی دعا مانگی.جہاں بھی قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعامذکور ہے اسی طرح مذکور ہے اے خدا ان میں سے ایک ایسا شخص پیدا کر ، صرف ایک جگہ مذکور نہیں کئی جگہ ہے تین یا دو جگہ لازماً ہے، اے خدا تو ان میں سے ایسا شخص پیدا کر جس سے تو کلام کرے اس پر اپنی آیات نازل فرمائے وہ ان آیات کا علم پا کر اپنے گردو پیش ، اپنے ماحول میں وہ علم سکھانے لگے اور علم سکھانے کے بعد اس کی حکمتیں بتائے جب حکمتیں بتائے تو پھر عرض کیا ویز هم اور حکمتیں بتا کرتو پھر تزکیہ ہونا ہی ہونا ہے.پس وہ حکمتیں بتائے اور ان کا تزکیہ یعنی ان کو پاک کرنے لگے، ان کو قدوسی بنادے.اب عقلی طور پر اس دعا پر ایک ذرہ بھی اعتراض ممکن نہیں لیکن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا مقام عقل کی ان حدوں سے بالا تھا یعنی عقل پر مبنی مگر اس سے اوپر کا قدم.کا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا یہ جواب دیا کہ ہاں تیری دعا منظور ہے مگر اس ترتیب کے ساتھ.میں ایک ایسا وجود قائم کر رہا ہوں جو خدا سے الہام پا کر علم حاصل کرتا ہے روحانی علم لیکن ساتھ ہی تزکیہ شروع کر دیتا ہے.تزکیہ کرتا ہے تو پھر سمجھاتا ہے.اب یہ اور ترتیب ظاہر ہوگئی.حیرت انگیز ہے.جس سے انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.وہ لوگ جن کے دلوں کی گندگیاں دور نہ ہوئی ہوں، جن کے اندر ٹیڑھے پن ہوں ان کو آپ بات سمجھا ئیں بھی تو کہاں تک سمجھا سکتے ہیں اور ان کو حکمتیں بھی بتائیں تو تبدیلی تو ہوگی مگر مشکل ہے کیونکہ جو شخص ٹیڑھے مزاج ، بے ہودہ سوچوں والا ، دنیا میں اٹکا ہوا اس کو عمل کی بات بھی سمجھا دیں، عمل کی حکمتیں بھی بتادیں تو پھر بھی مزاج ادھر نہیں آئے گا ، طبیعت نہیں آتی بعض دفعہ ادھر ، اس کا کیا علاج؟ اس لئے حقیقت میں کوئی بد انسان اگر زیادہ بد ہو تو علم اور حکمت کے ذریعے اصلاح پذیر ہو نہیں سکتا اس میں ضرور کچھ ٹیڑھا پن باقی رہ جائے گا لیکن ایک شخص جس کا دل پاک اور صاف ہو اور وہ سچا ہو چکا ہو اور اس کے رجحانات بچے ہو جائیں اس کو آپ علم سکھائیں اور علم کی حکمتیں بتا ئیں تو وہ
خطبات طاہر جلد 15 815 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء سونے پر سہاگہ ہو جائے گا، حیرت انگیز پاک تبدیلیاں ہوں گی کیونکہ وہ کپڑا ایسا ہے جو اچھے رنگ قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور گندے کپڑوں پر بعض دفعہ اچھے رنگ چڑھتے ہی نہیں جتنا مرضی زور لگا لیں.اس لئے پہلے جو رنگ ساز ہیں وہ کپڑوں کے رنگ کاٹتے ہیں اور جب کاٹ دیں پھر وہ صلى الله الله ان رنگوں کو چڑھاتے ہیں جو وہ چڑھانا چاہتے ہیں اور اس سے پہلے وہ کپڑا ان کو قبول نہیں کر سکتا.تو انسان نے تو بہت سے شرک کے رنگ اپنے اوپر چڑھا رکھے ہیں بہت سی بدیوں کے رنگوں میں ایسا ملوث ہو چکا ہے کہ اس پر الہی رنگ چڑھ نہیں سکتے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو وہ بالا قوت عطا کی جو قوت قدسیہ میں ایک معراج ہے اس سے بڑھ کر ایک انسان کی پاکیزگی کا تصور نہیں ہو سکتا کہ سمجھائے بغیر اس کا قرب آپ کو پاک کر دے لوگ اس کے قریب آئیں اور دیکھیں کہ وہ بدل چکے ہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک دفعہ نہیں بارہا ایسا ہوا ہے کہ حضور کے قرب میں آنے کے نتیجے میں لوگوں میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی ہے کہ وہ خود ساری زندگی سمجھ نہیں سکے کہ کیا واقعہ ہوا تھا اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے قرب کی ایک خاص علامت ہے.ایسا وجود جیسا محمد رسول اللہ ﷺ کا تھاوہ خدا کے اتنا قریب تھا کہ براہ راست خدا سے الہی رنگ پکڑ گیا تھا اور یہ تبدیلی کی طاقت خدا کے سوا ممکن نہیں ہے.یا اس شخص میں ہوسکتی ہے جو الہی رنگ پکڑ جائے اور اس کا قرب اپنی ذات میں ایسی مقناطیسی لہریں جاری کرے کہ از خود وہ انسان تبدیل ہونا شروع ہو جائے یہ ایک سائنسی حقیقت ہے.کئی دفعہ رابطے ظاہری طور پر نہ بھی ہوں تو باطنی رابطے قائم ہوتے ہیں اور ایک انسان وہی رنگ پکڑ لیتا ہے جو ساتھ کی چیزوں کا رنگ ہے.آپ میں سے اکثر طلبا جانتے ہیں ٹیونگ فور،ایک ٹیونگ فور کو آپ حرکت دیں یعنی بجائیں ساتھ ایک اور پڑا ہوا ہو ٹیونگ فور یعنی بجنے والا آلہ تو اس کو آپ ہاتھ بھی نہ لگائیں جو ساتھ والا ہے جب وہ جنبش میں آئے گا اور آواز پیدا کرے گا تو جس کو آپ نے ہاتھ بھی نہیں لگایا اس میں بھی آواز پیدا ہو جاتی ہے.یہ تجربہ ہمیں بچپن میں جب ہم سائنس کی کلاسیں شروع کر رہے تھے تو پہلے پہلے دکھایا تھا اور بڑا مزہ آتا تھا اس کو دیکھ کے، ایک ٹیونگ فور کہتے ہیں اس طرح ایک چیز ہوتی ہے جس کا ایک چمٹا جیسا لو ہے لاشکل کا وہ ایک جگہ پڑا ہوا ہے ساتھ ایک اور چھٹا بالکل ویسا ہی اسی دھات کا، اسی سائز کا، اسی وزن کا اس کو آپ چٹکی سے یوں ماریں اس
816 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء خطبات طاہر جلد 15 کو تو ایک سنسناہٹ سی پیدا ہو جائے گی ، گونج سی پیدا ہوگی ، ہاتھ رکھ کے بند کر دیں تو گونج پھر بھی آرہی ہوگی ، آپ حیرت سے دیکھیں گے تو ساتھ والا ٹیونگ فور جس کو آپ کا ہاتھ لگا ہی نہیں پاس سے بھی نہیں گزری انگلی ، وہ بجنے لگ گیا ہے.تو یہ قوت قدسیہ ہے جو پاک وجودوں کو عطا ہوتی ہے اور پھر وہ اپنے قرب میں وہی لہریں ان کی روحوں میں ، ان کے اجسام میں ، ان کے دلوں میں، ان کے دماغوں میں جاری کر دیتے ہیں.پس آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ گواہی دی ہے کہ میں بھی تیرہ سو حضور سر سال کے فاصلے پر زمینی لحاظ سے، جغرافیائی لحاظ سے اتنا دور ہوتے ہوئے محمد رسول اللہ ﷺ کی قوت قدسیہ سے زندہ ہوا ہوں کیسی عظیم گواہی ہے، حیرت انگیز ، کہ وہ قوت قدسیہ جس پہ ہم تعجب کر رہے تھے کہ ساتھیوں کے بغیر بتائے کیسے نیک اور پاک کر دیا.آج ایک انسان، غلام پیدا کرتا ہے وہ دعوی کرتا ہے خدا کی قسمیں کھا کے کہتا ہے میں حضرت محمد رسول اللہ علیہ کی وجہ سے زندہ ہوں کسی دلیل سے زندہ نہیں ہوا.آپ کی قوت قدسیہ نے براہ راست مجھے زندہ کر دیا ہے اور وہ ٹیونگ فور جو مدینے میں بج رہا تھا اور مرنقش تھا بظاہر دنیا سے رخصت ہو گیا مگر آج بھی اس کا ارتعاش لوگوں کے دلوں کو جو اس سے ملتے جلتے ہوں جو ہم مزاج ہوں جو اپنا سر اس کے سر تسلیم کے طور پر خم کر دیں ان کے اندر وہی ارتعاش پیدا کر دیتا ہے، تو قوت قدسیہ ہے جو لازم ہے اور یہ قوت قدسیہ قرب الہی سے نصیب ہوتی ہے اس کے بغیر ممکن نہیں.پس قرآن کریم نے جو دعوت الی اللہ کا فارمولا بیان کیا ہے بالکل حقیقی اور سائنٹیفک ہے کہ تم کر وضرور لیکن اپنے وجود میں وہ تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی جو قرب الہی کی نشان دہی کریں.جو تمہارے عمل کو صالح بنائے یعنی اللہ کے قریب کر دے پھر تمہاری آواز میں ایک طاقت پیدا ہو جائے گی.پھر تو بعض ایسے لوگ ہیں جو بولے بغیر بھی اصلاح کر دیا کرتے ہیں.ان کے پاس آکر بیٹھنے والے متاثر ہوتے ہیں اور عام دنیا میں آج کل بھی احمدیوں میں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں.بعض لکھتے ہیں کہ ہم دفتر کی مجبوریوں کی وجہ سے تبلیغ نہیں کرتے تھے کیونکہ قانون ہے اور ہمارے معاہدے ہیں لیکن ہمارے ساتھ بیٹھنے والے بعض لوگ وہ دن بدن ہمارے قریب آنے شروع ہوئے جیسے ان کو محبت ہوگئی ہو اور آخر ایک دن بول پڑے کہ تم ہو کیا چیز ، دنیا سے تو مختلف ہو.یہی ملک ہے ہمارا ملک بھی اور دوسروں کا بھی یہاں تو ایسے نمونے نہیں نظر آ رہے جیسے تم ہو.نہ تمہیں رشوت سے دلچپسی ، نہ تمہیں اور کسی
خطبات طاہر جلد 15 817 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء بدی میں، اپنا دفتر کا کام انتہائی دیانتداری سے کرتے ہو، شرافت سے ہر ایک سے سلوک ،اخلاق سے پیش آنے والے، ہر چھوٹے بڑے سے جھک کر اس کی بات سننے والے.یہ باتیں اس شخص نے بتا ئیں کہ ہمارے ایک دوست نے میرے سامنے آکے بیان کیں جو ہمارے دفتر میں کام کرتا تھا.کہتا میں مجبور ہو گیا ہوں آپ سے پوچھنے کے لئے کہ آپ کون ہیں.یہ چیز کیسے حاصل ہوگئی.جب ان کو بتایا کہ میں احمد یہ جماعت سے تعلق رکھتا ہوں تو پھر وہ بھاگے نہیں کیونکہ اس کشش کا اتنا اثر تھا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے لٹریچر دیں میں مطالعہ کرنا چاہتا ہوں.لٹریچر لیا ،مطالعہ کیا ، خدا کے فضل سے احمدی ہو گئے.تو آغاز میں ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا.یہ قوت قدسیہ از خود دلوں کو متحرک کر رہی تھی.پس اس علاقہ میں جس میں آپ بستے ہیں یہاں خدا سے دوری ،اسلام سے دوری، یک طرفہ پراپیگنڈا اتنا سخت چل رہا ہے اسلام کے خلاف کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس علاقہ کو فتح کرنے کے لئے قوت قدسیہ ضروری ہے وہ آپ کو حاصل ہوگی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنے نفس کو خدا کے لئے تیار کرنا جیسے ایک گھوڑی کو سدھایا جاتا ہے تا کہ وہ کاٹھی قبول کر لے تا کہ وہ لگام پہن لے اور پھر آپ کی مرضی کے تابع حرکت کرے اور آپ کی مرضی کے تابع سکون کرے، حرکت وسکون دونوں آپ کی مرضی کے تابع ہو جا ئیں تو نفس کے متعلق بھی ایسی ہی کیفیت ہے.جیسے ایک گھوڑی کو سدھایا جاتا ہے آپ سدھانا شروع کریں اور جتنا جتنا سدھائیں گے اللہ تعالیٰ کا تصرف اس پر ہوتا چلا جائے گا اور جو نفس اللہ کے تصرف میں آئے گا اس میں لازماً طاقت پیدا ہوگی اس میں ایک ہنر مندی پیدا ہوگی اور وہ پہلو اس کا ایسا بولے گا کہ اس کی آواز لازماً دوسروں کو سنائی دے گی.پس اس پہلو سے ، اس بناء پر میں بار بار آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ اپنے نفوس میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنی بیویوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں اپنی بہنوں میں ، اپنے بھائیوں میں اور اس مضمون کو چھوڑیں نہیں جب تک آپ کا بار بار کہنا آپ کے گردو پیش میں تبدیلیاں نہ کر لے کیونکہ اکیلے کی تبدیلی کافی نہیں ہوا کرتی.اگر آپ خود تبدیلیاں کر رہے ہیں اور پاک تبدیلیاں ہیں جبکہ اس سے پہلے آپ اور آپ کے گھر کا ماحول آزادانہ تھا اور ہر قسم کی بدیوں میں ملوث اور دنیا کے عیش وعشرت میں مبتلا تھے تو اگر آپ اکیلے تبدیلی پیدا کریں گے تو متنبہ رہیں اس بات میں کہ آپ کا گھر ، آپ کے عزیز آپ سے دور ہونا شروع ہو جائیں گے.ان کو عادت ہے اور اس طرح کی زندگی کی ، اچانک ان کے اندر
خطبات طاہر جلد 15 818 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء وہ سمجھیں گے کہ مولوی پیدا ہو گیا ہے.اچھی مصیبت ہے اچھا بھلا پہلے ہمارے ساتھ مل کر یہ کام کیا کرتا تھا اور اب اس نے یہ کام چھوڑ دیئے ہیں اور ہمارے لئے بھی مشکل پیدا کر دی.اس لئے ماحول اور دوستوں میں تو یہ بات اتنا نقصان نہیں دیتی کیونکہ دوست چھوڑ دیں تو جائیں پھر، لیکن گھر کو چھوڑ کر آپ کہاں جائیں گے، اپنی اولا د کو اپنی آنکھوں سے ضائع ہوتے کیسے دیکھیں گے.اس لئے اس کا دوسرا قدم یہ ہے کہ جب اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کے چلیں ، اپنی اولاد کو ساتھ لے کے چلیں اور حکمت اور پیار سے اگر ان کو سمجھایا جائے تو وہ ضرور ساتھ دیتے ہیں.اگر سمجھایا نہ جائے اور الگ آپ اپنی دنیا بنائے رکھیں اور سمجھیں کہ یہ ہمارے پیچھے ہیں، حکم سے مانیں گے تو جھوٹ ہے.حکم سے کوئی بھی نیکی نہیں مانا کرتا.یہ مودودی دماغ ہے جو یہ بات مانتا ہے کہ جبرا اور حکما نیکیاں پیدا کی جاسکتی ہیں.یہ بہت بڑا پاگل پن ہے.کبھی جبر اور حکم کے ذریعے نیکی پیدا نہیں ہوئی ہاں ایک مصنوعی عمل ضرور پیدا ہوا ہے.نیکی تو دل کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا نام ہے.پریڈ کا نام تو نہیں ہے.مودودی اسلام کے نتیجہ میں باجماعت نمازیں تو ہوسکتی ہیں اور داڑھیاں بڑھ سکتی ہیں ، شلوار میں مخنوں سے اوپر ہوسکتی ہیں اور ایک قسم کی بھیانک شکل ظاہر ہو سکتی ہے جو لو گوں کو کھینچنے کی بجائے متنفر کر رہی ہو اور اس پر یہ فخر کیا جائے کہ اسلام آ گیا اور دلوں میں خدا بیٹھ گیا بالکل جہالت اور بے وقوفی ہے.دلوں میں خدا بیٹھتا ہے ایسی پاک نصیحت سے جو دل میں جاگزیں ہو جائے، جو دل نشین ہو کر زندگی کا حصہ بن جائے اس کے بغیر یہ تبدیلی ممکن نہیں ہے.پس جبرا اور حکما آپ اپنے خاندان کو بھی نہیں بدل سکتے کجا یہ کہ مودودی تصور کے مطابق سارے معاشرے کو آپ تبدیل کر دیں.کبھی دنیا میں جبر نے پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کیں مصنوعی صورتیں بدلی ہیں.لیکن روحوں پر جبر کا کوئی بھی دخل نہیں ہے.پس اس پہلو سے آپ دنیا کے تجارب پر نظر ڈال کے دیکھیں ہر جگہ یہی دکھائی دے گا کہ جب دل کا حسن پیدا نہیں کرسکتا.میں نے بارہا ان علاقوں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے جہاں کسی زمانے میں احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے زور سے پھیلی تھی اور بہت بڑے بڑے خاندان تقریباً علاقہ کے سارے ہی معززین احمدی ہو چکے تھے اور اس کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئے اور مجھے یہ بات اس لئے سمجھ نہیں آیا کرتی تھی کہ میں جانتا ہوں قرآن کے مطالعہ سے کہ وہ لوگ جو خود ایک دفعہ امام وقت کو قبول کر لیں وہ تباہ
خطبات طاہر جلد 15 819 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء نہیں ہوا کرتے پھر وہ پیچھے نہیں ہٹا کرتے لیکن قرآن کریم نے یہ بات ضرور فرمائی ہے کہ پھر بعض دفعہ ان کے وارث ایسے خلف ہو جاتے ہیں ایسی نسلیں ہو جاتی ہیں جو تبدیل ہو جاتی ہیں.تو صاف پتا چلا کہ قرآن سچا ہے.یہ لوگ جو ابتداء میں احمدی ہوئے انہوں نے قربانیاں دیں اور قرب الہی حاصل کیا وہ نہیں پیچھے ہے، اولادیں چلی گئیں.مگر اولادوں کے جانے کی وجہ ہونی چاہئے.اگر باپ کا عمل نیک تھا تو کیوں اولا دیں اثر کے نیچے نہیں آئیں اور کیوں دور ہٹ گئیں.جب بھی میں نے جائزہ لیا بلا شبہ یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوئی کہ ان باپوں نے اپنی بیویوں کے اندر پاک تبدیلی پیدا نہیں کی اور یہ سمجھتے رہے کہ بیویاں اس زمانے میں تو زیادہ ہی مطیع ہوا کرتی تھیں اب تو نئی نسل کی بیویاں اور طرح کی ہوگئی ہیں مگر اُس زمانہ میں بیویاں بہت مطیع ہوا کرتی تھیں ظاہری طور پر ، اور اندر کھاتے بیٹھ کے اور باتیں کیا کرتی تھیں کیونکہ وہ اطاعت بھی جبر کی اطاعت تھی.اب جو اطاعت ہے وہ پیار اور محبت کی اطاعت ہے.یہ اطاعت جو ہے وہ Companionship کی اطاعت ہے.اس میں اور اُس میں فرق ہے.تو پہلے زمانے میں بظاہر لگتا تھا کہ بڑا ہی اچھا زمانہ ہے کیسی شریف عورتیں ہیں خاوند کے سامنے آنکھ نہیں اٹھاتیں، بات نہیں کرتیں لیکن جب خاوند باہر چلا جائے تو پھر کیا کرتی ہیں.یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے.یہ خاندان جن کا میں نے جائزہ لیا وہ پتا ہے کیا کیا کرتے تھے.وہ یہ کرتے تھے کہ خاوند جب گیا دفتر میں یا اپنے کاموں پر تو بیوی نے اولا د کے کان بھرنے شروع کئے اور کہا کہ تمہارا باپ تو پاگل ہو گیا ہے تمہاری ضرورتیں کاٹ کاٹ کر چندے قادیان بھیج رہا ہے اور دیکھو تمہارا کیا حال ہے.جائیدادیں اپنی جماعت کو دے رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے معصوم وہ ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے مگر ان کے دل پر اثر ضرور پڑتا ہے پھر کہ واقعی یہ تو باپ بڑا ظالم ہے اور ایسے بچوں نے مجھ سے خود ذکر کیا جو دور ہٹ گئے تھے میری ملاقات اور مجالس کے بعد جب بے تکلفانہ قریب آئے تو ایک دفعہ نہیں بارہا ایسا ہوا ہے، ایک ہی کہانی دہرائی گئی مگر بار ہا دہرائی گئی کہ ایسے بچے قریب آئے انہوں نے کہا کہ آپ نے بالکل سچی باتیں کی ہیں ہم سے یہی گزری ہے.ایک نے کہا ہماری ماں تو ہمیں یہ مطالبے بتایا کرتی تھی.کہتی تھی کہ اپنے ابا سے کہو مجھے موٹر سائیکل لے دیں ، مجھے فلاں چیز لے دیں اور جب ہم کہتے تھے تو باپ کہتا تھا میرے پاس تو نہیں پیسے.تو ماں کہتی تھی دیکھا وہی بات نکلی اتنا چیک اس نے قادیان بھجوایا ہے.وصیت کر بیٹھا
خطبات طاہر جلد 15 820 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء ہے، تمہیں اپنی وراثت سے بھی محروم کر دیا ہے.تم مرو گے تو یہ جائیداد جو ہے اس کا دسواں حصہ وہ ت لے جائے گی.وہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ایسا بد اثر ان پر پڑا کہ انہوں نے وصیتیں بھی ادا نہیں کیں.وہ ساری زندگی قربانی کرتار ہا مگر غیر موصی کے طور پر دفن ہوا.تو گر دو پیش کو دیکھنا تو بعد کی بات ہے اپنے گھر کو دیکھنا سب سے اول ہے اور یہاں جبر نہیں چل سکتا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ فرضی باتیں ہیں کہ جبر کے ذریعے آپ خاندان کی اصلاح کر سکتے ہیں اس کو غلام بنا سکتے ہیں.اپنی زندگی میں جب تک آپ میں طاقت ہے وہ جیسے کوئی ناک میں نکیل ڈالی ہو اور پیچھے پیچھے چلا رہے ہیں اس کو ، پیچھے تو چل پڑیں گے لیکن نفرت کے ساتھ ، ان ارادوں کے ساتھ کہ اب آنکھیں بند کرو پھر دیکھنا ہم کیا کرتے ہیں اور یہی ہوا کہ کثرت کے ساتھ بہت ہی مخلص خاندان جن کے سر براہ مخلص تھے جو فدائی تھے اپنی زندگی میں جب آواز آتی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے یا بعد میں خلفاء کی طرف سے جو حاضر ہوتا تھا پیش کر دیا کرتے تھے لیکن بیویوں سے غافل رہ گئے اور اولا دتو پھر بیویوں کے پیچھے چلی کیونکہ یہ دستور ہے کہ پانی نیچے کی طرف بہتا ہے.بیویاں جس زندگی کی طرف ان کو بلاتی تھیں وہ آسانی کی زندگی تھی ، آرام کی زندگی تھی.باپ جس زندگی کی طرف بلاتا تھا وہ چڑھائی تھی ، مشقت اور محنت کی زندگی تھی اور اگر حکمت سے کام لیتا تو بچوں اور بیویوں کو سمجھا کر ، پیار اور محبت کے ساتھ لے کر چلتا تو کبھی وہ اولا دیں ضائع نہیں ہو سکتی تھیں اور انہی علاقوں میں ایسی مثالیں ہیں جن علاقوں کی بات میں کر رہا ہوں.ان میں تیسری نسل، چوتھی نسل بھی آچکی ہے اور ہر نسل فدائیوں کی پیدا ہورہی ہے کیونکہ بلا استثناءان خاندانوں میں خاوندوں نے اپنی بیویوں کو قائل کیا اور عبادتوں میں اپنے ساتھ شریک کیا، جماعت اور مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی محبت ان کو گھول گھول کے پلائی یہاں تک کہ وہ دونوں فدائی بن گئے اور ان کی اولاد کبھی ضائع نہیں کی گئی.ناممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی اولا دضائع ہو جائے سوائے اس کے کہ بعض دفعہ بدبختی سے ایسے ماحول میں ایک بچہ پڑ جاتا ہے جس پہ ماں باپ کی نظر نہیں ہوتی اور استثناء کے طور پر وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے.مگر میں نے تو نیک ماں باپ جہاں دونوں برابر کے شریک ہوں نصیحت میں اور تربیت میں ان کی اولا دوں کو تو ضائع ہونے کے بعد بھی واپس آتے دیکھا ہے.حیرت ہوتی ہے کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی نیکی کا بھرم رکھتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 821 خطبہ جمعہ 18 را کتوبر 1996ء آج ہی ایک خط مجھے ملا ہے ایک ایسے شخص کا جو کسی ملک میں ہے میں اس کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتا ، مجھے ملا تو پتا چلا کہ عمر کا ایک طویل عرصہ اب جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے بعد اس کا دل واپس احمدیت کی طرف آیا ہے.نہایت مخلص فدائی ماں باپ کی اولاد مگر دور ہٹ گئی تھی اور کوئی توجہ نہیں تھی.واپس آیا ہے تو اس زور کے ساتھ ، اس اخلاص کے ساتھ ، اس احساس کے ساتھ کہ جو کچھ میں نے گنوایا ہے اس کو میں نے اب پورا کرنا ہے اور پوچھا کہ کیا ہوا تو کچھ سمجھ نہیں آتی.دنیا کی تو کوئی دلیل چلتی نہیں وہاں، وہ دعا ہے جو ماں باپ کی ہے جوگھیر کر اور طرح کی تکمیل ناک میں ڈال کے لائی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نکیل ہے وہ دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں دلوں کی پاک تبدیلیوں کی نکیل ہے.تو آپ کو جب تک اپنے بیوی اور بچوں پر حقیقی دسترس نہیں ہوتی حکم کی نہیں بلکہ پیار کی Companionship کی جس میں سارا خاندان ایک ہی طرح کا ہو اور اکٹھے ہی ایک طرف چلیں یہ دوسری منزل ہے جس کی طرف میں آپ کو بلا رہا ہوں.اس کو آپ سمجھ جائیں گے اور اس پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اولادوں میں بھی وہ پاک تبدیلی پیدا ہوگی اور آپ کی پاک تبدیلی میں مزید طاقت آئے گی.ورنہ ایک خاوند جب اپنی بیوی کو یا اپنے بچوں کو اپنے سے ہٹے ہوئے رستوں پر چلتا دیکھتا ہے تو اس کی آگے بڑھنے کی طاقت میں بھی کمی آجایا کرتی ہے.ایسا ہی ہے جیسے چڑھائی چڑھ رہا ہے اور بوجھ اٹھایا ہوا ہے تو بوجھ اٹھا کے کہاں کوئی تیز رفتاری سے بلندی کی منازل طے کر سکتا ہے.ہلکے پھلکے قدم ہوں تو زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آدمی آگے بڑھتا ہے کہاں یہ کہ چار پانچ بیوی بچوں کا بوجھ کمر کے پیچھے لادا ہوا ان کو بھی گھسیٹ رہا ہے اوپر کی طرف ، آپ بھی چلنے کی کوشش کر رہے ہو تمہاری رفتار میں لازماً کمی آئے گی اور وہ کمی بعض دفعہ مہلک ثابت ہوتی ہے آخر تھک کر لوگ چھوڑ دیتے ہیں.مگر جو طریقہ میں بتا رہا ہوں ایسے بچے ہوں جو آپ کے آگے آگے بھاگ رہے ہوں اور بعض بچے جب آپ پہاڑوں کے سفر کرتے ہیں تو جب ان کا دل چاہ رہا ہے کہ ہاں ہم بھی جائیں گے تو واقعہ وہ دوڑ دوڑ کے آگے نکلتے ہیں.ماں باپ بعض دفعہ بلاتے ہیں کہ کہیں ٹھو کر نہ کھا جانا لیکن ان کی طبیعت میں ایسا جوش، ایسی بشاشت ہوتی ہے کہ رو کے نہیں رکھتے اور ماں باپ بجائے اس کے کہ ان کو کھینچ کر آگے لے کے جائیں گے ان کو تیز رفتاری کے خطرات سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر بچہ نہ مانے اور آپ اس کو گھسیٹ کے لے کے جائیں تو پھر دیکھیں کیا حال ہے.جتنی
خطبات طاہر جلد 15 822 خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 1996ء مرضی طاقت ہے وہ کہیں ٹھڈے مارے گا آپ کو ، کہیں شور مچائے گا ، کہیں آپ کے بال نوچے گا مصیبت میں مبتلا کر دے گا یہاں تک کہ آپ کہیں گے چلو دفع ہو نہیں جاتے کہ میں بھی نہیں جاتا تم بھی نہ جاؤ.تو یہ وہ روز مرہ کے زندگی کے تجارب ہیں جو زندگی کے اہم مسائل کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتے ہیں.پس ایسے ماحول پیدا کریں کہ آپ کے بچے آگے آگے بھا گیں اور واقعہ جب ایسے بچے آگے بھاگتے ہیں تو وہ ماں باپ جن میں اتنا تیز چلنے کی سکت نہیں ہوتی سچ مچ روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور مجھے پھر وہ بچے شکایتیں بھیجتے ہیں.کہتے ہیں دیکھو ہمارے ماں باپ کو، ہم خدام کا یہ کام کرتے ہیں نیکی کا یہ کام کرتے ہیں ہماری اماں کہتی ہے کہ نہیں تمہیں اتنا کام نہیں کرنا، باپ کہتا ہے کہ نہیں اتنا وقت نہیں دینا تو آپ ہمارے ماں باپ کو سمجھائیں وہ ہمارے رستوں میں کیوں حائل ہو رہے ہیں.تو جو منظر میں نے سیر و تفریح میں ، بچوں کے حال کا آپ کے سامنے رکھا روحانی دنیا میں بالکل وہی منظر ہے جو ہمیں دکھائی دیتا ہے.جو بچے پھر دل کی مرضی سے اور دل کی گہرائی سے اپنے ماں باپ کے پیغام کے ساتھ ہو جائیں بسا اوقات وہ ماں باپ سے بھی آگے چھلانگیں مارتے ہوئے دوڑتے ہیں.تو ایسی نسلیں پیدا کریں یہاں، وہ نسلیں کہ جب آپ آنکھیں بند کر لیں تو یقین ہو کہ وہ کبھی بھی ہمارے چلے ہوئے رستوں سے پیچھے نہیں نہیں گی ،کبھی بھی ان راہوں سے قدم نہیں روکیں گی جن راہوں پر ہم زندگی بھر ان کو چلانے کی کوشش کرتے رہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی حفاظت میں آجاتے ہیں.یہ وہ نسلیں ہیں جو آپ کی اور آپ کے پیغام کی ہمیشہ حفاظت کرتی چلی آتی ہیں.آپ کے مرنے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کا اجر آپ کو پہنچتا رہے گا.آپ کے مرنے کے بعد بھی ان کی دعائیں آپ کو پہنچتی رہیں گی اور اس طرح نسلاً بعد نسل یہاں ایک ایسا پاک تبدیلی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو لازماً اس ملک کی تقدیر کو بدل کے رہے گا.الله پس اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن اور رسول ﷺ کے بتائے ہوئے رستوں پر اسی نہج پر چلنے کی توفیق بخشے جس نہج پر خدا کے پاک لوگ چلتے رہے اور جس کی طرف قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا کہ اھدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا مانگا کرو صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے انعام فرمایا.(آمین)
خطبات طاہر جلد 15 823 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء اللہ کا پیار دل میں ہوگا تو کائنات کے رازوں پر دسترس ہوگی.اُتنا ہی خدا کی محبت آپ کے دل پر غالب ہوگی.( خطبه جمعه فرموده 25 /اکتوبر 1996ء بمقام بیت نو راوسلو، ناروے) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّلِمِيْنَ مِنْ أَنْصَارِ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَّا تُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِة رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْرِ نَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران : 191تا195) پھر فرمایا: یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے جب بھی میں ناروے آتا ہوں مجھے بکثرت یاد آتی ہیں اور کوئی ایسا سفر نہیں جس میں صبح شام ذہن میں ان آیات کا مضمون نہ گھومتا ہو کیونکہ جن
خطبات طاہر جلد 15 824 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء آیات کا یعنی موسم اور حالات کے ادلنے بدلنے کا اور قدرت کے رازوں کا ذکر جو مومنوں پر کھولے جاتے ہیں ان آیات میں ملتا ہے ان کا ایک گہرا تعلق ناروے سے ہے اگر چہ دنیا کے ہر خطے سے ہے.اس لئے ناروے میں آکر جتنا یہ آیات یاد آتی ہیں اتنا ہی دل میں تکلیف کا احساس بڑھتا ہے کہ ہم اس ملک کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے اور جو اس ملک کا حق تھا جو اس ملک کے نمک کھانے کا حق تھا وہ ہم نے ادا نہیں کیا.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اس سفر میں جو چند دن کے لئے آپ سے جدا ہوا تھا اور ناروے کے بعض حصوں کا سفر کیا تھا اس میں ان آیات نے میرے ذہن اور دماغ پر قبضہ کئے رکھا اور اب مجھے یہ خیال آیا کہ انہی آیات کے حوالے سے میں ان مسائل کا حل تلاش کروں جو مومن کے اندر صرف جذبات ہی کو حیرت انگیز طور پر ولولے عطا نہیں کرتیں بلکہ ذہن کو بھی تیز کرتی ہیں اور عقل کو بھی مسائل تک رسائی بخشتی ہیں.سب سے پہلی بات کہ وہ کیا طریق اختیار کیا جائے جس سے جماعت کے اندر ایک ولولہ پیدا ہو جائے ، ایک ایسی لگن لگ جائے جس کے نتیجہ میں وہ اس ملک میں اسلام پھیلانے کا حق بہر حال ادا کریں اور کوئی رو کے بھی تو ان سے روکا نہ جائے.انہی آیات میں موجود ہے کہ یہ طریق، یہ جذ بہ اور یہ توفیق عشق الہی کے بغیر مل نہیں سکتی کیونکہ جو نقشہ کھینچا گیا وہ یہ ہے کہ اِن فی خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں اور رات اور صبح کے اولنے بدلنے میں لایت لِأُولِي الألْبَابِ نشان تو بہت ہیں مگر عقل والوں کے لئے بکثرت نشان ہیں اور عظیم الشان نشان ہیں لیکن عقل والوں کی تعریف کیا فرمائی گئی ہے.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهِ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِم عقل والے تو وہ ہیں جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہو کر بھی اور لیٹے ہوئے بھی، بیٹھے ہوئے بھی وَعَلَى جُنُوبِهِمْ اور اپنے پہلوؤں پر بھی وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اس محبت کے جذبے سے جب وہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں تو بے اختیار ان کے منہ سے یہ دعا نکلتی ہے.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ باطل پیدا نہیں کیا.اتنا عظیم الشان کارخانہ ہے اتنے گہرے حکمت کے راز ہیں کہ ان پر نظر ڈال کر کوئی انسان یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب چیزیں از خود اور بے مقصد پیدا ہوئی ہیں اور ایک اندھی
خطبات طاہر جلد 15 825 خطبه جمعه 25 اکتوبر 1996ء Evolution نے کائنات کو اس مقام تک پہنچایا جس پر ہم دیکھ رہے ہیں اور اس مقام تک پہنچا کر زندگی کو ساتھ ترقی دیتے ہوئے اس مقام تک پہنچایا کہ وہ زندگی دیکھ سکے کہ یہ کائنات کیا ہے اور اس کا حسن کیا ہے؟ یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو کر پھر ان مومنوں کی تخلیق کرتی ہیں جن کا ان آیات میں ذکر ہے کہ جب وہ مومن جو خدا کی محبت میں مدہوش رہتے ہیں جب وہ غور کرتے ہیں تو لازماً ان کے دل خدا تعالیٰ کی محبت میں اور بھی زیادہ گھائل ہو جاتے ہیں اور لازماً ان کی تو جہات زمین و آسمان کے رازوں کو سمجھنے کی طرف مبذول ہوتی ہیں اور نتیجہ سب ایک ہی نکالتے ہیں کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا بَاطِلًا اے ہمارے رب تو نے یہ چیزیں باطل پیدا نہیں کیں.اس بار جب میں نے اس مضمون پر غور کیا تو ایک اور نکتہ جو سمجھ آیا وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے یہ آیت محض ناروے کے لئے تو پیدا نہیں کی تھیں.وہ بیابان عرب جہاں حضرت محمد مصطفی سے پیدا ہوئے وہ آواز جو آپ نے صحرائے عرب سے بلند کی وہ سب سے زیادہ ان آیات کے مطابق ایک ایسا وجود پیش کرتی ہے جو دن رات خدا کی محبت میں مبتلا تھا اور اس نے تو ان ملکوں کی سیر نہیں کی جو دنیا کی نظر میں بہت ہی خوب صورت اور غیر معمولی طور پر قدرتی نظاروں سے ایسے مزین کئے گئے ہوں.اس نکتہ پر غور کرتے ہوئے مجھے اپنے بچپن سے لے کر اب تک جو ذہنی سفر ہے وہ یاد آیا اور میں نے سوچا کہ میں آپ کو بھی اس بات سے مطلع کروں کہ حسنِ قدرت کے لئے محض پہاڑوں اور سبزہ زاروں اور بادلوں اور بجلی کی چمک اور بجلی کی گھن گرج اور آبشاروں کا ہونا ضروری نہیں ہے.حسن تو جو شاہکار بنانے والا ہے یا شاہکار ایسے تصویر بنانے والے کی ذات میں ہوتا ہے جو مصور ہے اور جسے شاہکار بنانے کی توفیق ملتی ہے اور مصور کے حالات پر جب غور کریں اور اس کے کاموں کو دیکھیں تو ضروری نہیں ہے کہ مصور کوئی بہت ہی خوب صورت چیز بنائے اور اس پر آپ کے دل سے اس کے لئے تعریف کے جذبے بے اختیار ابلیں بلکہ وہ مصور جو اپنے فن میں کامل ہے وہ ایک بھیانک منظر بھی پیش کرتا ہے تو اس میں ایک حیرت انگیز حسن پوشیدہ ہوتا ہے ، وہ حسن کمال ہے.پس وہ خدا جوخلق میں کمال رکھتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی خالق ہو نہیں سکتا.فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِينَ (المومنون: 15) ایسا خدا ہے جس سے بڑھ کر کوئی حسین خالق بن نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں ہے.اس نے جو کچھ بھی بنایا ہے اس میں بھی ایک حسن رکھ دیا ہے.چنانچہ اس دوران مجھے وہ بعض صحرائی علاقوں.
خطبات طاہر جلد 15 826 خطبه جمعه 25 اکتوبر 1996ء کے سفر بھی یاد آئے ، بعض بنجر بیابان بھی آئے جہاں بعض دفعہ گھنٹوں بیٹھا رہا کرتا تھا اور اس بنجر میں بھی ایک ذاتی حسن تھا، ان ریگستانوں میں بھی ایک ذاتی حسن تھا جو دل و دماغ پر قبضہ کئے ہوئے تھا اور پھر جب آپ غور کا سفر شروع کریں تو گردو پیش بہت سی ایسی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو پہلے دکھائی نہیں دیتی تھیں اور يَتَفَكَّرُونَ کا جو لفظ ہے اس نے مجھے یاد دلایا کہ بسا اوقات جب میں نے ان جذبوں میں ڈوب کر اپنے گردو پیش کی زمین پر نظر ڈالی تو وہاں عجیب عجیب چیزیں دکھائی دینے لگیں کچھ کیڑے، کچھ جانوروں کے چھوڑے ہوئے غار نما خلا یا غاریں تو نہیں کہہ سکتے مگر بھٹ کہتے ہیں غالبا، جانوروں کی وہ جگہیں جہاں وہ سر چھپانے کے لئے پناہ لیا کرتے ہیں ، پھر ایسے بل دکھائی دیئے جو بعض دفعہ سانپوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں، بعض دفعہ چوہوں کی ، بعض دفعہ اور جانور کھودتے ہیں کوئی دوسرے ان میں آکر پناہ لیتے ہیں.پھر اردگرد وہ مخلوق دکھائی دینے لگی جو حیرت انگیز طور پر ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کے تخلیق کے کمال کی گواہ بنی ہوئی تھی.وہاں کے مچھر، وہاں کی مکھیاں ، وہاں کے مختلف قسم کے پرندے اور چرندے اور جانور جو دوسرے جانوروں کا شکار کر کے پلتے ہیں ان سب کے وجود کے آثار وہاں دکھائی دینے لگے اور میں حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ دیکھو یہ دنیا جو پہلے نظر نہیں آتی تھی اب پتا چلا کہ کوئی بھی زمین ایسی نہیں کوئی زمین کا ایسا چپہ نہیں ہے جہاں خدا تعالیٰ نے اپنی صناعی کے شاہکار کے نشان نہ چھوڑے ہوں.وہاں ہی میں نے ایک چھوٹی سی صحرائی چڑیا دیکھی یعنی ایک معین واقعہ کی یاد آپ کو دلا رہا ہوں کوئی فرضی سیر نہیں کر رہا.ایسے وقت کی سیر کر رہا ہوں جو میں نے واقعہ گزارا اور جو کچھ میں نے سوچا، جو کچھ میں نے دیکھا وہ اس آیت کے حوالے سے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب میں نے اس مضمون پر غور کیا کہ کیا ناروے ہی ایک ایسا ملک ہے جو خدا تعالیٰ کی حسن صنائی کی یاد دلانے والا ہے تو اس وقت میرے خیالات ان رستوں پہ چل پڑے اور سب سے پہلے مجھے عرب کے صحرا کا تصور آیا کہ سب سے زیادہ حسین انسان جس نے خدا کو سب سے زیادہ حسین صورت میں دیکھا ہے وہ تو عرب کے ریگستان میں پیدا ہوا تھا اس لئے یہ آیت ہر انسان کو مخاطب ہے اور اس شان سے مخاطب ہے کہ جس کے نتیجہ میں اگر آپ اس کی شان سے مرعوب ہوکر وہ تصورات کا سفر اختیار کریں جس کی طرف اس آیت نے اشارہ کیا ہے یعنی يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ جو جہاں بھی
خطبات طاہر جلد 15 827 خطبه جمعه 25 اکتوبر 1996ء آپ ہوں لق و دق صحرا میں ہوں یا شاداب سبزہ زاروں اور آبشاروں کے ملک میں ہوں ہر جگہ آپ کو خالق کی صناعی کے شاہکار دکھائی دیں گے.ایک چھوٹا سا خوبصورت سا پرندہ اچھل کر سامنے آیا اور میں حیرت سے اس کو دیکھنے لگا بہت ہی چھوٹا لیکن اتنے متوازن اس کے اعضاء اور ایسا ہلکا پھلکا بدن اور اس قدر اس کے رنگوں میں حسن ، اس کے رنگوں کا حسن شوخی نہیں رکھتا تھا جیسا کہ بعض ملکوں کے پرندوں کے رنگوں میں شوخی پائی جاتی ہے بلکہ اس مزاج کے ساتھ آہنگ تھا لیکن غور کرنے پر جب اس پر میں نے گہری نظر ڈالی تو میں حیران رہ گیا کہ اس موقع اور محل کے مطابق اس سے خوبصورت ،اس سے بہتر ، اس سے زیادہ موزوں پرندہ ان حالات میں کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان بھی تجویز نہیں کر سکتا تھا کوئی بڑے سے بڑا صناع بھی سوچ نہیں سکتا تھا اور عین ان حالات کے مطابق اس کی غذا وہاں مہیا تھی.ان غاروں میں چھپے ہوئے یا ان بلوں میں گھسنے والے مختلف جانوروں کی غذا بھی وہاں یا مہی تھی اور وہ ساری جگہ جو پہلے سنسان دکھائی دے رہی تھی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی یوں لگا جیسے اچانک جاگ اٹھی ہے، ہر طرف اللہ تعالیٰ کے حسن کی گواہیاں دینے والے پیدا ہو گئے.اس مضمون کو میں نے ایک دفعہ پھر اس طرح یاد کیا کہ انگلستان کے ایک قدرتی مناظر کی تصویریں لینے والے اور ان پر غور کرنے والے اور بہت خوبصورت انداز میں Mr.David Attenborough ان کو پیش کرنے والے ہیں کہ ان کی کتب جب بھی میں پڑھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان کو ایمان نصیب ہوتا تو یقیناً اس آیت کے مصداق یہ بھی بن جاتے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.وہ آپ کو جنگلوں ، صحراؤں میں ، دلدلوں میں لے جاتے ہیں ایسی جگہوں پر جہاں بظاہر زندگی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے پھر وہ مٹی کھودتے ہیں پھر وہ ریت کریدتے ہیں دلدلوں میں میٹھی بھرتے ہیں دلدلوں سے اور ہاتھ نکال کے دکھاتے ہیں تو وہاں عجیب و غریب قسم کی مخلوقات جوان حالات کے لئے انتہائی موزوں ہے وہ اپنے کاروبار میں مصروف دکھائی دیتی ہے.پھر اس کی زندگی کے صبح و شام پر وہ روشنی ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا سائنس دان جس کو قدرت کے ان حیرت انگیز نظاروں پر خدا تعالیٰ نے ایسی دسترس بخشی ہو یعنی اس کا ذہن رسا ان کی گہرائیوں تک اتر تا ہو وہ ایمان سے کیسے محروم ہے.ایک دفعہ میں نے اپنے ایک ایسے دوست کو جو میرا خیال تھا کہ Mr.David Attenborough کو جانتے ہوں گے ان سے میں نے
خطبات طاہر جلد 15 828 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء درخواست کی کہ اس شخص سے ملنے کا مجھے بہت شوق ہے.میں کریدنا چاہتا ہوں کہ ان سب رازوں تک رسائی کے باوجود اس کا ذہن کیوں اس طرف منتقل نہیں ہوا کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ باطل پیدا نہیں کیا.تو آپ کو خدا تعالیٰ نے ایسے ملک میں پیدا کیا ہے جہاں خدا کی صناعی کا حسن ظاہر و باہر ہے جہاں مٹی کرید کر نہیں دیکھنا پڑتا، جہاں سناٹوں میں ڈوب کر گہری نظر سے اردگرد کی مخلوق کو اچانک ،کوشش سے جاگتے ہوئے دیکھ کر پھر یہ خدا کی یادوں کا سفر نہیں کرنا پڑتا بلکہ یہاں تو اللہ کی یادیں آپ کے سامنے چاروں طرف آپ کو گھیرے ہوئے ہیں.وہ حسین مناظر جو اس ملک میں ہیں وہ تو اپنے ہواؤں کے لطف کے لحاظ سے اندھوں کو بھی دکھائی دینے چاہئیں.جو ہوا میں یہاں چلتی ہیں ان کا ایک عجب لطف ہے جس کے متعلق ساری دنیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی شفاف ہوا، ایسی صحت افزا ہوا جیسی ناروے میں ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے.چنانچہ یہاں انہوں نے کوڑھیوں کے لئے ایک تجربہ گاہ بنائی اور مجھے پہلے تو اچھا نہیں لگا یہ خیال، اتنے پاک، صاف ستھرے ملک کی ہوا کوڑھیوں کی سانسوں سے بیمار کرنے کی کوشش کی جائے مگر وہ جو تجربہ کرنا چاہتے تھے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے متعلق ہم یقین سے کہہ سکیں کہ ان تجربوں میں کوئی دوسری بیماری محل نہیں ہوگی سوائے ناروے کے اور کوڑھیوں پر تجربے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں تھی.اللہ بہتر جانتا ہے وہ کہاں بنائے گئے ہیں لیکن سائنس دانوں کا یہ خیال تھا کہ وہ فضا کو مسموم نہیں کریں گے بلکہ ان کو کوڑھیوں کی شفا کے لئے خدا تعالیٰ کچھ اور نئے راز عطا کر دے گا جو پہلے معلوم نہیں تھے.کہاں تک یہ درست ہے یہ الگ بحث ہے.میں واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ آپ کو تو خدا تعالیٰ نے اپنے ظاہر وباہر حسن کا نظارہ کرایا ہے جیسا کہ غالب کہتا ہے: جب وہ جمال دل فروز ، صورت مہر نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں؟ (دیوان غالب : 187) یعنی کائنات ساری خدا کے حسن کے پردے ہیں اور ان پردوں میں خدا کا حسن چھپا ہوا ہے مگر ہر دیکھنے والا دیکھ سکتا ہے اگر وہ گہری نظر سے ان پردوں کے پیچھے حسن کو تلاش کرنے کی
خطبات طاہر جلد 15 829 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء کوشش کرے.وہ پردے بولنے لگتے ہیں.وہ پر دے اس حسن کو ظاہر کر دیتے ہیں اگر آپ کو دیکھنے کی آنکھ نصیب ہو.مگر اس کے علاوہ ایسی بھی صورت ہوتی ہے جیسا کہ غالب نے کہا کہ: جب وہ جمال دل فروز ، صورت مہر نیم روز جب وہ دل کو بھڑکا دینے والا جمال دن چڑھے کے سورج کی طرح ظاہر ہو جائے تو ” پر دے میں اسے چھپائے کیوں“ کون ہے جو اس کو دیکھ سکتا ہے ، وہ تو نظروں کو خیرہ کر دے گا.ایسی صورت میں اسے پردوں کی کیا ضرورت ہے.تو اگر اس شعر کا کوئی اطلاق کہیں ہوتا ہے تو وہ ناروے پہ ضرور ہوتا ہے مگر اس کے منفی معنوں کا بھی اطلاق ہورہا ہے جس کی وجہ سے مجھے فکر ہوتی ہے اور تکلیف پہنچتی ہے کہ واقعی آنکھیں ایسی خیرہ ہوگئی ہیں کہ ان کو وہ حسن جو کھلا اور ظاہر وباہر ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور غافل رہتی ہیں.لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور خالق کی طرف دھیان نہیں جاتا بلکہ یہ حسن ہی ان کی نظر کی صلاحیتوں کو گو یا جلا دیتا ہے اور خاکستر کر دیتا ہے.پس یہ وہ چیزیں ہیں جو اس سفر میں میں سوچتارہا اور میں نے سوچا کہ اسی مضمون کو آج آپ کے سامنے رکھوں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ظاہر و با ہر حسن آپ کو دیکھنے کی توفیق بخشی ہے اس کو اگر آپ نہ پہچان سکیں اور اس کے نتیجے میں وہ مضمون دل میں پیدا نہ ہو جس کا ان آیات میں ذکر ہے اور بار بارسوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں اچھلنے نہ لگے تو پھر آپ اس ملک کی خدمت کی کوئی توفیق نہیں رکھتے.پھر آپ جیسے چاہیں یہاں زندگی بسر کریں، جیسے چاہیں بلند ارادے باندھیں یہ وہ خدمت ہے جو محبت کے سوا نصیب نہیں ہو سکتی.پس محبت الہی ہی سب باتوں کا جواب ہے اور ایسے حسین ملک میں اگر آپ تو جہات کو ان مناظر سے پیچھے خالق کائنات کی طرف دوڑا دیں، اگر اس کے تصور سے اپنے ذہن کو ضرور مزین کریں تو ناروے سے زیادہ حسن آپ کے ذہنوں میں ، آپ کی شخصیتوں میں پیدا ہو جائے گا کیونکہ یہ تو ایک ظاہری حسن ہے مگر خدا کا تصور جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے جو راتوں کو بھی اٹھتے ہیں اور صبح بھی، کروٹیں بدلتے ہوئے بھی خدا کو یاد کرتے ہیں وہ حسن انسان کو ایک ایسے مجسم حسن میں تبدیل کر دیتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ناممکن ہے کہ دوسرے اس کی طرف خدا کے حصول کے لئے دوڑیں نہیں اور اس کو اپنا وسیلہ بنائیں، یہ سارا مضمون اس نتیجہ کی طرف بڑھ رہا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 830.خطبه جمعه 25 اکتوبر 1996ء چنانچہ فرمایا کہ جب وہ غور کرتے ہیں اور فکر کرتے ہیں تو ایک چیز ان کے دماغ میں ضرور جاگتی ہے کہ یہ باطل نہیں ہے.اتنا حیرت انگیز کارخانہ ،ایسا متناسب یہ از خود بے وجہ، بے مقصد پیدا نہیں ہوسکتا.ایک کرسی کو آپ بنے ہوئے دیکھیں تو کوئی نہیں سوچ سکتا کہ از خود پیدا ہوگئی ہوگی کوئی نہیں سوچ سکتا کہ اگر از خود بھی پیدا ہوئی ہے تو بے مقصد ہے.صناعی کا ایک مقصد ہوتا ہے جو دکھائی دینے لگتا ہے اور ہم نے کئی قسم کے رنگارنگ کے ہٹ رستے میں دیکھے ہیں یعنی جن کو عام طور پر لوگ Huts کہتے ہیں یا جھونپڑیاں، یہاں کی جھونپڑیاں بھی بڑی خوبصورت ہیں.مگر بعض بالکل سادہ اور معمولی ، بعض بہت زیادہ حسین اور مزین لیکن کسی گھٹیا سے گھٹیا ہٹ کو دیکھ کر بھی کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ بے مقصد یہاں کھڑی کر دی گئی تھی پرانے Barns جہاں توڑی وغیرہ اس قسم کے جانوروں کے چارے رکھے جاتے ہیں وہ ان کے کھنڈرات ہیں بہت ہی بد زیب لکڑیاں گل گئیں، رنگ بگڑ گئے، چھتیں ٹوٹ گئیں لیکن ان کو دیکھ کر بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ بے مقصد پیدا کئے گئے تھے.پس یہی آواز ہے جو مومن کے دل سے ان باتوں پر غور کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور بڑے زور سے اٹھتی ہے کہ اے خدا! تو نے ان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا.فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پس ہمیں تو آگ کے عذاب سے بچا.اب دیکھیں ان دونوں باتوں کا کیا جوڑ ہے بے مقصد پیدا نہیں کیا ان چیزوں کو اس لئے تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.لوگ یہ سن کر آگے گزر جاتے ہیں لیکن ٹھہر کر سوچتے نہیں کہ اس کا آگ کے عذاب سے آخر کیا تعلق ہے.کائنات کو دیکھا بے مقصد پیدا نہیں ہوئی یہ خیال آیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گائے بات وہیں ختم ہو جانی چاہئے.مگر جن مومنوں کی بات ہو رہی ہے جن کی یادیں ہمیشہ خدا سے وابستہ رہتی ہیں جو رات اور دن کو اللہ کی محبت میں اٹھنے والے لوگ ہیں ان کا ذہن صرف ان نظاروں میں نہیں اٹکا رہتا جو وہ دیکھتے ہیں بلکہ لازماً اپنی طرف مائل ہوتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ یہ جو سامنے کے مناظر ہیں یہ کائنات جو ہمیں دکھائی دیتی ہے ہم تو اس سے بہت ہی زیادہ نا قابل بیان حد تک عظیم شاہکار ہیں خدا تعالیٰ کی قدرت کا.اگر یہ زمین و آسمان اسی طرح رہ جاتے تو کون تھا جو خدا کے اس حسن کو اور خدا کی اس صنعت کو دیکھتا، پہچانتا اور اس کی وسعتوں اور عظمتوں میں ڈوب سکتا.انسان ہی ہے جو آخری شاہکار ہے.انسان کی ذات میں یہ کائنات زندہ ہو گئی ہے.یہ مٹی، یہ درخت، یہ گھاس، یہ نہ سوچنے والی
خطبات طاہر جلد 15 831 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء چیزیں اچانک حیرت انگیز طریق پر سوچنے لگی ہیں.پس قرآن کا یہ جو طرز کلام جس طرح اچانک رخ پھیرا گیا ہے وہ خود صناعی کا ایک حسن پیش کرتا ہے.اگر آپ اس مضمون کو نہ سمجھیں تو یہ دو باتیں بے معنی سی ہوں گی.فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کیوں پھر آگ کے عذاب سے بچائے.اگر کائنات خوبصورت ہے تو اس کا تمہاری آگ سے کیا تعلق؟.تمہاری آگ سے یہ تعلق ہے کہ تم بھی خوبصورت ہو اور کائنات سے بہت زیادہ خوبصورت ہو ، ساری کائنات کا خلاصہ ہو.انسان کی صناعی میں جو کچھ خلقت کی تخلیق کی صنعتیں رکھ دی گئی ہیں باہر کی کائنات کا ان کے ساتھ کوئی بھی مقابلہ نہیں اور سب سے بڑی چیز سوچ، یہ مردہ کا ئنات اچانک جاگ اٹھی اور آپ کی صورت میں جاگی ہے.آپ دیکھ رہے ہیں ، آپ سن رہے ہیں، آپ محسوس کر رہے ہیں، آپ کا تصور وہاں تک جا پہنچا ہے جہاں تک اس کائنات کا وجود کسی صورت میں بھی آگے بڑھ نہیں سکتا تھا.زمین اپنی ساری عظمتوں کے ساتھ اگر اس میں انسان نہ ہوتا تو اپنے تصور کو دوسرے سیاروں تک نہیں پہنچا سکتی تھی ، سورج تک بھی نہیں پہنچاسکتی تھی جس سورج سے وہ زندگی پارہی ہے.اگر آپ انسانی سوچ اور فکر کی صلاحیتوں سے الگ کر کے اس زمین اور اس خوبصورت کا ئنات کو دیکھیں تو انسان کو نکالتے ہی یہ کائنات آپ کو عدم میں ڈوبتی ہوئی دکھائی دے گی ، کچھ بھی زمین کا باقی نہیں رہے گا، نہ ناروے ہوگا، نہ صحرائے عرب ہوگا ، نہ دوسرے ممالک، نہ سمندر، نہ خشکیاں کوئی بھی خدا تعالیٰ کی صنعتوں کا حسن اپنی ذات میں حسن کہلانے کا مستحق تو رہے گا مگر اسے حسن کہنے والا کوئی نہیں ہوگا.جب دیکھنے کی آنکھ نہ ہو تو چیزیں عدم ہو جایا کرتی ہیں اسی لئے فلسفیوں نے اس پر ہمیشہ سے بحثیں اٹھائی ہیں.کئی فلسفی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات تو ہماری سوچ کے نتیجے میں ہے.اگر ہم اپنی سوچ کو سمیٹنا شروع کریں اور ہر چیز جو ہمیں دکھائی دیتی ہے ، جو سنائی دیتی ہے ، جو محسوس ہوتی ہے، جو ہمیں سردی یا گرمی پہنچاتی ہے اس سے اپنے سوچ کے تعلق کاٹ لیں تو ہم تو ہوں گے مگر یہ کائنات نہیں رہے گی.پس سوچنے والا ہے اور غور کرنے والا ہے جس کے متعلق بعض فلسفی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے وہی ہے ورنہ اس کے بغیر کوئی کائنات کا وجود نہیں.بعض کہتے ہیں کائنات کا وجود ایک بیرونی وجود ہے ، سوچ کے ساتھ اس کا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ اتفاق سے تم پیدا ہو گئے اور تم دیکھ رہے ہو ورنہ تم نہ بھی ہوتے تو کیا فرق پڑتا تھا.اس کے متعلق میں نے پہلے بھی کسی وقت قرآن کریم کا وہ
خطبات طاہر جلد 15 832 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء حل آپ کے سامنے رکھا تھا جو اس مسئلے کو حل کرتا ہے جس تک فلسفیوں کی نظر نہیں گئی.عالم اس ساری کائنات کو کہا گیا ہے اور عالم کی جگہ عالمین استعمال ہوا ہے یعنی مختلف وقتوں میں مختلف صورتوں میں مختلف دائروں میں یہ کائنات بٹی ہوئی ہے اس لئے عالمین ہے اور عالم کا مطلب ہے وہ چیز جس کا علم ہو.اب دیکھیں قرآن کریم نے سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں بِسْمِ اللہ کے بعد الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ فرمایا کہ اللہ کی حمد کے گیت گاؤ سب حمد اسی کے لئے ہے جو تمام عالمین کا رب ہے.اب اس پہلو سے جب آپ غور کریں تو پتا چلے گا کہ سارے انسان ، سارے سوچنے والے وجود کلیۂ مٹ جائیں تو عالمین اس لئے نہیں مٹیں گے کہ اللہ ہی ہے جو سب کو جانتا ہے اور ان کو معلوم کے دائرے سے آپ کبھی نکال ہی نہیں سکتے.اس لئے اس فلسفے کا جوالجھنیں پیدا کرنے والا فلسفہ ہے جس میں ڈوب کر جس کو حل کرنے کی کوشش میں آج تک کوئی فلسفی کامیاب نہیں ہوسکا، یورپ نے بھی بڑا زور مارا ، بڑے بڑے اعلیٰ دماغ یہاں پیدا ہوئے کچھ اس طرف ہٹ گئے کچھ اس طرف ہٹ گئے مگر مسئلہ سمجھ نہیں آیا کہ واقعہ اس میں سچائی تو ہے کہ اگر سوچ نہ ہو تو یہ کا ئنات کیا ہے کچھ بھی نہیں گویا مٹ گئی گویا اس کا ئنات کا وجود ہماری سوچ کے ظاہر ہونے سے پیدا ہوا اور جب ہم سوچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ درست نہیں.ہم نہ بھی ہوتے تو کائنات رہتی لیکن کیسے پتا چلتا کہ کائنات ہے.اس بحث میں ہزاروں سال سے لوگ الجھے ہوئے ہیں لیکن حل نہیں کر سکے.قرآن کریم کی سورہ فاتحہ کی پہلی آیت نے اس مسئلے کو حل کر دیا.فرمایا تم اپنے زاویہ نگاہ سے سوچتے ہو تم سمجھتے ہو تم ہی ہو جس کی سوچ کے نتیجہ میں ایک بیرونی چیز دکھائی دے رہی ہے اور اس کے وجود کو ثبات ملا ہے لیکن تمہاری سوچ جاتی کہاں ہے، کہاں تک جاسکتی ہے؟ زمین کی جو پنہائیاں ہیں ان تک بھی تمہاری سوچ نہیں پہنچتی.تمہیں تو یہ بھی پتا نہیں کہ اس زمین کے اندر گہرائی تک کیا کچھ ہے اور بعد اس کے کہ سائنس دان ہمیشہ ترقی کرتے چلے جارہے ہیں اور اپنی جستجو کو آگے بڑھا رہے ہیں جیسا Mr.David Attenborough کا میں نے ذکر کیا وہ جگہیں جو زندگی سے خالی دکھائی دیتی تھیں ان کو جب کھولا، کھودا اور ٹولا تو وہاں زندگی کا ایک جہان دکھائی دیا مگر یہ بھی صرف ایک سطحی علم ہے.جو اس کے پس منظر ہے، اس کے پیچھے ہے ان کی خوراک کا نظام، کیسے ان کو عقل عطا کی گئی ، کیسے ہر جانور کو اپنی مرضی اپنے مقصد کے رستے بتائے گئے کہ تم ان پر چلو تو تمہاری بقا کے
خطبات طاہر جلد 15 833 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء سارے سامان یہاں موجود ہیں.کون سی ذات ہے جس نے ان کو سمجھایا اور کیسے ان کے چھوٹے چھوٹے دماغوں میں بلکہ ایسے جانوروں میں بھی جن کا دماغ ابھی پیدا نہیں ہوا ان کے مقصد کی باتیں اس طرح لکھ دی گئیں جیسے کمپیوٹر کسی چیز کولکھ دیتا اور صرف پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں.مگر اس کمپیوٹر کے لئے کوئی جگہ ہونی چاہئے جہاں وہ لکھا جائے.یہ جو کمپیوٹر خدا تعالیٰ نے بنایا ہے وہ دماغ سے تعلق رکھتا ہے اور دنیا کے سارے ماہرین حیاتیات جو ہیں کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے.ان گنت تعداد ایسے کیڑے مکوڑوں بلکہ اس سے پہلے کی حالتوں کی ہے جب وہ کیڑے مکوڑے کہلانے کے مستحق نہیں ہیں ، جن کے اندر دماغ کا کوئی وجود نہیں اور احساس کے کوئی ریشے نہیں ہیں، پھر بھی ان سب کو پتا ہے کہ ہم نے کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے ، کیا کھانا ہے ، کہاں سے کھانا ، کہاں ہماری زندگی محفوظ ہے، کہاں ہماری زندگی کو خطرہ لاحق ہے.یہاں پہنچ کر وہ مزید سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کیا ہے مگر یہ علم ہے کہ ہو یہی رہا ہے.تو جس انسان کی سوچ اتنی محدود ہے کہ ایک کیڑے کی جو احساس کی طاقت ہے اس کو بھی نہیں سمجھ سکتا نہیں جانتا کہ وہ کیسے کام کر رہی ہے اس سے جو عالم جا گا ہے اس کی حیثیت بھی کیا ہے.ایک سرسری سا عالم جا گا ہے جو اصل عالم کے مقابل پر ایک پر پشہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتا.ایک مچھر کے پر سے کم اس کی حیثیت ہے جو انسان کو ہے.پس کتنی سی کائنات اس نے جگادی ہے.اکثر کائنات اسی طرح پڑی ہے جو اس کے لئے علم سے باہر ہے اور پھر فلسفیوں کا یہ کہنا کہ ہمارے وجود سے کائنات ہے ہم سوچیں تو یہ کائنات بنتی ہے، نہ سوچیں تو کچھ بھی نہ رہے اس کا جواب قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ اصل سوچنے والا تو خالق ہے.رَبُّ الْعَلَمِین تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ ان کو پالنے والا ہے اور علم کی انتہا کے بغیر پالناممکن نہیں.جتنے بھی جاندار دنیا میں زندہ ہیں ان کو پالنے کے گہرے علم کی ضرورت ہے کہ ان کو کس چیز کی ضرورت ہے، کتنی ضرورت ہے، کیا ان کو خدا ہوشیاریاں عطا کرے تو بعض ما حولوں میں زندہ رہ سکتے ہیں اور کیا نہ کرے تو وہ چل نہیں سکتے.ایک ایسی جھیل پر جہاں ہم نے مچھلیوں کی بہت تلاش کی اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا میں نے بچوں کو وہSeagulls دکھا ئیں جو اڑ رہی تھیں اور نیچے اترتی تھیں اور کچھ لے کے نکل جاتی تھیں.ناروے میں رہ کر کوئی انسان Seagulls پر بھی غور نہ کر سکے تو کتنی حیرت کی بات ہے.کھلے
خطبات طاہر جلد 15 834 خطبه جمعه 25 اکتوبر 1996ء پانیوں میں ان کی زندگی کی بناء رکھ دی گئی ہے اور وہ روز اس یقین کے ساتھ جاگتی ہیں کہ ایک رَبُّ العلمین ہے جو ساری کائنات کا رب ہے اور ہمارے پالنے کے لئے اس نے سامان کر رکھے ہیں.وہ بھوکی نہیں مرسکتیں ورنہ انسان سوچے کہ اوپر سے پانی میں دیکھے تو اس کی سطح کے Reflection کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا.کہاں یہ کہ وہ مچھلی پر جھپٹے اور ایسے نشانے کے ساتھ جھپٹے کہ مچھلی عین اس کے پنجے میں آئے اور اسے وہ لے کے اڑ جائے اور ہر روز اس تو کل کے ساتھ ہر جانور جاگتا ہے کہ میرا رزق میرے خدا نے مہیا کر رکھا ہے اور رزق لینے کی اور پکڑنے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں.اب کوؤں کو صلاحیت نہیں، چیلوں کو یہ صلاحیت نہیں ، لاکھوں کروڑوں ،اربوں جانور ہیں جن کو یہ صلاحیت نہیں کہ سمندر کے پانی یا جھیلوں کے پانی میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کو دیکھ بھی سکیں اور پکڑ بھی سکیں.پس قرآن کریم فرماتا ہے.كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اهْدَى سَبِيلًا (بنی اسرائیل : 85 ) کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کی ایک شاکلت پہ پیدا کیا ہے اور اس کی شاکلت ، جس طرح اس کو ڈھالا ہے، جس شکل میں ڈھالا گیا ہے اس میں آپ کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے.اگر کریں گے تو وہ چیز زندہ نہیں رہ سکتی.ہر چیز اپنی ذات میں کامل اور مکمل ہے.پس دیکھو اس Seagull کو کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے تو کل پر اٹھتی اور تو کل پر سوتی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ نے اس کے تو کل کو نا کام نہیں کیا، نامراد نہیں کیا.اس مضمون کی طرف انسان کی توجہ پھیر تے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو کتنے ہی ایسے جاندار ہیں جن کا رزق تم پر نہیں ہے اللہ پر ہے.اللہ نے اس کے مستقر بھی اس کو بتا دیئے ہیں اور مستودع بھی بتا دیئے ہیں.اللہ نے اسے سمجھا دیا ہے کہ کن علاقوں میں اس نے لوٹ لوٹ کر آنا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے بتا دیا ہے کہ کن جگہوں پر عارضی ٹھکانے کرنے ہیں.پس وہ بے شمار جانور جو گرمیوں میں یہاں دکھائی دیتے ہیں اور سردیوں میں غائب ہو جاتے ہیں کبھی غور تو کریں کہ یہ آیات کریمہ آپ کو کیا سمجھا رہی ہے.ہر ایک کا ایک مستودع ہے، ایک مستقر ہے اور اسے پتا ہے کہ کتنی دیر میں کہاں ٹھہروں اور کس وقت میں وہاں سے روانہ ہو جاؤں.تو یہ وہ مضمون ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ َهذَا بَاطِلًا کا جو انسان جتنا غور کرتا چلا جاتا ہے اس کی طبیعت اپنی طرف لا ز ما مائل ہونی چاہئے اور جن اولوالالباب کا ذکر کیا ہے ان کی طرف ضرور
خطبات طاہر جلد 15 835 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء مائل ہوتی ہے.اچانک انسان ایک اور احساس کی دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ میں عالم کیا ہوں اصل عالم تو وہ ہے جو ساری کائنات پر اپنے علم کے ذریعے اپنے غلبہ کو کامل کئے ہوئے ہے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ ( البقر : 256) اس کے علم کی کرسی ساری کائنات پر مسلط ہے زمین پر بھی اور آسمان پر بھی اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے یہی آیت کرسی بتاتی ہے وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ ان کا علم تو اتنا بھی نہیں ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرے پر احاطہ کر سکیں اتنی ہی توفیق ملتی ہے جتنی خدا اجازت دیتا ہے اس سے زیادہ اب ان کے علم کو آگے بڑھنے کی توفیق نہیں ملتی تو پھر ہم کیسے عالم اور اس عالم کی بناء ہم پر کیسے ہوگئی.جہاں تک مادی عالم کا تعلق ہے اس کی بناء علم پر ہے اس بات پر تو مفکرین سارے متفق ہیں کہ اگر علم نہ ہو تو گویا جہان غائب ہو گیا مگر ہمارے نہ ہونے سے تو اس جہان کو کچھ فرق نہیں پڑتا.اگر غائب ہوگا تو معمولی سا ہوگا اور وہ وقت جو لا متناہی ہے جس کو ہم ازل بھی کہتے ہیں اور ابد بھی جس کا نہ ماضی میں کوئی کنارہ ہے نہ مستقبل میں، اس وقت میں ہماری سوچ کی کیا حیثیت ہے.وہ تو ساری کائنات میں کسی جگہ ایک باریک سا نقطہ بھی ڈال دیں تو وہ کائنات اس نقطے کے مقابل پر زیادہ عظیم ہے جتنے ازل اور ابد ہمارے سوچ کے نقطہ سے عظیم تر ہیں کیونکہ ازل میں اور ابد میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر چیز کو سکیڑتی چلی جاتی ہے سمیٹتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ چیز نظروں سے غائب ہو جاتی ہے تو عالم وہی ہے جو اللہ ہے.پس سورہ فاتحہ نے دیکھیں کیسا عظیم الشان علم و معرفت کا جہان ہمارے سامنے کھول دیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو اس کے بعد اس سے بڑھ کر انکساری کا سبق انسان کو کیا مل سکتا ہے کہ عالمین تو خدا سے قائم ہے.ان کا ذرہ ذرہ ، ان کے باریک تر راز بھی اللہ پر روشن ہیں جو وہ بنانے والا ہے اور اس نے جو ہمیں بنا دیا تو ہمارے اندر بھی ایک عالمین بنا دیا ہے.اس ساری کائنات کا خلاصہ انسان ہے اور اس خلاصہ کو وہ عظمت بخشی جس کے مقابل پر ساری کائنات کی کوئی حیثیت نہیں رکھی.آنحضرت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: لولاک لما خلقت الافلاک (موضوعات كبرى حرف لام روح المعانی جلد اول صفحه 70) یہ افلاک تو تیرے بنانے کے لئے سیڑھی تھے ، ایک ذریعہ تھے.اگر تجھے نہ بنانا ہوتا تو اس کا ئنات کو آغا ز ہی سے پیدا نہ کیا جاتا.کوئی ضرورت
خطبات طاہر جلد 15 836 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء نہیں تھی کیونکہ وہ سوچ جو زمانے اور Space ، زمان و مکان میں پھیلتی ہے اس سوچ کو زمان و مکان میں پھیلنے کے باوجود زندگی نہیں ملتی.یہ اور نکتہ ہے جو آپ کو ضرور یا درکھنا چاہئے.بڑے سے بڑا سائنس دان ، بڑے سے بڑا فلسفی جو زمان ومکان کے مسائل کو حل کرتا ہے محض اپنی حکمتوں سے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور اگر وہ خالق تک نہ پہنچ سکے تو عالم تک جو پہنچا ہے وہ تو ایک معمولی سی بات ہے.اس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ان کائنات کے رازوں اور ان کی وسعتوں کے مقابل پر جو خدا تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہیں.ہاں اگر عالم تک پہنچ جائے الــعـــالـم یعنی خدا تعالیٰ تک، اگر خالق تک پہنچ جائے تو گویا تمام عالمین تک پہنچ گیا گویا تمام عالمین کو اس نے فتح کر لیا.یہ وہ مقام محمدی ہے جس کو قرآن کریم نے کئی پہلوؤں سے پیش فرمایا ہے.آپ اس مرتبہ تک پہنچے جہاں خدا تعالیٰ اپنی ایسی صفات کے ساتھ آپ کو دکھائی دینے لگا کہ اس سے پہلے کبھی کسی آنکھ نے اس صفائی اور اس لطافت کے ساتھ اپنے خدا کی صفات کا نظارہ نہیں کیا تھا.ان صفات حسنہ کا مظہر بنے تو آپ کا دل عرش عظیم کہلایا اور یہ جو سفر ہے یہ سوچوں کا وہ سفر ہے جس کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت آپ کو انگلی پکڑ کر لے جارہی ہے.پہلے کائنات پر غور کریں مگر اللہ کی محبت کے ساتھ.اس کے بغیر یہ سارا غور بے کار ہو جائے گا.اللہ کا پیار دل میں ہو تو جتنا جتنا کائنات کے رازوں پر آپ کو دسترس ہوگی اتنا ہی خدا تعالیٰ کی محبت آپ کے دل پر غالب آتی چلی جائے گی.یہ سوچوں کا سفر بالآخر وہاں تک پہنچاتا ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقام ہے.چنانچہ اس کے معا بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا یعنی مومن کے دل سے پھر یہ آواز اٹھتی ہے.اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَاتِنَادِى لِلْإِيْمَانِ یہ ایک حیرت انگیز ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہوا مضمون ہے.اس کی ترتیب پر غور کئے بغیر آپ اس کو سمجھ نہیں سکتے.بصارت کے سوا انسان کو شنوائی نصیب نہیں ہوسکتی.اگر بصیرت ہے اور بصارت ہے تو پھر وہ سنے کی آواز آپ سنیں گے اور اس کا جواب دیں گے.ورنہ ایک اندھا حقیقت میں جو خدا تعالیٰ کی کائنات کے رازوں کا نظارہ نہیں کر سکتا اس کو وہ آواز سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا کہ رہے ہو تم.اس کو کہا جائے کہ دیکھو خدا نے نور پیدا کیا،خدا نے رنگ پیدا کیا ، خدا نے توازن پیدا کیا وہ کہے گا مجھے تو کچھ پتا نہیں.آپ اسے کہیں کہ خدا نے اتنی وسیع کائنات پیدا کی.وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے تو اپنے جسم کے باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا.قدم رکھتا ہوں تو پتا کوئی
خطبات طاہر جلد 15 837 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء نہیں کہ گڑھے میں جاؤں گا یا کسی مضبوط زمین پر قدم رکھوں گا تو مجھے کیا اس سے.پس سمعنا کا مقام دیکھنے کے بعد آتا ہے، بصیرت اور بصارت کے بعد نصیب ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے پہلے دیکھنے کا سفر شروع کیا ہے.وہ دیکھتے ہیں ،غور کرتے ہیں، وہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں وہ نئے نتائج نکالتے ہیں.اس وقت وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں حضرت محمد رسول اللہ یہ کی آواز سنائی دے.اس وقت وہ سنتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ہاں یہ درست ہے.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِ يَا يُنَادِی لِلْإِيْمَانِ بے اختیار ان کے دل سے آواز اٹھتی ہے اے ہمارے رب ہم نے سن لیا صلى الله جب ایک منادی کرنے والے یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے منادی کی لِلْإِیمَانِ ایمان کی طرف بلا يا اَنْ أُمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا جب تک پہلے ربوبیت سے واقفیت نہ ہوئی ہو، ایمان بالغیب یہاں کام نہیں آتا.یہ مضمون ایک الگ اور وسیع اور گہرا مضمون ہے کہ ایمان بالغیب کا کیا مطلب ہے مگر یہاں اس موقع پر جو پچھلا مضمون ہے اس سے تعلق باندھا گیا ہے جہاں یہ عرض کیا تھا بندے نے کہ ربنا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا - اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک پہنچایا گیا ہے کہ ہم نے اب ایک منادی کرنے والے کو سنا.پہلے تو ہمارا تصور محض سوچوں کی راہ سے خدا تک پہنچ رہا تھا، امکانات کی دنیا میں تھا ، حقائق کی دنیا تک ابھی اس نے قدم نہیں رکھا تھا.مگر ایک حقائق کی دنیا والے نے آواز دی جو اپنے رب کے وطن سے آیا ہوا تھا یعنی رب کے وطن سے مراد ہے وہ رب جو اپنے مومنوں کی سوچوں میں بستا ہے اور جب اس تک رسائی ہو جائے تو گویا وہ خدا کا وطن بن جاتا ہے.پس خدا کا وطن اس پہلو سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کاوہ وطن تھا جس میں خدا اتر آیا تھا.پس جس نے خدا کا وطن دیکھ لیا اور پھر خدا کو دیکھنے کے بعد اترا ہو اور پھر آواز دے رہا ہو اس وقت ایمان میں ایک اور شان پیدا ہو جاتی ہے.پس اپنے دیکھنے کے نتیجہ میں رب رب کہتے ہوئے بھی یہ عرض کرتے ہوئے کہ اے خدا ہم تجھے پہچان گئے ہیں ہمیں آگ میں نہ ڈالنا ، ہم کوشش کریں گے ہم ٹھیک ہو جائیں.مگر یہ جو اقرار ہے یہ اصل اقرار اس وقت پیدا ہوا جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے یہ منادی سنی ہے کہ اے سوچوں کی وادیوں میں بسنے والو! تمہیں ابھی بھی پتا نہیں کہ رب کون ہے.وہ رب مجھ سے پوچھو، میرے ذریعے دیکھو اور میری زبان سے سنو کہ وہ رب کیا ہے.یہ آواز جب سنی تو انہوں نے کہا
خطبات طاہر جلد 15 آمَنَّا اے خدا! ہم ایمان لے آئے.838 خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1996ء تو اب دیکھیں پہلا ایمان جو کتنا مضبوط اور شاندار دکھائی دے رہا تھا عام دنیا داروں سے کتنا ممتاز کر رہا تھا ان لوگوں کو جو خدا کی یاد میں کائنات پر غور کرتے ہوئے سوچوں کے سفر اختیار کرتے ہیں ،لگتا تھا بس یہی منزل ہے اس کے بعد کوئی منزل نہیں لیکن پھر ایک وصل کی منزل آئی ہے جواندر کی راہ دکھانے والی ہے جو بتاتی ہے کہ میں ہو آیا ہوں وہاں سے جس طرف تم جار ہے ہو.میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ جھوٹ ہے اور یہ دستور آنحضرت ﷺ کی اپنی زندگی کے ہر معاملے میں تھا.ایک دفعہ مدینہ میں رات کو شور پڑا اور خطرہ تھا کہ کسی طرف سے کوئی شرارت پیدا ہورہی ہے لوگوں نے جلد سے جلد اپنی گھوڑیوں پر کاٹھیاں کسیں اور ان کو زمینیں پہنا ئیں اور جب وہ روانہ ہوئے دیکھنے کے لئے صلى الله وہ کون سی جگہ تھی.تو محمد رسول اللہ اللہ واپس آرہے تھے.تو یہ رسول اللہ ﷺ کی واپسی کا سفر تھا آپ نے ان کو بتایا کہ میں دیکھ آیا ہوں فکر کی کوئی بات نہیں جو بھی خطرہ تھا وہ ٹل گیا ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ واپس آنے والا وجود ہے جوان مومنوں کو ملتا ہے جو بھی سفر میں، ابھی رستے میں ہیں اور جب وہ کہتا ہے کہ ہاں میں خدا کو دیکھ آیا ہوں.میں نے اپنے رب کا نظارہ کیا ہے تو پھر یہ کہتے ہیں آمنا اے خدا! اب ہمیں پتا چلا ہے کہ ایمان ہوتا کیا ہے؟ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وہ آگ جس سے بچنے کی دعا مانگی گئی تھی وہ اب پوری ہوئی ہے.وہ محض ایک ایسی دعا نہیں تھی جو آپ نے مانگی اور یقین کر لیا کہ اب ہم بچ گئے.ہم نے آگ سے بچنے کی دعا مانگی ہے.اس کے پورا ہونے کی علامتیں نظر آنی چاہئیں اور وہ علامتیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پہچان ہے، آپ پر ایمان لانا ہے، آپ کے دعاوی پر ایمان لانا ہے.اس کے بعد خدا یہ دعا سکھاتا ہے ربنا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا پھر مغفرت کا سفر شروع ہوتا ہے وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا اور ہم میں تو بہت سی کمزوریاں ہیں.کمزوریوں کو دور کئے بغیر ہم کیسے تیری عقوبت سے بچ سکیں گے.اس لئے اب پہلوں کی تو مغفرت فرما دے اور آئندہ اب تو ہی ہماری کمزوریاں دور کر کیونکہ ہمیں اپنی کوششوں سے تو کمزوریاں دور ہوتی دکھائی نہیں دیتیں.بارہا انسان کوشش کرتا ہے ہر دفعہ نا کام ہو جاتا ہے.پس پر جو ایمان لانا ہے اس کا تقاضا یہ ہے جس کا مطلب ہے کہ آنحضور ﷺ میں یہ باتیں تھیں جو اپنے پر ایمان لانے والوں کو سمجھائیں کہ جس خدا تک میں پہنچا ہوں، جہاں سے ہوکر میں آیا
خطبات طاہر جلد 15 839 خطبہ جمعہ 25 را کتوبر 1996ء ہوں وہ بڑی مغفرت والا خدا ہے اور بغیر گناہوں کی بخشش کے تمہیں اس کی لقاء نصیب نہیں ہو سکتی.تم اس لقاء سے محروم رہو گے اگر پہلے بخشش نہیں کراؤ گے.کتنے گہرے راز کی بات بتائی اور خدا سے متعارف ہونے والا انسان ہی ہے جو یہ راز بتا سکتا ہے.یہ سفر کی باریکیاں محض اس بات سے تو نہیں مل سکتیں کہ انسان نے سوچا غور کیا ، خدا کی قدرت کے نظارے دیکھے اور ان سے مرعوب ہوا ، ان کے حسن سے وہ گھائل ہو گیا ،خدا کی ہستی اور اس کے حسن کا قائل ہو گیا یہ ساری چیز میں سوچوں کی باتیں ہیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر معرفت کے راز نہیں ہیں.معرفت کا راز وہی ہے جو خدا نے حضرت محمدرسول اللہ ہے صلى الله کے ذریعے ہمیں سمجھایا کہ دیکھو میں مغفرت کرنے والا ہوں جو تمہاری زندگی گزرگئی ہے کوئی نہیں جانتا کہ ساری گزرگئی ہے یا کچھ باقی ہے.ایک بچہ بھی نہیں جانتا کہ میری کتنی زندگی باقی ہے، کتنی گزرگئی ہے اور زندگی کا ہر حصہ جو گزرا ہوا ہے وہ بہت سی کوتاہیوں کا شکار ہے.بچوں کی دیکھ بھال میں جو کوتاہیاں ماں باپ سے ہو جاتی ہیں ان کا بھی نقصان بچوں کو پہنچ رہا ہوتا ہے.انسان اپنے فرائض منصبی سے جو کو تا ہی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے جو دوسری طرف توجہ پھیرتا ہے یہ بھی اس کے دل پر زنگ لگانے والی چیزیں ہیں.تو آنحضرت ﷺ نے ایک غسل کا طریق بتایا اور وہی طریق ہے جو صحابہ کی زبان سے جاری ہوارَ بَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے اللہ ہمیں غسل کی توفیق بخش.سارے گناہوں کے داغ مٹ جائیں.وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا اور نہا دھو کر جب آپ بعد میں باہر نکلیں تب بھی آپ کے جسم کی وہ کمزوریاں ، وہ بھیانک داغ جو جسم کا حصہ بن چکے ہیں وہ دھونے سے دور نہیں ہوا کرتے.وہ سیات ہیں جو ہمیشہ آپ کو کمزوریوں میں پھر بھی مبتلا کرسکتی ہیں.ایک آدمی لنگڑا ہے ، ایک آدمی کا نا ہے ایک آدمی کوکوئی اور سوچ کی طاقت نہیں ہے یہ اس کی سیات ہیں.روحانی دنیا میں انہی صل الله کو سیات کہا جائے گا.فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا کہ پھر یہ دعا کرنا یعنی حضرت محمد رسول اللہ اے کی زبان سے یہ پیغام دیا، یہ دعا کرو.اے خدا! اب ہماری کمزوریاں دور فرمادے.اور آخری بات جو مانگی گئی ہے وہ میں آپ کو بتاتا ہوں اس کو مانگے بغیر ناروے کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.جب تک یہاں جماعت احمدیہ کا بوڑھا ، بچہ، ہر مرد اور ہر عورت جب تک وہ زندگی حاصل نہ کر لیں جس زندگی کا ان آیات میں ذکر ہے اس وقت تک وہ زندگی کا کوئی پیغام ناروے کو نہیں دے سکتے.کوئی زندگی بخش رستہ اختیار نہیں کر سکتے جس سے اس مردہ ملک کو یا نیم مردہ
خطبات طاہر جلد 15 840 خطبہ جمعہ 25 را کتوبر 1996ء ملک کو زندہ کر دے.وہ یہ رستہ ہے.چنانچہ فرمایا آخری بات یہ اور کتنی گہری حکمت اور معرفت کی بات ہے کہ کمزوریاں دور کرنے کا سفر بھی تو وقت چاہتا ہے اور بعض انسان اتنی کمزوریوں میں مبتلا ہیں کہ ان کو وقت مل ہی نہیں سکتا اور عمر کے ایسے حصے میں ان کا احساس بیدار ہوا ہے جب کہ اکثر عمر کا وقت گزر گیا اور ضائع ہو گیا تو آخری دعا کیسی پتے کی کیسی گہری دعا ہے جو سمجھا دی.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اب ہمارا جو کچھ ہے تیرے سپرد ہو گیا.کمزوریاں دور کر اور کیسے دور کر اور کتنی رفتار سے دور کر یہ تیرا کام ہے.اب ہم نے تو عرض حال کر دی.ایک ہی التجاء ہے کہ مارنا نہیں جب تک کہ ہم تیرے حضور نیکوں میں نہ لکھے جائیں.یہ وہ درجہ کمال ہے جو مومن کے سفر کا ہے.جو اس طرح آغاز میں کائنات کی مردہ چیزوں پر غور کرنے سے شروع ہوتا ہے پھر زندگی کی طرف مائل ہوتا ہے.پھر اپنی طرف اور ایک نکتہ ہے جو یا در کھنے کے لائق ہے.آغاز اللہ کی محبت سے کریں گے تو سفر کامیاب ہو گا لیکن وہ محبت جو بعد میں نصیب ہوگی وہ ابتدائی درجہ کی محبت کے مقابل پر بدرجہا بہتر ہوگی کیونکہ ابتدائی محبت تو بعض دفعہ دہریوں کو بھی ہو جاتی ہے یعنی ان کو خدا کے اوپر یقین نہیں پھر بھی دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسی چیز ہو.کافروں کو بھی نصیب ہو جاتی ہے ہر مذہب والوں کے دل میں ، ہر شریف آدمی کے دل میں خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا نمک چھڑ کا ضرور ہے لیکن وہ کام الله نہیں آتی جب تک آنحضرت ﷺ سے محبت کے گر نہ سیکھیں جائیں اور آپ ہی کے حضور التجا نہ کی جائے کہ ہمیں اپنے غلاموں میں شامل کر لیں.پھر آپ کے سکھائے ہوئے رنگ اختیار کر کے جس طرح حضور نے فرمایا یعنی خدا نے آپ کو سمجھایا اور آپ نے ہمیں سمجھایا اس طرح اگر آپ سفر شروع کریں اللہ کی طرف تو اس کا انجام لازماً نیک ہوگا اور ایسے لوگوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت خدا کی طرف سے ملا کرتی ہے آپ کے اندر انقلاب برپا کرنے کی ایسی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ناممکن ہو گا دنیا کی کسی قوم کے لئے کہ وہ آپ کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی کر سکے ہر روک کو آپ عبور کر جائیں گے اور دلوں کی فتح آپ کے نام لکھی جائے گی.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.خدا کرے کہ جلد جلد ہم ناروے کے حالات کو بدلتا ہوا دیکھیں.وہ آرزو جو دیر سے، مدتوں سے میرے دل میں چٹکیاں بھرتی ہے کاش ہم یہاں Norwegian قوم کو جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتا دیکھیں.خدا کرے کہ اس آرزو کے پورا ہونے کے دن قریب تر آجائیں.آمین
خطبات طاہر جلد 15 841 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء تربیت کے مضمون اور اصلاح نفس کا سب سے زیادہ تعلق قَوْلًا سَدِيدًا سے ہے.( خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا لا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب : 72،71) پھر فرمایا: یہ دو آیات ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان سے متعلق میں تفصیلی گفتگو سے پہلے اپنے دورے کا مختصر ذکر کرنا چاہتا ہوں اور دراصل اسی تعلق میں ان آیات کی طرف ذہن پھرا ہے میں ابھی ناروے کے دورے سے واپس آیا ہوں اور رستے میں ایک دن سویڈن بھی ٹھہرنے کا موقع ملا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب جگہ میں نے جماعت میں ایک نئی بیداری کی روح دیکھی ہے، ایک نیا ولولہ دیکھا ہے اور یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ MTA نے اس میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے یعنی مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ نے تربیت کے تعلق میں بہت ہی بھاری ایک کام کر دکھایا ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے اب نوجوانوں لڑکوں لڑکیوں، مردوں اور عورتوں کے اندر سے وہ صداقت کی طرح پھوٹ رہا ہے لیکن ابھی بہت سے کام ہونے والے ہیں اور ہوں گے.انشاء اللہ.
خطبات طاہر جلد 15 842 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء میں مختصر ابتا تا ہوں کہ ان ممالک میں خصوصا جن کو سیکنڈے نیوین Countries کہا جاتا ہے ان میں دہر بیت باقی یورپ کے مقابل پر بہت زیادہ ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ جنوب سے شمال تک یورپ کا سفر کریں تو جوں جوں شمال کی طرف بڑھتے ہیں دہریت کا عنصر بڑھتا چلا جاتا ہے ہاں بیچ میں ایک ایسا جزیرہ ہے جو دہریت میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا ہے وہ سوئٹزر لینڈ ہے اور اکثر لوگوں کو علم نہیں کہ سوئٹزرلینڈ میں تمام یورپ کے ممالک سے زیادہ دہر بیت پائی جاتی ہے اور جہاں دہریت پائی جائے وہاں ایک تضاد بھی دکھائی دے گا.یورپ کے اندر شمال اور جنوب میں ایک تضاد ہے.جنوب میں مذہب کا رجحان زیادہ ہے مگر ایسے مذہب کا رجحان جس نے دہریت پیدا کی یعنی جہالت کے ساتھ ایسے عقائد سے چمٹ رہنا جن کو انسانی ضمیر قبول نہیں کرتا.انسان کی عقل ، اس کا فہم اس کو رد کرتے ہیں.یہ وہ عقائد ہیں جن کو آپ آج کل کی اصطلاح میں Fundamentalist عقائد کہتے ہیں یعنی بنیاد پرست.ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ عقیدہ ذہن اور دل کو مطمئن کرتا ہے کہ نہیں وہ اس کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں بس یہی ہمارا عقیدہ ہے اور چونکہ ایسے عقیدے سے چمٹنے کے لئے عقل کو خیر باد کہنا پڑتا ہے اس لئے اکثر یہ لوگ انتہا پسند ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ جو انتہا پسند نہ ہوں جن کا مزاج معتدل ہو، جن کا ذہن روشن ہو ان کے دو حصے ہو جاتے ہیں.کچھ تو وہ جو اس کو برداشت کرتے ہیں کہتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی.ایک وہ جو پیچھے ہٹ کر کھلم کھلا دہریت کی گود میں چلے جاتے ہیں.تو جونہی ہم جنوب سے شمال کی طرف جاتے ہیں اگر چہ دہریت بڑھتی ہے مگر عقل کی روشنی بھی ساتھ بڑھ رہی ہوتی ہے اور ضد اور تعصب مذہب کے معاملے میں، دنیا کی بات نہیں میں کر رہا، مذہب کے معاملے میں ضد نسبتا کم ہوتا جاتا ہے.اور اٹلی اور سپین اور پرتگال میں جہاں عیسائیت زیادہ زور سے قائم ہے وہاں دو انتہا ئیں ہیں یا بالکل کٹر پکے دہریہ، ایسے جنہوں نے بسا اوقات حکومتوں پہ قبضے بھی کئے اور مذہب کے خلاف کھلم کھلا علم بغاوت بلند کیا اور وہ کٹر عیسائی جن کے نزدیک عقل اور سوچ اور فہم کی کوئی طاقت نہیں ، کوئی قیمت نہیں مذہبی مسائل نہیں.مذہب الگ ہے اور عقل الگ ہے اور جب مذہب اور عقل میں آپس میں کوئی واسطہ نہ رہے تو اس کے نتیجہ میں تشدد پیدا ہونالازمی ہے.پھر ایسے لوگوں کو مذہب کے نام پر جو بھی آپ عقیدہ بتائیں گے وہ اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے تیار ہوں گے خواہ وہ دیکھتے ہوں کہ یہ
خطبات طاہر جلد 15 843 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء ظلم ہے خواہ وہ جانتے ہوں کہ یہ عقیدہ اور یہ عمل انسانی قدروں سے متصادم ہے، ٹکرا رہا ہے.جہاں ایک دفعہ عقل کو خیر باد کہہ دیا تو پھر باقی کیا رہے گا.پس یہی سلسلہ اسی طرح شمال کی طرف آگے بڑھتا ہے وہاں عقل اور فہم کو زیادہ اہمیت ہوتی چلی جا رہی ہے اور مذہب جو رڈ ہورہا ہے وہ در حقیقت عیسائیت کی بگڑی ہوئی صورت رڈ ہوتی ہے اس لئے بہت ضروری ہے کہ ہم ایسے ممالک میں حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اصل مرض کو پہچان کر اس کے مطابق اس کا علاج کریں.یہ اس صورت حال میں، اب MTA کی طرف واپس آتا ہوں کہ ہمارے بچے جو وہاں پل رہے تھے ، نو جوان جو کالجوں اور سکولوں میں جاتے تھے ان کے سامنے ایک عجیب تضاد کی صورت تھی ، ایک طرف عیسائی اپنے بگڑے ہوئے اور فرضی عقائد کی طرف بچوں کو سکول میں اپنی طرف بلاتے تھے اور یہ بھی ایک عجیب تضاد ہے ان ملکوں میں کہ عیسائیت کو اسلامی ممالک کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس پہلو سے دہر یہ بھی ہوں تو وہ عیسائیت کے فروغ میں کوشش کرتے ہیں اور حکومتیں عیسائیت کی پشت پناہی کرتی ہیں.بہت سے ایسے ان کے سربراہ یعنی سر براہ مراد ہے شعبوں کے سر براہ مجھے ملے، مختلف شعبوں کے ان کا خود کوئی عقیدہ نہیں تھا لیکن عیسائیت کو فروغ دینے میں پوری طرح وہ حکومت کی پالیسی کے ساتھ تھے.تو یہ تضادات کی دنیا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں جہاں صداقتیں مجروح ہوگئی ہیں مختلف حصوں میں بٹ گئی ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہماری وہ نسلیں جو ایسے ممالک میں پرورش پا رہی ہیں ان کے لئے کئی قسم کے خطرات ہیں.ایک ان کا یہ طریق تھا کہ عیسائیت کے وہ پہلو جو عقل کے بالکل خلاف ہیں ان سے گزرتے ہوئے جیسے بائی پاس سڑکیں بنائی جاتی ہیں،شہروں میں داخل ہوئے بغیر باہر باہر سے نکل جاؤ ، ان تمام مقامات سے گریز کرتے ہوئے عیسائیت کو اس طرح پیش کرتے ہیں محبت ہے، عفو ہے اور اس سے بہتر حسن اور کیا ہو سکتا ہے عیسی کی قربانی ہے اس نے سب کچھ اپنا بنی نوع انسان کے لئے خرچ کر دیا.تو یہ وہ مضامین ہیں جو فطرتا ہر انسان کے اندر موجود ہیں اور ان کے ساتھ ایک فطری علاقہ اور ایک تعلق ہے اور جہاں تک عیسائیوں کے عقائد کی بھیانک نامعقولیت ہے اور تضادات ہیں ان کی طرف وہ نہیں آتے بلکہ اسلام کے اندر جو ان کو تضاد دکھائی دیتے ہیں ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جرمنی میں بھی میرا یہی تجربہ ہوا.وہاں بھی بچوں سے اسلام کے خلاف ایسی
خطبات طاہر جلد 15 844 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء باتیں کرتے ہیں جو ان کے ضمیر کے مطابق مناسب نہیں ہوتیں مثلاً عورتوں پر ظلم، سفا کی ، مینی ازم ، ایک شخص نے اسلام کے خلاف کتاب لکھی کوئی اور ملک اپنے دائرہ سیاست سے باہر نکل کر باقی ملکوں کی سرحدیں پھلانگتا ہوا اس ملک میں پہنچتا ہے اور اپنا فتویٰ جاری کرتا ہے.یہ وہ ایسی باتیں ہیں جو سراسر خلاف عقل ہیں اور چونکہ اسلام کی نمائندگی کرنے والے ان باتوں میں ملوث ہو گئے ہیں اس لئے ان کو بہترین موقع مل گیا ہے اور وہ جب یہ حملہ کرتے ہیں تو ہمارے نو جوانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا.ایک یہ ان کو خطرہ عقائد کی طرف سے ہے.ایک اعمال کی طرف سے یہ خطرہ کہ جہاں جہاں دہریت بڑھی ہے وہاں وہاں جنسی تعلقات میں جو بھی پابندیاں ہیں وہ اٹھتی چلی گئی ہیں یہاں تک کہ جنسی بے حیائی بالکل ایک عام ایک مسلم چیز بن گئی جس کو اب بے حیائی سمجھا ہی نہیں جاتا.اب وہ نوجوان جو اٹھتی ہوئی عمر میں ایسے ماحول میں آنکھیں کھولتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں جن کو ایک طرف ان کے مذہب کے وہ بظاہر نقائص دکھائے جاتے ہیں جن نقائص کی تائید اس مذہب کے بڑے بڑے سر براہ ، اس دنیا میں مسلمان حکومتوں کے سربراہ وہ پوری طرح اپنے عمل سے کرتے ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں اس کا.ان کے اندر یہ تجزیہ کرنے کی توفیق نہیں کہ یہ مذہب کے داغ نہیں ہیں یہ انسانوں کے داغ ہیں جو مذہب کی طرف منسوب ہورہے ہیں.دوسری طرف جوانی کا الہڑ پن اور طبعی جذبات جو جوش میں ہوتے ہیں ان کے لئے ماحول سازگار ، جو چاہیں کریں کوئی اخلاقی اعتراض نہیں اٹھ سکتا.زیادہ سے زیادہ یہ کرنا ہوگا کہ گھر چھوڑ کر سوشل جو ان کے سٹم ہیں بچوں کی حفاظت کے نام پر ان کی پناہ لے کر اپنا دین بھی گنوائیں اپنی دنیا بھی گنوادیں اور چونکہ یہ ایک کھلی راہ ہے اس لئے خود سری کا رجحان بچوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس رجحان کو مسلمانوں میں اور ایشیائیوں میں وہ عمداً تقویت دیتے ہیں.یہ وہ خطرات ہیں جو چند ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں جن کے پیش نظر ضرورت تھی کہ ہر بچے تک ان پہلوؤں سے اصل حقیقت حال کھولی جائے ، اس مضمون کا تجزیہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا غلطیاں ہیں، اصل حقیقت کیا ہے اور یہ چیز ہر گھر پہنچ کر اور ہر بچے تک پہنچ کر ایسے الفاظ میں بیان کرنا کہ جو دلوں کو مطمئن کرے بہت مشکل کام ہے.MTA کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے جو ہمارے سوال وجواب کی بے تکلف مجالس ہیں ، دہر یہ بھی، کٹر عیسائی بھی ، دوسرے شمال
خطبات طاہر جلد 15 845 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء جنوب کے آدمی سوال کرتے ہیں اور ان کی تصویر دکھائی جاتی ہے اور سوال کا جواب سنتے ہوئے ان کے سرتائید میں ہلنے لگتے ہیں.تو ہماری نوجوان نسلوں کو ایک احمدی مربی کی باتیں اتنا مطمئن نہیں کرتیں جتنا یہ نظارہ کہ جو ہم پر اعتراض کیا کرتا تھا وہ تو خود اسلام کے حربے سے گھائل ہو رہا ہے، اسلام کی صداقت سے مرعوب ہو رہا ہے، دکھائی دے رہا ہے کہ وہ مان رہا ہے.یہ غیر معمولی طاقت ور ایک دلیل ہے جو ان نوجوانوں کو مطمئن کرتی ہے اور اسی وجہ سے MTA کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جو تبلیغی کام ہے اس کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو تربیت کے کاموں میں غیر معمولی سہولت حاصل ہوئی ہے.ناممکن تھا کہ ہر گھر میں کوئی مطمئن کرنے والا مربی پہنچ سکتا، پہنچتا بھی تو اس کے لئے مشکل تھا اور عملاً اگر آپ مربی کا نو جوانوں سے رابطہ دیکھیں جس کا میں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے تو گنتی کے چند نو جوان ہیں جن تک مربی کی رسائی ہوا کرتی ہے.وہ اپنے آزاد دائروں میں گھومتے پھرتے ہیں اور عام طور پر مربی ان کے پاس نہیں پہنچتا وہ مربی کے قریب نہیں پھٹکتے لیکن جب گھروں میں ٹیلی ویژن پہنچ جائے اور ایک ایسی اس میں قوت پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے نو جوان بھی کبھی نہ کبھی اس کو دیکھنے پر مجبور ہو جائیں اور یہ قوت پیدا ہوئی ہے بچوں کی وجہ سے.بچے تو MTA کے عاشق ہورہے ہیں ، ہر جگہ دنیا میں سوائے امریکہ کے بعض علاقوں کے اور اس تعلق میں میں قول سدید کے فقدان کی بعض مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا.اکثر ماں باپ نو جوانوں نے یہ بتایا کہ ہمارے بچے تو ٹیلی ویژن پر خاص طور پر آپ کے پروگرام آتے ہیں اردو کلاس اور اس کو انہوں نے سوشل پروگرام بنایا ہوا ہے، اردو سمجھ آئے نہ آئے مزہ بہت اٹھاتے ہیں بچے اور دوسرے جو متفرق بچوں کے نغمے لڑکیوں کے لڑکوں کے وہ ایسا کھینچے جاتے ہیں اس طرف کہ اس کے مقابل پر کوئی دوسرا پروگرام کسی کو دیکھنے ہی نہیں دیتے ، شور ڈال دیتے ہیں کہ ہم نے یہی دیکھنا ہے.تو دیکھو خدا تعالیٰ نے بچوں کے ذریعے بڑوں کی تربیت کا کیسا انتظام کروا دیا اور اکثر جب بڑے ایک دفعہ دیکھ لیں تو پھر وہ لازماً درد یکھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں پھر اور دیکھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں.ایک تو یہ پہلو تھا جس پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل سے MTA کی بہت سی برکتیں میرے مشاہدے میں آئیں اور دل بہت مطمئن ہوا اور اس یقین سے مزید بھر گیا کیونکہ یقین ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے، سچائی پر یقین بڑھتارہتا ہے ایک مقام نہیں جہاں ٹھہر جائے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی خاص تقدیر
خطبات طاہر جلد 15 846 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء سے جماعت احمد یہ عالمگیر کو ایسا انعام عطا فرمایا جس کے ساتھ اس کی زندگی وابستہ ہوگئی ہے.اگر MTA کے ذریعے ہم افریقہ کے جنگلوں تک نہ پہنچ سکتے ،اگر MTA کے ذریعے چین اور جاپان تک نہ پہنچ سکتے ، امریکہ کے مختلف گوشوں میں اور شمال اور جنوب تک نہ پہنچ سکتے تو کتنی بڑی نسلیں ہیں جو مرکز کے براہ راست دائرہ اثر سے باہر رہتیں.اگر چہ وہ ساری ابھی تک اس دائرے میں نہیں ہیں یہ کہنا مبالغہ ہوگا اور قول سدید کے خلاف ہوگا کہ یہ کہا جائے کہ سب اب تربیت کے دائرے میں آگئے ہیں بالکل غلط ہے.ابھی بہت سفر ہم نے کرنے ہیں مگر اتنے احمدی لازماً ہر ملک میں MTA کی وجہ سے احمدیت کی محبت میں پہلے سے بہت بڑھ گئے ہیں کہ آگے وہ پھر علم بردار بن گئے ہیں.اب اس وجہ سے ان جماعتوں میں جہاں ہماری براہ راست رسائی نہیں تھی ایسے نو جوان پیدا ہو گئے ہیں ایسے بوڑھے پیدا ہو گئے ہیں جو آگے پھر جماعت کی تربیت کی طرف توجہ کرتے ہیں، جو سیکھتے ہیں وہ آگے سکھاتے ہیں.پھر بہت سی تربیتی کلاسز ہیں جن میں MTA براہ راست ان کے لئے پروگرام مہیا کرتا ہے اور افریقہ کے جائزے سے پتا چلا ہے کہ بعض علاقے ، بڑے وسیع علاقے جہاں بہت سے دیہات میں کوئی بھی احمدی مربی نہیں پہنچ سکا اور افریقہ کے حالات بہت مختلف ہیں وہاں نہ سڑکوں کا صحیح انتظام، نہ مواصلات کا پورا صحیح انتظام، پھر غربت کی وجہ سے دینے کے لئے پیسے بھی نہیں اور وہاں MTA بھی نہیں پہنچ سکتا تھا.تو ان کے لئے میں نے پروگرام یہ بنایا کہ مختلف افریقن ممالک میں مختلف خطوں میں علاقوں کو تقسیم کر کے ان کے درمیانی حصے میں MTA تمام لوازمات کے ساتھ مہیا کر دیا گیا اور جماعت کو یہ تاکید کی گئی کہ اپنی تربیتی کلاسز وہاں رکھیں تا کہ دور دور سے آنے والے وہاں پہنچیں اور وہ براہ راست اس کو دیکھیں اور ان کو ایک لگن پیدا ہو جائے.چنانچہ ان تربیتی کلاسز کی جور پورٹس پہنچتی یعنی تربیت کے لئے جو ہم مدارس سے بناتے ہیں، عارضی مدارس لگاتے ہیں ان کی رپورٹوں سے پتا چلا ہے کہ چالیس چالیس پچاس پچاس میل پیدل چل کے وہاں پہنچے ہیں.اگر وہ چالیس پچاس میل تک چل کے نہ آتے تو مربی کے لئے کہاں ممکن تھا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس چالیس چالیس میل پیدل چل کے پہنچے اور جب وہ شامل ہوئے اور دیکھا تو ان کی کایا پلٹ گئی.بعض علاقوں میں تو مربی نے مجھے رپورٹ دی ہے بعض یہاں پہنچے ہیں مل کر بتایا ہے کہ دور تک ایسا خلاء تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی یہاں بڑی نسلوں کو سنبھالیں گے کیسے.ایسے علاقوں میں جہاں
خطبات طاہر جلد 15 847 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء عیسائی علاقے تھے احمدیت نے آغاز میں بڑی فتوحات حاصل کیں، ان کی آگے نسلوں میں عیسائی پادریوں نے دوبارہ نفوذ کی کوششیں شروع کیں کیونکہ ان کے پاس پیسہ بے شمار ہے، ذرائع بہت ہیں ، موٹر سائیکلیں، جیپیں، ہسپتالوں کے اخراجات برداشت کرنے کی طاقتیں تو وہاں انہوں نے دوبارہ جس طرح کنارے سیلاب میں جھڑتے ہیں اس طرح ان زمینوں کو جھاڑنا، گرانا شروع کیا اور ایک دو ایسے معاملات ہوئے جن میں ایک مسلمان عیسائی ہوا جس کی وجہ سے آزادی مذہب تو اپنی جگہ لیکن تکلیف تو بہر حال ہوتی ہے تکلیف کا رد عمل چاہے شریفانہ ہی ہو، مار پیٹ نہ ہو.مگر تکلیف یا تو اس کو ہوتی ہے جو محسوس کرتا ہے یا اگر وہ کم فہم ہو تو کسی اور کو پہنچاتا ہے، یہ فرق ہے مولوی اور غیر مولوی میں ، پادری مولوی ہو یا غیر پادری مولوی ہو، میں سب کی مولویت کی بات کر رہا ہوں.مذہبی متعصبین کی صورت میں ان کے ہاں سے ایک آدمی اچک لے اگر کوئی دوسرا لے جائے تو وہ ان کو تکلیف سرسری ہوتی ہے، اصل میں وہ اس کے نتیجے میں تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں.وہ کہتے ہیں مارکوٹ کے قتل و غارت کر کے اس کی جائیدادیں چھین کر ، اس کو حقوق سے محروم کر کے اس سلسلہ کو روکا جائے لیکن جو خدا کا سچا بندہ ہوا سے بھی تکلیف پہنچتی ہے، تکلیف کے خلاف کوئی اعتراض نہیں مگر وہ رد عمل یہ نہیں دکھاتا.خود گھلتا ہے دعاؤں کی طرف متوجہ ہوتا ہے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس کو تمام دنیا میں انسان بحیثیت انسان درست سمجھتا ہے اور وہ رد عمل جو ہے پھر وہ مقابل پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان ضائع ہوئی ہوئی زمینوں کو واپس لے آتا ہے.پس اس پہلو سے جب توجہ کی گئی تو میں نے ان کو خاص طور پر کہا کہ ایسے لوگوں کو براہ راست مقابل پہ تبلیغ کرنے کی بجائے ان کو اپنے ساتھ لائیں ، ملائیں جلائیں ، احمدی ماحول میں لے کے آئیں اور ان پر چھوڑ دیں کہ وہ خود فیصلہ کریں.چنانچہ کل ہی رپورٹوں میں یہ رپورٹ ملی کہ بعض جو کسی زمانے میں بہت ہی با اثر احمدی تھے اور با اثر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وہ عیسائی تو نہیں ہوئے مگر عملاً پیچھے ہٹ گئے تھے، خاموش ہو گئے تھے ، کہتے ہیں جب ان مجالس میں آئے جہاں MTA کے پروگرام دکھائے گئے جہاں خاص طور پر علماء نے ان کی خاطر بعض مقامی پروگرام بھی تیار کئے تو ان کی کایا پلٹ گئی.بعض ان میں سے یہ عہد کر کے واپس لوٹے ہیں کہ ہمارے علاقے میں جتنی زمینیں کھوئی گئی ہیں ہم نے ایک ایک چپہ واپس لینی ہیں اور اس پہ اضافہ کرنا ہے اب یہ ہم پر چھوڑ
خطبات طاہر جلد 15 848 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء دیں، ہم یہ خدا سے عہد کر کے واپس جارہے ہیں تو یہ برکت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے MTA کی وجہ سے ہمیں نصیب ہوئی.دور دور جنگلوں میں بھی اس کو پھیلا دیا گیا ہے.تو یورپ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو نو جوان نسلوں کے سنبھالنے کا انتظام ہوا ہے اس میں MTA نے بہت گہرا کام دکھایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تربیت میں یہ ایک بہت ہی مفید چیز ثابت ہوئی ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑا فائدہ ان لوگوں میں یہ ہے کہ کثرت سے میں نے بچوں کو MTA کے کاموں میں مصروف دیکھا ہے.جس نے ایک نغمہ پڑھنا ہے وہ اس کی تیاری بھی کرتا ہے.وہ جو پہلے زیادہ مسجد میں نہیں آتا تھا وہ اب سٹوڈیو میں اپنا نغمہ تیار کرنے کی خاطر پہنچتا ہے اور پھر ساری خدمتیں ، چونکہ ایک بھی پروفیشنل ہم نے ملازم نہیں رکھا ہوا، سب طوعی ہیں اس لئے کثرت کے ساتھ نو جوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے اپنے دائرے میں ایک دوسرے سے ملے جلے بغیر تا کہ ایک دوسرے کی عزت کی اقدار کی حفاظت ہو سکے وہ اپنی اپنی ٹیموں میں کام کر رہے ہیں اور اتنا خوش ہیں کہ درخواستیں آتی تھیں ہر جگہ کہ ہمیں بھی شامل کیا جائے ، ہمیں بھی شامل کیا جائے.ایک بھی درخواست یہ نہیں آئی کہ اتنا بوجھ ڈال دیا آپ نے ہمیں واپس کر دیں.اور پھر اللہ کی شان یہ ہے کہ جو بھی MTA کے کاموں میں آگے ہیں تعلیم میں سب سے اچھے نتائج ان کے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ایسے نتائج میرے سامنے رکھے گئے کہ نارو بیجین زبان میں سارے علاقے میں وہ پاکستان سے آئے ہوئے احمدی اول آگئے اور نارو تکین بچے پیچھے رہ گئے.تو یہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انعامات کے سلسلے ہوتے ہیں یہ مربوط ہوتے ہیں، ان کے فوائد کسی ایک جہت میں نہیں ہوتے.صرف عالمی نہیں بلکہ اندرونی طور پر ان کے اندر بہت سی برکت کی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں اور یہ زندگی کی علامت ہے.زندگی اور موت میں یہی فرق ہے.موت پھوٹتی نہیں ہے.اس کی شاخیں نہیں بنتیں.زندگی شاخیں بناتی ہے اور نشو و نما پاتی ہے پھر اگر زہر یلے درخت ہوں تو وہ بھی کرتے ہیں ایسا زور مارتے ہیں اور جو کلمہ طیبہ ہو اس کا شجر بھی خوب پھوٹتا ہے، پھولتا ہے، پھلتا ہے.تو جماعت کو اللہ تعالیٰ نے MTA کے ذریعے کثرت سے ایسے نوجوان عطا کر دیئے ہیں کہ MTA کی ایک پھولنے پھلنے والی سرسبز شاخ بن گئے ہیں اور ان کاموں میں ملوث ہونے کی وجہ
خطبات طاہر جلد 15 849 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء سے ان کی تربیت ہو رہی ہے ان کو باہر کی ہوش ہی کوئی نہیں رہی.اب بجائے اس کے کہ مائیں کہیں ہماری بچیو! تم کہاں جاتی ہو، کیوں بداثر قبول کرتی ہو اپنی سہیلیوں سے، الٹا ما ئیں ان سے شکوہ کرتی ہیں کہ اپنے لئے بھی تو وقت رکھو تم نے سب کچھ ہی دین کو دے دیا ہے.مگر جو سمجھ دار مائیں ہیں وہ شکوہ نہیں کرتیں ، وہ مسکراتی ہیں، خوش ہوتی ہیں.تو یہ ایک بہت ہی وسیع فائدہ ہے جو ہمیں پہنچ رہا ہے.اب میں اس مضمون کو واپس اس آیت کی طرف لے کے آتا ہوں جس کی میں نے تلاوت کی تھی.تربیت کے مضمون کا اور اصلاح نفس کا سب سے زیادہ تعلق قول سدید سے ہے اور قرآن کریم نے جہاں جھوٹ کے خلاف غیر معمولی قوت سے جہاد کیا ہے وہاں قول سدید کو جو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی محبت اور پیار اور حیرت انگیز برکتوں کا موجب قرار دیتے ہوئے اس آیت میں بیان کیا ہے اس کی اور مثال کہیں اور دکھائی نہیں دیتی اور بہت گہر انفسیاتی مسئلہ ہے جو یہاں بیان ہوا ہے.یہاں جھوٹ اور سچ کا مقابلہ نہیں ہے، یہاں سچائی کی اعلیٰ قسموں کا بیان ہے.سچائی بھی پھوٹتی ہے اور اس سے لطیف تر سچائیاں پیدا ہوتی ہیں اور سب سے اعلیٰ سچائی کی قسم اور قول سدید ہے.پس قول سدید اپنی جگہ ہر انسان کی اعلیٰ اقدار کا محافظ بن جاتا ہے.پس MTA کا پیغام تو ایک بیرونی پیغام ہے جو دلوں تک پہنچتا بھی ہے اور تبدیلیاں بھی پیدا کرتا ہے مگر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بعض دفعہ یہ تبدیلیاں نفس کو دھو کہ بھی دے دیتی ہیں.مثلاً ایسے نوجوان جو ان کاموں میں وقف ہیں انہی میں ایسے بھی ملیں گے جو نماز نہیں پڑھ رہے.تو نیکی میں تو تضاد ہو نہیں سکتا.یہ ان کا فعل قول سدید کے خلاف ہے.اگر دین کی محبت کی وجہ سے انہوں نے اپنے قیمتی وقتوں کو MTA پر یا اسی طرح کے دوسرے دینی کاموں پر خرچ کیا تو دین کی محبت کا اوّل تقاضا تو یہ تھا کہ نماز پر قائم ہو جائیں.اور قول سدید سے مراد محض زبان کا قول نہیں ایک عمل کی تصویر ہے جو قول سدید کی اصطلاح میں بیان فرمائی گئی ہے.ایسے لوگ تضادات سے پاک ہوتے ہیں ان کے اندر بل نہیں ہوتے.بلوں میں چیز کو چھپایا جاتا ہے اور جب وہ کھل جائے ، بل دور کر دیں تو اصل چیز پھر خوب کھل کر سامنے آتی ہے.تو انسانی فطرت میں جو بل دینا اپنی نیتوں کو ، اپنے اعمال کو ، یہ ایسے داخل ہے جیسے سانپ کی فطرت میں بل دے کر بیٹھنا ہے اور یہ قول سدید کے خلاف ہے.جو خدا تعالیٰ نے مثلاً بائیل میں واضح طور پر نفس کے ساتھ شیطان کو مشابہت دی ہے اور شیطان کا دوسرا نام سانپ رکھا ہے
خطبات طاہر جلد 15 850 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء اس میں بنیادی طور پر یہی مقصد پیش نظر ہے کہ دیکھو سانپ بل والا جانور ہے اور چھپ کر بل دے کر بیٹھتا ہے، اپنے جسم کو سکیٹر کر جب حملہ کرتا ہے تو جس پر حملہ ہوتا ہے اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ کہاں سے حملہ ہوا اور کیوں ہوا.اچانک ان بلوں میں لیٹی ہوئی چیز کی طرف سے ایک بڑا سخت حملہ ہوتا ہے اور پیشتر اس کے کہ انسان کو خبر ہو وہ ڈسا جاتا ہے اور زہر اپنا اثر دکھا دیتا ہے لیکن سانپ ہی کے اندر ایک اور بات بھی ہے جب یہ کھل کر حملہ کرتا ہے تو سیدھا ہو جاتا ہے اور کوئی بل نہیں رہتا پھر.تو بل دینا چھپانے کے مترادف ہے.بل فریب ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.میں نے خود دیکھا ہے سانپ کو حملہ آور، وہ یوں لگتا تھا جیسے دم کے کنارے پر کھڑا ہو گیا ہے ، حیرت ہوتی تھی دیکھ کر.ایک دفعہ غلطی سے ایک پتھر کے گرد لپیٹے ہوئے بہت بڑے سانپ کو میں نے درخت کی جڑ سمجھ لیا اور جڑ سمجھ کے وہ چونکہ اچھی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی میں نے کہا اس کو کھینچتا ہوں اس کی سوٹی بنائیں گے اور جب ہاتھ ڈال کے کھینچا ہے تو سانپ کھڑا ہوا ہے اتنا اونچا کہ میرے قد سے دگنا تگنا اونچا تھا اور لگتا تھا بالکل دم کے کنارے پر کھڑا ہے.حیرت تھی کہ یہ نرم لوچ والا جسم اس طرح سیدھا کیسے ہوسکتا ہے مگر چونکہ کھل کر اس نے حملہ کرنا تھا، اس وقت اس کو بلوں کی ضرورت نہیں تھی جتنے کو برے حملہ کرتے ہیں وہ یوں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھڑے ہو کر سامنے سے حملہ آور ہوتے ہیں.کمینے دشمن کو بھی جب آپ چھیڑیں ، جب انہیں مجبور کریں کہ جو کچھ ہو ظاہر کرو تو پھر جب وہ کھل کر حملہ کرتے ہیں تو تب آپ بعض دفعہ حیران رہ جاتے ہیں کہ اس بد بخت میں اتناز ہر چھپا ہوا تھا.اس نے تو اپنے بلوں میں ہمیں پتانہیں لگنے دیا، نرم لوچ والا جسم ، بل کھایا ہوا ، دیکھنے میں خوبصورت ، جو درخت کی جڑ تھی وہ تو زہریلا سانپ نکلا.تو انسانی فطرت میں جو بل دینے کا مضمون ہے یہ اس کی اصلاح کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اسی لئے شیطان کو انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا گیا.اس کے بلوں میں جو فریب کا پہلو ہے اس طرح حملہ کرتا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا اور اگر اس کو کھولو گے تو پھر وہ کھل کر سامنے آئے گا پھر دو بدو لڑائی ہوگی پھر وہ دشمن اگر مارا گیا تو پھر ہمیشہ کے لئے مارا جائے گا.تو اپنے نفس کو اس شیطان کی طرح سمجھیں جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ آپ کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور وہ کیسے دوڑ رہا ہے قرآن فرماتا ہے تم اس کو دیکھ نہیں رہے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.دیکھیں بالکل سانپ والی کیفیت جو چھپ کے بیٹھا ہوا ہے آپ اسے دیکھ بھی نہیں رہے
خطبات طاہر جلد 15 851 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء ہوتے اور وہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے.ان جھاڑیوں کے بیچ میں سے اس کی چھوٹی سی آنکھ اس وقت آپ کو دکھائی نہیں دیتی لیکن کھلتا تب ہے جب حملہ کرنا ہو.وہ ایک دم اپنے بل کو کھولتا ہے اور پھر آخری وار کر دیتا ہے.تو اسی طرح نفس کا حال ہے.وہ حملہ کرتا ہے اس وقت جب تک آپ کو دکھائی نہیں دے رہا ہوتا.جب حملہ ہو جائے تو وہ حملہ آپ پر اثر انداز ہو جاتا ہے پھر اس کے چھپنے کی ضرورت نہیں.اگر نفس کا حملہ آپ کو بے حیا بنا دے تو پھر اس کو چھپنے کی کیا ضرورت ہے پھر وہ بے حیائی کا سانپ کھل کے سامنے آجاتا ہے اور آپ اس کے ہم نوا ہو کر پھر آگے بڑھتے ہیں.قَوْلًا سَدِيدًا کے اوپر قرآن کریم نے جو زور دیا ہے یہ ہمارے سب نیک کاموں پر حاوی ہے اور MTA بھی اس سے مستقلی نہیں ہے.MTA ایک نیک کوشش ہے مگر اس کوشش میں حصہ لینے والے ہمیشہ اس معاملے میں خبر دار رہنے چاہئیں کہ ہم جو کوشش کرتے ہیں کیا واقعہ اللہ کی خاطر ہے یا اس میں نفس کا دکھا وا آ گیا ہے اور نفس کے دکھاوے کے MTA میں زیادہ امکانات ہیں بہ نسبت دوسری کوششوں کے.کیونکہ ایک بچہ اپنی آواز کو MTA کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچا دیتا ہے اور دکھائی بھی دے رہا ہوتا ہے اس لئے اتنا شوق پیدا ہو گیا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بچے کی تصویر ہے اور یہ اس نے خط لکھا ہوا ہے آپ کے نام، اس تصویر کے ساتھ اس خط کو MTA پر پڑھ کے سنائیں.اب اس میں نیکی کون سی ہے.صرف جماعت کو جواللہ تعالیٰ نے ایک عالمی مواصلات کا ایک عظیم الشان رعب عطافرمایا ہے اور توفیق عطا فرمائی ہے اس سے غلط استفادے کے لئے ایک رجحان ہے یعنی اس کی نیت میں.اس سے آپ یہ نہیں کہہ سکتے گناہ شامل ہے مگر وہ سرزمین جہاں گناہ پلتے ہیں اسی سرزمین سے یہ خواہش اٹھی ہے.کیا مطلب ہے؟ ساری دنیا میں جماعت اتنی قربانیاں دے رہی ہے اتنا پیسہ قربان کر رہی ہے وقت قربان کر رہی ہے کہ ایک عورت کا بچہ وہاں دکھا دیا جائے اور اس کا مقصد پورا ہو جائے.ساری عورتوں کے بچے دکھا دیئے جائیں تو لوگ MTA دیکھنا ہی بند کر دیں گے کیونکہ ایسی تصویروں کی کثرت جن میں ذاتی کوئی دلچسپی نہ ہو وہ لوگوں کو متنفر کر دیتی ہے.اب آپ سب لوگ لندن والے ”جنگ“ پڑھتے ہیں اکثر اور ایک صفحہ اوپر سے نیچے تک مولویوں کی تصویروں سے کالا سیاہ ہوا ہوتا ہے کبھی آپ نے ایک ایک کو دیکھا ہے غور سے؟ سرسری نظر ڈالتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں تو آپ یہ پچاس مولویوں سے تو اتنا بیزار
خطبات طاہر جلد 15 852 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء ہو جاتے ہیں اگر پانچ ہزار یا پانچ لاکھ بچے MTA پر دکھائے جائیں تو چونکہ اس رجحان میں مولویت ہے کہ دکھاوا ہو، اتنے مولوی تو آپ برداشت کر ہی نہیں سکتے ، MTA بند ہو جائے گی.تو MTA کے ساتھ جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں اور نقصانات کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں دکھاوا پیدا ہو جاتا ہے اور جہاں دکھاوا دین کے بنیادی فرائض پر اثر انداز ہو جائے وہاں شرک ہو جاتا ہے.پس MTA کی ٹیمیں اگر کام کر رہی ہیں، عصر کی اذان ہوئی ہے یا ظہر کی جو بھی نماز ہو اور مسجد میں ایک طرف بیٹھے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں جی ہم دین کا کام کر رہے ہیں اس لئے کوئی ضرورت نہیں وہاں جانے کی یہ تو سراسر شرک ہے اور نفس کا بہت بڑا دھوکہ ہے کہ دین کا کام کس لئے کر رہے ہو.اس لئے کہ عبادت قائم کرو اور جو دین کا کام عبادت کی راہ میں حائل ہو اس کو دین کا کام کہہ کیسے سکتے ہو.صرف جھوٹ ہے اور نفس کا دھوکہ ہے.وہی بل فریب ہے نیتوں کا جو پتا نہیں لگنے دیتا کہ کیا اصل بات ہے.تو قرآن کریم نے نہ صرف سچ پر زور دیا بلکہ قولًا سَدِيدًا پر زور دیا ہے اور یہاں لفظ سَدِيدًا خاص معنے رکھتا ہے.جیسے میں نے بیان کیا جب ایک دشمن بھی کھلے تو سیدھا ہونا پڑتا ہے اس کو، فریبوں کا دور بلوں کا دور ہے اور جب سَدِيدًا ہو جائے تو پھر دھوکہ نہیں ہوسکتا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ کی جماعت تو قول سدید کے لئے پیدا کی گئی ہے.محض تمہارا یہ سمجھ لینا کہ تم سچ بولتے ہو اور کھلم کھلا جھوٹ نہیں بولتے یہ تمہارے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ تمہاری اصلاح کے تقاضے بہت بلند ہیں.اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چلنا ہے اور ان سے فیض پانا ہے تو قول سدید کولا ز ما ایک دائمی عادت کے طور پر اپنانا ہوگا اور قول سدید والا اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ میری بات سے کس کو دھو کہ تو نہیں ہو گیا.ایک بات بیان کر رہا ہے اس سے خواہ مخواہ اس کی نیکی کا رعب پڑ گیا اور اس کا مقصد یہ نہیں تھا.جو قول سدید نہیں کرتا وہ خوش ہوگا کہ چلو الحمد للہ ساتھ یہ بھی مسئلہ طے ہوا لیکن جو قول سدید کا عادی ہے وہ متنبہ ہو جاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ دیکھو اس میں میرے نفس کی کوئی خوبی نہیں ہے دھو کہ نہ کھا جانا یہ اصل مسئلہ یوں ہے.یہ وجہ ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک صورت پیدا ہوئی تو یہ عادت ہے جو رفتہ رفتہ دل کے اندر روشنی پیدا کر دیتی ہے اور اس روشنی کے بغیر آپ اپنے نفس کے بل اور فریب کو دیکھ نہیں سکتے.صلى
خطبات طاہر جلد 15 الله 853 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء بلوں کا تعلق اندھیروں سے ہے.سانپ کو جن اس لئے کہا گیا ہے اور جن اس کا عربی میں نام ہے ، جان اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ چھپا رہتا ہے اور روشنی ہر چھپے ہوئے گوشے کو ظاہر کر دیتی ہے اور کھول دیتی ہے.پس قول سدید ہے جو روشنی پیدا کرتا ہے اور اندرونی روشنی پہلے پیدا کرتا ہے اور بیرونی روشنی اس کے بعد اس سے پھوٹتی ہے اسی میں نور کا مضمون شامل ہے.نور کی حکمت آپ کو اس کو سمجھے بغیر سمجھ نہیں آسکے گی.جب آپ صاف ہو جائیں اور سیدھے ہو جائیں اور اس بات پر مستعد رہیں کہ میری وجہ سے کسی کو دھوکہ نہ ہو اور اگر دھو کے کا خطرہ ہو تو آگے بڑھ کر اس کا دھوکہ دور کرنے کی کوشش کریں اور آنحضرت ﷺ کا بینہ یہی اسوہ تھا ، جہاں کسی شخص کے متعلق یہ خطرہ محسوس کیا کہ اسے نفس کے متعلق کوئی دھو کہ تو نہیں ہو گیا وہاں ٹھہر کر اس دھو کے کو دور کیا ہے اور اس قول سدید کا حق ادا کر کے پھر آگے بڑھے.ایک اور موقع پر ایک بدوی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے رعب اور جلال سے تھر تھر کانپنے لگا، اس پر لرزہ طاری ہو گیا.آنحضرت ﷺ نے بڑے تحمل اور پیار سے اس کو کہا دیکھو بھائی میں بھی تمہاری طرح ایک بندہ ہوں، ایک بشر ہوں مجھ سے ڈرو نہیں اور یہ فقرہ کہ میں بھی ایک بڑھیا کے پیٹ سے پیدا ہوا، بڑھیا کا لفظ ان معنوں میں کہ خاتون تھی جس کے اندر کوئی طاقت نہیں ہوتی.یہ بات سن کر تو اس کو کچھ حوصلہ ہوا پھر آپ نے آگے بات شروع کی اور اگر وہ یہ سمجھتے نعوذ باللہ من ذالک جو سمجھ سکتے ہی نہیں تھے کہ بڑی شان ہے اور بڑا میرا رعب ہے یہ رُعب کے نیچے آ گیا ہے اب میں جو کہوں گا اس کو قبول کرے گا تو یہ ایک نفس کا دھو کہ تھا جس دھو کے میں آنحضرت یہ بھی بھی ایک لمحہ کے لئے بھی مبتلا نہیں ہوئے اور جو اس دھوکے میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو دھوکوں سے نجات بخش ہی نہیں سکتا.پس قول سدید کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کے متعلق اگر باخبر رہیں اور سیدھے رہیں اور اپنے نفس کا غلط تاثر نہ پڑنے دیں تو یہ وہ سچ ہے جو حیرت انگیز طور پر دنیا کو مرعوب کرتا ہے.یہاں جو رعب ہے کسی کی بشری عظمت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سچائی کی عظمت کی وجہ سے ہے اور آنحضرت ﷺ کا سب سے بڑا رعب اس قول سدید میں تھا.بات سیدھی اور صاف اتنی طاقتور کہ وہ دلوں کو بلکہ قوموں کو مرعوب کرتی تھی آئندہ زمانوں کو مرعوب کرنے والی باتیں تھیں.حدیثیں پڑھ کے دیکھیں بعض چھوٹی چھوٹی نصیحتیں ہیں جیسا کہ یہ مثال میں نے ایک دی ہے قیامت تک اس کی
خطبات طاہر جلد 15 854 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء طاقت ختم نہیں ہوگی کیونکہ سچائی کی طاقت ہے اور سچائی بھی وہ جو قول سدید ہے.تو قول سدید کو آپ اختیار کریں تو آپ کے نفس کی صرف اصلاح نہیں ہوگی آپ کی باتوں میں طاقت آئے گی اور پھر لوگ سنیں گے اور سنیں گے اور اس سے مرعوب ہوں گے اور اسے ماننے پر مجبور ہوں گے.چنانچہ اسی دورے کے عرصے میں بار بار میرے سامنے یہ باتیں پیش کی گئیں کہ جی ہم تبلیغ تو کرتے ہیں مگر یہ تو میں ایسی ہیں دہریت میں اتنا آگے نکل گئی ہیں کہ ان پر اثر نہیں ہوتا.ان سے میں نے کہا میں یہ مان ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے.ساری دنیا میں تو خدا نے اثر کی ہوائیں چلادی ہیں ، آندھیاں بن گئی ہیں وہ عظیم انقلاب برپا ہورہے ہیں اللہ تعالیٰ کو بس ناروے اور سویڈن سے ہی دشمنی تھی کہ یہاں اثر نہ ہو.یہ بالکل وہم ہے تمہارا.قول سدید اور حکمت، یہ دو تقاضے ہیں ان کو اگر پورا کرو تو یہ قو میں ضرور اثر قبول کرتی ہیں کیونکہ جہاں میں نے ان کی دہریت دیکھی وہاں دہریت کے نتیجہ میں ، جود ہریت سچائی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی تھی ان کے اندرسچائی کی طرف رجحان بھی دیکھا ہے.اب یہ بظاہر تضاد ہے مگر کوئی تضاد نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ سچائی جھوٹے عقائد کو قبول کر ہی نہیں سکتی.ان کی بغاوت خدا کے خلاف نہیں تھی ، ان کی بغاوت تثلیث کے خلاف تھی اور تثلیث کے خلاف بغاوت کو خدا کے خلاف بغاوت قرار دینا ظلم ہے لیکن چونکہ ان کے پاس متبادل نہیں تھا اس لئے سمجھے کہ تثلیث ہی خدا ہے اور یہ خدا قابل قبول نہیں ہے ، اس کو انہوں نے رد کر دیا.مگر جو ان میں زیادہ بڑے دانشور تھے انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا کہ تثلیث خدا نہیں ہے، تثلیث رڈ ہوگی ، خدار نہیں ہوگا.چنانچہ میں نے ناروے کو یہ سمجھاتے ہوئے نیوٹن کی مثال دی تھی کہ دیکھو نیوٹن اس دور کی سائنس کا جدامجد ہے.تمام عظیم سائنس نیوٹن سے پھوٹی ہیں ، اس کی فکر و نظر سے اور وہ ایک موحد تھا ، ایک ایسا موحد جو عمر کے ایک بڑے حصے تک تثلیث کو اس لئے مان رہا تھا کہ اس نے ورثے میں پائی تھی مگر چونکہ سچا انسان تھا ، اگر سچا نہ ہوتا تو اتنی بڑی حکمت کے راز اس کو کبھی معلوم ہی نہ ہوتے.ایک دن اس کو خیال آیا کہ میں کیا مانگ رہا ہوں ، یہ تثلیث اس کا ئنات سے متصادم ہے.میں نے جس کے راز معلوم کئے ہیں وہ تو خدا کی گواہی دے رہی ہے، یہ تثلیث کہاں سے آگئی بیچ میں.وہ دہر یہ نہیں بنا.اس نے کہا یہ عیسی پر الزام ہے کیونکہ وہ سچا تھا.اگر وہ سچا تھا تو لازماً موحد ہوگا اس لئے میں مطالعہ کروں گا اور
خطبات طاہر جلد 15 855 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء Old Testament یعنی عہد نامہ قدیم سے عہد نامہ جدید کا موازنہ کر کے معلوم کروں گا کہ کیا حقیقت ہے اور کیا جھوٹ ہے.اس نے موازنہ کیا اور اپنی ڈائری میں وہ نوٹ کیا کرتا تھا اور وہ نوٹ اس کے ایک بائیو گرافر کے ہاتھ میں آگئے اس نے اس پر کتاب شائع کی ہے اور حیرت انگیز صفائی کے ساتھ وہ موحد بندہ خدا کا ، اس مضمون کو بھانپ گیا کہ تثلیث اور اس قسم کے جھوٹے عقائد بعد میں آنے والے لوگ اپنے مذہبوں کی طرف منسوب کیا کرتے ہیں ، مذہبوں کے بانی کبھی بھی ایسے بے ہودہ اور لغو عقائد کے قائل نہیں ہو سکتے.بڑے مضبوط دلائل اس نے دیئے، بڑے مضبوط دلائل اندرونی بائبل کے موازنے کے وقت دیئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ یہ جھوٹا فقرہ ہے، اس کا یہ مطلب تھا ہی نہیں جو اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے.تو وہ جب اس نے اپنار د عمل دکھایا تو اس کو یو نیورسٹی کی کیمبرج کی پروفیسر شپ سے، چیئر سے مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا یعنی نکال دیا گیا عملاً اس کو ، استعفیٰ تو نام کے ہوا کرتے ہیں مراد یہ ہے کہ ہم تمہیں نہیں رکھیں گے ، عزت چاہتے ہو تو آپ ہی باہر ہو جاؤ اور اس کا گزارہ سارا اس پر تھا اس نے کوئی پرواہ نہیں کی.تو سچائی ہے اصل بات جس کی طرف میں بار بار آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.سچائی میں اگر قول سدید ہو تو پھر قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور قول سدید ہو تو اس میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے.ایسے یورپ میں بہت سے دانشور تھے جو بچے تو تھے مگر پر واہ بھی نہیں انہوں نے کی کہ ہمارے سچ کو پہچاننے کے باوجود دنیا جہالتوں میں مبتلا ہے.چرچوں سے اور بعض انتہا پسند یو نیورسٹیوں سے جو اس زمانے میں عیسائیت کے قبضے میں تھیں تثلیث کی تعلیم دی جارہی ہے ہمیں کیا اس سے، یہ کہہ کر چپ کر کے بیٹھے رہے.اس چیز سے نہ ان کے عمل کی اصلاح ہو سکتی تھی نہ قوم کے عمل کی اصلاح ہو سکتی تھی اور قرآن کریم نے یہی مضمون ہے جو کھولا ہے کہ سچائی کافی نہیں.اگر آپ ان سے انفرادی طور پر پوچھتے وہ ایسے بے شمار تھے جو سمجھتے تھے کہ یہ جھوٹ ہے، انہوں نے مذہب میں دلچسپی لینی چھوڑ دی لیکن سچائی کے لئے ایک منگی تلوار بن کے اٹھ کھڑے ہونا، اس کو قول سدید کہتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے تو یورپ کی کبھی سے اصلاح ہو چکی ہوتی مگر انہوں نے یہ قربانی نہیں دی اور اس قربانی کے بغیر اور قَوْلًا سَدِيدًا سے چھٹے بغیر اصلاح ممکن نہیں ہے اور اپنے نفس میں ممکن نہیں، اپنے تعلقات میں ممکن نہیں.
خطبات طاہر جلد 15 856 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء میں بارہا جماعت کو متنبہ کر چکا ہوں اب پھر کرتا ہوں آئندہ بھی کرتا رہوں گا کیونکہ اس کی ضرورت بہت ہے، اپنی سوچوں میں پہلے بل نکالیں اور اپنی ذات سے سیدھے ہو جائیں، پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اصلاح نفس ہوتی کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.يَآيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا.اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اس کا نتیجہ یہ ہے قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا سچی بات نہیں، سیدھی بات کہنے کے عادی بن جاؤ.صاف ستھری سیدھی بات، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، فرمایا اللہ وعدہ فرماتا ہے.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ تم سے تو اپنے اعمال کی اصلاح نہیں ہوتی اگر تم قول سدید کو پکڑ لو تو خدا وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہارے اعمال کی اصلاح کروں گا اور یہ جو وعدہ ہے یہ قانون کی صورت میں بھی جاری ہے اور ایک بالا رادہ فعل کی صورت میں بھی رونما ہوتا ہے.قانون فطرت سید ھے لوگوں کو ہمیشہ اصلاح کے رستے پر ڈال دیتا ہے جو صاف اور سیدھی بات کرنے کے عادی ہوں جو اپنی آنکھ سے بھی اپنی برائیوں کو نہ چھپائیں اور اپنی کوئی ایسی شخصیت غیر پر ظاہر نہ کریں جس کے وہ مالک نہیں ہیں.اس کا اور بعض کمزوریوں پر پردے ڈالنے کا مضمون الگ الگ ہے وہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی کی کمزوری کو اچھالنا اور ظاہر کر نا قرآن اس کو فحشاء کہتا ہے.پس اس فرق کو سمجھیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں اچھا قول سدید ہے تو عورتیں بعض کہتی ہیں ہم نے ساری عمر خاوند کے گھر جانے سے پہلے جو بدیاں کی تھیں ہمارا فرض ہے خاوند کو بتادیں اور اس فرض کے نتیجے میں ان کی زندگیاں برباد اور خاوندوں کی زندگیاں برباد.جو بات کسی کو پوچھنے کا حق نہیں ہے عجیب خدا نے عدل قائم فرمایا ہے وہ تمہیں بتانے کا بھی حق نہیں ہے.وہ اندرونی معاملات جن میں خدا تعالیٰ نے دوسرے کو کریدنے کی اجازت نہیں دی تجسس کی اجازت نہیں ، وہاں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تم سچائی کے نام پر ان کو خود بیان کرو گے تو یہ بے حیائی ہوگی اور اس کی سزا پاؤ گے، ایک بڑا جرم ہے.تو یہ میں بار بار غلط فہمی دور کرتا ہوں اس کو اچھی طرح سمجھ لیں.بالا رادہ اپنی اس شخصیت کو دنیا پر ظاہر کرنا جو شخصیت نہیں ہے، اپنے اس حسن کو حسن بنا کر دکھانا جو حسن نہیں تھا ، بالا رادہ فریب کے ساتھ اپنی کمزوریوں پر پردے ڈالنا جھوٹ کے ذریعے، یہ چیزیں ہیں جو قول سدید کے خلاف ہیں اور
خطبات طاہر جلد 15 857 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء وہ جرائم جن کی میں بات کر رہا ہوں جو شاذ کے طور پر رونما ہوتے اور اکثر انسان ان کے اوپر سے خود پردے اٹھاتے بھی نہیں ہیں لیکن اپنے اندر سے جو پردے اٹھاتے ہیں وہ ان چیزوں سے اٹھاتے ہیں جو ان کے اندر ہیں نہیں اور جو کمزوریاں ہیں ان پر جان کر پر دے ڈالتے ہیں اور چھپاتے ہیں اور اس وقت بھی چھپاتے ہیں جب تحقیقات کا موقع ہو اور لازم ہے کہ وہ ظاہر کریں اور پھر جو اچھی باتیں اور نیک باتیں ان کے علم میں آئیں ان کو وہ برمحل قول سدید کے مطابق جن تک پہنچانی چاہئیں ان تک نہیں پہنچاتے اور قول سدید کے خلاف یہ عمل کرتے ہیں کہ جہاں نہیں پہنچانی چاہئیں وہاں وہ پہنچاتے ہیں اس سے لذت حاصل کرتے ہیں.جتنا بھی سوسائٹیوں میں پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے اور کسی شخص کے متعلق ایک طرف سے بات سن کر دوسرے کو بیان کرنا کہ اس میں تو یہ بھی کمزوری ہے، یہ بھی کمزوری ہے ، وہاں باتیں کرنا جہاں ان کا تعلق ہی کوئی نہیں اور جہاں ضروری تھیں پہنچانی وہاں نہیں پہنچاتے ، اس کے نتیجے میں اصلاح ممکن ہی نہیں رہتی.ایسی سوسائٹیاں جہاں ایسے اڈے بن جائیں کبھی بھی ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور ہمیشہ بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر آپ کے علم میں ایسی بات آئی ہے جو نظام جماعت کی کمزوری ہے یعنی نظام جماعت میں وہ کمزوری نہیں ہونی چاہئے لیکن نظام جماعت چلانے والوں نے پیدا کر دی ہے قول سدید کا تقاضا یہ ہے کہ آپ نظام جماعت کے ان بالا افسروں تک اس بات کو پہنچا ئیں جنہوں نے اصلاح کرنی ہے.تو دیکھیں کیسی صاف بات ہے قول سديد كرو - يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ قول سدید کا مطلب ہے صاف بات اور صحیح آدمیوں تک پہنچانا، بے محل بات نہ کرنا اور یہ چھوٹی سی نصیحت اتنے وسیع دائرے میں انسانی اعمال پر اثر انداز ہے کہ آپ اگر اس پر غور کریں تو حیرت سے اس سمندر میں ڈوب جائیں گے چھوٹا سا کلمہ کتنا عظیم ہے اور اس کے بعد فرمایا: تُصلِحُ لَكُمُ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ کچھ ذنوب بھی تو ہیں ان کو ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے تمہیں نہیں حکم دیا جو تمہارے اندرونی گناہ ہیں.خدا یہ تو نہیں کہہ رہا کہ ان کو کھولتے رہو اور دنیا میں اچھالتے رہو اس سے تو اصلاح کے برعکس مضمون پیدا ہوگا ایسی سوسائٹیاں جہاں گناہ کی کھلم کھلا باتیں ہوتی ہوں وہاں بے حیائی بڑھتی ہے اصلاح کبھی نہیں ہوتی جن کی ٹیلی ویژن گندی ہوگئی ان
خطبات طاہر جلد 15 858 خطبہ جمعہ یکم نومبر 1996ء کی ساری قوم ہی گندی ہوگئی اور باتیں سچی ہیں اور کھلم کھلا کی بھی گئی ہیں لیکن قول سدید نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے وہ گناہ اور کمزوریاں جو تم سے قول سدید اختیار کرنے سے پہلے سرزد ہو چکی ہیں اللہ ان پر پردے ڈالے گا.يَغْفِر کا مطلب یہ ہے کسی چیز کو ڈھانپ دینا.اس میں دو طرح سے پردے ہیں.اپنی ناراضگی سے پردے میں لے آئے گا اپنی ناراضگی کو ان تک نہیں پہنچنے دے گا اور لوگوں کی نظر اور ان کی تنقید سے پردہ ڈال دے گا.تو چھوٹی سی آیت میں ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت کھاتے ہوئے کتنے معافی کے کتنے سمندر بیان ہو گئے ہیں.تصلح لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ جو اس رستے پر چل پڑے گا، جو حضرت صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں یہ تربیت کا اصول جان لے گا اور اس پر عمل پیرا ہوگا قول سدید کا عادی ہو خدا اس کے اعمال کی اصلاح شروع کر دے گا اس کی کمزوریوں پر پردے ڈھانپ دے اور پھر ان سے بخشش کا سلوک فرمائے یہ دونوں مضمون ہیں يَغْفِرُ میں.پھر اس کے بعد کیا ہوگا ، فرمایا وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا یہ سفر کی انتہا نہیں ہے جو بیان ہورہی الله ہے.یہ تو سفر کا آغاز ہے جو بتایا جا رہا ہے اس کے بعد تم اس لائق ہو گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی الله پیروی کرو اور جو کوئی پھر اللہ اور اس رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرے گا.فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اسے عظیم کامیابیاں نصیب ہوں گی اور یہ سارا مضمون اس پہلی آیت سے مربوط ہے جس میں فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ قرآن ہے تو شک سے بالا لیکن متقیوں کے لئے ہدایت ہے یہاں انہی متقیوں کی تعریف فرمائی گئی ہے.قَوْلًا سَدِيدًا کہنے والے، سچی بات کو سچے انداز سے پیش کرنے والے جب وہ یہ کر گزریں گے تو پھر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے سکول میں داخل ہوں گے جس کی کامیابیاں لامتناہی ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو صرف سمجھنے کی نہیں بلکہ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 859 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء جماعت کی مالی قربانی کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے ساری جماعت پر جو فضل نازل فرمائے وہ حیرت انگیز ہیں ( خطبه جمعه فرموده 8 رنومبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ وَلَةٌ أَجْرُ كَرِيمٌ يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرُ يكُمُ الْيَوْمَ جَنَّتٌ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ پھر فرمایا : (الحديد: 13،12) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ آج کے خطبہ کی تمہید بنیں گی کیونکہ آج تحریک جدید کی مالی قربانی سے متعلق خطبہ دینا ہے اور نئے سال کا آغاز کرنا ہے.مالی قربانی کی روح کو جس طرح قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر پیش فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ آیت ہے جو ایک نئے عجیب انداز میں قرآن کریم کا مالی قربانی کا فلسفہ پیش فرماتی ہے اور دراصل یہ فلسفہ ایک دنیاوی فلسفے کے مقابلے پر رکھا گیا ہے.عام طور پر ان آیات کا ترجمہ تو کیا جاتا ہے مگر جن مضامین سے ان کا نقابل ہے ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 15 860 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے فَيُضْحِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيم وہ اس قرضے کو اس کے لئے بڑھادے اور پھر اجبر کریم اس کا باقی رہے یعنی قرضے کو بڑھانا اس قرضے کی جز انہیں ہوگا بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ جب بھی کچھ لیتا ہے بڑھا کر ہی دیتا ہے تو اس کا سب حساب چکا دیا جاتا ہے.اسے اس سے بڑھ کر دیا جاتا ہے جو اس نے دیا، بہت بڑھ کر دیا جاتا ہے اور اجر کریم پھر بھی باقی ہے، وہ معزز اجر جو اس کا باقی دنیا کے خدمت کرنے والوں سے ممتاز کر دے گا.تجارت میں روپیہ لگانے والوں سے ان کا مقام کہیں سے کہیں بڑھا دیتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے اللہ تعالیٰ یہ فرمارہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ قرض حسنہ کی خدا کو ضرورت کیا ہے.جو دینے والا ہے جو عطا کرنے والا ہے جو بڑھا کر دیتا ہے پھر بھی حساب نہیں چکا تا ، بند نہیں کرتا کھانہ کہتا ہے میرے علم میں بہت کچھ تمہارے لئے باقی ہے.تو دراصل اس مضمون کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کے ان احکامات پر غور کرنا چاہئے جو سود کی مناہی سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کریم نے سود کے نظام کی جڑیں اکھیڑ دی ہیں اور ہرگز مومن کو اجازت نہیں کہ اپنا روپیہ اس شرط پر کسی کو دے کہ وہ بڑھا کر واپس کرے.اب اس کا متبادل ایک عام تجارت بھی ہو سکتا ہے لیکن ہر شخص کو تجارت کا فن نہیں آتا، ہر شخص اپنے روپے کا بہترین مصرف نہیں جانتا.تو اگر اللہ تعالیٰ روپے کا ایسا مصرف بند فرما دے جس کے نتیجے میں آپ کو دکھائی دیتا ہے کہ وہ روپیہ بڑھ رہا ہے اور عملاً جن ہاتھوں میں وہ روپیہ بڑھتا ہے وہ اسے گھٹانا بھی جانتے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ گھٹتا ہے، بڑھتا نہیں.اس سودے سے آپ کو بچایا ہے خطر ناک ضیاع سے آپ کو بچا لیا یہ حکم دے کر کہ سودی کاروبار میں داخل نہ ہونا تم جتنا روپیہ بینک میں رکھو گے تم سمجھو گے کہ بڑھ رہا ہے مگر جب ایک عرصے کے بعد اصل حقیقتوں سے اس بڑھی ہوئی رقم کی قدر کا مقابلہ کرو گے تو ہمیشہ گھاٹا پاؤ گے.آج ایک لاکھ روپیہ بینک میں رکھاتے ہیں آج ایک لاکھ روپیہ کا مکان بھی خرید سکتے ہیں اور جو مختلف قسم کی مصنوعات ہیں یا ایگریکلچر کی Production ،زراعتی جو بھی پھل اور سبزیاں اور گندم اور جو کچھ بھی زراعت میں پیدا ہوتا ہے میرا مطلب یہ ہے زراعتی پیداوار اس کو بھی خرید کے دیکھ سکتے ہیں کہ ایک لاکھ میں کتنا آتا ہے چھ سال میں جب آپ کا روپیہ دگنا ہو چکا ہوگا جو بینک میں پڑا پڑا دگنا ہوا ہے تو وہی مکان خریدنے کی کوشش کریں جو چھ سال پہلے آپ ایک لاکھ میں خرید سکتے
خطبات طاہر جلد 15 861 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء تھے اس کی بسا اوقات سوائے اتفاقی حادثات کے وہ مکان آپ کے ہاتھ سے آگے جا چکا ہوگا.جو کچھ آپ مصنوعات یا پیداوار کی صورت میں چیزیں خرید سکتے تھے چھ سال پہلے، چھ سال کے بعد دولاکھ میں وہ نہیں خرید سکیں گے اور انفلیشن (Inflation) کا جو ریٹ ہے جو اس کی رفتار ہے وہ سود کی بڑھتی ہوئی آمد سے ہمیشہ تیز ہوتی ہے کیونکہ یہ جمع ہوتی چلی جاتی ہے.سود کی رفتار تو فکسڈ ہے یعنی اگر دس فیصدی آپ کو ملے گا، وہ تو دس فیصدی ملتا نہیں.یہ دگنا ہونے کی بات بھی زیادہ سے زیادہ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں عملاً دینے کے ہاتھ اور ہیں اور لینے کے ہاتھ اور ہیں اور اگر بڑھ بھی جائے تو نفلیشن (Inflation ) اکثر اوقات سوائے بعض اقتصادی حادثات کے وہ میں بحث نہیں چھیڑ رہا اس وقت اس کا تفصیلی جائزہ لینے کے باوجود بھی یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے.مگر یہ یاد رکھیں کہ سود سے جتنا روپیہ آپ کا بڑھتا ہے طبعی ذرائع سے جو روپے کی قیمت کم ہورہی ہے وہ بڑھوتی کو کم کر کے نیچے اتارے گی ، آگے نہیں بڑھا سکتی.اس لئے وہ لوگ جو احمدی مجھ سے پوچھتے ہیں میں ان کو Real Estate کا جب مشورہ دیتا ہوں تو امر واقعہ یہ ہے کہ Real Estate اگر گر بھی جائے یعنی جائیداد، تو اس عرصے میں کچھ نہ کچھ وہ دے رہی ہوتی ہے اور وہ کل جو آمد ہے وہ سود سے بہر حال زیادہ ہے.مگر قرآن کریم نے جو نظریہ پیش فرمایا ہے وہ اور ہے.ہر بچانے والے کا روپیہ اس قابل ہوتا ہی نہیں کہ تجارت میں لگایا جاسکے.سرمایہ کاری کے لئے کچھ بنیاد تو ہونی چاہئے اور کچھ عقل بھی ہونی چاہئے.تو اللہ تعالیٰ نے وہ مشورہ نہیں دیا جو خطرات سے خالی نہیں ہے.بظاہر ایک منافع سے رو کا جو منافع تھا ہی نہیں حکم وہ دیا ہے جو آپ سمجھتے ہیں ہمارے مقصد کے خلاف ہے حالانکہ آپ کے مقصد کی حفاظت کے لئے دیا گیا ہے لیکن اپنے زعم میں آپ سمجھتے ہیں او ہواگر ہم روپیہ لگا دیتے ناسود پر، بینک میں رکھتے تو اب تک پتا نہیں کتنا ہو جانا تھا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے وقوفی نہ کرو، ہم تمہیں اس سے بہتر ایک قرض کا نظام دکھاتے ہیں، ہمیں قرض دے دیا کرو.اب یہاں جب آپ پہنچ کر قرض کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو کتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے.وہ جس نے قرض سے روکا تھا ایک غلط قرض سے روکا تھا اس نے اپنے ذمہ قرض وصول کرنا لے لیا اور فرمایا ہمیں کیوں نہیں دے دیتے قرضہ حسنہ تم سمجھتے ہو قرضہ حسنہ نقصان کا سودا ہے اور واقعہ دنیا کے کاروبار میں جہاں سودی نظام ہو وہاں نقصان ہی دکھائی دے رہا ہے.فرمایا ہمارا بھی تو
خطبات طاہر جلد 15 862 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء ایک روحانی بینک کھلا ہے تم اس میں قرضہ حسنہ دے کے دیکھو تم سے کیا ہوتا ہے.جتنا دو گے اس سے بہت زیادہ بڑھا کر ہم تمہیں واپس کر دیں گے اور پھر ہم کہیں گے ابھی اجر باقی ہے اور اجر بھی وہ باقی ہے جو کریم ہے.یہ جو نظام ہے اس کا تجربہ کرنے والوں نے ہمیشہ توقع سے بھی بڑھ کر کارفرما دیکھا ہے کبھی بھی اس میں غلطی نہیں ہوئی جو خدا کی خاطر اپنے روپیہ کی غلط سرمایہ کاری نہیں کرتے اس سے بچ جاتے ہیں ان کے روپے میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکتیں عطا فرماتا ہے.اور دوسرا جو اس کے علاوہ خدائی نظام کو قرض دیتے ہیں ان کی تو نسبتیں ہی بدل جاتی ہیں ان کی کیفیات میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے.اتنی برکتیں ملتی ہیں کہ اس کا عام انسان جس کو تجربہ نہ ہو تصور بھی نہیں کر سکتا.جماعت کی مالی قربانی کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے ساری جماعت پر جو فضل نازل فرمائے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں اور بڑھتا ہوا مالی قربانی کا رجحان بتا رہا ہے کہ خدا نے دیا تھا تو واپس کر رہا ہے پہلے تھوڑا قرض دیا تھا پھر اس سے زیادہ ، پھر اس سے زیادہ بڑھتے بڑھتے کہیں سے کہیں بات جا پہنچتی ہے.آج ایک مجلس سوال و جواب میں شمار صاحب آپ کے فنانس سیکرٹری جو UK کے بڑی دیر سے فنانس سیکرٹری ہیں ماشاء اللہ ، ان سے میں نے پوچھا کہ آپ کا کیا تجربہ ہے آپ نے کب چارج لیا تھا.انہوں نے کہا میں نے 1980ء میں لیا تھا.میں نے کہا اس وقت جماعت کی مالی توفیق کیا تھی اور کتنا چندہ تھا تو انہوں نے کہا سارے چندے ملالیں طوعی، غیر طوعی تحریک جدید، دوسرے وصیت تو ایک لاکھ سے زیادہ بجٹ نہیں تھا اس سال.اب عام بجٹ جو ہے وہ بڑھ کے بارہ لاکھ تک جا پہنچا ہے اور اس کے علاوہ طوعی چندے ہیں ایسے جو شمار کر لیں تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے.جو سال گزرا ہے اس میں جماعت نے جو مسجد کے لئے قربانی دی ہے اور دیگر طوعی چندوں میں حصہ لیا ہے جماعت UK نے اس کا ٹوٹل (Sum) تین ملین کے قریب جا پہنچتا ہے.تو کہاں وہ ایک لاکھ اور ابھی 1980ء سے لے کر سولہ سال گزرے ہیں تو سولہ سال میں قربانی بڑھتے بڑھتے تین ملین تک خدا تعالیٰ نے توفیق بخش دی ہے اور جماعت کی آمد میں کمی نہیں ہوئی بلکہ بڑھ رہی ہے.نئی نسلوں سے خدا کا حیرت انگیز سلوک ہے.عجیب و غریب کا روبار ہیں اور لڑکے آکے، جب نو جوان مجھے باتیں بتاتے ہیں تو ہنستے ہیں کہ یہ ہوا کیسے؟ کہتے ہیں ہمیں تو سمجھ نہیں آتی کیا بات تھی.ایک نو جوان ملنے کے لئے
خطبات طاہر جلد 15 863 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء آئے انہوں نے کہا مجھے امریکہ میں ایک نوکری ملی ہے اتنی زیادہ آمد ہے کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی آمد ہے.میں نے کہا تم بڑے اچھے رہے ہو گے انٹرویو میں.انٹرویو، کیا خاک میں نے انٹرویو دیا.انٹرویو لینے والا اتفاق ایسا ہوا کہ وائس پریذیڈنٹ خود تھا اس نے دو باتیں کیں.اس نے کہا تم پاس ہو باقیوں کے Que لگے ہوئے تھے.انٹرویو دینے والوں کے بورڈ میں کتنے ہی آئے ، ناکام ہوئے.اس نے دیکھا پہچان لیا کیونکہ وہ طاقت بھی رکھتا تھا اور فراست بھی ، اس نے کہا باتیں کرو بس، چلو اب جاؤ بھا گوتم ، پیش ہو جاؤ کام کے لئے اور جو اس کی Salary میں نے بھی سنی ، میں آپ کو بتاتا نہیں اس کا ذاتی راز ہے ، مگر میں حیران رہ گیا اور چونکہ جانتا ہے کہ اللہ کا فضل ہے وہ اس ارادے کا اظہار کر کے گیا کہ سوال ہی نہیں اب میرے لئے کہ چندوں میں کسی قسم کی کمی کروں ، پہلے وہ حق ادا کروں گا خدا کے شکرانے کے طور پر پھر باقی کاموں میں، چیزوں میں برکت پڑے گی.تو یہ مالی نظام جو قرضے کا نظام ہے اس کو اس پہلو سے اس پس منظر میں سمجھیں گے تو سمجھ آئے گی ورنہ لوگ پاگل کہہ دیتے ہیں کہ اللہ کو قرضے کی کیا ضرورت ہے ، اللہ غریب ہے اللہ فقیر ہے؟ اور یہ پاگل پہلے بھی ہوتے تھے اب بھی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کہتے میں اِنَّ اللهَ فَقِيرٌ وَ نَحْنُ أَغْنِيَاءُ (آل عمران: 182) ہم اغنیاء میں اللہ فقیر ہے ہمارے پاس آئے ہیں پیسے دو لیکن کیسے دیتا ہے، کیسے لیتا ہے اور پھر کیا سلوک فرماتا ہے وہ مضمون دیکھ لیں تو انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے.ناممکن ہے کہ خدا کے سلوک کو دیکھ کر کوئی ایسی بے حیائی کا کلمہ تصور میں بھی لا سکے.جو لیتا ہے دیا بھی تو اسی نے تھا یہ بھی نہیں سوچتے بے وقوف اور لیتا کیسے عذر رکھ کے، کیسی عزت نفس کو قائم کرتے ہوئے لیتا ہے یہ نہیں کہتا میں نے تمہیں دیا ہے مجھے واپس کر دو.یہ بھی کہتا ہے بعض جگہ لیکن اور رنگ میں ، مجھے اس طرح واپس کرو کہ غریبوں کو دے دو.جہاں دین کی ضرورت ہے وہاں یہ ایک انداز ہے کہتا ہے قرضہ دو تیم قرضہ دیتے تو ہولوگوں کو تمہیں ایک قرضے سے منع کیا ہے اور ایک اور قرضے کا دفتر کھول رہا ہوں اور اس قرضے کے بعد پھر تمہیں کبھی کوئی نقصان نہیں ہوگا.ساری جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ہی ہوا ہے.دو دو آنے دینے والوں کو خدا نے ایسی برکتیں دیں، ان کی اولادوں کی کایا پلٹ کے رکھ دی ہے.اگر وہ یا درکھیں کہ یہ کیوں آسمان سے
خطبات طاہر جلد 15 864 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء فضل نازل ہوئے ہیں تو پھر ان کو سمجھ آئے گی کہ یہ وعدے ہیں جو پورے ہو رہے ہیں.عام طور پر لوگ اپنے خاندانوں کی ان عظیم قربانیوں کو جو نسبتاً بہت ہی معمولی تھیں اس طرح بھلا دیتے ہیں کہ اس دو آنے کی کیا بات بچوں سے کرنی ہے یا چار آنے کی کیا بات کرنی ہے.میر ان کو نہیں پتا کہ وہ چار آنے اور دو آنے ہی ہیں جو اب لاکھوں کروڑوں بن گئے ہیں ان کے لئے اور وہی مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ اس کو بڑھا دیتا ہے وَلَةٌ أَجْرٌ كَرِيمٌ ـ أَجْرٌ كَرِیھ اس کے علاوہ اس کے لئے باقی ہے.تو اپنے بچوں کو یہ تو بتایا کریں تا کہ ان کو پتا چلے کہ خدا تعالیٰ کتنا بڑھاتا ہے اور کتنا بڑھاتا چلا جاتا ہے.بعض خاندانوں سے میں اس خیال سے کہ ان کو یہ وہم نہ ہو کہ دنیا میں ترقی ہورہی ہے سب باہر نکل رہے ہیں ترقیات ہر قسم کی مل گئی ہیں ہمیں بھی مل گئیں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے وہ رشتے دار جنہوں نے احمدیت کا انکار کیا اور آپ کے آباء جو احمدی ہوئے ان کو تکلیفیں بھی دیں ان کی اولادوں کا کیا حال ہے.تو اکثر اوقات اچانک ان کی آنکھیں کھلتی ہیں.کہتے ہیں ان کی اولادوں کا تو حال ہی کوئی نہیں.کوئی پیری داس، کوئی فقیر، کسی کا برا حال کوئی قرضے لے لے کر بھاگا ہوا لوگوں کے، کوئی جیل میں زندگی بسر کر رہا ہے ، نہ گاؤں میں عزت نہ باہر.یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی عزتیں ساری احمدیت کے لئے ہیں، دنیا کی عزتیں احمدیت کے لئے ہیں لیکن اصل اجر کریم ہے.باقیوں کو بھی ملتی ہیں مگر اجر کریم سے مرحوم ہیں اور ان کو جو ملتا ہے وہ قانون قدرت کے مطابق عام جاری نظام ہے اس سے ملتا ہے.یہ جو عطا اور قرضے کا نظام ہے اس کے نتیجے میں صرف جماعت احمدیہ کومل رہا ہے اور یہ باریک فرق اگر آپ اپنی اولادوں کو نہیں بتائیں گے تو آگے وہ کئی نیکیوں سے محروم رہ سکتے ہیں اس لئے میں اکثر خاندانوں سے ملاقات کے وقت پوچھتا ہوں تم نے اپنے آباؤ اجداد کا کوئی ذکر کیا بچوں سے.بعض دفعہ ان کو بھی نہیں پتا ہوتا، شرمندہ ہوتے ہیں.کئی دفعہ میں ان کو بتا تا ہوں.میں نے کہا آپ کو میں بتا تا ہوں کہ آپ کے باپ کون تھے ، آپ کے دادا کون تھے ، آپ کے نانا کون تھے اور ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں.پس یہ وہ اعلیٰ اقدار ہیں جن کا ذکر تفاخر کے طور پر نہیں، انکسار پیدا کرنے کے لئے کرنا ہے.تفاخر اور انکسار میں بڑا فرق ہے.پرانے لوگ اپنے آباؤ اجداد کی باتیں فخر سے بیان کرتے ہیں
خطبات طاہر جلد 15 865 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء خواہ آگے اولاد میں ان سب نیکیوں سے محروم رہ گئی ہوں اور کہتے ہیں وہ ہمارے بڑے تھے اور جب آپ ان کی قربانیوں کا ذکر کریں گے کہ دو آنے دئے تھے یا چار پیسے دئے تھے یا چادر اتار دی تھی تو اس سے تفاخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے، اس سے سوائے انکسار کے کچھ پیدا نہیں ہوسکتا.یہ تو وہی مضمون ہے جو ایاز اور محمود کا مضمون ہے.ایاز جب اپنے پرانے کپڑے دیکھتا تھا تو فخر کے لئے تو نہیں دیکھتا تھا ان گلے سڑے کپڑوں میں ، اس ٹوٹے ہوئے صندوق میں کیا بات تھی جو ایاز کو کھینچے لئے چلی جاتی تھی.راتوں کو چھپ کر جا تا تھا، دیکھتا تھا انکسار کی خاطر ، اس لئے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں شاہی انعامات کے نتیجے میں کہ یہ میرا آغاز تھا یہ میری طاقت ، جو کچھ بھی پونچی تھی یہی کچھ تھا ان کپڑوں سے نکلا ہوں تو شاہی محلات میں جا کے خلعتیں عطا ہوئی ہیں.تو تحریک جدید کی جو یادیں ہیں وہ بھی دراصل ایاز کی پونچی کی یادیں ہیں لیکن ایاز کی پونچی تو گل سڑ گئی ، ان بزرگوں کی پونچی گلی سڑی نہیں وہ بڑھتی چلی گئی ہے اور آج آپ کے تفاخر ، آپ کی جو بھی چیزیں ہیں اگر آپ ان کو یاد نہیں رکھیں گے تو پھر آپ میں فخر پیدا ہوگا ، اگر اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو یا درکھیں گے تو کبھی کوئی فخر کا سوال نہیں.یہ مضمون میں اس لئے تحریک جدید کے اعلان سے پہلے بیان کر رہا ہوں کہ اب جو میں اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھوں گا آپ حیران رہ جائیں گے کہ جماعت کتنی ترقی کر چکی ہے لیکن اپنا وہ پرانا بکس نہ بھولنا جس میں آپ کے پرانے کپڑے ہیں کہ ان کپڑوں نے ہی برکت بخشی ہے انہی عظیم بزرگوں کی قربانیاں ہیں جواب یہ رنگ لائی ہیں اور ابھی آپ میں بہت گنجائش ہے.ان میں تو جتنی تھی وہ ساری پوری کر دی تھی انہوں نے غریب لوگ تھے اس سے زیادہ کی طاقت ہی نہیں تھی.مگر جماعتوں میں جہاں میں ذکر کروں گا بہت عظیم قربانیاں ہیں مگر اس کے باوجود ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو میری نظر میں بھی ہے اور نظر میں نہیں بھی ہے جس کو استطاعت زیادہ ہے اور ابھی تک وہ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی نہیں کر رہے.جب کوئی اچھا منتظم آکر ان کے دلوں میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے قربانی کی روح ان کے اندر از سرنو زندہ ہونے لگتی ہے تو پھر خدا کے فضل سے ان جیبوں میں سے بہت کچھ نکل آتا ہے جو پہلے خالی دکھائی دیتی تھیں.تو ابھی بھی ان سب عظمتوں کے باوجود جو قربانی میں ہم نے حاصل کیں ان پہلی نسلوں کی قربانی کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ جس خلوص اور محبت اور پیار سے اپنی ساری توفیق کو استعمال
خطبات طاہر جلد 15 866 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء کرتے ہوئے انہوں نے قربانیاں دی ہیں اب بھی ہیں مگر نسبتا کم ہیں ثُلَّهُ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ (الواقعہ: 14، 15 ).پہلوں میں بہت بڑی جماعت تھی اب آخرین میں نسبتا تھوڑے ہیں.مگر اس کے باوجود چونکہ خدا نے ہمارے پردے ڈھانک دیئے ہیں ہمارے اخلاص کو غیر معمولی عظمت بخشی ہے اور دنیا میں اس کا رعب قائم کر دیا ہے اس لئے یہ جو اعداد و شمار ہیں یہ آپ کو حیران کر دیں گے کس طرح خدا تعالیٰ ترقی پر ترقی عطا فرما تا چلا جاتا ہے اور یہ صرف مالی پہلو نہیں ہے، اَجْرُ كَرِیم کی بات جو خدا نے فرمائی ہے اس کا بھی ذکرسن لیں.يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَيكُمُ الْيَوْمَ جَنَّتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ مالی ترقی کا وعدہ کر کے پھر آگے تفصیل بیان نہیں فرمائی وہ معمولی بات ہے، دنیا کی بات ہے.اجر کریم کا مضمون پھر آگے شروع کر دیتا ہے.فرماتا ہے جس دن تو مومنوں کو دیکھے گا اور مومنات کو يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ ان کا نور ان کے آگے آگے بھاگے گا اور ان کے دائیں طرف بھی.دائیں طرف کیوں؟ اس لئے کہ جنت کا ذکر ہو رہا ہے جنت میں دائیں طرف ہی ہے کیونکہ بائیں طرف دنیا کی مظہر ہے.دنیا کی نعمتیں تو خدا دنیا میں ادا کر چکا ہو گا اس لئے ان کا ذکر نہیں چھیڑا.اب أَجْرٌ كَرِیم کی بات ہو رہی ہے اس میں نور جو ہے وہ آگے آگے بھاگے گا اور دائیں طرف یعنی دینی پہلو سے ان کی روشنی دکھائی دینے لگے گی اور دنیاوی پہلو سے وہ اگر نظر انداز بھی ہو گئے تھے دنیا میں تو جن کا نور آگے آگے بھاگے اور دائیں طرف روشن ہوان کو کون ہے جو نظر انداز کر سکتا ہے.وہی ہیں جو دکھائی دینے والے ہیں.اب جگنو کی دم سے تھوڑی سی روشنی پیدا ہوتی ہے پھر بھی اندھیری راتوں میں وہ اچھی لگتی ہے تو وہ نور جو آگے آگے بھاگ رہا ہو اور دائیں طرف یعنی اعلی اقدار کو، روحانی اقدار کو اس نے روشن تر کر دیا ہو.یہ اجر عظیم ہے یا اجر کریم ہے جس کا قرآن نے وعدہ فرمایا بشر يكُمُ الْيَوْمَ آج کے دن تمہیں خوشخبری ہے.جَنَّتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ یہ باغات ہیں جن کے نیچے، جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں خُلِدِينَ فِيهَا یہ خدا کے بندے جو قرضہ حسنہ دیں گے خدا
خطبات طاہر جلد 15 867 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء کو ، ہمیشہ اس میں رہیں گے.ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ یہ فوز عظیم ہے نہ کہ وہ چار پرسنٹ یا دس پرسنٹ کی کمائی ہوئی تمہاری چیزیں، ان کی حقیقت کیا ہے اس کے مقابل پر.وہ تو عارضی زائل ہونے والی ، باطل ہونے والی چیزیں تھیں سارے قرضے تمہارے اتار کر اس سے ہزاروں گنا زیادہ بھی خدا دے دے گا تو یہ خدا پر قرض باقی رہے گا پھر.یہ قرضہ حسنہ جس کی طرف قرآن نے ہمیں بلایا اور اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ تو فیق عطا فرمائی کہ اس طرف اس مادی دنیا کو بلائیں اور انہی میں سے پھر لوگ زندہ ہو ہو کر آپ کے گرد جمع ہوں دنیا کے کونے کونے سے خدا کی پاک روحیں اکٹھی ہوں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے اس نظام قرض میں داخل ہو کر اس کے حیرت انگیز پھل دیکھیں، کھائیں اور دوسروں کو کھلائیں تحریک جدید کی برکتوں سے جو کچھ دنیا کو فیض پہنچ رہا ہے یہ وہ پھل ہیں جو اس دنیا میں مل رہے ہیں اور ان پھلوں کا بھی یہی قصہ ہے ہم سمجھ رہے ہیں بڑے پھل مل گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کے دن تمہیں جب اصل پھل ملیں گے تو تم کہو گے ہاں ہمیں دنیا میں ملے تھے لیکن یہ وہ نہیں ہیں ملتی جلتی چیزیں تھیں.تمہیں پتا ہی نہیں کہ یہ کیا چیزیں ہیں یہ ان سے بہت زیادہ بڑی نعمتیں ہیں اور یہ اجر عظیم یا اجر کریم ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.پس اس پہلو سے مالی قربانی کوئی ایسی چیز نہیں جو مادی طور پر منافع بخش ہو یا وہ مقصود ہو.اگر وہ مقصود ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا مجھے سود پہ روپیہ دو.صاف ظاہر ہے کہ مومن کی نیت میں قرضہ حسنہ لازماً رہنا چاہئے اور زیادہ لینے کی نیت کے ساتھ نہیں دینا چاہئے.جو پہلوں نے دیا تھا اس طرح دیا تھا.اب ایک اور امتحان در پیش ہوتا ہے دینے والے کو وہ اگر زیادہ لینے کی نیت سے دے گا تو اس دنیا میں تو اسے مل جائے گا مگر پھر اجر کریم نہیں ملے گا کیونکہ وہ قرضہ حسنہ نہیں تھا.مگر میرا تجربہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قرضہ حسنہ نہیں دیتے ،خدا کو سود پہ رقم دیتے ہیں ان معنوں میں کہ ان کا تجربہ ہے جب دیتے ہیں ضرور زیادہ ملتا ہے تو ان کو دنیا میں مل تو جاتا ہے مگر اجر عظیم یا اجر کریم کا وعدہ، فوز العظیم اور اجر کریم کا وعدہ ان کو نہیں ملتا.اللہ کی مرضی ہے احسان کے طور پر جو چاہے کر دے اس کی رحمتوں کی راہ میں تو کوئی قدغن نہیں لگا سکتا یعنی یہ مراد ہر گز نہیں مگر عام دستور کے مطابق عقل کے تقاضوں کے مطابق یہی دکھائی
خطبات طاہر جلد 15 868 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء دیتا ہے کہ جو اس دنیا کو چاہتے ہوئے دے گا اس کو دنیا ہی میں ملے گا اور جو زائد ملے گا وہ فضل کی باتیں ہیں اس قانون قرض کی باتیں نہیں جس کا مضمون میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.تو یہ یاد رکھیں جب دیں تو قرضہ حسنہ کے طور پر دیں، سود کے طور پر نہ دیں اور قرضہ حسنہ کے طور پر دیں گے تو یہ سب کچھ ہوگا جو میں بیان کر رہا ہوں.پھر ناممکن ہے کہ یہ کچھ نہ ہوا اگر سود کے طور پر دیں گے تو ممکن ہے خدا زیادہ کر دے ممکن ہے سب کو رڈ ہی کر دے کہ گندا سودا ہے.بعض دفعہ خدا تعالیٰ کلیۂ رڈ فرما دیتا ہے.آپ کے ہاتھ سے تو نکل گیا مگر پھر وہ اصل بھی واپس نہیں آئے گا کیونکہ جو فاسد سودے ہوں ان کی ادائیگی ضروری نہیں ہوا کرتی.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس روح کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت مالی قربانی میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے گی.اب میں اعدادوشمار کی دنیا میں اترتا ہوں ، سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دفتر اول کے باسٹھ (62) سال پورے ہوئے اور تریسٹھویں (63) سال میں داخل ہو رہا ہے یعنی باسٹھ (62) سال پہلے تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا اور آج بھی دفتر اول میں شامل لوگ زندہ موجود ہیں میں بھی ان میں سے ایک ہوں اللہ کے فضل سے اور بھی بہت سے ہیں اور دفتر اول ابھی تک جاری ہے اور جو فوت ہو گئے ان کی طرف سے جو زندہ ہیں انہوں نے ان کے کھاتوں کو زندہ کر دیا اس لئے اس پہلو سے تو یہ دفتر اب کبھی نہیں مرے گا ہمیشہ انشاء اللہ زندہ رہے گا.اس کا 63 واں سال شروع ہو رہا ہے.دفتر دوم جو بعد میں قائم کیا گیا اس کا باون واں (52) سال ہے یعنی دس (10) سال کے بعد پھر دفتر دوم کا آغاز ہوا یعنی پہلا رجسٹر بند اور نیا رجسٹر شروع ہو گیا.پھر دفتر سوم کے بتیس (32) سال ہو چکے ہیں یعنی دس(10) کی بجائے ہیں (20) سال بعد ایک دفتر سوم کا آغاز ہوا.پھر دفتر چہارم کے گیارہ (11) سال ہوئے ہیں یعنی یہ وہ دفتر جو میں نے شروع کیا تھا کہ پہلے کھاتے بند اور نئی نسلوں کی خاطر ایک اور دفتر کھولا تھا یہ سب اگلے سال میں داخل ہورہے ہیں اب.تہتر (73) ممالک کی رپورٹس آئی ہیں جبکہ گزشتہ سال ان ممالک کی تعداد کم تھی اور امسال میں نے ہدایت کی ہے کہ اگلے سال کم سے کم سو (100) ممالک کو تحریک جدید میں ضرور شامل کرنا ہے.اول تو یہ ٹارگٹ، یہ ہدف سامنے رکھنا چاہئے کہ اگر ایک سو چون (154) ممالک میں احمدیت ہے تو کیوں ایک سو چون (154) ممالک تحریک میں شامل نہ ہوں.چندہ عام میں تو خدا کے فضل
خطبات طاہر جلد 15 869 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء ہوئے سے بہت سے نئے ممالک، نئے آنے والے بڑی ہمت کے ساتھ اور عزم کے ساتھ داخل ہو.ہیں.جو چندہ پورا نہیں دے سکتے بعضوں کی درخواستیں بھی آئی ہیں کہ ہم ابھی حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں ہمیں نصف شرح سے اجازت دی جائے تو ان کے اندر یہ مالی نظام کی اہمیت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر کم دینا ہے تو کم دیں مگر پوچھ کر کم دیں.تو یہ جو دفاتر ہیں یہ اب سارے تو ہر جگہ پھیل نہیں سکتے جو وفات پاگئے وہ تو گزر گئے مگر نئے ممالک میں کم سے کم آخری دفتر کا اجراءلازم ہونا چاہئے اور اب آخری کا ہوگا کیونکہ اب جو کھانہ نیا کھلے گا اس میں وہی آئیں گے جو نئے آنے والے ہیں تو مجھے امید ہے ہر کوشش جماعت کی پھل لاتی ہے صرف توجہ کی بات ہے.اب تو وہی حساب ہو گیا کہ درخت پھلوں سے لدا پڑا ہے ذرا سا ہلا دو بس اس سے زیادہ تم نے کوئی کام نہیں کرنا.جو بھی تحریکیں میں نے کی ہیں ان کا یہی نتیجہ دیکھا ہے کہ جماعت نے صرف درخت ہی ہلائے ہیں اور پھل پہلے سے تیا ر خدا نے کئے ہوئے تھے وہ گرتے ہیں ان کو جھولیوں میں بھر لینا ان کو سمیٹنا،صاف ستھرا رکھنا ، ان کی حفاظت کرنا دشمنوں اور گندوں سے، یہ جماعت کا فریضہ رہ جاتا ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ تحریک جدید میں انشاء اللہ آئندہ سال اس پہلو سے میں آپ کو بڑی خوشخبریاں دے سکوں گا.وعدہ جات کا جہاں تک تعلق ہے ایک زمانہ تھا جبکہ ہمیشہ وعدہ جات سے ادائیگیاں پیچھے رہ جایا کرتی تھیں اور بڑی مصیبت پڑی ہوتی تھی دفتر والوں کو ، کہ او ہو اتنی کمی رہ گئی ، اتنی کمی رہ گئی اور اب یہ حال ہے کہ وعدہ جات سے جماعت ہمیشہ آگے بڑھا کر دیتی ہے.اب یہ عجیب جماعت ہے، یہ جماعت اس شان کی اس روح کی جماعت کوئی دنیا میں دکھائے تو سہی کہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کی دلیل مانگتے ہیں جب سورج چڑھ جائے اس کی دلیل کیا مانگو گے تم.اس مادی دنیا میں،ساری دنیا میں کل عالم میں ایسی قربانی کرنے والی جماعت جو طوعی طور پر پیش کرے اور کوئی اس پر جبر نہ ہو اور جتنا وعدہ کرے اس سے آگے بڑھا دے کوئی صورتیں ہوں تو نکال کے تو دکھاؤ کہیں.ایک دفعہ ایک Non-Ahmadi سے گفتگو ہو رہی تھی انہوں نے کہا جی باقی بھی تو قربانی دے رہے ہیں سارے دنیا کے ممالک شامل ہو رہے ہیں، آپ اپنی قربانی کا صرف ذکر کرتے ہیں.میں نے کہا دکھاؤ تو سہی کون سی جماعتیں ہیں.سارے ملازمین ہیں حکومت کا پیسہ کھانے والے تیل کا پیسہ کھانے والے اور زکوۃ چاٹنے والے.وہ کہاں جماعت ہے جو ساری کی ساری
خطبات طاہر جلد 15 870 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء اپنے سارے بوجھ اپنی جان سے لگا کے اس طرح چلے جیسے ماں بچے کو جان سے لگا کر چلتی ہے اور بوجھ محسوس نہیں کرتی.یہ جماعت دکھاؤ کہیں، جس میں ہر ایک حصہ لے رہا ہو اور یہ احساس ہو کہ ابھی کم لیا ہے اور توفیق ہو تو اور لیں اور جتنا لے پچھتائے نہیں بلکہ اور زیادہ مزہ آنا شروع ہو جائے.جتنا دے اور بھی زیادہ دینے کو دل چاہے.یہ تو الہی سلسلے ہیں.انبیاء کی جماعتوں کے سوا یہ توفیق نہ کبھی دنیا میں کسی کو ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے، چیلنج ہے کر کے دکھا دو یہ.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی اور دکھائی نہیں دیتی تو یہ زندہ جماعت، یہ قربانی کرنے والی جماعت ہے جس کو دیکھو اور ایمان لے آؤ اس کے بغیر تمہارے لئے تمہاری شرافت کے لئے اور کوئی چارہ نہیں ہے، اتنی کھلی کھلی حقیقت ہے.یہ جواب جب میں نے دیا تو سوال کرنے والا جو ایک بوسنین تھا وہ پوری طرح مطمئن ہو گیا.اس نے کہا بالکل ٹھیک کہا ہے آپ نے ، ایسی ہمیں کوئی نہیں دکھائی دے رہی جگہ.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کا تو قصہ ہی اور ہے اور جونور کے وعدے ہیں وہ تو اس دنیا میں بھی پورے ہوں گے کچھ نہ کچھ لیکن اصل میں وہ آخرت میں پورے ہوں گے.اگر پاکستانی روپے میں ڈھالا جائے نو کروڑ بائیس لاکھ کا وعدہ گزشتہ سال تھا اور وصولی خدا کے فضل سے پاکستانی روپوں میں نو کروڑ ساٹھ لاکھ ہوئی ہے، بائیس کی بجائے.یہ اس سے بھی زیادہ ہوتی مگر پاکستانی روپے کی قیمت گر گئی ہے اس لئے وہ اعداد و شمار یہ خطرہ تھا کہ کم نہ نظر آئیں مگر بڑھایا خدا نے اتنا کہ اس کی گرتی ہوئی قیمت کے باوجود پھر بھی ابھی زیادہ ہے خدا کے فضل سے انٹرنیشنل کرنسی میں دیکھیں تو آپ کو فرق زیادہ نظر آئے گا.وعدہ جات چودہ لاکھ چالیس ہزار سات سو پاؤنڈ تھے.وصولی پندرہ لاکھ آٹھ ہزار تین سو پاؤنڈ ہوئی.مگر گزشتہ سال کی وصولی کو دیکھیں تو پھر آپ کو اصل چھلانگ نظر آئے گی.اس سے پہلے سال بارہ لاکھ چوبیس ہزار کی وصولی تھی اس سال پندرہ لاکھ کی وصولی ہوئی ہے تو یہ اتنا نمایاں فرق ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنی ذات میں ایک نشان ہے.سال اکسٹھ (61) اور باسٹھ (62) کا موازنہ اگر آپ چاہتے ہیں پاؤنڈوں میں اور وصولی کا موازنہ، تو وہ یوں ہے کہ اکسٹھ (61) میں تیرہ لاکھ اکتیس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تھا.باسٹھ (62) میں چودہ لاکھ چالیس ہزار سات سوسڑسٹھ کا وعدہ تھا گویا اضافہ وعدوں میں ایک لاکھ نو ہزار ایک سوسنتالیس پاؤنڈ کا ہوا.وصولی کے لحاظ سے سال 95-1994 ء میں تیرہ لاکھ اکتیس ہزار کے وعدے کے
خطبات طاہر جلد 15 871 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء مقابل پر بارہ لاکھ چوبیس ہزار وصولی ہوئی.یہ کم ہے لیکن جس وقت بند کیا گیا تھا اس وقت یہ وصولی تھی اور ایک غلطی انہوں نے یہ کی ہے کہ پاکستانی روپے کو آج کے حساب سے جب اس کو تقسیم کیا ہے تو یہ رقم کم ہو گئی ہے.دو سال پہلے جو پاکستانی روپے کی قیمت تھی اگر اگر اس پر ڈھالیں تو پھر یہ رقم باوجود اس کے کہ اضافہ وصولی کے لحاظ سے زیادہ نہیں پھر بھی بڑھ جائے گی لیکن اگلے سال اب آپ دیکھ لیں کہ باسٹھ (62) میں وعدہ چودہ لاکھ چالیس ہزار کا تھا اور روپے کی قیمت گرنے کے باوجود وصولی پندرہ لاکھ آٹھ ہزار تین سو اکیس ہے.پس اگر کوئی پیچھے کی تھی جو مجھے علم ہے کہ روپوں میں کمی نہیں ہوئی تھی وہ بھی خدا کے فضل سے پوری ہوگئی.مجاہدین کی تعداد کے لحاظ سے میں نے کہا تھا کہ بڑھا ئیں پہلے ایک لاکھ سے بھی کم تھی تو تحریک جدید میں تو لکھوکھا ہونے چاہئیں.اب کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں تو تمہیں چالیس لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے جماعت کی تعداد میں، اس پہلو سے ان میں سے تحریک جدید کے مجاہدین آنے چاہئیں تھے.یہ رفتار بھی کم ہے لیکن بہر حال اضافے کی طرف رجحان ہے ایک لاکھ اکاسی ہزار دوسو انتیس کی بجائے امسال دو لاکھ اٹھارہ ہزار چھ سو چالیس مجاہدین تحریک جدید ہیں اور یہ اضافہ اپنی ذات میں خدا کے فضل سے اکیس فیصد ہے.سینتیس ہزار کا اضافہ ہوا، اکیس فیصد اضافہ ہے گویا کہ.ممالک کا جہاں تک تعلق ہے امریکہ نے تحریک جدید کے میدان میں حیرت انگیز طور پر قدم آگے بڑھایا ہے گزشتہ سال ان کی وصولی دولاکھ پچھتر ہزار امریکن ڈالر تھی اور چونکہ انہوں نے وقف جدید میں یہ ارادہ کیا تھا، عزم کیا تھا کہ وقف جدید میں ہم نے دنیا میں کسی کو آگے نہیں نکلنے دیناوہ پورا کر لیا تھا اس لئے میں نے ان پر تحریک جدید میں اتنا زور نہیں دیا.میں نے کہا کہیں طاقت سے بڑھ کر نہ بوجھ پڑے لیکن از خود ہی ان کو خیال آیا کہ وقف جدید میں ہم نے اتنا کیا ہے تو تحریک جدید کو کیوں پیچھے چھوڑیں؟ آخر ہماری جماعتیں تحریک جدید ہی کا تو پھل ہیں.اس خیال سے انہوں نے کوشش کی گزشتہ سال ان کی وصولی دولاکھ پچھتر ہزار ڈالرتھی اس سال ان کی وصولی پانچ لاکھ ایک ہزار امریکن ڈالر ہے اور یہ اضافہ بیاسی فیصد بنتا ہے ماشاء اللہ.اور مجاہدین کی تعداد میں بھی امریکہ نے حیرت انگیز اضافہ کیا ہے، دو ہزار دوسو مجاہدین تھے گزشتہ سال.یہ سال جو گزرا ہے اس میں تین ہزار آٹھ سو انتالیس مجاہدین بڑھے ہیں.اب سوال یہ
خطبات طاہر جلد 15 872 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء پیدا ہوتا ہے کہ مجاہدین بڑھے ہیں تو کہیں یہ کوئی رسمی طور پر چھ، چھ روپے لے کر تو نہیں بڑھائے گئے.یہ حقیقی اضافہ جو ہے تب پتا چلے گا جب ان کے چندہ دہندگان کے چندوں کی اوسط دیکھیں گے.اگر مجاہدین کی تعداد بڑھ رہی ہو اور اوسط گر رہی ہو تو مجاہدین کے لحاظ سے تو خوشی کی خبر ہے مگر اوسط کے لحاظ سے اندازہ ہوگا کہ تھوڑا تھوڑا دے کر خانہ پری کر کے دوست شامل ہوئے ہیں.اس لئے ہم جب اعداد و شمار پر آتے ہیں ان کا موازنہ کرتے رہتے ہیں مختلف پہلوؤں سے.گزشتہ سال ان کا فی کس قربانی کا معیار جب کہ چندہ دہندگان دو ہزار دوسو تھے فی کس قربانی کا معیار ناسی پاؤنڈ فی کس تھا امسال جبکہ چندہ دہندگان کی تعداد تین ہزار آٹھ سوانتالیس ہے فی کس قربانی کا معیار بیاسی پاؤنڈ ہو گیا ہے یعنی کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے تو یہ ایک حقیقی اضافہ ہے جس کے متعلق کسی پہلو سے بھی دیکھیں اس کو انسان عزت کی اور قدر کی نگاہ سے دیکھے گا.اس اضافے کے لحاظ سے دوسرا جو ملک غیر معمولی طور پر قدر کے لائق ہے وہ پاکستان ہے.پاکستان کی تحریک جدید کو میں نے چھیڑا تھا.میں نے کہا خدا کے لئے کچھ شرم کرو، وقف جدید اتنی بعد میں آئی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی تم ابھی تک وہیں بیٹھے ہوئے ہو تو بہت انہوں نے پھر محنت کی ہے.وکیل اعلیٰ صاحب نے اپنی خاص نگرانی میں سارے شعبوں کو حرکت دے دی اور انصار، خدام سے استفادے کئے تو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا پہلے ان کی قربانی تھی اعداد و شمار آگے ہیں اتنا کہ پچاسی لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے ان کا ایک کروڑ کے دائرے میں تھے اتنا مجھے یاد ہے.اب خدا نے اتنا زیادہ ان کو آگے بڑھا دیا مگر مشکل یہ ہے کہ دوسرے آگے بڑھنے والے بھی تو تیز بڑھ رہے ہیں اس لئے ان کی پوزیشن اول نہیں آسکی پھر بھی.ابھی تک جو دس جماعتیں ہیں ان میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے جرمنی نے کسی اور کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور اگر چہ ان کا امسال کا اضافہ تھوڑا ہے مگر چونکہ پہلے ہی خدا کے فضل سے وہ بڑی ٹھوس قربانی اور محکم قربانی کر رہے ہیں جس میں تزلزل نہیں ہے تو جرمنی کی اس دفعہ جو پوزیشن ہے وصولی کی تین لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ ہے.امریکہ نمبر دو پر ہے تین لاکھ تیرہ ہزار اور امریکہ نے پاکستان کو ایک نوچ نیچے کر دیا ہے آگے ورنہ پہلے جرمنی کے بعد پاکستان آیا کرتا تھا.تو ہے تو یہ گڑ بڑ والی بات لیکن مجبوری ہے نیکی کے کاموں میں دوڑ تو ہوتی ہے کچھ آگے بڑھیں گے ، کچھ پیچھے ہیں
خطبات طاہر جلد 15 873 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء گے.تو پاکستانیوں سے معذرت کے ساتھ یہ عرض ہے یہ بڑی انہوں نے دوڑ ماری ، بہت کوشش کی ،خوب بھاگے لیکن امریکہ پھر بھی آگے نکل گیا اور یہ جو دوڑ ہے اس کا مزہ آتا ہے دیکھنے کا ، مارا مار مقابلے ہور ہے ہوں پھر کوئی آگے نکل آئے کوئی پیچھے رہ جائے یہ گھوڑوں کی دوڑ کا جو اصل مزہ ہے وہ یہ ہے کہ Neck to Neck دوڑ ہورہی ہو اور غیر متوقع گھوڑا ایک دم آگے آجائے تو یہ جو دوڑ ہے قربانیوں کی یہ ہماری گھڑ دوڑ ہے بہت ہی مزے کی قرضہ حسنہ والا مضمون بھی اپنا اور یہ جو بھی اس پر لگایا ہوا ہے ہم نے ، اسی پر سارا داؤ پیچ ہے.تو دیکھیں کتنے مزے کی دوڑ ہوئی ہے امریکہ آخر آگے نکل گیا اور برطانیہ کو ماشاء اللہ تو فیق ملی ہے چوتھے نمبر کو قائم رکھا ہے یا پیچھے سے آیا مجھے علم نہیں لیکن چوتھا نمبر نہیں چھوڑا برطانیہ نے ، کینیڈا، پانچویں پر ہے، انڈونیشیا چھٹے پر سوئٹزر لینڈ ساتویں پر ، ہندوستان آٹھویں پر اور ماریشس نویں نمبر پر اور جاپان دسویں نمبر پر ہے.یہ جو مواز نے ہیں یہ پوری طرح حقیقت میں اعدادو شمار کے لحاظ سے ہم نسبتیں تو بنا لیتے ہیں مگر روح قربانی کے یقینی فیصلے اس پر نہیں ہو سکتے کیونکہ ملکوں کے حالات مختلف ہیں اقتصادیات مختلف ہیں فی کس احمدی کتنے ملازمت میں ہیں کتنے فارغ ہیں کتنے تجارت کر رہے ہیں بہت سے ایسے عوامل ہیں جو اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے بعض لوگ مجھے احتجاج کے خط لکھ دیتے ہیں کہ آپ نے فلاں بات دیکھی ہوتی تو شاید ہمارا اخلاص زیادہ ثابت ہوتا.اخلاص تو اللہ نے دیکھنا ہے.پس سبحان من یرانی پر نظر رکھا کریں.ہم تو اعداد و شمار کی بات کرتے ہیں اس میں بھی ایک لطف ہے اس سے بھی فائدے پہنچتے ہیں اس سے بھی کچھ لوگ آگے نکل جاتے ہیں اور جو پہلے پیچھے تھے کئی لوگوں میں نئے جذبے بیدار ہوتے ہیں.تو اس نیک نیت کے ساتھ ایک پر لطف ذکر چلتا ہے.اس لئے مراد یہ نہیں کہ بعض لوگ یہ سمجھیں کہ ہم ذلیل ہو گئے ہم ے کر دئے گئے ، یہ اعداد و شمار پیش اس طرح کئے جاتے تو شاید ہم آگے نکل آتے.یہ فضول باتیں ہیں اپنی طرف سے جو تجزیہ جائز ہے وہی کیا جاتا ہے اور روپے کی قیمتوں کا بڑھنا، گرنا ورنہ ان بحثوں میں نہیں ہم پڑ سکتے ورنہ یہ اقتصادیات کا ایک ایسا قصہ چل پڑے گا جس کو ماہرین بھی سمیٹ نہیں سکتے ، حقیقت میں بہت ، بے شمار فیکٹرز ہیں.تو اللہ بہر حال مبارک فرمائے امریکہ کو اس نے غیر معمولی ترقی کی ، آگے بڑھا.جرمنی کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ابھی تک اپنی سرداری قائم رکھی ہے.پاکستان کو یہ فائدہ ہوا کہ بہت گر جاتا
خطبات طاہر جلد 15 874 خطبہ جمعہ 8 نومبر 1996ء اگر غیر معمولی کوشش نہ کرتے کیونکہ روپیہ بھی گر گیا اور دوسرے ملک اوپر سے آگئے اس کے باوجود پاکستان کا اوپر آنا ایک بہت بڑی خدا تعالیٰ کے فضل سے توفیق ہے.کہتے ہیں کہ اگر کرنسیوں کی مقامی لحاظ سے یہ جو کرنسیوں نے ترقی کی یا آگے پیچھے ہوئیں ان کے لحاظ سے اگر انہی کرنسیوں میں مقابلے کئے جائیں نہ کہ پاکستانی روپے یا ڈالر میں ڈھال کر یا پاؤنڈوں میں ڈھال کر تو اپنی اپنی کرنسی کے لحاظ سے تو اس طرح پھر ہمیں توفیق مل جاتی ہے کہ پاکستان کو اؤل قرار دے دیں کیونکہ اپنی کرنسی کے اعتبار سے پاکستان نے پچاسی لاکھ اضافہ کیا اور ایک کروڑ ستاسی لاکھ روپے ان کے بنتے ہیں.امریکہ نے دولاکھ چھبیس ہزار پانچ سو پچاس کر کے جو اضافہ کیا ہے وہ بیاسی اعشاریہ اڑتیس فیصد ( %82.38) ہے.پاکستان کا پاکستانی کرنسی میں تر اسی فیصد (%83) ہے تو تھوڑا سا جس کو Neck to neck race کہتے ہیں نا کہ چوتھائی گردن آگے نکل گیا گھوڑایا اتنا اس سے بھی کم اور Photo Finish ہے یہ ان دونوں کے درمیان.جرمنی کو اس پہلو سے ان دونوں نے کافی پیچھے چھوڑا ہے یعنی چو بیس فیصد جرمنی کا اضافہ ہوا ہے لیکن ان کے حالات جس طرح متوازن چندے دے رہے ہیں ان پر شکوہ کوئی نہیں ہے.بہر حال ایک یہ ذریعہ تھا میں چاہتا تھا کہ پاکستان کو بھی کچھ تھوڑ اسا مزہ آجائے اور پاکستان کو مزہ کے لفظ سے اتنا مزہ نہیں آتا جتنا ”سواڈ کے لفظ سے مزہ آتا ہے تو ایسی بھی تھوڑی سی بات کر دی کہ پاکستان کو بھی سواد آجائے کہ ہاں ہم آگے نکل گئے ہیں ما شاء اللہ.باقی اعداد و شمار کی اب اس وقت یہاں گنجائش نہیں ہے کئی پہلو سے تیار کئے گئے ہیں مگر وقت ختم ہو گیا ہے جمعہ کا ، میں نے بعد میں سفر پہ بھی جانا ہے.تو اس تمہیدی بیان کے بعد ان آیات کی روشنی میں جو میں نے تلاوت کی تھیں، میں تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرتا ہوں.یہ مختلف دفاتر کے لئے مختلف نمبر کے سال ہوں گے.اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ اسی طرح ایک پاک محبت کے مقابلے کی دوڑ میں نہ کہ ایک حسد کے مقابلے کی دوڑ میں، پاک محبت کے مقابلے کی دوڑ میں ہمیشہ آگے سے آگے بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 15 875 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء ہر وہ فعل جو خدا کی محبت دلوں میں پیدا کرے اور اسے قریب لائے وہ حقیقی جہاد ہے.(خطبه جمعه فرموده 15 /نومبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : وَاللهُ يَدْعُوا إلى دَارِ السَّلْمِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرَ وَلَا ذِلَّةٌ أُولَبِكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ پھر فرمایا: (یونس : 27،26) آج کل خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ ایک عالمی جہاد میں مصروف ہے جو دعوت الی اللہ کا جہاد ہے جو تمام جہادوں سے افضل اور اعلیٰ اور درحقیقت جہاد کی غایت ہے.جہاد کا قیام ہی اللہ کی طرف بلانے کی غرض سے ہے.ہر وہ فعل جو خدا تعالیٰ سے پرے دھکیلے وہ جہاد کا برعکس ہے.ہر وہ فعل جو خدا کی محبت دلوں میں پیدا کرے اور اسے قریب لائے وہ حقیقی جہاد ہے اس لئے تلوار کے جہاد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے.وہ تلوار جو خدا کی محبت اور خدا کی طرف بلانے کے نام پر اٹھائی جائے اور قتل و غارت پر منتج ہو اس سے خدا تعالیٰ کی محبت تو نہیں بڑھ سکتی اس لئے اس چیز کا نام جہا درکھنا گناہ ہے اور قرآن کریم کے واضح ارشادات سے متصادم ہے، بالکل ٹکراتا ہے قرآن کریم
خطبات طاہر جلد 15 کے مضامین سے.876 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء جہاد کی جو تعریف قرآن کریم نے مختلف جگہ کی ہے وہ بنیادی طور پر وہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.ہر وہ چیز جو خدا کے قرب پر منتج ہو جس کے نتیجے میں خواہ نفس اللہ کے قریب آئے یا لوگ اللہ کے قریب آئیں وہ ہر کوشش جہاد ہے.تو جہاد کا مرکزی معنی کوشش کا ہے اور اسلامی اصطلاح میں وہ کوشش جو خدا کے قریب کرے اسے جہاد کہتے ہیں اور دعوت الی اللہ کا مقصد کیا ہے.اس کا مطلب جنگ اور فساد نہیں ہے بلکہ امن کا قیام ہے.یہ دو آیات جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس مضمون کو نہ صرف بیان کرتی ہیں بلکہ درجہ کمال تک پہنچاتی ہیں.ہم یہ کہتے ہیں ہم خدا کی طرف بلا رہے ہیں.اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ (النحل: 126) کے ارشاد میں اللہ نے فرمایا ہے اپنے رب کے رستے کی طرف بلاؤ ہم خدا کی طرف بلا رہے ہیں.مگر کیسے بلانا ہے، کیا مقاصد ہیں، ان کے اوپر روشنی ڈالنے والی یہ آیت ہے.وَاللهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلْمِ یہ تو ممکن نہیں کہ اللہ سلامتی کی طرف بلا رہا ہو اور آپ اللہ کی طرف بلا رہے ہوں اور اس کا نتیجہ جنگ ہو، آپ اللہ کی طرف بلا رہے ہوں اور اس کا نتیجہ فساد ہو اور سلامتی کے برعکس ہو.تو اصل بلا نا خدا کا بلانا ہے.وہی داعی الی اللہ ہے جو خدا کی آواز کے مطابق بلاتا ہے، جس طرف خدا بلا رہا ہے اسی طرف وہ بھی بلا رہا ہو اس لئے اس دعوت الی اللہ کی تشریح یہ ہے کہ تم تو اللہ کی طرف بلا رہے ہو مگر یاد رکھنا کہ تمہارا بلاوا سلامتی کی طرف ہونا چاہئے کیونکہ خدا کا بلاوا سلامتی کی طرف ہے.تو کیسے خدا کی طرف بلاؤ گے جب بلاؤ گے فساد کے رنگ میں اور فساد پیدا کرتے ہوئے اور ظلم کے ساتھ اور سفا کی کے ساتھ ، تو خدا کی آواز اور ہوگی تمہاری آواز اور ہوگی.خدا ایک اور طرف بلا رہا ہو گا، تم ایک اور طرف بلا رہے ہو گے تو یہ دونوں باتوں میں انطباق نہیں ہوتا.پس یہ آیت بہت ہی اہم ہے اس نقطہ نگاہ سے کہ خدا کی طرف بلانا کس کو کہتے ہیں اور اس کے مقاصد کیا ہیں اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے ساتھ کیا سلوک فرماتا ہے.پہلے تو فرمایا وَ اللهُ يَدْعُوا إِلى دَارِ السَّلْمِ اللہ تو امن کے گھر کی طرف بلاتا ہے.اگر ساری دنیا دعوت الی اللہ کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کو قبول کر لے تو مراد یہ ہوگی کہ تمام دنیا دار السلام بن جائے ، ساری دنیا امن کا گھر بن جائے.پس دیکھو دنیا میں کتنے دعاوی کرنے والے ہیں کہ ہم قیام امن کی
خطبات طاہر جلد 15 877 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء خاطر مہمات جاری کرتے ہیں، قیام امن کی خاطر لڑائیاں کرتے ہیں قیام امن کی خاطر ہم نے یہ بڑے بڑے اہم فیصلے کئے ہیں جو غریب قوموں پر زبردستی ٹھونسیں گے.یہ سارے دعاوی جھوٹ پر مبنی ہیں کیونکہ ان دعاوی کے بعد ہم نے دنیا میں امن بڑھتا تو کبھی نہیں دیکھا فساد پھیلتے ضرور دیکھے ہیں.بدامنی پھیلتی ہے ہر جگہ ظلم وسفا کی کا دور دورہ ہوتا ہے.پس جو مقصد اپنی ذات سے متصادم ہو جائے اس کے اندر ایک اندرونی تضاد ہو وہ مقصد یقیناً جھوٹا ہے اور بے کار ہے اور اس سے کوئی بھی فائدہ بنی نوع انسان کو نہیں پہنچ سکتا.پس داعین الی اللہ کی ہدایت کے لئے میں نے یہ آیت چنی ہے.میں آپ کو اب سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس میں اور کیا کیا مضامین شامل ہیں.پہلی بات تو وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلْمِ اس کو بھول کر آپ نے کوئی پیغام نہیں پہنچانا اور سلامتی کی طرف کیسے بلا سکتے ہیں اگر آپ کو سلامتی نصیب نہ ہو.پس یہ دوسرا پہلو ہے جو بہت ہی اہم ہے.اللہ کا نام سلام ہے اس لئے جب آپ خدا کی طرف بلاتے ہیں تو یہ آیت بتا رہی ہے کہ دار السلام کی طرف بلا رہے ہیں اور اللہ کا نام بھی سلام ہے.پس آپ میں اگر سلام نہ ہو تو آپ سلام کی طرف بلا ہی نہیں سکتے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ہر انسان اگر اپنی فطرت، اپنی طبیعت، اپنے مزاج کا جائزہ لے تو اسے خوب اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ اس کی شخصیت کے کون کون سے پہلو سلام سے خالی ہیں.ان میں بدامنی ہے، ان میں بے چینی اور بے قراری ہے اور تضادات کے نتیجہ میں یہ باتیں پیدا ہوتی ہیں.پس دار السلام کی طرف بلایا جاہی نہیں سکتا جب تک کہ بلانے والی شخصیت اس بات کا جہاد نہ کرے کہ اس کے اندر سلام پیدا ہونا شروع ہو جائے اور اس کا گھر دار السلام ہو جائے کیونکہ اللہ تو دار السلام کی طرف بلاتا ہے.اگر بلانے والا دار السلام اپنے اندر رکھتا ہی نہ ہو تو وہ دار السلام کی طرف بلانے کا مجاز نہیں.اگر مجاز ہے یعنی خدا نے فرمایا ہے کہ بلاؤ تو بلائے گا تو سہی مگر بے کار بلائے گا اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکل سکتا.وَيَهْدِي مَنْ يَّشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ فرمایا، بلاتا تو ہے مگر زبردستی نہیں بلاتا اور پہچانتا ہے کہ کون اس لائق ہیں کہ وہ اس گھر کی طرف لے جائے جائیں.پس جب اللہ تعالیٰ مَنْ تَشَاءُ فرماتا ہے تو یہ مراد نہیں ہے کہ ایسا فیصلہ کرتا ہے جو جبری فیصلہ ہے جیسے انسان جو چاہے کرے.جب یہ آپ کہتے ہیں کہ انسان جو چاہے کرے تو ہمیشہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک
خطبات طاہر جلد 15 878 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء جابر ہے اس کی مرضی ہے وہ مادر پدر آزاد ہے جو اس کے من میں آئے کر گزرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں.اللہ تعالیٰ کو پوچھنے والا تو کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ خود ان صفات حسنہ کے انتہائی مقام پر فائز ہے جس سے آگے صفات حسنہ ہو ہی نہیں سکتیں اور اس کی صفات حسنہ اس پر نگران ، خدا کی صفات حسنہ خود نگران ہیں یعنی اس بات کی ضامن ہیں کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جو صفات حسنہ کو گزند پہنچا سکے کیونکہ جہاں خدا کی ایک صفت نے اپنی جلوہ گری میں دوسری صفت میں نقص ڈالا وہاں خدا، خدا نہ رہا.پس یہ کامل عدل اور کامل توازن حسن کامل پیدا کرتا ہے.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے کہ جس کو چاہتا ہے بلاتا ہے مراد ہرگز یہ نہیں کہ جبری فیصلہ کرتا ہے اقتداری فیصلہ کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہی نہیں کہ وہ اس کے اہل ہے بھی کہ نہیں.شام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا کہ خوب کھول کر بیان فرمایا ہے لفظ یشاء میں اچھی بات ہونا لازم ہے.چنانچہ براہین احمدیہ میں بھی آپ نے اس مضمون کو خوب تفصیل سے کھولا اور خصوصاً آریوں کے ساتھ بحث اور گفتگو اور عیسائیوں کے ساتھ بحث اور گفتگو میں اس نکتے کو کھولا ہے کہ تم جو یہ سمجھتے ہو کہ شام کا مطلب یہ ہے کہ جبر کسی کو کچھ کہتا ہے یا فیصلہ کرتے وقت بے دلیل فیصلہ کرتا ہے یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے.ساتھ میں چاہتا ہے اور اچھی چیز ، بری چیز چاہی نہیں جاسکتی.ایک منصف مزاج نا انصافی چاہ ہی نہیں سکتا.ایک محبت کرنے والا نفرت چاہ ہی نہیں سکتا.تو جب یہ کہا جائے اللہ چاہتا ہے تو لازم ہے کہ وہ چاہنا مبنی بر عدل ہے مینی برحسن ہے اور ایسا چاہتا ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کے ظلم کا کوئی شائبہ تک بھی موجود نہیں.پس ان معنوں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ دار السلام کی طرف بلاتا ہے مگر سب نہیں آئیں گے.يَهْدِى مَنْ تَشَاءُ اس کو ہدایت دے گا جس کے متعلق وہ یہ فیصلہ فرماتا ہے کہ وہ اس لائق ہے کہ اسے ہدایت دی جائے اور جس کے لئے خدا کی طرف سے بلانے میں ایک چاہت پیدا ہو جاتی ہے.اب شام کے لفظ میں ایک چاہت کا مضمون بھی ہے.آپ جو چیز چاہتے ہیں اس کی طلب کرتے ہیں، اس کی جستجو کرتے ہیں.اگر بے اختیار ہوں تو وہی طلب ایک بھڑکی میں تبدیل ہو جاتی ہے ایک آگ سی سینے میں جل جاتی ہے کہ میں چاہتا ہوں اس کو مگر میرے اختیار میں نہیں کہ میں اسے بلالوں اور اللہ کے اختیار میں ہے.
خطبات طاہر جلد 15 879 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء تو ایک اور بھی بہت خوب صورت مضمون مَنْ شام میں یہ موجود ہے کہ بلاتا سب کو ہے مگر جو اس کو پیارے لگتے ہیں جن کے اندر یہ خوب صورتی، اس حسن کا مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ خدا کی طرف آ سکیں تو پھر ان کے لئے اللہ کے دل میں ایک چاہت پیدا ہو جاتی ہے یعنی لفظ من سے مراد وہ دل نہیں جو انسان کا دل ہے مگر ایک معنوی طور پر ایک چیز دل کہلاتی ہے جو ارادے کا مرکز ہے یا چاہت کا مرکز ہے تو ان معنوں میں اللہ کے دل میں بھی ایسے شخص کے لئے ایک چاہت پیدا ہو جاتی ہے اور جب خدا کے دل میں چاہت پیدا ہو تو وہ آتا ہی آتا ہے اس کے لئے نہ آنا ممکن ہی نہیں رہتا.پس دیکھو یہاں تلوار کا کون سا موقع ہے؟ کہیں جبر کی کون سی گنجائش باقی ہے؟ دنیا والے تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اندر بھی جب جذب پیدا ہو جائے تو ایسا جذب بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ دوسرے سے ”بن آئے نہ بنے مگر وہ جذب اگر پیدا ہو جائے تو پھر ا گلے کے لئے بے اختیاری ہو جاتی ہے.تو اللہ کے اندر جب کسی کی چاہت پیدا ہو جائے ، جب جذب پیدا ہو جائے تو پھر وہ آئے گا اور ضرور آئے گا.پس خدا کے بندے جو خدا کی طرف بلاتے ہیں ان کے لئے اس میں بہت ہدایت کے سامان ہیں.اس آیت کے اسی ٹکڑے میں عظیم مضامین بیان ہوئے ہیں کہ تم جن کو بلاتے ہو یا درکھو ان کے حسن پر نگاہ رکھو اور کوشش یہ کرو کہ ان کے اندر جو بہترین مادے فطرت میں موجود ہیں ان کو اجا گر کرو ان کو اٹھاؤ اور باہر لاؤ ان کو جو دبے ہوئے ہیں اور مخفی ہیں.جس طرح ایک آگ کا متلاشی راکھ کرید کر آگ کے چنگارے ڈھونڈتا ہے ہر انسان میں کچھ خوبیاں مخفی ہیں کچھ مدفون ہیں ان پر نظر رکھو اور ان سے کام لو.جب وہ چمک اٹھیں گی جب ان میں جس طرح شعلے میں ، آگ کے چنگارے میں یا جلتے ہوئے کوئلے میں جو چنگارا تو کہلاتا ہے مگر وہ ابھی بھڑکا نہیں ہے اس میں چنگاریاں اس سے اٹھنے لگیں اور اپنے گرد کو جلانے یا روشن کرنے کی اس میں صلاحیت پیدا ہو جائے تو پھر وہ دیدہ زیب ہو جاتا ہے وہ نظر کو کھینچنے لگتا ہے تو اسی طرح مومن کے دل میں بھی کچھ نیکیاں دبی ہوتی ہیں جب وہ اٹھتی ہیں تو پھر اللہ کی توجہ ان کی طرف پیدا ہوتی ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ ایسا نور تھا جو ویسے ہی بھڑک اٹھنے کو تیار تھا.وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَار (النور : 36) آگ اسے چھوٹے نہ چھوئے اس سے قطع نظر اس کی ذات میں شعلہ بننا اور چمک اٹھنا اور ماحول کو روشن کر دینا اس طرح شامل تھا کہ فطرتا اس میں یہ مادہ پایا جاتا
خطبات طاہر جلد 15 880 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء تھا اس نے ہونا ہی تھا یہ، اس پر آسمان سے اللہ تعالیٰ کے نور کا شعلہ اترا ہے اور نُورٌ عَلَى نُورٍ وہ نور پر نور بن گیا.تو اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو چاہا تو بے مقصد تو نہ چاہا، بے وجہ تو نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار فرمایا اور فضیلت بخشی.نور کا آغاز آپ کی ذات میں ہے وہاں وہ چپکا ہے وہاں سے وہ اٹھ کر دنیا کو روشن کرنے پر آمادہ ہوا تھا تب آسمان سے وہ شعلہ نو را ترا ہے جس نے اپنے ساتھ اس کو چمٹالیا اور ایک خدا اور بندے کا جس حد تک بھی اتصال ممکن ہے وہ اتصال ہمیں آنحضرت ﷺ کے نور کا خدا کے نور کے ساتھ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.تو یہی مضمون ہے جو ہر بندے پر کسی نہ کسی حد تک اس کی توفیق کے مطابق جاری ہوتا ہے اور یشاء کا مطلب سمجھ آ جاتا ہے.اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو چنا، جس کو چاہتا چن سکتا تھا مگر اس کے چاہنے میں ایک حسن ہے اس بات کو لوگ بھول جاتے ہیں اور وہ بد چیز کو چاہ ہی نہیں سکتا.جس کو سب سے اچھا چاہا اس میں سب سے اچھا ہونے کی صلاحیتیں موجود تھیں اور وہ سب سے اچھا بننے کی کوشش کر رہا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے جیسا وہ تھا ویسا ہی اس سے سلوک فرمایا.پس تقدیر اور تدبیر کا جو سنگم ہے وہ اس طرح پیدا ہوتا ہے.بندے کی تدبیر کے مطابق خدا کی تقدیر اترتی ہے اور یہ دونوں مل کر پھر تقدیر ہی بن جاتے ہیں پھر تد بیر جدا نہیں رہتی.تو اس مضمون کو میں بیان کر رہا ہوں.بہت ہی اعلیٰ شان کے انسانوں میں تو ہمیں دکھائی دینے لگتا ہے مگر عام انسانوں میں یہ دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے ہم سے کو تا ہی ہو جاتی ہے اور ہماری کوتاہی کے نتیجے میں ہماری دعوت الی اللہ کی کوششیں ضائع چلی جاتی ہیں.پس پہلی نصیحت آپ کو یہ ہے کہ جن کو آپ خدا کے رستے کی طرف بلاتے ہیں ان میں خوبیوں کی تلاش کریں بلکہ ان کو چاہیں جو اچھے ہیں جن کی خوبیاں دکھائی دے رہی ہیں.کج بحثوں اور ضدی لوگوں سے یا بداخلاق لوگوں سے کئی داعی الی اللہ سرٹکراتے رہتے ہیں، ساری عمران کی یہ سرٹکراتے گزر جاتی ہے اپنا سر پھوڑتے ہیں اور اس کے سر میں کچھ داخل نہیں کر سکتے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی سنت کے خلاف کام کر رہے ہیں.پس اس مضمون کو اور آگے بڑھائیں اور پھیلائیں تو پھر یہ حکمت عملی ہمارے سامنے آئے گی کہ تمہیں لازماً حسن کی تلاش کرنی ہے تا کہ اسے چمکاؤ، اسے اور زیادہ کر دو اور ایسا کر دو کہ اللہ کی پیار کی نظر اس پر پڑنے لگے.جب خدا کی نظر اس پر پڑے گی تو پھر تم ایک طرف ہو جاؤ اس نے آنا ہی آنا ہے.اور
خطبات طاہر جلد 15 881 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء بلاتے تو تم ہو مگر وہ لبیک کہے گا خدا کی آواز پر اور رسول کی آواز پر نہ کہ تمہاری آواز پر.تو داعی الی اللہ کا یہ غرور بھی تو ڑ دیا کہ ہم نے بلایا تھا اس لئے وہ احمدی ہو گیا، ہم نے دعوت دی تھی اس لئے اس نے حق کو قبول کیا.اسْتَجَابُو اللَّهِ وَالرَّسُولِ (آل عمران : 173) وہ استجابت کرتے ہیں یا کی تو اللہ اور رسول کے لئے کی کیونکہ رسول خدا کی صفات کا مظہر بنا ہوا تھا.تو اس لئے دعوت الی اللہ والے کے لئے ان آیات میں بہت ہی عظیم حکمتوں کے سمندر موجزن ہیں.اگر آپ ان کی تہہ میں اتر کر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ حکمتوں کے سمندر ہیں جو قرآن کریم کی چھوٹی چھوٹی آیات میں جو کوزے سے بھی چھوٹی ہیں ان میں آپ کو بھرے ہوئے اور موجیں مارتے ہوئے دکھائی دینے لگیں گے.تو پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ آپ نے حسن کی تلاش کرنی ہے اور حسن ہر انسان میں موجود ہوتا ہے لیکن بعضوں میں زیادہ بعضوں میں کم.تو حسن کا متلاشی پہلے تو زیادہ حسن کی طرف جایا کرتا ہے نہ کہ کم حسن کی طرف، کم حسن کی طرف تو تب جاتا ہے جب زیادہ حسن ملے نہ.اگر سونے کی ڈلیاں ریت پر بکھری پڑی ہوں تو ریت کے اندر جو ریت کے ذروں کی طرح سونا ملا ہوا ہوتا ہے اس کے کھوج میں وہ وقت ضائع نہیں کرے گا پہلے وہ ڈلیوں کو چنے گا جب ڈلیاں ختم ہو جا ئیں پھر ریت کی باری آتی ہے پھر ان باریک ذروں کی تلاش ہوتی ہے پھر اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے گڑھے کھود نے پڑتے ہیں.ان میں پانی ڈال کر یا نہروں کے پانی کا رخ اس طرف پھیر کر ان میں وہ ریت کو ڈالتے اور بار بار کھنگالتے ہیں یہاں تک کہ سونا الگ اور ریت الگ ہو جائے ، محنت پھر بھی وہ کرتا ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ چونکہ تھوڑا اسونا ہے نسبتا زیادہ محنت کرنی پڑے گی اس لئے چھوڑ ہی دو.تو آپ نے چھوڑنا تو ہے نہیں، آپ کو چھوڑنے کا حکم ہی نہیں ہے.حکم یہ ہے کہ حسن کی تلاش کرو ایسا حسن جس پر اللہ کی نظر پڑنے لگے اور اس مضمون کے لئے اگلی آیت اس مضمون کو جیسا کہ مزید بڑھائے گی، اس مضمون کے لئے نہیں اس مضمون کو سمجھنے کے لئے اگلی آیت یا اس آیت کا اگلا ٹکڑا ہے وہ اس کو خوب روشن کر دے گا جب ہم وہاں تک پہنچیں گے، لیکن نصیحت کے طور پر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ پہلے خدا کے اچھے صاف ستھرے بندوں کی تلاش کریں وہاں سے دعوت الی اللہ شروع کریں تھوڑے وقت میں آپ کو زیادہ پھل ملے گا اور ایسے سعید فطرت بھی بندے ہوتے ہیں جن کو اگر آپ نہ بھی کہیں تو اللہ ویسے ہی بلا لاتا ہے چنانچہ وحی کے ذریعے، کشوف کے ذریعے، الہامات کے ذریعے، ایسے واقعات کے نتیجے میں جو بظاہر اتفاقات ہوتے ہیں مگر
خطبات طاہر جلد 15 882 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء جب ان پر آپ نظر ڈالتے ہیں تو اتفاق نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تقدیر جاری ہو رہی ہوتی ہے اس لئے وہ اتفاق نہیں کہلا سکتے.چنانچہ خدا کے بہت سے ایسے نیک بندے جن تک پیغام پہنچا ہے ان کے حالات جب مجھ تک پہنچے ہیں تو ایک نہیں بے شمار ایسے شواہد دکھائی دیتے ہیں ایسے گواہ مہیا ہو جاتے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں اس کے حق میں گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کی نظر ان پر پڑی تھی تو پھر حالات کو اس کے مطابق اس کو حاصل کرنے کے لئے ساز گار فرما دیا گیا.چلتے چلتے بظاہر ایک حادثے کے نتیجے میں اس کا رخ بدل جاتا ہے، بظاہر اتفاقاً ایک احمدی کے دروازے پر دستک دیتا ہے بظاہر اتفاقا اسے اندر بلا لیا جاتا ہے، بظاہر اتفاقاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصویر وہاں لٹکی دکھائی دیتی ہے اور بظاہر ا تفاقا اسے پہلے سے ہی خواب آئی ہوئی ہے کہ یہ وجود ہے جو مجھے بلا رہا ہے.تو سب جگہ کہنے والا کہے گا اتفاقا، اتفاقاً، اتفاقا ، لیکن جو اس مضمون کو سمجھتا ہے وہ کہے گا بظاہر اتفاقاً.دیکھنے والا اتفاقا بھی کہہ سکتا ہے مگر اتفاق کے سلسلے کو اتفاقا نہیں کہہ سکتا.ہر چیز اتفاقاً ہو سکتی ہے، اتفاقاً اس نے کہیں تو جانا تھا رستہ بھولنا تھا تو کسی گلی میں تو نکلنا تھا، اتفاقاً کسی کا دروازہ تو کھٹکھٹانا تھا مگر اگر ہرا اتفاق ایک خاص رخ کی طرف آگے بڑھ رہا ہو، اگر وہ گلی احمدی کی گلی نکلے، اگر وہ دروازہ احمدی کا دروازہ نکلے، وہ احمدی موجود ہو اور ایسا حسن خلق رکھتا ہو کہ دروازہ کھٹکھٹانے والے کو اندر آنے کی دعوت دے اور اس کی خاطر مدارات کرے اور وہاں تصویر یکی ہو جو اتفاقاً بھی ہوسکتی تھی مگر اسی کمرے میں بٹھائے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر ہو اور پھر خواب آئی ہو تو اتفاقاً اب بتائیں کون پاگل ہے جو ان سب باتوں کو اکٹھا اتفاق کہے گا؟ تو ہر اتفاق میں تنہائی پائی جاتی ہے.جہاں دو اتفاق اکٹھے ہوں وہاں اتفاق کی بجائے کسی تجویز کا مضمون ابھرتا ہے کہ مجوزہ بات ہے.کوئی تین ہو جائیں تو اور بھی زیادہ اس بات کا امکان شروع ہو جاتا ہے کہ سوچی تبھی تدبیر ہے اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو پھر تو اتفاق کہنا ہی حد سے زیادہ بے وقوفی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے بلانا ہے اور اللہ تعالی ویسے ہی نیک بندوں کا رخ اس طرح پھیر رہا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار ( در مشین اُردو: 130 )
خطبات طاہر جلد 15 883 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء تو خدا کی تقدیر یہ فیصلے کرتی ہے کہ کب موسم آیا ہے پھل کے پکنے کا، کب نیک روحوں کو سمیٹنے کی کوشش ہونی چاہئے ، کب خدا کی طرف سے آسمان سے ایسے نشان اتریں کہ نیک روحیں ان نشانات کو دیکھ کر خدا کے رستے کی طرف متوجہ ہوں.یہ سب وہ تقدیر کے پہلو ہیں جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہے مگر اللہ کی ہر بات سوچی سمجھی ایک تدبیر کے مطابق رونما ہوتی ہے..پس اس دور میں اللہ کوحسن کی تلاش ہے اور وہ آپ کی کوشش کے بغیر بھی اکٹھے کر کر کے لا رہا ہے.پس جو آپ کی کوشش ہے اس کو جب پھل لگتے ہیں تو دراصل یہ بھی خدا ہی کی تدبیر کا ایک حصہ ہے اور خدا کی تدبیر کو تقدیر بھی کہتے ہیں.اللہ اس کو تدبیر بھی کہتا ہے قرآن کریم میں.يُدَبِّرُ الْأَمْر (یونس: 32) وہ تقدیروں کے فیصلے ، امر یہاں تقدیر ہے، اللہ تدبیر کے ذریعے کرتا ہے.تو تقدیر سے بالا ایک تدبیر ہے جو خدا کی تدبیر ہے.تو اس پہلو سے خدا کی تدبیر نے جو تقدیر ہم پر کھول دی ہے وہ تمام دنیا کی سعید روحوں کو ایک ہاتھ پراکٹھا کرنے کی تقدیر ہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے جو ہمیں طریق سمجھائے ہیں ان میں سے یہ ایک طریق ہے جو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں اچھے لوگوں کی تلاش کریں اللہ کو ان کی ضرورت ہے اور جن میں کم حسن ہے ان میں حسن پیدا کریں کیونکہ جو نسبتا کم حسن رکھتے ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے تو آپ کا فرض ہے کہ پھر حسن پیدا کریں.اگر آپ حسن نہیں پیدا کریں گے تو آپ کے ہاتھ وہ پھل نہیں لگیں گے جن کی آپ کو حرص ہے اور حرص بھی بے جا ہے کیونکہ گندوں کو شامل کرنا اور نام کے طور پر تعداد بڑھانا یہ تو دعوت الی اللہ کا مقصد ہی نہیں ہے.دعوت الی اللہ کے نتیجے میں یہ تعداد بڑھتی ہے تو نیکی کو تقویت دینے کی خاطر بڑھتی ہے اور اس پہلو سے تعداد کا بڑھنا مفید ہے.مگر گند اکٹھا کر لیں ، بد اکٹھے کر لیں تو یہ دعوت الی اللہ کے مقصد کے بالکل منافی مقصد ہے بلکہ جو کچھ دعوت الی اللہ ہوئی ہے اس کو نقصان پہنچانے والا مقصد ہے.تو آپ یا درکھیں آپ نے پہلا کام اچھوں کی تلاش، دوسرا کام اچھی باتیں تلاش کر کے ان کو ابھارنا اور ان کے ذریعے حسن کو بڑھانا ہے اور یہ جو کام ہے اس کے لئے بھی حکمت چاہئے تبھی خدا تعالیٰ ہمیشہ دعوت کے مضمون کے ساتھ حکمت کا مضمون باندھتا ہے.اب ایک شخص کی خوبی کو پہچان لیں اور اس کا ذکر اس سے کریں تو خواہ وہ کیسا ہی بد ہو اس کا دل دراصل یہی چاہتا ہے کہ میں اچھا ہوں اور جب کوئی شخص اس کی کسی اچھی بات پر نظر ڈالے تو وہ
خطبات طاہر جلد 15 884 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء بہت خوش ہوتا ہے خواہ سر سے پاؤں تک بدیوں سے وہ داغ دار ہو اس کے اندر کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی ہے.آپ میں اگر پہچان ہے، اگر عرفان ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کسی کی خوبی کو پہچان کر اس پر کام کریں، نہ کہ اس کی بدیوں سے بات شروع کریں.بدیوں پر غلبہ کے لئے کوئی وہاں Foot Hold ہونا ضروری ہے.جب فوجیں کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتی ہیں تو اس کو فتح کرنے کے لئے پہلے وہاں ایک چھوٹی سی جگہ تجویز کرتے ہیں کہ یہاں ہم اتریں، یہاں اپنا وہ قدم جمائیں جس قدم کے جمانے کے بعد پھر ہم ارد گرد کام کر سکتے ہیں.تو یہ بھی بیہودہ طریق ہے کہ پہلے بدیوں پر ہی حملہ کر دو.قدم جمانے کے لئے اپنے مزاج کی چیز پر قدم جمایا جاتا ہے.جوسرز مین قبول کر سکے کسی فوجی یلغار کو اسی کو چنا جاتا ہے.پس حکمت عملی کا تقاضا یہ ہوتا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے یہاں تک کہ ابھی زائر میں جو انگلستان کا یہاں سے فوجی وفد روانہ ہونے والا تھا اس کے کمانڈر نے اپنے بیان میں یہ بات بھی داخل کی.ان سے پوچھا کسی ٹیلی ویژن کے ایک سوال کرنے والے نے کہ آپ کیسے کام کریں گے.اس نے کہا سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ وہاں قدم جمانے کے لئے کون سی جگہ موزوں ہے جب تک ہمیں وہ جگہ نہ مل جائے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تو جائزہ لے کر اس جگہ کو ڈھونڈیں گے پھر وہاں قدم جمائیں گے پھر اردگرد کا کام آسان ہو جائے گا.تو کسی انسان کو دعوت دے کر بلانے سے پہلے اس کے دل میں وہ جگہ تو ڈھونڈیں جس میں آپ کا قدم صدق، آپ کی سچائی کا قدم مضبوطی کے ساتھ گڑ جائے اور وہ خوبیوں کی جگہ پر ہوگا.یہ ایسا ہونا صرف خوبی کی جگہ پر ممکن ہوگا.یہ نہیں کہ ہر اس کی عادت کے ساتھ اپنا تعلق باندھنا، اگر اکثر بد ہے تو آپ کو بد ہوئے بغیر اس سے تعلق قائم ہوہی نہیں سکتا.پس خوبی کی تلاش کرنا اور اس سے تعلق باندھنا ضروری ہے پھر ماحول کو رفتہ رفتہ خوبیوں میں تبدیل کرنے کا کام ممکن ہے اور وہ شخص جس کے ساتھ یہ تعلق قائم ہواللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ ضرور آپ کی نیکی سے پہلے سے زیادہ مغلوب ہوتا چلا جاتا ہے اور متاثر ہوتا چلا جاتا ہے.بچوں کی تربیت میں بھی یہی حساب ہے کسی بچے کو مائیں ڈانٹ ڈانٹ کر ٹھیک کرنے کی جتنی مرضی کوشش کر لیں کبھی بھی نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ بغاوت پیدا ہوتی جاتی ہے ضد ہوتی چلی جاتی ہے.میں جب دورے کرتا ہوں تو بسا اوقات مائیں ایسے بچوں کو لے کر آتی ہیں کہتی ہیں ہماری تو بات ہی نہیں مانتا،
خطبات طاہر جلد 15 885 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء یہ تو سرکش ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور جب وہ کہہ رہی ہوتی ہیں میں اس کے بچے کی آنکھوں میں غیظ وغضب دیکھ رہا ہوتا ہوں اور بھی زیادہ متنفر ہو رہا ہوتا ہے ماں باپ سے کہ ہمیں تو یہ ملانے کے لئے لائے تھے کہ ٹیلی ویژن پہ ہم جس کو دیکھا کرتے تھے اس سے ملاقات ہوگی اور وہ ہمیں چاکلیٹ بھی دے گا تو اس کو تو ہمارا دشمن بنا رہے ہیں یہ.تو وہ پہلے سے زیادہ متنفر ہو جاتے ہیں.پھر میں ان کو آگے بلاتا ہوں پیار سے اور کافی ان میں غصہ آچکا ہوتا ہے اس وقت تک، پیار کر کے، تھپکا کر ، آہستہ آہستہ باتیں کر کے ان کا خوف دور کرتا ہوں.کہتا ہوں ماں باپ کی بات نہ سنو تم تو اچھے ہو، اندر سے تم اچھے ہونا آخر.کہتے ہیں ہاں ہم اچھے ہیں تو جب وہ اپنی اچھائی تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر آہستہ آہستہ بعض دفعہ ماں باپ بھی بتانے لگ جاتے ہیں کہ ہاں اس میں یہ بات تو ہے.تو میں نے کہا جب یہ بات ہے تو کیوں آپ نے اس کو بد بنا کر پیش کیا.پھر اس سے باتیں ہوتی ہیں رفتہ رفتہ ، بلا استثناء آج تک میں نے کبھی اس حکمت عملی کو جو خدا کی سکھائی، قرآن کی حکمت عملی ہے نا کام ہوتے نہیں دیکھتا.وہ اپنی خوبیوں کو جب بیان ہوتا دیکھتا ہے اور خوبی کے حوالے سے میں اس سے وعدے لیتا ہوں کہ تم نے اب یہ کام بھی نہیں کرنا وہ بھی نہیں کرنا تو وعدے کرتا ہے اور اگلی ملاقات میں یا بعض دفعہ خطوں کے ذریعے ماں باپ شکریہ ادا کرتے ہیں کہ واقعہ تبدیل ہو گیا ہے اور پھر وہ مستقل تبدیلی رہتی ہے.ایسے بچے بھی جن کو سکول کے اساتذہ تبدیل نہیں کر سکے اور ماں باپ کو شکایتیں کرتے تھے کہ شاید یہ پڑھنے کے قابل ہی نہ سمجھا جائے اس میں یہ برائیاں ہیں جب ان سے اس طریق پر بات کی جو خوب صورتی کی تلاش اور خوب صورتی پر عمل درآمد کر کے اس کے اندر نیا حسن پیدا کرتا ہے تو اس کے بعد، یعنی ایسی مثالیں ہیں جو معین میں بیان کر رہا ہوں کوئی فرضی باتیں نہیں کر رہا، ان کے ماں باپ نے بتایا کہ اساتذہ نے تعریف کی ہے اس کی اب کہ اس بچے میں تو انقلاب آ گیا ہے.تو آپ نے جو باتیں بچے میں انقلاب کرنے کے لئے کرنی ہیں وہ ساری دنیا میں وہی کام آئیں گی.ان باتوں میں انسانی فطرت ہے جو مرکزی نقطہ ہے وہ ہر بچے ، بوڑھے، جوان، مرد، عورت سب میں برابر ہوتی ہے اور یہی حکمت عملی ہے جو دنیا کو دعوت الی اللہ کی طرف بلانے میں کامیاب ہوگی.تو اپنے تعلقات بڑھا ئیں محض پیغام نہ دیں.گردو پیش احسان کا مضمون جاری کریں اور پھر خوبیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی خوبیوں کو آگے بڑھا ئیں.جب خوبیوں میں ایک قسم کا بڑھنے کا
خطبات طاہر جلد 15 886 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء ماده از خود جاگ اٹھے گا تو آپ سمجھیں گے کہ آپ کام کر رہے ہیں، دراصل اللہ کی تقدیر کام کرتی ہے گویاTakeover کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اور پھر اسے کھینچ کر اپنی طرف لے آتا ہے.چنانچہ یہ آیت اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے یوں بیان کرتی ہے.وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ پھر جسے اللہ تعالیٰ پسند کرنے لگتا ہے اسے صِرَاطٍ مُّسْتَقِیم کی طرف لے آتا ہے.مَنْ يَشَاءُ میں کون مَنْ ہے.لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا یہ جو فعل ہے اللہ تعالیٰ کا يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ ، يَهْدِي لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا ہے اصل میں ”ل “ کا تعلق يَهْدِی سے لگتا ہے اور بھی اس میں مضامین ہیں اگر وقت اجازت دے گا تو میں اس کو سمجھاؤں گا لیکن پہلی بات یاد رکھیں کہ اللہ ان کو ہدایت دیتا ہے جو اَحْسَنُوا جو اپنی بدیوں کو دور کر کے حسن میں تبدیل کرتے ہیں.اَحْسَنُوا کا جو لفظ ہے یہ بہت وسیع معنی رکھتا ہے، ایک یہ کہ وہ لوگ جو احسان کریں کسی پر ان کا اللہ مددگار بن جاتا ہے.دوسرا یہ کہ وہ دوسروں کی بدی کو دور کر کے حسن میں تبدیل کریں.تیسرا یہ کہ اپنے حسن کو اور بھی زیادہ اجاگر کریں.پس یہ تین چیزیں بیک وقت شروع ہونی چاہئیں اور ساتھ ساتھ چلتی رہنی چاہئیں.پس لِلَّذِینَ کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ہدایت ان کو دیتا ہے.دوسرا آیت کا یہ ٹکڑا اپنی ذات میں ایک مکمل الگ مضمون بھی رکھتا ہے اور وہ اس طرح ہوگا کہ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِيَادَةٌ وہ لوگ جو احسان کرنے والے ہیں ان کے لئے حُسنی ہے یہاں الحسنی جواب ہو جائے گا.لِلَّذِینَ کا.وہ لوگ جو احسان کرنے والے ہیں ان کا کیا ہے؟ ان کے لئے حُسنی ہے وَ زِيَادَةٌ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے.اب حسنی کیا ہوتی ہے.حُسنی کا عام معنی تو ہے اچھی بات لیکن اہل لغت بیان کرتے ہیں کہ حُسنی کسی خوبی کا درجہ کمال تک پہنچنا ہے اور اس کو Superlative Degree جو انگریزی میں کہا جاتا ہے وہی حُسنی پر بھی صادق آتا ہے.افضل اور تفصیل کا جو صیغہ ہے، جو معنی اس میں پائے جاتے ہیں وہ حُسنی لفظ میں پائے جاتے ہیں سب سے اچھی ،سب سے اعلیٰ.تو لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا اگر آپ اَحْسَنُوا فعل کو الگ بیان کر کے ذرائ کیں اور پھر کہیں الحُسنی ان کے لئے حُسنی ہے تو گویا آیت کا یہ ٹکڑا اپنی ذات میں مکمل آیت بن جاتی ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کو کھینچ تان کر بنانے کی ضرورت نہیں بعینہ یہی معنی اس کے اندر داخل ہے.پس لِلَّذِينَ
خطبات طاہر جلد 15 887 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء اَحْسَنُوا وہ لوگ جو اس کام میں مصروف ہوتے ہیں کہ دوسروں پر احسان کر رہے ہیں، دوسروں کے حسن کو بہتر بنارہے ہیں پھر خدا کی تقدیر ان کے اندر بھی ان کے حسن کو بڑھانے لگتی ہے یعنی یہ جزاً کے طور پر ہے اور لفظ زِيَادَةٌ “ نے صاف بتا دیا کہ جز آہی مراد ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بندے کے اعمال کی جزا ان کے حقوق سے ہمیشہ زیادہ دیتا ہے.فرمایا وہ لوگ جو دعوت الی اللہ کر رہے ہیں لوگوں کو بلا رہے ہیں خدا کی طرف دار السلام کی طرف بلا رہے ہیں کیونکہ اللہ بھی دار السلام کی طرف بلاتا ہے ان کو جزا کے طور پر اللہ تعالیٰ یہ توفیق بخشتا ہے کہ ان کی اپنی خوبیاں بڑھ کر حُسنی کا مقام حاصل کر لیتی ہیں یعنی درجہ کمال کو جا پہنچتی ہیں.وَ زِيَادَةٌ اور جب درجہ کمال کو پہنچ گئیں تو زِيَادَةٌ کیا ہوا.زِيَادَةٌ میں وہ شعلہ نور والی بات ہے جو پہلے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں.آنحضرت ﷺ کا حسن اس آیت میں جو آیت نور ہے اس میں درجہ کمال تک پہنچتا ہوا دکھایا جارہا ہے اس سے آگے وہ بڑھ نہیں سکتا بھڑک اٹھا ہے، پھر زیادہ کیسے ہوا.اس لئے کہ اللہ کا نور اس میں اتر آیا اور جب اللہ کا نو را تر آیا ہے تو انسانی درجہ کمال کا مقام ختم ہو گیا پھر خدا کے کمال میں سفر کا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور وہ لا متناہی ہے.پس بہت ہی عظیم اجر کا دعوی ہے جو داعین الی اللہ کے لئے ہے کیونکہ سارا مضمون ہی وہ ہے اور اتنا عظیم الشان دعوی ہے کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں، کوئی آخری اس کا کنارہ نہیں ہے.جولوگ بھی خدا کی خاطر حسن پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور حسن کے ساتھ لوگوں پر احسان کریں گے ان کے لئے خدا و عدہ فرماتا ہے کہ ان کے حسن کو اس حسن کی صلاحیتوں کے آخری کناروں تک پہنچا دے گا جس سے بڑھ کر انسان میں حسن ہو نہیں سکتا.جب وہاں پہنچ گیا، اپنے درجہ کمال کو پہنچ گیا پھر اپنے حسن کا نوران پر اتارے گا اور پھر کوئی اس کی انتہا نہیں ہے زِيَادَةٌ ہی بس ایک لفظ ہے جو بیان کیا جا سکتا ہے کیونکہ زِيَادَة میں سب سے زیادہ کی بحث نہیں چھیڑی گئی ، ہو ہی نہیں سکتی تھی ، ان کا نور پھر خدا کے تعلق کی بناء پر ، اس سے وصل کے نتیجہ میں بڑھتا چلا جاتا ہے.پس آپ دعوت الی اللہ کے اس اعلیٰ عرفان سے آراستہ ہو کر جو اس آیت کریمہ نے ہمیں عطا فرمایا ہے پھر سفر شروع کریں ان لوگوں کی تلاش کریں جن کو خدا کی طرف بلانا ہے ان کی خوبیوں پر نظر رکھیں ان کی تلاش کریں جس طرح اللہ خوبیوں پر نظر رکھتا ہے اور تعلق جوڑتا ہے بعینہ یہی مضمون
خطبات طاہر جلد 15 888 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء ہے جو یہاں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ بندے اور خدا کے تعلق میں یہی معرفت کا نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کا غیر اللہ سے تعلق کیسے قائم ہوسکتا ہے.ہر غیر اللہ محدود ہے، ہر غیر اللہ کوئی نہ کوئی نقص رکھتا ہے، ہر انسان خواہ کتنا بھی خوب صورت دکھائی دے جب خدا کے زاویہ نظر سے اس کو دیکھیں گے اس میں نقائص دکھائی دیں گے اس میں کمزوریاں نظر آئیں گی.اوّل تو بندوں کے نقطہ نظر سے بھی بے شمار کمزوریاں ہیں.انسان کا اپنا نقطہ نظر جو ہے جہاں سے وہ اپنی ذات کو جانچتا ہے اگر وہ اچھا اور سچا ہو تو انسان اپنے اندر اتنی بدیاں پائے گا کہ اس کے ہوش و حواس گم ہو جائیں گے.وہی ظفر کا شعر ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں ہر دفعہ اس موقع پر مجھے یاد آتا ہے چونکہ اچھا ہے اس لئے میں اس کو بار بار بیان کرنے سے تھکتا نہیں.بہادر شاہ ظفر نے اس نکتہ کو اردو شعر میں بہت عمدگی سے بیان کیا وہ کہتا ہے بی تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر اپنے حال سے جب تک غافل تھے لوگوں کے عیب و ہنر تلاش کرتے رہے.پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا اپنی برائیاں دکھائی دینے لگیں تو اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے مقابل پر کوئی بھی برا دکھائی نہیں دیا.اب بظاہر یہ ایک شعری مبالغہ ہے لیکن میرے نزدیک ظفر نے خواہ حقیقت کو پہچان کر کہا تھا یا شعر کو خوب صورت بنانے کے لئے کہا تھا جو بات کہہ گیا وہ بات بالکل سچی ہے کیونکہ انسان اپنی برائیاں زیادہ دیکھ سکتا ہی نہیں جتنی مرضی تلاش کر لے.ہر انسان نے اپنی برائیوں پر اتنے پر دے ڈھانچے ہوئے ہوتے ہیں اور اتنی احتیاطیں برتی جاتی ہیں کہ اس کی برائیاں دکھائی دینا شاذ کا کام ہے.وہ جو بد آپ کو دکھائی دیتے ہیں بے حیا بھی ہوں تب بھی آپ کو نہیں پتا کہ جو دکھائی دے رہی ہیں برائیاں وہ تو جس طرح ایک آئس برگ کی ٹپ ہوتی ہے برف کا تو وہ جو سمندر میں تیر رہا ہے ایک بٹادس (1/10) صرف نظر آتا ہے اس کا باقی حصہ سب چھپا ہوتا ہے.تو برائیاں ساری کی ساری تو کسی کی پتا لگ ہی نہیں سکتیں صرف ایک ہے وجود جس کی برائیاں آپ کو پتا لگ سکتی ہیں وہ آپ کا اپنا وجود ہے اور اگر آپ دیانت داری سے اپنی برائیاں تلاش کر لیں تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا‘ والا مضمون ضرور سچائی کے ساتھ صادق آئے گا.
خطبات طاہر جلد 15 889 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء صلى الله پس جب یہ حال ہے انسان کا تو اللہ کا تعلق کیسے قائم ہو جائے.بدوں کے ساتھ تو تعلق قائم نہیں ہوا کرتا.اس نکتہ کو آنحضرت ﷺ نے جس طرح سمجھایا حیرت انگیز ہے.رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی بات پر دل بے اختیار عاشق ہوتا ہے اچھل اچھل کر ، جس طرح دودھ کے لئے بچے کا دل اچھلتا ہے اور بچے کی پکار پر ماں کا دل اچھلتا ہے اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہر بات پر طالب حق کا دل بے اختیار سینے میں اچھلنے لگتا ہے.دیکھیں کیسا نکتہ بیان فرمایا، فرمایا خدا کی مخلوق ہے، ناممکن ہے کہ وہ کلیہ حسن سے خالی ہو کیونکہ جب خالق حسین ہے تو اس کے نقش کو چاہے جتنا مرضی آپ گندہ کر دیں کہیں نہ کہیں سے اس کا حسن ضرور جھانکے گا.مٹی ہوئی چیزیں بھی اپنے سابقہ حسن کی داستان خود دُہراتی ہیں.کھنڈروں کو دیکھیں، بڑی بڑی عمارتوں، بڑے بڑے عظیم محلات کے کھنڈرات بھی بظاہر جنوں بھوتوں اور گیدڑوں اور بچھوؤں اور سانپوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں مگر جب آپ ان کا معائنہ کرتے ہیں وہ دیکھتے ہیں تو آپ کو دکھائی دیتا ہے کہ کسی زمانے میں بہت خوب صورت عمارتیں تھیں کیونکہ حسن کا نقش کلیہ مٹ ہی نہیں سکتا.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ کلیہ بد ہی ہوگی، کوئی انسان حسن سے عاری ہو گیا ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا.تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ جب بندے سے تعلق رکھتا ہے تو اس حسن کے مقام پر اپنے قدم صدق کو جماتا ہے.وہاں اپنا سچائی کا قدم رکھتا ہے جو حسین اور ستھرا مقام ہے.پس جس طرح فوجیں Move کرتی ہیں فتح کرنے کے لئے ایک علاقے کو اور وہاں ایک War Head بناتی ہیں جہاں سے پھر انہوں نے آگے جنگ لڑنی ہے.اللہ جب یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے کسی بندے کے دل میں اتر آنا ہے تو اس کو پتا ہے کہ میرے بندوں کی کون کون سی خوبیاں ان میں ابھی بھی قائم ہیں.وہاں وہ قدم رکھتا ہے اور پھر وہاں سے وہ پھیلنا شروع ہوتا ہے اور اس کی بدیوں کو خو بیوں میں تبدیل کرنے لگتا ہے.تو آپ کے لئے بھی یہی حکمت عملی ہے.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بندہ حسن سے کلیۂ عاری ہو.آپ کے پاس کافی گنجائش موجود ہے کہ آپ خدا کے بندوں کے حسن کو تلاش کریں، ان کی خوبیوں پر نظر رکھیں اور انکساری اس کے ساتھ یہ رکھیں کہ اپنے وجود کی بدیوں پر بھی نگاہ ڈالیں تا کہ جب آپ کسی وجود کو برا دیکھ رہے ہوں اور خوبیوں کے لئے محنت کر رہے ہوں، کوشش کر رہے ہوں کہ پتا کریں تو غلطی سے کہیں دماغ میں یہ غرور نہ سما جائے کہ آپ ہی سب سے اچھے ہیں.
خطبات طاہر جلد 15 890 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء اس لئے دوسرا پہلو اس کا یہ ہے اپنے حال پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھا کریں، انکساری کے ساتھ ، اور پھر جو خوب صورتی ہے اس کے ساتھ جب آپ تعلق جوڑیں گے تو آپ کے ذریعہ پھر اللہ اس سے تعلق جوڑے گا کیوں کہ جو خدا کے بندے خدا کی خاطر کام کرتے ہیں اللہ ان سے بڑھ کر ان کی خاطر کام کرتا ہے ورنہ اللہ چاہتا تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بغیر ہی ساری دنیا کی اصلاح فرما سکتا تھا ! ؟ مگر بندوں میں سے اس نے چن لیا یہ بھی اس کے احسانات میں سے ایک بے حد خوبصورت احسان ہے کہ مگر بندوں کو یہ اثر دیا کہ تم آپ ہی اپنے لئے کام کر رہے ہو اور تم کرو گے تو پھر میں تمہارا ساتھ دوں گا، پھر تمہاری مدد کروں گا.پس اس پہلو سے جب خدا کا کوئی بندہ داعی الی اللہ ، اللہ کی خاطر دعوت دے گا اور محنت کرے گا اور سفر اختیار کرے گا اور کوشش کرے گا، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی دعوت کو پھل نہ لگیں.اس ضمن میں آپ یا درکھیں کہ بہت سے داعی الی اللہ جو یہ کہتے ہیں ہم کوشش تو بڑی کر رہے ہیں، ہم نے تو سب کچھ پورا کر دیا اب اللہ کے اختیار میں ہے، کچھ نہیں ہو رہا تو وہ خدا پر الزام لگاتے ہیں اور یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ ہم صحیح کوششیں کر رہے ہیں.اگر کوششیں اس اخلاص کے ساتھ ہوں جو خدا چاہتا ہے، اگر منتیں پاک ہوں ، دل پاک اور صاف ہوں، اگر اپنے اندر بھی اَحْسَنُوا کا عمل جاری ہو چکا ہو یعنی دوسروں کے اوپر صرف احسان اور ان کو بہتر بنانے کا تعلق جاری نہ ہو بلکہ اپنی ذات میں بھی یہ کام جاری ہو چکا ہو تو خدا کا یہ دعدہ کیوں پورا نہیں ہو گا کہ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنٰی کہ جو لوگ اپنے آپ کو اچھا بنانا چاہتے ہیں، پہلے تو میں نے دوسروں کے حوالے سے بات کی تھی اب میں اس حوالہ سے آپ کو سمجھا رہا ہوں، ان کے لئے تو لازم ہے کہ اللہ ان کو حُسنی عطا کرے گا.وَ زِيَادَةٌ اور اور بھی زیادہ.زِيَادَ میں ایک اور مضمون یہ ہے کہ بہت سی خوبیاں جن کا آغاز کے لحاظ سے بھی کوئی وجود ان میں نہیں تھا یعنی ان سے کام شروع ہو ہی نہیں سکتا تھا وہ نئی خوبیاں بھی ان کو عطا کرنے لگے گا.تو ایک زِيَادَةٌ کا وہ مفہوم تھا کہ اللہ اپنے فضل کے ساتھ اپنے حسن کا ان کے ساتھ رابطہ قائم کر لے گا.وہ بہت ہی دل کش مضمون ہے لیکن روز مره جاری و ساری مضمون ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو حسن کے لئے جد وجہد کرتے ہیں ،حسن کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہ غیروں کا بڑھائیں گے خدا کی خاطر تو اللہ ان کا بڑھائے گا.اگر وہ اپنا حسن بڑھائیں گے تاکہ غیر ، خدا کا حقیقی نمائندہ سمجھتے ہوئے اور خدا کی طرف سے آیا ہوا پہچان
خطبات طاہر جلد 15 891 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء کر ان کی آواز پر لبیک کہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارے اندرخشنی پیدا کروں گا تمہیں بہت ہی خوب صورت بنادوں گا یعنی وہ دراصل تمہاری کوشش سے نہیں ہو گا خدا کی خاطر کوشش کرنے کا پھل ہے کہ تمہارا حسن پہلے سے بڑھ جائے.وَ زِيَادَةٌ ان معنوں میں ہوگا پھر کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اور بھی بہت سی خوبیاں دے گا جو تمہیں پہلے پتا ہی نہیں تھیں، جن سے تم آشنا نہیں تھے اور جو بھی شخص دعوت الی اللہ کے عمل کو اس طرح کرتا ہے وہ جانتا ہے اس کے تجربہ میں آئی ہوئی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی خوبیاں بڑھاتا ہے.کئی باتوں کی طرف اس کی پہلے توجہ نہیں ہوتی جب وہ دعوت الی اللہ کے میدان میں اترتا ہے تو اس کی خوبیاں علم میں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں عمل میں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں، اور وہ ہمیشہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے.اس کے آخر پر قرآن کریم اس نتیجہ پر اس آیت کو ختم کرتا ہے، یعنی ابھی آیت جاری ہے مگر میں نے صرف جو نتیجے کا پہلا حصہ ہے وہ آج بیان کرنے کے لئے چنا ہے.وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرُ وَلَا ذِنَّةً ایسے لوگوں کے چہروں پر خدا کبھی سیاہی نہیں چڑھنے دے گا اور کبھی ان کو ذلیل اور نا کام نہیں ہونے دے گا.کتنا عظیم الشان دعوئی ہے.کتنا عظیم الشان وعدہ ہے.حسن تو اپنی ذات کے حوالے سے اس کو پتا لگ ہی جائے گا جب بڑھے گا لیکن دشمن تو بدی کی تلاش میں رہتا ہے اور دشمن بعض دفعہ خدا کی طرف سے عطا فرمودہ حسن کو پہچانتا ہی نہیں کیونکہ اس کی غلیظ ، گندی نظر صرف بدیوں کی تلاش میں ہے اور بعض دفعہ اتنی زہریلی ہو جاتی ہے کہ اس کو حسن بھی برا دکھائی دینے لگتا ہے.جس کے مذاق ہی بدل جائیں ان کو حسن اچھا نہیں لگتا.اب چند دن ہوئے ایک جگہ سے یہ اطلاع ملی کہ ہمارے بچے تو MTA میں دلچسپی نہیں لیتے اس لئے ایم.ٹی.اے کو ایسا بنائیں کہ وہ دلچسپی لینے لگیں.میں ان کو لکھوا رہا ہوں کہ آپ وہ ٹیلی ویژن کیوں نہیں دکھاتے جس میں ان کو دلچسپی ہے.ہمارے ٹیلی ویژن کو ویسے کیوں بنوار ہے ہو.جس میں ان کو دلچسپی ہے وہ گندگی کے پروگرام ہیں، وہ جنوں بھوتوں کے پروگرام ہیں، وہ آفتوں کے، ڈائنوں کے، بلاؤں کے پروگرام ہیں، خوفناک وجود جو آسمان سے اتر رہے ہیں ، دنیا کے وجود کچھ ان کے مقابلے کر رہے ہیں، فرضی کہانیاں، جھوٹے قصے.آپ نے ان کے مذاق بگاڑ دئے ہیں تو ہم کیوں اپنے ٹیلی ویژن کا مذاق بگاڑیں.ان کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی.پس وہ حسن کو برا دیکھ رہے ہیں.جن لوگوں نے
خطبات طاہر جلد 15 892 خطبہ جمعہ 15 /نومبر 1996ء اپنے بچوں کو اس حد تک دنیا کے گندے ذوق سے لذت اندوز ہونے کی چھٹی دے رکھی تھی ، اب ذوق بگڑ رہے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں ہم اپنا مزاج ان کی خاطر بگاڑ دیں.یہ تو نہیں ہوسکتا.آپ کے بچوں کا جو مزاج ہے وہ آپ نے بگاڑا ہے.آپ کا یہ حق نہیں کہ ہمارا مزاج بھی بگاڑیں آپ اور ہم جو سچا ذوق اور سچائی کی محبت پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لئے کہ آپ کے بچوں کو دلچسپی نہیں ہم یہ بات چھوڑ دیں.یہ نہیں ہو سکتا اور اگر وہ اچھی باتوں میں دلچسپی نہیں لیں گے تو آپ کی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے آپ کی نسلیں ضائع ہو جائیں گی کوئی ان کو سنبھال نہیں سکتا.اس لئے اوّل تو یہ بھی ایک متکبرانہ بات ہے کہ جی ہمارے بچے تو بڑے اونچے ہیں آپ کے ٹیلی ویژن سے.اونچے اونچے کوئی نہیں ہیں، بگڑے ہوئے ہیں، نیچے ہیں اور آپ ان کو اونچا اٹھائیں گے تو وہ اٹھ جائیں گے.کچھ دیر ساتھ بیٹھ کر بعض پر وگرام دکھا ئیں تو ان کے اندر دلچسپی پیدا ہو جائے گی بلکہ آپ کے مزاج بگڑے ہوئے ہیں اس لئے بچوں کے بگڑے ہیں اور بچوں کے جلدی سنبھلیں گے، آپ کی نسبت زیادہ جلدی اصلاح پذیر ہوتے ہیں.چنانچہ اکثر اگر سو فیصد نہیں تو اکثر صورتوں میں ماں باپ یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے تو مصیبت ڈالی ہوئی ہے اور کوئی ٹیلی ویژن دیکھنے ہی نہیں دیتے.ایک ماں ڈیڑھ سال کا بچہ لے کر آئی کہ یہ تو جب بھی ٹیلی ویژن آن ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن دکھاؤ.بول بھی نہیں سکتا، اشارہ کرتا ہے میری طرف کہ جس میں وہ آتا ہے اور دوسرا ٹیلی ویژن دیکھیں تو رونے لگ جاتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے بچے پکڑ لئے ہیں اب اللہ کے فضل سے جماعت کے.تو اگر آپ کو وہم ہے کہ آپ ان کی تربیت کریں گے.اب بچے آپ کی تربیت کریں گے.مگر یہ باتیں جو ہیں یہ درست نہیں ہیں کہ یہ چھوٹی چیزیں ہیں.ہم اعلیٰ درجہ کے ملک کے اعلی ٹیلی ویژن دیکھنے والے لوگ ہیں ، ہمارے جیسے دکھاؤ.تو میں نے کہا کہ پھر تم اپنے پروگرام بناؤ اور اپنا ٹیلی ویژن بھی بنالو ساتھ ہی.ایسے پروگرام بناؤ گے جوسب کی اصلاح کے لئے ہوں اور سچائی پر مبنی ہوں ان میں لغو اور جھوٹی باتیں اور جھوٹے انداز نہ ہوں تو پھر ہمیں دو ہم بنابنا کر تمہیں بھی دکھا ئیں گے، دنیا کو بھی دکھا ئیں گے لیکن بگڑے ہوئے ذوق کی ہم متابعت کبھی کسی صورت میں نہیں کر سکتے.پس یہ ساری وہ باتیں ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں اشارہ ذکر ہے مگر واضح اشارے ہیں.جب آپ کریدتے ہیں تو صاف دکھائی دینے لگتے ہیں.وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُم
خطبات طاہر جلد 15 893 خطبہ جمعہ 15 رنومبر 1996ء قَتَرَ وَلَا ذِنَّةٌ یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ داعی الی اللہ اگر خدا کی خاطر دنیا میں خوبیاں پھیلانے کا عزم لے کر اٹھے گا تو خدا اس کے چہرے کو کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گا.اس کے چہرے پر کبھی سیاہی نہیں چڑھے گی اور یہ وعدہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہے.چنانچہ آیت کا بقیہ حصہ جنت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ پھر ان کے لئے ہمیشہ کی جنتیں ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو سمجھ کر اس کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.جتنا آگے بڑھائیں گے اتنا ہی خدا کی طرف سے زیادہ عطا ہوتا چلا جائے گا.آمین
خطبات طاہر جلد 15 895 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء جب بھی خدا سے عظمتیں طلب کریں تو انکساری کی عض اور اس سلام کی عظمتیں طلب کریں.( خطبه جمعه فرموده 22 نومبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : عظمت كُلَّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ فَبِأَيِّ الَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ يَسْلُهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ پھر فرمایا: ( الرحمن : 27 تا 31) یہ سورۃ رحمان کی آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس پر یعنی زمین پر ہے سب فنا ہونے والا ہے.ويَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ اور صرف تیرے رب کی شان جمال و جلال ہے جو باقی رہے گی.وہ صاحب جلال ہے اور صاحب اکرام ہے.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کی تکذیب کرتے ہو یا تکذیب کرو گے.يَسْتَلُهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ اسی سے سوال کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ ہر وقت وہ ایک نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے.یووِر یہاں وقت کے پیمانے کے طور پر ہے اس لئے لمحہ لحہ بھی یہاں یو ھر کے مفہوم
خطبات طاہر جلد 15 896 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء میں داخل ہے.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ پس تم اپنے رب کی کن کن آیات کی تکذیب کرو گے.یہاں دونوں کا لفظ خطاب میں شامل ہے مگر جب ہم اردو میں تم کہتے ہیں تو لازم نہیں ہوا کرتا کہ دونوں لفظ کو دہرایا جائے مگر قرآن کریم نے یہاں جب بھی سوال اٹھایا ہے تو تم دونوں کہہ کر اٹھایا ہے.تو تم دونوں کن کن باتوں میں یعنی خدا تعالیٰ کی کس کس شان اور جلوہ گری کی تکذیب کرتے ہو یا کرو گے.یہ آیات بہت ہی گہرے عارفانہ مضامین پر مشتمل ہیں.ان کی پوری تفسیر کا تو اس وقت موقع نہیں مگر ایک دو امور ایسے ہیں جن کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہر چیز فانی ہے اب یہ ایک ایسا اعلان ہے جو روز مرہ میں سب کو علم ہے لیکن اسے دہرایا کیوں گیا ہے اس قدر زور کے ساتھ ایک ایسی صورت میں جو چھوٹوں اور بڑوں دونوں کے لئے ایک عظیم چیلنج کا رنگ رکھتی ہے.جن اور انس ، بڑے لوگ اور چھوٹے لوگ ، دونوں کو مخاطب کرتی ہے اور بڑی شان کے ساتھ ان کو چیلنج کرتی ہے.اس میں اس مضمون کے بیان کا عنوان یہ رکھنا.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ یہ کچھ گہری حکمت رکھتا ہے.در حقیقت ہر فانی انسان اپنے آپ کو لا فانی سمجھ رہا ہوتا ہے اور یہ عجیب متضاد زندگی ہے جو انسان گزارتا ہے اور اس کو شعور بھی نہیں کہ میرے اندر ایک سوچوں میں تضاد پایا جاتا ہے.سب دنیا کو مرتے اور گزرتے ہوئے دیکھتا ہے، سب دنیا کو دیکھتا ہے کہ اس جہاں میں کوئی نہیں رہا.آئے دن روزانہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، ہر موت کے ساتھ ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد وہ جہان ہی بدل جاتا ہے تو کتنے ہی ان گنت بدلے ہوئے جہانوں کا وارث ہو کر وہ اپنی ذات کے متعلق یہ گمان نہیں کرتا کہ مجھے بھی ایک دن اس دنیا سے گزر جانا ہے اور جب وہ گزرے گا تو پھر ان لمحوں میں وہ احساس کہ میں فانی تھا اس کے کسی کام نہیں آئے گا.یہی مضمون قرآن کریم میں فرعون کے ذکر میں کئی جگہ بیان ہوا ہے لیکن خاص طور پر اس کی ڈوبتی ہوئی گھڑیوں کی دعا کہ اب میں ایمان لاتا ہوں بنی اسرائیل کے خدا پر ، اس وجہ سے رڈ کر دی گئی یعنی کلیةً نہیں مگر مرکزی نقطہ کے لحاظ سے دعا رد کر دی گئی کیوں کہ فانی انسان جب فنا کو آنکھوں کے سامنے کھڑا دیکھتا ہے وہ لمحہ ہے اس کے یقین کا کہ اب میں اس دنیا میں نہیں رہنے والا ، میں فانی تھا اور اسی لمحے اس کی ساری زندگی اس کو اکارت جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.تمام کوششیں، تمام اموال ، سب دولتیں ، سب نام
خطبات طاہر جلد 15 897 خطبہ جمعہ 22 رنومبر 1996ء نام ونمود، سب اسی دنیا میں دھرے رہ جاتے ہیں اور وہ اکیلا اکیلا خدا کے حضور حاضر ہونے کے لئے جب تیار کھڑا ہو پھر وہ اس قسم کے وعدے کیا کرتا ہے اب میں ایمان لاتا ہوں، اب مجھے نجات دے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم فنا کو دیکھ لو اور پھر نجات کی دعائیں مانگو تو تمہارے کسی کام نہیں آئیں گی ، بدنی زندگی مل بھی جائے تو روحانی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ وہ مضمون ہے جو ساری دنیا میں سب کے لئے قدر مشترک رکھتا ہے.فی الحقیقت انسان اپنی فناپر ویسا یقین نہیں رکھتا جیسا یقین اس کی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا جانتے ہوئے کہ موت مقدر ہے پھر بھی اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتی.تو قرآن کریم کا اس شان کے ساتھ اس مضمون کا ذکر فرمانا جو بظاہر دنیا میں سب کو معلوم ہو یہ بتا رہا ہے کہ تمہیں وہم ہے کہ تم جانتے ہو تم نہیں جانتے کہ ہر چیز فانی ہے اور جب ہر چیز کا ذکر فرمایا تو اس کے بعد یہ ہے اعلان وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ کہ ہاں تیرے رب کا جلال و جمال کا جلوہ ہے.جو باقی رہے گا اور دوسر او جہ کا مطلب رضا ہے جو باقی رہے گی.یعنی خدا کی رضا جس کو باقی رکھنا چاہے گی اسے رکھے گی اور جو کچھ بھی رہے گا رضا کی بنا پر، اس سے لٹک کر ، اس کے سہارے رہے گا.اس کے بغیر نہیں رہ سکتا.تو اللہ کے جلال اور جمال کا جلوہ باقی رہے گا اور جس پر اس کی دائمی ازلی ابدی رضا کی نگاہ پڑی ہے وہ بھی باقی رہ سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی رضا میں شامل ہو کر اس سے الگ رہ کر نہیں.دوسری بات جو اس میں خاص طور پر توجہ کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ چیزوں کے فنا کا ، ان کی عظمت کے ساتھ جو تعلق ہے یہ مضمون اس بات کو خوب کھول کر بیان فرما رہا ہے کہ تمہاری عزتیں، تمہاری دنیا کی نمود کی کمائی جو کچھ بھی ہے اس کی خاطر تم دنیا سے چھٹے ہوئے تھے تو یاد رکھو کہ وہ بھی فنا ہیں اور اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.ہاں ایک خدا کے جلال و جمال کا جلوہ ہے جو باقی رہنے والا ہے.اس لئے اگر عزتوں کی خاطر تم کچھ کرتے ہو، اپنی دنیا کی نام و نمود کے لئے محنتیں کرتے ہو تو وہ وقت آئے گا جب وہ چیزیں مٹ جائیں گی.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض قوموں اور بعض لوگوں اور بعض بڑے بڑے بادشاہوں کی عزت اور نام و نمود تو ہمیں دنیا میں پیچھے باقی رہتی دکھائی دیتی ہے یہ کیوں باقی رہی.اس کے دو جواب ہیں.اوّل تو یہ کہ اس مضمون کا آخری فنا کے فیصلے سے تعلق ہے
خطبات طاہر جلد 15 898 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء اس لئے اگر اس وقت سے پہلے کہ دنیا میں انسان کی صف لپیٹ دی گئی کسی کی عزت و جاہ و جلال کا تذکرہ باقی رہ بھی جائے تو اس کی حقیقت کوئی نہیں کیونکہ خدا کے علم میں یا خدا کے فیصلوں میں وقت کی وہ حیثیت نہیں ہے جو انسان کے علم اور فیصلوں میں وقت کی حیثیت ہے.خدا تعالیٰ کوکوئی زمانہ تقسیم نہیں کرتا.نہ ماضی ، نہ حال، نہ مستقبل.ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اور یہی اس کی ازلیت اور ابدیت ہے جو اس بات کی ضمانت ہے کہ اس کے سوا ہر چیز کو فنا ہے.کسی چیز کو بھی ازل اور ابد کا دعویٰ نہیں ہے، نہ ہو سکتا ہے اور پہلے جو تو ہمات تھے دنیا کے مثلاً آریہ سماج کا عقیدہ کہ دنیا ازل سے ہے اور بعض یورپین فلسفیوں کا بھی یہ خیال کہ کوئی چیز عدم سے پیدا ہو ہی نہیں سکتی اس لئے ازل سے ہے اس خیال کو کلیہ غلط ثابت کرنے میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا.پہلے جو یہ خیال تھا کہ پروٹان کبھی ختم نہیں ہوسکتا.اس سے پہلے یہ خیال تھا کہ ایٹم Destroy نہیں ہو سکتا اور ایک Law تھا ، یعنی نظریہ نہیں اس کو Law کہتے ہیں.Indestructibility of Atom جو کچھ مرضی ہو جائے ایٹم Destroy نہیں ہو سکتا اور ڈاکٹر عبد السلام کے دور سے پہلے سائنس دانوں نے ثابت کر دیا کہ ایٹم تو Destroy ہو سکتا ہے اگر نہ ہوسکتا تو ایٹم بم کیسے بن جاتا اور پھر جب کائنات پر زیادہ گہری نظر ڈالی تو Black Hole کا جو تصورا بھرا ہے اور اس کا علم اور اس کی ماہیت سے متعلق جو سائنسی اندازے لگائے گئے تو پتا لگا کہ Black Hole تو بنتا ہی اس وقت ہے جب کہ ایٹم آپس میں کچلے جاتے ہیں اور الیکٹرانز کے فاصلے اپنے مرکز سے اس دباؤ کی طاقت سے جو Gravitational Pull ہے یعنی کشش ثقل اس کے نتیجہ میں یوں آپس میں اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ بہت عظیم الشان وسیع کائنات سمٹ کر گویا ایک چھوٹے سے دائرے میں محدود ہو جاتی ہے جو پھر سمٹتا اور پھر سمٹتا ہے اور اپنی طاقت کے زور کے ساتھ ایک خود کشی کر لیتا ہے یعنی وجود اس طاقت کی عظمت کے سامنے جھک کر ایک فنا کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جس کے متعلق انسان کچھ نہیں جانتا کہ وہاں کیا ہے اس کی پرلی طرف، اس کو کہتے ہیں Event Horizon.تو یہ حصہ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے اس معاملے میں تو سائنس دانوں کی آنکھیں کہ یہ کائنات ازل سے بہر حال نہیں ہے مگر جہاں تک ابد کا تعلق ہے اس بات پر کافی اسکے رہے ہیں کہ پروٹان Indestructible ہے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم و مغفور نے اس نظریہ میں بہت
خطبات طاہر جلد 15 899 خطبہ جمعہ 22 /نومبر 1996ء بڑا کام کیا ہے اور بیماری سے پہلے مجھے ان سے اس بارے میں جو گفتگو کا موقع ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے Mathematically یعنی حساب کی مدد سے جو ثابت کیا ہے کہ دنیا کی پروٹانز کی عمر اتنی ہے.نظریہ کے طور پر تو اب سائنس دان اسے قبول کر چکے ہیں لیکن دو تین نظر یے ہیں.بعض سائنس دان کہتے ہیں اس سے ایک حصہ کم ، بعض کہتے ہیں ایک حصہ زیادہ مگر جو حصہ ہے وہ بھی بہت بڑا تصور ہے اس لئے آپ کو میں عددی تصورات میں الجھانا نہیں چاہتا.تو 32 Raise to the Power of ہے یا 33 یا 34 ہے یہ بحث چل رہی ہے بس اور 32 اور 34 میں اتنا فرق ہے بظاہر ایک کا فرق ہے لیکن جب Powers میں باتیں کی جاتی ہیں تو اس مقام پر پہنچ کر عام انسانی ذہن اس کا تصور کر ہی نہیں سکتا کہ کتنی بڑی چیز ہے.مگر سائنسدان اللہ کے فضل کے ساتھ اور حساب دان بہت باریک باتوں کو اپنے استدلال کے ذریعے معلوم کر لیتے ہیں اور کائنات کے کناروں تک کی خبریں اپنے استدلال کے ذریعے حاصل کر لیتے ہیں.تو ڈاکٹر صاحب نے جہاں تک مجھے یاد ہے 33 Raise to the Power of کا نظریہ پیش کیا تھا اور مجھے بتا رہے تھے بلکہ کئی دفعہ بتایا کہ اس وقت دنیا میں لیبارٹری بڑی بڑی عظیم بے انتہا خرچ کر کے کام کر رہی ہیں.ان میں ایک امریکہ میں بھی ہے ایک اٹلی میں بھی ہے اور شاید ایک اور جگہ بھی اور اب تک جو خبریں ملی ہیں وہ امید افزاء ہیں.اگر یہ قطعیت سے ثابت ہو گیا تو ہرگز بعید نہیں کہ ایک اور نوبل پرائز ان کو مل جائے یعنی بطور حق کے ان کو ایسا Nobel Laureate بننے کی توفیق ملے کہ دو دفعہ زندگی میں Nobel Laureate بنیں.تو یہ ایک دنیا کا انعام واکرام ہے جو ممکن تھا کہ ہو جاتا مگر جہاں تک عقلی تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کی فضلیت عقل کی روشنی کے لحاظ سے ساری دنیا میں مسلم ہے.کوئی دنیا کا سائنسدان نہیں ہے جو عظمت کی نگاہ سے آپ کو نہ دیکھے بلکہ اخلاقی قدروں اور عظمت کردار کے لحاظ سے یہ ایک وہ سائنس دان ہے جس کی دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ بھی عزت کرتے تھے اور حقیقت میں ان کے سامنے عظمت کے ساتھ سر جھکاتے تھے.ڈاکٹر صاحب سے بے تکلف گفتگو میں مجھے انہوں نے کئی دفعہ بتایا کہ فلاں ملک کا سر براہ اس طرح مجھ سے پیش آتا ہے، فلاں ملک کا اس طرح پیش آتا ہے، دعوتیں دیتے ہیں کہ ہمارے پاس آؤ ہم شاہی اعزاز کے ساتھ تمہاری خدمت کر کے
خطبات طاہر جلد 15 900 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء کچھ تسلی پائیں کہ ہم نے بھی کسی بڑے انسان کی کوئی خدمت کی ہے لیکن ان باتوں کے باوجود تکبر کا نام ونشان نہیں تھا اور یہ وہ اصل عظمت کر دار تھی جس کا میڈل سے تعلق نہیں ہے.پس اس مضمون کو اس طرف منتقل کرتے ہوئے میں چند باتیں ڈاکٹر صاحب کے متعلق بیان کروں گا مگر اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں عامتہ الناس کے لئے بھی ایک عجیب پیغام ہے جو کوئی بلندی حاصل نہیں کر سکتے.ان کو یہ پیغام ہے کہ تم بھی تو یا بڑے لوگوں میں ہو یا چھوٹے لوگوں میں ہو مگر بڑے بھی مٹ جانے ہیں ، چھوٹے بھی مٹ جانے ہیں اور بڑے بھی اپنی بڑائی کی شانوں کے ساتھ مٹا دیئے جائیں گے اور چھوٹے بھی جو قدریں بھی وہ رکھتے ہیں ان کے سمیت مٹادیئے جائیں گے تو اس عارضی چیز کے لئے تم کیوں کسی سے حسد کرو کیوں تکلیف میں مبتلا رہ کر زندگی گزارو کہ فلاں تو اتنا بڑا ہو گیا، فلاں نے اتنا علم حاصل کیا ، فلاں کو اس طرح دنیا نے عزتیں دیں.فرمایا دنیا، دنیا کی عزتیں یہ ساری چیزیں فنا ہونے والی ہیں، اس سے کیوں نہیں تعلق جوڑتے جس کی رضا کا چہرہ کبھی فنا نہیں ہوگا.میہ وہ مضمون ہے جو ان آیات میں ہر بنی نوع انسان کی محرومی کے زخموں پر ایک ایسا پھایا رکھتا ہے کہ ہر دکھ کا علاج ہے لیکن اگر انسان اپنی توجہ پھیرے.چنانچہ آج صبح ڈاکٹر صاحب کے لئے دعا کے وقت یہ مضمون میرے ذہن میں ابھر کر میری دعا کو ایک اور رخ دے گیا.میں نے کہا یہ دنیا کی عزتیں تو آج نہیں تو کل فنا ہونے والی ہیں کچھ بھی ان کا نہیں رہتا لیکن جو تیری رضا کی عزت ہے، جس کا وَجهُ رَبَّک میں ذکر آیا ہے وہ دائمی ہے.پس ان کے لئے قرآن کے الفاظ میں میں نے یہ دعا کی ارْجِعِى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفحر: 29) اے مطمئن روح ! اپنے رب کے حضور اس طرح حاضر ہو کہ رَاضِيَةً ہو.تو اپنے رب سے راضی ہو اور مرْضِيَّةً ہو، پس وَجْهُ رَبَّک کی جو لا زوال زندگی اور لا زوال وجود کی خوش خبری ہے وہ ان دو لفظوں میں داخل ہو جاتی ہے.کوئی انسان جو اپنے رب سے راضی نہ ہو وہ ہمیشگی نہیں پاسکتا.کوئی انسان جس سے خدا راضی نہ ہو وہ ہمیشگی نہیں پاسکتا.پس اس مضمون کے ساتھ ہی میری تو جہات بدل گئیں.یہ کہنے کی بجائے کہ آج ہم سے ایک ایسا وجود رخصت ہوا جس کے نتیجے میں ایک خلاء پیدا ہو گیا اور جماعت کو
خطبات طاہر جلد 15 901 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء آئندہ یہ خلاء محسوس ہوتا رہے گا میں نے کہا وہ مضمون کیوں نہ میں بیان کروں جو ہمیشگی کا مضمون ہے اور لازوال مضمون ہے.پس نیک انجام کے ساتھ میری توجہ نیک آغاز کی طرف گئی اور مجھے یہ خیال آیا کہ در حقیقت لوگ اچھے انجام کی طرف دیکھتے دیکھتے اس سے ایسے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ بسا اوقات آغاز کا خیال ہی نہیں کرتے حالانکہ بہت سے پاک اور نیک انجام ہیں جن کی بنیادیں بعض دفعہ انسان کی پیدائش سے پہلے ڈال دی جاتی ہیں.چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی انہی وجودوں میں سے ایک وجود ہیں.جیسے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو جو عظمتیں ملی ہیں وہ بار بار یاد کرایا کرتے تھے دنیا کو، میری ماں کی دعا ئیں تھیں.اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.اس کی تو حید کے ساتھ وابستگی اور وفا، اس کا غیر متزلزل اور محکم یقین خدا کی وحدانیت پر اور غیر اللہ کو ڈ کرتے چلے جانا یہ وہ خوبیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کے لئے ایک نعمت کی صورت میں ظاہر ہوئیں.پس میں اپنی پاک بزرگ ماں کی دعاؤں کا ایک پھل ہوں اور یہ مضمون ان کو انکساری کی طرف لے جاتا تھا کہ کھل کر باتیں کرتے تھے ، مجھ سے تو بہت بے تکلفی تھی، کہا کرتے تھے کہ بس قصہ وہی ہے سارا، میں کیا، میرا وجود کیا ، دعاؤں کا پھل ہوں.اور ڈاکٹر صاحب بھی دعاؤں ہی کا پھل تھے.ان کے والد بزرگوار چوہدری محمد حسین صاحب اور ان کی والدہ ہاجرہ بیگم نام تھا ان کا دونوں ہی بہت مقدس وجود تھے ، بہت پاکیزہ ،صاف ستھرے، خالص پاکیزہ زندگی گزارنے والے اور احمدیت کے بعد تو سونے پر سہاگے کا عالم تھا.انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی پیدائش سے پہلے رؤیا دیکھا کہ ان کو ایک خوب صورت پاک بیٹا عطا کیا جا رہا ہے اور اس کا نام عبد السلام بتایا جاتا ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت مصلح موعود کو رویا لکھی اور چونکہ بہت منکسر المزاج تھے اپنی رؤیا کی بنا پر خود نام نہیں رکھا خواب لکھ کر حضرت مصلح موعودؓ سے پوچھا کہ میں اس بچے کا کیا نام رکھوں.تو آپ نے فرمایا یہ اللہ نے تمہیں بتادیا ہے تو میں کون ہوتا ہوں دخل دینے والا یہی نام رکھ لو.پس عبد السلام اس بیٹے کا نام الہی منشاء اور رضا کے مطابق رکھا گیا جوان کی خاص دعاؤں کا پھل تھا اور ساری زندگی پھر اس نے اس رویا کی سچائی کو ظاہر کیا اور اپنے ماں باپ کے خلوص کی قبولیت کو ظاہر کیا.
خطبات طاہر جلد 15 ا 902 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء تو اس میں ایک اور بھی ہمارے لئے سبق ہے.ایک وجود گز رگیا مگر اس کے حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے اے اللہ احمدیت کو اور نوبل لا رئیٹ Nobel Laureate عطا کر مگر وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ نوبل لارئیٹ کتنے ہیں اور کتنوں کا مقابلہ کرے گی احمدیت، ہزار نوبل لا رئیٹ ہیں اور بنتے چلے جائیں گے.چار اور بھی لے لئے احمدیت نے مانگ مانگ کے تو کتنا فرق پڑے گا لیکن وہ انعام یافتہ جو خدا کے دربار سے انعام یافتہ ہو وہ تو اگر ان پڑھ بھی ہو تو ایسا انعام یافتہ بن سکتا ہے کہ تمام کائنات کو چوٹی کے علماء اور چوٹی کے اعزاز پانے والے اس کی جو نتیوں کو اٹھانے میں فخر محسوس کریں، اس کے پاؤں کی خاک چومنے میں فخر محسوس کریں.تو چھوٹی باتوں پہ ہم کیوں راضی ہوں، چھوٹی دعائیں کیوں مانگیں.وہ دعائیں مانگیں جیسی ڈاکٹر عبدالسلام کے باپ نے اپنے بیٹے کے لئے کی تھیں اور جن کو خدا نے اسی طرح قبول فرمایا کہ اپنی رضا کا مظہر بنایا اور اس بات کا قطعی ثبوت آپ کی زندگی کے لمحہ لمحہ نے دیا ہے.سائنس کی دنیا میں اتنے بلند مرتبہ تک پہنچنے کے باوجود کامل طور پر خدا کی ہستی کے قائل.بلکہ ایک دفعہ مجھے کہہ رہے تھے کہ جب میں کسی سائنسی اجتماع میں جاتا ہوں تو بعض سرگوشیوں کی آواز آتی ہے یہ وہ ہے جو خدا کو مانتا ہے اور بھی سائنسدان اب ماننے لگے ہیں پہلے سے بڑھ گئے ہیں لیکن جس شان کے ساتھ آپ نے خدائے واحد ویگانہ کے ایمان کا حق ادا کیا ہے اور اس جھنڈے کو بلند کیا ہے ویسا کوئی اور سائنس دان اس جیتی دنیا میں آپ کو دکھائی نہیں دے گا اور پھر خدائے واحد و یگانہ کی عظمت کے نتیجے میں جو انکسار پیدا ہوتا ہے وہ پوری طرح آپ کی ذات میں ہمیشہ رہا.نظام جماعت کے سامنے خادمانہ حیثیت کی حفاظت کی ہے.اب میں ان کی عمر کے لحاظ سے چھوٹا، دنیا کے علم کے لحاظ سے تو حیثیت ہی کوئی نہیں مگر جب مجھ سے گفت و شنید کرتے تھے، ملتے تھے وہ عزت و احترام کے تمام تقاضے جو خلافت سے وابستگی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ان کو اس طرح پورا کرتے تھے کہ میں حیران رہ جاتا تھا اور باتوں میں مشورہ کر کے وہ کہتے تھے جو میں کہتا تھا وہ کرتے تھے جو میں بیان کرتا تھا یا مشورہ نہیں لیں گے، مشورہ لیں گے تو قبول کریں گے اس کو.غرضیکہ مجھے ان کی انکساری کو دیکھ کر رشک آتا تھا کہ کتنا بڑا عالم ہے سائنس کے مضامین میں.سوچیں میں ان سے بحث کر رہا ہوں یہ نہیں کبھی کہا کہ آپ کو پتا کچھ نہیں،
خطبات طاہر جلد 15 903 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء آپ کو حساب بھی نہیں آتا تو آپ مجھ سے کیا باتیں کر رہے ہیں.مگر انتہائی توجہ سے بات سن کر دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ رفتار کے اوپر بحث چلی کہ سائنس کا یہ اور خاص طور پر حساب دانوں کا یہ قطعی نظریہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی تو میں نے ان سے کہا کہ یہ جو حد لگائی جا رہی ہے یہ میں تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ میرے نزدیک خدا تعالیٰ کے اوپر حد بندی نہیں ہو سکتی ، خالق کے اوپر نہیں ہو سکتی.حساب کھول دیئے با قاعدہ.اپنا حساب دان کھول لیا اور نقشے بنائے اور دائرے بنائے اور بتایا کہ یہ دیکھیں حسابی رو سے ناممکن ہے اور فزکس کے نظریہ کے لحاظ سے بھی یہ ناممکن ہے.میں نے باتیں سمجھیں، میں نے کہا آپ نے جو باتیں کہی ہیں دلیل کے ساتھ کہی ہیں میں دلیل کا انکار نہیں کر سکتا.مگر میں ایک اور بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ یہ بتائیں کہ یہ ساری باتیں آپ کے اس کائنات کے تصور سے وابستہ ہیں اور مشروط ہیں جواب تک آپ پر ظاہر ہوا ہے اور کیا یہ درست نہیں کہ مادہ میڈیم ہے لہروں کے لئے اور اگر مادہ نہ بھی ہو تو کوئی میڈیم ہونا چاہئے اور میڈیم کی صفات ہیں جو رفتار طے کرتی ہے تو کیا ایتھر کے علاوہ کوئی اور میڈیم بھی ہوسکتا ہے.اگر ایتھر نہیں ہے تو پھر خود یہ محل نظر ہے کہ چیز حرکت میں کیسے رہتی ہے اور ویو (Wave) کیسے بنتی ہے جب کہ دیو (Wave)مادے کی صفت ہے اور حرکت کی صفت نہیں ہے.یہ بار یک باتیں تھیں ڈاکٹر صاحب کو تو ایک لمحہ نہیں لگا ان باتوں کو سمجھنے میں.مجھے انہوں نے جواب میں کہا کہ آئن سٹائن تو قائل ہے کہ ایتھر ہے اور ایتھر ہی کی صفات ہیں جو جلوہ گر ہیں مگر باقی سائنس دان قائل نہیں ہوئے ابھی اور ابھی تک قطعی ثبوت کوئی نہیں مل سکا.میں نے کہا مل سکتا ہے کہ نہیں؟ کہا کہ ہو سکتا ہے.میں نے کہا اگر ایتھر کے سوا کوئی اور میڈیم ہو جس کی صفات مختلف ہوں تو رفتار بڑھ سکتی ہے !؟ انہوں نے کہا بڑھ سکتی ہے.میں نے کہا اب یہ بتا ئیں کہ اگر کسی چیز کو مادی میڈیم کی ضرورت نہ ہو اور وہ روحانی وجود ہو؟ آپ خدا کی ہستی کے قائل تھے اس کا انکار کر ہی نہیں سکتے تھے تو اس کو کون سا قانون پابند کرے گا کہ اس کا پیغام روشنی کی رفتار سے ان گنت زیادہ تیزی کے ساتھ جہاں وہ پہنچانا چاہئے پہنچا دے تو اس کے بعد وہ نہیں بولے پھر.صرف کہا ہاں اصولاً میں مان گیا ہوں یہ ٹھیک ہے یہ ہو سکتا ہے مگر معلوم دنیا میں اب تک جو ہے وہ یہی ہے
خطبات طاہر جلد 15 اس سے میں انکار نہیں کر سکتا.904 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء تو اس رنگ میں ان کے اندر یہ حوصلہ تھا اور یہ انکسار تھا کہ بالکل ان پڑھ، سائنس کے ابتدائی علم سے بھی عاری انسان ، جس کا ماضی ان کے علم میں تھا کیا حیثیت رکھتا تھا کچھ بھی نہیں.اس سے اتنے بڑے مضامین کے اوپر بڑے حوصلے کے ساتھ گفتگو کرنا، اسے سمجھانے کی کوشش کرنا اور جب کوئی ایسی دلیل دی جائے جو ان کے اپنے عقیدے کے مطابق تسلیم ہونی چاہئے تسلیم کر لی ، کر لیتے تھے تو یہ بھی رفعت کی علامت ہے یعنی انکسار، اور ان دونوں میں تضاد نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے سے وابستہ اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں تبھی سجدے کا رفعتوں سے تعلق ہے رفعت ( راء کی زیر کے ساتھ ) لفظ عربی میں تو ہے مگر اردو میں بعض لوگ رفعت ( راء کی زبر کے ساتھ ) بھی کہہ دیتے ہیں اس لئے میں رفعت بھی کہہ دیا کرتا ہوں مگر اصل لفظ رفعت ہے.تو رفعتیں جو انسان کو عطا ہوتی ہیں ان کا انکساری سے گہرا تعلق ہے.چنانچہ سجدے میں ربی الاعلی کی دعا سکھائی گئی ہے.رب سب سے اعلیٰ ہے اور مراد یہ ہے کہ تم نے اس کے حضور جب ماتھا ٹیک دیا ہے جتنا نیچے ہو سکتے تھے ہو گئے ہواب رب اعلی کو یاد کرو تو تم اس سے فیض پاؤ گے اور رفعتیں حاصل کرنے والا اتنا ہی زیادہ جھکتا چلا جاتا ہے.یہ دونوں مضمون لازم و ملزوم ہیں.سب سے زیادہ انکسار دنیا میں آنحضرت ﷺ نے دکھایا ہے اور سب سے زیادہ رفعتیں آپ کو عطا ہوئی ہیں.پس ایک بڑے آدمی کے گزرنے کے ساتھ ان مفاہیم پر گفتگو ہونی چاہئے جو لوگوں کو بڑا بنانے والے ہیں اور سب کے لئے برابر پیغام رکھتے ہوں.اب علم کے لئے اگر میں کہ بھی دوں کہ دعا کرو کہ اللہ ہمیں سونو بل لا رئیٹ عطا کر دے تو کیا اس کا آخری نتیجہ نکلے گا؟ کیا وہ حضرت محمد رسول اللہ سے بڑھ جائیں گے جنہیں کسی مکتب میں بیٹھنے کی توفیق نہیں ملی.تمام صاحب علم انسانوں سے اور ذی روح، ذی شعور وجودوں سے علم میں آپ کا وجود آگے بڑھ گیا تو ان رفعتوں کے لئے کیوں نہ دعا مانگی جائے جس میں ہم سب برابر کے شریک ہو جائیں گے.چھوٹا بڑا غریب ایک تیسری دنیا کا آدمی ، ایک ترقی یافتہ مغربی ملک کا باشندہ ان سب کے لئے قدر مشترک ہے کہ اصل علم کا منبع ، اصل عزتوں کا منبع جس کا علم اور جس کی عزتیں باقی رہنے والی ہیں وہ اللہ کی ذات ہے اسی کی طرف جھکو، اس کی طرف دل لگاؤ تم میں سے ہر ایک کو پھر وہ رفعتیں عطا ہو سکتی ہیں کہ جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.
خطبات طاہر جلد 15 905 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء تو اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے درجات بلند فرمائے ان کو بہت بلند مرتبے عطا فرمائے اور ان کی رفعتوں کی جو جان ہے یعنی دعاؤں کا پھل وہ جان اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں اور نسلوں میں آگے جاری فرمائے.بعض بچے ان کی اولاد میں سے بہت سعید فطرت اور ایسا وجود رکھتے ہیں جن پر توقع سے نظریں پڑتی ہیں.ان کی بیٹی عزیزہ ہے، حمید الرحمان اور عزیزہ کا چھوٹا بیٹا جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں میں ان کو کہتا ہوں کہ اس میں تو مجھے ڈاکٹر سلام نظر آ رہا ہے، ایک اور ڈاکٹر سلام.تو یہ میری مراد ہر گز نہیں کہ وہ صرف نو بل لا رئیٹ بن جائے گا کسی وقت میں جب کہا کرتا ہوں تو میں ان کو سمجھا رہا ہوں کہ میری یہ دعا ہوتی ہے کہ اللہ اس میں وہ خوبیاں پیدا کر دے جو روحانی رفعتوں کی علم بردار ہوتی ہیں اور روحانی رفعتوں کے مقابل پر دنیا کی رفعتوں کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتیں پھر اس کے صدقے میں نوبل لا رئیٹ بھی بنے تو کیا کمی ، کیا بات ہے سبحان الله نور على نور یعنی نوبل لائیٹ کے اوپر رضا کی نظر جب پڑے گی تو نور پر نور نازل ہو جائے گا تو یہ دعا اس بچے کے لئے تو میں کرتا ہی ہوں آپ بھی یاد رکھیں اور اپنی اولادوں کے لئے یہ دعا کریں.اگر دنیاوی طور پر عظمتیں اور رفعتیں مقدر میں نہیں ہیں تو صرف ایک بات ہم مانگتے ہیں کہ تیری نظر ان پر ایسی پڑے کہ ان کی پیدائش بھی سلام کی پیدائش ہو اور ان کا وصال بھی سلام کا وصال ہو.وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (مريم: 34) جو حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا بچپن کی بتلائی گئی ہے وہ یہ وہ سلام ہے جس کے متعلق میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.ان کے حق میں اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے پہلے ہی وہ سلام لکھ دیا تھا جوسلام موت کا سلام بھی بن گیا اور زندگی کا سلام بھی بن گیا.پس جب بھی خدا سے عظمتیں طلب کریں تو انکساری کی عظمتیں طلب کریں اور اس سلام کی عظمتیں طلب کریں جو آسمان سے اترتا ہے اور پھر وہ جس شکل میں بھی نازل ہو بہت ہی خوب صورت اور دلکش دکھائی دیتا ہے لیکن کسی سے توقع رکھنا اور بات ہے اور اس توقع کا پورا ہونا ایک اور بات ہے.یہ دعا بھی ہونی چاہئے کہ اللہ ہر منزل کے خطرات سے بچا کر کسی شخص کو اپنی صلاحیتوں کے عروج تک پہنچائے.پس جن بچوں میں نجابت دیکھتا ہوں، اعلیٰ اقدار دیکھتا ہوں ان کی ذہانت ان کے چہرے بشرے سے ٹپکتی ہے ان کے لئے میں یہ دعا ضرور کرتا ہوں کہ خدا اس کو اس کے آسمانی نقطہ عروج تک پہنچائے.
خطبات طاہر جلد 15 906 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء اب حضرت مصلح موعودؓ کی پیش گوئی میں یہ بہت ہی عارفانہ نکتہ ہے جو بیان ہوا ہے کہ ہر شخص کا ایک آسمانی نقطہ عروج ہے اور وہاں تک وہ بلند ہو سکتا ہے اس سے آگے وہ نہیں بڑھ سکتا لیکن بھاری اکثریت ہے، اتنی بھاری اکثریت کہ شاید اس کو اعدادوشمار میں شمار ہی نہ کیا جاسکے جو اس نقطہ عروج سے نیچے رہ کر مر جاتی ہے اور کئی ایسے بھی ہیں جو اس نقطہ عروج کی طرف حرکت کرنے کی بجائے مختلف سمت میں حرکت کرتے ہیں.اس مضمون کو قرآن کریم کی اس آیت نے کھولا ہے اور میں بار ہا سمجھا چکا ہوں.وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: 177 ) ایک بدنصیب کا ذکر قرآن کریم فرماتا ہے اگر اللہ اسے چاہتا تو جو صلاحیتیں ہم نے عطا کی تھیں ان کے نتیجے میں اسے اس نقطہ عروج آسمانی کی طرف بلند کر لیتا جو اس کا منتہی تھا.وَلَكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وه زمین کی طرف جھک گیا.پس آغاز اچھا ہونا ذمہ داریاں بھی یاد دلاتا ہے اور دعاؤں کی ذمہ داریاں بھی یاد دلاتا ہے کہ ایسے وجود جن پر تمہاری محبت اور پیار اور شفقت کی نظر ہو جن سے تم تو قعات رکھتے ہو کب تک تم ان کی حفاظت کر سکو گے، کب تک ساتھ دو گے، کب تک یہ یقین رکھو گے کہ دنیا کے اثرات اسے اپنی طرف نہیں کھینچ لیں گے اس لئے یہ دعا بھی لازم ہے کہ اسے نیک انجام تک اللہ پہنچائے اور اس نقطہ نگاہ سے سب سے پیاری دعا جو میری زندگی کی جان ہے جس کے لئے میں کئی دفعہ بعض دفعہ لوگوں کو رمضان سے پہلے بھی عاجزانہ خط لکھ کر خصوصیت سے متوجہ کرتا ہوں وہ یہ دعا ہے کہ ان میں شامل کر دے جن کے لئے آسمان سے یہ آواز اٹھے، ان کا استقبال اس لازوال آواز کے ساتھ ہو.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَيِنَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِى (الفحر: 3128) تو جسے یہ نیک انجام نصیب ہو جائے اس سے بہتر کیا انسان تصور کر سکتا ہے؟ پس اس جانے والی پاک روح کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کو ان لوگوں میں شمار فرمائے جن کی وفات کے وقت یہ آواز کان میں سنائی دی ہو ، جس کی روح سے خدا اس طرح مخاطب ہوا ہو اور ان کی اولاد کو بھی وہ وجہ عظمت عطا کرے جو تعلق باللہ کی وجہ ہے.جہاں تعلق باللہ وجہ عظمت بنتا ہے، جہاں رفعتیں سجدے میں مضمر ہیں ، جہاں ربی الاعلیٰ کی دعا اس طرح اٹھتی ہے کہ انسان
خطبات طاہر جلد 15 907 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء پھر ادنی رہ ہی نہیں سکتا، وہ اعلیٰ سے تعلق جوڑ کر ضرور اعلیٰ بنایا جاتا ہے.یہ دعا ئیں اپنے لئے بھی ، اپنی اولادوں کے لئے ، سب گزرے ہوئے اور آئندہ لوگوں کے لئے بھی کریں کیونکہ جزا کا وقت تو ابھی باقی ہے یعنی آخری فیصلے تو قیامت کے دن ہونے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو یہ عظمتیں نصیب فرمائے اور پھر اپنے نشان کے طور پر دنیا کی برکتیں بھی بخشے کیونکہ دنیا کی آنکھ ان باتوں کو دیکھتی نہیں ہے مگر جب خدا کی عظمتیں دنیا کے نشانوں میں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ آنکھیں کھولتی ہے اور وہ ان باتوں کو دیکھنے لگتے ہیں.اب میں مختصراً کچھ یہ مضمون جو تھا میں نے جیسا کہ عرض کیا تھا لمبا مضمون ہے اس کے جو پہلو میرے ذہن میں تھے وہ پورے تو میں بیان نہیں کر سکا مگر امید ہے مرکزی نکتہ احباب جماعت کو سمجھ آگیا ہوگا.ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے احوال کا خلاصہ یہ ہے کہ 29 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے تھے.حضرت چوہدری محمد حسین صاحب جو صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے ان کا نکاح بھی حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھایا تھا، ان کی والدہ ماجدہ کا نام ہاجرہ بیگم تھا.یہ حکیم فضل الرحمن صاحب کی ہمشیرہ تھیں.حکیم فضل الرحمن وہ مبلغ ہیں جو تئیس (23) سال تک اپنی جوانی میں اپنی بیوی سے الگ رہے اور اف تک نہیں کی کبھی.افریقہ کے جنگلوں میں زندگی گزاری.نہایت پاکباز اور بہت ہی با اخلاق اور جاذب نظر شخصیت تھی.یہ ہمارے امریکہ کے ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب کے خالو تھے.ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ماموں اور ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب کے خالو تھے.ثریا بیگم جن کا وصال ابھی ہوا ہے جن کی نماز جنازہ پڑھائی تھی ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر حمیدالرحمان کی والدہ تھیں.تو یہ خاندان آپس میں اس طرح بڑے قریبی تعلق میں بندھا ہوا ہے اور بہت پاک روایتیں ہیں جو اس خون میں جاری ہیں.پس دعا کریں کہ یہ آئندہ بھی ہمیشہ جاری رہیں.وہ مجھے جو یاد تھا کہ رویا میں دیکھا تھا وہ رویا نہیں بلکہ کشفی طور پر آپ کو یہ دکھایا گیا تھا یہ نوٹس ہیں ان میں لکھا ہے ” تین (3) جون 1925ء کو خدا تعالیٰ نے کشفی طور پر دکھلایا کہ ایک فرشتہ ظاہر ہوا جس کے ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ تھا ، فرشتے نے وہ بچہ چوہدری محمد حسین صاحب کو پکڑا دیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے آپ نے اس بچے کا نام پوچھا تو آواز آئی عبد السلام.یہ رویا انہوں نے جب لکھ کر حضرت مصلح موعود کو بھجوائی اور نام کی درخواست کی تو آپ نے لکھا ” جب خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 15 908 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء نے خود نام رکھ دیا ہے تو ہم کیسے دخل دیں، یعنی یہ بات حضرت مصلح موعودؓ کا لکھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت چوہدری محمد حسین صاحب کی رؤیا اور کشوف کی سچائی پر آپ کو کامل یقین تھا اور ویسے بھی انکسار کا پھر یہی تقاضا ہے جب کہہ دے خدا نے نام رکھ دیا ہے مگر محض اس وجہ سے نہیں مجھے یقین ہے کہ چونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ ایک صاحب کشف انسان ہیں اس لئے یہی لکھنا اس وقت یا صرف یہی لکھنا جائز تھا کہ جب خدا نے نام رکھ دیا تو ہم کیسے دخل دیں.چنانچہ پھر یہ بڑھے ہیں تو اللہ کے فضل سے دعاؤں کے ساتھ.اب یہ اتفاقی بات نہیں ہے.آپ یہ دیکھیں کہ باقی بھی تو بہن بھائی ہیں ان کا تعلیمی کر دار ، بڑے ذہین ہیں ، ہوشیار بھی ہیں، اچھے اچھے مرتبے حاصل کئے ، کوئی نسبت ہی نہیں ہے.ایسا ہے جیسے کوئی چیز شوٹ Shoot کر کے ایسا او پر نکل جاتی ہے کہ باقی سب چھوٹے چھوٹے دکھائی دیتے ہیں اس کے مقابل پر ، کوئی نسبت نہیں ہے.ہر میدان میں ایسے ایسے انہوں نے میڈل بچپن سے حاصل کرنے شروع کئے ہیں، ریکارڈ پر ریکارڈ توڑتے چلے گئے ہیں اور بعض ایسے ریکارڈ جو پھر اور ہو ہی نہیں سکتے.جب سو فیصدی نمبر لے لو گے تو ریکارڈ کیسے ٹوٹے گا اور پھر جب پاکستان میں ناقدری کی گئی تو انگلستان میں آئے اور انگلستان کی حکومت کی فراخ دلی ہے یا قدر شناسی کہنا چاہئے ، فراخ دلی کا سوال نہیں ، انہوں نے بڑی عزت کا سلوک کیا امپیریل کالج کی پروفیسر شپ کی سیٹ عطا کی اور مسلسل ان کے ساتھ بہت ہی عزت اور احترام کا سلوک جاری رکھا ہے.پھر اٹلی نے آپ کی عزت افزائی کی.انہوں نے جو ایک تحریک کی کہ میرے نزدیک وہاں ٹرانسٹی میں ایک سنٹر بنانا چاہئے سائنس کے فروغ کا تو حکومت اٹلی نے بڑا حصہ خرچ کا ادا کیا پھر دوسرے اداروں نے بھی اس میں حصہ لیا اور خاص طور پر غریب ممالک کے بچوں کو تعلیمی سہولتیں دے کر ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کو نقطہ عروج تک پہنچانا ، یہ آپ کا مقصد تھا اور اس میں قطعا ند ہی تعصب کا اشارہ تک بھی نہیں تھا.غیر احمدی، پاکستانی، غیر پاکستانی، پولینڈ کے لڑکے، عیسائی، دہریہ سب پر یہ فیض برابر تھا جو رحمانیت کا فیض ہے اور اللہ کے فضل سے اس کے ساتھ بنی نوع انسان کو بہت بڑا فائدہ پہنچا ہے.اب تعلیمی ڈگریاں اور میڈل بیان کرنے کا تو وقت نہیں ہے میں نے جو چیزیں اہمیت کی سمجھیں وہ بیان کر دیں.اب یہ ہمارا بہت ہی پیارا علموں کا خزانہ، دنیاوی علوم میں
خطبات طاہر جلد 15 909 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء بھی ، روحانی علوم میں بھی ترقی کرنے والا ہمارا پیارا ساتھی اور بھائی ہم سے جدا ہوا.اللہ کے حوالے، اللہ کے پیار کی نگاہیں ان پر پڑیں اور ان کو سنبھال لیں اور اس کے علاوہ ان کی اولاد کے لئے بھی یہی دعا کریں کہ خدا ان سے ہمیشہ حسن سلوک رکھے، شفقت اور رحمت کا سلوک رکھے اور ان دعاؤں کو آگے بھی ، ان کے خون میں ، ان کی نسلوں میں جاری کر دے جو ان کے حق میں قبول ہوئیں.اب آپ کے سامنے ایک اور ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے بہت ہی پیارے مخلص فدائی امریکن دوست کا ذکر ہے.وہ بھی ڈاکٹر تھے، پی ایچ ڈی تھے ، برادر مظفراحمد ظفر جو امریکہ کے نائب امیر تھے.یہ بھی انتہائی منکسر المزاج اور بے حد مستعد خدمت کرنے والے اور پی ایچ ڈی تھے مگر اپنے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے تھے اور ڈیٹن میں پروجیکٹ کیور ( Cure) کے ڈائریکٹر تھے.مجھ سے بہت پرانا تعلق ہوا ہے جلسہ سالانہ پر ان کے آنے کی وجہ سے اس کے بعد یہ مسلسل بڑھتا رہا کیوں کہ ان کے اندر بہت گہری خوبیاں تھیں اور بڑا روشن دماغ تھا.امریکنوں کے مسائل کو جس وضاحت کے ساتھ یہ سمجھتے تھے بہت کم ہیں جن کو اتنا عبور تھا اور ان مسائل میں جب ان سے گفتگو ہوئی تو میں نے ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھایا اور مستعد ایسے کہ جب میں وہاں جایا کرتا تھا تو میری حفاظت کے تعلق میں جو انسانی کوششیں ہوتی ہیں ان کے یہ انچارج ہوا کرتے تھے، دن رات لگتا تھا ایک لمحہ بھی نہیں سوتے.جب نکلتا تھا یہ سامنے مستعد کھڑے ہیں.پھر ڈرائیونگ کرنی اور بہت تیز.میں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ خدا کے لئے کچھ آرام کر لیا کریں.ورنہ آپ کو کیا، مجھے صدمہ پہنچے گا.تو پھر تھوڑا سا وعدہ کیا اچھا اچھا میں خیال رکھوں گا مگر کئی دفعہ یہ ہوا کہ اپنا کام کر کے پیچھے رہ گئے اور میں نے ذکر کیا کہ او ہو ہم تو یہاں بیٹھے انتظار کر رہے ہیں، کھانا بھی کھانا تھا ان کے بغیر مزہ نہیں آئے گا وہ تو بہت پیچھے رہ گئے ہیں تو ابھی بات ختم نہیں ہوئی کہ سامنے آ کھڑے ہوئے.وہ ہوا کی طرح چلتے تھے ڈرائیونگ میں اور مزہ یہ ہے کہ پکڑے نہیں جاتے تھے.دعائیں کرتے ہوئے جاتے ہوں گے تو خدا کا غالب قانون جو ہے وہ دنیا کے قانون پر غالب آکر ان کی حفاظت فرمالیتا تھا.کبھی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا خدا کے فضل سے.تو چند دن بیمار رہ کر اچانک جو جگر کا کینسر تھا جس کا علم بعد میں ہوا جس کی وجہ غالباً ان کا صبر ہے.انہوں نے معلوم ہوتا ہے عمد أبتایا نہیں، ابتدائی علامتوں کا ذکر بھی کسی سے نہیں کیا.اس وقت پتا چلا جب وہ آگے بڑھ چکا تھا اور ان کا
خطبات طاہر جلد 15 910 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء وصال میرے لئے بہت گہرے صدمے کا موجب بنا ہے مگر یہ صدمے تو انسانی زندگی کا حصہ ہے.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ یہی پیغام ہے جو ہمیشہ سہارا بنتا ہے.ان کی بیگم سٹر رضیہ بھی غیر معمولی اخلاص رکھنے والی ، مستعد اور بہادر خاتون ہیں.عورتوں میں وہ یہ ڈیوٹی دیا کرتی تھیں، ان کے اوپر ان کو ظاہر ہے کہ زیادہ اعتماد تھا.ایک دفعہ مجھے یوں لگا جیسے اچانک پیچھے سے کوئی دور جا پڑا ہے.تو دیکھا تو پرائیویٹ سیکرٹری ان کے کندھے کا شکار ہوئے تھے.ان کو حکم تھا کہ اس لائن سے آگے کوئی مرد نہیں جائے گا.انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ پرائیویٹ سیکرٹری یا کون ہے وہ لائن آئی ہے تو یوں کندھا مارا ہے کہ پرائیویٹ سیکرٹری لڑھکتے ہوئے دور تک نکل گئے.تو بڑی مستعد تھیں ماشاء اللہ.اب بھی مستعد ہیں، مستعد رہیں گی انشاء اللہ ان کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے بہت دعا کریں.دیگر مرحومین جن کا جنازہ آج جمعہ کے بعد پڑھا جائے گا ان میں سرفہرست ہمارے صادق صاحب مرحوم شہید ہیں.ان کا ذکر مختصر ضروری ہے.بہت ہی پیارا وجود تھا، بڑی بہادری سے اپنی جان جان آفریں کو پیش کی ہے خدمت دین میں، دعوت الی اللہ میں.یہ وہ ہیں جن کے والد 1965ء میں احمدی ہوئے تھے.کٹر اہل حدیث علاقہ ہے وہ اور وہ چونکہ صاحب اثر تھے ، سب سے پہلے ان کے بھائی احمدی ہوئے تھے ان کی تبلیغ سے والد احمدی ہوئے تھے.یہ اور ان کے ایک بھائی میاں عنایت اللہ تھے جو اس وقت تو سینے میں گھونٹ کر اپنے بغض چھپاتے رہے جب تک والد زندہ تھے.ان کے سامنے سراٹھانے کی ان کو مجال نہیں تھی مگر ان کے وصال کے فوراً بعد انہوں نے شدید مخالفت شروع کی اتنی شدید مخالفت کہ اپنے بھائی جو ایمان لایا تھا باپ سے پہلے ہدایت اللہ صاحب ان کی زندگی اجیرن کر دی لیکن پھر آخر خود احمدیت کی صداقت کا 1974ء میں شکار ہوئے.جب 1974ء کی تحریک زوروں پر تھی اور شور تھا اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اب ایسی دیواری بن گئی ہے کہ کوئی احمدی نہیں ہوسکتا تو یہ مخالفت پھلانگ کر امن کے دائرے میں آگئے اور اس کے بعد سے پھر ایک تنگی تلوار تھے احمدیت کی تبلیغ میں ، احمدیت کا پیغام پہنچانے میں.انہی کی تبلیغ سے محمد اشرف صاحب آف جاہن ضلع گوجرانوالہ وہ بھی کر اہل حدیث علاقہ کے تھے وہ احمد کی ہوئے اور جب وہ احمدی ہوئے تو پھر اس علاقے کے مولویوں اور دوسروں سے برداشت نہیں ہوا.سب سے پہلے انہوں نے اشرف صاحب کو شہید کیا اور
خطبات طاہر جلد 15 911 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء اس کے بعد ان پر نظر رہی لیکن انہوں نے عین ان کے کر گڑھوں میں جا کر تبلیغ جاری رکھی چنانچہ پچھلے ایک دو سال کے اندر جب میں نے تحریک کی ہے دعوت الی اللہ کی تو خدا کے فضل سے پندرہ اہل حدیث کو بڑا مضبوط احمدی بنانے کی ان کو تو فیق ملی.آخر یہ معاملہ دشمنوں کی برداشت سے باہر نکل گیا تو یہ جمعہ پر جارہے تھے تو ایک پل پر جہاں دشمن تاک لگائے بیٹھا تھا انہوں نے گولیاں برسا کریا کارتوسوں کی فائروں سے ان کو وہیں چھلنی کر دیا.وہیں شہید ہو گئے.تو ان کی جو واپسی ہے بڑی عظیم واپسی ہے.ایسی واپسی ہے جس کی قرآن ضمانت دے رہا ہے کہ یہ تو مرے بھی نہیں یہ تو زندہ رہنے والے وجود ہیں ان پر نہ تم رونا.اپنی فکر کرو کہ تم کیسے واپس جاتے ہو.یہ تو ہمیشہ زندہ رہیں گے.تو ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.سارا خاندان بڑا بہادر ہے اللہ کے فضل کے ساتھ.ان کی اولا د میں بھی وہی رنگ ہیں عظمت کے، جو خلوص سے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا سے پیدا ہوتے ہیں.اب باقی جو نماز جنازہ پڑھی جائیں گی ابھی نماز جنازہ ادا ہوگی جن کی وہ غلام رسول صاحب معلم اصلاح وارشاد ہیں جو ہمارے مبارک احمد ظفر صاحب جو اس وقت نائب وکیل المال ہیں ان کے یہ والد ہیں.بہت سادہ مزاج میں جانتا تھا انہیں بہت اچھی طرح.ساری عمر بالکل سادہ کپڑوں میں دیکھنے والا پہچان بھی نہیں سکتا تھا کہ کیسا انسان ہے مگر ساری اولاد کی تربیت بہت ہی پیاری اور اعلیٰ درجہ کی کی ہے اور کبھی کسی کے خلاف شکوہ زبان پر نہیں آیا.عنایت علی صاحب کھاریاں، ہمارے اخلاق انجم صاحب کے والد.یہ بھی وہ مبلغین ہیں جن کے والدین یا بزرگوں کو میں نے آج جنازے کے لئے چنا ہے.جو دین کی خاطر باہر تھے پیچھے ان کے بزرگوں کی وفات ہوئی ہے یا ملا تو آخری موقع جانے کا ملا.مسعودہ بیگم صاحب عبدالسلام صاحب ٹیلر ماسٹر ربوہ کی بیگم اور عبد المنان طاہر صاحب کی والدہ.وہ بھی آپ کے مبلغ ہیں جو یہیں اس وقت کام کر رہے ہیں اور راؤ محمد اکبر صاحب جو یہاں آیا کرتے تھے اکثر جلسے پر بڑے ہی فدائی اور بہادر انسان.اپنے علاقے میں یہ احمدیت کے لئے بلاشبہ ایک پر رعب بنگی تلوار تھی جس کی مخالفت کی وہاں جرات نہیں ہوتی تھی پوری.اندر اندر مخالفتیں ہوتی تھیں ادھر ادھر لوگوں کو تنگ کیا جاتا تھا مگر راؤ صاحب کے کڑاکے کے سامنے کیونکہ ان کی برادری ان کے ساتھ ہوتی تھی.بڑی بہادر اور لڑائی کرنے والی برادری یعنی ان پر ہاتھ ڈالنے کا موقع نہیں ملتا تھا جس طرح پرانے زمانوں میں ہوا کرتا
خطبات طاہر جلد 15 912 خطبہ جمعہ 22 نومبر 1996ء تھا.جہالت میں کہ کوئی نبی اگر کسی بڑے قبیلے کا فرد ہو تو کہتے اس کی وجہ سے ہم تجھے چھوڑ رہے ہیں تو ان کا بھی چونکہ قبیلہ مضبوط تھا اس لئے ان کو جرات ہوتی تھی اور اپنے قبیلے کی خاطر کبھی بھی انہوں نے احمدیت کا پیغام چھپایا نہیں تو یہ بھی اچانک وفات پاگئے ہیں.بہت ہی پیارا مخلص انسان تھا ، بہت تبلیغ کرنے والے.اللہ ان سب کو غریق رحمت فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے معاً بعد انشاء اللہ ہم ان سب کی نماز جنازہ پڑھیں گے.ایک نام رہ گیا ہے ایک مربی نہیں دو مربیوں کی والدہ ہیں جو فوت ہوئی ہیں.ایک ہمارے ملک محمد اکرم صاحب مربی مانچسٹر کی والدہ رضیہ بیگم بھی وفات پاگئی ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کو بھی نماز جنازہ میں شامل رکھیں.
خطبات طاہر جلد 15 913 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء اس دور کی کایا پلٹنی ہے تو اعلیٰ اخلاقی نمونوں سے پلیٹی جائے گی اپنے اخلاق کو بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق بنا ئیں.(خطبہ جمعہ فرموده 29 /نومبر 1996ء بمقام بیت الحمد مالمو سویڈن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظِ وَكَذَلِكَ نُصَرِفُ الأيتِ وَلِيَقُولُوا دَ رَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ پھر فرمایا: (الانعام: 105 تا 107) یہ آیات جن کا میں نے آج خطبہ جمعہ کے لئے انتخاب کیا ہے.یہ سورۃ انعام کی نمبر 105 تا نمبر 107 آیات ہیں.پیشتر اس سے کہ ان آیات کے حوالے سے آپ کو کچھ نصیحت کروں ، میں بتادینا چاہتا ہوں کہ اس وقت یہ خطبہ جمعہ مالموسویڈن ( Malmo Sweden) سے دیا جا رہا ہے.وہ لوگ جو واقف نہیں ، اس وقت تک کہ مالموسویڈن (Malmo Sweden) سے ہی یہاں کی نیشنل ٹیلی ویژن نے ہمیں یہ سہولت مہیا کی ہے.اگر چہ پیسے لئے مگر بہت ہی رعایتی اور یہ جو خرچ ہے.یہ چند مخلصین نے اٹھایا ہے.ان کے شوق و ذوق کی وجہ سے ہی یہ صورت حال قبول کی گئی.
خطبات طاہر جلد 15 914 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء پس اس وقت یہ خطبہ MTA کی طرف سے سویڈن کی نیشنل ٹیلی ویژن براہ راست اٹھا رہی ہے اور لندن کی معرفت دنیا کو نہیں پہنچ رہا بلکہ ہمارے سیٹلائیٹ پر سویڈن کی جو نیشنل ٹیلی ویژن کمپنی ہے اس نے اٹھایا ہے اور براہ راست ہمارے سیٹلائیٹ کو بھیج رہی ہے.یہ جو عالمی رابطے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور کی ایک خاص اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس کا جس قدر بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے.اتنے حیرت انگیز فوائد MTA کے سامنے آ رہے ہیں کہ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی زیادہ برکتیں اس نظام میں ہوں گی اور ضرورت کتنی تھی اس کا بھی کوئی احساس نہیں تھا.اب جبکہ میں دورے کرتا ہوں بچوں سے ملتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ در حقیقت اس دور کا واحد تربیت کا ذریعہ ہے ورنہ بھاری تعداد میں ہمارے بچے ہیں جو مربیوں کی تربیت کے دائرے سے باہر ہیں جن کے ماں باپ کو خود تربیت نہیں آتی ، جن کے والدین، ان کے عزیز واقارب خود تربیت کے بہت محتاج ہیں، روز مرہ کے اخلاق سے بھی ناواقف، اسلامی آداب سے نابلد.غرضیکہ یہ ایک ایسی ضرورت حقہ تھی کہ اگر خدا تعالیٰ زبر دستی ہمیں اس طرح انگلی پکڑ کر نہ لے جاتا تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں اور اس وقت رکھتے بھی نہیں تھے، مگر لاعلمی میں کہ ہم طاقت رکھتے ہیں جب ہم اس دور میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے ہماری استطاعت بڑھانی شروع کی اور اتنی بڑھائی کہ آج چوبیس (24) گھنٹے مسلسل تمام دنیا میں اگر کوئی ایک ٹیلی ویژن ہے جو پیغام بھجوا رہی ہے اور پروگرام دکھا رہی ہے تو صرف MTA ہے ساری دنیا میں اس کے سوا کوئی نہیں ،تب ہی حکومتیں حیرت زدہ ہیں.بڑے بڑے ماہرین ادب سے سر جھکاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے وہ کام کر دکھایا جس کی آج دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کو بھی طاقت نہیں ہے.اگر ہے تو اس طرح کہ مختلف ملکوں کے لئے، مختلف وقتوں میں الگ الگ پروگرام تو دکھائے جاتے ہیں مگر وہ بھی Advertisement یعنی اشتہار بازی کے ذریعہ اور اس کی خاطر اور جہاں اشتہار بازی آجاتی ہے وہاں مخرب اخلاق پروگراموں کا داخل ہونا لازم ہے.جتنی بھی ہندوستانی کمپنیاں آج پاکستان کو خصوصیت سے متاثر کر رہی ہیں اور ان کے نہایت گندے اور بد ذوق فلمی پروگرام دیکھنے کے ہمارے پاکستانی عادی بن رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے پیسے کمانے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ جتنے گندے اخلاق
خطبات طاہر جلد 15 915 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء کا دنیا تقاضا کرے اس سے بھی بڑھ کر گندے اخلاق پیش کرو کیوں کہ بے حیائی کی بھوک بھی مٹ جایا کرتی ہے.چند دن ایک قسم کی بے حیائی کی عادت پڑے تو اس سے آگے بڑھے بغیر پھر اس پہلی بے حیائی کا مزہ باقی نہیں رہتا.یہی Drug Addiction کا فلسفہ ہے.اور جماعت احمد یہ اس کے برعکس فلسفہ کو جو مثبت فلسفہ ہے، استعمال کر رہی ہے یعنی نیکیوں کے لئے بھی عادت پیدا کرنی پڑتی ہے، از خود نیکیوں میں دلچسپی پیدا نہیں ہوا کرتی.تھوڑی تھوڑی نیکیاں چکھا چکھا کر ساری دنیا کی جماعت کو آگے بڑھانا، یہ ہمارے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک مقصد ہے اور جب بھی نیکی کی عادت پڑتی ہے تو یہ عادت بدی کی عادت سے زیادہ پختہ ہوتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی کی عادت میں اللہ تعالیٰ کے قرب کی وجہ سے ایک ایسی روحانی دائمی لذت ہے، جس کا رد عمل کوئی نہیں ، مگر بدی کی دلچسپیاں خواہ کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں، کتنی طاقت سے اپنی طرف کیوں نہ کھینچیں، ہر شخص جب مزید بدی کی طرف قدم اٹھاتا ہے.اس کے ضمیر کی ایک آواز ضرور اٹھتی ہے، جو اس کو ملامت کرتی ہے اور ہر دفعہ اس ملامت کے Barrier اس کی حدیں پھلانگ کر ، انسان بدی کے اگلے دور میں داخل ہوا کرتا ہے.یہاں تک کہ وہ آواز مر جائے اور جب مرجائے تو پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف اس کی واپسی یا نیکیوں کی طرف واپسی ناممکن ہو جاتی ہے.سوائے اس کے کہ اللہ کا خاص فضل اسے سنبھال لے.پس اب بھی ہم نے دیکھا ہے کہ MTA کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری نئی نسلوں کے ذوق سدھر رہے ہیں.وہ بچے جو دن رات کارٹونوں کے سامنے یا خوفناک فلموں کے انتظار میں نہایت ہی مخرب اخلاق فرضی کہانیوں میں مبتلا ہو چکے تھے یعنی ایسے عادی بن گئے تھے جیسے کوئی نشے میں مبتلا ہو جائے وہ اب سب وہ پروگرام چھوڑ کر احمد یہ پروگراموں کو جن کے اندر سادگی اور فطری ایک جذب ہے، سچائی ہے ، فطری جذب ہے، بے اختیاری ہے، کوئی بھی اس میں ایکٹنگ نہیں ہے، اس کے جب عادی بنتے ہیں تو پھر عادی ہوتے چلے جاتے ہیں ایک جگہ سے بھی کبھی آج تک یہ اطلاع نہیں آئی کہ احمدی بچوں نے کچھ عرصہ دیکھا اور اس کے بعد اس کو چھوڑ کر دوسرے ٹیلی ویژنوں کی طرف منتقل ہو گئے.جب آئے تو ان کا ذوق بڑھتا گیا ان کا تعلق بڑھتا گیا اور جو بھی ہمارے پروگرام ہیں ان کے ساتھ ایک ذاتی وابستگی پیدا ہوگئی ہے.
خطبات طاہر جلد 15 916 خطبہ جمعہ 29 نومبر 1996ء پس اس پہلو سے آج بھی جو خطبہ براہ راست یہاں سے نشر کیا جا رہا ہے یہ کل عالم میں احمدیت کی یک جہتی اور ایک جان ہونے کا ایک عظیم ثبوت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ ممکن نہیں تھا.پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور بھی ہماری عالمی یک جہتی کو بڑھائے ، ہم ایک مزاج بن کر ابھریں اور وہ جو قومی اور نسلی اختلافات ہیں ان کو مٹانے کے لئے تمام دنیا سے ایک مزاج کے لوگوں کا ایک قوم کا ایسا ابھر نا لا زم ہے جو ایک مرکزی دماغ کے ساتھ وابستہ ہو، ایک مرکزی دل کے ساتھ دھڑکتی ہو اور اس کے زیر و بم میں ان کی ساری زندگی ہو.یہ معجزہ ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا معجزہ ہے جو آخرین کے لئے مقدر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت ہمیں عطا فرمائی.اس دور کے جو تقاضے ہیں ان کے تعلق میں یہ آیت کریمہ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی.سب سے اہم تقاضا میرے نزدیک اس وقت اخلاق حسنہ کا تقاضا ہے، نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی دنیا کو ضرورت ہے اور اخلاق حسنہ دنیا سے مٹتے جا رہے ہیں، محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں.وہ تو میں جو کبھی اپنے اخلاق کی وجہ سے سر اٹھا کر چلا کرتی تھیں، جن کے دعوے تھے کہ ہماری گلیوں میں چوری کوئی نہیں ہماری گلیوں میں بے ہودہ حرکتیں کوئی نہیں انگلستان کا بھی ایک زمانے میں برحق دعوئی اور یہی دعویٰ تھا مجھے یاد ہے جب میں طالب علم تھا تو ایک دفعہ Hampstead-Heath کے ایک کنارے سے چونکہ ہمارا وہاں ایک پروگرام تھا جس میں دیر ہو گئی اور Tube بند ہو چکی تھی اور ٹیکسی کی توفیق نہیں تھی اس وقت میں پیدل لندن مسجد پہنچا ہوں اور رات کے وقت کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا، خاموش گلیاں، پر سکون گلیاں اور صبح نماز کے وقت میں وہاں پہنچا اور صبح کی نماز میں شامل ہو گیا آرام کے ساتھ.یہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ رستے میں کوئی چور اچکا آئے گا اور پکڑے گا اور پولیس میں بھی ایسی شرافت اور مستعدی تھی کہ بے وجہ دکھائی نہیں دیتی تھی مگر جہاں ضرورت پڑے وہاں پولیس نکل آتی تھی کہیں سے.اب وہ حالات بالکل یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اب تو گلی گلی کا موڈ خطرناک ہو گیا ہے اب تو ان کے جو دانشور ہیں وہ شور مچارہے ہیں کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے ہر قسم کا امن اٹھ گیا، بچوں کا امن اٹھ گیا، لڑکیوں کا امن اٹھ گیا، اپنے ماں باپ سے گھر میں بچوں کو خطرے ہیں اور یہ خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں.پس اس دور کی کایا پلٹنی ہے تو اعلیٰ اخلاقی نمونوں سے پلٹی جائے گی محض باتوں سے یہ
خطبات طاہر جلد 15 917 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء عظیم کا رنامہ جو آپ کے سپر د ہے یہ پورا نہیں ہوسکتا، اس پر عمل ناممکن ہے.یہ ایک ہی پروگرام ہے کہ اپنے اخلاق کو بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق بنا ئیں جو عملی زندگی میں تمام ماحول کو روشن کرنے لگیں ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیں.آپ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اجنبی کی حیثیت سے یہاں چلیں جیسے ان کے ہاں Aliens اترتے ہیں فرضی طور پر اور آ کر اور بھی زیادہ ان کے اخلاق بر باد کر جاتے ہیں.ان کا قتل و غارت، ان کا خون خرابہ، ان کا ظلم وستم یہ ان بچوں کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے جو بڑی دلچسپی کے ساتھ ان پروگراموں کو دیکھتے ہیں مگر اور قسم کے بھی Aliens ہوا کرتے ہیں جن کا آنا دنیا کے لئے اجنبی ہو اور سب سے بڑے Aliens جو دنیا میں نازل ہوتے ہیں وہ وقت کے انبیاء ہیں کیونکہ ان کے آنے کے ساتھ ساری سوسائٹی کو بالآخر ان کے رنگ اختیار کرنا ہوتے ہیں اور ان کا خلق غالب آتا ہے ، نظریات سے بڑھ کر ان کا خلق غالب آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی دعا کے بعد سب سے زیادہ انقلابی طاقت آپ کا خلق بیان فرمائی ہے یہ خلق محمدی تھا جس نے لازماً غالب آنا تھا اور اجنبی دنیا میں جب ایک اجنبی اترتا ہے تو شروع میں اس کی مخالفت ہوتی ہے وہ عجیب باتیں کرتا ہے، عجیب ادائیں دکھاتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے نہیں ہے اس لئے اسے اپنے سے نکال باہر پھینکو.مگر بنیادی طور پر، انسانی فطرت کی گہرائی میں حسن خلق کے تقاضے ایسے داخل ہیں کہ کوئی دنیا کی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی.بد سے بدسوسائٹی میں بھی دل کے اندر کی آواز یہی ہے کہ کاش اس ماحول کو حسن خلق روشن کر دیتا، کاش ہمارے دن بدل جائیں، کاش ہمارا فساد امن میں تبدیل ہو جائے.یہ آواز ہر مجرم کی آواز بھی ہے ہر انسان جو بد سوسائٹی کا نمبر ہے جو اس کے نتیجہ میں دن بدن نیچے اتر رہا ہے اوپر دیکھ کر اوپر چڑھنے کی تمنا اس کی کبھی نہیں مرتی.پس دل کی اس آواز کو انبیاء کے خلق ابھارتے ہیں اور بالآخر دل کی یہ آواز جیتا کرتی ہے.آج بھی میں نے اپنے ناروے اور سویڈن اور ڈنمارک کے دورے میں محسوس کیا ہے کہ یہاں اگر کوئی چیز تبدیلی لاسکتی ہے تو آپ کے خلق ہیں، آپ کے اخلاق ہیں.اخلاق حسنہ کے سوا یہ ممکن نہیں ہے اور اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباس میں نے آج آپ کے سامنے رکھنے ہیں لیکن اس سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی کی
خطبات طاہر جلد 15 918 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء پیروی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام ان باتوں کو کھولا ہے اور خوب کھولا ہے جو سچائی کو جھوٹ سے الگ کرنے والی ، دن کو رات سے الگ کرنے والی اور اس طرح کھول دیا ہے مضمون کو کہ اس کے بعد کوئی احمدی یہ شکوہ نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات ہم سے چھپالی.آنحضرت ﷺ کا یہی پاک نمونہ تھا جسے اس کامل غلام نے اپنالیا.حضور اکرم لے کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم اس طرح، اس لئے آیات کو پھیر پھیر کر تجھے سناتے ہیں تا کہ تو ہم سے مضامین کی گہرائی کا علم سیکھ لے.عرفان جہاں تک بھی انسان کو پہنچا سکتا ہے، وہاں تک تیسرا ادراک پہنچے اور خدا کا فضل اور رحمت تجھ پر اس طرح نازل ہو کہ تو مجسم خدا کا فضل اور رحمت بن جائے.یہ مقاصد ہیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جس کی وجہ سے، جب خدا تعالیٰ نے مختلف مضامین کو مختلف آیات کو ادل بدل کر، چکر دیتے ہوئے کبھی اس پہلو سے، کبھی اس پہلو سے روشن کیا تو مقصد یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا کی تدریس کا کام ایسا کامل طور پر کریں کہ جب آپ کے سکھائے ہوئے، حیرت انگیز طور پر آپ کے حکمت سکھانے اور علم سکھانے اور حکمتوں کے راز بتانے کو دیکھیں تو بے اختیار ان کے منہ سے یہ نکلے تو نے اپنے رب سے سیکھنے کا خوب حق ادا کر دیا، ایسا سیکھا ہے کہ اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.صلى الله پس آنحضرت مہ کے سکھانے کا کمال تھا جس نے آپ کے غلاموں کے منہ سے یہ فقرے نکال دیئے واہ واہ ! کیسا شاگرد ہے یعنی اللہ کا شاگرد، خدا سے وہ کچھ سیکھ گیا جس کی عام انسان میں طاقت نہیں تھی کیونکہ تعریف آیات میں عام انسان کی عقل ان کی گہرائی کو پا بھی نہیں سکتی جو باتیں حکمت کی تہہ بہ تہ راز اندرونی را ز بیان کئے جائیں ان کے لئے غیر معمولی ذکی اور فہیم انسان کی ضرورت تھی.پس جب آنحضرت ﷺ کے عرفان کی باتیں کیا کرتے تھے تو صحابہ کے منہ کی آواز ہے جو قرآن نے محفوظ کی ہے.بے اختیار ان کے دل سے آوازیں اٹھتیں سبحان اللہ تو نے اپنے رب سے خوب سیکھا ہے، ایسا سیکھا ہے کہ سیکھنے میں تو نے کمال کر دیا اور اگر تو نہ سیکھتا تو ہم بھی کچھ نہ سیکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی بعینہ یہی رنگ ہے آنحضرت ﷺ سے سیکھا اور سیکھنے کا حق ادا کر دیا اور پھر اس طرح کھول کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمایا کہ کوئی پہلو اس کا اندھیرے میں رہنے نہیں دیا.
خطبات طاہر جلد 15 919 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء ان آیات کا میں ترجمہ اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ ج ربَّكُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف بصیر تیں تم تک آ پہنچی ہیں اور بصیر تیں کس صورت میں آئی ہیں یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے نزول کی صورت میں نازل ہوئی ہیں.یہ مضمون ہے جو آگے کھلتا ہے.تمہارے پاس ہر قسم کی بصیرتیں، طرح طرح کی عظیم الشان بصیر تیں جو تمہیں روشنی بخشنے والی ہیں تمہارے رب کی طرف سے آ چکی ہیں.فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم لاعلمی میں وہ باتیں کرتے ہیں جو کر رہے ہیں.سب کچھ دیکھ چکے ہو، سب کچھ جان چکے ہو جانتے بوجھتے ہوئے اگر اب تم کوئی غلط مسلک اختیار کرو تو نہ خدا پر کوئی الزام، نہ محمد رسول اللہ ﷺ پر کہ گویا انہوں نے صلى الله سکھانے میں کمی کر دی تھی پھر جو سیکھے گا تو اسی کے فائدے میں ہوگا اور جو اندھا بن جائے گا تو اس کا اندھا پن اسی کے خلاف استعمال ہوگا.وَمَا اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ حضرت محمد رسول الله الله کے کلام کی صورت میں خدا کا کلام نازل ہو رہا ہے.اچانک حضرت محمد رسول الله الا اللہ مخاط ہیں اور کہتے ہیں یہ سب کچھ ہے لیکن میں حفیظ نہیں ہوں تم پر ، جو سکھانے کا حق تھا وہ ادا کر دیا لیکن حفیظ صرف خدا ہے اس کی حفاظت میں آؤ گے تو تم ان تمام باتوں سے استفادہ کر سکو گے جو میں تمہیں سمجھاتا ہوں.اگر خدا کی حفاظت سے باہر نکلو گے تو یہ باتیں تمہارے کسی کام نہیں آئیں گی.وَكَذَلِكَ نُصَرِفُ الآیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح ہم آیات کو ادل بدل کر مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں اور بیان کرتے چلے جاتے ہیں.وَلِيَقُولُوا تا کہ وہ کہیں دَرَسْتَ اسے محمد م و ا تو نے سیکھنے کا حق ادا کر دیا، کمال درجے کا سیکھا ہے.اب یہ بھی تصریف الآیات کی ایک عظیم الشان مثال ہے.ابھی آنحضرت ﷺ کا کلام ہے خدا کی طرف سے جو نازل ہوا لیکن آنحضرت ﷺ کی طرف سے اللہ مخاطب ہو رہا ہے سب کو اور اب كَذلِكَ نُصَرِفُ الآیت اللہ اپنے ہاتھ میں ضمیر کو لے لیتا ہے کلام کی باگ ڈور براہ راست سنبھالتا ہے.فرماتا ہے اسی طرح نُصَرِفُ الآیتِ ہم آیات کو ادلتے بدلتے ہیں وَلِيَقُولُوا دَ رَست اور مقصد یہ ہے کہ بے اختیار ان کے دلوں سے آواز میں اٹھیں کہ اے محمدﷺ ! تو نے سیکھنے کا حق ادا کر دیا ایسا پڑھا ہے کہ کمال کر دیا وَ لِنُبَيِّنَةُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اور تا کہ اس مضمون کو اہل علم پر ایسا کھول دیں کہ الله
خطبات طاہر جلد 15 920 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء اس کے ہر پہلو کو اس پر روشن کر دیں.اِتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر نازل کیا جاتا ہے اس کی پیروی کر لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ اور جو شرک کرنے والے ہیں وہ خدا کے سوا اپنی امنگوں یا دنیا کی حکومتوں اور طاقتوں کو اپنا خدا بنا بیٹھے ہیں، ان سے اعراض کر ان سے منہ پھیر لے.اسی مضمون کے تعلق میں آنحضرت ﷺ نے آخری خطبہ میں جو حجۃ الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے، بیان کیا جاتا ہے کہ ایک لاکھ کا مجمع یا شاید اس سے بھی زیادہ تھے جو اس آخری خطبہ میں آنحضور ﷺ کے سامنے حاضر تھے یہ آخری حج تھا جو آپ نے ادا فرمایا یہ آخری خطبہ تھا جو آپ نے اپنے عشاق کو دیکھتے ہوئے ان کے سامنے بیان کیا اور اللہ کے حضور در اصل ایک حجت تھی ، ان پر حجت تھی جو پوری کر رہے تھے اور خدا کے حضور یہ عرض کر رہے تھے اے خدا یہ سب گواہ ہیں جو کچھ تو نے مجھے کہا تھا میں نے سب کچھ بیان کر دیا ایک ذرہ بھی کمی نہیں آنے دی.فرمایا، اے لوگو! عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے.وہ تم سے پوچھے گا کہ تم نے کیسے عمل کئے دیکھو میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑاتے پھرو اور آگاہ رہو تم میں سے جو یہاں موجود ہے ان لوگوں کو پیغام پہنچادیں جو کہ صلى الله موجود نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس کو وہ پیغام پہنچایا جائے وہ سننے والے سے زیادہ سمجھ دار ہو.پھر آ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے، کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے.کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے.صحابہ کہتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے.پھر آپ نے فرمایا اے میرے اللہ گواہ رہ کہ جس کام کی خاطر تو نے مجھے بھیجا تھا میں نے اس کا تمام حق ادا کر دیا ہے.یہ ایک لاکھ کا مجمع گواہ ہے، یہ بلند آواز سے اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ جو کام تو نے میرے سپرد کئے تھے وہ تمام تر پورے کر دیئے اور یہ پیغام پہنچا دیا.یہ آخری خطبہ تھا حجتہ الوداع کا جس میں شریعت کی تکمیل کا یہ منظر حیرت انگیز ہے یعنی شریعت صرف مکمل نہیں ہوئی بلکہ وہ کامل رسول ﷺ جس نے شریعت کو بنی نوع انسان تک پہنچانا تھا اس نے ایک لاکھ کے مجمع میں ان سے یہ گواہی لی اور خدا کے حضور اس گواہی کو پیش کیا کہ اے خدا میں اپنا حق ادا کر چکا ہوں اور یہی دراصل اس بات کی علامت تھی کہ آپ رخصت ہونے والے ہیں،
خطبات طاہر جلد 15 921 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء واپس اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملنے والے ہیں.کئی صحابہ تھے جن کا ذہن اس طرف گیا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے یہ ہمارے رسول ﷺ کی جدائی کا خطبہ ہے شاید اس کے بعد ہمیں آپ کو دیکھنا نصیب نہ ہو.چنانچہ اگلے حج سے پہلے پہلے اس خطبہ وداع کے بعد آپ رفیق اعلیٰ سے جاملے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ہمیں یہ راز سمجھائے اور خوب کھول کھول کر ہمارے سامنے یہ باتیں بیان فرمائیں اور سب سے اہم اور قیمتی راز یہ ہمیں بتایا کہ یہ سب کچھ جو عمل کی طاقت ہے اچھی باتیں سنا اور پھر ان پر عمل کرنا یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے.اس لئے جتنا چاہو تم زور مارو، جتنا چاہوں میں تمہیں سمجھاؤں میں تم پر یہ بات خوب کھول دینا چاہتا ہوں کہ توفیق اسی کو ملے گی جس پر خدا کا فضل نازل ہوگا اور تو فیق آسمان ہی سے اترا کرتی ہے.اب لمبا عرصہ ہو گیا میں جماعت احمدیہ کو اخلاق حسنہ سے متعلق اپنے خطبات میں نصیحت کرتا ہوں.میں بتاتا ہوں کہ کس طرح ہمارا سفر گھروں سے شروع ہوگا.جب تک ہمارے گھروں میں اخلاق حسنہ کے نمونے جاری نہ ہوں، جب تک خاوند اور بیوی کے درمیان، باپ اور بیٹی اور باپ اور بیٹوں کے درمیان، ماں اور بیٹیوں اور ماں اور بیٹوں کے درمیان ایک جنت کا سا معاشرہ قائم نہ ہو اور اخلاق حسنہ کے پاک نمونے گھروں میں جاری نہ ہوں اس وقت تک یہ دعویٰ کہ ہم دنیا کو تبدیل کر دیں گے محض ایک جنت الحمقاء میں بسنے والی بات ہے یعنی احمق بھی تو ایک جنت بنا لیا کرتے ہیں وہ ان جنتوں میں جانتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ جنتیں اور ہیں جن میں ان لوگوں کی رسائی ہوگی جو صاحب عقل ہیں احمق کو وہاں تک کوئی رسائی نہیں.پس یا درکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی طرح دراست کے حق ادا کئے اور ہمیں خوب کھول کھول کے سمجھا دیا.چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور کا انقلاب اخلاق حسنہ سے وابستہ ہے کیونکہ مجھے کامل یقین ہے کہ دنیا کو آج سب سے زیادہ اخلاق کی پیاس ہے.دلائل کی دنیا میں تو ہر انسان یہ طاقت ہی نہیں رکھتا کہ بڑے بڑے اہل علم اور اہل فضل پر غالب آ سکے.اگر وہ سچا بھی ہو تو دنیا بہت چالاک ہے اور دنیا ظاہری علوم میں اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایک عام سادہ لوح انسان کے لئے اور ایک مخلص احمدی کے لئے جس نے بات بھی دنیا کے برعکس کرنی ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں کو سمجھا کر ان کو مغلوب کر سکے لیکن ایک چیز ہے جو دنیا کے پاس نہیں وہ اخلاق حسنہ
خطبات طاہر جلد 15 922 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء ہیں.ایک چیز ہے جس کی پیاس دنیا میں بڑھتی چلی جارہی ہے.پس آج اخلاق حسنہ سے آپ بڑے بڑے علماء اور اہل علم و فضل کے منہ بند نہیں کر سکتے مگر ان کے کردار تبدیل کر سکتے ہیں کیونکہ اخلاق حسنہ میں ایک حیرت انگیز انقلابی طاقت ہوا کرتی ہے.وہ لوگ جو اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو کر دنیا میں پھرتے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ روشن ہوتے ہیں جیسے جگنو کی دم چمکتی ہے.اندھیری رات میں جگنو کی دم بھی تو چپکا کرتی ہے مگر چھوٹی سی روشنی ہے جو دوسرے جگنوؤں کو اس کی طرف کھینچ لاتی ہے کچھ کیڑے مکوڑے ان سے راہ پا جاتے ہیں مگر مومن کا نور تو اس کے آگے بھاگتا ہے اس کے دائیں طرف آگے بڑھتا ہے اور مومن کا نور دور دور تک لوگوں کے لئے ماحول کو روشن کر دیتا ہے.یہ نور اخلاق فاضلہ کا نور ہے، اخلاق حسنہ کا نور ہے، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کو اپنانے کا نور ہے اس کو اپنی عادات میں داخل کر لیں اس نور سے آراستہ ہو جائیں تو آپ از خود چمکنے لگیں گے.آپ کی غربت، آپ کے پھٹے پرانے کپڑے، آپ کی سادگی آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ چیزیں ہیں جو اللہ کے نور کو روکا نہیں کرتیں بلکہ بسا اوقات بڑھانے کا موجب بن جاتی ہیں.کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک غریب انسان جو سادہ پھٹے ہوئے کپڑوں میں ہو اس کا جسم مجسم نور بن جاتا ہے اور اس کا نور خدا کے فضل اور رحمت کو اپنی طرف اس طاقت کے ساتھ کھینچتا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اللہ کا فضل اور رحمت اس پر اس حیرت انگیز شفقت کے ساتھ برستے ہیں کہ وہ شخص جو پھٹے پرانے سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو بسا اوقات اس کی باتیں خدا کی باتیں بن جاتی ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: " رب اشعث اغبر“ خبر دار ایسے بھی غریب ہیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، پراگندہ بال ان کے سروں پر خاک پڑی ہوتی ہے.”لو اقسم على الله لا بره (صحیح مسلم كتاب الجنة و الصفة نعيمها وأهلها ، باب النار يدخل الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء ) اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ایسا ضرور ہو گا تو ضرور ایسا ہو کر رہتا ہے.یہ وہ نورانی وجود
خطبات طاہر جلد 15 923 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء ہیں جن کی خاک، جن کے کپڑوں کی بدحالی، جن کے سر کے بالوں کا بکھرا ہوا ہونا اور ان میں خاک پڑے ہونا ان کے نور کی طاقت کو روک نہیں سکتے کیونکہ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے.ایسے غریب اور فقیر لوگ جب کہہ دیتے ہیں کہ خدا کی قسم یہ یونہی ہوگا تو ویسا ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ کی تقدیر ان کی آواز کے ساتھ چلتی ہے.یہ وہ تبدیلی کرنے والے لوگ ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کیا کرتے ہیں.نہ اچھے کپڑے آپ کے کام آئیں گے، نہ خوب صورت گھر ، نہ اعلیٰ درجے کی موٹریں ان پہلوؤں سے تو دنیا آپ سے بہت زیادہ آگے نکل چکی ہے.ایک ایک ایسا دنیا میں امیر آدمی ہے کہ جس کی دولت تمام دنیا کی جماعت کی دولت کے برابر یا اس سے بھی شاید بڑھ کر ہو تو روپے پیسے میں ، ظاہری چمک دمک میں، اپنے کپڑوں کے حسن میں، اپنے مکانوں کی آرائش میں آپ اگر فخر کرتے ہیں تو ایک بے کار فخر ہے ان چیزوں میں کوئی طاقت نہیں، کوئی ان کو دیکھ کر آپ کے پیچھے نہیں چلے گا.مگر غربت میں خدا ترسی، غربت میں خدا کے اخلاق کو اپنانا ، اس کی صفات حسنہ کو اپنے وجود میں جاری کر لینا صرف یہ ایک طاقت ہے جو جماعت احمدیہ کو نصیب ہو رہی ہے اور بڑھ رہی ہے اور اسی کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.اس طاقت کی پرورش کریں.اسے اور بڑھائیں.جتنا یہ اخلاق حسنہ کی طاقت اونچی ہوگی اتنا ہی جماعت احمدیہ کی سر بلندی ہوگی.اتنا ہی گردو پیش کے بڑے بڑے سرکش لوگ بھی آپ کے اخلاق حسنہ کی طاقت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوتے چلے جائیں گے اور اس بات کی گواہی ہر طرف سے مل رہی ہے کہ یہی ہوتا ہے اور یہی ہو رہا ہے اور یہی ہو گا.بسا اوقات آنے والے جو بیعت کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا تو کسی احمدی کا نام لیتے ہیں یا اس کے ساتھ آئے ہوں تو اشارہ کرتے ہیں اس کے خلق حسن نے ہمیں آمادہ کیا اور نہ دلیل کی بات نہیں تھی.یہ ہم میں رہتے ہوئے اجنبی تھا ہمارے ماحول میں ایک مختلف قسم کی چیز تھی جس نے توجہ کو کھینچا ہے اور اس کے اخلاق نے ہمارے دلوں میں یقین پیدا کیا یعنی اپنے متعلق کہتا ہے میرے دل میں یقین پیدا کیا کہ یہ غلط انسان نہیں ہے یہ مختلف اور اجنبی اور دلکش وجود ہے اور جب اس ماحول میں اس رجحان کے ساتھ اس لٹریچر کا مطالعہ کیا جو اس احمدی نے دیا تو دل تو پہلے ہی آمادہ تھادل کے دروازے تو پہلے ہی کھول دیئے گئے تھے اس نے ہر بات پر آمنا و صدقنا کہا کیونکہ جب اس شخص سے پیار ہو جائے جس کے اخلاص متاثر کرتے ہیں تو اس کی باتوں کے خلاف دل میں
خطبات طاہر جلد 15 924 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء کوئی رد عمل نہیں ہوتا اور پھر تبلیغ کام آتی ہے، پھر منہ کے الفاظ میں بھی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.پس آج ہم نے اس دور میں جس دور میں احمدیت داخل ہوئی ہے سب سے زیادہ اخلاق حسنہ کی حفاظت کرنی ہے سب سے زیادہ اخلاق حسنہ کو اپنا کر اس طاقتور ہتھیار کے ذریعہ دنیا پر غالب آنا ہے اور آپ یقین جانیں کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قو میں بھی اس ہتھیار کا دفاع نہیں جانتیں کیونکہ وہ اس ہتھیار سے خالی ہیں.ان کو علم ہی نہیں کہ اخلاق حسنہ ہوتے کیا ہیں.ظاہری خلق کے لحاظ سے آپ کو بہت اچھے اچھے لوگ ملیں گے مگر ظاہری اخلاق جو Civilization کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر کوئی بقا نہیں.جب اس کے مفادات سے دوسرے کے مفادات ٹکراتے ہیں تو وہ خلق محض ایک فلم سی دکھائی دیتا ہے، جھلی سی جو اس کے وجود پر تھی اور فوڑا پھٹ جاتی ہے.بڑی بڑی مہذب قومیں ہیں جن کے مفادات جب کسی غریب قوم سے بھی ٹکرائیں تو ساری اخلاقیات کی جھلی پھٹ کر پارہ پارہ ہو جاتی ہے اندر سے ایک وحشی درندہ نکلتا ہے اس کے ناخن جو پہلے اندر چھپے ہوئے تھے انگلیوں کے اندر دبے ہوئے تھے وہ باہر نکل آتے ہیں، اس بھیڑیے کی طرح جو ایک کہانی میں ایک بچے کی نانی بن کر بیٹھا ہوا تھا اور جب وہ اس کے قابو آیا تو پھر اس کے ناخن باہر نکلے پھر اس کے دانت باہر نکلے اور اس کی اصلیت تب ظاہر ہوئی.پس جن اخلاق حسنہ سے آپ متاثر ہیں جو خدا کے بغیر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر ایمان کے بغیر بھی دنیا کو ہلکے پھلکے سے اخلاق میسر ضرور آتے ہیں لیکن جب بھی ان کے طبعی نفسی تقاضوں سے ان اخلاق کا ٹکراؤ ہو تو ان کے اخلاق پارہ پارہ ہو کر بکھر جاتے ہیں غریب قومیں جن کے اندر خون کا قطرہ بھی باقی نہیں ان کے خون کو بھی چوسنے کے لئے وہ اسی طرح دانت تیز کرتے ہیں جیسے امیر قوموں سے دولتیں لوٹنے کے لئے تیز کرتے ہیں.اب افریقہ کا کیا حال ہے کئی جگہ افریقہ کے ممالک کا یہ حال ہو چکا ہے کہ جیسے انیمیا کی آخری صورت ہو اس کے بعد ان کو خودخون کے ٹیکے دے کر ان کو زندہ کرنا پڑتا ہے تا کہ یہ زندہ ہوں تو پھر ہم دوبارہ اس کمائی سے جو یہ خود کرے اپنا خون واپس لیں اور اس سے بھی زیادہ سود در سود واپس لیں.یہ اخلاق حسنہ ہیں؟.یہ ہرگز اخلاق حسنہ نہیں.قرآن کریم کی تعریف کے مطابق آنحضرت ﷺ کو خدا نے جو تعلیم بخشی جس خلق کا آپ نمونہ بنے اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کا تو وقت نہیں مگر یا درکھیں اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ( مدثر: 7) کبھی کسی پہ احسان نہ کر اس نیت کے ساتھ کہ تو اس سے کچھ
خطبات طاہر جلد 15 925 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء زیادہ لے گا، اس کے بدلے تجھے فائدہ پہنچے گا.پس آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا اگر کوئی خلاصہ ہوسکتا ہے تو یہ ہے کہ آپ کا دینے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہا ہے.کبھی اس نیت سے ایک ذرہ بھی آپ نے کسی پر احسان نہیں فرمایا کہ یہ بعد میں میرے کام آجائے گا، ہو سکتا ہے کسی وقت اس کی ضرورت پڑ جائے یا ہوسکتا ہے یہ امیر ہو جائے تو میں اس کی دولت سے فائدہ اٹھاؤں، یہ سب جاہلانہ باتیں ہیں.قرآن کریم نے جو اخلاق کی تعریف فرمائی ہے اس میں ایک یہ نکتہ، اور بھی بہت سے ہیں وہ اخلاق فاضلہ کو جو حقیقی اخلاق ہیں جو اللہ سے وابستہ ہیں جو صرف ایمان والوں کو نصیب ہوتے ہیں ان کو دنیا کے اخلاق سے اس طرح ممتاز کر دیتے ہیں کہ دونوں مختلف وجود بن جاتے ہیں ان کی نوع بدل جاتی ہے دنیا کے اخلاق ان اخلاق الله حسنہ کے مقابل پر جو قرآن سکھاتا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوئے ، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے گویا وہ اخلاق ہی نہیں ہیں.وہی مثال ان پر آتی ہے کہ : رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا (خواجہ میر درد) صل الله یہ اگر حقیقت میں شعر کسی ذات پر صادق آتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر صادق آتا ہے.وہ اخلاق حسنہ جو آپ سے وجود میں آئے ، آپ سے ظاہر ہوئے.خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ ان اخلاق کو دیکھ کر دنیا کے اخلاق کے چہرے کو دیکھیں تو کہیں نو ر دکھائی نہیں دے گا.تمام نور کا مجمع ، تمام نور جس پر مرتکز ہو گیا جو منبع بھی بنا جس سے نور پھوٹا اور پھر اسی میں نور مرکوز ہو گیا وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا حسن ہے پس اس طرف توجہ کریں.ایک ہی وجود ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم :5) اے محمد تیرا قدم اخلاق کی چوٹی پر واقع ہے.تو منزل بہ منزل اخلاق میں نہیں بڑھ رہا اخلاق تیرے قدموں کے نیچے ہے.یہ ویسا ہی محاورہ ہے جیسے جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے.اگر تم نے اخلاق سیکھنے ہیں تو محمد رسول اللہ اللہ کے قدم چومو! کیونکہ وہیں سے تمہیں اخلاق ملیں گے.اخلاق کی ہر بلند سے بلند چوٹی آپ نے سر کر لی ہے اور اس چوٹی پر فائز ہیں.پس یہ وہ اخلاق ہیں جن کی تعلیم آنحضرت ﷺ نے زبان خاموش سے بھی دی اور قرآن نے اس زبان خاموش کی صل الله
خطبات طاہر جلد 15 926 خطبہ جمعہ 29 نومبر 1996ء بات خوب کھول کر آپ تک پہنچائی.وہ باتیں جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے انکسار کی وجہ سے آپ کی فطرت میں مخفی حسن کے طور پر تھیں قرآن نے اسے خوب کھول دیا، تصریف آیات کی، ایک پہلو بھی ایسا نہیں رکھا جو دنیا پر روشن نہ کر دیا گیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” جب تک خدا کسی کے دل کے دروازے نہ کھولے کوئی کچھ نہیں کر سکتا، دلوں کے دروازے کھولنا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے...جب انسان کے اچھے دن آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انسان کی دوستی اور بہتری منظور ہوتی ہے تو خدا انسان کے دل میں ہی ایک واعظ کھڑا کر دیتا ہے...“ کیسی گہری عرفان کی بات ہے.جب تک دل میں خدا واعظ نہ کھڑا کرے اس وقت تک بیرونی بات انسان پر کچھ بھی اثر نہیں کر سکتی.اثر کرتی ہے تو نفس کی آواز بن کر اثر کرتی ہے.یہ ایک ایسا فطرت کا گہرا راز ہے جسے لوگ کم سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ باہر کی بات نے ہم پر اثر کیا، باہر کی بات جب تک نفس کے اندر سے ایک ہم نوا نہ پیدا کر دے اس آواز کی تائید میں دل نہ بول اٹھے اس وقت تک بیرونی آواز کوئی بھی اثر نہیں کر سکتی جیسا کہ غالب نے کہا ہے کہ: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے (دیوان غالب : 242) اس مقام تک پہنچانا انبیاء کا کام ہے اور انبیاء کے غلاموں کا کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھو کیسے راز کی بات بیان فرمائی جب تک تمہارے دل میں کوئی بات ایک واعظ نہ اٹھا دے، تمہارے دل کے اندر سے ایک نصیحت کرنے والا نہ اٹھ کھڑا ہو اس وقت تک تمہیں بیرونی بات کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور کیسے پیارے انداز میں بیان فرمایا ” جب انسان کے اچھے دن آتے ہیں“ دل عش عش کر اٹھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے.کیسا پیارا فقرہ ہے ” جب انسان کے اچھے دن آتے ہیں.تو کیوں نہ اپنے اچھے دنوں کے لئے دعا کرو کیوں نہ خدا سے التجا کرو کہ ہمارے دن پھیر دے اور ہمارا دل بے اختیار کہہ اٹھے کہ ہمارے اچھے دن آ گئے بہار کا سماں پیدا ہو تو پھر کونپلیں ضرور پھوٹیں گی پھر اندر کا واعظ ضرور بیدار ہو گا.فرماتے ہیں:...اور جب تک خود انسان کے اندر ہی واعظ پیدا نہ ہو تب تک وو
خطبات طاہر جلد 15 927 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء بیرونی واعظوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا...“ وہی بات ہے جو اللہ کا احسان ہے کہ میں آپ کے سامنے پہلے بھی پیش کرتا رہا ہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سن کر تو اس کا لطف ہی اور ہے کیسے دلکش، کیسے حسین ، کیسے گہرے نیچے انداز سے آپ نے بیان فرمایا تب تک بیرونی واعظوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا جب تک اس کے اندر سے ایک واعظ نہ پیدا ہو...مگر وہ کام خدا کا ہے ہمارا کام نہیں.ہمارا کام صرف بات کا پہنچا دینا ہے تصرف خدا کا کام ہے...66 كَذَلِكَ نُصَرِفُ الْآیتِ دیکھیں اس قرآن کے گہرے فلسفے کے ساتھ کس طرح آپ کا کلام وابستہ ہے ساتھ ساتھ چل رہا ہے کوئی ایک بات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام صلى الله ایسی نہیں فرماتے جس کی بنیاد حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی نصائح اور نیک عمل میں نہ ہو اور قرآن کی آیات کے تابع اس کے سائے میں وہ بات نہ آگے بڑھتی ہو ہر بات کی کوئی نہ کوئی بنیاد آپ کو لازما قرآن میں ملے گی.فرماتے ہیں:...تصرف خدا کا کام ہے ہم اپنی طرف سے بات کو پہنچا دینا چاہتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پوچھے جاویں (اور بات پہنچانے میں کتنی ذمہ داری ہے اور کتنا خدا کا خوف ہے ) کہ کیوں اچھی طرح سے نہیں بتایا اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے.“ الله (ملفوظات جلد 5 صفحه : 590) سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے سیکھنے اور سکھانے کے خوب رنگ سیکھے اور جو حق تھا وہ خوب پورا کر دیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں...“ اگر یہ وہم ہو کہ بڑے بڑے کھلاڑی، بڑے بڑے باکسنگ کرنے والے، بڑے بڑے
خطبات طاہر جلد 15 928 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء کشتیاں لڑنے والے جماعت میں آئیں گے تو جماعت کی عزت افزائی کا موجب بنیں گے تو فرماتے ہیں اس وہم کو دل سے نکال دو ہمیں ان پہلوانوں کی ضرورت نہیں ہے."...بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیل اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں...“ اب دیکھیں فقرے کتنے بچے، کتنے محتاط ہیں یہ نہیں فرمایا جو عظیم اخلاق والے آجائیں، عظیم اخلاق والے بنیں گے کیسے، فرمایا جو تبدیل اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں، آپ سارے، میں، آپ، ہم سب اس میں داخل ہو گئے ہیں.ساری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا امام مان بیٹھی ہے کہ خدا کا مقرر کردہ امام ہے ایک بھی نہیں جو اس کلام سے باہر رہ جائے ورنہ اگر یہ فرماتے کہ عظیم اخلاق حسنہ والے آنحضرت ﷺ کی متابعت میں کامل اخلاق کے رنگ اختیار کرنے والے چاہئیں تو ہم سے بھاری اکثریت ایسی ہوتی جو مجھتی کہ ہم مخاطب ہی نہیں ہم کہاں اور یہ ایسے اخلاق والے کہاں اور بہت سے جو اپنے آپ کو سمجھتے وہ بے وقوف ہوتے.ان کو محض وہم ہوتا کہ وہ صاحب اخلاق ہیں اور ان کا تکبر ان کو اس جماعت میں داخل ہوتا ہوا دکھاتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام دیکھو کس طرح ایک فیض عام بن گیا ہے.ہراحمدی چھوٹا بڑا ، مرد عورت، بچہ سب اس میں داخل ہو گئے.فرمایا ہمیں کوشش کرنے والے چاہئیں تو کوشش تو شروع کریں اور وہ کوشش کیسے شروع کی جائے اس کے گر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ہمیں خوب کھول کھول کر سمجھاتے ہیں.وو...یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے.نہیں نہیں.اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے...66 کوشش کرے اور پھر چھوڑے نہیں یہاں تک کہ اس کی طاقت بڑھ جائے یہاں تک کہ وہ اس بات کا اختیار حاصل کر لے خدا تعالیٰ سے کہ اپنے اخلاق کو تبدیل کر دکھاوے....پس یا درکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیل اخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے.‘ ( ملفوظات جلد اول صفحہ: 88 تا89)
خطبات طاہر جلد 15 929 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا دے کہ تم دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو “ پہلے حوالے کے بعد اب جو یہ حوالہ پڑھ رہا ہوں اس مقصد کی خاطر، آپ کو سمجھانے کے لئے کہ آپ اگر کوشش کریں گے تو ضرور کامیاب ہوگی کیونکہ یہ کوشش ہواؤں کے رخ کی کوشش ہوگی اگر ہوا کے رخ کے مقابل پر آپ دوڑ لگانے کی کوشش کریں تو بسا اوقات آپ کی کوشش ناکام ہو جائے گی.بعض دفعہ مخالف ہوا کے جھونکے تو انسان کو اٹھا کر پیچھے کی طرف دھکیل دیتے ہیں ایسے سائیکل چلانے والے آندھیوں میں جو سائیکل چلاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پورے زور سے آگے بڑھ رہے ہیں سائیکل دھکیل کے پیچھے جا پڑتا ہے مجھے بھی خود اس کا تجربہ ہو چکا ہے بعض دفعہ بسوں کو آندھیوں کی تیزی روک کر پیچھے کی طرف دھکیل دیتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا چاہتا ہے.آسمان سے ہوائیں چل پڑی ہیں کہ تمہیں اخلاق حسنہ عطا کریں.اب تم کس تر ڈو میں مبتلا ہو اب کیوں رکتے ہو.کوشش کرو اور یقین رکھو کہ تمہاری کوششیں ان آسمانی ہواؤں کے رخ پر چلنے کے نتیجہ میں کامیاب ہوں گی جن کو چلانے کا خدا نے فیصلہ فرمالیا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنادے کہ تم دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو.سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جاوے.(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ: 221) پس ایسے لوگ لازماً جدا ہو جاتے ہیں اگر غالب ماحول ان کے مزاج کے مخالف ہو وہ زیادہ دیر ساتھ چل نہیں سکتے.اکثر اس فتنوں کے دور میں جو مرتد ہوئے ہیں وہ تمام تر وہی لوگ تھے جو جماعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کی راہوں میں چل سکتے ہی نہیں تھے ، پہلے ان کے پر دے ڈھکے ہوئے تھے کیونکہ کوئی ابتلا نہیں تھا، کوئی آزمائش نہیں تھی.وہ سمجھتے تھے جماعت کا ممبر بننے سے ہمیں فائدے ہی ہیں لیکن جہاں مخالفت کی آندھیاں چلی ہیں ان کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہیں
خطبات طاہر جلد 15 930 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء رہا، جڑوں سے اکھیڑے گئے.وہی ثابت قدم رہے جن کے اندر ایمان کی جڑیں مضبوط تھیں اور گہری تھیں جو کلمہ طیبہ کی طرح ایک شجر کی صورت تھے کہ جڑیں زمین میں پیوستہ اور شاخیں آسمان میں خدا سے باتیں کرتی تھیں.پس آج کے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے ان لوگوں کا نکلنا جن کے نکلنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمنا فرمائی ہے آپ کے اخلاق حسنہ کے نتیجہ میں ہوگا.اگر جماعت کے رنگ بدل جائیں ساری جماعت اعلیٰ اخلاق پر قائم ہو جائے تو یہ چند بد کردار اور بدخلق لوگ ایسی جماعت میں رہ ہی نہیں سکتے.ان کے مزاج اور ہوں گے، ان کا ماحول بدل چکا ہوگا لیکن اگر آپ ان کو اپنے اندر پناہ دیں اگر بد تمیز اور بدخلق انسان کو جو اپنی بیوی سے جھگڑتا ہے جو اپنے بچوں پر ظلم کرتا ہے آپ اگر پیار کی نظر نہیں ڈالتے تو اس کو قبول کی نظر سے دیکھیں باہر آئے تو آپ کی سوسائٹی میں اس طرح کھلی بانہوں سے اس کا استقبال ہو جیسے ایک صاحب خلق کا ہوتا ہے تو یا درکھیں آپ نے اس کو پناہ دے رکھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں اپنی پناہیں ایسے لوگوں سے اٹھا لو، ان کو نکلنے دو، ان کے لئے اپنے اندر رہنے کی گنجائش ہی نہ چھوڑو.پس اپنے اعلیٰ اخلاق کو اتنا ترقی دو کہ بد خلق اجنبی دکھائی دینے لگیں.ایک وہ وقت تھا کہ جب آپ اجنبی تھے یعنی اس سوسائٹی میں جو بد کردار ہو چکی ہے.اب ایسے غالب آ جاؤ اپنے خلق حسنہ میں کہ بدکردار لوگ اجنبی دکھائی دینے لگیں اور وہ تمہارے وطن کو چھوڑ کر اپنے نئے وطنوں کی طرف روانہ ہوں.ہجرت بعض دفعہ دو طرفہ رخ رکھتی ہے پہلے انسان خدا کی خاطر گندے لوگوں سے ہجرت کر کے خدا کی جانب بڑھتا ہے پھر اس کے گرد ایک شہر آباد ہونے لگتا ہے جس کی طرف سب اچھے لوگ کھچے چلے آتے ہیں.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ہجرت نے کیا ثابت کیا بعینہ یہی تو بات تھی.اپنے وطن، اپنی قوم ، اپنی دنیاوی عظمتوں اور جائیداد اور مال و منال کو سب کچھ ترک کر کے آپ ہجرت کرتے ہوئے ایک لق و دق صحرا میں آ پہنچے اور اپنے موعود بیٹے کو اور اس کی ماں کو وہاں آباد کر دیا.اب دیکھو تمام دنیا سے دور دور سے کس طرح لوگ اس شہر کی طرف کھچے چلے آتے ہیں.وہ آماجگاہ ہو گیا ہے نیکیوں کی، کیونکہ حج میں یہ لازم ہے کہ اپنے بدی کے کپڑے اتار پھینکو اور ایک سادہ غریبانہ چادر میں
خطبات طاہر جلد 15 931 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء ملبوس ہو جاؤ جو بے داغ چادر ہو یہ تمہیں سمجھانے کی خاطر کہ اللہ کو ایسی ہجرتیں قبول ہیں.تو ایک مہاجر نے دیکھو کیسی ہجرتیں پیدا کر دیں.کتنے ہزار سال پہلے کی بات ہے اور آج تک خانہ کعبہ کی طرف ساری دنیا سے لوگ کشاں کشاں کھچے چلے آتے ہیں ، وہی رنگ لیتے ہوئے وہی رنگ اپناتے ہوئے.اب یہ اللہ کی طرف سے نصیب کی بات ہے.انہیں مقام ابراہیم نصیب ہوتا ہے یا نہیں یہ ان کی نیتوں کا حال جانے مگر خدا کے حضور اس طرح حاضر ہونے والے کا کوئی نمونہ دنیا میں آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا.ظاہری طور پر اپنی بدیوں کو چھوڑتے ہوئے آتے ہیں اگر واپس بدیوں کی صلى الله طرف لوٹ جائیں تو ان کا نصیبہ.مگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کے اس شہر کو از سرنو آباد کیا ہے اور وہ رونقیں بخشی ہیں جو رونقیں اس شہر کو چھوڑ چکی تھیں.پس یہ ہجرتیں ہیں.ایک نیکیوں کی ہجرت ہے اور ایک بدیوں کی ہجرت ہے، ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے وہ ساری نیکیاں جو ابراہیم کی وجہ سے اس شہر میں مجتمع ہو گئی تھیں ایک ایک کر کے روانہ ہوئیں نہ تو حید رہی، نہ اخلاق حسنہ، نہ صفات باری تعالیٰ کا کوئی مظہر ، سارا ملہ ویران ہو گیا.تب حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے پہلی ہجرت کی ہے پھر اور یہ ہجرت ابراہیم کی ہجرت سے بہت زیادہ شاندار اور بہت زیادہ بقاء رکھنے والی ہجرت تھی.وہ ساری خوبیاں مکہ میں لوٹ آئیں ، وہ تو حید کی آماجگاہ بن گیا.ہر حسن وہاں سے پہاڑی چشموں کی طرح پھوٹنے لگا، آب زم زم میں پاکیزگی پیدا ہوگئی اور سچائی کا پانی بن گیا.یہ وہ ہجرت ہے جو پھر اپنے عقب میں اور ہجرتیں لے کر آیا کرتی ہے.پس آپ کا فرض ہے بد اخلاق کے شہر سے ہجرت کر جائیں اور اخلاق حسنہ، اخلاق مصطفوی کی طرف روانہ ہوں اور یقین رکھیں کہ آپ میں سے ہر ایک کی ہجرت اپنے پیچھے فوج در فوج بنی نوع انسان کو کھینچے لئے چلی آئے گی.تب یہ نیکیوں کا شہر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ قائم کیا ہے تب یہ سچا ہمیشگی کا شہر بن جائے گا.پھر یہ شہر ایک شہر نہیں رہتا یہ ساری دنیا میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے زمین کے کناروں تک شہرت پاتا ہے.پس خدا کرے کہ ہمیں یہ توفیق نصیب ہو کہ ہم ان کھوئے ہوئے اخلاق حسنہ کو جو حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے ذریعے دنیا میں زندہ کئے گئے تھے ان کو پھر حاصل کر سکیں اپنے وجود کا حصہ بنا لیں اپنے گھر کو چمکائیں.جگنو کی طرح اگر تھوڑے سے ماحول کو نہیں تو اپنے قریب رہنے والی بیوی کو تو پتا
خطبات طاہر جلد 15 932 خطبہ جمعہ 29 /نومبر 1996ء چلے کہ آپ کے اندر کوئی نور ہے.اپنے گھر میں بسنے والے بچوں اور بچیوں کو تو یہ محسوس ہو کہ ہاں نور کا ایک آسمان سے شعلہ اترا ہے، نور کا ایک کرشمہ ہے جو ہمارے گھر میں پیدا ہو گیا ہے.یہ نو را گر گھروں میں نہیں دیکھیں گے اگر گھر اندھیرے اور ویران رہیں گے اگر اپنے ماحول میں آپ بد خلق رہیں گے بد تمیز رہیں گے، گالیاں دینے میں جلدی کرنے والے ہوں گے اگر زبان پاک اور صاف نہیں ہوگی اگر بخشش سے ناواقف ہوں گے اگر حوصلہ آپ کے قریب تک نہ پھٹکے تو پھر دنیا کو آپ کیسے تبدیل کریں گے.خدا کرے کہ ان حقائق کو ہم دیکھیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سمجھیں ، سوچیں اور کامل یقین کے ساتھ کہ اگر ہم کوشش کریں گے تو آج خدا کی مرضی ہے کہ ہم ایسے ہی بن جائیں ہماری کوششیں ضرور کامیاب ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 933 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء عفو کا مضمون ہے جس کو گھروں میں جاری کر نالازم ہے.اس کے بغیر گھروں میں پاکیزہ فضا پیدا نہیں ہوسکتی.(خطبه جمعه فرموده 6 دسمبر 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا البلغَ الْمُبِينُ الله لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْلانَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوَّالَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التغابن :15:13) پھر فرمایا: جب میں سویڈن میں تھا تو وہاں مجھے ایک خاتون کا خط آیا جس کا مفہوم یہ تھا تفصیل نہیں لکھی کہ آپ عفو اور مغفرت پر بھی کبھی خطبہ دیں کیونکہ اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو تاثر میں نے قائم کیا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے خاوند اپنے بچوں کے ساتھ معمولی باتوں پر بھی سختی کرتے ہیں تو اپنی شکایت سے زیادہ ان کو بچوں کا خیال معلوم ہوتا تھا مجھے خیال آیا کہ اس سے پہلے میں بارہا اس مضمون پر خطبات دے چکا ہوں اس لئے ابھی اتنی جلدی ضرورت نہیں ہے اور چلنے سے ایک رات پہلے، واپس آنے سے ایک رات پہلے میں نے ایک رؤیا دیکھی جو مجھے اس طرف متوجہ کر گئی کہ
خطبات طاہر جلد 15 934 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء ضرورت ہے اور وہ رویا یہ تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک کتاب کا درس دے رہا ہوں اور آخری حصے پہ پہنچا ہوں اور وہاں پہنچ کر جو بات میں بیان کرتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار بار بیان کر چکے ہیں.میں جماعت کو اس درس میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جب تک تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مزاج نہیں سمجھو گے آپ کی تحریرات کا حقیقی مفہوم نہیں پاسکتے اور یہ تکرار نہیں بلکہ اصرار ہے اور اس پر رؤیا ختم ہوگئی.باقی باتیں میں نے آنکھ کھلنے کے بعد سوچیں تو میں حیران رہ گیا کہ جو بات میں سوچ رہا تھا کہ تکرار ہوگی اگر دوبارہ باتیں کروں گا، اسی وہم کا جواب مجھے رویا میں بتایا گیا کہ بعض باتیں بار بار اس لئے ضروری ہیں کہ ان پر اصرار کئے بغیر لوگ سمجھتے نہیں.پس تکرار وہ چیز ہے جو سمجھ میں آ چکی ہو اور پھر بے وجہ انسان اسے دہرائے اور اصرار وہ ہے کہ ایک بات بار بار کہی جائے اور کوئی نہ سمجھے اور پھر سمجھایا جائے اور پھر نہ سمجھے اور پھر سمجھایا جائے یہاں تک کہ انسان بلاغ کا حق ادا کر دے.اس رؤیا کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ لازماً میں اس کی طرف توجہ دوں گا.اور یہ آیت کریمہ جو آج کے لئے منتخب ہوئی ہے یہ معین طور پر تو میں نے نہیں کی تھی مگر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو جب میں نے بتایا کہ اس مضمون پر آیت چاہئے اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ انہوں نے وہ آیت چینی جو بعینہ اس مضمون پر صادق آ رہی ہے اور سب سے پہلی آیت بلاغ کے مضمون کو کھول رہی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو.فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ پس اگر تم پھر جاؤ گے.فَإِنَّمَا عَلَى رَسُوْلِنَا الْبَلْغُ الْمُبِينُ تو یاد رکھو ہمارے رسول پر تو اس کے سوا کچھ فرض نہیں ہے کہ خوب کھول کھول کر بات کو بیان کر دے تو البَاغُ الْمُبِينُ کا وہی مفہوم ہے جو رویا میں اصرار کا مفہوم مجھے سمجھ آیا تھا کہ جب تک بات کھل نہ جائے انسان وہ بات کہتا چلا جائے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا بعینہ یہ طریق تھا جب تک ایک مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھا نہ لیتے یہاں تک کہ بسا اوقات دوبارہ پوچھتے بھی تھے کہ بتاؤ تمہیں کیا سمجھ آئی ہے اس وقت تک اس بات کو دہراتے تھے اور بہت سی
خطبات طاہر جلد 15 935 خطبہ جمعہ مورخہ 6/دسمبر 1996ء ایسی نصائح ہیں جو کثرت سے دہرائی گئی ہیں.اور اس پہلو سے ”ذکر“ میں جو زور ہے نصیحت کر اور کرتا چلا جاوہ الْبَاغُ الْمُبِينُ کا ہی ایک پہلو ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں جہاں بھی بظاہر تکرار فرمائی ہے وہ تکرار نہیں ہے بلکہ اصرار ان معنوں میں کہ جب تک وہ بات سمجھ نہ آئے میں نہیں چھوڑوں گا.پس اس آیت کے حوالے سے مضمون اور بھی زیادہ کھل گیا اور روشن ہو گیا جو رویا میں مجھے دکھایا گیا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الله لا إلهَ إِلَّا هُوَ اللہ وہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اور اللہ ہی پر مومن تو کل کرتے ہیں.پہلی بات تو ضمنا یہ بتانی ضروری ہے کہ اس آیت کا پہلی آیت سے کیا تعلق ہے.اس کا پہلی آیت کے آخری حصے سے تعلق ہے.فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَاغُ الْمُبِينُ اگر تم پھر جاؤ گے تو ہمارے رسول پر تو صرف کھول کھول کر بات کو پہنچا دینا تھا جو اس نے پہنچا دی لیکن تمہارے پھر جانے سے اسے نقصان کوئی نہیں پہنچے گا یہ وہ مضمون ہے جس کو اگلی آیت الله نے اُٹھایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک ہی خدا ہے اس کے سوا کوئی نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا وہی ہے جو ہر چیز کا مالک ہے اور خالق ہے پس تمہارے چھوڑنے سے محمد رسول اللہ اللہ کو کیا فرق پڑے گا انہوں نے بات کھول دی اپنا فرض ادا کر دیا.اگر تم پھرتے ہو تو ایک کوڑی کا بھی فرق ، ایک ذرہ بھی فرق محمد رسول اللہ ﷺ پر نہیں پڑے گا کیونکہ اللہ آپ کو نہیں چھوڑے گا اور تم بھی یہ رنگ اختیار کرو.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ پر صلى الله چاہئے کہ مومن خدا ہی پر تو کل کیا کریں جیسا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا تمام تر تو کل اپنی نصیحت پر نہیں بلکہ اللہ پر تھا اور یہ تو کل علی اللہ کا مضمون دعاؤں کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے اور اس تعلق میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نصیحت موجود ہے.ایک باپ کے متعلق جب سختی کی اطلاع ملی کہ بہت سختی کرتا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام نے اسے شرک قرار دیا، سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور
خطبات طاہر جلد 15 936 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء اللهُ لَا اِلهَ اِلَّا هُوَ کا مضمون جو ہے یہ تو حید کی طرف جو غیر معمولی توجہ دلائی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ بلاغ تمہارا کام ہے اور زبردستی تمہارا کام نہیں ہے اور اگر تم یہ سمجھو گے کہ تم زبر دستی کسی کو ٹھیک کر لو گے تو یہ شرک ہے اور یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تمہیں کبھی بھی خدائی طاقتیں نصیب نہیں ہو سکتیں تم اپنی مرضی سے کسی کو بدل نہیں سکتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی مضمون اس موقع پر جو ایک شکایت سے تعلق رکھتا ہے جو ایک شخص جو ویسے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والے بظاہر ایک بزرگ صحابی تھے مگر ان کے دل میں کوئی ایسا رخنہ تھا جس کی اصلاح ضروری تھی وہ اپنی اولاد پر بہت زیادہ سختی کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ تم مشرک ہواگر یہ کام کرتے ہو تم سمجھتے ہو تم خود ٹھیک کر لو گے یہ ہو نہیں سکتا اس لئے دعا پہ زور دو.یہ جوا گلا آیت کا حصہ ہے وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ جب جو لوگ رسول اللہ اللہ کی نصیحت سے اثر لینے کی بجائے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے تھے تو ان کو پھر بھی اس حال میں چھوڑا نہیں کرتے تھے.اپنی نصیحت کے اثر انداز ہونے کے متعلق اللہ پر تو کل فرمایا کرتے تھے اور اللہ آپ کی دعاؤں کو سنتا تھا اور جہاں بلاغ بظاہر نا کام رہا وہاں توكل على اللہ کامیاب ہو جاتا تھا کیونکہ اصل تو وہی معبود ہے اس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے تو کتنا عظیمالشان مضمون ہے جو ان آیات میں ایک ترتیب کے ساتھ ، ایک تدریج کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.فرمایا اللہ پر توکل کرو.رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی طریق تھا کہ اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ کر جانے والوں کو اس طرح ترک نہیں فرما دیتے تھے کہ اب ان کا معاملہ خدا پر میں چھوڑتا ہوں بلکہ ان کے لئے دعائیں کرتے تھے اور اپنے بلاغ کے کامیاب ہونے سے متعلق خدا کی طرف متوجہ ہوتے تھے.اب یہ بھی وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضور ﷺ کی عظیم کامیابی کے راز کے طور پر بیان فرمایا.وہاں بلاغ کو نہیں پیش کیا وہاں دعا اور توکل علی اللہ کو پیش کیا.آپ کو جو آخری عظیم کامیابی نصیب ہوئی ہے وہ دعاؤں کے نتیجہ میں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر جو تو کل تھا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو آپ نے دعائیں کی ہیں تو ایسی
خطبات طاہر جلد 15 937 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء دعائیں کی ہیں کہ اے خدا تیرے سوا اب کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا اس دنیا میں وہ تو ہی ہے جو انقلاب بر پا کرے گا اور جب ایسی دعائیں کیں تو اللہ نے انقلاب بر پا کر دیا اور وہ انقلاب ایک عظیم معجزہ ہے جس کی کوئی مثال نبوت کی تاریخ میں آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی کہ کوئی نبی وفات نہ پائے جب تک کہ اپنی ساری قوم کی کایا نہ پلٹ دے.وہ قوم جو اس کے خون کی پیاسی ہو جو شرک میں انتہا درجے تک ڈوب چکی ہو کسی کے علم میں کوئی مثال ہے تو لا کے تو دکھائے.اس کے پاسنگ کی مثال بھی ساری دنیا میں مذہبی تاریخ میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی ایک محمد رسول اللہ ﷺ اور جس طرح اللہ ایک ہے اللہ پر توکل کرنے والا بھی دراصل ایک ہی تھا یعنی حضرت محمد رسول اللہ ہے جن کی کوئی مثال تاریخ انبیاء میں ایسی دکھائی نہیں دیتی.درجہ بدرجہ سب ہی تو کل کرنے والے تھے درجہ بدرجہ سب نے ہی دعاؤں کا فیض پایا مگر کسی کی دعائیں ایسی ثابت نہیں جس نے ساری قوم کی کایا پلٹ دی ہو سوائے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے.صلى الله پھر خدا تعالیٰ اس کے بعد فرماتا ہے، اس نصیحت کے مضمون کو اپنے گھر اور ماحول پر اطلاق کرتے ہوئے فرماتا ہے یہ قاعدہ کلیہ ہے یہ ازلی ابدی راز ہیں نصیحت میں کامیابی کے.تم بھی ان کی طرف توجہ کرو اور گھر سے بات شروع کرو اور یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے خونی اقرباء تمہارے ہیں جس طرح چا ہوان سے سلوک کر لو جو اصول خدا تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں اگر تم نے ان کو نظر انداز کیا تو تمہاری اپنی صلب سے تمہارے دشمن پیدا ہو سکتے ہیں.پس یہی وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بتایا کہ تم اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے ضائع نہ کروا پنادشمن نہ بناؤ کیوں کہ تم آنحضور کی سنت کے مطابق عمل نہیں کر رہے ہو.صلى الله چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُ والكُمْ کیوں غور نہیں کرتے ، کیوں فکر نہیں کرتے ، تمہاری اپنی بیویاں، تمہاری اپنی اولاد تمہاری دشمن ہے یعنی ان میں سے تمہارے دشمن ہیں.مراد یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو ایسے بد نصیب ہیں کہ گویا ان کی بیویاں بھی ان کی دشمن ہو سکتی ہیں اور ہو جاتی ہیں اور ان کی اولا د بھی ان کی دشمن ہو سکتی ہے اور ہو جاتی ہے کیوں ہوتی ہے؟ ان کی غلط نصیحت اور غلط تربیت کے رنگ کی وجہ سے.چنانچہ یہ کہنے کے بعد، یہ تنبیہ کرنے کے بعد فَاحْذَرُو ہ ان کے معاملے میں احتیاط سے کام
خطبات طاہر جلد 15 938 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء لو - وَاِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - (التغابن : 15) اب تین طریق ہیں نصیحت کے اپنے گھر میں بھی وہی استعمال کرو اگر تم ایسا گرو گے تو اللہ تمہاری غلطیوں سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے گا اور کوئی بداثر ان کا تمہاری اولاد پر نہیں پڑے دے گا لیکن لازم ہے تم پر کہ اس طریق کو اختیار کرو جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا ہمیشہ کا طریق تھا بعینہ یہی طریق تھا.وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا اگر تم عفو سے کام لو اور صبح سے کام لو اور مغفرت سے کام لو.یہ تین کیا چیزیں ہیں.بظاہر تو عفو اور صبح کو ایک ہی معنوں میں سمجھا جاتا ہے یعنی درگزر اور ایک ہی اس کا ترجمہ بھی ملتا ہے مگر ان میں فرق ہے اور اصل معنی عفو کا ہے کہ اس طرح نظر انداز کر دینا ایک چیز کو گویا ہے ہی نہیں ، گویا موجود ہی نہیں تھی.یعنی ابتداء میں بچوں کی غلطیاں، بیوی کی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن تم یوں سلوک کرو گویا تم نے دیکھی ہی نہیں تمہیں پتا ہی نہیں لگا اور ان کو کچھ سہولت اور آسانی دوورنہ ہر وقت جو مرد گھر پر سوار رہے گا اس سے تو زندگیاں برباد ہو جائیں گی ، عذاب بن جائیں گی.ہر وقت دیکھنا ، ہر وقت میں میخ نکالنا، ہر وقت نقائص ڈھونڈ نا یا نہ بھی ڈھونڈے تو نظر آ ہی جاتے ہیں.تو فرمایا جو لوگ اکٹھے رہتے ہیں ان پر لازم ہے کہ عفو سے کام لیں اکثر ایسا وقت گزاریں کہ گویا ان کو پتا ہی نہیں کیا ہو رہا ہے لیکن ہر چیز میں نہیں.وہ بدخلقیاں ، وہ معمولی معمولی باتیں جو آغاز میں ہلکے طور پر ظاہر ہوا کرتی ہیں یعنی ابھی جرم نہیں بنتیں اور بعض خطائیں ہیں برتن گر کے ٹوٹتا ہے ٹھوکر لگ جاتی ہے کسی چیز پہ کسی چیز کو نقصان پہنچ جاتا ہے کھانا دیر میں پکا ، روٹی جل گئی ، یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو گھر کے روزمرہ کے معاملات ہیں جن میں عفو لازم ہے انسان اس طرح دیکھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ، کچھ دیکھا ہی نہیں.اس طرح سنے جیسے کچھ سنا ہی نہیں یہ عفو کا معنی ہے.ایک شاعر کہتا ہے نگاہوں سے متعلق کہ وہ دیکھتے مجھے یوں ہیں کہ دیکھتے ہی نہیں اس طرح عفو کی نظر ڈالتے ہیں گویا نہیں دیکھ رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دیکھنے کا یہی انداز تھا اور حضرت مصلح موعودؓ کا ہمیں پتا ہے بچپن سے یہی دیکھا کہ لگتا تھا کہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہے اور دیکھ سب کچھ لیتے تھے تو
خطبات طاہر جلد 15 939 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء قرآن کریم نے جو عفو کا مضمون بیان فرمایا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ بے وقوف ہو، غافل ہو.غفلت کا مضمون ایک بالکل الگ مضمون ہے جس کو قرآن کریم ایک الگ موقع پر اٹھاتا ہے.یہاں علم کے باوجود اپنے دل کی کشادگی کی وجہ سے، وسیع حو صلے کی وجہ سے ، اس طرح رہو جیسے تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا.برتن ٹوٹا ہے گویا تمہیں آواز ہی نہیں آئی کسی جگہ کوئی داغ دھبہ لگ گیا ہے کوئی کھانا جل گیا ہے تو جیسے تمہیں پتا ہی نہیں چلا.تو یہ وہ روز مرہ کا گھر کے معاملات میں بیوی اور بچوں سے سلوک ہے جو عفو کہلاتا ہے.یا درکھو عفو کے نتیجہ میں گنا ہوں اور جرائم کی حوصلہ افزائی نہیں ہوا کرتی.عفو کے نتیجہ میں ایک شرم اور حیا پیدا ہو جاتی ہے اور جو بچے ہیں یا بیوی ہے وہ آ خر سمجھ ہی جاتے ہیں ان کو پتا چل جاتا ہے کہ عفو ہو رہا ہے اور عفو کے نتیجہ میں کبھی بھی گناہ بے دھڑک اور بے حیا نہیں ہوا کرتے.آنکھوں میں ایک شرم پیدا ہو جاتی ہے اور یہ شرم دونوں طرف ہوتی ہے.پس یہ عفو کا مضمون ہے جس کو گھروں میں جاری کرنا لازم ہے اس کے بغیر گھروں میں پاکیزہ فضا پیدا نہیں ہوسکتی.بعض عورتوں کو میں نے دیکھا ہے ایک دفعہ میری موجودگی میں ایک عورت نے اپنے بچے کو کہا ایسا دو متھرڑ ماروں گی کہ منہ تیرا ادھر پھر جائے گا.اب وہ اور بھی تھے اس لئے اس کو نہیں پتا چلا کہ وہ کیا بات کہہ گئی ہے بڑی بدتمیزی ہے ، بڑی بدخلقی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورت کی ماں ایسی تھی.اب یہ بھی یا درکھو کہ اگر اپنے گھروں میں تم بد رسمیں ڈال دو گے تو بدر میں آگے تمہاری نسلوں تک پہنچیں گی اور آئندہ نسلوں کو بھی خراب کریں گی اور بدخلقی ایک ایسی چیز ہے جو کبھی پیچھا نہیں چھوڑ ا کرتی.جن خاندانوں میں ماں باپ کی بدخلقی اثر انداز ہو جائے نسلاً بعد نسل وہ بدخلقی چلتی چلی جاتی ہے اور پھر وہ اس پر فخر کرتے ہیں.بہت سے بدتمیز مرد جو عورتوں سے بدتمیزی کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ہماری شان ہے باپ بھی اسی طرح ہمارا کیا کرتا تھا اور بعض عورتیں جب بد تمیزیاں کرتی ہیں تو کہتی ہیں ہماری ماں بھی اسی طرح کیا کرتی تھی جن کی مائیں بدتمیز ہوں اور خاوند کے سامنے زبان کھولنے والی ہوں ان کی لڑکیاں اس پہ فخر کر کے اس طریق کو آگے بڑھاتی ہیں کہ خبردار! جو ہم سے ایسی بات کی ہم ایسی کپتیاں ہیں یہ کریں گی ، وہ کریں گی اور ایک
خطبات طاہر جلد 15 940 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء ایسا جھوٹا اور بے معنی فخر ہے جس سے ساری زندگی برباد ہو جاتی ہے.آپس کے تعلقات میں ایسا زہر گھل جاتا ہے کہ ایسے ماحول میں زندگی بسر کرنا ایک جہنم کے ماحول میں زندگی بسر کرنا ہے.پس مرد ہو یا عورت ہو اس کو اپنی نگرانی کرنی چاہئے اور عفو میں پناہ لینی چاہئے اور جو عفو میں پناہ لے وہ بداخلاق ہو ہی نہیں سکتا.عفو آغاز ہے حسن خلق کا.دیکھی ہیں، نظر پھیر لی ، خیال کیا جیسے کچھ بھی نہیں ہوا مگر اس کے بعد پھر فرمایا.وَتَصْفَحُوا اب تَصْفَحُوا کا مطلب ہے صاف کر کے گویا ہے ہی نہیں ایسا مٹا ڈالو گویا نہیں ہے.عفت الديار محلها و مقامها (لبيد بن ربيعة العامري ) شہر اس طرح مٹ گئے کہ نہ ان کا عارضی ٹھکانے کا نشان رہا نہ ان کے مستقل ٹھکانے کا نشان رہا اور عرب شعراء نے عفو لفظ کو انہی معنوں میں بڑے اچھے اچھے شعروں میں استعمال کیا ہے یعنی کلیۂ مٹ جانا لیکن عفو کا وہ مضمون جو یہاں اطلاق پاتا ہے وہ اور ہے اور وہ عرب لغت کھول کر بیان کرتی ہے.صفح سے جو مراد یہاں اطلاق پا رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم ان کو تھوڑا سا ڈانٹو اور کچھ خفگی کا اظہار کرو تو کبھی کبھی جب یہ دیکھو کہ تمہارے عفو نے کام نہیں کیا تو صَفْحَا جَمِيلًا صح سے کام لو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے کچھ نا راضگی کا اظہار کرو اور صفح کا لفظ جو ہے وہ بہت ہی ایک اعلیٰ درجہ کا انتخاب ہے اس موقع کے لئے کیونکہ صفح اس بات کو بھی کہتے ہیں کہ ایک انسان کسی سے کچھ دیر کے لئے ناراضگی کی وجہ سے منہ پھیر لے یعنی چھپانے کے لئے نہیں بلکہ اس اظہار کے لئے کہ تم نے ایسی حرکت کی ہے کہ اب میں ویسا پیار کا تعلق تم سے نہیں رکھ سکتا.یہ نظریں جو ہیں یہ نظر پھیرنا اور ہے اور عفو کی نظریں پھیرنا بالکل اور ہے.پس چونکہ معانی ملتے ہیں اس لئے ترجمہ کرنے والے زیادہ بار یکی میں اگر نہ جائیں تو ایک ہی جیسا ترجمہ کر دیتے ہیں جو درست نہیں ہے.عفو میں نظر انداز کرنا، درگزر کے ان معنوں میں کہ گویا کوئی واقعہ نہیں ہوا، آپ دیکھ - رہے ہیں اپنے حوصلے کی وجہ سے اسے برداشت کر رہے ہیں.صفحا کا مطلب ہے بعض دفعہ
خطبات طاہر جلد 15 941 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء بچے جب ایسی حرکت کریں جو نا پسندیدہ ہے اور کرتے رہیں، آپ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں ان معنوں میں کہ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ہماری طرف وہ پیار اور شفقت کی توجہ نہیں رہی اور یہ چیز اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اسے انگریزی میں Reprove کہتے ہیں یعنی ایسے رنگ میں سرزنش کرنا کہ جو سزا کے معنی تو نہیں رکھتی لیکن لفظوں میں یا طرز سے وہ غلطی کرنے والے کو احساس دلا دیتی ہے کہ ہم سے کچھ ایسی بات ہوئی ہے کہ اب ہم ویسے پیار کے مستحق نہیں رہے توجہ پھر گئی ہے.تو یہ بھی ایک بہت ہی اہم اصلاح کا طریق ہے جس کو قرآن کریم نے میاں بیوی کے تعلق ہی میں بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی عورت کپت کرنے والی ہو ، لفظ پنجابی ہے لیکن ہے بڑا ز بر دست اس لئے میں استعمال کرتا ہوں اس کو بے دھڑک ، فرمایا کہ فساد برپا کر دے بات بات پر بد تمیزی کرنے والی آگے سے اٹھ کھڑی ہونے والی تو فرمایا اس کو نصیحت کرو اور پھر اسے کچھ عرصے کے لئے علیحدہ اپنے بستر میں چھوڑ دو اب وہ علیحدہ چھوڑنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ سمجھے کہ میرا کچھ اس نے دیکھا ہی نہیں، میر انقص اس کو پتا ہی نہیں چلا بلکہ یہ اعراض ایسا ہے جس سے بڑی وضاحت کے ساتھ جرم کرنے والے اور خطا کرنے والے کو محسوس ہو جاتا ہے کہ اب معاملہ آگے بڑھ گیا ہے، اب اس کا تعلق اثر انداز ہو گیا ہے.اب اگر میں ایسی باتیں پھر کروں گی یا کروں گا تو مجھے اس سے وہ شفقت نصیب نہیں ہو سکتی جو پہلے ہوا کرتی تھی.تو یہ عفو کے بعد صفح ہے.چنانچہ صفح میں یہ بھی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ ایک انسان ناراضگی کے اظہار پر اپنا گھر چھوڑ کر باہر نکل جائے.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کوئی بری بات آپ دیکھتے ہیں تو اس جگہ کو چھوڑ کر ہٹ جاتے ہیں صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ ناراضگی کا اظہار ہے گوشتی اس میں نہیں پائی جاتی.چنانچہ اگر کوئی بد تمیزی کی باتیں کرتا ہے دین کے متعلق تو وہاں دراصل صفح کا معنی ہی ہے جو مضمون بیان ہوا ہے ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤ یعنی محسوس ہو ان کو کہ ہماری یہ حرکت اس شخص کو پسند نہیں آئی اس کے بعد بھی اگر ایسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے جو قابلِ سرزنش ہے تو پھر مغفرت کا خانہ کھلا رہ جاتا ہے اور بعض باتوں میں اظہار ناراضگی کے بعد بھی مغفرت ہوتی ہے اور ان معنوں میں صفح کے بعد مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی ناراضگی کو پھر اتنا لمبانہ کر دور تعلق ٹوٹ ہی جائے،
خطبات طاہر جلد 15 942 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء ایسا نہ ہو کہ رشتہ و دا د ہی قطع ہو جائے کچھ حوصلہ دکھاؤ پھر اور واپسی کے سفر کے لئے مغفرت سے کام لو.تب ہی خدا تعالیٰ جب بعض اپنے بندوں کا پیار سے ذکر کرتا ہے کہ ان سے یہ خطا ہوئی یہ خطا ہوئی تو پھر مغفرت کا مضمون ہمیشہ اس کے بعد آتا ہے اور مغفرت کے مضمون سے پہلے جب خدا کا دل مائل ہوتا ہے، دل چاہتا ہے کہ اس سے میں پیار کروں تو اس کو خود دعائیں سکھاتا ہے اور خود اس کو طریق بتاتا ہے کہ یہ باتیں کرو پھر مجھے تم بہت اچھے لگو گے پھر میں تمہاری طرف لوٹ آؤں گا اور اس کے لئے کوئی بہانہ ہونا چاہئے ورنہ بعض لوگ ایسے بھی میں نے دیکھے ہیں کہ وہ ناراض ہوئے واپسی کا رستہ ہی یاد آتا نہیں ہے ، دل چاہے بھی تو آپس میں ایسی اجنبیت پیدا ہو جاتی ہے کہتا ہے دوبارہ ہم کس منہ سے بات کریں گے اور اس کے نتیجے میں لمبے عرصے تک بعض دفعہ جدائیاں پڑ جاتی ہیں.میرے علم میں جب ایسے لوگ آتے ہیں تو میں سمجھاتا ہوں کہ اپنی انا کو توڑو یہ جھوٹی انا ہے تم سمجھتے ہو کہ اگر میں نے اب کہا تو میری خفت ہو جائے گی تو واپسی کے رستے ہر شخص کی اپنی شان اور اپنی حیثیت کے مطابق ہوا کرتے ہیں.اللہ نے واپسی کا رستہ اختیار کیا ہے اور قرآن نے کھول کر بیان فرمایا ہے.اس کو بھی تو واپسی چاہئے ایک بندے سے ناراض ہوا ہوا ہے، دوسری طرف منہ کیا ہوا ہے بندے کو محسوس ہو گیا ہے کہ اب مجھے چھوڑ رہا ہے کچھ ، وہ التفات نہیں رہا ، وہ دعاؤں میں مقبولیت نہیں رہی.خدا کے اظہار کے بے شمار طریقے ہیں جو بندے کو محسوس ہو جاتا ہے کہ اب کچھ معاملہ آگے بڑھ گیا ہے پھر اللہ واپس آتا ہے، بندہ تو نہیں پھر اس کو پکڑ سکتا.اللہ تعالیٰ تو بندے کی پکڑ ، پہنچ سے کہیں بالا اور اس کی رسائی سے بہت اونچا ہے تو یہ اس کی رحمت کا طریق ہے، خود جھکتا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اسے پھر سکھایا ایسی ایسی باتیں کرو وہ ہمیں بڑی اچھی لگیں گی، پھر میں تجھے معاف کروں گا تو معافی کے بھی کیسے پیارے رنگ ہیں اللہ کے، خود ہی معافی کے ڈھنگ سکھائے اور پھر معاف کر دیا اور گویا واپسی کا رستہ قائم ہو گیا.بندوں میں بھی کچھ واپسی کے رستے ہوا کرتے ہیں اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ بھی وہ رستے نکالا کرتے تھے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب وہ آپ کے اوپر ایک بہت
خطبات طاہر جلد 15 943 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء ہی ظالمانہ، جھوٹا الزام لگا، آپ نے کچھ عرصہ علیحدگی اختیار کی جب خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ الزام بالکل جھوٹا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ معصوم ہیں تو آپ نے واپسی کے وقت نرم باتیں شروع کر دیں، حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا اب نرم باتوں کا کیا فائدہ ، اللہ نے حکم دیا ہے تو آئے ہو، مگر انسانی فطرت ہے آپ نے اپنی طرف سے پیار اور نرمی کی باتیں کیں مگر عائشہ صدیقہ " سمجھتی تھیں کہ اللہ کا حکم آگیا اب مجبور ہو گئے ہیں.تو واپسی کے رستے انسان ہمیشہ ڈھونڈا کرتا ہے اور اپنی زندگی کے تجربوں پر آپ نظر ڈال کے دیکھ لیں ایک دفعہ جب آپ صفح کا معاملہ شروع کر دیں تو پھر بسا اوقات واپسی میں الجھن پیدا ہوتی ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس سلسلے میں بہت سے پیارے انداز دکھائے جن سے پتا چلتا ہے کہ مغفرت کے لئے صفح کے بعد رستہ بنانا چاہئے اور انسان کو واپس لوٹنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس انا کو توڑنے کے لئے ایک بہت ہی پیارا نسخہ بیان فرمایا.بعض دفعہ صلح سچ ہے ناراضگی حق ہے لیکن اب اگلا بھی ناراض ہو بیٹھتا ہے وہ سمجھتا ہے میں سچا ہوں تو پھر واپسی کا پل قائم کرنا ذرا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو پھر کوئی مشکل نہیں رہے گی.یہ جوانا کا معاملہ ہے، انا جو حائل ہو جاتی ہے دوبارہ تعلقات کے قیام کے لئے اس کو توڑنے کے لئے اس سے اچھا کوئی رستہ نہیں ہے اور میں نے خود بھی اس کو استعمال کر کے دیکھا ہے، دوسروں کو بھی استعمال کروایا ہے بہت ہی اعلیٰ درجے کا نسخہ ہے.یہ نہیں فرمایا بچے ہو کر جھوٹے ہونے کا اقرار کرو.اب سچے ہو کر جھوٹا ہونے کا اقرار کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر انسان سمجھ رہا ہے کہ میں جھوٹا نہیں ہوں اور یقین رکھتا ہے کہ میں جھوٹا نہیں ہوں تو پھر اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کہنا کہ بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو ایک ہی معنی رکھ سکتا ہے دوسرا معنی اس میں آہی نہیں سکتا.اس کا یہ معنی ہو نہیں سکتا کہ بچے ہو تو جھوٹ بول کر اپنے آپ کو جھوٹا کہو اور کئی لوگوں کو اس فقرے کا مفہوم نہ سمجھ آنے کے نتیجہ میں واپسی کا رستہ ہی نہیں پھر یا درہتا.وہ کہتے ہیں ہم بچے ہیں ہم کیسے کہیں کہ ہم جھوٹے ہیں.یہ نہیں کہنا کہ ہم جھوٹے ہیں، تذلل ایسا اختیار کرو گویا تم جھوٹے ہو.تو اچھا جو بھی ہے ہمیں معاف کر دو، قصور ہمارا ہی سہی اب یہ کہنے کا طریق ہے، یہ تو جھوٹ نہیں ہے.اچھا چھوڑ واس جھگڑے کو، جو پرانی باتیں ہیں ان کو طول نہ دو ختم کرو چلو میں ہی جھوٹا سہی یہ جب کہتے ہیں ”میں ہی جھوٹا سہی تو اس کا
خطبات طاہر جلد 15 944 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے جھوٹے رنگ میں اپنے جھوٹ کا اقرار کیا ہے.یہ ایک طرز کلام ہے اور چھوٹے چھوٹے بعض لفظ زبانوں میں بہت ہی مفید اور کار آمد الفاظ ہوتے ہیں تو ہلکا سا Twist دے دیں بات کو جو بدی کی خاطر نہیں بلکہ نیکی کی خاطر ہو تو اس سے معاملے حل ہو جاتے ہیں.ابھی کل ہی ایک شخص کی طرف سے معافی کا خط ملا ہے جس نے اپنی عمر کا ایک لمبا عرصہ اخراج میں ضائع کر دیا اس بحث میں کہ نہیں میں سچا ہوں اس لئے میں کیسے معافی مانگوں اور ہر دفعہ اصرار.میں نے کہا پھر اگر تمہارا یہ اصرار ہے تو بیٹھے رہو اسی پرہ، دلائل اور گواہیاں کہتی ہیں تم جھوٹے ہو اور تمہیں اصرار ہے اپنے بچ پر اور تم کہتے ہو میں پھر کیسے معافی مانگوں.آخر خدا نے اس کو عقل دی اس نے جب دوبارہ معافی مانگی تو جو امور عامہ کے کارکن ہیں انہوں نے ان سے پوچھا کہ اسی شرط کے ساتھ مانگ رہے ہو.اس نے کہا نہیں اب میں نے کافی دیکھ لیا ہے اس کا نقصان، میں جو بھی ہوں مجھے معاف کر دیا جائے.میں یہ بحث چھیڑتا ہی نہیں کہ میں سچا تھا کہ جھوٹا تھا.میں نے اسی وقت اس کو معاف کر دیا کیونکہ کسی کو جماعت سے الگ رکھنا تو میرے لئے بھی بڑی تکلیف کا موجب ہوتا ہے لیکن اگر کوئی غلط ضد پر اٹکا رہے تو اس کی غلط ضد کو تسلیم کرنا عفو اور درگزرا اور مغفرت کے تقاضوں کے اندر نہیں ہے، وہ اس سے باہر کی چیز ہے.قرآن کریم فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ کا جو مضمون بیان کرتا ہے اس میں شرط ہے کہ عفو کی ایسی صورت میں تب اجازت ہوگی اگر اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو.اگر اس کے نتیجہ میں غلطیاں پھیل جائیں اور غلط اصول قائم ہو جائیں اور فتنے پیدا ہونے شروع ہو جائیں تو پھر عفو کی اجازت نہیں ہے.اس لئے لوگ بعض دفعہ میرے ہی خطبوں کے حوالے دے کر مجھے ملزم کرتے ہیں کہ آپ نے تو عضو پر اتنا خطبہ دیا تھا مغفرت کی وہ وہ باتیں کی تھیں، آپ بھول گئے اب کیوں نہیں کرتے مغفرت سے کام.حالانکہ ان کو پتا نہیں کہ قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی ہر قسم کی صفات بیان فرمائی ہیں وہ تمام صفات آنحضرت ﷺ کی ذات میں جلوہ گر تھیں اور ان کے درمیان عدل تھا ، ان کے درمیان ایک توازن تھا اور اس عدل کو قائم رکھنا لازم ہے.ورنہ محض مغفرت کے نام پر اگر آپ ہر بات کو نظر انداز کریں اور ہر بات کو معاف کریں گے تو اس کے نتیجہ میں گناہ بہت ہی شوریدہ سر ہو جاتے ہیں وہ باغی ہوکر سارے معاشرے کو برباد کر دیتے ہیں.تو ان چیزوں کے درمیان فرق رکھیں اور تب ہی رسول اللہ
خطبات طاہر جلد 15 صل الله 945 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء کی بعض ناراضگیاں بہت لمبا عرصہ چلی ہیں مگر اس لئے کہ ان معاملات میں آپ سمجھتے تھے کہ خدا کی اجازت کے بغیر میں مغفرت سے کام نہیں لے سکتا.جب اجازت آئی تو پھر آپ نے وہ مغفرت سے کام لیا.جہاں ایسا معاملہ نہیں تھا وہاں آپ نے بڑے بڑے درگزر اور عفو اور مغفرت سے کام لئے ہیں.تو یہ مضامین ایسے ہیں جو توازن کا تقاضا کرتے ہیں اپنی طبیعتوں میں ان باتوں میں توازن رکھئے.پس مغفرت کی بھی ضرورت پڑے گی اگر وہ ایسے گناہ ہوں جن سے بخشش سے کام لینا ہے تو پھر عفو کے اس مضمون کے بعد جو میں نے بیان کیا ہے، اس سے علیحدگی کے بعد پھر واپس لوٹو ، پھر معافی دو اور معافی کے بعد اور بھی زیادہ محبت بڑھ جایا کرتی ہے بسا اوقات کسی نے کہا ہے.بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر جنگ کی اپنی تلخیاں سہی مگر جنگ کے بعد جو ملنے کا مزہ ہے وہ پھر بات ہی اور ہے.تو مغفرت اس مزے کا نام ہے جو کچھ لڑائی، کچھ جنگ کے بعد انسان کرتا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ تعلق میں بڑھ جاتا ہے اسی لئے حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو ایک موقع پر اس طرح بیان فرمایا ہے کہ گویا خدا کو گناہ اچھا لگتا ہے کیونکہ اس کے بعد اس کو مغفرت کا بڑا مزہ آتا ہے.وہ میں نے ایک موقع پر تفصیل سے سمجھایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مطلب نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو لیکن یہ اپنی جگہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ غفور رحیم ہے اس کو مغفرت کا اس سے لطف آتا ہے کہ اس کی مغفرت کے نتیجہ میں گناہوں کو حوصلہ نہیں ملتا بلکہ گناہ مٹتے ہیں اور بندے کا خدا سے پیار بڑھ جاتا ہے اور یہ وہ حکمت ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں مغفرت کے مضمون کو جتنا بار بار بیان فرمایا ہے شاید ہی کوئی اور مضمون ہو جو اس طرح اصرار اور تکرار کے ساتھ بار بار بیان ہوا ہو، مگر تکرار نہیں بلکہ بلاغ مبین کے طور پر بیان ہوا ہو.فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِیم پس یا د رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ہے.یہاں دو باتیں ہیں جن پر اس آیت کا اختتام ہے.اوّل یہ کہ اللہ تو غفور ہے اگر تم غفور نہیں بنو گے تو اللہ سے تعلق کاٹ لو گے ادھر اولا د کو دشمن بناؤ گے وہ ہاتھ سے جاتی رہے گی، بیوی جس کو تمہارے لئے سکینت اور راحت قلب کے لئے پیدا کیا گیا وہ تمہارے لئے سکینت اور راحت قلب دینے کی بجائے تمہارے خلاف عنا در رکھنے والی ہو جائے گی.اولاد جس پر انسان کی آئندہ نسلوں کی بقاء کا انحصار ہے اس کی اپنی
خطبات طاہر جلد 15 946 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء بقاء ہے وہ دشمن کے طور پر باقی رہے گی اور ہمیشہ اس کو بغض اور عناد سے یادر کھے گی.بعض دفعہ بعض جاہل مرد اتنا زیادہ بختی سے کام لیتے ہیں کہ ان کے اپنے بچے مجھے لکھتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ہم دعا کیسے کریں گے کہ دل سے جھوٹ تو نہیں اٹھ سکتا ہم اس مصیبت میں مبتلا ہیں.اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ کرو اور وہ کرو، ان سے زیادہ سے زیادہ منہ بند تو کر لیں گے کہ اف نہیں کہنا مگر پھر ان کے لئے دعا دل سے کیسے نکلے گی اور جس لکھنے والے کی میں بات کر رہا ہوں وہ بالکل سچائی کے ساتھ لکھ رہا تھا.اس نے جس طرح وضاحت کی بالکل عیاں تھا اس میں کوئی بناوٹ نہیں وہ بے چارہ سخت مظلوم اور مجبور تھا اور دل چاہتا تھا کہ میں بھی نیک لوگوں کی طرح اپنے ماں باپ کے لئے دعائیں کروں لیکن اس نے کہا اس نے تو گنجائش ہی نہیں چھوڑی.ماں پر سختی ، بیٹیوں پر سختی ، ہم پر سختی اور ایک دشمن کے طور پر ہمارے گھر میں بس رہا ہے وہ شخص اور کوئی بھی ایسا ذریعہ باقی نہیں رہنے دیا کہ ہم اس کے لئے دل میں کسی کونے میں محبت محسوس کریں.تو اپنی اولا د کو عدو بنانا باپ کا کام ہے، یہ قرآن کریم نے کھول دیا ہے مضمون کہ تمہاری بیویوں میں سے تمہاری اولاد میں سے تمہارے دشمن ہیں.مگر کس کے دشمن ہیں ”جو عفو سے کام نہیں لیتا.جو ترتیب یہ ہے عفو سے کام نہیں لیتا، صفح سے کام نہیں لیتا، میں اس کا معنی پہلے بیان کر چکا ہوں اور مغفرت سے کام نہیں لیتا اس کی اولا د اس کی دشمن ہو جائے گی اور پھر خدا کا تعلق بھی کاٹا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو غفور رحیم ہے.جو ان باتوں میں عفو درگزر وغیرہ سے کام نہیں لیتا وہ رحیم نہیں ہو سکتا اور جو مغفرت نہیں کرتا اس کا غفور سے تعلق قائم نہیں ہو سکتا.تو دین و دنیا دونوں ہی ہاتھ سے نکل جائیں گے اگر انسان اس بد تمیزی کی روش پر اصرار کرے اور اولادکو اچھا بنانا اس کا فرض ہے کیونکہ اگر وہ اس کی بد اخلاقی کے نتیجہ میں بری بن کے دنیا میں قائم ہو گی تو صرف یہ سوال نہیں ہے کہ اس سے کائی جائے گی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ لوگ آئندہ دوسروں کو جو اپنی بدخلقی کا نشانہ بنائیں گے کیونکہ ہر بچے کا ایک ہی طرح رد عمل نہیں ہوتا.بعض تو وہ ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تکلیف محسوس کرتے ہیں، بے قراری محسوس کرتے ہیں، دعاؤں کے لئے خط لکھتے ہیں کہ خدا کے لئے ہمیں کچھ بتائیں ہم کیا کریں ہم اللہ کی نظر میں بد بنا نہیں چاہتے مگر بے اختیاری کا عالم ہو گیا ہے لیکن ایسے کم ہوتے ہیں.اکثر وہ ہیں جو اس رنگ میں رنگیں ہو جاتے ہیں پھر ، باپ گھر سے نکلا تو ایک بچہ دوسرے
خطبات طاہر جلد 15 947 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء پر پھر تشدد کرتا ہے اور مائیں پھر بعض دفعہ اسی رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں سارے گھر میں دنگا فساد، ایک دوسرے پر برتن اچھالنا، چیزیں پھینکنا.گھر ہے جو ایک فساد کی آماجگاہ ہو جاتا ہے اور پھر آگے یہ نسلیں اگلی نسلوں پر بڑا ہی ظلم کرنے والی بنتی ہیں.بہت سے معاملات جو میرے سامنے آتے رہتے ہیں مجھے صاف پتا چل جاتا ہے کہ کس ماں باپ کی گود میں اس عورت نے پرورش پائی ہے یا اس مرد نے پرورش پائی ہے ان کی ساری تاریخ ان کے اندرلکھی ہوئی ہے جو د ہرا رہی ہے اپنے آپ کو، کتنی نسلوں تک یہ بد پھل کھائیں گے آخر.اس لئے ضروری ہے کہ بار بار بلاغ مبین کے ذریعے ان پر بات کھولی جائے اصرار کیا جائے کہ خدا کے لئے ہوش کرو کسی دن سوچو تو سہی کہ تم کیا ہو گئے ہو تم نے اپنے گھر کا کیا حال بنا رکھا ہے اور اس کے بدنتائج سے پھر تم بھاگ نہیں سکو گے اور مر بھی جاؤ گے تو وہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ہر آنے والی نسل تمہیں بد دعائیں دے گی.پس اس وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درس والی رؤیا تھی اس نے مجھے اس پر آمادہ کیا کہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے، اس پر میں زوردوں اور بار بار زور دوں اور آپ کو سمجھاؤں کہ عفو اور درگزر کے بغیر اور صفح اور مغفرت کے بغیر ہم حقیقت میں اپنی اولاد کی کیا دنیا میں کسی کی بھی تربیت نہیں کر سکتے.اب میں چند احادیث، جتنا بھی وقت ہے، وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.باقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی اقتباسات ہیں وہ آئندہ خطبہ میں بھی اس مضمون کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے.حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ لے کے متعلق بتایا کہ آپ نے فرمایا: ما نقصت صدقة من مال ولا عفا رجل عن مظلمة الا زاده الله عزا (مسند احمد بن حنبل ،مسند العشرة المبشرين بالجنة، باقى مسند المكثرين من الصحابة ،مسند أبي هريرة ) کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوا کرتی ، یہ بھول جاؤ بات کہ صدقہ سے مال کم ہوتا ہے.صدقہ سے مال ہمیشہ بڑھتا ہے اور اس میں برکت پڑتی ہے اور یہ بھی بہت ہی گہرا مضمون ہے اپنی ذات میں الگ تفصیل کا محتاج ہے.بعض دفعہ میں نے اس پر روشنی ڈالی مگر بعض دفعہ پھر بھی اسے بتانا پڑے گا کہ ایک طریق سود کے ذریعے مال بڑھانے کا ہے ایک قرضہ حسنہ خدا کو دینے کے ذریعے مال بڑھانا ہے ایک صدقات کے ذریعے مال کا بڑھانا ہے
خطبات طاہر جلد 15 948 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء اور یہ ساری باتیں اپنی جگہ بچی ہیں کہ سود کے ذریعے نہیں بڑھتا بلکہ اس پر خوست پیدا ہوتی ہے.اللہ کو قرضہ حسنہ دینے سے لازماً بڑھتا ہے اور غریب کی مدد کرنے سے ، ضرورت مند اور محتاج کا خیال رکھنے سے مال میں ضرور برکت پڑتی ہے لیکن یہ چونکہ منی مضمون یہاں آیا ہے اس لئے میں اس کو سر دست چھوڑتا ہوں.اگلی بات یہ ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی انسان عفو سے کام لے اور خدا تعالیٰ نے اس کو عزت نہ دی ہو.عفو سے اگر کام لو گے تو تمہاری عزت بڑھے گی عزت کم نہیں ہوگی اور یہ ایک بہت ہی گہرا نفسیاتی راز ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ہم پر کھولا اور امر واقعہ یہ ہے کہ وہ ماں باپ جو اپنی اولاد سے عفو کا سلوک کرتے ہیں ہمیشہ ان کی عزت ان کی اولاد کے دل میں بڑھتی ہے اور عفو کے ذریعے باہر سوسائٹی میں بھی عزت بڑھتی ہے اور کبھی عفو سے انسان گرتا نہیں یعنی لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کو کیا پتا چلتا ہے چلو چھوڑو پرے اس کو.عفو میں ایک وقار پایا جاتا ہے.عفو کے مضمون میں یہ بات داخل ہے کہ علم ہو گیا ہے لیکن دیکھو ہم اپنی اعلیٰ حوصلگی کی وجہ سے، اپنے وسیع القلب ہونے کی وجہ سے تجھ سے اعراض کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں ہمیشہ ایسے شخص کے لئے دل میں عزت بڑھتی ہے اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے.حضرت مصلح موعود اس کی ایک بہت ہی اعلیٰ پائے کی مثال تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی میں نے بہت قریب سے اور بار بار دیکھا عجیب عفو کا رنگ تھا یعنی جانتے تھے کہ یہ کچھ ہو رہا ہے مگر یوں نظر کرتے تھے گویا دیکھا ہی کچھ نہیں مگر جب دیکھتے تھے تو پھر صفح جمیل ضرور ہوتا تھا جب آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں جب ایسے دیکھا کہ نظر آ گیا کہ اس نے دیکھ لیا ہے پھر اس سے ناراضگی کا اظہار بھی بالکل اسی طرح جیسے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ پھر اس سے کچھ دیر کے لئے گویا الگ ہو گئے ، نگاہوں میں اجنبیت آ گئی، یہ ہے وہ عفو کا دوسرا طریق یعنی معنی وہی ہے مگر اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.گویا نہیں دیکھا، اس کو نہیں دیکھا جو توجہ چاہتا ہے.ہر وقت جس کو عادت ہو کہ مجھ پر پیار کی نظر رہے اس سے نظریں ہٹانا بہت بڑی سزا ہے اور Reprove کا معنی اس لحاظ سے اس میں داخل ہو جاتا ہے.رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر تم اگر عفو سے کام لو گے تو عفو کے نتیجہ میں تمہیں کبھی بھی گھٹیا اور چھوٹا نہیں سمجھا جائے گا.اب اس میں ایک اور بڑی عجیب راز کی
خطبات طاہر جلد 15 949 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء بات بیان فرما دی جس کی طرف توجہ دلا کے اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے میں اس خطبہ کو ختم کروں گا کہ عفو ہے کیا ، وہ عفو جس کے نتیجہ میں اولاد بد تمیز ہوتی ہے اور کھل کھیلتی ہے، شرارتیں کرتی چلی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں اس اولاد کے دل میں ان ماں باپ کی عزت کبھی نہیں پیدا ہوئی اس لئے عفو پہچانے کا کتنا عمدہ ذریعہ بیان فرما دیا.فرمایا عفو ہے ہی وہی جس کے ذریعے تمہاری عزت بڑھے.جہاں تم نے عفو کے نام پر خطاؤں سے نظر پھیری ہے اور خطائیں شوخ ہوگئی ہیں اور بچے بدتمیز ہو گئے ہیں تم بے وقوف ہو جو سمجھتے ہو کہ عفو سے کام لیا جارہا ہے.تم وہ حد پھلانگ چکے ہو جہاں عفو کی جو عمل داری تھی وہ ختم ہو گئی اس حد سے باہر آگئے ہو.تو ایک ہی چھوٹے سے پیارے فقرے میں آنحضرت ﷺ نے کتنا عظیم الشان نکتہ بیان فرما دیا عفو کی پہچان کا.فرمایا اس وقت تک تمہارا عفو ہے جب تک اس کے نتیجہ میں الله تمہاری عزت بڑھتی ہے جہاں تمہاری عزت ختم ہونی شروع ہو جائے وہاں عفو تم ہے.پس وہ مائیں جو اپنے بچوں کو خاص طور پر جب وہ دوسروں کے گھروں میں جائیں تو ہر قسم کی کھلی چھٹی دے دیتی ہیں، دوڑے پھرتے ہیں آواز میں نکالتے ، چھینیں مارتے ، بدتمیزی کا اظہار اور ان کے ہنسنے کی طرز میں ہی بد تمیزی پائی جاتی ہے اور جو میز بان ہے اس کو تکلیف پہنچ رہی ہے اس کے بچے حیران ہو جاتے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے اور ماں بیٹھی ہے بے حس، پر واہ ہی کوئی نہیں اور وہ پھر ان کی قیمتی چیزیں جو انہوں نے سجاوٹ کی چیزیں رکھیں ، اٹھا کے وہ پھینکیں ، کوئی شیشہ توڑ دیا بہت قیمتی، کوئی اور چیز کسی کو نقصان پہنچا دیا، اور ماں ہے ”بڑا شرارتی ہے ایسانہ کر یا کر“ اور ایسا بچہ ضرور ماں سے بدتمیز ہوتا ہے یہ میرا تجربہ ہے ایک دفعہ بھی میں نے اس بات کو غلط نہیں دیکھا.ایسی مائیں جو ڈھیل دیتی ہیں ان کی عزت گر جاتی ہے اور ذلیل ہو جاتی ہیں وہ ، اور وہ اولا د پھر ان پر بھی تحکم کر نے لگتی ہے.ہے.مضمون ہے جو آنحضرت مہ نے بیان فرما دیا کہ یاد رکھو عفو سے عزت کم نہیں ہوا کرتی بلکہ خدا ہمیشہ ایسے شخص کی عزت بڑھاتا ہے.جہاں کم ہوتی دیکھو گے وہاں تم عفو کی حدیں پھلانگ گئے اس لئے لازم ہے تم پر کہ تم اپنی نگرانی کرو اور عفو کی حد سے باہر نہ نکلو.عن مظلمة لفظ تھا جو میں بھول گیا تھا بیان کرنا.مظلمة سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسی باتیں جن سے تم پر کچھ ظلم ہوا ہے تمہارا نقصان ضرور ہوا ہے اور تکلیف کا موجب بنا ہے پھر ، عام روز مرہ جو باتیں ہیں صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 950 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء ان میں عفو تو اور چیز ہے مگر یہ عضو اس موقع کی باتیں ہیں جیسی کہ مثالیں بیان کی تھیں کہ تھوڑا بہت نقصان پہنچا دیا.اب جو باہر کے بچے آپ کے ہاں آتے ہیں ان سے بھی انسان عفو سے کام لیتا تو ہے مگر اگر وہ عضو کا کام آپ کو نقصان سے بچا نہ سکے اور آپ کی عزت بھی کم ہو تو پھر وہاں بھی عفو سے کام لینا جائز نہیں ہے.دوسرے ماں کے بچے پر سختی نہ کریں ، اس کو ماریں نہیں مگر صفح جمیل کا حکم اس کے بعد آپ پر لازماً صادق آتا ہے کہ سمجھا ئیں ماں باپ کو ، کیونکہ صفح میں صرف اعراض کر کے ناراضگی کا اظہار نہیں بلکہ لفظوں میں ناراضگی کا اظہار بھی لغت کی رو سے لفظ صفح میں داخل ہے تو سمجھانا چاہئے اس کی ماں کو یا اس کے باپ کو جو بھی ساتھ ہو کہ دیکھو تم بچوں سے ٹھیک سلوک نہیں کر رہیں یہ نقصان پہنچا رہے ہیں اور تکلیف دہ بات ہے.اس میں سزا دینے کا مفہوم نہیں ہے مگر اظہار نا پسندیدگی اس رنگ میں کہ دوسرے کو محسوس ہو کہ ایک غلط بات ہو گئی ہے.تو اس طرح اپنے معاشرے کو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ڈھالیں تو گھر میں اگر تربیت اچھی ہو جائے گی تو یا درکھیں پھر آپ ایک دنیا کی مربی قوم کے طور پر ابھریں گے اور ایسی قوم جو ان نصائح پر جو گھر سے شروع ہوتی ہیں اور بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں جوان فائدہ اٹھاتی ہے اس کے مرتبے بہت بلند ہو جاتے ہیں اور زادہ اللہ کا جو مضمون ہے وہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ عزت دیتا ہے اس شخص کو.یعنی بات تو نفسیاتی ہے مگر اللہ کی طرف عزت کو پھیر دینا دو باتوں کو ظاہر کرتا ہے ایک تو یہ کہ قانون قدرت ہے ، خدا کا بنایا ہوا قانون ہے جو ضر ور عمل دکھائے گا ایسی صورت میں اگر عفو سچا ہے تو تم ضرور اس کے نتیجہ میں زیادہ عزت کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے، عزت کے ساتھ تم سے سلوک کیا جائے گا لیکن اس سے بڑھ کر مضمون یہ ہے کہ جب اللہ کسی کو عزت دیتا ہے تو اس کی پھر کوئی حد نہیں رہتی وہ اس کے مرتبے کو جتنا چاہے بڑھائے ، بڑھاتا چلا جاتا ہے.پس محض ایک نفسیاتی رد عمل کے طور پر نہیں بلکہ اگر تم خدا کی خاطر ایسا کرو گے.اگر اللہ کے خوف یا اس کی محبت کے نتیجہ میں ایسا کرو گے تو پھر تمہاری عزتیں ضرور دنیا میں بڑھیں گی اور یہ وہ
خطبات طاہر جلد 15 951 خطبہ جمعہ مورخہ 6 دسمبر 1996ء مضمون ہے جو ساری عالمگیر جماعت سے ان معنوں میں تعلق رکھتا ہے کہ اگر وہ گھر میں عفو سے کام لیں گے تو خدا محض گھر میں آپ کو جزا دینے کا پابند نہیں ہے.اللہ کی جزا تو پھر گلیوں، شہروں، ملک ملک پھیلتی ہے اور وہ کسی حد بندی کی پابند نہیں ہے اس لئے یہ جماعت کی عزت اور وقار کو بڑھانے الله کے لئے بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن اور رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآن اور رسول ﷺ کی ہدایت کی روشنی میں نصیحتوں پر عمل درآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 953 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء بنی نوع انسان کی تربیت صرف رسول اللہ اللہ کے تابع ہوکر ہی کی جاسکتی ہے.( خطبہ جمعہ فرموده 13 دسمبر 1996ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةِ عَرْضُهَا السَّمُوتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ پھر فرمایا: (آل عمران : 133 تا 135) گزشتہ خطبہ میں میں نے آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف توجہ دلائی تھی جن کا اس دور کی نسل کی تربیت سے گہرا تعلق ہے.اگر موجودہ دور کی نسل کی صحیح تربیت نہ ہو تو آئندہ بھی کسی دور کی تربیت نہیں ہو سکتی اور اگر اپنی نسل کی تربیت نہ ہو تو اپنے گردو پیش اور ماحول کی تربیت بھی نہیں ہوسکتی اور اگر اپنے بیوی بچوں سے سلوک ظالمانہ ہو اور شقی القلب لوگ حقوق تلف کر رہے ہوں اپنے گھر والوں کے اور تربیت کے تعلق میں سخت گیری کو پسند کریں تو نہ وہ اپنے گھر والوں کی تربیت کر سکتے ہیں نہ اپنے ماحول کی تربیت کر سکتے ہیں بلکہ اس کے برعکس خوفناک رد عمل پیدا ہو سکتے ہیں جو آئندہ
خطبات طاہر جلد 15 954 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء تربیت سے محرومی کے علاوہ یعنی مثبت پہلوؤں سے محرومی کے علاوہ خطرناک منفی پہلو نسلوں میں جاری کر سکتے ہیں.یہ خلاصہ ہے اس خطبہ کا جو میں نے گزشتہ مرتبہ دیا اور اسی حوالے سے اب میں اس مضمون کو پھیلانا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارا کام محض اپنے بچوں کی تربیت کرنا نہیں، اپنی بیوی کی تربیت کرنا نہیں، اپنی بیوی اور بچوں سے حسن سلوک سے پیش آنا نہیں ، بلکہ یہاں گھر میں جو کام ہم کریں گے اور سیکھیں گے، ان کو پھر ہم نے دنیا میں اپنے گردو پیش پھیلانا ہے اور اسی پہلو سے آئندہ بنی نوع انسان کی تربیت کی بنیادیں ڈالنی ہیں.مگر بنیا د یں تو آج ڈالی جائیں گی ، تو کل عمارت تعمیر ہو گی.آج بنیادیں ہی نہ ڈالی جائیں، تو کل کی عمارت کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے.پس اس پہلو سے جس کا تعلق بہت حد تک ہماری جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دعوت الی اللہ کی کوششیں ہیں، ان سے ہے اور یہ دونوں مضامین ایک دوسرے کے ساتھ یوں بندھے ہوئے ہیں کہ گویا لازم وملزوم ہیں.ایک کا تعلق دوسرے سے تو ڑا نہیں جاسکتا.کوئی داعی الی اللہ ان اہم امور سے غافل رہتے ہوئے ، اپنی دعوت میں کامیاب نہیں ہو سکتا.پس اس تعلق میں زیادہ وسیع تر مضمون پر مشتمل آیات کا انتخاب کیا ہے، جس کا عنوان یہ باندھا گیا ہے.وَاَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اکثر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کا تعلق تقویٰ سے باندھا گیا ہے، فلاح سے باندھا گیا ہے، دین و دنیا کی کامیابیوں سے باندھا گیا ہے.اب اس آیت پر غور کرنے سے یا ان آیات کے باہمی ربط پر غور کرنے سے یہ بات کھلتی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی دوسری آیت سے بے وجہ جڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ گہری حکمتیں ہیں جو مختلف آیات کو آپس میں باندھتی ہیں اور ہر نتیجہ جو آیت نکالتی ہے اس نتیجہ کا اسی آیت سے ہی نہیں بلکہ آئندہ آنے والی آیت کے مضمون سے تعلق ہوتا ہے.پس چونکہ رحم کی تعلیم دینی تھی اس لئے اس کا عنوان یہ باندھا وَ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر پھر رحم کیا جائے اور اللہ اور رسول کی اطاعت کے نتیجہ میں رحم کس نوع کا رحم ہے، اس کی وسعتیں کیا ہیں، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْاَرْضُ
خطبات طاہر جلد 15 955 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ کہ اس جنت کی طرف دوڑو جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اور وہ اس اللہ اور رسول کی اطاعت سے وابستہ ہے جو رحمة للعالمین کے مضمون اپنے اندر سموئے ہوئے ہے.اللہ کی صلى الله رحمت جو تمام عالمین پر پھیلی ہوئی ہے اس رحمت نے محمد رسول اللہ ﷺ پیدا فرمائے جن کی رحمت تمام جہانوں پر پھیلا دی اور ان کی اطاعت سب سے زیادہ اللہ کے رحم کو جذب کرنے والی ہے.اگر ان کی اطاعت کرو گے یعنی اللہ اور رسول کی تو ان کی رحمانیت سے حصہ پاؤ گے اور اگر اطاعت سے منہ موڑو گے تو اسی حد تک تم رحم سے محروم کئے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کئے جاؤ گے.پس سَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ میں جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اس رحمت سے جو اپنی بیویوں سے، اپنی ازواج سے، اپنے بچوں سے کی جاتی ہے اس کے مقابل پر بہت وسیع تر ہے اور ان دونوں آیات کا ایک بہت ہی گہرا تعلق یہ بھی ہے کہ ہم تو اپنے بچوں کی پرورش کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں مگر آنحضرت ﷺ تمام بنی نوع انسان کی پرورش کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں اور آپ کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ آپ نے کسی پہلو سے بھی اس پرورش میں کوتا ہی نہیں کی.ہم جو چھوٹے چھوٹے دائروں میں پرورش کے ذمہ دار بنائے گئے اگر ہم ان دائروں میں ناکام ہو جائیں تو کتنا بڑا گناہ ہے اور کتنی بڑی محرومی ہے کیونکہ ہماری تو تھوڑی سی پہنچ جہاں تک بھی ہے اسی نسبت سے ہماری ذمہ داریاں قائم فرمائی گئی ہیں.کسی کا گھر چھوٹا ہے تو اس چھوٹے گھر کی ذمہ داری اس پر ہے کسی کا گھر بڑا ہے تو بڑے گھر کی.کوئی امیر ہے تو اس امارت کے حوالے اور اس کی نسبت سے انسان کی اپنے گرد و پیش ذمہ داریاں قائم ہوتی ہیں، غریب کی اسی نسبت سے قائم ہوتی ہیں.مگر آنحضرت ﷺ کی رحمت اگر سارے جہانوں پر محیط ہے تو اسی پہلو سے آپ کا حساب کتاب سارے جہانوں کے تعلق سے لیا جانا تھا اور اس تعلق میں خدا تعالیٰ اس آیت کے ذریعہ آپ کو کلیہ بری الذمہ قرار دیتا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو یہ عنوان باندھا نہیں جا سکتا تھا.وَاَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اگر آنحضرت ﷺ نے رحمت کے تمام تقاضوں کو پورا نہ کر دیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ کیسے کہہ سکتا تھا کہ ان کی پیروی کرو گے تو تم پر خدا کی رحمت کے تمام تقاضے جو خدا کی رحمت سے تمہارے وابستہ ہیں وہ پورے کر دیئے جائیں گے.پس یہ آنحضرت ﷺ کی کامیاب رسالت اور کامل رسالت کی طرف ایک گواہ آیت ہے جس
خطبات طاہر جلد 15 956 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء نے رحمت کا واقعہ حق ادا کر دیا.جب کر دیا تو اطاعت کرو گے تو تم رحمت سے حصہ پاؤ گے.اطاعت نہیں کرو گے تو اسی حد تک رحمت سے محروم کر دیئے جاؤ گے اور جب کرو گے تو پھر کوئی اس کی انتہا نہیں ہے رحمت کی عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْاَرْضُ ساری کائنات پر جو جنت وسیع ہے وہ جنت تمہارا انعام ہوگی.پس اس دنیا کی زندگی میں آنحضرت مے کی رحمت کو آگے دنیا میں جاری کرنے کے لئے اگر ہم ذریعہ بن جائیں تو یہ ہے اَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ کا معنی اس تعلق میں ، یعنی حضرت رسول اللہ ﷺ کی رحمت براہ راست خدا تعالیٰ کی طرف سے کئی صورتوں میں نازل ہوتی ہے جو رحمانیت کی جلوہ گری ہے.مگر رسول اللہ ﷺ کے کوثر سے یہ رحمت تو تب ہی جاری ہوگی اگر ہم پیالے بھر بھر کے آگے لوگوں کو پلائیں گے اور یہ پلانے والے ہیں جو دراصل اس اطاعت کا حق ادا کرنے والے ہیں.پس اطاعت کے مضامین بہت سے ہیں اور مختلف قسموں میں پھیلے پڑے ہیں مگر جہاں عنوان لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ باندھا گیا یہاں اطاعت بہ تعلق رحمت ہے اور اطاعت بہ تعلق رحمت اسی طرح ہوگی کہ اگر ہم آنحضرت ﷺ کے کوثر سے تمام دنیا کو رحمت کے پیالے بھر بھر کے سیراب کرنے کی کوشش کریں.پس دیکھئے وہ مضمون جو گھر کی چار دیواری سے شروع ہوا تھا اب رسول اللہ ﷺ کے تعلق میں آکر کس طرح اچھل کر صرف شہروں کی حدوں سے ہی نہیں نکلا بلکہ تمام دنیا پہ محیط ہو گیا ہے تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے لگا ہے اس لئے اس کی غیر معمولی اہمیت ہے اور تقویٰ تو لازماً ہر چیز میں ، ہر فعل میں مضمر ہے.أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ کہہ کر یہ واضح کر دیا گیا کہ رحم دراصل متقیوں پر ہی کیا جائے گا اور رحمت سے حصہ پانا متقیوں کا ہی نصیب ہے تو یہ سارے مضامین آپس میں لپیٹ کر گویا ایک گلدستہ کی صورت میں اکٹھے کر دیئے گئے.اب اس کی تفصیل کیا ہے.چونکہ اطاعت کا تعلق رحمت سے تھا اس لئے اس رحمت کی تفصیل اب تیسری آیت میں مذکور ہے.الَّذِینَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَاءِ وَالضَّرَّاء یہ رحمت مادی بھی ہے اور مادی رحمت بھی وہ رنگ رکھتی ہے جو آنحضرت ﷺ کی رحمت کے رنگ تھے يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وہ نہایت خوشحالی کی حالت میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگ دستی کی حالت میں بھی خرچ کرتے ہیں.صل الله
خطبات طاہر جلد 15 957 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء اب آنحضرت ﷺ کو یہ دو دور نصیب ہوئے اور ساری زندگی ہوتے رہے اور پھر بھی آپ کے خرچ میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی اور سر آء میں خرچ کرنا لوگ سمجھتے ہیں آسان ہے حالانکہ یہ بہت سادگی ہے انسان کی.وہی سمجھ سکتا ہے آسان ہے جو انسانی فطرت کے رازوں سے واقف نہیں ہے.انسانی فطرت میں جو حرص رکھ دی گئی ہے اس حرص کے نتیجے میں بسا اوقات دولت بڑھنے سے کنجوسی بڑھتی چلی جاتی ہے.جتنی دولت بڑھتی ہے اتنا ہی انسان خسیس ہوتا چلا جاتا ہے اور روز مرہ کے معمولی معمولی اخراجات جو غریبوں کی حالت سدھار سکتے ہیں ان سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کا ایک قلعہ تعمیر کرتا ہے جس کے اندر وہ سمٹ کے باقی دنیا سے الگ ہو جاتا ہے.تو اس لئے سر آء کے اوپر انسان یہ تعجب کرے کہ خوشحال تو خرچ کر ہی دیتے ہیں یہ غلط ہے.جو مومن خوشحال ہیں ، ان کی زندگی پر نہ خوش حالی فرق ڈالتی ہے نہ تنگی فرق ڈالتی ہے.جو اطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُول کا حق ادا کرنے والے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کی طرح مادی قربانیوں میں بھی رحمت کا مظہر اس طرح بنتے ہیں کہ اگر ان کو کم ملا ہو تو پھر بھی اس سے وہ اپنے بھائی کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ بلندی سے پانی نیچے کی طرف بہتا ہے ہر انسان جو تنگ دست ہے، بسا اوقات اس سے بھی تنگ دست دنیا میں ہوتے ہیں.اگر وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا سچا غلام ہے تو اس کو نظر رکھنی چاہئے اور اپنے سے تنگ ہاتھ والوں کو، زیاد تا جوں کو تلاش کر کے ان کی جستجو میں رہتے ہوئے ان پر خرچ کرے.لیکن صرف یہی نہیں بلکہ بعض دفعہ انسان اپنے نفس کی وجہ سے زیادہ تنگ دست ہو جاتا ہے اور ایک شخص اپنے نفس کی وجہ سے غنی رہتا ہے تو حضور اکرم ﷺ کے تعلق میں یہ بہترین معنی ہے جو صادق آئے گا کیونکہ ہر شخص کی اپنی کیفیت ہے اس کی نسبت سے ، اس پر معنی کا اطلاق کیا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کا تنگ دستی میں خرچ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو جب اپنے سے غریب تر ملتا تھا تو اس پر ہی صرف کرتے تھے بلکہ تنگ دستی میں آپ کو غنی نصیب تھا اور تنگ دستی میں غنی جو ہے وہ انسان کو امیر کر دیتا ہے.الغنى غنى النفس“ (صحیح بخاری ، کتاب الرقاق، باب الغنى غنى النفس)
خطبات طاہر جلد 15 958 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء امیری تو وہ ہے جو نفس کی امیری ہو.پس آنحضرت ﷺ اپنے سے زیادہ خوش حال لوگوں کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے جب کہ خود بھی تنگ دستی ہو.یہ وہ عظمت کردار ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے مرتبہ کو تمام عالمین پر محیط کر دیتی ہے اور ان سے بالا کر دیتی ہے.وہ شخص جو عام قانون کے برعکس حرکت کرتا ہے، پانی نیچے کی طرف بہتا ہے یہ اوپر کی طرف فوارے کی طرح پھوٹتھا ہے اور بلندیوں کو بھی سیراب کر جاتا ہے.وہ سیرت محمد مصطفی ﷺ کا بیان ہے ان آیات میں، جن کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جو سر آء اور ضراء میں خرچ کرتے ہیں ورنہ یہ حوالہ کیوں ہوتا.وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ تو حضور اکرم ﷺ کی سیرت ہی کا نقشہ ان آیات میں کھینچا گیا ہے اور اسی کی طرف بنی نوع انسان کو بلایا گیا ہے.پس جماعت احمدیہ جس نے خدا کے حکم کے ساتھ تمام دنیا کے اخلاق کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کے لئے اس کے سوا راہ ہی کوئی نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کی غلامی اختیار کرے اور یہی غلامی ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ توفیق بخشے گی کہ اپنے سے اونچوں کی بھی وہ تربیت کریں گے اور اپنے سے نیچوں کی بھی تربیت کریں گے کیونکہ جب وہ سراء کی حالت میں ہوں گے تو پھر تو طبعی طور پر ان کی طرف سے پانی نیچے بہنا چاہئے مگر وہ جو فطرت کی خساست کی روکیں ہیں وہ ان کی راہ نہیں روکیں گی.پس ان کا پانی اوپر سے بھی نیچے بہتا ہے، نیچے سے بھی اوپر بہتا ہے.یہ رحمت محمد مصطفی محمد ﷺ کا نقشہ ہے جو ان آیات میں وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے.اور پھر اس مضمون کو خدا تعالیٰ آگے بڑھاتا ہے.وَالكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ اپنے غیظ کو وہ پی جاتے ہیں کیونکہ تختی اور مسلسل شفقت اکٹھے نہیں چلا کرتے اور اس کا تعلق ضرآء سے بھی ہے کیونکہ ان کا جو رحم ہے وہ ان کی طرف بھی جاری ہوتا ہے جو ان کو غیظ دلاتے ہیں.پس یہ مضمون ایک نئے دائرے میں پھیل گیا ہے.وہ شفقتوں اور رحمتوں کے اس مضمون سے اب یہ تعلق رکھتا ہے جو عام انسانی اخلاق سے وابستہ ہیں اور ان کا صرف مالی قربانی سے تعلق نہیں ہے اب یہ اخلاقی مضمون بن گیا ہے.وَالكُظِمِينَ الْغَيْظَ جب ان کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے اور غصے کا حق دیتا ہے، اس کا جواز دیتا ہے اس وقت اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ اپنے غصے کو روک لیتے ہیں اور ان لوگوں سے حسن سلوک سے رکتے نہیں جن سے حسن سلوک ان کے
خطبات طاہر جلد 15 لئے رحمت کا موجب بن سکتا ہے.959 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء اب یہ جو حصہ میں نے داخل کیا ہے ان لوگوں سے حسن سلوک سے رکتے نہیں جن کے لئے ان کا حسن سلوک رحمت کا موجب بن سکتا ہے اس نے اس مضمون میں ایک ایسی وسعت بخشی ہے، اس بات نے جو دراصل حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سے تعلق رکھنے والی بات ہے اور قرآن نے خود یہی تعریف فرمائی ہے اور اس خطبہ کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حوالے سے میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہ مضمون اس میں داخل ہے.الْكُظِمِينَ الْغَيْظَ اس موقع پر بنتے ہیں جہاں غصے کا ضبط کرنا اس شخص کے لئے فائدہ مند ہے جس کے مقابل پر غصے کو ضبط کیا جا رہا ہے.جہاں اس کے لئے نقصان دہ ہے وہاں غصے کو ضبط نہیں کرتے.وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ میں عفو کا وہی مضمون ہے جو میں پہلے خطبہ میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں اس کا مطلب صرف بخشا نہیں جیسا کہ عام طور پر ترجمہ میں کر دیا جاتا ہے، كَاظِمِينَ سے تعلق ہے اس کا.کاظمین میں غصہ ضبط کیا جاتا ہے جبکہ وہ شدت کے ساتھ پھوٹ پڑنے پر تیار ہوا ور عفواس سے پہلے کا مضمون ہے کہ وہ عام طور پر لوگوں سے درگزر بھی کرتے ہیں.اب ان دونوں کا بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ ایک انسان میں بیک وقت ان دونوں باتوں کا ہونا ممکن ہے مگر ایک دوسرے سے الگ نہیں کی جاسکتی.بیک وقت ہونا تو ممکن ہے کیونکہ وہ لوگ جو عَافِينَ کے عادی نہ ہوں وہ كَاظِمِينَ الْغَيْظ ہوہی نہیں سکتے ، ناممکن ہے.روز مرہ کی زندگی میں جو چھوٹے بہت قصور ہوتے رہتے ہیں ان سے اگر انسان نظریں نہ پھیر سکے اور اس کے برعکس مین میخ نکالنے کا عادی ہو، وہ لوگوں کے قصوروں کی تلاش میں رہے ایسے لوگ ہمیشہ اپنی زندگی کو برباد کرتے رہتے ہیں، لوگوں کے لئے رحمت کا موجب بننے کی بجائے ان کے لئے ایک عذاب کا موجب بنے رہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اصلاح کی خاطر یہ کر رہے ہیں مگر اصلاح کا حق خدا نے صرف محمد رسول اللہ ﷺ کو اس سیرت کے ساتھ دیا ہے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے اور اس سیرت سے ہٹنے کے بعد کسی کو کوئی اصلاح کا حق نہیں رہتا، اصلاح کی مقدرت نہیں رہتی ، توفیق ہی نکل جاتی ہے ہاتھ سے.پس یہ وہ صورت حال ہے جس کو آپ کو سمجھنا چاہئے گہری نظر سے کیونکہ ان اخلاق کو اپنانے کے لئے جب تک ان کی معرفت نہ ہو، ان کی گہرائیوں سے انسان واقف نہ ہو، تفاصیل پیش نظر نہ ہوں تو
خطبات طاہر جلد 15 960 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء ان چیزوں کو اپنی ذات میں جاری کرنا آسان نہیں ہوا کرتا، پس عافِينَ عَنِ النَّاسِ آنحضرت کا ایک طبعی فطری اظہار تھا جس میں کسی بناوٹ کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ فطری اظہار جو خودرو صلى الله اظہار کی طرح ہوتا ہے اور اس میں کسی بناوٹ کی کوشش کی ضرورت نہیں پڑتی.رسول اللہ علی عافِينَ عَنِ النَّاسِ طبعا تھے لیکن كَاظِمِينَ الْغَيْظَظ کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور جدو جہد کی ضرورت ہے اور وہ اسی کو نصیب ہوسکتی ہے جو عفو کا عادی ہو.پس عفو سے مرادان روز مرہ کی باتوں میں، ان قصوروں میں نظر ہٹا لینا ہے جن قصوروں سے کوئی بھی انسان حقیقت میں آزاد نہیں سوائے اس کے کہ اللہ کی اس پہ خاص رحمت ہو.تو ان کا مزاج یہ نہیں ہوتا کہ سوسائٹی میں لوگوں کے قصوروں کی تلاش کرتے رہتے ہیں، اس نے تو یہ کر دیا، اس نے تو وہ کر دیا، جو قصور ان کے سامنے خود ابھر آتے ہیں ان سے بھی نظر پھیرتے ہیں.اب یہ وَلَا تَجَسَّسُوا والے مضمون کی ایک اعلیٰ صورت بیان فرمائی گئی ہے.عفو تجسس کے برعکس مضمون ہے.تجسس کا مطلب ہے تلاش کر کے معلوم کرو وہ کیا کرتا رہتا ہے اندر بیٹھا ہوا اور گھر میں بھی یہی خرابیاں ہیں جو بہت سی بڑی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں، پیدا کرتی چلی جاتی ہیں.اگر کوئی بیوی خاوند کے نقائص کی جستجو میں رہے تو اس کی زندگی ویسے ہی حرام ہو جاتی ہے.وہ سوچتی رہتی ہے خاوند باہر گیا تھا تو پتا نہیں کیا کر رہا ہے وہاں بیٹھا اور کس کے گھر گیا تھا اور کیوں گیا تھا اور ساس بہو کی غلطیوں اور قصوروں کی تلاش میں رہتی ہے.بہو بہانے نکالتی ہے کہ کس طرح اپنے خاوند کا دل اس کی ماں سے توڑ کر جدا کرے یہ بتانے کے لئے کہ اس کی ماں یہ یہ کام کرتی ہے.یہ جو عادتیں ہیں یہ ملک ہیں انسانی زندگی کے لئے ، انسانی عمل کے لئے مہلک ہیں ان کو یہ وعدہ کیسے خدا دے سکتا ہے.عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْاَرْضُ ایسی جنتوں میں ہے عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ کہ اس کا پھیلاؤ تمام کائنات کے برابر ، اس پر پھیلا پڑا ہے.جنہیں گھر کی جنت تو نصیب نہیں ہو سکتی وہ بیچارے باہر کی جنت کا تصور ہی نہیں کر سکتے ان میں اہلیت ہی نہیں پیدا ہوتی، خدا کیسے جھوٹے وعدے کرے گا ان سے.اس لئے اگر چہ مضمون پھیلا ہے مگر گھر کے حوالے سے پھر آپ کو یاد کرانا پڑتا ہے کہ عَافِينَ عَنِ النَّاسِ تجس کے برعکس صورت حال ہے.تجس سے صرف نظر کریں، لوگوں
خطبات طاہر جلد 15 961 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء کے حالات میں ڈوب کر ان کی برائیاں تلاش نہ کریں اور وہ برائیاں جواز خود ابھر کر آپ کے سامنے آتی ہیں جہاں تک ممکن ہے ان سے عفو کا سلوک کریں اور یہ جو كَاظِمِينَ الْغَيْظَ میں میں نے کہا تھا اگر وہ اصلاح ممکن ہو تو پھر ایسا کریں وہ عفو کے حوالے سے.قرآن کریم میں دوسری جگہ بالکل واضح طور پر بیان فرما دیا ہے.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری:41) عفو کرتے ہیں مگر بغیر کسی شرط کے نہیں کرتے.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ وہ جس نے عفواس طرح کیا کہ اس کے نتیجے میں لازماً اصلاح ہوتی ہے اس کا اجر اللہ کے پاس ہے.جو عفو اس طرح کرے کہ اصلاح کی بجائے بدی کا حوصلہ بلند ہو جائے اور جرائم زیادہ پھیل جائیں وہ عضو ہرگز خدا تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں.تو كَاظِمِينَ الْغَيْظَ اور عافِينَ عَنِ النَّاس کا یہ مضمون ہے جو یہاں بیان ہوا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ سے سیکھو.آپ کا عفو غالب تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر اصلاح ہوتی تھی تو عضو فرماتے تھے ، اگر اصلاح نہیں ہوتی تھی تو عفونہیں فرماتے تھے اور اگر اس پر بنیاد ہے كَاظِمِينَ الْغَيْظَ ہونے کی تو لازماً یہ مضمون وہاں بھی پھیل جائے گا، وہاں تک بھی جا پہنچے گا.غصہ ضبط کیا جاتا ہے جہاں تک ممکن ہے کہ غصہ ضبط کرنے سے اصلاح ہو لازم ہے کہ غصہ ضبط کرو اور اگر غصہ ضبط کرنے سے جرم کی حوصلہ افزائی شروع ہو جائے اور بغاوت پھیل جائے تو ایسا غصہ ضبط کرنا تو حد سے بڑی حماقت ہے.پس رحمت کے باوجود غصہ ضبط کرنا لیکن رحمت کے تقاضوں کے خلاف غصہ ضبط نہیں کرنا ، یہ ہے وہ رحمت کا مضمون جو بڑی وضاحت سے قرآن کریم نے پیش فرمایا اور ایک دوسری آیت کو بھی حل کر دیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ فرمایا وہ دشمنوں پر آشد آئے اس لئے نہیں ہیں کہ وہ سخت گیر لوگ ہیں، بدتمیز اور بد مزاج لوگ ہیں.باوجود رحیم ہونے کے پھر بھی أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ہیں اور اس سے بہتر ترجمہ یہ ہوگا کہ رحمت کی وجہ سے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ہیں اور یہی وہ ترجمہ ہے جو اس آیت کے حوالے سے میں کر رہا ہوں یعنی ان کی رحمت کا تقاضا ہے کہ جہاں سختی ہو بختی کی ضرورت ہو اور سختی کے بغیر اصلاح ہو نہ سکتی ہو اور سختی نہ کی جائے تو نہ اس شخص پر رحم ہے جو بغیر اصلاح کے آزادانہ دندناتا پھرے گا، نہ اس دنیا پر رحم ہے جو اس سے نقصان اٹھائے گی.تو كَاظِمِينَ الْغَيْظ اور عافِينَ عَنِ النَّاسِ کا یہ ضمون ہے جو
خطبات طاہر جلد 15 962 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء b دوسری آیات کے حوالے سے ہم پر کھل جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ خود بھی ایسے تھے، اپنے صحابہ کو بھی ایسا ہی بنادیا یعنی ان لوگوں کا ذکر چل رہا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمُ (الفتح : 30) تو قرآن کریم کی جس آیت کی طرف سے بھی آپ داخل ہوں اسی جنت میں داخل ہوتے ہیں جس کے ارض و سماء کا ئنات پر پھیلے پڑے ہیں.اندر وہ ساری چیزیں آپ کو دکھائی دینے لگیں گی اور ہر آیت بنیادی طور پر ایک ہی اصل کے تابع چلتی ہے اور آپس میں آیات کا کوئی تضاد کہیں نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں مد اور مددگار بن جاتی ہیں.پس اس لحاظ سے عافِينَ عَنِ النَّاسِں کا مضمون سمجھیں اور پھر جو تربیت کی توفیق آپ کو ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سارے بنی نوع انسان کی تربیت کی طاقت رکھے گی.اب یہ بات بھی بہت اہم ہے سمجھنے والی کیوں کہ ہر انسان اگر اپنے مزاج کے مطابق تربیت کرے یا اپنے قومی مزاج کے حوالے سے تربیت کرے تو اپنی قوم کا مزاج کسی حد تک درست کر سکتا ہے مگر دوسری قوموں کا مزاج درست نہیں کر سکتا اس کے لئے عالمی مزاج کی ضرورت ہے اور عالمی رسول کے تابع ہو کر عالمی مزاج پیدا کئے بغیر آپ بنی نوع انسان کی بحیثیت بنی نوع انسان تربیت کرنے کے مستحق نہیں ہو سکتے بلکہ آپ کی تربیت نسبتی رہے گی.ایک قوم کی تربیت کر رہے ہیں الله دوسری کی بگاڑ رہے ہیں.ایک قوم کا حق ادا کر رہے ہیں دوسرے کا چھین رہے ہیں.تو عالمی حوالہ ضروری ہے تربیت کے لئے اور جب عالمی حوالے کی بات کریں گے تو ایک ہی حوالہ ہے یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ملے جنہوں نے اللہ کے بعد اس دنیا میں اللہ کی ان صفات حسنہ کو اپنالیا کہ گویا ایک خدا نما وجود بن گئے.خدا تو نہیں تھے مگر آپ کی صفات میں خدا دکھائی دینے لگا اس لئے آپ کی اطاعت لازم ہے.ورنہ براہ راست اللہ کی اطاعت کا حکم ہوتا تو بظاہر بہت اچھی بات ہوتی کہ بس اللہ کی اطاعت کرو، کیا پتا اللہ کی اطاعت کیسے ہوتی ہے، کیسے کریں گے؟ ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق اللہ کوجو سمجھتا ہے وہی کرتا پھرتا ہے تو قرآن کریم نے یہ احتیاط برتی اور بڑی سختی کے ساتھ اس پر کار بند رہا اور ہمیشہ کے لئے کار بند ہے، اللہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو جوڑا ہے جب بھی اطاعت کی بات ہوئی ہے اَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ اور یہ بتانے کے لئے کہ تمہیں محمد رسول اللہ ﷺ کو سمجھے بغیر، آپ کی صفات پر غور کئے بغیر ، آپ کے حوالے کے بغیر اللہ کی اطاعت صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 963 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء کا مضمون سمجھ آ ہی نہیں سکتا اس لئے ان سے سیکھو، ان کے پیچھے چلو پھر تم پر ہر مضمون روشن ہو جائے گا خواہ وہ تقویٰ کا ہو، رحمت کا ہو اور بنی نوع انسان سے تعلقات کا مضمون ہو یعنی اس مضمون کو جس دائرے پر پھیلاؤ گے تختی کا مضمون ہو، شفقت اور رحمت کا نرمی کا مضمون ہو ہر مضمون آنحضرت ﷺ کے حوالے سے انسان پر روشن ہوتا چلا جائے گا.وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اب متقین سے جو بات شروع ہوئی ہے وہ محسنین پر جا پہنچی ہے.متقی میں غلط باتوں سے بچنے کا مضمون زیادہ پایا جاتا ہے یعنی ایک شخص جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے یا جو خود دوسرے سے نقصان نہ اٹھائے.محسن کا مطلب یہ ہے کہ وہ احسان کرتا چلا جاتا ہے ہر طرف.یعنی نقصان تو در کنار اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ سکتا مگر محض یہی اس کا تشخص نہیں ہے وہ ایک محسن کے طور پر ابھرتا ہے اور ہر طرف احسان پھیلاتا چلا جاتا ہے اور سراء اور ضراء والے مضمون نے اس احسان والے مضمون کو پہلے ہی کھولا تھا مگر وَ اللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ نے اس کو ایک اور عظمت بخش دی.فرمایا تم کرو گے جنت کی خاطر، یہ بھی ایک چیز ہے مگر جو اعلیٰ درجے کے مومن ہیں وہ اللہ کی محبت کی خاطر ایسا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہمیں تو نیکیوں کا مزہ ہی اس بات میں آتا ہے کہ اللہ کی محبت ملے.فرماتے ہیں اگر اللہ کی محبت کا چسکا پڑ جائے تو نیکیوں کی اگر یہ سزا ہوتی کہ اللہ کی محبت تو ملے گی لیکن جہنم کی تکلیفیں بھی ہوں گی تو ہم خوشی سے جہنم قبول کر لیتے.پس یہ وہ مضمون ہے جو اپنے معراج کو پہنچایا گیا ہے یہاں.متقین سے بات شروع ہوئی، حقوق کی ادائیگی سے بات شروع ہوئی، حقوق تلف نہ کرنے کی بات شروع ہوئی ، باوجود تکلیف اٹھانے کے لوگوں پر احسان کی بات شروع ہوئی، یہ سب تقویٰ کی باتیں ہیں یعنی تقویٰ سے پھوٹتی ہیں مگر اس میں حوالہ صرف یہ ہے کہ ہمیں جنت ملے.یعنی تقوی کی ترقی یافتہ حالتیں ہی احسان ہیں دراصل ، مگر حوالہ جنت کا تھا.تم چاہتے ہو کہ وسیع جنت مل جائے ، ساری کائنات پر پھیلی ہوئی تو ، یہ کام کرنا.مگر اگر تم آنحضرت ﷺ کی غلامی میں عفو کے اور احسان کے اور برمحل غصے کے اور برمحل سزا کے مضامین سیکھ لو گے اور نیت یہ ہوگی کہ اس سے اللہ کی محبت نصیب ہو تو پھر تم محسن بن جانا یعنی ہمیشہ تمہاری طرف سے لوگوں کو احسان ہی پہنچے تب یاد رکھنا کہ اللہ حسین سے محبت کرتا ہے تو یہاں حضور اکرم ﷺ کو ایک محسن اعظم
خطبات طاہر جلد 15 964 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء کے طور پر بھی پیش فرمایا گیا ہے جو دراصل رحمۃ للعالمین کی ایک دوسری صورت ہے.اب میں احادیث کے حوالے سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے چند اور باتیں اسی مضمون سے تعلق رکھنے والی کھولتا ہوں.مسند احمد سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت معاذ بن انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وو سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے برا کہتا ہے اس سے تو درگزر کر (مسند احمد بن حنبل، مسند المكيين، حديث معاذ بن انس الجهني، حديث (1591) یعنی عفو کا مضمون ہے درگزر کرنے کے معنوں میں کہ برا کہتا ہے، بدلہ نہ لو اور برداشت کر جاؤ اور یہ برداشت کرنا عفو کی ، یہی انتہائی غصے کو برداشت کرنے کی پہلی منزل بنتا ہے اس کی توفیق عطا فرما تا ہے.”جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے یعنی اپنی عطا کو دوسروں سے لینے کے حوالے سے کبھی نہ باندھو چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو دوسری جگہ کھولا ہے.لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدثر: 7) اس وجہ سے کبھی احسان نہ کرو کہ تم زیادہ حاصل کر لو.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مضمون اس طرح بے نفسی کا مضمون ہے کہ خدا سے بھی توقع نہ رکھو بلکہ پھینک دو چیز.یہ غلط ہے کیونکہ تمنُنَّ کے بعد تَسْتَكْثِیر کی نہی ہے.اللہ پر تو آپ احسان کر ہی نہیں سکتے ، ناممکن ہے.تو اسی کی عطا کے تابع ہے اس کی عطا سے باہر جا کیسے سکتے ہیں اس لئے اس سے اور بھی مانگیں تو تب بھی آپ اس کی عطا کے نیچے رہیں گے.پس جب اللہ فرماتا ہے کہ میری خاطر خرچ کرو گے تو تمہیں زیادہ ملے گا تو اس میں اگر کسی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ میں خرچ کروں تا کہ اللہ مجھے زیادہ دے تو یہ بد خلقی نہیں ہے.لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے.تَمْنُنْ اور تَسْتَكْثِرُ سے اگر کوئی اس کو ٹکراؤ دکھائی دے سکتا ہے تو صرف ایک موقع پر.ایک انسان کسی پر احسان کرے اور اس وجہ سے صرف کرے کہ اللہ اسے زیادہ دے وہی چیز ، تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں رہے گی کیونکہ پھر جب خدا اس کو دنیا میں کچھ دے دے گا تو اس کا حساب پورا ہو گیا اس سے بھی زیادہ مل گیا اور بات ختم ہو گئی.تو اگر انسان اس وجہ سے خرچ کرے کہ رضائے باری تعالیٰ نصیب ہو تو وہی محسن والا مضمون و الله يُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ یہ اس پر صادق آئے گا تو اگر چہ ظاہری
خطبات طاہر جلد 15 965 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء طور پر تو لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ کا مضمون یعنی احسان نہ کرو، کسی کو ممنون نہ کیا کرو اس نیت سے کہ تم زیادہ لو اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ جب تم بنی نوع انسان میں کسی کے ساتھ حسن سلوک کرو، کچھ اسے دو تو ہرگز اس سے زیادہ لینے کی کوئی بھی خواہش تمہارے دل میں نہ ہو.نمبر دو، اگر ہو تو اللہ سے لینے کی خواہش ہو کیوں کہ وہ تمہارے زیرا احسان نہیں آسکتا ، من کے نتیجہ میں.من تم نے کسی اور یہ کی ہے، اللہ سے لے رہے ہو یہ جائز ہے، گناہ نہیں ہے مگر اگر نظر مادے پر ہی ٹھہر گئی اور مادی جزا ہی تمہارا مقصود بن گئی تو اتنا ہی ملے گا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے جو اللہ سے یہ کہتا ہے کہ مجھے اس دنیا کی حسنہ عطا کرے اسے دنیا کی حسنہ ہی ملتی ہے پھر ، آخرت کی حسنہ نہیں ملتی اور مومنوں کو یہ سکھا یار بنا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقره: 202) تو کبھی بھی اپنے احسان کو محض مادی فوائد کی توقع سے خواہ وہ خدا سے ہوں باندھا نہ کرو بلکہ اس کو ان سے وابستہ نہ ہی کرو تو بہتر ہے کیونکہ اگر بے تعلق کر لو گے مادی فوائد سے چاہے وہ خدا کی طرف سے عطا ہوں تو پھر تمہاری نظر زیادہ بلند ہو جائے گی اور مادی فوائد تو اللہ نے دینے ہی دینے ہیں اس لئے جو چیز بن مانگے مل جاتی ہے خواہ مخواہ اس میں مانگنے کی ضرورت کیا ہے اس چیز کو مطمع نظر بنانے کی کیا ضرورت ہے جو بغیر مطمع نظر بنائے اللہ نے اپنی طرف سے دے ہی دینی ہے.تو اسی لئے جب مومن کسی پر احسان کرتے ہیں اور وہ شکر یہ ادا کرتا ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ ان کو جواب میں کہتے ہیں کہ ہمارا شکر یہ ادا نہ کرو.لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدھر: (10) ہم تم سے نہ جزاء چاہتے ہیں نہ شکر یہ چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہم نے جو کچھ کیا تھا یہ جزاء کے تصور سے کیا ہی نہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے تصور سے کیا ہے.پس رضائے باری تعالیٰ اگر مقصود ہے تو شکریہ تو رکنے ہی نہیں ہیں، پھر بھی آئیں گے.شکریہ تو کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ بنی نوع انسان کو ہدایت کر دی ہے کہ تم شکریہ ادا کیا کرو.اس لئے شکریہ کی مناہی نہیں ہے بلکہ شکر یہ تو سکھایا گیا ہے، قبول کرنے کی مناہی ہے کیونکہ جو شکریہ قبول کرتا ہے اس کا نفس موٹا ہو جاتا ہے، اس کی نیت کی پاکیزگی میں فرق آ جاتا ہے اور اسے شکریوں کے ہی چسکے پڑ جاتے ہیں، انتظار کرتا رہتا ہے کہ میں نے یہ کیا تھا ابھی تک شکریہ کا خط نہیں آیا.ابھی تک اسے قبول نہیں کیا گیا اور یہ مجھے نہیں پتا چلا کہ
خطبات طاہر جلد 15 966 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء میرے زیر احسان آیا ہے کہ نہیں وہ شخص.یہ تصور ہی جھوٹا اور باطل ہے.شکریہ سے ایسے بے نیاز ہو جاؤ کہ جس کو اُردو میں یوں ظاہر کیا ہے ” نیکی کر دریا میں ڈال“ اس طرح نیکی کرو کہ گویا دریا میں غرق ہوگئی.پتا ہی نہیں پھر وہ گئی کہاں.انسانی لاشیں بھی نہیں ملتیں دریاؤں سے بعض دفعہ، نیکیاں کہاں ڈھونڈتے پھرو گے پھر.تو یہ وہ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ کا مضمون ہے جس کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے کہ تم جب احسان کرو تو اس احسان کے بدلے میں نہ بندے سے جزاء چا ہو، نہ اس لئے احسان کرو کہ اللہ تعالیٰ وہی مادی جزاء تمہیں اس دنیا میں دے دے، نہ اس لئے احسان کرو کہ وہ تمہارا شکر یہ ادا کریں اور تمہارے نفس کو مطمئن کریں کہ ایک چیز تمہارے ہاتھ سے نکلی اس کی دوسری قدر تمہارے ہاتھ میں واپس آگئی.پس حقیقت میں شکریہ کا مضمون ذات باری تعالیٰ کی خاطر نیکیوں سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ بنی نوع انسان بسا اوقات صرف اس لئے احسان نہیں کرتے کہ زیادہ ملے ، اس لئے کہ ان کی طبیعتوں میں نفاست پیدا ہو چکی ہوتی ہے مادے کے مقابل پر وہ جوابی شکریہ اور جوابی محبت کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے بظاہر وہ بے لوث خرچ کر رہے ہیں مگر حقیقت میں بے لوث خرچ نہیں کیا کرتے.پنجابی کا محاورہ کئی دفعہ میں نے آپ کو سنایا ہے اور اس موقع پر پھر بھی یاد آ جاتا ہے کہ سُتے پتر دامنہ کی پچھناں مائیں کہتی ہیں جب بیٹا سویا پڑا ہے اس کا منہ چوم کے ہم کیوں اپنا وقت ضائع کریں اس کو پتا ہی نہیں لگتا تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے لیکن اللہ کی خاطر ستے پتر کے منہ بھی چومے جاتے ہیں.وہ بنی نوع انسان جو غافل ہے محمد رسول اللہ ﷺہے اس کے بھی محسن بن گئے ، ان کے لئے بھی بے انتہا رحمت بن گئے ، ان کے لئے كَاظِمِينَ الْغَيْظَ تھے جو ہر وقت آپ کو دکھ پہنچاتے تھے.وہ جن کے لئے كَاظِمُ الْغَيْظَ تھے، وہ وہ تھے جو ہر وقت آپ کو دکھ پہنچاتے تھے اور رحمت کا جو سلسلہ ہے وہ پھر بھی ان کے حق میں جاری رہا.اس طرح جاری رہا کہ ان کے حق میں جب اور کچھ پیش نہیں گئی تو دعائیں کرنا شروع کر دیں.اگر عفونے کام نہیں کیا، اگر درگزر نے کام نہیں کیا ، اگر نصیحت نے کام نہیں کیا تو پھر باری تعالیٰ کے حضور جھک گئے.کہا اے خدا میں تجھ سے رحمت مانگتا ہوں میرے پیش نہیں جاتی ، میرا بس نہیں چلتا.تو اس سے بڑا دنیا میں جیسا کہ محاورہ ہے ستے پتروں کے منہ چومنے والا اور ہوکون سکتا ہے، ناممکن ہے.مائیں تو پتر کا منہ بھی نہیں چومتیں.محمد رسول اللہ ﷺ تو ان
خطبات طاہر جلد 15 967 خطبہ جمعہ 13 دسمبر 1996ء کے منہ چومتے رہے اپنی رحمت کی وجہ سے جو غفلت میں سوئے ہوئے تھے اور جو آئندہ نسلوں میں کبھی پیدا ہونے تھے مختلف زمانوں میں مختلف مکانوں میں مختلف ممالک میں مختلف رنگ ونسل میں.ان کے لئے بے قرار رہے، ان کے لئے دعائیں کرتے رہے تو یہ وہ رحمت کی عالمی حیثیت ہے جس کی جزاء لازماً یہ ہونی چاہئے کہ ایسی جنت کہ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ کہ سارے زمین و آسمان پر وہ محیط ہو مگر یہ بھی کافی نہیں ہے کیونکہ یہ کرتے تھے تو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر.اس لے وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ سے بہتر کوئی عنوان نہیں ہوسکتا، کوئی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا.پس آنحضرت ﷺ کی پیروی کے نتیجے میں لا متناہی ترقیات کے رستے کھلتے ہیں اور سب سے بڑی جزاء اللہ کی محبت کی جزاء ہے اس سے بڑی اور کوئی جزاء نہیں.تو محبت کی خاطر یہ کام کرو گے تو تھکو گے نہیں.ایک اور فائدہ اس کا یہ ہے اور اس مضمون پر بھی میں کئی دفعہ روشنی ڈال چکا ہوں مگر جیسا کہ مجھے رویا میں بتایا گیا کہ بعض چیزیں ہیں جو تکرار کی خاطر نہیں اصرار کی خاطر کرنی پڑیں گی.یعنی تکرار کرتے ہو اگر اس غرض سے کہ تمہارا اصرار ہو کہ تم نے ضرور یہ بات پہنچا کے چھوڑنی ہے تو یہ اصرار جائز اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے اور اسے تکرار نہیں کہا جا سکتا.تو اس پہلو سے میں آپ کو پھر سمجھا تا ہوں کہ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ نے ہمیں کوششوں کو آسان کرنے کی راہ بھی دکھلا دی ہے.یہ کام جو بتائے گئے ہیں بڑے مشکل کام ہیں غصے کی حالت میں بھی اپنے دل میں ضبط کرو اور پھر عفو کے تعلق میں بھی اس وقت درگزر نہیں کرنی جب خطرہ ہو کہ یہ درگز رکسی کو باغی بنادے گی.کتنے باریک مضامین ہیں اور ہر شخص کی دسترس میں نہیں کہ ان کو پوری طرح سمجھ کر ان کا حق ادا کر سکے اور پھر دقتیں بھی بڑی ہیں اس راہ میں، غصہ برداشت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.غصے کی حالت میں انسان بے اختیار دوسرے کو گالی دے جاتا ہے، تھپڑ مار دیتا ہے.دوسرے دن پھر آ کے معافی بھی مانگنی پڑتی ہے، فون بھی کرنے پڑتے ہیں کہ معاف کرنا کل غصے کی حالت میں ہم سے یہ ہو گیا تھا، اب آپ ہمیں معاف کر دیں تو اس سے تو معافی اس وقت مانگی جارہی ہے جب اس کا دکھ کا حال کچھ خود بخودہی ٹھنڈا پڑ چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ غصے کی حالت میں تم معاف کیا کرو، اس وقت کوئی کلمہ نہ نکالا کرو تو کوئی آسان کام تو نہیں ہے مگر محبت ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے.اگر اللہ کی محبت کی خاطر ہو تو یہ چیزیں آسان ہوں گی.اگر جزاء کی خاطر ہوں تو پھر بھی کسی حد تک آسان
خطبات طاہر جلد 15 968 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء ہو جاتی ہیں مگر محبت میں تو کوئی حد ہی نہیں ہے.پیار کی خاطر سب سودے آسان ہو جاتے ہیں.سب قربانیاں معمولی اور ہلکی دکھائی دیتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر کوئی چیز بڑی رہتی ہی نہیں خواہ جتنی بڑی قربانی ہو.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو عاجزی کا آخری مقام نصیب ہوا ہے.آپ نے جو کچھ بھی کیا اللہ کی محبت میں کیا اور اللہ کی محبت کی جزاء اتنی زیادہ تھی کہ جو کیا وہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور جو تکلیفیں اٹھا ئیں وہ اس محبت کی وجہ سے آسان اور کچھ بھی نہ رہیں، باقی ہی نہ رہیں گویا کہ تو اس لئے جب حضور ا کرم راتوں کو کھڑے ہو کر ساری ساری رات خدا سے بخشش طلب کیا کرتے تھے، فضل مانگا کرتے تھے تو یہ مضمون ان کو سمجھ آہی نہیں سکتا جو اس محبت کے مضمون اور اس عجز کے مضمون کو نہ سمجھیں جو محبت کے نتیجے میں پیدا ہونا لازم ہے.اللہ سے محبت کی خاطر جو کچھ کیا، کیا اور محبت کی جزاء ایسی نازل ہوئی کہ آپ کے سارے وجود کو اس نے لپیٹ لیا.ساری زندگی محمد رسول اللہ ﷺ کی خدا کی گود میں پلی ہے تو پھر جو کچھ کیا تھاوہ تو لگتا تھا کچھ بھی نہیں ہوا، تکلیف کون سی پہنچی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں: ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے صلى گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار (در مشین : 126) تو نے تو مجھے گود سے اتارا ہی کبھی نہیں.جس طرح ایک دودھ پیتا بچہ ہے وہ ماں کی گود میں رہتا ہے اور وہی اس کی جنت ہے میں اس تیری گود میں پلا ہوں، غیر کے دکھ مجھے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے یعنی پہنچے تو بے ضرر ہو کر پہنچے.تیری حفاظت میں مجال تھی کسی غیر کی کہ مجھے حقیقی دکھ پہنچا سکے، پہنچاتے رہے مگر تیری محبت ان کو رحمت میں تبدیل فرماتی رہی اور تسکین قلب میں تبدیل فرماتی رہی.پس محبت کے مضمون کو سمجھ کر اس راہ میں قدم آگے بڑھائیں گے تو ہر مشکل آسان ہوتی چلی جائے گی اور ہر مشکل کی جزا ملتی چلتی جائے گی ورنہ غصے کو گھونٹنا بڑا کوئی آسان کام نہیں ہے.چنانچہ ایک دفعہ مجھ سے ایک شخص نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اسلام نے جو یہ تعلیم دی ہے تو بڑی مصیبت ہے اس سے تو کئی قسم کی نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو جائیں گی کہ تم اپنے غصے ضبط کرو، اپنی خواہشات ضبط کرو.تو وہ نفسیات کا ماہر تھا اس نے کہا ہم جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انسان کو طرح طرح کی نفسیاتی بیماریاں ہو جاتی ہیں.میں نے کہا ان کو ہوتی ہیں جو غصے ضبط کرتے ہیں جو
خطبات طاہر جلد 15 969 خطبہ جمعہ 13 /دسمبر 1996ء اپنے نفس کی خاطر کچھ کرنے سے محروم رہتے ہیں تو احساس محرومی ہے اور ایک غصہ اتارنے کا موقع ہے مگر مجبوری سے ضبط کیا جاتا ہے اور اتر تا نہیں ان کو بیماریاں لگا کرتی ہیں.جو بالا رادہ غصہ ضبط کرتے ہیں ان کو بیماریاں نہیں لگا کرتیں.پس جو کھولتے رہتے ہیں دل چاہتا ہے کہ غصے کو اتارنے کا موقع ملے تو پھر ہم یوں ڈسیں اور یوں بدلے اتاریں وہ ذہنی مریض ہوا کرتے ہیں.اس لئے اگر نفسیات نے ، میں نے کہا، آپ کو یہ پڑھایا ہے تو غلط پڑھایا ہے، بالکل غلط ہے انسانی نفسیات کا یہ نظر یہ کہ اپنے شوق سے، دسترس رکھتے ہوئے ، چاہتے ہوئے آپ اپنا ہاتھ روک لیں تو آپ نفسیاتی مریض بن جائیں گے.نفسیاتی مریض نہیں ہوں گے بلکہ آپ کی نفسیات کو ایک مزید طاقت عطا ہوگی اور انسانی نفس جو بھی جس چیز کا بھی آپ نام رکھتے ہیں وہ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہے اس سے.اس کو مزید حو صلے ملتے ہیں مگر اس کو چھوڑ بھی دیں تو جو رضائے باری تعالیٰ نصیب ہو رہی ہے اس نے احساس محرومی کون سا رکھا ہے باقی.اگر ضبط اللہ کی خاطر ہے اگر کسی نعمت کو حاصل کرنے سے آپ ویسے ہی رک جاتے ہیں خدا کی خاطر ، چاہتے ہوئے ، دسترس رکھتے ہوئے رک جاتے ہیں اس کی جزاء تو مل گئی ہے اور جزاء اس سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے کیونکہ یہ طوعی زندگی ہے، مجبوری کی زندگی نہیں.طوعی زندگی کے مضامین ہی مختلف ہیں جب آپ ایک چیز چھین سکتے ہیں کسی سے اور نہیں چھینتے تو اس سے احساس محرومی نہیں پیدا ہوتا اور اگر اس لئے نہیں چھینتے کہ جود یکھ رہا ہے آپ کو وہ آپ سے زیادہ پیار کرے گا تو احساس محرومی تو در کنار آپ کو اس کے بالکل برعکس اس چیز سے بڑھ کر پیار اور محبت کی دولت مل جاتی ہے تو آپ کو نفساتی بیماری کس چیز کی لگے گی.تو اس قسم کی نفسیاتی بیماریوں کے تصور کو پاؤں تلے پامال کرتے ہوئے محمد رسول اللہ ﷺ کے صراط مستقیم پر آگے بڑھیں اور ایک ایک کر کے یہ اخلاق آنحضرت ﷺ سے سیکھیں جن کی تفاصیل قرآن نے خوب کھول کر بیان کر دی ہیں اور حدیثوں نے بھی اس مضمون کو محفوظ کر دیا ہے، اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 15 971 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء عفو سے پہلے دل کا قوی ہونا ضروری ہے.جسے اپنے غصے پر قابو نہیں وہ غیروں سے عفو سے پیش آ ہی نہیں سکتا.( خطبه جمعه فرموده 20 دسمبر 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: خُذِ الْعَفْوَ وَأَمُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجُهِلِينَ وَإِمَّا يَنْزَ غَنَّكَ مِنَ الشَّيْطن نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ پھر فرمایا: (الاعراف: 200 201) ان آیات کے متعلق جو عفو اور درگزر اور نیک باتوں کے حکم سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ نبی کا سالانہ جلسہ آج شروع ہو رہا ہے اور دو یا تین دن تک جاری رہے گا.انہوں نے درخواست کی تھی کہ چونکہ بعض نئی جماعتیں جو نجی میں پیدا ہوئی ہیں وہ بھی اس جلسے میں شریک ہو رہی ہیں اور خدا کے فضل سے دور دور کے جزائر سے بھی لوگ آئے ہوئے ہیں اس لئے نبی کا ذکر اگر اس خطبہ میں ہو جائے تو ان کی دلداری کا موجب بنے گا اور حوصلہ افزائی کا موجب بنے گا.تو میں تمام دنیا کی جماعتوں کی طرف سے نجی کے احمدیوں کو اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کہتا ہوں اور خصوصاً ان نئے مہمانوں کو جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اب مہمان نہیں بلکہ گھر والے بن گئے ہیں ان کو اَهْلًا وَّ سَهْلًا وَّ مَرْحَبًا کہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 15 972 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں وہی مضمون نسبتا مختلف زاویہ سے بیان ہوا ہے جو پہلے بھی خطبات میں پیش کرتا رہا ہوں.خُذِ الْعَفْوَ عفو کو پکڑ بیٹھ ، مضبوطی سے اس پر قائم ہو جا لیکن اس کے ساتھ ہی وَآمُرُ بِالْعُرْفِ اور اس کے ساتھ معروف طور پر جو اچھی باتیں ہیں ان کا حکم بھی دیتا رہ، ان کو نصیحت کرتا رہ.عفو کا جو مضمون میں پہلے بیان کر چکا ہوں وہی اس لفظ عفو میں شامل ہے یعنی درگزران معنوں میں کرنا کہ گویا کوئی چیز واقع ہوئی نہیں.دوسرے اس کو اس طرح دور کرنے کی کوشش کرنا کہ جو شخص کسی خطا کا مرتکب ہوا ہو اس کے دل سے وہ خطا مٹ جائے.پس عفو میں اصلاح کا جو معنی ہے یہ قرآن کریم کی آیات سے قطعی طور پر ثابت ہے اور احادیث نبویہ سے بھی اس مضمون کو تقویت ملتی ہے کہ عضو میں پہلے برائی کو صاف کر دینا دو طرح سے ہے یعنی اپنے دل پر اس کی میل نہ لانا اور اپنے دل کو ایسے شخص سے دور نہ ہٹنے دینا.دوسرا توجہ کی وجہ سے اور پیار اور حکمت کے ساتھ اس بدی کا نقش اس کے دل سے محو کر دینا اور ایسا محوکر دینا گویا وہ تھی ہی نہیں.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ میں یہ مضمون ہے جو بیان ہوا ہے کہ عفو ایسی کہ نہ اپنے دل پر میل آئی نہ دوسرے دل پر میل رہنے دی اور اس کے نتیجہ میں اصلاح لا زما طبعی طور پر ہو گی.اس عفو کے بعد پھر مثبت تعلیم کی ضرورت ہے اور عرف کی طرف بلانا کہ جب تم کمزوریوں سے پاک ہوئے ہو تو پھر کچھ مثبت قدم نیکیوں کی طرف بھی بڑھاؤ.یہ وہ پہلو ہے جس پہ ہمیں اپنی اولاد کے تعلق میں بھی ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے اور اپنے ماحول کے تعلق میں بھی ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے کہ جب بھی کوئی خطا ہو اس خطا سے اس طرح عفو کیا جائے جیسا کہ پہلے خطبات میں میں بیان کر چکا ہوں اور پھر اس عفو کے ساتھ ہی اس طرف توجہ ہو کہ عضو کا انداز ایسا ہو کہ آپ ہی کے دل سے میل نہ مٹے بلکہ بدی کرنے والے کے دل سے بھی میل مٹ جائے اور اصلاح کا ایک طبعی نتیجہ اس سے ظاہر ہو.جب یہ ہو تو پھر نیکیوں میں آگے قدم بڑھانا ضروری ہے کیونکہ اگر اسی حال پر چھوڑ دیا جائے تو ایسے لوگ پھر واپس اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ سکتے ہیں مگر جب نیکی کا مزاج پیدا ہو جائے اور اس وقت حکمت کے ساتھ اس شخص کو جس کے دل میں ایک نرمی پیدا ہوئی ہے اور نیک بننے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اس کو ہاتھ پکڑ کر کچھ قدم آگے نیکی میں بڑھانا یہ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ کے تابع آتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کو ی تعلیم دی جارہی ہے.ایسا عفو کر وجس کی وضاحت میں آنحضور سے یہ
خطبات طاہر جلد 15 973 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء کے ارشادات کی روشنی میں کر چکا ہوں اور اس کے ساتھ ہی نیکی پر آگے بڑھا دو تا کہ پہلے مقام کی طرف لوٹنے کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہے لیکن یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ بعض صورتوں میں جب جہلاء کے ساتھ آپ یہی معاملہ کرتے ہیں تو وہ غلط رد عمل دکھاتے ہیں اور تکلیف پہنچاتے ہیں.تبلیغ میں ہر قسم کی تکلیف اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ جب آپ ان کو نیکیوں کی طرف بلاتے ہیں تو اس کے رد عمل میں پھر وہ آپ کو ایسی تکلیف پہنچاتے ہیں جو بعض دفعہ جذباتی اور بعض دفعہ بدنی ہوتی ہے.ایسی صورت میں فرمایا اَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ جب جہلاء سے یہ معاملہ کرو گے تو اس کے نتیجہ میں تکلیفیں پہنچیں گی لیکن اَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِینَ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جہلاء کو نظر انداز کر دو، ان سے منہ موڑ لو اور یہ احتمال ہے کہ بعض لوگ یہی معنی سمجھ بیٹھیں.جاہلوں سے منہ موڑنے کی ان معنوں میں قرآن کریم میں کہیں تعلیم نہیں ہے کہ ان کی اصلاح کی کوشش کئے بغیر ان سے منہ موڑ لو.ان کی جہالت کا علم اصلاح کی کوشش کے ساتھ ایک لازمی تعلق رکھتا ہے اور قرآن کریم میں بکثرت ایسی آیات ہیں، جن میں جہالت کا علم پہلے سے سوچ کر نہیں حاصل کیا جاتا ہے کہ یہ شخص جاہل ہے، اس کو نصیحت نہیں کرنی، اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کرنی، بلکہ ہمیشہ بلا استثناء جہالت کا علم اس صورت میں ہوتا ہے کہ انسان ، خصوصاً خدا کے نبی ایک قوم کی جہالت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ان میں سے بعض ان سے جاہلانہ طریق پر پیش آتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ ان کی جہالت علم میں تبدیل ہو جاتی ہے.پس عرب قوم کی جہالت کو آنحضرت ﷺ نے جس طرح دور فرمایا اگر أَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ کا یہ مطلب لیا جاتا کہ جاہلوں سے کنارہ کشی کر جاؤ ، ان کی طرف پیٹھ پھیر کر ایک طرف الگ ہو جاؤ تو عرب میں وہ عظیم انقلاب کیسے برپا ہوتا جس نے جاہلوں کی کایا پلٹ دی.پس یہ مفہوم غلط ہے کہ ان سے شروع ہی سے اعراض کر وہاں جب نصیحت کر بیٹھو تو پھر اعراض کرو اور پھر ان کے ساتھ ضد نہ کرو کیونکہ وہ لوگ جو فطرتا بد تمیز ہوں، جو نیکی کے نتیجے میں بدی پہنچا رہے ہوں ان سے پھر بار بار سر ٹکرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور نسبنا نیک فطرت لوگوں کی تلاش کرو.چنانچہ اس کے معابعد فرمایا وَ إِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ اللہ تم تو نیکی کی تعلیم دو گے ان کی بھلائی کی بات کر رہے ہو گے مگر شیطان کی طرف سے اگر تمہیں يَنْزَغَنَّكَ یعنی ضرور ایسا ہوگا کہ ایسا بعض صورتوں میں ہوگا.چنانچہ نون ثقیلہ جب شد کے
خطبات طاہر جلد 15 974 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء ساتھ آتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ بعض صورتوں میں ایسا ضرور ہو گا کہ شیطان تمہیں تکلیف پہنچائے گا اور نرخ کہتے ہیں چھونے کو خواہ دل کا کچو کہ لیا جائے یا جسم کا، نیزے کی انی سے چھویا جائے یا زبان کی نوک سے دل کو زخم پہنچایا جائے دونوں صورتوں میں یہ نزع کا لفظ استعمال ہوتا ہے.پس جب تو ایسی باتیں کرے گا تو مقابل پر نہایت ہی بد تمیزی کی، دل کو تکلیف پہنچانے والی باتیں سننی پڑیں گی اور پھر جسمانی طور پر بھی ایذا رسانی کی کوشش کی جائے گی اس صورت میں فَاسْتَعِذْ بِاللہ کیونکہ اللہ کی خاطر تو نے یہ جہاد شروع کیا ہے پس اللہ کی پناہ مانگ اور اللہ کی پناہ میں آجا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حوالے سے فرماتے ہیں.یہ دراصل ایک قطعی وعدہ ہے آنحضور ﷺ کو کہ اس کے نتیجہ میں میں تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا کیوں کہ جو تکلیفیں ہیں ان کی چارہ گری بھی خدا فرمائے گا اور ان کے گزند سے محفوظ رکھنے کے انتظام بھی خدا تعالیٰ فرمائے گا.پس اگر چہ ایک تکلیف پہنچتی تو ہے مگر اس کے مقابل پر خدا کی طرف سے اتنے پیار کا اظہار ہو جاتا ہے کہ گویا وہ تکلیف کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بار ہا نظم میں اور نثر میں پیش فرمایا ہے مثلاً: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا ( در شین اُردو: 10) تو تیغ تیز سے کاٹا ہے تو غم اغیار کو کاٹا ہے یعنی ایسی جو اپنوں کے لئے پیار اور بھلائی کا موجب بن جائے اپنوں کے لئے مرہم کا کام دے یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی بار اس طرح بیان فرمایا کہ اس کی اور کوئی مجھے مثال دکھائی نہیں دیتی کہ تیغ سے مرہم کا کام لیا.ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز پیار کی نگاہیں تیغ تیز کیسے ہو گئیں؟ ے جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ اغم اغیار کا تو دل میں جو کچھ بھی میل آجاتی ہے لوگوں کے دکھوں سے، کوئی غم اغیار کا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے دل کے اندر، اس سب کو تیرے پیار کی نگاہیں کاٹ کے پھینک دیتی ہیں.پس یہ وہ مضمون ہے فَاسْتَعِذْ بِاللہ کا جو آنحضرت ﷺ کے حق میں ایک قطعی وعدہ تھا اور حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 15 975 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء علیہ السلام نے یہی تشریح فرمائی ہے جو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا ہے.اِنَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ وہ تیرے حال کو جانتا بھی ہے اور سننے والا بھی ہے.سننے والے کا ذکر پہلے فرمایا کہ جب تیرے دل سے کوئی ہوک اٹھے گی تو خدا ضرور اسے سنے گا تو خدا کی نگاہوں سے پردے میں نہیں ہے نہ اس کے علم سے باہر ہے اور علیم ہے تو ظاہر نہ بھی کرے تو خدا کو علم ہے کہ تیرے دل پر کیا گزرتی ہے.یہ وہ نصیحت کی راہ کی مشکلات ہیں جن سے ہمیں خوب اچھی طرح آگاہ ہونا چاہئے اور جن سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد پھر اس میدان میں اس احتمال کو پیش نظر رکھ کر قدم رکھنا ہے.یہ تکلیفیں تو راہ میں آئیں گی ، یہ کانٹے تو چھوئے جائیں گے مگر اس کے نتیجہ میں قرب الہی مانگو تو بہت بڑا فائدہ حاصل ہوگا.پیغام کا حق ادا کر دیا اور اللہ کا قرب عطا ہو گیا اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت حاصل کی جاسکتی ہے یا اس سے بڑھ کر اس فعل کی اور کیا بہتر جزاء، یوں کہنا چاہئے تھا اس سے بہتر اور کس بہتر جزاء کی توقع کی جاسکتی ہے.چھوٹا سا کام معمولی سی چوب اور رضائے باری تعالیٰ ایسی کہ تمہیں اپنی پناہ میں لے لے، اپنی گود میں اٹھا لے اور پھر جو زخم پہنچادل داری کر کر کے اس زخم کی تکلیف کو بے انتہا روحانی لذتوں میں تبدیل فرما دے.- اس مضمون پر آنحضرت ﷺ کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے تو عفو کے لئے جس دل گردے کی اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ تکلیف کو صبر سے برداشت کرنے سے پہلے ہوا کرتا ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ عضو کے بعد اور نصیحت کے بعد جو تکلیفیں پہنچیں گی انہیں برداشت کرو تو تم دل کے قوی اور مضبوط ہو.آنحضرت ﷺ نے عضو سے پہلے دل کا قوی ہونا ایک شرط قرار دیا ہے اور یہی حقیقت ہے اور یہی گہری انسانی فطرت کا راز ہے جسے سمجھنا ضروری ہے.حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اور یہ حدیث بخاری کتاب الادب (باب الحذر من الغضب ) سے لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑ دے.طاقتور پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابور کھے.پس غیر کی طرف سے ضرر کا تو ابھی سوال پیدا نہیں ہوا ابھی آپ کے اندرونی رد عمل کی بات ہو رہی ہے اور عفو اس حالت میں ممکن ہی نہیں کہ انسان اپنے نفس پر قابونہ پاسکے.جسے اپنے غصے پر عبور نہیں ہے وہ
خطبات طاہر جلد 15 976 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء غیروں سے عفو سے کام لے ہی نہیں سکتا.غصے کی حالت میں تو انسان بے اختیار ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ بعد میں بعض دفعہ عمر بھر پچھتانا پڑتا ہے کہ کس قدر ظالمانہ بات کر بیٹھا.تو عفو کا آغا ز ہی اس پہلوانی سے ہوتا ہے جو نفس کے اندر کام کرتی ہے.انسان اپنے جذبات پر ایسی قوت کے ساتھ قبضہ کرتا ہے کہ بڑے سے بڑا پہلوان بھی وہ عام تاب و طاقت نہیں رکھتا اس کی بدنی طاقت ہے اس کی روحانی طاقت ہے اور آنحضرت ﷺ نے عضو کے آغاز کی کہانی پیش فرما دی.عفو کے سفر پہ چلو گے تو یہ زاد سفر ساتھ رکھنا.غصہ پر قابو کرنے کا فن سیکھو اس کی مہارت حاصل کرو پھر اس کام پر نکلو اور یہی وہ سب سے بڑی بلا ء ہے جس نے دنیا میں ہر طرف فساد برپا کر رکھا ہے اور جماعت احمدیہ میں بھی سب سے زیادہ مصیبت اسی غصے پر قابو نہ پانے کی وجہ سے دکھائی دیتی ہے جو گھروں کو برباد کر دیتی ہے، جو معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے جو جماعت کے امن کو اٹھا دیتی ہے، ایسے ایسے جرائم پر منتج ہوتی ہے جس کے نتیجے میں پھر عمر بھر ایک خاندان نہیں دوسرا خاندان بھی، ان کے تمام عزیز واقارب بھی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں، جماعت کے لئے بھی وہ ایک انتہائی تکلیف کا موجب بن جاتے ہیں.معصوم لوگ جن کا حقیقت میں کوئی قصور بھی نہیں ہوتا اس جہل کے غصے کا شکار ہو جاتے ہیں اور عمر بھر ان کے پیار کرنے والے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں.تو عضو سے پہلے اس حالت پر غور کرو جس کی طرف رسول اللہ اللہ نے بڑی حکمت سے توجہ دلائی کہ پہلوان تو وہ ہے جو اپنے غصے پر اس وقت جبکہ غصہ جوش کی حالت میں ہو، اس وقت قابو پالے اور اس کی باگیں ہاتھ سے چھوڑے نہ اور طنا میں کھینچ کر رکھے مضبوطی کے ساتھ تاکہ یہ جو صبر کا ایک خیمہ سا انسان بنا رکھتا ہے اپنے لئے جس کے اندر وہ محفوظ رہتا ہے اس کی طنا نہیں ٹوٹیں تو صبر کا سارا خیمہ ہی اکھڑ گیا اور انسان پھر کوئی پناہ نہیں پاتا.تو غصے سے بچنے کے لئے کردار کی مضبوطی اور طاقت، اپنے غصے کی باگیں مضبوطی سے تھامے رکھنا، اپنے صبر کے خیمے کی حفاظت کرنا، کیونکہ صبر کے خیمے کے اندرہی انسان رہے تو وہ بلاؤں سے بچتا ہے ورنہ نہیں بچتا.یہ وہ مضمون ہے جو حضور اکرم ﷺ نے ہمارے سامنے کھولا اور اپنا آ نحضرت ﷺ کا جو کر دار تھا اس سے پتا چلتا ہے کہ غصے کی وہ حالت پیدا ہی نہیں ہوتی تھی اور یہ وہ خاص طور پر قابلِ توجہ بات ہے کہ وہ انسان جو غصے پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے رفتہ رفتہ ان حالات میں جب دوسروں کو
خطبات طاہر جلد 15 977 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء غصہ آتا ہے اس کو غصہ آتا ہی نہیں اور یہ شیطان اس طرح مٹتا ہے جب آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میراشیطان مسلمان ہو گیا ہے تو یہ مراد تو نہیں کہ ہر وقت نفس امارہ سے لڑائی ہورہی ہے ہر وقت رسول اللہ کے دل سے ایک غصے کا جذبہ اٹھتا ہے اور پھر آپ اس سے لڑتے ہیں اور اسے زیر کر لیتے ہیں.یہ تو ابتدائی سفر ہے مومنوں کو سکھانے کے لئے.وہ شخص جو اس میں کامیاب ہوتا ہے اس کی کامیابی کی علامت یہ ہے کہ جن عام جگہوں پر لوگوں کو غصہ آ جاتا ہے اسے آتا ہی نہیں اور حلم اس سے پیدا ہوتا ہے.کئی دفعہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا گھر میں معمولی سا نقصان ہو جاتا ہے اور بعض لوگ بھڑک اٹھتے ہیں شور پڑ جاتا ہے یہ کیا ہو گیا اس نے فلاں چیز تو ڑ دی، یہ نقصان پہنچا دیا.جن کو خدا تعالیٰ غصہ ضبط کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے رفتہ رفتہ ان میں حلم پیدا ہو جاتا ہے ان میں کسی قسم کا کوئی اشتعال پیدا ہی نہیں ہوتا بڑے سکون کے ساتھ ، آرام سے انہی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں دوسرے دلوں میں ہنگامے برپا ہور ہے ہوں.حیرت سے دیکھتے ہیں ان کو ہو کیا گیا ہے پاگلوں کو سمجھاتے ہیں بس کرو خدا کا خوف کرو، ہو کیا گیا ہے چھوٹی سی چیز ضائع ہوئی ہے ایک برتن ٹوٹا ہے اس کے مقابل پر تم دل تو ڑ دو گے اور ہمیشہ کے لئے تو ڑ دو گے.تو یہ وہ مضمون ہے جو آنحضرت ﷺ کی نصائح اور سیرت سے مکمل ہوتا ہے ایک موقع پر ، یہ بھی بخاری ہی کی روایت ہے ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی بدو الله مسجد نبوی میں آکر پیشاب کر گیا یا کر رہا تھا لوگ پہنچے وہ رسول اللہ ﷺ بھی دیکھ رہے ہیں صحابہؓ بھی دیکھ رہے ہیں.اس میں جہالت کی یہ حالت تھی اس کی کہ ان کے سامنے بیٹھا ایک طرف مسجد نبوی میں پیشاب کر رہا ہے جہاں لوگ نماز پڑھتے ہیں.صحابہ بیان کرتے ہیں یہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ یوں کھڑے ہوئے جیسے اس پر بھر کر ٹوٹ پڑیں گے اس کے ٹکڑے اڑا دیں گے اس قدران کو طیش آیا اور پھر خصوصا رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں یہ فعل تو ان کے جذبات میں ایک غیر معمولی اشتعال پیدا کر گیا.آنحضرت ﷺ اس طرح بغیر کسی تحریک دل کے، بغیر کسی گھبراہٹ کسی بے چینی کے کسی رد عمل کے اس طرح کھڑے کے کھڑے رہے.فرمایا یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اس کو.ایک یا دو ڈول پانی کے بہا دو، تمہارا جو گند ہے وہ صاف ہو جائے گا.(صحیح بخارى كتاب الأدب، باب قول النبي يسروا ولا تعسروا )
خطبات طاہر جلد 15 978 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء اب اس میں حلم بھی ہے اور یہ بھی ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ رد عمل جب ایک دفعہ ایک چیز کا غلط شروع ہو جائے تو پھر اس پر قابو پانا واقعی مشکل ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے زیر تعلیم ، زیرتربیت صحابہ جو آپ سے نئے اخلاقی رنگ سیکھ رہے تھے ان کے اندر جب غصے کی حالت پیدا ہوئی ہے تو قابو نہیں رہا اور بہت کم لوگ ہیں جن کو غصے کی حالت پر قابو کا اختیار ہوتا ہے لیکن اگر آپ کوشش کریں تو پھر ان حالتوں میں غلط ردعمل پیدا ہی نہیں ہوتا.اس چیز کو رسول اللہ ﷺ بھی دیکھ رہے تھے بڑے آرام سے فرمایا، پانی بہادو اور اس کے بغیر حل تھا بھی کچھ نہیں.اگر ایسے آدمی کو مارا جاتا، اس کو ذلیل کیا جاتا اور اسے گالیاں دی جاتیں، دھکے دے کر باہر نکال دیا جاتا وہ پیشاب کیسے صاف ہوجاتا وہ گند تو اسی طرح رہنا تھا.تو فرمایا حکمت سے اس چیز کے ازالے کی کوشش کرو جو بدی ظاہر ہوگئی ہے بجائے اس کے کہ سزاؤں کی طرف دوڑ واور وہ سزائیں جائزہ اس لئے نہیں کہ ایک آدمی کی غافل نہ حالت کے نتیجے میں ایک جرم ہوا ہے.یہ بھی ایک بہت اہم بات ہے کہ ہر بدی کا فعل ہر شخص سے ایک طرح صادر نہیں ہوتا.بعض لوگ شرارت کی رو سے، گزند پہنچانے کی خاطر یا ذلیل کرنے کی خاطر یا اور کئی طریقے سے غیرت اکسانے کی خاطر بعض کام کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر نظر کی آپ جانتے تھے کہ سادہ آدمی ہے، بے وقوف ہے بے چارہ، اس کو پتا ہی کچھ نہیں صفائی ہوتی کیا ہے، اس کو یہ بھی نہیں پتا کہ احترام کے کیا تقاضے ہیں ایسے شخص کو مارنا بالکل لغو اور بے ہودہ بات ہے.ایک اور موقع پر مسجد میں ایک شخص نے نماز کی حالت میں کسی غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے اپنی رانوں پر زور زور سے ہاتھ مارنے شروع کئے اور ایسی حالت میں شور ڈال دیا رانوں پہ ہاتھ مار مار کے وہ تماشہ سا ہو گیا.صحابہ کہتے ہیں جب نماز ختم ہوئی ہمارا یہ حال تھا کہ ہماری آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے اس کو دیکھتے ہوئے.وہ کانپ رہا تھا مگ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف جب نگاہ پڑی ہے ساری فکریں دور ہو گئیں، سب غم دھل گئے ، کتنے پیار سے دیکھ رہے تھے اس کو ، اس محبت اور اس شفقت کے ساتھ فرمایا بھی اس طرح نہ کیا کرو جب کوئی غلطی دیکھو سبحان اللہ پڑھا کرو.اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا.(ماخوز از صحیح مسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ ، باب تحریم الکلام فی الصلواۃ...) تو وہ شخص جس کی آزمائش مختلف قسم کی تکلیفوں کے ذریعے ہوتی رہتی ہے اور اس کا رد عمل خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے جس کا رد عمل خدا کے تابع اپنے رنگ نکالتا ہے کبھی غصہ بھی آتا
خطبات طاہر جلد 15 979 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء ہے اس کو مگر بے محل نہیں ہوتا اور اکثر شفقتیں اس کی تکلیفوں پر پردے ڈال دیتی ہیں اور اتنا کہ گویا اسے تکلیف ہوتی ہی نہیں تو اللہ کی پناہ میں آنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے.فَاسْتَعِذْ بِاللہ کا یہ بھی مضمون ہے جسے آپ سمجھیں کہ جب آپ خدا کی پناہ مانگتے ہیں خدا سے تو خدا وہ پناہ دیتا ہے اور جب پناہ دیتا ہے تو بہت سی تکلیف کے مواقع سے آپ بیچ نکلتے ہیں.لوگوں میں ہیجان پیدا ہورہا ہے، لوگوں کے جذبات میں ایک قیامت برپا ہوگئی ہے آپ بڑے سکون کے ساتھ انہی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور ایسے پیار اور محبت سے برائی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو گہرا اثر دکھاتی ہے.پھر یہ بات ڈول بہا دو “ فرما کر آپ نے فرمایا تمہیں آسانی پیدا کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے تنگی پیدا کرنے کے لئے نہیں.اے امت مسلمہ ! تم بنی نوع انسان کی آسانی کے لئے پیدا کئے گئے ہوان کے لئے سہولتیں پیدا کروان کے لئے تنگیاں پیدا نہ کرو.پس نیکی کے تعلق میں جو سچا رد عمل ہے وہ برائی کا ایسا ازالہ نہیں جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے.سزاؤں پر زور نہیں ہے بلکہ پیار اور محبت اور شفقت سے اصلاح پر زور ہے اور یہ طریق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا، نہ کبھی کسی نے سمجھایا.تمام انبیاء کی کہانی آپ پڑھ لیں یہ شان، یہ شوکت، یہ پیار، یہ حسن کہ مکارم الاخلاق پر قدم ہو جہاں باقیوں کے صلى الله اخلاق اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر ٹھہر گئے اس پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے قدم پڑے ہوئے تھے اس سے اونچے تھے یہ چیزیں سیکھیں گے تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے گھروں کی اصلاح کی بھی توفیق ملے گی اور بنی نوع انسان کی اصلاح کی بھی توفیق ملے گی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے.حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ آگ کس شخص پر حرام کر دی گئی ہے.کیسا عجیب انداز ہے سوال کا کیونکہ انسان کے اعمال کی درستی میں جہنم کا خوف بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ امرواقعہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے نفس کا ہمیشہ جائزہ لیں اور گرد و پیش کا جائزہ لیں تو جنت کی تمنا آپ کے اخلاق کی درستی بھی نسبتاً بہت ہی کم اثر رکھتی ہے لیکن جہنم کا خوف بہت زیادہ اثر رکھتا ہے انذار ہے جسے ایک غلبہ حاصل ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اسی حوالے سے بات فرمائی کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کے نتیجہ میں آگ حرام ہو جاتی ہے صحابہ نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایاوہ حرام ہے ہر اس شخص پر جولوگوں کے قریب ہے.صلى الله
خطبات طاہر جلد 15 980 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء اب یہ انداز بیان دیکھیں کتنا لطیف ہے اور ایسا کہ ٹھہر کر غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے.قریب کس کو کہتے ہیں ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب ہے ان کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے نرم سلوک کرتا ہے جو الفاظ ہیں آنحضرت ﷺ کے وہ یہ ہیں تحرم على كل قريب هين لين سهل " (ماخوز از مسند احمدبن حنبل ،مسند المكثرين من الصحابة ،مسند عبد الله بن مسعود ، حدیث نمبر : 3928) آگ حرام ہے ہر اس شخص پر جو قریب ہے.اب قریب کس کو کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کے قریب ہیں ، ہر آدمی کسی اور کے قریب ہے، کوئی کسی کے قریب ہے تو قریب کا کیا مطلب ہے؟ اس قریب کا وہ مطلب ہے جو قرآن نے بیان فرمایا ہے.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيب کہ اے محمد ه جب تجھ سے میرے بندے سوال کریں.فَإِنِّي قَرِيبٌ تو میں تو ہر وقت قریب رہتا ہوں ضرورتیں پوری کرنے کے لئے قریب ہوں ان کی تکلیفیں دور کرنے کے لئے قریب ہوں.ان کی حاجت روائی کے لئے قریب ہوں اور ان کی اصلاح کے لئے قریب ہوں، یہ قرب ہے جن معنوں میں قریب کا لفظ استعمال ہوا ہے.تو اگر اللہ قریب ہے اور آپ بھی اللہ کی طرح قربت کے رنگ اختیار کر لیں تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ ایسے شخص کو آگ میں ڈال دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا جو بارہا میں ذکر کر چکا ہوں مگر اس ذکر سے میں تھک نہیں سکتا.آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار ( در مشین اُردو : 154) تو جن کے دل میں خدا کا پیار ہو ان پر آگ حرام کر دی جاتی ہے اور جو قریب ایسے ہوں جیسے خدا قریب ہوتا ہے خدا سے قربت کے رنگ ڈھنگ سیکھ کر قریب ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ان کو آگ چھوٹے گی بھی نہیں پس ان معنوں میں آپ بنی نوع انسان کے قریب ہو جائیں.بعض لوگ بڑے مراتب تک پہنچتے ہیں تو بنی نوع انسان سے دور ہو جاتے ہیں بعض لوگ امیر ہو جاتے ہیں دولت مند ہو جاتے ہیں تو بنی نوع انسان سے دور ہو جاتے ہیں غرضیکہ اکثر انسان اپنی بڑائی کی علامت یہ سمجھتے ہیں کہ بنی نوع انسان سے دور ہو جائیں لیکن سب سے بڑا تو خدا ہے اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 15 981 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء صلى الله سے بڑھ کر اور کون عالی اور کبیر ہے وہی سب سے اعلیٰ ، وہی اکبر لیکن سب سے قریب خدا ہے اسی لئے خدا تعالیٰ کی صفات میں بظاہر دو متضاد صفات بیان کی جاتی ہیں وہ سب سے بعید بھی ہے اور سب سے قریب بھی ہے اور آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کسی انسان کا تصور بھی کوئی انسان نہیں کر سکتا بلکہ رسول اللہ ﷺ کی بڑائی کا تصور اکثر انسانوں کے بس کی بات نہیں جیسے دور افق میں دیکھتے دیکھتے آپ کی نظر گویا فضاؤں میں تحلیل ہو جاتی ہے ڈوب جاتی ہے اور آگے پھر کچھ دکھائی نہیں دیتا اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی عظمتیں اور رفعتیں ہیں کہ ان کو دیکھتے دیکھتے انسان کی نظر غائب ہو جائے گی مگر جن کو خدا توفیق نہ عطا فرمائے ان کو رسول اللہ ﷺ کی رفعتیں دکھائی نہیں دے سکتیں اس کے باوجود سب سے قریب تھے.ان تمام انعامات کے باوجود جو خدا نے آپ پر فرمائے اور آپ کو افضل المخلوقات قرار دیا، آپ کو کائنات کی وجہ، جس وجہ سے کائنات کو پیدا کیا ہے فرمایا اور سب سے پہلے آپ کی تخلیق بیان فرمائی،سب سے آخر آپ کو کھا یعنی مقصود کے طور پر ، مقام کے لحاظ سے سب سے بلند اور عام لوگوں کے اس طرح قریب تھے کہ آدمی حیران ہوتا ہے وہ واقعات پڑھ کر، ان کے درمیان گھومتے پھرتے ، چھوٹے سے چھوٹا انسان بھی آپ سے بات کرتا تھا تو ٹھہر جاتے تھے، توجہ سے اس کی بات سنا کرتے تھے، بوڑھی عورتیں آپ سے اس طرح بات کرتی تھیں جیسے بڑا حق ہوتا ہے آپ کے اوپر ، اپنے بوجھ آپ پر ڈال دیا کرتی تھیں.یتیم بچے آپ سے ایسی باتیں کرتے تھے جیسے ان کے باپ سے بڑھ کر جو فوت ہو گیا حضرت محمد رسول اللہ لیے ان کے ذمہ دار ہیں اور تھے بھی.ہر شخص آپ کے قریب تھا یعنی ان معنوں میں کہ آپ اُس کے قریب تھے ورنہ جہاں تک مراتب کی دوری ہے وہ تو اتنی تھی کہ اس پہلو کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کوئی صحابی بھی آپ کے قریب نہیں تھا کیونکہ انبیاء سے بھی آپ اُونچے تھے.پس یہ وہ قریب کے معنی ہیں جن پر غور کرنے کے بعد آپ کو اپنی زندگی کو ڈھالنے میں مدد ملے گی.آپ کو جتنی بلندی حاصل ہو، جتنا مرتبہ بڑا ملے، جتنی دولت ملے جتنی حکومت کا بلند مقام حاصل ہو آپ اتنا ہی بنی نوع انسان پر جھکتے چلے جائیں اور قریب ہوتے چلے جائیں.یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس قرب کے بغیر آپ تکبر سے بچ نہیں سکتے اور تکبر والا انسان جنت میں داخل نہیں ہوسکتا، آگ سے بچ نہیں سکتا.پس قریب ہونے سے آگ سے بچنے میں یہ مفہوم داخل ہے کہ اگر تم قریب ہو تو تم میں کوئی
خطبات طاہر جلد 15 982 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء تکبر نہیں ہوگا.اگر تم قریب رہو گے تولاز ما منکسر المزاج ہو گے اور اگر ایسا ہوگے تو پھر تمہیں آگ نہیں چھو سکتی.پھر فرمایا ان کے لئے آسانی مہیا کرنے والا ہو ھین لین آسانی بھی اور ملائمت بھی.وَ لَو كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ یہ جو قرآن کریم نے فرمایا ہے اس کے مقابل پر رسول الله له بنت لهم فرمایا یعنی تو ان کے لئے ایسا نرمی کا گوشہ رکھتا ہے کہ ان کی طرف خود بخود اپنی محبت اور پیار اور شفقت کی وجہ سے جھک جاتا ہے.تو یہ لِنتَ کا مفہوم الله ہے جو بیان ہو رہا ہے کہ قریب ھین لین “وہ ان کے لئے آسان ہے یعنی اس سے بات کرنا بھی آسان ہے اور اگر کوئی خوف ہے بھی تو وہ خود دور کر دیتا ہے جیسا کہ رسول اکرمﷺ ایسے لوگوں کے خوف کو بھی دور فرما دیا کرتے تھے جو آپ کی ہیبت سے بعض دفعہ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کا نپتے لگتے الله تھے جو ہوا کے جھونکے سے کانپتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ ان کو ٹھہراتے سکون بخشتے ، حوصلہ دیتے یہاں تک کہ وہ بے تکلفی سے اپنا مافی الضمیر آنحضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے.تو اس طرح قریب ہوں کہ حوصلے دیں.ان کی باتیں سنیں، ان کی تکلیفیں دور کرنے کے لئے کوشش کریں اور ھین ہوں گے تو لین“ بنیں گے.یعنی اپنی روش میں آسانی پیدا کریں دوسروں کو آپ اپنے تک پہنچنے میں آسانی دیں.تو پھر فرمایا ” لین ہو وہ اور پھر ”سهل“ اتنے روز مرہ آپ کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنے والے، بے تکلف ہونے والے کہ گویا آپ کے لئے وہ آسان ہو گئے ہیں."سهل" ایسے میدان کو بھی کہتے ہیں جس میں اونچ نیچ باقی نہ رہے جو سارا یکساں ہو، اس پر چلنا اور دوڑنا آسان ہو کیونکہ وہ بالکل ہموار ہو تو فرمایا وہ سھل ہو جائیں یعنی اتنی عظیم آنحضرت ﷺ کی صفات اس میں بیان ہوئی ہیں جو پردے ڈال کر رسول اللہ نے بیان فرما رہے ہیں دوسروں کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، اپنا یہ حال تھا.یہ تمام صفات بدرجہ اتم آپ میں موجود تھیں تو تب ہی لوگوں کو نصیحت کرتے تھے کیونکہ آپ نے کبھی کوئی نصیحت نہیں کی جس پر بدرجہ اتم پہلے خود کار بند نہ ہوں.تو بعض دفعہ سیرت کے بیان میں آپ کو سیرت کی تلاش میں آپ کو نصیحتوں پر غور کرنا پڑتا ہے.بعض لوگوں کی سیرت اگر ان کی نصیحتوں سے دیکھو تو جھوٹی سیرت بنے گی کیوں کہ اکثر لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں لیکن وہ جس کے قول کا ذرہ ذرہ سچا ہو جو پہلے عمل کئے بغیر دوسرے کو کوئی بات کہے ہی نہ اس کی سیرت نصیحتوں میں دکھائی دے گی ورنہ وہ خود تو
خطبات طاہر جلد 15 983 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء نہیں کہے گا کہ میں ایسا ہوں اور میں ایسا ہوں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ حکم دے کہ تو اپنا تعارف کروا.آنحضرت ﷺ اس حکم کے بغیر اپنا تعارف نہیں کروایا کرتے تھے لیکن دوسروں کو فرماتے تھے کہ دیکھو تم قریب رہنا.ھین ہونا لین ہونا، نرمی اختیار کرنا ایسا کہ سھل ہو جاؤ جیسے چٹیل میدانوں میں لوگ آسانی سے دوڑتے پھرتے ہیں کوئی چڑھائی کا خطرہ نہیں، کوئی اترائی کا خطرہ نہیں.نہ گڑھے، صلى الله نہ ایسی بلندیاں جن پر چڑھنا دشوار ہو ، اس طرح حضوراکرم علی اپنے صحابہ ، اپنے گردو پیش کے لئے اتنے آسان ہو گئے تھے کہ گو یاسھل بن گئے.فرمایا ایسے شخص پر یقینا آگ حرام کر دی گئی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور نرمی ہو اتنا ہی اس کے لئے زینت کا موجب بنتی ہے.آپ کے الفاظ یہ ہیں ان الرفق لا يكون في شيء الا زانه ولا ينزع من شيء الا شانه (صحيح مسلم ، كتاب البر والصلة و الادب ،باب فضل الرفق ) یہاں شان کا مطلب وہ شان و شوکت نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے، یہ شان لفظ ہے ہمزے کے ساتھ جس کا مطلب ہے برائی ، شئون بدیوں کو اور برائیوں کو کہتے ہیں، ہمکر وہ باتیں.زان کا لفظ زینت سے نکلا ہے فرمایا یقینا نرمی ایسی چیز ہے کہ جس چیز میں بھی ہو اس کے لئے زینت کا موجب بن جاتی ہے اور جس میں نہ ہو، جتنی اس سے کھینچ کے باہر کر دی جائے اتنا ہی اس کو عیب دار کر دیتی ہے اس کے اندر نقائص پیدا کر دیتی ہے مگر نرمی بھی برمحل اور موقع کے مطابق ہونی ضروری ہے.اس مضمون کو آگے الگ کھولا جائے گا.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے.یہاں نرمی کرنے والا جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ رفیق ہے دراصل.ہم خدا تعالیٰ کو جب رفیق کہتے ہیں یا حفیظ، یا عزیز ، یا رفیق تو رفیق کا معنی دوست کا بھی ہوتا ہے.رفیق حیات، رفیقہ حیات، زندگی بھر کا دوست، زندگی بھر کی دوست، یہ لفظ رفیق.نکلا ہے اور دوستی کے لئے رفیق ضروری ہے یعنی ایسی نرمی کہ کبھی سختی بھی برداشت کر لی.کبھی دوسرے سے بھی مطالبے ہوئے تو اس نے برداشت کر لیا آپ کی بات کو.دونوں طرف رفق ہو تو رفیق بنتا ہے ور نہ نہیں بنتا.تو اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق میں رفیق کا یک طرفہ صرف حقیقت میں معنی
خطبات طاہر جلد 15 984 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء بنتا ہے یعنی وہ ایسا نرم ہے کہ تم لوگوں کی طرف سے بار بارایسی باتیں دیکھتا ہے جو خدا تعالیٰ کی دوستی اور تعلق کو کاٹنے والی باتیں ہوں لیکن رفیق ہے، جو اس کا رفیق ہے وہ ہلتا ہی نہیں.پس یا حفیظ، یا عزیز یا رفیق میں رفیق کے یہ معنی ہیں کہ اے ایسا پیار کرنے والے! اے ایسے ساتھی ، جس کو بار بار اپنے بندوں کی طرف سے تکلیف دہ باتیں پہنچیں.جس کے بعد رفق باقی نہیں رہا کرتا پھر بھی وہ رفیق رہتا ہے.یہ صفت اگر بندہ اپنے اندر پیدا کرے تو حقیقی معنوں میں خدا اس کا رفیق ہو جاتا ہے لیکن اگر خدا کے بندوں کے تعلق میں وہ یہ بات پیدا نہ کرے تو خدا کی رفاقت بھی اس کو نصیب نہیں ہوتی.پس خدا کے تعلق میں رفیق برابر کی چوٹ دونوں طرف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا سلوک فرمایا کہ بندوں کے ساتھ تم رفیق ہو جاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو تو میں تمہارا رفیق ہو جاؤں گا کیونکہ خدا سے حسن سلوک تو آپ کر ہی نہیں سکتے.تو خدا کی رفاقت نصیب کرنے کا کتنا آسان رستہ بتادیا کہ بندوں کے تعلق میں تم رفاقت کرو اور تمہیں میں اپنی رفاقت عطا کر دوں گا.لا يعطى على العنف ولا يعطى على ما سواه (صحيح مسلم ، كتاب البر والصلة و الادب ،باب فضل الرفق) کہتے ہیں خدا رفق کا بدلہ ایسا دیتا ہے اور اتنا دیتا ہے کہ سخت مزاجی اور سخت گیری اس کے بدلے کی اس سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی یعنی اس کا ترجمہ کرنا ان معنوں میں مشکل ہو رہا ہے کہ سخت گیری کا تو بدلہ دیتا ہی نہیں.پس اگر میں یہ کہوں کہ رفق کا بدلہ اتنا دیتا ہے کہ سخت گیری کا نہیں دیتا تو یہ معنی اس کے بنتے نہیں کہ نیکی کی جزاء اتنی دیتا ہے کہ بدی کی نیک جزاء اتنی نہیں دیتا.اس لئے میں طبعاً یہاں ٹھہر گیا اور سوچ رہا تھا کہ کس طرح اس مضمون کو بیان کروں.اصل مطلب یہ ہے کہ سخت گیری کا جہاں حق بھی ہو وہاں سخت گیری کا استعمال بر محل بھی ہو تو اس کا فائدہ اتنا نہیں پہنچتا انسان کو جتنا رفق کے، نرمی کے استعمال سے فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ یہ طرز کلام ایسی ہے کہ اس پر ٹھہر کر غور کر کے ترجمہ نہ کریں تو بالکل غلط ترجمہ ہو جائے گا جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے.چنانچہ لکھا یہ ہوا ہے کہ خدا نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے سخت گیری کا نہیں دیتا تو گویا سخت گیری کا بھی کچھ نہ کچھ تو دیتا ہے اجر.یہ مراد نہیں ہے.وہی معنی بنتے ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ یا تو یہ معنی بنیں گے کہ سخت گیری برمحل ہو تو اس کی جزاء بھی انسان کو ملتی ہے مگر رفق کی جزاء تو بالکل اور ہی بات ہے سخت گیری برمحل
خطبات طاہر جلد 15 985 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء ہونے کے باوجود رفق کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، نرمی کا مقابلہ نہیں کر سکتی.دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ سخت گیری کی پکڑ کم کرتا ہے اور رفق کا بدلہ زیادہ دیتا ہے کیونکہ جزاء کا معنی موقع اور محل کے مطابق ہوگا.پس سخت گیری کی اتنی جزا نہیں دیتا جتنی رفق کی دیتا ہے اور یہ اگر تر جمہ کیا جائے تو بالکل یہی ترجمہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ پکڑ کے وقت ہاتھ نرم کر دیتا ہے اور نرمی کے سلوک کے وقت ہاتھ کو کھلا کر دیتا ہے اور یہ بھی رفق کا ہی تقاضا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا رفیق ہونے کی ایک یہ بھی شان ہے کہ سخت گیری میں بھی رفیق رہتا ہے ورنہ اگر لوگوں سے سخت گیری اسی طرح کرتا جیسا کہ موقع اور محل کا تقاضا تھا کہ سخت گیری کی جائے پھر تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی جان دار باقی نہ رہتا تمام زندگی کی صف لپیٹ دی جاتی.تو یہ دوسرا معنی بھی چونکہ قرآن کے مطابق ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی جائز ہے کہ سخت گیری کا سختی سے بدلہ بہت کم دیتا ہے اور تم نرمی کرو گے تو بہت زیادہ اس نرمی کی جزاء دے گا ، اتنی زیادہ کہ گویا تمہارے عمل کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں رہے گی.پھر سخت گیری اور بدخلقی کے متعلق آپ فرماتے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے جو میں پڑھ رہا ہوں.(البدر جلد 3 نمبر 19-18، تاریخ 8 تا 16 مئی 1904 صفحہ 3) فرماتے ہیں:.سخت دل ہر ایک فاسق سے بدتر ہوتا ہے 66 اب اس سے آپ اندازہ کریں کہ سخت گیری کتنا بڑا گناہ ہے.سخت دلی انسان کو ہر فاسق سے بدتر کر دیتی ہے اور ہمیشہ فسق و فجور کے باوجود قوموں کو باقی رکھا مگر جب ان کے دل سخت ہو گئے تو پھر خدا کا عذاب ان پر نازل ہوا ہے.یہود کی تاریخ ہمارے سامنے گواہ ہے فرمایا ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ (البقرہ :75) تم نے بدیاں کیں خدا نے باوجود اس کے عفو کا سلوک فرمایا، مغفرت فرمائی.بدیوں پر بدیاں دیکھتا رہا مگر تمہیں پکڑا نہیں مگر جب تم سخت دل اور پتھر دل ہو گئے پھر خدا کا غضب تم پر نازل ہوا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام بھی قرآن کریم پر مبنی کلام ہے احادیث نبوی پر مبنی کلام ہے.اپنی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کوئی بات بھی نہیں کہتے.تو یہ معنی ہے ہر فاسق سے بدتر ہوتا ہے.تمہارے گناہ خدا تعالیٰ کے مغفرت کی نیچے رہیں گے اگر تمہارے دل میں خوف خدا ہو ، کوشش ہو، تو بہ کی طرف توجہ ہو.مگر اگر تم پتھر دل بن گئے پھر کوئی بخشش تمہیں نصیب نہیں
خطبات طاہر جلد 15 986 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون میں جماعت کو ایک نصیحت فرماتے ہیں اور باقی اقتباسات پڑھنے کا چونکہ وقت نہیں ہے میں اسی نصیحت کو پڑھ کر ، آپ کو سمجھا کر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے...“ اب آپ کو میں نے پہلے شروع میں ہی بتایا تھا کہ سارے نظام جماعت پر ، دنیا کے مختلف ملکوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے میں یقین کے ساتھ آپ کو بتاتا ہوں کہ دلوں کی سختی نے فساد بر پا کر رکھا ہے، گھر اجاڑ دئے ہیں، جماعتیں برباد کر دی ہیں.جن جماعتوں میں بھی ایسے چند پتھر دل لوگ آگئے انہوں نے سارے نظام جماعت کا ستیا ناس کر دیا.بعض سالہا سال سے سنبھلتے ہی نہیں کیونکہ ان میں چند لوگ سخت دل ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان کی امارتیں ختم کرنی پڑیں.ان سے ووٹ دے کر اپنے عہدیداروں کا انتخاب کرنے کا حق بھی لے لیا گیا.مربی مقرر کئے گئے ، دوسرے بھیجے گئے، مجال ہے جو ٹس سے مس ہوں کیونکہ سخت دل ہر فاسق سے بدتر ہوتا ہے ان کے دلوں کی سختی نے تفرقہ ڈال دیا ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ جو صلح پر راضی نہیں ہوتا وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.وو..تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل اختیار کرو تا تم بخشے جاؤ...“ پھر فرماتے ہیں:.”...نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا...“ قریب کے تعلق میں میں نے آپ کو سمجھایا تھا کہ جو قریب ہے وہ تکبر سے دور ہے.جو قریب نہیں ہے وہ اسی حد تک متکبر ہو جاتا ہے اور تکبر کے متعلق جو تمثیل ہے وہ فربہی کی تمثیل ہے کہ جتنا تکبر ہو گا اتنا ہی گویا موٹا ہو گا لیکن جن راہوں سے جنت کی طرف بلایا جاتا ہے وہ باریک راہیں ہیں.ان سے اس قسم کا پھولا ہوا، اپنے تکبر میں متورم ہوا ہوا شخص داخل ہو ہی نہیں سکتا.فرماتے ہیں تم فر یہی ا
خطبات طاہر جلد 15 987 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء چھوڑ دو، ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہواس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا....کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے 66 منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں...“ اس سے زیادہ پر شوکت کلام آپ کو سمجھانے کے لئے اور کیا ہوسکتا ہے.فرماتے ہیں بد نصیب وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے مونہہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں یعنی کلام الہی ہے جو میری زبان پر جاری ہوا ہے.پھر فرماتے ہیں.وو..تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم با ہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی...اب آپ دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کم سے کم بھائیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ایسا پیار دیں کہ ان کی مثال دی جا سکے.آج کل تو بھائی بھائی سے ایسا لڑتا ہے اور جائیدادوں کی خاطر ایسے تصرفات کرتا ہے اور بعض دفعہ ایسی ظالمانہ کارروائیاں کرتا ہے کہ بھائی کے علم کے بغیر پٹواریوں سے مل کر جائیداد کے انتقال بھی کروا بیٹھتا ہے.تو اب یہ مثال آپ کو کیسے سمجھ آئے گی ، جیسے ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو بھائی.مراد ہے اچھے وقتوں کی بات ہو رہی ہے جب بھائی واقعی بھائی ہوا کرتے تھے تو اب ویسا بننا ہوگا آپ کو.ان بھائیوں کی مثال لو جو حقیقت میں فرشتہ سیرت بھائی ایک دوسرے کی خاطر اپنے حقوق قربان کرنے والے ہوتے ہیں.فرماتے ہیں:.”...ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں...“ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 12,13) یہ نصیحت بیان کرنے کے بعد، میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس ابھی پیش کر دیتا ہوں تا کہ اس عرصے میں اگلے خطبات سے پہلے کوئی غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ عفو
خطبات طاہر جلد 15 کس کو کہتے ہیں اور مغفرت کیا ہوتی ہے.988 خطبہ جمعہ 20 /دسمبر 1996ء بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی گئی لیکن جو شخص عفو کرے اور گناہ بخش دے اور اس عفو سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو نہ کوئی خرابی تو خدا اس سے راضی ہے اور اسے اس کا بدلہ دے گا.پس قرآن کے رو سے نہ ہر یک جگہ انتقام محمود ہے.( یعنی قابل تعریف ہے ) نہ ہر ایک جگہ عفو قابل تعریف ہے بلکہ محل شناسی کرنی چاہئے اور چاہئے کہ انتقام اور عفو کی سیرت بپابندی محل اور مصلحت ہو نہ بے قیدی کے رنگ میں.یہی قرآن کا مطلب ہے“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 30) تو بعض لوگ ایک ہی طرف کی بات سمجھ کر سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ ہر وہ شخص جو کسی بات پر مجاز بنایا گیا ہے اس سے آنکھیں بند کر کے ہر جرم کے نتیجہ میں عفو مانگو حالانکہ بعض جگہ عفو کی اجازت نہیں ہوتی اور اس وجہ سے اجازت نہیں ہوتی کہ یا تو اس کی بدی کی حوصلہ افزائی ہوگی یا ماحول کی حوصلہ افزائی ہوگی یعنی ماحول میں بدیوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا.پس بعض ایسے لوگ جو سلسلہ سے ایسی بے وفائی کرتے ہیں کہ وہ تمام دنیا میں سلسلہ کے وقار کو نقصان پہنچادیتے ہیں اور سلسلہ کی عزت کو ذلیل اور رسوا کر دیتے ہیں ان کو اگر معاف کیا جائے تو کل دس ، ہیں، پچاس اور بھی پیدا ہو جائیں گے اس لئے غلط حوالے دے کر مجھے میری ہی باتوں کا غلط رنگ میں پابند کرنے کی کوشش نہ کریں.میں جو آپ کو سمجھا رہا ہوں سمجھتا ہوں کہ عضو کے کیا معنی ہیں اور کس موقع پر ہونا چاہئے اور مجھے پتا ہے کہ کہاں انسان کو عفو کا اختیار نہیں ہے.وہاں عفو کر نا خدا کی ناراضگی مول لینے والی بات ہے.پس یہ کہہ کر میں اب اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.باقی انشاء اللہ آئندہ جو جمعہ ہے وہ وقف جدید کے تعلق میں ہوگا کیونکہ ہمارا وقف جدید کا سال ختم ہو رہا ہے.یہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ جماعتوں کو اگر چہ بار بار یاد دہانی کرائی جا چکی ہے مگر بہت سی جماعتوں کی طرف سے ابھی وقف جدید کی سالانہ رپورٹ نہیں موصول ہوئی تو اب تو بہت تیز رفتاری آچکی ہے مواصلات میں.پس آپ فیکس کے ذریعے یا دوسرے ذرائع سے جو بھی جلدی رپورٹ پہنچانے کے ذرائع آپ کو میسر ہیں اپنی وقف جدید کی کارگزاری کی رپورٹ بھیجنے میں مزید تاخیر نہ کریں.جزاکم اللہ
خطبات طاہر جلد 15 989 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء نیکیوں کو نور بنا دینے والا نسخہ یہی ہے کہ ہر نیکی کی نیت میں اللہ تعالیٰ کی محبت اثر انداز ہو.( خطبه جمعه فرموده 27 دسمبر 1996ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّ الْمُصَّدِقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقْتِ وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يَضَعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرُ كَرِيم وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِةٍ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِيقُونَ وَالشُّهَدَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوْاوَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا أُولَيْكَ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ پھر فرمایا: (الحديد: 19 ،20) آج کا خطبہ جیسا کہ میں نے کل ہندوستان کے جلسے کے ابتدائی خطاب میں ذکر کیا تھا وقف جدید کے مضمون کے لئے وقف ہے.پرانا دستور یہی چلا آ رہا ہے کہ یا تو سال کے آخری خطبہ میں وقف جدید کے سال نو کا آغاز ہوتا ہے یا اس سے آئندہ سال کے آغاز میں پہلے خطبہ میں.جب میں ہندوستان گیا تھا تو یہی تاریخ تھی ، یہی دن تھے جب میں نے وہاں 1991ء میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کیا تھا اب یہ دونوں جلسے بہت اہمیت رکھتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب تصرف ہے کہ وہی دن ہیں اور وہی تاریخیں ہیں اور جو بھی برکتیں ان میں مضمر ہوں گی
خطبات طاہر جلد 15 990 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء وہ ہماری وہمی نہیں بلکہ عملاً اللہ تعالیٰ ان برکتوں کو دکھائے گا تو ہمارا یقین اور ایمان خدا تعالیٰ پہ اور بھی زیادہ جلا پائے گا.وقف جدید کی تحریک کا آغاز تو 1958 ء سے ہے یا 1957ء کے آخر سے اور اس پہلو سے ایک لمبے زمانے سے یہ تحریک چلی آرہی ہے مگر بیرون پاکستان چندوں کے لحاظ سے اسے ممتد کرنے کا آغاز چند سال پہلے ہوا.جب میں نے یہ تحریک کی تو اس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی ضرورتیں پیدا ہونے والی ہیں کیونکہ تبلیغ جاری تو تھی مگر دھیمی دھیمی اور اس میں وہ نئی حرکت اور نئی سرعت پیدا نہیں ہوئی تھی جواب اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے اور تبلیغ ہی کے تقاضے ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے نئے مالی تقاضے ابھرے اور اس کی وجہ سے عام چندوں تک محدود رہتے ہوئے وہ ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں.مثلاً وقف جدید کے تعلق میں میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کی جماعتیں چونکہ ابھی غریب ہیں اور تقسیم کے بعد ان کو بہت بڑا دھکا لگا تھا جس سے ابھی تک وہ سنبھلی نہیں اس لئے وہاں کی وقف جدید کی ضرورتیں ان کے چندے کی صلاحیت کے مقابل پر بہت زیادہ ہیں.اس طرح افریقہ کی جماعتیں چونکہ بیشتر غریب ہیں نہ وہ پوری طرح اپنے چندوں میں خود کفیل ہیں، نہ وقف جدید کی طرز کا نظام وہاں جاری کرنے سے یا وقف جدید کی نہج پران کی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے ہمارے پاس وہاں کوئی ایسے ذرائع مہیا ہیں کہ ہم ملکی طور پر ہی ان ضرورتوں کو پورا کر سکیں اس لئے میں نے یہ تحریک کی کہ مغربی ممالک بالخصوص اور بیرونی ممالک بالعموم اس تحریک میں شامل ہو جائیں اور محض پاکستان ہی کو یہ اعزاز نہ رہے کہ وہ اکیلا یا ہندوستان اور پاکستان دونوں یا بنگلہ دیش یہ تینوں دراصل کہنے چاہئیں تھے مجھے، کہ ان تینوں میں یہ اعزاز نہ رہے کہ یہ تو ایک ایسی تحریک میں حصہ لے رہے ہیں جو خالصہ للہ ایک عظیم مقصد کے لئے قائم کی گئی اور باقی جماعتیں دنیا کی محروم رہ گئی ہیں.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے مجھ پر یہ امر واضح نہیں تھا کہ کوئی حقیقی ضرورت ایسی ابھری ہے جس کو پورا کرنے کے لئے یہ تحریک کی جائے اور اندازہ تھا کہ یہ ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اس لئے آمد کے ذرائع بھی بڑھنے چاہئیں لیکن بعد کے حالات سے پتا چلا کہ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی سے تحریک دل میں ڈالی گئی تھی کیونکہ اچانک تبلیغ میں ایسی سرعت پیدا ہوگئی اور دنیا کا رجحان احمدیت کی طرف اس تیزی سے بڑھنے لگا کہ ان کو تبلیغ کرنے کا تو الگ مسئلہ، ان کی تربیتی ذمہ داریوں کو
خطبات طاہر جلد 15 991 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء سنبھالنے کے لئے بہت بڑی مالی ضروریات در پیش تھیں.کیونکہ انہی میں سے مبلغ نکالنا، ان کی تربیت کے سامان کرنا ، ان کو جگہ جگہ جلسوں کے ذریعہ اور تربیتی کلاسز کے ذریعہ اس دین کی تفصیل سمجھانا جس کو عموماً بغیر سمجھے عامتہ الناس قبول کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف احمدیت کے لئے خاص نہیں دنیا کے ہر مذہب کا یہی حال ہے.عامتہ الناس عموما ایک عقیدے کو تسلیم کر لیتے ہیں.بعض نشانات کو دیکھ کر ، بعض رجحانات کو دیکھ کر اور بعض دفعہ آسمان سے ایسے تائیدی نشان ظاہر ہور ہے ہوتے ہیں جن کو دیکھنے سے وہ یقین کر لیتے ہیں کہ یہ سچا سلسلہ ہے مگر اس کے عقائد کی تفصیل، اس پر عمل کرنے کے جو طریق ہیں ان سے بسا اوقات ناواقف رہتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے وہ نظام جاری فرمایا کہ اپنے مرکز میں پہلے مختلف قوموں کے نمائندوں کو بلاؤ جو مسلمان ہو چکے ہیں.ان کو بلاؤ ، ان کو وہاں ٹھہراؤ، ان کی تعلیم و تربیت کرو اور پھر واپس بھیجو تا کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر جا کر خدمت دین کا کام بہتر طریق پر سر انجام دے سکیں.یہ ضروریات تھیں جن کے لئے خدا تعالیٰ نے مغربی جماعتوں کو یعنی آزاد ایسے ملکوں کو جو نسبتاً ترقی یافتہ ہیں ان کو بھی اس تحریک میں شمولیت کی توفیق بخشی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بہت ہی اعلیٰ پھل ہمیں دکھائے اور ایسے جن کا ہمارے ذہن میں کہیں دور کے گوشوں میں بھی کوئی تصور نہیں تھا لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں قرآن کریم کی ان آیات کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور مختصراً ان کے مضامین کو آپ کے سامنے کھولنے کی کوشش کروں گا.اِنَّ الْمُصَّدِقِيْنَ وَالْمُصَّدِقتِ یقینا صدقہ دینے والے اور صدقہ دینے والیاں.وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی وہ لوگ جن کے صدقہ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی خاطر اللہ کو قرضہ حسنہ کے طور پر کچھ دیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا ضُعَفُ لَهُمْ ان کے لئے بڑھایا جائے گا، کیا بڑھایا جائے گا یہ بات مہم چھوڑ دی گئی ہے اور یہ مہم چھوڑ نا دوطریق پر ہوا کرتا ہے.بعض لوگ جن کی نیتیں خراب ہوں وہ مجمل وعدہ کر دیا کرتے ہیں، مبہم سا وعدہ کر لیتے ہیں تا کہ ہم پھر پکڑے نہ جائیں.جب نہ پورا کرنے کو دل چاہے تو کہتے ہیں ہم نے یہی کہا تھا نا کہ کچھ دیں گے تو کچھ دے دیں گے، یہ کب کہا تھا کہ کب دیں گے اس لئے کوئی مطالبہ نہ کرو ہم سے.مگر جو کریم ہو، جو بے انتہا احسان کرنے والا ہو وہ جب مجمل وعدہ کرتا ہے تو مراد یہ ہے کہ اس سے
خطبات طاہر جلد 15 992 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء بہت زیادہ دیں گے جو تم سمجھ رہے ہو اس لئے معین کر کے ہم اپنے ہاتھ نہیں باندھتے.حسب حالات، تمہارے اخلاص کے تقاضوں کے مطابق جتنا چاہیں گے اتنا دیتے چلے جائیں گے مگر جو بھی دیں گے تمہاری تو قعات سے بڑھ کر دیں گے.خدا تعالیٰ کے وعدوں میں یہ چیز شامل ہوتی ہے اس کے سوا ایک بھی خدا کا وعدہ نہیں ملتا جو محسنین سے یا اس کی راہ میں خدمت کرنے والوں سے کیا گیا ہو اور اس میں ان توقعات سے بڑھ کر دینے کا مضمون شامل نہ ہو.چنانچہ فرمایا: تُضْعَفُ لَهُمُ اور ان کے لئے بڑھا دیا جائے گا.وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيم اور ان کے لئے معزز اجر بھی ہو گا یعنی اجر گریم سے مراد جیسا کہ ایک اور آیت کے حوالے سے میں نے بیان کیا تھا ان کو اموال ہی میں برکت نہیں دی جائے گی ، ان کی عزتوں میں بھی برکت دی جائے گی ، ان کو معزز بنایا جائے گا اور کریم سے مراد بھی بھی ہے.وہ شخص جو اعلیٰ اقدار کی خاطر دل کھول کے خرچ کرتا ہے.تو أَجْرٌ كَرِيمٌ خدا سے متوقع ہے اور وہ اجر گریم ان کو بھی کریم بنانے والا ہوگا.وَالَّذِينَ آمَنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِة أُولَيكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمُ اب یہاں لفظ صدیق کا استعمال اتفاقی نہیں ہے.دیکھیں نبوت کا یہاں ذکر نہیں ملتا.صدیق اور اس کے بعد شہداء کا ذکر فرمایا اور مُصَدِّقِينَ اور مُصَدِّقَات کا مادہ وہی ہے جو صدیق کا ہے اور مُصَدِّقَات اور مُصَدِّقِينَ میں جو باب استعمال فرمایا گیا ہے اس میں کچھ مبالغے کے معنی ضرور پائے جاتے ہیں.وہ لوگ جو بکثرت صدقہ دینے والے ہیں، جو بکثرت صدقہ دینے والیاں ہیں وہ چونکہ اپنے نیک اعمال میں اور خدا کی خاطر دل کھولنے میں ایک نمایاں منصب پاگئے ، نمایاں صورت اختیار کر گئے اس لئے اللہ کی طرف سے بھی ان سے نمایاں اجر کا وعدہ ہونا چاہئے تھا.پس جہاں اَجر گریم فرما دیا اس سے اگلی آیت ہی میں ایک ایسا مضمون بیان فرمایا ہے جو نبوت سے نیچے سب سے اعلیٰ منصب کا وعدہ کر رہا ہے.چنانچہ فرمایا وَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُل ہے جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے رسولوں پر یعنی یہی لوگ ہیں جن کی ایک مزید تعریف یہ فرما دی گئی ہے کہ ان کا خرچ محض اپنی ذاتی کرامت سے نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول پر ایمان کے نتیجہ میں یہ پیدا ہوا ہے.فرمایا: ھم الصَّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ اس معیار کے لوگ وہ ہیں جن کو ہم صدیق شمار فرمائیں گے اور اس
خطبات طاہر جلد 15 993 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء سے بڑا اجر گریم اور کیا ہو سکتا ہے پھر یہ کہ صدیقیت کا مقام پا جائیں اور صدیقیت کا مقام خدا کی راہ میں خرچ بڑھانے کے نتیجہ میں اور پھر لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ پیچھے جب تحریک جدید کے سال کا آغاز کرتے ہوئے میں نے قرآن کریم کی ایک آیت آپ کے سامنے رکھی تھی اس میں نور کا وعدہ تھا، اس آیت میں بھی نور کا وعدہ ہے کہ انہیں صدیقیت کا مقام بھی ملے گا، شہادت کا مقام بھی ملے گا عِنْدَ رَ بهِمُ اپنے رب کے حضور.لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَ نُورُهُمُ ان کے لئے ان کا اجر بھی ہے اور ان کا نور بھی ہے.اب ان کا اجر اور ان کا نور سے کیا مراد ہے؟ یہ مختصر بیان کر کے میں وقف جدید کی طرف واپس لوٹوں گا.اجر جو ہے وہ تو قربانیوں سے تعلق رکھنے والی بات ہے.جس شخص میں جتنی توفیق تھی اس نے اس حد تک قربانی کی اور اللہ تعالیٰ نے اس شرط کے ساتھ کہ میں بڑھاؤں گا اور تمہاری تو قعات سے بڑھ کر دوں گا اس کو پورا فرما دیا یہ تو اجر ہو گیا لیکن نُورُهُم انکا نور کیا ہے؟ دراصل ان کا نور ہی ہے جو اجر کا فیصلہ کرتا ہے اور نور سے مراد وہ دل کی پاکیزگی اور صفائی ہے جس کے ساتھ انسان ایک قربانی خدا کے حضور پیش کرتا ہے اور آجر گریم کا اس سے گہرا تعلق ہے.جتنا وہ نور بلند ہوگا، روشن تر ہوگا خدا کے حضور خالص ہو کر چمکے گا اسی حد تک اس کے اجر کو بڑھا دیا جائے گا اور اجر کو اعزاز بخشا جائے گا.پس صدیقیت کا تعلق نور سے ہے اور شہادت کا بھی تعلق نور سے ہے.صالحیت کا اس لم تفصیل سے تعلق نہیں ہے نور کے ساتھ ، جیسا ان دو مراتب کا ہے.اس لئے دیکھیں یہاں صرف دو ہی مراتب کا ذکر ہے صدیقیت کا اور شہادت کا اور نہ نبوت کا ہے نہ صالحیت کا ہے تو صالحیت جو عام روز مرہ کی نیکیاں ہیں انسان کو اس بلند مقام تک نہیں پہنچایا کرتیں جس کی پہلی سیڑھی شہادت ہے اور دوسری سیڑھی صدیقیت ہے اور چونکہ نبوت بالعموم اس طرح عطا نہیں ہوا کرتی وہ منصب ہی بالکل الگ ہے.اس لئے جہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کی جزاء کا تعلق ہے وہاں نبوت کا ذکر سر فہرست فرما دیا لیکن جہاں روز مرہ کی مومن کی قربانیوں کا ذکر ہے.اس میں جو اعلیٰ درجے کی قربانیاں کرنے والے ہیں ان کو دو انعامات کا وعدہ فرمایا کہ تم میں صدیق بھی پیدا ہوں گے اور شہید بھی پیدا ہوں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا احسان ہوگا.وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوا بِايْتِنَا أُولَيْكَ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ
خطبات طاہر جلد 15 994 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء اور وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ان کے لئے تو جہنم کے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ہے.پس مالی قربانی کے جو مرتے ہیں ان کو سمجھے بغیر حقیقت میں مالی قربانی کا جذ بہ صیح طریق پر بیدار ہو ہی نہیں سکتا اور ان مراتب کو سمجھنے کے نتیجہ میں مالی قربانی میں جو احتیاطیں ضروری ہیں ان سے بھی انسان واقف ہو جاتا ہے کیونکہ بسا اوقات مالی قربانی دیکھا دیکھی سے بھی ہو جاتی ہے.مالی قربانی میں مسابقت کا جائز شوق بھی شامل ہو جاتا ہے.وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اگر نظر ان بلند مقامات کی طرف اور مراتب کی طرف ہو جن کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے تو مالی قربانی میں ایک نئی جلاء پیدا ہو جائے گی اور مالی قربانی ہمیشہ محفوظ رہے گی.پس اس پہلو سے وقف جدید کے ذکر میں جب میں بعض مثالیں بھی دوں گا ، بعض عظیم الشان قربانیوں کا ذکر بھی کروں گا تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ اپنی قربانیوں کو محض اس غرض سے بڑھائیں کہ آپ کا ذکر چلے.اس غرض سے بڑھا ئیں کہ آپ میں مسابقت کی وہ روح پیدا ہو جو آپ کے لئے مطمع نظر بنادی گئی ہے، جو آپ کا ماٹو قرار دے دیا گیا ہے.جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ب كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111) تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے بنائی گئی ہو اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرة: 149) یہ جو آیت تھی یہ میرے ذہن میں تھی وہ دوسری آیت کا بھی اس مضمون سے تعلق ہے مگر میرے ذہن میں جو آیت تھی جو میں ڈھونڈ رہا تھا وہ یہ دوسری آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ہر ایک کے لئے ایک نصیب العین ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اس کے لئے وہ پابند ہو جاتا ہے اس کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کر دیتا ہے، وہ قبلہ بن جاتا ہے جس کی طرف منہ پھیر لیتا ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ تمہارا نصب العین جن کی طرف تم نے اپنے چہرے پھیر نے ہیں، اپنی تو جہات کو مرکوز کرنا ہے وہ ہے ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھو.پس اس جذبے کے ساتھ قرآن کریم نے ہمارا مقصد، ہمارا نصب العین ہی نیکیوں میں آگے بڑھنا قرار دے دیا ہے.اگر ایک انسان اپنے بھائی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ہرگز ریا کاری نہیں کہا جاسکتا، اسے ہرگز معمولی بات سمجھ کر رو نہیں کیا جاسکتا.مگر اس اعلیٰ نیت کے باوجود اس سے بھی بلند تر نیتیں ہیں اور ان میں سے اول یہ ہے کہ اللہ کا تصور ذہن پر حاوی ہو اور کوئی بھی چندہ
خطبات طاہر جلد 15 995 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء.ایسا ادا نہ کیا جائے جس میں خدا کی محبت کی آمیزش نہ شامل ہو.اگر خدا کی محبت کی آمیزش شامل ہو جائے تو سب کچھ مل گیا پھر آگے بڑھنے کی توفیق بھی ملتی ہے اور غیر معمولی طور پر ملتی ہے اور اُس نصب العین سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے بلکہ اُس کو بڑھانے والی چیز ہے اور نیکیوں کو نور بنادینے والا نسخہ یہی ہے کہ ہر نیکی کی نیت میں اللہ تعالیٰ کی محبت اثر انداز ہو یعنی نیکیاں دراصل اللہ کی محبت سے پھوٹیں.وہ چیزیں جو نور سے پھوٹتی ہیں وہ نور ہی رہیں گی اور یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ کثیف ہو جائیں.پس اس پہلو سے آپ کو مختصر انصیحت یہی ہے کہ جب یہ آپ کو الف سنیں گے اور قربانیوں کی دوسری تحریکیں بھی آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی تو ہمیشہ اللہ کی محبت کو اپنے دل میں پہلا مرتبہ دے کر اور اس کے حوالے سے قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.پھر خدا کے فضل سے آپ کی قربانیوں میں کبھی کوئی رخنہ نہیں آئے گا اور بے حد ایسی برکتیں شامل ہو جائیں گی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے یعنی اجر کریم آپ کو عطا کیا جائے گا.وقف جدید کا یہ ا کیا لیسواں (41) سال ہے اور یکم جنوری 1997 ء سے ہم بیالیسویں سال میں داخل ہونے والے ہیں.رپورٹوں کے معاملے میں گزشتہ سال بھی یہ شکایت تھی کہ بہت سے ممالک سست رفتاری سے رپورٹیں بھجواتے ہیں اور بسا اوقات ایسے ممالک بھی ہوتے ہیں جہاں جدید ترین طریق رسل و رسائل کے مہیا نہیں ہیں اس لئے جو نسبتاً بعد میں شامل ہونے والے ممالک ہیں ان کی تربیت میں ابھی زیادہ وقت درکار ہے اور ان کے ہاں وقف جدید کا نظام بھی اس طرح جاری نہیں جس طرح پہلے سے شامل ہونے والے ترقی یافتہ ، تربیت یافتہ ممالک میں ہے.تو اگر چہ اس وقت جماعتوں کی تعداد یعنی ممالک کی تعداد غالباً ایک سو باون یا اس سے اوپر ہو چکی ہے تو اتنی بڑی تعداد میں سے صرف چھپن کا رپورٹیں بھجوانا بتاتا ہے کہ کتنا بڑا کام ابھی ہم نے کرنا ہے ان کی تربیت کا اور وقف جدید ہی کا ایک یہ مقصد ہے کہ دیہاتی اور نئے غیر تربیت یافتہ ممالک کی تربیت کی جائے.پس اس پہلو سے یہ جو بیالیسواں (42) سال ہے اس میں ہم اپنے سامنے ایک کام کا پہاڑ کھڑا ہوا دیکھتے ہیں.چھپن ممالک نے رپورٹ بھیجی ہے اور اکثر جنہوں نے نہیں بھیجی یا تو کام بہت معمولی ہوا ہے یا ابھی وہ تربیت کے محتاج ہیں.تو ان چھپن ممالک نے تقریباً ایک سو چھپن کی تربیت کرنی ہے اور یہ جو چندہ ملے گا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہی مقاصد پر خرچ ہوگا.وقف جدید میں جو
خطبات طاہر جلد 15 996 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء بیرون کا چندہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ زیادہ تر ہندوستان اور افریقہ پر خرچ ہوتا ہے اور زیادہ تر کیا تمام تر کہنا چاہئے ، ہندوستان اور افریقہ پر خرچ ہوتا ہے.یہاں تک کہ پاکستان سے بھی وقف جدید کے چندوں میں جو بچت ہوتی ہے وہ بیرونی ممالک میں خرچ کے لئے بھیجنے لگے ہیں.تو یہ سعادت ان کی ابھی قائم ہے کہ بیرونی دنیا پر خرچ کرنے میں کوئی بار محسوس نہیں کرتے ، کوئی کمزوری نہیں پاتے اور بڑے حو صلے اور خوشی کے ساتھ پاکستان سے باہر کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں.مغربی دنیا میں بھی اب بہت حد تک یہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں بہت حوصلے اور وسعت قلب کے ساتھ حصہ لیتے ہیں اور کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا جاتا کہ اتنا چندہ ہم نے دیا تھا ہم پر اتنا کیوں خرچ نہیں ہوا، اتنا بڑا حصہ دوسرے ممالک کو کیوں دے دیا گیا یہ سوچ ہی بیمار سوچ ہے جو احمدیت میں خدا کے فضل سے پینے کی گنجائش ہی نہیں رکھتی ، توفیق ہی نہیں رکھتی.ایک آدھ ملک میں جب یہ بیماری پیدا ہوئی اور میں نے اسی وقت ان کو پکڑا تو اس کے بعد وہ بالکل اس طرح مٹ گئی جیسے ان کی جڑیں اکھیڑ دی گئی ہوں پھر کبھی اس وہم نے ان کے خیالات میں پراگندگی پیدا نہیں کی.تو اس کو بھی آپ یا درکھ لیں کہ ہمارے چندے خدا کی خاطر ہیں اور یہ ساری دنیا خدا نے پیدا کی ہے.اسلام عالمگیر مذہب ہے اسلام کے تقاضے،ضرورت کے تقاضے دنیا میں کہیں بھی پیدا ہوں گے.پس یہ بحث نہیں ہے کہ چندہ کس نے دیا ہے اور کہاں خرچ ہونا چاہئے یعنی کس نے دیا ہے کی بحث نہیں ہے اور یہ بحث نہیں ہے کہ جس نے دیا ہے اسی پر خرچ کیا جائے.یہ بحث ضرور رہے گی کہ اس وقت عالمی تقاضوں کے لحاظ سے کس ملک کو زیادہ ضرورت ہے اور کون سا ملک ہے جو تیز رفتاری کے ساتھ سچائی کی طرف متوجہ ہورہا ہے اور اسی نسبت سے اس کی ضرورتیں بڑھ رہی ہیں.پس خرچ میں ہمیشہ جماعت احمدیہ نے اس بات کو راہنما رکھا ہے اور یہ بات بے تعلق سمجھی ہے اور ہمیشہ بے تعلق سمجھی جائے گی کہ کس نے زیادہ دیا تھا اور کس نے کم دیا تھا.ضرورت جہاں زیادہ ہے وہاں زیادہ خرچ کیا جائے گا اور ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے.پس اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ بیرونی دنیا کا چندہ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے چندوں سے اب خدا کے فضل سے بہت بڑھ چکا ہے اور عین اس وقت یہ برکت ملی ہے جب کہ
خطبات طاہر جلد 15 997 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء ضرورت بہت شدید ہو گئی تھی.مثلاً ابھی میں نے افریقہ کے ممالک کا دورہ کروایا ہے تو پتا چلا کہ بہت بڑی بڑی جماعتیں ہیں جن سے ابھی تک ہمارا ڈش انٹینا کے ذریعہ بھی رابطہ نہیں ہو سکا اور جو نمائندے میرے گئے انہوں نے محنت کی بہت دور دراز کے گہرے علاقوں میں گئے اور بعض رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ دیکھ کر اس طرح ان کے چہرے چمک اٹھے کہ اچھا ہمارا بھی خیال ہے ان کو لیکن ایک خوش کن بات جو سب جگہ دکھائی دی، وہ یہ تھی کہ ایسے علاقے جن میں کثرت سے بیعتیں ہوئی تھیں اور دو تین سال پہلے ہوئی تھیں.جب وہاں رابطہ کیا گیا تو تمام تر احمدیت پر قائم تھے اور بڑے خلوص سے قائم تھے اور انہوں نے کھلم کھلا یہ کہا کہ ہم نے تو سچ سمجھ کر قبول کیا ہے.اگر آپ ہماری طرف توجہ نہ بھی کرتے تو احمدیت پر ہم نے قائم ہی رہنا تھا.مگر ہمیں پورا پتا ہی نہیں کہ احمدیت ہے کیا ، تفاصیل کا علم نہیں ہے.اس لئے آپ کا فرض تھا ہمیں پوچھتے اور ہماری ضروریات پوری کرتے.چنانچہ ان سب جگہوں میں ایک تو میں نے یہ ہدایت کی کہ ڈش انٹینا ز لگائے جائیں کثرت کے ساتھ اور مرکزی انتظام کے تابع روزانہ اس علاقے کے باشندے ایک جگہ اکٹھے ہوسکیں.دوسرا یہ کہ وہاں ان کے لئے بڑی مساجد بنی چاہئیں.ایسے مراکز بنے چاہئیں جہاں ان کی تربیت کا انتظام ہو اور انہی میں سے مبلغین بنائے جائیں اور پھر ان کو انہی علاقوں میں مستقل جگہوں پر مقرر کر دیا جائے.یہ ضرورتیں جو ہیں یہ اتنی زیادہ ہیں کہ جس علاقے میں یعنی افریقہ میں جہاں دس لاکھ سے اوپر احمدی ہوئے ہوں ایک سال میں وہاں آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کی کم سے کم ضرورتیں پوری کرنے پر بھی کتنے خرچ کی ضرورت ہوگی اور چونکہ پچھلے سال یہ خرچ بہت بڑھے اس لئے میرے دل میں یہ فکر تھی ، میں بار بار ان سے پوچھتا تھا کہ وقف جدید کے چندے میں سے کتنا باقی رہ گیا ہے اور نئی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ہم کہاں کہاں سے روپیہ سمیٹ سکتے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے کس طرح مدد فرمائی ہے اور جس ملک کے ذریعے مدد فرمائی ہے اس ملک کی انتظامیہ کے بھی خواب و خیال میں نہیں تھا کہ یہ عظیم کا رنامہ خدا ہمارے ہاتھوں سرانجام دلوائے گا.چنانچہ سر فہرست آج اس سال کی قربانی میں امریکہ ہے اور اتنی عظیم وقف جدید میں قربانی کی توفیق ملی ہے کہ امیر صاحب جب فون پہ مجھے بتا رہے تھے تو کہتے تھے میں تو حیران ہوں کہ کیا ہوا ہے.میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خاموشی کے ساتھ اتنا رو پیدا کٹھا ہو چکا ہوگا کہ جب وہ
خطبات طاہر جلد 15 998 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء رپورٹ پیش ہوئی تو میرے دل میں ایک ہیجان برپا ہو گیا کہ ہوا کیا ہے.اب آپ سوچیں پہلی بات تو یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر چندے میں ، ہر ملک میں برکت ڈالی ہے اور امسال گزشتہ سال کے مقابل پر بہت زیادہ عطا کیا ہے.وعدہ جات کے لحاظ سے جو 1996 ء کے وعدہ جات ہیں وہ چار کروڑ بیس لاکھ اکتالیس ہزار تین سو باون روپے بنتے ہیں.1996 ء کا یہ جو سال گزرا ہے ابھی ، وعدہ جات چار کروڑ اور بہتیں لاکھ.وصولی سات کروڑ بائیس لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو چھپن.اب یہ کیسے ہو گیا کچھ سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ وقف جدید کے وعدے آگے ہوتے تھے وصولی پیچھے پیچھے جایا کرتی تھی اور سٹرلنگ میں یہ وعدے چھ لاکھ پچپن ہزار ایک سو بہتر پاؤنڈ تھے جب کہ کل وصولی دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ ہے اور ایک نیا سنگ میل جو اس سال رکھا گیا ہے وہ امریکہ کی طرف سے ہے.تمام دنیا کی وصولی ، سارے یورپ کی وصولی ملا کر ، پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش کی وصولی ملا کر دس لاکھ چورانوے ہزار تین سوا کسٹھ پاؤنڈ ہے.اب یا درکھ لینا اچھی طرح ساری دنیا کی وصولی دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ ہے.اس میں سے امریکہ کی وصولی اس میں پانچ لاکھ چونسٹھ ہزار ایک سوا کسٹھ پاونڈ ہے یعنی تمام دنیا کے چندوں سے وہ اکیلا آگے بڑھ گیا ہے.پچھلے سال میں ان کی تعریف کر رہا تھا کہ انہوں نے جرمنی کو بھی شکست دے دی، پاکستان سے بھی کچھ کچھ آگے نکل گئے لیکن قریب قریب کی دوڑ تھی.اب وہ اتنا پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ باقی لوگ اب بس ان کے لئے دعائیں ہی کریں گے اور اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتے اب اور امریکہ کی اپنی کیفیت یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے یعنی میری ہجرت کے آنے کے دو سال بعد تک بلکہ تقریباً تین سال بعد تک ان کا کل چندہ سارے امریکہ کا اتنا ہی تھا جتنا آج وقف جدید کا ہے اور جب انہوں نے بتایا تو میں نے فورا پوچھا میں نے کہا مجھے تو جہاں تک یاد پڑتا ہے نو لاکھ چھتیس ہزار ڈالر آپ کا کل چندہ بھی نہیں تھا.تو پھر امیر صاحب نے اس کو با قاعدہ جائزہ لے کر اعدادو شمار کا اس بات کی تائید کی ہے، اس کی توثیق فرمائی ہے کہ ہمارا کل چندہ دس سال پہلے اتنا نہیں تھا اور یہ توفیق کیسے بڑھی.سوال یہ ہے کہ یہی لوگ تھے ، اسی قسم کے لوگ تھے جو پہلے بھی امریکہ میں رہا کرتے تھے، مالی حالات بعض دفعہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھیں بعض دفعہ پیچھے بھی چلے جاتے
خطبات طاہر جلد 15 999 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء ہیں چنانچہ ڈاکٹر جو وہاں سب سے زیادہ امیر طبقہ ہے ان کے مالی حالات پہلے سے خراب ہوئے ہیں، ایک زمانے میں تو امریکہ میں ڈاکٹر ہونا سونے کی کان کا مالک ہونا تھا لیکن اب بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں.ڈاکٹروں کی آمد میں کمی آئی ہے لیکن ان کے چندوں میں اضافہ ہوا ہے.تو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عمومی سا وعدہ تھا کہ ہم بڑھائیں گے اب یہ نکتہ بھی سمجھ آیا کہ تمہاری توفیق مالی ہی نہیں بڑھائیں گے بلکہ تمہارے حوصلے بھی بڑھائیں گے، اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق میں وسعت دیں گے اور کبھی بھی تمہیں پیچھے نہیں جانے دیں گے.جو تم آگے قدم اٹھا چکے ہو اس سے اور آگے بڑھو گے، واپسی کی طرف نہیں دھکیلے جاؤ گے اور کوئی ایسے حالات نہیں ہوں گے جو تمہیں مجبور کر دیں کہ پہلے سے کم ہو جاؤ.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جو خدا کا سلوک ہے دنیا کی ہر اس جماعت سے ہے جو مالی قربانی میں آگے بڑھتی ہے ، حوصلہ کرتی ہے اور اچانک اس کی توفیق بڑھ جاتی ہے.اب جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے سب تفاصیل تو اس وقت پیش کرنا پیش نظر نہیں ہے مگر مختصر موازنہ میں عرض کرتا ہوں.گزشتہ سال 1995ء میں پانچ لاکھ ستہتر ہزار سات سو نوے پاؤنڈ کا وعدہ تھا.امسال 1996ء چھ لاکھ پچپن ہزار ایک سو بہتر پاؤنڈ کا وعدہ تھا.وعدہ کے لحاظ سے اضافہ ستہتر ہزار تین سو بیاسی پاؤنڈ ہوا.وصولی کے لحاظ سے گزشتہ سال چھ لاکھ ستر ہزار نو سو تیرہ پاؤنڈ کی وصولی تھی.امسال خدا کے فضل سے دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ کی وصولی ہے.جس میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ نے لیا ہے.تعداد کے لحاظ سے بھی بہت برکت ملی ہے.میں پہلے بھی بار ہا عرض کر چکا ہوں کہ وقف جدید کے تعلق میں تعداد بڑھانے کی طرف توجہ بہت زیادہ دیں.مالی ضرورتیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ثابت بھی کر کے دکھایا ہے اللہ تعالیٰ آپ ہی کچھ کرتا رہتا ہے ہمیں تو پتا بھی نہیں لگتا.یاد دہانی کراؤ نہ کر ؤ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ از خود ہی دلوں میں ایسی تحریک اٹھ جاتی ہے اور انتظامیہ کو خدا تعالیٰ ایسی ہمت عطا فرما دیتا ہے کہ چندے جتنی ضرورت ہے وہ مل ہی جاتے ہیں اور اب تو بعض دفعہ لگتا ہے ضرورت سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن جب سال ختم ہوتا ہے تو ضرورت پھر چندوں سے جاملتی ہے.تو یہ بھی ایک مسابقت کی دوڑ ہورہی ہے جماعت کے چندوں اور جماعت کی ضروریات میں.تو گزشتہ سال وصولی کا جہاں تک تعلق ہے چھ لا کھ ستر ہزار تھی.دس لاکھ چورانوے ہزار اس دفعہ ہوئی اور تعداد کے لحاظ سے گزشتہ سال ایک لاکھ
خطبات طاہر جلد 15 1000 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء چھیالیس ہزار چار سو باسٹھ افراد تھے اور امسال ایک لاکھ سٹرسٹھ ہزار چارسو ترانوے افراد ہیں جو شامل ہوئے ہیں.پس خدا تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ بہت بڑی تعداد، ہزارہا کی تعداد میں ایسے دوست پیدا ہوئے ہیں جن کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا چسکا پڑ گیا ہے کیونکہ جو ایک دفعہ خرچ کرے وہ پھر پیچھے نہیں ہٹا کرتا ، اس کو واقعہ چسکا پڑ جاتا ہے.دس سال پہلے ، میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا ، امریکہ کا کل بجٹ آٹھ لاکھ پینتیس ہزار تھا اور اب وقف جدید کا بجٹ نو لاکھ چھتیس ہزار آٹھ سوڈالر ہو چکا ہے اور انہوں نے اتنی احتیاط سے اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں کہ ساتھ میں سینٹ بھی لکھا ہوا ہے، نو لاکھ چھتیس ہزار پانچ سو آٹھ ڈالر میں سینٹ.تو خدا تعالیٰ نے بہت برکت دی ہے جماعت کے اخلاص میں اور کوششوں میں اور صرف ان باتوں ہی میں نہیں باقی بہت سی اور باتوں میں بھی خدا کے فضل سے امریکہ کا قدم ترقی کی طرف ہے اور ہونا بھی ایسا چاہئے تھا کیونکہ امریکہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ہے اور وہاں ابھی بھی ایسے احمدی موجود ہیں جن کو اگر آمادہ کیا جائے کچھ اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر تو اللہ تعالیٰ ان کے دل کی توفیق بھی بڑھائے گا اور ان کی مالی توفیق اس وقت بھی ان چندوں سے پیچھے ہے کیونکہ اس قسم کے حالات کے لوگ بکثرت موجود ہیں اور جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو انہی میں سے بعض ایسی حیرت انگیز قربانیاں کرنے والے ابھرے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ توفیق ہو ہی نہ اور قربانیاں دے رہے ہوں اور جنہوں نے بھی دیں ان کے مالوں میں کمی کہیں نہیں آئی، برکت ہی ہے جو بڑھتی چلی جارہی ہے.تو آج امریکہ سب دنیا کی جماعتوں میں صف اول پر کھڑا ہے.اگر پاؤنڈوں میں اس کا حساب کیا جائے تو پانچ لاکھ چونسٹھ ہزار ایک سو اکسٹھ پاؤنڈ ان کا چندہ وصولی ہے جب کہ باقی سب دنیا کی جماعتوں کی اتنی وصولی نہیں.دوسرے قدم پر پاکستان ہے اور تیسرے پر جرمنی ہے.برطانیہ کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے جو غالباً ایک عرصے سے چلی آرہی ہے اور کینیڈا کو پانچویں پوزیشن حاصل ہے.اب برطانیہ اور کینیڈا کا فرق تھوڑا رہ گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس رفتار سے کینیڈا مسلسل برطانیہ کے قریب آ رہا ہے بعید نہیں کہ اگلے سال آگے نکل جائے.ہندوستان چوبیس ہزار پانچ سو ستائیس پاؤنڈ وصولی ہے جو ہندوستان کے لحاظ سے بہت تعجب انگیز ہے.چودہ لاکھ چونسٹھ ہزار روپے انہوں نے دیئے جو
خطبات طاہر جلد 15 1001 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء ہندوستان کے پرانے زمانوں کے چندوں کے لحاظ سے جو دس سال پہلے کے جو چندے اس میں اتنے بنتے نہیں تھے ان کے، تو امریکہ کی طرح ہندوستان کو بھی خدا تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی بہت تو فیق عطا فرما رہا ہے.انڈونیشیا میں سمجھتا ہوں ابھی اپنی توفیق سے پیچھے ہے کیونکہ ہندوستان کے مقابل پر انڈونیشیا کے احمدیوں کے مالی حالات بہت بہتر ہیں.تعداد کے لحاظ سے جو فرق پڑا ہے وہ ہندوستان کی تبلیغ کے نتیجے میں فرق پڑا ہے ورنہ پہلے تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ فرق نہیں تھا.تقریبا انڈونیشیا کی جماعتیں ہندوستان کی تعداد کے مقابل پر نصف تھیں بلکہ نصف سے کچھ زیادہ اور چندوں میں اتنا فرق کہ وقف جدید میں ہندوستان نے ساڑھے چوبیس ہزار پاؤنڈ پیش کئے ، انڈونیشیا نے صرف آٹھ ہزار چھ سو نوے.تو یہ صاف پتا چل رہا ہے کہ وہاں ابھی تک ہمارے نظام جماعت میں پوری بیداری نہیں اور پورا انتظام نہیں ہے ورنہ امریکہ یا ہندوستان کے مقابل پر انڈونیشیا کی جماعت کی اخلاص کی حالت پیچھے نہیں ہے.بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ دنیا میں مخلص ہیں.اس قدر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت اور اسلام سے محبت رکھنے والے لوگ ہیں کہ بہت سے ہیں ان میں جو ذکر کے ساتھ ہی رونے لگتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بے اختیار محبت کے آنسو بہنے لگتے ہیں.تو جہاں اخلاص موجود ہو وہاں اگر قربانی میں لوگ پیچھے رہ رہے ہوں تو یقین جانیں کہ انتظامیہ کی خرابی ہوا کرتی ہے.ایسے علاقوں میں جہاں بھی میں نے انتظامیہ بدلائی ہے اور ان کو توجہ دلائی ہے تو فوری طور پر جماعت نے اپنی قربانیوں کو بہت آگے بڑھا دیا.پس اس پہلو سے امریکہ کی انتظامیہ بھی دعا کی مستحق ہے، اس معنی میں جزاء کی مستحق کہ ہم بھی ان کے لئے دعا کریں کہ انہوں نے اپنے انتظام کو بہت بہتر بنالیا اور جماعت کے اخلاص کو جو موجود تھا اس کو اب اس راہ میں گویا جیسے جوت دیا جائے اس طرح اخلاص کو پہلے سے بڑھ کر جوتا جا رہا ہے.ماریشس اپنی تعداد کے لحاظ سے قربانی میں ہمیشہ بہتر ہوتا ہے مگر امسال وقف جدید میں اتنی نمایاں بہتری نظر نہیں آئی کیوں کہ بیلجیئم جو اس کے مقابل پر ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ابھی نئی نئی بن رہی ہے گویا کہ ماریشس اور بیلجیئم کا چندہ تقریبا برابر ہے.ماریشس کا چار ہزار نو سوسترہ اور بیلجیئم کا چار ہزار آٹھ سو سینتیں.ناروے جو چھوٹے ممالک میں سے آگے بڑھنے والا ایک ملک ہے.ناروے خدا کے فضل
خطبات طاہر جلد 15 1002 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء سے چار ہزار چھ سو بانوے پاؤنڈ چندہ وقف جدید میں دے کر دسویں نمبر پر رہا ہے.فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے بھی باوجود اس کے کہ امریکہ میں چندہ دہندگان کی تعداد بہت بڑھائی گئی ہے.بہت بڑھائی گئی ہے اس دفعہ، پھر بھی مالی قربانی کو اگر تقسیم کیا جائے فی چندہ دہندہ تو امریکہ باقی سب ملکوں سے آگے نکل گیا ہے.اس سے پہلے جاپان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان بات رہا کرتی تھی.شروع میں جاپان آگے تھا پھر سوئٹزر لینڈ نے وہ جگہ لے لی اور گزشتہ دو چار سال سے سوئٹر لینڈ نے قبضہ کیا ہوا تھا کہ فی کس چندہ دہندہ قربانی میں ہم دنیا میں کسی کو آگے نکلنے نہیں دیں گے اور اب دیکھیں کتنا فرق پڑ گیا ہے.امریکہ میں فی کس قربانی کا معیار اب ایک سو چوبیس پاؤنڈ اور سات پینی بنتا ہے اور سویٹزرلینڈ میں ستر پاؤنڈ ستانوے پینی.تو اس پہلو سے بھی بہت آگے بڑھ گیا ہے خدا کے فضل سے امریکہ فی کس چندہ دہندہ کی مالی قربانی کے لحاظ سے اور جاپان اکتیس پاؤنڈ تمیں پینی کے چندے کے ذریعہ نمبر تین پر آیا ہے اور بیلجیئم اللہ کے فضل کے ساتھ انہیں پاؤنڈ تینتالیس پینی دے کر چوتھی پوزیشن حاصل کر گیا ہے اور جرمنی پانچویں پوزیشن پر گیارہ پاؤنڈ پچاس پینی فی کس کے لحاظ سے دے کر اللہ کے فضل سے اعزاز حاصل کر گیا لیکن جرمنی کے متعلق میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ خدا کے فضل سے ان کے چندے اتنے متوازن ہیں اور بالعموم مالی قربانی میں ساری جماعت کثرت سے حصہ لے رہی ہے اس لئے وہاں یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی تحریک میں غیر معمولی طور پر آگے نکل جائیں.جن ممالک نے مثلاً امریکہ نے اپنے لئے یہ ایک ٹارگٹ پہلے سے بنارکھا تھا کہ دنیا میں ایک چندے میں تو ہم نے باقی سب کو لازماً پیچھے چھوڑنا ہے، اس اخلاص کی نیت کو خدا نے یہ پھل دیا ہے کہ وہ اتنا آگے نکل گئے کہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا آگے جا سکتے ہیں.مگر جرمنی کو یہ کہنا کہ تم وقف جدید میں بھی ان سے مقابلہ کر کے آگے نکلنے کی کوشش کرو یہ میرے نزد یک مناسب مطالبہ نہیں ہے کیونکہ عموماً جرمنی کی جماعت اتنی بڑی قربانی دے رہی ہے کہ اس کی وجہ سے خدا کے فضل سے بہت سے دوسرے ممالک کی ضروریات پوری ہورہی ہیں اور جرمنی میں بھی جو بڑھتی ہوئی ضروریات ہیں ان میں جرمنی خود کفیل ہے.بالغان کے چندے کی جو دوڑ ہوا کرتی ہے پاکستان کے اندران میں ربوہ خدا کے فضل سے اول رہا ہے، کراچی دوم اور لاہور سوم.جہاں تک اضلاع کے مقابلے کا تعلق ہے پاکستان کے اضلاع
خطبات طاہر جلد 15 1003 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی آپس کی دوڑ میں اب ان کی کیا پوزیشن ہے.راولپنڈی فرسٹ ہے جو میرے لئے بہت تعجب کی بات ہے کیونکہ میں سمجھا کرتا تھا کہ راولپنڈی ان باتوں میں کافی پیچھے ہے مگر معلوم ہوتا ہے کوئی نئی تحریک وہاں اٹھی ہے جس کی وجہ سے خدا کے فضل سے راولپنڈی کی جماعت کا یہ اعزاز مل گیا کہ وہ سارے پاکستان میں ضلعی لحاظ سے اول آئی ہے اور سیالکوٹ نمبر دو.یہ بھی تعجب کی بات ہے کیونکہ سیالکوٹ تو کافی نکما ہو گیا تھا بے چارہ.اب معلوم ہوتا ہے اٹھ رہے ہیں کچھ آگے بڑھ رہے ہیں.جو سیالکوٹی میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ مسکرا رہے ہیں کہ شکر ہے ہماری بات بھی آگئی کہیں.فیصل آباد نمبر تین پر ہے اور اسلام آباد نمبر چار پر.اسلام آباد کے لئے قابل شرم ہے کیونکہ بڑی منظم جماعت اور مالی لحاظ سے بھی اچھی متوسط جماعت ہے.فیصل آبادان کو پیچھے چھوڑ جائے ، سیالکوٹ پیچھے چھوڑ جائے یہ تو بڑی عجیب بات ہے.گوجرانوالہ ماشاء اللہ ہمت کر کے آگے آیا ہے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے.گجرات چھٹے نمبر پر ہے اور سرگودھا ساتویں نمبر پر اور شیخوپورہ آٹھویں نمبر پر اور کوئٹہ نویں پر اور عمر کوٹ سندھ دسویں نمبر پر.یہ جو اضلاع ہیں نچلے مرتبے کے اضلاع ہیں ، ان میں میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بہت گنجائش موجود ہے.سیالکوٹ میں بھی ہے، فیصل آباد میں بھی ہے، اسلام آباد میں تو ہے ہی ، گوجرانوالہ گجرات وغیرہ یہ سارے وہ اضلاع ہیں جو میں نظری طور پر جانتا ہوں کہ جتنی خدا نے ان کو تعداد عطا کی ہے احمدیوں کی اور جو مالی توفیق بخشی ہے عین اس کے مطابق چندے دکھائی نہیں دے رہے.دفتر اطفال میں لا ہور خدا کے فضل سے اول آ گیا ہے، ربوہ دوم ہے اور کراچی سوم.یہ تو ہے وقف جدید کی رپورٹ.میں اس وقت ہندوستان کی جماعتوں کو جو اس وقت جلسے میں بطور خاص اس جمعہ میں حاضر ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ جمعہ تو بالخصوص ہمارے لئے وقف ہے ان کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ وقف جدید کے کام کو آپ وہاں بڑی تیزی سے بڑھا ئیں اور منظم کریں کیونکہ آپ کی اکثر تبلیغ اس وقت وقف جدید کے ذریعے ہو رہی ہے اور بہت سی پھیلتی ہوئی نئی ضرورتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید نے سنبھال رکھا ہے تو اس کو اہمیت دیں اور جن اضلاع میں آپ کی تبلیغ کے لحاظ سے کمزوری ہے ان کی فہرست میں پڑھنا نہیں چاہتا اس وقت ان کی طرف متوجہ ہوں اور وقف جدید کے
خطبات طاہر جلد 15 1004 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء نظام کو جو بیرونی طاقت مل رہی ہے باہر سے ٹیکہ مل رہا ہے یہ کوشش کریں کہ آپ اپنے پاؤں کھڑے ہو کر اس مدد سے متبر اہوجا ئیں اس مدد کے محتاج نہ رہیں.یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ قادیان ہی نے تو سب دنیا کو دینی ضرورتوں کے لحاظ سے پالا ہے.ہندوستان ہی کو لمبے عرصے تک یہ فخر حاصل رہا ہے کہ جب باہر کی دنیا چندوں سے تقریباً نا آشنا تھی تمام دنیا کی ضرورتیں ہندوستان پوری کرتا تھا.پھر پاکستان نے ہجرت کے بعد یہ عظیم خدمت اپنے ہاتھوں میں لی، خوب سنبھالا ، خوب حق ادا کیا.تو ہندوستان کے تعلق میں چونکہ پرانی غیرتیں ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہندوستان میں پیدا ہونا ہے اس محبت کے تقاضے کے طور پر میری دلی خواہش یہی رہتی ہے کہ ہندوستان کو پھر وہ پرانی عظمتیں نصیب ہو جائیں.تو اس پہلو سے وقف جدید بھی ایک ذریعہ بن گئی ہے ہندوستان کی پرانی کھوئی ہوئی عظمتوں کو واپس حاصل کرنے کا تو اس کی طرف آپ متوجہ ہوں اور اللہ تو فیق عطا فرمائے کہ آپ کے اندر کثرت کے ساتھ وہ ولی پیدا ہو جائیں جن ولیوں کا حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کے تصور میں ذکر فرمایا ہے.وقف جدید کا تعلق ولایت سے حضرت مصلح موعودؓ نے رکھا اور جو نقشہ کھینچا ہے اپنے اس روحانی خواب کا وہ یہ ہے کہ جگہ جگہ بڑے بڑے اولیاء اور قطب پیدا ہورہے ہیں.دیہات میں اور گاؤں گاؤں میں رازی پیدا ہو رہے ہیں.تو وقف جدید کی تحریک تو بالکل عمومی ، عام سی ایک دنیا کی نہیں دین کے لحاظ سے پسماندہ دیہات کی تحریک تھی مگر جو مقاصد تھے وہ اتنے بلند تھے کہ گاؤں گاؤں میں رازی پیدا ہوں، گاؤں گاؤں میں اولیاء اللہ اور قطب پیدا ہونے شروع ہو جائیں اور فرمایا آغاز ہی میں آپ نے جو نقشہ کھینچا اپنے دل کا، فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ وقف جدید کے ذریعے گاؤں گاؤں اولیاء اللہ پیدا ہوں اور اس وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ میں خود نگرانی کروں اور باقی تنظیمیں ہیں ان کی طرح نہیں بلکہ براہ راست معلمین پر نظر رکھوں، ان سے رابطہ رکھوں اور جب تک صحت نے توفیق دی آپ بہت حد تک یہ کام کرتے رہے پھر وہ توفیق نہ رہی کیونکہ بہت بیمار ہو گئے تھے مگر یہ آپ کے ارادے اور خواہشات تھیں.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ صدیقیت کا جو ذکر میں نے کیا ہے قرآن کریم کی آیت میں، یہ وہی صدیقیت والا نقشہ ہے جو حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں پیدا ہوا.وہی خواب ہے جو
خطبات طاہر جلد 15 1005 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء آپ نے دیکھا تھا.وقف جدید کا ولایت سے تعلق قائم کرنا اور تعلق قائم رکھنا ضروری ہے.آج ہی سوال وجواب کی مجلس میں کسی نے یہ سوال چھیڑا تو میں نے کہا دیکھیں ہم ولی تو نہیں پیدا کر سکتے کیونکہ ولایت تو صرف اللہ عطا کرتا ہے.صدیق بھی کوئی زور بازو سے نہیں ہوسکتا اللہ ہی عطا کرتا ہے مگر لوگوں کو یاد دلاتے رہنا چاہئے یہ کام ہمارا فرض ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کو پہلے سے بڑھ کر اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ اپنے تمام کارکنوں پر نظر رکھیں اور یہ دیکھیں کہ جن جماعتوں میں وقف جدید کا کام ہورہا ہے وہاں اولیاء اللہ پیدا ہور ہے ہیں کہ نہیں.پس اگر یہ مطمع نظر بنا ر ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ پھر زیادہ بیدار مغزی کے ساتھ ، اپنے ذہن میں اس مقصد کو حاضر رکھتے ہوئے زیادہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسے بندے اس کی نگاہ میں آجائیں اور اس کا وہ قرب حاصل کریں جسے ولایت کہا جاتا ہے.جہاں تک یورپ کی نئی ضرورتوں کا تعلق ہے اس میں وقف جدید کا کوئی خرچ نہیں ہورہا اور نہ نئی تحریک میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ یورپ میں بھی خرچ کیا جائے مگر وہ ضرورتیں بالعموم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چندوں سے پوری ہو رہی ہیں اور جماعت یورپ جو اپنے چندے بڑھا رہی ہے اس کے ساتھ اکثر ان کی بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں.مگر مشرقی یورپ میں ابھی تک جو مشن ہاؤسز کا قیام یعنی جماعتی مراکز کا قیام نئی مسجدیں بنانا یہ ایسے کام ہیں جن کے لئے اب ہمیں نئی مالی ضرورت در پیش ہے اور یہ چونکہ ایسی ضرورت نہیں ہے جو مستقل چندے کی شکل میں جماعت سے طلب کی جائے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ کبھی کبھارا چانک پیدا ہونے والی ضرورتوں کے لئے کوئی تحریک کی جاسکتی ہے اور وہی کافی ہوگی.ہے.اس وقت جو ہمیں زیادہ ضرورت ہے وہ البانیہ میں ہے جہاں بکثرت احمدیت پھیلی.اسی طرح وہ دوسرے مشرقی ممالک جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے توجہ ہو رہی ہے ان میں البانین سپیکنگ دوسری قو میں، دوسرے ممالک میں بستی ہیں پھر بوسنین ہیں ان کی طرف بھی بہت توجہ ہے، ان کی بھی بہت توجہ ہے.ان سب کا بنیادی حق ہے کہ وہاں مساجد بنائی جائیں ، وہاں مراکز قائم کئے جائیں، وہاں تربیتی اجتماعات کا مستقل انتظام ہو اور انہی میں سے معلم تیار کئے جائیں.پس اس سال کے لئے میں جماعت کے سامنے پندرہ لاکھ ڈالر کی تحریک کرتا ہوں اور جیسا
خطبات طاہر جلد 15 1006 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء کہ میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا میں نے یہ نیت کی ہے اللہ تو یہ تو فیق عطا فرما دیتا ہے کہ جو بھی تحریک کروں اس کا سواں حصہ میں خود دوں اور یہ بتانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں بتاؤں کہ میں یہ کر رہا ہوں.یہ مقصد ہے کہ بعض لوگ بوجھ سمجھتے ہیں کہتے ہیں کہ نئی نئی تحریکیں پیش کی جارہی ہیں ان کے دل کی تسلی کے لئے ان کو بتا رہا ہوں کہ میں شامل ہوتا ہوں تو تحریک کرتا ہوں ورنہ میں یہ سمجھتا کہ مجھے حق نہیں تھا.تو اس پہلو سے میرا تجربہ ہے کہ جب بھی زیادہ تحریکیں کی ہیں خدا نے مالی وسعتیں خود بخو د عطا کر دی ہیں تو اس لئے اس معاملے میں مجھے ذرا بھی وہم نہیں کہ میں کوئی ایسا بوجھ ڈال رہا ہوں جس کو جماعت اٹھا نہیں سکتی.یہ جانتا ہوں کہ جب بھی کوئی مزید تحریک کی جاتی ہے اللہ میری وسعت کو بھی بڑھاتا ہے، آپ کی وسعت کو بھی بڑھاتا ہے.تو پھر اگر ضرورت حلقہ ہے اور جائز ہے تو تحریک میں کوئی تر در نہیں ہونا چاہئے.مگر چونکہ عام چندوں کی ذمہ داریاں بہت جماعت نے اٹھا رکھی ہیں اس لئے اس تحریک کو بھی بعض دوسری تحریکات کی طرح اس طرح پیش کر رہا ہوں کہ وہ سب احمدی جو عام چندوں میں حسب توفیق حصہ لے رہے ہیں اور ان کے لئے زیادہ بوجھ اٹھا نا ممکن نہیں ہے وہ محض تبرک کی خاطر کچھ نہ کچھ دے کر اس میں شامل ہو جائیں اور وہ صاحب حیثیت جن کو خدا تعالیٰ نے بڑی توفیق عطا فرمائی ہے وہ اپنی.توفیق کے مطابق خود فیصلہ کریں اور وہ زیادہ تر اس کا عمومی بوجھ اٹھانے کے لئے آگے آئیں.جیسا کہ میرا سابقہ تجربہ ہے یہ انشاء اللہ دیکھتے دیکھتے وعدے وصول ہو جائیں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ پہلے سال دو تہائی اور دوسرے سال اس کا ایک تہائی وصولی کی صورت میں ہمیں مل جانا چاہئے کیونکہ فوری ضرورت جو اس سال کی ہے وہ ایک ملین کی تو لازماً ہے اور بعد کی اگلے سال کی ضرورت چندوں سے بچت کے علاوہ پانچ لاکھ کے قریب ہوگی اور جس رفتار سے چندے بڑھ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ آگے وہ ضرورتیں چندوں ہی سے پوری ہوتی رہیں گی کسی نئی تحریک کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور خاص طور پر اس لئے بھی مجھے امید ہے کہ یورپ میں جو نئے احمدی ہونے والے ہیں ان میں خصوصاً Albanian نسل کے لوگوں میں مالی قربانی کی روح پائی جاتی ہے اور بعض تو ایسے ہیں جو بڑے زور اور اصرار کے ساتھ پوچھ پوچھ کے کہ باقی کیا دیتے ہیں ہم سے وہ سب کچھ لو خود دینے کے لئے آگے آتے ہیں.تو بہت ماشاء اللہ حیرت انگیز قربانی کا جذبہ ہے جو
خطبات طاہر جلد 15 1007 خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1996ء Albanian نسل کے لوگوں میں پایا جاتا ہے.پس جب یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے، جب ان کی توفیق بڑھے گی تو یہ بعید نہیں کہ آئندہ چند سالوں میں بجائے اس کے کہ باہر سے مددلیس خود باہر کے دوسرے علاقوں کے لئے مددگار بن جائیں.تو ان امیدوں کے ساتھ ، ان دعاؤں کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.ان توقعات کے ساتھ جو ہمیشہ اپنے دائروں سے بڑھ کر پوری ہوتی ہیں.توقعات کے جو دائرے ہمارے ہوتے ہیں ان میں ہمیشہ ان سے بڑھ کر پوری ہوتی ہیں ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات پر پورا تو کل کرتے ہوئے اس نئے سال میں داخل ہوتے ہیں جو وقف جدید کا بیالیسواں سال ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جیسا کہ شکر کا حق ہے شکر کی طرف بھی توجہ آپ کریں گے کیونکہ جب فضل بڑھیں اور شکر پیچھے رہ جائے تو یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ توازن کا بگڑنا ہے.شکر ساتھ ساتھ بڑھنا چاہئے اور اس احساس کو دل پر قبضہ کر لینا چاہئے کہ ایک ایسے حسن سے واسطہ ہے جس کا جتنا بھی شکر کریں اتنا زیادہ احسان ہو جاتا ہے کہ سنبھالا نہیں جاتا.اس لئے ہمیشہ ہم پیچھے رہتے ہیں کبھی شکر میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور یہ احساس ہی ہے جو شکر کی طاقت بڑھاتا ہے، ذکر کی طاقت بڑھاتا ہے خدا کی یاد میں پیار پیدا کر دیتا ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی اپنے فضلوں کے ساتھ جماعت کو ہمیشہ یہی توفیق بخشے گا کہ وہ جیسا کہ شکر کا حق ہے شکر کا حق ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی یادوں سے دل کو نور عطا کرتے ہوئے اس میدان میں ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 15 (1996)
اشاریہ 3 خطبات طاہر جلد 15 آنا آئن سٹائن آئن سٹائن ایتھر کا قائل ہے اشاریہ متعلق پروگرام میں آپ کی نمائندگی آنحضرت کے خلاف ایک اسرائیلی نمائندہ کی امریکہ کے 781 790 بین الاقوامی پروگرام میں گستاخی اور آفتاب احمد خان صاحب آئینہ کمالات اسلام 329,177,149 | آگ آثار ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی یادگاروں کا فضائی پولوشن سے خراب ہونا آدم آدم کو فرشتوں کے سجدہ سے مراد 903 کے جواب پر اس کا معافی مانگنا آگ پر چلنے والے بعض صوفی آگ سے بچنے کی دعا کی علامتیں 363 سیدہ آمنہ طیبہ 168,290,291 ان کی وفات پر ان کا ذکر خیر 782 598 838 252 آدم کو نیک و بد کا اختیار آدم کو سجدہ کی تعلیم فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا اور شیطان کی سرکشی آزادی حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک انگریزوں سے آزادی کا گر بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں نظام جماعت کے ساتھ عدل سے آزادی کا حصول نظام کی غلامی میں آنا آزادی کا پیغام ہے 597 277 171 277 298 425 426 آیات قرآنیہ الفاتحة الحمد لله رب العلمين (2) اهدنا الصراط المستقيم (6) اهدنا الصراط المستقيم (7-6) البقرة هدى للمتقين (3) ومما رزقنهم ينفقون(4) واستعينوا بالصبر والصلوة(45) نام نہاد آزادی اور ایک احمدی کے غلام ہونے کا غلط تصور اور ثم قست قلوبكم (75) اس کی صحیح آسٹریلیا آفتاب احمد خان صاحب آفتاب احمد خان صاحب کی وفات پر ان کا ذکر خیر ان کی وفات کی اطلاع اور تذکرہ سے ایک الہام کا ذکر ان کا دل دکھانے والوں کے لئے دعا کی تحریک 423 317 253 771 776 785 احاطت به خطيئته (82) وارنا مناسكنا (130) اسلم (131) لكل وجهة (149) انا لله وانا اليه راجعون(157) يايها الذين امنو كتب عليكم (185-184) اياما معدودات (185) امریکہ میں مسلمانوں اور یہود کے تعلقات کو بہتر بنانے کے شهر رمضان الذي (187-186) 581 23 806 595 568,717 685,688 985 731 535 796 677,994 186 61,99 79 41,119
خطبات طاہر جلد 15 182-183,234,632 83-84,769 801 209,213 212,261 21 906 187 971 485 242,243,651 687 456,573 495 694 711 875 883 282 584 184 632 4 ولا تسبوا الذين (109) قل ان صلاتی و نسکی (163) انا اول المسلمين (164) الاعراف كلوا واشربوا (32) قل من حرم زينة الله (33) الذين يتبعون الرسول (158) ولوشئنا لرفعناه بها (177) واملى لهم (184) خذ العفو (201-200) الانفال وما رميت اذ رميت (18) التوبة ان الله اشترى (111) كونوا مع الصادقين (119) عزیز عليه ما عنتم (128) لقد جاء کم رسول (129-128) يونس ثم استوى على العرش (4) انما مثل الحيوة الدنيا (25) والله يدعوا الى دار السلام (26-25) 126,363,371,801 313,373 589 يدبر الامر (32) قولهم ان العزة لله (66) هود ويعلم مستقرها ومستودعها (7) يوسف انما اشكو بثي (87) فربكم اعلم بمن هو اهدى (109) الرعد 79 965 657 280 669 583,835 269 458,478 ان الله لا يغير ما بقوم (12) ابراهيم قل لعبادي الذين امنوا (32) الحجر وان من شيء الا عندنا (22) 575 519 606 613 994 571 953 456 235 881 863 823 117,687 686 591 593,613,648 154 220 له ته 21 221 141 913 اشاریہ واذا سالک عبادی (187) ربنا اتنا في الدنيا حسنة (202) ان الله يحب التوابين (223) كم من فئة قليلة (250) تلک الرسل فضلنا (254) ولا يحيطون بشيء من علمه (256) رب ارنی كيف تحى الموتى (261) لا نفرق بين احد (286) آل عمران شهد الله ان لا اله الا هو (19) قل ان كنتم تحبون الله (32) من انصارى الى الله(53) ولتكن منكم امة (105) كنتم خير امة (111) موتوا بغيظكم (120) واطيعوا الله والرسول (135-133) ولو كنت فظا (160) فبما رحمة من ا الله (161-160) استجابوا الله والرسول (173) ان الله فقير (182) ان في خلق السموات (195-191) ربنا اننا سمعنا مناديا (194) النساء مع الذين انعم ا الله عليهم (70) ما لهم به من علم (158) المائدة يايها الذين امنوا لا تحلوا (3) قد جاء كم من الله نور(16) ياهل الكتب قد جاء كم (17-16) يايها الذين امنوا لا تتخذوا (59-58) الانعام وذر الذين اتخذوا دينهم (71) عذاب يوم عظيم (16) قد جاء كم بصائر (107-105)
خطبات طاہر جلد 15 39,420 475 308 159 154 691,841 181 190 534 673 729 534 767 435,787,810 90 961 635 119 275,295 257 775,961-962 555 589 الشعراء 5 168,426 لعلک باخع نفسک (4) 715 | فلا تدع مع الله (221-214) الاحزاب فمنهم من ينتظر (24) يايها النبي انا ارسلنک (47-46) وداعيا الى الله (47) يايها الذين امنوا اتقوا (72-71) وحملها الانسان (73) سبا ان اجرى الا على الله (48) الزمر تقشعر منه جلود (24) قل يعبادي الذين (54) قل يعبادى الذين أسرفوا (55-54) والسموات مطويت (68) وما قدروا الله حق قدره (71-68) حم السجدة ومن احسن قولا (34) الشورى ليس كمثله شيء (12) فمن عفا واصلح (41) الزخرف في الخصام غير مبين (19) الدخان حم والكتاب المبين (8-2) الجاثية افرء يت من اتخذ الهه هواه (24) افرءيت من اتخذ (25-24) الفتح محمد رسول الله (30) الذريت هل ایک حدیث ضیف (28-25) انا لموسعون (48) 413 416 638,876 88 287,288 289 172 148 631,834 39 225 501 231 905 229 230 333 825 اشاریہ فاذا سويته ونفخت (30) النحل اتی امر الله (2) ضرب الله مثلا عبدا (76) وضرب الله مثلا رجلين (77) ادع الی سبیل ربک (126) اسرای بعبده لیلا (2) بنی اسراءیل وات ذا القربى حقه (27) ان المبذرين كانوا (28) من كان في هذه اعمى (73) جاء الحق وزهق الباطل (82) قل كل يعمل على شاكلته (85) فلعلک باخع نفسک (7) واصبر نفسک (29) فمن شاء فليؤمن(30) الكهف افحسب الذين كفروا (105-103) مریم طة والسلام على يوم ولدت (34) ان الساعة آتية (16) فلا يصدنك عنها (17) الحج ليشهدوا منافع لهم (32-29) المؤمنون فتبرک الله (15) النور الله نور السموات (36) 32,162,381,486,879 217,259 179,197 230 389 والذين كفروا اعمالهم كسراب (40) والذين كفروا اعمالهم (41-40) الفرقان ارءيت من ا اتخذ الهه (44) والذين لا يشهدون الزور (73)
خطبات طاہر جلد 15 الانشقاق يايها الانسان انک کادح (7) 149 الفجر يايتها النفس المطمئنة ( 31-28) ارجعی الی ربک (29) 906 900 البلد وتواصوا بالصبر (18) 625 الم نشرح فان مع العسر يسرا (69) 57 القدر خير من الف شهر (4) من كل امر سلام (56) 128 126 هي حتى مطلع الفجر (6) 129 التكاثر الهكم التكاثر (3-2) 301 الهمزة ويل لكل همزة (4-2) 265 الماعون فويل للمصلين (56) 581 النصر اذا جاء نصر الله (4-2) 700 الفلق ومن شر حاسد اذا حسد (6) 571 ابتلا 721 736 562 931 795 33 151 535 634 895 88 866 859 989 199,297,301 749 262 565 326 813 اشاریہ خلق الانسان (5-4) الرحمن كل من عليها فان (31-27) كل يوم هو في شان (30) الواقعة ثلة من الأولين (15-14) الحديد من ذا الذي يقرض (13-12) ان المصدقين والمصدقت (1920) اعلموا انما الحيوة الدنيا(21) سابقوا الى مغفرة (22) يبتغون فضلا من الله ) (9) الحشر ويؤثرون على انفسهم (10) الصف هل ادلكم على تجارة (11) الجمعة هو الذي بعث في الاميين (3) المنافقون اذا جاءك المنفقون (2) واطيعوا الله (15-13) التغابن القلم انک لعلی خلق عظیم (5) يايها المدثر (6-2) ولا تمنن تستكثر (7) المدثر 578 933 925 507,508 487,504,510,924,964 512 ولربک فاصبر (8) القيامة بل الانسان على نفسه (16-15) فجعلنه سميعا بصيرا (3) لا نريد منكم جزاء (10) الدهر ابتلاؤں اور آزمائشوں کے وقت انا للہ کا مضمون ابتلاؤں، آزمائشوں اور گناہوں کے آنے کا وقت انسان کے بس میں نہیں، ان سے بچنے کا طریق حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم کا مکہ کو رونقیں بخشا 634 ابراہیم اور دیگر انبیاء کے مسلمان ہونے سے مراد ابراہیم پر آگ کا ٹھنڈا ہونا 310 ابراہیم کا اللہ سے مردہ زندہ کرنے کا گر سیکھنا 486,965 ابراہیم کا خدا سے قربانیوں کے اسلوب پوچھنا
اشاریہ ابراہیم کا مر وہ زندہ کرنے کا طریق سیکھنا ابراہیم کی مہمان نوازی کا انداز ابراہیم کی ہجرت 7 خطبات طاہر جلد 15 269 ابوہریرہ 64,65,69,71,73,110,112,523 558 525,563,624,778,842,908,947,975,977 930 احساس کمتری ابراہیم کے پاس جو فرشتے آئے وہ انسان تھے آنحضرت کے حق میں ابراہیم کی دعا کا قبول ہونا 813 134 اس کا نتیجہ احسان ابراہیم اور آنحضرت کی ہجرت اور بدی سے ہجرت کا فلسفہ 930 ابراہیم بن سعد ابن ابی قحافہ صحیح ابن حبان حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر سنن ابن ماجه حضرت ابن مسعود احسان کی غرض اثر ورسوخ بڑھانا نہ ہو احسان کی وضاحت 106 | احسان کے وقت انسان کی کیفیت 250 احسان کے وقت مومن کا شکریہ کا انداز احسانات پر خدا کا شکر ادا کریں 792 اللہ کے احسانات کو کھینچنے کا ذریعہ 106 ایک تمثیل کے رنگ میں عدل اور احسان کا ذکر 132,724 - تقوی کی ترقی یافتہ حالتیں احسان ہیں 73,130,201,522 979 11 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب آنحضرت کے احسانات پر نظر ڈالیں تو بے اختیا ر روح سے آواز میں اٹھیں گی زیادہ حاصل کرنے کے لئے کسی پر احسان نہ کرو احمدیت 283 510 558 924 965 568 602 421 963 628 964 مولا نا ابوالمنیر نورالحق صاحب 11 احمدی بچے پیدا کر کے اور تبلیغ کے ذریعہ خوب نشو ونما پائیں 309 18 احمدی معاشرہ میں انڈین فلموں کا اثر 340 نماز جنازہ کا اعلان اور اُن کا ذکر خیر قادیان میں 1943ء میں تعلیمی کمیٹی انجمن کا قیام اور احمدی نظام ہر جگہ مستعد ہو، فحشاء کی بیماریوں کے حوالہ سے 350 مولوی صاحب با وجود کم عمری کے اس کے ممبر تھے 19 احمدیت انقلاب پیدا کرنے کے لئے آئی ہے احمدیت بعض علاقوں میں پھیلی مگر پھر ختم ہو گئی ، اس کی وجہ باپوں آپ پر حضرت مصلح موعود کا خاص دست شفقت پر 18 کا اپنی بیویوں کے اندر تبدیلی نہ پیدا کرنا تھا جس کے نتیجہ میں حضرت ابوبکر صدیق 390,425,665,776 | نئی نسل دور ہوتی گئی حضرت عائشہ پر بہتان کے نتیجہ میں حضرت ابوبکر کا احسان کا سلوک احمدیت کا تبلیغ کے ایک نئے دور میں داخل ہونا چند لوگوں سے بند کرنا اور اللہ کا ایسا کرنے سے منع کرنا 470 احمدیت کا ہر آنے والا سال گزرے سال سے لازماً بہتر 249 احمدیت کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ سب سے مضبوط اور 801 819 644 9 آنحضرت کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر کا لشکر شام کے ہو گا چاہے کتنی ہی تکلیفیں کیوں نہ ہوں حوالہ سے صحابہ سے مشورہ لینا اور پھر آپ کا فیصلہ آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کا تو کل 250 طاقتور نظام ایم ٹی اے کا دیا گیا ہے حضرت امام ابو حنیفہ احمدیت کو اللہ نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرانا چاہتا ہے 929 317 بارش میں ایک بچہ کو صیحت کہ دھیان سے چلو، اس کا جواب 668 جماعت کو ہندوستانی حالات کے حوالہ سے دعاؤں کی تلقین 365 احمدیت کی بقا کی قطعی ضمانت دینے والی چیز حضرت ابوسعید خدری ابوظہبی 65 احمدیت کی بقاء کی ضمانت پر مشتمل تین باتیں 78 احمدیت کی ترقی و مضبوطی اور وحدت کا ایک ذریعہ 396 619 241
اشاریہ 8 خطبات طاہر جلد 15 احمدیت کی ترقی کی رفتار کے لئے دعاؤں کی ضرورت 696 میں پسند نہیں کرتا کہ جماعت غافلین کی جماعت ہو 923 ہماری زندگی ، بقا اور قوموں کی اصلاح کا راز احمدیت کی سربلندی میں اخلاق حسنہ کا کردار احمدیت کی صداقت کا ثبوت، زندہ رسول سے تعلق کے نتیجہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب، تمدن ، طرز زندگی پر حملہ ہونے میں زیادہ شان کا اظہار احمدیت کی صداقت کی دلیل 156 611 10 والا ہے، احمدیت کو ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی 365 638 یورپ میں بسنے والے احمدی بچوں کے لئے مذہب کے حوالہ احمدیت کی طرف ایک بھٹکے ہوئے شخص کا دوبارہ آنا 821 سے تضادات احمدیت کی عالمی یک جہتی کو بڑھانے کے لئے دعا کی تلقین 916 اللہ احمدیت کو اور نوبل لا ر کیٹ عطا کرے احمدیت کی وسعت اور تربیت کی ضرورت 843 902 496 امریکہ کے ایک احمدی نوجوان کو بے پناہ سیلری والی جاب کا ملنا 863 احمدیت کے اعلیٰ اخلاق و اقدار پر قیام کے لئے حضور کی تڑپ 464 تربیت کے حوالہ سے جماعت کے تقاضوں کا تبدیل ہونا 540 احمدیت کی بقا کے حصول کا طریق احمدیت کے دنیا پر غالب آنے کا طریق احمدیت کے صاحب امر بننے کا طریق 471 جماعت پر خدا کے فضلوں کے نتیجہ میں حسد کا بڑھنا 571 686 جماعت کے سامنے تربیت کے حوالہ سے ایک عالمی جہاد 737 617 جماعت کے نو نہال آپ کو جو ضائع ہوتے دکھائی احمدیت کے قیام کا مقصد، اخلاق حسنہ کی قوت کو پیدا کرنا 927 دے رہے ہیں ان کی فکر کریں 274 احمدیت میں زندگی کی علامتیں تب تک زندہ رہیں گی جب جماعت کے وقار کے خلاف بات لازماً اولوالامر لوگوں تک پہنچاؤ 626 10 دنیا بھر میں جماعتوں کی تعداد 152 سے اوپر ہے تک روحانیت زندہ ہے اور خدا کا تعلق زندہ رہے گا احمدیت میں فوج در فوج لوگوں کا داخل ہونا ایک عظیم انقلاب دنیا کی اصلاح کا بیڑا اجماعت کے سپرد، بہت بڑی ذمہ داری کی نشانی ہے 995 720 25 943 361 802 569 | اس کے تقاضے افریقہ میں عیسائیوں کے نواحمد یوں کو دوبارہ عیسائی روحانی جماعتوں کی طاقت کا راز امرالہی میں مضمر ہے بنانے کے پروگرامز اور MTA کے ذریعہ ان کی واپسی 846 کسی کو جماعت سے الگ رکھنا میرے لئے تکلیف کا موجب بنگلہ دیش میں طلباء کا بحث کے لئے مربی صاحب سے ہوتا ہے، کسی کی غلط ضد کو تسلیم کرنا عفو کے اندر نہیں احمدیت کے دلائل پوچھنا اور اُن کا سچ سچے دل سے قائل ہونا 191 احمدیوں پر مذہب کی وجہ سے پاکستان میں مظالم جماعت احمدیہ کے پھیلنے کا مہمان نوازی سے گہرا تعلق 676 احمدیوں کیساتھ پاکستان میں ظالمانہ سلوک جماعت احمدیہ کی طاقت کا راز 281 نام نہاد آزادی اور ایک احمدی کے غلام ہونے کا غلط تصور اور اس کی تصحیح جلسہ سالانہ کے موقع پر البانیہ کے ایک عالم کا جماعت کے ایک ہونے پر تعریف کرنا حضرت اقدس کا کشتی نوح میں بار بار فرمانا کہ یہ بھی، وہ بھی اذان میری جماعت میں نہیں ، اس سے مراد خدا کی خاطر خاموشی سے مالی قربانی کرنے والی جماعت 321 ارتقاء مختلف ممالک کے احمدیوں کو خواہیں آنا فضل کی علامت 133 ارتقاء کے عام نظریہ کی تردید ضیاء الحق کا 26 اپریل 84ء کو ظالمانہ آرڈینینس جماعت کے خلاف جاری کرنا کسی تجربہ کار شخص کا ایک احمدی کو کہنا کہ فلاں بات سچ نہ بولنا، اُسی جھوٹ کی وجہ سے اس کو نوکری نہ ملنا 607 اخلاق انجم صاحب مربی سلسلہ 423 911 738 حضرت عمرؓ کو اذان کے الفاظ خواب میں بتائے گئے 134 313 192 اصلاح کے بغیر کوئی ارتقاء ممکن نہیں دماغی کام کے حوالہ سے ایک ارتقاء سائنسدانوں کا دریافت کرنا کہ ارتقاء کا جو وقت انہوں نے لوگوں کے کثرت سے آجانے پر قرآنی تعلیم 701 دیکھا ہے وہ ارتقاء کے لئے کافی نہیں 586 701 694 699
اشاریہ 9 خطبات طاہر جلد 15 انسانی ارتقاء کی کہانی ایسی جگہوں پر مرتسم ہے کہ بصیرت ہو تو بعض کا کہنا کہ اسلام بڑا پا بندیوں اور مصیبت والا مذ ہب ہے 30 681 سارے عالم اسلام کی تجارت میں اضافہ کے باوجود اس کے آثار پڑھے جاسکتے ہیں حضرت اسامہ بن زید استخاره 249,511 صرف اسرائیل کو روکنے کی جرات نہیں اسلام آباد اسلام آباد میں سب سے زیادہ بت پرست ہیں اسلام آباد ٹلفرڈ اسلامی اصول کی فلاسفی استخارہ کے جواب میں کسی کو خواب نظر آنے پر حضور کا ارشاد 134 شادی کے وقت استخارہ کا صحیح طریق استغفار 134 استغفار کا سب سے زیادہ موقع یہ ہے کہ اللہ نفس کے ایسے اشفاق احمد صاحب دھوکے سے بچائے کہ جب اندھیرے کو روشنی دیکھنے لگ جائیں 193 اصلاح 800 17,18,1003 406 575 641,647 18 آنحضرت کا ستر بار استغفار کرنا آنحضرت کو کسی کی غلطی پر استغفار کی تعلیم انبیاء کے استغفار کا طریق اسرائیل 661 اصلاح کا ایک طریق ، حدیث کی رو سے اصلاح کا ایک مسلسل نظام 245 661 اصلاح کے بغیر کوئی ارتقاء ممکن نہیں 625 621 701 دنیا کی اصلاح کا بیڑ ا جماعت کے سپرد، اس کے تقاضے 720 271,554 ساری کائنات میں مصلح اعظم اسرائیل میں رمضان کے حوالہ سے ریسرچ کہ یہ بچوں اور عفو کی اجازت اصلاح کی خاطر ہے بڑوں کے لئے نقصان دہ ہے مگر اسکا حیرت انگیز نتیجہ 75 غصہ ضبط کرنے کا اصلاح سے تعلق اسلام اسلام ایک کامل مذہب 624 943 961 قول اور قول سدید کا تربیت اور اصلاح نفس سے بہت تعلق ہے 849 30 قول سدید کے ساتھ اصلاح کا وعدہ اسلام پر عیسائیوں کا حملہ با وجود اس کے کہ ان کے عقائد ہماری زندگی ، بقا اور قوموں کی اصلاح کا راز 843 اطاعت بھیانک نا معقول ہیں اسلام کی اشاعت کے میدان میں ہمیں اذن الہی سے جھونکا اطاعت جن کی کرنی ہے، ان کی ذمہ داریاں 703 611 478 گیا ہے اسلام کی ترقی کی تمام بند راہوں کو کھولنا ہے 80 کی عادت نہیں اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز 799 | اطاعت کا رحمت سے تعلق 160 اطاعت سے باہر رہنے والے وہی ہیں جن کو نیکیوں میں تعاون اسلام میں زبر دستی والا مولویوں والا تصور ہر گز نہیں ہے 605 اطاعت کا نام نیکی ہے اسلامی نظام میں پارٹی کا کوئی وجود نہیں 237 اطاعت کرنا ایک مشکل کام ہے چندہ کے حوالہ سے مغربی ممالک نے اعتراض نہیں کیا کہ اطاعت کروانے کا ایک ہی رنگ ہے 597 956 63 500 506 ہما را چندہ دوسروں پر کیوں خرچ کیا جارہا ہے ، اس حوالہ اطاعت کروانے کے حوالہ سے شرک کا مضمون 509,510 سے اسلام کی عالمگیریت کا ذکر ڈکٹیٹر شپ کی اسلام میں تردید رمضان اور شریعت کے اوامر و نواہی 996 | اطاعت کی اہمیت وضرورت 461 614 اطاعت کی خاطر دشمنی مول لینے والے کے لئے برکات 491 43 اطاعت کی روح اختیار کرنے کی تلقین 606 515 ناروے میں اسلام کے پیغام کے لئے حضور کے دل میں تڑپ 824 اطاعت کے مختلف دائرے ہندوستان میں اسلامی تہذیب، تمدن طرز زندگی پر حملہ ہونے اطاعت کے نمونہ کے طور پر زار روس کے ایک افسر کا واقعہ جس والا ہے، احمدیت کو ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی 365 نے شہزادے کو اندر نہ جانے دیا کیونکہ بادشاہ نے منع کیا تھا 489
اشاریہ اطاعت میں جذبہ فدائیت اطاعت میں آزادی کا مضمون 10 504 | مرزا اظہر احمد صاحب خطبات طاہر جلد 15 29,254 اطاعت وہ ہے جو پیار اور محبت کی ہو 501 819 حقیقی اور سچی اطاعت جو انسان کو ابتلاؤں سے بچاتی ہے 445 خشک منطقی اطاعت کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں اللہ کی اطاعت میں برکت 502 اعتکاف اعتکاف کو ایک دن پہلے شروع کرنے کی وجہ افریقہ 102 203,544,672,796 478 افریقہ اندھیری جگہ ہے حالانکہ اس کے اندر بڑے نور ہیں 346 امیر کی اطاعت سے بہانے بنا کر باہر نکلنے والوں کو تنبیہ 281 افریقہ کے اکثر ممالک میں جھوٹ سے برا حال ایک امیر کے شفقت اور رحمت کے تقاضے پورے نہ کرنے کا نقصان اطاعت میں کمی کی صورت میں 459 390 افریقہ کے لئے وقف جدید کا چندہ مختص کرنے کی وجہ 990 بعض دہریوں کے ان کی مدد کرنے کی وجہ ایک امیر کے آگ میں کودنے کے حکم پر آنحضرت نے افریقہ میں بہت سی خوبیاں ہیں فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرتے تو آگ میں جلتے بیعت میں اطاعت کے اصرار کی وجہ 602 346 515 افریقہ میں تبلیغ کے حوالہ سے مربیان کا ٹیمیں بنا کر نکلنا 408 475 افریقہ میں تربیت کے لئے ڈش انٹینا اور مساجد کی تعمیر کی تلقین 997 جماعت کی طاقت کا راز فرشتوں کی اطاعت میں ہے.281 افریقہ میں ڈش انٹینا کے حوالہ سے حضور کے نمائندہ کا جانا 997 456 افریقہ میں عیسائیوں کے نواحمدیوں کو دوبارہ عیسائی بنانے 846 خدمت اور اطاعت کے اعلیٰ نمونہ لینے کا صحیح طریق خلیفہ اسیح کی ناراضگی کے اظہار پر بیوی کا کچھ کہنا اور حضور کا کے پروگرامز اور ایم ٹی اے کے ذریعہ ان کی واپسی MTA کے حوالہ سے افریقہ میں عارضی انتظام میں روک 316 افریقی ممالک کی امیر اقوام کی لوٹ مار کی وجہ سے حالت 924 افغانستان کے ایک وفد کا خفی طور پر آنحضرت کی خدمت میں آنا 453 467 کہنا کہ تم سے کاٹ کے خلیفہ وقت کا ہو کے رہوں گا ڈکٹیٹرشپ اور اللہ کے ماموروں کی اطاعت میں فرق 501 سچے دل سے نظام کی اطاعت اور فیصلہ کے سامنے سر جھکانے والے نقصان میں نہیں پڑتے صحابہ کی اطاعت کے بے مثال نمونے 431 اقتصادیات 457 قوموں کی مالی استطاعت کے حوالہ سے یونائیٹڈ نیشنز کا جاری عہدیداران کے لئے احباب سے اطاعت کروانے کا گر 461 کرده رساله 607 ہندوستان اور برطانیہ میں اقتصادی لحاظ سے فرق 15 15 607 1005 نظام جماعت کی بقا اطاعت پر منحصر ہے نو مبائعین کو اطاعت کے آداب سکھانے کی ضرورت 496 البانیہ آنحضرت کی اطاعت قیامت تک کے لئے کرنے کا حکم 496 البانیہ میں تربیت کے لئے مساجد کی تعمیر کا ذکر آنحضرت کی اطاعت میں جذبات کو ایک گہر ادخل ہے 502 البانیہ میں رواج کہ بعض صوفی رعب کی خاطر کوئلوں پر چلتے ہیں 598 اسلامی اطاعت کا تصور ڈکٹیٹر شپ سے بالکل الگ ہے 497 البانیہ میں نو مبائعین کے سامنے احمدیت کا عملی زندہ کانہ ہونا 450 ایک صحابی کے قتل سے قبل محبت اور اطاعت کا عالم بہترین اطاعت خدائی حکم کے تابع کسی انسان کی اطاعت اس وجود کی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت ہے سجدہ میں کامل اطاعت کا مضمون 503 البدر 619 الجامع الصغير 276 426 الجيريا السمو آل بن غريض قرآن میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم 66 الفضل روزنامه 985 72 778 773 784 معروف اطاعت سے مراد معصیت کی اطاعت نہ کرنے کی تعلیم 614 اللہ تعالیٰ 515 اللہ اور انسان کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو 376
اشاریہ خطبات طاہر جلد 15 اللہ اور اس کے رسول کی آواز کانوں میں پڑنے پر دل کی کیفیات اللہ کا نور اندھیروں سے شکست نہیں کھا سکتا بتادیتی ہیں کہ کتنا آپ پر بوجھ ہے اور کس حد تک آپ آزاد ہیں 28 اللہ کا لن دیکھ کر آواز دینے والے کے ایمان میں اور ہی اللہ اور انسان کی ذات میں بعد ختم کرنے کا طریق اللہ بطور الكبير المتعال اللہ بطور سلام اللہ بطور عالی اور کبیر اللہ بطور ولی اور شفیع 379 شان پیدا ہوتی ہے 234 837 356 اللہ کا ہر روز نے علم کے ساتھ اپنے بندوں پر ظاہر ہونا 578 877 اللہ کو اپنے بندوں کا احساس 506 980 اللہ کو اس دور میں حسن کی تلاش ہے جو وہ خود ا کٹھے کر رہا ہے 883 223 | اللہ کو پانے کا طریق 379 اللہ پر ایمان کے اندر ہی رسالت پر ایمان ہے 792 اللہ کو پانے کے دو ذریعے ، آفاقی اور اپنے انفس میں دیکھو 584 731 اللہ کو تحفے دینے والے مشورہ دینے کے زیادہ اہل ہیں 245 اللہ پر بدظنی کا مضمون اللہ پر توکل کا ایک مفہوم 249 اللہ کو قرضہ حسنہ کی کیا ضرورت ہے اللہ تعالیٰ بطور عالم الغیب والشہادۃ اور الكبير المتعال 372 اللہ کو قرضہ حسنہ کے طور پر مال دینے کا فائدہ اللہ تعالیٰ کا انسان کی حفاظت کا انتظام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رفیق اللہ تعالیٰ کے شعائر کی حرمت سے مراد اللہ تک پہنچنے کی راہ اللہ تمام حکمتوں کا سر چشمہ ہے 373 اللہ کی ازلیت اور ابدیت کی حقیقت 983 اللہ کو مغفرت سے عاری سمجھنے کا نقصان 335 اللہ کی اطاعت میں برکت 174 اللہ کی انسان کی اداؤں پر پیار کی نظر 860 868 898 659 478 760 632 اللہ کی بخشش کا وہ مضمون جو صرف عارف باللہ سمجھ سکتا ہے 662 399 اللہ کی تخلیق کے حوالہ سے سائنسدانوں کا ایک جگہ آ کر کھڑے اللہ سچ کا سر چشمہ ہے اللہ سے استفادہ کئے بغیر کوئی وجود نہیں رہ سکتا 162 ہو جانا کہ اس کی کنبہ کو سمجھ نہیں پارہے اللہ سے ایک قسم کی یکسانیت پیدا کرنے کا طریق 381 اللہ کی تقدیر اور تدبیر اللہ سے تعلق جوڑنے کا طریق اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی زینت اللہ سے سچا تعلق صادق کا ہوتا ہے اللہ سے صافی تعلق پیدا کرنے کا فائدہ 681 883 889 اللہ کی حدود کو قائم کرنے والے اور توڑنے والوں کی مثال 604 212 اللہ کی خاطر تعاون 398 اللہ کی خاطر جھکنے کا نتیجہ 602 480 384 اللہ کی خاطر ضبط کے نتیجہ میں رضائے باری تعالیٰ کا حصول 969 اللہ سے کلی طور پر تعلق توڑنے والے کی بری حالت 764 اللہ کی خاطر ہجرت کا مضمون اللہ کا انسان کو عدم کے ظلمت خانہ سے باہر نکالنا 161 اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان انسان کا دل اللہ کا انکار کرنے والوں کے اعمال سراب کی طرح ہیں 259 اللہ کی ذات میں بے پناہ لذتیں اللہ کا خلق میں کمال حسن اللہ کا توکل کے باوجود دعاؤں کا حکم اللہ کا سپاہی بننے کا طریقہ جاننا بھی لازمی ہے اللہ کا عدل 697 825 686 651 715 557 اللہ کی راہ میں محبت اور عشق کے جذبہ سے خرچ کریں 330 اللہ کی رحمت کی وسعت، حدیث کی روسے اللہ کی رضا کی عزت دائمی ہے 421 اللہ کی رضا سچائی کا دوسرا نام ہے 532 900 417 اللہ کا عرفان بڑھنے سے اس کی قربت میں ترقی ہوتی ہے 86 اللہ کی ستاری کا پردہ نکال باہر کرنا قول سدید کے خلاف ہے 704 اللہ کا فضل سچائی کے نتیجہ میں ملتا ہے اللہ کا قرآن میں تالیف قلب کی ہدایت دینا اللہ کا لغو قسموں سے اعراض کرنا ، حکمت 761 اللہ کی ستاری کا پردہ اللہ کی شان تمجید کا اظہار 392 اللہ کی صناعی کا ایک مقصد ہے، یہ باطل نہیں 678 626 227 829
اشاریہ اللہ کی صناعی کے شاہکار کا زمین کے ہر حصہ پر نظر آنے جہاں پہلے انسان کو علم بھی نہ تھا 826 12 اللہ کے قریب ہونے سے مراد خطبات طاہر جلد 15 81,82 اللہ کے نمائندوں کو جرات اور سر بلندی نصیب ہوتی ہے 173 اللہ کی طرف بلانا ہر نیکی کی طرف بلانے پر حاوی ہے 618 اللہ کے وجہ میں انسان کی لذتیں اللہ کی طرف بلانا ، دعوت الی اللہ کا محور اللہ کی طرف سے انسان کی حفاظت اللہ کی قدر سے بنی نوع کی غفلت 226 876 اللہ کا ہماری دوضرورتیں پوری کرنے کے لئے مال طلب کرنا 2 758 721 193 اللہ کی طرف بلانے کے لئے عالمی صفات کا ہونا ضروری ہے 794 اللہ نے اپنے نام کو اعظم کے طور پر پیش نہیں کیا 382 اجلاؤں اور آزمائشوں کے وقت انا اللہ کا مضمون 767 حضرت ابراہیم کا اللہ سے مردہ زندہ کرنے کا گر سیکھنا 151 980 اللہ نفس کے دھوکے سے بچائے 576 امتوں کو خدا کا اپنا جانشین بنانا ، اس کی مثال آیت استخلاف 615 768 انبیاء کا خدا کی ہستی کی خاطر قربانیاں دے کر اس کی طرف بلانا 444 418 انسانی استطاعت ختم ہونے پر اللہ کی استطاعت سے پیوند 708 اللہ کی قربت سے آگ کا حرام ہونا اللہ کی گواہی سے مراد اللہ کی مالکیت کی جلوہ گری اللہ کی محبت اور اس کا خوف 56 532 اللہ کی محبت کے حصول کا طریق، حدیث کی رو سے 527 انسان کی اللہ کی فطرت کے مطابق پیدائش سے مراد 307 خدا سے تعلق ٹوٹنے پر ایک ماں کی بچہ کے لئے بددعا 372 باوجود نیک ہونے کے آجکل لوگوں کو خدا میں دلچسپی نہیں 440 اللہ کی نظر میں رکھنے سے نجات کا حصول اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں اللہ کی ہستی کا ثبوت کا ئنات کی تخلیق اور نظام کے حوالہ سے 700 تقدیر الہی کے بغیر کائنات ور بوبیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے 726 تقویٰ کی زندگی گزارنے والوں کی اللہ دو طرح مدد کرتا ہے 744 اللہ کی ہستی کی دلیل اللہ کے احسانات کو کھینچنے کا ذریعہ 80,81 602 مختلف ممالک کے احمدیوں کو خوا ہیں آنا خدا کا فضل ہے 133 اللہ کے امر سے ہی طاقت اور قوت ملتی ہے 285 خدائی حکم کے تابع کسی انسان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے 276 889 دنیا سے بے نیاز ہونے پر خدا کی محبت کا حصول اللہ کے بندوں کی خوبیاں اللہ کے جمال اور جلال کا جلوہ دائمی ہے اللہ کے خزانوں میں کمی نہ ہوگی 530 897 رسول کی رضا کامل طور پر اللہ کی رضا کے تابع ہوتی ہے 23 اللہ کے حمید ہونے کے لحاظ سے اس کو گندی چیز نہیں پہنچے گی 4 رضا الہی سے باہر قدم رکھنے کا نتیجہ رمضان اللہ سے ملنے کا موسم 759 اللہ کے دین کی طرف بلانے کا کام مشکل ہے اگر اس کا سلیقہ نہ ہو 789 رمضان کا موسم ، قرب الہی کا موسم ہے 186 رمضان کی تھکاوٹ قرب الہی دور کرتا ہے اللہ کے سریع الحساب ہونے سے مراد اللہ کے سفیر سچ کے علمبردار ہوتے ہیں اللہ کے سوا اگر کوئی اور معبود ہوتا تو دنیا تباہ ہو جاتی 395 روح کا اپنے رب کا اقرار 219 85 100 142 213 233 روحانی جماعتوں کی طاقت کا راز امرالہی میں مضمر ہے 25 اللہ کے علم میں غرق ہونے سے بلندی اور عظمت ملے گی 384 روزے کی جزا خدا ہے، اس میں حکمت علم میں اللہ کے فضل سے مالِ مراد اللہ کے فضلوں پر نظر رکھیں اللہ کے قانون قدرت میں کوئی تضاد نہیں 262 149,150 خدا کے فیض یا عشق الہی سے عاری سراب کا پیچھے بھاگتا ہے 184 568 ظاہری حسن کو دیکھ کر خالق حقیقی کی طرف دل کا جانا ضروری ہے 829 598 عارف باللہ کو روزانہ اللہ کی طرف سے بے شمار نکات ملتے ہیں 383 اللہ کے قرب اور روحانی لذتوں کے حصول کے لئے عدل عفو اور بخشش کا خدا کے حوالہ سے ذکر 432 علم اور عزت کا اصل منبع اللہ کی ذات ہے کے تقاضے پورے کریں اللہ کے قرب کا لامتناہی سفر اللہ کے قرب کو مانگنے کا فائدہ 87 975 فرشتوں کو سجدہ کا حکم، مفسرین کی الجھن قربانی کے حوالہ سے نیت پر اللہ کی نظر 538 904 426 378
اشاریہ قرآن میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم 13 خطبات طاہر جلد 15 66 دوسری قو میں خدا کو رحیم و کریم خیال نہیں کرتیں 204 | ربوبیت کا لامتناہی نظام کتنے مذاہب ایک خدا کے حق میں گواہی دے رہے ہیں 579 رب عرش عظیم کا محاورہ گناہ سے صرف خدا ہی بچا سکتا ہے گوتم بدھا سے پنڈتوں کا خدا کے بارہ میں پوچھنا اور اُن رحمانیت سے مراد 80 زبان سے خدا راضی نہیں ہوتا کے جوابات لیلۃ القدر میں اللہ کے تمام فیصلے حکمت پر مبنی ہوتے ہیں 126 سیر فی اللہ کے محاورہ سے مراد محبت اور پیار میں انسان کا کہہ دینا کہ اے میرے رب میں عزیز اور جابر میں فرق تیرا رب اور تو میرا بندہ 761 قرب الہی کا دوام محض اللہ کام کرنے والوں کے اخلاق اور اعمال میں ترقی 623 لقاء باری تعالی دو طرح کی ہے وصل الہی کی لامتناہی عظمت مذہبی قوموں میں غلبہ کی جان اس وقت تک رہتی ہے جب امر الہی کو فوقیت اور اپنے نفس کو نیچے گرادو 280 لا يم الاوسط موت کے بغیر کوئی اللہ کے نز دیک زندہ نہیں 726 الحجم الكبير نفس کو خدا کی طرف بلانے سے عمل صالح کی توفیق ملے گی 808 چوہدری الیاس صاحب نماز میں التحیات میں اللہ کے لئے تحفہ اور تشہد کی گواہی 578 نیکی کے سرا کرنے کے نتیجہ میں اللہ کا انسان کے دل کو روشن کرنا 385 وحی کشوف الہامات وغیرہ کے ذریعہ خدا کا خود اپنے بندوں کو ہدایت دینا ہر نبی پر اعتراض کہ خدا کو یہی نظر آیا اللہ کے يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سے مراد 881 امانت مشورہ ایک امانت ہے امت امت محمدیہ 36 امت محمدیہ سے مراد 878 امت محمدیہ مردوں کو زندہ کرنے والی جماعت ہے 657 500 582 162,163 726,732 87 577 94 186 556 74 623 710 236 263 272 272 آنحضرت کا اللہ کی صفات حسنہ کا مظہر بننے والا دل عرش امت محمدیہ میں زندگی کے آثار کا نہ ہونا امتوں کو خدا کا اپنا جانشین بنانا ، اس کی مثال آیت استخلاف 615 عظیم کہلایا 836 699 614 765 12,16,45,46,48,254,316,642 862,872,1002 آنحضرت کا تمام تو کل اپنی نصیحت کی بجائے اللہ پر تھا 935 ساری امت کا ایک پہلو سے صاحب امر ہونا آنحضرت کی خدا سے ملنے والی رحمت کا مخلوق میں تقسیم ہونا 236 امراؤ القیس انسان کا وہ مقام جب وہ سورہا ہو تو اللہ اس کے لئے جاگتا امریکہ ہے، غافل ہو تو وہ حفاظت کرتا ہے ایک ماہر نفسیات کا لکھنا کہ ایک طرف اللہ نے انسان کے امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے درمیان نو مبائعین کی حضور دل میں طلب رکھ دی اور دوسری طرف رستے بند کر دیے 232 سے ملاقاتیں اور ان کے اخلاص کا ذکر تعلق باللہ کی منازل اور اللہ کی رحمت حاصل کرنے والے امریکہ کا اڑتالیسواں جلسہ سالانہ 3 امریکہ کا وقف جدید میں پہلا نمبر خوش نصیب تعلق باللہ کے متعلق تفصیل تفرید الہی کالمحہ کی طرف حرکت کرتے ہیں 569 495 997 527 امریکہ کی جماعت کا قدم تیزی کی طرف مگر تربیت میں کمی 516 768 امریکہ کی غیر معمولی قربانی تحریک جدید و وقف جدید میں 871 جو صاحب عقل دنیا کے علوم پر غور کرتے ہیں وہ لاز مأخدا امریکہ کے جلسہ سالانہ کے کوائف 591,592 امریکہ کے کل بجٹ میں بے شمار اضافہ 534 امریکہ میں چندہ کی توفیق بڑھنے کی وجہ خدا کے مجد اور بزرگی سے آنحضرت کے منبر کالرزنا 523 1000 998
اشاریہ 14 خطبات طاہر جلد 15 امریکہ میں چندہ کے حوالہ سے تبدیلی 645 امریکہ میں دوستی جلدی کرنا اور پھر جلدی بھلا دینے کا مزاج 521 انسان امریکہ میں مسلمانوں اور یہود کے تعلقات کو بہتر بنانے کے متعلق پروگرام وقف جدید میں امریکہ کے سبقت لے جانے کی وجہ اہل امریکہ کو نصائح کہ ذاتی روابط میں سنجیدگی اور اخلاص 781 13 حضرت انس بن مالک انسان اپنی کمزوریوں کا خود نگران ہو کے ساتھ آگے بڑھیں امن امن کے قیام کے لئے جہاد امن، دنیا میں امن قائم کرنے کا طریق 522 622 701 انسان کا ایک عرش سے دوسرے عرش کا پھر آگے کا سفر 695 انسان کا ایک قسم کی پیشگی پانے کا مضمون 900 انسان کا فانی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو لافانی سمجھنا 896 انسان کا وہ مقام جب وہ سور رہا ہو تو اللہ اس کے لئے جاگتا ہے، غافل ہو تو وہ حفاظت کرتا ہے 876 انسان کی استطاعت ختم ہونے پر اللہ کی استطاعت سے 233 پیوند ہو جانا امن ، سیاست اور دولت کا گٹھ جوڑ اور دنیا کے امن کا اٹھنا 301 انسان کی اللہ کی فطرت کے مطابق پیدائش سے مراد بدامنی کے پھیلنے کی وجہ 877,916 انسان کی حفاظت پر مامور فرشتے مولوی امیر احمد صاحب در ولیش قادیان انسان کی عالم اور کائنات کے سامنے حیثیت ان کے جنازہ کا اعلان 699 708 56 382 833 18 انسان کے اندر روشنی کے داخل ہونے کے تین راستے 263 حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ انسان کے دو پر ، معاصی اور توبہ حضرت اماں جان کا سادگی سے آپ کو رخصت کرنا 403 انسان کے شیطان کا دوسرا مظہر ہونے کا مقام امته الرحمن صاحبہ حضرت خلیفہ اول کی نواسی کی وفات امۃ اللہ بیگم صاحبہ امة المجيد صاحبه امتہ الحمید بیگم صاحبہ انانیت انا نیت تکبر کی ایک شکل ہے انا نیت سے کوئی عزت نصیب نہیں ہوتی انا نسیت کا پردہ انا نیت کی وجہ سے بعض چیزوں کا گناہ بننا 253 293 658 751 انسان کے کمینگی اور بے راہ روی وغیرہ دکھانے کی وجہ 286 اللہ تعالیٰ کا انسان کی حفاظت کا انتظام کرنا اللہ کی طرف سے انسان کی حفاظت 373 382 کائنات کی آخری غرض و غایت انسان کی پیدائش ہے 713 777 وہ غفلتیں جو انسان کی ذات پر اندھیرے بن کے چھا جاتی ہیں 295 253 بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا مرکزی نکتہ 236 انشاء اللہ خان انشاء 283 انفاق فی سبیل اللہ 282 انفاق فی سبیل اللہ سے وابستہ خوشی 278 | انفاق فی سبیل اللہ کا مغفرت سے تعلق 279 انفاق فی سبیل اللہ واللہ کا متجارت کہنا انا نیت ہر نفس میں ہے، اس شیطان سے بچنے کی تلقین 478 | انقلاب اور غلبہ خدا کی وجہ سے ہوگا انا کو توڑنے کا بہت پیارا انسخہ، بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح انکساری ( نیز دیکھئے عاجزی) تذلل اختیار کرو ہر انسان اپنی انا کا غلام ہے انڈونیشیا انڈیا 942 500 انکسار اور تفاخر میں فرق کینیڈا کے سیاستدانوں میں انکسار 1 16,317,873,100 | گناہ کے نتیجہ میں انکساری کا پیدا ہونا 14,339 آنحضرت کا انداز انکساری 801 35 326 356 864 521 660 525
خطبات طاہر جلد 15 271 78,316 13 572 552 اشاریہ 15 کامل یقین کے باوجود انکسار ضروری ہے تحکم نہیں ہونا چاہئے 643 ایران انگریز ایشیا حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک انگریزوں سے آزادی کا ٹر ایم ایم احمد صاحب بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں انگلستان 298 573,476,202,47,46,47 انگلستان کے حسن کو پیش کرنے والا مصور MTA 884,644,706 | MTA پر پردہ میں بے احتیاطی سے بچنے کی تلقین 27 MTA پر دکھائے جانے والے پروگرامز زندہ اور بناوٹ انگلستان میں پارلیمنٹ کے ممبر کے اختلاف کرنے پر پارٹی سے پاک ہوں سے علیحدہ ہونے کا اعلان اور ملک میں شور پڑنا 237 MTA کا جماعت کی بیداری میں کردار انیس اوسلو اوکاڑہ اولاد 292 | MTA کا حضور کے دورہ ناروے کے دوران کردار 787 | MTA کا دوسرے ٹیلیویژنز کے ساتھ مقابلہ 841 844 545 17 MTA کا سارے عالم پر احسان تربیت کے حوالہ سے 344 MTA کانور کی صورت میں اترنا اولاد پر سختی کرنے کو حضرت اقدس نے شرک قرار دیا ہے 935 اولاد کو بد بنا کر پیش نہ کریں اولاد کی تربیت کے حوالہ سے کوتاہیوں کا علاج 885 839 اولاد کی خواہش بھی منع نہیں کیونکہ آنحضرت کی خواہش کہ خوب MTA کی برکتیں MTA کی کوریج میں وسعت کا ذکر MTA کی وجہ سے نسلوں کا سدھرنا MTA کے ایشیائی ممالک کے چوبیس گھنٹے ہونے پر 315 845 77 915 ایک عیسائی ڈائریکٹر کا کہنا کہ اپنے رب کا شکر یہ ادا کریں 318 بچے پیدا کرنے والیوں سے شادی کرو تا کہ امت بڑھے 262,309 MTA کے تعلق میں بعض خطرات کی نشاندہی اولاد کی طرف سے عید وغیرہ پر والدین کو تحفہ ملنے پر اُن کی خوشی 2 اولاد کے حوالہ سے مایوس ہونے والے والدین کو نصیحت 267 احمدی بچے پیدا کر کے اور تبلیغ کے ذریعہ سے خوب نشو نما پائیں 309 ایک صحابی کی اپنی اولاد پرسختی اور حضرت اقدس کا اظہار نا راضگی 936 بچوں کی تربیت اور مزاج پر خاندان کا گہرا اثر بچوں کی تربیت کے حوالہ سے ماؤں کا طریق بچہ کے جھوٹ بولنے کی وجہ مال اور اولاد کے حوالہ سے فخر اور تکبر 463 884 399 264 300 مال و اولاد میں تکاثر سے مراد ماں اور اولاد کے تعلق میں عدل کا فقدان اور اس کا گناہ بننا 417 334 MTA کے حوالہ سے افریقہ میں عارضی انتظام میں روک 316 MTA کے حوالہ سے حضور کے ذہن میں جو تصور ہے 548 MTA کے حوالہ سے حیرت انگیز خطوط MTA کے حوالہ سے دکھاوے سے اجتناب کی تلقین 852 MTA کے حوالہ سے عارضی روکوں کے دور ہونے کے لئے دعا کی تحریک MTA کے حوالہ سے قول سدید MTA کے حوالہ سے ماہرین کا سر جھکانا کہ جماعت نے وہ کام کیا جو بڑی حکومتیں نہ کر سکیں MTA کے حوالہ سے دلکش اور معلومات سے بھرے وہ ماں باپ جو بچوں کو نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں 822 پروگرامز تیار کرنے کی تلقین اپنی اولاد کو عدو بنانا باپ کا کام ہے 945 255 255 851 914 543 MTA کے حیرت انگیز فوائد اور برکتیں اور تربیت میں کردار 914 بچپن سے بچوں کے رجحانات کو اللہ اور رسول کی طرف موڑیں 312 MTA کے دوسرے نظام کا عالمی طور پر شروع ہونے وہ مائیں جو اولاد کی غلط تربیت کرتی ہیں وہ مائیں جو دوسروں کے گھروں میں جانے پر بچوں کو کھلی چھٹی دیتی ہیں اُن ماؤں کی عزت کا گرنا 819 948 سے متعلق اعلان MTA کے ذریعہ تبلیغ کا طریق اور ضر ور عوامل 254 549
اشاریہ 16 خطبات طاہر جلد 15 MTA کے ذریعہ تبلیغ وتربیت کا کام MTA کے رستہ میں کچھ روکوں کا دعا کے نتیجہ میں دور ہونا 77 پہلی شرط MTA کے ساتھ دوسرے گندے چینلز سے احتراز کی تلقین 337 لوگوں کا کہنا کہ تجارت بے ایمانی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ، اس MTA کے عالمی نظام کے لئے مالی قربانی میں جماعت کا جواب 845 ایمان لانے کے بعد آنحضرت کے مقاصد کو تقویت پہنچانا کا کردار MTA کے قبلہ کے بدلنے کا فائدہ MTA کے لئے بکثرت نوجوانوں کا عطا ہونا 319 حضرت اقدس کی ایمان کو پر کھتے رہنے کی تلقین 32 743 84 338 فرعون کے مرتے وقت کے ایمان کے قبول نہ ہونے کی وجہ 896 848 MTA کے لئے لوکل زبانوں کے پروگرامز بنانے میں تشنگی 550 MTA کے لئے مختلف قسم کے پروگرامز بنانے کی تلقین 346 بابر MTA کے لئے نوجوان نسل کا جوش MTA میں کام کرنے والے والٹیئر ز کی حالت 848 باد کروکس ناخ جرمنی خ جرمنی بائیل 345 MTAوالے سیٹلائیٹ پر سنجیدہ پروگرام جاری ہوتے ہیں 338 احمدیت کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ سب سے مضبوط اور بائبل کی از سرنو تدوین خورس کے ذریعہ ہونا 720 389 553,790 271 طاقتور نظام MTA کا دیا گیا ہے حضرت امام صادق کی امام قائم کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی بہی (سید قمر سلیمان صاحب) کہ مشرق والا مغرب اور مغرب والا مشرق کو دیکھ سکے گا 476 بچپن کا واقعہ کہ انڈا شروع کرنے سے پہلے ہی رونا شروع 317 اس میں نفس کو شیطان سے مشابہت جس کا دوسرا نام سانپ ہے 849 350 کر دینا کہ چھم ہو جائے گا ایک عرب عورت کا MTA کی وجہ سے بیعت کرنا بعض چھوٹے بچوں کا MTA د یکھنے پر والدین سے اصرار 892 بت ربُت پرستی جلسہ سالانہ کینیڈا کے موقع پر دو طرفہ نشریات کا آغاز 476 خطبہ کے دوران ویڈیو کا بند ہونا عہد نامہ جدید میں ٹیلیویژن کی پیشگوئی 336 436 بت پرست کا اپنے آپ کو موحد کہلانا 573 394 جھوٹ کا قول اور اس کی عبادت سب سے خطر ناک بُت 348 کسی کا لکھنا کہ ہمارے بچے MTA نہیں دیکھتے آپ اسے ہندوستانی ایکٹرز اور ایکٹریسز کی گھروں میں تصاویر اور بت پرستی 341 ایسا بنا ئیں کہ دلچسپی لینے لگیں ، جواب گندگی سے رُخ پھیرنے کے لئے محض یہ کہنا کافی نہیں کہ گندگی سے بچو ، دلچسپی والے پروگرام بنیں بخاری میچ 113,112,110,107,106,104,65,64 891 346 بخل 129,132,390,393,525,563,603,639 لقاء مع العرب پروگرام میں سوال کہ لوگ نئے سال کی خوشیاں حرص کے نتیجہ میں کنجوسی 9 منارہے ہیں جماعت احمدیہ کا کیا موقف ہے مولویوں کا سارا زور کہ صرف ایک چینل بند کر دیا جائے 343 بد خلقی ناروے کے خطبہ کا تمام دنیا میں سنا جانا 788 بد خلقی کی تعریف ایشیائی ممالک کے لئے چوبیس گھنٹے MTA کی نشریات بدخلقی کے ساتھ شرمندگی کے احساس کا فائدہ 316,331 حد سے زیادہ بد خلقی سے مراد کی مبارکباد ہر پروگرام کے پیچھے تحقیق ہونی چاہئے ایمان ایمان اور استجابت کا تعلق 554 حد سے زیادہ بد خلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے بد دیانت 84 بد دیانت قوموں کا برا حال 957,977 957 740 740 739 739 745
اشاریہ بدظنی بدظنی سے بچنے کی تعلیم رب اور بندوں پر بدظنی بڑا گناہ ہے بدکرداری بد کردار نیکیوں کی طرف بلانے کا حق نہیں رکھتا بدکرداری کا دور دوره حضرت بدھ علیہ السلام خدا کے پیارے نبی اور خدا کی ہستی کے قائل تھے بدی 17 خطبات طاہر جلد 15 براہین احمدیہ 34,147,148,155,169,648,878 572 | برطانیہ 731 برکت برکت وہی ہے جو دائمی طور پر ساتھ رہتی ہے برمنگھم 619 579 81 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپ کا عفو کا عجیب رنگ میجر سردار بشیر احمد خان صاحب بدی ترک کرنے سے روحانی قوت کا ملنا اور اس سے فائدہ سردار بشیر احمد صاحب مالیر کوٹلوی اٹھانے کا طریق 14,873 139 328 19 947 254 292 145 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی بدی سے رکنا بھی نیکی ہے مگر اعلیٰ خوبیاں اس کی جگہ نہ لیں تو پیشگوئی مصلح موعود میں آسمانی نقطہ عروج کی وضاحت 906 وہ نیکی نہیں رہتی بدی کی دوری کے دو طریق بدیوں پر فتح پانے کا طریق بدیوں سے تعلق کاٹنے کا طریق بدیوں سے رہائی کا طریق 145 تحریک جدید کے اجراء میں آپ کی گہری فراست 972 ایک صوفی کا تکبر کے ساتھ چند سوالات آپ کے پاس 884 لے کر حاضر ہونا اور اللہ کا حضور کو اس کا جواب سمجھانا 115 آپ کے نزدیک انگریزوں سے آزادی کا گر بڑی بڑی 127 | باتیں کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں بدیوں کو دور کر کے حسن میں اضافہ کرنے والے 886 بعض مبلغ واپس بلوانے اور فارغ کرنے کا فیصلہ، سپین کے 299 383 298 بدیوں کے ترک پر ناز نہ کرو ابراہیم اور آنحضرت کی ہجرت اور بدی سے ہجرت کا فلسفہ 930 وقف جدید کے حوالہ سے ولایت کا آپ کے ذہن میں تصور 1004 انسان کے کمینگی اور بے راہ روی وغیرہ دکھانے کی وجہ 286 آپ کی پیشگوئی میں اللہ کا فرمانا کہ خوشی سے اچھلو اور کو دو 551 بدیوں کے ملک سے نیکیوں کے ملک میں ہجرت 672 | آپ کا تربیت، عفو اور چشم پوشی کا انداز حج میں لازم کہ بدی کے کپڑے اتار پھینکو 386 مبلغ کا کہنا کہ میں خود گزارہ کرلوں گا مگر تبلیغ نہ چھوڑوں گا 642 930 بصیرت حضرت اقدس کی قوت قدسیہ سے ایک شخص کا شراب نوشی بصیرت کو خدا کا انسان کے اندر رکھنا ترک کرنا جبکہ حضرت خلیفہ اول اس کو سمجھا چکے تھے 812 خدا تعالیٰ کا انسان کی بصیرت بڑھانا دعا کے بغیر بدیوں سے دوری کا سفر ممکن نہیں 809 حضرت بلال سچائی کےنام پر بے حیائی اور فتاء کی اسلام نے اجازت نہیں دی 856 بلقیس بیگم صاحبہ آنحضرت کی قوت قدسیہ ایک معراج ہے بدیوں سے دوری کے لئے انسان کا اپنی برائیوں پر پردہ ڈالنا 815 بنگلہ دیش 938 634 680 414 253 316,996 888 بنگلہ دیش میں طلباء کا بحث کے لئے مربی صاحب سے تین قسم کی بدیاں جو تین قسم کی صلاحیتوں پر حملہ آور ہیں 273 احمدیت کے دلائل پوچھنا اور اُن کا سچ مچ دل سے قائل ہونا 191 جنسی بے حیائی کا یورپ میں عروج برائیوں میں مبتلا لوگوں کی بری حالت 844 764 بنی اسرائیل بنی اسرائیل کا مصر میں آباد ہونا 735
اشاریہ بوسنیا بہادرشاہ ظفر بھٹو ذوالفقار علی 18 328 پاکستان 94,888 اس کے بر سراقتدار آنے پر حضور کی ملاقات اور اسکو کہنا کہ آج کے بعد میں آپ سے نہیں ملوں گا، اس کی وجہ بیت الرحمن واشنگٹن بیت السلام ٹورانٹو کینیڈا بیت اللہ بیت اللہ کا قبلہ سے تعلق بيت النور ا وسلو بیعت بیعت رضوان اور خلافت کی بیعت میں فرق بیعت کا عہد اور کوشش کا مضمون بیعت کا فائدہ اور اس کی ضرورت بیعت کی حقیقت بیعت کے بعد تبدیلی 465 خطبات طاہر جلد 15 78,87,109,254,316,355 672,996,1000 303 پاکستان اور تیسری دنیا کی سیاست میں پیسہ کی تباہی قرآنی آیت کی روشنی میں ہندو پاک کے تعلقات کا ذکر 356 پاکستان کو مذہب کے نام پر ظلم کے حوالہ سے اپنے حالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے 495,519 پاکستان کی مجلس شوری کے موقع پر حضور کی نصائح 360 241 314 319 475 پاکستان میں احمدیت کے خلاف پابندیاں اور پاکستانی تاریخ کا منحوس ترین دن جس کے بعد ساری برکتیں اٹھ گئیں 337 پاکستان میں بداخلاقی اور برائیوں کا راج پاکستان میں پائی جانے اخلاقی برائیاں جن کی کثرت ہے 207 605,823 بیعت کے حوالہ سے مختلف مسائل کہ بیعت اگر ایک ہی ہے تو 665 620 پاکستان میں پولیس کی ابتر حالت کا نقشہ 366 پاکستان میں تحریک جدید کے حوالہ سے غیر معمولی قربانی 872 پاکستان میں ٹیلیویژن کی وجہ سے گھر گھر گندگی کا داخل ہونا 339 پاکستان میں جھوٹ سے برا حال 653 پاکستان میں جھوٹ کی حد سے زیادہ زیادتی خودکشی 666 پاکستان میں خوفناک تہذیبی خود کشی 665 پاکستان میں کلرکوں کا احتجاج پاکستان میں مذہبی انتہاء پسندی کا اخلاق سوز نتیجہ نبی کی بیعت اور کیوں اور خلیفہ کی بیعت اور کیوں ، ان سب کا پاکستان وقف جدید میں سب سے آگے حل حضرت اقدس نے پیش فرمایا ہے بیعت میں اطاعت کے اصرار کی وجہ خلیفہ کی بیعت کی ضرورت 390 114 342 368 366 14 668 پاکستانی ٹیم کے کرکٹ میچ ہارنے پر ملک میں جنونیت کی مثال 206 425 پاکستانی جماعتوں میں انڈین فلموں وغیرہ کی گندگی کے حوالہ 669 سے جماعت کو جائزہ لینے کی تلقین ایک غیر مسلم کا سوال کرنا کہ دل تو بہت چاہ رہا ہے بیعت کا مگر احمد یوں پر مذہب کی وجہ سے پاکستان میں مظالم 620 جھوٹ کی پاکستانی معاشرہ میں عبادت 344 361 343 اتنا بڑ اوعدہ ہے کہ ہمت نہیں پڑتی ، اس کا جواب جلسہ سالانہ یوکے کے آخری روز ٹیلیویژن کے ذریعہ عالمی رمضان کے مہینے میں بھی پاکستان میں قتل و غارت گری 71 436 ہندوستانی ٹی وی چینلز کا پاکستان پر اثر اور اس کی وجہ 914 بیعت میں شمولیت کا روح پرور نظارہ نماز جمعہ اور عصر کے بعد ایک بیعت کا اعلان 96 ہندوستانی ایکٹرز ، ایکٹریسرز کی گھروں میں تصاویر اور بت پرستی 341 وحی کشوف الہامات وغیرہ کے ذریعہ خدا کا خود اپنے بندوں کو ہدایت دینا بیلجئیم بینک بینک میں پیسہ فکس کروانے کا نقصان اللہ کا روحانی بینک کا نظام 1953ء کے فسادات کی تحقیق پر فائز دوشہرت یافتہ جوں کا 881 مسئلہ کو سمجھنا کہ ملاں فساد کی طرف لے جارہے ہیں 16,610,693,1001 دنیا کی زندگی کی مثال پانی کی طرح 358 721 713 860 فطرت نیک ہونے پر آسمانی پانی فائدہ دے گا 861 آسمانی پانی کا اپنے آپ کو مٹی میں ملانا اور ٹی زندگی کا آغاز 717
اشاریہ پرتگال پرده ارده پوشی 19 خطبات طاہر جلد 15 842 مبلغ کی آواز میں صداقت کے نشان کے حصول کا طریق 640 پردہ پوشی کی تعلیم وبائی کمزوریوں کے متعلق نہیں ہے 626 پردہ پوشی کی تعلیم پردہ کی شکل درست کرنے کی تلقین پردہ کی قرآن میں تعریف 625 304 304 ایم ٹی اے پر پردہ میں بے احتیاطی سے بچنے کی تلقین 572 پل صراط اس سے مراد پنجاب 730 تبلیغ کرنے والے کی ذات میں دلچسپی کا اثر تبلیغ کی کامیابی کا راز 439 438 تبلیغ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مالی تقاضوں کا ابھرنا 990 تبلیغ کے حوالہ سے ضیافت کرنے والوں کی دو قسمیں 446 تبلیغ کے درمیان مایوسی کے مراحل کا حل دعا ہے تبلیغ کے معاملہ میں خدائی صفات اپنانے کا اثر تبلیغ میں انکسار کی ضرورت تبلیغ میں تکلیف کی وجہ تبلیغ میں جاہلوں سے اعراض کی تعلیم 273 446 643 973 973 تبلیغ میں وہ کردار پیدا کریں جس میں الہی صفات کی جھلک ہو 448 پنجاب میں جنوبی ہواؤں پر پھل لانیوالی کھیتیوں کو سکھا دینا 787 تبلیغ میں ہمدردی کا عنصر پولینڈ پیشگوئی 649 908 بچے پیدا کر کے اور تبلیغ کے ذریعہ سے خوب نشو و نما پائیں 309 احمدیت کا تبلیغ کے ایک نئے دور میں داخل ہونا 644 حضرت امام صادق کی امام قائم کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی افریقہ میں تبلیغ کے حوالہ سے مربیان کا نیمیں بنا کر نکلنا 408 کہ مشرق والا مغرب اور مغرب والا مشرق کو دیکھ سکے گا 476 انبیاء کا ایک جنون کی کیفیت سے تبلیغ کرنا حضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی میں اللہ کا فرمانا کہ خوشی سے اُچھلو اور کو دو MTA کے ذریعہ تبلیغ کا طریق اور ضر ور عوامل 551 جوانی سے ہی حضور کا تبلیغ تبلیغ کا فرمانا حسن خلق کا فائدہ تبلیغ میں عہد نامہ جدید میں اس زمانہ کے متعلق ٹیلیویژن کے حوالہ سے پیشگوئی پیغام صلح ت،ٹ ،ت تالیف تبدیلی اللہ کا قرآن میں تالیف قلب کی ہدایت دینا قال کی بہا 436 حضرت مصلح موعود کا بعض مبلغ واپس بلوانے اور فارغ 223 678 639 549 570 447 642 493 کرنے کا فیصلہ اور سپین کے ایک مبلغ کا طرز عمل کینیڈا کی جماعت کو تبلیغ کے حوالہ سے نصائح وقف جدید کو عالمی کرنے سے تبلیغ کے کام میں سرعت 990 اس وہم کی تردید کہ جب تک مکمل طور پر نیکیوں سے آزاد نہ ہوں تبلیغ نہیں ہو سکتی اندھی تبلیغ کے نتیجہ میں ملنے والے نو مبائعین قول سدید اور حکمت کا تبلیغ پر اثر 808 157 854 مومن کا اپنی ذات میں تبدیلی کو ہر وقت دیکھنا اور پرکھنا 449 مسجد لندن کے امام کو تبلیغ کے لئے چٹھیاں اور ان کا جواب 570 تبصره کھیل میں ایک دوسرے پر تبصروں کے نتیجہ میں بالآخر دین والوں کو نشانہ بنانا بغیر اذن کے تبلیغ کی حالت تبلیغ جو عمل کے بغیر ہو اس کی حالت 220 تجارت تجارت میں دھو کے 2 ہر بچا ہوا روپیہ نہیں لگایا جاسکتا، عقل کا استعمال ضروری 861 انفاق فی سبیل اللہ کو اللہ کا تجارت کہنا 172 حضور کا کاٹن کی تجارت میں مسلم کمرشل بنک سے بغیر سود 439 کے قرضہ لینے کا طریق اور تجارت میں برکت 326 746
اشاریہ 20 خطبات طاہر جلد 15 قادیان میں فقیرانہ مزاج کے احمدیوں کی تجارتوں کا چمکنا 744 افریقہ میں تربیت کے لئے ڈش انٹینا اور مساجد کی تعمیر کی تلقین 997 اس سوال کا جواب کہ تجارت بے ایمانی کے بغیر نہیں ہو سکتی 743 امریکہ کی جماعت کا قدم تیزی کی طرف مگر تربیت میں کمی 516 Real estate کاروبار کرنے کا حضور کا مشورہ اور فائدہ 861 اولاد کی تربیت کے حوالہ سے کوتاہیوں کا علاج جماعت کی بعض تجارتوں میں حضور ڈائریکٹر بھی رہے ہیں 745 بچوں کی تربیت اور مزاج پر خاندان کا گہرا اثر بعض لوگوں کو سمجھانے پر اُن کا کہنا کہ چھوڑیں جی کون تجس تجس کا مطلب اور اس کے نقصانات تحریک 839 463 448 جماعت کے سامنے تربیت کے حوالہ سے ایک عالمی جہاد 737 960 رسول اللہ بن سکتا ہے دعوت الی اللہ اور تربیت کا تعلق 954 تحریکیں زیادہ کرنے سے خدا کا مالی وسعتیں خود بخود عطا کرنا 1006 دعوت الی اللہ کے ضمن میں اپنی ذات کی تربیت کے تقاضے 438 جماعت کے سامنے 15 لاکھ ڈالر کی تحریک اور اس کا دسواں حصہ حضور کا اپنی طرف سے ادا کرنے کا ارادہ دوسری اقوام کا مزاج درست کرنے کے لئے آنحضرت 1005 کی پیروی میں عالمی مزاج کی ضرورت ہے 962 یورپ کو نو احمدیوں کے لئے مالی تحریک 1006 قول سدید کا تربیت اور اصلاح نفس سے بہت تعلق ہے 849 تحریک جدید تحریک جدید کی برکتیں گندگی سے رُخ پھیرنے کے لئے محض یہ کہنا کافی نہیں کہ 867 | گندگی سے بچو، دلچسپی والے پروگرام بنیں تحریک جدید کے اجراء میں حضرت مصلح موعود کی گہری فراست 299 ماں کا تربیت میں مقام 346 455 اگلے سال 100 ممالک شامل کرنے کا ہدف 868 موجودہ نسل کی صحیح تربیت نہ ہو تو آئندہ بھی نہیں ہو سکتی 953 299 نومبائعین کی افواج کو سنبھالنے کا در پیش چیلنج تحریک جدید کے انیس نکات میں نجات کا راز تحریک جدید کے چندہ کے حوالہ سے جماعت کی تزریق 865 نومبائعین کی تربیت کے تقاضے اور طریق تحریک جدید کے دفاتر ، دفتر اول اب کبھی نہیں مرے گا 868 نومبائعین کی تربیت کے حوالہ سے نصائح 868 بچوں کی تربیت اور مزاج پر خاندان کا گہرا اثر تحریک جدید کے کوائف اور اعداد و شمار تحریک جدید کے مجاہدین میں اضافہ کی تلقین تحریک جدید کے نئے مالی سال اور کوائف کا ذکر تحفہ میں محبت کا مضمون تحف 737 450 437 463 884 871 بچوں کی تربیت کے حوالہ سے ماؤں کا تریک 859 صرف گھر کی تربیت کرنا ہمارا کام نہیں انہیں دنیا میں پھیلانا ہے 954 ماں کی تربیت انگلی نسلوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے 820 نومبائعین کی تربیت کے حوالہ سے ہر علاقے میں مرکز کا قیام 451 242 اللہ کو تحفے دینے والے مشورہ دینے کے زیادہ اہل ہیں 245 سنن الترمذی ماده پیر تشهد تدبیر کا تقدیر کے ساتھ آسمان سے اترنے کا طریق 268 نماز میں تشہد کا خدا سے ایک سودا کا یاد دلانا تذکره تصوف 414,420,604 242 آفتاب احمد خان صاحب کی وفات اور تذکرہ کا الہام 776 پورپ میں ہر سال پھونک مارنے والے صوفیوں کا آنا جوحض 688 تذلل تذلل کے نتیجہ میں رفعتوں کا حصول تربیت تربیت کی کامیابی کا راز شرک کی تعلیم دیتے ہیں 480 تصویر اندھیرے میں حضور کا تصویر کھینچنا 438 تعاون 194 تربیت کے حوالہ سے جماعت کے تقاضوں کا تبدیل ہونا 540 تعاون ایک ایسا نفلی کام ہے جو قومی بقاء کے لئے ضروری ہے 605
اشاریہ تعاون سے مراد تعاون کا مضمون عام بھی ہے اور خاص بھی 21 خطبات طاہر جلد 15 599 تقوی اللہ سے ہر قوم کلیۂ عاری ہو چکی ہے 594 613 تقوی تعاون کے حوالہ سے حلف الفضول کی مثال 596 تقوی اور نور ایک ہی چیز کے دو نام 596 تقومی دل کی سچائی کا دوسرا نام ہے تعاون کے متعلق قرآنی تعلیم اطاعت سے باہر رہنے والے 23 595 597 تقویٰ سے عقلوں کا صیقل ہونا اور صائب الرائے ہونا 247 افریقہ کے مظلوموں کی مدد بعض دہریہ بھی کرتے ہیں، اس کی وجہ 602 تقویٰ کا بنیادی مطلب انبیاء کا تعاون کے لئے من انصاری الی اللہ کا اعلان 606 تقوی کو زینت قرار دیا جاتا تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تمہیں تقویٰ کی ترقی یافتہ حالتیں احسان ہیں سخت عذاب دے پھر دعا میں بھی قبول نہ ہوں گی 596 183 963 605 تقوی کی زندگی گزارنے والوں کی اللہ دو طرح مدد کرتا ہے 744 649 تقویٰ کے ساتھ فراست کا تعلق صلاحیتوں کا آپس میں تعاون ضروری ہے مومنوں کی جماعت میں ہر عضو ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے 645 تقوی گہرا نہ ہونے کا فراست پر اثر نیک امور اور تقویٰ میں تعاون نیکی اور تقویٰ کی بناء پر کرنے کا حکم 601 تقوی میں کمی کا انسان کی ذات پر اثر 702 698 698 213 نیکیوں میں تعاون کرنے والا معزز سے معزز تر ہوتا چلا جاتا ہے 599 خلافت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے والا احمدیوں کا مجموعی تقوی 708 والدین کا اولاد کی تربیت کے حوالہ سے تعاون ایک سیمین چیف کا جماعت سے تعاون اور ان کا احمدی ہونا 609 مشرکین بھی بعض کام اللہ کے تقویٰ سے اختیار کرتے ہیں 594 610 زینت کا تقویٰ بننا 25 نیک کاموں اور تقوی میں تعاون کا حکم تنگ دست کو آسانی مہیا کرنا جماعت کو تعاون کرنے کی تلقین کہ فطرت ثانیہ بن جائے 607 جماعت میں تعاون کی روح کمزور بھائیوں سے تعاون کی تعلیم 610 | تکبر کا کلیۂ ہر نیکی کو چٹ کر جانا 646 | تکبر کا نقصان 603 تکبر کی ایک شکل ، انانیت 601 330 660 283 264 وہ امور جہاں تعاون جائز نہیں آنحضرت کی تعاون پر مشتمل نیکیاں تفاخر تفاخر سے مراد تفاخر کا وہ وقت جب وہ گناہ بنتا ہے تفاخر کی بری عادت کا رواج زینت اور تفاخر کا روز مرہ زندگی میں تباہی پھیلانا زینت اور تفاخر کی چند مثالیں تفسیر کبیر تقدیر 600 مال اور اولاد کے حوالہ سے فخر اور تکبر بنی نوع سے بعض لوگوں کو بڑے مراتب کے بعد دور ہونا 980 212 | تمثيل 297 دنیا اور اللہ کے غلاموں کی قرآن میں تمثیل 311 287 264 قرآن میں رزق کے حوالہ سے دو غلاموں کی تمثیل ایک تمثیل کے رنگ میں عدل اور احسان کا ذکر تنظیم ایک زعیم بھی اپنے دائرہ میں مامور ہے 416 413 421 457 43 عہدیدار ان کے لئے احباب سے اطاعت کروانے کا گر 461 محض اللہ کام کرنے والوں کے اخلاق اور اعمال میں ترقی 623 تقدیر الہی کے بغیر انسان نظام کائنات اور بوبیت سے کوئی توازن فائدہ نہیں اٹھا سکتا 726 توازن کے کھونے سے طبعی حالتوں کا اندھیروں میں بدلنا 208 تدبیر کا تقدیر کے ساتھ آسمان سے اترنے کا طریق انفرادی اور قومی لحاظ سے تقدیر والی رات 268 125 تو بہ کی اہمیت اور تعریف 654
اشاریہ تو بہ میں ہجرت کا مضمون انسان کے دو پر ، معاصی اور توبہ حقیقی تو بہ کا مضمون سچی توبہ کے وقت بڑے حرج سامنے آتے ہیں عذاب سے پہلے تو بہ کا مضمون توحید تو حید کا سفر اپنی ذات سے شروع کریں 22 22 658 ٹیکس دینے کے حوالہ سے بد دیانتی خطبات طاہر جلد 15 655 653 656 732 579 توحید کا معیار اس کے جھوٹ اور سچ سے پہچانا جائے گا 392 توحید کا ہر قسم کی گندگی سے پاک ہونے کا تعلق ہے تو حید کے بغیر دنیا میں کوئی سچائی نہیں توحید کے تقاضے توحید کے حوالہ سے اندرونی گواہی تو حید کے خلاف چل کر وحدت نہیں بن سکتی توحید کے قیام کے لئے ضروری عوامل 337 481 چندوں کے نظام میں ادنی اٹیکس کی بو نہیں چندہ اور ٹیکس میں فرق ٹیلیویژن 745 243 308 پاکستان میں ٹیلیویژن کا خطرناک استعمال، گھر گھر میں گندگی 339 یورپ اور انگلستان کے ایکٹرز کے اقرار اور ان کی خودکشیاں 349 ثریا بیگم صاحبہ ج، چ، ح، خ، 689 جاپان 577 جاپان میں مردہ پرستی کا رواج 54 576 توحید کے منافی ایک گناہ جو تو حید کو ہر پہلو سے چاٹ جاتا ہے 394 توحید کے نام لیوں کا مشرک ہونا توحید کا لامتناہی سفر جالندھر جالوت 575 جبرائیل 907 16,317,846,873,1102 302 466 279 689 جبرائیل کا نازل ہو کر آنحضرت کے ساتھ قرآن دہرانا 43 سچائی کی طاقت تو حید کے قیام میں کام آئے گی 347 | جرم ہر بات کا توحید سے آغاز ہونا تورات توکل 479 جرائم کا اخلاقی کمزوریوں سے وابستہ ہونا 790 | جرمنی جرمن قوم کو فتح کرنے کی چابی سچائی میں ہے 299 14,389,455,644,652,672 843,872,1001 توکل کے نتیجہ میں محبت کے رشتوں کا بندھن اللہ پر توکل کا ایک مفہوم اللہ کا توکل کے باوجود دعاؤں کا حکم جانوروں کا رزق کے حوالہ سے تو کل 248 249 697 834 396 جرمن قوم کی سچائی کی وجہ سے توحید کی طرف لے جانے کی دعا 394 جرمن قوم میں اکھڑ پیدا ہونے کی وجہ جرمنی کی جماعت سے حضور کی محبت کی دو وجوہات جرمنی کی جماعت کا ترقی کی طرف قدم دعا میں غیر معمولی طاقت ہے اگر سنجیدگی اور توکل سے ہو 267 395 408 673 آنحضرت کا تمام تو کل اپنی نصیحت کی بجائے اللہ پر تھا 935 جرمنی کی جماعت کو جھوٹ کے خلاف جہاد شروع کرنے کی تلقین 407 آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کا تو کل 250 تہجد تہجد اور رمضان تہجد کی نماز خلصین کی نشانی ہے قادیان میں تہجد کے بغیر سحری نہیں ہوتی تھی نتونس 64 373 65 جرمنی کی جماعت کو صد یقیت کے مقامات کے حصول کے لئے جھوٹ کے خلاف جہاد کی تلقین جرمنی کے جلسہ کی الگ شان جرمنی کے جلسہ میں مختلف قوموں کی شرکت کے باعث مختلف زبانوں کے مسائل کاحل 409 691 692 396 ایک کم علم احمدی کا جرمنی میں دعوت الی اللہ کا طریق 778 دعوت الی اللہ کے معاملہ میں جرمنی کی جماعت کا کمال 408
اشاریہ 23 جرمنی میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ 655 جنت کی وسعت ہٹلر کی قانون سازی سے قبل اور بعد یہود کی وہاں حیثیت 362 | جنت کے ازل کی حقیقت جکارتہ جلسہ سالانہ خطبات طاہر جلد 15 751 556 778 جنت میں سات دروازوں سے جانے کے حکم میں حکمت 29 جنت ہی کا نام مغفرت رکھ دیا جانا جھوٹ کا منہ دیکھنے سے جنت کا منہ نہیں دیکھیں گے 752 393 جلسہ انگلستان اور جرمنی میں مہمانوں کی خدمت کا بلند معیار 674 رمضان میں جنت کے دروازے کھلنے اور دوزخ کے بند جلسہ سالانہ انگلستان کے حوالہ سے بٹھائے گئے کمیشن 706 674 جلسہ سالانہ جرمنی میں صفائی کے معیار کا بلند ہونا جلسہ سالانہ کینیڈا کے موقع پر دوطرفہ نشریات کا آغاز 476 ہونے سے مراد صحابہ کا آنحضرت سے پوچھنا کہ اگر جنت سب پر حاوی ہے تو پھر جہنم کہاں 66 753 جلسہ سالانہ کے موقع پر البانیہ کے ایک عالم کا جماعت کے عمل میں سست خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا 629 ایک ہونے پر تعریف کرنا 607 آنحضرت اور آپ کے ساتھی جنت میں داخل ہونے سے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے گھروں میں تیاریاں 561 555 556 پہلے بلند مقام پر فائز جنگ اخبار جلسہ سالانہ میں سارے سال کے لئے زاد راہ کا ملنا جلسہ سالانہ یو کے کی مرکزیت اور اس کی شان جلسہ کے ایام میں چودہ روزہ مہمان نوازی 567 | جنگ لندن جلسہ کے دوران وقت کا تیزی سے گزرنا 558 جنوبی امریکہ کا عالمی بنک اور دوسرے اداروں کا واپس جلسہ یو کے میں آنیوالوں اور نہ آسکنے والوں کے لئے دعا 537 کرنے والے قرضہ امریکہ کے جلسہ سالانہ کے کوائف جرمنی کے جلسہ میں مختلف قوموں کی شرکت کے باعث مختلف زبانوں کے مسائل کاحل 523 جنوبی امریکہ 692 جن جن سے مراد اور رمضان میں اس کا جکڑے جانا 25 71 851 361 78 69 قادیان کے جلسہ میں ایک وقت چند مہمانوں کا بھوکا رہنا اور اللہ کا حضرت اقدس کو الہاماً بتانا کینیڈا کے جلسہ سالانہ کا ذکر ایک وسیع جلسہ کا تصور 676 521 692 جہاد اچانک حملہ کا فلسفہ جہاد کی تعریف جہاد کی لذت 696 876 105 ایک عظیم عالمی جلسہ کا نقشہ جس میں ملیز احمدی ہوں گے 693 جرمنی کی جماعت کو جھوٹ کے خلاف جہاد شروع کرنے کی تلقین 407 691 | جھوٹ کے خلاف عالمی جہاد کی ضرورت 113 یو کے اور جرمنی کے جلسے عالمی نوعیت کے 1981 کے جلسہ سالانہ ربوہ میں تقاریر کا انگریزی ترجمہ 778 دعوت الی اللہ کے عالمی جہاد میں جماعت کی مصروفیت 875 جمعہ اجمعۃ الوداع Friday the 10th کی اہمیت جمعۃ الوداع کا تذکرہ جمعۃ الوداع کے بعد مسجدوں کا حال دہریت کے خلاف جہاد کا اعلان 354 آنحضرت کو جنگ احد میں غلبہ انسانی تدبیر سے نہیں ملا 122 پھر شکست میں تبدیل ہونے کی وجہ 803 284 283 جماعت کے سامنے تربیت کے حوالہ سے ایک عالمی جہاد 737 122 احد کے بعد منافقین کا باتیں کرنا جنت جنت اعمال کے زور سے نصیب نہیں ہو سکتی جنت کی طرف مسابقت سے مراد 752 751 حقیقی جہاد 875 وہ حقیقی جہاد جس کے ذریعہ احمدیت دنیا پر غالب آ سکتی ہے 686
اشاریہ جہانگیر بادشاہ جہانگیر بادشاہ کا دل نور جہاں پر آنے کی وجہ جہلن ، گوجرانوالہ جہنم کو کیوں ابدی کہا گیا جہنم کے دوام سے مراد جہنم کے مختلف دروازے دنیا کی جہنم سے بچنے کا طریق جھنگ چوروں کا گڑھ جھوٹ جھوٹ اور غرور کی زینت جھوٹ بولنے والے کی تربیت کا انداز جھوٹ تمام انسانی فساد کی جڑ ہے 24 24 پاکستان میں جھوٹ کی حد سے زیادہ زیادتی خطبات طاہر جلد 15 114 760 توحید کا معیار اس کے جھوٹ اور بیچ سے پہچانا جائے گا 392 جرمنی کی جماعت کو جھوٹ کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین 407 910 556,558 141 رمضان میں جھوٹ کے خلاف جہاد کی برکت بچے اور جھوٹے کے اختلاف کی صورت میں سزا کا اختیار صرف رب کے پاس ہے سیاست میں جھوٹ 29 شرک جھوٹ ہی کا نام ہے 533 عائلی معاملات میں جھوٹ کا برا نتیجہ عائلی معاملات میں جھوٹ کا نقصان 520 فحشاء جھوٹ کی ایک بدترین قسم ہے قوم کی خاطر جھوٹ بولنا 227 نظام جماعت میں شاذ ہی جھوٹ بولا جاتا ہے 398 ہم نے اپنے معاشرہ کو جھوٹ سے پاک کرنا ہے 399 بچہ کے جھوٹ بولنے کی وجہ 116 637 391 391 394 705 401 442 706 348 399 دنیا میں سب سے بڑی تباہی مچانے والی کمزوری ہے 390 حدیث کی رو سے جھوٹ بولنے والے کا کذاب کہلایا جانا 393 398 کسی تجربہ کار شخص کا ایک احمدی کو کہنا کہ فلاں بات سچ نہ 337 بولنا، اُسی جھوٹ کی وجہ سے اس کو نوکری نہ ملنا جھوٹ سے پاک معاشرہ قائم کرنا ہم پر لازم ہے جھوٹ کا شرک پر منتج ہونا جھوٹ کا قول اور اس کی عبادت سب سے خطر ناک بُت 348 چاند جھوٹ کا کینسر بننا 400 چاند کے طلوع و غروب ہونے میں احتمالات 192 جھوٹ کا منہ دیکھنے سے جنت کا منہ نہیں دیکھیں گے جھوٹ کی پاکستانی معاشرہ میں عبادت جھوٹ کی تعریف آنحضرت کے الفاظ میں جھوٹ کی عادت پڑنے کا نتیجہ جھوٹ کی عبادت کا نتیجہ جھوٹ کی مختلف قسمیں جھوٹ کی نگرانی کی ضرورت جھوٹ کے حوالہ سے مشرقی اور مغربی قوموں کا حال جھوٹ کے نتیجہ میں چوری جھوٹ کے نتیجہ میں شرک ہی پھیلتا ہے 393 343 400 392 رمضان کو چاند کے ساتھ باندھنے میں حکمت سورج و چاند کی علامتوں کے ذریعہ عبادتوں کا تعین کیا مشینی ذرائع سے چاند کا علم پانا من شهد منکم کے تابع 405 ہوگا ، اس کا جواب 46 52 50 46 406 نئے چاند کے حوالہ سے سائنس اور قرآن کے بیان میں تطبیق 48 400 390 405 347 حضرت حکیم چراغ دین صاحب چنده 18 45 جھوٹ نہ بولنا ایک اور چیز ہے اور قول سدید ایک اور بات 701 چندوں کے نظام میں اونی ٹیکس کی بو نہیں جھوٹ نہ بولنا ایک بدیہی صداقت ہے جھوٹ کے خلاف عالمی جہاد کی ضرورت جھوٹ کبائر گناہوں میں شامل 191 چندہ اور ٹیکس میں فرق 243 308 113 چندہ دینے والوں کے لئے نور اور اجر ہے، اس سے مراد 993 390 چندہ کے حوالہ سے تلقین کہ صرف پہلے دینے والوں کے پاس
اشاریہ 25 لولاک لما خلقت الافلاک ہی نہ جائیں، جو نہیں دے رہے ان کا بھی تو کھاتہ بنائیں 645 لا تفضلونى على يونس ابن متى چندہ کے حوالہ سے مغربی ممالک نے بھی اعتراض نہیں کیا کہ لا يعطى على العنف ولا يعطى على ما سواه ہما را چنده دوسروں پر کیوں خرچ کیا جارہا ہے چندہ نہ دینے والے کو مجلس شوریٰ میں ووٹ دینے کا حق نہیں 243 ما نقصت صدقة من مال امیر صاحب یو کے کا چندہ دہندگان کے نام شکریہ کے خطوط مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى حضور کو بھی بھیجوانا حضرت اقدس کے زمانہ میں بعض لوگوں کا کہنا کہ ٹیکس پر ٹیکس نکلتا چلا آ رہا ہے اللہ کو قرضہ دینے والوں کے اجر میں اضافہ 996 377 328 991 من اطاعني في فقد اطاع الله من قال لا اله الا الله دخل الجنة نعوذبک من شرور انفسنا ولا فخر ولا فخر احادیث بالمعنى ہندو پاک و بنگلہ دیش کے چندوں سے بیرونی دنیا کا چندہ پڑھنا 996 ولو دا و دودا چین چین میں مردہ پرستی کا رواج چین میں نوح کی طرح کے بزرگ کا ذکر ملنا حدیث 553,846 خطبات طاہر جلد 15 213 984 835 947 741 427 792 201,266 524 309 302 اللہ کی حدود کو قائم کرنے والے اور توڑنے والوں کی مثال 604 355 ایک بدوی کا رعب کی وجہ سے کا مینا اور آنحضرت کی عاجزی 853 مشرک کا حالت شرک میں پرندوں کو دانے پھینکنے کا اجر 595 قیامت کے روز پہلے سر اٹھانے پر مشتمل احادیث کی حقیقت 770 خوب بچے پیدا کرنے والیوں سے شادی کرو 262,309 شیطان کا انسان کی رگوں میں دوڑنا اس جلد میں مذکور عربی احادیث اذا سلم رمضان سلمت السنة اعمل ما شئت فقد غفرت لک الا كل شيء ما خلا الله باطل الحكمة ضالة المؤمن الدنيا سجن للمومن الصيام جنة العلم علمان الغنى غنى النفس اللهم انک عفو اللهم اغفر لحينا وميتنا ان الرفق لا يكون في شيء الا زانه ان لكل شيء بابا وباب العبادة الصيام تحرم على كل قريب هين لين سهل رب اشعث أغبر لو اقسم على الله لابره شرور انفسنا شیبتنی هود صوموا تصحوا كفى بالمرء كذبا ان يحدث بكل ما سمع 72 662 525,542 522 68 71 548 957 130 722 983 72 980 922 195 420 74 400 فرشتوں کی نور سے پیدائش 68 176 قیامت کے برپا ہونے کے متعلق ایک صحابی کا سوال 719 اگر میری بیٹی فاطمہ نے چوری کی ہوتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتا 511 اگر آگ میں کو دجاتے تو جہنم میں کو دتے 616 اللہ پوچھے گا میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کیوں نہ کھلایا 506 اللہ تب تک انسان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہے 623 اللہ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا نہ صورتوں کو اللہ سے ساری کائنات مانگنے پر اس کے خزانوں میں کمی نہ ہوگی 759 اللہ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اونچی آواز سے تسبیح و تحمید کرنے والوں کو فرمایا کہ جسے تم پکار رہے ہو وہ بہرہ نہیں ، دور نہیں ایک امیر کے آگ میں کودنے کے حکم پر فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرتے تو آگ میں جلتے ایک انصاری کی مہمان نوازی کا واقعہ جس میں خدا بھی چٹخارے لیتا رہا ایک بدو کا مسجد میں پیشاب کرنا اور صحابہ کی حالت اور آنحضرت کی نصیحت 652 983 82 515 564 977
اشاریہ 26 خطبات طاہر جلد 15 ایک جاہل شخص کا بیٹی کو زندہ در گور کرنا اور آنحضرت کو یہ خدا کے مجد اور بزرگی سے آنحضرت کے منبر کالرزنا 740 دجال دائیں آنکھ سے اندھا واقعہ سنایا تو آپ کا رونا ایک جنگی قیدی عورت کا دیوانہ وار جس بچہ کو دیکھنا تو دودھ پلانا 532 دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے ایک زانی کا چار مرتبہ اقرار اسے سزا کا ملنا 513 دو مسلمانوں کے جھگڑوں کی وجہ سے آنحضرت سے ایک شخص کا کہنا ایسا کام بتائیں کہ اللہ مجھ سے محبت کرنے لگے 527 ایک صحابی کی مہمان نوازی سے اللہ کا آسمان پر مچاکے مارنا 675 ایک صحابی کے غلام کو مارنے پر آنحضرت کی تنبیہہ اے خدا مجھے ہدایت اور سچائی پر ثبات بخشنا بچہ کے رونے کی وجہ سے نماز چھوٹی کر دینا 414 لیلۃ القدر کا علم اٹھا دیا جان رمضان کی پہلی رات شیطان اور جن جکڑے جاتے اور 715 آگ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں 462 رمضان کے آخری ہفتہ میں لیلتہ القدر تلاش کریں بہترین وہ لوگ ہیں جن کے امیر اپنے ماتحتوں کے لئے روزے ڈھال ہیں، کوئی مخش بات نہ کرے دعائیں دیتے رہیں 516 سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ور نہ قریب ہے کہ اللہ تمہیں سے تعلق قائم رکھے سخت عذاب دے پھر دعا ئیں بھی قبول نہ ہوں گی تمہاری اور میری مثال ایسی ہے جیسے تم آگ کے گڑھے کی طرف دوڑ رہے ہو تو دنیا میں ایسا بن گویا تو پر دیسی ہے 605 سب سے پہلا شخص جو سر اٹھائے گاوہ موسیٰ ہو گا 534 165 424 136 69 132 110 964 770 639 بیچ بولنا چاہئے کیونکہ سچ بولنے سے انسان صدیق کہلاتا ہے 392 724 صحابہ کا پوچھنا کہ ایک سال کے دن میں نمازیں کیسے پڑھیں گے 50 تین افراد کا واقعہ جو غار میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے صحابہ کا پوچھنا کہ اگر جنت سب پر حاوی ہے تو پھر جہنم کہاں 753 ایک آدھ نیکی ہی کی تھی جب تم شادی کیا کرو تو ولو د أو دودا سے کیا کرو 143 طاقتور پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے 523 عاجزی اختیار کرنے پر اللہ کا ساتویں آسمان پر اٹھانا 975 480 جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں 390 دیئے جاتے ہیں 65 جبرائیل کا نازل ہو کر آنحضرت کے ساتھ قرآن دہرانا 43 رمضان کے روزے رکھنے اور اس کے تقاضوں کو پہچاننے 65 مسلمان ایک بدن کی طرح ہیں کسی کے پاؤں کی انگلی کے کنارے پر کانٹا چھے تو سارا بدن اذیت محسوس کرتا ہے 498 مشورہ ایک امانت ہے سے روزوں کا پہلے گناہوں کا کفارہ بننا جس شخص نے کسی مسلمان کی بے چینی اور تکلیف دور کی مومن ایک بدن کی طرح ہیں اللہ قیامت کے روز اس کی بے چینی اور تکلیف دور کرے گا 624 میں تمہیں بتاؤں آگ کس شخص پر حرام کر دی گئی 73 نماز میں کسی کی غلطی پر رانوں پر ہاتھ مارنا نماز کے بعد جسم کی زکوۃ روزہ ہے جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے جنت میں ایک درواز ہ ریان ہے جس سے صرف 926 آنحضرت کا اسے طریق سمجھانا 104 ننانوے قتل کرنے والے کا بخشش کا سوال 236 649 979 978 731 روزہ دار گزریں گے جو جھوٹ بولنے اور اس پر عمل سے اجتناب نہیں کرتا اللہ کو اس نیک باتوں کا بتانے والا ان پر عمل کرنے والے کی طرح ہے 622 کے بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں 113 112 آخری عشرہ میں آپ کمر ہمت کس لیتے جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی آنحضرت نے کبھی کسی کو نہ مارا راتوں میں نماز پڑھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں 64 آنحضرت نے رمضان کو تمام مہینوں سے افضل قرار دیا 63 129 514
اشاریہ حج حجة الوداع حج کے حوالہ سے دو نصائح حج کے موضوع میں حرمت کا پہلو حج محبت کا سودا ہے حج میں تلبیہ 27 سیاہ رنگ میں بھی ایک حسن ہے خطبات طاہر جلد 15 797 594 ظاہری حسن کو دیکھ کر خالق حقیقی کی طرف دل کا جانا ضروری ہے 829 336 ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب 329 | حق / حقوق 329 عدل کا تقاضا کسی کے حق کو سمجھنا ہے 930 حقوق کی حفاظت کے لئے پیسہ خرچ کرنا رشوت نہیں 676 428 743 حج میں لازم کہ بدی کے کپڑے اتار پھینکو حجۃ الوداع میں شریعت کی تکمیل کا حیرت انگیز منظر 920 مذہب کے نام پر کسی کو انسان کا حق سلب کر نیکی اجازت نہیں 363 ہرا میر سے خدا اور انسانوں کے حقوق سے متعلق زیادہ حدیبیہ سے وقت آنحضرت کا صحابہ سے مشورہ کا صحابہ سےمشورہ 249 پوچھا جائے گا حذیفہ حرام 605 انسان کے خدا پر اور خدا کے انسان پر حقوق کا ذکر 742,762 633 288 33 33 کسی چیز کے حرمت بننے کے وقت حرمت کے مختلف معانی حرص حرص اور طلب کے بڑھنے کی وجہ حرص سے بچنے کا طریق حرص کے نتیجہ میں کنجوسی حسد حسد سب سے نمایاں کمزوری حسد سے بچنے کے لئے دعاؤں کی تلقین حسد کی وجہ اور اس کا نتیجہ قرآن میں اقرباء کے حق کی طرف توجہ 263 حقیقۃ الوحی 336 دعوت الی اللہ اور حکمت کے تقاضے 301 528 957 قول سدید میں حکمت کے تقاضے مال خرچ کرنے کے بدلہ میں حکمت ملنا حکومت عدل کے ساتھ حکومت کا تصور 36 572 528 قرآن میں بیان کردہ مذہبی حکومت کا تصور حمل جب مرجانا ہے تو پھر کیوں کسی سے حسد کرنا 900 دوران حمل دعاؤں اور ذکر الہی کا حکم اور اس کی وجہ جماعت پر خدا کے فضلوں کے نتیجہ میں حسد کا بڑھنا 571 سماعت و بصارت کا دوران حمل کردار عورتوں میں بدقسمتی سے زیادہ پایا جانے والا حسد 572 حمید احمد صاحب لائلپوری 641 702 7 364 363 310 310 254 حسن بن صباح غالبہ کیلئے نشے میں مبتلا کر کے دیوانوں کی جماعت تیار کرنا 283 ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب حمید الرحمان ابن ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 905 حسن / حسن ظن حمیدہ آپا حیا 907 292 حق کی تلاش میں نکلنے والے شخص کو اسکی بہت ضرورت ہے 680 حسن قدرت کے لئے پہاڑ ، سبزہ زار و غیر ہ لازمی نہیں 825 حسن کا متلاشی زیادہ حسن کی طرف توجہ کرتا ہے نہ کہ کم 881 حیا ایک دفعہ اٹھ جائے تو پھر ہر جگہ سے اٹھ جاتی ہے 115 دفعہ 799 حیا کا پردہ جو قیامت کے روز ہوگا حسن کا ہر چیز پر غالب آنا بدیوں کو دور کر کے حسن میں اضافہ کرنے والے 886 حیرت الہ آبادی دنیا کے مختلف ممالک میں حسن کا معیار الگ ہے 796 خان ثناء اللہ خان صاحب 627 718 253,777
اشاریہ خانہ کعبہ خانہ کعبہ کی حرمت اور اس کا تقدس خدمت 931 28 28 خلق 35 حسن خلق کا فائدہ تبلیغ میں خُلق مسلسل قربانی کا نام ہے احمدیت کی سر بلندی میں اخلاق حسنہ کا کردار خطبات طاہر جلد 15 خدمت اور اطاعت کے اعلیٰ نمونہ لینے کا صحیح طریق 456 آنحضرت کی راتوں کو عبادت اور دن کو خدمت خلق میں محنت 137 احمدیت کے اعلیٰ اخلاق واقدار پر قیام کے لئے حضور کی تڑپ اور خواہش حضرت خدیجہ آپ سے شادی کے وقت سارا مال آپ کے قدموں میں لا ڈالنا 325 اخلاق حسنہ کا سفر گھر سے شروع ہوگا 447 90,91 923 464 921 حضرت خدیجہ کا آنحضرت کی وحی کے بعد نفسیاتی بحران پاکستان میں پائی جانے اخلاقی برائیاں جن کی کثرت ہے 207 سے دور کرنے میں تعاون کرنا خطبہ خطبہ کے دوران لاؤڈ سپیکر کی خرابی کے باعث کچھ دیر کے لئے خطبہ کا رکنا خطبہ کے دوران ویڈیو کا بند ہونا 599 372 336 جرائم کا اخلاقی کمزوریوں سے وابستہ ہونا عفو کا حسن خلق سے آغاز ہوتا ہے قوموں کا اپنے اخلاقی مسائل کے حل کے لئے کھڑے ہونا اور ان کا حل قرآن میں ہے 299 939 204 محض اللہ کام کرنے والوں کے اخلاق اور اعمال میں ترقی 623 سویڈن کے نیشنل ٹیلیویژن کے ذریعہ خطبہ جمعہ کی لائیٹر انیمیشن 913 مہذب اقوام کے مفاد پر انگلی اٹھے تو انکے اخلاق کی لاؤڈ سپیکر کا دوران خطبہ خراب ہونا اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف پھرنے پر حضور کی نصیحت دوران خطبہ سپیکر کے نظام میں نقص خلافت حقیقت سامنے کھلتی ہے 190 وسیلہ بننے کے لئے گہرے اخلاق کام آتے ہیں 479 آنحضرت کی دعاؤں کے بعد سب سے انقلابی طاقت حسن خلق تھی خلافت پر آپ لوگوں کے قول سدید کی کمزوریاں اثر انداز آنحضرت مکام الاخلاق پر فائز نہ ہوں خلافت سے حضور کا غلامی کا تعلق 708 اخلاق حسنہ سے آراستہ لوگوں کی مثال جگنو سے 671 خلافت کے ساتھ باندھے عہد بیعت کی قدر کریں خلافت کے ساتھ فیصلہ والی باتیں منسلک رہنے کی وجہ 694 خلافت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے والا احمدیوں کا مجموعی تقوی 708 خلافت کے لئے سلطان نصیر 924 446 917 462 922 928 429 اخلاق حسنہ کی طاقت بے شک انسان غریب ہی کیوں نہ ہو 922 اخلاق کو اپنانے کے لئے معرفت کا ہونا بہت ضروری ہے 959 اخلاق کی تبدیلی میں حقیقی قوت اور دلیری اس دور کے تقاضوں میں اخلاق حسنہ سب سے زیادہ اہم ہے 916 انسان کے خلیق بننے کا طریق امتوں کو خدا کا اپنا جانشین بنانا، اس کی مثال آیت استخلاف 615 بد خلقی اور سخت گیری فسق سے بدتر ہے بدخلقی خاندانوں کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی امیر صاحب یو کے کا چندہ دہندگان کے نام شکریہ کے خطوط 696 377 92 985 939 امیر کے کسی حکم سے اختلاف ہو تو بالا افسروں یا خلیفہ وقت کو حسن خلق کے ذریعہ یورپ میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے 917 281 ہر خلق کے اندر ایک مشقت اور محنت ہے مطلع کریں بیعت رضوان اور خلافت کی بیعت میں فرق 665 | خلافت / خلیفہ شوریٰ کا خلیفہ وقت سے رابطہ 241 خلیفہ کی بیعت کی ضرورت پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب کا ایک خاتون کے کندھے خلیفہ کی طاقت سے کام نہیں بڑھیں گے 910 خلیفہ وقت کو خرابی نہ بتانے کا نقصان کی وجہ سے لڑھکنا 91 669 696 707
اشاریہ امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے درمیان نو مبائعین کی حضور سے ملاقاتیں اور ان کے اخلاص کا ذکر 569 امیر کی اطاعت کی اہمیت اور اس سلسلہ کا خلافت تک پہنچنا 428 بیعت اگر ایک ہی ہے تو نبی کی بیعت اور کیوں اور خلیفہ کی بیعت اور کیوں ، ان سب کا حل حضرت اقدس نے پیش فرمایا ہے 668 بیعت میں اطاعت کے اصرار کی وجہ 425 29 داتا د، ڈ، ر، ز دا تا حضرت کے دربار پر جا کر ماتھے ٹیکے جانا دارا دانیال خطبات طاہر جلد 15 حضور کے بچپن دوست کے بیٹے کی کینسر سے وفات ، اس فیملی ملاقاتوں کی جوتوفیق خدا نے بخشی اس کی مثال پہلے نہیں ملتی 539 کے راضی برضا ر ہنے کا حضور پر اثر لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ جو میرے ارد گرد ہیں وہ ہاں ہاں ہی کرتے ہیں ملاقات کے وقت کے حوالہ سے مجبوریاں 780 540 میاں داؤ د احمد صاحب حضرت داؤد علیہ السلام دجال 303 553 710 573 281 حضور سے ملاقات کے حوالہ سے کینیڈا اور امریکہ کی جماعتوں کے اصول اور بعض لوگوں کو ٹھوکر لگنا 538 دجال کو یک چشمی اور دائیں آنکھ سے اندھا قرار دینے کی وجہ 165 حضرت خلیفہ ثالث کے زمانہ میں خلیفہ وقت کے در مین 126,361,382,533,536,588,728 خطبات کی کیسٹس کی افریقی ممالک میں پھیلاؤ کی سکیم 778 خلیفہ مسیح کی ناراضگی کے اظہار پر بیوی کا کچھ کہنا اور حضور کا دعا کہنا کہ تم سے کاٹ کے خلیفہ وقت کا ہو کے رہوں گا خمینی امام خواب 467 793 دعا کی طاقت سے مردوں کا زندہ ہونا دعا کے بغیر بدیوں سے دوری کا سفر ممکن نہیں دعا کے بغیر کسی کا نیک انجام نہیں 882,974,980 دعا کے ساتھ عرفان کا نصیب ہونا ضروری ہے 268 809 721 733 خوابوں کی تعبیر اللہ کی نعمت ہے ہر کسی کے بس میں نہیں 135 دعا میں غیر معمولی طاقت ہے اگر سنجیدگی اور تو کل سے ہو 267 استخارہ کے جواب میں کسی کو خواب نظر آنے پر حضور کا ارشاد 134 حضرت خلیفہ رائج کا رویا میں حضرت اقدس کی کتاب کا درس دینا 934 دعاؤں کے ذریعہ اللہ کے سہاروں کی تلاش عمر کو اذان کے الفاظ خواب میں بتائے گئے خدا نے اگر فضل فرمانا ہو تو مختلف ممالک کے احمدیوں کو خوا میں آتی ہیں خواہش خواہش کو پورا کرنے کے جائز طریق 134 133 دعاؤں کے ذریعہ آسمانی نصرت کا میسر ہونا دعاؤں کے ساتھ نفس کی ملونی خطر ناک چیز ہے 732 38 376 احمدیت کو ہندوستان کے حالات کے حوالہ سے دعاؤں کی تلقین 365 احمدیت کی ترقی کی رفتار کے لئے دعاؤں کی ضرورت 696 احمدیت کی عالمی یک جہتی کو بڑھانے کے لئے دعا کی تلقین 916 209 الله احمدیت کو اور نوبل لا ر سمیٹ عطا کرے ایک ماہر نفسیات کا لکھنا کہ ایک طرف اللہ نے انسان کے دل اللہ کا تو کل کے باوجود دعاؤں کا حکم میں طلب رکھ دی اور دوسری طرف رستے بند کر دیے 232 خورس MTA کے حوالہ سے عارضی روکوں کے دور ہونے 553 کے لئے دعا کی تحریک خورس کے ذریعہ بائبل کی تدوین نو 271 بعض سخت دل مردوں کی اولادوں کا لکھنا کہ ہم ان کے خوشی مرنے کے بعد کیسے دعا کریں سب کی خوشیوں میں شریک ہونے والے شخص کی مثال 529 تبلیغ کے درمیان مایوسی کے مراحل کا حل دعا ہے 902 697 255 945 273
اشاریہ 30 خطبات طاہر جلد 15 جلسہ یو کے میں آنے والوں اور نہ آسکنے والوں کیلئے دعا 537 دعوت الی اللہ حضور کارمضان سے قبل ایک دعا کے بارہ میں بعض لوگوں کو لکھنا 906 داعی الی اللہ ا کثر وہی کامیاب ہوتے ہیں جو سچی بات کرتے ہیں 396 سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ کی دعا سکھانے کی حکمت عبدالستار صاحب بزرگ صاحب کی اللہ سے عشق کے حوالہ داعی الی اللہ کے چہرہ کو اللہ ذلیل نہیں کرے گا سے ملکہ وکٹوریہ کی مثال دیتے ہوئے دعا اور کشف میں ایک داعی الی اللہ کے مقام پر انسان کب کھڑا ہوتا ہے شعر کا الہام ہونا 904 | داعی الی اللہ کا مقام و مرتبہ 381 دعوت الی اللہ اور تربیت کا تعلق عرب میں صدیوں کے مردوں کے زندہ ہونے کا انقلاب دعا دعوت الی اللہ اور حکمت کے تقاضے 174 893 168 954 641 449 817 798 816 کی وجہ سے آیا 505 دعوت الی اللہ اور عمل صالح حضرت عیسی کی بچپن کی دعا سلامتی کے حوالہ سے 905 دعوت الی اللہ اور قوت قدسیہ کا مضمون کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کوتا ہی نہ ہو 664 | دعوت الی اللہ اور کشش ثقل کا مضمون گناہ سے بچنے کی راہ جانے کے باوجود دعا کی ضرورت 736 دعوت الی اللہ کا حقیقی اور سائینٹفک فارمولا لیلۃ القدر معلوم ہونے پر کی جانے والی دعا 137 130 دعوت الی اللہ کا طریق حضرت موسی اور آپ کے ساتھیوں کی پناہ گاہ کے حوالہ سے دعائیں 735 دعوت الی اللہ کا عالمی دور نفس کے اندھیروں کے حوالہ سے حدیث میں مذکور ایک دعا 201 دعوت الی اللہ کا مقصد اور صفات حسنہ نور کے گردگھومنا ہے 159 دعوت الی اللہ کو پھل لگانے کا طریق نماز جنازہ کی دعا میں فلسفہ 722 حضرت یوست کی جیل والی دعا کی قبولیت اور اس میں حکمتیں 733 دعوت الی اللہ کی سکیم کی کامیابی کا راز آگ سے بچنے کی دعا کی علامتیں 838 دعوت الی اللہ کیا کرنا درست ہے یا نہیں؟ 169 787 890 160 632 دعوت الی اللہ کے جنون حوالہ سے چین کے مربی سلسلہ کا ذکر 640 آنحضرت کو دعاؤں کے نتیجہ میں عظیم کامیابیوں کا عطا ہونا 936 دعوت الی اللہ کے حوالہ سے کامل یقین پر قائم ہوں کہ اللہ کی آنحضرت کی دعائیں قرآنی تعلیم کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں 722 بے شمار تائیدات ہمارے ساتھ ہیں 638 آنحضرت کی دعاؤں کے بعد سب سے انقلابی طاقت دعوت الی اللہ کے ضمن میں اپنی ذات کی تربیت کے تقاضے 438 حسن خلق تھی آنحضرت کی ہدایت اور سچائی پر ثبات کی دعا آنحضرت کے حق میں ابراہیم کی دعا کا قبول ہونا اور اس میں تبدیلی ایک ماں کا اپنے بچے کو بددعا دینا کہ خدا سے اس کا تعلق ٹوٹ گیا تھا دوران حمل دعاؤں اور ذکر الہی کا حکم اور اس کی وجہ مخلصانہ دعا کے فوائد نعوذ باللہ من شرور انفسنا کی دعا نماز جنازہ میں پہلے زندوں کے لئے دعا پھر مردوں کے لئے حکمت آفتاب احمد خان صاحب کا دل دکھانے والوں کے لئے دعا کی تحریک 917 715 813 532 دعوت الی اللہ کے عالمی جہاد میں جماعت کی مصروفیت 875 دعوت الی اللہ کے لئے اپنے نفس کے ساتھ بیوی میں بھی تبدیلی پیدا کریں دعوت الی اللہ کے لئے ایک وقف جماعت دعوت الی اللہ کے لئے پہلے نبوت کا ایک مرتبہ حاصل کرنا ضروری ہے 817 618 601 887 310 دعوت الی اللہ کے معاملہ میں جرمنی کی جماعت کا کمال 408 736 دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں خوبیوں کا کمال کو پہنچنا 195,266 | دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں دنیا دار السلام بن سکتی ہے دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں زندہ پھلوں کے حصول کا طریق 157 772 | دعوت الی اللہ میں دو دعوتیں غیر فعال ممبروں کو تبلیغ کا حصہ بنانے کی تلقین 785 | دعوت اور امر میں فرق 876 795 644 618
اشاریہ 31 خطبات طاہر جلد 15 اسلام کی اشاعت کے میدان میں ہمیں اذن الہی سے جھونکا دنیا کی بے ثباتی اور اس کے چند روزہ ہونے کے متعلق گیا ہے 160 حضرت اقدس کا ارشاد اللہ کی طرف بلانے کے لئے عالمی صفات کا ہونا ضروری ہے 794 دنیا کی بے ثباتی پر مشتمل حدیث اللہ کے دین کی طرف بلانے کا کام مشکل ہے اگر اس کا سلیقہ نہ ہو 789 دنیا کی بے ثباتی سے مراد 724 724 721 715 231 533 للہ کے نمائندوں کو رات اور سربلندی نصیب ہوتی ہے 173 دنا کی بے ثباتی کا ذکرکمتوں اور وزیروں کی روشنی میں 719 بنگلہ دیش میں طلباء کا بحث کے لئے مربی صاحب سے دنیا کی بے ثباتی کامذہب سے تعلق احمدیت کے دلائل پوچھنا اور اُن کا سچ سچے دل سے قائل ہونا 191 دنیا کی پیروی بعض لوگوں کی عبادت 795 دنیا کی جہنم سے بچنے کا طریق 605 دنیا کی زندگی دھونے کے سوا کچھ نہیں دنیا کی زندگی کی مثال پانی کی طرح عمل صالح اور دعوت الی اللہ ایک ہی چیز کے دو نام نفس کو دعوت الی اللہ وہ مقام جہاں فائدہ کی بجائے نقصان دینے کا باعث ہوسکتی ہے 883 دنیا کی زندگی میں مگن لوگوں کی حالت اللہ کے راستے کی طرف بلاتے ہوئے جو خو بیاں ہونی چاہئیں 880 دنیا کی مختصر زندگی سے دل لگانے والوں کا برا انجام 396 ایک کم علم احمدی کا جرمنی میں دعوت الی اللہ کا طریق دنیا کے غلام خص کی حالت جس کی طرف آپ نے بلانا ہے اس کی طرف بڑھنے کی دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے 810 دنیا میں امن قائم کرنے کا طریق 156 دنیا میں جتنی بھی تباہیاں ہیں ان کی وجہ خود کوشش کریں داعی الی اللہ بننے کا طریق داعی الی اللہ کے ساتھ سراج منیر کا مضمون 156 دنیا داری کا خوفناک نقشہ کا قرآن میں ذکر صد دل کی گہرائی سے ہر داعی الی اللہ کا محمد رسول اللہ اللہ دین کا سر کنا اور دنیا کے غالب آنے کی ایک وجہ 218 721 259 764 415 424 233 717 417 222 بننا خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو با برکت ہوتا ہے 448 مرنے کے بعد جی اٹھنے کے مضمون کا دنیا کی بے ثباتی سےتعلق 719 کمزوریوں کے باوجود دعوت الی اللہ کرنی ہے لامذہب لوگوں کو دعوت الی اللہ کا طریق دل دل سے ظلمت دور کرنے کے بعد نور آئے گا 620 دہریت 792 دہریت کا برا اثر اور نتیجہ دہریت کے خلاف جہاد کا اعلان 180 یورپ میں دہریت کے پھیلنے کی وجہ عیسائیت ہے دل سے گند کی جڑی بوٹیوں کی دوری کے بعد نور جگہ بناتا ہے 180 سکینڈے نیوین ممالک میں باقی یورپ کی نسبت دہریت دل نیتوں کی آماجگاہ اور دل کے میلانات 166 کی زیادتی نور کے سفر کا دل سے آغاز دماغ دماغی کام کے حوالہ سے ایک ارتقاء دن دنیا 166 | ناروے کا دہریت میں بہت آگے ہونا 694 636 803 790 842 788 دہریوں سے تبلیغ کا رابطہ قائم نہ کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہے 792 دہریوں کو بھی کسی ذات سے ابتدائی محبت ہو جاتی ہے 840 افریقہ کے مظلوموں کی مدد بعض دہر یہ بھی کرتے ہیں، اس کی وجہ 602 مذہب سے بعض لوگوں کے دوری کی وجہ دن کی بقاء سے متعلق معاملہ کے متعلق پردہ پوشی کا حکم نہیں 626 دہلی دنیا اور اللہ کے غلاموں کی قرآن میں تمثیل دنیا سے بے نیاز ہونے پر خدا کی محبت کا حصول 416 530 دیانت 290 دیانت میں بہت سی برکتیں وابستہ ہیں دنیا کا فساد سے بھرنا اور فرشتوں کا قصور دنیا کو ظلمت سے بچانے کا طریق، سراج منیر سے چمٹ جائیں 170 حکومتی معاملات میں بد دیانتی کا نقصان اور برا اثر ہر احمدی کو بد دیانتی کے خلاف مستعد ہو جانا چاہیئے 794 15,778 744 765 747
اشاریہ دین دین پر قربان ہونے سے مراد 32 خطبات طاہر جلد 15 ربوہ میں ایک مٹی والے کے پاس حضور کا سائیکل پر جا کر 38 نظارہ دیکھنا دین کا سر کنا اور دنیا کے غالب آنے کی ایک وجہ 222 ربوہ میں ترجمۃ القرآن کمیٹی دین کو مذاق بنانے والوں کا قرآن میں ذکر 221 ربوہ میں مجلس شوری کے متعلق حضور کی نصائح دین کے لئے اپنی طاقتوں کو قربان کرنے کا عمل 680 20 240 37 1981 ء کے جلسہ سالانہ ربوہ میں تقاریر کا انگریزی ترجمہ 778 دین کے لئے دل میں درد اور دعا ئیں بہت ضروری ہیں 38 رحمت اللہ کے دین کی طرف بلانے کا کام مشکل ہے اگر اس کا سلیقہ نہ ہو 789 رحمت سے عاری شخص مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوتا کھیل میں ایک دوسرے پر تبصروں کے نتیجہ میں بالآخر دین والوں کو نشانہ بنانا 220 رحمت سے آگے طاقتوں کا پھوٹنا حضرت مسیح موعود کا دین کی سب سے بڑھ کر نصرت فرمانا 38 رحمت کے تقاضے کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے مفادات کو دوسرے کے دین کو مذاق کا نشانہ بنانا اندھیرے کی ایک قسم ہے 223 اپنا مفاد سمجھنا 724 اطاعت میں رحمت دیوان صاحب دیوان غالب 188,203,427,525, 108 مشوروں سے پہلے نرمی دلوں میں پیدا کریں اور رحمت کا 236 240 237 956 ڈکٹیٹر شپ ڈکٹیٹر کے لئے صبر کا کوئی مقام نہیں 629,828,926 512 نمونہ دکھائیں آنحضرت بطور رحمۃ للعالمین آنحضرت تمام بنی نوع کی پرورش کے ذمہ دار تھے آنحضرت کا عدل اور اس کے بعد رحمت کا اظہار کٹیٹرشپ اور اللہ کے ماموں کی اطاعت میں فرق 501 اس لئے آپ کی رحمت میں وسعت ڈکٹیٹر شپ کی اسلام میں تردید 614 اسلامی اطاعت کا تصور ڈکٹیٹر شپ سے بالکل الگ ہے 497 آنحضرت کو یہ کیوں فرمایا گیا کہ رحمت کی وجہ سے تو نرم ڈکٹیٹروں کی اطاعت خشک منطقی ہے آنحضرت ڈکٹیٹر ہر گز نہ تھے ڈنمارک ڈیٹن ، امریکہ ذکر اذکر الہی 502 498 788,917 909 پڑا، حکمت 241 240 955 513 238 آنحضرت کی خدا سے ملنے والی رحمت کا مخلوق میں تقسیم ہونا 236 رزق رزق حلال پر زور کی وجہ رزق کا گندا ہونا 743 591 جانوروں کا رزق کے حوالہ سے تو کل ذکر الہی کے آثار کا دنیا میں ظاہر ہونا ضروری ہے 741 قرآن میں رزق کے حوالہ سے دو غلاموں کی تمثیل ذکر الہی کو جانچنے کا پیمانہ دوران حمل دعاؤں اور ذکر الہی کا حکم اور اس کی وجہ راولپنڈی ربوه ربوہ کا بالغان میں اول رہنا 534 نا جائز رزق میں شیطان کا دخل 310 رشوت 834 413 4 17,1102 حقوق کی حفاظت کے لئے پیسہ خرچ کرنا رشوت نہیں 743 293,784 ربوہ کا وقف جدید میں پاکستانی جماعتوں میں اول آنا رضا 1002 رضا الہی سے باہر قدم رکھنے کا نتیجہ 17 رضا، مغفرت اور رضا کا تعلق ربوہ کی سارے پاکستان میں مالی سال میں زیادہ بجٹ ادا رضیہ بیگم صاحبہ کرنے کی توفیق ملنا 520 219 208 912
اشاریہ سٹر رضیہ رفیق چانن صاحب رمضان رمضان اللہ سے ملنے کا موسم رمضان اور تہجد رمضان اور شریعت کے کے اوامر و نواہی رمضان سے ہدایت پانے کا طریق رمضان کا موسم ، قرب الہی کا موسم ہے رمضان کا مہینہ عبادتوں کے مجموعہ کا مہینہ 33 910 | قرآن کا نزول 15 85 64 £ خطبات طاہر جلد 15 123 رمضان میں آنحضرت کی قربانی کی تیز ہوا سے مثال 325 رمضان کے آخری دس دنوں کی اہمیت رمضان کے آخری عشرہ میں عبادتوں میں جوش و خروش 102 93 رمضان کے آخری ہفتہ میں لیلۃ القدر تلاش کرو ( حدیث )132 رمضان میں ایسے لوگ بھی جمعہ پڑھ لیتے ہیں جو سارا سال 43 قریب نہیں جاتے 44 رمضان میں بھوکا رہنے کا سبق 100 رمضان میں بھوکا رہنے کا مزا 50 رمضان میں جنت کے دروازے کھلنے اور دوزخ کے بند رمضان کمانا ہے تو آنحضرت کی طرح کمائیں 90 | ہونے سے مراد رمضان کو چاند کے ساتھ باندھنے میں حکمت 2 رمضان میں جہاں ظاہری علامتوں کا تعطل ہو گیا وہاں فرض رمضان کو سورج سے کیوں نہیں باندھا ؟ اس کا جواب 49 کہ روزمرہ کے معمول کے دنوں کا اندازہ کرین رمضان کی افضلیت اور اس کی برکات کے متعلق احادیث 63 رمضان میں جھوٹ کے خلاف جہاد کی برکت 44 رمضان میں خدا کا قریب آنا رمضان کی اہمیت وافضلیت رمضان کی ایک رات سارے رمضان کا خلاصہ رمضان کی تھکاوٹ قرب الہی دور کرتا ہے رمضان کی روح رمضان کے ایام کا تیزی سے گزرنا 59 104 89 66 53 116 58 120 رمضان میں سینے کی گرمی یعنی کدورت اور اشتعال انگیز با توں 142 کی دوری 96 رمضان میں عبادت کی ورزش کا بعد میں فائدہ 101 رمضان میں فدیہ سے مراد رمضان کے بعد بعض لوگوں کا غفلتوں میں پڑنا 142 رمضان میں قرآن کے نزول سے مراد اور مفسرین کے مراد 65 لی مشکل 76 58 62 121 رمضان کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اجر رمضان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے متعلق احادیث نبوی رمضان میں نئی نیکیوں کے جذبوں کے پیدا کرنے کی ضرورت 108 103 رمضان میں آگے بڑھنے طریق اور ارشادات حضرت اقدس رمضان کے دنوں کا تیزی سے گزرنا 109 79 رمضان میں آنحضرت کا جبرئیل کے ساتھ قرآن کا دور کرنا 106 رمضان کے دوران معدے میں تیزابیت کا ہومیو پیتھک علاج 76 رمضان میں آنحضرت کی سخاوت کا عالم رمضان میں آنحضرت کی عبادتوں میں تیزی رمضان کے دوران ہر رات اپنا بہی کھاتہ کھول لیا کریں 93 89 رمضان نفس کے لئے تجربہ گاہ ہے رمضان کے ذریعہ عبادتوں کے مزے لینے کا طریق رمضان کے کون سے حصہ کو ہماری ذات میں دوام ملا ہے، اس کا جائزہ لیں رمضان کے گنتی کے دنوں کا تذکرہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کا نزول 146 100 41,42 اسرائیل میں رمضان کے حوالہ سے ریسرچ کہ یہ بچوں اور بڑوں کے لئے نقصان دہ ہے مگر اسکا حیرت انگیز نتیجہ روزہ دار کی بُو شیطان کا رمضان میں جکڑ ا جانا ، اس سے مراد 106 138 70 75 110 66 65 رمضان کے مہینے میں بھی پاکستان میں قتل و غارت گری 71 قادیان میں تہجد کے بغیر سحری نہیں ہوتی تھی رمضان میں سورج و چاند کی علامتوں کے ذریعہ عبادتوں کا تعین 50 کیا مشینی ذرائع سے چاند کاعلم پانا من شهد منکم کے رمضان میں عبادتوں کے اکٹھے ہونے کی برکتوں کے متعلق تابع ہوگا ، اس کا جواب 46 46
اشاریہ 34 خطبات طاہر جلد 15 325 آنحضرت کا رمضان کے چاند کے حوالہ سے ایک ہی افق نیکی کے دوران شیطان کی طرف سے ریا کا ابتلا اور اس کا علاج 387 کے چند قابل اعتما دلوگوں سے گواہی لینا اگر موسم کی خرابی کی وجہ دکھاوے کی نمازوں کا نقصان سے لوگ چاند نہ دیکھ سکے ہوں 46 نیکی کو اپنی ذات سے چھپانے کی کوشش افطاری کروانا اچھی بات ہے اس حوالہ سے رمضان کے زار منافی امور کا تذکرہ 95 افطاریاں کرانا رسم بن جائے تو رمضان خالی چلا جائے گا 90 اللہ کا نشانہ نہیں کہ دنیا میں ایک ہی دن رمضان شروع ہو 45 یہ بحثیں کہ کیوں نہ مسلمان بیک وقت روزے رکھیں بعض جگہوں پر افطاریوں کے لئے چندوں کا اکٹھا ہونا اور حضور کی سختی سے منع فرمانا جھگڑا کے وقت میں روزہ سے ہوں کہنے سے مراد روزہ اور سفر اور حضرت اقدس کا فتویٰ روزہ عبادت کا دروازہ کیوں ہے روزہ کی لذت روزے کی جزا خدا ہے، اس میں حکمت ریان دروازہ سے مراد 44 375 اطاعت کے نمونہ کے طور پر زار روس کے ایک افسر کا واقعہ جس نے شہزادے کو اندر نہ جانے دیا کیونکہ بادشاہ نے منع کیا تھا 489 زائر زبان 95 عربی زبان کی وسعت 111 زبیده مرحومه 55 72 زبیده پروین صاحبه 106 | زراعت 884 753 292 254 149 پنجاب میں جنوبی ہواؤں پر پھل لانیوالی کھیتیوں کو سکھا دینا 787 104 آم کی پیوند کاری اور قادیان میں اس کا باغ سحری کا وقت تہجد اور تلاوت کے بعد بہت تھوڑ اسا ہوتا تھا 65 حضرت زرتشت علیہ السلام مریض اور مسافر کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کا فتوی 63 نور اور ظلمت کو دو متقابل طاقتوں کی طرح بیان کرنا جس سے 669 180 712 513 848 251 184 711 269 272 218 259 آخری عشرہ اور آنحضرت کی عبادات کی کیفیت روز ہ صحت کا ضامن ہے، اس حوالہ سے ڈائیٹنگ کا ذکر مہا راجہ رنجیت سنگھ اس کا پگڑی والا واقعہ روح اروح القدس روح کا اپنے رب کا اقرار روح القدس کی حقیقت روس روس کے ایک آرٹسٹ کی بیعت ریا ریا سے پاک نیکی ریا کی ملونی سے پاک نیکیاں کریں ریا کاری کا نتیجہ ریا سے خرچ کرنے کا نقصان 129 74 718 213 93 45,489,490 96 دنیا کا دھوکا کھانا زمین زمین کو بچھونا بنانے سے مراد زنا ایک زانی کا چار مرتبہ اقرار اور اس کے بعد پھر آنحضرت کا اسے سزا دینا زندگی زندگی اور موت میں فرق زندگی کا غم اور خوشی ، کامیابی اور نا کامی میں بٹے ہونا زندگی کی پیاس خدا کے فیض یا عشق الہی سے عاری ہو وہ 375 محض سراب کے پیچھے بھاگتا ہے.زندگی کی نا پائیداری پر مشتمل قرآنی تعلیم 386 323 حضرت ابراہیم کا مردہ زندہ کرنے کا طریق سیکھنا 330 امت محمدیہ مردوں کو زندہ کرنے والی جماعت ہے انسانی فطرت میں شامل کہ دکھاوے کرنے والے کو کبھی دنیا کی زندگی دھوکے کے سوا کچھ نہیں 322 دنیا کی زندگی میں مگن لوگوں کی حالت کوئی جز انہیں ملتی
اشاریہ 35 خطبات طاہر جلد 15 دنیا کی مختصر زندگی سے دل لگانے والوں کا برا انجام 764 کہ کہیں وہ نظر نہ آجائے زینت اور تفاخر کا روز مرہ زندگی میں تباہی پھیلانا 287 تقوی اور دوسری زینت میں فرق قرآن میں مندرج دنیا کی زندگی کا خلاصہ 201 عورتوں کو گھروں میں زینت اختیار کرنے کی تلقین کانوں اور آنکھوں کی صلاحیتوں کو زندہ رکھنے میں زندگی ہے 311 لہو ولعب کا انسانی زندگی سدھارنے اور بگاڑنے میں کردار 203 مرنے کے بعد جی اٹھنے کے مضمون کا دنیا کی بے ثباتی سے تعلق 719 موت کی حالت میں اکثر لوگوں کا زندگی گزارنا 151 زیورچ سادگی س ،ش موت کے بغیر کوئی اللہ کے نز دیک زندہ نہیں 726 سادگی سچائی سے پیدا ہوتی ہے 268 | سال مُردوں کو زندہ کرنے سے مراد آسانی پانی کا اپنے آپ کو ٹی میں ملانا اوربی زندگی کا آغاز 717 جلسہ سالانہ میں سارے سال کے لئے زاد راہ کا ملنا 739 صحابہ کا آپ سے پوچھنا کہ ایک سال کے دن میں نمازیں 200 کیسے پڑھیں گے حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے دنیا کی زندگی محض ایک دھوکا ہے ہماری بقا اور قوموں کی اصلاح کا راز زہر زہر کیوں بنایا گیا زہر میں شفا رض زید بن ثابت زینت 261 183 305 16 403 555 611 لقاء مع العرب پر وگرام میں سوال کہ لوگ نئے سال کی خوشیاں 659 منارہے ہیں جماعت احمدیہ کا کیا موقف ہے نئے مالی سال کا اعلان 660 سائنس 623 سائنس نہیں کہہ سکی کہ ہم نے آخری کنارہ پا لیا ہے سائنسدانوں کا چاند کے طلوع کے حوالہ سے طریق 50 9 519 584 47 زینت اختیار کرنا فطرت میں ہے، وہ وقت جب گناہ بنتی ہے 297 سائنسدانوں کا کہنا کہ یہ کائنات کسی اور طرف متحرک ہے 759 زینت اور تفاخر کا روزمرہ زندگی میں تباہی پھیلانا 287 اسرائیل میں رمضان کے حوالہ سے ریسرچ کہ یہ بچوں اور زینت اور تفاخر کی چند مثالیں زینت بندوں کے لئے حرام نہیں ہے زینت کا تقوی بننا 264 بڑوں کے لئے نقصان دہ ہے مگر اسکا حیرت انگیز نتیجہ 261 انسانی ارتقاء کی کہانی ایسی جگہوں پر مرتسم ہے کہ بصیرت ہو تو 213 اس کے آثار پڑھے جاسکتے ہیں 75 681 زینت کو غیر معمولی طور پر اختیار کرنا اور جائز زینت سے بلیک ہول کی پیدائش ایٹم کے آپس میں کچلے جانے سے ہے 898 منہ پھیرنا اندھیرا ہے زینت کی دو قسمیں زینت ہر انسان کی تمنا ہے منفی اور مثبت زینت کا ذکر اور اُن کا اثر جھوٹ اور غرور کی زینت 262 ڈاکٹر عبدالسلام نے اس نظریہ ورد کیا کہ پروٹان کبھی ختم نہیں 212 ہوسکتا 261 کائنات میں مقناطیس کے نظر نہ آنے والے ستون 211 مغربی قوموں کو خدا کے تصور کے بغیر تحقیق کا سفر کرنے پر جزا 227 ملنے کی وجہ عورت میں سجاوٹ کا طبعی مادہ ہے لیکن ہر ایک میں نہیں 260 مکھی کے دو پر، ایک میں شفا دوسرے میں زہر گھر میں مہمان آنے پر عورتوں کا زینت اختیار کرنا مسجد میں زینت لے جانے سے مراد آنحضرت اپنی زینت کا خیال رکھتے تھے 898 590 595 658 212 نئے چاند کے حوالہ سے سائنس اور قرآن کے بیان میں تطبیق 48 213 آئن سٹائن ایتھر کا قائل ہے 903 212 اللہ کی تخلیق کے حوالہ سے سائنسدانوں کا ایک جگہ آ کر کھڑے ایک بچہ کا صرف ایک داغ کی وجہ سے حضور سے چھپ جاتا ہو جانا کہ اس کی کنہہ کوسمجھ نہیں پارہے 681
اشاریہ 36 ایک گندی جھیل میں گل بکاولی کے کھلتے ہوئے پھول اور خود گزارہ کرلوں گا مگر تبلیغ نہ چھوڑوں گا حضور کا تجزیہ ایک وڈ پیکر کی چونچ مارنے کی رفتار چار جہات کا تصور 583 سجده 585 سجدوں میں آنحضرت کا تنقلب 753 سجدہ کا رفعت سے تعلق خطبات طاہر جلد 15 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا چار بنیادی طاقتوں میں سے دوکا سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ کی دعا سکھانے کی حکمت راز سمجھنا ڈائیٹنگ کا انسان پر برا اثر 239 فرشتوں اور شیطان میں سجدہ کے حوالہ سے فرق 74 فرشتوں کو سجدہ کا حکم ہمفسرین کی الجھن روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی ، اس حوالہ سے آدم کو فرشتوں کے سجدہ سے مراد حضور اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی گفتگو سائنسدانوں کا دریافت کرنا کہ ارتقاء کا جو وقت انہوں نے دیکھا ہے وہ ارتقاء کے لئے کافی نہیں سماعت و بصارت کا دوران حمل کردار طرح طرح کی عیش و عشرت کی ایجادات کے باوجود انسان کی پیاس نہیں بجھ رہی کائنات کا ایک لمحہ میں وسیع تر ہوتے چلے جانا کشش ثقل کی طاقت کشش ثقل کے راز کو آج تک ترقی کے باوجود سائنسدان نہیں سمجھ سکے لطافت کا مضمون جس کی وجہ سے ٹی وی کی لہریں آپ دیکھ 903 699 310 185 755 798 239 سچائی 642 492 904,907 904 276 426 597 391 402 621 854 سچ بولنا فطرت کے مطابق ہے سچ میں تسکین سچائی پر قدم مارنے سے قوت قدسیہ کا حصول سچائی جھوٹے عقائد کو قبول ہی نہیں کر سکتی سچائی کا عنصر مغربی دنیا میں زیادہ ہے بنسبت مشرقی ممالک کے 185 سچائی کی حفاظت کریں 399 347 سچائی کی طاقت توحید کے قیام میں کام آئے گی سچائی کے بغیر اخلاق کی تعریف ناممکن ہے اور سچائی کی تعریف خدا کے حوالہ کے بغیر ناممکن ہے 447 سچائی کے نام پر بے حیائی اور فضاء کی اسلام نے اجازت نہیں دی 856 نہیں سکتے نباتات کی پیدائش نظام کا ئنات میں گندگی دور کرنے کا طریق آگ پر چلنے میں مد عوامل سانپ سانپ کو جان کہنے کی وجہ سیاہی سپاہی کی تربیت کا دنیا میں معیار اللہ کا سپاہی بننے کا طریقہ جاننا بھی لازمی ہے سپین 754 712 170 598 سچائی کے نتیجہ میں غلطی بھی پیاری لگتی ہے سچائی میں وزن اللہ کا فضل سچائی کے نتیجہ میں ملتا ہے 761 811 761 اللہ کی ستاری کا پر وہ نکال باہر کرنا قول سدید کے خلاف ہے 704 انبیاء کی سچائی کا معیار اور اس سے تعلق 853 ایم ٹی اے کے حوالہ سے قول سدید جرمن قوم کو فتح کرنے کی چابی سچائی میں ہے 442 851 396 686 حسن ظن کی حق کی تلاش میں نکلنے والے شخص کو ضرورت 680 686 سادگی سچائی سے پیدا ہوتی ہے 640,750,794,842 | قوت قدسیہ سچائی کے معیار کا نام ہے 403 813 سپین کے مظالم کی وجہ سے اس کا اور اس کے زیر تسلط ممالک محمد رسول اللہ کی جماعت قول سدید کے لئے پیدا کی گئی ہے 852 کا دیگر یورپی ممالک سے پیچھے رہنا 361 آنحضرت کی ہدایت اور سچائی پر ثبات کی دعا سپین میں عیسائی کی سر بلندی کے لئے مسلمانوں اور دیگر اللہ کی رضا سچائی کا دوسرا نام ہے مذاہب والوں پر ظلم اور اس کا نتیجہ حضرت مصلح موعودؓ کے وقت پین کے ایک مبلغ کا کہنا کہ میں صرف رب کے پاس ہے 360 بچے اور جھوٹے کے اختلاف کی صورت میں سزا کا اختیار 715 417 637
اشاریہ اللہ کے سفیر سچ کے علمبردار ہوتے ہیں 37 395 خدا کی خاطر سزا خطبات طاہر جلد 15 514 انا کو توڑنے کا بہت پیارا نسخہ، سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح دنیا میں سزا کا فیصلہ کرنا انسان کو خدا نے اختیار دیا ہی نہیں 636 تذلل اختیار کرو بعض جگہ اللہ نے لوگوں سے گناہ کا حال بتانے کی اجازت نہیں دی ایسا شخص مغضوب ہو جاتا ہے جو بتاتا ہے 942 سعودی عرب 703 توحید کا معیار اس کے جھوٹ اور بیچ سے پہچانا جائے گا 392 جھوٹ نہ بولنا ایک اور چیز ہے اور قول سدید ایک اور بات 701 سعید بٹالوی کے اس نواسے کا بیعت کرنا سفر روزہ اور سفر اور حضرت اقدس کا فتویٰ 78,793,794 777 55 خلافت پر لوگوں کے قول سدید کی کمزوریاں اثر انداز نہ ہوں 708 وہ سفر جو بظاہر روشنی کی طرف مگر اندھیرے کی طرف ہوتا ہے 217 داعی الی اللہ اکثر وہی کامیاب ہوتے ہیں جو سچی بات کرتے ہیں 396 705 سفیر عائلی معاملات اور قول سدید کی اہمیت قرآن کا بیچ کی بجائے قول سدید کا حکم ، اس کی مکمل تفصیلات 702 اللہ کے سفیر بیچ کے علمبر دار ہوتے ہیں یورپ میں جرمن قوم سب سے زیادہ سچ بولنے والی ہے 394 سکاٹ لینڈ 395 اللہ بیچ کا سر چشمہ ہے 399 سکاٹ لینڈ میں ایک شخص کا بچوں کو قتل کر دینا، اس کی وجہ 204 بعض لوگوں کا سچ بولنا مگر ان کا عمل ان کو جھٹلا رہا ہوتا ہے 810 مٹی سے برتن بنانے والے کے نظارہ میں حضور کی محویت 680 حدیث کی رو سے سچ بولنے والا صدیق کہلاتا ہے 392 سلام سلامتی قرآن میں سچ کی بجائے قول سدید پر زور قول سدید سے مراد 852 849 قول سدید کا تربیت اور اصلاح نفس سے بہت تعلق ہے 849 سلامتی کی راہوں کی نشانیاں سلامتی کی طرف بلانے کا طریق قول سدید کی کمی سے نظام جماعت میں رخنہ کا پیدا ہونا 706 سلامتی کے مختلف رستے قول سدید کی کمی کا انتظامی جھگڑوں پر اثر 702 عیسی کی بچپن کی دعا سلامتی کے حوالہ سے 703 صراط مستقیم تک مختلف سلام کے رستوں سے پہنچنا 37 877 35 905 24 22 26 قول سدید کے ساتھ اصلاح کا وعدہ قول سدید کے فوائد قول سدید میں حکمت کے تقاضے سراب سراب کی پیروی والے کو بالآ خر کچھ نہیں ملتا 852 آنحضرت سے طفیل امن کی راہیں نصیب ہوتا 702 217 اللہ کا انکار کرنے والوں کے اعمال سراب کی طرح ہیں 259 سردار بیگم صاحبہ اہلیہ علی محمد صاحب ان کے نماز جنازہ کا اعلان سرگودھا سری لنکا سزا 18 17,1003 206 سبل السلام کا ظلمات سے تعلق سلمی صدیقہ صاحبہ ان کے جنازہ کا اعلان سور سود سے بچنے کا طریق قرآن کا سودی نظام کی جڑیں اکھیڑنا سورج 24 18 746 860 سورج کا نظام زندگی کو صحت بخش بنانا اور غلاظت کو دور کرنا 170 سورج کے طلوع و غروب ہونے میں قطعیت 46 بچے اور جھوٹے کے اختلاف کی صورت میں سزا کا اختیار رمضان کو سورج سے کیوں نہیں باندھا؟ اس کا جواب 49,50 صرف رب کے پاس ہے 637 سوئٹزر لینڈ 16,313,788,873,1102
خطبات طاہر جلد 15 اشاریہ 38 سوئٹر لینڈ میں سب سے زیادہ دہریت 842 اطاعت کروانے کے حوالہ سے شرک کا مضمون سویڈن 84,917 509 اولا د پر چختی کرنے کو حضرت اقدس نے شرک قرار دیا ہے 935 جھوٹ کا شرک پر منتج ہونا سویڈن کے نیشنل ٹیلیویژن سے خطبہ جمعہ کی لائیوٹرانسمشن 913 حضرت سہل سیاست سیاست اور دولت کا گٹھ جوڑ اور دنیا کے امن کا اٹھنا سیاست میں جھوٹ پاکستان اور تیسری دنیا کی سیاست میں پیسہ کی تباہی 104 جھوٹ کے نتیجہ میں شرک ہی پھیلتا ہے.337 347 عبادت کے وقت دیگر دینی کام شرک اور نفس کا بڑا دھوکہ ہیں 852 یورپ میں ہر سال پھونک مارنے والے صوفیوں کا آنا جو 688 301 محض شرک کی تعلیم دیتے ہیں 391 ساری دنیا کے مسائل کی وجہ دنیا کا شرک میں ڈوبنا ہے 575 303 مشرکین کا بعض کام اللہ کے تقویٰ سے اختیار کرنا اچھے اچھے سیاستدانوں کا حکومت میں آنے کے بعد ظلم کرنا 465 594 بڑے سیاستدانوں اور ریٹائر ڈ جرنیلوں کا کہنا کہ ہم نے اتنی ایک شاعر کا انگریزی سے اردو میں نظم کا با کمال ترجمہ 140 خدمتیں کیں آخر کچھ نتیجہ نہ نکلا پاکستانی سیاست میں غنڈہ گردی حکومتی معاملات میں بد دیانتی کا نقصان اور برا اثر کسی قوم کے کسی دوسری قوم پر حکمرانی کرنے کی وجہ مغربی دنیا کی سیاست کا دولت کی وجہ سے گندا ہونا 184 314 765 298 301 17,1003 525 548 شعری ذوق سے انسان کی پہچان آنحضرت کا اشعار کوسننا اردو اشعار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج 882 آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے 980, 533 سیالکوٹ حضرت ملک سیف الرحمن صاحب سینیگال شادی 11 ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے 968 اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں 94 608 اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا 728 اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے 140 134 اس بڑا مزه بسان پائے میں ملاپ ہے 944 نقش رہ رواں کوئے تمنا میں 801 شادی کے موقع پر دکھاوے کی بری عادت کا نقصان 214 شادی کے وقت استخارہ کا صحیح طریق سے معاملہ 108 تھا خواب میں خیال کو تجھ شادی کے وقت بعض غریبوں کے مطالبات کا برا نتیجہ 404 تیرے کوچے میں کن راہوں سے آؤں 535 شادیوں کے لئے قرض کی عادت 287 خوب بچے پیدا کرنے والیوں سے شادی کرو (حدیث) 262 وہ جمال دل فروز صورت مہر نیم روز 828 کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا 588 حضور کی بچیوں والوں کے لئے قناعت کی دعا کرنا رشتہ کے وقت دین کو زیادہ اہمیت دینے کی تعلیم شام 403 404 249 چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے 382,588 دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک 203 دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا 526,926 حضرت حافظ مختار احمد شاہ جہانپوری صاحب مجلس میں تیرے حسن کے شعلے حضور 925 آپ کو ایک پنجابی کا تعریف میں کہنا کہ بلا بدھی ہوئی ہے 182 جابی کاتعریف شرک شرک پر منتج ہونے والے عوامل شرک جھوٹ ہی کا نام ہے رض کھلتا کسی یہ کیوں مرے دل کا معاملہ 525 گرچہ ہے کس کس کی برائی سے ولے بایں ہمہ 629 وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری 188 391 لمحات وصل جن ازل کا گمان تھا 556 337 گئے
نہ اشاریہ چیز کیا کس کو نه خدا ہی ملا نه 39 خطبات طاہر جلد 15 بتاؤں 536 چندہ نہ دینے والے کو مجلس شوریٰ میں ووٹ دینے کا حق نہیں 243 تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر 888 رحمت سے عاری شخص مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوتا وصال صنم 323 نظام جماعت کی بناء شوری پر ہے وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں 140 آنحضرت کو مشاورت کا حکم وہ روتا وہ ہنسنا کبھی 141 اسلامی مجلس شوری کا تصور وہ ہوا بچپن اور وہ سادگی 236 241 246 248 ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا 427 شوری میں کسی عہدیدار کا عناد لے کر جانے والوں کی حالت 241 ہیں تری یاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز 974 محض اللہ کی خاطر فیصلہ کرنا عربی اشعار 237 292 17,1003 18 291 4 68 696 66 287 280 279 اذا 773 الا ايه لليل الطويل الا انـجــلـــى 766 ر الیک من شوق علا 329 شهزاد شیخو پوره شیر محمود ا ان زرتــنــــالـوجــدتـــنـــا 566 شیطان فارسی شعر شیطان انبیاء کو نہیں بھلایا کرتے دل معشوق پیدا می شود 381 شیطان کا انسان کو اچھی چیزوں کے دینے سے روکنا عشق اول در شفاعت آنحضرت کے شفیع المذنبین ہونے سے مراد شفیع سے مراد شکر 223 223 شیطان کا انسان کی رگوں میں دوڑنا شیطان کا چھپ کر وار کرنا شیطان کا رمضان میں جکڑ ا جانا ، اس سے مراد شیطان کا نفس کو دھوکا دینا شیطان کا نفس کی خاطر خرچ کرنے والوں کو گھیرنا شکر کی طاقت کو بڑھانے والا احساس شکر کے اظہار کا اعمال سے تعلق شکریہ ادا کرنے کا طریق 1007 | شیطان کو کہا جانا کہ تو مردود ہو گیا ہے 477 | شیطان کو آدم کی نسل پر قیامت تک اثر ڈالنے کے لئے چھٹی 566 865 شیطان کی حقیقت 68 شکریہ کے وقت دوسرے مسلمان کا طریق 487 شیطان کی خصلت یہ ہے کہ اپنے رب کا ناشکرا ہوتا ہے 290 568 شیطان کی سرکشی اور بغاوت احسانات پر خدا کا شکر ادا کریں کسی چیز کو بے محل استعمال نہ کرنا ناشکرا پن ہے 290 انسان کے شیطان کا دوسرا مظہر ہونے کا مقام 78 بائبل میں نفس کو شیطان سے مشابہت 281 751 849 شمالی امریکہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب فحشاء کی تعلیم کا نتیجہ کہ شیطان کو اموال میں کوئی دلچسپی نہیں 5 شوری شوری کا خلیفہ وقت سے رابطہ شوری کو زندہ رکھنے کی روح شوری کے نظام کا آغاز رحمت سے ہوا شوری کے نظام میں رخنہ پیدا ہونے کے بعض مواقع 19 241 250 236 241 فرشتوں اور شیطان میں سجدہ کے حوالہ سے فرق فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا اور شیطان کی سرکشی نا جائز رزق میں شیطان کا دخل 276 277 4 نیکی میں شیطان کی طرف سے ریا کا ابتلا اور اس کا علاج 387 آنحضرت کے شیطان کا مسلمان ہونا شوری میں خدا کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو آگے لایا کریں 244 صادق صاحب مرحوم اللہ کو تحفے دینے والے مشورہ دینے کے زیادہ اہل ہیں 245 مرزا صادق شرر صاحب 291 910 323
اشاریہ حضرت امام صادق 40 طالوت امام قائم کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کہ مشرق والا مغرب طالوت اور اس کی قوم کی آزمائش خطبات طاہر جلد 15 279 280 اور مغرب والا مشرق کو دیکھ سکے گا د المشرق دیکھ گا 476 حضرت مرزا طا ہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع | صالحیت صالحیت کا لقب نجات کا لقب ہے مبر 687 اندھیرے میں حضور کا تصویر کھینچنا ایک بچہ کا صرف ایک داغ کی وجہ سے حضور سے چھپ جانا کہ کہیں وہ نظر نہ آجائے 194 261 ڈکٹیٹر کے لئے صبر کا کوئی مقام نہیں گناہوں سے دوری کے لئے صبر کی تلقین 688 جرمنی کی جماعت سے حضور کی محبت کی دو وجوہات آنحضرت کو دشمنوں کے حوالہ سے صبر کی تعلیم 512 جماعت کی بعض تجارتوں میں آپ ڈائریکٹر بھی رہے ہیں 745 512 ایم ٹی اے کا حضور کے دورہ ناروے کے دوران کردار 844 صحابہ کی اطاعت کے بے مثال نمونے صحابہ کے ثبات قدم کی قرآن میں گواہی صحابہ میں مہمان نوازی کا جذبہ صحابہ نے اپنے نفوس کو جھاڑو دے کر صاف کیا 457 حضور کا کاٹن کی تجارت میں مسلم کمرشل بنک سے بغیر سود 457 کے قرضہ لینے کا طریق اور تجارت میں برکت 565 حضور کے بچپن دوست کے بیٹے کی کینسر سے وفات، اس 571 کے راضی برضا ر ہنے کا حضور پر اثر 408 746 710 ایک صحابی کے قتل سے قبل اس کی محبت اور اطاعت کا عالم 503 ربوہ میں ایک مٹی والے کے پاس سائیکل پر جا کر نظارہ دیکھنا 680 آنحضرت اور آپ کے ساتھی جنت میں داخل ہونے سے روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی، اس حوالہ سے پہلے بلند مقام پر فائز آنحضرت کی صحابہ سے وابستہ توقعات صدقہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی 25 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے گفتگو 903 498 سکاٹ لینڈ میں مٹی سے برتن بنانے والے کے نظارہ میں محویت 680 947 دورہ سویڈن میں ایک خاتون کا عفو اور مغفرت پر خطبہ کا خط 933 فیملی ملاقاتوں کی جو توفیق خدا نے بخشی اس کی مثال پہلے نہیں ملتی 539 مشورہ کے لئے آنحضرت کی خدمت میں حاضری پر صدقہ کسی کو جماعت سے الگ رکھنا میرے لئے تکلیف کا موجب 242 ہوتا ہے، کسی کی غلط ضد کو تسلیم کرنا عفو کے اندر نہیں لندن میں حضور کا طالبعلمی کے زمانہ میں رات کو پیدل کی تعلیم صدیق شاکر صاحب صراط مستقیم صراط مستقیم تک مختلف سلام کے رستوں سے پہنچنا 783 24 بے خوف چلنا جبکہ اب امن کا اٹھنا 943 916 ناروے میں سورۃ آل عمران کی آیات کا حضور کو بکثرت یاد آنا 823 نماز جنازہ غائب نہ پڑھوانے کے متعلق حضور کی درخواست 709 صراط مستقیم آنحضرت اور قرآن کی پیروی میں ہی ملے گا 31 جلسہ سالانہ جرمنی اور یو کے کی وجہ سے غیر معمولی مصروفیت 693 صلاحیت جوانی سے ہی آپ کا تبلیغ کا فرمانا 570 صلاحیتوں کا آپس میں تعاون ضروری ہے تین قسم کی بدیاں جو تین قسم کی صلاحیتوں پر حملہ آور ہیں 273 ناروے کے دورہ کا ذکر کانوں اور آنکھوں کی صلاحیتوں کو زندہ رکھنے میں زندگی ہے 311 خلافت سے غلامی کا تعلق ہر شخص صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے معراج تک پہنچ سکتا ہے 91 خلیفتہ امیج کی ناراضگی کے اظہار پر بیوی کا کچھ کہنا اور حضور کا 649 رمضان سے قبل ایک دعا کے بارہ میں بعض لوگوں کو لکھنا 906 جنرل ضیاء الحق ضیاء الحق کا بدترین انجام 466 کہنا کہ تم سے کاٹ کے خلیفہ وقت کا ہو کے رہوں گا 315 رؤیا میں حضرت اقدس کی کتاب کا ایک درس دینا 841 429 467 934 26 اپریل 84ء کو جماعت کے خلاف ظالمانہ آرڈینینس 313 آل عمران کی آیات کی روشنی میں مختلف علاقوں کی سیر کی منظرکشی 825
اشاریہ 41 خطبات طاہر جلد 15 لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ جو میرے ارد گرد ہیں وہ ہاں ہاں نور کے طاقتور ہونے کے بعد اندھیرے واپس کیوں آتے ہیں؟ 215 780 سفر جو بظاہر روشنی کی طرف مگر اندھیرے کی طرف ہوتا ہے 217 ہی کرتے ہیں وقف جدید کے ابتدائی ممبران میں آپ شامل تھے آپ کی دفتری مصروفیت آپا طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ طب 694 اندھیروں کا سفر جو روشنی کے نام پر کیا جاتا ہے تین قسم کی ظلمات 292 ظلمت سے بچنے کا طریق رمضان میں معدے میں تیزابیت کا ہومیو پیتھک علاج 76 حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب 778 ظلم ظلمت سبل السلام کا ظلمات سے تعلق 24 187 200 181 179,291 194 ظلمت کی کئی قسمیں ہیں گہرے سمندروں میں نو ر کا کوئی نشان نہیں مغرب کا ظلمت میں پڑے ہونا، دانشوروں وغیرہ کی مایوسی 185 حضرت عائشہ صدیقہ 129,138,514,983 آنحضرت کے لئے لفظ ظلم کے استعمال میں حکمت 419 حضرت عائشہ پر بہتان کے نتیجہ میں حضرت ابوبکر کا احسان کا سلوک چندلوگوں سے بند کرنا اور اللہ کا ایسا کرنے سے منع کرنا 470 179 ظالم سے مراد ہر طرح کے ظلمات کے بندھوں سے آنحضرت کا آزاد کرنا 33 عائشہ پر گندا الزام اور آنحضرت کی کچھ عرصہ علیحدگی اور پھر کچھ ظلماتی لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھنے کی تعلیم 225 اللہ کے حکم پر مائل ہونا 180 عائلی معاملات ظلمت اور نور کی جنگ سے مراد ظلمت کی ایک قسم جس کا روشنی سے تعلق ہے 181 عائلی معاملات اور قول سدید کی اہمیت 218 | عائلی معاملات میں جھوٹ کا برا نتیجہ 180 بدخلقی خاندانوں کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی 942 705 394 705 399 945 939 ظلمت کی تین منازل اندھیرے کو روشنی دیکھنے لگ جانے پر استغفار کی تعلیم 193 عائلی معاملات میں جھوٹ کا نقصان | اگلی نسلوں کا اندھیروں میں مبتلا ہونا ، ان کو بچانا ہے 269 عائلی معاملات میں سچائی کی حفاظت کی ضرورت اللہ کا نور اندھیروں سے شکست نہیں کھا سکتا 234 عائلی معاملات میں مرد کا غفور بننا توازن کے کھونے سے طبعی حالتوں کا اندھیروں میں بدلنا 208 میاں بیوی میں یکسانیت نہ ہونے کے باعث مسائل 380 دل سے ظلمت دور کرنے کے بعد نور آئے گا دنیا کو ظلمت سے بچانے کا طریق، سراج منیر سے چمٹ جائیں 170 خلیفہ اُسیح کی ناراضگی کے اظہار پر بیوی کا کچھ کہنا اور حضور کا قیامت لازمی ہے تبھی تمام پردے اٹھ جائیں گے 230 کہنا کہ تم سے کاٹ کے خلیفہ وقت کا ہو کے رہوں گا کھیل اپنی ذات میں برا نہیں ، اس کا اندھیرانے کا وقت 219 ایک عورت کا اس وجہ سے شادی کے دو دن بعد گھر بیٹھ جانا کہ کھیل اور متنا سب پڑھائی کے درمیان توازن ضروری جتنی اس نے عمر بتائی تھی اس سے زیادہ اسکی حقیقی عمر تھی 705 ہے ورنہ بچے اندھیروں کی طرف جائیں گے 208 بعض سخت دل مردوں کی اولادوں کا لکھنا کہ ہم ان کے نفس کے اندھیروں کو نفس سے دور کرنے پر روشنی کا ملنا 275 مرنے کے بعد کیسے دعا کریں نفس کے اندھیروں کی تین اقسام 260 بیویوں سے بدتمیزی کرنے والے مرد جو اسے شان سمجھتے ہیں 939 نفس کے اندھیروں میں مبتلا شخص کو پھر کوئی ہدایت نہیں دے سکتا 206 دورہ سویڈن میں ایک خاتون کا عفو مغفرت پر خطبہ کیلئے خط لکھنا 933 متناسب نفس کے اندھیرے کا علاج 195 کیت عورت یا فساد بر پا کرنے والی کو نصیحت کرو پھر کچھ عرصہ 277 کے لئے علیحدہ اپنے بستر میں چھوڑنے سے مراد نفس کے اندھیرے وسوسوں سے پیدا ہوتے ہیں نفس کے وہ اندھیرے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں 259 گھر میں نصیحت کے تین طریق 467 945 940 937
اشاریہ 42 خطبات طاہر جلد 15 گھروں کے امن کی تباہی کی ایک وجہ، ہر بری چیز کو سننے کا چسکا 468 بہت تیز سفر اور نہ ٹوٹنے والے ریکارڈز عاجزی عاجزی اختیار کرنے پر اللہ کا ساتویں آسمان پر اٹھانا اٹلی میں عزت افزائی اور ریسرچ سنٹر کا قیام 480 خلافت سے احترام اور عقیدت آنحضرت کا بلند ترین مراتب کے باوجود منکسر المزاج ہونا 981 روشنی کی رفتار سے متعلق حضور کے ساتھ گفتگو 908 908 902 903 آنحضرت کا عاجزی کا آخری مقام حاصل ہوا آنحضرت کی منکسر المزاجی 968 حساب سے ان کا دنیا کی پروٹانز کی عمر کا بتانا، جس سے انہیں عالم بی بی صاحبہ عبادت عبادت پر جھوٹ کا اثر عبادت کا سرا اور علانیہ ہونا ،اس میں حکمت عبادت کا غلامی سے تعلق ں میں حکمت عبادت کی علامتوں میں قرآن کا کمال عبادت کے تعلق میں سختی 484 دوسرا نوبل انعام مل سکتا ہے 74 اس نظریہ کو رد کیا کہ پروٹان کبھی ختم نہیں ہو سکتا بعض سائنسدانوں کا کہنا کہ یہ خدا کو ماننے والا ہے 392 عبدالسلام صاحب ٹیلر ماسٹر حضرت عبداللہ بن عمرؓ 343 حضرت عبداللہ بن مسعود 325 51 حضرت نواب عبداللہ خان صاحب 899 898 902 911 534 392,414 403 | ویرووال 57 عبدالمجید خاں صاحب ویر و وال والے 292 عبادت کے معاملہ میں نیتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت 377 حضرت عبدالمجید خان صاحب ابن عبادت کے وقت دیگر دینی کام شرک اور نفس کا بڑا دھوکہ ہیں 852 جھوٹ کی عبادت کا نتیجہ رمضان کا مہینہ عبادتوں کے مجموعہ کا مہینہ 405 | حضرت محمد خان صاحب 50 | عبدالمنان طاہر صاحب رمضان کے ذریعہ عبادتوں کے مزے لینے کا طریق 89 عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ رمضان میں عبادت کی ورزش کا بعد میں فائدہ روزہ عبادت کا دروازہ کیوں ہے سورج وچاند کی علامتوں کے ذریعہ عبادتوں کا تعین غیر اللہ کی عبادت کا خطرناک نتیجہ حضرت منشی عبدالحق صاحب حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت عبدالستار بزرگ صاحب اللہ سے عشق کے حوالہ سے ملکہ وکٹوریہ کی مثال دیتے 58 72 50 233 18 حضرت عثمان بن عفعان عدل عدل اور ماموریت کا تعلق عدل کا تقاضا کسی کے حق کو سمجھنا ہے عدل کے پیدا ہونے کا ذریعہ 63 عدل کے ساتھ حکومت کا تصور اللہ کا عدل اللہ کے قرب کے لئے عدل کے تقاضے ہوئے دعا اور کشف میں ایک شعر کا الہام ہونا 381 ایک تمثیل کے رنگ میں عدل اور احسان کا ذکر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب عبدالسلام صاحب کی وفات پر ذکر خیر عبد السلام صاحب کی عزت اور عظمت 292 911 106 426,776 426 428 417 364 421 432 421 ماں اور اولاد کے تعلق میں عدل کا فقدان اور اس کا گناہ بنا 417 901 مذہبی جھگڑوں کے فسادات سے بچانے کے لئے عدل کا مضمون 637 899 نظام جماعت کے ساتھ عدل سے آزادی کا حصول پیدائش سے پہلے ان کے متعلق کشف اور حضرت مصلح موعود نظام جماعت میں عدل کے تقاضے نہ سمجھ آنے کی وجہ سے سے استفسار چار بنیادی طاقتوں میں سے دو کا راز سمجھنا 901,907 بعض اوقات ان کی بے حرمتی ہونا 425 422 239 آنحضرت نے ہمیشہ اپنی قربانی دے کر عدل سے گریز کیا 422
اشاریہ 43 خطبات طاہر جلد 15 آنحضرت کا عدل اور اس کے بعد رحمت کا اظہار 513 | عزیز مصر آنحضرت کا فرمان کہ کوئی چرب زبانی سے اپنے حق میں عزیزہ بنت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب فیصلہ کر والے تو وہ آگ کا ٹکڑا قبول کرتا ہے 430 عطاءالرحمن صاحب غنی آنحضرت کا کامل عدل انسان کا اپنی ذات سے عدل انسانوں کے درمیان عدل کی تعلیم دنیا دی اور اللہ والوں کے عدل کی مثال عذاب 511 مولانا عطاء المجیب راشد صاحب 419 633 عفو عفو اور بخشش کا خدا کے حوالہ سے ذکر عفو اور صفح میں فرق 418 عضو سے قبل دل کا قوی ہونا ضروری امر ہے عفو سے مراد عذاب تھوڑ ا ہونے کے باوجود لمبادکھائی دینے کی وجہ 140 عفو کا حسن خلق سے آغاز ہوتا ہے 732 عفو کا کظم سے تعلق عذاب سے پہلے تو بہ کا مضمون عذاب سے نجات کا طریق عرب عرب کے ریگستان کا حسن 172 عفو کی اجازت اصلاح کی خاطر ہے 734 905 253 476 46,453 عفو کی حقیقت ، حضرت اقدس کے الفاظ میں 826 عفو کے ساتھ معروف بات کے حکم سے مراد 538 938 975 960 939 959 943 988 972 964,975 542 عفو کے نتیجہ میں جرائم کی بجائے شرم و حیا پیدا ہوتی ہے 938 566 عفو کے نتیجہ میں عزت کا حصول 947 972 947 عرب میں صدیوں کے مردوں کے زندہ ہونے کا انقلاب 505 عفو کے متعلق احادیث عربوں کا حافظہ عربوں کی مہمان نوازی کی شان آنحضرت کا عرب قوم کی جہالت کو دور کرنا ایک عرب عورت کا ایم ٹی اے کی وجہ سے بیعت کرنا عرش 973 عضو میں برائی کو صاف کرنا دو طرح سے ہے 350 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا عفو کا عجیب رنگ کسی کو جماعت سے الگ رکھنا میرے لئے تکلیف کا انسان کا ایک عرش سے دوسرے عرش کا پھر آگے کا سفر 695 موجب ہوتا ہے، کسی کی غلط ضد کو تسلیم کرنا عفو کے اندر نہیں 943 آنحضرت کے دل کا عرش عظیم کہلانا عرفان 836 لیلۃ القدر میں عضو کی دعا کی حکمت عقل اللہ کا عرفان بڑھنے سے اس کی قربت میں ترقی ہوتی ہے 86 عقل سلیم سے مراد دعا کے ساتھ عرفان کا نصیب ہونا ضروری ہے 132 166 733 تقویٰ سے عقلوں کا صیقل ہونا اور صائب الرائے ہونا 247 صاحب عرفان لوگ دنیاوی سامانوں پر بھروسہ نہیں کرتے 718 نور سمجھنے کے لئے عقلوں کو صیقل کریں عزت عزت خدا کے ہاتھ میں ہے عزت ، اللہ کی رضا کی عزت دائمی ہے عفو کے نتیجہ میں عزت کا حصول علم اور عزت کا اصل منبع اللہ کی ذات ہے عزرا نبی 282 قوت عقلیہ ہر چیز کا منبع ہے 900 علم اور عزت کا اصل منبع اللہ کی ذات ہے 947 علم کے بغیر مقابلہ ممکن نہیں 904 | علم میں نشہ اور لذت 168 167 904 372 547 270 اللہ کے علم میں غرق ہونے سے بلندی اور عظمت ملے گی 384
اشاریہ 44 ایک صوفی کا تکبر کے ساتھ چندسوالات حضرت مصلح موعودؓ عہدہ ا عہدیداران خطبات طاہر جلد 15 243 471 کے پاس لے کر حاضر ہوتا اور اللہ کا حضور کو اس کا جواب سمجھانا 383 عہدہ سنبھالنے پر بعض کا چودھراہٹ کا اظہار وہ جودنیاکے علوم پر غور کرے و از ماخدا کی طرف حرکت کرتے ہیں 591 امیر کوبعض با تیں پہنچیں تو جور عمل ان کا ہونا چاہیئے.امیر سے اختلاف ہو تو بالا افسروں یا خلیفہ وقت کو مطلع کریں 281 584 کا ئنات کا لامتنا ہی علم اللہ کا سب کو علم عطا کرنا اور ہر ایک کا اس سے فائدہ اٹھانا ایک امیر کے آگ میں کودنے کے حکم پر آنحضرت کی تنبیہہ 515 ایک پرندہ کی مثال حدیث کی رو سے دو قسم کے علم 585 548 جوا امیر اپنے ماتحتوں کے لئے دعائیں دیں وہ بہترین لوگ ہیں 516 عورت کا کوئی کام نہیں کہ جس منصب پر اس کا خاوند فائز ہو وہ 467 صاحب علم کے کردار میں عظمت اور اس کی ذات میں استغنی 547 اس منصب سے تعلق میں کسی بھی طرح اثر انداز ہو عارف باللہ کو روزانہ اللہ کی طرف سے بے شمار نکات کا ملنا 383 قریبی اور مصاحب سارے تقویٰ کے نظام کو بگاڑ دیتے ہیں 468 591 کوئی بندش نہیں کہ ہم صرف مذہبی علم بڑھا ئیں متناسب کھیل اور متناسب پڑھائی کے درمیان توازن ضروری 208 وحدت کا نمونہ بنانے کے لئے عہدیداران کو نصائح 18 آنحضرت کی مومنوں سے شفقت و رافت اور اس حوالہ سے شوری میں کسی عہدیدار کا عناد لے کر جانے والوں کی حالت 241 علی محمد صاحب علیم الدین صاحب حضرت علی کرم الله وجه عمرکوٹ حضرت عمر فاروق اذ ان کے الفاظ خواب میں بتائے گئے عمل / عمل صالح 18 امراء اور عہدیداران کو نصائح 491 478 426,515,776 امارت کے اردگرد بڑائی کے گیت گانے والوں کا نقصان 508 17.1003 امراء کو اثر ورسوخ بڑھانے کی خاطر احسان کرنے سے ممانعت 511 425,531,776 امیر کی اطاعت سے بہانے بنا کر باہر نکلنے والوں کو تنبیہہ 281 بعض امیروں کا چندلوگوں کے ہاتھوں کھلونا بنا طوعی کاموں میں افسر کی کامیابی کا راز عمل صالح اور دعوت الی اللہ ایک ہی چیز کے دو نام عمل صالح سے رفعت کا حصول عمل صالح محض اسلام کے ساتھ خاص نہیں 134 795 796 795 ماتحتوں پر جھکنے کی تعلیم تفصیلی وضاحت ہرا میر کا کام کہ وہ ماتحت کی طرف جھکے عہد یداران کے لئے احباب سے اطاع کروانیکا گر عمل میں ست خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکتا 629 محض اللہ کام کرنے والوں کے اخلاق اور اعمال میں ترقی 623 عید کچی تب ہوگی جب غریبوں کی عید کریں گے نفس کو خدا کی طرف بلانے سے عمل صالح کی توفیق ملے گی 808 اللہ کا منشاء نہیں کہ دنیا میں ایک ہی دن عید منائی جائے 217 ایک ملک میں دو تین عیدوں کی وجہ اعمال کی جزاء کا وقت میاں عنایت اللہ صاحب عنایت علی صاحب عورت 910 عیسائیت عیسائیت کا یورپ پر اثر 911 عیسائیت کی خاطر بعض لوگوں کو زندہ جلا دیا جان ان کے عقائد بھیانک نامعقول ہیں عورت میں سجاوٹ کا طبعی مادہ ہے لیکن ہر ایک میں نہیں 260 یورپ میں دہریت کے پھیلنے کی وجہ عیسائیت ہے عورتوں میں بدسمتی سے زیادہ پایا جانے والا حسد 572 ایک سیاہ فام عیسائی کا قصہ جو سفید فام چرچ میں گیا 305 حضرت عیسی علیہ السلام نسوانیت کے خاص مقاصد عهد نامه جدید 791 عیسی کی بچپن کی دعا سلامتی کے حوالہ سے عہد نامہ جدید میں ٹیلیویژن کے متعلق پیشگوئی 436 ایک سیاہ فام عیسائی کا قصہ جو سفید فام چرچ میں گیا 509 780 483 484 461 137 45 49 842 797 843 790 369 905 369
اشاریہ 45 خطبات طاہر جلد 15 108,203,427,525,828 | آپ کا کلام قرآن اور احادیث پر مبنی ہے غالب ذہین شاعر تھا اور فطرت کے بار یک امور پر نظر تھی 188 آپ کی ایک عبارت میں جلی قلم سے تحریر کی وجہ غالب آنے کے سلیقوں کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے 686 آپ کی مہمان نوازی کا انداز غرور غرور کی پیروی کا نتیجہ جھوٹ اور غرور کی زینت غریب بعض لوگوں کا کہنا کہ ٹیکس پر ٹیکس نکلتا چلا آ رہا ہے 222 آپ کے عشق میں ایک جگہ بھی مبالغہ نہیں 227 | آپ کے کسی مضمون میں بار بار تکرار کی وجہ 985 165 560 328 589 935 آپ کے کلام میں ادنی درجہ کا بھی مبالغہ نہیں ہے 175 غریب کا غریب رہنا خواہ امیر ملک میں ہو 202 نثری و شعری کلام میں اللہ کے حوالہ سے تڑپ کا اظہار 441 غریب آدمی کی وجہ سے امیر ملکوں کی قسمت بدلنا 202 | آپ نے آنحضرت کی گہری سیرت بیان فرمائی ہے غصہ غصہ ضبط کرنے کا اصلاح سے تعلق غصہ کا جن آپ کا عفو کی نظر سے دیکھنا 34 938 961 آپ کی قوت قدسیہ سے ایک شخص کا شراب نوشی ترک کرنا 812 69 آپ کی مہمان نوازی کے جذ بہ کا ساری جماعت میں سرایت 565 غصہ ضبط کرنے کے نتیجہ میں بعض اوقات نفسیاتی بیاریوں کا پیدا ہونا 96 | آپ کے سکھانے کا کمال غصہ کو گھونٹنا کوئی آسان کام نہیں غصہ کی حالت کا نقصان 968 635 آپ نے جو بیان کیا آنحضرت سے اخذ کیا آپ کا آنحضرت سے عشق غصہ نے دنیا میں ہر طرف فساد برپا کر رکھا ہے 976 آنحضرت کی قوت قدسیہ کے متعلق آپ کی گواہی غفلت 152 156 انبیاء غفلتوں کے پردوں کو چاک کرتے ہیں میں پسند نہیں کرتا کہ جماعت غافلین کی جماعت ہو وہ غفلتیں جو انسان کی ذات پر اندھیرے بن کے چھا جاتی ہیں 295 آنحضرت کے متعلق آپ کی نثر و منظوم کلام کا مقام آپ کے الہامات آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے پل ٹوٹ گئے حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ اسلام و همبتر ٹوٹ گئے دو شہتیر ایک صحابی کی اولاد پرختی حضرت اقدس کا اظہار نار انسگی 936 انا للہ ہمارا بھائی اس دنیا سے چل دیا حضرت خلیفہ رابع کا رویا میں حضرت اقدس کی کتاب کا درس 934 اطعموا الجائع والمعتر دنیا کی بے ثباتی کے متعلق حضرت اقدس کا ارشاد جلسہ میں مہمانوں کی بھوک کا الہاما بتایا جاتا 724 676 شاتان تذبحان غلام رسول صاحب معلم مالی قربانی کا نظام حضرت اقدس کی صداقت کا زندہ نشان 870 ان کی وفات پر ذکر خیر پیشگوئی مصلح موعود میں آسمانی نقطہ عروج کی وضاحت 906 حضرت ملک غلام فرید صاحب جماعت کی مالی قربانی حضرت اقدس کی صداقت کی دلیل 7,10 غلامی حضرت اقدس کی ایمان کو پر کھتے رہنے کی تلقین 84 غلامی کے متعلق اسلامی تعلیم آپ کے کشتی نوح میں بار بار لعنتی زندگی کہنے سے مراد 742 دنیا اور اللہ کے غلام کا موازنہ دوسرے مذاہب کی خوبیاں بیان کرنے کی بابت آپ کی تعلیم 223 دنیا اور اللہ کے غلاموں کی قرآن میں تمثیل آپ کا دین کی سب سے بڑھ کر نصرت فرمانا 38 فاطمه مخزومی کشتی نوح میں بار بار وہ بھی میری جماعت میں نہیں، سے مراد 738 حضرت فاطمۃ الزھرہ 919 624 806 816 807 33 776 776 776 676 77 911 19 414 415 416 511 511
اشاریہ فتح الربانی 65 46 حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب بدخلقی اور سخت گیری حق سے بدتر ہے حضرت مصلح موعود کا آپ کو بڑی شخصیات کے پاس بھیجنا 173 حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب 971 چوہدری فضل الہی صاحب ربوه فنجی فحشاء ان کے نماز جنازہ کا اعلان خطبات طاہر جلد 15 985 254,907 18 401 چوہدری فضل دین صاحب گھسیٹ پورہ 784 فحشاء جھوٹ کی ایک بدترین قسم ہے فحشاء سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کو اموال میں کوئی دلچسپی نہیں 5 فضل فحشاء کی بیماریوں کے حوالہ سے احمدی نظام ہر جگہ مستعد ہو 350 فضل سے مراد اموال میں برکت بھی ہے فخر فخر سے دوسروں کو تکلیف پہنچنا فخر کا معاشرتی برائی بننا مال اور اولاد کے حوالہ سے فخر اور تکبر آنحضرت کے مزاج میں کوئی تفاخر نہ تھا فضل نامی اشخاص کے درمیان معاہدہ حلف الفضول 213 | فطرت 298 فطرت انسانی میں تفاوت 264 فطرت نیک ہونے پر آسمانی پانی فائدہ دے گا 524 انسان کی اللہ کی فطرت کے مطابق پیدائش سے مراد 6 596 152 713 56 قوموں کے آپس میں انبیاء کے مقابلے کرنے پر فخر 214 زینت اختیار کر نا فطرت میں ہے، وہ وقت جب وہ گناہ بنتی ہے 297 فراست تقویٰ کے ساتھ فراست کا تعلق لطیفہ انسانی فطرت کی نقاشی کرتا ہے 757 702 لہو ولعب کا انسانی فطرت کے ساتھ گہرا تعلق ، اس کا نتیجہ 296 698 انسانی فطرت میں شامل کہ دکھاوے والے کو جز انہیں ملتی 322 تقوی گہرا نہ ہونے کا فراست پر اثر فرانس 672 | فلسفه فرشتے فلسفیوں کا کہنا کہ کائنات ہماری سوچ کے نتیجہ میں ہے 831 276 فلم فرشتوں اور شیطان میں سجدہ کے حوالہ سے فرق فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا اور شیطان کی سرکشی 277 احمدی معاشرہ میں انڈین فلموں کا اثر فرشتوں کی نور سے پیدائش 176 پاکستانی جماعتوں میں انڈین فلموں وغیرہ کی گندگی کے حوالہ جماعتی طاقت کا راز اس اطاعت میں ہے جو فرشتوں نے دکھائی 281 سے جماعت کو جائزہ لینے کی تلقین دنیا کا فساد سے بھرنا اور فرشتوں کا قصور آدم کو فرشتوں کے سجدہ سے مراد جیسی روح ویسے فرشتے ، جہنم کے فرشتوں کی سختی فرعون 290 انڈین فلموں کا ادب کے لحاظ سے بھی گرا ہو ا معیار 340 344 341 597 بھارتی گندی فلموں کا پاکستانی معاشرہ میں پھیلا ؤ اوران کا اثر 339 460 فنا 730 فنا کا عظمت کے ساتھ تعلق قانون سازی کر کے بنی اسرائیل کی مردانہ صفات کو کچلنا 362 فنا کے باوجود انسان کا اپنے آپ کو لافانی سمجھنا مرتے وقت کے ایمان کے قبول نہ ہونے کی وجہ فساد جھوٹ تمام انسانی فساد کی جڑ ہے 896 399 فیصل آباد.فیض احمد فیض قادیان 897 896 17,1003 357,557 710,724,819 نبوت سے انکار کے نتیجہ میں دنیا میں فساد اور خون خرابہ 278 جلسہ میں مہمانوں کے بھوکا رہنے کا حضرت اقدس کو الہاما تایا جانا 676
اشاریہ 47 قادیان کے زمانہ کی واقفین کی پود عجیب بے نظیر تھی 20 اللہ کو قرضہ حسنہ کی کیا ضرورت ہے قادیان میں تہجد کے بغیر سحری نہیں ہوتی تھی 65 خدائی نظام کو قرض دینے سے مراد قادیان میں آم کا باغ جس میں ایک سو سترہ سے زائد قسمیں تھیں 669 | شادیوں کے لئے قرض کی عادت قادیان میں دھوبی گھاٹ کا نظارہ خطبات طاہر جلد 15 860 862 287 683 جنوبی امریکہ کے عالمی بنک وغیرہ کو واپس کرنے والے قرضے 361 قادیان میں فقیرانہ مزاج کے احمدیوں کی تجارتوں کا چمکنا 744 شادی کے موقعوں پر قرض لینے کا بھیا نک اثر قادیان میں 1943ء میں تعلیمی کمیٹی انجمن کا قیام 19 قرآن کریم قادیان نے سب دنیا کو دینی ضرورتوں کے لحاظ سے پالا ہے 1004 قرآن اور لیلۃ القدر کا تعلق قانون 214 124 قرآن کا سچ کی بجائے قول سدید کا حکم مکمل تفصیلات 702 قانون سازی ایک بہت بڑی طاقت ہے 363 قرآن کا طرز کلام ، ایک مضمون سے اچانک دوسر امضمون نکلنا 830 قانون قدرت میں عدل کا مضمون قبر قبر پرستی کا رواج بزرگوں کی قبروں پر سجدوں کی وجہ قبلہ تحویل قبلہ کا مقصد 423 حقائق اور ہدایات کے موتیوں کے حصول کا طریق 302 775 339 723 پہلی آیت میں کائنات کے حوالہ سے فلسفیوں کے سوال کا جواب 832 قرآن کی دوسری کتابوں پر فضیلت 30 قرآن کی ہر آیت پر کوئی نہ کوئی آیت روشنی ڈال رہی ہے 198 قرآن کی آیات کا آپس میں ربط اور جوڑے قرآن کی آیات متصادم نہیں ہیں تحویل قبلہ کے وقت پرانی رسموں کو آسانی سے نہیں چھوڑا جاسکتا 345 قرآن کے الفاظ کے انتخاب میں حکمت قذافی معمر قربانی 793 قرآن کے لیلۃ مبارکہ میں نزول سے مراد قرآن میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم 22 632 45 120 66 قرآن میں انبیاء اور ان کی اقوام کے بچائے جانے کا ذکر 733 378 قرآن میں بہت سے مضامین جوڑوں کی صورت میں ہیں 613 قربانی کے حوالہ سے نیت پر اللہ کی نظر حضرت ابراہیم کا خدا سے قربانیوں کے اسلوب پوچھنا 535 قرآن میں بیان کردہ مذہبی حکومت کا تصور انبیاء کا خدا کی ہستی کی خاطر قربانیاں دے کر اس کی طرف بلانا 444 قرآن میں رزق کے حوالہ سے دو غلاموں کی تمثیل فرضی باتوں کے نتیجہ میں بڑی قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا 284 قربانی کے سرا اور علامیہ میں بستر کو پہلے رکھنے میں حکمت 323 خُلق مسلسل قربانی کا نام ہے دین پر قربان ہونے سے مراد 90 قرآن میں محکمات اور متشابہات 38 قرآن میں مندرج دنیا کی زندگی کا خلاصہ شوری میں خدا کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو آگے لایا کریں 244 قرآن میں ہر اچھی بات کی بنیاد ہے وقت کی قربانی محبت نہیں دکھاوے کی وجہ سے ہوتی ہے 243 قرآن میں ہر قسم کے جوڑوں کا ذکر محبت کی قربانی سے بڑھ کر کوئی اور قربانی نہیں قرض قرض لینے کی لعنت قرض لینے کی وجہ قرض لے کر واپس نہ کرنے کی نیت 327 قرآن هدى للمتقین ہے عذرا نبی کے واقعہ کو صحیح نہ سمجھا جانا 363 413 616 201 614 22 595 271 297 اللہ کی غیر معمولی بخشش اور مغفرت پر مشتمل آیات میں تنبیہ 730 300 جبرائیل کا نازل ہو کر آنحضرت کے ساتھ قرآن دہرانا 43 402 دنیا اور اللہ کے غلاموں کی قرآن میں تمثیل 416 حضور کا کاٹن کی تجارت میں مسلم کمرشل بنک سے بغیر سود دو میں سے ایک غلام کا بظاہر تحقیر کے رنگ میں قرآن میں ذکر 414 کے قرضہ لینے کا طریق اور تجارت میں برکت 746 دین کو مذاق بنانے والوں کا قرآن میں ذکر 221
اشاریہ ربوہ میں ترجمۃ القرآن کمیٹی رمضان کے مہینہ میں قرآن کا نزول 48 20 فرشتوں کو سجدہ کا حکم مفسرین کی الجھن 41 وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا کے دو معانی رمضان میں عبادتوں کے اکٹھا ہونا اور قرآن کا نزول 123 قَابِما بِالْقِسْطِ سے مراد رمضان میں قرآن کے نزول سے مراد اور مفسرین 121 | كُلِّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ کی تفسیر زندگی کی نا پائیداری پر مشتمل قرآنی تعلیم 711 | لَا يَشْهَدُونَ النُّور سے مراد 24 سبل السلام کا ظلمات سے تعلق صحابہ کے ثبات قدم کی قرآن میں گواہی صراط مستقیم آنحضرت اور قرآن کی پیروی میں ہی ملے گا 31 عبادت کی علامتوں میں قرآن کا کمال عفو کا نظم سے تعلق قوموں کے اخلاقی مسائل کا حل قرآن میں ہے هوای سے مراد 457 يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سے مراد 51 اللہ کا لغو قسموں سے اعراض کرنا ، حکمت 959 204 قطب جنوبی قطب شمالی قوموں کی ایک دوسر یسے برتری کی دوڑ کا قرآن میں ذکر 201 کائنات میں مقناطیس کے نظر نہ آنے والے ستون كل من عليها فان کو دوہرانے کی وجہ 590 896 قناعت کی اہمیت خطبات طاہر جلد 15 حضور کی بچیوں والوں کے لئے قناعت کی دعا کرنا 426 62 576 633 389 232t230 878 392 50 50 402 403 کیا مشینی ذرائع سے چاند کا علم پانامن شھد منکم کے تابع ہے 46 حضرت اماں جان کا سادگی سے حضرت نواب امتہ الحفیظ لوگوں کے کثرت سے آجانے پر قرآنی تعلیم ملاقات کے حوالہ سے قرآنی تعلیم نکاح کے موقع پر وہ دو آیات کا بذریعہ وحی چناؤ 701 کو رخصت کرنا 540 قوت / قوت قدسیہ 706 قوت قدسیہ سچائی کے معیار کا نام ہے نئے چاند کے حوالہ سے سائنس اور قرآن کے بیان میں تطبیق 48 قوت قدسیہ سے مراد یا جوج ماجوج کے فتنہ سے بچانے کیلئے دیوار بنانے والا بادشاہ 553 دعوت الی اللہ اور قوت قدسیہ کا مضمون آنحضرت کا دنو اور تدلی اور قوسین سے مراد آنحضرت کا سجدوں میں تقلب، اس سے مراد 484 آنحضرت کی قوت قدسیہ سے بعد والوں کا زندہ ہونا 403 813 621 817 622 492 آنحضرت کی قوت قدسیہ بدیوں سے دوری کے لئے معراج ہے 815 آنحضرت کی دعائیں قرآنی تعلیم کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں 722 آنحضرت کی قوت قدسیہ کے متعلق حضرت اقدس کی گواہی 816 آنحضرت کے حق میں پر ایٹم کی دعا کی قبولیت اور اس میں تبدیلی 813 آنحضرت کی قوت قدسیہ کے مشاہدہ کا طریق اکاد اخفیھا کے دومعانی الکتاب سے مراد المنکر سے مراد انا للہ پڑھنے کا طریق انزل فیہ القرآن کا مطلب ایا ما معدودات سے مراد سورۃ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا عالمین سے مراد عفو او ر صلح میں فرق علمہ البیان سے مراد 229 قوم 25 قوم جب تک حالت خود نہ بدلے خدا نہیں بدلتا 26 قوم کی خاطر جھوٹ بولنا 772 قوموں کے اخلاقی مسائل کا حل قرآن میں ہے 812 126 442 204 41,42 قوموں کی ایک دوسرے سے برتری کی دوڑ کا قرآن میں ذکر 201 79,100 قوموں کی تقدیر کی رات 125 505 قوموں کے آپس میں انبیاء کے مقابلے کرنے پر فخر 214 831 قومی حمایت کی وجہ سے لوگوں کا دسروں پر ظلم کرنا 938 قومی وحدت کے پیدا کرنے کا ایک طریق 647 237 634 اس وقت مہذب قوموں میں بھی بداخلاقی کا راج ہے 916
اشاریہ 49 خطبات طاہر جلد 15 تحریک جدید کے انیس نکات میں کسی بھی قوم کی نجات کا راز 299 پہلی قرآنی آیت میں کائنات کے متعلق فلسفیوں کا رد 832 لہو ولعب میں اکثر قوموں کا غرق ہونا 201 کتاب مذہبی قوموں میں غلبہ کی جان کے رہنے کا وقت 280 الہی کتب میں فراست سے خدا کے نور کی شان پہچانی جاسکتی ہے 224 401 كتاب البريه منافقتوں سے قوموں کی ہلاکت کا راز ناروے میں قومی تعصب اور دیگر برائیوں کو دور کرنے کا طریق 802 کراچی ہماری زندگی، بقا اور قوموں کی اصلاح کا راز 611 قوموں اور بادشاہوں کی عزت و نمود کے دنیا میں رہنے کی وجہ 897 دوسری اقوام کا مزاج درست کرنے کا طریق کشتی نوح 962 کشتی نوح کی تعلیم زندہ قومیں کسی بڑے آدمی کے مرنے سے نہیں مرتیں 773 175 17,520,1102 739,742,763,987 737 مہذب اقوام کے مفاد پر انگلی اٹھنے پر ان کی حقیقت کا کھلنا 924 حضرت عبدالستار بزرگ صاحب کا کشف قیامت قیامت صغریٰ کا بر پا ہونے کا منظر 716 کشمیر قیامت کے برپا ہونے کے متعلق ایک صحابی کا سوال 719 کفر کی مثال سراب سے قیامت کے روز پہلے سر اٹھانے پر مشتمل احادیث کی حقیقت 770 قیامت لازمی ہے تبھی تمام پردے اٹھ جائیں گے حیا کا پردہ جو قیامت کے روز ہوگا قیصرہ بیگم صاحبہ 230 627 292 783 کلام طاہر کمزوری انسان اپنی کمزوریوں کا خود نگران ہو 381 355,778 198 556 701 قیوم صاحب لاہور کام کام بڑھنے پر اللہ کا تو فیق بھی بڑھانا 694 خلافت پر لوگوں کے قول سدید کی کمزوریاں اثر انداز نہ ہوں 708 کوپن ہیگن کوریا کام کے بڑھنے کے ساتھ صلاحیت میں اضافہ کا ارتقائی سفر 695 | کوریا میں مردہ پرستی کا رواج انسان کی استطاعت ختم ہونے پر اللہ کی استطاعت سے پیوند 708 کوئٹہ 694 کہانی 16 16 302 17 دماغی کام کے حوالہ سے ایک ارتقاء محض اللہ کام کرنے والوں کے اخلاق اور اعمال میں ترقی 623 جماعت کے کاموں کا بہت زیادہ پھیلنا، اس حوالہ سے نصائح 699 فرضی باتوں پر بعض اوقات انسان کا قربانی کے لئے تیار ہونا 284 کائنات کا ئنات کا لامتناہی علم کھانا 584 بھوک میں مزہ کا احساس کا ئنات کی آخری غرض و غایت انسان کی پیدائش ہے 713 کھانوں میں بے اعتدالیاں کا ئنات کے لیٹے جانے کا مضمون 768 کھانے کا صحیح طریق کائنات میں مقناطیس کے نظر نہ آنے والے ستون 590 | کھیل 210 210 209 انسان کی عالم اور کائنات کے سامنے حیثیت 833 کھیل اپنی ذات میں برا نہیں، اس کا اندھیرا بنے کا وقت 219 تقدیر الہی کے بغیر نظام کائنات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا 726 کھیل کا وہ مقام جب انسان گستاخی کی حدود میں جاتا ہے 221 سائنسدانوں کا کہنا کہ یہ کائنات بھی کسی اور طرف متحرک ہے 759 کھیل کے میدانوں میں احتیاط کی تلقین کہ چوٹ نہ آئے 410 فلسفیوں کا کہنا کہ کائنات ہماری سوچ کے نتیجہ میں ہے 831 کھیل کے وقت نماز کا حق ادا کریں 219
اشاریہ 50 خطبات طاہر جلد 15 658 کھیل میں تبصروں کے نتیجہ میں بالآ خر دین والوں کو نشانہ بنانا 220 انسان کے دو پر ، معاصی اور توبہ متناسب کھیل اور متناسب پڑھائی کے درمیان توازن ضروری 208 انسان کے کمینگی اور بے راہ روی وغیرہ دکھانے کی وجہ 286 تفاخر کا وہ وقت جب وہ گناہ بنتا ہے زینت اختیار کرنا فطرت میں ہے، وہ وقت جب وہ گناہ بنتی ہے 297 کرکٹ کے میچ کی وجہ سے لوگوں کا خود کشیاں کرنا، اس کی وجہ 206 لعب کی غلام قوم پاگل ہو جائے گی جسٹس کیانی کیسٹس حضرت خلیفہ ثالث کے زمانہ میں خلیفہ وقت کے 207 297 296 لہو ولعب کے نتیجہ میں گناہوں کی آمیزش 358 ماں اور اولاد کے تعلق میں عدل کا فقدان اور اس کا گناہ بننا 417 مغفرت کے مضمون میں گناہوں کو جرات نہیں دلائی جارہی 756 وہ جگہیں جہاں اللہ نے گناہ بتانے کی اجازت نہیں دی 703 خطبات کی لیسٹس کی افریقی ممالک میں پھیلاؤ کی سکیم 778 ایک حدیث سے غلط خیال کہ گناہ کی کھلی چھٹی ہے کیمبرج یونیورسٹی کینیڈا کینیڈا کے سیاستدانوں میں انکسار 662 بعض مقام، ان کا بد تمیزی سے ذکر کرنا بڑا گناہ بن جاتا ہے 335 کثرت گناہ کی وجہ سے دعا میں کوتا ہی نہ ہو گناہوں کو کوئی نبی نہیں بخش سکتا گناہ گار کا اس دنیا میں شامت اعمال دیکھنا گندگی گندگی سے رُخ پھیرنے کا طریق گواہی کینیڈا کا ترقی کی طرف قدم کینیڈا کی جماعت کو تبلیغ کے حوالہ سے نصائح 85,790 14,292,1000 521 475 493 کینیڈا کی مغربی دنیا میں ایک خاص سعادت، سادگی اور بھولا پن 494 کینیڈا کے جلسہ سالانہ کا ذکر امریکہ اور کینیڈا کے دورہ میں نو مبائعین کا خلوص گاندھی جی گجرات گلف کرائسز گناہ گنا ہوں گناہ سے بچنے کا طریق گناہ کی حقیقت گناہ کے نتیجہ میں انکساری کا پیدا ہونا 521 569 گواہی قسط کے بغیر بچی ہو ہی نہیں سکتی 298 گوتم بدھا 17,1003 781 115,204,664,736 گناہوں سے دوری کے لئے صبر کی تلقین گناہوں کی بخشش کے بغیر لقا نہیں مل سکتی گناہوں کی حدود سے تجاوز نہ کرنے کی تعلیم 658 گوتم بدھا سے پنڈتوں کا خدا کے بارہ میں پوچھنا گوجرانوالہ گوربا چوف گورنمنٹ کالج لاہور گوئٹے مالا ساتواں جلسہ سالانہ 660 گھٹیالیاں 688 664 245 211 346 587 80 17,910,1003 96 778 495 784 838 گھر میں اچانک مہمان پر کچھ حصہ کی صفائی فوری کر لی جاتی ہے 147 738 گھر میں مہمان آنے پر عورتوں کا زینت اختیار کرنا 685 گناہوں کے داغ صبر اور صلوٰۃ سے دھونے کی تعلیم گناہوں کے داغ کو دھونے کے لئے دھوبی کی مثال 683 گناہوں میں دلیری اور موت کے وقت ایمان کا کوئی فائدہ نہیں 730 گناہوں میں غض بصر سے مراد 704 گناہوں کے آنے کا وقت اور ان سے بچنے کا طریق 736 انا نیت کی وجہ سے بعض چیزوں کا گناہ بننا 279 متر گچیمپبی کے ایک چیف کا بیعت کرنا لاطینی امریکہ 212 368 608 361 541 17,253,520,778,1102 ملک لال خان صاحب لاہور
اشاریہ 51 لاؤڈ سپیکر کا دوران خطبہ خراب ہونا اور لوگوں کی توجہ دوسری اہور کھیل کے وقت نماز کا حق ادا کریں طرف پھرنے پر حضور کی نصیحت 190 لباس کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں 261 ليلة القدر لبید بن ربیعہ عامری لبید کے ایک شعر کی تعریف لذت خطبات طاہر جلد 15 939 دو مسلمانوں کے جھگڑوں کی وجہ سے آنحضرت سے رمضان کے آخری ہفتہ میں لیلۃ القدر تلاش کرنے کے 525 لیلۃ القدر کا علم اٹھا دیا جانا لذت سے تسکین پانے کا طریق اللہ کے وجہ میں انسان کی لذتیں 209 226 متعلق حدیث قرآن اور لیلۃ القدر کا تعلق مغفرت سے لیلۃ القدر کا تعلق دنیا کی لذتوں کی طرف دوڑنے والے کی قرآن میں مثال 142 آنحضرت کا انہماک سے لیلۃ القدر تلاش کرنا انفرادی اور قومی لحاظ سے تقدیر والی رات 219 778 136 132 124 130.128 129 125 دینی لذتوں کی مثال روحانی اور جسمانی لذت میں فرق لطیفه لطیفہ انسانی فطرت کی نقاشی کرتا ہے نا بینا حافظ کا حلوہ کھانے والا لطیفہ لعنت لعنت کا مذہبی مفہوم 143 139 757 لیلۃ القدر اور انسان کی عمر کا تقابلی جائزہ اور اس رات کی اہمیت 128 لیلۃ القدر کی رات وہ فیصلے جو انسان کو کرنے ہوتے ہیں 125 لیلۃ القدر معلوم ہونے پر کی جانے والی دعا 137.130 757 لیلۃ القدر میں اللہ کے تمام فیصلے حکمت پر مبنی ہوتے ہیں 126 لیلۃ القدر میں عفو کی دعا کی حکمت 742 لیلۃ القدر کو معین نہ کرنے میں حکمت حضرت اقدس کے کشتی نوح میں بار بار لعنتی زندگی کہنے سے مراد 742 رمضان کی ایک رات سارے رمضان کا خلاصہ لقاء کے حصول کا طریق لندن لہو ولعب 838 قرآن کے لیلۃ مبارکہ میں نزول سے مراد 16,254,255,778 132 136 120 120 120 267 749,873,1001 حضرت اقدس کے نزدیک لیلۃ القدر سے مراد مادہ پرستی کا اندھیرا اور اس کا علاج لہو ولعب کا انسانی زندگی سدھارنے اور بگاڑنے میں کردار 203 ماریشس لہو ولعب کا انسانی فطرت کے ساتھ گہرا تعلق اور اس کے نتیجہ مال / مالی قربانی میں گناہوں کی آمیزش لہو ولعب کا بدن سے تعلق لہو ولعب کی خواہش لہو ولعب کے تعلق میں آخری اندھیرا لہو ولعب کے دھوکے سے مراد لہو و لعب میں اکثر قوموں کا فرق ہونا لہو و لعب میں ایک تفاخر لہو ولعب میں ایک قسم کا نشہ 296 | مال اور اولاد کے حوالہ سے فخر اور تکبر 211 مال بڑھانے کی بیماری کا انجام 260 مال جمع کرنے والوں کا قرآن میں برا تذکرہ 233 مال خرچ کرنے کے بدلہ میں حکمت ملنا 218 مال کی بے ثباتی کا ذکر 201 مال کی تمنا اپنی ذات میں منع نہیں 214 مال کی خاطر ایک قوم کا دوسری قوم پر حملہ اور حکمرانی 264 مال کی ہوس اور مرتے وقت انسان کی حالت لہو ولعب میں جنسی خواہش اور اس کی کثرت کا برا اثر 286 مال میں سب سے بہترین دینے میں حکمت لہو و لعب میں مبتلا شخص پر بُرا اور بداثر 202 203 | مال و اولاد میں تکاثر سے مراد لعب کی غلام قوم پاگل ہو جائے گی 264 301 265 7 715 262 298 717 3 300 207 مالی قربانی کا نظام حضرت اقدس کی صداقت کا زندہ نشان 870
اشاریہ 52 خطبات طاہر جلد 15 862 مالی قربانی کا مقصد اور اس کے آداب کو پیش نظر رکھنے کی تلقین 21 جماعت کے مالی نظام میں 1980 ء سے اضافہ 244 خدا کی خاطر خاموشی سے مالی قربانی کرنے والی جماعت 321 مالی قربانی کرنے والے ہی وقت پر کام آئیں گے مالی قربانی کے وقت نفس کا امتحان لیتے رہیں کہ کتنا سرور آیا ہے 328 خدائی نظام کو قرض دینے سے مراد مالی قربانی میں مسابقت جائز مگر احتیاطی پہلو ضروری ہیں 994 حرص سے مالی معاملات میں نقصان 646 دو دو آنے دینیوالوں کو ملنے والی برکتیں سرا اور علانیہ قربانی اللہ کی راہ میں اعلیٰ مقاصد کی خاطر خرچ کرنے کا نتیجہ 717 اللہ کی راہ میں محبت اور عشق کے جذبہ سے خرچ کریں 330 ہرا میر سے خدا اور انسانوں کے حقوق سے متعلق زیادہ 262 پوچھا جائے گا اللہ کے فضل سے مال مراد اللہ کا دوضرورتیں پوری کرنے کے لئے مال طلب کرنا 2 مالموسویڈن MTA کے عالمی نظام کے لئے مالی قربانی 319 مامور تبلیغ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مالی تقاضوں کا ابھرنا 990 جماعت کی مالی قربانی حضرت اقدس کی صداقت کی دلیل 7 ، 10 ایک زمیم بھی اپنے دائرہ میں مامور ہے 325 مایوسی اپنی ذات میں گناہ ہے خدیجہ کا آپ سے شادی کے وقت سارا مال دینا ریاء سے خرچ کرنے کا نقصان سیاست اور دولت کا گٹھ جوڑ اور دنیا کے امن کا اٹھنا شیطان کا انسان کو اچھی چیزوں کے دینے سے روکنا صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی 862 863 374 762.742 913 457 730 330 حضرت مولانا شیخ مبارک احمد صاحب 476 301 مبارک احمد ظفر صاحب حضرت مرزا مبارک احمد صاحب مبارک محمود صاحب پانی پتی لاہور 4 947 202 عیاشی وغیرہ پر امیر ملکوں کی دولت کا خرچ ہونا فحشاء کی تعلیم سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کواموال میں کوئی دلچسپی نہیں 5 ان کا ذکر خیر فضل سے مراد اموال میں برکت بھی ہے 6 مٹی 911 252 783 قرآن میں قربانی کے سرا اور علانیہ میں ستر کو پہلے رکھنا 323 ربوہ میں ایک مٹی والے کے پاس سائیکل پر جا کر نظارہ دیکھنا 680 منافقانہ رنگ میں قربانی کرنے والوں کی حالت 244 سکاٹ لینڈ میں مٹی سے برتن بنانے والے کے نظارہ میں محویت 680 سے برتن بنانے 289 مجلس نفس کی خاطر انسان کا خرچ کرنا نو مبائعین کو مالی قربانی میں ضرور شامل کریں خواہ معمولی ہو 17 ظلماتی لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھنے کی تعلیم 519 لہو ولعب اور دین پر تھی تمسخر کی مجلسیں 225 224 957 محبت میں کہنا کہ اے میرے رب میں تیرا رب اور تو میرا بندہ 761 869 محبت کا فلسفہ یکسانیت ہے نئے مالی سال کا اعلان ہندوستان کا ایک وقت ساری دنیا کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنا 1004 محبت آنحضرت کے تنگدستی میں خرچ کرنے سے مراد ایک غیر احمدی کا سوال کہ باقی بھی تو قربانیاں دے رہے ہیں محبت دنیا کی ہر طاقت سے بڑھ کر ہے آپ صرف اپنی قربانی کا ذکر کرتے ہیں بعض اوقات جتنا وعدہ کیا گیا ہوتا ہے اتنی ہی رقم خدا کی طرف محبت کی قربانی سے بڑھ کر کوئی اور قربانی نہیں سے ملنا تا کہ انسان وعدہ پورا کر سکے 9 محبت کے بغیر محبت پیدا نہیں ہو سکتی بہت سے لوگ خدا کو قرضہ حسنہ کی بجائے سود پر رقم دیتے ہیں 863 محبت کے طریق آنحضرت سے سیکھیں پہلے وعدہ جات سے ادائیگیاں پیچھے رہتی تھیں اب ان کا بڑھنا 869 محبت کے کرشمہ سے تمام کائنات کا بندھن تجوریوں میں بیٹھے سیٹھوں کی حالت 306 محبت میں دھوکا نہیں دیا جاتا 239 380 327 239 526 240 2
اشاریہ محبت میں سختی 53 خطبات طاہر جلد 15 57 آنحضرت کی نافرمانی کے خدا کی نافرمانی بنے کی وجہ اللہ کی راہ میں محبت اور عشق کے جذبہ سے خرچ کریں 330 آنحضرت کے شفیع المذنبین ہونے سے مراد 242 آنحضرت کے شیطان کا مسلمان ہونا تحفہ میں محبت کا مضمون 488 223 291 419 524 توکل کے نتیجہ میں محبت کے رشتوں کا بندھن 248 آنحضرت کے لئے لفظ ظلم کے استعمال میں حکمت جرمنی کی جماعت سے حضور کی محبت کی دو وجوہات 408 آنحضرت کے مزاج میں کوئی تفاخر نہ تھا دنیا سے بے نیاز ہونے پر خدا کی محبت کا حصول 530 آنحضرت کے وجود کی وجہ سے اہل مکہ سے عذاب دور کیا گیا 145 مذہب پر محبت کے نتیجہ میں عمل کرنے والا بقا اختیار کرتا ہے 326 آنحضرت نور علی نور والا 647 آنحضرت نے کبھی کسی کو نہ مارا وحدت سے محبت آتی ہے 32 514 وقت کی قربانی محبت نہیں دکھاوے کی وجہ سے ہوتی ہے 243 آنحضرت نے ہمیشہ اپنی قربانی دے کر عدل سے گریز کیا 422 557 آنحضرت ہر لحاظ سے مجسم نور تھے ازل کی محبت اور از لی محبوب لازم و ملزوم ہیں بعض احمدیوں کی پریشانی کہ آپ نے جو کہا کہ خدا کی محبت کے سوا آنحضرت اپنی زینت کا خیال رکھتے تھے باقی سب کچھ فانی اور جھوٹ ہے، اس حوالہ سے وضاحت 531 آنحضرت اور آپ کے ساتھی جنت میں داخل ہونے سے جنسی اور غیر جنسی محبتوں کا خاصہ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی عمل اللہ آنحضرت اللہ کی صفت مالکیت کے مظہر 146 212 25 789 240 499 401 181 443 955 526 پہلے بلند مقام پر فائز آنحضرت بطور داعی الی اللہ آنحضرت بطور رحمۃ للعالمین 770 160 415 154 آنحضرت بطور رؤف و رحیم آنحضرت بطور شفا بھیجے گئے آنحضرت بطور ظلوما جهولا آنحضرت بطور وسیلہ 135 91 477 129 484 268 آنحضرت سب سے بلند مرتبہ پر پھر بھی رجز چھوڑنے کا حکم 508 آنحضرت ڈکٹیٹر ہرگز نہ تھے 498 آنحضرت بطور سراج منیر آنحضرت بطور عبد اللہ آنحضرت بطور نور اور سراج منیر آنحضرت سب انبیا ء سے افضل جامع برکات اور مجسم نور 163 آنحضرت کی رحمت میں وسعت کی وجہ آنحضرت سب سے زیادہ منکسر المزاج تھے آنحضرت کا اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال فرمانا آنحضرت کا اظہار تشکر کا انداز آنحضرت کا انہماک سے لیلۃ القدر تلاش کرنا آنحضرت کا دنو اور تدلی اور قوسین سے مراد آنحضرت کا صدیوں کے مردوں کو زندہ کرنا آنحضرت کا عالم الغیب سے تعلق سب سیز یا دہ تھا 134 انحضرت سب سے زیادہ خلوص سے خدا کو بلانے والے 83 آنحضرت سب سے زیادہ متوکل اور دعا گو 697 آنحضرت سے بڑھ کر روشنیوں کی طرف بلانے والا اور کوئی نہیں 190 آنحضرت کا اپنے ماتحتوں کیجذبات کا خیال رکھنا آنحضرت کا اپنے آپ کو قربان کرنا آنحضرت کا کمال کہ خدا کی نمائندگی کا کامل حق آپ کو دیا گیا 321 آنحضرت کا اشعار کو سننا 25 462 38 548 آپ کا اللہ کی صفات حسنہ کا مظہر بنے والا دل عرش عظیم کہلایا 83 801 آنحضرت کا نزول نور کے طور پر آنحضرت کو دشمنوں کے حوالہ سے صبر کی تعلیم 512 آنحضرت کا انا اول المسلمین فرمانا آنحضرت کو داند رعشرینک کا حکم ، حکمت 481,482 | آنحضرت کا انداز انکساری آنحضرت کی تعلیم میں ہر خامی کا علاج 24 آنحضرت کا انعام پر فرمانا ولا نخر آنحضرت کی راتوں کو عبادت اور دن کو خدمت خلق میں محنت 137 آنحضرت کا بغیر ظاہری علم کے رفعت میں سب سے آگے نکلنا 904 آنحضرت کی مومنوں سے شفقت و رافت اور اس حوالہ سے آنحضرت کا بلند ترین مراتب کے باوجود منکسر المزاج ہونا 981 ے باوجود منکسرا امراء اور عہدیداران کو نصائح 478 | آنحضرت کا تذلل 525 213 480
اشاریہ 54 خطبات طاہر جلد 15 آنحضرت کا تمام تو کل اپنی نصیحت کی بجائے اللہ پر تھا 935 آنحضرت کی دعاؤں کے بعد انقلابی طاقت حسن خلق تھی 917 آنحضرت کا حجتہ الوداع کے موقع پر خطاب اور گواہی 920 آنحضرت کی ذات میں دنیا کا کوئی بداثر نہ تھا 925 آنحضرت کی رحمت کی وسعت آنحضرت کا خلق عظیم پر فائز ہونا آنحضرت کا رمضان کے چاند کے حوالہ سے گواہیوں کو تسلیم کرنا 46 آنحضرت کی رحمت 507 966 456 249 498 روحانی طور پر اپنے وجود سے بعد والوں کو زندہ کرنا 622 آنحضرت کی زندگی میں مشوروں کے واقعات آنحضرت کا ستر بار استغفار کرنا 661 آنحضرت کی صحابہ سے وابستہ توقعات آنحضرت کا سجدوں میں تقلب، اس سے مراد 492 آنحضرت کی صحابہ کے غموں میں بے قراری آنحضرت کا عاجزی کا آخری مقام حاصل ہوا 968 آنحضرت کی قوت حسن آنحضرت کا عدل اور اس کے بعد رحمت کا اظہار 513 آنحضرت کی قوت قدسیہ بدیوں سے دوری کیلئے معراج ہے 815 973 آنحضرت کی قوت قدسیہ کے متعلق حضرت اقدس کی گواہی 816 آنحضرت کا عرب قوم کی جہالت کو دور کرنا آنحضرت کا عورتوں سے عہد لیتے وقت کا عہد 599 آنحضرت کی منکسر المزاجی چرب زبانی سے اپنے حق میں فیصلہ کروانیوالے کے متعلق ارشاد 430 آنحضرت کی مہربانی کی عمدہ شان آنحضرت کا فرمانا کہ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو 213 آنحضرت کی ہدایت اور سچائی پر ثبات کی دعا آنحضرت کا کامل عدل آنحضرت کا مضمون کو بار بار دہرانا آنحضرت کا نور بھڑک اٹھنے کو تیار تھا آنحضرت کا نیکی کی تعریف بتاتا 504 799 484 507 715 511 آنحضرت کے احسانات پر نظر ڈالنے سے انسان پر اثر 628 934 آنحضرت کے اسوہ کے سامنے باقی سب کا منا 879 آنحضرت کے تنگدستی میں خرچ کرنے سے مراد 603 آنحضرت کی قوت قدسیہ کے زیادہ مشاہدہ کا طریق آنحضرت کا وحی کے بعد ایک قسم کا نفسیاتی بحران اور آنحضرت کے حق میں ابراہیم کی دعا کی قبولیت زملونی زملونی کے الفاظ سے مراد اور حضرت خدیجہ کا تعاون 599 آنحضرت کے خلاف ایک اسرائیلی نمائندہ گستاخی آنحضرت کا ہر قسم کے طوقوں سے آزاد کرنا آنحضرت کا ہر مظلوم کی حمایت کا اعلان آنحضرت کسی ایک دور کے چیمپئین نہیں آنحضرت کو جنگ احد میں غلبہ انسانی تدبیر سے نہیں ملا، پھر شکست میں تبدیل ہونے کی وجہ 27 آنحضرت کے دل کی مصفی شیشہ سے تشبیہہ 596 آنحضرت کے دل کی نرمی رحمت کے باعث ہے 807 284 آنحضرت کو دعاؤں کے نتیجہ میں عظیم کامیابیوں کا عطا ہونا 936 آنحضرت کو کسی کی غلطی پر استغفار کی تعلیم آنحضرت کو مشاورت کا حکم آنحضرت کو مشورہ کی ضرورت 245 246 247 آنحضرت کے سکھانے کا کمال 776 957 812 813 782 166 235 918 آنحضرت کے شفاف نورانی تیل کو آگ کی ضرورت تھی 34 آنحضرت کے طفیل امن کی راہیں نصیب ہونا آنحضرت کے عفو کی مثالیں آنحضرت کے عقب میں چلنے والے تمام انبیاء 26 977 806 آنحضرت احسان اور پھر ایتاء ذی القربیٰ میں داخل ہونا 463 آنحضرت کے قرب کی برکتیں آنحضرت کو فرمایا گیا کہ رحمت کی وجہ سے تو نرم پڑا، حکمت 238 34 496 622 238 آنحضرت کے کامل غلام آنحضرت کے گزند سے محفوظ رہنے کے متعلق اللہ کا وعدہ 974 آنحضرت کئی نوروں کا مجموعہ آنحضرت کی اطاعت قیامت تک کے لئے ہے آنحضرت کی اطاعت میں جذبات کو ایک گہر ادخل ہے 502 آنحضرت کے لئے اذن خیر لکم کے الفاظ آنحضرت کی پیروی میں لامتناہی ترقیات کے راستے 967 آنحضرت کے لئے کائنات کی تخلیق | آنحضرت کی خدا سے ملنے والی رحمت کا مخلوق میں تقسیم ہونا 236 آنحضرت کے مطابق کھانے کا صحیح طریق آنحضرت کی دعائیں قرآنی تعلیم کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں 722 آنحضرت کے نور کے سب سے زیادہ بڑھنے کی وجہ 468 835 209 154
اشاریہ 55 خطبات طاہر جلد 15 آنحضرت کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر منی لشکر شام کے حوالہ نکاح کے موقع کی دو آیات جن کا بذریعہ وحی چناؤ فرمایا 706 نور کی حیثیت سے آنحضرت اور کتاب میں کوئی فرق نہیں 32 سے صحابہ سے مشورہ لینا اور پھر آپ کا فیصلہ آنحضرت مکام الاخلاق پر فائز 249 462 813 155 وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا ایک بدوی کا آپ کے رعب کی وجہ سے کانپنا اور آنحضرت کی عاجزی آنحضرت میں قوت قدسیہ آنحضرت گوروں کا مجموعہ تھے آنحضرت اپنی ہر نصیحت پر خود کار بند تھے 982 ایک ہی نبی جس کو اللہ کا نام تمثیلاً دیا گیا 175 853 769 ابراہیم اور آنحضرت کی ہجرت اور بدی سے ہجرت کا فلسفہ 930 بعض لوگوں کو سمجھانے پر اُن کا کہنا کہ چھوڑیں جی کون رسول اللہ 453 بن سکتا ہے 448 34 624 افغانستان کے وفد کی حضور سے خفیہ ملاقات اللہ اور اس کے رسول کی آواز کانوں میں پڑنے پر دل کی کیفیات بتا حضرت مسیح موعود نے آنحضرت کی گہری سیرت بیان فرمائی دیتی ہیں کہ کتنا آپ پر بوجھ ہے اور کس حد تک آپ آزاد ہیں 28 ہے، اس کے پیچھے بھی چلیں ایک شخص کا بیٹی کو زندہ درگور کر نیوالا واقعہ آپکو سنانا 740 | ساری کائنات میں مصلح اعظم ایک زانی کا چار مرتبہ اقرار پھر آپ کا اسے سزا دینا 513 سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ایک صحافی کے قتل سے قبل اس کی محبت اور اطاعت کا عالم 503 غیروں کا آپ کو اعتراض کا نشانہ بنانا ایمان لانے کے بعد آنحضرت کے مقاصد کو تقویت پہنچانا 32 منافقین کے حوالہ سے آنحضرت کے لئے اللہ کی گواہی 580 جبرائیل کا نازل ہو کر آنحضرت کے ساتھ قرآن دہرانا 43 505 30.29 ہر طرح کے ظلمات کے بندھوں سے آنحضرت کا آزاد کرنا 33 ختم نبوت کا عقیدہ آنحضرت کے بعد نہیں شروع ہوا 454 آنحضرت کے ذریعہ روحانی مردوں کا زندہ ہونا 534 خدا کے مجد اور بزرگی سے آنحضرت کے منبر کالرزنا خدیجہ کا آپ سے شادی کے وقت سارا مال قدموں میں لا ڈالنا 325 دنیا کو ظلمت سے بچانے کا طریق ،سراج منیر سے چمٹ جائیں 170 رمضان کمانا ہے تو آنحضرت کی طرح کمائیں رمضان میں آنحضرت کی سخاوت کا عالم 152 777 محمد رسول اللہ کی جماعت قول سدید کے لئے پیدا کی گئی ہے 852 حضرت شیخ محمد صاحب 90 حضرت مولوی شیخ آف محمد صاحب آف لاہور 253 حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب 106 صحابہ کا آپ سے پوچھنا کہ ایک سال کے دن میں نمازیں محمد اسحاق صاحب کیسے پڑھیں گے 50 11 710 محمد اشرف صاحب آف جاہن ضلع گوجرانوالہ صحابہ کا آنحضرت سے پوچھنا کہ اگر جنت سب پر حاوی ہے تو پھر جہنم کہاں 753 ان کی شہادت صراط مستقیم آنحضرت اور قرآن کی پیروی میں ہی ملے گا 31 محمد ا کرم صاحب ملک مربی سلسلہ حضرت عائشہ پر گندا الزام اور آنحضرت کی کچھ عرصہ علیحدگی محمد حسن لطیفی اور پھر اللہ کے حکم پر مائل ہونا کوئی بھی آنحضرت کی نصائح کے بغیر ناصح نہیں بن سکتا 624 آپ کو عظمتیں ماں کی وجہ سے ملیں محبت کے طریق آنحضرت سے سیکھیں مشورہ کے لئے آنحضرت کی خدمت میں حاضری پر 942 حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب 526 242 910 911 140 901 حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب 252,403 چوہدری محمد لطیف صاحب گھٹیالیاں صدقہ کی تعلیم منافق سے بھی آنحضرت نے ادنی نا انصافی کا سلوک نہ کیا 470 میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی منافقین کا آنحضرت کو جھٹلانا باوجود سچائی کی گواہی کے 811 ان کی اہلیہ کی وفات پر ذکر خیر 784 709
اشاریہ 56 خطبات طاہر جلد 15 مولوی محمد حسین بٹالوی اس کے نواسہ کا بیعت کرنا قرآن میں بیان کردہ مذہبی حکومت کا تصور 777 کوئی بندش نہیں کہ ہم صرف مذہبی علم بڑھا ئیں 363 591 حضرت چوہدری محمد حسین صاحب 901,907 وید کے پجاریوں کا مذہب کے نام پر لوگوں سے سلوک 368 292 یورپ میں بسنے والے احمدی بچوں کے لئے مذہب کے حوالہ سے تضادات حضرت محمد خان صاحب حضرت اقدس کا ان کے اہل بیت سے ہونے کا اعلان 254 محنت محنت کے مختلف مدارج محنت یا کسب سے نورالہی حاصل کرنیکا طریق تمام مذاہب میں خوشبو کا تصور ہے 108 دوسرے مذاہب کی خوبیاں بیان کرنے کی بابت 149 حضرت اقدس کی تعلیم 843 111 223 آنحضرت کی راتوں کو عبادت اور دن کو خدمت خلق میں محنت 137 کتنے مذاہب ایک خدا کے حق میں گواہی دے رہے ہیں 579 مذہب ہر مذہب کا خلاصہ مذاہب میں بدبختی کہ ان کے رہنما عقائد کیلئے مختلف یورپ کے جنوب میں بنیاد پرست لوگوں کی کثرت مذاہب کو لڑاتے ہیں 440 مرا کو 617 842 778 مذہب پر زبانیں دراز کرنے والوں کا انجام 224 | مربی مذہب پر محبت کے نتیجہ میں عمل کرنے والا بقا اختیار کرتا ہے 326 افریقہ میں تبلیغ کے حوالہ سے مربیان کا ٹیمیں بنا کر نکلنا 408 794 حضرت مصلح موعود کا بعض مبلغ واپس بلوانے اور فارغ مذہب سے بعض لوگوں کے دوری کی وجہ مذہب کو عقلی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والی بات 167 کرنے کا فیصلہ اور سپین کے ایک مبلغ کا تذکرہ مذہب کے نام پر بنیادی مذہبی حقوق کا چھینا جانا مذہب کے نام پر قانون بنے کا بھیانک نتیجہ مذہب کے نام پر کسی کو انسان کا حق سلب کرنے کا کوئی مذہب اجازت نہیں دے سکتا 642 360 سپین کے مربی سلسلہ کا گزارہ کے لئے معطر بیچنا اور پولیس کا پکڑنا 642 359 مرده امت محمدیہ مردوں کو زندہ کرنے والی جماعت ہے 272 363 مرنے کے بعد جی اٹھنے کے مضمون کا دنیا کی بے ثبائی سے تعلق 268 مذہبی انتہاء پسندی نے سوائے بربادی کے اور دنیا میں کچھ نہیں دیا 366 | روحانی مردے مذہبی جھگڑوں کے فسادات سے بچانے کے لئے عدل کا مضمون 637 مزدور 270 مذہبی قوموں میں بدنصیبی کہ اکثر کسی کی موت پر آگے انگلستان میں اور ٹائم نہ دینے پر آزاد کشمیر کے لوگوں کا کہنا ظلم ہے 109 بڑھنے کی بجائے ماضی کی موتوں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے 774 مستشرقین مذہبی قوموں میں غلبہ کی جان اس وقت تک رہتی ہے 285 جب امر الہی کو فوقیت اور اپنے نفس کو نیچے گرادو احمدیوں پر مذہب کی وجہ سے پاکستان میں مظالم 280 361 357 وہ عبارتیں جن کو آج تک حل نہیں کر سکے مسجد برمنگھم 328 بھارتیہ جنتا پارتی کا مذہبی انتہا پسندی کا اعلان پاکستان کو مذہب کے نام پر ظلم کے حوالہ سے اپنے حالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے دنیا کی بے ثباتی کا مذہب سے تعلق سپین میں عیسائی کی سر بلندی کے لئے مسلمانوں اور دیگر مذاہب والوں پر ظلم اور اس کا نتیجہ مسجد لندن کے امام کو تبلیغ کے لئے چٹھیاں اور ان کا جواب 570 360 مسجد میں زینت لے جانے سے مراد 715 یو کے میں مسجد کے لئے آخری ڈیل کا طے ہونا سعودہ بیگم صاحبہ 360 مسكين فرعون کا قانون سازی سے بنی اسرائیل کی مردانہ صفات کو کچلنا 362 معاشرہ کومسکینوں سے اپنے نفس کی عبادت کروانا 213 251 911 289
اشاریہ مسلمان 57 خطبات طاہر جلد 15 مظفر احمد ظفر صاحب نائب امیر امریکہ مسلمان کا مطلب مسلمانوں کو خنزیر سے بالطبع کراہت ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی یادگاروں کا فضائی پولوشن معاشرہ سے خراب ہونا 795 ان کی وفات پر ذکر خیر.663 حضرت معاذ بن انس 363 معاشرہ کو مسکینوں سے اپنے نفس کی عبادت کروانا محمد رسول اللہ کی جماعت قول سدید کے لئے پیدا کی گئی ہے 852 معاشرہ کو نگران ہونا چاہئے 909 964 289 350 امریکہ میں مسلمانوں اور یہود کے تعلقات کو بہتر بنانے کے معاشرہ میں جھوٹے خداؤں کی عبادت کے نتیجہ میں امن کا اٹھنا 234 781 جھوٹ سے پاک معاشرہ قائم کرنا ہم پر لازم ہے متعلق پروگرام 68,71,400,424,427,512,514, صحیح مسلم 515,624,652,662,922,978,983,984 عیش وعشرت کا انسانی معاشرہ پر برا اثر فخر کا معاشرتی برائی بننا 398 205t202 298 ہندوستانی ایکٹر زاور ایکٹریسز کی گھروں میں تصاویر اور بت پرستی 341 مسند احمد بن قبل 65,534,947,963,964,980 ہم نے اپنے معاشرہ کو جھوٹ سے پاک کرنا ہے مسند حضرت امام اعظم مشاہدہ 622 | مغفرت مغفرت اور رضا کا تعلق دوران سیر ایک پرندہ کچھ کھارہا تھا جو صرف اسے ہی نظر آرہا تھا 584 مغفرت جنت کی کنجی مشكاة المصابيح مشوره 741 مغفرت سے لیلۃ القدر کا تعلق مغفرت کی طرف مسابقت سے مراد مغفرت کے ساتھ رحمت اور فضل کا تعلق مشوروں سے پہلے نرمی دلوں میں پیدا کریں اور رحمت کا مغفرت کے لئے نیت کا خلوص ضروری ہے نمونہ دکھائیں 348 208 751 128 750 759 760 241 مغفرت کے مضمون میں گناہوں کو جرات نہیں دلائی جا رہی 756 مشوروں میں سچا تقوی اور دیانت پیدا کرنے کا طریق 240 اللہ کو مغفرت سے عاری سمجھنے کا نقصان مشوروں میں عقل کے ساتھ علم کا تعلق مشورہ اور توکل علی اللہ کی تعلیم مشورہ ایک امانت ہے مشورہ کی ضرورت کا بیان مشورہ کے لئے آنحضرت کی خدمت میں حاضری پر صدقہ کی تعلیم 659 247 اللہ کی بخشش کا وہ مضمون جو صرف عارف باللہ سمجھ سکتا ہے 662 247 انفاق فی سبیل اللہ کا مغفرت سے تعلق 236 247 جنت ہی کا نام مغفرت رکھ دیا جانا سویڈن میں دورہ کے وقت حضور کو ایک خاتون کا عفو اور مغفرت پر خطبہ دینے کا خط لکھنا عفو اور بخشش کا خدا کے حوالہ سے ذکر 242 ننانوے قتل کرنے والے کا بخشش کا سوال تقویمی سے عقلوں کا صیقل ہونا اور صائب الرائے ہونا 247 وہ مغفرت جس کے نتیجہ میں گناہ پیدا ہو سکتے ہیں آنحضرت کی زندگی میں مشوروں کے واقعات 249 اللہ کی غیر معمولی بخشش اور مغفرت پر مشتمل آیات آنحضرت کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر کا لشکر شام اور ان میں تنبیہ کے حوالہ سے صحابہ سے مشورہ لینا اور پھر آپ کا فیصلہ 249 لامتناہی مغفرت کا مضمون | 734 | مه مصر بنی اسرائیل کا مصر میں آباد ہونا 735 حضرت ابراہیم کا مکہ کورونقیں بخشا 5 752 933 538 731 944 730 211 931
اشاریہ 58 خطبات طاہر جلد 15 900 152 آنحضرت کے وجود کی وجہ سے اہل مکہ سے عذاب کو دور کیا گیا 145 جب مرجانا ہے تو پھر کیوں کسی سے حسد کرنا روحانی مردوں کو زندہ کرنے کا گر نیک صالح کی موت جس نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف رکھی ہو مکھی کے دو پر، ایک میں شفا دوسرے میں زہر ملاقات ملاقات کے حوالہ سے قرآنی تعلیم ملاقات کے وقت کے حوالہ سے مجبوریاں 658 اس کی موت پر جن امور کی طرف انسان کی توجہ ہونی چاہئے 772 540 موسیقی / میوزک کا اثر 540 میوزک میں drug addiction حضور سے ملاقات کے حوالہ سے کینیڈا اور امریکہ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام جماعتوں کے اصول اور بعض لوگوں کو ٹھوکر لگنا 538 فیملی ملاقاتوں کی جو تو فیق خدا نے بخشی اس کی مثال پہلے نہیں ملتی 539 موسیٰ کے ذریعہ فرعونیت کا نا کام ہونا 551 202 562,730,791 362 موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں کی پناہ گاہ کے حوالہ سے دعائیں 735 ملفوظات منافق 74,384,387,560,647,667, 688,726,727,927,928 موضوعات الصغانی موضوعات کبری 548 835 منافق سے بھی آنحضرت نے اونی نا انصافی کا سلوک نہ کیا 470 مولوی منافقانہ رنگ میں قربانی کرنے والوں کی حالت منافقت میں کوئی برکت نہیں منافقتوں سے قوموں کی ہلاکت کا راز احد کے بعد منافقین کا باتیں کرنا 637 244 مولویوں کا سارا زور کہ صرف ایک چینل بند کر دیا جائے 343 620 مولویوں کا لوگوں کو جھوٹا قرار دینے کا فیصلہ کرنا 401 | 1953ء کے فسادات کی تحقیق پر فائز دوشہرت یافتہ 283 ججوں کا مسئلہ کو سمجھنا کہ ملاں فساد کی طرف لے جارہے ہیں 358 منافقین کا آنحضرت کو جھٹلانا جبکہ وہ آپ کی سچائی کی گواہی مومن دے رہے تھے نفاق کے پیدا ہونے کا وقت منور احمد صاحب لون ان کے نماز جنازہ کا اعلان منوسمرتی محمد منیر جسٹس منیر عودہ صاحب 811 مومن کا اپنی ذات میں تبدیلی کو ہر وقت دیکھنا اور پرکھنا 449 621 مومن کا صاحب امر بننا مومن کے سفر کا درجہ کمال 615 84 18 مومنوں کی جماعت میں ہر عضو ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے 645 358 دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے 358 مہمان نوازی 9 784 مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک مہمان نوازی کو حضرت اقدس نے پانچ بنیادی شاخوں میں سے قرار دیا ہے 424 560 676 سیدہ منیرہ ظہور موت موت کا فلسفہ بہت گہرا ہے مہمان نوازی کے پہلو سے ساری دنیا کی جماعتوں کو ایک 258 دوسرے پر سبقت لے جانے کی تلقین موت کی حالت میں اکثر لوگوں کا زندگی گزارنا 151 مہمان نوازی کے حوالہ سے پوری جماعت کا انداز 677 561 موت کی ساعت کے وقت انسان کی حالت 716 مہمان نوازی کے ذریعہ ہم نے لوگوں کے دل جیتنے ہیں 677 موت کے بغیر کوئی اللہ کے نز دیک زندہ نہیں 726 جلسہ کے حوالہ سے مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی تلقین 558 موت کے بھیانک پن کے تصور میں کمی کا مضمون 727 مہمانوں کے لئے ایک نصیحت کہ تین دن سے زیادہ زندگی اور موت میں فرق 848 مہمانی کا حق نہ سمجھو 566
اشاریہ 59 ایک انصاری کی مہمان نوازی کا واقعہ جس میں خدا بھی ملک ناصر احمد صاحب چٹخارے لیتا رہا ایک صحابی کی مہمان نوازی سے اللہ کا آسمان پر مچا کے مارنا اور ہنسنا 564 675 ان کے نماز جنازہ کا اعلان خطبات طاہر جلد 15 18 حضرت مرزا ناصراحمد صاحب خلیفه لمسیح الثالث ب جلسہ سالانہ انگلستان اور جرمنی میں مہمانوں کی خدمت کے آپ کے خطبات کی کیسٹس کی افریقی ممالک میں پھیلاؤ کی سکیم 778 674 بنو کد نضر 567 معیار کا بلند ہونا جلسہ کے ایام میں چودہ روزہ مہمان نوازی جماعت احمدیہ کے پھیلنے کا مہمان نوازی سے گہرا تعلق 676 عربوں کی مہمان نوازی کی شان 566 آپ کی مہمان نوازی کے جذبہ کا ساری جماعت میں سرایت کرنا 565 ابراہیم کی مہمان نوازی کا انداز خواجہ میر درد ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب میر پور خاص میر پورخاص میں مردہ پرستی کا رواج نادر کاکوروی نارووال 558 557,716,825 نبی / انبیاء نبی تو معصوم ہوتا ہے متکبر نہیں انبیاء کے تعلق میں وسیلہ کی اہمیت اللہ پر ایمان کے اندر ہی رسالت پر ایمان ہے بیعت کے حوالہ سے مختلف مسائل کہ بیعت اگر ایک ہی ہے تو نبی کی بیعت اور کیوں اور خلیفہ کی بیعت اور کیوں، 271 661 445 792 668 253 ان سب کا حل حضرت اقدس نے پیش فرمایا ہے 17 نبوت سے انکار کے نتیجہ میں دنیا میں فساد اور خون خرابہ 278 302 دعوت الی اللہ کے لئے پہلے نبوت کا ایک مرتبہ حاصل کرنا 141.140 17 ضروری ہے شیطان انبیاء کو نہیں بھلایا کرتے قرآن میں انبیاء اور ان کی اقوام کے بچائے جانے 601 291 ناروے 49,610,841,917,1001 کا ذکر اور فلسفہ ناروے سے 18 گھنٹے کا دن ہونے کے وقت نمازوں گناہوں کو کوئی نبی نہیں بخش سکتا 788 آنحضرت کے عقب میں چلنے والے تمام انبیاء کے بارہ میں سوال کہ مغرب کب پڑھیں اور عشاء کب 51 وہ نور جو صرف انبیاء کو دیا جاتا ہے ناروے کا دہریت میں بہت آگے ہونا ناروے کو زندگی کا پیغام پہنچانے کے حوالہ سے احمدیوں کو تنبیہ 839 اللہ پرانے انبیاء کی باتوں کو محبت کے جذبوں کے 788 تحت محفوظ کرتا اور بیان کرتا ہے 733 245 161 806 562 ناروے کے خطبہ کا تمام دنیا میں سنا جانا ناروے کے متعلق ماہرین کا کہنا کہ دنیا کی سب سے شفاف انبیاء اور دوسرے انسانوں کے کھیل کود میں حصہ لینے میں فرق 219 ہوا ئیں یہاں چلتی ہیں ناروے میں اسلام کا پیغام پھیلانے کے لئے 828 انبیاء غفلتوں کے پردوں کو چاک کرتے ہیں انبیاء کا ایک جنون کی کیفیت سے تبلیغ کرنا 824 | انبیاء کا بطور شہداء پیش ہونا 152 639 771 حضور کے دل میں تڑپ ناروے میں سورۃ آل عمران کی آیات کا حضور کو بکثرت یاد آنا 823 انبیاء کا خدا کی ہستی کی خاطر قربانیاں دے کر اس کی طرف بلانا 444 ناروے میں قومی تعصب اور دیگر برائیوں کو دور کرنے کا طریق 802 انبیاء کا من انصاری الی اللہ کا اعلان ناروے میں کوڑھیوں کے علاج کے لئے تجربہ گاہ کا قیام 828 انبیاء کا نور ہمیشہ دائی ہوتا ہے ناروے میں seagulls کا ایک تھیل سے خوراک لے کر اڑ جانا 833 انبیاء کی سچائی کا معیار اور اس سے تعلق MTA کا حضور کے دورہ ناروے کے دوران کردار 844 | انبیاء کی صداقت کا ایک نشان شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سلسله 313 انبیاء کے تعلق میں وسیلہ کی اہمیت 606 141 442 443 445
اشاریہ انبیاء کے لئے قانون ٹوٹنے کی وجہ انبیاء میں ودیعت کیا گیا نور انبیاء نور مجسم ہیں 598 60 بحت خطبات طاہر جلد 15 148 آنحضرت نے کوئی نصیحت نہیں کی جس پر بدرجہ اتم خود پہلے 153 کار بند نہ ہوں 982 ایک عام شخص اور ایک نبی کے مامور ہونے میں فرق 615 کوئی بھی آنحضرت کی نصائح کے بغیر ناصح نہیں بن سکتا 624 تمام انبیاء بھی خلفاء ہی ہیں تمام انبیاء کو نبوت کا فیض فضل کے نتیجہ میں ملا 597 ڈاکٹر نصیر خان صاحب 761 رسول کی رضا کامل طور پر اللہ کی رضا کے تابع ہوتی ہے 23 نظام جماعت ( نیز دیکھئے عہدیداران) 426 نظام جماعت سے ٹکرانے والوں کی حالت نظام جماعت کا توحید سے تعلق عدل اور ماموریت کا تعلق قوموں کے آپس میں انبیاء کے مقابلے کرنے پر فخر اور مبالغہ 214 36 نظام جماعت کی بقا اطاعت پر منحصر ہے نظام جماعت کی بناء شوری پر ہے نظام جماعت کی حفاظت ، استحکام اور اس کی بقاء کے لئے آمیزی کی خواہش ہر نبی پر اعتراض کہ خدا کو یہی نظر آیا شار صاحب 862 | ضروری عوامل نظام جماعت کے ساتھ عدل سے آزادی کا حصول 292 282 483 607 241 نجات 146 نظام جماعت میں شاذ ہی جھوٹ بولا جاتا ہے نجات کی طرف مستقلاً لے جانے والے عوامل نجات، اللہ کی نظر میں رکھنے سے نجات کا حصول 307 نظام جماعت میں عدل کے تقاضے نہ سمجھ آنے کی وجہ سے بعض اوقات ان کی بے حرمتی ہونا نجات، عذاب سے نجات کا طریق نرمی اور رفق کی جزا نسائی نسل MTA کی وجہ سے نسلوں کا سدھرنا جماعت کے نونہال آپ کو جو ضائع ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ان کی فکر کریں 172 985 نظام جماعت میں لوگوں کے دلوں کو ساتھ لے کر چلنا نظام کی کامیابی کا راز ہے 63,64 نظام کی حفاظت کے متعلق آنحضرت کی تلقین نظام کی حقیقت 915 نظام کی سچی اطاعت نظام کی غلامی میں آنا آزادی کا پیغام ہے 274 نظام میں افسران بالا تک شکایت کا نظام 464 425 706 422 779 427 425 455 426 429 ماں کی تربیت اگلی نسلوں کی حفاظت کے لئے بہت ضروری ہے 820 احمدی نظام ہرجگہ مستعد ہو، مشاء کی بیماریوں کے حوالہ سے 350 269 اصلاح کا ایک مسلسل نظام اطاعت سے باہر رہنے والے وہی ہیں جن کو نیکیوں میں اگلی نسلوں کا اندھیروں میں مبتلا ہونا ، ان کو بچانا ہے موجودہ دور کی نسل صحیح نہ ہو تو آئندہ بھی کسی کی تربیت نہیں ہو سکتی 953 تعاون کی عادت نہیں نشر نشہ کا فلسفہ جماعت کو تعاون کرنے کی تلقین جو ان کی فطرت ثانیہ 915 | بن جائے 621 597 607 حسن بن صباح کا غلبہ کے لئے نشے میں مبتلا کر کے دیوانوں جماعت کے وقار کے خلاف بات لازماً اولو الامر لوگوں تک پہنچاؤ 626 283 طوعی کاموں میں افسر کی کامیابی کا راز 780 202 قول سدید کی کمی سے نظام جماعت میں رخنہ کا پیدا ہونا 706 702 کی جماعت تیار کرنا میوزک میں drug addiction ڈرگ کو جائز قرار دینے کی آواز کے اٹھنے کی وجہ 205 | قول سدید کی کمی کا انتظامی جھگڑوں پر اثر حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کسی کو جماعت سے الگ رکھنا میرے لئے تکلیف کا موجب حضرت اماں جان کا سادگی سے نواب لمتہ الحفیظ کور خصت کرنا 403 ہوتا ہے، کسی کی غلط ضد کو تسلیم کرنا عفو کے اندر نہیں 943
اشاریہ 61 خطبات طاہر جلد 15 نومبائعین کے نظام کا جزو بدن بننے کے حوالہ سے نصائح 502 نفس کو شرور سے بچانے کی دعا وحدت کا نمونہ بنانے کے لئے عہد یداران کو نصائح 491 نفس کو معبود بنانے سے ہر چیز کا معبود بننا آنحضرت کی مومنوں سے شفقت و رافت اور اس حوالہ نفس کو نجات دینے کا طریق سے امراء اور عہدیداران کو نصائح 478 | نفس کی اصلاح کا لامتناہی سلسلہ امارت کے فرائض میں بعض افراد کا بیویوں کے زیر اثر آنا 466 نفس کی خاطر انسان کا خرچ کرنا 466 نفس کی خواہش کو معبود بنالینے والوں کی حالت امارت کے کمزور پڑنے کی ایک وجہ امارت میں تکبر کا پہلو 457 428 نفس کی ملونی کا انسان پر اثر 218 285 307 806 289 257 698 نفس کی نگرانی کا حکم جب انسان کسی کو نیکی کی طرف بلائے 620 امراء سے بد تمیزیاں کرنے والوں کی حالت امیر کی اطاعت کی اہمیت اور اس سلسلہ کا خلافت تک پہنچنا 428,429 نفس کے اندھیروں کو نفس سے دور کرنے پر روشنی کا ملنا 275 نفس کے اندھیروں کی تین اقسام امیر کے فرائض اور ذمہ داریاں 464 260 اپنے متعلق بعض باتیں جب امیر کو پہنچیں تو جور عمل ہونا چاہئے 471 نفس کے اندھیروں کے حوالہ سے حدیث میں مذکور ایک دعا 201 نفس کے اندھیروں میں مبتلا شخص کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا 266 امیر کے حکم سے اختلاف ہو تو بالا افسروں یا خلیفہ وقت کو مطلع کریں ایک امیر کے شفقت اور رحمت کے تقاضے پورے نہ کرنے کا نقصان بعض دفعہ سخت امیر مقرر کرنے کی وجہ 281 459 460 جماعت میں کسی امیر کے سلوک کی وجہ سے آج بھی فیض ملنا 461 خدمت اور اطاعت کے اعلیٰ نمونہ لینے کا صحیح طریق 456 نفس کے اندھیرے کا علاج نفس کے اندھیرے وسوسوں سے پیدا ہوتے ہیں نفس کے اندھیرے نفس کے وہ اندھیرے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں نفسانی خواہشات کو معبود بنا لینے والے کی مثال نفسانیت کی فربہی چھوڑنے سے مراد 195 277 198 259 276 986 نفسیات کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ماہرین کے بے ہودہ نتیجے 232 دلوں کی سختی نے نظام جماعت میں ساری دنیا میں فساد برپا ایک ماہر نفسیات کا لکھنا کہ ایک طرف اللہ نے انسان کر رکھا ہے 986 کے دل میں طلب رکھ دی اور دوسری طرف رستے بند کر دئے 232 بچے دل سے نظام کی اطاعت اور فیصلہ کے سامنے سر جھکانے بعض لوگوں کی پرسنیلٹی split ہوتی ہے 431 غصہ کو ضبط کرنے کے نتیجہ میں بعض اوقات نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونا 29 968 والے نقصان میں نہیں پڑتے عہدیدار کا کام کہ لوگوں کے دل جیتنے میں لازماً محنت کرنی ہوگی 457 قریبی اور مصاحب سارے تقویٰ کے نظام کو بگاڑ دیتے ہیں 468 بائبل میں نفس کو شیطان سے مشابہت جس کا دوسرا نام سانپ ہے 849 کسی امیر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ چند لوگوں کے ہاتھوں دعاؤں کے ساتھ نفس کی ملونی خطر ناک چیز ہے 469 | شیطان کا نفس کو دھوکا دینا 376 287 کٹھ پتلی بن جائے کمیشن مقرر کرنے کے بعد پھرستاری نہیں ہونی چاہئے 706 قول سدید کا تربیت اور اصلاح نفس سے بہت تعلق ہے 849 604 مذہبی قوموں میں غلبہ کی جان اس وقت تک رہتی ہے حضرت نعمان بن بشیر نفس / نفسیات نفس پر پڑنے والے پردوں سے مراد نفس کا سب سے بڑا اندھیرا جب امر الہی کو فوقیت اور اپنے نفس کو نیچے گرادو 276 معاشرہ کو مسکینوں سے اپنے نفس کی عبادت کروانا 282 اپنی ہو او حوس کی پیروی کر نیوالوں کا انجام 280 289 230 نفس کو خدا کی طرف بلانے سے عمل صالح کی توفیق ملے گی 808 ہر چیز کو اچھا دیکھنا نفس کے اندر دھوکا دینے کی صفت ہے 634 نفس کو دعوت الی اللہ 605 نکاح کے موقع پر دو آیات کا بذریعہ وحی چناؤ 706
اشاریہ 373 72 62 خطبات طاہر جلد 15 نور کی حیثیت سے آنحضرت اور کتاب میں کوئی فرق نہیں 32 نور کے سفر کا دل سے آغاز نماز ا نماز جنازہ نماز با جماعت کا علانیہ اور سر اپڑھا جاتا نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے لیکن موقع اور محل کے مطابق 709 نور کے طاقتور ہونے کے بعد اند میرے واپس کیوں نماز جنازہ غائب نہ پڑھوانے کے متعلق حضور کی درخواست 709 آتے ہیں؟ نماز جنازہ کی دعا میں فلسفہ نماز جنازہ میں پہلے زندوں کے لئے دعا پھر مردوں کے لئے ، حکمت 722 نور کے آنے پر ظلمت کا سر کنا نور مجسم سے مراد 772 | نور والوں کی باتوں میں قوت اور اس کا لوگوں پر اثر 166 215 148 153 171 168,169 نماز میں التحیات میں اللہ کے لئے تحفہ اور تشہد کی گواہی 578 نوروحی کے حصول کا طریق نماز میں تشہد کا ہمیں یاد دلانا کہ ہم نے خدا سے ایک سودا کیا ہے 242 نور آسمانی کو صرف آنحضرت نے سب سے بڑھ کر اٹھایا 181 نمازوں کی ویل اور لعنت سے مراد نمازوں میں خشوع و خضوع نمازیں خدا کے ذکر کی یقینی علامت نہیں 581 نور آنے پر ٹھہر جاتا ہے 375 نور کی جلوہ گری کی اصل غرض 741 اللہ کا نوراندھیروں سے شکست نہیں کھا سکتا 141 164 234 صحابہ کا آپ سے پوچھنا کہ ایک سال کے دن میں نمازیں انسان کے اندر روشنی کے داخل ہونے کے تین راستے 263 50 ایم ٹی اے کا نور کی صورت میں اترنا 315 23 180 کیسے پڑھیں گے کسی کا حضرت اقدس سے سوال کرنا کہ جب آپ نماز میں خاص تقومی اور نور ایک ہی چیز کے دو نام کیفیت ہوں تو خیال نہیں گزرتا کہ لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں 375 دعوت الی اللہ کا مقصد اور صفات حسنہ نور کے گردگھومنا ہے 159 کھیل کے وقت نماز کا حق ادا کریں 219 دل سے ظلمت دور کرنے کے بعد نور آئے گا ناروے سے 18 گھنٹے کا دن ہونے کے وقت نمازوں فرشتوں کی نور سے پیدائش کے بارہ میں سوال کہ مغرب کب پڑھیں اور عشاء کب آنحضرت کا بچہ کے رونے کی وجہ سے نماز چھوٹی کر دینا 462 آنحضرت کا نزول نور کے طور پر بعض معترضین کا نماز کے متعلق بوریت کے حوالہ سے اعتراض 581 آنحضرت سے بڑھ کر روشنیوں کی طرف بلانے والا اور کوئی نہیں 190 دکھاوے کی نمازوں کا نقصان حضرت نوح علیہ السلام 176 51 نفس کے اندھیروں کو نفس سے دور کرنے پر روشنی کا ملنا 275 325 آنحضرت کئی نوروں کا مجموعہ 25 34 الہی کتب میں فراست سے خدا کے نور کی شان پہچانی جاسکتی ہے 224 نوح کے سیلاب میں انذاری اور اور تبشیری پہلو 354 اول نور کی حقیقت چین میں نوح کی طرح کے بزرگ کا ذکر ملنا 355 حقیقی نور کیا ہے نور نور اور ظلمت کی جنگ سے مراد نور تک رسائی سوائے نور کے ناممکن ہے 180 680 نور جہاں، جہانگیر بادشاہ کا دل نور جہاں پر آنے کی وجہ 760 نور سمجھنے کے لئے عقلوں کو صیقل کریں نور سے صدیقیت اور شہادت کا تعلق نور سے مراد نور کمانے کا طریق نور کونور سے مناسبت ہے 168 993 149 ذاتی نور کو نورالہی سے ملانے کا طریق 162 171 149 روشنی کا دھوکا سب سے بڑا ہے، اس میں موجود اند تیرے 198 روشنی کے دھوکے کی تین منازل 218 175 وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا سفر جو بظاہر روشنی کی طرف مگر در اصل اندھیرے کی طرف ہوتا ہے 217 وہ نور جوصرف انبیاء کو دیا جاتا ہے 161 حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اسی لاول 146 آپ کو ملنے والا مقام صدیقیت 670 148 147 آپ کے نزدیک مشورہ کے وقت صدقہ سے مراد ہد یہ ہے 242 ہدیہ
اشاریہ 63 حضرت اقدس کے ارشاد پر قادیان ٹھہرنا اور وطن کا خیال نیکی کو چھپ کر اور اعلانیہ کرنے کی حکمت 671 نیکی کی تعریف دل سے نکال دینا نومبائعین خطبات طاہر جلد 15 373 441 نیکی کے تقاضے اگر بہت بلند ہیں تو اس خوف میں مبتلا لوگوں کے وہم نومبائعین کو اب انفرادی کوششوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ان کا جواب کہ کہیں ہم مشرکانہ حالت میں سانس تو نہیں لے رہے 679 678 نیکی کے دوران شیطان کی طرف سے ریا کا ابتلا اور اس کا علاج 387 کیلئے وسیع تر انتظامات کی ضرورت ہے نو مبائعین کو اطاعت کے آداب سکھانے کی ضرورت 496 نیکی کے سرا کرنے کے نتیجہ میں اللہ کا انسان کے دل کو روشن کرنا 385 نومبائعین کو مالی قربانی میں ضرور شامل کریں خواہ معمولی ہو 17 نیکی کے کاموں میں مسابقت کی تعلیم نو مبائعین کی افواج کو سنبھالنے کا در پیش چیلنج 737 نیکی کے لامتناہی پھل کے حصول کا طریق نومبائعین کی تربیت کا مضمون نو مبائعین کی تربیت کے تقاضے اور طریق نومبائعین کی تربیت کے حوالہ سے نصائح نومبائعین کی تربیت کے حوالہ سے ہر علاقے میں ایک مرکز کا قیام نو مبائعین کے سپر دذمہ داریاں کرنے کا فائدہ 569 450 437 نیکی کے معاملات میں Hydra بنے کی تعلیم 994 378 774 نیکی کے نفوذ اور ثابت کرنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی کوششیں 440 نیکیوں کو طبیعی حالتوں کے ساتھ ادا کریں 621 385 616 915 93 451 693 نیکیوں پر غلبہ پانے کا طریق نیکیوں کی تعلیم کے متعلق ہم صاحب امر ہیں نیکیوں کی عادت کا فلسفہ نومبائعین کے نظام کا جزو بدن بننے کے حوالہ سے نصائح 502 نیکیوں کے جذبوں کا کم ہونا اور بڑھنا 701 نیکیوں میں بڑھنے کے حکم کی وجہ سے علانیہ قربانی کا حکم 324 لوگوں کے کثرت سے آجانے پر قرآنی تعلیم افریقہ میں تربیت کے لئے ڈش انٹینا اور مساجد کی تعمیر کی تلقین 997 نیکیوں میں تعاون کرنے والا معزز سے معزز تر ہوتا چلا جاتا ہے 599 البانیہ میں نومبائعین کے سامنے احمدیت کا عملی زندہ کا نہ ہونا 450 امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے درمیان نو مبائعین کی حضور سے ملاقاتیں اور ان کے اخلاص کا ذکر اندھی تبلیغ کے نتیجہ میں ملنے والے نو مبائعین گیمبیا کے ایک چیف کا بیعت کرنا نیت دل نیتوں کی آماجگاہ اور دل کے میلانات 569 157 608 نیکیوں میں دوام کے حصول کا طریق اطاعت سے باہر رہنے والے وہی ہیں جن کو نیکیوں ی ہیں جن کو نیکیوں میں تعاون کی عادت نہیں 442 597 اللہ کی طرف بلانا ہر نیکی کی طرف بلانے پر حاوی ہے 618 بد کردار نیکیوں کی طرف بلانے کا حق نہیں رکھتا بدی سے رکنا بھی نیکی ہے مگر اعلیٰ خوبیاں اس کی جگہ نہ 166 لیں تو وہ نیکی نہیں رہتی عبادت کے معاملہ میں نیتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت 377 قربانی کے حوالہ سے نیت پر اللہ کی نظر نیک انیکی بدیوں کے ملک سے نیکیوں کے ملک میں ہجرت 378 تکبر کا کلیہ ہر نیکی کو چٹ کر جانا تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ 619 145 672 330 نیک باتوں کا بتانے والا ان پر عمل کرنے والے کی طرح ہے 622 اللہ تمہیں سخت عذاب دے پھر دعا ئیں بھی قبول نہ ہوں گی 605 نیک کام میں تعاون کی ہدایت 597 تین افراد کا واقعہ جو غار میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے نیک کاموں اور تقویٰ میں تعاون نیکی اور تقویٰ کی بناء پر کرنے کا حکم 601 ایک آدھ نیکی ہی کی تھی نیکی اطاعت ہی کا نام ہے نیکی خالص خدا کے لئے کریں نیکی کر دریا میں ڈال سے مراد نیکی کو اپنی ذات سے چھپانے کی کوشش 143 63 رمضان میں نئی نیکیوں کے جذبوں کے پیدا کرنے کی ضرورت 108 378 ریا سے پاک نیکی 965 ریا کی ملونی سے پاک نیکیاں کریں 375 آنحضرت کا نیکی کی تعریف بتانا 375 386 603
اشاریہ 64 خطبات طاہر جلد 15 ایک مشرک کا حالت شرک میں پرندوں کو دانے پھینکنا ایک حکومتی عہدیدار کا کہنا کہ پہلے ہر کوئی سلام کرتا تھا 595 اب ہر کوئی نظریں پھیرتا ہے 719 اور اس کا اجر بدی سے بچنے کے لئے نیکی میں آگے بڑھنا ضروری ہے 972 ایک صحابی کا اپنی اولاد پرستی کرنا حضرت اقدس کا اظہار ناراضنگی 936 بھائی کی حاجت روائی کرنا نیکی ہے ترک شر کے ساتھ خیر کو اپنانا بھی ضروری ہے تطوع کے مختلف معانی فرض کے وقت نفلی نیکی نہیں کی جاسکتی وہ نیکی جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے ہر نیکی میں آسمان سے مدد گار اترتے ہیں 623 145 62 62 660 126 ایک عرب کا ایک گھوڑا چوری ہونا جو ہمیشہ نمبر ایک پر آتا تھا 520 والدین والدین کا اولاد کی تربیت کے حوالہ سے تعاون والدین کو اُف تک نہ کہنے کی تعلیم 610 428 اولاد کی طرف سے عید وغیرہ پر والدین کو تحفہ ملنے پر اُن کی خوشی 2 باوجود نیک ہونے کے آجکل لوگوں کو خدا میں دلچسپی نہیں اولاد کے حوالہ سے مایوس ہونے والے والدین کو نصیحت 267 440 ایک ماں کا اپنے بچے کو بد دعا دینا کہ خدا سے اس کا تعلق ٹوٹ گیا تھا 532 رہی جس کی وجہ نیکیوں میں عدل دلچسپی ہے کی کہ کیوں میں عدل و ہے دریائے نیل نیلا گنبد لا ہور نیوٹن نیوٹن کا نام سنہری حروف میں لکھا جانا 544 783 547 وہ مائیں جو اولاد کی غلط تربیت کرتی ہیں ماں کا تربیت میں مقام 819 455 وہ ماں باپ جو بچوں کو نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں 822 اپنی اولا دکوعد و بنا نا باپ کا کام ہے گھر میں نصیحت کے تین طریق 945 937 948 نیوٹن کی ڈائری میں تثلیث کے خلاف دلائل ہیں، کی اشاعت 790 وہ مائیں جو دوسروں کے گھروں میں جانے پر بچوں کو نیوٹن کی عظمت کے گیت گائے جانے کی وجہ 79 کھلی چھٹی دیتی ہیں اُن ماؤں کی عزت کا گرنا نیوٹن موحد سائنسدان تھا ، اس کا تثلیث کی تردید کرنا جس کی وجہ سے اس نے تکالیف برداشت کیں 854 ماں اور اولاد کے تعلق میں عدل کا فقدان اور اس کا گناہ بننا 417 نیوٹن نے مذہب کے خلاف نہیں عیسائیت کے خلاف بغاوت کی تھی نیویارک واشنگٹن اولا د پر سختی کرنے کو حضرت اقدس نے شرک قرار دیا ہے 935 ماعیسائیت کے وحدت 790 وحدت سے محبت آتی ہے 778 وحدت کا نمونہ بنانے کے لئے عہد یداران کو نصائح 778 وحدت کے مختلف رنگ وحی 647 491 54 172 168,169 35 78 277 446 443 واقعہ (اس جلد میں مذکور واقعات) وحی کی بے شمار اقسام ہیں اطاعت کے نمونہ کے طور پر زار روس کے ایک افسر کا واقعہ جس نے شہزادے کو اندر نہ جانے دیا کیونکہ بادشاہ نے منع کیا تھا 489 نور وحی کے حصول کا طریق نور وحی کے نزول کا فلسفہ حضرت اقدس کی قوت قدسیہ سے ایک شخص کا شراب نوشی وسطی امریکہ ترک کرنا جبکہ حضرت خلیفہ اول اس کو سمجھا چکے تھے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پگڑی والا واقعہ میاں بہی کا بچپن کا واقعہ کہ انڈہ شروع کرنے سے پہلے ہی رونا شروع کر دینا کہ چھم ہو جائے گا Hydra Headed جن کا تصور 812 718 573 774 نفس کے اندھیرے وسوسوں سے پیدا ہوتے ہیں وسیلہ بننے کے لئے گہرے اخلاق کام آتے ہیں ایاز اور محمود کا واقعہ اور یاز کا اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کو فخر سے دیکھنا 865 آنحضرت بطور وسیلہ
اشاریہ وفد 65 55 خطبات طاہر جلد 15 ویدوں میں تحریف اور حضرت اقدس کی دیدوں کی تعریف 223 قرآن کا وفود کے نظام کے متعلق ہمیں سکھانا 454 | ویرووال وقت کی قربانی محبت نہیں دکھاوے کی وجہ سے ہوتی ہے 243 ہاجرہ بیگم صاحبہ وقف جدید وقف جدید کا ولایت سے تعلق 1004 1 ہارٹلے پول 292 901,907 776 730 413,435,610,693 ہارون وقف جدید کا آغاز اور اس کے ابتدائی ممبران کے کوائف وقف جدید کو عالمی کرنے سے تبلیغ کے کام میں سرعت 990 ہالینڈ اس تحریک کا آغاز اور پاکستان سے باہرممتد کرنے کی تحریک 990 ہٹلر کی قانون سازی سے قبل اور بعد میں یہود کی جرمنی وقف جدید کی رپورٹس جلد از جلد ارسال کرنے کی تلقین 988 میں حیثیت وقف جدید کے اکتالیسویں سال کا اعلان اور کوائف 7 ہجرت وقف جدید کے چندہ اور مجاہدین کی تعداد میں اضافہ 12:13 ہجرت کی مختلف اقسام وقف جدید کے چندہ کے خرچ ہونے کی جگہیں 996 اللہ کی خاطر ہجرت کا مضمون وقف جدید کے 42 ویں سال کا اعلان اور 41 ویں سال تو بہ میں ہجرت کا مضمون کے کوائف 995 جماعت جرمنی دنیا کی سب ہجرت کرنے والی 362 652 651 655 655 وقف جدید میں امریکہ کے سبقت لے جانے کی وجہ 13 جماعتوں کی تعداد میں زیادہ ہے وقف جدید میں پاکستان کی نمایاں جماعتیں اور اضلاع 1002 ابراہیم اور آنحضرت کی ہجرت اور بدی سے ہجرت کا فلسفہ 930 وقف جدید میں 56 ممالک کار پورٹس بھیجنا پاکستان وقف جدید میں سب سے آگے 995 بدیوں کے ملک سے نیکیوں کے ملک میں ہجرت 14 روحانی ہجرت کی بہترین تمثیل چندہ کے حوالہ سے مغربی ممالک نے بھی اعتراض نہیں کیا ہدایت کہ ہما را چندہ دوسروں پر کیوں خرچ کیا جارہا ہے، اس حوالہ سے اسلام کی عالمگیریت کا ذکر ربوہ کا وقف جدید میں پاکستانی جماعتوں میں اول آنا وقف 996 17 ہدایت کی کئی اقسام ہیں 672 669 44 نفس کے اندھیروں میں مبتلا شخص کو پھر کوئی ہدایت نہیں دے سکتا 266 وحی کشوف الہامات وغیرہ کے ذریعہ خدا کا خود اپنے بندوں کو ہدایت دینا 618 يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سے مراد 20 آنحضرت کی ہدایت اور سچائی پر ثبات کی دعا دعوت الی اللہ کے لئے ایک وقف جماعت قادیان کے زمانہ کی واقفین کی پود عجیب بے نظیر تھی نیک صالح کی موت جس نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف رکھی ہو اس کی موت پر جن امور کی طرف انسان کی توجہ ہونی چاہئے 772 ہمدردی ملکہ وکٹوریہ ولی ولایت وقف جدید کا ولایت سے تعلق 380,381 ہدایت اللہ صاحب ہمدردی اور مواخات کی تلقین ہمدردی سے لا پرواہی لعنتی زندگی ہے 1004 | تبلیغ میں ہمدردی کا عنصر 881 878 715 910 647 740 649 وہ اولیاء اللہ جنہیں نہ کوئی خوف اور نہ حزن ہوگا 327 ہند و مشرکین میں داخل ہیں وید 595 ہندوستان 12,14,109,206,316,873,996,1000 وید کے پجاریوں کا مذہب کے نام پر لوگوں سے سلوک 368 ہندوستان کا ایک وقت ساری دنیا کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنا 1004
اشاریہ 66 خطبات طاہر جلد 15 ہندوستان کے لئے وقف جدید کا چند مختص کرنے کی وجہ 990 | انہوں نے مذہب میں دلچسپی چھوڑ دی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بدھیبی کا دور 359 یورپ میں ہر سال پھونک مارنے والےصوفیوں کا ہندوستان میں اسلامی تہذیب، تمدن، طرز زندگی پر حملہ ہونے آنا جو شخض شرک کی تعلیم دیتے ہیں والا ہے، احمدیت کو ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی 365 سکینڈے نیوین ممالک میں باقی یورپ کی نسبت دہریت 390 کی زیادتی ہندوستان میں جھوٹ سے برا حال ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی اور مسلمانوں پر اثر 358 | حضرت یوسف علیہ السلام ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی یادگاروں کا فضائی پولیوشن سے خراب ہونا ہندوستان میں وقف جدید کے کام کو زیادہ منظم کر کے آگے بڑھانے کی تلقین ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا اکیلی سب سے یوسٹ کو خوابوں کو کی تعبیر کا ملکہ 855 688 842 135 363 پوسٹ کی جیل والی دعا کی قبولیت اور اس میں حکمتیں 733 1003 355 زیادہ ووٹ لینا، یہ ایک بہت انذاری واقعہ ہے ہندوستانی ٹی وی چینلز کا پاکستان پر اثر اور اس کی وجہ 914 احمدیت کو ہندوستان کے حالات کے حوالہ سے دعاؤں کی تلقین 365 یوکے یو کے میں مسجد کے لئے آخری ڈیل کا طے ہونا امیر صاحب یو کے کا چندہ دہندگان کے نام شکریہ کے خطوط حضور کو بھی بھجوانا یوگنڈا پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کا قرآنی آیت کی روشنی یوگنڈا ایک وقت پورے افریقہ کے لئے نمونہ تھا تعلیمی معیار میں ذکر بھارتیہ جنتا پاڑتی کا مذہبی انتہا پسندی کا اعلان ہومیو پیتھی کا بنیادی فلسفہ 356 کے حوالہ سے 251 377 544 405 یوگنڈ پر اللہ کی نعمتیں اور اس ملک میں جھوٹ سے ابتر حالت 404 میر 660 یوگوسلاویہ رمضان کے دوران معدے میں تیزابیت کا ہو میو پیتھک علاج 76 یونس بن متی ھوٹی کو معبود بنانے پر کوئی حد نہیں رہتی یا جوج ماجوج کے فتنہ سے بچانے کے لئے دیوار بنانے والا بادشاہ یحی صاحب نیلا گنبد پروم یورپ یورپ کو نو احمدیوں کے لئے مالی تحریک یورپ کے شمال اور جنوب میں تضاد یورپ میں بسنے والے احمدی بچوں کے لئے مذہب کے حوالہ سے تضادات یورپ میں دہریت کے پھیلنے کی وجہ عیسائیت ہے یورپ میں قول سدید سے کام لینے والے پروفیسر زلیکن 233 یہود امریکہ میں مسلمانوں اور یہود کے تعلقات کو بہتر بنانے کے متعلق پروگرام ہٹلر کی قانون سازی سے قبل اور بعد میں یہود کی جرمنی میں حیثیت 778 213 553 781 783 270 362 389 Badkreuz Nach 796 827 David Attenborough 1006 916 Hampstead Heath 842 63 Lane 25 Old testament 843 270 Solomons Temple 790 544 Victoria Lake