Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ ۱۹۹۵ء فرمودة سیدنا المسیح ناحضرت مرزاط اهرام علی مسیح الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد ۱۴
سید نا حضرت مرزا طاہر احمدخلیفہ مسح الرابع رحمہ اللہ تعالی ( 2003-1928)
1 بسم اللہ الرحمن الرحیم فہرست خطبات نمبر شمار خطبه فرموده عنوان صفحہ نمبر 1 6 جنوری 1995 ء | وقف جدید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز برکتیں وابستہ ہیں، وقف جدید کے سال نو کا اعلان 1 21 2 3 4 5 CO 6 7 8 9 10 11 12 13 13 رجنوری 1995ء وہ حسن خلق جو تو حید کی طرف لے کے جاتا ہے اس حسن خلق کو اپنانے کی کوشش کریں 20 جنوری 1995ء خدا تعالیٰ کے پیار کے برعکس کوئی رعب اپنے دل پر نہ پڑنے دیں.27 / جنوری 1995 ء اس حالت میں رمضان سے باہر نکلو کہ اس کی برکتیں تمہارا ساتھ نہ چھوڑیں.39 59 77 3 فروری 1995 ء | دعاوہ چراغ ہے جو دلوں میں نور بن کے روشن ہوتا ہے اور مستقلاً رہتا ہے.10 فروری 1995 ء حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے.تفقہ فی الدین اور حصول علم عظیم الشان نیکی ہے.17 فروری 1995 ء توحید کا ایک منظر اس زمین پر پیش کریں.MTA پر زبانوں کے پروگرام بنانے کیلئے ہدیات 111 95 24 فروری 1995 ء لیلۃ القدراور صفت سلام کی پر معارف تشریح، انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک 135 3 مارچ 1995 ء | احمدیت کی ترقی پہلے سے بھی تیز رفتاری سے ہوگی اور بڑی شان سے آگے بڑھے گی 155 10 مارچ 1995 ء خداتعالی کا زمانہ ہونے کا تصور قرآن اور حضرت محمد کے بیان کے مطابق خدا کی ذات پر غور کریں 157 17 / مارچ 1995 ء | خدا ایسا زمانہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں.اللہ کے لفظ سے صفات پھوٹتی ہیں.24 / مارچ 1995 ء اللہ اللہ کاذاتی نام ہے اسکے معنی اسم اعظم ہے جو تمام صفات کا ملہ سے متصف ہے.31 / مارچ 1995 ء | نظام خلافت اور شاورهم فی الامر کی حقیقت ، نظام شوری کا عظیم الشان چارٹر 14 | 7 اپریل 1995 ء | رحمانیت کے تعلق سے حضرت محمد اللہ رحمۃ اللعالمین ہیں.175 193 211 233 15 14 اپریل 1995 ء ریاض احمد شب قدر کی شہادت کا واقعہ شا تا تذبحان کا الہام ایک اور رنگ میں پورا ہوا 251 16 21 اپریل 1995 ء صفت رحمان سب صفات پر حاوی ہے ،خدا سے حسن ظن کا تعلق قائم رکھیں 17 28 اپریل 1995 ء دنیا کی چالاکیوں سے عاری شخص جو متقی ہو اس کے کام میں ہمیشہ زیادہ برکت ہوتی ہے.289 271
2 18 5 مئی 1995 ء شہادت غیب سے وجود میں آتی ہے.عالم الغیب اور عالم الشہادہ سے خدائی صفات 19 | 12 مئی 1995ء 20 20 21 22 22 23 خدا کی غیب پر بلاشرکت غیر کامل راج دہانی ہے 19 مئی 1995ء داغیب نہیں ہے، ہم خدا سے غیب ہونے کی کوشش کرتے ہیں.309 329 347 26 مئی 1995 ء | عالم الغیب کا مطلب ہے کہ اس کو فنا نہیں.السلام سے متصف ہو کر دنیا کو امن دے سکیں گے 365 2 جون 1995ء صفت سلام اور حمید کی شان ساری دولتیں دے کر بھی اللہ ملے تو اچھا سودا ہے 385 9 جون 1995 ء خدا کی صفات کا علم انسان کے فائدہ کیلئے ہے.مالی قربانی کے وقت اپنی نیتوں کو درست کریں.405 24 | 16 / جون 1995 ء | جھوٹ بولنے کی بڑی وجوہات قرآن کریم کی روشنی میں ، خدا تعالیٰ حق ہے 25 | 23 جون 1995 ء الحق سے تعلق جوڑ لیں.انبیاء کی کامیابی کا راز حق سے تعلق میں ہے 26 | 30 جون 1995ء انقلاب کے تاریخ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں 27 | 7 جولائی 1995 ء | صفات الہی سے تعلق صرف زبان پر نہیں بلکہ دل میں گھومنی چاہئیں 425 445 463 483 501 28 14 جولائی 1995 ء طاقت کے ہوتے ہوئے ظالم کیلئے رحم چاہنا صبر ہے، اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کریں 20 21 / جولائی 1995 ء جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو نصائح، قرآن وسنت کے مطابق مہمان اور میزبان بنیں 519 541 30 28 جولائی 1995 ء دنیا کا سب سے بڑا صبر کرنے والا انسان محمد اللہ سب سے بڑا داعی الی اللہ بنایا گیا.4 /اگست 1995 ء | گالیاں سن کر دعا دو مسیح موعود کی نصائح.صبر کا دعا اور دعوت الی اللہ سے گہرا رشتہ ہے 559 31 32 11 اگست 1995 ء مالی قربانی کا جماعت کو جو اعزاز بخشا گیا ہے اس کی کوئی نظیر تمام عالم میں کہیں دکھائی نہیں دیتی 579 33 18 راگست 1995ء رقھم سے مراد انسان کودی گئی تمام صلاحیتیں ہیں سات سو گنا دینے والے خدا پر توکل کریں 599 34 4 35 36 25 اگست 1995 ء 1 ستمبر 1995ء اللہ کی میراث اور اسے قرضہ حسنہ دینے کا مطلب کسب خیر سے بخل دور ہو جاتا ہے.8 ستمبر 1995ء اقم الصلوۃ اور قرآن الفجر کے لئے بھر پور کوشش کریں 619 641 661 677 15 ستمبر 1995ء نو مبائعین کی تربیت کا کام بے حد ضروری ہے.MTA کے ذریعہ دنیا کو پیغام حق دیں 37 38 22 ستمبر 1995 ء نومبا ئعین کو فعال بنانے کیلئے ان پر بوجھ ڈالیں، مالی قربانی اور تبلیغ کے کاموں میں جھونک دیں.701
3 39 29 ستمبر 1995ء صبر کے ساتھ تو کل کرتے ہوئے آگے بڑھیں اللہ تو کل کو بھی پھلوں سے محروم نہیں فرمائے گا 721 741 40 | 6/اکتوبر 1995ء عرش مخلوق نہیں بلکہ خدا کی صفت ہے.یحملون العرش کی عرفان تشریح 41 13 اکتوبر1995 ء عرش پر قرار پکڑنا مقام تنزہ کی طرف اشارہ ہے، رسولکر یم ﷺ کا قلب عرش الہی ہے 761 42 | 20 اکتوبر 1995 ء عرش کو اٹھانے کے معنی خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں.43 44 27 اکتوبر 1995ء الله نور کا مطلب ہے کہ اللہ ان تمام صفات کا ملہ کا جامع ہے جن کے کامل امتزاج کا نام نورہ سے 3 /نومبر 1995ء تحریک کے سال نو کا اعلان.سرا اور جہرا قربانیاں ہی فائدہ دیتی ہیں.779 801 819 45 10 نومبر 1995 ء اللہ کے نور کا مظہر کامل دنیا میں ظاہر ہوایا مخلوقات میں سورج بن کے چمکا وہ محمد مصطفی تھے.841 46 | 17 / نومبر 1995 ء | اللہ تعالی نے اسے نور کیلئے محمد صل اللہ کو چنا اوردوسری تعلیمات سے بے بہرہ رکھا.47 | 24 / نومبر 1995 ء | صفات باری تعالی ہی کے ایک حسین اجتماع کا نام نور ہے 48 49 49 50 50 859 877 895 1 دسمبر 1995ء جب تک نورالہی بصارت عطانہ کرے انسان اپنے نقص بھی دیکھ نہیں سکتا.8 دسمبر 1995 ء جو تعلق نیکی اور حضرت اقدس محمد مصطفی امی ﷺ سے قائم کیا جائے وہ نور سے تعلق ہے.913 15 دسمبر 1995 ء کامل نور بصیرت جس سے قرآن کی ہر ہدایت کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے وہ محمد " کو نصیب ہوا 931 الله 51 | 22 دسمبر 1995 ء غلبے سے مراد حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے نور کا غلبہ ہے جو باقی ادیان پر ہونا ہے 951 52 29 دسمبر 1995 ء خدا کی تقدیر یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ ہر سال احمدیت کے حق میں ایک نئی شان لے کر آئے گا.969
خطبات طاہر جلد 14 1 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء قف جدید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز برکتیں وابستہ ہیں، وقف جدید کے سال نو کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده 6 جنوری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں : إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِانْفُسِكُمْ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ شَكُورُ حَلِيمٌ ) پھر فرمایا:.(التغابن: 16 تا 18) آج کے خطبے کا موضوع مالی قربانی ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے مگر ان کے لئے جن کو ترجمہ آتا ہو، میں ابھی ان آیات کا ترجمہ بھی کروں گا.مالی قربانی اس تعلق میں ہے کہ وقف جدید کا انتالیسواں سال خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا ہے اور چالیسواں سال شروع ہو رہا ہے.پرانا یہی دستور رہا ہے کہ جس مہینے میں وقف جدید کا آغاز کیا گیا اس مہینے میں یا اس کے بعد دسمبر کے کسی جمعہ میں نئے سال کے افتتاح کا اعلان ہو چونکہ وقف جدید کا آغاز سن 57ء میں دسمبر کے مہینے میں ہوا تھا.اس لئے پہلی دفعہ جو مالی
خطبات طاہر جلد 14 2 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء تحریک ہوئی وہ دسمبر کے جلسہ سالانہ پہ ہوئی.پس اس پہلی دفعہ کی نسبت سے بالعموم یہی دستور رہا ہے کہ جلسہ سالانہ میں جو بھی جمعہ آیا کرتا تھا اس میں اعلان ہوا کرتا تھا.کبھی اگر مصروفیت کی وجہ سے وقف جدید کا اعلان نہ ہو سکے تو آئندہ سال جنوری کے پہلے جمعہ میں یہ اعلان ہو جا تا تھا.تو امسال بھی چونکہ قادیان کے جلسے کے سلسلے میں بہت سے امور پر گفتگو ہوئی تھی اس لئے یہی فیصلہ ہوا کہ ہم جنوری کے پہلے خطبے میں ہی وقف جدید کا اعلان کریں گے.وقف جدید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریکات میں سے آخری تحریک ہے لیکن چونکہ الہی منشاء کے مطابق جاری ہوئی تھی اس لئے اس سے متعلق آپ کو بہت ہی مبشر رویا بھی دکھائی گئیں اور جو ولولہ آپ کے دل میں پیدا کیا گیا اس کا یہ حال تھا کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا میرے دل میں اتنا جوش ہے اس تحریک کے لئے کہ اگر جماعت میراساتھ نہ دے، جو ویسے ناممکن بات تھی.مگر احتمالاً ایک فرضی ذکر کے طور پر بعض دفعہ انسان یہ دلیل قائم کرتا ہے، تو اپنے قلبی جوش کے اظہار کے لئے آپ نے فرمایا کہ اگر جماعت میرا ساتھ نہ دے تو مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں ، اپنے کپڑے بیچنے پڑیں تب بھی میں ضرور اس تحریک کو جاری کر کے رہوں گا اور یہ بیماری کے ایام کا آپ کا عزم ہے جبکہ بیماری کے ایام میں ارادے کمزور پڑ جایا کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وقف جدید کو جو خدا تعالیٰ نے بعد میں برکتیں عطا فرما ئیں وہ اس بات کی مظہر ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں یہ تحریک الہی تحریک ہی تھی اور جو ولولہ اللہ نے ڈالا تھا وہ الہی ولولہ ہی تھا جو ساری جماعت کے دلوں میں منتقل ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ یہ تحریک اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مستحکم ہو چکی ہے.قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے اموال اور اولا دیں محض فتنہ ہی تو ہیں إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ.یہ ایک محض فتنہ ہی ہیں تمہارے لئے آزمائش کا ایک ذریعہ بنی ہوئی ہیں ورنہ تم اولا دوں کو چھوڑ کر جب واپس چلے جاتے ہو تو کچھ بھی ساتھ نہیں لے کے جاتے.جب اموال کو چھوڑ کر چلے جاتے ہو تو خالی ہاتھ جاتے ہو.آزمائش میں جو تم پورے اترتے ہو وہی تمہاری دولت ہے یعنی وہی مال تمہارا ہے جو آزمائش میں پورا اترنے کے نتیجے میں نیک راہوں پر خرچ ہو اور اس کا حساب خدا تعالیٰ کے نزدیک دوسری دنیا میں منتقل
خطبات طاہر جلد 14 3 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء ہو جائے.وہی اولاد تمہاری اولاد ہے جو تمہارے بعد آنے والے کل میں تمہارے لئے سر بلندی کا موجب بنے تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک کا موجب ہو تمہارے لئے دعاؤں کا موجب بنے، تمہارے درجات کی بلندی کا موجب بنے اور یہ چیزیں آزمائش کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں.تو فتنہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساری اولا دفتنہ ہی ہوتی ہے.یہ تو بڑا سخت ایک نا پسندیدگی کا کلمہ ہے جو ہمارے ہاں اگر استعمال کیا جائے تو لوگ ناراض ہو جائیں گے کہ تمہاری اولاد ہے کہ فتنہ ہے تو ان معنوں میں مراد نہیں ہے.مال بھی فتنہ ہے اولاد بھی فتنہ ہے یعنی آزمائش کا ایک ذریعہ ہے اور اس فتنے سے اللہ کے فضل بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور اس فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کھوئی بھی جاسکتی ہے تو فتنے میں دونوں پہلو ہوتے ہیں.فتنے پر پورا اترنے والا بہت زیادہ فضلوں کا وارث بن جاتا ہے.ہار جانے والا جو ہاتھ میں ہوتا ہے اس کو بھی کھو دیتا ہے.پھر فرمایا وَ اللهُ عِنْدَةَ أَجْرٌ عَظِيم اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بڑا اجر ہے یعنی ان دونوں کو اگر خدا کی راہ میں خرچ کرو گے اولاد کو بھی اور اموال کو بھی تو یا درکھو کہ اجر خدا کے ہاتھ میں ہے اور عظیم اجر ہے.اس کی وسعت اس دنیا پر بھی حاوی ہے اور اس دنیا پر بھی حاوی ہے.عظیم کا ایک تو معنی ہے زیادہ اور ایک عظمت اس چیز کو کہتے ہیں جس کے دائرہ سے کوئی چیز بھی باہر نہ رہے ، وسیع ، تو ہو جائے ، ہر چیز پر اس کا اثر وسیع ہو جائے.تو اس پہلو سے اَجْر عَظِیم کا میں یہ ترجمہ کر رہا ہوں کہ بہت بڑا اجر اور ایسا اجر جو دنیا پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کئے ہوئے ہے اور آخرت پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کئے ہوئے ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم پہلے بھی میں نے اس کا ذکر کیا تھا یہاں یہ نہیں فرمایا کہ انفقوافی سبیل الله ما استطعتم یہ فرمایا ہے فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم اور مضمون ہے خرچ کا.یعنی یہ حکمت واضح فرمائی جارہی ہے کہ تمہارے خرچ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس خرج میں دیپی ہے جو تقویٰ کی استطاعت بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا.اس خرچ میں دلچسپی ہے جو اللہ کے تقویٰ کی خاطر، اس کی رضا کی خاطر تم پیش کرو گے ورنہ محض مال میں تو کوئی دلچسپی نہیں ہے اللہ کو، کیونکہ وہ سارا مال اس کے قبضہ قدرت میں ہے.وہی عطا کرتا ہے اسی نے سارا نظام اقتصادیات بنایا اور اسی کے قوانین کے تابع یہ جاری ہے جس کو چاہے عطا فرمائے ، جس سے چاہے چھین لے اس
خطبات طاہر جلد 14 4 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء لئے مال کی بحث نہیں ہے، تقویٰ کی بحث ہے.اس کی وضاحت اس لئے ضروری ہے اور اسی غرض سے میں نے اس آیت کا آج کے لئے انتخاب کیا تھا کہ بعض دوست اپنی نادانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں جو مال مال کا چرچا ہو رہا ہے گویا کہ محض ایک تاجر ذہنیت کی جماعت ہے، ہر وقت مالوں کے مطالبے ہور ہے ہیں اور اس خیال کو بعض اپنی طرف سے تو پیش نہیں کرتے اپنے غیر احمدی دوستوں کی طرف منسوب کر کر کے پیش کرتے ہیں اور جو کرتا ہے وہ اپنے دل کا ایک داغ ضرور دکھا جاتا ہے ورنہ جو مالی نظام کوسمجھتا ہو اور خدا کی خاطر قربانی کرنے والا ہو اس کا غیر احمدی دوست اگر یہ بات کہے گا تو اس کو ہزار جواب وہ اپنی طرف سے دے سکتا ہے کہ تمہیں پتا ہی کیا ہے تم لوگ تو خدمت دین کرنے کے لئے بھی بھکاری بنے ہوئے ہو یعنی بڑی بڑی امیر طاقتوں سے پیسے لیتے ہو تو خدمت کرتے ہو.خدمت دین تو وہ ہوتی ہے کہ اپنی جیب سے انسان خرچ کرے اور پھر خدمت بھی کرے اور پھر اللہ تعالیٰ نے تو سارے قرآن میں جگہ جگہ ، صفحہ الٹیں تو مالی قربانی کا ذکر ملتا ہے بلکہ خدا کے ساتھ بیعت کی شرط میں اس کو داخل فرما دیا.اِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة: 111) خدا کواتنی ضرورت تھی مال کی کہ وہ بیعت جو خدا سے ہوتی ہے اس بیعت کی دو شرطیں ہیں ان کی جانیں بھی خدا نے لے لیں ان کے مال بھی لے لئے.یہ سودا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان کو جنت نصیب ہوگی.تو مال کی قربانی کا جو تعلق ہے وہ براہ راست مال کی حرص سے نہیں بلکہ مال کی حرص کے فقدان سے ہے.یہ مضمون ہے جس کا تقویٰ میں ذکر بیان فرمایا گیا ہے وہ قومیں جن کو مال کی حرص ہوتی ہے وہ خدا کی راہ میں خرچ کیسے کر سکتی ہیں ، وہ نظام جو مال کی حرص سے آزادی دلاتا ہے وہی نظام ہے جو مالی قربانی پر چل سکتا ہے.اگر مال کی حرص کی قیمت بڑھانے والا نظام ہو تو کوئی چندے نہیں دے گا.سب کے ہاتھ بند ہو جائیں گے مٹھیاں بند ہو جائیں گی.تو ایسی متضاد بات کرتے ہیں جو اگر ذراسی بھی عقل سے غور کریں تو کسی پہلو سے بھی سچی ثابت نہیں ہو سکتی.اول خدا تعالیٰ جو مالک اور خالق اور قادر ہے اور رزق دینے والا ، اس کو وسعتیں دینے والا ، اس میں کمی پیدا کرنے والا ہر طرح کے اختیار رکھتا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ تم سے جو میرا سودا ہے اس میں مال کی قربانی شامل ہے.
خطبات طاہر جلد 14 5 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء دوسری جگہ جگہ بار بار فرماتا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرو، فی سبیل اللہ خرچ کرو اور اسے ایک مومن کی سوچ کا ایک لازمی ابدی جز و بنادیا گیا ہے.آغاز میں ہی مومن کی تعریف متقیوں کی تعریف ہی یہ فرما دی: المن ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ) وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو ، عبادت کو قائم کرتے ہیں اور تیسری بات وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو ہم نے ان کو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.تو قرآن کریم کو جو سمجھتا ہے یا سرسری نظر سے بھی پڑھتا ہے اس کے ذہن میں جماعت کے مالی قربانی کے نظام پر کوئی اعتراض پیدا ہو ہی نہیں سکتا اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا.اور پھر جیسا کہ میں نے واقعات سے ثابت کیا ہے جہاں حرص کا سوال ہو وہاں مالی قربانی طوعی طور پر مانگی جاہی نہیں سکتی.حرص کے برعکس مضمون ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہاں فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم فرمایا ہے.تم نے اموال خرچ کرنے ہیں، بڑی بڑی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے.لیکن یا درکھنا کہ تقویٰ کا معیار بڑھاؤ گے تو یہ کر سکو گے ورنہ ہمارے تقاضے پورے نہیں کر سکو گے.اللہ سے تقویٰ کی استطاعت مانگو.تقویٰ بڑھے گا تو مال خود بخود پھوٹ پھوٹ کر خدا کی راہ میں نکلیں گے اور یہ ہمارا ساری زندگی کا تجربہ ہے، ساری زندگی کے تجربہ کا نچوڑ ہے کہ جن کا تقویٰ کا معیار بلند ہوتا ہے ان کے دلوں سے پہلے مال پھوٹتے ہیں پھر ان کی جیبوں سے نکلتے ہیں بعض دفعہ ایسا ان میں جوش پایا جاتا ہے کہ زبر دستی روکنا پڑتا ہے.اور یہ آج کے زمانے کی بات نہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانے ہی میں یہ رسمیں جاری ہوئیں اور انہی کی آگے یہ شاخیں ہیں یا انہی کا ورثہ ہے جو ہم کھا رہے ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کسی نے کچھ مال پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ گھر کے لئے کچھ چھوڑ کے آئے ہو کہ نہیں؟ اور بعض دفعہ جواب ہوا کہ یا رسول اللہ اللہ اور رسول کی محبت ، وہی ذکر ہے جو گھر پہ چھوڑ آئے ہیں اور کچھ بھی نہیں.پھر بعضوں سے قبول کیا اور بعضوں سے قبول نہیں کیا ، بعضوں کو کہا صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 6 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء کہ آدھا کر دو.کسی سے تیسرا حصہ لیا اور باقی چھوڑ دیا.اس میں حکمتیں کیا ہیں؟ وہ تو اللہ نے بعض میں از خود ظاہر فرما دیں بعض صورتوں میں.مگر مراد یہی ہے کہ جور سمیں چلیں کہ سب کچھ حاضر کر دو یہ تقویٰ کے معیار سے براہ راست پھوٹی تھیں اور فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمُ کی ایسی زندہ مثالیں تھیں جنہوں نے دائی ہو جانا تھا ، ان کی نسل سے پھر آگے ایسی مثالوں نے پھوٹنا تھا.پس جماعت احمدیہ میں جوخدا کے فضل سے یہ عظیم الشان قربانی کے مظاہرے نظر آتے ہیں اس کی وجہ وہی ہے.پس جماعت احمدیہ کی طرف سے اگر مالی قربانیاں بڑھ رہی ہیں تو یہ اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان کے تقویٰ کا معیار بڑھ رہا ہے، یہ اس بات کا پیمانہ ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی حرص کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے.بہت ہی عظیم الشان Tribute جس کو کہتے ہیں ، ایک خراج تحسین ہے ، جو جماعت کی قربانیاں عمومی حیثیت سے جماعت کو دے رہی ہیں، دنیا میں کوئی نہیں ہے جو ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا سکے چیلنج ہے کوئی تو آگے بڑھ کر قبول کر کے دکھائے.بسا اوقات میری گفتگو مستشرقین سے اور بعض بڑے بڑے سوچنے والوں سیہوئی ہے اور ان سے جب میں نے یہ پہلو کھول کر بیان کیا تو بالکل گنگ ہو گئے.میں نے کہا تم ہوا یجنٹ کسی کے.الزام لگتا ہے تم پر کوئی ایجنٹ بنا کے تو دکھاؤ کہ جو اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے ہوں اور اپنی بقاء کے لئے کسی اور کے محتاج نہ ہوں.ایسے ایجنٹ پھر پاگل ہی ہوں گے.تو بہتر ہے پاگل کہا کرو بجائے ایجنٹ کہنے کے.ایجنٹ پیسے کھاتا ہے اور اگر وہ ایجنٹ نہ بھی ہو تو پیسے مانگ مانگ کے کام کرتا ہے لیکن وہ کس قسم کا ایجنٹ ہے جو اپنا سب کچھ فدا کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر دیتا ہے، وقف زندگی کے نظام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے جب اس کو قبول نہ کیا جائے تو روتا ہوا احتجاج کرتا ہے اور جب اس کی مالی قربانیاں واپس کی جائیں تو بے چین زندگی گزارتا ہے.کئی ایسے احمدی ہیں جن کو بعض کمزوریوں کی وجہ سے یہ سزادینی پڑی کہ تم سے چندہ وصول نہیں کیا جائے گا اور آئے دن مجھے خط ملتے ہیں ایک کل بھی ملا تھا کہ خدا کے واسطے بس کریں زندگی بے چین ، بے قرار ہوگئی ہے، لطف اٹھ گیا ہے زندگی کا.پہلے ہم چندہ دیتے تھے تو اللہ کے احسان سے لطف اٹھاتے تھے کہ خدا نے ہمیں توفیق دی اور باقی مال کھانے کا مزہ آتا تھا اب تو سارا مال حرام لگتا ہے.تو جس جماعت کا یہ معیار ہو اس کے متعلق کوئی زبان دراز کرتا ہے تو تمہیں کیا فکر ہے اس کی ؟ ایسی جماعت
خطبات طاہر جلد 14 7 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء کوئی پیدا کر کے دکھائے کہ جن کی جانیں واپس کی جائیں تو وہ روتے ہوئے واپس جائیں یہ بھی تو قرآن کی گواہی کے مطابق وہی پہلی رسم ہے جو دوبارہ زندہ ہوئی ہے.قرآن کریم ایسے لوگوں کا ذکر جانی قربانی کے سلسلے میں فرماتا ہے کہ ایسے لوگ محمد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے جو میدان میں جہاد کی طرف جا کر اپنی جانیں شمار کرنا چاہتے تھے اور رسول کریم ﷺ نے یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ میرے پاس سواریاں نہیں ہیں ، دور کا سفر ہے ، میں تمہیں کیسے لے جاؤں؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس حال میں لوٹے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس اتنا بھی نہیں ہے کہ ہم خدا کے حضور اپنی جان پیش کر سکیں.واقعہ ایسی باتیں آج کے زمانے میں اگر دہرائی جارہی ہیں تو جماعت احمدیہ میں دہرائی جارہی ہیں.وقف کی تحریک ہوئی، ایک موقع پر آکے میں نے کہا، بس اب وہ مدت گزرگئی ہے، اب اور وقف قبول نہیں ہوگا.ایسے بے قرار ، روتے ہوئے خط ملے ہیں عورتوں کے ، ایسی بچیوں کے جن کی شادی بھی نہیں ہوئی تھیں بلکہ مشکل سے شادیوں کی عمر کو پہنچی تھیں کہ ہم تو آرزوئیں لئے بیٹھے تھے کہ خدا کبھی ہمیں بڑا کرے گا اور ہمیں توفیق دے گا تو ہمارے بچے بھی اسی طرح وقف نو میں شامل ہوں گے جیسے پہلوں کے ہوئے ، آپ نے رستہ بند کر دیا، میں نے کہا میں کون ہوتا ہوں اب تمہارے رستے بند کرنے والا.یہ اللہ کے فضل سے اخلاص کا دریا جاری ہوا ہے اور میری نیت پہلے یہی تھی کہ کچھ وقت کے لئے ہواب میں اسے ہمیشہ کے لئے جاری سمجھتا رہوں گا اور یہی جماعت کرے گی ، تو وہ کون سا دریا تھا ، ان کے آنسوؤں کا دریا جو اخلاص کی صورت میں پھوٹتا تھا وہ دعائیں بن گیا خدا نے میرے دل کو تبدیل فرما دیا.کہا کوئی فیصلہ تمہارا نہیں چلے گا ان کا اخلاص چلے گا اور وہ تحریک جاری ہو گئی.تو یہ وہ مضمون ہے کہ اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ - اور مال کی قربانیوں میں بھی میں نے بارہا مثالیں پیش کی ہیں.بعض لوگ دیتے ہیں ، دل پہ بہت بوجھ پڑتا ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے اتنا زیادہ دے رہے ہیں.بعض دفعہ زبر دستی واپس کرنا پڑتا ہے اور بسا اوقات تو نہیں لیکن کبھی کبھی میں مجبور ہو جاتا ہوں بالآخر.میں کہتا ہوں اچھا ٹھیک ہے اور پھر خدا ان کو اور برکتیں دیتا ہے کیونکہ اس کی جزا بھی خدا نے دینی ہے.اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے وَاسْمَعُوا وَ اَطِيْعُوا سنوسنو! اور اطاعت کرو یہ بحثوں کا
خطبات طاہر جلد 14 8 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء معاملہ نہیں ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ تم سے کیا قربانیاں مانگ رہا ہے اور اس کے کیا نتیجے نکلیں گے.وہ بچہ جس کو ماں باپ پر اعتماد ہو، یہ ہو نہیں سکتا کہ ماں باپ اس کو کہیں تو اگر وہ سچا وفادار اور حقیقت میں ماں باپ پر اعتماد کرنے والا ہو تو آگے سے بخشیں کرے کہ نہیں یہ میرے لئے ٹھیک نہیں ہو گا بعض بڑی عمر میں آکر ایسی بخشیں کرتے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر بچے تو آنکھیں بند کر کے جو ماں باپ کہتے ہیں یہ اچھا ہے اگر انہیں ماں باپ سے پیار ہے تو وہ چل پڑتے ہیں اس رستے پر اور وہ اچھا ہی ہوتا ہے مگر کبھی ماں باپ غلطی بھی کر جاتے ہیں لیکن اللہ تو غلطی نہیں کرتا.اللہ فرمارہا ہے میں تو اس طرح غلطیوں سے پاک ہوں اور تمہاری ایسی بھلائی میرے پیش نظر ہے کہ تمہارے لئے تو یہی قانون جاری ہونا چاہئے فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک توفیق ملتی ہے وَاسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا سنو اور اطاعت کرتے چلے جاؤ.سنو اور اطاعت کرتے چلے جاؤ وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمُ اور انفاق کرو.یہاں یہ نہیں ہے کہ خَيْرًا لِانْفُسِكُمْ مگر ترجمہ یہی بنتا ہے میں اس کا ہمیشہ یہ ترجمہ کیا کرتا تھا انفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ تم انفاق اللہ کی راہ میں کرو تمہارے نفسوں کے لئے بہتر ہے اور بعض دفعہ کسی کو خیال آتا ہوگا کہ یہ بات تو گرائمر کے لحاظ سے ٹھیک نہیں بنتی کیونکہ انفقوا کا خیر اگر مفعول به ہو تو أَنْفِقُوا خَيْرًا کا مطلب ہے مال خرچ کرو اور کس کے لئے خرچ کرو اپنے نفسوں کے لئے.اپنے نفسوں پر مال خرچ کرو یہ ترجمہ بن جائے گا.میرے ذہن میں اس کے دو تین مختلف معانی تھے جو آج میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہا کہ جو اہل علم کی پرانی کتابیں ہیں سیبویہ وغیرہ ان کو نکالیں اور مجھے یقین ہے کہ بالکل درست ثابت ہوں گے اور وہی ہوا.ہر بات جوامکا ناسو چی تھی ان کے معنوں کی وہ تمام باتیں پرانے مفسرین اور اہل علم کی کتابوں سے نکل آئی ہیں اس کو مختلف معنی دے کر پہلوں کا بھی رجحان اسی طرف گیا تھا.کہ اس کا یہ ترجمہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ مال خرچ کرو اپنے لئے“.اس کا یہ ترجمہ اچھا لگتا ہے کہ خرچ کر و خَيْرًا لأنفُسِكُم جس میں وہ ایک فعل محذوف مانتے ہیں کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا اور کان خبر منسوب آتی ہے اس میں جو زبردستی دکھائی دیتی ہے وہ نصب ہے اور یہ کان کی خبر ہوتی ہے چنانچہ اس فعل کو مختلف شکلوں میں محذوف مانا گیا اور بعضوں نے یہ ترکیب کی کہ کوئی اور فعل ہے جیسے ضرور خرچ کرو اس قسم کا معنی کوئی بیچ میں یا انفِقُوا.انفاقا یعنی خرچ کرنا جو ہے یہ
خطبات طاہر جلد 14 9 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء مفعول بن جائے گا اور خَيْرًا لَّا نُفُسِكُم یہ اس کا بدل ہو جائے گا.بدل کا بھی ترجمہ کیا گیا.مفعول لہ بھی ترجمہ کیا گیا.مفعول لاجلہ.تو یہ سارے ترجمے پرانے مختلف بزرگوں نے اسی غرض سے کئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا منطوق یہ ہے.آیت کا منطوق یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر تم خرچ کرو گے تو یہ خرچ تمہارے اپنے نفسوں کے لئے بہتر ہوگا اس لئے یہ دور کا واہمہ بھی نہ آئے دماغ میں کہ خدا پر کوئی احسان کر رہے ہو.اس کا انجام تمہارے لئے بہتر ہے یہ تمام فائدہ جو اس خرچ کے ساتھ وابستہ ہے خود تمہیں یعنی تمہاری سوسائٹی کو بھی پہنچے گا.تمہارے اپنے نفسوں کو بھی تمہارے اپنے خاندانوں کو بھی پہنچے گا یہ مراد ہے.وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جو شخص اپنے نفس کی بدبختی ، کنجوسی سے بچایا جائے گا، جس کو اللہ تعالیٰ نفس کی خساست سے بچالے فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں.جن کے نفس خسیس ہوں ان کا علاج کوئی نہیں ہوتا اور انہوں نے کہاں نصیحت کے نتیجے میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے ان کے دل مٹھی ہو جاتے ہیں اور تکلیف پہنچتی ہے اور پھر وہی لوگ یہ آواز اٹھاتے ہیں کہ عجیب آپ کی دنیا دار جماعت بن رہی ہے، ہر وقت پیسوں کی باتیں ہو رہی ہیں، کوئی کہتا ہے چندوں کی اتنی قسمیں ہوگئی ہیں، یہ چندہ ، وہ چندہ مگر اعتراض کرنے والے الا ماشاء اللہ بعض ہیں جو اپنی ذہنی ساخت کے لحاظ سے یہ باتیں سوچتے ہیں لیکن قربانیوں میں آگے ہوتے ہیں.اکثر وہ ہیں جو قربانیوں کی توفیق نہیں پاتے لیکن ہر دفعہ جب دروازہ کھٹکتا ہے تو ان کے دل کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہم رہ گئے اور وہ اپنے نفس کے لئے بہانہ بناتے ہیں.یہ تو جماعت غلط رستوں پر چل پڑی ہے اس لئے ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے ہم اس راہ میں خرچ کریں.مگر خدا تعالیٰ نے تو ہر بات کا جواب دے رکھا ہے، ہرنفسیاتی پہلو کو چھیڑتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس کا تجزیہ فرماتا ہے اس کے ہر پہلو سے اٹھنے والے سوالات کو اٹھائے بغیر بھی ان کے جواب دیتا چلا جاتا ہے وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جو نفس کی خساست سے بچایا جائے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں.إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْحِفهُ لَكُمْ اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دو يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وہ اسے تمہارے لئے بڑھائے گا اور تمہاری بخشش
خطبات طاہر جلد 14 10 خطبہ جمعہ 6 / جنوری 1995ء فرمائے گا.یہاں قرضہ حسنہ کی کیا بحث ہے؟ سوال یہ ہے کہ قرض خالی بھی تو کہا جاسکتا تھا لیکن قرضہ حسنہ کی اصطلاح خدا کو قرض دینے کے سلسلے میں کیوں استعمال فرمائی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو بسا اوقات دنیا میں اس کے مال بڑھا دیتا ہے اور بڑھاتا تو ہمیشہ ہے لیکن کبھی جلدی کبھی دیر کے بعد.بعض لوگوں سے یہ سلوک ہوتا ہے کہ وہ ادھر دیا ادھر مال میں برکت پڑ گئی.ادھر دیا ادھر ایک چٹھی آئی کہ تمہارا اتنا پیسہ پڑا ہوا تھا تو اس سے یہ حرص پیدا ہو سکتی ہے کہ چندہ دیتے وقت انسان بڑھانے کے خیال کو دل میں جمادے کہ اب میں نے چندہ دینا ہے ضرور بڑھے گا.تو اللہ فرماتا ہے کہ دیتے وقت اپنی نیتوں کو صاف رکھا کرو، اس میں بڑھانے کا تصور نہ رکھا کرو.خدا کی خاطر قربانی، اس کی رضا کی خاطر خرچ کیا کرو.یہ قرضہ حسنہ ہے اور جہاں تک اللہ کا تعلق ہے وہ تو بڑھاتا ہے ہی.تم قرضہ حسنہ دو گے تو وہ کون سا اتنا ہی تمہیں واپس کرے گا.خدا کی سنت یہ ہے تُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ تم قرضہ حسنہ دو گے تو بڑھائے گا اور تمہارے لئے بخشش کا سامان کرے گا.اب اس میں ایک عجیب شرط داخل فرما دی یعنی بڑھانے کا وعدہ ان سے ہے جو قرضہ حسنہ دیں گے.جو حرص میں دیں گے ان کے ساتھ وہ وعدہ نہیں ہے بڑھا دے تو اس کی مرضی ہے، مالک ہے لیکن یاد رکھنا جو برکت والا وعدہ ہے کہ تم پر فضل فرمائے گا اور بڑھائے گا وہ اسی صورت میں ہے کہ تمہارے دل میں حرص نہ ہو بلکہ اللہ کی محبت اور اس کی رضا کی خاطر قربانی ہو اور یہ قرضہ حسنہ ہے.قرضہ حسنہ میں قرض کا مفہوم بھی داخل فرما دیا اور یہ عجیب بات ہے کہ قرض کے دوہی پہلو ہیں ایک وہ قرض ہے جس میں آپ ضرور کچھ نہ کچھ حرص رکھتے ہیں اور حرص کی وجہ سے بہت سے لوگ قرض دیتے اور بہت سے لوگوں کے قرض ضائع بھی چلے جاتے ہیں اور ایک وہ پہلو ہے کہ کوئی حرص نہیں بلکہ بعض دفعہ نقصان کا خطرہ ضرور پیش نظر ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات رہتا ہے،اس کے باوجود دیتے ہیں.یہ جو دینا ہے یہ غیر معمولی اعلیٰ نیت کے سوا، پاک نیت کے سوا ممکن ہی نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے قرض دینا ہے، یہ تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کی خدا کو ضرورت ہے.ضرورت کا تصور مٹانے کے لئے لفظ قرض استعمال فرما دیا کیونکہ قرض لینا کسی کی عظمت اور اس کی بڑائی کے خلاف نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی مگر قرضے لئے.وقتی طور پر ایک
خطبات طاہر جلد 14 11 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء ضرورت پیش آسکتی ہے تو یہ تو نہیں کہ خدا کو ضرورت ہے مگر قرض کا مفہوم دے کر یہ بتایا کہ تم کوئی احسان نہیں کر رہے اپنی جماعت پر یا خدا کا تصور براہ راست اگر نہ داخل کریں تو یہ مضمون بنے گا کہ جماعت مسلمہ پر تم کوئی احسان نہیں کر رہے یہ تو ضرور واپس ہوگا جو اصل ہے اور جہاں تک خدا کے کاموں کا تعلق ہے وہ بڑھایا کرتا ہے مگر ان کے لئے ہے جن کی نیتیں پاک ہوں جو جذبہ محبت سے خرچ کریں اور قربانی کی روح سے خرچ کریں.پس ایسے لوگ جو اپنے غریب بھائیوں کو قرضہ دیتے ہیں اور اس نیت سے دیتے ہیں کہ ان کی بھلائی ہو اگر ہمیں کچھ نگی پڑتی بھی ہے تو کوئی حرج نہیں ان کا جو جذ بہ ہے وہ بہت ہی قابل قدر بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو بہت ہی قدردان ہوں اس جذبے سے اگر تم قرض دو گے لالچ کی وجہ سے نہیں کرو گے تو پھر میرا دستور یہ ہے، یہ نہیں فرمایا میں وعدہ کرتا ہوں، فرمایا اللہ ایسا کرتا ہے اور کرے گا اور اس شرط کے ساتھ کرے گا تُضحِفهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ تمہارے لئے بڑھائے گا بھی اور اس سے بڑی بات یہ کہ تمہاری بخشش کے سامان کرے گا.اب اگر مالی قربانی ایسی ہو کہ اس سے برکت بھی پڑے اور یقین ہو کہ مغفرت ہوگی تو یہ ایک بہت ہی پاکیزہ اور ہر سودے سے اچھا سودا ہے.جس خرچ کے نتیجے میں مغفرت ہو جائے.وہ اس لئے ضروری ہے کہ اگلی دنیا کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ وہاں کوئی پیسہ کام نہیں آئے گا وہاں مغفرت کا خرچ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا.تو ہمارے دن کتنے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے سودے کی خاطر اپنا مال خرچ کریں.موت کا کوئی وقت مقرر نہیں اور ایک دفعہ مر گئے تو سارا مال یہیں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پھر اس دنیا میں کام ہی نہیں آسکتا.تو مغفرت کا تعلق تو ہر شخص کے ساتھ ہے اور مغفرت کی خاطر خرچ کرنا یہ لالچ حرص نہیں ہے.یہ ایک ایسی طبعی ضرورت ہے جو ہر انسان کو لاحق ہے ہر انسان سے وابستہ ہے.تو حرص کا جہاں تک تعلق ہے کوئی غرض کا تعلق ہے اللہ نے فرما دیا کہ مغفرت کی حرص رکھا کرو.یہ سوچا کرو کہ میں اللہ کی خاطر خرچ کرتا ہوں بڑھے یا نہ بڑھے میری بخشش کا سامان ہو جائے اور خدا وعدہ فرماتا ہے کہ بخشش کا سامان تو ہوگا لیکن اس سے پہلے میں تمہارے مال بھی بڑھا چکا ہوں گا.کتنا عجیب سودا ہے.يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ تم مغفرت کی خاطر کرتے ہو خدا اتنا محسن ہے،
خطبات طاہر جلد 14 12 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء تمہارا واپس کرے گا ، اس سے زیادہ دے گا اور پھر مغفرت کا قرضہ اس پر باقی رہے گا اور اس وقت وہ مغفرت کا قرضہ کام آئے گا جبکہ تمہارے مال دولت کی ویسے ہی کوئی اہمیت نہیں رہی وہاں محض فضل ہی فضل ہوگا.وَاللهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ اللہ تعالیٰ بہت ہی شکر یہ ادا کرنے والا یعنی شکر گزاروں کی قدر کرنے والا ہے اور حلیم ہے، بہت بردبار ہے، اسے کوئی جلدی نہیں ہے، باوقار ہستی ہے اور جب چاہے تو بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف فرما سکتا ہے، ان سے صرف نظر فرما سکتا ہے.پس یہ وہ آیات ہیں جن کا نظام جماعت کے مالی حصے سے ایک اٹوٹ تعلق ہے کبھی تو ڑا جاہی نہیں سکتا.وقف جدید کے معاملے میں بھی جو اللہ تعالیٰ نے برکتیں ڈالی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ باوجود اس کے کہ ایک زائد تیسرے درجے کی تحریک تھی جس سے بہت بالا اور مضبوط مالی نظام انجمن کے با قاعدہ مستقل چندوں کی صورت میں قائم تھا وصیت کا نظام تھا، چندہ عام کا نظام تھا اور پھر تحریک جدید کو غیر معمولی اہمیت تھی اور تحریک جدید کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں بہت خدمت اسلام ہوئی.تو تیسرے درجے کی تحریک جس کا آغاز میں تعلق محض پاکستان اور بنگال کے دیہات سے تھا لیکن دیکھیں اللہ تعالی برکتیں کتنی ڈالتا ہے.اس سے پہلے میں یہ Figures آپ کے سامنے پیش کروں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت کے اندر جو مالی قربانی کا جذبہ ترقی کا ہے وہ ایک دور ایسا تھا کہ تبلیغ کی رفتار سے بہت زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھا رہا تھا.اب وہ دور آگیا ہے کہ تبلیغ کی رفتار اس کو چیلنج کر رہی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر وہ بہت تیز قدموں کے ساتھ اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلا رہی ہے اور پھر ان کے توازن کا دور آئے گا تو پھر آپ کے جو چندے ہیں ان میں انقلاب بر پا ہو جائے گا.چوٹی سے اور چوٹیاں اٹھیں گی لیکن اس وقت ہم اس دور میں داخل ہوئے ہیں کہ مالی قربانی کا نظام مستحکم ہو گیا وہ چل پڑا اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہوا اور پھر دوڑ پڑا اور اب تبلیغ کا دعوت الی اللہ کا نظام بیدار ہو کر جیسے دیر سے اس کو ہوش نہ ہو، ہوش میں آ رہا ہے کہ او ہو یہ تو بہت آگے نکل گئے ہیں.وہ دوڑ دوڑ کے پھر آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور مجھے لگ رہا ہے کہ نکل چکا ہے لیکن کچھ عرصہ ہو گا کہ ان لوگوں میں سے پھر مالی قربانی کرنے والے لوگ پیدا ہونا شروع ہوں گے اور اچانک جماعت کے مالی نظام میں غیر معمولی
خطبات طاہر جلد 14 13 خطبہ جمعہ 6 / جنوری 1995ء برکتیں پڑیں گی.جو حوالہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا موازنے سے پہلے وہ ایک دلچسپ حوالہ ہے وہ ہے ایک اخبار، احمدیت کی دشمنی میں وقف ایک رسالہ جس کا نام ”المنبر “ ہے وہ فیصل آباد سے جاری تھا.اس پرانے زمانے میں 1953ء کی تحریک میں اس نے جماعت کے خلاف بڑا کر دار ادا کیا.عبدالرحیم اشرف صاحب اس کے ایڈیٹر تھے اور ان کا پاکستان کے دینی طبقوں پر بڑا اثر تھا.1953ء کی تحریک کی ناکامی کے بعد انہوں نے تجزیہ کیا کہ کیا ہوا اور بے اختیار دل سے یہ آواز نکلی کہ ہم نے سب کچھ کر لیا مگر جماعت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور جو وہ چندوں کی مثال دیتے ہیں جس سے غیر معمولی متاثر ہیں وہ ذرا سن لیں آپ کو اندازہ ہو کہ 1953ء میں قادیانی جماعت کا حال کیا تھا مالی قربانی کا.وہ کہتے ہیں کہ 1953ء کے عظیم تر ہنگامے کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ 1957.1956ء میں اس کا بجٹ پچیس لاکھ روپے تک پہنچ جائے ساری دنیا کی جماعت کا بجٹ پچیس لاکھ روپے تک پہنچ جائے اس کوشش میں ہیں.کہاں وہ دن کہاں آج کے دن.آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سال وقف جدید کا جو وعدہ تھا وہ دو کروڑ اکتالیس لاکھ کا تھا مگر وصولی دو کروڑ تریسٹھ لاکھ ہوئی ہے.تو کہاں وہ اس کے تو ہمات کہ یہ دیکھو کیسی باتیں کر رہے ہیں گویا ستاروں پر کمند ڈالنے لگ گئے ہیں.چھپیس لاکھ کے بجٹ کی سوچ رہے ہیں اور اب وقف جدید کا اکیلا دو کروڑ تریسٹھ لاکھ وصولی کا بجٹ ہے اور جہاں تک کل انجمن کے بجٹوں کا تعلق ہے اس کی برکت کا یہ حال دیکھ لیں.1957 ء تک تو وہ کہہ رہا تھا کہ یہ پچیس لاکھ کی باتیں کر رہے ہیں.1982-1981ء میں ایک کروڑ ستائیس لاکھ سڑسٹھ ہزار چھ سوستاسی ہو چکا تھا اور 1983ء.1982ء میں ایک کروڑ ین لاکھ چھیانوے تھا اور 1984ء.1983ء میں میرے ہجرت کے سال سے ایک سال پہلے کل انجمن کا بجٹ دو کروڑ چھ لاکھ چودہ ہزار تھا اور اب صرف وقف جدید کا دو کروڑ تریسٹھ لاکھ ہو چکا ہے.تو یہ پیسے حریص جماعت کی طرف سے آرہے ہیں جن کو مال کا فکر ہے اور مال کا حرص ہے؟ یہ تو اس جماعت کی طرف سے آرہے ہیں جن کو مال کی کوڑی کی بھی پروا نہیں رہی.اپنے مال پیش کرتے ہیں اور قبول ہوں تو خوش ہو کے لوٹتے ہیں.نہ قبول ہوں تو روتے ہوئے واپس جاتے ہیں.پس وقف جدید کے سلسلہ میں بھی خدا تعالیٰ نے وہ عظیم احسانات فرمائے ہیں کہ روح خدا کے
خطبات طاہر جلد 14 14 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء حضور ایسے سجدے کرتی ہے کہ سجدے سے سر اٹھانے کو جی نہ چاہے سوائے اس کے کہ مجبوریاں دوسرے کاموں میں لے جائیں مگر ایک ایک شکر اللہ کا ایسا ہے کہ اس میں ساری روح ہمیشہ سجدہ ریز رہے تو اس کے نشے سے باہر نہیں آسکتی.مواز نے کے طور پر چند اور باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گزشتہ سال یعنی جو اس سال سے پہلا سال تھا وعدہ جات 2 کروڑ 26 لاکھ تھے اور وصولی دو کروڑ اڑتالیس لاکھ تریسٹھ ہزار ہوئی.امسال جو گزر گیا ہے یعنی امسال سے مراد وہ سال جو ابھی گزرا ہے دوکروڑ اکتالیس کے وعدے تھے دو کروڑ تریسٹھ لاکھ کی وصولی ہوئی.اب یہ اللہ کی عجیب شان ہے کہ وقف جدید کی وصولیاں اس کے وعدوں سے بڑھ رہی ہیں.E سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا قربانی کرنے والا دم جو ہے وہ سینے سے باہر نکلتا ہے ، اچھل اچھل کے باہر آ رہا ہے اور تفصیلی جہاں تک تعلق ہے اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال بھی جماعت پاکستام کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہے کہ سب دنیا کے وقف جدید کے قربانی کرنے والوں کے مقابل پر پاکستان نے سب سے زیادہ قربانی کی ہے.دوسرے نمبر پر امریکہ نے اپنے اس عہد کو پورا بھی کیا اور نبھایا ہوا ہے.امیر صاحب امریکہ نے مجھ سے ایک دفعہ ذکر فرمایا تھا کہ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کسی چندے میں بہت آگے بڑھیں اور سب سے آگے نکل جائیں تو ہم نے غور کیا ہے تو یہی سوچا ہے کہ باقی جگہ تو بہت بہت فاصلے رہ گئے ہیں وقف جدید میں اگر ہم کوشش کریں تو ایسا ہو سکتا ہے.چنانچہ ایک وقت تھا کہ وہ کسی شمار میں ہی نہیں تھے اب وہ دوسرے نمبر پر آچکے ہیں اور گزشتہ سال بھی تھے اور پوزیشن کو Maintain کر رہے ہیں یہاں وہ قائم ہیں اور فاصلہ بھی کچھ کم کر رہے ہیں پاکستان سے.اس لئے بعد میں نہ پاکستان والے کہیں ہمیں بتایا نہیں تھا پہلے.جس طرح جرمنی کی دفعہ شکوے شروع ہو گئے تھے کہ آپ نے اچھا کیا چپ کر کے بتادیا کہ جرمنی آگے بڑھ گیا ہے اور ہم نے نہیں بڑھنے دیا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ پاکستان کا یہ اعزاز برقراررہے گا امریکہ نے کوشش ضرور کرنی ہے.جرمنی بہت سی قربانی کے میدانوں میں یا دوسری یا تیسری پوزیشن پر رہتا ہے کبھی کبھی اول بھی آجاتا ہے اور یہاں بھی تیسری حیثیت ہے.اس کے بعد پھر کینیڈا ہے، پھر برطانیہ کی باری آتی
خطبات طاہر جلد 14 15 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء ہے، پھر ہندوستان ہے.ہندوستان نے بھی اچھا معیاری کام دکھایا ہے اور گزشتہ سال کے مقابل پر بہت محنت کر کے کافی آگے بڑھا ہے.پھر سوئٹزرلینڈ کی چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود اس کی باری ہے جو ساتویں نمبر پر ہے.انڈونیشیا نے وقف جدید میں بہت ترقی کی ہے آٹھویں نمبر پر آ گیا ہے.ماریشس نویں نمبر پر ہے اور جاپان دسویں نمبر پر ہے.جاپان کی اس پہ کوئی دل آزاری نہیں ہوئی چاہیئے.بہت چھوٹی سی جماعت ہے اور ان کے اقتصادی حالات کچھ اس لئے بھی خراب ہور ہے ہیں کہ بہت سے لوگ جو پاکستان سے وہاں کام کر رہے ہیں ان کے لئے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں کچھ کو واپس بھجوا دیا گیا کچھ کو پولیس کی تحویل میں رکھا گیا.کچھ اقتصادی بحران کے نتیجے میں نقصان اٹھا بیٹھے.تو ان کا چھوٹی سی جماعت کا دسویں نمبر پر رہنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑا اعزاز ہے اللہ اس اعزاز کو قائم رکھے اور اس کی برکت سے ان کے اموال میں بھی ترقیات ہوں ان کی خوشیوں میں بھی ترقیات اور سب کے لئے میری یہی دعا ہے.جہاں تک دوسری جماعتوں کا تعلق ہے جو عموماً چھوٹی تھیں اور پیچھے رہ رہی تھیں ان میں اس طرح موازنہ میں نے کیا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابل پر غیر معمولی اضافہ پیش کرنے کی کس کو توفیق ملی ہے کیونکہ عام دوڑ میں شامل نہیں ہو سکتی تھیں اس لحاظ سے گیانا کی جماعت اول آئی ہے اور انہوں نے اس ایک سال میں چندہ دگنے سے بھی زیادہ کر دیا ہے.بنگلہ دیش نے بہت آگے قدم بڑھایا ہے انہوں نے بھی گیارہ سو کی بجائے دو ہزار تریسٹھ.معاف کرنا یہ چندے کی بات نہیں ہورہی.چندہ دہندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ.میں نے عنوان نہیں پڑھا تھا اس لئے جب میں نے یہ پڑھا تو میں نے کہا کہ گیارہ سو ہو سکتا ہے بنگلہ دیش کا تو بہت زیادہ چندہ ہوگا اس سے.تو جب اعنوان دیکھا تو عنوان یہ ہے ” چندہ دہندگان کی تعداد میں اضافہ اس پہلو سے گیا نا اضافہ کی نسبت سے اول آگیا ہے اور بنگلہ دیش کو دوئم قرار دیا ہے گیارہ سو کے بدلے میں دو ہزار تریسٹھ ہے، دگنے سے کم ہے اور گیا ناد گنے سے ذرا زیادہ ہے.ہالینڈ تیسرے نمبر پر ہے.ایک سوافراد سے بڑھ کر دوسو انچاس ہو گئے.کینیڈا چوتھے نمبر پر ہے تین ہزار پینتالیس مجاہدین سے تعداد بڑھا کر چار ہزار چارسواکنتیس ہوگئی اور جرمنی پانچویں نمبر پر ہے پانچ ہزار چھ سو تینتیس سے بڑھ کر آٹھ ہزار ایک سو چورانوے کی تعداد پہنچ گئی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 16 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء یہ جو تعداد کا مسئلہ ہے اس کا تعلق مال سے اتنا نہیں جتنا قربانی کی روح کو فروغ دینے کے لئے ہم اس پر زور دیتے ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض دفعہ زیادہ تعداد بڑھائی جائے تو اس تعداد کے حساب میں بعض دفعہ خرچ زیادہ ہوتا ہے اور اس سے آمد کم ہوتی ہے.مثلاً ایک پورا نظام کیا جائے ان کا حساب رکھا جائے کلرک رکھے جائیں پھر ڈاک کے ذریعے ان کے حساب بھیجے جائیں اور چندے بعض دفعہ اتنے تھوڑے تھوڑے ہوتے ہیں بعض غریبوں کے کہ مالی حساب پر زیادہ خرچ ہو رہا ہوتا ہے ان کی آمد کے مقابل پر.لیکن ہمیں ضرورت ہے اخلاص کی اور مالی قربانی کے بغیر اخلاص بڑھتا نہیں ہے اور مالی قربانی کو اللہ نے تقویٰ کا ایک پیمانہ قرار دیا ہے اور پھر لمبا تجربہ بتاتا ہے کہ شروع میں جو ایک پیسہ بھی قربانی کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو دو طرح سے بڑھاتا ہے.تُضْحِفْهُ کا مطلب یہ صرف نہیں ہے کہ مال اس کا بڑھاتا ہے.اس کے دل کی وسعتیں بڑھا دیتا ہے، قربانی کے جذبے بڑھا دیتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت میں ایک نئی ترقی کا دور شروع ہو جاتا ہے.پس اس دفعہ بھی میں تمام دنیا کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ کتنا ہی معمولی چندہ کیوں نہ ہو، میں پچھلے سال بھی اعلان کر چکا ہوں کہ یہ شرط چھوڑ دیں کہ چھ روپے کم سے کم یا بارہ روپے کم سے کم یا اس کے لگ بھگ دوسری کرنسیوں میں رقم ہوا اگر کوئی ایک آنہ بھی دے سکتا ہو تو اس کو کہیں شامل ہو جائے.اس کا شامل ہونا اس کی مالی دقتوں کا حل ہے اور اس کو یہ نہیں کہنا کہ تمہارا پیسہ بڑھے گا اس لئے شامل ہو جاؤ اس کو یہی کہنا ہے کہ تم آنہ بھی دو گے تو جو تمہیں لطف آئے گا اور اللہ کی رضا حاصل ہوگی وہ تو کروڑوں روپے خرچ کر کے حاصل کی جائے تو کچھ بھی چیز نہیں.اس لئے قربانی کے جذبے کی خاطر اس سے ایک آنہ بھی وصول کرنا ہو تو کریں اور نو مبائعین کو کثرت کے ساتھ اس میں شامل کریں.اب وقت ہے کہ نو مبائعین جس تعداد سے بڑھ رہے ہیں اسی تعداد سے چندہ دہندگان بھی بڑھیں.پس ان کو مستقل چندے میں بھی سولہویں حصے کی نسبت سے نہیں بلکہ حسب توفیق اور یہ مضمون بھی مَا اسْتَطَعْتُم سے مجھے ملا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنی استطاعت ہے تو نئے آنے والوں کی استطاعت کچھ کم ہوتی ہے.بعض دفعہ بہت بڑھ جاتی ہے ایسے بھی آئے ہیں جنہوں نے آتے ہی فوراً قربانیوں میں حصہ لیا ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم
خطبات طاہر جلد 14 17 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء برابر کا حصہ لیں گے لیکن عموماً یہی دیکھا گیا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ کیوں کہتا کہ تالیف کی خاطر ان پر خرچ بھی کرو یعنی آغاز میں یہ حال ہوتا ہے بعض دفعہ آنے والوں کا کہ ان کی دلداری کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے.جلسوں پر بلاتے ہیں تو کرایہ دے کر بلاتے ہیں پھر وہ وقت آتا ہے کہ وہ چندے لے کر اپنے جیب خرچ پر چندے دینے کے لئے آتے ہیں مگر آغاز میں کچھ قربانی لازم ہے اگر بغیر قربانی کے اسی حال پہ وہ ٹھنڈے ہو گئے تو پھر آپ کے لئے ان کو قربانی کے مزے دینا مشکل ہو جائے گا ان کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ قربانی کا مزہ ہے کیا.پس ان کو بھی وقف جدید میں شامل کریں.اس ضمن میں میں یورپ کی جماعتوں اور مغرب کی جماعتوں سے خصوصاً یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہر ماں باپ اپنی اولاد پر نظر رکھے اور جہاں وہ کمانے والے بنیں ان کو یہ تحریک کریں کہ پہلے ہفتے کی آمد وہ مسجدوں میں دیں اور یہ نیک روایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے قائم ہے اور جہاں تک میرے سے مشوروں کا تعلق ہے میں ہر ایک کو یہی بتا تا ہوں وہ کہتے ہیں ہمیں خدا نے برکت دی ہے کیا کریں.میں کہتا ہوں پہلے تو پہلے ہفتے کی آمد مسجد کے لئے دے دو.دوسرے فوری طور پر چندہ با قاعدہ دینا شروع کر دو.سولہویں حصے کا حساب کر کے اگر زیادہ کی توفیق نہیں ہے تو یہ ضرور دو.تو اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے تمہاری اولاد بھی فتنہ ہے تو یہ بھی ایک فتنے کا موقع ہوتا ہے.اولا د خوشحال ہو گئی ہے ماں باپ سمجھتے ہیں ان کو کیوں چندوں میں ڈالیں خواہ مخواہ ، ہم جو دے رہے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی ہار گئے.آپ کا دیا ہوا بھی گیا اگر چندے کا شوق ہی نہیں اور سمجھتے ہی نہیں کہ باعث سعادت ہے تو اولاد کو بھی آپ نہیں کریں گے اور آپ کے چندے اوپر بھی ایک اور روشنی پڑ جائے گی جو ایک غلط روشنی ہوگی یعنی آپ پہلے دیتے تھے مصیبت سمجھ کے دیتے تھے ، چٹی سمجھ کے دیتے تھے جو اولاد کو چٹی سے بچارہے ہیں.پس فتنوں کا مقابلہ کرنا ہے ہر فتنے کا موقع ایسا ہمارے سامنے آنا چاہیئے کہ ہم اس کو شکست دے کر خدا کی رضا کم کرنے کی بجائے اس کو بڑھاتے ہوئے آگے بڑھیں.فی کس کے لحاظ سے بھی ہم نے موازنہ کیا ہے اور سوئٹزر لینڈ حسب سابق وقف جدید کے فی کس چندے میں اب بھی سب سے آگے ہے امریکہ نمبر دو ہے کوریا اور جاپان تیسرے نمبر پر ہیں اور بھیجیم اللہ کے فضل کے ساتھ چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود بھی چوتھے نمبر پر آ گئی ہے.حالانکہ مالی
خطبات طاہر جلد 14 18 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء لحاظ سے ایک کمزور جماعت ہے یورپ کی جماعتوں میں بیـــجـیـنـم کی جماعت بہت کمزور ہے اخلاص میں نہیں مالی لحاظ سے لیکن اللہ نے توفیق دی ہے کہ چوتھے نمبر پر آچکے ہیں اور قربانیوں میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں.چندہ بالغان میں جو پاکستان کے اضلاع کا مقابلہ ہوا کرتا ہے ان میں کراچی اول، ربوہ دوم، لاہور سوم پھر فیصل آباد، سیالکوٹ، اسلام آباد، گوجرانوالہ ، شیخو پورہ، کوئٹہ اور سرگودھا آتے ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے چندہ اطفال میں کراچی پھر اول لیکن یہاں ربوہ کی بجائے لاہور دوم اور ربوہ سوم ہے پھر فیصل آباد، راولپنڈی ، سیالکوٹ شیخو پورہ ،سرگودھا اور کوئٹہ اسی ترتیب سے آتے ہیں.وقف جدید کی جو تحریک ہے یہ وقف جدید بیرون جب سے شروع ہوئی ہے اگر چہ اس آمد میں سے بہت حد تک انہی علاقوں میں خرچ ہوا ہے جن علاقوں کی خاطر یہ تحریک قائم کی گئی تھی یعنی پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش.لیکن حضرت مصلح موعود کی ایک رؤیا نظر سے گزری ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ خدا کا منشاء یہ ہے کہ بالآخر اس تحریک کا فیض یعنی جن کاموں پر خرچ کرنا ہے اس اعتبار سے بیرونی دنیا پر بھی پھیلانا ہوگا اور باقی ملکوں میں صرف پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش پر ہی اس کا خرچ نہیں ہوگا بلکہ اور جگہ پر بھی اس قسم کا نظام جاری ہو یعنی وقف جدید کے مقاصد کے حصول میں ان کو بھی شامل کرنا پڑے گا صرف چندے کی قربانی میں نہیں.پس اس لحاظ سے اس سال میں نے شعبہ مال کو ہدایت کر دی ہے کہ آغاز ہم افریقہ سے کرتے ہیں افریقہ میں ضرورتیں بڑھ رہی ہیں بعض ملکوں میں اقتصادی بدحالی کی وجہ سے چندوں میں کمزوری آرہی ہے تو وقف جدید کا ایک حصہ ہم انشاء اللہ اس سال افریقہ کی طرف منتقل کریں گے اور پھر ایسا وقت آئے گا کہ یورپ میں بھی وقف جدید کے نظام کے تحت ہمیں معلمین مقرر کرنے پڑیں گے اور اس قسم کے کام جاری کرنے ہوں گے جو اسلام کے آخری غلبے کے لئے ضروری ہیں.ایک آخری بات اس وقت ، وقت چونکہ ختم ہو رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے وہ حوالہ تو نہیں پڑھ سکا مگر اس کا خلاصہ میں نے بیان کر دیا ہے پھر کسی وقت حضرت مصلح موعودؓ کا وہ حوالہ بھی پڑھ کے سنا دوں گا.پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دیگر جماعتوں کو بھی دفتر اطفال کا ریکارڈ رکھنا چاہئے.یہ اس سلسلے میں آخری نصیحت ہے آج کے خطبے میں.وقف جدید کا جو اطفال کا ریکارڈ ہے وہ پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش میں رکھا جاتا ہے مگر دوسرے ملکوں میں نہیں رکھا جاتا اور ہم چاہتے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 19 خطبہ جمعہ 6 جنوری 1995ء کہ بچے بہت زیادہ اس میں حصہ لیں.جس طرح نو مبائعین دین میں بچے ہی ہوتے ہیں خواہ عمریں کتنی ہی ہوں.اسی طرح بچوں کا حال ہے.ان کو شروع ہی میں وقف جدید میں شامل کیا جائے تو آئندہ ہر قسم کے دوسرے چندوں میں اللہ تعالیٰ ان کے حوصلے بڑھا دے گا، ان کے دل کھول دے گا.تو ہمیں اب باہر کی جماعتوں سے معین طور پر یہ اطلاع ملنی چاہیئے کہ اتنے زیادہ بچے ہم نے بڑھائے ہیں اور بچے کے سلسلے میں پہلے دن کا بچہ بھی نظام میں شامل ہو جاتا ہے.بعض مائیں تو پہلے زمانے میں جب میں وقف جدید میں کام کیا کرتا تھا تو لکھا کرتی تھیں کہ ہمارے ہونے والے بچے کا بھی چندہ لے لیں اور بعض یہ کہا کرتی تھیں ہم مومن جو ہیں نا یہ اللہ میاں سے کافی ترکیبیں کرتے رہتے ہیں کسی کا بچہ نہیں ہوتا تھا تو اس نے کہا کہ میرا بچہ نہیں ہو رہا نا ، میں نے اس کا وعدہ وقف جدید لکھوا دیا ، اب اللہ آپ ہی سنبھالے معاملہ اور واقعہ ایسے میرے سامنے معین واقعے آئے کہ ڈاکٹروں نے کہا تھا بچہ نہیں ہونا، کسی عورت نے یہ ترکیب چلی اور اللہ تعالیٰ نے بچہ عطا فرما دیا یعنی چندہ دینے والا بعد میں آیا ہے چندہ پہلے آ گیا ہے تو یہ دنیا کے نظام نہیں ہیں یہ اور قسم کے نظام ہیں جو چل رہے ہیں تو اپنے بچوں کو شامل کریں اگر دل کا جوش اور ولولہ ہوتو بے شک ان کو بھی شامل کر لیں جو پیدا نہیں ہوئے مگر جو پیدا ہوئے ہیں ان کو تو ضرور شامل کریں.اللہ تعالیٰ اس نظام کو ہمیشہ برکت دیتا چلا جائے اور بڑھاتا چلا جائے.ہمارے اموال میں ، ہمارے اخلاص کے پیچھے پیچھے برکت دے، آگے نہیں.و فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم پہلے رکھا ہے اتفاق کا مضمون بعد میں آتا ہے.پس پہلی دعا یہ ہے کہ ہماری تقویٰ کی استطاعت بڑھائے.اس بڑھتی ہوئی استطاعت کے وسیع تر دائرے میں ہمارے اموال میں بھی برکت ہوتی چلی جائے اور ہماری جانی قربانیوں میں بھی برکت ہوتی چلی جائے اور یہ ایسے سلسلے ہیں جو خود اپنی ذات میں ثواب ہیں ، اپنی ذات میں جنتیں ہیں اللہ سب دنیا کو ان جنتوں سے آشنائی عطا فرمائے.آمین
20 20 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 21 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء اس حسن خلق کو اپنانے کی کوشش کریں جو تو حید کی طرف لے کے جاتا ہے ،نئی جلا دکھاتا ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہر دین میں اخلاق کو ایک ایسا مقام اور مرتبہ حاصل ہے گویا وہ دین کی روح ہے اور اخلاق کے لحاظ سے جو یہ تصور پایا جاتا ہے کہ دین ایک الگ بات ہے اور اخلاق ایک الگ چیز ہے اور بے دینوں میں بھی اعلیٰ اخلاق ملتے ہیں اس اشتباہ کو پہلے دور کرنے کی ضرورت ہے.اخلاق تو انسانی تعلقات کے عمدہ اور بہتر اور گہری قدروں پر مبنی ہونے کو کہتے ہیں اور صرف انسانی تعلقات کے ساتھ ہی اخلاق کا واسطہ نہیں بلکہ بعض دوسری چیزوں سے بھی مثلاً جانوروں سے تعلقات کے معاملے میں بھی اخلاق کو ایک اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے.پھر تمام دوسری چیزوں کے ساتھ بھی اخلاق کا ایک تعلق ہے خواہ وہ بے جان بھی ہوں.تو اخلاق کی تعریف کو جتنا آپ وسیع کرتے چلے جائیں گے اتنا ہی اخلاق کا دائرہ بھی بڑھتا چلا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ مذہبی خلق اور غیر مذہبی خلق میں کیا فرق ہے اور اسلام جب اخلاق کی طرف ہمیں بلاتا ہے تو اس سے کیا مراد ہے.آنحضرت ﷺ نے جب اخلاق کی بات بیان فرمائی تو اسے عین دین ہی سمجھا ہے بلکہ دین صلى الله کا بہترین حصہ قرار دیا ہے چنانچہ ابی الدرداء سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایاما من شيئي في الميزان اثقل من حسن الخلق (ابوداؤد) کہ رسول اکرم یہ فرماتے تھے کہ
خطبات طاہر جلد 14 22 22 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء خدا کے تول میں کوئی چیز اچھے اخلاق سے زیادہ وزن نہیں رکھتی.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو میزان مقرر کر رکھے ہیں جن میں بندوں کا حساب کیا جائے گا ان میں سے زیادہ وزنی چیز اچھے اخلاق ہوں گے تو دین کا ما حصل اخلاق ہیں اور اعلیٰ اخلاق سے دین کا فیصلہ ہوگا کہ کسی کا دین کیسا ہے.اس کی روشنی میں ایک بات تو قطعی طور پر ثابت ہوئی کہ اخلاق کو دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اخلاق دین کا پیمانہ بنتے ہیں.خدا کے نزدیک کسی کے دین کے سچا ہونے یا اچھا ہونے کی علامت اس کے اخلاق ہوں گے.اگر اخلاق برے ہوں گے تو اس کا دین برا ہے یا وہ دین کے معاملے میں برا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنے متعلق فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (سنن الکبری کتاب جز ۱۹۱) کہ میں مکارم اخلاق پر مبعوث کیا گیا ہوں.اب یہ حدیث بہت ہی گہری حدیث ہے اور اس کا مطلب یہ کہ میری بعثت وہاں ہوئی جہاں اخلاق اپنے انتہا کو پہنچتے ہیں وہاں سے میں مضمون کو بڑھا کر آگے لے کے جاتا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ پیدا کیا گیا ہوں.بعثت لاتمم علیٰ مکارم الاخلاق کا مطلب یہ ہے کہ جہاں اعلیٰ اخلاق اپنی انتہا کو پہنچے وہاں میرا قدم تھا اور وہاں سے میں نے پھر معاملے کو آگے بڑھایا ہے.یہ مفہوم قرآن کریم کی اس آیت کی تائید میں ہے یا قرآن کریم کی یہ آیت اس پر روشنی ڈالتی ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کہ یہ کتاب اور صاحب کتاب بھی لازماً اس میں داخل ہو جاتا ہے متقیوں کو ہدایت دینے والی ہے تو آنحضرت ﷺ کا جو یہ ارشاد ہے کہ میں مکارم الاخلاق پر فائز فرمایا گیا ہوں یا وہاں سے میری بعثت شروع ہوئی ہے.اس نے اس مسئلے کو حل کر دیا جو دین اور دنیا کے اخلاق کے درمیان فاصلہ دکھائی دیتا تھا.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے خلق اگر کامل ہوں اور اچھے ہوں تو لازماً ان کے نتیجے میں مذہب پیدا ہوتا ہے اور مذہب اعلیٰ خلق کی بنیاد پر ہی قائم ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ہوسکتا.یہ بہت اہم اور گہرا مسئلہ ہے کہ سچا خلق وہ ہے جس کے نتیجے میں مذہب پیدا ہو اور کوئی مذہب سچا نہیں جس کی بنیا داعلیٰ اخلاق پر نہ ہو.آنحضرت ﷺ کی زندگی کے حالات تو ہمیں معلوم ہیں بہت کثرت کے ساتھ روایات میں آپ کی نبوت سے پہلے کے اخلاق بھی محفوظ کر دئیے گئے ہیں لیکن دیگر انبیاء جن کے حالات ہمیں
خطبات طاہر جلد 14 23 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء معلوم نہیں.جس حد تک بھی معلوم ہیں وہ یہی پتا دیتے ہیں کہ تمام انبیاء کی بنیا د اخلاق پر تھی اور اخلاق پہلے تھے مذہب بعد میں آیا ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ایک بدخلق انسان کو مذہب نے با اخلاق بنایا ہو اور اس طرح وہ اس سلسلے میں نبی بن گیا ہو.کسی بدخلق کو خدا نے نبوت کے لئے نہیں چنا.تو جو دنیا کے اخلاق دکھائی دیتے ہیں ان میں اگر سچائی ہو تو وہ مذہب کی طرف لے جانے والے ہیں مذہب کے علاوہ اپنی ذات میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے بلکہ وہی خلق جب ترقی کرتے ہیں تو وہ مذہب پر منتج ہوتے ہیں اور یہ وہ فلسفہ ہے جو در حقیقت خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے.لینن جیسا شخص جود ہر یہ تھا خدا کی ہستی کا قائل نہیں تھا اس نکتے کو بہر حال وہ سمجھ چکا تھا کہ اگر ہم نے اخلاق کو قبول کر لیا تو لازم ہم خدا کی طرف مائل ہو جائیں گے.چنانچہ بہت لمبا عرصہ اس کا اختلاف رہا اپنے اور کیمونسٹ راہنماؤں سے اور اس پر اس نے کتاب بھی لکھی اور لمبے مضامین بھی درج کیے.اس کا مبحث یہ تھا، لڑائی اس بات پر تھی کہ کیمونسٹ لیڈرشپ میں بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ اخلاق کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے اس لئے ہمارا نظام نا کام ہو جائے گا اگر ہم نے اخلاق کو ترک کر دیا ، تو ہمیں ضرور اخلاق کی طرف واپس لوٹنا ہے اور لینن کہتا تھا کہ اگر تم نے یہ بات تسلیم کر لی تو تم خدا کی طرف لوٹو گے.اس خدا کی طرف لوٹو گے جس کو تم بھی خیر باد کہہ آئے ہو اور میں بھی کہہ آیا ہوں جس خدا سے مارکس نے ہمارا تعلق ہمیشہ کے لئے منقطع کر دیا تھا تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم مذہبی ہو گئے ہو.یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم لامذہبیت سے مذہب کی طرف لوٹ رہے ہیں.نہ وہ یہ کہنا چاہتا تھا نہ اس میں یہ جرات تھی یعنی اس کا مد مقابل Bogdanov بہت ہی مشہور روسی لیڈر تھا، اس کا ساتھی بھی تھا.وہ یہ تو نہیں کہتا تھا مگر اس کے بغیر اپنی بات پوری کرنا چاہتا تھا اس کی بات میں گہری سچائی تھی کہ کوئی بھی دنیا کا نظام اخلاق کے بغیر چل نہیں سکتا خواہ وہ مذہبی نظام ہو یا غیر مذہبی نظام ہو اور لینن کی بات بھی بچی تھی کہ یہ ناممکن ہے کہ اخلاق حقیقی ہوں اور وہ خدا کی طرف نہ لے جائیں کیونکہ اخلاق کا منبع خدا ہے اور اخلاق خدا سے پھوٹتے ہیں اور خدا ہی کی طرف لے جاتے ہیں.تفصیلی بحث کا تو اس وقت موقع نہیں ہے کہ اس میں پڑ کے وجہ بتاؤں کہ کیوں لینن سچا تھا، کیوں اخلاق لاز مأخدا کی طرف لے جاتے ہیں.مگر آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے.یہ حقیقت تو خوب کھل جاتی ہے کہ اخلاق
خطبات طاہر جلد 14 24 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء اگر بچے ہوں تو وہ ضرور خدا کی طرف لے کے جاتے ہیں اور خدا والوں کا قدم اعلیٰ اخلاق پر ہوتا ہے.وہاں سے ان کی سربلندی کا سفر شروع ہوتا ہے.جہاں دنیا کا سفر ختم ہو جاتا ہے وہاں سے وہ دوسرا قدم اٹھاتے ہیں جو آسمان کی بلندیوں کی طرف ان کو لے جاتا ہے.تو دنیا وی خلق اچھے بھی ہو سکتے ہیں مگر اگر وہ Dead ہوں یعنی ان کے اندر زندگی نہ ہو اور مزید نشو ونما پانے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو وہ مردہ چیزیں ہیں ، اخلاق کی نقالی ہے مگر اخلاق نہیں کہلا سکتے اور ایسے اخلاق جو نقالی ہوں ، جن میں گہری روح نہ ہو وہ ہمیشہ آزمائش کے زلزلوں پر آکر منہدم ہو جایا کرتے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.اس لئے بھی ضروری ہے کہ اخلاق کی اگر حفاظت کرنی ہے تو خدا سے تعلق جوڑو.خدا کے تعلق کے بغیر وہ اخلاق جو سرسری ہیں ، دیکھنے میں اچھے بھی دکھائی دیں تو ان میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور جب بھی دنیا میں جنگیں ہوئی ہیں اور عظیم ابتلاء آئے ہیں یہ بات بار بار کھل کر ثابت ہوئی ہے کہ وہ لوگ جن کے اخلاق کی بنیاد خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان پر تھی ان کے اخلاق کو کبھی ٹھو کر نہیں لگی.سخت سے سخت آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے مگر ان کے اخلاق اپنے حال پر قائم رہے اور زلزلے ان کو منہدم نہ کر سکے، گرانہیں سکے لیکن وہ قومیں جو بہت ہی اعلیٰ اخلاق پر فائز دکھائی دیتی رہی ہیں جب بھی ابتلاء آئے ہیں اور زلازل آئے ہیں تو ان کے اخلاق اس طرح منہدم ہو گئے کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی.جنگ عظیم کا حال آپ پر روشن ہے آج بھی کبھی کبھی ان مظالم کی داستانیں دہرائی جاتی ہیں بعض Documentries پیش کی جاتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جنگ عظیم کے دوران مغربی قوموں نے خود دوسری مغربی قوموں پر کیسے کیسے مظالم توڑے ہیں.ایسے خوفناک نقشے دکھائے جاتے ہیں کہ ان کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ دراصل دہریت کی پیداوار ہے.وہ اخلاق جود ہریت کے ارد گر د لمع کے طور پر ہوں ان کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ جب وہ لمع اترتا ہے تو اندر سے ایک خوفناک بھیٹر یا یا اس سے بھی زیادہ ظالم جانور نکلتا ہے باہر اور وہ پنجے باہر نکالتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ محض ایک دکھاوا تھا ورنہ در حقیقت اندر کچھ بھی نہیں تھا.تو آنحضرت ﷺ جن اخلاق پر فائز ہوئے ہیں وہ زندہ اخلاق تھے، یقینی تھے اور اسی وجہ سے آپ کو نبوت پر سرفراز فرمایا گیا اور پہلے انبیاء بھی اخلاق ہی کے رستے سے نبوت پر فائز ہوئے مگر
خطبات طاہر جلد 14 25 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء وہ سب اخلاق جن پر وہ فائز تھے ان سب کو مکارم الاخلاق نہیں کہا جاسکتا تھا.آنحضرت ﷺ کا قدم جن اخلاق پر پڑا ہے ان میں سے ہر ایک، ایک چوٹی تھا.کوئی بھی ایسا خلق نہیں ہے جو اپنے دائرے الله میں چوٹی کا خلق نہ ہو ، وہاں سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کا سفر شروع ہوتا ہے.پس آپ جب فرماتے ہیں اثقل من حسن الخلق کہ خدا کی میزان میں حسن خلق سے بہتر اور کوئی وزن دار چیز نہیں تو یہاں کسی ایسے خلق کا ذکر نہیں جو مذہب سے الگ خلق ہو بلکہ حقیقت میں مذہب ہی کی تعریف کی گئی ہے.مذہب اعلیٰ اخلاق سے پھوٹتا ہے اور اعلیٰ اخلاق کو مزید صیقل کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا سے بندے کا تعلق قائم کراتا ہے اور خدا تعالیٰ کا کسی اپنے ایسے بندے سے تعلق قائم نہیں ہوسکتا جو بدخلق ہو.اس لئے روز مرہ کی زندگی میں جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہے تو بڑا نیک مگر بڑا بداخلاق ہے، یہ بالکل جھوٹی بات ہے یا وہ بداخلاق نہیں ہے یا وہ نیک نہیں ہے کیونکہ نیکی کے ساتھ بدخلقی چل ہی نہیں سکتی.نیکی کا وسیع دائرہ اخلاق کے تمام دائرے پر حاوی ہوتا ہے اور بدخلقی اور نیکی کے اندر ایک تضاد پایا جاتا ہے جو ا کٹھے نہیں رہ سکتے.اصلى الله بعض لوگ کہتے ہیں جی نمازیں تو بہت پڑھتا ہے لیکن یہ یہ باتیں بھی ہیں.تو جو جو باتیں ہیں ان ان باتوں میں نمازوں کی نفی ہوگئی ہے.پس محض ظاہری دین پر عمل کرنا کافی نہیں جب تک کہ جس حصے پر عمل ہو رہا ہے اس حصے کے اخلاق بھی صیقل نہ ہو جائیں.دین کے مختلف حصے ہیں اور ہر حصے کا کسی نہ کسی انسانی خلق سے ضرور تعلق ہے تو اگر کلیہ کوئی سو فیصدی حضرت اقدس محمد مصطفی امی کی پیروی نہیں کر سکتا تو کم سے کم اس راز کو سمجھ لے کہ اگر وہ سچا ہے اپنے خلق میں تو اتنا حصہ اس کا دین کا اور زیادہ روشن ہو جانا چاہئے اور اگر وہ دین میں سچا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ اس کے دین کے سائے تلے بدخلقی پنپ رہی ہو.اس لئے جہاں جہاں بدخلقی ہے.وہاں بے دینی کی علامت ہے، وہاں اگر دہریت کی نہیں تو خدا پر ایمان میں نقص کی علامت ہے.پس اس طرح ہر انسان اپنی ذات کا تعارف خود حاصل کر سکتا ہے.کتنا بد خلق ہے اور کتنا دیندار ہے کسی اور حوالے کی ضرورت نہیں خود انسان اپنی ذات میں کھو کر مختلف موقعوں پر اپنے ردعمل کو دیکھے چھوٹی سی بات کے اوپر بعض دفعہ اتنے ہنگامے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں بعض دفعہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں بعض دفعہ اور بہت
خطبات طاہر جلد 14 26 26 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء بڑی بڑی مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ہیں.لیکن وہ چھوٹی سی بات ایک شخص کی انا کا مسئلہ ہوتا ہے.وہ کہتا ہے یہ ہوتا کون ہے میرے سامنے یہ کہنے والا اور یہ انا جو ہے یہ ایسی دھو کے والی چیز ہے کہ بعض دفعہ بعض لڑائیاں اس بات پر ہوئی ہیں کہ اس نے مجھے جھوٹا کہہ دیا ہے یہ کون ہوتا ہے مجھے جھوٹا کہنے والا میں کہاں سے جھوٹا ہو گیا اور ایک دفعہ میں نے شاید پہلے بھی ذکر کیا تھا یا نہیں.ایک صاحب جن کو میں جانتا تھا کہ بے حد جھوٹے ہیں ان کا کسی سے مقدمہ ہوا اور انہوں نے میری طرف وہ حوالہ بھیجا اور خلاصہ یہ تھا کہ دیکھیں اس نے مجھے جھوٹا کہا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ میں جھوٹا نہیں ہوں.اب میں اس کو کیا جواب دیتا؟ جس کا جھوٹ مشہور تھا سب جانتے تھے کہ وہ جھوٹا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ انانیت اتنا دھوکہ دے دیتی ہے انسان کو کہ خود اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور جو اپنے سے غافل ہوا وہ دنیا جہان سے غافل ہو جاتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جو اللہ سے غافل نہ ہو وہ اپنے آپ سے غافل ہو ہی نہیں سکتا.یہی مضمون ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَانْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ (الحشر : 20، 19 ) و دیکھو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کو اپنے آپ کو بھلا دیا.اب اپنے آپ کو کون بھولا کرتا ہے سوائے اس پاگل کے جس کو ہوش ہی نہ رہے تو یہاں اپنے آپ کو بھلانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حال سے بے خبر ہو جاتے ہیں ، ان کو اپنے نقائص کا علم ہی نہیں رہتا اور وہ ایک غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں.اپنی ذات سے زیادہ قریب اور انسان کس کے ہوسکتا ہے مگر اپنی ذات میں رہتے ہوئے اپنی ذات سے بے خبر رہتے ہیں اور ان کو پتا ہی نہیں میں کون ہوں اور میں کیا ہورہا ہوں.تو یہ بہت بڑی مصیبت ہے اور یہ یادرکھیں کہ اللہ سے سب خلق کا تعلق ہے جو خدا کے شعور میں رہتا ہے وہ اپنے شعور میں بھی رہتا ہے.جو خدا کو بھلا دیتا ہے خدا کا شعور اس کے دل سے اٹھ جاتا ہے اس سے اپنے نفس کا بھی شعور اٹھ جاتا ہے تو خلق کا بھی یہی حساب ہے.تمام وہ خلق جو اللہ کے تعلق سے پیدا ہوتے ہیں وہ دنیا کے تعلقات پر بھی اسی طرح ،
خطبات طاہر جلد 14 27 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء اعلیٰ درجے پر اثر انداز ہوتے ہیں جیسے اللہ کا تعلق کسی بندے پر اثر انداز ہوتا ہے.آپ اپنا تعلق خدا الله سے درست کریں تو اس کا نام بھی ایک خلق ہے اور آنحضرت ﷺ نے جو مکارم الاخلاق پر قدم رکھ کر سفر شروع کیا ہے تو مراد یہ ہے کہ وہ لمحہ جب خدا آپ پر ظاہر ہوا اور واضح طور پر اپنی طرف آنے کی ہدایت کی ہے اس سے پہلے بھی آپ اخلاق میں کامل تھے لیکن وہ ایک سرشت کی صفائی تھی ، ایک فطرت کی نفاست تھی جس کو خدا تعالیٰ خلق کا نام دیتا ہے.لیکن بہترین تھی ، ایسی روشن تھی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر آسمان سے شعلہ نور نہ بھی گرتا تب بھی وہ ایسا پاک سر چشمہ تھا اخلاق کا کہ از خود بھڑک اٹھنے کے لئے تیار تھا.مگر جو باقی سفر ہے وہ پھر خدا کے حوالے سے خدا سے تعلقات استوار کرنے کا سفر ہے اور خلق کا آخری مقصد خدا سے تعلق درست کرنا ہے دنیا کے تعلقات خلق کا مقصد نہیں ہیں خلق اس لئے پیدا کیا جاتا ہے کہ خدا سے تعلق قائم ہوا اور جب خدا سے تعلق قائم ہو جائے تو آج جتنا اعلیٰ خلق ہوگا اتنا تعلق کا معیار بڑھتا چلا جائے گا.یہ نکتہ بھی بہت اہم اور محض فلسفیانہ نکتہ نہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی سنوارنے کے لئے اس کا سمجھنا بے انتہا ضروری ہے بعض دفعہ Crude لوگ ہوتے ہیں موٹی عقل والے موٹی باتیں کرنے والے، ان میں نیک بھی ہوتے ہیں.یہ فتویٰ باہر سے بیٹھے نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ چونکہ Crude ہے، اس کی بات میں سلیقہ نہیں بختی ہے، کرختگی ہے اس لئے وہ ضرور بد ہوگا کیونکہ بعض دفعہ اس کی ان عادات میں اس کا کوئی دخل نہیں ہوتا.بچپن سے ایسے ماحول میں پلا ہے ایسے حالات اس کو میسر آئے ہیں کہ بدخلقی کے طور پر نہیں بلکہ عادت مستمرہ کے طور پر، ایک جاری عادت کے طور پر اس نے بعض رنگ ڈھنگ سیکھ لئے ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ اسے بدخلق کہا جائے ،مگر کہا جائے یا نہ کہا جائے یہ ہے بدخلقی.مگر ایسی بدخلقی نہیں جس میں اس کے ارادے کا دخل ہے اس لئے ایسے لوگ بھی نیک ہوتے ہیں.کئی ایسے لوگ مجھے یاد ہے بچپن میں ہم نے دیکھے ، بعد میں بھی نظر آئے کہ روز مرہ کی باتوں میں سلیقے میں بڑے وہ Crude کہتے ہیں جس کو یعنی کرختگی پائی جاتی ہے ان کے مزاج، باتیں کرنے کے طریقے میں، اظہار میں بھی کرختگی پائی جاتی ہے لیکن جس طرح ان کی زندگی دوسرے میدانوں میں اپنے عمل دکھاتی ہے صاف پتا چلتا ہے کہ نیک لوگ ہیں اور ان کی نیکی کا انکار
خطبات طاہر جلد 14 28 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء نہیں ہوسکتا.ایسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے بھی بعض تھے بچپن سے ان کی پرورش ایسی ہوئی ہے یعنی غیر ماحول سے آئے ہیں جہاں وہ گلیوں میں جس طرح Crude and Rough Tough کے ساتھ مقابلے ہوتے ہیں اس طرح ان کی زندگیاں گزریں اور طبیعت میں ایک دبدبہ اور جوش اور سختی سی پیدا ہوگئی.نیکی نے اس کو بہت نرم کیا مگر ایک حد تک وہاں ایک سختی کی جو ان کی حد جہاں شروع ہوتی تھی وہاں نیکی اس حد کو تو ڑ نہیں سکی، وہ اپنی جگہ قائم رہتی تھی.نیکی کے دائرے میں بھی وہ قائم رہتی تھی.چنانچہ ہمارے ایک بزرگ ہوا کرتے تھے وہ الله صحابی تھے ان کے دماغ میں یہ تھا کہ نماز میں جو صف کے آگے سے گزرے گا چونکہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے اس لئے اس کے نتیجے میں کچھ ہونا چاہئے.اب دیکھیں اخلاق کے نتیجے میں ،اخلاق کے معیار بدلنے سے نیکی کی تعریفیں بھی کتنی بدلتی جاتی ہیں.ایک آدمی با اخلاق ہے اور اس کے اندر نرمی پائی جاتی ہے اس کی نماز کے سامنے سے کوئی آدمی گزرے گا تو وہ اس کے لئے استغفار کرے گا دعا کرے گا اللہ معافی دے اس کو اور ایک یہ تھے یہ دو قدم آگے بڑھ کے اس زور سے دوھپڑ مارتے تھے اور تھے مضبوط آدمی کہ وہ لڑھکنیاں کھاتا دور جا کے پڑتا تھا اور بعض بچے بے چارے تو حیران رہ جاتے تھے کہ یہ بلا آئی کہاں سے ہے.بے دھیا نے اپنے خیال میں جارہے ہیں یہ نہیں پتا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں جن کا اخلاق کا معیار یہ ہے اور وہ ان کو دھکا دے کر پھر جاکے پڑھتے تھے، پھر دیکھ کے اچھا اچھا یہ فلاں صاحب ہیں جو نماز پڑھ رہے تھے تو کافی شہرت ہوئی تھی لوگ ڈر کے گزرا کرتے تھے مگر یہ نہیں میں کہہ رہا کہ چونکہ وہ اس معاملے میں بدخلق تھے اس لئے وہ بے دین بھی تھے نعوذبالله من ذالک.ان کی ساری زندگی تقویٰ کے ساتھ گزری، نیک مسیح موعود کے صحابہ میں شمار لیکن جب اخلاق کرخت ہوں تو خدا سے تعلق میں بھی ایک حد قائم ہو جاتی ہے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن جتنے اخلاق اعلیٰ ہوں اللہ کا تعلق بھی اتنا ہی اعلیٰ ہوتا چلا جاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جو تمام انبیاء سے بڑھ کر خدا کا قرب حاصل کیا ہے تو اس کا راز اس بات میں ہے کہ آپ کو مکارم الاخلاق پر فائز کیا گیا تھا.آپ پہلے ہی اتنے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے کہ جو سفر وہاں سے شروع کیا ہے اس کے بعد کسی اور کے مقابلے کا سوال ہی نہیں رہتا تھا.Lead لے گئے ہیں بہت زیادہ اور پھر خدا کے ہر تعلق میں اپنے خلق کو استعمال کیا ہے.اب تعلق کے
خطبات طاہر جلد 14 29 29 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء معاملے میں آپ روز مرہ انسانی تعلقات کے دائرے میں غور کر کے دیکھیں وہ شخص جو اعلیٰ خلق رکھتا ہے وہ رفتہ رفتہ دلوں کو جیتتا چلا جاتا ہے.اس سے جب آپ بات کرتے ہیں، کوئی معاملہ کرتے ہیں، کبھی غلطی بھی کرتے ہیں تو اکثر اس کا رد عمل ایسا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک بدخلق انسان بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ زیادتی کرنے والا بھی اگر اس میں کوئی زندگی کی رمق باقی ہو وہ زیادتی چھوڑ کر اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے جو اس کا اخلاق کے لحاظ سے محسن اور معلم ہو.تو اللہ تعالیٰ سے جب انسان اپنی عبادتوں میں یا روز مرہ کے معاملات میں ایک تعلق قائم کرتا ہے تو یہ فیصلہ کہ وہ تعلق کہاں تک اس کو لے جائے گا یہ اس شخص کے اپنے خلق پر منحصر ہوتا ہے.جتنا اعلیٰ خلق کا انسان ہو گا اتنا ہی اس کا سفر زیادہ بلندی کی طرف، زیادہ اعلیٰ مقام اور مراتب کی طرف اس کو لے جائے گا اور اسی مضمون کو آنحضرت علیہ نے یوں بھی بیان فرمایا انا عند ظن عبدی بی که اللہ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ میں اپنے بندے کے اپنے متعلق ظن کے مطابق ہو جاتا ہوں.وہ مجھے جیسا گمان کرتا ہے ( اور اس گمان کے مطابق سلوک کرتا ہے یہ اس میں شامل ہے ) میں اسی طرح اس کے لئے ہوتا چلا جاتا ہوں.تو ایک شخص کا اخلاق کا دائرہ چھوٹا ہو تو خدا کی ذات لا متناہی ہے اس کے برتن میں خدا اتنا ہی آئے گا جتنا اس کے اخلاق کا دائرہ ہوگا اور ظرف کے مطابق خدا ڈھلے گا.پس أَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بُي ( بخاری کتاب التوحید ) کا مطلب ہے کہ میں ہر شخص کے ظرف کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہوں.اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ میرے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ تو اپنے ظروف بڑے کرو کیونکہ میں پورا تو تمہارے اندر آ ہی نہیں سکتا مگر تمہیں باقیوں کے مقابل پر اپنے اندر کم دکھائی دیا تو تمہارے برتن کا قصور ہے ، میرا قصور نہیں.یہ جو ظرف کا مضمون ہے یہی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور آنحضرت ﷺ کے تعلقات ،آپ کی ایک دوسرے کے مقابل پر جو حیثیت تھی اس کو ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم میں استعمال فرمایا ہے.موسیٰ نے کہا اے خدا مجھے دکھا اپنا چہرہ.اللہ نے کہا تجھے ظرف نہیں ہے حالانکہ موسی“ پر بھی تو خدا ظاہر ہوا تھا.وہ کیا بات تھی کہ جب بلایا کہ آمیرے پاس اور آگ میں سے ایک آواز آئی ، روشنی نکلی.تو وہ اگر رویت نہیں تھی تو کیا چیز تھی.تو ایک طرف یہ بات ہے دوسری طرف انکار ہو رہا ہے کہ نہیں تو مجھے نہیں دیکھ سکتا اس سے مراد صرف یہ تھی کہ وہ آنحضرت مﷺ پر جلوہ گر ہونے والے خدا کو دیکھنا چاہتے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ تجھ
خطبات طاہر جلد 14 30 30 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء میں یہ طاقت نہیں ہے اس کے لئے اتنا بڑا دل، اتنا بڑا حوصلہ، اتنی بڑی وسعت چاہئے اور اس پہلو سے خدا جب آنحضرت ﷺ پر ظاہر ہوا ہے تو آپ کے مکارم اخلاق سے جو سفر شروع ہوا ہے اس کے نتیجے میں آپ کی قلبی اور روحانی وسعتوں کے مطابق نازل ہوا ہے.پس روزمرہ کی زندگی میں بھی یہ طور والے واقعات تو نہیں پیش آتے مگر کہانی وہی ہے.ازل سے یہی کہانی ہے درجہ بدرجہ دہرائی جاتی ہے کہیں تھوڑی، کہیں زیادہ.پس اپنے اخلاق کی فکر کریں اگر آپ بد خلق ہوں تو کیا یہ درست نہیں کہ دنیا بھی آپ کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے.اپنے بچے بھی جدا ہو جاتے ہیں ، بیویاں واویلے کرتی ہوئی طلاقوں کی درخواستیں دینے لگتی ہیں.تو جس شخص کا یہ حال ہو اس کا یہ گمان کہ میں بہت نیک ہوں اور اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں.جس کے بیوی بچے متنفر ہو جائیں ، جس کا ماحول اس سے بھاگے ، ہمسائے پناہ مانگیں اور وہ اس خیال میں زندگی گزار دے کہ میں خدا کا پیارا ہوں اور میں نمازیں پڑھ لیتا ہوں اور میرے لئے بہت کافی ہے ، یہ بالکل جھوٹ ہے ، جہالت کی زندگی ہے.پس اپنے اخلاق کی حفاظت کریں ورنہ آپ دنیا میں نہ گھر میں کامیاب ہو سکتے ہیں، نہ ہی وطن میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ساری دنیا کو اپنی محبت میں گرفتار کر کے جو آپ نے ان کی اصلاح کرنی ہے اس کی باتیں محض خواب کی باتیں ہیں، ایک دیوانے کی بڑ ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.تو جتنا میں اخلاق پر زور دے رہا ہوں اس کے کچھ نیک نتائج بھی نکل رہے ہیں لیکن بعض ایسے ضدی ہیں جو اپنی ضد پر اسی طرح قائم ہیں.اصل میں جب یہ آواز ان تک پہنچی ہے تو چونکہ وہ خدا کو بھلا بیٹھے ہیں اس لئے اپنے نفس کو بھی بھلا چکے ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کسی اور کی بات ہورہی ہے اور یہ ایک ایسا گہرا نفسیاتی نکتہ ہے جو ہمیشہ کارفرما ہوتا ہے اور جہاں بھی ہوتا ہے لوگ اپنے حال سے اندھے ہی رہتے ہیں.بعض لوگ اپنا ایک مقام سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ اس سے ہٹ کر سوچ بھی نہیں سکتے.ایک دفعہ حضرت خلیفۃ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے کوئی بات کرنی تھی اور مجلس لگی ہوئی تھی.تو آپ نے فرمایا کہ مجھے کچھ بات کرنی ہے پرائیویٹ یا مجھے یاد نہیں کہ کیا عذر اس وقت پیش فرمایا تھا آپ نے مگر یہ بات کھل کر سامنے لے آئے کہ بہتر ہے کہ جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں بے وجہ وہ اٹھ کر چلے جائیں.تو ایک آدھ آدمی اٹھا ہے باقی سب بیٹھے رہے پھر آپ نے دوبارہ کھول
خطبات طاہر جلد 14 31 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء کر بات کی تو پھر ایک دو آدمی اٹھ کر چلے گئے اور باقی پھر بیٹھے رہے.تو دو تین دفعہ اس طرح ہوا تو آخر حضرت خلیفہ اسیج اول نے فرمایا کہ عوام الناس تو چلے گئے ہیں اب چوہدری بھی چلے جائیں.مراد یہ تھی کہ جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں وہ عام حکم سے اپنے آپ کو مستقلی سمجھنے لگتے ہیں اور چوہدری سے مراد زمیندار چوہدری نہیں بلکہ چوہدراہٹ کا ایک تصور ہے کہ میں عامتہ الناس نہیں، میں بڑا ہوں.تو یہ بیان فرمایا اور واقعہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو اندرونی طور پر بڑا سمجھ رہا ہو اس کو پتا ہی نہیں لگتا کہ مجھ سے کوئی مخاطب ہورہا ہے.تو جب میں یہ خطبات دیتا رہا ہوں تو بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق پر پہلے سے فائز سمجھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے متعلق نہیں کسی اور کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں.یہ جو کہا ہے کہ بد خلقی نہ کرو تو ضرور میری بیوی کی بات ہورہی ہے میری بات نہیں ہو رہی اور شاید وہ پہلے سے بھی بڑھ کر بیوی پر سختی کر رہے ہوں کہ خطبہ نہیں سنا تم نے ، ابھی بھی تم اسی طرح بد تمیزی سے بات کر رہی ہو تو ہر انسان اپنی بدتمیزی کے لئے بھی کچھ ایسے حجرے تعمیر کر لیتا ہے جن میں قلعہ بند ہو کے بیٹھ جاتا ہے اور بیرونی باتیں اس پر اثر انداز ہی نہیں ہوتیں.ہر انسان اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا تو لوگوں کی نظر کے آئینے سے ہی دیکھنے کی کوشش کرے.ایک شخص جس سے سوسائٹی تنگ آئی ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے اس کو پتا نہ لگے کہ میرے خلاف باتیں ہورہی ہیں لیکن ہوتی ہیں تو وہ کہتا ہے دیکھو سارے میرے پیچھے پڑگئے ہیں.بس لوگوں کو عادت ہے اٹھ کر میرے خلاف باتیں شروع کر دیتے ہیں.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اس میں کچھ حقیقت ہوتی ہے.دنیا یونہی کسی کے پیچھے نہیں پڑا کرتی بلکہ کچھ بد خلقیاں ظاہر ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ سوسائٹی دور ہونے لگتی ہے.تو اپنی فکر کرو، اپنے اخلاق کی نگرانی کرو اور اگر اپنی آنکھ سے دکھائی نہیں دے رہا تو معاشرے کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرو کہ تم کیا ہو.غالب نے ایک موقع پر اس مضمون کو یوں بیان کیا: گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی کہ سختی سہی لیکن یہ تو نہیں کہ جس سے بھی بات کرو وہ شکایت کرے اور جو شکایت کرے تم اس کے پیچھے پڑ جاؤ کہ دیکھو یہ بھی ایک اسی طرح کا ہو گیا ، مجھ معصوم پر یہ بھی برسنے لگ گیا تو جب
خطبات طاہر جلد 14 32 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء سب دنیا با تیں کرتی ہے تو اسے نقارہ خدا بھی کہا جاتا ہے یعنی اللہ کی آواز ہوتی ہے لوگوں کی زبانوں سے بلند ہوتی ہے.پس وہ لوگ جن کے ساتھ معاشرہ ایسا سلوک کر رہا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بدخلق ہیں ان کو تسلیم کر لینا چاہئے ، اپنی عادتیں بدلنی چاہئیں اور وہ کرنا چاہئے جس کو قرآن کریم دعوت الی اللہ کے لئے ایک کامیاب گر کے طور پر پیش فرماتا ہے فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (حم سجدہ: 35) فرمایا دو ستم کے سفر ہیں ، یہاں تو ایک سفر کا ذکر کیا ہے.ایک سفر وہ ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ دوست ہے وہ بھی دشمن بنتے چلے جاتے ہیں.قریبی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، بیٹیاں خط لکھتی ہیں باپ کے عذاب سے بچنے کے لئے دعا کی خاطر اور ایک سفر وہ ہے جو قرآن کریم دعوت الی اللہ کا سفر بیان کرتا ہے فرماتا ہے فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ اس سفر میں تمہاری صفات ایسی ہونی چاہئیں کہ وہ جو تمہاری جان کا دشمن ہو رفتہ رفتہ تمہارے حسن خلق سے متاثر ہو کر وہ تم پر اپنی جان نچھاور کرنے والا دوست بن جائے.یہ صفات تم میں ہوں تو تم کامیاب داعی الی اللہ بن سکتے ہو ورنہ نہیں بن سکتے.تو دعوت الی اللہ کا کتنا گہرا راز خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھا دیا اور یہ راز اعلیٰ اخلاق کے بغیر سمجھ آہی نہیں سکتا اور یہ وہ سفر ہے جو اعلیٰ اخلاق کے بغیر طے ہو ہی نہیں سکتا.پس آپ اپنے خلق کو اس طرح ڈھالیں اور یہ بات اگر بھول بھی جائیں کہ آپ پہلے کیا تھے تو کم سے کم آئندہ کے لئے یہ واضح مقصد اپنے پیش نظر رکھیں کہ آپ نے دوستوں کو دشمن نہیں بنانا، ہرایسے موقع سے احتراز کرنا ہے جہاں دوست دشمن بن جاتے ہوں اور اس کے برعکس ہرایسا کام کرنا ہے جس سے دشمن دوست بنتا ہو.اللہ فرماتا ہے اگر ایسا کرو گے تو پھر تم کامیاب ہو اور یہ مضمون دعوت الی اللہ کا ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا (حم سجده: 34) یہاں سے بات شروع ہوئی ہے.اس سے بہتر بات کہنے والا اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے لیکن خود حسن عمل سے اپنے قول کی سچائی کو ظاہر کر دے.ایسے نیک اعمال والا ہو کہ اگر وہ خدا کی طرف بلائے تو اس کی بات میں اس کے عمل کی وجہ سے حسن پیدا ہو کوئی تضاد نہ ہو.یہ مضمون بیان کرتے ہوئے آخر اس بات پر پہنچایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دشمن کو بھی جاں نثار دوست میں تبدیل
خطبات طاہر جلد 14 33 33 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ صفات محض جہاد کے دوران سامنے نہیں آتیں یا اس وقت نہیں بنا کرتیں، پہلے روز مرہ اپنے گھر میں یہ تخلیق پاتی ہیں، گھر میں پرورش پاتی ہیں ،وہاں بڑھتی ہیں اور نمایاں ایک طرز اختیار کر لیتی ہیں ، پھر جب ایسا شخص میدان جہاد میں نکلتا ہے تو لازما وہی ہوتا ہے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے.مگر کوئی کہے کہ گھر پہ تو میرا یہ سلوک ہوگا کہ دوستوں کو دشمن بناؤں گا.محلے میں تو یہ سلوک ہوگا جو خیر خواہ تھے وہ بدخواہ ہوتے چلے جائیں لیکن جب میں خدا کی خاطر نکلوں گا تو پھر میں یہ توقع رکھوں گا کہ دشمن بھی جاں نثار دوست بن جائیں یہ جہالت کی باتیں ہیں محض فرضی قصے ہیں کوئی بھی حقیقت نہیں.جہاد کے لئے قرآن کریم نے تیاری کا بھی حکم دیا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ اچانک جہاد شروع کر دو.فرمایا جہاد کی تیاری رکھو.اور ہر وقت تیاری رکھو آنحضرت ﷺ نے تو ایک موقع پر فرمایا کہ جو شخص جہاد کی خاطر گھوڑے پالتا ہے اور ان کا خیال رکھتا ہے تو ایسے گھوڑے کی پیشانی کی سفیدی میں اس کے لئے برکتیں رکھ دی جاتی ہیں.تو تیاری جو ہے وہ جہاد سے قبل ضروری ہے اور یہ وہ تیاری ہے جو آپ کو گھر پر کرنی ہوگی.اگر نہیں کی تو پھر یہ خیال کر لینا ہے کہ جب آپ دشمنوں کو تبلیغ کریں گے تو وہ محبت کا سلوک کریں گے یا جاں نثار ہو جائیں گے یہ فرضی باتیں ہیں کچھ بھی اس میں حقیقت نہیں.عملاً آپ کی بقاء کے لئے ضروری ہے کیونکہ دعوت الی اللہ سب سے کڑوا کام ہے اور سب سے خطر ناک اس لئے کہ خدا کے نام پر ، خدا کی وجہ سے، خدا کے دشمن آپ کے دشمن بن جاتے ہیں اور جو خدا کے دشمن ہوں ان کے اندر کوئی حیا، سلیقہ کچھ بھی باقی ہیں رہتا.ان کی دشمنی کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ انہیں خود بھی خدا پر پورا یقین نہیں ہوتا.وہ دنیا دار ہو چکے ہوتے ہیں.خدا کی باتیں پسند ہی نہیں کرتے اور بعض دفعہ خدا کے نام پر خدا کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں سے آپ کو رحم کی تو کوئی توقع نہیں ہو سکتی.ایسے لوگوں کے سامنے آنا اور ان سے ٹکر لینا بہت خطرناک بات ہے مگر اللہ نے اس کا ہمیں سلیقہ سکھا دیا اور وہ یہ سکھا دیا کہ اپنے اخلاق کو ترقی دو.ایسے اعلیٰ اخلاق کے حامل بن جاؤ کہ جن کے نتیجے میں دشمن ضرور دوست بن جایا کرتے ہیں اور یہ ہوتا ہے.روز مرہ کی زندگی میں ہم نے دیکھا ہے کہ اعلیٰ خلق والا بالآخر ضرور کامیاب ہوتا ہے اور اس کے محبت کرنے والے اور اس کے تعلق رکھنے والوں کا دائرہ دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 34 =4 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء تو تبلیغ کے لئے اعلیٰ خلق سے مزین ہونا انتہائی ضروری ہے اور قیامت کے دن جو وزن خلق کا کیا جائے گاوہ یہ مراد ہے.تم میں جس حد تک محمد رسول اللہ کے اخلاق کی خوشبو پائی جائے گی اس کی ادا ئیں تمہارے اندر پائی جائیں گی اتنا ہی تمہارا پلڑا بھاری ہوگا پس روز مرہ اپنے ماحول میں اپنے گھروں میں ، اپنے تعلقات میں ، ہمسایوں سے تعلقات میں تمام بنی نوع انسان سے تعلقات میں اپنے اخلاق کو بہتر بنائیں اور اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے بہت باریک نظر سے دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ اپنی بد خلقی انسان کو خود نظر نہیں آتی ، سب سے بڑی مصیبت یہ ہے لیکن اگر باشعور ہواور اللہ کو یاد کرنے والا ہو تو پھر اپنا نفس نہیں بھلا سکتا انسان، پھر خدا کی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے متقی کی تعریف ہی یہ فرمائی ہے التـــو افراست المومن فانه یری بنور الله ( ترندی کتاب تفسیر القرآن حدیث : 3052) متقی کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.پس جس کا خلق اسے خدا کے قریب کر دیتا ہے اور خدا کے خلق کو اپنا لیتا ہے اس کے اندر خدا کے نور سے دیکھنے کی صفت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس نور سے پھر کوئی اندھیرا باقی نہیں رہتا جو اس کی موجودگی میں قائم رہے اپنے نفس کے اندھیرے بھی روشن ہو جاتے ہیں.پس کسی نے اگر اپنے نفس کی بصیرت حاصل کرنی ہے تو لازم ہے کہ اللہ کے نور سے دیکھنے کی عادت ڈالے اور اللہ کے نور کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ انصاف کی نظر پیدا کرے انصاف کا سر چشمہ خدا ہے.خدا کا نور بدصورت کو بدصورت اور خوبصورت کو خوبصورت دکھاتا ہے اور یہ انصاف کی ایک بنیادی تعریف ہے کہ جیسی کوئی چیز ہے ویسا ہی دکھائے اس کو.تو اللہ کے نور سے دیکھنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق تصور نہیں باندھا کرتے اور اپنے تعلقات کے نتیجے میں وہ لوگوں کے حلیئے نہیں بگاڑتے یا تصور میں ان کو زیادہ حسین نہیں بنا دیتے.وہ لوگ جو خدا کے نور کے بغیر دیکھتے ہیں بعض دفعہ ان کے محبوب ان کو ایسے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں کہ کوئی خرابی کا شائبہ تک ان میں دکھائی نہیں دیتا اور بعض لوگ جوان کے دشمن ہوں ان کو ایسے بدصورت دکھائی دیتے ہیں کہ حسن کا کوئی اشارہ تک ان میں نہیں پایا جاتا.یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے نور سے نہیں دیکھتے کیونکہ خدا کے نور کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف کی نظر سے دیکھیں جو چیز جیسی ہے ویسی دکھا ئیں.اب یہ جو سورج ہے یہ بھی تو خدا کا نور ہے اب دیکھیں سورج ہر چیز کو اپنی اصلیت میں
خطبات طاہر جلد 14 35 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء دکھاتا ہے.جو گڑھا ہے اس کو گڑھا دکھائے گا ، جو پہاڑی ہے اس کو پہاڑی دکھائے گا ، جو کالا ہے اس کو کالا دکھائے گا، جو گورا ہے اس کو گورا دکھائے گا، یہ نور اللہ کی صفات ہیں.تو انسان کو یہ نظر پیدا کرنی چاہئے جو تقویٰ کے بغیر ہو نہیں سکتی اور تقویٰ کی نظر ایسی واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ کسی کونے کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں رہتی اور اس کا نام آنحضرت ﷺ نے فراست رکھا.فراست کی پتا نہیں کیا تعریفیں دنیا نے کی ہوں گی مگر سب سے اعلیٰ اور سب سے روشن تعریف فراست کی یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کے اپنے اصل حال اور صحیح حال کے اوپر دیکھ لے.اپنے مقام اور مرتبے کے مطابق نہ اس میں مبالغہ ہو، نہ کوئی کمی ہو.یہ میچ فراست ہے اور یہ اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.تو اعلیٰ اخلاق پیدا ہوں تو فراست کا پیدا ہونا بھی لازم ہے اور فراست پیدا نہ ہوتو اعلیٰ اخلاق قائم نہیں ہو سکتے اور فراست کا برعکس یہ ہے کہ انسان خدا کے نور سے نہ دیکھے اور یہ روز مرہ کی جو پہچان ہے یہ اگر انسان ذرا بھی غور کرے تو کچھ مشکل نہیں ہے ، ہر انسان اپنے متعلق غور کر کے دیکھ سکتا ہے کہ دیکھیں کتنا کس طرح اس کے جو قریب ہے وہ سب اچھے ہو جاتے ہیں جو اس سے دور ہیں وہ سارے برے ہو جاتے ہیں اور کوئی شخص جو قریب تھا اگر کسی وجہ سے اس سے ناراض ہو گیا تو اچانک اس میں سب برائیاں آجاتی ہیں.یہ اللہ کے نور سے دیکھنے والی بات نہیں ہے.یہ تعصبات کی دنیا ہے اور تعصبات کا نور سے کوئی تعلق نہیں ہے.تعصب رکھنا یہ بدخلقی کی بدترین قسموں میں سے ایک ہے.پس بات آپ کسی حوالہ سے شروع کریں کسی اصطلاح میں کریں و ہیں تو حید پر ہی بات جا کے ٹوٹے گی اگر آپ کے اندر تضادات ہیں تو آپ تو حید سے دور ہیں.اگر آپ کے اندر تضادات ہیں تو آپ کا خلق خدا کے خلق سے دور ہے اور اسی حد تک آپ کے اندر کمزوریاں اور بیماریاں اور نقائص پائے جاتے ہیں.جب تک آپ ان تضادات کو دور نہیں کرتے آپ کا توحید باری تعالیٰ سے تعلق قائم نہیں ہوسکتا اور توحید کے بغیر آپ دنیا میں انقلاب بر پا نہیں کر سکتے.پس خلق کی بلندی در حقیقت توحید ہی کا دوسرا نام ہے.خلق توحید کی طرف لے کے جاتا ہے اور توحید خلق میں ایک نئی جلا پیدا کرتی ہے اور جب تو حید کے اثر سے اخلاق ترقی کرتے ہیں تو کھرے کھوٹے کی تمیز تو رہتی ہے لیکن نا انصافی اڑ جاتی ہے اور کھرے کھوٹے کی تمیز ہوتے ہوئے بھی نا انصافی کا ایک ذرہ دخل
خطبات طاہر جلد 14 36 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء نہیں ہوتا.جو جتنا کھرا ہے اتنا دکھائی دیتا ہے جو جتنا کھوٹا ہے اتنا کھوٹا معلوم ہوتا ہے اور ایسی صورت میں ایک عالمی تعلق کی بنیاد ڈالی جاتی ہے اور آنحضرت ﷺ کو جو کل عالم کے لئے رسول بنا کے بھیجا گیا ہے اس کا گہرا تعلق اس خلق سے ہے جو تو حید کے نتیجے میں آپ کے وجود میں غیر معمولی طور پر صیقل کیا گیا.ایک روشنی کا جہان آپ کے وجود میں سے پھوٹا ہے اور وہ اللہ کا نور تھا اور وہ نو ر تھا جو مشرق اور مغرب میں تمیز نہیں کرتا ، جو شمال اور جنوب میں تمیز نہیں کرتا.دیکھتا سب کچھ ہے اور اپنی اصلی حالت پر ہر ایک چیز دکھاتا ہے لیکن تعصبات سے پاک ہے.یہی وہ حقیقت ہے جس کو سمجھ کر اپنائے بغیر جماعت احمد یہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتی اور جتنی جلد ہم انفرادی طور پر اپنے اندر یہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے اتنی جلد ہم دنیا میں عظیم انقلاب بر پا کرنے کی اہلیت حاصل کر لیں گے اور اس کے بغیر وہ انقلاب ہونا نہیں ہے جہاں مرضی آپ بیٹھے رہیں جس مرضی تصور میں وقت گزاریں.انقلاب کے لئے تبلیغ ضروری ہے اور بعض دفعہ تبلیغ سے کچھ بیعتیں بھی ہاتھ آجاتی ہیں مگر وہ انقلاب نہیں کہلا سکتا جب تک آپ کا حسن خلق آپ کے پیدا کردہ نومبائعین میں سرایت کر کے ان میں بھی اسی حد تک اخلاقی انقلاب پیدا نہ کرنا شروع کر دے اس لئے اس پر بھی راضی نہ ہوں کہ آپ نے تبلیغ کی اور ایک ہزار احمدی ہو گئے یا دس ہزار احمدی ہو گئے.تبلیغ کی روح خلق میں تبدیلی ہے ، اخلاقی انقلاب ہے.اگر آپ کی تبلیغ سے آپ کا اخلاقی انقلاب جو پہلے آپ کے اندر بر پا ہوا ہے دوسروں میں سرایت کر رہا ہے اور اسی جذبے کے ساتھ ان کو اپنے وجود کی نئی شناسائی حاصل ہوتی ہے اور اسی جذبے کے ساتھ وہ شناسائی اللہ کی شناسائی کے ساتھ امتزاج پکڑ جاتی ہے، اس کی ذات میں مل جاتی ہے جب یہ ہوگا تو وہ حقیقی انقلاب کی بنیاد ہوگی.اگر یہ نہیں ہے تو یہی تعداد بعض دفعہ مصیبت کا موجب بن جاتی ہے یعنی نام کے احمدی بن گئے ہیں اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں نہیں پیدا ہور ہیں.نتیجہ یہ لوگ بجائے اس کے کہ آپ کے نام کے لئے عزت کا موجب بنیں یا واقعہ دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی راہ میں ایک مفید وجود ثابت ہوں یہ برعکس نتیجہ ظاہر کرتے ہیں.وہ اپنی بدیوں کو آپ کے اندر داخل کرنے لگ جاتے ہیں ان کی کمزوریاں آپ کے اندر سرایت کرنے لگ جاتی ہیں.آپ ان کو اگر اس طرح Accept کر لیتے ہیں ، اس طرح قبول کر لیتے ہیں کہ ٹھیک ہے نام بدل لیا ، اپنے آپ کو احمدی کہنے لگ گئے تو یہی کافی ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جن برائیوں کے
خطبات طاہر جلد 14 37 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء ساتھ وہ غیر احمدی تھے یا غیر مسلم تھے انہیں برائیوں کے ساتھ ،صرف لیبل ہی بدلا ہے نا، وہ احمدی یا مسلم کہلائیں گے.تو جب آپ نے ان کو اس حیثیت سے قبول کر لیا کہ تمہاری بیماریاں اپنی جگہ رہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو ان بیماریوں کو اپنے وجود میں سرایت کرنے کا موقع دے دیا آپ نے اور باقی سب بھی دیکھ کر یہی سمجھتے ہوں گے کہ ہاں بس صرف نام ہی بدلنا تھا اور کیا فرق پڑنا تھا وہ نام بدل گیا.اس لئے ہم بھی انہیں برائیوں کے ساتھ رہ کر اسی نام کے اندر رہ سکتے ہیں.تو یہ جو منطقی بخشیں ہیں دیکھنے میں تو لگتا ہے کہ بڑی نکتے سے نکتہ نکال کر منطقی بحثیں کی جارہی ہیں مگر یہ منطقی بحثیں نہیں ہیں بالکل حقیقت ہے.وہ شخص جس کو اللہ سے محبت ہے، اللہ سے پیار ہے اس کا خلق خلق خداوندی بن رہا ہے وہ جب کسی میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو راضی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے اندر ویسی ہی پاک تبدیلیاں پیدا نہ ہوں جیسی اس کے اندر پیدا ہورہی ہیں ان تبدیلیوں کی طرف نظر رکھیں ، اپنی ذات میں نگرانی رکھیں کہ آپ کے اندر وہ تبدیلیاں پیدا ہو بھی رہی ہیں کہ نہیں اور جو اچھی بات آپ کے اندر پیدا ہو رہی ہے، جو اخلاق سنور رہے ہیں ، جن کو آپ خدا کے فضل کے ساتھ دعوت الی اللہ کے ذریعے جماعت میں داخل کرتے ہیں لازماً آپ کو دیکھنا ہوگا کہ ان میں بھی وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ نہیں.پس دراصل ہر مبلغ جب تبلیغ میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کا سفر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کے مربی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے وہ پہلے مبلغ بنتا ہے پھر اسے لازماً مربی بنا ہو گا.اگر یہ نہیں کرے گا تو پھر ا سے استغفار کرنی چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے اس سے کچھ ایسے نقصانات جماعت کو پہنچیں کہ اس میں وہ بھی ذمہ دار ہو.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے یہ جو باتیں اخلاق کے حوالے سے میں کھول کھول کر بیان کر رہا ہوں جیسا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی حدیث سے ثابت کیا ہے اخلاق کوئی مذہب سے الگ حیثیت نہیں رکھتے.دہریوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ اخلاق ہی دراصل وہ ہیں جو خدا کی ہستی پر اعتماد کی جان ہیں اگر اخلاق کی طرف دنیا واپس لوٹے تو لازم ہے کہ وہ خدا کی طرف واپس لوٹے گی اور خدا سے جو دور جائے گا اس کا بد اخلاق ہونا ضروری ہے یہ بھی از خود انہوں نے تسلیم کر لیا.پس روس میں جو انقلاب آخر پر جس نہج پر روانہ ہوا اس نے ثابت کر دیا کہ وہ لوگ جو اخلاق سے عاری رہ کر ایک بے خدا نظام کی حفاظت کا دعویٰ لے کر اٹھے تھے وہ کس بری طرح اس
خطبات طاہر جلد 14 38 خطبہ جمعہ 13 جنوری 1995ء میں ناکام رہے ہیں اور اب وہ عمارت مزید منہدم ہو رہی ہے ، مزید اختلافات بیچ میں پیدا ہور ہے ہیں تو آپ کی جو روحانی عمارت ہے اس کی بقاء اور اس کا استحکام اخلاق حسنہ پر بنی ہے اس حسن خلق پر مبنی کہنا چاہئے جو تو حید ہی کا دوسرا نام ہے.وہ حسن خلق جو تو حید کی طرف لے کے جاتا ہے اور توحید اس کے اندر ایک نئی جلا دکھاتی ہے اور اسکے اندر نی قو تیں پیدا کرتی ہے اس حسن خلق کو اپنانے کی کوشش کریں ، اسی کی طرف نگاہ رکھیں ، اپنے گھر میں بھی ، اپنے ماحول میں بھی، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.مجھے لگتا ہے کہ اب جماعت احمد یہ اور اسلام کی فتح کے دن بہت قریب آرہے ہیں مگر اس سے پہلے پہلے جو کچھ ہمیں کرنا ہے لازم ہے کہ میں آپ کو کھول کھول کر دکھاؤں تا کہ پھر یہ نہ کوئی کہہ سکے کہ ہمیں وقت پر متنبہ نہیں کیا گیا.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین
خطبات طاہر جلد 14 39 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء خدا تعالیٰ کے پیار کے برعکس کوئی رعب اپنے دل پر نہ پڑنے دیں.اولاد کے لئے دعاؤں کا خزانہ چھوڑیں.( خطبه جمعه فرموده 20 جنوری 1995 ء بمقام بیتا الفضل لندن ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللهَ فَأَنْسهُمْ اَنْفُسَهُمْ أُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (الحشر: 20:19) پھر فرمایا:.آج کے خطبے میں وہی مضمون جاری ہے جو پہلے چند خطبوں سے جاری ہے لیکن اس سے پہلے میں ایک حدیث کے الفاظ کی صحت کے متعلق اعلان کرنا چاہتا ہوں.جو حدیث میں نے پڑھی تھی جس پر گزشتہ خطبے کی بنا تھی.تین طرح کی روایتیں اس میں ملتی ہیں ایک روایت جو میں نے بیان کی اس میں علی کہا گیا حالانکہ علیٰ نہیں تھا الفاظ ہیں بعثت لاتمم مکارم الاخلاق اگر چه مضمون بعینم وہی رہتا ہے اس میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی وہاں سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اخلاق کی تحسین کا کام شروع کیا جو پہلے ہی مکارم تھے اور مکارم سے اس بات کا آغا ز کیا اور ان کے اتمام کی طرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پاک نمونے سے ایک سفر شروع ہوتا ہے لیکن اس سفر کا آغاز مکارم اخلاق ہی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 40 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء مکارم دراصل کریم کی جمع ہے اور کریم کہتے ہیں جو کسی قوم کا معزز ہو تو سب اخلاق ہی اچھے ہوتے ہیں مگر اخلاق میں سے بھی بعض اخلاق بڑے معزز اخلاق ہوتے ہیں تو ان معزز اخلاق سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا سفر شروع ہوتا ہے جہاں پہلے لوگوں کے سفر ختم ہو جایا کرتے تھے.انچہ چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری یہ بھی ایک اچھا مضمون ہے لیکن اس سے بھی اگلا قدم ہے کہ وہ پہلے خوباں، وہ اچھے لوگ وہ محبوب لوگ جو پہلے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھا گئے.آنحضرت می فرماتے ہیں کہ مجھے مبعوث فرمایا گیا ہے کہ میں ان کو اتمام تک پہنچا دوں.ان میں کرم کے لحاظ سے، اعلیٰ اخلاقی کردار کے لحاظ سے جو کمی رہ گئی ہے میں اس کو پورا کروں.تو مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے بھی یہی باتیں میں مختلف حوالوں سے کہہ چکا ہوں لیکن الفاظ کی درستی ضروری تھی بعثت علیٰ مکارم الاخلاق کے لفظ نہیں ہیں.بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ہے.ایک حدیث میں حسـن الاخــلــق کا ذکر بھی ملتا ہے اور ایک روایت میں صالح الاخلاق کا ذکر بھی ملتا ہے مگر سب سے زیادہ پختہ روایت وہی ہے جو عام طور پر شہرت پا گئی ہے یعنی بعثت لاتمم مكارم الاخلاق یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی تھی یہ عموماً نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے مگر میں کسی نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا نہیں ہوا مگر اس آیت کے حوالے سے وہ سارے جن کے نکاح ہو گئے ہیں یا ہونے والے ہیں یا آئندہ ہوں گے.وہ جن کے نکاحوں کے نتیجے میں اولا دجاری ہو چکی ہے وہ سب میرے مخاطب ہیں لیکن اس مضمون سے پہلے بنگلہ دیش کے اکہترویں جلسہ سالانہ کے آغاز کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کی جماعت چہار بخشی بازار، ڈھا کہ میں اپنے اکہترویں جلسہ سالانہ کے لئے اکٹھی ہوئی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کو مخاطب کر کے میں چند لفظ کہوں.تو میں تمام دنیا کی عالمگیر جماعتوں کی طرف سے ان کو محبت بھر اسلام پہنچا تا ہوں اور اس جلسے کے مبارک ہونے اور برکتوں کے لمبا چلنے کے لئے دعا دیتا ہوں.اللہ کرے کہ ہر پہلو سے یہ جلسہ کامیاب ہو.(آمین) ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے.چھوٹی جماعت
خطبات طاہر جلد 14 41 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء ہے لیکن اس کے باوجود بڑی باہمت جماعت ہے.بہت مخلص اور قربانی کے لئے ہمیشہ ہر وقت تیار اس لئے سب عالمگیر جماعتوں کی دعائیں ان کو ضرور پہنچتی رہنی چاہئیں.اللہ ان کے حالات میں ایسی پاک تبدیلی پیدا فرمادے کہ جس کے نتیجے میں دوسری قوم یعنی احمدیوں کے علاوہ جو بنگالی لوگ ہیں ان کو اللہ عقل دے اور ایسی غلطیوں سے بچائے جن کا خمیازہ پھر ہمیشہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے.خداوالوں کی مخالفت کوئی ایسا اثر نہیں دکھاتی جو آج ہوا اور کل غائب ہو گیا یہ دائماً پیچھے پڑ جاتی ہے اور خود اپنی ہی مخالفت ہمیشہ اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتی جب تک اس غلطی کا پورا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے، پورا انتقام نہ لے لیا جائے.حضرت سید عبداللطیف شہید کا خون دیکھیں کہ کتنے کتنے رنگ دکھلا رہا ہے اور ابھی وہ سلسلہ جاری ہے.آپ نے اپنی شہادت سے پہلے قوم کو متنبہ کیا تھا، یہ خون اس ملک میں نہ بہاؤ کیونکہ اس کی تمہیں بہت بڑی سزا بھگتنی پڑے گی اور اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ بہت بُرے دن تم دیکھو گے اس کے نتیجے میں.تو وہ خون کے چند قطرے جو اس سرزمین پر از راہ ظلم بہائے گئے تھے وہ آج تک بے شمار خون کی ندیاں اور نالیاں بن کر بہتی رہی ہیں اور ابھی وہ سزا معلوم ہوتا ہے پوری نہیں ہورہی.یہ مضمون بھی قابل توجہ ہے کہ خدا چھوٹے جرم کی بڑی سزا کیوں دیتا ہے حالانکہ یہ انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے.دراصل یہ سمجھنے کی غلطی ہے.ایک ظلم کا ایک انداز جب قوم اپنالے تو ساری قوم کو اس کی سزا ملتی ہے اور جب تک وہ ظلم کے اپنائے ہوئے انداز سے خود اپنا پیچھا نہیں چھڑاتی اس وقت تک سزائیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں.تو سزائیں اس بات کی علامت نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پرانے خون کے نتیجے میں وہ انتقام لینا شروع کیا جو اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا.یہ سزا ئیں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ لوگ ابھی تک اسی نہج پر ہیں، ابھی تک ان کے دلوں میں سفا کی ہے اور خدا کے نام پر ظلم کرنے کی سرشت ابھی تک رنگ دکھا رہی ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.یہ مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ سزاؤں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ورنہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر اور کئی قسم کے اعتراض وارد ہوں گے.اب یہود کے متعلق فرمایا کہ ہمیشہ تمہیں دنیا کی طرف سے بھی اور آسمان کی طرف سے بھی عذاب پہنچتے رہیں گے.اگر وہ بنیادی سرشت جس کی سزا یہ عذاب ہیں تبدیل نہ ہوتو ہر وقت وہ
خطبات طاہر جلد 14 42 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء سرشت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک تازہ عذاب کا نمونہ دکھایا جائے.یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پرانی غلطی کے نتیجے میں ان کو سزا دینا بند ہی نہیں کیا ان کی نئی نسلیں پیدا ہوئیں اور پھر ان کو سزادی گئی پھر اور نسلیں پیدا ہوئیں پھر ان کو سزادی گئی.قیامت تک اللہ کے انتقام کی پیاس بجھ ہی نہیں رہی یہ ایک جاہلانہ تصور ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ واضح طور پر قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم ظلم نہیں کرتے بلکہ جن لوگوں سے ہم انتقام لیتے ہیں وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں.تو اس لئے میں بنگلہ دیش کے متعلق یہ دعا کی طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ بعض غلطیاں ایسی قوم کر بیٹھتی ہے جس کے بعد قوم کے لئے ان کا ازالہ ممکن نہیں رہتا اور وہ غلطیاں ایک مستقل رنگ پکڑ جاتی ہیں جس کے داغ دھوئے نہیں جاسکتے.اب پاکستان میں جو حرکت ہوئی احمد یوں کو ایک دفعہ غیر مسلم قرار دیا گیا حالانکہ اسمبلیوں کا کام نہیں تھا.اب اس ظلم اور سفا کی کو کالعدم کرنے کی کسی میں طاقت نہیں رہی اور وہ مستقل ساتھ ایک جاری جرم ہے جو اپنی سزا کے مطالبے ہر وقت کرتا رہتا ہے ہر نئی نسل اس جرم پر صاد کر رہی ہے اور اس کو بدلنے کا تصور بھی کوئی حاکم وقت نہیں کر سکتا.یہ ظلم کی جو جاری صورت ہے، یہ ایک جاری عذاب اور خدا تعالیٰ کی جاری ناراضگی کا مطالبہ کرتی ہے.پس اس پہلو سے اب تک تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بنگلہ دیش کو اس قسم کی حماقت سے باز رکھا ہے اور کئی دفعہ معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ حکومت کچھ کر گزرنے پر تلی بیٹھی ہے.لیکن پھر خدا تعالیٰ وہ تو فیق ان سے واپس لے لیتا ہے یا چھین لیتا ہے.یہ اللہ کا احسان ہے.میری دعا یہ ہے کہ یہ جاری وساری رہے یہ احسان کا طریق.اس قوم کو کسی ایسے جرم کی توفیق نہ ملے جس کے نتیجے میں پھر سزائیں لازماً ان کے پیچھے پڑ جائیں گی.پہلے ہی غریب لوگ ہیں ، مصیبت زدہ ہیں، آئے دن کئی قسم کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے.اوپر سے یہ ظلم بھی اگر وہ سہیڑ بیٹھے تو اس قوم کے لئے بہت بڑی تباہی ہوگی.اسی طرح دوسرے ممالک بھی جہاں اس قسم کی سوچیں ابھرتی رہتی ہیں اور ہر طرف سے عالمی سازشوں کے نتیجے میں اور ممالک میں وہی حرکتیں دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے جو پاکستان میں ہو چکی ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے اور بے وقوفیوں سے باز رہنے کی توفیق بخشے.یہ آیت جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس کا تعلق صرف کسی ایک نکاح سے نہیں
خطبات طاہر جلد 14 43 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء بلکہ ایک جاری مضمون ہے جو صرف مسلمانوں ہی سے نہیں تمام دنیا کے انسانوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے ایک ایسا بنیادی اصول ہے جس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اس کا لفظی یا کچھ با محاورہ ترجمہ تو یوں بنے گا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدِ اور ہر جان اس بات کی نگرانی کرے کہ وہ آگے کیا بھیج رہی ہے ، کل کے لئے آگے کیا بھیج رہی ہے.وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ پھر ہم تمہیں یاد دلاتے ہیں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ وہ جوتم اعمال بجالاتے ہو ان سے واقف ہے ان سے خوب باخبر ہے.یہ مضمون کئی دفعہ بیان ہوالیکن ہر دفعہ بار بار بیان کرنے کا محتاج ہے کیونکہ اس کا قوموں کے عروج اور ان کے تنزل سے یعنی ان کی اخلاقی قدروں کے عروج اور تنزل سے بہت گہرا تعلق ہے.فرمایا ہے تم اس بات کے نگران ہو اور ذمہ دار ہو کہ اپنے بعد پیچھے کیا چھوڑ کر جاؤ گے.کل سے مراد آنے والا کل جو اس دنیا کا کل بھی ہے اور اس دنیا کا کل بھی ہے جو مرنے کے بعد ہم دیکھیں گے.تو لفظ غد نے اس زمین کا بھی احاطہ کیا ہوا ہے اور اگلی دنیا کا بھی احاطہ کیا ہوا ہے اور ان اعمال کا اس دنیا سے بھی تعلق ہے اور اس دنیا سے بھی اور مستقبل میں یہ تعلق قائم رہے گا جو آج ہم اعمال کر رہے ہیں اور ہم سے وہ اعمال رونما ہورہے ہیں.تو ہمارے آج کے اعمال کتنا لمبا اثر دکھائیں گے اور کتنا لمبا اور دیر پا اثر ان کا آئندہ جاری و ساری رہے گا.اس دنیا میں بھی ہماری نسلیں اس اثر کو دیکھیں گی اور آنے والی دنیا میں بھی ہم خود اور ہماری نسلیں اس اثر کو دیکھیں گی.اس لئے بعد میں متنبہ فرمایا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اللہ کو خبر ہے بعض دفعہ تمہیں خبر نہیں ہوتی کہ تمہارے اعمال کے کیا اثرات مترتب ہورہے ہیں.اس کے بعد اگلا پہلو دوسری آیت میں یوں بیان ہوا.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللهَ فَانسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ یہ دراصل نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا ایک اور پہلو ہے، اسی مضمون کا جو پہلے بیان ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو خدا کو بھلا دیتے ہیں فَانْسُهُمْ أَنْفُسَهُمُ تو یہ ان کا خدا کو بھلانا دراصل ان کے اپنے نفس کو بھلانے کے مترادف ٹھہرتا ہے ، اللہ ان کو خود اپنے حال سے بے خبر کر دیتا ہے.یہاں اَنْفُسَهُمُ میں خود ان کی اپنی ذات شامل ہے اور وہ بچے جن کے وہ نگران ہیں ، وہ نسلیں جن کو وہ آگے بھیج رہے ہیں یہ سب اَنْفُسَهُمْ کے اندر داخل ہیں اور قرآن سے یہ
خطبات طاہر جلد 14 44 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء محاورہ ثابت ہے یہاں صرف ان کی ذات نہیں بلکہ ان کی اولادیں ، ان کی آگے آنے والی نسلیں سب لفظ أَنْفُسَهُمُ میں شامل ہیں تو یہ بات ہمیں سمجھائی گئی کہ آئندہ نسلوں کی حفاظت کے لئے اپنے حال سے باخبر رہنا اور خدا تعالیٰ کو یا درکھنا ضروری ہے.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو خدا تمہیں گویا تمہاری اپنی نسلوں کو بھلا دینے کا مرتکب کر دے گا یعنی نتیجہ وہ یہ نکالے گا جیسے تم نے عملاً خود جان بوجھ کر اپنی نسلوں کو بھلا دیا ہے اور ان کے مفادات سے غافل ہو گئے ہو اور بے خبر ہو گئے.یہ مضمون ہے جس کا تعلق ہر نسل کے جوڑ سے ہے اور اس کے راز کو اگر انسان سمجھ جائے تو آئندہ نسلوں کی تربیت کا راز پالے گا.مغربی دنیا میں خصوصیت سے یہ آواز بار بار اٹھتی ہے کہ ہمارے بچوں کا کیا بنے گا.بعض لوگ اپنے بچوں کے متعلق اس وقت بتاتے ہیں جبکہ بات میں دیر ہو چکی ہوتی ہے ، جب معاملہ حد استطاعت سے آگے نکل چکا ہوتا ہے اور عجیب سی بات دکھائی دیتی ہے کہ ماں باپ تو دین پر قائم دکھائی دیتے ہیں ان کے دل میں خواہش بھی ہے کہ نیک رہیں لیکن بچے وہ جن کی آنکھوں سے دین کا تعلق کلیۂ مٹ چکا ہوتا ہے ، وہ اجنبی آنکھیں بن جاتی ہیں.ان کے سامنے وہ بڑے ہور ہے ہیں ان کا رہن سہن ، طرز بود و باش ، ان کی دلچسپیاں بالکل مختلف دائروں سے تعلق رکھتی ہیں یعنی کسی کے گھر میں کوئی اور بچہ پیدا ہو جائے جیسے جانوروں میں تو یہ دکھائی نہیں دیتا مگر اگر مرغی کے بچوں میں بطخ کا انڈہ رکھ دو تو ویسا ہی منظر پیدا ہو گا کہ باقی چوزے مرغی کے چوزے نظر آئیں گے اور ایک بیچ میں بطخ کا چوزہ بھی آجائے گا.تو اللہ تعالیٰ نے جو تربیت کا مضمون ہمیں سمجھایا ہے اس کا یہی نظارہ سامنے آتا ہے کہ اگر تم نے خدا کو بھلا دیا تو پھر تمہاری نسل تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور یوں محسوس ہو گا گویا تم نے خود اپنی نسل کو بھلا دیا ہے.ایسے لوگوں کا جب میں نے جائزہ لیا اور ایک لمبے عرصے سے مجھے اس میں دلچسپی ہے یعنی خلافت کی ذمہ داریاں تو چند سال سے ہیں لیکن جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس مضمون میں مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی کہ بعض نیک لوگوں کے ہاں ایسے بچے کیوں نکل آتے ہیں جو ان کے مزاج کے برعکس مزاج لے کر پلتے ہیں اور ان کی دلچسپیوں کو چھوڑ کر الگ دلچسپیوں میں متوجہ رہتے ہیں ،ان کے دائرے بدل جاتے ہیں جیسے چوزوں کے اندر کوئی بیخ کا بچہ آجائے.وہ Ugly Ducking ہوتے ہیں.ایسے عجیب و غریب مناظر بھی آپ کو دکھائی دیتے ہیں ہم نے
خطبات طاہر جلد 14 45 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء کئی دفعہ خود بھی دیکھا بعض عورتیں مرغی کے انڈوں کے ساتھ مختلف انڈے رکھنے کے شوق رکھتی ہیں اور دیہات میں ایسے واقعات نظر آتے تھے، کسی پرندے کا انڈا اٹھالیا کسی بطخ کا انڈا اٹھالیا تو جو مخلوق پیدا ہوتی ہے وہ عجیب سی مخلوق اٹھ رہی ہوتی ہے.انسانی زندگی میں واقعہ ایسے نظارے دیکھنے میں آتے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے یہ میں آپ کو سمجھاتا ہوں اس آیت کی تشریح میں.وجہ یہ ہے کہ دراصل بچپن ہی سے جب ماں باپ ان بچوں کی دلچسپیوں کے رخ بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خودان سے مرعوب ہوتے ہیں اور اس بات کا حوصلہ نہیں رکھتے ، اعتماد نہیں رکھتے کہ اپنے بچوں کو بتائیں کہ یہ تمہارے رجحانات غلط ہیں ، یہ ادنی ہیں اور اعلیٰ اقدار سے ہٹ کر تم گھٹیا چیزوں کو اپنا رہے ہو.ان کے دل پر ان باتوں کا رعب موجود ہوتا ہے گویا کہ خود تو وہ بے اختیار طور پر خدا کے رستوں پر چلتے رہے یعنی ان کے ماں باپ نے ان کو ڈال دیا مگر دل کی گہرائی میں ان رستوں کی اتنی قدر و قیمت نہیں جتنی باہر کی دنیا کے اطوار کی قدرو قیمت ان کے دل میں جاگزیں ہوتی ہے.خود تو وہ رستہ نہیں بدل سکتے مگر جب اولا دکو اٹھتا ہوا د یکھتے ہیں ان رستوں پر تو اس سے مرعوب ہوتے ہیں.ان کو یہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ اپنے بچے کو کہیں کہ یہ تم نے کس قسم کے پاجامے شروع کر دیئے ہیں، یہ تم نے کس قسم کے گلوں میں ہار ڈال لئے ہیں.بالوں کا رخ کیا بنارہے ہو، پاگل ہو گئے ہو.یہ کیسی بدذوقی کی باتیں ہیں جو تم کر رہے ہو، یہ کہنے کی ان کو ہمت ہی نہیں ہوتی آنکھوں کے سامنے لڑکیاں اپنے پر پرزے نکال رہی ہیں.وہ تنگ جینز پہن رہی ہیں ، بالوں کے حلیے بگاڑ رہی ہیں اور اپنی مرضی سے جہاں چاہیں چلی جاتی ہیں اور ماں باپ کو یہ حوصلہ نہیں کہ ان کو سمجھا سکیں.دراصل وہ پہلے خدا کو بھلا بیٹھے ہیں اگر انہوں نے خدا کو نہ بھلایا ہوتا تو ناممکن تھا کہ اس قسم کے بچوں کو اپنے گھر میں بے روک ٹوک پلنے دیں لیکن چونکہ بنیادی طور پر ان کے ماں باپ نے تربیت ایسی کی ہوئی ہے کہ خود مذہب کی کھلم کھلا بغاوت نہیں کر سکتے اس لئے وہ مذہب رکھتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو لا مذہب بنانے میں مددگار بن جاتے ہیں اور یہ نسل ایسی ہے جو گویا اس آیت کا مصداق بن جاتی ہے وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللهَ فَأَنَسهُمْ أَنْفُسَهُمْ تم نے حقیقۂ خدا کو بھلا دیا خواہ ظاہری طور پر اس کی ذات سے تم پیوستہ ہی رہے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری اولا د آگے خدا کو بھلانے والی ہو جائے گی اور اس پر تمہارا کوئی بس نہیں چلے گا.
خطبات طاہر جلد 14 46 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء ایسے بہت سے نظارے ہم نے دیکھے اور اب بھی دیکھتے ہیں.بعض دفعہ ماں باپ کی طرف سے اطلاع ملتی ہے کہ آپ کو تکلیف تو بہت ہوگی مگر میں مجبور ہوں بے اختیا رہوں میری بیٹی نے عیسائی سے شادی کر لی ہے، میری بیٹی فلاں شخص کے ساتھ آمادہ ہوگئی ہے، کوئی سکھ کے پاس جارہی ہے، کوئی ہندو کے پاس چلی گئی ہے، یہ واقعات جماعت کے تعلق میں بہت شاذ ہیں.لیکن شاذ ہونے کے باوجود چونکہ ایک سفید چادر کے داغ ہیں اس لئے نظروں کو بہت تکلیف دیتے ہیں.ایک ایسی چادر کے داغ ہیں جس پر عموما یہ دھبے دکھائی دیتے نہیں ہیں اور اس کے بعد ان کے ماں باپ کا یہ لکھنا یا پیغام بھیجنا کہ ہم بے بس ہیں اور بے اختیار ہیں ، ہمارا کوئی قصور نہیں ، ہمیں معاف کیا جائے.ان کو میں لکھتا ہوں کہ معافی مجھ سے کیا مانگتے ہو یہ تو اللہ سے معافی مانگنے والی باتیں ہیں.جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے جو لوگ تم سے الگ ہو گئے وہ اپنے ذمہ دار ہیں ان کی سزا تمہیں نہیں ملے گی لیکن قانون قدرت جو تمہیں سزا دے گا اس کی معافی خدا سے مانگو.اس میں میں بالکل بے اختیار اور بے بس ہوں ، مجھ میں طاقت ہی نہیں کہ میں تمہیں معاف کرسکوں اور یہ وہ نظام ہے جو سزا کا ایک جاری نظام ہے.ایسے موقع پر بہت دیر کے بعد ان ماں باپ کو سمجھ آتی ہے کہ ہم نے شروع میں خدا کو بھلائے رکھا تھا کیونکہ یہ ایسے بچے ایک دن میں نہیں بنا کرتے.اچانک مرغی کے انڈوں سے بطخ کے بچے نہیں نکلا کرتے وہ شروع ہی سے ان کی پیدائش کے آغاز ہی سے کچھ باتیں ان کے اندر ایسی داخل ہو جاتی ہیں جو ان کا کریکٹر ہیں اور وہ کریکٹر اچانک نہیں بنتا.یہ ایک لمبا نفسیاتی مضمون ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ جو ماں باپ دونوں اللہ سے محبت رکھتے ہوں وہ اپنے بچے کے آغا ز ہی سے ان کی ایسی حرکتوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں جو ان کو خدا سے دور لے جانے والی ہیں اور وہ وقت جبکہ وہ اثر قبول کرتے ہیں اس وقت وہ اپنی ساری طاقت استعمال کر لیتے ہیں ، دعائیں کرتے ہیں سمجھاتے ہیں، ان کے تعلق ایسے لوگوں سے بناتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ خود بخود محفوظ ہونے لگتے ہیں یعنی ماحول ان کی حفاظت کرتا ہے تو ایسے بچوں کو پھر کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا.پس یہ خیال غلط ہے کہ اچانک واقعہ ہوا ہے.یہ تربیتی کمزوریاں پہلے ماں باپ کے دل میں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ان سے غافل رہتے ہیں تو اَنْفُسَهُمْ کے دونوں معنے صادق آتے ہیں کہ خدا ان کو اپنے نفس کے حالات سے بھی غافل کر دیتا ہے.ان کو پتا ہی نہیں کہ اندرونی طور پر ہم کیا چاہ رہے
خطبات طاہر جلد 14 47 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء ہیں.ایسے بچے اگر نظام جماعت سے تعلق نہ رکھیں تو بہت دفعہ دیکھا ہے کہ ایسے ماں باپ ہیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا.ایسے بچے عموماً اگر لڑکے ہیں مثلاً ان کی آپ تاریخ کا مطالعہ کریں، یعنی ان کے گزشتہ حالات کا ، آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ بچپن ہی سے نہ کبھی اطفال کے کاموں میں ، نہ خدام کے کاموں میں ، نہ مسجد میں آنے جانے کا ان کا تعلق قائم ہوا اور ماں باپ نے دیکھا ہے پرواہ نہیں کی.اس بات پر خوش رہتے ہیں کہ انہوں نے یونیورسٹی میں بہت اچھے نمبر لئے ہیں یا سکول میں غیر معمولی نمبروں پہ کامیاب ہوئے ہیں اور اسی فخر میں رہتے ہیں اور ان کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے ان سے بڑی چیز ان کے گھر میں پیدا ہو گئی ہے، یہ رعب ہے اصل میں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لئے ایک ایسی دعا سکھائی ہے کہ میری تو روح وجد میں آجاتی ہے جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرعہ پڑھتا ہوں اپنی اولاد کے حق میں کہ: نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال (در شین: 48) کہ اے اللہ رعب دجال کو ان کے گھر کے پاس نہ پھٹکنے دینا کیونکہ رعب پہلے آتا ہے پھر انسان کا دشمن ہو جاتا ہے اس سے پہلے نہیں.پہلے ایک نفسیاتی رعب پیدا ہوتا ہے.جس کے دل میں دنیا داریوں کا ، مغربیت کی اقدار کا یا دوسری لامذہب اقدار کا رعب چھا جائے وہ اپنی اولاد کی تربیت کا اہل نہیں رہتا.اس اولا د سے بچپن ہی سے مرعوب رہتا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا میرے پاس ملاقات کے لئے خاندان آیا اور ایک لڑکے نے سنہری زنجیر پہنی ہوئی تھی ، ایک کان میں بندا تھا اور بال بڑھائے ہوئے یا ایک لڑکی نے دوسرے رخ اختیار کئے ہوئے تو میں نے اس کو پیار سے سمجھایا.میں نے کہا تم نے یہ کیا کام شروع کیا ہوا ہے.اب مشکل نہیں تھا مجھ پہ چونکہ رعب نہیں تھا اس لئے میں نے پورے اعتماد سے اس سے بات کی اور اس کو بتایا کہ یہ تو بہت ہی بچوں والی باتیں کر رہے ہو تم.تم سے توقع نہیں ہے آنکھیں بند کر کے ایک قوم کی نقل کر رہے ہو اس میں کوئی بھی حکمت نہیں ہے جاہلانہ بات ہے اور بعضوں نے اسی وقت اتار کے وہ پھینک دیا.ایک بچے نے زنجیر اتاری توڑ کے پھینک دی اس نے کہا مجھے کوئی تعلق نہیں اس زنجیر سے اور ماں باپ سامنے دیکھ رہے تھے ان کو کیوں خیال پہلے نہیں آیا اس لئے کہ خود مرعوب تھے.عورتوں کی طرح بڑھے ہوئے بال ، جب میں نے بتایا یہ تو طریق ہی رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے،
خطبات طاہر جلد 14 48 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء تمہیں مرد پیدا کیا ہے، مردوں والے اخلاق سیکھو اور کر کیوں رہے ہو، فور تو کرو تم نقلیں ماررہے ہو ان کی اور تم بڑے مرعوب ہو گئے ہو.تم نے بچپن میں دیکھا ہے ان لوگوں کو، کبھی ٹیلی ویژن میں کبھی گلیوں میں اور تم سمجھتے ہو کہ بہت زبر دست لوگ ہیں اس طرح بال بڑھالئے اس طرح گئیں بنالیں اور بڑے رعب سے پھر رہے ہیں تو تم مرعوب ہوئے ہو.اور ان کی نقلیں شروع کر دی ہیں.اب یہ بات ایسی ہے کہ ایک دفعہ بھی مجھے مایوسی کا منہ نہیں دیکھنا پڑا.ہمیشہ بچوں نے اچھی Response دکھائی ہے.بعض دفعہ دوبارہ ملنے آئے ہیں صحیح بال بنوا کر اچھے بھلے معقول بچے بیچ میں سے نکل آئے.تو میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ رعب ہے جو مارتا ہے اور دنیا میں بہت سے لوگ مرعوب رہ کر زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا رعب دکھائی نہیں دیتا وہ خود اس رعب سے ناواقف رہتے ہیں جو ان کے اندر ان کی اقتدار پر قبضہ کر چکا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللہ اللہ کو نہ بھلانا.نتیجہ یہ نکلے گا.فَاَنَسهُمْ اَنْفُسَهُم تو ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا ، خدا ان کو ان کے اپنے نفوس کو بھلا دیتا ہے.تو ایک ترجمہ تو اس کا ہے کہ وہ بچے جن کو وہ پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں جو ان کا کل بنائیں گے، ان بچوں کے مفادات سے ان کو غافل کر دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ جو غافل کرنا ہے یہ پہلے خود اپنے حال سے غافل ہوتے ہیں تب وہ بچوں کے حال سے ناواقف ہوتے ہیں.تو یہ آیت دونوں جگہ اپنا عمل دکھا رہی ہے اور حقیقت میں اگر اسلامی یا مذ ہبی اقدار کی فضا میں آپ نے پلنا ہے اور اپنے بچوں کو پالنا ہے تو ایک اس کا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کو یادرکھیں اور غیر اللہ کا رعب دل میں نہ آنے دیں.رعب ہے، اگر آگیا تو پھر آپ مارے گئے پھر آپ کی اولا د آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گی، کسی قیمت پر آپ اس کو سنبھال نہیں سکیں گے لیکن اگر اللہ کی یاد غالب ہے تو دل ایک خاص نشے کی حالت میں رہتا ہے اس یاد سے متصادم چیز یں نظر کو بری لگتی ہیں اور از خود دل وہ فیصلے کرتا ہے جو بچوں کی حفاظت کے لئے مناسب اور ضروری ہیں کیونکہ اللہ سے پیا ر غیر اللہ کے مقابل پر ایک قسم کی الرجی پیدا کر دیتا ہے.وہ اچھا نہیں لگتا دل کو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے غیر اللہ کی حرکتیں دیکھ کر اور غیر اللہ کی حرکتیں بے شمار ہیں کوئی ایک نام ان کا نہیں رکھا جاسکتا لیکن انسان کا شعور اس کو ضرور بتا دیتا ہے کہ یہ اللہ والوں کی ادائیں ہیں یا یہ غیر اللہ کی ادائیں ہیں، ان میں فرق
خطبات طاہر جلد 14 بڑا نمایاں ہے.49 49 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء پس اس پہلو سے سب سے اہم نکتہ تربیت کا جو آپ کو یا درکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اللہ سے سچا پیار رکھیں اور خدا کے پیار سے برعکس کوئی رعب اپنے دل پر نہ پڑنے دیں.یہ ساری چیزیں بے معنی اور بے حقیقت ہیں.میں نے آپ کو بار ہا مثالیں دی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ کی جو اصل شان تھی ، جو نوران میں چمکتا تھا جس نور سے وہ رستہ دیکھتے تھے اور رستہ دکھاتے تھے وہ یہی اللہ کا رعب تھا.غیر اللہ کا کوئی رعب ان کے اوپر اثر انداز نہیں تھا.سادہ کپڑوں میں ، پھٹی پرانی جوتیوں میں، ایسے لباس میں جس کے اندر قمیص کا شلوار سے جوڑ نہیں ،کوٹ کا اندر کے کپڑوں سے جوڑ نہیں، جرا ہیں اور رنگ کی اور سوٹ اور رنگ کے پہنے ہوئے ، کبھی سوٹ بھی پہن لیتے تھے ،کبھی سادہ عام تہبند باندھ کے پھرتے تھے لیکن یہ نظر آتا تھا کہ لباس ان پر اثر انداز نہیں ہورہا.جو لباس پہنتے ہیں اس پر وہ اثر انداز ہو جاتے ہیں.مجنوں سے دشت کو رونق تھی.دشت مجنوں پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا.پس جو بھی وہ لباس پہنتے تھے اس لباس میں اچھے لگتے تھے اور لباس ان سے رونق پاتا تھا اور عزت پاتا تھا.یہ وہ رعب ہے جو خدا کا رعب ہے اگر یہ قائم رہے تو غیر اللہ کا رعب پھٹک نہیں سکتا پاس.پس ان صحابہ کی جوشان ہم نے بچپن میں دیکھی اور ہمیشہ کے لئے دلوں پر نقش ہوگئی وہ یہی شان تھی کہ وہ غیر اللہ سے بے نیاز پھرا کرتے تھے گویا وجود ہی کوئی نہیں ہے اور اس ذات میں مگن، اس خیال میں مگن ان کی نسلوں کی اچھی تربیت ہوئی مگر بعض اوقات استثناء وہاں بھی دکھائی دیئے.وہ استثناء بھی بعض بنیادی تعلیمات سے غافل ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئے.بعض دفعہ ایک نیک آدمی نیکی میں اتنا انہماک کر لیتا ہے کہ وہ دوسرے حقوق ادا نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں تو ساری عمراب روزے رکھنے کا فیصلہ کر چکا ہوں.ایک نے کہا کہ میں اتنی نمازیں پڑھا کروں گا ساری رات جاگا کروں گا وغیرہ وغیرہ.ہر موقع پر آنحضرت ﷺ نے ان کو منع فرمایا اور کہا کہ تم زبر دستی خدا کو خوش نہیں کر سکتے تم اپنا نقصان اٹھاؤ گے، خود اپنا نقصان کرو گے اور فرمایا تمہارے بیوی بچوں کا بھی تم پر حق ہے ان کا بھی خیال کرو.صل الله
خطبات طاہر جلد 14 50 50 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بعض لوگوں کی آپس میں دوستی تھی اور جب وہ ایک موقع پر کھانے پر گئے تو بیوی کو بہت برے حال میں دیکھا تو ان صاحب نے حضرت سلمان فارسی کے متعلق روایت ہے انہوں نے پوچھا بیوی سے کہ کیا بات ہے، تمہارا خاوند ہے تم اس برے حال میں کیوں ہو.اس نے کہا میرا خاوند جیسا ہو ویسا نہ ہوا اس کو تو میری ذات میں کوئی دلچسپی نہیں.وہ تو خدا کا ایسا ہو چکا ہے کہ بندوں کی کوئی ہوش ہی نہیں.پھر ایک لمبی حدیث ہے میں آپ کو سناؤں گا بعد میں.آخر کار حضرت سلمان فارسی نے اس کو سمجھایا اور کہا کہ یوں نہیں ہوگا.تمہیں خدا کا بھی حق دینا ہے بندے کا بھی حق دینا ہے اور اگر نہیں دو گے تو نقصان اٹھاؤ گے جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ پیش ہوا تو آپ نے پوری طرح اس کو صاد کیا حضرت سلمان فارسی کی اس نصیحت کو اور فرمایا بالکل ٹھیک کیا ہے.اب ایسے بزرگ بھی ہم نے دیکھے تھے جو دین کے معاملے میں ایسے منہمک ہو چکے تھے کہ ان کو اپنے بیوی بچوں کی ہوش ہی نہیں تھی.نتیجہ بعض دفعہ بعضوں کی بیویوں کی کمزوریاں ہوئیں، بعض ہم لوگ جانتے ہیں کہ ایسے خاندانوں سے آئی ہوئی تھیں جن میں احمدیت کا گہرا اثر نہیں تھا اور بعض لا ہوری مزاج لوگوں کے زیر تربیت تھیں یا ان کے زیر اثر تھیں تو ان کی اولا دوں کو نقصان پہنچا ہے.لیکن بنیادی طور پر ایک کمزوری ان کی اپنی بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت کو پیش نظر نہیں رکھا لہ اپنے گھر سے تعلق رکھنا، اپنے گھر کے حقوق ادا کرنا یہ دین کا حصہ ہے، اس کو دین سے الگ نہیں کیا جاسکتا مگر ایسے بہت کم استثناء ہیں.اکثر وہ لوگ ہیں جن کے بچوں نے اگر عارضی طور پر کچھ عرصہ دین سے بے رغبتی کے نمونے دکھائے بھی تو بلا استثناء پھر وہ لوٹ کر آخر دین ہی میں پہنچے اور سب کے انجام نیک ہوئے.بعض شرارتی بھی تھے، بعض ٹوڈی بھی کہلاتے تھے کئی قسم کی حرکتیں کیا کرتے تھے، جوانی کے اثرات بھی تو ہوتے ہیں لیکن انجام کا ربہت صالح ، بہت بزرگ ، بہت خدا کے دین کی خدمت کرنے والے بننے کے بعد پھر ان کی وفات واقع ہوئی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعائیں قبول کیں کہ جب تک ہمیں نیک لوگوں میں شامل نہ فرما ہمیں مارنا نہیں اور یہ دعا بعض دفعہ انسان خود اپنے لئے مانگتا ہے تو پوری ہوتی ہے بعض دفعہ اس کے ماں باپ نے اس کے لئے مانگی ہوتی ہے.تو دوسرا پہلو دعا کا ہے.وہ دعائیں بھی ہیں جو بعض دفعہ دور جاتے ہوئے بچوں کو واپس کھینچ لاتی ہیں.ایسے رسوں سے وہ جکڑے جاتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتے اور قرآن کریم نے جو آسمان
خطبات طاہر جلد 14 51 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء کے نظام کے استقرار کا ذکر فرمایا ہے اس میں ایسے ہی رسوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایسے ستونوں سے ہم نے ان کو باندھ رکھا ہے یا ان ستونوں پر قائم رکھا ہے تم ان کو دیکھ نہیں سکتے.تو یہ الہی نظام ہے جس میں پاک لوگوں کی اولادوں کو بھی خدا بالآخر ایسے رسوں سے جکڑ دیتا ہے کہ اپنے مدار سے باہر نکل نہیں سکتے اور یہ دعاؤں کے رسے ہیں بہت دور تک یہ اپنا کام دکھاتے ہیں.پس اگر وقتی طور پر کسی سے غلطی ہو بھی جائے اور وہ بعض باتوں میں جان کر یا غفلت یا لاعلمی کے نتیجے میں اپنی اولاد کے مفادات کے تقاضے نہ پورے کر سکے تو دعا ئیں اس کا سہارا بن جاتی ہیں اور دعاؤں کے نتیجے میں پھر ایسے بچے ایک حد سے آگے بدکنے کی توفیق نہیں پاتے کیونکہ وہ رسے وہ ہیں جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہے مگر موجود ہیں اور یہ دعاؤں کے رسے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر اس مضمون کو خوب کھول کر بیان فرمایا آپ سے ایک شکایت کی گئی کہ ایک شخص ہے جو اپنی اولاد پر تربیت کے معاملے میں بہت سختی کرتا ہے، ناواجب سزائیں دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اتنا اس پر ناراض ہوئے کہ شاذ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے غصے کی حالت میں دیکھا گیا ہے.آپ نے فرمایاوہ شرک کرتا ہے، اس کے اختیار میں ہے تربیت کرنا ؟ یعنی جہاں تربیت سے غفلت ہو وہ بھی گناہ ہے لیکن تربیت کو اپنے ہاتھ میں سمجھ لینا چاہے ڈنڈے کے زور سے کی جائے یہ بھی ناجائز اور یہ بھی شرک کے مترادف ہے.آپ نے فرمایا اس کو چاہئے کہ دعا کرے یعنی اگر تربیت کے بعد جو مناسب حقوق ہیں تربیت کے وہ ادا کرنے کے بعد پھر بھی کچھ کمی رہ جاتی ہے تو وہ خدا نہیں ہے پھر دعا کرے اور پھر دیکھے کہ دعا اثر دکھائے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی بھی اپنی تربیت پر بنانہیں کی اس کثرت سے دعائیں کی ہیں بلکہ پیدائش سے بھی پہلے دعائیں شروع کر دیں کہ ان کے نتیجے میں جو کمیاں رہ گئی تھیں اللہ خود پوری کرتا رہا ہے.بہت سے ایسے ابتلاء کے دور آئے ہوں گے کئی قسم کے ایسے صدمے پہنچے ہوں گے جو دین پر بھی بداثر ڈالتے ہیں مگر خدا نے بچایا ہے اس لئے کہ آپ کی اولاد آپ کی دعاؤں کے حصار میں رہی ہے.جیسے قلعہ کی فصلیں ہوتی ہیں وہ اندر رہنے والوں کو بچاتی ہیں اس طرح دعائیں بھی بعض دفعہ قلعہ کی دیواریں بن جایا کرتی ہیں اور وہ بھی وہی دیواریں ہیں جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کے اثرات ہم نے دیکھے ہیں.جو چیزیں آنکھ
خطبات طاہر جلد 14 52 52 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء سے دکھائی نہیں دیتیں ان کے متعلق یہ سمجھ لینا کہ وہ ہیں نہیں ، یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں.آج کل تو واقعہ سائنس ایسی چیزیں دریافت کر چکی ہے کہ جو نہ دیکھنے والی چیزیں ہیں ان میں بہت زیادہ طاقتور چیزیں بند کی جاسکتی ہیں.Magnatic Field کے اندر ایسے Crucibles بنائے گئے ہیں یعنی جن میں بہت زیادہ گرمی پیدا کر کے بعض دھاتوں کو پگھلایا جاتا ہے کہ جن کو عام جو برتن ہیں مادہ چیزوں کے وہ ان کو سنبھال ہی نہیں سکتے.ان کی گرمی سے وہ پگھل جائیں اور ختم ہو جائیں لیکن وہ جو برتن ہیں وہ مقناطیسی طاقتوں کے برتن ہیں جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے اور ان کے اندر وہ چیزیں مضبوطی سے قائم رہتی ہیں اور ان برتنوں کے اندر ان کو اتنا زیادہ گرم کیا جاسکتا ہے کہ مادی چیز کے متعلق آپ خواب میں بھی یہ تصور نہیں کر سکتے تو دیکھنے میں وہ چیز دکھائی نہیں دے رہی لیکن بڑے مضبوط ستون ہیں ساری کائنات کا بوجھ ان ستونوں نے اٹھایا ہوا ہے اور ایسے برتنوں میں جو جدید ترین تجارب ہیں جو عام مادی چیزوں میں ممکن نہیں وہ ایسے برتنوں میں ہورہے ہیں.تو اس لئے دعا کے متعلق کوئی بے وقوف یہ سمجھ لے کہ ہم فرضی باتیں کر رہے ہیں دعا کی ایک دیوار بن گئی ، دعا کا ایک قلعہ تعمیر ہو گیا وہ سوچنے والا بے وقوف اور قدیم انسان ہے.ہم نہیں.ہم نے تو خدا کی ظاہری کائنات میں بھی ایسی حیرت انگیز چیزیں دیکھی ہیں کہ اس کی روحانی کائنات میں ان کا عدم متصور ہی نہیں ہوسکتا.وہی خدا ہے جس نے روحانی کائنات بنائی ہے.جب اس کی مادی کائنات میں ہم عجائبات دیکھتے ہیں تو یہ خیال کر لینا کہ اس کی روحانی کائنات عجائبات سے خالی ہے بہت بڑی بے وقوفی ہے.تو ایسے لوگوں کو اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں مگر اس وقت کرنی چاہئیں جب دعا کے وقت ہوتے ہیں، جب پانی سر سے گزر جائے تو ایک قسم کی موت واقع ہو جاتی ہے اس وقت اعجازی طور پر اللہ چاہے تو جو چاہے دکھا دے مگر عام قانون یہی ہے کہ جو شخص جس طرح خدا سے تعلق رکھتا ہے اس کی اسی حد تک سنی جاتی ہے اور ہر شخص کے لئے اعجاز نہیں دکھائے جاتے.وقت کے اوپر آپ علاج شروع کر دیں تو وہ مرض جو بعد میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے وہ بھی قابو میں آجائے گا اور وقت کے بعد علاج شروع کریں تو شاذ کے طور پر کبھی ہزار دس ہزار، لا کھ میں سے ایک ایسا بھی ہوتا ہے جو پھر بھی قابو آجاتا ہے.مگر یہ غیر معمولی خارق عادت بات ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ
خطبات طاہر جلد 14 53 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء مضمون ہمیں خوب کھول کر سمجھا دیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ روزمرہ کی دعائیں جو تم کرتے ہو ان کی مقبولیت کا انحصار تمہارے روز مرہ کے اللہ سے تعلق پر ہے.تم عام تعلقات اللہ سے رکھتے ہو تو دعاؤں کا جو مضمون ہے وہ بھی عام طریق پر تمہارے حق میں جاری ہوگا دعاؤں کے فیض بھی تمہیں اسی حد تک ملیں گے جس حد تک تمہارا خدا تعالیٰ سے ایک روزمرہ کا تعلق ہے.پس یہ روزمرہ کے تعلق والی دعائیں تو اکثر احمدیوں کو نصیب ہیں مگر یہ اس وقت اثر دکھائیں گی جبکہ مرض ابھی حد اختیار کے اندر موجود ہے.وہ پانی جب سر سے گزر جائے گا پھر خارق عادت دعائیں ہیں جو کام کرتی ہیں اور وہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں جن کا اللہ سے تعلق خارق عادت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ عجیب اور بار یک در بار یک مضامین بیان فرمائے ہیں کوئی دنیا کا صحیح الدماغ انسان ، جس کو ادنی بھی شعور ہولطیف باتوں کا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان تحریروں کو دیکھ کر آپ کی صداقت کے بغیر کوئی اور فتویٰ جاری کر ہی نہیں سکتا.وہ لازماً آپ کی صداقت کا قائل ہوگا کیونکہ یہ مضامین وہ ہیں جو صاحب تجر بہ کو نصیب ہوا کرتے ہیں باہر کی آنکھ سے دیکھنے والے کو کبھی عطا ہی نہیں ہوتے ، ان تک اس کی رسائی ہی نہیں ہوا کرتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان باتوں کو اپنے روزمرہ کے معمول میں دیکھا، شناخت کیا اس کے علاوہ دوسرے نمونوں سے ان باتوں کے مواز نے کئے اور پھر اپنے عرفان کا ماحصل ہمارے سامنے کتنا آسان بنا کر اس طرح پیش فرما دیا کہ ہماری مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بغیر وہاں تک رسائی ممکن ہی نہیں تھی.خارق عادت کا مضمون دیکھیں کیسے عجیب طریق سے سمجھایا ہے.آپ نے فرمایا ہے، خارق عادت سے مراد یہ ہے کہ عام طبعی قانون کی حد سے کوئی چیز با ہر نکل جائے اور خدا کی قدرت کاملہ کے دائرے میں موجود رہے.ویسے تو ہر چیز خدا کی قدرت کاملہ کے دائرے میں موجود ہے مگر اس حوالے سے اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کی قدرت کاملہ نے بعض قوانین کے دائرے چھوٹے رکھے ہیں، بعض وسیع رکھے ہیں ، بعض بالا ، بعض نچلے.عام حالات میں ایک دائرے میں ایک قانون حرکت کر رہا ہے اور اس دائرے میں اس قانون میں جتنی استطاعت ہے وہ اتنا اثر دکھا سکتا ہے اس سے بڑھ کر اثر نہیں دکھا سکتا.اگر معاملہ اس دائرے سے باہر نکل چکا ہو تو بالائی دائرے کا قانون ہے جو حرکت میں آئے تو اس کو درست کر سکتا ہے ورنہ نہیں کر سکتا.
خطبات طاہر جلد 14 54 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء فرمایا کہ خدا کے بندے بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنے روزمرہ کے تعلقات میں اللہ تعالیٰ سے عام بندوں کی طرح معاملہ نہیں کرتے بلکہ عام بندوں کی عادت کے برعکس معاملہ کرتے ہیں.لوگ کہتے ہیں اس کو کیا ہو گیا ہے ، یہ تو پاگل ہو گیا ہے.اللہ کی خاطر عجیب وغریب باتیں کر رہا ہے.وہ مفادات جن کو کوئی دیکھ کر سمجھ کر چھوڑ نہیں سکتا ان مفادات کو اس طرح چھوڑتے ہیں کہ عام طاقتوں کا انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.ظاہری طور پر اپنے مخالف فیصلے کرتے ہیں مگر خدا کی گہری محبت کے نتیجے میں مجبور ہو کر ایسا کرتے ہیں، اس کو مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام فرمار ہے ہیں خارق عادت تعلق.عام دنیا کے نیک آدمی بھی ایک تعلق اللہ سے رکھتے ہیں، روزمرہ قربانیاں دیتے ہیں مگر وہ تعلق خارق عادت نہیں ہے.انسانوں میں ایسے تعلق ہر جگہ ملتے ہیں.جہاں وہ تعلق انسانوں کے دائرے سے بڑھ کر دکھائی دے وہ وہ دائرہ ہے جسے خارق عادت کہا جاتا ہے ، عادت کے برعکس، عادت کو تو ڑ کر ایک نئے دائرے میں داخل ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب خدا کا ایسا بندہ مشکل میں آتا ہے تو خدا کے قانون کے دائرے توڑے جاتے ہیں اور خدا ان قوانین کو وہاں جاری کرتا ہے جو پہلے سے موجود تھے مگر ایک اور وسیع تر دائرے سے تعلق رکھتے تھے.تو عام قانون کے دائرے پھاڑ دیئے جاتے ہیں اور ایسے بندے کے لئے خدا خارق عادت نمونے دکھاتا ہے.تو ناممکن تو نہیں ہے، ہم دنیا میں خدا کے غیر معمولی بندوں میں یہ باتیں دیکھتے ہیں مگر روزمرہ کے طور پر یہ واقعات نہیں ہوتے اور جن کے حق میں ہوتے ہیں ان کی عادتیں روز مرہ والی نہیں ہوتیں، ان سے مختلف ہوا کرتی ہیں.تو میں تو ایک عام تربیت کے حوالے سے آپ کو سمجھا رہا ہوں دعاؤں کے اوپر وہ انحصار نہ کریں جو دعائیں آپ کی طاقت سے باہر ہیں.روز مرہ کی تدبیریں اور روزمرہ کی دعاؤں کا آپس میں تعلق جاری وساری ہے.اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے اس وقت دعا ئیں کریں جب عام طور پر یہ دعائیں سنی جانی چاہئیں اور دعا ئیں عام طور پر سنی جانے کا ایک راز یہ ہے جو خارق عادت نہیں بلکہ عام عادت کا حصہ ہے کہ جب آپ خدا کے پاس اس وقت جاتے ہیں جب یہ مشکل ابھی پڑی نہیں ہوتی اس سے محبت کی باتیں کرتے ہیں، اپنا تعلق بناتے ہیں اور آئندہ آنے والی مشکلات
خطبات طاہر جلد 14 55 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء سے پناہ مانگتے ہیں تو یہ جو تعلق ہے یہ بے لوث تعلق کہلاتا ہے.مصیبت تو ابھی پڑی کوئی نہیں ، جب مصیبت پڑ جائے اور آپ دوڑے دوڑے جاتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ مصیبت مجبور کر کے گھیر کے خدا کے پاس لے گئی ہے اور مصیبت نہ پڑی ہو اور جائیں اور پھر سوچیں کہ یہ مصیبت پڑ بھی سکتی ہے تو یہ درخواست بھی عرض کر دیں کہ اے خدا اس قسم کی مصیبتوں سے ہمیں بچا تو وہ دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.اسی لئے اولاد کے حق میں وہ دعا ئیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں جو ان کے پیدا ہونے سے پہلے کی جاتی ہیں اور تعلق باللہ کی خاطر محض اس لئے مانگی جاتی ہیں کہ میرے بچے تیرے رہیں کسی اور کے نہ بن جائیں.یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کو نہیں بھلاتے اور ان کی اولا دیں پھر بھلائی نہیں جاتیں نہ بندوں کی طرف سے بھلائی جاتی ہیں نہ خدا کی طرف سے بھلائی جاتی ہیں.پھر جب بچپن میں آپ ایسے اثرات دیکھتے ہیں تو وہ وقت ہے تشویش کا اور اگر پیدائش سے پہلے دعائیں نہ بھی مانگی گئی ہوں تو بیماری کے آغاز ہی میں انسان حساس ہو جائے اور احساس کی وجہ یہ ہو کہ اللہ سے تعلق کے معاملے میں بچے دور ہورہے ہیں، وہ تعلق کمزور پڑ رہا ہے تو یہ بھی بے لوث دعاؤں کے دائرے میں آئے گا کیونکہ در حقیقت آپ کی محبت جو بچوں کے لئے ہے اور آپ کی محبت جو اللہ کے لئے ہے یہ دونوں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں اور ایسے موقع پر ان بچوں کے حق میں آپ کی دعا ئیں زیادہ اثر دکھا ئیں گی.تو جب بھی بیماری کے آغاز دیکھیں اس وقت خدا کی طرف متوجہ ہوں اور یہ بھی ممکن ہے اگر غیر اللہ کا رعب آپ کے دل میں نہ ہو.اگر غیر اللہ کا رعب آپ کے دل میں پڑ جائے تو ان دعاؤں کی توفیق ہی نہیں ملتی.دل سے وہ ہوک اٹھتی ہی نہیں ہے جو آسمان تک جایا کرتی ہے.وہ ہوک تب اٹھتی ہے جب انسان خدا کے پیار میں مبتلا ہو اور اس کے برعکس با تیں دیکھے اور اپنا بس نہ چلے پھر وہ آہ دل سے اٹھتی ہے جو ایک مقبول دعا بن کے عرش کے کنگرے ہلا دیا کرتی ہے.تو اپنی اولاد کو بچپن ہی سے یادرکھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ بچپن ہی سے اللہ کو یا د رکھیں یا اپنی زندگی میں خدا کو یا درکھیں تو آپ کی اولا د پر بھی وہ یا اثر انداز ہوگی اور آپ کو اچھی تربیت کی تو فیق ملے گی اور پھر آپ کے مرنے کے بعد بھی یہ دعا ئیں کام آئیں گی.اب یہ جو کل کا مضمون ہے وہ اس دائرے میں آکر اس طرح مکمل ہوتا ہے جب تک آپ زندہ ہیں اس وقت تک تو کل کی فکر کر سکتے ہیں مگر خدا نے تو آپ کو متنبہ کیا ہے کل کے اس انجام سے بھی جو قیامت تک جاری وساری ہے.اس کل
خطبات طاہر جلد 14 56 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 1995ء سے بھی متنبہ کیا ہے جو آپ کے مرنے کے بعد پھر کسی وقت آئے گا.تو اس کل کے نگران آپ ہو کیسے سکتے ہیں محض اپنے اعمال پر بھروسہ کر کے.ایک ہی رستہ ہے کہ اس ذات سے تعلق قائم کریں جس پر کوئی فنا نہیں ہے جو آج کا بھی مالک ہے اور کل کا بھی مالک ہے.اس دنیا کے کل پر بھی اس کا قبضہ ہے اور اُس دنیا کے کل پر بھی اس کا قبضہ ہے.وہ دعائیں ، وہ نہ نظر آنے والے رستے بن جائیں گے جو آئندہ آپ کی اولاد کو پھر ان کی اولا دکو پھر ان کی اولاد کو ہمیشہ سنبھالتے چلے جائیں گے.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جو سب سے پہلی بات اپنی اولاد کو اکٹھا کر کے کہی تھی بڑی قیمتی بات ہے.وہ بتاتی ہے کہ کس طرح آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی دعاؤں پر گہرا ایمان تھا اور مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر ایک عظیم ثبوت ہے.جب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا ہے تو ظاہری طور پر دنیا کے لحاظ سے وہ گھر خالی تھا.حضرت اماں جان نے بچوں کو اکٹھا کیا اور کہا دیکھو بچو تمہیں دنیا کے لحاظ سے کچھ دکھائی نہیں دے گا مگر یہ گمان نہ کرنا کہ تمہارے باپ نے تمہارے لئے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا وہ دعاؤں کا ایسا خزانہ چھوڑ کے گیا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا.تمہیں بھی ملے گا تمہاری اولادوں کو اور ان کی اولادوں کو اور ان کی اولادوں کو ملتا چلا جائے گا.یہ لا متناہی خزانہ ہے جو کبھی کسی باپ نے ایسا خزانہ کم ہی چھوڑا ہوگا جیسا تمہارے باپ نے تمہارے لئے چھوڑا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس بات کو بیان کیا.حضرت پھوپھی جان سے میں نے سنا.ان دونوں سے تو مجھے یاد ہے اور ایسے وجد کی حالت میں وہ بیان کیا کرتے تھے کہ دیکھو کیسی عظیم بات تھی اور کتنی سچی بات تھی.اس سے بڑا حوصلہ، اس سے بڑا سہارا مل نہیں سکتا تھا مگر وہ نظر آنے والا خزانہ تو نہیں تھا.وہ دعاؤں کے رسوں میں بندھا ہوا ایک ایسے Crucible میں موجود تھا.نہ وہ Crucible ، نہ وہ برتن دکھائی دے رہا تھا نہ اس کے اندر کیا ہے وہ دکھائی دے رہا تھا.لیکن ایمان کی دولت سے ،ایمان کی آنکھ سے ان کو دکھائی دینے لگا تھا.جانتے تھے کہ یہ سچی بات ہے اور آج ہم نے دیکھا ہے کہ یہ بات سچی نکلی.ہماری نسلیں بھی دیکھیں گی کہ یہ بات سچی نکلی لیکن اس خزانے کے مالک سے تعلق نہیں تو ڑنا
خطبات طاہر جلد 14 57 خطبہ جمعہ 20 جنوری 1995ء جس نے یہ خزانہ عطا کیا ہے کیونکہ وہی اصل ضمانت ہے.وہ لوگ جن کی نظریں خزانوں پر ٹھہر جاتی ہیں اور خزانے دینے والوں سے تعلق توڑ لیتے ہیں پھر آئندہ ان کی نسلوں کی کوئی ضمانت نہیں ہوا کرتی.پس اپنی ان نسلوں پر رحم کریں جو آپ کی آنکھوں کے بند ہونے کے بعد بھی پھر اس دنیا میں کئی قسم کی ضرورتوں میں محتاج رہیں گی.کئی قسم کی مصیبتوں میں ان کو سہاروں کی ضرورت پڑے گی ،ان نسلوں کی طرف توجہ کریں جو قیامت تک آپ کی نسلوں سے پیدا ہونے والی ہیں اور پھر اس کال کی فکر کریں جو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت کے بعد آئے گا مگر ضرور آئے گا اور وہ ایسا کل ہے کہ اس کے سامان آج اگر ہم نے کر لئے تو ہوں گے، اس وقت سامانوں کا وقت گزر چکا ہوگا.پس کوشش سے بھی اور دعاؤں کے ذریعے بھی اللہ کی محبت کے بندھن میں اپنے آپ کو جکڑتے ہوئے وہ دعاؤں کے بندھن تعمیر کریں جو نظر تو نہیں آتے مگر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو بھی وہ لپیٹ سکتے ہیں اور ان کے دائرے سے نکل کر باہر جانے کی کسی کو استطاعت نصیب نہیں ہو سکتی.ان رسوں سے جکڑ کر اپنی اولا د کو سچے رستوں پر قائم کریں.یہی ان کی حفاظت کا بہترین سامان ہے جو آپ کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
58 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 59 59 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء رمضان سے اس حالت میں باہر نکلو کہ اس کی برکتیں تمہارا ساتھ نہ چھوڑیں بلکہ قدم قدم تمہارے ساتھ آگے بڑھیں.( خطبه جمعه فرمودہ 27 جنوری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَاَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّا مَا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا الله عَلى مَا هَدُ بكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَانِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة: 184 تا 187)
خطبات طاہر جلد 14 60 60 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء پھر فرمایا:.یہ وہ چار آیات ہیں، جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اور ان کا تعلق رمضان مبارک سے ہے.پہلے بھی ان آیات پر کئی بار گفتگو ہو چکی ہے.اس وقت میں خصوصیت سے اس کے آخری حصہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ كه جب تجھ سے میرے بندے میرے بارہ میں پوچھیں تو میں قریب ہوں.یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ان کو جواب دے کہ میں قریب ہوں.گویا براہ راست جواب دیا جا رہا ہے کہ میں قریب ہوں أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں دعوت کرنے والے یعنی پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارے فَلْيَسْتَجِيبُوا میں یہ مضمون شامل ہے کہ جب میں اسے کچھ کہوں تو وہ بھی قبولیت کے ساتھ ، اس بات پر عمل کرتے ہوئے اس کا جواب دے.وَلْيُؤْمِنُوا بِی اور یہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ ہدایت پائیں اور حقیقت، سچائی کا راستہ پالیں.يَرْشُدُونَ میں عقل بھی شامل ہے، ہدایت بھی شامل ہے، ہر درست بات يَرْشُدُونَ کے تابع بیان ہو سکتی ہے، تو وہ عقل حاصل کریں.اپنے لئے جو بھلائی کی باتیں ہیں وہ سمجھ سکیں اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق پائیں.رمضان مبارک اس پہلو سے بہت ہی اہم مہینہ ہے کہ اس میں تمام شریعت کے احکامات اجتماعی طور پر اپنے عروج کو پہنچ جاتے ہیں اور تمام احکامات جس انہماک کے ساتھ ، جس خلوص کے ساتھ ، جس محنت کے ساتھ بجالائے جاتے ہیں جیسا اس مہینے میں ہوتا ہے ویسا اور کسی مہینے میں نہیں ہوتا.گویا کہ گہری مشق کا مہینہ ہے.بعض دفعہ فوجوں کو واپس رجمنٹ سنٹر میں بلایا جاتا ہے باری باری تا کہ ایک دو مہینے جتنے بھی مقرر ہیں وہ خصوصیت کے ساتھ ان سب باتوں کی دوبارہ تربیت لیں جن کی پہلے تربیت دی جا چکی تھی.تو رمضان کا مہینہ ایک رجمنٹل سنٹر کا کام کرتا ہے جہاں مومنوں کو دوبارہ بلایا جاتا ہے اور سہ بارہ بلایا جاتا ہے جب تک زندہ ہیں ہر سال ان کو اس مہینے میں سے گزرنا ہوگا اور اس مہینے کا جو آخری پھل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ مجھے پکارتے ہیں میں ان کا جواب دیتا ہوں.پس شرط یہ ہے کہ وہ بھی میری باتوں کا جواب دیں.یہ پہلو بہت ہی اہم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بہت کم ایسے ہیں، شاذ ہی کوئی ایسا ہوگا، جو اللہ کی ہر بات کا اس رنگ میں جواب دے کہ اس کے
خطبات طاہر جلد 14 61 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء ہر فرمان کی اطاعت کرتا ہوا، لبیک کہتے ہوئے ، اس کے حضور حاضر ہو.اس راہ میں ہر انسان کی کمزوریاں حائل ہو جاتی ہیں، اس کی غفلتیں ، اس کی کوتاہیاں ، اس کی لغزشیں اور انبیاء سے نیچے نیچے جتنے طبقے کے بھی نیک لوگ ہیں ان میں بھی بار ہا لغزشیں دکھائی دیتی ہیں.ان کو نہیں دکھائی دیتیں جو غیب کی نظر سے ان کو دیکھ رہے ہیں لیکن خود ان کو اپنی ذات میں دکھائی دے رہی ہوتی ہیں اور ان میں بھی پھر مختلف مدارج ہیں.ایک شخص اپنی ذات کا زیادہ شعور حاصل کر لیتا ہے اور وہ اپنے گنا ہوں سے زیادہ واقف ہوتا چلا جارہا ہے.ایک شخص نسبتا کم شعور رکھتا ہے وہ اسی حد تک اپنے گناہوں سے کسی حد تک غافل رہتا ہے.جب یہ شعور پوری طرح بیدار ہو جائے تو اتنی قوی طاقت ہے کہ انبیاء بھی اپنے حال پر نظر کرتے ہیں تو ان کو کمزوریاں دکھائی دینے لگتی ہیں اور وہ بھی دن رات استغفار میں مشغول ہو جاتے ہیں.پس باوجود اس کے کہ انبیاء ہر معیار کے مطابق معصوم ہیں لیکن اندرونی آنکھ جب روشن ہو جائے تو ایسی روشن ہو جاتی ہے کہ معمولی سا داغ ، معمولی سانقص بھی کسی اندھیرے میں چھپارہ نہیں سکتا.کھل کر ہر چیز دکھائی دینے لگتی ہے اور استغفار کا تعلق اس مضمون سے بہت گہرا ہے اور یہی ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.استغفار کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ انسان ڈھانپنے کے لئے اللہ سے التجا کرے کہ یہ تنگ بھی میرا ظاہر ہو گیا، یہ منگ بھی ظاہر ہوگیا، اسے ڈھانپ دے اور جب تک علم نہ ہو کہ کون کون سا ننگ انسان میں موجود ہے، کون کون سے گناہوں سے انسان داغ دار ہے، اس وقت تک استغفار دل سے حقیقت میں اٹھ ہی نہیں سکتی اور اس میں بھی پھر آگے درجے ہیں.بعض انسان گناہ کرتے ہیں اس سے نفرت بھی پیدا ہوتی ہے، اس سے کراہت بھی محسوس کرتے ہیں لیکن اپنی نفس لوامہ کی استطاعت سے، اس کی حد سے باہر دیکھتے ہیں یعنی ایک طرف نفس ہے جو ملامت کئے چلا جا رہا ہے دوسری طرف نفس امارہ ہے جو حکم دیتا چلا جارہا ہے اور کبھی وہ امارہ کے تابع کام کر جاتے ہیں اور کبھی لوامہ کے تابع روتے اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں.ایک جدوجہد ہے جو مستقل جاری رہتی ہے.لیکن یہ بھی شعور کی حالت کا ایک نام ہے.شعور کی وہ حالت جو گناہوں کے وجود کا احساس کرتی ہے اور پھر اس پر ندامت محسوس کرتی ہے، اسے مٹانے کی کوشش کرتی ہے.یہ کوشش کرتی ہے کہ یہ داغ بھی دھل جائے اور داغ پیدا کرنے والا مرض بھی جڑوں سے اکھیڑا جائے.بعض دفعہ استغفار سے اور رونے
خطبات طاہر جلد 14 62 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء سے اور گریہ وزاری سے داغ تو مٹ جاتے ہیں لیکن مرض قائم رہ جاتا ہے.ایسے لوگوں کی حالت بہت قابل رحم ہوتی ہے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ نہیں ہوتا جب تک موت کا وقت نہ آ جائے.اس وقت اللہ کی تقدیر یہ بتاتی ہے کہ تمہیں میں نے کس حالت میں وفات دی ہے.صلى الله آنحضرت ﷺ اس مضمون کو بہت ہی لطیف پیرائے میں، بہت گہرائی کے ساتھ، ایک تمثیل کے طور پر بیان فرماتے ہیں.آنحضرت ﷺ ایک ایسے شخص کی مثال دیتے ہیں جو گناہوں کے بوجھ تلے دیا ہواتھا بلکہ اتنا گناہ گار تھا کہ جب اس کو شعور پیدا ہوا کہ میں اتنا گناہ گار ہوں تو وہ تمام ایسے لوگوں کی طرف دوڑا جو نیک مشہور تھے، جو عارف باللہ مشہور تھے اور ان کے سامنے جا کر اس نے اپنا حال کہا اور ایک کے بعد دوسرے سے پوچھا کہ میری بدیوں کا تو یہ حال ہے، میرے گناہوں کی یہ وسعت ہے، اس طرح میں گھیرے میں آچکا ہوں اور کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو تم تصور کر سکتے ہو جو میں نے نہ کیا ہو.اب بتاؤ میرے لئے بخشش کا کوئی سامان ہے تو ہر سننے والے نے یہ جواب دیا کہ نہیں تمہاری بخشش ممکن نہیں اور وہ ایک کے بعد دوسرے کے پاس گیا اور ایک کے بعد دوسرے کی طرف سے مایوس ہوتا رہا.اس مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے اس پہلو کو بھی میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور انسان کی مغفرت کا ایک فرق بھی دکھایا گیا ہے.انسان کو نہ مغفرت کی اتنی استطاعت ہے، نہ وہ گہرائی سے دلوں کے راز معلوم کر سکتا ہے کہ کسی گناہ گار کے متعلق یہ بھی فیصلہ دے سکے کہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے کہ نہیں.وہ اپنی سطحی نظر سے گنہگاروں کو دیکھتا ہے اور غصے اور نفرت کی نظر سے ان کو دیکھتا ہے اور غصے اور نفرت اور تکبر کی نظر سے اگر کسی گنہگار کی حالت کو دیکھا جائے تو بخشش کا کوئی بھی امکان نظر کے سامنے ابھرتا نہیں.انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسے انسان کی بخشش ہوسکتی ہے.تو بخشش کے لئے ایک قسم کی انکساری کی ضرورت ہے اور یہ انکساری ایک عجیب رنگ میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں بھی پائی جاتی ہے.جب کہتے ہیں وہ تو اب ہے تو مراد ہے وہ جھکتا ہے.یہ مطلب نہیں کہ خود تو بہ کرتا ہے وہ اپنی بلندیوں سے ان گہرائیوں تک اتر آتا ہے جہاں گناہ گار پل رہے ہیں اور ان کے قریب ہو کر ان کی آواز سنتا ہے.یہ بھی وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھتے ہیں.اني قریب میں تو قریب ہوں.ہر بد سے بد، ہر گناہ گار سے گناہ گار، ہر ذلیل
خطبات طاہر جلد 14 80 63 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء سے ذلیل انسان کے بھی اللہ قریب ہے جبکہ بندے دور ہٹ جاتے ہیں.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں : کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار (درمین: 125) اس کے بعد پھر مغفرت کا کیا سوال ہے.مغفرت کا سوال اس ذات سے ہے جو ہر گناہ گار کے خواہ وہ کیسا ہی ذلیل ہو چکا ہو اس کے بھی قریب رہتا ہے اگر اس میں احساس ندامت پیدا ہو اور وہ بخشش کی طلب کرنے کی طرف مائل ہو.تو یہ وہ کیفیت تھی اس شخص کی جس کو آنحضرت ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا کہ گنا ہوں کے انتہا تک پہنچنے کے باوجود دل میں تمنا تھی اور انسانوں کا حال یہ تھا کہ اپنی نیکیوں کی رعونت میں، اپنی نیکیوں کے تکبر میں ، اس کو حقارت سے دیکھتے تھے اور رد کرتے چلے جاتے تھے اور خدا کی نمائندگی میں گویا رد کر تے تھے.کہتے تھے اللہ کی ذات بہت بڑی ہے، تمہارے جیسے ذلیل آدمی پر نظر بھی نہیں ڈال سکتا.ان پر اِنّي قَرِیب کا مضمون روشن نہیں تھا.مگر ایک خدا کا بندہ ایسا تھا جو حقیقت میں عارف باللہ تھا.جب وہ گناہ گار اس کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ ایک ہی طریق ہے کہ تم بدی کے شہر سے نیکی کے شہر کی طرف ہجرت کر جاؤ.اب بدی کا شہر کون سا ہے؟ ہر انسان کی ذات میں ایک بدی کا شہر آباد ہے.کسی کی ذات میں بہت بڑا شہر آباد ہے.بے انتہا اس میں گناہ بستے ہیں اور خوب کھل کھیلتے ہیں، کسی کی ذات میں کچھ کم آباد ہیں مگر وہ معصوم جن کو خدا نے عصمت عطا فرمائی ہوان کے سواہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی شہر بستا ہے اور ایک اور شہر بھی ہے جو نیکی کا شہر ہے اس طرف ہجرت کوئی بیرونی ہجرت نہیں بلکہ اندرونی ہجرت ہے ایک انسان اپنے گناہوں سے نیکیوں کی طرف جب حرکت شروع کر دیتا ہے تو اسی کا نام بدیوں کے شہر سے نیکیوں کے شہر کی طرف یا بدوں کے شہر سے نیکیوں کے شہر کی طرف ہجرت کرنا ہے.پس اس عارف باللہ نے اسے سمجھایا کہ ایک ہی رستہ ہے کہ تم بدی کے شہر سے نیکی کے شہر کی طرف ہجرت شروع کر دو لیکن یہ ہجرت آسان نہیں ہوتی.قدم قدم پر مشکل پیش آتی ہے اور اچانک یہ حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے آنحضور ﷺ نے اس کی مسافت کا نقشہ ایسے کھینچا کہ اس نے سفر تو شروع کر دیا لیکن بہت مشکل سفر تھا اور نیکی کا شہر اس سے بہت دور تھا
خطبات طاہر جلد 14 99 64 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء یہاں تک کہ چلتے چلتے اس کی موت کا وقت آ گیا اور وہ نڈھال ہوکر زمین پر جا پڑا لیکن ابھی نیکی کے شہر سے بہت دور تھا.اس پر اس نے کہا کہ چلو آخری دم تک کوشش تو کروں اور گھسٹتا ہوا جس حد تک بھی اس میں آخری توانائی موجود تھی وہ گھسٹ گھسٹ کر نیکی کے شہر کی طرف حرکت کرتا رہا لیکن بدیوں کا شہر بھی اس کے قریب موجود تھا نیکی کا شہر اس سے بہت دور تھا تب اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرا یہ بندہ اپنے گناہوں کا احساس رکھتا تھا.اس کے دل میں شعور بیدار ہو چکا تھا اور جتنی اس میں طاقت تھی اس نے کوشش کی.اب ہم یوں کرتے ہیں کہ تم اس کا فاصلہ ناپو.نیکی کے شہر سے کتنی دور ہے اور بدی کے شہر سے کتنی دور ہے اگر نیکی کے شہر کا فاصلہ کم ہوا تو اس کی بخشش کا اعلان ہے اور اگر بدی کے شہر سے فاصلہ کم ہوا تو پھر اس کی مغفرت کا سوال نہیں اور یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ کی رحمت نے یہ انتظام کیا کہ فرشتے جو بدی کے شہر سے فاصلہ ناپتے تھے وہ فاصلہ بڑھتا چلا جاتا تھا اور وہ گز چھوٹے ہو گئے تھے جس انداز سے بھی وہ ناپتے تھے وہ فاصلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا اور جب نیکی کے دور شہر کے فاصلے کو انہوں نے ناپنا شروع کیا تو وہ گز لمبے ہو گئے اور بہت جلد جلد فاصلہ طے ہونے لگا.یہاں تک کہ فرشتوں نے یہی دیکھا اور یہی پایا اور یہی عرض کیا کہ اے اللہ دیکھنے میں تو یہ نظر آتا تھا کہ بدیوں کے شہر کے قریب تر ہے لیکن جب ہم نے نا پا تو یہ عجیب بات ہوئی ہے کہ یہ نیکیوں کے شہر کے قریب ملا ہے.تو اس میں آنحضرت ﷺ نے مغفرت ، گناہ، بخشش اور بظاہر گئے گزرے ہوئے انسانوں کے احوال، ان کی بخشش کا گہرا فلسفہ، یہ سب کچھ بیان فرما دیا ہے اور حیرت انگیز تمثیل ہے اس سے زیادہ خوبصورت اور حسین اور حقیقت پر مبنی جو اپنی تمام تر تفاصیل کے لحاظ سے بچی ہو اور تمثیل آپ کو کبھی دکھائی نہیں دے گی.حضرت عیسی کی تماثیل بھی مشہور ہیں.بہت میں نے غور کر کے دیکھی ہیں اور بھی بہت سی تمثیلیں پڑھی ہیں مگر جتنا گہرا اثر میرے دل پر اس تمثیل کا ہے کبھی کسی اور تمثیل کا نہیں پڑا کیونکہ کوئی مبالغہ نہیں.لفظ بہ لفظ ، حرف بہ حرف سچی بات اور ذرا سا اپنے ذہن کو اس میں ڈوبنے دیں تو ہر بات کھلی کھلی مدل دکھائی دینے لگتی ہے کہ ہونا اسی طرح چاہیئے تھا.چنانچہ یہ وہ مضمون ہے اِنِّي قَرِيبُ کا کہ اس نے خدا کی آواز پہ لبیک کہنے کی کوشش شروع کر دی تھی.اگر چہ یہ کوشش بعض دفعہ مکمل نہیں ہوتی اور اس کوشش کو وہ پھل نہیں لگتا جو دنیا کی نظر سے پھل دکھائی دے.وہ مرنے والا بظاہر
خطبات طاہر جلد 14 65 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء گناہ گار ہی مرتا ہے لیکن اللہ نے جو تقدیر مغفرت کی جاری فرمائی ہے، جو دلوں کی پاک تبدیلی پر نظر رکھتا ہے.جو خالصہ اللہ کی خاطر ایک تبدیلی کے خواہش مند کی کوشش کو جس طرح خدا د یکھتا ہے یہ وہ ساری باتیں اس تمثیل میں بیان ہوئی ہیں اور یہ مضمون بھی بیان ہو گیا کہ کیوں یہ دعا کرو.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( آل عمران : 195 ) کہ اے اللہ ہمیں نیکوں کے ساتھ نیکوں کی معیت میں وفات دینا.ہوسکتا ہے بدیوں کی حالت میں بھی وفات آ جائے مگر اللہ کی نظر میں اگر وہ چاہے تو ہر شخص کی موت جس کے حق میں وہ فیصلہ کرے نیکوں کی موت شمار ہو سکتی ہے.پس یہ دو اہم مضامین ہیں جن کی طرف میں رمضان میں داخل ہونے سے پہلے آپ کو متوجہ کرتا ہوں اور آپ سے یہ خصوصیت سے توقع رکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اپنے لئے بھی یہ دعائیں کریں گے اور میرے لئے بھی یہ دعائیں کریں گے اور جماعت کے تمام دوسرے کمزوروں اور نیکیوں کے لئے برابر یہ دعائیں کریں گے کیونکہ اگر خدا کی نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت میں کوئی بھی نیک نہیں اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کو جب نیک کہا گیا تو آپ نے کہا نہیں میں نیک نہیں ہوں وہی ایک نیک ہے.حقیقت میں نیکی کا شعور در جے رکھتا ہے اور میلی آنکھ سے وہ حقائق نظر نہیں آتے جو صاف شفاف آنکھ سے نظر آتے ہیں.اس لئے دو باتیں ہیں جو بہت ہی بنیادی ہیں ہماری بخشش اور نیک انجام کے لئے.ایک تو یہ کہ اللہ وہ شعور پیدا کر دے جس شعور کے نتیجے میں وہ شخص جس کا تمام سینہ بدیوں کا شہر بن چکا تھا باوجود اس کے کہ موت سے پہلے وہ اسے نیکیوں کے شہر میں تبدیل نہیں کر سکا.مگر اللہ کی مغفرت کی آنکھ نے اسے اس طرح دیکھا کہ اس کی اس کوشش ہی کو قبول فرمالیا.تو ایک تو یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی وہ شعور بیدار کر دے اور یہ رمضان اس حالت میں ہم پر گزرے کہ یہ شعور بیدار بھی ہو اور پھل بھی لائے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی آواز ہم سنیں اور پھر اس رمضان سے گزریں.اور دوسرے جب وقت آئے تو پھر فاصلے اس طرح نہ نا پے جائیں جو انصاف کے ترازو سے جیسے تولا جاتا ہے یا انصاف کے گزوں سے فاصلے ناپے جاتے ہیں.رحمت کے ترازو سے ہم تو لے جائیں اور رحمت کے گزوں سے ہمارے فاصلے ناپے جائیں.یہی ایک صورت ہے جو مغفرت کی صورت ہے.تو اپنے لئے اپنے بھائیوں کے لئے ، اپنے عزیزوں کے لئے ، میرے لئے ، میرے
خطبات طاہر جلد 14 66 66 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء سب رفقاء کار کے لئے جو جماعت میں ہر جگہ میرے ساتھ کام کر رہے ہیں اور تمام دنیا کے لئے یہی دعائیں کریں اس رمضان میں جیسا کہ میں ہر رمضان میں کسی خاص دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں میں اس رمضان میں آپ کو اس دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.اب میں چند احادیث رمضان کے تعلق میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو مختلف پہلوؤں سے رمضان کے تعلق میں ہماری ذمہ داریاں ہم پر روشن کر رہی ہیں اور رمضان کے فیوض بیان کر رہی ہیں اور وہ احادیث جو ہمیں دکھا رہی ہیں کہ یہ مہینہ اتنا برکتوں والا ہے، ایسا مغفرتوں والا ہے کہ اگر اس سے بھی خالی ہاتھ گزر گئے تو بہت بڑی محرومی ہوگی.پس اس پہلو سے میں چنداحادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول عند روية الهلال میں مذکور حدیث ہے.صلى الله حضرت طلحہ بن عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ہے جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا کرتے اے میرے خدا! یہ چاند امن و امان اور صحت و سلامتی کے ساتھ ہر روز نکلے.یہ جو دعا ہے اس سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی وسیع تر نظر کی طرف خیال متوجہ ہوتا ہے.رمضان کا مہینہ بہت برکتوں والا ہے لیکن رمضان کا چاند جو امن کا پیغام لاتا ہے، جو نیکی کا پیغام لاتا ہے آپ یہ دعا نہیں کرتے کہ اس مہینے کا چاند روزانہ ایسا نکلے.آپ دعا کرتے ہیں اے خدا ہمارا سارا سال ایسا ہو جائے کہ وہ برکتیں جو اس چاند کے ساتھ وابستہ ہیں وہ امن جو اس چاند کے ساتھ وابستہ ہے وہ ہمارے ہر روز کے چاند کے ساتھ وابستہ ہو جائے.امن اور صحت اور سلامتی کے ساتھ ہر روز نکلے.اے چاند! میرا رب اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے.یعنی چاند کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے.یہ اللہ کے بعض فرمودات بعض اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا نشان بنتا ہے تو اچھا لگتا ہے اس کے بغیر اس سے ہمارا ذاتی تعلق نہیں ہے.اے چاند ! میرا رب اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے، تو خیر و برکت اور رشد و بھلائی کا چاند بن.اس کی عربی یاد کرنا تو مشکل ہو گا لیکن اردو الفاظ یا درکھیں.میں ایک دفعہ پھر دہراتا ہوں.جب بھی نیا چاند نکلتا تو آنحضور ﷺ اپنے رب کے حضور یہ دعا عرض کرتے.اے میرے خدا! یہ چاند امن و امان اور صحت و سلامتی کے ساتھ ہر روز نکلے.اے چاند ! میرا رب اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے تو خیر و برکت اور رشد و بھلائی کا چاند بن.
خطبات طاہر جلد 14 67 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء دوسری حدیث بخاری کتاب الصوم سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو.یعنی عید مناؤ اور اگر دھند یا بادل کی وجہ سے انتیس کی تاریخ کو چاند نہ دیکھ سکو تو شعبان اور اسی طرح رمضان کے تمیں دن پورے کرو یعنی رمضان سے پہلے مہینے کے تمہیں دن پورے کر لیا کرو.اگر چاند دکھائی نہ دے اور شبہ ہو تو اس صورت میں ایک دن آگے بڑھانے کا ارشاد ہے،جلدی کرنے کا نہیں ہے حالانکہ رمضان بہت بابرکت مہینہ ہے اور اس میں داخل ہونے کا شوق ہے.مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے منشاء کو سب سے زیادہ سمجھتے تھے اور آپ نے جو اللہ کا منشا سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ خواہ مخواہ نیکی دکھانے کی خاطر ایک دن پہلے روزہ نہ رکھ لیا کر واس شک میں کہ شاید رمضان شروع ہو گیا ہو اور یہ واقعہ ہے کہ بہت سی دنیا میں ایسے علاقے ہیں جہاں اس معاملے میں اسی طرح شدت کی جاتی ہے.بعض دفعہ بعض نزدیک کے علاقوں سے بھی دو دو دن پہلے روزے رکھ لئے جاتے ہیں اور یہ جو نجی ہے طبیعت کی، یہ آخر اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ عید بھی دو دو دن پہلے منالی جاتی ہے جبکہ ابھی رمضان جاری وساری ہو.تو آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ جہاں چاند کا شک ہو وہاں صلى الله شعبان کے تمھیں دن پورے کرو اور پھر اسی اصول کے تابع عید کا فیصلہ کرو.دوالگ الگ اصول نہیں ہوں گے پھر اگر شک ہو کہ عید کا چاند نکلا ہے کہ نہیں نکلا تو پھر پورے تمہیں دن رمضان کے پورے کرو اور پھر عید مناؤ.اب اس دفعہ جب یہ فیصلہ ہونا تھا کہ رمضان کب شروع ہو رہا ہے تو جو کمیٹی بٹھائی گئی انہوں نے رپورٹ کی کہ غالب گمان یہی ہے کہ یکم کی رات کو رمضان کا چاندطلوع کرے گا اس لئے دوکو رمضان بن سکتا ہے لیکن ایک امکان یہ بھی ہے کہ شاید ایک دن پہلے چاند طلوع ہو جائے.اس پر میرے ذہن میں تو ذرہ بھی تر ڈر پیدا نہیں ہوا یہ فیصلہ کرنے پر کہ پہلی بات کے تابع چلیں اور جس دن دیر میں چاند نکلنے کا احتمال ہے اس کو اختیار کریں، کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہی حکم ہے کہ اگر شک ہو تو پھر تمیں دن پورے کرو.دوسرے یہ بات بھی میں نے ان کو سمجھائی کہ آپ کا جو حساب ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ جو اہل علم ہیں وہ بتاتے ہیں کہ دو طرح سے چاند دیکھنے کا امکان پیدا ہوتا ہے ایک اس وقت
خطبات طاہر جلد 14 68 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء کے لحاظ سے جتنی دیر وہ افق سے اوپر رہتا ہے.ایک خاص وقت کے اندر اندر وہ دکھائی نہیں دے سکتا.اس وقت سے اوپر نکلے یعنی اگر پندرہ منٹ ہیں اس وقت کے تو جب تک وہ سولہ منٹ کا نہ ہو اس وقت تک دکھائی دینے کا امکان ہی کوئی نہیں.اگر وہ سولہ منٹ اوپر رہتا ہے تو پھر ایک منٹ تک اس کو دیکھا جا سکتا ہے یعنی بعینہ سولہ نہیں شاید ہمیں منٹ ہوں مگر مثال دے رہا ہوں.ایک یہ زاویہ ہے جس سے چاند کے نکلنے کے امکان کو جانچا جا سکتا ہے.ایک زاویہ ہے چاند کا زمین سے زاویہ.وہ ایک خاص زاویہ سے اوپر دکھائی دے سکتا ہے.اب اگر میرے ہاتھ کو آپ زاویہ بنا تا ہوا سمجھیں.اگر یہ زاویہ نیچے ہو تو اس کا مطلب ہے وہ Horizon یعنی افق کے بہت قریب ہے اور افق کے قریب ہونے کی وجہ سے جو رستے میں دھند اور کئی قسم کے غبار ہیں وہ اس کی رؤیت کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور اگر زاویہ اونچا ہو تو اس بات کا واضح امکان ہو جاتا ہے کہ اس کی روشنی کثیف فضا سے لمبا عرصہ نہیں گزرتی بلکہ جلد ہم تک پہنچتی ہے، اس لئے اس کے نظر آنے کے زیادہ امکانات ہیں.تو انہوں نے ایک پہلو سے یہ دیکھا کہ چاند نظر نہیں آسکتا اور دوسرے پہلو سے، زاویے سے دیکھا کہ شاید نظر آ جائے.تو ان کو میں نے کہا کہ اصول یہ ہے کہ جس پہلو سے نظر نہیں آ سکتا وہ غالب ہوگا اور دوسرے کو وہ کاٹ نہیں سکتا اس لئے کم سے کم کا اصول یہاں رائج ہے.جس زاویے میں وقتیں زیادہ ہیں وہی فیصلہ کرے گا کہ دوسرے زاویے سے بھی نظر آ سکتا ہے کہ نہیں.تو بہر حال حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ جو نصیحت ہے یہ ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نیکی میں زبر دستی کرنے والوں کی بات قبول نہیں کرتا بلکہ جو رعایتیں دیتا ہے انہی کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہی حقیقی نیکی ہے.بخاری کتاب الصوم میں یہ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.اب یہ مسئلہ جو ہے بہت ہی گہرا ہے چھان بین والا مسئلہ ہے کہ ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت.ایمان کے تقاضے کیا کیا ہیں اور کن کن تقاضوں کو ہم پورا کر رہے ہیں اور ثواب کی نیت میں کیا کیا باتیں داخل ہیں.بعض دفعہ فرض کی مجبوری سے بھی انسان اٹھتا ہے وہ بھی نیکی ہے مگر ثواب کی نیت سے اٹھنا ایک اور مضمون ہے.فرض نہ بھی ہو تو ایسے لوگ راتوں کو اٹھتے ہیں.تو آنحضرت ﷺ نے
خطبات طاہر جلد 14 69 69 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء فرمایا وہ شخص جو ان دو نیتوں کے ساتھ رمضان کی راتوں میں اٹھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے جہاں یہ خوشخبری ہے وہاں انذار کا بھی رنگ رکھتی ہے.دراصل انذار اور خوشخبری یہ دونوں اتنے ملے جلے مضمون ہیں کہ ایک کو دوسرے سے کلیۂ الگ کیا ہی نہیں جاسکتا.ہر اندار خوشخبری رکھتا ہے.یہ کام نہ کرو گے تو فائدہ اٹھاؤ گے.یہ کام کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے.تو ہر شخص جو انذار کی آواز سنتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کے لئے اندار خوشخبری لے کے آتا ہے.رستوں پر جگہ جگہ بورڈ لگے ہوتے ہیں ” تیز موڑ ہے، ایک دم اونچائی آنے والی ہے، ایک طرف گڑھے ہیں یا برف جمی ہوئی ہے.یہ باتیں جو ہیں انذار ہیں لیکن اس انذار کو ہٹا ئیں تو دیکھیں کتنے دکھ پیدا ہوں گے.تو انذار کی کوکھ سے خوشخبریاں پیدا ہوتی ہیں اور خوشخبریاں بھی انذار کے بچے دیتی ہیں اگر ان خوشخبریوں پر عمل نہ کیا جائے اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا جائے.یہاں آنحضرت ﷺ نے جو فر مایا اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.پس اگر کوئی بد نصیب رمضان سے گزرے اور گناہ نہ بخشے جائیں تو بڑی بدنصیبی ہے.پس اس پہلو سے یہ خوشخبری ایک انذار کا بھی رنگ رکھتی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے صحیح مسلم کتاب الصیام سے لی گئی ہے.وہ عرض کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا الصيام جنة کہ رمضان کا مہینہ یا روزے رکھنا ایک ڈھال ہے.ڈھال سے جس طرح انسان مختلف تیروں اور تلواروں یا نیزوں کی ضربوں سے محفوظ رہتا ہے اسی طرح شیطان کے نیزوں اور تلواروں اور اس کے تیروں کی ضرب سے انسان محفوظ رہتا ہے اگر وہ روزے رکھے اور ان کا حق ادا کرے تو ماہ صیام مومن کے لئے پورے کا پورا ایک ڈھال بن جاتا ہے.اس کی راتیں بھی ڈھال ہیں، اس کے دن بھی ڈھال ہیں اور کوشش یہ کرنی چاہئے کہ جس طرح آنحضور نے چاند کے حق میں یہ دعا دی تھی کہ تو روز اسی طرح برکتوں اور خیر کے ساتھ نکلے.اسی طرح ہم یہ دعا بھی کریں کہ اے خدا رمضان کے بعد بھی یہ ڈھال ہمارا ساتھ نہ چھوڑے اور ہمارے آگے آگے بڑھے اور ہمارے دائیں بائیں اور پیچھے ہر قسم کے حملوں سے ہمیں ہمیشہ محفوظ رکھے.بخاری کتاب الصوم میں حضرت ابن عباس سے یہ روایت درج ہے کہ رسول کریم علی سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے تھے.لیکن آپ کا صدقہ و خیرات اس وقت سب سے
خطبات طاہر جلد 14 70 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء زیادہ ہوتا تھا جب رمضان میں جبرائیل آپ سے ملتے تھے.جبرائیل آپ کو رمضان کی ہر رات کو ملتے تھے اور آپ کے ساتھ قرآن کریم کا جو اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا دور مکمل کرتے تھے.رمضان میں آپ تند و تیز ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے.آپ کے صدقہ وخیرات کی مثال تیز ہواؤں سے دی جاتی ہے مگر رمضان میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس ہوانے جو پہلے بھی تیز بھی جھکڑ کی شکل اختیار کر لی ہے بکثرت صدقہ وخیرات کرتے تھے.آج کل جو صدقہ و خیرات کے محل ہیں ان میں بوسنیا کے مظلوم بھی ہیں کشمیر کے مظلوم بھی ہیں اور روس میں مختلف علاقوں میں جو مظلوم پائے جاتے ہیں وہ بھی ہیں، افریقہ کے بہت سے علاقوں کے مظلوم ہیں اور کئی طرح سے دنیا میں ہر طرف انسان ظلموں کا نشانہ بنایا گیا ہے.اس کے علاوہ روز مرہ کی غربت کا نشانہ بھی ہے.روزمرہ کے فاقوں کا نشانہ بھی ہے، اپنی قوم کے سرداروں کی بے حسی سے بھی دکھ اٹھا رہا ہے، اپنے گناہوں سے دکھ اٹھا رہا ہے، طرح طرح کے ایسے عوامل ہیں جو اس کی تکلیفوں میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں.تو ان سب کو صدقہ و خیرات میں شامل کرنا ایک چھوٹی سی جماعت کے لئے جو اور بھی بہت سے نیکی کے کاموں میں مشغول ہے اور بہت بوجھ اٹھائے چل رہی ہے اللہ کے فضل کے ساتھ اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ سو فیصدی ان تقاضوں کو پورا کر سکے مگر وہی بات ہے کہ گناہوں کے شہر سے نیکی کے شہر کی طرف جانے کا وقت نہیں تھا، توفیق نہیں تھی مگر کوشش ایسی کی کہ گھسٹ گھسٹ کے بھی بڑھنے کی کوشش کی.تو عام طور پر جو آپ صدقہ و خیرات دیتے ہیں ، سارے مالی بوجھ اپنی جگہ قائم اور دائم ہیں، جو فرائض ہم پر عائد ہوئے ہیں جو ذمہ داریاں ہم قبول کر چکے ہیں ان کو کم نہیں کر سکتے لیکن کچھ اور اگر نکال لیں گویا گھسٹ گھسٹ کر بدیوں کے شہر سے نیکیوں کے شہر کی طرف بڑھ رہے ہوں تو یہ ادا اللہ کو بہت پیاری لگے گی اور اس ادا کے صدقے ہمارے بہت سے گناہ بخشے جاسکتے ہیں.پس اپنے اپنے حالات پر نظر ڈالیں عام حالات میں جو آپ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے رمضان میں ضرور اسے تیز تر کرنے کی کوشش کریں.یہ حدیث بخاری کتاب الصوم سے لی گئی تھی.ایک حدیث یہ بھی بخاری کتاب الصوم سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان کے سب کام اس کے اپنے
خطبات طاہر جلد 14 71 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا بنوں گا.یعنی اس کی اس نیکی کے بدلے میں اسے اپنا دیدار نصیب کروں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ ڈھال ہے پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بے ہودہ باتیں کرے، نہ شور و شر کرے.اگر اس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑے جھگڑے تو وہ جواب میں کہے کہ میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے.قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے.روزے دار کی منہ کی بو بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ پاکیزہ اور خوش گوار ہے کیونکہ اس نے اپنا یہ حال خدا کی خاطر بنا رکھا ہے.روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں.ایک خوشی اسے اس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوگی.(بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر: 1771) اس حدیث میں جس طرح اثر اند از طریق پر روزے کی اہمیت اور روزے کا جو عظیم اجر ہے وہ بیان فرمایا گیا ہے اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.پہلے بھی میں اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال چکا ہوں.آج میں آپ کو صرف یہ کہوں گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ ایک خوشی اسے اس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے.یہ ایک روز مرہ کی حقیقت ہے، ہر شخص کے تجربے میں اور کتنی سچی حقیقت ہے.وہ لوگ جو بیمار بھی ہوں جن کو بھوک نہ بھی لگتی ہو روزہ رکھنے کے بعد جو افطار کا لطف حاصل کرتے ہیں اس کی اور کھانوں میں مثال دکھائی نہیں دیتی.ایک خاص اس کی کیفیت ہے جو افطار کے وقت انسان کو میسر آتی ہے جس کی فرحت کی کوئی مثال کسی اور جگہ دکھائی نہیں دیتی.یہ بات جتنی سچی ہے اتنی ہی دوسری بات بھی سچی اور قطعی ہے کہ اللہ کی رؤیت بھی نصیب ہو سکتی ہے اور اس کا ایک اپنا مزہ ہے.تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مومنوں کو دو فرحتیں ملتی ہیں رمضان میں.اگر ہم ایک فرحت کے وعدے کو سچا دیکھتے ہوں اور دوسری فرحت کے وعدے کا انتظار کرتے رہیں اور ہمارے حق میں پورا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلا مزہ بھی جھوٹا مزہ تھا، بے معنی اور بے حقیقت مزہ تھا.اگر افطار کا مزہ سچا ہوتا تو پھر وہ افطار بھی اللہ کرواتا جو خدا سے دوری کے بعد اس کے وصل کا افطار ہے اور اس پہلو سے بھی رمضان میں خصوصیت کے ساتھ محنت کریں، دعائیں کریں، استغفار کریں اور اللہ سے روزے کی وہ جزا مانگیں جو اللہ نے خود بیان فرمائی ہے کہ وہ جزا میں ہوں.پس اگر اس رمضان میں ہمیں یہ جزامل جائے تو سب کچھ مل گیا.اس جزا کے
خطبات طاہر جلد 14 72 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء بعد تو پھر اور کوئی جز آباقی نہیں رہتی ، اس کی اہمیت کوئی نہیں رہتی.کہتے ہیں:.سب کچھ خدا سے مانگ لیا اس کو مانگ کر اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد یہ شعر پوری طرح مجھے یاد نہیں بیچ میں میں نے وزن پورا کر لیا ہے مگر مضمون یہی ہے ( یا اس سے ملتا جلتا ہے ) اور بڑی قوت والا مضمون ہے کہ خدا سے خدا ما نگ کر ہم نے سب کچھ ہی مانگ لیا ہے.اس کے بعد کسی اور دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اس طرح ایک نسبتا سطحی رنگ میں پیش نہیں فرمایا مثلاً یہ اس کا سطحی پہلو ہے کہ اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد “ کون ہے جو خدا سے خدا کو مانگ کر یہ ضمانت بھی اپنے اندر رکھتا ہو، اپنے ساتھ رکھتا ہو کہ وہ خدا کے ساتھ وفا کے تقاضے پورے کرے گا اور آئندہ اسے خدا سے مانگنے کی احتیاج نہیں رہی.تو شعر دیکھنے میں بڑے اچھے لگا کرتے ہیں مگر جب آپ ڈوب کر دیکھتے ہیں اچھی باتوں میں تو پھر پتا چلتا ہے کہ کون سی باتیں گہری صداقت پر مبنی ہیں اور ان کا چہرہ بھی حسین ہے ان کا باطن بھی حسین ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہر بات یہ دونوں پہلو رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار میں بھی اور آپ کی نثر میں بھی یہی پہلو سب سے نمایاں ہے جس کی وجہ سے آپ کی تحریر اور نظم میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں: عالم مرا عزیز توئی در رو وانچه میخواهم از تو، نیز توئی کہ میرا تو دونوں جہان میں تو ہی عزیز ہے.وہ جو میں تجھ سے مانگتا ہوں وہ تو ہے.تجھے ، تجھ سے مانگ رہا ہوں اور یہ دعا ساری عمر کا ساتھ تھی.ایسی دعا نہیں تھی کہ جس کے لئے ہاتھ اٹھیں اور پھر گر جائیں تو پھر کبھی نہ اٹھیں.ایسی دعا آپ نے مانگی کہ آخر وقت تک آپ کی یہی دعا جاری رہی جبکہ خدامل بھی چکا تھا، ساتھ رہتا تھا، بعض دفعہ ساری ساری رات آپ کو خوشخبریاں دیتا تھا مگر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کبھی ساقط نہیں ہوئی.تو اس رمضان میں بھی یہ دعا مانگیں اور اس رمضان کے بعد بھی یہ دعامانگتے چلے جائیں کہ اے خدا! اس نیکی کے بدلے ہمیں تو مل جائے اور یہ
خطبات طاہر جلد 14 73 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء تیرا ملنا دائگی ملنا ہو اور ہم ہمیشہ احتیاج محسوس کریں کہ تو پھر بھی ملے.اس مضمون کا ایک پہلو ہے جس کی طرف آپ کو اب متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا کا ملنا کوئی ایسا ملنانہیں جیسے بندے کا ملنا ہو اور اس کے بعد ملاقات کی آرزو اپنی انتہا کو پہنچ جائے اور مکمل ہو جائے اور انسان سیراب ہو جائے.خدا کا ملنا تو ایک لا متناہی سفر کی مثال رکھتا ہے.ہر قدم جو منزل کی طرف اٹھ رہا ہے وہ کچھ ملاقات کا مزہ دیتا ہے لیکن جہاں ٹھہر جائیں وہاں محرومی اور ہجر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.پس ہاتھ بھی اٹھتے ہیں اور اٹھتے چلے جاتے ہیں.قدم بھی اٹھتے ہیں اور اٹھتے چلے جاتے ہیں.کوئی ایسا مقام نہیں آتا کہ جہاں ہاتھ گر جائیں یا قدم رک جائیں اور اگر آئے گا تو وہی موت کا اور ہجر کا مقام ہے جس میں خدا کی حاصل کردہ لقاء کے جو پہلے پھل تھے وہ بھی ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی لقاء کا یہ جو مضمون ہے یہ ان معنوں میں بہت گہرائی رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اندر سفر لا متناہی سفر ہے.اللہ کی ذات کا کوئی عرفان اول تو بذات خود ممکن نہیں.اللہ ہی خود ظاہر ہو تو ممکن ہے.اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ خدا کے ہاں بھی ایک انکساری پائی جاتی ہے اور وہ انکساری نہ ہو تو ہمارے درمیان کوئی اتصال کی صورت باقی نہ رہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ کون سی آنکھ ہے جو خدا کو پاسکتی ہے، ناممکن ہے.وَهُوَ يُدْرِكُ الابصار وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے خود تمہیں وہم ہے کہ تمہاری نظریں دور دور تک جاتی ہیں اور یہ صورتحال عام انسانی بصیرت کے تجربے کے اوپر بعینہ صادق آتی ہے.اگر سورج کی روشنی خود سفر کر کے ارب ہا ادب میل سے بظاہر تنزل اختیار کرتے ہوئے ہماری آنکھوں تک نہ پہنچے تو ہماری آنکھ کی بصیرت اپنی ذات میں تو کوئی طاقت نہیں رکھتی کہ باہر نکے اور اندھیروں کے سینے پھاڑ کر حقائق تک پہنچ سکتی ہو.کسی چیز کا بھی اور اک نہیں کر سکتی.پس آسمان سے روشنی اترتی ہے اور وہ آنکھوں تک پہنچتی ہے اور اس سے انسان دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے اگر اندرونی نور ہو لیکن اپنی ذات میں وہ نور ایک ساقط نور ہے اس میں توفیق ہی نہیں ہے کہ نظر سے اچھل کر باہر جا سکے اور باہر کے گردوپیش کا جائزہ لے سکے.تو جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے اس میں تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انسان اپنی کوشش اور کھوج اور جدو جہد اور حرکت کے نتیجے میں خدا کو پالے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ
خطبات طاہر جلد 14 74 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ کوئی آنکھ نہیں ہے جو کہ اس کا ادراک کر سکے.وہ آنکھوں کو پاتا ہے یعنی ان تک پہنچتا ہےاور خود اپنے جلوے دکھاتا ہے اور اس کا ہر جلوہ لامتناہی ہے.آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ہر روز، ہر آن اس کے جلوے بدلتے ہیں اور لا متناہی ہیں.آج ایک شان سے ظاہر ہو رہا ہے کل دوسری شان سے ظاہر ہورہا ہے.ہم تو موسموں میں بھی نہیں پہچانتے کہ یہ خدا ہی کی شانیں ہیں جو بدل رہی ہیں لیکن گہرے عرفان کے معاملے جب ہوں تو اکثر آنکھیں ان باتوں کے ادراک سے اندھی رہتی ہیں اللہ ہی توفیق عطا کرے تو عطا ہوتی ہے.پس وہ ہاتھ جو دعا کے لئے اٹھیں، جو لقاء باری تعالی مانگیں وہ حقیقت میں ایک ایسی چیز مانگتے ہیں جس کی لقاء کا سفر کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا.ہر منزل کے بعد ایک اور منزل ہے لیکن ہر منزل کچھ لقاء کا لطف ضرور دیتی ہے.یہ ایسا دور کا وعدہ نہیں کہ اس کی پیروی میں آپ مسلسل سفر کرتے رہیں اور جب تک وہ آخری مقام نہ پہنچے آپ سیراب نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سفر کی مثال دنیاوی گمراہیوں میں بھٹکنے کی مثال کے طور پر پیش فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو دنیا کی لذتوں میں اور عیش و طرب میں جدو جہد کرتے چلے جاتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جو سراب کے پیچھے پانی سمجھ کر دوڑ رہا ہو اور ہر قدم سراب اسی رفتار سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ وہ مقام جسے وہ پانی کا مقام سمجھتا تھا، جب وہاں پہنچتا ہے تو اللہ کو اپنا حساب دینے کے لئے وہاں موجود پاتا ہے اور کوئی سیرابی نصیب نہیں ہوتی.تو نعوذ باللہ خدا کی لقاء کا سفر سراب کا سفر نہیں ہے بلکہ ہر قدم آپ نہ صرف اس پانی کے سرچشمہ کے قریب ہوتے ہیں بلکہ اس سے سیراب بھی ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن وہ ایک لامتناہی چشمہ ہے جس کی سیرابی کی طاقت آپ کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے.آپ سیرابی محسوس بھی کرتے ہیں لیکن آئندہ آنے والی سیرابی کے تصور سے آپ کے دل میں ایک نئی پیاس بھی جاگ اٹھتی ہے اور پھر جوں جوں پیاس بڑھتی ہے توں توں اس خدا کی لقاء کے پانی میں سیراب کرنے کی طاقت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے.تو یہ دعا کریں کہ اے خدا! اس رمضان میں ہمیں وہ لقاء نصیب فرما جو جاری و ساری لقاء ہے جس کا سفر کہیں ختم نہیں ہوتا.کسی منزل پر بھی اس لقاء کو ہم ایک آخری منزل مراد قرار نہیں دے سکتے.یہ وہ منزل مراد ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے، ہر قدم منزل مراد کی طرف اٹھ رہا ہے اور ہر قدم
خطبات طاہر جلد 14 75 خطبہ جمعہ 27 جنوری 1995ء منزل مراد کو پا بھی رہا ہے اور پھر آخر پر میں اسی حدیث کے مضمون کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتا ہوں کہ وہ گناہ گار جس نے سفر شروع کیا تھا اس کا یہی حال تھا.اس نے دراصل ایک ایسا سفر شروع کیا تھا جو لا متناہی تھا کیونکہ فی الحقیقت اگر آپ گناہوں کا شعور حاصل کریں تو کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ کلیۂ گناہوں کے داغ دھونے کے بعد اس شہر کو جو دل میں بستا ہے نیکی کا شہر قرار دے سکیں.مگر ہر قدم جواٹھتا ہے وہ کچھ فرحت، کچھ مغفرت کے وعدے لے کر ضرور آتا ہے اور وہی پہلو ہے جس کی طرف یہ حدیث یعنی اس پہلو کی طرف بھی یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے کہ تم سفر شروع کر دو.یہ سفر نہ ختم ہونے والا ہے مگر اللہ اپنی مغفرت اور رحمت سے جس طرح پیمائشیں کرتا ہے اس پہلو سے ہر مسافر ، ہر مقام پر جہاں بھی وہ مرتا ہے بخشش کی حالت میں جان دیتا ہے.پس اے گناہ گار بندو! جن میں میں بھی شامل ہوں اور اول طور پر شامل ہوں.خدا کی بخشش سے مایوس نہ ہو اور ان امور کا شعور حاصل کر کے ان کا عرفان حاصل کر کے اپنے رمضان کو زندہ کر دو اور جگادو اور اس حالت میں اس رمضان سے باہر نکلو کہ اس کی برکتیں تمہارا ساتھ نہ چھوڑیں اور وہ نیکیاں جو اس رمضان میں تم کما لو وہ پیچھے رہ جانے والی نہ ہوں بلکہ قدم قدم تمہارے ساتھ آگے بڑھیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
76 176 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 77 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء دعاوہ چراغ ہے جو دلوں میں نور بن کے روشن ہوتا ہے.رمضان میں جھوٹ کو چھوڑنے کا عہد کریں.( خطبه جمعه فرموده 3 فروری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.الحمد للہ یہ آج رمضان المبارک کا پہلا جمعہ ہے جس کے خطبے میں تمام دنیا کی جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں یا ہو رہی ہیں اور جب تمام دنیا کہتا ہوں تو واقعہ ساری دنیا ہی مراد ہے.کچھ پہلے ایسے حصے تھے جن تک ہمارا پیغام پوری طرح نہیں پہنچ رہا تھا.بعض جگہ قانونی مجبوریاں تھیں مثلاً ماریشس میں لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ حکومت نے باقاعدہ ڈش انٹینا کی اجازت دے دی ہے اور گزشتہ جمعہ میں جماعت بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اپنے پہلے اجتماعی خطبہ جمعہ میں شامل ہوئی جو ڈش انٹینا کے ذریعے وہاں دکھایا جا رہا تھا اور اس پر مجھے کسی نے لکھا کہ آئے تو بڑے ذوق و شوق سے تھے لیکن نکلتے ہوئے بہت سوں نے مایوسی کا اظہار کیا کہ ہمارا نام نہیں آیا.میں تو نہیں مانتا کہ اس رپورٹ کرنے والے نے سچی رپورٹ کی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ماریشس کی جماعت کو میں جانتا ہوں بہت مخلص جماعت ہے وہ اپنے نام کی خاطر اکٹھے نہیں ہوئے تھے بلکہ خدا کے نام کی سربلندی کے لئے اکٹھے ہوئے تھے.اس بات پر خوش تھے کہ آج خلیفہ وقت کی زبان میں براہ راست اللہ کا ذکر سننے کو ہمیں مل رہا ہے اور ہم اس اجتماعی نظارے میں ایک جزو بن چکے ہیں.جو دنیا میں ہر طرف پھیلتا چلا جا رہا ہے کہ ایک آواز ایک جگہ سے اٹھ رہی ہے، ایک تصویر ایک جگہ بن رہی ہے اور ساری دنیا ان آوازوں کوسن
خطبات طاہر جلد 14 78 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء رہی ہے اور ان تصویروں میں شریک ہورہی ہے.پس اس خوشی سے وہ خوش تھے اور یہ الزام ہے جماعت ماریشس پر کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر واپس گئے.کسی ایک آدھ شخص کے دل میں یعنی شکایت کرنے والے کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہو گا مگر میں جماعت ماریشس کے متعلق یہ تسلیم نہیں کر سکتا.جہاں تک ذکر کا تعلق ہے اب تو یہ ہماری حدّ استطاعت میں ہی نہیں رہا.روزانہ مختلف علاقوں سے رپورٹیں آرہی ہیں کہ اب یہاں بھی ڈش انٹینا لگ گیا وہاں بھی لگ گیا.یہاں بھی جماعت کی طرف سے اجتماعی انتظام ہوا.جہاں اجتماعی انتظام نہیں ہے وہاں انفرادی طور پر گھروں نے اپنے دروازے کھول دیئے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا گھر تو مسجد بن گیا ہے.آج کل یہ مسجدیں جو خدا کے ذکر کے لئے بن رہی ہیں، یہ زیادہ معمور ہیں کیونکہ رمضان کا مہینہ ہے اور رمضان میں وہ چہرے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں جو بالعموم یا با قاعدہ روز مرہ نماز میں دلچسپی نہیں لیتے یا اپنے گھروں میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور مسجدیں ان سے دور ہوتی ہیں اس لئے ان کو عادت نہیں ہوتی لیکن رمضان کے دنوں میں تکلیف اٹھا کر بھی دور دور سے جہاں بھی مسجد میسر ہو وہاں پہنچتے ہیں تو اللہ ان کو بھی ان کی نیکی کی جزا دے.ایسے موقع پر جبکہ سننے والوں کی تعداد اور دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہو اس وقت بہت سی باتیں کہنے کی ایسی ہوتی ہیں جو میں اپنے ذہن میں کھنگالتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ بھی کہوں گا وہ بھی کہوں گا لیکن وقت بہت تھوڑا ہے اور اس لئے کچھ ترجیحات بنا کر بعض باتیں کہنی پڑتی ہیں بعض چھوڑنی پڑتی ہیں مگر بعد میں یہ سلسلہ جاری رہے گا.سب سے پہلی تو میں یہ درخواست کروں گا کہ دعا کریں کہ رمضان کی برکت سے آنے والے دائمی ہو جائیں اور ان کے جمعے بھی دائگی بن جائیں تاکہ ہمیں یہ گھبراہٹ نہ ہو کہ کل آئے تھے آج نہیں ہیں.کل جو باتیں ہم نہیں کہہ سکے تھے آج کہیں گے تو بھی یہ شامل نہیں ہوں گے.اس لئے جہاں تک مجبوریاں ہیں دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مجبوریاں دور فرمائے ، جہاں تک سستیاں اور غفلتیں ہیں اللہ رمضان کی برکت سے ان کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور نیکیوں کا ذوق پیدا ہواور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ کا عہد ان کے اوقات پر بھی سچا ثابت ہو.وقت کے متعلق جو کہا جاتا ہے وقت نہیں ہے، یہ محض ایک لا علمی کا محاورہ ہے.ہر شخص کے پاس وقت ہوتا ہے مگر ترجیحات الگ الگ ہوتی ہیں.بعضوں کے لئے وقت دنیا کے ٹیلی ویژن کے
خطبات طاہر جلد 14 79 12 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء لئے ہے، بعضوں کے لئے دنیا کی دلچسپیوں میں ہے، مجالس میں جانے کے لئے ہے مگر دین کے کاموں میں آنے کے لئے نہیں ہے.یہ مطلب تو نہیں کہ وقت نہیں ہے مراد یہ ہے کہ ترجیحات مختلف ہیں.بعض لوگ تو دینی معاملات میں ایسی دلچسپی رکھتے ہیں کہ بعض جگہوں سے خبریں ملیں کہ ایک گاؤں چھوڑ کر جہاں بجلی بند ہو گئی تھی، مرد عورتیں اور بچے پیدل بھاگے ہیں دوسرے گاؤں کہ شاید وہاں بجلی ہو اور وہاں ہم دیکھ سکیں.تو یہ ترجیحات کی باتیں ہیں اور جس کا وقت دین کے لئے زیادہ ہو وہی وقت ہے جس میں برکت دی جاتی ہے.وہی وقت ہے جو اللہ کے حضور وقت لکھا جاتا ہے ورنہ گھڑیوں کے وقت تو ہر کس و ناکس پر چلتے ہیں.ہر مذہب والے اور ہر لا مذہب پر چلتے ہیں.ان سے در حقیقت وقت کی قیمت نہیں ناپی جاتی.ایک space time کا تصور ہے جو ہر چیز پر یکساں گزرتا ہے خواہ وہ زندہ ہو خواہ وہ مردہ ہو.مگر جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں یہ وہ وقت ہے جو اپنے خالق کے ساتھ ایک شعوری کوشش سے تعلق قائم کرنے میں خرچ ہوتا ہے.باشعور کوشش کہ میں اپنے رب سے ملوں اور اپنے رب کو راضی کروں، ایسی باتیں کروں جو اس کی محبت جیتنے والی ہوں، ایسی باتوں سے پر ہیز کروں جو اس کی ناپسندیدگی کا مظہر بنیں اور ناپسندیدگی پیدا کرنے والی ہوں.یہ وہ جد و جہد ہے جس جد و جہد میں جو وقت خرچ ہو وہ وقت ہے اور اس کے سوا جو باتیں ہیں وہ تو گزارے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ انسان کو جو کچھ بھی اللہ عطا فرماتا ہے یا وہ کنجوسی سے روک رکھتا ہے یا وہ اپنے اوپر اور اپنے بچوں پر خرچ کر لیتا ہے یا وہ خدا کی خاطر اس کے ان کاموں پر خرچ کرتا ہے جن سے اللہ راضی ہو.فرمایا جو پہلے دو کام ہیں جن پر خرچ کئے جاتے ہیں.وہ تو موت کے ساتھ یہیں مٹی میں مل جائیں گے اور پیچھے رہ جائیں گے اور اس کا مال اس کا مال نہیں رہے گا جو کھالیا وہ ختم ہو گیا، جو روک رکھا وہ اس کے کام کا نہیں، اس کے کسی کام بھی نہیں آ سکتا.نہ اس دنیا میں نہ اُس دنیا میں لیکن جو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے وہ آگے بھیجا جاتا ہے اور وہی اس کا مال ہے کیونکہ وہ دائمی ہے.اس پہلو سے وقت کو بھی دیکھیں تو وقت وہی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ ہو کیونکہ وہ وقت آگے بھیجا جائے گا اور وہ وقت جسے ہم ضائع کر بیٹھے ہیں وہ مٹی میں مل جائے گا اس کی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہتی.پس دنیا کے کام تو ہیں لیکن دنیا کے کام بھی اگر اللہ کی رضا کی خاطر اس نیت سے کئے جائیں کہ دین کے کاموں میں سہولت پیدا ہو اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی
خطبات طاہر جلد 14 80 60 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء استطاعت ہو اور حقوق ادا کرنے کی توفیق ملے جن میں بیوی بچوں کے حقوق بھی ہیں عزیزوں اور اقرباء کے حقوق بھی ہیں.عام غرباء کے حقوق بھی ہیں تو اس نیت سے اگر چہ بظاہر انسان دنیا میں وقت خرچ کر رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نسخہ ہمیں سمجھا دیا کہ ایسے اوقات دراصل خدا کے نزدیک دین میں خرچ ہونے والے اوقات کے طور پر لکھے جائیں گے.تو اس پہلو سے ہمیں اپنے اوقات پر بھی اس رمضان میں نظر کرنی چاہئے.کتنے اوقات ہم زیادہ سے زیادہ اللہ کے لئے نکال رہے ہیں.یعنی پہلے جو کسی اور مصرف میں آیا کرتے تھے اب ہم خدا کی خاطر انہیں نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے.بعض لوگ تہجد پر اٹھتے ہیں، بعض لوگ جو نمازیں نہیں پڑھتے تھے وہ نمازیں شروع کر دیتے ہیں، بعض لوگ بعض بدیوں سے پر ہیز کرتے ہیں مگر تا بہ کے.کب تک؟ کیا رمضان گزرنے کا انتظار کرتے ہیں کہ رمضان گزرے تو آرام سے سوئیں.تہجد کی مصیبت سے نجات ملے.کیا رمضان گزرنے کا انتظار کرتے ہیں کہ رمضان گزرے تو وہ نیکیاں جو ہم نے خوامخواہ اپنے اوپر چڑھالی تھیں ان کا غازہ اتار پھینکیں اور اپنی اصلیت کی طرف واپس آجائیں.اگر یہ مقصد ہے اور اس طرح رمضان گزررہے ہیں تو یہ رمضان گزارنے کے ڈھنگ نہیں ہیں.یہ تو بے وقوفی کے سودے ہیں.وقتی طور پر کچھ دیر کے لئے لذت ملتی ہے اور ساری کی ساری لذت اگر ایک مصیبت کے طور پر ہے جس نے رمضان کے ساتھ ہی گزر جانا ہے اور کالعدم ہو جاتا ہے تو یہ ایک بے وقوفی کا سودا ہے لیکن اگر دیانتداری کے ساتھ کوشش اور جد و جہد اور محبت کے ساتھ رمضان سے استفادہ کرتے ہوئے انسان نیکیوں کی کوشش کرتا ہے تو اگر چہ وہ نیکیاں اسی طرح دائم نہیں رہتیں اور رمضان کے گزرنے کے بعد ان میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے مگر پہلے سے بہتر حال پر انسان کو چھوڑ جاتی ہیں.جو داغ دھوئے تھے وہ اگر ابھرتے بھی ہیں تو پوری طرح نہیں ابھرتے ، بہت حد تک مٹ چکے ہوتے ہیں ، اگر کچھ نیکیاں اختیار کی گئی تھیں تو وہ نیکیاں پوری طرح نہیں مٹا کرتیں، کچھ نقوش کو بہتر بنا جاتی ہیں، کچھ اللہ کی محبت کے رنگ پیچھے چھوڑ جاتی ہیں.اگر یہ سلسلہ ہے تو یہ انچ انچ، قدم قدم اور کچھ نہ کچھ حسب توفیق خدا کی طرف بڑھنے کا نظارہ ہے.پس اس پہلو سے وہ رمضان ضائع تو نہیں جاتا مگر اس رمضان سے ویسا استفادہ نہیں ہو سکا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا.پس یہاں بھی میں پھر اس دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ سب ہم مل کر اپنے لئے ، اپنے
خطبات طاہر جلد 14 81 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء عزیزوں کے لئے ، اپنے اقرباء کے لئے ، اپنی نسلوں کے لئے جو ہم پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں اور سب دنیا کے لئے دعا کریں کہ یہ رمضان ایسی خیر و برکت لے کر آئے جو باقی رہ جائے اور اگلے رمضان سے جاملے.یہ وہ پل ہیں جو ہمیں تعمیر کرنے ہوں گے.ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان یہ نیکیوں کے پل ہیں اور وہ راہیں جو جدا کر دیتی ہیں ایک رمضان کو دوسرے رمضان سے، ان راہوں سے احتراز کرنا ہوگا، ان سے اپنے قدم روک کر ان راہوں پر چلانے ہیں جو رمضان کو رمضان سے ملانے والی راہیں ہیں.یہ ایک بالا رادہ کوشش ہونی چاہئے.جب تک اس کا شعور بیدار نہ ہواور رمضان کے دوران انسان اپنے نفس کا جائزہ نہ لینا شروع کرے اس وقت تک نہ یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے، نہ اس کے نتیجے میں دعا ئیں پیدا ہوسکتی ہیں جو دراصل سارے کام بنایا کرتی ہیں.پس جب آپ اپنا تجزیہ کریں، اپنے گرد و پیش کا تجزیہ کریں، اپنے بچوں کا تجزیہ کریں وقتی طور پر بہت سے احمدی گھر ہیں جہاں بڑی رونقیں ہوں گی.رات کے وقت بچے اٹھ رہے ہیں اور سحری کے مزے ہیں، پھر افطاری کے مزے ہیں ، چہل پہل ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ذوق شوق سے ضد کرتے ہیں کہ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے.یہ اچھی باتیں ہیں مگر ان کے ساتھ نیکی کے مستقل سبق کتنے کتنے ہیں جو دیے جارہے رہیں.کیا کیا ہیں جو دئیے جارہے ہیں.کیا ان بچوں کی نماز پر جب آپ نظر ڈالتے ہیں جو رمضان سے وابستہ ہیں تو کیا آپ ان کو ساتھ یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ یہ نماز میں تو مستقل حصہ ہیں جو زندگی کے ساتھ ہیں.اب تم نے کچھ توفیق پائی ہے تو آگے بڑھو اور یہ عہد کرو کہ گزشتہ سال رمضان کے بغیر جو دن گزرے تھے.ان میں جو نما زیں تم کھو بیٹھے اب آئندہ اگلے رمضان تک وہ نمازیں نہیں کھوؤ گے مسلسل ان کو جاری رکھو گے.پس جب میں کہتا ہوں کہ ایک پل تعمیر کریں جو ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ممتد ہو تو کوئی فرضی قصے نہیں ہیں یہ روزمرہ کے حقائق ہیں جن کی باتیں کرتا ہوں.یہ عبادتوں کے پل ہیں جو پہلے نہیں تھے اب آپ نے تعمیر کئے ہیں، ان کو آگے بڑھائیں.اگر پل کنارے سے کنارے تک نہ پہنچے تو بیچ میں جہاں بھی پل رکا وہاں غرق ہو جائیں گے.پس اگر رمضان آپ کو ایسے کنارے تک پہنچاتا ہے جس کے بعد اچانک نیکیاں غائب اور بدیوں کا پھر از سر نو قبضہ ہے تو یہ تو غرقابی کے پل ہیں، یہ تو نجات کے پل نہیں.پس رمضان کی نیکیوں کو پائندگی دینا، ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری کرنا یہ
خطبات طاہر جلد 14 88 82 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء وہ جد و جہد ہے جس میں رمضان آپ کے لئے سراسر خیر و برکت ہے.اگر یہ جد و جہد بالا رادہ شروع کریں اور یا درکھیں کہ آپ کے ارادے سے بات نہیں بنے گی جب تک دعا مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد نہ مانگیں اس وقت تک یہ جدو جہد کا میاب نہیں ہو سکتی مگر دعا کے لئے توجہ چاہئے.دعا کے لئے ایک گہرا احساس چاہئے ورنہ ہونٹوں کی دعائیں تو کسی کام نہیں آیا کرتیں.دل کی گہرائی سے اضطراب کے ساتھ اٹھنے والی دعائیں ہیں جو اللہ تعالی سنتا ہے.آنحضرت ﷺ نے بھی اس پر روشنی ڈالی اور قرآن کے مضامین کی مزید تفاصیل بیان فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس مضمون پر بہت روشنی ڈالی اور کثرت سے اپنی عارفانہ تحریروں میں بتایا کہ دعا کیسے قبول ہوتی ہے، کیا باتیں ہیں جو قبولیت دعا کا تقاضا کرتی ہیں، پہلے وہ کرو پھر قبولیت دعا کی توقع رکھو.اس میں سب سے اہم بات اضطراب ہے اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ لوگوں کو مضطرب کر دے.وہ آنسو خدا کے کس کام کے جو آنکھوں سے بہہ رہے ہوں.سیدھا سادہ منہ سے کسی نے کہ دیا اللہ میاں یہ دے دے تو دے کیوں نہیں دیتا.بات یہ ہے کہ دعا ایک عام ذریعہ طلب نہیں ہے.عام ذرائع طلب وہ ہیں جو دنیا میں خدا تعالیٰ نے قانون قدرت کے طور پر آپ کو مہیا کر رکھے ہیں اور بے شمار ہیں.وہ قوانین ہیں جو ہر کھرے کھوٹے ، ہر نیک و بد کے لئے خدا کی رحمانیت اور رحمیت کے چشمے بہار ہے ہیں اور جو خدا کا فیض حاصل کرنا چاہے وہ ان ذرائع کو اختیار کر کے حاصل کر سکتا ہے.پس دعا کے الگ نظام کی ضرورت کیا تھی اس پر آپ غور کریں گے تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ اضطراب کی کیا ضرورت ہے.عام طور پر جب آپ کسی کام میں محنت کرتے ہیں ، شغف رکھتے ہیں ، اس کام سے گہرا دلی تعلق ہوتا ہے تو وہ کام زیادہ اچھا ہوتا ہے.اگر سرسری طور پر کرتے ہیں تو اچھا نہیں ہوتا.یہ قانون کس نے بنایا ہے.اسی خدا نے جس نے دعا کا نظام بھی جاری فرمایا ہے.ایک آدمی کسی مجلس میں بیٹھتا ہے ، سرسری طور پر دلچسپی لیتے ہوئے وہاں موجود رہتا ہے.ایک آدمی جان و دل بیچ میں ڈال کر بیٹھتا ہے ان دونوں کے فوائد میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور فائدے کے لئے گہری توجہ، انہماک اور سچا پیار ہونا ضروری ہے.پس اگر دعا کسی اور قانون کے تابع بنائی جاتی تو اس خدا کی طرف سے نہ ہوتی جس خدا نے دنیا کا نظام بنایا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 883 83 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء خدا میں کوئی تضاد نہیں ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس کی کائنات میں نظر ڈال کر دیکھو تمہیں کہیں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے گا.نظر دوڑاؤ ، کائنات کی پنہائیوں میں اتر جاؤ تمہیں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے گا.پھر دوبارہ نظر ڈالو تمہاری نظر تھکی ہاری لوٹ کر تمہاری طرف آجائے گی مگر تمہیں خدا کی کائنات میں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے گا.پس جس خدا نے دنیاوی تدبیر کا نظام جاری فرمایا اور اب ہا ارب سال ہماری تعمیر کے ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ نظام بہت ہی مؤثر اور کارگر ہے اس نظام میں مرکزی نقطہ توجہ ہے اور کوشش اور جدو جہد ہے جو دلی تمنا کو چاہتی ہے اور دلی تمنا ہو تو اضطراب پیدا ہوتا ہے، دلی تمنا ہو تو جب تک آپ اپنی خواہش کو حاصل نہیں کر سکتے آپ بے چین ہوتے ہیں اور یہ تمنا جتنی بڑھتی ہے اتنا ہی اضطراب بڑھتا ہے.پس سوال یہ ہے کہ دعا کا نظام اس عام قانون قدرت کے سوا کیوں بنایا گیا ؟ عام لوگوں کو کیوں اس سے محروم رکھا گیا ؟ دراصل خدا کی ہستی کے یقین کا سب سے موثر ذریعہ دعا ہے اور خدا کے ساتھ رہنے کا جو محاورہ ملتا ہے وہ دعا ہی کے ذریعہ سمجھ آتا ہے.اس کے بغیر یہ محض منہ کی باتیں ہیں.کہتے ہیں Communion with God انگریزی میں بھی محاورہ ہے.عیسائی اس پر بڑا فخر کرتے ہیں ، اچھا محاورہ ہے مگر محاورہ ہے.کیسے خدا کے ساتھ انسان رہ سکتا ہے.یہ مضمون دعا سکھاتی ہے اور رمضان دعا کے مضمون کو سکھانے کا سب سے مؤثر مہینہ ہے.رمضان سے زیادہ دعا کا مضمون سمجھ نہیں آسکتا لیکن دعاؤں میں اضطراب ہونا چاہئے.اضطراب اس لئے کہ آپ کی دلی توجہ اس طرف ہو قانون قدرت میں، جس طرح آپ کوشش کرتے ہیں ہر اس چیز کے لئے جس کی خواہش ہو یہاں تک کہ جب محبت سے کوشش کرتے ہیں تو بعض دفعہ محبت پاگل پن کی حد تک پہنچ جاتی ہے.ایسا اضطراب، ایسا جنون ، اگر دعاؤں میں آئے گا تو دعائیں بھی پھل لائیں گی اور اس روحانی نظام میں آپ خدا کی ہستی کے ایسے شواہد دیکھیں گے جو ساری کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن آپ غافل آنکھوں سے اس کو دیکھتے ہیں کیونکہ وہ روز مرہ کا ایک دستور بن گئے ہیں.دعا اس روزمرہ کے دستور سے آپ کے ذہن کو الگ کرتی ہے، ایک ایسا احساس مزید آپ میں پیدا کرتی ہے کہ جہاں آپ جانتے ہیں کہ دعا اگر سنی گئی تو یہ کام ہوگا ورنہ نہیں ہوگا.جہاں سب دوسرے ذرائع ٹوٹ جاتے ہیں.سب دوسری راہیں بند ہو جاتی ہیں.حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے“.
خطبات طاہر جلد 14 84 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا: خیلے سب جاتے رہے اک حضرت تواب ہے (درشتین: 68) یہ مجھے یاد نہیں کہ الہام ہے یا آپ کا اپنا مصرعہ ہے لیکن کلام الہامی معلوم ہوتا ہے.ایسا وقت جب کوئی حیلہ باقی نہ رہے اس وقت اضطراب بھی پیدا ہوتا ہے اور دعا پر یقین بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ جب حیلے نہ رہیں تو بے انتہا بے چینی اور گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے اور اضطراب اسی کا نام ہے.اس وقت جو دعا کی جاتی ہے اگر وہ مقبول ہو تو انسان کا دل کامل یقین سے بھر جاتا ہے کہ ایک سننے والی ہستی ہے جس نے میری بات کو سناور نہ اور کوئی ذریعہ نہیں تھا تو اللہ سے تعلق کا ایک پل ہے.میں ابھی پل کی بات کر رہا تھا کہ جو ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ممتد ہوتا ہے یہ رمضان سے رمضان کو ملانا تو کوئی مقصد نہیں مگر یہ وہ پل ہے جو خدا تک پہنچاتا ہے، یہی اصل مقصد ہے.یہ خدا تک پہنچنے کا جو پل ہے یہ دعا ہے جو آسمان تک پہنچتی ہے، اس کا جواب آتا ہے انسان یقین سے بھر جاتا ہے کہ میرا ایک خدا ہے لیکن اضطراب کے ساتھ اگر یقین نہ ہو تو وہ دعابے کا ر ہو جاتی ہے.بعض دفعہ اضطراب ہے لیکن یقین نہیں ہے اور اضطراب ہے مگر محبت نہیں ہے اور خدا کا گہرا تصور اور خدا کی قدر دل میں نہیں ہے.بعض لوگ ایسی دعائیں بھی کرتے ہیں ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں ، بات کھول کر اچھی طرح ان پر یہ بات روشن کر دینا چاہتا ہوں کہ آپ کا اضطراب مسلم تسلیم ہے کہ آپ اضطراب کی حالت میں خدا کو پکارتے ہیں ایک لڑکا کہتا ہے اے خدا اتنی دیر ہوگئی میرے پرچے خراب ہو رہے ہیں اس دفعہ مجھے پاس کر دے.ایک انسان ہے جو یہ کہتا ہے کہ اے خدا روزی کا کوئی ذریعہ نہیں ، فاقے مرگیا، بار بار تیرے حضور ماتھا رگڑتا ہوں، کوئی جواب نہیں آتا.تو کیسا خدا ہے ایک طرف کہتا ہے إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْب اے محمد وہ تجھ سے میرے بندے سوال کرتے ہیں کہ میں کہاں ہوں اِنِّي قَرِيبٌ میں پاس ہوں تو وہ کون سا خدا تھا جس نے یہ اعلان کیا ہماری دعا ئیں تو نہیں سنی جار ہیں.یہ جو اضطراب ہے ایک بیٹے کا اضطراب ہے اس کا تجزیہ کر کے اسے حقیقی اضطراب سے الگ کرنا ہوگا جو اضطراب خدا سے ملانے والا ہے.یہ وہ دعائیں ہیں جو شدید اضطراب میں اگر مقبول ہو بھی جائیں تو خدا سے نہیں ملاتیں بلکہ نفس پرستی کی دعائیں ہیں.اپنے نفس سے ملاتی ہیں اور انسان واپس اپنے نفس کی طرف لوٹ جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ اس
خطبات طاہر جلد 14 85 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء کی مثال دیتا ہے فرماتا ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اضطراب حقیقی ہے اور اس وقت بعض لوگ یہ یقین کر لیتے ہیں کہ خدا کے سوا اب کوئی نہیں جو بچانے والا ہو.جب یہ اخلاص، عارضی اخلاص بھی پیدا ہو جائے تب بھی ہم ان کی دعاؤں کو سن لیتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو کشتیوں میں سوار طوفان کی لہروں کے رحم و کرم پر ہیں کسی لمحہ بھی وہ طوفان ان کو غرق کر سکتے ہیں.جب مخلصین ہو کر مجھے پکارتے ہیں اضطراب کے ساتھ ، تو میں جواب دیتا ہوں ان کے طوفان کو امن کی حالت میں بدل دیتا ہوں.وہ خیر و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے کناروں پر پہنچتے ہیں مگر اپنے اضطراب کو بھی چھوڑ جاتے ہیں اپنی دعاؤں کو ، اپنے خدا کو بھی پیچھے سمندروں میں چھوڑ جاتے ہیں اور پھر شرک کی طرف اور اپنی پرانی بدیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں.پس ایسے لوگ جن کا اضطراب اللہ کے لئے نہ ہو یا حقیقت میں اللہ سے تعلق کے لئے نہ ہو بلکہ اپنی خود غرضی کے لئے ہو ان کا اضطراب بعض دفعہ کبھی کبھی ان کو ان کا مد عادل بھی دیتا ہے مگر مدعا جو ہے وہ عارضی اور ایک مادی اور دنیاوی مدعا ہوتا ہے اس سے آگے وہ نہیں بڑھتے اس لئے وہ دعائیں سنی بھی جائیں تو اللہ کی طرف نہیں لوٹتے.ایسے طالب علموں کو آپ سوچ لیجئے تصور کریں آپ کے طالب علمی کے زمانے میں ایسے بہت سے طلباء ہوں گے جو ادھر امتحان آیا ادھر مسجدوں میں پہنچنے شروع ہو گئے.ادھر امتحان ختم ادھر مسجدوں سے چھٹی.دعاؤں کے خطوط شروع ہوئے ، جب امتحان قریب آگیا.امتحان گزرا تو اس مصیبت سے نجات.یہ جو تعلق ہیں یہ وہ اضطراب نہیں جس کے متعلق خدا وعدہ کرتا ہے کہ میں ضرور سنوں گا کیونکہ اس کی تشریح خود بعد میں پھر بیان فرما دی، فرمایا کہ جب میں تمہیں پکارتا ہوں تم بھی تو جواب دیا کرو تم بھی تو میرے لئے موجود ہو.اب ایک طرف وہ خدا ہے جو بعض لوگوں کے تصور میں وہ الہ دین کے چراغ کا جن ہے جب جی چاہا بلا لیا جب چاہا اس کو واپس کا لعدم کر دیا گویا وہ ہے ہی نہیں.یہ مراد ہر گز نہیں ہے کہ جب اضطراب ہو تو میں حاضر ہو جاؤں گا.وہ اللہ تعالیٰ ہے مالک ہے کوئی تمہارا غلام جن تو نہیں جو کسی لیمپ میں قید ہوا ہو.پس دعا وہ چراغ نہیں ہے جو الہ دین کا چراغ کہلاتا ہے.دعا وہ چراغ ہے جو دلوں میں نور بن کے روشن ہوتی ہے اور مستقل رہتی ہے پھر کبھی نہیں چھوڑتی اور اس مثال کو قرآن کریم نے نور کے لفظ سے بیان کرتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا صلى الله وہ نور بیان فرمایا جو خود بھی روشن جس پر خدا کا شعلہ عشق نازل ہوا ہے اور اسے منور کر گیا ہے اور
خطبات طاہر جلد 14 86 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء دوسروں کو بھی منور کرنے والا ہے وہ ایسا نور ہے جو ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتا ہے اس گھر کو روشن کر دیتا ہے پھر سینہ بہ سینہ چلتا ہے دوسرے گھروں کو بھی روشن کرتا چلا جاتا ہے.وہ ایسا نور تو نہیں ہے جو پیچھے چھوڑ دیا جائے اور غائب کر دیا جائے.اس لئے دعا کو اگر آپ سچے معنوں میں سمجھیں تو یہ رمضان آپ کے لئے دائمی برکات لے کر آیا ہے جو آپ کے پاس چھوڑ جائے گا.دائمی برکات کو لایا ہے ضرور اس میں تو کوئی شک نہیں.ہر رمضان ایسا ہے جبکہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق آسمان سے رحمتیں لے کر خدا سماء الدنیا میں اتر آتا ہے اور خود طلب کرتا ہے کوئی ہے مانگنے والا تو میں آیا ہوں، تمہیں دوں گا.ایسے مانگنے والے چاہئیں جو عطا کرنے والے کا مزاج تو سمجھیں یہ تو پتا کریں کہ وہ آیا ہے تو کیسے دے گا.کیا ہر پکارنے والے کے منہ کی پکار کا جواب دے گا جب کہ وہ پکارنے والا جب خدا، اسے پکارے گا تو منہ موڑ کر دوسری طرف چلا جائے گا ، ہر گز نہیں.ایسا خدا تو نوکروں سے بھی بدتر ہے جو اس غرض کے لئے آپ کے ذہنوں نے بنا رکھا ہے.حقیقی خدا وہ ہے جس کی بندگی کی جاتی ہے اور وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ میں لفظ عباد میں یہ کنجی رکھ دی گئی ہے.میرے بندے جو ہیں ، شیطان کے بندے نہیں.میرے بندے بن کر رہیں جن کو میری ذات پر کامل یقین ہے ان کو بتا دے کہ میں تو ہر وقت ان کے ساتھ ہوں اور اپنے بندوں کو کبھی نہیں چھوڑ تا لیکن بندہ بھی تو آقا کو نہیں چھوڑتا.بندہ تو آقا کو چھوڑ سکتا ہی نہیں یہ مضمون ہے جس کی طرف آپ کو توجہ کرنی چاہئے کیونکہ بندہ تو غلام کو کہتے ہیں.عبد غلام کو کہتے ہیں اور آقا کو تو اختیا ر ہے جب چاہے غلام کو چھوڑ دے، غلام کو اختیار ہی نہیں ہے.تو اگر ایک انسان اپنے لئے ایک ایسی حالت پیدا کر لے کہ اللہ کی محبت اور اطاعت کی زنجیروں میں ایسا جکڑا جائے کہ اسے چھوڑ نہ سکے.ہرا بتلا کے وقت وہ اپنے آپ کو آزما کے دیکھے اور اس کا دل یہ کہے کہ ہاں میں دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں.مگر اس خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.ایسا شخص اگر گناہ اور لغزش میں بھی مبتلا ہو جائے تو یہ اس کی عبودیت کا انکار نہیں ہے لیکن وہ امتحان پھر بھی پیش آئیں گے جہاں عبودیت کا انکار بھی ہو سکتا ہے، اس کے عبد ہونے کا انکار بھی روشن ہوسکتا ہے.ایک غلام جس کے اوپر مالک کو یقین ہو کہ ہے تو میرا.اگر غلطیاں بھی کرتا ہے تو مسکرا کر بعض دفعہ معمولی سرزنش کے ساتھ بھی اس کو معاف کر دیتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ ہر دفعہ جب
خطبات طاہر جلد 14 87 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء میری آنکھ اس کے لئے میلی ہوئی تو اس کا دل بھی میلا ہوا اور ہر دفعہ جب میں نے صرف نظر کی تو یہ اپنی ذات سے کھویا گیا.اس قدر بے چین ہوا کہ اس نے میری عدم توجہ کو محسوس کیا.ایسا آقا اس غلام پر بار بار بھی رحم فرماتا ہے لیکن دائمی حالت غلامی کی حالت ہونی چاہئے.وہ زنجیریں ایسی ہوں جو کبھی ٹوٹ نہ سکیں اور بعض ایسے ابتلاء انسان پر آتے ہیں جب اس کے لئے دوٹوک فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہاں ایک ذریعہ میسر ہے جو خدا کی مرضی کے خلاف ہے اور ایک ذریعہ ہے جو دعا ہے.کیا میں دنیاوی ذریعے کو جو مجھے نظر آ رہا ہے کہ میں اختیار کروں تو کچھ نہ کچھ نتیجہ نکل سکتا ہے، اسے اختیار کروں یا چھوڑ دوں اور محض دعا پر انحصار کروں.وہ دعا ہے جو اس کے غلام ہونے کو ثابت کرتی ہے وہ دعا ہے جو بتاتی ہے کہ اس کا ایک آتا ہے جس سے تعلق ٹوٹ نہیں سکتا.پھر وہ یہ عرض کرے گا اپنے رب سے کہ میں نے تو دنیا کے سب رشتے توڑ دیئے ہیں تو ہے تو میں ہوں تو نہیں ہے تو میرا کوئی وجود نہیں.تو ہے تو میرے سارے مسائل حل ہوں گے.تو نہیں تو میرا کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکتا کیونکہ میں تو دنیا کی کشتی کو چھوڑ کر تیری کشتی میں آچکا ہوں.اس لئے تو میرے لئے ہو جا اور اپنے وجود کو میری ذات پر ظاہر فرما.یہ وہ دعا ہے جوضرور مقبول ہوتی ہے جب انسان ایسا دعا کرنے والا آزمائش پر پورا اترتا ہے تو عجیب استجابت کے جلوے دیکھتا ہے.حیرت انگیز طور پر وہ خدا کوغیب سے ظاہر ہوتا ہوا اور شہادہ میں آتا ہواد یکھتا ہے.پس یہ واقعہ تو روز مرہ کی زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ جوان تجارب سے گزرتے ہیں روزمرہ وہ جانتے ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے مگر رمضان میں یہ بہت زیادہ ہوتا ہے.رمضان کے آخری عشرے میں تو اور بھی زیادہ ہوتا ہے.پس اپنے اور اپنے بچوں کا شعور اس پہلو سے بیدار کریں.اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی بتائیں کہ یہ دعائیں کرنے ، دعائیں سیکھنے اور خدا کی ہستی کا ایک ذاتی تعارف حاصل کرنے کا موقع ہے.یہ مہینہ ایسا ہے جس میں خدا کی ہستی سے ایک غائبانہ تعارف نہیں رہتا بلکہ آمنے سامنے کا تعارف ہو جاتا ہے.پس اس طرح اگر آپ اس رمضان سے گزریں گے تو بہت برکتیں ہوں گی جو برکتیں عارضی ہو ہی نہیں سکتیں کیونکہ اگر کسی بڑے آدمی سے کسی چھوٹے آدمی کا تعلق قائم ہو تو پھر وہی بات غلام اور آقا کی نسبت کی ، کہ غلام تو چھوڑ ہی نہیں سکتا ، آقا نا پسند فرمائے تو چھوڑ بھی دیتا ہے.غلام ہمیشہ پریشان اور فکر مند رہتا ہے کہ کہیں یہ تعلق.
خطبات طاہر جلد 14 88 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء ٹوٹ نہ جائے.تو چھوٹے لوگ ، جب بڑوں کے درباروں میں رسائی پاتے ہیں تو ان کو فکر ہوتی ہے کہ وہ ہمیں نہ چھوڑ دیں.جو بڑے ہیں ان کو کیا فکر ہے.اگر چھوڑ بھی دیں تو ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوگی لیکن نہ چھوڑیں تو کچھ تعلق بڑھتا ہی ہے.پس اس پہلو سے آپ رمضان کی وہ برکتیں حاصل کریں گے کہ اگر خدا کا وجود آپ پر ظاہر ہو اور دل کامل یقین سے بھرے کہ ہم اپنی عمریں ضائع نہیں کر رہے اس کا ئنات کا ایک خدا ہے جو اس کائنات کے ہر ذرے کا بھی خدا ہے، ہر حقیر ترین ذرے کا بھی خدا ہے.وہ بھی اگر خدا کا قرب چاہے تو اسے بھی عطا ہو سکتا ہے تو پھر ایک عظیم کائنات پر جلوہ گر رحمت آپ کی ذات پر جلوہ کرتی ہے.وہ محض عالم پر نہیں چمکتی آپ کے دل کو کائنات بنا دیتی ہے اور اس دل میں چمکتی ہے.اس مقصد سے دعائیں کریں اور اس مقصد سے دعائیں سکھائیں اپنی اولا د کو اپنے عزیزوں کو اور اپنے اقرباء کو.اور اس ضمن میں میں داعیین الی اللہ کو خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کو مستقلاً خدا کا بنا دینے کا ایک بہت ہی اچھا وقت ہاتھ آیا ہے.آج کل جو نئے نئے احمد کی ہوئے ہیں، دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں ، کوئی شرک سے آرہے ہیں کوئی دہریت سے آ رہے ہیں ، کوئی دوسرے مسلمانوں سے چلے آرہے ہیں جنہوں نے اب اسلام کا حقیقی نور پایا اور دیکھا اور پہچانا ہے.غرضیکہ ہر قسم کے لوگ ہر ملک سے آرہے ہیں اور یہ تعداد خدا کے فضل سے دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے ان کو سنبھالنے کا مسئلہ ہوا کرتا ہے اور میں داعین الی اللہ کونصیحت کرتا ہوں کہ اب رمضان میں ان کو اس طرح سنبھالیں کہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ پکڑا دیں.اس سے بہتر سنبھالنے کا اور کوئی طریق نہیں ہے.سارے مسائل ایک طرف سارے روز مرہ کے جھگڑے ایک طرف اور کسی کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں تھما دیا جائے یہ ایک طرف، اس کے بعد خدا اسے پکڑ لیتا ہے اور مضبوطی سے اس کو تھام لیتا ہے.اب یہاں مضمون کچھ بدل گیا ہے.میں نے کہا تھا کہ آپ چھوڑ دیں تو چھوڑ دیں لیکن اگر آپ خدا کا حقیقی عرفان حاصل کریں تو آپ چھوڑ نہیں سکتے.اس کے برعکس اللہ چاہے تو چھوڑ دے لیکن انہی کو چھوڑتا ہے جو اس کا حقیقی عرفان حاصل نہیں کرتے ، ایک سرسری تعلق کے لئے اس کے پاس آتے ہیں.تو اب میں جو آپ کو بات کہ رہا ہوں در حقیقت اس میں تضاد نہیں.میں یہ کہتا ہوں کہ ان دنوں میں ان کا ہاتھ تھما دیں پھر وہ خدا اس کو سنبھال لے گا.کچھ عرصہ ایسا گزرتا ہے خدا سے
خطبات طاہر جلد 14 89 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء تعلق میں کہ بندہ چھوڑنا بھی چاہے تو خدا ہاتھ نہیں چھوڑتا.بعض دفعہ مصافحے میں میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جو زیادہ ہی پیار کا اظہار کرنا چاہیں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کتنے لوگ مصافحے والے کھڑے ہیں ہاتھ میں ہاتھ آجائے تو چھوڑتے ہی نہیں.بڑی مشکل سے انگلیاں ( یوں یوں کر کے ) نکالنا پڑتا ہے ہاتھ.تو یہ تالیف قلب کا دور بھی اسی طرح کا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے نئے آنے والوں پر اتنا مہربان ہوتا ہے کہ بندوں کو بھی حکم ہے کہ ان کی تالیف قلب کرو.یہ ذرا دل جیتنے کے محتاج لوگ ہیں اور خود بھی تالیف قلب فرماتا ہے اور حیرت انگیز طور پر بعض دفعہ ان کو نشان دکھاتا ہے.تو جب اس ہاتھ کی عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ بھی نہیں چھوڑ سکیں گے لیکن جب تک یہ ہاتھ اس ہاتھ میں نہ آجائے جو خدا کا ہاتھ کہلاتا ہے اس وقت تک آپ کے ہاتھوں میں تو محفوظ نہیں ہیں.آج ہے کل ہاتھ سے نکل جائے گا.آپ کو کب توفیق ہے کہ سارا دن تمام سال بھر آپ روزانہ ان کی فکر کریں مہینے میں ایک دو دفعہ بھی فکر کا آپ کے پاس وقت نہیں رہتا اب تو رفتار بھی بہت پھیل چکی ہے.لکھوکھا کی تعداد میں لوگ احمد بیت قبول کر رہے ہیں اور ہر قوم سے، ہر مذہب سے، ہر زبان بولنے والوں میں سے آرہے ہیں تو ان کو آپ کیا سمجھا ئیں گے کیسے کیسے ان کی طرف تو جہات کا حق ادا کریں گے ایک ہی طریقہ ہے کہ خدا کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ تھما دیں اور رمضان مبارک میں یہ کام ہر دوسرے دور سے زیادہ آسان ہو جاتا ہے.اس ضمن میں ان کو روزے رکھنے کی تلقین کریں.روزے رکھنے کے سلیقے سکھائیں.ان کو بتائیں کہ اس طرح دعائیں کرو اور اللہ دعاؤں کو سنتا ہے لیکن اس سے عہد باندھو کہ تم اس کو چھوڑو گے نہیں.اصل مقصد مذہب کا خدا سے ملانا ہے.اگر کوئی مذہب باتیں سکھا جاتا ہے اور قیدوں میں مبتلا کر جاتا ہے مگر خدا کا قیدی نہیں بناتا تو ایسے مذہب کا کیا فائدہ.جتنے زیادہ بندھن ہوں اتنا ہی وہ مذہب مصیبت بن جاتا ہے لیکن اگر وہ بندھن خدا کی محبت کے بندھن ہوں تو پھر وہ مصیبت نہیں وہ رحمت ہی رحمت ہے، وہ عشق کے بندھن ہونے چاہئیں.پس ہر وہ شریعت جس پر عمل ظاہری ہو وہ ایسی غلامی کے بندھن ہیں جن کے ساتھ اللہ کی محبت کا تعلق نہیں ہے.ایسے لوگ خواہر پرست ہو جاتے ہیں، ظاہری چیزوں کے غلام ہو جاتے ہیں ان کی شریعت ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاتی.کورے کے کورے سخت دل کے سخت دل ، انسانیت کی اعلی قدروں سے عاری اس دنیا سے گزر
خطبات طاہر جلد 14 جاتے ہیں، کچھ بھی فائدہ ان کو نہیں ہوتا.90 90 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء لیکن وہ بندھن اگر خدا کی محبت کے بندھن میں تبدیل ہوں اور اس وجہ سے ہوں.اللہ کی خاطر ایک انسان اپنے آپ کو پابند کر رہا ہے اور اس کی محبت کی خاطر کر رہا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے.پھر وہ عبد بنتا ہے ، پھر وہ غلام ہوتا ہے ورنہ روزمرہ کی ٹکسالی کے طور پر کام کرنے والے کہاں غلام ہوتے ہیں.پس اس معنے میں ان کی تربیت کریں، ان کو سمجھا ئیں اور پھر چھوٹے موٹے روزمرہ کے رمضان کے آداب بھی تو بتائیں.روزے کیسے رکھے جاتے ہیں.کیوں رکھے جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس سلسلے میں جو نصیحتیں فرما ئیں ان سے کچھ ان کو آگاہ کریں تو رفتہ رفتہ ان کی تربیت ہوگی اور اگر ان کو یہ تجربہ رمضان میں ہو گیا کہ ان کو لیلتہ القدر نصیب ہوگئی یعنی وہ رات آئی ہے جو رات کہلاتی ہے مگر سب سے زیادہ منور ہے اور سب سے زیادہ دائگی روشنیاں پیچھے چھوڑ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہو سکتا ہے وہ آپ کو سنبھالنے والے بن جائیں، آپ کو ان کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں رہے گی.ایسے لوگ میں نے دیکھے ہیں جب ان کی احمدیت میں ان میں انقلاب بر پا ہو جاتا ہے وہ ہر ابتلاء سے اوپر نکل جاتے ہیں کوئی ٹھو کر ان کے لئے ٹھو کر نہیں رہتی وہ یہ نہیں کہتے کہ دیکھو جی فلاں یوں کر رہا ہے.انہوں نے ہمیں احمدیت دی، اپنا یہ حال ہے.وہ اپنے آپ کو خدا کا ان سے بہتر نمائندہ سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی فکر کرتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں ، ان کو سمجھاتے ہیں.ایسے لوگ ہیں جن کی آج ہمیں ضرورت ہے دنیا کو سنبھالنے کے لئے.اگر ایسے ہی رہنے دیا گیا کہ ہر وقت آپ ہی نے ان کو سنبھالے رکھنا ہے تو آپ کی طاقت میں تو یہ سنبھالنا بھی نہیں انہوں نے پھر آگے دنیا کو کیا سنبھالنا ہے اس لئے رمضان سے یہ فائدہ اٹھائیں.میں چند احادیث جتنا بھی وقت ہے آج آپ کے سامنے رکھتا ہوں باقی انشاء اللہ آئندہ خطبے میں، میں بیان کروں گا اور اس مضمون کو آگے بڑھاؤں گا.حضرت ابوھریرہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اب یہ دو باتیں ہیں جو بیان فرمائی گئی ہیں.جھوٹ بولنے سے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے ان میں کیا فرق ہے.بعض لوگ تو عادتاً جھوٹ بول دیتے ہیں.ایک بات یہ کہ اس کا خاص مقصد
91 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء خطبات طاہر جلد 14 حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ صرف اپنی شیخی ہوتی ہے بعض دفعہ.بعض دفعہ دلچسپ بات کرنے کا شوق ان سے جھوٹ بلواتا ہے جو واقعہ نہیں ہوا ہوتا وہ اپنی طرف اپنے تجارب کی طرف منسوب کر دیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں دوسرے کو صرف اتنا دھو کہ لگتا ہے کہ آدمی بڑا ہوشیار ہے مگر اور نقصان نہیں اتنا کہ پہنچتا.مگر یہ جھوٹ یہاں نہیں رہا کرتا جو شخص ایسا جھوٹ بولے پھر وہ جھوٹ اس کے عمل میں داخل ہوتا ہے اور اس کی ساری زندگی کو جھوٹا بنادیتا ہے وہ کمائی جھوٹ کی کرتا ہے وہ خطروں سے بچتا ہے تو جھوٹ کی پناہ میں آکر بچتا ہے.وہ تمنائیں کرتا ہے تو اس کی تمناؤں میں جھوٹ اس کا مددگار بن جاتا ہے اور اس کے اعمال میں رچ بس جاتا ہے.یہ وہ جھوٹ ہے جس کی طرف حضرت اقدس صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ نے توجہ دلائی کہ رمضان میں اس بد بخت چیز کو چھوڑو اور اگر اس کو نہیں چھوڑو گے تو یہ رمضان تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا.فرمایا اللہ کو کیا دلچسپی ہے کہ تم بھوکے رہو.رہو نہ رہو خدا تو رازق ہے، خدا تو احسان کرنے آیا ہے.بھوک اگر کسی نیکی کا پیش خیمہ بنتی ہے، اگر بھوک خدا کی خاطر ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ سے کوئی تعلق باندھتی ہو تو پھر یہ بھوک پیاری ہے ورنہ فی ذاتہ بھوک کی کوئی حقیقت نہیں ہے.تو آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت کو پکڑیں اور اس نصیحت سے اپنے سفر کا آغا ز کریں کیونکہ اکثر جو نو مبائعین ہیں ان کو تو میں نے سچا ہی دیکھا ہے خصوصاً یورپ میں.اکثر لوگ سچ کے ہی عادی ہیں.یہ بدقسمتی ہے بعض تیسرے درجے کی دنیا کی جس میں افریقہ بھی شامل ہے پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش.ایسے لوگ ہیں بڑا ہی جھوٹ بولتے ہیں اور روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ کا سہارا لئے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتے.ان کے سیاستدان بھی جھوٹے ،ان کے پولیس کارندے بھی جھوٹے ، ان کی سول سروس والے بھی جھوٹے ، ان کے تقویٰ انصاف قائم کرنے والے بھی جھوٹے ، ان کے مانگنے والے بھی جھوٹے ، ان کے دینے والے بھی جھوٹے.اتنا جھوٹ ہے کہ ایسی وبا جھوٹ کی شاید ہی دنیا میں کبھی کسی دنیا پر بلا کے طور پر اتری ہو.تو رمضان کا مہینہ ہے سب سے پہلے وہ لوگ جو ایسے ملکوں سے یہاں آئے ہیں یا دوسرے ملکوں میں گئے ہیں جہاں جھوٹ نہیں ہے وہ پہلے اپنے نفس کی تو اصلاح کرلیں.بھوکے رہیں گے اور جھوٹ بھی بولیں گے تو بھوکے رہنا سب کچھ
خطبات طاہر جلد 14 92 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء باطل جائے گا.مفت کا عذاب ہے، گناہ بے لذت ہے یعنی یوں کہنا چاہئے ثواب ہے جو تکلیف دہ ثواب ہے لیکن ثواب نہیں ملتا.ایسا ثواب ہے جو فرضی ثواب ہے.تکلیف چھوڑ جاتا ہے ثواب نہیں ہوتا.تو اس کا کیا فائدہ؟ اس لئے آنحضرت ﷺ نے جو نکتہ بیان فرمایا ہے اس کو سمجھیں گے تو آپ کی زندگی سنور جائے گی.آپ اس بات کے اہل ہو جائیں گے کہ دوسروں کو نصیحت کر سکیں ، آپ کی بات میں طاقت پیدا ہوگی ، آپ کے گھر کے حالات بھی سنوریں گے.روزمرہ جو اپنی بیویوں سے جھوٹ بولتے ہیں، اپنے بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں.دوستوں یاروں سے جھوٹ بولتے ہیں.بزنس کے معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں اور رشتوں کے تعلقات قائم کرنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں.کون سا ایسا آپ کا زندگی کا دائرہ ہے جس میں آپ جھوٹ سے کام نہیں لے رہے.تو اب رمضان میں اس بدبختی کو پیچھے چھوڑ کر جائیں.یہ جو پل ہے یہ ہلاکت کے سمندر میں غرق کرنے والا پل ہے اور اس کو آپ جب تک فنا نہیں کر لیتے آپ کی فنا پر یہ خطرہ ہمیشہ کھڑا رہے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگیں، دعا کریں اور جھوٹ کی لعنت سے خود بھی بچیں اور اگر ایسی قوموں میں آپ تبلیغ کر رہے ہیں جیسا کہ افریقہ ہے، پاکستان ہے ، ہندوستان ہے، بنگلہ دیش ہے اور دوسری قومیں ہیں جہاں بدقسمتی سے ان کی غربت کفر میں تبدیل ہوئی ہے اور غربت نے سب سے بڑی لعنت جھوٹ کی پیدا کی ہے اور غربت جھوٹ کی لعنت اسی وقت پیدا کیا کرتی ہے جبکہ اخلاقی قدریں کمزور ہو چکی ہوں اور حرص غالب آچکی ہو.تو یہ ساری بیماریاں ہیں جنہوں نے مل کر ہمارے تیسری دنیا کے ملکوں کا امن اجاڑ دیا ہے، کچھ بھی وہاں باقی نہیں رہا، کوئی مستقبل کی امید بھی دکھائی نہیں دیتی.ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت آتی ہے ، وعدے کرتی ہے اور کوشش بھی کرتی ہے کہ کچھ بنے لیکن خود بھی انہی بیماریوں کی پروردہ حکومتیں ہیں جو بیماریاں سارے ملک میں ایک عذاب کی صورت میں پھیلی ہوئی ہیں.پس اس کے لئے جھوٹ کے خلاف جہاد ایک بہت بڑا اور بنیادی جہاد ہے.کل عالم میں جماعت احمدیہ کو اور ان کو جو داعی الی اللہ بننے کے دعوے دار ہیں خصوصیت سے جھوٹ کے خلاف پہلے اپنے نفس میں جہاد کرنا ہے.یہ رمضان ختم نہ ہو جب تک ان کا جھوٹ ختم
خطبات طاہر جلد 14 93 خطبہ جمعہ 3 فروری 1995ء نہ ہو چکا ہواور کلیتہ جھوٹ سے چھٹکارا پا کر ایک نئی زندگی میں داخل نہ ہو جائیں.یہ ہر نصیحت کی جان ہے ہر نصیحت کی ماں ہے اس لئے میں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی نصائح میں سے یہ ایک نصیحت سب سے اوپر رکھی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس میں آپ کی فلاح کی ہر کنجی موجود ہے.اس لئے دعائیں کریں اور جھوٹ سے خود بھی نجات حاصل کریں اور اپنی اولا د کو بھی سچائی پر گامزن کریں اور جھوٹ سے نجات حاصل کرنا ایک وقت کے فیصلے کی بات نہیں ہے باشعور طور پر آپ کو اپنے ہر فیصلے کی نگرانی کرنی ہوگی.ہر عذر جو آپ پیش کرتے ہیں اس کی نگرانی کرنی ہوگی.ہر بات جو آپ کسی دوست یا تعلق والے کو اپنے خطوط میں لکھتے ہیں اس کی بھی نگرانی کرنی ہو گی.بسا اوقات مبالغے کی باتیں ہوتی ہیں.محبت کے اظہار ہیں جی ہم تو حاضر ہیں ہم تو غلام ہیں لیکن سب جھوٹی باتیں ہیں.وہ غلامیاں نفس کی غلامیاں ہوتی ہیں کسی اور کی نہیں ہوتیں.تو ہمارے تعلقات کے دائرے میں ایسے جھوٹ بھی ہیں جو مخفی ہیں ہماری اپنی نظر سے غائب رہتے ہیں.ہم عذر جو روزانہ بناتے ہیں کئی بار کہ یہ بات ہوگئی تھی اس لئے میں نے یوں کہہ دیا تو بات کہی اس کے بعد تو اس کی تو جیہات شروع کر دیں اور وہ تو جیہات جھوٹی ہوتی ہیں.تو جھوٹ کے خلاف جہاد بہت بڑا محنت کا کام ہے.بڑا جان جوکھوں کا کام ہے.اس لئے جن باتوں کو میں سمجھا رہا ہوں، غور سے سنیں اور اس رمضان میں دعاؤں کے ساتھ مدد کرتے ہوئے اپنے نفس کے جھوٹ کے خلاف جہاد کریں پھر اللہ آپ کو ان کی تربیت کی توفیق دے گا جو خدا کے قریب آنے کے لئے خود کئی کئی مشکلات میں سے، کئی مصائب میں سے گزر کر حاضر ہو چکے ہیں اب ان کو آپ نے سنبھالنا ہے ، ان کی دلداریاں کرنی ہیں، ان کی تربیت کرنی ہے اور رمضان یہ بہترین مہینہ ہے تربیت کے لحاظ سے اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین
94 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 95 95 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے.تفقہ فی الدین اور حصول علم عظیم الشان نیکیاں ہیں.(خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ).تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِO هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِينٍ ( الجمعه 2 ، 3) پھر فرمایا :.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رسالت کے چار عظیم فرائض جو آپ کے سپرد تھے اور آپ کی رسالت کا خلاصہ ہیں اس آیت کریمہ میں بیان فرمائے گئے ہیں جس کی میں نے تلاوت کی ہے.اول مقصد ہر رسول کی بعثت کا خدا تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنانا ہوتا ہے اور اسی طرح باقی تین مقاصد بھی جو بیان ہوئے ہیں وہ بھی دراصل رسالت کے مقاصد ہیں مگر بطور خاص حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات میں یکجائی صورت میں جس شان اور جس اعلیٰ ترتیب کے ساتھ قرآن کریم نے ل عليه بیان فرمائے ہیں ایسا ذ کر دوسری کتابوں میں نہیں ملتا.اس تفصیلی بحث کی خاطر آج یہ میں نے تلاوت نہیں کی بلکہ اس کے ایک حصے پر روشنی ڈالنا مقصود ہے.
خطبات طاہر جلد 14 96 96 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء اول یہ کہ وہ آیات پڑھتا ہے اور ان آیات کی تلاوت کے نتیجے میں اللہ کو بندوں کے قریب کر دیتا ہے اور بندوں کو یہ توفیق ملتی ہے کہ ان آیات کے ذریعے براہ راست اپنے رب سے تعلق قائم کر سکیں اور جوں جوں یہ تعلق براہ راست قائم ہوتا چلا جاتا ہے ان کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور یہ تزکیۂ نفس بھی محتاج رہتا ہے رسول کی صحبت کا، رسول کے اعلی اور پاکیزہ اثر کا اور کوئی ایسی بات نہیں جو از خود حاصل ہو رہی ہو.بظاہر براہ راست تعلق تو ہوتا ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی تلاوت کے نتیجے میں جب وہ آیات تلاوت کرتا ہے تو اس میں ایک غیر معمولی طاقت پائی جاتی ہے سچائی کی اور وہ سچائی کی طاقت ہے جو خدا کو گویا سامنے لا کر کھڑا کرتی ہے.پھر اس رسول کے ایمان اور اس کی تقویت کے نتیجے میں جس کو یہ رسول دیکھتا ہے اس خدا کو اس کے غلام دیکھنے لگتے ہیں اور ان کے نتیجے میں آمنے سامنے گویا ایمان قائم ہو گیا.اس کے نتیجے میں تزکیہ نفس ایک لازمی چیز ہے.تزکیہ نفس کا تعلق علم سے اتنا نہیں جتنا کسی طاقتور ہستی کی موجودگی کے احساس سے ہے.انسانی قوانین میں بھی یہی بات ہے جو بنیادی طور پر کارفرما ہے اگر ایک انسان کو علم ہو کہ میں ایک طاقتور قانون کی نظر میں ہوں جس کے ہاتھ مضبوط ہیں اور لمبے ہیں اور مجھ تک پہنچ سکتے ہیں تو جب تک یہ شعور موجود ہے یہ احساس موجود ہے انسان گناہ نہیں کر سکتا یعنی دنیا کا گناہ بھی نہیں کر سکتا.تو دراصل تلاوت آیات کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آنحضرت مے جس کامل یقین اور شان اور قوت کے ساتھ تلاوت آیات کرتے ہیں وہ دلوں میں ڈوبتی چلی جاتی ہے اور غائب خدا کو گویا حاضر کرتی چلی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کا تزکیہ ایک طبعی اور لازمی امر ہے مگر رسول کی برکت کے نتیجے میں اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے.وہی رسول آج بھی زندہ ہے یعنی روحانی اثرات کے لحاظ سے اور تلاوت بھی موجود ہے مگر وہ اثر دکھائی نہیں دے رہا جو اس زمانے میں ظاہر ہوا اور جس کا قرآن کریم گواہ بن گیا.وہ سنتے تھے اور پاک ہوتے چلے جاتے تھے تو صحبت رسالت ایک بہت ہی عظیم کام ہے جو رسالت کے فرائض میں شامل ہے اور اس کی ضرورت سے انکار نہیں ہوسکتا.تلاوت اپنی جگہ مگر رسول کی ذاتی صحبت اور اس کے تقدس سے تزکیہ حاصل کرنا یہ مضمون بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے.پھر فرمایا وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وہ انہیں کتاب کا علم بھی دیتا ہے اور حکمت کا علم بھی دیتا ہے.یعلم کا جو فعل ہے دونوں پر چسپاں ہو رہا ہے.يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ یعنی ان کو کتاب سکھاتا ہے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ اور ان کو حکمت سکھاتا ہے.یہ وہ
خطبات طاہر جلد 14 97 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء مضمون ہے جس کے متعلق یعنی علم اور حکمت کے مضمون سے متعلق میں چندا حادیث آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ علم اور حکمت ایسی دائمی چیز ہیں جو اگر رسول ﷺ موجود نہ بھی ہو تو اس کی خیر و برکت کو قوم میں جاری کرنے کا ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہیں اور علم و حکمت ایک زمانے میں رسالت کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہیں اس لئے علم و حکمت کے اوپر بہت زور دینے کی ضرورت ہے اور روحانی اور دینی علوم کو اور دوسرے ہر قسم کے علوم کو جو حکمت کے تابع بیان ہوئے ہیں ان کو جماعت میں ترویج دینے کی بہت ضرورت ہے اور رمضان کا مہینہ خاص طور پر چونکہ مقاصد رسالت کو قائم کرنے اور جاری کرنے میں بہت ہی مفید اور محمد مہینہ ہے اور ہمارے یہ کام جو آنحضور کی غلامی میں ہم نے اپنے اوپر فرض کر کے رکھے ہیں ان کو یہ مہینہ آسان بنا دیتا ہے،اس لئے علم و حکمت سے تعلق میں کچھ نصیحتیں میں آج آپ کو کرنا چاہتا ہوں تا کہ رمضان کی برکت سے وہ اثر جو پہلے نہیں ہو سکا اب اس مہینے کی برکت سے وہ اثر قائم ہو اور اس کے نتیجے نکلیر حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں یہ ابن ماجہ کی حدیث ہے.عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه قال قال رسول الله الله طلب العلم فريضته على كل مسلم ( ابن ماجہ باب فضل العلماء والحث على طلب العلم ) کہ علم کا طلب کرنا یہ ہر مسلمان کا فرض ہے.اب یہ دیکھیں فریضہ استاد سے ہٹا کر شاگرد پر ڈال دیا گیا ہے استاد جومحمد رسول اللہ ﷺ کا غلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلتا ہے اس نے صلى الله تو علم پھیلا نا ہی پھیلانا ہے لیکن جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھا نا ہے ان پر اگر فرض نہ کیا جائے تو وہ ہلکے انداز میں بعض دفعہ باتوں کو لیتے ہیں اور اس پیروی کو ایک زائد خدمت کے طور پر سمجھتے ہیں.کی تو بہتر ہے نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں.اس غلط فہمی کا ازالہ ہمیشہ کے لئے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد نے فرما دیا کہ طلب العلم فریضته علی کل مسلم اگر تم مسلمان کہلاتے ہو تو یا درکھو علم کی طلب کرنا اور کرتے چلے جانا یہ تمہاری شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں اور اس کو چھوڑ کر تم حقیقی معنوں سے مسلمان نہیں کہلا سکتے.پھر ابن ماجہ ہی کی ایک حدیث ہے.عن ابي هريرة رضي الله عنه ان النبي الله قال افضل الصدقه ان يتعلم المرء المسلم علماً ثم يعلمه اخاه المسم.(ابن ماجہ باب ثواب معلم الناس الخير )
خطبات طاہر جلد 14 98 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء اب یہاں بھی ہمیں اساتذہ کی جو ضرورت ہے اس کا رستہ بھی وہی تجویز فرمایا جو پہلی حدیث میں بیان کیا ہے.فرمایا ہے مسلمان پر فرض ہے کہ وہ علم سیکھے پھر سکھائے.یعنی استاد بننے کے لئے بھی ذمہ داری طالب علم پر ہے.وہ پہلے علم سیکھے اور پھر آگے اس کو جاری کرے اور اپنے بھائیوں میں اس طرح علم کی ترویج کرے.پھر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ فرماتے ہیں یہ الترغیب والترہیب سے حدیث لی گئی ہے.صلى الله عن ابي هریره رضی الله عنه قال قال رسول الله علم تعلموا العلم اتعلمو اللعلم السكينت والوقارو تواضعو المن تعلمون منه.(الترغيب والترہیب باب الترغیب فی اکرام العلماء) که علم حاصل کرو اور وقار اور سکینت کو اپناؤ.وقار سے مراد علم سے متعلق ایسا رویہ اختیار کرنا ہے کہ علم کی تم قدر کرتے ہو، اس کی عظمت کو پہچانتے ہو اور ہلکی پھلکی بات کے طور پر نہیں لیتے بلکہ پورا وزن دیتے ہو اس بات کو ، اس کو وقار کہتے ہیں.وقر ، ویسے وزن کو کہتے ہیں اور بوجھ کو بھی کہتے ہیں مگر و قار لفظ ہمیشہ اعلیٰ معنوں میں عظمت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.مراد یہ ہے کہ علم کی توقیر کرو.اسے بلند مرتبہ سمجھو اور پھر علم حاصل کرو اور سکینت کو اپناؤ.سکینت افرا تفری کے علم حاصل کرنے والے پر چسپاں نہیں ہوتا.لفظ سکینت.آیا بیٹھا بے چین ہوا کچھ حاصل کیا بھاگ گیا.اس کو سکینت کا علم نہیں کہتے.علم سیکھنے کے لئے جہاں علم کا وقار اور اس کی عظمت کا دل میں جاگزین ہونا ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سیکھنے والا تسکین سے تسلی سے سیکھے اور اس کو کہیں اور جانے کی افرا تفری نہ ہو بلکہ وہاں جسم کے سمجھے کہ ہاں مجھے یہیں لطف آ رہا ہے اور یہی میرے وقت کا بہترین مصرف ہے.اس کے بغیر لفظ تسکین اس طالب علم پر چسپاں نہیں ہوسکتا جو آیا گیا، سرسری نظر سے دیکھا، کچھ ملا تو ٹھیک، نہ ملا تو واپس.پھر فرمایاوتو اضعو المن تعلمون منہ اور جن سے تم علم سیکھتے ہو ان سے بھی انکسار کا معاملہ کرو.ان سے ادب اور احترام کا معاملہ کرو کیونکہ اس سے علم پڑھانے والے کو علم سکھانے والے کو بھی تقویت نصیب ہوتی ہے اور علم کا مرتبہ بڑھتا ہے.یہ جو علم سکھانے والے کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ ہے، یہ محض دینی علم سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دنیا کے تمام علوم سے تعلق رکھتا ہے اور دنیا کی تمام قومیں جہاں علم پڑھانے والوں کا وقار اٹھ گیا، جہاں ان کا احترام باقی نہیں رہا ان کے ہاں علمی معیار ہمیشہ تنزل اختیار کر گیا ہے اور آج
خطبات طاہر جلد 14 99 99 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء انگلستان میں بھی یہ بحث اب بہت زور سے اٹھائی جارہی ہے کہ ہمارے طالب علم اپنے استادوں کی عزت نہیں کرتے ، ان کا احترام نہیں کرتے ، ان کا کوئی ادب ان کے دل میں نہیں.نتیجہ اب وہ گستاخ اور بدتمیز ہو چکے ہیں بلکہ بعض استادوں پر حملے کرتے ہیں اور ان استادوں کو کوئی تحفظ نہیں ہے نتیجہ استادوں کے دل میں بھی علم سکھانے کا شوق باقی نہیں رہا.کہاں یہ کہ وہ جان ڈال کر ایسا کیا کرتے تھے اور اب کہتے ہیں ٹھیک ہے جس نے سیکھنا ہے سیکھے باقی جائیں جہنم میں، جو مرضی کریں.پس علم کو گہرا نقصان پہنچتا ہے اگر طالب علم تعلیم دینے والے کی عزت نہ کرے.ہندوستان میں کسی زمانے میں یہ خوبی بہت تھی کہ استاد کی گہری عزت پائی جاتی تھی اور محاورہ ” زانوئے ادب تہہ کرنا یہ بھی اس بات کی نشان دہی کرتا ہے.کہ ادب سے گھٹنے ٹیک کر، زمین پر لگا کر تہ کر کے بیٹھا کرتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ چیزیں اٹھنی شروع ہو گئیں.آج سے بہت پہلے یہ تنزل شروع ہوا ہے اور اکبرالہ آبادی نے اس مضمون کو یوں باندھا ہے: دن وہ بھی تھے کہ خدمت استاد کے عوض دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجئے ایسا بھی زمانہ تھا کہ جب استاد ہماری خدمت کیا کرتا تھا کہ دل سے یہ آواز اٹھا کرتی تھی کہ اتنے عظیم محسن کے لئے تو ہدیہ دل پیش ہونا چاہئے.بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا کہا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے اب زمانہ ایسا بدل گیا ہے کہ سبق کے بعد لڑکا کہتا ہے ” کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے“ جو بھی تم نے کرنا تھا کر لیا اب پیسے مانگو اور جاؤ چھٹی کرو اور یہ بل پیش کرنا ہے، یہ بھی دراصل دونوں طرف کے انحطاط کا منظر پیش کرتا ہے کیونکہ عموماً جب تعلیم کے ساتھ اجرت لگ جائے اور تعلیم کا جذبہ اور شوق اسا تذہ کو لوگوں کو تعلیم دینے پر آمادہ نہ کرے اس پر اکسائے نہیں بلکہ محض ٹیوشن کی طلب ہو تو پھر لازما یہی ہوگا کہ پیسوں کی خاطر تم پڑھاتے تھے لو پیسے لو اور چھٹی کرو.تو آنحضرت ﷺ نے قرآنی تعلیم کے پیش نظر آیات کو نہ بیچنے کا ایک یہ بھی مفہوم سمجھا ہے کہ قرآن کی تعلیم جہاں تک ممکن ہے وہ بغیر معاوضے کے ہو ، اس شوق میں ہو کہ قرآن پڑھا یا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے
خطبات طاہر جلد 14 100 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء جماعت میں ایسے بہت سے درس قائم ہو چکے ہیں، عورتیں بھی اور مرد بھی قطعاً معاوضہ نہیں لیتے اور اسی روح کو بہت زیادہ ترقی دینے کی ضرورت ہے اور مزید رائج کرنے کی ضرورت ہے.مگر وہ اساتذہ جو استاد کے طور پر نو کر ہوں اگر قرآن پڑھانا ہی ان کے فرائض میں ہے تو وہ روپیہ حرام نہیں ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قرآن کی آیات بیچتے ہیں.اس کا دراصل اور مفہوم ہے مگر ضمناً اس مضمون کو اگر زیادہ آگے بڑھایا جائے تو یہ بھی اس سے شائستہ تعلیم ہمیں ملتی ہے کہ قرآن کریم کو محض قرآن پڑھانے کی محبت میں پڑھاؤ، نہ کہ کوئی ذاتی منفعت اس سے وابستہ کر دو.حضرت ابو ہریرہ کی ایک اور حدیث ہے جو ابن ماجہ سے لی گئی ہے.عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه قال قال الله كلمته الحكمته ضالته المومن حيثما وجدها فهوا حق بها ابن ماجه ابواب الزاهد باب الحكمته) کہ مومن کے نزدیک ، مومن کا طرز عمل علم کی طرف یہ ہے اور وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ میں علم کے ساتھ حکمت کو جو باندھا گیا ہے اس تعلق میں یہ حکمت والی حدیث میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.كلمته الحكمته ضالته المومن حکمت کی بات تو مومن کو یوں لگتا ہے کہ میری ہی گمشدہ چیز تھی.جیسے گمشدہ اونٹنی کسی کی مل جائے تو کوئی دینے والا ، کوئی دکھانے والا اس لینے والے کی راہ میں اور اونٹنی کی راہ میں حائل نہیں ہوا کرتا.کوئی مالک یہ سوچ کر شرم محسوس نہیں کرتا کہ میری اونٹنی گی ہوئی تھی فلاں بدو نے دکھائی ہے اس لئے میں نہیں لوں گا وہ اپنا مال سمجھ کے لیتا ہے.پس حکمت تو مومن کی شان ہے یہ بہت ہی پیارا کلام ہے اور مومنوں کو ایک عظیم خراج ہے ان کی صفات حسنہ کا یعنی محمد رسول اللہ اپنے غلاموں سے توقع رکھتے ہیں کہ جیسا مجھے علم وحکمت سکھانے پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور فرمایا گیا ہے تم لوگ حکمت کی ایسی قدر کرنے والے ہو یا خدا کے نزدیک تمہارا یہ مقام ہے کہ حکمت کی ایسی قدر کرو کہ گویا وہ تمہارے گھر کی چیز تھی اور جہاں بھی دکھائی دے اسے قبول کرو.بہت ہی گہرا مضمون ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ایک طرف تو مومنوں کے رجحان کے اوپر اس سے بہتر تعریفی کلمات نہیں ہو سکتے تھے کہ حکمت تو ان کی اپنی چیز ہے انہی کو حکمت کی باتیں کرنی چاہئیں، انہی کو حکمت سونپی گئی ہے ان کو آج زمانے میں حکمت کا مالک بنایا گیا
خطبات طاہر جلد 14 101 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء ہے اور ساتھ یہ فرمایا کہ جہاں کہیں بھی حکمت ملے، بتانے والا اگر حقیر بھی دکھائی دے، غیر بھی دکھائی دے، دشمن بھی ہو تو حکمت تمہاری چیز ہے اسے قبول کرو.بعض لوگ کہتے ہیں جی فلاں سے یہ بات آئی ہے ہم نہیں لیتے اور چھوٹے آدمی نے بات کر دی ہے تو وہ برا مناتے ہیں.علم کے حصول میں اور حکمت کے حصول میں برا منانے کا مضمون داخل ہی نہیں ہے.یہ وہ ڈکشنری ہے جس میں یہ لفظ نہیں ملتا.علم بھی اور حکمت بھی.مومن کی ساری زندگی کا ایک پیشہ ہے اس کا یا زندگی کا ایک اٹوٹ انگ ہے ، زندگی کے اجزا میں داخل ہے اس لئے کسی لمحہ بھی وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتا اور یہ خیال کہ کسی زمانے میں ہم طالب علم تھے اب ہم عالم بن گئے ہیں اور معلم بن گئے ہیں اس خیال کو یہ تمام احادیث باطل قرار دے رہی ہیں جو ہر مومن کو متعلم کے طور پر پیش کر رہی ہیں اور متعلم بناتی ہیں اور پھر معلم بناتی ہیں تو گویا آنحضرت ﷺ کے نزدیک مومن کا علم کے حصول کا سفر آخری لمحے تک جاری ہے کیونکہ اگر آخری لمحہ بھی اس کا مومن ہونے کا لمحہ ہے اور اس کے بغیر اس کا سارا ایمان ضائع جائے گا تو وہ بھی حصول علم کا ہی ایک لمحہ ہے.پس علم سے کسی وقت بھی مومن کو اس طرح چھٹکارا نہیں ہوسکتا کہ میں اب عالم بن گیا ہوں بالکل بے وقوفوں والی بات ہے.مجھے بار ہا یہ تجربہ ہوتا ہے بعض غلطیاں ہوتی ہیں اردو کے تلفظ میں بھی انگریزی کے تلفظ میں بھی.بعض الفاظ میں بعض دفعہ قرآن کریم کی تلاوت میں زیر زبر کی غلطی ہو جاتی ہے.تو بعض احمدی بڑی معذرت سے لکھتے ہیں اور جب وہ معذرت شروع ہوتی ہے مجھے سمجھ آجاتی ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے حالانکہ معذرت کا کیا سوال وہ تو محسن ہے اور آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کی عزت کرو.تو معذرت کیسی ؟ ایک طرف احسان کرتے ہو دوسری طرف معذرتیں.حقیقت یہ ہے کہ علم سیکھنے کا دور ایک دائمی دور ہے.ابھی چند دن ہوئے جرمنی سے ایک عزیزہ محمودہ بیگم نے خط لکھا اور بڑی معذرتیں تھیں، میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے آگے.بات اتنی سی تھی کہ آپ کو تلفظ کی صحیح ادائیگی کا شوق ہے میں جانتی ہوں مگر آپ نے ” کا نپر میسی لفظ بولا تھا ایک جگہ تو یہ درست نہیں ہے.یہ لفظ " Conspiracy" ہے تو یہ درست ہے ان کی بات ، مگر بعض دفعہ غلط تعلیم اگر بچپن میں ہوئی ہو تو وہ
خطبات طاہر جلد 14 102 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء ایسے نقش ہو جاتے ہیں کہ انسان کو مدتوں صحیح لفظ سنتے ہوئے بھی پتا نہیں چلتا کہ میں کیا کہ رہا ہوں اور یہ سلسلہ صرف انگریزی میں نہیں اردو میں بھی ہر دوسری زبان میں جاری وساری ہے.کئی دفعہ عرب جو بہتر عربی جانتے ہیں وہ کوئی لفظ غلط تلفظ سے بولتے ہیں ان کی اصلاح کرتا ہوں لیکن یہ مطلب نہیں کہ میں ان پر فائق ہوں.عربی زبان کے علم میں وہ فائق ہیں مر یہ علم کا مضمون ایسا ہے جو دوطرفہ چلتا ہی رہتا ہے کبھی استاد معلم کبھی شاگرد معلم.ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور اس طرح یہ ایک ایسا مضمون ہے جو ہمیشہ ہر عالم کو معلم بھی بناتا ہے اور متعلم بھی بناتا ہے.تو" Conspiracy" لفظ ہے وہ اس لئے غلط ہے کہ تلفظ میں دو حصوں میں سے یا تین حصوں میں سے جس پر زور ہو اس کے Volves نمایاں بیان کئے جاتے ہیں جس پر زور نہ ہو اس کے Volves کچھ مٹ جاتے ہیں تو چونکہ (con) پر زور نہیں ہے اس لئے گن پڑھا جاتا ہے.اور یہ انگریزی کا جو طریق ہے یہ ساری زبان پر حاوی ہے اور ضربین یعنی ضربیں ہوتی ہیں جس کو Syllables کہتے ہیں ہم یعنی لفظوں کے وہ ٹکڑے جو ایک والو کے ساتھ متعلق ہو کے ایک آواز پیدا کرتے ہیں کا ،نا، وا، یہ ضر ہیں ہیں تو وہاں سپریسی یہ نشان پڑا ہوا ہے زور کا لغت میں ، جس طرح سپرٹ کہتے ہیں ہم اس طرح سپر میسی کہتے ہیں.تو جب سپر یہی کہیں گے تو پھر گن نہیں کہہ سکتے پھر Consipiracy تو یہ میں آپ کو ضمناً بتارہا ہوں کہ یہ انگریزی زبان کا تلفظ کا ایک طریق ہے مگر ہمارے ہاں تو روز مرہ یہ سلسلہ چل رہا ہے.میرے ساتھ ریسرچ گروپ والے یہاں کے تعلیم یافتہ یہاں کے جمے پلے بچے اور بچیاں بیٹھتے ہیں کلاس میں کبھی میں ان کی تفصیح کرتا ہوں کبھی وہ میری تصحیح کرتے ہیں پھر ہم ڈکشنریاں دیکھتے ہیں اور بڑا لطف آتا ہے.جس کی تصحیح ہورہی ہو وہ بھی لطف اٹھاتا ہے جو صحیح کرتا ہے اس کو بھی ایک مزہ آرہا ہوتا ہے تو معذرتوں کی ضرورت نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ اسلوب سکھلا دیا ہے اور اس سے باہر کوئی شخص نہیں ہے کہ علم سیکھنا تمہاری ذمہ داری ہے اور جو علم کی بات تمہیں بتا تا ہے اس پر غصہ نہیں کرنا.اس کے ساتھ بجز کا سلوک کرو، انکساری سے بات کرو، ہاں ہاں جزاک اللہ آپ نے ٹھیک کر دیا اور ساتھ ہی یہ یا درکھو کہ حکمت کی بات تو تمہاری لونڈی ہے تمہارے گھر کی چیز ہے ویسے بھی شرمندگی کی کوئی بات نہیں تمہیں اس پر ایسا حق ہے جیسے خدا نے تمہیں دے دیا ہے پھر کہیں سے ملے اسے قبول کرو.
خطبات طاہر جلد 14 103 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء اور اسی ضمن میں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ در حقیقت اس خط کے بعد جب میں نے اپنے گزشتہ حالات پر غور کیا تو مجھے پتا چلا یعنی پتا تو پہلے ہی تھا لیکن نمایاں طور پر یہ بات ایسی سامنے آئی جو میں نے کہا میں آپ کو بھی بتاؤں کہ جو میر اطالب علمی کا زمانہ تھا وہ تو دراصل طالب علمی کا زمانہ تھا ہی نہیں وہ تو سیر و تفریح اور اپنی مرضی کی کتابیں پڑھنا اور اپنے شوق پورے کرنے کا زمانہ تھا.سکول تو ایک مصیبت تھی.میرا تو طالب علمی کا زمانہ سکول سے فارغ ہونے کے بعد یا کالج سے فارغ ہونے کے بعد شروع ہوا ہے اور اصل طالب علم میں خلیفہ بننے کے بعد بنا ہوں.ساری جماعت اللہ کے فضل سے میری معلم ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وسیلے مجھے عطا فرمائے اور میں جو ان کو دیتا ہوں آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق علم حاصل کرتا ہوں اور علم دیتا ہوں دونوں طرف برابر کا رشتہ ہے.سوائے ان باتوں کے جو خدا خاص طور پر سکھلاتا ہے وہ ایک الگ مضمون ہے جس میں بندے کا بیچ میں دخل نہیں ہوتا غیب سے اللہ تعالیٰ مضامین عطا فرماتا ہے ، دلوں میں ڈالتا ہے اور اس قوت کے ساتھ وہ مضامین نازل ہوتے ہیں کہ اس میں کسی انسانی تعلیم کا، اس کی کوشش کا یا طالب علم کے اپنے کسی علمی نور کا دخل نہیں ہوتا تو اس کے سوا جور روز مرہ کے دستور ہیں ان میں کوئی انسان بھی علم سیکھنے سے بالا نہیں ہے.اور جہاں تک دنیاوی علوم کا تعلق ہے ایک موقع پر آنحضرت ﷺ کے متعلق قطعی کی پختہ روایت ہے کہ کھجور لگانے والوں کی ایک غلطی آپ نے دیکھی.ایک دفعہ میں نے غلطی سے کہا تھا کہ پنیری ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے تھے.وہ یہ غلطی نہیں تھی کچھ اور تھی مجھے بعد میں بتایا گیا مگر لگانے والوں کو آپ نے دیکھا کہ شاید وہ غلط کر رہے ہیں اور اس پر ان کو سمجھایا کہ کیا ضرورت ہے اس کو چھیڑنے کی اس کو یونہی رہنے دو اور وہ چونکہ قریب قریب درخت تھے وہ فصل مرگئی بعد میں حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے تو فرمایا تھا اور ہم نے آپ کے علم اور بات کے تقدس میں ویسا ہی کیا اور ہمارے سارے درخت ضائع ہو گئے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے دین سکھانے کے لئے بھیجا ہے، ایگریکلچر سکھانے کے لئے تو نہیں بھیجا کہ زراعت سکھاؤں تم لوگوں کو لیکن اس کے با وجود یہ تو رسول اللہ اللہ کے انکسار کا ایک عجیب عظیم الشان مظہر تھا لیکن آپ نے تو ہمیں سب کچھ سکھایا ہے.خدا گواہ ہے اپنی ساری زندگی پر نظر ڈالتا ہوں قدم قدم پر ہر علم میں ہر معاملے میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی محتا جی محسوس ہوتی ہے.کون سا علم ہے جو نہیں سکھایا.کھانے پینے کے آداب تک
خطبات طاہر جلد 14 104 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء تو سکھائے.روزمرہ کے ملنے جلنے اٹھنے بیٹھنے صحت کے آداب.پس یہ مطلب اس حدیث کا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف دین سکھانے آئے تھے.وہ یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ علم کے لحاظ سے گنجائش موجود ہے وہ جو خدا سے سیکھتا ہے وہ بھی ایک طالب علم ہی رہتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے جب یہ کہا تو یہ انکساری کی انتہا تھی ورنہ فن حرب آپ نے سکھایا، فن کلام سکھایا، کون کون سے دنیا کے علوم تھے جو نہیں سکھائے.طبابت سکھائی اور بہت ہی عظیم رسول مہے تھے کہ جن کا دائرہ فیض ہر انسانی ضرورت کے دائرے پر پھیلا ہوا تھا.پس بعض دفعہ علماء یہ حدیث پیش کر کے کہتے ہیں دیکھو رسول اللہ ﷺ کو زراعت کا علم نہیں تھا.یہ غلط ہے.زراعت کا ویسے تو علم نہیں تھا مگر اصول زراعت اور جو اس کی بنیادی باتیں ہیں ،وہ آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائے اور قرآن کریم میں درج تھے اور آپ نے بیان فرمانے ہی تھے.زراعت کے وہ امور جو بنیادی اصولوں کے طور پر ہماری راہنمائی کرتے ہیں قرآن میں موجود ہیں اور آنحضرت ﷺ کی نصیحتیں اس تعلق میں ہمیشہ ایک جاری فیض کا دریا بنی رہیں گی.پس علم حاصل کرنا اور علم حاصل کرنے سے نہ شرمانا اور علم کے حصول پر زور دینا اور علم سکھانے پر زور دینا اس لئے ہماری زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے کہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا ایک اٹوٹ حصہ تھا.آپ کے مقاصد کا ایک کبھی الگ نہ ہونے والا حصہ تھا جو ساری زندگی ایسا فرض تھا جو ہمیشہ آپ نے ادا فر مایا اور بہترین طریق پر ادا فرمایا ہے.پس اس ضمن میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جو چند باتیں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یعنی چند علوم سے تعلق رکھنے والی باتیں جو ٹیلی ویژن کے ذریعے سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو ایک دفعہ پھر یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ وہ ان باتوں کو ہلکا پھلکا نہ سمجھیں.بہت ہی اہم چیزیں ہیں اور انقلابی فوائد رکھتی ہیں اور اگر آپ ان کو عام کریں گے اور سنجیدگی سے نصیحتوں پر عمل کریں گے اور ان معاملات میں میرے مددگار ثابت ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو جو اجر دنیا اور آخرت میں دے گا وہ تو الگ ہے لیکن یہ فیض جو جو لوگ بھی اٹھائیں گے، جو آپ کی وساطت سے یا ئیں گے ، ان کا فیض پانا بھی آپ ہی کی طرف منسوب ہوتا چلا جائے گا، اس میں سے آپ کو بھی حصہ ملتا چلا جائے گا.پس سنجیدگی سے ان نصائح پر عمل کریں.ابھی تک مجھے یہ شکوہ ہے
خطبات طاہر جلد 14 105 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء صلى الله کہ وہ لوگ جن کی ذمہ داری یہ تھی وہ بات سمجھ نہ سکے ورنہ عموماً تو جماعت ہمیشہ بہت خلوص کے ساتھ اور بڑی مستعدی سے لبیک کہتی ہے.پس میں یہ حسن ظن رکھتا ہوں کہ وہ کچھ لوگ بات سمجھ نہیں سکے اور جس طرح طریق کو منظم کرنا چاہئے تھاوہ نہیں کیا گیا.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تم جنت کے باغوں میں سے گز رو تو خوب چرو.صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ریاض الجنتہ ہوتا کیا ہے آپ نے فرمایا علمی مجالس.(الترغیب و الترهيب باب الترغیب فی مجالستہ العلماء).یعنی ان میں بیٹھو اور خوب چرو جس طرح تر و تازہ گھاس میں جانور چرتے ہیں اسی طرح تم بھی چرا کرو.پھر حصول علم کے تعلق میں جو ٹھوکریں لگ سکتی ہیں جو خطرات ہیں ان کی بھی نشاندہی فرمائی.اب بتا ئیں کون سا ایسا حصہ ہے، علم کا ایسا حصہ جس کو رسول اللہ ﷺ نے بیان نہ فرمایا ہو.تمام انبیا ء نے مل کر اپنی امتوں پر جتنی محنت فرمائی ہے جو ہمارے پاس ریکا رڈ پہنچا ہے اس ریکارڈ کی رو سے میں کہتا ہوں جو ان کی باتیں نہیں بیان ہوئیں اللہ بہتر جانتا ہے مگر جور ریکارڈ ہم تک پہنچا ہے، تمام انبیاء کا اپنی امت کی خدمت کرنا ایک طرف رکھ دیں اور حضرت محمد مصطفی اللہ نے جس جان کا ہی سے اپنی امت کی خدمت فرمائی ہے وہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ کا پلڑا بہت ہی بھاری رہے گا.کوئی نسبت ہی نہیں رہتی.اتنی تفصیل ملتی ہے اس معاملے میں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے لئے ان کے علم بڑھانے علم سکھانے ، حکمت سکھا نے ، تربیت کرنے وغیرہ وغیرہ پر جتنا زور دیا جس تفصیل سے جس باریکی سے تمام ضروری مطالب کو کھول کھول بیان فرمایا.اس کی کوئی مثال کسی دنیا کے نبی کی روایات میں خواہ کچی روایات ہی ہوں وہ بھی اکٹھی کر لیں ان میں بھی نہیں ملے گی.مبالغے والی روایات میں بھی وہ مثال نہیں ملتی جو آنحضرت عہ کے سلسلے میں مستند روایات سے ہمیں آنحضور کی محنت کا علم ہوتا ہے.فرمایا ! تم علم اس غرض سے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعے دوسرے علماء کے مقابلے میں فخر کر سکو علم اس غرض سے نہیں ہے کہ تم تفاخر کے لئے استعمال کرو نہ اس لئے حاصل کرو کہ اس کے ذریعہ جہلا میں اپنی بڑائی اور اکٹر دکھا سکو کہ بیٹھو جہلاء میں باتیں کرو کہ جی مجھے یہ آتا ہے اور تمہیں یہ نہیں آتا.یہ سب لغو باتیں ہیں اور نا پسندیدہ باتیں ہیں.جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور نہ اس علم کی بنا پر اپنی شہرت اور نام و نمود کے لئے مجلسیں جماؤ.جو شخص ایسا کرے گا یا ایسا سوچے گا اس کے لئے آگ
خطبات طاہر جلد 14 106 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء ہی آگ ہے اسے مصائب و بلیات اور رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا.(ابن ماجہ باب الانتفاع بالعلم ).اب یہ وہ چیز ہے جس کے لئے دعا کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ انسان خود جتنا اپنے نفس سے غافل ہوتا ہے اتنا شاید کسی اور چیز سے غافل نہ ہو کیونکہ بسا اوقات انسان ساری زندگی اپنے ساتھ گزرا کرتا ہے اور اپنے آپ کو نہیں جانتا.بعضوں کی مرتے وقت آنکھ کھلتی ہے، بعضوں کی اس وقت بھی نہیں کھلتی ، یوم حشر کو ہی کھلے گی جب ان کا حساب ہوگا، جب ان کی جلدیں ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے.تو یہ مضمون ایسا ہے جو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہے.بسا اوقات انسان کے ساتھ اس کے نفس کی نمود اس کی ذہنی طاقتوں کے ساتھ ساتھ کام کر رہی ہوتی ہے.نفس کے نمود کی تمنا اس کے اندر ایسی دبی ہوئی ہے کہ ہر کوشش ، ہر معاملے میں وہ شیطان کی امنیہ کی طرح اس کی سوچوں پر ، اس کی نیتوں پر ،اس کے اعمال پر اثر ڈال رہی ہوتی ہے.پس علم کے معاملے میں بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جیسا چاہتا ہے ویسا ہم علم سیکھیں اور اپنی طرف سے ایسا علم حاصل نہ کریں جو ہمارے لئے نقصان کا موجب بنے.ابن مسعود کی روایت ہے اور تر مندی سے لی گئی ہے آنحضرت ﷺ بیان فرماتے ہیں کہ، اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ اور خوش حال رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور آگے اسی طرح اسے پہنچایا جس طرح اس نے سنا تھا کیونکہ بہت سے ایسے لوگ جن کو بات پہنچائی گئی ہے سننے والوں سے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں اور تفقہ کی طاقت رکھتے ہیں.(ترمذی کتاب العلم باب الحث على تبلیغ السماع).پس یہ بھی ایک بہت ہی ضروری حصہ علم کو ترویج دینے کا ہے کہ جہاں بھی کوئی اچھی علم کی آپ بات سنیں خواہ آپ کو پوری طرح سمجھ آئے یا نہ آئے اسے من وعن آگے پہنچانے کی کوشش کریں کیونکہ اس سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سنتے ہیں انہیں سمجھ آجاتی ہے بلکہ بعض کیا بہت سے ایسے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات ہیں جو چودہ سو سال کے بعد آج بھی خدا کے بعض بندوں کو سمجھ آتے ہیں اور بیچ میں بڑے بڑے غور اور فیض پانے والے موجودرہے لیکن پوری طرح سمجھ نہ سکے اور آئندہ زمانے میں بھی یہی ہوگا.قیامت تک کے رسول ہونے کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ آپ کی باتیں مختلف زمانوں میں اظہار کے لئے مخفی طور پر موجود ہیں لیکن جب ان کے اظہار کا زمانہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ خود ایسے بندوں
خطبات طاہر جلد 14 107 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء کی تربیت کرے گا، ان کی رہنمائی فرمائے گا جن کو ان کا شعور عطا ہوگا اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کی باتوں کو سمجھ کر اپنے زمانے کو فیض پہنچائیں گے.پس یہ بھی ایک آنحضرت ﷺ کے دائی معلم ہونے کا ثبوت ہے پہلے لوگوں کے خلاف کوئی گستاخی نہیں کہ وہ نہیں سمجھ سکے تھے آج کیسے بعض لوگ سمجھ گئے اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کی باتیں بھی ان خزائن کی طرح ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے پاس محفوظ ہیں لیکن ہم ان کو نازل کرتے ہیں حسب قدر، حسب ضرورت ، حسب موقع.جب ضرورت پیش آتی ہے ہم ان خزائن کو اس طرح نکالتے ہیں گویا وہ نازل ہورہے ہیں ، پہلی دفعہ گویا تم نے دیکھے ہیں.پس جیسی کتاب ہے ویسا ہی رسول ﷺ ہے ویسی ہی گہرائیاں اس کے کلام میں پائی جاتی ہیں.پس کسی زمانے میں اس کی باتوں کی کنہ کو پالینا نہ پہلوں کی تخفیف ہے، نہ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ایسی بات کر دی جو چودہ سو سال سمجھ نہیں آئی آج سمجھ آئی تھی.اس لئے کہ وہ وقت وہی تھا خدا کے نزدیک اور قرآن کا جو بیان ہے یہ دائمی ہے کہ بعض اوقات بعض خزائن ہیں جو وقت کے اوپر خدا کی تقدیر کے تابع اتارے جاتے ہیں اور روشن کئے جاتے ہیں.ایک موقع پر ایک صحابی ابوحنیفہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک مجمع سا لگا ہوا ہے تو میں نے توجہ کی اپنے والد سے پوچھا یہ کیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ صحابی عبداللہ بن حارث زبیدی نے یہ مجلس لگائی ہوئی ہے اور رسول اکرم ﷺ کی باتیں کر رہے ہیں.کہتے ہیں میں دوڑ کر اس مجمع میں داخل ہوا تو سنا کہ یہ کہہ رہے تھے کہ جو شخص بھی تفقہ فی الدین پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور ایسی ایسی جگہوں سے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں.( مسند الامام الاعظم ، کتاب العلم ).پس تفقہ فی الدین سے مراد یہ ہے کہ دینی احکام پر غور کرتے رہنا اور ان کی حکمتوں تک رسائی کی کوشش کرنا اور یہ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ کے جو دوسرے پہلو ہیں اس کی طرف توجہ دلانے والی نصیحت ہے.علم تو ہے لیکن اس علم کی کنہہ ، اس کی غرض وغایت ،اس کے اندرونی راز کن معنوں میں اس کو دوسروں پر چسپاں کیا جاسکتا ہے یا اور دوسری چیزوں پر چسپاں کیا جا سکتا ہے ، بہت وسیع مضمون ہے لیکن خلاصہ یہی ہے کہ علم حاصل کرنا کافی نہیں جب تک اس میں ڈوب کر اس میں مضمر حکمتیں ، اس کے اندر پوشیدہ عقل کی گہری باتوں تک آپ کی رسائی نہ ہو اور فرمایا
خطبات طاہر جلد 14 108 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء جوان باتوں میں وقت صرف کرتا ہے اس کے رزق میں برکت دی جاتی ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ رزق کی برکت سے اس کا بظاہر کیا تعلق ہے لیکن اسی بات میں ڈوب کر دیکھیں تو سمجھ آجائے گی کیونکہ ہر علم میں دبے ہوئے خزانوں ہی کا نام حکمت ہے اور جو شخص دنیا کے خزانوں کی جستجو کی بجائے علوم کے خزانوں کی جستجو کرتا ہے اور ان کی تہہ تک اترتا ہے.وہ چونکہ روحانی اور علمی خزانوں کو ترجیح دیتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ دنیا کے لحاظ سے اس کا ضامن بن جاتا ہے اور جس اعلیٰ مقصد کی خاطر اس نے ادنی چیزوں سے صرف نظر کی تھی اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو بھی اس کا غلام بنا کر اس کے پیچھے چلاتا ہے.ایک یہ بھی معنی ہے اور ایک یہ بھی معنی ہے کہ جنہوں نے علوم کی تہہ تک اتر نے میں پورا انہماک کیا خواہ وہ دنیا کے علوم ہی تھے ان کے لئے خدا تعالیٰ نے بے شمار دولتیں اور خزائن اسی تفقہ کے نتیجے میں پیدا فرما دیئے.پس دنیا میں جتنی بڑی امیر قومیں ہیں، جتنی بڑی طاقتور قومیں ہیں وہ گویا آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کی برکت سے عظیم اور طاقتور بنی ہیں.اگر چہ انہوں نے براہ راست سنا نہیں ہے مگر حکمت کی بات تو دائمی ہوتی ہے ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے.پس آنحضرت ﷺ جو اس بات کا رزق میں برکت سے تعلق جوڑ رہے ہیں یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے.بہت ہی گہر ا مضمون ہے اور حقیقی اور دائمی مضمون ہے.پس آج بھی اگر آپ دنیوی علم میں بھی تفقہ حاصل کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں، آپ کے قومی اموال اور طاقت اور آپ کی وجاہت میں برکت ڈالے گا اور ایسی قومیں پھر غریب نہیں رہتیں جو علم کے نیچے اتر کر اس کی تہہ تک جاکر ان کی حکمتوں کی تلاش کرتی ہیں اور انفرادی طور پر وہ لوگ بھی جو دین کے معاملے میں تفقہ کرتے ہیں اور گہری کھوج لگا کر علم کی باتوں کی تلاش کرتے ہیں، ان کی تہہ تک پہنچتے ہیں ان سے یہ خدا تعالیٰ کا ایک اور اس رنگ میں بھی وعدہ پورا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے اموال میں برکت ملتی ہے، ان کی اولاد کے اموال میں برکت ملتی ہے.بعض دفعہ نسلاً بعد نسل وہ ان برکتوں کو کھاتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ صحابہ جنہوں نے تفقہ میں بہت زیادہ وقت صرف کیا ہے اور محنت کی ہے اور لوگوں کے لئے فیض کا موجب بنے ان کی اولادیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں.بہت ہی خدا تعالیٰ سے رزق اور فضل میں انعام یافتہ ہیں مگر پتا نہیں ان میں سے کسی
خطبات طاہر جلد 14 109 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء کو احساس بھی ہے کہ نہیں یا سب کو احساس ہے ، کہ نہیں کہ یہ وہ ان کے آباؤاجداد نے جو تفقه في الدین کیا تھا یہ اسی کی برکت ہے کہ ان پر دنیا کے خزانے بھی انڈیلے جارہے ہیں.پس آنحضرت ﷺ کی باتیں ایسے معلم کی باتیں ہیں جس کو خدا نے علم سکھایا ہے اور ان باتوں کو ملکی نظر سے دیکھنے سے آپ کا اپنا نقصان ہوگا ان میں ہی ڈو میں تو یہ تفقہ فی الدین ہے.حضرت ابوقتادہ کی روایت ہے ابن ماجہ سے لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہترین چیزیں جو انسان اپنی موت کے بعد پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ تین ہیں نیک اولاد جو اس کے لئے دعا گو ہو،صدقہ جاریہ جس کا ثواب اسے پہنچتا رہے گا اور ایسا علم جس پر اس کے بعد والے عمل کرتے رہیں.( ابن ماجہ باب ثواب معلم الناس) تو علم کو عمل سے جوڑ دیا ہے اور حقیقی علم وہی ہے جس پر عمل ہو سکے اور جس کے نتیجے میں عمل سے فائدہ پہنچے.ورنہ وہ علم جو زبانی کلامی بحثوں سے تعلق رکھتا ہے جیسے بعض دانشور اکٹھے مجلسیں لگاتے اور بظاہر علم کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے پیچھے کوئی عمل بعد میں نہیں آتا ، نہ ان کی باتیں کسی عمل کا تقاضا کرتی ہیں، نہ کسی بعد میں آنے والے عمل کی نشاندہی کرتی ہیں.دلچسپ مجلسیں ہیں خواہ شعراء کی ہوں یا دوسرے دانشوروں کی ہوں، تبصرہ نگاروں کی ہوں، وہ تو ان میں بیٹھنا ہے، اٹھنا ہے اور واپس چلے جانا ہے اور کوئی بھی روشنی ایسی نہیں ملتی جوراہ عمل دکھائے اور اس راہ عمل پر چل کر کوئی فائدہ پہنچ سکے.حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ علم کے تعلق میں اپنے لئے یہ دعامانگا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو بے فائدہ ہے.کیسی اہم دعا ہے.علم کا مضمون مکمل نہیں ہوتا اس دعا کے بغیر.اس دل سے جس میں تیرا خشوع نہیں.میں اس دل سے بھی پناہ چاہتا ہوں جس میں تیرا خوف اور تیرے سامنے عاجزی نہیں ہے یہ عین سے خشوع ہے جس مطلب ہے بجز اور جھکنا تیرے حضور.اس دل سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے حضور بچھا نہیں رہتا.اس نفس سے پناہ مانگتا ہوں جو سیر نہیں ہوتا.یہاں عجیب بات ہے کہ جو ترجمہ کرنے والا ہے اس نے تین باتیں اپنی طرف سے کر دی ہیں حالانکہ چار باتیں ہیں ترجمہ میں لفظ تین غلط ہے.میں نے عربی دیکھی ہے اس میں تین کا کوئی ذکر نہیں یہ روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ اپنے لئے یہ دعا مانگا کرتے تھے ایک یہ کہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو بے فائدہ ہے، اس دل سے
خطبات طاہر جلد 14 110 خطبہ جمعہ 10 فروری 1995ء جس میں تیرے حضور عاجزی اور تیرے حضور کچھ رہنا نہیں ہے.اس نفس سے جو سیر ہی نہیں ہوتا.اب یہاں یا درکھیں کہ سیری سے مراد علم کی سیری یہاں نہیں ہے.یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ بات کے موقع محل کے مطابق معنی صحیح کئے جائیں.علم سے سیری کا تو کوئی مضمون دکھائی ہی نہیں دیتا کہیں.علم تو ایک جاری چیز ہے وہ تو ہمیشہ ہی جب طلب بجھتی ہے تو طلب پیدا کر جاتا ہے اور دو چیزوں میں یہ بات پائی جاتی ہے ایک جہنم میں اور ایک حصول علم میں اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے وصال کے تعلق میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے گویا جنت اور جہنم دونوں اس حیثیت سے ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں.جہنم میں بھی ہر بد جو اپنے نفس کی خواہش رکھتا ہے وہ سیر نہیں ہوتا اور یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ بدانسان جو سیر ہی نہ ہو جس کے گناہ ہوتے چلے جائیں اور پھر مزید کی طلب باقی رہے اس کی جہنم بھی ایسی ہی بنے گی کہ جب خدا پوچھے گا کہ تو سیر ہوگئی تو یہ کہے گی هـل مـن مـذيـد اور بھی کچھ ہے اور بھی کوئی جہنمی ہے تو ڈال کیونکہ یہ تو طلب نہ ختم ہونے والی طلب ہے یعنی ہر جہنمی جہنم کی تخلیق کرتا ہے اصل میں اور اس کا مزاج جہنم کا مزاج بن جاتا ہے لیکن یہ جو سیری ہے یہ اس سیری کا نہ ہونا اس کا نیکی سے بھی تعلق ہے اور وصال الہی سے بھی تعلق ہے اور یہاں وہ مضمون بیان نہیں ہورہا یہ میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ وہاں بھی یہی مزاج ہے کہ سیری نہیں ہوتی اور پھر اس دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو قبول نہیں کی جاتی یہ مضمون ایسا.جسے ٹھہر کر سمجھنے کی ضرورت ہے.بعض دفعہ دعائیں قبول نہیں ہوں کچھ دیر کے بعد قبول بھی ہو جاتی ہیں.یہ کون سی دعا ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے ایسی دعا جو الہی منشاء کے خلاف ہو جس میں بندے کی رضا کا خدا کی رضا سے ٹکراؤ ہو فر مایا وہ دعا ہے جو قبول نہیں کی جاتی یعنی نہ آج نہ کل.نہ جلد نہ بدیر.اس لئے اے خداوہ دعا میرے دل میں ڈال ہی نہ ، وہ طلب ہی میرے دل میں پیدا نہ کر جس کو میں مانگوں جو تو نے قبول کرنی ہی نہیں کیونکہ وہ تیرے مزاج کے خلاف ہے.پس یہ وہ علم کا مضمون ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے آج آپ کو بعض نصیحتیں بھی کرنی تھیں جو علمی کام سپر دہوئے ہیں جو ایم.ٹی.اے کے ذریعے جاری ہیں جس میں عدم تعاون کی وجہ سے بعض لوگوں کی لاعلمی کے نتیجے میں اب تک ساری دنیا کی جماعت انتظار میں بیٹھی ہے کہ وہ پروگرام کیوں نہیں شروع ہور ہے.اس سلسلے میں پھر میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں روشنی ڈالوں گا اور جو وقت اس سے بچے گا وہ انشاء اللہ دوسری نصیحتوں میں صرف ہوگا.اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خطبات طاہر جلد 14 111 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء توحید کا ایک منظر اس زمین پر پیش کریں MTA پر زبانوں کے پروگرام بنانے کیلئے ہدایات ( خطبه جمعه فرموده 17 فروری 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا ( الاحزاب : 4846) پھر فرمایا:.ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نبی ! ہم نے تجھے گواہ اور نگران بنا کر بھیجا ہے اور خوشخبریاں دینے والا بنا کے بھیجا ہے اور ڈرانے والا بنا کے بھیجا ہے وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ اور اللہ کی طرف دعوت دینے والا بِاِذْنِہ اس کے حکم کے ساتھ سِرَاجًا منيرا اور ایسا سورج بنا کر بھیجا ہے جس نے لازماً بالآ خر کل عالم میں چمکتا ہے اور کل عالم کی روشنی اس تیری ذات ہی سے وابستہ کر دی گئی ہے کیونکہ سورج ہی سے سب دنیا روشنی کا فیض پاتی ہے خواہ وہ مشرق کی دنیا ہو یا مغرب کی.پس اس پیشگوئی کا رنگ بھی یہ تھا کہ کل عالم کے لئے جب تجھے بھیجا گیا ہے تو سراج تو ہے ہی خواہ وہ مشرق کی دنیا ہو یا مغرب کی.جب تو ان پہ چمکے گا تو وہ نور پائیں گے، جب تک وہ تجھ سے غافل رہیں گے ان کے سینے منور نہیں ہو سکتے.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنین اور وہ لوگ جو مومن ہیں، ایمان لے آئے ،ان
112 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء خطبات طاہر جلد 14 کو خوشخبری دے دو بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت فضل ہے.علم کے سلسلے میں جو میں نے خطبوں کا آغاز کیا ہے اس میں میں نے گزارش کی تھی کہ آئندہ انشاء اللہ یہ جو MTA کے بعض پروگرام ہیں ان سے متعلق میں خطبے میں بعض اہم امور بیان کروں گا مگر اس سے پہلے یہ حدیث میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو بخاری کتاب العلم باب فضل من علم وتعلم سے لی گئی ہے یعنی کتاب علم ہے اور اس میں باب ہے اس شخص کا فضل، اس کا مرتبہ اور دوسروں پر اس کی فوقیت جو سیکھتا بھی ہے اور سکھاتا بھی ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کے پہلے میں چندا حادیث بیان کر چکا ہوں اور اسی کی روشنی میں انشاء اللہ آئندہ آپ کو آپ کی ذمہ داریاں سمجھاؤں گا.حدیث یہ ہے: عن ابي بردة عن ابى موسى عن النبي عل الله قال مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل الغيث الكثير اصاب ارضا فكان منها تقية قبلت الماء فانبتت كلأ والعشب الكثير وكانت منها اجادب امسكت الماء فنفخ الــلــه بـهـا الـنـاس فـشــربـوا وسقوا وزرعوا واصابت...الخ.( بخاری کتاب العلم) یہ جو حدیث ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ بعثنی اللہ مجھے جو اللہ نے مبعوث فرمایا ہے من الهدى والعلم ہدایت میں سے دے کر اور علم میں سے کچھ عطا فرما کر.یہ من کا جو لفظ ہے یہ بعض دفعہ کچھ کے لئے استعمال ہوتا ہے بعض دفعہ بہت بڑا ایک حصہ عطا کیا گیا ہو تو اس کے لئے بھی محاورہ استعمال ہوتا ہے.اس میں سے یعنی میں اس کا ترجمہ یوں سمجھتا ہوں کہ من الهدى والعلم کہ بہت بڑی ہدایت اور بہت بڑے علم سے جو کچھ مجھے عطا ہوا ہے کمثل الغیث اس لئے یہ ترجمہ درست ہے کہ آگے مثال غیث کی دی جارہی ہے.بظاہر مسن کا مطلب ہے اس میں سے کچھ مگر اتنا عطا فرمایا ہے کہ جیسے موسلا دھار بارش برسے، بڑی کثرت کے ساتھ.اصاب ارضا اور وہ زمین کو پہنچے اور زمین کو اپنے فیض سے بھر دے.یہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں مگر زمینیں تین قسم کی ہیں.کچھ ایسی ہیں جو تقی ہیں ، جو صالح ہیں.ان میں چیز کو قبول کر کے اس کے فیض کو اپنی ذات میں جاری کر
خطبات طاہر جلد 14 113 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء کے اور پھر اور فیض رساں بنے کا مادہ پایا جاتا ہے.پس وہ لوگ جو میری بات کو سنتے ہیں اسے قبول کرتے ہیں جذب کرتے ہیں اور ان سے پھر نئی روئیدگی پھوٹتی ہے اور میرے عطا کردہ علم کا فیض پھر وہ باقی دنیا کو پہنچاتے ہیں ان کی مثال اسی زمین کی سی ہے جو بیان کی گئی ہے کہ وہ صالح زمین ، پاک زمین جس پر جب خوب بارش بر سے تو اس کے پانی کو جذب کرتی ہے اور اس کو پھر نئے نئے فائدوں میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہے.اب زندگی بخش پانی ہی ہے مگر جو اچھی مٹی ، زرخیز مٹی ہے جب اس میں وہ پانی ملتا ہے تو ضروری نہیں کہ بعینہ بس اتنا ہی پانی کا فیض پانی کی صورت میں دے بلکہ پانی کے ساتھ زندگی کے جتنے مصالح وابستہ ہیں وہ سارے مصالح یعنی مصلحتیں اور فوائد ، وہ مٹی اپنی ذات میں ملا کر بنی نوع انسان کے لئے جاری کر دیتی ہے.پانی میں حیات ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ خالی پانی پی کے انسان زندہ رہ سکتا ہے.پانی میں تمام حیات کے آغاز کا مادہ ہے اس کو برقرار رکھنے کا مادہ ہے ، زندگی کی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے مختلف صورتوں میں باہر نکالنے کا مادہ ہے.پس یہ عظیم مثال حضرت محمد مصطفیٰ نے ان اپنے غلاموں کی دی ہے جو زرخیز مٹی کی طرح پانی کو قبول کرتے ہیں پھر پانی ہی کے فیض کو ہر قسم کی دوسری ضرورتوں میں تبدیل کر کے وہ بنی نوع انسان کے لئے جاری کرتے ہیں.اور کچھ ایسی زمین ہے جو قبول نہیں کر سکتی مگر گویاوہ نیچی ہے.اس میں تکبر نہیں ہے، انکسار پایا جاتا ہے.وہ نچلی زمین ایسی ہوتی ہے جس کی طرف پانی بہتا ہے اور وہ اسے سنبھال لیتی ہے.اس میں اب چونکہ کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی اس لئے وہ اس پانی کی تبدیل شدہ صورت میں جو مزید منفعتوں کے ساتھ دنیا کو دیا جاتا ہے اس صورت میں اس پانی کو دنیا کے سامنے نہیں پیش کر سکتی.کوئی روئیدگی نہیں نکلتی ہوئی سبزہ نہیں پھوٹتا، کوئی پھل پیدا نہیں ہوتے مگر امانت دار زمین ہے.اس میں انکسار پایا جاتا ہے اور نچلی زمینوں کی طرف پانی بہتا ہے تو پھر وہ اسے محفوظ کر لیتی ہیں.فرمایا وہ تو خود اس سے اس طرح استفادہ نہیں کر سکتیں مگر اور آنے والے آتے ہیں جب بارشیں ختم ہو جاتی ہیں تب بھی اس زمین سے لوگ اپنے ڈولوں سے پانی بھرتے ہیں اور اس کا فیض کھیتوں کی صورت میں بھی دوسری جگہ جاری ہو جاتا ہے اور دوسری طرح بھی بنی نوع انسان کے لئے فوائد اس پانی کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں تو یہ بھی ایک زمین ہے.خود محروم ہونیکے باوجود کیونکہ ان کی صلاحیت نہیں ، ایسے لوگوں کو اور بسا اوقات
خطبات طاہر جلد 14 114 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء ہمیں انسانی زندگی میں ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں، منکسر ہیں، بے علم میں ذہنی صلاحیتیں بھی زیادہ نہیں مگر تقویٰ شعار لوگ ہیں.عاجزی پائی جاتی ہے، جو کچھ کہا جاتا ہے اسے سنبھال لیتے ہیں، وہ خود اگر فائدہ نہ اٹھا ئیں تو کثرت کے ساتھ بنی نوع انسان کے لئے فائدہ کا موجب بنتے ہیں.مگر فر مایا ایک وہ بد نصیب زمین ہے جو سنگلاخ ہے نہ قبول کر کے خود فائدہ اٹھاسکتی ہے نہ کسی اور کے لئے وہ پانی رکھتی ہے.آج پانی برسا کل خشک ہو گئی اور کوئی نشان بھی پھر تری کا اس میں دکھائی نہیں دیتا.تو فرمایا میں تو مبعوث ہوا ہوں کل عالم کے لئے مگر تین قسم کے لوگ ہیں جن سے مجھے واسطہ پڑتا ہے اور بہترین وہی ہیں جو فرمایا مومن ہیں، جو سچے مومن ہیں میرے مخلص غلام ہیں وہ خود بھی بہت فائدہ اٹھاتے ہیں اور بنی نوع انسان کے لئے بھی ان سے بکثرت فائدے وابستہ رہتے ہیں.علم کے مضمون میں یہ حدیث بہت ہی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ فضلیت اس شخص کی بیان ہو رہی ہے.حضرت امام بخاری نے باب یہ باندھا ہے فضل من علم و تعلم اس شخص کا فضل جو خود بھی سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے.وہ اس مثال کی طرح ہے جو رسول اکرم ﷺ نے دی ہے.تو حضرت امام بخاری بہت ہی زیرک تھے اور احادیث کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ ایک دولفظوں میں بیان فرما دیتے تھے.بعض لوگ بڑی بڑی تقریر میں ان حدیثوں پر کرتے ہیں بعد میں لکھتے بھی ہیں مگر حضرت امام بخاری کے دو کھلے اس حدیث کی روح تک پہنچتے ہیں اور اس کو اجا گر کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.گویا خودان کی مثال بھی اسی زرخیز سرزمین کی سی تھی جو پانی کو قبول کرتی ہے پھر اسے جذب کر کے اس کی روح تک پہنچتی ہے.اس کو بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے ان کے سامنے ایسی صورت میں پیش کرتی ہے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں.یہ جو ٹیلی ویژن کا نظام ہے اس سلسلے میں میں آپ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ذہن میں جو نقشہ ہے وہ ایک عالمی اوپن یو نیورسٹی کا نقشہ ہے اور وہ تمام علوم جو بنی نوع انسان کے فائدے کے علوم ہیں، میں چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی غلامی میں اس اعلیٰ مقصد کی خاطر جس کے لئے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا.آپ کے علوم کا سورج تمام دنیا میں روشن ہوا اور تمام دنیا پر چھکے اور آپ کا پانی جو بکثرت برسا ہے وہ نہ ختم ہونے والا پانی ہے وہ ہماری حقیر اور ادنی نظر آنے والی جماعت کے ذریعے جس کو خدا نے فضیلت بخشی ہے، حقیر تو دکھائی دیتے ہیں دنیا کو مگر اللہ نے ان
خطبات طاہر جلد 14 115 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء کے سپردوہ عظیم کام فرما دیا ہے جو تمام فضیلتوں کا منبع ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ پر بارش کی طرح نازل ہونے والے علوم کو تمام دنیا میں پہنچایا جائے.یہ وہ کام ہے جس میں MTA جومسلم ٹیلی ویژن احمد یہ ہے اس نے اہم فریضہ ادا کرنا ہے اور کسی حد تک شروع کر چکی ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ جو اس سلسلے میں میں ہدایتیں دیتا ہوں وہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ بعض ایسی زمینوں پہ پڑی ہیں جن پہ پانی پڑا اور بہہ گیا اور انہوں نے دوسروں کے لئے محفوظ بھی نہ رکھا اور بعض ایسی زمینیں ہیں جو محفوظ رکھ لیتی ہیں ، لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں مگر وہ خود جیسا کہ کہا گیا ہے انتظامیہ اس طرح مستعدی سے نہ اس پر عمل کرتی ہے نہ عمل کرواتی ہے اور بعض بڑی زرخیز زمینیں بھی ہیں.اس ضمن میں جب میں نے یہ مضمون اس تعلق میں سوچا تو میں نے اور غور کیا تو پتا چلا کہ دراصل یہ مثال جماعت پر صادق نہیں آتی صرف منتظمین پر صادق آتی ہے کیونکہ میرا وسیع تجربہ یہ ہے کہ جماعت ساری کی ساری زرخیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ جماعت بے وفاؤں کی جماعت نہیں ہے.ہر نیک کام پر بڑی مستعدی سے لبیک کہنے والی جماعت ہے کبھی بھی انہوں نے نیکی کے بلاوے پر پیٹھ نہیں پھیری بلکہ لبیک کہتے ہوئے مشکل کاموں میں بھی یوں لگتا تھا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لینے کے لئے ہمیشہ مستعد ہے.پس اس پہلو سے میرا وسیع تجربہ ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جہاں بھی انتظامیہ کی کمزوری کی وجہ سے یوں محسوس ہو کہ زمین زرخیز نہیں رہی اور اس طرح جواب نہیں دے رہی جیسے بارش کا جواب زرخیز زمینیں دیا کرتی ہیں تو قصور ہمیشہ اس ایک آدھ انسان کا یا ایک دو یا چند آدمیوں کا ہوا کرتا ہے جو بیچ میں بیٹھ رہتے ہیں اور اپنی پوری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی یا صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی غفلت حائل ہو جاتی ہے.یوں سوچتے ہوئے مجھے یاد آ گیا کہ میرا بھی زمیندارے کا تجربہ ہے.اب جو نئی نئی مشینیں بنی ہیں ان میں بیجوں کی مشینیں بھی ہیں لیکن ہمارے ہاں کے حالات مختلف ہیں ان کی مٹی اور طرح کی ہے بعض مٹی کیچڑ جلدی بن جاتی ہے اور بظا ہر سوہاگے کے بعد ٹھیک دکھائی دیتی ہے مگر نالیوں میں پھنسنے لگ جاتی ہے.یہاں میں نے دیکھا ہے یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی وہ مشینیں جو بیج کی مشینیں وہ بالکل صاف بیچ پھینکتی جاتی ہیں اور اگر کہیں کچھ نالیوں میں پھنستا ہوگا تو وہ لوگ اچھے تربیت یافتہ ہیں وہ دیکھتے رہتے ہیں کہیں کوئی نالی خالی تو نہیں پھر وہ اُتر کر اس کو جھاڑ کر ٹھیک کر لیتے ہیں.تو بعض دفعہ جو
خطبات طاہر جلد 14 116 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء بیج ڈالنے والی مشینیں ہیں ان کی نالیاں بند ہوتی ہیں اب وہ زمین کو کوسا جائے تو یہ تو جائز بات نہیں ہو گی.بعض دفعہ جلدی پتا لگ جاتا ہے بعض دفعہ کچھ عرصے کے بعد جبکہ بیجنے کا موسم ہی گزر جاتا ہے پھر پتا چلتا ہے پھر زمیندار کچھ بھی نہیں کر سکتا.تو ایسی جماعتیں بھی ہیں جہاں بعض منتظمین رستے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جماعتیں مستعد ہیں لیکن کام نہیں ہو رہا جس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں پر انحصار کیا گیا تھا انہوں نے اس انحصار کے تقاضے پورے نہیں کئے.اب تک جو یاد دہانیاں کروائی گئیں جماعتوں میں ان میں سب سے زیادہ میرے لئے کوفت کا موجب جرمنی کی جماعت بنی کیونکہ بڑی مستعد ہے، بڑی قربانی کرنے والی ہے اور MTA کا سب سے بڑا بوجھ جرمنی کی جماعت نے اٹھایا ہوا ہے تو MTA سے استفادے میں وہ محروم رہ جائے تو گویا ان کی مثال اس بیچ والی زمین کی سی بن جائے گی جو پانی اکٹھا تو کرتی ہے اور لوگ تو فائدہ اٹھا لیتے ہیں مگر خود فائدہ نہیں اٹھا سکتی.مگر میں نہیں سمجھتا کہ جرمنی کی جماعت اس مثال پر اپنے لئے راضی رہے اگر چہ حادثہ یا اتفاقاًیہ مثال ان پر صادق آرہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ امیر صاحب چونکہ جرمن بولنے والے امیر ہیں ، بے حد مخلص فدائی منکسر المزاج ، بے حد مفتی مگر بعض دفعہ وہ لوگ جو اردو دان ہیں یا پنجابی بولنے والے ہیں ان کی وہ ٹیمیں بناتے ہیں،اس اعتماد پر کہ اچھا کام کرنے والے ہیں اور وہ پھر آگے اس کام پر بیٹھ رہتے ہیں.پھر ان کی مدد کرنی پڑتی ہے ان کو سمجھانا پڑتا ہے کہ اس ٹیم کو بدلیں کوئی اور ٹیم لے آئیں.بعض دفعہ ان کی مجلس عاملہ میں بیٹھ کر خود تبدیلیاں کروائی گئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہی جماعت جو پہلے غیر مستعد نظر آتی تھی اچانک اس میں جان پڑ گئی.وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ (التصویر:19) کی صورت میں جس طرح صبح جاگ اٹھتی ہے اسی طرح وہ صبح کی طرح روشن جماعتیں تھیں مگر صبح کے وقت سوئی ہوئی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل فرمایا.یہ جو کام ہے اس میں بھی معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی ہی ٹیم امیر صاحب اور جماعت کے درمیان پڑی ہوئی ہے جو کاموں پر بیٹھ گئی ہے اور جرمنی کی جماعت کو یہ دن دیکھنا پڑا کہ بار بار موقع دینے کے باوجود میں ٹالتا رہا اس مضمون کو ذرا ٹھہر کے بیان کروں تا کہ مجھے جرمنی سے خوشکن رپورٹ آ جائے لیکن افسوس کہ یہ میری خواہش پوری نہ ہو سکی.اس لئے امیر صاحب کو اب تبدیلی کی طرف توجہ کرنی چاہئے.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے متعلق میں اخلاقی خطبات میں نصیحت کر چکا ہوں، بہت
خطبات طاہر جلد 14 117 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء بڑے بڑے فوائد کے رستوں میں حائل ہو جاتی ہیں.بعض لوگ چھوٹا دل رکھتے ہیں ، ایک آدمی اچھا کام کر رہا ہے امیر کے زیادہ قریب آگیا ہے تو اسی سے حسد شروع ہو جاتا ہے، ایسی باتیں شروع ہو جاتی ہیں جس سے امیر کا دل بھی کھٹا ہوتا ہے کہ یہ تو اسی کی باتیں سنتا ہے گویا کہ اس کو امیر بنا رکھا ہے.ایک ایسا شخص وہاں موجود ہے مبشر باجوہ کے نام سے مشہور بھی ہے اور بدنام بھی.مشہور تو ان لوگوں کی نظر میں جو جانتے ہیں کہ نیک انسان ، خدمت گزار.آج تک میں نے جتنے کام سپرد کئے ہیں سب سے زیادہ مستعدی سے جرمنی میں مبشر باجوہ نے وہ کام کئے ہیں.کبھی کوئی شکوہ نہیں کبھی بعض دفعہ یاددہانیوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں پڑتی.یاد آیا تو پوچھا تو پتا چلا کہ کام ہو چکا تھا لیکن رپورٹ میں ذرا کمزور ہیں مگر بہت عمدہ کام کیا ہے.ایک زمانہ تھا جبکہ امیر صاحب ان پر بہت بنا کرتے تھے اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ نیک ،مستعد اور صحیح مشورے دینے والا اور متفرق کام جو بھی سپر دکریں، وہ مستعدی سے کرتا ہے لیکن چونکہ ان کی بیوی کا عزیز بھی ہے اس لئے بعض چھوٹے دل والوں نے چھوٹی باتیں شروع کر دیں کہ لوجی یہ تو گھر کا راج بن گیا ہے.وہ کہتے ہیں’سالا آدھے گھر والا یا سالی آدھے گھر والی تو انہوں نے امارت ہی بانٹ کے آدھی مبشر کے سپر د کر دی حالانکہ ہرگز ایسی کوئی بات نہیں تھی.میں نے امیر صاحب سے کہا یہ چھوٹے دل والے اگر اعتراض کرتے ہیں، تو چلیں، کچھ دیر کے لئے کبھی کبھی مشورہ لے لیا کریں، ورنہ اس بیچارے کو الگ چھوڑ دیں اور وہ امور جن میں یہ خاص طور پر مرد تھے ان میں کمزوری آگئی.اب میں یہ نہیں کہتا کہ اس کام پر مبشر کو مامور فرمائیں.یہ امیر کا کام ہے وہ خود دیکھے مگر جو بھی اس کام میں روک بن کے بیٹھے ہوئے ہیں وہ مجھے منظور نہیں ہیں.اب نئے آدمی مقرر کریں اور میں آپ کو مثالیں دوں گا کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی جماعتیں جن میں زیادہ وسائل بھی نہیں ہیں چونکہ ان کے کام کرنے والے مخلص اور فدائی تھے ، عاجز تھے اور جو ہدایت دی گئی اس کو قبول کیا اس سے ان کے کم ہونے کے باوجود بہت ہی نیک نتائج ظاہر ہوئے ، اتنے کہ میری توقع سے بھی بڑھ کر.ایک اس کی میں جو آپ کے سامنے مثال رکھتا ہوں ان کے لئے دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں بڑے کام وہاں ہونے والے ہیں، بڑے اہم کام ہیں جو آئندہ جماعت کی ترقی پر اثر انداز ہوں گے.وہ مصروف ہیں لیکن کچھ روکیں ان کی راہ میں حائل ہیں.وہ ناروے کی جماعت
خطبات طاہر جلد 14 118 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء ہے.ناروے کے امیر صاحب زیادہ دینی لحاظ سے خاص تعلیم یافتہ آدمی نہیں ہیں لیکن انکسار ہے اور اطاعت کا بڑا مادہ ہے.جو سنتے ہیں من وعن اسی طرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں.سالہا سال سے، دس گیارہ سال سے تو یہاں آکے بھی دیکھ رہا ہوں کہ نارو بجبین زبان میں قرآن کا ترجمہ نہیں ہو رہا تھا.مشکل یہ تھی کہ وہ جو ایک مخلص نارویجین جن کے اخلاص میں کوئی شک نہیں وہ دوسرے کاموں میں اتنے مصروف، اپنی روزمرہ ذمہ داریوں کے علاوہ جماعتی خدمتوں میں بھی کہ ان کے اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی.دوسرے وہ محتاط بہت ہیں.جب تک پوری طرح مضمون نہ سمجھ آجائے وہ آگے ترجمہ نہیں کر سکتے.یہ یقین پوری طرح نہیں کہ میں قرآن کے ترجمے کا حق بھی پوری طرح ادا کر رہا ہوں کہ نہیں.تو بہت لمبا عرصہ گزر گیا ترجمہ ہو نہیں رہا تھا.میں نے امیر صاحب سے کہا کہ میں جب دورے پر جاتا رہا ہوں تو میں نے محسوس کیا ہے کہ نئی ایسی نسل احمدی نوجوانوں کی لڑکوں اور لڑکیوں کی او پر آ رہی ہے جو بہت ہی اچھے زبان دان ہیں اور اردو بھی اچھی بھلی آتی ہے.لیکن نارویجین میں تو یہ حال ہے کہ بہت سے ایسے ہمارے بچے ہیں جو نارو بیجین سے ہمیشہ نارویجین زبان میں زیادہ نمبر لے جاتے ہیں اور ان کے اساتذہ بھی حیران ہوتے ہیں، ان کے والدین کو ہیڈ ماسٹرز لکھتے ہیں، عجیب قسم کا لڑکا ہے باہر سے آیا ہے اور ہمارے سارے نارویجیئز کو نارویجین زبان میں Beat کر گیا ہے یا ایسی بچیاں بھی بہت ہیں.تو میں نے کہا اللہ نے آپ کو صلاحیت عطا فرمائی ہوئی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں.طریقہ ان کو میں نے سمجھایا کہ اچھی بچیاں ، ایک ٹیم ان کی بنائیں، اچھے بچوں کی ایک ٹیم بنائیں ان کے ساتھ جو وہاں سے ایسے لوگ آئے ہوئے ہیں جو دینی علم رکھتے ہیں کچھ نہ کچھ اور اردو زبان پر ان کو خوب محاورہ ہے ان کی ٹیم میں ان کو داخل کریں نگران کے طور پر.وہ ترجمہ اپنی نگرانی میں کروائیں اور پھر ان کو سننے کے بعد چھان بین کرلیں کہ واقعہ وہ مفہوم ہمارے اردو تراجم سے منتقل ہوا ہے کہ نہیں.پھر مربی صاحب یا دوسرے صاحب جو علم لوگ ہیں ان کو ان پر نگران بنا ئیں وہ پھر ان کو دیکھیں.پھر ان کی آپس میں اکٹھی Meetings ہوں وہاں ترجمے پڑھے جائیں اور ایک دوسرے کو مشورے دیں.میں نے کہا یہ بہت محنت کا کام ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ہو سکتا ہے اور ایک سال کا عرصہ ان کو میں نے دیا تھا وہ چھ مہینے میں ہی مکمل کر دیا ہے اور ایسا اعلیٰ پائے کا ترجمہ کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.میں نے احتیاطاً یہاں کی جو ماہر کمپنیاں ہیں جو
خطبات طاہر جلد 14 119 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء تراجم کے اوپر حرف آخر سمجھی جاتی ہیں ان کو وہ ترجمہ بھیجا انہوں نے کہا کہ کوئی ہمیں اس میں نقص نظر نہیں آتا.قرآن کریم کے عین مطابق جیسا کہ نارو جین میں ہونا چاہئے تھا ویسا ہی ترجمہ ہے لیکن ابھی وہ اور بھی پالش کر رہے ہیں.بعض ایسے مشکل مقامات ہیں جہاں میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ تسلی کر لی جائے تو ناروے جماعت چونکہ اس بہت ہی اہم فریضے میں مصروف تھی اور انہوں نے حیرت انگیز اعجاز دکھایا ہے اطاعت اور اس کے نتیجے میں خدمت کا پھل حاصل کرنے کا.اس لئے ان کو میں نے ان چیزوں میں یاد دہانی نہیں کرائی جن کے متعلق میں جماعت کو بار بار کہ رہا ہوں کہ خدا کے لئے جلدی ذمہ داری سے بعض کام سرانجام دیں.ان پروگراموں میں چار ایسے پروگرام ہیں بلکہ پانچ جن کے متعلق بارہا جماعت کو سمجھایا ہے کہ آپ ٹیمیں بنا ئیں اور جب تک آپ یہ کام نہیں کریں گے ہماری MTA حقیقت میں پورا فائدہ نہیں پہنچا سکے گی.اب تک زیادہ تر فیض پانے والے اردو دان ہیں یا کچھ انگریزی دان کبھی کبھی ہو جاتے ہیں لیکن دنیا کی مختلف قومیں مختلف زبانیں بولنے والے احمدی بکثرت بڑھ رہے ہیں اور وہ سارے کے سارے زبان نہ جاننے کی وجہ سے محروم بیٹھے ہیں.اب بنگال ہے، بنگلہ دیش کی جماعت بہت اچھی ہے مگر بعض وہاں مربی ہیں جو معلوم ہوتا ہے بہت ہی سست ہیں اور بعض ایسے ہیں جو مستعد ہیں مگر شاید ان کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا.اب نام تو نہیں لوں گا یہ تو نا جائز ہے کہ واضح کروں کہ میرے نزدیک کون سست ہے اور کون مستعد ہے لیکن ہے ایسا ہی واقعہ اور اتنے ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو سارے پروگرام ساتھ کے ساتھ آسانی سے بنگلہ دیشی زبان میں مل سکتے تھے اور بڑی سخت ضرورت ہے کہ بنگال میں بنگالی زبان میں MTA کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا جائے.میں نے ایک جائزہ لیا چونکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ نصیحت کر کے انسان سمجھتا ہے کہ یہ عمل ہو گیا ہو گا لیکن جب جائزہ لیں تو کچھ اور بات نکلتی ہے.پاکستان سے جانے والوں میں سے ایک کے سپرد یہ تھا کہ یہ بھی جائزہ لیں کہ کیا حال ہے اور ایک کو میں نے کہا بھی نہیں تھا از خود وہ ماشاء اللہ اتنے ذہین ہیں کہ خود ہی انہوں نے جائزہ لیا.دونوں کا جواب ایک ہی ہے کہ باوجود اس کے کہ بڑی محنت سے جماعت نے ڈش انٹینا ز لگائے، جماعتوں میں مہیا ہو گیا لیکن بہت کم دیکھ رہے ہیں اور بہت کم فائدہ اٹھا ر ہے ہیں.غیر احمدی از خود دیکھ رہے ہیں لیکن احمدیوں میں بہت کم ہیں.جب اس کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ بنگلہ زبان میں
خطبات طاہر جلد 14 120 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء ان کا ترجمہ ہی نہیں ہے تو وہ کیا کریں بے چارے.ان کو سمجھ ہی نہیں آتی.بعض تبر گیٹھ جاتے ہیں سامنے بس.کچھ ثواب حاصل کر کے چلے جاتے ہیں لیکن علمی فائدہ ، دینی فائدہ ان کو کچھ نہیں پہنچتا.جو دیکھنے والے ہیں وہ وہ ہیں جن کو یا اردو آتی ہے یعنی غیر احمدی جو ہم نے جائزہ لیا ہے یا انگریزی دان ہیں بعض ان میں سے بہت محظوظ ہورہے ہیں اور بعض اپنے اپنے خط بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے یہ دیکھا ہے پروگرام، بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے.مگر جو اصل غرض تھی کہ جماعت کی تربیت ہو جائے اس سے محرومی ہے اور بار بار یاد دہانی کے باوجود ابھی تک ان کی طرف سے کوئی بنگلہ پروگرام نہیں آرہے.اب یہ وعدہ ملا ہے کہ ہم نئے پروگرام بنائیں گے.نئے تو بنا ئیں گے جو پہلے بن چکے ہیں ان کا کیا بنا؟ ان میں سب سے اہم ضرورت خطبات کے ترجمے کی ہے کیونکہ خطبات کے ذریعے ایک عالمی جماعت ایک نفس واحدہ کی طرح تیار ہو رہی ہے اور یہ بعثت ثانیہ میں نفس واحدہ دوبارہ بننا بہت ہی ضروری ہے.جب تک ہم تو حید کا ایک منظر اس زمین پر پیش نہیں کرتے اس وقت تک حقیقت میں توحید کا غلبہ دنیا میں ہو نہیں سکتا اور ساری جماعت کا مزاج ایک ہونا چاہئے ،ساری جماعت کی سوچیں ایک طرح ہونی چاہئیں، ان کے اخلاق ایک جیسے ہونے چاہئیں اور دینی بنیادی علم میں سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ملنا چاہئے اور MTA کے ذریعے وہ کام آسان ہو گیا جو بالکل ناممکن دکھائی دیا کرتا تھا.یہاں تک کہ جہاں یہ آواز پہنچ رہی ہے اور لوگ فائدے اٹھا رہے ہیں ایک جگہ سے نہیں ساری دنیا سے کثرت سے بعض ایک کہتے ہیں کہ ہم تو احمدی سمجھا کرتے تھے اپنے آپ کو، مگر احمدی تو اب بنے ہیں جب ہم نے MTA کے پروگرام دیکھنے شروع کئے ہیں اب ہمیں پتا لگا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے اور اسلام کی عظمت کس کو کہتے ہیں.تو یہ پروگرام ایسے نہیں ہیں جن کو آپ خفیف نظر سے دیکھیں یہ ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے آسمان سے فیض اترا ہے اور اسے ہمیں ہر حالت میں کامیاب بنا نا ہوگا.پس جو پروگرام پیش کئے جار ہے ہیں ان کے، ان کی زبانوں میں ترجمے اگر نہیں ہوں گے تو ہم کیسے ان قوموں کو فیض پہنچا سکیں گے اور بنگال میں تو ویسے ہی مولویوں نے بڑی سخت مہم شروع کی ہوئی ہے جماعت کی بدنامی کی.اس کا جواب اگر ٹیلی ویژن کے ذریعے ملے اور بنگلہ دیشی زبان میں ملے تو بہت فائدہ پہنچے گا کیونکہ بنگالی مزاج کے لوگ عموماً منصف مزاج ہوتے ہیں اور سمجھ دار ہیں.جب
خطبات طاہر جلد 14 121 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء دلائل سے بات ہو تو بعض دفعہ بڑے بڑے کٹر مخالف مولوی بھی دیکھتے دیکھتے بات مان جاتے ہیں اور ایسی مثالیں بار ہا سامنے آئی ہیں کہ بعض جو مولوی ہیں ان کو یہ بھی فائدہ ہے کہ اکثر اردو دان ہیں کیونکہ اردو مدرسوں میں ہندوستان میں جا کر تعلیم حاصل کی ہوئی ہے تو وہ دو تین خطبوں کے اندر بڑے بڑے کٹر مخالف مولوی اللہ کے فضل سے احمدی ہو گئے.یہ شاذ کے طور پر پاکستان میں بھی ہوتا ہے مگر بنگلہ دیش میں ،افریقہ وغیرہ میں جو دینی علم رکھنے والوں میں انصاف کا مزاج ہے وہ بد قسمتی سے ہندوستان اور پاکستان کے مولویوں کے مقابل پر زیادہ ہے.اس لئے ہمیں بنگالی زبان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے لیکن ہم کیا کریں ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ بنگال کی جماعت اٹھ کھڑی ہو اور اپنی ضرورتیں خود پوری کرے.تو ایک ترجمے میں بہت ہی اہم کام خطبات کا ہے.ایک Running Translation یعنی Simultaneous ساتھ ساتھ جاری رہنے والی ہو رہی ہو لیکن ہرگز کافی نہیں ہے.جب ہم تعریف کرتے ہیں کہ فلاں نے کمال کر دیا بہت اچھی ٹرانسلیشن کی تو مراد یہ ہے کہ بڑا مشکل کام ہے اس میں گزارہ اچھا ہو گیا ہے.لیکن ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو ٹرانسلیشن ہے اس کا حق ادا ہوگیا ہے، سارے مطالب پوری طرح دوسروں تک پہنچ گئے ہیں اور بعض جگہ پھر غلطیاں بھی رہ جاتی ہیں.جب میں سنتا ہوں بعض اوقات تو پتہ چلتا ہے کہ میں نے تو یہ نہیں کہا تھا مگر کم ایسا ہوتا ہے مگر جو بات پہنچتی ہے اس جان اور طاقت کے ساتھ نہیں پہنچتی جو اصل زبان میں پائی جاتی ہے.پس اس پہلو سے ہر خطبے کا جو رنگ ٹرانسلیشن ہو بھی چکی ہے اس کا علمی لحاظ سے درست اور مؤثر اور جس زبان میں ترجمہ ہو اس میں طاقتور ہونا ضروری ہے اس کے بغیر ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا.پھر سوال و جواب کی مجالس ہیں، عربوں کے ساتھ ہیں ،افریقیوں کے ساتھ ہیں، انگریزوں کے ساتھ ہیں، یورپین کے ساتھ ہیں.ان میں اتنے وسیع مسائل سمیٹے جاتے ہیں جن تک انسان کی عموماً رسائی ممکن نہیں ہوتی اور بہت سی کتب میں پھیلے ہوئے ہیں.ان کے اگر کتابوں کے ترجمے کئے جائیں تو ان میں بھی بہت ابھی منازل طے کرنے والی باقی ہیں ترجمے تیار کرنے والے، ان زبانوں کو سمجھنے والے مگر یہ جو مجالس کی دلچسپی ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ انگریزی زبان میں بھی اس کے اچھے ترجمے ہو جاتے ہیں.عربی میں تو اس لئے زیادہ اچھے ہو جاتے ہیں کہ وہاں میں رک جاتا ہوں ، بات
خطبات طاہر جلد 14 122 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء کہہ کر جب ترجمہ ہوتا ہے تو پھر آگے بڑھتا ہوں.جرمن زبان میں جو ہوئے ہیں وہ بھی اس لئے اچھے ہوئے کہ وہاں بھی یہی طریق تھا کہ کچھ بات کہی جواب دیا، رک گیا، پھر اگلا سوال شروع ہوا، اس کا ترجمہ ہو گیا پھر جواب دیا گیا، پھر رک گیا یہاں تک کہ ترجمہ ہو گیا تو وہ معیاری ترجمے ہیں لیکن وہ صرف جرمن میں ہی ہیں جہاں تیار ہوئے ہیں یا انگریزی میں ہیں.ان کے معیاری ترجمے دوسری زبانوں میں بھی تو ہونے ضروری ہیں اور جب تک وہ ہوں گے نہیں دوسری زبانوں والے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے.بعض خطوں میں لکھتے ہیں یہ سوال اٹھایا گیا، یہ اعتراض اٹھایا گیا اور شاذ ہی کوئی ایسا ہو جو نیا ہو ورنہ ہر ایک کا جواب کسی نہ کسی مجلس میں آچکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے سوال کئے ان کے چہرے بتارہے تھے ان کے چہروں کی حرکتیں اور آثار بتاتے تھے کہ مطمئن ہوئے ہیں.تو اگر وہ مطمئن ہو سکتے ہیں جو سوال کر رہے ہیں تو دوسرے بھی انشاء اللہ مطمئن ہوں گے مگر اس کے ترجمے تو کرو.ان کے ترجمے مختلف زبانوں میں کرنا صرف یہی کافی نہیں بلکہ ان کے ترجمے ویڈیوز میں اس طرح بھرنا کہ بولنے والے کے انداز اور اس کے فقروں کے ساتھ جس حد تک ممکن ہو مطابقت کریں.یعنی یہ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر پھر اثر پھیکا پڑ جاتا ہے اور انسان تعجب سے دیکھتا ہے کہ یہ کچھ اور ادھر شروع کر دی اس نے.یہ بات کسی اور طرف کا رخ لئے ہوئے ہے.یہ کام ہے جس کے لئے ٹیمیں بنانے کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں اکثر زبانوں میں ہمارے پاس اب اللہ کے فضل سے اہم زبانوں میں صلاحیت پیدا ہو چکی ہے.جہاں نہیں ہے وہاں ایک زبان کی مدد سے دوسری زبان میں اچھے ترجمے کئے جاسکتے ہیں.مثلاً اگر جرمن ٹیمیں مستعد ہوں تو وہ ہمارے لئے بوسنین میں بھی بہت سہولت پیدا کر دیں گی اور البانین میں بھی کیونکہ جرمن میں کثرت سے ایسے مخلص بوسنین اور البانین احمدی ہیں جن کو جرمن پر عبور حاصل ہے اور وہ پھر اپنی زبان سے، وہ اور ان کے خاندان مل کر جرمن زبان سے اپنی زبان میں ترجمے کر سکتے ہیں.تو وہ لوگ جنہوں نے اس میں غفلت کی ہے وہ اندازہ کریں وہ کس طرح بعض بڑی بڑی قوموں کے رستے میں حائل ہو کے بیٹھے ہوئے ہیں جو فیض پہنچ سکتا تھا وہ نہیں پہنچ رہا.چھوٹی جماعتوں میں جو بہت ہی مستعد اور فوراً انکسار کے ساتھ لبیک کہہ کر خدمت کرنے
خطبات طاہر جلد 14 123 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء والی ہیں ان میں ایک تو ناروے کی مثال میں نے دی ہے، ایک ہالینڈ ہے اللہ کے فضل کے ساتھ.چھوٹی جماعت ہے لیکن امیر صاحب بھی ماشاء اللہ بہت ہی منکسر اور لبیک کہنے والے اور بھی بہت سے ایسے وہاں مخلصین ہیں ان کی رپورٹ میں آپ کو بتا تا ہوں اس سے اندازہ ہوگا کہ کس طرح مستعدی کے ساتھ وہ کوشش کرتے ہیں.وہاں ایک غفلت یہ ہوگئی کچھ عرصے تک کہ ہمارے ایک بہت ہی مخلص ڈچ احمدی ہیں حمید صاحب وہ ترجمہ کر رہے تھے تو شاید یہ تاثر تھا کہ وہی سارے ترجمے کریں گے حالانکہ ناممکن تھا ان کے لئے ، سارے ترجمے وہ کہاں کر سکتے ہیں.بعض ترجمے ہیں جن کے لئے ٹیموں کی ضرورت ہے.تو اس لاعلمی میں کچھ وہاں سستی ہوئی لیکن جب میں نے توجہ دلائی تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی عمدہ اس پر لبیک کہا گیا ہے اور فوری طور پر ٹیمیں بنا کر انہوں نے جو کام شروع کیا ہے اس کے فوری نتیجے بھی نکلنے شروع ہو گئے ہیں.امیر صاحب جو ھبتہ النور صاحب ہیں ان کی فیکس آئی ہے اس کا اردو ترجمہ ہے.وہ یہ ہے کہ 10 نومبر کو جب یہ شروع ہوا تھا تو انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت 10 نومبر کو ہیگ میں ایک اجلاس بلایا گیا پچپیس نوجوان بچے اور بچیاں جو کہ اس کام کے سلسلہ میں منتخب کئے گئے تھے شامل ہوئے.اس میں طے پایا کہ کون نگران ہوں گے، کتنے چاہئیں.دس نگران مقرر کئے گئے جو طے شدہ ٹیموں کے ذمہ دار تھے ترجمے کے لئے اشیاء، ویڈیو اور آڈیو کیسٹ اور جتنی ضرورتیں تھیں وہ مبارک یا داللہ صاحب جو اس کے ذمہ دار ہیں انہوں نے حامی بھری کہ جو ضرورت ہے مجھ سے مانگیں میں دوں گا.اب کیسے منظم طریق پر دیکھیں وہ کام کو آگے بڑھا رہے ہیں اور تمام نگرانوں کو ان کی ٹیمز کے ممبرز کے نام ، طریقہ کار سمجھایا گیا اور ۱۳/ نومبر کو بذریعہ خط بھی جو کچھ باتیں بھی ہوئی تھیں ان کو پھر دوبارہ پہنچادیا گیا.19 نومبر کو سیکرٹری آڈیو ویڈیو نے پھر یاد دہانی کرائی اور اس کے ساتھ ویڈیو اور آڈیو کیسٹ بھجوا دیے.اب یہ ویڈیو اور آڈیو کیسٹ وہاں کی جماعت نے از خود جیسا کہ ہدایت دی تھی تیار کئے.ان کو پھر Multiply کیا ہے، اس کو بڑھایا ہے اور بعض جماعتیں اب ان کا یہاں نام لینا مناسب نہیں کیونکہ ساری دنیا میں ان کی ہوگی، ان کے امیر صاحب نے لکھا ہے کہ ہمیں ویڈ یو تو بھیجو جس کا ہم ترجمہ کریں.معلوم ہوتا ہے وہ دیکھتے ہی نہیں ہیں ، خطبے بھی نہیں سنتے اور قریب کی جماعت ہے کوئی ہمارے آس پاس کی کہ میں نے تو لکھا تھا ہمیں ویڈیو نہیں بھیجی.میں نے کہا ان کو سمجھاؤ کہ
خطبات طاہر جلد 14 124 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء آپ کولکھا کیا، بار بار سمجھایا تھا کہ آج کے بعد جب سے MTA کا نظام عالمگیر ہوا ہے کوئی ویڈیو نہیں بھیجی جائے گی.آپ کو بجٹ مہیا کر دیئے گئے ہیں، آپ سامان خریدیں، اپنی ٹیمیں بنا ئیں اور وہاں ریکارڈ کریں.تو یہ بہانہ ہے ایک نفس کا کہ اپنے گلے سے اتار کر مرکز پر بات پھینکی اور پھر جو بھیجی گئیں ان کا بھی پتا نہیں ان کو ایک تو میں گواہ ہوں، وہاں مانگی جب ویڈیو وقت کے اوپر، کہ جی ہے ہی نہیں ہمارے پاس.پھر ایک نوجوان بولا کہ جی پڑی ہوئی ہے فلاں جگہ کونے میں میں نے دیکھی تھی.وہ منگوائی تو وہ ویڈیونکل آئی.تو یہ بھی کچھ پتا نہیں کہ ویڈیو ہیں بھی کہ نہیں ہیں، کیا ہورہا ہے.اس لئے ان سے تو میں نے انتظام کھینچ ہی لیا ہے.اللہ کے فضل سے اس زبان کی اور جماعتیں موجود ہیں دنیا میں ، میں نے ان سے کہا ہے کہ ان سے اب کوئی کام نہیں لینا بلکہ اور دنیا میں جو جماعتیں ہیں یہی زبان بولنے والی وہ مخلص ہیں مستعد ہیں اور انشاء اللہ وہ اس بوجھ کو خود اٹھالیں گی.تو بعض دفعہ اتنا افسوسناک اظہار ہوتا ہے کہ سزا اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی کہ ان سے کام کی سعادت کو واپس لے لیا جائے.مگر بعض جماعتیں ہیں میں نے بتایا ہے وہ سعادت مند ہیں، بے حد مستعد ہیں، کہیں کوئی ایک آدھ ٹیم غلطی سے ایسی ہے جو رستے میں حائل ہوئی ہے تو ان کو بدل دیا جائے تو انشاء اللہ مسئلہ حل ہو جائے گا.یہ ہالینڈ کی جماعت میں بتا رہا ہوں کبھی بھی اس لحاظ سے انہوں نے شکوے کا موقع نہیں دیا.جو سنتے ہیں سمجھتے ہیں، اس کے مطابق فورا عمل کی کوشش کرتے ہیں.اب تک جو کہتے ہیں ہومیو پیتھک کلاسز کے لئے ہم نے الگ بنادی ہے ، زبانوں کے لئے الگ ہیں ٹیمیں، اور قرآن کلاسز کی الگ ٹیمیں ہیں اور یہاں اس کا ذکر باقی جگہ اس لئے نہیں کہ یاددہانی میں یہاں سے نہیں لکھا گیا تھا مگر خطبات اور Question/Answer کو بھی شامل کریں ان کی بھی الگ مستقل ٹیمیں بنانے کی ضرورت ہے.کہتے ہیں زبان سیکھنے کی کلاسز عبدالحمید درفیلڈن کے سپرد ہیں اور وہ اللہ کے فضل سے 12 کلاسز کے ترجمے کر چکے ہیں اور بڑی مستعدی سے کام کر رہے ہیں.مگر زبان کے متعلق میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ باقی جو پروگرام ہیں ان میں ایک آدمی کی آواز کافی ہے خواہ وہ مرد ہو اور اگر مرد نہ ہو تو عورت لیکن ایک آدمی کی آواز میں آپ قرآن کریم کی کلاس کا ترجمہ کر لیں یا ہو میو پیتھی کا ترجمہ کر لیں.یہ کوئی مضائقے کی بات نہیں لیکن زبان کی کلاس
خطبات طاہر جلد 14 125 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء ہے اس میں ٹیم کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ بعض دفعہ میں بول رہا ہوں بعض دفعہ ایک آدمی مرد جواب دے رہا ہے بعض دفعہ ایک لڑکی پیچھے پردے میں بیٹھی ہے لیکن موجود ہے.اس کو عورتوں کی نمائندگی میں بات کرنی پڑتی ہے.بعض دفعہ بچوں سے سوال جواب ہیں وہ بچے جواب دیتے ہیں مختلف عمر کے.کہیں لڑکے کی آواز ہے، کہیں لڑکی کی آواز ہے تو پروگرام زیادہ محنت کا تقاضا کرتا ہے اور زیادہ اعلیٰ انتظام کا تقاضا کرتا ہے.اس سلسلے میں اب جبکہ ناروے کی ٹیم فارغ ہوئی ہے انشاء اللہ وہ مجھے یقین ہے بڑی جلدی یہ سارے پروگرام بنا کے بھیجنا شروع کر دیں گی.تو یہ جو زبان والا حصہ ہے یہ ایسا پروگرام ہے جو کچھ الجھن پیش کر رہا ہے.اس سلسلے میں بعض لوگوں کی طرف سے جو نمونے کے پروگرام جنہوں نے سنے ہیں یہ شکایت آئی ہے کہ بعض دفعہ آپ کسی چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ دکھائی نہیں دے رہی ہوتی.کیمرہ مین کسی اور طرف دیکھ رہا ہے اور بعض دفعہ جو ترجمہ کرنے والا ہے اس کی زبان اور ہے وہ لگتا ہے کچھ اور بیان کر رہا ہے، آپ کچھ اور کر رہے ہیں تو سمجھنے میں دقتیں ہیں.ان کو میں سمجھا رہا ہوں کہ دقتیں تو ہیں لیکن ان کا حل یہاں سے زیادہ آپ کے ہاتھ میں ہیں جو سننے والی جماعتیں ہیں یہ ان کا فرض ہے.ہم نے تو جس طرح بھی ہو سکا ایک پروگرام نمونے کے طور پر پیش کر دیا مگر آگے مختلف زبانوں میں اس کا ڈھالنا اور اس کا حق ادا کرنا یہ آپ لوگوں کا کام ہے.جہاں تک کیمرہ مین کا تعلق ہے آپ کو علم ہونا چاہئے کہ سارے یہ طوعی خدمت کرنے والے ہیں نوجوان.اور جو ہماری پروفیشنل ٹیم کہلاتی ہے وہ بھی طوعی ہے اصل میں یہ جسوال برادران کی ٹیم جو ہے یہ طوعی خدمت کرنے والی ہے ان کے اوپر حسب توفیق بوجھ ڈالا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں اور جو نو جوان ہیں بعض دفعہ دل چاہتا ہے کہ ان کو اسی وقت سمجھایا جائے کہ تمہارا کیمرہ دوسری طرف ہے مگر پر وگرام میں رخنہ نہیں ڈالا جا سکتا اور وہ اپنی توفیق کے مطابق کرتے ہیں یہ تو نہیں ہوسکتا کہ میں ادھر زبان بھی سکھا رہا ہوں اور کیمرہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ کیمرہ ٹھیک جگہ فوکس ہوا ہے کہ نہیں.تو یہ مجبوریاں ہیں ان کو برداشت کریں آہستہ آہستہ معیار اونچے ہوں گے.انشاء اللہ.ان میں سے کوئی بھی ایسا Criticism نہیں ہے جو بد نیتی سے کیا گیا ہے.کوئی تنقید ایسی نہیں ہے جس میں نعوذباللہ من ذالک کوئی رعونت ہو کوئی تلخی ہو.مخلص بندے ہیں وہ بے چارے چاہتے ہیں کہ پروگرام اچھے ہوں تنقید بھیج دیتے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 126 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء اس لئے ان پر کوئی شکوہ نہیں لیکن جواب دینا اور سمجھانا تو بہرحال میرا کام ہے اس لئے میں بڑے ٹھنڈے دل سے ان کو بتارہا ہوں شکر یہ مگر مجبوریاں ہیں.ایک موقع پر تو ایک تنقید ملی تو اس پر مجھے یہ شعر یاد آ گیا.کہ اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفان کا نظارہ کرتے ہیں (شاعر معین احسن جذبی ) طوفان میں پڑ کے کچھ مدد کریں تو بات بنے.جس کشتی کو آپ متلاطم دیکھ رہے ہیں، ڈولتی ہوئی دیکھ رہے ہیں، کچھ اس کے لئے آگے بڑھیں تو پھر بات بنے.کناروں پر سے دیکھ کر تبصرے کر دینا یہ کافی نہیں ہے لیکن ایک اور بھی شعر تھا اس کو چھوڑ کر مجھے یہ کیوں پسند آیا کیونکہ ان کے خلاف دل میں کوئی غصے کا جذبہ نہیں.تو اس شعر کے پہلے مصرع میں بہت پیاری بات ہے جو میرے دل کو لگتی ہے.اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار چھیڑے ” ہلکے سے غصہ نہیں ہے صرف نمونہ چاہتے ہیں ہم.تو اس لئے عمد امیں نے اس مضمون کے فارسی کے دوسرے شعر بھی ہیں وہ چھوڑ کر اس کو اس ہلکے کی وجہ سے چنا ہے.تو کچھ ہلکا سا آپ بھی تجربہ کر لیں.اپنے نام پیش کریں.ان منتظمین کے حضور جنہوں نے ان کاموں کو اپنے ملکوں میں جاری کرنا ہے اور پھر دیکھیں اگر اچھے پروگرام بنیں گے تو سو بسم اللہ ، بہت خوشی کی بات ہے.مگر یہاں کے پروگرام بھی اللہ کے فضل سے چونکہ مسلسل نظر ہے کوشش ہے وہ بہتر ہوں گے.ایک تبصرہ آیا تھا کینیڈا سے کہ ”جی وخت پایا اے اپنے آپ نوں یعنی زبان کے معاملے میں تبصرہ بڑا دلچسپ ہے لیکن زیادہ گہرا ہے.یہ وخت پانے کا جو مضمون ہے یہ ایک Attitude کو بھی ظاہر کرتا ہے.قرآن کلاس پر یہ تبصرہ نہیں آسکتا کبھی اور ہومیو پیتھک کلاس پر بھی نہیں آیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض تبصرہ کرنے والوں کے نزدیک اس کی اہمیت ہی کچھ خاص نہیں ہے.وخت پانے کا تصور اہمیت سے منسلک ہے اگر ایک اچھی اعلیٰ چیز کے لئے ایک انسان زور مار رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے تو اس پر تبصرہ نگار جو اس کی اہمیت کو سمجھتا ہو’ وخت پانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ چونکہ اردو کلاس ہو رہی ہے اس کو ویسے کچھ نہ کچھ آتی ہے، کافی آتی ہوگی شاید لیکن وہ سمجھتا ہے خواہ مخواہ مصیبت پڑی ہوئی ہے.بے وجہ ہی زور مارر ہے ہیں، سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگلا سمجھتا نہیں، کس مصیبت میں مبتلا ہو گئے.
خطبات طاہر جلد 14 127 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء بات یہ ہے کہ وخت نہیں ہے.یہ اللہ کی طرف سے ایک ذمہ داری ہے اور وہی ذمہ داری ہے جس کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے، قرآن کریم کی ان آیات میں ذکر آیا ہے اور آپ کو جو لگتا ہے کہ وخت پڑا ہوا ہے وہ وخت ہے ہی نہیں کیونکہ وہ شخص جس کا ایک کام سے عشق ہو وہ جب کام کرتا ہے تو اس کو لطف آرہا ہوتا ہے دیکھنے والے وخت سمجھتے ہیں.حالانکہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض بنئے قادیان کے زمانے میں، ہندوستان میں ابھی بھی بعض دفعہ چونکہ قانون کی پابندی نہیں ہے کہ کب دکانیں بند کی جائیں اب بھی بعض دفعہ وہاں دکانیں رات گیارہ گیارہ بارہ بارہ بجے تک کھلی رہتی ہیں اور اس کے بعد پھر وہ بنے بیٹھتے ہیں اور اپنے سارے حساب کتاب، اپنے سارے کھاتے مکمل کر کے، بند کر کے ، نفع نقصان کا حساب پائی پائی کا کر کے پھر وہ رات کو گھر جاتے ہیں.اب کوئی آدمی کہے کہ جی وخت پایا ہے بیچارے نے حالانکہ ” وخت شخت کوئی نہیں اس کی تو زندگی کا مزہ ہی یہ ہے تو جس کو دولت سے عشق ہے اس کے تو مزے کے لمحات ہی وہ ہیں اس کی ثواب کی دنیا ہی وہی ہے جو آخر پر بیٹھ کے حساب کر رہا ہے کہ کتنا منافع ہو گیا.کہاں کیا ہوا، کوئی چیز ضائع تو نہیں ہوئی.تو اپنی دنیا یہ بنا لیں جو علم کی دنیا ہے جو محمد رسول اللہ اللہ کے فیوض کی دنیا ہے اور اس سے محبت پیدا کر لیں تو نہ مجھے وخت پڑے گا نہ آپ کو وخت پڑے گا اور جو مجھے وخت پڑا ہے.کچھ آپ نے بھی تو ڈالا ہوا ہے.سمجھتے کیوں نہیں کہ یہ کام بڑے ضروری ہیں انہیں بہر حال ہمیں کرنا ہے.اب آپ کہیں گے کہ اس ذریعے سے ہر زبان سکھانی مشکل کام ہے.مجھے منظور ہے لیکن اس کا متبادل کیا ہے.ہر زبان الگ الگ تیار کی جائے اس سے بہتر متبادل کوئی نہیں مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایک چینل پہ اب آٹھ زبانیں ایک ہی پروگرام سے سکھاتے ہیں تو پھر آٹھ گنا وقت چاہتے ہیں اور اگر ایک گھنٹہ روز زبان سکھانے پر لگایا جائے تو جیسا کہ ہم نے سولہ زبانیں چنی ہیں ابتداء پہلے آٹھ ہوں گی پھر اس کے بعد آٹھ اور داخل کر دی جائیں گی تو ان سولہ زبانوں کے لئے سولہ گھنٹوں کا پروگرام یہ چاہئے اور اگر ہم ساتھ ساتھ جاری کریں تو دو گھنٹے میں یہ سارا کام ہو جاتا ہے اور ٹیلی ویژن کا گھنٹہ بہت مہنگا ہوتا ہے.آپ کو اندازہ نہیں ہے.یہ باتیں میں آپ کو پوری بتا تا نہیں مگر اللہ نے توفیق دی ہے تو کام چل رہا ہے.خدا کے فضل سے جرمنی کی جماعت نے بڑا حصہ لیا ہے اور بھی جماعتیں پاکستان کی قربانی کر رہی ہیں.مشرق وسطی کی جماعتیں بھی قربانی کر رہی ہیں تو اس لحاظ سے انگلستان کو بھی اللہ
خطبات طاہر جلد 14 128 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء توفیق دے رہا ہے.میں نے دیکھا بعض چہروں پر تعجب تھا کہ ہم کسی شمار میں ہی نہیں ہیں، آپ بھی قربانی کر رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ جرمنی کی جماعت کو توفیق مل رہی ہے.تو اس لئے گزارہ تو چل رہا ہے.مگر اس خرچ کو اس وقت آٹھ گنا کرنے کی توفیق نہیں ہے.جب ایسا زمانہ آئے گا ایک ٹرانسپانڈنٹ نہیں پورے کے پورے سیٹلائٹ جماعت کے ہوں گے تو ان کے سارے چینلز پہ انشاء اللہ علوم کے دریا بہیں گے مگر وہ وقت ابھی نہیں آیا ، ابھی تو جو مہیا ہے اسی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر نالا زم ہے.اور ایک شخص کہے گا کہ جی اردو تو سمجھ آگئی لیکن انگریزی میں یا فلاں زبان میں ابھی تک پوری طرح بات سمجھ نہیں آرہی کیونکہ اسی تصویر سے ایک انسان اپنی طرف سے اس میں مطالب بھرنے کی کوشش کرتا ہے.تو ان کو میں بتاتا ہوں کہ صبر سے کام لیں ضرور سمجھ آجائے گی ، بار بار سننا پڑتا ہے.اتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ بچے کو سمجھ لیں.ماں باپ ایک بچے پر جب زور لگاتے ہیں تو ایک تو یہ کہ ، ان کو لگتا ہے کہ بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے کوئی مصیبت نہیں.ماں باپ کو تو اتنا مزہ آتا ہے بچے کو زبان سکھانے کا کہ اس کے تو تلے منہ سے جب ایک آدھ فقرہ سنتے ہیں تو اسی پر عش عش کر اٹھتے ہیں اور بعض مجھے سنانے کے لئے کہ بچے نے کلمہ پڑھا ہے تو میرے پاس لے آتے ہیں ملاقات کے وقت نہیں نہیں یہ تو آپ کو سنانا ہی ہے یہ اس بچے نے کلمہ سیکھ لیا ہے اور مجھے چونکہ بتاتے ہیں کہ کلمہ ہے اس لئے اعتماد ہے کہ کلمہ ہی ہوگا لیکن ”مت مت ہوتا ہے بس اور کچھ بھی نہیں ہوتا اس میں.تو سکھانے والا پھل دیکھتا ہے تو کچا کھٹا پھل بھی اس کو اچھا لگتا ہے.زبانیں اسی طرح ماں باپ سکھاتے ہیں ہم بھی جو کوشش کر رہے ہیں آپ یہ سمجھ لیں کہ پروفیشنل میں نہیں ، ایک غریبانہ کوشش ہے مگر فائدہ ضرور ہوگا اور ہونا شروع ہو چکا ہے.ہماری کلاسیں جواب تک پینتالیس ہو چکی ہیں ان میں سے کچھ ایسے تھے رشین زبان جاننے والے، عربی زبان جاننے والے بعض دوسری زبانیں جاننے والے، افریقن زبانیں جاننے والے، اردو کی ایک لفظ نہیں سمجھ آتی تھی، اب اللہ کے فضل سے لطیفے سنتے ، Enjoy کرتے ، کہانیاں سنتے اور سمجھتے اور باتوں کا جواب صحیح دیتے ہیں اور پینتالیس سبق ہیں صرف.یہ پینتالیس سبق زیادہ عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں درست ہے لیکن انہوں نے تو صرف پینتالیس ہی سنے ہیں نا.جب آپ ان کو سنیں گے تو پینتالیس دن میں ایک ایک گھنٹہ بھی روزانہ دیں تو آپ کو دوسری زبانیں بھی
خطبات طاہر جلد 14 129 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء انشاء اللہ اسی طرح آنی شروع ہو جائیں گی مگر شروع میں سنا پڑتا ہے.ایک آدھ کلاس دیکھ کر آپ کو کبھی بھی سمجھ نہیں آسکتی کہ کیا ہورہا ہے اور ہمیں مشکل یہ ہے کہ ترجمے نہیں آئے ابھی تک.دوسری زبانوں میں ہوں تو پھر ا کٹھے پروگرام شروع کریں کیونکہ الف سے کام چلانا پڑے گا ی تک پہنچانا ہے.اور ہومیو پیتھک میں بھی یہی مشکل ہے کہ جب تک آغاز کے لیکچرز کا مختلف زبانوں میں ترجمہ نہ ہو جائے لوگوں کو ہومیو پیتھک کا فلسفہ ہی سمجھ میں نہیں آتا اور جس طرح میں نے سمجھانے کی کوشش کی ہے اللہ کے فضل کے ساتھ میں امید رکھتا ہوں کہ اگر کسی کو الف.ب بھی شفاء کا علم نہ آتا ہو تو وہ ہومیو پیتھک ساتھ ساتھ شروع کرے تو اس کو انشاء اللہ بہت سی صحت کی ضرورتیں جو ہیں وہ ان میں خود کفیل ہو جائے گا اور جنہوں نے تجربہ کیا ہے وہ بتارہے ہیں دنیا کے مختلف جگہوں سے خط آتے ہیں کہ ہمیں تو اتنا آرام آگیا ہے کہ روز مرہ گھر میں بیماریاں، ڈاکٹروں کی طرف بھا گو،خرچ کرو.اب ہم نے ستی سی دوائیں ہومیو پیتھی کی ، وہ لے کر گھر میں رکھ لی ہیں اور بعض تجر بے بھی بتاتے ہیں اور بعض ایسے دلچسپ تجربے ہیں کہ میرے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ آپ نے کہا تھا فلاں دوا، فلاں دوا، فلاں دواوہ پوری طرح کام نہیں کرتی تو ہم نے یہ Combination بنایا.ہم نے سوچا اور اس الله سے فائدہ حاصل کر لیا.تو یہ بھی علم کا ایک حصہ ہے انہی علوم کا جن کا فیض محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ہے کیونکہ العلم علمان علم الادیان و علم الابدان فرمایا دو ہی تو علم ہیں یا دین کے علوم ہیں یا سائنسی علوم ہیں ، یا بدنوں کے علوم جو صحت سے تعلق رکھتے ہیں ان کو خوب جاری کرو اور وعدہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو برکتوں سے بھر دے گا.تو یہ سارے پروگرام ہیں جیسے بھی ہیں سر دست ان کو قبول کریں شوق سے اور ان کو بہتر بنانے کی ذمہ داری اب ان جگہوں پر ہے جہاں وہ زبانیں بولی جاتی ہیں.جہاں ماہرین موجود ہیں اور ان کو ٹیمیں اس طرح بنانی چاہئیں جس طرح میں نے بیان کیا ہے صرف ایک آدھ آدمی کو کہہ کر بات نہیں بنتی.خود بیچ میں بیٹھ کر ٹیمیں بنوانی پڑتی ہیں اور ان کی پھر نگرانی کرنی پڑتی ہے.امریکہ سے بھی ابھی تک پروگرام نہیں ملے جو میں کہہ رہا تھا حالانکہ میں جانتا ہوں کہ امیر صاحب بہت ہی مستعدی اور اخلاص اور بے حد انکسار سے کام کرنے والے ہیں.صحت کمزور ہے، جسم میں بعض دردیں ہیں، اس کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو شفاء کاملہ عاجلہ
خطبات طاہر جلد 14 130 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء عطا فرمائے لیکن جماعت میں پور ا وقت دے رہے ہیں.مشکل یہی ہے کہ وہ ٹیم جس کے سپر دانہوں نے کام کیا ہے وہ نہیں کر رہی اور اس کی اب ان کو نگرانی کرنی پڑے گی اگر وہ نہیں کر سکتے تو ان کو بدل دیں مگر امریکہ سے امریکن پروگرام آنے چاہئیں اور انگریزی کا جہاں تک تعلق ہے امریکن انگلش بھی ایک انگلش ہے لیکن الگ ہے کچھ اس میں بھی اگر ساتھ انگریزی زبان سکھانے کے اسی Formate پر جو ہم تصویریں پیش کر رہے ہیں ان کی طرف سے آجائیں تو ایک بہت ہی مفید با برکت کام ہوگا.سپین نے بھی انفرادی طور پر لوگ پیدا کر دیئے ہیں مگر جماعتی طور پر وہاں یہ کام نہیں ہو رہا بلکہ منتظمہ بیٹھ گئی ہے بعض Tapes کے اوپر.سب سے زیادہ فخر سے جو چیز پیش کی ہے وہ خطبات کے ترجمے ہیں کہ اتنے ترجمے ہو چکے ہیں حالانکہ اس کا نظام جماعت سپین سے کوئی بھی تعلق نہیں.ایک مخلص آدمی جو بیمار ہے کبھی بیمار ہو جائے تو کام چھوڑ بیٹھتا ہے، کبھی صحت مند ہو تو کام شروع کر دیتا ہے اس کو باقاعدہ وظیفہ دے کر ہم نے براہ راست مقرر کیا ہوا ہے اور یہ سارا کام اسی کا ہے.اس کے علاوہ آنریری (رضا کار ) خدمت کرنے والے بھی ہیں لیکن جس طرح میں نے کہا تھا کہ ٹیمیں منظم کی جائیں اور ان کی نگرانی کی جائے یہ نہیں ہو رہا.UK کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے سارے کا رکن تو مرکز نے اپنے قبضے میں کرلئے ہیں ہم کیا کریں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں سے ہی گزارہ کیا جائے گا لیکن انگریزی زبان سکھانے کا جہاں تک تعلق ہے اور انگریزی میں ان چیزوں کے تراجم کا تعلق ہے جو مرکز میں خدمت کرنے والے UK کے ہیں معاملہ ان کی طاقت سے بڑھ کر ہے یہ.بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں دن رات اور یہ U.K کے خدام اور لجنات کا یہ فیض ہے جو ساری دنیا کو پہنچ رہا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے مگر اسی کام کے لئے U.K کی جماعت کو لازماً الگ ٹیمیں بنانی ہوں گی اور یہ خیال کر لینا کہ جی رنگ ترجمہ ہو گیا ہے اور اردو کلاس کا یہ تو علم سے مذاق کرنے والی بات ہے.زبان سکھانے میں رنگ تر جمہ تو کبھی کام نہیں دے سکتا ، ساتھ ساتھ جو تر جمہ ہو رہا ہے.اس کے لئے کوئی ایسی ٹیم بنائیں جو اللہ کے فضل کے ساتھ یہیں پیدا ہوکر بڑھنے والی ، انگریزی زبان پر عبور رکھنے والی ، تلفظ کے لحاظ سے، محاورے کے لحاظ سے، پورا پورا ان کے اوپر اعتماد کیا جاسکتا ہو اور پھر وہ ٹیمیں بنا کے بیٹھیں.مرد کی آواز ہو تو مرد اس میں حصہ لے رہا ہو، عورت کی ہو تو عورت حصہ لے
خطبات طاہر جلد 14 131 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء رہی ہو.تو اس کے لئے ایک دو ٹیمیں بنالیں تو سب کام آسان ہو جائے گا لیکن چونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے ابھی رمضان کے فورا بعد ہم نے یہ پروگرام شروع کر دینے ہیں اور جہاں جہاں خلا آئے گاوہاں اس جماعت کی ذمہ داری ہو جائے گی.اس وقت اعلان کر دیں گے کہ یہ ہم انتظار کر رہے ہیں.پین سے بھی ٹیپ نہیں پہنچی، فلاں جگہ سے نہیں پہنچی اس لئے ہم کیا کر سکتے ہیں تو خلا کی ذمہ داریاں اب آپ سب کے او پر لیکن اب زیادہ انتظار نہیں ہوسکتا.بیک وقت جتنی Tapes بھی مہیا ہوں گی ان کو رمضان کے معا بعد انشاء اللہ جاری پروگرام کی صورت میں چلا دیا جائے گا.اور دوسری ذمہ داری آپ لوگوں کی یہ ہے جو سن رہے ہیں کہ ہر ملک میں ان سب زبانوں کی ٹیپ ریکارڈنگ کا انتظام ہونا چاہئے اور ان سب پروگراموں کی ٹیپ ریکارڈنگ کا انتظام ہونا چاہئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک میں ڈش انٹینا کی سہولت ہی بہت تھوڑی ہے اور بڑا حصہ جماعت کا ایسا ہے جہاں ابھی تک ڈش انٹینا کے ذریعہ وہ اس عالمی وحدت کی لڑی میں پروئے نہیں جاسکے.اس لئے ضروری ہے کہ وہاں ویڈیوز کے ذریعہ پھر آگے ان تک یہ فیض پہنچائے جائیں اور ویڈیو کے ذریعے جو معمولی ضرورتیں ہیں وہ تو اللہ کے فضل سے اس زمانے میں ہر جماعت کی توفیق کے اندر ہیں وہ مہیا کریں اور زائد خرچ ہم ادا کریں گے.انشاء اللہ تو ان چیزوں کو ریکارڈ کریں اور پوری لائبریری اس کی بنا ئیں پھر تنظیم کے ساتھ ترتیب اور سلیقے کے ساتھ ان کا فیض ان سب جماعتوں تک پہنچانے کی کوشش کریں جہاں ڈش کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا بلکہ وہاں بھی جہاں ڈش کے ذریعے پہنچ سکتا ہے کیونکہ بسا اوقات لوگ با قاعدگی کے ساتھ پروگرام نہیں دیکھ رہے ہوتے اور بعض ڈش کے انتظام ایسے ہیں آج ایک پارٹی نے آکے دیکھا ہے کل ایک اور پارٹی آئے گی اور وہ دیکھ رہی ہوگی.تو جو جاری تربیت کے پروگرام ہیں ان میں قرآن کریم کی کلاس ہے اس میں جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے کوشش کر رہا ہوں کہ ترجمہ ایسا کیا جائے جو ساتھ ساتھ سمجھ آرہا ہو یعنی ترجمہ تو لکھا ہوا بھی ہوتا ہے لوگ پڑھ جاتے ہیں لیکن کلاس میں جب آپ دیکھیں گے تو اکثر کھڑے ہو کر جہاں میں نے پوچھا ہے کہ ترجمہ سن لیا؟ ہاں جی اب سن لیا.کیا مطلب ہے؟ مطلب نہیں آتا تو اس ترجمے کا کیا فائدہ جس کا مطلب نہیں آتا.وہ تفسیر نہیں ہے بلکہ ترجمہ سمجھانا بھی ضروری ہے اور قرآن کریم میں تو بکثرت ایسے مقامات ہیں جہاں ترجمے کو ٹھہر کر اس
خطبات طاہر جلد 14 132 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء کی گہرائی میں جا کر سمجھا نا لا زم ہے ورنہ ایک غلط تصور پیدا ہوسکتا ہے اور اگر کوئی اعتراض کرے تو پھر اس اعتراض کا جواب نہیں آئے گا.پس اس طرح کوشش کر کے جو میں ترجمہ سمجھا رہا ہوں اس کا بھی ترجمہ ضروری ہے.پہلے خیال تھا کہ عربوں کے لئے قرآن کریم کے ترجمے کی کیا ضرورت ہے.واقعہ یہ ہے کہ عربوں کا ایک بڑا حصہ ہے جن کو قرآن کریم کا صحیح ترجمہ نہیں آتا.دارجہ زبان ہے جو فصحہ کلام ہے اس سے اکثر کو واقفیت نہیں اور قرآن کے ترجمے میں صرف ترجمے کی بات نہیں ، ترجمہ سمجھانے کا موقع بھی ہے.بہت سے ایسے تاریخی واقعات ہیں مثلاً وہ فَاذْرَتُهُ فِيهَا (البقره: 73) والی آیت جس میں قتل ہوا اور تم لوگوں نے آپس میں اختلاف کیا اب وہاں خالی ترجمہ پیش کر دیں تو کسی کے پہلے کیا پڑے گا.سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ واقعہ تھا یہ ترجمہ ہے فلاں ترجمہ غلط ہے یہ درست ہے اور اس مضمون کو سمجھو.تو یہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق مل رہی ہے جماعت کو کہ قرآن کریم کا ترجمہ آسان انداز میں دنیا میں جاری کرے اس کا آگے استفادہ تبھی جماعتیں کر سکتی ہیں اگر ان زبانوں میں یہ ترجمے پیش کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.اب یہ سارا خلاصہ تو میں پیش نہیں کر سکتا صرف اتنا عرض کروں گا کہ جرمنی میں اگر اچھا کام ہوا ہے تو صرف ٹرکش زبان میں ہوا ہے کیونکہ وہاں ایک ٹرکش مبلغ کے سپر دوہ کام کیا گیا تھا انہوں نے اپنے حصے کا کام اللہ کے فضل سے خطبات میں بہت محنت کی ہے اور بھی کام ان کے سپر دہم کر رہے ہیں مگر اس طرح بات نہیں بنے گی.ہر جماعت کے امیر کو مجلس عاملہ کا اجلاس بلانا چاہئے اس خطبے کی روشنی میں جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کا جائزہ لینا چاہئے اور ایک ایک مضمون کی ایک ٹیم اب کافی نہیں رہی اب وقت سے پیچھے رہ گئے ہیں.ایک ایک کام میں زیادہ ٹیمیں بنا ئیں آپ.اب بنگلہ دیش کی اس بات پہ میں مثال دیتا ہوں.اب وہ ان سب کاموں پر اگر وہ ایک ایک ٹیم بنا کر تسلی کر لیں تو وقت سے ہمیشہ پیچھے رہیں گے.اب بعض مربی ہیں ان کے سپرد یہ کام کریں ایک کے سپر د دویا تین ٹیمیں ہوں اور بیک وقت وہ تینوں ٹیمیں اس مربی کی نگرانی میں کام کریں تو اس طرح کام تین گنا رفتار سے بڑھے گا تو پھر بمشکل اس مقام کو پہنچیں گے.جہاں ہم آگے نکل چکے ہیں اس وقت.اب پینتالیس سبق کسی میں ساٹھ سبق کسی میں اس سے بھی زیادہ.اب ان کو پکڑنا ہے آپ نے اور ساتھ ساتھ تازہ تازہ کا بھی
خطبات طاہر جلد 14 133 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء ترجمہ کرنا ہے.تو بہت مشکل کام ہے اس پہلو سے کہ جو آپ نے پہلا وقت ضائع کیا اس کا ازالہ بھی اب آپ نے کرنا ہے.تو دعائیں کریں اور تو کل کریں یہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ کام ایسا ہے جو ہماری توفیق کے اندر ہے.دعا، تو کل اور اس کے درمیان عزم کو رکھ لیں کیونکہ قرآن کریم نے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (آل عمران : 161) فرمایا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم عزم کر لو تو تم نے چھوڑنا نہیں ہے اور یہ نہ کہو کہ جی مشکلیں رستے میں تھیں، کئی دفعہ تبلیغ کے رستے میں بعض لوگ کہتے ہیں جب ہم پیچھے پڑتے ہیں شروع شروع میں بڑا خوش ہو کے الحمد للہ بڑی کامیابی ہوئی.پھر بڑا سخت Panic خط آجاتا ہے ڈرا ہوا اور ڈرانے والا اپنی طرف سے کہ یہاں تو مخالفت بڑی شروع ہوگئی ہے.سعودی عرب نے یہ کر دیا ، فلاں ملک نے یہ کر دیا لٹریچر ہو گیا.میں ان کو کہتا ہوں آپ اس سے پہلیکس دنیا میں بس رہے تھے.کیا آپ نے کبھی قرآن نہیں پڑھا.آدم کے آغاز کے وقت ہی شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ تو نے چھٹی مانگی ہے میں تمہیں چھٹی دیتا ہوں قیامت تک چھٹی ہے بلکہ ایسی چھٹی ہے کہ جو تم نے نہیں مانگا وہ بھی میں بتارہا ہوں.اپنے پیارے بھی چڑھالا ؤ ، اپنے سوار بھی لے آؤ، جو کچھ تم میں ہے ظاہری اندرونی سارے ہتھیار استعمال کر لو لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ میرے بندوں پر تو غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا.اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن (الحجر: 43) جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے غلبہ نہیں مل سکتا.تو مجھ سے کیا جواب پوچھتے ہیں قرآن تو پہلے ہی دے چکا ہے.مخالفت لازما ہونی ہے.آپ ان رستوں پر چلے ہیں جہاں مخالفتوں کی ہمارے مالک نے اجازت دی ہے بلکہ دعوتیں دی ہیں کہ آجاؤ، چڑھالا ؤ اپنے پیارے، اپنے سوار لے آؤ، اپنی ساری طاقتیں استعمال کر لو لیکن تم ضرور نامراد ہو گے.میرے بندوں پر تمہیں غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا.اللہ کے بندے بنیں پھر کون سا ڈر ہے.لا ز ما فتح آپ کے مقدر میں ہے.آپ کے قدم چومے گی.خدا نے آپ کے ہاتھ میں فتح کی کلید تھمادی ہے.پس اس یقین کے ساتھ جو عزم ہے اس کے ساتھ یقین ضروری ہے اور یہ تو کل ہے جو لفظ یہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ تم نے عزم کیا ، کیسے تم توقع رکھتے ہو کہ خدا تمہارے عزم کے بدلے میں اپنی نصرت کے وعدے نہیں عطا کرے گا.وہ دوسرا حصہ تو کل کا ہے.پس ان کاموں میں عزم کر لیں، فیصلہ کر لیں کہ اپنی تمام صلاحیتیں اس راہ میں جھونک
خطبات طاہر جلد 14 134 خطبہ جمعہ 17 فروری 1995ء دیں گے.قدم نہیں ڈگمگانے دیں گے.جس قدر طاقت ہے لازماً آگے بڑھتے جائیں گے پھر تو کل کریں کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ آپ کے عزم کی تائید فرمائے گا اور لازماً آپ کو غلبہ عطا ہو گا.اللہ تعالیٰ کرے کہ کل کی بجائے یہ آج عطا ہو.مگر جو سلسلہ جاری ہے اس نے تو انشاء اللہ دن بدن آگے بڑھتے ہی چلے جانا ہے.اس رمضان میں جو یہ میں نے تحریک کی ہے ان سب کی مددجو ان کاموں میں ملوث تھے پانے ارادے لے کر بیچ میں شامل ہوں گے اپنی دعاؤں سے کریں.بقیہ اب تھوڑے دن رہ گئے ہیں اللہ کرے کہ ہمیں مقبول دعائیں کرنے کی توفیق عطا ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 14 135 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء لیلۃ القدر اور صفت سلام کی پر معارف تشریح انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک (خطبه جمعه فرموده 24 فروری 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج بہت انتظار کے بعد بالآخر وہ مبارک جمعہ کا دن آپہنچا ہے جسے رمضان مبارک میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.آخری عشرہ میں واقع ہونے والا جمعہ اپنا کوئی رقیب بھی نہیں رکھتا ورنہ بعض دفعہ ممکن ہوتا ہے کہ آخری عشرے میں دو جمعے آجائیں.آخری عشرے میں آیا ہے رمضان کا آخری جمعہ ہے جسے جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے لیکن یہ لفظ ”جمعۃ الوداع مجھے اس لئے پسند نہیں کہ بعض لوگ واقعہ اسے وداع کرنے آتے ہیں.یہ وہ دن ہے جب مساجد سب سے زیادہ بھرتی ہیں.سال بھر میں کوئی اور ایسا دن پیش نہیں کیا جا سکتا جبکہ مساجد کی آبادی اتنی ہو جائے ، اس طرحمسا جد بھر پور ہو جائیں ، جس طرح آج کے ان لوگوں کے بقول جمعۃ الوداع میں مساجد بھرتی ہیں.اس ضمن میں پہلے بھی میں جماعت کو نصیحت کر چکا ہوں کہ یہ جمعہ تو آپ کے استقبال کے لئے آتا ہے.آپ کو ہمیشہ کے لئے اللہ کے گھر والا بنانے کے لئے ، اللہ کے گھر میں داخل کرنے کے لئے.تو یہ تو آپ کا استقبال کرنے آتا ہے سال کے بعد، انتظار کے بعد، رمضان کی محنتوں اور مشقتوں اور دعاؤں کے بعد ان کی قبولیت کا نشان بن کے آتا ہے ، دونوں بازو پھیلائے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہتا ہے تو یہ اچھا سلوک نہیں کہ آپ اسے الوداع کا سلام کہہ کر چلے
خطبات طاہر جلد 14 136 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء جائیں.ہمیشہ کے لئے مساجد کے ہور ہیں.یہ پیغام ہے جو جمعۃ الوداع ہر مسلمان کو دیتا ہے اور مساجد جو بھرتی ہیں پھر بھری رہنی چاہئیں.عید آنے والی ہے اس دن خصوصیت سے میں تمام جماعتوں کو پھر متنبہ کرتا ہوں کہ عید کے دن کی صبح کی حاضری دراصل وہ میزان ہے جس سے آپ کا ایمان تو لا جائے گا یا ایمان نہیں تو کم سے کم وہ جو کچھ آپ نے رمضان میں کمایا ہے اس ترازو میں تولا جائے گا یعنی عید کے دن صبح کی نماز میں.اگر ایک مہینہ بھر راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھے اور عید جو اس مہینے کی خوشیوں کا دن ہے، اس مہینے کی برکتیں منانے کا دن ہے، اس دن وہ ساری برکتیں ہاتھ سے کھو بیٹھیں اور اسے آرام سے سونے کا اور خدا کی یاد سے غافل ہونے کا دن بنالیں تو بہت ہی بے ہودہ اور ظالمانہ سودا ہوگا.پس آنے والی عید میں خصوصیت سے اپنی نمازوں کی طرف توجہ کریں اور عید کی صبح مسجد کو نمازیوں سے اسی طرح بھرا دیکھے جس طرح جمعۃ الوداع نے بھرا ہوا دیکھا ہے.اس ضمن میں میں یہ خوشخبری بھی جماعت کو دیتا ہوں کہ تمام دنیا سے جو اطلاعیں مل رہیں ہیں دن بدن جماعت احمدیہ کی مساجد بھرتی چلی جارہی ہیں، چھوٹی ہوتی چلی جارہی ہیں.یہ مسجد تو ایک لمبے عرصے سے چھوٹی ہوئی ہوئی ہے.اس لئے ہدایت دینی پڑتی ہے کہ کم سے کم لوگ یہاں آئیں جو حلقے کے لوگ ہیں وہ آجائیں اور باقی شاذ کے طور پر آجایا کریں برکت کے لئے ، ورنہ اپنی اپنی مساجد میں جمعہ پڑھا کریں اور خطبہ کا جہاں تک تعلق ہے وہ ٹیلی ویژن سے استفادہ کیا ہی جاسکتا ہے.مگر پھر بھی بہت چھوٹی ہو چکی ہے اور ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ اس مسجد کو بڑھایا جائے اور دوسری مساجد کو بھی بڑھایا جائے.ربوہ کا یہ حال ہے کہ اس رمضان سے پہلے ہی مساجد چھوٹی ہوگئی تھیں.اہل ربوہ کا عبادتوں کی طرف اتنا غیر معمولی رجحان ہے کہ اس سے پہلے اس کی نظیر دکھائی نہیں دیتی.جمعہ کے دنوں میں، جمعے کے اوقات میں اور عبادتوں کے وقت میں بازار سنسان ہو جاتے ہیں، خدا کے گھر بھر جاتے ہیں اور آج کا جمعہ جو انہوں نے پڑھا ہے ، پڑھ چکے ہیں اس میں تو عجیب عالم ہوگا.میں صبح تصور کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور میرا دل اللہ کی حمد سے بھر گیا وہاں سے آتے وقت جو لوگ یہ کہتے تھے کہ کس حال میں لوگوں کو چھوڑ کے جار ہے ہو ان کا کون متوتی ہوگا، کون حفاظت کرے گا ؟ میرے -
خطبات طاہر جلد 14 137 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء رب نے وہ سب غم دور کر دیئے.ایسی خوشیاں دکھا ئیں کہ ان کی مثال دنیا میں دکھائی نہیں دیتی.اس دوری کے باوجود اہل ربوہ کو اتنا قریب کر دیا کیونکہ جو خدا کے قریب ہیں وہی میرے قریب ہیں اور خدا کے قرب نے مجھے وہ نعمتیں وصال کی بخشی ہیں جو وہاں رہتے ہوئے کبھی میسر نہ آئی تھیں.مجھے یاد ہے جب میں وہاں ہوتا تھا تو کئی دفعہ اہل ربوہ سے شکوے کرتا تھا کہ مساجدا بھی پوری طرح بھری نہیں ہیں اور مساجد اتنی چھوٹی ہیں اگر سارا ربوہ عبادت کرے تو مساجد انہیں سمیٹ ہی نہیں سکتیں.پس الحمد للہ کہ یہ مبارک جمعہ ہے اس نے تو ربوہ کی مساجد کا عجیب عالم دیکھا ہوگا.سب مساجد اتنی چھوٹی ہوگئی ہوں گی جیسے آپ اپنے بچپن کے کپڑے پہنے کی کوشش کریں.گھٹنوں سے نیچے ٹانگیں نگی ہوں گی بدن کے اوپر کا حصہ کہیں وہ پھٹ رہے ہوں گے.یہی کیفیت ربوہ کی مساجد کی پہلے سے ہورہی تھی ، آج تو عجیب عالم ہوا ہو گا.پس اس تعلق میں ایک تو میں اہل ربوہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں.یہ محبت انشاء اللہ کبھی نہیں مٹے گی یہاں تک کہ اللہ وہ صبح طلوع کرے جو لیلۃ القدر کی فجر ہوا کرتی ہے اور میں اس انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.ہمارے ایاز محمود خان صاحب ہیں جب سے وہ صدر عمومی بنے ہیں ماشاء اللہ بڑی محنت سے ، خلوص سے ایک ٹیم بنا کر نیک کاموں میں بہت حصہ لے رہے ہیں اور ان برکتوں کی جزا ان کو بھی ملے گی اور ان کے ساتھیوں کو بھی ،سب اہل ربوہ کو جنہوں نے خدا کے فضل سے نیکی کی جانب ایک انقلابی قدم اٹھا لیا ہے.اللہ ان نیکیوں کو دوام بخشے.اس تعلق میں میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کا ایک نیا دور شروع ہونا چاہئے.توسیع مساجد ایک ایسا کام ہے جو جماعت کی توسیع سے گہرا تعلق رکھتا ہے.جب بھی ہم نے توسیع مساجد کی مہم چلائی ہے اور مشنوں کی ،وہ بھی مساجد ہی ہیں ہمارے لئے تو اللہ نے بے شمار فضل فرمائے ہیں اور جماعت کے دعوت الی اللہ کے کاموں میں بہت برکت پڑی ہے.تو اس لئے یہ ایک عام تحریک ہے کل عالم کی جماعتوں کے لئے کہ مساجد کو تعمیر کرنے اور مساجد میں توسیع کرنے کی مہم شروع کریں.جتنی توفیق ہے اس طرح کریں.دنیا داری کے جھگڑوں میں پڑ کر ظاہری خوبصورتی اور قیمتی سامانوں کی فراہمی کا انتظار نہ کریں.جیسی بھی مسجد ہے اسے اللہ کا ذکر برکت بخشتا ہے ، وہ مومن برکت بخشتے ہیں جو تقویٰ لے کر وہاں سجے سجائے پہنچتے ہیں.مسجد کی سجاوٹ تو ان متقیوں سے ہے.
خطبات طاہر جلد 14 138 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء پس اس پہلو سے جہاں تک ممکن ہے خوبصورت دیدہ زیب مسجد بنانا اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے منافی تو نہیں.مگر اس انتظار میں کہ اتنا پیسہ ہو تو پھر ایسی مساجد بنائی جائیں ،مساجد کی بنیادی ضرورت کو نظر انداز کر دیا تو یہ جائز نہیں ہے.یہ پھر دنیا داری ہے ، یہ عبادت کی محبت نہیں ہے.پس حسب توفیق وسعتیں دیں.خوبصورت نہیں بنتی تو سادہ مگر اس وقت ستھری اچھی چیز دکھائی دے اور جتنی توفیق ہے اس کے مطابق یہ کام شروع کریں.انگلستان میں ایک بہت بڑی مسجد کی ضرورت ہے.یہاں اب تک جو دوسری بڑی بڑی مساجد بنائی گئی ہیں ان میں بتایا جاتا ہے کہ گلاسگو کی مسجد میں سب سے زیادہ نمازی آسکتے ہیں یعنی دو ہزار کی تعداد میں.اب میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں زیادہ آسکتے ہیں یار یجنٹ پارک کی مسجد میں.مگر جو اندازہ ایک دفعہ میں نے لگوایا تھا اس سے یہی لگتا ہے کہ ریجنٹ پارک کی مسجد کے ملحقات تو بڑے ہیں مگر نمازیوں کی جگہ اتنی نہیں ہے.اس لئے بعید نہیں کہ گلاسکو والوں کا دعویٰ درست ہو کہ انگلستان کی سب سے بڑی مسجد ہے.جماعت احمدیہ کی تعداد تو دوسروں کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے لیکن جماعت احمدیہ کے عبادت گزار بندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس لئے ہمیں دو ہزار کی مسجد کام نہیں دے گی.مرکزی جو جلسے ہوتے ہیں یا مرکزی تقریبات جن میں عبادت کے لئے وسیع جگہوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں انگلستان کی ضرورت چھ سات ہزار تک بھی جا پہنچتی ہے.تو میں نہیں سمجھتا کہ سردست آپ کے اندر یہ استطاعت ہے کہ چھ سات ہزار نمازیوں کے لئے مسجد تعمیر کر سکیں.مگر ایسی مسجد کی بنیاد ڈالنا ضروری ہے جس میں یہ سہولتیں مہیا ہوں کہ آئندہ حسب ضرورت اور حسب توفیق اس کی توسیع ہوتی چلی جائے اور مسجد کے عمومی نقشے پر برا اثر نہ پڑے.یعنی سادگی تو اپنی جگہ درست ہے مگر بد زیبی تو خدا کو پسند نہیں ہے.ایسے ملحقات ، ایسے الحاقی اضافے جو بد صورتی پیدا کریں وہ اچھے نہیں ہیں اس لئے اپنی پلاننگ میں ، اپنی منصوبہ بندی میں یہاں کی جماعت کو چاہئے کہ یہ گنجائش رکھیں کہ آئندہ دس پندرہ ہزار تک کے لئے بھی وہ مسجد بڑھائی جا سکتی ہو تو بڑھائی جائے اور پھر بھی ٹھیک لگے.دونوں طرف سے آگے اور پیچھے متوازن بڑھنے کی جگہ بھی ہونی چاہئے اور نقشہ پہلے سے ہی بننا چاہئے مختلف سٹیچز ، منازل کا نقشہ.
خطبات طاہر جلد 14 139 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ سردست جو میں نے تخمینہ لگایا ہے امیر صاحب سے مشورہ بھی کیا ہے تو وہ بھی کہتے ہیں ٹھیک ہے مگر کچھ ان کے ٹھیک سے مجھے لگا تھا کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت میں ابھی یہ توفیق نہیں، تو تو فیق تو خدا بڑھا دیا کرتا ہے ، میں نے پانچ ملین کا تخمینہ لگایا ہے یہاں کی مرکزی مسجد کے لئے اور جیسا کہ میرا پرانا دستور چلا آرہا ہے اللہ تو فیق بھی عطا فرمارہا ہے کہ ہر وہ وسیع ، بڑی تحریک جو کرتا ہوں اس کا سواں حصہ میں اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں امیر صاحب کی طرف سے دس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ لکھوار ہا ہوں تا کہ ان کا پہلا نمبر ر ہے.اگر چہ میری نیتوں میں ان سے پہلے غالباً یہ بات چلی آرہی تھی کہ پچاس ہزار پاؤنڈ کا میں اکیلا نہیں بلکہ اپنی بچیوں ، دامادوں ، بچوں اور مرحومین سے تعلق والوں کی طرف سے یہ لکھواؤں.پانچ سال کا عرصہ میرے ذہن میں ہے.پانچ سال میں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا تو یہ رقم سارے وعدہ کروانے والے پوری کر دیں لیکن اگر یہ وعدے اتنے نہ ہوئے تو پھر پانچ سال مزید بھی اس کو بڑھایا جا سکتا ہے اور مسجد کے معاملے میں بنیا دیں وسیع ہونی چاہئیں اور سادہ سی عمارت کی تعمیر بھی ہو جانی چاہئے.باقی زیبائشیں بعد کی باتیں ہیں دیکھی جائیں گی.تو میں سمجھتا ہوں کہ پچاس لاکھ اگر پانچ سال میں نہ بھی پورا ہو( پانچ ملین تو پچاس لاکھ بنتا ہے بہت بڑی رقم ہے ) تو دس لاکھ بھی سہی لیکن ارادے بلند رکھیں اور اللہ سے توقعات بلند رکھیں نئی نسل کے جو بچے اب خدا کے فضل سے مختلف نوکریوں پر لگ رہے ہیں ان کو بھی شامل کریں اور خدا سے تو فیق بڑھانے کی دعائیں مانگیں تو کوئی بعید نہیں اور پھر جب بھی تحریک کی جاتی ہے تو سب دنیا سے خدا ویسے بھی مددگار کھڑے کر دیتا ہے.کچھ ایسے جوش رکھنے والے متمول دوست ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی تحریک ہو پیچھے نہیں رہنا چاہتے تو وہ بھی آپ کی انشاء اللہ نصرت فرمائیں گے.تو اس وقت میں پانچ ملین کی تحریک جماعت انگلستان کی مرکزی مسجد کے لئے کرتا ہوں اور اس دعا اور نیت کے ساتھ کہ یہ لازماً انگلستان کی وسیع ترین مسجد ہو.عبادتوں کی گنجائش پر زور ہونا چاہئے.جو ملحقہ عمارتیں ہیں یا دوسرے نخرے ہیں ان کو بے شک نظر انداز کر دیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہو جائے تو یہ بھی بعید نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر جرمنی کو بڑی تحریک ہوگی کیونکہ جرمنی آپ کی رقیب جماعت ہے اور وہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کسی نیکی میں آپ ان سے آگے نکل جائیں تو
خطبات طاہر جلد 14 140 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء آپ نے قدم بڑھایا تو وہ بھی بڑھائیں گے، یہ سلسلہ چل پڑے گا انشاء اللہ تو اب وقت ہے کہ ہم عبادتوں کی طرف توجہ جب کر رہے ہیں تو عبادت گاہوں کی طرف بھی توجہ کریں.ہمارا مضمون اس سے برعکس ہے جو اقبال نے بیان کیا ہے اقبال تو کہتا ہے مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا (کلیات اقبال) تو ہم شب بھر میں عبادت کرنے والے پیدا کر رہے ہیں اور بڑھاتے چلے جارہے ہیں.لیکن ہماری جو گناہوں کی شامت اعمال ہے کہ ابھی تک یہ تو فیق پوری نہیں ہوئی کہ ان عبادت کرنے والوں کو عبادت گاہیں بھی مناسب حال مہیا کر سکیں.مگر اس کا ایک ازالہ تو حضرت اقدس محمد مصطفی سے ہمیشہ کے لئے فرما گئے ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاص فضیلت عطا کی ہے کہ آپ کی خاطر تمام زمین مسجد بنادی گئی ہے.تو مسجد کے باہر بھی جو عبادت کے لئے زمین ہے وہ بھی ہماری خاطر کیونکہ ہم محمد کے بچے غلام ہیں ، عبادت گاہ بنادی گئی ہے.اس لئے یہ مضمون دل کی تسلی کے لئے تو ہے لیکن یہ مطلب نہیں کہ مسجدیں بنانی چھوڑ دو اور صرف کھلی زمین پر عبادت کیا کرو کیونکہ موسموں کے تقاضے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے.اس خوشخبری کے باوجود آپ نے بڑی وسیع مساجد بنا ئیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ جمعہ تو ایک ہی ہے اور مضمون بہت ہیں جو بیان کرنے والے ہیں اور ناممکن ہے کہ اس جمعہ میں وہ سمیٹے جاسکیں لیکن ایک ایسی خبر ہے جو میں اس وقت آپ کو بتانا چاہتا ہوں اس کے بعد اس پر مزید روشنی شاید آئندہ کسی خطبے میں ڈالنے کی توفیق ملے گی.دس تاریخ کا جو جمعہ تھا اس میں میں نے جماعت سے یہ ذکر کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی نصیحت کے مطابق میں بھی ہمیشہ طالب علم رہوں گا اور علم سیکھنے کے لئے میرے لئے کوئی عار نہیں ہے.آخری سانس تک علم سیکھنے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھوں گا اور علم سکھانے میں بھی جو خدا توفیق دے گا کوشاں رہوں گا اور ساری جماعت کو نصیحت کی تھی کہ آپ بھی ایسا کریں اور اس ضمن میں میں نے کہا کہ انسان، انسان سے علم سیکھتا ہی ہے یہ تو رواج جاری ہے میں بھی سیکھتا ہوں اس میں کسی قسم کے گھبرانے کی ضرورت نہیں.یہ اعزاز ہے، کوئی تذلیل نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ذکر کیا تھا کہ اس
خطبات طاہر جلد 14 141 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء کے علاوہ بھی ایک مضمون ہے وہ علوم جو خدا آسمان سے دل پر اتارتا ہے وہ آپ لوگوں سے سیکھے ہوئے نہیں ہیں ، وہ اللہ دل پر نازل فرماتا ہے اور اس کی بے شمار مثالیں میرے ذہن میں ہیں کہ ایک خطبے کے لئے کھڑا ہوں جبکہبا لکل خالی الذہن تھا اور اللہ تعالیٰ نے مضمون یوں شروع کر دیا جیسے بارش ہو رہی ہو یا بعض جگہ جا کے کسی مضمون پر اٹکا ہوں تو اچانک جیسے چابی سے کوئی دروازہ کھول دیتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ مضامین نازل فرمائے.بسا اوقات رؤیا کے ذریعے خدا تعالیٰ بڑے بڑے دلچسپ اور لطیف مضامین کھولتا ہے جن کو پھر میں آگے چلا دیتا ہوں.تو یہ جو میں نے ذکر کیا تھا اس کی دیکھیں کیسی عجیب غیبی تائید ہوئی کہ دو دن بعد اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو میں نے تہجد کے لئے اٹھنے سے پہلے صرف بمشکل ایک منٹ کی رؤیا دیکھی ہے اور وہ رویا علوم کا ایک دروازہ کھولنے والی رویا تھی ، آنا فانا بہت سے علوم روشن کئے گئے جو پہلے اس سے جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے بیان نہیں ہوئے اور اس تعلق میں بیان نہیں ہوئے جس تعلق میں اللہ نے مجھے سمجھائے اور رویا ایسی ہے جو عام حالات میں میرے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ اس ریا کا کوئی دینی علوم سے اس طرح تعلق ہوگا یا میں ایسی بات سوچتا ہوں جو خواب میں آگئی.بڑی واضح کھلے پیغام پر مشتمل Crisp جس کو کہتے ہیں نا بڑی چٹکتی ہوئی رویا تھی.تو اول سے آخر تک مضامین سے بھری ہوئی تھی اور جب ختم ہوئی ہے تو ایک عجیب لطف پیچھے چھوڑ گئی ہے جو ایک نشے کا عالم تھا اور اسی لطف کے دوران پھر وہ مضامین کھلتے رہے رو یا ختم ہونے کے باوجود وہ مضامین جاری رہے.جب میں نے سحری کے وقت اپنے بچوں سے ذکر کیا تو سب نے کہا کہ ہمیں بتا ئیں ابھی بتائیں، ابھی بتائیں.میں نے کہا یہ تمہاری نہیں ، ساری جماعت کی امانت ہے.میں نے بالکل نہیں بتانا مگر میری خواہش ہے کہ آخری جمعے میں بیان کروں لیکن اب جب میں نے وقت دیکھا ہے تو تمہیدی باتوں میں آدھے کے قریب وقت گزر گیا ہے اور یہ مضمون ایسا نہیں کہ اسے ذرا سا چھیڑا جائے اور پھر جلدی میں اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے یا سمیٹنے کی کوشش کی جائے.تو انشاء اللہ یہ آئندہ عید کے بعد کسی خطبے میں خدا کی توفیق سے بیان کروں گا.بہت دلچسپ رویا ہے مگر ایک منٹ کے اندر اندر دروازے کھلے ہیں اور وہ مضامین نظر آنے شروع ہوئے جو دیسے کبھی تصور میں نہیں تھے.دوسری بات جو میں آج بیان کرنی چاہتا ہوں وہ لیلۃ القدر سے تعلق رکھتی ہے.پس یہ حق
خطبات طاہر جلد 14 142 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء فائق ہے کہ لیلۃ القدر کے زمانے میں، جو آج کل کا دور ہے خصوصیت سے لیلۃ القدر کی باتیں کی جائیں.اس ضمن میں جو آیات ہیں وہ میں آپ کے سامنے تلاوت کرتا ہوں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِةُ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوْحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ أَمْرِكْ سَلَّم هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) (القدر : 1 تا 6) یقیناً ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے اور تجھے کیا بات سمجھائے ، کیسے سمجھایا جائے کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے.یعنی بہت اہم ، بہت وسیع اور بہت ہی گہرا مضمون ہے جس کے لئے امر واقعہ یہ ہے کہ آج تک کے مسلمان مفکرین کی سوچ بھی اس بیان پر احاطہ نہیں کرسکی.پس قرآن کریم کا یہ کہنا کہ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ یہ کوئی یونہی دعویٰ نہیں بلکہ بہت ہی گہری حقیقت پر روشنی ڈال رہا ہے کہ لیلتہ القدر کے مضمون کو تم معمولی نہ سمجھو.یہ نہ سمجھو کہ ایک رات آئی آپ نے چند گھنٹے جاگ کر گزاری ، ساری عمر کی کمائیاں کر گئے اور بات ختم ہوئی.یہ بہت گہرا مضمون ہے اس پر غور کی ضرورت ہے اور غور کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے.تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمُ اس رات میں ملائکہ اور روح الروح یعنی حضرت جبرائیل کے لئے الروح کا لفظ استعمال ہوتا ہے ان سب کا نزول ہوتا ہے بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اللہ کے حکم کے ساتھ مِنْ كُلِّ أمرٍ تمام امور پرمشتمل، جو قابل ذکر یا انسان کی ضرورت کے امور ہیں أَهْرِ امور ان امور پر مشتمل وہ کچھ چیزیں لے کر آتے ہیں کہ اپنے اللہ کے اذن کو تمام امور کے تعلق میں بیان کرتے ہیں.سلم سلامتی ہی سلامتی ہے هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ صبح ہو جائے.یہ لفظی سرسری ایک ترجمہ ہے.اس میں مفسرین نے بہت بحثیں اٹھائی ہیں مختلف مضامین کو پیش نظر رکھ کر کبھی احادیث کی روشنی میں کبھی قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کبھی اپنے تجارب کی روشنی میں کئی باتیں بیان فرمائی ہیں.اچھے اچھے مضامین ہیں اور یہ بات بھی بہت سے مفسرین پہلے لکھ چکے ہیں کہ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ سے مراد قرآن کریم ہے کیونکہ
خطبات طاہر جلد 14 143 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء انْزَلْن میں کی ضمیر قرآن کی طرف جاتی ہے اور جب یہ کہتے ہیں تو ایک اور بحث کا آغاز ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم تو ایک رات میں نہیں اتارا گیا اور لمبے عرصۂ نبوت پر پھیلا ہوا ہے تو اسے ایک رات میں اترنے والا کلام کیسے کہہ سکتے ہیں.پس اس کی بہت سی تشریحات بیان ہوئی ہیں جو میں پہلے بھی اپنے ان خطبات میں بیان کر چکا ہوں جولیلۃ القدر سے تعلق رکھتے تھے.آج ایک نیا مضمون اس حوالے سے آپ کے سامنے بیان کروں گا کہ هِيَ حَتَّى مطلع الفجرِ سے کیا مراد ہے.یعنی اول تو وہ رات کون کی ہے اور پھر هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ سے کیا مراد ہوئی کیونکہ مطلعِ الْفَجْرِ تک نزول ہوتا ہے اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے یہ تصور ابھرتا ہے.اس پر کئی مفسرین نے زور مارا ہے اور حتٰی کے معنی کھینچ کر سحر میں بھی داخل کرنے کی کوشش کی ہے.مگر یہ جو طرز کلام ہے یہ تو یہ بتا رہا ہے کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو فرشتوں کا نزول بند.تو اچھی صبح آئی ہے جو رات سے بدتر ہے.رات تو ساری رات فرشتے اترتے رہے اور نزول ہوا ہے جبرائیل کا بھی بار بار.لیکن صبح آئی تو سارے غائب ہو گئے تو یہ کیا قصہ ہے؟ اس لئے ضروری ہے کہ رات کا وہ مفہوم سمجھا جائے جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی عارفانہ روشنی ڈالی ہے اور جس سے اس رات کی حقیقت سمجھنے میں بہت سہولت پیدا ہو جاتی ہے.یہ رات جسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے بعض پہلوؤں سے ایک رات بھی کہلا سکتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عارفانہ نکات ہمارے سامنے کھولے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ رات دراصل تمام زمانہ نبوی پر محیط ہے اور اس پہلو سے ان آیات کا معنی یہ بنے گا کہ رات کے دو پہلو ہیں ایک وہ جبکہ وہ اندھیرے، جب ظلمات ، طرح طرح کے خطرات انسانیت کو گھیر لیتے ہیں اور گناہ جو ہیں وہ کھل کھیلتے ہیں اور نیکیاں سو جاتی ہیں.جب ایسی گناہوں کی رات بھیگ جاتی ہے تو اس کی کوکھ سے پھر وہ صبح کا عمل جاری ہوتا ہے جو اچانک یکدم صبح میں تبدیل نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے اپنے آخری مقام اور منزل کو پہنچنے کے درمیان بہت سی ایسی ذیلی منازل ہیں جنہیں طے کرنا پڑتا ہے پھر وہ مضمون آخر اس آخری مقام تک پہنچ جاتا ہے جبکہ وہ صبح جو اس رات کے جواب میں ہدایت کی صبح ہے وہ طلوع ہو جائے.اسی نقطہ نگاہ سے آنحضرت می ﷺ کی لیلۃ القدر محض ایک رات نہیں بلکہ سارا زمانہ نبوی ہے
خطبات طاہر جلد 14 144 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء جس نے تمام پہلے اندھیروں کو ایک ایک کر کے پکڑا اور اس کا منہ روشن کر دیا.نور سے نہلائے گئے وہ اندھیرے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اندھیروں کی کوئی رمق، کوئی ان کا نشان بھی باقی نہ الله چھوڑا.اس سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے زمانے میں نازل ہونے والی شریعت کی وحی یا قرآن کریم ہے اور وہ مفسرین جنہوں نے اس طرف اشارہ کیا ہے بالکل درست کہا ہے کہ إِنَّا أَنْزَلْنَهُ " کی ضمیر قرآن کریم کی طرف جاتی ہے لیکن وہ اس مضمون کو بیان کر کے پھر آگے بڑھنے سے محروم رہ گئے یعنی گرم ہوئے ہاتھ لگایا لیکن پھر آگے دروازہ نہ کھول سکے.اس بحث میں الجھ گئے کہ لیلۃ القدر کون سی رات تھی جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا.کیا یہ مطلب ہے کہ پہلی رات میں ہی سب نازل ہو گیا.وہ کہتے ہیں یہ تو نہیں ہوسکتا.شاید یہ مراد ہو کہ آغاز ہوا ہے.شاید یہ مراد ہو کہ ہر رمضان میں جب لیلتہ القدر آیا کرتی تھی تو حضرت جبرائیل قرآن کریم کو دہرایا کرتے تھے، شاید یہ مراد ہو کہ لیلۃ القدر کے مضمون کے تعلق میں یہ وحی نازل ہوئی ہے.غرضیکہ بہت سے اشارے کئے ، بہت سی تفاصیل بیان کیں مگر مطلب کی بات پانے کے باوجود پھر اسے آگے نہ بڑھا سکے.قرآن تو ہے مگر لیلۃ القدر سے کیا مراد ہے.ایک رات نہیں ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی تمام زندگی کا وہ دور جس میں اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کا آغاز ہوا اور یہ کام اپنے پائیہ تکمیل کو پہنچا.پس روح اور فرشتے جن کے اترنے کا ذکر ہے کہ فجر تک وہ ضرور اترتے رہیں گے.اس میں یہ ایک ع پیشگوئی تھی کہ حضرت اقدس محمد مصطفی مے کو جس عظیم کام کے لئے ، ایک عظیم فرض کی ادائیگی کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے وہ آخری اور روشن تر شریعت کا نزول ہے اور جب تک یہ کمل نہیں ہو جاتا لازما جبرائیل اور فرشتے مسلسل اترتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ صبح پوری طرح روشن ہو جائے.اس سے مراد یہ بھی بنتی ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کی حفاظت کا بھی اعلان ہے.آپ نے صبح پیدا کرنی ہے جو شریعت کی صبح ہے.پس شریعت سے تعلق رکھنے والے فرشتے تو اس کے بعد پھر نہیں اتریں گے اور اس مضمون میں کوئی سقم نہیں.پس وہ مفسرین جو حتٰی کے معاملے میں الجھ گئے اور ڈھونڈنے لگے کہ کیسے اس نقص سے ہم بچیں کہ فرشتے صبح ہوئی تو بھاگ گئے اور چھوڑ گئے.مگر یہ شریعت کی دائمی صبح کی بات ہے.وہ شریعت جو محمد رسول اللہ اللہ سے خاص تھی اور آپ پر یہ کام اتمام کو پہنچا اور تکمیل کو پہنچا تو پھر اس کے بعد شریعت کی وحی نازل کرنے والا
خطبات طاہر جلد 14 145 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء فرشتہ کبھی نازل نہیں ہوگا اس معنے میں کوئی نقص نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کا مضمون ہے کیونکہ اگر شریعت کا نزول پایہ تکمیل کو پہنچ جائے ، وہ کامل بھی ہو جائے اور محفوظ بھی ہو جائے اور سارے مضامین اپنے اندر سمیٹ لے تو اس کے بعد اگر شریعت کے نزول کے فرشتے نازل ہوں تو وہ خرابی پیدا کریں گے، کوئی اصلاح کا کام نہیں کر سکتے کیونکہ کامل کے اوپر کچھ اضافہ نہیں ہوسکتا.پس اس وعدے کا جو قرآن کریم میں مکی زندگی میں آغاز ہی میں دیا گیا تھا آخری جواب ہمیں اس وقت ملتا ہے جب آنحضرت ﷺ پر شریعت مکمل ہوگئی اور آپ کے وصال کا وقت آ پہنچا.اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدہ:4) آج وہ کام مکمل ہو گیا ہے ، آج وہ صبح اپنے صلى الله عروج کو پہنچ گئی ہے جسے ابھارنے کے لئے ، جسے ہویدا کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی سے پر 23 سال وحی نازل ہوئی.یہ خوشخبری سن کر بہت سے صحابہ خوش ہوئے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم بعض صحابہ کی روتے روتے گھگھی بندھ گئی،داڑھیاں آنسوؤں سے بھیگ گئیں.پوچھا گیا کہ یہ کیا بات ہے اتنی خوشخبری اور آپ روتے کیوں ہیں.کہا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے آقا کی جدائی کا دن آ رہا ہے.جس غرض سے مبعوث فرمائے گئے تھے وہ صبح تو طلوع ہوگئی یعنی ہوتے ہوتے آخر اپنے انجام کو پہنچی.اب محمد رسول اللہ ﷺ کا کام اس دنیا میں ختم ہوا ہے اب یہ رفیق اعلیٰ کی طرف چلے جائیں گے اور ہمیں محروم چھوڑ جائیں گے.یہ دیکھیں لیلۃ القدر سے کیا مراد ہے اور فجر سے کیا مراد ہے اور اس فجر کے بعد فرشتے پھر بھی نازل ہوتے رہیں گے مگر شریعت کے فرشتے نہیں اور یہ مضمون قیامت تک جاری رہے گا.پس اس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دوسری جگہ یوں فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ ( حم سجدہ: 31 تا 33 ) رحِيمِ
خطبات طاہر جلد 14 146 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء کہ میرے وہ بندے جو میرے ہو جاتے ہیں ربنا اللہ کہہ دیتے ہیں پھر استقامت دکھاتے ہیں.ان پر ہمیشہ خدا کے فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں، ہوتے رہیں گے.یہ کہتے ہوئے کہ کوئی خوف نہ کروہ کوئی غم نہ کھاؤ.ہم آئے ہیں تو تمہیں چھوڑ کر جانے کے لئے نہیں.نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوپر جس صبح کا طلوع ہوا ہے یا آپ ﷺ نے جس صبح کا طلوع فرمایا اللہ کے اذن کے ساتھ ، وہ صبح سلامتی کا دائمی پیغام لے کر آئی ہے.پس سلامتی صبح تک ختم نہیں ہو جاتی بلکہ صبح کو سلامتی کا مضمون اپنے پائیہ تکمیل کو پہنچتا ہے.اس پہلو سے لفظ سلھ پر غور ہونا ضروری ہے کہ سلام کیا چیز ہے.میں ضمناً یہ بتا دوں کہ یہ جو رات کو رمضان کی آخری راتوں میں سے لیلۃ القدر تلاش کی جاتی ہے یہ مضمون غلط نہیں ہے.یہ جو میں مضمون بیان کر رہا ہوں اس سے متضاد نہیں ہے بلکہ احضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی رات سے برکتیں پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ ان لمحات کو بار بار لاتا ہے جو ویسی ہی برکتیں رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک حیرت انگیز انکشاف فرمایا جوا کیلا ہی آپ کے غیر معمولی تعلق باللہ کے اوپر ایسی دلالت کرتا ہے کہ کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتا.آپ فرماتے ہیں کہ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ سے مراد یہ ہے کہ عام انسان کی زندگی اتنی 80 سال تک بھی پہنچ جائے وہ اس ایک لمحے کے اوپر قربان ہونے کے لائق ہے جو لیلۃ القدر کی رات کو خدا کے نور کا وہ لمحہ اس کو دکھائی دے جائے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی پر تمام عرصہ دراز رہے.وہ لمحات جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی پر تمام عرصہ پھیلے رہے وہ آپ کی لیلتہ القدر کے لمحے تھے.اللہ کا احسان ہے کہ ہر سال لیلۃ القدر کے نام پر جو رات طلوع ہوتی ہے اس میں وہ لمحے بھی شامل ہو جاتے ہیں جو برکتیں لے کر آتے ہیں ورنہ ہمیشہ کے لئے ہم ان برکتوں سے محروم رہ جاتے.پس محمد رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض پانے سے وہ قوم ، وہ مسلمان جو قیامت تک آپ کے وصال کے بعد محروم دکھائی دیتے ہیں ، ہر سال ایک رات ایسی آتی ہے جب ان دور والوں کو محمد رسول اللہ اللہ سے ملانے کے چند لمحے نصیب ہو جاتے ہیں.وہ اگر کسی کومل جائیں تو مسیح موعود علیہ السلام فرماتے
خطبات طاہر جلد 14 147 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء ہیں کہ اس کی ساری زندگی سے بہتر ہیں.وہ ساری زندگی اس کے مقابل پر پیچ اور بے حقیقت ہے، اس کے قدموں پر قربان کرنے کے لائق بن جاتی ہے.پس یہ دو مضامین متضاد نہیں ہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو ہیں.اب میں سکھ سے متعلق آپ کو بتاتا ہوں کہ سلام کیا چیز ہے سب سے پہلے و یا درکھیں کہ سلم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے، اس کا ایک اسم ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحْنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ) (الحشر :۲۴) تو سلام کی طرف سے ایک شریعت ملی ہے جس میں سلام کی تمام صفات ہونی چاہئیں یہ وہ مضمون ہے جسے لفظ سلام کے اوپر غور کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے.دراصل انہی آیات کریمہ میں اس الله شریعت کا تعارف بھی فرما دیا گیا جومحمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہو رہی تھی اور اس کی تمام صفات کو ایک لفظ میں بیان فرما دیا سکھ.چنانچہ سلام کے معانی کے تعلق میں Lane لکھتا ہے کہ: Salam signifies safety security or freedom from faults,defects,imperfections blameshes or vices.لین جو معنی بیان کرتا ہے یہ مرہون منت ہے پرانے مفسرین کا اور بے تکلف ان سے یہ بھر پور استفادہ کرتا ہے اور بسا اوقات ذکر بھی کرتا ہے اس میں شرما تا نہیں کہ یہ فلاں مفسر نے معنے کئے ہیں ، یہ فلاں مفسر نے کئے ہیں.اس سے میں اخذ کر رہا ہوں مگر اس کا یہ احسان ہے ہم پر کہ ہر قسم کے معنی اس نے اکٹھے کر دیئے ہیں.تو اس کا ترجمہ یہ بنے گا کہ لفظ سلام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے یا اس بات کو سمیٹے ہوئے ہے اپنے اندر، اس کو Signify کرتا ہے، اس بات کا مظہر ہے، یوں کہہ لیں.Safty ، حفاظت ہر قسم کی سیکیورٹی سیفٹی اندرونی بھی ہو سکتی ہے، بیرونی بھی.سیفٹی حادثات سے تعلق میں بھی کہی جاسکتی ہے مگر سیکیورٹی میں غیر کے حملے کا مضمون بھی شامل ہو جاتا ہے کہ بیرونی حملوں سے بچانے کے لئے حادثات اور اتفاق سے گزند اٹھانے کے تعلق میں بھی سلام جو ہے وہ حفاظت کرتا ہے.Immunity وہ جو Defence سسٹم ہے جس کو ہم Immunity سسٹم کہتے ہیں اس طرف
خطبات طاہر جلد 14 148 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء اشارہ ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ ایسی دفاعی صلاحیتیں عطا کر دے کہ وہ ان چیزوں سے پاک ہو جائیں.Immunity کے بعد کہتا ہے Or Freedom From Faults ہر قسم کی غلطی سے پاک ہو جائیں.Defects نقائص سے پاک ہو جائیں،Imperfections، غیر مکمل حالت سے پاک ہو جائیں.یعنی اس کا برعکس ہے کمال اور تکمیل.وہ صاحب تکمیل اور صاحب کمال ہو جائیں.Blameshes کوئی داغ کسی قسم کا کوئی نقص دکھائی نہ دے or Vices کسی بدی کا سوال نہ ہو.و الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ میں جو اکمال کا مضمون ہے وہ سارا لفظ سلام میں داخل ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا تو اسلام میں خدا تعالیٰ کی صفت سلام جھلک رہی ہے اور اس لفظ میں بھر پور موجیں مار رہی ہے.تو سلام سے جو مذہب پھوٹا ہے اس کا نام اسلام رکھا گیا اور قرآن کریم نے اس کی جو تعریف فرمائی ہے.مختلف مفسرین نے جو لفظ سلام پر غور کر کے باتیں بیان کی ہیں وہ اس ایک لفظ میں آجاتی ہیں.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا پس وہ وعدہ جو اس سورۃ نے آغاز نبوت ہی میں کیا تھا اس کی حیرت انگیز تکمیل رسول اللہ ﷺ پر آخری لمحات میں نازل ہونے والی وحی میں سے ایک آیت میں ملتی ہے.یعنی وہ آیت جو میں نے بیان کی ہے اور مفردات میں لکھا ہے السلم والسلامة التعرى من آفات الظاهرة والباطنته حضرت امام راغب کہتے ہیں کہ جو حفاظت اور سیکیورٹی کی بات ہوتی ہے سلام میں، وہ ظاہری طور پر بھی پوری ہوتی ہے اور باطنی طور پر بھی.کوئی پہلو انسانی زندگی کا ایسا نہیں ہے جو لفظ سلام کے تابع محفوظ نہ رہے.چنانچہ اس کی مثال دیتے ہیں.بِقَلْبِ سَلِیمِ (الشعراء: 90) قرآن کریم میں جو آتا ہے اس میں اندرونی نقائص سے پاک ہونا اور خطرات سے محفوظ رہنے کا ذکر ہے.قلب سلیم دل جو آماجگاہ ہے تمام نیکیوں کا اور بدیوں کا بھی بن جاتا ہے.اس کے متعلق جب کہا جائے قلب سلیم تو مراد یہ ہوتی ہے کہ ہر قسم کے بدی کے خطرے سے، ہر قسم کی ٹھوکر کے خطرے سے اس کو محفوظ کر دیا گیا ہے.پاک ،صاف، شفاف جیسے پیدا ہوا تھا ویسا ہی اب بھی ہے اور اگر بیرونی مضمون کو بیان کیا جائے تو مثال دیتے ہیں قرآن کریم میں کہ گائے کی وہ مثال جس کے متعلق بنی اسرائیل بار بار حضرت موسیٰ سے سوال کرتے
خطبات طاہر جلد 14 149 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء تھے کہ وہ کیسی ہے؟ تو جس بات سے ان کی تسلی ہوئی مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيْهَا ( البقرہ:72 ) ان کو بیان کیا گیا کہ کامل طور پر مسلم ہے.یعنی ہر قسم کے نظر آنے والے عیب سے پاک ہے ادنی بھی عیب Blamesh وغیرہ کا نشان اس میں نہیں دیکھو گے.تو حضرت امام راغب کی فراست کو دیکھیں کہ ان دو مختلف استعمالات کو قرآن سے اکٹھا کر کے ظاہر و باطن کے مضمون کو کیسی عمدگی سے بیان کر دیا.اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ فرماتے ہیں: اور اس جگہ یہ بات بھی یادر ہے کہ زمانہ کے فساد کے وقت جب کوئی مصلح آتا ہے اس کے ظہور کے وقت پر آسمان سے ایک انتشار نورانیت ہوتا ہے یعنی اس کے اترنے کے ساتھ زمین پر ایک نور بھی اترتا ہے اور مستعد دلوں پر نازل ہوتا ہے.(شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۲) یعنی لیلۃ القدر کے جو انوار نازل ہوتے ہیں اس وقت کے امام پر ، وہ اردگرد بھی علاقے کو روشن کر دیتے ہیں.جیسے تیز روشنی کی دھار اوپر سے اترے تو علاقے کا علاقہ روشن ہو جاتا ہے ، دور تک اس کا نیک اثر پہنچتا ہے.پس اس سے ہم استنباط کر سکتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علی کے پر جونور نازل ہوا ہے چونکہ آپ کل عالم کے نبی تھے، تمام دنیا کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے والے تھے ، پس اس نور کا ایک فیض عام سب دنیا میں پہنچنا لا زم تھا اور وہ فیض عام صرف مذہب سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ دنیا کے امور سے بھی تعلق رکھتا تھا.یہ ایک دعوی ہے، کوئی کہہ سکتا ہے اس کا ثبوت کیا ہے، اس کے ثبوت سے تو قرآن بھرا پڑا ہے.میں نے چند دن پہلے درس میں بھی یہ بیان کیا تھا.وہ تمام امور دنیاوی ترقیات سے تعلق رکھنے والے جنہوں نے آئندہ زمانوں میں ظاہر ہونا تھا.ان کی خبر قرآن کریم میں دے کر اس بات کو ثابت کر دیا گیا کہ یہ سارے فیوض محمد مصطفی علیہ کے فیض سے ہیں اور وہ روشنی جو آپ پر نازل ہوئی ہے، وہ لیلتہ القدر کا نور جو آپ کے دل پر اترا ہے وہ کل عالم کے لئے ہے.تم اس کے ظاہری فیوض سے تو فائدہ اٹھاؤ گے اور ہم ابھی مطلع کر دیتے ہیں کہ ایسی ایسی برکتیں اور ایسے ایسے فیوض تمہیں نصیب ہوں گے جو تمہاری دنیا کو بنا دیں گے مگر اگر اصل نور سے محروم رہو تو بڑی محرومی ہے.پس اس مضمون کو ان آیات کے تعلق میں پڑھیں تو دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عارفانہ کلام کل عالم کو روشنی سے بھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.روشنی جو قرآن سے لیتے
خطبات طاہر جلد 14 150 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء ہیں اور ہمیں دکھاتے ہیں موجود تھی.مگر پہلے دکھائی نہیں دیتی تھی اچانک آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے مضامین انسان کو عطا ہوتے ہیں.پس ایک معنی تو یہ ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ باقی دنیا جن علوم سے فیض پاتی ہے ایک نئے دور سے فیض پاتی ہے وہ بھی دراصل فیضِ نبوت ہی ہے.اور یہ امر واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور ایک بھی ایسا دور نہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود نہ ہو، اسے کیسے اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے.ہر دور بتا رہا ہے کہ تم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے مرہون منت ہو لیکن پہچانتے نہیں ہو.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو حضرت محمد رسول اللہ یہ سے باندھنے کے لئے خصوصاً آخری زمانہ میں جو انکشافات ہیں ان کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا فیض سمجھانے کی خاطر فرمایا: اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَانَ وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَان الله وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا يَوْمَبِنْتُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا بِأَنَّ رَبَّكَ (الزلزال: 2تا6) أوْحَى لَهَان وہ زمانہ جبکہ زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور اپنے اسرار کھول دے گی دنیا پر.وہ زمانہ جبکہ زمین اپنے راز بیان کرنے لگے گی کیوں ایسا ہوگا؟ اس لئے کہ اے محمد ه بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا اس لئے کہ تیرے رب نے اس پر وحی کی ہے.تیری وحی کی تائید میں وہ بولے اور اپنے راز دنیا پر کھولے.پس حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں دیکھیں کیسے سب پیشگوئیاں مرکوز ہوئیں جس کے لئے کسی انسانی تائید کی ضرورت نہیں ، خدا خود تائید فرما رہا ہے.خدا کا کلام خود بول رہا ہے.یہ لیلۃ القدر بہت وسیع لیلۃ القدر ہے.یعنی اس لیلۃ القدر کے آخر پر جوانوار کا نزول ہونا ہے وہ ہر طرف سے جو کو بھر دے گا اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا.پس نزول ملائک ختم نہیں ہوگا ،نزول ملائک کا وہ دور ختم ہو گا جس میں شریعت نازل ہوتی ہے اور پھر جب فجر آئے گی تو پھر انوار کی تو بارشیں ہوں گی پھر نور نبوت دنیا کو روشن تر کرتا چلا جائے گا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.واضح ہو کہ عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی
خطبات طاہر جلد 14 151 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء یا محدث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر وضلالت کی ظلمت دور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح صادق نمودار ہو.“ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ: ۱۲.حاشیہ ) جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرِكُ سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ تو یہ دور ہے جو جزوی طور پر ہر نبی کے وقت ظاہر ہوتا ہے مگر اپنے درجہ کمال کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پہنچا اور تمام امور کو اس نے گھیرے میں لے لیا، کچھ بھی باقی نہیں رکھا اور لفظ سلام آپ ﷺ کی وحی کے ساتھ خاص بتارہا ہے جو دنیا میں کسی اور نبی کی وحی کے آغاز اور اس کی نوعیت کو بیان کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوا.کوئی ہے تو نکال کر دکھا ئیں.تمام دنیا میں وحی کے نزول کا مضمون لازماً ملتا ہے کیونکہ کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے ہیں.مگر شریعت کی نوعیت بیان کرنے کی خاطر لفظ سلام یعنی خدا کا اسم سلام، خدا کا نام سلام بیان کرتے ہوئے اس شریعت کا تعارف نہیں فرمایا گیا.پس یہ جو سلام ہے یہ قیامت تک جاری وساری ہے اور فرشتے اس سلام کی تائید میں ہمیشہ نازل ہوتے رہیں گے مگر انسان اپنے آپ کو اس کا اہل بنائے اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر کے لمحے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو ہر رمضان مبارک میں ہمارے لئے آسمان سے پھراتاری جاتی ہے.تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے آسانیاں بھی فرما دی ہیں.جو چیزیں ہماری پہنچ سے بہت بالا ہیں انہیں قریب تر فرما دیتا ہے.سماء الدنیا میں اللہ کا نزول یا زمین پر آسمان سے اترنا یہ معنی تو نہیں ہے کہ خدا کوئی جسمانی وجود ہے جو اوپر سے جیسے سیڑھیاں اترتے ہیں یا کوئی چیز لٹکتے ہوئے نیچے آتی ہے اس طرح خدا اترتا ہے.خدا تو ہر جگہ ہے اس کا نزول ہنزولِ صفاتی ہے.وہ اپنی ذات کا تعارف کرانے کے لئے قریب تر آجاتا ہے اور جسے وہ لمحے نصیب ہو جائیں اس کی پھر ساری زندگی سلام سے بھر جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 152 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء پس اپنی زندگی کے تمام خدشات کو دور کرنے کے لئے یا درکھو کہ تمام کائنات کا سلام ہمیشہ کے لئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے لمحوں کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے اور باندھ دیا گیا ہے.ایسا کہ کوئی اسے اب کاٹ کر الگ نہیں کر سکتا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے وابستہ ہوگا.آپ کی زندگی کے ہر لمحے سے فیضیاب ہوگا اور شریعت محمدیہ نے کوئی پہلو انسانی زندگی کی دلچسپی کا نہیں چھوڑا جس کا ذکر نہ فرمایا ہو اور جہاں سلام حاصل کرنے کے طریقے نہ سمجھائے ہوں.اور ایک رات ایسی بھی آتی ہے جبکہ جس طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے لمحات ساری کائنات پر ہمیشہ ہمیش کے لئے چھا گئے اور ساری راتوں کو ایک دائمی روشن دن میں تبدیل کر دیا.اسی طرح ایک انسان اپنی ذات کے لئے اتنی کوشش تو کرے کہ ان لمحوں میں سے ایک لمحہ اس کو ایک رات کا نصیب ہو جائے جو اس کی ساری زندگی کو روشن دن میں بدل دے گا.پس یہاں حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ کا معنی یہ ہو جائے گا انفرادی نوعیت سے کہ اگر تم کوشش کرو اور اس رات کے ان پاک لمحوں کی تلاش میں جدو جہد کرو اور دعائیں کرو تو بعید نہیں کہ تمہیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے لمحات میں سے ایک ایسا لمحہ نصیب ہو جائے جو تعلق باللہ کا ایسا لمحہ ہے جیسے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ تعلق باللہ رہا تو وہ ایک لمحہ ایسا ہوگا جو تمہاری ساری زندگی، اسی سالہ زندگی پر حاوی ہو جائے گا، اس سے زیادہ قابل قدر ہوگا ، وہ زندگی اس ایک لمحے پر قربان کرنے کے لائق ٹھہرے گی.پس اس پہلو سے اللہ بہتر جانتا ہے کہ جو گزری ہوئی رات تھی وہی لیلۃ القدر تھی یا لیلۃ القدر اور آنے والی ہے.مگر بہتوں کو اللہ ضرور ایسی زندگی بخشے گا کہ اس لیلۃ القدر کے حصول کے مواقع وہ پاتے رہیں گے.مگر جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے یہ نہ بھولیں کہ آپ ایک اور لیلتہ القدر کے دور سے گزر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے اولین کو آخرین سے ملانے کا زمانہ ہے.اگر حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے نورانی لمحات نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود روشن نہ کیا ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ آپ کی وساطت اور آپ کے فیض سے ہم اولین سے جا ملتے.پس آپ کے لئے تو پھر ایک جاری دور ہے لیلۃ القدر کا.اس لیلۃ القدر میں آپ ایسی نیکیاں کما سکتے ہیں کہ جب قرآن کا وعدہ آپ کے حق میں پورا ہو کہ آپ دور ہوتے ہوئے
خطبات طاہر جلد 14 153 خطبہ جمعہ 24 فروری 1995ء بھی ، زمانی فاصلوں کے لحاظ سے بھی اور جسمانی فاصلوں کے لحاظ سے بھی ، پھر بھی اس زمانے کے ایسے قریب کر دیئے جائیں کہ قرآن کا یہ بیان آپ کے حق میں پورا ہو کہ آخرین ہوتے ہوئے آپ اولین سے آملے ہیں.پس آپ کے لئے تو لمحات ہی لمحات ہیں.ایک سال کا کیا انتظار کرتے ہیں اپنی ساری زندگیوں کولیلۃ القدر کیوں نہیں بناتے کیونکہ پھر آپ کی زندگیاں ان لمحات سے بھر جائیں گی جن سے باقی لوگوں کی زندگیاں روشن ہوں گی.وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا فیض آپ کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات سے حاصل کریں.تو اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ لیلۃ القدر کے ہر پہلو سے استفادہ کریں.اپنی راتوں کو بھی صبحوں میں تبدیل کر دیں اور اس دنیا کی راتوں کو بھی صبح میں تبدیل کر دیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ کے بعدا قامت الصلوۃ سے قبل حضور انور نے فرمایا:.ابھی وعدوں کو میں نے اپنے پاس بھجوانے کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن ان لمحات سے برکت حاصل کرنے کی خاطر امام عطاءالمجیب راشد صاحب نے فوری طور پر ایک چٹ بھیجی ہے کہ میں اپنی بیوی، قانتہ شاہدہ اور اپنے بیٹے عطاء انتم اور اپنی طرف سے پانچ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کی توفیق بڑھائے.ہر اعلان ضروری نہیں ہوتا کیا جائے مگر میں اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ ایک شخص کو شامل کرنا بھول گئے ہیں جس کا فیض پارہے ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم.تو میں ان کی طرف سے ان کا نام اس میں داخل کرتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کو بھی اس کا فیض ہمیشہ پہنچتا رہے گا.آئیے اب نماز پڑھ لیں.
154 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 155 خطبہ جمعہ 3 مارچ 1995ء احمدیت کی ترقی اب پہلے سے بھی تیز رفتاری سے ہوگی اور بڑی شان سے آگے بڑھتی چلی جائے گی.(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 مارچ 1995ء بمقام اسلام آباد لفور ڈلندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: الحمد للہ کہ آج عید کی تقریب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اچھے موسم میں بخیر وخوبی اختتام تک پہنچی حالانکہ تمام موسم کی پیشگوئیاں کرنے والوں نے یہ کہا تھا کہ یہ دن بہت گندا گزرے گا.Sleet پڑے گی، برف پڑے گی اور غیر معمولی سردی بھی ہوگی مگر خدا نے ایسی خوبصورت روشن دھوپ چڑھائی ہے جو حیرت انگیز ہے اور ایک اعجاز ہے.جب اللہ اپنے بندوں پر فضل کرنے کا فیصلہ فرمائے تو سب دوسروں کی پیشگوئیاں جھوٹی ہو جاتی ہیں.ایک اس کی ہے جو جھوٹی نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کے حق میں ان چھوٹے چھوٹے پیار کے اظہارات کے بھی جلوے دکھا تار ہے کیونکہ بسا اوقات بڑے جلووں سے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں لیکن چھوٹے قریب کے جلوے جو بچوں سے پیار کے سلوک کی طرح ہوتے ہیں وہ بہت گہرا دل پر اثر کر جاتے ہیں.تو اس لئے یہ بھی دعا کیا کریں اللہ ہمیں ہر روز چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل رکھنے والے پیار کے جلوے بھی دکھاتار ہے.اس کے علاوہ میں آج صرف آپ کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ رمضان میں جو دعائیں ہوئی ہیں ان کی قبولیت کے آثار بعض مبشر رؤیا کی صورت میں دکھائے گئے ہیں اور رمضان کے آخر پر جب میں معتکفین میں جاتا ہوں ، ان سے پوچھتا ہوں تو بسا اوقات وہ
خطبات طاہر جلد 14 156 خطبہ جمعہ 3 مارچ 1995ء ایسی رؤیا سناتے ہیں جن کا ان کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ رویا کیا ہے اور درحقیقت وہی رؤیا ہے جو دراصل رحمانی پیغام ہوتا ہے.جس کا نفس کی سوچ سے تعلق نہ ہو.تو بڑے تعجب سے بعض رؤیا مجھے خصوصاً خواتین کی طرف سے ایسی سنائی گئیں جن سے میں امید رکھتا ہوں بلکہ یقین ہے کہ دن پلیٹ رہے ہیں اور احمدیت کی ترقی اب پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے ہوگی اور یہ جو سفر ہے اس صدی کا بڑی شان کے ساتھ ہر سال آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے گا تو دعائیں کریں کہ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین اس کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں وہ جماعت اللہ کے فضل سے پہلے بھی بڑی توجہ سے ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے.داعین الی اللہ پہلے سے بھی بڑھ کر پیدا ہو چکے ہیں.مگر ابھی اس قافلے میں بہت ہیں جو شامل نہیں ہو سکے.ان کو ساتھ تیار کرنے کی مہم بھی کریں تا کہ اس الہی فوج کی تعداد بھی زیادہ ہو اور ایمانی قوت بھی بڑھتی رہے.اس سال جو بقیہ مہینے رہ گئے ہیں ان میں ابھی ہم نے بہت کام کرنا ہے.تو دعا اور محنت کے ساتھ اپنی رمضان کی دعاؤں کا پھل آپ دعوت الی اللہ کی صورت میں چکھیں اور اس کا لطف اٹھائیں اور دنیا کو یہ پیغام مل جائے کہ اب یہ جماعت رو کنے سے رک نہیں سکتی.دن بدن آگے بڑھے گی.ہر سال کئی کئی عید میں اللہ تعالیٰ ہمیں دکھائے گا.خدا کرے ایسا ہی ہو.آمین ثم آمین
خطبات طاہر جلد 14 157 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء خدا تعالیٰ کا زمانہ ہونے کا تصور قرآن کے مطابق خدا تعالیٰ کی ذات پر غور کریں ( خطبه جمعه فرموده 10 / مارچ 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ أَنِّي يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ذَلِكُمُ الله رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقَ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيْلٌ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ (الانعام: 102 تا 105 ) پھر فرمایا:.عید پر میں نے اپنی ایک رؤیا کے حوالے سے اسماء باری تعالیٰ کا مضمون شروع کیا تھا جو وقت کی رعایت کے مطابق بنیادی طور پر میں نے اس کا آغا ز تو کر دیا تھا مگر بہت سی باتیں ایسی تھیں جوا بھی تشنہ رہ گئی تھیں.مگر اس سے پہلے میں ان آیات کی تلاوت کی حکمت بتانا چاہتا ہوں جو میں نے
خطبات طاہر جلد 14 158 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء ابھی پڑھی ہیں.اس مضمون سے ان آیات کا گہرا تعلق ہے لیکن خصوصیت سے اس غرض سے میں نے ان آیات کی تلاوت کی ہے کہ جب بھی ایک موضوع چھیڑا جاتا ہے خطبات وغیرہ میں تو احمدیوں میں جو ذ کی ہیں اور زیادہ فراست رکھنے والے یا علمی ذوق شوق رکھتے ہیں وہ بڑی تیزی کرتے ہیں ان باتوں پر مزید غور کرنے کی اور جلدی میں بسا اوقات حدوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.یہ وہ مضمون ہے جس میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ قطعی طور پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ تمہاری بصیرت ، تمہاری سوچیں، تمہارے فکر خواہ کتنے ہی روشن کیوں نہ ہوں نا ممکن ہے کہ تم خدا کا ادراک کر سکو، ہاں اسی حد تک جس حد تک خود خدا تمہاری بصیرت تک پہنچے وہ خود تم پر معاملات کو روشن فرمانا چا ہے.پس اسی حد تک تم اس کو پہچان سکو گے جس حد تک وہ خود تم پر جلوہ گر ہو.اور اس تعلق میں اگلی آیت یہ ہے کہ قَدْ جَاءَ كُمُ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِه پس وہ بصائر جو خدا کا تم سے تعارف کرواسکتی ہیں وہ ظاہر کر دی گئی ہیں یعنی تمہاری ہمتوں اور عقل کی حدود کی حد تک، پس جو بھی ان سے نصیحت حاصل کرے،ان پر غور کرے، ان سے استفادہ کرے تو اس کے اپنے نفس کے فائدے ہی کے لئے ہے اور جو کوئی ان سے آنکھیں بند کرے گا تو اس کا ضرور اس کو نقصان اٹھانا پڑے گا.وہ بصائر قرآن کریم میں ہیں، وہ بصائر اس قرآن کے فہم میں ہیں جو آنحضور ﷺ کو عطا فرمایا گیا.پس خدا کے تعلق میں اس سے آگے زبان کھولنے کی کسی کو اجازت نہیں.اگر وہ کھولے گا تو اپنی ہلاکت کا موجب بنے گا.اسی لئے آنحضرت نے اس بارے میں بہت انذار فرمایا ہے کہ تم ایسی بات نہ کیا کرو خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھنے کے متعلق جس کے نتیجے میں تم ہلاک بھی ہو سکتے ہو.پس اپنی فکروں کو دوسرے دائروں میں رکھیں مگر اس دائرے کو اس حد تک محدود رکھیں کہ قطعی طور پر قرآن سے جو استنباط کر سکتے ہیں جس کا قرآن بھی مؤید ثابت ہو، اور جس کی حدیث بھی مؤید ثابت ہو اتنی ہی باتیں کریں، اس سے بڑھ کر اپنے خیالات کو اجازت نہ دیں کہ وہ اس مضمون میں قدم رکھیں.اس نصیحت کے ساتھ ، اسی آیت کی روشنی میں میں اس مضمون کو کچھ آگے بڑھانا چاہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعے مجھ پر ظاہر فرمایا اور پھر آگے پھول کی طرح وہ کھلتا چلا گیا اور خود بخود آگے بڑھتا رہا گو یار و یا ہی کے عالم میں ہوں.کچھ حصے
خطبات طاہر جلد 14 میں نے بیان کئے تھے کچھ ابھی باقی تھے.159 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء ایک میں نے ذکر کیا تھا کہ ہمیں قرآن کریم سے پتا چلتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ (الرحمان : 30 تا 31) - ہر دن ہر وقت وہ ایک نئی شان میں ہے یا ایک شان کے ساتھ ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس اے بڑے لوگو اور چھوٹے لوگو! تم خدا کی کن کن نعمتوں کی تکذیب کرو گے.اس ضمن میں ایک حوالہ میں نے انسانی زاویہ نگاہ سے دیا تھا اور اس کے بعد پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک تائیدی حوالہ اس مسلک کی تائید میں پیش کیا جو میں سمجھا تھا اور پھر میں نے وعدہ کیا تھا کہ باقی مضمون حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.لیکن اس میں کچھ اور باتیں بھی کہنے والی تھیں جو رہ گئی تھیں جن کے ذکر کے بغیر وہ مضمون مکمل نہیں ہوسکتا.سب سے اہم بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ کیا چیز ہے ، کن معنوں میں خدا میں نہیں پایا جاتا.جو صرفی اور نحوی تعریف ہے وہ انسانوں کے معاملے میں بھی ناقص ہے اور خدا پر اطلاق کی صورت میں بھی ناقص ہے.پس اس کا ایک حصہ جو اطلاق پاتا ہے اس حد تک ہم اطلاق کر سکتے ہیں، اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور زمانہ ہے کیا ؟ اس کی تعریف وہاں موجود نہیں اس لئے اس کی ایک تعریف ہمیں خود مجھنی پڑے گی.جو تعریف رؤیا کے دوران ہی اور کچھ اس کے بعد مجھ پر روشن فرمائی گئی وہ یہ تھی کہ وہ چیز جس کا آغاز نہ ہو اور انجام نہ ہو اور جس کی ذات میں تبدیلی لازم نہ ہو وہ زمانے سے پاک ہے اور یہ صرفی تعریف نہیں ہے نہ نحوی تعریف ہے وہ اور معنوں میں تعریف ہے.مگر اس تعریف نے ایک طرف اشارہ کر دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس اشارے کو مزید آگے بڑھا کر معامله روشن فرما دیا.اس لئے بعض ایسی چیزیں ہیں جن میں زمانے کا ایک تاثر ملتا ہے لیکن یہ باتیں اس میں نہیں ہیں.پس ہر وہ زمانے کا تصور جس میں خدا تعالیٰ کی ذات کی تبدیلی لازم آئے اور ہر وہ زمانے کا تصور جس میں خدا تعالیٰ کا آغاز اور انجام کا تصور نہ آئے ، وہ زمانہ خدا کی طرف منسوب کرنا جائز ہے کیونکہ قرآن کریم نے اسے منسوب فرمایا ہے.بسا اوقات اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتا ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کو پیدا کرنے کا تو ”کن“ کہتا ہے اور يَكُونُ شروع ہو جاتا ہے.تو جب کرتا ہے وہ کسی وقت سے تعلق رکھنے والی چیز ہے جب ”کن“ کہتا ہے تو اس سے پہلے وہ
خطبات طاہر جلد 14 160 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء چیز وجود میں نہیں ہوتی اور یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان کا آغاز بھی اسی مضمون کو بیان فرما رہا ہے.بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وہ ہے جس سے زمین و آسمان کی پیدائش کا آغاز ہوا ہے.بدع، ایسے آغا ز کو کہتے ہیں جس کو عرف عام میں ہم خلق کا نام دے لیتے ہیں مگر حقیقت میں قرآنی اصطلاح میں بدع اور خلق میں ایک فرق ہے.بدع ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کا کوئی وجود نہ ہو اور خلق اس چیز کو کہتے ہیں کہ ادنیٰ حالت میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جائیں یا کر دی جائیں اور نئی نئی صورتوں میں وہ چیز ظاہر ہونا شروع ہو جائے.مثلاً کیمیکلز ہیں.کیمیکلز کے آپس میں ملانے سے اور ان کے آپس میں ادلنے بدلنے سے، ان کے فارمولے بدلنے سے نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں اور ایک پوری شاخ ہے سنتھیٹک کیمسٹری کی جو صرف اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہے کہ ایسی کیمیا بنائی جائیں جن کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا مگر کیمیا سے وہ کیمیا بنتی ہے عدم سے نہیں بنتی.اس لئے اس کے اوپر بدع کا لفظ نہیں آتا اس کے اوپر خلق کا لفظ آتا ہے اور ضمنی طور پر اور محدود دائرے میں اللہ تعالیٰ بھی انسان کی خلق کا ذکر فرماتا ہے کہ تم جو خلق کرتے ہو اس کے اور بھی معنی ہیں، ایک یہ بھی معنی ہے ، خدا کی خلق تم سے بہت زیادہ عظمت رکھتی ہے ، بہت بڑی ہے، تمہاری خلق کی کوئی حیثیت نہیں ہے.بہر حال یہ تو واضح مضمون ہے اس میں غالباً کسی پہلو سے بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف محض خلق منسوب نہیں ہوتی ، بدع بھی منسوب ہوتی ہے.یعنی جب کچھ بھی نہیں تھا ایسی چیزیں اس نے بنائیں جن کا اس سے پہلے وجود نہیں تھا اور زمانے کی تعریف اس پہلو سے ہر مضمون پر صادق آتی ہے لیکن مخلوق کی بدع پر بھی ثابت آتی ہے اور تخلیق پر بھی ثابت آتی ہے نسبتا اور معنوں میں.بدع اس لحاظ سے کہ ایک چیز ایسی پیدا ہوئی جس کا کوئی آغاز ، اس آغاز سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا اور خلق اس لحاظ سے کہ تبدیلیاں ایسی حیرت انگیز ہوئی ہیں کہ نئی سے نئی چیز اس سے پیدا ہونی شروع ہوگئی اور مسلسل Synthesis ہو رہا ہے اور یہ دونوں باتیں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ کائنات میں مسلسل دکھائی دے رہی ہیں آغاز سے لے کر آج تک یہی جاری ہے.تو یہ وہ تعریف ہے جو بہت اہمیت رکھتی ہے کہ نہ اس کا آغاز ہو.وہ ذات جس کا آغاز نہ ہو انجام نہ ہو.جس کے اندر
خطبات طاہر جلد 14 161 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء ذات میں تبدیلی نہ پائی جائے ، وہ زمانے سے آزاد ہے لیکن وہ وجود جب تخلیق کرتا ہے تو مخلوق کے حوالے سے ایک زمانے کا تصور پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس کی ذات میں تبدیلی نہیں آتی.یہ وہ مضمون ہے جو قدیم سے فلسفیوں کے زیر نظر بھی رہا ہے اور فلسفیوں کی دنیا میں میرے نزدیک سب سے عظیم فلسفی جو آج تک مذہبی دنیا سے باہر پیدا ہوا ہے وہ ارسطو ہے جو افلاطون کا شاگرد تھا اور یہ سکندراعظم کا استاد بھی رہا ہے.افلاطون کی اکیڈیمی میں کچھ دیر پڑھتا رہا.جب یہ چھپیں سال کا تھا تو افلاطون فوت ہو گیا اور اس کے بعد اس نے اکیڈیمی سے اپنا تعلق تو ڑلیا کیونکہ اس کی سوچیں بہت ہی زیادہ منجھی ہوئی اور اس زمانے سے بہت آگے تھیں جس زمانے میں یہ پیدا ہوا ہے.مگر میں ضمناً اس کا اس لئے ذکر کر رہا ہوں.یہ وجہ نہیں کہ تمام فلسفہ جو خدا کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اس فلسفے کے اوپر آپ سے گفتگو کروں کیونکہ اتنا بڑا مضمون ہے کہ ضرورت ہے کہ اس کے اوپر اس مضمون کی حیثیت سے الگ غور و فکر کر کے اس کے ماحصل سے جماعت کو مطلع کیا جائے.لیکن یہ تقریروں میں بیان ہونے والا مضمون بھی نہیں ہے.نہ خطبات میں بیان کیا جا سکتا ہے کیونکہ بھاری اکثریت جماعت کی جو خطبات اور تقریروں کو سنتی ہے وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اور علم کے اعتبار سے اس قسم کے مضامین کو ساتھ ساتھ ہضم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی.اس لئے اس کا تعلق تحریر سے ہے اور ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ہر چیز بیان سے ہی تعلق رکھے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیان بھی سکھایا اور کلام بھی سکھایا اور عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (العلق :5) اور قلم سے بھی سکھایا ہے تو جو باتیں قلم سے سکھانے والی ہیں.اللہ نے توفیق عطا فرمائی اور ، دعا کرتا ہوں کہ مجھے سعادت ملے اور وقت ملا اور سعادت ملی تو آئندہ اسی مضمون کو خالصہ خدا کے تعلق میں جماعت کے سامنے پیش کروں گا انشاء اللہ.یہاں صرف ضمنی طور پر بتانا ضروری تھا کہ ارسطو آغاز میں معلوم ہوتا تھا کہ افلاطون کے مقابل پر کم روحانیت رکھتا ہے اور خدا کے تصور میں اس سے پیچھے ہے ، بعض دفعہ خدا کے تصور کے برعکس اس کے فلسفے میں حوالے ملتے ہیں لیکن جتنا وہ بڑا ہوا ہے اور جوں جوں اس نے زیادہ غور کیا فلسفے کے نقطہ نگاہ سے سب سے قریب خدا کے وہ پہنچا ہے اور خالصۂ فلسفے کے ذریعے، اہل تجربہ نہیں تھا.اس لئے اسے اس حد تک تو علم ہو گیا کہ ہوسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ ہو لیکن اس سے تعلق کا جہاں تک معاملہ ہے اس کا کوئی اشارہ بھی ارسطو کی
خطبات طاہر جلد 14 162 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء کتابوں میں نہیں ملتا کہ اس نے ایک زندہ ایسے خدا سے تعلق قائم کیا ہو جو انسان سے تعلق کے بعد اس پر اپنی رحمتوں کے یا اپنی شان کے جلوے دکھاتا ہو.اسی وجہ سے بعض فلسفیوں نے ارسطو کے متعلق یعنی ماڈرن آج کل کے جدید فلسفیوں اور سائنس دانوں نے بھی ارسطو کو اسی بریکٹ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے جس میں جدید زمانے میں Spynoza کا نام لیا جاتا ہے جو ہالینڈ کا ایک یہودی فلسفی تھا.اس نے بھی خدا کو ایک تصور کے طور پر پیش کیا ہے.اس حد تک معلوم ہوتا ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ ایسا وجود ہونا چاہئے لیکن ہے کہ نہیں اس سے تعلق قائم ہوسکتا ہے کہ نہیں.نہ صرف یہ کہ یہ ذکر نہیں ملتا بلکہ وہ اس کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ وہ وجود ہے جو تفصیلی دلچسپی نہیں لیتا اور نہ لے سکتا ہے ان کے نزدیک.پس ایک طرف خدا کو مانا دوسری طرف کا لعدم کر دیا.یہی آئن سٹائن کا حال ہے مگر آئن سٹائن کی سوچ میں دیانت کی کمی ہے اور سپائنوزا کی سوچ میں دیانت کی کمی نہیں ہے.جب میں آئندہ اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا تو خصوصیت سے آئن سٹائن کا بھی ذکر کروں گا جس نے 1930ء میں نیویارک ٹربیون (New York Tribune) میں مذہب کے متعلق جو مضمون شائع کیا ہے اس میں خدا کی ہستی کے اور مذہب کے خلاف جو دلائل پیش کئے ہیں اور پھر اپنا نظریہ جو پیش کیا ہے وہ اتنا بودا ہے کہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس زمانے کے دوسرے یورپین فلسفی خصوصاً انگریز فلسفیوں سے متاثر ہو کر اس نے کچھ باتیں بیان کی ہیں لیکن آدھی بات کرتا ہے اور پھر رخ بدل لیتا ہے.جس سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں دیانت دار نہیں تھا کیونکہ اگر دیانتداری سے ان باتوں کو آگے بڑھاتا تو اس نتیجے تک پہنچنا ضروری ہو جاتا جو ارسطو کی عقل نے نکالا.پس تھوڑا سا چلتا ہے اور پھر رخ بدل لیتا ہے مثلاً اسباب کا ذکر کرتا ہے اور ہر سبب کا ایک مسبب ہونا چاہئے.اسباب جو ہیں دنیا میں، جو چیزیں وجود میں آرہی ہیں نتیجے ہیں، ان کا ایک نتیجہ پیدا کرنے والا ہونا چاہئے.اس مضمون کو شروع کر کے تو پھر آغاز آفرینش کو نظر انداز کر دیتا ہے اور صرف یہ اعتراض کرتا ہے کہ اس لئے ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ ایسا خدا ہو جو اس دنیا میں جو ہمیں سبب اور نتیجے کی دنیا نظر آرہی ہے اس میں کبھی کبھی نا معقول دخل دیتا رہے.”میں ہوں“ کی خاطر، معجزے دکھانے کے شوق میں اس میں دخل اندازی کرے یہ عقل کے خلاف بات ہے اس لئے کوئی خدا ایسا نہیں ہے.اب یہ سوچ صاف بتا رہی ہے کہ وہ جو منطقی نتیجہ نکلنا چاہئے تھا سبب اور نتیجے کا، اس کا آغاز
خطبات طاہر جلد 14 163 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء سے ذکر چاہئے تھا اور آئن سٹائن اس بات کو خوب سمجھتا تھا ، وہ خود جانتا ہے کہ جو بھی تبدیل ہونے والی مادی کائنات ہے یہ ہمیشہ سے نہیں ہو سکتی.تو اس طرف پہنچنے کی بجائے جہاں خدا دکھائی دے سکتا تھا وہ ایک اور طرز فکر میں داخل ہو جاتا ہے اور عمداً اس کو چھوڑ دیتا ہے.میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ دیانت کے خلاف ہے کہ وہ اتنا ذہین آدمی تھا، کہ میرے نزدیک یہ قابل قبول ہی نہیں ہے کہ اس کی توجہ اس طرف نہ گئی ہو.پس توجہ بنی چاہئے تھی، گئی ہوگی لیکن نظر انداز کرتا ہے.دوسرے جو اس کے استدلالات ہیں ان سب میں یہی بات پائی جاتی ہے.مگر ارسطو بہت دیانتدار تھا.اس کی سوچ انتہائی منطقی اور کامل دیانتداری پر مبنی تھی.ایک وقت وہ تھا جبکہ عملاً وہ خدا کے تصور سے دور تھا کیونکہ وہ یہ سوچتا تھا کہ روح مادے ہی کی ایک صفت ہے اور یہ فلسفہ افلاطون سے اس نے لیا اور پھر آگے اس کو بڑھایا.مطلب ان کا یہ تھا کہ جو صفات ہیں وہ منحصر ہیں مادے پر اور روح بھی مادے ہی کی ایک صفت ہے.پس جب مادہ ختم ہوا تو روح بھی ختم ہو گئی.یہ آغاز میں اس کی سوچ تھی لیکن اس کے ساتھ ہی پھر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ مادہ آیا کیسے اور مادہ اگر تبدیل ہو رہا ہے اور یہ دونوں جانتے تھے کہ مادہ تبدیل ہورہا ہے تو پھر آغاز کیسے ہوا.تو ایک ایسے خدا کے تصور تک پہنچے جس کو انہوں نے مادہ کہا اور مادہ اول اور وہ مادہ اول غیر مبدل تھا اور اس کے نتیجے میں پھر وہ سب مادے پیدا ہوئے جو اول محرک کے نتیجے میں حرکت میں آگئے لیکن اول محرک ساکن تھا.یہ ایک فلسفیانہ ایک شعبدہ تھا مگر اس میں منطق ضرور پائی جاتی ہے.لیکن آخری بات کا حل کوئی نہیں.ارسطو نے جب مزید غور کیا اس بات پر تو اس کی میرے نزدیک جو سب سے اہم آخری کتاب ہے لیکن اور بھی بڑی اہم کتابیں ہیں میٹا فزکس Mata phisics اس میں وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ خدا مادہ نہیں ہے کیونکہ مادہ بغیر تبدیلی کے ہمیں کوئی دکھائی نہیں دیتا.وہ ایک ہی چیز ہے جس کو ہم صرف Mind کہہ سکتے ہیں اور Mind کی حرکت جو ہے وہ تبدیلی کو نہیں چاہتی اس لئے وہ Eternal ہوسکتا.ہے.یہ جو ارسطو کی سوچ تھی اس زمانے کی تعریف کے مطابق ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی تھی.پس ہر وہ زمانے کا تصور جو خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہوسکتا ہو ، جس میں تبدیلی لازم نہ آئے اور آغاز یا انجام کا کوئی تصور موجود نہ ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف نہیں بلکہ خدا تعالیٰ خودا اپنی ذات کے تعارف کے دوران بہت سی ایسی باتیں بیان فرماتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 14 164 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء اس کے اندر تبدیلی کے بغیر بھی ، یعنی ذات میں تبدیلی نہیں مگر صفات کے جلوے اپنی شان بدلتے ہیں اور صفات کے جلووں کی شان، جبکہ ذات میں تبدیلی نہ ہو، یہ ان معنوں میں زمانہ نہیں ہے جس کا کوئی آغاز ہونا چاہئے یا جس کا کوئی انجام ہونا چاہئے.پس كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ میں ایک یہ بھی مضمون ہے کہ اس کی صفات جلوے دکھا رہی ہیں اور ایک ہی جلوے پر Stationary نہیں ہیں.ایک جلوے پر جامد نہیں ہیں کیونکہ ایک جلوے پر اگر وہ جامد ہوں تو پھر ایک ایسی باشعور ہستی جو موقع اور محل کے مطابق فیصلے کرتی ہو اور کر سکتی ہو اور اپنی مخلوق سے تعلق قائم کر سکتی ہو.اس کا وجود مٹ جاتا ہے.اسی لئے آغاز میں جب ارسطو کا یہی رجحان تھا تو اس نے قطعی طور پر ایسے خدا کا انکار کیا جو انسانی معاملات میں دلچسپی لیتا ہو.افلاطون نے اس کے برعکس ایک ایسے خدا کا وجود پیش کیا جس کا انسانی معاملات سے تعلق ہے لیکن اس کی سوچوں پر چونکہ اس زمانے کے فرضی خداؤں کا بھی اثر تھا، دیوتاؤں وغیرہ کا اس لئے وہ سوچ کچھ مل جل سی گئی ہے.کچھ ان روایتوں کے تعلق میں جو اس زمانے میں چلی آتی تھیں کہ بہت سے دیوتا ہیں، کچھ اس کی اپنی طبعی فطرت کی روشنی کے نتیجے میں کہیں واحد خدا کا ذکر اس کی سوچوں میں ملتا ہے، کہیں دوسرے خداؤں کا ذکر بھی مل جاتا ہے.مگر یہ مضمون ایسا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا میں اسے الگ پیش کروں گا.اس وقت میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ شانوں کی تبدیلی زمانے کو نہیں چاہتی.شانوں کی تبدیلی اس زمانے کو نہیں چاہتی جس سے ذات تبدیل ہو اور بیک وقت مختلف جواظہار ہیں وہ درحقیقت مخلوق کی محدود نظر اور مخلوق کے تقاضوں کی خاطر لازمی ہیں.ایک انسان میں اپنی ذات پر اگر آپ سوچیں تو کچھ نہ کچھ اس کی سمجھ آسکتی ہے باوجود اس کے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ ( شوری :12 ) کہ خدا جیسی کوئی چیز نہیں.جن سائنس دانوں نے خدا کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے اکثر و بیشتر یہی وجہ ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنی ذات کو پروجیکٹ کر کے پوری طرح خدا پر اس کی حدود عائد کرنے کی کوشش کی یہ ناممکن تھا کیونکہ تخلیق سے خالق کی پوری پہچان ممکن نہیں ہے تخلیق سے یہ تو ممکن ہے کہ اس کی بعض صفات کو پہچان لیا جائے اس کی چھاپ دیکھ کر اندازہ ہو لیکن اس کا حدود اربعہ معلوم ہو جائے تخلیق سے یہ ناممکن ہے.
خطبات طاہر جلد 14 165 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء ہوائی جہاز کتنے Complicated پیدا ہو چکے ہیں مگر اگر بعد میں کسی زمانے میں جبکہ انسان کی سوچ اور بھی ترقی کر گئی ہو، ہوائی جہاز ایسا دریافت ہو جو زمین میں دبا ہوا ملے اور میں یہ کہہ رہا ہوں سوچ ترقی کر گئی ، میرے ذہن میں جو Scenario ہے کہ دنیا مثلاً ایک دفعہ مٹ جاتی ہے.پھر تخلیق ہوتی ہے.کوئی سوچنے والا باشعور جاندار ایسا ہے جو بہت ترقی کر جاتا ہے مگر اس کے Dimenstion اور ہیں اس لئے اس کی ترقی کے رستے الگ الگ ہیں، ممکن ہے، قرآن سے ثابت ہے،اس لئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ممکن ہے بلکہ ضرور ہوگا.تو اس وقت اگر جہاز دریافت ہو جائے اور ان لوگوں کو اتنی دور کا واقعہ ہو کہ براہ راست انسان کے متعلق کچھ پتا نہ ہو کھدائیوں.چیزوں سے وہ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو ہوائی جہاز کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ انسان کی دو ٹانگیں تھیں، دو ہاتھ تھے، دماغ اس طرح تھا، آنکھیں یہاں لگی ہوئی تھیں اس کا ظاہری حلیہ بھی نہیں پہچان سکتا.اس کی اندرونی سوچوں تک اس کی رسائی ناممکن ہے.صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ کوئی بہت باشعور ہستی تھی اور کوئی بہت ہی با اقتدار ہستی تھی.اس کی عقل بھی تیز تھی اور اس کی چیزوں تک رسائی بھی بہت تھی وہ جو سوچتا تھا اسے کر دکھاتا تھا.تو اس پہلو سے خدا تعالیٰ کی جوشان ہے جلوہ گری ہے وہ مخلوق میں بھی ہے تخلیق میں بھی ہے لیکن اس کے ذریعے آپ اس تک پہنچ نہیں سکتے.صرف یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کوئی باشعور با اقتدار ہستی ہے جو بہت ہی گہرے تدبر کی مالک ہے اور اس کی باتیں کوئی بھی باطل نہیں ہیں کیونکہ جو کائنات اس نے پیدا کی ہے وہ باطل سے عاری ہے.تو باشعور، بالا رادہ، بہت ہی گہرے فکر والی ہستی جو پیدا کر رہی ہے اس کی اپنی ذات کیا تھی؟ کب تھی؟ ہمیں کچھ پتا نہیں.سوائے اس کے کہ جو وہ خود ہمیں بتائے.اس پہلو سے جب ہم آیت الکرسی کے ایک حصے پر غور کرتے ہیں تو ایک نیا مضمون ہمارے سامنے ابھرتا ہے وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ الْإِبِمَا شَاءَ عِلْمِہ کا عام طور پر جو مفہوم سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا خدا کا علم ہے اور خدا کو ہر چیز کا علم ہے یعنی اس کی مخلوقات اس پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا، اس کے کسی حصے کا بھی.الا بِمَا شَاء سوائے اس کے کہ اللہ چاہے اور اتنا ہوگا جتنا خدا چاہے گا.تو اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے اپنی ذات کے متعلق جو تعارفات ہیں وہی ہیں جو
خطبات طاہر جلد 14 166 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء الله ہماری راہنمائی کریں گے اسماء الذات کی طرف.اور قرآن کریم میں وہ کامل طور پر اس درجہ کمال تک موجود ہیں جس درجہ کمال تک انسان ان کو سمجھنے کی صلاحیتیں لے کے پیدا ہوا ہے، اس سے آگے نہیں.اور آنحضرت ﷺ اس پہلو سے وہ آدم ہیں جن کو اسماء كلها تمام کے تمام سکھائے گئے یعنی انسانی سوچ کی حد تک اسماء جتنے بھی انسان سمجھ سکتا تھا اور انسان جس کا ئنات میں پیدا ہوا ہے اس کی ضرورتوں کے تعلق میں انسان جس حد تک بھی صفات باری تعالیٰ کا علم حاصل کر سکتا تھا وہ تمام صفات حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمائے گئے.اب یہ جو نزول ہے یہ بھی ایک شان ہے اور اس سے پہلے نازل نہیں فرمائے گئے تو یہ زمانہ پایا گیا لیکن اس بات کے مخالف نہیں ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کیونکہ یہ زمانہ تبدیلی ذات کو نہیں چاہتا بلکہ ایک دائی صفت کی ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً جلوہ گری کو چاہتا ہے.پھول میں بھی بعض اوقات مختلف صفات جلوہ گر ہوتی ہیں مگر اس میں زمانہ اس لئے پایا جاتا ہے کہ ہر صفت جو اس کی ظاہر ہوتی ہے اس کے پیچھے اس کی ذات میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے.جب تک وہ تبدیلی واقع نہ ہو پھول کی کوئی صفت ظاہر نہیں ہوسکتی.اگر رنگ بدلا ہے تو اندر ذات بدلی ہے تب رنگ بدلا ہے.اگر خوشبو بدلی ہے تو ذات بدلی ہے تو رنگ بدلا ہے.اگر پھل کھٹا ہوا ہے یا میٹھا ہوا ہے تو ذات کی تبدیلی سے ایسا ہوا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی ذات میں یہ تبدیلی ممکن نہیں.اب وہ بحث جس کا میں نے ذکر کیا تھا Prime Mover والی بحث اس میں ارسطو تو یہ بات کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ ہے تو اول ہی مگر چونکہ عقل ہے اس لئے اس میں ذات کی تبدیلی کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ مادہ نہیں ہے.یہ حق کی اور حکمت کی قریب ترین بات ہے جس تک وہ تمام کائنات، دنیا میں اب تک جتنے فلسفی پیدا ہوئے ہیں ارسطو پہنچا ہے.آج کل کے ماڈرن فلسفی بھی اس بات سے کوسوں پیچھے ہیں ابھی تک.اس لئے اس کی عظمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زمانے سے پاک ہے زمانہ پیدا کرنے کے تعلق میں تخلیق کا ذکر فر مایا اس کو ارادے سے باندھا ہے اور ارادہ کسی ذات کی تبدیلی کو نہیں چاہتا.آپ اپنے ارادوں پر غور کر کے دیکھ لیں آپ مختلف وقتوں میں ایک ارادہ کر سکتے ہیں ، ایک فیصلہ کر سکتے ہیں کبھی کر لیتے ہیں کبھی نہیں کرتے.ارادے میں آپ زمانے کے پابند نہیں ہیں.ایک امکان آپ کے سامنے روشن
خطبات طاہر جلد 14 167 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء ہوتا ہے کہ میں یہ کروں یا یہ نہ کروں اور آپ مختار ہو جاتے ہیں بعض صورتوں میں کہ اچھا یہ کرتا ہوں یہ نہیں کرتا.اس ارادے کے اندر کوئی توانائی ضائع نہیں ہوتی لیکن ارادے پر جب عمل ہوتا ہے تو پھر توانائی کا دور شروع ہوتا ہے.انسان کی مثال خدا پر پوری طرح صادق اس لئے نہیں آسکتی کہ انسان خود اپنے کارخانے پر اپنے ارادے کا اثر ظاہر کرتا ہے.پس انسان کے ہر ارادے سے اس کی ذات کی تبدیلی لا زم ہے.جب بھی کوئی ایک انسان ارادہ کرتا ہے یا اس کی ذات میں کوئی تبدیلی ضرور ہوگی پس اب میں نے ارادہ کیا کہ میں مکھی کو ماروں تو میرا ہاتھ اٹھے گا اور نشانے پر گرے گا اگر نشانہ اچھا ہوا اور مکھی زیادہ تیز نہ ہو تو اس کو مارنے میں کامیاب ہو جائے گا.مگر ایک حرکت لازم ہے.اور جب تک حرکت نہ ہوا رادہ عمل میں نہیں آتا.وہ محض ایک سوچ، ایک امکان ہے، وجود کا ایک امکان.اور اس پہلو سے آپ کا ارادہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.اب دیکھیں ارادے کی طاقت کتنی ہے اگر اسے فساد پر استعمال کیا جائے تو جنگ عظیم ایک ہٹلر کا ارادہ تھا.کتنی بڑی قیامتیں ٹوٹی ہیں اس کے نتیجہ میں.کروڑہا کروڑ ٹن بم گرائے گئے ہیں دنیا کو خاکستر بنانے کے لئے کتنی حرکت ہوئی ہے، کتنے کارخانے وجود میں آئے.لکھوکھہا انسان بلکہ کروڑوں انسانوں نے جانیں دیں.کچھ آگ میں جلائے گئے ،کسی نے ویسے مصیبتوں میں دم توڑے.تو ارادے کو کیسی طاقت ہے لیکن ارادہ خود وہ توانائی نہیں بخش رہا تھا ان چیزوں کو بلکہ توانائی کا مضمون ارادے سے باہر تھا.لیکن انسان میں اور خدا میں ایک فرق بھی ہے.یعنی فرق تو بہت ہیں اس ارادے کے تعلق میں ایک اور فرق بھی جس کو فلسفی جب نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے ٹھوکریں کھائیں.وہ یہ ہے کہ خدا تعالی کا ارادہ توانائی کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ توانائی پیدا کرتا ہے.ہر توانائی خدا کے ارادے سے پیدا ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا یہ تعارف فرمایا ہے کہ جب بھی میں چاہتا ہوں کچھ کروں تو میں حسن کہتا ہوں فیکون “ اور کن “ ارادہ ہے جو ایک فیصلہ کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو فیصلے کو ظاہر کرنے کا فیصلہ بظاہر دو زائد لفظ ہیں مگر خدا تعالیٰ کے تعلق میں ضروری ہے بیان کرنا.اس کا فیصلہ موجود ہے کیونکہ عالم الغیب ہے.وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد اب میں نے کروانا ہے.اس پہلو سے زمانہ پایا جاتا ہے مگر یہ زمانہ اس کی ذات کو تبدیل نہیں کرتا نہ کسی
خطبات طاہر جلد 14 168 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء ذات کی تبدیلی کو چاہتا ہے بلکہ پوری کائنات کو بعض دفعہ تبدیل کر دیتا ہے.جہاں جہاں اثر انداز ہو وہاں وہاں تبدیلی واقع ہوتی ہے.لیکن توانائی کا جہاں تک تعلق ہے یہ ارادہ اتنی توانائی بھی نہیں چاہتا جتنی انسانی ارادہ چاہتا ہے.پس ارادے کا تعلق روح سے ہے اور روح اس قسم کی توانائیاں نہیں چاہتی جیسی ہم روز مرہ کی دنیا میں توانائی دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں.یہ مضمون جب میں رویا کے بعد اٹھا اور یہ سوچتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا تو اچانک میرا ذہن اس طرف گیا کہ جب روح کا سوال قرآن نے اٹھایا تو یہی جواب دیا ہے وَ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (بنی اسرائیل: 86) روح کا تعلق امر سے ہے اور روح ہی ہے جو امر کی استطاعت رکھتی ہے کیونکہ خالق نے امر سے اس کو پیدا کیا اور امر کی کچھ طاقت اس کو بخشی ہے پس روح کا فیصلہ کم سے کم توانائی چاہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ توانائی کو حرکت میں لے آتا ہے.ہماری ہر حرکت اس فیصلے کے تابع ہے اور صرف ہماری حرکات ہی نہیں بلکہ ہمارے گردو پیش کی حرکات بھی بسا اوقات اتنا متاثر ہوتی ہیں کہ تبدیلیوں کا ایک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جو ایک وقت ہی نہیں بلکہ ایک زمانے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس زمانے کے اثر پھر اگلے زمانوں پر اثر انداز ہو جاتے ہیں.اب جنگ عظیم اول ہو یا ثانی ہو یا کوئی اور ہوانہوں نے جواثرات شروع کر دیئے وہ ایک Chain Reaction کے طور پر آگے جاری ہو گئے اور ارادے میں وہ طاقت نہیں تھی ، بذات خود نہ وہ اس توانائی کو چا ہتا تھا لیکن اس نے توانائی پیدا کر دی.اس پر دوسرا پہلو جو سوچ کے لائق تھا جس کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی یا اللہ تعالیٰ نے نصرت فرمائی.وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ارادے سے مادہ کیسے پیدا کر سکتا ہے، کیوں کرتا ہے؟ چونکہ انسانی ارادے کے رستے سے لوگوں نے خدا تعالیٰ کو سمجھنے کی کوشش کی اس لئے یہاں پہنچ کر سب فلسفی ٹھوکر کھا جاتے رہے.اگر سب نے نہیں کھائی جیسا کہ ارسطو نے نہیں کھائی تو بہت سے دوسروں نے کھالی اور ہند و فلسفہ اسی وجہ سے ایک غلط رستے پر چل پڑا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو براہین احمدیہ میں ہندوؤں سے بخشیں کی ہیں ، خصوصاً آریوں سے ، وہ اسی مضمون پر ہیں کہ خدا ارادے سے مخلوق کو پیدا کر سکتا ہے کہ نہیں کیونکہ ارادہ غیر مادی ہے اور مخلوق مادی ہے.اس کا انسان کچھ نہ کچھ مظہر ضرور ہوتا ہے، اگر چہ سو فیصد نہیں اور چونکہ خدا کی مثال کوئی اور ہے ہی نہیں اس لئے مکمل مثال
خطبات طاہر جلد 14 169 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء پیش کی ہی نہیں جاسکتی.پس یہ دیکھنا ہوگا کہ ازل ہے کہ نہیں اور جو چیز ازلی ہے وہ بالا رادہ تھی کہ نہیں.یہ ثابت ہو جائے کہ ازل کے بغیر ہمارا گزارہ ہی نہیں.ناممکن ہے کہ ازل کے بغیر بھی وجود ہو پھر یہ قدم اٹھتا ہے کہ ازل بالا رادہ تھی یا بغیر ارادہ کے تھی.اگر ازل بغیر ارادہ کے ہو تو صرف مادہ رہ جاتا ہے جس میں سوچ نہیں کوئی ترتیب نہیں جو اپنی ذات میں بھی اندرونی تبدیلیوں اور معقول اندرونی تبدیلیوں کی طاقت نہیں رکھتی اور دوسری ذات میں منظم تبدیلیوں کی اہلیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تو جب ہمیں واقعاتی دنیا میں ایسے مادے کی تبدیل ہوتی ہوئی حالتیں دکھائی دے رہی ہیں جو منظم ہیں، مربوط ہیں، ایک معین رستے کی طرف چل رہی ہیں اور حیرت انگیزان میں لطافتیں ہیں تو مادے کو بے سوچ کا ازلی مادہ قرار دیا ہی نہیں جاسکتا.پس قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں اٹھایا ہے کہ کیا تم اپنے خالق ہو؟ کیا تم اس چیز کے خالق ہو ؟ ہر وہ چیز بیان فرمائی جس کے لئے ایک خالق ہونا ضروری ہے.تو بظاہر دنیا میں جو تبدیلیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ اگر ازل ہے تو سوچ والی ازل ہے اور سوچ والی ازل میں تبدیلی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر تبدیلی ہے تو ازل نہیں ہے.تو مادہ وہ چیز نہیں ہے جو سوچ والی ازل ہو.اس مضمون کو آپ میں سے بعض سمجھیں یا نہ سمجھیں غور کریں گے تو سمجھ آجائے گی بات کی.دو ہی امکانات ہیں.میں پھر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں.یہ مائیکروفون میرے سامنے پڑا ہے یا یہ ہمیشہ سے ہے یا یہ پیدا ہوا ہے.اگر اس میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں تو ہمیشہ سے ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آغاز سے بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا ہے اس کا کوئی آغاز ضرور تھا پھر.اور اگر اس میں شعور نہیں ہے اور اپنے آپ کو پیدا نہیں کر سکتا تو پھر وہ شعور جو ہر مادے کی اندرونی تبدیلیوں سے پہلے ہونا چاہئے اس کا اس میں فقدان ہے تو کسی پہلو سے بھی ازلی نہیں ہوسکتا.از لی چیز صرف وہی ہوسکتی ہے جس میں سوچ ہو کیونکہ جو چیزیں دنیا میں دکھائی دیتی ہیں ان پر سوچ کی چھاپ ہے.ہر چیز پرسوچ کی چھاپ ہے اور جو تبدیل نہ ہو کیونکہ اگر وہ تبدیل ہوگا تو اس کا ایک کنارہ کہیں کسی نہ کسی وقت ہمارے ہاتھ آجائے گا اس سے آگے پھر وہ نہیں ہوگا اور اگر اس سے آگے نہیں ہوگا تو عدم سے کامل سوچ پیدا نہیں ہو سکتی.تو جس منطقی نکتے سے آپ چاہیں اس مضمون کی پیروی کریں آپ کو خدا کی ذات میں زمانہ دکھائی نہیں دے گا سوائے اس زمانے کے جو ذات باری تعالیٰ میں تبدیلی نہیں چاہتا
خطبات طاہر جلد 14 170 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء بلکہ وہ دنیا کو تبدیل کرنے والا ارادہ ہے.اس سلسلے میں اس بات کو سمجھانے کے بعد اب میں واپس اس حصے کی طرف آتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فیصلے سے مادہ کیسے وجود میں آتا ہے.اصل میں پوری مثال تو نہیں مگر معمولی ادنیٰ مثالوں پر آپ غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ کچھ نہ کچھ چھاپ آپ کے اوپر بھی اس بات کی ہے.جب آپ خواہیں دیکھتے ہیں تو یہ آپ کی سوچ ہے جو بے شمار تصورات کو جنم دیتی ہے.لیکن سوچ چونکہ بہت ہی عاجز اور کمزور ہے وہ ان کو ظاہری وجود نہیں بخش سکتی لیکن جہاں تک آپ کے تعلق کا سوال ہے آپ ایک اور عالم میں چلے جاتے ہیں جو آپ کی سوچوں کا پیدا کیا ہوا ہے اور آپ کا اپنا وجود بھی اس عالم کا ایک جزو بن جاتا ہے گویا کہ ظاہری وجودرہا ہی نہیں.اگر سوچ میں طاقت ہو تو جو تصویریں ہیں وہ تصور میں نہیں رہیں گی بلکہ حقیقت میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور یہ جوسوچ کا دوسرا حصہ ہے اس کا بھی معمولی سا مزہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرما دیا تا کہ وہ اپنے رب کے انکار کا اہل نہ رہے.اس کی تخلیقی اور ابتدائی پیدا کرنے کی طاقتوں کا انکار نہ کر سکے.فرعون کی مثال میں جہاں وہ جادو گر دکھائے ہیں، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی سوچ میں ایک طاقت تھی اور ایسی طاقت تھی کہ رسیوں کو لوگوں نے سانپ بنتے ہوئے دیکھا، گواہ بن گئے کہ یہ سانپ بن گئی ہیں لیکن جس خالق نے یہ طاقت بخشی تھی اس کی طاقت غالب تھی اس لئے موسی کی سوچ کی طاقت نہیں تھی بلکہ اللہ کی سوچ کی طاقت تھی جس نے ان رسیوں کو از سرنو رسیاں بنا دیا.جو سانپ تھے وہ رسیاں بن گئے کیونکہ جوسوٹے کا اثر دھا نظر آرہا تھا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا يَأْفِكُونَ (الاعراف: 118) اس نے اس کو کھایا ہے جو جھوٹا بنایا ہوا تھا، انہوں نے رسیوں کو کھانے کا ذکر نہیں ملتا.تو جھوٹ ان کی سوچ نے بنا دیا تھا اس جھوٹ کو خدا کا غالب تصور جو ہے وہ ہڑپ کر گیا اور وہ موسیٰ کے سوٹے کی صورت میں ظاہر ہوا تھا.تو ایک مثال ہمیں نظر آتی ہے کہ انسان کی سوچ بغیر کسی مادی ذریعے کے دوسرے پر اثر انداز ہو.اس ضمن میں جو جدید سائنٹیفک تحقیقات ہیں ان سے بھی پتا چلتا ہے پیرا سائکالوجی کا مضمون اب با قاعدہ سائنس بن گیا ہے.بہت سی یو نیورسٹیوں میں اس پر غور وفکر ہو رہا ہے اور تجارب سے یہ بات تو قطعاً ثابت ہو گئی ہے کہ انسان کی سوچ اس رنگ میں ایک اور انسان پر اثر انداز ہوسکتی ہے کہ کوئی بھی معلوم سائنسی ذریعہ بیچ میں واسطے کے طور پر موجود نہ ہو.کوئی ریڈیائی طاقت، کوئی برقی
خطبات طاہر جلد 14 171 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء روہ کسی قسم کی کوئی معلوم سائنٹیفک طاقت بیچ میں ذریعہ نہ بنے ، واسطہ نہ بنے اور اس کے باوجود ایک انسان کی سوچ دوسرے انسان پر منتقل ہو کے اس میں تبدیلی پیدا کرے، اس پر غالب آجائے ،اس میں حرکت پیدا کر دے.یہ جو مضمون ہے میں نے شاید پہلے بھی آپ کو ایک مثال کے طور پر بتایا تھا خود میں اس کا گواہ ہوں یعنی بعد میں تو کئی معنوں میں گواہ ہوں مگر میں آغاز میں بتارہا ہوں.اسی انگلستان میں ایک دفعہ ایک پارٹی میں شامل ہونے کا مجھے موقع ملا جواس وقت Intelectual کی اکٹھی ، بڑی دلچسپ باتوں کے لئے ساری رات کھاتے پیتے تھے مختلف مسائل گفتگو کرتے تھے، ایسی پارٹی تھی.اس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا انسان کی سوچ میں یہ طاقت ہے کہ بغیر کسی سائنٹیفک واسطے کے دوسرے پر اثر انداز ہو سکے.تو میں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کیونکہ میں نے یہی قرآن کریم کی آیت پیش کی کہ ایسا ہے ورنہ قرآن ایسا نہ فرما تا.مگر ذاتی طور پر میں نے اس پر تجر بہ نہیں کیا.تو انہوں نے کہا پھر تم پر کیوں نہ تجربہ کریں.میں نے کہا ٹھیک ہے کر لو.تو اب دیکھیں میں کمرے سے باہر چلا گیا اور اتنی دور انہوں نے مجھے پہنچایا، ایک نگران کھڑا کر دیا کہ اگر اس کی نیت بد بھی ہو تو نہ آئے واپس اور اندر بیٹھ کے کچھ مشورے کئے.جب واپس کمرے میں مجھے بلایا گیا تو ایک بڑے دائرے میں کافی آدمی تھے وہ سارے بیٹھے ہوئے تھے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے اور مجھے کہا کہ تم ہمیں پھلانگ کر اس کے مرکز میں آکر بیٹھ جاؤ آرام سے.پس تم بیٹھ جاؤ اور کچھ نہیں کوئی حکم نہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا.کچھ دیر تک بیٹھا رہا اس کے بعد پتا نہیں کیوں مجھے خیال آیا کہ میں اپنے بوٹ کے تسمے کھولوں.تو میں نے ایک بوٹ کے تسمے کھولے، دوسرے بوٹ کے تسمے کھولے اور اس وقت کسی نے شور مچایا اب باقی بھی کرو.تو ایک دم وہ جور وتھی وہ ٹوٹ گئی تو میں نے کہا باقی کیا مطلب.انہوں نے کہا ہم نے یہ سوچا تھا کہ تمہیں کہیں گے کہ بوٹ کے تسمے کھولو اور بوٹ اتار کے بغیر بوٹوں کے بیٹھو اور اتنا حصہ جتنے حصے تک ان کی آواز مخل نہیں ہوئی، میں نے کیا.تو یہ ایک سوچ دوسری سوچ میں بغیر معروف سائنسی ذرائع کے منتقل ہو کر اس پر اثر انداز ہوئی، اس میں حرکت پیدا کی.اور خوابوں میں بھی ہم نے ایک دنیا پیدا کی اور کرتے ہیں مگر وہ پاگل پن میں جبکہ انسان دنیا کے تعلق سے بالکل کٹ جاتا ہے اس میں اور بھی زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے جس چیز کو وہ سوچتا ہے اس کو اتنا یقینی سمجھتا ہے کہ اس کی پیروی بھی کرتا ہے اگر چہ ظاہر میں اس کا وجود نہیں ہوتا.مگر خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 14 172 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء کو چونکہ اول طاقت ہے اور اس کی سوچ سب سوچوں پر غالب ہے اس لئے فرق یہ ہے اور اسی لئے میں نے آپ کو آیت لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ پڑھ کرسنائی.دنیا میں جو چیزیں ہیں کچھ نہ کچھ اس طرف اشارے ضرور کرتی ہیں مگر ویسی کوئی چیز نہیں ہے.ازل بھی کسی کو حاصل نہیں وہ اسی کو حاصل ہے ازل کے بغیر ہمارا چارہ ہی کوئی نہیں ہے ہم اس دنیا کو ازل پر غور کئے بغیر تسلیم ہی نہیں کر سکتے اور دنیا ہے ہم جانتے ہیں.تو آغا ز کیسے ہوا اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ تمام توانائی میرے ارادے میں ہے اور ارادہ جب بنتا ہے تو از خود وہ توانائی کی شکلوں میں ڈھل جاتا ہے.اگر آپ یہ سمجھیں کہ یہ خواب ہے تو یہ ایسی خواب ہے جو ہر اس جز کو جو خواب نے پیدا کیا ایک دوسرے کا شریک بنارہی ہے سوچوں میں اور اس کا ظاہر جو ہے وہ اتنا قوی دکھائی دے رہا ہے جیسے ہو.اسی خیال کی وجہ سے بہت سے فلسفی ہر چیز کو تو ہم ہی بیان کرنے لگ گئے.تو فلسفی نے جو ٹھوکریں کھائی ہیں وہ قرآن کریم سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سے ٹھوکریں کھائی ہیں.اگر قرآن کریم میں جو صفات کا بیان ہے اس پر غور کرتے تو پھر خدا تعالیٰ کی ہستی کو سمجھنے میں اور اسماء پر غور کرنے میں ان کے لئے کسی ٹھوکر کا سامنا نہ ہوتا، وہ صحیح طریق پر جہاں تک خدا چاہتا ان بصائر سے فائدہ اٹھا سکتے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ کہ دیکھو خدا کی طرف سے بصائر آچکے ہیں.ط لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ اس کو تم سمجھنا چاہتے ہو مگر اتنے عاجز ہو کہ ناممکن ہے کہ تم اپنی سوچوں کے ذریعے خدا تک پہنچ سکولیکن تعلق ضرور قائم ہو گا وہ اس طرح قائم ہو گا کہ خدا تم تک پہنچے گا اور خدا تم تک پہنچ چکا ہے.اس حد تک پہنچ چکا ہے جس حد تک تمہارے لیے سمجھنا ضروری تھا اور جس حد تک تمہاری حد استطاعت اجازت دیتی ہے.پس اس پر غور کرو گے تو تمہارا فائدہ ہے.پس وہ غور خدا پر منع نہیں ہے جو غور قرآن کریم کے بیان کے مطابق ہو اور آنحضرت ﷺ کے فہم قرآن کے مطابق ہو اور اس دور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو آدم ثانی بنایا گیا ہے آپ کو بھی اسماء کا علم عطا فرمایا گیا ہے.اس علم کی وساطت سے اسماء کو سمجھنا، اس پر غور کرنانہ
خطبات طاہر جلد 14 173 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 1995ء صرف منع نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ ضرور کرو.قَدْ جَاءَ كُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ جو غور کرے گا اسے ضرور فائدہ پہنچے گا.پس اسماء باری تعالی یعنی صفاتِ الہی پر غور کر کے اس سے فائدہ اٹھانا ، یہ ایک لازوال مضمون ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا.مگر ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق جہاں جہاں خدا خود ہمارے سامنے بصائر لے کر آیا ہے ان حدود میں رہ کر اس پر غور کریں.تو اب چونکہ وقت ہو چکا ہے اس لیے انشاء اللہ باقی حصہ جو ہے اس میں اور بھی بہت سے پہلو ہیں ، میں کوشش یہی کروں گا کہ اگلے خطبے تک یا زیادہ سے زیادہ اس سے اگلے خطبے تک اس مضمون کو ختم کروں اس لئے نہیں کہ مضمون ختم ہو سکتا ہے.اس لئے کہ پھر ان عمومی دائروں کو بیان کر دوں گا جن کی حدود میں رہتے ہوئے آپ کو غور کرنا چاہئے اور جو تعلق اپنے غور سے ہوتا ہے وہ بیان کردہ غور سے نہیں ہوتا.اس لئے تعلق باللہ کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو اسماء الہی پر غور کی دعوت دوں اور ان خطرات کی نشاندہی کروں جو آپ کے نقصان کا موجب بن سکتے ہیں اگر آپ اپنی چالاکیوں سے خدا کو پانے کی کوشش کریں یا اپنی سوچوں کو قرآن اور حدیث پر حاوی کرنے کی کوشش کریں.اگر ایسا کریں گے تو سخت ٹھوکر کھائیں گے اور ہمیشہ کے لئے ہلاکت بھی اس کا نتیجہ ہوسکتی ہے.مگر سوچ ضروری ہے اور اس سوچ کے نتیجے میں آپ جوں جوں خدا تعالیٰ کی ہستی کے قریب آئیں گے آپ کے اندر نئی تخلیق ہوگی.یہ وہ مضمون ہے جو شان کا مضمون ہے جو میں آپ کے اوپر کھولنا چاہتا تھا.کچھ پہلو میں نے بیان کر دیئے ہیں.کچھ آئندہ بیان کروں گا.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ بتا رہا ہے کہ ذات باری سے تعلق رکھو گے تو تمہاری بھی شانیں بدلیں گی جب اس کی ایک شان نئی جلوہ گر ہوگی تو غور کرنے والے پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور اس کے اندر بھی ایک نئی روشنی پیدا ہوگی تو لا متناہی روحانی ترقی کے لئے اسماء باری تعالیٰ پر غور ضروری ہے مگر ان احتیاطوں کے ساتھ جو قرآن نے اور آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مگر زمانے کا میں نے آپ کو سمجھا دیا ہے کہ زمانہ پایا بھی جاتا ہے مگر ان معنوں میں جو خدا کی ذات کے منافی نہیں ہیں اور ذات میں اس کی کوئی تبدیلی نہیں ہے اور ہمیشہ کے لئے ویسا ہی ہے.
174 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 175 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء خدا ایسا زمانہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں.اللہ کے لفظ سے صفات پھوٹتی اور اسی کی طرف واپس لوٹتی ہیں.( خطبه جمعه فرموده 17 / مارچ1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَدْرَؤُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ لَهُ مَقَالِيدُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (الشورى: 12 13) پھر فرمایا: وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہارے اپنے نفوس میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی یعنی انعام میں سے،مویشیوں میں سے بھی جوڑے بنائے تمہیں وہ زمین سے آگا تا ہے یعنی لفظی ترجمہ ہے بیج ڈال کر جس کو اگایا جاتا ہے اس کے لئے لفظ ’ذرع‘استعمال ہوتا ہے تو وہ زمین میں تمہیں آگاتا ہے یعنی پرورش فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ ءٍ اس جیسا اور کوئی نہیں ہے.ان تمام صفات میں کچھ ملتی جلتی باتیں تمہیں دکھائی دیں گی مگر در حقیقت مخلوق کی صفات سے خدا کی صفات کا ملہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے.اس کے مقاصد کا کچھ شعور حاصل ہو جاتا ہے.جتنا وہ چاہے، مگر ذات کا فہم ناممکن ہے کیونکہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ ءٍ اس جیسا کوئی اور
خطبات طاہر جلد 14 176 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء نہیں وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اور سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے اور بہت سننے والا اور بہت دیکھنے والا ہے.اس سے پہلے یہ بیان فرما کر یہ بھی ظاہر فرما دیا کہ تمہاری سماعت کی طاقتیں اور طرح کی ہیں اللہ تعالیٰ کی سماعت کی طاقتیں اور طرح کی ہیں یہ جو تم دیکھنا کہتے ہو وہ اور چیز ہے.جسے خدا د یکھنا کہتا ہے وہ اور مضمون ہے کیونکہ اس جیسا کوئی نہیں.لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں یعنی کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکتا، کوئی عقدہ کھل نہیں سکتا جب تک کہ خدا کوئی کنجی نہ تھمائے.اس کے بغیر خدا کا تصور کامل ہونا تو بہت دور کی بات یعنی ناممکن ہے، اس کی مخلوق کا تصور بھی درست نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان کو سمجھنے اور حل کرنے کی کنجیاں عطا نہ کرے.يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاءُ جس کے لئے چاہتا ہے اپنا رزق بسیط فرما دیتا ہے اس کو پھیلا دیتا ہے، کھول دیتا ہے.وَيَقْدِرُ اور تنگ بھی کرتا ہے اور اندازے بھی مقررفرماتا ہے.بے حساب بھی دیتا ہے اور ناپ تول کر بھی دیتا ہے.اِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمٌ یقیناً وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے.عید سے پہلے خطبے میں اور عید کے خطبے میں یہ مضمون شروع ہو چکا تھا اگر چہ پہلے خطبے میں لیلتہ القدر کی بات تھی مگر در حقیقت اس مضمون کا آغاز وہاں سے شروع ہو چکا تھا اور عید کے خطبے میں میں نے کھول کر بیان کیا تھا کہ نسبتا اور پھر گزشتہ خطبے میں اسی مضمون کو سمجھانے کے لئے فلسفی جس راستے سے خدا تک پہنچنے یا خدا کے نہ ہونے کا نتیجہ پیدا کرنے کے لئے کوششیں کرتے رہے ہیں ان سے متعلق میں نے مختصر اذکر کیا تھا.اس وقت مجھے خود محسوس ہو رہا تھا کہ وہ جو سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے کم ہی ہیں جو اس مضمون میں میرا ساتھ دے رہے ہیں اور جو دور بیٹھے ہوئے مختلف علوم کے درجوں پر ہیں ان کے متعلق مجھے کافی رحم آ رہا تھا کہ یہ بے چارے کس مصیبت میں پھنس گئے لیکن میری بھی ایک مجبوری تھی اور ہے.یہ مضمون ایسا ہے کہ اس راستے سے گزرے بغیر ان آیات کی تشریح نہیں ہوسکتی تھی جو میں نے آغاز میں تلاوت کی تھیں.لا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ (الانعام: 104) میں نے بتایا تھا کہ انسانی آنکھیں کیسی ہی روشن کیوں نہ ہوں، انسانی نظر کیسی ہی تیز کیوں نہ ہو، خود اپنی کوشش سے
خطبات طاہر جلد 14 177 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء خدا کی ذات کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اس ضمن میں انسانی کوششوں کی کچھ مثالیں دین لا زم تھا اور ان میں سے بھی میں نے وہ مثالیں چنیں جو دنیا کے چوٹی کے فلسفے ، جن کے ناموں کا تمام دنیا میں شہرہ ہے اور کوئی دنیا کا حصہ نہیں جہاں ان کا نام نہ پہنچا ہو اور زمانے گزر گئے مگر ان کی عقل و دانش اور منطقی جو صلاحیتیں تھیں ان کو کسی نے ناقص نہیں دیکھا، ناقص نہیں پایا ، بلکہ آج بھی ، آج کل کے فلسفے بھی ان کی اتباع کرتے ہیں اور بہت سے موجودہ دور کے فلسفے انہیں کے فلسفوں کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں.اشتراکیت کا فلسفہ بڑی وضاحت کے ساتھ ارسطو کے مضامین میں ملتا ہے اور افلاطون اور ارسطو دونوں ہی دراصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں.افلاطون جن باتوں کا آغاز کرتا ہے ارسطو ان کو آگے بڑھا دیتا ہے اور پھر زیادہ گہری چمک پیدا کرتا ہے.زیادہ واضح استدلال کے ساتھ ان کے اندر فرق پیدا کرتا ہے.یہ باتیں ان کی طرف منسوب کر کے خدا تعالیٰ کے تعلق میں مجھے لازماً کہنا تھیں ورنہ آپ کو نہ سمجھ آتی کہ لا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ کا مطلب کیا ہے؟ پس اتنی بات تو آپ کو سمجھ آگئی اور یہی کافی ہے.ارسطو اور افلاطون اور اس جیسوں کے فلسفے سمجھ آئیں یا نہ آئیں آپ نے کچھ نہیں کھویا ، اگر یہ بات جان جائیں کہ جو کچھ انہوں نے پانے کی کوشش کی ، اپنی ذات کی کوشش سے وہ ایسی نہیں کہ اسے نہ سمجھ کر آپ نے کچھ کھودیا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی بھی غور ممکن نہیں جب تک خدا اس کی خود مدد نہ فرمائے اور اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی ذات کی فہم انسان کو عطا ہو سکتی ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور اجازت دے اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے.پس اب جب آپ سوچیں کہ اس خطبے میں میں کیا باتیں کہہ رہا تھا.جس خدا کے تصور تک ارسطو پہنچا ہے بالآخر وہ ایک فلسفہ ہی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.ایک منطقی تصور ہے جس کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق قائم نہیں ہوتا کوئی تخلیقی تعلق قائم نہیں ہوتا، کوئی شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا، انسان اس کے سامنے جھکتا نہیں ہے اور وہ تصور وہیں ٹھہر جاتا ہے آگے مسائل کو حل نہیں کرتا.گویا ایک مسئلہ ہے جسے حل کیا گیا ہے.مگر قرآن جس خدا کا ذکر کرتا ہے وہ تمام مسائل کا حل کرنے والا ہے.وہ ایسی خوبیوں کا مالک ہے کہ اس سے بے اختیار محبت ہونا ایک طبعی امر ہے اور تمام فیض اسی کا جاری ہے اور اس سے تعلق کے نتیجے میں اس فیض کو بڑھایا جا سکتا ہے.پس وہ خدا جس کو قرآن نے ظاہر کیا ہے یعنی اللہ نے اپنے وجود کا قرآن میں تعارف فرمایا
خطبات طاہر جلد 14 178 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء وہ اور چیز ہے اور فلسفیوں کا حاصل کردہ خدا ایک اور چیز ہے.زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ خدا تک پہنچے کسی حد تک بھی گرتے پڑتے لیکن ایک کوشش تھی.ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا وہ خوش قسمت ہے جو گر پڑ کے اس مجلس میں جا پہنچے.کبھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے جالیئے پہنچے تو ہیں مگر یہ توفیق نہیں ملی کہ کبھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے جالیٹے یہ اہل اللہ ہی کو تو فیق ملتی ہے.ان کو ملتی ہے جو قرآن سے خدا کا تصور حاصل کرتے ہیں اور قرآن کے ساتھ اس تصور میں آگے فلسفے اور منطق کی باریکیاں آئیں نہ آئیں مقصد حاصل ہو گیا.اب جب میں خدا کا تعارف کرواؤں گا جو اللہ نے خود قرآن میں فرمایا ہے، جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدا داد گہرے عرفان سے لے کر ہمارے لئے نسبتاً آسان زبان میں فرمایا.نسبتاً آسان زبان اس لئے کہ وہ زبان بھی بہتوں کے لئے مشکل ہے لیکن براہ راست اگر سمجھیں گے تو بہت مشکل معاملات تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان میں وہ نسبتا آسان ہو گئے ، اتنے آسان ہو گئے کہ غور کریں اور بار بار مطالعہ کریں تو وہ سمجھ آسکتے ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات کو بار بار پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے.ایک تو یہ تھا میرا تاثر اور اس کی میں نے وجہ بتائی ہے کہ وہ مجبوری تھی اس کے بغیر چارہ نہیں تھا اور ایک فائدہ تو بہر حال حاصل ہوا ہے.میں نے یہاں جب پتا کروایا کہ لوگوں سے پوچھو تو سہی کہ کیا حال ہوا تو عورتوں کی طرف سے تو یہی رپورٹ ملی کہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے یہ کہا کہ جی سب اوپر سے گزرا ہے اور مردوں کی طرف سے مختلف آراء تھیں.ایک نے کہا کہ ہم خوب سمجھ گئے تو بعض نے کہا کہ کچھ سمجھ آئی بڑا زور لگا نا پڑا.بعض نے کہا کہ بس تبر کا بیٹھے رہے ہیں بس اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوا.مگر باہر سے جو خطوط آئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ دور بیٹھے کوئی افریقہ کے ملک میں، کوئی جاپان میں کوئی کسی اور جگہ ان مضامین کو بڑے غور سے سن کر سمجھ بھی چکا ہے بہت حد تک اور ان کے تبصروں سے پتا چلتا ہے کہ مسلسل وہ مضمون میں ساتھ دیتے رہے اور اس مضمون سے اور بھی باتیں پھوٹیں.
خطبات طاہر جلد 14 179 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء چنانچہ ایک خاتون کا خط آیا ہے جس میں اس نے کہا کہ آپ جو بات بیان کر رہے ہیں کیا یہ جائز ہوگا میرے لئے کہ اس کے طبعی نتیجے کے طور پر یہ بھی نتیجہ نکالوں.بہت باریک نتیجہ تھا اور بعینہ وہی نتیجہ آخر میں نے آپ کے سامنے پیش کرنا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی جلا عطا کی ہے وہ سمجھ گئیں اور وہ نتیجہ نکالا.کچھ اس میں کمزوری تھی وہ بہر حال درست کر دی جائے گی مگر یہ پہنچ بھی بڑی چیز ہے.ایک ہمارے فلسطین کے مبلغ ہیں انہوں نے ایسی چیز کی طرف توجہ دلائی جو میں نے بیان کرنی ہی تھی اور جب میں وہ پیش کر رہا تھا تو اسی وقت مجھے احساس تھا کہ یہ سوال پیدا ہوگا اور ہونا چاہئے اور اس کا حل پیش کرنا چاہئے.چنانچہ انہوں نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ یہ سنتے ہوئے بہت سے مسائل حل ہوئے لیکن ایک سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے اس کا بھی جواب دیں تو میں وہیں سے آج بات شروع کرتا ہوں.انہوں نے لکھا ہے کہ آپ نے جو مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی فرمایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ صفات باری تعالیٰ میں زمانہ نہیں پایا جاتا تو مالک کی صفت تو زمانے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے.یعنی قیامت کے دن وہ مالک ہو گا گویا اب مالک نہیں ہے.تو اس سوال میں کچھ سچائی اس حد تک تو پائی جاتی ہے کہ زمانے کے ساتھ اس صفت کو باندھا گیا ہے.پہلی صفات کو نہیں باندھا گیا.اللہ تو اسم ذات ہے.اللہ، پھر رب ، پھر رحمن اور رحیم.لیکن کسی کے ساتھ کوئی زمانے کا تعلق قائم نہیں فرمایا.جب مالک کہا تو ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کہ دیا اور يَوْمِ الدِّینِ کی تعریف کیا ہے.دیکھیں اس میں کس حد تک زمانہ پایا جاتا ہے اور وہ پہلے معانی سے معارض ہے جو میں نے تعریف کی تھی کہ زمانہ دراصل اسی حد تک خدا کی ذات میں قابل اعتراض ہے جس حد تک اس کی ذات میں تبدیلی پیدا کرنے کا تقاضا کرے اور یہی حقیقی تعریف ہے زمانے کی جو خالق کو مخلوق سے الگ کرتی ہے.جس ذات میں تبدیلی ہورہی ہے اس کا آغاز بھی ہے اس کا انجام بھی ہے ناممکن ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہ ہو.جس ذات میں تبدیلی نہیں ہو رہی وہ ذات ہمیشہ کے لئے قائم ہے اس کا کوئی کنارہ پکڑا جاہی نہیں سکتا.عقل کے منافی بات ہے لیکن اس کے سوا زمانے کے جتنے مطالب ہیں اور اچھے ہیں ان کا خدا سے تعلق ہے.ایک تعلق یہ ہے کہ مخلوق کے زمانے کے ساتھ ساتھ اللہ اپنی جلوہ گری
خطبات طاہر جلد 14 180 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء فرماتا ہے جو اس کی ذات میں ہمیشہ سے صفات کے طور پر موجود ہے.لیکن مخلوق کی طلب ،ان کے حالات ان کی قدروں کے مطابق، ان کے ظرف کے مطابق، جب وہ جلوے دکھاتا ہے تو اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی.گویا مخلوق کی تبدیلیاں خدا تعالیٰ کے تعلق میں مختلف صورتیں اختیار کرتی رہتیں ہے.کوئی تبدیلی منفی صورت میں جاری ہیں اور وہ تعلق توڑنے کا موجب بنتی چلی جاتی ہے، کوئی تبدیلیاں مثبت سمت میں جاری ہیں اور وہ تعلق بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہیں.تو اللہ دونوں سے برابر جلوہ گری میں اس بات کو پیش نظر رکھتا ہے یعنی بیک وقت وہ گرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق گراتا چلا جاتا ہے.یہ بھی اس کا ایک جلوہ ہے اور بیک وقت ، اسی وقت میں جو تعلق بڑھانے کا استحقاق رکھتے ہیں ان سے تعلق بڑھاتا چلا جاتا ہے.تو زمانہ ان معنوں میں نہیں پایا جاتا جن معنوں میں مخلوق میں پایا جاتا ہے.بیک وقت ایک انسان یہ نہیں ہوسکتا کہ اوپر ہی چڑھ رہا ہو، نیچے بھی گر رہا ہو.یہ دو ایسی حالتیں ہیں جو حادث حالتیں کہلاتی ہیں اور ان کا اجتماع انہیں میں ممکن ہے جن میں زمانہ پایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات جو زمانوں سے پاک ہے ان معنوں میں تو پاک ہے جو میں نے بیان کی ہے.مگر زمانے کے بعض معنے مخلوق کے حوالے سے اس میں ملیں گے آج ایک تعلق ہے کل دوسرا تعلق ہے.پرسوں تیسر اتعلق ہے مگر صفات وہی ہیں اور تعلق کے بدلنے کی وجہ مخلوق کی تبدیلی ہے نہ کہ خالق کی تبدیلی.تو ایک یہ مضمون ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کو زمانے سے کیوں باندھا گیا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے.اول مطلب تو اس کا وہی ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے اور اسی مطلب میں دوسرے مطلب بھی آجاتے ہیں ثُمَّ ما ادريكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَيذٍ لِلهِ ( الانفطار 20،19) وہ وقت یا وہ دور جبکہ لا تملك نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا کوئی ذات کسی چیز کی بھی کسی جان کے لئے بھی اپنے لئے یا غیر کے لئے مالک نہیں رہے گی وَ الْاَمْرُ يَوْمَبِذٍ لِلهِ - الامر میں کلہ کا مضمون شامل ہے.تمام تر فیصلے کی طاقتیں اور ملک کی طاقتیں خدا کی طرف لوٹ جائیں گی اور کسی اور میں نہیں پائی جائیں گی.اس مضمون میں ایک زمانہ بظاہر پایا جاتا ہے.مگر اس پر جب آپ مزید گہرا غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان معنوں میں زمانہ نہیں جو تبدیلی ذات کا مظہر ہو.
خطبات طاہر جلد 14 181 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء دراصل اس آیت پر غور سے آپ کو سمجھ آئے گی کہ ملک اللہ ہی کا ایک دوسرا نام ہے.اللہ ہی سے تعارف شروع ہوا ہے.اَلْحَمدُ لِله اور ملک پر یہ تعارف کمال کو پہنچا ہے.جس طرح قرآن کریم جیسے آغاز فرماتا ہے اس مضمون پر انجام فرماتا ہے.اسی طرح سورۃ فاتحہ کی یہ پہلی تعارفی آیت جس مضمون سے بات کو شروع کرتی ہے.اس مضمون کو بدرجہ کمال وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے بعد اسی پر اختتام فرماتی ہے.اللہ کا کیا مطلب ہے اس مضمون کی طرف میں اس کے بعد آؤں گا پھر بات اور بھی زیادہ کھل جائے گی.لیکن یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس ملِكِ يَوْمِ الدین کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف آخرت کا دن، مرنے کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا جبکہ وہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہوگا.اس دنیا میں مسلسل یہ يَوْمِ الدِّینِ بعض انسانوں کے لئے بعض قوموں کے لئے آتا چلا جاتا ہے.اور کبھی بھی زمانہ يَوْمِ الدِّینِ سے خالی نہیں ہے.ایک انسان جب موت کے کنارے پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ اس کا يَوْمِ الدِّينِ آجاتا ہے.يَوْمِ الدِّينِ کا مطلب ہے.وہ ان صفات سے عاری ہو جاتا ہے، ہو رہا ہے جو صفات اس نے اللہ تعالیٰ سے حاصل کی تھیں اور اپنی ذاتی بنا بیٹھا تھا.کلیہ ان صفات کو اس سے جو واپس لینے کا وقت آ رہا ہے یہ اس کا يَوْمِ الدِّینِ ہے.اور وَالْأَمْرُ يَوْمَبِذٍ لِلهِ یعنی یہ مضمون که امر سارا اللہ ہی کے لئے ہے یہ اس وقت بہت کھل کر ہمارے سامنے آتا ہے.پھر قوموں کے عروج اور تنزل کی تاریخ کو دیکھیں ان کا يَوْمِ الدِّینِ ہماری آنکھوں کے سامنے تاریخ میں لکھا ہوا صاف موجود ہے کہ کس قوم کا یومِ الدین کس وقت آیا اور کس وقت خدا کی پکڑ نے ان کو اپنی تمام طاقتوں سے عاری کر دیا.وہ نہتی ہو کر پھر اپنی اس ادبی حالت کی طرف لوٹ گئیں جہاں سے اللہ نے ان کو ترقی دی تھی.تو کوئی امرکسی کے لئے ذاتی امر نہیں ہے، کوئی ملکیت اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہے.پھر جب انسان مرتا ہے تو اپنی جائیداد کا مالک کیسے رہتا ہے.اس کو یوم الدین تو آ گیا.اگر ظاہری جائیداد کے معنے لئے جائیں صفات کے علاوہ وہ بھی سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا تو ہماری ی ملکیتیں بھی عارضی ہیں ، ہماری صفات بھی عارضی ہیں اور يَوْمِ الدِّینِ خدا کا ہر آن ہرلحہ جاری وساری ہے اور اس کو اگر آنکھیں کھول کر آپ غور سے دیکھیں تو کائنات کے تمام
خطبات طاہر جلد 14 182 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء مظاہر میں يَوْمِ الدِّینِ دکھائی دیتا ہے.ہر چیز ساتھ ساتھ جز ابھی پارہی ہے اور سَرِيعُ الْحِسَابِ ( آل عمران : 20) کا یہ مطلب ہے.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَرِيعُ الْحِسَابِ اور قیامت کے دن پکڑے جاؤ گے تو سَرِيعُ الْحِسَابِ کیسے ہوا.سَرِيعُ الْحِسَابِ یہ ہے کہ ساتھ ساتھ وہ جزا کا نظام جاری کرتا چلا جاتا ہے اور وہ جزا ہمیں دکھائی دے یانہ دے تمہاری تقدیر میں لکھی جارہی ہے اور فیصلے ہور ہے ہیں تمہاری روح کی ایک منحوس شکل بھی بن رہی ہے جو جہنم کے لائق ہے ایک حسین اور دلکش شکل بھی بن رہی ہے جو جنت کے لائق ہے اس کی تیاریاں ہیں.ایک انسان کائنات میں جو قدرت کے مظاہر کو دیکھے ، اس کے عمل کو دیکھے تو سارا یومِ الدِّینِ ہی ہے اس کے سوا ہے ہی کچھ نہیں.اس آیت کے تعلق میں جب ہم دوبارہ چلتے ہیں تو اللہ دراصل تمام صفات حسنہ یا تمام اسماء کا منبع بھی ہے اور مرجع بھی ہے.اللہ کے لفظ سے صفات پھوٹتی ہیں اور اللہ ہی کی طرف واپس لوٹتی ہیں.پس اللہ کے تعلق میں فرمایا وہ رب العلمین ہے اور ہم نے دیکھا کہ وہ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو ہے مگر کچھ لوگ بھی رب بنتے ہیں اور ربوبیت میں کچھ نہ کچھ حصہ پاتے ہیں.رحمن ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مائیں بھی رحمن ہیں اور دوست بھی اور اقارب بھی اور محبت میں مبتلا لوگ بھی رحمان ہو جاتے ہیں.وہ اچھا بدلا دینے والا اور بار بار بدلہ دینے والا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مزدوروں سے بھی حسن سلوک کرتے ہیں، بہت احسان کا سلوک کرتے ہیں ان کے حقوق سے بڑھ کر ان کو بدلہ دیتے ہیں تو رحیمیت میں بھی ایک قسم کا حصہ پاگئے.مگر ان سب باتوں کے باوجودان پر زور نہیں ڈالا.مالک پر جوز ور ڈالا ہے اس کی دو وجوہات ہیں.ان چیزوں میں وہ حصہ تو پاتے ہیں مگر تھوڑے خوش نصیب ہیں جو کچھ حصہ پاتے ہیں اور وہ بھی عارضی اور معمولی سا.اس کے باوجود مالک سب بنے بیٹھے ہیں اور ملکیت میں کسی غیر کو برداشت نہیں کرتے اور تمنا بھی یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے مالک بن جائیں.تو مالک کی صفت ان کی ذات میں اتنا جوش دکھاتی ہے کہ ہر دوسری صفت پر غالب ہے اور جو کچھ ان کا ہے بڑے تکبر اور غرور سے کہتے ہیں یہ ہمارا ہے، خواہ بچہ ہو، خواہ تعلق والی کوئی قو تیں ہوں، ان کے لیڈر کہتے ہیں.یہ ہماری قوم ہے، یہ ملک ہمارا ہے.یہ سب ملکیت کے دعوے ہیں جن پر ساری دنیا میں جنگیں اور لڑائیاں اور ایک دوسرے سے مقابلے جاری ہیں لیکن رحمن کا دعوی کوئی انسان
خطبات طاہر جلد 14 183 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء شاید ہی کرے کیونکہ اس کے تقاضے بہت ہیں.ہر دعوے کے ساتھ ایک فیض کا پھوٹنا لا زم ہے.وہ سمجھتے ہیں مالک کے ساتھ کوئی فیض کا پھوٹنا یعنی ہماری طرف سے فیض جاری ہونے کا مضمون کوئی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ مالک کا یہ مضمون سمجھ آجاتا ہے کہ جو چاہے کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٹھیک ہے مالک ہے ہم جو چاہیں کریں.تو جو چاہیں کرے تو وہ چاہتے ہیں کہ بن جائیں تو وہ بن جاتے ہیں اور جو چاہیں کریں کی خواہش ایسی ہے کہ نہ دنیا کا قانون پھر دیکھتے ہیں نہ خدا کا قانون دیکھتے ہیں دنیا میں مالک بنے بیٹھے ہیں اور جتنے فساد ہیں دنیا میں وہ بالآخر ملکیت سے تعلق رکھتے ہیں وہ جھوٹی ملکیتیں یا ان کا تصور یا ان کی خواہشات جو انسانی فطرت میں ہمیں جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں جب بھی وہ عمل دکھاتی ہیں تو دنیا میں فساد پھوٹتا ہے اور اس وقت رحمانیت ، ربوبیت اور رحیمیت سے ہمیشہ ان کا تعلق کرتا ہے.تو رحمانیت اور رحیمیت اور ربوبیت سے تو انسان خود ہی تعلق توڑے بیٹھا ہے اور روزمرہ آئے دن ہمیں دکھائی دیتا ہے بڑی بڑی قومیں ، امیر قومیں جب ان کو ربوبیت کے مواقع ملتے ہیں غریب قوموں کی ربوبیت نہیں کرتیں.کبھی کرتی ہیں کبھی نہیں کرتیں مگر شیوہ نہیں ہے لیکن ملکیت کا ایسا شیوہ ہے کہ کوئی چھوٹا سا جزیرہ بھی ہاتھ آئے تو مجال ہے جو اسے ہاتھ سے جانے دیں.اور اس معاملے میں اپنے ہم عصروں اور اپنے رقیبوں اور اپنے ساتھیوں اور اپنے ہم پلہ لوگوں سے بھی لڑائیاں مول لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کہ کہ فرمایا ہے کہ اس دنیا میں تمہیں یہ دھو کے لگے ہوئے ہیں.کہتے ہو کہ رب تو وہ ہے مان جائیں گے ، رحمان بھی مانیں گے، رحیم بھی مگر مالک ہم ہیں اور ملکیت میں ہمیں پورا اختیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ تم غور کر کے دیکھو تو دراصل جب بھی نتائج کا وقت آتا ہے خدا ہی مالک ہوتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور آخرت کے حوالے سے اسی زمانے کے حوالے سے جب مالک فرمایا گیا ہے تو اس کا تعلق ان تمام صفات حسنہ سے بھی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہیں.وہ وقت ہوگا جب رحمانیت کی صفت بھی کامل طور پر خدا کی طرف لوٹ جائے گی.وہ وقت ہوگا جب رحیمیت کی صفت بھی کامل طور پر خدا کی طرف لوٹ جائے گی.ہر دوسرا تمام صفات سے عاری ہو جاتے.وہ جو بعض دائروں میں مالک بنے بیٹھے ہیں وہ کسی دائرے میں بھی مالک نہیں رہیں گے اور یہ مضمون ہے آخری موت کا مضمون جو حقیقی معنے رکھتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 184 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء سائنس دانوں کو سمجھانے کی خاطر میں بلیک ہول Black Hole کی مثال ان کے سامنے رکھ سکتا ہوں.جو Physicist بلیک ہول کا تصور پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں ، وہ یہ خوب جانتے ہیں کہ دراصل بلیک ہول نام ہے صفات سے عاری ہونے کا اور موت کی حقیقی تعریف یہی ہے کہ صفات سے عاری ہو جائے.اگر صفات سے عاری ہو جائے چیز تو وہ عدم ہے.پھر وہ وقت کہ خدا کے سوا سب کچھ عدم ہو جائے گا، کسی کی کوئی ذاتی صفت باقی نہیں رہے گی اور اس وقت اگر کسی بندے پر رحم کرتے ہوئے خاص محبت کے نتیجے میں وہ استثنائی سلوک فرمائے گا تو اس حد تک وہ خدا کی صفات کا جلوہ گر رہے گا جس حد تک اللہ نے اس کو امتیاز بخشا ہے، اس سے زیادہ کسی کی کوئی ذاتی صفت باقی نہیں رہے گی یعنی خدا کی دی ہوئی صفت بھی واپس اللہ کی طرف لوٹ جائے گی.تو مالک دراصل اللہ ہی کا دوسرا نام ہے ان معنوں میں کہ اللہ سے تعارف کا آغاز فرمایا اور اللہ کا دراصل مطلب ہے الا لہ کامل معبود، ایک ہی معبود جس کے سوا اور کچھ نہیں.یہی ہے اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں.یہ جو بحث ہے اس میں کچھ میں مزید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے اور بعض دوسروں کے حوالے سے آپ کو سمجھاؤں گا.سر دست یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ میں مالکیت کا تصور بدرجہ اتم پایا جاتا ہے.پس اللہ سے ذکر شروع کر کے جب ”رب فرمایا تو اس میں بہت سے لوگ رب بنتے ہوئے دکھائی دیئے جو واقعہ ربوبیت کرتے ہیں.بعض امیر قومیں غریب قوموں کی ربوبیت کرتی ہیں.مائیں اپنے بچوں کی ربوبیت کرتی ہیں.باپ اپنی بیویوں اور بچوں کی ربوبیت کرتے ہیں.دوست عزیز اپنے اقارب کی ربوبیت کرتے ہیں.ربوبیت کا نظام تو ساری کائنات میں جاری ہے.ایک زمیندار ربوبیت کر رہا ہے جب آپ کے لئے وہ فصلیں اگاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ وہ ہے جو رب العلمین ہے وہ سب جہانوں کا رب ہے درحقیقت وہی رب ہے اور تمہیں وہم ہے کہ تم بھی ربوبیت کی کچھ مثالیں اپنے اندر رکھتے ہو.رحمان بھی وہی ہے اور رحیم بھی وہی ہے.یہ تمام باتیں کھل کر روز روشن کی طرح اس وقت تمہیں سمجھ آئیں گی جب يَوْمِ الدِّينِ آئے گا.جب اللہ کے سوا کوئی مالک نہیں رہے گا.مالک پہلے بھی نہیں مگر اب میں دوسرے يَوْمِ الدین کی بات کر رہا ہوں.روز مرہ کا یومِ الدِّینِ ہے وہ اگر تم نہیں دیکھ سکتے نہیں سمجھ سکتے تو ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ نہ اس کے سوا کوئی رب رہے گا اور ربوبیت کی ادنی سی بھی صفت اس
خطبات طاہر جلد 14 185 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء میں موجود نہیں ہوگی.یعنی اس کے لئے جو Event Horizon ہے جبکہ تمام صفات سے چیزیں عاری ہو جاتی ہیں.تو جیسے مادی دنیا کا ایک بلیک ہول ہوتا ہے اسی طرح روحانی دنیا کا ایک بلیک ہول آنے والا ہے جس میں تمام مخلوقات ایک غشی کی حالت میں ہوں گی.پھر جب خدا اپنے جلوے دکھائے گا تو جو اسرافیل کا صور پھونکنا ہے، دوسراصور، اس سے مراد یہ ہے کہ از سر نو صفات تقسیم ہوں گی اور از سرنو جو صفات تقسیم ہوں گی وہ آنکھیں بند کر کے ہر ایک کو اسی طرح واپس نہیں کر دی جائیں گی جیسے اس نے سنبھالی ہوئی تھیں وہ استحقاق پر ہوں گی.جس نے حقیقۂ رب سے تعلق رکھا تھا تو اس وقت اس کو ربوبیت کی صفات عطا کی جائیں گی ، وہ کن معنوں میں ہیں اس کی تفصیل ہم نہیں جانتے.مگر ایک مثال حضرت ابراہیم کی صورت میں ہمیں آنحضرت ﷺ نے سمجھائی ہے جس کا مطلب ہے کہ ربوبیت کی کچھ شکلیں وہاں ضرور جاری ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپ نے جو روحانی دنیا کی سیر کی ہے اس میں یہ دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام بہت لمبے قد کے ہیں اور آپ کے سپرد ان سب بچوں کی تربیت ہے جو بلوغت کی عمر سے پہلے جبکہ شریعت ان پر نافذ نہیں ہوئی تھی اس سے پہلے دنیا سے چلے گئے.ان کی تربیت کی کیا ضرورت ہے وہ تو معصوم ہیں.اس میں حکمت یہ ہے که معصوم نہ صرف سزا کا مستحق نہیں ہوتا مگر جزا کا بھی مستحق نہیں ہوتا.وہ معصومیت جو نا طاقتی کے نتیجے میں ہے اس معصومیت کی نہ جزاء نہ سزا.تو وہ سزا جزا کے دور سے گزرنے کے نتیجے میں جو صلاحیتیں چمکتی ہیں اور جن سے قرب الہی گہرائی میں اتر کر نصیب ہونا شروع ہوتا ہے ، وہ تعلق معصومیت کی حالت میں نہیں ہوتا یعنی وہ معصومیت جو بلوغت سے پہلے کی معصومیت ہے.اس کے متعلق فرمایا کہ وہ کمی جو رہ گئی تھی ان کے نشو ونما میں ، قیامت کے بعد جب فیصلے ہو چکے ہوں گے، ابراہیم علیہ السلام کے سپر دیعنی ابراہیمی طاقتیں جن سے طیور کی آپ نے پرورش فرمائی تھی وہ طاقتیں ہیں ابراہیم علیہ السلام کی جو اس وقت جلوہ گر ہوں گی اور ان بچوں کی روحوں کی تربیت کریں گے.اگر کوئی یہ کہے کہ وہاں تربیت کا مضمون ہی کوئی نہیں رہتا تو میں اس کو بتاتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر اور کون سمجھتا ہے.باقی کیسے مربی ہوں گے ہم نہیں جانتے مگر یہ میں جانتا ہوں کہ ابراہیم مربی ہیں تو محمد رسول اللہ ضرور مربی ہوں گے کیونکہ وہ سب مربیوں سے افضل ہیں سب سے زیادہ ربوبیت
خطبات طاہر جلد 14 186 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء کی صفات آپ نے حاصل فرمائی تھیں تو اگر بچوں کی تربیت پر مامور ہیں تو آنحضرت ﷺ اس دور میں اپنی امت کی اور بالغ لوگوں کی جو بالغ ہو کر مرے ہیں ان کی کسی نہ کسی رنگ میں تربیت فرمار ہے ہوں گے اور یہ بھی جنت کے مشاغل میں سے کچھ مشاغل ہیں.تو مراد یہ ہے کہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا ایک جلوہ ہے کلیۂ نہتہ کر دینے کا ہر چیز جس کو انگریزی میں کہتے ہیں As you were اپنے اصل کی طرف لوٹ جائے گی.Square One جہاں سے کام شروع ہوا تھا، اللہ سے تعارف شروع ہوا، مالک پر وہ تعارف دوبارہ اللہ کی ذات میں جا کر ختم ہوا.ویسا ہی نظارہ ہوگا تمام کائنات اپنی صفات سے کلیۂ عاری ہو جائے گی.یہ وہ موت ہے جو کامل موت ہے.اس موت سے پھر دوبارہ نشو و نما ہوگی اور صور پھونکنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بگل بجایا تو مردے جی اٹھیں گے.خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کا پھوٹنے سے تعلق ہے فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (الحجر: 30) جب میں اپنی روح پھونکوں گا آدم میں تب تم نے اس کو سجدہ کرنا ہے.تو وہ بگل کا بجانا اور یہ بنگل میں پھونکنا دراصل وہ صفات باری تعالیٰ ہے جو اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں.پس اس پہلو سے فرشتوں کے دو پہلو بنتے ہیں ایک وہ جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اور ایک وہ جو آخرت کے لئے مقرر ہیں.اللہ تعالیٰ چار صفات اپنی بیان فرماتا ہے.رب ، رحمان ، رحیم، مالک اللہ تو ذاتی اسم ہے اور چار صفات سے تعلق رکھنے والے فرشتے اس دنیا میں تمام عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں لیکن قیامت کے بعد جو عرش ہے اس کے متعلق فرمایا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَبِذٍ ثَمُنِيَةٌ (الحاقہ : 18).اس دن عرش کو آٹھ نے اٹھایا ہوا ہوگا.تو جس طرح ہم سے ایک روح نکلے گی جو اعلیٰ درجے کی روح ہوگی جو اس دنیا سے تعلق رکھنے کے لئے موزوں ہوگی.اسی طرح فرشتوں کا ایک اعلیٰ تر جلوہ رونما ہوگا.گویا چار کی بجائے آٹھ ہو جائیں گے اور یہ جود گنا جلوہ یا دوسری نوعیت کا جلوہ ہے یہ صوراسرافیل میں ظاہر فرمایا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی کچھ صفات ہیں جو ہم میں پھونکی گئیں جن سے ہم نے اس دنیا میں زندگی پائی ، اس دنیا سے ہم نے نشو و نما حاصل کی ، روحانی ترقیات کیں.وہ سب صفات واپس لوٹیں گی اور پھر بڑھا کر دی جائیں گی اور ہر ایک کو اس کا حصہ رسدی اس کے عمل کے، اس کے استحقاق کے مطابق
خطبات طاہر جلد 14 187 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء خدا تعالیٰ کے جلوے پھر بانٹے جائیں گے، یہ دوسرا صور ہے.پہلا صور زندگی بخش، ابتدائی زندگی والا بھی پہلا صور ہے اور موت کے وقت بھی ایک صور ہے جو واپسی کا حکم دے گا.پس اصل اسرافیل وہ ہے جو تمام زندگی آغاز سے پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے جاری کردہ نظام کا منتظم ہے، اللہ کی طرف سے مقرر فرمایا گیا ہے.زندگی پیدا کرنے کی ساری طاقتیں اور صلاحیتیں اور سارا نظام اس کے تابع کام کر رہا ہے اور یہ صور بھی روزانہ پھونکا جا رہا ہے، ہرلمحہ پھونکا جارہا ہے.جہاں موت زندگی میں بدلتی ہے وہاں یہ صور پھونکا جاتا ہے اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.وو پھر وہ صور جس کا احادیث میں ذکر ہے ، قرآن کریم میں بھی ذکر موجود ہے ، ایسا صور جس کے نتیجے میں سب کلیہ کا لعدم ہو جائیں گے.الا من يشاء سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو میں نے درس میں چھیڑا تھا ، ابھی اور اس پر تحقیق باقی ہے.میرے نزدیک وہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اٹھتے ہوئے دیکھا ہے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے.یعنی بہر حال یہ ابھی بحث طلب بات ہے کیونکہ اس حدیث پر جب تک تحقیق نہ ہو اور تنقیحات نہ قائم ہوں ہم یقینی طور پر ابھی کوئی اعلان نہیں کر سکتے.مگر قرآن کے مطالعہ سے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کے تعارف سے دل یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ من میں محمد رسول اللہ اللہ کے سوا کوئی اور مراد ہو.اگر استثناء ہے تو اس کا ہونا چاہئے جس کو سب کی شفاعتوں کی اجازت ہے، تمام انبیاء بھی اس سے شفاعت پائیں گے.اس ضمن میں ایک یہ بھی بات لوگ کہتے ہیں جی جزوی فضیلت تھی.میں اس کا بھی ذکر کر دیتا ہوں.ہمارے علماء جو خصوصاً پرانے علماء ہیں ان سے لے کر آج کل کے علماء بھی اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لئے کہتے ہیں یہ جزوی فضیلت ہے اور یہ ایک علماء کا موقف ہے اور اس سے انکار نہیں کہ بعض دفعہ نبی پر ایک غیر نبی کو ایک جزوی فضیلت ہوتی ہے.لیکن یہ مضمون وہ بھول جاتے ہیں جو نبی اور غیر نبی کے تعلق میں ہے.اگر نبیوں پر تعلق باندھیں گے تو پھر جزوی فضیلت کا مضمون یہ ہوگا کہ انبیاء کی جو اصل شان ہے اس شان میں تو کسی کو محمد رسول اللہ ﷺ پر فضیلت نہیں ہوسکتی مگر اس کی صلى الله ثانوی پہلوؤں میں، جو نسبتا ادنی پہلو ہیں، ان میں ہو سکتا ہے کسی اور رسول کو محمد رسول اللہ ﷺ پر وہ جزوی فضیلت ہو.مگر قیامت کے دن اس واقعہ کو جزوی فضیلت قرار دینا میری سمجھ سے بالا ہے.وہ
خطبات طاہر جلد 14 188 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء وقت جب تفریق کا وقت آئے گا، جبکہ اندھیروں اور روشنی کے درمیان فیصلے کئے جائیں گے اور ایسا وقت ہوگا کہ ساری کائنات کی توجہ گویا اس وقت پر مرکوز ہے.اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فضیلت دے دی تو جزوی فضیلت کیسے ہو گئی.یہ نفس کے بہانے ہیں یا اگر نفس کے بہانے نہیں تو متقی بھی ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں مگر ان کو زیادہ غور کا موقع نہیں ملا پھر.اس لئے میرا دل تو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ مان نہیں سکتا خواہ آپ اس کو جزوی فضیلت کہیں یا کچھ اور کہیں کہ قیامت کے دن اس استثناء میں جس میں ”من“ کا ذکر قرآن کریم فرماتا ہے کہ سب کلیتہ اپنی صفات سے عاری ہو جائیں گے سوائے اس ایک کے یا چند کے جن کو میں چاہوں، اس میں موسی تو ہوں محمد رسول اللہ ہوں.لازماً حدیث کے سمجھنے میں کوئی غلطی کی گئی ہے لیکن میں تحقیق کروا رہا ہوں الفاظ میں بھی غلطی ہو سکتی ہے بعض لوگوں کے اپنے جو تصورات ہیں یا سوچیں ہیں وہ بعض دفعہ ان کو بعض لفظوں کو سن کر بھی ان کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتیں.اس لئے وہ سمجھتے ہیں بعد میں شاید لفظ کہا گیا ہو.جو ہماری مرضی کے مطابق ہے، وہ نہیں کہا گیا ہوگا.تو ایسے واقعات حدیث میں ملتے ہیں ایک جگہ نہیں کئی جگہ ملتے ہیں تو انشاء اللہ اس کی تحقیق کی جائے گی مگر اب میں واپس اسی مضمون کی طرف آتا ہوں کہ ملکیت سے کیا مراد ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ سے کہ وہ تمام صفات جن کو خدا نے مخلوق کو عطا کر رکھا ہو گا ان کی بھی صف لپیٹ دی جائے گی.کلیپ مخلوق ان سے عاری ہوجائے گی سوائے ان کے یا اس کے جن کو اللہ چاہے کہ ان کو ہم نے اس سے عاری نہیں کرنا.صلى الله اور میرے اس موقف کی تائید میں کہ وہ محمد رسول اللہ ملے میں حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک قطعی فیصلہ کن تفسیر ہے جو اس موقف کی تائید کرتی ہے آپ فرماتے ہیں کہ پہلی صفات میں دوسرے نبی ان معنوں میں حصہ دار ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ان سے حصے عطا کئے.بعضوں کو رحمانیت کا مظہر بنایا بعضوں کور بوبیت کا مظہر بنایا، بعضوں کو رحیمیت کا مظہر بنایا مگر مالک صرف محمد رسول اللہ یہ بنائے صلى الله صل الله گئے ہیں.مالکیت کا مظہر سوائے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی اور نبی کو نہیں بنایا گیا اور یہ يَوْمِ الدِّینِ کا رسول ﷺ ہے.تو دونوں باتوں کی تائید ہوگی کہ ایک يَوْمِ الدِّینِ تو بعد میں آئے گا ایک يَوْمِ الدِّینِ ہے جو ابھی آچکا ہے یعنی آخری قیامت جو دنیا میں رونما ہونی تھی ،وہ عظیم انقلاب جس میں ساری دوسری صفات چھین لی جائیں گی اور ایک ملکیت کے نکتے پر اکٹھی
خطبات طاہر جلد 14 189 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء کر دی جائیں گی یہ اس طرح ظاہر ہوا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر سے میں نے سمجھا کہ تمام دوسرے نبیوں کے فیوض کے چشمے ختم کر دیئے گئے.ایک ہی چشمہ جاری رہا.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَيكَ رَفِيقًان (النساء: 70) کہ اب وہ بات نہیں کہ ہر چشمے سے جہاں سے تم چاہو فیض اٹھاتے پھرو.اب یہ قانون جاری ہوا ہے کہ جو اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا.فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ یہی وہ لوگ ہوں گے جو انعام یافتہ گروہ میں شامل ہوں گے.یعنی منَ النَّبِينَ نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے.تو مالکیت کا جلوہ دیکھیں ظاہر ہو چکا ہے.کون اس جلوے سے آنکھیں بند کر سکتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ نے روحانی طور پر یہ علم عطا فرمایا کہ نبیوں میں محمد رسول اللہ کے مالک ہیں اور کوئی نبی مالک نہیں ہے کیونکہ مالک وہ ہو سکتا ہے جو باقی سب کو بے فیض کر کے ساری طاقتیں اپنی ذات میں اکٹھی کرلے اور یہ توفیق اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا فرمائی ہے اور آپ کی ذات میں جلوہ گر ہوئی ہے.اس کے بعد آپ بتائیں کہ جزوی فضیلت آپ کیسے کہہ سکتے ہیں اس بات کو.یعنی محمد رسول اللہ اللہ اس وقت خدا تعالیٰ کی مالکیت کے جلوہ کا مظہر نہیں بنیں گے ،موسیٰ بن جائے گا.اس سے سب کچھ واپس نہیں لیا جائے گا.پس وہ جو اس دنیا میں مالک سچ ثابت ہو چکا ہے اس کو قیامت کے دن اس مالکیت سے محروم کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہوسکتا.علماء چاہے بخاری کی حدیثیں پیش کریں یا اور بھی جو کچھ لے کے آتا ہے انہوں نے لا ئیں.قرآن کریم کے اس مضمون سے جو سورۃ فاتحہ سے بھی ثابت ہے ، دوسری آیات سے بھی ثابت ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اس فتوے کے بعد جو اللہ سے علم پا کر آپ نے مالکیت کا مضمون بیان فرمایا ہے، اس کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی میرا دل یہ گوارا کر ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے کہ حضرت موسیٰ کو تو میں اس الله زمانے میں مالکیت کے جلوے کا حصہ دار اور اس میں شامل سمجھوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسا الگ سمجھوں کہ تمام صفات سے آپ کو محروم کر دیا گیا گویا آپ مالک نہ رہے.تو ضرور اس میں اور باتیں
خطبات طاہر جلد 14 190 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء صلى الله ہیں اس پہ اور بھی میں نے غور کیا.اس حدیث کے اندر، اس کے طرز بیان میں کچھ ایسے رخنے پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا کلام پوری طرح یہ نہیں ہوسکتا اس کے اندر دلائل موجود ہیں لیکن جب میں وہ مزید اور باتیں کچھ دریافت کروں ،غور کرلوں پھر انشاء اللہ آپ کے سامنے پیش کروں گا.تو اب اتنا میں بتاتا ہوں کہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے متعلق جو ان کو خیال گزرا ہے، ٹھیک خیال گزرا ہے.بظاہر زمانے کے ساتھ تعلق ہے مگر ان دو معنوں میں دراصل اس کا زمانے کے ساتھ تعلق ہونا خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات سے منافی نہیں ہے کیونکہ ایک تعریف جو ہم نے بیان کی یہ مطلب تو نہیں کہ وہ لازماً خدا اس تعریف کا پابند ہی ہو گیا ہے.وہ تعریف ایک حد تک خدا کی ذات پر صادق آتی ہے اور اسی حد تک صادق آتی ہے جس حد تک اس کی سبحانیت کو زخمی نہیں کرتی.کوئی تعریف خدا تعالیٰ کی ذات پر صادق نہیں آسکتی جو اس کے سبحان ہونے کے منافی ہو اور جہاں حمد پائی جائے اور تعریف سے مراد ہے Definition جہاں غلطی کوئی نہیں ہے ،خدا کی ذات پر کوئی داغ نہیں ڈالنے والی اور حمد کے مضمون کو بیان کرنے والی ہے وہ لازماً درست ہے اسی حد تک اطلاق پائے گی.پس زمانہ اگر ان معنوں میں بھی نہ پایا جائے کہ مخلوق کو زمانہ عطا کر دیا اور ان زمانوں سے مستغنی ہو گیا اور ان زمانوں کے مطابق اس کے اقتضاء کو پورا ہی نہیں کر رہا تو یہ زمانہ نہ پایا جانا نہ اس کی از لیست کی نشانی ہے نہ اس کی ہدایت کی بلکہ نعوذ باللہ من ذالک ایک قسم کی بے رخی اور موت کی دلالت ہے.پس جہاں جہاں زمانہ کے تصور میں کوئی ناقص معنی ہیں ان سارے تصورات زمانہ سے اللہ متقی ہے اور بالا ہے.جہاں زمانہ کا کوئی تصور خدا کی ذات میں پایا جانا اس کی تسبیح کرتا ہے اور اس کی حمد بیان کرتا ہے وہ زمانے کا تصور لازماً اللہ تعالیٰ کی ذات میں پایا جاتا ہے.پس یہ بھی اس رویا کا حصہ ہے، یہ سوچ جو میں نے عرض کی تھی کہ وہ پھوٹی ہے اس سے اور پھر رویا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ چشمے کی طرح جاری ہو گئی اور بہت سے ایسے مضامین ہیں اور جو اس میں بیان کرنے والے ہیں.- مجھے گزشتہ خطبے کے بعد جب لوگوں نے یہ بتایا کہ اوپر سے گزرگیا ہے اور وغیرہ وغیرہ تو گھبرا
خطبات طاہر جلد 14 191 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء کر میں نے کہا کہ پھر کیا فائدہ ان بے چاروں کو تنگ کرنے کا.جب بات ہی نہیں سمجھیں گے تو بعد میں کسی کتاب کی صورت میں پیش کر دیں گے لیکن ایک شخص نے ایک بہت دلچسپ بات کہی اور اس کا شعر تو وہ نہیں پڑھا مگر مضمون یہی تھا بہرہ ہوں میں چاہئے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر (دیوان غالب : ۱۱۱) کہ ٹھیک ہے ہم بہرے ہیں مگر بہروں کو چھوڑ تو نہیں دیا کرتے اونچی بولا کرتے ہیں، بار بار بولا کرتے ہیں.تو آپ کچھ اونچی بولیں ، کچھ سمجھانے کی کوشش کریں بجائے اس کے کہ دس خطبوں کی بجائے ایک خطبے میں بات ختم کرنے کا فیصلہ کر لیں، ایک خطبے کی بجائے دس خطبوں میں بات کرنے کا فیصلہ کریں.تو پھر ہمیں امید ہے کہ ہم انشاء اللہ اس مضمون سے فیض پائیں گے تو وہ بات میرے دل کو لگ گئی اس لئے آج بجائے اس کے کہ میں جلدی جلدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حوالے پڑھ کر آپ کے سامنے اس مضمون کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ، اب اللہ کے حوالے ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ توفیق بخشے گا وہ چیز ، وہ سلسلہ خیالات یا حقائق کی جستجو کا جو سلسلہ تھا جو اس رویا سے پھوٹا جس کو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی رہنمائی کرنے والی رویا تھی اس میں میں اکیلا شامل نہیں رہوں گا بلکہ انشاء اللہ حسب توفیق آپ کو بھی شامل کرتا رہوں گا.اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جو خود پھوٹ رہا تھا جہاں کہیں اٹکا، بعض دفعہ ایک ایک دو دو دن انکار ہا اور بات نہیں کھلی تو جب میں نے دعا کی تو فوراً اس کا جواب مل گیا اور پھر وہ بات چل پڑی.تو جو باقی سلسلہ ہے وہ بھی دعا کے سہارے جاری ہے اور انشاء اللہ اس کی ضرورت بھی میں محسوس کرتا ہوں.یہ وقت ایسا ہے، یہ دور کہ ہمیں لازماً صفات باری تعالیٰ کے مضمون پر گہرے غور کی ضرورت ہے بعض لوگوں نے مجھے لکھا کہ ہم غور شروع کر چکے ہیں.جامعہ احمدیہ کے پرنسپل میر محمود احمد صاحب ناصر نے بھی اپنے طلباء سے پوچھا کیوں جی غور شروع ہو گیا.اس سے مجھے خیال آیا کہ کس طرح غور کریں گے خود بخود سبحان الله وبحمده ربنا اللهم صل على محمد یہ ایسی باتیں کہیں گے ضرور مگر اس کو غور نہیں کہتے.یہ مضامین گہرے ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے جب تک روشنی نہ دکھائی جائے اور قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود کی
خطبات طاہر جلد 14 192 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 1995ء عبارتوں کو آپس میں جوڑ کر ان پر اجتماعی غور نہ کیا جائے اس وقت تک صفات باری تعالی پہ غور محض حمد کہنے پر یا قادر کہنے پر یا علیم اور حکیم کہنے پر ہو ہی نہیں سکتا.پھر اس غور میں اور بھی مسائل ہیں ، خدا کہتا ہے ہم نے جوڑے جوڑے پیدا کیا اور صفات کے بھی اکثر جگہ جوڑے جوڑے ہی بیان فرمائے ہیں.علیم حکیم علیم قدیر ، رحمن رحیم ، تو یہ بھی بڑا وسیع مضمون ہے کہ وہ جوڑے کیا معنے رکھتے ہیں.ان میں زمانہ تو نہیں پایا جا تا مگر ان کے ملنے سے دوسری صفات پھوٹتی ہیں جس طرح Chemical Reaction سے دو چیزوں کو ملانے سے ایک اور Synthesis ہوتا ہے ایک اور چیز پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح وہ تو وقت کی محتاج ہے مگر خدا کا یہ جو صفات کا تعلق نئے مضمون کو پیدا کرتا ہے یہ وقت سے بالا ہے.یہ فرق ہے کیونکہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ اپنی مخلوق سے وہ مشابہ نہیں ہے.اس لئے جب ہم مثالیں بیان کرتے ہیں تو صرف سمجھانے کی خاطر ورنہ حقیقت میں اس سے زیادہ آگے یہ بات خدا کے اوپر اطلاق نہیں پاتی.پھر خدا تعالیٰ کے اپنے کلام کے حوالے سے اس مضمون کو مزید سوچا جا سکتا ہے تو اب چونکہ وقت ہو گیا ہے انشاء اللہ باقی باتیں پھر، اسم اعظم بھی بتانے والی بات ہے اسم اعظم کس کو کہتے ہیں، کیا معنے رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کا لفظ مشتق ہے یا جامد ہے.یہ چار صفات کیوں چنی خدا تعالیٰ نے اور باقی صفات کو کیوں چھوڑ دیا وغیرہ وغیرہ.یہ مضمون کچھ تو میں پہلے سورہ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کر چکا ہوں لیکن کوشش کروں گا کہ ان کے علاوہ کچھ مضامین جن کا اس زمانے والی بات سے تعلق بنتا ہے جس حد تک ممکن ہے وہ بیان کروں اور پھر خواہ میرے نزدیک تعلق بنے یا نہ بنے ، صفات باری تعالیٰ کا اسماء کا جو مضمون ہے یہ اور بھی جس طرف ہمیں لے کے جائے گا، کوئی پابندی تو نہیں کہ صرف زمانے کے حوالے سے بات ہو.اس رؤیا کا ایک یہ بھی مقصد ہو سکتا ہے کہ اسماء کی بات کرو اور اسماء ہیں جو ہر چیز کا منبع ہیں اور اس سے مزید ترقیات عطا ہوں گی اور ہم ایسے دور میں ہیں کہ آئندہ کا زمانہ ہمارے سپرد کیا جانے والا ہے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مالکیت اب کل عالم پر جلوہ دکھانے والی ہے اور خدا نے ہم عاجزوں اور نکموں کو چن لیا ہے تو وہی طاقت بخشے گا، وہی صلاحیتیں عطا کرے گا لیکن وہ صلاحیتیں اسماء باری تعالیٰ پر غور کے نتیجے میں حاصل ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 193 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء وو اللہ خدا تعالیٰ کا ذاتی نام ہے.اللہ کے معنی اسم اعظم کے ہیں جو تمام صفات کا ملہ سے متصف ہے.( خطبه جمعه فرموده 24 / مارچ 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَالهَكُمُ اللَّهُ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ پھر فرمایا:.(البقره: 164) اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں الرَّحْمٰنُ الرَّحِيمُ وہ بے انتہاء رحم فرمانے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے اور ہمیشہ.رحم فرمانے والا ہے.صفات باری تعالی بلکہ اسماء باری تعالیٰ کے ذکر میں آج کے مضمون میں میں سب سے پہلے تو لفظ اللہ سے متعلق کچھ تعارف کروانا چاہتا ہوں.یہ مضمون بعض اور مطالب پر پھیلے گا لیکن سب سے پہلے اسماء کا جو مرکزی نقطہ ہے اس کے متعلق کچھ پہلے کی نسبت جماعت کو زیادہ علم ہونا چاہئے اور اکثریت ان باریک بحثوں کو غیر ضروری سمجھ کر ان کی طرف توجہ نہیں کرتی.لیکن تمام پرانے علماء نے بھی اور پھر اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ان مضامین کو اٹھایا ہے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے کیونکہ اسماء کا مضمون بہت اہم ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد 14 194 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء مرکزی نام کا ذکر کئے بغیر یہ مضمون آگے نہیں بڑھ سکتا.لفظ اللہ کیا ہے؟ قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ کا نام اللہ ہے اور اس نام میں اور کوئی شریک نہیں ہے اور کبھی بھی انسان نے خدا کے سوا یہ کسی اور شخص پر اطلاق ہوتا ہوانہیں دیکھا.تو ان معنوں میں اللہ کا لفظ وحید ہے ، واحد ہے، احد ہے، اس میں کوئی غیر ، نام میں شامل نہیں ہے.یہ پہلو بہت اہم ہے کیونکہ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے انسان تمام عبادت کی تاریخ پر نظر ڈالے تو اس میں یہی سچائی ہمیشہ دکھائی دے گی کہ غیر معبودوں کی پرستش کی گئی یعنی فرضی معبودوں کی ، ان کے مختلف نام بھی رکھے گئے مگر تمام انسانی تاریخ میں کبھی کسی معبود کا ناماللہ نہی رکھا گیا اور اس نام میں وہ بلا شرکت غیرے اکیلا ہے.سوال یہ ہے کہ یہ نام کچھ معنی رکھتا ہے یا محض ایک نام ہے؟ اس سلسلے میں علماء یہ گفتگو کرتے ہیں کہ بعض نام مشتق ہوتے ہیں اور بعض جامد.مشتق اس نام کو کہتے ہیں جو نام تو ہے مگر بعض ایسے دوسرے معانی سے تشکیل پاتا ہے یا ترکیب پاتا ہے جو عام ہے.ان سے ایک نام بنایا جاتا ہے اور ایک شخص کو دے دیا جاتا ہے.مثلاً حامد ہے محمود ہے، مبارک ہے ، یہ سارے وہ نام ہیں جو حمد اور برکت سے نکلے ہوئے ہیں اور ان ناموں میں اگر چہ جب کسی کی طرف منسوب کر دیے جائیں تو خصوصیت آجاتی ہے مگر بنیادی طور پر معنے وہی ہیں جن معنوں سے وہ نام اٹھائے گئے ہیں جن معنوں سے وہ بنائے گئے ہیں تو معنے والے نام وہ نام ہیں جو کسی ایک مٹی سے تشکیل پاتے ہیں اور اس مٹی کو گوندھ کر اس کا ایک نام بنادیا جائے تو اس کو مشتق نام کہتے ہیں.اور جامد اس کو کہتے ہیں جس کا نام رکھنے والا خود ہی اس کا خالق ہے اور کوئی اس نام کو تجویز نہیں کرتا اور معنوں کے لحاظ سے کسی عام معنی سے وہ نہیں نکلے ہوئے.اس تعلق میں جو پرانے علماء نے بحثیں اٹھائی ہیں ان میں سے بعض لوگ تو شدت کے ساتھ اللہ کے جامد ہونے پر زور دیتے ہیں اور اسی پر بات کو ختم کر دیتے ہیں کہ اللہ ایک ایسا نام ہے جو محض نام ہے اس میں اور کوئی معنی نہیں پائے جاتے اس لئے یہ بحث ہی جائز نہیں ، اس بات میں سوچنا بھی گناہ ہے کہ اللہ کے کیا معنی ہیں اور بعض دوسرے ہیں جن میں بڑے بڑے چوٹی کے ائمہ بھی شامل ہیں مثلاً امام راغب بھی ان میں سے ہی ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ دراصل یہ مشتق ہے لفظ الہ“ سے.الوہیت اس کا مادہ ہے.الوہیت کہتے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 195 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء معبودیت کو یعنی ایسا وجود جس کی عبادت کی جائے اس کو الہ“ کہتے ہیں اللفظ جبال اله پر لگ گیا تو پھر ایک ہی وجود کے لئے خاص ہو گیا یعنی جس کو ہم اللہ کہتے ہیں اور ال الہ میں سے الف بھی بیچ کا گر گیا اور اللہ بن گیا.اس سلسلے میں اور علماء مثلاً صاحب کشاف نے بھی ، علامہ زمخشری نے بھی یہی مضمون بیان کیا ہے.سیبویہ کے حوالے سے بھی یہ بیان کیا گیا ہے، بہت سے علماء اس کو مشتق کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود خدا کا ذاتی نام بھی قرار دیتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس کو اسم جامد قرار دیا ہے اور فرمایا یہ بالکل غلط ہے کہ دوسرے کسی مادے سے بنایا گیا ہے بلکہ وہ نام ہے جو اللہ کا نام ہے اور اللہ ہی کا ہے.اس میں اس کے معانی میں کوئی اور شریک نہیں ہے اور جہاں تک اس کے معانی کا تعلق ہے آپ یہ نہیں فرماتے کہ چونکہ یہ مشتق نہیں ہے کسی با معنی لفظ سے نہیں نکلا ہوا اس لئے بے معنی ہے.یہ فرق ہے آپ کے مؤقف میں اور گزشتہ جو مفکرین اسلام میں گزرے ہیں ان کے موقف میں.آپ فرماتے ہیں جامد ہے مگر جامد ان معنوں میں یعنی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے جو میں سمجھا ہوں وہ میں اپنے لفظوں میں بیان کر رہا ہوں.جامد ان معنوں میں کہ ہر شخص جو کسی چیز کا نام رکھتا ہے وہ ایک قسم کی اصطلاح بنتی ہے اور جو اصطلاح بنانے والا ہے وہ اس اصطلاح کے معانی بھی بتاتا ہے.پس اگر چہ کہ وہ اصطلاح کسی اور چیز سے نہ بنی ہومگر جب کسی چیز پر اطلاق پاتی ہے تو اس کے معانی کا بیان اس کے بنانے والے کا فرض ہے.پس اللہ نے جب اپنا نام اللہ بتایا تو یہ درست نہیں ہے کہ یہ بے معنی نام ہے.مگر اس کے معانی کیا ہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کیونکہ دوسرے تمام الفاظ یا اسماء جو معنی سے تشکیل پاتے ہیں اس کے معانی تو سب جانتے ہیں مگر اس کا معانی کوئی اور جان ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا نام بیان فرمایا ہے.پس اللہ ہی ہے جو اس کے معانی بیان کرتا ہے.پس جوں جوں ان معانی پر نظر پڑتی چلی جاتی ہے لفظ اللہ غیر معمولی طور پر اپنے معانی کے لحاظ سے وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور جتنے زیادہ معانی اس کے بیان کئے جائیں اتنا ہی یہ با معانی لفظ بن جائے گا مگر مشتق پھر بھی نہیں ہوگا.یعنی پھر اس کے حوالے سے دوسری چیزوں کے معانی سمجھے جائیں گے.اب اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ہم کہتے ہیں کہ الله هو الرحمن یا اس آیت کو جس کی میں
خطبات طاہر جلد 14 196 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء نے تلاوت کی تھی اس میں وَالهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ كه الله کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، اللہ ہی ہے اور اس کا تعارف کیا ہے الرَّحْمٰنُ الرَّحِيمُ تو رحمن کے معنی اللہ کی ذات کے حوالے سے سمجھے جائیں گے.رحم کے حوالے سے اللہ مجھ نہیں آئے گا بلکہ اللہ جن معنوں میں ہے رحمن ہے ان معنوں میں رحمانیت کے بدرجہ تام معنے ، بدرجہ کمال معانی سمجھ آجائیں گے.ورنہ عام مادہ سے نکلا ہوا لفظ رحمن عام انسانوں پر بھی بولا جاتا ہے.ماں بھی رحمن ہوتی ہے، بعض معانی میں باپ بھی ، دوسرے عزیز ، محبت کرنے والے، جانوروں پر رحم کرنے والے بھی رحمن ہو سکتے ہیں لیکن ان کے اندر رحمانیت کے معنی محدود ہیں لیکن جب اللہ کے حوالے سے رحمانیت کو سمجھا جائے تو معانی لامحدود ہو جائیں گے.پس اس طرح تمام اسماء باری تعالیٰ جو دراصل خدا تعالیٰ کی صفات ہیں وہ اللہ سے تشکیل پاتی ہیں اور اللہ کے لفظ کے گرد گھومتی ہیں اور اللہ کا لفظ ان کے اندر لا متناہی وسعتیں پیدا کر دیتا ہے.پس اس پہلو سے صفات باری یا اسماء باری تعالیٰ پر غور ہونا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت یہ ہے.اب ہم بسم الله الرحمن الرحیم کی تفسیر کا خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں“.یہ در اصل عربی عبارت کا ترجمہ ہے جو اعجاز اسیح سے لی گئی ہے.ثم نكرر خلاصته الكلام فی تفسیر بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، پس اب ہم بسم الله الرحمن الرحیم کی تفسیر کا خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں.پس واضح ہو کہ اللہ کا لفظ جامد ہے.یعنی کسی اور مادے سے تشکیل نہیں پایا بلکہ اللہ نے اپنا نام بیان فرمایا ہے اور اس کے معنی، بے معنی قرار دیا ، یہ فرق ہے جو بہت ہی نمایاں ہے اور ایک عارف باللہ کا اور ایک عام انسان کا جو غیر معمولی فرق ہے وہ اس سے ظاہر ہوتا ہے.جامد کو اکثر لوگ بے معنی کہتے ہیں اور اس کے معنی سوائے نام کے اور کچھ نہیں.کہتے ہیں جو چاہے نام کسی چیز کا رکھ دے وہ پابند نہیں ہے اور جو نام ہے وہ بے معنی بھی ہو سکتا ہے، بامعنی بھی ہو سکتا ہے.تو جامد کی تعریف میں بالعموم معنی کا فقدان داخل کر دیا گیا ہے جو غلط ہے یعنی ان معنوں میں حضرت مسیح موعود فرما رہے ہیں کہ اللہ جامد ہے یعنی کسی اور مادے سے تشکیل نہیں پایا لیکن اس کے معنے سوائے خدائے علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے اس آیت میں اسم کی حقیقت بتائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ اس ذات کا نام ہے جو رحمانیت اور
خطبات طاہر جلد 14 197 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء رحیمیت کی صفات سے متصف ہے یعنی بلا استحقاق احسان والی رحمت اور ایمانی حالت سے وابستہ رحمت ہر دور حمتوں سے وہ ذات متصف ہے.(اعجاز اسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ: 115) اب اللہ کے حوالے سے رحمانیت اور رحم کے وہ معنے وجود میں آئے جو مادے پر غور کرنے سے نہیں آسکتے تو لفظ رحمان اطلاق پایا مگر خدا کے تعلق میں اس میں حیرت انگیز وسعت پیدا ہو گئی.اب سوال یہ ہے کہ جو آخری حصہ ہے آپ کے کلام کا اس کے معانی کیا ہیں.مشکل الفاظ ہیں عام طور پر جو اردو دان ہیں جن کا عربی کا علم کمزور ہو یا ویسے بھی ان کے لئے اس کلام کو سمجھنا مشکل ہے لیکن اگر کلام کو ویسے بھی سمجھ جائیں لفظ لفظا ہر لفظ کا معنی سمجھتے ہوں تب بھی جب تک اس کی وضاحت نہ کی جائے ہر ایک پر یہ مضمون روشن نہیں ہوسکتا.آپ فرماتے ہیں اللہ اس ذات کا نام ہے جو رحمانیت اور رحیمیت کی صفات سے متصف ہے یعنی بلا استحقاق احسان والی رحمت اور ایمانی حالت سے وابستہ رحمت ہر دور حمتوں سے وہ ذات متصف ہے.کیا مطلب ہوا اس کا.بلا استحقاق احسان کرنے والی رحمت اور ایمانی رحمت ہر دو صفات سے یہ ذات متصف ہے.دراصل رحمان کا لفظ بعض پہلوؤں سے ہر دوسری صفت سے پہلے ہے یعنی زمانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنے مقام کے لحاظ سے اور بعض پہلوؤں سے یہ رب کے بعد آتا ہے.یہ وہ باریک مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فقرے میں بیان فرما دیا ہے.اللہ رحمان ہے اور رحمان وہ ہے جس نے پیدا کیا ہے.جس نے نہ صرف یہ کہ انسان کو پیدا کیا بلکہ کلام الہی کا خالق یا خالق نہ کہیں تو کلام الہی کا منبع بھی رحمان ہی ہے.الرَّحْمَنُ نُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ( الرحمن : 2 تا 5) رحمان کی طرف یہاں اللہ نہیں فرمایا گیا رحمان کہہ کر یہ دو معانی بیان فرمائے کہ وہ تخلیق کا اول ہے.ہر تخلیق اسی سے نکلی ہے اور انسان کو پیش کیا ہے تخلیق کے نمونے کے طور پر کیونکہ تخلیق کا آخری نقطہ انسان ہے اگر انسان کو رحمان نے پیدا کیا ہے تو چونکہ ہر چیز انسان کو پیدا کرنے کی خاطر بنائی گئی اس لئے رحمانیت میں ہر وہ چیز داخل ہوگئی.پھر فرمایا قرآن کریم ، یہ بھی رحمان نے بنایا ہے.خَلَقَ الْإِنْسَانَ کے ساتھ قرآن کے لئے خلق کا لفظ نہیں فرمایا.لیکن یہ فرمایا عَلَّمَ الْقُرْآنَ خدا تعالیٰ نے نہیں اَلرَّحْمٰن نے عَلَّمَ الْقُرْآن قرآن سکھایا ہے.اب یہ دو معانی ہیں جن کی طرف حضرت مسیح موعود اشارہ
خطبات طاہر جلد 14 198 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء فرمارہے ہیں.اور اس پہلو سے بسم الله الرحمن الرحیم میں رب کا کوئی ذکر نہیں اور رحمان ہی ہے جس سے ہر چیز پھوٹی ہے اور وہ وجود جس سے وہ چیزیں وجود میں آئیں جس کی طاقت سے یا جس کی صفات کے جلوے سے جن چیزوں کا کوئی حق ہی نہ ہو ، جو عدم ہے اس کا کوئی حق نہیں ہے.اگر کوئی حق بنتا ہے تو موجودات کا کچھ حق بنتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تنگ آجاتے ہیں کہ ہمیں خدا نے کیوں پیدا کیا تو یہ جو مطالبہ ہے کہ ہمارا حق ہے ہمیں بتایا جائے اگر پیدا کرنا تھا تو ہمارا کوئی مقصد ہونا چاہئے یہ وجود میں آئے تو مطالبہ پیدا ہوتا ہے نا.تو جو چیز موجودات میں سے ہو ہی نہ.عدم کا کوئی حق ہی نہیں ہے اور وہ ذات جو عدم سے پیدا کرتی ہے وہ رحمان ہے ، یہ قرآن کریم سے ثابت ہے کیونکہ رحمان کا ایک مطلب ہے بن مانگے دینے والا اور یہ رحمان جو بن مانگے دینے والا ہے یہ بھی عام مادہ رحم سے ثابت نہیں ہے.اللہ کے حوالے سے جب غور کرتے ہیں تو پھر وہ مضمون سمجھ آتا ہے ورنہ نہیں آسکتا.اللہ بن مانگے دینے والا ہے اور رحم مادر میں بھی یہی معنے اسی حوالے سے پائے جاتے ہیں.ماں بچہ پیدا کرتی ہے جبکہ پہلے اس کا کوئی وجود نہیں.کوئی مطالبہ نہیں ہے اور رحم میں وہ پرورش پاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے لفظ رحم جو یوٹرس کے اوپر اطلاق پاتا ہے ، جہاں جنین بنتا ہے اس کا تعلق رحمانیت سے جوڑ دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے کھل کر یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص رحم سے سے تعلق کاٹے گا یعنی رحمی رشتوں کا خیال نہیں رکھے گا اس کا رحمن خدا سے بھی تعلق کٹ جائے گا کیونکہ دونوں کا اصل ایک ہے.تو بن مانگے دینے والا جو مضمون ہے وہ ماں کے حوالے سے کبھی کسی کو سمجھ نہیں آیا لیکن اللہ کے حوالے سے سمجھ آیا تو ماں کا مضمون سمجھ آ گیا.اللہ بن مانگے دیتا ہے اور ماں تو کسی وجود سے پھر آگے بناتی ہے.اس لئے بلا استحقاق کلیۂ عنایت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ خود مجبور ہے کسی مادے کی کسی وجود کی لیکن اللہ تعالیٰ نے جب عدم سے انسان یا کائنات کو پیدا فرمایا ہے تو کلیڈ کوئی بھی کسی چیز کا استحقاق نہیں رکھتا تھا کیونکہ کوئی بھی کسی صورت میں موجود ہی نہیں تھا.پس حضرت مسیح موعود نے پہلی خلق کو جو رحمان سے وجود میں آتی ہے ان معنوں میں بیان فرمایا " یعنی بلا استحقاق احسان والی رحمت وہ رحمت جو کسی حق کے نتیجے میں نازل نہیں ہوتی بلکہ محض احسان ہی احسان ہے اور ایمانی حالت کارحمان سے کیا
خطبات طاہر جلد 14 199 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء تعلق ہے گو سوچنے میں تو عام طور پر سمجھ نہیں آتی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مضمون ایک تو اس آیت کے حوالے سے بیان فرمارہے ہیں.اَلرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ.یہ رحمان ہی ہے جس نے قرآن سکھایا ہے.پس تمام روحانی اور ایمانی حالتیں قرآن میں موجود ہیں اور وہ رحمان سے نکلی ہیں.دوسرا سورہ فاتحہ پر جب غور کرتے ہیں تو وہ آیت جو ہر دفعہ دہرائی جاتی ہے سوائے ایک سورۃ کے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ وہ رحمان اور رحیم کو پہلے بیان کرتی ہے اور سورہ فاتحہ رحمان کو بعد میں بیان کرتی ہے اور ربوبیت کو پہلے بیان کرتی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اللہ تمام جہانوں کا رب ہے اور پھر فرمایا الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ وہ رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے.ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ربوبیت کو اول اور رحمانیت اور رحیمیت کو اس کے بعد بیان کرتے ہیں کیونکہ سورہ فاتحہ نے اسی طرح بیان فرمایا ہے.مگر یہ روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.جب کچھ بھی نہیں تھا اس وقت خدا نے یعنی بحیثیت رحمان سب کچھ عطا کیا.جب سب کچھ ہو گیا تو اس کو تربیت دے کر آگے بڑھانا بھی خدا تعالیٰ کی صفات میں داخل ہے اور تربیت دے کر آگے بڑھانا جب روحانی دنیا سے تعلق رکھے تو وہاں ربوبیت کے بعد سب سے پہلے الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ کا ذکر ملتا ہے اور پھر ملِكِ يَوْمِ الدِین کا ذکر ضروری ہے کیونکہ اگر ایک مقصد کی خاطر ترتیب دے کر آگے بڑھایا جا رہا ہے تو پھر امتحان بھی ہوگا اور جزاء سزا بھی ہوں گے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کے یہ معنی ہوئے بلا استحقاق احسان کرنے والی رحمت“ جو عام ہے سب دنیا میں ساری کائنات پر عام ہے.بے جان مادہ بھی اسی رحمت سے پیدا ہوا ہے اور ایمانی حالت سے وابستہ رحمت جس کا سورہ فاتحہ میں ذکر فرمایا گیا ہے اور ر بوبیت کے بعد رحمان اور رحیم رکھا گیا ہے یہ رحمت ایمانی حالت سے تعلق رکھتی ہے.تو یہ جو صفات باری تعالیٰ ہیں، یہ اسماء کہلاتے ہیں یہ صفات اور اسماء کا علم جو ہے وہ سب سے بڑھ کر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوا اور اس میں کوئی ادنی بھی شک یا اختلاف کی گنجائش ہی موجود نہیں.اسی لئے میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ نے آدم کے حوالے سے جو اسماء بیان کئے ہیں وہ دنیا کی زیادہ تر باتیں ہیں.قریب تر جو دین کی بات اس حوالے سے بیان فرمائی ہے وہ بھی خالق کے اسماء کے طور پر نہیں بلکہ مخلوق کے بہترین اسماء کے
خطبات طاہر جلد 14 200 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء طور پر ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آدم کو جو اسماء سب سے پہلے سکھائے گئے وہ دو اسماء تھے محمد اور احمد کیونکہ پیدائش کی غایت گویا پیدائش عالم کا مقصود محمد رسول اللہ اور احمد رسول اللہ تھے یعنی آپ کی یہ دو صفات تھیں جن کی وجہ سے کائنات کو پیدا کیا گیا ہے تو اب دیکھیں وہاں بھی اسماء باری تعالیٰ کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے وہ مخلوق جو اسماء کے قریب تر پہنچی ہے ، جس سے بڑھ کر کبھی کوئی شخص اسماء کا واقف نہیں ہو سکا اس کا ذکر پہلے بتایا گیا ہے اور ان معنوں میں فرشتوں کو لا جواب کر دیا : الله گیا.اگر محمد رسول اللہ کی صفات ہی وہ نہیں سمجھ سکتے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی صفات کا احاطہ کرنا تو کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں سوائے اللہ کے جس نے یہ تنہا معجزہ پیدا کیا ہے.معجزے تو بے شمار ہیں مگر یکتا معجزہ جس کا کوئی شریک نہ ہو مخلوق میں اس جیسا کوئی اور نہ ہو، یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسماء کے حوالے سے اور آدم کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جو دو نام بتائے گئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اسماء باری تعالیٰ اول طور پر آدم کو سکھائے گئے ہوتے تو یہ ناممکن تھا کہ اسماء باری تعالیٰ کا آغاز محمد اور احمد سے کیا جاتا.اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ انکشاف بہت واضح اور قطعی ہے کہ پہلے آدم کو مخلوق کے اسماء دیئے گئے اور وہ آدم اول ہے یعنی ان معنوں میں کہ سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ہے اپنے خدا تعالیٰ کے علم اور خدا تعالیٰ کی جو دائمی کتاب ہے، کتاب مکنون، اس میں جو موجود ہے ہمیشہ سے وہ حضرت صلى الله محمد رسول اللہ کے ہیں اپنے دونوں ناموں کے اعتبار سے محمد اور احمد.اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ اسم جامد ہے تو وہ بات تو میں نے سمجھا دی کہ اسم جامد ہونے کے باوجود معانی رکھتا ہے اور وہ تمام معانی اس میں موجود ہیں جو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے یا جن کے اندر وہ معانی بھی موجود ہیں جو قرآن میں ظاہر ابیان نہیں ہوئے مگر حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کو ان کا علم دیا گیا اور قرآن کے معانی سے باہر نہیں ہیں بلکہ اسی کی شاخیں ہیں.تو اس پہلو سے اللہ کے نام پر غور کرتے ہوئے جو پہلی بنیادی صفات ابھرتی ہیں وہ دو ہیں الرَّحْمٰنُ اور الرَّحِیمِ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی دو صفات کے حوالے سے محمد اور احمد کا عرفان پیش کیا ہے.آپ کو جو محمد اور احمد ناموں کا عرفان عطا ہوا.آپ نے ان کا تعلق محمد کا رحمان سے باندھا
خطبات طاہر جلد 14 201 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء ہے اور احمد کا رحیم سے باندھا ہے اور بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے جو اپنی ذات میں ہی لمبے غور اور بار بار کی غوطہ خوری کو چاہتا ہے.رحیمیت کے ساتھ احمد کا تعلق ایک معنے بھی رکھتا ہے جو خاص طور پر ہماری توجہ کے مستحق ہیں یا اگر نہیں کھینچ سکے تو کھینچنا چاہئے.رحیمیت میں بار بار کے معنے ہیں اور رحمانیت میں آغاز کے معنے ہیں اور معنوں کے علاوہ یہ دو نمایاں ہیں.پس جہاں سے شریعت کا آغاز ہوا ہے وہ محمد ﷺ ہے اور دوبارہ محمد کا فیض جو بار بار جاری ہوگا اس میں رحیمیت کے معنے پائے جاتے ہیں.رحمانیت نے سب کچھ دے دیا.شریعت کامل ہوگئی نعمتیں تمام کو پہنچ گئیں ، اس کے بعد پھر دوبارہ کیا ضرورت ہے.یہ ویسا ہی سوال ہے جیسے کہا جائے جب رحمان نے سب کچھ عطا کر دیا جو ضرورتیں تھیں ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ ساری پوری کر دیں تو پھر رحیم کی کیا ضرورت ہے.تو رحیم وہ ہے جو ان نعمتوں کو بار بار لے کے آتا ہے اور ساتھ نہیں چھوڑتا.تو شان احمد وہ ہے جس نے اس وقت دوبارہ رحمانیت کا جلوہ دکھانا تھا یعنی وہ جلوے جو رحمان کے مظہر محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ظاہر ہوئے ان کو دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت پڑنی تھی اس وقت آپ ہی کی شان احمد آئی ہے کسی اور وجود کی ضرورت نہیں تھی.وہی شان احمد ہے جو تمثل ہوئی ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس شان احمد کا مظہر بن کے وہی چیز تقسیم فرمانے آئے جو آنحضرت ﷺ کے اگر رزق کی تقسیم کی بات کی جائے تو ذہن میں آپ کے لنگر کی نعمتیں تھیں یا آپ کے خوان کی نعمتیں تھیں یہ آپ کا مائدہ تھا اور خزانوں کی بات کی جائے تو محمد رسول اللہ ﷺ کا مخزن ہی ہے آپ ہی کے خزانے ہیں جن کو دوبارہ لٹانے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا گیا.پس محمد اور احمد کا رحمان اور رحیم سے تعلق جوڑنا یہ انسان کے بس کی بات نہیں.یہ الہی علم کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود کو اس کا عرفان نصیب ہوا اور اس پر پھر مزید غور کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے اور بہت سے نکات اس میں شامل ہیں، جو ضروری نہیں کہ سرسری آنکھ سے یا بعض دفعہ گہری نظر سے بھی فور ادکھائی دیں اور بعض خزانے ایسے ہیں جو دکھائی دینے کے باوجود اپنے مخفی معانی تہہ بہ تہہ رکھتے ہیں اور ان تک رسائی محض انسانی کوشش سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کا اذن ضروری ہے.دنیا دار سمجھتے ہیں کہ اس زمانے میں دیکھو کتنے خزانے دریافت ہو گئے مگر میں نے پہلے بھی حوالہ دیا تھا قرآن کریم کی اس آیت کا کہ یہ جو خزانے ہم سمجھ رہے ہیں کہ انسان خود
خطبات طاہر جلد 14 202 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء ہی دریافت کر رہا ہے غلط ہے ان کا وقت آپکا تھا.بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا الزلزال : 6) اس لئے یہ خزا نے ان لوگوں کے علم میں آئے ہیں کہ اے محمد تیرے رب نے وحی کی ہے کہ اسے مخفی خزانو ! ظاہر ہو جاؤ اور جب تک تیرے رب کی یہ تقدیر جاری نہ ہوتی کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی کہ ان مخفی خزانوں کی اطلاع پا سکتا.پس یہ بدرجہ اولی قرآن کریم پر اطلاق پانے والا مضمون ہے اور اسماء باری تعالیٰ پر کیونکہ قرآن در اصل اسماء باری تعالیٰ ہی کا بیان ہے.اب ایک اور بحث بڑی دلچسپ ہے کہ اسم اعظم کیا چیز ہے.بہت سے لوگ اسم اعظم کی 66 عظ تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ بعض احادیث سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک اسم اع ہے جس کے حوالے سے دعا زیادہ قبول ہوتی ہے.تو اسم اعظم وہ کیا ہے اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے یہ نہیں فرمایا کہ اسم اعظم اللہ ہے جو اللہ ہے“ کہہ کر کچھ اور مضمون بیان فرما رہے ہیں ”ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے جو اصطلاح قرآنی ربانی کی رو سے ذات مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور منزہ عن جمیع رزائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء فیوض پر بولا جاتا ہے اب اس پہلو سے اگر اسم جامد کو وہ غیر معمولی کوئی جادو کا لفظ سمجھا جائے جس کے نتیجے میں ادھر نام بولا تو مسئلہ حل ہو گیا تو مضمون تو لفظ اللہ میں ہمیں دکھائی نہیں دیتا، اُس لفظ اللہ میں دکھائی نہیں دیتا جو اکثر لوگوں کی زبان پر جاری ہوتا ہے.جھوٹی قسمیں کھانے والے بھی واللہ واللہ ہی کہتے ہیں.واللہ، باللہ اللہ یہ عام محاورے ہیں عربوں میں بھی اور اللہ کی قسم بعض دفعه گندی باتیں کرتے وقت بھی اللہ کی قسم زبان پہ جاری رہتا ہے اور اللہ کے حوالے سے ہر مصیبت زدہ دعا کرتا ہے.تو پھر اسم اعظم کا یہ معنی کہ کوئی ایسا نام ہو جیسے الہ دین کا چراغ “ کو یا یوں کہنا چاہئے کہ سم سم کا لفظ تھا وہ بولا جائے تو وہ خزانے کے دروازے کھل جائیں ، یہ بالکل غلط بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی لئے یہ نہیں فرمایا کہ اسم اعظم اللہ ہے.بس اللہ کہہ دیا کرو ہر بات ہو جائے گی بلکہ اسم اعظم کی ایسی تعریف کر دی جس کے نتیجے میں بہت سی ذمہ داریاں انسان پر عائد ہو جاتی ہیں اور جب تک ان حقوق کو ادا نہ کرے جو اسم اعظم کے حقوق بندے پر عائد ہوتے ہیں اس وقت تک وہ اسم اعظم منہ کی بات ہے اور کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور حضرت اقدس
خطبات طاہر جلد 14 203 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء محمد رسول اللہ اللہ نے جہاں اسم اعظم کا ذکر فرمایا ہے وہاں ایک نام کے طور پر نہیں فرمایا بلکہ اللہ کی صفات بیان کر کے اسے اسم اعظم قرار دیا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ کو اسم اعظم جن معنوں میں قرار دیتے ہیں وہ اس طرح باندھ دیئے جائیں کہ آپ کے اس کلام میں یہ موجود ہی نہیں کہ اللہ اسم اعظم ہے.فرمایا اللہ جو اسم اعظم ہے یہ معنے رکھتا ہے.ان سے الگ ہو کر وہ اسم اعظم نہیں ہے.چنانچہ وہ کیا معانی ہیں ان معانی میں تمام اسماء الہی آجاتے ہیں.دوسرے لفظوں میں اللہ اسم اعظم ہے جب تک ان صفات سے یا ان اسماء سے اس کا تعلق قائم ہو رہا ہو جو خدا تعالیٰ کے اسماء ہیں یا اس کی صفات ہیں اور جن جن اسماء کا اللہ کی ذات سے تعلق ہے ان اسماء کو پیش نظر رکھتے ہوئے متعلقہ صورتحال میں جو دعا کی جاتی ہے ان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے وہ پوری ہو جاتی ہے ، یہ ایک مضمون ہے جو اس ایک فقرے سے تو شاید ا کثر کو سمجھ نہ آئے مگر اگر مجھے یاد آیا تو پھر میں مزید آگے جا کر اس کی تشریح کروں گا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عبارت کی تشریح ضروری ہے.ذات مجمع جمیع صفات کا ملہ وہ ذات جس کے اندر ہر کامل صفت جمع ہو چکی ہے اور کوئی ایک بھی صفت ایسی نہیں جو کامل ہو اور اللہ کے نام کے اندر داخل نہ ہو.تو ایک اسم اعظم ایسا بیان کر دیا جس میں تمام اسماء شامل ہو گئے اور کوئی اسم اس کے تصور سے باہر نہیں رکھا لیکن ساتھ دوسری تعریف یہ فرمائی اور منزہ عن جمیع رزائل اور وہ منزہ ہے، پاک ہے، ہر اس تصور سے جور ذیل اور کمینہ ہو، جس میں کوئی کسی قسم کا نقص بھی پایا جاتا ہو اس تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.یعنی Perfection Personified جو درجہ کمال اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا اگر ایک ذات بن جائے تو اس کا نام اللہ ہے اور اس پہلو سے وہ اسم اعظم بن جاتا ہے جس کے حوالے سے پھر دعائیں قبول ہوتی ہیں.پھر فرمایا اور بھی اس کے معانی ہیں جو اس میں بر وقت داخل ہیں.اور معبود برحق ایسا معبود جو حق ہے اس کی عبادت جتنی بھی کی جائے وہ اس کو زیبا ہے، اس میں مبالغہ نہیں ہو سکتا اور برحق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی شان کے مطابق سچی عبادت اس کی مقبول ہوگی اور کوئی جھوٹی عبادت اس کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتی.تو ایک وہ ذات ہے جس میں عبادت کو قبول کرنے کی صفات درجہ اتم تک پائی جاتی ہیں.ہر قسم کی عبادت جتنی بھی چاہیں کریں
خطبات طاہر جلد 14 204 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء آپ جتنا چاہیں ماتھا نیکیں، جتنا چاہیں اپنے آپ کو ذلیل اور رسوا کریں، جو کچھ بھی آپ کر لیں اس کی معبودیت کے دائرے سے باہر نہیں جاسکتے.ایسا عظیم معبود ہے کہ اس کے متعلق مبالغہ ہو ہی نہیں سکتا.اور عبادت کرنے والے کی نسبت سے وہ معبود برحق ان معنوں میں ہوگا کہ کوئی جھوٹی بات تمہاری عبادت میں شامل نہ ہو کیونکہ وہ حق ہے.کوئی تصنع نہ ہو، کوئی ریا کاری نہ ہو، کوئی نفسانی اس میں آلودگیاں شامل نہ ہوں، غرضیکہ پاک، خالص، للہ عبادت جو ہے وہ اس ذات کو پہنچتی ہے اس لئے وہ برحق ہے اور واحد لاشریک “ اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے یعنی کسی پہلو سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں.اور مبدء فیوض پر بولا جاتا ہے اور اس کی صفات کا ملہ تمام تر فیض رکھتی ہیں یعنی ان صفات میں سے ہر صفت کا فیض کسی دوسرے کو پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے یعنی کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو بے فیض ہو.اس ضمن میں مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور متجمع جمیع صفات کا ملہ اور رذائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء فیوض ہے یہ کہنے کے بعد فرماتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے ، یعنی جتنے بھی دوسرے اسماء قرآن کریم میں ہیں ان سب کا موصوف اللہ قرار دیا گیا ہے اور کسی اور صفت کو اللہ کا موصوف نہیں بنایا.یعنی اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص اچھا ہے ، فلاں شخص ذہین ہے، فلاں شخص میں یہ بات ہے تو وہ شخص جو ہے جس کے اردگر دصفات گھوم رہی ہوں وہ شخص در اصل ان صفات کا مرکز ہے اور اس کا نام ان صفات کا نام بن جاتا ہے.اس کو کہتے ہیں ذاتی نام مثلاً زید کے حوالے سے آپ کہیں کہ زید میں یہ خوبی ہے، زید میں وہ خوبی ہے تو وہ زید کی طرف منسوب ہوگی زیر اسم ہو گا مگر یہ نہیں آپ کہہ سکتے کہ رحمان زید ہے، شریف زید ہے یا کسی کی برائی کرنی ہو تو برا آدمی زید ہے.اس لئے مفت اپنے موصوف کے گرد گھومتی ہے اور موصوف اپنی صفت کے گرد نہیں گھومتا.یہ مضمون ہے جو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے اور یہ اسم ذات ہے اللہ اور اسم اعظم ہے مگر اگر صفات سے خالی ہو کر اسم اعظم ہو تو اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں رہتی کیونکہ اسم نام ہے صفات کا.کوئی اسم صفات سے عاری نہیں ہے اس لئے مشتق نہ ہونا اور بات ہے اور با معانی اور.
خطبات طاہر جلد 14 205 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء با صفات ہونا اور بات ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسم اعظم کی تلاش صفات سے عاری ہو کر نہ کرنا.یہ نہ سمجھ لینا کہ اللہ اپنی ذات میں کوئی ایسا نام ہے کہ اس کی صفات سے خواہ تم روگردانی کر لو اس کا نام لے کر وہ جادو کر دکھاؤ گے جو اس کی صفات پر منحصر ہے.اب ربوبیت ایک صفت ہے.اللہ رب ہے اس کے حوالے سے میں آپ کو سمجھا تا ہوں کہ ایک شخص اگر اللہ کو اسم اعظم تو سمجھے مگر اس کی صفت ربوبیت سے کچھ بھی حصہ نہ پائے.حد سے زیادہ خود غرض ہو بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کر سکتا ہو تب بھی پوری نہ کرے اور اللہ کہہ کر اس سے چیزیں مانگے کہ میرا رزق بڑھا، میرے معاملات میں برکت دے.تو وہ اسم اللہ کا اسم اس صورت میں وہ اسم اعظم یعنی وہ جادو کا لفظ نہیں بن سکتا جس کے حوالے سے ہر بات مقبول ہو جاتی ہے کیونکہ ہر موقع سے تعلق رکھنے والا اس کا ایک نام ہے جو اللہ میں موجود ہے.اس موقع کی بات آپ کریں اور اس نام کا انکار کر دیں جو داخل ہے اللہ کے نام میں تو اللہ اسم اعظم نہیں رہے گا.ایسے ہو جائے گا جیسے کوئی چیز اچانک اپنی صفات کھو بیٹھے.اللہ تو صفات نہیں کھو سکتا آپ نے ان صفات سے آنکھیں بند کر لیں اور اپنا تعلق تو ڑلیا اور پھر خواہش ہے کہ آپ ان صفات سے فائدہ اٹھالیں.بجلی سے قمقمہ جلتا ہے ایک بلب ہے جو روشن ہو جاتا ہے.یہ کہنا درست ہے کہ بجلی بڑی طاقتور چیز ہے مگر کوئی بٹن دبا کر بلب کا تعلق بجلی سے نہ قائم کرے اور بجلی بجلی کہتا رہے تو کوئی روشنی نصیب نہیں ہوسکتی.پس بجلی کی طاقت کا اقرار کرنا یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم مانتے ہیں بجلی تو ہے اس لئے تو اس بلب کو روشن کر دے بلکہ اس نام کے تقاضے پورے کرنے لازم ہیں.وہ پورے کریں گے تو وہ نام اپنا جادو دکھائے گا.جب بجلی کو آپ سمجھیں گے ، اس کی صفات کا شعور حاصل کریں گے، اس سے تعلق جوڑیں گے اور ان کی صفات کی نفی نہیں کریں گے بلکہ ان کی صفات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سے استفادے کی کوشش کریں گے تو بجلی ضرور اپنے جو ہر دکھائے گی.پس اسم اعظم کی تلاش کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اسم اعظم وہ نام ہے جس میں تمام صفات ہیں اور جب دعا کی جاتی ہے تو وہ صفت بطور خاص اللہ کی ذات میں جلوہ گر ہونی چاہئے جس صفت کی آپ کو ضرورت ہے اور خدا کی ذات میں جلوہ گر ہو اور آپ کا تعلق نہ ہو تو آپ کو وہ جلوہ کچھ فائدہ نہیں دکھائے گا اور تعلق کے لئے وہ رستہ بنانا، بٹن دبانا اور ایک رابطہ قائم کرنا ضروری
خطبات طاہر جلد 14 206 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء ہے.پس خدا کی ہر صفت سے ایک رابطہ قائم ہوتا ہے اللہ سے اور اس صفت سے رابطہ تب قائم ہوتا ہے اگر اس جگہ آپ اس صفت کو اپنی ذات میں جاری کرتے ہیں، کسی حد تک ضرور جاری کرتے ہیں تب رابطہ بن سکتا ہے ورنہ بے جوڑ رابطہ نہیں ہو سکتا.بے جوڑ رابطہ تو دنیا میں بھی ہمیں نظر آتا ہے عام مادی دنیا میں بھی بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے کوئی جوڑ نہیں ہوتا وہ پیوند نہیں کھا سکتیں.اب لکڑی کو آپ نے کبھی بھی کسی میٹل میں ویلڈ ہوتے نہیں دیکھا ہوگا.جو مرضی کر لیں ٹھنڈا ویلڈ بھی ہو جاتا ہے لکڑی ویلڈ نہیں ہو سکتی مگر میٹل بیٹل کے ساتھ ویلڈ ہوتی ہے.گوشت لکڑی کے ساتھ ویلڈ نہیں ہوسکتا.تو ہر چیز کے کچھ تعلقات کے دائرے ہوتے ہیں وہ تعلقات قائم ہو جائیں تو پھر ان تعلقات کے ذریعے سے پیوند قائم ہوتے ہیں اور وہ صفاتی تعلقات ہوتے ہیں بعض چیزوں کی بعض صفات ہیں.ملتی جلتی صفات کے پیوند قائم ہوا کرتے ہیں اور متضاد صفات کے پیوند قائم نہیں ہوا کرتے.پس اللہ کے اسم اعظم سے استفادے کے لئے اس کی صفات کے ساتھ پیوند لازم ہے اور پیوند تب ہو گا اگر آپ کی ذات میں وہ صفات جاری ہوں گی ورنہ پیوند نہیں ہوسکتا.حضرت محمد مصطفی میں اللہ نے بھی اسم اعظم پر اسی رنگ میں روشنی ڈالی ہے اور محض ایک نام بیان کر کے یہ نہیں فرما دیا کہ یہ نام ہے یہ لے لیا کرو تو اسم اعظم ہو جائے گا.وہ حدیث یہ ہے.دونوں باتیں آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ ہی کو اسم اعظم قرار دیا مگر صفات کے حوالے سے.حضرت رسول اللہ اللہ فرماتے ہیں: صلى الله عن اسماء بنت يزيد قالت قال رسول الله له اسم الله في هائين الايتين والهكــم الــه واحد لا اله الاهو الرحمن الرحيم وفاتحة سورة آل عمران...(سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اسماء بنت یزید سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے وَالهُكُمْ الهُ وَاحِدٌ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے.الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ وہ رحمان اور رحیم ہے اور دوسری آیت یہ بیان فرمائی کہ آل عمران کی پہلی آیت جو یہ ہے ان الله لا إلهَ لا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (آل عمران 2 تا 3) کہ اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ جی ہے اور قیوم ہے خود اپنی ذات میں زندہ ہے اور
خطبات طاہر جلد 14 207 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء قائم بھی فی الذات ہے، بذاتہ اپنی ذات کے اندر قائم ہے اور دوسروں کو بھی قائم کر سکتا ہے.زندہ ہے فی ذاتہ اور دوسروں کو زندگی عطا فرما سکتا ہے.یہ جو چار صفات بیان ہوئی ہیں یہ دراصل تمام صفات باری تعالیٰ پر حاوی ہیں اور انسان اور مخلوق کے تعلق میں اسے سمجھنے سمجھانے کے لئے یہ دوسری آیت الْحَيُّ الْقَيُّومُ بیان فرمائی گئی حالانکہ پہلی آیت میں بھی تمام صفات کی ماں بیان فرما دی گئی یعنی الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پہلے اللہ وَالهُكُمْ الهُ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم تمہارا ایک ہی معبود ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں یعنی اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وہ رحمان اور رحیم ہے.رحمان اور رحیم کے متعلق میں نے بیان کیا تھا کہ ہر تخلیق سے پہلے رحمانیت اور رحیمیت جلوہ گر ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی ایک سورۃ سے پہلے جو استثنائی وجہ ہے ہر سورۃ سے پہلے رحمان اور رحیم کا ذکر ہے.جس کا مطلب ہے کہ تمام صفات باری تعالیٰ تمام اسماء باری تعالیٰ جن کا قرآن میں ذکر ہے ان کا منبع رحمان اور رحیم ہے اور اسی پہلو سے رحمانیت کو ہر دوسری صفت پر غالب قرار دیا گیا اور رحیمیت ، رحمانیت ہی کا ایک انداز ہے جسے بعض دوسرے پہلوؤں پر زور دینے کے لئے انہیں نمایاں کرنے کے لئے بیان فرمایا گیا ہے.تو آنحضرت ﷺ نے بھی اسم اعظم وہ قرار دیا جس کے اندر تمام دوسرے نام شامل ہیں ایک بھی اس سے باہر نہیں ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق مزید غور کی دعوت دینے کے لئے کچھ وقت چاہئے.میں انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں یا اس کے آئندہ بعد آنے والے جمعہ میں آپ کو سمجھاؤں گا کیونکہ صفات باری تعالیٰ یا بہتر الفاظ میں اسماء باری تعالیٰ کے مضمون پر غور کی دعوت دینا اور یہ نہ سمجھانا کہ کیسے غور کیا جائے ، یہ زیادتی ہوگی.اب جب مضمون چھیڑا ہے تو میں کوشش یہ کروں گا کہ ہر علمی سطح پر کچھ نہ کچھ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو اور تمام دنیا میں جو سننے والے ہیں ان کے اوپر علم کی کچھ کھڑکیاں کھلیں جس کے ذریعے وہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق اللہ تعالیٰ سے تعلق باندھیں.اس کے لئے عربی کا تفصیلی علم ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم تو سب کے لئے ہے.تفصیلی علم تو ضروری نہیں مگر جہاں صفات باری تعالیٰ یا اسماء کا ذکر آئے گا وہاں اس حد تک عربی کا علم لازمی ہے اور اگر براہ راست کسی کو نہ ہوتو وہ علماء سے پوچھ سکتا ہے یا کتب سے ان مضامین کو سمجھ سکتا ہے لیکن جو بنیادی ضرورت ہے یہ پوری ہو جائے تو پھر
خطبات طاہر جلد 14 208 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء انسان کے بس میں ہے کہ اگر وہ کوشش کرے اور اخلاص سے کوشش کرے تو خدا کی نظر میں وہ ایسے مرتبے تک پہنچا ہوا شمار ہو جائے.یعنی یہ یوں نہیں کہنا چاہئے کہ بس میں ہے، امکان میں ہے، ہر شخص کے لئے امکان ہے اس بات کا کہ اس بات کو سمجھنے کے بعد جو میں بیان کر رہا ہوں یا آئندہ کروں گا وہ خدا کی نظر میں اس حد تک آجائے کہ پھر اللہ اس کا ہاتھ وہاں سے پکڑے اور باقی باتیں اسے خود سمجھائے اور حسب توفیق سمجھائے ، حسب ضرورت سمجھائے.ہر شخص خدا سے تعلق رکھنے کی جو استطاعتیں لے کر پیدا ہوا ہے، جو اس کی وسعتیں ہیں ان کا علم بھی صرف اللہ کو ہے اور وہی ہے جو سمجھا سکتا ہے.پس میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا تعارف کرواؤں قرآن کے حوالے سے بالضرور جو آپ سب کے لئے کافی ہو جائے.میں اس ارادے سے یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ وہ طریق سکھاؤں جس طریق سے آپ سب پر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا وہ رستہ حاصل کرنے کا راز مل جائے یا آپ سب کو وہ راز حاصل ہو جائے جس کے بعد خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ پھر میں خود ہاتھ پکڑتا ہوں اور باقی منازل میں خود طے کرواتا ہوں.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) العنکبوت : 70) وہ لوگ جو ہمارے بارے میں مجاہدہ کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اور ہم تک تو کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا از خود، جب تک ہم کسی کا ہاتھ نہ پکڑیں تو فرماتا ہے لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا نہ صرف یہ کہ اہم اسے رستہ دکھا سکتے ہیں بلکہ ہم نے اپنی ذات پر لازم کر لیا ہے لَنَهْدِيَنَّهُم ضرور ہے ہم پر لازم ہے ہم پر ضرور ایسے شخص کو اپنی ذات کا رستہ دکھائیں گے.اب یہ جو بات ہے ہر شخص کو اپنی ذات کا رستہ دکھا دینا یہ اک اتنی عظیم نعمت ہے کہ دوسرے سے سیکھے ہوئے علوم کے مقابل پر اس کا ایک اپنا مرتبہ ہے جس کو دوسری بات پہنچ ہی نہیں سکتی یعنی بڑے سے بڑا عرفان کسی کو نصیب ہو جائے وہ کسی کو بتائے اس کا لطف بھی آئے گا لیکن کبھی اپنے دل سے جس طرح پھول چنکتا ہے یا کلی چٹک کے پھول بنتی ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے فضل کے طور پر کوئی نکتہ نازل ہواور وہ جو سمجھ آئے اس کا اپنا ایک مزہ ہے.بچے تو اپنی میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے جلی ہوئی روٹیوں سے بھی مزے لیتے ہیں اور خوب شوق سے کھاتے ہیں.دوسروں کو بھی چکھانے کی کوشش کرتے ہیں دیکھو کتنی اچھی روٹی پکائی ہے.سالن ایسا جسے اگر کوئی ماں نے پکایا ہوتا تو بچے
خطبات طاہر جلد 14 209 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء پھینک کر باہر بھاگ جاتے ، بڑے شوق سے کہ کیسا اچھا سالن پکا ہے اپنا نکتہ، اپنی چیز اور ہوتی ہے.اپنی بھونڈی سی تصویر بھی بچے نے بنائی ہو تو بعض دفعہ میرے پاس لے آتے ہیں کہ دیکھیں جی کیسی عمدہ تصویر بنائی ہے.وہ الٹی سیدھی تصویریں نہ رنگوں کی آمیزش نہ کچھ اور بہت خوبصورت دوسری تصویروں پر نظر ہی نہیں پڑتی.تو اللہ سے ذاتی تعلق قائم کرنے کی خاطر یہ بات ضروری ہے محض عرفان الہی کافی نہیں ہے اگر اس عرفان کے ذریعے بندے کا اللہ سے تعلق قائم نہ ہو.پس آئندہ بھی جو خطبات آئیں گے یہ محض علمی بحث کے طور پر میں آپ کے سامنے نہیں رکھ رہا بلکہ وہ مضمون جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر روشن فرمایا اس کے آگے بڑھتے ہوئے رستے ہیں.مراد یہ ہے کہ مخلوق کا خالق سے وہ تعلق قائم ہو جائے کہ ہر شخص براہ راست اپنے رب کے قریب پہنچے اور ذاتی محبت کے لطف اٹھانے لگے.عرفان سے محبت پیدا ہوتی ہے مگر عرفان وہ جو انسان کو خود نصیب ہو ورنہ بڑے بڑے علماء جنہوں نے تمام بڑی بڑی کو تفاسیر کے بڑے مطالعے کئے ہیں اور ان کے دل خالی ہیں یہ محبت کا مضمون ایک بخیر مضمون ہے اور یہ سارے مضمون کی جان ہے، اسماء کے مضمون کی اس لئے یہ آئندہ انشاء اللہ اب تو وقت تو زیادہ ہو گیا ہے آئندہ خطبے میں رفتہ رفتہ ، قدم قدم ، اس مضمون میں آپ کو ساتھ لے کر آگے بڑھوں گا اور یہ جو وقت لگ رہا ہے سمجھانے پر یہ مجبوری ہے اس کے بغیر آپ اگلے سبق سیکھ نہیں سکیں گے.اس لئے اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک چھوٹی سی بات پر زیادہ زور دیا جارہا ہے تو غلط نہی ہے آپ کی.بہت سی ایسی باتیں ہیں جو چھوٹی چھوٹی بھی ہیں تو ان کے سمجھنے کے لئے کچھ وقت چاہئے.ان کو پوری طرح Grasp کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی.اس لئے مجھے جب ایک دفعہ داخل ہوا ہوں تو پھر سمجھانا ہی پڑے گا انشاء اللہ اور اللہ سے ہمیشہ میں توفیق مانگ کے حاضر ہوتا ہوں ، واپس جا کے بھی توفیق مانگتا ہوں، آپ بھی میرے لئے دعا کریں کہ وہ جو میرے نزدیک آخری مطمع ہے کہ احمدی اس مقام تک پہنچ جائیں جہاں خدا ان کا ہاتھ تھام لے اور پھر اپنی سیر خود کروائے اور وہ جو لطف ہیں وہ جماعت کی کایا پلٹ دیں گے، اتنا عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا کہ اس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 210 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 1995ء
خطبات طاہر جلد 14 211 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء نظام خلافت اور شاورهم فی الامر کی حقیقت حضرت مصلح موعودؓ نے نظام شوری کا عظیم الشان چارٹر دیا.(خطبہ جمعہ فرموده 31 / مارچ 1995ء بمقام بیتا الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَمُرُهُمْ شُوْرُى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (الشوری: 39) پھر فرمایا:.یہ سورۃ الشوریٰ کی انتالیسویں آیت ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَ بِهِمْ یعنی وہ لوگ جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اس کے ارشادات کی پیروی پر ہمہ تن تیار رہتے ہیں وَأَقَامُوا الصَّلوةَ اور نماز کو قائم کرتے ہیں وَاَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمُ اور ان کے معاملات آپس میں مشورے سے طے پاتے ہیں وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اور جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.آج اس آیت کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ آج پاکستان کی مجلس شوریٰ منعقد ہورہی ہے اور چونکہ میں خود وہاں ذاتی طور پر ایک عرصے سے شمولیت سے محروم رہا اس لئے انجمن کی ہمیشہ یہ خواہش رہی اور ناظر صاحب اعلیٰ مجھے یہ لکھتے رہے کہ ایسے موقع پر کوئی پیغام بھیج دیا کریں تو پہلے تو پیغاموں
خطبات طاہر جلد 14 212 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء پر ہی گزارہ تھا اب اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا ہے کہ میں خود اب شوری میں ان کے ساتھ شامل ہورہا ہوں اور اس خطبے کے ذریعے ان سے ایسے خطاب کر رہا ہوں جیسے ان کے سامنے کھڑا بول رہا ہوں.اگر چہ یہ وقت ایسا ہے کہ شاید وہ ایک جگہ سب اکٹھے نہ ہو سکے ہوں کیونکہ پاکستان کے وقت کے لحاظ سے شوری کا اجلاس ختم ہو چکا ہو گا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ بعض ٹولیوں کی صورت میں بعض جگہوں پر مجلس شوری کے ممبران اکٹھے بیٹھ کر بھی اس خطاب کو سن رہے ہوں گے.اس آیت کریمہ کے اندر جو اور مضامین ہیں ان میں پہلے ایک مضمون کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں جو قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اس کے الہی کلام ہونے کا ایک عظیم ثبوت ہے.تمام قرآن کریم میں جہاں بھی وَأَقَامُوا الصَّلوةَ کا ذکر آیا ہے وہاں رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کا ذکر اس کے ساتھ ہی باندھا گیا ہے اور آپ کو درمیان میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا مگر اس آیت میں ایک استثنائی انداز بیان ہے.فرمایا وَ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وہ جو اللہ کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں وَأَقَامُوا الصلوۃ اور نماز کو قائم کرتے ہیں.پھر یہ نہیں فرمایا وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ فرمایا وَ أَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ ان کے اہم معاملات شوری سے طے پاتے ہیں وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ تو جو کچھ ہم ان کو عطا کرتے ہیں اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.تو حقیقت میں بنیادی وجہ مشورہ مالی اخراجات ہیں اور اس شوری کا باقی دنیا کی مجالس سے ایک امتیاز دکھا دیا گیا جہاں تمام قوانین کے امور بھی ان کی مجالس شوری ہی طے کرتی ہے اور Elected Bodies خواہ وہ کسی طریق پر منتخب ہوئی ہوں یعنی ڈیما کریسی کے ذریعہ جو قانون کا گھر بنایا جاتا ہے.اس کو اختیار ہوتا ہے کہ ہر قسم کے قوانین بھی وہ خود بنائے مگر مسلمانوں کی شوریٰ میں قانون سازی کا کوئی موقع نہیں نہ اس کا ذکر ممکن ہے کیونکہ خدا صاحب امر ہے اس نے قانون جاری فرما دیئے ہیں لیکن چونکہ دو بنیادی ستون ہیں ہر مجلس شوری کے خواہ اس کا نام مجلس شوریٰ ہو یا پارلیمنٹ رکھا جائے اول قانون سازی عمومی معاملات سے تعلق رکھنے والی اور سب سے اہم بات بجٹ ہے.بجٹ بنانا تمام سال ان کی مجالس کی دلچسپیوں میں سب سے اہم واقعہ ہوتا ہے اور بجٹ کے اجلاس کو سب دنیا کے ملکوں کے اخبار اپنے اپنے دائرے میں اچھالتے ہیں.ریڈیو، ٹیلی ویژن بھی آج کل تبصروں میں لگ جاتے ہیں جبکہ روز مرہ کے قانون سازی کے امور ہیں ان کو اتنی اہمیت نہیں
خطبات طاہر جلد 14 213 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء دی جاتی ، بعض دفعہ خاص موقعوں پر دے بھی دی جاتی ہے یا دی نہیں جاتی ہے لیکن مالی اخراجات سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.پس مسلمانوں کے لئے شوری کے دوران چونکہ قانون سازی ان معنوں میں تو ممکن نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت میں کوئی دخل دیں اور اس میں کچھ اضافہ کریں یا ان میں سے کوئی کمی تجویز کریں وہ تو دائمی شریعت ہے.پس سب سے اہم چیز باقی رہ جاتی ہے وہ بجٹ ہے اور مالی معاملات پر غور کرنے کے لئے وہ آپس میں مشوروں کے بعد فیصلے کرتے ہیں اور اس پہلو سے ساری قوم اعتماد میں آجاتی ہے اور بعینہ یہی نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ میں ہر جگہ قائم ہے تو بیچ میں وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کو داخل کرنا بہت ہی اہم مضمون ہے.اس مضمون کے تعلق میں مزید جو باتیں میں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ دو طرح کی آیات ہیں یا دو آیات ہیں جو شوری کے مضمون پر خصوصیت سے روشنی ڈالنے والی ہے.ایک حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے حوالے سے اور ایک امت کے عمومی حوالے سے ہے.یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے یہ امت کے حوالے سے ہے جہاں تک مالی اخراجات کے آخری فیصلے کا اختیار ہے وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہی اللہ ہی کو حاصل رہا اور آپ ہی یہ فیصلے فرما یا کرتے تھے اور جو مشورہ کرتے تھے وہ پارلیمنٹ کے مشورے کی طرح نہیں تھا کہ جو مشورہ دیا جائے اس پر ضرور عمل کریں.آپ کے متعلق خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ فرمایا ہے فَيَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ( آل عمران: 160) کہ اے محمد کی یہ خاص اللہ کی رحمت ہے تجھ پر کہ تو ان کے لئے نرم ہو گیا ہے اور خاص رحمت اور نرمی کا صحابہ کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کے تعلق میں کیوں ذکر فرمایا گیا سب سے پہلے تو یہ بات قابل غور ہے.صحابہ ایک ایسی اکھڑ قوم سے آئے تھے جو بہت انا نیت رکھتی تھی.چھوٹی چھوٹی باتوں میں خودسری اور عزت نفس کے معاملات اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور عزت نفس کے تعلق میں عربوں کے درمیان بعض ایسی جنگیں بھی ہوئی ہیں کہ معمولی سی بات کے نتیجے میں دو، دوسوسال تک جنگ جاری رہی اور قبائل کی دشمنیاں قدیم سے چلتی چلی جارہی تھیں.پس یہ وہ قوم تھی جس میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے قدم رکھا اور ان کے بغضوں کو ٹھنڈا کر دیا.
خطبات طاہر جلد 14 214 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء لِنتَ لَهُمُ میں ایک معنیٰ یہ ہے کہ ان کا علاج غیر معمولی محبت اور شفقت تھا اس کے بغیر ان کے سخت دلوں کی اصلاح ممکن نہیں تھی.پس خدا نے تجھے وہ غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ جس کے ذریعہ ایسی پتھر دل قوم کو بھی تو موم کی طرح پگھلا رہا ہے اور اگر تو ان کے دلوں کا علاج نہ کرتا اور ایک عام آدمی کی طرح ان جیسا ہی خلق دکھاتا تو یہ تجھے چھوڑ کر تجھ سے دور بھاگ جاتے.اس مضمون میں اس عظیم انقلاب کو مختصر لفظوں میں بیان فرما دیا جو آنحضرت ﷺ نے عربوں کی سرشت میں پیدا کر دیا ہے.جو سینکڑوں سال سے یا ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے ان کی فطرت ثانیہ بن چکے تھے ان رجحانات کو تبدیل کر دیا ہے اور تھوڑے عرصے کے اندر یہ عظیم انقلاب برپا کیا ہے.وہ آپ کی غیر معمولی نرمی اور شفقت تھی جس کی وجہ سے آنحضور ﷺ نے ان کے دل جیتے ہیں تب وہ اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنی گردنیں محمد رسول اللہ ﷺ کے حکم اور خدا کے حکم کے سامنے جھکا ئیں.دلوں کے جیتے بغیر استجابت کا مضمون نہیں بنتا.امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک دل مائل نہ ہوں اس وقت تک صحیح معنوں میں حکم کی پابندی ممکن ہی نہیں ہے.بعض لوگ جو بڑ بڑاتے ہوئے کام کرتے ہیں اور اعتراض بھی کرتے جاتے ہیں کہ جی ہاں حکم تو مانتے ہیں مگر ان کی ساری طاقتیں اس حکم کے خلاف کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن ظاہری طور پر جسم اس کے مطابق کام کر رہا ہوتا ہے اور ان کے اس تعاون میں کوئی بھی برکت باقی نہیں رہتی.اس لئے استجابت کا جو اصل مضمون ہے جو میں نے اس آیت کے حوالے سے پیش کیا تھا وہ یہ ہے کہ اپنی تمام طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ خدا کی بات پر لبیک کہتے ہیں صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنی تمام طاقتوں سے خواہ وہ قلبی ہوں یا دماغی ہوں یا روحانی ہوں یا جسمانی ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اطاعت کی گردن جھکا دیتے ہیں یہ ہے استجابہ.تو اس استجابت کے لئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ان کو تیار کیا ہے اور یہ اللہ کی خاص رحمت تھی جو آپ کو خلق عظیم عطا فرمایا اور اس کے نتیجے میں پھر ان سنگ دلوں کو موم میں تبدیل کیا، پگھلایا اور جانثاروں میں تبدیل کر دیا.دوسری جگہ قرآن کریم نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے:
خطبات طاہر جلد 14 215 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (لم عبده 36:35) کہ دوستوں کے دل جیتنا اگر وہ سخت دل ہوں یہ بھی مشکل کام ہے.بعض دوستوں کے دل بظاہر انسان جیت لیتا ہے لیکن ایک وقت کا استغناء ، ایک وقت کی بے اعتنائی انہیں پھر دھکا دے کر دور پھینک دیتی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ : اک ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے یہ عجیب دوستی تھی کہ چھوٹی سی بات پر برسوں کی دوستیاں ٹوٹ گئیں اور یارا نے ختم ہو گئے اور انسان اس معاملہ میں تمام دوسری مخلوقات سے زیادہ بے وفائی دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ ایک فارسی رباعی میں انسان کا کتے سے موازنہ کیا گیا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ دیکھو ایک کتا وہ چیز ہے کہ جس کو تم ایک روٹی ڈال دو پھر سو پھر اس کو مارو تو وہ تمہیں نہیں کاٹے گا.دینے والے ہاتھ کا لحاظ کرے گا اور انسان ایسی چیز ہے کہ اس پر سواحسان کرو اور ایک بے اعتنائی کرو تو وہ تم پر پتھراؤ شروع کر دے گا.تو ایسی قوم تھی عرب جو اس انسانی سرشت میں سب دوسرے انسانوں اور سب قوموں سے آگے بڑھ گئی تھی اس کو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے دل جیت کر اطاعت پر آمادہ فرمایا ہے.اس مضمون کا شوری سے کیا تعلق ہے وہ میں آگے جا کر بیان کرتا ہوں.فَاعْفُ عَنْهُمُ پس تو نے دل تو رام کر لئے لیکن تجھ میں تو وہ طاقت ہے کہ تو دشمنوں کے دل بھی رام کر سکتا ہے.اپنوں نے تو تیرا فدائی ہونا ہی تھا.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ خدا تعالیٰ فرما رہا ہے اگر تم ان ہدایتوں پر عمل کرو جو میں دے رہا ہوں تو اچانک دیکھو گے کہ جو تمہارے جان کے دشمن ہیں وہ جاں نثار دوست بن جائیں گے.خون کے پیاسے خون نچھاور کرنے والے بن جائیں گے لیکن یہ نصیب انہیں لوگوں کو ہو سکتا ہے جو بہت صبر کرنے والے ہوں اور یہ اس شخص کے حصے میں خصوصیت سے سعادت آئی ہے جس کو خدا نے غیر معمولی اخلاق کا حصہ عطا فرمایا ہے.ذُو حَظِّ عَظِیمٍ اور یہاں حضرت محمد رسول الله الله مراد ہیں.پس آپ نے پہلے اخلاق سے محبت اور پیار سے ان کے اندر پاک
خطبات طاہر جلد 14 216 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء تبدیلیاں پیدا فرما ئیں ، ان کے دل جیت لئے.اس کے بعد بھی کمزوریاں رہتی ہیں ،غلطیاں رونما ہوتی ہیں تو فرمایا فَاعْفُ عَنْهُمْ ان سے عفو کا سلوک کرو وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ اور ان کو بخش نہیں فرمایا، ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرما.یہ بھی الہی کلام ہونے کا ایک عجیب نشان ہے ورنہ عام طور پر یہی زبان پر آتا ہے کہ ان سے عفو کر ان کو بخش دے.فرمایا عفوکر اور بخشنے کا معاملہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے.کئی ایسی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں کہ انسان عفو سے کام لے مگر اللہ معاف نہ کرے اس لئے فرمایا وَ اسْتَغْفِرُ لَهُمُ ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرتارہ.وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ یہ وہ لوگ ہیں جن سے مشورہ کرنا ہے.اگر اس پاک تبدیلی کے بغیر لیا مشورہ تو مشورے کی قیمت بھی کچھ نہیں رہتی.وہ جن کے دلوں میں عناد ہو جن کے دلوں میں سختیاں ہوں ان سے مشورے کریں تو بات بات پر جنگیں چھڑ جاتی ہیں، لڑائیاں ہو جاتی ہیں، مجالس کے مزاج بگڑ جاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ جماعت احمدیہ میں ایک لمبے عرصے کی شوری کی تربیت ہے ذرا آپ نگرانی کم کریں تو ایسے واقعات شروع ہو جاتے ہیں.ایک دوسرے کے خلاف بعض دفعہ بدخلقی سے کام لیا جاتا ہے.تو یہ وہ موقع ہے جس کے متعلق عفو کا ذکر ملتا ہے لیکن ایک حد تک اور یہ غلطیاں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ جو خدا کو اس طرح ناراض کر لیں کہ پھر انسان کا عفو کسی کے کام نہ آئے جب تک اللہ سے اس کی مغفرت طلب نہ کی جائے اس وقت تک اس کا یہ گناہ کہ اس نے ایک مشورے کے موقع پر ایک اہم قومی معاملے میں ایسا رویہ اختیار کیا جس سے دلوں کے جوڑنے کی بجائے دلوں کے پھٹنے کے سامان پیدا ہو گئے ، یہ بعض دفعہ اتنا بڑا گناہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کبائر گناہ میں لکھا جاتا ہے.اس موقع پر فرمایا کہ تیرا عفو، تیری رحمت جو ہے وہ اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی تو بے چین رہتا ہے کہ کسی طرح ان کو معافی مل جائے.پس تو پھر خدا سے بخشش طلب کر کیونکہ تیری دعاؤں کے نتیجے میں بعض دفعہ ایسے ایسے گنہگار بھی بخشے جا سکتے ہیں اور فرمایا وَشَاوِرُهُمُ في الْأَمْرِ ان سے مشورہ طلب کر.اب عرب تو مزاج کے ایسے ٹیڑھے تھے کہ ان سے مشورہ طلب کیا جاتا اور نہ مانا جاتا تو بھڑک اٹھتے تھے.عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو حد سے زیادہ بے حیائی اور بے وفائی کا معاملہ کیا اور جنگ احد میں اپنے ساتھی لے کر میدان جنگ سے خطرے کے وقت پیچھے
خطبات طاہر جلد 14 217 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء واپس مڑ گیا.ایک بنیادی وجہ تھی کہ میں نے مشورہ دیا تھا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرو اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے میری بات نہیں مانی اور دوسروں کی بات مان لی اور باہر نکل کر اب لڑائی کے لئے آگئے ہیں.اپنے ساتھیوں کو کہا چلو ہم واپس چلتے ہیں.یہ مزاج تھا جبکہ کافی اس مزاج کو پہلے ہموار کیا جا چکا تھا.اگر آنحضرت ﷺ ان کو ذہنی قلبی، روحانی طور پر مشورے دینے کے لئے تیار نہ کر چکے ہوتے تو یہ کم آ نہیں سکتا تھا کہ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ اور اس حد تک کامیاب ہوئے ہیں کہ اس کے بعد فرمایا ہے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ تو مشورہ لے مگر فیصلہ تو کرے گا.جب تو فیصلہ کر لے کہ کس مشورے کو قبول کرنا ہے کس کو نہیں کرنا، سب کو رد کرنا ہے اور ایک نئی بات پیدا کرنی ہے یا ان کے مطابق عمل کرنا ہے تو وہ فیصلہ جس کی خدا حمایت کرے گا وہ شوری نہیں ہے وہ تیرا فیصلہ ہے.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللہ پھر اللہ وعدہ کرتا ہے کہ تیرے فیصلے کی پشت پناہی فرمائے گا اور اس کی تائید کرے گا.تو یہ مجلس شوریٰ ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے کے حوالے سے جاری فرمائی گئی لیکن یہ ایک مجلس نہیں ہے.یہ ایسی مجلس ہے جو سارا سال ہمہ وقت جاری رہی یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے سال کا کوئی ایک دن مقرر نہیں فرمایا تھا کہ آج مجلس شوری ہوگی.ہرا ہم معاملے میں جس میں آپ سمجھتے تھے کہ مشورہ ہونا چاہئے.آپ بعض دفعہ زیادہ کو بلا لیا کرتے تھے بعض دفعہ کم بلا لیا کرتے تھے بعض دفعہ اعلان عام فرما دیتے تھے کہ لوگ اکٹھے ہو جا ئیں مشورہ کرنا ہے.تو کئی طریق تھے شوری کے اور یہ انتخابی طریق جو آج کل رائج ہے یہ من و عن اس طرح رائج نہیں تھا کیونکہ اس وقت اس کی نہ ضرورت تھی اور نہ غالباً ان حالات میں یہ موزوں تھا اگر ہوتا تو پھر رسول اللہ ﷺ وہی کرتے.آنحضرت کے وجود کے گرد سارے صحابہ اس طرح گھوم رہے تھے جس طرح محور کے گرد سیارے گھومتے ہیں اور ایک ہی مرکز تھا، فیصلے کا بھی مرکز وہی تھا اور حوالے دینے کا بھی وہی مرکز تھا.وہ چاہتا تو دوسرے ارد گرد گھومنے والوں سے بات پوچھتا ،مشورہ لیتا ہے.چاہتا تو اسے نظر انداز کر دیتا اور فیصلے کی طاقت، قوت آنحضرت ﷺ کی تھی مگر آپ نے جو نمونہ دکھا یا وہ آئندہ سب فیصلہ کرنے والوں کے لئے رہنما بن گیا.آپ نے فیصلوں کو ہمیشہ تو قیر کی نظر سے دیکھا ہے اور یہ لِنتَ لَهُمْ کے مضمون میں
خطبات طاہر جلد 14 218 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء بات داخل ہے.کوئی ایسا شخص جس کو آخری فیصلے کا اختیار ہو،مشورے کے لئے لوگوں کو بلائے اور ہر دفعہ بے اعتنائی کرے اور آخر پرتان اس بات پر ٹوٹے کہ فیصلہ تو میں نے کرنا ہے ناں ٹھیک ہے جو تم نے کہہ دیا ختم تو یہ بھی ایسا نظام نہیں جو باقی رہ سکے ، قائم رہ سکے اور اس آیت کے شروع حصے میں جو تنبیہ کی گئی ہے لَا نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ایسے مشیر پھر ایسے شخص کے اردگرد سے دور بھاگ جاتے ہیں.اس لئے وہاں بھی لنت کا مضمون اس میں داخل ہے.اس شخص کو اختیار ملا ہے جو سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور سب سے زیادہ با اخلاق تھا اور لوگوں کے ساتھ تحکمانہ سلوک کا عادی نہیں تھا بلکہ جانتے ہوئے کہ حکم آخری صورت میں میرے ہاتھ میں ہے پھر بھی ان سے نرمی سے بات کر کے ان سے مشورے طلب کرتا تھا اور جہاں تک ممکن ہوا ان کے مشوروں کا لحاظ کرتا تھا.پس آنحضور ﷺ کی زندگی میں سوائے ایک دو واقعات کے کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں آنحضور ﷺ نے مشوروں کا لحاظ نہ فرمایا ہو اور ایک واقعہ ہے جہاں اپنے فیصلے پر اصرار فرمایا ہے اور پھر آسمان سے گواہی اتری کہ وہی فیصلہ درست تھا اور جو اس فیصلے میں اس مشورہ میں ساتھ شامل نہ ہوئے وہ ہمیشہ اس بات پر پچھتاتے رہے اور یہ صلح حدیبیہ کا موقع ہے.میدان حدیبیہ میں جب آنحضور ﷺ اور آپ کے رفقاء عمرے اور حج کی نیت سے مکہ کی راہ میں حدیبیہ کے مقام پر روک دیئے گئے اور کفار مکہ نے کہا کہ نہیں آگے قدم نہیں بڑھانا.اگر تم اب اس سے آگے بڑھے اور سکے میں عمرے اور حج کی نیت سے داخل ہونے کی کوشش کی تو پھر خون بہے گا.تلوار کے زور پر کرنا ہے تو کرو اس طرح ہم اجازت نہیں دیں گے.اس موقع پر تمام صحابہ بلا استثناء اس بات کے قائل تھے اور یہی مشورہ آنحضور ﷺ کو بڑے اصرار سے دیا کہ خدا نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہم نے عمرہ کرنا ہے یا بیت اللہ کا طواف کرنا ہے.یہ کون ہوتے ہیں ہمیں روکنے والے.جان کی بات ہے تو ہم اپنی جانیں پیش کرتے ہیں.خون کی بات ہے تو ہمارا قطرہ قطرہ اس میدان میں بہہ جائے ہمیں کوئی گریز نہیں ہے.اس لئے آپ فیصلہ فرما ئیں اور ہم آگے بڑھیں گے.آنحضرت ﷺ نے تمام فیصلے کورد کر دیا، ایک بات نہیں مانی ، سب باتوں کو رد کر دیا اور فرمایا جو خدا مجھے بتاتا ہے، خدا نے جو مجھے سمجھایا ہے وہ تو یہی ہے کہ اگر راہ میں خطرہ ہو تو حج فرض نہیں رہتا.راستہ محفوظ نہ ہو تو حج کیسا اور عمرہ کیسا وہ تو اس کی تیاری کے لئے ایک پہلا حصہ تھا.اصل مقصد یہ تھا کہ پہلے لمبے عرصہ تک وہاں قیام ہو پہلے عمرہ
خطبات طاہر جلد 14 219 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء کیا جائے پھر حج کا موسم آجائے تو حج بھی کریں اور پھر واپس آئیں.تو صحابہ اس قدر اپنے مشورہ پر مصر تھے کہ جب آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اٹھو اور اپنی قربانیاں یہیں ذبح کر دو.تو سارے صحابہ کی تاریخ میں ایک ہی صرف واقعہ ہے کہ اس پر فوراً لبیک نہیں کہا اور مشورہ جو ہے یہاں ، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اہل تقویٰ جو بہت بلند مقام تک پہنچائے گئے تھے ان کو مشورہ رد کرنے کے نتیجے میں یہ صدمہ نہیں پہنچا تھا.یہ عرب مزاج نہیں ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مشورہ رد کر دو تو غصہ آجائے.اس لئے صحابہ کی شان میں کوئی غلط تصور نہ باندھیں.یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق میں اور ایمان کے اس تصور کے نتیجے میں ان سے یہ حرکت ہوئی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو جب خدا نے بتا دیا ہے تو وہ خود ہی فیصلہ فرمائے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ حج نہ ہو اور اگر ہم نے حج کئے بغیر واپسی کی تو دشمن محمد رسول اللہ ﷺ پر ہنسے گا اور آپ پر باتیں بنائے گا.میں یہ سمجھتا ہوں کہ سو فیصدی ان کا اس وقت مختل ہو جانا اور مخبوط الحواس ہو جانا اس عشق کی ایک بڑھی ہوئی صورت کی وجہ سے تھا جس میں وہ توازن نہیں تھا جو محمد رسول اللہ علیہ کے اندر تھا.پس آپ نے جب دیکھا تو حیران رہ گئے کہ کبھی ایسا واقعہ نہیں گزرا تھا کہ کسی ایک صحابی نے بھی آپ کے حکم سے روگردانی کی ہو اور یہاں پوری صحابہ کی جماعت ہے.عظیم کبیر صحابہ اپنی جانیں ، خون چھڑ کنے والے، جان فدا کرنے والے سب ایسے جیسے فالج ہو گیا ہوو ہیں بیٹھے رہ گئے اور کوئی نہیں اٹھا.اس پر آپ اپنے خیمے میں آئے.امہات المومنین میں سے ایک تھیں ان سے کہا کہ کیا ہو گیا ہے، میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں.انہوں نے کہا یا رسول اللہ یہ نافرمان لوگ نہیں ہیں.صدمے کی حالت سے ان کے دماغ مختل ہو چکے ہیں.آپ جائے اور اپنی قربانی کی گردن پر چھری پھیرئے پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے ایسا ہی کیا.اب یہاں بھی ایک مشورہ مانا گیا ہے.یہ مشورے کی باتیں ہو رہی ہیں.ایک عورت کا مشورہ دیکھیں کتنا عظیم مشورہ ثابت ہوتا ہے اور ان صحابہ سے ہر نا فرمانی کا داغ دھونے والا مشورہ ثابت ہو جاتا ہے.ایک مشورہ ہے جو اجتماعی ہے جسے رد کیا جا رہا ہے اور اس رد ہونے کی وجہ سے وہ مشورہ ان پر ایک داغ ڈال دیتا ہے.ایک تنہا عورت کا مشورہ ہے جسے قبول کیا جا رہا ہے اور ان کے سارے داغ دھو دیتا ہے.جب رسول اللہ اپنی چھری لے کر اپنی قربانی کی طرف بڑھے ہیں صحابہ کہتے ہیں یوں لگا جیسے اچانک آنکھ کھل گئی
خطبات طاہر جلد 14 220 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء ہے، ہوش آگئی ہے کہ کیا ہورہا ہے.روتے روتے گریہ وزاری کرتے ہوئے اس طرح قربانیوں کے او پر لیکے ہیں کہ نہیں کہا جاسکتا کہ قربانیوں کی درد کی کراہیں اونچی تھیں یا ان کا شور زیادہ تھا.یقیناً ان کی گریہ وزاری نے قربانیوں کی کراہوں کو بھی دبا دیا تھا.اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس میدان میں شور تھا تو ان صحابہ کے اندرونی طور پر ذبح ہونے کا شور تھا.پس یہ میں اس لئے وضاحت کر رہا ہوں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس واقع کو نافرمانی کی فہرستوں میں شمار کرنا چاہئے یا اس عرب جہالت کی طرف اسے منسوب کرنا چاہئے جس میں مشورے کو رد کرنے کے نتیجے میں بڑے سخت رد عمل ہوا کرتے تھے اور اس کے سوا کوئی واقعہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مشورہ کلینتہ قبول کیا ہو یا جزوی طور پر قبول کیا ہو کبھی کسی ایک صحابی نے بھی اس پر کسی قسم کا کوئی اعتراض کیا ہو.تو فَإِذَا عَزَمْتَ میں جو حق محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا تھا.وہ ہمیشہ کلیہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی کے ہاتھ میں رہا اور آپ ہی پر در حقیقت خدا نے اعتماد فرمایا ہے کہ تو اس قوم کا مرکزی نقطہ ہے، تیری فراست پر اعتماد کرتا ہوں.مشورہ ضرور کر کیونکہ انسان کی صلاحیتوں کو چمکاتا ہے اور کئی قسم کی ایسی کوتاہیوں سے انسان کو بچالیتا ہے.جو بشری کمزوریوں سے تعلق رکھتی ہیں.پس یہ جو مضمون ہے مشورہ کا اور خدا پر توکل کرنے والا یعنی عَزَمتَ والا مضمون اس کا پہلے مضمون سے بھی ایک تعلق ہے.فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمُ یہ لوگ جس طرح غلطیاں کرتے ہیں، کمزوری دکھاتے ہیں تو ان سے صرف نظر فرما اور ان کے لئے بخشش طلب کر ، میں تجھ سے یہ سلوک کروں گا کہ تیرے فیصلوں کی حفاظت کروں گا اور کوئی ایسا تو فیصلہ نہیں کرے گا جس پر تجھے بخشش کی ضرورت ہی پڑے، اللہ تیری حفاظت فرمائے گا کیونکہ تو تو دوسروں کی کوتاہیوں کے لئے مجسم بخشش کا سوال بن چکا ہے تو تیرے دائرے میں میرا یہ فیصلہ ہے کہ تو جو بھی فیصلہ کرے گا وہ میرا فیصلہ ہوگا اور میں اس کی پشت پر کھڑا ہو جاؤں گا اور اس کو سچا ثابت کر دکھاؤں گا.فَتَوَكَّلُ عَلَى اللهِ پس اللہ پر توکل کروانَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِينَ یقینا اللہ تعالیٰ تو کل کرنے والوں سے بہت محبت رکھتا ہے.مجلس شوری کا جو نظام جماعت احمدیہ میں اس طریق پر رائج ہے جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں اور اس کا آغاز دراصل حضرت مصلح موعودؓ نے 1922ء میں کیا.1922ء میں پہلی بار با قاعدہ
خطبات طاہر جلد 14 221 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء ایک Institution کے طور پر مجلس شوری وجود میں آئی ہے اور بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ بحیثیت Institution اس کا وجود میں آنا انتہائی ضروری تھا کیونکہ مالی معاملات ایسی نوعیت اختیار کر رہے تھے کہ جس کے نتیجے میں محض اتفاقاً کبھی اس سے مشورہ کر لینا، کبھی اس سے مشورہ کر لینا کافی نہیں تھا بلکہ ساری جماعت کو جو چندہ دہندہ ہے اس کو اعتماد میں لینا اور ان امور پر فیصلوں میں ان کے مشورے طلب کرنا ضروری تھا اور یہی مجلس شوریٰ ہے جواب برکت پا کر پھولتی پھلتی رہی اور اب خدا کے فضل سے بہت سے دنیا کے ممالک میں بعینہ اسی مجلس شوری کے نمونے قائم ہو چکے ہیں.پس آج جبکہ میں ربوہ کی مجلس شوری سے مخاطب ہوں تو درحقیقت کل عالم میں جہاں جہاں بھی یہ آواز پہنچ رہی ہے اور ہر خطے میں پہنچ رہی ہے وہاں بھی جو جماعت کے دوست سننے والے ہیں ، میں ان سب سے دراصل مخاطب ہوں اور یہ مجلس شوری در اصل ایک عام عالمی شوری کا رنگ اختیار کر چکی ہے.تو اس پہلو سے میں چند باتیں آپ کو یاد دلانی چاہتا ہوں.یہ جو دودو الگ الگ ذکر ہیں.ایک ہے سوری بَيْنَهُمُ اور ایک ہے وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ تو کیا یہ مضمون صرف حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص تھا کہ جب تک تو ان لوگوں میں رہے مشورہ کر اور پھر فیصلہ تو کر اور اللہ پر توکل کر یا یہ ہمیشہ کے لئے صلى الله اسلام کے مرکز پر فائز خدا کے نمائندے کے لئے بھی تھا جس نے بعد میں خلیفہ بن کر آنحضرت علی کی جوتیوں کے غلام کی حیثیت سے اس منصب پر فیصلے دینے تھے، یہ اہم فیصلہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اسے جو سمجھا وہ یہی تھا کہ یہ ان احکامات میں سے ہے جو منصبی احکامات صرف نبوت سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ نبوت کے بعد نبوت کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے جو بھی نظام وجود میں آئے گا یا آنا تھا اس نظام پر فائز انسان کے ساتھ بھی یہ حکم تعلق رکھتا ہے اور شوری کا یہ حکم کہ آخری فیصلہ صاحب امر کرے گا یہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری رہے.اس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے اسی شوریٰ میں جوفر مایا وہ یہ تھا: الله اسلام وعدہ کرتا ہے کہ اسے ( یعنی خلیفہ وقت کو) خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت حاصل ہوگی.پس اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی خاص ضرورت سے جو نہایت اہم ہو مشیر کاروں کی کثرت رائے کے فیصلے کو رد کر دے
خطبات طاہر جلد 14 222 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء تو وہ ایسا کر سکتا ہے.پس وہ خود مختار ہے ان معنوں میں کہ وہ شوری کے فیصلوں کو مستر د کر سکتا ہے اور وہ پابند ہے ان معنوں میں کہ وہ اسلام کے مقرر کردہ نظام کے ماتحت ہے جسے بدلنے کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے.پس اس آیت کی تشریح میں جو میں نے عرض کیا بعینہ حضرت مصلح موعودؓ کا دراصل موقف یہی تھا.امر تو خدا کے ہاتھ میں تھا اور ہے اور ہمیشہ رہے گا اور شریعت کے امور میں جو دائمی فیصلے ہوچکے ہیں انہیں دنیا کا کوئی انسان بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا اور یہی فرق ہے خلیفہ اور ڈکٹیٹر میں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ کو تم نے اتنے اختیار دے رکھے ہیں یہ تو ڈکٹیٹر ہو گیا.وہ ڈکٹیٹر کیسا ہے جس کے اوپر ساری دنیا کا بادشاہ ہر وقت نگران کھڑا ہے اور ہر بات میں وہ خدا کو جوابدہ ہو.دنیا کے سامنے جوابدہ ہونا خواہ وہ کیسا ہی جابر بادشاہ ہو جس کے سامنے کوئی جوابدہ ہو کوئی اتنا مشکل کام نہیں کیونکہ انسان دنیا کو دھو کے دے سکتا ہے، تاویلیں اختیار کر سکتا ہے.فرضی بہانے بنا کر اپنے جرم کی پردہ پوشی کر سکتا ہے لیکن خدا کے سامنے تو کوئی بہانہ نہیں چل سکتا.پس اسی شوری میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ دیکھو مجھے ایک اختیار ہے جو بظاہر تم سے بالا ہے مگر تم نہیں جانتے کہ تم انسانوں کے سامنے جوابدہ ہو اور میں خدا کی جبروت کے سامنے جوابدہ ہوں.اس لئے ممکن نہیں ہے کہ میں اس جوابدہی کے تصور کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی زیادتی کا کوئی تصور بھی کر سکوں، ایسی بات سوچ بھی سکوں لیکن اس کے علاوہ آپ نے اس استنباط کو الله اسلامی تاریخ سے بھی ثابت کیا.آپ نے فرمایا دیکھو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد خلفاء نے بھی بعینہ آنحضرت ﷺ کا طریق اختیار کرتے ہوئے شوری بلائی.بعض دفعہ اعلان کے ذریعے ، بعض دفعہ چند صحابہ کو یا صائب الرائے لوگوں کو بلایا لیکن فیصلہ خلیفہ خود کرتا تھا.ایک مثال اس کی آپ نے حضرت عمر نے زمانے سے دی ہے کہ جب ایران کے ساتھ جنگ ہورہی تھی تو اس وقت ایک ایسا خطرناک موقع در پیش تھا کہ حضرت عمرؓ سے وہاں کے موقع کے جرنیل نے یہ گزارش کی کہ اگر فوری طور پر آپ نے کمک نہ بھجوائی تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، ایرانی فوج کو ہم زیادہ دیر روک نہیں سکتے.وہ عرب میں داخل ہو جائے گی اور پھر بہت بڑی تباہی کا خطرہ درپیش ہے اور اس حادثے میں بھی جو پیش آیا تھا جس کے اوپر یہ مسلمانوں کو مشکل پیش آئی
خطبات طاہر جلد 14 223 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء اس میں بھی بہت سے مسلمان وہاں شہید ہو گئے تھے.فیصلہ یہ ہور ہا تھا کہ کیا خلیفہ وقت خودشامل ہو یا محض کمک بھیجے اور کسی اور کوساتھ بھیج دے اور تمام صحابہ کا یہ مشورہ تھا کہ اتنا اہم موقع ہے کہ خلیفہ وقت کو خود وہاں جا کر حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور اس کے نتیجے میں اس کی برکت سے بھی کا یا پلٹ جائے گی.ایک شخص تھا جو خاموش کھڑا تھا وہ حضرت علی تھے.حضرت عمرہ کی نظر ان پر پڑی.آپ نے پوچھا علی آپ کیوں خاموش ہیں ، آپ کی خاموشی سے میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ کی رائے کچھ مختلف ہے تو بتائیں آپ کی رائے کیا ہے؟ انہوں نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اب وہ ایسا وقت آچکا ہے کہ خلیفہ وقت کو خو داب میدان جنگ میں نہیں جانا چاہئے کیونکہ ایک میدان جنگ نہیں ، ایک ذمہ داری نہیں ، دنیا میں ہر سو کئی قسم کے میدان جاری ہیں.اگر خلیفہ اپنے آپ کو ایک میدان جنگ میں جھونک دے گا تو باقی سب جتنے بھی مقابلے اور مجاہدے ہو رہے ہیں ان کی نگرانی سے الگ ہو جائے گا اور بہت بڑا خطرہ ہے یہ کہ اگر خدانخواستہ وہاں کچھ ہو جائے تو پھر سارے عالم اسلام کو نقصان پہنچ جائے گا اس لئے آپ کو وہاں شامل نہیں ہونا چاہئے.حضرت عمرؓ نے سب صحابہ کی رائے رد کر دی اور اس رائے کو قبول کر لیا.ایک اور واقعہ جس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے تو نہیں فرمایا لیکن اس سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے زیادہ عظمت کا واقعہ ہے اور زیادہ معاملے پر کھلی روشنی ڈال رہا ہے وہ حضرت ابو بکڑ کا فیصلہ ہے.حضرت ابو بکر نے جو نہی آپ کو منصب خلافت پر فائز فرمایا گیا یہ بہت بڑا فتنہ اپنے سامنے کھلتا ہوا، اٹھتا ہوا اور بہت بدا را دوں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا.اس کو بعض لوگ فتنہ ارتداد کہتے ہیں دراصل یہ فتنہ بغاوت تھا.تمام عرب قبائل نے محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد بغاوت شروع کر دی اور جگہ جگہ سے ایسی منحوس خبر میں آرہی تھیں کہ وہ کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے اچھا اب ان کو الٹا دو اور اپنی حکومت خود قائم کرو.ایسے موقع پر ایک ایسا لشکر تھا جو اسامہ بن زید کی قیادت میں ایک دور کے محاذ پر بھیجا جانا تھا جس کو خود آنحضرت ﷺ نے تشکیل دیا تھا اور خود ہی اپنے غلام زید جس سے بیٹوں کی طرح سلوک فرمایا اس کے بیٹے کو جو نو عمر تھا، اس لشکر میں ان سے بڑے بڑے صحابہ بھی موجود تھے، اسامہ بن زید کو امیر بنا دیا.ایسے موقع پر صحابہ اکٹھے ہوئے اور اس میں بلا استثناء تمام صحابہ کا یہ مشورہ تھا کہ اے امیر المومنین یہ بہت خطرناک وقت ہے اس وقت اس لشکر
خطبات طاہر جلد 14 224 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء کو بھیجنا بند کر دیں، ٹال دیں اس وقت کیونکہ بہت قوی دشمن ہر طرف سے مدینے پر حملہ آور ہونے والا ہے.حضرت ابوبکر کا جواب اس وقت یہ تھا کہ ابن ابی قحافہ کی کیا مجال ہے، یہ کون ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ ہو اور یہ خلیفہ بن کر اپنے پہلے فیصلے میں اس فیصلے کو منسوخ کرنے والا ہو.کیسے ہوسکتا ہے.ایک ایسی عظیم دلیل تھی جسے صدیق دل ہی سمجھ سکتا تھا اس وقت اور کسی کو سمجھ نہیں آئی.بلا استثناء سب نے سرتسلیم خم کر دیا اور حضرت ابو بکڑ نے پھر یہ فرمایا کہ دیکھو اس فیصلے کی میرے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ خدا کی قسم اگر مدینے کی گلیوں میں مسلمان عورتوں اور بچوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس فیصلے کو نہیں بدلوں گا کیونکہ میرے آقا محمد رسول اللہ کا یہ آخری فیصلہ ہے.بہر حال اسی طرح عمل ہوگا.تو خلافت صرف خدا ہی کے حضور سر نہیں جھکاتی ، اپنے سے پہلے اولوالامر کے حضور بھی اس طرح سر جھکاتی ہے کہ کامل طور پر اس کا اپنا وجود مٹ کر اپنے آقا کے وجود میں جہاں تک اطاعت کا تعلق ہے تبدیل ہو جاتا ہے.پس یہ بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ خلفاء نے بھی یہی سمجھا اس آیت کا مفہوم کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد جو بھی امت محمدیہ میں صاحب امر بنایا جائے گا، اگر خدا براہ راست بنائے تو وہ امام مہدی کے طور پر آیا اور گز ربھی گیا لیکن جو بھی بنایا جائے گا بطور خلیفہ کے اس پر بھی اسی آیت کا اطلاق ہوگا.جب وہ فیصلے کرے گا، تو مشورے ضرور کرے گا لیکن مشوروں کے بعد فیصلہ خلیفہ وقت کا ہوگا اور جو وہ فیصلہ کرے گا اسے خدا کی تائید حاصل ہوگی اور پھر اس کا کام بھی تو کل ہے اور وہ تو کل ہی کرے گا تو وہ فیصلہ کرے گا لیکن یا درکھو کہ اس کے علاوہ بھی متوکلین کی ضرورت پیش آئے گی.صل الله اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِينَ که صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر آپ کا توکل نہیں، تم سب کو تو کل کرنا ہو گا.تم سب کو اس یقین کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کے ساتھ اللہ بھی شامل ہے اور اس کو خدائی تائید شامل ہے اس لئے اللہ پر توکل کرنا اور بڑی عظیم بات اس میں یہ نکلی کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے فیصلے کی عظمت تو کل کے نتیجے میں تھی ورنہ ذاتی طور پر اپنی صلاحیتوں پر آپ کے فیصلے کو کوئی طاقت نہیں ملتی تھی.تو کل ہی جان ہے اس فیصلے کی اور توکل کامل
خطبات طاہر جلد 14 225 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء تقویٰ کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے اور کامل ایمان کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے.پس محمد رسول اللہ کا فیصلہ توکل کے ساتھ ایک لازم و ملزوم کا تعلق رکھتا تھا.ہر فیصلے پر اس لئے تو کل تھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ کلیتہ خدا کی خاطر فیصلہ ہے اس میں کوئی نفس کی ملونی نہیں ہے اور جو فیصلہ خدا کی خاطر اتنا بے لوث اور پاک اور خالص ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ اس فیصلے کی غیرت نہ دکھائے.پس فرمایا تم بھی ایسے ہی تو کل کا نمونہ دکھاؤ جیسے محمد رسول اللہ ﷺ نے دکھایا اور اس کے نتیجے میں خدا نے آپ کی پشت پناہی کا ایک عظیم وعدہ فرمایا.ہر فیصلے کو قبول کیا کہ ہاں میں اس فیصلے کی حمایت کروں گا.پس تم بھی متوکل بنو کیونکہ اللہ کی محبت چاہتے ہو، اللہ سے محبت چاہتے ہو تو تو کل کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے.پس ایک تو یہ شوریٰ کا مضمون ہے جو سب دنیا میں جماعت پر خوب اچھی طرح روشن ہونا چاہئے.دوسرا سوری بَيْنَهُمُ سے متعلق یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس سے مرا دضروری نہیں ہے کہ خلیفہ وقت طلب کرے یا ایک امیر طلب کرے تو پھر مشورے ہوں.مشورے کا رواج مسلمانوں میں جس شان اور جس کھلی وضاحت کے ساتھ قرآن میں ملتا ہے یعنی قرآن کے ذریعے مسلمانوں کو یہ رواج عطا ہوا ہے، دنیا کی کسی اٹھی کتاب میں یہ بات نہیں ملتی.وہ جو قرآن کی امتیازی شانیں ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے.مشورے کا اور شوریٰ کا جو نظام وقت کے امام اور عامتہ المسلمین کے حوالے سے کھول کر بیان فرمایا گیا ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی.نکال کر دکھا ئیں.آپ کو کہیں کوئی ذکر نہیں ملے گا.پس یہ کامل کتاب ہے.اس کے ارشادات میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.محض سرسری نظر سے مطالعہ کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے مضمون کو سمجھ لیا ہے یہ کافی نہیں ہے.وَاَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ میں ایک جاری اور ساری مستمرہ مضمون ہے مسلمانوں کی یہ عادت ہے، مومنوں کی یہ عادت ہے ، فطرت ثانیہ بن چکی ہے کہ ہر بات میں خواہ وہ ذاتی ہو، خواہ وہ جماعتی ہو، کسی نوعیت کی بھی ہو وہ مشورے ضرور کرتے ہیں اور یہ جو مشورے ہیں ان میں فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله کا ذکر نہیں فرمایا اس لئے وہ ایک آدمی کے مشورے کا سوال نہیں ہے یہ ایک جاری مسلمانوں کی ایک ایسی خوبصورت عادت کا ذکر ہے جو ان کو تقویت عطا کرتی ہے اور جس کے
خطبات طاہر جلد 14 226 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء نتیجے میں ان کا مالی نظام تقویت پاتا ہے کیونکہ اس کے معابعد پھر مالی نظام کا ذکر فرمایا ہے اور قربانیوں کا ذکر فرمایا ہے.پس دو باتیں اس سے واضح ہوئیں کہ عام مشورے ان کے جاری رہتے ہیں عادت بن چکی ہے اور دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ مالی معاملات میں وہ اجتماعی غور بھی کرتے ہیں.شُوری بَيْنَهُمْ میں اجتماعیت کا بھی مضمون ہے.اجتماعی غور کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر فیصلے کرتے ہیں.پس تمام دنیا میں جو مالی نظام جاری ہے بعینہ اسی آیت کریمہ کی ہدایت کے مطابق ہے ایک ایک پیسہ بجٹ کا با قاعدہ خدمت کرنے والے، چندہ دینے والوں کے مشورے کے مطابق خرچ ہوتا ہے اور خلیفہ وقت جو فیصلے کرتا ہے اس کو اس عمومی مشورے کی تقویت حاصل ہوتی ہے اور بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں خلیفہ وقت کو جماعت پوری طرح اپنی طرف سے نہ صرف یہ اختیار دیتی ہے بلکہ اختیار تو خدا نے دیا ہوا ہے اس کو بلکہ اس اختیار میں تقویت دینے کی خاطر اور مزید اعتماد پیدا کرنے کی خاطر کہتی ہے جو آپ کا فیصلہ وہ ہمیں منظور ہے.چنانچہ تمام جماعت کی تاریخ میں ہمیشہ جب بھی آپ بجٹ کے معاملات پر غور کرتے ہوئے جماعت کو پاتے ہیں آخری نتیجہ ہمیشہ یہی نکلا ہے.بعض جگہ پوری طرح فیصلے نہیں کر سکے، بعض جگہ فیصلے ہوئے اور اختلاف ہوئے ، بعض دفعہ شاذ کے طور پر وقت کے خلیفہ نے اکثریت کے مشورے کو رد کر دیا.ایک بھی آواز ایسی نہیں اٹھی جس نے یہ شکوہ کیا ہو یا بے اطمینانی کا اظہار کیا ہو.بالا تفاق سب نے کہا جو فیصلہ آپ کا وہی ہمارا فیصلہ ہے اور بعد میں جو حالات ظاہر ہوئے انہوں نے ثابت کر دیا کہ بلا استثناء ہمیشہ خلیفہ کا وہ فیصلہ درست ثابت ہوا جوا کثریت کے برعکس تھا لیکن ایسا ہوا کم کم ہے اور مالی معاملات میں بھی جتنا اعتماد جماعت خلیفہ وقت پر کرتی ہے اتنا کسی اور شخص پر نہیں کرتی ، نہ کر سکتی ہے.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے اس معاملے کو دلی تعلق کے طور پر بیان فرمایا.فرمایا دراصل خلیفہ وقت کو جو اختیار ہے اس آیت کی روشنی میں، اس میں ایک گہری حکمت یہ بھی ہے کہ خلیفہ وقت وہ ایک ہی وجود ہے جس کے ساتھ ساری جماعت کا ایک قلبی تعلق ہے اور قلبی تعلق اتنا گہرا ہے کہ جیسے بچے کا باپ سے ہو.آپ نے فرمایا شوری بَيْنَهُمْ کی ایک مثال تو ہے کہ وہ بھائی بھائی آپس
خطبات طاہر جلد 14 227 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء میں مشورہ کرتے ہیں ، لڑ بھی پڑتے ہیں ، اختلاف بھی ہو جاتے ہیں پھر ا کٹھے بھی نہیں ہوتے بعض دفعہ لیکن ایک باپ جب بچوں سے مشورہ لیتا ہے تو پھر یہ واقعہ نہیں ہوتا کیونکہ باپ پھر جو بھی فیصلہ کرتا ہے بچے اگر ان میں حیا اور شرافت ہو، بے حیاؤں کی تو بات ہی نہیں ہورہی اور یہاں تو مومنوں کی بات ہے جو حیادار لوگ ہیں وہ کبھی پھر آگے سے ٹیڑھی نظر سے باپ کو نہیں دیکھتے یا اس کے خلاف غصے کا اظہار نہیں کرتے ،ٹھیک ہے آپ کا جو فیصلہ ہے ہمیں منظور ہے.فرمایا یہی وجہ ہے کہ سوائے خلیفہ وقت کے اور جماعت میں کسی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا اور یہ اختیار محمدرسول اللہ ﷺ سے خلیفہ وقت ورثے میں پاتا ہے اور اس کی تقویت کا اور اس کی بقاء کا راز اس بات میں ہے کہ خلیفہ وقت اور جماعت کا محبت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور ایک دوسرے پر اعتماد کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا.اسی اصول کے پیش نظر آپ نے جو آغاز ہی میں مالی امور میں جماعت کی تربیت فرمائی اور ایسی نصیحتیں فرمائیں جن کا بہت دور رس تعلق تھا، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ اگر جماعت احمدیہ میں کوئی تم سے آکر نیکی کے نام پر کچھ مانگتا ہے تو بالکل نہیں دینا.ذاتی تعلقات ہیں اس میں تم جو مرضی خرچ کرو تمہارا اپنا مال ہے.مگر نیک کاموں کے حوالے سے اگر کوئی مانگتا ہے تو ہرگز ایک دمڑی بھی نہیں دینی جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس نظام کی نمائندگی میں اس کو یہ اختیار ہے جس کو خلیفہ وقت نے منظور کر لیا ہے یا خلیفہ وقت نے واقعہ اس معاملے میں تمہیں اجازت دی ہے کہ تم یہ ایسا مانگ سکو.آپ نے فرمایا اور اس کو اشتہار دے کر تمام جماعت میں خود پھیلا یا آغاز ہی کی بات ہے فرمایا، اس کو چھوٹی بات نہ سمجھو اس میں ہمارے مالی نظام کی بقاء مالی نظام کی زندگی کا راز ہے اگر تم نے اس کو نظر انداز کر دیا تو تمہارے مالی نظام کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.خلیفہ وقت کا حکم آئے اور اجازت ہو تو پھر نیک کاموں میں خرچ کے لئے اپنے دل کھولو جو چاہتا ہے قربانیاں دو.جو ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی نیکی کے نام پر مسجد میں بنانے والے ہیں وہ نظام کو درہم برہم کر دیں گے، وہ پرمہ افتراق پیدا کر دیں گے، بددیانتیوں کے آغاز ہوں گے، کئی قسم کے دھو کے شروع ہو جائیں گے اور جہاں اعتماد ختم ہو جائے وہاں مالی نظام قائم نہیں رہ سکتا.تو آپ نے وہاں جماعت کو ایسے عظیم مشورے دیئے اور ایسی راہنمائی فرمائی ہے جو ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ رکھنے کے لائق ہے اور.
خطبات طاہر جلد 14 228 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء جماعت کے سامنے بار بار لائے جانے کی اس کو ضرورت ہے.جب میں نے حضرت فضل عمر کی سوانح پر دوسری جلد میں کام کیا، مجلس شوری کو بھی میں زیر بحث لایا تھا اس میں حضرت مصلح موعودؓ کی ابتدائی ہدایات جو شوری سے متعلق جماعت کو ہیں ان کو سب کو لکھتے ہوئے میں نے یہ خاص طور پر اس کی اہمیت پر زور دیا تھا حالانکہ میں اس وقت کسی قسم کا امر نہیں رکھتا تھا.صرف ایک مصنف کے طور پر میرے سپر د حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے یہ کام کیا تھا کہ بورڈ کے مشورے سے میں یہ تصنیف کروں.تو اس میں میں نے یہ بات لکھی تھی کہ میرے نزدیک حضرت مصلح موعودؓ کی شوری کے متعلق جو یہ ہدایات ہیں یہ ہمیشہ کے لئے جماعت کے سامنے ایک چارٹر کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس وقت جو میں نے محسوس کیا جب میں نے دوبارہ پڑھا تو پھر بھی یہی محسوس کیا کہ اتنی اہم ہدایات ہیں جن میں تمام امور آجاتے ہیں ، غور بھی کریں تو اس سے باہر کوئی دکھائی نہیں دیتا.پس اب جبکہ مجلس شوری کا نظام عام ہو رہا ہے اور بعض دفعہ غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی دکھائی جاتی ہیں.وہ جو غلطیاں اور کمزوریاں ہیں ان سب کا تعلق اس شوری کے نظام سے لاعلمی کے نتیجے میں ہے جس کا میں ذکر کرتا ہوں کہ خدا نے قائم فرمایا اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس کو گہرائی سے سمجھ کر جماعت کے سامنے کھول کر پیش کیا.تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ضرورت ہے کہ اس جماعت کی شوریٰ کے نظام کے چارٹر کو تمام ان زبانوں میں ترجمہ کر کے نشر کیا جائے جہاں جہاں مجلس شوری قائم ہوگئی ہے اور ہر جماعت کے ایسے فرد کو جو شوری کا اہل ہے خواہ وہ شوریٰ کا ممبر ہو یا نہ ہو اس کے علم میں ہونا چاہئے کہ کس قسم کی تم سے توقعات ہیں.مجلس شوریٰ کا ممبر بننے سے پہلے تمہیں کیا ہونا چاہئے ؟ کون سی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں، کس قسم کے خطرات سے آگاہی ہونی چاہئے ، کن چیزوں سے تم نے بچنا ہے، کن چیزوں کو اختیار کرنا ہے.یہ تمام اموران ہدایات میں داخل ہیں.اور دوسرے یہ کہ اس کے بعد حضرت خلیفدیہ امسح الثالف نے جو اپنے تجربے سے کئی باتیں سمجھیں اگر چہ وہ اصولاً ان دائروں میں آتی ہیں مگر بہت سے ایسے تجارب ہیں جن میں شوری میں آپ نے ہدایات دیں جو مفید ہیں اور اس طرح بعد میں مجھے بھی جب مجلس شوری کے نظام کو عالمی
خطبات طاہر جلد 14 229 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء بنانے کی توفیق ملی یعنی عالمی تو پہلے ہی تھا مگر اس پر عمل درآمد عالمی حیثیت سے کرنے کی توفیق ملی تو میں نے بھی اس موقع پر مختلف نصیحتیں کی ہیں جو اس دائرے سے باہر تو نہیں ہیں جس کو میں چارٹر کہتا ہوں لیکن اس کی وضاحتیں ہیں، ان کی باریکیوں میں اتر کر مزید مضامین کو کھول کر پیش کیا گیا ہے.تو ان سب کو اکٹھا کر کے ایک مجلس شوری سے متعلق تعارفی کتاب جماعت کو شائع کرنی چاہئے اور مجلس شوری اس وقت جو پاکستان میں ہورہی ہے ان میں صدرانجمن کو میں اس بات کا نگران بنا تا ہوں کہ وہ یہ کتاب شائع کریں اور تحریک جدید کی ذمہ داری ہوگی کہ پھر اسے مختلف زبانوں میں ترجمہ کرا کے اسے سب دنیا میں مشتہر کریں.جہاں تک تو کل کے مضمون کا تعلق ہے میں یہ ایک اہم بات کہہ کر اس خطبے کو ختم کروں گا کہ جماعت احمدیہ کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ اگر آنحضرت ﷺ کے حوالے سے عزمت کے بعد تو کل پر بنا رکھی گئی ہے تو آپ کے مشورے یا میرے مشورے اور آپ کے فیصلے اور میرے فیصلے تو کل کے بغیر کیا اہمیت رکھتے ہیں ، کچھ بھی نہیں رکھتے.اس لئے تو کل کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور توکل کے لئے جو خدا تعالیٰ نے ہدایتیں فرمائی ہیں ان پر عمل درآمد کریں.ان میں سے ایک یہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے کھول کر پیش فرمائی کہ تو کل یہ نہیں ہے کہ اونٹ کو کھلا چھوڑ دو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ اس کی حفاظت فرمائے اور جب تم باہر واپس آؤ کام سے فارغ ہو کے تمہارا اونٹ وہیں کھڑا ہو.فرمایا یہ تو کل نہیں ہے.تو کل یہ ہے کہ اونٹ کے گھٹنے باندھو پھر وہم دل سے نکال دو.پھر اللہ پر معاملہ چھوڑو اور دعا کرو اور یقین رکھو یعنی خدا پر کہ اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا اور اس اونٹ کو کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچائے گا یا خود وہ رسی تڑا کر نہیں بھاگ جائے گا.تو تدابیر کو اپنی انتہا تک پہنچانا اور پھر وساوس سے اپنے آپ کو بالکل پاک کرلینا کلی خدا تعالیٰ پر توکل کرنا یہ ایک اہم مضمون ہے جو شوری کے ساتھ تعلق رکھتا ہے آپ اپنی تدابیر کریں، سوچیں غور کریں.جو ذرائع دشمن کے شر کے دفاع کے لئے ضروری ہیں وہ ضرور اختیار کریں.جو ذ رائع جماعت کی ترقی کے لئے آپ سوچ سکتے ہیں دعائیں کرتے ہوئے ان میں برکت کے لئے اللہ کے حضور التجائیں کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کرائیں اور پھر تو کل کریں تو اللہ تعالیٰ ان فیصلوں میں بہت برکت ڈالے گا.
خطبات طاہر جلد 14 230 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء تو کل میں بعض دفعہ انسان بے سوچے سمجھے اپنے مشوروں پر یا اپنی آراء پر تو کل کرنے لگ جاتا ہے.پاکستان میں آج کل مجلس شوری کے ممبران میں بھی ممکن ہے یہ باتیں ہوتی ہوں کہ اب تبدیلیاں ہورہی ہیں.مولویوں کے بھی پکڑ کے دن آرہے ہیں اور انحصار اس بات پر ہے کہ فلاں پریذیڈنٹ نے یہ بیان دے دیا ہے، فلاں وزیر نے دے دیا، فلاں صدر نے یہ بیان دے دیا تو اب معلوم ہوتا ہے کہ دن بدل جائیں گے.دن تو بدلیں گے مگر ان بیانات کی وجہ سے نہیں بدلیں گے.کیونکہ ان بیانات کا ہی اعتبار کوئی نہیں.پہلے بھی میں نے جماعت کو متنبہ کیا تھا کہ جو سیاسی بیانات ہوتے ہیں یہ بعض دفعہ بات مشرق کی کرتے ہیں اور مراد مغرب ہوتی ہے.اگر کہتے ہیں کہ اب ہم مولویوں کو پکڑیں گے اور امریکہ سے مدد مانگیں گے اور وہ آکر ان کا قلع قمع کرے تو مراد یہ ہوتی ہے مولویو رستے پر آجاؤ، ہم سے تعاون کرو، اپوزیشن سے اپنے رشتے ختم کرو تو پھر مدد ہم نے مانگی ہے ہم مددکو واپس بھی کر سکتے ہیں.تو سیاسی بیانات کو پڑھنے کا بھی تو شعور ہونا چاہئے لیکن شعور ہو یا نہ ہو آپ نے ان پر کوئی تو کل نہیں کرنا، حالات بدلیں گے تو اللہ کی تقدیر سے بدلیں گے.آپ مشورے دیانتداری اور تقویٰ سے کریں اور اپنی طرف سے ہر کوشش کریں کہ دشمن کے شر سے آپ محفوظ رہیں اور کسی کے وعدوں پر نہ جائیں بلکہ اپنے شعور اور اپنی محنت اور خلوص کے ساتھ با قاعدہ تدبیر کریں اور اس شان کی تدبیر کریں کہ اللہ کی نمائندگی کی تدبیر سے کہا جاسکے.وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (آل عمران : 55 ) وہ بھی مکر کرتے ہیں تم بھی مکر کرو، مکر کا جواب دو، توڑو.یہ اللہ کے حوالے سے ہمیں سمجھایا جا رہا ہے.یہ میں کہہ رہا ہوں انہوں نے مکر کیا اللہ نے بھی جوابی مکر کیا.وَاللهُ خَيْرُ المُكِرِينَ اللہ کا مگر یقینا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے.خیر سے مراد دو ہیں ایک یہ کہ غالب آتا ہے وہ مکر اور دشمن کا مکر اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.دوسرا یہ کہ دشمن بد مکر کرتا ہے تو اس کے جواب میں بد مکر نہیں خدا کرتا.اگر دشمن ہتھیا را کٹھے کر رہا ہے، فتنہ فساد کی باتیں کر رہا ہے تو جوابی تدبیر میں آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ و قتل عام ، وہ کئی قسم کے مظالم جس کے نتیجے میں وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ خَيْرُ الْمُكِرِينَ کی مثالیں نہیں ہیں.یہ مکر سوء ہے.گندا اور ظالمانہ مکر ہے.تو آپ نے جو جوابی تدبیر اختیار کرنی ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں وہ شریعت کے مطابق اس کے اندر
خطبات طاہر جلد 14 231 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء ه رہتے ہوئے کرنی ہے کیونکہ امر جو حقیقت میں بالا امر ہے وہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اس کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے.اس کے دائرے میں اس کے نیچے رہتے ہوئے وہ فیصلے کریں جو خیر الْمُكِرِينَ کی نمائندگی کی شان رکھتے ہیں اور پھر یقین کریں، تو کل کریں کہ اللہ ان فیصلوں کو برکت دے گا اور آپ کی کمزوریوں کے باوجود آپ کی بظاہر نحیف سوچوں کو اور نحیف تدبیروں کو دنیا کی بڑی بڑی تدبیروں پر غالب کر دے گا.پس اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور میں جانتا ہوں کہ ہمیشہ فرماتا ہے.کبھی بھی اس میں ہم نے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی خدا کے فضلوں کا ہاتھ ہمیشہ سے جما احمدیہ پر ہے اور ہمیشہ رہے گا.آپ اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کریں جو نا پاک تبدیلی ہو جس کے نتیجے میں خدا کا یہ وعدہ ہم سے اٹھا لیا جائے کہ تم میری ذات پر توکل رکھنا اور میں اس تو کل میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا.پس اگر استجابت کی شرط ہم پیش نظر رکھیں تو خدا کا یہ وعدہ ہمیشہ ہمارے حق میں بڑی شان کے ساتھ پورا ہوگا.اس کے ساتھ میں تمام مجلس شوری کے ممبران کو اپنی طرف سے اور اس مسجد میں حاضر اور تمام دنیا کی جماعتوں کی طرف سے محبت بھرا سلام کہتا ہوں.مجالس شوریٰ کے آداب کو جن میں آپ جسے پلے ہیں یعنی محاورہ تو کوئی کہہ دے یہ پنجابی محاورہ ہے مگر ہے بہت اچھا.نظام جماعت کے ہاتھوں میں آپ پیدا ہوئے، انہیں ہاتھوں میں آپ نے پرورش پائی ہے آپ کا دل جانتا ہے کہ کون سے آداب ہیں جن کی آپ سے توقع رکھی جاتی ہے.ان آداب کو ہرگز نظر انداز نہ کریں اور ڈرتے ڈرتے خدا کا خوف کرتے ہوئے مشورے دیں اور پھر دعا کرتے ہوئے آپس میں محبت کے ماحول میں غور کر کے فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کریں.فیصلہ پھر وہی ہوگا جس کی خلیفہ وقت منظوری دے گا.پھر سب ایک وجود بن کر خدا پر توکل کرتے ہوئے امید رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان فیصلوں میں برکت دے گا.اللہ آپ کے ساتھ ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 14 232 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 1995ء
خطبات طاہر جلد 14 233 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء رحمانیت کے تعلق سے حضرت محمد رحمة للعالمین ہیں میں آپ کو ہولی بنانا چاہتا ہوں جوبنانے کیلئے رحمۃ للعالمین تشریف لائے ( خطبه جمعه فرموده 7 اپریل 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَابِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف:181) پھر فرمایا:.تمام حسین نام اللہ ہی کے ہیں.فَادْعُوهُ بِهَا پس اللہ کو انہی ناموں سے پکارو.وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي اَسْمَا بِه ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کر دیا ان کو اپنے حال پر چھوڑ دو يُلْحِدُونَ فِي اَسْمَا بِہ جو اس کے ناموں میں الحاد سے کام لیتے ہیں.سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ انہیں جو کام کرتے ہیں ان کا بدلہ دیا جائے گا یا وہ بدلہ دیے جائیں گے ان کاموں کا جو وہ کرتے ہیں.اس آیت کا تعلق اسی مضمون سے ہے جو میں گزشتہ چند خطبوں سے بیان کر رہا ہوں بلکہ عید کے دن غالباً اس کا آغاز ہوا تھا اس کے بعد بیچ میں دو خطبات آئے ہیں اور یہ تیسرا ہے.پہلے اس سے کہ میں یہ مضمون شروع کروں آج ایک نئے ملک میں ایک نئی مسجد کے افتتاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.یہ پاپوانیوگنی کی مسجد ہے اور اس کا نام ” بیت الکریم رکھا گیا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 234 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء اب جتنے بھی مساجد کے نام رکھے جا رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے نام پر ہی ہیں یا اللہ کے اسماء پر ہیں.پس اس مضمون کا بھی جو پہلا مضمون بیان ہورہا ہے اس کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بن جاتا ہے یعنی آج کریم نام کی مسجد کا جو اللہ کے کریم نام کی طرف منسوب ہو رہی ہے اس کا افتتاح ہو رہا ہے.یہ جو ملک ہے اس کا حدود اربعہ یہ ہے کہ اس کے ایک طرف انڈو نیشی واقع ہے اور تھائی لینڈ اس کے قریب ہے آسٹریلیا اس کے جنوب میں ہے.آسٹریلیا کے شمال سے قریب ہے یہ جزیرہ بلکہ بہت سے سینکڑوں جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے اور مشرق میں ملائشیا ہے اور ملائشیا بھی بہت سے جزائر پر مشتمل ہے.اس جزیرے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1987ء میں جماعت کا قیام عمل میں آیا پھر غلطی سے جزیرہ کہہ دیا ہے جزائر پر مشتمل اس ملک میں سب سے پہلے 1987ء میں جماعت کا قیام عمل میں آیا، جو ایک رضا کار مخلص واقف کے ذریعے ہوا یعنی محمد اکرم صاحب احمدی.ان کو یونائٹیڈ نیشنز کے ذریعہ وہاں کام ملا تھا اور مجھ سے مل کر یہ عہد کر کے گئے تھے کہ وہاں ضرور جماعت کو قائم کریں گے.اگر چہ وہاں رہنے کے حالات بہت ہی مشکل تھے لیکن خالصہ اس نیت کے ساتھ کہ جب تک جماعت قائم نہ ہو اور مسجد تعمیر نہ ہو جائے یہ وہاں سے نہیں آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان کے جو Contracts کی مدت تھی وہ بھی بڑھا دی اور اب اللہ کے فضل کے ساتھ یہ سارے کام اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں.اس مسجد کے آغاز کے لئے میں نے اپنا نمائندہ رفیق چانن صاحب کو بنایا ہے جو تھائی لینڈ سے وہاں پہنچے ہیں.رفیق چانن صاحب ہمارے Swiss احمدی ہیں.اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ان کو اپنی زندگی کے اس دور میں بہت تاریخی خدمات کی توفیق مل رہی ہے.تھائی لینڈ میں بھی اور اردگرد کے علاقوں میں بھی ایسے ملکوں میں جہاں احمدیت کا نام تک لوگ نہیں جانتے تھے وہاں ان کو خدا کے فضل کے ساتھ انڈونیشیا کے مبلغین اور دوسرے رضا کاروں کی مدد سے جماعتیں قائم کرنے کی توفیق مل گئی ہے اور بہت ٹھوس کام اس علاقے میں ہو رہا ہے.اس لئے میں نے ان کو اپنے نمائندے کے طور پر وہاں مسجد کے افتتاح کے لئے بھیجا ہے.اس کے علاوہ بھی انڈونیشا سے اور اردگرد کے ممالک سے بہت سے مخلصین شرکت کے لئے وہاں آج جمع ہوئے ہیں.یہ ایک ایسا ملک ہے جس پر عیسائیت کا بہت بھاری غلبہ ہے اور ایک عرصے تک عیسائیت
خطبات طاہر جلد 14 235 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء کے سوا کسی کو وہاں پیغام پہنچانے کی اجازت ہی نہیں تھی.جماعت احمدیہ کو بھی آغاز میں بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑا.عیسائیوں نے کھل کر مخالفت کی.مسجد کی بھی مخالفت کی ، ہر حکومت کی سطح پر بھی انہوں نے اثر و رسوخ ڈالنے کی کوشش کی.کھل کر اخباروں میں عیسائی پادریوں نے مضمون لکھے کہ عیسائیت کے سوا اس ملک میں کسی اور کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور وہ پالیسی جو ساری دنیا میں عیسائی ملک پیش کرتے ہیں آزادی ضمیر کی ، جہاں موقع ملا وہاں خود اس پالیسی کو اپنے قدموں تلے کچل دیا اور کھلم کھلا مذہب کو اپنے نام منسوب کر کے اس کے تمام حقوق اپنی طرف وابستہ کر لئے.اس سلسلے میں ہمیں بڑی جد و جہد کرنی پڑی ہے.تمام دنیا سے ان کی ایمبیسیز کو اور ان کے ملک کو خطوط لکھوائے گئے ، اخبارات میں بھی احتجاج کروائے گئے.ان اخبارات کو جو نسبتاً آزاد تھے مضامین لکھ کر بھیجے گئے.چنانچہ اللہ کے فضل سے ان کا مثبت اثر ظاہر ہوا اور حکومت نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا جو سیاسی حقوق ہیں اور تمدنی حقوق ہیں ان پر ہم کسی قیمت پر مذہب کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے.یہاں تک کہ ان کے سب سے بڑے افسر نے جو عیسائیت سے متاثر تھا اور متعصب تھا اس نے جب حکومت کے سامنے اس مسجد کی منظوری کے آخری فیصلے سے پہلے ایک نوٹ لکھا، میمورنڈم جس کو کہتے ہیں، اس میں کہا کہ عیسائی چونکہ بہت مخالف ہیں اس لئے اس مسئلہ پر ہمیں ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد پھر فیصلہ کرنا چاہئے.تو پرائم منسٹر صاحب نے اس پر جو مختصر جواب لکھا وہ یہ تھا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو.حکومت کے قوانین کی پابندی کرنا تمہارا کام ہے.ان قوانین میں جہاں کہیں کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تمہارا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرو لیکن ان قوانین سے ہٹ کر باہر کے معاملات کا تم سے کوئی تعلق نہیں.اگر تم نے کام کرنا ہے تو قوانین کے مطابق کرو.یہ اتنا واضح جواب تھا کہ اس کے بعد پھر کسی کو جرات نہیں ہوئی اور خدا کے فضل سے مسجد پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے، ساتھ مشن ہاؤس بھی بن گیا ہے.اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عجیب نشان بھی ظاہر ہوا، ہر جگہ نشانات عجیب ہی ہوتے ہیں مگر یہ واقعہ ہے اس کو ریکارڈ کرانے کے لئے اسی افتتاح کے موقع پر آپ سب کے سامنے رکھتا ہوں.عیسائیت نے جب اپنا ز ور مکمل کر لیا اور نا کام ہوگئی تو وہ چند مسلمان جو باہر سے آکر وہاں آباد ہوئے ہیں اور بعض امیر ملکوں سے ان کے تعلقات ہیں ان کو مدد بھی ملتی ہے ، ان میں سے چند نے ایک سوسائٹی بنائی ہے اسلامک سوسائٹی.ان کا جو سر کردہ ممبر ہے انہوں نے اکرم احمدی صاحب
خطبات طاہر جلد 14 236 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء کو گالیوں سے بھرا ہوا خط لکھا اور انہوں نے کہا کہ کسی قیمت پر ہم یہاں یہ مسجد برداشت نہیں کریں گے یعنی چرچ ہر جگہ بنے ہوئے ہیں؛ پھیلتے چلے جارہے ہیں دور دراز جزائر میں بھی کلیسا تعمیر ہورہے ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی مگر پہلی مسجد جو تعمیر ہو رہی تھی اس پر ایسی آگ لگی کہ نہ صرف گالیوں کا خط لکھا بلکہ یہ دھمکی دی کہ میں اس مسجد کو آگ لگوادوں گا لیکن یہ مسجد ہم سے برداشت نہیں ہو سکتی.بعد میں انہوں نے مسجد کونا کام کرنے کی خاطر اس کے قریب ہی اپنا گھر بنوایا اور وہاں ایک اپنی مسجد چھوٹی سی تعمیر کروائی ، گویا کہ وہ پہلی مسجد بن گئی.حالانکہ یہ مسجد اس سے بہت پہلے بن چکی تھی اور انہوں نے محض ایک دکھاوے کے طور پر کہ نہیں ہم نے بھی الگ مسجد بنالی ہے.اس شخص کے کچھ دشمن بھی تھے.آپس میں مخالفتیں بھی تھیں.انہوں نے اس گھر کو مسجد سمیت آگ لگا دی.جو گھر اس آگ کے نتیجے میں بنایا گیا تھا جو اس کے دل میں بھڑ کی ہوئی تھی.پس وہ شخص جس نے جماعت کی مسجد کو آگ لگانے کی دھمکی دی تھی اس کا گھر بھی جل گیا اور وہ مصنوعی دنیا کی خاطر بنائی ہوئی مسجد بھی جل گئی تو اللہ تعالیٰ کے نشانات ہر جگہ احمدیت کی تائید میں ظاہر ہوتے ہیں.اللہ تعالی کے فضل سے وہاں کی جماعت جو تمام تر عیسائیوں میں سے آئی ہے بہت ہی مخلص ہے اور شدید خطرناک حالات کے مقابلے میں ثابت قدم ہے.وہاں فاصلے بہت طویل ہیں.جزائر ہیں چونکہ پھیلے ہوئے ہیں اس لئے بہت فاصلوں کا مسئلہ ہے ایک دوسرے سے رابطہ کرنا.مجھے صحیح یاد نہیں کہ ہزار میل یا ڈیڑھ ہزار میل کا معاملہ ہے لیکن یہ مجھے خطوں سے اندازہ ہے کہ کافی فاصلے ہیں اور سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ سڑکوں کا نظام کوئی نہیں.سڑکیں بہت کم ہیں اور جنگل اتنے خطرناک ہیں کہ ان کو عبور کرنا ان کے لوکل باشندوں کے لئے بھی آسان نہیں ہے.چنانچہ اکثر جگہ روابط ہوائی جہاز کے یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہوتے ہیں یا پھر وہ جنگلی لوگوں نے اپنے کچھ رستے بنارکھے ہیں وہ ان میں سفر کرتے ہیں.کہیں کوئی قتل ہو جائے کسی کے گھر جلا دیئے جائیں حکومت کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی اس لئے مقامی لوگ جب کسی کی مخالفت کریں تو اس کا سامنا کرنا آسان کام نہیں ہے، کوئی قانون کا ہاتھ آپ کی حفاظت کے لئے وہاں نہیں پہنچتا.ایسے علاقوں میں جہاں احمدی ہوئے ان کو یہی دھمکیاں دی گئیں کہ تمہارے گھر جلائے جائیں گے اور بڑی شدید مخالفت کا سامنا ان کو کرنا پڑا.یہ اللہ کے فضل سے ایک بھی مرتد نہیں ہوا.ثابت قدم رہے اور ساتھ اس کے
خطبات طاہر جلد 14 علاوه.237 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء ہ پھیلتے بھی رہے چنانچہ اب ایسی فضا پیدا ہوگئی ہے کہ احمدیت کو اسلام کی نمائندگی میں ایک مستقل مقام مل چکا ہے.پس اللہ کے فضل سے یہ ہمارے جو رضا کارواقفین زندگی ہیں انہوں نے بھی بڑے بڑے کارنامے اس دور میں سرانجام دیئے ہیں اللہ ان سب کا حامی وناصر ہو، ان کے کاموں میں برکت دے اور بہت تیزی کے ساتھ ہم وہاں عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں کامیاب ہو جائیں.یہ دعا ہے اس کے ساتھ میں آپ سب کی طرف سے اور اپنی طرف سے حاضرین اجلاس کو محبت بھر اسلام پہنچا تا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ دنیا بھر کے احمدیوں کی دعائیں بھی اور ہر ایسی صورت میں کہ ان کو مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد بھی انشاء اللہ آپ کے شاملِ حال رہے گی.یہ آیت کریمہ جو میں نے پڑھی تھی اس کا تشریح والا ترجمہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ ہے کہ خدا کے تمام کامل نام اسی سے مخصوص ہیں اور ان میں شرکت غیر کی جائز نہیں.سو خدا کو انہی ناموں سے پکارو جو بلا شرکت غیرے ہیں یعنی نہ مخلوقات ارضی و سماوی کے نام خدا کے لئے وضع کرو اور نہ خدا کے نام مخلوق چیزوں پر اطلاق کرو اور ان لوگوں سے جدا ر ہو جو خدا کے ناموں میں شرکتِ غیر جائز رکھتے ہیں.يُلْحِدُونَ فِي اسْمَابِہ کا ترجمہ یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ناموں میں شرکتِ غیر جائز رکھتے ہیں عنقریب وہ اپنے کاموں کا بدلہ پائیں گئے ( براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ: 437،436) یہ جو اقتباس ہے یہ اس مسئلے کو سمجھنے میں مزید حمد ہے جس کا ذکر میں نے پچھلے خطبے میں کیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک اللہ کا نام مشتق نہیں ہے یعنی کسی اور نام سے نہیں نکلا بلکہ ہمیشہ سے یہی نام اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کا اگلا قدم یہ ہے کہ اس کی تمام صفات بھی ہمیشہ سے اسی کی ہیں اور وہ خود مشتق نہیں ہے.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان انکشاف ہے اور اس کی روشنی میں جب ہم صلى حقیقت پر غور کرتے ہیں اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک نئے رنگ میں یہ مضمون ہمارے سامنے ابھرتا اور روشن ہوتا ہے.اول بات تو یہ ہے کہ اللہ اگر ہمیشہ سے ایک نام ہے اور کسی اور نام سے نہیں نکلا ہوا تو اس کی صفات اگر دوسرے مخلوق ناموں سے نکلی ہوں تو کیا وہ بعد میں جمع ہوئیں.اس لئے حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 14.238 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ایسا طبعی منطقی نتیجہ نکالا ہے جس کا متبادل ممکن ہی نہیں کیونکہ نام کسی چیز کا ہے کسی وجود کا ہے اور وجود اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے.اگر وجود کی صفات نہ ہوں تو نام بے معنی ہے.نام ایک خلائی نام ہے اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں.اگر وہ وجود کوئی صفات رکھتا ہے اور وجود دائمی ہے تو وہ صفات بھی دائمی ہونا ضروری ہیں اور ان کو حرفوں سے لفظوں سے مشتق قرار نہیں دیا جاسکتا.ہاں وہ صفات جو انسانی زندگی میں ہمیں انسانوں پر یا دوسری چیزوں پر اطلاق پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کو خدا کے ناموں سے مشتق سمجھنا پڑے گا یعنی دائمی حقیقت صفات باری تعالیٰ کی ہے اس سے ملتے جلتے نام جب روز مرہ زندگی میں استعمال ہوتے ہیں تو وہ تخلیق ہیں، نام اور تخلیق ہیں خدا کے اسماء کے پر تو کے طور پر.پس يُلْحِدُونَ کا مطلب یہ بنے گا کہ وہ لوگ جو اللہ کے اسماء کا بذلتہ اپنی ذات میں متصف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم رحمان ہیں، ہم رحیم ہیں.وہ الحاد کرنے والے ہیں، وہ مشرک ہیں اور خدا کا شریک ٹھہرانے کا ادعا کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں.اس ضمن میں جب ہم اس مضمون کو اس ابتدائی شکل میں ذہن میں جمالیں تو پھر سورہ اخلاص ایک اور معنوں میں ہمارے سامنے ابھرتی ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدُنَ اللهُ الصَّمَدُنَ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص 5-1) اللہ اگر اسماء کے مجموعے کا نام ہے جو اللہ کی طرف بطور صفات منسوب ہوتے ہیں تو اللہ پیدا نہیں ہوا تو کوئی ایک اسم یا ایک صفت بھی پیدا نہیں ہو سکتی.اگر اللہ نے پیدا نہیں کیا تو وہ اپنی اس صفت کو جو اس کی ذات کا خاصہ ہے اس کو اس طرح پیدا نہیں کرتا جس طرح باپ بچے کو پیدا کرتا ہے یا ماں بچے کو پیدا کرتی ہے.اس کے پر تو تخلیق کرتا ہے اور اس مضمون کو آخری آیت خوب کھول دیتی ہے.وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ یعنی اس کا کوئی بھی کفو کسی لحاظ سے موجود نہیں اور کفو ہونے کے لئے صفات کا اشتراک ضروری ہے.پس اللہ تعالیٰ کی صفات کا حامل دوسرا وجود پیدا نہ کرنا قطعی طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام صفات الہی خدا تعالیٰ کی ذات کی طرح نہ صرف یہ کہ قدیم سے ہیں بلکہ ان صفات کا بعینہ ان پر مشتمل کوئی وجود اللہ تعالیٰ ایسا پیدا نہیں کرتا جیسے ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ساری صفات کو اپنے اندر لئے ہوئے پیدا ہوتا ہے.باپ کا نطفہ ماں کے پیٹ میں بچہ بنانے میں ممد ہوتا ہے اور
خطبات طاہر جلد 14 239 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء باپ کی صفات کے تمام نقوش اس پر مرتسم ہوتے ہیں اور ان نقوش کو لے کر بچہ انہی صفات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے.تو زندگی کی بنیادی صفات جو زندگی کے مختلف خلیوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نقش ہیں وہ آگے بڑھتی ہیں مگر خدا کے وجود میں اس قسم کا اضافہ ممکن نہیں ہے.اب یہ پہلو سمجھنے کے بعد سوال یہ ہے کہ رحمن کیا چیز ہے.کیا لفظ رحمن مشتق ہے کہ نہیں.عربی دان ، گرامر کے ماہر کہتے ہیں لفظ رحم سے مشتق ہے اور رحم وہ مادہ ہے جس سے لفظ رحمن بھی مشتق ہے اور عورت کے بدن کا وہ جزو جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے بچہ دانی یا یوٹرس ، اس کا نام رحم ہے وہ بھی رحم سے مشتق ہے اور اگر اس مضمون کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر آگے تمام صفات باری تعالیٰ انسانی زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ سے مشتق معلوم ہوں گی یعنی ان سے نکلی ہوئی ہیں.تو سورہ اخلاص کا یہ دعویٰ کہ تمام صفات باری تعالیٰ ازل سے اسی طرح ہیں اور ایک بھی صفت کسی انسان کی بنائی ہوئی زبان سے مشتق نہیں ہے.یہ غلط ثابت ہوتا ہے.اس پہلو سے میں نے آنحضرت مو کے ارشادات کا مطالعہ کیا کیونکہ مجھے یاد تھا کہ رحمن کا تعلق رحم سے جوڑا گیا ہے اس لئے یہ کیسے جوڑا گیا.یہ مسئلہ تھا جس کو حل کرنے کے لئے میں نے متعلقہ حدیثیں نکلوائیں تو آپ بھی دیکھیں تو آپ ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو کن الفاظ میں بیان فرمایا ہے.حضرت ابوالدرداء بیمار ہوئے.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ان کی عیادت کی اور فرمایا کہ میرے علم کے مطابق ان میں سے سب سے بہتر اور زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ابو محمد ہیں پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں اور میں رحمن ہوں اور میں نے رحم کو پیدا کیا ہے، اسے اپنے اسم سے پھاڑا ہے یعنی رحم کسی لفظ رحمت سے نہیں نکلا بلکہ رحمن خدا سے رحم نکلا ہے اور کن معنوں میں نکلا ہے اس کا میں ابھی ذکر کرتا ہوں.جو لفظ ترجمہ کیا گیا ہے پھاڑا.شققت لها من اسمى “میں نے اپنے نام سے اس کو پھاڑا.اس سے یہ غلط تصور بھی پیدا ہو سکتا ہے بعض لوگوں کے دماغ میں کہ گویا اس صفت الہی نے بچہ دیا اور اس سے پھٹ کر ایک اور صفت پیدا ہوئی.صلى الله دوسری حدیث میں آنحضرت ﷺ اس مضمون کو کچھ مختلف الفاظ میں بیان فرماتے ہیں یا راوی نے جس نے یہی مضمون آنحضرت ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا تھا اس نے دوسرے الفاظ
خطبات طاہر جلد 14 240 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء استعمال کئے ہیں اور وہ مضمون کو سمجھانے کے لئے زیادہ قریب ہیں.ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رحم رحمن سے جوڑا ہوا ہے.( یعنی رحم اور رحمان کا مادہ ایک ہی ہے ) یہ ترجمہ کرنے والے نے اپنی طرف سے لکھ دیا ہے حالانکہ اس کا کوئی ذکر وہاں حدیث میں نہیں ملتا.اس لئے جہاں جہاں بھی ہماری کتابوں میں مادہ ایک ہے دونوں سے رحمن نکلا ہے یہ الفاظ موجود رہے ہیں پائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے کئی دفعہ لوگوں کو غلطی بھی لگ جاتی ہے ان کو درستی کرنی چاہئے اسی غلطی کی وجہ سے جو ترجمے میں پائی جاتی تھی کئی دفعہ میں نے بھی پرانے کسی مضمون کے سلسلے میں یہ ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رحمن اور رحم کا مادہ ایک ہی ہے، دونوں ایک ہی مادے سے نکلے ہیں مگر جب میں نے تحقیق کی تو قطعی طور پر ثابت ہوا کہ ایسا کوئی ذکر احادیث میں موجود نہیں ہے، ترجمہ کرنے والوں کی غلطی ہے.یہاں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں ان الـرحـم شـجـنـتـه من الرحمن ، رحمن کی شاخ ہے اصل رحمن ہے اور رحمن کی ایک شاخ ہے.فقال الله من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته یعنی رحم رحمن کی شاخ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رحم اپنی تمام صفات اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت سے پاتا ہے مگر تمام تر نہیں.شاخ ، اصل وجود کا متقابل یا متبادل نہیں ہوا کرتی.شاخ کا دراصل یہ مفہوم ہے.یہاں کسی خاص درخت کی بات تو نہیں ہو رہی.ایک تمثیلی کلام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اصل وجود ہے، اللہ کی ہر صفت اصل ہے اور باقی تمام صفات جزوی ہیں جو تمام صفات میں ام الصفات کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے ان تمام صفات میں اتنی اہم صفت کے ساتھ کیا آپ اپنا تعلق کاٹنے کے سامان اپنے ہاتھوں سے تو نہیں کر رہے.اگر کر رہے ہیں اور چوبیس گھنٹے رحمن ، رحمن کی رٹ لگائے رکھتے ہیں تو کسی بے وقوف صوفی کے نزدیک تو ہوسکتا ہے آپ ذکر الہی میں مشغول ہوں مگر در حقیقت اگر اسماء کے مضمون کو سمجھیں تو ذکر الہی سے اس رٹ کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں جس کا اثر آپ کی ذات میں ظاہر نہیں ہوتا اور آپ اس صفت کے قریب تر نہیں ہوتے چلے جاتے اور یہ پہلو ہے جس کے لحاظ سے جماعت میں ابھی تک بہت سی کمزوریاں ملتی ہیں اور میں خصوصیت سے ان کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.رحم کے رشتے ایک موقع تک تو ایک رستے پر چلتے ہیں پھر آگے جا کر ان کا جوڑ دوسرے
خطبات طاہر جلد 14 241 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء رستوں سے ہو جاتا ہے اور پھر دوشاخہ بن کے آگے بڑھتے ہیں لیکن ان کا ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ رہنا چاہئے گویا رحم کے نئے تقاضے جو ہیں ان کو بھی انسان ہمیشہ پورا کرتا رہے.یہ جو دوشاخہ بنتا ہے یہ شادی کے نتیجے میں ہوتا ہے.شادی سے پہلے ایک لڑکی اپنے گھر میں اپنی ماں کے حقوق ادا کر رہی ہے اور رحم کے تعلق سے اس کا اپنے ماں باپ سے بھی تعلق قائم ہوتا ہے اور رھی تعلق سے مراد صرف ماں کا رشتہ نہیں بلکہ باپ کا رشتہ بھی ہے، احادیث سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے.پس رحم کے ذریعے اس کا تعلق اپنے باپ سے ہے، اپنی ماں سے ہے، اپنے بھائیوں سے ہے، اپنی بہنوں سے ہے، اپنی پھوپھیوں سے ہے، اپنے چچاؤں سے ہے، اپنے ماموں سے ہے، یہ سارے رشتے اس کے چل رہے ہیں اور ان سب رشتوں کے حقوق ادا کر نا رحمان سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے.جہاں آپ نے ان حقوق کو نظر انداز کیا، ان سے بے اعتنائی کی اور گستاخانہ رویہ اختیار کر کے آپ نے اپنے تعلق کو ان رشتوں سے کاٹا.آپ کو خدا نے بہتر تو فیق دی ہے، ان میں سے کچھ غریب ہیں، کچھ کمزور ہیں، کچھ بے حیثیت ہیں، ان سے آپ نے کسی معنے میں بھی تکبر کا رویہ اختیار کیا تو یہ ساری وہ باتیں ہیں جو رحمان خدا سے آپ کا تعلق کاٹنے والی ہیں.یہ معنی ہیں شاخ کے.یہ رحمان سے ہر صفت رحم کی نکلی ہے اور اس کا دنیا میں سب سے اہم مظہر رحم مادر ہے جس سے آگے بچے پیدا ہوتے ہیں.پس خدا کے رحمان نام سے خود کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر وہ صفت رحمانیت پر تو کرتی ہے، اپناپر تو ڈالتی ہے اور ایک رحمان سے مشابہ وجود یعنی ماں پیدا ہو جاتی ہے.تو اس کے رحم سے جو تعلق کا تا ہے گویا وہ خدا سے تعلق کاٹ لیتا ہے.یہ ایک مضمون ہے جو ایک سیدھے رستے پر رواں ہے اس میں کوئی اشتباہ نہیں.آگے جا کر اس لڑکے یا اس لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے.اگر لڑکے کی شادی ہوئی ہے تو ایک بیوی جو کسی کی بیٹی ہے اس کے گھر میں آتی ہے اور وہ بیوی اپنے سارے رحمی رشتوں کو ساتھ لے کر آتی ہے ان کو چھوڑ کر نہیں آتی اور یہاں دو رحموں کے پیوست ہو جاتے ہیں.ایک لڑکے کے ماں باپ کے رحمی تعلقات دوسرے لڑکی کے ماں باپ کے رحمی تعلقات اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ Bondage اختیار کر لیتے ہیں.اس کے نتیجے میں ذمہ داریاں دگنی ہو جاتی ہیں.صلى الله یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی وہ آیات آنحضرت ﷺ نے اختیار فرما ئیں جہاں خصوصیت سے رحمی رشتے کا بھی ذکر ہے اور تقویٰ کی تکرار موجود ہے چار آیتوں میں سے دو ایسی ہیں جن میں دو
خطبات طاہر جلد 14 242 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء دفعہ تقویٰ ، تقویٰ کا ذکر ملتا ہے.اب دو دفعہ تقویٰ اس لئے بھی کہا ہے کہ اس مضمون پر زور دیا جائے اور توجہ دلائی جائے کہ بہت تقویٰ کی ضرورت ہے ، رشتے بن رہے ہیں اور کئی قسم کے خطرات بھی رشتوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں جیسا کہ قطع رحمی کا ایک خطرہ ہے.اس لئے وہ آیتیں اختیار فرمائی گئی ہیں جن میں دُہراؤ ہر ا تقویٰ کا ذکر ہے مگر ایک اور مضمون بھی ہے کہ چونکہ دور شتے ہیں ، دورحم مل رہے ہیں ، دور تھی سلسلے مل رہے ہیں ، اس لئے جیسے یوں کہا جائے کہ دیکھو تم بھی تقویٰ اختیار کرو تم بھی تقوی اختیار کرو ہم بھی تقوی اختیار کرو تم بھی تقویٰ اختیار کرو، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ تکرار ان دونوں کو خصوصیت سے مخاطب کرنے کے لئے کی گئی ہے اور دونوں تقویٰ دونوں میں سے ہر ایک پر چسپاں ہوتے ہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ ایک کو ایک دفعہ تقوی کہہ دیا تو دوسری طرف منہ موڑا اور اس کو تقوی کہہ دیا.تو دو الگ الگ تقووں کے مضمون ، دوالگ الگ فریقوں سے تعلق رکھتے ہیں.مراد یہ ہے کہ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے کہ جہاں دو وجود آپس میں پیوست ہوں اور رحمی رشتے خصوصیت کے ساتھ ایک رستے میں اکٹھے کر دیئے جائیں تو وہاں تقویٰ کی دوہری ضرورت پیش آتی ہے اور دونوں کیلئے لازم ہے کہ وہ تقویٰ سے کام لیں لیکن بدقسمتی سے جو جماعت میں خاندانی جھگڑے ملتے ہیں بہو اور ساس کے ہوں یا خسر اور بہو کے ہوں یا داما داور ساس کے ہوں اور داماد اور خسر کے ہوں ان میں ہر جگہ جب آپ تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں تو اس اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے کسی نہ کسی رنگ میں روگردانی نظر آئے گی.مشکل یہ ہے کہ اگر آپ ایک کو سمجھائیں کہ دیکھو یہ بہت ہی اہم مضمون ہے.رحمی رشتہ کی اتنی اہمیت قرآن کریم کے نزدیک ہے کہ آنحضرت ﷺ رحمی رشتوں کی اس اہمیت کو قرآن سے یوں سمجھتے ہیں کہ جس نے رحم مادر سے تعلق کاٹ لیا یعنی رحمی رشتوں سے تعلق کا ٹا خدا فرماتا ہے کہ میں اس کے ساتھ اپنا تعلق کاٹ لوں گا اور میری رحمانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا.اب امر واقعہ یہ ہے کہ رحمانیت کا پر تو اگر اٹھتا ہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.ہر پہلو سے ناکامی اور نا مرادی ہے کیونکہ اللہ کے بعد اگر کوئی صفت دوسرے تمام اسماء پر حاوی ہے تو رحمانیت ہے.اللہ پر کوئی صفت حاوی نہیں ان سب صفات کا مجموعہ اللہ ہے لیکن آپس کے تعلقات میں بعض صفات زیادہ وسیع الاثر ہیں بعض نسبتا کم دائروں میں اثر انداز ہیں اور رحمانیت اس لحاظ سے سب سے وسیع الاثر ہے.تو جس نے رحمانیت سے تعلق کاٹ لیا اس کا تو کچھ بھی باقی نہ رہا اور رحمانیت سے تو ن سے تعلق
خطبات طاہر جلد 14 243 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء کاٹنے کے بعد بخشش کا مضمون خود بخود غائب ہو جاتا ہے.پھر نہ بخشش مانگنے کا کوئی سوال باقی رہتا ہے، نہ بخشش عطا کرنے کا کوئی سوال باقی رہ جاتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ مغفرت کا تعلق رحمانیت سے ہے.اللہ تعالیٰ نظر انداز فرما دیتا ہے کہتا ہے کوئی بات نہیں.خدا کی رحمانیت گناہوں کو گویا ڈھانپتی ہے اور اسی سے استغفار کا مضمون پیدا ہوتا ہے.تو اتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی اہمیت کوئی نہیں.جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں اس کا قصور ہے ، اس نے کاٹا ہے.اگر کہا جائے اس سے کہ تم بتاؤ وہ کہتے ہیں جی اس نے کاٹا ہے، ہمارا تو کوئی قصور نہیں لیکن تعلق کٹ گیا یہ پکی بات ہے اور یہ کہنا کہ اس نے کاٹا ہے یہ اس لئے غلط ہے کہ وہ جو تکرار تقوی کی ہے جس کا ذکر میں نے کیا ہے وہ بتاتی ہے کہ عموماً دوطرفہ نقائص ہی ہوتے ہیں، یکطرفہ نہیں ہوا کرتے.ایک شخص نے تقوی سے تجاوز کیا اور رحمی رشتوں کو حقیر سمجھا، کوئی طعن و تشنیع کی بات کر دی جو دونوں طرف سے ممکن ہے تو اس کے نتیجے میں جو تعلق پر اثر پڑتا ہے وہ دوطرفہ اس طرح ہے کہ سننے والے کو بھی اگر رحمی رشتے کی اہمیت کا احساس ہو وہ صبر سے کام لے اور عفو سے کام لے تو پھر بھی یہ تعلق قائم رہ جاتے ہیں.پھر رفتہ رفتہ مزاجوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے، بخت دل نرم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور تعلقات دن بدن بہتر سے بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ ، بہت بڑے دینی ذوق اور علم رکھنے والے بھی اس بات سے نا آشنا ہیں.کسی کی بیٹی اپنے گھر آتی ہے اور یہ ضد ہے، انانیت بن گئی ہے کہ جب تک یہ پوری طرح ناک میں نکیل ڈلوا کر ہماری خدمت نہیں کرتی اور ہماری ہر بات ، ہر مزاج کے مطابق کام نہیں کرتی ہمیں اس کی کوئی بھی پرواہ نہیں اور اگر وہ بے چاری روتی پیٹتی گھر چلی جائے تو یہ - انانیت کے خلاف ہے کہ اسے واپس لایا جائے.وہ ذلیل اور رسوا ہو کر ، فقیر نی بن کر گھر پہنچے تو ہم قبول کریں گے اور پھر جب پوچھا جائے کہ یہ کیا ہورہا ہے تو کہتے ہیں، ان کا قصور ہے.ان کا قصور ہے تو تمہیں یہ بھی تو خیال چاہئے تھا کہ ہر شخص کی ایک عزت نفس ہے اگر رحمان خدا سے تعلق قائم کرنے کی خاطر تم اپنے فرضی مقام عزت سے نیچے اتر آؤ تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے لیکن رحمان خدا سے تمہارا تعلق ضرور قائم ہو جائے گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر یہ سوچو کہ رحمان کو تمہاری خاطر نیچے اترنے کی کیا ضرورت ہے؟ تمہارا مقام عزت تو ایک فرضی مقام ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور تمہارا یہ فیصلہ کہ دوسرے کا قصور ہے یہ بھی ایک تحقیق طلب امر ہے اگر تحقیق نہیں کر سکے تو اللہ کے نزدیک
خطبات طاہر جلد 14 244 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء تو بات واضح ہے اس لئے اپنی غلطی کے احتمال کو کالعدم سمجھنا اور یہ حتمی فیصلہ دے دینا کیونکہ ہمارا ہاتھ اوپر کا ہاتھ اور زبردستی کا ہاتھ ہے اس لئے ہم جس میں جو کیڑے ڈالیں گے اس کو قبول کرنے پڑیں گے یہ بھی ایک تکبر کا انداز ہے اور اس کے بعد یہ ضد کہ دوسرا خاندان ذلیل اور رسوا ہوکر ، نیچے گر کر ہم سے ملے تو ہم تعلق قائم کریں گے ورنہ نہیں.یہ کرنے کے بعد پھر رحمان سے دعائیں ! اے اللہ رحم فرما اس مشکل میں ہم پڑ گئے ، اس مصیبت میں مبتلا ہو گئے ،فلاں فلاں مصائب سے نجات بخش ، یہ سارے فرضی قصے ہیں.پس صفات باری تعالیٰ کے مضمون کو سمجھایا اسماء باری تعالی کے مضمون کو سمجھنا اس لئے ضروری ہے جو میں اس پر زور دے رہا ہوں کہ یہ محض ایک صوفیاء کی زبان کی یا ان کے ہونٹوں کی رٹ نہیں ہے.اسماء باری تعالیٰ کا ہر مخلوق سے ایک تعلق ہے اور انسان سے تمام اسماء کا تعلق ہے.عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاء كُلَّهَا ( البقرہ:32) ہم نے آدم کو تمام اسماء بتا دیئے.اگر ان تمام اسماء کا آدم سے تعلق نہیں تھا تو یہ مضمون بے معنی ہو جاتا ہے اور یہ اسماء جو خصوصیت سے صفات باری تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں یہ تمام تر محمدرسول اللہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں بتائے گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا معاشرہ اور انسانی صفات ایک لمبے عرصے تک ترقی کر کے ارتقاء کے دور سے گزرتے ہوئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس مرتبے تک جا پہنچیں کہ ان تمام صفات میں اللہ کے اسماء کی جلوہ گری ہو سکے.اگر اس سے پہلے ان تمام صفات میں جلوہ گری ممکن ہوتی اور پھر بھی خدا تمام صفات کا علم اس زمانے کے آدم کو نہ دیتا تو یہ نا انصافی تھی، اس لئے یہ نتیجہ نکالنالا ز مادرست ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ انسان کی وہ تمام صفات جن کی پرورش کی گئی ہے جن کی ربوبیت کی گئی ہے وہ خدا کی صفات سے تعلق قائم کرنے کی خاطر کی گئی ہے اور ان صفات میں سب سے اہم اور سب سے بالا اور سب سے مقدم رحمانیت ہے.پس سورہ فاتحہ کو جب پھر پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو مضمون کی سمجھ آجائے گی.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ في الرَّحْمنِ الرَّحِيمِن ربوبیت کا مقصد کیا ہے تمام جہانوں کا رب ہے لیکن ربوبیت تمام جہانوں کو کہاں لے جا رہی ہے رحمان کی طرف.وہ رحمان جو رحیم بھی ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے.اب اس وقت نہ وقت ہے نہ اس مضمون سے براہ راست یہ تعلق ہے کہ سورہ فاتحہ کی
خطبات طاہر جلد 14 245 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء ان تمام صفات کا تفصیل سے ذکر کروں ، ایک دوسرے سے تعلق بیان کروں اور پھر اس سے آگے صفات باری تعالیٰ کس طرح شاخ در شاخ پھوٹتی ہیں ان کا ذکر کروں ، یہ اللہ تعالیٰ توفیق دے گا مختلف وقتوں میں پہلے بھی میں بیان کرتا رہا ہوں آئندہ بھی انشاء اللہ حسب توفیق بیان کرتا رہوں گا لیکن جو بات میں آج بیان کر رہا ہوں وہ رحمانیت کے تعلق میں آپ کو ذمہ داریاں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور یہ سمجھانے کے بعد کہ رحمان لفظ کسی اور لفظ سے مشتق نہیں ہے، کسی اور لفظ کا مرہون منت نہیں ہے جو انسان اپنی صفات کے بیان کے لئے گھڑتا ہے اور ڈھالتا ہے.اس سے ملتے جلتے لفظ جو اسماء باری تعالیٰ کے لئے ہمیشہ سے ہیں وہ انسان نے ان صفات سے اخذ کئے ہیں جو خدا نے انسان میں پیدا کر رکھی تھیں اور وہ صفات مخلوق ہیں.خدا کی صفات کے بچے نہیں ہیں کیونکہ لفیلد وَلَمْ يُولَدْ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ خدا کی کوئی صفت بھی براہ راست بچے نہیں دیتی بعینہ ویسا وجود پیدا نہیں کرتی اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ بعینہ ویسا وجود پیدا کرتی ہے تو اللہ کے اسماء میں الحاد کرنے والا ہے.اس لئے اس بات کو پیش نظر رکھ کر آپ خود اب اچھی طرح سمجھ لیں کہ رحمان بھی کسی انسانی لفظ سے یا زندگی کی صفات سے مشتق نہیں ہے.زندگی کی صفات اسی نام سے تخلیق پاتی ہیں اور ہر تخلیق کے پیچھے ایک صفت یا ایک سے زیادہ صفات ، ایک اسم یا ایک سے زیادہ اسماء کارفرما ہوتے ہیں اور ان کے جلوے ان مخلوقات میں خصوصیت سے دکھائی دیتے ہیں.تمام مخلوقات میں یہی نظام کار فرما ہے.جو ابتداء آفرینش کے وقت پیدا ہونے والی مخلوقات تھیں ان میں ابھی صفات کا مضمون بننا شروع ہوا تھا.ابھی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھا اس لئے ان کی تخلیق کے وقت خدا تعالیٰ کی تمام صفات نے بر وقت جلوہ نہیں دکھایا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ، وقت کے تقاضوں کے مطابق صفات باری تعالیٰ ایک سے بعد دوسری تخلیق کرتی رہیں اور اعلیٰ درجے کی تخلیق پر خدا کی زیادہ اسماء کی جھلک ہے.ادنی درجہ کی تخلیق میں نسبتا کم اسماء کی جھلک ہے مگر خدا کے اسماء کی جھلک کے بغیر کوئی مخلوق نہیں ہے.یہ مضمون کامل ہوا انسان پر جا کر یعنی انسان میں ان صفات کا نچوڑ رکھ دیا گیا.ان صفات کے پر تو کا نچوڑ کہنا چاہئے.ان صفات کا جو عکس پڑتا ہے، جو تخلیق ہوتی ہے ان صفات کے اثر سے، ان تمام صفات کا کچھ نہ کچھ مادہ انسان میں رکھ دیا گیا.پس یہ مضمون کہ اللہ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ خدا نے جو فطرت بنائی ہے یعنی قوانین بنائے ہیں ، ہر چیز بنائی
خطبات طاہر جلد 14 246 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء ہے اس کے مطابق ہی انسان کو پیدا کیا ہے.دوسرا یہ کہ خدا کی صفات باری تعالیٰ نے اپنا جلوہ انسان میں ان سب مخلوقات سے زیادہ دکھایا ہے جو غیر انسانی مخلوقات ہیں اور اس پہلو سے خدا کے اسماء کی ایک ہلکی سی تصویر انسان کے کردار میں رکھی گئی ہے.یہ تصویر جب کامل ہوئی ہے تو اس کا نام خلیفہ اللہ رکھا گیا اور خلیفتہ اللہ خود سب سے زیادہ صفت رحمانیت کا مظہر تھا.اس لئے اس کی صفات کا خلاصہ یہ بیان فرمایا گیا کہ تو رحمۃ العالمین ہے.الرحمن کے ساتھ یہ تعلق بنتا ہے آنحضرت ﷺ کا اور تمام مخلوق کا.اب میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ سمجھنے کے بعد اگر یہ خیال ہو کہ رحمان سے تو تعلق کٹ صلى الله گیا محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق قائم رہے گا تو بالکل جھوٹ ہے.اگر رحم سے تعلق کاٹنے کے نتیجہ میں رحمانیت سے تعلق کاٹا جاتا ہے تو جو رحمانیت کا مظہر وجود ہے اس سے بھی لازماً کلیہ تعلق کٹ جاتا ہے اور ایک فرضی اسلام کے اندر ایک ایسا انسان زندگی بسر کرتا ہے جس کو پتا ہی نہیں کہ اس کے اسلام کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.وہ ہر نماز کی ہر رکعت میں خدا کو رحمن کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور پھر بعد میں اِيَّاكَ نَعْبُدُو وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے رب ! اے رحمن ! اے رحیم ! اے مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ! صرف تجھ سے مانگتا ہوں اور کسی سے نہیں مانگتا.تجھ سے ہی مانگوں گا اور کسی سے نہیں مانگوں گا ، یہ اقرار کر رہا ہے اور اس کو پتا ہی نہیں کہ وہ تو اصل سے تعلق کاٹ بیٹھا ہے.اب مانگتے رہو کیونکہ اس طرف کوئی جواب دینے والا رحمن نہیں رہا.جس کو تم نے اپنی ذات سے کا لعدم کر دیا وہ تمہارے لئے گویا کہ خود کا لعدم ہو گیا اس کا کوئی وجود تمہارے لئے باقی نہیں رہا.تو دعاؤں کی قبولیت کے بھی راز ہوتے ہیں محض یہ کہہ دینا کہ جی ہم روتے روتے دعائیں کرتے ہیں ، ہم تہجد بھی پڑھتے ہیں ، روزے بھی رکھتے ہیں ، چندے بھی دیتے ہیں ، پھر بھی بعض دعا ئیں نہیں سنی جاتیں.مگر بعض دفعہ کیا ایسے لوگوں کی تو اکثر دعائیں نہیں سنی جاتیں.بعض دفعہ سنی جاتی ہیں.یہ کہا جا سکتا ہے اس کا اور مضمون سے تعلق ہے وہ تو مضطر کی دعا مشرک بھی ہو تو سنی جاتی ہے.مضطر کی دعا جو بے قرار ہو جائے ، حد سے زیادہ اس کی حالت زار ہو چکی ہو وہاں رحمانیت انسان کے تعلق کاٹنے کے باوجود خود اتر آتی ہے اور رحمانیت کی ایک عجیب شان ہے.عام روز مرہ کے دستور میں جن انسانوں نے اس سے تعلق کاٹ لیا جب اس کو ایسا بے سہارا دیکھتی ہے اس انسان کو
خطبات طاہر جلد 14 247 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء کہ اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہا اور اس میں گریہ وزاری پیدا ہوئی ہے اور خدا کی طرف توجہ ہوئی ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شخص پھر شرک کی طرف لوٹے گا پھر بھی اللہ کی رحمانیت آسمان سے اس کے لئے نیچے اترتی ہے اور اسے سنبھال لیتی ہے خواہ وقتی طور پر ہی سہی، یہ بالکل الگ مضمون ہے مگر روزمرہ کی زندگی میں ایک مسلمان نے اگر اللہ کی رحمانیت سے تعلق جوڑنا ہے تو صفت رحمانیت پر غور کرے اور رحمن خدا سے تعلق قائم رکھنے کے کیا کیا تقاضے ہیں؟ وہ صفت رحمانیت جو آپ کی ذات میں ودیعت فرمائی گئی ہے وہ فی ذاتہ اللہ کی صفت نہیں اللہ کی صفت کا ایک عکس ہے.پہلے تو یہ مضمون اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ کا مضمون تمام صفات باری تعالیٰ کو ہمیشہ کے لئے خالق تو مانتا ہے لیکن اپنے جیسا پیدا کرنے والا نہیں مانتا.وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌور نہ اس جیسے کچھ اور بھی ہو جاتے.اس کے ہم مزاج ، ہم خلق ، اس جیسی صفات رکھنے والے اور بھی وجود پھر بہت کثرت سے ملتے تو پہلے تو انکسار کا یہ مضمون سمجھنے کی ضرورت ہے آپ جتنا مرضی رحمن بنے کی کوشش کریں.رحمن اور ہے اور رحمن کا عکس اور ہے اور عکس، عکس میں فرق ہے.ایک جگہ عکس ایسا کامل ہو جاتا ہے کہ گویا وہی دکھائی دیتا ہے.جو اوپر ہے اور ذات کی میل کلیہ مٹ جاتی ہے.یہ وہ مرتبہ ہے جو محمدیت کا مرتبہ ہے اور حضرت محمد رسول صلى الله اللہ سے ایسا تعلق قائم کرنا کہ اپنی ذات کلیۂ مٹ جائے یہ احمدیت کی شان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی شان میں وجود پذیر ہوئے ہیں.اسی شان کے اظہار کے لئے آپ کی تخلیق ہوئی ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے خدا کے حضور اپنے وجود کے ہر پہلو کو کلیۂ مٹا صلى الله ڈالا.یہاں تک کہ آپ کے آئینے میں خدا کے سوا کچھ باقی نہ رہا جب یہ ہوا تو پھر آپ گورحمتہ للعالمین قرار دیا گیا.رحمن نہیں ہے مگر رحمن کی رحمت کا جلوہ گر ہے اور جب حضرت مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے وجود کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺے کیلئے اس طرح مٹا دیا جس طرح حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے خدا کے لئے مٹا دیا تھا تو پھر وہ احمد پیدا ہوا ہے جسے غلام احمد کہنا چاہئے اور یہی نام رکھا گیا ہے یعنی احمد ہوتے ہوئے بھی غلامی کی وجہ سے احمد بنا.اس لئے خدا نے دیکھیں آپ کے نام میں کیسی پیاری حکمت رکھ دی اس کی تشکیل میں ہی آپ کی دونوں صفات موجود ہیں.احمد ہیں مگر غلام بن کر احمد ہیں.آزاد احمد نہیں ہیں اور احمد کی شان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد 14 248 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء کی ذات میں اپنے وجود کو مٹانے سے جلوہ گر ہوئی ہے.وہ تمام صفات جو رحمانیت کے راہ میں روک بنتی ہیں وہ کثافتیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے رحمانیت انسان کے وجود میں جلوہ گر نہیں ہو سکتی.وہ کون کون سی صفات ہیں جن کا رحمانیت سے تضاد ہے، یہ بھی ایک مضمون ہے.پہلے میں آپ کو یہ سمجھا رہا تھا کہ رحمانیت سے تعلق رکھنے والی وہ کون سی صفات ہیں جو مخلوق میں موجود تو ہیں لیکن انہیں صیقل کرنا، انہیں چمکانا انہیں ابھار کر اپنا کر اپنے وجود کا ایک جزو بنا لینا یعنی عمداً کوشش کرنے کے بعد ان صفات کے ساتھ جو وجود میں موجود ہیں کلیہ ہم آہنگ ہو جانا یہ وہ مضمون ہے یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا.اور صفات باری تعالیٰ کا کامل علم آنحضرت ﷺ کو دے کر مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے مقاصد ان قوموں کے مقاصد سے بہت زیادہ وسیع ، بہت زیادہ بلند اور بہت زیادہ تعلیم ہیں.پہلی قومیں اگر خدا کی چند صفات کی مظہر بنی تھیں تو تمہیں تمام صفات باری تعالیٰ کا مظہر ہونا ہوگا.اس لئے ہر پہلو سے اپنی نفسانیت کو مٹانا ہوگا.یہ نفسیا نیت کا مٹانا اگر میاں بیوی کے تعلقات میں نظر نہ آئے ، باپ بیٹے کے تعلقات میں نظر نہ آئے ، ساس بہو کے تعلقات میں نظر نہ آئے ،خسر اور بہو یا داماد اور ساس اور سسر کے تعلقات میں نظر نہ آئے تو یہ رحمانیت کی باتیں، یہ صفات باری تعالیٰ کے تذکرے، یہ سارے فرضی قصے ہیں ان کے نتیجے میں پھر آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.پس میں آپ کو صوفی نہیں بنانا چاہتا.میں آپ کو وہ ولی بنانا چاہتا ہوں جو بنانے کے لئے محمد رسول الله ﷺ تشریف لائے اور ولایت کا مضمون صفات باری تعالیٰ کو سمجھنے سے تعلق نہیں رکھتا ، ان کو اپنی ذات میں جاری کرنے سے تعلق رکھتا ہے.تفصیل کے ساتھ ان کو سمجھ کر ہمیشہ اپنی ذات کی نگرانی سے تعلق رکھتا ہے کہ جہاں جہاں ان کے اطلاق میں کمی ہے وہاں ان کو میں پوری طرح اطلاق کر کے دکھاؤں.اس راہ میں مصیبتیں ہیں ، کوششیں ہیں، قربانیاں ہیں، جب ایک چیز کو رگڑ کے صاف کیا جاتا ہے تکلیف پہنچتی ہے.شیشہ شور مچائے یا نہ مچائے مگر انسان جب اپنے آپ کو صیقل کرتا ہے تو اس کا نفس ہر قدم پر کراہتا ہے، ہر صفائی کرنے والے ہاتھ کی حرکت سے اس کو تکلیف محسوس ہوتی ہے.پس یہ کوئی آسان کام نہیں جو گوشتہ تنہائی میں جا کر ذکر الہی سے نصیب ہو جائے.ذکر الہی وہ ہے جو گوشتہ تنہائی سے آپ کی ذات کو باہر نکالتا ہے اور آپ خدا کی اس شان کے مظہر بننے لگتے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 249 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 1995ء که کنت کنزا مخفیا میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا فاردت ان اعرف پس میں نے ارادہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں اور ظاہر ہوں ، تب خدا فرماتا ہے کہ میں جلوہ گر ہوا ہوں اور پھر میں پہچانا گیا.تو یہ جو عمل ہے یہ اسماء الہی پر غور کرنے اور ان کو اپنی ذات میں جاری کرنے کے ساتھ اس طرح ظاہر ہوتا ہے.جہاں جہاں صفت باری تعالیٰ آپ کی ذات میں واقعہ وجود کا حصہ بن جائے وہاں وہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے.دوسری ملتی جلتی تمام انسانی صفات کو دبا لیتی ہے.ان کا کوئی بھی وجود باقی نہیں رہتا اور ایک خدا نما وجود انسان کی ذات میں ابھر نے لگتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ اس مضمون سے جیسا کہ حق ہے اسی طرح فائدہ اٹھا ئیں محض ذہنی جسکے نہ ہوں کہ آج بہت عرفان کی باتیں سنیں.وہ عرفان جو عرفان الہی ہے اس کے نتیجے میں تو ذات میں پاک تبدیلیاں ہوا کرتی ہیں وہ تبدیلیاں مقصود ہیں وہی مقصود ہونی چاہئیں ورنہ تو پھر محض مجلس کے قصے ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں.میں نے 1887ء کہہ دیا تھا 1987 ء کی بجائے 1887ء میں بھی کوئی ملتا جلتا واقعہ ہوا ہوگا شاید.حیرت انگیز طور پر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت کے جلوے خدا اس دور میں پھر دکھا رہا ہے اور اصل منشاء یہ ہے یہ بتانا کہ یہ زمانہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کا زمانہ ہے کسی اور کا زمانہ نہیں اور جب تک ان سالوں میں وہ جلوے دہرائے جاتے رہیں گے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اس وقت تک اس زمانے کا انسان ہمیشہ یقین سے بھر جاتا رہے گا کہ نام بدل رہے ہیں مگر زمانہ ایک ہی ہے یعنی آخرین کا زمانہ جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جلوہ احمدیت سے تعلق رکھتا ہے.تو غلطی ہو بھی گئی تو کوئی حرج نہیں اس سے ایک مضمون نکل آیا.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج چونکہ میں نے سفر پر جانا ہے اس لئے انشاء اللہ آج جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی جمع ہوگی اور احباب بھی دعا کریں اللہ ہر لحاظ سے اس سفر کو با برکت کرے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 250 خطبہ جمعہ 7 اپریل 1995ء
خطبات طاہر جلد 14 251 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء چوہدری ریاض احمد شب قدر کی شہادت کا واقعہ شاتان تذبحان کا الہام ایک اور رنگ میں پورا ہوا.(خطبہ جمعہ فرمودہ 14 / اپریل 1995ء بمقام مسجد بشارت سپین) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِنْدَرَ بِهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا أَنهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ الَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُم خمیر يَحْزَنُوْنَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ.پھر فرمایا:.(آل عمران : 170 تا 172 ) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے اور یہ سورۃ آل عمران کی آیات 170 171 اور 172 ہیں جو میں نے تلاوت کی ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ ہرگز ان لوگوں کو جو خدا کی راہ میں قتل ہوئے مردے نہ کہو بل احیا بلکہ وہ زندہ ہیں عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ اپنے رب کے حضور رزق دیئے جا رہے ہیں فَرِحِيْنَ بِمَا الهُمُ اللهُ مِن فَضْلِیم وہ اس سے بہت خوش ہیں جو اللہ نے ان پر فضل فرمایا ہے یا جو انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا اور آسمان سے ان لوگوں کے متعلق بھی خوشخبریاں حاصل کر رہے ہیں، خوشخبریاں پا رہے ہیں جوان
خطبات طاہر جلد 14 252 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء سے نہیں ملے یعنی پیچھے رہ گئے مِنْ خَلْفِهِمْ ان کے بعد پیچھے رہ گئے ہیں.اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہے اور وہ غم نہیں کریں گے.يَسْتَبْشِرُون بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ وہ اللہ سے نعمت کی خوشخبریاں پاتے ہیں اور اس کے فضل کی اور اس بات کی اَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں فرماتا.دنیا میں زندگی اور موت کا ایک تو جاری سلسلہ ہے.لاکھوں کروڑوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور ایک دن میں مرتے بھی ہیں اور ان کا کوئی شمار نہیں، کسی گفتی میں نہیں آتے.لیکن بعض جو خدا کی راہ میں قربانی کرنے والے ، خدا کی راہ میں غیر معمولی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفا کے نمونے دکھانے والے لوگ ہیں ان کا ذکر اس دنیا میں بھی خیر کے ساتھ جاری ہوتا ہے بلکہ ملاء اعلیٰ میں بھی خیر کے ساتھ جاری ہوتا ہے اور پھر آنے والی نسلوں میں ہمیشہ ہمیش کے لئے ان پر سلام بھیجے جاتے ہیں.پس زندگی اور موت تو ایک عام جاری و ساری سلسلہ ہے.خوش نصیب وہ ہوتے ہیں جن کو خدا کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے ، خدا کی راہ میں ، خدا کی رضا کی خاطر ، بڑے بڑے کارنامے سر انجام و ہوئے موت آئے اور ان اموات میں سب سے بلند تر وہ مرتبہ ہے جو شہید کا مرتبہ کہلاتا ہے یعنی روزمرہ کی زندگی میں عام لوگ جو خدمت دین میں وفات پاتے ہیں انبیاء کو چھوڑ کر اور صدیقوں کو چھوڑ کر جو ایک بہت ہی بلند تر مراتب کی باتیں ہیں ان سے نیچے سب سے بلند مرتبہ شہداء کا ہے اور اسی ترتیب سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے بعد پھر صالحین کی باری آتی ہے.تو شہداء کی وفات کا تذکرہ موت کے ساتھ کرنا جائز نہیں کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کو مردے ہر گز نہ کہو.اس لئے یہ مضمون بیان کرنا بہت سی مشکلات کا حامل ہے، بہت سی مشکلات راہ میں رکھتا ہے.ایک طرف جانے والوں کی جدائی کا صدمہ اور پیچھے رہنے والوں کا احساس دل کو غمگین کرتا ہے دوسری طرف اتنی عظیم سعادت ان کا پا جانا کہ ان کے سوا کسی اور دنیا چھوڑنے والے کے متعلق اللہ نے یہ نہیں فرمایا بَلْ أَحْيَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ کہ وہ زندہ ہیں اور خدا کے حضور رزق دیئے جارہے ہیں.باقی فوت شدگان کے متعلق ہم تفصیل سے کچھ نہیں جانتے تفصیل سے تو ان کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتے مگر یہ خصوصی ذکر کہ وہ زندہ ہیں تمہیں علم نہیں کہ کیسے زندہ ہیں اور یہ کہ خدا کے حضور وہ رزق جن کی ان کو ضرورت ہے یعنی روحانی زندگی میں وہ ان کو عطا ہورہا ہے یہ ان
خطبات طاہر جلد 14 253 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء کے سوا کسی اور کے متعلق قرآن کریم میں بیان نہیں ہوا.پس اس پہلو سے ان کی خوش نصیبی اور ان کی سعادت غیر معمولی مقام رکھتی ہے اور بعد کی تاریخ بھی ہمیشہ ان کے ذکر کو زندہ رکھتی ہے اور زندہ رکھے گی.پس اس پہلو سے مشکل یہ در پیش ہوتی ہے کہ ایک طرف ان کی جدائی کا صدمہ پیچھے رہنے والوں کو اور ان کے پسماندگان کا احساس دوسری طرف سعادت اتنی عظیم اور غیر معمولی ہے کہ اس کا خوشی سے ذکر نہ کرنا بھی ایک قسم کی ناشکری ہے.پس اس لحاظ سے جب چوہدری ریاض احمد صاحب کی پشاور سے شہادت کی اطلاع ملی جو شب قدر میں ہوئی تو اس وقت پہلے جو دل میں صدمے کا احساس پیدا ہوا اس پر پھر طبیعت استغفار کی طرف مائل ہوئی اور اللہ تعالیٰ سے میں نے بڑی التجا سے معافی مانگی اس خبر پر مجھے صدمہ کیوں پہنچا ہے جبکہ تیرا حکم یہ ہے کہ خوش نصیب لوگ ہیں بڑے مراتب پانے والے ہیں لیکن انسانی نفس کی کمزوری اس کے ساتھ لگی رہتی ہے اور ایسے مشکل مواقع پر صدمے اور غم کے اندر تفریق کرنا بہت مشکل کام ہے.بہر حال چوہدری ریاض احمد صاحب جن کی شہادت کا ذکر مختلف انٹر نیشنل نیوز ایجنسیز کے ذریعے دنیا میں پہلے ہی پہنچ چکا ہے ان کا واقعہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور جماعت کی تاریخ میں یہ شہادت ایک خاص مقام رکھتی ہے.اس کی وجہ کیا ہے یہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.شب قدر میں جو واقعہ گزرا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ مردان کے ایک مخلص دوست چوہدری ریاض احمد صاحب جو ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے داماد تھے.ڈاکٹر رشید احمد خان صاحب کو ہمیشہ سے تبلیغ کا بہت ہی جنون اور شوق رہا ہے یہاں تک کہ خدا کی راہ میں پہلے بھی ان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا لیکن انہوں نے کبھی کوئی پرواہ نہیں کی.1974ء میں ڈاکٹر رشید احمد خان صاحب کے اوپر بندوقیں تان کر ان کے سینے سے لگا کر ان سے کہا گیا کہ تم ابھی بھی تو بہ کر لو اور مسلمان ہو جاؤ.انہوں نے کہا میں تو مسلمان ہوں، لا الہ الا الله محمد رسول اللہ میراکلمہ ہے اس پر میرا ایمان ہے اور کیسے مسلمان بنوں.انہوں نے کہا نہیں اس طرح نہیں مرزا صاحب کو حضرت مسیح موعود (علیہ الصلواۃ والسلام ) کو گالیاں دوتب تم مسلمان کہلاؤ گے.انہوں نے کہا نعوذ باللہ من ذالک یہ اسلام تو میں نے کہیں نہیں پڑھا.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جو اسلام سکھایا ہے اس میں کسی کو گالیاں دینا تو کہیں اسلام
خطبات طاہر جلد 14 254 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء میں داخل نہیں سمجھا گیا اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں درود تو پڑھوں گا اور سلام بھی بھیجوں گا لیکن ان کا ذکر بدی سے کرنا ان کو گالیاں دینا میرے بس کی بات ہی نہیں ہے.جو کرنا ہے کرو اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ تمہیں یاد نہیں شاید کہ احد کے میدان میں ایک واقعہ ہوا تھا ایک صحابی تھے جو کھجور کھا رہے تھے.جب آنحضرت ﷺ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو اس کھجور کو دیکھ کر انہوں نے کہا اے کھجور میرے اور جنت کے درمیان تو ایک کھجور ہی حائل ہے؟ اس کو اٹھا کے ایک طرف پھینک دیا اور سیدھا دشمنوں کے اوپر تنہا حملہ آور ہوئے اور ان کے جسم کے ٹکڑے اڑ گئے لیکن وہ شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کر گئے ( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر : 4046) اور ایسا مرتبہ جس کا ذکر ہمیشہ تاریخ اسلام میں خصوصیت کے ساتھ کیا جاتا ہے.انہوں نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھوان کے اور جنت کے درمیان ایک کھجور ہی تو تھی مگر میرے اور جنت کے درمیان تو ہوا بھی نہیں ہے.یہ تمہاری گولیاں تمہاری بندوقیں، میری چھاتی سے لگی ہوئی ہیں اس لئے جو کرنا ہے کر گز رو مگر یہ ناممکن ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر بدی سے کروں.اس بات کا ایسا رعب ان پر طاری ہوا کہ وہ اس وقت اپنے ارادے سے باز آگئے اور پھر بھی یہ سلسل تبلیغ میں مصروف رہے ہیں.اور ان کے داماد چوہدری ریاض احمد صاحب، جن کا غلطی سے ایم.ٹی.اے پر ریاض احمد خان کے نام سے ذکر ہوتا رہا ہے ، یہ چوہدری ریاض احمد صاحب ہیں، ریاض احمد خان نہیں.اگر چہ رشید احمد خان صاحب کے داماد تھے، ان کا خاص جو مقام اور مرتبہ ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی بارہا احمدیت کی خاطر ان کو تکلیفیں پہنچیں.مردان میں ان پر چھری سے وار کیا گیا پھر سرگودھا میں جو 1974ء کا واقعہ گزرا ہے وہاں ریلوے اسٹیشن پر جن کو گولیاں لگیں ان میں یہ بھی شامل تھے اور جب گولی لگی تو انہوں نے فرمایا یہ تو کچھ بھی نہیں ، یہ تو ابھی آغاز ہے یعنی ارادہ اسی وقت سے شہادت کا تھا اور اسی نیت کے ساتھ یہ ہمیشہ زندہ رہے.اب اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ رشید احمد خان صاحب جو ڈاکٹر تھے ان کی تبلیغ سے ایک جگہ مٹہ مغل خیل میں ایک دوست تھے جو ملازمت بھی کرتے تھے اور وکالت بھی کرتے تھے ان کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق نصیب ہوئی.وہ چونکہ ایک طاقتور پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ان کی احمدیت پر وہاں بڑا سخت رد عمل ہوا اور تمام علاقے میں ان کے متعلق قتل کے فتوے
خطبات طاہر جلد 14 255 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء جاری ہونا شروع ہوئے.ان کے بھائیوں میں سے ایک بھائی جو بہت ہی زیادہ متشدد تھا اس نے تو سب سے زیادہ مخالفت کی حد کی اور علماء کولا کر ان کے قتل کے لئے فتوے حاصل کئے.ملاں فضل ربی اس علاقے کا ایک ملاں ہے جو اس معاملے میں سب سے زیادہ بدبختی کا نمونہ دکھاتا رہا اور کثرت کے ساتھ لوگوں میں ان کے خلاف انگیخت کرتا رہا لیکن جہاں تک اس نو مبائع دوست کا تعلق ہے ان کے متعلق میں آپ کو بتادوں ان کا ذکر یہاں لکھا ہوا ہے.(وہ واقعہ جو میں نے پڑھا تھا اس کی تفصیل شاید میں ساتھ لانا یعنی تحریری تفصیل ساتھ لانا بھول گیا ہوں یا کہیں رہ گیا ہے لیکن زبانی طور پر مجھے یاد ہے وہ میں آپ کو بتاتا ہوں ).ان کا نام دولت خان ہے اور جب ان کی بیعت کا واقعہ مشہور ہوا تو بھائیوں نے بھی مخالفت کی اور علماء کو بلا کر ان سے گفتگو کروائی.جب علماء نے گفتگو کی تو انہوں نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھا اور اپنا موقف بیان کیا کہ میں کیا سمجھتا ہوں اس پر وہ علماء جو ان سے بحث کے لئے آئے تھے ان میں چونکہ شرافت تھی انہوں نے اسی مجلس میں یہ اعلان کیا کہ جو باتیں انہوں نے بیان کیں ہیں ان میں کوئی بھی کفر کی بات نہیں اس لئے ان پر مرتد ہو کر قتل کرنے کا فتویٰ صادر نہیں کیا جاسکتا.اس پر ان کے پانچ بھائی تو ان کے ساتھ ہو گئے اور ایک بھائی مخالفت پر قائم رہا جب ان کو بہت زیادہ ستایا گیا اور گالیاں دی گئیں تو یہ چونکہ وہ جگہ چھوڑ کر ہجرت کرنے کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے اس لئے وہ جو پانچ بھائی تھے ان میں سے بعض نے ان کا پیچھا کیا اور کہا کہ ہم راضی ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں تم واپس آجاؤ.جو شریر بھائی تھا اس نے ایک اور ملاں سے جو افغانستان سے ہجرت کر کے آیا ہوا ہے اس سے دوبارہ قتل کا فتویٰ لیا اور اس نے تعدا د تو معین نہیں لیکن علاقے کے بہت سے لوگوں کا مجمع اکٹھا کر کے ان کے قتل کا فتویٰ لیا.یہ تفصیل بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کا بعد میں آنے والے واقعات سے ایک تعلق ہے.یعنی موجود علماء نے ان سے گفت و شنید کے بعد ان کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ ان کے عقائد میں کوئی بات بھی اسلام کے خلاف نہیں ہے اس لئے ان پر ارتداد اور قتل کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا.بعد میں ایک افغان ملاں کو جو تشد د تھا لایا گیا اور اس نے ان کے قتل کا فتویٰ صادر کیا.اس کے باوجود یہ وہاں موجود رہے اور چونکہ شرارت کے بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوا اس لئے پولیس نے ان کو نقص امن کی دفعہ لگا کر جیل میں ڈال دیا اور اس کے ساتھ ان کے بعض بھائیوں، عزیزوں کو بھی جیل میں ڈالا گیا لیکن ان کی ضمانت فوراً کروالی گئی اور ان کی ضمانت کسی نے نہ دی.
خطبات طاہر جلد 14 256 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء ان سے جیل میں چوہدری ریاض احمد صاحب ملنے گئے اور ان سے باتوں میں یہ کہا کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے تو عبداللطیف شہید کا انجام سب سے اچھا لگتا ہے.وہ واقعہ سنایا اور کہا میری دلی تمنا بھی یہی ہے کہ میں عبداللطیف شہید کا مرتبہ حاصل کروں اور عجیب ہے، یہ اتفاق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ ان کی شہادت سے پہلی رات ان کی بھابی نے ایک رویا میں دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی جارہی ہے اور انہوں نے اسی وقت صدقہ نکال کے ایک طرف رکھ دیا مگر پھر رویا میں دیکھا کہ ایک بکری ذبح ہو چکی ہے اور ایک بکری باقی رہ گئی ہے اور وہ چونکہ ایک بکری ذبح ہو چکی ہے دوسری کو ان کے والد ذبح کرنے لگے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو ہو چکی ہے اس لئے کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے ایک بکری کو چھوڑ دیا گیا.یہ بظاہر ایک معمولی بات ہے لیکن اس کا بہت گہرا تعلق تاریخ احمدیت سے ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید اوران کے ساتھی کی شہادت کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے الہام کے طور پر آپ کو بتایا جو یہ تھا شاتــان تـذبـحـان “ (تذکرہ صفحہ: 69) دو بکریاں ذبح کی جائیں گی.تو شاتان تذبحان کا اس واقعہ سے ایک گہراتعلق تھا اس لئے یہ خیال کہ شاید ان کی خواہش کا ذکر کر کے ہم خواہ مخواہ ان کی شہادت کو ایک غیر معمولی مقام دے رہے ہیں اس بات نے رد کر دیا کہ ایک خاتون کو وہی رؤیا دکھائی گئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام میں جن الفاظ میں عظیم شہادتوں کی خبر دی گئی تھی اور ان کے ذہن میں اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.جب مجھے اس رویا کی اطلاع بھیجی گئی تو اس میں بھی ان کا کوئی تعلق نہیں باندھا گیا.گویا یہ الگ اتفاقی واقعہ ہے اور شہادت ایک الگ معاملہ ہے.وہ سمجھتے رہے کہ صرف اس شہادت کی خبر ہے حالانکہ بکری ذبح ہونا اور ایک بکری کا چھوڑا جانا یہ بتاتا ہے کہ شانان تذبحان سے اس واقعہ کا بہت گہراتعلق ہے لیکن یہاں دو نہیں بلکہ ایک شہادت ہوگی.پس جب انہوں نے جیل میں ان سے ذکر کیا تو ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور اس کے بعد پھر یہ واقعہ ہوا کہ وہ علماء جنہوں نے ان کے خلاف قتل کی سازش کر رکھی تھی ، یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ان کا جیل میں داخل ہونا اور ضمانت پر نہ رہا ہونا دراصل ایک چال تھی کہ اس پر ان کو ضمانت پر رہا کروانے کی خاطر جب ان کو تبلیغ کرنے والے آئیں گے تو ہم ان کو قتل کریں گے اور مقامی طور پر
خطبات طاہر جلد 14 257 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء چونکہ پٹھانوں میں قبائلی عصبیتیں پائی جاتی ہیں اس لئے کسی ایک پٹھان کا جس کا پیچھا مضبوط ہو،اس کے ساتھ ان کا ایک قبیلہ ہو، کچھ بھائی کچھ دوسرے اثر والے لوگ ہوں، ان کا براہ راست فورا قتل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس کے ساتھ تعصبات جاگ اٹھتے ہیں اور بعض دفعہ ایک لمبا سلسلہ قتل و غارت کا اور انتقام کا شروع ہو جاتا ہے.پس یہ سازش کی گئی ان دونوں مبلغین کے خلاف یعنی رشید احمد خان صاحب اور چوہدری ریاض احمد صاحب کے خلاف کہ جب یہ ضمانت کروانے آئیں گے اس وقت ان کو مارا جائے گا.چنانچہ جب بڑی دلیری کے ساتھ ، چوہدری رشید احمد صاحب اپنے اس داماد کو ساتھ لے کر اور ساتھ ایک اور دوست بھی تھے ان کو لے کر جب ضمانت کے لئے وہاں پہنچے تو پہلے سے یہ پانچ ہزار مشتعل عوام کا وہاں مجمع اکٹھا کیا جا چکا تھا اور وہی ملاں جس کا میں نے نام لیا ہے یہ ان کی قیادت کر رہا تھا اور بڑے زور کے ساتھ اشتعال دلا کر ان کو سنگسار کرنے کی تعلیم دے رہا تھا.اب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو بھی پتھروں سے سنگسار کیا گیا ہے اور یہ ایک اور مشابہت اس بات سے ملتی ہے.چنانچہ جب وہ حملہ آور ہوئے تو ان کو پکڑا اور سب سے پہلے ان کی پیشانی پر بڑے زور سے پتھر مارا اور اسی پتھر کے ذریعے یہ نیم بے ہوش ہو کر زمین پر جا پڑے لیکن اتنی ہوش تھی کہ مسلسل کلمہ ادا کرتے رہے اور آخری آواز جو ان کی سنائی دی وہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی آواز تھی.چنانچہ اس حالت میں جب ان کو شہید کر دیا گیا بالآخر تو پھر ان کی نعش کو گھسیٹا گیا اور ان کے اوپر ناچ کیا گیا اور وہاں کے مشتعل پٹھان مسلمانوں نے ان کی چھاتی پر چڑھ کر ناچ کئے اور اس طرح اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کیا.پولیس کا یہ حال تھا کہ ان کو بچانے کی بجائے ان کی نعش کو ٹھڈے مارے اور کہا کہ ہم بھی اس طرح ثواب میں شریک ہو جاتے ہیں.بالآخر ان کی لاش کو پشاور منتقل کیا گیا اور موجود پولیس نے نہ صرف یہ کہ ان کو بچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ باقاعدہ گھیرا ڈال کر یہ تاثر دیا گیا کہ پولیس کی حفاظت میں ہیں کوئی فکر کی بات نہیں اور تمام مجمع جو قاتل تھا وہ اس گھیرے کے اندر ان کو قتل و غارت کر رہا تھا، ان کے گرد کوئی پولیس کا گھیر انہیں تھا.بہر حال جو بھی واقعہ مقدر تھا عظیم شہادت کا وہ اسی طرح رونما ہوا پھر ان کی نعش کو دوسری جگہ پشاور منتقل کیا گیا چادر ڈال کر ان کو پھر آخرر بوہ پہنچایا گیا.
خطبات طاہر جلد 14 258 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء جوان کے خسر تھے رشید احمد خان صاحب ان کو بھی انہوں نے اپنی طرف سے اتنا مارا کہ وہ سمجھے کہ مر چکا ہے اور جو دوسرا پہلو تھا کہ دوسری بکری بچ گئی ہے وہ اس طرح پورا ہوا لیکن جب ان کو مردہ سمجھ کر مردہ خانے لے جانے کے لیے پولیس کی وین میں ڈال کر بھجوایا گیا تو یہ بتاتے ہیں کہ مجھے مسلسل ہوش تھی اور اگر چہ میں اس وقت حرکت نہیں کر سکتا تھا اس وقت لیکن مجھے ہوش تھی اور میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور دین میں بھی پولیس نے آکر ان کو ٹھڈے مارے، وہیں وین میں موجود پولیس نے کہا ہم بھی ثواب میں شریک ہو جائیں اور جب یہ مردہ خانے پہنچنے لگے تو اس وقت انہوں نے ان کو بتایا کہ میں زندہ ہوں مجھے پانی دو.اس پر پولیس نے کہا کہ ہیں ! تم ابھی تک زندہ ہو اور ان کا ارادہ بد معلوم ہوتا تھا لیکن پاکستان کی پولیس کا یہ کام ہے کہ پیسہ کا انکار ممکن نہیں ان کے لیے.چنانچہ ان کو اتنی ہوش رہی کہ انہوں نے کہا کہ تم قیمت مقرر کرلو مجھے پشاور پہنچا دو تو جوتم ما نگتے ہو میں تمہیں دے دوں گا.چنانچہ جو بھی ان کے ساتھ طے ہوا اللہ بہتر جانتا ہے کیا تھا اس کی تفصیل نہیں آئی مگر اس پیشکش کے بعد پولیس نے مردہ خانے پہنچانے کی بجائے پشاور میں جہاں احمدی دوست تھے ان کے سپر د کیا.یہ جو واقعہ اس طرح گزرا ہے اس میں حکومت کا کردار یہ ہے کہ جب وہاں کے ایس پی نے ڈپٹی کمشنر کو فون کیا اور کہا کہ یہ صورت حال ہے ہمیں بتایا جائے کہ کیا کرنا ہے.تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے جیسا کہ ایسے لوگوں سے توقع ہے کہا کہ دیکھیں امن عامہ کی صورت بگاڑنی نہیں اس لیے ہونے دو جو ہوتا ہے یعنی امن عامہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کسی قسم کی حکومت کے لئے الجھن پیش نہ آئے خواہ معصوم مارے جائیں اس سے حکومت کو کوئی غرض نہیں ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پولیس نے اپنے افسر اعلیٰ کا مدعا سمجھتے ہوئے قطعاً ایک ذرہ بھر بھی ان کو بچانے کی کوشش نہیں کی لیکن ایک ایسا وقت آیا جبکہ مجمع کا آپس میں اختلاف ہو گیا.ان کی شہادت کے بعد جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کو گھسیٹا جائے گلیوں میں اور ننگا کیا جائے اور اس قسم کی اور مکروہ باتیں جب وہ کر رہے تھے تو مجمع میں اختلاف ہو گیا اور کچھ شرفاء ایسے تھے جو ڈٹ گئے کہ تم کیا بکواس کر رہے ہو یہ کوئی طریق نہیں ہے تم نے جو کرنا تھا کر دیا لیکن اب یہ اگلی کارروائی نہیں ہوگی.اس پر جب مشتعل ہوئے دونوں گروہ اور یہ خطرہ ہوا کہ اب آپس میں ماریں گے ایک دوسرے کو ، اس وقت پولیس نے پھر فضائی فائر کئے اور ہوائی گولیاں چلائیں تا کہ مجمع منتشر ہو جائے اور مجمع کا یہ حال تھا کہ وہ چند ہوائی گولیاں بھی ان کے لیے کافی تھیں وہ ان سے
خطبات طاہر جلد 14 259 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء منتشر ہو گئے.اگر پہلے پولیس ایسی کارروائی کرتی تو ہر گز بعید نہیں تھا مگر بعید تھا اس پہلو سے کہ خدا تعالیٰ کے ہاں مقدر تھا ایک فیصلہ تھا کہ ان کو شہادت کا ایک خاص مقام عطا کیا جائے گا.چنانچہ جو مختلف رویا دیکھی گئی ہیں ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی یہ شہادت کوئی عام روزمرہ کی شہادت نہیں.عام شہادت کا بھی بہت بڑا مقام ہے، غیر معمولی مرتبہ رکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے میں نے ثابت کیا ہے لیکن بعض شہادتیں بعض دوسری شہادتوں پر فوقیت لے جاتی ہیں.ضمنا یہ ذکر کر دوں کہ ابوظہبی میں بھی ایک عرصہ وہاں ملازمت کرتے رہے وہاں سے بھی احمدیت کی بنا پر ان کو فارغ کیا گیا حالانکہ اور بہت سے ابوظہبی میں خدمت کرنے والے ہیں جن کو فارغ نہیں کیا گیا تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ بڑی دلیری کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے یہاں تک کہ ماحول ان کو برداشت نہیں کر سکتا تھا.جور دیا ان کے متعلق مبشرات دیکھی گئی ہیں ان میں سے ایک تو ان کی اپنی رؤیا ہے جب وہ دولت خان صاحب سے جیل میں ملاقات کر کے آئے ہیں اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہادت کا تذکرہ اور اپنی دلی تمنا کا اظہار کیا کہ کاش میں بھی ایسا مرتبہ پا جاؤں.تو انہوں نے رویا میں دیکھا کہ وہ ایک خوبصورت باغ میں ہیں جہاں پر ایک تخت پڑا ہے اور یہ اس تخت پر تخت نشین ہو گئے ہیں.اس کا مطلب ہے کہ غیر معمولی عظمت کا اور فضل کا نشان ان کو عطا ہونے والا تھا.ان کی بھاوجہ نے رویا میں دیکھا کہ کوئی بکری کو ذبح کر رہا ہے ان کی آنکھ کھل گئی.رات کے دو بجے تھے اس وقت صدقہ دینے کا ارادہ کیا اور صدقہ کی رقم الگ کر کے رکھ لی ، پھر سو گئیں.پھر وہی خواب دکھائی دیا کہ ایک بکری ہے اس کے ٹکڑے سامنے پڑے ہیں اور ریاض کی بھا بھی اپنے والد عظیم شاہ سے کہتی ہیں کہ میں نے تو صدقہ بھی دے دیا ہے لیکن پھر بھی آپ نے بکری کو ذبح کر دیا.لیکن اس کے ساتھ ایک اور بکری بھی تھی وہ ذبح کرنا چاہتے تھے مگر وہ انہوں نے ذبح نہیں کی اور اس کو چھوڑ دیا.تو ایک کی شہادت یعنی شاتان تذبحان کا مضمون اس رویا میں پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا اور اس مرتبہ ایک کی شہادت کو کافی سمجھا گیا.نورالدین احمد صاحب جو شہید ریاض احمد کے ہم زلف ہیں انہوں نے رویا میں دیکھا کہ دو بیل ہیں جن میں سے ایک طاقتور اور ایک کمزور ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل میں آیا کہ ان کی
خطبات طاہر جلد 14 260 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء قربانی دی جائے جیسا عید الاضحی کے موقع پر کرتے ہیں.تو پہلے میں نے کمزور کو پکڑا تو میرے والد ڈاکٹر منظور احمد نے کہا کہ یہ کمزور ہے.( یہ ہمارے جو باڈی گارڈ ہوا کرتے تھے محمود احمد خان صاحب، ان کے والد ہیں منظور خان جو رشید احمد خان کے بڑے بھائی ہیں ) تو انہوں نے کہا کہ اس کو چھوڑ دو دوسرے طاقتور کی قربانی دو.تو میں نے طاقتور بیل کو پکڑا ، گرایا اور قربان کر دیا.اب یہاں بھی دو کا مضمون ہے وہ اسی طرح چل رہا ہے ساتھ.دو بکریاں، دو بیل اور پھر کمزور کو چھوڑ دیں جو بوڑھے تھے اور کمزور تھے اور طاقتور کو پکڑ لو جو نو جوان ان کے داماد تھے.یہ ساری باتیں بتا رہی ہیں کہ کوئی اتفاقات نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پہلے سے فیصلہ شدہ تھی اور وہ جس طرح ظاہر ہوئی ہے یہ اس کے واقعات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے رویا میں پہلے بتا کر ان کے اقرباء کی تسلی کے سامان کئے.ڈاکٹر رشید احمد خان صاحب کو ان کے داماد کی شہادت کی اطلاع نہیں دی گئی ان کی اپنی حالت بھی نازک تھی.ہمارے عزیز ڈاکٹر مبشر احمد کا فیکس مجھے ملا ہے کہ وہ اس وقت ربوہ میں ہیں اور خاص حفاظت کے وارڈ میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی خطرہ ان کو نہیں ہے اس وقت اور جو پسلیاں ٹوٹی ہیں اور جو کہنی کی ہڈی ٹوٹی ہے اس کا وہ علاج کر رہے ہیں.تو ان کو چونکہ بتایا نہیں گیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی رویا میں ہی اطلاع دی اور وہ رویا انہوں نے یہ دیکھی کہ ایک چھوٹا جہاز ہے جسے وہ خود اڑا رہے ہیں.آگے وہ ایک انتہائی سفید کمروں والی جگہ میں پہنچتے ہیں جس کے آخر میں نہایت خوبصورت سفید رنگ کا صوفہ بچھا ہے جس پر ریاض احمد شہید بیٹھنے کے لئے چلے گئے اور صوفے پر براجمان ہو جاتے ہیں.مگر ڈاکٹر صاحب کو روک دیا گیا اور کہا گیا کہ جنت کا آخری مقام ہے جہاں تم نہیں جا سکتے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے داماد کو ایک اعلیٰ فضیلت کا مقام خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا فرمایا گیا ہے جو ان کے لئے مقدر نہیں تھا اس لئے ان کی شہادت نہیں ہوئی.یہ اللہ کی مرضی ہے اس کا اپنا فضل ہے جسے چاہے دے، جس طرح چاہے دے.یہ تو اس شہادت کے تذکرے ہیں.اب میں ضمناً آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت کے خون کا آج تک یہ قوم اس کی قیمت ادا کر رہی ہے اور اب تک اس خون کے داغ دھل نہیں سکے.مسلسل افغانستان پر ایک بلا کے بعد دوسری بلا نازل ہوتی ہے جوان کی شہادت کے بعد سے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ آج تک ختم نہیں ہوسکا.فیض نے کہا ہے:
خطبات طاہر جلد 14 261 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء ے خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد ( کلیات فیض) مگر بعض دفعہ شہادت کے خون اتنے پکے ہوتے ہیں اور بعض شہادتیں خصوصیت کے ساتھ ان کو شہید کرنے والوں کے خلاف اللہ کا غضب ایسا بھڑکاتی ہیں کہ خون کی برساتیں بھی مسلسل ہوتی رہتی ہیں اور وہ خون کے دھبے دھلتے نہیں، مزید خون کی طلب کرتے رہتے ہیں.اللہ رحم فرمائے افغانستان پر ، ان کے دن بدلیں اور وہ اسی طرح بدل سکتے ہیں کہ افغان قوم کی توجہ احمدیت کی طرف ہو اور وہ اپنی سابقہ کوتاہیوں اور غفلتوں کی اللہ تعالیٰ سے نیک اعمال کے ذریعے معافی مانگیں اور ایمان لا کر معافی مانگیں اس کے بغیر افغانستان کی تقدیر سدھرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی.اب پاکستان کے علاقہ میں جو یہ واقعہ گزرا ہے یہ بھی اس علاقے کے لئے اس لحاظ سے بدشگون ہے اگر چہ احمدیت کے لحاظ سے ایک بہت ہی عظیم شہادت کا اضافہ ہے جو ہماری تاریخ کو اور بھی زیادہ خوبصورت اور دلکش اور عظیم بنادے گا اور ہمیشہ آسمان شہادت پر ان کی شہادت بھی نمایاں خوبصورت حروف میں لکھی ہوئی دکھائی دے گی لیکن جہاں تک اس علاقے کا تعلق ہے اس میں ایک اور پہلو خاص طور پر قابل ذکر یہ ہے کہ ان کو آخری فتوی دے کر شہید کرنے والا ملاں بھی افغانستان ہی کا تھا اور جس طرح صاحبزادہ عبداللطیف شہید کا واقعہ گزرا ہے ان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا کہ پہلے جن علماء سے ان کا مناظرہ کروایا گیا.ان علماء میں سعادت اور شرافت تھی.بارہ علماء چنے گئے تھے جن کے ساتھ ان کا مناظرہ کروایا گیا اور اس مناظرے کے بعد ان سب کا یہ فیصلہ تھا کہ اس کی باتوں میں کوئی بھی بات اسلام کے خلاف نہیں اور اس لحاظ سے ہم ان کے ارتداد کا اور قتل کا فتویٰ صادر نہیں کر سکتے.تب بادشاہ کا ایک کزن نصر اللہ خان جو دراصل اس ساری شرارت کا کرتا دھرتا تھا اس نے اپنی مرضی کے بعض علماء کو بلا کر ان کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ اگر تم نے فتویٰ صادر نہ کیا تو میں تمہارے ساتھ یہ کروں گا.چنانچہ اس کے دباؤ میں آکر بالآخران علماء نے یہ فتویٰ دیا کہ واقعہ یہ مرتد ہے.اب مجھے تفصیل یاد نہیں کہ وہ بارہ اس میں شامل ہو گئے تھے یا یہ الگ فتویٰ تھا مگر واقعہ کی ترتیب یہی ہے کہ پہلے علماء نے فتویٰ دینے سے انکار کیا اور صاف کہا کہ ان کے عقائد میں کوئی بات بھی اسلام کے خلاف نہیں پھر دباؤ میں آکر دوسرے علماء نے ان کے خلاف فتویٰ دیا اور بعینہ یہی واقعہ ان کے ساتھ گزرا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 262 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء دولت خان کے ساتھ جو واقعہ گزرا ہے وہ اسی طرح ہوا ہے یعنی اگر چہ ریاض کے ساتھ براہ راست یہ واقعہ نہیں گزرا لیکن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کی یا داس واقعہ نے تازہ کر دی ہے.تو کچھ تعلقات ایسے ہیں ان واقعات کے جو یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شہادت کا ایک خاص مرتبہ ہے لیکن اب اگلا پہلو جو ہے وہ خطرناک ہے.اگر اس شہادت کا یہ مرتبہ تھا کہ آج سو سال گزرنے کے بعد بھی وہ شہادت کا خون قوم کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو اللہ رحم فرمائے اس علاقہ پر کہ یہ شہادت بھی ویسا ہی رنگ نہ لائے.اس لئے ہم تو انتقامی کارروائیوں کے قائل نہیں ہیں ہم تو قوم کی فلاح اور بہبود کے قائل ہیں.اس لحاظ سے میں نے یہ سارا مضمون کھول کر جماعت کے سامنے رکھا ہے کہ جہاں تک شہید کا تعلق ہے ان کے مراتب کی تو ہمیں نہ فکر ہے نہ ہم اس میں کچھ کر سکتے ہیں.وہ اللہ کی دین تھی، ایک خاص اعزاز تھا جو ان کے نصیب ہوا ، جو قسمت کے ساتھ سینکڑوں ہزاروں سال میں بعض دفعہ کسی ایک آدمی کو نصیب ہوا کرتا ہے.جہاں تک قوم کا تعلق تھا ہمیں دعا کرنی چاہئے اور خدا کی رحمت کو یہ واسطہ دے کر کہ کچھ بھائی جو نیک تھے ، جنہوں نے اپنے بھائی کا ساتھ دیا تھا ان کی اس نیکی کو ہی قبول فرمالے اور باقی قوم کو اس سزا سے بچالے.یہ دعا اور تمنا ہونی چاہئے ہر احمدی کی کہ اس علاقے کولمبی خوفناک ہلاکت اور عذابوں سے بچائے.جہاں تک اس مولوی کا اور اس مجمع کا تعلق ہے، جنہوں نے آنکھیں کھول کر اسلام کے خلاف نہایت ہی ظالمانہ کارروائی کی ہے ان کے متعلق خدا کی تقدیر جو چاہے فیصلہ کرے لیکن عموماً جو علاقہ ہے اور جو قوم ہے ان کے لئے ہمیں ہدایت کی دعا کرنی چاہئے اور یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ ان کو بھی ویسا ہی عذاب ملے جیسا کہ افغانستان کے علاقے کے لوگوں کو ملا ہے اور اب تک مل رہا ہے.یہ بڑی دیانت داری کے ساتھ اور دل کی گہرائی کے ساتھ میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ انتقام دیکھنے کی تمنا نہ کریں اور بخشش کی تمنا کریں جو ہدایت کے ساتھ وابستہ ہو.اللھم اهد قومی فانھم لا یعلمون کی دعا ہے جو سب سے زیادہ اچھا نتیجہ پیدا کرتی ہے.پس اسی سنت کو دہراتے ہوئے ان لوگوں کے حق میں دعا کریں کہ اے اللہ ان کو ہدایت دے کر عذاب سے بچا اور افغانستان کے متعلق میں نے یہی آپ کے سامنے بات رکھی ہے کہ ان کی نجات کا راستہ اب
خطبات طاہر جلد 14 263 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء ہدایت ہی ہے.بعض دفعہ جتنی چاہے قیمت ادا کرتے چلے جاؤ جب تک ہدایت نہیں پاؤ گے تو عذاب پیچھا نہیں چھوڑا کرتا.حضرت نوح کی قوم کے ساتھ کیوں یہ ہوا کہ وہ ساری قوم مٹادی گئی اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ہدایت نہیں پائے گا اور چونکہ ہدایت نہیں پانا تھا.اس لئے حضرت نوح کو اللہ نے اطلاع فرما دی کہ یہ قوم جو ہے اب یہ ہدایت کے دائرے سے باہر جا چکی ہے.ایسی باہر جا چکی ہے کہ جو بچے پیدا کرے گی وہ بھی کافر اور مرتد ہوں گے، کا فر اور ظالم ہوں گے اور ان میں سے کوئی نیکی کا بیچ باقی نہیں رہا.جب یہ اطلاع ملی تب حضرت نوح نے ان پر بددعا کی ہے اس سے پہلے نہیں کی اور ان پر بددعا کرنا انسانیت کے لئے دعا کرنے کے مترادف تھا.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے چونکہ افغان قوم کو ابھی رکھا ہوا ہے، سزا مل رہی ہے.اس لئے میں یہ نتیجہ نہیں نکالتا کہ ان کا ہدایت کا نہ پانا گویا کہ مقدر ہے.میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ چونکہ اکثر نے اس فلم میں شمولیت اختیار کی اور اس پر خوش ہوئے اس لئے جب تک وہ ہدایت نہیں پاتے ان کی سزا کا سلسلہ جاری رہے گا.ورنہ نوح کی قوم کے ساتھ ایک بے انصافی سمجھی جائے گی.اس لئے ان کے لئے بھی ہدایت کی دعا کریں.بعض لوگ یہ ذکر کرتے ہیں اور ان کے چہرے پر یہ اطمینان ہوتا ہے کہ دیکھو اس قوم کو کیس بدلہ ملا ہے مگر مجھے تو تکلیف پہنچتی ہے.یہ بدلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعجاز تو ہے لیکن ایسا نہیں کہ ہمارے دل اس پر خوشی محسوس کریں.اگر ایسا ہوا تو ہمارے دل سخت ہو جائیں گے اور خدا کے یہ نشانات ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے ہمارے نقصان کا موجب بھی بن سکتے ہیں.اس لئے اپنے دلوں کی پاکیزگی کا خیال کریں.اپنے جذبات کو اسلامی ادب کے دائرے میں رکھیں اور ان ظالموں کے خلاف بھی بد دعا کرنے کی بجائے یہ دعا کریں کہ اللہ ان کو ہدایت دے کیونکہ ہدایت پا جانا سب سے بہتر جواب ہے ان مظالم کا اور ہدایت کا انتقام سب سے اعلیٰ انتقام ہے.پس اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.جہاں تک ان کے پسماندگان کا تعلق ہے میرا رابطہ چوہدری خورشید احمد صاحب جوان کے برادر نسبتی ہیں ان سے فون پر جرمنی میں ہوا ہے اور ان کے ذریعے مجھے اطلاع ملی ہے.دو دفعہ ان سے فون پر بات ہوئی ہے کہ ان کے سب عزیز اللہ کے فضل سے پورے حوصلے میں ہیں اور قطعاً ان کو کوئی
خطبات طاہر جلد 14 264 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء گھبراہٹ نہیں ہے.اور اللہ کے فضل کے ساتھ شہید کی بیوہ سے بھی فون پر ان کی بات ہوئی ہے، خدا کے فضل سے حوصلے میں ہیں اور اس بات پر مطمئن ہو ئیں کہ میری ان کے بھائی سے فون پر بات ہوئی ہے.ان کے چار بچے ہیں ان میں سے ایک بچی چھوٹی ہے.اس چھوٹی بچی کے متعلق یہ کچھ دن سے کہہ رہے تھے.وہ ان کو بہت پیاری تھی ، کچھ دن سے کہہ رہے تھے کہ اور تو سب آسان ہے مگر اس کو چھوڑ نا مشکل ہے.اب یہ بات چھوٹی سی ہے لیکن اس سے دو نتیجے میں نے نکالے ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ کہ جو پیچھے رہ جاتے ہیں ان کا فکر ضرور شہیدوں کی روحوں کو دامن گیر ہوسکتا ہے اور اسی لئے وہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اس بات کا جواب دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَرِحِينَ بِمَا أَنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِیہ وہ بہت خوش ہیں اس سے جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کیا لیکن ساتھ ہی وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِ ہم ان کے متعلق بھی اللہ ان کو خوشخبریاں دے رہا ہے یعنی خوشخبریاں پا رہے ہیں جو ان سے ابھی نہیں ملے، ان سے ملے نہیں ہیں یعنی بعد میں ان کی وفات جیسے بھی خدا کے ہاں مقدر ہو ہونے والی ہوگی ، کچھ عرصے کے بعد ان سے آملیں گے لیکن ان کے متعلق اللہ ان کو تسلیاں دے رہا ہے کہ الَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ کہ ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا کسی خوف سے وہ مرعوب نہیں ہوں گے وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور غم کی حالت میں خدا ان کو سکتے نہیں چھوڑے گا بلکہ ان کو غموں پہ حوصلہ عطا فرمائے گا یعنی لَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا مطلب ہے غم سے مغلوب نہیں ہوں گے.يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ اور وہ خدا سے نعمت اور فضل کی خوشخبریاں پارہے ہیں.پس ایک تو اس آیت کا ایک مفہوم اس واقعہ سے سمجھ آیا کہ خدا تعالیٰ یہ کیوں فرماتا ہے کہ شہیدوں کو ان کے پیچھے رہنے والوں کے متعلق خوشخبریاں دی جائیں گی.جب ریاض شہید کی یہ بات مجھے پہنچی تو اس وقت میں سمجھا، دراصل بعض لوگوں کو چھوڑ نا بڑا مشکل ہوتا ہے اور ان کے متعلق اللہ تعالی لازماً آخرت میں، اپنی دوسری دنیا میں یعنی روحانی زندگی میں ان کو خوشخبریاں دے گا کہ فکر نہ کرو ہم تمہارے بھی مالک اور والی تھے ، ان کے بھی مالک اور والی ہیں اور ان کے متعلق ان کو اطمینان دلاتے ہیں.پس شہید کے پسماندگان کے لئے قرآن کریم میں یہ خوشخبری پہلے سے موجود ہے.پس
خطبات طاہر جلد 14 265 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء اس خوشخبری کو سچا کر دکھا ئیں اپنی ذات میں اس کا اطلاق کریں اور جانیں کہ یہ بظاہر نقصان ہے مگر حقیقت میں بہت بڑی سعادت ہے.اس لئے غم کر کے اس آیت کے اطلاق کو اپنے متعلق مشکوک نہ ہونے دیں.یہ بڑا مشکل کام ہے لیکن جہاں تک میرا خورشید احمد خان سے رابطہ ہوا ہے مجھے یہی تسلی ہوئی اور دوہرا اطمینان ہوا کہ الحمدللہ میری نصیحت سے پہلے ہی ان لوگوں نے وہی نمونہ دکھایا ہے جس کا تذکرہ اس آیت میں ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہید کی روح کو تسلیاں دے گا کہ تمہارے پیچھے رہنے والوں کا ہم خیال رکھیں گے تم بالکل تسلی رکھو، کوئی غم نہیں ہوگا ان کو کوئی خوف نہیں ہوگا ، پس شہداء کی جو اولاد پیچھے رہ جاتی ہے ان کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھیں اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طور پر ان کے حالات بدلتا ہے، ان پر بے شمار نعمتیں اور فضل نازل فرماتا ہے اور کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے.اس کے مقابل پر جو دوسرے رشتے دار پیچھے رہ جاتے ہیں ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں ہوتی.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیڈ کی اولا د کو دیکھ لیں آج دنیا میں ہر جگہ بڑے بڑے مناصب پر بڑی بڑی اعلی علمی فضیلت کے مقامات تک پہنچی ہوئی اولاد ہے.کئی علم کے پہلوؤں سے انہوں نے ترقی کی ہے اور دنیا کی نعمتوں سے بھی خدا نے ان کو کسی پہلو سے محروم نہیں رکھا.ساری دنیا میں بڑی عزت کے ساتھ پھیلایا ہے.ان کے متعلق ان کے ایک عزیز نے جو پشاور میں رہتے ہیں انہوں نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ جس علاقہ میں ہمارا خاندان ہے وہ لوگ جو احمدیت سے الگ ہیں، الگ رہے ہیں اس وقت یا بعد میں چھوڑ گئے ، ان کا کوئی بھی حال نہیں.نہ دین نہ دنیا، کوئی حیثیت باقی نہیں رہی.جو عزتیں عطا ہوئی ہیں وہ اسی خاندان کو ہوئی ہیں جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی اولاد تھی اور اولاد در اولاد تھی.تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ایک سچا وعدہ ہے اس میں ادنیٰ بھی شک نہیں ہے کہ دنیا میں بھی شہداء کی اولاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ غیر معمولی رحمت اور شفقت کا سلوک فرماتا ہے.بعض دفعہ فوری طور پر انسان کو دکھائی نہیں دیتا مگر وقت بتادیتا ہے کہ اللہ تعالی کسی وعدے کو بھولتا نہیں اور ہمیشہ خدا کے وعدے بڑی شان کے ساتھ اس دنیا میں پورے ہوتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ آئندہ کے لئے جو ان سے وعدے ہیں وہ بھی ضرور پورے ہوں گے.پس ان شہید کے پسماندگان کے متعلق یہ میرا جو تاثر ہے یہ قرآن کی آیات کے مطابق ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ اپنے فضلوں سے ان کو نوازے گا اور کسی حالت میں بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا.
خطبات طاہر جلد 14 266 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء اب ایک اور وفات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جمعہ کے بعد عصر کی نماز آج جمع ہوگی، کیونکہ میں مسافر ہوں اور اکثر آج یہاں جو دوست ہیں وہ بھی مسافر ہیں تو اس کے معاً بعد جو جنازے پڑھے جائیں گے ان میں ایک جنازہ ہمارے انگلستان کے ایک نہایت مخلص دوست اور عزیز نعیم عثمان صاحب کا جنازہ ہے.یہ بروز سوموار لندن میں صبح تین بج کر چالیس منٹ پر اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے.بہت مخلص اور فدائی انسان تھے اور میرے ساتھ ان کا پرانا رابطہ خدمت دین کے تعلق ہی میں ہوا تھا.جب شیخ مبارک احمد صاحب انگلستان کے امیر تھے اس زمانے میں ایک ان کی کتاب تھی زیر نظر اس کا مسودہ میرے پاس پہنچا جو احمدیت کے مخالفین کے جواب میں یہ تحریر کر رہے تھے اور میں اس سے بہت متاثر ہوا.زبان بھی اچھی تھی اور ان کی پکڑ بھی بہت مضبوط تھی.اگر چہ دینی علم کا کوئی پس منظر نہیں تھا لیکن اس کے باوجود خود محنت کر کے ان اعتراضات کے جوابات تلاش کرتے اور بڑی محنت اور سلیقے کے ساتھ ان کے جوابات کو اکٹھا کر کے ایک جوابی حملے کی صورت میں منظم کیا کرتے تھے.صرف ایک مشکل تھی کہ جوابی حملے میں زیادہ ہی کچھ جبروت پائی جاتی تھی اور بعض دفعہ بہت سخت جوابی حملہ ہوتا تھا.میر قاسم علی صاحب یاد آجایا کرتے تھے مجھے ان کی بعض عبارتیں پڑھ کے.وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مولویوں کے حملوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور ان کا جوابی حملہ بہت سخت ہوا کرتا تھا.تو ان کو پھر میں سمجھا کر، بعض ان کی کتابیں شائع ہونے سے پہلے ان کو بلا کر سبقاً سبقاً گزرتا تھا اور ان کو بتاتا کہ یہاں سختی کم کریں، یہاں سختی کم کریں.ہمارا مقصد تو جواب دینا ہی نہیں بلکہ دل جیتنا بھی ہے اگر ہم ضرورت سے زیادہ سختی کر دیں تو بعض دفعہ یہ اعلیٰ مقصد حاصل نہیں ہوتا.ہاں بعض دفعہ سختی ضروری بھی ہوتی ہے.بعض شریر ایسے بد بخت ہوتے ہیں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے ان کو انہی کی زبان میں بعض دفعہ نمونے کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ سمجھ نہیں سکتے کہ پاکوں پر زبان کھولنا کیسے ظلم کی بات ہے.پس ان کا جو یہ خاص انداز تھا کہ سلمان رشدی کے ہم مزاج لوگوں سے ٹکر لیتے تھے اور بڑی شدت کے ساتھ ان کا زور کے ساتھ جواب دیا کرتے تھے.یہ ان کی شخصیت کو ایسا ممتاز کرنے والا ایک معاملہ تھا کہ رفتہ رفتہ ان کے ساتھ میرے تعلق کی بناء پر ان کا خاندان جو گجرات کے یعنی
خطبات طاہر جلد 14 267 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء ہندوستان کے صوبہ گجرات کے ساتھ تعلق رکھنے والا خاندان ہے، ان کے دادا پہلی دفعہ مشرقی افریقہ میں احمدی ہوئے تھے اور وہ بڑے بہادر اور نڈر تبلیغ کرنے والے تھے.خاندان نے جو بڑا متمول تھا بڑی مخالفتیں کی لیکن کبھی پرواہ نہیں کی تو ان سے میرے تعلق کو دیکھ کر ان کا خاندان جو بڑا وسیع تھا اپنا تعارف ہمیشہ ان کے حوالے سے کرواتا ہے.کوئی خاتون آتی ہیں کہ میں نعیم عثمان کی پھوپھی ہوں، کوئی یہ بتایا کرتے ہیں کہ جی میں ان کا فلاں ہوں ، کوئی بتایا کرتے تھے کہ میں ان کا فلاں رشتہ دار ہوں، کوئی کہتا تھا میں نعیم عثمان کا یہ لگتا ہوں.پس اس حوالے سے یہ مشہور ہوئے اور میرے ساتھ ان کا ذاتی تعلق جو تھا وہ ان کے رشتے داروں کے لئے قرب کا حوالہ بن گیا.ان کے وصال کے بعد مجھے اب یہ کمی محسوس ہو رہی ہے کہ انگلستان میں اس جرات کے ساتھ ، اس حو صلے اور عقل کے ساتھ جواب دینے والے نئی نسل میں ابھی پیدا نہیں ہوئے.جن لوگوں کو میں تیار کر رہا ہوں ان میں سے ایک ارشد احمدی صاحب ہیں ان کو سلمان رشدی کے متعلق جوابی کتاب کے لئے میں نے تیار کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان میں یہ صلاحیت ہے.اگر چہ وہ کھلاڑی ہیں عموماً اور تقریباً ہر کھیل میں بہت اچھے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے زبان کا سلیقہ بھی بخشا ہے، تقریر بھی اچھی کر لیتے ہیں، تحریر بھی اچھی ہے.اس لئے جب ان کے سپر د میں نے یہ کام کیا تو ان سے تفصیل سے جواب دینے کے طریقے سلیقے کے متعلق بات ہوئی اور وہ سمجھ گئے.جو مسودہ انہوں نے تیار کیا میرے آنے سے کچھ دن پہلے مجھے دکھایا بھی، پورا تو نہیں مگر اس کے نمونے پڑھ کے سنائے ، اس میں ابھی کچھ اصلاح طلب باتیں تھیں.اس لئے ان کو میں نے سمجھا دیا ہے انشاء اللہ ان کی کتاب آئندہ چند ماہ میں آجائے گی.میں چاہتا ہوں کہ اور بھی نو جوان اب اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں.صرف انگلستان کی بات نہیں ، جرمنی میں بھی پین میں بھی ، دوسری جگہوں میں بھی.سپین میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کرم الہی صاحب ظفر کی اولا د ما شاء اللہ بڑی مستعد اور احمدیت کے دفاع میں ایک تنگی تلوار ہے لیکن باقی دنیا میں بھی ہمیں اس قسم کے مجاہدین چاہئیں جو نئی نسل میں اس کام کو سنبھال لیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ خلفاء کو اس قسم کے تائید کرنے والے اور اسلام کے دفاع میں مستعد نو جوان عطا فرما تا رہتا ہے.مجھ سے بھی اس معاملے میں کوئی کمی نہیں رکھی مگر آئندہ نسلوں کے لئے میں سمجھتا ہوں مزید ضرورت ہے اور
خطبات طاہر جلد 14 268 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 1995ء چونکہ ہمارا رابطہ غیر مذاہب سے زیادہ وسیع ہو چکا ہے اور زیادہ زبانوں میں ہو چکا ہے اس لئے محض ایک دوار دو دان دفاع کرنے والے کافی نہیں.انگریزی میں بھی سپینش میں بھی ، جرمن زبان میں بھی اور البانین میں بھی ، بوسنین میں بھی، افریقہ کی زبانوں میں بھی کثرت سے ایسے مخلصین چاہئیں جن کا پس منظر خواہ دینی تعلیم کا نہ بھی ہو لیکن ان کا ذوق شوق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ وہ ان کو اس کام کے لئے وقف کر دے اور نیا نیا لٹریچر وہ خود پیدا کرنے لگیں.تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ایک نعیم عثمان جاتا ہے تو کئی نعیم عثمان عطا کر دے اور زندہ اور سعید قوموں کی یہی نشانی ہوا کرتی ہے.ایک سردار گزرتا ہے تو خدا دوسرے اور بہت سے سردار عطا کر دیا کرتا ہے جیسا کہ عرب شاعر کا ایک شعر غالباً میں نے اسی مسجد میں ایک دفعہ سنایا تھا: اذا سید منا خلا قام سید قول لما قال الكرام فعـول ایک عرب شاعر کہتا ہے اور بہت ہی بلند مرتبہ شعر ہے کہ جب ایک سردار ہم میں سے گزر جاتا ہے تو ہم بے سردار نہیں رہا کرتے.” قام سید اس کی جگہ ایک اور سردار اٹھ کھڑا ہوتا ہے قؤل لما قال الكرام وہ ایسی ہی باتیں اسی شان کے ساتھ کہتا ہے جیسے پہلا سردار کہا کرتا تھا اور صرف باتیں کہنے والا نہیں بلکہ عمل کر کے دکھانے والا سردار ہوا کرتا ہے.تو اللہ میں ہرگز رنے والے مجاہد احمدیت کے لئے خواہ وہ شہادت کے ذریعے دنیا چھوڑے یا طبعی موت کے ذریعے اور ایک نہیں بلکہ کثرت سے دوسرے ہمارے لئے پیدا فرما تار ہے اور عطا کرتار ہے.آمین جنازہ غائب میں ایک اور دوست کا نام بھی شامل کر لیں.یہ ہمارے شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ سرگودھا کے ہیں.ان کی بیٹی جو رشید احمد صاحب ایمبیسڈر کی بیگم ہیں انہوں نے مجھے کل فون پر اطلاع دی کہ ان کی وفات ہوگئی ہے.یہ بھی پراچہ خاندان میں ماشاء اللہ بہت مخلص اور فدائی انسان تھے.حضرت مرزا عبد الحق صاحب کے دست راست رہے ہیں.اب لمبے عرصے سے بیمار تھے اس لئے یہ عملاً زیادہ خدمت نہیں کر سکتے تھے.مگر آنے جانے والے سے ہمیشہ میرا ذکر کر کے دعا کی تحریک کیا کرتے تھے.ان کا پیغام مجھے ملا ہے کہ جب بھی ان کی طبیعت کچھ بگڑتی تھی اس سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ غالباً میری وفات جمعرات کو ہوگی اور جمعرات ہی کو خلیفتہ اسیح کو میرا پیغام دے دینا
خطبات طاہر جلد 14 269 خطبہ جمعہ 14 اپریل 1995ء کہ جمعہ کی نماز کے بعد جو جنازہ پڑھائیں گے اس میں مجھے شامل کر لیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تمنا بھی دیکھیں کیسے پوری کی.جمعرات ہی کو وفات ہوئی اور جمعہ کی نماز کے بعد ایسے جنازے عظیم جنازے ہونے تھے جن میں ان کا شامل ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاص عنایت اور ایک فضل ہے.تو ان تینوں کی نماز جنازہ غائب آج نماز جمعہ کے بعد عصر کی نماز ہوگی اس کے بعد پڑھائی جائے گی.اللہ تعالیٰ ان کے مراتب کو بلند فرمائے اور کثرت کے ساتھ بلند مرتبہ احمدیت کو عطا کرے.آمین
270 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 271 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء صفت رحمان سب صفات پر حاوی ہے ، خدا کے رنگ سیکھیں اور اس سے حسن ظن کا تعلق قائم رکھیں.( خطبه جمعه فرموده 21 را پریل 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: صفات باری تعالیٰ کا جو مضمون جاری ہے اس سلسلے میں ایک اہم قابل توجہ بات وقت محسوس کرنے والے کے ساتھ تعلق کا مسئلہ ہے.وقت کوئی ایسی چیز نہیں جو یکساں ہر صورت میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طرح کے تعلق رکھتا ہو اور ایک ہی طرح کے احساس پیدا کرتا ہو.آپ مصروف ہوں کسی چیز میں اور بہت دلچسپی ہو تو آپ کا وقت آنا فانا گزر جاتا ہے اور اگر ایسی جگہ بیٹھے ہوں جہاں طبیعت پر بوجھ ہو طبیعت کے خلاف ، مزاج کے خلاف لوگ بیٹھے ہوں تو بعض دفعہ وقت گزرتا ہی نہیں ہے.پھر مصیبت زدہ کا وقت بہت آہستہ گزرتا ہے.فراق کے مارے ہوئے کا وقت بہت آہستہ گزرتا ہے اور وہ جو آرام محسوس کر رہا ہے یا جسے وصل کی راحت میسر ہے اس کا وقت بہت تیزی سے گزر جاتا ہے.لگتا ہے لمحے اڑتے ہوئے چلے جارہے ہیں.تو سوال یہ ہے کہ اللہ کی ذات سے اس مضمون کا کیا تعلق ہے اور کیا خدا تعالیٰ کے لئے بھی زمانہ اسی طرح کے اثرات پیدا کرتا ہے یا فرق ہے.جہاں تک جذبات کے ہیجان کا تعلق ہے یہ فرق تو بہت واضح اور قطعی ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس بارے میں بڑی تفصیل سے اور بڑی حتمی طور پر روشنی ڈالی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اندر وہ ہیجان نہیں ہے جو انسان اپنے
خطبات طاہر جلد 14 272 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء اندر پاتا ہے.غم کے وقت بھی انسان کے اندر ایک بہیجان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے.خوشی کے وقت بھی انسان کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس ہیجان سے پاک ہے کیونکہ ہیجان دراصل ذات کے اندر زمانہ گزرنے کو کہتے ہیں.اگر کسی ذات کے اندر زمانہ گزرنے لگے تو وہ ہیجان ہے اور زمانہ ٹھہر جائے تو وہ اکتاہٹ ہے، طبیعت بے زار ہو جاتی ہے اور کہتے ہیں وقت نہیں گزرتا لیکن دراصل یہ اندرونی کیفیات ہی کے نام ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں بڑی قطعیت کے ساتھ اور اس وجہ سے کہ واقعہ بہت اہم مسئلہ ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہیجان کا تصور جرم اور گناہ ہے.خدا تعالیٰ میں کوئی بہیجان نہیں ہے اور یہ اس لئے لازم ہے کہ اگر ہیجان ہے تو پھر وہ ایک فانی ذات ہے کیونکہ اس کے اندر پھر تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور تبدیلیاں ایسے زمانے کو چاہتی ہیں جو کسی نہ کسی طرف کوئی کنارہ رکھتا ہے.آغاز بھی ہوتا ہے اور انجام بھی ہوتا ہے اور اس کے مادے کی کیفیت ایک نہیں رہتی.پس اس پہلو سے یہ بہت اہم مضمون ہے لیکن اس کے نتیجے میں پھر جو اور مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض احادیث میں خدا تعالیٰ کی صفات جس طرح بیان فرمائی ہیں ان سے اس مضمون کا جو ایک قسم کا ٹکراؤ دکھائی دیتا ہے اس کا حل پیش کرنا ضروری ہے.جہاں تک ہیجان کا تعلق ہے اس کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے زمانے گزرنے سے گہرا تعلق ہے اور اگر زمانہ نہ گزرے تو پھر انسان اور کچھ نہیں تو کھیل کود میں ہی مصروف ہو جاتا ہے اور کھیل کود سے وقت کو ٹالتا ہے.آج کل جو ٹیلی ویژن دیکھنے کا رواج ہے یہ وقت کو تباہ کرنے کی ہی شکل ہے.کوئی اچھا کام نہ ہو، کوئی دلچسپی کی بات نہ ہو، مصروفیت نہ ہو تو ایسا آدمی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا رہتا ہے یعنی وہ لوگ یا وہ قومیں جہاں یہ عام ہے ان کا یہی حال ہے کہ بچے بھی ، بڑے بھی وہ ایک کام چھوڑ کر ٹیلی ویژن کے سامنے آ کے بیٹھتے ہیں اور ٹیلی ویژن کے سامنے آکر بیٹھنا کئی قسم کی کہانیاں بیان کرتا ہے، کئی ان کہی باتیں ہمارے سامنے کھولتا ہے.ایک بچہ جس کو پڑھائی میں دلچسپی ہے اور گہرا انہماک پایا جاتا ہے اور شوق ہے کہ وہ زیادہ نمبر لے وہ ٹیلی ویژن دیکھے گا بھی تو سرسری نظر سے، پاس سے دیکھ کر گزر جائے گا مگر اس کے پاس وقت نہیں ہوتا.ایک شخص ہے جسے ایک اچھی مجلس مہیا ہے، بہت دلچسپ باتیں ہو رہی ہیں ایسے موقع پر ٹیلی ویژن کے بعض اچھے پروگرام بھی لگے ہوں
خطبات طاہر جلد 14 273 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء تو لوگ کہتے ہیں بند کرو، اس کو بند کرو ختم کرو، ہمیں باتیں کرنے دو، بڑا مزہ آ رہا ہے.تو یہ دراصل مختلف مزوں کے نہ ہونے یا وقت کے اچھے مصرف نہ ہونے کے نتیجے میں انسان کھیل کو د کی طرف مائل ہوتا ہے.اس تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لِعِبِينَ (الانبیاء: ۱۷) کہ ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ اس میں ہے اسے کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا کیونکہ کھیل تماشا متقاضی ہے کہ دوسری طرف وقت کا بہتر مصرف نہ ہو اور جہاں تک وقت کا تعلق ہے چونکہ خدا وقت کا خالق ہے، وقت کی مخلوق نہیں اس لئے وقت اس پر حاکم نہیں ہے، وہ وقت پر حاکم ہے اور اس پہلو سے جو چیزیں اس نے پیدا کی ہیں ان میں اگر اس کو بوریت ہو تو ان کو پیدا کیوں کرتا.ان چیزوں کو سنبھالنا، ان کی دیکھ بھال کرنا ، ان کا انتظام کرنا کیونکہ وہ خود مالک وقت ہے اس کے لئے لازم تھا کہ ایسا کرتا کہ خدا کی ذات کے مطابق ہوتی، وہ اس کی شایان شان ہوتیں اور اگر وہ شایان شان ہوں تو کھیل شایان شان نہیں رہتی اور اس کے کھیل اپنے معنے کھو دیتی ہے.اس لئے میں نے آپ کے سامنے یہ ٹیلی ویژن کی مثال رکھی اور دوسرے کھیل کود کی مثالیں بھی آپ کے سامنے ہیں.اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ کھیل کو د ایک متبادل ہے وقت کے بہترین مصرف نہ ہونے کا، نہ ہو تو پھر انسان لہو ولعب میں مصروف ہوتا ہے اور اگر وقت کی قیمت ہو یعنی خود انسان نے بنایا ہو اور اس وقت کے اندر اعلیٰ درجے کا کام کر رہا ہو تو پھر کھیل کو د بالکل بے معنی اور لغو ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ کھیلیں بھی جو لعب کے ہلکے معنوں میں نہیں بلکہ بعض سنجیدہ معنوں میں سمجھی جاتی ہیں مثلاً ورزشیں ہیں جن سے صرف دلچسپی کا تعلق نہیں بلکہ صحت جسمانی کا تعلق ہے، ان کو آپ لعب ان معنوں میں نہیں کہہ سکتے جن معنوں میں عموماً لفظ لعب جاری ہے یا اطلاق پایا جاتا ہے کہ بالکل لغو اور بے معنی ہیں.مگر جب بہت اچھے اور اعلیٰ مصارف وقت کے موجود ہوں تو پھر وہ با معنی کھیلیں بھی لعب اور لغو کھیلیں دکھائی دینے لگتی ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں قادیان میں کرکٹ کا ایک میچ ہور ہا تھا جس میں کافی بڑے بڑے قادیان کے بزرگ بھی شامل تھے اور صحابہ میں بھی شوق تھا بعض کو کرکٹ کھیلنے کا ، اس لئے سب اس طرف چلے گئے اور بہت ہی جوش دکھایا گیا اور کرکٹ کے میچ سے
خطبات طاہر جلد 14 274 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء سب بہت ہی محظوظ ہورہے تھے.تو ایک بچے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کہ ابا آپ نہیں کرکٹ کھیلنے جائیں گے یا دیکھنے جائیں گے.تو آپ نے فرمایا کہ بیٹا میں جو کرکٹ کھیل رہا ہوں وہ اور ہے، اس کی بات ہی اور ہے.پس لعب خواہ فضول نہ بھی ہواگر اس سے بہتر مصارف انسان کے وقت کے ہوں تو وہ با معنی فائدہ مند کھیلیں بھی بالکل بے معنی اور بے حقیقت دکھائی دیتی ہیں، ان کے چہرے پہ کوئی نور نظر نہیں آتا.تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق قرآن کریم میں جو یہ گواہی ملتی ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : 192) اس کا اس آیت سے تعلق ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا العِبِينَ لاعب ہونے کی ہمیں ضرورت کیا ہے، ہم نے اس غرض سے تو نہیں پیدا کیا کہ اپنا وقت گزاریں.لعب کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا اور لعب کا تعلق اس ذات سے ہوتا ہے جو لعب میں مصروف ہو اور اس کی دلچسپی اپنی ذات میں کسی کمی کو پورا کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور بہت سے دوسرے ایسے انسان کے مصارف ہیں جن کا تعلق گردو پیش بہت وسیع دائروں تک پھیل جاتا ہے لیکن لعب کا تعلق ہر شخص کی اپنی ذات سے تعلق ہے.اب آپ کہیں کہ دیکھو جی کرکٹ کھیلتے ہیں تو لاکھوں آدمی دیکھ رہے ہوتے ہیں.فٹ بال کا میچ ہوتا ہے تو لاکھوں یہاں بھی ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے ہیں ان کے ساتھ تو سب کا تعلق ہے.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ہر ایک کا اپنی ذات کا لعب کا تعلق ہے.ہر اس شخص کا تعلق ہے جس کے وقت میں اس وقت کوئی اور بہتر چیز موجود نہیں ہے اس لئے خواہ کروڑوں بھی ہوں اور وہ کھیل نہ بھی کھیل رہے ہوں تب بھی اس کو دیکھنے کا بھی اس بنیادی فلسفے سے گہرا تعلق ہے کہ اگر وقت کا بہتر مصرف ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر چلو کرکٹ کی کمنٹری سن لیتے ہیں یا فٹ بال کا میچ دیکھ لیتے ہیں، خود نہیں دیکھ سکتے تو ریڈیو ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھ لیں.تو یہ ساری دلچسپیاں وقت کے دوسرے اعلیٰ مصارف کے نہ ہونے کے نتیجے میں ہیں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو بھی خدا کرتا ہے اس پر خوشی محسوس کرتا ہے یا تکلیف محسوس کرتا ہے یا غم محسوس کرتا ہے تو کن معنوں میں اور اگر وہ اچھی باتیں بھی ہیں لعب کے علاوہ بہت ہی اعلیٰ درجے کی مصروفیات ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان مصروفیات کا خدا کی ذات میں ہنگامہ پیدا کرنے سے کیا تعلق ہے.زیر و بم پیدا نہ ہوں تو ہم خوشی محسوس نہیں کرتے ، زیر و بم پیدا نہ ہوں تو ہم غمی محسوس نہیں
خطبات طاہر جلد 14 275 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء کرتے.تو اللہ کی ذات کا اور ہمارا اس معاملے میں کیا فرق ہے؟ یہ پہلو بھی توجہ کے لائق ہے اور اس کے نتیجے میں ہمیں جیسا کہ میں آگے جا کے بیان کروں گا ایک بہت گہرا سبق ملتا ہے.ہم جب خوشی محسوس کرتے ہیں تو کچھ پانے کے نتیجے میں کرتے ہیں اور جب غم محسوس کرتے ہیں تو کچھ کھونے کے نتیجے میں محسوس کرتے ہیں اور پانے کا احساس جو ہے اگر محرومی بڑی ہو تو اتنا ہی زیادہ دل میں ہنگامہ پیدا کر دیتا ہے اور کھونے کا احساس اگر غربت بہت ہوتو اتنا ہی زیادہ زیرو بم دل میں پیدا کر دیتا ہے اور ایک ہیجان سابر پا ہو جاتا ہے.تو اللہ کے ہاں نہ پانے کا یہ مفہوم ہے نہ کھونے کا یہ مفہوم ہے لیکن اس کے باوجود خوشی اور ایک معنے کا غم خدا کی ذات کے حوالے سے ہمیں احادیث میں ملتا ہے.پھر اس کے کیا معنے ہیں؟ ایک شخص جس کا سب کچھ ہو اور اس نے ہر چیز پر احاطہ کیا ہو، وہ کوئی چیز کھو سکے ہی نہ.اگر کوئی چیز اس سے ہٹ کر پرے جاتی ہے اور وہ باشعور ہے تو دراصل وہ کھو رہی ہے نہ کہ خدا کھو رہا ہے.اس لئے وہ اگر خدا کومل جاتا ہے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ کی خوشی سے مراد ایک نہایت اعلیٰ درجے کی Nobility کا منظر دکھاتا ہے ایک بہت ہی اعلیٰ اور Dignified خدا تعالیٰ کا ایک رد عمل ظاہر ہوتا ہے جو ان معنوں میں نہیں ہے کہ میں نے کچھ پالیا ہے ، ان معنوں میں ہے کہ اس میرے بندے نے وہ پالیا جس سے وہ محروم ہو رہا تھا اور یہ جو احساس ہے یہ ہنگامہ پیدا نہیں کرتا بلکہ Nobility کے احساسات میں ایک قسم کا دوام پایا جاتا ہے اور اس سے بجائے اس کے کہ جذبات میں ہیجان پیدا ہو ایک ایسا لطف محسوس ہوتا ہے جو ارتعاش سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کو ہم شرافت کا لطف کہہ سکتے ہیں.چنانچہ آپ پر اگر احسان کیا جائے تو آپ لطف اندوز ہوتے ہیں.مگر اگر آپ احسان کریں تب بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور احسان کرنے کا لطف اپنے اندر وہ ولولہ نہیں رکھتا جو احسان قبول کرنے کا لطف رکھتا ہے لیکن احسان قبول کرنے کا لطف عارضی ہے اور وقتی ہے.احسان کرنے کا لطف ایک دائمی لطف ہے.چونکہ اس میں زیرو بم نہیں ہے اور ہنگامہ نہیں ہے اس لئے شرافت کا لطف ہمیشگی کا معنی رکھتا ہے اور اس میں خلود کے معنے پائے جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا چونکہ ہم سے تعلق احسان کا ہے اس لئے جو احسان کا لطف ہم محسوس کرتے ہیں اس سے ملتی جلتی کوئی بات ہم سوچ سکتے
خطبات طاہر جلد 14 276 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء ہیں مگر احسان قبول کرنے کے نتیجے میں ایک غریب کی جو کیفیت ہوتی ہے بعض دفعہ وہ رو پڑتا ہے، بعض دفعہ خوشی سے چیچنیں مارنے لگتا ہے، بے قرار ہو جاتا ہے کہ کس طرح میں اس احسان کا بدلہ ا تاروں یہ اور کیفیت ہے اور احسان کرنے والا جو یہ کیفیات پیدا کرتا ہے وہ ان کیفیات سے بالا ہوتا ہے.اس کے اندر یہ ہنگامے نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ وہ شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ یہ کیوں اس قدر اہمیت دے رہا ہے اس بات کو اور اللہ تعالیٰ نے یہی Nobility انسان کو ان معنوں میں سکھائی کہ جب تم بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہو، جب غریبوں کی خدمت کرتے ہو اور وہ شکر یہ ادا کرتے ہیں تو یہ کہا کرولا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدم:۱۰).یہ تو ہم اللہ کی خاطر کر رہے تھے، یہ عذر رکھ کر ان سے کہا کرو کہ ہمارا شکریہ ادا نہ کرو کیونکہ شکریہ جن معنوں میں وہ ادا کرتے ہیں اس سے ان کو ایک قسم کی تکلیف ہوتی ہے.در حقیقت ایک غریب زیرا احسان آکر جب شکریہ ادا کرتا ہے تو اس کے کئی مضامین ہیں، اس سے کئی مضامین پیدا ہوتے ہیں تفصیلی طور پر چونکہ اس نکتے کی بحث نہیں اٹھارہا صرف اتنا بتانا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہمیں یہ فرماتا ہے کہ تم کہہ دیا کرو کہ مجھے شکریہ کی ضرورت نہیں ہے، دو وجوہات اس کی ممکن ہیں.اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ ہمارے اندر Nobility پیدا کی جائے اور ہمیں سمجھایا جائے کہ تم جو نیکیاں کرتے ہو ان کے ادنی ادنی بدلے اس وقت نہ حاصل کر لیا کرو اور اگر ایسا کرو گے تو تمہیں نیکی میں ایک لطف آنا شروع ہو جائے گا.دوسرا یہ کہ جہاں تک جزا کا تعلق ہے وہ تو اللہ کی رضا سب سے اچھی جزا ہے اور اگر تم رضائے باری تعالیٰ کی خاطر نیکی کرو تو اپنا سودا تو تم نے بہت اچھی قیمت پر بیچ دیا، اس سے بہتر قیمت متصور نہیں ہو سکتی لیکن اس کے ساتھ تمہارا Nobility کا لطف اپنی جگہ قائم رہا یعنی بیک وقت دو باتیں ہاتھ میں آگئیں وہ ویسے ممکن ہی نہیں ہیں.ایک انسان ایک سودے کو ایک دفعہ بیچتا ہے دوسری دفعہ نہیں بیچ سکتا اسی سودے کو کیونکہ وہ ہاتھ سے نکل گیا اور اللہ ہمیں دوہرے سودے بتاتا ہے.فرماتا ہے نیکی کیا کرو تو ایسا احسان کرو کہ اس کے بدلے میں کسی قسم کی جزا کی تمنا نہیں رکھنی بلکہ کسی کی نیکی کے بدلے میں بھی جو نیکی کرتے ہو وہ نیکی نہیں ہے اس لئے ایسی نیکی کرو کہ کسی نے تم پر احسان نہ کیا ہو پھر نیکی کرو.بڑی تفصیل سے یہ مضمون قرآن کریم میں پہلو سے روشن فرمایا گیا ہے.یہ ہمیں خدا کے رنگ سکھائے جارہے ہیں، یہ صفات باری تعالیٰ سے تعارف کروایا جارہا
خطبات طاہر جلد 14 277 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی احسان کے لطف اٹھاتا ہے اور وہ احسان کا لطف جو اس بات سے بھی مستغنی ہو جائے جس پر احسان کیا جا رہا ہے اس نے محسوس بھی کیا ہے کہ نہیں بلکہ اس بات سے بھی مستغنی ہو جائے کہ وہ اس احسان کے بدلے کہیں بدی تو نہیں کر دیتا.وہ جو لطف ہے سب سے اعلیٰ درجے کا لطف ہے جس میں کوئی ہنگامہ نہیں ہے.وہ ایک کامل سکون کا لطف ہے اور اپنی ذات میں دوام رکھتا ہے.ایک اعلیٰ کردار کا انسان جب یہ رنگ پکڑ لے تو اس کو کہتے ہیں کہ اس نے خدائی رنگ پکڑ لیا.اب انبیاء کو دیکھیں یہی بات تو ہے جو ان کو تقویت بخشتی ہے.آنحضرت ﷺ نے اہل مکہ پہ کتنے احسان کئے ، اہل عرب پر کتنے احسان کئے اور ناممکن ہے کہ ان احسانوں کا اور ان کے گہرے دائمی اثرات کا تصور بھی انسان باندھ سکے.اس کے باوجود مسلسل آنحضرت ﷺ کی دل آزاری کی گئی.آپ کو روحانی بدنی ہر قسم کے دکھ پہنچائے گئے.آپ کے سب پیاروں کی اذیت سے آپ کی ذات کی اذیت میں اضافے کئے گئے لیکن بڑے استقلال کے ساتھ آپ ﷺ کے پائے ثبات اسی طرح قائم رہے، ان میں کوئی لغزش نہ آئی اور ایک ذرہ برابر صلى الله بھی آپ ﷺ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہے.کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام تھا ، امانت کا حق ادا کرنا تھا.لیکن کتنے ہیں جو یہ سوچ کر امانت کے حق ادا کر سکتے ہیں.امانت کے حق ادا کرنے کا تعلق محض اس احساس سے نہیں ہے کہ ہم خدا کو جوابدہ ہیں.امانت کا حق ادا کرنے کا تعلق انسان کی ذاتی شرافت اور نجابت سے ہے.وہ ہو تو پھر یہ ذمہ داری انسان ادا کر سکتا ہے اور شرافت و نجابت یہ چاہتی ہے کہ وہ احسان کرے اور باوجود اس کے کہ اس احسان کا بدلہ بدی سے دیا جائے تب بھی احسان کرنا اپنی ذات میں ایک نجیب کے لئے لطف بن جاتا ہے اور اس لطف سے وہ مزے اٹھاتا رہتا ہے.یہاں تک کہ دنیا کو خبر نہ بھی ہو تب بھی وہ اپنی ذات میں مگن رہتا ہے کیونکہ وہ Noble ہے، اس کے اندر اعلیٰ کردار ہے.یہ خدا کی شان ہے جو نبیوں میں اترتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ساری کائنات اور جو کچھ بھی اس میں پیدا کیا گیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احسانات سے غافل ہو جائے اور بالکل بے پرواہ ہو جائے اور بالکل حمد نہ کرے.مخلوق کو یہ بتایا گیا ہے کہ تم ہوتے کیا ہو تمہاری حیثیت کیا ہے، کہ تم خدا کی ذات میں کوئی فرق ڈال سکو، نہ تمہاری خوشی کوئی معنے رکھتی ہے، نہ کوئی تمہا راغم معنے رکھتا ہے.تم خدا کے سامنے جھکونہ
خطبات طاہر جلد 14 278 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء جھکو، وہ ایسی عظیم ذات ہے کہ جب اس سے نیکی پھوٹتی ہے تو وہی اس کے لطف کا موجب ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جہاں بھی خدا کی ذات کے حوالے کے ساتھ لطف کا مضمون باندھا ہے وہاں ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ہماری طرح کا کوئی لطف ہے.یہاں تک کہ ایک جگہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا ہنس پڑا، عرش پر خدا ہنس رہا تھا اس بات پر.ایک بیان کرنے والے نے کہا ایک موقع پر اللہ بھی آسمان پر اپنے ایک مہمان نواز مخلص بندے کے مچاکوں کے اوپر مچا کے لینے لگا.یعنی یہ وہ واقعہ ہے جبکہ ایک صحابی آنحضرت ﷺ کے مہمانوں کی خاطر کہ وہ بھو کے نہ رہیں ، اپنا اور اپنی بیوی کا کھانا ان کو پیش کر چکا تھا اور بچوں کا بھی وہی تھا.بچوں کو سلا دیا اور اس کے بعد پھر بھی چونکہ غریبانہ حالت تھی اس زمانے میں، یہ ڈر تھا کہ مہمان کے لئے کھانا کافی نہ ہوگا تو بیوی سے کہا کہ جب ہم کھانا شروع کرنے لگیں تو تم پکو سے دیئے بجھا دینا تا کہ اندھیرے میں اس کو یہ نہ پتا چلے کہ میں بھی کھا رہا ہوں کہ نہیں کھا رہا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ احساس دلانے کے لئے مہمان کو کہ میں بھی کھا رہا ہوں وہ خالی مچا کے لینے لگا.جس طرح کھانے کا مزہ آتا ہے بہت مزہ آیا کر کے آوازیں نکالتے ہیں بعض لوگ تو عام طور پر نہ بھی نکالتے ہوں تو مہمان کو بتانے کے لئے کہ میں بھی شامل ہوں گویا کہ انہوں نے ایسی آوازیں نکالنی شروع کیں.صبح جب نماز کے لئے حاضر ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رات ایک بندے کے مچا کے خدا کو اتنے پسند آئے ،خدا کے ایک بندے کے مچاکے اس کو اتنے پسند آئے کہ عرش پر وہ بھی مچا کے لینے لگا ( بخاری کتاب الحج) اور یہ بات خدا نے خود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو بتائی نہ یہ کہ اس نے کوئی اطلاع خوددی ہو.تو اب مچا کے لینا یا ہنسنا، بعض روایتوں میں جہاں تک میں نے دیکھی ہیں اس میں مچاکوں کا لفظ تو نہیں ملتا لیکن ہنسنے کا اور لطف اٹھانے کا ذکر ملتا ہے.تو سارے مضامین جو اللہ کے تعلق میں بیان کئے گئے ہیں وہ انسانی اصطلاحوں میں بیان کئے گئے ہیں مگر انسانی اصطلاحیں خدا کی ذات پر صادق نہیں آتیں.اگر کوئی بھی اصطلاح نہ استعمال کی جائے تو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ وہاں کیا ہورہا ہے کیونکہ انسانی تجربے کی کوئی بات بھی تو خدا میں نہیں ہے جو اس پر صادق آسکے.پس ہمیں سمجھانے کی خاطر بعض دفعہ قرآن بھی ایسی مثالیں بیان کرتا ہے، بعض دفعہ احادیث ایسی مثالیں بیان کرتی ہیں اور ان مثالوں کے نتیجے میں جو مومن بندے ہیں ان کے ایمان بڑھتے ہیں اور جو بیمار ہیں ان کے اندر بیماری پیدا ہوتی ہے.کہتے
خطبات طاہر جلد 14 279 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء ہیں دیکھو جی خدا ایسی باتیں کرتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو آریوں کے ساتھ مناظرے ہوئے ہیں وہاں بعض نہایت ہی بدخلق آریوں نے نہایت ہی گندی زبان قرآن کے متعلق استعمال کی کہ دیکھو جی تمہارے قرآن کے مطابق تو اللہ کے ہاتھ ہیں ، اس کے پاؤں ہیں، وہ جہنم میں پاؤں ڈالے گا حدیث میں آتا ہے، اور خدا جہنمی ہوا، اس قسم کی بکواس اور گندی زبان استعمال کرتار ہا لیکن قرآن کریم ایسی باتوں پر بھی نظر رکھتا ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْى أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوْا فَيَقُولُونَ مَاذَا اَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِى بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهَ إِلَّا الْفُسِقِينَ (البقره: 27) کہ اللہ تعالیٰ تو ایک مچھر کی مثال بھی بیان فرماتا ہے اور فَمَا فَوْقَهَا سے یہ مراد نہیں کہ جو اس سے بڑی چیز ہو، اس سے ادنیٰ، یہاں فوق سے مراد چھوٹے ہونے کے مضمون میں اس کا فوق ہے یعنی یہ چھوٹی سی ذلیل چیز تمہیں دکھائی دیتی ہے.اللہ تو اس سے بھی آگے جا کر جس کو تم حقیر ترین سمجھ سکتے ہو اس کی مثال بھی بیان کرتے ہوئے نہیں شرماتا.اس کا معنی میں نے پہلے بیان کیا تھا اصل معنی تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی کسی تخلیق میں کسی شرم کی وجہ ہی کوئی نہیں کیونکہ ہر تخلیق شاندار ہے.ہر تخلیق کوکنہ میں اتر کے دیکھیں تو آپ ورطۂ حیرت میں ڈوب جائیں گے، اتنا حیرت انگیز نظام تخلیق ہے کہ اس کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے میں بھی کمالات کا ایک عالم پنہاں ہے، ایک جہان چھپا ہوا ہے.تو ایک تو یہ معنی ہیں.لیکن دوسرے معنی یہ ہیں کہ مثالیں جب خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے تو اس کے مختلف اثر پڑتے ہیں، جو بیمار لوگ ہیں ان کی مرض میں اضافے ہو جاتے ہیں، جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اس لئے سمجھنے کی بات ہے کہ ان مثالوں کو کس طرح سمجھیں.پس وہ مثالیں جو اللہ تعالیٰ اپنے متعلق یا دوسروں کے متعلق قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے ان کے اطلاق کا مسئلہ ہے.ایک مومن ان کا ایسے رنگ میں اطلاق کرتا ہے کہ اس کا ایمان بڑھتا ہے.ایک کا فرایسے رنگ
خطبات طاہر جلد 14 280 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء میں ان کا اطلاق کرتا ہے کہ اس کی بے ایمانی بڑھ جاتی ہے.واللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا انفُسِقِينَ گمراہ اللہ کرتا تو ہے مگر صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے کیونکہ ان کے اندر بیماری پہلے سے موجود ہے.اس لئے وہ بیماری اور زیادہ سنگین اور گہری ہو جاتی ہے جب وہ خدا کی کسی مثال کو نہ سمجھ سکے.تو اللہ تعالیٰ نے جو مثلہ قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں یا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو اسماء باری تعالیٰ کے مضمون پر مثالیں بیان فرمائی ہیں ان کو اس شان کے مطابق سمجھیں جوشان خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات پر اطلاق پاسکتی ہے.ورنہ آپ تضادات کی دنیا میں کھوئے جائیں گے اور خدا میں کوئی تضاد نہیں اور اگر خدا میں تضاد نہ ہو اور آپ کے ذہن میں خدا کی ذات میں تضاد ہوں تو اتنا ہی آپ خدا سے دور ہٹ جاتے ہیں اس لئے یہ مضمون بہت ہی اہمیت رکھتا ہے کہ آپ اللہ کی ذات کے متعلق اپنے خیالات کو تضادات سے پاک کریں چنانچہ اس کی مثال ایک میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! عن ابي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله علم انه قال : قال الله عذوجل انا عند ظن عبدي بي وانا معه حيث يذكرني والله الله افرح بتوبته عبده من احدكم يجد ضالته بالفلاة ومن تقرب الى شبراً تقربت اليه ذراعا ومن تقرب الى ذراعا تقربت اليه باعا واذا اقبل الى يمشی اقبلت اليه اهرول (مسلم کتاب التوبه باب في الحض على التوبه) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا عند ظن عبدی بی میں اپنے بندے کے لئے اس کے ظن کے مطابق بن جاتا ہوں.اس حدیث کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اب دوسرے تعلق میں بھی اس حدیث کا ذکر کر رہا ہوں کہ اللہ اپنے بندے کے ظن کے مطابق ہو جاتا ہے.پس ایک ہی مثال ہو وہ کئی قسم کے ظن پیدا کر سکتی ہے اگر اللہ کی ذات سے حسن کا تعلق ہے اور سچائی کا تعلق ہے تو اللہ اس بندے کے وجود میں ، اس کے تصور میں ، ایک حسین ذات کے طور پر جلوہ فرما تا ہے.اگر وہ تصور ناقص ہے تو پھر ایک
خطبات طاہر جلد 14 281 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء بیمار ذات کے طور پر ، ایک کمزور ذات کے طور پر اس کے دل میں اترتا ہے حالانکہ خدا کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں ہے.تو دراصل بعض تبدیلیاں جو ہمیں دکھائی دیتی ہیں وہ مخلوق کی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہیں ان کے حوالے سے ہیں.پس خدا کسی کو اچھا دکھائی دے رہا ہوتو اللہ فرماتا ہے میں اس کے لئے اچھا بن جاتا ہوں.کوئی کسی کو برا دکھائی دے رہا ہو تو اس کے لئے فرماتا ہے کہ میں برا بن جاتا ہوں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کی ذات ہمارے تصور سے پیدا ہوتی ہے.اب یہ ایک الگ مضمون ہے.اس لئے ان باتوں کو سمجھتے وقت تمام باریک راہوں سے واقف ہونا ضروری ہے ورنہ انسان کسی مقام پر بھی ٹھوکر کھا سکتا ہے.تصور میں ایک ذات بنائی جائے اور وہ تصور کی ذات بن کر اترے تو اس کے اندر کچھ بھی تبدیلیوں کی طاقت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ تصور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ تصور کے مطابق سلوک فرماتا ہے.یہ دو مختلف باتیں ہیں.تو ذات وہی ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں خواہ اسے ہم اچھا سمجھیں خواہ برا سمجھیں، خواہ تھوڑا اچھا سمجھیں یا زیادہ اچھا سمجھیں ، ذات باری تعالیٰ میں کوئی تبدیلی نہیں لیکن ہمارا فانوس جو بدلتا ہے اس سے شمع کے رنگ بدلتے ہیں.فانوس کا شیشہ جیسا ہو، جس طرح گردش کر رہا ہو، جس شکل کا وہ بنا ہوا ہو، اس قسم کی روشنی کے تاثرات سارے ایوان میں پھیل جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا تعلق انسان کی بھلائی اور بہبود کے لئے بے حد ضروری ہے اور اگر اس تعلق میں بدظنی پیدا ہو جائے تو واقعہ انسان بہت سی خوبیوں سے محروم رہ جاتا ہے.اسی مضمون میں حضرت زکریا کی دعا کا قرآن میں ذکر ملتا ہے.وہ دعا کرنے کے بعد ، عرض کرنے کے بعد کہ میں ایسا ہو گیا، میں ایسا ہو گیا بچے کی امید نہیں، مدتوں سے تیرے حضور دعا کر رہا ہوں.پھر عرض کرتے ہیں وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم:۵) کہ اے میرے اللہ اتنی لمبی دعاؤں کے با وجود، با وجود اس کے کہ مجھے اپنے بچے کی کوئی ظاہری امید نہیں ، میں ایسا بد بخت نہیں کہ تجھ سے دعا کرتے ہوئے مایوس ہو جاؤں.اب دیکھیں حسن ظن تھا جس نے اثر دکھایا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ مجھے سے بدظن نہیں ہو سکتا تو میں کیوں اس کے حسن ظن کو سچا نہ کر دکھاؤں.چنانچہ بلا تاخیر خدا تعالیٰ ایک بیٹے کی خوش خبری دیتا ہے اور بیٹا بھی ایسا جس کے نام کی کوئی مثال اس سے پہلے دنیا
خطبات طاہر جلد 14 282 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء نے نہ کبھی دیکھی نہ کبھی سنی اسمه یحیی (مریم: 8) اس کا نام خدا نے بیچی رکھا اور فرمایا ایسا نام ہے کہ جیسے تیری دعا بے مثل تھی ویسے یہ نام بھی بے مثل عطا کیا جارہا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے اوپر ظن رکھنا اور صحیح ظن رکھنا یہ دراصل حسن ظن رکھنے کے مترادف بات ہے، ایک ہی بات کے دو معنے ہیں.کیونکہ اسماء حسنیٰ ہیں اس کے تمام اسماء حسین ہیں تمام صفات دلکش اور خوبصورت ہیں.پس جب میں کہتا ہوں حسن ظن، تو یہ مراد نہیں ہے کہ ہم بعض دفعہ کسی آدمی پر وہ برا بھی ہو تو حسن ظن کر لیتے ہیں کہ اچھا ہو گا.حسن ظن کے سوا کوئی ظن خدا پر ہو ہی نہیں سکتا اور اگر ہوگا تو پھر غلط ہوگا.اس لئے اسماء حسنی نے بتادیا کہ صرف حسن ظن ہی اس پر چل سکتا ہے اور کوئی ظن اس پر چل ہی نہیں سکتا اور جب حسن ظن ہوگا تو اللہ اسی حسن اور اسی شان کے ساتھ آپ پر جلوہ گر ہوگا.اسی طرح آپ سے حسن سلوک فرمائے گا اور جہاں ظن میں کبھی آگئی، اللہ سج تو نہیں ہوسکتا لیکن اس سے سلوک میں اسی حد تک فرق ڈال دیتا ہے اور یہ معنی ہے انا عند ظن عبدی بی کہ میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق ہو جاتا ہوں.اب اس سلسلے میں جہاں آگے بڑھنا، قریب ہونا ، دور ہٹنا، دوڑنا، ٹھہر نا یہ ساری مثالیں جو بیان فرمائی گئی ہیں ، یہ اس پس منظر میں سمجھیں تو آپ کے لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی.آپ فرماتے ہیں جہاں بھی وہ میراذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں یعنی فاصلہ ہی کوئی نہیں ہے.یہ جو بیان فرمایا ہے یہ ایک بہت ہی اہم حکمت کی بات ہے.آئندہ حدیث کو سمجھنے کی چابی اس بات میں ہے.اب آنحضرت ﷺ کی عارفانہ شان اس بات سے ظاہر ہوتی ہے جو بات بیان کرنا چاہتے تھے ہوسکتا تھا کہ کسی کو اس سے غلط فہمی ہو جائے اس لئے پہلے غلط نہی کے دروازے بند کئے ہیں پھر آگے چلے ہیں.پہلے فرمایا کہ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے یا درکھو میں ساتھ ہوتا ہوں.میرے درمیان اور مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ ہے ہی نہیں.لیکن اب جو فاصلے کی باتیں کروں گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں کہیں ہوں اور کہیں نہیں ہوں.چنانچہ فرمایا میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں.خدا کی قسم خدا تعالیٰ اپنے بندے کی تو بہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش وہ شخص بھی نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے.اب آپ یہ دیکھیں کہ ” خوش ہوتا ہے“ کا حوالہ ایک ایسے وجود کے تعلق میں
خطبات طاہر جلد 14 283 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء دیا ہے جس کا وہ سب کچھ ضائع ہو گیا جس پر اس کی زندگی کی بنا ہے اور جب ملا ہے، ایسا بھوکا انسان، ایسا پیاسا انسان ، جو صحرا میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، اسے جب وہ گم شدہ اونٹ ملا ہے یا اونٹنی ملی ہے تو وہ سب کچھ مل گیا جو اس کی زندگی کی ضرورت تھی ، اس کے بغیر وہ رہ ہی نہیں سکتا تھا اور اس کی فنا تھی اگر وہ چیز نہ ملتی.اس کا وجود قائم نہیں رہ سکتا تھا اگر وہ اس کھوئے ہوئے کو نہ پاتا.اس پر جو اس کی خوشی ہے وہ ایک بے مثل خوشی ہے اور اللہ کی شان دیکھیں کہ اپنی مثال اس بندے کی سی بیان کرتا ہے، وہ بندہ جو تو بہ کر لیتا اور گناہوں سے واپس خدا کی طرف آجاتا ہے.فرماتا ہے کہ اس کو پانے سے مجھے ویسی ہی خوشی ہوتی ہے جیسے ایک صحرا میں دھوپ میں درخت کے سائے تلے بیٹھے ہوئے انسان کو ہوتی ہے جو ستانے کے لئے سوتا ہے ، آنکھیں کھولتا ہے تو اونٹنی غائب ہے، اس کا سارا سامان اس پر لدا ہوا ہے اس کے سفر کی ضرورت اس اونٹنی میں موجود ، وہ اونٹنی ہو تو وہ سفر کر سکتا ہے.اس کا پانی اس کا کھانا پینا ہر چیز اس میں ہے.تو گویا اپنی جان کھودی.وہ حسرت کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہے اس کا کچھ بھی بس نہیں تو اچانک اس کو وہ اونٹنی اپنی طرف آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جیسی اس کو خوشی ملتی ہے اس کی زندگی کی ہر ضرورت مل گئی ، اس کی جان اس کو دوبار ہل گئی، اتنی خوشی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ یہ مثال دے کر فرماتا ہے میرا بندہ جب تو بہ کر کے میری طرف آتا ہے مجھے ویسی ہی خوشی ہوتی ہے حالانکہ اس کے جانے کا نقصان ہی کوئی نہیں تھا.خدا کی ذات کے ساتھ اس کا یہ تعلق نہیں تھا کہ اگر وہ نہ ملتا تو خدا تعالیٰ کا کچھ حصہ کھویا جاتا یا اس کی ذات کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہوتا.اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ ساری کائنات بھی اگر میری احسان فراموش ہو جائے اور مجھے بھلا دے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا.تو یہ خوشی Nobility کی خوشی ہے.یہ نہایت ہی اعلیٰ عظیم کردار کی خوشی ہے جس کی مثال ہمیں انسان میں مل ہی نہیں سکتی سوائے اس کے کہ قریب تر مثال انبیاء میں ملتی ہے اور اس کا جانا کیا، اس کا واپس آنا کیا لیکن چونکہ اللہ محسن ہے اور اس کے احسان کا تقاضا تھا ایک ذرے میں بھی اگر کچھ دریافت ہو جائے.اس کو کچھ مل جائے تو اللہ کا یہ احسان ہے اس پر.گویا اللہ نے اس کو نہیں پایا اس نے اللہ کو پایا ہے اور طرز بیان یہ ہے کہ میں نے سب کچھ پالیا.یہ بھی حسن و احسان کا ایک معراج ہے اس سے بالا حسن و احسان تصور ہو ہی نہیں سکتا.پایا اس نے جس نے خدا کوکھوکر سب کچھ کھو دیا اور خدا یہ کہ رہا ہے کہ میں نے سب کچھ پالیا، گویا میر اسب کچھ کھویا گیا تھا.یہ
خطبات طاہر جلد 14 284 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء جو لطف ہے اس میں کوئی پہجان نہیں ہے.یہ ایک دائمی نجات کا لطف ہے.حسن واحسان کا ایک ایسا جلوہ ہے جسے ہمیشگی حاصل ہے اور ہمیشہ اسی طرح ہی یہ جلوہ خدا تعالیٰ کی مخلوقات پر ظاہر ہوتارہتا ہے.پس جنتوں کا دوام بھی اسماء باری تعالیٰ پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے.کیوں خدا کے بعض ایسے بندے ہیں جن کے متعلق فرماتا ہے.خُلِدِينَ فِيهَا (البقرہ: 163) نعمتوں اور جنتوں میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے اس دنیا میں انہوں نے اپنی صفات کو خدا کی ہمیشگی کی صفات کے قریب تر کر دیا تھا اور خدا کی پیشگی کی صفات اس کے حسن و احسان کی صفات کے ساتھ ایک جان ہیں.ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ حسن و احسان عارضی چیزوں سے اتنا بالا ہے.وہ چیزیں جو وقت کی غلام ہیں کہ ان کے ہونے نہ ہونے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اپنی ذات میں جاری رہتا ہے.پس اگر آپ خدا کے ایسے محسن بندے نہیں کہ ہر ضرورت کو پورا کرنے پر آپ کو لطف آئے اور ایسا لطف آئے جیسے گویا آپ کی ضرورت پوری ہو رہی ہے.یہ پیغام ہے اس مثال کا جو سمجھیں تو پھر اسماء باری تعالیٰ پر غور کا کچھ لطف بھی ہے اور اسماء باری تعالیٰ پر غور سے فائدہ بھی ہے.ورنہ خالی زبان سے رٹ لینا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا اور واقعہ یہ ہے کہ انبیاء اسی سے طاقت پاتے ہیں ،اسی سے ان کو استقامت ملتی ہے، ان کو احسان کا مسلسل لطف رہتا ہے.یہ نہیں کہ وہ بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں.دنیا ان کو مصیبت میں مبتلا دیکھتی ہے لیکن اللہ کا قرب نصیب ہونے کی وجہ سے ان کو احسان کا لطف آتا ہے، ناشکری پر بھی احسان کا لطف آتا ہے کیونکہ اور بھی ان کی عظمت کر دارا بھرتی ہے.ایک شخص احسان کرتا ہے اس کے احسان کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے.ایک شخص احسان کرتا ہے اس کے احسان کا شکر یہ ادا نہیں کیا جا رہا.ایک شخص وہ ہے جس کو گالیاں دی جارہی ہیں، اذیتیں پہنچائی جا رہی ہیں، تب بھی وہ احسان کر رہا ہے.اب ان کے لطف میں بڑا فرق ہے.وہ جو آخری صورت ہے اس کی کوئی مثال نہیں اور کوئی احسان کا مضمون اس کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتا.یہ بلند ترین مضمون ہے احسان کا.یہ احسان اگر پیدا ہو جائے تو پھر آپ ذات باری تعالیٰ کے اسماء کے قریب تر پہنچ جاتے ہیں یعنی جتنا بھی قریب ہونا خدا نے ہماری خلقت میں مقدر کر رکھا ہے اس سے زیادہ ہم قریب نہیں ہو سکتے مگر جب آپ اتنا قریب ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کو وہ خلو مل جاتا ہے جو جنت کی صفت ہے اور اہل جنت کو جنت میں عطا ہوگا کیونکہ صفات باری تعالیٰ کا
خطبات طاہر جلد 14 285 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء لطف ہر حال میں ان میں موجود ہے، ہر حالت میں وہ لطف اٹھا ر ہے ہیں کیونکہ وہ احسان اپنی ذات میں ایک ایسا حسن ہے کہ اس سے احسان کرنے والا خود بھی لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ حسن کو وہ جانتا ہے جس کے اندر سے حسن پھوٹ رہا ہے.اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عالم الغیب کی ایک ایسی تفسیر فرمائی جس کی کوئی مثال آپ کو کہیں اس سے پہلے دکھائی نہیں دے گی.آپ نے فرمایا عالم الغیب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات کو ، بس خود وہی جانتا ہے کہ میں کیا ہوں.ہر دوسرے سے غیب میں ہے.وہ اللہ سے غیب میں نہیں.تو جس کی نظر اپنے حسن پر ہمیشہ ہو اس کو لہو ولعب کی ضرورت کیا ہے کیونکہ حسن میسر ہو تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.وقت اپنی ذات میں مجسم لطف بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ ہمیں لمبین کی ضرورت نہیں ہے کہ تعبین بن کر زمین و آسمان کو پیدا کرتے.تو دراصل خدا چونکہ حسن ہے اور حسن ہی کا مجموعہ صفات ہے اس پہلو سے جب اس کی اپنے حسن پر نظر رہتی ہے تو ہر دوسری بدزیبی اور کراہت جو باہر سے دکھائی دیتی ہے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور اس میں اس کا دوام ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عجیب عارفانہ نکتہ ہمارے ہاتھوں میں تھا دیا اس پر غور کریں تو خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اور ان صفات کا وقت سے تعلق سمجھ آجاتا ہے.وہ ایک ایسا حسن ہے جس پر کسی اور کی نظر نہ ہو تو تب بھی فرق نہیں پڑتا.وہ مجسم اپنے حسن میں مگن ذات ہے.اپنے حسن سے اس کا علاقہ ایسا ہے کہ اس کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لِلعِبِينَ ہم نے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اسے لاعب کے طور پر پیدا نہیں کیا یعنی اپنا وقت گزارنے کی خاطر کوئی بہتر مصرف نہیں تھا اور کوئی کام نہیں تھا اس لئے ہم زمین و آسمان کو پیدا نہیں کیا.لَوْارَدْنَا أَنْ نَّتَّخِذَ لَهُوَ الَّاتَّخَذْنَهُ مِنْ لَّدْنَا إِنْ كُنَّا فَحِلِينَ (الانبياء : 18 ).اگر ہم نے کوئی لہو پسند کی ہوتی تو ہماری ذات میں سب کچھ ہے.اپنی ہی ذات سے وہ چیز پیدا کرتے کسی اور کے حوالے کی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی.پس یہ وہ غیب کو جاننے کا مضمون اس آیت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب فرمایا کہ وہ غیب کو جانتا ہے.اول
خطبات طاہر جلد 14 286 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء معنی اس کا یہ ہے کہ اپنی ذات کو، وہ جانتا ہے.اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا.اس کی ذات کے کمالات کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا.تو حسن کا یہ ادراک جوخدا کو ہے یہ اس کو ہر دوسری چیز سے مستغنی کر دیتا ہے اور حسن اپنی ذات میں ہی مگن رہتا ہے اس کو کسی اور کی تعریف کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی.پس اللہ تعالیٰ کے اندر جو یہ ایک عظیم الشان صفت ہے اپنی خوبیوں میں مگن ہو جانا، اپنی خوبیوں سے لطف اندوز ہونا، یہی نجابت کی تعریف ہے، یہی شرافت کی تعریف ہے.اور اس کے بعد ان خوبیوں کو دکھا کر لطف میں اضافہ نہیں ہوا کرتا بلکہ لوگوں کو دیکھنے، تعریف کرنے ، پسند کرنے ، نا پسند کرنے سے یہ بالا ہو جاتی ہیں.ایسی صورت میں سچا نیک وہ ہے جس کو دکھاوے سے کوئی غرض ہی باقی نہ رہے.آنحضرت ﷺ کو اپنی کسی نیکی کے کسی قسم کے دکھاوے سے کوئی غرض ہی نہیں تھی.کوئی اگر سمجھتا ہے تو اس کا اپنا فائدہ ہے اور اگر کوئی نہیں سمجھتا تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا الله کبھی کوئی نقصان نہیں تھا.اس لئے اپنی ذات کو ابھار کر دکھانے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آئی.صرف ایک اس پہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ پھر اللہ نے اپنی ذات کو کیوں دکھایا.چنانچہ احادیث میں ملتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے اپنے ایک ارشاد میں کنت کنزاً مخفياً فاحببت ان اعرف اور دوسری جگہ فرمایا کہ میں کن مخفی تھا، میں چھپا ہوا تھا مستور خزانہ تھا.فاردت ان اعرف تو میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں ، دیکھا جاؤں اور اس کی کسی ذات کے دکھاوے سے تعلق نہیں کیونکہ خدانہ بھی دیکھا جاتا تو اس کے ذاتی لطف میں کوئی فرق نہیں ورنہ یہ کیوں کہا کہ میں مخفی خزانہ تھا مخفی ہوا ہی کیوں پھر ؟.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے ساتھ ہی ایک اور حدیث بھی رکھ دی جس کے الفاظ یہ ہیں کہ میں نے چاہا کہ میرا خلیفہ بنے تو میں نے آدم کو پیدا کر دیا تا کہ وہ خلیفہ بن جائے.اردت میں نے ارادہ کیا یا چاہا ان استخلف “ کہ میں اپنا خلیفہ بناؤں فخلقت آدم پس میں نے آدم کو پیدا کیا تو دراصل اپنی ذات کی طرح کے ملتے جلتے وجود پیدا کرنا دکھاوے کی خاطر نہیں ہوا کرتے بلکہ احسان کا یہ بہترین انداز ہے.اسی لئے رحمان سے ہر قسم کی تخلیق پھوٹی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ماں بچہ پیدا کرتی ہے تو اپنے جیسا پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، اپنے جیسا وجود یعنی خود بخود کائنات میں
خطبات طاہر جلد 14 287 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء خدا تعالیٰ نے ایسی حکمتیں رکھ دی ہیں کہ ہر چیز جو پیدا کرتی ہے اپنے جیسا ہی پیدا کرتی ہے یعنی ماں ارادہ تو نہیں کرتی مگر ہوتا ایسا ہی ہے.اب جو اپنے جیسا پیدا کرتی ہے تو اس پر جو پیدا ہوا ہے اس کا کوئی احسان نہیں لیکن جس نے پیدا کیا ہے اس نے احسان کیا ہے مگر اس لئے نہیں کہ وہ بچہ اس کو پہچانے.بچہ نہ بھی پہچانے تب بھی وہ محسنہ ہی رہتی ہے.بچہ حسن کا بدلہ بدی سے دے تب بھی وہ محسنہ ہی رہتی ہے.پس پہچانے جانے کی خاطر ان معنوں میں نہیں اس کو پیدا کرتی کہ وہ اگر بچہ پیدا ہو اور اس پر پھر وہ احسان کرے اور اس کا پہچاننا اس کی ذات میں ایک اعلیٰ قدر پیدا کر دے یا لطف کا احساس بڑھا دے، ہر گز یہ مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق چونکہ رحم سے ہے ، رحمان سے ہے اس لئے اس کے اندر خدا کی وہ صفت جلوہ گر ہو جاتی ہے جو ماں کے حوالے سے ہمیں خدا کی صفت کو سمجھنے میں بھی زیادہ سہولت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک ماں کے متعلق جو آتا ہے کہ اس کا اپنی بہو سے اختلاف تھا، جھگڑا تھا اور بہوگندی اور ظالم عورت تھی.اس نے ہر طرح سے اذیتیں پہنچائیں لیکن اپنے بیٹے کی خاطر وہ صبر کرتی رہی یہاں تک کہ بہو نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر تم مجھ سے سچی محبت کرتے ہو تو اپنی ماں کا سرکاٹ کر میرے سامنے طشتری پر لا کے رکھو تب میں سمجھوں گی کہ واقعہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو اس ظالم نے یہی حرکت کی.اب یہ تو کہانی ہے مگر اس کہانی سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات کا کچھ عرفان نصیب ہو جاتا ہے اور اسی تعلق میں یہ بات ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.کہتے ہیں جب وہ سرکاٹ کے لے جارہا تھا تو اس کو ٹھوکر لگی اور طشتری سے وہ سرزمین پر جا پڑا، بچہ بھی گرا، اس سر سے آواز آئی میرے بچے تجھے چوٹ تو نہیں لگی.یہ ماں کا جذبہ دکھانے کے لئے کہانی بنائی گئی ہے.مگر اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ میں ایسا خوش ہوتا ہوں جیسے گم شدہ اونٹنی کسی کو واپس مل گئی ہو.تو دراصل یہی مضمون ہے.پس اعرف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی کوئی حیثیت نہیں تھی بلکہ وہ اپنے جیسے وجود پیدا کر کے ان پر احسان کرتا ہے اور احسان کرنا ایک فطری چیز ہے جس طرح ماں کی فطرت میں بچہ پیدا کرنا ہے اور بچے کی تکلیف اس کو ہمیشہ تکلیف پہنچاتی ہے، بچے کی خوشی سے وہ ہمیشہ خوش رہتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے اوپر ان مثالوں کا اگر اطلاق ہوتا ہے تو محض اس حد تک جس حد تک خدا کی شان ہمیں اجازت دیتی ہے کہ ان کا اطلاق کریں اور ان کے اطلاق کے بغیر مضمون کی سمجھ ہی نہیں آسکتی ،
خطبات طاہر جلد 14 288 خطبہ جمعہ 21 اپریل 1995ء نہ سمجھایا جا سکتا ہے کیونکہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: 12) اس جیسا ہے ہی کچھ نہیں ہم سمجھیں گے کیا اس کو ؟ پس اس مجبوری کے پیش نظر یہ مثالیں بیان کرنی پڑتی ہیں اور ان مثالوں کے ذریعے خدا کا جو عرفان دل میں پیدا ہوتا ہے وہ ہمیں خدا سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کا اہل بنا دیتا ہے اور ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے کے بہتر اہل بن جاتے ہیں.پس اس پہلو سے یہ مضمون کا سلسلہ محض کوئی علمی ذوقی سلسلہ نہیں بلکہ ہماری ایک اشد ضرورت ہے جس کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مجھے کچھ عرصہ اس کو جاری رکھنا پڑے گا.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکات.
خطبات طاہر جلد 14 289 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء دنیا کی چالاکیوں سے عاری شخص جو متقی ہو اس کے کام میں ہمیشہ زیادہ برکت ہوتی ہے.( خطبه جمعه فرموده 28 اپریل 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج تین ملکوں میں ملکی سطح پر کچھ جلسے اور اجتماعات ہو رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے ذکر سے اس خطبے کا آغاز ہو.سب سے پہلے تو سری لنکا کی جماعت کی طرف سے درخواست ہے که ۳۰ را پریل کو ان کا سالانہ جلسہ منعقد ہو گا.اسی طرح تمام سری لنکا کی لجنہ اماء اللہ کا اجتماع بھی ۲۹ / تاریخ کو شروع ہو رہا ہے تو ان دونوں کی کامیابی کے لئے احباب جماعت سے وہ دعا کی درخواست کرتے ہیں.سری لنکا کی جماعت کو اگر چہ چھوٹی ہے اور باہمت ہے مگر بار بار بعض دشمنوں کی طرف سے مشکلات پیش آتی ہیں اور حال ہی میں وہاں ایک مرکز پر حملہ کیا گیا ، اس کو جلایا گیا ، وہاں بعض احمد یوں کو زدوکوب کیا گیا.تو اس لحاظ سے بھی دعا کے محتاج ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہمت عطا فرمائے اور جن نیک کاموں کو بڑے عزم کے ساتھ انہوں نے جاری کیا ہے،استقلال کے ساتھ اس پر ان کو ثبات قدم بخشے.اب جماعت احمد یہ جرمنی کی طرف سے بھی درخواست ملی ہے کہ آج ۲۸ اپریل کو ان کی مجلس شوریٰ منعقد ہورہی ہے.اب جو مجلس شوری کا نظام ہے یہ خدا کے فضل سے کافی پھیل گیا ہے اور مستحکم ہو گیا ہے.ابتداء میں ان جگہوں میں غلطیاں بھی ہوتی تھیں اور ایسی جگہ مثلاً جرمنی ہے جہاں
خطبات طاہر جلد 14 290 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء کثرت سے پاکستان سے مختلف علاقوں سے بھی احمدی آکے آباد ہوئے ہوئے ہیں، خیال یہ تھا کہ ان کو شوریٰ کا تجربہ ہو گا اس لئے وہ وہاں غلطیاں نہیں کریں گے.مگر الحمد للہ کہ وقت پر یہ بات سامنے آگئی کہ اکثر وہ لوگ شوری میں شامل ہوئے جن کو پاکستان میں بھی شوری میں کبھی جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوتا تھا.اس لئے محض یہ ظن کہ پاکستان سے آئے ہیں وہ اپنے جرمن بھائیوں کی بھی تربیت کریں گے یہ سچا ثابت نہ ہوا..(سابقہ بات میں کر رہا ہوں ) اور ان کے مقابل پر جو جر من احمدی تھے انہوں نے بہت بہتر نمونے دکھائے.اس لئے کچھ مجھے بعض دفعہ ناراض بھی ہونا پڑا.بعضوں کو بعض عہدوں سے فارغ کرنا پڑا اور اب میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے ان کی مجلس شوری کا نظام بلوغت کو پہنچ گیا ہے اس میں پختگی پیدا ہوگئی ہے.مشورے نیک اور تقویٰ کے مطابق دیتے ہیں، کوئی یہ احساس نہیں کہ فلاں میرے دوست نے یہ بات کی ہے اس لئے اس کی تائید کی جائے اور یہی وہ تقویٰ ہے جو دراصل جماعت کی زندگی کا ضامن ہے، جماعت کی روح اس تقویٰ میں ہے.اگر شوری کے نظام کو ہم بڑی احتیاط کے ساتھ جاری کر دیں، اس میں جتنے بھی تقوی سے ہٹے ہوئے رجحانات داخل ہونے کا امکان ہے ان رجحانات کے رستے بند کر دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت بہت تیزی سے ترقی کرے گی اور جب میں کہتا ہوں کہ رجحانات ہیں تو یہ رجحانات ہر انسان کی ذات میں دبے ہوئے ہیں اور جب تک انسان کی ذات متقی نہ ہو مجلس شوریٰ میں جا کر ایسا انسان اندر کے تقویٰ کے معیار کو قائم نہیں رکھ سکتا.جہاں بھی اختلاف رائے ہو، جہاں اس بات کا امکان ہو کہ کسی شخص کے سپرد کوئی ذمہ داری کی جائے گی ، جہاں مختلف مالی امور کے خرچ کے مسائل بھی ہوں وہاں انسان کے ساتھ جو بشری تقاضے لگے ہوئے ہیں وہ ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے ہر انسان کو اپنا نگران خود ہونا پڑے گا.مگر جہاں تک نظام جماعت کے نگران ہونے کا تعلق ہے خدا کے فضل سے وہ تقاضے ہم بہت حد تک پورے کر چکے ہیں اور پورے کرتے رہیں گے.جو میں نے پہلی بات کہی تھی کہ اب نظام بلوغت کو پہنچ گیا ہے، یہ اس پہلو سے کہی تھی.آج ہی چونکہ ایک اور ملک کی بھی مجلس شوریٰ ہو رہی ہے، آئیوری کوسٹ کی.ان کی جماعت کا جلسہ ہے اور غالبا اس کے بعد انتخابات بھی اسی سال ہوں گے اور مجلس شوری کی کارروائی
خطبات طاہر جلد 14 291 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء بھی ہوگی اس لئے ان کو بھی پیش نظر رکھ کر کچھ نصیحتیں کرنی ہیں.جرمنی کی جماعت کو میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اگر چہ نظام کے لحاظ سے یہ معاملہ بہت سدھر چکا ہے اور اپنی بلوغت کو پہنچ گیا ہے، لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کس حد تک مجلس شوری میں شامل ممبران کو آزادی ہے، کس حد تک خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ شریعت ان کے ہاتھ روکتی ہے کہ آگے نہیں بڑھنا ، ان کی زبان پر قدغن لگاتی ہے کہ اس سے آگے نہ بڑھو.یہ جوامور ہیں ظاہری نظم وضبط کے اس لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب معاملہ پوری طرح نظم و ضبط کے دائرے میں آچکا ہے اور سب لوگ سمجھ گئے ہیں.ہر ایک کو اپنے حقوق کا پتا ہے، ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کا پتا ہے اور اب میرے نزدیک انشاء اللہ جرمنی جیسے ملک میں کوئی یہ جرات نہیں کر سکتا کہ نظام کی بے حرمتی کرے اور کھڑے ہو کر بعض ایسی باتوں پر اصرار کرے جن کے کہنے کا اس کو حق نہ ہو یا امیر کے سامنے گستاخانہ رویہ اختیار کرے یا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے یہ باتیں تو انشاء اللہ وہاں نہیں ہوں گی اور مجھے امید بھی ہے، دعا بھی ہے کہ آئندہ کبھی ایسی باتیں نہ ہوں.لیکن جو انسان کے اندر چھپا ہوا باغی ہے، انسان کے اندر چھپا ہوا خود غرض آدمی ہے وہ تو ہر جگہ رہتا ہے اور جب تک اس مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں اللہ اس کی حفاظت فرمائے اس وقت تک اس سے ہمیشہ خطرات لاحق ہوتے ہیں.چنانچہ چند سال پہلے مجھے مجلس شوری مرکز یہ جور بوہ میں منعقد ہورہی تھی یعنی پاکستان کی مجلس شوری جور بوہ میں منعقد ہو رہی تھی اس کی رپورٹیں کچھ ملیں اس پر میں نے ان سے ریکارڈنگز منگوا ئیں اور مجھے بہت اس بات سے دھکا لگا کہ اتنی لمبی تربیت یافتہ لوگوں کی موجودگی میں پھر بعض لوگوں نے بعض ٹیڑھی سوچیں داخل کر دی تھیں.بعض ٹیڑھے مطالبے شروع کر دیئے تھے تو نظم وضبط کے لحاظ سے اطمینان اپنی ذات میں کافی نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ مجلس شوری کی اجتماعی شخصیت اس میں شامل ہونے والوں کی شخصیت کا مجموعہ ہے.اگر اس میں شامل ہونے والوں کی سوچیں غیر متقیانہ ہوں اور ان کی نگرانی اچھی نہ ہو تو کسی وقت بھی وہ مجلس کا مزاج بگاڑ سکتے ہیں.اس پہلو سے جو ممبر بنتے ہیں ان پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اس نظام پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جس نظام سے کوئی منتخب ہو کر مجلس شوریٰ تک پہنچتا ہے.ان خطرات کے پیش نظر آخری اختیار مرکز کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے چاہے تو وہ انتخاب کے مشورے قبول کرے، چاہے تو
خطبات طاہر جلد 14 292 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پہلو سے جماعت کی تربیت بہت عمدہ ہو چکی ہے کہ اگر ان کو یہ علم ہو کہ مرکز سے کسی نام کی نا منظوری آئی ہے تو قطعاً دل میں میں نہیں لاتے اور سرتسلیم خم کر دیتے ہیں.تو جو اجتماعی تقویٰ کا معیار ہے وہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی بلند ہے لیکن انفرادی طور پر جب انتخاب کے وقت ووٹ دیئے جاتے ہیں تو بسا اوقات تعلقات، جنبہ داریاں، رشتے داریاں، دوستیاں وہ ان ووٹوں پر اثر انداز ہو جاتی ہیں.خاص طور پر وہاں یہ زیادہ خطرناک صورت حال پیدا کرتی ہیں جہاں جماعتوں میں بعض گروہ بندیاں ہوئی ہوئی ہوں.بعض خاندانوں کی بعض دوسرے خاندانوں سے لڑائیاں ہوں.بعض خاندانوں کی بعض دوسرے خاندانوں سے چپقلش چل رہی ہو.ایسی صورت میں یا صدر جماعت ہیں وہ اگر نا اہل ہوں تو ان کی نااہلی کی وجہ سے بھی بعض دفعہ افتراق پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ اپنے نیچے قوم کو متحد رکھنا یہ مختلف صلاحیتوں کا تقاضا کرتا ہے اور بعض دفعہ بعض صدروں میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ سب کو ایک خاندان کی طرح ساتھ لے کر چلیں.اس لئے ان کی نا اہلی کے نتیجے میں بھی بعض دفعہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بعض دوست اس صدر کے قریب ہیں اور بعض نسبتا دور ہیں اور یہ تاثرات ضروری نہیں کہ صحیح ہوں بعض فتنہ پرداز ایسے لوگ ہوتے ہیں جوان تاثرات کو ہوا بھی دیتے ہیں اور اس طرح پھر افتراق پیدا کر دیتے ہیں.تو کمزوری جوصدر کی نظم وضبط کی کمزوری یا اس کے ذہن کی روشنی کی کمزوری سے پیدا ہوتی ہے اس کو بد نیتوں کے اندھیرے اور زیادہ گہرا کر دیتے ہیں اور لوگ صفائی سے پھر حالات کو دیکھ نہیں سکتے اور اندھیرے کے نتیجے میں ہمیشہ غلط فیصلے ہوتے ہیں.پھر یہ تو مختصر اس کا پس منظر ہے.جو خلاصہ کلام ہے وہ یہ ہے کہ بسا اوقات جب انتخاب ہو رہے ہوتے ہیں وہاں اس قسم کی مخفی جذبہ داریاں اور تعلقات کے اثرات اپنا اثر دکھا رہے ہوتے ہیں.ایسی صورت میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ جو شخص منتخب ہو وہ پوری طرح تقویٰ کے تقاضوں کے پیش نظر منتخب نہ ہو بلکہ کسی اور وجہ سے منتخب ہوا ہو.یہ سب احتمالات اپنی جگہ مگر اگر ان باتوں کو خود فتنے کا موجب بنا دیا جائے تو اس سے بھی بڑا فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ یہاں ایسی باتیں چلتی ہیں اس لئے جو منتخب عہد یداران ہیں وہ تقویٰ سے گرے ہوئے ہیں اس لئے ہم ان سے تعاون نہیں کریں گے تو یہ پھر فتنہ نہیں بلکہ شیطانی ہے.جس شیطانی کو روکنے کے لئے ہم فتنوں کے رستے روکتے ہیں یہ وہی
خطبات طاہر جلد 14 293 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء شیطانی ہے یعنی بالآخر نظام جماعت سے انسان باغی ہو جائے.پس نیکی کے نام پر بدی پھیلانے والی بات ہے.یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ جن ملکوں میں انتخابات ہونے ہیں یا مجلس شوریٰ ہو رہی ہے وہاں اس پہلو سے ابھی بہت زیادہ نگرانی اور بار بار نصیحت کی ضرورت ہے.اول تو یہ بہت اہم بات ہے کہ اپنے ووٹ دیتے وقت قرآن کریم کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھیں کہ یہ امانت ہے اور امانت کو اس کے حق دار کو دیا کرو اس کے سوا اور کوئی شرط نہیں ہے جو قرآن کریم نے اسلامی ڈیما کریسی کی تصویر کھینچتے ہوئے بیان فرمائی ہے.جب بھی تم ووٹ ڈالو تو اس کو ووٹ دو جو تقویٰ کے لحاظ سے حق دار ہو اور غیر حق دار کو ووٹ نہیں دینا.اس مضمون پر مختلف پہلوؤں سے قرآن کریم کی آیات روشنی ڈالتی ہیں اور یہ واضح کر دیتی ہیں کہ مومن وہ ہے جو قریب ترین رشتے داریوں کا بھی لحاظ نہیں کرتا جب خدا کی خاطر اسے بات کہنی ہو.چنانچہ شہادت کے ضمن میں فرماتا ہے کہ شہادت کے وقت تو مومن کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ رشتے داروں کی رعایت تو در کنار خود اپنے خلاف گواہی دینے پر کھڑا ہو جاتا ہے.اپنی ذات پر اپنے قریب ترین لوگوں کے خلاف گواہی دینے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جو اسلام قائم کرتا ہے اور اس معیار کی رو سے جب بھی انتخابات ہوں وہاں اگر باپ کو بھی ایک بچہ اہل نہیں سمجھتا تو اس کا فرض ہے کہ باپ کے خلاف اپنا ووٹ ڈالے اور کسی کا حق نہیں ہے کہ اپنے کسی رشتے دار یا دوست کو بعد میں اس بات کا طعنہ دے کہ فلاں وقت تم نے میرے حق میں ووٹ نہیں دیا.یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں اس کی ایک جگہ سے مجھے اطلاع ملی کچھ دن ہوئے اور اسی وجہ سے میری توجہ اس طرف پھری کہ ووٹ انتخاب کے بعد جو ایک شخص ہار گیا اس کو پتا چلا کہ اس کے قریبی رشتے داروں نے اس کے خلاف ووٹ ڈالے تھے تو ان کے گھر گیا.وہاں بڑا اس نے شکوے شکایتیں کیں کہ تم لوگ کیا چیز ہو میرے عزیز رشتے دار ہو کے تم لوگ ہی مجھے لے ڈوبے حالانکہ یہ ان کو لے ڈوبنے والا تھا وہ بچ گئے ہیں اللہ کے فضل سے.الٹا قصہ ہے تو جہاں بھی انتخابات میں تعلقات، رشتے داریاں وغیرہ اثر انداز ہوں گی وہاں نظام جماعت کی زندگی پر حملہ ہوگا.اسی حد تک نظام جماعت بیمار ہو گا بیمار اور صحت مند وجود میں بڑا فرق ہوا کرتا ہے.نچلی سطح آپ اپنی صحت درست کر لیں تو جماعت کی جو اجتماعی طاقت ہے اس میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا اور یہ کوئی فرضی
خطبات طاہر جلد 14 294 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء باتیں نہیں ہیں ، عین حقیقت کی باتیں ہیں، سو فیصد درست ہیں.ہر قطرہ احمدیت کا جو یہ سمندر بنا رہا ہے وہ قطرہ صالح ہونا چاہئے اگر وہ صالح ہو جائے تو سمندر صالح رہے گا.اگر اس میں آمیزش آجائے گی تو اسی حد تک سمندر کا پانی غیر صحت مند ہوتا چلا جائے گا.پس انتخابات کے وقت جو عہدیداران کے ہوں یا مجلس شوری کے ہوں اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ کسی قسم کی کوئی رعایت، کوئی تعلقات کا واسطہ انتخابات پر اثر انداز نہ ہواور کیا ہو؟ اس کے متعلق قرآن فرماتا ہے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنفُسِكُمْ (الحجرات :14) کہ تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.تو سب سے زیادہ متقی کو آگے لانا ہے اور اس میں یہ بحث نہیں آئے گی کہ چالاک کون ہے یا دنیا کے لحاظ سے کون اہلیت رکھتا ہے کیونکہ اکثر لوگ یہ بات نہیں سمجھتے کہ دنیا کی چالاکیوں سے عاری شخص جو متقی ہو اس کے کام میں ہمیشہ زیادہ برکت ہوتی ہے بہ نسبت ایک تقویٰ سے عاری چالاک شخص کے.تقویٰ سے عاری چالاک شخص کے ہاتھ میں تو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے.نہ نظام جماعت کی قدریں محفوظ ہیں، نہ جماعت کے اموال محفوظ ہیں اور وہ فتنوں کا موجب بن جاتا ہے اور بن سکتا ہے لیکن بظاہر ایک سادہ انسان ہو، متقی ہو خدا کا خوف رکھتا ہو اس کے ہاتھ میں کچھ بھی غیر محفوظ نہیں ہے.ساری جماعت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی بعض کام کسی کے سپرد کئے گئے ہیں جو تقویٰ رکھنے والے تھے خواہ وہ علم کے لحاظ سے ادنی حیثیت رکھتے تھے ان کے کاموں میں برکت پڑی ہے اور چالاک علماء کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا بلکہ وہ ہمیشہ نقصان کا موجب ہی بنے رہے ہیں.ایک تو یہ خیال دل سے نکال دیں کہ چالاکیاں کام آسکتی ہیں اس لئے آپ کو چالاک آدمی کو چننا چاہئے.جتنا چالاک ہو، تقوی سے عاری ہو اتنا ہی زیادہ خطرناک ہے.اس کو نظام کے قریب تک نہ پھٹکنے دیں.دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ یہ آپ کا غلط اندازہ ہے کہ تقویٰ اور بیوقوفی اکٹھے ہو سکتے ہیں.تقویٰ اور بے وقوفی اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے.وہ بے وقوف ہے جو تقویٰ سے عاری ہوتا ہے.اگر ہوشیار ہوتا اور عقل والا ہوتا تو ناممکن تھا کہ تقویٰ کے بغیر زندگی بسر کرتا.اول تو سفر کا آغاز ہی عقل سے شروع ہوتا ہے جو اولوالالباب لوگ ہیں وہی ہیں جو خدا کا مقام اور مرتبہ پہچانتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اس کا خوف رکھتے ہیں اور اگر وہ عقل والے نہ
خطبات طاہر جلد 14 295 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء ہوتے تو تقویٰ کو اختیار کیوں کرتے.پس محض مجہول کی حیثیت رکھنا یہ تقویٰ کی نشانی نہیں ہے.تقویٰ کے نتیجے میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے، ایک فراست پیدا ہوتی ہے، باتوں میں ایک گہرائی پیدا ہو جاتی ہے.پس تقویٰ کی پہچان اس پہلو سے اگر چہ مشکل ہے لیکن روزمرہ کے تجربے میں آنے والے لوگوں کو سمجھنے کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں.ایک ایسا شخص جس کے ساتھ واسطہ پڑتا ہواور پتا ہو کہ جب بولے گا سچ بولے گا اس کو آپ تقوی سے خالی نہیں کہہ سکتے.ایک ایسا شخص جس کے پاس جب آپ امانت رکھوا دیں تو پتا ہے کہ وہ امانت میں خیانت نہیں کرے گا.ایک ایسا شخص جس کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ اسے اپنی بڑائی کی کوئی بھی خواہش نہیں اور اس میں انکسار پایا جاتا ہے، کسی قسم کا کوئی تکبر نہیں ہے.ایک ایسا شخص جو نظام جماعت کے سامنے ہمیشہ سرتسلیم خم کرتا ہے اور کسی جنبہ داری میں کسی تفرقہ بازی میں کوئی حصہ نہیں لیتا ، اس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہ تقویٰ کی ظاہری علامتیں ہیں اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ ظاہری علامتوں ہی سے ایک انسان کا تقویٰ پہچان سکتا ہے حقیقت تقویٰ کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں اور علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (الحشر : 23 ) کا ایک یہ بھی مضمون ہے.آج میں نے اس آیت کو حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں اپنے خطبے کے لئے موضوع بنایا تھا مگر اب چونکہ مضمون دوسرا شروع ہو چکا ہے اس لئے وہ انشاء اللہ آئندہ خطبے میں بات کروں گا.مگر یہاں یہ یاد رکھیں کہ اس مضمون کا تعلق کسی کے تقویٰ کی پہچان سے بھی ہے.علم الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا مطلب یہ ہے کہ تم بسا اوقات ایک شخص کو نیک سمجھ رہے ہوتے ہو مگر وہ خدا کی نظر میں نیک نہیں ہوتا.تم بظاہر ایک شخص کو بد سمجھ رہے ہوتے ہومگر وہ خدا کی نظر میں بد نہیں ہوتا.غیب کا علم بھی وہی رکھتا ہے اور جو تمہیں دکھائی دیتا ہے اس میں تمہارے دیکھنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں تو تم نہ غیب کا علم رکھتے ہو نہ ظاہر کا علم رکھتے ہو.اس آیت کی روشنی میں پھر لوگ کہہ سکتے ہیں کہ پھر ہمارے معیار کا کیا نتیجہ نکلے گا.جس معیار پر ہم قائم ہیں اس معیار کے پیش نظر جو فیصلے کریں گے ان کی صحت کی کیا ضمانت ہے.تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں تک عمومیت کا تعلق ہے عمو مامومنوں کے فیصلے اللہ کے فیصلے کے مطابق ہوتے ہیں اور متقیوں کے فیصلے خدا کے فیصلے کے مطابق ہوا کرتے ہیں.اس لئے ان کا انفرادی فتویٰ ہر شخص کے متعلق تو نہیں چل سکتا کہ جس کو کوئی نیک آدمی کہہ دے یہ ضرور متقی ہے، وہ ضرور متقی نکلے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر عمومی طور پر تقویٰ ایک روشنی بخشتا ہے جس کے متعلق
خطبات طاہر جلد 14 296 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرنا فانه يرى بنور الله ترندی کتاب النفسيه حدیث نمبر: ۳۰۵۲) وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.اب یہاں اللہ کے نور سے دیکھنے کا کیا مطلب ہے؟ اصل مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنا تو دیکھنے کا نور کچھ رکھا ہی نہیں.جو خدا کی طرف سے اس کو بصیرت ملی ہے، جو خدا تعالیٰ کی محبت کے تقاضے ہیں ان سے وہ جانچتا ہے.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا نور ہے ہی وہی جو اللہ کا نور ہے.اس میں اس نے دو چیزیں ملا نہیں دیں.اپنی ذات کے نور کو الگ قائم نہیں رکھا بلکہ کلیۂ خدا کے نور کے تابع کر دیا ہے.اگر اس پہلو سے کوئی شخص خدا کی نظر سے دیکھنے کا عادی بن جائے تو کہا جائے گا کہ یہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور اس کا فیصلہ درست ہوتا ہے بالعموم کیونکہ وہاں پھر اس آیت کی عمل پیرائی ہوگی کہ اللہ ہی ہے جو شہادہ کو بھی جانتا ہے اور غیب کو بھی جانتا ہے.اس لئے ایسے شخص کا یہ دعوی کرنا تو غلط ہے کہ میں اللہ کے نور سے دیکھتا ہوں اس لئے جس کے متعلق میں بات کروں اس کو مان جاؤ.جو یہ بات کرے گا وہ ایک بات تو ثابت کر دے گا کہ وہ اللہ کے نور سے نہیں دیکھتا کیونکہ اللہ کے نور سے دیکھتا تو بندے کے متعلق یہ دعوی نہ کرتا اور اپنی ذات کے متعلق یہ دعویٰ نہ کرتا کیونکہ دعوے کا جہاں تک تعلق ہے قرآن کریم فرماتا ہے فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ (الحجر: 33) تم اپنے آپ کو بھی پاک نہ کہا کرو، اپنی ذات کو بھی پاک نہ ٹھہرایا کر و هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُی (الحجر:33) ایک ہی ہے وہ جو جانتا ہے کہ کون متقی ہے.پس بہت ہی باریک مضمون ہے الجھا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں الجھا ہوا نہیں.اس کو میں کھول کر جب آپ کے سامنے رکھتا ہوں تو آپ کو ہمیشہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہاں یہی بات ہمارے دل میں بھی ہونی چاہئے تھی یا تھی اور بات واضح ہو جاتی ہے.تو اول تو یہ بات یا درکھیں کہ آپ اگر خود متقی ہوں تو آپ کا فیصلہ غلط بھی ہوگا تو اللہ اس کو ٹھیک کر دے گا.لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ نے اپنی ذات میں تقویٰ سے فیصلہ کیا ہو.اس لئے آپ کو یہ ضمانت تو نہیں ہے کہ آپ کا ہر فیصلہ درست ہوگا ہرگز نہیں ہے.کئی آدمی متقی بھی ہوتے ہیں لیکن دینی فرق اپنی جگہ ہیں.متقی بھی ہوتے ہیں بھولے بھی ہوتے ہیں، کئی آدمی متقی بھی ہوتے ہیں اور صاحب فراست بھی ہوتے ہیں تو ان کا اپنا ذاتی معیار تقویٰ کے نور سے چمک اٹھتا ہے مگر اتنا ہی چمکتا ہے جتنا ان کا معیار ہے ،اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے.
خطبات طاہر جلد 14 297 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء پس آنحضرت ﷺ کو جو سارے دوسرے عالم پر فوقیت ملی ، انبیاء یہ بھی فوقیت ملی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ کا ذاتی نوراپنی ذات میں ہی اتنا روشن تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آسمان سے شعلہ نور اس پر نہ بھی اترتا تب بھی وہ بھڑک اٹھنے کے لئے تیار تھا.تو ہر شخص کی اپنی فراست کا ایک مقام ہے اللہ کا نور اس مقام کو روشن کر دیتا ہے.اگر کسی آنکھ کی بینائی کم ہو تو اس کو بھی سورج کا نورہی روشن کرتا ہے.اگر کسی کی آنکھ کی بینائی زیادہ ہو تو اس کو بھی تو سورج کا نور ہی روشن کرتا ہے لیکن فرق ہے.ایک روشن بینائی والا انسان اس نور سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے جو ایک کم بینائی والا انسان اٹھا ہی نہیں سکتا.تو اس لئے یہ کہ دینا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ نے یہ فتوی صادر فرمایا ہے کہ ہر متقی خدا کے نور سے دیکھتا ہے اس لئے ان کی رائے میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا اور ہر متقی کا یہ دعوی ہوگا کہ میری رائے درست ہے، یہ ساری باتیں نا کبھی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں.اگر آپ گہرائی میں اتر کے معاملات کی ، رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کی روشنی میں سارا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کریں تو کوئی بھی ابہام باقی نہیں رہتا.پس آپ نے فیصلہ تقویٰ سے کرنا ہے یہ ہے وہ بنیا د اور چونکہ آپ عالم الغیب اور عالم الشهادہ نہیں ہیں اگر تقویٰ میں رہتے ہوئے غلطی ہوتی ہے تو اس کی سزا خدا آپ کو نہیں دے گا.ایک شخص بے چارہ نظر کی کمزوری کی وجہ سے ٹھوکر کھاتا ہے اور کہیں گر جاتا ہے تو نقصان تو اس کو ہوتا ہے مگر سزا نہیں ملتی.ایک شخص اگر جان کے بالا رادہ کسی گڑھے کی طرف جاتا ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے بیٹھتا ہے تو پھر اس کو سزا بھی ملے گی، نقصان تو پہنچے گا لیکن سزا بھی ملے گی.تو سزا اور طبعی نقصان دو الگ الگ چیزیں ہیں.پس ایسا شخص جو زیادہ بصیرت نہ رکھتا ہو وہ متقی بھی ہوتو بعض دفعہ غلطی سے غلط فیصلے کر سکتا ہے مگر خدا کی طرف سے اس پر پکڑ نہیں آئے گی اور من حیث الجماعت جن کی تربیت اللہ نے اپنے ایک مرسل اور مہدی کے ذریعے کی ہو.بحیثیت جماعت ان کی اکثریت خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تقویٰ پر قائم رہتی ہے اور یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ تقویٰ پر قائم رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے انتخاب کو خدا کا انتخاب کہا جاتا ہے.اگر یہ توقع درست نہ ہوتو وہ نتیجہ بھی غلط ہو جائے گا جو ہم نکالتے ہیں کہ چونکہ متقیوں کی جماعت اپنا خلیفہ چنتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انتخاب پر صاد ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں ان کا نور اور خدا کا نور ہم آہنگ ہو جاتے ہیں.وہی نور
خطبات طاہر جلد 14 298 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء جوخدا کا نور ہے اس نے جو فیصلہ کرنا تھا وہی فیصلہ متقی اس لئے کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں.تو جماعت کی حیثیت سے اس بات کی ضمانت ہے اور انشاء اللہ اگر ہم ہمیشہ نگران رہیں، کوشش کرتے رہیں ، دعائیں کرتے رہیں تو بہت لمبے عرصے تک جو ہزار سال سے بھی بڑھ سکتا ہے جماعت انشاء اللہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے صحیح فیصلے کیا کرے گی مگر نگرانی کی ضرورت ہے اور مجلس شوری اس میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے.اگر مجلس شوری کے انتخاب کے وقت پوری محنت کے ساتھ اور کوشش کے ساتھ سوچ کر ،فکر کر کے انسان یعنی ہر فرد یہ کوشش کرے کہ اپنے میں سے وہ چنے جس کو وہ سمجھتا ہے کہ اللہ کے قریب تر ہے، جس کے متعلق اس کا اندازہ ہے.اب اگر یہ نیکی سے اندازہ لگاتا ہے، سچائی سے اندازہ لگاتا ہے تو بقیہ کی ضمانت اللہ اس طرح بھی دیتا ہے اس کے فیصلے کی غلطی کو کامیاب نہیں ہونے دیتا.اس کا ووٹ تو ہوگا اس پر اس کو سزا نہیں ملے گی مگر اکثر کے دل خدا اس طرح مائل فرما دیتا ہے کہ ایک آدمی کی سادگی کی غلطی جماعت کو نقصان نہیں پہنچا سکتی.یہ ایک قطعی بات ہے اس میں کوئی بھی شک کی گنجائش نہیں.ساری سو سالہ جماعت کی تاریخ بلکہ اس سے پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے سے تاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ متقیوں کے فیصلے میں اگر غلطی بھی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان کے فیصلوں کی اصلاح فرما دی اور من حیث الجماعت جماعت کو ان کا نقصان نہیں پہنچنے دیا.پس مجلس شوریٰ جہاں بھی منعقد ہو رہی ہو یا آئندہ ہو اس کے انتخاب سے بات شروع ہوتی ہے.وہاں سب سے زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے تقویٰ کی اور اگر جماعت کے علم میں ایسے لوگ ہوں جن کا ماضی اس پہلو سے داغ دار ہو تو امیر جماعت کا فرض ہے کہ وہ انتخاب کی کارروائی کی رپورٹ بھیجتے وقت دیانتداری سے بتائے کہ میرے نزدیک فلاں شخص جو منتخب ہوا ہے اس میں یہ عادت ہے.اس طرح وہ پارٹیوں میں شامل ہوتا ہے.اس طرح اب تک اس نے بعض دفعہ ایسی حرکات کی ہیں جس سے جماعت کے وقار کو نقصان پہنچا ہے.اگر امیر یہ لکھے تو پھر اس کا نام منظور نہیں ہوگا لیکن بعض دفعہ امراء یا دوسرے عہدیداران سمجھتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت ہے بڑا بننے کی.جہاں یہ کہا وہاں آپ تقویٰ سے گر گئے اور تقویٰ سے گرے تو ان کو اس عہدے سے بھی گرنا چاہئے تھا جو متقیوں کے لئے ہے.مگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا عہدہ اپنی جگہ اور یہ ہوشیاری ہماری اپنی
خطبات طاہر جلد 14 299 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 1995ء جگہ کہ ایسی بات نہ کریں کہ خواہ مخواہ آبیل مجھے مار، لوگوں کو اپنا دشمن بنا ئیں.پس تقوی کا اس سلسلے میں دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اگر غلط آدمی منتخب ہو رہا ہو تو دیانت داری کے ساتھ قطع نظر اس کے کہ کوئی دوست بنتا ہے یا دشمن بنتا ہے ،اس وقت صورت حال نظام جماعت کی معرفت او پر پہنچائی جائے.اس کا ایک برعکس بھی ہے جو اکثر چلتا ہے.یہ بات تو نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے.جو نہیں ہونی چاہئے وہ دکھائی دیتی ہے کہ بعض لوگوں کی پسند کا آدمی نہیں آتا تو وہ عہد یدار نہ بھی ہوں ان کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی رپورٹیں کریں مگر وہ ضرور اپنا بغض نکالتے ہیں.لمبی لمبی چٹھیاں لکھ دیتے ہیں.بعض دفعہ چودہ چودہ صفحے کے خط آتے ہیں کہ یہ شخص جس کا انتخاب ہوا ہے ہم آپ کو متنبہ کر رہے ہیں بڑا خبیث آدمی ہے ،اس قسم کا آدمی ہے ، اس طرح یہ جھگڑالو، اس طرح اس نے شرارتیں کیں اور حال یہ ہے کہ بعض پندرہ پندرہ سال پرانے واقعات بھی لکھتا ہے وہ.یعنی واقعہ ایسے پرانے واقعات بھی ادھیڑ ادھیر کر نکالے گئے.میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمہارا تقویٰ اس وقت کیا کر رہا تھا جب پہلی دفعہ اس کی برائی سامنے آئی تم کیوں سوئے ہوئے تھے.اگر تم نے اس وقت نظام جماعت کی معرفت اپنا حق ادا نہیں کیا تو آج تمہارا کوئی حق نہیں ہے کہ اپنی زبان کھولو.اس لئے کہ اب تمہارے ساتھ براہ راست اس کا مفاد کرایا ہے.تمہیں خطرہ ہے کہ ایسی جماعت میں اگر یہ اوپر آیا تو پھر میرے جو روز مرہ کے معاملات ہیں ان پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اس لئے تمہیں پرانی باتیں یاد آ گئی ہیں.اس لئے یہ بھی یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ پرانی باتیں اگر کسی شخص میں ایسی ہوں جن کا نظام جماعت کے سامنے آنا ضروری ہو تو جس وقت وہ ہوں اس وقت آنی چاہئیں.بعض دفعہ جرمنی ہی کی بات ہے ایک دو سال پہلے کی بات ہے کہ جب اختلاف ہوا ایک عہدیدار سے تو مجھے چٹھیاں آئیں کہ یہ عہدیدار، یہ تو اس قسم کا آدمی ہے اور اس قسم کا آدمی ہے اور ایسے ایسے خوفناک الزام تھے کہ اگر شریعت اسلامیہ نافذ ہوتی تو اس کو اسی (80) کوڑے ضرور پڑتے اور تقویٰ کا یہ حال کہ اب خیال آیا ہے کہ یہ عہدیدار بن رہا ہے اور پرانی ساری داستان کہتا ہے میری آنکھوں کے سامنے گزری ہے اور اس وقت کان کے اوپر جوں تک نہیں رینگی.جب میں کہتا ہوں اطلاع دو تو میں اس قسم کی ذلیل جاسوسیوں کی تحریک آپ کو نہیں کر رہا.یہ باتیں تو آپ کرتے ہیں جن کو میں دبانے کی کوشش کرتا ہوں.یہ تو تکلیف دہ باتیں کئی
خطبات طاہر جلد 14 300 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء دفعہ سامنے آتی ہیں میں سمجھاتا ہوں کہ یہ کوئی طریق نہیں ہے خدا کا خوف کرو اور اپنی بد نیتوں کو نظام جماعت کے نام پر استعمال نہ کرو لیکن وہ متقی لوگ جن کا بعض لوگوں سے نہ دوستی کا تعلق ، نہ دشمنی کا تعلق ، وہ ذمہ دار بنائے گئے ہیں کہ بعض اہم اطلاعیں خاص آدمیوں سے تعلق رکھنے والی جب ان کے سامنے آئیں تو میرے سامنے پیش کریں.تو بسا اوقات امیر کو ایک آدمی کے عام حالات کا پتا ہی نہیں ہوتا مگر جب وہ عہدیدار منتخب ہوتا ہے تو اس کے متعلق بصیغہ راز بعض اطلاعیں ملتی ہیں.اس وقت اس کا فرض ہے کہ ان اطلاعوں کو آگے پہنچائے تا کہ ابتدائی پہلو سے جس حد تک چھان بین ممکن ہے ہم چھان بین کے بعد ان لوگوں کو اوپر آنے دیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مومنوں کی نظر میں ، دل کی سچائی کے ساتھ ان کی نظر میں ، وہ اچھے پاک لوگ ہیں.ایسے لوگ جب مجلس شوری میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر آگے ان پر ابتلاء کا دور شروع ہو جاتا ہے.وہاں جو وہ باتیں کرتے ہیں بسا اوقات نیک لوگ بھی جب بحث میں پڑ جائیں تو اختلاف میں اپنے آپ کو غالب کرنے کے لئے ان کی سوچیں ٹیڑھی ہونے لگ جاتی ہیں.اس وقت یہ پیش نظر نہیں رہتا کہ جماعت کا مفاد اس میں ہے.اس وقت یہ پیش نظر ہوتا ہے کہ میری بات مانی جائے اور میں جیت جاؤں اور اس کے بعد اگر وہ جیت جائیں تو ان کی خوشی ، ان کا اطمینان ، ان کے چہرے کی مسکراہٹیں ، ان کے عدم تقویٰ پر گواہ بن جاتی ہیں اور اس کے برعکس بعض ایسے لوگ ہیں جو جیتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں، دل شرمندہ ہوتے ہیں کہ ایک شخص کے موقف کے خلاف مجھے اتنی محنت کرنی پڑی لیکن چونکہ محض اللہ تھی اس لئے اس کی کامیابی پر دل کا اطمینان وہ فخر کی مسکراہٹیں نہیں بن سکتا.ہمیشہ انکسار میں رہتا ہے اور ایک قسم کی شرمندگی رہتی ہے.مگر جب بھی ایسا موقع آئے گا وہ پھر ضرور وہ بات کریں گے اور بسا اوقات ایسے لوگوں کو بعض دفعہ اس کا یہ نقصان پہنچتا ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں انہوں نے ہمارے خلاف باتیں کی تھیں تو اپنے تعلقات بھی کم کر لیتے ہیں لیکن جب وہ تعلقات کم کرتے ہیں تو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ ایک متقی سے جب تعلق کم کرتے ہیں تو خدا سے تعلق کم کرتے ہیں.اس متقی وجود کی ذاتی حیثیت ، کنہہ کو سمجھیں.جو شخص دل کے تقویٰ کے ساتھ اللہ کی خاطر سچی بات بیان کرتا ہے جانتا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ دوست جو دوسرا موقف پیش کر رہا ہے اس کے دل پر بُرا اثر پڑے گا ، جانتا ہے کہ ہوسکتا ہے ہمارے تعلقات پر برا اثر
خطبات طاہر جلد 14 301 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء پڑے.اگر اس کی سچائی کی سزا میں ان کے دوست اس سے بدظن ہوتے ہیں، پیچھے ہٹتے ہیں تو یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں وہ خدا سے بدظن ہوتے ہیں، خدا سے پیچھے ہٹتے ہیں کیونکہ اللہ ایسے لوگوں کی حفاظت فرماتا ہے جو اس کی خاطر سچائی پر قائم رہتے ہیں ان کو کبھی نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور ہمیشہ ان کی حفاظت فرماتا ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب مناظرہ ہوا،سب سے پہلا مناظرہ محمد حسین بٹالوی صاحب کے ساتھ ، تو کتنا بڑا ایک مجمع تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اہل سنت کا نمائندہ بنا کر وہ اہل حدیث مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے خلاف مناظرے کے لئے لے کے گیا اور ان کو یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود کی ایسی فراست ہے، ایسا علم ہے.اس وقت تک کافی شہرہ ہو چکا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی کوئی حیثیت ہی نہیں اس کے مقابل پر.وہاں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو سوال فرمایا کہ آپ بتائیں قرآن اور حدیث کا آپس میں کیا رشتہ ہے.تو جو جواب دیا مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے وہ بالکل وہی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عقیدہ تھا جو ہونا چاہئے تھا.آپ نے فرمایا آپ ٹھیک کہتے ہیں اور بات ختم ہوگئی.اس پر اتنا شور پڑا ، وہ لوگ جو حمایتی بن کے آئے تھے وہ حیران رہ گئے کہ انہوں نے تو ہمیں ذلیل اور رسوا کر دیا.یہ ہار گئے اور مولوی محمد حسین بٹالوی جیت گیا.مگر اللہ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ وہ جو الہام ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا وہ اس موقع سے تعلق رکھتا ہے.” یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.پس اللہ تعالیٰ اپنی حمایت میں بولنے والے، اپنی حمایت میں شرمندگی قبول کرنے والے کو کبھی خالی نہیں چھوڑتا اور جو شخص اس وجہ سے دشمنی کرے کہ اس نے خدا کی خاطر اس کو ناراض کرنے کی جرات کی ہے وہ خدا کو اپنا دشمن بنالیتا ہے.پس نظام جماعت میں مجلس شوری کے اندر جب باتیں ہوں تو ہر گز کسی کے اختلاف کا برانہیں منانا اور نہ آپ کی بات کا دوسرا برا منائے نہ آپ اس کی بات کا برا منائیں اور برا منانے کا جہاں تک تعلق ہے بسا اوقات انسان پکڑ نہیں سکتا مگر طرز کلام سے بھی ظاہر ہو جاتا ہے.جب آپ باتیں کرتے ہیں تو باتوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے.بعض دفعہ نام لیتے وقت ادب کے تقاضے چھوڑ دیتے ہیں اور جوش جو ہے وہ ابلنے لگتا ہے.یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اب
خطبات طاہر جلد 14 302 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء آپ اس دماغی حالت میں نہیں ہیں کہ جہاں اطمینان سے فیصلے کرسکیں اور مجلس شوری کا مقصد ہی ختم ہو گیا وہاں سے.اس لئے جب آپ بات کریں اختلاف پہ حوصلہ کریں ، حوصلے سے برداشت کریں اور اللہ اختلاف کی خاطر، اختلاف کو عزت دیں، اختلاف کرنے کی حوصلہ شکنی نہ کریں.مگر یہ بات یا درکھیں کہ اختلاف کے بعد جب فیصلہ ہو جائے تو پھر آپ سب کے دل اس فیصلے پر اکٹھے ہو جانے چاہئیں.اس کے بعد اگر کوئی ادنی سی بات بھی آپ کے دل کی اس فیصلے کی حدود سے باہر نکل کر کوئی پرا پیگنڈہ کرتی ہے یا لوگوں میں بدظنی پیدا کرتی ہے یا اس فیصلے کی تائید میں جو آپ کا فیصلہ تھا ، اس اجتماعی فیصلے کے خلاف باتیں کرتے ہیں جس پر خلیفہ وقت کی طرف سے صاد ہو جاتا ہے تو پھر آپ اس جماعت کا حصہ نہیں رہتے.آپ کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے.اگر چہ ظاہری طور آپ کو جماعت سے خارج کیا جائے یا نہ کیا جائے ایسی صورت میں آپ کا جماعت سے رستہ الگ ہو جاتا ہے.تو یا د رکھیں فیصلے تقویٰ سے کریں.مشورے جرات سے خدا کی خاطر دیں.اپنی زبان پر ادب کے پہرے بٹھا ئیں.کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جس میں تلخی پائی جائے ، جس کے نتیجے میں کسی کی دل آزاری ہو اور نہ اپنی دل آزاری ہونے دیں.اگر کوئی آپ کے خلاف دل آزاری کی بات کرتا ہے تو برداشت کریں.خدا کی خاطر صبر کریں کیونکہ اس میں پھر آپ کو اللہ کی طرف سے بہت بڑی جزا ملے گی اور پھر جو بھی فیصلہ ہو اس پر سر تسلیم خم کریں اور جب مجلس شوریٰ کا فیصلہ ہو تو اسے آخری فیصلہ نہ سمجھیں.یہ بھی ایک بہت اہم بات ہے جسے تمام مجالس شوری کے ممبران کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے بلکہ ساری جماعت کو، یہ شوری دنیا کی پارلیمنٹ نہیں ہوتی کیوں مجلس شوری سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو حکم دیا تھا کہ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران : 160) کہ تو ان سے صلى الله مشورہ مانگ.اس لئے اگر محمد ﷺ اس حکم کے تابع ہیں تو کون ہو سکتا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا غلام ہو اور اس حکم کے تابع نہ ہو.اس لئے خلیفہ وقت پر لازم ہے کہ تمام اہم امور میں جن کو مشورے کا اہل سمجھے ان سے فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ کر لیا کرے.یہ نظام تو جیسے گزشتہ مجلس شوری پاکستان کے موقع پر میں پہلے سمجھا چکا ہوں.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب مجلس شوری فیصلے کرتی ہے تو یہ
خطبات طاہر جلد 14 303 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء ان کی حیثیت ہوتی ہے خلیفہ وقت کو وہ فیصلہ بطور مشورہ بھیجا جاتا ہے.ایک فیصلہ ہے مقامی طور پر ، مقامی طور پر وہ فیصلہ ہو چکا.اس فیصلے کے خلاف کسی کو کچھ کہنے کا وہاں حق نہیں ہے اور سر تسلیم خم کر دینا چاہئے.ایک امکان موجود ہے کہ مجلس شوری کا کوئی ممبر یہ سمجھتا ہے کہ اختلاف کی وجہ اتنی اہم ہے کہ جماعت کے گہرے مفادات سے تعلق رکھتی ہے تو مجلس شوری کے صدر سے درخواست کر کے اپنا یہ حق محفوظ کروا سکتا ہے کہ میں خلیفہ اُسیح کی خدمت میں یہ اختلافی وجہ لکھوں گا اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے.صدر مجلس کو سوائے اس کے کہ صدر کا فیصلہ یہ ہو کہ یہ انسان اس لائق نہیں ہے، کسی وجہ سے وہ اس کو اجازت نہ دے تو پھر اس کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے مگر پھر صدر کا فرض ہو گا کہ جس کو اجازت نہ دیں اس کے متعلق خلیفہ وقت کو مطلع کرے یہ واقع ہوا تھا اور میں نے اجازت نہیں دی تا کہ خلیفہ وقت کا جو بالا حق ہے وہ محفوظ رہے.اگر وہ سمجھے کہ ہو سکتا ہے صدر کا فیصلہ غلط ہو تو خود کہہ کر اس سے اختلافی نوٹ منگواسکتا ہے.تو بہت ہی کامل نظام ہے یہ.ایسا نظام نہیں ہے جو اتفاقاً پیدا ہوا ہے.قرآنی تعلیم کے مطابق ایک رخنوں سے پاک نظام ہے جو خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ میں جاری ہے تو جب وہ فیصلہ جو وہاں ہو چکا ہے اور اس پر کوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھوایا گیا خلیفہ وقت کی خدمت میں پہنچتا ہے تو فیصلے کے طور پر نہیں ، مشورے کے طور پر.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (آل عمران : 160) اے اللہ کے رسول ملے پھر جب یہ فیصلہ کرے یعنی مشورہ آ گیا اب فیصلہ تو نے کرنا ہے.اب یہ جو انتہائی اہم بات ہے یہ صرف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال تک نہیں پہنچتی بلکہ آپ کے غلاموں میں اور آپ کی نمائندگی میں نظامِ جماعت کے منصب پر فائز لوگوں تک بھی یہ الله سلسلہ جاری رہتا ہے.یہ وہ بنیادی بات ہے جو گزشتہ خطبے میں جو شوری سے تعلق تھا میں کھول کر بیان الله کر چکا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے خلفاء نے بھی بعینہ یہی مطلب نکالا اور مشورے سننے کے بعد یا قبول کرتے تھے یار د کرتے تھے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ اکثریت کا مشورہ اس بات کے حق میں ہے اور اقلیت کا اس بات کے حق میں ہے.یہاں تک کہ ایک بھی اختلاف نہ ہو تب بھی آپ کے خلفاء نے مشورے رد کئے ہیں اور آنحضرت اللہ نے بھی ایسے مشورے رد کئے ہیں جس پر صحابہ کا پورا اتفاق تھا مثلاً عمرہ کے لئے جب بیت اللہ کے طواف کے لئے حاضر ہونا تھا تو صلح حدیبیہ کے میدان میں یہ عظیم
خطبات طاہر جلد 14 304 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء صل الله تاریخی واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ تمام صحابہ کی متفقہ رائے کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے رد فرما دیا کیونکہ خدا نے مختلف سمت میں آپ کو عزم عطا کیا تھا ہمت کا عزم بخشا تھا.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى اللهِ کا یہ مطلب نہیں کہ جب تو مشورہ قبول کرلے تو پھر تو کل کر.فرمایا مشورہ کے بعد تو نے فیصلہ کرنا ہے پھر جو فیصلہ کرے اس پر اللہ کا تو کل رکھنا کہ اللہ تمہارے ساتھ ہوگا اور یہی تو کل حضرت ابو بکر صدیق نے اختیار کیا جبکہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد ایک لشکر کو بھیجنے کا مسئلہ اٹھا جو بہت دور کے کسی محاذ پر بھیجا جانا تھا.تمام صحابہ بلا استثناء اس بات کے حق میں تھے کہ ماحول بگڑ چکا ہے ، حالات ناسازگار ہیں، اہل مدینہ کے لئے خطرات ہیں،اس لئے کچھ دیر کے لئے اس لشکر کو روک دیا جائے.ایک حضرت ابوبکر تھے جو اس بات پر قائم تھے کہ الله محمد رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ میں کون ہوتا ہوں ابن ابی قحافہ جو اس کو رد کر دے یا اسے ٹال سکے.آپ نے فرمایا یہ نہیں ہوگا، یہاں تک فرمایا کہ مدینے کی گلیوں میں صحابہ کی اور ان کی عورتوں کی اور ان کی بچوں کی اگر کتے لاشیں گھسیٹتے پھریں ، یہ خطرہ بھی ہو تب بھی میں محمد رسول اللہ اللہ کے فیصلے کو نہیں بدلوں گا ، یہ لشکر جائے گا.فَتَوَكَّلُ عَلَى اللهِ تو کل کیا اور توکل کا ایسا عظیم الشان نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال دکھائی نہیں دیتی.سارا عرب تقریباً تقریب باہر کا وہ عملاً باغی ہو چکا تھا اور کس طرح اس بدامنی کی حالت کو خدا نے خلافت کے ذریعے پھر امن میں تبدیل فرما دیا.تو توکل علی اللہ کا مضمون جو ہے یہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.کوئی یہ نہ کہے کہ مراد صرف یہ ہے کہ رسول اللہ اللہ تک ہے اور اس کے بعد آپ کا یہ فیض آگے جاری نہیں ہو رہا.فیض محمد رسول اللہ ﷺ ہی کا ہے مگر جو بھی بچے طور پر اس منصب پر فائز ہو، جومحمد رسول اللہ ﷺ کی نمائندگی کر رہا ہو اس کو بھی ضرور یہ فیض نصیب رہے گا اور ہم نے ماضی میں دیکھا ہے ہمیشہ نصیب رہا ہے.تمام چھلی خلافتوں کے دور کا آپ مطالعہ کر کے دیکھ لیں بلا استثناء جب بھی خلیفہ نے مجموعی رائے یا اکثریت کی رائے کے خلاف فیصلہ دیا ہے اسی فیصلے میں برکت ، اسی فیصلے کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی جو فیصلہ اس نے تو کل کرتے ہوئے اکثریت کے خلاف دیا.تو اس بات پر قائم رہیں.ایک افریقہ کا ملک ہے جہاں اس وقت جلسہ ہورہا ہے وہاں مجلس شوریٰ بھی ہوگی وہاں امیر
خطبات طاہر جلد 14 305 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء کا انتخاب بھی ہوگا تو جو نئے آنے والے ہیں اب ضرورت ہے کہ ان کی ٹھوس تربیت اس بات پر ایسی کی جائے کہ ساری دنیا کی جماعتوں کا ایک مزاج ہو جائے.کالے اور گورے کا فرق ہی نہ رہے.افریقہ امریکہ کی کوئی تمیز باقی نہ رہے.مشرق اور مغرب ایک نور پر اکٹھے ہو جائیں یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کے اوپر جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ ( النور : 36 ) وہ شرق کا ہے نہ وہ غرب کا ہے.وہ سب کا سانجھا نور ہے.صلى الله اس ضمن میں وہاں انتخاب کے متعلق کچھ اور ہدایتیں بھی دینے والی ہیں.چندے کا نظام ابھی سب جگہ اس طرح مستحکم نہیں ہوا کہ سو فیصدی شرح کے مطابق دینے والے سب پیدا ہو جائیں لیکن چونکہ میں بہت زور دے رہا ہوں کہ نئے آنے والوں سے خواہ ایک دمڑی بھی وصول کروان کو نظام میں داخل ضرور کرو اس لئے وہ شامل ہونے شروع ہو گئے ہیں.انتخاب کے لئے یہ شرط ہوتی ہے کہ با شرح چندہ دینے والا ہو جس کا کوئی بقایا نہ ہو.اس صورت میں دو قسم کے مسائل ہمارے سامنے آرہے ہیں.ایک تو یہ کہ بعض لوگ شرح کے ساتھ چندہ نہیں بھی دیتے یا دیتے ہی نہیں اور آخر پر اکٹھا دے دیتے ہیں.جو آخر پر اکٹھا دیتے ہیں ان کا نام میرے نزدیک انتخاب کے لئے شمار نہیں ہونا چاہئے سوائے اس کے کہ جماعت کی طرف سے یہ تحریک ہو کہ ہم آپ کو پیشل اجازت دیتے ہیں اب جس نے دینا ہے دے لے.بعض حالات میں وہ ضروری ہوتا ہے.مگر بالعموم جو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ادھر انتخاب ہونے والا ہے ادھر سیکرٹری مال کا دفتر کھل گیا ہے اور وہ حساب پرانے کر کے آپ کا پانچ سال کا اتنا بقایا ، وہ کہتا ہے نہیں اتنا تھا ، وہ حساب پورے کر رہا ہوتا ہے اور اگر چھ مہینے پہلے پر بات ٹھہر جائے تو وہاں تک ادا ہو گیا.اگلا پھر ضروری نہیں کہ ادا ہو.یہ تقویٰ کے منافی باتیں ہیں.ایسے پیسے میں جماعت کو کوڑی کی بھی دلچسپی نہیں ہے.اس لئے اب تک جو ہو چکا ، ہو چکا ، آئندہ ہر گز آپ نے یہ حرکت نہیں کرنی.جو تقویٰ کے ساتھ عام چندہ دینے والے ہیں کبھی رہ جاتا ہے ان کا بقایا ادا ہونا اور بات ہے.مگر انتخاب کی ممبر شپ کے لئے ظاہر و باہر ایسی حرکتیں ہورہی ہوں اس سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں.اگر کوئی جماعت ایسے موقع پر چندے لے کر ان کو ممبر بنائے گی اور میرے علم میں آئے گا تو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جنہوں نے ایسی حرکت کی ہو.جہاں تک چندہ شرح سے
خطبات طاہر جلد 14 306 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء کم دینے والوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ دو قسم کے سلوک ہوتے ہیں بلکہ تین قسم کے کہنا چاہئے.وہ لوگ جنہوں نے میری اس عام رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے لکھ کر مجھ سے اجازت حاصل کرلی ہو کہ ہمیں پورا چندہ دینے کی توفیق نہیں ہے ، ہم اتنا دے سکتے ہیں ان کو ووٹ دینے کا حق ہوگا.وہ منتخب ہو سکتے ہیں ووٹ دینے والی کمیٹی میں،خود ووٹ دے سکتے ہیں ،امیر کو ووٹ دے سکتے ہیں مگر خود منتخب نہیں ہو سکتے کیونکہ جواد نی معیار چندے کا ہے اس سے گرے ہوئے ہیں ، ان کو میں نے یہ رعایت دی ہے.رعایت کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ووٹ دیں لیکن عہد یدار منتخب نہیں ہو سکتے.دعا کریں کہ اللہ ان کے حالات درست کرے جب حالات درست ہو جائیں گے تو پھر خدا نے چاہا تو ان کو اس خدمت کی بھی توفیق عطا فرمادے گا.دوسرے یہ کہ وہ لوگ جو اس کے باوجود اجازت نہیں لیتے.ان کے لئے تو کوئی سوال ہی نہیں ان کا تو ووٹ بھی نہیں بن سکتا خواہ چندہ دیتے بھی ہوں اگر انہوں نے اسے با قاعدہ اجازت کے تابع نہیں کیا تو وہ چندہ نہ دینے والوں میں شمار ہوں گے اگر وہ بے قاعدہ ہیں اور کم دینے والے ہیں.جولوگ اجازت نہیں لیتے اور چندہ پورا دیتے ہیں اور تقویٰ کے ساتھ ان کا چندہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ایک آدھ مہینے کی یا چند مہینے کی کمزوریاں جن کی قانون اجازت دیتا ہے، ان کو برداشت کرتا ہے، ان کو چھوڑ کر ان کا معاملہ صاف ہے، ان میں سے آدمی منتخب ہو سکتے ہیں اور دعا کر کے انہی میں سے منتخب کریں.بعض دفعہ لوگ لکھ دیتے ہیں کہ جی ہم تو پہلے دیا کرتے تھے.پچھلے دوسال سے یا تین سال سے یہ مشکل آگئی ، ان کو میرا جواب یہ ہے کہ مشکل آئی ہے تو یہ بھی اس مشکل کا نتیجہ ہے کہ آپ اب اس خدمت سے محروم ہو گئے ہیں.بیماری ہو تو ہم یہ تو نہیں کہتے کہ آپ جان بوجھ کر بیمار ہوئے تھے مگر آپ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھیں میں مجبوراً بیمار ہوا تھا اس لئے مجھے سر درد نہیں ہونی چاہئے ، میں مجبور بیمار ہوا تھا اس لئے میرا پیٹ نہیں خراب ہونا چاہئے ، میری طاقت میں کمی نہیں آنی چاہئے.آپ کی مجبوری اپنی جگہ لیکن بیماری کے اثرات کی مجبوری اپنی جگہ.تو چندہ نہ دینے کے اثرات اپنی جگہ ہوں گے ، وہ چلیں گے اسی طرح.اس لئے جماعت کی لگام آپ کے سپرد نہیں کی جاسکتی، نظام جماعت کی باگ ڈور آپ کے سپرد نہیں کی جاسکتی.پس یہ دیکھیں کہ ان شرائط کے ساتھ اللہ کو حاضر ناظر جان کے اپنے میں سے وہ آدمی منتخب
خطبات طاہر جلد 14 307 خطبہ جمعہ 28 اپریل 1995ء کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے نزدیک خدا کا خوف رکھنے والا ہے اور روز مرہ کی زندگی میں اس سے رابطہ رہتا ہے اور آپ کو میں نے جیسا کہ نشان بتائے ہیں ان نشانات کو دیکھ کر کسی کے تقویٰ کا فیصلہ جس حد تک دیانتداری سے آپ کر سکتے ہیں اگر آپ کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تائید میں کھڑا ہوگا اور آپ کے فیصلے کی خامیوں کے ضرر سے جماعت کو محفوظ رکھے گا.پس آج کے خطبہ کو اسی تحریک پر ختم کرتا ہوں کہ جماعت جرمنی کو دعاؤں میں یا درکھیں اس لحاظ سے کہ یورپ میں سب سے زیادہ تیزی سے نشو و نما پانے والی اور بکثرت مختلف لوگوں پر مستقل خدمت کرنے والوں کی جماعت ہے اس لئے یہ جماعت اس لحاظ سے یورپ کی ہر جماعت پر فوقیت لے گئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی نئی ذمہ داریوں کو جو کام کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں، ہر انعام جو عطا ہوتا ہے وہ ذمہ داری بھی لے کر آتا ہے.جہاں ایک طرف انعامات عطا ہور ہے ہوتے ہیں.وہاں دوسری ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں.سب دنیا کی جماعت تو اس پہلو سے ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھنا چاہئے.آئیوری کوسٹ کی بھی ایک خاص حیثیت ہے آپ کو یاد ہوگا میں نے جلسے پر آپ کو یہ رویا سنائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رویا میں دکھایا ہے کہ فرینکو فون ممالک میں بہت تیزی سے جماعت اب پھیلے گی اور وہ جو سابقہ غفلت تھی اس کا ازالہ ہو گا.اب آئیوری کوسٹ وہ جماعت ہے جہاں فرینکوفون ممالک میں سب سے زیادہ تیزی سے احمدیت پھیلنی شروع ہوئی ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ اچانک ہو کیا گیا ہے.یعنی مربی وہی ہے ، کوششیں وہی لیکن جو دس سال کی محنت سے پھل نہیں ملتا تھا وہ چند ہفتوں کی محنت سے ملنا شروع ہو گیا ہے تو اس لئے آئیوری کوسٹ کے لئے دعا کریں.نئے آنے والے جب زیادہ ہوں تو جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا آنحضرت ﷺ کا دستور تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصیحت کے پیش نظر یہ دعا کرتے تھے سبحانک اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفرلی پس اس دعا میں نئے شامل ہونے والوں کو بھی یاد رکھیں ، اپنے آپ کو بھی یاد رکھیں ، ان جماعتوں کو یاد رکھیں جن پر نئی ذمہ داریاں عائد ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں خدا کی خاطر سنبھالے ہوئے سب کاموں کو ، اللہ ہی کی طاقت سے بہترین رنگ میں سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
308 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 309 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء شہادت غیب سے وجود میں آتی ہے.خدائی صفات عالم الغیب و عالم الشہادہ کا پر معارف بیان ( خطبه جمعه فرموده 5 رمئی 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيـ پھر فرمایا:.(الحشر : 23) آج کے مضمون سے پہلے جو صفات باری تعالیٰ سے ہی تعلق رکھتا ہے بعض مختلف ممالک کی بعض خدام الاحمدیہ وغیرہ کی اجتماعی کلاسز ہیں یعنی تربیتی کلاسز وغیرہ جاری ہیں، بعض جگہ جلسے ہور ہے ہیں چونکہ میں نے ایک دفعہ پہلے یہ ذکر کیا تھا کہ اب ہر مقام کی کلاس یا اجتماع سے متعلق تو میں اب مزید بیان نہیں کر سکتا کیونکہ سارا خطبہ پھر اسی پر صرف ہو جائے گا لیکن جہاں تک توفیق ہے ممالک کا ذکر کر دیا کروں گا تا کہ احباب جماعت کے علم میں آئے کہ مختلف ممالک میں کیا تربیتی کلاس ہو رہی ہے یا اجلاس ہورہا ہے اور ان کو اپنی دعا میں یا درکھیں.سب سے پہلے تو مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی درخواست ہے کہ ان کی انتالیسویں سالانہ تربیتی کلاس جاری ہے جو سے مئی یعنی پرسوں بروز اتوار تک جاری رہے گی.احباب جماعت سے درخواست کر دی جائے کہ سب اس کلاس کی کامیابی کے لئے دعا کریں.اس کلاس میں 39 اضلاع
خطبات طاہر جلد 14 310 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء کی 170 مجالس کے 560 طلباء شامل ہیں.جماعت احمد یہ جاپان کا جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے اور 3 دن جاری رہ کر 7 مئی کو اختتام پذیر ہوگا.جماعت احمدیہ ڈنمارک کا جلسہ سالانہ کل 6 مئی سے شروع ہو کر دو دن جاری رہے گا اور 7 مئی بروز اتوار اختتام پذیر ہوگا.اللہ تعالیٰ یہ تمام اجتماعات مبارک فرمائے.اللہ کی خاطر ، اسی کے نام کے لئے اکٹھے ہونے والوں کو ہر لحاظ سے برکت دے اور ان کی نیتوں کو پاک رکھے اور ان تمام اجتماعات کے نیک باقی رہنے والے اثر اور نتائج ظاہر فرمائے.آمین یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وہ غیب کا علم رکھتا ہے اور شہادت کا علم رکھتا ہے.هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيمُ وہ رحمن بھی ہے اور رحیم بھی.بعض دفعہ عجیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصرفات ہوتے ہیں ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صفات باری تعالیٰ سے متعلق جو مختلف آپ کے ارشادات ہیں ان کے پیش نظر میرا آج ارادہ تھا کہ جن صفات پر خصوصیت سے روشنی ڈالی جائے ان میں ایک یہ بھی ہو.ابھی چند دن پہلے مجھے ربوہ سے خط ملا کہ آپ کا ایک بہت پرانا خط میں نے دیکھا ہے اس میں آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کبھی وقت ملا توعَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کے مضمون پر روشنی ڈالوں گا کیونکہ اس کا انسانی زندگی سے روز مرہ کے معاملات میں بڑا گہرا تعلق ہے.تو چونکہ پہلے ہی ذہن میں یہ بات تھی تو اس خط سے یہ دل میں خیال پیدا ہوا کہ جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک تقدیر کے ذریعے جاری ہوا ہے اور وقت کی ایک ضرورت پوری ہو رہی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ تائید فرماتا ہے ایک دوسرے کے ذریعے تا کہ دل میں یقین بھر جائے کہ یونہی اتفاقی حادثات نہیں بلکہ خدا کی تقدیر کا ایک باب کھل رہا ہے.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کے متعلق جو کچھ باتیں میں پہلے کہہ چکا ہوں، کچھ آج بیان کروں گا لیکن سب سے پہلے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عبارت پڑھ کر سناتا ہوں اور اس عبارت سے متعلق گفتگو ہو گی کہ آپ کی مراد کیا ہے کیونکہ بسا اوقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پڑھنے سے اس کا اصل یا زیادہ گہرا مضمون سمجھ نہیں آتا.ایک مفہوم تو ہے جو سطح پر تیرتا ہے وہ تو ہر نظر دیکھ لیتی ہے لیکن بعض بطون ہیں نیچے اتر کر بعض چیزیں دیکھنی
خطبات طاہر جلد 14 311 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء پڑتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: د یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں ہے.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آجائے اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 372) یعنی اگر ایک کے سوا دو معبود ہوں تو کسی معبود کی خدائی کو بھی استقرار نہیں ہے اور قرآن کریم نے اسی مضمون کو لَفَسَدَتَا (الانبیاء: 23) کے تحت بیان فرمایا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ معبود ہوں، الهَيْنِ (النحل:52) ہوں ، دو معبود ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ آپس میں اختیار کی برتری کے لئے جنگ نہ کریں اور لازماً اس کے نتیجے میں فساد پھیل جائے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا کی خدائی کا اعتماد اٹھ جاتا ہے کہ پتا نہیں رہے گی بھی کہ نہیں.جس خدا کی ہم پرستش کر رہے ہیں اگر کوئی اور بھی ہو تو کیا پتا کہ کل کیا ہوگا تو اس لئے کسی معبود کی پرستش میں بھی یقین نہیں رہتا اور اطمینان اٹھ جاتا ہے.تو یہ وضاحت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ تم مطمئن رہو میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے جس کی تم عبادت کر رہے ہو وہی ہے ، وہی تھا، وہی رہے گا ہمیشہ اور کوئی تبدیلی اس بات میں نہیں آئے گی.اب یہ مضمون اگر ہم روز مرہ انسانی تعلقات کے دائرے میں سمجھیں تو اور زیادہ وضاحت سے اس کی اہمیت سمجھ آجاتی ہے.ایسے ممالک جہاں آئے دن حکومتیں بدلتی رہتی ہیں وہاں کی سول سروس کے لئے بڑی مصیبت ہوتی ہے.آج اس کی پرستش کریں تو کل دوسرے کی کرنی پڑے گی.کسی کی نہ کریں اور وہ کل آجائے طاقت میں، تو وہ اپنے انتقام لے گا.غرضیکہ جہاں بالا نظام میں افرا تفری ہو وہاں ماتحت نظام نیچے تک افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے اور بدامنی جو ہے وہ ہر سطح پر اوپر سے چل کر آخری نچلی سطح تک ظاہر ہوتی ہے اور جگہ جگہ اس طرح آپس میں اختلاف کی دراڑیں پڑ جاتی ہیں ،ساری سوسائٹی درہم برہم ہو جاتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہی مضمون تو حید کی برکت کے تعلق میں بیان فرمایا ہے اور مومن کے لئے استقامت کا بہت بڑا اس میں پیغام ہے.اگر یہ یقین ہو کہ یہی ذات ہے
خطبات طاہر جلد 14 312 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء جو پہلے بھی معبود تھی ، آج بھی اور کل بھی رہے گی تو اس ذات سے وفا کے تقاضے خوب کھل کر ادا کئے جا سکتے ہیں.اپنی محبتوں کو چھپانے کی ضرورت نہیں رہتی ، اپنے تعلقات کو کسی حد کے اندر رکھ کر بیان کرنے کی ضرورت نہیں.بے دھڑک ہو کر کسی دوسرے کے خوف سے بے نیاز ہوکر اس سے جتنا چاہو محبت کے تعلق باندھو وہ تمہارے لئے فائدہ ہی ہوگا اور اس کے نتیجے میں وہ تمہارے قریب آئے گا اور جو بالا ذات جو مقتدر ہے وہ جتنا قریب آتی ہے اتنا ہی انسان کے اقتدار میں فرق پڑتا ہے.اب وہ لوگ جو بادشاہ کی مصاحبت پر فخر کرتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں جانتے وہ اگر یہ سوچیں کہ اللہ کی مصاحبت اور اس کے قرب میں ان کو کیا کچھ حاصل ہوگا تو اس سے اس بات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور قرب کے رستے میں شرک حائل ہے.جہاں بھی شرک ہے وہ قرب کے رستے روکتا ہے.اگر ایک فرضی خدا کی عبادت کی جا رہی ہے تو اصل خدا سے وہ دور پھینک دے گا.اگر ایک خدا کی عبادت ہے اور خطرہ ہے کہ اور بھی ہے تو تب بھی قرب کی راہ میں وہ روک بن جاتا ہے.پس یہ مضمون سمجھنا بہت اہم ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کے لئے طبیعت میں ایک طبعی جوش پیدا ہوتا ہے اور اس تعلق کے نتیجے میں انسان کو خدا کی طرف سے اقتدار ملتا ہے اور یہ اقتدار جو ہے وہ قرب کا ایک لازمی نتیجہ ہے.جتنا کوئی بڑے آدمی کے قریب ہو اتنا ہی لوگ اس کی بات سے ڈرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ وہ اقتدار میں حصہ پاتا ہے.یہ حصہ پانا شرک نہیں ہے.اس کا تعلق اپنی ذات کو کسی اور ذات میں ڈبو دینے کے ساتھ ہے اور اپنی ذات کو کھو دینے کے ساتھ ہے.پس خدا تعالیٰ کا اقتدار دو طرح سے دوسرے وجود میں متصور ہوسکتا ہے ایک شرک کے ذریعے جس کو قرآن کریم کی یہ آیت باطل کر رہی ہے.اس کا کوئی معبود نہیں ، نہ تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس کا کوئی کسی قسم کا بھی شریک ہو لیکن تم ہو سکتے ہو کہ نہیں کس حد تک؟ اگر ساری خدائی کلیۂ اس کے لئے ہے تو پھر نہیں کیا.دوسرے کو اس میں دلچسپی کیا ر ہے گی کچھ بھی اس سے حصہ نہیں پاسکتا.تو فرمایا کہ سب کچھ حصہ پاسکتے ہو لیکن اگر اس کو واحد جان کر اس کے قریب ہو.پھر وہ ہر چیز جو اس کی ذات میں داخل ہے اس میں سے تمہیں حصہ ملے گا اور قرب کی نسبت سے حصہ ملے گا.اسی لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صفت مالک کا مظہر صرف محمد رسول اللہ ﷺ کو قرار دیا کہ مالک تو خدا ہے.محمد رسول اللہ مالکیت کی صفت سے حصہ
خطبات طاہر جلد 14 313 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء صل الله پا کر شریک نہیں بنے کیونکہ کلیہ غلامی کے نتیجے میں یہ ملک عطا ہوئی ہے اور غلامی کی انتہا کے نتیجے میں ہی یہ ملک عطا ہوئی ہے.پس غلامی اور شرک ، دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.ہر وہ درجہ جو کامل غلامی سے ملتا ہے اس پر شرک کا شبہ کرنا ہی حماقت ہے.پس اس پہلو سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کو سمجھیں تو یہ جو دشمن بولتے ہیں ان کی باتوں کی کچھ بھی اہمیت باقی نہیں رہتی کہ دیکھو جی تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کا ایک شریک بنالیا ہے.شریک کیسے ہوسکتا ہے اگر انسانوں میں سے ہر دوسرے وجود سے تعلق کاٹ کر محمد رسول اللہ ﷺ سے قائم کر لیا جائے اور کامل اطاعت کا تعلق ہو یہاں تک کہ اپنی ذات کو مٹا دیا جائے.پھر محمد رسول اللہ ﷺ نے اگر اسی مالک سے تعلق باندھا تھا جو قادر مطلق ہے اور واحد و یگانہ ہے اور اس کی ملکیت سے حصہ پایا تھا تو پھر کیا آپ نے شرک کیا یا خدا نے شرک کرنے دیا یا وہ جو یہ بات مانتے ہیں وہ مشرک ہو گئے.پس اگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے نتیجے میں اپنے فیض سے حصہ دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یا کسی اور کا محمد رسول اللہ ﷺ کے قرب سے فیض نہ پانا بہت بڑا ظلم ہے اور آنحضرت ﷺ کی گستاخی ہے اور اصل ہتک عزت اس بات کی ہے کہ عجیب رسول ہے کہ اللہ سے تو سب کچھ پا لیا جو واحد ولا شریک ہے لیکن بشر ہوتے ہوئے جو پایا اس کو اپنے لئے سمیٹ کر بیٹھ گئے اور جس نے آپ سے وہ سلوک کیا جو آپ نے خدا سے کیا، جس نے آپ سے وہ تعلق باندھا جو آپ نے خدا سے باندھا اس کو اس تعلق کی وہ جزا نہیں دی، یہ ہو نہیں سکتا.پس حضرت مسیح موعود کے متعلق جو بکواس کی جاتی ہے کہ تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کا شریک بنالیا ہے یہ محض جہالت کی بات ہے.اس مضمون کو یعنی خدا کی وحدت کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد اور اس مضمون کو سمجھنے کے بعد کہ غیر میں اس کا کوئی شریک نہیں ، اپنے فیض سے وہ اپنے غلاموں کو ضرور فیض یاب فرماتا ہے اور مالا مال فرماتا ہے شریک اور غیر شریک کا یہ جھگڑا ہی پھر اٹھ جاتا ہے.یہ ماننا پڑتا ہے کہ، وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا ( درشین :۸۴) ہم نے کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلایا ہی نہیں کسی در پہ گئے ہی نہیں اور اے خدا سب سے زیادہ تو گواہ ہے اس بات پر کہ اب یہ ہو گیا تو پھر ،
خطبات طاہر جلد 14 314 خطبہ جمعہ 5 اپریل 1995ء وہ ہے، میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے میری کوئی حیثیت نہیں رہی وہی ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺے تو اس مضمون کو جو ہم اللہ کے حوالے محمد رسول اللہ ﷺ کا مقام سمجھتے ہیں اسی حوالے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں اور صلى اقرباء کا مقام سمجھا جاسکتا ہے.ہیں.فرمایا: دوسری ہے بات عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے کہ اس کے سوا پرستش کے لائق نہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کا ملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو وہ سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے“.( اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 372) یہ جو مضمون ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات جو انسان زیادہ سے زیادہ تصور کر سکتا ہے Perfection کا یعنی کامل ہونے کا.تمام اللہ تعالیٰ کی صفات انسانی تصور کی Perfection سے بھی اوپر ہیں، اس سمت میں مگر اس سے بھی بالا.اس ضمن میں جو بعض دنیا کے فلسفی صفات کاملہ پر غور کرتے ہیں ان کی جو پہنچ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سے اوپر کی بات کر رہے ہیں.جو مغرب کے فلسفیوں کا بابا آدم سمجھا جاتا ہے، ڈسکارٹ ،اس نے خدا کی ہستی کی یہ ایک دلیل قائم کی وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب سے مضبوط دلیل ہے کہ Imperfect جونا مکمل ہو خود وہ Perfect ذات کا تصور باندھ ہی نہیں سکتا.اس کو Perfect کا خیال ہی نہیں آسکتا.تو اس لئے انسان جو کہ کامل نہیں ہے اس نے جو ایک کامل خدا کا تصور پیش کیا ہے یہ اس کی ذات کی پیداوار نہیں ہو سکتی یہ اوپر سے اترا ہوگا لیکن جس تصور کو وہ کامل سمجھ رہا ہے وہ حقیقت میں عیسائی خدا کے تصور کے حوالے سے بات کرتا ہے یا جو خدا کا تصور بھی اس زمانے میں ڈسکارٹ کی دسترس میں تھا اسی کی بات کر رہا ہے حالانکہ وہ تصور نامکمل تھا لیکن اس کو فلسفیانہ طور پر کامل سمجھتے ہوئے وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایک غیر کامل چیز ، کامل
خطبات طاہر جلد 14 315 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء تصور کو دل میں لا ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کا روز مرہ کا تجربہ اسے کہیں بھی کمال سے آشنا نہیں کرتا اور جب اس کی ڈکشنری میں ہی لفظ کمال نہیں ہے کیونکہ اپنے تجربے میں اس نے کہیں کمال نہیں دیکھا تو معلوم ہوتا ہے یہ باہر سے اترا ہوا ایک مضمون ہے اور کامل ذات ہی نے اس کے دل میں پیدا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو بات فرما رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کامل کا جو تصور انسان باندھ سکتا ہے اس تصور سے بھی بالا.اس مضمون میں لامتناہی طور پر جو کمال ابھرتے چلے جائیں گے وہ سب اللہ کے ہیں اور اس پہلو سے علمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا ایک اور مضمون سمجھ آجاتا ہے جو اس کے بعد آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ جوفرمایا کہ وہ علِمُ الْغَيْبِ ہے کہ وہ غیب کو جانتا ہے اس میں ایک ایسی معرفت کا نکتہ بیان فرمایا ہے جو اس سے پہلے کبھی خدا کے اسماء پر غور کرنے والے نے نہیں لکھا.آپ فرماتے ہیں: یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تصور کے کمال کے سب کنارے انسانی دسترس سے باہر پڑے ہوئے ہیں.وہ جو پہلی بات تھی اس کا دراصل اس بات سے گہرا تعلق ہے.کمال کا جو تصور آپ باندھتے چلے جائیں ایک مقام تک پہنچ کر وہ ٹھہرے گا اس لئے کہ انسانی سوچ کامل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ انسان خود نا کامل ہے اور خدا کی ذات اس سمت میں آگے نظروں سے غائب ہوتی ہوئی دکھائی دے گی جیسے کوئی بہت بلند اور ارفع چیز ہے.اس کو آپ دیکھیں تو کچھ دیر تک دکھائی دیتی ہے پھر وہ نظروں سے غائب ہو جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو شروع میں توحید کی تعریف میں مضمون بیان فرمایا اس کا از خود اس مضمون سے تعلق قائم ہو گیا جو آپ غیب کے حوالے سے بیان فرما رہے ہیں.آگے کیا ہے وہ اپنی ذات کو جو غیب میں ہے خود ہی جانتا ہے اور اس کے سوا اس غیب کا کوئی علم نہیں رکھتا اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے.فرمایا: ” ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سرا پا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سرا پا دیکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ عالم الشھادہ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل
خطبات طاہر جلد 14 316 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا.وہ جانتا ہے کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا.سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 373) اس میں جو علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کی گفتگو پر حضور نے جو روشنی ڈالی ہے اس سلسلے میں میں کچھ مزید باتیں آپ کے سامنے اس مضمون کو کھولنے کے لئے آج رکھنا چاہتا ہوں.غیب سے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کسی نے یہ عظیم نکتہ بیان نہیں فرمایا کہ اپنی ذات کو (اس کی ذات کو) اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ غیب میں ہے.شہادۃ کے متعلق یہ بات فرمائی کہ اس سے باہر اگر اس کی نظر سے دیکھا جائے تو ہر چیز شاہد ہی ہے، موجود ہے آنکھوں کے سامنے ہے اور کہیں بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، کوئی پردہ نہیں ، کوئی اخفا نہیں، کوئی ایسا سایہ نہیں ہے جس میں کوئی دیکھنے والا کوئی چیز نہ دیکھ سکے.تو خدا کے زاویئے سے دیکھا جائے تو ہر چیز شہادۃ ہے، کوئی عالم اخفاء ہے ہی نہیں.انسان کے زاویے سے دیکھیں تو سب سے پہلا اخفاء خدا کی ذات کا ہے اور اس اخفاء کا بھی اس کو علم ہے.یہ دو باتیں بڑی واضح ہو گئیں لیکن جس کو انسان شہادۃ سمجھتا ہے اس میں انسان حقیقت میں عالم الشهادة بھی نہیں ہے اور چونکہ تو حید کا مضمون بیان ہو رہا ہے اس لئے اس مضمون کا یہ مطلب ہے کہ عالم الغیب تو تم سمجھ لو گے کہ وہی ہے لیکن شاید تمہیں یہ بات سمجھ نہ آئے کہ عالم الشهادة بھی وہی ہے تم نہیں ہو.تمہیں وہم ہے کہ تم عالم الشهادة ہو اور عالم الغيب بى عالم الشهادة ہو سکتا ہے.یہ ایک گہرا منطقی نکتہ ہے یا فلسفیانہ نکتہ ہے کہ جس کے تعلق کو آپ سمجھیں تو پھر اس بات کی حقیقت سمجھ آجائے گی.شهادة“ دراصل سطح کے مطالعہ کو کہتے ہیں جو سامنے آجائے اور ہر سطح کے پیچھے کچھ چیزیں ہوتی ہیں اسے غیب کہتے ہیں اور اگر صرف سطحی مطالعہ پر بنا کی جائے تو جو نتیجہ نکلتا ہے.ہوسکتا ہے اسی کے غیب میں اس کا نقیض موجود ہو یعنی جو آپ سطح پر دیکھ رہے ہیں اس نظر کو رد کرنے والی باتیں اس کے پیچھے خفی ہوں.جو نتیجہ آپ سطحی نظر سے نکالتے ہیں ہو سکتا ہے اس کے پیچھے کچھ ایسی باتیں ہوں جو
خطبات طاہر جلد 14 317 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء آپ کے سطحی نتیجے کو غلط قرار دے رہی ہوں.تو عالم الحق ہونے کے لئے محض عالم الشہادۃ ہونا کافی نہیں اور اور حقیقت میں عالم الشهادة ہونے کے لئے عالم الغیب ہونا ضروری ہے.جو علِمُ الْغَيْبِ نہیں وہ عالم الشهادة ہو ہی نہیں سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے عالم الغیب سے بات شروع کی ہے شہادۃ سے نہیں کی، حالانکہ بظاہر یہ ترتیب دکھائی دیتی ہے کہ پہلے شہادہ کی بات ہو جو پہلی منزل ہے.غیب کی باتیں تو بعد میں ہونی چاہئیں لیکن اگر آپ گہرائی میں اتر کر مضمون پر غور کریں تو یہی ترتیب درست ہے.کوئی دیکھنے والی آنکھ جب تک غیب کا علم نہ رکھتی ہو یا غیب کے علم کو جاننے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو وہ عالم الشهادة بھی نہیں ہے اور انسان کو نسبتی طور پر یہ مقام عطا ہوتے ہیں.جو آدمی صاحب فراست ہے وہ ایک شخص کی ظاہری باتوں، ظاہری حرکتوں سے وہ نتیجہ نہیں نکالتا جو صاحب فراست نہیں ہے.ایک بھولا آدمی جو کچھ کہے کہتا ہے ٹھیک ہے جی اس نے کہا میں ایسا ہوں ایسے ہی ہوگا.لیکن جو عالم الشہادۃ حقیقت میں ہے اس کو ضرور کچھ نہ کچھ عالم الغیب ہونا پڑتا ہے.وہ اس کی اداؤں سے پیچھے اس کی چھپی ہوئی باتیں پہچانتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو ان کو حسن العقول سے پہچانتا ہے ان کے اس کے چہروں کے آثار سے جانتا ہے.اس لئے کہ آپ نے عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ سے ایسا تعلق باندھا کہ اس سے حقیقت میں کچھ غیب کا علم حاصل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل فرمائی لیکن یہ وہ غیب نہیں ہے جس میں خدا اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کی توحید سے تعلق رکھتا ہے.یہ وہ غیب ہے جو خدا سے تعلق کے نتیجے میں انسان کی فراست کے چمکنے سے انسان کو بھی عطا ہوتا ہے.تو آپ اپنے معاملات میں دیکھ لیں جس شخص کو غیب کے جاننے کی صلاحیت نہ ہو وہ کسی چیز میں حقیقت میں کامیاب نہیں ہو سکتا.ہر دنیا کی چیز سے دھوکہ دے سکتی ہے ،نظر میں کوئی چیز اور آرہی ہوتی ہے حقیقت میں کوئی چیز اور ہوتی ہے.کسی کی عبادات کو دیکھ کر آپ اسے نیک سمجھ لیں کسی کی قسموں پر جا کر آپ اس سے سودے کر بیٹھیں، کسی کے حلیہ، داڑھی وغیرہ دیکھ کر کہیں کہ بہت متقی پارسا ہے، یہ ساری ایسے عالم الشہادۃ کی باتیں ہیں جس کا غیب سے تعلق کٹ گیا ہے اور اللہ جسے غیب کا علم عطا نہ کرے اسے غیب کا علم عطا ہو نہیں سکتا.پس اس پہلو سے علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کی
خطبات طاہر جلد 14 318 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء حقیقت معلوم کر کے سب سے اہم چیز غیب کا معلوم کرنا ہے اور غیب کا علم ٹامک ٹوئیوں سے حاصل نہیں ہو سکتا محض اربع لگانے سے نہیں مل سکتا ، زا بچوں سے نہیں حاصل ہو سکتا.صرف ایک طریق ہے کہ عالم الغیب سے تعلق پیدا ہو اور عالم الغیب سے تعلق کے لئے انسان کا سچا ہونا ضروری ہے عالم الغیب سے تعلق کے لئے دل کا تقویٰ ضروری ہے اس کے بغیر عالم الغیب سے تعلق قائم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کسی چیز کو سمجھنے کے لئے جو انسان نظری سفر اختیار کرتا ہے، نظری سے مراد سوچ اور فکر کا جوسفر اختیار کرتا ہے، اس میں ہر قدم پر تقویٰ کی روشنی چاہئے ورنہ ہر چیز غائب میں رہے گی.یہ تقویٰ ہے جو وہ روشنی مہیا کرتا ہے جس سے قریب کا غیب حاضر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رات کو اندھیرے میں آپ سفر کریں کسی ایک کے پاس ٹارچ ہو اور ایک کے پاس نہ ہو.جو ٹارچ کے ذریعے سفر کرنے والا ہے وہ اندھیرے میں بھی بہت تیزی سے سفر طے کرتا ہے.سب اندھیروں کے پردے اس کی آنکھیں نہیں پھاڑ سکتیں لیکن ایک حد تک اس کی ٹارچ کی روشنی سرائیت کر جاتی ہے اندھیروں میں اور غیب کو حاضر میں تبدیل کر رہی ہوتی ہے.مگر جو بغیر کسی روشنی کے سفر کرتا ہے اس کے لئے اندھیروں میں دھکے کھانا اور گمراہ ہونا ہے اس کے سوا اس کا کوئی نصیب نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا مضمون شروع میں ہی اس حوالے سے باندھ کر پھر غیب کا ذکر فر مایا ہے.فرما یا ذلك الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرہ: 3) یہ وہ کتاب ہے جس میں شک والی کوئی بات نہیں ہے.ہر بات سچی ہے.مگر ہدایت ان کے لئے ہے جن کے اندر تقویٰ کی روشنی ہے.تقویٰ کی تعریف آگے کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کا تعلق غیب سے باندھا ہے.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: 3 تا 4 تقویٰ کی پہلی تعریف یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور حقیقت میں تقویٰ کے بغیر غیب پر ایمان لایا ہی نہیں جاسکتا.جیسے ٹارچ کی روشنی کے بغیر اندھیرے میں بھی چھپی ہوئی چیزوں پر یقین نہیں آسکتا.وہ غیب میں رہتی ہیں لیکن روشنی ان کو کہیں دھند لکے کی فضا میں کچھ چھپی ہوئی ، کچھ ظاہر فضا میں اس کو آپ پر روشن کرتی ہے اور جتنی روشنی تیز ہوگی اتنا ہی یقین بڑھتا چلا جائے گا اور غیب کا مضمون تقویٰ سے اس لحاظ سے تعلق رکھتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 14 319 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء قرآن کریم کا مطالعہ بھی اگر آپ کریں گے، تقویٰ نہیں ہوگا تو چونکہ آپ کا نور پھیکا ہے اس لئے قرآن کریم کے حقائق میں سے کچھ حقائق آپ کو ملے جلے ،مشتبہ، دھندلے سے دکھائی دیں گے اور ریب کا مضمون باقی رہے گا.جیسے رات کے وقت کا جو سفر ہے اس میں سڑک اور اس کے گردو پیش آگے پیچھے کے جو حقائق ہیں وہ تو موجود ہیں، ان کو روشنی تبدیل تو نہیں کر سکتی لیکن غیب میں ہیں.ان کو سمجھنے کے لئے روشنی کی ضرورت ہے اور روشنی اگر زیادہ ہوگی تو ریب سے باہر نکل آئیں گے اگر روشنی کم ہوگی تو دکھائی دینے کے باوجود ریب میں لیٹے رہیں گے.یعنی کچھ نہ کچھ شک کا اس پہ سایہ باقی رہتا ہے.میں نے ایک دفعہ شاید پہلے بھی آپ کو یہ قصہ سنایا تھا، واقعہ ہے اور کچھ لطیفے کا رنگ بھی رکھتا ہے کہ ایک دفعہ قادیان میں پارٹیشن سے پہلے کا ذکر ہے کہ ہمارے کزن سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور مسعود مبارک شاہ صاحب مرحوم ، ان کے ایک دوست جو رات کو شہر سے دار الانوار کے لئے روانہ ہوئے کیونکہ یہ دارالانوار میں رہا کرتے تھے.پہلے بہت بارش ہوئی تھی ، اتنی کہ جو جو ہر تھے ان کے کناروں تک پانی بھر گیا تھا ، سڑک کے قریب برابر ہو گئے تھے اور چاندنی پوری طرح کھلی ہوئی نہیں تھی.کہیں کہیں بادل کا ٹکڑا بھی آجاتا تھا.تو اب انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ ہم سڑک سمجھ کر جو ہر پہ پاؤں رکھ دیں کیونکہ کنارے تو برابر ہوئے ہوئے ہیں تو ان میں سے ایک آدمی جو ان کا دوست تھا وہ بہت چالاک مشہور تھا ، بہت ہوشیار ، تو اس نے کہا یہ تو کوئی مشکل بات نہیں ہے میں آپ کو ترکیب بتا دیتا ہوں.چلتے چلتے یہ باتیں ہو رہی تھیں اور ترکیب اس نے یہ بتائی کہ دھند لکے میں عموماً یہ ہوا کرتا ہے کہ جس کو آپ سٹرک سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ پانی ہوتا ہے اور جس کو آپ پانی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ سٹرک ہوتی ہے جیسے یہ پانی لگ رہا ہے اور یہ کہہ کر وہاں قدم رکھا تو باقی کی آواز ان کی بلبلوں میں نکلی ، پورا نیچے ڈوب گئے.تو یہ عالم غیب ہے جو روشنی کی کمی سے پیدا ہوتا ہے.دیکھنے میں نظر آ رہا ہے.اب یہ لوگ جو تقویٰ سے عاری ہیں قرآن یہ بھی پڑھتے ہیں مگر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک دھند قائم رہتی ہے جس کو وہ پانی سمجھ کر قدم ڈالتے ہیں وہ سڑک نکلتا ہے جس کو سڑک سمجھ کر قدم رکھتے ہیں وہ بعض دفعہ پانی نکلتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کے مضمون کو آغاز ہی میں تقویٰ سے باندھ دیا ہے اور فرمایا کہ اگر تم علمُ الْغَيْبِ سے حصہ پانا چاہتے ہو کیونکہ علِمُ الْغَيْبِ کے رستے سے گزر
خطبات طاہر جلد 14 320 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء کر ہی عالم شہادہ نصیب ہوگا.پہلے عالم الغیب رکھ دیا ہے.اس کڑی منزل سے گز رو گے تو پھر جو شہادۃ روشن ہوگی وہ حقیقی اور بغیر شک کے ہے.تو پھر شہادۃ کا مضمون حاصل کر لو گے.پس اس معنی میں آنحضرت ﷺ کو تمام انبیاء پر قیامت کے دن شہید کے طور پر پیش کیا جائے گا.اب یہ دیکھیں قرآن کے مضامین کتنے مربوط ہیں اور اسماء باری تعالیٰ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے کیوں آخر اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو اپنی اپنی قوموں کا شاہد اور شہید بنایا اور ان سب پر صلى الله حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو شہید بنا دیا ؟ اس لئے کہ عَلِمُ الْغَيْبِ سے جیسا تعلق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا و یا کسی اور کو نصیب نہیں ہوا.اس لئے شہادۃ کا علم بھی آپ کو سب سے زیادہ تھا.جود یکھتے تھے جیسا سمجھتے تھے وہی نکلتا تھا اس لئے کہ آپ کے ضمیر میں تقویٰ کی روشنی بڑی تھی اور تقویٰ کے نتیجے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے علِمُ الْغَيْبِ سے تعلق ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر ایک اور بات بھی مزید روشنی پیدا کرتی ہے وہ عالم الغیب کی طرف سے شہادۃ کے امور میں الہامی تعلیم ہے.یعنی جو انسان اپنے نور سے براہ راست نہیں دیکھ سکتا اس کو پھر الہام روشن کرتا ہے اور یہ جو مضمون ہے الہام کا یہ حقیقت میں ہے ہی غیب سے شہادۃ میں.حالات و واقعات میں چیزوں کو تبدیل کرنے کا مضمون.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًان إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الجن : ۲۸،۲۷) کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے غیب کے علم پر غلبہ نہیں دیتا.اب یہ دیکھیں کہ بہت ہی لطیف مضمون اور کیسے احتیاط سے لفظوں کا انتخاب ہوا ہے.فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِة اَحَدًا جس کا مطلب ہے غیب کا کچھ نہ کچھ علم غیر رسول بھی حاصل کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ روشنی ہر انسان کو عطا ہوئی ہے کہ وہ غیب کے پردے پھاڑ کر کچھ اندازے لگاتا ہے.ایک سیاسی مبصر جب آئندہ کے حالات کے متعلق تبصرہ کرتا ہے تو یہ وہی مضمون ہے مگر اسے اظہار علی الغیب نہیں کہہ سکتے.وہ کہتا ہے جو سیاسی حالات ظاہر ہو رہے ہیں ، جو امکانات ہیں، ان کے نتیجے میں جو احتمالات ہیں، ان پر غور کر کے میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ دس سال میں یہ تبدیلی واقع ہوگی.اب اگر وہ ذہین ہے اور تجربہ کار ہے تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ درست ثابت ہوتا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کا مستقبل کے متعلق اندازہ ہمیشہ درست ثابت ہو پس اگر کچھ درست ثابت ہو اور کچھ نہ ہو تو یہ ریب کا مضمون
خطبات طاہر جلد 14 ہے،شک والی بات باقی رہتی ہے.321 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ کسی کو بھی غیب پر اظہار نہیں دیتا یعنی غلبہ عطا نہیں فرما تا مگر اپنے کسی رسول کو جس کو چاہے وہ غیب پر اظہار عطا فرما سکتا ہے یا فرما دیتا ہے.تو غیب سے رسالت کا تعلق ہے اور بہت سے ایسے امور ہیں جو پردہ غیب سے الہام کے ذریعے پردۂ شہود میں ابھرتے رہتے ہیں اور یہی وہ مضمون ہے جس کے نتیجے میں دنیا مسلسل علمی ترقی کر رہی ہے اور اگر چہ خدا کی کائنات میں اضافہ کچھ نہیں کر سکتی مگر خدا کی کائنات پر پہلے سے زیادہ بڑھ کر علم کے ذریعے اس پر ایک قسم کا اظہار حاصل کر لیتی ہے.ایک قسم کا اظہار سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی علوم میں اگر چہ روشنی بھی ہے لیکن بہت سے احتمالات باقی رہتے ہیں کہ وہ بات جس کو وہ یقین سے سمجھ رہا ہے کل غلط ثابت ہو جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس مضمون پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے کہ کل تک جو بات درست سمجھتے تھے وہ آج غلط نکلی.آج جو سمجھ رہے ہیں ہوسکتا ہے کل غلط نکلے.تو ایک شک کا سایہ باقی رہتا ہے لیکن وہ غیب جسے اللہ اپنے رسولوں پر ظاہر فرماتا ہے وہ اظہار کا رنگ رکھتا ہے یعنی اس میں کامل یقین کا مضمون داخل ہو جاتا ہے.پس کامل علم شہادت کا غیب کے علم کے بغیر ممکن نہیں اور غیب کا علم نبیوں کے سوا بھی نصیب ہوتا ہے مگر نبیوں کو الہاماً عطا ہوتا ہے اور غیر نبیوں کو اپنے نور بصیرت سے عطا ہوتا ہے.وہ اگر تقویٰ کے قریب تر ہے اور اس میں سچائی ہے تو پھر ایسی جستجو کرنے والے کے لئے زیادہ امکان ہے کہ وہ دن بدن غیب سے چیزوں کو دیکھ کر شاہد یعنی سامنے نظر آنے والی دنیا میں منتقل کرتا رہے.اس سلسلے میں سائنس نے جتنی ترقی کی ہے یہ سب غیب سے شہادۃ کی طرف کا سفر ہے اور در حقیقت اس میں بھی ایک مخفی الہام کا معنی پایا جاتا ہے.بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اتنی ترقی کر لی ہے، ایسے ایسے راز دریافت کر لئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسولوں کے سوا یا رسولوں میں سے جس کو چاہے اس کے سوا کسی کو غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا مگران مغربی قوموں کو دیکھ لوان میں دہر یہ بھی ہیں ، ان میں عیسائی یہودی خدا کے دشمن بھی ہیں پھر بھی ان کو اپنے اپنے دائرے میں غیب پر غلبہ عطا ہورہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے
322 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء خطبات طاہر جلد 14 کہ دنیا نہیں بجھتی مگر حقیقت یہ ہے کہ مادی علم بھی خدا کے بعض اسماء کی تجلیات کے نتیجے میں دنیا کو عطا ہوتے ہیں اور وہ تجلیات جو ہیں وہ زمانہ نبوت سے تعلق رکھتی ہیں.جب خدا ایک نبی پر ظاہر ہوتا ہے اور الہام کے ذریعے بہت سے غیب کے امور کو شہادت میں تبدیل فرما دیتا ہے تو اس کی ایک ایسی روشنی کا انتشار ہوتا ہے جو کل عالم پر فیض برساتی ہے اور اس زمانے کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جتنی مزید روشنی کی ضرورت ہے، ورنہ انسان اس روشنی کے بغیر نبی تک پہنچ ہی نہ سکے، وہ روشنی اس کو ضرور عطا کی جاتی ہے.پس نئے نئے علوم کے انوار بھی درحقیقت الہام سے تعلق رکھتے ہیں.بعض خفیا لہامات ہوتے ہیں بعض ظاہری اور جہری الہامات ہوتے ہیں.تو جب خدا کی تقدیر ایک زمانے کو علم عطا کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تبھی وہ حاصل کرتا ہے.چنانچہ اس ضمن میں اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا (الزلزال :2) سورۃ زلزال پڑھ کے دیکھیں وہاں صاف پتا چل رہا ہے کہ موجودہ دور کی تمام ترقیات حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے رب کے حوالے سے ہیں.اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا اس قدر زمین اپنے راز اچھالے گی اور اپنے بھاری راز باہر نکال دے گی کہ تعجب سے انسان دیکھے گا کہ اسے ہو کیا گیا ہے، یہ کیسا زمانہ آ گیا ہے يَوْمَبِذٍ تُحَدِثُ أَخْبَارَهَا اس دن یہ زمین خود اپنی باتیں بتائے گی.کیوں بتائے گی بِانَّ رَبَّكَ اَوْحَى لَهَا اس لئے کہ اے محمد یا تیرے رب نے اس پر وحی نازل فرمائی ہے کہ یہ باتیں نکالو اور دنیا کو بتاؤ.اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ محض قرآن کا ایک دعوی تھا ورنہ ان لوگوں نے تو خود اپنے زور بازو سے سب کچھ حاصل کیا ہے.اس بات کی سچائی، اس ثبوت کے طور پر کہ یہ دعوی نہیں تھا ایک عالم الغیب اور عالم الشھادۃ خدا نے تقدیر کے طور پر جاری فرمایا آنحضرت ﷺ کو اس زمانے کے ظہور سے پہلے ان رازوں کی اطلاع دے دی جو اس زمانے میں رونما ہونے تھے.چنانچہ قرآن کریم کی وہ سورتیں جو اس زمانے میں ہونے والے واقعات سے تعلق رکھتی ہیں ان کو پڑھیں تو عقل ششدر رہ جاتی ہے کہ کیسے ممکن تھا کہ عرب کے ایک امی پر ایسے علوم ظاہر ہوں جن کو چودہ سوسال کی محنت کے بعد انسان نے کمانا تھا اور ابھی اس سے بھی آگے کے زمانے کے علوم ظاہر فرما دیئے گئے.یہ فرض کی باتیں
خطبات طاہر جلد 14 323 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء نہیں، یہ خیال کے قصے نہیں ، یہ محض تعلیٰ کے دعوے نہیں، سو فیصدی حقیقت کی باتیں ہیں جو قرآن کے حوالے سے میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.پس الہام کا غیب کو شاہد میں تبدیل کرنے کے ساتھ ایک گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے.جب تک آسمان پر فیصلہ نہ ہو اس وقت تک زمین والے غیب کا علم حاصل کر ہی نہیں سکتے.مگر جہاں تک اظہار علی الغیب کا تعلق ہے وہ رسولوں ہی کو عطا ہوتا ہے اور اس غیب کے علم کا اس غیب کے علم کے ساتھ ایک فرق ہے اور وہ فرق اسی مثال سے میں آپ پر ظاہر کروں گا جو میں نے آپ کے سامنے رکھنی ہے.آج سائنس دان بہت سے مخفی رازوں کو پاگئے جو زمانے کی آنکھوں سے ہزاروں لاکھوں سال سے مخفی پڑے ہوئے تھے ، چھپے ہوئے تھے لیکن کھوج لگا کر ، محنت کر کے رفتہ رفتہ وہ ان میں اتر رہے ہیں اور ہر قدم جو وہ اٹھاتے ہیں وہ اس روشنی کی مدد سے اٹھاتے ہیں جو پہلے سفر نے ان کو عطا کر دی ہے اور وہ کوئی لا محد و دروشنی نہیں ہے جو اپنے زمانے سے آگے نکل کر باتیں کرتی ہو.انسان جب اندھیرے میں چلتا ہے اگر چہ اس کے ہاتھ میں ٹارچ نہ بھی ہو تو وہ جانتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد آنکھیں کچھ نہ کچھ اندھیرے میں دیکھنے کی اہلیت حاصل کر لیتی ہیں.پھر وہ پچھلے سفر کے تجربے سے ایک روشنی لیتا ہے اور ہرا گلا قدم زیادہ احتیاط سے اٹھتا ہے اور زیادہ صحیح سمت میں اٹھتا ہے کیونکہ اندھیرے کے تجربوں نے اس کو ٹھوکر میں لگائیں اسے زخم پہنچائے کہیں وہ گرا ، کہیں وہ لڑکھڑایا اور آہستہ آہستہ اس کے تجربے نے اس کو بتایا کہ یہ چیز جو یوں دکھائی دے رہی ہے یہ ایسی ہوگی.اس طرح اس کا غیب سے شہادت کی طرف سفر اظہار علی الغیب کہلا ہی نہیں سکتا کیونکہ بڑی محنت کے ساتھ کچھ کچھ دکھائی دینے والا سفر ہے جب وہ اجتماعی شکل اختیار کر لیتا ہے، ایک صدیوں کا علم اکٹھا ہوتا ہے تو ایک عظیم حقیقت دنیا میں ابھر آتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں ایک نئے زمانے میں داخل ہو گئے ہیں.قرآن کریم جس غیب کی اطلاع دے رہا ہے کہ نبیوں کو جس کو بھی ان میں سے چاہے رسولوں کو ، ان کو اظہار علی الغیب دیتا ہے اس کی مثال قرآن کریم کی ان آیتوں میں ہے جو اس زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے ادنیٰ بھی کھوج لگانے کی زحمت نہیں گوارا
خطبات طاہر جلد 14 324 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء فرمائی.آپ کے تجربے کو اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.آپ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ آئندہ زمانے کی سواریاں کیسی ہوں گی.آپ کے تصور میں یہ بات نہ آسکتی تھی نہ آئی کہ رستوں ،سڑکوں والا آسمان کیا چیز ہے جس پر سڑکیں بن جائیں گی اور جس پر مرسلات چلیں گی اور با مقصد سفر ہوں گے، کچھ پیغامات لے کر جائیں گی، کچھ چیزیں یہاں پھینکیں گی، کچھ چیزیں وہاں پھینکیں گی.وہ سارا مضمون کہ پھر آخر صحف نشر کئے جائیں گے.ایسی چیزیں ایجاد ہو جائیں گی کہ کثرت کے ساتھ کتابیں شائع ہوں گی اور صحیفے ہر طرف پھیلا دیئے جائیں گے ، قانون کی راج دھانی ہوگی ، یہ تمام وہ مضامین ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سوچوں اور تجارب سے کوئی بھی تعلق نہیں.پس آپ کے لئے جو غیب،شہادت میں تبدیل فرما دیا گیا وہ خالصہ اللہ کے تعلق سے آپ کو استثنائی طور پر عطا کیا گیا اور زمانے کا کوئی شخص بھی اس سفر میں آپ کا شریک نہیں ہو سکتا تھا.إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ کا مضمون پوری شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جس میں ذرا بھی شبہ نہیں رہتا.وہ زمانہ جب ہر انسان محنت کر کے کچھ نہ کچھ تھوڑا تھوڑ اسفر کر کے، ایک دوسرے کو آوازیں دے کر ، ایک دوسرے سے پوچھ کر رستوں کے متعلق فیصلے کرتا ہے کہ یہ رستہ بہتر ہے ، یہ رستہ درست نکلا ، یہ غلط ہو گا ، یہ اجتماعی ایک سفر کی مثال ہے جس میں ہر شخص کے جائزے دوسرے کے لئے مددگار بن رہے ہوتے ہیں اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک ہی انسان ہے جس کو سائنس کی غیب کی باتوں کا علم ہو گیا اور باقی سارے محروم بیٹھے ہوئے ہیں.پس عُلِمُ الْغَيْبِ سے علم کا عطا ہونا اور معنے رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجے میں، اس کی تقدیر کے نتیجے میں انسان کی عقلوں کو روشن کیا جانا اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ الہی علم کو جو فی پڑا ہوا تھا کچھ بہتر رنگ میں سمجھ سکیں اور ان علمی خزانوں کو جود بے پڑے تھے ہے.ان پر نظر ڈال کر ان سے استفادہ کر سکیں یہ ایک اور مضمون ہے ان دونوں میں مماثلت کوئی نہیں.جو چودہ سو سال پہلے کی خبریں رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوگئیں وہ کس کسب سے تعلق رکھتی ہیں، کسی سائنسی تحقیق سے تعلق رکھتی ہیں، کچھ بھی نہیں.سارا زمانہ محروم تھا اور آپ کو بھی جب علم ہو رہا ہے تو ایسا علم ہورہا ہے جس کا آپ کو ذاتی طور پر کچھ پتا نہیں اور جب بعض ایسی باتیں فرماتے ہیں علم الہی سے حاصل کر کے جو آپ بیان کرتے ہیں اور اس زمانے کے لوگوں کو کچھ سمجھ بھی آتی ہے بہت سی باتیں تو سمجھ آئی ہی نہیں تھیں ان کو.وہ سمجھتے تھے پتا نہیں کیا باتیں ہورہی ہیں ،شاید مرنے کے بعد کچھ
خطبات طاہر جلد 14 325 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء اس قسم کی چیزیں ہوں ہمارے علم کے مطابق تو یہ ممکن نہیں ہے.مثلاً یہ خیال کہ دنیا میں طاقتور لوگ اور غریب لوگ زمین و آسمان کی حدوں سے تجاوز کرنے کی کوشش کریں گے چھلانگیں لگا کر اس سے آگے جانے کی کوشش کریں گے.اب کون احمق ہے جو یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کوئی دنیا کا انسان یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ انس ، انسان جن کا ذکر ہے معشر الانس جن کے متعلق تو اپنا غلط تصور پیش کر دیتے ہیں اس لئے میں اس کو چھوڑ رہا ہوں کہ معشر الانس یہ تصور بھی باندھ سکتے تھے اس وقت کہ ہم زمین و آسمان کی اقطار سے باہر نکل جائیں گے.اڑھائی فٹ کی چھلانگ مارتے تھے یا تین فٹ کی یا دو گز کی کرلیں اس سے اوپر تو چھلانگ لگانے والا ہی آدمی نہیں پیدا ہوا تھا اُس زمانے میں.اب کچھ معیار بڑے ہوئے ہیں لمبی پریکٹس اور مہارتوں کے نتیجے میں.تو وہ جس کی چھ فٹ کی چھلانگ ہو اس کے متعلق یہ دعوی کر دینا کہ وہ یہ سوچے گا اور غور کرے گا اور سنجیدگی سے یہ فیصلے کر رہا ہوگا کہ میں زمین و آسمان کی اقطار سے نکل کر باہر چلا جاؤں گا.کوئی پاگل کا بچہ ہی ہوگا جو یہ کہے کہ انسانی سوچ کی حد کے اندر یہ بات داخل تھی.پس وہ علم غیب جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا کیا جارہا تھا اس میں کوئی شریک نہیں تھا.سارا زمانہ تلاش کر کے دیکھیں محمد رسول اللہ اللہ کے سوا کوئی ان علوم میں شریک نہیں تھا جو عالم الغیب کی طرف سے آپ کو عطا ہو رہے تھے.مگر جس زمانے میں ہم داخل ہوئے ہیں ، جس کی پیش گوئی بھی آنحضرت ﷺ نے اللہ سے علم پا کر دی تھی اس میں انسان بحیثیت انسان کچھ پانے کی صلاحیت حاصل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.وہاں بھی غلط فہمی دور کی جارہی ہے کہ یہ نہ سمجھ لینا کہ خود ذاتی صلاحیتیں ہیں ، یہ خدا کی تقدیر نے محمد رسول اللہ اللہ کے آخری غلبے کی خاطر جو انسان کی عقلوں میں جلا بخشنی تھی اور زمانے کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے جو نئی نئی ایجادات کی ضرورت تھی ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا اورزمین کے خزانوں کو حکم دیا کہ گویا وہ خود نکل کر سامنے آجائیں اور اس الہی تقدیر کے نتیجے میں پھر سائنسوں نے ترقی کی ہے.اس کے کچھ شواہد ایسے بھی ملتے ہیں جن کا الہام سے کچھ تعلق دکھائی دیتا ہے یعنی انبیاء والا الہام تو نہیں مگر الہام سے ملتی جلتی کیفیات ہیں جو دکھائی دیتی ہیں مثلاً سنگر مشین جو سلائی کی مشین ہے اس کے موجد نے بہت غور کیا اور بہت سوچا کہ میں کیسے ایسی چیز ایجاد کروں کہ ایک دھاگہ نیچے جا رہا
خطبات طاہر جلد 14 326 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء ہو دوسرا کوئی اوپر آرہا ہو اور وہ ٹانکے بھرتے چلے جائیں خود بخود اور پھر کھلیں نہ ، پکتے رہیں.ہر قسم کا تصور اس نے باندھا لیکن ناکام ہو کر تھک گیا.پھر اس کو کشفاً ایک نظارہ دکھائی دیا وحشیوں سے لڑنے کا اور جس میں نیزے کا جو پھل تھا اس میں وہ آنکھ تھی جو سوئی کی آنکھ ہوتی ہے اس کے پیچھے نہیں تھی.اس سے پہلے جو سوئی کا تصور انسان کے علم میں تھا وہ سوئی کے نوک کے اوپر آنکھ نہیں تھی پیچھے کی طرف آنکھ تھی اور جو پیچھے آنکھ ہو اس کے ذریعے یہ خود کار مشین ایجاد ہوہی نہیں سکتی تھی.تو اس نے جب کشفی نظارے میں یا رویا میں دیکھا کہ وہ جو وحشی لڑ رہے ہیں ان کے نیزوں کے اندر آنکھ ہے تو اچانک اس کو روشنی عطا ہوئی اس نے کہا او ہو مجھے بات سمجھ آگئی.اگر مشین بنانی ہے تو پھل والے حصے میں آنکھ ڈالنی پڑے گی.اب آپ دیکھ لیں کہ جتنی بھی سوئیاں ہیں مشین کی ان کے پھل کے اندر آنکھ ہوتی ہے تو ایسا ایک واقعہ نہیں، ایسے بہت سے واقعات قطعی شہادتوں کے ساتھ سائنسی تاریخ میں محفوظ ہیں کہ بسا اوقات انسان کو یعنی ایک سائنس دان کو ایک ایسے مرحلے پر آ کر جہاں عقل نے کام چھوڑ دیا الہام نے راہ دکھائی یار و یا اور کشوف نے راہ دکھائی.پس چونکہ خدا فیصلہ کر چکا تھا اس لئے یہ بھی ضروری تھا کہ جہاں عقل ٹھہر جائے وہاں اللہ انگلی پکڑ کے کہے نہیں کچھ اور آگے چلو اور بان ربک اوحى لها “ اس رنگ میں بھی پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ اللہ کی طرف سے واقعۂ وحی کے ذریعے بعض راہنمائیاں دکھائی دیتی ہیں اور جب ان کا انسان مطالعہ کرتا ہے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کس طرح ان لوگوں کا جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ان کا کشف اور الہام کے ذریعے غیب کا علم حاصل کر لینا کیا معنے رکھتا ہے.یہ وہ معنے رکھتا ہے صلى الله که در اصل محمد رسول اللہ ﷺ کا غیب سے تعلق ہے اور اللہ نے آپ کو جو غلبہ عطا کیا ہے غیب پر اس غلبے کے طور پر ان سب کو غلام بنایا گیا ہے.ان ساری قوموں کو اس غلبے میں مددگار بنانے کے لئے اور وہ انقلاب پیدا کرنے کے لئے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے وابستہ فرمایا گیا ہے غیب سے کچھ حصہ ان کو ملا ہے اور اس کے بغیر دنیا ترقی نہیں کر سکتی.پس عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ میں مرکزی بات یہ یادرکھیں اور اس پر میں آج خطبے کو ختم کرتا ہوں کہ شہادہ، غیب سے وجود میں آتی ہے.شہادت سے غیب وجود میں نہیں آتا.ہر چیز تھی اور رہے گی مگر جب تک انسان پیدا نہیں ہوا صرف اللہ کے علم میں تھی.جب تک ذی شعور چیز میں پیدا
خطبات طاہر جلد 14 327 خطبہ جمعہ 5 مئی 1995ء نہیں ہوئیں ہر چیز پردۂ غیب میں تھی.اللہ کی ذات بھی غیب میں تھی اور تمام موجودات جو اس کی ذات سے پیدا ہوئی تھیں وہ سب غیب میں تھیں.تو شہادت غیب کے بطن سے پیدا ہورہی ہے.جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ غیب سے وجود میں آرہا ہے اور شہادت پر غور کریں تو اس کے پیچھے اور غیب دکھائی دتیا ہے اور جب تک پس پردہ غیب کا علم نہ ہو شہادت کا یقین نہیں رہتا ، وہ ریب میں چلی جاتی ہے.تو تقویٰ ہی کی آنکھ ہے جو اس مضمون میں آپ کی رہنما بن سکتی ہے خواہ وہ روحانی علوم کی جستجو کا سفر ہو یا مادی علوم کی جستجو کا سفر ہو اس آیت کو ہمیشہ اپنے لئے نشانِ راہ بنا رکھیں یہی ہے جو آپ کو منزل کی طرف لے کے جائے گی.كه ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ صرف متقیوں کو ہدایت دے گی.متقی کون ہیں الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ غیب پر ایمان لائے بغیر غیب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور ایمان لائے بغیر نہ ان کو عبادت کا ذوق پیدا ہوتا ہے نہ عبادت کے لئے ہمت اور طاقت نصیب ہوتی ہے.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اور پھر جو کچھ خدا نے انہیں دیا وہ خرچ کرتے ہیں.اس کا بھی غیب سے تعلق ہے کیونکہ ایک ماضی کا غیب ہے ،ایک حاضر کا غیب ،ایک مستقبل کا غیب.جو دانہ ایک انسان ایک زمیندار زمین میں ملا دیتا ہے ہمٹی میں ملا دیتا ہے، اس کو غیب پر یقین ہے یا ایمان ہے تو ڈالتا ہے.یقین نہیں ہے مگر ایمان ضرور ہے.ایمان ہے کہ ہاں ان دانوں میں سے اکثر یا کچھ نہ کچھ تو ضرور اگیں گے اور اس کے نتیجے میں وہ زیادہ پالیتا ہے.تو جن کا غیب خدا سے تعلق ہو وہ خدا کی راہ میں بے دھڑک خرچ کرتے ہیں کیونکہ یہاں ان کا ایمان کامل ہوتا ہے اور اپنے تجربے کی بنا پر وہ جانتے ہیں کہ اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کے رزق کو اللہ تعالیٰ کم نہیں کیا کرتا.ہمیشہ بڑھاتا رہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے علمُ الْغَيْبِ اور عالم الشہادۃ ہونے کی حیثیت سے ہم پر اپنے فضل نازل فرمائے اور اپنی ذات سے ہمیں تعلق جوڑنے میں آسانیاں مہیا فرمائے.آمین
328 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 329 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء خدا کی غیب پر بلا شرکت غیر کامل راج دہانی ہے غیب کی عبادت کرو گے تو تمہیں تو حید کے معنی سمجھ آئیں گے خطبه جمعه فرمودہ 12 مئی 1995 ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (الحشر : 23 ) پھر فرمایا:.( صفات باری تعالیٰ کا جو مضمون شروع ہے یہ بعض پہلوؤں سے آسان ہے، بعض پہلوؤں سے مشکل اور جو مشکل پہلو ہیں ان کی دراصل انتہاء کوئی نہیں وہ لامتناہی سلسلہ ہے.مثلاً صفت ربوبیت کو لیں ہر چیز جو کائنات میں کسی نہ کسی ذریعے سے زندہ رہ رہی ہے وہ اول طور پر صفت ربوبیت کا مظہر بھی ہے اور اس کی واقف بھی ہے.ادنیٰ سے ادنی کیڑا، زندگی کی ادنی قسم کو لیجئے اس کا رب سے واسطہ ہے لیکن وہ چیز اس واسطے سے جو رب کو سمجھ رہی ہے، رب وہاں ختم تو نہیں ہو جاتا.رب تو اس پہلو سے شروع ہوتا ہے بلکہ اس سے آگے بھی شروع ہے اور اس کو یہ بھی نہیں پتا کہ مجھ سے ادنی کون سے حالتیں ہیں جور بوبیت کی محتاج ہیں اور پھر جوں جوں آگے ترقی ہوتی چلی جاتی ہے ربوبیت زیادہ شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے.مادی دنیا میں بھی ربوبیت کا یہی منظر ہے صلى الله روحانی دنیا میں بھی یہی مظہر ہے اور وہ خدا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ربوبیت سے جلوہ گر ہوا جس
خطبات طاہر جلد 14 330 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء نے یہ فرمایا الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تمام تر تعریف کو ربوبیت کے ساتھ اکٹھا کر دیا اور تمام جہانوں کا رب قرار دے کر تمام تعریف کو اکٹھا کیا.اب اس پہلو سے صرف الْحَمدُ کے ربوبیت کے تعلق کو ہی آپ دیکھیں تو ایک لامتناہی مضمون ہے جو سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آئے گا.اس لحاظ سے آسان بھی ہے اور مشکل بھی ہے اور جب میں وقت کی کمی کے خیال سے تیز گزرنے کی کوشش کرتا ہوں تو لوگوں کی طرف سے ،اچھے بھلے علماء کی طرف سے بھی یہ خط ملتے ہیں کہ آپ کا مضمون کچھ تو دماغ میں سے گزرا کچھ سر کے اوپر سے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم Concentrate نہیں کر سکے اپنے آپ کو پوری طرح.یعنی غور کرتے کرتے کسی پہلو میں اٹکے ہیں تو دوسرا پہلو گزر گیا.اس لئے آہستہ بیان کریں.اب اگر آہستہ بیان کیا جائے تو پھر یہ ساری عمر ایک ہی سلسلہ جاری رہے گا اور ضرورت کی باتیں جو وقتا فوقتا پیش آتی ہیں ان سے کلیۂ صرف نظر کرنا ہوگا اس لئے کوشش کر رہا ہوں ذہنی طور پر کوئی ایسی ترتیب دے لوں کہ کچھ نمونے آپ کے سامنے رکھ دوں اور باقی انہی نمونوں پر غور کر کے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے علم چاہیں اور خود ہی یہ سفر طے کرنا شروع کریں.علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کی بات ہو رہی تھی.اب آپ دیکھیں کہ قرآن کریم میں لفظ غیب، 49 دفعہ استعمال ہوا ہے اور قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ اگر چہ ایک ہی لفظ بار بار استعمال ہورہا ہے مگر کسی نہ کسی پہلو سے کوئی نیا جلوہ دکھاتا ہے، کوئی نیا رنگ رکھتا ہے اور اس تعلق سے کبھی خدا تعالیٰ کے اسماء پر انسان کو غور کرنے کا موقع ملتا ہے، کبھی مخلوقات کے او پر غور کرنے کا اور ان کی بے بسی کا تصور باندھنے کا موقع ملتا ہے اور چار دفعہ غیوب کا لفظ استعمال ہوا ہے جمع میں علام الغیوب اور جہاں غیب کا ہے وہاں عموماً عَلِمُ الْغَيْبِ ہے جہاں غیوب کا ہے وہاں علام الغیوب ہے یعنی غیب زیادہ ہیں تو علم بھی بہت زیادہ چاہئے اور مبالغہ کی صفت استعمال ہوئی ہے غیر معمولی غیب کا علم رکھنے والا ہے اور غیب ایک نہیں ہے کئی غیب ہیں.اب یہی مضمون آپ دیکھ لیں غیب ایک نہیں ہے کئی ہیں.اس پر غور کریں تو عقل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے اور غیب کا سفر ہمارے علم کے مطابق اپنے تصور میں طے ہو ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے کیونکہ ہر غیب کے پیچھے ایک اور غیب ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.اس میں آپ جہات کی بات سوچ
خطبات طاہر جلد 14 331 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء لیں.ہم شش جہات کی بات کرتے ہیں دراصل وہ تین جہات ہیں اوپر کو ایک جہت کہتے ہیں نیچے کو ایک جہت.تین جہات ہیں اور چوتھی جہت وقت کی ہے تو چار جہات کے اندر ہم محدود ہیں.چار جہات سے باہر کا تصور حساب دان کرتے ہیں.حسابی رو سے اگر Two Dimensional World ہوتو کیا ہوگا Five Dimensional ہو تو کیا ہوگا اور یہاں تک تو بہر حال ان کا غور اور تد برا نہیں پہنچا چکا ہے یا اس کا تصور باندھ سکتے ہیں کہ اس کائنات میں اسی وقت اور اسی Space، اسی مکانیت میں ایسے بھی جہان ہو سکتے ہیں جن کی Dimensions مختلف ہوں اور ان کا ہم سے کوئی دور کا بھی تعلق نہ ہو ایک ہی جگہ رہتے ہوئے.اب اسی پر غور کریں تو آپ کو حضرت اقدس محمد مصطفی میے کی حقانیت پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے، اونی بھی آپ کی حقانیت پر شبہ باقی نہیں رہتا.اس زمانے میں جبکہ وقت کا مکان کا تصور بالکل اور تھا، اس زمانے میں آپ پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ جنت ایسی چیز ہے عَرْضُهَا السَّمُوتُ وَالْاَرْضُ ( آل عمران : 134 ) کہ اس کا دائرہ زمین و آسمان پر پھیلا پڑا ہے.کوئی چیز بھی جسے آپ کا ئنات کہتے ہیں وہ جنت کے دائرے سے باہر نہیں ہے.اب یہ سوال کہ جنت کا دائرہ زمین و آسمان پر محیط ہے صحابہ سمجھ نہیں سکے اور ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر جہنم کہاں ہوگی؟ آپ نے فرمایا وہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.تو جس خدا نے آنحضرت ﷺ کو یہ Dimensions کا شعور اس وقت عطا کیا تھا جبکہ تمام عالم کی عقل گل ہی اس شعور کے قدموں تک بھی نہیں پہنچ سکی تھی حیرت انگیز بات ہے.عرب کا ایک ان پڑھ انسان جس کی ساری قوم امی کہلا رہی تھی اس میں سے ایک شخص اٹھتا ہے اور اس پر ایسا کلام نازل ہوتا ہے جوا سے غیب کی خبریں دیتا ہے اور غیب کی خبروں کی حکمتوں سے آگاہ فرماتا ہے اور کئی قسم کے غیب اس خبر میں موجود ہیں ، یہ ایسی خبر دی گئی ہے جس سے آپ کے زمانے کے تمام انسان غیب میں تھے یا یہ خبر ان سے پردہ غیب میں تھی اور آپ کو عطا کی گئی اور جس چیز کی خبر عطا کی گئی وہ غیب در غیب کی خبر ہے کہ تم جس دنیا کو سمجھتے ہو ، ہم جانتے ہیں اس میں سے اکثر کو تو جانتے ہی نہیں لیکن اس کا جو عمومی تصور باندھتے ہو اس سے بھی پرے اور چیزیں ہیں.تو ” علام الغیوب کا جو لفظ ہے اس نے بتایا کہ غیبوں کے بھی جہان ہیں.ایک کے بعد
خطبات طاہر جلد 14 332 خطبہ جمعہ 12 رمئی 1995ء دوسرا جہان بھی ابھرتا چلا جاتا ہے تو سوچ کی کوئی آخری حد ہی باقی نہیں رہتی.اب یہ مضمون کوئی سمجھے گا کہ شاید علمی جسکے کی باتیں ہیں، بالکل غلط بات ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کا مذہب کی حقیقت سے بنیادی تعلق ہے اور جسے سمجھے بغیر مذہب کی غرض وغایت پوری ہو ہی نہیں سکتی یعنی کچھ نہ کچھ حصہ ہم پاسکتے ہیں جیسے ایک کیڑا اپنے رب کو جانتا ہے لیکن جس مقام پر ہمارا شعور پہنچایا گیا ہے ہمارے لئے جور بوبیت کی مختلف جہتیں کھول دی گئی ہیں.ان پر غور نہ کرنا تو نسبتی لحاظ سے کیڑا بنے رہنے کی مترادف ہے اور جو لوگ پھر کیڑا بنتے ہیں ان کا ذہن پھر کیڑوں والا ہونا شروع ہو جاتا ہے ان کو رزق سے صرف اتنی نسبت ہے کہ کھایا پیٹ بھرا اور سو گئے اور یا دنیا کے عیشوں میں مبتلا ہوئے اور وہ ہاتھ جس نے رزق دیا ہے اس ہاتھ کی لس تک کو نہیں پہچان سکتے.صلى الله تو اس لئے جو صفات باری تعالیٰ کا مضمون ہے یہ کوئی محض علمی نخرہ نہیں ہے، یہ حقیقت میں خدا سے تعلق باندھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.جس عظمت کا خدا حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ پر ظاہر ہوا وہ آپ تک محدود رہنے کی خاطر ظاہر نہیں ہوا بلکہ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108 ) کا مطلب ہے اس خدا کے جلوے تمام جہانوں کے لئے میسر فرما دیئے گئے، کسی جہان کے لئے بھی کوئی کنجوسی نہیں کی گئی کسی قسم کی چیز روک نہیں رکھی گئی کل عالم کے لئے دعوت عام دے دی گئی ، یہ خدا جلوہ گر ہوا ہے آؤ اور اس کو دیکھو.تو اس پر غور کئے بغیر ، اس کی صفات کا سفر کئے بغیر کیسے خدا اپنی پوری شان کے ساتھ نہیں تو کچھ نہ کچھ اس شان کے نمونے کے طور پر ظاہر ہوسکتا ہے جو محمد رسول الله ﷺ پر ظاہر فرمائی گئی اور حقیقت میں ہم اس دنیا میں صفات باری تعالیٰ میں جتنا سفر کرتے ہیں ویسی ہی اپنے لئے جنت بناتے ہیں.جنتیں بھی بے شمار ہیں اور غیب میں ہیں.جنتوں میں بھی بہت سے غیوب ہیں اور جنت نام ہے صفات باری تعالیٰ کا، اس کے سوا کوئی جنت نہیں ہے.”ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں ( کشتی نوح صفحہ ۲۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ فرمایا تو اس میں بہت گہرے علوم بیان فرما دیئے گئے اور فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِى (الفجر: 30 تا 31).اس میں بھی جو میری جنت فرمایا گیا ہے وہ دراصل جنت کی وہ اعلیٰ تر صورت کا نام ہے جو خالصۂ صفات باری تعالیٰ سے بنتی ہے اس میں دوسرے کی خواہش کا کوئی دخل نہیں.رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر: 29) ہو کر داخل ہو.کس
خطبات طاہر جلد 14 333 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء الله میں؟ میری جنت میں اور یہاں وہ جنت نہیں ہے جس میں فرمایا مِمَّا يَشْتَهُونَ (المرسلات: 43) ان کو وہ چیزیں بھی ملیں گی جن کی وہ اشتہاء کرتے ہیں.اشتہا ء اس کے سوا ہے ہی کوئی نہیں کہ مرضیہ رہیں.راضی رہیں اس بات پر جس پر خدا راضی ہے.اس کے بعد اپنی خواہش کہاں باقی رہی کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو اس لئے اس مضمون کو اگر ٹھہر ٹھہر کر کھول کھول کر بیان کیا جائے تو ایک ہی چھوٹی سی شاخ پر کھڑے ہو کر ایک لمبا زندگی کا وقت اور اس کا سفر طے کیا جاسکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ بہر حال کچھ نمونے ہیں جو دینے ہوں گے تاکہ ان رستوں پر چل کر آپ غور کریں اور صفات باری تعالیٰ کو کوئی آسمانی ایسا مضمون نہ سمجھیں جو اوپر ہے.وہ ایسا مضمون ہے جو زمین پر اترتا ہے اور انبیاء کے ذریعے اترتا ہے.حضرت مسیح نے جو دعا مانگی تھی کہ اے خدا جو آسمان پر ہے زمین پر بھی اتر.وہ حقیقت میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں پوری ہوئی ہے.آپ کے جلوے کے ساتھ پوری ہوئی ہے.وہ جو آسمان پر خدا تھا گویاز مین پر اتر آیا اور وہ صفات سے اترتا ہے.وہ کوئی جسمانی سفر طے کر کے تو نہیں آتا، کوئی وقت لگا کر تو نہیں پہنچتا وہ صفات کے ساتھ اترتا ہے.پس جواتر اہواس کو دیکھ نہ سکیں ، دیکھیں تو اس کو سمجھ نہ سکیں اور اس پر غور کرنے کی توجہ پیدا نہ ہو یہ اندھی زندگی ہے اور اندھی زندگی کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِى الْآخِرَةِ أعمى (بنی اسرائیل : 73) کہ جو اس دنیا میں اندھا رہا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھے گا.مومن تو اندھا نہیں ہوتا مگر مومن کی دیکھنے کی طاقتوں میں فرق ہے اور روز بروز عرفان کے ساتھ وہ فرق بڑھتا چلا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو کافر ہے وہ تو کھاتا ہے اللہ کی دین اور ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوچتا کہ دینے والا ہاتھ کون سا ہے.مومن الْحَمدُ لِلهِ کہہ کر شکر کر کے روٹی کھا لیتا ہے اور ایک تعلق ربوبیت سے قائم کر لیتا ہے جو باشعور تعلق ہے لیکن وہ روٹی کیسے آئی، ربوبیت کیا معنے رکھتی ہے.اس کی تفاصیل ،اس کی کیفیات نہاں در نہاں ، اصل جنت تو وہاں سے شروع ہوتی ہے تو دروازے پر کھڑے ہو جانا اور جنت میں داخل نہ ہونا یہ تو بڑے نقصان کا سودا ہے.پس اس پہلو سے اس مضمون کو جو میں شروع کر چکا ہوں اسے آپ کوئی ثانوی ذوقی مضمون نہ سمجھیں کہ اہل علم کی باتیں ہیں وہ سوچتے رہیں ہمیں تو سیدھا سادہ پیغام ملنا چاہئے.سیدھا سادہ
خطبات طاہر جلد 14 334 خطبہ جمعہ 12 رمئی 1995ء پیغام یہی ہے کہ هُوَ اللهُ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی ایسا لائق نہیں کہ اس کا کھوج لگایا جائے اس کے پیچھے چلا جائے اس کی اطاعت کی جائے اور وہ یہ ہے علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ پہلی بات ہی علِمُ الْغَيْبِ سے شروع کی گئی اور غیب کے چکر میں ڈال کر ایک ایسا سفر شروع کرا دیا جس کی غیب کے تعلق ہی میں کوئی انتہا نہیں اور ایک ایسا نیا مضمون عطا فرمایا جو پہلے کبھی کسی مذہب کو عطا نہیں کیا گیا.جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے مجھے ایک عرصہ پہلے اس بات کی جستجو ہوئی کہ دیکھوں غیب کا مضمون دوسرے مذاہب میں بھی ملتا ہے کہ نہیں تو کہیں نظر نہیں آیا.کم سے کم میری آنکھوں سے تو وہ غائب رہا.اگر کسی کو علم ہو کہ جس طرح قرآن کریم نے غیب کے مضمون کو اٹھایا ہے اور اس پر روشنی ڈالی ہے کسی اور مذہب میں یہ تصور موجود ہے تو دکھائے.یہ چیلنج نہیں ہے میں چاہتا ہوں کہ دیکھوں اگر ہے تو ضرور نسبتا ادنیٰ حالت میں پایا جائے گا.اسلام نے جو غیب کا مضمون بیان فرمایا ہے یہ تو رفعتوں کی انتہا ہے اور پہلی بات جو انقلابی اس میں دکھائی دیتی ہے اس پر میں آپ کو غور کی دعوت دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ توحید کے لئے حقیقت میں غیب پر ایمان لانا از بس ضروری ہے کیونکہ اس سے پہلے جتنے بھی شرک کے مذاہب ہیں یا جو مذاہب میں شرک تبدیل ہوئے وہ اس وجہ سے تھا کہ وہ ظاہر جو چیز سامنے ہو اسی پر ایمان لا سکتے تھے.اس لئے ان کا ظاہر تھا جس پر وہ ایمان لاتے تھے اس ظاہر کا پیچھے ایک سایہ بنتا تھا جسے وہ سمجھتے تھے وہ غیب میں ہے لیکن اس پر ایمان نہیں لا سکتے تھے جب تک سامنے ظاہر طور پر بہت دکھائی نہ دے.کوئی درخت کوئی سورج، کوئی چاند ، کوئی سمندر کوئی طوفان یہ چیزیں ان کے لئے ظاہری عبادت کے لئے تھیں اور اس کے پردے میں وہ سوچتے تھے کہ کچھ اور بھی ہوگا اور اس کے سوا کچھ اور ان میں دکھائی نہ دیتا تھا.اس لئے اس کی صفات اس سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکیں جتنی ظاہر کی صفات تھیں.اب اس پر آپ غور کر کے دیکھیں کہ جنہوں نے سورج کی پرستش کی ہے ان کی دیو مالائی کہانیاں پڑھ لیں ان میں سورج کی بھی تمام صفات کا بیان نہیں ہے سورج کی صرف چند صفات ان کو نظر آتی ہیں اور وہی ان کے دیوتا کی جلوہ گری ہے بس تو ایمان ظاہر پر لائے ہیں غیب پر ایمان لائے ہی کوئی نہیں.خدا تعالیٰ نے پہلی دفعہ یہ نمایاں چیلنج کر کے انسان کے دماغ کو بیدار کیا ہے کہ غیب پر ایمان لاؤ گے تو پھر ظاہر کی سمجھ آئے گی ورنہ آئے گی ہی نہیں اور ذات باری تعالیٰ غیب ہے، غیب میں
خطبات طاہر جلد 14 335 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء ہے.اب ان دو چیزوں میں بھی فرق ہے اللہ تعالیٰ کا نام غیب نہیں ہے.اللہ کا نام حاضر بھی نہیں ہے یا ہو تو میرے علم میں نہیں.حاضر ہونا تو ممکن ہے مگر غیب خدا کا نام نہیں ہے.اللہ کا نام ظاہر ہے اور باطن ہے وہ ظاہر بھی ہوتا ہے اور باطن میں بھی ہے اور باطن کا مطلب ہے غیب کے پردوں میں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں غیب کی تعریف بیان فرمائی وہاں اللہ کو غیب قرار نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ علم الغیب کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ناموں کو ، اپنی صفات کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کیونکہ ہر غیب کا وہ واقف ہے اور اس کی صفات کا ایک بہت ہی عظیم حصہ جس کو ظاہر کے مقابل پر کوئی ایسی نسبت ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے ، وہ غیب ہے خدا جس کا علم رکھتا ہے اور تمہیں اس پر ایمان لانے کی ہدایت کرتا ہے.یہ ایمان کیوں ضروری ہے غیب پر ایمان لانا، اس کے متعلق قرآن کریم کی وہ آیات جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ انچاس آیات ہیں وہ لفظ غیب کے مضمون پر روشنی ڈالتی رہی ہیں مختلف پہلوؤں سے.ان میں سے بعض ایسی آیات ہیں جن کا انسانوں سے بھی تعلق ہے اس لئے ان کو نکال بھی دیں تو اکثر وہ صفات ہیں جو خدا تعالیٰ کے علم غیب سے تعلق رکھتی ہیں.یہ ضروری اس لئے ہے کہ فائدے بھی غیب میں مضمر ہیں اور خطرات بھی غیب میں مضمر ہیں.ایک آئس برگ جو سمندر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، برف کا تو دا بعض دفعہ ایک چھوٹا پہاڑ ہے جو ڈوبا ہوا ہے اس کا صرف 1/10 حصہ سمندر کی سطح سے باہر دکھائی دیتا ہے باقی نیچے ہے.جن کو پتا نہ ہو وہ اس کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں.بعض دفعہ چھوٹا سا ٹکڑا باہر دکھائی دیتا ہے چھوٹی پہاڑی یا ٹیلہ سمجھ لیں ڈوبا ہوا ہے اور ایک پورا 9/10 حصہ اندر ہوتا ہے جو جہازوں کے پر خچے اڑادیتا ہے.جب ٹکر لگے تو بڑے بڑے جہاز اس سے غرق ہو جاتے ہیں.بعض ایسے جہاز جن کے متعلق قوموں نے دعوے کئے تھے، خود انگلستان نے ایک ایسا جہاز بنایا تھا جس پہ دعویٰ تھا کہ آج تک اس سے زیادہ کامل جہاز کبھی نہیں بنایا گیا، پہلے سفر میں ہی آئس برگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا کچھ بھی اس کا باقی نہ رہا.تو وہ ذات جو چھپی ہوئی ہو، اس کے منفی پہلو ، اس کی ایسی طرف ظاہر ہونا جو اس سے ٹکرا دے تمہیں ، جو اس کے ساتھ تصادم پیدا کر دے، نہایت ہولناک نتائج پیدا کر سکتا ہے.یہ لاعلمی نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے اور فوائد چھپے ہوئے ہوں اور آپ کو علم نہ ہو تو آپ ان سے استفادہ کرسکیں گے.تو ہمارے لئے منفی پہلو سے بھی اور مثبت سے بھی علم الغیب پر غور ضروری ہے اور اس پہ جوں جوں آپ غور
خطبات طاہر جلد 14 336 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء کرتے ہیں نئے نئے پر دے اٹھتے ہیں غیب سے اور ان کے پیچھے اور غیب دکھائی دینے لگتا ہے کہ پیچھے بھی کچھ ہے، ایک لامتناہی سفر ہے.اب آپ دیکھ لیجئے کہ غیب کے تعلق میں جب تک ہم زندہ ہیں اور باشعور ہیں ہم سمجھتے ہیں سب کچھ دکھائی دے رہا ہے حالانکہ زمانہ بحیثیت زمانہ اکثر غیب میں ڈوبا ہوا ہے.ایک انسان کا شعور جب کچھ دیر کے لئے ابھرتا ہے تو اس کی زندگی کے ساتھ ایک عالم وجود میں آتا ہے جیسے مچھلی بعض دفعہ سانس لینے کے لئے ذراسی او پر اچھلتی ہے اور پھر ڈوب جاتی ہے.وہ چند لمحے جن میں گرمیوں میں خصوصاً جب پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جائے تو مچھلیاں سطح پر ابھرتی ہیں اور منہ مار کر واپس چلی جاتی ہیں وہ چند لمحے اس کی زندگی کے ساتھ جو نسبت رکھتے ہیں اس سے بھی زیادہ نسبت ہمارے غیب کے شعور یا عالم وجود کے شعور کو عالم غیب سے ہے.ایک ذات ابھرتی ہے اور دراصل اس کے ساتھ ایک جہان ابھرتا ہے اور وہ چند لمحے جو اس نے شعور کے گزارے اس کو ارد گرد کچھ دکھائی دیتا ہے اور اس لئے جہانوں کا نام عالمین رکھا گیا.عالم کا مطلب ہے جس کو معلوم کیا جائے ، جس کا علم ہو.تو عالم کا وجود ہی علم سے تعلق رکھتا ہے اور عالم پردہ غیب سے اچھلتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے.ہر آدمی کے پیدا ہونے کے ساتھ ایک عالم پیدا ہوتا ہے، ہر کیڑے کے پیدا ہونے کے ساتھ ایک عالم پیدا ہوتا ہے اور ہر آدمی کے مرجانے کے ساتھ ایک عالم مرجاتا ہے، ہر کیڑے کے مرجانے کے ساتھ ایک عالم مرجاتا ہے.قرآن کریم نے ان مضامین کومختلف جگہوں پر بہت ہی لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو سمجھ آئے گی اور نہ آیات پڑھ کر آپ چپکے سے آگے گزر جائیں گے.جب حضرت آدم کے ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کو قتل کیا تو اس وقت قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے یہ لکھ دیا ہے اب بنی اسرائیل پر کہ اس کے بعد یہ سلسلہ یوں سمجھا جائے گا کہ اگر کسی نے ایک شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے سب کو قتل کر دیا.اب یہ کیسے قتل کر دیا سب کو.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھ ایک کل عالم کا تصور لئے ہوئے ہیں.ہم میں سے ہر ایک اس طرح ہے.جب ایک مرتا ہے تو وہ عالم ساتھ مرجاتا ہے اور عالم وہ چیز ہے جو خدا نے پیدا کی ہے اور ہماری ذات کی خاطر ، ہمارے شعور کی خاطر وہ آئینے ہیں جن کے رستے سے ہم خدا کو دیکھتے ہیں.تو بہت بڑا گناہ ہے کہ اللہ نے ایک
خطبات طاہر جلد 14 337 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء با مقصد ایک منصوبے کے ساتھ ایک چیز کو پیدا فرمایا اور ہر وجود کے ساتھ ایک عالم وابستہ ہے اور اس عالم کوکوئی شخص ماردے تو ایک آدمی نہیں مرا خدا کے بہت سے جلوے جو دیکھے جارہے تھے اب دکھائی نہیں دے رہے.اسی بات پر غور کرتے ہوئے بعض فلسفیوں نے یہ بھی کہا کہ دراصل علم ہی ہے اور کچھ بھی نہیں.اگر علم نہ ہو تو ہر چیز ختم ہے.وہ اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دیکھ لو ہم سب جوانسان ہیں ہمارا ایک شعور ہے عالم کا.اگر ہم نہ ہوتے تو کوئی شعور باقی رہتا، کوئی نہ رہتا.تو جیسا عالم تھا ویسا نہیں.اس کا ہونا اس کی حرکات ، اس کی مختلف جہتوں سے آپس میں ٹکرانا، یا تعلقات قائم کرنا اور ان کے اثرات پیدا ہونا یہ ساری چیزیں وہ فلسفی کہتے ہیں کہ ہماری سوچ سے تعلق رکھتی ہیں اور ہم نہ ہوں تو کچھ بھی نہیں گویا کل عالم ختم ہو گیا.مگر قرآن کریم اس مضمون کو سورہ فاتحہ میں ہی تو ڑ رہا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تم ہو یا نہ ہو، ایک زاویے سے ایک رب ہے جس کا ہر عالم سے تعلق ہے تمہارے مٹنے سے عالم نہیں مٹ سکے گا کیونکہ تمہارے مٹنے سے اگر کوئی عالم مٹتا ہے تو ایک بہت ہی محدود عالم مٹتا ہے.ایک ایسا عالم مٹتا ہے جس کے ظاہری کچھ نقوش تمہارے ذہن میں ہیں اس سے زیادہ تمہیں کو ئی علم نہیں اس عالم کے ساتھ جو بے انتہاء غیب وابستہ ہیں ان کا تمہیں کوئی تصور نہیں ہے جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا ہے عالم کا تصور پھیلتا چلا جا رہا ہے اور جو تصور پھیلتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ابھی ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور عالم کا ایک لامتناہی طور پر زیادہ حصہ ہے جو ہماری نظر سے غائب ہے.تو رَبِّ الْعَلَمِينَ نے یہ بتا دیا کہ واہمہ نہیں ہے عالم جو خدا نے پیدا کیا ہے اس کو کسی موت سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ جو اس کی کنہ کو جانتا ہے جو اس کے غیب کو جانتا ہے جو اس کے حاضر، اس کے شاہد کو جانتا ہے وہ خدا موجود ہے اور اسی کے تعلق سے وہ عالم قائم ہے تو تمہارے مرنے سے کیسے مٹ سکتا ہے مگر تم جب ایک دوسرے کو مارتے ہو تو انسانی سطح پر جو عالم ابھرتے ہیں وہ ایک ابھرے ہوئے عالم کو ڈبو دیتے ہیں اور چونکہ تم مالک نہیں ہو ، رب نہیں ہو اس لئے جواب دہ ہو گے.تو درحقیقت یہ زندگی کے جتنے ادوار ہیں یہ سب نئے عالم لے کر آتے ہیں.ایک آج کی نسل کو اگر آپ سو سال دے لیں جیسا کہ حضرت اقدس محمدرسول اللہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ آج سے سو سال تک کوئی بھی وہ نہیں رہے گا جو آج یہاں ہے، سب فنا ہو جائیں گے (مسلم کتاب الفصائل الصحابہ ) یعنی اس میں ایک
خطبات طاہر جلد 14 338 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء یہ بھی پیشگوئی تھی کہ جو بچہ آج پیدا ہو گا وہ سو سال سے زیادہ عمر نہیں پائے گا.جو اس سے پہلے تھے وہ پاسکتے تھے چنانچہ بعض صحابہ کی عمر سو سے اوپر ہوئی لیکن اس فرمان سے پہلے پیدا ہو چکے تھے.اب سو سال میں ایک پورا عالم بدل گیا.یعنی عالم ایسا بدلا کہ تمام جو عالم کو سمجھنے والے تھے ہر ایک کی سوچ میں ایک عالم تھا اب سب کا مجموعہ بدل گیا.عالم کے سمندر کا قطرہ قطرہ بدل گیا اور اس کے باوجود عالم اپنی جگہ قائم تھا لیکن اس کی سوچ بدل گئی، اس کی کیفیات بدل گئیں اور ان میں پھر ایسے بھی لوگ تھے جو باشعور تھے جو اللہ سے تعلق رکھتے تھے ان کی سوچوں میں عالم کا کچھ اور ہی مطلب تھا، کچھ دہریہ اور دنیا دار اور بگڑے ہوئے اہل کتاب بھی تھے جن کے ہاں عالم کی کوئی اور تصویر تھی تو حقیقت میں ہرزمانے کا انسان ایک عالم کی سوچ لے کر پیدا ہوتا ہے، ایک عالم کی سوچ لے کر مر جاتا ہے اور وہ خود غیب سے آتا ہے اور غیب میں داخل ہو جاتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ جس کا آغاز غیب ہو ، جس کا انجام غیب ہو ، وہ غیب پر ہی غور نہ کرے؟ آخر آیا کہاں سے اور کیوں آیا ہے اور کدھر جائے گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرہ: 157) کہ جس غیب سے تم ابھرے ہو وہ عدم نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے اللہ موجود تھا اور اللہ کی قدرت سے تم وجود میں آئے ہو اس کی طاقتیں لے کر اس کے امر کے ساتھ ، جتنی تم کو عطا کی گئیں ان کو لے کر آئے ہو لیکن پھر آگے جواب رہی ہے اور تم نے واپس اسی غیب میں ڈوبنا ہے جس غیب سے ابھرے ہو اور وہاں وہی خدا موجود ہو گا، تو تم وقتی طور پر غیب سے شاہد کی دنیا میں ابھرے ہو لیکن پھر تم نے غیب کی دنیا میں ڈوب جانا ہے اور تمہارا رحمان خدا بحیثیت رحیم تمہارا منتظر ہو گا.اب جو جوابدہی ہے وہ دراصل رحیم کے سامنے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں جو فرمایا ہے علم الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ساتھ فرمایا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیم وہ رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے.رحمان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں جہاں قلم اٹھایا ہے یا لب کشائی فرمائی وہاں اس مضمون پر زور دیا کہ رحمان وہ ذات ہے جو در حقیقت بن مانگے دینے والی یعنی عدم سے اس طرح پیدا کرنے والی کہ اس کا مطالبہ کرنے والا ابھی تھا ہی کچھ نہیں اور کامل طور پر غیب پر رحمان کی حکمرانی ہے.غیب سے جو رونما ہوتا ہے وہ غیب کے سہارے، اس کے امر سے رونما ہوتا ہے.رحمان کے سہارے اور رحمان کے امر سے رونما ہوتا ہے.اس کے بعد رحمانیت ایک اور
خطبات طاہر جلد 14 339 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء.رنگ میں پھر ساتھ دیتی ہے اور وہ حاضر کی دنیا میں رحیمیت بن جاتی ہے.رحمان تو وہ جس نے سب کچھ دے دیا اس کے بعد حاضر دنیا میں اس کے اور بھی معنے ہیں میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.میں یہ بتانا چاہتا ہوں اس تعلق میں یہ سمجھ لیں کہ غیب ہے جہاں سے آپ ابھرے.آپ نے کب مطالبہ کیا تھا کہ اے خدا مجھے پیدا کر اور اے خدا میری یہ یہ ضرورتیں ہیں یہ پیدا کرنا اور جب میں اور میری جنس ترقی کر جائیں تو اس زمانے کی ضرورتیں بھی ہمیں مہیا ہونا شروع ہو جائیں، جب تک ہماری عقل تیل کا استعمال نہ جانتی ہو تیل بے شک نظروں سے اوجھل رہے.جب ایسی مشینیں سوچنے کی طاقت پیدا ہو جائے اور بنانے کی طاقت پیدا ہو جائے جو تیل کے بغیر چل ہی نہیں سکتیں تو پھر ہمیں تیل بھی عطا کر دینا اور پھر اے خدا جب خطرہ ہو کہ تیل ختم ہونے والا ہے اور انسانی سوچ بھی ایسی مشین ایجاد کر لے یا ان کی صلاحیت رکھتی ہو کہ اٹامک انرجی سے فائدہ اٹھا سکے تو پھر اس پر ایٹم کے راز روشن کرنا اور دھاتیں مہیا کرنا جو ایٹم کی انرجی کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہے اور زمین پھر ان بھاری دھاتوں کو اس کے لئے اچھال دے، کیا یہ سب مطالبے آپ میں سے کسی نے کئے تھے؟ ہم میں سے کسی نے کئے تھے؟ جو ہے ہی نہیں وہ غیب میں کچھ بھی نہیں ہے.وہ تو ایسا غیب ہے کہ اپنے باپ کی شادی سے پہلے وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں تھا تو کہاں تھا ؟ کیا تھا میرا؟ تو کائنات میں زمین کے پیدا ہونے سے پہلے وہ کیا سوچ سکتا تھا؟ کیا مانگ سکتا تھا لیکن رحمان خدا ہے جس کی غیب پر کامل راج دہانی ہے.اس پہلو سے بھی اس کا توحید سے بڑا گہرا تعلق ہے اول تو یہ کہ ظاہر کی عبادت نہیں کرنی.اصل غیب ہے غیب کی عبادت کرو گے تو پھر تمہیں حقیقت میں توحید کے معنے سمجھ آئیں گے.غیب میں جو ہے اس کی عبادت کرو اور خدا کی ذات کی شناخت کوئی انسان خود کر ہی نہیں سکتا مگر جو عرفان اس نے ہمیں بخشا ہے اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ خدا کی ذات کا عرفان جتنا عطا بھی کیا گیا ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی وہ لوگ نہیں سمجھتے جن کو عطا کیا گیا ہے اور اکثر غیب ہی غیب ہیں.تو ذات کا سفر کرنا ہو تو غیب کو اہمیت ہے اور غیب میں ڈوبنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے.اگر دوسرے پہلوؤں سے اپنے آغاز اور اپنے انجام کی باتیں سوچیں تب غیب پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر آپ کو در حقیقت غیب کی سمجھ نہیں آئے گی اور جب صفت رحمانیت کے ساتھ غیب کا تعلق سوچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ عالم غیب پر اس کی بلا شرکت غیرے راج دہانی ہے کوئی
خطبات طاہر جلد 14 340 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء اور نہیں جو غیب کا علم رکھتا ہو.اس کے سوا کوئی اور نہیں جو غیب میں کچھ عطا فرما سکتا ہو، کچھ پیدا کرسکتا ہو ہر پہلو سے غیب کا مضمون آپ کو لا متناہی جہانوں میں لے چلتا ہے جس پر غور کریں تو عجیب و غریب، نئے سے نئے مطالب آپ کے سامنے پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں.مختصراً اتنا سر دست میں یہ بات کہہ کر رحیمیت سے اب اس کا تعلق جوڑتا ہوں.رحیمیت کا مطلب ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بہت ہی لطیف معنے اور بار بار کئے ہیں اتنے کہ ذہن میں خوب پیوست ہو جائیں وہ یہ ہیں کہ وہ جو اعمال کی جزاء مترتب کرنے والا ہے.آپ نے رحمن خدا سے جو کچھ پایا اس کا حساب دینا ہوگا اور اگر اس کو استعمال کر کے آپ رحمان خدا کے قریب ہوتے ہیں تو ہر اس قدم کی جو خدا رحمان کی سمت میں اٹھتا ہے اس کی جزا رحیمیت دیتی ہے.اب ایک نئی عطا ہے یہ.رحمانیت سے فائدہ اٹھانا زیادہ سے زیادہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ آپ کو شکر گزاروں میں لکھ لے کہ ہاں تم نے شکر گزاری کا حق ادا کیا، پتا کر لیا کہ ہاں کوئی تھا دینے والا جو تمہارے مانگے بغیر تمہیں وہ کچھ عطا کر گیا ہے کہ تمہاری ساری نسلیں بھی اس کو استعمال کرتی رہیں اور آئندہ ظاہر ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھاتی رہیں تب بھی وہ رحمانیت نے جو خزانے بھر دیئے ہیں ان کو ختم نہیں کر سکتیں ، یہی نتیجہ نکلتا ہے.جزا کہاں سے آ گئی اس میں.اس میں تو کوئی جزا والی بات نہیں ہے.آپ کسی کو کوئی کھانا تحفہ دیں مرغ روسٹ دیں تو کہیں ہاں میں نے پہچان لیا ہے مرغا ہے یہ.تو آپ کہیں جزاک اللہ تم نے کمال کر دی ہے خوب پہچانا ، یہ تو نہیں ہوسکتا.مگر جو رحمان سے تعلق جوڑتا ہے بعض دفعہ ایک سادہ آدمی کی اس بات پر بھی خوش ہو کے اس کو جزا دیتا ہے کہ اچھا تم نے کمال کر دیا واقعہ میں تمہیں ایک اور بھی چیز دیتا ہوں انسانوں میں تو شاذ کے طور پر یہ صفت دکھائی دے گی مگر رحیمیت ہر بار ہم سے یہی سلوک کرتی ہے.آپ رحمانیت کو پہچانیں اور اس کے حقوق ادا کرنے کی اس طرح کوشش کریں کہ جو کچھ خدا نے بن مانگے آپ کو دیا ہے اس سے لذت یاب ہوتے وقت اس کو یاد کر لیا کریں تو ہر قدم پر رحیمیت جزا لے کر آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی اور اگر آپ نہیں پہچانیں گے تو سزا آپ کے اس فعل سے از خود ظاہر ہوگی کیونکہ اپنی بھلائی کو جو نہ جانتا ہو وہ اس سے محروم رہ جاتا ہے.بے انتہاء خزائن ہیں جو پردہ غیب میں ہیں، جو رحمانیت کے تعلق میں ہمارے لئے اس صورت میں موجود ہیں کہ ہم اگر ہاتھ بڑھا ئیں اور اللہ توفیق دے تو وہاں تک
خطبات طاہر جلد 14 پہنچ سکتے ہیں.341 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء انسانی تاریخ بتا رہی ہے جب بھی انسان نے ضرورت کے وقت ان سہولتوں میں ہاتھ بڑھایا جہاں خدا نے خزانے رکھے تھے تو وہاں تک اس کی رسائی ہوئی.تقدیر الہی کو ، اذن الہی کو دخل تو ہے اور آخری فیصلہ وہی کرتی ہے لیکن بڑھانے والا ہاتھ بھی ضرور بڑھنا چاہئے اس کے بغیر اللہ تعالیٰ رحیمیت کا جلوہ نہیں دکھاتا.رحمانیت کا جلوہ تو اس کے بغیر بھی ظاہر ہوتا رہتا ہے.اب ہمیں ہر لمحہ رحمانیت کی ان معنوں میں ضرورت ہے کہ آکسیجن خدا نے فضا میں رکھ دی ہے اور متناسب مقدار میں رکھی ہے اگر زیادہ ہوتی تو ہمیں ہلاک کر دیتی.وہ آکسیجن سوچے بغیر ہر وقت استعمال کر رہے ہیں ہاتھ بڑھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور بعض ہاتھ طبعی تقاضوں پر بڑھتے ہیں سوچوں سے کوئی تعلق نہیں.پیاسے کا ہاتھ پانی کی طرف بڑھے گا ، بکری کا منہ بھوکی ہو تو گھاس کی طرف جائے گا، بچے کا منہ ماں کے دودھ کی طرف اٹھتا ہے اور جانوروں کے بچوں کا بھی یہی حال ہے.تو سارے رحمانیت کے تقاضے ہیں جن میں سوچوں کا کوئی دخل نہیں.مگر جب انسان کی سطح پر پہنچ کر رحمانیت سے باشعور تعلق قائم ہوتا ہے اور ایک سوچ بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں تقاضے پیدا ہوتے ہیں پھر رحمانیت وہ جلوہ دکھاتی ہے جو حاضر جلوہ ہے، یہ شہادت کا جلوہ ہے.عالم شہادۃ میں ہر انسان روزانہ یہ استطاعت رکھتا ہے، خدا کی دی ہوئی استطاعت کے ساتھ ظاہر بات ہے، یہ استطاعت رکھتا ہے کہ جب بھی کوئی کام ایسا کرے جو رحمانیت سے متصادم نہ ہو تو ضرور رحیمیت کا جلوہ دیکھے اور جس طرح رحمانیت کا فر اور مومن میں فرق نہیں کرتی اور اس پہلو سے رحیمیت بھی کا فراور مومن میں فرق نہیں کرتی کیونکہ رحمانیت ہی کی ایک صورت ہے.رحیمیت جو عالم شہادۃ سے خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے.اب آپ یہ مغربی دنیا کے سائنس دانوں کو دیکھیں انہوں نے کیا کیا ہے، کون سانیا تیر چلایا ہے.جو کچھ کیا ہے صرف یہ ہے کہ اللہ کی رحمانیت کے جلووں کو جہاں جہاں پہچانا وہاں ان کی پیروی کی اور ان تقاضوں کو پورا کیا جو وہ جلوے تقاضے کرتے تھے.ایک بچے نے بھاپ کے ذریعے ڈھکنے کو اٹھتے ہوئے دیکھا، اب عام آدمی سوچے گا کہ اس میں کون سے رحمانیت ہے لیکن بھاپ میں جو طاقتیں پوشیدہ تھیں ان تک اس وقت تک انسان کی نظر نہیں تھی.بھاپ اٹھتی تھی ہر جگہ سے کبھی دھند بن کر اٹھ رہی ہے، کبھی چیز میں گرم ہورہی ہیں، پانی ابل
خطبات طاہر جلد 14 342 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء رہے ہیں اور بھاپ اٹھ رہی ہے، کسی کو کیا پتا تھا کہ رحمان خدا وہ ہے جس نے ہر چیز کے اندراس کے غیب میں خزانے رکھے ہوئے ہیں اور یہ غیب پر ایمان ہو تو ان خزانوں کی تلاش زیادہ باشعور طور پر ہوگی لیکن اگر تلاش نہ بھی ہو، غیب پر ایمان نہ بھی ہو، تو وہ آنکھیں جو دیکھتی ہیں اور سچائی کے ساتھ جو دیکھتی ہیں اس کی پیروی کرتی ہیں، رحیمیت ان کو محروم نہیں رکھتی.پس اس بچے کو خیال آیا کہ چلو اس کو بند کرتے ہیں یہ بھاپ جو اٹھ رہی ہے تو اس کا ڈھکنا زور سے بند کریں اس نے وہ کپڑاو پڑارکھ کے کچھ ، تا کہ ہاتھ نہ جلے دبایا لیکن وہ زور سے پھر باہر نکل گئی.پھر اس نے کہا اچھا اتنی طاقتور ہے میں اس کے اوپر بیٹھتا ہوں تو کپڑا وغیرہ رکھ کر اوپر بیٹھا تو کچھ دیر کے بعد اس کو اچھال اچھال کر بھاپ پھر بھی نکلنے لگ گئی.اس نے اوپر پتھر رکھ دیئے ، جو کچھ اس کا بس چلا اس نے کر دیکھا مگر وہ بھاپ نکلنا بند نہ ہوئی اس پر اس کو انجن کا خیال آیا اور پھر سائنس دانوں نے اس علم سے کہ بھاپ میں تو بہت طاقتیں پوشیدہ تھیں اس کا استعمال کرنا شروع کیا اور ریلوے انجن اس سے ایجاد ہوا.اب آپ دیکھیں ایک لمبے عرصے تک اسی بنا پر کہ خدا کی رحمانیت کو پہچانا اور اس کے عقلی تقاضے پورے کئے رحیمیت نے ساتھ دیا اور نہیں چھوڑ رہی.ہر انجن جو روزانہ روانہ ہوتا ہے کہیں سے،اس کا ہر لمحہ جو چھک چھک چھک چھک بھاپ کی آواز آرہی ہوتی ہے رحیمیت کے گیت گا رہا ہوتا ہے اور رحیمیت میں یہ دانگی ساتھ کے معنے پائے جاتے ہیں، وفا کے معنے پائے جاتے ہیں، ایک چیز ایسی آئے جو ساتھ لگ جائے اور پھر چھوڑے نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بہت ہی پیارے انداز میں مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے اور خلاصہ یہی کہ رحیمیت دراصل وہ عالم شہادہ میں رحمانیت کی جلوہ گری کا ایک انداز ہے.ہے رحمانیت ہی ہمگر وہ جو آپ کی کچھ کوشش ، آپ کی نیت ، آپ کے کچھ عمل سے تعلق باندھ دیتی ہے اور یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ضرور جزا دینی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے گرمی کو آگ کو دیکھا اس کی طاقت کو بھی محسوس کیا.بھاپ کو دیکھا، اس کی طاقت کو کسی حد تک محسوس کیا لیکن غلط استعمال کی باتیں سوچیں انہوں نے گھر پھونکے، بچوں کو ابلتے ہوئے پانیوں سے جلا دیا ، انبیاء کو آگ میں ڈالنے کی کوشش کی اور یہاں انہوں نے رحیمیت سے یا رحمانیت سے اس طرح ٹکر لی کہ اس کی غلط طرف آگئے اور وہی آگ ہے جو پھر ان کو بھسم کر گئی.وہی ابلتے ہوئے پانی تھے جو ان کی چھاتیوں میں چھالے ڈال گئے اور اس طرح رحیمیت
خطبات طاہر جلد 14 343 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء نے منفی اثر بھی دکھایا اور جزا اور سزا کا ایک مضمون مترتب ہوا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وہ غیب کا بھی عالم ہے اور شہادہ کا بھی وہ عالم ہے اور یاد رکھو تم غیب سے ابھرے تھے اور شہادہ میں آگئے ہو.هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ وه رحمان بھی ہے جس نے تمہیں غیب سے اچھال کر عالم شہادہ میں ڈال دیا، نکال دیا اور عالم شہادہ میں تمہیں جس طرح ستارے اچھالتے ہیں تمہیں اچھال دیا اور پھر یاد رکھنا وہ رحیم ہے اور رحیمیت کا مضمون آگے جاری رہے گا، یہاں ختم نہیں ہو جائے گا.پھر جب تم غیب میں جاؤ گے تو پھر ایک رحیم خدا تمہارا حساب لینے والا وہاں کھڑا ہوگا اور اس کو ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ فرمایا ہے.تو غیب سے نکلے ہو اور غیب میں پھر اچھال دیئے جاؤ گے اور اس میں غرق ہو کر ہمیشہ کے لئے خود غائب نہیں ہو سکتے.جس کو خدا نے غیب سے اٹھا دیا ہے وہ اپنے مقصد پورے کئے بغیر پھر کبھی غائب نہیں ہو سکتا اور نہ خدا اسے غائب ہونے دے گا یہاں تک کہ رحیمیت اس کے ساتھ ساتھ چلے گی.رحیمیت سے تعلق ٹوٹے گا تو سزا پائے گا، رحیمیت سے تعلق قائم رکھے گا تو جزا پائے گا اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ ایک ایک ذرے کا حساب دینے والا موجود ہوگا اور وہاں سے پھر ایک نیا عالم غیب شروع ہو جاتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.اس عالم کے متعلق فرمایا کہ کوئی آنکھ نہیں ہے جس نے دیکھا ہو، کوئی کان نہیں جس نے سنا ہو ایک اور عالم غیب بن گیا پھر.تو ایک غیب سے اچھالے گئے ، ایک شہادہ میں داخل ہوئے کچھ شہادہ سے اچھالے گئے غیب میں ڈوبے اور ایک اور شہادہ میں داخل ہوں گے جو اس وقت پردہ غیب میں ہے.تو خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے سے انسان کو اپنی کہنہ ، اپنی وجہ پیدائش کا علم ہوتا ہے، اپنی زندگی کے مقاصد کا علم ہوتا ہے اور تعلق باللہ کا مضمون روشن ہوتا ہے.آپ دس کروڑ دفعہ بھی پڑھیں علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اگر غور نہیں کرتے تو اس ذکر کو حقیقت میں ذکر نہیں کہا جا سکتا.ذکر وہ ہے جو تبدیلیاں انسان کے اندر پیدا کرتا ہے.تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ (الزمر:24) ایسا ذکر ، ایسی تلاوت، جس سے انسان کے جسم پر لرزہ طاری ہو جائے ، یہ ذکر خالی زبان سے وہ اثر دکھا ہی نہیں سکتا.پس صفات باری تعالیٰ پر غور کرنا اور کرتے رہنا ہمارے لئے بے انتہا ضروری ہے اور اس پر غور کے نتیجے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا در حقیقت ہم اپنی جنت بنا رہے ہوں گے کیونکہ مرنے
خطبات طاہر جلد 14 344 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء کے بعد جس عالم غیب کی میں نے بات کی ہے اس عالم غیب میں خدا کے سوا کچھ نہیں ہے.ہر غیر اللہ وہاں سے باہر ہے.جنت میں شیطان کو جو داخل ہونے کی اجازت نہیں یا کسی غیر اللہ کو اجازت نہیں اس کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ دراصل جنت خدا کے وجودہی سے بنتی ہے.اگر غیر اللہ کا وجود داخل ہو تو باقی جنت کو بھی وہ جہنم بنادے گا.اگر خدا کے سوا کوئی اور تصور پیدا ہو تو ساری کائنات میں فساد برپا ہو جائے گا.یہ وہی مضمون ہے جو دراصل جنت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے.پس آپ نے اپنی جنت خود بنانی ہے اور یہ جنت اللہ کے اسماء سے بنے گی اور اسماء الہی پر غور کے نتیجے میں آپ کے اندر جو روحانی تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور بعض اوقات ایسا ہوگا جیسے زلزلہ طاری ہو گیا ہے.یہ وہ چیزیں ہیں جو ذکر کہلاتی ہیں اور یہی وہ ذکر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ (العنکبوت: ۴۶).عبادت تو لازم ہے جو عبادت کرے گا اگر وہ تقاضے ظاہری پورے کرتا ہے تو اس کی عبادت ہوگئی لیکن بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ عبادت سب سے افضل ہے یعنی ظاہری عبادت جس کو صلوۃ کہا جاتا ہے اور اللہ فرما رہا ہے وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ اللہ کا ذکر جس کے لئے کسی خاص طرز کی ضرورت نہیں ہے یعنی فرض کے علاوہ ہے وہ ذکر جو مستقل جاری ہے اور عبادت میں بھی جب تک ذکر داخل نہ ہو عبادت زندہ نہیں ہوسکتی.تو وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ کا مطلب یہ ہے کہ اصل سب کچھ ، جو کچھ بھی ہے وہ ذکر میں ہے جیسے اللہ اکبر ہم کہتے ہیں تو استعمال تو کرتے ہیں ذرا ہیجان پیدا کرنے کے لئے نعرہ بازی کے شوق میں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ اکبر اور وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اس کی کبریائی کو سمجھنے کے لئے اس کی صفات پر غور ضروری ہے اور جوں جوں ان صفات پر غور میں آپ آگے بڑھتے ہیں آپ کے اندر سے ایک خدا کے وجود کا تصور ابھرتا ہے اور آپ کا خدا اتنا ہی ہے کسی کا کم خدا ہے کسی کا زیادہ ہے اور بظاہر سب کا ہے.تو یہ جو خدا کی صفات میں یہ مضمون ہوتا ہے کہ فَانِي قَرِيبٌ (البقرہ: 187) میں قریب بھی ہوں اور پھر یہ کہ میں سب سے زیادہ دور بھی ہوں، اتنا بلندتر ہوں کہ وہاں تک کسی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا.ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے، دکھائی بھی نہیں دیتا.قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو کتاب مبین ہے، کھلی کھلی ہے اور ایسی کتاب ہے جو مکنون “ ہے، جو چھپی ہوئی ہے، اس تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا.تو سارے مضامین میں دراصل تضادات نہیں ہیں بلکہ مختلف پہلو ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 345 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء پس خدا تعالیٰ ایک شخص کے لئے ایک چیز سے ایک وجود کے طور پر اس سے تعلق جوڑتا ہے مگر اتنا ہی جوڑتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے اور جس صفت میں آپ اپنا تعلق بڑھا ئیں گے اس صفت کے اعتبار سے خدا آپ پر مزید روشن ہوتا چلا جائے گا اور بلند تر اور بڑا ہوتا چلا جائے گا عظیم تر ہوتا چلا جائے گا.پھر ایک اور صفت پر آپ غور کریں تو اسی پہلو سے خدا تعالیٰ نئے جلووں کے ساتھ آپ کو پھیلتا ہوا اور عظمتیں اختیار کرتا ہوا دکھائی دے گا.اتناہی ہے جو ہے وہ، جس کی کنہ کو ہم نہیں جانتے مگر ہر انسان کے لئے اتنا ہو جاتا ہے جتنا اس میں طاقت ہے جتنا اس میں استطاعت ہے.تو ہر انسان کا ظاہری عالم بھی الگ ہے اور الہی عالم بھی الگ الگ بنتا ہے.ایک خدا ہوتے ہوئے بھی درحقیقت وہ ہر انسان کے ایک الگ خدا کے طور پر اس میں ظاہر ہو رہا ہے لیکن ہے ایک ہی.تو یہ کوئی فلسفی کی باتیں نہیں ہیں یہ وہ حقائق ہیں جن کو قرآن کریم نے بیان فرمایا اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے مختلف نصیحتوں اور مثالوں میں ہم پر روشن فرمایا ہے.علِمُ الْغَيْبِ پر ایمان لانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے انسان کو اپنے مستقبل پر ، اپنی کوششوں پر یقین پیدا ہوتا ہے.اگر انسان کو پتا ہو کہ جو کچھ میرے سامنے ہے بس وہی کچھ ہے تو مزید جستجو کے لئے توجہ ہی پیدا نہیں ہوسکتی.یہ لوگ جن کو آپ بظاہر بے ایمان سمجھتے ہیں ان کو اگر فائدہ پہنچا ہے تو لاشعوری طور پر یہ علِمُ الْغَيْبِ بننے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ یقین ہو چکا ہے کہ غیب میں بہت کچھ ہے اور اتنے سے خدا کو جان کر جو علِمُ الْغَيْبِ ہے اس کے ایک حصے سے متعارف ہو کر انہوں نے اتنے خزانے پالئے ہیں کہ وہ لا متناہی نظر آتے ہیں ، ساری دنیا پر حکومت کر گئے ہیں، تمام دنیا کی دولتیں سمیٹ چکے ہیں.اور اس مضمون کو قرآن کریم انہی معنوں میں بیان فرما رہا ہے کہ غیب کا علم دراصل خزائن کا علم ہے تو اس غیب کے علم کو کوئی معمولی بات نہ سمجھو.اب آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا قل لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ (الاعراف: 189 ) تو ان سے کہہ دے کہ ذاتی طور پر تو میں اپنے لئے نہ کوئی ذرہ بھر بھی فائدے کا سامان رکھتا ہوں نہ نقصان کی طاقت رکھتا ہوں مگر وہی جتنا خدا مجھے عطا فرماتا ہے اور اگر تم غیب کی بات کرتے ہو تو وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ اگر میں غیب کا علم رکھتا تو بے شمار دولت اکٹھی کرسکتا تھا.اب غیب کا دولت اور خزانے سے کیا تعلق ہے.یہ ایک مضمون ہے جس کے متعلق اب تو وقت
خطبات طاہر جلد 14 346 خطبہ جمعہ 12 مئی 1995ء نہیں مگر آئندہ پھر انشاء اللہ جب میں شروع کروں گا تو زیادہ نسبتا تفصیل سے بتاؤں گا.اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (الانعام: 51) تو کہہ دے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْب اور میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا.تو حقیقت میں غیب کا علم اور خزائن ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور مغربی دنیا کے سائنس دانوں نے جتنی جستجو کی ہے غیب میں کی ہے اور جتنا وہ غیب زیادہ گہرا تھا اتنا ہی ان کی جستجو نے ان کے لئے زیادہ فوائد مہیا کر دیئے ہیں.ایک چیز کا دنیا میں کسی کو علم نہ ہو، اب گنجے پن کا علاج ہے یہ غیب میں ہے، اگر آپ کو کامل یقین ہو کہ خدا کے ہاں ہر بیماری کی ایک دوا ہے اور گنجے پن کا ضرور علاج ہے اور آپ غیب میں جستجو کریں مگر اس کے قوانین کے تابع جتنا بڑا غیب ہے اتنا ہی اس کو دریافت کرنے والا کھوجی زیادہ امیر ہو جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریل Secret کے لئے بے انتہا احتیاطیں برتی جاتی ہیں.ان کے سائنس دان غیب کی خبر معلوم کرتے ہیں اور اس کو خوب چھپا کے رکھتے ہیں ، ان کو پتا ہے دولت ہی دولت ہے.یہ را از پتا لگ گیا باقیوں کو تو وہ سارے حصہ پا جائیں گے.تو غیب کا علم ہی خزائن کا علم ہے.اس بات سے محرومی آپ کو خزائن سے محروم رکھے گی.پس اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرنا کوئی صوفیانہ کوئی ذہنی جسکے نہیں ہیں، یہ زندگی کی اشد ترین ضرورت ہے.روحانی بقاء اس کے بغیر حقیقت میں ممکن ہی نہیں ہے اگر ہے تو معمولی سی زندگی ہے.ساری زندگی کی منازل اوپر پڑی ہوئی ہیں.پس اس پہلو سے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ساری عمر تو اب صرف اس طرز پر بیان نہیں ہو سکتی بات لیکن جو بھی بات بیان ہوگی آئندہ کسی اور حوالے سے بھی انشاء اللہ اس میں دراصل صفات الہی کی جھلکیوں کے بغیر جان ہی نہیں پڑ سکتی.خلاصہ زندگی کا اور روحانی زندگی کا صفات الہی ہیں.پس باقی انشاء اللہ آئندہ خطبے میں خدا تعالیٰ نے جو تو فیق عطا فرمائی.
خطبات طاہر جلد 14 347 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء خدا غیب نہیں ہے.ہم خدا سے غیب ہونے کی کوشش کرتے ہیں.( خطبه جمعه فرموده 19 مئی 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (الحشر:23 ) پھر فرمایا:.( اس آیت سے متعلق گزشتہ جمعہ میں میں نے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی یعنی ان مضامین پر ان آیات کی برکت سے روشنی ڈالی تھی جو عموماً نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور اس آیت کریمہ نے گویا انہیں غیب سے شاہد میں منتقل کرنے میں مدد دی.اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ اور اہم امور آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.سب سے پہلے یہ جو آواز بیٹھی ہوئی ہے اس سلسلے میں معذرت خواہ ہوں.یہ جو رات گزری ہے اس سے پہلی رات کچھ بے احتیاطی، شاید کوئی کھٹا پھل چکھا گیا ہے اور بعض ایسے ہیں کھٹے پھل جن سے میرا گلا بہت جلد متاثر ہوتا ہے اس وقت تو پتا نہیں چلا لیکن صبح نماز پہ آیا ہوں تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی، بالکل گلا بیٹھا ہوا تھاتو مجھے فکر تھی جمعہ کی اور اس سے پہلے میرے پروگرام تھے ٹیلی ویژن کے اوپر بھی عربوں کے ساتھ مجالس ، دوسری مجالس.اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ذرا بیٹھی ہوئی آواز میں لیکن مطالب کی ادائیگی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی.میں یہ بیان اس لیے
خطبات طاہر جلد 14 348 خطبہ جمعہ 19 رمئی 1995ء خصوصیت سے کر رہا ہوں کہ آواز پر اثر تو ہے مگر طبیعت پر کوئی بداثر نہیں ہے ، نہ جسم میں کوئی دُکھن ہے، نہ بخار ہے، نہ کمزوری ہے اور گلا بھی اور چھاتی بھی سکون میں ہیں اس لئے بعض دوست جو خطبہ سن کے سوچ رہے ہوں گے کہ فوری طور پر فیکس دیں ، طبیعت پوچھیں ان کو اس تکلیف کی ضرورت نہیں ہے.اللہ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور اگر انہوں نے فیکسز دیں تو پھر تکلیف ہوگی اس لئے یہ تکلیف نہ فرمائیں.اب جہاں تک اس مضمون کا تعلق ہے یہ بھی آپ کے لئے غیب کی بات تھی جسے حاضر کرنا تھا.اب میں خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے سے متعلق بعض اور امور آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا کہ جو کچھ پردہ غیب میں ہے وہ بہت زیادہ ہے، جو حاضر میں ہمیں دکھائی دیتا ہے اس کی اس سے کوئی نسبت نہیں اور پردہ غیب میں صفات باری تعالیٰ بھی ہیں اور صفات باری تعالی رفتہ رفتہ منظر عام پر ابھرتی ہیں لیکن حسب ضرورت.دو طرح سے ان میں ایک ارتقائی سفر دکھائی دیتا ہے.ایک وہ صفات جو آدم کے لئے ضروری تھیں آدم کے سامنے بیان کی گئیں جن کو موسی کے وقت کی حاجت تھی وہ اس کے سامنے کھولی گئیں اور وہ صفات جن کا بنی نوع انسان سے اجتماعی طور پر تعلق تھا اور انسان کی ضرورت کی آخری حدوں تک تعلق رکھتی تھیں وہ تمام صفات حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر ظاہر فرما دی گئیں اور یوں گویا وہ خدا جو غیب میں تھا منظر عام پر ابھر آیا اور شاہد میں آ گیا لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی.یہ کہنا غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی کچھ اور صفات نہیں ہیں.خدا تعالیٰ ہمارے زاویہ نگاہ سے ہم پر ظاہر ہوتا ہے.اگر آدم یہ سمجھتا کہ خدا کی یہی صفات ہیں تو فرشتے اس سے پہلے بھی یہی حق رکھتے تھے کہ اپنے تعلق میں خدا کی صفات کو جو سمجھ بیٹھے تھے انہی پر اکتفا کر جاتے.مگر اللہ تعالیٰ نے جو فرشتوں سے جو سلوک فرمایا ارتقاء نبوت کے ساتھ آدم کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا اور جو صفات اس پر ظاہر کی گئیں ان سے بہت زیادہ بعد کے انبیاء کوملنی شروع ہوئیں یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ پر یہ سلسلہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچا.لیکن اس کے باوجود یہ صفات پھر نظر سے غائب ہیں یعنی ابھری ہیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کی ذات کے ساتھ ان کا ایک نہ ٹوٹنے والا دائمی رشتہ بن گیا اور ہمیشہ غیب کا خدا آپ کے لئے حاضر کا خدا بنارہا اور ہمیشہ غیب کا خدا آپ کے لئے شاہد اور شہید بنا رہا پس جس پر خدا سب سے زیادہ جلوہ شہادت ظاہر الله
خطبات طاہر جلد 14 349 خطبہ جمعہ 19 رمئی 1995ء فرمائے یعنی اپنے غیب کو شہادہ میں نکال کر اس سے تعلق باندھے وہ سب سے بڑا شہید کہلانے کا مستحق ہے.پس یہ فرق ہمیں اس بات سے بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو تمام گزشتہ انبیاء پر شہید فرمایا گیا.اس لئے یہ جو مضمون ہے یہ بہت گہرا اور اندر اندر بڑے گہرے اور لمبے وسیع رابطے رکھنے والا مضمون ہے.آدم سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفی میل تک خدا کا غیب سے شاہد میں نکلتے چلے آنا جاری رہا اور وہ مضامین بیان فرما دیئے گئے ، آپ پر کھول دیئے گئے کس طرح خدا ظا ہر ہوگا، ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ بند نہیں ہوا.اگر یہ سلسلہ بند ہو تو ویسی ہی بات بن جائے گی جیسے ختم نبوت کا غلط معنی سمجھا جاتا ہے اللہ بھی ختم اور نبوت بھی ختم.جو مضامین روشن ہو جائیں ان کے معانی جاری رہتے ہیں.جو ایک سمت میں حرکت ہے وہ نہیں رکتی.اس تعلق میں یہ بات خاص طور پر دھیان میں لانے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے قرآن کریم میں جو اپنی صفات بیان فرمائیں ان میں ایک یہ بھی تھا کہ ہم وقت کے اوپر خزانے اتارتے ہیں جب ضرورت پیش آتی ہے.یہ تعارف تو مکمل ہوالیکن یہ کہنا کہ خدا مضمون ہے نے وہ خزانے ہمیشہ کے لئے اتار دیئے اور مزید خزا نے باقی نہیں رہے یہ غلط ہے اور یہ وہ جس کا وقت کے ساتھ تعلق ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.خدا تعالی وقت کا خالق ہے، وقت کا پابند نہیں ہے.وقت خدا کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا کیونکہ خدا خالق ہے اور وہ مخلوق ہے.اس لئے جہاں تک زمانے کے جاری رہنے کا تعلق ہے یہ خدا تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری ہے نہ کہ ان صفات میں تبدیلی کا مظہر.اس کی جلوہ گری کے نتیجے میں زمانہ تبدیل ہوتا ہے اور زمانے میں تبدیلی ہمیں وقت کا احساس دلاتی ہے اور زمانے کی تبدیلی کے حوالے سے ہم کہتے ہیں خدا اب یوں جلوہ گر ہوا اور پہلے یوں جلوہ گر ہوا تھا اور آئندہ یوں جلوہ گر ہو گا مگر عالم موجودات میں سب کچھ خدا کی نظر میں موجود ہے اور اس کی ذات پر زمانے کی تبدیلی نہیں ہو رہی.پس حوالہ جب آدم کا دیا جاتا ہے یا حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا دیا جاتا ہے یا آئندہ زمانوں کا، تو دراصل خدا وقت کا پابند نہیں بلکہ ایک عالم بسیط میں وہ پھیلا ہوا عالم ہے جو وقت سے بالا ہے اس میں اپنی جلوہ گری دکھاتا ہے اور جب دیکھنے والے ایک زاویے سے دیکھتے ہیں تو دوسرے زاویے سے دیکھنے والوں سے اپنے آپ کو بہتر حالت میں پاتے ہیں مگر چیز نہیں بدلتی.منظر وہی ہے ،
خطبات طاہر جلد 14 صفات باری تعالیٰ اسی طرح ہیں.350 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء یہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہے جو ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ اب صفات کا سفر ختم ہو چکا ہے.یہ بتاتا ہے کہ صفات کا سفر شروع ہو چکا ہے.وہ صفات باری تعالیٰ جو آنحضرت ﷺ پر ظاہر فرمائی گئیں وہ نئی نئی کھڑکیاں ہیں جو کھولی گئی ہیں یا نئے دروازے ہیں جو کھول دیئے گئے ہیں ان سے پرے جو مناظر دکھائی دیتے ہیں وہ لامتناہی ہیں اور کسی وقت بھی ختم نہیں ہو سکتے.اس لئے ان میں سفر جاری رہنا چاہئے.ان کھڑکیوں میں سے یہ جو کھولی گئی کہ زمین اپنے خزانے اگلے گی اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے.یہ جو علم الغیب نے بات بیان فرمائی اس کے شواہد ہم کتنے دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے چلے جائیں گے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا یہاں تک کہ خدا کے نزدیک اس کائنات کی اجل مسمی آجائے ، یہ جاری وساری سلسلہ ہے.پس وقت کے حوالے سے ماضی کا خدا اور حال کا خدا اور مستقبل کا خدا وہی رہتا ہے جو تھا، جو ہے، جو ہو گا لیکن دیکھنے والوں کے نزدیک اس کی ذات میں بظاہر وسعت ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.تو اس پہلو سے اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذرایت: 48) ہم وسیع نہیں ہو رہے إِنَّا لَمُوسِعُونَ ہم وسعتیں عطا کر رہے ہیں اور جن کو وسعتیں عطا ہوتی ہیں ان کو یوں لگتا ہے جیسے اللہ وسیع ہورہا ہے.یہ ایک نسبتی چیز ہے اور اس کے نتیجے میں یہی محسوس ہوتا ہے.اب ہم اپنے علم میں بڑھ رہے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق میں اور خدا کی کائنات کے تعلق میں ، خدا تعالیٰ تو نہیں بڑھ رہا.خدا تعالیٰ تو ابھی بھی اکثر غائب میں ہے، اس کی چھوٹی سی جلوہ گری ہمارے سامنے آئی ہے لیکن ہم ماضی کے انسان کے حوالے سے بڑھ رہے ہیں خدا کے حوالے سے نہیں بڑھ رہے اور خدا کسی حوالے سے بھی نہیں بڑھ رہا، وہ ہمیشہ سے جیسا تھا ویسا ہے، ویسارہے گا.پس اس تعلق میں جو تحقیق کا سفر ہے جو پردہ غیب سے پردۂ شہود میں ابھرنے کا سفر ہے وہ ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور اس یقین کے ساتھ جاری رہنا چاہئے کہ کبھی ختم ہو نہیں سکتا.جہاں خاتمیت کا غلط معنی دماغ میں آیا وہیں فیض کے دریا بند ہو گئے.خاتمیت کا حقیقی معنی فیض کالا متناہی طور پر جاری رہنا ہے اور خاتمیت کا حقیقی معنی یہ ہے کہ اس چوکھٹ سے پرے کسی اور فیض کی ضرورت نہیں اور یہی مضمون خدا تعالیٰ کے تعلق میں آنحضرت مے کے حوالے سے سمجھ آتا ہے.خاتم وہ ذات
خطبات طاہر جلد 14 351 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء ہے جس پر خدا نے اپنی ان صفات کو ختم فرما دیا جو پہلے کسی نبی پر ختم نہیں کی گئی تھیں لیکن نہ صفات باری تعالی ختم ہو ئیں نہ ان کا فیض ختم ہوا.اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے جو خدا سے سیکھا اس کا فیض ہمیشہ کیلئے جاری و ساری ہے.یہ حقیقی معنی ہے اس کے علاوہ جس نے جو کہنا ہے کہے، جو سوچیں سوچے سب جہالت کی باتیں ہیں.عرفان کی بات وہی ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات لامتناہی اور انسان کے تعلق میں اس کی آخری حد آنحضرت ﷺ پر روشن فرما دی گئی اور پھر آخری حد کے باوجود وہ سفر جاری وساری ہے.اس کے باوجود خدا غیب میں چلا گیا ہے اور وقتا فوقتا غیب میں جاتا رہتا ہے اور زمانہ اس نسبت سے کبھی خدا کو تھوڑا سا شاہد دیکھتا ہے کبھی پھر غائب ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.یہ وہ صفت ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ صفات جو رسول اللہ ﷺ پر جلوہ گر ہوئی تھیں اس پہلو سے بھی ابھی ان میں سفر باقی ہے اور بہت بڑا سفر باقی ہے کہ ان کی اکثریت کی کنہہ کو انسان نہیں سمجھ سکا اور اکثریت نے خدا کی ذات میں سفر نہیں شروع کیا.اب غیب ایک مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کی صفت نہیں ہے.لیکن شہادہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں حدیث میں شہید کو خدا تعالیٰ کے ناموں میں داخل فرما لیا گیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو غائب کہیں نہیں کہا لیکن شہید فرمایا ہے.اس پر جب میں نے غور کیا کہ کیوں بظاہر ایک ہی آیت کے دو جز ہیں ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ایک کو آنحضرت ﷺ نے اسماء الہی میں داخل فرمایا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک خدا کی غیوبیت کا تعلق ہے بحیثیت غیب کے اس کو نظر پہنچ ہی نہیں سکتی.جب تک وہ شہادت میں نہ آئے ہم اسے دیکھ ہی نہیں سکتے اور قرآن کریم فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ (الانعام: 104 ) که بصائر اس تک نہیں پہنچ سکتیں ہاں وہ خود منصہ شہود پر ابھر کر بصائر تک پہنچتا ہے اور آنحضرت ﷺ پر چونکہ خدا سب سے زیادہ روشن ہوا تھا اس لئے آپ نے اس باریک فرق کو پیش نظر رکھا ہے.ورنہ ایک عام انسان جو اپنے نفس سے تفسیر کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ علم الغیب بھی ہے عالم الشهاده بھی ہے.اگر وہ شہید ہے تو پھر غائب بھی ہے لیکن جہاں تک مخلوقات کا تعلق ہے وہ غائب نہیں ہے.یہ مضمون ہے کیونکہ اگر وہ غائب ہو جائے تو پھر مخلوق سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اس لئے وہ شہید ہے اور جن معنوں میں وہ غائب ہے ان معنوں میں الله
خطبات طاہر جلد 14 352 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء ہم اس کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک وہ شہید نہ بن جائے ، جب تک وہ شاہد ہو کر نہ ابھرے.پس اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کی شہادت کا جلوہ ہی ہے جس کا بنی نوع انسان کے مصالح سے تعلق ہے اور جس تک بنی نوع انسان کی کچھ پہنچ ہے.آگے کی سب باتیں وہ ہیں جن کو جب خدا جس مخلوق پر چاہے گا اسے ظاہر فرمائے گا.لیکن جو ظاہر فرما چکا ہے اس سے بھی ہم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں.یہ وہ مشکل بات ہے جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.جب خدا پردہ غیب میں جاتا ہے تو پردہ غیب میں رہتے ہوئے آپ سے صرف نظر نہیں فرماتا.لیکن آپ جب پردہ غیب میں جاتے ہیں تو خدا سے صرف نظر کر جاتے ہیں.یہ فرق ہے بندے کے غیب میں جانے اور خدا کے غیب میں جانے کا.اللہ تعالیٰ غیب سے آپ کی حفاظت فرمارہا ہے.غیب سے آپ پر نظر رکھے ہوئے ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دکھائی نہیں دے رہا اور پھر بھی وہ آپ کے قریب قریب ہے، کبھی بھی آپ سے دور نہیں ہٹا.لیکن جب آپ خدا کے مقابل پر غیب میں چلے جاتے ہیں تو خدا سے دور ہٹ جاتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جو گناہ پر انسان کو آمادہ کرتی ہے.اس پہلو سے اس غیب اور شہادہ کے مضمون کو انسانی اور خدائی تعلق میں خوب اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے.اللہ کے تعلق میں یا درکھیں کہ اس کا غیب میں جانا ایک پہلو سے عظیم رحمت ہے کیونکہ ایک ایسی ذات جو اپنے رعب میں درجہ کمال کے تصور سے بھی زیادہ بلند تر نظر آئے.ہمارا جو درجہ کمال کا تصور ہے وہ ناقص ہے اس لئے میں نے کہا کہ درجہ کمال کے تصور سے بھی بلند تر دکھائی دے رہی ہو.ایسی ذات اگر ہر وقت شاہدرہے ان معنوں میں کہ ہم بھی اس کو محسوس کر رہے ہوں کہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہے تو اسی صورت میں صرف وہ نعمت بن سکتی ہے اگر ہم بعینہ اس سے ہم مزاج ہو چکے ہوں.اگر ہم مزاج نہ ہوں تو بہت بڑی سزا ہے اور ہر وقت کی ایک مصیبت ہے.ایک آدمی جس کا دل شرارت کی طرف مائل ہے اگر ہر وقت استاد ڈنڈالے کے اس کے سامنے کھڑا ہے ایسے طالب علم کے سامنے تو اس کے لئے تو وہ جہنم بن جائے گی اس لئے خدا تعالیٰ کا بندے سے غائب ہو جانا اس پر بہت بڑا احسان ہے لیکن ایسا غائب نہیں ہوتا کہ اس کے حالات سے غافل ہو جائے.اس پر نظر جو رکھتا ہے اور اس کی غیو بیت ہی ہے جو دراصل اپنی جلوہ گری میں ہمیں اختیار بخشتی ہے.جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الکہف:30) تو یہ اس کی غیوبیت کی وجہ سے ہے.اگر حاضر ہوتو
خطبات طاہر جلد 14 353 خطبہ جمعہ 19 رمئی 1995ء من شاء کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.پھر ایک تقدیر مبرم ہے جو ہمیشہ جاری وساری رہے مجال نہیں انسان کی کہ اپنی چاہت سے کچھ کر سکے.پس وہ وجود، وہ کامل وجود یعنی حضرت محمد مصطفی مہ جب خدا کے سامنے شہادہ میں آگئے تو پھر ہمیشہ رہے.یہ آپ کی جنت تھی اس لئے کہ آپ خدا کی صفات سے ہم آہنگ ہو چکے تھے.اب اگر کسی کی صفات سے انسان ہم آہنگ ہو جائے تو اس کی غیو بیت لعنت بن جاتی ہے اور اس کا حاضر ہونا نعمت ہو جاتا ہے.اس پہلو سے آپ دیکھیں کہ ضروری نہیں کہ وہ عشق ہو جس کو شعراء عشق کہتے ہیں ہم مزاج لوگوں سے ایک طبعی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور ایک ایسا عشق ہے جس کی معین تعریف کرنا مشکل کام ہے.لیکن یہ جذ بہ بڑھ کر ایک غیر معمولی شدت کے جذب کے جذبے میں تبدیل ہو جاتا ہے.جذب یعنی کھینچنے کی طاقت رکھتا ہے اور ایسے آدمی کے ساتھ آپ رہیں جس کے ساتھ ہم آہنگی ہو تو طبیعت کو سکون ملتا ہے اور ہم آہنگی نہ ہو تو طبیعت میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں جی ہمیں تو اس سے الرجی ہو گئی ہے.وہ سامنے آئے تو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے اور اس میں خونی رشتے کا کوئی تعلق نہیں.اس لئے نہ خونی رشتے کی محبت کا اس سے تعلق ہے نہ شاعرانہ عشق سے اس کا تعلق ہے.یہ ایک گہر ا فطرت کا معاملہ ہے اور اس فطری تعلق میں خدا تعالیٰ کے غیب اور حاضر ہونے کے مضمون کو آپ سمجھیں تو پتا چلے گا کہ بھاری اکثریت انسان کی ایسی ہے کہ اگر ان کے لئے خدا ہمیشہ شاہد رہتا تو ان کا اختیار بھی ہاتھ سے نکل جاتا کیونکہ ان کے اختیارات میں بھاری امکانات اس بات کے تھے کہ وہ ذرا اپنی خواہش کے نرمی کے اختیار کو استعمال کریں.پھر وہ بے اختیار ہو گئے.جب ہر وقت ایک کامل وجود ایک بارعب وجو دسر پہ کھڑا ہو، اختیار کہاں رہا.تو یہ اندھیرے ہیں غیب کے جن میں ہم ڈوبتے ہیں اور خدا غا ئب ہو جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں غائب ہو گیا اور ہے موجود.کیونکہ خدا ہر غیب کا واقف ہے اس لئے ایسا ہی ہے جیسے بلی کے ڈر سے کبوتر آنکھیں بند کر لے.وہ غائب ہو جاتا ہے لیکن بلی کی نظر میں رہتا ہے.انسان جب گناہوں پر آگے بڑھتا ہے تو یہ غیو بیت تاریکی اختیار کر جاتی ہے.شروع میں یہ غیب ہے یعنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں آنکھیں کھولے تو دیکھ بھی سکتا ہے، روشنی نہیں ہٹتی لیکن جب انحراف کرتے ہوئے، پیچھے ہٹتے ہوئے وہ اندھیری کھو ہوں میں ڈوب جاتا ہے، ایسے کونوں میں غائب ہو جاتا ہے جہاں روشنی پہنچتی نہیں پھر
خطبات طاہر جلد 14 354 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء اس پر اندھیرے مسلط ہو جاتے ہیں.پھر خدا اس سے ایسا غائب ہو جاتا ہے کہ خدا سے تعلق کے اس کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ خدا پھر بھی اسے دیکھ رہا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ پہلے یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ احساس تمہیں ہونا چاہئے کہ وہ تمہارے لئے غیب تو ہے لیکن موجود بھی ہے اور تمہیں دیکھ رہا ہے.یہ احساس ہے جو گناہ سے نجات بخش سکتا ہے.اس احساس کے بغیر گناہ سے نجات کا تصور محض ایک بچگا نہ کہانی ہے.یعنی مسیح ہماری خاطر قربان ہو گئے اور گناہ بخشے گئے ، نہایت ہی جاہلانہ کہانی ہے.قرآن کا مضمون جو حقیقت میں ایک عارفانہ مضمون ہے جس کا انسانی فطرت سے اور خدا کی صفات سے گہرا تعلق ہے.پس اس پہلو سے یا درکھیں کہ گناہ سے بچنے کا جو اصول قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے وہ ہے يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ ( الانبیا: 50) باوجود اس کے کہ اللہ نے ان کی سہولت کی خاطر اپنے جلوؤں کو مدہم کر دیا ہے اور وہ ایک قسم کے سائے میں بھی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن یہ سائے ان کے اندھیروں میں نہیں بدلے کیونکہ سائے اگر اندھیروں میں بدل جائیں تو پھر ٹھو کر ہی ٹھو کر ہے.قدم قدم پر لغزش ہے پھر ہلاکت کے گڑھے میں بھی انسان گر سکتا ہے لیکن سائے اگر سائے رہیں وہ طمانیت تو عطا کرتے ہیں ، آنکھوں کا نور نہیں لے جاتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ سائے میں رہتے ہیں غیب کے لیکن يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ وہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہا مگر ہے کہیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ غیب ہوتے ہوئے دیکھنا یہ اس لئے بھی بڑا ضروری ہے کہ کسی چیز کا اندرونہ ظاہر ہو جائے.آپ لوگوں میں بعض نے شاید وہ نیچر کی فلمیں دیکھی ہوں.نیچر کی فلموں میں جو ماہرین ہیں سب سے اچھی فلم بنانے والے وہ ہیں جو اس طرح فلم بناتے ہیں کہ جانور کو یہ نہ پتا ہو کہ ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے.جب جانور کو یہ یقین ہو جائے کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا پھر اندر سے اس کی ساری صفات کھل کے باہر نکل آتی ہیں اور جب تک صفات باہر نہ نکل آئیں اس کے خلاف شہادہ نہیں ہوسکتی.پس باوجود اس کے کہ اللہ غیب کا علم رکھنے والا ہے، بندے کے اندرونے کے خلاف اس کے اندرونے کی شہادت نہیں دے گا اس لئے فرمایا تمہارے جلد میں بولیں گی یعنی تمہارے گناہوں کو کھل کر باہر آنے کا موقع ملے گا اور وہ تمہارے دکھائی دینے والے اعضاء میں ظاہر ہو جائیں گے.یہ
خطبات طاہر جلد 14 355 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء تبھی ممکن ہے اگر انسان خدا کو غیب سمجھ رہا ہو اور وہ موجود ہو.تو پھر جو غیب ہے موجود ہے وہ سب سے زیادہ رازوں کا واقف بن جاتا ہے اور اگر خطرہ بھی ہو کہ شاید کوئی دیکھنے والی آنکھ ہو تو انسان محتاط ہو جاتا ہے، جانور محتاط ہو جاتے ہیں.چنانچہ جتنا بھی یہ جاسوسی کا نظام ہے اس میں آلے ایسی جگہوں پر نصب کئے جاتے ہیں اور اس طریق پر نصب کئے جاتے ہیں کہ جس کی جاسوسی کی جارہی ہے اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا کہ میں دیکھا جا رہا ہوں اور میری تصویر میں اتاری جارہی ہیں اور یہ نظام ہے جو اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارا کر دیا کسی کونے میں کسی اندھیرے میں ڈوب جاؤ، ہر جگہ تمہیں خدا دیکھ رہا ہے اور تمہارا ریکارڈ مکمل کیا جا رہا ہے اور ایسے فرشتے مقرر ہیں جو ان چیزوں کو ایک کتاب میں ڈھالتے چلے جارہے ہیں.یہ وہ Ultimate کمپیوٹر کا تصور ہے جس سے آگے کسی کمپیوٹر کا تصور ہو نہیں سکتا.کمپیوٹر میں دو خوبیاں ہونی چاہیں.ایک تو یہ کہ وہ متعلقہ مضمون کے ہر پہلو کو ہر لحاظ سے Cover کرے ،اس کو ڈھانپ لے، اس کا دائرہ لے لے اور دوسری اس میں خوبی یہ ہونی چاہئے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ ، بوقت ضرورت مطلوبہ اعداد و شمار کو سامنے لے آئے.اب یہ دو باتیں ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.ابھی چند دن ہوئے ہمارے ریسرچ گروپ کی ایک خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ وہ جو آپ نے ہمارے سامنے بعض باتیں بیان کی ہیں اور کتاب ایک تھی جو ان کی نظر سے بھی گزری تھی اس سے پتا چلتا ہے کہ آئندہ ہر زمانے کی ایجادات کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے.حیرت میں انسان ڈوب جاتا ہے.کوئی ایجا دسوچی نہیں جاسکتی جس کی بنیاد قرآن کریم میں دکھائی نہ دے ، کیا کمپیوٹ کا بھی ذکر ہے.تو میں نے کہا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ نہ ہو لیکن اس کا جواب بعد میں دوں گا تو اب وہ اگر سن رہی ہوں یہ خطبہ تو میں ان کو بتارہا ہوں کہ کمپیوٹر میں دوصفات ہونی چاہئیں.ایک تو یہ کہ متعلقہ مضمون کی تمام تر معلومات اس میں مہیا ہوں اور ایسے طریق پر مہیا ہوں کہ بلا تاخیر فوراً وہ نظر کے سامنے آجائیں.اللہ تعالیٰ نے اس کمپیوٹر کا ذکر قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے.ایک موقع پر فرماتا ہے.مَالِ هَذَا الْكِتُبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصُهَا (الکہف: 50) یہ عجیب کتاب ہے ، کتاب سے مراد کمپیوٹر ہے یہاں یعنی الہی کمپیوٹر جو ظاہری طور پر نہ وہ
خطبات طاہر جلد 14 356 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء کتاب ہے نہ وہ مادی چیز ہے.پہلے زمانوں میں جس کو ہم رجسٹر کہا کرتے تھے آج کل کی اصطلاح میں اسے کمپیوٹر کہہ دیتے ہیں.فرمایا مَالِ هَذَا الكِتُبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَخطهَا یہ عجیب قسم کی چیز خدا نے ایجاد کر لی ہے کہ نہ ادنیٰ چھوڑتی ہے، نہ بڑا چھوڑتی ہے، ہر چیز کو سمیٹے ہوئے ہے.ایک ذرہ بھی اس کے احاطہ تقدیر سے باہر نہیں اور جہاں تک اس کی سرعت کا تعلق ہے، فرماتا ہے وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (البقرہ:103 ) کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر حساب میں سریع ہے ہی کوئی نہیں.اب قرآن کریم میں سَرِيعُ الْحِسَابِ کا مضمون ملتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ دوسری کتابوں میں نہیں ملتا.بہت سے ایسے پہلو میں قرآن کریم کے جن کا حسن مواز نے کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے ورنہ پتا ہی نہیں چلتا.نہ بائبل میں نہ کسی اور کتاب میں خدا کے حساب دان ہونے کا اور سب سے تیز تر حساب دان ہونے کا کوئی ذکر نہیں ملتا.تو سَرِيعُ الْحِسَابِ اس کمپیوٹر کی صفت ہے جو خدا کی تقدیر نے بنا رکھا ہے اور کمپیوٹر کو پڑھنے والا ایک چاہئے.کمپیوٹر میں اگر اس تیز رفتاری کے ساتھ اعداد و شمار مہیا کرنے کی صلاحیت موجود ہو جس تیز رفتاری سے پڑھنے والا چاہتا ہے تو پھر وہ صحیح اور مقتضائے حال کے مطابق ہے یعنی اس کے بغیر وہ ناقص ہو جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے سریع الحساب کے ساتھ کس کتاب کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ کسی چیز کو چھوڑتی نہیں ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو جب کسی عدد کی ضرورت ہو بندے کو دکھانے کے لئے یا کسی اور کو بتانے کے لئے کہ دیکھ لو یہی باتیں ایسی ہوئی تھیں.اس صورت میں اللہ تعالیٰ اس کتاب سے جس میں سب کچھ ہے بلا تاخیر سب کچھ نکال لیتا ہے اور قیامت کے دن جب کوئی بندہ کہے گا جی میں نے تو نہیں ایسا کیا.اللہ کہے گا یہ دیکھ لوکوئی تاخیر ہی نہیں اس میں.پس عالم الشهادہ کا بھی ایک معنی اس سے ہماری سمجھ میں آ گیا.شهاده کا ایک مطلب ہے گواہی دینا.تو گواہی کی کائنات کا بھی وہی مالک اور عالم ہے اور گواہی دینا بھی اسی کو آتا ہے اور گواہی مہیا کرنا بھی اسی کو آتا ہے.پس یہ وہ خدا ہے جس کا تصور اگر واضح ہوتا چلا جائے انسان پر اور قرآن کے حوالے کے بغیر یہ تصور از خود واضح ہو ہی نہیں سکتا.آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر غور کئے بغیر اس تصور تک رسائی ناممکن ہے.مگر اگر یہ ہو تو پھر ان میں ڈوبنے کے بعد یہ مضامین ابھرتے ہیں اور پھر انسان کو سمجھ آتی ہے کہ گناہ سے بچنے کا اصل طریق کیا
خطبات طاہر جلد 14 357 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء ہے.یہ احساس زندہ رہے اور یہ احساس انسان سے غائب نہ ہو کہ خدا غائب ہوتے ہوئے ہمیں وہاں سے دیکھ رہا ہے جہاں سے ہم اسے نہیں دیکھ رہے یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان سے محفوظ رہتے ہیں اور جب وہ خدا سے غائب ہوتے ہیں تو ان کا پھر کیا تناظر ہے وہ کس شکل میں ابھرتے ہیں.ان کے متعلق بھی قرآن کریم ذکر فرماتا ہے.کہتا ہے شیطان ان کو وہاں وہاں سے دیکھ رہا ہے جہاں سے وہ شیطان کو نہیں دیکھ رہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں.خدا کے تعلق میں یہ مضمون بنے گا کہ خدا کی خیر سے محروم رہ گئے کیونکہ خدا کا دیکھنا اور اس کا قریب ہونا خدا کی خیر کوقریب تر کرنے کے مترادف تھا.جو اس سے غائب ہو گیا وہ خیر سے، ہر اچھی چیز سے غائب ہو گیا اور شیطان اس کو دیکھ رہا ہے، وہ نہیں دیکھ رہا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پہلو سے وہ شر کے قریب آ گیا ہے کیونکہ شیطان کا دیکھنا شر کی نیت سے ہے اور اس کا شیطان کو نہ دیکھنا بے دفاع ہونے کے معنے رکھتا ہے.ایک حملہ آور اگر آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ نہیں دیکھ رہے تو پھر تو آپ ہر وقت خطرے کی حالت میں ہیں.تو یہ ہے قرآن کریم کا نظام جو خدا تعالیٰ کی صفات کو کس طرح ادل بدل کر مختلف پہلوؤں سے پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے اور انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ چھوٹی سی کتاب دکھائی دیتی ہے مگر ہر چیز کے ہر پہلو کو بیان فرما رہی ہے.تو علِمُ الْغَيْبِ خدا سے یہ تعلق باندھیں کہ اس کا غیب ہونا آپ کے لئے رحمت کا سایہ تو بنار ہے لیکن تاریکیاں پیدا نہ کرے اور تاریکیاں تب پیدا ہوں گی اگر آپ اس سے دور ہٹ کر خود غیو بیت اختیار کریں اور اگر آپ خدا سے غائب ہونا چاہیں گے تو خدا کی پکڑ کی نظر سے اور پکڑ کی دسترس سے تو آپ غائب نہیں ہو سکتے مگر شیطان کی پکڑ کی دسترس میں داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسی کا نام ظلمات پر ظلمات ہے.آپ اندھیروں پر اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں.پس یہ کوشش کرنا کہ ہم خدا تعالیٰ کی نظر کے احساس میں رہیں اور يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ کے تحت آئیں یہ اس زمانے کے سارے مسائل کا علاج ہے.کیونکہ انسان جو دن بدن گناہوں میں ڈوب رہا ہے وہ خدا سے غائب ہونے کے نتیجے میں ڈوب رہا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ علِمُ الْغَيْبِ ہے وہ جہاں مرضی غائب ہو جائے پھر بھی ہمیشہ خدا کی نظر میں رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون پر بعض اور آیات کے تعلق میں ایک مسلسل
خطبات طاہر جلد 14 358 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء روشنی ڈال رہے ہیں.اسی میں سے میں نے کچھ حصہ پڑھ کر سنایا تھا اور پھر ان امور کی طرف توجہ مبذول ہوئی.اب یہ سفر کرنے کے بعد میں واپس اس حصے کی طرف آتا ہوں.فرمایا: وو وہ عالم الشهاده ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردے میں ،، نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو یہ کیا معنی ہیں.جائز نہیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے کسی بھلائی میں کمی آجاتی ہے اور خدا کے درجہ کمال پر حرف آتا ہے اور کوئی شرکا پہلو ظا ہر ہوتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر علم پر ہمیشہ حاضر کی طرح مسلط رہنا اس علم کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ خیر ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس علم میں کوئی رخنہ نہیں آئے گا.اگر یہ نہ ہوتو کائنات کا نظام از خود جاری رہ ہی نہیں سکتا.یہ بہت بڑی جہالت ہے کہ اتنا بڑا نظام ایک خود طبعی حرکت کی صورت میں رواں دواں ہے اور کوئی تصادم نہیں ہے اور اگر سفر کو ہم دیکھتے ہیں تو Chaos سے تنظیم کی طرف جاری ہے.اور جس کو ہم Chaos سمجھتے ہیں وہ بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے لاعلمی کے نتیجے میں Chaos مگر Chaos کہیں نہیں ہے - Chaos کہتے ہیں فساد کو کسی چیز کے درہم برہم ہونے کو کسی چیز کے غیر منضبط ہونے کو، کوئی قانون نہ چل رہا ہو،اندھیر نگری ہو،اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ والا مضمون اس کو Chaos کہا جاتا ہے.سائنس دان بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں اس وجہ سے کہ وہ جانتے ہیں کہ Chaos کا تنظیم میں بدلنا کسی بیرونی طاقت کو چاہتا ہے اور ایک منظم کو چاہتا ہے ورنہ تنظیم از خود Chaos سے پیدا نہیں ہو سکتی.اب اس ضمن میں بہت بڑے بڑے کمپیوٹرز کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ Chaos سے اتفاقا نظم وضبط بھی پیدا ہوسکتا ہے اور وہ مضامین آپ پڑھیں تو پتا لگتا ہے کہ کیسی بچگانہ حرکت ہے، خدا سے دور ہٹنے کی.اس سے انکار کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں لیکن کوئی پیش نہیں جارہی کیونکہ اب سائنس ان مضامین میں داخل ہو چکی ہے جہاں خدا دکھائی دینا چاہئے.اور یہ بھی ایک غیب کے سفر کا لطف ہے.جب آپ غیب سے حاضر کی طرف سفر کرتے ہیں خواہ سفر کسی سمت میں بھی ہو.خواہ وہ مادی دنیا کی تحقیق کا ہی سفر ہو.ہر ایسا سفر جہاں آپ غیب سے
خطبات طاہر جلد 14 359 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء حاضر کی تلاش میں آگے بڑھتے ہیں وہ آپ کو خدا کے قریب لے جاتا ہے اور یہی مضمون ہے جو قرآن کریم ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقره: 116) لوگ سمجھتے ہیں یہاں صرف مشرق و مغرب مراد ہیں ، ہرگز نہیں.تمام کائنات میں ہر جہت سے جس قسم کا بھی آپ سفر اختیار کریں آگے خدا کو پائیں گے.یہ سفر نیکی کا ہی ہونا ضروری نہیں بدی کے سفر میں بھی آگے خدا کو پائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مثال بیان فرماتا ہے ان لوگوں کو جو مادہ پرست ہیں اور دنیا کی لذات کی پیروی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ کرتے چلے جائیں پیروی، ان کی آگ بھڑکتی چلی جائے گی، جیسے سمندر کا پانی پیاس نہیں بجھا سکتا ان کی پیاس بجھے گی نہیں بھڑکتی چلی جائے گی اور ایک سراب ہے جس کی طرف وہ سفر کر رہے ہیں اور جہاں وہ سمجھتے ہیں پانی ہے وہاں پہنچتے ہیں تو پانی اور آگے چلا جاتا ہے.آخر پر اللہ فرماتا ہے جب یہ سفر ختم ہوگا تو وہاں خدا کو پائیں گے.تو اس لئے کوئی یہ کہے کہ جی یہ تو نیکی کے سفر میں خدا ملتا ہے بدی میں کیسے مل گیا.دراصل شیطان کی حقیقت اپنی ذاتی کوئی نہیں ہے.ہر چیز کا آخر خدا ہے.اول والآخر کا ایک یہ بھی مفہوم ہے.جہاں سے آپ نے سفر شروع کیا وہاں خدا ہے وہ سفر جہاں انجام کو پہنچے گا وہاں خدا ہو گا اور شیطان سراب ہے اصل میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی یہی تعریف فرمائی ہے.فرماتا ہے وہ تم سے دھو کے کے وعدے کرتا ہے ان میں کچھ بھی نہیں غرور کے سوا تم سے اور کوئی وعدہ نہیں کرتا اور غرور کہتے ہیں فرضی کہانیوں کو جن میں کوئی حقیقت نہ ہو ، ایسے وعدے جو سبز باغ دکھانے والے ہوں جبکہ سبز باغ ہو کوئی نہ.اسی لئے شیطان کا نام خدا تعالیٰ نے غرور رکھا ہے یعنی ایسا دھو کے باز جو دھو کے کے وعدے کرتا ہے اور اصل چیز ہے ہی کچھ نہیں اس کے پاس،اس کے پاس گناہ کی لذت بھی نہیں وہ بھی انسان اللہ کے نظام سے چوری کر کے لیتا ہے.تو فرمایا آخر پر جب وہاں پہنچے گا تو خدا ہی دکھائی دے گا خدا کے سوا کچھ بھی نہیں.پس ہر حرکت جس سمت میں بھی ہو خدا کے قریب لے جاتی ہے.اس دور میں اب سائنس دان داخل ہو چکے ہیں جب ان کو خدا کی قربت سے خوف آنے لگا ہے.گھبرانے لگے ہیں کہ ہم تو جس سفر میں خدا کو مدتوں پیچھے چھوڑ آئے تھے آگے پھر وہی.اس مصیبت سے نجات پانے کے لئے وہ بہانے بنارہے ہیں اور کچھ پیش نہیں جاتی.یہ Chaos والا مضمون ہے.میں نے پڑھا ہے
خطبات طاہر جلد 14 360 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء یعنی کتاب تو مجھے نہیں پتا لیکن ایک کمپیوٹر سپیشلسٹ کا بہت بڑا ایک آرٹیکل چھپا ہے.اس نے بڑے کمپیوٹر کے ذریعہ بڑا بھاری حساب دان ہے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ Chaos اتفاقاً، اتفاقی حادثات کے نتیجے میں ایک نظم و ضبط میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے.اب وہ جو اعلان موٹے موٹے لگے ہوئے ہیں مضمون کے اوپر بڑے دھو کے دینے والے ہیں ، ایک سادہ آدمی ، عام آدمی جس کو ان باتوں کا پتا ہی نہیں پڑھے گا تو کہے گا دیکھوجی ثابت ہو گیا کسی خدا کی ضرورت نہیں لیکن وہ مضمون میں خود دراصل اپنے دھو کے کو ننگا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ جتنے بھی Possible مختلف امکانی رستے ہیں ، ان میں سے جو رستے واقعہ سامنینظر آ رہے ہیں اگر ان کے مطابق کمپیوٹر بنایا جائے تو جتنی دیر Chaos کو نظم و ضبط میں یا افراتفری کونظم وضبط میں تبدیل ہونے کے لئے چاہئے اس کے لئے جو زمانے کا ہمارا تصور ہے اس سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ وقت چاہئے اور وہ بھی غلط ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ نظم وضبط کا سفر ہمیشہ بے نظمی کی طرف ہوتا ہے اور بے نظمی کا سفر نظم وضبط کی طرف نہیں ہوا کرتا سوائے اس کے کہ کوئی منتظم، بے نظمی کو نظم میں تبدیل فرمادے.یہ ایک ایسی شہادت ہے جس سے آنکھیں بند کرنا سب سے بڑی جہالت ہے.کمپیوٹر کا کیا ہے اس میں جو مرضی Feed کر دو گے ویسی چیزیں نکال لولیکن اس کے باوجود وہ باتیں نہیں نکل رہیں جو اپنی مرضی کی ڈالتے ہیں پھر بھی نہیں نکلتیں.اب روزانہ گھر کا معاملہ ہے جو عورت غیر منظم ذہن رکھتی ہو، افراتفری بے ترتیبی سے چلنے والی ہو اس عورت کا گھر ہمیشہ کھڑا پکھڑ ا ہی دکھائی دے گا.کوئی چیز یہاں پڑی ہے کوئی چیز وہاں پڑی ہے کہیں صوفہ سیٹ کے اوپر کپڑے سوکھنے کے لئے ڈالے ہوئے ہیں، کہیں باہر گندے کپڑے لٹکائے ہوئے ہیں، خیال ہی کو ئی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے اور ہر جگہ گھر بھر ڈھونڈنی پڑتی ہے چیز.خاوند کہتا ہے جی میری ٹائی کہاں گئی ، اچھا جی میں ابھی دیکھتی ہوں اور وہ دونوں لگے ہوئے ہیں اور بیوی کو چمچہ چاہئے وہ چھہ نہیں مل رہا.ایسی افراتفری لیکن جب وہ ایک دن لگا کر ٹھیک کرتے ہیں تو کچھ دیر کے بعد پھر وہی شروع ہو جاتی ہے.لیکن کبھی آپ نے یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ افراتفری والا گھر آہستہ آہستہ منتظم ہو رہا ہو خود بخود اور چیزیں خود بخو د سلیقے سے لگ رہی ہوں یہاں تک کہ انتہائی سلجھی ہوئی خاتون کے گھر کی طرح ایک بدتمیز اور بے وقوف خاتون کا گھر نظم و ضبط کے ساتھ ابھر کر ایک دلکش چیز بن کر سامنے آجائے ، ناممکن ہے.
خطبات طاہر جلد 14 361 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء ہر چیز کے لئے Maintenance کی ضرورت ہے جہاں نظم وضبط کی ضرورت ہے.انسان گھر بناتا ہے تو ایک آرکیٹکٹ اس کا ڈیزائن بناتا ہے.اس ڈیزائن کے بنانے کے بعد اس کو جس طرح بنایا جاتا ہے اگر اس کو اسی طرح Maintain نہ کیا جائے تو غیر متحرک جامد گھر بھی اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہ سکتا اور جو چیز حرکت کرنے والی ہو اس کی ہر لمحہ حفاظت اور نگرانی کی ضرورت ہے.اب موٹر کار چلاتے وقت ایک لمحہ کے لئے آپ کی آنکھ بند ہو جائے ،سو جائیں تو حادثہ ہو جائے گا.بعض دفعہ خدا کا فضل ہے جو بچا لے مگر وہاں پھر خدا Take Over کر لیتا ہے وہ اور بات ہے.مگر بغیر کسی باشعور ہستی کے نظم و ضبط جتنا متحرک ہوگا اتنا ہی خطرناک ہو جائے گا.یہ معاملہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں خدا پر علم کے تعلق میں.آپ فرماتے ہیں وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ جہاں خدا اعلم اشیاء سے غافل ہوا وہاں حادثہ، ضرور تصادم ضرور نظم بد نظمی میں تبدیل ہو گا.پھر فرماتے ہیں ” وہ اس عالم کے ذرے ذرے پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا ، یہاں انسان کے علِمُ الْغَيْبِ ہونے کی بھی نفی ہے اور عالم الشہادہ ہونے کی بھی نفی ہے.انسان تو نظر کے محدود دائرے میں ہی اصل نظر رکھ سکتا ہے ور نہ حقیقت یہ ہے کہ جاگتا ہوا انسان، باشعور، خبر دار انسان بھی اپنے بعض پہلوؤں سے غافل ہی رہتا ہے بے چارہ اور اس کی چوری ضرور ہو جاتی ہے.اگر کوئی چور ایسا چالاک مل جائے اس کو پتا چلے کہ شیطان کی طرح میں کہاں سے حملہ کروں جس کو یہ نہیں دیکھ رہا تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو انسان تو پھر کبھی بھی کچھ بھی نقصان نہ اٹھا سکتا اور جتنا شاطر چور ہو شیطان کی طرح اتنا ہی انسان کی غفلت کے بعض لمحوں سے بھی فائدہ اٹھا جاتا ہے اس لئے وہ غفلت کے لمحے بھی اللہ کی حفاظت میں ہونے چاہئیں.یہ وہ پہلو ہے جس کا غیب والے مضمون سے تعلق جوڑ کر آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ گناہ سے نجات محض اس وجہ سے نہیں ہو سکتی کہ آپ خدا کو حاضر سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ غیب ہونے کے باوجودوہ نظر رکھ رہا ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ خدا کو حاضر اور اپنے آپ کو ان معنوں میں غیب سمجھیں کہ اپنے حال سے بھی غیب ہیں اور اپنے حال پر نظر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ حوالے دے کر التجا کریں کہ میں تو اپنے نفس سے بھی غافل ہوں اور اپنے نفس کے اندھیروں میں بسا اوقات ایسی جگہیں ہوں گی جہاں
خطبات طاہر جلد 14 362 خطبہ جمعہ 19 رمئی 1995ء میں ٹھوکر کھا سکوں گا اور ٹھوکر کھا جاؤں گا.میں سمجھ رہا ہوں کہ میں تجھے دیکھ رہا ہوں اور حاضر سمجھ رہا ہوں لیکن ہزار موڑا ایسے آتے ہیں، ہزار پردے ایسے آتے ہیں، ہزار حالتیں انسانی ذہن کی ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں وہ لاشعوری طور پر اندھیروں میں ٹھوکریں کھا جاتا ہے.تو یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ” ایک لمحہ بھی غائب نہ ہونا یہ ایک رحمت ہے دراصل.تو اس حوالے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ تو تو ایک لمحہ بھی حقیقت میں میرے حال سے غافل نہیں ہے.اس لئے جہاں میں غافل ہوں وہاں رحم فرما اور میری غفلت کی حالت میں مجھے ٹھوکر سے بچالے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نظم وضبط اگر متحرک ہو تو لازم ہے کہ ہرلمحہ اس پر نظر ہو.میں نے اب تو کار چلانی دیر سے چھوڑی ہوئی ہے ، جب چلایا کرتا تھا اچھی تیز چلا تا تھا اور کئی دفعہ ایسا ہوا، ایک دفعہ نہیں کہ چلاتے چلاتے اونگھ آگئی اور پھر بچ بچا کے ٹھیک ہو گیا تو یہ ایک دفعہ نہیں، دودفعہ نہیں ، بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے.مگر اب میں غور کر کے پیچھے دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی حادثاتی بات نہیں تھی اتفاقی حادثہ نہیں تھا وہ ٹکر ہو جانی چاہئے تھی لیکن خدا تعالیٰ نے جو ہر حال میں موجود بھی ہے، غائب ہوتے ہوئے وہ جب بچانے کا فیصلہ کرتا ہے تو بچا لیتا ہے.غفلت کی وہ شکل ظاہر نہیں ہوتی جو لازمی حادثے پر منتج ہو.غفلت کی بعض حالتیں ایسی ہیں کہ جن میں ضروری نہیں کہ حادثہ ہو جائے.اب میز کے کنارے پر اگر ایک کار کو حرکت دیں تو اکثر امکان ہے کہ وہ ایک کنارے سے باہر جاپڑے گی لیکن بعض ایسی بھی صورتیں ہیں کہ وہ بیچ میں ساتھ ساتھ چلتی رہے، میز کے اندر کی طرف وہ منہ کر لے، گرے نہیں.تو یہ جو اتفاقات کہے جاتے ہیں ، حادثات کہے جاتے ہیں، ان پر بھی اللہ کی نظر ہے اور ان پر بھی اس کے نظم وضبط کی راج دہانی ہے اور ایک لمحہ بھی ان حادثات سے بھی وہ غافل نہیں ہے.پس آخری نسخه در اصل علِمُ الْغَيْبِ سے اس سارے مضمون کو سمجھنے کے بعد دعا اور التجا کا نسخہ ہے.ایک اور امر بہت ہی اہم غیب کے تعلق میں یہ ہے کہ جہاں خدا ہر وقت حاضر سمجھا جائے اور اس کے حضور کے نتیجے میں آپ گناہ سے بچتے ہیں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرے بندوں سے بھی یہ سلوک کرو اور اگر تم اس کے بندوں سے یہ سلوک کرو گے تو خدا کی حفاظت کا ہاتھ زیادہ مستعدی سے تمہاری حفاظت فرمائے گا.یہ وہ مضمون ہے جس کو سورہ یوسف کے حوالے سے زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 363 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء حضرت یوسف نے جب آپ کو خزانوں کی کنجی دی جارہی تھی یا دی جانی تھی فرمایا کہ نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ لَمْ أَخُنُهُ بِالْغَيْبِ (یوسف:53) میں نے گھر کے مالک کی اس کے غائب ہونے کے باوجود خیانت نہیں کی اس وقت تک میں اسے قبول نہیں کروں گا.یہ ناشکری نہیں تھی بلکہ یہ بہت ہی گہرا عارفانہ مطالبہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں ایک گھر کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا، اگر میں ایسا خائن ہوں کہ ایک معمولی گھر کی ملکیت کے معاملے میں بھی خیانت مجھ پر غالب آگئی تو اتنے بڑے وسیع ملک کے خزانوں کی چابیاں مجھے کیوں سونپی جائیں.پس میں اس لائق نہیں ٹھہرتا.یہ پہلے پتا کر لو کہ میں وہاں دیانت کے تقاضے پورے کر رہا تھا کہ نہیں اور ساتھ ہی آپ کی بریت ہو گئی جس کی بڑی ضرورت تھی.اس بریت کے بغیر بعض دفعہ ایسے حالات میں الزام بھی لگ جایا کرتے ہیں اور سورہ یوسف سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے.آپ کے بھائی کے متعلق کہہ نہیں دیا تھا انہوں نے حضرت یوسف کو متہم کرتے ہوئے یہ چونکہ سمجھ بیٹھے تھے کہ واقعہ چوری کی ہے تو اس الزام کو حضرت یوسف پر بھی تھوپنے کی کوشش کی کہ اس کے بھائی نے بھی ایک دفعہ چوری کی تھی حالانکہ یہ بالکل جھوٹ اور بہتان تھا.تو حضرت یوسف اگر خود نعوذ باللہ من ذالک اس خیانت کے طعن سے باہر نہ آتے تو پھر جس شان اور آزادی کے ساتھ اور کامل یقین اور اعتماد کے ساتھ آپ نے اس سات سالہ قحط کے دوران ملک کی عظیم خدمت کی ہے اس کی توفیق نہ مل سکتی تھی.کئی لوگ کہہ سکتے تھے دیکھو انہوں نے اپنوں کو یہ دے دیا ، فلاں کو یہ کر دیا.پس غیب کا مضمون خدا ہی سے نہیں، گناہ کے تعلق میں بندے سے بھی تعلق رکھتا ہے اور چھوٹی سی امانت تھی اس میں خیانت نہیں کی تو خدا کی دین دیکھیں تمام ملک کے خزانوں کی چابی آپ کو پکڑا دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیضان کا جاری ہونا اس کے بندوں سے آپ کے سلوک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جب غیو بیت کا مضمون سمجھ کر آپ بندوں کی ، ان کے غیب میں خیانت نہیں کریں گے تو یاد رکھیں آپ کے اموال میں برکت ملے گی لیکن وہ لوگ جو روز مرہ کی تجارتوں میں جہاں نظر اچٹی کسی کی وہاں خیانت شروع کر دی ان کے اموال میں یا تو برکت نہیں رہے گی وہ ضائع ہو جائیں گے یا ان کے اموال کے خرچ ان کے لئے لعنت پیدا کر دیں گے ان کی اولاد میں ہاتھ سے نکل جائیں گی، ان کا دین ہاتھ سے جاتا رہے گا، ان کی عاقبت تباہ ہو جائے گی اس لئے یہ مضمون جو صفات باری تعالیٰ کا ہے اسے
خطبات طاہر جلد 14 364 خطبہ جمعہ 19 مئی 1995ء حقیقت کی دنیا پر اتار کر اپنے روزمرہ کے تجارب میں داخل کر کے پھر ذکر الہی کریں تو یہ ذکر الہی ہے جو ہر دوسری چیز سے بالا اور افضل اور اکبر ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 365 خطبہ جمعہ 26 مئی 1995ء عالم الغیب کا مطلب ہے کہ اس کو فنا نہیں.صفت سلام سے متصف ہو کر دنیا کو امن دے سکیں گے.( خطبه جمعه فرموده 26 رمئی 1995ء بمقام ناصر باغ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِرُ سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الحشر : 2423) پھر فرمایا:.آج کل اسماء باری تعالیٰ کے بیان کا ایک سلسلہ شروع ہے اور آج بھی اسی سے متعلق انشاء اللہ میں کچھ مزید امور آپ کی خدمت میں پیش کروں گا لیکن آج مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا سولہواں سالانہ اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے اور اس اجتماع کے لئے چونکہ خصوصیت سے یہی جمعہ افتتاحی اعلان کے لئے بھی رکھا گیا ہے اس لئے ابتداء میں چند لفظ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے اس سالانہ اجتماع سے متعلق کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے کہ جماعت جرمنی ہر پہلو سے ہر شعبہ کے لحاظ سے ترقی کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے اور ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے مقام اور مرتبے کو سمجھتے ہوئے عمومی
خطبات طاہر جلد 14 366 خطبہ جمعہ 26 مئی 1995ء طور پر جماعت کا ایک صحت مند جزو بنی ہوئی ہیں اور ان کی اپنی صحت کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعت کے بدن کا ایک جزو بن کر رہیں اس سے الگ اپنی کوئی ایسی شخصیت نہ بنا بیٹھیں جیسے ایک بدن کے اندر کوئی بیرونی شخصیت پیدا ہو جاتی ہے.یہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر ایک بدن کا کوئی عضو یا کسی عضو کا کوئی حصہ اپنا الگ تشخص بنا بیٹھے تو اسی کا نام کینسر ہوا کرتا ہے اور یہ کینسر پھر باقی بدن کو بھی کھا جاتا ہے.اس لئے نظامِ جماعت کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو مسلمان کی تعریف فرمائی ہے وہی صادق آئے تو یہ نظام زندہ رہے گا ور نہ ختم ہو جائے گا.آپ نے فرمایا مومن ایسے بھائی بھائی ہیں کہ گویا ایک بدن کے اعضاء ہیں اور بدن میں اگر پاؤں کی انگلی کے کنارے پر بھی کوئی تکلیف پہنچے تو سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے.اس لئے مجلس خدام الاحمدیہ ہو یا مجلس انصار اللہ یا مجلس لجنہ اماءاللہ یا ذیلی تنظیمیں یا اور کئی قسم کے ذیلی گروہ ہوں جو خدمت دین کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ ہمیشہ یا درکھیں کہ وہ ایک بدن کا حصہ رہ کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں اور ایک بدن کا حصہ رہ کر ہی دوسرے بدن کے لئے خوشخبری کا پیغام بنتے ہیں ورنہ اگر انہوں نے اپنا الگ تشخص قائم کرنے کی کوشش کی تو باقی سب بدن کے لئے نحوست اور لعنت کا پیغام بن جائیں گے.اس پہلو سے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے اور دلی اطمینان کے ساتھ میں کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے اگر شروع میں کبھی کچھ ذیلی گروہوں کی طرف سے سر اٹھانے کے رجحانات پیدا بھی ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو یکسر مٹا دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں وہ رجحانات بھی لاعلمی یا غلط نہی کی وجہ سے ہوئے تھے عدم تربیت کا نتیجہ تھے، دلوں میں کوئی ایسی کبھی نہیں تھی کہ وہ ایک مستقل خطرہ بن جاتے.پس الحمد للہ اس وقت جماعت جرمنی ایک ہاتھ کے نیچے اس طرح اکٹھی ہے جس طرح اسلام کا تصور آنحضرت مو نے پیش فرمایا ہے.سب ایک ہی بدن کا حصہ ہیں، ایک دوسرے کی خوشی کو محسوس کرنے والے، ایک دوسرے کے غم سے تکلیف اٹھانے والے اور مجلس خدام الاحمدیہ اس پہلو سے مبارکباد کی مستحق ہے کہ اگر چہ ایک بہت بڑی اور فعال تنظیم ہے جو جماعت احمدیہ جرمنی کے بدن کا سب سے بڑا حصہ ہے کیونکہ یہاں نو جوانوں کی تعداد دوسروں کے مقابل پر باقی دنیا کی جماعتوں سے زیادہ ہے، اس کے باوجود انہوں نے اپنے بجز اور انکساری کے
خطبات طاہر جلد 14 367 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء مقام کو خوب سمجھا ہے اور کبھی اشارہ بھی کوئی ایسی بات ظاہر نہیں ہونے دی جس سے خودسری کی یو آتی ہو.پس اس نہج پر آگے بڑھتے رہیں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہواور اجتماعی برکتیں آپ کو نصیب ہوں.برکتیں ہیں ہی وہی ، جو اجتماعیت سے حاصل ہوتی ہیں ورنہ انفرادیت تو دراصل موت کا پیغام ہے.انفرادیت نظام کے بکھرنے کو کہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ترکیب اجزا ہی سے زندگی بنتی ہے اور جب ترکیب اجزا منتشر ہونے لگتی ہے تو اسی کا نام موت ہے.تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ کی ابدی زندگی عطا فرمائے ، روحانی لحاظ سے آپ کی صحت دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے اور جماعت کا پہلے سے بڑھ کر ایک فعال حصہ بن سکیں.خطبات کے تعلق میں میں علِمُ الْغَيْبِ کا مضمون بیان کر رہا تھا اور اس کے بعد پھر رحمان اور رحیم کے مضمون میں بھی داخل ہوئے تھے لیکن علِمُ الْغَيْبِ کے تعلق میں ایک یہ بات بھی بیان کرنی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن کی زندگی کا تعلق ہے اس کا غیب خدا کے قبضہ قدرت میں ان معنوں میں ہے کہ اس کے غیب سے ہمیشہ مومن کے لئے ایسے امور رونما ہوتے ہیں جو اس کے دل کو پسند ہوں، اس کی خواہشات کے مطابق ہوں.تکلیفیں ظاہر ہوتی ہیں تو تھوڑی اور خوشیوں کا حصہ ہمیشہ غالب رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ غموں کا ایک دن اور چار شادی فسجان الذى اخری الا عادی (در مشین: 46) ایک غم کا دن ہے تو چار شادی اور خوشی کے دن خدا دکھاتا ہے اور اسی طرح دشمنوں کو ذلیل کرتا چلا جاتا ہے.مومنوں کا غیب محفوظ ہے کیونکہ ایک پیار کرنے والے خدا کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن دشمنوں کا غیب ہمیشہ ذلیل اور رسوا کن ہوتا ہے.خود بھی ذلیل اور اوروں کو بھی ذلیل کرنے والا.اسی وجہ سے جوں جوں غیب سے پردے اٹھتے ہیں مومن کو زیادہ خوشخبریاں ملنی شروع ہوتی ہیں اور جوں جوں غیب سے پردے اٹھتے ہیں دشمن کی شہادت جو بظاہر خوشی سے لبریز ہوتی ہے یعنی اس کی حاضر زندگی وہ تکلیفوں اور دکھوں اور مایوسیوں میں تبدیل ہونے لگتی ہے.یہ ایک ایسی جاری تقدیر ہے، ایک سنت اللہ ہے جس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتے دیکھیں گے.پس اس پہلو سے کامل یقین کے ساتھ آگے بڑھیں کہ پردہ غیب میں جو کچھ بھی ہے ہمارے
خطبات طاہر جلد 14 368 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء لیے بہتر ہے اور دشمن کے لئے اس میں رسوائیاں اور نا کامیاں ہیں.یہ یقین ہے جو عمل کو مزید طاقت بخشتا ہے.اپنی آخرت پر، اپنے انجام پر یقین ، قوموں کے لئے بہت قوت اور یکجہتی کا باعث بنتا ہے.ان کی اجتماعیت کو قائم رکھنے میں یہ یقین بہت گہرا اثر ڈالتا ہے.پس اس پہلو سے ہم عالم الغیب خدا کے حضور ہمیشہ سجدہ ریز رہیں گے کہ وہ اپنے غیب سے ہمارے لئے جو کچھ بھی نکالے خیر کے سامان نکالے اور دشمن دن بدن ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھتا ر ہے.پس پردہ غیب سے اس کے لئے تو نا مرادیاں نکلتی رہیں اور ہمارے لیے کامیابیاں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی خوشخبریاں.اس پہلو سے ابھی چند دن کا ایک ذکر ہے مجھے خیال آیا کہ اس موقع پر میں آپ کو بتاؤں کہ خوف تو مومن کو بھی ان معنوں میں ہوتا ہے کہ پتا نہیں ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں گے کہ نہیں مگر خوف مومن پر غالب نہیں آتا.مایوسی میں نہیں تبدیل ہوتا.چند دن پہلے تک خدام الاحمدیہ جرمنی کی طرف سے ان کے شعبہ تبلیغ کی طرف سے مجھے بہت پریشانی کے خط مل رہے تھے کہ بہت محنت کر رہے ہیں ، بہت کوشش کر رہے ہیں مگر پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ہماری کوششوں کو کامیابی کے پھل نہیں لگے.چنانچہ انہوں نے خطوں میں لکھا کہ ہم دعا کی غرض سے یہ بات لکھ رہے ہیں لیکن ہم مایوس نہیں ہیں اللہ جب چاہے گا اپنا فضل فرمائے گا.آنے سے ایک روز پہلے مجھے اچانک مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے جو انچارج ہیں اس گروپ کے ان کی طرف سے خوشخبری کا خط ملا کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور اس طرح اچانک پھل گرنے شروع ہوئے ہیں جیسے پکنے کا انتظار کر رہے تھے اور اب ہر طرف سے خوشیوں کی خبریں مل رہی ہیں اور ہماری توقع کے بالکل برعکس اور خلاف، ہماری تبلیغ میں غیر معمولی کامیابی ہونی شروع ہو گئی ہے.انہوں نے لکھا کہ پہلے بوسنین اور البانین بات سنتے بھی تھے تو مثبت نتیجہ ظاہر نہیں کرتے تھے اور کچھ شکوں میں مبتلا رہتے تھے.اب اچانک ہر طرف سے اطلاعیں ملنی شروع ہوئی ہیں کہ اتنے سو وہاں ہو گئے ،اتنے سوا دھر ہو گئے اور خود بخود رابطے کر کے وہ بیعت کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل.شامل ہورہے ہیں.اس پہلو سے جو اعداد و شمار ہیں وہ کل تک کے یہ تھے جو پہلے بیعتیں سینکڑوں میں تھیں ނ میرے یہاں آنے سے پہلے 4200 ہو چکی تھیں.صرف خدام الاحمدیہ جرمنی کا حصہ اور کل جو ہماری
خطبات طاہر جلد 14 369 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء مجلس لگی ہے بوسنین اور البانین کے ساتھ اس میں 1082 بیعتیں اور شامل ہو گئیں تو اب خدا کے فضل سے 5282 بیعتیں مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے حصے میں آئی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی کامیابی ہے.مگر ابھی کافی سفر باقی ہے انہوں نے دس ہزار بیعتوں کا عہد کیا تھا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چند ہفتے پہلے تک تو صرف چند سو تھیں اب خدا نے جب رفتار تیز فرمائی ہے سینکڑوں کو ہزاروں میں بدلا ہے تو آپ کو بھی دعا کرتے رہنا چاہئے اور پورے زور سے آخری کوشش کرنی چاہئے کہ جلسہ سالانہ یو کے تک جو سال ختم ہوتا ہے اس سے پہلے پہلے اپنا ٹارگٹ 10000 پورا کر سکیں اور اللہ چاہے تو اس کے علاوہ اور بھی آپ کو عطا فرمائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں غیب پر بحث فرمائی ہے وہاں ایک عجیب معنی اس سے خدا تعالیٰ کے ہمیشہ ہونے کا نکالا ہے اور یہ کلام ظاہر کرتا ہے کہ کس حد تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے عرفان عطا فرمایا تھا کیونکہ تمام اسلامی لٹریچر میں اس پہلو سے غیب کے مضمون کو نہ سمجھا گیا نہ اس پر روشنی ڈالی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عالم الغیب کا ایک مطلب یہ ہے کہ: وہ جانتا ہے کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا.“ یہ جو عبارت ہے اس کو گہرائی میں اتر کر سمجھنے کی ضرورت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہم جو بھی شعور رکھتے ہیں خواہ انسان ہوں یا ادنیٰ سے ادنیٰ جانور، ایک گوبر کا کیڑا ہو وہ کچھ نہ کچھ شعور رکھتا ہے اور اپنے اپنے شعور کے مطابق اس کا ایک عالم ہے اس کے آگے اور پیچھے سب غیب ہے.اور غیب کا علم صرف خدا کے لئے ہے کیونکہ وہ شخص جو مرتا ہے اس کے ساتھ پورا عالم مر جاتا ہے اس کا غیب بھی ساتھ ہی فنا ہو جاتا ہے.پس اگر کچھ اندازے کرتا بھی ہے کہ آئندہ کیا ہوگا تو وہ اندازے اس کی زندگی تک ہیں، اس کی فنا کے ساتھ اس کا غیب بھی مٹ جاتا ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو عَلِمُ الْغَيْبِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اس کے غیب کا کوئی کنارہ نہیں ہے.کوئی ازل میں ایسا مقام نہیں ہے جہاں کے غیب کا اس کو علم نہ ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ازل سے ہے.اگر وہ ازل سے نہ ہو تو علِمُ الْغَيْبِ کہا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ آپ ماضی میں سفر شروع کریں جہاں جا کر
خطبات طاہر جلد 14 370 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء آپ خدا کے غیب کے علم کو ختم سمجھیں گے وہیں خدا کا وجود ختم ہو جائے گا لیکن غیب باقی ہوگا.پس جب اللہ فرماتا ہے کہ وہ علِمُ الْغَيْبِ ہے تو ماضی میں بھی آخری کنارے تک آپ سوچتے چلے جائیں.اس کے بعد پھر اور مضمون آگے بڑھ جائے اور حقیقت میں غیب کا نہ ماضی میں کوئی کنارہ ہے نہ مستقبل میں کوئی کنارہ ہے.پس علم الغیب کا مطلب یہ ہے کہ اسے فنا نہیں اور دوسری چیزوں کو فنا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور چیز علِمُ الْغَيْبِ نہیں ہے.پس عُلِمُ الْغَيْبِ نہ ہونا فنا کی دلیل ہے اور علِمُ الْغَيْبِ ہونا لامتناہی بقاء کی دلیل ہے.ماضی میں بھی ہمیشہ سے ہے اور مستقبل میں بھی وہ ہمیشہ رہے گا.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علِمُ الْغَيْبِ سے یوں نکالا ہے فرمایا وہ جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی یعنی ہر دوسرے کا غیب ختم ہو جائے گا وہ منصہ شہود میں جواُ بھرتے ہیں عارضی طور پر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے مگر ایک ایسا وقت آئے گا کہ خدا کے غیب میں کوئی بھی شریک نہیں رہے گا اور وہ جو غیب کا آخری مضمون ہے یہ خدا کے باقی رہنے اور غیر اللہ کے کلیاً مٹ جانے کا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علِمُ الْغَيْبِ کی تشریح میں بیان فرمایا.فرماتے ہیں: " وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو تو ڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا؟ سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے...“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ: 373) یہ وقتوں کو جاننے والا وہی مضمون ہے جو مجھے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ اللہ وقت سے بالا ہے اور اس پر وقت نہیں گزرتا.پس وہ جو ماضی کے وقت کو بھی جانتا ہے اور مستقبل کے وقت کو بھی جانتا ہے، اس کا ماضی میں ہونا وقت سے بالا اور مستقبل میں ہونا وقت سے بالا ، یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے یعنی وقت اس میں کوئی تبدیلی ایسی پیدا نہیں کرتا کہ ماضی کا خدا حال کے خدا سے الگ ہو چکا ہوا اور حال کا خدا مستقبل کے خدا سے جدا ہو گیا ہو.اس کی صفات میں کوئی ایسی تبدیلی واقع نہیں ہوتی کہ جسے دیکھ کر ہم کہہ سکیں یہ پرانے وقت کی باتیں ہیں اس وقت خدا ایسا ہوا کرتا تھا، یا یہ آج کی بات ہے کل ویسا نہیں رہے گا.پس خدا کا وقت سے بالا ہونا اس کے ہمیشہ ہونے کے ساتھ ایک ایسا تعلق
خطبات طاہر جلد 14 371 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء رکھتا ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علِیمُ الْغَيْبِ سے تعلق جوڑ کے اس مضمون کو ہم پر روشن فرمایا.ایک اور مضمون اس میں یہ قابل توجہ ہے کہ یہ جتنے بھی اسماء باری تعالی بیان ہو رہے ہیں اس کے آغاز میں اللہ نے ایک عنوان لگایا ہے اور وہ ہے هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وہی ایک اللہ ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس جتنی بھی صفات باری تعالی بعد میں بیان ہوتی ہیں ان کا دراصل توحید کی آخری سورۃ سے تعلق ہے جو سب سے اعلیٰ شان کی تو حید ہے وہ اس سے ظاہر ہوتی ہے.پس اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو ان آیات کی تشریح فرما ر ہے ہیں ان کو غور سے پڑھیں تو اور نئے سے نئے دلچسپ اور دلکش مضامین ابھرتے چلے آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں، پھر فرمایا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ یہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں.پھر فرماتے ہیں الرحِیم کے متعلق بھی میں کچھ بیان کر چکا ہوں اگر چہ بہت وسیع مضمون ہے اور اس کے لئے میں نے مختصر بیان کیا تھا کہ جب میں انگلستان آیا تھا تو مسلسل دوتین سال درسوں میں ، جو رمضان میں درس ہوتے تھے اس میں انہی صفات پر بحث گزری ہے یعنی سورۃ فاتحہ کے آغاز میں جو چار صفات باری تعالی بیان ہوئی ہیں رَبِّ الْعَلَمِينَ في الرَّحْمَنِ الرَّحِيهِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو چونکہ وہ مضمون بیان ہو چکا ہے اور بعد میں بھی درس کے دوران مختلف جگہ دہرایا گیا ہے اس لیے میں نے ان خطبات سے اس حصہ کو چھوڑ دیا ہے، الگ رکھ دیا ہے ورنہ یہ خطبات کا سلسلہ بہت لمبا ہو جاتا تو اگر کسی کو دلچسپی ہے تو ان بنیادی صفات باری تعالیٰ سے متعلق پرانے درسوں کی کیسٹیں وغیرہ حاصل کر لے ان میں انشاء اللہ تعالیٰ ان کے لیے کافی روشنی کے سامان ملیں گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا ذکر فرماتے ہیں....یعنی وہ خدا جو ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو دو
خطبات طاہر جلد 14 372 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ: 373) یہاں یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ جو آیات میں نے تلاوت کی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان آیات کی تفصیل کے دوران سورۃ فاتحہ کو بھی داخل فرمایا ہے اور اس کے آغاز کو کیونکہ ان کے بغیر، ان کے سہارے کے بغیر ان آیات کی پوری حقیقی سمجھ نہیں آسکتی.سورۃ فاتحہ چونکہ ام الکتاب ہے یعنی تمام قرآن کریم کی ماں ہے ان معنوں میں کہ ماں کے پیٹ میں بچہ جو صفات لے کر پیدا ہوتا ہے وہ نشو و نما پا کر پھر پھیل جاتی ہیں اور اس کی ساری زندگی پر محیط ہو جاتی ہیں.دیکھنے میں باہر آ کر انسان بہت ترقی کرتا ہے اور یقین نہیں آ سکتا کہ وہی بچہ تھا جو ماں کے پیٹ میں تھا مگر ایک بھی صفت وہ بعد میں اپنی خود بنا نہیں سکتا.وہ تمام تر مادے جو اس کے اندر صلاحیت کے موجود ہیں وہ ماں کے پیٹ سے لیتا ہے.اگر نہ لے کر چلے تو وہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اسی لیے ڈاکٹرز جب کوئی مریض دکھایا جائے اور اس سے مایوسی کا اظہار کریں تو بسا اوقات کہتے ہیں کہ ایک Congenital کیس ہے یعنی Congenital اندھا ہے، مادر زاد اندھا ہے اس کے فلاں آثار ماں کے پیٹ میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اس لیے اس کا کوئی علاج نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں بعد میں بننے والا انسان تمام تر ایک بلیو پرنٹ کے طور پر بن جاتا ہے اور جو بن گیا بن گیا اس کے بعد کچھ نہیں بن سکتا.پس اسی لیے صفات باری تعالیٰ جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ان کا تعلق تمام تر قرآن کریم سے ہے اور قرآن کریم میں اسماء الہی جس رنگ میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے یا ان کی تشریح ملتی ہے ان کو مزید سمجھنے کے لیے ان چار بنیادی صفات کو سمجھنا ضروری ہے اور ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق قائم ہوگا.اس لیے اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی سورۃ پر گفتگو فرمارہے ہیں علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ لیکن بیچ میں سورۃ فاتحہ کی یہ صفات داخل فرما کر پھر مضمون کو دوبارہ واپس انہی آیات کی طرف لے جاتے ہیں.یہاں فرمایا مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ وہ جزا سزا کے دن کا مالک ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پرداز سب جزا سزا دیتا ہو اور آئندہ دینے والا ہو یعنی خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کے سپر د جزا سزا کا نظام اللہ تعالیٰ نے سونپ دیا ہو اور خود الگ ہو
خطبات طاہر جلد 14 373 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء بیٹھا ہو.یہ مضمون سمجھ کر تو حید کا مضمون ایک نئی شان کے ساتھ ابھرتا ہے اور غیر اللہ سے انسان کلیۂ مستغنی ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا میں تو یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے ماتحتوں کو کچھ نہ کچھ جزا سزا کے اختیار دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ ان کی محتاجی ہمیشہ محسوس کرتے ہیں.اگر چہ محبوب کوئی اور ہی ہوں مگر اس کے نوکروں کی خوشامد میں کرنا بھی دنیا کی شاعری میں آپ کو ہر جگہ مضمون ملتا ہے.غالب اس مضمون کو یوں بیان کرتا ہے: واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں (دیوان غالب : 180) یعنی جتنی بھی دعا ئیں مجھے یاد تھیں وہ تو میں دربان کو دے بیٹھا ہوں کہ کسی طرح وہ مجھے چوکھٹ سے گزر کر محبوب تک پہنچنے کی اجازت دے دے.اب اس نے گالیاں دیں ہر گالی کا میں نے جواب دعا سے دیا اور جتنی دعا ئیں تھیں وہ دربان کے حضور صرف کر ڈالی ہیں.اب اوپر جا کر جو میری شامت آئے گی اور وہاں سے جو مجھے گالیاں ملیں گی میں اُن کا کیا جواب دوں گا وہ تو میں دربان کو دے بیٹھا ہوں.یہ مضمون ہے اور ایک اور شعر میں وہ کہتا ہے: گدا سمجھ کے وہ چپ تھا میری جو شامت آئی اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے (دیوان غالب : 359) کہ پاسباں جو میرے محبوب کی ڈیوڑھی پر بیٹھا حفاظت کر رہا ہے وہ پہلے سمجھا تھا کوئی فقیر آیا ہے اور خاموش بیٹھا ہوا تھا.مجھے جو شوق چڑھا کہ میں اس کی خوشامد کروں تا کہ اس کے ذریعہ سے مجھے رسائی ہو تو اُٹھ کر میں نے اس کے قدم تھام لئے.اب وہ سمجھ گیا کہ فقیروں کی تو یہ عادت نہیں ہے کہ پاسبانوں کے قدم تھامے یہ اور کوئی مخلوق آئی ہے چنانچہ اس نے پھر میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ میری شامت آئی“ کے لفظوں میں بیان ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے کسی کو پاسباں مقرر نہیں فرمایا یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کو بھی فرماتا ہے لَسْتَ عَلَيْهِمُ بِمُصَّيْطِرٍ (الغاشیہ:23 ) تو ان پر داروغہ نہیں تو نہ ان کو کچھ دے گانہ ان سے کچھ لے سکتا ہے.میں ہی ہوں جو اپنی مخلوق سے جیسا چاہوں سلوک کروں.اس لیے آخرى مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ وہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سوا کسی کے پاس ہمارے
خطبات طاہر جلد 14 374 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء لیے نہ کچھ دینے کے لئے نہ چھینے کے لئے کچھ ہے.پس ہر دوسری چوکھٹ سے یہ مضمون آزادی دلاتا ہے.انسان کو کامل طور پر غیر اللہ سے آزاد کرنے والا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی ذکر میں بیان فرما کر پھر اَلْمَلِكُ الْقُدُّوسُ کی بات کرتے ہیں.یعنی یہ ایک ضمنی بات تھی تا کہ مالک کے مضمون کو بھی سمجھیں اور پھر اَلْمَلِكُ الْقُدُّوسُ جو قرآن کریم میں ان آیات کے اندر بیان ہوا ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں اس مضمون کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں.یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں“.اب یہ پہلی دفعہ ایک ایسا مضمون ہے جو آپ کو مالک اور قدوس میں دکھائی دے گا.ہر تفسیر یہاں بالکل نئی ہے اور ایسی تفسیر ہے جو لازماً الہامی ہے اس کے بغیر انسان کی ان امور تک رسائی ممکن نہیں ہے الملک کو تمام تفاسیر میں الگ باندھا جاتا ہے.اس پر الگ بحث کی جاتی ہے اور قدوس پر الگ بحث کی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ کا مطلب ہے کہ ایسا بادشاہ جو ہر عیب سے پاک بادشاہ ہے اور قدوس کے ساتھ ملائے بغیر خدا کی ملکیت کی کچھ سمجھ نہیں آسکتی اور اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اسے قدوس کے ساتھ اکٹھا ان معنوں میں پڑھیں کہ وہ مالک جو ہر عیب سے پاک ہے.یہ مضمون بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں." یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں ہے...“ یعنی ہر دوسری بادشاہت سے المالک القدوس کی جو بریکٹ ہے اکٹھی ، اس نے اللہ کو ممتاز کر کے الگ کر دیا.کسی اور بادشاہ کو اللہ تعالیٰ سے ان معنوں میں کوئی مشابہت نہیں رہی باوجود اس کے کہ ہر بادشاہ بادشاہ ہی کہلاتا ہے.فرق کیا ہے.وہ بادشاہ قدوس نہیں ہے اور اللہ قدوس ہے.قدوس ہونے کے نتیجے میں اس کی بادشاہت میں کیا فرق پیدا ہوتا ہے اس ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم
خطبات طاہر جلد 14 نہیں رہ سکتی...“ 375 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء یعنی بظاہر بادشاہ حکمران ہے اور مخلوق اس کی محتاج ہے.آپ فرماتے ہیں اگر بنظر غور دیکھ تو دنیا کا بادشاہ اتنا بے اختیار ہے کہ وہ اپنی رعیت کا محتاج ہے جبکہ اللہ اپنی مخلوق کا محتاج نہیں ہے اور اگر رعیت یہ فیصلہ کر لے کہ ہم اس وطن کو چھوڑ دیتے ہیں تو بادشاہ اکیلا اپنی بادشاہی کی جوتیاں چٹی تا پھرے گا، کچھ بھی اس کے پاس باقی نہیں رہے گا سوائے اس کے اپنا قدم، اپنے ہاتھ جو ذات کی طاقت ہے اس سے بڑھ کر اس کی کوئی بھی طاقت نہیں رہے گی لیکن اللہ تعالیٰ اس قسم کا بادشاہ نہیں ہے کیونکہ یہ تو ایک عیب ہے کہ ایک بادشاہ اپنی رعیت سے طاقت حاصل کرے اور کلیۂ اس کا محتاج ہو.یہ ایک ایسا عیب ہے جو خدا کی بادشاہی میں نہیں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں ” مثلاً اگر تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے گا اب قحط کا وارد ہونا یا نہ وارد ہونا یہ بھی بادشاہت کی عظمت یا اس کی مفلوک الحالی سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.ایک ملک کو خدا تعالیٰ قحط زدہ کر دے تو بادشاہت جاری نہیں رہ سکتی.نہ خراج ملے گا نہ غذائیت کے لیے کچھ پیٹ بھرنے کے سامان بادشاہ مہیا کر سکتا ہے.نتیجہ فساد پھیلتے ہیں بغاوتیں ہوتی ہیں اور خزانے خالی ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ فوج اور پولیس کو دینے کے لئے بھی کچھ باقی نہیں رہتا.اسی قسم کے ایک قحط کا ذکر سورۃ یوسف میں ملتا ہے کہ اس بادشاہی کو سہار املا تو اللہ کی بادشاہی سے ملا اور یہ مضمون ہے جو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے.سورۃ یوسف بڑے گہرے مضامین سے بھری پڑی ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ دنیا کے بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اس کو تو غیب کی اتنی بھی خبر نہیں تھی کہ کل کیا ہونے والا ہے، کل یہ ملک کس طرح قحط زدہ ہو جائے گا اور اگر پیش بندی نہ کی گئی تو سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہے گا.بڑے آرام سے بیٹھا ہوا ہے.اس ملک کو قحط سے بچانے والا وہ بادشاہ تھا جسے خدا نے بادشاہت عطا فرمائی تھی، جو الْمَلِكُ الْقَدُّوسُ کا نمائندہ تھا اس کو خدا نے خبر دی اور اس کے نتیجہ میں دنیا کی بادشاہت بچائی گئی.پس اصل وہ بادشاہ ہے جو ہر دوسری بادشاہت کا سہارا بنتا ہے اگر سہارا بنے اور اگر نہ بنے تو ہر دوسری بادشاہت ہلاک ہو سکتی ہے.اس ضمن میں میں نے آپ سے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عیب کا مضمون باندھا ہے اپنے تعلق میں اس کا بھی ذکر کیا تھا.انہوں نے خزانے کی چابیاں لینے سے انکار کر دیا یا کوئی بھی عہدہ قبول کرنے سے
خطبات طاہر جلد 14 376 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء انکار کر دیا حتی کہ آزادی سے بھی انکار کر دیا جب تک پہلے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ انہوں نے غیب میں اس عورت کے خاوند سے بے وفائی یا غداری نہیں کی تھی جس کے گھر وہ پہلے تھے اور آزادی کس کو پیاری نہیں ہوتی مگر آپ نے کہا نہیں میں ایسی آزادی پر تھوکتا بھی نہیں جس کے ساتھ بد دیانتی کا داغ ہمیشہ لگا رہے.پس بادشاہ سے کہو تمہارا شکریہ میں باہر نہیں آؤں گا جب تک یہ ثابت نہ کرو، پتا نہ کر لو کہ میں واقع ہی خیانت والا تھا یا خیانت سے پاک تھا.جب یہ پتا چل گیا کہ غیب میں انہوں نے خیانت نہیں کی تھی تب وہ باہر تشریف لائے اور خدا تعالیٰ نے دیکھیں کس شان سے اس امانت کا حق ادا کیا کہ سارے ملک کی امانت کی چابیاں آپ کے سپرد کر دیں اور سارے ملک کے امین بنائے گئے.اب ایک اور بات بھی جو وہاں میں نے پچھلے خطبہ میں ضمنا ذ کر کی تھی مگر اس وقت کھول نہیں سکا تھا مجھے یاد آئی ہے تو وہ بھی ساتھ پیش کرتا ہوں.وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے دیانت اور تقویٰ کی خاطر اپنے اوپر داغ نہیں لگنے دیا اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے صرف یہی فضل نہیں کیا کہ اس وقت آپ کو سارے خزانوں کی کنجی تھی جو دی گئی بلکہ بچپن میں جو جھوٹا ایک الزام لگا تھا اس کا داغ بھی اسی واقعہ کے نتیجے میں دھویا گیا ہے کیونکہ جب یوسف کے بھائی آئے اور پھر وہ چوری کا الزام لگا تو اس وقت وہ چوری کا الزام دو طرح سے حضرت یوسف کے حق میں کام آگیا.اول یہ کہ حضرت یوسف کے بھائی جنہوں نے حضرت یوسف پر چوری کا الزام لگایا تھا ان پر چوری کا الزام لگ گیا اور وہ خود سزا پا گئے اور دوسری طرف ان کے دل کا یہ کینہ باہر نکل آیا کہ اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی یعنی حضرت یوسف نے بھی چوری کی تھی یہ الزام انہوں نے اس وقت سے پال رکھا ہوا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے ان میں سے کئیوں کے دل میں واقعہ یہ یقین ہو تبھی اتنی دیر کے بعد ان کا خیال آیا کہ یوسف نے بھی ایک دفعہ چوری کی تھی اور حضرت یوسف کے سامنے خدا تعالیٰ نے ان کی گردنیں جھکا ئیں اور ثابت کر دیا کہ یوسف نے چوری نہیں کی تھی.تو ایک دیانتداری کے نتیجہ میں اور خیانت کے داغوں سے بھی آپ کو پاک فرمایا گیا.یہ ہے علِمُ الْغَيْبِ خدا جس کے ساتھ اگر آپ تعلق باندھیں تو غیب میں جیسا خدا ہم سے سلوک فرماتا ہے ویسا خدا کے بندوں سے بھی آپ غیب میں سلوک فرمانا شروع کریں اور اگر آپ غیب میں خدا کے بندوں سے ویسا سلوک فرمائیں گے تو اللہ پھر اپنے غیب سے اور نعمتیں آپ
خطبات طاہر جلد 14 377 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء کے لئے ظاہر کرتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے حیرت انگیز طریق پر انعام پر انعام نازل فرمائے.پس غیب کے مضمون کو غائب کے معنوں میں نہ سمجھیں.غیب سے آپ کا حال بھی پھل پاتا ہے، آپ کی شہادت بھی رونق پاتی ہے اور آپ کا مستقبل بھی علِمُ الْغَيْبِ خدا سے تعلق جوڑنے کے نتیجہ میں سنورتا ہے اگر آپ غیب کا حق ادا کرنا خدا سے سیکھ لیں اور غیو بیت میں اس دنیا میں امانت اور صداقت کے حقوق ادا کرنا سیکھ لیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں اس موقع پر فرماتے ہیں کہ وو..تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے.“ اب کسی کو کیا پتا کہ کل کیا ہونے والا ہے اور بادشاہت اس کے ساتھ ہی جاتی رہے گی.فرماتے ہیں:..اور کچھ نہیں تو اگر بغاوت کے آثار ظاہر ہوں اور ایک رعیت کہنے لگے کہ تمہیں ہم پر کیا فضیلت حاصل ہے اور ہم تمہاری بادشاہت کو تسلیم نہیں کرتے.“ اب یہ وہ بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے کچھ عرصہ بعد روس میں عملاً ظاہر ہوئی اور زار کی زاریت کے جو ٹکڑے اڑے ہیں وہ اسی باغیانہ روش کے نتیجے میں اڑے ہیں جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار تو غیب کی خبروں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ آپ کی زبان سے بھی غیب کی باتیں جاری فرمارہا تھا.پھر فرماتے ہیں کہ وو...وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے...66 اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 373) یہ جو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے یہ اسے دوسروں کے سامنے جھکنے سے آزاد کر دیتا ہے.اگر بادشاہ کی رعیت اسے چھوڑ جائے یا بغاوت کر جائے یا ملک کسی اور طریقے سے مصیبتوں کا شکار ہو جائے تو براہ راست بادشاہ کی بادشاہت ختم ہوتی ہے کیونکہ وہ قادر نہیں ہے، تو انا نہیں ہے، خالق نہیں
خطبات طاہر جلد 14 378 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء ہے.مگر اللہ کی بادشاہت کو ایک ذرہ بھی فرق نہیں پڑ سکتا.اگر تمام مخلوقات اس سے روگردانی کریں تو وہ ان سے بہتر مخلوقات پیدا کر سکتا ہے اور یہ جو خیال ہے یہ ایک تصور کی بات نہیں قرآن کریم میں بعینہ یہی مضمون بیان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی نوع انسان ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ اگر تم نے صحیح روش اختیار نہ کی تو خدا اس بات پر قادر ہے کہ تمہیں فنا کر دے اور تمہاری جگہ تم سے بہتر مخلوق بنالائے اور وہ مخلوق ایسی ہوگی کہ پھر تمہاری طرح نافرمانی نہیں کرے گی بلکہ تم سے بہتر اخلاق کا مظاہرہ کرے گی.تو وہ بادشاہ جو عیب سے پاک ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں ہے.پس خالق ہونا اور قادر ہونا یہ چونکہ عیب سے پاک ہونے کی نشانی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ن الْمَلِكُ القدوس کے ضمن میں دوسری صفات وہ بیان فرما ئیں جن کا یہاں بظاہر ذکر نہیں ملتا لیکن انہی مذکورہ صفات سے وہ پیدا ہوتی ہیں.فرمایا ، بادشاہ جو قدوس ہو اس کا لازما یہ معنی ہے کہ ہر عیب سے پاک ہے اور اللہ کی بادشاہت عیب سے پاک ہو نہیں سکتی جب تک کہ وہ قادر نہ ہو، جب تک کہ وہ خالق نہ ہو، جب تک کہ وہ بدیع نہ ہو اور ان تمام صفات کے نتیجے میں اس کی ملکیت ہر عیب سے پاک بن کر ابھرتی ہے.پس جیسا کہ میں نے ایک دفعہ پہلے بیان کیا تھا صفات کی کوکھ سے دوسری صفات پھوٹتی ہیں اور قرآن کریم میں جو سورۃ فاتحہ میں چار صفات بیان ہوئی ہیں ان پر اگر آپ غور کریں یعنی گہرائی سے غور کریں اور دعا کے ذریعہ توفیق مانگیں تو پھر آپ حیران رہ جائیں گے یہ دیکھ کر کہ ان صفات سے تمام صفات باری تعالیٰ کا ایسا ہی تعلق ہے جیسا ماں کا بچے سے ہے.ماں کی صفات جس طرح بچہ حاصل کرتا ہے اور نئی چیز لے کر نہیں آتا اسی طرح قرآن کریم کی تمام صفات رب، رحمن ، رحیم اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی صفات کے بچے ہیں اور انہیں سے پھوٹتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی...“ اب یہ بھی بہت اہم مضمون ہے قدوس خدا جو ہر عیب سے پاک ہے چونکہ اس کا قادر ہونا ضروری ہے اس کا خالق ہونا ضروری ہے اس لئے وہ ظلم سے پاک ہے اور کوئی بادشاہ جو خالق اور قادر
خطبات طاہر جلد 14 379 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء نہ ہو وہ ظلم کرنے پر مجبور ہو جایا کرتا ہے مگر اللہ کا ظالم نہ ہونا اس کی عظیم الشان صفات یا مقدرتوں کے نتیجے میں ہے.اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں....اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی...“ اور بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک یہ وجہ بیان فرمائی ہے."...کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لے لیتا...“ یہ وہ مضمون ہے جس کا ذکر آپ کو براہین احمدیہ میں آریوں کے ساتھ بحث میں ملتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون میں خدا تعالیٰ کے ہمیشہ سے ہونے ہی کی نہیں بلکہ خالق ہونے کی دلیل نکالی ہے اور باری ہونے کی دلیل نکالی ہے.آپ فرماتے ہیں.جو شخص نئی چیزیں پیدا نہیں کر سکتا اور روحیں ہمیشہ سے ہیں جیسا کہ آریہ سمجھتے ہیں تو پھر جب ان کو معاف کر دیا تو وہ سب روحیں خدا کے دائرہ اختیار سے ایک طرف ہٹتی چلی جائیں گی.دائمی نجات حاصل کر کے ان کو دوبارہ دارالعمل میں نہیں بھیجا جا سکتا اور اگر بھیجا جائے تو ظلم ہوگا کہ ایک ہاتھ سے تو معافی دی دوسرے ہاتھ سے معافی واپس لے لی.پس خدا تعالیٰ کا ظالم نہ ہونا اس بات کا متقاضی ہے، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مخلوق کی بجائے جب چاہے دوسری مخلوق پیدا کر سکے.پس اگر ایک مخلوق کو معافی دے کر دار العمل سے ہمیشہ کے لئے نجات بخش دی ہے تو اس کی دنیا مخلوقات سے خالی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ نئی پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور یہ اس کے دائمی ہونے کا ایک ثبوت ہے.ورنہ اگر وہ ایک دفعہ روحوں کو معافی دے دیتا اور ظلم نہ کرتا تو چونکہ ازل کا کوئی کنارہ نہیں ہے اس لئے لامتناہی مدت پہلے جس کا انسان تصور بھی نہیں باندھ سکتا تمام مخلوق خدا کے قبضہ قدرت سے باہر نکل چکی ہوتی اور چونکہ ایسا نہیں ہوا اس واسطے یہ عالم کون و مکان اس بات کا گواہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جو ہمیشہ سے موجود روحوں کا محتاج نہیں، ہمیشہ سے موجود مادے کا محتاج نہیں ہے بلکہ جب چاہتا ہے نئی روحیں پیدا کرتا ہے، جب چاہتا ہے نیا مادہ پیدا کرتا ہے وہ صرف حسن “ کہتا ہے اور اس کے ارادے سے ہر چیز وجود میں آجاتی ہے یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
خطبات طاہر جلد 14 380 نے اس کے ظالم نہ ہونے کے منطقی نتیجے کے طور پر بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں خطبہ جمعہ 26 مئی 1995ء دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغ دار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں، بات بات پر بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں“.اگر خدا ایسا ہوتا تو پھر خدا بھی ظلم کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا کیونکہ بادشاہوں کا ظلم ان کی بے اختیاری کے نتیجے میں ان کے لئے لازم ہو جاتا ہے.اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کر دیا جائے...“ تو یہ بادشاہ کے لئے مجبوری کا فیصلہ ہے اور دنیا کی تمام حکومتوں میں ہمیشہ سے یہ ہوتا چلا آیا ہے اور آج کے زمانے میں بھی یہی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یونس نبی جب کشتی میں سوار تھے تو جب کشتی ڈولی ہے اور خطرہ پیدا ہوا ہے کہ ڈوب جائے گی اور ایک شخص کا بوجھ کم کرنا چاہئے تو قرعہ حضرت یونس کے نام نکلا اور ہے یہ ظلم کہ ایک معصوم آدمی کو پھینک دیا جائے باقیوں کو کیوں نہ پھینکا جائے، کس کو پھینکا جائے کس کو نہ پھینکا جائے.جہاں وجہ ترجیح باقی نہ رہی وہاں ظلم شروع ہو گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ دنیاوی بادشاہوں کی بے اختیاری کی نشانی ہے مجبوری ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک کشتی کے سواروں کو ہلاک کرنے سے پورے جہاز کی سواریاں بچ سکتی ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کو قربان کر دو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے فرماتے ہیں.مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمزور راجوں کی طرح ( راج سے مراد یہاں بادشاہ یا ریاستوں کے سر براہ ہیں ) قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوداع کہہ دیتا بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ سچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا.السّلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور تختیوں سے محفوظ ہے، ( محفوظ ہی نہیں) بلکہ سلامتی دینے والا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه : 374)
خطبات طاہر جلد 14 381 خطبہ جمعہ 26 مئی 1995ء اب وہ بادشاہ جو اپنی انسانی مجبوریوں کی وجہ سے بار بار ظلم کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے.جب مخلوق فاقے کر رہی ہے اور اس کو اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے زیادہ خرچ کی ضرورت ہے تو ظالمانہ ٹیکس بھی لگاتا ہے.کئی طرح کے حیلے بنا کر وہ آخر اپنی مخلوق کی تکلیف کے برتے پر اپنی خوشی حاصل کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ خدا جو الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ ہے اس سے چونکہ کسی ظلم کا کوئی خطرہ نہیں اس لئے اس کے بعد فرمایا السلم یعنی وہ خدا اسلام ہے خود بھی ہر قسم کے خطرے سے بالا پاک ہے اور تمام مخلوق بھی اس کی طرف سے ہر قسم کے خطرے اور تکلیف سے پاک اور محفوظ ہے یہ معنی ہیں السلام کے اور السلم کو خدا نے الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ کے ساتھ اس لیے جوڑا کہ وہ بادشاہ جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہو گا اس کی طرف اس کی رعایا کو کوئی خطرہ نہیں وہ لازماً امن میں ہے.ورنہ بادشاہ جو نقائص رکھتا ہے اس کی رعایا کو کبھی کبھی خود اس بادشاہ کی طرف سے خطرہ درپیش ہوگا اور پھر اس کے برعکس بھی درست ہے.ایسے بادشاہ کو کبھی بھی پوری طرح امن نصیب نہیں ہوتا جو نقائص سے پاک نہ ہو اور بسا اوقات اپنی رعایا کی طرف سے اس کو خطرہ درپیش ہوتا ہے اور جتنے ظلم بادشاہتوں کی طرف سے منسوب کیے جاتے ہیں اس کی مرکزی وجہ یہی ہے کہ اگر اور نگ زیب نے بھائیوں کی آنکھیں نکلوائیں اور باپ کو قید کیا اور بڑے بڑے مظالم کے سلوک کئے تو بہت داغ دار بن کر اس کی شخصیت ابھرتی ہے لیکن اس کی ایک مجبوری تھی جو ہر بادشاہ کے ساتھ لگی ہوئی ہے کیونکہ وہ ان کی طرف سے نہ اپنے باپ کی طرف سے امن میں تھا نہ اپنے بھائیوں کی طرف سے امن میں تھا.تو السلام کہہ کر یہ فرمایا کہ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ ہے داغوں سے پاک بادشاہ ہے.یہ اپنی مخلوق کی طرف سے امن میں ہے اس کو اپنی مخلوق کی طرف سے کوئی بھی خطرہ نہیں ہے اور چونکہ اپنی مخلوق کی طرف سے اس کو خطرہ نہیں ہے اس کا برعکس بھی درست ہے کہ اس کی مخلوق کو بھی اس کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے.بس وہ السلام ہے کامل سلامتی ہے اور اگر کسی نے سلام ڈھونڈ نا ہو نفس کا سکون تلاش کرنا ہو، طمانیت حاصل کرنی ہو، دنیا کے خطروں سے بچنا ہو اور اپنے شہر سے دوسروں کو محفوظ کرنا ہو تو سلام خدا سے اس کا تعلق جوڑ نالازمی ہے.یہ وہ مضمون ہے جو اس الہی صفت یا اسم الہی پر غور کرنے سے ہمیں سمجھ آتی ہے اور یا در کھنے
خطبات طاہر جلد 14 382 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء کے لائق بات یہ ہے کہ اسلام کا نام لفظ سلام ہی سے لیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان کہلانے کا مستحق ہی نہیں جب تک کہ وہ سلام خدا سے اپنا تعلق نہ جوڑ لے اور جب وہ سلام خدا سے تعلق جوڑے گا تو بنی نوع انسان اس کے شر سے محفوظ ہو جائے گی اور وہ جس کے شر سے بنی نوع انسان محفوظ ہو جائے محض اس لیے کہ اس نے سلام خدا سے تعلق باندھا ہے تو اللہ رفتہ رفتہ اس کو بنی نوع انسان کے شر سے محفوظ کرتا چلا جاتا ہے اور دن بدن اس کا سفر سلامتی کے بعد ایک اور سلامتی کی طرف اٹھتا ہے اور ایک اور سلامتی کے بعد پھر ایک اور سلامتی میں وہ داخل ہوتا ہے اور یہ لامتناہی سفر سلام کا سفر ہے.یہاں تک کہ انسان جب مرنے کے بعد خدا کے حضور پیش ہوگا تو جنت میں بھی قرآن کریم فرماتا ہے کہ سلام کے لفظ سے اس کا استقبال کیا جائے گا.سلم قَوْلًا مِنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ (بین : 59) رَّبٍ رَّحِيمٍ کی طرف سے اس کو سلام کا پیغام پہنچے گا.کیونکہ اب وقت ختم ہو چکا ہے اس لئے میں اس پہلو پر چند لفظ کہہ کر آپ سے اجازت چاہوں گا کہ آپ نے بھی دنیا میں سلام خدا کی نمائندگی کرنی ہے.اس کے بغیر یہ دنیا امن کا گہوارہ بن نہیں سکتی.جن ملکوں میں آپ ہیں ان میں طرح طرح کی بدامنیاں ہیں، طرح طرح کے خطرات ہیں، ایک انسان دوسرے انسان سے محفوظ نہیں یہاں تک کہ بعض مظلوم بچے اپنے ماں باپ سے بھی محفوظ نہیں جن سے ان کو سب سے زیادہ حفاظت کی توقع ہوتی ہے.Child abuse کے Cases عام ہیں.چوری، دغا بازی ، دھوکہ، فساد، ڈاکے، چند پیسوں کی خاطر قتل، ہر قسم کے جرائم جو دنیا میں پھیلتے ہیں یہ خدا سے دوری کا نتیجہ ہیں.پس آپ چونکہ سلام خدا کے نمائندہ ہیں جب تک آپ سلام سے اپنا تعلق نہیں جوڑتے آپ پر بھی سلامتی نازل نہیں ہوسکتی اور آپ دنیا کے لئے بھی سلامتی کا موجب نہیں بن سکتے.سلام خدا سے تعلق جوڑنے کا یہ طریق نہیں کہ آپ لفظ سلام، سلام دہراتے رہیں.سلام خدا کے اس مضمون پر غور کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کے حوالے سے میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے تو لازم ہے کہ اگر سلام خدا سے آپ کو محبت اور تعلق ہے تو آپ اپنے لئے سلام کی صفات اپنانے کی کوشش کریں گے.جو صفات سلام خدا کی آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں ان کو اپنی ذات میں پرکھ پر کھ کر الٹ پلٹ کر دیکھتے رہیں کہ وہ صفات آپ کی ذات میں موجود اور محفوظ ہیں کہ نہیں.اگر آپ سے دنیا کو آج خطرہ نہیں ہے اور کل خطرہ ہو تو پھر سلام
خطبات طاہر جلد 14 383 خطبہ جمعہ 26 رمئی 1995ء سے آپ کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ سلام کی صفت زمانے سے پاک ہے.بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان اچھے حال میں ہے، کھاتا پیتا ہے ، وہ اپنے دوستوں سے جو معاملہ کرتا ہے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کو ضرورت کوئی نہیں ہے بے وجہ ہمیں تنگ نہیں کرے گا مگر کل کو حالات بدل جاتے ہیں، کل کلاں کو اس پر ایسی مصیبت ٹوٹتی ہے کہ وہ مفلوک الحال ہو جاتا ہے.پھر بھی اگر وہ سلام ہی ہے اور پھر بھی اگر دوسروں کے اموال کو اس کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو یہ وہ تعلق ہے جو اس کا سلام خدا سے قائم ہو چکا ہے اور اگر یہ تعلق قائم ہو جائے تو پھر انتہائی تکلیف کے وقت بھی اس کے لئے مایوس ہونے کا کوئی مقام نہیں کیونکہ واقعہ ہے اور اس میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ جو لوگ خدا یعنی سلام خدا سے تعلق جوڑتے ہیں ان کی ہر بدامنی سلامتی میں تبدیل کی جاتی ہے.چنانچہ مسلمانوں سے جو خدا نے وعدہ فرمایا آیت استخلاف میں مذکور ہے اس وعدے میں یہ بات مرکزی طور پر بیان فرمائی کہ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ( النور : 56) کہ خدا یہ عہد کرتا ہے کہ وہ مسلمان جو خلافت کے ساتھ وابستہ رہیں گے اور اپنے آپ کو خدا کا خلیفہ سمجھتے ہوئے اس کے حق ادا کریں گے ہم ان کے ہر خوف کو امن میں تبدیل کر دیں گے.پس یہ سلام خدا سے تعلق ہے جس کی جزا ہے اور دنیا کو آج صفت سلام کی بے انتہا ضرورت ہے.اندرونی طور پر ، بیرونی طور پر گھروں میں، گلیوں میں ، شہروں میں ہلکوں میں ہر طرف بدامنی پھیلتی جا رہی ہے.پس آپ سلام بنیں گے تو دنیا کے لئے سلامتی کی کوئی امید ہوگی.آپ جو خدا کے نمائندہ ہیں اگر آپ نے سلام بن کر نہ دکھایا تو اس دنیا کے امن کے لئے کوئی ضمانت نہیں ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
384 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 385 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء صفت سلام اور حمید کی شان ساری دولتیں دے کر بھی اللہ ملے تو اچھا سودا ہے (خطبہ جمعہ فرموده 2 جون 1995ء بمقام بیت النور ننسپٹ ہالینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحْنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ پھر فرمایا:.(24:) آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ ہالینڈ کا سولہواں جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے اور کل انشاء اللہ تعالیٰ جماعت UK کی مجلس شوری اور وہ بھی سولہویں مجلس شوری منعقد ہوگی.امیر صاحب کی طرف سے تاکیدی پیغام ملا ہے کہ وہ چونکہ میری وہاں عدم موجودگی کو محسوس کریں گے.اس لئے ان کے لئے کچھ دلداری کا انتظام ہونا چاہئے پس آج کے خطبہ میں جہاں جماعت احمدیہ ہالینڈ کو مخاطب ہوں وہاں مجلس شوری UK کو بھی مخاطب ہوں اور آج ہی انشاء اللہ یا کل صبح یہاں سے یہ ویڈیو کیسٹ وہاں پہنچادی جائیں گی تو انشاء اللہ تعالی اس پیغام کو ویڈو یو میں دیکھ بھی سکیں اور سن بھی سکیں گے.اس مضمون کا جو میں آج چھیٹر نے لگا ہوں صفات باری تعالیٰ سے ہی تعلق ہے اور حقیقت یہ
خطبات طاہر جلد 14 386 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء ہے کہ ہر مضمون کا صفات باری تعالیٰ سے تعلق ہے.تمام نظام کائنات صفات باری تعالیٰ سے پھوٹتا ہے اور کوئی بھی قانون قدرت ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا جس کا کسی اسم الہی یا صفت الہیسے تعلق نہ ہو.تو نظام جماعت بھی صفات باری تعالیٰ ہی کا ایک انعکاس ہے اور وہ اسی وقت تک زندہ ہے اور اسی وقت تک روحانی ہے جب تک صفات باری تعالیٰ سے ایک رسی نہیں بلکہ حقیقی تعلق قائم رکھتا ہے.اس ضمن میں میں گزشتہ خطبے میں جو سلام کی بات کر رہا تھا اسی سے متعلق میں چند مزید باتیں کہوں گا.سلام “ سے مراد ہے مکمل امن، کسی قسم کا خوف نہیں تسکین قلب ، طمانیت قلب ، ہر وہ چیز جو ہر خوف سے آزاد کر دے اور آزاد اپنی ذات میں بھی اور اندرونی اندیشوں اور بیجانوں سے آزاد کر دے.اس کا اصل کامل نام سلام “ ہے.اور سلام کا لفظ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور ذات پر اطلاق نہیں پاسکتا کیونکہ ایک خدا ہی ہے جو ہر خوف سے پاک ہے اور ہر ضرورت سے پاک ہے.اس لئے اس کو کوئی خطرہ نہیں کہ کبھی کوئی چیز مجھے چھوڑ کے چلی جائے اور مجھ میں کمزوری واقع ہو جائے گی.اسی طرح وہ صفات کے لحاظ سے بھی کلیۂ امن میں ہے کیونکہ اس کی صفات میں کبھی کوئی ایسی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی جو ایک پرانے خدا کو ایک نئے خدا سے جدا کرنے والی ہو اور یہ کہا جاسکے کہ پہلے تو یہ صفت اس میں بڑی قوت کے ساتھ پائی جاتی تھی اب اس میں کمی واقع ہوگئی اور یہ وہ چیز ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی اللہ کو مانے سے پاک قرار دیتی ہے اور زمانے سے بالا قرار دیتی ہے.ہر دوسرا شخص چاہے بڑی سے بڑی قوت کا مالک ہو اس کی قوت میں انحطاط ہے وہ ایک وقت تک عروج کر رہا ہوتا ہے اور اس عروج کے بعد پھر انحطاط پذیر ہو جاتا ہے.جب وہ عروج کر رہا ہوتا ہے تو اس کا ماضی نامکمل رہتا ہے اور ہمیشہ انسان واپس دیکھ کر یہ کہ سکتا ہے کہ میں تو اتنا کمزور تھا، اتنا کمزور تھا، اتنا کمزور تھا اور رفتہ رفتہ مجھے میں یہ طاقتیں آئیں تو میں مکمل ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی تکمیل محض ایک نسبتی چیز ہے وہ کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکتا.جو رفتہ رفتہ ترقی کر کے طاقت پکڑتا ہے.وہ ایک ایسی منزل کی طرف رواں ہے.جس کا اسے کوئی علم نہیں کہ کمال کہاں ہے اور کس مقام پر جا کر کمال حاصل ہو گا اور کمال سے پہلے اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے.پس ہر چیز یا بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے یا زوال پذیر دکھائی دے رہی ہے روز کا سورج بھی ہمیں یہی پیغام دیتا ہے.پس نہ سورج کے لئے امن ہے نہ انسانی طاقتوں کے لئے امن ہے جو رفتہ رفتہ ترقی بھی کرتی ہیں اور پھر تنزل بھی
خطبات طاہر جلد 14 387 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء اختیار کرتی ہیں مگر ایک خدا کی ذات ہے جو زمانے کے ان تأثرات سے بالا ہے اور اسے زمانے کی تبدیلیاں چھو نہیں سکتیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلام کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ سلام وہی ذات ہے جو ہر خطرے سے پاک ہو.اندرونی خطرہ ہو یا بیرونی خطرہ ہو.اندرونی خطرے کی بات میں نے کھول دی ہے.بیرونی خطرے کے لحاظ سے جب تک وہ قادر اور توانا نہ ہو وہ سلام نہیں ہوسکتا.جب تک اسے قدرت نہ ہو کہ اگر کوئی چیز اس سے روگردانی کرتی ہے تو وہ اس سے بہتر پیدا کر سکتا ہے اور اگر نہ بھی پیدا کرے تو وہ اپنی ذات میں اس کا محتاج نہیں ہے.جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک وہ ذات سلام نہیں کہلا سکتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سلام کی تعریف فرمائی ہے اس میں حقیقت میں بہت سی دوسری صفات جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں.ایک لفظ ”سلام “ میں بکثرت خدا تعالیٰ کی دوسری صفات تعلق رکھتے ہوئے اپنے جلوے دکھاتی ہیں اور اسلام کو سمجھنا ہو تو سلام “ کو اس پہلو سے سمجھنا ضروری ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا اسلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ ( البقرہ:132) اے ابراہیم سلام ہو جا، سلامتی میں آجا.اسلیم اپنے آپ کو میرے سپرد کر دے.یہ دونوں معنی ایک لفظ اسلم میں شامل ہیں.اسلم کا مطلب ہے سلامتی میں آجا اور دوسرا مطلب ہے اپنے آپ کو میرے سپر د کر دے.عموماً جولغات ہیں وہ یہ دونوں معنی الگ الگ بیان کرتی ہیں.سلام کا ایک مطلب ہے امن اور ایک مطلب ہے سپردگی.حالانکہ ایک ہی معنی ہے اس میں دونوں معنی موجود ہی نہیں، ایک معنی کے دو پہلو ہیں.کوئی ذات امن میں آہی نہیں سکتی جب تک اپنے آپ کو اللہ کے سپرد نہ کر دے اور وہ ذات کو سلام ہے اس کی حفاظت کے بغیر کوئی نہ کوئی پہلو انسان کا ایسا ہے جہاں سے وہ خوفزدہ رہے گا.صرف سلام ذات ہے جو ہر پہلو سے خوف کے خلاف ایک ایسا قلعہ ہے جس کے اندر خوف داخل ہو ہی نہیں سکتا.ایسا ایک مضبوط حصار ہے جس کے اندر خوف کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے.پس جب تک سلام کے ساتھ ایسا تعلق نہ ہو کہ انسان اس کے سپر د اپنے آپ کو کر دے اس وقت تک ہر قسم کے خوف رہتے ہیں اور جتنا زیادہ کوئی سلام کے اندر یعنی اپنے سر کو جھکاتے ہوئے
خطبات طاہر جلد 14 388 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء داخل ہوتا ہے.سلام سے مراد خدا ہے اور جب میں کہتا ہوں سلام کے اندر داخل ہوتا ہے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ قرآنی محاور ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا (العنکبوت: 70) جو ہمارے اندر جد و جہد کرتے ہیں.تو مراد یہ نہیں کہ اللہ کی کوئی ایسی جگہ ہے جس میں انسان داخل ہو رہا ہے.مراد یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں ڈوب رہا ہے اور صفات باری تعالیٰ میں اپنے آپ کو غرق کرتے چلے جانا اور دنیا سے بظاہر غائب اور صفات میں گہرا اندرونی سفر اختیار کرنا یہی دراصل جَاهَدُوا فِينَا کا معنی ہے کہ جو لوگ ہمارے اندر جد و جہد کرتے ہیں ہم خود ان کو پکڑ کر ان کی ہدایت کے سامان کرتے ہیں.تو سلام کے پہلو سے یادرکھنا چاہئے کہ سلام میں بھی جب تک خدا یعنی سلام کی ذات میں مومن اپنے آپ کو غائب نہیں کرتا اس وقت تک جس پہلو سے اس نے اپنے آپ کو الگ رکھا ہوا ہے وہ پہلو اس کا خطرے میں ہے.اب اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے.میں نے بتایا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے میں چونکہ انہوں نے امین خدا کے تعلق سے اپنے آپ کو امانت دار بنایا تو اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کے سپر دخترا نے کئے ان کے سپر دوہ بھائی کر دیئے جو ان کو بد دیانت سمجھتے تھے اور ہر ایک دنیا والے کی گردن ان کے سامنے جھکا دی.بالکل یہی مضمون حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعلق میں بھی دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسلم.ابراہیم نے کہا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ میں تو پہلے ہی فرمانبردار ہوں.جب آگ میں جھونکنے کا وقت آیا تو اس وقت خدا تعالیٰ نے جو آگ سے مخاطب ہو کے فرمایا ہے یہ حضرت ابراہیم کے سلام میں داخل ہونے کی سب سے بڑی گواہی ہے.يُنَارُ كُونِى بَرُدَّاوَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرُ هِیمَ (الانبیاء: 70 ) کہ اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلام بن جا کیونکہ یہ میرا بندہ ہے ، سلام کا بندہ ہے اور سلام کے بندے کو کوئی خطرہ نہیں ہے.پس وہ لفظ سلام بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے حق میں ، ان کے اسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم دائمی گواہی دے دی کہ واقعی وہ بندہ اس دعوے میں سچا تھا.اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ.سلام کے تعلق میں جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے ہم سلام ہی کو نظام جماعت میں کارفرما دیکھتے ہیں اور اس پہلو سے سلام کا ایک گہرا تعلق منی سے ہے.خدا تعالیٰ کی صفات میں سے
خطبات طاہر جلد 14 389 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء ایک صفت یا اسماء میں سے ایک اسم غنی ہے.غنی وہ شخص ہوتا ہے یاوہ وجود ہوتا ہے جس سے اگر کوئی اپنا تعلق توڑلے یا اپنی مدد اس کو بند کر دے تو اس کی ذات میں ایک ذرہ بھی فرق نہیں پڑتا.اس وقت تعلق توڑنے والا نگا ہو جاتا ہے اور اس وقت سمجھ آتی ہے کہ دراصل اس کا سہارا اس کو نہیں تھا بلکہ تعلق قائم رکھنے والا اس دھوکے میں مبتلا تھا کہ میری وجہ سے سلام کو کوئی طاقت ملی ہے.پس پھر وہ ذات غنی کہلاتی ہے.جو سلام ہو وہ غنی بھی ہوگی ، جس کو کسی ذات سے کسی تعلق میں کوئی خطرہ نہیں وہ از خود غنی بھی بن جاتی ہے.پس یہ معنی ہیں جو ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات ایک دوسرے سے پھوٹ رہی ہیں ایک پہلو سے ایک صفت دوسری صفت کو پیدا کر رہی ہے دوسری صفت دوسرے پہلو سے پہلی صفت کو پیدا کر رہی ہے ایک دائگی لازم و ملزوم کا تعلق ہے.جو زاویہ بدلنے سے بہت ہی دلکش رنگوں میں دکھائی دیتا لگتا ہے اور نئے نئے خوبصورت رنگ اس سے پھوٹتے ہیں.پس غنی وہ ذات ہے جس کو احتیاج کوئی نہیں اور سلام کے یہ معنی یہاں ہوں گے کہ خدا کی ذات کو اگر تم اس سے تعلق جوڑو گے تو کوئی فائدہ اس حد تک تو نہیں ہو گا کہ تم اسے کچھ دے سکتے ہو اور جب تم تعلق کاٹو گے تو اس سے کچھ لے نہیں سکتے.اس کی طاقت سے کچھ نکال نہیں سکتے.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ غنی اور مستغنی ان معنوں میں ہے کہ اگر ایک انسان اس سے ساری کائنات جو کچھ بھی ہے وہ مانگ لے جہاں تک اس کا ذہن جا سکتا ہے.مانگ لے اور وہ اس کو دے دے تو اس کی خدائی میں اتنا بھی فرق نہیں پڑے گا جتنا ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کے نکالا جائے اور اس کے ناکے سے، کنارہ جو باریک چونچ ہے اس کی ، اس سے جتنا پانی چمٹ رہتا ہے وہ سمندروں میں جتنی کمی کر سکتا ہے اتنی کمی بھی خدائی میں نہیں ہو سکتی (مسلم کتاب البر والصلہ حدیث نمبر :4674) اور اگر کوئی تعلق توڑتا ہے وہ اتنا بھی نقصان اس کو نہیں پہنچا سکتا.پس سلام اور غنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم کا تعلق رکھتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ جب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ سلامتی کے ساتھ تعلق جوڑ و سلام میں داخل ہو جاؤ، تو اس کی ایک تعریف فرماتا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبہ: 111) اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں اور ان کے
خطبات طاہر جلد 14 390 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء اموال بھی خرید لئے ہیں، ان کے نہیں رہے اور جنت کو جو سلام ہے وہ اس کے بدلے ان کو عطا ہوگی.جنت کو سلام کہنا اس لئے درست ہے بلکہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے جنت کی تعریف ہی یہ فرمائی ہے کہ وہاں سلام سلام کے سوا کچھ نہیں ہو گا.سلا ما سلاما“ ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہے.پس خدا کے وہ بندے جو وفات پانے لگتے ہیں ان کو بھی یہی فرشتے پیغام دیتے ہیں کہ تم سلامتی میں آرہے ہو.پس سلام کا لفظ اطلاق تب پاتا ہے انسان پر جب وہ اس طرح اپنے آپ کو سپر د کرے کہ نہ اس کی جان اپنی رہے نہ اس کے مال اپنے رہیں اور ابراہیم علیہ السلام کو جو کمل سلامتی نصیب ہوئی وہ اس بات کا قطعی ثبوت تھا کہ آپ نے اپنی جان بھی پیش کر دی اور اپنے اموال بھی پیش کر دیے، اپنا کچھ بھی نہ رہا.ایسی صورت میں جب سلام خدا اس کا جواب دیتا ہے تو سب کچھ اس کا ہو جاتا ہے کوئی چیز بھی اس کے دائرہ قدرت سے باہر نہیں رہتی اس کی ہر خواہش خدا پوری فرماتا ہے اور ایسے طریق پر فرماتا ہے کہ انسان کا تصور بھی ان باتوں کو نہیں پہنچ سکتا.نہ دنیا میں اس کا کچھ رہتا ہے ، نہ دین میں اس کا کچھ رہتا ہے، نہ روحانی طاقتوں کے لحاظ سے، نہ قلبی طاقتوں کے لحاظ سے جو کچھ بھی انسان خرچ کرتا چلا جاتا ہے اللہ اسے اور بڑھا کر عطا کرتا چلا جاتا ہے.پس سلام ان معنوں میں بھی ہے کہ اس کو جو دو گے وہ ضائع نہیں ہوسکتا.ہر دوسری چیز ضائع ہوسکتی ہے مگر جو خدا کے سپر د کیا جائے وہ کبھی ضائع نہیں ہوسکتا.ہر دوسری چیز کم ہوسکتی ہے مگر جو خدا کے سپر د کیا جائے وہ کم کبھی نہیں ہوسکتا.اس ”سلام“ کا تعلق رحمانیت اور رحیمیت سے بھی ہے اور یہ مضمون چونکہ پھر زیادہ وسیع ہو جائے گا.اس لئے میں مختصراً اسی حوالے سے رحیمیت سے اس کا تعلق بتا تا ہوں کہ زمیندار جو بیچ پھینکتا ہے، جو کوئی دانہ مٹی میں ملادیتا ہے، رحیم خدا اس میں سے کچھ بھی نہیں رکھتا بلکہ جو رکھتا ہے اس سے بہت زیادہ عطا کر دیتا ہے.جو رکھتا ہے دراصل وہ نقص والے دانے کو رکھ لیتا ہے.اسے واپس نہیں کرتا کیونکہ نقص والے دانے اگر پھوٹیں تو نقص والے بیمار بیج پیدا کریں گے.ان میں سے صحت مند کو اختیار فرماتا ہے اور صحت مند کو پھر اتنا بڑھا دیتا ہے کہ اس کے مقابل پر جو دانے رکھے گئے ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.یہی نظام ہے جو پیدائش اور تولد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ارب ہا ارب جراثیم بظاہر ضائع ہورہے ہیں اور ان کے بدلے انسان جو ازدواجی
خطبات طاہر جلد 14 391 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء تعلقات میں منسلک ہو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن لوگوں کو یہ علم نہیں کہ خدا کا یہ نظام وہاں بھی کارفرما ہے کہ ہمیشہ اس کو واپس کرتا ہے اولاد کی صورت میں جو سب سے اعلیٰ ہو یعنی اس مادے کے اندر جتنے بھی جراثیم ہیں ان کی دوڑ کرواتا ہے، ان کا مقابلہ کرواتا ہے.ان میں سے جو کمزور ہیں، جو ناقص ہیں وہ وہاں اس مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتے جہاں جا کر پھر بچے کی شکل اختیار کرنی ہے اور جو پہنچ جاتے ہیں غلطی سے یا کسی آدمی میں کمزور ہی کمزور ہوں سب جرثومے تو پھر وہ پہنتے نہیں.پہنیں گے تو بیمار بچے کو پیدا کریں گے لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو بیمار بچے کی صورت میں بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے.بیمار بچہ پیدا کرنے کا نقص خدا کا نہیں، قانون قدرت کا نہیں.وہ جو کچھ بھی گیا تھا اس میں سے سب سے اچھا وہ بھی بیمار ہی تھا تو اسے لوٹا کر ہمیں سبق دیا گیا کہ تمہارے اندر زیادہ سے زیادہ جو صلاحیت تھی وہ یہ تھی اور اس صلاحیت کو کم سے کم اس شکل میں دے دینا کہ وہ باہر نکل کر ایک آزاد زندگی اختیار کر سکے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم ہے ورنہ تمہاری صلاحیت سے یہ بات بڑھ کر تھی.پس جو یہ نظام ہے کہ خدا رکھتا نہیں واپس کرتا ہے یہ تمام کائنات پر حاوی ہے.اس میں کوئی استثناء نہیں ہے جو رکھتا ہے اس سے بہتر واپس کرتا ہے اور جو رکھتا ہے اس کے رکھنے میں زائد فضل ہے.پس جتنے بھی بیج ہیں یا پھل نشو و نما پاتے ہیں یا کائنات میں زندگی میں جتنی بھی زندگی کی قسمیں ہیں یہ امتحانات میں آزمائی جاتی ہیں.ان میں سے ہمیشہ جو سب سے بہتر ہو وہ نشو ونما پا کر آئندہ زمانے میں اس جنس کی نمائندگی کا حق حاصل کرتی چلی جاتی ہے یہ ایک نظام ہے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں.پس ڈارون نے جب کہا کہ Survival of the fittest تو اس کو کچھ بھی نہیں پتا تھا کہ Fittest ہوتا کیا ہے.اس نے Survival of the fittest کو اتفاقی حادثات یا موسمی حادثات کا نتیجہ قرار دیا.یہ بالکل غلط ہے.یہ Fittest کا نظام اتنا گہرا ہے اور اتنابار یک در بار یک کہ اگر آپ سارے اس نظام پر غور کریں تو اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں Fittest کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اتفاقی حادثات کے نتیجے میں اکثر گندے اور بیمار اور ناقص وجود او پر آئیں گے اور شاذ کے طور پر کوئی اچھا وجود او پر ابھرے گا.مگر یہ بحث طویل ہے اس کو میں چھوڑتا ہوں.اتنا اشارہ کافی ہے کہ سلام کے دائرے میں جب آپ داخل ہو جاتے ہیں اپنے آپ کو خدا کے سپر دکرتا دیتے ہیں.تو پھر آپ کی ہر چیز کا نگہدار وہی بن جاتا ہے.ہر خطرے سے آپ کو
خطبات طاہر جلد 14 392 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء میں بچاتا ہے آپ کے اندرونی نقص پر بھی نظر رکھتا ہے کیونکہ آپ نے اندرونی طور پر بھی اپنے نفس کو ترک کر کے اس کے حضور سر تسلیم خم کر دیا.تو ایسا شخص جو سلام کے تعلق میں آجائے سلام کی چادر اوڑھ لے.اس کو پھر کوئی خطرہ نہیں.اس کے تمام کام پھر اللہ خود بناتا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی مثال یں نے دی تھی.تو سلام کی تعریف اللہ نے یہ فرمائی إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ کہ مومنوں سے خدا نے ان کی جانوں کا بھی سودا کر لیا ہے ان کے اموال کا بھی سودا کر لیا ہے اور چونکہ وہ سلام ہے اسلئے غنی ہے.نظام جماعت کو کوئی شخص اپنی مد کا ہاتھ کھینچ کر یا اپنی دولت واپس لے کر یا مالی مدد سے ہاتھ اُٹھا کر ایک ادنی ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہاں اپنا نقصان کرے گا.پس مجلس شوریٰ جو UK میں منعقد ہو رہی ہے.میں ان کو پوری طرح حوصلہ دلاتا ہوں کہ اپنے طور پر وہی کریں جو خدا کرتا ہے یعنی سلام کے جو طور اور انداز ہیں وہ اختیار کریں.ناقص بیج کو بے وجہ اس خوف سے کہ ہمارے اندر کمی نہ آئے اوپر نہ لائیں اور جو اچھا ہے آپ کی نظر میں چاہے کمزور بھی ہوا گر تقویٰ رکھتا ہے اور خدا کی سلامتی کی تعریف میں داخل ہے اس کے اوپر اعتبار کریں تمام برکتیں ایسے عہدیداران میں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کیا ہوا ہے کیونکہ ان کے گرد خدا کی سلامتی کا دائرہ ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے ، ان کے گرد دخدا کی سلامتی کی ایک فصیل ہے جو ان کو ہر خطرے سے بچائے ہوئے ہے.پس ایسے لوگ جب نظام جماعت میں کام کرتے ہیں تو ان کے کاموں میں بھی وہی سلامتی کی برکتیں ملتی ہیں.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ تو دنیا داری ہے جو آپ لوگ چندوں پر زور دیتے ہیں.چندہ نہ دیا جائے یا کمزوری دکھائی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ تم ووٹ نہیں دے سکتے.یہ بھی دراصل ان کا تکبر ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جب وہ چندہ دیتے ہیں تو اللہ کو اس کی کوئی حرص نہیں ہے.دو اصول پیش نظر رکھنے چاہئیں.اللہ اگر چاہتا تو اپنے نظام کو کبھی بندے کی احتیاج سے اس طرح بھی کلیۂ پاک کر سکتا تھا کہ کسی سے چندہ مانگنے کی ضرورت پیش نہ آئے وہ جہاں سے چاہتا اور جس طرح چاہتا اپنے نظام کی ضرورتیں پوری فرما سکتا تھا.پھر چندے کا نظام کیوں ہے؟ اس لئے کہ سپردگی کا امتحان ہے اور بغیر اس امتحان میں کامیاب ہوئے کوئی شخص سلامتی میں داخل نہیں ہو سکتا.سپر دگی میں جان بھی ہے اور مال بھی.پس جب خدا کہتا ہے کہ تم سے
خطبات طاہر جلد 14 393 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء میں نے سپردگی کا سودا کیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ہر شخص از خود ہی اس میں پاس ہوتا چلا جائے اس کا کوئی امتحان نہ ہو.پس خدا مال لیتا ہے اس امتحان کی وجہ سے واقعہ تم نے سپرد کیا ہے یا نہیں کیا.اگر سپر د کر بیٹھے ہو تو پھر اگلا قدم یہ ضمانت کا ہے کہ چونکہ تم سلامتی کے امتحان میں پورا اترے اور آپ کو مالی لحاظ سے بھی خدا کے سپرد کر دیا اس لئے اب سے تمہارے مال کی حفاظت کا ذمہ دار خدا ہے.تمہاری ساری ضرورتیں وہ پوری کرے گا.تمہیں ہر نقصان سے بچائے گا اور وہ لوگ جو اپنا تجربہ رکھتے ہیں اور دوسروں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں جو جماعت احمدیہ کی تاریخ سے واقف ہیں وہ قطعی طور پر خدا کے پاک ناموں کی قسمیں کھا کر یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ اس وعدے میں خدا ہمیشہ سچا نکلتا ہے بھی اپنی راہ میں خلوص کے ساتھ قربانی کرنے والوں کو ذلیل ورسوا نہیں کرتا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ جو ولی بن جاتے ہیں.یہ ولی بھی ایسے لوگوں کی تعریف ہے جو اپنے آپ کو سپرد کر دیتے ہیں تو انبیاء سے نیچے وہ ولی کہلاتے ہیں.فرمایا اللہ تعالیٰ ولیوں کی اولا د کوسات پشتوں تک بھوکا نہیں رکھتا اور سات پشتوں تک ان کو دوسرے کے سامنے ذلیل اور رسوا نہیں ہونے دیتا لیکن اس ضمن میں بعض استثناء بھی دکھائی دیتے ہیں.وہ کیوں ہیں.اس بحث کو میں یہاں نہیں چھیڑنا چاہتا.غالباً میں نے اپنے ایک پرانے خطبہ جمعہ میں اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی.اب میں واپس آتا ہوں اس طرف کہ جماعت احمدیہ کو جو ضرورت ہے وہ ضرورت اللہ نے پوری کرنی ہے اور نظام جماعت ” سلام میں داخل ہے.اگر نظام جماعت کا کوئی نمائندہ اس وجہ سے کسی شخص سے نظام کے خلاف رعایت کا سلوک کرتا ہے، سمجھتا ہے کہ اس کی ضرورت ہے اس کے سامنے جھکنا چاہئے ، وہ امیر ہے، وہ صاحب ثروت ہے، وہ سیاسی لحاظ والا ہے.اس لئے اس کے سامنے اگر نظام بعض باتوں سے آنکھیں بند کر لے اور اس کے فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اس سے نرمی کا سلوک کرے تو یہ شرک ہے ، یہ سلام کے مضمون کے خلاف ہے.جہاں تک قانون کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ قانون میں اگر کوئی شخص صرف نظر کرتے ہوئے اندرونی خطروں کے نتیجے میں جو اس دل میں کہیں نہ کہیں پنپ رہے ہیں.اس ڈر سے کہ اس بڑے آدمی سے اگر نظام جماعت کا عام سلوک کیا گیا تو یہ منہ موڑ لے گا.اس کی اولاد چلی جائے گی ، اس کا جتھہ ہاتھ سے جاتا رہے گا.جب کوئی شخص ایسی بات سوچتا ہے تو مشرک ہو جاتا
خطبات طاہر جلد 14 394 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء ہے.اس کا حضرت ابراہیم ، ابراہیمی سلام سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں رہتا.پس بعض دفعہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسے معاملات میں میں سختی کرتا ہوں حالانکہ میری طبیعت میں سختی نہیں ہے مگر میری مجبوریاں ہیں میں اس بات پر مامور کیا گیا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کے تابع نظام جماعت رکھوں ورنہ یہ نظام تمام برکتوں سے محروم رہ جائے گا.اس لئے اس کے معاملے میں میرے دل میں کوئی رعایت نہیں ہے.کوئی خوف نہیں ہے.بار ہا ایسا ہوا کہ بعض بظاہر دنیا کے لحاظ سے بڑے آدمیوں نے غلطی کی ، ان کی اولادوں نے ایسی غلطی کی جن کے نتیجے میں ان کو سزاملنی چاہئے تھی اور سفارشیں بھی آئیں کہ یہ تو بڑے خاندان کے سر براہ لوگ ہیں، بہت امیر لوگ ہیں ، بہت بااثر لوگ ہیں.ان سے صرف نظر کیا جائے تو بہتر ہے نظام جماعت کے لئے بہتر ہے.ان کو میں نے لکھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس اہل نہیں ہو کہ تم جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں ادا کرو.جس وقت تم اس شرک میں مبتلا ہوئے کہ کچھ چوہدری اتنے بڑے ہیں، کچھ ٹھیکیدار اتنے بڑے ہیں، کچھ سیاست دان ایسے بڑے بڑے لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ نرمی نہ کی گئی تو سارے علاقے میں احمدیت کو نقصان پہنچے گا اسی وقت اور نظام جماعت جہاں تک تعلق ہے اس کو خدا پر چھوڑ.اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کیسے، کہاں کہاں سے نظام جماعت پر فضل فرمائے ہیں.اس کی خاطر اس کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتے ہوئے اگر آپ نظام کی حرمت اور اس کے وقار کی حفاظت پر مستعد رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود آپ کی بھی حفاظت فرمائے گا اور نظام جماعت کو ہر خطرے سے بچائے گا اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے.پس آج تک کبھی میں نے نظام جماعت کو کسی کا محتاج نہ سمجھا نہ کسی کو اجازت دی کہ وہ اس طرح سمجھ کر محتاج ہونے دے اور ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں کی کہ نظام جماعت میں عمل داری میں کوئی شخص شا کی ہو کر ناراض ہو کر منہ موڑتا ہے، مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے یا اپنی اولا دکو بر باد کرتا ہے.کرتا ہے تو وہ ذمہ دار ہے لیکن خدا کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آسکتی اور جہاں بھی ایسا واقعہ ہوا ہے وہاں ساری جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دیا ، ان کے سارے تکبر تو ڑ دیئے اور جماعت پہلے سے بہت بڑھ کر ترقی کر چکی ہے اور کرتی چلی جارہی ہے.پس نظام جماعت کا جہاں تک تعلق ہے اس کا احترام ہالینڈ میں بھی اسی طرح لازم ہے
خطبات طاہر جلد 14 395 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء جس طرح UK میں لازم ہے اور مجلس شوری کے دوران خاص طور پر اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہی سلسلے کے مخلصین آگے آئیں جو اگر اپنی سپردگی میں یعنی سلامتی میں کامل نہ بھی ہوں تو کم سے کم سلامتی کی طرف سفر اختیار کر چکے ہیں.انچ انچ ، ذرہ ذرہ ، کچھ نہ کچھ اس طرف بڑھ رہے ہیں.وہی جو اس لائق ہیں کہ خدا کی سلامتی کے نظام میں یعنی اسلام میں ان کو نمائندگی ملے ، ان کو خدمت کے مواقع ملیں اور انہی کی خدمتیں ہیں جو برکت کا موجب ہوں گی باقی خدمتوں کی ہمیں کوئی بھی پرواہ نہیں ہے لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ خدمتوں کی پرواہ نہیں تو یہ مراد نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پرواہ نہیں.ج اس سلسلے میں میں قرآنی آیات کے حوالے سے کچھ مزید آخر پر جا کر یہ مضمون کھولوں گا.اب میں قرآن کریم کی وہ آیات جہاں لفظ غنی کا استعمال ہوا ہے اور سلامتی کے تعلق میں ہمیں یہ لفظ کیا پیغام دیتا ہے وہ پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں.سورۃ فاطر آیت 16 میں ہے.يا يُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ اے بنی نوع انسان یاد رکھو کہ تم فقیر ہو اللہ کے حضور وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ اور اللہ ہی ہے جو غنی بھی ہے اور حمید بھی ہے.غنی اگر کوئی حقیقت میں ہو تو وہ ہر چیز کا مالک ہوتا ہے اور ہر چیز اس کی ہو جاتی ہے،اس کی ہو تو وہ غنی کہلا سکتا ہے اگر کوئی چیز اس کی نہ ہو تو اس کی طرف اس کی نظر ہوگی اور جس کی کسی ایسی چیز کی طرف نظر ہو جو اس کی نہیں ہے وہ غنی نہیں کہلا سکتا.پس مومن پھر کیسے غنی بنے.جب سب کچھ خدا کا ہے اور بندے کا یا تمام انسانوں کا بحیثیت مجموعی یعنی اجتماعی طور پر یا انفرادی طور پر کچھ بھی نہیں ہے تو خدا کی اس صفت کی پیروی کیسے کی جاسکتی ہے کیسے اس صفت سے تعلق جوڑا جا سکتا ہے؟ اس مضمون کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے یوں بیان فرما.الغنی غنی الفنس کہ مومن کا جہاں تک تعلق ہے اس کی غنا نفس کی غنا سے پیدا ہوتی ہے یعنی احتیاج کے باوجود اگر وہ غیر اللہ سے اپنے آپ کو اس طرح بالا کر دے کہ اس کی کوئی اچھی چیز کی بھی حرص اس کے دل میں پیدا نہ اس کے مال اور دولت اس کے دل پر رعب نہ پیدا کر سکیں.اس کی کوٹھیاں ،اس کی کاریں، اس کی رہائش کے انداز ، اس کے دبدبے، اس کے سیاسی تعلقات ، اس کی عقل، اس کا علم کوئی چیز بھی اس پر ایسا رعب نہ ڈال سکے کہ اسے احساس محرومی ہو کیونکہ وہ جب اللہ کا ہو چکا ہے تو یہ احساس کہ میں سلام کا نمائندہ ہوں یہ اسے ہر دوسری چیز سے مستغنی کر دیتا ہے اور ہر حال میں اپنے رب کے حضور راضی رہنے
خطبات طاہر جلد 14 396 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء پر اس کو طمانیت قلب نصیب کرتا ہے.ایک راضی رہنا جو منہ سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح بھی اللہ کی مرضی ہم راضی ہیں لیکن دل بے چین رہتے ہیں.لوگ اپنے عزیزوں سے جو وفات پا جاتے ہیں جدائی کا صدمہ محسوس کرتے ہیں.ہر وقت آگ لگی رہتی ہے لیکن منہ سے یہی کہتے ہیں کہ اچھا پھر جس طرح خدا کی رضا اسی میں ہم راضی اور بعض لوگ مہلک بیماریاں لگا بیٹھے ہیں.غم اپنی ذات میں تو کوئی گناہ نہیں شرک نہیں ہے.آنحضرت ﷺ بھی رحمت اور شفقت کے نتیجے میں روتے تھے.اپنے بچے کی جدائی پر بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے مگر جب کسی نے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ ! آپ نے فرمایا، یہ رحمت کی نشانی ہے اس میں اس بچے کے لئے کوئی ایسا احتیاج نہیں ہے کہ یہ ہاتھ سے گیا تو میں بے چین ہو گیا لیکن ایک رحمت ہے اور جس کا رحمت سے حصہ نہیں اس کے پاس کچھ بھی نہیں وہ محروم ہے.پس رحمت کا مضمون اور غنا کا مضمون ایک تعلق رکھتا ہے اور اسی مضمون کو میں آگے جا کر قرآنی آیت کے حوالے سے کھولوں گا.سر دست میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فقیر ہو اللہ غنی ہے اور حمید ہے یعنی خدا کو تمہاری احتیاج بالکل نہیں ہے لیکن حمید ہے وہ قابل تعریف ہے.اس کے دو معنی بنتے ہیں ایک یہ کہ اس کی صفات حمیدہ اس بات کا تقاضا کر رہی ہیں کہ تم سے پیار کرے، تم سے تعلق جوڑے، تمہاری نگہداشت کرے، اس لئے نہیں کہ خدا تمہارا محتاج ہے بلکہ اس کی صفات حمیده از خود اس کے اندر جھک کر اپنی کمزور مخلوقات سے تعلق رکھنے پر اس کو آمادہ کرتی ہیں.دوسرا یہ کہ وہ اتنا غنی ہے کہ اگر تم تعریف روک لو اور ناشکری کا اظہار کرو تو ایک ذرہ بھی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.جو اپنی ذات میں حمید ہو اس کے اندر ایک ایسی عظمت کردار پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نظر سے بھی مستغنی ہو جاتا ہے، ان کو پتا لگے نہ لگے وہ مستغنی ہے.اب لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں نے پہلے بھی محاورہ آپ کے سامنے رکھا تھا، پنجابی کا ہے لیکن ہے اچھا دلچسپ محاورہ ہے کہ دستے پتر دامنہ کیہ چمناں جو بچہ سویا ہوا ہے اس کو پتا نہیں کیا کر رہا ہے لیکن مائیں تو چومتی ہیں اس لئے نہیں کہ ان کو اس بچے کی Appreciation کی احتیاج ہے.اس لئے کہ وہ حمید ہے ان معنوں میں کہ ان کی صفات حمیدہ اس بچے سے بغیر کسی عوض کے پیار کرنے پر ان کو مجبور کرتی ہیں.تو وہاں تھوڑی سی جھلکی ماں کی رب اور رحمان خدا سے ہمیں دکھائی دیتی ہے کیونکہ رحمی تعلق کے لحاظ سے انسانی رشتوں میں سب سے قریب تر رشتہ ماں کا بچے سے ہے اور وہاں اس کو یہ
خطبات طاہر جلد 14 397 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء پرواہ نہیں ہوتی کہ بچے کو پتا بھی ہے کہ نہیں.کئی مفلوج بچے میں نے ایسے دیکھے ہیں اس سفر کے دوران بھی مجھے دکھائے گئے ان کو کوئی ہوش نہیں تھی، کچھ پتا نہیں تھا ان کو سنبھالنا بہت تکلیف دہ کام تھا مگر ما ئیں تھیں جو فد تھیں اور جانتی ہیں کہ اگر یہ فوت ہو جائے تو ہمیں نجات مل جائے گی مگر زندگی کی دعائیں کرتی ہیں.یہ حمید صفت کا ایک اظہار ہے لیکن معمولی سا.اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے جو تعلق رکھتا ہے احتیاج کے نتیجے میں نہیں غنی ہونے کے باوجود لیکن انسان ہر تعلق میں اپنے آپ کو یہ نہیں دکھا سکتا کہ میں غنی ہوں پھر بھی تعلق رکھتا ہوں.ماں اگر رکھتی ہے تو تھوڑی دیر کے لئے ، کچھ عرصے کے لئے مگر اس میں بھی درجہ کمال کو نہیں پہنچتی اور بسا اوقات جب تک اس کی ضرورتیں پوری کرنے والا بچہ ہو اس وقت تک تعلق رہتا ہے جس حد تک وہ کم ہو جائے اتنا ہی وہ تعلق کم ہوتا چلا جاتا ہے.بعض مائیں کہتی ہیں سب بچے برابر لیکن جو خدمت کر رہا ہے اس سے زیادہ پیار ہوتا ہے جو اور صفات حسنہ اختیار کر کے ماں کا نام روشن کرنے والا ہے اس سے زیادہ پیار ہو جاتا ہے.تو الغَنِيُّ الْحَمِيدُ کا یہ معنی انسانی لحاظ سے ایک عارضی معنی ہے.مگر اللہ تعالی جہاں شکر گزار ہے وہاں بندے کی خوبیوں کے لئے ان پر رحمت سے جھک کر ان کو قبول فرماتا ہے مگر احتیاج کی خاطر نہیں.اس لئے غنی حمید کا اکٹھا محاورہ خدا کی صفات کو انسانی صفات سے ممتاز کر دیتا ہے.آپ کہہ سکتے ہیں ورنہ اگر ان الْغَنِيُّ الْحَمِیدُ کو جوڑ کر نہ پڑھیں تو یہ سوال اُٹھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی تو اپنے انبیاء کی بڑی قدرت کرتا ہے اپنے لئے قربانی کرنے والوں کی بڑی قدر کرتا ہے.تو غنی حمید کا اکٹھا محاورہ ہمیں بتا رہا ہے وہ کرتا ہے غنی ہونے کے باوجود،ضرورت نہیں ہے اور اس پہلو سے اس کا تعلق رکھنا اسے اور بھی زیادہ حمید بنا کر دکھاتا ہے یعنی اپنے ایسے بندوں سے تعلق جوڑ لیتا ہے جن کا تعلق اس کی ذات میں اس کی شان میں ، اس کی کبریائی میں ایک ذرہ بھی اضافہ نہیں کر سکتا لیکن ان سے جھکتا ہے اور ان کی بڑی شان بیان کرتا ہے یہاں تک کہ نسلاً بعد نسل ان پر درود بھیجتا ہے اور یہ تعلق حضرت ابراہیم کے حوالے سے پھر دوبارہ یاد آ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم کے اوپر سلام بھیجا گیا ہے ایسا سلام جو آنے والی نسلیں بھی اس پر بھیجیں گی اور درود شریف میں جو ابراہیم کا نام سلام کے تعلق میں بیان ہوا ہے یہ خدا کے اس وعدے کے پورا کرنے کا ایک نظارہ ہے.
خطبات طاہر جلد 14 398 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ تو نے میرے ساتھ سلام کا تعلق باندھا ہے میں اس تعلق کی قدر کروں گا اور قیامت تک لوگ تجھ پر سلام بھیجتے رہیں گے.پس بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ درود میں ابراہیم کا نام کیوں آیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ سلام تو سب نبیوں کے لئے آتا ہے یعنی قرآن کریم پڑھ کے دیکھ لیں ہر جگہ سلام لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ سلامتی میں داخل ہوئے تھے تو اس پر سلام بھیجا گیا مگر ایسا سلام کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نام ساتھ بریکٹ کر کے اور کسی نبی کا ذکر نہ کرنا اور صرف ابراہیم کا کرنا یہ ایک ایسی عظیم امتیازی شان ہے جو اسی مکالمے کی یاد دلاتی ہے.اسلِم قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ جب تیرے رب نے ابراہیم سے کہا کہ اسلام قبول کر، کہا میں تو اسلام قبول کر چکا ہوں.اتنا کامل اسلام جیسا ابراہیم کا تھا کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا سوائے محمد رسول اللہ لے کے.پس ایک دین سلام ابراہیم کا تھا، ایک دین سلام جو اسلام بن کر ابھر اوہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کا دین ہے اور اس کا نکتہ یہی ہے کہ خدا کے سپر داپنا سب کچھ کر دیا جانتے ہوئے کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے.خدا کی خدائی میں اس سے ایک ذرے کا بھی اضافہ نہیں ہوسکتا تھا.ابراہیم اگر منہ موڑ لیتا تو خدا کو کیا نقصان پہنچنا تھا مگر دل کی گہرائی سے یہ کہا ہے کہ میں سلام قبول کر چکا ہوں اسلام لے آیا ہوں، تجھے سلام جانتا ہوں.تجھ میں اپنا سلام دیکھتا ہوں اور خدا نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلامتی سے اس کا نام رکھا اس قدر بڑھا کر دینے والا ہے وہ.تو وہ منی پھر کیوں نہ ہو.جو بظاہر اس کے سپر د ہوتے ہیں یعنی اپنا سب کچھ اس کے سپر د کر تے ہیں.ان سے وہ ایسا سلوک فرماتا چلا جاتا ہے کہ وہ ان کی قربانی خدا سے سلوک کے مقابل پر حقیر اور بھی حقیر اور بھی حقیر ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ اس کی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہتی.جو کچھ ابراہیم کو عطا ہوا ہے اس کے مقابل پر جو ابراہیم نے خدا کو دیا تھا اس کا موازنہ تو کر کے دیکھیں، کچھ نہیں تھا یعنی دنیا کی قدروں کے لحاظ سے اگر ناپا جائے صرف ایک روح کی قدر تھی جو عظیم الشان تھی اور اسی قدر پر خدا نے نظر رکھی اور اسی قدر کے نتیجے میں ظاہری قربانی معمولی ہونے کے باوجود بے انتہا عطا فرمایا.پس یہ خدا جو سلام بن کر ابھرتا ہے.یہ فنی ہوتے ہوئے حمید ہے یہ نکتہ ہے جو آپ کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہئے.اگر آپ کسی سے غنی ہوں اور پھر حمید بھی ہوں تو ایسے شخص سے آپ متکبر نہیں ہو سکتے.پس جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سب لوگ اپنی قربانیاں روک لو میرا کچھ بھی نقصان
خطبات طاہر جلد 14 399 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء نہیں کر سکو گے وہاں اپنی رحمانیت کا بھی حوالہ دیتا ہے.پس وہ اگلی آیت جس میں یہ مضمون ہے سورہ محمد سے لی گئی ہے.آیت 39.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَهَانْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وانْتُمُ الْفُقَرَاءِ وَإِنْ تَتَوَلَّوْايَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ کہ دیکھو! کھانتُم هؤلاء سنوتم وہ لوگ ہو کہ جن کو بلایا گیا ہے اس طرف لِتُنْفِقُوافی سَبِیلِ اللہ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو.اب هَانَتُهُ هَؤُلاء سے پتا چلتا ہے کہ اعزاز ہے جس کا ذکر ہورہا ہے.اے لوگو! تم سوچ نہیں رہے کہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ خدا نے تمہیں چن لیا قربانیوں کے لئے تمہیں فرمایا کہ تم آؤ تم سے توقعات رکھیں اور پھر بدنصیب ایسے ہیں تم میں سے فَمِنْكُمُ مَّنْ يَبْخَلُ کہ تم میں ایسے بھی ہیں جو بخل کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بخل کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اللہ کو معطی نہیں سمجھتے بلکہ اپنے گھر کی کمائی سمجھتے ہیں.اپنے ہاتھ کی ہوشیاری ، اپنے ذہن کی چالا کی سمجھتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی محنت سے کمایا ہے ، بڑے دن رات جاگے ہیں.اس کے لئے ہوشیاریاں کیں باقی سب بے وقوفوں کو کیوں نہ دولتیں مل گئیں.ہمارے ذہن کی جو بالا دستی ہے، برتری ہے اس نے ہمیں یہ سب کچھ عطا کیا ہے اور وہ آجاتے ہیں چندے مانگنے.وہ جب یہ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْكُمْ مَّنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ که یاد رکھو جو تم میں سے بخل کرے گا وہ اپنے آپ سے بخل کر رہا ہے خدا سے بخل نہیں کر رہا.اس ذات سے تعلق توڑ رہا ہے جو دینے والی ہے.جب اس کے سامنے تم سر اٹھاؤ گے تو دو باتوں میں سے ایک چیز ضرور ہوگی اور یہ بخل کرنے کا جو مضمون ہے یہ دو طرح سے کھلتا ہے.اول یہ کہ ایسے شخص کی دولت اس کو کبھی سکون نہیں پہنچا سکتی.ہزار قسم کی آلائشیں لگ جاتی ہیں.اس دولت میں، کئی قسم کے نقصانات کئی قسم کی فکر کئی قسم کی بددیانتیاں اور پھر حکومت کی پکڑ کا خوف اور مصیبتیں اور اولاد کی برکت جاتی رہتی ہے، گھروں کے سکون اُٹھ جاتے ہیں اور ایسی دولت کے متعلق سمجھ نہیں آتی کہ اس سے سکون کیسے خریدا جائے کیونکہ جو بخل ہے ، جو خدا سے بخل کرتا ہے وہ دنیا میں بھی بخیل
خطبات طاہر جلد 14 400 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء ہو جاتا ہے اور اس کی دولت ایسی ہے جیسے بنک میں جمع ہے.اس سے اس کو کوئی بھی فائدہ نہیں تو ایک تو یہ طریق ہے.جس سے خدا بتا تا ہے کہ تم دراصل اپنے خلاف بخل کرتے ہو.دوسرا یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کو بچانا ہو تو اس کی دولت میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے اسے نقصان کے ابتلاء آتے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر بڑی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے آزمائش جو اپنے کسی بندے کی نیکی کی وجہ سے اس کو بچانے کی خاطر آتی ہے اسی میں اس کی نجات ہے.اللہ تعالی اس کو بتاتا ہے کہ اس دولت میں تمہارے لئے کچھ نہیں ہے.اگر اس ٹھوکر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمہاری توجہ خدا کی طرف ہو جائے تو یہ کوئی بُرا سودا نہیں ہے.ساری دولتیں دے کر بھی اگر اللہ مل سکے تو یہ بہت اچھا سودا ہے.اسی طرح آزمائشیں بعض دفعہ جسمانی، جانی نقصانات کے ذریعہ انسان کو لاحق ہوتی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ اس میں اللہ کا کیا حرج تھا ہمارا بچہ زندہ رہتا.ہمارا فلاں زندہ رہتا تو دراصل وہ بخل وہاں دکھاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ سب عطا خدا کی تھی اپنے ہاتھ سے کچھ بھی نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں سب سے بڑے عارف باللہ پید اہوئے ہیں.آپ فرماتے ہیں سب خدا کی عطاؤں کا ذکر کر کے.سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے (در نمین: ۳۶) عظیم مضمون ہے کہ جو کچھ بھی ہے اگر تیری راہ میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو وہ کیا ہے کہاں سے لے کے آئے تھے ، تو نے ہی عطا کیا تھا.پس ایسا شخص جس کی ہر وقت خدا پر یہ نظر ہو کہ جو کچھ عطا ہوا ہے تو نے کیا ہے اپنے گھر سے ہم کچھ نہیں لائے.ایسا شخص کبھی بھی خدا کے حضور بخیل نہیں ہوسکتا اور جب وہ بخیل ہوتا ہے تو پھر اللہ خود رحمت کا سلوک فرماتا ہے اور سب کچھ نہیں مانگتا.الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: 4) کہ جو کچھ بھی ہم نے انہیں عطا کیا ہے ہم سارا ان سے واپس نہیں مانگتے وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اس میں سے کچھ واپس مانگتے ہیں تا کہ دیکھیں کہ وہ احسان فراموش تو نہیں ، وہ بھول تو نہیں گئے کہ کس ذات نے ان کو دیا تھا اور پیش کرتے وقت کس طرح پیش کرتے ہیں.یہ ساری آزمائشیں مومن کے اسلام کی آزمائشیں ہیں دراصل جن میں وہ
خطبات طاہر جلد 14 401 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء اپنی جہالت کی وجہ سے بسا اوقات پورا نہیں اُترتا ہے تو کئی قسم کے ابتلاؤں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کا بخل جو خدا کی طرف سے ہورہا ہے وہ دراصل اپنی ذات کے لئے ہوتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاللهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اے بیوقوفو! اللہ تو غنی ہے تمہارا ہاتھ روک لینا اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا تم فقراء ہو.وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ اگر تم سارے کے سارے بھی پھر جاؤ تو وہ اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ تمہاری جگہ ایک اور قوم لے آئے ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے یعنی کام تو اللہ کے پورے ہونے ہیں یعنی تم نہیں کرو گے اور قوم آجائے گی.ایک خاندان نہیں کرے گا تو دوسرے خاندان اٹھ کھڑے ہوں گے اور یہ جو قانون ہے یہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ تاریخ مذاہب پر غور کرتے ہوئے آپ کو ایک بھی استثناء دکھائی نہیں دے گا.جب بھی کسی قوم نے استغناء کیا ہے خدا کے پیغام سے اور اس کی مدد سے منہ پھیرا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اور قوموں کو لے آیا ہے اور پھر ویسے نہیں ہوئیں جیسا کہ پہلی ناشکری قوم تھی اور ایسا خاندانوں کا حال ہے ایسا ہی افراد کا حال ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ (الانعام : 134) اللہ تو غنی ہے مگر شقاوت قلبی کی وجہ سے نہیں ہے اس لئے وہ لوگ جوغنی بنتے ہیں نظام کی نمائندگی میں ان کے لئے لازم ہے کہ ان کی غناء اپنے نفس کی شقاوت کی وجہ سے نہ ہو.بے پرواہی کی وجہ سے نہ ہو.وہ کہتے ہیں جائے جہنم میں جو مرضی ہو ہمیں تو پرواہ کوئی نہیں.ہم تو نمائندہ ہیں نظام کے اور اللہ کا نظام ہے.یہ غنی کے معنے نہیں ہیں.اللہ اپنی مثال دیتا ہے.رَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ تِیرارب غنی ہے اور اس کے باوجو درحمت والا ہے.رحمت والا ہونے کے باجود غنی ہے پس جہاں بھی ان دونوں صفات کا تصادم ہوگا وہاں آپ صفات باری تعالیٰ سے دور ہٹ چکے ہوں گے اور کوئی ایسا زندگی میں نظام جماعت کے کارکنوں کے لئے لمہ نہیں آنا چاہئے جس میں ان کی غناء جو اللہ کی طرف سے نظام جماعت کی خاطر ہو، وہ ان کی شقادت قلبی کی وجہ سے ہو، رحمت کی وجہ سے ہونی چاہئے.جس کا مطلب یہ ہے ایسے لوگوں کو ذلت کے ساتھ نہیں دیکھتے، گھٹیا نہیں سمجھتے ، اپنے سے ادنی نہیں سمجھتے بلکہ ان پر رحم کرتے ہیں اور رحم کی نظر ڈالتے ہیں کہ یہ بے چارے محروم ہیں.ان کو پتا
خطبات طاہر جلد 14 402 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء نہیں کہ کس چیز سے محروم ہیں اس لئے نیکی کا جو تکبر ہے وہ ان کو بر باد نہیں کر سکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ ایک پل صراط ہے جس پر ہم روزانہ چلتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ یہاں کا پل صراط ہی ہے جو ہماری آئندہ کی تقدیر کے فیصلے کر رہا ہے.نظام جماعت کے احترام اور اس کی عزت کے لئے سر بلند رہنا اور غیر اللہ کے سامنے نہ جھکنا یہ غناء ہے.مگر ایسے لوگوں سے جو بے چارے محروم رہ گئے تکبر سے پیش آنا ان کو اپنے سے گھٹیا اوراد نی سمجھنا یہ رحمت کے خلاف ہے اور انکسار کے بھی خلاف ہے جو رحمت سے پیدا ہوتا ہے اور یہ ایک انکسار ہے جو کمزوری سے پیدا ہوتا ہے اس انکسار کی کوئی قیمت بھی نہیں.ایک انکسار ہے جو رحمت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور اللہ کا اپنے بندے پر جھکنا ایک قسم کا انکسار ہے جو رحمت سے پھوٹتا ہے.تو فرمایا غنی ہونے کے باوجود دیکھو وہ کس طرح رحمت کا سلوک فرماتا ہے.کس طرح اپنے بندوں پر جھکا رہتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی غنا کسی شقاوت یعنی سختی کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کی شان ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں.اب یہ دوسرا معاملہ ہے جو سب اس کے محتاج ہیں.اگر خدانی ہے اور کسی کا محتاج نہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ سب تعلق توڑلے تو دوسرے بھی اس کے محتاج نہیں رہیں گے.مرکھپ کے ختم ہو جائیں گے.تو یہ دوسرا مضمون ہے کہ ہر چیز اس کی محتاج ہے یہ رحمت سے پھوتا ہے.اس کی رحمت عامہ ہے جو ہر ذات کو اپنا محتاج کئے ہوئے ہے اور اس کی رحمانیت ہے جو تمام بنی نوع انسان پر ، خشک و تر برابر اثر کر رہی ہے.تو عجیب شان ہے کہ غنی بھی ہے اور رحمان بھی ہے.ایک لحاظ سے مستغنی ہے ہو کر جانتا ہے کہ ان مخلوقات کا مجھ سے تعلق توڑ نا ذرہ بھر بھی مجھے نقصان نہیں بچا سکتا.اس کے با وجود ان سے رحم کا سلوک بھی فرماتا ہے.بعض دفعہ ایسے لوگوں کے اموال پر بھی برکت پڑ رہی ہوتی ہے.لیکن یہ ایک عارضی برکت ہے.اس کی رحمانیت کے نتیجے میں ہے مگر غنی سے تعلق توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا مقدر ہے وہ رک نہیں سکتی وہ اپنی جگہ کارفرما ہوگی لیکن وہ بندے جو نظام جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں ان کے لئے اس میں گہر اسبق ہے کہ ان لوگوں سے تکبر کا سلوک نہ کریں.رحم کا سلوک کریں.ان کے لئے دعائیں کریں ان کو سمجھا ئیں اور اگر نہیں سمجھتے تو یہ یقین رکھیں کہ ذرہ بھر بھی آپ کا نقصان نہیں کر سکتے ، نظام جماعت کا نقصان نہیں کر سکتے ہاں ان کو بچانے کے لئے آپ
خطبات طاہر جلد 14 403 خطبہ جمعہ 2 / جون 1995ء جو کوشش کرتے ہیں وہ ان کو خدا کا محتاج بنائے رکھتا ہے لیکن اگر یہ حرص ہو کہ ان کے آنے سے ہمیں فائدہ پہنچے گا تو یہ خوست ہے یہ رحمت نہیں.اس لئے یہ کہنا کہ رحمت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے چشم پوشی کی جائے.ان کو سزا نہ ملے.نظام جماعت عمل میں نہ آئے یعنی سرگرم عمل نہ ہو اور ان کو اس لئے چھوڑ دے کہ یہ لوگ صاحب رسوخ ہیں، صاحب دولت ہیں صاحب عظمت ہیں، یہ شرک ہے، یہ رحمت نہیں.رحمت کا مطلب ہے کہ دوسرے شخص کی کوئی بھی احتیاج نہیں ہے.پھر بھی آپ اس کا بھلا چاہتے ہیں اور یہ رحمت جو ہے یہ تو آفرنیش سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی.جو آغاز ہوا ہے کائنات کا اس سے پہلے ہی خدا رحمان تھا اور جو بلو پرنٹ ہے کا ئنات کی تخلیق کا اس میں رحمانیت جلوہ گر ہوئی ہے اس وقت سوائے رحمانیت کے کوئی اور صفت کارفرما تھی تو اس جہان میں نہیں اور دوسرے جہانوں میں ہوگی.یعنی یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدا کی تمام صفات کسی وقت معطل تھیں لیکن جلوہ گر تھیں تو دوسرے جہانوں میں تھیں.جو جہان پیدا نہیں ہوئے اس میں اگر جلوہ گر ہوئی ہیں تو رحمانیت کے تابع یعنی رحمانیت کے تابع ایسا نقشہ تشکیل دیا گیا جس کا فیض آئندہ آنے والی مخلوقات کو پہنچانا تھا تو سب صفات کام کر رہی ہیں لیکن رحمانیت کے تابع.براہ راست کسی صفت کے ساتھ تعلق نہیں رکھ رہیں اور یہی معنی ہیں کہ رحمانیت تمام صفات پر غالب ہے.تو اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ ان ذمہ داریوں کو سمجھے.میں پھر یہ یقین دلاتا ہوں نظام جماعت کو کہ اگر وہ غنی ہیں اور رحیم بھی رہیں رحمان بھی رہیں تو ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے.بے دھڑک نظام جماعت پر عمل کریں ایک ادنی بھی غیر اللہ کا خوف نہ رکھیں.کوئی بڑا جدا ہو کر آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکا.لیکن آپ اگر بڑے بنیں گے تو اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں گے اس لئے ان کے جواب میں رحمت اور انکسار کا تعلق قائم رکھیں باقی باتیں خدا پر چھوڑ دیں.اللہ تعالیٰ نظام جماعت کو سلام کے دائرے میں اس کے سائے میں ، اس طرح داخل فرمادے کہ نظام جماعت کا ایک ذرہ بھی سلام کی حفاظت سے باہر نہ رہے.آمین
404 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 405 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء خدا کی صفات کا علم انسان کے فائدہ کیلئے ہے.مالی قربانی کرتے وقت پہلے اپنی نیتوں کو درست اور پاک کریں.( خطبه جمعه فرموده 9 جون 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِاخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا انَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (البقره: 268) پھر فرمایا:.خدا تعالیٰ کے اسماء کا مضمون جاری ہے اور اس تعلق میں جب کوئی خاص موقع کسی خصوصی نصیحت کا آتا ہے تو اس کا بھی ذکر کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ ان دونوں مضمونوں کا آپس میں بھی رابطہ قائم رہے.آج جو بعض ممالک کے اہم اجلا سات ہورہے ہیں.ان میں سب سے پہلے بنگلہ دیش ہے.جس کی آج 19 جون کو مجلس شوری منعقد ہو گی اور تین دن جاری رہے گی.دوسری جماعت یوگنڈا ہے جس کا سالانہ جلسہ بھی ہے اور مجلس شوری بھی.یہ بھی اسی طرح 9 جون کو شروع ہو کر 11 / جون تک یہ اجلاسات اور جلسے جاری رہیں گے.ان دونوں جماعتوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس جلسے پر ان کو براہ راست مخاطب کیا جائے تاکہ وہ عالمی مواصلاتی رابطے کے ذریعے مجھے اپنے
خطبات طاہر جلد 14 406 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء ساتھ شامل کر سکیں اور میں ان کے ساتھ شامل ہوسکوں.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں خدا تعالیٰ کی صفت غنی اور حمید کا ذکر ملتا ہے اور جہاں جہاں بھی لفظ غنی کا ذکر آیا ہے وہاں دو طرح سے انسان کو اس کی خاص بعض مہلک حالتوں سے متنبہ کرنے کے لئے آیا ہے.اول خدا تعالیٰ سے منہ موڑ لیں اور اعراض کریں اور اس کے پیغام کو پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیں.ایسے موقعوں پر ذکر کر کے بھی خدا تعالیٰ نے اپنے غنی ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور جہاں مالی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیں یا خدا تعالیٰ کے حضور مال پیش کرتے وقت گندہ اور بوسیدہ مال دے دیں جو ان کے کسی کام کانہ ہو اور اچھا اور پاکیزہ مال اپنے لئے رکھ لیں.اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غنی کا خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کے لئے جوڑوں کا جو استعمال ہے.قرآن کریم میں وہ بہت مد ہوتا ہے.مختلف موقع اور محل کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی ایک صفت کے ساتھ ایک دوسری صفت کو بیان فرما دیتا ہے.جس کے نتیجے میں بعض غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور بعض مزید مثبت مضامین نظر کے سامنے ابھرتے ہیں.اس مختصر تمہید کے ساتھ اب میں اس آیت کریمہ کا ذکر کرتا ہوں.جس کی میں نے تلاوت کی ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ - اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم کماتے ہو وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّن الْأَرْضِ اور ہم نے جو دراصل زمین سے تمہارے لئے نکالی ہیں.تو یہاں یہ نہیں فرمایا براہ راست کہ جو ہم تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کرتے ہیں.ان میں سے بلکہ ان کے کمانے کا ذکر کر کے پھر یہ یاد دلایا کہ جو کچھ تم کماتے ہو وہ دراصل ہم ہی پیدا کرتے ہیں اور اول طور پر یہ ہماری ہی عطا ہے.اس بات کو نہ بھولنا اور كَسَبْتُم کہہ کے ان کی کمائی کا ذکر کر کے ان سے جو یہ فرمایا گیا اس میں سے خرچ کرو تو اس کی آگے ایک حکمت ہے جو اس آیت کے اگلے حصے سے کھل جاتی ہے.فرمایا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ جو کچھ تم کماتے ہو وہ تمام تر طیبات پر مشتمل نہیں ہوتا بسا اوقات ان میں تمہاری ناپاک چیزیں بھی شامل ہو جاتی ہیں اور بعض چیزیں کمانے کے بعد پھر گندی ہو جاتی ہیں جو کچھ بھی تم کماتے ہو اس میں سے پاک چیزیں خدا کی راہ میں خرچ کیا کرو.وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُمُ مِّنَ الْأَرْضِ اب واؤ ڈال کر
خطبات طاہر جلد 14 407 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء كَسَبْتُمْ کے اندر جو کثیف پہلو تھا اس سے اگلے مضمون کو الگ کر دیا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ مِمَّا بلکہ فرمایا وَ مِمَّا اَخْرَجْنَا جو کچھ ہم زمین میں سے تمہارے لئے نکالتے ہیں اس میں سے خرچ کیا کرو.خدا تمہارے لئے زمین سے پاک چیزیں ہی اُگاتا ہے اور پاک چیز ہی تمہارے لیے پیدا فرماتا ہے وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ یا یوں پڑھیں گے وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ اور خبیث ، ناکارہ، گندی چیزیں خدا کی راہ میں پیش کرنے کی نیت ہی نہ باندھو ، ارادہ بھی نہ کرو، سو چو بھی نہ اس کا.یہاں ولا تنفقوا نہیں فرمایا وَ لَا تَيَمَّمُوا.تیمموا کا مطلب ہوتا ہے نیت باندھنا ارادہ باندھنا، ایک فیصلہ کرنا کسی خاص غرض سے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری نیت ہی میں داخل نہ ہو یہ بات اشارۃ بھی تمہارے دماغ میں یہ بات نہیں آنی چاہئے کہ اللہ کی راہ میں ناپاک چیزیں پیش کرو.خصوصیت سے فرمایا وَ لَسْتُمْ بِاخِذِيهِ جبکہ تمہارا اپنا یہ حال ہے کہ گند بھی کماتے ہو، گند کھاتے بھی ہو سب کچھ کر لیتے ہو مگر بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ تمہیں دی جائیں تو سوائے اس کے کہ تمہاری نظریں شرم سے جھک گئی ہوں اور تم آنکھ اُٹھا کر دیکھ نہ سکو ان چیزوں کو قبول نہیں کرتے اور اگر چاہتے ہو قبول کرنا تو چھپ کر قبول کرنا چاہتے ہو.نظر جھکانے کا مضمون چھپنے کے مضمون سے بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے.جب انسان خطرات سے آنکھیں بند کر لیتا ہے تو دیکھنا نہیں چاہتا اس چیز کو، نہ کسی کو دکھانا چاہتا ہے.تو جس سے تم خود چھپتے ہو، اپنی نظروں میں شرما جاتے ہو، کہاں پسند کرو گے کہ لوگوں کے سامنے وہ چیزیں تمہیں دی جائیں جن کو قبول کرنا ہی تمہاری عزت نفس کے لئے دو بھر ہے اور بہت مشکل کام ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ اور خوب اچھی طرح جان لو کہ اللہ غنی ہے.غنی کے دو معنے ہیں.اللہ کو اموال کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ اموال و دولت کا ہر چیز کا مالک وہ ہے اس لئے امارت کا اگر کوئی تصور ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی باندھا جا سکتا ہے.اس کے مقابل پر یہ تصور کسی انسان پر اطلاق پائے گا تو بہت ناقص حالت میں پائے گا.اصل غنی تو اللہ ہے جو پیدا کرتا ہے، پیدا کر سکتا ہے، ہر چیز اسی کی ہے.پھر ساتھ فرمایا غنی ان معنوں میں کہ جس کا سب کچھ ہو وہ بے پروا بھی ہوتا ہے.اس کو اگر کچھ پیش کیا جائے.اگر بہترین بھی پیش کیا جائے تو تب بھی اس کو ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود مالک ہے.اس لئے اگر قبول کرتا ہے تو تمہاری خاطر کرتا ہے.تو اس کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ تم سے گندی چیزیں بھی قبول کرے جبکہ اچھی
خطبات طاہر جلد 14 408 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء کا بھی محتاج نہیں.تو اس سے غنی کا دوسرا معنی ابھرتا ہے کہ وہ مستغنی ہے اسے کوئی بھی پرواہ نہیں ہے کہ وہ کسی سے کچھ حصہ لے یا مانگے یا اس کا محتاج ہو وہ کسی سے مانگنے کا محتاج نہیں.اور وہ حمید ہے اور حمید ہونا بتاتا ہے کہ وہ اگر لے گا تو وہی لے گا جس سے اس کی حمد ظاہر ہوتی ہے.جس سے اس کی عظمت اور مرتبہ اور خصوصیت سے اسکی حمد کا مرتبہ روشن ہوتا ہے اور کوئی شخص جو ایسی چیز قبول کرتا ہے جو کسی پہلو سے بھی ناقص ہے وہ حمید نہیں رہتا کیونکہ پتا چلتا ہے کہ کمزور چیز کو، ناقص چیز کو سمجھنے دیکھنے کے باوجود اگر اس نے لیا ہے تو ضرور محتاجی بہت کسی حد تک پہنچ چکی ہے.ایسی حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کے بغیر اس کے لئے چارہ نہیں تھا کہ عزت نفس کو قربان کر دیتا.یہ محتاجی اگر انسان میں کھانے پینے کے معاملے میں ایک حد سے تجاوز کر جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک سو ربھی کھا لیا کر و جان بچانے کی خاطر.اس لئے ناپاک چیز بھی جان بچانے کی خاطر استعمال ہوسکتی ہے جب احتیاج بڑھ جائے.تو اللہ کو احتیاج نہیں ہے اور جس کو احتیاج ہو وہ حمید نہیں ہوتا.پس ہر انسان چونکہ محتاج ہے اس لئے بذات خود حمید نہیں ہے.حمید خدا سے تعلق جوڑ کر ان صفات سے کچھ حصہ پائے تو حمید ہوسکتا ہے.مگر جزوی طور پر، خدا کی حمد کے سائے کے نیچے اور حمید بننے کے لئے حمد کرنی پڑے گی جتنی وہ خدا کی حمد کرے گا.اتنا ہی اس کے اندر حمید ہونے کی صلاحیت بڑھتی چلی جائے گی اور اگر وہ خدا کے معاملے میں یہ احتیاط کرے کہ ہمیشہ اپنی اچھی اور پاک چیز پیش کرے ایسی چیز جو قبول کرتے وقت اس کا دل خود خوشی محسوس کرتا ہو تو اس کے نتیجے میں خدا کے غنی ہونے کا مستغنی والا مضمون نہیں بلکہ دولت مند ہونے والا مضمون اس کے حق میں روشن ہوگا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنی حمد میں سے حصہ دے گا.تو اس مضمون میں مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی پہلو بھی ہیں.انسان کے اختیار میں ہے کہ چاہے تو وہ مثبت پہلو اختیار کر لے چاہے تو منفی پہلو اختیار کرے.ابھی چند دن ہوئے ایک احمدی دوست کا خط آیا کہ ایک دوست تھے ان کا رویہ جماعت کے ساتھ بڑا متشددانہ اور مخالفانہ تھا مگر صاحب فہم تعلیم یافتہ ، روشن دماغ تو ان کو ایک دفعہ میں نے اصرار سے دعوت دے کر آپ کے ایک خطبے پر بلایا اور وہ خطبہ غالباً یہی صفات باری تعالیٰ کا تھا.خطبہ سننے کے بعد انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور انہوں نے کہا شکر ہے کہ تم نے مجھے وہ دکھا دیا جس کے برعکس میں سنا کرتا تھا اور اب مجھے سنے سنائے کا اعتبار نہیں رہا.آنکھوں دیکھے کا اعتبار ہو گیا اور جو چیز
خطبات طاہر جلد 14 409 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء سنی ہے اب وہ بالکل برعکس ہے جو میں پہلے سنا کرتا تھا.اس لئے مجھے دلچسپی پیدا ہوگئی ہے اور جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان سے مجھے اتفاق ہے لیکن میرے بعض سوالات ہیں وہ سوالات بھجوا دیں تا کہ وہ کسی وقت ان کا جواب دیں تو میں پھر ان کے جوابات سے اپنی تشنگی دور کر سکوں.اس مضمون کا ایک تفصیلی خط تھا مگر افسوس جو تاریخ انہوں نے دی تھی.اس تاریخ کے بعد خط مجھے ملا ہے کہ اس تاریخ کو خصوصیت سے وہ ہماری مجلس سوال و جواب میں میرے جواب سننے کے لئے آئیں گے لیکن خطبات تو ہر جگہ ریکارڈ بھی ہوتے ہیں.اگر یہ خطبہ ان تک پہنچے جن دوست نے مجھے خط لکھا تھا تو اس کا جماعت سے ریکارڈ لے کر ان کو اس میں شامل کر لیں.ان کا سوال یہ تھا کہ صفات باری تعالیٰ کے علم کی ہمیں ضرورت کیا ہے؟ اسماء باری تعالیٰ ایک مضمون ہے.ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر پہلو سے قابل تعریف ہے.اس کی بعض صفات حسنہ ہیں اگر ہم ان کو نہ معلوم کریں تو ہمارا کیا نقصان ہے؟ اس کا تفصیلی جواب تو یہاں دینے کا وقت نہیں میں مختصر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صفات باری تعالیٰ کے علم کے بغیر انسان ترقی کر ہی نہیں کر سکتا.کسی پہلو سے بھی انسان روحانی ارتقائی سفر طے نہیں کر سکتا جب تک صفات باری تعالیٰ سے وہ واقف نہ ہو اور اس کے مضمون کو سمجھے نہیں.وہ چونکہ جس طرح ان کا خط تھا اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ بہت ذہین آدمی ہیں مگر وہ چاہتے یہ ہیں کہ مضمون اس طرح بیان کیا جائے کہ عامتہ الناس کو بھی سمجھ آئے.اس لئے میں زیادہ تفصیلی اور گہرائی سے اس کو بیان نہیں کروں گا.مختصر صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی اور حیوانی زندگی کا ارتقاء صفات باری تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس سے پہلے جو بھی موجودات تھیں وہ نہ سمیع تھیں نہ بصیری تھیں اور جانور بھی اگر سنتا تھا تو اس کا سننا فہم اور ادراک کے لحاظ سے اسے کوئی زیادہ فائدہ نہیں دیتا تھا کیونکہ بیان نصیب نہیں تھا، زبان نہیں تھی ، اس لئے اکثر سننا اس کا آواز میں ہی تھیں اور دیکھنا بھی اس کے لئے کوئی بہت زیادہ فائدہ بخش نہیں تھا کیونکہ وہ دیکھ کر اس کی کنہ کو نہیں سمجھ سکتا تھا.اس کے پس منظر میں جو باتیں ہیں ان کا شعور نہیں رکھتا تھا.تو ارتقائی سفر میں خدا تعالیٰ نے سب سے زیادہ جو نمایاں نعمت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھو انسان کس طرح ماں کے پیٹ میں مختلف حالتوں سے گزرا ہے اور اس کی کچھ بھی حالت نہیں تھی ابتداء میں.فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدھر:۲) پیدا ہوا ہے تو سننے والا بھی ہے اور بولنے والا بھی ہے.تو سمیع اور بصیر صفات باری تعالیٰ کے سمجھنے
خطبات طاہر جلد 14 410 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء سے اور آئندہ اس سفر میں ترقی کرنے سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے ایک مسافر کا زادراہ سے تعلق ہوتا ہے.کوئی شخص اپنے ساتھ زادراہ لے کر نہ چلے تو وہ سفر میں یا ہلاک ہو جائے گا یا لوگوں کی محتاجی میں پڑا رہے گا.پس زادراہ کے لئے دو صفات جو انسان کو اللہ نے عطاء فرمائی ہیں ایک سننے والی ہے اور ایک دیکھنے والی ہے اور سننے کے نتیجے میں الہام سے اس کا تعلق پیدا ہوتا ہے اور دیکھنے کے نتیجے میں خدا تعالی کی سنت پر غور کر کے اس کو اور بصیرت عطا ہوتی ہے.اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ کو کل عالم میں جیسا وہ جلوہ گر ہو رہی ہیں ان پر غور کرے، ان پر فکر کرے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے.جوں جوں انسان خالق کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے اسی حد تک اس کی زندگی کا مقصد پورا ہوتا ہے.ورنہ وہ واپس جانوروں کی حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے.انسان میں اور جانور میں جو فرق ہے وہ صفات باری تعالیٰ کی اعلیٰ جلوہ گری اور ایک مبہم سی جلوہ گری کا فرق ہے.جانوروں میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سننے کی طاقت بھی ہوتی ہے دیکھنے کی طاقت ہوتی ہے لیکن کسی جانور کی زندگی کے تعلق میں اللہ تعالیٰ نے اسے سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء: 59) قرار نہیں دیا.پہلی بار انسان کے حق میں یہ دوصفات بیان فرمائی ہیں جو اللہ کی صفات ہیں.تو انسان سے پہلے کی زندگی میں صفات باری تعالیٰ ایک مبہم حالت میں رہتی ہیں اور کوئی معین ٹھوس پیغام اس کو ایسا نہیں دیتیں کہ وہ اپنے گرد و پیش، اپنے ماحول سے بالا ہو کر کائنات میں خدا پر غور کر سکے اور کائنات کے خدا پر غور کرنا اس کی وسعتوں کے ساتھ ، اس کی گہرائی کے ساتھ انسان کے سمیع اور بصیر ہونے کا تقاضا کرتی ہیں اور یہی جانور کے ساتھ فرق ہے.تو زادرہ تو لے لیا اور سفراختیار ہی نہ کیا تو کیسی بے وقوفی ہوگی.تیاری ساری کر لی لیکن آگے قدم نہ بڑھایا.پس آگے قدم بڑھانا صفات باری تعالیٰ کے تعارف کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور دوسرا یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرہ:157) میں ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.اب جس کی طرف لوٹ کر جانا ہے اگر آپ کی صفات اس کے ہم مزاج نہ ہوں تو اس کی طرف لوٹ کر جانا ہی جہنم کا دوسرا نام ہے اور اگر آپ کی صفات اس کے ہم مزاج ہو جائیں اور آپ ان کو سمجھیں اور ان سے لذت یاب ہوں اور اتنی پیاری لگیں کہ اپنی ذات میں ان کو جاری کرنے کی کوشش کریں تو اس وقت پھر اس کی لقاء جنت بن جاتی ہے.تو انسان کی
خطبات طاہر جلد 14 411 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء جنت اور جہنم کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم صفات باری تعالیٰ کو اس کی حقیقت ، اس کی کنہہ کے ساتھ سمجھتے ہیں یا نہیں اور اگر سمجھتے ہیں تو اس جیسا بننے کی ضرور کوشش کریں گے اگر نہیں سمجھتے تو اس جیسا بننے کی کوشش نہیں کریں گے اور اس کا دوہرا نقصان ہے.وہ جہنم جو بعد میں ملنی ہے اس سے پہلے اس دنیا میں بھی ہم خود اپنے لئے جہنم بنا لیتے ہیں.تمام عالم پر غور کر کے دیکھ لیں ہر فساد کی جڑ کسی اسم الہی کی مخالفت کے نتیجے میں ہے.جہاں جہاں اسماء الہی کی بے حرمتی انسان اپنے عمل سے کرتا ہے وہاں وہاں فساد پیدا ہوتا ہے وہاں وہاں انسان کے لئے جہنم نکل آتی ہے.تو اس دنیا کا ہمارا عمل قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ جو جہنم بعد میں بنے گی وہ بھی ہمارے اعمال سے ہی بنے گی اور اس کا انحصار بھی صفات باری تعالیٰ کے قریب تر ہونے یا اس سے دور تر ہلنے کے اوپر ہے.اگر قریب تر ہوں گے تو جنت کی طرف کا سفر ہے اگر صفات باری تعالیٰ سے دور ہٹ رہے ہوں گے تو جہنم کی جانب سفر ہے اور اس دنیا میں بھی انسان روزمرہ کے مشاہدہ سے یہ بات جانتا ہے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ ہر فساد کی جڑ کسی صفت الہی کی مخالفت ہے.کہیں انسان عدل سے گر جاتا ہے، کہیں رحم سے گر جاتا ہے، کہیں اور صفات باری تعالیٰ ہیں.علم کی صفت ہے اور بہت سی صفات ہیں ان میں جہاں جہاں بھی کمی آئے وہاں وہاں انسان اپنے لئے ایک جہنم بنالیتا ہے.اب وہ قومیں جو صاحب علم ہیں وہ بعض دفعہ جانے بوجھے بغیر بھی خدا کی ایک صفت سے مشابہت اختیار کر جاتی ہیں اور جہاں جہاں وہ صفت علیم کے قریب ہوئی ہیں وہاں وہاں انہوں نے اپنی جنت بنائی ہے.اس لئے یہ بہت ہی وسیع اور گہر ا مضمون ہے.اس کا تمام کائنات سے تعلق ہے.اس لئے چونکہ ہماری زندگی ، ہماری بقاء ، ہماری بہبود، ہمارے مضرات اور ہمارے نقصانات کا اس مضمون سے تعلق ہے اور سمیع بصیر ہمیں بنایا اس لئے گیا ہے تا کہ ہم صفات باری تعالیٰ پر غور کر سکیں اس لئے لازم ہے کہ ہم ان صفات کو سمجھیں اور ان کے دائیں طرف بیٹھیں، ان کے بائیں طرف نہ آئیں.دائیں طرف بیٹھنے کا مضمون یہ ہے کہ جو بعض عیسائیوں نے سمجھا نہیں کہ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے خدا کے دائیں طرف بیٹھ گئے.دائیں طرف سے مراد یہ ہے کہ نیکیوں کے ساتھ ، اس کی اطاعت میں جان دے دی اور اس کے دائیں ہاتھ بیٹھے یعنی اس کی مخالفت میں نہیں آئے اور
خطبات طاہر جلد 14 412 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء بائیں ہاتھ کا مضمون قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ مخالفت کا مضمون ہے.چنانچہ بائیں ہاتھ والوں کو جہنم کی خوشخبری دی گئی ہے.دائیں ہاتھ والوں کو جنت کی خوشخبریاں دی گئیں ہیں تو دائیں اور بائیں سے مراد یہاں تائید یا مخالفت کا ہاتھ ہے.پس صفات باری تعالیٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھنے والے اپنے لئے جنت بناتے ہیں اور بائیں ہاتھ بیٹھنے والے اپنے لئے جہنم بناتے ہیں.تو اگر صفات کا پتا ہی کچھ نہیں تو آپ کو کیا پتا کدھر بیٹھنا ہے اور کدھر نہیں بیٹھنا.پھر تو آپ کی زندگی حادثات کا نتیجہ بن جائے گی اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی.پس اس مختصر جواب کے بعد اب میں واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے غَنِيٌّ حَمِيدٌ مال کی اس کو ضرورت نہیں ہے لیکن تم غنی نہیں ہو، تمہیں ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ غنی خدا سے تعلق باندھو.اب یہ جو مضمون ہے اس کو انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے مشاہدے کے اوپر اطلاق کر کے دیکھے تو پھر اس کو سمجھ میں آتی ہے کہ کیا ضرورت ہے غرباء کو کہ امیروں کی خدمت میں حاضر ہو کر کچھ تحفے پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی تحفہ نہ ہو غریب کے پاس، فقیر ہو تو وہ کہتے ہیں سبز پتا ہی اس کا بادشاہ یا امیر کے حضور ایک تحفے کے طور پر پیش کر دینا کافی ہے.جو امیر کو تحفے دیتا ہے اس کا امیر کے ساتھ تعلق اس رنگ میں قائم ہوتا ہے کہ امیر اس کو لوٹا کے دیتا ہے اور زیادہ دیتا ہے ورنہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو امیروں کے لئے تو محنت کرتے ہیں اور ان کو تحفے دیتے ہیں غریب کی طرف نظر ہی نہیں کرتے اور اپنے سے ادنی کو کچھ نہیں دیتے.اپنے سے اعلیٰ کو دیتے ہیں حالانکہ ضرورت اس کو ہے جو اس سے ادنی ہے.جن کے پاس کچھ نہیں ہے.ان کو چھوڑ کر اعلیٰ کی طرف جور جوع کرتے ہیں تو دل میں اصل میں یہ حرص ہوتی ہے کہ ہم جو مال دیں وہ بڑھ کر واپس ملے، ضائع نہ ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غنی سے تعلق جوڑ نا تمہارا کام تمہارے فائدے میں ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ مالی قربانی کا نظام نہ رکھتا اور تحائف قبول نہ کرتا تم سے تو پھر تمہارا نقصان تھا.تمہارا اللہ سے مالی قربانی کا تعلق قائم نہ ہوتا اور اس پہلو سے تمہارے اموال کو وہ برکت نہ ملتی جو طبعا اور فطرتا ایک غریب آدمی کے امیر آدمی سے تعلق کے نتیجے میں اس کو برکت ملتی ہے اور وہ برکت ہمیشہ اس کی اس پاکیزہ کوشش کے نتیجے میں یا بہت ہی ایک دلنواز کوشش کے نتیجے میں ہے جو امیر کو اپنے تخت گاہ سے دلنواز دکھائی دیتی ہے.اس کی
خطبات طاہر جلد 14 413 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء اپنی نیت کچھ بھی ہوا میر جب اپنی بلندی سے ایک غریب کو تحفہ پیش کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کا دل اس کی تعریف، اس کی محبت سے بھر جاتا ہے کہ دیکھو اس غریب کے پاس کچھ بھی نہیں پھر بھی اتنا تعلق ہے مجھ سے کہ میری خاطر قربانی کر کے یہ سب کچھ لایا ہے اور پھر انسان اس کے نتیجے میں اس پر بہت مہربان ہو جاتا ہے یعنی اگر کوئی شریف النفس ہو تو وہ اس سے بہت مہربانی کا سلوک کرتا ہے.اللہ جو غنی ہے جس کے پاس سب خزانے ہیں جب وہ اپنے بندوں کو موقع دیتا ہے کہ تمہیں جو میں نے دیا ہے اس میں سے کچھ پیش کرو تو اس لئے نہیں کہ وہ ضرورت مند ہے.واقعہ یہ ہے کہ امیر سے امیر آدمی بھی کسی نہ کسی پہلو سے ضرورت مند بھی رہتا ہے اور وہ حمید نہیں ہوتا.مگر اللہ تو حمید ہے اسے تو ادنیٰ بھی ضرورت نہیں ہے.اس لئے جب وہ کسی ضرورت مند کو اپنے حضور کچھ پیش کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور اس سے اس کا تعلق غنی کا استغنا کی صورت میں نہیں رہتا ہے بلکہ حمید دولت مند کے طور پر یہ ہوتا ہے جو صاحب تعریف ہے اور صاحب تعریف ہونے میں یہ بات لا زم ہے کہ نیکی کا بدلہ اس سے بہت بڑھ کر عطا کیا جائے.تو اس پہلو سے جو ہمارا چندوں کا نظام ہے.اس میں غنی و حمید کوسمجھنا ضروری ہے لیکن اگر کوئی غنی کو پیش کرے لیکن دل میں خساست ہو، چاہتا ہو کچھ پیش بھی ہو جائے نام بھی لکھا جائے لیکن میری چیزوں میں کمی نہ آئے ، کمی آئے تو میری خبیث چیزوں میں آئے ، کھانا گل سڑ رہا ہے کیوں نہ اس کو فقیر کو دے کر اس کی بد بو سے نجات پائیں اور اللہ کی رحمت بھی حاصل کر لیں.یہ جو چیز ہے یہ بھی غنی سے ایک تعلق قائم کرتی ہے مگر استغناء کا تعلق.اللہ ایسے شخص میں ان معنوں میں غنی ہوتا ہے کہ وہ مستغنی ہو جاتا ہے اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی اس کی.وہ خدا کے نام پر گندی چیز دیتا ہے.تو اپنے نام پر کیوں نہیں دیتا.خدا کی خاطر اس کا بہانہ رکھ کر گند پھینکتا ہے کہیں اور کہتا ہے کہ میں نے خدا کو راضی کرنے کے لئے یہ فعل کیا ہے.تو یہ چیز ناراضگی کا موجب بنتی ہے، خدا سے پیار کرنے کا موجب نہیں بنتی.اور چندے کے تعلق میں اس مضمون کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارا نظام ایک پاک روحانی نظام ہے.یہاں وہی چندہ باعث برکت ہوگا جو اس مضمون کو سمجھ کر پھر ادا کیا گیا ہو.چنانچہ یہ دونوں جماعتیں ایسی ہیں بنگلہ دیش اور یوگنڈا جن میں چندوں میں کمزوری پائی جاتی ہے.بنگلہ دیش میں خدا کے فضل سے بعض جو فدائی مخلصین ہیں وہ بہت بڑے بڑے بوجھ اُٹھاتے ہیں.بڑی بڑی
خطبات طاہر جلد 14 414 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء قربانیاں کرنے والے موجود ہیں لیکن کچھ عرصہ ان سے اس طرح کھلم کھلا قربانیاں قبول کرنے کے بعد میں نے ان کو روک دیا اور جماعت کو اجازت نہیں دی کہ اب ان سے کچھ وصول کیا کریں جیسے از خود وہ وصول کیا کرتے تھے.اس میں یہ حکمت ہے جو صفات باری تعالیٰ کو سمجھنا اور ان کے مطابق عمل کرنا.وہ جب خرچ کرتے تھے تو رفتہ رفتہ ان کا جماعت میں ایک مقام ابھرا اور جماعت کی نظر ان پر پڑنے لگی گویا کہ وہ غنی ہیں اور اس کا دوہرا نقصان ہوا.جو چندے دینے والے عام لوگ تھے وہ سمجھتے تھے کہ جب بھی ضرورت پڑے جماعت ان کے حضور حاضر ہو جایا کرے گی، ان سے ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور عام آدمی کا قربانی کا معیار بڑھانے کی ضرورت ہی کوئی نہیں.ساری جماعت پر اس کا ایک گہرا منفی اثر پڑا اور ان کے ایمان کے لئے بھی خطرہ تھا، ان کے عجز ، انکسار ، ان کے خلوص کو بھی خطرہ لاحق تھا.چنانچہ جب یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اگر ہر دفعہ ایسے موقع پر ان کو اجازت دی جائے کہ وہ آگے بڑھ کر ساری جماعت کی ضرورتیں پوری کریں تو نعوذ بالله من ذالک شیطان ساتھ لگا ہوا ہے ان کے اندر کہیں یہ دماغ میں کیڑا نہ آجائے کہ ہم غنی ہیں اور دین کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے یہ لوگ ہماری طرف جھکتے ہیں.تو وہی مضمون کہ ہم غنی ہیں اور اللہ محتاج ہے.یہ بعض دفعہ شعوری طور پر ، بعض دفعہ لاشعوری طور پر انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.تو ان دونوں حکمتوں کے پیش نظر میں نے جماعت کو نصیحت کی کہ ان کے پاس اپنی ضرورتوں کے لئے آپ نے ہرگز نہیں جانا آپ کو اجازت ہی نہیں ہے.از خودا گر یہ شوق سے کچھ پیش کرنا چاہیں تو مجھے لکھیں اور میں اس کو جماعت کو واپس کروں گا.جس طرح چاہوں ، چاہے ان کا نام لوں یا نہ لوں.اس کے بعد کچھ تو ازن میں معاملہ آگیا.ان کے خرچ بھی اعتدال پسند ہو گے اور وہ جو بڑھ بڑھ کر غیر معمولی ضرورتیں پوری کرنے کا جو شوق تھا وہ مناسب حد اعتدال تک اتر آیا اور عمومی طور پر توجہ نسبتا پہلے سے زیادہ چندوں کی طرف ہوئی.چنانچہ بنگلہ دیش کے چندوں کو آپ دیکھیں تو جب سے یہ ذرائع اختیار کئے گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے کمی نہیں کی ، چندوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے لیکن بعض اور ایسے پہلو ہیں جن کی طرف ابھی اصلاحی توجہ نہیں ہو سکی.جن کے متعلق اب میں اعلان کرنا چاہتا ہوں اور اس کے نتیجے میں بعض پہلوؤں سے جماعت کا نقصان جاری ہے.وہ پہلو یہ ہے کہ اللہ جو حمید ہے یہ صرف پیسے کے معاملے میں غنی اور حمید نہیں ہے بلکہ خدمات کے معاملے میں بھی غنی اور حمید ہے.اگر کسی ڈر سے انسان یہ سمجھتے
خطبات طاہر جلد 14 415 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء ہوئے کہ اگر ہم نے ان پر Disciplinary Actionلیا، کوئی تا دبی کارروائی کی تو یہ اپنی خدمتوں سے ہاتھ کھینچ لیں گے نظام جماعت کی بے حرمتی کرتے ہوئے ان سے غیر منصفانہ سلوک کرتا ہے.غیر منصفانہ ان معنوں میں کہ بعضوں سے ، غریب لوگوں کی نسبتا کم صاحب حیثیت لوگوں سے اور سلوک اور ان سے کچھ اور سلوک ، تو امتیازی سلوک کو بھی غیر منصفانہ سلوک ہی کہا جاتا ہے.پس اس پہلو سے میں غیر منصفانہ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں کہ ان کے خوف سے، ان کے خدمت سے ہاتھ کھینچنے کے نتیجے میں انسان اگر ان کی طرف توجہ کرتا ہے اور ان کی ان کمزوریوں سے پردہ پوشی کر لیتا ہے، نظام جماعت جن کمزوریوں سے صرف نظر کی ان کو اجازت نہیں دیتا تو یہ ایک شرک بھی ہے اور خدا کے غنی اور حمید ہونے کا ایک عملی انکار ہے.چنانچہ جونمائندہ میں نے اس دفعہ مجلس شوری کے لئے بھجوایا ہے ان کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ ایک بھی ایسا آدمی مجلس شوری میں شامل نہ ہو جو خدا کے حضور اپنے چندوں کے معاملے میں صاف نہ ہو اور غریب ہو یا امیر ہو یہ بالکل بحث نہیں ہے.اگر امیر چندے کھا رہا ہے تو اس کو اجازت نہیں ہوگی مجلس شوری میں شامل ہو.اگر غریب دو کوڑی بھی اخلاص سے دے رہا ہے اور قاعدے اور قانون کے مطابق دے رہا ہے تو وہ عزت کے لائق ہے اس کو ضر ور نظام جماعت میں شامل کرنا ہے.جب یہ نصیحت کی گئی تو ایک حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ باوجود اس کے کہ عموماً چندوں میں حالت پہلے سے بہت بہتر تھی، ایک لمبے عرصے سے جماعت اس قانون کو نظر انداز کر کے کہ بعض بڑے بڑے لوگ بعض جماعتوں کے متاثر جائیں گے ان کی اس کمزوری سے صرف نظر کرتے ہوئے جماعت نے ان کو عہدے بھی دئے ہیں رکھے تھے اور ان کو مجلس شوری کا ممبر بھی بنایا ہوا ہے.جب یہ پیغام پہنچا تو ان کا گھبرایا ہوا خط مجھے ملا میں نے کہا کہ میں آدمی بھیج رہا ہوں اور اس کو یہ تاکید کر دی ہے میں نے.اس لئے آپ کو متنبہ کر رہا ہوں.اس کا تو مطلب ہے کہ پھر مجلس شورای کے ممبر تھوڑے رہ جائیں گے.میں نے کہا الحمد للہ اس سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے کہ تھوڑے ہوں اور پاکیزہ ہوں.وہ جو آپ نے بھرتی کی ہوئی تھی ،سارا نقصان اسی کا ہے.ان کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے.خدا غنی ہے اور حمید بھی ہے.اس کو کمزور دانوں کی اس وجہ سے کہ کہیں خدا کی خدائی بھوکی نہ مرنے لگے ضرورت نہیں ہے.وہ دانے تو اللہ خود ضائع فرما دیتا ہے.اس کا قانون ضائع کر دیتا ہے اور انہی کی
خطبات طاہر جلد 14 416 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء حمایت کرتا ہے جو اچھے بیج ہوں.تو اس لئے آپ کی خبر سے ایک لحاظ سے مجھے افسوس بھی ہوا ،ایک لحاظ سے خوشی ہوئی.خوشی اس لحاظ سے کہ آئندہ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ آپ کا نظام اب بلوغت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے گا اور بہت سی برکتیں جن سے آپ محروم چلے آرہے تھے.اب محروم نہیں رہیں گے اور افسوس اس بات پر ہے کہ آپ نے اس کو نظر اندا زکیا، میرے علم میں لائے ہی نہیں ، ناجائز حرکت کی ہے.آپ پر اعتماد کیا گیا تھا آپ کو مرکزی عہدے دیئے گئے تھے تا کہ نظام جماعت کی حمایت کریں لیکن آپ نے بزدلی اور کمزوری دکھائی اور نظام جماعت کے معاملے میں معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا.نیتیں اپنی طرف سے اچھی رکھیں ہنتیں یہ تھیں کہ یہ دور دور کی جماعتوں کے لوگ ہیں ، بیچارے خدمت کرتے ہیں، آبھی جاتے ہیں.اس لئے ان کو اگر ہم نے قانونی طور پر مؤاخذے کی فہرست میں داخل کر لیا یعنی مؤاخذہ ہمارا ہوتا گیا ہے، یہی کہ ووٹ نہیں دینا تم عہد یدار نہیں بن سکتے.اس سے زیادہ تو کوئی مواخذہ نہیں ہوتا، مگر چونکہ جماعت کو ایسے ہی مؤاخذے کی عادت ہے اس لئے مواخذہ محسوس ہوتا ہے.یعنی ہماری جماعت میں سختی، گالی گلوچ ، کوئی اور سزا بدنی یا دوسری نہیں ملتی لیکن یہی کافی ہے کہ تم دوٹ نہیں دو گے اب اور یہ سب محسوس کرتے ہیں بڑی سختی کے ساتھ تلخی کے ساتھ ، بعض محسوس کرتے ہیں اور اصلاح پذیر ہو جاتے ہیں.بعض محسوس کرتے ہیں اور پھر جماعت کے نظام پر باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں تو جو جو کرتے ہیں ویسا ہی اللہ سے حصہ پاتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ اللہ فنی بھی ہے اور حمید بھی.آپ کی بری باتیں جو نظام جماعت کو پہنچتی ہیں وہ اللہ کو نہیں پہنچتیں کیونکہ وہ حمید ہے اور بالکل بے کار ہے، ہوا میں چاند پر تھوکنے والی بات ہے.اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ہے اور جہاں تک آپ کی محنت یا آپ کے خلوص کا تعلق ہے.اگر آپ جماعت کے لئے کچھ بھی نہ کریں تو اللہ اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ آپ کی مدد لے اور وہ دو طرح سے اپنے فنی اور حمید ہونے کا اظہار فرماتا ہے.ایک تو یہ کہ تھوڑے ہونے کے باوجود جو اخلاص سے خدمت کرنے والے ہیں، جو قربانی کرنے والے ہیں.ان کی خدمتوں میں بہت برکت رکھ دیتا ہے اور دوسرے یہ بتانے کے لئے کہ تم عددی نقصان بھی جماعت کو نہیں پہنچا سکتے.کثرت سے ایسے لوگ پیدا کر دیتا ہے.جو پھر ان کی طرح نہیں کرتے وہ اطاعت میں اور اپنے اخلاص میں ان سے بہتر ثابت ہوتے ہیں.تو دو طرح سے اس کا غنی اور حمید ہونا نتھر کر اور ابھر کر اور چمک کر جماعت کے
خطبات طاہر جلد 14 417 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء سامنے آتا ہے اور ہمیشہ یہی ہوا ہے کبھی اس میں آپ کوئی استثناء نہیں دیکھیں گے.تو انہی دو موقع پر جہاں یہ مضمون چلتے ہوں غنی اور حمید کا اکٹھا کر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.اس کی مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں یوگنڈا کے متعلق بھی بتا دوں کہ یوگنڈا میں بھی مالی کمزوری ہے اور قربانی کی کمزوری ہے اور یہی وجہ ہے کہ یوگنڈا باقی افریقہ کی جماعتوں پر جو خدا کے فضل نازل ہورہے ہیں.ان سے نسبتا محروم ہے.سارے مشرقی افریقہ میں بعض کمزوریاں ایسی پائی جاتی تھیں جن کے نتیجے میں مغربی افریقہ میں جماعت کی نشو ونما کے مقابل پر مشرقی افریقہ میں عشر عشیر بھی نہیں تھیں، غیر معمولی فرق تھا لیکن اب جبکہ مغربی افریقہ اور بھی زیادہ جاگ کر پہلے سے بعض جگہوں میں سو گناہ رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.تو یہ جو برکت کی ہوا چلی ہے.اس میں مشرقی افریقہ کی رفتار بھی تیز سے تیز تر ہورہی ہے اور امید ہے چند سال میں کایا پلٹ جائے گی لیکن یہ ہوا معلوم ہوتا ہے یوگنڈا پر نہیں چلی اور اس معاملے میں وہ ان برکتوں سے محروم چلا آرہا ہے.اس کے عناصر کچھ اور بھی ہیں جن کا یہاں ساری عالمگیر جماعت کے سامنے رکھنا مناسب نہیں ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ان کی طرف توجہ کی جائے گی.مگر مالی قربانی کے لحاظ سے بھی وہ کمزور ہیں اور اس معاملے میں بھی عہدوں کے معاملے میں ان کی بعض کمزوریوں سے صرف نظر کی گئی لیکن گزشتہ چند سال سے میں نے ان کی جماعت کو پوری طرح آگاہ کر دیا ہے کہ آپ خدا کا ساتھ دیں نہ دیں، رہیں نہ رہیں، مجھے اس پہلو سے نظام جماعت کی کوئی فکر نہیں ، آپ کی فکر ہے.آپ کا نقصان میرے لئے تکلیف دہ ہوگا لیکن یہ خیال کہ مجھے نظام جماعت کی فکر ہے بالکل وہم ہے.اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدُ اللہ غنی بھی ہے اور حمید بھی ہے.اس کو قطعاً آپ کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں.وہ خود پیدا کر دے گا اور اگر نظام جماعت کا احترام کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ناراضگی پیدا ہو تو اللہ خودسنبھالے گا.اس لئے جو بعض بڑے بڑے بت بنے ہوئے تھے میں نے کوئی پرواہ نہیں کی.میں تھے میں نے نے کہا ان کو کام سے الگ کر دیں معذرت کے ساتھ اور بے شک نئے آدمی آگے لائیں لیکن ابھی تک کچھ ایسی کمزوریاں ہیں کہ عمومی طور پر تعداد میں کمی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یوگنڈا کی ملکی بیماری ہے.سارے یوگنڈا میں جہاں اللہ تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے ان کی عقلوں کو باقی افریقہ کے مقابل پر اگر برابر نہیں تو بعض دفعہ ان سے زیادہ جلا بخشی ہے، کم نہیں ہے کہیں بھی.آپ افریقہ کا دورہ کرتے
خطبات طاہر جلد 14 418 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء ہوئے جب یوگنڈا جاتے ہیں تو وہاں کے نوجوان جو مسائل اُٹھاتے ہیں ، دینی تعلیم نہ ہونے کے با وجود قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں.ان کی نظر گہرے گہرے مطالب پر اترتی ہے.ان کے سوال بھی بڑے عارفانہ ہوتے ہیں، مجادلا نہ بھی ہوں تو بات کم سے کم غور کرنے کے بعد کرتے ہیں.تو اس پہلو سے میں نے یوگنڈا کی عقل کو بہت روشن پایا.یہ خوبی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک وقت تک یوگنڈا کو سارے افریقہ میں تعلیمی لحاظ سے ایک جو ہر خالص قرار دیا جاتا تھا.تمام دنیا کے ماہرین علم کی رائے میں یوگنڈا افریقہ میں تعلیم کے لحاظ سے زیادہ ممتاز اور روشن دماغ تھا اور وہ روشنی ابھی بھی وہاں ملتی ہے لیکن بعض بدیوں نے اس روشنی پر تاریکی کا سایہ کر دیا ہے اور ایک بدی ان میں سے جو سب سے زیادہ ہے وہ ہے جھوٹ.جھوٹ عام ہو گیا ہے وہاں اور بددیانتی بہت ہوگئی ہے.یہ دو چیزیں ہیں جنہوں نے یوگنڈا کو ہر پہلو سے شدید نقصان پہنچایا ہے.وہاں کے جو سر براہ مملکت تھے ان سے ملاقات کے دوران میں نے کھل کر یہ بات پیش کی.میں نے کہا کہ آپ کو اخلاقی قدروں کی فکر کرنی چاہئے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت دولتیں عطا کی ہیں.مشرقی افریقہ میں سب سے امیر ملک یوگنڈا ہے اور صلاحیتوں کے لحاظ سے اللہ نے آپ کو صلاحیتیں بھی بخشی ہیں ، علم کی دولت ، ذہن کی جلا ، ہر چیز موجود ہے لیکن دو باتیں ہیں جنہوں نے آپ کو ہر اس پہلو سے فائدے سے محروم کر دیا ہے.جو اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت آپ کو عطا کیا تھا.ایک جھوٹ کی عادت اور دوسرے بددیانتی.کوئی فیکٹری، کوئی کاروبا روہاں چل ہی نہیں سکتا بد دیانتی کی وجہ سے اور اتنی زیادہ ہے کہ عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا.خدا کرے اب پہلے سے فرق پڑھ چکا ہو.مگر یہ بات جو میں بتارہا ہوں یہ یوگنڈا کی برائی کی نیت سے انہیں بدنام کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ سمجھانے کی خاطر ، اب مجلس شوریٰ ہورہی ہے وہاں.ان کو میں یہ پیغام بھیج رہا ہوں کہ جماعت اس بات کا جہاد شروع کرے.اپنے اندر سے یہ دو برائیاں اکھیٹر پھینکے کیونکہ جو بدیانت ہے وہ غنی سے تعلق نہیں جوڑ تا بلکہ غیر اللہ سے تعلق جوڑ کر پیسے کھانے کی کوشش کرتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کوغنی سمجھتا نہیں اور دنیا کو اور مادے کو غنی سمجھتا ہے.اس لئے جو میں بات کر رہا ہوں غنی کے حوالے سے کر رہا ہوں کہ اگر آپ غنی خدا سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو اس کے مستغنی پہلو سے نہ جوڑیں اس کی غناء جو عظمت ہے دولت کی یا ملکیت کی اس سے تعلق باندھیں اور اس سے تعلق باندھنے کا ایک اور
خطبات طاہر جلد 14 419 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء ذریعہ یہ ہے کہ اس کے سوا ہر چیز کے غنی ہونے کا انکار کر دیں.رزق مانگیں تو اس سے مانگیں ،تو کل کریں تو اس پر کریں غنی سمجھیں تو صرف اس کو سمجھیں.اگر آپ یہ کریں تو بددیانتی اس طرح غائب ہو جاتی ہے جیسے روشنی کے نتیجے میں اندھیرے غائب ہو جاتے ہیں.ایسے شخص کے ذہن میں بد دیانتی کا تصور آ ہی نہیں سکتا اور پھر وہ جو کچھ خدا کے حضور پیش کرتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ اسے سجا کر اس طریق پر پیش کرے کہ غنی ہونے کے باوجود اسے پیار سے قبول کرے.اس لئے بعض لوگ اپنی غربت کی کمزوری ڈھانپنے کے لئے جب تحفہ پیش کرتے ہیں تو بعض دفعہ بچے بھی خاص طور پر اس کو سجاتے ہیں.اس کے ارد گرد کوئی چیز یں، پھول لگاتے ہیں، عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہیں جو عام ذوق کا معیار ہے اس سے تو گری ہوئی ہوتی ہیں لیکن جہاں تک ان کے پیار کی قبولیت کا تعلق ہے ان کا معیار بہت بلند ہے کیونکہ ہر لکیر جو بچہ ڈالتا ہے کہ میں خوش ہو جاؤں کسی طریقے پر.کبھی سرخ سیاہی سے، کبھی سبز سیا ہی سے، کبھی نیلی سے کبھی پھول بناتا ہے تا کہ وہ جو اس نے چھوٹا سا تحفہ رکھا ہے اس کو ایسے کاغذ میں لیٹے جس پر اس نے اپنے ہاتھ سے پھول بوٹے بنائے ہوں.تو وہ پھول بوٹے اپنی ذات میں تو کوئی کشش کا موجب نہیں مگر اس کی ادا بہت پیاری ہوتی ہے.اس کی کوشش نظر کو اچھی نہیں لگتی بلکہ اپنی محبت میں خرید لیتی ہے.تو اللہ تعالیٰ کا جو بندوں سے تعلق ہے وہ یہ نسبت جو میں نے مثال پیش کی ہے اس کے مقابل پر اس کی نسبت اتنی زیادہ ہے کہ ہم اس کو شمار ہی نہیں کر سکتے.ہم ہر چیز جو خدا کے حضور بہت ہی سجا کر بھی پیش کریں اللہ کے نزدیک جو حقیقت میں غنی ہے اور ذوق کے اعتبار سے خدا کا ذوق اس کی خلقت میں اس کی ہر چیز میں جو دکھائی دیتا ہے وہ ہماری سجاوٹ کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتا فی الحقیقت لیکن کیونکہ حمید ہے صرف غنی نہیں ہے اس لئے وہ اپنے حمد کے جلوے میں ہم پر اترتا ہے اور صاحب حمد بن کر ہماری کمزور چیزوں کو بھی پیار کی نظر سے دیکھتا ہے.مگر نیتوں پر نظر رکھتے ہوئے نہ کہ ظاہر پر نظر رکھتے ہوئے.اسی لئے قرآن کریم کی جو آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے اس میں فرمایا ہے.وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ دیکھو خبيث کی نیت نہ کرنا.اس میں حکمت یہ ہے کہ ہم نیست نہ بھی کریں تو پھر بھی مال خبیث ہو سکتا ہے.بعض دفعہ ایک انسان کو پتا نہیں ہوتا اپنے کسی پیارے کو تحفہ بھیجا اور اس عرصے میں اس کے علم کے بغیر اس میں زہر پیدا ہو چکا تھا اور دوسرے دن حال پوچھا تو پتا لگا ساری رات ان بے چاروں کو الٹیاں آتی
خطبات طاہر جلد 14 420 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء رہیں اور بے حال رہے حالانکہ جس نے بھیجا تھا اس کی نیت میں کوئی فتور نہیں تھا.تو بسا اوقات نیست میں فتور نہ ہونے کے نتیجے میں بھی چیز خراب ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خراب چیز کی میں بحث چھیڑتا ہی نہیں.تمہاری نیت پاک ہو تو ہر چیز کو قبول کرلوں گا اور نیت پاک ہو تو ، دراصل تو تمہاری ساری چیزیں ایسی ہیں ہی نہیں جو خدا کے لئے قبول کرنے کے لائق ہیں.نیت ہی ہے جو فرق ڈالتی ہے.اس لئے نیتوں کو پاک صاف رکھنا اور اگر نیتیں پاک ہوں تو پھر ہر کوشش جو نیت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے وہ پیاری لگتی ہے.وہ بھی ہوئی چیز خواہ دنیا کے ذوق سے کتنی ہی گری ہوئی ہو مگر اگر نیت میں محبت ہے اور خوش کرنا ہے تو ہر حالت میں وہ چیز اچھی لگے گی.پس خدا تعالیٰ نے یہ حکمت ہمیں سکھائی ہے کہ میری راہ میں قربانی پیش کرتے ہوئے اپنی نیتوں کو کھنگالو، ان کو صاف ستھرا رکھو اور پاکیزہ کی نیت باندھو، پھر دیکھو میں تم سے کیسا سلوک کرتا ہوں اور ایسا غناء کا سلوک کروں گا.جس سے تم حمد کے ترانے گاؤ گے اور پہلے سے بڑھ کر مجھے حمید سمجھو گے.پس بنگلہ دیش ہو یا یوگنڈا یا دوسری جماعتیں وہ اس پیغام کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کرتے وقت پہلے اپنی نیتوں کو درست اور پاک کریں اور جوسب سے اچھا ہے وہ پیش کریں.جس میں گندگی مل گئی ہے وہ مال جو گندہ ہے، جو رشوت کی کمائی ہے مثلاً یا حرام خوری ہے، لوگوں کے پیسے کھا کر اکٹھا کیا گیا ہے وہ خدا کے حضور پیش ہو ہی نہیں سکتا.آپ کو پتا ہے کہ اس لئے آپ نے نیت کرتے وقت فیصلہ کرنا ہے کہ محض پاک مال جو میرے علم میں پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے وہی میں پیش کروں گا.جہاں تک نا پاک مال کا تعلق ہے.وہ انسان کی طرف سے خدا کے حضور پیش ہو ہی نہیں سکتا.یہ گستاخی بھی ہے اور گناہ بھی ہے.اس ضمن میں ایک بات سمجھانے والی ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے دماغ میں جو سود کے معاملے میں نظام جماعت کے مسلک پر غور کرتے ہیں یہ سوال اُٹھ سکتے ہیں.اگر سودی روپیہ ہو تو کہا یہ جاتا ہے کہ اسے دین کے سپرد کر دو خدا کی راہ میں وہ روپیہ خرچ ہو جائے گا.تو سوال یہ ہے کہ ان آیات کا اس مسلک سے تصادم تو نہیں ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ نہیں کرنا ، کوئی گندی چیز میرے حضور پیش نہیں کرنی اور دوسری طرف جماعت کہتی ہے کہ وہ سب سے خبیث کمائی سود کی کمائی جو ہے وہ اللہ کے حضور دے دیا کرو.
خطبات طاہر جلد 14 اس کا کوئی حرج نہیں ہے.421 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے فیصلے کی فراست اور گہرائی سے واقف نہیں ہیں.ان کو یہ تضاد دکھائی دیتا ہے حالانکہ اس میں کوئی تضاد نہیں.دو باتیں ہیں جو آپ کو اچھی طرح مال کے معاملے میں سمجھنا چاہئے.مال فی ذاتہ نہ خبیث ہوسکتا ہے، نہ پاک ہوسکتا ہے.مال والے کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے وہ اسے خبیث یا پاک قرار دیتا ہے.ایک کنچنی جو مال کماتی ہے جب وہ مال اپنے اوپر خرچ کرتی ہے تو وہ خبیث مال ہے اگر اسے اپنی طرف سے خدا کے حضور پیش کرتی ہے تو خبیث مال ہے لیکن اگر وہ مال پھینک دے اور کوئی اُٹھائے اور نیک اور پاکباز انسان ہو اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا کوئی وارث نہیں وہ کسی غریب کو دے دے یا کسی اچھے کام پر لگا دے تو مال اپنی ذات میں گندہ نہیں ہو سکتا.اس لئے کنچنی جب اپنے مال سے کوئی چیز خریدتی ہے تو دکاندار اس مال کو گندہ کر کے ایک طرف نہیں پھینکتا.اگر وہ جانتا بھی ہو کہ یہ کسی عورت کا ہے اور اس نے غلط طریقے پہ مال کمایا تھا تو اس کا اس کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ محض تجارت کا معاملہ ہے اور اگر دکاندار نے بد دیانتی کوئی نہیں کی تو وہ مال جب دکاندار کے ہاتھ میں آتا ہے.تو پاک ہوتا ہے.اس لئے مال فی ذاتہ گندہ ہو ہی نہیں سکتا.نہ مال فی ذاتہ اچھا ہو سکتا ہے.ہاں کھانے پینے کی چیزیں فی ذاتہ گندی بھی ہو جاتی ہیں اور اچھی اور طیب بھی ہوتی ہیں.اب رہا یہ مضمون کہ سود کو کیا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی سود کی کمائی والے کو یہ نہیں کہا کہ اپنی طرف سے اسے چندہ دے دو کیونکہ جب وہ اپنی طرف سے چندہ دے گا تو اپنی طرف سے، اپنی نیت سے، اپنے گندے مال کو خدا کے حضور پیش کر رہا ہوگا اور یہ گستاخی بھی ہے اور گناہ بھی ہے.جو مال وہ سمجھتا ہے کہ خبیث ہے وہ اپنی طرف سے دے سکتا ہی نہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ تم چندہ دے دو.آپ نے فرمایا نہ یہ چندہ نہ اس کا کوڑی کا ثواب ملے گا.سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ ایک مال ہے اگر تم نے اپنے تعلق سے اس کو کاٹ دیا تو اس کی خباثت ختم کیونکہ سوداگر تم استعمال کرتے ہو تو وہ سود بن جاتا ہے اور خباثت کہلاتا ہے.جب تم اپنی ذات سے اس کا تعلق کاٹ دیتے ہو تو محض مال ہے.اس کے خرچ میں تمہاری کوئی نیت نہ ثواب کی نہ جزاء کی کچھ بھی نہیں ہے.آپ نے فرمایا ایسے مال کو تم کیا کرو گے.آپ نے فرمایا
خطبات طاہر جلد 14 422 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء خدا کی طرف لوٹا یا جا سکتا ہے.چندے کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر چیز کا وہ مالک ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ اس کو مٹی میں پھینک دو یا کوئی اور شخص اُٹھا کے اس کو استعمال کرے تو تم خدا کی طرف اس اصول کے پیش نظر لوٹاؤ کہ مالک کل وہ ہے اور مال اپنی ذات میں جو خدا کی طرف لوٹے گا وہ گندہ نہیں ہو سکتا.ہاں اگر سود دکھانے والا سود کی کمائی چندہ کے طور پر دیتا ہے.تو خبیث مال ہے اس لئے اس مال سے چندہ دیا ہی نہیں جاسکتا.یہ وہ حکمت ہے جس کے نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض لوگوں کے دلوں میں سوال اُٹھتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں اشارہ بھی وہ سود کا روپیہ جو بنک دیتے ہیں.ان کو چندے میں دینے کا ذکر نہیں فرمایا.آپ نے فرمایا یہ تمہاری ملکیت نہیں ہے کیونکہ تمہیں سود کی کمائی لینے کا حق ہی کوئی نہیں.جب تمہاری ملکیت ہی نہیں رہی تو سودی پہلو اس سے جھڑ گیا ہے.کیونکہ سودی ملکیت کا تصور جو ایک مال کے رشتے کو ایک آدمی سے باندھتا ہے اس تصور میں خباثت ہے جب تم مالک رہے ہی نہیں اس کے تو وہ سود بھی نہ رہا.کچھ بھی نہ رہا.اب وہ ایک مال ہے اسے کیا کرو.آپ نے فرمایا کہ اگر تم نہ لو گے تو بطور مال کے عام طور پر اس زمانے میں یہ ہوتا ہے کہ بنک ایسے مال کو جس کا مالک نہ ہو.اس کو چرچ کو دے دیا کرتا تھا اور حکومت کے کچھ ایسے قوانین تھے.تو آپ نے فرمایا اب اس کی حیثیت صرف مال کی رہ گئی ہے.تم نے استعمال نہیں کیا تم نے چندہ دیا نہ کھایا نہ کسی اور مصرف میں لائے اس مال کو اب کیا کرنا ہے کہاں پھینکنا ہے.اگر تم خدا کی طرف نہیں لوٹاؤ گے تو خدا کی مخالفانہ طاقتوں کی طرف لوٹ جائے گا.اس لئے اس کو خدا کی طرف لوٹا دو کہ اے خدا تو مالک کل ہے.تیرا مال اور میں اس سے اپنا نا جائز تعلق جو قائم ہوا تھا میں کاٹ دیتا ہوں.تو سود کی حلت کا کوئی اشارہ بھی اس فیصلے میں نہیں پایا جاتا اور حرمت کا تعلق چونکہ نیت سے ہے اس لئے اپنی نیت سے وہ چندے دے ہی نہیں رہا.اس کا خدا کے حضور خبیث مال پیش کرنے کا سوال ہی کوئی نہیں.جو دے گا اس کو پتا ہے کہ میرا ایک کوڑی کا بھی اس میں ثواب نہیں کیونکہ میری ملکیت نہیں.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم اس کو بعض غریبوں پر خرچ نہ کر دیں.بعض اپنے عزیزوں پر خرچ نہ کر دیں کیونکہ سود کی مناہی تو در حقیقت غریبوں کی حق تلفی کے لئے کی گئی ہے.تو میں ان کو یہ لکھتا ہوں کہ آپ کی چیز ہی نہیں ہے آپ کس طرح خرچ کر سکتے ہیں.جو دنیا میں خدا کی ملکیت کا نمائندہ نظام
خطبات طاہر جلد 14 423 خطبہ جمعہ 19 جون 1995ء ہے اس کے سوا اس مال کو کسی کو خرچ کرنے کا حق نہیں.اس لئے آپ آنکھیں بند کر کے اس طرح واپس کر دیں خدا کو کہ تیرا نظام اس دنیا میں تیری نمائندگی کر رہا ہے وہ اس روپے کو جہاں چاہے خرچ کرے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہمارا تعلق ٹوٹ گیا.ہمارا پیسہ ہے ہی نہیں اور جب آپ کا پیسہ نہیں رہا تو وہ سود کا پیسہ نہیں رہاوہ اسی طرح ایک مال بن گیا جیسے مال چکر کھاتا رہتا ہے ہاتھوں میں اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.تو یہ ضمنا میں نے یہ مسئلہ چھیڑا ہے مگر آخر پر میں بنگلہ دیش کی جماعت کو بھی اور یوگنڈا کی جماعت کو بھی متوجہ کرتا ہوں کہ مالی لحاظ سے بھی حمید خدا کی طرف لوٹیں اور دنیا کے اموال کی کچھ پرواہ نہیں نہ کریں لیکن جو دے گا اور خدا کو اخلاص کے ساتھ دے گا اللہ اس کے ساتھ برکت کا سلوک فرمائے گا اور وہ اپنے خدا کو غنی اور حمید پائے گا اور جو نہیں دے گا اور کنجوسی کرے گا تو وہ کنجوسی اپنے خلاف کرے گا اور خدا کی غناء اس کے لئے استغناء بن کر ابھرے گی اور اس سے بے پرواہ اور مستغنی ہو جائے گی.اس لئے اس کی بھی پرواہ نہ کریں کہ کوئی آدمی جسے ناجائز طور پر آپ عزت نہ دیں، عہدے نہ دیں.وہ اپنی خدمت کا ہاتھ کھینچ لے گا.اگر وہ کھنچے گا تو اللہ کوفی اور حمید پائے گا.اور اللہ سے بہت زیادہ مؤثر خدمت کرنے والے نظام جماعت کو عطا کرے گا.یہ وہ کامل تو حید کا پہلو ہے جو غنی اور حمید کے تعلق سے ہمارے سامنے ابھرتا ہے.اس پر قائم رہیں اور اللہ پر توکل کریں اور اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں آپ دیکھیں گے کہ ہر پہلو سے خدا کے فضل کے ساتھ برکتوں کی بارشیں نازل ہوں گی اور دنیا کے ان مبارک حصوں سے آپ الگ نہیں رہیں گے.جہاں آج خدا کے فضل سے موسلا دھار بارشوں کی صورت میں نازل ہورہے ہیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق دے.آمین.
424 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 425 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء قرآن کریم کی روشنی میں جھوٹ کی بڑی وجوہات خدا تعالیٰ حق ہے اس سے تعلق میں ہی نجات ہوگی.(خطبہ جمعہ فرموده 16 / جون 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللهِ مَوْلَهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَسِبِيْنَ پھر فرمایا:.(الانعام: 63) اسماء باری تعالیٰ کے مضمون کا جو سلسلہ جاری ہے یہ بھی اس کی کڑی ہے جو آج کا خطبہ ہے لیکن اس سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ سپین کی چودھویں مجلس شوری آج منعقد ہورہی ہے.مجالس شوری سے متعلق پیچھے دو تین خطبوں میں ذکر گزر چکا ہے.اس لئے مزید کسی نصیحت کے اضافے کی ضرورت نہیں.باقی جو باتیں خطبے میں آئیں گی ان کو خصوصیت سے سب شر کا مجلس شوری پیش نظر رکھیں.سپین کی جماعت چھوٹی جماعت ہے ابھی تک اور جس طرح توقع تھی کہ یہ جلد جلد پھیلیں گے ابھی ان کی طرف سے پوری نہیں ہوئی.اگر چہ چار مربی ہیں وہاں لیکن ابھی تک جس قدر پھلوں کی ان سے توقع تھی وہ نہیں لگے.عام طور پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ زمین سنگلاخ ہے یا پانی کڑوا ہے، یہ بات درست نہیں ہے.سپین کی زمین پہ پہلے بھی پھل لگ چکے ہیں اور سپین کے مسلمان
خطبات طاہر جلد 14 426 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس دور میں ہوئے ہیں بغیر کسی جبر کے، بغیر کسی حرص کے مسلمان ہوئے تھے اور دوسو سال تک بعد میں انہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دی ہیں، غاروں میں زندگیاں بسر کی ہیں لیکن دین نہیں بدلا.تو یہ کہہ دینا کہ زمین سنگلاخ ہے یا پانی کڑوا ہے.یہ درست بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر جگہ اب ہوائیں چل پڑی ہیں اور سپین کو بھی ان برکتوں سے حصہ لینا چاہئے.ساری جماعت کو شامل ہونا ہو گا اور ہر مربی کو، اپنے آپ کو اس معامعلیمیں جھونک دینا ہوگا.اس لئے صرف رپورٹیں کافی نہیں اب تو درخت گنے کا نہیں ، پھل گنے کا وقت ہے اور پھل بھی اتنے بڑھ رہے ہیں کہ گنے کا وقت بھی نہیں اس سے معاملہ آگے نکل چکا ہے.تو کوئی ملک ایسا نہیں رہنا چاہئے.جو اللہ تعالیٰ کی اس عالمی برکتوں سے کسی پہلو سے محروم رہ جائے تو میں امید رکھتا ہوں کہ سپین کی مجلس شوری میں خصوصیت سے اس پہلو سے بھی غور ہوگا اور سب احمدی اپنے آپ کو مثمر ثمرات حسنہ بنانے کی کوشش کریں گے یعنی اچھے، دائمی نیک پھلوں والے درخت بنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.میں نے بیان کیا تھا کہ تمام صفات باری تعالیٰ ان چار بنیادی صفات سے پھوٹتی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.اس ضمن میں حمید صفت کا بھی کسی گزشتہ خطبے میں غنی کے ساتھ ذکر آیا تھا اور بظاہر حمید صفت ان چار صفات میں شامل نہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ لیکن یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ سورۃ فاتحہ کا آغا ز حمد سے ہوتا ہے اور حمد کی صفت اللہ کے ساتھ اور دوسرے تمام اسماء کے ساتھ برابر کا تعلق رکھ رہی ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اس کے ساتھ ہی یہ مضمون اس طرح جاری ہوتا ہے گویا اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِن مُلِكِ يَوْمِ الدین اور عربی قاعدے کے مطابق اس تفصیل سے ترجمہ کرنا بالکل درست ہے.حمد کا مضمون ان سب پر اطلاق پارہا ہے.اس لئے حمید کہنے کی بجائے اسم مصدر استعمال فرمایا.جس کا ان تمام صفات سے براہ راست تعلق جڑ گیا اور یہ ضروری بھی تھا کیونکہ کوئی بھی صفت حسنہ اگر حد سے عاری ہو کسی پہلو سے تو وہ سبحان نہیں رہتی ، پاک نہیں رہتی اور حمد کا مضمون اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی چیز ہر برائی سے پاک ہو.پس اگر چہ سبحان بھی یہاں ہے جو خدا تعالیٰ کا نام ہے ،عبدالسبحان
خطبات طاہر جلد 14 427 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء کہا جاتا ہے، سبحان کا بندہ لیکن حمد اپنی ذات میں ایک بہت ہی گہرا اور وسیع الاثر لفظ ہے اور جس طرح قرآن کریم نے سورہ فاتحہ میں استعمال فرمایا ہے اس میں سبحانیت کا مضمون بھی داخل ہو جاتا ہے.پس وہ رحمن جو حد کے لحاظ سے پورا نہ اترے، کامل حمد کا حق دار نہ ہو اس کا مطلب ہے کہ اس میں کوئی نقص رہ گیا ہے وہ سبحان نہیں ہے اور ایسے رحمن ہمیں دنیا میں عام ملتے ہیں.حد سے زیادہ بڑھے ہوئے نرم دل جو اپنی نرمی میں توازن کھو بیٹھتے ہیں ، مائیں جو محبت میں اپنے بیٹوں کو بگاڑ دیتی ہیں ان کی عاقبت خراب کر دیتی ہیں تو کوئی بھی صفت خواہ کیسی اچھی کیوں نہ ہو جب تک اس کے ساتھ حمد اپنے کامل معنوں میں اطلاق نہ پائے اس وقت تک وہ اچھی صفت بھی کسی نہ کسی برائی میں مبتلا ہو سکتی ہے.پس حمید کا لفظ تو خدا تعالیٰ کے ہر اسم کے ساتھ سورہ فاتحہ میں چسپاں کر دیا گیا ہے.اس کے بغیر خدا کے کسی اسم کا تصور ہی کوئی نہیں.اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی صفات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو آپ کھوج لگائیں تو آپ کو ان کا گہرا تعلق ان صفات باری تعالیٰ سے نظر آنا شروع ہو جائے گا جو سورہ فاتحہ میں بیان ہیں اور اللہ تو فیق عطا فرمائے ، فراست کو بھی تیز کرے، آسمان سے عرفان اتارے تو کوئی بھی ، ایک بھی صفت خدا کی ایسی نہیں ہے جس کا ان صفات باری تعالیٰ سے قطعی یقینی جوڑ ثابت نہ کیا جا سکے جن کا سورہ فاتحہ میں ذکر ہے.آج کی ایک مثال کے طور پر میں نے لفظ حق کو چنا ہے.الحق خدا کا ایسا نام ہے جوا سے مجسم سچائی قرار دیتا ہے.حق سچائی کو کہتے ہیں.سچائی ایک صفت ہے جس کا وجود نہیں.مگر الحق جب کہا جاتا ہے تو مراد ہے جو کامل سچا ہو، جس میں سچائی کے سوا کوئی دوسرا عصر نہ پایا جائے.جو سچائی کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعریف ہو سکتی ہے وہ الحق لفظ میں داخل ہے.تو سوال یہ کہ الحق کا بیان یہاں کہاں موجود ہے.خدا کی سچائی کا ان چار صفات میں کہاں ذکر ہے.اس سلسلے میں میں آپ کے سامنے کچھ باتیں کھولنا چاہتا ہوں.یہ کوئی علمی بحث نہیں ہے بلکہ جماعت کے اندر گہری سچائی پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی صفت حق یا اسم حق پر غور ضروری ہے اور اس کے تجزیہ سے پھر انسان کو پتا چلتا ہے کہ میں کیوں جھوٹ بولتا ہوں، کہاں کہاں ٹھوکر کھاتا ہوں اور حق ذات سے تعلق قائم کئے بغیر میں کن کن نعمتوں سے محروم ہوں یا محروم رہوں گا.یہ مضمون جب کھل جائے تو پھر اپنی ضرورت کو لوگ از خود اپنے سچائی کے معیار کو بلند تر کرنے کی کوشش کریں گے.
خطبات طاہر جلد 14 428 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء جھوٹ کی جو وجوہات ہیں ان میں سے ایک ہے جھوٹی تعریف حاصل کرنا.جن کو تعریف کا شوق ہوا ور تعریف سے عاری ہوں وہ جھوٹ بولتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُوْنَ بِمَا أَتَوْا وَ يُحِبُّونَ ان يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا ( آل عمران: 189 ) کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ہوتا جو کچھ لاتے ہیں جھوٹ ہی لاتے ہیں اور خوش اس بات پر ہورہے ہوتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جارہی ہے ان باتوں میں جو انہوں نے کی نہیں.تو بہت سی جھوٹ کی وجوہات حمد کی تمنا ہے.پس اگر آپ یہ کہتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو وہاں ساتھ ہی یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ وہ ذات ہے جس کو حمد کی خاطر کسی جھوٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر سچی حمد جس کا تصور باندھا جاسکتا ہے، ہر قابل تعریف چیز جو اپنے درجہ کمال کو پہنچی ہے وہ اس ذات باری تعالیٰ میں موجود ہے تو جھوٹ کی جڑ ہی غائب ہوگئی.حمد کی تمنا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی جھوٹ کا کوئی تصور بھی نہیں باندھا جا سکتا کیونکہ یہ متضاد مضمون ہے اور انسان چونکہ حمد کا مالک نہیں ہوتا اور کامل حمد نہیں رکھتا اس لئے وہ اپنے نقائص کو دور کرنے کی خاطر فرضی خوبیاں اپنی بیان کرتا ہے یا پسند کرتا ہے کہ لوگ فرضی خوبیاں بیان کریں.یہ خوشامد میں، یہ اپنے نفس کی بڑائیاں، یہ تعلیاں، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جنہوں نے معاشرے میں زہر گھول رکھا ہے اور اب اس پر غور کر کے دیکھیں اس کو تفصیل سے خاندانی جھگڑوں اور روزمرہ کی معاشرتی خرابیوں پر چسپاں کر کے دیکھیں تو آپ تو آپ کو پتا لگے گا کہ محض تعریف کی خاطر ایسی ایسی جھوٹ بکو اس کی جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں پھر فتنے پیدا ہوتے ہیں اور ایسا شخص خود اپنا وقار بھی کھو دیتا ہے.بات کرتا ہے تو لوگ دوسری طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں بڑی عادت ہے اس کو شیخیاں بگھارنے کی ، تعلیاں کرتا ہے، اپنے بچوں میں عزت کھو دیتا ہے.چنانچہ ایک جگہ مجھے کسی نے بتایا کہ ایسا ہی کوئی شخص تھا بے چارہ محروم کہ اس کی عادت تھی غلط باتیں ، کہیں مارنے کی تو ایک جگہ اس نے خود مجلس لگائی اور کہا کہ بس یوں پھر میں نے یوں کیا تو اس کا بیٹا اسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا وہ ایک طرف منہ کر کے اشارے سے کہتا تھا کہ ماننانہ، سب گپ ہے.تو اولاد میں عزت باقی نہیں رہتی.تو جھوٹی عزت آدمی حاصل کر سکتا ہی نہیں.وہم ہے اور چند دن کے چرچے ہو سکتے
خطبات طاہر جلد 14 429 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء ہیں ہمیشہ کے لئے حق چھپ نہیں سکتا.تو بظاہر اللہ تعالیٰ کوحق نہیں فرمایا گیا مگر جو صفات کی داغ بیل رکھی گئی ہے اس میں حق داخل ہے.حمد کے نقطہ نگاہ سے تو اللہ تعالیٰ کوکسی جھوٹ کی ضرورت ممکن ہی نہیں ہے یعنی عقلی طور پر اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.دوسری ایک وجہ ہے حرص ، دنیا میں بہت سے جھوٹ حرص کی خاطر بولے جاتے ہیں.جتنے مقدمے بنتے ہیں یہ ہماری جائیداد ہے، اصل میں ہماری تھی یا فلاں نے ہم سے لے لی اور واپس نہیں کی یا جھوٹے مقدمے قرض کے بنا دیئے جاتے ہیں غرضیکہ دنیا میں جتنے جھگڑے قضائی چلتے ہیں یا عدالتی چلتے ہیں ان میں ایک بڑا حصہ ان مقدموں کا حرص کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھوٹ سے ہے.اب پاکستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں لیکن دوسری دنیا کی عدالتوں میں بھی چل رہا ہے صرف پاکستان تو خاص نہیں ، ہندوستان اس قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے، بنگلہ دیش میں یہ قصہ جاری ہے، مغربی دنیا میں بھی یہ قصے چلتے ہیں نسبتاً کم مگر موجود کہ حرص کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے.تو وہ وجود جس کا سب کچھ ہو، جو رَبِّ الْعَلَمینَ ہوجس کے اوپر دوسروں کی بنا ہو اور اسے دوسروں سے کچھ لینے کی ضرورت نہ وہ اس کو کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی کیونکہ وہ حرص کا پہلو اس کا غائب ہوگیا کیونکہ رب العلمین ہے.اسی طرح دیگر صفات پر غور کریں.قرآن کریم نصیحت کرتے ہوئے یہ بیان فرماتا ہے وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (البقره:189) کہ دیکھو تم اپنے اموال آپس میں باطل کے ساتھ نہ کھایا کرو.باطل کے کئی معنی ہیں لیکن بنیادی معنی جھوٹ ہی ہے.جھوٹ بول کے ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ یا جن باتوں میں خدا نے منع فرمایا ہے ان باتوں کو اختیار کر کے مال نہ کھاؤ یعنی حرام مال نہ کھاؤ.تو دونوں جگہ در اصل بنیادی معنی جھوٹ ہی کا ہے.جھوٹ کی خاطر جھوٹی چیز ، غلیظ چیز حاصل کرنا یہ حرص سے تعلق رکھتا ہے اور حرص پیدا ہوتی ہے اس کو جو غریب ہو اور اگر غریب نہیں بھی ہے تو کامل مالک نہیں ہے.زمین و آسمان ، کائنات سب اس کی نہیں ہے.کچھ کمی ہے تو اس کو لینے کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے.جو تمام جہانوں کا رب ہے، ان کا پیدا کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ، اس کو اس پہلو سے جھوٹ کی ضرورت ہی کوئی نہیں،
خطبات طاہر جلد 14 430 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء وہاں جھوٹ لگتا ہی نہیں، چسپاں ہی نہیں ہوسکتا.پھر جھوٹ کی ایک وجہ مواخذہ کا خوف ہے اور اکثر ہمارے معاشروں میں مشرقی ہو یا مغربی پکڑ کے ڈر سے جھوٹ بولا جاتا ہے.ایک بچے سے غلطی ہو یا ایک مجرم نے چوری کی ہو یا قتل کیا ہو کوئی بھی صورت ہو جہاں مواخذے کا خطرہ ہو وہاں جھوٹ بولا جائے گا.اگر مؤاخذے کا خطرہ نہیں ہوگا تو جھوٹ نہیں بولا جائے گا.اور اس کا حمد والے مضمون سے گہرا تعلق ہے اگر آپ ایک بات ایسی پوچھیں جس میں کہ خوشبو آتی ہے اگر کہو کہ کس نے لگایا ہے عطر، کس نے خوشبو والی بات یعنی کس کی وجہ سے خوشبو آئی ہے تو لوگ جھوٹ بول کے بھی کہہ دیں گے کہ ہماری وجہ سے آئی ہے لیکن اگر کہیں بد بو آئی ہے تو کوئی جھوٹ نہیں بولے گا کیونکہ ڈرتا ہے اور وہ بھی انکار کر دے گا یعنی جھوٹ بولے گا جس سے بدبو آئی ہے.تو یہ حمد اور برائی کا گہرا تعلق جھوٹ سے ہے.بعض صورتوں میں حمد کی خواہش جھوٹ پیدا کرتی ہے، بعض صورتوں میں برائی سے بچنے کا خیال جھوٹ پیدا کرتا ہے اور اس کا اگلا قدم مواخذہ ہے.جہاں سزاملنی ہو وہاں انسان جھوٹ نہیں بول سکتا یعنی ان معنوں میں کہ اس نے جرم نہ کیا ہو اور جھوٹ بول رہا ہو لیکن جھوٹ بولے گا تو مجرم بولے گا اور مؤاخذے سے ڈر کر وہ جھوٹ بولے گا کہ نہیں میں نے کیا ہی نہیں تھا کیونکہ اس کو پتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اس کے سر پر ایک سزا کی تلوارلٹکی ہوئی ہے.یہ جو مضمون ہے یہ انبیاء کی صداقت سے بڑا گہراتعلق رکھتا ہے.انبیاء جب ایک دعویٰ کرتے ہیں تو اس دعوے کے نتیجے میں ان کو بہت بری سوسائٹی کی طرف سے سزا ملتی ہے ، عزت پر حملہ کیا جاتا ہے، جان مال پر حملہ کیا جاتا ہے.وہ تمام اعلیٰ قدریں جو ان کو نصیب تھیں جن کا سوسائٹی اعتراف کرتی تھی ان قدروں سے انکار کر دیا جاتا ہے.اب ایسا شخص جو جھوٹ بولتا ہے یا اس نے اپنی تعریف کی خاطر جھوٹ بولا ہے یا کچھ کمانے کی خاطر ، حرص کی خاطر جھوٹ بولا ہے یا مواخذے کے ڈر سے جھوٹ بولا ہے.تو وہ کیسا انسان ہے جو پہلے تو اتنا معقول اور اتنا بلند مرتبہ انسان کہلاتا ہو کہ قوم میں اس پر امید سے نظریں پڑتی ہیں.جیسا کہ حضرت صالح کو کہا گیا کہ كُنتَ فِيْنَا مَرْجُوا ( عود :63) تو ہمارے اندر مَرْجُوا تھا.ہم تو تم سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے.بہر حال مَرْجُوا کا لفظ حضرت صالح" کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور ہر نبی کے متعلق یہی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 431 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی لوگ امید میں لگائے بیٹھے تھے جیسے حضرت صوفی احمد جان صاحب نے آپ کی ملاقات کے بعد یہ کہا کہ: ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے تو انسان تعریف کی خاطر جھوٹ بولتا ہے، اس ڈر سے جھوٹ بولتا ہے کہ سزا نہ مل جائے اور حرص سے جائداد حاصل کرنے کی خاطر جھوٹ بولتا ہے اگر ایسا دعویٰ کرے کہ جس میں عزت بھی جائے جائداد بھی جائے اور ناحق مارا جائے.جرم نہ کیا ہو اور پھر بھی سزا مل رہی ہو تو ایسا شخص پاگل ہی ہوگا اور اگر عقل والا ایسا ہو اس سے پہلے کہ اگر اس کی عقل کا شہرہ ہو تو ایسے شخص کو جھوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک معاند مولوی، پہلے کی بات ہے میرے سے گفتگو کرنے آیا، تو اس نے اپنی طرف سے یہ اکٹھے کئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ بد درجه دعاوی اور اس کو پتا نہیں تھا کہ بعینہ یہی اعتراض عیسائی حضرت محمد ﷺ پر بھی کرتے تھے.کہ پہلے ایک چھوٹا سا جھوٹ بولا.پھر دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا.پہلے کہا میں موسیٰ سے بھی افضل نہیں ہوں صرف اہل مکہ کو ام القری کو ڈرانے آیا ہوں بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں پہلے کہا کہ عشیرہ کو جو میرے قریب قرب وجوار میں میرے رشتے دار اور خونی اقرباء ہیں ان کو ڈرانے کے لئے آیا ہوں اور یہ وحی بنائی کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اپنے اقرباء کوڈرا.پھر اگر الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا (الانعام :93) کو ڈرا.پھر دعوئی بڑھایا اور یہ کہہ دیا کہ قُلْ يَاتِهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا (الاعراف: 159) اہل کتاب کو پہلے مخاطب پھر آگے یہ دعوی کر دیا.تو اپنی طرف سے انہوں نے یہ بنایا کہ جھوٹ کی مثال ہے اس طرح لوگ رفتہ رفتہ بڑے بڑے دعاوی کرتے رہتے ہیں.تو مولوی صاحب کی عالمی طور پر تو مذہب کی تاری پر بالٹر پچر پر نظر نہیں تھی.مگر کہیں سے یہ پڑھ لیا کہ مسیح موعود نے پہلے یہ دعوی کیا کہ میں مامور ہوں پھر مہدی، پھر مسیح، کرشن ہونے کا بھی کر دیا تو فہرست بنا کر آیا ہوا تھا کہ دیکھیں جی مرزا صاحب جھوٹے ،صاف پتا چل رہا ہے.میں نے مولوی صاحب سے پوچھا، میں نے کہا مجھے یہ ایک بات بتائیں کہ اگر یہاں ربوہ
خطبات طاہر جلد 14 432 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء میں آپ کو لے جاتا ہوں بازار میں اور اعلان ہوتا ہے کہ کسی نے کوئی چیز چرائی ہے اور جس نے چرائی ہے اس کو سو جوتے پڑیں گے.آپ جھوٹا دعوی کریں گے اس وقت کہ ہاں ہاں میں نے چرائی ہے.میں نے چرائی ہے.میں نے کہا چور بھی نہیں کرے گا کیونکہ مؤاخذہ کے ڈر سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جہاں کھلی کھلی سزامل رہی ہو معصوم کو اس کی کیا ضرورت ہے کہ اس سے اگلا بڑا دعویٰ کر بیٹھے ابھی کافی نہیں ہے میری اور بھی دشمنی کرو.تو پہلا ہضم نہ ہوا ہو اوپر سے ایک اور دعویٰ کر بیٹھے دوسرا ہضم نہ ہوا ہوا اور دعوی کر بیٹھے اور اس کی سزا بھی پوری نہ ملی ہو تو ایک اور دعویٰ کر بیٹھے.میں نے کہا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان کو آپ کی تکذیب کے نشان کے طور پر دیکھ رہے ہو.میں نے کہا جب آپ نے دعوی کیا مامور من اللہ کا تو اس وقت مسلمان آپ کے دشمن ہوئے ، مہدی کا دعوی کیا مسلمان دشمن ہوئے اور مسلمان خود انگریزوں کی ایک رعایا تھے لیکن جب خوب مسلمانوں کا قہر آپ پر برسا ہے تو آپ نے کہا اچھا یہ تو بڑے مزے کی بات ہے کیوں نہ اپنی سلطنت کے فرمانرواؤں کو بھی دشمن بنا لیا جائے اور دعویٰ کر دیا کہ تمہارا خدا کا بیٹا مر گیا ہے اور میں مسیح ہوں.یہ کس قسم کا جھوٹا ہے جو ایسی باتیں کر رہا ہے.پھر اس کو خیال آیا کہ او ہوا بھی تو ہندو ناراض نہیں ہوئے.بات تو تب بنے گی کہ ان کو بھی ناراض کیا جائے، کرشن ہونے کا دعویٰ کر دیا اور ہندوؤں کا غضب بھڑ کا اور لیکھر ام پیدا ہوا اور بڑے بڑے مقابلے ہوئے ، مرلی دھر سے کہیں مناظرہ ہو رہا ہے ایک شور پڑ گیا.تو قادیان کے گرد بہت سکھ تھے ، آپ نے فرمایا کہ ہندوؤں کا ہندوستان میں تو زور ہے مگر اردگرد تو سکھ ہی ہیں نا.کیوں نہ سکھوں کو ناراض کیا جائے دعوی کر دیا کہ حضرت بابا نا تک مسلمان تھے.میں نے کہا آپ ادنی سی عقل سے کام لیں کوئی شخص جس کو سزا مل رہی ہو سچ بولنے کی اگر وہ سچ نہیں تو جھوٹ بولنے کی سزا ہے تو جھوٹا آدمی تو سزا سے بچنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے.سزا حاصل کرنے کے لئے تو جھوٹ نہیں بولا کرتا.میں نے مثال دی.میں نے کہا آپ کو میں نے کہا ہے جرأت ہے تو کر کے دکھائیں یہ ناممکن ہے کہ ایک انسان ایسی چیز کا دعوی کرے جس کے نتیجے میں حمد نہ ہوتی ہو بلکہ گالیاں پڑتی ہوں اور سزا ملتی ہو.پاگل اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا.پاگلوں بیچاروں کے دعوے آپ نے دیکھے ہوں گے ، سنے ہوں گے گلیوں میں پھرتے رہتے
خطبات طاہر جلد 14 433 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء ہیں اور ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا.اس سے فرق ہی نہیں پڑتا.مگر ایک صاحب علم ، صاحب عقل، جس کا ماضی بے داغ ہو اور جو اپنی فراست کے لحاظ سے از خود قوم میں ابھر رہا ہو اس پر توقع کی نظریں پڑ رہی اس شخص سے یہ توقع ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ جھوٹ بولے کیونکہ قرآن کریم جو مثالیں دے رہا ہے ان سے پتا چلتا ہے یا حمد کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے.حمد تو انہیں ملی نہیں.یا سزا سے بچنے کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے.مگر جو کام کیا ہے اس کے نتیجے میں تو سزا ملی ہے.لالچ کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے ایسا دعوے دار تو اس وجہ سے اپنا سب کچھ کھو بیٹھتا ہے جو اس کا ہوتا ہے وہ بھی اس کو نہیں ملتا.پس جھوٹ کی وجوہات پر غور کریں تو سورۃ فاتحہ کے اوپر ان کے اطلاق سے معلوم ہوگا کہ سورۃ فاتحہ کی جو بنیادی صفات ہیں ان میں سے ہر ایک، ایک السحق خدا کی گواہی دے رہی ہے کیونکہ ہر صفت اس کو جھوٹ کی ضرورت سے مبرا قرار دے رہی ہے.پھر جھوٹ بولنے کی وجوہات میں علم کی کمی پر پردہ ڈالنے کے لئے جھوٹ بولا جاتا ہے.یہ جتنے بھی لوگ جلد بازی میں جواب دے دیتے ہیں نا کہ یہ کیا ہے؟ وہ کہتے ہاں ہاں یہ بات یوں ہے اور وجہ یہ ہے کہ اگر وہ نہ کہیں تو یوں لگے گا کہ ان کو پتا نہیں.بعض لوگ اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ ہماری لاعلمی ظاہر ہو جائے اس لئے جھوٹ بول دیتے ہیں اور یہ جھوٹ جو ہے یہ اکثر ان کی نظروں سے بھی چھپا رہتا ہے.وہ بالا رادہ جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے وہ اپنے اندازے کو سچ سمجھتے ہیں اور اس عادت کی وجہ سے بعض بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.حضرت مصلح موعود اس معاملے میں بے حد حساس تھے بلکہ الرجک تھے.اگر کوئی پوچھے کہ بتاؤ یہ کیا ہوا ہے وہاں اور کوئی شخص اپنی طرف سے کہہ دے تو کہتے تھے کس طرح تمہیں پتالگا، بتاؤ مجھے.جب تو نے دیکھا نہیں ، تو نے معلوم نہیں کیا تو کیوں انداز ابتارہے ہو.بعض صورتوں میں اندازہ بھی ایک جھوٹ ہوتا ہے.اگر کہا جائے اندازے لگاؤ تو وہ اور چیز ہے لیکن اگر حقیقت پوچھی جائے اور اندازہ پیش کر دیا جائے تو یہ جھوٹ ہے پس وہ لاعلمی کو چھپانے کی خاطر جھوٹ ہوتا ہے.قرآن کریم اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے اِنْ يَتَّبِعُوْنَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (الانعام: 117).اس آیت کا پہلا ٹکڑا ہے وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ “ وہ اکثر لوگ جو زمین میں ہیں ان کی
خطبات طاہر جلد 14 434 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء عادتیں ایسی ہیں کہ اگر تو ان کی پیروی شروع کر دے تو تمہیں وہ ضرور گمراہ کر دیں گی.یہاں کا فراور مومن کی بحث نہیں اُٹھائی.وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ اور یہ کیسی کچی بات ہے کہ انسانوں میں بھاری اکثریت اس عادت میں مبتلا ہوتی ہے کہ جس کا علم نہ ہو اس کی بجائے اندازہ پیش کر دیتی ہے.تو فرمایا إِنْ يَتَّبِعُوْنَ إِلَّا الظَّنَّ تو عادی ہے حقیقت دیکھ کر بیان کرنے کا اور حقیقت دیکھ کر قبول کرنے کا.جن لوگوں کا تعارف ہم کردار ہے ہیں.انسان بحیثیت مجموعی، ان کی اکثریت ایسی ہے.جوطن پر بات کرنے کی عادی ہے حقیقی علم سے نہیں ظن سے بات کر دی ہے وَ اِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (الانعام 117) اور انکل بیچو لگانے والے لوگ ہیں یعنی ڈھکو سلے لگانے والے، اٹکل پچو باتیں کرنے والے، ان کے پیچھے جو لگے گا وہ گمراہ ہو گا اس کو کبھی ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی.إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ يُضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ (الانعام: 118) اب علم کا جو فقدان ہے اس کے نتیجے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے اور اعلم فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کو اور قرآن کریم میں جوسورہ فاتحہ کی صفات ہیں وہ کامل علم کا تقاضا کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ رحمان تخلیق کے لئے بنیادی صفت ہے اور تخلیق علم کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.سب سے زیادہ علم خالق ہوا کرتا ہے اور دوسرے ربوبیت اگر برائی سے پاک ہے تو لازما علم کے ساتھ ہے ورنہ ہو ہی نہیں سکتا.ایک ماں جس کو یہ نہیں پتا میں نے اپنا بچہ کس طرح پالنا ہے وہ اپنی لاعلمی میں رب نہیں بن سکتی.اگر بنے گی تو کسی جگہ ٹھو کر کھائے گی اور اس کو کوئی نقصان پہنچا دے گی اور پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الحمد کی تعریف ہے اس ماں کے لئے ، جس نے لاعلمی میں اپنے بچے کو زہر دے دیا.تو الحمد کا مضمون ربوبیت کے ساتھ ملتا ہے اور رحمان تخلیق کا مضمون ہے اس میں دخل کرتا ہے تو قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ ذات کامل علم رکھنے والی ہے کیونکہ جس نے پیدا کیا وہی جانے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں دوسرے کو کیا پتا کہ کیا چیز ہے؟ اس لئے وہ لوگ جو چیزیں ایجاد کرتے ہیں جیسا علم ان کو ہوتا ہے ویسا کسی دوسرے انجینئر کو یا اس فن کے واقف کو ہو نہیں سکتا.وہ اس کی گہری کنہ سے واقف ہوتے ہیں ان کو پتا ہے میں نے فلاں ٹکڑا کیوں استعمال کیا تھا فلاں قسم کی
خطبات طاہر جلد 14 435 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء دھات کیوں لی تھی.تو سارا مضمون اس سے پہلے چھان بین کر کے وہ تسلی سے اس پر حاوی ہو چکا ہوتا ہے اس پر عبور حاصل کر چکا ہوتا ہے.پس علم کا فقدان بھی بعض دفعہ جھوٹ پر انسان کو مجبور کر دیتا ہے خواہ وہ عمد ہو یا غیر ارادی طور پر ہو اور سورۃ فاتحہ جس خدا کو پیش کرتی ہے وہ کامل علم والا ہے.ایسا کامل علم کہ اس سے بڑھ کر علم متصور نہیں ہوسکتا.پھر قوت تخلیق سے جو لوگ عاری ہوتے ہیں وہ دراصل تو وہی ہے کہ جو تعریف کا شوق ہے اسی کے نتیجے میں یہ بات بھی بنتی ہے مگر یہاں تعریف کے ساتھ حرص بھی شامل ہو جاتی ہے.دھوکہ دہی بھی شامل ہو جاتی ہے.وہ لوگ جو کچھ بنا نہیں سکتے حقیقی چیز بنا نہیں سکتے ، وہ جھوٹی چیزیں بناتے ہیں اور جتنی بھی مارکیٹ میں مصنوعات ملتی ہیں جو جھوٹی Immitation میں اصلی نہیں ہیں.یہ وہی مضمون ہے جو تماشا دکھانے والے تماشہ دکھاتے ہیں.جادوگر جادو دکھاتے ہیں اور رعب ڈالتے ہیں کہ ہم نے اس چیز کو یوں کر دیا اور عوام الناس کو دھوکا دیتے ہیں دراصل یہ تخلیق کی تمنا ہے، اللہ کی صفت خالقیت سے کچھ حصہ لینا چاہتے ہیں.جو ان کو نصیب نہیں ہوتا ایسی صورت میں پھر ان کو جھوٹ بنانا پڑتا ہے.قرآن کریم نے حضرت موسی اور ان کے ساحروں کے مقابلے کی مثال رکھ کر اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے.فَأَلْقَى مُوسَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَةٌ (الشعراء: 46) یہ نہیں فرمایا کہ موسیٰ کا سونٹا سانپوں کو نگل گیا.فرمایا کہ سانپ تو تھے ہی نہیں.ان کو کہاں یہ طاقت تھی کہ وہ سانپ بنا دیتے.انہوں نے جھوٹ بنایا تھا.سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ (الاعراف :117) انہوں نے لوگوں کی آنکھیں باندھی تھی.ان پر جادو کیا تھا.تو کیسا فصیح و بلیغ کلام ہے کہ فرماتا ہے کہ اس کے جھوٹ کو کھا گیا سونٹا یعنی اصلیت ظاہر ہوگئی وہ رسیوں کی رسیاں دکھائی دینے لگ گئیں.تو جو کھایا تھا وہ سانپ نہیں کھائے تھے.وہ جھوٹ کھایا تھا ان کا.یعنی جھوٹ کو نگل گیا.جھوٹ کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہی.حق آگیا اور باطل چلا گیا یہ مضمون ہے.تو جتنے بھی مداری، تماش بین یا مارکیٹ میں مصنوعی چیزیں بنا کے پیش کرنے والے ہیں وہ اس وجہ سے جھوٹ بولتے ہیں اور جو خالق کل ہے اس کو اس کی ضرورت کوئی نہیں.جو تخلیق پر کامل عبور رکھتا ہے اس کو ضرورت ہی کوئی نہیں.
خطبات طاہر جلد 14 436 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء پھر از راہ ظلم کئی دفعہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور ظلم کی وجہ، درحقیقت مالکیت کی کمی ہے.جو شخص مالک نہیں ہوگا اور ہر چیز کا مالک نہیں ہوگا.جہاں اس کی ملکیت سے باہر کوئی مالک ہوگا اس کے دل میں تمنا پیدا ہوگی کہ میں اس کی ملک کو بھی لے لوں.یہ حرص ہے ظاہر ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے لیکن اس مضمون کا ایک تعلق ملکیت سے بھی ہے، بادشاہت سے بھی ہے ایک تو وہ لوگ ہیں جو بادشاہ نہیں ہوتے اور بادشاہ نہ ہونے کی وجہ سے جھوٹ بول کر دوسرے کا مال یہ کہہ کر لیتے ہیں.یہ ہمارا تھا مگر لینے کا اختیار ان کو نہیں ہوتا.لینے کا اور دینے کا اختیار ایک حکومت کو ہوتا ہے.بادشاہت کسی اور کی ہوتی ہے.جو خود بادشاہ ہو وہ اگر لے گا تو ظلم کی راہ سے لے گا اور خدا تعالیٰ جو مالک کل ہے، جس کی ملکیت کا دائرہ ہر چیز پر حاوی ہے اور بادشاہ بھی وہی ہے اس کو کسی جھوٹ کی ضرورت نہیں ہے اور بعض دفعہ ایسی غلطیاں، خفیف سی غلطیاں ایک نیت پر اثر انداز ہو جاتی ہیں اور بڑے بڑے بزرگوں کی نیت پر بھی بعض دفعہ ایسی چیزوں کا ہلکا سا سایہ پڑ جاتا ہے.حضرت داؤد کی مثال قرآن کریم پیش فرماتا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ رات کے وقت وہ شخص چھلانگ لگا کر ان کے قلعے میں، ان کے محل میں داخل ہو گئے اور کہا کہ ڈرو نہیں اے داؤد، یہ نہ سمجھ کہ ہم چور اچکے ہیں یا ڈاکو ہیں.کسی شور کی ضرورت نہیں ہم تو ایک مقدمہ پیش کرنے آئے ہیں اور مقدمہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک بھیڑ ہے صرف اور یہ جو میرا بھائی ہے یا ساتھی اس کے پاس ننانوے ہیں.یہ کہتا کہ اپنی ایک مجھے دے دوتا کہ میری سوپوری ہو جائیں اور میں کہتا ہوں کہ میرے پاس ایک ہی ہے میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہے گا.تو بتا کہ اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہے.تو حضرت داؤد نے فیصلہ تو دیا لیکن ساتھ سجدہ ریز ہو گئے یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ نے مجھے آزمایا ہے.آزمایا ہے اور متنبہ فرمایا ہے کہ کہیں تم جس کی ملکیت بھی اور جس کی سلطنت بھی توسیع پذیر ہے، پھیلتی چلی جارہی ہے اس خیال سے کہ ہمسایہ ملکوں میں سے کوئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں انہوں نے الگ رہ کر کیا کرنا ہے ان کو بھی ساتھ شامل کرو، زیادتی نہ کرنا کسی پر.بعض مفسرین نے تو اس کا بالکل لغو، بیہودہ ترجمہ کیا ہوا ہے کہ ننانوے بیویاں تھیں تو کسی اور کی سود میں لینا چاہتے تھے.اگر وہ بادشاہ تھے تو ساری سلطنت کی حسین ترین عورتیں ان کے قبضے میں تھیں اس زمانے میں بادشاہت تو مطلق العنان ہوا کرتی تھی.یونہی فرضی قصے بنائے ہوئے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 437 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء بائیل سے لے کر اور آنکھیں بند کر کے قبول کر لئے.دراصل حضرت داؤد کو یہ نصیحت فرمائی گئی تھی کہ تجھے خدا نے عظیم سلطنت عطا کی ہے لیکن بڑی سلطنتوں کی ہمسائیگی میں چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ہوا کرتے ہیں اور بسا اوقات ایک انسان کو، ایک بادشاہ کو یہ بات دھوکے میں مبتلا کر دیتی ہے کہ یہ بڑے کا حصہ بن جائیں گے تو اچھے رہیں گے اور ہماری طاقت بڑھے گی اور ان کا بھی کیا نقصان ہے ایک بڑی سلطنت کا حصہ بن جائیں گے تو اس قسم کے نفس کے دھو کے بعض دفعہ ظلم پر مجبور کر دیا کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کیونکہ مالک ہے اور مالک کل ہے اس لئے اس کو کسی اور چیز کو اپنانے کی ضرورت نہیں نہ جھوٹ بول کے، نہ ظلم کی راہ سے ، ضرورت ہی کوئی نہیں اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حق کی صفت کو ملک کی صفت کے ساتھ باندھا ہے اور مالک کی صفت سے نہیں باندھا.یہ آگے جا کر جب میں آیات کو تفصیلی طور پر اس مضمون میں بعض اور مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا تو یہ ایک دلچسپ چیز سامنے آئے گی کہ خدا تعالیٰ کے حق ہونے کی صفت کو مالک کی بجائے ملک سے باندھا گیا ہے اور اس کی وجہ وہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.ملک قانون کا حکمران ہوتا ہے اور نا انصافی کا تعلق قانون سے ہے مالکیت سے نہیں ہے.اگر کوئی شخص مالک ہے.تو کسی ایک کو دے دے اور کسی کو نہ دے تو اس کو نا انصافی نہیں کہہ سکتے.جس کو مرضی دے دیں آپ، جس پر دل آجائے اس کو آپ عطا کر دیں.آپ مالک ہیں آپ کی چیز ہے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا اوہو! آپ نے بڑی نا انصافی کی ہے سارا شہر بستا ہے اس میں سے ایک کو دے دیا اور کروڑ باقی رہ گئے ان کو کچھ نہیں دیا.تو یہ جہالت ہے اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں.اصل میں صفت حق کا یا انصاف کا مالکیت سے تعلق نہیں ہے ملکیت سے تعلق ہے.تو قرآن کریم نے جہاں جہاں اس تعلق کو باندھا ہے وہاں ملک کا لفظ استعمال فرمایا ہے، مالک کا نہیں لیکن اس کے با وجود یہ سورہ فاتحہ میں داخل ہے کیونکہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا مضمون ملوکیت پر حاوی ہے اور ملکیت پر بھی حاوی ہے.فیصلہ کرنے والا بھی وہی ہے ، قضا بھی اسی کے پاس ہے اور مالک بھی وہی ہے.تو حق کا لفظ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یا حق کا اسم سورہ فاتحہ میں ہر اس اسم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو بیان ہوا ہے اور اس سے باہر کچھ نہیں ہے.پس اس بات کا کامل یقین رکھیں کہ صفات باری تعالیٰ کی ماں سورۃ فاتحہ ہے یعنی وہ صفات ہیں جو سورہ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں اور جس طرح کتاب کی
خطبات طاہر جلد 14 438 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء ماں سورہ فاتحہ ہے اس طرح اسماء باری تعالیٰ کو سمجھنے کے لئے بھی سورہ فاتحہ کی طرف رجوع کرنا چاہیئے اور اس کے تعلق سے یہ مضمون زیادہ کھل کر سامنے آتا ہے.اب میں ان آیات کی بات کرتا ہوں جن میں اس مضمون کو مختلف رنگ میں پھیر کر بیان فرمایا ہے.اب تک تو میں یہ بات پیش کر رہا تھا.جس میں جھوٹ کی وجوہات بیان ہوئی ہیں اور ان کی روشنی میں ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت حق ، اس کا حق ہونا سورہ فاتحہ کی جوام الصفات ہیں ان سے گہرا قطعی تعلق رکھتا ہے اور سو فیصد یقین کے ساتھ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ان صفات کا مالک جھوٹا ہو ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ اس کا جھوٹ سے کوئی تعلق ہو اور چونکہ جھوٹ کے ہر پہلو کی نفی ہوگئی ہے اس لئے اسے ”الحق کہا جا سکتا ہے.کامل سچا جس کا جھوٹ کے کسی پہلو سے بھی دور سے کوئی تعلق نہیں ہے.اب اللہ تعالیٰ نے جو حق صفت کو استعمال فرمایا ہے.جن جن موقعوں پر جہاں جہاں ان پر اگر آپ غور کریں تو آپ کو اپنے کردار کے لئے اس میں بہت سی روشنی ملے گی اور حق ذات کو سمجھ کر وہ کیا چاہتا ہے اور اس سے کیا کیا فوائد وابستہ ہیں.ایک بات تو بہر حال قطعی طور پر ماننی ہوگی کہ اگر آپ حق کی ہر صفت سے عاری ہیں تو حق سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا.تعلق کسی قدر اشتراک سے ہوا کرتا ہے.اگر کوئی اشتراک نہ ہو تو تعلق ٹوٹ جاتے ہیں اس لئے آخری صورت میں اگر اور کوئی تعلق نہ ملے تو انسان انسان کا تعلق ہی ہے.اگر جنگل میں دو تین آدمی رہ جائیں تو ان کا شیروں سے تو تعلق نہیں آپس میں تعلق ہوگا لیکن شیر اگر رہ جائیں انسان نہ ہوں اور کوئی آفت آپڑے تو شیروں کا آپس میں تعلق ہوگا.ایک بہت بڑے آرٹسٹ نے ایک طوفان کی تصویر بنائی ہے اس میں طوفان میں گھرے ہوئے گھوڑے ایک دوسرے سے گردن جوڑے کھڑے ہیں جو عام طور پر بڑے شدید اور طاقتور اور تیز مزاج کے گھوڑے نظر آرہے ہیں.جو عام حالات میں ایک دوسرے کو مارتے ،ایک دوسرے سے رقابت کرتے ، گھوڑیوں کی خاطر ان کی لڑائیاں ہوتیں لیکن اس طرح وہ جڑے کھڑے ہیں آپس میں کہ جیسے ان سے بڑھ کے محبت ہو ہی نہیں سکتی.تو Common جو مشترکہ خطرات ہیں ان کے نتیجے میں کوئی قدر مشترک ہوتی ہے جو انسان کو یا ایک جاندار کو دوسرے جاندار سے جوڑتی ہے.اگر صفات باری تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 14 439 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء کے ہر پہلو سے انسان اپنا تعلق توڑلے تو اس صفت کے ہر فیض سے محروم ہو جاتا ہے.اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حق کیا ہے اور قرآن کریم حق کے متعلق کے کیا کیا فوائد بیان کرتا ہے.بعض ایسے فوائد بیان کرتا ہے.بعض ایسے فوائد ہیں جو آپ کو فوری طور پر سمجھ آسکتے ہیں.بعض ایسے ہیں جو نہیں سمجھ آتے کھول کر بیان کرنے پڑتے ہیں یا غور کریں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی.چند آیات جو میں نے نمونے کے لئے آج کے لئے چنی ہیں ان میں سے شاید ایک دو پر ہی گفتگو ہو سکے وہ یہ ہیں.سورہ انعام کی آیت باسٹھ اور تریسٹھ.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ثُمَّ ر د و ا إلى الله مولهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَسِبِينَ (الانعام : 62-63) وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے اور قاہر کا مضمون اگر چہ اردو میں جب لفظ قہر کہتے ہیں تو ذہن میں منفی مضمون ابھرتا ہے مگر قاہر اس ذات کو کہتے ہیں جو کامل طور پر اختیار رکھتی ہے اور اتنا کامل اختیار ہے کہ بے خوف ہو کر اگر وہ سزا دینا چاہے تو تب بھی دے سکتا ہے جو چاہے کر لے کیونکہ مکمل قبضہ ہو اس وقت قاهر ہوتا ہے اگر مکمل قبضہ نہ ہوں ہو تو قاھر مکمل نہیں ہوا کرتا ہے.انسانی Politics میں بھی یہ بات بار بار سامنے آتی ہے.جہاں کسی اور ذات کا خوف ہو وہاں قہر پورانہیں ٹوٹتا.اب بڑی طاقتیں چھوٹی طاقتوں پر کچھ نہ کچھ رحم بظاہر کیا کرتی تھیں اس وجہ سے کہ ایک دوسرے سے خوف تھا جب وہ خوف ٹوٹے تو قہر ظلم میں تبدیل ہو گیا حالانکہ موجود تھا مگر دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ قاہر منفی صورت اس وقت اختیار کرتا ہے جب کسی اور ذات کا خوف نہ ہو.تو اللہ تعالیٰ کے تعلق میں جب لفظ قاہر آتا ہے تو مراد یہ ہے کہ وہ چاہے تو ہر ایک کو ملیا میٹ کر دے اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں لیکن چونکہ حمید ہے اس لئے اس طاقت کے باوجود وہ لوگوں کو مٹا تا نہیں ہے اور بعض دفعہ لوگ مٹانے کا استحقاق بھی حاصل کر لیتے ہیں یعنی اس کے پوری طرح سزاوار بن جاتے
خطبات طاہر جلد 14 440 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء ہیں اور پھر بھی اللہ نہیں مٹاتا ہے.فرماتا ہے اگر اللہ چاہتا تو تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں ہی نہیں بلکہ سارے جانداروں کو مٹا دیتا، ایسے ایسے بڑے تم گناہ کرتے ہو.چونکہ حمید ہے غیر معمولی حوصلہ ہے غیر معمولی حلم ہے اس لئے قاہر ہونے کے باوجود اس کا منفی اثر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ محض مثبت اثر ظاہر ہوتا ہے اور قاہر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کسی انسان کو مٹانے کی استطاعت نہ ہو کسی چیز کو مٹانے اور نقصان پہنچانے کی استطاعت نہ ہواگر استطاعت ہی نہیں تو اس کو قاہر نہیں کہہ سکتے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِہ اپنے بندوں پر وہی ہے جو قاہر ہے.کامل اختیار رکھتا ہے اور اگر سزا دینا چاہے اور اگر مٹانا چاہے تو اس کی تقدیر جوموت وارد کرتی ہے، اس کی تقدیر جو زندگی سے موت کی طرف لے جاتی ہے وہ تو جاری ہے ہر قدم پر وہ مٹ سکتا ہے.اس وجہ سے وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً اس نے تمہاری حفاظت کی خاطر انتظام کر رکھا ہے کہ میری تقدیر کے ہاتھوں از خود نہ مٹ جاؤ اور یہی وہ مضمون ہے جو قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم گناہ ایسے ایسے کما رہے ہو، ایسے ایسے کما چکے ہو کہ اگر تمہارے ساتھ جانوروں کی بھی صف لپیٹ دی جاتی تو جائز ہوتا.اس کے باوجود کوئی چیز اس کو روکے ہوئے ہے اور قرآن کریم اس مضمون کو دوسری جگہ یوں بیان فرماتا ہے.لَهُ مُعَقِبَتْ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ الله (الرعد: 12) ہر انسان کے لئے جو ظاہر میں چلتا ہے یا چھپ کے چلتا ہے، رات کو نکلتا ہے یا دن کو نکلتا ہے خدا تعالیٰ نے حفاظت کے لئے آگے اور پیچھے نگران مقرر کر رکھے ہیں جو اس کو بچارہے ہیں.کس چیز سے؟ مِنْ أَمْرِ اللہ اللہ کے امر سے بچار ہے ہیں.عام طور پر جو تر جمہ کرنے والے ہیں اس ڈر سے کہ اوہو یہ کیسے مطلب ہو سکتا ہے کہ اللہ کے امر سے کوئی بچائے وہ اس کا ترجمہ کر دیتے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کو بچایا جارہا ہے حالانکہ عن امر اللہ نہیں ہے مِنْ اَمرِ الله ہے اور مِنْ کا محاورہ میں نے ایک دفعہ پہلے بھی قرآن کریم سے نکال کے دکھایا تھا.جہاں جہاں بھی آیا ہے وہاں اس امر سے حفاظت کا مضمون ہے،اس کی وجہ سے نہیں.پس یہاں کیا کیا مضمون ہے.دراصل تقدیر الہی ہی ہے جو زندگی بخشتی ہے اور تقدیر الہی ہی ہے جو موت بخشتی ہے.کسی کو تو مرنے کا بھی اختیار نہیں اگر تقدیر الہی نہ ہو تو.تو اگر خدا کی تقدیر سے
خطبات طاہر جلد 14 441 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء کوئی بچتا ہے تو خدا کی تقدیر کی وجہ سے بچتا ہے.ایک تقدیر زندگی کی حفاظت کر رہی ہے.ایک تقدیر موت کی طرف بلا رہی ہے تو فرماتا ہے کہ ہماری تقدیر جو تمہیں ایک خاص مدت تک زندہ رکھنے کا فیصلہ کئے ہوئے ہے، وہ تمہیں ہماری دوسری تقدیر سے بچارہی ہے ورنہ اللہ قاہر کامل ہے اس کا اختیار اتنا مکمل ہے سزادینے کا بھی اور مٹانے کا بھی کہ اگر خدا ہی کی تقدیر تمہیں خدا کی دوسری تقدیر سے نہ بچاتی تو تمہارا کچھ بھی وجود باقی نہ رہتا.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے حَتَّى إِذَا جَاءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ (الانعام: 2 6) اس مضمون کو کھول دیا ہے.اس کی تائید میں قرآن خود بیان فرما رہا ہے.کہتا ہے ہاں اس وقت تک بچاتی ہے جب تک خدا کی تقدیر موت کی تقدیر نہ آجائے.جب موت کی تقدیر آتی ہے تو پھر اللہ بھیجتا ہے ان لوگوں کو ان فرشتوں کو جو موت کا پیغام لے کر آتے ہیں اور وہ کسی چیز میں زیادتی نہیں کرتے ، کچھ اضافہ نہیں کرتے کسی چیز میں، جتنا خدا کہتا ہے اتنا ہی کرتے ہیں.ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللهِ مَوْلَهُمُ الْحَقِّ اب یہاں حق کے لفظ کا استعمال ہے جو میں بیان کر رہا تھا.پھر وہ تمام تر اس مولیٰ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو حق ہے لَهُ الْحُكْمُ اور حکم بھی اسی کا ہے وَهُوَ اَسْرَعُ الْحَسِبِيْنَ اور حساب میں بہت تیز ہے.اب مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ سے جو حق کا تعلق ہے یہ جوڑ کر ہمیں اپنے اعمال کی نگرانی کا حکم دیا گیا ہے کہ تم اس دنیا میں اگر بچتے ہو اپنی سزاؤں سے تو یاد رکھو قاہر کی زد سے تم بچ سکتے ہی نہیں تھے.یہ محض اس کا احسان ہے کہ اس کی دوسری تقدیر جاری ہوتی ہے اس کی ایک تقدیر سے بچانے کیلئے لیکن یہ سلسلہ موت تک صرف چلے گا.جب موت آئے گی تو خدا کے بھیجے ہوؤں کی وجہ سے آئے گی.پھر تم مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے حضور پیش ہوگے.یہاں مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کہے بغیر اس کے مضمون کو بیان فرمایا گیا مولاهم الحق، مُلِكِ يَوْمِ الدِینِ وہ ہے جو حق سے فیصلہ کرے گا.قرآن کریم اس مضمون کو خوب کھول رہا ہے.سچا ہے اور سچائی سے فیصلہ کرے گا کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور جن فرشتوں کو بھیجا تھا ان فرشتوں کی صفات بتارہی ہیں کہ جس خدا کے حضور جارہے ہیں اس کی طرف سے زیادتی ہو ہی نہیں سکتی توَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ایسے فرشتے بھیجتے ہیں جو اس موت کے وقت بھی ان پر کوئی زیادتی نہیں کرتے.جو حق ہے اس سے وہ
خطبات طاہر جلد 14 442 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء آگے نہیں بڑھتے تو جو بھیجنے والا بھیجتا ایسے ہے جو زیادتی نہیں کر سکتے اس سے زیادتی کیسے متصور ہوسکتی ہے.تو وہ کامل انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گالَهُ الْحُكْمُ حکم اس کا ہے فیصلہ اسی کا چلے گا.وَهُوَ اَسْرَعُ الْحَسِبِيْنَ اور حساب میں بہت تیز ہے.مہلت زندگی تک ہے زندگی کے بعد پھر اس کو حساب میں دیر کوئی نہیں لگے گی.پھر وہ کامل قدرتیں رکھنے والا خدا ہے، وہ قاہر ہے.وہ قاہر کے طور پر بھی ظاہر ہوگا، وہ کامل حق کے طور پر بھی ظاہر ہوگا اور مولاهم الحق میں یہ بیان فرمایا کہ اگر تم نے بچنا ہے تو حق کو مولیٰ بناؤ.مولیٰ کا مطلب ہوتا ہے جو والی ہو، جو بچانے والا ہو ، جو تحفظ دینے والا ہو.تو فرمایا حق مولیٰ کی طرف جاؤ گے.اگر تم نے اس دنیا میں حق کو اپنانہ بنایا اور حق سے تعلق نہ باندھا تو اس دنیا میں پھر وہ تمہارا مولیٰ نہیں بنے گا.اس لئے اگر بچنا ہے تو حق کو مولی بناؤ گے تو بچو گے ورنہ نہیں بچ سکتے.جن لوگوں نے جھوٹ کو مولا بنایا ہو، دنیا میں ہر مشکل کے وقت جھوٹ کی پناہ لیتے ہوں ، ہر حرص کے وقت جھوٹ کی پناہ لیتے ہوں، ہر حمد کی تمنا میں جھوٹ کی پناہ لیتے ہوں، ہر مؤاخذے سے بچنے کے لئے جھوٹ کی پناہ لیتے ہوں، جن کا اندر باہر ساری زندگی کا نظام جھوٹ پر پل رہا ہو وہ یہ کہیں کہ قیامت کے دن ہمیں حق پناہ دے دے گا تو یہ جھوٹ ہے، یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور قرآن کریم اس کی مثال بھی پیش کرتا ہے.تو بے وقوف ایسے بھی جھوٹے ہوں گے جو قیامت کے دن بھی خدا کی پناہ میں آنے کی بجائے جھوٹ کی پناہ میں بھی جانے کی کوشش کریں گے لیکن چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے انشاء اللہ یہ بقیہ مضمون میں اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.اتنا کہنا بہت کافی ہے کہ حق سے تعلق رکھے بغیر نہ اس دنیا میں کوئی کامیابی ہوسکتی ہے نہ اُس دنیا میں کامیابی ہوسکتی ہے.لازماً ہمیں کچی جماعت کے طور پر ابھرنا ہوگا اور سچائی کو جب تک ہم ہر احمدی کے اندر اس طرح راسخ نہ کر دیں کہ اس کی فطرت ثانیہ بن جائے یا فطرت اولیٰ کی طرف وہ لوٹ آئے کیونکہ فطرت اولی حق ہی تھی.یہ کہنا غلط ہے کہ فطرت ثانیہ بن جائے یوں کہنا بہتر ہے کہ یہاں تک کہ وہ اپنی فطرت اولی ، اول فطرت کی طرف لوٹ آئے اس وقت تک ہم حقیقت میں نہ اس دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں نہ اس دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف سے فوز عظیم عطا فرمائے.آمین اب میں اس خطبے کے اختتام سے پہلے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ایک بہت ہی
خطبات طاہر جلد 14 443 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء پیارے اور مخلص فدائی واقف زندگی چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ وفات پاگئے ہیں اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ، دل موہ لینے والی صفات تھیں اور سب سے جو زیادہ دلکش صفت تھی وہ سچائی تھی.بالکل سچے انسان، صاف کھرے کوئی جھوٹ ، کوئی ٹیڑھے پن کی رگ نہیں تھی اس شخص میں.تو عمر تر اسی سال تھی ، ایک لمبے عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے مگر محض اعجازی طور پر زندہ تھے اور ڈاکٹروں کو بھی کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے.بہت پرانی بات ہے جب میں وقف جدید میں ہوا کرتا تھا تو ایک دفعہ احمد نگر سے واپس آیا تو مجھے پیغام ملا کہ باجوہ صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ سوئٹزرلینڈ سے آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے پیغام دیا ہے کہ ضرور ہمیں ملیں.چنانچہ میں اسی وقت لنگر خانے چلا گیا.وہاں ایک کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے.میں نے کہا کس طرح تشریف لائے ہیں آپ دونوں اچانک.انہوں نے بڑے تحمل سے کوئی خوف بھی نہیں تھا کہ کس طرح آنا تھا، ہم تو مرنے کے لئے آئے ہیں یہاں.میں نے کہا مرنے کے لئے کیا مطلب.انہوں نے کہا کہ تہانوں پستہ ای نئیں کہ ڈاکٹر نے کہا کہ چھ مہینے اندر مر جاؤ گے.کہا دونوں ہی مرجاؤ گے اور کہتے ہیں ہم نے پنجابی میں بات کر رہے تھے اردو اسی کی یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے تو ہمیں کہہ دیا ہے کہ تم مرجاؤ گے تو ہم نے کہا کہ وہاں جو مریں گے اور لاشیں اٹھوا کے یہاں لائیں گے تو کیوں نہ یہیں مریں آکے تو چھ مہینے کے لئے ریز رو کرالیا ہے لنگر خانے میں کمرہ اور اپنی طرف سے مرنے کے لئے آئے ہوئے تھے.اب میں نے بتایا ناں کہ موت بھی اپنے اختیار میں نہیں ہے.اللہ کاحکم نہیں تھا انتظار کر کے واپس چلے گئے اور اس کے بعد سالہا سال تک بار ہا خطرات ہوئے اور اس طرح بیچ میں سے نکلے ہیں کہ ڈاکٹر حیران رہ گئے ہیں بالکل اور جب میں جایا کرتا تھا تو بڑی دور بھی سفر کر کے استقبال کے لئے آتے تھے اور تیز قدموں سے چلتے تھے.حیرت ہوتی تھی کہ خدا نے دیکھیں کیسے ان کو اعجازی طور پر شفا بھی عطا فرمائی اور خدمت دین کی ہمت آخر وقت تک رکھی ہے.تو ایک تو ان کا جنازہ ہے اور ان کے ساتھ ہی کچھ اور جنازے ہوں گے.یہ چار سال تک انگلستان کی مسجد کے امام بھی رہے ہیں.بہت ہی ان کے کوائف درج ہیں مگر مختصر جو میں نے بتانا تھا وہی کافی ہے.ایک سچا مخلص ، فدائی انسان تھا.زندگی میں بھی زندگی بھر اللہ کی رحمتوں کا نشان بنا رہا.آخرت میں بھی ہمیں امید ہے بھاری اللہ تعالیٰ سے کہ رحمت ہی کا مظہر
خطبات طاہر جلد 14 بنائے رکھے گا.444 خطبہ جمعہ 16 / جون 1995ء چوہدری ناظر علی خان صاحب والد محترم خلیل احمد صاحب مبشر (امیر سیرالیون ) بڑی قربانی کر رہے ہیں، بہت عمدگی سے امارت کے فرائض سرانجام دیا ہے.ان کے والد چوہدری نادر علی خان صاحب کی ہی خوبیاں ہیں جو دراصل اس بچے کو ایسی سعادت ملی ہیں.بہت سادہ،صاف طبیعت انسان، بے حد مخلص اور فدائی انسان کوئی پیچ نہیں تھا اور نور فراست تقویٰ کی وجہ سے تھا سارا.مولوی صالح محمد صاحب ہمارے سلسلہ کے پرانے واقف زندگی اور خدمت کرنے والے انگلستان میں بھی کچھ عرصہ رہے ہیں اور غلام نبی صاحب گل کار جن کو کشمیر کی تاریخ سے ایک انمٹ تعلق ہے اور جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی.حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ایک عشق کا تعلق تھا بڑا گہرا، ان کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں.بشری بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی مظفر احمد صاحب آف منڈی بہاؤالدین.شریفہ بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر کریم اللہ صاحب ضلع بہاولنگر.مکرم مشتاق احمد صاحب (حبیب اللہ خان صاحب پروفیسر کے داماد تھے ) مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ بنت مرزا عبد الغنی صاحب سابق محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان مکرم والد صاحب صادق محمد طاہر آف خوشاب، یہ صادق محمد طاہر بھی اللہ کے فضل سے بڑے فدائی احمدی ہیں یہاں وقف کر کے بھی آئے ہوئے تھے اور اچھے سلسلے سے محبت کر نیوالے انسان ہیں.ام الکرامہ یہاں کی آپ لجنہ کی خاتون تھیں بہت نیک، کینسر کی وجہ سے وفات ہوئی، محمد انور صاحب نام تھا ان کے میاں کا اور راشدہ پروین صاحبہ ہیں اہلیہ مجید احمد خان صاحب ربوہ.عزیز احمد صاحب یہ ہمارے حیدرآباد کے مخلص فدائی خاندان سیٹھ محمد اعظم صاحب سیٹھ معین الدین صاحب وغیرہ ان سے ان کا تعلق تھا اور یہ بھی بڑی خوبیوں کے مالک، مخلص فدائی انسان تو ان سب کی نماز جنازہ انشاء اللہ جمعہ کے معابعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد 14 445 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء الحق سے تعلق جوڑلیں گے تو زَهَقَ الْبَاطِلُ کی پیشگوئی پوری ہوگی.انبیاء کی کامیابی کا راز الحق سے تعلق میں ہے.( خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جون 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل:82 ) پھر فرمایا:.آج کے مضمون سے پہلے میں دو ممالک کے جلسہ سالانہ سے متعلق اعلان کر چکا ہوں.اول جماعت احمدیہ USA کی طرف سے اطلاع ملی تھی کہ ان کا جلسہ سالانہ 23 جون بروز جمعۃ المبارک یعنی آج شروع ہو رہا ہے.تین دن تک جاری رہے گا.دوسرا جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ ان کا جلسہ سالانہ بھی 23 جون سے شروع ہو کر تین دن تک جاری رہے گا ان دونوں ممالک کے جلسہ سالانہ میں شریک تمام حاضرین کو خواہ وہ جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ان کو میں آپ سب کی طرف سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کہتا ہوں اور اس مبارک موقع پر ان کو شمولیت کی سعادت پر مبارک باد دیتا ہوں.وہ تمام جلسے جو خدا کی خاطر منعقد ہوں اور کوئی غرض نہ ہو ان میں شمولیت بھی ایک بڑی
خطبات طاہر جلد 14 446 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء سعادت ہوا کرتی ہے اور صرف ان کی شمولیت نہیں جو نیکی کی غرض سے آتے ہیں.ایسے بابرکت لوگ جو اللہ کے ذکر کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں ان کے ساتھ مسافر بھی اگر آ بیٹھے تو اس کو برکت مل جاتی ہے.پس یہ جو مضمون ہے یہ میرے نفس کا بنایا ہوا نہیں.حضرت اقدس محمد اللہ کی طرف سے خوشخبری ہے کہ اللہ کے ذکر کے لئے اکٹھے ہونے والوں کے پاس بیٹھنے والے خواہ وہ اس نیت سے نہ بھی بیٹھے ہوں وہ بھی برکتوں سے حصہ پا جاتے ہیں.پس اللہ ان سب کے لئے جو ان جلسوں میں شمولیت فرما رہے ہیں.یہ شمولیت دین و دنیا ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.جہاں تک ان کے نام پیغام کا تعلق ہے وہ پیغام میں اس خطبے کے مضمون ہی میں دوں گا جو پچھلے خطبات کی ایک کڑی ہے اور یہ سلسلہ جو چل رہا ہے یہ صفات باری تعالیٰ یا اسماء الہی کا سلسلہ ہے.آج میں گزشتہ جمعہ کے مضمون ہی کو آگے بڑھا رہا ہوں.یعنی حق ذات سے متعلق میں مزید کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.الحق خدا کا نام ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا سورہ فاتحہ کی تمام صفات سے سیہ نام تعلق رکھتا ہے اور ان سب کے ملنے کے اجتماعی اثر سے کامل حق کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے.وہ ذات جوان تمام صفات حسنہ سے مزین ہو جو حد سے شروع ہو کر مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک بیان ہوئی ہیں.ان کا لازمی اور قطعی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ذات حق ہے حق کے سوا ہو ہی نہیں سکتی.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے یہ تو سمجھ آئی مگر ہمیں کیسے فائدہ پہنچے گا اور ہم حق سے تعلق جوڑ کر کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور کی ذ مہ داریاں ہیں ہم پر جو ہمیں ادا کرنی ہوں گی.جس کے نتیجے میں ہم حق کا فیض پاسکتے ہیں.اس سلسلے میں دو حصوں میں میں نے اپنے مضمون کو تقسیم کیا ہے.ایک وہ جہاں حق کا تعلق غیروں سے ہوتا ہے یعنی ان معنوں میں کہ وہ لوگ جو حق کے بندے بن جاتے ہیں.ان کو غیروں کے مقابل پر کیا کیا فتوحات نصیب ہوتی ہیں.اس کا ایک تعلق ہے جس کو ہم دعوت الی اللہ کہتے ہیں.اس مضمون سے تعلق ہے اور دوسرا تربیت سے تعلق ہے کہ حق ذات سے تعلق جوڑا جائے تو انسان کے اندر کیا کیا پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں اور ان کے نتیجے میں اس کے اندر ایک اندرونی انقلاب کی بر پا ہوتا ہے.تو پہلے میں دعوت الی اللہ کے ذکر کو لیتا ہوں اور چونکہ یہ دونوں ممالک جن کے جلسوں کا آج اعلان ہوا ہے دعوت الی اللہ کے لحاظ سے ابھی بہت حد تک پیچھے ہیں اور اہمیت کے لحاظ سے بہت ہی اہم ممالک ہیں، دنیا کی تقدیر پر اثر انداز ہونے والے ممالک ہیں امریکہ کا تعلق تو آج کل
خطبات طاہر جلد 14 447 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء سب دنیا سے ہے اور دنیا میں ایک ہی سپر پاور بن کر ابھرا ہے لیکن انڈونیشیا کا تعلق مشرق بعید کے تمام ممالک میں گہرا ہے اور انڈونیشن قوم اتنی عظیم ہے تعداد کے لحاظ سے بھی اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی کہ اگر یہ حقیقی معنوں میں اسلام کے نور سے مزین ہو جائے اور احمدی مسلمان دعوت الی اللہ کا کام اچھی طرح شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا فیض صرف انڈونیشیا کے دائرے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تمام مشرق بعید کے ممالک تک پہنچے گا.اس لئے یہ دونوں ممالک بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں، اب تک کا تجربہ یہی ہے کہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے بیدار نہیں ہو سکے.بہت پیچھے ہیں کوشش جاری ہے کئی قسم کے ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پھر بھی کچھ کمی رہ جاتی ہے.اس سے متعلق تفصیلی ہدایات میں امریکہ کے دورے کے دوران بھی دے چکا ہوں اور مختلف وقتوں میں میں جماعت کو خطبات میں دعوت الی اللہ کے مضمون سے آگاہ کرتا رہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اگر ان پر غور کیا جائے ان باتوں پر جو پہلے کہی جا چکی ہیں تو مزید نصائح کے اضافے کی ضرورت نہیں ، پہلی باتوں پر ہی عمل کی طرف توجہ چاہئے اور ان باتوں پر جنہوں نے عمل کیا ہے اللہ کے فضل سے بہت بڑے بڑے انقلابات برپا ہوئے ہیں.اب آپ دیکھ لیجئے کہ افریقہ میں بھی بعض ممالک نے جب عمل کیا تو ان کی سالانہ بیعتوں کی رفتار ہزاروں سے نکل کر لاکھوں کے دائرے میں داخل ہو گئی.اب یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے.بعض دوسرے ممالک تھے جو اصرار کر رہے تھے کہ ہمارے حالات مختلف ہیں یہاں ہو ہی نہیں سکتا.اور ہزار بارہ سو پہ راضی تھے اور میں نے اپنی ضد نہیں چھوڑی.میں نے کہا ناممکن ہے کہ نہ ہو سکے تم غور کرو،سوچو، میں کیا کہہ رہا ہوں.اس پر عمل کر کے دیکھو اور اب ان میں سے ایک ملک جو یہ کہا کرتا تھا کہ نہیں جی ہمارے تو یہی حالات ہیں.ان کی طرف سے کل خوشخبری ملی ہے کہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ چکے ہیں اور بھاری امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی سال کے اختتام تک وہ بھی ایک سال میں ایک لاکھ مسلمان اور احمدی بنانے والوں میں داخل ہو جائیں گے.مسلمان اور احمدی در اصل تو ایک ہی چیز کے دو نام ہیں مگر مسلمان اور احمدی یہاں اس لئے میں نے کہا ہے کہ اس علاقے میں مشرک بہت ہیں، عیسائی بہت ہیں اور پہلے مسلمان بنانا ہے، اسلام میں داخل کرنا ہے پھر احمدیت کے رنگ چڑھانے ہیں جو حقیقی اسلام ہے تو اس پہلو سے میں نے دوا لگ الگ لفظ بولے ہیں ورنہ حقیقت تو
خطبات طاہر جلد 14 448 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء ایک ہی ہے احمدیت حقیقی اسلام ہے اور اسلام حقیقی احمدیت ہے.اب میں حق کے حوالے سے اس مضمون کو کچھ اور آگے بڑھاتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تو کہہ دے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کا کام ہی بھا گنا ہے.اس آیت کریمہ سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حق آجائے تو از خود ہی باطل رفع ہو جایا کرتا ہے اور جو مثال سامنے ابھرتی ہے وہ سورج کی مثال آتی ہے.ابھرتے ہوئے سورج کی تصویر دکھائی دیتی ہے کس طرح رات کے دھند لکے سورج کے نکلتے ہی غائب ہو جاتے ہیں.جہاں جہاں سورج کی کرنیں پہنچتی ہیں اندھیروں کو وہ نور میں تبدیل کر دیتا ہے.کتنا آسان مضمون ہے اگر یہ ویسا ہی آسان ہوتا اور یہی قرآن کریم کی مراد ہوتی تو ہر نبی کے آنے کے بعد کسی جد و جہد کی ضرورت نہیں تھی.نبی حق لاتا اور خود حق ذات سے تعلق جوڑ کر حق بن کر دکھا دیتا ہے اور اچانک تمام ماحول روشن ہو جاتا.بغیر کسی جد و جہد کے حق کو غلبہ عطا ہو جاتا.یہ اس آیت کا مفہوم نہیں ہے.بعض صورتوں میں بعض پہلوؤں سے وہ مفہوم بھی ہے لیکن کہاں وہ مفہوم ہے اور کہاں مختلف مفہوم ہیں.ان پر میں اب گفتگو کروں گا اور سب سے پہلے غیر کے مقابل پر باطل کے مقابل پر حق کیسے اس کو بھگاتا ہے قرآن کریم کے حوالے سے اس پر میں مزید روشنی ڈالتا ہوں کیونکہ دعوت الی اللہ تو دراصل حق کی طرف بلانا ہے اور کیا کیا مشکلات اس راہ میں پیش ہیں کیا اچانک سورج نکل آئے گا روشنی ہو جائے گی یا اس کے لئے محنت کرنا پڑے گی.اول بات یہ ہے کہ وہ راتیں جو روحانی طور پر راتیں کہلاتی ہیں.جن میں عصیان اور خدا تعالیٰ سے دوری کے نتیجے میں اندھیرے پھیل جاتے ہیں.ان راتوں کو صبح کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.ان راتوں کو صبح میں تبدیل کرنے کے لئے راتوں کو اپنے خدا کے تعلق سے نور سے روشن کرنا پڑتا ہے.یہ وہ نور نہیں ہے جو از خود ہی اٹھ کر باہر آجائے چنانچہ آنحضرت ﷺ کا ذکر لیلۃ القدر کے حوالے سے یہی معنی رکھتا ہے.وہ اندھیری رات جس نے تمام عالم کو یکساں اندھیروں میں جھونک رکھا تھا کہیں کوئی روشنی کا نشان باقی نہیں رہا تھا وہ کیسے تبدیل ہوئی ، ایک فانی فی اللہ اپنی راتوں کو جگا گیا اور یہ اس کی راتوں کو جگانے کا سلسلہ تھا جو خدا کے حضور گریہ وزاری کی اور حیرت انگیز طور پر راتوں کو دن بنانے کے لئے وقف کر دیا اور وہ راتوں کا وقف تھا جس نے دن پیدا کیا ہے اور جو سورج
خطبات طاہر جلد 14 449 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء نکلا ہے وہ اس رات کی محنت کے بعد نکلا ہے.پس جب نکلاتو پھر وہ مضمون دنیا نے یوں دیکھا کہ جیسے اچانک سورج نکلا اور روشنی ہو گئی اور اس سے پہلے جو منتیں تھیں اس کی طرف توجہ ہی نہیں گئی.جب اسلام غالب آ گیا تو لوگ یہی سمجھتے رہے کہ اب کیا ہے بس اسلام روشن ہو گیا.غالب آ گیا.آسانی سے سب باتیں حل ہو گئیں لیکن جتنی بڑی جدو جہد تھی جس سے گزرنے کے بعد پھر وہ روشنی کا سورج طلوع ہوا ہے.اس کا ذکر قرآن کریم فرماتا ہے اور مختلف صورتوں میں حق کا ذکر کر کے بتاتا ہے کہ حق آنا اور باطل کا بھا گنا ایک ایسا مضمون نہیں کہ ادھر حق نکلا اور ادھر باطل بھاگ گیا اس کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ (الكيف:57) ہم رسولوں کو سوائے اس کے کسی غرض سے نہیں بھیجتے کہ انہیں مبشر کے طور پر بھیجیں اور منذر کے طور پر بھیجیں.خوشخبریاں بھی دے رہے ہوتے ہیں اور ڈرا بھی رہے ہوتے ہیں.خوشخبریاں دن کی دیتے ہیں اور ڈراتے رات سے ہیں لیکن جب وہ یہ کام کرتے ہیں وَيُجَادِلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْ حِضُّوا بِهِ الْحَقَّ تو یہ نہیں ہوتا کہ اچانک حق کی روشنی سے باطل بھاگ جائے وہ جانے سے پہلے بڑی سخت جدو جہد کرتا ہے پورے زور اور طاقت سے مقابلہ کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُ و اوہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ مجادلہ کرتے ہیں اور مجادلے کا آغاز ان کی طرف سے ہوتا ہے وہ کسی صورت اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح اس روشنی کو بھگا دیں اور رات کو دائی کر دیں.چنانچہ فرماتا ہے لیذ حِضُّوا بِهِ الْحَقَّ تا کہ وہ حق کو مٹاڈالیں بالکل بر عکس مضمون ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق آتا ہے تو باطل مٹ جاتا ہے لیکن جب حق آتا ہے تو باطل کے مٹنے سے پہلے کچھ ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ باطل اپنا پور از ورلگا تا ہے کہ جس طرح بھی بس چلے حق کو مٹا ڈالے وَاتَّخَذُوا أَيْتِي وَمَا اُنْذِرُوا هُزُوًا اور ہمارے نشانات کو اور جن باتوں سے ان کو ڈرایا جاتا ہے ان کا وہ مذاق اڑانے لگتے ہیں.ان کی تحقیر کرتے ہیں تخفیف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں کہ حق مٹ جائے اور باطل باقی رہ جائے.تو اب دعوت الی اللہ میں یہ تصور کہ ادھر پیغام دیا ادھر لوگ مان گئے قرآن میں تو اس کا کوئی
خطبات طاہر جلد 14 450 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء ذکر نہیں ملتا بلکہ متنبہ فرمارہا ہے کہ تم ان کو خوشخبریاں دو گے لیکن وہ مقابل پر کوشش کریں گے کہ تو تمہیں صفحہ ہستی سے مٹادیں.اب احمدیت کے متعلق بالکل یہی مضمون ہے.جو صادق آ رہا ہے.ایک سو سال سے ہم دیکھ رہے ہیں.ہم محض پاک نیتوں کے ساتھ دنیا کی بھلائی کے لئے ان کو اچھا پیغام دے رہے ہیں جانتے ہیں کہ اس میں زندگی ہے، جانتے ہیں کہ اس میں دلوں کی سکینت ہے اور ہر احمدی گواہ ہے کہ احمدیت سے باہر بے اطمینانی اور بے چینی ہے احمدیت کے دائرے میں آکے کایا پلٹ جاتی ہے انسان ایک نئی دنیا میں بسنے لگتا ہے.ایسی دنیا جس میں بعض دفعہ باہر کے لوگ بھی جب جھانک کے دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تو ایک جزیرہ ہے اس کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں.مختلف قسم کے لوگ پیدا ہو چکے ہیں اور یہ جزیرے ہر جگہ بن رہے ہیں اور ہر جگہ، ہر ملک میں ان جزیروں کے دائرے بڑھ رہے ہیں مگر کیسے بنتے ہیں، کیا جدو جہد ہوتی ہے؟ اس کی طرف بھی تو دھیان کرو یہ اچانک کوئی تر لقمہ تو نہیں ہے جو منہ میں داخل کر دیا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باطل زور لگاتا ہے، ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے کہ تمہیں مٹا دے.چنانچہ جنرل ضیاء الحق جب زندہ تھے.تو انہوں نے یہ اعلان کیا تھا تمام دنیا میں اس اعلان کو اخباروں میں شائع کیا گیا.یہاں کی ان کی ایمبیسی کے نمائندے نے لندن میں ختم نبوت کانفرنس میں آکر ضیاء الحق کی طرف سے یہ اعلان پڑھ کر سنایا.اس اعلان کا خلاصہ یہ تھا کہ میں اور میری حکومت اس بات پر تلے بیٹھے ہیں ، ہم فیصلہ کئے ہوئے ہیں ، ہم تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ احمدیت کے کینسر کی جڑیں اکھیڑ کر پھینکیں گے.جہاں جہاں یہ ہوگی تمام دنیا سے اس کی جڑیں اکھیڑ پھینکیں گے تو کہاں گیا وہ جڑیں اکھیڑنے والا ، اس کی اپنی جڑیں اکھیڑی گئیں.اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے ان متکبروں سے کیا سلوک کیا جو احمدیت کے لئے مخالفت میں وقف ہو چکے تھے اور احمدیت کو دیکھیں کہ جگہ جگہ دنیا کے مختلف ممالک میں وہ جڑیں قائم ہوتی چلی جارہی ہیں.تو یہ تو درست ہے کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ جب حق آتا ہے تو باطل بھاگ جاتا ہے مگر نام رکھنے سے کچھ نہیں بنتا.باطل بھی یہی دعوی لے کر اُٹھتا ہے کہ ہم حق پر ہیں تو بعض دفعہ ضیاء الحق نہیں ہوتی وہ ضیاء باطل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو کھول کر بیان کیا ہے.تم یہ آواز دے کر اٹھے ہو کہ ہم حق ہیں ہم آئے اور تم مٹ جاؤ گے.مخالف کہتا ہے کہ ہم حق ہیں اور ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ تمہیں اس صفحہ ہستی سے
خطبات طاہر جلد 14 451 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء مٹادیں گے.پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کچھ فیصلے کرتی ہے، کچھ وہ ہیں جو مٹتے چلے جاتے ہیں کچھ وہ ہیں جو نشو ونما پاتے چلے جاتے ہیں اور پھیلتے چلے جاتے ہیں اور یہ جو بات ہے یہ حق ذات سے ہوتی ہے اور حق سے تعلق کے نتیجے میں ہوتی ہے اور حق سے تعلق کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہر حال پورا کرنا ہوگا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ جنگ بدر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ تمہارا مقابلہ نسبتا چھوٹے قافلے سے ہو جہاں فائدے زیادہ ہوں اور نقصان کم ہو لیکن اللہ کا اور مقصد تھا کہ ان کی طاقت کے اوپر ضرب لگائی جائے اور طاقتور سے تمہیں بھڑ دیا جائے کیونکہ اللہ اس تدبیر سے باطل کی جڑیں اکھیڑنا چاہتا تھا.اب مومنوں نے تو آسانی چاہی تھی وہ تو ایسا ظہور حق چاہتے تھے کہ سورج نکلا اور اندھیرے بھاگ گئے اور اس میں حرج کوئی نہیں اگر ایسی خواہش کی جائے مگر کس طرح اللہ مومنوں کو بھڑاتا ہے غیروں سے اور ان کی جڑیں اکھیڑ دیتا ہے پھر.چنانچہ فرماتا ہے کہ تو تَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ تم چاہتے تھے کہ تم ان سے ٹکراؤ جن کے پاس ہتھیار نہ ہوں.چھونے کیلئے کاٹنے نہ ہوں کم سے کم تکلیف سے تم زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا جاؤ وَيُرِيدُ اللهُ أنْ تُحِقَّ الْحَقِّ بِكَلِمَتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَفِرِينَ (الانفال: 8) اور اللہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو حق کر دے اور لوگوں کو سمجھ آئے کہ حق کا غالب آنا ہوتا کیا ہے.کس طرح غیر معمولی مخالفانہ طاقتوں پر حق غالب آیا کرتا ہے اور جدوجہد کے نتیجے میں آیا کرتا ہے از خود نہیں آجایا کرتا وَ يَقْطَعَ دَابِرَ الْكَفِرِينَ اور کافروں کی جڑیں کاٹ ڈالے اس مقصد سے اللہ نے تمہیں طاقتوروں سے لڑا دیا.اب یہ ہے حق کا مضمون جو سمجھنے کے لائق ہے.طاقتور سے اگر کوئی کسی کولڑا دے تو کمزور کے لئے تو ہلاکت کا پیغام ہے اور اگر طاقتور کسی کمزور سے لڑ پڑے اور اس کو مٹا دے تو اس میں طاقتور کے حق پر ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملتا.یہ وہ مضمون ہے جس کو خوب سمجھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ حق کی باتیں کر رہا ہے.حق ہوتا کیا ہے اور اس کے نشانات کیا ہیں؟ اور اگر ایک طاقتور دشمن اُٹھ کر ایک کمزوری جماعت کے متعلق فیصلہ کرے کہ ہم اسے مٹادیں گے.اگر مٹا بھی دے تو طاقتور کا حق پر ہونا ثابت نہیں ہو سکتا لیکن اگر مثانے میں ناکام ہو جائے اور اگر جب بھی ٹکر لگے تو کمزور غالب آئے اور پھیلتا چلا جائے اور طاقتور سے مزید طاقتور ہوتا چلا جائے یہ ہے حق کی نشانی ، یہ اس بات کی نشانی ہے
خطبات طاہر جلد 14 452 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء کہ اس جماعت کا حق ذات سے تعلق ہے.پس اگر حق سے تعلق ہو تو یہ فیصلہ کہ کون جیتے گا؟ یہ ہمیشہ اس بات پر منحصر ہو گا کہ کس کا حق سے تعلق ہے؟ دشمن کے زیادہ یا کم ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور جب دشمن اتنازیادہ ہو کہ کسی کی توفیق نہ ہو کہ خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو توڑے بغیر وہ دشمن پر غالب آجائے تو اللہ تعالیٰ خود اپنے قوانین نہیں تو ڑتا.یہ نہیں کہا کرتا یہ حق ہے اس نے غالب آنا ہے، اچانک اس کو سب دنیا سے لڑا دو پھر تدبیر فرماتا ہے.اور ایک دوسری آیت میں بعینہ یہی مضمون کھول کر بیان فرمایا ہے کہ حق جب آتا ہے تو پھر کیا کچھ ہوتا ہے پھر اللہ مد بر الامربن کے ظاہر ہوتا ہے وہ تدبیریں اختیار کرتا ہے اور ایک وقت میں اپنے بندوں کولڑا تا تو طاقتوروں سے ہے مگر اتنے طاقتوروں سے نہیں لڑا تا کہ دنیا کا قانون توڑے بغیر یا خدا کا قانون توڑے بغیر وہ فتح یاب ہو جائے یعنی اتنے طاقتوروں سے نہیں لڑاتا کہ خدا کا قانون توڑے بغیر ہی وہ فتح یاب ہو سکے.مراد یہ ہے کہ اگر خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مومنوں میں آج اتنی طاقت ہے کہ ایک دو پر غالب آئے گا اور کل اتنی طاقت ہوگی کہ ایک دس پر غالب آئے گا تو جب تک وہ کل نہیں آیا، جب تک مومن اتنا طاقتور نہ ہو جائے اس وقت تک ایک کو دس سے نہیں بھڑا تا اور ہمیشہ ایسی تدبیریں کرتا ہے کہ دشمن اپنی غالب طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا.ان کے ارادے بنتے ہیں بکھر جاتے ہیں ان کو اکٹھا ہونے کی توفیق نہیں ملتی اگر وہ کوشش کرتے ہیں اکٹھا ہونے کی تو آپس میں پھر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.تو یہ تدبیر سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں مگر بندے کی تدبیر نہیں یہ حق کی تدبیر ہے اور جب تدبیر کرتا ہے تو ایک بات ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے کہ دن بدن کمزور لڑتا تو طاقتور سے ہے لیکن رفتہ رفتہ طاقتور سے لڑنے کی اس میں صلاحیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.اور یہ مضمون آنحضرت ﷺ کے زمانے میں آپ کے غلاموں کے عمل سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے.اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اولین نسبتاً خدا کے کم پیارے ہوتے ہیں بلکہ یہ ایک اور مضمون ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک کمزور کو ایک طاقتور سے لڑایا جائے تو نفسیاتی لحاظ سے اس میں رفته رفته خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ایک دم زیادہ بڑے سے لڑنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: 287) اللہ کسی نفس پر
خطبات طاہر جلد 14 453 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا پس سب سے تو زیادہ طاقتور حضرت محمد تھے وہ مجسم حق بن گئے.اگر آسمان اور زمین پر ایک حق تھا تو اس کا بندوں میں ایک کامل مظہر جس کی کوئی مثال نہیں وہ حضرت اقدس محمد مے تھے تو سب سے زیادہ طاقتور تو آپ کو ہونا چاہئے تھا اور آپ ہی تھے ، آپ ہی کا حق تھا جو اردگرد پھیل رہا تھا اور اس حق کا جب غیروں سے مقابلہ ہوا ہے تو اللہ جو اپنے قوانین کے او پر خود مد بر ہے اس کا یہ فیصلہ تھا کہ میں اس حق کو رفتہ رفتہ کھولوں اور آغاز میں ان کا اتنا مقابلہ کرواؤں کہ میرے اس قانون کے خلاف نہ ہو کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا تو ان کی مادی وسعتوں کی بحث چل رہی تھی ، روحانی وسعتوں کی بات نہیں ہورہی تھی.مادی لحاظ سے وہ کمزور تھے روحانی لحاظ سے ایسے طاقتور تھے کہ اس کے بعد کبھی کوئی نسل اس سے زیادہ طاقتور نہیں آئی.پس وہ تابعین جن کو بعد میں ایک کے مقابل پر دس ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ ان سے بھی زیادہ پر فتوحات نصیب ہوئیں ان کی روحانی فضیلت پر یہ دلالت نہیں کرتا.یہ مضمون یہ بتاتا ہے کہ پہلوں نے جو قربانیاں دیں وہ بڑے بڑوں سے بھڑ گئے.کمزور ہونے کے باوجود ان کو فتوحات ملیں تو قوم کی نفسیاتی حالت میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی ہے، قوم کی نفسیاتی حالت میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے ان کو جراتیں عطا ہوئیں اور ان کی توفیق بڑھی ہے اور جب ایسا ہو تو رعب کا مضمون داخل ہو جاتا ہے.صلى الله قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ فرمایا کہ رعب کی نصرت عطا فرمائی گئی یعنی اس مضمون کو ان لفظوں میں نہیں مگر حدیث نے جو مضمون کھولا ہے اس میں دو تین مرتبہ یہی لفظ استعمال فرمایا ہے کہ مجھے رعب کی نصرت عطا کی گئی ہے.اللہ نے فرمایا کہ تجھے رعب کی نصرت عطا کی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو الہام ہوا ہے اس میں یہی لفظ ہیں کہ رعب کی نصرت عطا کی گئی.یہ جو رعب ہے یہ رفتہ رفتہ بنتا ہے، یہ ہوا ہے جو بن جاتی ہے.جب یہ ہو تو پھر طاقتور خود کمزور ہوتا چلا جاتا ہے.ادھر اس کی نفسیاتی الجھن یہ بن جاتی ہے کہ وہ خوف زدہ رہتا ہے دل میں جانتا ہے کہ طاقتور ہے بظاہر کمزور بھی ہو تو اس نے غالب آجاتا ہے.جب یہ دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ یہ کمزور ہوتے ہوئے بھی غالب آجائے گا اس کی صلاحیتوں میں کمزوری آجاتی ہے اس کے برعکس جو کمزور ہو جس کو پتا ہو کہ خدا کا دستور ہمیشہ سے یہی ہے کہ ہمیشہ مجھے کمزور ہوتے ہوئے وہ نصرت عطا فرماتا ہے وہ اور زیادہ طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح خدا دشمنوں سے کمزوروں کو بھڑا تا
خطبات طاہر جلد 14 ہے، توفیق دیتا ہے.454 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء اور حق جو ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک خدا کا نور ہونا.خدا کا نور ہونے کے نتیجے میں ہی اعضاء بدن میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور امت مسلمہ کے اعضاء بدن وہ صحابہ تھے جو آنحضرت کے اردگرد تھے ان میں جس حق نے سرایت کر کے پاک تبدیلیاں پیدا فرما ئیں اور انہیں عظیم طاقتور قوم میں تبدیل کیا اس تبدیلی کی روح محمد مصفی ہو رہے تھے اور آپ ہی تھے جو حق کے نمائندہ بن کر ان کو حق میں تبدیل کر رہے تھے.پس جدو جہد کے بغیر تو غلبہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن قانون یہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ کمزور پہلے سے بڑھ کر طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور کمزور ہونے کے باوجود جب بھی خدا اسے غیر سے بھڑاتا ہے اس کو فتح عطا فرماتا ہے.اپنے مقاصد میں وہ جیتتا ہے اور غیر ہار جاتے ہیں.اب انہوں نے پوری کوشش کی تھی پاکستان میں تمام قسم کے قوانین جو سوچے جا سکتے تھے.احمدیت کی راہ روکنے کے لئے وہ بنا دیئے.ہر قسم کی سزائیں جو پیغام حق پہنچانے کے نتیجے میں احمد یوں کو مل سکتی تھیں وہ دے دی گئیں.سب رستے روک دیئے گئے.لٹریچر کی اشاعت بند ہو گئی.مگر یہ جو مضمون ہے.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ یہ کمزوری میں بھی جلوہ گر ہوتا ہے اور باطل کی کوششوں کو خدا نا کام بنا کر دکھا دیتا ہے.پس آپ دیکھ لیں کوئی ایک ایسا سال نہیں ہوا جس میں نعوذ باللہ من ذالک احمدی مرتدوں کی تعداد ان غیروں میں سے احمدی بننے والوں سے بڑھ گئی ہو.بہت نمایاں فرق رہا ہے.ہمیشہ پھر جو مرتد ہوئے وہ تمام تر وہ ہیں ان سب کی تاریخ ہمارے پاس ریکارڈ میں محفوظ ہے.جو پہلے ہی نام کے احمدی تھے اور کردار کے گندے تھے، کئی قسم کی خرابیاں کئی قسم کے فساد تھے نہ مسجدوں میں آنے والے، نہ نمازوں کا شوق رکھنے والے، نہ چندوں کی قربانیوں میں آگے آنے والے ایک قسم کی جوٹھ تھی جو ساتھ لگی ہوئی تھی اور اللہ نے ان کو جو کامیابی دی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سے باطل کو الگ کر کے اس باطل میں ملا دیا ہے.یہ کیا کامیابی ہوئی ان کے لئے ، میرا مطلب ہے ان کی کامیابی بھی ہماری ہی کامیابی بنتی ہے.اگر ہم میں سے اچھے لوگ وہ کھینچ لیتے جن سے وہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بہت اچھے لوگ ہیں جن پر سوسائٹی کی نظر تھی کہ ہاں یہ احمدی تو ہیں مگر ہیں بہت شریف ، ایک ہی نقص ہے کہ احمدی ہیں، ان میں سے کتنے انہوں نے لیے ، ایک بھی نہیں لیا.تو یہ جو باطل کے مقابل پر حق
خطبات طاہر جلد 14 455 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء کی کامیابی کا مضمون ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی جگہ تمہاری مسجدیں نہیں برباد ہوں گی، کسی جگہ تمہیں جانی نقصان نہیں پہنچے گا.کسی جگہ سے تمہیں ہجرت نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ یہ سارے واقعات انبیاء کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اگر باطل کے بھاگنے کا یہ مطلب ہو تو پھر نعوذ بالله من ذالک سارے انبیاء کو بھاگا ہوا شمار کرنا پڑے گا.اگر انبیا ء کی ہجرت زَهَقَ الْبَاطِلُ کے معنوں میں لی جائے نعوذ بالله من ذالک تو پھر سارے انبیاء باطل بنتے ہیں.مگر قرآن کریم جب حق اور باطل کے مقابلے کی تفصیل بیان فرماتا ہے تو ایسے منطقی طور پر درجہ بدرجہ اس مضمون کو آگے بڑھاتا ہے کہ اس کے ہر پہلو پر، ہر قدم پر دیکھنے والے کوحق کی فتح اور باطل کا زیاں دکھائی دے گا.اس کا بھاگنا ہر میدان سے ثابت ہوتا چلا جاتا ہے.وہ جو مقابلہ ہے وہ کیوں ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باطل جہاد شروع کر دیتا ہے.کسی طریقے سے حق کو مٹا ڈالے اور کچھ اس کا باقی نہ چھوڑے.یہ جہاد کیوں ہوتا ہے؟ یہ دراصل شکست کا اعتراف ہے باطل کے جہاد کا آغاز ہی اعتراف شکست سے ہے کیونکہ اگر باطل کو یہ خوف ہو کہ بدیاں نہ پھیل جائیں گندگی نہ ہو جائے سوسائٹی گندی نہ ہو جائے.جھوٹ ، فسق و فجور معاشرے پر قبضہ نہ کر لے تو وہ تو پہلے سے ہی ہے.وہ تھا تو خدا نے نبی بھیجے اور اس کے خلاف معاشرے نے کبھی کوئی ردعمل نہیں دکھایا.اس کو قبول کئے بیٹھا ہے.تو صاف پتا چلا کہ بدیوں سے اور باطل سے اس معاشرے کی جس میں خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر آتے ہیں کوئی لڑائی نہیں ہوتی ، آرام سے بیٹھے رہتے ہیں ،لڑائی اس سے ہوتی ہے جو آپ کی اقدار پر حملہ کرتا ہے ان اقدار کو مٹاتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا بدیوں پر حملہ کرتا ہے اور نیکیوں کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اچانک باطل اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے مقابل پر جدوجہد شروع کر دیتا ہے.یہ اعتراف ہے کہ ہم بدیوں کے نمائندہ ہیں، ہم بدیوں کے علم دار ہیں اور نیکی کو برداشت نہیں کر سکتے اور یہ بھی اعتراف ہے کہ یہ نیکی غالب آنے والی نیکی ہے ورنہ ان میں ہر قسم کے پاگل، ہر قسم کی بڑھیں مارنے والے تحریکیں شروع کرتے ہیں ان کی مخالفت بردار نہیں ہوتی.اب اس مضمون کو حضرت عیسی کے حوالے سے سمجھیں تو کتنا کھل کر سامنے آجاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 456 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء حضرت عیسی اپنے وقت میں حق کے نمائندہ تھے.جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ کا مضمون آپ پر بھی صادق آتا تھا اور آنا چاہئے تھا اگر نہیں آیا تو نعوذ بالله من ذالک خدا تعالیٰ کا یہ دائمی اعلان غلط نکلتا ہے یہ ناممکن ہے کہ خدا کا کلام غلط نکلے، پس کیسے ہوا وہ مقابلہ، حق کیسے غالب آیا ؟ سب سے پہلے حق کے غالب آنے کی نشانی حضرت عیسی علیہ السلام کی اس انتہائی جاہلانہ اور ظالمانہ مخالفت میں ملتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں یہ مضمون خوب کھل کر سامنے آجاتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی مخالفت ہوئی ہے اس سے پہلے یہود میں ہرقسم کی بدیاں پھیل چکی تھیں ہر قسم کا فسق و فجور جاری تھا اور ان کو کوئی ہوش نہیں تھی ، کوئی پرواہ نہیں تھی.حضرت عیسی کے مقابلہ کے لئے جو وہ ایک دم اٹھے ہیں اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ عیسی علیہ السلام کا پیغام یہ تھا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دیا کرو.کوئی اگر تم سے بہ مانگے تو قمیص بھی اتار کر دے دو.عجیب سا پیغام تھا اور اس پیغام میں کوئی بھی غصہ دلانے والی بات تھی ہی نہیں.اگر یہ پیغام عام ہو جاتا تو یہودیوں کو کیا تکلیف تھی.قمیص مانگتے جے بھی ساتھ مل جاتے ، جسے مانگتے تو قمیص بھی ساتھ مل جاتیں.ایک عیسائی بے چارے کو ایک تھپڑ مارتے کہتالو دوسرا بھی گال حاضر ہے ،تھپڑ مارلو.اس کے باوجود وہ مشتعل ہو گئے.اس کے باوجود وہ ایک ہو گئے باوجود اس کے کہ ان کے دل پھٹے ہوئے تھے ، صدیوں سے ایک دوسرے سے لڑرہے تھے لیکن حضرت مسیح کی مخالفت میں ایک ہوگئے کیونکہ ان کے دل گواہ بن گئے تھے کہ یہ پیغام غالب آنے والا پیغام ہے.اگر حق نہ ہوتا اور ان کے دلوں کو یقین نہ ہوتا کہ یہ حق ہے تو کبھی اس قسم کی جاہلانہ مخالفت نہ کرتے اور ہر نبی کے حق ہونے کے ثبوت میں اسی قسم کی مخالفت ہمیشہ اس کے حق میں ایک روشن نشان بن کر ابھرا کرتی ہے.تمام انبیاء کی یہ مشترک کہانی کہہ لیں یا ایک ایسی تقدیر ہے ان کی جو سب انبیاء کے حق میں خدا کی طرف سے برابر جاری ہوئی ہے کہ ان کے پیغام میں حقیقت میں کوئی غصہ دلانے والی بات ہو نہیں سکتی، نہ تھی اور آپ میں لڑتے ہوئے ان کی مخالفت میں ایک دم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہاں ہم لڑا کرتے تھے ، جانتے ہیں ، ہم ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے وہ سارے ایک دوسرے کو کافر کہا کرتے کرتے تھے جو 72 فرقے یہود کے تھے اور ہم ایک دوسرے کی جان کے بھی دشمن تھے مگر اب تو دیکھو ہم سب اکٹھے ہو گئے ہیں اور تمہیں مٹانے کے درپے
خطبات طاہر جلد 14 457 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء ہیں، تمہیں مٹانے کی خاطر ا کٹھے ہوئے.بعینہ جیسے 1974ء کا واقعہ ہوا ہے.اسی طرح یہود کی ایک مجلس بیٹھی اس میں تمام فرقوں کی نمائندگی ہوئی اور انہوں نے مل کر یہ کہا کہ ہم سارے اکٹھے ہو کر عیسائیت کو دائرہ یہودیت سے خارج کرتے ہیں.آج سے ان کا یہودیت سے اور موسی" کے مذہب سے کوئی بھی تعلق باقی نہیں رہا.یہ واقعہ تاریخی واقعہ ہے جس کو ساری دنیا کے مؤرخین تسلیم کرتے ہیں.یہ واقعہ کیوں وہاں پیش آیا جبکہ عیسائیوں بے چاروں کی تو حالت یہ تھی کہ ماریں کھاتے برا حال ان کا جو دعوے دار تھا میسحیت کا اس کو صلیب پر لٹکا دیا گیا اور پھر ان لوگوں کو کچھ پتا نہیں رہا کہ واقعہ کیا ہوا.یہ الگ بحث ہے اور کمزوری کا یہ عالم تھا اور درویشا نہ جاتے تھے اور قتل ہوتے تھے لوٹے جاتے تھے ان سے ڈر کیا تھا ان کو ایک ہی ڈر تھا کہ جاءَ الْحَقُّ حق آچکا ہے.دل گواہ تھے کہ زَهَقَ الْبَاطِلُ باطل نے بھا گنا ہی بھا گنا ہے.یہ خوف تھا جب دوبارہ دامن گیر ہوا دوسرے مسیح کے وقت تو بعینہ وہی حرکتیں شروع ہو گئیں اور وہ جو اعلان تھا کہ ہم ان کو مٹا کے چھوڑیں گے صرف یہ نہیں ہوا.72 فرقے اکٹھے ہو گئے ان کی بھی ایک کونسل بلائی گئی اور 1974 ء کا سال ہے کہ انہوں نے یہ اعلان کئے کہ ٹھیک ہے ہم لڑا کرتے تھے ٹھیک ہے شیعہ سنی کو برداشت نہیں کرتے تھے سنی شیعہ کو نہیں برداشت کرتے تھے وہابی اہل سنت کو مشرک کہا کرتے تھے اہل سنت وہابیوں کو گستاخ رسول کہتے تھے.یہ سب کچھ تھا لیکن ہم سارے ایک فرقے کے خلاف کبھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے.وہ یہ کہتے تھے اور 1974ء میں اس کا ذکر کیا گیا جو میں بات بیان کر رہا ہوں.اس کا بار بار 1974ء میں حضرت خلیفه امسیح الثالث کو یہ بات جتلائی گئی کہ دیکھوتم یہ نہ کہو کہ ہم بھی لڑتے ہیں ہم بھی مخالف تھے تمام تاریخ اسلام میں ایک دفعہ ثابت کر کے دکھاؤ کہ 72 فرقے اکٹھے ہو گئے ہم نے کہا الحمد للہ اسی تاریخ کے حوالے کی ضرورت تھی.بعد میں ہم کہیں گے تو تم نہیں مانو گے اور یہی تمہارے منہ سے کہلوانا چاہتے تھے کہ آج پہلی دفعہ یہ واقعہ ہوا ہے کہ 72 ایک ہو گئے ہیں اور ایک کو نکال کے باہر کیا گیا ہے لیکن ڈر کیا تھا وہ کہتے ہیں لَشِرْ ذِمَةً قَلِيلُونَ (الشعراء: 55) یہ بھٹو صاحب کا اعلان تھا یہ تو چھوٹے سے ذلیل لوگ ہیں یہ ہمیں غصہ دلاتے ہیں.اگر ہمیں غصہ نہ دلاتے تو ہمیں اتنا سخت Measure ان کے خلاف نہ لینا پڑتا، اتارا اقدام نہ کرناپڑایا.یعنی یہی بات ضیاء الحق نے بھی کہ ہم کیا کریں.وہاں تو نہیں لوگوں کو یہ کہتے تھے مگر جب غیر قو میں ان کو لکھتی تھیں کہ تمہارا دماغ پھر
خطبات طاہر جلد 14 458 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء گیا ہے تمہیں کیا ہو گیا ہے.ایک طرف کہتے ہو چھوٹی سی جماعت ہے تمیں لا کھ تو در کنار ایک لاکھ بھی نہیں ہے.یہ آفیشل ان کی اطلاعیں تھیں جو غیر قوموں کو دے رہے تھے، اب تمہیں لاکھ پر تو ہمیں کوئی اصرار نہیں ، تین لاکھ بھی ہوں اس سے کوئی بحث نہیں.جتنے تھوڑے تھے اتنا ہی ثبوت ہے کہ یہ ہمیں حق سمجھ رہے ہیں، جتنے تھوڑے تھے اتنا ہی زیادہ ان کا خوف ان کو ملزم کر رہا تھا.تو جب یہ سوال کیا گیا یہ تھوڑے سے ہیں تمہیں کیا تکلیف ہے.تو انہوں نے کہا ہمیں غصہ دلاتے ہیں، بڑی مصیبت ہے.چھوٹے سے ہیں تھوڑے سے، حیثیت ہی کوئی نہیں.وہ غصہ دلانے میں بڑا شیر ہے.غصہ دلاتے کیسے ہیں.کہتے ہیں وہ غالب آجائیں گے اور آرہے ہیں، یہ بات تھی جو تکلیف دیتی تھی.تھوڑے ہیں، کمزور ہیں، حیثیت نہیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن غالب آنے کے ذریعہ غصہ دلاتے ہیں.سارا زور اس بات پر تھا کہ جب بھی ہم ان سے ٹکرائے ہیں یہ بڑھے ہیں اور ہم کم ہوئے ہیں.تمام نفسیات ملاں کی اسی ایک مرکزی نقطے کے گرد گھومتی ہے.ہر دفعہ اس نے کوشش کی کہ کسی طرح کا حق کا بڑھنا اور باطل کا بھا گنا یہ جو تقدیر ہے اس کو الٹ کے رکھ دیں.کسی طرح کوئی ایسا ذریعہ اختیار کریں کہ حق کا آگے بڑھنا بند ہو جائے اور باطل کا پیچھے ہٹنا رک جائے لیکن ہر تدبیر الٹی پڑتی ہے.یہاں تک کہ 1974 ء آ گیا.یہ اعلان کر دیا گیا کہ احمدی سارے غیر مسلم ہیں.ہم 72 ایک طرف یہ ایک طرف.تو میں جو سمجھتارہا ہوں کہ قرآن کریم کی آیت کی صداقت کا نشان یہ ہے کہ بظاہر کمزوری میں بھی ایک ایسا حق کی عظمت کا نشان ہے کہ یقیناً کہا جا سکتا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا کیونکہ یہ بھاگنے کے پیش خیمے ہی تو ہیں.یہ پیش بندیاں کرنا یہ قانونی طور پر روکیں کھڑی کرنا، یہ مخالفتوں کی دیواریں کھڑی کرنا ظلم تعدی اور استبداد کے ذریعہ ایک بڑھتی نشو ونما ہوتی ہوئی قوم کو کچل کے رکھ دینے کی کوشش کرنا، پاؤں تلے روندنے کی کوشش کرنا کس بات کا خوف ہے؟ ہر دل گواہ تھا آج بھی ہے.یہ تمام مولوی جانتے ہیں کہ اگر حکومت کے ہمیں سہارے حاصل نہ ہوں اگر ہمیں جھوٹ کے سہارے حاصل نہ ہوں اگر ہم عوام کو ان کے خلاف مشتعل نہ کریں تو کل کی بجائے یہ آج ہمیں کھا جائیں گے تو قرآن کریم دیکھو کیسا سچا ہے.جَاءَ الْحَقُّ
خطبات طاہر جلد 14 459 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل کے مقدر میں تو بھا گنا ہی بھا گنا ہے.اور یہ گواہی اس جد و جہد کا آغاز کرتی ہے.جس کے متعلق قرآن کریم ہمیں متنبہ کرتا ہے پہلے دن سے ہی تمہارے غلبے کے آثار دیکھ لیں گے اور پہچان لیں گے.جب محمد رسول اللہ ﷺ ایک ہوں گے اس وقت بھی ان کو غالب سمجھا جائے گا.وہ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک ہے جو تمام دنیا پر بھاری اترے گا اس لئے اس ایک کو مٹانے کے درپے ہو جائیں گے اور ان کی آنکھوں کے سامنے وہ ایک ایک بڑھتا چلا جائے گا.پس ایک ہی بات دشمن کی سچی نکلی اور ہمیشہ سچی نکلتی ہے کہ حق دوسروں کے پاس ہے حق محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے غلاموں کے پاس ہے.حق انبیاء کے پاس ہے اور وہ حق سے عاری ہیں.یہ جو دل کی آواز ہے دل کی پہچان ہے یہ ہمیشہ کچی رہی ہے اور ہمیشہ سچی رہے گی.مگر اس کے ساتھ ایک اور مضمون وابستہ ہے کہ حق تب تک رہو گے جب حق سے تعلق ہوگا.جہاں حق سے تعلق ٹوٹا وہاں حق کے متعلق خدا کی یہ گواہی تمہارے حق میں صادق آنا بند کر دے گی کہ حق آئے گا اور باطل بھاگ جائے گا.پس جہاں حق سے تعلق میں کمزوری ہے وہاں غلبے کے مضمون میں بھی اسی حد تک کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.اگر معاشرے ایسے ہوں کہ لوگ دنیا دار ہو چکے ہوں اگر مادہ پرستی غالب آگئی ہو تو اچانک زندگی کے فقدان کے آثار ظاہر نہیں ہوا کرتے لوگ سانس لیتے ہیں اور لیتے چلے جاتے ہیں ، ظاہری تقاضے زندگی کے بھی پورے کرتے ہیں.دیکھنے میں اچھے بھلے چلتے ہیں، زندہ انسان دکھائی دیتے ہیں مگر بنیادی طور پر ان کا حق سے تعلق اس حد تک کمزور ضرور پڑچکا ہوتا ہے کہ ان کے حق میں خدا کی یہ گواہی پوری نہیں ہوتی کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ - پس دعوت الی اللہ کا راز اس میں ہے کہ تم اپنا تعلق حق سے جوڑ لو اور ایسا گہرا پیوند کرو کہ تم پر حملہ حق پر حملہ ہو.کوئی تمہیں ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے تو گویا وہ خدا کوٹیڑھی آنکھ سے دیکھ رہا ہے.تمہارے مقابلے کے لئے اُٹھے تو خدا سے مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھا ہو.یہی اعلان ہے جو بڑی تحدی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار فرمایا.اے آں کہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بنترس که من شاخ مشمرم ( در نشین فارسی: 106 )
خطبات طاہر جلد 14 460 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء تم کیا سمجھتے ہو ایک کمزور شاخ مجھے بنا رکھا ہے تم نے.شاخ میں کمزور ہوں مجھ میں دفاع کی طاقت نہیں ہے ٹھیک ہے.لیکن از باغباں بترس کہ من شاخ مشمرم باغباں سے ڈرو کہ میں پھلدار شاخ ہوں اور پھلدار شاخ کی حفاظت کرنا باغبان کی ذمہ داری ہوتی ہے.پس جہاں آپ پھل دارشاخ بنیں گے وہاں اللہ لازماً آپ کی تائید کے لئے کھڑا ہو گا وہاں لا زما دشمن کی ہر کوشش آپ کے مقابل پر نا کام بنادے گا مگر حق سے تعلق قائم ہوگا تو یہ باتیں ہوں گی.اس سلسلے میں قرآن کریم نے جہاں جہاں مختلف پہلو بیان فرمائے ہیں بعض دفعہ آیات کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی بات تو میں نے بیان کر دی کہ ٹکرا تا ضرور ہے اللہ تعالیٰ اور اس سے ٹکرا دیتا ہے جو بظاہر طاقتور ہوتے ہوئے بھی طاقتور نہیں ہوتے اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ کا ثبوت یہ پیش کرتا ہے کہ کمزور طاقتور کو کھاتا چلا جاتا ہے.وہ اس پر غالب آتا چلا جاتا ہے دوسری جگہ فرمایا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے.فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُوسَى الْقَوْا مَا انْتُمْ مُلْقُونَ ) فَلَمَّا الْقَوْا قَالَ مُوسى مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَيُبْطِلُهُ اِنَّ اللهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (يونس 81 83) کہ جب وہ موسیٰ کے سامنے آئے تو موسیٰ نے کہا.جو کچھ تم نے ڈالنا ہے ڈال دو ، جو کچھ تمہارے پاس ہے نکال پھینکو.فَلَمَّا الْقَوْا قَالَ مُوسى مَا جِنتُم بِهِ السِّحْرُ جب انہوں نے نکال پھینکا تو موسیٰ نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور یہاں جادو کا معنی جھوٹ ، فریب، فساد ہے ایسی چیز جو نظر کو دھوکہ دینے والی ہو لیکن حقیقت میں اس بات کی ماہیت اور ہے.وَيُحِقُ اللهُ الْحَقَّ بِكَلِمَتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ اور مجرم لوگ خواہ نا پسند کریں اللہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو مشق کر دیا کرتا ہے اور ثابت کر کے دکھا دیتا ہے.اب وہاں دیکھیں کیا واقعہ ہوا ہے جو سحر تھا اس کی حقیقت یہ تھی کہ جو رسیاں جادوگروں کی طرف پھینکی گئیں وہ سانپ نہیں بنی تھیں.وہ سانپ دکھائی دینے لگیں تھیں اور موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اس عصا کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے غالب قانون نے جو انسانی نفس پر غالب ہے اس خوف کو دور
خطبات طاہر جلد 14 461 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء کر دیا اچانک اور اس جادو کا اثر جاتا رہا.انہوں نے دیکھا تو رسیاں ہی رسیاں تھیں سانپ تھا ہی کوئی نہیں تو حق سے اگر تعلق پیدا ہوتو ایک حوصلہ اور جرات پیدا ہوتی ہے اور دشمن کی بھبکیوں کو آپ کھوکھلا اور بے معنی اور بے حقیقت دیکھتے ہیں.اس لئے موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کو بار بار کہنا پڑتا ہے لَا تَخَفْ (ھود: 71) ڈرنا نہیں.باتیں ایسی تھیں جو ڈرانے والی تھیں.اپنے ہاتھ کا سوٹا بھی عصابن کے ابھرتا ہے.دوسرے دشمن جو رسیاں پھینکتا ہے وہ سانپ دکھائی دینے لگتے ہیں تو بے چارے ڈرتے کیوں نہ.ان کا ڈرنا ان کی سچائی سے تعلق رکھتا ہے.صاف دل، پاک انبیاء ہوتے ہیں وہ دشمن کے فریب کو بطور فریب نہیں سمجھتے شروع میں.جو دیکھا اپنی سچائی کی وجہ سے کہتے ہیں ایسا ہی ہوا ہوگا.جو سانپ دیکھا وہ سانپ دکھائی دیا، یہ دل کی صداقت ہے اصل میں.اللہ جانتا تھا اس حقیقت کو.اس نے کہا کہ ڈرو نہیں.دیکھو تو سہی اپنا عصا تو پھینکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے.جب عصا پھینکا گیا تو رسیاں رسیاں دکھائی دینے لگیں.تو اگر دشمن سے جب ٹکر ہوتی ہے تو اس کی بھبکیوں سے آپ مرعوب ہو جاتے ہیں اور وہ کہتا ہے میں یہ کر دوں گا اور میں وہ کر دوں گا اور آپ سمجھتے ہیں او ہو یہ تو بڑی غلطی ہوگئی.پیچھے ہٹنے لگتے ہیں اور بزدلی دکھا جاتے ہیں.تو پھر آپ کا میاب مبلغ نہیں بن سکتے.کامیاب مبلغ بننے کیلئے حکمت تو ہے لیکن بزدلی نہیں.جہاں تک حکمت کا تعلق ہے ہر نبی کو حکمت عطا ہوتی ہے.اس لئے حکمت سے عاری ہو کر کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی کیونکہ تبلیغ کے آغاز ہی میں اللہ تعالیٰ اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ (النحل: 126 ) کی شرط لگاتا ہے حکمت سے کرو لیکن خوف کی کہیں کوئی شرط نہیں کہ ڈرتے ڈرتے کرنا ، خوف کو دور فرماتا ہے کہتا ہے ہم تمہارے ساتھ ہیں.لَا تَحْزَنُ اِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبہ: 40) دیکھو خوف کس زور کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کے سر پر ابھرا تھا آپ نیچے غار میں تھے.اوپر خوف آیا اور اس طاقت کے ساتھ آیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کمزور کا ساتھ حضرت محمد ﷺ کوکسی پہلو بھی بچا نہیں سکتا تھا اور بچانا انہوں نے کیا تھا.محمد رسول اللہ ﷺ کہ رہے ہیں لَا تَحْزَنْ تو غم نہ کھا، تو ڈر نہیں فکر نہ کر کہ اِنَّ اللهَ مَعَنَا اللہ ہمارے ساتھ ہے.یہ ہے حق کا ساتھ.کوئی خوف بھی انسان پر غالب نہیں آسکتا اگر حق حقیقت میں ساتھ ہولیکن حکمت سے کام لیا ہے شور نہیں مچایا یہ نہیں کہا کہ حق میرے ساتھ ہے آجاؤ جو کرنا ہے کر لو میرا، جو لوگ یہ باتیں
خطبات طاہر جلد 14 462 خطبہ جمعہ 23 / جون 1995ء کرتے ہیں اور دشمن کو غصہ دلاتے ہیں ان کو اگر ضرر پہنچتا ہے تو حکمت کی کمی کی وجہ سے پہنچتا ہے.پس حق کیسے کام کرتا ہے حکمت اور تدبیر سے عاری ہو کر نہیں لیکن حکمت کے باوجود جب دکھائی دینے لگتا ہے کہ اب دفاع کا کوئی چارہ نہیں رہا، اس وقت پھر وہ مرعوب نہیں ہوتا بلکہ جرات سے سر بلند ہو کر یہ اعلان کرتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَنَا اللہ ہمارے ساتھ ہے.یہ اعلان حضرت موسی علیہ السلام نے بھی کیا ایک طرف دوڑ رہے ہیں فرعون پیچھے لگا ہوا ہے اور بھاگتے چلے جارہے ہیں اور کہتے ہیں ڈرو نہیں، گھبرا ؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے بظاہر تو یہ بھاگتے ہوئے کی آواز میں کیا جان ہوئی اگر وہ کہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے مگر اس وقت ان سے بیچ جانا ہی غیر معمولی ایمان کو چاہتا تھا.بچ جانے پر اعتماد غیر معمولی ایمان کو چاہتا تھا اور دیکھتے دیکھتے اللہ نے ثابت کر دیا کہ یہ کوئی کمزور بھگوڑے نہیں ہیں جو تعلی کر رہے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.موسیٰ نے خدا کا ساتھ دیکھا تھا تو کہا تھا اور اس کے ساتھ دشمن نے بھی دیکھ لیا، فرعون پر بھی ظاہر ہوا اور اس کی قوم پر بھی ظاہر ہوا.تمام تاریخ نے اس واقعہ کولکھ لیا کہ ایک کمزور خدا کا بندہ موسیٰ ایک طاقتور فرعون پر غالب آ گیا اور اس کے لشکر ڈوب گئے.پس یہ وہ حق کا ساتھ ہے جو حقیقی ہو تو کام کرتا ہے ورنہ سحر کام نہیں کیا کرتا.اگر حق کا ساتھ حقیقی نہ ہو، اگر آپ کو پورا یقین نہ ہو کہ آپ اللہ کے ساتھ ہیں اور اللہ آپ کے ساتھ ہے اگر حق کی وہ علامتیں آپ کے اندر ظاہر نہ ہوں جن کا میں بعد میں ذکر کروں گا اس وقت تک آپ دنیا کے سامنے ایک نڈر اور بے باک داعی الی اللہ کے طور پر نہیں ابھر سکتے اور آپ کی آواز میں اگر تعلی ہوگی تو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.وہ سحر ہے جادو کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں.زور کی آواز اسی وقت کام آتی ہے جب اس کے پیچھے ایک خدا کی طاقت بول رہی ہو اور جب خدا کی طاقت بولتی ہے تو کمزوروں اور نحیفوں کی آواز بھی دنیا کی سب سے طاقتور آواز بن کر ابھرا کرتی ہے.پس اس پہلو سے حق سے تعلق جوڑ و تو دیکھو تو انشاء اللہ تمہاری تبلیغ میں کتنے عظیم الشان انقلابات برپا ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 463 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء انقلاب کے تاریخ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں.سچ سے آپ کی زبان میں غیر معمولی قوت پیدا ہو جائے گی ( خطبه جمعه فرموده 30 جون 1995ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيَّا وَمَا يُوْقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْمَتَاع زَبَدُ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ (الرعد : 18 ) پھر فرمایا:.اس آیت کے مضمون پر روشنی ڈالنے سے پہلے یا اس آیت سے مضمون کی روشنی حاصل کرنے سے پہلے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ گوئٹے مالا کا چھٹا سالانہ جلسہ شروع ہو رہا ہے اور یہ تین دن جاری رہ کر 2 جولائی کو اختتام پذیر ہوگا.اسی طرح آج ہی UK کی مجلس خدام احمدیہ کا سالانہ اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے.اسلام آباد میں اس وقت یہ اجتماع ہو رہا ہوگا اور یہ بھی تین دن جاری رہے گا.تو ان دونوں کی طرف سے اس خواہش کا اظہار تھا کہ ان کا ذکر خیر اس خطبے کے موقع پر کر دیا جائے.گوئٹے مالا نے مزید یہ لکھا ہے کہ آج ہمارے لئے یہ اس لحاظ
خطبات طاہر جلد 14 464 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء سے بھی تاریخی دن ہے کہ اس سے پہلے اگر چہ باقی ارد گرد کے ممالک میں تو ٹیلی ویژن کے ذریعے آپ سے رابطہ قائم ہو گیا تھا مگر ان کے لئے کچھ وقتیں تھیں جس کی وجہ سے اب تک وہ ٹیلی ویژن کے ذریعے عالمی احمد یہ سروس میں شامل نہیں ہو سکتے تھے کہتے ہیں آج پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری وقتیں دور ہوگئی ہیں اور ہم اس وقت ایم ٹی اے کے ذریعے آپ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں اور جو پہلے پروگرام جاری ہوئے تھے وہ شامل ہیں اس میں اور اب جو خطبہ ہو رہا ہے کہتے ہیں اس کو بھی ہم دیکھ رہے ہوں گے.اس لئے خصوصیت سے آپ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھیں اور السلام علیکم کہیں.پس میں آپ سب کو محمد اکرم صاحب عمر جوامیر ہیں گوئٹے مالا کے، ان کو بھی ڈاکٹر جمال الدین صاحب ضیاء کو بھی طوماس لوئیس جو مقامی احمدی ہیں، ماشاء اللہ مخلص ہیں اکرم خالد صاحب،لوکاس صاحب ، طاہر عبداللہ اور ان کے بیٹے جو امریکہ سے یہاں آئے ہوئے ہیں ، اس وقت USA میں آئے ہوئے ہیں اور ڈش انٹینا ٹھیک کروانے میں ان کی کوششوں کا بڑا کام ہے.اسی طرح بیجی رشید صاحب ہیں وہاں مستورات ہیں، بچگان ہیں ان سب کو میں اپنی طرف سے بھی اور آپ سب کی طرف سے بھی محبت بھر اسلام پیش کرتا ہوں اور اس عالمی تقریب میں شمولیت پر مبارک باد دیتا ہوں.اسی طرح روز مرہ اللہ کے فضل سے یہ سلسلہ پھیلتا جارہا ہے.صرف احمدیوں میں ہی نہیں بلکہ غیر احمدیوں میں بھی ایم ٹی اے کی مقبولیت بہت بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں پھر مخالفتیں بھی شروع ہو گئی ہیں.ایسے ممالک میں جہاں اخبارات میں احمدیت کا ذکر ہی کوئی نہیں آتا تھا جب سے لوگوں نے ایم ٹی اے کے ذریعے رابطہ قائم کیا ہے اور اپنے تاثرات ماحول میں بیان کرنے لگے ہیں اس وقت سے وہاں بھی مخالفتوں کا زور اٹھ کھڑا ہوا ہے اور یہ جو پہلو ہے تبلیغ اور مخالفت کا یہی وہ پہلو ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے اور اس کے فوائد پر بھی اسی آیت نے روشنی ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا بظاہر تو لفظی ترجمہ ماضی کا ہے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا اگر اگلا مضمون بتارہا ہے کہ یہ ایک جاری سنت کا ذکر ہے اس لئے یہاں یہ ترجمہ کرنا صرف جائز بلکہ سیاق وسباق کے عین مطابق ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے پانی اُتارا ہے.فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا وادیاں اپنے اپنے ظرف کے مطابق بھر جاتی ہیں اور بہہ پڑتی ہیں.جب کہا جاتا ہے کہ آنکھیں جاری ہوگئیں تو مراد یہ ہے کہ آنکھوں سے آنسو جاری
خطبات طاہر جلد 14 465 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء ہو گئے.جب کہتے ہیں وادیاں بہن نکلیں تو مراد ہے کہ اتنا پانی آیا کہ وادیوں میں پانی کے دریا بہہ پڑے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر وادی اپنی توفیق کے مطابق بھر جاتی ہے اور بہنے لگتی ہے.فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِیا اور یہ جو سیلاب ہے یہ جھاگ بھی بہت اُٹھا تا ہے.ایسی جھاگ جس کے اندر او پر آنے کی خاصیت ہے.جو اس کے نیچے پانی ہے یا اور وزنی معدنیات ہیں یا زرخیز مٹی جو پانی میں گھلی ہوئی ہے اس سب کو جھاگ ڈھانپ لیتی ہے دیکھنے میں ایک جھاگ کا طوفان دکھائی دیتا ہے.فرمایا وَ مَا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْمَتَاعِ زَبَدُ مِثْلُهُ وہ سب چیزیں جن کے زیور بنانے کی خاطر یا اور قیمتی سامان بنانے کے لئے یہ استعمال کرتے ہیں اور ان پر آگ پھونکتے ہیں اور آگ پھونک کر پگھلاتے ہیں ان کو ان چیزوں میں سے بھی ایک جھاگ اٹھ کر اوپر آ جاتی ہے فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءَ پس جو جھاگ ہے وہ تو ضائع چلی جاتی ہے.اس کو تو سنار بھی ایک طرف کر کے پھینکتا چلا جاتا ہے.وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ اسی طرح جب آسمان سے پانی اُتارتا ہے.اس پر بھی جھاگ اٹھتی ہے.وہ ضائع چلی جاتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں.ہاں جو فائدہ پہنچانے والی چیز میں آسمان سے بارشوں کے ساتھ اترتی ہیں یا زمین میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں.فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ وہ باقی رکھی جاتی ہیں، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہیں اور جھاگ کا نظارہ تو آنی جانی چیز ہے.ایک فانی سا قصہ ہے ادھر جھاگ اُٹھی ادھر سوکھ کر یا ویسے ہی ہوا اڑا کر لے گئی یا ضائع ہو گئی.سمندر کے کنارے دریاؤں کے کنارے طغیانیوں کے بعد ایسی جھاگ تنکوں اور خس و خاشاک سے بھری ہوئی یا اور گندگیوں کے ساتھ ملوث ملتی ہے لیکن کبھی کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا.چند دن میں پھر وہ بھی نظر سے غائب ہو جاتی ہے.ہاں جو سیلاب میں فائدہ پہنچانے والی چیزیں ہیں وہ زرخیز مٹی پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور بہت سی چیزیں، قیمتی معد نیات جو اس کے ساتھ آتی ہیں اور آسمان کی بجلی سے جو زرخیزی پیدا ہوتی ہے سیلاب کے پانی میں وہ بھی شامل ہو جاتی ہے اور وہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو باقی رہتی ہیں اور زمین کو فائدہ پہنچاتی ہیں.یہ جو بارش ہے یہ ایک دن میں اس سے زیادہ کھاد بنادیتی ہے جتنی سارا سال ساری دنیا کے تمام کارخانے مل کر جو بناتے ہیں.اس سے زیادہ ایک دن میں بارشوں کے نتیجے میں جو آسمانی بجلی سے کھاد بنتی ہے وہ زیادہ ہوتی ہے.تو تمام تر بناء آسمان پر ہی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 466 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ که ای طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے اس پر غور کروتو تمہیں سمجھ آئے گی حق کیا ہے، باطل کیا ہے اور حق اور باطل کا آپس میں کیا ربط ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ اسی طرح اللہ مثال پیش کیا کرتا ہے.میں گزشتہ خطبے میں بھی مضمون بیان کر چکا ہوں کہ حق کا تبلیغ سے بہت گہرا تعلق ہے اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرمائی ہے.اس میں دراصل کامیاب دعوت الی اللہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ان مخالفتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو آسمان سے پانی اترنے کے نتیجے میں ضروری ہوتی ہیں اور نقشہ ایسا خوبصورت کھینچا گیا ہے کہ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جہاں یہ شور پڑے گا وہاں فائدہ بھی ہوگا اور جہاں خاموشی رہے گی وہاں کوئی فائدہ نہیں ہوگا.چنانچہ فرماتا ہے فَسَأَلَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا وادیاں اپنی اپنی توفیق کے مطابق سیلاب دکھاتی ہیں.بارش تو ہر جگہ برابر اترتی ہے لیکن جن وادیوں میں یہ توفیق ہے کہ اس کے پانی کو سمیٹیں اور پھر زور سے بہائیں وہاں یہ نظارے دیکھتے ہیں اور جہاں یہ نظارہ نہیں دیکھتے وہاں کوئی خاص باقی رہنے والا فائدہ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے.پس اس میں جو Excitement کا نقشہ کھینچا گیا ہے.ایک ہنگامے کا شور، ایک جوش و خروش کا وہ تبلیغ کے مضمون پر بعینہ چسپاں ہوتا ہے.جن علاقوں میں ٹھنڈا ٹھنڈا معاملہ چلا آرہا تھا.سال ہا سال سے بعض علاقوں میں پچاس سال سے کوئی شور نہیں تھا اور کوئی تبلیغ نہیں ہو رہی تھی.جب شور پڑا ہے تو پھر جھاگ بھی اٹھی ہے اور یہ جھاگ پانی پہ تو دکھائی نہیں دیتی مگر مخالفت ملاں کے منہ پر دکھائی دیتی ہے.یہ نقشہ جو ہے واقعی طیش میں آکر جو تقرریں پھینکتے ہیں تو منہ سے جھاگ برس رہی ہے اور یہ نقشہ جو ہے روحانی طور پر یہ کس طرح جھاگ دکھائی دیتی ہے وہ آنکھوں کے سامنے نظر آرہا ہوتا ہے.جہاں یہ جھاگ دکھاتے ہیں اور جوش دکھاتے ہیں ان کی جھا گیں تو ضائع چلی جاتی ہیں.کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جوش و خروش کے نتیجے میں زرخیز مٹی ضرور اٹھتی ہے اور وہ زمین کو فائدہ پہنچانے لگتی ہے اور بہت سے قیمتی اجزا جو انسانی سوسائٹی میں مدفون ہوتے ہیں وہ صلاحیتوں کی طرح ہیں.ان میں بڑی اچھی اچھی صلاحیتیں ہیں لیکن عملاً حرکت میں نہیں آ رہی ہوتیں، جب یہ مخالفت کا جوش اٹھتا ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ ایک سیلاب کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے تو وہ دبی ہوئی
خطبات طاہر جلد 14 467 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء صلاحیتوں کے مالک اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ پھر مستقل زمین کا فائدہ دینے والا حصہ بن جاتے ہیں.یہی حال اس وقت ساری دنیا میں تبلیغ میں دکھائی دے رہا ہے کوئی بھی استثناء نہیں.جہاں جہاں بھی یہ مہمات چلی ہیں وہیں مخالفت کا شور بھی اُٹھا ہے.وہاں تکلیفیں بھی پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اور کئی جگہ پہنچائی گئی ہیں.مگر یہ جھاگ جو ہے یہ نقصان کوئی نہیں پہنچا سکتی.آہستہ آہستہ ایک کنارے لگ گئی یا لگتی چلی جارہی ہے لیکن تبلیغ کے نتیجے میں ان علاقوں کی جو مخفی صلاحیتیں تھیں، وہ مدفون تھیں ایک طرح سے ان کو سیلاب نے اُٹھایا ہے اور اٹھا کر پھران کا انتظار کیا ہے.جو زرخیز وادیاں نہیں تھیں وہاں بھی پہنچادیا ہے.یہ سلسلہ اب چل نکلا ہے اور اس زور سے کل عالم میں رونما ہو رہا ہے کہ واقعہ بعض علاقوں میں سیلاب کی سی کیفیت ہے جو رپورٹیں آرہی ہیں ان سے آدمی یہ پڑھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ وہ جگہیں جہاں گزشتہ پچاس سال میں دس ہزار بھی احمدی نہیں ہوئے تھے وہاں چند مہینے کے اندر اندر پچاس پچاس ہزار ہو گئے ہیں اور بعض جگہ ایک لاکھ سے اوپر چلے گئے ہیں.وہی علاقے ہیں وہی لوگ ہیں آسمان کا پانی بھی تھا لیکن یہ سیلاب کی کیفیت نہیں تھی کیونکہ بِقَدَرِکا کی شرط پوری نہیں ہوئی تھی آسمان سے جو پانی اتر تا ہے.اسے وادی اپنی حیثیت اور توفیق کے مطابق لے کر پھر اس کا سیلاب بناتی ہے جن دلوں میں وہ نازل ہوا ہے وہ تو مومن دل ہی ہیں اگر ان میں کوئی ہنگامہ نہ ہو.ان میں وہ پانی بھر کر ایک سیلاب کی کیفیت پیدا نہ کرے تو وہ فوائد جو قرآن کریم کی آیت ہمارے سامنے رکھ رہی رہے.وہ حاصل نہیں ہو سکتے.پس جو ایک Excitement کی کیفیت ہے وہی ہے جو انقلاب برپا کیا کرتی ہے اور ٹھنڈے ٹھنڈے دل جو ہیں ان سے کبھی بھی دنیا میں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.حضرت مصلح الموعودؓ نے اپنے ایک شعر میں فرمایا کہ: عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہوا گر مل جائیں مجھے دیوانے دو ( کلام محمود:154) تو تبلیغ میں دیوانگی کی جو ضرورت ہے یہ اسی لئے ہے کہ اس سے Excitement پیدا ہوتی ہے اور Excite ہوئے بغیر نہ آپ تبلیغ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ لوگوں میں توجہ پیدا ہوتی ہے.دیوانگی سے ہوتی ہے، جب ایک جوش پیدا ہو جائے تو آپ کے ساتھ علاقہ جاگ اُٹھتا ہے.مولوی جو دبے بیٹھے تھے وہ بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور یہی منظر سامنے آتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 468 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء جو قرآن کریم کی یہ آیت کھینچ رہی ہے.پس بِقَدَرِهَا کا مضمون بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اپنی توفیق کو بڑھاؤ اور اپنی توفیق میں سیلاب پیدا کرنے کی صلاحیت داخل کرو اگر تمہارے اندر سیلاب آ گیا تو پھر علاقے پر یہ ضرور انڈے گا اور یہ چیزیں جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں لازماً پیدا ہوں گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو ایک چھوٹی سی وہ کٹھالی جس میں سنا رسونے کو یا قیمتی دھاتوں کو پگھلاتا ہے، چھوٹی سی چیز کے اندر بھی تو سیلاب آجاتا ہے اور ہوتا وہی ہے جیسے آسمانی پانی کے اترنے سے سیلاب کے نتیجے میں ہوتا ہے جھاگ وہاں بھی پیدا ہوتی ہے لیکن وہ Excitement کے ذریعے ہے.اب جتنے بھی Scientists ہیں وہ جانتے ہیں کہ خواہ وہ Phyiscal Reaction ہویا Chemical Reaction ہو جب تک مالیکولز اور ایٹمز Excited سٹیٹ میں نہ ہوں اس وقت تک Reaction نہیں ہو سکتا.جتنے ٹھنڈے ہوں گے اتنا ہی Reaction کم ہوتا چلا جائے گا ہے یہاں تک کہ ایک ایسا ٹمپریچر آجاتا ہے جس میں جا کر آپس میں وہ ایک دوسرے پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں.اسی لئے جب درجہ حرارت کو بڑھا دیا جاتا ہے تو زیادہ تیز ہو جاتے ہیں.پس یہ جو درجہ حرارت کا گرنا ہے ایک ایسی حد تک پہنچ جانا اس میں پھر Activity نہ رہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جو کیمیائی مادے ہیں جن میں ماحول کو تبدیل کرنے کی طاقت ہے ان میں وہ صلاحیت ہے ہی نہیں.وہ مومن جو حقیقت میں مومن ہیں جو آسمان سے اتر نے والے پانی کے نگران مقرر کئے گئے نگہبان بنائے گئے، ان کا درجہ حرارت اگر گر جائے تو وہی کیفیت ہوگی جو Unexcited State میں کیمیکلز کی ہوتی ہے درجہ حرارت گر گیا ہے.مادوں میں صلاحیت تو ہے کہ ساتھ کے کیمیکلز سے React کرے اور کچھ اور بنا دے مگر جان ہی نہیں تو حرکت کیسے کرے گی.پس جتنی بھی دنیا میں تبلیغ کرنے والی جماعتیں ہیں ان کا Excite ہونا بہت ضروری ہے اور سیلاب کی کیفیت میں یہی Excitement دکھائی گئی ہے اور قرآن کریم نے جو دوسری مثال دی ہے وہ پانی کے برعکس ہے.Excitement دو طرح سے ہوتی ہے ایک آسمان سے پانی اترنے کے نتیجے میں اور پانی کا ایک اپنا جوش ہے اور دوسرے آگ کا جوش ہے.دوسری مثال آگ کے جوش کی دی ہے کہ وہ اس پر پھونکتے ہیں دھونکنیاں بنا کر ان پر آگ پھونکتے ہیں کہ کسی طرح اس مادے میں حرکت ہو اور جو کھوٹ ملا ہوا ہوسونے میں وہ جھاگ کے
خطبات طاہر جلد 14 469 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء ساتھ ایک طرف ہو جائے اور جو اصلی قیمتی چیز ہے وہ ایک طرف ہو جائے.پس جماعت احمد یہ میں اس قسم کی ہلچل پیدا کرنے کا دور ہے اور جن جن جماعتوں میں سستی ہے غفلت ہے وہاں جو بھی ذریعہ اختیار کریں وہاں Excitement بہر حال پیدا کرنی ہوگی.کہتے ہیں پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی پھرا انقلاب ہوا کرتا ہے.کبھی ٹھنڈے دلوں سے بھی انقلاب ہوا ہے؟ پس اب سمجھ آئی حکمت کہ خدا اپنے نبیوں کو مجنون کیوں کہلانے دیتا ہے.اس لئے کہ ان کے اندر واقعہ ایک مقصد کے لئے جنون کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے کہ اگر انبیاء میں یہ کیفیت نہ ہو تو ماحول میں Excitement نہیں پیدا کر سکتے اور ہلا جلا کر ان کے اندر ایک طوفانی کیفیت بر پانہیں کر سکتے.پس اصل راز حقیقی را ز کمزور اور غافل جماعتوں کا یہی ہے کہ ان کو کسی طرح سے متحرک کر دیں، ان میں اضطراب پیدا کر دیں یہ وہ اللہ کے شیر ہیں کہ جب جاگ اُٹھیں گے ،اضطراب ہوگا تو پھر قانون ضرور جاری ہوگا.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسرائیل : 82) حق آگیا اور باطل نے تو بھا گنا ہی بھا گنا ہے.پس بعض دفعہ حق موجود بھی ہو تو آیا نہیں ہوتا.جب آتا ہے تو اس وقت جب بیدار ہو جاتا ہے جب اس کو اپنی حیثیت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ میں کیا ہوں، جب وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے.سوئے ہوئے شیر سے تو کوئی نہیں ڈرتا.ہاں جو جاگ جائے اور غرانے لگے یا دھاڑنے لگے اس سے جنگل کا جنگل دہل جاتا ہے.پس ہندوستان میں بھی اور دوسرے علاقے میں بھی جہاں مدتوں سے تبلیغ میں ایک قسم کا جمود طاری تھا.بعض علاقے ہی بالکل خالی تھے جب کہتے تھے کہ تبلیغ کرو تو کہتے تھے یہاں تو ماحول ہی نہیں ہے ہنتا ہی کوئی نہیں.اب عجیب انقلاب برپا ہورہا ہے.وہ جماعتیں جو گزشتہ سوسال سے ایک دو تین ہزار سے زیادہ نہیں ہوئیں.اب وہاں دس، دس ہزار کی تعداد میں نئے احمدی ہو چکے ہیں اور یہ نقشہ ہر جگہ پیدا ہو رہا ہے.انگلستان میں بھی ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے.انگلینڈ میں ہی لندن میں ایک ایسی جماعت ہے.جس میں Excitement ہے وہ بیدار ہے، وہ متحرک ہے، وہ ایک سیلاب کی سی کیفیت پیدا کر رہی ہے اور دیکھتے دیکھتے وہاں کے پرانے احمدیوں کے مقابل پر نئے احمدی دس گنا زیادہ بڑھ چکے ہیں.اب وہ جماعت ہی دراصل نواحمدیوں کی جماعت بن گئی ہے.پس اگر یہ لندن میں ہوسکتا ہے.تو ہارٹلے پول میں کیوں نہیں ہوسکتا، باٹلے میں کیوں نہیں ہوسکتا اور بریڈ فورڈ
خطبات طاہر جلد 14 470 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء میں کیوں نہیں ہو سکتا اور برمنگھم میں کیوں نہیں ہو سکتا.ہوسکتا ہے، خدا کی یہ بات بہر حال کچی ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے حق اور باطل کی یہ جو مثال ہم بیان کر رہے ہیں اس میں حکمتیں ہیں اس پر غور کرو.حق تو ہے تمہارے پاس لیکن سو یا ہوا حق نہیں چاہئے.ٹھنڈے مزاج کا حق نہیں چاہئے اٹھ کھڑا ہو، بیدار ہو جائے اس میں ہیجان پیدا ہو جائے پھر دیکھو کہ کس طرح غیر پر غالب آتا ہے.اور اس سلسلے میں جب حق اٹھتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ اور صفات کی بھی ضرورت پیش آتی ہے.قرآن کریم نے ان صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر : 4) جب بیداری پیدا ہوتی ہے، جھاگ اٹھتی ہے تو وہ مثال دی گئی جس میں کوئی کسی چیز میں تکلیف محسوس کرنے کا مادہ نہیں ہے اور جب زندہ چیزوں پر اس کی مثال اطلاق پاتی ہے تو پھر تکلیف بھی پیدا ہوتی ہے وہ لوگ جو جوش میں جوش دکھاتے ہیں ایک مقابل کا طوفان اٹھالاتے ہیں اور وہ طوفان قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ جھوٹ کا ہوتا ہے.باطل کا طوفان بر پا کرتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اس کے ذریعے حق کو دبا دیں.تو ایک بڑی شدید جد و جہد شروع ہو جاتی ہے.اس وقت پھر اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے، فرمایا پہلے تم اپنا حق ادا کرو پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ دو.حق حق کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہ قطعی بات ہے.اللہ کا ایک نام حق ہے.تم حق کے پجاری ہو جاؤ ، حق کے انصار بن جاؤ ، حق کی خاطر اپنے آپ کو جھونک دو اور یاد رکھو کہ تمہارے لئے جو خطرات ہوں گے اللہ ان میں تمہارا نگران ہوگا، تمہارا محافظ ہوگا.تمہیں کامیابی سے نکال لانے والا ہوگا.پھر ان میں ڈرنے کی ضرورت نہیں.مگر اس سے پہلے ایک صبر کا دور ہے فرمایا.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وہ حق کی نصیحت کرتے ہیں اور حق سے نصیحت کرتے ہیں.مبر کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر سے نصیحت کرتے ہیں.یہ ”ب“ کا لفظ بیک وقت دونوں معانی پیدا کر گیا.حق کی خاطر جھوٹ نہیں بولتے پہلا یہ مضمون ہے جب حق کی نصیحت کرتے ہیں تو اپنی نگرانی کرتے ہیں کہ وہ حق کو غالب کرنے کی خاطر ہرگز کسی قسم کا جھوٹ نہ بولیں اور یہ ایک بہت ہی اہم شرط ہے کامیاب داعی الی اللہ کے لئے.میر اوسیع تجربہ ہے کہ وہ لوگ جو بچے ہوں وہ تھوڑی بات بھی کہیں تو ان میں زیادہ طاقت ہوتی ہے ان میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ لوگ جو زیادہ بات بھی کریں ان کے
خطبات طاہر جلد 14 471 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء اند را نقلاب برپا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی.وہ جتنی زیادہ بات کرتے ہیں اتنی جھاگ اڑاتے ہیں سیلاب میں حق بھی ہے اور باطل بھی ہے دونوں کو گو یا اکٹھا کر کے جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں مدھانی میں پرڈک دیتے ہیں چیز کو اللہ وہ نقشہ کھینچ رہا ہے کہ سیلاب میں تمہیں لگتا ہے کہ حق اور باطل پرڈ کے گئے ہیں آپس میں، ایک قیامت برپا ہوگئی ہے لیکن نقصان حق کا نہیں ہوتا حق ضرور غالب آتا ہے کیونکہ اس کے اندر صبر کا مادہ ہے.وہ مضبوطی سے صبر دو طرح سے دکھاتا ہے.ایک یہ کہ حق والا حق پر قائم رہتا ہے اور کسی قیمت پر حق کا دامن نہیں چھوڑتا.یہ جو صلاحیت ہے مقابلے کے وقت جھوٹ نہ بولنا اور اور جھوٹ کا سہارا نہ لینا یہ دلائل میں قوت اور عظمت پیدا کر نیوالی بات ہے.وہ تمام لوگ جو کج بحث ہیں ان کی کج بحثی ہمیشہ جھوٹ سے پیدا ہوتی ہے.ایک آدمی دلیل میں ہار رہا ہو اور اپنے نفس کی خجالت چھپانے کے لئے ، اپنی شرمندگی دور کرنے کے لئے وہ کوئی بہانہ بنانے پر آمادہ ہوتا کہ میں وقتی طور پر اس کے مقابلے میں ہارا ہوا دکھائی نہ دوں وہ جھوٹا ہے کیونکہ مقابلہ حق اور باطل کا ہے حق اور باطل کے مقابلہ میں، جہاں بھی آپ نے حق کا ساتھ چھوڑا اور اپنے آپ کو حق پر دکھانے کے لئے جھوٹ بولا وہیں حق سے آپ کا دامن چھوٹ گیا، آپ کا تعلق جاتا رہا.پس ایسی صورت میں پھر مولوی پیدا ہوتے ہیں، کج بحث لوگ پیدا ہوتے ہیں.دلیل نہ ملے تو پھر جھوٹی باتوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور ایسے لوگوں کے منہ سے جو جھاگ اڑتی ہے.اسی کا تو نقشہ قرآن نے کھینچا ہے کہ جھاگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا.جتنی مرضی تقریریں کر لو جو کج بحث ہے وہ کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا.تھوڑی بات کرنے والا اگر بظاہر دب بھی گہا اور مقابل پر بہت ہی لسان آدمی ہو مگر ہو جھوٹا تو خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک بیان کی طاقت رکھی ہے.عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن : 5) میں ایک یہ بھی معنی ہے کہ اس نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس میں ایک کھرے کھوٹے کی تمیز کی صلاحیت رکھ دی.پس لوگ ہمیشہ بچے کو پہچان لیتے ہیں اور تھوڑی بات کرنے والا سچا زیادہ بات کرنے والے جھوٹے پر غالب آجاتا ہے.اگر فوری طور پر اس کا نتیجہ نہ بھی ظاہر ہو تو کچھ دیر کے بعد ان کے دلوں میں یہ بات گھلتی رہتی ہے اور بالآخر وہ پہنچ جاتے ہیں.بار ہا ایسا ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسے مخلصین جو کم گو تھے مگر سچے تھے بحثوں میں بظاہر ہار گئے دوسرے دشمن نے شور ڈال کر ان پر غلبہ حاصل کر لیا لیکن بعد میں وہاں کے
خطبات طاہر جلد 14 472 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء لوگ جو شامل تھے وہ پتے پوچھتے پوچھتے پیچھے آئے کوئی قادیان جاکے پہنچا، کوئی دوسرا ان کے گھران کی بستی میں اگر وہاں رہتے تھے پہنچ گیا.کہا جی ہم بھی وہاں شامل تھے ، ہمیں یہ پتا ہے کہ آپ سچے تھے وہ جھوٹے تھے.دلائل ہمیں زیادہ نہیں پتا، آپ کی سچائی ظاہر و باہر تھی.پس حق چھپائے سے چھپتا نہیں ہے نہ جھوٹ چھپائے سے چھپ سکتا ہے بالآخر ضرور ظاہر ہو جائے گا لیکن اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن ایک دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ باطل کے اوپر حق کی چادر پہنا دے اور حق کے نام پر جھوٹ کو پیش کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر خدا کی تقد مراسے ضرور نا کام بنا کے دکھاتی ہے.ایک تو اہل کتاب کی یہ صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یاهْلَ الْكِتَبِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ ( آل عمران : 72) اے اہل کتاب تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جھوٹ کے ذریعہ حق کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہو ، اس پر چادر ڈال رہے ہو اور تم جانتے ہو کہ حق ہے.اگر تمہیں یہ علم ثابت کر گیا کہ تم جھوٹے اور خدا کے حضور لازماً جواب دہ ہو گے.اس میں غلط فہمی کا کوئی سوال نہیں رہا.جس کو یہ پتا نہ ہو کہ یہ حق ہے وہ اس پر خواہ مخواہ جھوٹ کی چادر ڈالے گا کیوں.جھوٹ کی چادر استعمال کر کے چھپانے کی کوشش بتارہی ہے کہ دل سے ان کا نفس گواہ بن گیا کہ ہے سچا اگر اس کو جھوٹ سے چھپایا نہ گیا تو غالب آجائے گا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں کیا فائدہ ہو سوائے اس کے کہ تم پکڑے گئے خدا کی تم پر حجت تمام ہوگئی لیکن جب یہ صورت ہو تو اللہ تعالیٰ پھر اپنی دوسری غالب تقدیر کو ظاہر فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بَلْ نَقْذِفَ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ (الانبیاء: 19) کہ جب وہ ایسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں تو پھر ہم اپنا جلالی غلبہ مومنوں کے حق میں ظاہر کرتے ہیں.حق کے طرفداروں کی تائید میں ایک جلالی شان ظاہر کرتے ہیں.بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں.فَيَدُ مَخُہ وہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے.تو پھر اس سے بھاگے بغیر بن نہیں پڑتی.پس یہ جو آسمان سے تائیدی نشان ظاہر ہوتے ہیں.یہ صبر کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں اگر آپ حق پر قائم رہیں اور حق کو چھوڑ کر باطل کی پناہ نہ لیں.پس ہر داعی الی اللہ کو اپنے اندر سچائی کے معیار کو بلند کرنا ہوگا اور یہ اگر سچائی کا معیار روزمرہ
خطبات طاہر جلد 14 473 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء کی زندگی میں آپ کے اندر، آپ کے ماحول میں ، آپ کے گھروں میں موجود نہیں تو تبلیغ کے موقع پر کبھی آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا.جب روز مرہ کی زندگی میں انسان یا اس کے بچے جھوٹ کے عادی ہو جائیں.چھوٹی چھوٹی باتوں میں اور کچھ نہیں لطیفے بنانے کی خاطر زیب داستاں کے لئے ہی ایسا جھوٹ بولیں کہ جس کا یہ اثر پڑے کہ واقعہ اسی طرح ہوا تھا.ایک ہے کہانی یا لطیفہ وہ تو ہوتا ہی جھوٹ ہے لیکن اس کے متعلق قرآن کریم میں کہیں مناہی نہیں ہے.کہانیاں بھی حد اعتدال کے طور پر انسانی فطرت ہے لیکن کہانی یہ کہ کر نہیں بیان کی جاتی کہ سچا واقعہ مان جاؤ کہانی کہانی کے طور پر پیش کی جاتی ہے.لطیفہ لطیفے کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے اور اس میں لوگ دلچسپی بھی لیتے ہیں اور ہنتے بھی ہیں لیکن سچا سمجھ کے نہیں.میں جو بات کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو عادت ہوتی ہے ایک جھوٹی بات بنا کر کچی دکھا کر اس پر بعض لوگوں کے متعلق ہنسی پیدا کر لیں.یہ ایک بڑی دلچسپ بد عادت ہے جو ہماری سوسائٹی میں ملتی ہے.کسی شخص کے مذاق اڑانے کی خاطر، اس کی تخفیف کرنے کے لئے تحقیر کرنے کے لئے ،اس کے متعلق لطیفے بنائے جارہے ہیں اور اس کو اس طرح سوسائٹی میں شہرت دیتے ہیں گویا سچے واقعات اسی قسم کے ہوئے تھے اور دوہری تہری گندگی ہے.اس میں غیبت بھی آجاتی ہے، جھوٹ بھی آجاتا ہے اور ایسی لغو چیز ہے جس کے ساتھ تکبر بھی شامل ہے.اپنے بھائی کی تخفیف آپ کے اپنے تکبر کو ظاہر کرتی ہے اور ایسی سوسائٹی میں پھر سچ پنپ نہیں سکتا.پس بعض دفعہ بظا ہر سچ کو بھی شکست ہوتی ہے لیکن اگر آپ غور کر کے دیکھیں تو سچ کو شکست نہیں جھوٹ ہی کو ہوئی ہے.وہ جھوٹ تھا جس نے آپ کو کھا لیا جس نے آپ کے رگ وریشہ میں زہر پھیلا دیا اور جھوٹ آپ پر غالب آ گیا کیونکہ آپ جھوٹے تھے اور جھوٹ کی تائید کرنے والے تھے.پس اگر آپ بار یک نظر سے اتر کے اس صورتحال کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حق جھوٹ پر غالب آیا کرتا ہے، جھوٹ حق پر نہیں آیا کرتا.جھوٹ غالب آتا ہے تو جھوٹے پر آتا ہے اور جھوٹے پر جھوٹ ہی کو غالب آنا چاہئے.پس اس پہلو سے اگر آپ اپنی سوسائٹی کی تطہیر نہیں کرتے تو جماعت کی حیثیت سے کامیاب داعی اللہ نہیں بن سکتے.جن لوگوں کی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے یعنی ذہنی طور پر
خطبات طاہر جلد 14 474 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء میرے سامنے کئی ایسے موجود ہیں جو بہت ہی اعلیٰ سچائی کے معیار پر پورا اترتے تھے اور زیادہ باتیں کرنی نہیں آتی تھیں.بعض ایسے بھی تھے جن کو خدا تعالیٰ نے زبان کی طاقت بھی عطا کی تھی فصل الخطاب بھی عطا کیا تھا اور بچے بھی تھے ان کی تبلیغ میں بہت زیادہ برکتیں تھیں لیکن کم گو بھی جو سچا تھا وہ ایسے انسان کے مقابل پر جو چرب زبان تھا ہمیشہ تبلیغ میں زیادہ غالب آتا ہے، زیادہ کامیاب رہا ہے.میں نے کثرت سے وقف جدید کے معلمین میں اس کی مثال دیکھی ہے اور ایک جگہ بھی اس میں استثناء نہیں پایا.کئی چوپ زبان معلم ہوا کرتے تھے وہ اپنا جس طرح بھی ہو جس کو کہتے ہیں الوسیدھا کرنا، موقع پر کسی وقت چالاکیاں کر کے، ہوشیاریوں سے اپنے آپ کو غالب کر ہی لیتے ہیں یا غالب کر کے دکھاتے ہیں اور کئی دفعہ آ کے مجھے بھی قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے یوں کیا ہم نے اس طرح پر داؤ مارا اس نے یہ داؤ مارا اور ہماری فتح ہوئی مگر پوچھو کہ اس فتح کے نتیجے میں کتنے لوگ احمدی ہوئے تو احمدی کوئی نہیں.فتح ہو گئی مگر احمدی کوئی نہیں ہوا اور اس کے مقابل پر سچے لوگ بے چارے تھوڑی بات کرنے والے کبھی شرمندگی بھی بظاہر اٹھا لیتے ہیں لیکن احمدی بڑے ہوتے تھے.اب یہ جو دور ہے ہمارا یہ کثرت سے تبلیغ کا دور ہے اور ملک ملک میں انقلاب بر پا ہورہا ہے.ایسے ملک جہاں آپ کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ لوگ ایک دم جاگ اُٹھیں گے اور عظیم تبلیغی انقلاب برپا ہو جائے گا وہاں بھی یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں.جلسہ سالانہ میں انشاء اللہ تعالیٰ اب چند دن رہ گئے ہیں.جو دوسرے دن کی تقریر ہے اس میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا.مگر اس وقت میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پہلے سے زیادہ ضرورت ہے حق سے چمٹنے کی اور حق سے چمٹا جانہیں جاسکتا.جب تک کہ آپ کی سوسائٹی کا مزاج سچا نہ ہو جائے.کسی پہلو سے جھوٹ سے کام نہیں لینا.ہر موقع پر عہد کریں کہ بیچ سے چھٹے رہیں گے اور اس راہ میں قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور اصل حق پہچانا ہی اس وقت جاتا ہے جب قربانی در پیش ہو اور اس وقت بھی خدا کا ایک خاص نشان بسا اوقات ظاہر ہوتا ہے.ایک شخص حق پر قائم رہنے کی خاطر قربانی دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو ایک بڑی آفت سے غیر معمولی طور پر بچا لیتا ہے.ایسے ہی لوگوں کی ایک مثال حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ اپنے خطبے میں دی تھی یعنی سید حامد شاہ صاحب کے ایک بیٹے کی.حضرت سید حامد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت قریبی صحابہ
خطبات طاہر جلد 14 475 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء میں سے تھے اور ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سچائی اور روحانیت کا ایک مقام حاصل تھا.وہ ایک عدالت میں کسی عہدے پر تھے جس کا افسر اعلی ڈپٹی کمشنر انگریز تھا.اس زمانے میں اکثر ڈپٹی کمشنر انگریز ہی ہوا کرتے تھے یا غالباً تمام تر انگریز ہوتے ہوں گے.بہر حال وہ انگریزی حکومت کے بڑے رعب داب کا زمانہ تھا ان کے بیٹے کی کسی سے لڑائی ہوگئی اور ان کے بیٹے بہت مضبوط اور قد آور پہلوان تھے اور پہلوانی کیا کرتے تھے تو جس طرح حضرت موسی" کے متعلق آتا ہے کہ ان کے ایک ہی سکے سے اس مد مقابل کی جان نکل گئی اور ان پر قتل کا مقدمہ بنا دیا گیا.وہ ڈپٹی کمشنر خاص طور پر اس بات میں مشہور تھا کہ خواہ نا انصافی ہی کرنی پڑے اپنے انصاف کا شہرہ ضرور کرے اور سزاد ینے میں سختی کر کے وہ سمجھتا تھا کہ اس سے میرا بڑا شہرہ ہوگا اور بڑا رعب داب ہوگا کہ یہ نہیں کسی کو چھوڑتا کہ اس سے ڈر کے رہو، اس سے بچ کے رہو انہی کے دفتر میں حضرت سید حامد شاہ صاحب ایک عہدے پر فائز تھے تو اس نے کہا کہ اب یہ ٹیسٹ کیس بن گیا اور اگر میں نے اس کو پھانسی پر چڑھا دیا تو بہت شہرت ہوگی کہ دیکھو کس شان کا ڈپٹی کمشنر ہے کہ انصاف کی خاطر اس نے اپنے عدالت کے ایک بڑے افسر کے بیٹے کی بھی پرواہ نہیں کی اس کو پھانسی لگا دیا لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا کسی کے پاس.میر حامد شاہ صاحب کا ایک بڑا رعب داب ایک بڑا اثر ورسوخ تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ اعتراف کیا جائے کہ ہاں ہم نے قتل کیا ہے اگر میر حامد شاہ صاحب کا بیٹا کہتا کہ میں نے نہیں کیا تو کسی کو جرات نہیں تھی کہ ان کے خلاف گواہی دے.ڈپٹی کمشنر بھی اس بات کو سمجھتا تھا.اس نے میر حامد شاہ صاحب کو بلایا اور کہا کہ میں نے سنا ہے اور یہ کیس درج ہو چکا ہے.تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں آپ سچ بولتے ہیں آپ بتائیں یہ واقعہ یوں ہوا ہے.انہوں نے کہا کہ جہاں تک میر اعلم ہے ہوا ہے.اس نے مکا را مارا تھا اور مر گیا تھا تو اس نے کہا پھر یہ بتائیں کہ آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ کا بیٹا جھوٹ بول کر اپنی جان بچائے.انہوں نے کہا بالکل نہیں.انہوں نے بیٹے کو بلایا.انہوں نے کہا دیکھو تم سے یہ واقعہ ہوا ہے.اس نے کہا جی یہ ہوا ہے.تو پھر مان جاؤ.اس نے کہا مان گیا اور کیا چاہئے اور اقرار کر لیا کہ ہاں مجھ سے قتل ہوا ہے.اب ڈپٹی کمشنر کی نیتیں جو بھی تھیں لیکن حق میں ایک رعب ہوتا ہے.ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے جو دوسرے کو مرعوب کر دیتی ہے.باپ کا بیٹے کو قربان کرنے کے لئے اس طرح تیار ہو جانا جبکہ کوئی دوسری گواہی ایسی نہیں تھی جو اس کو ملزم کر سکے اور
خطبات طاہر جلد 14 476 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء بیٹے کا باپ کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا کہ ٹھیک ہے میں پھانسی چڑھ جاؤں گا لیکن واقعہ یہ ہوا ہے.اس پس ڈپٹی کمشنر کو صرف ایک ہی اب راستہ ہاتھ آیا کہ اس پوچھنا ہی نہ پڑے.اس نے جو مقدمہ درج کروانے والے تھے ان پر خود جرح شروع کی اور جرح کر کے یہ منہ سے نکلوایا لیا کہ دراصل پہل فلاں کی تھی یہ ایک دفاعی کوشش تھی اور میر حامد شاہ صاحب کے بیٹے سے پوچھا ہی نہیں تا کہ اس کے لئے مشکل نہ پڑ جائے کہ تم نے مارا تھا کہ نہیں مارا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کی نجات کے سامان پیدا کر دیئے.اب یہ بیچ کی برکت تھی لیکن سچ کے نتیجے میں یہ بھی ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ادھر سچ بولا ادھر برکت مل گئی.لوگ جھوٹ اس لئے بولتے ہیں کہ ادھر جھوٹ بولا اور ادھر نجات کے سامان نظر آتے ہیں.اگر بیچ سے بھی ایسا ہی ہو تو لوگ پھر سچ ہی بولا کریں جھوٹ کی کیا ضرورت ہے.تو یہ کہیں کہیں اللہ تعالیٰ کی تائید کے اظہار کے لئے اور یہ بات یقین دلانے کے لئے کہ اللہ جب چاہے تو سچ کے باوجود نجات کی طاقت رکھتا ہے اس لئے نمونہ یہ واقعات ہوتے ہیں.مگر روزمرہ تو لوگ جھوٹ سے بظاہر پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں.اب ایک اور مثال حضرت مصلح موعود ہی بیان فرمایا کرتے تھے.اس میں ایک احمدی تھا جس کو سزا ضرور ملتی تھی سچ کی مگر کبھی باز نہیں آیا.جھنگ کے تھے جن کا بیٹا بشیر آج کل ہمارے سوئٹزر لینڈ میں غالباً قائد ہیں یا کیا ہیں.بہت مخلص خاندان ہے.ان کی اولا د ماشاء اللہ ساری بڑے اخلاص کے ساتھ سلسلے کے ساتھ وابستہ ہیں.( میرے ذہن سے اس وقت نام نکل گیا ہے.مگر بہر حال ان کی کیفیت یہ تھی، یہاں شاید میں نے کہیں نوٹ کیا ہوا ہے میں نام بتا تا ہوں آپ کو ابھی مغلا، میاں مغلا تھے وہ.وہ جھنگ کے ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو رسہ گیر تھے اور رسہ گیران کو کہتے تھے.جو خود بھی چور ہوں چور رکھے بھی ہوں اور دوسرے لوگوں کے مویشی وغیرہ نکال کے لے آئیں اور سب سے بڑی شان اس رسہ گیر کی ہوتی تھی جس کا مویشی واپس نہ کرنا پڑے اور اگر مویشی واپس کرنا پڑے تو اس سے ناک کٹ جاتی تھی اور اگر پتا چل جائے کہ یہ مویشی اس جگہ ہے اور اقرار ہو جائے تو پھر واپس بھی کرنا پڑتا تھا.تو میاں مغلا احمدی ہو گئے.احمدی ہوکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں نے تو جھوٹ نہیں بولنا اور چونکہ مخالفت بھی ہوئی علاقے میں مشہور ہو گیا کہ میاں مغلا احمدی بھی ہو گیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے آئندہ سچ بولنا ہے.تو جب بھی کسی کا کوئی جانور چوری ہو،
خطبات طاہر جلد 14 477 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء بھینس، گائے ، گھوڑی، اور پتا لگے کہ اس گاؤں تک پہنچی ہے تو سارا گاؤں چوروں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا تھا کہ سوال ہی کوئی نہیں، ہمارے گاؤں میں تو آیا ہی کچھ نہیں اور میاں مغلے کو بعض دفعہ مارکوٹ کے بند کر دیا کرتے تھے کمرے میں کہ اس کا پتا ہی نہ چلے کہ کہاں ہے.تو کہتے تھے کہ ہم تو نہیں مانیں گے، نہ قسمیں کھائیں گے، نہ گواہیاں مانیں گے ، میاں مغلا نکال کر لاؤ گے تو پھر ہم بات کریں گے.تو اس بے چارے کو مجبوراً ان کے حجرے سے نکالنا پڑتا تھا اور میاں مغلا بیان کرتے تھے کہ اس وقت مجھے چٹکیاں کائی جاتی تھیں.ساتھ ساتھ.یاد دلانے کے لئے ہم بڑے ڈاہڈے لوگ ہیں، چھوڑیں گے نہیں.تو وہ پھر بے چارے ٹالنے کی کوشش کرتے تھے.وہ کہتے تھے دیکھو جی میں احمدی ہو گیا ہوں اور تم لوگ کہتے ہو یہ کافر ہے تو ان مومنوں کے مقابل پر کافر کی گواہی کا کیا مطلب.چھوڑو پرے، دفع کرو.یہ مومن گواہیاں دے رہے ہیں.بس مان جاؤ.تو وہ کہتے تھے کہ دیکھو تمہارے جیسے کافر کی گواہی کچی ، مومنوں کی جھوٹی ، اس لئے ہم نے تم سے پوچھنا ہے.آخر وہ منہ سے بات نکلوا لیتے تھے.وہ کہتے تھے مجھ سے پوچھنا ہے تو بھینس فلاں جگہ ہے.چوری کی ہمارے اپنے بھائی نے ، فلاں نے کی ہے.پھر ان کو مار پڑتی تھی.اب ایسے موقع پر میں بتا رہا ہوں کہ صبر کی ضرورت ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ حق کی بات کرو گے تو صبر بھی دکھانا پڑے گا اور ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ہر دفعہ حق کے نتیجے میں اچانک غیب سے اعجاز ظاہر ہو.صبر بھی ایک اعجاز ہے وہ سب سیچوں کو نصیب ہوتا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑے نصیب ملا کرتے ہیں ان کو یہ توفیق ملتی ہے کہ حق کی خاطر صبر کا نمونہ دکھا ئیں.چنانچہ ایک عرصے تک وہ اسی طرح ماریں کھاتے رہے اور سچ بولتے رہے بالآخر گاؤں والوں نے یہی چاہا کہ یہاں سے چلا جائے انہوں نے بھی یہی فیصلہ کیا.وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے قادیان میں آکر بیٹھ گئے.اب اللہ کے فضل سے ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر پہنچا دیا، بہت عزتیں بھی عطا کی ہیں.تو وہ پرانے جو رسہ گیر تھے وہ رسہ گیر ہی رہے.پس در حقیقت حق میں ایک طاقت وہ بالآخر ضرور آتا ہے اور علاقے میں جو شہرت ہوئی ہے اس کے نتیجے میں پھر احمدی بھی بہت ہوئے.حق میں بہت بڑی طاقت ہے.پس آپ لوگ اگر حق سے چمٹیں گے تو حق کے لئے قربانی کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا اور یہ بھی امید رہے گی کہ اللہ بعض دفعہ
خطبات طاہر جلد 14 478 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء غیر معمولی شان سے آپ کی تائید فرمائے گا اور روزمرہ کی زندگی میں خدا تعالیٰ کے یہ تائیدی نشان دکھائی دیتے ہیں.پس تمام داعیان الی اللہ کو یہ جہاد کرنا چاہئے کہ ذات حق سے تعلق جوڑنا ہے، ذات حق سے تعلق جوڑنا ہے تو صبر کرنا پڑے گا ، ذات حق سے تعلق جوڑنا ہے تو وہ تمام بنیادی صفات سے جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.جن کا حق سے تعلق ہے ان کو سمجھ کر ان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حق سے تعلق جوڑنا ہے.میں نے یہ جو بیان کیا تھا مختصراً آپ کے سامنے دہراتا ہوں.پہلی یہ بات تھی کہ حق ذات وہ ہے جس کو حمد کی ضرورت نہ ہو کیونکہ ہر حمد اسی کی ہے اس کو حمد کی احتیاج نہ ہو.پس جھوٹا وہ ہے جس کو حمد کی احتیاج ہو.تو آپ اللہ تو نہیں بن سکتے.قابل تعریف ان معنوں میں تو نہیں ہو سکتے کہ سب حمد آپ کی ہو جائے لیکن حمد سے بے نیازی بھی ایک چیز ہے اور حق کی خاطر اگر آپ حمد سے بے نیاز ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کی صفت حمید میں سے ایک حصہ پالیں گے اور اسی حد تک آپ کے اندر حق کا نمائندہ بننے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی کیونکہ بہت سے جھوٹ بولنے والے جھوٹی تعریف کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں.جھوٹی باتوں کو اپنا کر جھوٹی باتوں کی شیخیاں مار کے، جھوٹے اموال بتا کر اور کئی قسم کی ملمع سازیاں کر کے وہ فائدے اُٹھانا چاہتے ہیں.پس حمید کو جو سچا حمید ہو جھوٹ کی ضرورت نہیں ہے.اگر اس کمزوری پر آپ نے اپنی نگاہ نہ رکھی تو آپ کے اندر جھوٹ کی جڑیں قائم ہو جائیں گی.یہ ہو نہیں سکتا کہ جب بھی آپ پر اپنی تعریف کروانے کا ابتلاء آئے اور آپ پہلے سے اس کے لئے تیار نہ ہوں اور اس ابتلاء میں کامیاب نکل جائیں.پہلے تیاری کرنے ہوگی.عام روز مرہ زندگی کی باتوں میں جہاں تعریف کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے.آپ اچانک بیدار ہو کے دیکھیں کہ آپ کہیں ٹھوکر تو نہیں کھا رہے.یہ روحانی ورزش ہے جو کرنی پڑتی ہے.ایسے موقعوں پر ذہن کو بیدار رکھنا تا ہے.اگر اس طرح آپ کریں گے تو جہاں آپ حمد سے مستثنیٰ ہو جائیں گے، بالا ہو جائیں گے، جہاں آپ کے اندر استغناء پیدا ہو جائے گا وہاں آپ حقیقت میں حق بولنے کی طرف ایک اور قدم اٹھا چکے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے بھی اور حضرت خالیہ اسمع الاول نے بھی ایک واقعہ بیان کیا جو دراصل غالباً حضرت خلیفتہ اسیح الاول ہی کا دیکھا ہوا واقعہ ہے جو حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 14 479 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے اور آپ نے بھی اسے استعمال فرمایا ہے.یہ وہ مضمون ہے که انسان احتیاج کے باوجود غنی ہو سکتا ہے.اگر اس کے دل میں اس کی حرص باقی نہ رہے.پس اگر حمد کی تمنا ہر وقت رہتی ہے اور دل یہی چاہتا ہے کہ لوگ تعریف کرتے رہیں تو ایسا خوشامد پسند سچا نہیں ہوسکتا.جیسا کہ میں نے ثابت کیا ہے سائنس کے قانون کے طور پر حساب کی رو سے آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ ایسا حریص جو ہر وقت حمد کا خواہاں ہے اور حمد اس میں ہے نہیں کیونکہ حمد تو صرف خدا میں ہے یہ دو باتیں اکٹھی پڑھنی پڑتی ہیں.حمد کا خواہاں ایک ایسا غریب ہے بے چارہ جوحمد کی صلاحیتوں سے عاری ہے وہ لازماً جھوٹ بول کر اپنی دلی تمنا تعریف کی پوری کرے گا.پس یہ وہ تفصیل ہے جس میں جا کر آپ کو اپنی نگرانی کرنی ہو گی تب آپ حقیقی حق کا مضمون سمجھیں گے اور حق ہوگی کے مضمون کو اپنی ذات میں جاری کر سکیں گے.دوسری بات میں نے یہ بیان کی تھی ربوبیت کی.رزق کا احتیاج ہے جو جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے اور دنیا کے سب سے بڑے بڑے جھوٹ جو ہیں ان کا تعلق اقتصادیات سے ہے اور اس معاملے میں تو بڑی بڑی مہذب قومیں بھی، بہت ترقی یافتہ ممالک بھی جھوٹ پر منہ مارنے سے ہرگز گریز نہیں کرتے اگر اس سے ان کی قومی یا ذاتی اقتصادیات کو فائدہ پہنچے اور آپ رب بن نہیں سکتے کیونکہ رب ہی ہے جو سب کا والی وارث ہے، سب کو دیتا ہے لیکن رزق کے احتیاج سے ان معنوں میں مستغنی ہو سکتے ہیں آپ اللہ کو رب سمجھیں اور کسی اور کو رب نہ سمجھیں اور حمد کے تعلق میں بھی یہی مضمون ہے جو آپ کو فائدہ دے گا.ورنہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو از خود اچانک آپ فیصلہ کر لیں ہم سچے ہو جائیں اور بچے ہو جائیں گے.ان باریکیوں سے اس مضمون کو سمجھ کر اپنی ذات میں اس مضمون کو جاری کرنا ہوگا.آپ حمید ذات سے تعلق جوڑیں اور اسی کو صاحب حمد سمجھیں پھر اگر حمد کی تمنا ہے تو وہیں سے پوری ہوگی.دیکھیں اللہ تعالیٰ حمید ہے اور سب سے زیادہ حمد باری تعالیٰ کرنے والا احمد تھا یعنی حضرت محمد ﷺ اور سب سے زیادہ تعریف جس وجود کی کی گئی ہے وہ محمد ہے اور یہاں اللہ احمد بن گیا اور محمد رسول اللہ ﷺ کو محمد بنا دیا.تو یہ حمد کا مضمون ہے اگر ایک انسان کامل طور پر تو کل کرے اور یقین رکھے کہ حمید صرف وہ ہے اور کوئی نہیں ہے اور تمام تر حمد اس کی طرف منسوب کر دے تو حمد کی خواہش صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 480 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء پھر اوپر سے پوری ہوگی.پھر اللہ صاحب حمد بنائے گا اور ایسے شخص کو کسی جھوٹ کے سہارے کی ضرورت ہی کوئی نہیں رہتی ہے اگر ربوبیت کی تمام تر صفات اللہ کی طرف منسوب ہو جائیں اور یقین کیا جائے کہ اللہ ہی ہے جو رزق عطا فرمانے والا ہے اور اگر وہ نہیں عطا فرما تا تو میں کسی اور سے نہیں مانگوں گا اور کسی اور رزق کے سامنے سر جھکا کر شرک نہیں کروں گا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا جو وعدہ بعد میں آنے والا ہے یہ وہی مضمون ہے.اللہ کو رب مان جائیں اور پھر کسی اور کی طرح توجہ نہ کریں تو پھر آپ ربوبیت کے معاملے میں خدا کی صفت ربوبیت کے حصہ دار بن جاتے ہیں پھر آپ کو وہ لوگوں کی پرورش کرنے والا بناتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دور مجھ پر یہ تھا کہ دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے کھایا کرتا تھا یہی میری غذا تھی.آج دیکھولا کھوں ہیں جو میرے دستر خوان سے کھانا کھارہے ہیں.تو جو رب کی خاطر غریب ہو جاتے ہیں ان کو اللہ پھر ربوبیت کی صلاحیتیں عطا کرتا ہے، ان کو ربویت کا مظہر بناتا ہے، ان کے لنگر جاری کرتا ہے اور اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک سو سے زائد ممالک میں لنگر جاری ہو چکے ہیں.اب یہ جلسہ جاری ہوگا یہ وہی لنگر ہے جو آپ دیکھیں گے.تو دیکھیں خدا تعالیٰ کس طرح تھوڑی تھوڑی قربانی کو اتنا بڑھا کر دیتا ہے.پس جور بوبیت میں اپنے رب کے ساتھ تعلق قائم کر چکا ہو جس کی ساری ضرورتوں کا اللہ کفیل ہو چکا ہو جسے وہ آسمان سے آواز دے کہ آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: 37) اے باپ کی جدائی کا غم کرنے والے کیا تو جانتا نہیں کہ اللہ اپنے بندے کے لئے کافی ہے.اس کو پھر جھوٹ کی کیا ضرورت ہے.جب بچے خدا سے اس نے رزق کی ساری ضرورتیں مانگ لیں اور اسے اپا کفیل بنالیا.پس ربوبیت میں بھی آپ کو خدا سے تعلق جوڑ کر ہی حق بننا پڑے گا.ربوبیت کے تعلق میں بھی آپ ہمیشہ خطرے میں ہیں کہ آپ جھوٹ بولیں کیونکہ ربوبیت کی ضرورت ہر انسان کو ہے لیکن سچے رب سے جب تعلق باندھ لیں گے تو آپ کو جھوٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی.اسی طرح یہ مضمون آگے بڑھتا ہے.چونکہ اب وقت ختم ہو چکا ہے میں اسے چھوڑتا ہوں.مگر آخر پر یہی میرا زور ہے کہ آپ اپنے اندر اگر انقلاب کی صلاحیتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں، آپ کی مٹھیوں میں وہ تار تھمائے جائیں جو
خطبات طاہر جلد 14 481 خطبہ جمعہ 30 جون 1995ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مٹھیوں میں تھے جو انقلاب کے تار تھے ، ایک ہی رستہ ہے کہ آپ سچے ہو جائیں حق کو اختیار کر لیں اور حق سے غیر معمولی طاقت آپ کی زبان میں پیدا ہو جائے.آپ کے کلام میں پیدا ہو جائے گی اور جو کمزوریاں باقی رہ جائیں گی وہ آسمان سے پوری ہوں گی.خدا خود پھر اتر تا ہے اپنے جبروت کے نشان دکھاتا ہے اور وہ لوگ جو حق میں صبر کے ساتھ اس کے لئے قائم رہتے ہیں اس کے ساتھ قائم رہتے ہیں ان کے حق میں نشان دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 483 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء صفات الہی صرف زبان پر نہیں بلکہ دل میں گھومنی چاہئیں حق کو نہ چھوڑیں خواہ کیسی مشکل آئے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جولائی 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ دو خطبوں کے دوران میں مثالوں سے یہ بات واضح کر رہا ہوں کہ کس طرح اسماء باری تعالیٰ کا بنیادی تعلق سورۃ فاتحہ ہی میں مندرج اسماء سے ہے اور بعض دفعہ ایک ہی اسم سے جو سورۃ فاتحہ میں مذکور ہے ایک اور اسم پھوٹتا ہے بعض دفعہ ان کے اجتماعی اثر سے ایک اسم پھوٹتا ہے اور جو بنیادی صفات ہیں اللہ تعالیٰ کی ، جو ان اسماء میں سے ہیں جو غیر معمولی شان اور قوت کی صفات رکھنے والے ہیں وہ تمام سورۃ فاتحہ میں مذکور صفات سے مل کر بنتے ہیں.اس لیے اگر آپ کو یہ سمجھ آ جائے کہ کس طرح وہ ہر ایک صفت سے تعلق رکھتے ہیں تو اس سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ اس اسم کے ساتھ انسان اپنا تعلق جوڑنے کی خواہش کرے جس کے تعلقات سورۃ فاتحہ میں مذکور اسماء سے ہیں تو ہر اسم کے رستے سے وہ تعلق قائم کیا جائے گا اور کامل تعلق وہ ہوگا جو تمام بنیادی صفات کے رستے سے قائم ہو، وہ سب سے اعلیٰ اور افضل تعلق ہوگا.اس ضمن میں میں ”الحق کی مثال دے رہا تھا کہ خدا سچا ہے یہاں تک کہ اس کا نام محض سچا نہیں بلکہ حق ہے.اس کی جو بنیادی صفت ہے جس کو ہم اسم بھی کہتے ہیں ”اسم الہی وہ سچ بولنے والا نہیں بلکہ ”الحق“ ہے.یعنی مجسم سچ ، اس میں سچ کے سوا کچھ بھی نہیں.اس کی تمام صفات حقہ
خطبات طاہر جلد 14 484 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء ہیں اور کامل طور پر پیچ ہیں.اس پہلو سے ظاہر ہے کہ اس لفظ حق کا تعلق سورۃ فاتحہ میں مذکور تمام اسماء سے ہونا چاہئے تھا.اس کی بعض مثالیں میں پہلے دو خطبات میں پیش کر چکا ہوں.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ بظاہر رحمن کا تعلق حق سے کوئی نہیں ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو رحمن کا حق سے تعلق بھی بنتا ہے.رحمانیت کے تقاضوں کے وقت بسا اوقات انسان حقیقت کے بیان سے ہٹ جاتا ہے.ایک ماں کو بچے سے محبت ہے، ایک باپ کو بیٹے سے محبت ہے ، وہاں رحمانیت کا تقاضا یہ ہے یعنی جس کو وہ اپنی رحمانیت سمجھتا ہے یا جھتی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ رحم کی خاطر اس بچے کو جھوٹ بول کر بچایا جاسکتا ہے تو بچا لیا جائے.تو انسان کے لئے یہ ابتلاء ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ابتلاء نہیں ہے اس کی وضاحت میں پہلے بھی کر چکا ہوں اس لئے اس کو دہرا تا نہیں صرف یاد کروارہا ہوں آپ کو کہ اللہ تعالیٰ کو کسی موقع پر بھی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ جوان چار بنیادی صفات سے مزین ہو جورب بھی ہو، رحمن بھی ہو، رحیم بھی ہو اور مالک بھی ہو اس کو کسی موقع پر بھی کسی جھوٹ سے کام لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی.مگر انسان حمید بھی ہونا چاہتا ہے ایسا رب بننا چاہتا ہے جو صاحب حمد ہو، ایسا رحمن بھی بنا چاہتا ہے جو صاحب حمد ہو، ایسا رحیم بھی بننا چاہتا ہے جو صاحب حمد ہوں، ایسا مالک بھی بننا چاہتا ہے جو صاحب حمدہ ہو اور ان تمام امور میں عاری ہے اپنی ذات میں نہ وہ حقیقت میں قابل تعریف رب بن سکتا ہے نہ قابل تعریف رحمن نہ قابل تعریف رحیم نہ قابل تعریف مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (البقرہ: 4) تو اس مشکل کا حل کیا ہے.اس ضمن میں میں پچھلے دو خطبات میں مثالیں دے کر واضح کر چکا ہوں کہ اس مضمون کو سمجھ جائیں تو حل بھی اسی وقت سمجھ آ جاتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ صفت باری تعالیٰ جس کے درمیان اور انسان کے درمیان فاصلہ ہے اس کی اس طرح Immitation کرنے سے وہ فاصلہ مٹتا ہے جس طرح خدا میں وہ صفت ظاہر ہوتی ہے اس سے ہٹ کر اگر وہ جلوہ دکھائیں گے جو بظاہر رحمانیت کہلاسکتا ہے مثلاً ، تو اس کے بظاہر موجود ہونے کے باوجود خدا سے تعلق قائم نہیں ہوگا.یہ جو بیچ دار بات ہے اس کو اسی مثال کے حوالے سے میں دوبارہ کھولتا ہوں جو میں نے حضرت میر حامد شاہ صاحب کی پیش کی تھی.میر حامد شاہ صاحب کی مثال سے یہ بات واضح تھی کہ آپ اپنے بیٹے سے محبت رکھنے کے باوجود اس محبت سے اس حد تک مغلوب نہیں ہوئے کہ عدل کا دامن چھوڑ دیا ہو اور حق کو چھوڑ دیا ہو.چونکہ اس پہلو سے وہ خدا کے
خطبات طاہر جلد 14 485 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء قریب ہوئے اس لئے آپ کی رحمانیت اور خدا کی رحمانیت میں ایک تشابہ پیدا ہو گیا اس لئے جیسا کہ Tuning Fork میں جہاں ایک نغماتی صوت پیدا کرنے والا آلہ ایک خاص اہر پر نغمہ پیدا کرتا ہے اگر بعینہ اسی مزاج کا آلہ ہو اور اس پہلے آلے کو آپ ہاتھ رکھ کر بند بھی کر دیں تو دوسرے آلے سے وہی آواز اُٹھنی شروع ہو جاتی ہے تو صفاتی ہم آہنگی ایک ایسا گہرا سائنسی راز ہے اور اب تو کھلی ہوئی حقیقت بن چکا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں بھی یہی مضمون کارفرما ہے اور قطعیت کے ساتھ کارفرما ہے یہ کوئی اتفاقی حادثے کے طور پر نہیں بلکہ ایک یقینی صورت حال کے طور پر آپ کو جلوہ گر دکھائی دے گا.اس مثال کے ضمن میں میں ایک اصلاح بھی کر دینا چاہتا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے جو خطبے میں وہ واقعہ بیان فرمایا تھا ایسا اور جگہ بھی کئی دفعہ ہوا ہے، مجھ سے بھی بارہا ہو جاتا ہے، مجھ سے تو زیادہ ہی ہوتا ہے کہ ایک واقعہ سنا ہے اس کا عمومی تاثر تو یاد ہے مگر بعض تفاصیل یاد نہیں اور چونکہ خطبے سے پہلے بسا اوقات تیاری کا موقع نہیں ملتا اور بعض دفعہ تیاری کی بھی ہو کسی مضمون پر تو جو خدا تعالیٰ کی تقدیر چاہتی ہے وہی ہوتا ہے ایک مضمون میں پڑ کر آپ ایک سمت پر چل پڑتے ہیں اور اس سے رُک نہیں سکتے پھر ایک دھارے میں بہتے چلے جاتے ہیں.ضمناً جو واقعات یاد آتے ہیں وہ ضروری نہیں ہوتا کہ بعینہ اسی صحت کے ساتھ ہوں جیسا کہ اصل میں پیش آئے تھے مگر یہ بات ضروری ہے کہ جس مقصد کے لئے وہ پیش کئے جاتے ہیں اس مقصد کو ثابت کرنے اور حاصل کرنے میں اگر معمولی لفظی غلطیاں رہ بھی گئی ہوں تب بھی وہ پورا کام کرتے ہیں.پس اس واقعہ سے متعلق تصحیح یہ ہے کہ حضرت میر حامد شاہ صاحب کی ایک بھانجی تھی سیدہ فضیلت بیگم اور ان کے بھائی کے بیٹے تھے.سید میر عبدالسلام صاحب جو انگلینڈ کی جماعت میں بھی بہت عرصہ رہے ہیں اور ایک مشہور کرکٹر کے طور پر بھی ان کا نام کرکٹ کی جو تاریخی کتابیں ہیں ان میں بھی لکھا گیا ہے، ان کی اولاد ہے یہاں.ماشاء اللہ ان میں سے ایک آپاشا ما ہیں جو بچپن سے ہمارے گھروں میں سیالکوٹ سے آ کر مہمان ٹھہرا کرتی تھیں، بڑی بہن کی طرح ان سے بہت گہرا پرانا تعلق ہے ،انہوں نے گھر میں جو واقعہ سنا اور ان کے سارے خاندان میں جو جس طرح رائج ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے معلوم ہوتا ہے جب سنا تھا تو بعض باتیں خطبے میں بیان کرتے وقت ذہن میں نہیں رہیں اس لئے چونکہ ایک
خطبات طاہر جلد 14 486 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء تاریخی واقعہ ہے میں اس کی درستی کرنا چاہتی ہوں.جب انہوں نے بیان کیا تو مجھے بھی یاد آ گیا کہ اسی طرح میں نے بھی بچپن ہی میں سنا تھا اس لئے اس واقعہ کی تصحیح ہونی چاہئے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور بھی بارہا ایسی باتیں ہوتی ہیں جو بنیادی طور پر غلط نہیں مگر کچھ ستم رہ جاتے ہیں.اصل واقعہ یہ تھا کہ ایک حد تک حضرت مصلح موعود کا بیان چلتا ہے بعد کے ایک واقعہ کا حضرت مصلح موعود کو یا علم نہیں ہوا یا اس وقت ذہن سے اتر گیا ہے.جس ڈپٹی کمشنر کی بات ہو رہی تھی کہ وہ بہت ہی سختی سے انصاف چاہتا تھا اپنے نام و نمود کی خاطر، انصاف کی خاطر نہیں یا برٹش حکومت کا رعب قائم کرنے کے لئے نہ کہ حصول انصاف کے لئے حضرت مصلح موعود کو جو تاثر تھا وہ یہ تھا کہ کسی ڈپٹی کمشنر نے وہ فیصلہ دیا جو اصل واقعہ ہے وہ اس طرح نہیں ہے.واقعہ یہ ہے کہ جب اس ڈپٹی کمشنر نے جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ حکومت کا نام و نمود قائم کرنے اور اپنے انصاف کا چرچا کرنے کی خاطر بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ غیر منصفانہ تحتی کرتا ہے.اس کی عدالت میں حضرت میر حامد شاہ صاحب سپر نٹنڈنٹ تھے اور اس زمانے میں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں سپرنٹنڈنٹ ہونا آج کل کے چیف سیکرٹری ہونے سے بھی بڑی بات کبھی جاتی تھی.اس نے یہ سوچا کہ ان کے بیٹے سے ایک قتل ہو گیا ہے مشہور یہ ہوا ہے مقدمہ پیش ہو گیا ہے اور اگر میں نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا تو میری بدنامی ہوگی کہ میں چونکہ اپنے سپر نٹنڈنٹ سے تعلق رکھتا ہوں،اس کا لحاظ کرتا ہوں، اس کی لحاظ داری کی خاطر میں نے انصاف چھوڑ دیا.تو اس بات پر تلا بیٹھا تھا کہ میں ضرور اس کو پھانسی چڑھاؤں گا اور حضرت میر صاحب پر اتنا اعتمادتا سچائی کے لحاظ سے کہ خودان کو بلایا اوران سے کہا کہ یہ واقعہ سنا ہے کہ ایسے ہوا ہے.انہوں نے کہا سنا تو میں نے بھی ہے مگر میں موقع پر موجود نہیں تھا تو انہوں نے کہا کہ پھر اگر اس نے کیا ہے تو اپنے بیٹے کو کہو کہ سچ بولے.میر صاحب نے اپنے بیٹے جن کا نام سید سعید احمد تھا ان کو بلا کر نصیحت کی اور انہوں نے وعدہ بھی کر لیا.یہاں تک تو بات درست ہے اسی طرح تھی.اگلی بات جو سہو حضرت مصلح موعودؓ سے بیان کرنی رہ گئی وہ یہ تھی کہ سید احمد پر جب اس کے دوستوں اور سیالکوٹ کے اور بااثر خاندانوں نے زور ڈالا اس کو کہا کہ تم اپنے باپ کی باتوں میں آ کر کیوں اپنی جان کھوتے ہو تم جانتے ہو کہ قتل عمد نہیں ہے.اس لئے عدالت میں کبھی ہاں نہ کرنا، اس کے بغیر ثبوت ہی کوئی نہیں ہے.اگر تم منکر ہو گئے تو عدالت تمہارے خلاف فیصلہ دے ہی
خطبات طاہر جلد 14 487 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء نہیں سکتی تو وہ بیچارے اس عرصے میں پھر گئے.جب عدالت میں پیش ہوئے اور ڈپٹی کمشنر نے پوچھا تو انہوں نے کہا نہیں غلط بات ہے میں نے تو نہیں ایسا کیا.حضرت میر صاحب کی جوشان تقویٰ ہے وہ اس طرح ظاہر ہوتی ہے اسی وقت کھڑے ہوئے اور پہلے چونکہ پوچھ چکے تھے ، پتا تھا اب گواہی دے سکتے تھے ڈپٹی کمشنر سے کہا یہ جھوٹ بول رہا ہے اس سے پوچھیں کہ جو تم نے دایاں ہاتھ جیب میں ڈالا ہوا ہے یہ کیوں ڈالا ہوا ہے نکالو تو سہی، اس کا انگوٹھا دیکھیں جس زور سے اس نے مکا مارا تھا اسی وقت سے اس کا انگوٹھا جو ہے زخمی ہے اور اسی لیے آپ کی عدالت میں جیب میں ہاتھ چھپایا ہوا ہے تاکہ پتا نہ لگ جائے.جب ہاتھ نکلوایا تو واقعی انگوٹھے پر وہ بہت زور سے، جو شدت سے مکا مارا تھا تو بعض دفعہ ضرب آجاتی ہے اس کی وجہ سے جو نشان تھا وہ سوجا ہوا تھا تو جج نے وہیں بات ختم کر دی اور اس کے بعد اس کی نیت ظاہری طور پر یہی تھی کہ ان کو پھانسی چڑھا دے گا.اب حضرت میر صاحب اپنی اولاد سے بہت محبت کرتے تھے یہ میں رحمانیت کی مثال دے رہا ہوں کہ وہ واقعہ مجھے اس ضمن میں کیوں یاد آیا اور اس کا کیا گہرا تعلق ہے.سچائی اور رحمانیت کا رشتہ کیا ہے.ان کو بہت پیار تھا اپنی اولا د سے ویسے ہی بہت شفیق تھے انہوں نے جانماز بچھالی.رات کو رورو کے گریہ وزاری شروع کی کہ اے میرے آقا تیری خاطر میں نے سچ بولا ہے تو حق ہے مگر تو جانتا ہے کہ میرے بچے کا قصور بھی کوئی نہیں اور مرا تو اس کے ہاتھوں ہے مگر بالعمد قتل نہیں ہے اس لیے بچانا بھی تو نے ہی ہے جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا اس سے ایک دن پہلے اچانک اس ڈپٹی کمشنر کی تبدیلی ہوگئی اور فیصلہ سنائے بغیر اسی طرح رہ گیا.جو دوسراڈ پٹی کمشنر آیا ہے اس نے جب کیس دیکھا تو اس نے کہا ، اس کے الفاظ یہ تھے کہ یہ کیا پاگلوں والی بات ہے ہم بھی تو کبھی جوان ہوا کرتے تھے ہمیں پتا ہے کہ جوانی کے جوش میں مقابلے ہو جاتے ہیں لڑائیاں ہو جاتی ہیں ارادہ تو قتل کا نہیں ہوا کرتا اس لیے کیس ہی Dismiss کیا جاتا ہے اس میں کوئی جان نہیں.تو یہ جو واقعہ ہے یہ دراصل اس بات پر گواہ ہے کہ رحمانیت جھوٹ کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ سچ کو آزماتی ہے اور جو اس آزمائش میں پورا اترے گا وہی سچا رحمن ہے اور اسی کا رحمن خدا سے تعلق قائم ہوتا ہے اور وہ بڑی شان کے ساتھ اس تعلق کو پھر ظاہر بھی فرما دیتا ہے.رحمانیت کے تعلق میں میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ چونکہ صاحب حمد ہے وہ، رحمن بھی صاحب حمد ہے اگر رحمن سے کوئی ایسی بات
خطبات طاہر جلد 14 488 خطبہ جمعہ 7 جولائی 1995ء سرزد ہو جائے جو قابل تعریف نہ ہوتو وہ رحمن صحیح معنوں میں نہیں رہتا.مگر قرآن کریم میں براہ راست بھی رحمانیت کا حق سے ایک تعلق ظاہر کیا گیا ہے سورۃ الرحمن کو آپ پڑھ کر دیکھیں اس میں جتنے بھی مختلف دلچسپ انداز میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر ہے وہ سب دراصل رحمانیت کی تفسیر ہیں اور اسی لیے بار بار یہ تکرار ہے فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ (الرحمن : 14 ) وہ تمہارا رب جو رحمن ہے اس کی کسی نعمت کا تم انکار کرو گے.اور اس میں جو سزائیں ہیں وہ بھی نعمت کے طور پر درج ہیں کیونکہ وہ سزائیں نہ ہوں تو نظام کائنات درہم برہم ہو جائے اور سارے معصوم لوگ مارے جائیں اور مصیبت میں گرفتار ہو جائیں.تو یہ جو تعلقات ہیں بڑے باریک اور بڑے گہرے ہیں لیکن قرآن کریم میں ہر بات کھول کر پیش کر دی گئی ہے سورۃ الرحمن ہی میں شروع میں اللہ تعالیٰ رحمن خدا کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتا ہے.وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ : أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن: 9-8) اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کی یعنی عدل قائم کیا اور عدل کا تر از وقائم کیا.یہ دونوں باتیں میزان میں آجاتی ہیں اَلَّا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ تاکہ تم عدل میں کبھی بھی بے اعتدالی نہ کرو.ساری کائنات کی بناء عدل پر رکھ دی ہے اور رفعتوں کا تعلق عدل سے ہے ورنہ زمین میں بھی تو وہ میزان پایا جاتا ہے.ذکر فرمایا ہے وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ دیکھو رفعتوں کی طرف تم کس طرح مرغوب ہو کر دیکھتے ہو لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ تمام رفعتوں کی بناء میزان پر ہے اگر میزان نہ رہے تو کوئی رفعت باقی نہیں رہتی اور نصیحت یہ ہے اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ کہ تم میزان میں کبھی بھی بے اعتدالی سے کام نہ لینا.پس اس موقع پر اس آیت کی تفسیر کھل کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے ایک طرف حضرت میر صاحب کا اپنے بچے کے لئے رحم تھا جو جوش مار رہا تھا دوسری طرف یہ تعلیم تھی کہ رحمن خدا ہی نے عدل بنایا ہے اور یہ کھول کر تمہارے سامنے اس لئے پیش کر رہا ہے تا کہ تم کبھی بے اعتدالی نہ کرنا.تو جو رحمن کے حقیقی معنی تھے ان کا گہرا تعلق انصاف اور سچائی سے تھا.اگر رحمانیت کے نام پر ، رحم کے نام پر آپ سچائی کو چھوڑ دیتے تو رحمن سے تعلق کٹ جاتا.پس آپ نے بھی اگر رحمن خدا سے تعلق قائم کرنا ہے تو حق کے رستے سے تعلق قائم ہو گا فرضی رحمانیت کے ذریعے نہیں ورنہ جتنے دنیا میں
خطبات طاہر جلد 14 489 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء جرائم ہیں اکثر رحمانیت ہی سے پھوٹ رہے ہیں یعنی وہ رحمانیت جو خدا کی نہیں ہے جو عدل سے عاری ہے اور بندوں کی رحمانیت ہے.پس ایک اور سبق اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ کوئی رحم جو عدل کے تقاضوں کو چھوڑ کر کیا جاتا ہے وہ جائز نہیں ہے پہلے عدل ہے پھر رحم ہے.چنانچہ اسی ترتیب سے قرآن کریم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ پہلے عدل ، پھر احسان، پھر اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَائِ ذِي الْقُرْبی ( انحل: 91).پہلا قدم عدل کا ہے پھر احسان کا ہے پھر ایتاء ذی القربی ہے.عدل سے اوپر کے دونوں مقامات رحمانیت کے تابع ہیں.احسان بھی رحمانیت کے تابع ہے اور ايْتَائِ ذِي الْقُرُبی بھی رحمانیت کے تابع ہے لیکن عدل کی بنیاد نہ ہو تو یہ دومنزلیں اوپر بن ہی نہیں سکتیں.اور عدل سچائی کا دوسرا نام ہے، حق کا دوسرا نام ہے.پس سورۃ فاتحہ میں جو صفات ہیں یا اسماء الہی ہیں فی الحقیقت ان کا تمام صفات باری تعالیٰ سے گہرا تعلق ہے.یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے اور اسے سمجھنے کے نتیجے ہی میں آپ ان چاروں صفات سے تعلق قائم کر سکتے ہیں اور خدا کی تمام صفات سے اس واسطے سے تعلق قائم کر سکتے ہیں لیکن اس کی راہ میں کچھ مشکلات درپیش ہیں کچھ امتحانات ہوں گے.کہیں ربوبیت سے تعلق قائم کرنے کی راہ میں بے شمار مسائل آئیں گے، بے شمار وقتیں پیش آئیں گی اور آپ کے امتحان ہوں گے.اللہ رب ہے یہ حق بات ہے لیکن آپ بھی رب بنتے ہیں اپنی اولاد کے لئے ، اپنے عزیزوں کے لیے ان کی بھی ربوبیت کرتے ہیں یہ بھی اپنے دائرے میں حق بات ہے لیکن اللہ کی ربوبیت کسی جھوٹ کی محتاج نہیں ہے.اگر آپ کی ربوبیت جھوٹ کی محتاج ہے اگر رزق پیدا کرنے میں بددیانتیاں ہیں، دھو کے بازیاں ہیں اور دوسروں کے رزق چھینے گئے ہیں، ربوبیت کی بھی نفی ہو جاتی ہے، رحمانیت کی بھی ہو جاتی ہے، رحیمیت کی بھی ہو جاتی ہے اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی بھی ، یعنی اگر اس مضمون کو بڑے غور سے آپ پڑھیں گے تو بات وہاں جا کے ختم ہوگی.پس صفات باری تعالیٰ سے تعلق زبان سے نام جپنے سے نہیں ہوسکتا.پتا نہیں کن لوگوں کے دماغ میں یہ بات آگئی کہ ذکر الہی اس کو کہتے ہیں.قرآن کریم کی رو سے ذکر الہی وہ ہے تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ (الزمر: 24) کہ اس سے انسان کے چمڑے پہ جھر جھریاں طاری ہو جاتی ہیں جو ڈوبتا ہے دل میں اور ایک زلزلہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی ہو سکتا ہے کہ تسبیح کے دانے پر انگلیاں نہ چل
خطبات طاہر جلد 14 490 خطبہ جمعہ 7 جولائی 1995ء رہی ہوں بلکہ صفات باری تعالیٰ دل میں گھوم رہی ہوں اور اپنے جلوے دکھا رہی ہوں دماغ اس کے نتیجے میں Excite ہو جائے اور غور کر رہا ہو اور پھر اپنے عمل میں وہ جاری ہونا شروع ہو جائے.ایسے مقامات آتے ہیں کہ جب انسان سمجھ تو لیتا ہے لیکن عمل میں جاری کرنے کی راہ میں ایک روک پیدا ہو جاتی ہے اپنی کمزوری، اپنی مشکلیں اور یہ اکثر انسانوں کے ساتھ ، اکثر دفعہ یہی معاملہ ہوتا ہے اس کا خلاصہ وہی شعر ہے اس شعر میں بیان ہوا ہے کہ جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی (دیوان غالب : 249) یہ تو نہیں کہ مجھے پتا نہیں کہ طاعت و زہد کا ثواب کیا ہے لیکن طبیعت نہیں آتی اس طرف.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ فاتحہ ہی کے حوالے سے اس کا حل پیش فرمایا.آپ نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ میں خدا سے تعارف حاصل کرنے کے نتیجے میں یہ غلط ہے کہ تم اس سے تعلق جوڑ سکو گے.ہر قدم پر تمہاری راہ میں مشکلات ہوں گی.روز مرہ کے رزق کے ذرائع ہیں ان میں بھی آپ کو مشکلات پیش آتی ہیں، اپنے مقاصد دوسرے ہیں جو حل کرنے ہیں ان میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں، رحیم بننے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں، رحیم وہ ہے جو جس کا بھی جتنا کام آپ کے ذمہ ہے اس کی محنت سے بڑھ کر اس کو پھل دو لیکن جب آپ لوگوں کے کام کا حق اپنے پاس رکھنے لگ جاتے ہیں اور ا کثر دنیا میں Exploitation اسی کا نام ہے، اکثر دنیا میں غریب کو اس کی محنت کا پھل نہیں دیا جاتا اور انسان اس پہلو سے رحیم نہیں رہتا.اگر کوئی کہے کہ جو بھی کسی ملک کے قوانین یا قواعد ہیں ان کی رو سے میں نے ایک مزدور کا، ان کی محنت کا پھل دے دیا تو اس میں بھی ایک دھوکا ہے.بعض ملکی اقتصادی حالات ایسے ہیں کہ جہاں مزدور کی مزدوری ساری قوم نے دبائی ہوئی ہے اور اتنی تھوڑی ہے کہ اس پر ایک غریب پل ہی نہیں سکتا.تو ایک انسان اگر آنکھیں کھول کر دیکھے، اپنے نفس پر غور کرے اور یہ سوچے کہ کیا میں اس مزدوری کو قبول کر کے یہ محنت کر سکتا ہوں تو اس کا دل گواہی دے گا، اس کے اندر ایک نظام موجود ہے، وہ گواہی دے گا کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا.پھر یہ عذر رکھ کر کہ اقتصادی طور پر اتنی ہی مزدوری بنتی ہے میں نے حق ادا کر دیا یہ جھوٹ ہے.رحیم سے آپ کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا قانون آپ کو پکڑے یا نہ پکڑے.زیادہ سے زیادہ آپ یہ عذر رکھ سکتے ہیں کہ میں نے
خطبات طاہر جلد 14 491 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء کوئی جرم نہیں کیا مگرنہ بھی کیا ہوتو رحیم خدا سے اپنا تعلق تو کاٹ لیا اور اس کے نتیجے میں بہت سی باتوں سے محروم رہ گئے اور رحیمیت کا جو حق سے تعلق ہے اس مضمون میں آپ ڈوبے تو آپ کو وہ دکھائی دینے لگا.قانون کا عذر حق نہیں ہے.حقیقت حال کی تہہ میں اترنا اور کسی معاملے کو سمجھ کر اس کے مطابق اس کا سلوک کرنا یہ حق ہے اور یہی سچائی ہے.پس اللہ تعالیٰ اگر اسی طرح عذر رکھ کر کہ تم نے یہ کام اتنا کر لیا اس کی مزدوری مل گئی اگر اپنی مخلوقات سے سلوک کرتا تو ساری مخلوق بھوکی مرجاتی یا کچھ بھی اس کو حاصل نہ ہوتا.بعض دفعہ ایک انسان میں زیادہ کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوتی اور ضرورتیں زیادہ ہیں.اللہ رحیمیت میں اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ جتنا کسی نے کچھ کیا ہے ، تو فیق کے مطابق کر دیا اب میں ضرورت کے مطابق اس کو دوں اس لئے رحیمیت کا صرف یہ مطلب کرنا کہ پورا پورا بدلہ دیتا ہے یہ درست نہیں ہے.اس میں تو رحم کی کوئی بات نہیں وہ تو عدل کا معاملہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو کھول چکے ہیں کہ اللہ کو مالک کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے عادل کے طور پر نہیں اگر چہ مخلوق کے حوالے سے اس نے عدل کے نظام کو عام کر دیا.کوئی بھی مخلوق عدل کے تقاضوں سے باہر نہیں رکھی لیکن خود عدل سے بالا ہے.جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر عادل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عدل کے تقاضوں سے بڑھ کر دینے والا ہے رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے اور مالک بھی ہے اس لئے ناپ تول کے نہیں دیتا جتنا کوئی کرتا ہے اتنا تولا ز ما اس میں شامل ہوگا اگر وہ زیادہ دیا جائے گا.اس لئے اس کو عادل نہیں کہتے اس کو محسن کہہ دیں گے اِيْتَائِ ذِي الْقُرُبی کا سلوک کرنے والا کہہ دیں گے مگر اگر وہ ناپ تول کر برابر دے تو پھر وہ عادل کہلائے گا اور اس لحاظ سے اس کو پھر ہر گناہ کی سزا بھی دینی پڑے گی وہاں بھی مالکیت کام آتی ہے.ہم اگر ہمارے سامنے گناہ آئیں یا جرائم پیش ہوں اور ہم قانون کی نمائندگی میں فیصلہ کرنے کی کرسی پر بٹھائے جائیں تو ہم چونکہ مالک نہیں ہیں اس لئے وہ فیصلہ نہیں کر سکتے.یعنی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے جو کسی پہلو سے بھی ظاہری عدل کے خلاف ہو.بیچ میں جو کچھ بھی ہو ہم مجاز نہیں ہیں اور حقیقی مجاز اللہ ہی ہے.اس وجہ سے اگر آپ بات کو سمجھنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ حق کے اندر یہ ہے لیکن خدا ہی کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع مجبور ہیں کہ اس حق کو جاری نہیں کر سکتے تو آپ کا کام یہاں ختم ہو جاتا ہے.پھر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا کام شروع ہو جاتا ہے پھر اس کا کام ہے کہ
خطبات طاہر جلد 14 492 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء اپنی ملکیت کی شان آپ کے حق میں دکھائے اور جو آپ چاہتے ہوئے بھی خدا کی خاطر کرنے سے رک گئے تھے وہ اللہ آپ کے لئے جاری فرما دے.پس وہ جو مثال تھی حضرت میر صاحب کی اس میں یہ بات بھی بڑی کھل کے سامنے آ گئی.جانتے تھے کہ اندر سے حق یہ ہے کہ اس کو سز انہیں ملنی چاہئے جانتے تھے کہ میں بے اختیار ہوں میں مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ نہیں ہوں اس لئے مالک کا کام مالک کے سپرد کروں جو میرا کام ہے میں اتنا ہی کروں اور پھر مالک سے مانگوں اور مالک رحیم ہے عدل سے بالا رحیم ہے یعنی عدل کے تقاضوں کو قربان کر کے رحیم نہیں بلکہ عدل کے تقاضوں سے بڑھ کر دینے والا ہے.پس اس پہلو سے جو خدا کی شان ظاہر ہوئی ہے وہ غیر معمولی تھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا.یہ اعجاز تھا ایک کہ ایک دن پہلے دستخط کرنے سے اس کا فوری تبادلہ کر دیا جاتا ہے اور جو دوسرا آتا ہے وہ معاملہ فہم ہے اور قانون اس کو اجازت بھی دیتا کہ معاف کر دے.پس خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے حق پر قائم ہونا ضروری ہے جس کا ایک دوسرا نام عدل بھی ہے اور ان تمام صفات کے حوالے سے آپ پر جو آزمائشیں آئیں ان پر پورا اتریں گے تو پھر آخر آپ اس خدا سے تعلق جوڑ لیں گے جو تمام تر حق ہے اور آپ کی تائید میں پھر وہ ایسے نشان دکھائے گا جس کی کوئی مثال اس دنیا میں دکھائی نہیں دیتی.یہ جو میں آپ کے سامنے باتیں بیان کر رہا ہوں، آئے دن اس کی مثالیں میرے سامنے آنی شروع ہوگئی ہیں.کئی احمدی لکھ رہے ہیں کہ آپ نے فلاں خطبے میں خدا کی فلاں صفت کا ذکر کیا ، فلاں اسم کی تشریح کی ، ہمیں پہلے علم نہیں تھا کہ یوں ہونا چاہئے.ہم نے جب اس کے مطابق کیا تو اللہ کا یہ احسان ہم پر نازل ہوا.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قرب کا ایسا نشان دکھایا گیا جو ہمارے سامنے یوں لگتا تھا کہ ہم نے آمنے سامنے اس حقیقت کو پالیا ہے کہ خدا کے جس اسم سے تعلق قائم کریں اس کا پھل ضرور ملتا ہے.پس وہ شجر جو پھل دار ہو جائے اس شجر کو آپ جھوٹا کیسے کہہ سکتے ہیں وہ حق ہی حق ہے.اور خدا تعالیٰ کا جو شجر ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کے نتیجے میں قائم ہوتا ہے وہ ثمر دار بھی ہے اور ہر موسم میں پھل لانے والا ہے.اس لئے آپ ان باتوں پر غور کر کے، سمجھ کر عمل شروع کریں تو پھر دیکھیں کہ یہ کوئی فرضی تسبیح کے موتی پھیرنے والے صوفی نہیں بنیں گے.ایسے اللہ سے تعلق رکھنے والے بنیں گے جیسے ایک عاشق اور معشوق کا گہرا تعلق ہوتا ہے اور پھر وہ آکے سارے کام بنائے گا،
خطبات طاہر جلد 14 493 خطبہ جمعہ 7 جولائی 1995ء آپ کی تائید میں اترے گا اور جب آپ سے آزمائش لے گا یا آپ کی آزمائش کرے گا تو آپ کو طاقت بھی دے گا، آپ کو سہارا بھی دے گا کہ اس میں سے کامیابی سے گزر جائیں اور نا کام نہ ہوں اور یہ بھی اس رستے کی مشکلات ہیں یا آزمائشیں ہیں جن سے گزرنا پڑتا ہے.اگر یہ نہ ہوں تو پھر ہر کس و ناکس اسماء الہی کی طرف دوڑے گا اور سوسائٹی کی چھان بین نہیں ہو سکتی کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ہے.جہاں لگے ہاتھوں فائدہ ہی فائدہ ہو وہاں تو بعض دفعہ جو نسبتا کم کردار لوگ ہیں وہ زیادہ جلدی پہنچا کرتے ہیں تو صفات الہی میں ہر قسم کے Valves اللہ تعالیٰ نے رکھ دیئے ہیں.یہ مضمون ایسا ہے جہاں Safety Valves لگائے گئے ہیں.باہر سے لوگ جو دیکھتے ہیں، ان کو آپ کے روحانی تجربات دکھائی نہیں دے رہے ہوتے ان کو صفات باری تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والوں کی مشکلات نظر آ رہی ہوتی ہیں.وہ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں جگہ مقدمے ہوئے اتنے آدمی ان کے پکڑے گئے یہ مصیبت پڑی جھوٹ نہ بولیں تو ان کے کام نہیں بن سکتے.تو وہ ساری مصیبتیں جو باہر کی آنکھ دیکھ رہی ہے وہ گندوں کو پرے رکھنے کے لئے ہے.اور ایک مومن کی اندر کی آنکھ ہے وہ بتا رہی ہے کہ باہر والے جس کو جہنم سمجھ رہے ہیں اس کے اندر تو رحمت ہی رحمت ہے اور اسی مضمون کو قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ بعض بد اور بعض نیکوں کے درمیان مرنے کے بعد ایک مکالمہ ہو گا بد لوگ یہ کہیں گے کہ اپنا نور ہمیں بھی تو دو ہم بھی اس سے کچھ فائدہ اٹھائیں.تم جو آگے بڑھ رہے ہو خدا کی راہوں میں ہمارا بھی کچھ انتظار کر وہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو ان کو وہ جواب دیں گے کہ تم واپس لوٹ جاؤ جو نور تم چھوڑ آئے ہو وہ اب تمہیں مل نہیں سکتا اور اس کے بعد ان کے درمیان ایک دیوار قائم کر دی جائے گی اور اس میں ایک دروازہ ہوگا.دیوار کی تو سمجھ آگئی کہ روک بن گئی لیکن دروازہ کیوں ہے اس لئے کہ مغفرت کا تقاضا ہو گا کہ کئی ان میں سے بالآخر اس دروازے سے اندر جاسکیں اگر دروازہ ہی کوئی نہ ہوتو پھر تو ہمیشہ کے لیے وہ برباد ہو گئے.پھر فرمایا کہ وہ دیوار عجیب ہے کہ اس کے باہر کی طرف تو جہنم ہے اور بہت تکلیف دہ صورتحال ہے.اندر آئیں تو رحمت ہی رحمت ہے.تو یہی وہ مضمون ہے جو میں آپ پر کھول رہا ہوں کہ خدا کی راہ میں کوششیں کرنے والوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کوششیں کرتے ہیں تو ابتلا بھی آتے ہیں لیکن اللہ ان ابتلاؤں کو ٹال بھی دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں اتنا رحمت کا
خطبات طاہر جلد 14 494 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء سلوک فرماتا ہے کہ وہ ابتلاء بالکل معمولی اور بے حقیقت دکھائی دینے لگتے ہیں.یہ ابتلاء اس لئے ضروری ہیں کہ اگر ہر تعلق کا جواب لا زما شیرینی ہی سے ملے تو پھر سب جھوٹے بھی اسی تعلق کی طرف دوڑیں گے کیونکہ ان کو تو اپنے نفس کی حاجت روائی چاہئے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایک دیوار قائم کر دی ہے بیچ میں، باہر کی دنیا دیکھتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں جہنم ہی جہنم ہے اس دروازے کی طرف بڑھنا بڑی مصیبت ہے ان کے قدم باہر رک جاتے ہیں.جو اندر داخل ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں مصیبتیں تو سب باہر کی طرف ہیں وہ دنیا ہے جو باہر رہ گئی ہے جو آگ میں جل رہی ہے ہمارے لئے تو رحمت ہی رحمت ہے.تو صفات باری تعالیٰ کے سفر میں ایسی مشکلات ضرور پیش آتی ہیں.لیکن اس یقین کے ساتھ آپ کو قدم آگے بڑھانا ہوگا کہ ایک دفعہ جب آزمائش سے آپ گزر جاتے ہیں تو پھر آپ کی بلائیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور رحمتیں آپ کا انتظار کرتی ہیں.اس کے لئے ایک نور چاہئے اور نور نام ہے حق کا.نور اس چیز کو کہتے ہیں جو غلط اور صحیح میں ایک تمیز کر کے دکھا دے.اندھیروں کے مقابل پر روشنی ہوتی ہے اور قرآن کریم نے اسی لئے روشنی کا نام حق رکھا ہے فرمایا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( بنی اسرائیل: 82) حق آ گیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے اب روشنی آتی ہے تو اندھیرے بھاگتے ہیں.دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بھی بیان فرما دیا.تو وہ جونو ر ہے سچائی کا نور ہے جو تفریق کرنے والا ہوگا پس آپ بھی ان معنوں میں بچے بنے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.اور سچائی کا یہ حال ہے کہ مختلف پہلوؤں سے سچائی کی آزمائش زندگی بھر ساتھ رہتی ہے اور ہرمیدان میں جو آپ جیتے ہیں وہ قرب الہی میں آپ کو قریب تر کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے.پس لا متناہی سفر ہے مگر اس سفر کی جزا ہر منزل پہ ملتی چلی جاتی ہے.پس یہ جو انسانی آزمائشیں ہیں اس راہ کی ان کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا مگر پہچانا ہوگا کہ آزمائش آتی کیسے ہے، کہاں کہاں آتی ہے؟ اب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ ربوبیت کی راہ سے آتی ہے بعض دفعہ ایک خاص مقصد کے حصول کی راہ میں یہ مشکل حائل ہو جاتی ہے کہ اگر سچ بولیں تو وہ مقصد شاید حاصل نہ ہو جھوٹ بولیں تو شاید حاصل ہو جائے.مجھے یاد ہے میں نے جرمنی میں ایک دفعہ خطبے میں جو اسا لکم لینے والے ہیں ان کو نصیحت کی
خطبات طاہر جلد 14 495 خطبہ جمعہ 7 جولائی 1995ء تھی کہ اسائکم کی خاطر اگر آپ جھوٹ بولیں گے تو آپ کی ہجرت ضائع ہو جائے گی کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ادھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے، گھر بار بھی گیا اور دین و دنیا سے بھی جاتے رہیں گے.اسامکم کی خاطر اگر آپ جھوٹ بولتے ہیں تو اس میں دو طرح کی ایسی باتیں ہیں جن میں آپ ناکام ہوئے.اول یہ کہ واپس جانے کا یہ خوف کہ گویا خدا یہاں تو آپ کو امن دے سکتا ہے وہاں امن نہیں دے سکتا یہ شرک کی ایک قسم ہے.خدا کی تقدیر ہے کہ خوف کے مقام سے دوسری طرف چلے جاؤاس تقدیر کے تابع آپ نے سفر شروع کیا.دوسری تقدیر یہ ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا اور بچے خدا پر تو کل کرنا ہے.اگر اس کا امن تمہیں ایک جگہ میسر نہیں آتا تو دوسری جگہ بھی نہیں آئے گا.اس لئے امین خدا کی ذات ہے اس کے سائے تلے تم نے حرکت کرنی ہے.اگر یہ باتیں سچی ہیں تو ہجرت سچی ہے اگر یہ نہیں ہیں تو ہجرت جھوٹی ہے پھر وہ ایک مشرک کی ہجرت بن جاتی ہے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک موقع پر اسی طرح سوال کیا گیا تھا ایک وادی میں آپ نے پڑاؤ ڈالا پتا چلا کہ وہاں پلیگ کی طرح کی کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جو بہت ہی مہلک اور وبائی ہے اور آنا فانا بلاک کرتی ہے.آپ نے اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا کہ ایک منٹ بھی یہاں نہیں ٹھہر نا ہجرت کر جاؤ ، ایسی وادی میں جاؤ جو صحت مند فضا رکھتی ہو تو ایک صحابی نے عرض کیا اے امیر المومنین ! کیا آپ خدا کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں اس کا تصور اتنا ہی تھا.آپ نے فرمایا.ہاں میں خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر کی طرف بھاگ رہا ہوں تمہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہاں بھی تو خدا کی تقدیر ہے.ہمیں نظر آ رہا ہے کہ یہاں تقدیر شر ہے وہاں نظر آ رہا ہے کہ وہاں تقدیر خیر ہے بڑا ہی بے وقوف ہوگا جو تقدیر شر میں بیٹھ رہے کہ یہ خدا کی تقدیر ہے اسے چاروں طرف تقدیر خیر بھی تو دکھائی دینی چاہئے.کیسا عمدہ اور کیسا گہرا پر حکمت جواب تھا.تو خدا کی تقدیر سے بھاگنا تبھی جائز ہے اگر خدا کی تقدیر کی طرف ہو جہاں جھوٹ بولا خدا کی تقدیر کی بجائے شیطان کی تقدیر کی طرف ہجرت ہوگی.یہ ہے جو باریک مسئلہ سمجھنا ضروری ہے.بھا گنا منع نہیں تھا مگر اس یقین کے ساتھ کہ جہاں بھی میں جاؤں گا خدا کی تقدیر ہی کی طرف جاؤں گا لیکن اگر رستے میں پتا لگے کہ اوہو اللہ کی تقدیر وہاں تو بغیر جھوٹ بولے مل ہی نہیں سکتی تو پہلے شیطان سے جھوٹا سرٹیفکیٹ حاصل کرلوں.سرٹیفکیٹ تو مل جائے گا مگر تقدیر اُٹھ جائے گی.یہ وہ باریک پہلو ہیں جھوٹ کے جن پر نظر رکھیں تو پھر آپ کو حق کے
خطبات طاہر جلد 14 ساتھ تعلق قائم کرنے کی توفیق ملے گی.496 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء یہ جب میں نے خطبہ دیا تو اس کے بعد کئی مثالیں سامنے آئیں ایک خط اور چند دن ہوئے مجھے ملا اس میں لکھا تھا کہ آپ نے چونکہ نصیحت کی تھی کہ کسی حال میں بھی جھوٹ نہیں بولنا خواہ تمہیں واپس جانا پڑے.تو پہلا کیس جو تھا اس میں غلطیاں ہو گئیں تھیں کئی جھوٹ بولے ہوئے تھے اور کیس بھی بڑا گندا ہوا تھا.میں نے پھر فیصلہ کر لیا کہ اب جو کچھ بھی ہے بہر حال سچ بولنا ہے اور کہتے ہیں کہ میں جب عدالت میں پیش ہوا تو وکیل سامنے کھڑا تھا اس کے سامنے میں نے باتیں بیان کرنی شروع کیں.حج جو پوچھتا تھا میں بالکل سوچ کر ، تول کر سچا جواب دیتا تھا.اس عرصے میں وکیل نے کہا کہ اس کے بزرگ بھی باہر کھڑے ہیں اگر آپ کو یہ شک ہو کہ شاید اس نے کوئی جھوٹ بولا ہو وہ سن تو نہیں رہے ان کو بھی بلا لیں اور ان کو باہر بھیج کے ان سے الگ انٹرویو لے لیں پھر آپ کو اندازہ ہو جائے گا تو جج اس کی سچائی سے اتنا متاثر ہو چکا تھا کہ اس نے کہا مجھے کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں میں جانتا ہوں یہ شخص سچ بول رہا ہے اور اس کو میں نے ضرور یہاں اسامکم دینا ہے.اب وہ واقعات جو تھے وہ اپنی ذات میں اسامکم کمانے والے نہیں تھے لیکن سچ کی طاقت اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں فیصلہ فرما دیا.لیکن تنبیہ یہ ہے کہ اس وجہ سے یہ نہ سمجھیں کہ او ہوا سائکم لینے کا طریقہ ہی یہی ہے کہ سچ بولیں تو کبھی بھی انکار نہیں ہوگا.جب یہ خیال آپ کے دل میں آئے گا تو آپ خدا کی تقدیر پر حاکم بن جائیں گے.دعا نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ اسے گویا امر دے رہے ہوں گے وہاں آپ کا نسخہ فیل ہو جائے گا.اس لئے دونوں احتمال اور امکان، دونوں طرف کے دروازے کھلے رکھیں، سچ بولیں ، یہ عرض کریں اللہ تعالیٰ سے اگر اس کے نتیجے میں دنیا جاتی ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ سب دنیا تیری ہی ہے.دوسرا پہلو اقتصادی پہلو ہے بعض لوگ بیچارے واقعہ سب کچھ بیچ کے جس کو پنجابی میں کہتے ہیں و پیچ وٹ کے جو غریب کی گلی ، چھوٹا سا کوئی گھر وغیرہ تھا بستر سامان سب کچھ بیچ دیا کہ اس ملک سے نکلو.اب ان کو یہ فکر لاحق تھی ہم واپس جائیں گے کہاں، کیا کمائیں گے، کیا کھائیں گے، وہاں تو کچھ بھی نہیں رہا.ان سے میں نے کہا اب یہاں ربوبیت کا امتحان ہے پہلے اس بات کا امتحان تھا کہ
خطبات طاہر جلد 14 497 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء مالک کون ہے، حفاظت کرنے والا کون ہے، الْمُؤْمِنُ اور الْمُهَيْمِنُ (بنی اسرائیل :24) کون ہے.اب ربوبیت کا امتحان آپڑا ہے.اگر آپ خدا کے سوا کسی کو رب سمجھتے ہیں تو پھر اسی رب سے مانگنے نکلے ہیں.اگر خدا ہی کو رب سمجھتے ہیں تو جو جرمنی کا رب ہے وہی پاکستان کا بھی رب ہے بالکل پرواہ نہ کریں.چنانچہ بعض ایسے معاملات بھی میرے علم میں آئے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ یہ عجیب بات ہے کہ جس جس نے بھی سچ بولا ہے اب تک تو سب کو اللہ نے بچالیا ہے.یہ بعض دفعہ کمزوروں کی حمایت میں اللہ تعالی نسبتا نرم سلوک فرماتا ہے لیکن پھر بھی میں متنبہ کر دیتا ہوں کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر کیس میں لازماً آپ کی پردہ پوشیاں ہی کی جائیں اگر اللہ نے آپ کو اس طرح آزمانا چاہا کہ اچھا واقعہ تم میری خاطر تقدیر شر کے لیے بھی تیار تھے تو آؤ پھر میں یہ بھی دیکھ لیتا ہوں.اس کی بھی مثالیں موجود ہیں.حضرت ایوب کی اسی طرح تو آزمائش ہوئی تھی اللہ چاہتا تو چند امتحانوں کے بعد ہی ان کو بخش دیتا.ان کا امتحان ، ان کا ابتلا ختم کر دیتا، مگر قرآن بتا رہا ہے کہ اتنا لمبا دور امتحان کا آیا کہ عام آدمی تو عام آدمی بڑے بڑے اولیاء بھی اس سے بھاگ جائیں اور خوف زدہ ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کو خود ہی سہارا دیا، خود ہی توفیق دی.اس لئے ابتلاؤں کا احتمال تو ہے لیکن ابتلاؤں پر اگر ثابت قدمی کی توفیق مل جائے تو بعض دفعہ یہ انعام ابتلاؤں کے بغیر انعام سے زیادہ بڑھ کر ہوا کرتا ہے بلکہ یقینا زیادہ بڑھ کے ہوتا ہے اگر ابتلاء پر کوئی قائم رہ جائے اور صبر کے نمونے دکھائے اور سر تسلیم خم کئے رکھے ، کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے تو اس پر اللہ تعالیٰ ہمیشہ زیادہ مہربان ہوتا ہے.تو حضرت ایوب کا بھی یہی سلسلہ تھا ایک لمبے عرصے تک آزمائش میں ڈالا اور حضرت ایوب کو ثابت قدم پایا.یہاں تک کہ بائبل نے تو ایسا خوفناک نقشہ کھینچا ہوا ہے کہ اپنے رشتے دار چھوڑ گئے بیوی نے قطع تعلقی کر لی اور شہر والے باہر گندگی کے ڈھیر پر ڈال گئے کہ اتنی گندی بیماری ہے کیڑے پڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کو وہاں پھینک دو اور جو لوگ نظر ڈالتے تھے وہ کراہت سے منہ دوسری طرف کر لیتے تھے لیکن اللہ نے ان کو قائم رکھا اپنی وفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان، اس پر یقین محکم میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوا پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نِعْمَ الْعَبْدُ (ص: 31) میرے بندے ایوب کو دیکھو ہمیشہ کے لئے ان پر سلام بھیجا گیا اتنے پیار سے ذکر ملتا ہے بار بار نِعْمَ الْعَبُدُ کیسا
خطبات طاہر جلد 14 498 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء اچھا بندہ تھا تو ہزار جو مصیبتیں تھیں وہ خدا تعالیٰ کے ایک نِعْمَ الْعَبْدُ پر قربان حسرت تو یہاں تک کہتا ہے ( مجھے شعر یاد تھا ایک مصرعہ ذہن سے نکلا ہوا ہے میں بتا دیتا ہوں دوسرا ) وہ کہتا ہے: صحتیں لاکھوں مری بیماری غم پر ثار جس میں اٹھے بارہا ان کی عیادت کے مزے (دیوان حسرت) کہتا ہے میری لاکھوں صحتیں ایک بیماری غم پر نثار ہو جائیں جس میں میرے محبوب نے کئی بار میری عیادت کی ہے وہ اللہ جس نے ایوب کی عیادت کی جس نے اس کے ذکر کو پیار کے ساتھ ہمیشہ دوام بخش دیا ایک آزمائش کیا ایسی ہزار آزمائشیں ان خدا کی عیادتوں پر قربان.تو ابتلاء سے بھی اس طرح گھبرانا نہیں چاہئے کہ ابتلاء آ گیا تو مارے گئے ، ابتلاء آیا تو وہ مارے جائیں گے جو بے وفا ہوں گے ، وفاداروں کو ابتلاء کچھ نہیں کہتا.چنانچہ اس کی ایک دوسری مثال ایک اور شکل میں ملتی ہے ایک خدا کا بندہ عبادت گزار بڑی شہرت رکھنے والا ایسا تھا کہ وہ جب ایک غار میں جا کر پناہ گزین ہوا تو ساری مخلوق خدا کا رخ خدا نے اس طرف پھیر دیا.وہ اپنی طرف سے دنیا کو چھوڑ کر ایک پہاڑی کی کھوہ میں جا بیٹھا تھا اور اس نے اپنے رزق کی کوئی پرواہ نہیں کی لیکن لوگوں کے دلوں میں ڈالا گیا کثرت سے نعمتیں اس کی طرف روانہ ہونی شروع ہوئیں ہر ضرورت اس کی پوری ہونی شروع ہوئی وارے نیارے ہو گئے.پھر وہ خدا جو ایوب کا خدا تھا اس نے کہا اس کی بھی تو میں آزمائش کر کے دیکھوں.بڑی میں نے نعمتیں دی ہیں دیکھوں تو سہی کیسا شکر گزار بندہ ہے.جب آزمائش کی تو کچھ دن ایسے آئے کہ ہر ایک سمجھا کہ اتنے لوگ جاتے ہیں، اتنی نعمتیں جارہی ہیں ، آج میں نہ گیا تو کون سا فرق پڑے گا اور شہر کے شہر کا رخ بدل گیا.تمام مرید اور اعتقاد رکھنے والے اس خیال سے کہ ہزاروں بندے خدا کے جار ہے ہیں ہم نہ گئے آج تو کیا فرق پڑتا ہے، اتفاق نہیں بلکہ خدا کی تقدیر کے تابع چند دن کے لیے اکٹھے رک گئے.جب بھوک کی شدت بڑھی تو غار چھوڑی شہر میں گیا اور ایک دروازہ کھٹکھٹایا اور بھیک مانگی میں بھوکا ہوں مجھے کچھ دواس نے دو روٹیاں لا کر کچھ لگایا یا نہیں لگایا ساتھ ، روٹیاں لا کے دے دیں جب وہ چلنے لگا تو کتا جو باہر چوکھٹ پہ بیٹھا تھاوہ لالچ سے دیکھنے لگا اور آنکھوں میں ایسی تمنا تھی کہ اس نے کہا چلو اس کو
خطبات طاہر جلد 14 499 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء بھی تھوڑی سی روٹی ڈال دوں.ایک ٹکڑا دیا پھر بھی اس کی طلب کم نہ ہوئی اور بھی بھڑک اُٹھی.وہ چلتا تھا تو پیچھے بھونکتا تھا کہ مجھے اور دو.یہاں تک کہ دونوں روٹیاں اسے دے دیں اور کہا بڑا ہی ذلیل جانور ہے تو.میں تیرے مالک سے لے کے آیا ہوں اور تو نے مجھے یہ دو روٹیاں بھی نہیں کھانے دیں، اتنا حریص ہے.تو اللہ تعالیٰ نے الہاما اس کو فرمایا کہ تو زیادہ حریص ہے کہ یہ کتنا زیادہ حریص ہے.اس نے بہت بھوک دیکھی ہے اس مالک کے گھر پر اگر بھوکا نہ ہوتا تو اس طرح تیرے پیچھے نہ پڑتا لیکن مالک کی چوکھٹ نہیں چھوڑی.تجھے ساری عمر کے بعد چند دن کی بھوک میری چوکھٹ پر دیکھنی پڑی اور تو چوکھٹ چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور دوڑ پڑا اس کا یہ حال بیان کیا جاتا ہے کہ وہ زار و قطار روتا ہوا واپس اپنے غار کی طرف دوڑا کہ واقعی ہی میں اس کتے سے بدتر انسان ہوں تو آزمائشیں بتاتی ہیں کہ کون قریب تر ہے اور کون دور تر ہے اور وہ لوگ جو اپنے دنیا کے مالکوں سے بھی پیار اور محبت اور وفا کا سلوک کرتے ہیں اور آزمائشوں پہ ثابت قدم رہتے ہیں ان کی قدر و منزلت بڑھا کرتی ہے.پس کسی قیمت پر بھی آپ کو حق سے اپنا تعلق نہیں کاٹنا.جھوٹ کے خدا جگہ جگہ آپ کی راہ میں کھڑے ہوں گے ہر ایک آواز دے رہا ہو گا کہ میری طرف آؤ میں تمہاری حاجت روائی کرتا ہوں لیکن جھوٹ کے خدا جھوٹے ہوتے ہیں ان کی حاجت روائیاں بھی جھوٹی ہوتی ہیں، وہ تسکین سے عاری ہوتی ہیں ان کا حال سراب کا سا حال ہے کہ پیاسا جب اس کی طرف بڑھتا ہے تو پانی سمجھتے ہوئے جاتا ہے مگر وہاں جاتا ہے تو اللہ کو پاتا ہے کہ وہ اس کا حساب دینے کے لئے کھڑا ہے.پس سچائی کا دامن پکڑ لیں اور بڑی قوت اور مضبوطی کے ساتھ اس کا دامن پکڑ لیں.اگر حق خدا سے تعلق قائم کرنا ہے تو آپ کو حق بننا ہوگا اور حق بننے کے رستے میں جو مشکلات کھڑی ہیں ان کا مقابلہ کرنا ہوگا.پھر دیکھیں کہ آپ کے اندرکیسی نئی طاقت پیدا ہوتی ہے.وہ لوگ جو بچ پر قائم ہوں ان کوئی تخلیق ملتی ہے، وہ خدا کی طرف سے پھر رب بھی بنائے جاتے ہیں، رحمن بھی بنائے جاتے ہیں، رحیم بھی بنائے جاتے ہیں اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی بنائے جاتے ہیں لیکن اپنے دائرے کے مطابق تخلیق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے نہ کہ خدا کے دائرے میں داخل ہو کر.قرآن کریم نے حق کا تعلق جو بیان فرمایا ہے مختلف جگہوں پر ان کی ساری آیات تو سامنے پیش نہیں کی جاسکتیں یہ بہت وسیع مضمون ہے مگر میں اگلے خطبے میں انشاء اللہ مثال کے طور پر آپ کو
خطبات طاہر جلد 14 500 خطبہ جمعہ 7 / جولائی 1995ء بتاؤں گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ حق کا تعلق مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ سے بھی جوڑتا ہے.رحمانیت اور رحیمیت سے جوڑنے کے بعد آخر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ تک پہنچ جاتا ہے اور اس مضمون کو خوب کھول دیتا ہے.پس سب نے جانا تو وہیں ہے.اگر یہاں حق بن رہے ہوں گے تو وہاں سب کچھ ساتھ ہے اگر یہاں حق سے تعلق ٹوٹ گیا تو آگے حق ہی حق ہوگا.اس لئے انشاء اللہ ا گلے خطبے میں میں کچھ مزید روشنی ڈالوں گا تا کہ اسماء باری تعالیٰ کا مضمون سمجھ کر ہمارے اندر ایک نئی روح پیدا ہو جائے، ایک نئی تخلیق ہمیں عطا ہو جو دراصل روحانی تخلیق ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 501 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995 ء طاقت کے ہوتے ہوئے ظالم کیلئے رحم چاہنا صبر ہے.اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کریں تا کہ خدا ولا تحزن کی آواز دے (خطبہ جمعہ فرمودہ 14 / جولائی 1995 ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) (العصر : ۲ تا ۴) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے حق نام کے تعلق سے میں نے گزشتہ جمعہ میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ حق ذات سے تعلق ہو تو حق پھیلانا اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسم حق کا جہاں جہاں مختلف رنگ میں استعمال ہوا ہے اس کا ذکر کر کے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی.سورۃ العصر میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں وہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ کے ساتھ وَتَوَاصَوْا بِالصّبرِ کے مضمون کو باندھا گیا ہے جو ہر جگہ جہاں بھی تبلیغ کا مضمون ہے وہاں صبر کا مضمون بھی ہمیں نظر آتا ہے.اکثر ظاہری الفاظ میں، کہیں دبے ہوئے مضمون کی صورت میں مگر دعوت الی اللہ کا ذکر ہو اور صبر کا نہ ہو، یہ ہو نہیں سکتا صبر ضرور کسی نہ کسی رنگ میں مذکور ہوتا ہے.پس اس پہلو سے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کوئی صفت صبور بھی ہوگی ، شاید صبار بھی ہوگا وہ اور اس کے اسماء میں یہ نام ملیں گے لیکن آپ تلاش کریں سارے قرآن کریم میں کہیں صفات باری تعالیٰ یا اسمائے باری تعالیٰ کے طور پر صبوراورصبار کے الفاظ نہیں ملتے.جبکہ حدیث
خطبات طاہر جلد 14 502 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء میں ملتے ہیں اور ترمذی کے آخر پر جو فہرست ہے خدا تعالیٰ کے اسماء کی اس کے آخر پر صبور لفظ خدا کا اسم بتایا گیا ہے اور چونکہ روز مرہ ہم عبد الصبور اور امتہ الصبور نام بھی دیکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ سب اہل علم جنہوں نے یہ نام تجویز کئے وہ خدا کا نام تسلیم کر کے ہی اس کے ساتھ عبد یا امہ کا لفظ لگاتے ہیں ورنہ تو یہ ایک مشر کا یہ نام بن جائے.پس حدیث کے حوالے سے بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا کا صبور ہونا ایک قطعی بات ہے.سوال ہے کہ قرآن کریم میں کیوں یہ اہم صفت بیان نہیں ہوئی جبکہ اس کا حق سے بڑا تعلق ہے اور اشاعت حق سے اس کا بہت تعلق ہے.تو اس پر غور کرتے ہوئے جہاں میں نے احادیث میں صبر کے مضمون کو پڑھا ہے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ صبر میں اصل میں بنیادی طور پر دو آزمائشیں انسان کے سامنے ہوتی ہیں ایک غصے کی آزمائش اور ایک رحم کی آزمائش.جہاں تک رحم کا تعلق ہے وہ آزمائش دو طرح سے ہے کسی دوسرے پر رحم آرہا ہو یا اپنے آپ پر رحم آ رہا ہو، اپنے آپ کو قابل رحم حالت میں پائے کیونکہ یہ دوسرے حصے کا تعلق کسی پہلو سے بھی اللہ کی ذات سے ہو نہیں سکتا اور اس میں محض غصے والی حالت یعنی غضب کی حالت میں ہاتھ روک لینے والا مضمون ہے اس لئے مضمون کے لحاظ سے تو قرآن کریم میں یہ موجود ہے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے گناہوں پر خدا تمہاری پکڑ کرتا تو وہ زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا.تو یہ دراصل صبر ہی کی صفت ہے مگر اس پہلو سے اسے حلیم کہا جاتا ہے.حلم ہی دراصل صبر کی ایک شکل ہے اور چونکہ مضمون کے لحاظ سے صبر کا معنی خدا کی ذات میں پایا جاتا ہے اس لئے آنحضرت ﷺ نے اسمائے ذات باری تعالیٰ میں صبور نام کو بھی داخل فرمایا.خدا کن معنوں میں صبور ہے؟ یہ تو نہیں کہ خدا کے خلاف نعوذ باللہ من ذالک کوئی حملے ہور ہے ہیں اور وہ مجبور کیا جارہا ہے، دردناک حالت میں پہنچ گیا ہے اور صبر کر رہا ہے.ہاں اس کے برعکس خدا کو غصہ دلانے کی بہت باتیں ہوتی ہیں اتنا زیادہ خدا کے خلاف باغیانہ اور شکر سے عاری رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اگر ان باتوں پر صبر نہ کرے تو تمام دنیا کو ہلاک کر دے.پس یہ صبر مجبوری کا صبر نہیں ہے بلکہ حلم کا صبر ہے.اختیار ہے لیکن اس کے باوجود انسان جوابی کارروائی نہیں کرتا.اس صبر کے مضمون کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے دشمنوں پر بد دعا کرنے کے تعلق میں بیان فرمایا ہے.جہاں تک دشمن پر براہ راست غالب آنے کا تعلق ہے مسلمانوں میں ابتداء جو کمزوری کی حالت
خطبات طاہر جلد 14 503 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء الله تھی جسمانی لڑائی میں تو کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کہ وہ ان پر غالب آ سکے، نہ اللہ نے ان کو اس وقت اجازت دی کہ وہ مقابلہ کریں لیکن بددعا کا ایک رستہ کھلا تھا.چنانچہ ایک موقع پر بعض صحابہ صلى الله حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں بد دعا کی اجازت دیں یا آپ بھی بد دعا کریں تو آنحضرت علے بستر پر آرام فرما رہے تھے، ٹیک لگا کر بڑے جلال کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور پہلی قوموں کے صبر کے واقعات بیان کئے اور یہ اجازت نہیں دی کہ ان پر بددعا کی جائے.( بخاری کتاب المناقب) انبیاء بھی جب بد دعا کرتے ہیں یا جب بھی کرتے ہیں تو اللہ کی اجازت سے اور بعض دفعہ اس کے اذن سے کرتے ہیں تو یہ صبر طاقت کا صبر ہے یہ کمزوری کا صبر نہیں ہے.اس صبر میں اللہ سے انسان کی مشابہت ہو سکتی ہے وہ غالب ہے وہ تباہی کی طاقت رکھتا ہے پھر بھی وہ مہلت دیتا چلا جاتا ہے.ان معنوں میں جو صبر کے مضمون ہی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے انسان بھی اگر مقابلے کی طاقت رکھتا ہو اور مقابلے سے باز رہے اللہ کی رضا کی خاطر یا کسی اعلیٰ قدر کے پیش نظر تو اسے بھی صبر کہا جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو یوں بھی بیان فرمایا: گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے (در مشین : 17) اور دوسری جگہ صبر کا لفظ استعمال کر کے بھی اسی مضمون کو باندھا ہے.کم سے کم انسان بد دعا تو دے سکتا ہے ، گالی کا جواب گالی بھی دے سکتا ہے اور اگر کوئی حاضر نہ ہو تو اسے یہ بھی خطرہ نہیں کہ طیش میں آکر مجھے مارے گا، غائب میں بد کلامی کر سکتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام امور میں جو حیرت انگیز صبر کا نمونہ دکھایا ہے دراصل اس کا تبلیغ کی کامیابی سے گہرا تعلق ہے.اس لئے اگر چہ خدا کا اسم صبر، ہمیں قرآن کریم میں اسم صبر کے معنوں میں دکھائی نہیں دیتا مگر حلم کے مضمون میں اور بعض دوسرے مضامین میں صبر کا مضمون ضرور ملتا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو صلى الله آنحضرت ﷺ اللہ کے ناموں میں صبور نام داخل نہ فرماتے کیونکہ حضور اکرم وحی سے کلام فرماتے تھے اس لئے بعض اسماء ایسے ہیں جو بطور وحی حضور اکرم ﷺ پر ظاہر فرمائے گئے اور ان میں صبور نام بھی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 504 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء میں نے بیان کیا ہے کہ اس پہلو سے کیونکہ تبلیغ سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے اور من مضمون دعوت الی اللہ کا بیان ہو رہا تھا میں نے چند وہ آیات چنی ہیں جن کے حوالے سے میں دعوت الی اللہ کی کامیابی میں صبر کی جس حد تک ضرورت ہے اور کیسے صبر کیا جا سکتا ہے اس مضمون پر روشنی ڈالتا ہوں.ایک تو جیسا کہ میں نے بیان کیا.قرآن کریم کی سورۃ العصر میں فرمایا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ صبر کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں صبر کے ساتھ نصیحت کا مطلب ہے نصیحت کرنا چھوڑتے نہیں ہیں نصیحت کرنے سے تھک نہیں جاتے اور مصائب پر صبر کی تلقین بھی کرتے ہیں، یہ سارے مضامین اکٹھے اس میں داخل ہیں.مگر اس لفظ صبر کے مختلف مواقع پر استعمال کی مثالیں ہمیں قرآن میں ملتی ہیں اب میں ان کے حوالے سے آپ کو سمجھاتا ہوں.ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوْاوَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد: 18) بعض صفات کا ذکر ہے، بعض حالات کا ذکر ہے ان حالات میں مومن کیا کرتا ہے اور کافر کیا کرتا ہے.اس موازنے کے آخر پر فرمایا.ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا پھر وہ بد بخت جو نیکیوں سے محروم رہتا ہے اس سے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ان لوگوں میں داخل ہو جائے جو ایمان لاتے ہیں.اب اس کا ذکر چھوڑ کر ایمان لانے والوں کا بیان شروع ہو گیا.الَّذِینَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں وہ صبر کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں اور مرحمۃ کی نصیحت کرتے ہیں یا مرحمۃ کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں.اب مرحمہ سے نصیحت کا کیا مطلب ہے؟ ایک مراد یہ ہے کہ ان کی نصیحت کسی غصے یا انتقامی کارروائی کے نتیجے میں نہیں ہوتی کسی حقارت کے صلى الله نتیجے میں نہیں ہوتی.ان کی نصیحت کا سرچشمہ رحمت ہے اور یہی معنی ہے جو آنحضرت ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے میں پایا جاتا ہے.جس نے سب سے زیادہ دعوت الی اللہ کرنی تھی اسے سب سے زیادہ رحمت بنایا گیا اور تمام صحابہ کی بلا استثناء گواہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نصیحت میں غصے کا کوئی عنصر نہیں ہوتا تھا.ہمیشہ رحمت اور شفقت کے ساتھ نصیحت کیا کرتے تھے اور رحمت اور شفقت کی نصیحت ہی ہے جو کامیاب ہوا کرتی ہے.پس وہ لوگ جو تبلیغ کرتے ہیں اور کامیابی سے تبلیغ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ گفتگو کے دوران ، بات پہنچاتے ہوئے اپنے دل کو ٹولتے رہیں کہ کیوں تبلیغ کر رہے ہیں کیا کوئی
خطبات طاہر جلد 14 505 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء نفسانی خواہش ہے اعداد کے بڑھنے کی یا محض اللہ کی رضا کی خاطر جس کو تبلیغ کر رہے ہیں اس کا بھلا چاہتے ہیں.یہ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا کوئی اپنی غرض ہے یا دوسرے کا بھلا.دوسرے کا بھلا غصے سے تو نہیں چاہا جاتا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کو غصہ آ جائے اور آپ کہہ رہے ہوں میں بھلا چاہ رہا ہوں تمہارا.رحمت ہی ہے جو دراصل تبلیغ کا محرک ہونی چاہئے اور یہی رحمت تھی جو آنحضرت کی تبلیغ کا محرک تھی.آپ کو رحم آتا تھا دوسروں پر ، ان کی بدحالی پر ، ان کی بدنصیبی پر، ان کے بد انجام پر.اور یہ رحم جوش مارتا تھا تو آپ ان کی خاطر تکلیف میں مبتلا ہو کر بھی نصیحت کرتے تھے تو یہی وہ رحمت ہے جو صبر کی توفیق بخشتی ہے.صبر کا رحمت سے براہ راست گہرا تعلق ہے جتنا کسی سے پیار ہو اتنا ہی زیادہ اس کی طرف سے زیادتیاں انسان برداشت کر سکتا ہے.بعض مائیں بچوں کو جب دوائیاں دیتی ہیں تو بعض دفعہ بچے غصے میں آکے مارتے ہیں آگے سے، منہ نوچ لیتے ہیں مگر ماں تو ہنستی رہتی ہے یا صبر کرتی ہے اور آخر دوا پلا کے چھوڑتی ہے غصے کی وجہ سے نہیں بلکہ رحمت کی وجہ سے.پس رحمت کا صبر سے یہ تعلق ہے کہ جتنی رحمت زیادہ ہو اتنا ہی صبر کی توفیق بڑھتی ہے، صبر کا معیار اونچا ہوتا چلا جاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کو بھی قرآن کریم نے صبر کے مضمون میں سب سے بلند و بالا دکھایا ہے بلکہ صبر کرنے والوں کا اکٹھا کر کرنے کے بعد اگلے مرتبے اور مقام پر محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا ہے جو صبر سے بالا مقام ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ آنحضور کی تبلیغ کی کامیابی دراصل آپ کی رحمت میں تھی چونکہ رحمت بے انتہا تھی اور سب دنیا پہ چھائی ہوئی تھی اس لیے اسی نسبت اور توفیق سے آپ کو صبر کا بڑا پیمانہ عطا کیا گیا اور صبر کے بڑے پیمانے کو قرآن کریم ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (حم السجدہ:36) کے الفاظ سے ظاہر فرماتا ہے.وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُ وا یہ جو عظیم کامیابی ہے تبلیغ میں کہ دشمن جاں نثار دوست بن جائے فرمایا وَمَا يُلَقَهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيْهِ اور یہ عظیم توفیق تو دراصل اسی کو مل سکتی ہے جسے صبر میں سے بہت بڑا حصہ عطا کیا گیا ہو، جس کے صبر کا پیمانہ بہت ہی وسیع ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لئے بغیر یہاں آپ کی ایک ایسی صفت بیان فرما دی گئی جو آپ کو تمام دوسرے صحابہ میں ممتاز کر رہی تھی اپنی ذات میں ایک الگ مقام اور مرتبہ بنائے ہوئے تھی.اس صفت کے حوالے سے میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ چیز میں اکٹھی ایک دوسرے سے
خطبات طاہر جلد 14 506 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء تعلق رکھنے والی ہیں.رحمت کے نتیجے میں تبلیغ ہو تو کامیاب ہوتی ہے.رحمت کے نتیجہ میں تبلیغ ہو تو صبر کی توفیق ملتی ہے اور صبر جو ہے پھر دو طرح سے تبلیغ کے کام میں محمد بنتا ہے.ایک یہ کہ جس پر رحم آئے اور آپ اس کی خاطر کچھ کرنا چاہیں وہ نہ مانے.بعض دفعہ اولاد ، بعض دفعہ دوست اور قریبی اپنا نقصان کر رہے ہیں آپ کا دل چاہتا ہے کہ ان کی اصلاح کریں رحم جوش میں ہے لیکن وہ مانتے نہیں ہیں آزاد اور خود مختار ہیں تو اس صورت میں رحمت غم میں تبدیل ہوتی ہے، غصے میں نہیں تبدیل ہوتی.شریکہ غصے میں تبدیل ہو جاتا ہے.دنیا داریاں جو ہیں یاد نیا دار یوں کے تعلق یہ نفرتوں میں بدل جاتے ہیں.مگر رحمت ہمیشہ صبر میں تبدیل ہوتی ہے اور صبر کے نتیجہ میں پھر دعا کی توفیق ملتی ہے.پس صبر کا ایک یہ فائدہ ہے اور یہاں بے اختیاری دعا بنتی ہے اور یاد رکھیں کہ جب رحمت کا جوش ہو اور بے اختیاری ہوتو وہ دعا مضطر کی دعا بن جاتی ہے.ایسے شخص کی دعا جو کوئی چارہ نہیں پاتا کوئی اختیار نہیں دیکھتا وہ دعا بہت ہی عظیم الشان دعا ہے وہ سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں جگہ پاتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رحمت صبر میں ڈھلتی تھی، صبر دعا ئیں بن جاتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی تبلیغ کی کامیابی کا جو نکتہ بیان فرمایا وہ دعا ہی بیان کی ہے.حالانکہ جو قرآن کریم میں نصیحت کا مضمون ہے وہاں دعا کا ذکر ملتا نہیں.اُدْعُ إلى سَبِیلِ ربك ( انحل: 126 ) تو ہے لیکن لوگوں کو بلانے کا ذکر ہے اور آگے مضمون نصیحت اور پھر صبر میں ڈھل جاتا ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی ضرورت تو تھی مگر ذکر نہیں فرمایا گیا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ صبر کا مضمون اگر آپ آنحضرت ﷺ کے حوالے سے سمجھیں تو حقیقت یہ ہے کہ صبر ہی ہے جو دعا کا محرک بنتا ہے اور صبر والے ہی کی دعا ہے جو دراصل مقبول ہوتی ہے، بے صبرے کی دعا کوئی معنی نہیں رکھتی.خدا کے ہاں تو ہر دعا مقبول ہو سکتی ہے لیکن عام قاعدہ کلیہ کی بات میں کر رہا ہوں کہ جوصبر کرنے والے کی دعا ہے اس دعا میں بھی طاقت ہوتی ہے اور صبر کرنے والے کی بددعا میں بھی طاقت ہوتی ہے.اس لئے محاورے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا صبر اس پر ٹوٹا کیونکہ صبر کے نتیجے میں کیونکہ رحمت سے صبر کا تعلق ہے انسان لمبے عرصے تک کسی کے ظلم برداشت کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے خلاف بد دعا کے لئے زبان نہیں کھولتا لیکن ایک ایسا مقام آ جاتا ہے کہ بعض دفعہ خود پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن دیا جاتا ہے کہ اب اس پر بددعا کرو تو وہ دعا جو ہے وہ بددعا کی صورت میں
خطبات طاہر جلد 14 507 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء سب سے زیادہ قوت کے ساتھ دشمن پر بجلی بن کے گرتی ہے اور ہر قسم کی طاقت خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے مگر دعا ہی میں وہ طاقت بنتی ہے جو آسمان سے پھر اترتی ہے اور وہی صبر ٹوٹنا ہے اصل میں.عام دنیا کے محاورے میں صبر ٹوٹنے سے مراد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ادھر صبر ہوا اور منہ سے کوئی کلمہ نکلا ادھر کوئی شخص تباہ ہو گیا یہ بالکل غلط بات ہے.صبر آسمان سے ٹوٹتا ہے اور وہی صبر و شتا ہے جو آسمان پر جاتا ہے اور مقبول ہو کر پھر عذاب الہی بن کر دوبارہ نازل ہوتا ہے.تو چونکہ یہ ایک بہت ہی خطرناک چیز ہے اور صبر کی بددعا چونکہ قوموں کو ہلاک کر سکتی ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس وقت بڑے جلال کا اظہار فرمایا کہ جو کمز ور صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے بڑے ہی دردناک حالات پیش کئے یا رسول اللہ ! اب تو یہ ہو گیا ہے، یہ ہو گیا، حد ہوگئی ہے کوئی بددعا کی تو اجازت ملے.بڑے جلال سے آپ نے فرمایا بالکل نہیں، دیکھو تم سے پہلے کیسے لوگ تھے کیا کیا ان پر مظالم ہوئے، کیسے کیسے ان کے سروں کو آروں سے چیر دیا گیا مگر وہ صبر کرتے رہے.پس بددعا کی بھی اجازت نہ دی لیکن جب اللہ بددعا کی اجازت دیتا ہے تو پھر اس سے زیادہ قوم کی ہلاکت کو یقینی بنادینے والی اور کوئی چیز نہیں ہوتی.اس ضمن میں گزشتہ سال جرمنی میں جو میں نے بددعا کا ایک مضمون بیان کیا تھا کہ اس کے پیش نظر ان کے جو چوٹی کے علماء ہیں جنہوں نے ظلم کی حد کر دی ہے ان کے خلاف بے شک بددعا کریں.یہ ایک استنباط تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الہامات کے مطالعہ سے جو 1894 ء میں ہوئے تھے اور میرا عموماً یہ طریق ہے کہ جس سال میں داخل ہوتا ہوں اس سال کے الہامات پر خصوصیت سے نظر ڈالتا ہوں اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا کا زمانہ اپنی برکتوں میں بھی اور نشانات میں بھی کئی رنگ میں دہرایا جا رہا ہے اور بعض دفعہ تو سال بدلتا ہے تو یوں لگتا ہے ایک ورق الٹ گیا ہے اب اگلے ورق کی باتیں شروع ہو گئی ہیں پس اس پہلو سے جب میں نے مطالعہ کیا تو اس سال کے الہامات میں نہ صرف اجازت تھی بلکہ حکم تھا کہ اب ان لوگوں پر جو سر براہ ہیں ظلم کے ان پر بے شک دعا کرو اللهم مزقهم كل ممزق و سحقهم تسحیقاً اور پھر قبولیت کے رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، پارہ پارہ کر دیا، تو میں نے یہ بتایا تھا جماعت کو کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ ساری قوم کے لئے بددعا کی جائے.جو قوم محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہوتی ہے اس پر کسی کو بددعا کا حوصلہ نہیں ہوسکتا خواہ وہ کیسا ہی ظلم
خطبات طاہر جلد 14 508 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء کرنے والی ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار کاخر کنند دعوی حب پیمبرم ( در تمین فارسی: 107) اے دل تو ان لوگوں کی طرف نگاہ کر کہ آخر میرے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کا دعوی تو کرتے ہیں.پس اس بددعا کی اجازت کو میں نے مخصوص کر دیا تھا اور اس میں یہ دلیل قائم کی تھی کہ قوم کی ہمدردی بعض دفعہ قوم کو نقصان پہنچانے والوں کے لئے بددعا کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے.وہ لوگ جو مسلسل قوم کی ہلاکت کے سامان کر رہے ہیں جن کے ہوتے ہوئے خوستیں ہی نحوستیں پھیل رہی ہیں، جن کے ہوتے ہوئے شر بڑھ رہے ہیں اور مصیبتیں عام ہوگئی ہیں جن کے ہوتے ہوئے خیر اٹھتی چلی جارہی ہے اگر ان پر بددعا کی جائے تو یہ بھی درحقیقت جذبہ رحم ہی سے پھوٹتی چاہیئے قوم پر رحم ان کے لئے بددعا کا تقاضا کرتا ہے.پس اپنے دل کو ٹول کر، اپنی نیتوں کو صاف ستھرا کر کے وہ کام کریں جو انبیاء کی سنت کے مطابق ہوں اور الہامات میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کے اشارے پائے جاتے ہوں یا بعض دفعہ صریحاً ان کی ہدایت پائی جاتی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انتظار کریں وہ ضرور ظاہر ہوگی پس تبلیغ کے جس دور میں ہم داخل ہوئے ہیں یہاں خصوصیت سے صبر کی ضرورت ہے اور صبر کے بغیر کوئی تبلیغ کا میاب ہو ہی نہیں سکتی.اللہ کا نام قرآن میں صبور اس لئے نہیں ہے کہ اس میں بعض دفعہ بے اختیاریاں ، مجبوریاں، قابل رحم حالت کا ہونا ، یہ مضامین اتنے زیادہ پائے جاتے ہیں کہ لوگوں کے لئے غلط فہمی کا امکان تھا مگر آنحضور ﷺ نے قرآن ہی سے استنباط کرتے ہوئے آپ کا ایک نام صبور ضرور بیان فرمایا ہے اس حوالے سے ہمیں صبور بننا ہو گا اور وہ صبور بنا طاقت کے باوجود صبر دکھانا ہے کمزوری کا صبر نہیں ہے اور اس پہلو سے جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ اگر مظلوم ہوں، مجبور ہوں ، بے اختیار ہوں اور کہیں کہ ہم صبر کر رہے ہیں تو یہ صبر، صبر تو ہو گا مگر بے حقیقت اور بے معنی ، ایک کمزوری کا نشان ہے.صبر وہ ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ہمارے گناہوں پر صبر کرتا ہے، ہمیں کچلنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن رک جاتا ہے.ان معنوں میں وہ صبور ہے پس جب بھی یہ لوگ بعض جگہ اقلیتیں بن جائیں گے اور بن رہے ہیں جب بھی یہ مخالف آپ کے رحم و کرم پر ہوں اس وقت ان سے حسن سلوک کرنا اور انتقامی کارروائی نہ کرنا یہ
خطبات طاہر جلد 14 509 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء آپ کے صبر کی دلیل ہوگا.اگر مغلوب ہوں ، کمزور ہوں اور کچھ نہ کریں اور طاقت حاصل کرتے ہی بدلے لینے شروع کر دیں تو ثابت ہوا کہ پہلے بزدلی تھی ، نامرادی کی سی حالت تھی اور نہ دل تو یہی چاہتا تھا کہ ہم خوب بدلے لیں.اس لئے بعض دفعہ فتح کے بعد ، فتح سے پہلے کے حالات آزمائے جاتے ہیں.فتح سے پہلے کی اندرونی حالتیں کھل کر فتح کے بعد سامنے آ جاتی ہیں.یہی وہ مضمون ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت کے منصب سے کچھ پہلے ایک رؤیا کی صورت میں دکھایا اور مجھے غالباً اسی کے لئے تیار کرنا تھا.وہ پہلے جلسہ سالانہ پر بھی میں نے روکا بیان کی تھی مگر اس مضمون سے چونکہ تعلق ہے اس لئے میں دوبارہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.میں نے دیکھا کہ ایک مجلس میں احمدی اور غیر احمدی علماء کے درمیان مناظرہ ہورہا ہے، گفتگو ہورہی ہے اور میں بھی اس میں شامل ہوں لیکن کچھ ہلکا ہلکا خاموش خاموش سا ہوں کھل کر نمایاں اس میں حصہ نہیں لے رہا.لیکن اور علماء موجود ہیں گفتگو ہو رہی ہے یہاں تک کہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ دلائل کے لحاظ سے مغلوب ہو چکے ہیں.جب وہ مغلوب ہو جاتے ہیں تو ان میں سے ایک شخص اٹھ کر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ دیکھو ہمارے لئے تو تمہارے ساتھ شامل ہونے کی تمہیں قبول کرنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی.ہم نے اتنے ظلم کئے ہیں تمہارے اوپر ایسی ایسی زیادتیاں کی ہیں کہ اگر ہماری تائید کے نتیجے میں تم غالب آ گئے تو تم ہمیں کچل دو گے ہم سے سب بدلے لو گے اس لئے ہم نے اپنے لئے ہدایت پانے کی کوئی راہ ہی باقی نہیں چھوڑی، اب ہم ڈرتے ہیں کہ تم غالب آ گئے تو ہم سے انتقام لو گے.اس وقت میں پہلے جو حصہ تھا وہ مجھے اب تفصیل سے یاد نہیں کن معنوں میں تھا لیکن ہلکا نظر آتا تھا ایک دم جوش سے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور میں ان سے کہتا ہوں.یہ عجیب فقرہ زبان سے جاری ہوتا ہے کہ میں لجنہ اماءاللہ کے ان تیروں میں سے ہوں جنہیں ایک خاص وقت کے لئے بچا کر رکھا جاتا ہے مگر بعض دفعہ وہ وقت اندازے سے پہلے آ جاتا ہے.پس اب وہ وقت آچکا ہے کہ یہ تیر استعمال ہو.وہ مقابلہ ہے چونکہ اس لئے محاورہ تیر کا چل رہا ہے.میں کہتا ہوں میں آپ کو جواب دیتا ہوں کہ آپ نے جو ہم پر مظالم کئے ہم سے آپ کو کیوں خطرہ نہیں ہے.میں کہتا ہوں دیکھو ایک عاشق مسلسل معشوق کے ہاتھوں ستایا جاتا ہے اور معشوق اس پر طرح طرح سے مظالم کرتا ہے لیکن جب وہ معشوق پر غالب آجاتا ہے تو اس سے معافیاں مانگتا ہے اس کے پاؤں دھوتا ہے اور اسی کے پاؤں چومتا ہے
خطبات طاہر جلد 14 510 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء اور کہتا ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی، کوئی بے صبری کے نتیجے میں ایسی بات ہوگئی ہو جس سے تمہاری دل آزاری ہوتی ہو مجھے معاف کر دو.عاشق انتقام لے کر اپنے معشوق سے اپنے غلبے کو نہیں منا تا اور بھی اس کے قدموں میں گر جاتا ہے.پس تم شوق سے آؤ اور احمد بیت قبول کرو تم دیکھو گے کہ ہمارا یہی حال ہوگا ہم تم سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں گے اور تمہارا استقبال کریں گے جیسے ایک عاشق معشوق کا استقبال کرتا ہے.پس یہی وہ مضمون ہے درحقیقت جواب عملاً جاری ہو چکا ہے.اس میں نصیحت بھی تھی اور پیشگوئی بھی تھی.پیشگوئی کے یہ معنی تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل اور رحمت سے میرے دور میں وہ اس خواب کی تعبیر کس طرح ظاہر فرمائے گا کہ جہاں بڑی بڑی شدید مخالفتیں تھیں ان پر ہمیں غلبہ عطا کرے گا اور غلبہ رحمت اور محبت اور عشق کے نتیجے میں عطا کرے گا اور اسی غلبے کے بعد ہمیں متکبر نہیں ہونے دے گا بلکہ اور بھی زیادہ ہم عاجزی کے ساتھ گر جائیں گے اور جن لوگوں پر ہمیں فتح نصیب ہو گی ان کی پہلے سے بڑھ کر خدمت کریں گے.پس یہی ہے صبر اور رحمت کا مضمون.صبر سے اس کام کو کرتے چلے جاؤ لیکن انتقام کا کوئی جذبہ اپنے دل میں آنے نہ دورحم کی خاطر ، محبت اور پیار کی خاطر اگر تبلیغ کرو گے تو لازماً اس میں کامیابی نصیب ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُ وا عَلَى مَا كُذِبُوْا وَ أوذُوا حَتَّى أَتْهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّيَاى الْمُرْسَلِينَ (الانعام: 35) یقیناً رسولوں کو تجھ سے پہلے بھی جھٹلا دیا گیا فَصَبَرُوا تو انہوں نے اس جھٹلانے کے نتیجے میں صبر کیا اعلیٰ مَا كُذِبُوا اس بات پر جس پر ان کو جھٹلایا گیا.اس طریق پر کہ یہ معنی ہیں جس پر انہیں جھٹلایا گیا.وَاُوذُوا اور وہ بہت دکھ دیئے گئے.حَتَّى أَتُهُمْ نَصْرُنَا یہاں تک کہ ان تک ہماری نصر آئی ، ہماری مددان تک آ پہنچی.تو صبر کا دوسرا تعلق خدا کی خاطر دکھ برداشت کرنے سے ہے جس کے نتیجے میں آسمان سے غیر معمولی نصرت کی تائید اترتی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 511 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء ایک پہلو میں نے بیان کیا ہے اگر صبر کرنے والے کے دل سے ایسی بددعا نکلے جو مومن کی شایان شان ہو، جو انبیاء کی سنت کے مطابق ہو ، اس میں اذن الہی شامل ہو تو وہ بددعا دشمن کو ہلاک کرنے کے لئے ایک حیرت انگیز کام دکھاتی ہے.کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو (در مشین :63) والا جو مضمون ہے اس میں یہی مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے.تو پہلی مثال میں نے آپ کو دی جو ہم بددعا کرتے ہیں اس کی جڑ بھی دراصل آخری صورت میں رحم پر ہے اور ایک محدود طبقے کے لئے کرتے ہیں اور اس میں میں آپ کو یاد دہانی کرواتا ہوں کہ دعا کرنے میں بھی صبر ضروری ہے، صبر سے کرتے چلے جائیں اور جلدی نہ چاہیں.جب بھی خدا چاہے گا وہ دعا آپ کی ضرور قبول ہوگی اور وہ جودشمنی اور ظلم اور سفا کی میں نہ صرف خود بہت آگے بڑھ گئے ہیں بلکہ ساری قوم کو ظالم بنارہے ہیں اللہ کی تقدیر ضرور ان کو پکڑے گی ، اس میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں لیکن زیادہ توجہ رحمت والی اسی دعا کی طرف کریں جس کے نتیجے میں قوم میں حیرت انگیز پاک تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں.اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ یہ سمجھا رہا ہے آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرماتے ہوئے کہ دیکھ تجھے سے پہلے بھی تو بہت سے رسول تھے جنہیں جھٹلا دیا گیا اور جس طرح جھٹلائے گئے ، وہ جس جس طریق پر جھٹلائے گئے انہوں نے ان پر صبر کیا اور بہت دکھ دیئے گئے لیکن صبر نہیں ٹوٹا حَتَّی اَتُهُمْ نَصْرُنَا یہاں تک کہ ہماری مددان تک آ پہنچی.آسمان سے جب نصرت آنے کا وقت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شان سے بھیجتا ہے کہ اچانک فتح ہی فتح ہو جاتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کا یا پلٹ گئی ہو.تو وہ وقت بھی لازماً آئے گا.بعض ممالک میں آرہا ہے اور حیرت انگیز روحانی انقلاب برپا ہورہے ہیں لیکن پاکستان کے حوالے سے میں بتا رہا ہوں کہ یہاں بھی یہ ہوکر رہے گا.جو چاہیں یہ علماء کر لیں جو زور لگاتا ہے لگا لیں جس طرح چاہیں روکیں ڈالنے کی کوششیں کریں، ہر روک ان کی خس و خاشاک کی طرح اڑا دی جائے گی.کوئی بس نہیں چلے گا یہ خود پکڑے جائیں گے اور عبرت کا نشان بنیں گے اور قوم کی اکثریت انشاء اللہ تعالیٰ ہدایت پائے گی.لیکن ابھی دکھ اور صبر کے کچھ اور دن ہمیں دیکھنے ہیں اس لئے دکھ کوصبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اور یا درکھیں کہ یہ سنت اللہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں.یہ فرمانے کے بعد کہ دیکھ اے محمد یہ تجھ سے پہلے بھی لوگوں کو ، انبیاء کو جھٹلایا گیا
خطبات طاہر جلد 14 512 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء انہوں نے صبر کیا اور دکھ دیئے گئے یہاں تک کہ ہماری مدد آئی.فرماتا ہے وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمت اللہ یہ کوئی ٹلنے والی بات نہیں ہے جس نصر کی ہم بات کر رہے ہیں اس کو کوئی دنیا کی چیز تبدیل نہیں کر سکتی وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَنِى الْمُرْسَلِينَ اور تیرے پاس مرسلین کی خبریں آچکی ہیں تو جانتا ہے کہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے پس اب بھی ایسا ہی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی جس زور کے ساتھ بھی جھٹلایا گیا ہے، جس ظلم اور سفا کی کے ساتھ جھٹلایا گیا ہے، تمام انبیاء کی تاریخ میں شاذ ہی آپ کو کوئی دکھائی دے جس کو اس طرح ظلم اور سفاکی کے ساتھ جھٹلایا گیا ہو.نوح کی قوم کی ایک مثال ہے لیکن اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا.یہاں مشکل یہ ہے کہ اس قوم کو ہم بچانا چاہتے ہیں اور اس قوم کے ظالموں کو مٹانا چاہتے ہیں.پس ایک طرف بد دعا محدود دائرے میں اللہ کی رضا کے تابع رہتے ہوئے ضروری ہے، دوسری طرف صبر ضروری ہے عام قوم کو بچانے کے لئے اور ان پر رحم کی خاطر اگر ایسا ہو گا تو جیسا کہ میں نے آیت کے اس حصے پر زور دیا ہے وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللہ ہماری نصرت اور فتح میں ایک ذرے کی بھی شک کی گنجائش نہیں، یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام تبدیل نہیں ہوا کرتا.صبر کے ساتھ ایک اور مضمون کو بھی باندھا گیا ہے فرمایا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصيرِينَ (البقره:154 ).اب صلوۃ پہلے نہیں رکھا حالانکہ صلوۃ بنیادی چیز ہے.فرمایا ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو مدد مانگو صبر کے ساتھ اور صلوٰۃ کے ساتھ صبر ایک جاری چیز ہے جب انسان دکھوں کی حالت میں صبر کرتا ہے تو اس کا دن بھی صبر میں کہتا ہے اس کی رات بھی صبر میں کٹتی ہے.ہر لمحہ بے چین ہوتا ہے، ہر لمحہ صبر کی آزمائش ہوتی ہے اور صلوٰۃ کے لئے تو کھڑے ہونے کا وقت تو کبھی کبھی آتا ہے تو فرمایا کہ نماز کا انتظار نہ کیا کرو صبر کی حالت میں دعائیں مانگتے رہو اور پھر جب نماز کا وقت آئے تو خصوصیت کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوکر سجدہ ریز ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو اور صبر کرنے والوں کی یہ دعائیں رائیگاں نہیں جاتیں.پس ایک ضمنی فائدہ اس سے یہ بھی حاصل ہوا کہ اگر آپ صبر کرتے رہیں اور عبادت نہ کر رہے ہوں ، صبر ہی کرتے رہیں اور آپ کا خدا سے کوئی ذاتی تعلق ہی قائم نہ ہو تو یہ صبر رائیگاں جائے گا.کئی لوگ ہیں جو مصیبتوں میں ڈالے جاتے ہیں لیکن ان مصیبتوں کے نتیجے میں اللہ سے تعلق قائم
خطبات طاہر جلد 14 513 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء نہیں کرتے.وہ صبر کسی فائدے کا نہیں، کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتا بلکہ ایسے صبر کرنے والے بسا اوقات صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاتے ہیں، کوئی ان کا مددگار نہیں ہوتا، کوئی ان کی اعانت کرنے والا نہیں ہوتا.پس اللہ فرماتا ہے کہ ایمان لانے والوصبر کے ساتھ استعانت کرتے رہو یعنی اللہ سے مدد مانگتے رہو ، اعانت مانگتے رہو اللہ کی.اس کا مطلب وَاسْتَعِيْنُوْا.وَالصَّلوۃ اور نماز نہیں بھولنی.عبادت کا قبولیت دعا سے اور تعلق باللہ سے گہرا تعلق ہے.پس جماعت احمدیہ کو جہاں جہاں خصوصیت سے وہ دردناک حالات سے گزر رہی ہے اور صبر کر رہی ہے یادرکھنا چاہئے کہ عبادت لازم ہے اور ہمیں اپنے عبادت کے معیار کولا زما اونچا کرنا ہوگا.جنگ بدر کے وقت جو مقبول دعا آنحضرت ﷺ نے کی وہ عبادت ہی کے حوالے سے تھی.آپ نے عرض کیا کہ اے خدا اگر اس میدان میں ہم مارے گئے تو پھر تیری دنیا میں کبھی عبادت نہیں کی صلى الله جائے گی کیونکہ وہ سب سے بڑا عبد محمد رسول اللہ ہے جنہوں نے خود عبادت کے گر سکھائے تھے.تیری عبادت کرنے والوں کا خلاصہ تیار ہوا ہے جو انسانیت کا معراج ہے اگر یہ مٹ گیا تو پھر کون عبادت سکھائے گا ان کو اور کون عبادت کرے گا.یہ مضمون ہے اور اتنی طاقتور دعا تھی کہ آنافا نا جنگ کی کا یا پلٹ گئی.پس الصلوۃ کا اس مقابلے سے تعلق ہے جو کمزور لوگوں کا طاقتور لوگوں سے ہو جاتا ہے اور وہیں صبر کا مضمون آتا ہے اور وہیں صلوۃ کی زیادہ ضرورت پیش آتی ہے.پس اپنی عبادت کے معیار کو بھی بلند کریں اور اپنے گھروں میں اپنے گرد و پیش خصوصیت کے ساتھ نماز قائم کرنے کی تلقین کریں کیونکہ مجھ پر یہ تاثر ہے کہ ابھی بہت سی جماعتوں میں نماز کی طرف سے غفلت ہے.پڑھتے تو ہیں لیکن جس طرح نماز کے قیام کا حق ہے کہ پورے انہماک کے ساتھ ، جدوجہد کے ساتھ ، جذبے کے ساتھ لگن کے ساتھ خود بھی نماز پڑھنے والے ہوں ، اپنے گردو پیش میں بھی نماز کی تلقین کر رہے ہوں، اپنے گھر والوں کو بھی نمازی بنا رہے ہوں یہ چیز اس شان سے نہیں پائی جاتی اور ضرورت ہے کہ ہر گھر میں ہمارے نماز کو اہمیت دی جائے اور اگر نماز کو اہمیت دیں گے تو پھر آپ کا صبر اور بھی زیادہ پھل دار بن جائے گا کیونکہ نماز کے ساتھ جب استعانت کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ضرور نازل ہوگی.پھر صبر کا مضمون عبادت کے علاوہ عمل صالح سے بھی تعلق رکھتا ہے یعنی خالی صبر کوئی چیز نہیں
خطبات طاہر جلد 14 514 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء ہے.اگر ایک کمزور، نکھے ، بیکار، بد اخلاق آدمی نے صبر کر بھی لیا تو کیا صبر کیا وہ تو کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا محض ایک کمزوری اور نا چاری کی دلیل ہے اللہ تعالیٰ جس صبر کی تلقین فرمارہا ہے اس مضمون کو کھولتا چلا جاتا ہے.قرآن کریم نے اس کے ماحول کو بیان فرمایا ہے وہ کون سا صبر ہے جو طاقتو ر صبر ہے جس نے انقلاب برپا کرنے ہیں.ان لوگوں کا صبر ہے جو دنیا میں عظیم روحانی انقلاب برپا کر دیا کرتا ہے.وہ لوگ جو اس طرح صبر کرتے ہیں، اس طرح صبر کرتے ہیں، اس طرح صبر کرتے ہیں اور صلوۃ پر قائم فرمانے کے بعد صبر کرنے والوں کو پھر فرماتا ہے ان کے عام اعمال بھی بہت اچھے ہو جاتے ہیں، بہت دلکش اعمال ہوتے ہیں لوگوں کی ان پر پیار سے نظریں پڑنے لگتی ہیں ان کے کردار سے لوگ متاثر ہوتے ہیں.فرماتا ہے ہر قسم کے لوگ جو لَفَرِح فَخُورٌ ہوں وہ مٹ جانے والے لوگ ہیں.مگر إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَمِلُوا الصلحت (هود: 11) ہاں وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اولَكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرً ا یسے مبر کرنے والوں کے لئے دو وعدے ہیں.ایک مغفرت اور اعمال صالحہ کے تعلق میں مغفرت کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ اعمال صالحہ کے ہوتے ہوئے بھی ہم میں سے اکثر کئی گناہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں کئی کمزوریاں دکھا جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر صبر کے ساتھ اعمال صالحہ کرو یعنی اس میں صبر اور اعمال صالحہ کے مضمون میں کئی پہلو ہیں.ایک یہ بھی ہے کہ صبر کرو اور اعمال صالحہ بجالا و یا صبر کے ساتھ اعمال صالحہ بجالاتے رہو، کوشش کرتے رہو کہ تم سے نیک باتیں ظاہر ہوں ، بدیاں ظاہر نہ ہوں.کوشش کرو کہ تم ایک پاک نمونہ دنیا کو دکھاؤ.تو اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ تم سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا تمہاری جو کمزوریاں ہوں گی ان سے صرف نظر فرمائے گا اور انہیں معاف فرمادے گا اور تمہیں اجر عظیم عطا فرمائے گا.یہاں بھی اجر عظیم اور مغفرت کو صبر ہی کے مضمون کے ساتھ باندھا ہے.یہ آیت سورہ ہود کی بارہویں آیت تھی جو میں نے پڑھ کے سنائی ہے.اب سورہ الاحقاف کی آیت 36 میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کومخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے
خطبات طاہر جلد 14 515 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَّهَارٍ بَلُغُ رِبَلُ : فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفُسِقُونَ صلى الله پس اے محمد ! جب میں کہتا ہوں تو مراد ہے اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا لیکن آیت میں نام مذکور نہیں ہوتا، ضروری نہیں ہے مگر واضح ہوتا ہے قطعی طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی مخاطب ہیں.فَاصْبِرُ جب کہتے ہیں تو مراد ہے اے رسول اے محمد ! فَاصْبِرْ.پس صبر کر كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ایسا صبر کر جیسا رسولوں میں سے اولوالعزم کیا کرتے تھے یعنی عام نبیوں والا صبر بھی نہیں تو رسولوں میں سے بھی صبر کے معیار میں بھی کچھ بہت بلند تھے ان کو پیش نظر رکھ کیونکہ تو خاتم النبین ہے تجھ سے تمام اخلاق میں سے بہترین کی توقع کی جاتی ہے پس صبر کر كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ رسولوں میں سے جو أولُوا الْعَزْمِ تھے جیسا صبر انہوں نے کیا اس طرح صبر کر.وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَّهُمْ اور ان کے لئے جلدی نہ چاہ ، کن کے لئے جلدی نہ چاہ کفار کے لئے ظلم کرنے والوں کے لئے ، جن کے مقابل پر جن کی اذیتوں پر صبر کیا جارہا ہے.اس میں ایک تو ظاہر معنی ہے کہ ان پہ بددعا کے لئے جلدی نہ کر اور دوسرا ہے ان کا انجام دیکھنے میں جلدی نہ کر ، جب وقت آئے گا تو ان کا انجام ظاہر ہو جائے گا عام طور پر ترجمہ کرنے والے بد دعا ہی کی طرف جاتے ہیں مگر تستعجل میں ہر قسم کی بات شامل ہے بعض دفعہ انسان فتح دیکھنے کے لئے بھی بے قراری دکھاتا ہے کہ کیوں دیر ہورہی ہے جلد فتح کیوں نہیں آتی.چنانچہ اسی مضمون کو قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا کہ وہ کہتے ہیں.مَتَى نَصْرُ اللهِ (البقرہ: 215) وہ بھی تو جلدی کرتے ہیں کہ کہاں گئی اللہ کی نصرت، کیوں نہیں آ رہی.تو فرمایا کہ اُولُوا الْعَزْمِ جو تھے انبیاء میں سے وہ نہ عذاب میں جلدی چاہا کرتے تھے نہ فتح کے لئے ایسی بے قراری دکھاتے تھے کہ صبح شام دیکھیں کہ کیوں ابھی فتح نہیں آئی.یہ اللہ کا کام ہے خدا کی رضا پر راضی رہ اور جان لے کہ تیری دعائیں ضرور اثر دکھا ئیں گی.تیری کوششیں ضرور بار آور ثابت ہوں گی.گھبرانے کی بات نہیں دعا کرتا چلا جا کرتا چلا جا، یہ الہ کا کام ہے کہ جب چاہے گا اس کی سزا کی تقدیر ظاہر ہوگی جب چاہے گا اس کی جزا کی تقدیر ظاہر ہوگی اور یہ دونوں تقدیریں
خطبات طاہر جلد 14 516 خطبہ جمعہ 14 جولائی 1995ء مومنوں کے حق میں ہوں گی.پس اس پہلو سے بھی ہمیں صبر کے مضمون میں یعنی انجام کے متعلق بھی صبر کی تلقین سکھلائی گئی ہے.فرمایا کہ تو اگر ان کا بدانجام چاہتے ہو اور جلدی کرے تو تو کیوں جلدی کرتا ہے.جب بدانجام آئے گا تو وہ لمبا زمانہ جو ان کو مہلت کا دیا گیا ہے وہ اس انجام کے سامنے ایسا دکھائی دے گا جیسے آنا فانا گزر گیا تھا.تو جلدی کرنے میں حکمت بھی کوئی نہیں، جو پکڑے جانے والے ہیں جب پکڑے جاتے ہیں تو جس زمانے کو تو سمجھتا ہے کہ اللہ نے بہت لمبی مہلت دے دی ہے وہ تو یوں ان کو گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جیسا تھا ہی نہیں.پس فرماتا ہے كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُونَ یہاں عذاب والے پہلو کو خصوصیت سے بیان فرمایا گیا ہے، پس جب بھی خدا کے وعید کا وقت آئے گا يُوعَدُونَ سے مراد جوان کو وعید دیا جاتا ہے، جس بات سے وہ ڈرائے جاتے ہیں، جب وہ وقت آ جائے گا کیسے ہوں گے لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارِ وہ یوں سمجھیں گے وہ یوں اپنے آپ کو پائیں گے گویا وہ دن کی ایک گھڑی سے زیادہ زندہ نہیں رہے یا امن کی حالت میں اور عیش وعشرت کی حالت میں تکبر کی حالت میں اور فخر کی حالت میں.گویا دن کی ایک ساعت سے زیادہ ان کو حصہ نہیں ملا اور جو مزے کے زمانے ہیں جب وہ گزر جاتے ہیں تو وہ تھوڑے تھوڑے لمحے دکھائی دیتے ہیں.جو دکھ کے زمانے ہیں وہ بہت لمبے ہو جاتے ہیں اور ایک پل کاٹنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.تو یہ مضمون ہے جو اس بات میں کھول دیا گیا کہ ان کو اگر خدا نے پکڑنا چاہا اگر یہی تقدیر ہوئی خدا کی کہ وہ پکڑے جائیں تو تو دیکھے گا کہ ان کا ایک ایک پل، ایک عذاب کا زمانہ بن جائے گا.اس قدر مصیبت میں مبتلا ہوں گے کہ ان سے وقت نہیں کٹے گا اور جب وہ مڑ کر دیکھیں گے تو ان کے ماضی کے عیش و عشرت کے ایام یوں لگیں کہ جیسے آنافا نا ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کس بات پر جلدی کرتا ہے اور وہ شخص جس کی تبلیغ کی بنیا درحم پر ہو اس وعید کو پڑھنے کے بعد تو اس کا دل بہل جائے گا کہ میں کیوں ان کے انجام کی جلدی کیا کرتا تھا یہ تو بہت ہی قابل رحم حالت ہے.پس اس نقشے کو کھینچ کر اگر کوئی معمولی ساتر ڈ دبھی مومنوں کے دل میں باقی رہ گیا تھا تو اسے بھی دور فرما دیا گیا.فرمایا فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَسِقُونَ یعنی جب خدا کے عذاب آتے ہیں تو بسا اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ قومی عذاب بن جاتے ہیں مگر وہاں ایسی صورت میں
خطبات طاہر جلد 14 517 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء مومنوں کو بچایا جاتا ہے فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَسِقُونَ فاسقوں کے سوا اور کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا ، یہ ایک عمومی دستور ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ حادثہ بھی کوئی مومن نقصان نہیں اٹھاتا.مگر قوم کا جب موازنہ قوم سے کیا جاتا ہے تو بلاشبہ مومن حیرت انگیز طور پر امن کی حالت میں رہتے ہیں، امن کے سائے تلے رہتے ہیں اور دشمن ہی ہے جو ہلاک کیا جاتا ہے.پھر صبر کے مضمون کو اور کھولتے ہوئے فرمایا وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ یہ سورہ نحل آیت 128 ہے کہ تو صبر کر لیکن صبر اللہ کی خاطر کر.صل الله وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ محمد رسول اللہ ﷺ کے صبر کی کیفیت بیان فرمائی گئی ہے اس کا ایک معنی تو یہ بھی کیا جاتا ہے وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ کہ صبر کر اے محمد اور تیرا صبر محض اللہ ہی کے حوالے سے ہونا چاہئے.میرے دل میں کھبتا ہے، جس پہ مجھے اطمینان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اے محمد صبر کر اور تیرا صبر اللہ کے حوالے کے سوا ہے ہی نہیں.تمام تر تیرا صبر محض اللہ کی خاطر ہے وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ اور اس کے باوجود فرمایا ان پر غم نہ کر.اب یہاں بظاہر ایک تضاد دکھائی دیتا ہے.اللہ کہتا ہے غم نہ کر، محمد رسول الله غم میں مبتلا ہیں.کیا نعوذ باللہ من ذالک یہ بھی ایک نافرمانی کا انداز تھا.ہرگز نہیں کیونکہ جہاں پیار کی نصیحت ہو وہاں حکم نہیں ہوا کرتا ، وہاں دلداری کا ایک انداز ہوا کرتا ہے، یہاں وَلَا تَحْزَنْ سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اللہ ناراض ہوگا اگر تو حزن کرے گا.فرمایا کہ ہم تجھے دیکھ رہے ہیں کہ حزن کی حالت میں مبتلا ہے یعنی تیرا صبر رحمت کے نتیجے میں ہے غصے کے نتیجے میں نہیں، بے اختیاری کے نتیجے میں نہیں.اگر مظلوم بے اختیار ہو کر صبر کر رہا ہو تو بعض دفعہ بہت سخت غصے کے خیالات اس کے دل سے اٹھتے ہیں، اہلتے ہیں.بعض لوگ اس حالت میں پاگل ہو کر گالیاں بکنے لگ جاتے ہیں اور ان کی باقی ساری زندگی اپنے صبر کے زمانے کے غیظ و غضب کو گند کی صورت میں اچھالتی رہتی ہے، ہر وقت ان کے منہ سے بکواس نکلتی ہے.ایسے پاگل ہم نے بھی دیکھے ہیں کیونکہ ان پر کسی نے ظلم کیا ہوا ہے وہ ظلم اندر اندر ان کو کھا جاتا ہے کیونکہ بے اختیار ہوتے ہیں اس لئے جب وہ اپنا کنٹرول چھوڑ دیتے ہیں جب ان میں نظم و ضبط کی طاقت باقی نہیں رہتی تو ہر وقت غیظ و غضب اچھلتا ہے لیکن وہ شخص جس کو رحم آ رہا ہو اور غضب یا انتقام کا جذ بہ نہ اٹھے اس کے لئے کسی قسم کے غصے کا اظہار یا گالی گلوچ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وہ دن بدن دل ہی دل میں گھلتا چلا جائے گا.
خطبات طاہر جلد 14 518 خطبہ جمعہ 14/ جولائی 1995ء اس کو ایک جان گسل غم لگ جائے گا، اس کی جان کو کھانے لگ جائے گا.یہ کیفیت تھی جس کی وجہ سے صلى اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو بار بار نصیحت فرماتا ہے کہ حزن نہ کر.جیسا آدمی اپنے پیارے پر نظر کرتا ہے اس کو کہتا ہے دیکھو صبر کر ، تکلیف میں نہ پڑ.یہ تو نہیں کہ حکم ہے.اگر اس نے کہا کہ نہیں میں نے تکلیف محسوس کرنی ہے تو آپ ناراض ہو جائیں کہ میری بات نہیں مان رہے.پیار کا انداز ہے، ایک محبت کا اظہار ہے، یہ بتانا ہے کہ میری تیرے ہر حال پر نظر ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ کس غم میں تو گھل رہا ہے اور دوسری جگہ فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعرا:4) اتنا غم کہ تو اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہوتے.یہ صبر ہے جس کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ کیونکہ تیرا تمام تر صبر صرف اللہ کی خاطر ہے اس لئے اس میں حسن ہی حسن ہے اس میں کوئی بد پہلو نہیں ہے، کوئی بد زیبی نہیں ہے.پس یہ وہ صبر ہے جسے ہمیں اختیار کرنا ہوگا دکھوں کے مقابل پر ان کے لئے درد محسوس کرنا ہوگا.وَلَا تَحْزَنْ کا یہ استنباط نہ کریں اس سے کہ کوئی غم محسوس نہ کرنا جو مرضی ان کو ہو جائے.مراد یہ ہے کہ ایسا غم محسوس کریں کہ آسمان سے آواز آئے وَلَا تَحْزَنُ اے میرے بندے اب اپنے آپ کو مزید نہ رلا.یہی وہ آواز ہے جو تسکین پیدا کرتی ہے.جو غم نہ کرنے کا حکم نہیں دیتی غم کے سامان اڑا دیا کرتی ہے یہی وہ وَلَا تَحْزَنْ والا مضمون تھا جس نے آخر عرب کی کایا پلٹ دی اور تمام عرب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دیکھتے دیکھتے مسلمان ہو گیا یعنی حزن کا مقام ہی باقی نہیں رہا.پس اللہ میں ان معنوں میں خدا تعالیٰ سے صبر سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے صبر میں اُولُوا الْعَزْمِ کی شان ہو، ہمارے صبر میں کمزوری اور بے چارگی نہ ہو.طاقت کے ہوتے ہوئے بھی ہم ظالم کے لئے رحم چاہنے والے ہوں اور صبر کے ساتھ چمٹے رہیں.اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا وہ اجر عظیم ضرور ہمیں عطا ہوگا جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 519 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو نصائح قرآن وسنت کے مطابق مہمان اور میزبان بنیں.( خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جولائی 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِىَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ حم السجدة : 33،32) آجکل چونکہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی آمد آمد ہے اور جیسے بہار کے موسم میں کچھ پرندے پہلے پہنچ جاتے ہیں اور کہیں کہیں ان کے نغموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، کہیں درختوں کے جھنڈ میں ان کے رنگ دکھائی دیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اب بہار بہت پیچھے نہیں رہے گی.اس وقت ہم اس کیفیت میں داخل ہو چکے ہیں.اللہ کے فضل کے ساتھ سلسلے کے عشاق ،محبت کرنے والے، دنیا کے کونے کونے سے یہاں نمونیہ جمع ہو چکے ہیں اور انشاء اللہ ان کے پیچھے جھنڈ کے جھنڈ ان روحانی پرندوں کے آنے والے ہیں.اس پہلو سے مقامی لوگوں پر جو مہمان نوازی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے تعلق سے میں نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی مہمان نوازی کا ذکر ہے اور چونکہ سلسلہ مضمون صفات باری تعالیٰ پر جاری ہے اس لئے اسی تعلق سے میں نے وہ آیت چنی جس میں بظاہر ایسی صفات کا ذکر ہے جن کا مہمان نوازی سے تعلق نہیں ہے.مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا قرآن کریم میں جتنی بھی اللہ کی صفات بیان ہوئی
خطبات طاہر جلد 14 520 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء ہیں یا اسماء بیان ہوئے ہیں ان کا سورہ فاتحہ کی بنیادی صفات سے بھی تعلق ہے اور آپس میں بھی گہرے رابطے ہیں اور جب تک ٹھہر کر نظر غائر سے نہ دیکھا جائے اس وقت تک بعض دفعہ اس مضمون کا تعلق جو بیان ہو رہا ہے صفات سے ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتا مگر بہت گہرا تعلق ہوتا ہے.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت میں جب یہ میرے بندے پیش ہوں گے تو ان کے لئے کیا ہوگا.مخاطب کرتے ہوئے فرمایا وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ تمہارے لئے جنت میں وہ کچھ ہوگا جو تم چاہتے ہو، جس کی تمہیں تمنا ہے.تَشْتَهِی اَنْفُسُكُمْ میں جس کی تمنا رکھتے ہو یعی حاجت ہے دل چاہتا ہے.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُونَ اور جو کچھ تم مانگو گے حاضر کر دیا جائے گا.جب بھی کسی چیز کا شوق پیدا ہو، کوئی خواہش پیدا ہو تو تمہیں پیش کی جائے گی.نُزُلًا مِنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمِ یہ مہمان نوازی بخشنے والے کی طرف سے ہے اور بار بار رحم کرنے والے کی طرف سے ہے.اب سب سے پہلے صفت غفور کا ذکر فرمایا اور بظاہر مہمان نوازی کا اس صفت سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا مگر جہاں بھی آپ قرآن کریم میں مہمان نوازی کا ذکر پڑھیں گے وہاں رحیم کی تکرار تو نہیں مگر غفور یا مغفرت کی تکرار ضرور ہے اور حیرت انگیز طور پر اس مضمون میں یکسانیت پائی جاتی ہے.اس پہلو پر روشنی ڈالنے سے پہلے جو حصہ ہے اس کے متعلق میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اللہ جب اپنے بندوں کی مہمان نوازی فرمائے گا تو جو انداز اختیار کرے گا وہ سب سے پیارے انداز ہیں.اللہ ہی سے اس کی صفت کے مطابق ہمیں رنگ پکڑنے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ تمہارے لئے اس میں ہو گا جو تم چاہتے ہو اور اگر یہ ہے تو پھر تَدَّعُونَ کی کیا ضرورت ہے یہ بھی ایک سوال اٹھتا ہے.اصل میں مَا تَشْتَهِی اَنْفُسُكُمْ سے مراد یہ ہے کہ دائمی طبعی عادات ہیں جو ایک شخص کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں اور میزبان کا فرض ہے کہ اگر وہ مہمان کو جانتا ہے تو اس کے مزاج کے مطابق وہ چیزیں مہیا کرے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان نوازی کے اس پہلو پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے یہاں تک کہ اگر کوئی تمباکو نوش مہمان بھی آتا تھا، خود پسند نہ کرتے ہوئے بھی ہدایت فرمایا
خطبات طاہر جلد 14 521 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء کرتے تھے کہ اس کا انتظام ہونا چاہئے اور باقی سب امور میں مزاج شناسی کے ساتھ مہمان کا جو مزاج معروف تھا اس کے مطابق چیزیں پہلے ہی مہیا کر دی جاتی تھیں کہ اسے مانگنا نہ پڑے.اس کے بعد پھر بھی گنجائش رہتی ہے.کبھی مہمان کے دل میں کوئی اور طلب پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے عام مزاج سے ظاہر نہیں ہوتی اور کبھی کسی اور چیز کی طلب پیدا ہو جاتی ہے.تو وقت بدلتے ہیں خواہشیں بدلتی رہتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو کامل فرما دیا یہ کہہ کر وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ تمہارے لئے اس میں ہوگا جو کچھ تمہارے دل چاہیں گے وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ اور تمہارے لئے اس میں ہو گا جو تم طلب کرو گے.لیکن ایک صرف الجھن باقی رہ جاتی ہے کہ انسان کو تو پتا نہیں ہوتا کہ کیا طلب کرے گا.اللہ تعالیٰ نے طلب کا انتظار کیوں فرمایا تَشْتَهِی کے تابع ہی وہ ساری ضرورتیں کیوں نہ مہیا فرما دیں جنت میں جو انسان کبھی طلب کر سکتا تھا.تو اس میں بھی ایک گہری حکمت ہے اور بہت لطیف انداز میں ہماری تربیت فرمائی گئی ہے.طلب وہی کرتا ہے جس کو پورا اعتماد ہو، جو بے تکلف ہو، کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد اسے یقین ہو کہ میں کچھ مانگوں گا تو میرا میز بان خوش ہوگا اس سے ہماری اپنائیت بڑھے گی.تو اللہ تعالیٰ اس اپنائیت کے مضمون کو جنت کے تعلق میں ایک جگہ نہیں کئی جگہ بیان فرماتا ہے یہاں تک کہ فرمایا کہ وہ ایک دوسرے سے چھین چھین کے کھائیں گے.جہاں سب کچھ موجود ہو، با فراغت موجود ہو کسی چیز کی کمی نہ ہو، وہاں چھینے کی کیا حاجت ہے یہ ایک اظہار محبت ہے، ایک تعلق کا اظہار ہے.تو اصل مہمان نوازی وہ ہے جہاں محبت کا مضمون جاری ہو جائے ، جہاں بے تکلفی اور اعتماد قائم ہو جائیں، جہاں مہمان اور میزبان میں فرق باقی نہ رہیں اور اس قدر اس کو اعتماد ہو اپنے میزبان پر کہ کہے اچھا آج تو میرا یہ دل چاہ رہا ہے اور میزبان شوق سے کہے جزاکم اللہ تم نے بہت مجھے خوش کیا ہے جو خو دمنہ سے مانگا ہے.تو اللہ تعالیٰ بھی یہ لطف دے گا اور اٹھائے گا بھی اور جب میں کہتا ہوں لطف اٹھائے گا تو خدا تعالیٰ کی عظمت شان کے پیش نظر جو بھی لطف اٹھانے کے معنے ہیں انہیں میں بیان کر رہا ہوں.مہمان نوازی ہی کے تعلق میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بھی اللہ کے لطف اٹھانے کا ذکر فرمایا ہے.پس جن معنوں میں اللہ وہ لطف اٹھاتا ہے انہی معنوں میں میں بھی کہ رہا ہوں کہ اللہ بھی اس کے لطف اٹھائے گا جب جنتی مانگیں گے.تو سب سے پہلے تو کوشش کرنی چاہئے کہ آنے والے مہمانوں کو اگر آپ جانتے ہیں ان کی
خطبات طاہر جلد 14 522 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء عادات کا علم ہے تو جس حد تک بھی ان کی خواہشات کا آپ کو علم ہو ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے سامان مہیا کرنے کی کوشش کریں اور اگر مہمانوں کے مختلف کمرے ہیں تو ہر کمرے میں ان کے مزاج کی چیزیں ہونی چاہئیں لیکن ان کا تعلق تو فیق سے بھی ہے.توفیق سے بڑھ کر مہمان نوازی کا حکم نہیں ہے.ہاں اگر تمنا ہو کہ جس طرح اللہ مہمان نوازی کرتا ہے میں بھی کروں اور اس جذبے کے ساتھ انسان کوشش کرتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ تمنا ہی اس کی توفیق بڑھا دے گی اور اس کے رزق میں برکت پڑے گی اور اللہ تعالیٰ اس کو واقعہ یہ توفیق بخشے گا کہ اپنے آنے والے پیاروں کی خواہش کے مطابق اپنی خواہشوں کو پورا کرے یعنی ان کی خواہش اس لئے پورا کرے کہ اس کی اپنی خواہش اس سے پوری ہوتی ہو اور پھر تَدَّعُونَ کا مضمون تو واضح ہی ہے.یہ ماحول پیدا کرنا اخلاق حسنہ کا محتاج ہے.اس قدر اپنائیت پیدا کرنی چاہئے کہ بیچ سے تکلف کے پردے اٹھ جائیں اور پھر صحیح مہمان نوازی ہوتی ہے.آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نُزُلًا مِنْ غَفُوْرٍ رَّحِيمٍ کہ یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمان نوازی ہے.تو میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ مغفرت کا اس سے کیا تعلق ہے.جہاں تک اللہ کی ذات کا تعلق ہے اس کا مغفرت سے بہت گہرا تعلق ہے.جہاں تک انسانی ذات کا تعلق ہے اس کا بھی ایک حد تک مغفرت سے تعلق ہے مگر خدا تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ کیونکہ وہ مہمان جو سابق میں دشمن رہ چکا ہو، وہ مہمان جس نے اپنی طرف سے پہلے بہت کوشش کی ہو کہ دکھ پہنچائے ، دل آزاری کرے، مخالفانہ رویہ اختیار کرے، اس کے سابقہ طرز عمل کو یا بسا اوقات مہمان نوازی کو میلا کر دیتی ہے اور عملاً انسان کے لئے بہت مشکل ہے کہ ایک ایسے مہمان سے بھی اس طرح خوش اخلاقی کا سلوک کرے جس طرح ایک ایسے مہمان سے کرے جو پہلے ہی اس سے محبت کے رشتے بڑھا چکا ہو، اس کے لئے قربانیاں کرتا رہا ہو.تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے والے جتنے بندے ہیں وہ ہیں بنیادی طور پر گناہ گار اور اگر محض عدل سے دیکھا جائے تو کوئی بھی بخشا نہیں جائے گا یہاں تک کہ اولوا العزم انبیاء بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بخشش تو محض اللہ کے کرم سے ہوگی، اللہ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہوگی ورنہ حقیقت میں کوئی انسان استحقاق کے طور پر بخشش طلب نہیں کر سکتا اور بخشش نہ ہو تو پھر مہمان نوازی جس قسم کی بھی ہوگی وہ سب میلی اور کھلائی ہوئی مہمان نوازی ہوگی اس میں وہ بے اختیار لذت، بے ساختہ لطف پیدا ہو ہی
خطبات طاہر جلد 14 523 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995 ء نہیں سکتا.تو اللہ تعالیٰ نے غفور کی صفت پہلے رکھ دی ہے.فرمایا کہ اس بات کی فکر نہ کرنا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یہ دیکھنا کہ کس کے مہمان بن رہے ہو اور وہ غفور ہے، بہت بخشنے والا ہے اور اس لئے تمہارے گناہوں کا کوئی خیال تک بھی تمہارے اپنے دل میں نہیں آنے دے گا.اس مغفرت کا سلوک فرمائے گا کہ تم اس کی مہمان نوازی قبول کرنے کے لئے ، اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے اپنے دل کوصاف اور ستھرا پاؤ گے اس میں کوئی ایسے ضمیر کے کچو کے باقی نہیں رہیں گے جو ہر وقت مہمان نوازی کی شان کو گدلاتے رہیں.میزبان تو خدمت کرتا جارہا ہے مگر مہمان اس بات میں دکھ محسوس کرتا ہے کہ میں کیا تھا، میں نے اس سے کیا کیا اور یہ ایک طبعی امر ہے.آنحضرت ﷺ کے تعلق میں بھی صحابہ میں یہ مثال ملتی ہے کہ اسلام لانے سے پہلے جو آنحضرت ﷺ کو دکھ دئے گئے یا جن لوگوں نے دیکھ دیئے اسلام کے بعد حیا سے ان کی نظر نہیں اٹھتی تھی.رسول اللہ ﷺ کا چہرہ دیکھ نہیں سکے کیونکہ یہ حیا ہمیشہ مانع تھی ، یہ تصور چر کے لگا تا تھا کہ اس وجود کے ساتھ تم یہ یہ کرتے رہے ہو اب کس نظر سے تم اسے دیکھنے کا حق رکھتے ہو.چنانچہ ایسے صحابہ کا ذکر ملتا ہے جو وصال کے بعد یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا حلیہ کیا تھا وہ وجہ یہ تھی.تو غفور کا بہت گہرا تعلق ہے خصوصاً اللہ کے تعلق میں غفور کا مہمان نوازی سے بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ گناہ گار بندے حاضر ہورہے ہیں اگر اللہ ان کو یاد نہ بھی دلائے تو اپنا ضمیر تو ضرور یاد دلائے گا کہ کس پاک وجود کے سامنے تم حاضر ہو، کس طرح تمہاری خدمت کی جارہی ہے ہم کیا تھے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ غفور ہے وہ بخش دے گا اور یہ مضمون مسلسل آگے جاری رکھا ہے.چنانچہ دیکھئے فرماتا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ اوَوْا وَنَصَرُوا أُولَيكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (الانفال : 75) پہلے مغفرت فرمایا پھر رزق کریم بتایا.رزق کریم سے مراد ہے کریم کی طرف سے پیش کردہ رزق.یہاں رزق کا تعلق ربوبیت سے یا صفت رزاقیت سے نہیں باندھا بلکہ کریم لفظ سے باندھا ہے جس میں مہمان نوازی کا مضمون پایا جاتا ہے.چنانچہ عربی میں مہمان نوازی کا محاورہ اکرام الضیف ہے یعنی مہمان سے ایسا سلوک کہ وہ اپنی عزت محسوس کرے اور یہ لفظ کریم دونوں طرف برابر اطلاق
خطبات طاہر جلد 14 524 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء پاتا ہے جب تک خود انسان کریم نہ ہو دوسرے کو کریم نہیں بنا سکتا.تو جب مہمان نوازی کریم ہوئی تو ظاہر ہے، بلکہ لازم ہے کہ مہمان نوازی کرنے والا جو کریم مہمان نوازی کرتا ہے وہ خود معزز ہے ورنہ کسی کمینے کو یہ توفیق نہیں مل سکتی.پس اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں مہمان نوازی کے ساتھ کریم کا لفظ باندھا ہے، کریم کی صفت بیان فرمائی ہے وہاں یہی مضمون ہے کہ میں کریم ہوں اس لئے میری مہمان نوازی بھی کریم ہوگی.جو رزق میں تمہیں عطا کروں گا وہ بھی عزت بخشنے والا اور باعزت رزق ہوگا لیکن مغفرت پہلے ضرور رکھی ہے کہ جب تک مغفرت کے دروازے سے نہ گزرو تم حقیقت میں میری مہمان نوازی کے قبول کرنے کی یا اس سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے.اس تعلق میں اور چند آیتوں کی مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.أُولَيكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَتُ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (الانفال :5) پھر دروازہ مغفرت کا قائم فرمایا کہ مغفرت کے باب سے گز رو گے تو رزق کریم تک پہنچو گے ورنہ تم رزق کریم تک رسائی ہی نہیں رکھ سکتے.تو وہ لوگ جو جنت میں جائیں گے انہیں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے.فرماتا ہے اس سے پہلے جو ان کی صفات ہیں وہ پوری بیان فرمائی گئی ہیں اور یہ صفات بھی میں جلسے کی مہمان نوازی کی نصائح کے تعلق میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں مگر پہلے میں پہلی آیت کی طرف واپس جاتا ہوں.آگے اور بھی آیات میں نے رکھی ہیں اگر وقت ملا ، تو ہر آیت جس میں رزق کریم کا ذکر ہے یا معزز مہمان نوازی کا ذکر ہے اس سے پہلے بلا استثناء مغفرت کا ذکر ہے.تو اول تو یہ کہ بسا اوقات ایسے مہمان آتے ہیں جو آپ سے تعلق والے ہیں اور آپ ان کو جانتے ہیں اور وہ آپ کو جانتے ہیں ایک دوسرے کا احسان سے تعلق ہے.مگر بعض دفعہ جلسے کے انتظام کی طرف سے مہمان تقسیم کئے جاتے ہیں اور ربوہ اور قادیان میں تو یہ بکثرت ہوتا تھا کہ ایک شخص سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے گھر میں کتنے مہمانوں کی گنجائش ہے.وہ بتا دیتا تھا کہ میں ہیں رکھ سکوں گا، پچھپیں رکھ سکوں گا، تمہیں رکھوں گا اور پھر وہ جن لوگوں کو نہیں جانتا تھا کبھی دیکھا تک نہیں تھا وہ بھی مہمان آجاتے تھے اور بعض دفعہ ایسے مہمان آجاتے تھے جن سے پہلے دل میں کدورت موجود تھی لوگ سمجھتے تھے کہ واقف ہیں یا رشتے دار ہیں بھیج دیتے تھے اور وہاں پہنچنے کے بعد پتا چلتا تھا کہ اوہوان
خطبات طاہر جلد 14 525 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء کی تو ان بن تھی یا پہلے دلوں میں کچھ آپس میں کدورت پائی جاتی تھی.تو ایسی صورت میں جب تک مغفرت نہیں ہوگی آپ مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کر سکیں گے اور اللہ کے مہمان ہیں اللہ پہلے مغفرت فرماتا ہے.پھر مہمان نوازی کرتا ہے جب آپ کے مہمان بن کر آگئے تو آپ بھی پچھلی باتوں کو بھول جائیں.ہاں اگر جرم نظام جماعت کا ہو، خدا تعالیٰ کا ہو تو اس پر آپ مغفرت کی قدرت نہیں رکھتے.اس صورت میں ایک اور صورت حال پیدا ہوتی ہے جو پیچیدہ ہو جاتی ہے مگر میں روز مرہ کی بات کر رہا الله ہوں جن باتوں میں آپ کو مغفرت کا اختیار ہے اپنے مہمانوں سے مغفرت کا سلوک کریں.دوسرا اس لئے بھی مغفرت کا لفظ ضروری ہے یعنی انسانی تعلق میں بھی مغفرت کا اطلاق ضروری ہے کہ مہمان اپنے قیام کے دوران بعض دفعہ عجیب و غریب حرکتیں کر دیتے ہیں.عجیب و غریب مزاج کے لوگ ہیں وہ اپنی عادات سے نہ کہ جان بوجھ کر ہر وقت تنگ کرتے ہیں اور جس کو مغفرت کا حوصلہ نہ وہ اس سے نپٹ نہیں سکتا.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک مہمان آیا مسجد میں ٹھہرا، اس کی خاطر مدارت کی گئی اور صبح مسجد کو گندہ کر کے بھاگ گیا.اب وہاں صحابہ اور حضرت محمد ﷺ کا فرق نمایاں ہوتا ہے.صحابہ تو ناراض تھے کہ کیسا انسان تھا، کیسا پلید آدمی تھا جو آیا ہے اور پھر مسجد کو بھی گندہ کر گیا اور صبح جا کے دیکھا تو حضرت محمد رسول اللہ اللہ خود اپنے ہاتھ سے اس کے گند دھورہے تھے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا کرتے ہیں، ہمیں موقع دیں، آپ نے فرمایا میرا مہمان تھا.تو یہ مغفرت کی انتہا ہے جیسا رب غفور رحیم ، ویسے محمد مصطفی و غفور رحیم تھے اور مہمان نوازی میں مغفرت کی ضرورت بارہا پیش آتی ہے.ضروری نہیں کہ پرانے تعلقات میں کوئی خرابی ہو.گہرے دوستوں سے، ان کے بچوں سے ایسی حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں.کسی معصوم بچے سے آپ کا قیمتی واچ گر کر ٹوٹ جائے گا، کوئی بچے گندی عادات کے ہیں وہ دیواروں پر لکیریں مارنے لگ جاتے ہیں.جہاں تک آنے والوں کا تعلق ہے ان کو نصیحت میں الگ کروں گا لیکن میں حوصلہ رکھنے والوں کے حوصلے کی بات کر رہا ہوں اس وقت.ان کو جہاں تک ممکن ہو مغفرت کا سلوک کرنا چاہئے اور اپنا حوصلہ بڑھانا چاہئے.نصیحت کرنی ہے تو کریمانہ نصیحت کریں کیونکہ نصیحت بھی کریمانہ اور غیر کریمانہ ہوسکتی ہے.مہمان نوازی کے تعلق میں کریمی کے سوا اور کوئی ذکر نہیں ملتا.مہمان نوازی کرنی ہے تو کریم ہونا پڑے گا.رزق پیش کرنا ہے تو رزق کریم پیش کرنا ہو گا.
خطبات طاہر جلد 14 526 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء اب رزق کریم کے تعلق میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں رزق کی نوعیت کا ذکر نہیں ہے.ایک معمولی رزق بھی ، بہت ہی غریبانہ رزق بھی رزق کریم بن جاتا ہے اگر اس کا مالک کریم ہو اور ایک کریمی کے جذبے کے ساتھ ، عزت افزائی کی خاطر ، مہمان کے سامنے اس طرح پیش کرے کہ تھوڑے کو بھی بہت سمجھے اور اپنی عزت افزائی سمجھے.تو کریمی کا تعلق نعمت کی قسم سے نہیں ہے، رزق کی نوعیت سے نہیں ہے.کریمی کا تعلق اس رجحان سے ہے جو مہمان نواز کے دل کا رجحان ہے، جو مہمان نوازی میں ڈھلتا ہے اور مہمان کو دکھائی دیتا ہے اس کو بتانا نہیں پڑتا.وہ جانتا ہے کہ اسی میں عزت ہے.اب اگر کسی کے پاس صرف پانی ہے تو وہ پانی ہی پیش کرے گا مگر اگر شرم ہو طبیعت میں، انکساری ہو، خجالت ہو کہ میں کچھ نہیں کرسکتا اس کا درد اس کی آنکھوں میں نمایاں ہو تو وہ پانی رزق کریم ہے اور جس مہمان کو یہ رزق کریم پیش کیا جائے گا ان جذبوں کے ساتھ ، وہ اپنی عزت سمجھے گا وہ اس کے لئے دل میں جذ بہ درد محسوس کرے گا اس کی مزید عزت اپنے دل میں پائے گا.پس اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ مغفرت کے ساتھ رزق کریم کو باندھا ہے.پس آپ کی غربت آپ کے رزق کریم پیش کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی اور یہ بات کہ آپ مہمان کی سب تمناؤں اور خواہشات کو پورا نہیں کر سکتے یہ بھی رزق کریم پیش کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی کیونکہ رزق کریم آپ کی طبیعت کے کرم کے نتیجے میں بنتا ہے.آپ معزز ہیں، آپ کے دل میں شرافت کی اعلیٰ قدریں ہیں تو جو رزق بھی آپ مہمان کو پیش کریں گے وہ لازماً رزق کریم ہو گا.اس تعلق میں ایک اور مضمون جو اس آیت سے ابھرتا ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے وہ یہ ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ أَوَوُا وَنَصَرُوا أُولَيْكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (البقرہ:219) کہ وہ لوگ جو ہجرت کر کے آئے ہیں خدا کی خاطر تکلیفیں اٹھا کے پہنچے ہیں یعنی ایمان لانے والے جنہوں نے ہجرت کی اور خدا کی خاطر جہاد کئے وہ بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے ان کے لئے جگہ بنائی اور ان کی نصرت فرمائی یہ دونوں اللہ کے مہمان ہوں گے.یعنی مہمان اور میزبان دونوں ہی اللہ کے حضور برابر اجر پانے والے ہوں گے.پس ہمارے جلسوں میں جو لوگ آتے ہیں ان کو ایک گونہ مشابہت ان لوگوں سے ہے جو اللہ کی خاطر سفر اختیار کرتے ہیں، خواہ ہجرت دائمی نہ بھی ہو.ہجرت کے بہت سے مضامین ہیں، بہت
خطبات طاہر جلد 14 527 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء وسیع مضمون ہے جس کا ہجرت سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر سفر کرنے والا مہاجر ہوتا ہے.اللہ کی خاطر ایک بدی ترک کر کے ایک نیکی کی طرف حرکت کرنے والا مہاجر ہوتا ہے.پس ان معنوں میں جلسے کے دنوں میں آنے والے مہمانوں پر اس آیت کا خصوصیت سے اطلاق ہوتا ہے.اگر آپ اس خیال سے ان کی مہمان نوازی کریں کہ ان کا سفر اللہ کی خاطر ہے، کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے.کوئی دنیاوی غرض ہوتی تو عام دنوں میں آتے اور اپنی موجیں کر کے واپس چلے جاتے.یہاں تو آنے والے بعض ایسے ہیں جن کی کوئی تمنا نہیں ہے لندن دیکھنے کی یا انگلستان آنے کی یا یورپ آنے کی.پیسے جوڑتے ہیں بڑے اخلاص کے ساتھ اور بعض قرض بھی اٹھا لیتے ہیں بعض چیزیں بیچتے ہیں.صرف یہ تمنا ہے کہ ہم خدا کی خاطر اس جلسے میں شامل ہوں جہاں خلیفہ وقت موجود ہوگا اور وہ جماعت کا ایک نوع کا مرکزی جلسہ ہو گا.ایسے واقعات کثرت سے سامنے آتے ہیں کہ جب ایمسیسی والے بعض دفعہ لوگوں کو ویزہ نہیں دیتے اس خوف سے کہ کوئی اور وجہ ہوگی تو ان کا جور د عمل ہے وہ ایسا بعض دفعہ نمایاں ہوتا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں حالانکہ کوئی گواہی نہیں ملتی ، طبیعی رد عمل ان کے دل سے جو اٹھتا ہے وہ پہچان لیتے ہیں کہ ہاں یہ سچا آدمی ہے.ایک عورت کا ذکر میں نے ایک دفعہ پہلے جلسے میں کیا تھا بوڑھی خاتون ، وہ جب ایمبیسی میں انٹرویو کے لئے گئیں تو چونکہ ان پڑھ تھیں اس لئے ان کو Interpret کرنے والی عورت ساتھ تھیں.جب اس سے سوال کرنے والے نے پوچھا کہ تم کیوں جارہی ہو.اس نے کہا ہمارا امام وہاں ہے، بڑی دیر ہوئی دیکھے ہوئے اس لئے میں نے ضرور جانا ہے وہاں اور جلسہ کا موقع ہے، دوسرے بھی آئے ہوں گے اس روحانی ماحول میں میری برسوں کی پیاس بجھے گی اور کوئی مقصد نہیں ہے.تو ضمناً اس نے کچھ سوال کرنے کے بعد پوچھا تمہارا کوئی رشتے دار بھی ہے وہاں اس علاقے میں.اس نے کہا ہاں میری بیٹی ہے.اس نے کہا کب سے ہے.اس نے کہا بارہ سال سے وہاں ہے.تو اس نے کہا پھر یہ کیوں نہیں کہتی کہ بیٹی سے ملنے جارہی ہوں.بے اختیار جو اس عورت کے منہ سے بات نکلی اس نے کہا ” در فٹے منہ یہ ایک اظہار ہے بے اختیار غصے کا ”میری بیٹی بارہ سال توں ہے.میں تے کدی ویکھیا ای نئیں اس پاسے میں نے تو کبھی اس طرف جانے کا سوچا بھی نہیں تھا، آج مجھے کیا خیال آیا ہے.اتنا بے اختیار تھا اس کا اظہار، اس کا ترجمہ صحیح ہوا یا نہیں اسی وقت اس افسر نے اس کو
خطبات طاہر جلد 14 528 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء ویزا دینے کا فیصلہ کر لیا.لیہ تو آنے والے اگر اللہ آتے ہیں تو وہ آپ کے مہمان ان معنوں میں بنتے ہیں کہ وہ اللہ کے مہمان ہیں جن کی آپ نے مہمان نوازی کرنی ہے.اس لئے پہلے سے زیادہ لازم ہے کہ وہ مہمان نوازی کریں جو اللہ اپنے بندوں کی کرتا ہے اور دوسری ضرورت اس لئے بھی پیش آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی ان مہمانوں کی لسٹ میں شامل کر لیا ہے جو خدا کی خاطر اپنے گھروں میں خدا کی خاطر آنے والوں کے لئے جگہ بناتے ہیں، ان کے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں اور ان کی نصرت فرماتے ہیں.فرمایا میں جن کو ایک مہمان رکھوں گا اس میں یہ سارے شامل ہیں.آنے والے بھی اور میزبان بھی اور ان سب کے لئے ایک مغفرت کا باب قائم کیا جائے گا.جو اس دروازے سے گزرے گا وہ بخشا ہوا ہو گا اور اس کے لئے پھر رزق کریم ہی ہے یعنی عزت والی مہمان نوازی جو خدا کی طرف سے اس کے اکرام کا موجب ہوگی.اب لفظ کریم میں بہت ہی گہر امضمون ہے.اگر اللہ تعالیٰ کو کریم کہہ دیا جاتا تو وہ بات نہ بنتی.رزق کریم نے بتایا کہ خدا کا کرم اس مہمان نوازی کی معرفت اس مہمان کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور وہ کریم بن رہا ہے اس لئے بہت ہی بڑا Tribute جس کو کہتے ہیں یا بہت ہی بڑا ایک احسان کرنے کا انداز ہے اللہ تعالیٰ کا جسے، اس محاورے میں ظاہر فرمایا گیا کہ اس کے سامنے رزق کریم پیش ہوگا یعنی جس کو وہ رزق پہنچے گا وہ معزز ہے.اس کی شان اس میں پائی جائے گی اور جس کی مہمان نوازی اس رنگ میں ہورہی ہوگی اس کے تو بلے بلے.کیا شان ہے اس کی کہ اللہ کا مہمان بنا ہوا ہے اور رزق کریم پیش کیا جا رہا ہے.تو آپ اگر ایسا کریں گے تو اللہ وعدہ فرماتا ہے کہ میں تمہیں بھی اس فہرست میں داخل کروں گا جو میری خاطر مہاجر ہجرت کرتے ہیں یا میری خاطر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں وہ سب میرے مہمان ہوں گے اور مغفرت اور رزق کریم کا میں ان سے وعدہ کرتا ہوں.دوسری آیت جس کا میں نے ذکر کیا تھا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجْتُ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيم ہی وہ لوگ ہیں جو سچے مومن ہیں لَهُمُ دَرَجُتُ عِنْدَ رَبِّهِمُ ان کے لئے ان کے رب کے حضور بڑے بڑے درجات ہیں.ایک درجہ نہیں ہے صرف بہت سے درجات ہیں.وَمَغْفِرَةٌ
خطبات طاہر جلد 14 529 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء وَرِزْقٌ كَرِیم اور مغفرت ہے اور پھر رزق کریم ہے.جن لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں ان صفات پر بھی تو نظر ڈالئے.اس لئے آنے والے مہمانوں کو بھی وہ صفات اختیار کرنی چاہئیں جو ان کو خدا کی مہمان نوازی کا مستحق بنائیں گی اور جو ان کو مہمان ٹھہراتے ہیں ان کی بھی اس بات پر نظر رہنی چاہئے کہ اگر انہوں نے اللہ کا مہمان بنا ہے اور آخر ضرور بننا ہے ، ان بندوں نے جن سے خدا مغفرت کا سلوک فرمائے گا تو اپنے مہمانوں میں بھی ان صفات کو بڑھانے کی کوشش کریں اور خود اپنے اندر بھی وہ صفات جاری کریں کیونکہ ایک آنے والا مہمان ہر معز شخص کے گھر ٹھہرنے کا اس کی مہمانی قبول کرنے کا خود بخود مستحق نہیں ہوتا.یہ درست ہے کہ میزبان خواہ کیسا ہی معزز ہو وہ اپنے مہمان کی خاطر جھکتا ضرور ہے اور ایک حد تک اپنے اعلیٰ مقام سے تنزل کر کے نیچے اتر کر اپنے مہمان کی خدمت کرتا ہے، ایک طبعی امر ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ شایان شان نہیں ہوتے ، اس لائق نہیں ہوتے کہ اس مہمان نوازی کے قابل ہوں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بیان فرما دیں کہ اگر تم میری مہمان نوازی کے قابل بننا چاہتے ہو تو ان باتوں کا تمہیں خیال رکھنا ہوگا.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمُ (الانفال:3) میرے مہمان وہ لوگ ہوں گے، ایسے مومن کہ جب اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے دلوں پر زلزلہ طاری ہو جاتا ہے.اس قدر ان کے دلوں پر خدا کا رعب چھاتا ہے، ایسی ہیبت طاری ہوتی ہے یا جوش محبت سے وہ تھر تھری لینے لگتے ہیں اور وَجِلَتْ کا لفظی ترجمہ تو خوف ہے لیکن خوف کے نتیجے میں جو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں ان کا ذکر کر رہا ہوں.پس وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ کا مطلب یہ نہیں کہ ڈر گئے ہیں جیسے نعوذ باللہ کسی جانور سے ڈر گئے ہوں.اللہ کے خوف میں محبت بھی داخل ہے اور رعب بھی داخل ہے.پس اللہ کے خوف سے یعنی اس کے رعب سے اس کی عظمت کے تصور سے ان کے دل لرزنے لگتے ہیں اور اللہ کی محبت میں ان کے دلوں پر جھر جھری طاری ہو جاتی ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ أَيْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيْمَانًا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (الانفال: ۳) جب اللہ کی آیات ان پر پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان بڑھتے ہیں اور پہلے سے بہتر حالت میں وہ واپس لوٹتے ہیں اور تو کل اللہ پر کرتے ہیں، کسی اور پر تو کل نہیں کرتے.وہ جو پہلی آیت میں نے پڑھی تھی جس میں نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کا ذکر
خطبات طاہر جلد 14 530 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء تھا.اس کے آغاز میں بھی درحقیقت تو کل ہی کا مضمون ہے.پس مہمان نوازی اس کی ہوگی جو غیر اللہ کے رزق کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتا.وہ اس رزق کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو اللہ کی رضا سے باہر حاصل کیا جائے اور خالصہ اللہ کو اپنا رب بناتا ہے اور اسی پر توکل کرتا ہے.پس جو مضمون بہت آسان لگ رہا تھا اب جب آگے بڑھتے ہیں تو کچھ مشکل لگنے لگتا ہے مگر اس مشکل کو بھی اللہ ہی حل فرمائے گا.پہلی آیت کا آغاز اس طرح ہوا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ( حم سجدہ: 31) وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے یعنی وہی ہمارا رازق ہے وہی ہمارا پروردگار ہے ، ہماری زندگی کا ہر سہارا اسی سے حاصل ہوگا اور یہ کہہ کر انہوں نے استقامت اختیار کی.استقامت کے بہت سے مضمون ہیں ان میں ایک مضمون جو اس آیت کے تعلق میں تو کل کے تعلق میں ہے وہ یہ ہے کہ یہ دعوی کرنے کے بعد جب روز مرہ مصیبت پڑے گی ، بھوک ابتلاء لائے گی یا بچوں یا بیویوں کی ضرورت مشکلات پیش کرے گی یا اردگرد کے معاشرے کا رہن سہن طبیعت میں تمنا پیدا کرے گا کہ ہم بھی ایسے ہی ہوں ، ہمارے بچے بھی اسی طرح زندگی بسر کریں اور اس کے باوجود یہ وعدہ یاد آئے گا کہ ہم نے تو یہ عہد کیا تھا کہ ربنا الله صرف اللہ ہمارا رب ہے.پھر وہ تمام رزق کی لالچوں اور حرصوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں، ٹھکرا دیتے ہیں.کہتے ہیں ربنا اللہ اللہ ہمارا رب ہے یہی تو کل ہے جس کا اس آیت میں بھی ذکر ہے کہ وہ میری ذات پر توکل کرتے ہیں.ان کی مہمان نوازی میرا فرض ہے اور وہ مہمان نوازی صرف آخرت میں نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا ہی میں شروع ہو جاتی ہے.رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا کہنے والوں کے متعلق فرمایا ایسے فرشتے اترتے ہیں جو کہتے ہیں نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ " وہ کہتے ہیں ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے اور آخرت میں بھی.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُونَ ( حم سجده : 32) تو توکل کے نتیجے میں اللہ مددگار بھیجتا ہے اور توکل کی جزاء آخرت ہی میں نہیں بلکہ اس دنیا ہی میں ملنی شروع ہو جاتی ہے.اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کر کے دیکھیں، تاریخ اسلام کے دوسرے دور یعنی احمدیت کا مطالعہ کر کے دیکھیں اتنے نمایاں اور قطعی شواہد ہمیں ملتے ہیں کہ جنہوں نے خدا کی خاطر غیر اللہ کی طرف سے آنے والے رزق سے آنکھیں بند کر لیں بلکہ دیکھا اور ٹھکرا دیا اور ذرہ بھر بھی پروا نہیں کی
خطبات طاہر جلد 14 531 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء اللہ نے ان کے رزق میں اتنی برکت دی کہ ان کی اولادوں، اولاد کی اولا د اور اولاد کی اولاد کو نسلاً بعد نسل مالا مال کر دیا اور آنے والے بھول بھی گئے کہ ہمیں کیوں رزق عطا ہورہا ہے لیکن درحقیقت خدا کا یہی وعدہ پورا ہورہا تھا کہ تم نے مجھے رب کہا تھا ، میرے ہو رہے تھے، مجھ پر تو کل کیا تھا، اس لئے اب میں تمہارے رزق کا ضامن ہوں اور میں اسے بڑھاتا چلا جاؤں گا.دنیا میں بھی عطا کروں گا اور آخرت میں بھی عطا کروں گا تو یہ دوسری صفت ہے جو معین ہو گئی.اب آنے والے اگر ضرورت کے ابتلاء میں پڑ کر قرض مانگتے ہیں، نیت یہ ہوتی ہے کہ واپس ہی نہیں کریں گے یا گر جاتے ہیں اخلاق سے اور ہر کس و ناکس کے سامنے جھولی پھیلانے لگتے ہیں یا یہ نہ بھی کرتے ہوں تو اپنی غربت کے قصے پیش کرنے لگ جاتے ہیں، اپنے حالات دردناک طریق پر بتاتے ہیں، یہ سارے دراصل غیر اللہ سے رزق طلب کرنے کے بہانے ہیں.بعض لوگ جو اپنے حالات بیان کرتے ہیں حقیقت میں وہ جس کے سامنے بیان کرتے ہیں اس سے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں.یہ انبیاء کی سنت اختیار نہیں کرتے کہ إِنَّمَا أَشْكُوَابَتِي وَحُزْن إلى اللهِ (یوسف: 87) کہ غم تو مجھے بھی ہے تکلیفیں تو مجھے بھی پہنچتی ہیں مگر میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنا غم پیش نہیں کرتا، اللہ ہی کے حضور پیش کرتا ہوں.تو جو تو کل کرنے والے ہیں ان کی ایک یہ یہ بھی صفت ہے جو لازماً ان کے کردار کو عظمت عطا کرتی ہے کہ وہ اپنی غربت کی پردہ پوشی کرتے ہیں ، اپنے داغ دکھاتے نہیں ہیں.ہاں غربت جو خود دکھائی دینے لگتی ہے.جہاں جگہ جگہ لگے ہوئے پیوند اپنی کہانی خود بیان کرتے ہیں وہ ایک الگ قصہ ہے مَا ظَهَرَ مِنْهَا ( الانعام: 152 ) جو ہے اس میں بندے کا اختیار نہیں ہے.مگر رزق حاصل کرنے کی خاطر ، رحم کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے لئے انسان بندوں کے سامنے کوئی بجز اختیار کرے مانگے یا مانگے بغیر اپنے حالات پیش کر دے یہ جائز نہیں ہے.اس لئے اللہ کرے کہ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہ ہو جس کی نیت میں یہ فتور داخل ہومگر بعض دفعہ آنے والے ایسا کرتے رہے ہیں.اس لئے میں فرض سمجھتا ہوں کہ سب کو عموماً متنبہ کر دوں.بعض میرے سامنے آ جاتے ہیں تو وہ ان کو کھلنا اور بات ہے.امام وقت کے سامنے ضرورتیں پیش کرنا یہ اور مضمون ہے میں ان کو کسی قسم کا متہم نہیں کر رہا، ان پر کوئی اتہام نہیں.مگرلوگوں کے سامنے مجلسوں میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرنے والے جو ہیں ان کی اطلاعیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں اور لوگ بتاتے
خطبات طاہر جلد 14 532 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء ہیں کہ فلاں شخص کا یہ حال تھا اس لئے ہم نے یہ کام کیا.میں نے کہا آپ کو کیسے پتا چلا؟ اس نے خود بتایا پتا کیوں نہ چلے اور پھر یہ لوگ بعض دفعہ بلاآخر پیشہ ور ہو جاتے ہیں اور خدا سے تو کل کا تعلق کاٹ لیتے ہیں.ایسی صورت میں آنحضرت ﷺ نے جو انذار پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے ایسے ہوں گے کہ چمڑے ہڈیوں سے لگے ہوں گے اور ان کے درمیان کوئی گوشت نہیں ہوگا.جب پوچھا جائے گا یہ کیا بات ہے.تو پتا چلے گا کہ وہ اپنی غربت لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے تھے اور خدا کی بجائے لوگوں سے امداد کے طالب رہتے تھے.سوالی ہیں یہ لوگ.تو ایک طرف یہ حکم ہے کہ سوالی سے غصے سے پیش نہ آؤ، اس سے زیادتی نہ کرو، اسے دباؤ نہیں.دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ دیکھو خود سوالی نہ بنا یعنی اللہ کے سوالی بنو، غیر اللہ کے سوالی نہ بنو.تو جن لوگوں کی مہمان نوازی کا ذکر آپ نے سنا کہ اللہ مہمان نوازی فرمائے گا اب ان کے حالات بھی سنیں کہ وہ کیسے لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ مہمان نوازی فرمائے گا اور خود اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں میں یہ ذکر کر رہا ہوں وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ أَيْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ جِب اللہ کے نشان ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو وہ بہرے کانوں سے نہیں سنتے.ان نشانات کو سن کر ان کے ایمان تازہ ہوتے ہیں اور پہلے سے بڑھ جاتے ہیں.وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ اور اپنے رب پر تو کل میں پہلے سے بھی بڑھ جاتے ہیں.تو کل تو شروع سے ہی تھا.رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ کو آخر پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ جب ایمان بڑھتا ہے تو تو کل بڑھتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اپنے رب پر تو کل کرنے لگتے ہیں.الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (الانفال : 4 ) یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں.پس آنے والے مہمان ہوں یا ان کے میز بان ہوں اگر وہ نماز کو قائم کرنے والے نہیں تو اسی حد تک خدا تعالیٰ کی مہمانی کے وعدے سے اپنے آپ کو محروم کرنے والے ہیں.یہ صفات ہیں جو خدا کے مہمانوں کی ہیں اللہ نے خود بیان فرمائی ہیں.پس آنے والے بھی نماز قائم کریں.بسا اوقات میں نے دیکھا ہے کہ لگتا تو یہ ہے کہ جلسے کے شوق میں آئے ہیں مگر بات بعد میں یہ کھلتی ہے کہ مجالس کے شوق میں آئے ہیں.مل بیٹھنے، ایک دوسرے سے گپ شپ مارنے ، جو جلسے کے ماحول کا لطف ہے ایک قسم کے میلے والا ، دلچسپی اس میں تھی نہ کہ اللہ کی آیات کی تلاوت میں
خطبات طاہر جلد 14 533 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء تھی ، دلچسپی گپ شپ میں تھی نہ کہ ذکر الہی میں تھی.چنانچہ جہاں ذکر الہی کی مجالس ہوں، جہاں جلسے ہورہے ہوں سنجیدہ تقاریر ہوں وہاں سے جس حد تک ممکن ہے کھسکنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر الگ اڈے بناتے ہیں.یا یہ بازاروں میں جا کر دوکانوں کے سامنے ، کافی ہاؤس یا کبابوں کی دکانوں کے سامنے یا جہاں پکوڑے بک رہے ہیں وہاں دکھائی دیں گے اور خوب مجلس لگی ہوگی اور قہقہے ہور ہے ہوں گے اور جبکہ تقریر جلسے کی چل رہی ہے آوازیں پہنچ رہی ہیں.پس میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ یہ اللہ کے مہمان نہیں ہیں.اگر چہ ان کی مہمان نوازی بھی فرض ہے اور اخلاق حسنہ کا تقاضا ہے کہ جس حد تک ممکن ہے ان سے کرم کا سلوک کرو.مگر وہ فہرست جس میں خدا کے مہمان داخل ہیں اس سے یہ نکل جاتے ہیں اس لئے ان سے کیا سلوک کرنا چاہئے.کیونکہ اگر آپ مغفرت کے طالب ہیں تو مغفرت کریں گے تو مغفرت کے طالب ہوں گے.پس ایسے لوگوں کو طعنے نہیں دینے چاہئیں اور رزق کریم یہاں یہ معنی اختیار کر لے گا کہ کریمانہ نصیحت کریں.ان کو ایسی پاک نصیحت کریں جو ایک معزز انسان کیا کرتا ہے جو ایک معزز انسان کے شایان شان ہے.اس سے نصیحت کے انداز سیکھتے ہوئے اس طرز پر ان کو نصیحت کریں کہ بھائی اتنی دور سے آئے ہو کیا پاکستان میں یا ہندوستان میں یا بنگلہ دیش میں یا جرمنی میں پکوڑے نہیں ملتے تھے، وہاں کباب نہیں کھائے جا سکتے تھے ، خدا کا ذکر سننے آئے ہو چند دن برداشت کر وضبط کرو اگر سنو گے تو کم سے کم ایک وعدہ تمہارے حق میں پورا ہوگا کہ زَادَتْهُمْ اِیمانا یہ آیات جو ہیں تمہارے ایمان بڑھائیں گی اور ایک اور ذوق تمہارے دل میں پیدا کر دیں گی جو اس ذوق کے علاوہ ہے.اور یہ اس لئے ضروری ہے کہ قیامت کی مہمان نوازی کے لئے یہ ذوق ہونا ضروری ہے.اگر دنیا کا ذوق اسی طرح رہے اور اللہ کی محبت اور پیار کا ذوق نہ ہو تو مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ کا مضمون جاری ہی نہیں ہوتا پھر کیونکہ وہاں وہ اشتہا پوری کی جائے گی جو پاکیزہ ہے، جو اللہ کی ذات سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے یا صلاحیت کا تقاضا کرتی ہے.پس خدا کا مہمان بننا ہے تو اس دنیا میں اس کی آیات سے لطف اٹھانا تو سیکھ لو.اگر خدا کے مہمان بننا ہے تو جب اس کا نام آئے تو اس کے رعب اور اس کی تمکنت سے پھر اس کی محبت سے تمہارے دلوں پر ایک لرزہ طاری ہو جائے.جو لذت تم یہاں پاتے ہو اس کے ذکر سے ، وہی لذت آگے تمہاری مہمان نوازی کرنے والی
خطبات طاہر جلد 14 534 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء ہے.پس دنیا کی زندگی میں ضروری چیزیں انسان کو لذت پہنچاتی ہیں جو عام دنیا کی چیزیں ہیں مگر مراد یہ ہے کہ انہی کا نہ ہورہنا.ذکر الہی سے بھی لذت حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کرو کیونکہ آخر پر پھر ذکر الہی رہ جائے گا، یہ مادی لذتیں یہیں رہ جائیں گی، یہ وہاں نہیں پہنچیں گی.پس اس پہلو سے اپنی بھی تربیت کریں، اپنی اولادوں کی بھی تربیت کریں اور جلسے کے دنوں میں کوشش کریں کہ آپ کے مہمان زیادہ سے زیادہ وقت جلسے کے دوران جلسے ہی میں رہیں.یہ نہ دیکھیں کہ تقریر کس کی ہے کیونکہ تقریر کسی کی بھی خدا کی خاطر ایک تیار کرنے والے نے آپ کی مہمانی کے لئے تیار کی ہے اور اس کو آپ کو قبول کرنا چاہئے اور ابتداء میں اگر طبیعت ، مزاج اس کے مطابق نہ بھی ہو طبیعت اس کے خلاف ہو یا نہ ہو مزاج کا پوری طرح تطابق نہ بھی دیکھیں آپ ، تب بھی رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ وہ مزاج پیدا کر دیتا ہے اور یہ بہت پرانا بچپن سے میرا تجربہ ہے کہ بسا اوقات ایک جگہ بیٹھے ہیں، کوئی خاص شوق نہیں تھا اس تقریر کو سنے کا محض اس لئے کہ ہونی ہے ، ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے چلو بیٹھ جاتے ہیں.کئی ایسے مقرر ہوتے ہیں جو انسان کو پسند نہیں ہوتے مگر بیٹھنے کے بعد ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ نہ بیٹھتے تو محروم رہتے.تیار کرنے والے بڑی محنت سے اللہ کی خاطر کچھ چیزیں تیار کرتے ہیں اور بڑے سے بڑا عالم بھی ان کو سن کر ضرور کچھ نہ کچھ فیض پاتا ہے.ہر ایک کا ایک اپنا رنگ ہے، ہر ایک کا اپنا ایک ذوق ہے جس کے مطابق وہ چیزیں تلاش کر کے پیش کرتا ہے.پس ایسی تقریروں کو جو آپ کے مزاج کے مقرروں کی طرف سے نہ ہوں حقارت سے دیکھنا، نظر انداز کر دینا ایک تکبر کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور فائدہ ضرور ہو گا آپ کو ، یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کی خاطر آپ بیٹھے ہوں اور فائدہ نہ ہو اور اگر کچھ بھی سمجھ نہ آئے کچھ بھی پتا نہ چلے کہ کیا ہو رہا ہے تب بھی بیٹھنا ہی بیٹھنا ہے کیونکہ محبوب کا ذکر ہے اور ایسے غیر ملکی ہم نے دیکھے ہیں امریکہ سے جو مہمان آیا کرتے تھے قادیان میں بھی اور ربوہ میں بھی یا باہر کے دوسرے ملکوں سے بھی پوری تقریر میں خواہ وہ نظام Translation کا ہو یا نہ ہو ، پوری تقریریں پورا وقت بیٹھ کر سنتے تھے.آواز آتی تھی سمجھ کچھ نہیں آتی تھی مگر خدا کی خاطر بیٹھے رہتے تھے.تو اگر باہر سے آنے والے وہ جو خالصہ خلوص سے اللہ کی خاطر سفر کرتے ہیں یہ نمونے دکھا سکتے ہیں کہ جو زبان نہ بھی سمجھ آتی ہو اس میں بیٹھے رہیں.تو وہ لوگ جنہیں کچھ نہ کچھ وہ زبان سمجھ آتی ہے ان پر تو بدرجہ اولیٰ فرض ہے، ان پر تو
خطبات طاہر جلد 14 535 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء لا زم ہے کہ وہ خدا کی خاطر اس مجلس میں بیٹھیں.اگر کچھ نہ بھی پلے پڑے تو آپ نے کچھ ضائع نہیں کیا، یہ وقت آپ کے کام آ گیا کیونکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا کی خاطر بیٹھنے والوں کی صحبت ایسی بابرکت ہے کہ جو شخص محض پاس کسی اور غرض سے بھی بیٹھ جاتا ہے مگر شامل رہتا ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ برکت نازل فرماتا ہے اور فرشتوں کو کہتا ہے کہ ان کو بھی ان لوگوں میں لکھ لو جو میرے ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھے تھے اور ثواب کے مستحق ہیں کیونکہ جو میری خاطر بیٹھنے والے لوگ ہیں مجھے اتنے پیارے ہیں، ایسے معزز ہیں کہ ان کے ساتھی بھی ان سے عزت پاتے ہیں.تو آپ اس خاطر جلسے کی تقریروں میں بیٹھیں.اگر کچھ سمجھ نہیں آتی یا ذوق نہ بھی ہے ، کم از کم اس وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑے گی اور ہو سکتا ہے یہی آپ کی بخشش کا سامان ہو جائے.تو وہ رونقیں جو جلسے سے باہر ہو جاتی ہیں وہ جلسوں کے اندر رہیں گی اور باہر کامل سکون اور امن ہوگا اور کوئی شخص بے ضرورت پھرتا دکھائی نہیں دے گا اور پنڈال ہمیشہ بھرے رہیں گے اور یہ بات فی ذاتہ ایمان بڑھانے کا موجب بنتی ہے بہت اعلیٰ تربیت کا موجب بنتی ہے.پھر فرمایا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ یہ لوگ نماز قائم کرتے ہیں.اب جلسے کے دوران مہمانوں کو بھی اور میز بانوں کو بھی دونوں کو نماز کو بہر حال قائم کرنا ہے کیونکہ یہ سب تعریفیں ان لوگوں کی جارہی ہیں جنہوں نے آخر مغفرت کے دروازے سے گزرنا ہے، جن کے خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑے درجات ہیں.تو آپ کو اس کا مستحق یوں بنا ہو گا کہ نمازوں کو قائم کرنا ہوگا.جلسے کے دنوں میں با قاعدگی سے ہر شخص جو وہاں موجود ہو اس دائرے میں اسے نماز پڑھنی چاہئے.سوائے اس کے کہ کوئی فریضہ ایسا سپرد کیا گیا ہو ایسا نظام جماعت کی طرف سے کام ہو کہ اس وقت باجماعت نماز میں شامل نہیں ہو سکتا.اس کو پھر الگ باجماعت نماز پڑھنی چاہئے یعنی باجماعت نمازیں کئی ہو سکتی ہیں ایسی صورت میں.پس نماز کو قائم کریں اور نماز کو قائم کرنے کا یہ مطلب صرف نہیں ہے کہ آپ نماز باجماعت پڑھیں لوگوں کو بھی پڑھائیں یہ اقام الصلواۃ ہے.سمجھائیں، پیار سے نصیحت کر کے، ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کہ بھٹی دیکھا سنا نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے کیا آواز آئی ہے.حسی على الصلوة “نماز کی طرف دوڑے چلے آؤ.نماز کی طرف دوڑے چلے آؤ.اس خدا کی طرف سے آواز آئی ہے جو کہتا ہے اللہ اکبر، الله اکبر “خدا سب سے بڑا ہے، خدا سب سے بڑا ہے
خطبات طاہر جلد 14 536 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء اور پھر تکرار سے تمہیں بتاتا ہے تمہیں دعوت دینے والا ہر دوسری چیز سے بڑا ہے.اللہ اکبر، الله 66 6 اکبر “ پھر کہتا ہے ” حی علی الصلوۃ “ جب یہاں تک پہنچتا ہے مگر اس سے پہلے اشهد ان لا 66 اله الله، اشهد ان محمد رسول الله “ یہ دو اعلان ہونے کے بعد پھر بلایا جا رہا ہے پوری تمہید قائم کر دی گئی ہے "حی على الصلواة، حي على الصلواة اور جن کو سمجھ نہیں آتی کہ نماز کی طرف کیوں آئیں ساتھ ہی بیان فرما دیتا ہے حی علی الفلاح ، حی علی الفلاح تمہیں کامیابی کی طرف بلا رہے ہیں ،تمہیں ہم نجات کی طرف بلا رہے ہیں.اس لئے اس آواز کو سننے کے بعد دور کھڑے رہ جانا یا پرے ہٹ کر بیٹھ رہنا بڑی سخت محرومی ہے ، ایسی محرومی جو انسان کو مجرم بنا دیتی ہے.پس نماز کو قائم کریں.دوسروں کو بھی بلائیں خود بھی حاضر ہوں اپنے بچوں کی بھی تربیت کریں.جو مہمان آپ کے گھروں میں بیٹھے ہیں وہ بسا اوقات مجلس کے شوق میں بعض دفعہ دو دو بجے تک رات جاگتے ہی رہتے ہیں اور اس کے بعد سارے آرام سے سو جاتے ہیں کہ اب تو تھکے ہوئے ہیں.پھر میزبان یہ سمجھتا ہے کہ اونچی آواز نہ آئے ، آنکھ نہ کھل جائے اگر وہ نمازی بھی ہو تو آہستہ آہستہ اٹھتا ہے.یہ مہمان نوازی نہیں ہے، رزق کریم نہیں ہے جو پیش کر رہا ہے.اگر وہ معزز مہمان نواز، وہ مہمان نواز ہے جو خدا کی نمائندگی کر رہا ہے توحى على الصلواۃ اور حی علی الفلاح کو بھول کر وہ خدا کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کر سکتا.اس کا فرض ہے کہ اگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا مہمانوں کو کہ سو جاؤ، وہ سمجھتا ہے کہ ان کی دل آزاری ہوگی تو اٹھنے کا تو کہہ سکتا ہے اٹھانے میں کوئی دل آزاری نہیں اگر وہ نماز کے وقت کا اٹھانا ہے بلکہ سنت رسول کے مطابق ہے.قطع نظر اس کے کہ کوئی تھکا ہوا ہے ، کتنے دنوں کا جاگا ہوا ہے، جب نماز کا وقت آتا ہے تو جگانا سنت انبیاء ہے اور قرآن کریم جگانے ہی کی ہدایت کرتا ہے اور صبح کی نماز میں یہ اعلان بھی داخل فرمالیا ہے کہ الصلواۃ خير من النوم الصلواة خير من النوم دیکھو دیکھو نماز نیند سے بہت بہتر ہے.یہاں نیند کا فرق نہیں کیا کہ تھوڑی نیند سے بہتر ہے یا زیادہ نیند سے بہتر ہے.ہر نیند سے بہتر ہے.خواہ کیسے ہی تھکے ہوئے کی نیند کیوں نہ ہو.تو کم سے کم یہ تو کریں کہ نماز کے وقت دروازے کھٹکھٹائیں اپنے مہمانوں کے کہ میاں پہلے تم اپنے شوق سے جاگے تھے اب خدا کی خاطر جا گو.جس کی خاطر یہ سفر اختیار کیا تھا اس سے ملنے کے لئے اٹھو اور نمازوں کو اپنے گھروں میں قائم کریں تو پھر
خطبات طاہر جلد 14 537 خطبہ جمعہ 21 / جولائی 1995ء باقی عادات نمازیں درست کر لیں گی.کئی دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگ جو تہجد کے لئے اٹھتے ہیں وہ کچھ دیر مجلس میں بیٹھتے ہیں پھر معذرت کر لیتے ہیں کہ میاں ہم نے تو صبح اٹھنا ہے معاف کر دو ہمیں تو جانا ہی جانتا ہے.تو جس کی نمازیں درست ہوں اس کے باقی کام بھی درست ہو جاتے ہیں، اس کی عادتیں بھی درست ہو جاتی ہیں اس کے اوقات مناسب وقتوں میں بانٹے جاتے ہیں اور ہر وقت کا جو اپنا حق ہے وہ اسے ادا کرتا ہے، نماز کی مجبوری کی وجہ سے پس نماز کو قائم کریں.وَ مِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ غیر اللہ کی طرف نہیں دیکھا.تو کل کیا اللہ سے رزق پایا مگر جو پایا اسے صرف اپنے تک نہ رکھیں.آگے پھر جتنا خدا نے دیا ہے توفیق ہو تو دوسروں کو بھی پیش کریں ان کو بھی اپنے رزق میں شامل کریں.اب دیکھیں کتنا ز بر دست مہمان بن رہا ہے اللہ کے لئے.ایسا مہمان ہے کہ اس کی ایک ایک ادا خدا کو پیاری ہے.اسی لئے اس موقع پر فرماتا ہے أُولَيكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ سچے مومن ہیں.لَهُمُ دَرَجتُ عِنْدَ رَبِّهِمُ ان کی ایک ایک ادا خدا کے حضور ان کے درجے بنارہی ہے، ہر جو بات بیان کی گئی ہے اللہ کی خاطر وہ اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کو اتنی پیاری ہے کہ ہر بات ان کا ایک درجہ بنا دیتی ہے.لَهُمْ دَرَجَتُ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیم ان کے لئے مغفرت ہے اور مغفرت کے بعد پھر رزق کریم ہے جس کا پہلے ذکر کر چکا ہوں.پس اللہ تعالیٰ تمام ان میز بانوں کو جو U.K جماعت سے تعلق رکھتے ہیں خدا کی خاطر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس طرح میں نے بیان کیا ہے صبر اور حوصلے کے ساتھ مغفرت کا سلوک کرتے ہوئے جہاں تک ممکن ہے ان کی دلداری کرے اور دل آزاری کو معاف کر دیں اور آنے والوں کو میں اس ضمن میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے تین دن کی مہمانی رکھی ہے اس کے بعد فرمایا’صدقۃ صدقہ ہے اور مہمان کا فرض ہے کہ خصوصی اجازت لے کہ کیا چند دن اور آپ مجھے خوشی سے رکھ سکتے ہیں یہ مضمون ہے عام مہمانوں کا.بعض رشتے دار ہیں، اپنی بچیاں ہیں اپنے گھر والے اور ہیں جو آپس میں ہمیشہ سے بعض روایتی تعلق رکھتے ہیں ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں، مہینوں بھی ٹھہر جاتے ہیں دونوں کی خوشی کا موجب بنتا ہے.یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سن کر رسمی طور پر جائیں اور تین دن کے بعد کہیں کیا ہم ٹھہر
خطبات طاہر جلد 14 538 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء سکتے ہیں.عقل سے کام لینا چاہئیے، حکمت کی باتیں حکمت سے عمل میں لانی چاہئیں.مراد یہ ہے کہ جو عام مہمان ہیں جن کے ساتھ پرانے رابطے نہیں ہیں لمبے قیام کے ، ان کا فرض ہے کہ تین دن سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں حق ادا ہو گیا اجازت چاہیں اور اگر پھر وہ خوشی سے رو کے یا آپ اجازت چاہتے ہیں اور آپ جانتے ہیں اس کا چہرہ دیکھ کر کہ کوئی انقباض نہیں ہے تو پھر بے شک کچھ دن اور ٹھہر جائیں مگر ایسے مہمان نہ بنیں کہ میزبان آئندہ ہمیشہ کے لئے مہمانی سے ہی توبہ کرلے.ایسے مہمان نہ بنیں جیسا ایک عرب بدو کے تجربے میں آیا تھا.ایک ایسا مہمان آیا جو اتنا کھاتا تھا کہ جب وہ میز بان سالن پہنچا تا تھا اور روٹی لینے جاتا تھا تو سالن ختم ہو چکا ہوتا تھا اور روٹی رہ جاتی تھی.پھر وہ دوڑتا تھا کہ روٹی کے لئے سالن لاؤں تو واپس آتا تھا تو روٹی ختم اور سالن باقی ہے.اس کا گھر اجڑ گیا چند دن میں، جتنی بکریاں تھیں ذبح ہو گئیں.بالآخر اس نے بڑے ادب سے اور احترام سے پوچھا اور عرب بدوؤں میں بہت مہمان نوازی کی روایات تھیں گھر تک قریب لٹا بیٹھا اس نے بڑے ادب اور احترام سے پوچھا یا حضرت! کدھر کا ارادہ ہے خیال آیا کہ تھوڑا سفر آگے بھی چلوں.اس نے کہا بات یہ ہے کہ مجھے معدے کی تکلیف ہے بھوک نہیں لگتی اور ایک حکیم کا سنا ہے اس علاقے میں کہیں ایک حکیم ہے جو بھوک تیز کرنے کی دوائیں دیتا ہے میں اس کی خدمت میں جارہا ہوں.تو اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کی، عربی شعر ہے.يا ضيفنا ان زرتنا لوجدتنا لمن الضيوف وانت رب المنزل اے میرے معزز مہمان اگر پھر تجھے توفیق ملی ہماری زیارت کرنے کی تو تو یہ دیکھے گا کہ ہم مہمان ہوں گے اور تو میزبان ہمیں مہمان رکھ لینا ہمارا سب کچھ قبضہ کر لینا اور میزبان بن جانا.تو ایسے مہمان نہ بن کر آئیں کہ میزبان تو بہ توبہ کر اٹھے اور کہے کہ بس کافی ہوگئی ، آگے کہاں کا ارادہ ہے.خود ہی اپنی حیا اور شرافت کے ساتھ وقت کے اندر اجازت چاہیں اور جہاں تک روزمرہ کی تکلیفیں جو اس بات سے وابستہ ہی ہیں ان کا تعلق ہے، اللہ ہر میزبان کو جزا دے گا جو اس کی خاطر قربانیاں کرتا ہے.اللہ آنے والوں کو بھی بچے معنوں میں مسلمان مہمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور یہاں رہنے والوں کو بھی بچے معنوں میں مسلمان میزبان بنے کی توفیق عطا فرمائے.ایسے
خطبات طاہر جلد 14 539 خطبہ جمعہ 21 جولائی 1995ء میزبان جن کی میزبانی پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رات ایک میرے بندے نے ایسی مہمان نوازی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مطلع کیا کہ جب وہ مہمان نوازی کر رہا تھا تو میں بھی ہنستا تھا ، میں بھی خوش ہو رہا تھا ، میں بھی لذت پا رہا تھا.تو خدا کرے انہی لوگوں میں سے جو یہاں مختلف بھیسوں میں پڑے ہیں، بڑے بڑے معزز لوگ ان میں شامل ہیں ان کی مہمان نوازی کے ایسے انداز ہوں کہ آسمان سے ان کی مہمان نوازی کو دیکھ کر عرش کا خدا بھی چٹخارے لینے لگے.اللہ کرے کہ ہمیں ایسی توفیق عطا ہو.آمین
540 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 541 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء دنیا کا سب سے بڑا صبر کرنے والا انسان محمد الله سے بڑا داعی الی اللہ بنایا گیا ، دعوت الی اللہ کیلئے صابر ہونا ضروری ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 / جولائی 1995ء بمقام اسلام آباد.ٹلفور ڈلندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْاوَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (الانفال: 47،46) پھر فرمایا:.اسماء باری تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل جو خطبات کا سلسلہ جاری ہے اس تعلق میں گزشتہ خطبے میں میں نے صبر سے متعلق جماعت کو تلقین کی تھی ، خصوصاً اس لئے کہ دعوت الی اللہ کے تعلق میں جیسا گہرا رشتہ قرآن کریم نے صبر کے ساتھ باندھا ہے اس کی کوئی اور مثال دکھائی نہیں دیتی.دنیا کی کسی کتاب میں دعوت الی اللہ کے مضمون کو صبر سے اس مضبوطی اور قطعیت کے ساتھ نہیں باندھا گیا جیسا کہ قرآن کریم نے باندھا ہے اور اس کے ہر پہلو کو بیان فرمایا ہے.اس تعلق میں صبر کی جتنی قسمیں ہیں.جس جس قسم کے صبر کی ضرورت پیش آسکتی ہے ان سب کا بیان ہے.یہ دو آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں سورۃ انفال کی چھیالیسویں اور سنتالیسویں آیات ہیں ان میں بھی یہی مضمون جاری ہے.
خطبات طاہر جلد 14 542 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا الله كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ یہاں بظاہر تو قتال کی بات ہو رہی ہے.مگر قتال جہاد کا ایک حصہ ہے، ایک نوع ہے اور اس آیت کریمہ میں جو طرز بیان اختیار فرمائی گئی ہے وہ جہاد کی ہر قسم پر حاوی دکھائی دیتی ہے.فرمایا جب تمہارا کسی دشمن ٹولی سے آمنا سامنا ہو، مڈ بھیڑ ہو جائے تو ثبات قدم دکھانا.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا اور ثبات حاصل کرنے کا راز اس بات میں ہے کہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتے رہو.لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم کامیاب ہو.وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو.وَلَا تَنَازَعُوا اور آپس میں جھگڑے نہ کرو.فَتَفْشَلُو اور نہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور بزدلی دکھاؤ گے.وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ اور جو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہے وہ ہوا ٹوٹ کر بکھر جائے گی.وَاصْبِرُ وا پس علاج یہی ہے کہ صبر سے کام لو اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ يقينا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.یہاں دعوت الی اللہ کا جہاں تک تعلق ہے اس سلسلے میں بھی دو باتیں میں خاص طور پر ان آیات کے حوالے سے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ ثبات قدم کا راز ذکر الہی میں ہے اور بسا اوقات بہت سخت دشمن جماعتیں مقابلے پر نکلتی ہیں بڑے بڑے بد گو علماء با قاعدہ منصوبے بنا کر اپنے ٹولے ساتھ لے کر سامنے آتے ہیں اور بدنیتوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں.وہ موقع ہے جبکہ بظاہر تلوار کا جہاد نہیں بھی ہے تب بھی قدم اکھڑنے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے.فرمایا، اس وقت اگر تم نے جرات حاصل کرنی ہے دل کا ثبات حاصل کرنا ہے، یہاں قدموں سے زیادہ دل کے ثبات کی بات ہے وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تو کثرت سے ذکر الہی کرتے رہنا اور ایسا کرو گے تو تم ضرور کامیاب ہو جاؤ گے لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تا کہ اس کے نتیجے میں تم کامیاب ہو جاؤ.وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ دوسرا ثبات کا راز اور جمیعت اور طاقت کا راز یہ بیان فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دامن نہیں چھوڑنا.وَلَا تَنَازَعُوا اور آپس میں اختلاف نہیں کرنا، آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑنا نہیں.اگر تم ایک دوسرے سے جھگڑو گے اور اختلاف کرو گے اور تمہاری جماعتیں پھٹ جائیں گی فَتَفْشَلُوا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ دشمن کے مقابل پر بھی تم ضرور بزدلی
خطبات طاہر جلد 14 543 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء دکھاؤ گے وَتَذْهَبَ رِيحُكُم اور تمہارے رعب کی جو ہوا بندھی ہوئی ہے وہ جاتی رہے گی.واصبروا اور صبر کرو صبر سے کام لو.یہاں صبر کے دو معنے ہیں دونوں معنوں ہی میں یہاں یہ اطلاق پاتا ہے اول یہ کہ دشمن کے مقابل میں صبر سے کام لو.دوسرے ان امور میں صبر سے کام لوجن کے نتیجے میں تم پھٹ جایا کرتے ہو.ایک دوسرے سے تعلقات ایسے قائم رکھو کہ اگر کسی طرف سے زیادتی ہو بھی جاتی ہے تب بھی صبر کے نمونے دکھاؤ تا کہ تمہارے آپس کے اختلاف نہ بن جائیں اور وہ اختلاف بڑھ نہ جائیں کیونکہ جہاں الہبی جماعتوں میں اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں وہاں ضرور ان کی طاقت ختم ہو جاتی ہے، غیر سے مقابلے کی بجائے وہ آپس میں ایک دوسرے سے مقابلے کرنے لگتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ بزدلی ہے.پس جہاں تک میں جماعتی حالات پر نظر رکھتا ہوں قطعی طور پر اس بات میں ایک ذرہ بھی شک نہیں دیکھتا کہ جہاں بھی جماعتیں آپس میں پھٹی ہیں وہاں ساری برکتیں اٹھ گئی ہیں.وہیں بزدلی پیدا ہوئی ہے، وہاں سے دعوت الی اللہ کا مضمون اٹھ گیا ہے.جیسے پرندہ گھونسلے کو چھوڑ دے اس طرح دعوت الی اللہ ان لوگوں کے گھروں سے غائب ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی رضا کی بجائے اس کی ناراضگی کا موجب بن جاتے ہیں اور صبر کا یہاں جو مضمون ہے وہ خاص طور پر قابل توجہ.ہے.جب بھی ان لوگوں کے اختلافات کی تحقیق کی جاتی ہے تو جواباًیہ کہتے ہیں فلاں نے ہم پر زیادتی کی اور جب اس فلاں سے پوچھتے ہیں تو پہلے کی طرف انگلی اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے زیادتی کی ہے اور جب بھی جماعتی کوششوں کے نتیجے میں ان میں صلح کروانے کی کوشش کی گئی تو یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوئی.ان بحثوں میں پڑ کر آج تک میں نے کبھی تسلی بخش نتیجہ نکلتے دیکھا نہیں.مسلسل سالہا سال سے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں جاری رہتی ہیں اور ایک بھی فریق یہ نہیں مانتا کہ قصور میرا تھا اس کا نہیں تھا.پس ایسی صورت میں جب بھی کامیابی ہوئی ہے وہاں اس وقت ہوئی ہے جب اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (النساء: 60) کا مضمون چلا ہے.بعض دفعہ آنحضرت ﷺ کی نمائندگی کا حوالہ دے کر یہ بتا کر کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے آپ کی نمائندگی کے منصب پر فائز فرمایا ہے میں آپ سے کہتا ہوں کہ ان جھگڑوں کو چھوڑ دیں اور بھول جائیں.جہاں دلوں میں اطاعت کا جذبہ تھا، جہاں اللہ کی محبت اس حد تک غالب تھی کہ
خطبات طاہر جلد 14 544 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء محمد رسول اللہ اللہ کے نام پر اللہ کے نام کے اوپر ان سے انکار ممکن نہیں رہا وہاں بسا اوقات یہ بھی ہوا کہ ان لوگوں نے سب جھگڑے بھلا دیئے ، یہ بحث ترک کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر وہ یک جان ہو گئے.پس اس آیت کے ہر حصے کا ہر دوسرے حصے سے گہرا تعلق ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر یک جہتی نصیب نہیں ہو سکتی.وہ وحدت نصیب نہیں ہو سکتی جس کے بغیر آپ کبھی بھی غیر اللہ سے مقابلے نہیں کر سکتے ، اس وحدت کے بغیر آپ میں طاقت ہی نہیں کہ آپ غیر اللہ سے مقابلہ کر سکیں اور یہی آج خصوصیت سے بعض جماعتوں میں بلا بنی ہوئی ہے کہ سالہا سال کی نصیحتوں کے باوجودان کی بحثیں، ان کے جھگڑے ختم نہیں ہوتے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ایک فریق کو کاٹ کر الگ کر دینا پڑے تو اب میں اس سے گریز نہیں کروں گا کیونکہ آج وہ دور آچکا ہے ہم اس زمانے میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ دعوت الی اللہ بڑے زور اور شان اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے.تمام دنیا کے ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک انقلاب برپا ہورہا ہے.پس ان چند لوگوں کی خاطر، ان کی دلداریوں کی خاطر کہ ان کے دل نہ ٹوٹیں، نظام جماعت سے الگ ہوکر ان کے دوستوں کو ٹھوکر نہ لگے کب تک ہم جماعتی نقصانات برداشت کرتے رہیں گے.پس یہ آخری تنبیہہ ہے.بعض صورتوں میں میں ایسے اقدام کر چکا ہوں اگر چہ میرے دل پر یہ بہت بوجھل ہوتی ہے لیکن باقی جگہ بھی اب وہی جماعت رہے گی جو ایک ہے اور اختلاف آپس میں طے ہوں یا نہ ہوں نظام جماعت کے نمائندے جب آخری فیصلہ کریں گے اگر وہ غلط ہے تو خدا پر ہے کہ وہ خود اس کے نتیجے میں کسی مظلوم کی اشک شوئی فرمائے اور اللہ ہی پر ہے کہ وہ دلوں پر نظر ڈالتا ہے کہ کس نے فیصلے کس نیت سے کئے تھے.یہ فیصلے پھر خدا کے ہاتھ میں ہوں گے مگر اس دنیا میں بہر حال وحدت کے قیام کی خاطر تمام جماعت کو ایک ملت واحدہ بنانے کے لئے تمام تفریقوں کو مٹانا ہوگا اور یہی نصیحت ہے اس آیت کی اور اس کے متعلق میں پھر عرض کرتا ہوں کہ صبر کے بغیر یہ بات ممکن نہیں.فیصلوں کے متعلق بھی اگر آپ سر تسلیم خم کرنا چاہیں ، اطاعت پر تیار بھی ہوں تو بسا اوقات دل بہت صدمہ محسوس کرتا ہے.ایسا شخص جو سمجھ رہا ہو اور یقین رکھتا ہو چاہے اس کا یقین غلط ہی کیوں نہ ہو کہ فلاں نے مجھ پر زیادتی کی تھی اور نظام جماعت کا نمائندہ آیا اس نے فیصلہ اس کے حق میں کر دیا
خطبات طاہر جلد 14 545 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء اور مجھ پر دباؤ ہے کہ میں اپنی انا تو ڑ کر اس کے سامنے جھک جاؤں، اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاؤں.تو بڑے دکھ کا معاملہ ہے اس کے دل کی کیفیت میں اپنے ذہن کو منتقل کر کے دیکھیں تو بعض دفعہ اس پر شدید ابتلاء آ جاتا ہے جو آخر وقت تک اپنے آپ کو سچا سمجھ رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واصبر و امبر سے کام لو، صبر ہی ان باتوں کا علاج ہے اور جو اللہ کی خاطر صبر کرتا ہے اس کا اجر اللہ پر ہے.پس یہ نقصان کا سودا نہیں.دنیا کی نظر میں برادری کی نظر میں اگر کچھ انسان خفت بھی محسوس کرے مگر اگر رضاء باری تعالیٰ کی خاطر ہے تو اللہ اس کا اتنا اجر عطا فرمائے گا کہ آپ کی نسلیں بھی ان فضلوں کو سنبھال نہیں سکیں گی.پس صبر کے رستے پر ہی اللہ کی رضا ہے اسی رستے پر صبر کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں.پھر دوسری آیت کریمہ جو میں نے آج کے مضمون کے لئے چینی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا أَمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِيَّا حَتَّى اَنْسَوَّكُمْ ذِكْرِى وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ إِنِّى جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَابِرُونَ (المومنون: 112110) پس دعوت الی اللہ کرنے والوں کے لئے بھی صبر کی ضرورت ہے.دعوت الی اللہ کی تیاری کے لئے صبر کی ضرورت ہے اور دعوت الی اللہ کے نتیجے میں جولوگ ہدایت کا فیض پاتے ہیں وہ بھی صبر پر گامزن ہوں تو وہ آسمانی فیوض کو حاصل کرتے ہیں ورنہ ان کی دنیاوی کوشش اور جد و جہد اور خدا کی خاطر تکلیف اٹھانا اگر صبر سے عاری ہو جائے تو وہ اپنے پھلوں سے محروم رہ جاتے ہیں.پس آنے والوں کے لئے بھی نصیحت ہے کیونکہ ہر نیا آنے والا جو اللہ کی آواز پر لبیک کہتا ہے وہ لازماً ایک ابتلاء کے دور سے گزارا جاتا ہے اور خدا کی تقدیر یہی ہے کہ دعوت الی اللہ کے ساتھ ابتلاء بھی پھیلتے چلے جائیں اور دعوت الی اللہ کے نتیجے میں آنے والوں کو بعض دفعہ اپنے سامنے آگ دکھائی دے اس آگ میں سے گزریں تو پھر وہ جنت تک پہنچ سکتے ہیں.ایسی صورت میں بھی کون سا ذریعہ ہے جسے اختیار کریں تو اس اعلیٰ مقصد کو حاصل کر لیں.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنّى جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا میں نے انہیں آج کے دن جزا دی ہے اس وجہ سے کہ
خطبات طاہر جلد 14 546 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء انہوں نے صبر اختیار کیا اَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ اور یہ تو مقدر ہے، طے شدہ بات ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.پہلی آیات میں جو میں نے تلاوت کیں خدا تعالیٰ نے آنے والوں کی قربانیوں اور ابتلاؤں کا ذکر فرمایا ہے لیکن اس رنگ میں کہ سارا دور انہوں نے دعائیں کرتے گزارا ہے.اللہ کا فضل چاہتے ہوئے، اسی سے رحم کے طلب گار ہوتے ہوئے مسلسل دعا میں مصروف لوگ تھے جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں اور چونکہ وہ دعائیں کرتے رہے اللہ سے رحم طلب کرتے رہے اس لئے اللہ ہی نے ان کو صبر کی بھی توفیق عطا فرمائی.فرماتا ہے میرے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا جنہوں نے کہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے امنا یہ کہہ کر ہم ایمان لے آئے ہیں محض اللہ کو رب سمجھتے ہوئے اسی پر توکل رکھتے ہوئے غیر اللہ کی نفی کرتے ہوئے جو ایمان کی دعوت ہمیں پہنچی ہم نے اس پر لبیک کہہ دیا فَاغْفِرْ لَنَا پس اے ہمارے رب اب ہم سے بخشش کا سلوک فرماؤ ارْحَمْنَا اور ہماری حالت پر رحم فرما وَ اَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِینَ اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.یہاں نئے آنے والوں کا بخشش طلب کرنا تو سابقہ گناہوں کے تعلق میں ہے.رحم ان مظالم کے نتیجے میں ہے جو دشمن کر رہا ہے.ان سے تو رحم کی توقع نہیں دشمن تو مظالم کرتا ہے اور کرتا ہے اور کرتا چلا جائے گا مگر ان کے مظالم کے نتیجے میں اللہ سے رحم مانگا جارہا ہے اور دوسرا یہ بھی اس میں حکمت کی بات سمجھائی گئی ہے کہ نئے آنے والے جب تکلیفوں اور مصیبتوں میں سے گزریں تو لوگوں سے رحم نہ مانگا کریں بلکہ جس کو رب بنایا تھا جس کی خاطر ایمان لائے اسی سے رحم طلب کیا کریں.اور یہ خاص طور پر آج کے دور میں سمجھانے کے لائق ہے کیونکہ پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ جب بھی کوئی احمدی ہوتا ہے اس پر مصیبتوں کا ایک بظاہر نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو جاتا ہے، ہر قسم کے ابتلاؤں سے آزمایا جاتا ہے، اس کے اپنے چھوڑ دیتے ہیں ، اس کے دوست، دشمن بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ بہن بھائی بھی اس کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں اس نے احمدی ہو کر ہماری ناک کاٹ دی ہے اپنی دنیاوی عزتوں کی خاطر وہ اپنے جگر گوشے کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.یہ وہ مصائب ہیں جن سے کئی لوگ گزرتے ہیں.کئی ایسے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 547 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995 ء جو کنگال ہو گئے جو گھروں سے نکالے گئے ، جائیدادوں سے عاق کئے گئے اور اس کے باوجود وہ اللہ کے فضل کے ساتھ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، اپنے درد کے تذکرے اگر کرتے بھی ہیں تو کسی لالچ یامدد کی تمنا کی توقع کے ساتھ نہیں.بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب کسی نو مبائع نے اپنے دردناک حالات مجھے لکھے تو باوجود اس کے کہ اس نے کچھ مانگا نہیں تھا میں نے اس کے نتیجے میں جماعت کو ہدایت کی کہ فوری طور پر رابطہ کریں اور جس حد تک بھی ممکن ہے ان کی مدد کریں.تو جواب آیا کہ انہوں نے جواباًیہ کہا ہے کہ ہم شکر یہ ادا کرتے ہیں ہم نے تو محض دعا کی خاطر لکھا تھا مگر ہمیں دنیا میں کسی کی ضرورت نہیں ہم خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے جیسی روکھی سوکھی مہیا ہوئی وہی کھا کر گزارہ کریں گے مگر ہم کسی سے دنیا میں مدد کے محتاج نہیں ہیں، نہ ایسی مدد قبول کریں گے.پس بڑے عزت والے لوگ ہیں، بڑے سر بلند انسان ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے حضور سر بلندی عطا کی جاتی ہے، جو خدا کے سامنے جھکتے ہیں اور غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکتے.وہ اپنوں کے سامنے بھی سر جھکانے سے حیا محسوس کرتے ہیں.انہی کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنّى جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا آج کے دن ان کی جزا مجھے پر ہے اور میں ہی جزا دوں گا کیونکہ انہوں نے صبر کے حیرت انگیز نمونے دکھائے.أَنَّهُمْ هُمُ الْفَابِزُونَ اور یہی وہ گروہ ہے جو دراصل غالب آیا.کرتا ہے.پس نو مبائعین میں اگر ایسے لوگوں کی تعداد بڑھے جو تبلیغ کرنے والا ان کو سمجھاتا رہے شروع سے آخر تک کہ جس خدا کی خاطر تم نے ہدایت کو قبول کیا ہے وہ خدا اب تمہارا ذمہ دار ہے اور اس کے سوا کسی اور کی طرف نظر نہ کرنا.اگر یہ سمجھا کر اس کو آخری فیصلہ کرتے ہوئے بیعت پر آمادہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ گروہ ہے جو پھر غالب آنے والا ہے.ایسے نئے بیعت کرنے والے کثرت سے دوسروں کی بیعت کرواتے ہیں اور اپنے سارے ماحول کو تبدیل کر دیا کرتے ہیں اور اس کی بھی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں.شروع میں تکلیفیں اٹھا ئیں، ثابت قدم رہے مگر کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دن بدلنے شروع کئے.ابھی دودن پہلے ایک خط اسی موضوع پر ملا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک نوجوان نے جب بیعت کی ہے تو اس کو مارا کوٹا گیا ، پہلے گھر میں بند رکھا پھر جب وہ بالآخر رہائی پا کر باہر نکلا تو ہر قسم کی مصیبتیں اس نے برداشت کیں.مزدوریاں کیں لیکن اپنے پاؤں پر کھڑا رہا.بالآخر اس کی ماں کا دل پسیجا اس نے
خطبات طاہر جلد 14 548 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء واپس بلایا اور جب دیکھا کہ اس کی کا یا بیٹی ہوئی ہے یہ تو پانچ وقت کا نمازی بن گیا ہے، تہجد گزار ہے تو اس نے اپنے باقی بچوں کو بھی سمجھایا کہ تم کیا کر رہے ہو، کس کی دشمنی کر رہے ہو، یہ تو پہلے سے بہت بہتر ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر سارے گھر کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی.توهُمُ الْفَائِزُونَ کا یہ مضمون ہے جو آئندہ تو جاری ہوگا، اس دنیا میں بھی جاری ہوتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو غلبے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں.ان کے خمیر میں غالب آنا رکھا گیا ہے.پس دعوت الی اللہ کریں تو ایسے خدا کے کامل عاجز بندے بنا ئیں جن کا سرخدا کے حضور ہمیشہ جھکا رہے لیکن غیر اللہ کے سامنے سر جھکانا وہ نہ جانتے ہوں.ان کے ضمیر کے خلاف، ان کے خمیر کے خلاف یہ بات ہو جو خدا کے سوا کسی کے سامنے سر جھکا دیں.ضروران کو سرفراز کیا جائے گا اور ضرور یہی ہیں جنہیں ہمیشہ سرفراز کیا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا (النحل : 111) پھر ایسے بھی لوگ ہیں تم میں سے جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ ان کو مصیبتوں میں مبتلا کیا گیا بعد اس کے کہ ان کو مخالفت کے عذاب میں بھونا گیا.فُتِنُوا کا ایک یہ بھی مطلب ہے آگ پر بھونا اور ابتلا میں ڈالنا بھی فتن “ کا مطلب ہے تو آزمائشوں میں ڈالے گئے اور دردناک عذاب پر بھونے گئے.اس کے نتیجے میں انہوں نے ہجرت اختیار کی.مگر ہجرت کس چیز سے کس کی طرف اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر ہی کی طرف ہجرت کی اور اب ان باتوں کو چھوڑا نہیں جن کے نتیجے میں ان پر ابتلاء آتا تھا.ایک بہت ہی پیارا مضمون ہے جس کو دیکھ کر انسان کی روح اس پر نچھاور ہونے لگتی ہے.فرمایا میری راہ میں ہجرت کرنے والے ان پاک عادات سے نہیں بھاگتے جن عادات کے نتیجے میں ان پر مصیبتیں توڑی جاتی ہیں.اس لئے ہجرت کے باوجود ان کو بزدل نہیں کہا جا سکتا.جن خصائل کی وجہ سے، جن عادات کی وجہ سے، جس دعوت الی اللہ کی وجہ سے ان کو پہلے آزمایا گیا تھا، پہلے مشکلات میں ڈالا گیا تھا.جب ہجرت کرتے ہیں تو پھر انہی باتوں کی تکرار کرتے ہیں.فرمایا ثُمَّ جَهَدُوا وَصَبَرُوا (النحل : 111) نکالے گئے تھے، گھر چھوڑنے پڑے تھے ، ان مصیبتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر جب باہر نکلے پھر وہی کام شروع کر دیا.ایک
خطبات طاہر جلد 14 549 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء لحظ کے لئے بھی دعوت الی اللہ سے باز نہیں آئے.فرمایا اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (النحل : 11) مِنْ بَعْدِهَا کا مضمون بھی بہت عجیب ہے.فرمایا لَغَفُورٌ رَّحِیم تو ہے لیکن بعض مہاجر ایسے ہیں جو اپنی نیک صفات سے بھی ہجرت کر جاتے ہیں.جن للمی باتوں کی وجہ سے دنیا ان کی دشمن ہوتی ہے اس کے نتیجے میں گھر چھوڑتے تو ہیں لیکن بعض بد نصیب ایسے ہیں کہ ان عادتوں سے بھی ہجرت کر جاتے ہیں.ان کے لئے خدا کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کو فور اور رحیم پائیں گے.ان کے لئے وعدہ ہے کہ تکلیفوں سے ہجرت کرتے ہیں مگر اللہ کی خاطر ان کاموں سے ہجرت نہیں کرتے جن کاموں کے نتیجے میں ان کو تکلیفیں دی گئی تھیں.پس جب بھی ایسے مہاجروں پر نظر پڑتی ہے جو پاکستان سے آکر جرمنی میں آباد ہوئے یا انگلستان میں آباد ہوئے یا دوسرے ممالک میں جابسے اور پھر بھی تبلیغ میں اسی طرح منہمک اور مصروف ہیں جس طرح پہلے مصروف تھے تو یہ آیت مجھے ان کو سلام بھیجنے پر مجبور کرتی ہے.میرے دل کی محبت ان کے لئے اچھلتی ہے کہ اے مبارک لوگو! خدا نے تمہارا ہی ذکر قران کریم میں فرمایا ہے کہ ان نیکیوں کے نتیجے میں مصیبتیں سہیڑتے ہوئے اپنے آپ کو آگ پر بھتا ہوا دیکھنے کے باوجود اور اس کا مزہ چکھنے کے باوجود تم نکلے ہو تو پھر انہی کاموں میں مصروف ہو گئے ہو.اب تمہارا اجر خدا پر ہے، وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.یہ مبر دکھانے والے ہیں جن کا صبر خدا کے ہاں منظور ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نگاہیں ان پر پڑتی ہیں.فرمایا ، ہاں اس کے بعد جب وہ دوبارہ یہی حرکت کرتے ہیں تو اللہ کو بہت پیارے لگتے ہیں.سارے گناہ بخشے جاتے ہیں.ایسے رحم کا مورد بنتے ہیں جو بار باران پر نازل ہوگا کیونکہ رحیم اس ذات کو کہتے ہیں جو رحم فرماتی ہے اور پھر رحم فرماتی ہے اور پھر رحم فرماتی ہے اور رحم فرماتی چلی جاتی ہے.تو کیسا نیک انجام ہے مگر صبر کے نتیجے میں نصیب ہوا اور یہاں صبر کا معنی نیکیوں سے چمٹا رہنا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے صبر کی یہ تعریف فرمائی کہ صبر محض مصیبتوں پر ثابت قدم رہنے کا نام نہیں صبر نیکیوں سے چمٹ جانے کا نام ہے خواہ جو کچھ بھی ہو ایک نیکی جو اختیار کر لی جائے پھر اسے انسان کبھی بھی نہ چھوڑے.پھر آل عمران کی آیت 121 ہے جس میں یہ صبر کا مضمون ایک اور رنگ میں پیش فرمایا گیا ہے.اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوْابِهَا وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ
خطبات طاہر جلد 14 550 خطبہ جمعہ 28 / جولائی 1995ء شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيْدٌ تم ایک خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لے آئے ہو اور اس کے ایمان کے نتیجے میں لازماً تمہیں سزائیں دی جائیں گی اور دی جارہی ہیں اس کے سوا کوئی برائی نہیں جو تم میں دیکھتے ہوں.اب ان کی دشمنی کی حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمُ تمہیں جو بھی اچھی بات پہنچے ان کو تکلیف دیتی ہے.اس لئے خواہ تم تبلیغ کر دیا نہ کرو اب ان کی دشمنی کے دائرے سے باہر نکل ہی نہیں سکتے سوائے اس کے کہ اللہ تم پر فضل کرنا چھوڑ دے.کیا تم یہ پسند کرو گے کہ ان کی دشمنی سے بھاگنے کی خاطر خدا کے فضلوں سے محروم رہ جاؤ اور اللہ آئندہ سے تم پر فضل نازل کرنا بند کر دے، یہ تو نہیں ہوسکتا..فرمایا پس جتنی بھی تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے حسنات پہنچتی ہیں نعمتیں عطا ہوتی ہیں اللہ کی طرف سے فضل تم پر نازل ہوتے ہیں، ہر فضل ان کو تکلیف پہنچاتا ہے.وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بھا اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے، کوئی برائی پہنچے تو اس پر یہ بہت خوش ہوتے ہیں.اب ایک بات تو خاص طور پر قابل ذکر یہ ہے کہ حَسَنَةٌ کا لفظ بھی بڑا وسیع ہے اور سینے کا بھی.سيئة سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی ایسی تکلیف پہنچے جو بدنی طور پر آپ کے لئے نقصان دہ ہو یا مالی طور پر نقصان دہ ہو یا جانی طور پر نقصان دہ ہو.سی عادات کے بد ہونے کا نام بھی ہے.اگر آپ نیکیوں سے پھر جائیں، اگر بدیوں کا شکار ہو جائیں تو یہ لوگ بہت خوش ہوں گے.پس ہجرت کرنے والے بھی اور وہ بھی جو ہجرت سے پہلے ایک معاند ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے لئے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے کہ تم خدا کی خاطر ایک ایسے راستے پر چل پڑے ہو جہاں خدا کے فضل نازل ہوں گے لیکن ہر فضل غیر کو تمہیں مصیبت پہنچانے پر اور بھی زیادہ اکسائے گا اور ہر فضل کے نتیجے میں ان کی دشمنیاں بڑھتی چلی جائیں گی اور پھر یہ چاہیں گے کہ تم بد ہو جاؤ، تمہارے اندر برائیاں گھر کر جائیں.ہر قسم کے عیوب جوان میں پائے جاتے ہیں وہ تمہارے اندر بھی دوبارہ داخل ہو جائیں یا اس کے علاوہ اگر کبھی کوئی حادثاتی طور پر تمہیں تکلیف پہنچ جائے تو یہ ساری چیزیں مل کر ان کے لئے خوشیوں کا موجب بنتی ہیں.اس کا علاج کیا ہے.فرمایا
خطبات طاہر جلد 14 551 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء وَ اِنْ تَصْبِرُوا اگر تم صبر سے کام لو وَ تَتَّقُوا اور تقویٰ اختیار کرو.صبر سے کام لو تو واضح ہے.تقویٰ اختیار کرو، کن معنوں میں؟ یہاں دو پہلو ہیں جن کا ذکر کھول کر کرنا ضروری ہے کیونکہ وعدہ یہ ہے لَا يَضُرُّكُم كَيْدُهُمْ شَیئًا پھر تمہیں ان کی کوئی سکیم، کوئی سازش بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی.پس یہ مسئلہ بہت اہم ہے.کیا کریں ہم کہ دشمن دانتوں میں رہتے ہوئے زبان دانتوں کی ضرب سے ہمیشہ محفوظ رہے.اپنے دانت بھی بے احتیاطی سے اپنی زبان کو کاٹ جاتے ہیں.لیکن اگر زبان دشمن دانتوں میں گھری ہوئی ہو پھر اس کا بیچ نکلنا امر محال دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے ہم تمہیں ترکیب بتاتے ہیں تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا صبر سے کام لو اور وَتَتَّقُوا کا ایک معنی ہے حتی المقدور احتیاطی تدابیر اختیار کرو اور دوسرا معنی ہے اللہ سے ڈرو غیر اللہ سے نہ ڈرو.تو فرمایا یہ تم پر شرط ہے کہ ایسے حالات میں صبر کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرو لیکن دشمن سے ڈرتے ہوئے نہیں بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اور محض اسی سے ڈرتے رہو.اگر تم یہ شرائط پوری کرو گے تو خدا کا وعدہ ہے لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا کہ ان کی کوئی تدبیر، کوئی ترکیب، کوئی سازش تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی.اِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحیط اس لئے کہ خدا ان کے تمام اعمال کا گھیرا کئے ہوئے ہے.ان کے ارد گرد جوشر پھیل رہے ہیں وہ سب خدا کے گھیرے میں ہیں.جب تک خدا اس گھیرے کو توڑ کر کسی تک وہ شر پہنچنے نہیں دیتا، ناممکن ہے کہ ان کا شر از خود دوسروں پر پھلانگ سکے اور ان کے اوپر حملہ کر سکے.پس تم اس گھیرے کے نتیجے میں جو خدا تعالیٰ تمہاری ہی خاطر ان کے گرد باندھے ہوئے ہے اس شر کے دائرے سے باہر رہو گے لیکن صبر سے کام لینا ہے اور تقویٰ اختیار کرنا ہے.امر واقعہ یہی ہے آپ گردو پیش کے حالات پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ ہر دشمن کی سکیم کے گرد خدا نے کچھ گھیرے ڈالے ہوئے ہیں ورنہ وہ چاہتے تو بہت کچھ ہیں.ان کے دل کے بغض تو ہر وقت کھولتے ہیں، ایک قسم کی جہنم میں مبتلا لوگ ہیں اور ہر وقت احمدیت کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا شر اچھل کر باہر نہیں نکلتا.نکلتا ہے تو بہت تھوڑا اور بہت معمولی سا ابتلاء پیدا کرتا ہے اس کی بھی الگ حکمت ہے اور اس نقصان کو بھی اللہ تعالیٰ پیش نظر رکھتے ہوئے فرمارہا ہے کہ تمہیں کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچ سکے گا.شیئًا سے مراد یہ نہیں ہے کہ ذرہ بھر بھی.ذرہ بھر نقصان سے
خطبات طاہر جلد 14 552 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی تکلیف بھی تمہیں نہیں پہنچے گی.اگر یہ معنی لئے جائیں تو تاریخ اسلام بالکل بے معنی دکھائی دے گی.آنحضرت مے سے بڑھ کر صبر کرنے والا اور تقوی کرنے والا اور کوئی وجود نہیں تھا.اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کو بعض تکلیفیں پہنچتی رہیں اور اگر تکلیفیں پہنچیں ہی نہ تو صبر کا پھر کیا تعلق ہوا.صبر کا لفظ تو بتا رہا ہے کہ کچھ تکلیفیں ضرور پہنچیں گی.پس يَضُرُّكُمُ كَيْدُهُمْ شَيْئًا سے مراد یہ ہے کہ تمہارے مقاصد کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے.جن عظمت کی راہوں پر تم گامزن ہوکوئی ان کی شرارت تمہاری راہ نہیں روک سکے گی تمہارے قدم نہیں تھام سکے گی تم مسلسل آگے بڑھتے رہو گے اور جو دکھ تمہیں پہنچے گا اس کے مقابل پر فضل اتنے نازل ہورہے ہوں گے کہ وہ دکھ تمہیں بالکل بے معنی اور بے حقیقت سا دکھائی دے گا، یوں لگے گا جیسے کانٹا سا چھ گیا ہے اور یہی صورت حال ہے جو اسلام کے دور اول کی تاریخ ہمارے سامنے کھول کر پیش کر رہی ہے.آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں نے صبر کے عظیم نمونے دکھائے اور تقوی کی باریک تر راہوں پر گامزن رہے اور بڑے صبر کے ساتھ تقوی کے ساتھ چمٹے رہے اور اس بڑی وسیع جد و جہد میں جو قرآن کے ذریعے بھی جاری تھی اور جہاد اکبر بھی مسلسل چل رہا تھا اور قتال کے ذریعے بھی جاری تھی اور جہاد اصغر بھی مسلسل جاری تھا اور نفس کی تربیت کے ذریعے بھی جاری تھی.پس یہ عظیم جد و جہد جو تمام زندگی کے دائروں پر پھیلی پڑی تھی اس میں مسلسل انہوں نے صبر سے کام لیا اور تقویٰ پر گامزن رہے.اس کے نتیجے میں جو ان کو تکلیفیں پہنچی ہیں خدا کے فضلوں کے مقابل پر ایسی حقیر اور بے معنی دکھائی دیتی ہیں کہ اس کے متعلق اگر موازنہ کر کے دیکھیں تو آپ کہہ سکیں گے کہ کچھ بھی نہیں ہوا.کسی کروڑ پتی کا ہزار روپیہ کا نقصان ہو جائے تو نقصان تو ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس غم میں ہلاک ہو جائے کہ میرے ایک ہزار روپے ضائع ہو گئے.ہوسکتا ہے کروڑ ہی ضائع ہو جاتے.تو وہ ہلکی سی تخفیف کی نظر ڈال کر دیکھے گا ہزار روپے کا کیا فرق پڑتا ہے.کچھ بھی نہیں ، مجھے تو کوئی بھی نقصان نہیں ہوا.پس یہ ان کی نفسیاتی کیفیت ہے جو بیان کی جارہی ہے.یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ تمہیں کسی قسم کی کوئی اذیت نہیں پہنچے گی اگر اذیت نہ پہنچنی ہوتی تو صبر کا مضمون مذکور ہی نہ ہوتا.صبر کے مضمون کا کوئی اس بات سے تعلق ہی نہ ہوتا.پس قرآن کریم کا وہی معنی کیا جائے گا جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ
خطبات طاہر جلد 14 553 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور آپ کے صحابہ کے حالات پر اطلاق پا تا ہو اور اس سے تضاد نہ رکھتا ہو.پس آپ بھی ان معنوں میں صبر اختیار کریں اور تقویٰ اختیار کریں جو دشمن میں گھرے ہوئے ہیں.خدا کا ہر فضل ان کی دشمنی کو بڑھا رہا ہے اور ہر تکلیف جو آپ کو پہنچتی ہے یا ہر برائی جو آپ اپنے اندر داخل ہونے دیتے ہیں وہ ان کی خوشیوں کا موجب بنتی ہے.پس دعا اور استغفار سے کام لیتے ہوئے اگر آپ صبر اور تقوی کی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں یوں معلوم ہو گا جیسے تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا اور اللہ تعالیٰ دشمن کو ہمیشہ اپنے گھیرے میں رکھے گا اور اس کا شراس گھیرے سے اچھل کر باہر آ کر تمہیں کوئی حقیقی اور گہرا گزند نہیں پہنچا سکتا، گہر انقصان نہیں پہنچا سکتا.پھر فرمایا اگر مقابلے ہوں تو کیا کرنا ہے.اگر بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ جوابی کارروائی کر بیٹھو کیونکہ تم سے صبر نہ ہو تو اس صورت میں کیا نصیحت ہے فرمایا وَ اِنْ عَاقَبتُهُ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِه الخل): ۱۲۷) اگر تم ان کو سزا دو فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْ قِبْتُمْ بِم تو اتنی ہی سزا دو جتنا تمہیں نقصان پہنچایا گیا ہے اور ہرگز اعتدال سے تجاوز نہیں کرنا لیکن ہم پھر تمہیں توجہ دلاتے ہیں وَ لَبِنُ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصُّبِرِينَ انحل: ۱۲۷) اگر تم صبر سے کام لو تو صبر سے کام لینا تو صبر سے کام لینے والوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے.پس جب بعض اوقات بعض نوجوان پاکستان کے حالات میں ایک لمبے عرصے تک یک طرفہ تکلیفیں برداشت کرتے رہتے ہیں تو اچانک بعض دفعہ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور وہ جوابی کارروائی شروع کر دیتے ہیں.مجھے تو اکثر اطلاع اس وقت ملتی ہے جب معاملہ ہو چکا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر خصوصیت سے یہ دعا بھی کرنی پڑتی ہے کہ ان کی ایک غیر حکیمانہ حرکت کے نتیجے میں، صبر سے عاری حرکت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ دوسرے معصوم احمدیوں کو غیروں کے شر سے بچائے رکھے کیونکہ صبر کا دامن چھوڑنے کا ایک یہ بھی نقصان ہے کہ جس شخص نے اپنے دل کا غصہ نکال لیا اسے تو بظاہر ٹھنڈ پڑ گئی لیکن وہ معصوم جو بالکل نہتے اور بے بس پڑے ہوئے ہیں اور ہر طرف دشمن کے گھیرے میں ہیں.بعض دفعہ اس شخص کا بدلہ جو اپنے دل کے جوش کو نکال لیتا ہے ان معصوموں سے لیا جاتا ہے جن کا ایک ذرہ بھی اس میں قصور نہیں ہوتا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھوصبر سے کام لینا، صبر بہتر ہے بہر حال لیکن اگر کبھی کوئی شخص
خطبات طاہر جلد 14 554 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء مجبور ہو جائے تو اتنا ہی بدلہ لے جتنا اس سے زیادتی کی گئی ہے.اگر انصاف کے ساتھ اتناہی بدلہ لیا جائے تو بسا اوقات اس کا یہ بھی فائدہ پہنچتا ہے کہ سوسائٹی جو حالات سے واقف ہوتی ہے وہ باتیں شروع کر دیتی ہے کہ اس نے کیا تو ہے یہ لیکن اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا اور اس نے بدلہ دیتے وقت ذرا بھی زیادتی نہیں کی چنانچہ پھر گر دو پیش اس کے حق میں ایک رائے قائم ہونی شروع ہو جاتی ہے اس کی تائید میں آواز میں اٹھنےلگتی ہیں کیونکہ وہ انصاف پر قائم رہا اور ایسے واقعہ بہت سے امور مجھ تک پہنچتے ہیں یعنی یہ فرضی بات نہیں کہ کبھی کسی نوجوان سے غلطی ہوئی اور اس نے زیادتی میں تجاوز نہیں کیا تو ارد گرد کے لوگ بیچ میں داخل ہوئے اور اس شرارت کو بڑھنے اور پھیلنے سے روک دیا.مگر حقیقی بات جو دائم یا درکھنے کے لائق ہے وہ یہی ہے وَلَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصُّبِرِيْنَ اگر تم صبر سے کام لو گے تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت بہتر ہے.صلى الله اب اس کے بعد یہ مضمون اپنی انتہا کو پہنچایا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاصْبِرُ اے محمد و تو صبر کر.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر کچھ ایسے بھی لمحے گزرے تھے جب خدا کو یہ کہنا پڑے کہ صبر سے کام لینا،صبر کا دامن نہ چھوڑنا.اگر کوئی یہ ترجمہ کرے تو بالکل غلط ہے کیونکہ یہ آیت کریمہ خود اس مضمون کو آگے کھول رہی ہے اور یہ غلط ترجمہ کرنے سے جو بعد میں انتہائی گہرے حکمت کے موتی اس آیت میں چھپے ہیں ان سے آپ کی نظر محروم رہ جائے گی ، وہاں تک پہنچ نہیں سکے گی.آنحضرت ﷺ تو صبر کے ساتھ پیدا کئے گئے تھے.بہت بچپن ہی میں آپ کی فطرت میں صبر گوندھا گیا تھا.نہایت دردناک حالات سے پے بہ پے گزرے.باپ کا صدمہ ایسا کہ کبھی اس کا منہ نہ دیکھا.پیدا بعد میں ہوئے اور باپ کی شفقت سے محروم ہی پیدا ہوئے ، ماں کا صدمہ ایسا کہ جب محبت کی عمر کو پہنچے تو ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا.جس دادا نے پالا وہ بھی چھوٹی عمر میں چھوڑ کر چلا گیا اور پھر خدا تعالیٰ نے ایسے وقت پر آپ کو اس منصب پر فائز کر دیا کہ جو خاندان کی معمولی ہمدردیاں تھیں وہ بھی ہاتھ سے جاتی رہیں.سب قریبی دشمن ہو گئے اور خود صبر سے ایسے آزمائے گئے ذاتی طور پر کہ جن صحابہ نے آپ سے محبت کی ان سے بڑھ کر آپ نے محبت کی اور ان سب صحابہ کی تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں.بعض صحابہ آ کر شکایت کرتے تھے یا رسول اللہ ﷺ ہم سے یہ ہو گیا.ان کو علم نہیں تھا کہ ان کے دلوں سے بڑھ صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 555 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995 ء کر محمد رسول اللہ والے کے دل میں ان کا دکھ تھا.بیٹے پیدا ہوئے ایک کے بعد دوسرا گزرتا گیا اور دشمن طعنے دیتا رہا کہ ابتر ہے، ابتر ہے، ابتر ہے.ایک طرف آپ کی محبت کرنے والی طبیعت کو اپنے معصوم بچوں کی جدائی کا غم ، دوسری طرف طعنہ دینے والوں کی تکلیفیں مسلسل صبر کے ساتھ ، زبان پر شکوہ لائے بغیر اس بات کا تذکرہ کئے بغیر ، خدا کی خاطر صبر پر قائم رہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک صلى الله عورت جو اپنے بیٹے کی قبر پر رو رہی تھی اور واویلا کر رہی تھی اس کے پاس سے جب آنحضرت نے کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا بی بی صبر کر.تو اس نے جوابا کہا ( بخاری کتاب الجنائز ) اس کو پتا نہیں تھا کہ الله کون ہے، اس نے کہا جس کا بیٹا مرے اس کو پتا ہوتا ہے.اس کو کیا پتا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ایک کے بعد دوسرے فوت ہوتے چلے گئے لیکن آپ نے اس کو یہ نہیں کہا.آپ وہاں سے روانہ ہوئے.بعد میں کسی نے کہا تو کیا بات کر بیٹھی ہے.کس سے بات کی ہے.جب اس کو پتا چلا کہ یہ محمد صلى الله رسول اللے تھے تو دیوانہ وار دوڑتی ہوئی پیچھے گئی اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں صبر کرتی ہوں.آپ نے فرمایا صبر کا تو وہ وقت ہوتا ہے جبکہ صدمہ اپنی انتہا کو پہنچا ہو.گویا محمد رسول اللہ ہم مسلسل ان صدمات سے دو چار ہوتے ہوئے ان کے دکھوں میں سے گزرتے ہوئے اس طرح صبر کرتے رہے کہ اگر یہ واقعہ تاریخ میں محفوظ نہ ہوتا تو ہمیں پتا بھی نہ چلتا کہ ہر بیٹے کی جدائی پر آپ کو کیسا صدمہ ہوا کرتا تھا.مگر اللہ کی خاطر صبر کرتے تھے.پس یہ آیت واصبر ہرگز وہ معانی نہیں رکھتی جو بعض لوگ صلى الله سمجھتے ہیں کہ گویا محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تو بھی صبر کر اور استقلال کے ساتھ دکھوں کو برداشت کر.یہ معنی ہر گز نہیں کیونکہ معابعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ تجھے ہم صبر کا کہہ رہے ہیں جبکہ خدا جانتا ہے کہ تیرا صبر تو تمام تر اللہ کی خاطر ہے اور پہلے ہی سے تو صبر کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے.پھر یہ صبر کس پر ہے.فرمایا.وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ ) (النحل : ۱۲۸) کہ تو اپنے دکھوں پر تو صبر کرتا ہی ہے مگر ان کو جن کو خدا کے عذاب نے آپکڑنا ہے جن کے متعلق تو بد انجام دیکھ رہا ہے ان کا بھی غم دل کو لگا بیٹھا ہے اور یہ اور طرح کا صبر ہے جس کی بات ہو رہی ہے.فرمایا ان کے بدانجام کو دیکھ کرصبر کر اور ان کی خاطر اتنا غم محسوس نہ کر کہ گویا تو اپنے آپ کو ہلاک کر لے.پس صبر کا مضمون ایک نئے آسمان میں بلند ہو چکا ہے نئی رفعتیں حاصل کر چکا ہے یہ کہہ کر کہ
خطبات طاہر جلد 14 556 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء صلى الله اے محمد ، صبر کر.اللہ فرماتا ہے اللہ جانتا ہے کہ تمام تر تو خدا کی خاطر صبر کرنے والا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ انتارحم دل ہے کہ اب دوسروں کے لئے حزیں رہتا ہے دوسروں کے لئے ہر وقت دل میں غم محسوس کرتا ہے اور یہاں وَ لَا تَحْزَن کا فقرہ ہر گز حکم کے معنوں میں نہیں ہے بلکہ ایک پیار کا اظہار ہے کہ اللہ کی تیرے حزن پر نظر ہے.ورنہ اگر یہ حکم ہوتا تو محمد رسول اللہ ﷺ اسی وقت حزن کو چھوڑ دیتے مگر آپ تو مسلسل اسی حزن میں مبتلا رہے یہاں تک کہ جب آپ کے سر کے بال سفید ہوئے تو آپ نے ان بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عمر نے میرے بال سفید نہیں کئے ، سورہ ہود میں جب میں نے ان قوموں کے حالات پڑھے جن پر خدا کا غضب نازل ہوا تو ان کے غم نے میرے بال سفید کر دیئے.پس وہ لوگ جنہوں نے آئندہ آنا تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کی دشمنی کے نتیجے میں سزا پانے والے تھے، جن کے عذاب کی خبریں محمد رسول اللہ ﷺ کو دی گئی تھیں ان کے غم پر آپ کا صبر ہے جس کی بات ہورہی ہے.ان کی تکلیفوں پر آپ کا صبر ہے جس کی بات ہو رہی ہے.پس یہ صبر کا مضمون ایک بالکل اور قسم کا مضمون ہے جو اس سے پہلے دنیا نے نہیں دیکھا تھا اور پھر اس مضمون کو آپ باندھیں اس صبر کے ساتھ جو اسماعیل نے دکھایا تھا تو تب یہ مضمون مکمل ہو جاتا ہے.دنیا کا سب سے بڑا صبر کرنے والا انسان حضرت محمد رسول الله الله ، دنیا کا سب سے زیادہ رحم کرنے والا انسان دنیا کا سب سے بڑا داعی الی اللہ بنایا گیا اور دعوت الی اللہ میں صبر کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ آپ دشمن کے شر سے، اللہ کے غضب سے ، حفاظت میں رہیں اور خدا تعالیٰ کا پیار آپ کی حفاظت میں ان کے گرد فصیلیں کھینچ دے.مگر صرف اس غرض سے نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ صبر جو محمد رسول اللہ ﷺ کا صبر ہے کہ اپنے ساتھ رحم کے جذبے رکھتا ہے.غصے نہیں رکھتا اور یہ وہ صبر ہے جو دوسرے صبر وں سے محمد رسول اللہ ﷺ کے صبر کو متاز کر رہا ہے ورنہ عام حالات میں صبر کا ایک یہ بھی معنی ہوتا ہے اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ غصے سے کسی نے کوئی بات کہی ، چہرے پر تھپڑ مار دیا، کوئی گالی دی ، پتھراؤ کیا، دل غیظ و غضب میں کھول رہا ہے مگر انسان صبر کر رہا ہے.بسا اوقات ایسا صبر بزدلی کی علامت ہوتا ہے اور اس صبر کے کوئی بھی معنے نہیں ، یہ مومن کا صبر نہیں ہے.بسا اوقات ایسا صبر اللہ کی خاطر ہوتا ہے یا اپنے مظلوم بھائیوں کی خاطر ہوتا ہے کہ اگر میں نے کوئی ایسی بات کی جو حکمت صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 557 خطبہ جمعہ 28 جولائی 1995ء کے تقاضے کے خلاف ہوئی، میں اپنا بدلہ تو اتار لوں گا مگر میرے بے کس اور نہتے اور دفاع سے عاری بھائیوں کا کیا بنے گا جن پر دشمن میرے بدلے اتارے گا.اس خیال سے جو صبر کرتا ہے وہ بھی اللہ کی خاطر صبر کرتا ہے.پس صبر کا مضمون اس غصے کے دبانے سے بھی تعلق رکھتا ہے مگر صبر کا مضمون رحم سے بھی تعلق رکھتا ہے.بے انتہا رحم کے نتیجے میں انسان صبر کرتا ہے اور رحم کے نتیجے میں جو صبر ہوتا ہے جانتا ہے کہ یہ لوگ ظالم ہیں، خدا کا عذاب ان کو پکڑلے گا اگر غصہ ہو تو انسان کہے گا اچھا پھر ٹھیک ہے جاؤ جہنم میں تم مجھ سے جو کچھ کر رہے ہو اس کی سزا ضرور پاؤ گے مگر رحم والا انسان یہ جذ بہ نہیں دکھاتا، یہ رد عمل نہیں دکھاتا.وہ تو صبر کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے تو صبر کیا اب خدا ان سے بدلے لے گا اور جب یہ سوچتا ہے کہ خدا ان سے بدلے لے گا تو اس کا دل رحم سے پگھلنے لگتا ہے.وہ کہتا ہے میں تو ان کو بچانے کے لئے آیا تھا، ان کو ہلاک کرنے کے لئے تو نہیں آیا تھا.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بیان ہوا ہے اس لئے سب سے بڑا صبر کرنے والا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیا: ۱۰۸) بھی بن گیا بلکہ رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ تھا تو اس کا صبر خدا کی نظر میں قدر کے لائق ٹھہرا.تمام بنی نوع انسان کے غموں کی خاطر وہ حزیں ہوتا رہا، دل اس کا دکھوں میں مبتلا ہوتا رہا اور ان دکھوں پر صبر کی تلقین اللہ فرما تا رہا.یہ ہے صبر کا مضمون جو اپنے منتہی کو پہنچتا ہے اور ایسے صابر رسول کی تیاری مدتوں پہلے اس بیابان عرب میں مکے کی وادی میں کی گئی تھی جبکہ وہ جدا مجد جس کی کوکھ سے آپ نے پیدا ہونا تھا اس کے صبر کا خدا نے ایک ایسا نمونہ ہمارے لئے محفوظ کر دیا کہ جب اس صبر کے نمونے پر نظر پڑتی ہے تو دل آج بھی عش عش کر اٹھتا ہے اور دل اور روح کی گہرائیوں سے اس پر سلام اٹھنے لگتے ہیں، دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ ایسے وجود پر ہمیشہ سلامتی بھیجے اور آج تک ہمیشہ حج کے موقع پر اس کے صبر کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں اور وہ نمونے پھر بھی دنیا میں پھیلائے جارہے ہیں.اس لئے کہ وہ صبر تھا جس کے بعد اس صبر کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے صبر عظیم پر فائز انسان کو پیدا فرمانا تھا اور اس مضمون کو بڑھا کر اپنے منتہی تک اپنے معراج تک پہنچانا تھا.پس حضرت اسماعیل کے حوالے سے میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يُبْنَى إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ
خطبات طاہر جلد 14 558 خطبہ جمعہ 28 / جولائی 1995ء انّى اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرى - الصفت : ۱۰۳) جب اسماعیل دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا، جب وہ اپنے باپ کا مددگار بن رہا تھا.اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو اپنی رؤیا بتائی جس میں آپ نے دیکھا تھا کہ میں اس بچے کو ذبح کر رہا ہوں اور کہا بیٹے تیرا کیا خیال ہے.میں نے تجھے رویا میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں قَالَ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ اے میرے باپ وہی کر جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ انشاء اللہ تو مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا.دشمن کے سامنے، دشمن کے مقابلے پر صبر اختیار کرنا اور چیز ہے.ایک ایسے موقع پر جبکہ اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو یہ قبول کرو، چاہو تو وہ قبول کرو.اگر چاہو تو یہ چھری جس کو رویا میں دکھایا گیا ہے تیری گردن پر، تمہاری گردن پر کبھی نہیں چلے گی.تمہیں اختیار سونپا جارہا ہے.کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اللہ کی رضا کی خاطر جانتے ہوئے کہ کیا ہونے والا ہے اپنی گردن اس کے حضور پیش کر دو.حضرت اسماعیل نے کہا ہاں میرے باپ میں تیار ہوں ، تو وہی کر جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے اور تو مجھے ضرور صابرین میں سے پائے گا.یہ وہ صبر کا اعلیٰ نمونہ تھا، جس کی کوکھ سے محمد رسول اللہ ﷺ کا صبر پھوٹا ہے اور پھر اتناترقی کر گیا کہ اس کے مقابل پر یہ صبر ایک معمولی صبر دکھائی دیتا ہے.آنحضرت ﷺ کا صبر صحابہ کی صورت میں، ان کی جانوں میں، ان کی روحوں میں ڈھل گیا اور ایک اسماعیل نہیں محمد رسول اللہ ہے کی امت میں پھر ہزاروں لاکھوں اسماعیل پیدا ہوئے.پس آپ بھی اسی امت سے تعلق رکھتے ہیں.آپ کی دعوت الی اللہ بھی سنت محمدی ﷺ کو اختیار کرنے کے نتیجے میں کامیاب ہوگی.محمد مصطفی ملنے کا صبر اختیار کریں، اسماعیل کا صبر اپنے سینوں میں جگائیں تو یقین رکھیں کہ آپ ہمیشہ ترقی پر ترقی کرتے چلے جائیں گے.دشمن کی کوئی تدبیر آپ کا ادنی سا بھی نقصان نہیں کر سکے گی.جو دکھ وہ آ کو پہنچائے گی اس کے مقابل پر آپ کو اتنی ترقیاں نصیب ہوں گی کہ آپ بلندیوں سے اس دکھ کی حالت کو دیکھیں اور ہنسیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی دکھ تھا.اللہ کرے کہ ہمیں للہی صبر کی توفیق نصیب ہو اور اس صبر کے تمام میٹھے پھل ہمیں عطا ہوں اور دائماً عطا ہوتے چلے جائیں ، ہم بھی نسلاً بعد نسل اسماعیل پر اسماعیل پیدا کرتے چلیں، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.
خطبات طاہر جلد 14 559 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء گالیاں سن کر دعا دو.حضرت مسیح موعود کی نصائح صبر کا دعا اور دعوت الی اللہ سے گہرا رشتہ ہے (خطبه جمعه فرموده 4 /اگست 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَن إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ (ابراہیم : 12 ، 13 ) پھر فرمایا:.یہ جلسہ سالانہ جو ابھی گزرا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، اسی کے رحم سے، اسی کے اذن سے بے شمار رحمتوں اور فضلوں کی بارشیں برسا کر چلا گیا لیکن اس کی تروتازگی، اس کی شادابی ، آئندہ جلسے تک دلوں کو ہمیشہ تر و تازہ رکھے گی اور پُر بہار رکھے گی بلکہ بہت سے دوست جو ملنے کے لئے آئے انہوں نے تو یہ کہا کہ یوں لگتا ہے کہ اس جلسے کی یاد ہمیشہ زندگی کا ساتھ دے گی اور جو روحانی لطف ہمیں یہاں نصیب ہوئے ہیں جب ہم جلسے کے لئے آئے تھے تو تصور بھی نہیں تھا کہ کیا کچھ لینے جارہے ہیں اور اس اظہار میں ہر قوم کے لوگ شامل ہیں.نئے آنے والے بھی اور پرانے بھی ، مغربی بھی اور مشرقی
خطبات طاہر جلد 14 560 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء بھی، سب کا یہ تاثر ایک قدر واحد ہے، سب میں مشترک ہے کہ یہ جلسہ خدا کے خاص فضلوں اور رحمتوں کا نشان بن کر آیا اور ایسا نشان بنا ہے جو آئندہ نسلوں کے لئے بھی ہمیشہ نشان کا کام دے گا.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے وہ اسی غرض سے چنی ہیں کیونکہ میں اس سے پہلے صبر کا مضمون بیان کرتا رہا ہوں اور آج بھی صبر ہی کے مضمون پر مزید کچھ کہنا تھا مگر اس آیت کریمہ نے ان دونوں باتوں کو جوڑ دیا ہے اس جلسے کا مضمون اور صبر کا مضمون اکٹھے ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُم ان مخالفوں کو ان کے رسولوں نے کہا اِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مثْلُكُمُ ہم بھی تو تمہاری ہی طرح کے انسان ہیں اس سے بڑھ کر تو نہیں وَلكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ یہ اللہ کی شان ہے جس پر چاہتا ہے اس پر احسان فرماتا چلا جاتا ہے.تم پر کیوں اس کے احسان نہیں ہو رہے یہ مراد ہے ، یہ مفہوم ہے جو اس میں مضمر ہے کہ ہم بھی تو انسان ہیں تم بھی انسان ہو ہمارے پاس کون سی طاقت ہے کہ اللہ سے زبر دستی احسان چھین سکیں.مگر احسان برستے ہیں تو ہمارے کاندھوں پر ، ہمارے سروں پر بارش ہوتی ہے اور تم خالی بلکہ اس کے برعکس نظارے دیکھ رہے ہو وَلكِنَّ اللهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس پر بکثرت احسان فرماتا ہے.وَمَا كَانَ لَنَا اَنْ نَّأْتِيَكُمْ بِسُلْطَنِ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ اس کے دو معنے ہیں.مترجمین نے ایک ترجمہ یہ کیا ہے کہ ہم میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی بھی روشن نشان یا روشن دلیل لاسکیں اور ایک ترجمہ یہ ہے کہ ہم میں کب طاقت تھی کہ اپنے زور سے کوئی بھی روشن نشان اور کوئی غالب دلیل تمہارے سامنے پیش کر سکتے مگر جو کچھ ہوا اللہ کے اذن سے ہوا ہے کیونکہ صرف اللہ ہی کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو کسی کو ایک غلبے والی دلیل یا روشن نشان عطا فرمائے.تو مجھے تو یہی معنی یہاں موزوں بھی دکھائی دیتا ہے ، ویسے بھی آنحضرت ﷺ اور انبیاء کے حوالوں سے یہی معنی سجتا ہے.دوسرا بھی درست ہے ایک دائمی حقیقت ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی روشن نشان کسی کو عطا نہیں ہو سکتا.مگر وَمَا كَانَ لَنا میں جو مفہوم ہے کہ ہو چکا ہے اور ہماری طاقت میں نہیں تھا، نشان تو آیا ہے مگر ہم اپنی طاقت سے نہیں لائے.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اور جو نشان ہیں یہ اتفاقی حادثہ کے طور پر نہیں یہ جاری رہنے والے نشان ہیں اور اللہ پر توکل کے نتیجے میں عطا ہوتے ہیں ہم آئندہ بھی تو کل ہی
خطبات طاہر جلد 14 561 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء وہ کرتے چلے جائیں گے.پس یہ نشان چونکہ اپنی ذات، اپنی کوشش، اپنی ذہنی تدبیروں یا چالا کیوں سے نصیب نہیں ہوا کرتا بلکہ تو کل کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے اس لئے فرمایا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ چاہیے کہ مومن اللہ ہی پر توکل کریں وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى الله اور ہمیں ہوا کیا ہے کہ ہم اللہ پر توکل نہ کریں.وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَاوه ہمیں بار ہا ہماری ہدایت کے رستے دکھاتا چلا آ رہا ہے، دکھا چکا ہے.جب بھی کوئی مشکل در پیش ہو، جب بھی ہم دورا ہے پر کھڑے ہوئے اس نے ہمیشہ ہدایت کے رستے ہمیں دکھائے تو وہ خدا آئندہ ہمیں کب چھوڑے گا.پس جس نے تمام ماضی میں ہمارا ساتھ دیا، ہر مشکل کے وقت ہمارے کام آیا، ہر مشکل فیصلے کے وقت صحیح فیصلے کی توفیق بخشی ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم ایسے خدا پر توکل نہ کریں اور یقین نہ رکھیں کہ آئندہ بھی وہ ہم سے ایسا ہی سلوک فرمائے گا.وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُونَا ہم ضرور صبر کریں گے، ہرگز صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے.اس چیز پر جو تم ہمیں تکلیف پہنچاتے ہو.اب اس سے پتا چلتا ہے کہ صبر کا یہ مضمون پہلے سے ان آیات میں مضمر ہے مومن جب خدا سے انعامات پاتے ہیں اس پر تو کل کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ دشمن نے بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں اور ان کا بدنتیجہ نکلنے کاحتمال تھا لیکن کیوں بد نتیجہ نہیں نکلا.اس لئے کہ ہم نے صبر کیا، خدا نے ہمیں صبر کی توفیق بخشی اور اللہ نے صبر کو قبول فرمالیا اور اس کے نتیجے میں پھر ہمارے صبر آسمان سے ہم پر رحمتوں کی بارشیں بن کر اترے.یہ مضمون ہے جو پہلے ہی سے ان آیات میں مضمر چلا آ رہا تھا یہاں آ کر کھل گیا ہے.وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُونَا اب ہم زیادہ پخته عہد کرتے ہیں پہلے سے بڑھ کر قطعی طور پر فیصلہ کر چکے ہیں کہ جو تم دکھ پہنچاؤ گے ہم اس پر صبر کرتے چلے جائیں گے.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ اور پھر اسی بات پر ، تو کل پر ہی مضمون کو عروج تک پہنچایا ہے.پس تو کل کے یہ نتیجے ہوا کرتے ہیں ، اسی کو تو کل کہتے ہیں.صبر کرنا خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ صبر کا دامن چھوڑا بھی جاسکتا ہو اس وقت اگر کوئی انسان صبر کرے تو اس کا اجر ضرور اس کو عطا ہوتا ہے اور مومن کو چاہئے کہ ہمیشہ اللہ ہی پر توکل کرتا رہے.اب میں صبر کے متعلق مزید کچھ باتیں بعض احادیث کے حوالے سے اور بعض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں چونکہ مضمون بہت وسیع
خطبات طاہر جلد 14 562 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء ہے، بہت سی آیات کریمہ صبر کے الگ الگ پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں اس لئے اسے ایک لمبا سلسلہ تو بنایا نہیں جاسکتا آج کے خطبے میں انشاء اللہ چند امور پیش کر کے پھر آئندہ دوسرا مضمون شروع کروں گا.حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہیں.یہ فضل صرف مومن کے لئے مختص ہے.اگر اس کو کوئی خوشی یا مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کی شکر گزاری اس کے لئے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے اور اگر اس کو کوئی دکھ اور رنج ہنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت ہی کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے.اب اس پہلو سے اس جلسے پر اس حدیث کا اس آیت کی روشنی میں دیکھیں کیسا واضح اطلاق ہوتا ہے.جتنے بھی اللہ نے ہم پر فضل نازل فرمائے ان پر آپ جتنا بھی شکر ادا کریں اتنا ہی کم ہوگا.پس آئندہ جلسے کی تیاری آج کے شکر سے شروع کر دیں اور مسلسل اللہ کی حمد کے گیت گاتے رہیں، اس کا شکر ادا کرتے رہیں اور یقین جانیں کہ جو کچھ بھی ہوا اسی کے فضل سے ہوا ، اسی کے احسان سے ہوا اور نہ ہم میں ہر گز طاقت نہیں تھی کہ آج کے دور میں یہ عظیم الشان تبدیلیاں رونما کر سکتے ، بر پا کر سکتے جو رونما ہورہی ہیں اور جن کے نتیجے میں دشمن پر ایک حشر بپا ہو چکا ہے.اس قدر تکلیف میں ہے دشمن، ان پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے اور اس مضمون کا اس پہلو سے اذیت سے تعلق ہے.جتنے خدا کے فضل بڑھتے ہیں اتنا ہی دشمن پیچ و تاب کھاتا ہے اور اذیت دینے کے نئے منصوبے بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت کریمہ میں یہ سمجھایا ہے کہ وہ منصوبے بنائے گا تو یا درکھنا پہلے کب تم اپنی طاقت سے ان کی دشمنی سے بچ سکے تھے.پہلے کب تم نے ان منصوبوں کو نا کام اور نامراد کیا تھا.یہ اللہ ہی تھا جس کے فضل سے تم محفوظ رہے، جس نے ان کے منصوبوں کونا مراد کر دیا.پس اللہ پر توکل رکھنا اور ان کی ایذاء رسانی کا جواب اپنے ہاتھ سے دینے کی کوشش نہ کرنا، یہ معاملہ اللہ کے سپر درہنے دو.یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ لصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو بار بار نصیحت کے ذریعے سمجھایا.پس آپ فرماتے ہیں شکر کرو گے خدا کی رحمتوں پر تو کثرت سے نعمتیں اور اتریں گی.
خطبات طاہر جلد 14 563 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء اس کی رحمتوں کا نزول دن بدن بڑھتا چلا جائے گا اور تکلیف پر صبر کر جاؤ گے تو اس کے نتیجے میں تمہیں پھر ثواب ملے گا، پھر خیر و برکت عطا ہوگی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: صبر بڑا جو ہر ہے.جو شخص صبر کرنے والا ہوتا ہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریرا اپنی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ اس سے تقریر کراتا ہے...“ یہ جو غصے سے بھر کر بولنا ہے یہ عقل و خرد کو کھا جاتا ہے اور کوئی بھی ہوش باقی نہیں رہتی انسان میں.اس کے کلام میں برکت تو کیا معمولی عقل بھی باقی نہیں رہتی اور ایسا شخص مجنون کی طرح ہو جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا غصے سے بھر کر بولتا ہے یہ بہت پیارا، بہت فصیح و بلیغ محاورہ ہے.بہت دفعہ انسان غصے میں کلام کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ صبر کی طنا میں بھی کسے رکھتا ہے.کوشش کرتا ہے کہ ہر وقت تہذیب و تمدن کے دائرے سے باہر نہ جائے لیکن وہ جو غصے سے بھر کر بولتا ہے اس کے منہ سے سوائے غیظ و غضب اور گندگی اور بکو اس کے کچھ نکلتا ہی نہیں.فرمایا: ایسا شخص جو غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ اس سے تقریر کرواتا ہے.جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض گالی نہ دے.جو شخص ہمارا مکذب ہے اس پر لازم نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ بولے...“ فرماتے ہیں جو تکذیب کر رہا ہے اس پر کیوں لازم ہے کہ ہمارا ادب کرے.تم اپنے ایمان کے زاویے سے دیکھ رہے ہو تمہیں تکلیف پہنچتی ہے.مگر دشمن، دشمن ہی ہے، جو مجھے خاص طور پر جھوٹا سمجھ رہا ہے وہ تو ویسے ہی آزاد ہے جس طرح چاہے مجھ سے سلوک کرے، جو چاہے مجھے کہے.”...اس کے نمونے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی بہت پائے جاتے ہیں.صبر جیسی کوئی شے نہیں مگر صبر کرنا بڑا مشکل ہے.اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے.دہلی کی سرزمین سخت ہے تا ہم سب یکساں نہیں.کئی آدمی مخفی ہوں گے، جب وقت آئے گا تو وہ خود بخود سمجھ لیں گے.عرب بہت سخت ملک تھا وہ بھی سیدھا ہو گیا ، دہلی تو ایسی سخت نہیں.“
خطبات طاہر جلد 14 564 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں.خدا تعالیٰ بُردباری کا حکم دیتا ہے اور اسی کے مطابق کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بُردباری کریں.ہمارے پاس کوئی ایسا شربت نہیں کہ فورا کسی کے ہاتھ پر ڈال دیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 518-517) اس لئے یہ بہت ہی اہم نصیحت ہے جو جماعت کو اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہئے اور ہضم کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کو بار بار پڑھنے کی جو نصیحت ہے اس میں یہی بڑی حکمت ہے کہ حضرت اقدس کی تحریریں بہت گہری چلتی ہیں.ایک ایک لفظ کا انتخاب اللہ کے تصرف کے مطابق ہوتا ہے اور جب تک انسان گہری نظر سے بار بار مطالعہ نہ کرے اس وقت تک صحیح معنوں میں ان تحریروں کا مفہوم پا نہیں سکتا اور نصیحت سے پورا استفادہ نہیں کر سکتا.جو چند باتیں اس نصیحت میں کی گئی ہیں ان میں سے چند نکات جو میں سمجھتا ہوں نمایاں طور پر آپ کے سامنے لانے ضروری ہیں، وہ میں رکھتا ہوں.یت تبلیغ کا دور ہے اور خاص طور پر یہ جلسہ عالمی تبلیغ کی عظیم الشان کا میابیوں کا ایک مظہر تھا اور آئندہ جلسے کے لئے ابھی سے ہمیں تیاری کرنا ہے.اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی یہ نصیحت که مخالفت ہو گی اور شرارتیں ہوں گی ، صبر سے کام لینا ہے،صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.زبان میں کسی قسم کی سختی اور تلخی نہ ہو بلکہ پیار اور محبت اور صبر کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جاؤ.یہی وہ نصیحت ہے جس سے سارا قرآن مختلف جگہوں پر بھرا پڑا ہے اور بڑی قوت کے ساتھ قرآن کریم نے اسی نصیحت کو بار بار دہرایا ہے.آپ فرماتے ہیں.صبر جیسی کوئی شے نہیں مگر کرنا بڑا مشکل ہے.اس لئے صبر کے ساتھ دعا اور عبادت کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرہ:45) صبر کے ذریعے مدد مانگو.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہے تو صبر دکھاؤ اور صبر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے حق میں جوش مارے گی اور قوت کے ساتھ تمہیں نصیب ہوگی لیکن چونکہ صبر کرنا مشکل ہے اس لئے صلوٰۃ کا ذکر بھی ساتھ فرمایا.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصلوۃ اس میں کئی مضامین ہیں مگر اس تعلق میں یہ دو باتیں سامنے
خطبات طاہر جلد 14 565 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء رکھنی چاہئیں.اول یہ کہ محض صبر جبکہ انسان خدا کا عبادت گزار بندہ نہ ہو کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ایسے صبر کی کوئی قیمت نہیں، اسے کوئی پھل نہیں لگتا.شاذ کے طور پر بعض خاص حالات میں ایک مظلوم بندے کا صبر مقبول ہو جاتا ہے مگر ایک قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہر شخص کا صبر ضرور پھل لائے گا مگر نمازی کا صبر ہے جو پھل لائے گا.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصلوۃ پس مدد مانگو صبر کے ذریعے بھی اور صلوٰۃ کے ذریعے بھی اور دوسرا اس کا معنی یہ ہے کہ صلوۃ پر قائم رہو گے تو پھر ہی تمہیں صبر کی توفیق ملے گی.جو بے نمازی لوگ ہیں انہیں صبر کی توفیق ہی نہیں ملتی کیونکہ نماز پر قائم ہونا خود ایک بڑا صبر ہے.قرآن کریم نے نماز کو صبر کے ساتھ باندھا ہے کہ نماز کی تلقین کرو وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا طہ : 132 ) اور اس بات پر صبر کے ساتھ قائم ہو جاؤ.نماز کا صبر کے ساتھ ایک گہرا رشتہ ہے اور حقیقت میں نماز اسی کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرنے والا ہو.تو یہ دونوں مضامین ایک دوسرے سے ایک اٹوٹ تعلق رکھتے ہیں جو لازماً جاری رہے گا.صابر بندے نماز پر بھی قائم ہوتے ہیں اور نماز پر صبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر حالت میں پڑھتے ہیں، ہر ابتلا میں پڑھتے ہیں.سخت نیند کی حالت میں بھی اٹھتے ہیں ان کے پہلو بستروں کو چھوڑ دیتے ہیں.سخت تھکن کی حالت میں بھی نماز پڑھتے ہیں.دفتروں میں بھی پڑھتے ہیں، دفتروں سے باہر بھی گھروں میں بھی گلیوں میں نما ز آئے تو گلیوں میں جگہ بنالیتے ہیں.یہ صبر ہے جو نماز کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.تو وہ لوگ جو نماز پر صبر کرتے ہیں وہ جب تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں تو پھر نماز کی طرف مزید توجہ پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہمیں جب کوئی دکھ کی بات پہنچتی ہے ، کوئی پریشانی کی خبرملتی ہے تو سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وضو کیا اور دروازے بند کئے، حجرے کے اور تنہائی میں خدا کے حضور گریہ وزاری کی.تو قرآن کریم جب فرماتا ہے صبر کرو اور نماز پڑھو وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوۃ اس کے ذریعے مدد مانگو تو یہ دونوں ایک لازم وملزوم چیز میں ہیں ان پر آپ کو قائم ہونا ہوگا اور باقی دشمن جو کرے گا شرارتیں وہ تو کرے گا ہی.اگر کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں تو اس کی ایک قیمت تو ہمیں دینی پڑے گی یہ تو کامیابیوں کے ساتھ ایک لازمہ ہے.جہاں آپ کا صبر کامیابیوں کے ساتھ ایک لازمہ ہے وہاں دشمن کی تکلیف آپ کی کامیابیوں کے ساتھ ایک لازمہ ہے.آپ کو کامیابیوں کے نتیجے میں شکر کی توفیق ملتی ہے اور صبر کی توفیق ملتی ہے.صبر کی تو فیق اس لئے
خطبات طاہر جلد 14 566 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء ملتی ہے کہ دشمن کو تکلیف پہنچتی ہے.وہ ایذاء رسانی کرتا ہے تو پھر آپ کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور شکر اور صبر دونوں ہی بڑی نعمتیں ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے مضمون کھول دیا ہے، خوب روشن فرما دیا ہے کہ اگر تم شکر کرو تب بھی موجیں ہی موجیں ہیں.صبر کرو تو وہ بھی بڑی نعمت ہے.تو مومن تو ہر حال میں کامیاب ہی ہوتا ہے.اس پر کوئی اندھیرا ایسا نہیں آتا کہ اس کی ترقی کی رفتار رک جائے.دن کو بھی چلتا ہے، رات کو بھی آگے بڑھتا ہے.پس اس پہلو سے آپ اپنا باقی وقت شکر کے ساتھ گزاریں اور تیارر ہیں کہ دشمن جو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے گا اس پر لازماً صبر اختیار کرنا ہے اور پھر صبر اور نماز کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے اور یہ دو ایسے موثر ہتھیار ہیں جو کبھی نا کام نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صبر کے تعلق میں مثال دی ہے: دہلی کی سرزمین بڑی سخت ہے.“ اب دیکھیں اس کا کیا تعلق ہوا.صبر جیسی کوئی شے نہیں مگر صبر کرنا بڑا مشکل ہے.اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے.دہلی کی سرزمین بڑی سخت ہے...“ تعلق یہ ہے کہ تبلیغ میں صبر کے بغیر بات بنتی نہیں.جس زمین کو تم سخت سمجھ کر چھوڑ دیتے ہو بعض دفعہ اسی میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہری بھری کھیتیاں پھوٹنے لگتی ہیں اور وہی زمین بالآ خر زر خیز ثابت ہوتی ہے.مثال دتی سے شروع کر کے بات عرب تک پہنچائی.فرمایا: ”عرب بہت سخت ملک تھا وہ بھی سیدھا ہو گیا.دہلی تو ایسی سخت نہیں تو آپ نے دنیا میں جہاں جہاں بھی دتی فتح کرنی ہے یاد رکھیں کہ اس سے پہلے خیبر بھی فتح ہوا تھا.عرب کی سرزمین بھی تو بہت سخت تھی اور بالآخر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ مغلوب ہوگئی اور مومن کے صبر نے وہ زمینیں جیتی ہیں.پس صبر کے ساتھ اس کا بڑا گہرا تعلق ہے.اگر تبلیغ میں صبر نہ ہو تو انسان بہت سی فتوحات اور کامیابیوں سے محروم رہ جاتا ہے....میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پھر فرماتے ہیں: پر حملہ کریں...“
خطبات طاہر جلد 14 567 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء حملہ کریں کا موقع کیا ہے؟ تبلیغ کر رہے ہیں صبر سے کام لیں تو حملے کا کیا موقع ہے.دراصل بات یہ ہے کہ بعض دفعہ دشمن اتنی ایذاء رسانی کرتا ہے کہ انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور پھر کمزور ہوتے ہوئے بھی بعض دفعہ عواقب سے بے نیاز ہو کر حملہ کر بیٹھتا ہے.بعض دفعہ انسان جس کا صبر کا دامن ہاتھ سے جاتا رہے اتنی تکلیف اسے پہنچے کہ پھر وہ یہ سوچتا بھی نہیں کہ اس کے بعد میں مارا جاؤں یا میرے بھائی بندوں کو نقصان ہوگا.بعض دفعہ طیش میں آکر یا خود اپنی تکلیف سے عاجز آ کر حملہ کر بیٹھتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معاً جو حملے کا خیال آیا ہے صاف پتا چل رہا ہے کہ اس کے پس منظر میں آپ بہت تکلیفیں دیکھ رہے ہیں.آپ جانتے ہیں کہ دتی بھی فتح ہوگی جیسے عرب فتح ہوا تھا مگر کن کن راہوں سے گزرنا پڑے گا، کن آزمائشوں میں سے ہو کر جانا ہوگا.فرماتے ہیں، بعض لوگ حملہ کر بیٹھتے ہیں.صاف پتا چل رہا ہے کہ بہت سخت ایذاء رسانی ہوگی ،سخت گالیاں دی جائیں گی سخت تکلیفیں پہنچائی جائیں گی مگر حملہ نہیں کرنا.وو...میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں.خدا تعالیٰ بردباری کا حکم دیتا ہے اور اسی کے مطابق کرنا چاہئے...“.بردباری اور صبر کیا دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ ملتی جلتی چیزیں ہیں؟ ان میں کیا فرق ہے.صبر تکلیف پر برداشت کو کہتے ہیں یا غم پر برداشت کو کہتے ہیں اور اپنے غصے پر برداشت کو بھی کہتے ہیں.ان مختلف مواقع کی نسبت سے صبر کی کیفیت کچھ بدلتی جاتی ہے لیکن بُردباری اور چیز ہے.بُردباری اس حو صلے کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں دشمن تکلیف پہنچا رہا ہے لیکن انسان اس کو اتنا حقیر اور بے حقیقت دیکھتا ہے کہ تکلیف ہوتی بھی نہیں اس کو.وہ بڑے وقار اور برداشت کے ساتھ ان باتوں کو سنتا ہے جیسے بعض دفعہ پتھر سے گولیاں ٹکرا کر چپٹی ہو ہو کر گرتی رہتی ہیں اور پتھر کو کچھ بھی نہیں ہوتا.تو بردباری بھی مومن کی ایک عظیم صفت ہے جو اس کو ہر قسم کے حملوں سے بے نیاز کر دیتی ہے.فرمایا کہ ہمیں بردباری اختیار کرنی چاہئے.بعض دفعہ بچہ چھوٹا سا بچہ ماں باپ کو ٹانگیں مارتا ہے، شور مچاتا ہے، وہ مسکراتے ہوئے اس کو پکڑ کے اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ٹانگ نہ لگ جائے مگر غصہ نہیں آتا، کوئی دکھ نہیں پہنچتا جسے وہ برداشت کریں.یہ بردباری ہے
خطبات طاہر جلد 14 568 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء اور بردباری کے اندر ایک تعلق بھی پنہاں ہوتا ہے کوئی قابل نفرت چیز ہو اس سے انسان ایسی بردباری نہیں دکھا سکتا جیسی ایسے شخص سے جس سے کوئی تعلق کوئی رشتہ ضرور ہو.پس تم نے بنی نوع انسان کی ہمدردی کی خاطر ایک کام شروع کیا اس کے رد عمل کے طور پر انہوں نے تکلیفیں پہنچا ئیں.تو اس طرح دیکھو کہ بے چارے جاہل لوگ ان کو کیا پتا کیا کر رہے ہیں اور وقار کے ساتھ گزر جاؤ.بردباری کے نتیجے میں تکلیف پہنچانے والے کو تکلیف پہنچتی ہے، یہ ایک طبعی امر ہے اور اسی میں آپ کا جواب بھی ہے، اسی میں آپ کا انتقام بھی ہے.اس کے بعد پھر صبر آسان ہو جاتا ہے.بعض دفعہ بعض لوگ کسی کو گالی دے کر ایذاء رسانی کرنا چاہتے ہیں اس کو غصہ ہی نہیں آ رہا ہوتا.وہ سمجھتا ہے ہو سکتا ہے دل میں ہو لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتا تو اور بھی زیادہ وہ شخص مشتعل ہوتا چلا جاتا ہے.اس قدر جوش سے بھر کر پھر وہ گالیاں دیتا ہے اور اگلا اگر اسی طرح بردباری کے ساتھ گزر جائے تو آخری نتیجہ یہ ہے کہ گالیاں دینے والا اپنی گالیوں سے زیادہ متاثر ہوا ہے زیادہ عذاب میں مبتلا ہوا ہے بہ نسبت اس کے جس کو گالیاں دی گئیں.تو بردباری ایک عظیم دفاع ہے.بعض دفعہ ایک انسان پتھر پہ گولی مارے تو وہی گولی واپس آکر اس کے لئے جان لیوا ہو جاتی ہے.تو بردباری کرو تا کہ ساتھ ہی تمہارا انتقام بھی ہو لیکن بردباری میں کوئی ہیجان نہیں ہوتا.ایک جوابی حملہ اور کوئی جوابی حرکت نہیں ہے.اسی لئے میں نے پتھر کی دیوار سے مثال دی ہے.پتھر کی دیوار واپس آ کر اس پر حملہ تو نہیں کرتی جیسے جانور کو آپ کچھ کہیں تو وہ آپ پر حملہ کر دے.وہ اپنے وقار کے ساتھ اسی طرح عظمتوں کا پہاڑ بنے ہوئے کھڑی رہتی ہے اور گولی آتی ہے اس کو لگ کر واپس گولی مارنے والے کی طرف دوڑتی ہے.تو عموماً بنی نوع انسان کے تعلقات میں اسی طرح کا مضمون ہم دیکھتے ہیں.ہمیشہ بردبار پر حملہ کرنے والا خود زیادہ تکلیف اٹھاتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بہت ہی قیمتی نسخہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا ہے.فرمایا: بردباری کا حکم دیتا ہے اسی کے مطابق کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بردباری کریں...“ پس یہاں صبر سے ہٹ کر ایک اور مضمون جو شروع ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے الہامات کا مفہوم ہے جو آپ بیان فرمارہے ہیں.صبر کے مواقع بھی آئیں گے ضرور اور
خطبات طاہر جلد 14 569 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء آتے ہیں لیکن بہترین دفاع بردباری ہے.پس جماعت کو بھی بردباری سے کام لینا چاہئے.فرماتے ہیں ” ہمارے پاس کوئی ایسا شربت نہیں کہ فورا کسی کے ہاتھ پر ڈال دیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه : 518-517) اب ہاتھ پر ڈال دیں اور فورا میں کیا تعلق ہوا.شربت تو پلایا جاتا ہے مگر اگر افراتفری میں کسی کو پیاس ہو تو ہاتھ آگے کرتا ہے.کہتے ہیں: ’ پلادےاوک سے ساقی‘‘ تو یہ اوک آگے کی جاتی ہے کہ اتنی جلدی ہے کہ گلاس ڈھونڈنے کا بھی وقت نہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصاحت و بلاغت ایک عجیب مقام پر ہے، حیرت انگیز ہے.جس سرعت کا مضمون بیان کر رہے ہیں اسی طرح یہ نہیں فرمایا کہ ہم اس کے منہ میں ڈال دیں شربت.فرمایا اس کے ہاتھ پر ڈال دیں.اس نے بھی تو جلدی میں ہاتھ آگے کیا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں کہ فورا اس کو صبر کا شربت پلا دیں.صبر تو کرتے کرتے آئے گا اور محنت کرنی پڑے گی.اپنی تربیت کرنی ہوگی ، اپنے آپ کو سلیقہ سکھانا ہوگا اور اس کے لئے انسان اپنی تربیت سب سے اچھی کر سکتا ہے مگر اگر دعا کے ذریعے مدد مانگتا رہے اور اگر دعا کے ذریعے مدد نہ مانگے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” صبر کرو کہ یہ وقت صبر کا ہے.جو صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ اسے بڑھاتا ہے.انتقام کی مثال شراب کی طرح ہے کہ جب تھوڑی تھوڑی پینے لگتا ہے تو بڑھتی جاتی ہے حتی کہ پھر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور حد سے بڑھتا ہے اس طرح انتقام لیتے لیتے انسان ظلم کی حد تک پہنچ جاتا ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ: 354) یعنی وہ شخص بھی جو طبعا ظالم نہ ہو بلکہ متوازن مزاج رکھتا ہو وہ بھی اگر اپنے آپ کو بار بار انتقام کی اجازت دے گا تو انتقام کی آگ خود ایسی ہے جو مزید کا مطالبہ کرتی چلی جاتی ہے.اس میں جہنم کی وہ صفت ہے هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ (ق: 31) کا تقاضا ہے جو انتقام کی آگ سے از خود پیدا ہوتا ہے.فرمایا تم بڑھو گے پھر اور جب بڑھو گے تو ایک ایسا وقت آئے گا کہ حد اعتدال سے تجاوز کر جاؤ
خطبات طاہر جلد 14 570 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء گے اور جتنا تم پہ ظلم ہوا ہے اس سے زیادہ ظلم کر بیٹھو گے اور اگر یہ کرو گے تو خود اپنا نقصان کرو گے اور بالآ خر اللہ کی نظر سے گر جاؤ گے.پس اس خوف سے کہ کہیں ہم اپنے بدلے اتارتے اتارتے اللہ کی نظر سے نہ گر جائیں صبر سے کام لینا بہتر ہے اور جہاں تک ممکن ہے انسان انتقام سے احتراز کرے.پھر اپنی جماعت سے خطاب کے عنوان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیحتیں جو ہیں وہ سنئے.فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں.جیسے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے.چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے....اب یہاں صبر دوسرے معنوں میں ہے.ایک شخص جو احمدی ہوتا ہے اس کے لئے فور أصبر کا امتحان در پیش ہوتا ہے یعنی ادھر احمدی ہوا، ادھر صبر کے ابتلاء کا ،صبر کی آزمائشوں کا آغاز ہو گیا اور آج کل تو کثرت سے مجھے ایسے خط ملتے ہیں، ایسی اطلاعیں ملتی ہیں کہ ایک خاندان احمدی ہوا ہے اور طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہو گیا ، خود اس کے والدین اس کے دشمن ہو گئے.اس کو جائیدادوں سے عاق کر دیا گیا بلکہ والدین نے خود بعضوں کو مقرر کیا بدمعاشوں کو کہ اگر یہ بھی قریب آئے تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو.اس قدر سخت مصیبتیں پڑتی ہیں قبول حق کی راہ میں کہ اس کا صبر کے بغیر مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ انسان صبر کے بغیر ان ابتلاؤں سے زندہ بچ کے نکل سکے.فرماتے ہیں...سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس وو جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معا دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بہن بھائی بھی دشمن ہو جاتے ہیں.السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے.اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے.تم انبیاء اور رسل سے زیادہ نہیں ہو.ان پر اس قسم
خطبات طاہر جلد 14 571 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے.دعاؤں میں لگے رہو.پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء ورسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو.پس انبیاء پر بھی جو مشکلات آئیں ہیں وہ نعوذ باللہ من ذالک کسی سزا کے طور پر تو نہیں آئیں یا مٹانے کی غرض سے تو نہیں آئیں وہ تو انہیں پہلے سے مضبوط تر کرنے کے لئے آئی ہیں اور صبر کے ذریعے انہوں نے مقابلہ کیا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:...انبیاء و رسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو، تمہارا وو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا...“ اگر تم ایسا کرو گے تو پہلے انبیاء کا کیا نقصان ہو گیا وہ تو ہمیشہ بڑھتے ہی رہے اور بالآ خر دشمن کلیہ ناکام اور نامراد ہو کر رہ گیا.پس آج بھی وہی حربہ ہے جو استعمال کرنا ہے جو پہلے کامیاب تھا آج بھی کامیاب ہوگا.وو...وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے اور نہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا.تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے“.یہاں دعا کے ساتھ غائبانہ “ کا لفظ لگا دیا ہے.بعض دفعہ بعض دعائیں لوگوں کو سنانے کے لئے ہوتی ہیں کہ اچھا تم یہ کہ رہے ہو ، ہم یہ دعا دیتے ہیں.اس میں بھی ایک انانیت کا پہلو ہوتا ہے.یہ بتانا مقصود ہے کہ تم گندے ہو اور ہم صاف ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غائبانہ کا لفظ داخل کر کے خصوصیت کے ساتھ ہماری توجہ اس طرف پھیر دی کہ جب تمہارا دشمن جو تمہاری بدی چاہتا ہے ہر قسم کی زیادتیاں تم پر کر رہا ہے، اس وقت تمہیں دیکھ بھی نہیں رہا اگر تم اس کی ہمدردی میں اس کے لئے دعا کرو گے تو یہ تمہاری سچائی کی علامت ہے اور تمہاری دعا کی قبولیت کا ایک نشان
خطبات طاہر جلد 14 572 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء بن جائے گا کیونکہ ایسی دعائیں جو تکلیف دینے والے کے لئے کی جاتی ہیں اور اس کو پتا بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ایسی دعاؤں کو زیادہ قبول فرماتا ہے.".تم اپنے پاک نمونہ ، صاف چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے...اب یہ بھی بہت ہی اہم نصیحت ہے.اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ تم بد ہو گئے ہو، تو بد ہو کر تمہیں پاک رسمیں کیسے نصیب ہو گئیں اچھی راہ کیسے مل گئی.پس نیکیوں میں آگے بڑھو اور ایسا پاک نمونہ دکھاؤ کہ دشمن خود دیکھ لے اور سمجھ لے کہ اس نے جو بھی راہ اختیار کی ہے وہ اچھی ہے اور ہم سے بہتر انسان بن رہا ہے اور بسا اوقات رشتے داروں میں تبلیغ میں سب سے موثر ذریعہ یہی بنتا ہے.جب وہ تکلیفیں دینے والے تکلیفیں دے رہے ہیں، جو ابا کوئی سختی کا عمل نہیں دیکھتے بلکہ ضرورت کے وقت کام آنے والا بیٹا یہی ثابت ہوتا ہے جو احمدیت اختیار کرنے کے نتیجے میں ان کی طرف سے کاٹا گیا تھا.جب وہ دیکھتے ہیں کہ پہلے سے بڑھ کر با اخلاق ہو گیا ہے، نمازوں پر قائم ہو گیا ہے،غریبوں کا ہمدرد ہو گیا ہے، بنی نوع انسان کی بھلائی چاہتا ہے تو ایسے نیک نمونے کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور زبانی تبلیغ کے مقابل پر ایسے شخص کا پاک نمونہ بہت زیادہ قوی اور موثر تبلیغ بن جاتا ہے.دو کروں......دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت اب مامور تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ہی لیکن خصوصیت کے ساتھ اس امر پر مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں.یہ ماموریت کا بار بار کے ساتھ جو تعلق ہے یہ دراصل وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کے تعلق میں بیان ہوا ہے فَذَكَّرُ انْ نَفَعَتِ الذِّكْرى (الاعلی (10) اور فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرُ (الغاشية: 22) ان دونوں آیتوں کو اکٹھا پڑھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ بار بار نصیحت کرنا ایسا کہ اس کی شخصیت کا نام صلى الله مذکر بن جائے ، مستقل مذکر ہی کہلائے ، یہ وہ امر ہے جس پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو مامور فرمایا گیا تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں بھی قرآن ہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور قرآن ہی سے پھوٹتی ہیں.آپ فرماتے ہیں میں اس بابت مامور کیا گیا ہوں کہ تمہیں اس
خطبات طاہر جلد 14 بات کی بار بار نصیحت کروں.وو 573 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء...بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامے کی دو جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے د اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.“ اب یہ جو کھسکنا لفظ ہے یہاں بہت برحل استعمال ہوا ہے.دراصل یہ کھسکنا کسی بدنی خطرے سے بچنے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اشتعال سے بچنے کی خاطر ہے.یہ مضمون ہی وہ بیان ہو رہا ہے.فرمایا ہے جب دشمن گندی زبان استعمال کرتا ہے ، ظالمانہ حملے کرتا ہے تو تم بعض دفعہ دیکھتے ہو کہ شاید تم میں اب طاقت نہ رہے کہ زیادہ صبر کر سکو اور ہوسکتا ہے تمہارا پیمانہ لبریز ہو جائے اور تم بھی جواباً ویسی ہی کارروائی شروع کر دو.تو ایسی صورت میں کھسکنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہے خاموشی سے الگ ہو جاؤ.یعنی ایسے محل ہی سے گریز کرو، ایسے مقام سے اجتناب کرو اور الگ ہونے کی کوشش کرو اور کھسکنے میں آہستگی بھی پائی جاتی ہے، تیزی سے بھاگنا نہیں ہے تیزی سے بھاگنے والے کوکھسکنے والا نہیں کہتے.بھاگنے کے ساتھ خوف شامل ہے اور کھسکنے کے ساتھ ایک سلیقہ، طریقہ ہے کہ خاموشی سے، آہستہ سے نکل جاؤ وہاں سے بھاگ کر نہیں جانا اس میں بھی بے غیرتی ہے اور بزدلی ہے اور مومن بے غیرت اور بز دل نہیں ہوا کرتا.اور نرمی سے جواب دو.( جواب دینا ہے نرمی سے دینا ہے ) با رہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سنے والوں میں اشتعال کی تحریک ہولیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خودا سے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو.صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ تو پوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے.“ بسا اوقات ایسے خوفناک قتال سے انسان صبر کے ذریعے نجات پاتا ہے جہاں تو ہیں بے
خطبات طاہر جلد 14 574 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء کار ہو تیں لیکن صبر نے بڑے غالب دشمن کے شر سے انسان کو بچالیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کوئی مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لے رہے، بہت گہری حقیقت ہے کہ وو...صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ تو پوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے 66 نکلتا ہے.صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے...“ الصلوة ایک زائد بات اس میں یہ ہے کہ تو ہیں دلوں کو فتح نہیں کیا کرتیں.وہ جسموں کو مارتو دیتی ہیں اور ایک انسان کی عزت کو خاک میں تو ملا دیتی ہیں مگر دل نہیں جیتا کرتیں.”...یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے...“ اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.دیکھیں کیسا اپنائیت کا اظہار ہے اور بلند تو قعات کو ایک چھوٹے سے جملے میں کس وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے.ہماری جماعت کا لڑ پڑتا ہے چھوٹی سی باتوں پر.فرمایا مجھے اس کا بہت رنج پہنچتا ہے....اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی...“ اب ٹھہرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے نہیں فرمایا.فرمایا ٹھہرے گی.اس بات میں قطعاً شک نہیں ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہ عارضی انفرادی کمزوریوں کے باوجود لازماً یہی وہ جماعت ہے جس نے تمام دنیا میں نمونہ بننا ہے تو فرمایا کہ 66 ”خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی.“ اب جو نمونہ ٹھہرے گئی کا محاورہ ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر ایک عظیم گواہ ہے.ورنہ ایک شخص اپنے نفس سے جو باتیں کرتا ہے وہ یہ بات نہ کہے گا کہ ٹھہرے گی وہ کہے گا کہ خدا تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ جس کو نمونہ بنانے کے لئے قائم کیا گیا ہے وہ اس طرح میدان چھوڑ جائے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے.آخری فتح پر کامل یقین ہے، نظر دور تک ہے.فرمایا یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ جماعت صبر کا نمونہ نہ بنے.عارضی انفرادی غلطیوں سے صدمے تو مجھے پہنچتے ہیں مگر یہ یقین اپنی جگہ کامل ہے کہ لازماً یہ جماعت ایک دن صبر کا نمونہ بن کر ابھرے گی.
خطبات طاہر جلد 14 575 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء 66 وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے.“ صبر کی راہ سے ہٹنا تقویٰ کی راہ سے ہٹنا ہے.بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو یا در کھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے.“ یعنی بے صبرے کا اس جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے.وو..نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں...“ اب ایک اور بہت ہی پیاری توقع اپنی جماعت سے جو علم پر بنی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بتا رہے ہیں کہ احمدی اپنی وجہ سے بھی بعض دفعہ جوش میں آ جاتے ہیں مگر ” نہایت کار آخری جو ابتلاء ان پر در پیش آتا ہے وہ اس وقت آتا ہے جب مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں، اس وقت کوئی احمدی برداشت نہیں کر سکتا تو ” نہایت کار کے لفظ نے ایک عجیب نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے جماعت کا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہاں تک نظر ہے.فرمایا چلو وہاں تک ہوگا نہ پھر.میں جانتا ہوں کہ تمہاری کیا حالت ہوتی ہے.تم اس معاملہ کو خدا کے سپر د کر دو تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے.میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو میری خاطر آگے آ کر صبر کے پیمانے تو ڑ کر وہاں قدم نہ رکھو جہاں قدم رکھنے کے تم مجاز نہیں ہو جس کی اجازت نہیں ہے.فرمایا میرا معاملہ، میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو...تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو.تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں.“ تم چند گالیاں سن کر آپے سے باہر ہو جاتے ہو بعض دفعہ تمہیں کیا پتا میں کتنی سنتا ہوں.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں.برنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے ایسی فحش گالیاں ہوتی
خطبات طاہر جلد 14 576 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئیں...“ اور یہ حقیقت ہے تاریخ مذاہب پر نظر ڈال کر دیکھ لیں کسی تاریخی حوالے سے یہ بات ثابت نہیں کہ جتنا گند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالف نے بکا ہے اس کا عشر عشیر بھی کبھی پہلے کسی نبی کے متعلق اس طرح بکو اس کی گئی ہو.فرماتے ہیں: ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئیں اور میں اعتبار نہیں کرتا کہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو“.سبحان اللہ ! کیا عجیب بات ہے.ابوجہل نے مادے کی حد تک تو سب کچھ کر دیا لیکن اس میں وہ مادہ نہیں تھا خباثت کا جو آج دیکھنے میں آرہا ہے.جو نمو نے ہم آج دیکھ رہے ہیں اس مادے کے لوگ پہلے تھے ہی نہیں.یہ انتہا ہو چکی ہے.مگر ابو جہل کو اگر یہ فرماتے ہیں کہ وہ نہیں دیتا تھا تو اس کی شرافت ہوتی.اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو غور سے سنا کریں اور بڑے غور سے پڑھا کریں.ایک دفعہ یہ سمجھ نہ آئے تو دوسری دفعہ پڑھا کریں.آپ کا ہر لفظ ایک بہت ہی احتیاط کے ساتھ چنا ہوا ایک نگینہ ہوتا ہے جو جہاں بٹھایا جاتا ہے وہیں بیٹھنے کے لائق ہوتا ہے.اس سے ارد گرد اس کو آپ سرکا نہیں سکتے.ابو جہل کا مقابلہ تھا یہ کہہ دیتے کہ ابو جہل ایسی گالیاں نہیں دیا کرتا تھا تو صاف پتا چلتا کہ ابو جہل زیادہ بردبار انسان تھا.شرافت اس میں زیادہ تھی آپ نے فرمایا اس میں مادہ ہی نہیں تھا اتنا.جہاں تک خباثت کا مادہ تھا اس نے کوئی کمی نہیں کی مگر گندی گالیوں میں یہ خمیر اور ہے اور یہ اسی پلید مٹی سے بنے ہوئے لوگ ہیں.لیکن یہ سب کچھ سنا پڑتا ہے.جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض 66 ہے کہ تم بھی صبر کرو.“ جب مجھے امام مانا ہے اپنے متعلق میں ایسے صبر سے کام لیتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو.درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی.
خطبات طاہر جلد 14 577 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995ء درخت کے اوپر حملہ ہوتا ہے اور درخت جو نمونے دکھاتا ہے کیا شاخ کو زیب دیتا ہے کہ وہ نمونے نہ دکھائے.تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے.آخر یہی تھک کر رہ جائیں گئے.دیتے چلے جائیں، دیتے چلے جائیں، آخر تھک کر رہ جائیں گے.آج ہی مجھے کوئی کہ رہا تھا کہ اس عالمی جلسے کے بعد مولویوں کے بیان آرہے ہیں ان میں کچھ تھکن کے آثار دیکھ رہا ہوں میں.بہت ہی پیاری بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہی لکھ رہے ہیں ، یہی پیشگوئی فرما ر ہے ہیں کہ تم دیکھو گے کہ آخر کہاں تک جائیں گے یہ.آخر یہیں تھک کر رہ جائیں گے.ان کی گالیاں ، ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہر گز تھکا نہیں سکتے پس ہم اس کے غلام ہیں جس کے خمیر میں ، جس کی مٹی میں ناکامی کا خمیر نہیں ، جسے کوئی چیز تھ کا نہیں سکتی.پس آپ بھی کامل وفاداری کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدم پر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور کسی آزمائش، اور کسی دکھ، کسی تکلیف کے مقابل پر تھکنا نہیں اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بے شک میں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا لیکن میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پرواہ کروں.یہ کبھی نہیں ہوسکتا.تم خود غور کرو کہ ان کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے؟ ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 158-156) اب دیکھیں یوں لگتا ہے جیسے اس جلسے کی کامیابیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر کا براہ راست ایک تعلق ہے بعینہ اسی غرض سے بنائی گئی ہو اور جس طرح اب دشمن نے شور مچا دیا ہے گالیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں اس کے مقابل پر ہمیں نصیحت اور پھر تھکن کے آثار جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سو سال پہلے دیکھے تھے وہ آج ہمیں بھی دکھائی دینے لگے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ کیا نقصان ہوا ہے؟ میری جماعت بڑھی ہے اور بڑھتی رہے گی.ان لوگوں نے کم ہونا ہی ہے اور کم ہوتے رہیں گے.اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دولاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پیدا ہو گئی.
خطبات طاہر جلد 14 578 خطبہ جمعہ 4 اگست 1995 ء اب دیکھیں سو سال پہلے جس وقت کی یہ تحریر ہے پوری جماعت کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ دولاکھ سے زائد یہ جماعت کیسے پیدا ہوگئی اب وہی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صبر اور دعائیں ہیں جن کے نتیجے میں اب ایک ایک سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آٹھ آٹھ لاکھ سے زیادہ جماعت پیدا ہورہی ہے اور یہی صبر ہے اور یہی تو کل ہے جو کل اس تعداد کو بھی دو گنا کر سکتا ہے اگر اللہ چاہے.پس سارا سال شکر سے کام لو، سارا سال صبر کے ساتھ چھٹے رہو، ان کی گالیوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کرو.نہ پہلے ان کی گالیاں کوئی نقصان پہنچا سکی تھیں نہ آئندہ نقصان پہنچاسکیں گی.ہم دیکھیں گے کہ دن بدن یہ تھکتے چلے جارہے ہیں اور مایوس اور نا مراد ہوتے چلے جارہے ہیں.ایک وقت لازماً آئے گا کہ ان کے چہروں پر ان کی ناکامیوں اور نامرادیوں کی سیاہیاں پھیل جائیں گی.وہ دن ہوگا جبکہ مومنوں کے چہرے اللہ کے احسانات سے روشن ہوں گے اور دن بدن روشن تر ہوتے چلے جائیں گے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 579 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995 ء مالی قربانی کا جماعت کو جو اعزاز بخشا گیا ہے اس کی تمام عالم میں کو ئی نظیر کہیں دکھائی نہیں دیتی.( خطبه جمعه فرموده 11 اگست 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَا تُنْفِقُوا خَيْرِ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ وَمَا تُنْفِقُوام ا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِيْمُهُمْ لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَرَ بِهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره: 275273) پھر فرمایا:.یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا تعلق مالی قربانی سے ہے اور ان کا انتخاب آج اس لئے ہے کہ بالعموم پہلے یہ دستور ہوا کرتا تھا کہ سال کے آخر پر یعنی مالی سال کے آخر پر اور نئے سال کے آغاز پر کبھی سال کے آخر والے خطبے کو مالی قربانی کے مضمون کے لئے وقف کیا جا تا تھا، کبھی
خطبات طاہر جلد 14 580 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء آئندہ سال کے پہلے خطبے کو پھر چونکہ جلسہ سالانہ بھی انہی ایام میں بعض دفعہ اسی مہینے میں آتا ہے اس لئے تجویز ہوا کہ جلسہ سالانہ پر جب جماعت کی عالمی خدمات اور ترقیات کا ذکر ہوتا ہے، مالی پہلوکو بھی اسی میں شامل کر لیا جائے.لیکن امسال میں نے دیکھا کہ خدا کے فضل سے اتنی زیادہ ترقیات کے پہلو جماعت کے سامنے لانے پڑتے ہیں یعنی لائے جاسکتے ہیں اور لانے چاہئیں کہ مالی قربانی کے ذکر کے لئے وہاں کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اس کے علاوہ بہت سے ایسے پہلو تھے جو رہ گئے.تو آئندہ سے انشاء اللہ پھر پرانے طریق کو بحال کیا جائے گا اور ہر سال کے جوڑ پر یا اگلے مالی سال کے شروع خطبے میں یا اسی سال کے آخر پر انشاء اللہ مالی قربانی کے پہلو کی طرف توجہ دلائی جائے گی.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں چونکہ یہ مالی قربانی کے مختلف پہلوؤں پر حیرت انگیز طریق پر تفصیلی روشنی ڈال رہی ہیں اس لئے ان کا ذکر کچھ لمبا چلے گا اور اس کے علاوہ بھی کچھ آیات ہیں جو مد کے طور پر ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے میں نے انتخاب کی ہیں.اس لئے میرا خیال ہے کہ پہلے میں یہ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھ دوں ورنہ پھر ان کے لئے کوئی وقت نہیں بچے گا اور آیات کا مضمون تو پھر اگلے خطبے پر بھی منتقل کیا جاسکتا ہے.اس لئے اس ترتیب کو بدلتے ہوئے جو پہلے دستور کی تھی پہلے آیات کی تشریح کی جاتی تھی بعد میں کوائف پیش کئے جاتے تھے، آج میں کوائف سے بات شروع کرتا ہوں.دو سال پہلے 1992ء ، 1993ء کے اختتام پر میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہم جلد از جلد کروڑوں سے اربوں میں داخل ہو جائیں اور یہ خواہش ہے جو بہت پہلے سے چلی آرہی ہے.اور اس کی وجہ خلافت کے منصب سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس سے پہلے کا ایک استنباط تھا جس سے تعلق رکھتی ہے.میں نے غور کیا جماعت کے ابتلاؤں پر اور ہر ابتلاء کے بعد خدا کے فضلوں کے نزول پر تو قطعی طور پر یہ بات روشن ہوئی کہ ایک ابتلاء کے بعد دوسرے ابتلاء تک اگر پہلے ہزاروں کی قربانی ہوتی تھی تو لاکھوں میں ہو چکی تھی.پھر اس اگلے ابتلاء کے وقت اگر لاکھوں کی تھی تو پھر کروڑوں میں تبدیل ہو گئی تھی.پس اس دور میں اب ہمیں اربوں کا انتظار کرنا چاہئے اور بڑی تیزی سے جماعت اربوں کی طرف بڑھ رہی ہے اور 93 - 92ء میں پہلی دفعہ پچاس کروڑ یعنی نصف ارب تک خدا کے فضل سے چندے کی مقدار پہنچ گئی تھی.تو جس رفتار سے بڑھ رہا تھا میں نے کہا اب دو چار
خطبات طاہر جلد 14 581 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء قدم کی بات ہے ساری جماعت اگر کوشش کرے اور ذمہ داری ادا کرے اپنی بھی اور دوسروں کی بھی، یعنی ذمہ داری ادا کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو ابھی مالی قربانی کی اہمیت کی سمجھ نہیں آئی اور بہت سے ایسے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے وسائل عطا کئے جاتے ہیں، جن کا رزق پہلے الگ نہیں تھا، ماں باپ پر ہی انحصار تھا لیکن ان کو رزق کے نئے وسائل عطا کئے گئے اور بسا اوقات ماں باپ کی یا عزیزوں کی اس طرف نظر ہی نہیں ہوتی ، وہ سمجھتے ہیں کہ اس بچے کی ابھی تازہ تازہ کمائی ہے اس پر کیا مالی بوجھ ڈالنے ہیں.اگر ان سب امور پر نظر رکھیں اور یہ بھی خیال کریں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ بہت سے ابھی ایسے نو مبائعین ہیں جن میں استطاعت ہے مگر ان کو ابھی توجہ نہیں دلائی گئی ، بہت سے ایسے مبائعین ہیں جو لکھو کھہا ہیں ، جن میں کچھ نہ کچھ دینے کی ضرور استطاعت ہے اور قطرہ قطرہ بھی دیں تو ایک مالی قربانیوں کا دریا بن سکتا ہے.تو یہ تمام ایسے خلا ہیں جن پر اگر جماعت توجہ دے تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آئندہ ایک دو سال کے اندر یہ اربوں کے دائرے میں داخل ہونا بالکل ناممکن نہیں ہے.اس وقت جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ امسال اللہ کے فضل سے جماعت نے 77 کروڑ 58لاکھ 28 ہزار روپے کی قربانی پیش کی ہے.روپے میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کسی ایک کرنسی میں ہمیں بہر حال ذکر کرنا ہے.یعنی یہ تو نہیں ہو سکتا کہ دنیا بھر کی کرنسیوں میں بیان کروں اور پھر آپ موازنہ بھی کر سکیں.کچھ سمجھ نہیں آئے گی آپ کو کہ کیا ہو رہا ہے.بعض Currencies کی اتنی قیمت گری ہوئی ہے کہ وہاں پہلے ہی اربوں سے تجاوز ہو چکا ہے مثلاً انڈونیشیا میں جماعت کا کئی ارب روپے ہے چندے کا، تو آپ کہیں کہ الحمد للہ ارب تک پہنچ گئے لیکن ہم جب بات کرتے ہیں تو پاکستان کی تاریخ اور ہندوستان کی تاریخ کے حوالے سے کرتے ہیں.اس تاریخ کے حوالے سے ہم بات کرتے ہیں جہاں آنوں سے بات شروع ہوئی تھی ، پیسوں سے بات شروع ہوئی تھی.اس تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو، دو آنے ، چار، چار آنے کا شکریہ ادا کیا ہے، کتابوں میں ذکر کیا ہے، اللہ تمہیں جزا دے تم نے یہ قربانی دی.پس اس حوالے سے جب بات کرتے ہیں تو اسی کرنسی کے اعدادوشمار پیش کرنے پڑیں گے تا کہ آغاز ہی سے ہم موازنہ کر سکیں.اب تو اللہ کے فضل سے بہت بات آگے بڑھ چکی ہے.حیرت انگیز طور پر جماعت کو اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 14 582 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء نے قلبی فراخی عطا فرمائی ہے اور پھر مالی فراخی بھی اس کے نتیجے میں بڑھتی چلی جا رہی ہے.77,58,28,000 روپے تک اب گزشتہ دو سال میں آپ پہنچ گئے ہیں.یعنی دو قدم اٹھائے ہیں ابھی ، تو اب ایک ارب تک پہنچنے میں دو تین قدم ہی باقی ہیں اور اگر کوئی چھلانگ لگا دے تو پھر اور بات ہے، اچھی بات ہے، وہ بھی ہوسکتا ہے.اب میں مختصر آپ کو بتاتا ہوں کہ جماعتوں کے لحاظ سے کیا انقلاب پیدا ہو رہا ہے.کیا ترتیبیں یا اولیت کے لحاظ سے ترتیب کس حد تک بدل رہی ہے.ایک دو سال پہلے کی بات ہے، یہ غالباً گزشتہ سال کی بات ہی ہے کہ میں نے جماعت پاکستان کو کہا تھا کہ آج پہلی دفعہ میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جرمنی کی جماعت اب دنیا کی سب جماعتوں سے مالی قربانی میں آگے بڑھ گئی ہے اور آپ کو میں متنبہ کر رہا ہوں کہ ذاتی طور پر میرا دل یہی چاہتا ہے کہ پاکستان اس اعزاز کو ہمیشہ برقرار رکھے.اگر چہ بہت ہی نا مساعد حالات میں مخالفانہ حالات میں جماعت خدا کے فضل سے قربانی کر کے کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ پچھلے سال سے پیچھے ہٹ گئی ہو بلکہ ہمیشہ تو قعات سے آگے بڑھتی ہے.مگر جرمنی کی جماعت کا خمیر بھی دراصل ہندو پاکستان کی مٹی سے اٹھا ہوا ہے اور وہ لوگ نئی جگہ آکر جس طرح بعض دفعہ ایک درخت کی پنیری کو تبدیل کر کے دوسری جگہ پہنچایا جائے تو زیادہ تیزی سے نشو ونما دکھاتا ہے.پاکستان کی اس مٹی میں جس میں یہ لوگ کھاری زمین کے پودے دکھائی دیا کرتے تھے اور بھاری تعداد ایسی ہی تھی جیسے کلر شور کی اگنے والی بوٹیاں، خشک پھل، خاص پھل نہیں دیتیں.ایسے مہاجرین کی تعداد ہے جن کا وہاں جماعتی قربانیوں میں عملاً کچھ بھی حصہ نہیں تھا اور یہ بھاری تعداد میں ہیں اور بعض دفعہ دینی خدمات میں بھی بہت پیچھے تھے.مگر جب خدا کی تقدیر نے ہجرت کے مضمون کے ساتھ تعلق باندھ دیا، ہجرت کا مضمون یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر تم ایک جگہ سے ہجرت کر کے دوسری جگہ جاؤ گے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ فراخی عطا کریں گے، ہر پہلو سے تمہیں برکت دیں گے.تو یہ کوئی ان کی خوبیاں نہیں ہیں، جس قسم کے بوٹے وہاں تھے وہ ہم نے دیکھے ہوئے ہیں، کلر شور کے اندر جو بوٹیاں اگتی ہیں بہت سے ان میں ایسے تھے، بھاری تعداد، جو ویسے ہی تھے.نہ تہذیب ، نہ تمدن، نہ نظام جماعت کا احترام، نہ خدمت کا سلیقہ، مالی قربانی بھی تھی تو نام کی تھی.کچھ ایسے بھی خاندان تھے جو خدا کے فضل سے اچھے تھے ان کو میں مستی کر رہا ہوں لیکن یہاں آ کے کایا
خطبات طاہر جلد 14 583 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء پلٹ گئی.ایسی کایا پلٹی کہ اپنے پہلوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں.تعداد میں ان سے بہت کم لیکن ملکی اقتصادی حالات سے استفادہ کرتے ہوئے تھوڑی تعداد زیادہ کمانے لگی مگر ایسا کمانے لگی کہ دل بھی ساتھ بڑھے اور دل چھوٹے نہیں ہوئے.پس اس پہلو سے جرمنی کی جماعت کو جو اعزاز اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس کا ذکر ضروری ہے تا کہ اہل پاکستان کو پھر اور بھی جوش آئے.ابھی کھانے پر صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بے چینی کا اظہار کیا، پہلے بھی کیا تھا اور کہا کہ پھر آپ کیا دعا دیں، ان کو تو نہیں صرف دعا میں یاد رکھیں گے.میں نے کہا نہیں میں آپ کو بھی دعا میں یاد رکھوں گا مگر مقابلہ تو میں نے کرانا ہی کرانا ہے.آپ کو بھی کہوں گا آگے بڑھو اور ان کو بھی کہوں گا آگے بڑھیں.اس وقت وہ آپ کو اتنا پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ بظاہر اب آپ کا آگے جانا مشکل نظر آ رہا ہے.اس سے زیادہ میں موازنے کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا اور میں توقع رکھتا ہوں کہ جماعت پاکستان ان پہلوؤں سے جائزہ لے گی جو میں نے بیان کئے ہیں کہ بہت سے ایسے نو مبائعین ہیں جن کو استطاعت ہے، وہ چندے میں شامل ہوئے ہیں یا نہیں.بہت سے ایسے مخلصین ہیں جو دستور کے مطابق چندہ دے رہے ہیں لیکن کبھی جائزہ نہیں لیا کہ جتنی خدا نے ان کو مالی فراخی عطا کی ہے اس کے مطابق چندہ بھی بڑھا ہے کہ نہیں.بہت سے نئے روزگار پانے والے ہیں.بہت سی جماعتوں میں ناد ہند بھی چلے آرہے ہیں اور دیہات میں اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے.پھر بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے شرح سے کم دینے کے بہانے جوڑ رکھے ہیں اور اپنے خیال میں وہ سمجھتے ہیں ٹھیک ہے.تاجر ہیں، وہ کہتے ہیں اگر ہم نے اس تجارت پر چندہ دیا تو انکم ٹیکس ہم اور حساب سے دے رہے ہیں چندہ اور حساب سے دیا تو پکڑے جائیں گے.پھر وہ سوچتے ہیں کہ ہم نے جو عذر تراش رکھے ہیں انکم ٹیکس میں اس میں تو قانون ہمیں کچھ سہولتیں دیتا ہے اور جماعت کے سامنے جب رکھیں گے تو پھر وہ سہولتیں تو اس طرح نہیں مل سکتیں.اس لئے کھل کر بات کرنی پڑے گی اس لئے سچی بات کرنی ہے اگر تو ایسی سچی بات کیوں نہ کریں جس میں ہمارا کم سے کم نقصان ہو.یعنی مرادان کی یہ ہوتی ہے کہ ایسی سچی بات کیوں نہ کریں جس میں کم سے کم فائدہ ہو.چنانچہ سچی بات یہ کرتے ہیں کہ اپنے گزارے کے لئے ، اپنی تجارتوں میں سے جو روپیہ نکالتے ہیں کہتے ہیں یہ ہے ہماری آمد اور جو اللہ تعالیٰ وسیع منافع عطا
خطبات طاہر جلد 14 584 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء فرماتا ہے جو بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں تک پہنچ جاتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ بزنس ہے، یہ بزنس میں واپس جا رہا ہے.تو جھوٹ بھی نہیں بولا اور نقصان بھی کر لیا اپنا یعنی ایسی سچی بات کہی جس سے اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی برکتوں سے محروم رہ گئے.بعض ایسے مخلصین ہیں ان کے لئے بھی وقتیں ہیں.میں یہ نہیں کہ سکتا کہ قانونی طور پر انکم ٹیکس کے مسائل کو حل کرنے میں ایسی سہولتیں موجود ہیں کہ ہر انسان کامل انصاف پر رہتے ہوئے انکم ٹیکس کے فارم بھر سکتا ہے.ملکی سوچ اگر ٹیڑھی ہو چکی ہو اور توقع یہ ہو کہ جرائم کر رہے ہیں سارے، ہر ایک چوری کر رہا ہے تو پھر انکم ٹیکس والے، جب آپ حامی بھرتے ہیں تو اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں اور اس کے خلاف اپیل بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دستور ہی میں ہے.تو احمدیوں کے لئے بڑے مصائب ہیں، کس طرح وہ حل کرتے ہیں.میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.نہ میں ان سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ معین کوائف بیان کر کے مجھ سے پوچھیں کیونکہ یہ بھی اسی دائرے سے تعلق رکھنے والی بات ہے لَا تَسْتَلُواعَنْ أَشْيَاءَ اِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ (المائدہ: 102) ایسی باتوں کے متعلق معین سوال نہ کیا کرو کہ اگر تمہیں جواب دیئے جائیں تو پھر تمہیں تکلیف ہو، تمہارے لئے تکلیف کا موجب بن جائیں.تو بد دیانتی کی اجازت تو اسلام دیتا نہیں مگر حکمت کے ساتھ اپنی بقاء کی کوشش کرنا یہ ہر مسلمان کا فرض ہے.پس ان کے درمیان تقویٰ سے کوئی ایسی راہ تراشیں جس سے آپ کا قدم حرام کی طرف نہ بڑھنے لگے بلکہ حلال ہی کی طرف مائل رہے.پھر اس کے بعد احتیاط کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر آپ جماعت کو چندہ دینا چاہیں تو اس کے سو (100) رستے نکل سکتے ہیں.بعض وہاں ہمارے مخلصین ہیں جو انکم ٹیکس کا حساب وہاں دیتے ہیں، چندے کا حساب یہاں آکے دیتے ہیں اور ان کو اس کا کوئی خطرہ نہیں.مجھے بتا دیتے ہیں کہ یہ میری مشکل تھی تو آج یہ پچاس لاکھ ہے، آج یہ فلاں اتنا روپیہ ہے، ایک کروڑ روپیہ تک بھی دیا گیا ہے.کہتے ہیں یہ آپ لے لیں.یہاں سے پاکستان بھجوائیں یہاں رکھیں، جماعت کا روپیہ ہے جہاں چاہیں خرچ کریں.لیکن ہمارا ضمیر اب ہمیں کچوکے نہیں لگائے گا، ہم نے خدا کا حق جیسا کہ اس نے چاہا تھا پورا کر دیا.تو اگر نیت پاک ہو اور نیک ہو تو انسان دینے کے خود ہی رستے تلاش کر لیا کرتا ہے.پس اس پہلو سے میں پاکستان کی جماعت سے بھی توقع رکھتا ہوں کہ وہ یہ نیت رکھیں کہ اللہ
خطبات طاہر جلد 14 585 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء نے جتنا ہم سے تقاضا کیا ہے اس تقاضے کی نچلی حد تک پورا نہ کریں بلکہ اس حد میں داخل ہو جا ئیں جو نوافل کی حد ہوتی ہے جس کے بعد صرف فرض پورا نہیں ہوتا بلکہ رضا جوئی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.کم سے کم جب آپ پورا کرتے ہیں تو یہ ایک فرض ہے.یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ مجرم نہیں خدا کے حضور اللہ نے آپ کو جو دیا جتنا کم سے کم چاہا آپ نے واپس کر دیا.بعد میں اس کی مرضی ہے جیسی چاہے جزا دے لیکن اگر آپ اس سے بڑھ کر دیں تو پھر یہ محبت کے سلسلے ہیں.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رضا اترتی ہے.وہ ایک غیر معمولی برکتیں لے کر آتی ہے، مال میں بھی برکت ڈالتی ہے، صحتوں میں بھی برکت ڈالتی ہے، خوشیوں میں برکت ڈالتی ہے، سارا انسانی نظام ہی صحت مند ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے خدا سے وہ تعلق باندھیں جس میں آپ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو اور اس نصیحت پر اگر آپ پاکستان میں آج بھی عمل شروع کر دیں اور اس نصیحت پر اگر جرمنی پورا عمل نہ کرے تو مجھے یقین ہے کہ آپ اگلے سال ان سے آگے بڑھ سکتے ہیں.مگر یہ جو دوسری شرط ہے یہ میں پوری نہیں کروانا چاہتا کہ اس نصیحت پر جر منی عمل نہ کرے، وہ کیوں نہ کرے.اس لئے برابر کی دوڑ ہے اللہ فضل کرے.دیکھیں کون آگے نکلتا ہے.کوشش یہ ہونی چاہئے بہر حال کہ جو اعزاز ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا تھا وہ اعزاز ہمیشہ قائم رہے اور کیسے بھی حالات بدلیں ساری دنیا میں ، وہ جماعتیں جن کا سرزمین ہندوستان سے تعلق ہے، مالی قربانی میں کسی دوسرے سے پیچھے نہ رہیں.اب جو میں فہرست بتارہا ہوں تفصیل نہیں میں بیان کر سکتا لیکن اول جرمنی ہے اور دوسرے نمبر پر پاکستان ، تیسرے نمبر پر امریکہ امریکہ خدا کے فضل سے بہت پیچھے سے آیا ہے اور بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے.برطانیہ چوتھے نمبر پر ہے اور کینیڈا پانچویں نمبر پر لیکن بہت پیچھے رہ گیا ہے امریکہ سے.انڈونیشیا چھٹے نمبر پر.انڈونیشیا نے بہت ترقی کی ہے ان کے اربوں روپوں کو اگر ہم پاؤنڈوں میں بھی تبدیل کر دیں تب بھی خدا کے فضل سے ان کی چھٹی پوزیشن ہے اللہ کے فضل.برقرار رہتی ہے اور جو پہلے کہیں بہت پیچھے شمار ہوا کرتا تھا اب بہت آگے بڑھ گیا ہے.ہندوستان نے بہت ترقی کی ہے پچھلے دور میں ایک دو چار سال کے اندر اور ساتویں پوزیشن پر آ گیا ہے.ماریشس تعداد میں تھوڑا ہونے کے باوجود مالی قربانی میں بہت آگے ہے اور جاپان فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے آج بھی دنیا میں سب سے آگے ہے کیونکہ یہ اس کا نواں نمبر ہے حالانکہ ماریشش، انڈیا، انڈونیشیا
خطبات طاہر جلد 14 586 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء کے مقابل پر ان کی تعداد کچھ بھی نہیں، بہت ہی معدودے چند لوگ ہیں.ناروے اللہ کے فضل سے بہت ترقی کر رہا ہے ہر پہلو سے مالی قربانی میں بھی اس دفعہ اس کا نمبر دسویں نمبر پر ہے اور سوئٹزرلینڈ اگر چہ تحریک جدید کے چندے میں سب دنیا میں آگے ہے فی کس کے لحاظ سے لیکن اس قربانی میں ناروے سے بھی پیچھے ہے، جاپان سے بھی اور جاپان سے پیچھے رہنے کی کوئی حکمت سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ تعداد میں جاپان سے بہت زیادہ ہیں اور وہ جو آمدن کے وہاں ذرائع ہیں وہ جاپان سے کم نہیں ہیں.اب نسبتی پہلوؤں سے بات کرتے ہیں تو گزشتہ تین سالوں میں نمایاں ترقی کرنے والی جو جماعتیں ہیں ان میں تشحیم خدا کے فضل سے قابل ذکر ہے.چھوٹی سی جماعت تھی جس نے دیکھتے دیکھتے تبلیغ کے ذریعے بھی نشو ونما پائی اور چندوں کے ذریعے بھی بہت پہلے سے آگے بڑھ رہی ہے.اگر تدریجی ترقی تین سالوں میں دیکھی جائے تو اس وقت سب سے زیادہ حکیم سب سے اول نمبر ہے.فرانس کا دوسرا نمبر ہے.سنگا پور تیسرا نمبر.نئے آنے والے ممالک میں تھائی لینڈ ماشاء اللہ آگے آ گیا ہے.پھر گوئٹے مالا نے بھی مالی پہلوؤں سے ترقی کی ہے.بالکل نئی جماعت ہے لیکن خدا کے فضل سے وہاں کے مربی بڑی متوازن تربیت کر رہے ہیں اور مجھے توقع نہیں تھی گوئٹے مالا پانچویں نمبر پر پہنچ جائے گا مگر پہنچ گیا ہے.سیرالیون کا چھٹا نمبر ہے اور یہ اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ بہت ہی مالی حالت خراب ہے اس ملک کی.یعنی فاقہ کشی ہے اکثر جگہوں میں اور بسا اوقات عالمی مدد سے زکوۃ بھیج کر بعض غریبوں کو روٹی کھلانی پڑتی ہے.پھر بھی جو کچھ بھی ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.پس اس پہلو سے چھٹے نمبر پر سیرالیون کا آنا ایک بہت ہی قابل قدر بات ہے اور دعاؤں کا محتاج ہے.سورینام ساتویں نمبر پر ہے.باقی تفاصیل پڑھنے کا وقت نہیں ہے، میں اس کو چھوڑ دیتا ہوں.مختصر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ مالی قربانی کا جماعت کو جو اعزاز بخشا گیا ہے اس کی کوئی نظیر تمام عالم میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.کوئی مثال ہے ہی نہیں.جس رنگ میں جماعت مالی قربانی پیش کر رہی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے اور جس رنگ میں ہمیشہ قدم آگے بڑھا رہی ہے اور جس دیانتداری سے اس نظام کی حفاظت کر رہی ہے، یہ تمام پہلو ایسے ہیں جو تمام دنیا کے لئے چینج ہیں.بعض بڑے بڑے ممالک کی بڑی شخصیتوں سے بھی اس موضوع پر کئی دفعہ بات ہوئی ہے جب وہ تعجب سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو اتنے پیسے کہاں سے مل گئے.جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ نظام کیا ہے تو
خطبات طاہر جلد 14 587 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء ششدر رہ جاتے ہیں.کہتے ہیں ناممکن ہے کہ دنیا کی کسی ترقی یافتہ قوم میں بھی اس دیانت داری کے ساتھ ، اس اخلاص کے ساتھ، اس نظم وضبط کے ساتھ مالی قربانی کے نظام کی حفاظت کی جائے اور اسے آگے بڑھایا جائے.یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کی کسی جماعت کو نصیب نہ ہوا نہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے لئے ایمان کی ضرورت ہے اور تمام مالی قربانیوں کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ باندھا ہے، ایمان کو پہلے رکھا ہے اور مالی قربانی کو بعد میں.پس حقیقت میں مالی قربانی ایمان ہی سے پیدا ہوتی ہے اور اس میں ان لوگوں کا بھی جواب ہے جو سمجھتے ہیں کہ مالی قربانی پر بے وجہ زور دیا جارہا ہے.مالی قربانی تو در حقیقت ایمان کا پیمانہ ہے اور تمام دنیا میں جماعتی ایمان جو ترقی کر رہا ہے اسی کا فیض ہے کہ مال ترقی کر رہے ہیں.ورنہ ایمان ترقی نہ کرے تو کوئی سر پھرا ہے جو اپنی جیب سے پیسے نکال کر خواہ مخواہ کسی غرض کے لئے پیش کر دے.لوگ تو دوسروں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہیں کہ کسی طرح ان کے پیسے نکل کر ہماری جیبوں میں آئیں.یہ جماعت ہے جو اپنی جیبوں سے پیسے نکال کر دوسروں کی جیبیں بھر رہی ہے یعنی خدا کے ان کارندوں کے سپر د کرتی ہے جو ان سے مانگنے کے لئے آتے ہیں.پس یہ ایک بے مثل اعزاز ہے.اللہ اس اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھے.یہ بھی قائم رہے گا اگر ہم اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور خدا ہمارے ایمان کو پہلے سے ہمیشہ آگے بڑھاتا رہے.اب میں ان آیات کی کچھ تفسیر کرتا ہوں جو میں نے پڑھی تھیں لیکن اس سے پہلے ایک اعلان بھول گیا تھا.جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ کا اس وقت تیرھواں جلسہ سالانہ شروع ہے جو تین دن جاری رہ کر 13 اگست کو اختتام پذیر ہوگا.یہ براہ راست اس وقت میرا خطبہ سن رہے ہیں.اس لئے ہمارے عالمگیر اجتماع میں آپ شامل ہیں اور ہماری دعاؤں میں بھی شامل رہیں گے انشاء اللہ.اللہ آپ کو بہت برکت دے اور بہت بڑھائے.تبلیغ کے لحاظ سے کافی کمزوری ہے اس جماعت میں.اللہ رحم کرے.دوسرا U.S.A کی خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے جو آج 11 اگست سے شروع ہو رہا ہے.یہ بھی تین دن جاری رہے گا اور 13 راگست کو بروز اتوار اختتام پذیر ہوگا غالبا جمعہ کی نشریات بھی براہ راست ہوتی ہیں وہاں لیکن سارے صبح سن نہیں سکتے اتنی جلدی.اس لئے پھر دوبارہ اس وقت بھی دکھائی جاتی ہے جب ہماری U.S.A اور کینیڈا کی ٹیلی ویژن شروع ہوتی ہے یعنی تین
خطبات طاہر جلد 14 588 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995 ء گھنٹے کے لئے شام کو، اس وقت یہ خطبہ پھر سنایا جائے گا.تو کچھ لوگ تو ابھی سن رہے ہوں گے کچھ انشاء اللہ اس وقت شامل ہو جائیں گے.وہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی ، پہلی آیت ہے لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمُ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ - عَلَيْكَ سے مراد محمد رسول اللہ علے ہیں.یعنی نام محمد کیا تو نہیں مگر ظاہر فرما دیا گیا کہ تو اے محمد ان کو ہدایت نہیں دے سکتا.وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَّشَاءُ لیکن اللہ ہی ہے جو جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.پس ہم جو دنیا کو ہدایت دینے کے لئے نکلے ہیں یاد رکھیں کہ جب تک اللہ کا فضل ساتھ نہ ہو، اللہ کی تقدیر ہمارے ساتھ نہ چلے کہ ہم نے ہدایت دینی ہے اس وقت تک ہم کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے.آنحضرت ﷺ کی ہدایت کی صلاحیتیں اللہ کے اذن کے ساتھ وابستہ تھیں اور چونکہ آپ کا ارادہ اللہ کے ارادے میں مدغم ہو گیا تھا اس لئے بظاہر آپ ہدایت دے رہے تھے مگر اللہ ہی ہدایت دے رہا تھا.اس مضمون کو کھولا گیا ہے کہ لوگ کہیں ایک شرک خفی میں مبتلا نہ ہو جائیں.محمد رسول اللہ ﷺ کی تمام تر عظمتیں اللہ کی ذات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں تھیں اور اسی میں رہیں گی اور چونکہ آپ نے کلیہ اپنے وجود کو خدا کے تابع فرمالیا یہاں تک کہ آپ کی آواز خدا کی آواز کہلائی اس لئے آپ ہدایت دیتے ہوئے دکھائی دینے لگے.مگر دراصل یہ امر یقینی ہے کہ کسی کو کسی کے دل میں کوئی اختیار نہیں.اگر یہ اختیار ہوتا تو ابو جہل کو کیوں محمد رسول اللہ نے ہدایت نہ دے دی.وہ دو جن کی تمنا تھی کہ وہ ہدایت پا جائیں ان میں ابو جہل بھی تو تھا.تو یہ بتا رہا ہے کہ کسی پاک رسول کی پاک توجہ ہی کافی نہیں جب تک خدا تعالیٰ کا فیصلہ شامل نہ ہو جائے اور اس بیان میں نعوذ باللہ من ذالک، رسول اللہ ﷺ کی تخفیف ہرگز مراد نہیں بلکہ ہمارے لئے گہر اسبق ہے.وہ سبق یہ ہے کہ اگر ہدایت میں بندوں کے سپرد کر دیتا کہ اپنی مرضی سے دیں تو بعض ایسے جھوٹے بھی ہدایت پا جاتے جو اس لائق ہی نہیں ہیں کہ وہ ہدایت پائیں.وہ بد بخت لوگ جن کے متعلق خدا یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ یہ ضرور سزا پائیں گے.اگر بندوں کی خواہش ہوتی تو محمد رسول اللہ تو ابو جہل کو بھی ہدایت دینا چاہتے تھے.پھر تو ہر شخص ہی ہدایت پا جاتا اور اندرونے کا ہمیں کچھ علم نہیں ، انسان اس لحاظ سے بالکل محدود دائرہ علم رکھتا ہے.وہ جو دیکھ رہا ہے اس کا بھی پورا علم نہیں رکھتا ، جو زائد نہیں دیکھ رہا اس کا اس کو کیا پتا؟ تو ہدایت پانے سے یہاں مراد ہے دین میں شامل ہونا.
خطبات طاہر جلد 14 589 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء ان لوگوں کو بھی دین میں شامل کر لیا جاتا جو دین کے لئے نقصان دہ ہیں.گندے لوگ بھی ہماری خواہشوں کے مطابق دین میں شامل ہو جاتے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت دینا میرا کام ہے.دوسرا اس کا پہلو یہ ہے کہ ہدایت گہرائی تک دینا انسان کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ پہلو صلى الله ایک اور لحاظ سے ہمارے سامنے ابھرتا ہے.کئی لوگ جو بظاہر ہدایت پا گئے اور رسول اللہ ﷺ کے حضور آ کر اقرار کیا کہ تو خدا کا رسول ہے ہم قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ تو خدا کا رسول ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو خدا کا رسول ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں.تو دائرہ اسلام میں آنے کے باوجود بھی ہدایت نہ پاسکے.اس لئے صرف دائرے میں داخل ہونا ہدایت کا نام نہیں ہے.ہدایت گہرا عمل ہے اور اس میں بھی جس کو خدا نے چاہا ہدایت ملی محض قرب محمد رسول الله عله ان منافقوں کی ہدایت کا موجب نہ بن سکا بلکہ بعضوں کے امراض بڑھتے رہے اور یہ ایک طبعی بات ہے.جب کسی محسن کی ناقدری کی جائے تو گناہ بڑھ جاتا ہے ، نہ کہ انسان ہدایت کے لائق ٹھہرتا ہے.پس ایسی صورت میں ہادی کے قریب تر ہونا اور اس کا انکار کرنا ہدایت پانے کے برعکس مضمون پیدا کرتا ہے.جتنا بڑا ہادی، جتنا زیادہ اس کا قرب نصیب ہوا گر دل بد بخت ہے تو پہلے سے زیادہ بد بخت ہو جائے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! ہدایت دینا تیرا کام نہیں ہے، ہمارا کام ہے.تمنا تیری یہی ہے کہ ساری دنیا کو ہدایت دے دے لیکن اللہ کے بس کی بات ہے اس لئے تو اپنی اس خواہش کو پورا نہیں کرسکتا.اس کے بعد فرما رہا ہے وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِانْفُسِكُمُ اور جو بھی تم مال خرچ کرو تو خود اپنی ہی خاطر کرو گے.اب یہ نہیں فرمایا وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلاَ نْفُسِكُمْ کہ جو کچھ بھی تم مال سے خرچ کرتے ہو اپنی ہی خاطر کرتے ہو یا اپنے نفس کی بھلائی کے لئے کرتے ہو کیونکہ بہت سے انسان ایسے مال خرچ کرتے ہیں جو ان کے لئے نقصان دہ ہیں.ان کا دین بھی تباہ کر دیتے ہیں ان کی دنیا بھی تباہ کر دیتے ہیں.کروڑھا آدمی ہیں جو ڈرگ پر خرچ کر رہا ہے اس لئے قرآن کریم یہ فرما ہی نہیں رہا کہ جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو اپنی بھلائی کے لئے کرتے ہو.فرماتا ہے وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمُ جو کچھ تم مال خرچ کرو پس وہ تمہارے لئے ہوگا بشر طیکہ اگلی جو آیت ہے اس کو عموماً ترجمہ کرنے والے ان معنوں میں پیش کرتے ہوں جن معنوں میں
خطبات طاہر جلد 14 590 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء میں کر رہا ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہی معنی درست ہے اس کے بغیر اس آیت کا ربط نہیں بنتا.بشرطیکہ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ یا یوں کہنا چاہئے وجہ اس کی یہ ہے کہ تم جو کرو گے یعنی اے مومنو! تم جو مال خرچ کرو گے وہ ضرور تمہارے فائدے کا ہوگا وجہ یہ ہے کہ تم اللہ کی رضا کے بغیر خرچ ہی نہیں کرتے.تو جب تم ہر خرچ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر کرتے ہو تو لازم ہے کہ وہ مال جس طرح بھی خرچ ہو وہ تمہارے لئے بہتر ہوگا اور تمہارے فائدے میں ہوگا.اسی مضمون میں آنحضرت ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں بیوی کو لقمہ کھلانے کا ذکر ہے وہ میں آئندہ پڑھ کے سناؤں گا.ترجمہ کہ اے مومنو! تم جو بھی مال خرچ کرو تمہارے ہی فائدے میں ہوگا.وجہ یہ ہے کہ کیونکہ تم خرچ ہی نہیں کرتے مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر ، اس کی محبت جیتنے کی خاطر.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ پس اس شرط کے ساتھ جو بھی تم خرچ کرو يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وه بھی تمہیں واپس لوٹا دیا جائے گا.بہت ہی لطیف انداز ہے.پہلے یہ بات بیان نہیں کی کہ تمہیں واپس لوٹا دیا جائے گا.فرمایا جو کچھ تم خرچ کرو گے رضاء باری تعالیٰ کی خاطر، وہ تمہاری بھلائی میں ہی ہے، یقین رکھو.تم اس لئے نہیں کرتے کہ تمہیں واپس لوٹایا جائے.اس وجہ سے واپس لوٹانے کے حصے کو وہاں سے تو ڑ کر الگ بیان کیا ہے.ایک مزید فائدے کے طور پر بیان کیا ہے کہ اگر تم رضائے باری تعالیٰ کی وجہ سے خرچ کرتے ہو تو پھر اس نیت کو تو داخل کر ہی نہیں سکتے کہ ہمیں واپس مل جائے گا، چلو خرچ کرتے ہیں.فرمایا رضا تو تمہیں ملے گی اور تمہارے نفس کے لئے بھلائی ہے لیکن ہم تمہیں ضمنا یہ بھی بتاتے ہیں کہ خدا کسی کا مال رکھا نہیں کرتا.وہ واپس کرتا ہے اور بڑھا کر عطا کرتا ہے.تُوَفَّ اِلَيْكُمْ تمہارے لئے تمہیں بھر پور طور پر واپس کیا جائے گا وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ اور تم ظلم نہیں کئے جاؤ گے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنے پائی کا حساب کر کے جتنا دیا گیا تھا خدا اتناوا پیس کرے گا.یہ قرآنی محاورہ ہے لَا تُظْلَمُونَ کا مطلب یہ ہے کہ اتنا دے گا کہ ظلم کا تصور بھی قائم نہیں ہوسکتا.خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتا کہ ظلم ہوا ہے.اس کثرت سے دے گا اور یہ اصل جزا نہیں ہے.اصل جزا یہ ہے کہ جب تم رضاء باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کرو گے تو تمہارے لئے بھلائی ہی بھلائی پیدا ہو جائے گی، ہر پہلو سے تمہیں برکتیں ملیں گی.جمع جھونگے میں، مال بھی واپس لوٹا دیا جائے گا.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اپنے بھائیوں کو رزق
خطبات طاہر جلد 14 591 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء دیا اور ان کے اونٹ بھر کر واپس بھیجے تو ملازموں سے کہا کہ ان کی متاع بھی ساتھ واپس کر دو.اللہ کے نبی بھی اللہ ہی سے رنگ پاتے ہیں.انہوں نے جب پہلے رزق دیکھا اپنے باپ کو خوشخبریاں دیں.بہت خوش تھے کہ بہت ہم رزق لے کے آئے ہیں.جب کھولا تو پھر دوڑے دوڑے گئے کتنی خوش خبری کی بات ہے اے ہمارے باپ یہ تو ہمارے پیسے بھی واپس کر دیئے.تو جس طرح وہاں بعد میں ہوا تھا وہی مضمون یہ آیت پیش کر رہی ہے کہ تمہاری بھلائی تو ہے ہی تمہیں سب کچھ مل جائے گا جو چاہتے ہو.پھر جب کھولو گے اپنی پوٹلیاں تو پتا چلے گا کہ جو دیا تھا وہ بھی واپس ہو جائے گا.مگر یوسف تو ایک انسان تھا اس نے تو اتنا ہی دیا جتنا بھائیوں نے دیا تھا مگر اللہ جو پوٹلیوں میں واپس ڈالے گا وہ سنبھالا بھی نہیں جائے گا اس کثرت کے ساتھ وہ عطا کرتا ہے.پھر فرماتا ہے لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِیلِ اللهِ خرچ جو کرتے ہو اللہ کی رضاء کی خاطر اس میں صرف یہ نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں ، اللہ کی رضاء کی خاطر بچوں ہی کو دیئے جاؤ.یہ بھی ایک طریق ہوتا ہے کہ اللہ جو کہتا ہے کہ بچوں کی خدمت کرو، بیویوں کا خیال رکھو.چلو بیوی بچوں کو دیئے چلے جاؤ.اللہ فرماتا ہے کہ جو خدا کی رضا کی خاطر دیتے ہو تو اپنے حقوق قربان کر کے ان کو زیادہ دیتے ہو، جن کا براہ راست تم پر حق نہیں ہے مگر وہ اللہ کی خاطر غریب بنائے گئے.اس لئے ان کا ذکر الگ فرما دیا ہے.لِلْفُقَرَآء الَّذِینَ یہاں واؤ بھی داخل نہیں فرمائی کہ اور فقراء کے لئے.فرمایا اول طور پر جب وہ خدا کی رضا چاہتے ہیں تو خدا کی خاطر ضرورت مند ہو جانے والوں پر وہ خرچ کرتے ہیں.ایک تو فقراء پر خرچ کرنے کا مضمون ہے جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر کثرت سے بیان ہوا ہے.یہاں وہ مضمون نہیں ہے.یہاں ایسے فقراء کا ذکر ہے جو اللہ کی خاطر فقیر ہو گئے اور ان کو کچھ دینا صدقہ نہیں ہے بلکہ ایک سعادت ہے اور طرح کی.ایک تو خرچ ہے جس میں انسان صدقے بھی دیتا ہے اور بظاہر ایک عطا کا پہلو بھی رکھتا ہے.فرمایا ان کو جو تم رضا کی خاطر دو گے تو سب سے پہلے ان کا حق ہو گا جو اللہ کی خاطر خود فقیر ہو گئے.الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَہ اللہ کے رستے میں گھیرے میں آگئے.ایک تو وہ لوگ ہیں جو ایک جگہ اس طرح محصور کر دیئے گئے کہ وہاں سے نکل کر وہ آزادی کے ساتھ دنیا میں کمائیاں کر ہی نہیں سکتے.ان میں سے وہ بھی ہیں مثلاً پاکستان
خطبات طاہر جلد 14 592 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء میں جن کے نکلنے کی تمنا ہے، وہاں کے حالات سے بے زار ہیں لیکن حالات نے ان کو جکڑ رکھا ہے وہ نکل نہیں سکتے لیکن یہاں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ طوعی طور پر خدا کی راہ میں خود اپنے پاؤں میں بیٹریاں ڈالے بیٹھے تھے.یعنی وہ اصحاب الصفہ جن میں کمانے کی صلاحیتیں موجود تھیں محض اس لئے کہ اللہ کے رسول کی باتیں سنیں ، دین کی خدمت کریں وہ مسجد کے ہورہے تھے اور مسجد کے تھڑوں پر بیٹھ کر انہوں نے باقی زندگی بسر کی.تو فرمایا جن کو خدا کی رضا کی چاہت ہے وہ خدا کی خاطر ان لوگوں پر خرچ کرتے ہیں جن کو استطاعت تو تھی کہ ان کی طرح باہر نکل کر دنیا کمائیں لیکن طاقت کے باوجود نہیں کمائی.یعنی محض بے چارگی کا نام غربت نہیں ہے وہاں بلکہ چارے کے باوجود جوخدا کی خاطر غریب ہوئے اگر ان کو دو گے تو سب سے زیادہ اللہ تم سے راضی ہوگا.پس مومنوں میں اہل مدینہ میں ، انصار میں کثرت سے یہ رواج تھا کہ تحائف لے کر ان غریبوں کے پاس پہنچتے تھے اور رات کو بھی چھپ کر آتے تھے، دن کو بھی دیتے تھے اور آنحضرت می ﷺ کی خدمت میں جو بھی تحائف پہنچتے تھے آپ ان کا حصہ رکھتے تھے لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ اب یہ جو فقرہ ہے لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں طاقت ہی نہیں باہر نکلنے کی مگر یہ آیت چونکہ وسیع مضمون سے تعلق رکھتی ہے یعنی اس آیت کا وسیع مضمون ہے.اس لئے یہ پہلو بھی درست ہے کچھ ایسے بھی تھے جو مکہ میں گھیرے گئے ان میں طاقت ہی نہیں تھی کہ باہر نکلیں.کچھ ایسے بھی تھے جو محبت الہی اور محبت رسول میں ایسے جکڑے گئے تھے کہ ان میں طاقت نہیں تھی یعنی چاہتے بھی ، مجبور بھی ہوتے ، چاہتے تھے ہی نہیں ، مجبور بھی ہو جاتے فاقہ کشی میں تب بھی نکل نہیں سکتے تھے.حضرت ابوھریرہ کی مثال ان میں سے ہے.ان سے جب پوچھا گیا کہ تم یہاں کے کیوں ہو رہے.تو انہوں نے کہا کہ دراصل میری بڑی عمر اسلام سے باہر کئی بلکہ دشمنی میں بھی کئی.اب تھوڑے سال رہ گئے ہیں کیسے ممکن ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے بغیر میں زندگی گزاروں.ناممکن ہے.اب تو ایک ایک لمحہ مجھے یہیں اس دروازے پر خرچ کرنا ہے.کیا پتا کس وقت محمد رسول صلى الله اللہ ﷺ کا چاند ظاہر ہوتا ہے، آپ کا سورج نکلتا ہے ان دروازوں سے جو مسجد کے ساتھ ملحق تھے،مسجد
خطبات طاہر جلد 14 593 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء میں کھلتے تھے.یہ ان کے دل کی کیفیت تھی جو انہوں نے بیان کی اپنے لفظوں میں مگر میں ان کو اپنے لفظوں میں بیان کر رہا ہوں.ایسا عشق تھا.ایک لمحہ بھی رسول اللہ ﷺ کی رؤیت کا ، آپ کی زیارت کا ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے.پھر یہ کہ باتیں مجھے سنے کا شوق ہے.لوگوں نے بچپن سے سنی ہوئی ہیں میرے پاس آخری چند سال ہیں تو میں وہ باتیں کیوں ضائع کروں.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے سالوں میں برکت دی اور ان چار سالوں میں جتنی دیر بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے یعنی صلى الله مسجد کے صحن میں اتناذخیرہ اکٹھا کیا رسول اللہ ﷺ کے کلام کا کہ کسی اور صحابی کو اتنی توفیق نہیں ملی کہ اس کثرت سے آنحضرت ﷺ کی روایتیں بیان کر سکیں اور پھر خدا نے لمبا عرصہ زندہ رکھا کہ وہ ساری باتیں بیان کر سکیں.تو یہ وہ لوگ ہیں جن میں طاقت نہیں ہے.کوئی کہہ سکتا ہے طاقت تھی باہر نکلتے تھے، جاتے تھے ، جاسکتے تھے مگر ان کو محبت نے جکڑا ہوا تھا.یہ لوگ بھی اس میں مراد ہیں بلکہ میرے نزدیک اول طور پر مراد ہیں.يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ جاہل ان کو امیر سمجھتا ہے.اب ان غریبوں کو امیر کیسے سمجھا جا سکتا تھا.ان کی تو فلاکت ان کی غربت تو ظاہر و باہر تھی.اس لئے اغنیاء کا ترجمہ یہاں امیر کرنا درست نہیں ہے.اغنیاء سے مراد ہے ان کو حاجت نہیں ہوتی کسی چیز کی.یعنی اپنی حاجت کو اپنے چہرے پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے.بعض بھو کے ہیں وہ اپنی بھوک کو ظاہر ہونے دیتے ہیں تا کہ کوئی دیکھے اور پہچانے.بعض غریب ہیں جو اپنے کپڑوں کے گندے رکھنے سے پھٹے پرانے رکھنے سے اپنی غربت کو ظاہر کر دیتے ہیں.بعض غریب ہیں جو روزانہ دھو لیتے ہیں، سلائی سلیقے سے کرتے ہیں، سمٹ کر رہتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ ہماری غربت کا حال ظاہر نہ ہو.پس اللہ کی خاطر غریب ہو جانے والے بندوں سے کچھ نہیں چاہتے تھے.اس وجہ سے سب دنیا کے بندوں نے یہ گواہی دی کہ اس کو تو ضرورت ہی کوئی نہیں ، آرام سے بیٹھا ہوا ہے، ہنستا کھیلتا، روزمرہ کی زندگی گزار رہا ہے، اس کو کیا ضرورت ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَعْرِفُهُمْ بِسِيمُهُم جاہل جو سمجھتے رہیں تو ان کی نشانیوں سے، ان کے چہروں کی علامتوں سے جانتا تھا کہ بھوکے ہیں.لَا يَسْلُونَ النَّاسَ الْحَافًا کچھ انہوں نے لوگوں سے چمٹ کر مانگا نہیں کہ ہماری ضرورت پوری کرو.یہ عادت ہی ان کو نہیں تھی.یہ داحمد و
خطبات طاہر جلد 14 594 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء ذکر کر کے فرماتا ہے پھر وہی بات وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرِ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ تم جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرو گے اس کی نظر میں ہو گا.اب یہاں نظر کی بات کی ہے پہلے نہیں کی تھی.پہلے بھی یہی مضمون دو دفعہ ذکر ہو چکا ہے لیکن وہاں خدا کی نظر کی بات نہیں کی.بات یہ ہے کہ جیسے لوگوں کا ذکر ہے ان لوگوں کی جو خدمت کرے گا وہ بہت ہی جاہل ہوگا اگر دکھا کر کرے.جو خدا کی خاطر چھپ گئے اور انہوں نے اپنی غربت کو دنیا سے چھپا لیا ان کو اگر کوئی اعلانیہ دے تو بڑا ہی جاہل ہوگا بلکہ اس میں ایک کمینگی کی علامت پائی جاتی ہے.وہ بتا رہا ہے کہ گویا نعوذ باللہ ہم تمہارے محسن ہیں اور جو انہوں نے چھپایا ہوا تھا اپنی غربت کو وہ دنیا کے سامنے ظاہر کرنے والا ہوگا.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسے لوگوں کی خدمت جو صاحب عرفان صحابہ تھے وہ یا تو رات کو چھپ کے دے جایا کرتے تھے یا پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے.جانتے تھے کہ وہاں گیا تو یہاں آیا.پس اس پہلو سے خدا کے علیم ہونے کا ذکر بہت ہی پیارا اور موزوں ہے کہ اللہ سے تو چھپتا ہے ہی نہیں.محمد رسول اللہ ﷺے پہچان لیتے ہیں کہ خدا کی خاطر کون غریب بنے بیٹھے ہیں تو اللہ کو نہیں پتا لگے گا کہ اس کی خاطر کون چھپ چھپ کے دیتا ہے.فرمایا جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا پورا علم ہے اس سے چھپی ہوئی بات نہیں ہے.اب پھر مضارع کا صیغہ واپس آ گیا ہے.پہلے ساری مشروط باتیں تھیں اگر تم ایسا کرو تو یہ ہوگا، یوں کرو گے تو یوں ہوگا.الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ (البقره: 275 ) کہ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں بِاليْلِ وَالنَّهَارِ یہ اب عام مضمون ہے.جو پہلا مضمون تھا وہ خدا کے ان خاص بندوں کا ذکر تھا جو محض رضاء باری تعالیٰ کی خاطر مخفی رکھ کر خرچ کرتے ہیں اور مخفی رہتے ہوئے اپنے حقوق سے خود محروم ہوئے بیٹھے ہیں.اب ایک عام مضمون چل پڑا ہے.محمد رسول اللہ علی کے غلاموں میں کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ جو اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں راتوں کو بھی اور دن کو بھی ، چھپا کے بھی اور ظاہر کرتے ہوئے بھی فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ان کے لئے ان کے رب کا اجر ان پر ہے.یہاں ظاہر کرنے کے باوجود اجر کیوں دیا گیا ہے اگر مخفی رکھنے کو ایسی اہمیت دی گئی تھی.
خطبات طاہر جلد 14 595 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء یا درکھیں کہ اس آیت کے اندر اس بات کا جواب موجود ہے.وہ لوگ جو ریا کی خاطر ظاہر کرتے ہیں وہ چھپ کر نہیں دیا کرتے.کبھی بھی وہ چھپ کر نہیں دے سکتے.انہوں نے تحفہ بھی دینا ہوکسی کو تو لوگوں کی موجودگی میں دکھا کر دیں گے یا بہت بڑے بڑے پیکٹ بنا کر دیں گے تاکہ لوگوں کو پتا لگے کہ بڑی چیز جارہی ہے.شادی بیاہ پہ اعلان ہو رہے ہیں، لکھے جارہے ہیں ، بڑے بڑے پیکٹ پیش کئے جا رہے ہیں تا کہ دنیا کی نظر میں آجائیں.چھپ کر دینے کی تو ان کو توفیق ہی نہیں ہوتی.پس سیڈا کی شرط ساتھ لگادی ہے.تب فرمایا ان کا اجر اللہ پر ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ چھپ کر دیتے ہیں اگر ان کی ریا کی تمنا ہوتی تو چھپ کر دیتے ہی نہ صرف اعلانیہ دیتے.جو رات کو تہجد کے وقت اٹھتا ہے اس کی صبح کی نماز کچی ہو جاتی ہے.اس وقت اس کو کسی نے دیکھا تھا.پس ان کا چھپنا ان کے ظاہر کی حفاظت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ظاہر میں بھی اور نیتیں ہیں تا کہ ایک دوسرے سے بڑھیں ، استباق کی روح پیدا ہو اور تحریک عام ہو جائے ورنہ اگر سارے چندے ہی چھپ کے دیئے جائیں تو جو کمز ور رفتہ رفتہ ہمارے ساتھ شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں.وہ محروم ہی رہ جائیں گے.تو ظاہر کرنا بعض دفعہ دکھاوے کی خاطر نہیں ہوتا بلکہ ایک نیکی کی تحریص اور تحریک کی خاطر ہوتا ہے.پس ایسے لوگوں کے متعلق یہ شرط لگا کر کہ ظاہر تو کرتے ہیں مگر چھپ کر بھی ضرور کرتے ہیں اور اس کو خدا تعالیٰ اس طرح باندھتا ہے پہلے سدا کا ذکر کیا ہے پھر علانیہ کا ذکر فرمایا ہے.پہلے رات کا ذکر فرمایا ہے پھر دن کا ذکر فرمایا ہے.یعنی اولیت ان کے ہاں یہ ہے کہ جو کچھ ہم دیں خدا کی خاطر مخفی ہی رہے کسی کو نہ پتہ چلے.لیکن پھر دن کے وقت بھی قربانیوں کے تقاضے ہوتے ہیں.روشنی کے وقت بھی کچھ قربانیاں کرنی پڑتی ہیں ان سے پھر وہ پیچھے نہیں رہتے.فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَرَ بِّهِمْ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کا اجر ان کے رب پر ہے، ان کے رب کے پاس ہے.وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمُ يَحْزَنُونَ ان کو کوئی خوف نہیں ہے اور کوئی صدمہ ان پر غالب نہیں آسکتا.کوئی خوف ان پر غالب نہیں آ سکتا اور وہ کسی صدمہ میں مبتلا نہیں ہوں گے.یہاں جو لفظ عِنْدَرَ بهِمُ ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اس سے پہلے جو خدا نے واپس کیا اور بڑھا چڑھا کر دیا اور برکتیں عطا کیں وہ آئندہ کے کھاتے میں سے کاٹا نہیں جائے گا.وہ کھاتہ اسی طرح کا اسی طرح پورا رہا ہے اس میں سے منہا کچھ بھی نہیں ہوا.تو خدا نے ان کا اجر جو اپنے ذمے لگا رکھا ہے وہ سب کچھ واپس کرنے کے باوجود وہ اسی
خطبات طاہر جلد 14 596 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء طرح سالم کا سالم ٹکار ہے گا.جب مرنے کے بعد اس کے حضور پیش ہوں گے تو پھر وہ کھاتے کھلیں گے جو خدا نے اپنے پاس بطور اجر تمہارے لئے محفوظ رکھے ہیں.اب یہ وہ مالی قربانی ہے جو خدا کی خاطر کی جاتی ہے اس کے رنگ ڈھنگ ہیں.اس سے محرومی اصل محرومی ہے.جو اس مالی قربانی کے نظام میں شامل ہوتے ہیں ان کی تو موجیں ہی موجیں ہیں.دنیا بھی ان کی ہو گئی آخرت بھی ان کی ہوگئی اور جو خالصہ اللہ قربانی کرتے ہیں، بڑھانے کی نیت سے نہیں کرتے ان کے مال بڑھائے ضرور جاتے ہیں اور جب بڑھائے جاتے ہیں تو اور زیادہ خدا کے حضور شکر کرتے ہوئے جھکتے ہیں اور زیادہ عطا کرتے ہیں.ایک ایسی چیز ہے جو ان لوگوں کے درمیان، ان کے ایک گروہ کے درمیان ان کے دوسرے گروہ سے فرق کر دیتی ہے.جن لوگوں کے مال اللہ اس جزا کے نتیجے میں اس دنیا میں بھی بڑھاتا ہے اور آخرت میں بھی ان کے اجر رکھے ہوئے ہیں وہ اس مال بڑھنے کے بعد اپنے چندوں میں اور بڑھتے ہیں.جن کے مال عطا کے نتیجے میں نہیں بڑھتے بلکہ بعض دفعہ اللہ تعالی تعلق کاٹ لیتا ہے کہ تم دنیا میں پڑ گئے تو پھر پڑے رہو ان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل چھوٹے ہونے شروع ہو جاتے ہیں.مال بڑھتے ہیں دل تنگ ہو رہے ہوتے ہیں.جس سے پتا چلتا ہے کہ محض اللہ ساری خدمتیں نہیں تھیں دنیا کی حرص غالب تھی خدا کی رضا نسبتا کم تھی.پس اللہ نے دنیا عطا کر دی اور اپنی رضا کی طلب سے محروم رکھ دیا، اپنی رضا کی طلب کی تو فیق ہی نہیں دی.پس ایسے لوگوں کو کبھی بھی طعن کی نظر سے نہ دیکھیں.وہ مظلوم بے چارے مجبور ہیں، محروم ہیں.ان پر رحمت کی نظر ڈالنی چاہئے.اگر سمجھا سکے کوئی عزت نفس پر حملہ کئے بغیر، پیارا اور سلیقے سے تو ان کو بتا دے کہ پہلے جو تم نے کمائیاں کی تھیں وہ کون سی ہاتھ کی چالاکیاں تھیں.تمہارے بزرگوں کی قربانیاں تھیں جن کے پھل تم کھا رہے ہو، کیوں آئندہ نسلوں کے لئے تم ویسی قربانیاں نہیں کرتے.تم نے اپنے بڑوں کی قربانیوں کے پھل کھائے، کیوں اپنے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتے.کیوں ان کے لئے ان کا خیال کر کے خدا کی خاطر قربانیاں نہیں دیتے.اب یہاں بظاہر ایک دنیا نفس کی ملونی کا میں نے ذکر کر دیا ہے مگر بعض دفعہ مریض کو سمجھانے کے لئے چھوٹی بات بھی بتانی پڑتی ہے.کوئی آدمی کہتا ہے پانی نہیں پی رہا مر رہا ہے تو کہے چلو میری خاطر پی لو حالانکہ اس کو اپنی خاطر ضرورت ہے.وجہ اول
خطبات طاہر جلد 14 597 خطبہ جمعہ 11 اگست 1995ء آپ نہیں بتاتے وجہ ثانی بتا دیتے ہیں.پس ان مریضوں کو سنبھالنے کی خاطر میں کہتا ہوں کہ اپنی اولاد پر رحم کرو، اولاد سے تو تمہیں پیار ہے نا.اس پر رحم کرو اور سوچو کہ تمہارے آباؤ اجداد کی قربانیاں تھیں جو تم کھا رہے ہو.تو تم قربانیاں کرو گے تو کمی نہیں آئے گی لیکن کمی آ بھی جائے پھر قربانی کرنا یہ اصل ہے، رضائے باری تعالیٰ کی خاطر.اس لئے خدا نے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا الگ الگ بیان کر دیا ہے.پہلے تو صرف رضا کی بات کر دی ہے.بعد میں فرمایا ہم تمہیں ضمنا بتا رہے ہیں کہ تمہارا مال بھی واپس کر دیا جائے گا اور بہت زیادہ کیا جائے گا.مگر تم نے یہ نہیں چاہا تھا.اس لئے اب اعلیٰ بات میں یہ بتاتا ہوں اور یہی سب سے اچھی ہے کہ جب بھی مالی قربانی کریں خواہ خدا کی خاطر کریں وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدر: 7) کے مضمون کو پیش نظر رکھیں.کبھی بھی احسان نہ کرو تا کہ تم زیادہ حاصل کر لو.اس کا تعلق انسانوں سے ہے.مگر خدا کی خاطر جب بندوں پر احسان کرتے ہیں اور اس خواہش کے ساتھ کہ اللہ آپ کو زیادہ دے دے تو اللہ زیادہ تو دے گا مگر آپ اس سے زیادہ لے سکتے تھے.اس سے بہت زیادہ لے سکتے تھے اگر یہ کہتے کہ ہم خدا کی خاطر دے رہے ہیں اور اللہ راضی ہو بس ہمارے لئے بہت ہے، اس کی نظر ہم پر پڑ جائے.اللہ کی نظر تو ضرور پڑے گی اور بہت زیادہ فضلوں کے ساتھ پڑے گی آپ کا مال یہاں بھی بڑھایا جائے گا ، وہاں بھی بڑھایا جائے گا اور پھر ایک پوٹلی اپنے پاس رکھ لے گا اللہ.یہ عِنْدَرَ بهِمُ کے مضمون سے تعلق رکھتی ہے.یہ ہمارے پاس امانت پڑی ہوئی ہے.تو اللہ اس مالی قربانی کی روح کو جماعت کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی توفیق بخشے اور جو لوگ بھی کسی پہلو سے محروم ہیں وہ یاد رکھیں کہ اپنے نفس کے فائدے سے محروم ہیں.اس کے سوا اور کوئی حرکت نہیں کر رہے.اللہ ہمارے دل بڑھائے ، ہمارے ایسے دل بڑھائے جو خدا کی رضا کی خاطر ہمیشہ پہلے سے زیادہ وسیع تر ہوتے چلے جائیں اسی میں جماعت کی آئندہ آنے والی صدیوں کی زندگی ہے.
598 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 599 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995 ء رَزَقْتُهُمْ سے مراد انسان کو دی گئی تمام صلاحیتیں ہیں ، سات سو گنا سے زیادہ دینے والے خدا پر توکل کریں ( خطبه جمعه فرموده 18 /اگست 1995 ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.اِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللهِ وَاَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمُ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُوْرَ (فاطر: 30) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس سے وہ خرچ کرتے ہیں.رَزَقْنُهُمْ ہر قسم کی وہ نعمتیں یا حوائج ضرور یہ جو کچھ بھی ہم ان کو عطا کرتے ہیں اس میں صلاحیتیں بھی شامل ہیں.آنکھیں، ناک، کان، قوت شامہ ، قوت فکریہ ہر قسم کی صلاحیتیں جن سے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ لفظ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ کے تابع ہیں کہ جو کچھ ہم نے عطا کیا ہے اس میں سے ہر اس چیز میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.سراقَ عَلَانِيَةً چھپ کے بھی اور ظاہر طور پر بھی.يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُوْر ایک ایسی تجارت چاہتے ہوئے جو بھی ہلاک نہیں ہوگی.ایسی تجارت جو لا متناہی ہے، جس کا فیض ہمیشہ جاری رہے گا.بہت سی دنیا کی تجارتیں پنپتی ہیں، نشو و نما پاتی ہیں پھر ایک شخص کی زندگی میں نہیں تو اس کی اولادوں کی زندگی میں ہی تباہ و برباد ہو جاتی ہیں.کسی کو بھید نہیں ملتا کہ کیا ہوا لیکن یہ ایسی تجارت ہے جس کے متعلق اللہ فرماتا ہے وہ نہ ہلاک ہونے والی، نہ ضائع ہونے والی،
خطبات طاہر جلد 14 600 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء کبھی نہ ختم ہونے والی تجارت ہے یہ وہ چاہتے ہیں.اس مضمون میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا انفاق فی سبیل اللہ کے مضمون کو بعض دوسری نیکیوں کے ساتھ باندھا گیا ہے ورنہ محض انفاق اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں.بسا اوقات جو لوگ کہتے ہیں کہ جو روپیہ خرچ کرتے ہیں ان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے جو نہیں خرچ کر سکتے ان کو اہمیت نہیں دی جاتی.یہ سب نفس کے بہانے ہیں.عملاً جماعت کے نظام میں ہرگز امیر اور غریب میں قطعاً فرق نہیں ہے.تقویٰ کا فرق ہے.اگر کوئی غریب متقی ہو وہ ایک دھیلا بھی خدا کی راہ میں دے تو اس کی عزت کی جاتی ہے اور امیر اگر دے تو اس احساس کمتری کے نتیجے میں اس کی کوشش کورد بھی نہیں کیا جاتا.یہ خیال کہ امیر کو اہمیت نہ دی جائے یہ بھی جاہلانہ خیال ہے جو احساس کمتری کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.اگر برابر کی آنکھ ہے تو خدا کی راہ میں خدمت کرنے والوں کو ایک ہی طرح دیکھے گی خواہ امیر ہو خواہ غریب ہو، یہ فرق آتا ہی نہیں ذہن میں.یہ وہ دیوار ہے ہی نہیں جو کہیں حائل ہوتی ہو.اس لئے جن لوگوں کو اس مضمون کا علم نہیں، اس کا شعور نہیں رکھتے وہ اپنی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ہیں.سمجھتے ہیں یہاں یہ بات ہو گئی وہاں وہ بات ہو گئی.حالانکہ اللہ کی خاطر خرچ کرنے والے اور اللہ کی خاطر خر چوں کو قبول کرنے والے لوگوں نے بیچ میں یہ عارضی جور کا وٹیں لگائی ہوئی ہیں ان سے بالکل مبرا ہیں، اس قسم کی کوئی روک ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتی.ہر انسان بحیثیت انسان دکھائی دیتا ہے اور اکرم وہی ہے جو اقتی ہو.جو حقیقۂ خدا سے ڈرنے والا اور پیار کرنے والا ہواس کو جو خدا تعالیٰ نے عزت بخشی ہے کوئی انسان اس عزت کو چھین نہیں سکتا خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہو.مگر اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والوں کی کچھ صفات بیان فرماتا ہے کہ وہ خرچ کرنے والے جو میری خاطر خرچ کرتے ہیں یا ایسا خرچ کرتے ہیں جن کے متعلق میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ وہ کبھی ختم نہیں ہوگا ان کی صفات یہ ہیں اِنَّ الَّذِینَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللهِ کہ اللہ کی کتاب پڑھنے والے لوگ ہیں.قرآن کریم تلاوت کرتے ہیں، اس پر غور کرتے ہیں.وَأَقَامُوا الصَّلوةَ اور نماز کو قائم کرتے ہیں وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ پھر ان دو باتوں کے بعد خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.اس لئے ان کا وہ جو خرچ ہے وہ خدا کے نزدیک قبولیت پا جاتا ہے اور ان لوگوں کا خرچ کبھی ختم نہیں ہو سکتا.مالی قربانی اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتی ہے لیکن وہ لوگ جو بنیادی دینی فرائض سے
خطبات طاہر جلد 14 601 خطبہ جمعہ 18 /اگست 1995ء غافل رہتے ہوئے مالی قربانی کرتے ہیں ان کو بھی رد تو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسا اوقات ایک ٹانگ والے انسان بھی ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو رد کیا جاتا ہے جو مالی قربانی نہیں کر سکتے ، پیچھے رہتے ہیں لیکن عبادتوں میں ٹھیک ہیں جماعت کا سبھی حصہ ہیں.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو صف اول کے لوگ ہیں وہ دونوں ٹانگوں سے درست ہوتے ہیں اور ان کی رفتار باقیوں کے مقابل پر بہت تیز ہوتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جو مالی قربانی کرنے والوں کی تعریف بیان فرمائی ہے اس کی بنیاد ہی اس بات سے اٹھائی ہے کہ تلاوت کرنے والے لوگ ہیں، نمازیں قائم کرنے والے لوگ ہیں اور اس کے نتیجے میں ان میں قربانی کا ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہاں بھی جیسے پہلے میں نے بیان کیا تھا یسرا کو پہلے رکھا ہے.سِرًّا وَعَلَانِيَةً ، علانية و سراً نہیں فرمایا.یہ جو خرچ کرتے ہیں پہلا رجحان ان کا چھپ کے خرچ کرنے کا ہے.سوائے خدا کے کوئی آنکھ نہ دیکھ رہی ہو اور یہ خرچ کرتے ہوں اور جس کے خرچ میں یہ روح ہو اس کو کوئی شخص کسی پہلو سے بھی متہم نہیں کر سکتا.اس پر یہ الزام لگا ہی نہیں سکتا کہ اس میں ریا کاری ہے کیونکہ ایک ہی آنکھ ہے جو اندھیروں میں بھی دیکھتی ہے، پردوں کے پیچھے بھی دیکھتی ہے وہ اللہ کی آنکھ ہے.پس یہ لوگ جب چھپ کے خرچ کرتے ہیں تو لازماً رضا باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کرتے ہیں اور چھپ کے خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے وجود کی ، اپنی انا کی کلیہ نفی کر دی ہے کیونکہ جو شخص انا کی کلیہ نفی کرتا ہے وہ بالکل پاگل ہوتا ہے.اللہ کے بزرگ بندے خصوصاً انبیاء جو بزرگی میں سب سے بالا ہوتے ہیں وہ اپنی قربانی کی سب سے زیادہ قیمت وصول کرنے والے ہیں کیونکہ ان کی ہر چیز تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ کے لئے وقف ہو جاتی ہے.معمولی سے معمولی زندگی کا اتفاق بھی عبادت بن جاتا ہے اور چونکہ محض اللہ کی خاطر کرتے ہیں اس لئے وہ سب سے زیادہ سے زیادہ اپنی دولت کا اپنی نعمتوں کا پھل پاتے ہیں.نقصان والا وہ ہے جو اس راہ سے ہٹ کر دوسری جگہ خرچ کرتا ہے.بہت سے لوگ ہیں جن کے خرچ ملے جلے ہیں.کچھ نقصان کے سودے ہو گئے کچھ فائدے کے بھی ہیں زندگی کا گزارہ چلتا رہتا ہے لیکن انبیاءوہ ہیں جو اپناسب کچھ تمام تر پھر خدا کی راہ میں لٹا دیتے ہیں اس لئے یہ انا کو برباد نہیں کرتے بلکہ اپنے وجود، اپنے احساس وجود کو جیسا فائدہ یہ پہنچاتے ہیں دنیا میں کوئی نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اگر کسی کا احساس وجود خدا کے احساس وجود سے ہم آہنگ ہو جائے ، اس میں شامل ہو جائے تو پھر وہ مضمون پیدا ہوتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 14 602 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995 ء صرف وہی ہے اور کچھ بھی نہیں.یہ جو صوفیاء کا مضمون ہے انہوں نے غلط سمجھا ہے اس لئے کچھ اور باتیں بنادیں انا الحق جس سے نعرہ پیدا ہوا ہے، اس کا اصل یہ تھا کہ اپنے وجود کو کلیہ اللہ کے لئے ہم آہنگ کر دو یہاں تک کہ تمہاری کوئی الگ آواز باقی نہ رہے.ہر تمہاری تمنا اللہ کی تمنا کے ساتھ چلے.اللہ کی رضا کی ہواؤں کے رخ پر تمہاری زندگی کی ہر آرزو جاری ہو جائے.یہ ہے وہ فنا جس کے بعد انا الحق کا نعرہ برحق ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں رہا، میرا تو سب کچھ اللہ کے لئے ہو گیا ہے تبھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : 163) مجھے دیکھو میرا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہا.میرا مرنا جینا، میرا اٹھنا سونا، میری عبادتیں، ہر چیز ہر قربانی کلیہ اللہ کے لئے ہوگئی ہے.تو یہ وہ انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کا نقشہ قرآن کریم کھینچتے ہوئے فرماتا ہے یہ ضائع نہیں کر رہے اپنی چیزوں کو.جو اندھیروں میں خرچ کرتے ہیں اور کھل کر بھی خرچ کرتے ہیں یہ کہیں پھینکتے نہیں دراصل يَرْجُونَ تِجَارَةً - يَرْجُونَ سے پتا چلتا ہے کہ ان کی نیتوں میں للہ قربانی کا مضمون ہمیشہ داخل رہتا ہے.بعض لوگ اپنی فطرت کی مجبوری سے نیک کام کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس کام کے لئے کیا ہے کہ لوگوں کے لئے بھلائی کا موجب بنیں لیکن با شعور طور پر بالا رادہ خدا کی خاطر یہ نہیں کرتے.اس لئے جہاں کوئی طبعی روک پیدا ہو جائے وہاں رک جائیں گے.جہاں روک نہ پیدا ہو وہاں فطرت کے مطابق خرچ کریں گے.مگر جو اللہ کی خاطر کرتے ہیں وہ روکیں عبور کر کے بھی کرتے ہیں.ایسے وقت میں بھی کرتے ہیں کہ جب ان پر خود ایسی تنگی کا زمانہ ہو کہ گویا رزق سے محبت ہو جائے پھر بھی اللہ کی خاطر خرچ کرتے ہیں.تو اس لئے يَرْجُونَ تِجَارَةً سے ان کا ادنیٰ ہونا ثابت نہیں، ان کا اعلیٰ ہونا ثابت ہوتا ہے.کوئی عام آدمی جوان مضامین کو نہیں سمجھتا وہ یہ سمجھے گا کہ خود غرض ہی لوگ ہوئے نایرجُونَ تِجَارَةً وہ ایک تجارت کی خاطر کر رہے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوگی.حالانکہ کوئی انسان جو اپنے فائدے کی خاطر کام نہیں کرتا وہ قربانی کرنے والا نہیں وہ پر لے درجے کا احمق ہے.صرف فیصلہ یہ ہے کہ تھوڑا دے کر زیادہ حاصل کرتا ہے یا زیادہ دے کر تھوڑا حاصل کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 603 خطبہ جمعہ 18 /اگست 1995ء دنیا میں خرچ کرنے والے اور نفس پر سب کچھ فدا کرنے والے بہت دیتے ہیں اور حاصل کچھ بھی نہیں کرتے.متاع دنیا ہی ہے نا جو چند دنوں میں ختم ہو جاتی ہے اور جو اللہ کی خاطر خرچ کرتے ہیں وہ ایک پیسہ بھی دیں تو اتنا زیادہ حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کا فیض ان کے لئے لا متناہی فیض بن جاتا ہے.فیض جو خدا کی خاطر دوسروں کے لئے جاری ہو ان معنوں میں فیض ہے اور جو خدا کی طرف سے ان کے لئے جاری ہوتا ہے وہی فیض ہے جو ان کے فیض نے کمایا ہے.پس یہ وہ تجارت ہے جس کے متعلق فرمایا تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ لیکن اتفاقی نہیں ہے بالا رادہ ہے اور بالا رادہ ہونے کے نتیجے میں ہی اس کو بہت زیادہ فوائد پہنچتے ہیں.اگر بے ارادہ نیکی ہے تو پھول بھی تو خوشبو دیتا ہے، پھول بھی تو رنگت بکھیرتا ہے.مگر پھول کو اس کا کوئی ثواب نہیں.پانی اگر آگ بجھاتا ہے تو قانون قدرت کے طور پر کرتا ہے.اس میں پانی کے لئے ثواب کا موجب تو کوئی چیز نہیں مگر انسان جب آگ لگا بھی سکتا ہے بجھا بھی سکتا ہے، ارادے کے ساتھ لگاتا نہیں بلکہ بجھاتا ہے اور وہاں لگاتا ہے جہاں خدا چاہتا ہے کہ لگائی جائے تو اس کا ہر فعل خواہ آگ بجھانے کا ہو یا آگ لگانے کا ہو وہ نیکی بن جاتا ہے اس تجارت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو اس کو کوئی گھانا نہیں جو کبھی فنا نہیں ہوگی.دوسری جگہ الرعد آیت ۲۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً اس میں وَأَقَامُوا الصلوة کے ذکر سے پہلے يَتْلُونَ کتب کے ذکر کی بجائے ایک اور مضمون بیان ہوا ہے.اس لئے بظا ہر ملتی جلتی آیات ہیں مگر ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ فرق ایسا رکھ دیا ہے کہ مضمون میں ایک نئی وسعت پیدا ہوئی ہے، ایک نیا رنگ بھرا گیا ہے.وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ جو اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے، رضا کی طلب میں صبر اختیار کرتے ہیں وَأَقَامُوا الصَّلوةَ اور پھر نماز کو قائم کرتے ہیں وَ أَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں سر او عَلَانِيَةً چھپ کر بھی اور کھلم کھلا بھی.اب دیکھیں یہاں بھی سرا کو پہلے رکھا گیا ہے.یہ قطعی ثبوت ہے اس بات کا کہ ان کی نیتوں میں کوئی فتور نہیں ورنہ آنکھیں بند کر کے اندھیرے میں پیسہ پھینکنے والا تو جاہل ہوا کرتا ہے سوائے اس کے کہ نیت اعلیٰ ہو اور یہ یقین ہو کہ خدا دیکھ رہا ہے.فرمایا أُولَكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے.عُقبی ان
خطبات طاہر جلد 14 604 خطبہ جمعہ 18 /اگست 1995ء کے لئے ایک دار کے طور پر ہوگی.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا ترجمہ کیا ہے انہی کے لئے اس گھر کا انجام ہے عقبی انجام کو کہتے ہیں الدَّارِ وہ گھر یعنی قیامت کا گھر.قیامت کے بعد ملنے والا گھر.مگر جس طرح بھی اس کا ترجمہ کریں بات وہی ہے کہ ان کو انجام کار، نتیجہ وہ گھر عطا ہوگا جو دائمی ہے.اس میں تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ تو نہیں فرمایا گیا.لیکن الدَّارِ کہہ کر جنت کی نعماء جو ہمیشہ کے لئے رہنے والی ہیں ان کے دوام کی طرف اشارہ فرما دیا.پس فرق جو ہے نتیجے میں وہ آیت کے آغاز کے فرق کے طور پر وہ خود بخود پیدا ہوتا ہے.صَبَرُوا ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں غریب، جو دنیا میں نہ گھر رکھتے ہیں نہ دنیا کی عارضی نعمتیں ، نہ اچھے لباس، نہ اچھا اوڑھنا بچھونا ان کو میسر ہوتا ہے اور اس کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کے رزق پر چوری ہاتھ نہیں ڈالتے.صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ کا مطلب یہ ہے کہ محروم ہیں بعض نعمتوں سے، گھروں سے محروم ہیں، اچھے کپڑوں سے محروم ہیں، اچھے کھانے سے محروم ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نا جائز ذرائع سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتے ہوئے اپنے دل کی یہ تمنائیں پوری نہیں کرتے.صَبَرُوا ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمُ الله کی رضا کو چاہتے ہوئے صبر کر جاتے ہیں کہ اللہ راضی رہے.کوئی حرج نہیں یہ چیزیں نہ ملیں.اس لئے طبعا ان کی جزا الدَّارِ ہونی چاہئے تھی.الدَّارِ سے مراد ایسا گھر جو ہر قسم کی نعمتوں سے بھرا ہوا ہے.اس میں کسی چیز کی بھی کمی نہیں.جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کی خواہش ان کے لئے وہ چیز میں اس طرح پوری کرے گی جیسے کوئی خواہش اور ماحصل میں فاصلہ ہی کوئی نہیں.ادھر تمنا کی ادھر وہ چیز حاضر ہوگئی.اور ان کے قیام صلوۃ کا صبر کے ساتھ وہ تعلق ہے جو تلاوت کا بھی قیام صلوۃ سے ایک تعلق ہے.صبر اور صلوٰۃ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اکٹھا باندھا ہوا ہے.وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ والصلوۃ (البقرہ:45) تو محض صبر کر کے نہیں بیٹھ رہتے بلکہ صلوۃ کے ذریعے وہ اپنی کمی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور جہاں تک اللہ کی خاطر خرچ کرنے کا تعلق ہے اس حالت کے باوجود، اس غربت کے باوجو در کتے نہیں ہیں، نہ دار ہے یعنی نہ وہ پر سکون گھر ہے جس کے ساتھ نعمتیں میسر ہوں.گھر کے تعلق میں جو بھی جنت ہے دنیا میں اس سے محروم ہیں، ناجائز طور پر حاصل نہیں کرتے اور پھر جو کچھ ہے وہ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.ان کی ایک اور
خطبات طاہر جلد 14 605 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995 ء صفت یہ بیان فرمائی ہے وَيَدْرَءُونَ لحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وہ برائی کے بدلے نیکی داخل کرنا چاہتے ہیں یا نیکی کے ذریعے برائیاں دور کرتے رہتے ہیں.اس مضمون کا تعلق ان کی ذات سے بھی ہے اور گر دو پیش سے بھی ہے.جو انفاق کی کمی ہے جو استطاعت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس کی بجائے ایک اور خیر جاری کر دیتے ہیں.وہ بدیوں کو دور کرتے کرتے ، نیکیاں جاری کرتے کرتے اس کی تمنا کو کسی نہ کسی طرح تسکین دے لیتے ہیں کہ خدا کی راہ میں ہم کچھ کریں.چنانچہ آنحضرت نے اسی مضمون کو بیان فرماتے ہوئے واضح فرمایا کہ اگر خرچ کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہے تو کلمہ خیر تو کہ دیا کرو.تو یہ جو ہے برائیوں کو دور کرنا اور حسنات کے ذریعے برائیوں کو ہٹادینا یہ ان کے اس کمی کے احساس کے نتیجے میں طبعاً پیدا ہوتا ہے.جتنے خدا کے نیک بندے ہیں اگر وہ خرچ نہیں کر سکتے دل چاہتا ہے تو اس کمی کو وہ خدمت بڑھا کر پورا کرتے ہیں.ہر خدمت کے موقع پر آگے آگے رہتے ہیں اور ہر وقت کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ہم اللہ کی رضا کمالیں.ان کے متعلق فرمایا لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ـ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ان لوگوں کو دنیا میں بھی ملے اور صبر کا تعلق بھی اس مضمون سے دہرا ہے.بسا اوقات ایک انسان خدا کی خاطر ، اس کی رضا کی خاطر، ہر نعمت سے محروم رہتے ہوئے پھر بھی ایک تسکین کی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے لیکن صبر کے نتیجے میں.اگر صبر نہ ہوتو پھر اس کو نہ تسکین نصیب ہوسکتی ہے نہ اس کی نیکی کی کوئی ضمانت ہے.اگر ایسا شخص جو اللہ کی رضا نہ جانتا ہو، اللہ کی رضا کا واقف ہی نہ ہو ان حالات میں گزارہ کرے جو قرآن کریم مومنوں کے بیان فرمارہا ہے تو پھر اس میں صبر کی طاقت نہیں ہوسکتی تھی اور صبر کی طاقت نہیں ہوگی تو ہمیشہ غریب آدمی سے سوسائٹی کو زیادہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.اس کی طلب کا معیار جو ہے وہ ادنی چیزوں سے شروع ہو کر اعلیٰ تک پہنچتا ہے.ایک امیر آدمی بعض دفعہ ایک معمولی چیز کو دیکھتا ہے اس کے دل میں چوری کا تصور بھی پیدا نہیں ہوتا.کسی کا ایک رومال گرا ہوا ہے، ایک پن گرا ہوا ہے، کوئی چھوٹی موٹی چیز رہ گئی ہے اور اگر واقعہ امیر آدمی ہو تو کیمرہ ، ویڈیو اس قسم کی چیزیں وہ ٹھو کر بھی مارے تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے اس کے وہم میں بھی نہیں آئے گا کہ میں اس کو چرالوں.مگر ایک غریب بعض دفعہ ایسی ایسی چیزیں بھی چرا لیتا ہے جس کے متعلق آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اس بے وقوف کو کیوں نہیں خیال آیا کہ یہ ظلم نہ کروں.
خطبات طاہر جلد 14 606 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء ربوہ میں جو میرا فارم تھا وہاں بعض ایسے درخت میں نے لگائے جو ڈنڈے کاٹ کے تو پیوست کئے جاتے ہیں وہ براہ راست جڑ پکڑ جاتے ہیں اور پھر اس سے درخت بنتا ہے.اب معمولی ڈنڈے تھے.وہ ایک دن ہم سارے محنت کر کے لگا کے گئے.دوسرے دن دیکھا تو کوئی اٹھا کے سارے ڈنڈے نکال کر لے گیا.اب وہ غریب آدمی بے چارے ان کے لئے ایندھن کا کام دے گئے.لوگوں کے سائے کی بجائے ان کے جلنے کے کام آگئے.مگر غربت کی مجبوریاں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو ساتھ باندھ دیا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے او پر طبعی تقاضے ہیں کہ وہ بعض خوبیاں چھوڑ کر برائیوں میں منتقل ہو جائیں.وہ اس کا برعکس رخ رکھتے ہیں.وہ برائیاں دور کرتے رہتے ہیں اور حسن پیدا کرتے رہتے ہیں.اس لئے ان کی غربت ان کو حسین تر بنا دیتی ہے.بجائے اس کے کہ ان کے اندر عیوب پیدا کر دے اور یہی فیض ہے جو سوسائٹی میں بھی پھر جاری کرتے ہیں.غریب ہوتے ہوئے کلمہ خیر کہتے ہیں ، لوگوں کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور بسا اوقات ایسے لوگوں کی نصیحتیں جو اپنی ذات میں کوئی بھی دلی خواہش نہ رکھتے ہوں نسبتاً امیر اور متمول لوگوں کے بہت زیادہ گہرا اثر کرتی ہیں.کئی ایسے درویش صفت آپ نے انسان دیکھے ہوں گے چلتے پھرتے لوگوں کی بھلائی میں باتیں کرتے رہتے ہیں.تو ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نیکی ، ہر انفاق کی جز الا ز ما دنیا میں نہیں ملا کرتی.بعض لوگ صبر سے آزمائے جاتے ہیں اور صبر کی صفت کا پہلے ذکر فرما دیا، بتانے کے لئے کہ ان کا لمبا صبر ہے.یہ عمر بھر صبر کریں گے اور صبر پر ثابت قدم رہیں گے.ان کی جزا الدَّارِ ہے.تمام تمنائیں، تمام امنگیں جو تھیں یا جن تک پہنچ بھی نہیں تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ ان کے مرنے کے بعد پوری فرما دے گا اور ہمیشہ کے لئے ان کو تسکین کی اور امن کی زندگی عطا فرمائے گا.اب یہ فائدے ہیں.آپ دیکھیں دنیا میں جماعت احمدیہ کے سوا کوئی ہے جماعت جس کا اس مضمون سے تعلق ہو.کسی کا بھی تعلق نہیں.لوگوں کا لوگوں کے پیسے چھیننے سے تعلق ہے.تمام سیاسی نظام، تمام اقتصادی نظام، تمام معاشرے اس وقت ان سوچوں پر جاری ہیں کہ کس طرح دوسروں کے پیسے ہتھیائے جائیں.عدالتیں بھی اسی غرض سے قائم ہیں.پولیس بھی اسی غرض سے بنائی گئی ہے.فوجیں بھی آخر یہی کام کرتی ہیں، پیسے ہتھیانا لوگوں کے.لوگوں کے لئے خرچ کرنا، اپنے حقوق چھوڑنا اور غیروں پر جو خرچ کرنا جبکہ آپ بھی نہ ہو.بہت تنگی ترشی میں
خطبات طاہر جلد 14 607 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء گزارہ کر رہا ہو انسان، اللہ کی رضا کا خیال نہ آئے تو صبر بھی نہ ہو پھر بھی حال یہ ہے کہ يُنْفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ (البقرہ: 263) اپنے اموال وہ نیکی کے کاموں پر خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.پھر سورہ السبا میں آیت چالیس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ( البا: 40) تو بتا دے لوگوں کو کہ میرا رب رزق کشادہ بھی کرتا ہے جس کے لئے چاہے مِنْ عِبَادِہ اپنے بندوں میں سے وَيَقْدِرُ لَهُ اور کسی بندے کے لئے وہ رزق کم بھی کر دیتا ہے.اس لئے اللہ کے تعلق میں صبر کی بھی ضرورت پیش آتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی تھے، بہت امیر اور لمبے عرصہ سے نسلاً بعد نسل اچھا کمانے والے، تاجر خاندان کے فرد تھے ان کے کام بگڑنے شروع ہوئے.جو کچھ تجارت کے مال تھے وہ ضائع ہونے لگے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بڑے عاجزانہ دعا کے لئے لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی تو یہ الہام ہوا: قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے (در مشین: 186) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سمجھ گئے کہ قادر کرتا ہے اکثر یہی کرتا ہے مگر جب یہ چاہے کہ بنا بنایا تو ڑ دے تو کسی کو بھید نہیں ملتا، کیوں ایسا واقعہ ہو گیا، ہو کے رہتا ہے.وہ بھی اس بات پر صبر کر گئے اور سمجھ گئے کہ میرے لئے یہی مقدر ہے.چنانچہ وہ صدمے جو کسی اور تاجر کے لئے جان لیوا ہو سکتے تھے ان کے لئے مزید تسکین کا موجب بن گئے.وہ انتظار کر رہے تھے کہ اب میں جو چاہوں کروں میرا کام اب بگڑ نا ہی بگڑنا ہے اور میرے اللہ نے مجھے بتا دیا ہے اور اللہ کی خاطر ایسا ہی ہونا چاہئے.تو وہ جو ان کی تجارت کی بربادی جو بعد میں رونما ہوئی وہ اس پر بہت راضی رہے اور اس وجہ سے وہ بہت مرتبہ پاگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بڑے پیار سے ذکر فرمایا ہے.یہی مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ جس کے لئے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے رزق بڑھا دیتا ہے اور مین کی طرف پھر ضمیر پھر رہی ہے وَيَقْدِرُ لَہ اور من میں سے ایک ایسا شخص بھی ہوتا ہے اس کے بندوں میں جس کے لئے وہ رزق تنگ کر دیتا ہے.وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُہ اور جو کچھ تم خرچ
خطبات طاہر جلد 14 608 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995 ء کرو گے یا درکھو کہ اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ ضرور نکالے گا.اب یہاں جزا دینے کا مضمون نہیں ہے.جس قسم کا آیت کا آغاز ہے اسی سے تعلق رکھنے والا مضمون اس دوسرے حصے میں بیان ہوا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ میری راہ میں خرچ کرنے والوں کو کہہ دو کہ تمہارا رزق تو میں ضرور بڑھاؤں گا فرمایا ہے وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ کام تم کرتے ہو نتیجہ وہ نکالتا ہے.بسا اوقات تمہارا کام نقصان چاہتا ہے جس قسم کے تم کام کر رہے ہو اس کا طبعی نتیجہ نقصان نکلنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا جاری قانون جو ہے وہ اپنا عمل دکھاتا ہے اور اس سے تم پھر بچ نہیں سکتے.اس لئے دنیا کی تجارتوں میں ہوش ضروری ہے اور جہاں ہوش میں کمی آئی وہاں بعض دفعہ بنے بنائے کام اس لئے بگڑتے ہیں کہ يُخْلِفُہ کا مضمون چل پڑتا ہے.جیسا تم نے کام کیا اللہ ویساہی نتیجہ نکالے گا.یہ فی سبیل اللہ خرچ کی بات نہیں ہو رہی.چنانچہ یہاں انفقتم بغیر سبیل اللہ کے ہے لیکن فی سبیل اللہ خرچ بھی اس میں شامل ہے آخر بعض لوگ فی سبیل اللہ کرتے ہیں اس میں يُخْلِفُہ کا مضمون وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کو ایسی تجارت مل جائے گی جو لَّن تَبُورَ کبھی وہ گھاٹے میں نہیں پڑے گی.ان کو ایسا دارنصیب ہو جائے جو ہمیشگی کا دار ہے اور ہر نعمت سے بھرا ہوا ہے.تو ہر آیت کے مضمون میں ایک جیسے لفظ کو دیکھ کر خود بخود یہ خیال نہ کر لیا کریں کہ وہی بات ہو رہی ہے.ہر آیت کا ماحول الگ الگ ہے.ایک ہی مضمون بظاہر بیان ہو رہا ہے مگر تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ پورے مضمون کا منظر بدل گیا ہے اور اس نئے منظر میں ڈوب کر اس آیت کے مضمون کو سمجھنا ضروری ہے.اور جہاں تک اس کے نتیجے میں نقصان کا تعلق ہے ایک گر بتا دیا آخر پر وَهُوَ خَيْرُ الرزقين که رزق دینے والوں میں سب سے اچھا وہی ہے اس لئے ایسی صورت میں اسی طرف جھکا کرو.جب تمہاری چالاکیاں کام نہ آئیں تمہاری کوششیں ناکام، نامراد ثابت ہوں.جب ہر ذریعہ تجارت کو فروغ دینے کا تجارت کے نقصان کا موجب بن رہا ہو تو یہ یاد رکھنا وَهُوَ خَيْرُ الرُّزِقِينَ وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے.اس سے تعلق جوڑو، اس کے حضور گریہ وزاری کرو تو بسا اوقات وہ ان حالات کو بدل دیتا ہے اور یہاں يُخْلِفُہ کا مضمون نہیں بلکہ تقدیر الہی کا مضمون ہے یعنی دعا کی غالب تقدیر کا مضمون ہے.اب میں چند حدیثیں اس مضمون کے تعلق میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ
خطبات طاہر جلد 14 609 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء سے روایت ہے ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اللہ ان سے راضی ہو یا راضی ہوا، بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں.ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے سٹی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کے مال و متاع برباد کر.( بخاری کتاب الزکاۃ ) یہ جو مضمون ہے کہ عرش معلی پر انسانی نظام کو یا خدا تعالیٰ کی کائنات کے نظام کو چلانے والے جو وجود ہیں وہ فرشتے کہلاتے ہیں.تو دو فرشتے اترتے ہیں سے یہ مراد نہیں کہ انسانوں کی طرح کوئی دو شخص اتر رہے ہیں.آنحضرت ﷺ کی احادیث پر غور کرنے سے جو فرشتوں کا مضمون سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح وقت کی مناسبت سے پہرے ہوتے ہیں ، وقت کی مناسبت سے ڈیوٹیاں بدلا کرتی ہیں ہر وقت کے لئے اس وقت کے نظام کو چلانے کے اللہ تعالیٰ کے خاص مامورفرشتے ہیں ، جو اس نام کے لئے نور بنائے گئے ہیں اور صبح کا نظام ہے اندھیروں سے روشنی میں انسان داخل ہو رہا ہے، کئی قسم کی نئی امنگیں پیدا ہو رہی ہیں، کئی قسم کے امکانات دوبارہ ابھر رہے ہیں، کئی قسم کے امتحانات نئے در پیش ہیں ان موقعوں کے لئے اس مضمون سے تعلق والے فرشتے ہوتے ہیں.تو دو فرشتوں سے مراد یہ ہے کہ اس مضمون میں دو قسم کے فرشتے ہیں جو خاص طور پر حرکت میں آ جاتے ہیں ان کا عمل شروع ہو جاتا ہے.ایک وہ ہیں جو خدا کی خاطر خرچ کرنے والوں کے دلوں کو تقویت دیتے ہیں اور ان کے اموال میں برکت کا موجب بنتے ہیں اور دوسرے عمل جو فرشتوں کے طبعا جاری ہیں اس کے علاوہ دعا بھی کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے.ایسے فرشتوں کے ذکر میں فرماتا ہے.وہ کہتے ہیں اے اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.تو بد دعا جو ہے دراصل اس عمل کرنے والے کے عمل کا ایک طبعی نتیجہ ہے.اس طبعی نتیجے کوحرکت دینے اس کو مزید آگے بڑھانے میں یہ دعا اصل میں منظر کشی کر رہی ہے قانون قدرت کی کہ فرشتے اس کے خلاف ہو جاتے ہیں.فرشتے جو محنتوں کے پھل بناتے ہیں یا محنتوں میں نقص کے نتیجے میں پھلوں کو ضائع کر دینے کے قانون پر راج کر رہے ہیں ان کے اختیار میں وہ قوانین ہیں.ان کی دعا کا مطلب یہی ہے کہ ان کا عمل پھر ان کے خلاف شروع ہو جاتا ہے.کئی دفعہ ایک انسان کہتا ہے کہ ہم نے تو بہت سے کنجوس ایسے دیکھے ہیں جن کے اموال میں بڑی برکت پڑی وہ بڑھتے رہے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن امر واقعہ یہ
خطبات طاہر جلد 14 610 خطبہ جمعہ 18 راگست 1995ء ہے کہ ایسے لوگوں کا مال آپ کو دکھائی نہ بھی دے تو ہلاک ہو چکا ہوتا ہے.کئی دفعہ لوگ یہ سوچتے ہی نہیں کہ بعض ایسے امیر ہیں جن کے مال تجوریوں میں ہیں یا بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسے کنجوس ہیں کہ وہ اپنے اموال سے آپ کبھی فائدہ اٹھا ہی نہیں سکے.اب بتائیں ان میں اور غریب میں فرق کیا ہے.ان کا مال ان کے لئے ہلاک ہو ہی گیا ہے.ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں.یوں ہی آپ کو وہم ہے کہ ان کے ہاتھ میں خزانے ہیں ، خزانے نہیں خزانوں کی چابیاں ہیں اور ایسے ہاتھوں میں ہیں کہ وہ اپنے خزانوں سے پیسے نکال ہی نہیں سکتے تو چوکیدار ہو گئے اور ہر وقت کا غم کہ مال ہلاک نہ ہو جائے.یہ دراصل ہلاکت کی بددعا کا نتیجہ ہے.ایسے لوگوں کو جو مال تالوں میں بھی بند پڑا ہے اس کے تحفظ کا بھی کبھی یقین نہیں ہوتا.ہر وقت ایک غم میں گھلتے چلے جاتے ہیں.میں نے ایک دفعہ پاکستان کے ایک کروڑ پتی تاجر کا واقعہ بیان کیا تھا.ان کے ایک احمدی رشتہ دار تھے جو ایک دفعہ ایک بڑی دعوت میں جو انہوں نے کی تھی جس میں تمام پاکستان کی معزز ہستیاں شامل تھیں اس دعوت میں ان رونقوں کو دیکھ کر اس سے مرعوب ہو کر اس نے اپنے عزیز سے سوال کیا کہ تمہاری تو موجیں ہی موجیں ہیں تمہیں تو سب کچھ حاصل ہو گیا ہے.اچانک اس کی کیفیت بدل گئی.ضبط مشکل ہو گیا.کہتے ہیں اس نے بٹنوں کو کھولا بھی نہیں یوں پھاڑ کے چھاتی کہ یہاں جھانک کر دیکھو کیا ہو رہا ہے.آگ لگی ہوئی ہے.تمہیں وہم ہے کہ تسکین ہے.تو بعض دفعہ آپ دیکھ رہے ہیں بظاہر کہ ان کو کچھ بھی نہیں ہوا لیکن یہ جو فرشتوں کی دعا ہے یہ کام ضرور کرتی ہے.ان کی اولادیں بسا اوقات انہی پیسوں سے برباد ہو جاتی ہیں جو ان کو ورثوں میں ملتے ہیں اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر بھی ان کی تجارتیں اچانک ایک ایسے موڑ پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں رہتی.ہزار قسم کی بلائیں ٹوٹ پڑتی ہیں.تو آپ اپنی آنکھ سے دیکھ کرکسی کے سکون اور اس کے اطمینان کا فیصلہ نہ کیا کریں.قرآن کریم نے جو مضامین بیان فرمائے ہیں بہت گہرے ہیں اور یہی سچے ہیں.امیر آدمی کو کوئی چین نہیں اگر انفاق نہیں کرتا.اتفاق ہی میں سکون ہے.انفاق میں بظا ہر انسان مال ہلاک کر رہا ہے لیکن اس کی اتنی قیمت وصول نہیں کرتا کہ اس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے.قیمت وصول کرنے سے ہر گز یہ مراد نہیں ہے کہ فورا اللہ تعالیٰ ادھر ایک ہاتھ سے کوئی دے اور دوسرے ہاتھ سے
خطبات طاہر جلد 14 611 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء بہت زیادہ اس کو لوٹا دے.ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے مگر ان لوگوں کے لئے یہ تسکین بخش ہے جن کی نیت یہ نہیں ہوتی.نیت ایک نیک کام پر خرچ ہے، اللہ کی رضا کی خاطر خرچ ہے، ایسا خرچ ہے جو تسکین بخشتا ہے وہ دنیا کا کوئی اور خرچ نہیں بخش سکتا.اب بعض دفعہ کسی ایک غریب کو روٹی کھلا کر جو حاجت مند ہو اور آپ کی آزمائش ہو آپ نہ بھی کھلا سکتے ہوں اپنا حق چھوڑ کر اس کو کھلا رہے ہوں ، چھوٹا سا ایک واقعہ گزر جائے آپ کی ساری زندگی کا سرمایہ بن جائے گا.موت کے کنارے پر بھی جب آپ سوچیں گے کہ شاید میرے لئے کوئی چیز نجات کا موجب بن جائے تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ابھر کے آپ کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا کہ اور تو میں کچھ نہیں کر سکا شاید یہی چیز مجھے ہلاکت سے بچالے اور اللہ کے نزدیک میں قابل بخشش ٹھہروں تو نیکیوں کا اجر ضروری نہیں کہ جسمانی طور پر دکھائی دے یا مادی رنگ میں عطا ہو.وہ اجر و ہیں ملنا شروع ہو جاتا ہے جہاں نیکی نے عمل دکھایا ہو اور باقی اجرمٹ جاتے ہیں، کہانیاں بن جاتی ہیں یا ایک ہاتھ سے آئے دوسرے ہاتھ سے نکل گئے.لیکن نیکیوں کے اجر مستقل، نہ مٹنے والی تجارت بن کر ساتھ رہتے ہیں.ایک یہ بھی معنی ہے لَّنْ تَبُورَ نیکیوں کے مزے، ان کی لذتیں، ان کی تسکینیں وہ جو طمانیت بخش جاتی ہیں وہ نہ ختم ہونے والی ہیں اور جن کو اس کی عادت ہو، جن کی ساری زندگی اس میں کئی ہو، ان کی تو موجیں ہی موجیں ہیں.دشمن سمجھتا ہے کہ بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں اللہ کے انبیاء اتنے پیارے دیکھو کتنے دکھ دیئے جارہے ہیں.مگر جن کے ہاں صبح سے شام تک خیرات بٹتی ہو ان کی تسکین کا کوئی دوسرا تصور بھی نہیں کر سکتا.اس لئے یہ وہ تجارت ہے جس کے متعلق فرشتے دعائیں دیتے ہیں کہ اے اللہ ان کے مال کو بڑھاتا چلا جا، ان کی تسکین کو بڑھاتا چلا جا، وہ غلام عطا کر دے ان کو جو ان جیسے ہی بننے شروع ہو جائیں.پس آنحضرت ﷺ کے حق میں سب سے زیادہ یہ دعا ئیں سنی گئی ہیں فرشتوں کی.دیکھو کیسے کیسے آپ نے خرچ کرنے والے پیدا کئے ہیں اور ایسے خرچ کرنے والے جو رضائے الہی کے سوا کسی اور طرف مال کی خاطر کسی آنکھ سے دیکھتے ہی نہیں تھے ، نظر بھی نہیں کرتے تھے اس طرف.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح: 30) ان کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتا ہے يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانَا ان کو پھر دنیا کمانے کی کوئی غرض نہیں رہتی.دنیا بھی کماتے
خطبات طاہر جلد 14 612 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء ہیں تو اللہ ہی سے کماتے ہیں.فضل بھی اسی سے چاہتے ہیں یعنی اموال، دنیا کے اموال کے لئے رحمت کے مقابل پر فضل کی اصطلاح زیادہ استعمال ہوئی ہے قرآن کریم میں ، يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا اور فضل کماتے ہیں تو رضوان بھی کما جاتے ہیں، ایک یہ بھی معنی ہے.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فضل کی الگ دعا کر رہے ہیں رضوان کی الگ.وہ جن کا مال خدا کی راہ میں خرچ ہوتا ہے ان کا فضل کمانا رضوان کمانا ہی بن جاتا ہے.جتنا بھی خدا ان کو زیادہ دیتا ہے گویا رضوان زیادہ دے رہا ہے کیونکہ ان کے مال کا ہر حصہ اللہ کی رضا کی خاطر خرچ ہورہا ہوتا ہے.تو کنجوس بے چارے کی تو زندگی ہی کوئی نہیں.اس کا ایک اور نقشہ خدا کی راہ میں سخی یا دنیا میں بھی جو سنی ہو اور کنجوس اس کے مقابل پر ہو اس کا بھی آنحضرت ﷺ نے نقشہ کھینچا ہے.میں وہ بتاتا ہوں آپ کو، ابھی آگے وہ آئے گا مضمون جو اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے.سر دست میں آپ کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سناتا ہوں جو بخاری کتاب الزکوۃ سے لی گئی ہے.عرض کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.اگر رشک کرنا ہے تو دو شخصوں پر کرو.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، ان کی تربیت کرتا ہے.وہ جو پہلا مضمون میں نے قرآن کی آیت کے حوالے سے بیان کیا تھا اس کی تصدیق یہ حدیث کر رہی ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کا خرچ نہیں پاتے اپنے پاس خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ، ان کی توجہ پھر دانائی کی باتیں پھیلانا، برائیوں کو دور کر کے نیکیاں پیدا کرنا ان امور کی طرف بٹ جاتی ہے.جس طرح بعض دفعہ لوگ بینائی سے محروم ہوں تو حافظہ تیز ہو جاتا ہے، کچھ نہ کچھ انسان رد عمل ضرور دکھاتا ہے.تو ان لوگوں کا نقشہ آنحضرت مو نے بھی اسی رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ خدا کے بندے دو قسم کے ہیں جن کے پاس کچھ نہ ہو وہ دانائی خرچ کریں گے پھر.جو بھی اللہ نے حکمت عطا کی ہے اس کو راہ خدا میں قربان کرتے پھریں گے.تو یہ دونوں بندے ہیں جن پر رشک کرنا چاہئے.مِمَّارَزَقْنَهُمْ کی تفسیر خود بخود ظاہر ہوگئی اس سے کہ رَزَقْنُهُمْ کے دو پہلو ہیں.ایک دنیاوی فوائد ، نظر آنے والے فوائد ، ایک وہ فوائد جو صلاحیتوں کے طور پر اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 613 خطبہ جمعہ 18 اگست 1995ء ترمذی باب فضل النفقہ سے حضرت خریم بن فاتح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے رستے میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلےسات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے.اب یہاں جو لفظ سات سو ہے اس کی وضاحت کی خاطر میں نے آج آپ کے سامنے یہ حدیث پڑھی ہے.احادیث جمع کرنے کے ادوار میں بعض ادوار ایسے آئے ہیں جن میں اعداد و شمار پر بہت زور ملتا ہے.اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی ساری حدیثیں اس طرح قابل اعتماد نہیں جس طرح اول دور کی حدیثیں ہیں.ان میں لامتناہی اجر کی باتیں ملتی ہیں یا وہ لفظ ملتے ہیں اعداد کو ظاہر کرنے کے لئے جو عربی میں دراصل لا متناہی مضمون کو بیان کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں.سات دفعہ ، ستر دفعہ یہ وہ مضمون ہیں جو عربی زبان میں لامتناہی کے معنے ہی رکھتے ہیں.سورہ فاتحہ بھی ایک لامتناہی کتاب ہے اس لئے اس کی آیتیں بھی سات ہی رکھی گئی ہیں.مگر بعض حدیثیں اعداد و شمار کو اس طرح اہمیت دیتی ہیں کہ جو آنحضرت ﷺ کے مزاج کے خلاف دکھائی دیتا ہے اس لئے یا تو ان کا معنی سمجھنے میں سننے والے نے غلطی کی ہے یا پھر وہ بعد میں وضع کی گئی ہوں گی.مگر یہ حدیث جو میں نے لی ہے یہ ترندی کی ہے یہ اس بعد کے دور کی نہیں ہے.اس لئے اس کے معنے پر غور کرنا ہوگا.میں نے ضمناً آپ کو تنبیہہ کی ہے کہ جو اعداد و شمار والی حدیثیں ہیں وہ بعض دفعہ ایسے حیرت انگیز مضامین بیان کرتی ہیں جو اعلیٰ حدیث کے مضامین سے براہ راست متصادم ہو جاتے ہیں اور قرآن کریم سے بار ہا متصادم ہو جاتے ہیں.اس لئے ہمیشہ اعداد کے مضمون کو ٹھہر کر غور کر کے دیکھیں یہ معلوم کریں کس کتاب میں سے ہے، کس دور کی حدیث ہے اور پھر مضمون سمجھنے کی کوشش کریں.ور نہ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک بات اگر خدا کی خاطر یوں کر دے تو اسے ستر حفاظ قرآن کے برابر ثواب ہوگا.اب بتائیے ایک آدمی ایک حرکت کرتا ہے ستر حفاظ قرآن اور پھر آتا ہے بعض دفعه که ستر یا زائد ساری عمر عبادت کرنے والوں کے برابر اس کو ثواب ہو جائے گا.اب اگر یہ مضمون اس طرح اعداد میں سمجھا جائے تو سارا نظام جزا سزا درہم برہم ہو جاتا ہے اور قرآن کریم کی آیات سے اس قسم کی احادیث متصادم دکھائی دیتی ہیں.اس لئے یا تو کوئی ایسا معنی بہت گہرا غوطہ کر کے نکالنا پڑے گا جو باقی مضامین سے متصادم نہ ہو یا پھر یہ سمجھیں کہ اس دور کی پیداوار
خطبات طاہر جلد 14 614 خطبہ جمعہ 18 راگست 1995ء ہے جب عادت تھی لوگوں کو کئی قسم کے مبالغے کرنے کی اور نیکیوں میں بھی مبالغے کر کے رسول اللہ نے کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے مگر یہاں جو میں عرض کر رہا ہوں میرے نزدیک چونکہ ترمذی کی حدیث ہے پہلے دور کی حدیث ہے اس لئے ہم اس بنا پر اس کو رد نہیں کر سکتے کہ فرضی بات ہے.سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے یہ دراصل ثواب کا لفظ جو ہے یہ مطلب اس کا نہیں، میں یہ نہیں سمجھتا کہ ایک روپیہ خرچ کیا ہے تو سات سو روپے مل گئے یہ معنے غلط ہیں.ایک روپے کے خرچ میں بعض دفعہ دنیا میں اگر کوئی معقول خرچ کرتا ہے تو ایک لاکھ بھی مل جایا کرتے ہیں.حکمت سے کیا ہوا خرچ دنیا میں ہی بہت زیادہ فائدے پہنچا دیا کرتا ہے.تو سات سو گنا کی نسبت اس روپے سے نہیں ہے جو خرچ کیا گیا ہے.سات سو گنا کی نسبت اس ثواب سے ہے جو انسان اپنی کوششوں سے حاصل کرتا ہے.اپنی کوششوں سے جو تم کما کر بہت ہی زیادہ فائدے اٹھا جاتے ہو اپنی طرف سے.بعض دفعہ لاٹری ڈالی ہے تو ایک پونڈ کے بدلے ایک ملین مل گیا.خدا کی خاطر جو تم روپیہ پھینکو گے اپنی طرف سے تمہارے بہترین اجر کے مقابل پر وہ سات سو گنا زیادہ ہوگا.یہ مضمون اگر سمجھیں تو یہ دل کو تسکین بخشتا ہے.ورنہ سات سو کا حساب کر کر کے اللہ دے تو وہ غریب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں دو دو آ نے خرچ کئے تھے اور ان کا ذکر خیر آپ کی کتابوں میں ہمیشہ کے لئے جاری ہو گیا.اس حدیث کو اگر ان معنوں میں سمجھیں جو عام طور پر لوگ بناتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چودہ سو آنے مل گئے.وہ چودہ سو آنے کیا چیز، ان کی حیثیت کیا، مگر بعض دفعہ ایک تاجر دو آنے خرچ کرتا ہے اور اس سے بے حد فیض پا جاتا ہے.حضرت مح موعود علیہ السلام کےزمانے کے بعدی خلیفہ اسی الاول کے زمانے میں مگر ایسے دوست جو صحابی بھی تھے.ماٹا کہتے تھے ہم ان کو.وہ مانا صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل سے یہ عرض کیا کہ میں بہت غریب آدمی ہوں مجھے کچھ دیں.آپ نے فرمایا دیکھو میں دو آنے دوں گا لیکن ایک وعدہ کرنا پڑے گا.میں تمہیں ایک تجارت بتا تا ہوں وہ شروع کر دو اور دو آنے تمہارا سرمایہ ہیں.یہ نہیں کھانا بھی.جو پیٹ بھرنا ہے منافع سے بھر اور کون کرو کہ یہ سرمایہ بڑھتا ہے تو انہوں نے چھابڑی بنائی جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے فرمایا تھا.دو آنے کے چنے لئے اس میں سے شاید پیسہ بچا کے نمک مرچ خریدی، کوئی املی خریدی اور وہ چھابڑی لگالی اور اس چھابڑی سے وہ
خطبات طاہر جلد 14 615 خطبہ جمعہ 18 راگست 1995ء صاحب جائیداد بن گئے اور انہوں نے چھا بڑی نہیں چھوڑی.جب ہم وہاں سکولوں میں پڑھا کرتے تھے تو مالٹے کے چنے کا اتنا شوق تھا کہ جو پیسے کبھی بچتے تھے گھر سے وہ وہاں آتے جاتے ماٹے کے چنے کھایا کرتے تھے.سادہ سے پنے تھے بیچ میں آلو بھی ڈالے ہوتے تھے تھوڑے سے.مگر جوان کا مزہ تھا وہ مزہ ہی اور تھا، اس میں دعائیں بھی شامل تھیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول نے جس دعا کے ساتھ وہ دو آنے دیئے تھے اس میں دیکھیں کتنی برکت پڑی.صاحب جائیداد ہو گئے اور ان کی اولاد سب دنیا میں پھیلی پڑی ہے.ابھی ربوہ سے بھی ایک ان کے بیٹے ملنے کے لئے آئے تھے یا ان کے پوتے عبدالرحمان صاحب جو ان کے بیٹے تھے وہ ٹانگے والے بن گئے تھے.ان کے بچے ملنے آئے.سارے خوش حال ہیں، اپنے خرچ سے یہاں آئے ، اپنے خرچ سے جلسہ کی خاطر آئے جلسہ دیکھ کر واپس چلے گئے کوئی اور تمنا نہیں تھی.تو یہ دو آنے کی برکت ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ سات سو گنا سے مراد یہ ہے کہ تم نے جو دو آ نے استعمال کئے حکمت کے ساتھ دنیا کے قوانین کو جو خدا نے جاری کئے ہیں ان کو بہترین استعمال میں لاتے ہوئے اتنی برکتیں مل گئیں.مگر اللہ جو برکتیں ڈالے گا وہ ان ساری برکتوں کی انتہا سے سات سو گنا زیادہ ہوں گی.یہ دیکھیں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے چندے کے دو آنے کی سمجھ آجاتی ہے.وہ اس تجارت سے بڑھے ہوئے مال کے مقابل پر واقعی سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ ہیں اور جہاں بھی سات سو گنا یا آٹھ سو گنا کی بات ہو وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم نے جب گنا کی بات کی ہے تو وہی دراصل مثال ، اصل مثال ہے جس سے آگے مثالیں بنی چاہئیں.وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض تمہارے انفاق ایسے ہیں جیسے ایک بیج ڈالو اس میں سے سات کو نپلیں نکلیں.ہر کو نیل میں بالیاں ہوں جو سو سو دانے رکھتی ہوں تو یہ سات سو گنا زیادہ بن جاتا ہے.سات کو نپلوں پر جو بالی ہو ہر بالی میں سودانے ہوں تو سات سو گنا بن جاتا ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ جس کے لئے چاہتا ہے زیادہ بڑھا دیا کرتا ہے.یہیں نہ ٹھہر جانا.تو ایک ذریعہ اس حدیث کو سمجھنے کا یہ بھی ہے کہ سات سو کا جو ذکر ہے ایک ابتدائی تمثیل کے طور پر ہے.اتنا تو تمہیں دے ہی دے گا نا اور وہ بھی بہت ہوتا ہے.ایک بیج ڈالے آدمی اس سے سات سو پیج بن جائیں یعنی ایک من پر سات سومن گندم نکلے تو بہت بڑی جزا ہے لیکن فرماتا ہے کہ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ
خطبات طاہر جلد 14 616 خطبہ جمعہ 18 /اگست 1995ء (البقرہ:262) مضمون یہ ہے کہ یہاں ٹھہر نہ جانا اس کا لامتناہی قانون بڑھاتے رہنے کا بھی ایک جاری وساری ہے.وہ پھر جتنا چاہے دیتا چلا جائے گا اور اس کا تعلق نیت کے خلوص سے ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی مثال دیتے ہوئے فرمایا تھا اس کو عام نمازوں کی طرح نہ سمجھنا.اس کی ایک نماز تمہاری کتنی نمازوں پر زیادہ حاوی ہے.تو پھر نیت کا مضمون بیچ میں داخل ہو جاتا ہے.کچھ اور باتیں بھی اس ضمن میں بیان کرنے والی تھیں مگر میں انشاء اللہ پھر بیان کروں گا.وقت ہو گیا ہے.ایک اعلان کرنا تھا جو باقی رہ گیا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کا آٹھواں سالانہ اجتماع شروع ہونے والا ہے، 18 /اگست سے شروع ہو رہا ہے تین دن جاری رہے گا.انہوں نے سب کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے.صرف یہ کہہ کر اب میں بات ختم کرتا ہوں کہ ہم جس دور میں داخل ہو گئے ہیں وہاں ہمیں اب جلد جلد ان احادیث کے، ان قرآنی مضامین کے پورا ہونے کا اس دنیا میں انتظار رہے گا اور بار بار رہے گا کیونکہ جس تیزی سے جماعت پھیل رہی ہے اس تیزی سے مالی تقاضے بھی بڑھ رہے ہیں.آغاز میں یہ جو نئے آنے والے ہیں یہ جتنی قربانی دے سکتے ہیں اس سے بہت زیادہ خرچ چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تالیف قلب کے تعلق میں ان تقاضوں کو بیان فرمایا ہے.پھر ان کی تربیت کے لئے جو نظام بنانا ہے، جس قدر مربی چاہئیں، جس قد ر سکولز ، ہاسپیٹلز اور اس قسم کی چیزیں ہمیں چاہئیں ان پر ابتداء میں ہمیں سرمائے کی ضرورت ہے.اب ٹیلی ویژن کے ذریعے بھی ان کے ہاں نئی نئی قوموں میں نئی نئی جگہوں پر ٹیلی ویژن کے انٹینا نصب کرنے ہیں.پھر وقت کے تقاضے ہیں کہ اور زیادہ وقت بڑھایا جائے.اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ یہ جو افریقہ اور پاکستان وغیرہ میں بھی یورپ میں بھی جو وقت اس وقت میسر ہے اس سے کئی گنا زیادہ وقت حاصل کر لیا جائے کیونکہ اب ہمارے اندر اس وقت کے اندر سمٹ کر رہنے کی گنجائش نہیں ہے.انسان بڑا ہو تو کپڑے بڑے کرنے پڑتے ہیں اور بچے زیادہ ہوں تو گھر بڑے کرنے پڑتے ہیں.تو جماعت احمدیہ اس دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں اتنی تیزی سے بدن بڑھ رہے ہیں کہ کل کے کپڑے چھوٹے دکھائی دینے لگے ہیں، کل کا گھر بالکل معمولی سا ہو گیا ہے.اس لئے جماعت ان آیات کی روشنی میں
خطبات طاہر جلد 14 617 خطبہ جمعہ 18 /اگست 1995ء مالی قربانیوں میں بھی بڑھے اور یہ عرض کرے اللہ سے کہ الدَّارِ تو تو نے دینا ہی دینا ہے مگر اس دنیا میں بھی جو وعدے کئے ہیں جلد بڑھانے کے وہ دے کیونکہ ہمیں تیری خاطر تیری رضا کمانے کے لئے ، اس کے تقاضے پورے کرنے کے لئے بکثرت روپوں کی ضرورت ہے.ہم نے کسی اور سے نہیں مانگنا، تیرے در پہ جھکنا ہے.محمد رسول اللہ کے وہ ساتھی بن کے دکھانا ہے کہ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وہ اللہ ہی سے فضل چاہتے ہیں اور ہر فضل جو ان کو عطا ہوتا ہے وہ اللہ کی رضوان بن جاتا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
618 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 619 خطبہ جمعہ 25 اگست 1995 ء اللہ کی میراث اور اسے قرضہ حسنہ دینے کا سنہ دینے کا مطلب مالی قربانی سے غیر معمولی فضل اترتے ہیں.( خطبه جمعه فرموده 25 /اگست 1995 ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيْرَاتُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِى مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقْتَل أُولَيْكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَ قَتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْحِفَهُ لَهُ وَلَةً أَجْرُ كَرِيمُ (الحديد: 12-11) پھر فرمایا:.مالی قربانی کے متعلق جو میں مضمون بیان کر رہا تھا ابھی وہ تشنہ ہی تھا کہ خطبے کا وقت ختم ہو گیا.چند اور آیات کے حوالے سے ایک تسلسل کی صورت میں اس مضمون کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں.یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ الحدید کی آیات 11 اور 12 ہیں.پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَالَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاتُ السَّمَوتِ
خطبات طاہر جلد 14 620 خطبہ جمعہ 25 راگست 1995ء وَالْأَرْضِ تمہیں ہوا کیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے جبکہ زمین و آسمان کی میراث سب اللہ ہی کی ہے.لَا يَسْتَوِى مِنْكُمْ مَّنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَتَلَ تم میں سے جو فتح سے پہلے خرچ کرے گا جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا وقتل اور جہاد کیا وہ اور ایسا شخص جو بعد میں کرے برابر نہیں ہو سکتے.ایک وقت ہوتا ہے جب مالی قربانی کی اور فی سبیل اللہ جہاد کی ایک غیر معمولی قیمت پڑتی ہے اور ایک وقت وہ ہوتا ہے جبکہ یہ معاملات لوگوں کو آسان دکھائی دینے لگتے ہیں اس وقت کی قربانی اور پہلے کی قربانی میں ایک فرق رہتا ہے.أُولَيْكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَ قَتَلُوا یہ لوگ جو پہلے کرنے والے ہیں ان لوگوں سے درجے میں بہت بڑے ہیں جو بعد میں قربانیاں کریں گے اور بعد میں جہاد کریں گے.وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنٰی اور واقعہ یہ ہے کہ ہر ایک سے خدا تعالیٰ نے اچھا وعدہ ہی فرمایا ہے وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْحِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيم کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے پس وہ اس کو بڑھاتا رہے وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيم اور اس کے لئے اس کے پاس بہت ہی معزز اجر ہے یا لَةَ أَجْرٌ كَرِیم اس شخص کے لئے جو ایسا کرے گا اس کے لئے بہت ہی معزز اجر ہوگا.آج کل جماعت احمدیہ جس دور سے گزر رہی ہے اس کا خاص طور پر تعلق اس مضمون سے ہے جو ان آیات میں بیان فرمایا گیا ہے.ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے جماعت کے آخری غلبے کی گھڑی کسی ایک ملک میں بھی اس طرح ظاہر نہیں ہوئی کہ جس کے بعد یہ پتا چلے کہ یہ ملک کلیڈ احمدیت کی گود میں آ گیا ہے اور ایک سو پچاس ممالک میں جہاں احمدیت پھیلی ہوئی ہے ہر جگہ یہی آیت کریمہ قربانی کی راہوں کی طرف بلا رہی ہے اور یاد دلا رہی ہے کہ وقت تھوڑا ہے آج قربانیاں کر لو ورنہ کل وہ دن ضرور آئے گا جب تمہیں غلبہ عطا ہوگا.پھر اس وقت کو یاد کرو گے اور یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا کیونکہ خدا کی طرف سے جو غلبہ آئے گاوہ میراث کے طور پر آئے گا.ایسا غلبہ ہوگا جو تمہاری جائیداد بن جائے گا.اس وقت جو قربانیاں کرو گے ان کا بھی خدا اجر عطا فرمائے گا.اس وقت بھی ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ جہاد کے تقاضے تمہیں اپنی طرف بلائیں لیکن جو نمایاں
خطبات طاہر جلد 14 621 خطبہ جمعہ 25 راگست 1995ء غلبے سے بعد کی قربانیاں ہیں ان کو نمایاں غلبے سے پہلے کی قربانیوں سے کوئی نسبت نہیں.جیسے تہجد کی نماز کا ایک وقت ہوا کرتا ہے جبکہ روشنی کا پتا نہیں.پوری طرح انسان نہیں جانتا کہ دن کب نکلے.اب تو گھڑیوں کے دن آگئے ہیں مگر گھڑیوں کے دنوں میں بھی تہجد کی نماز میں ایک عجیب پوشیدہ کیفیت ہے جو ایک قسم کے پر دے رکھتی ہے اور اس وقت اٹھ کر عبادت کرنا جبکہ دنیا جا گی نہیں اور روشنی پھیلی نہیں، ایک دوسرے کی قربانیاں دکھائی نہیں دینے لگیں اس نماز کا بیسرا (فاطر: 30) سے تعلق ایسا ہے جیسے قربانی کے وقت مخفی قربانی انسان کرتا ہے اور اس کا درجہ بعد کی سب قربانیوں سے زیادہ ہے.باوجود اس کے کہ وہ نفل ہے اور فرائض سے درجے میں وہ نفلی قربانی بڑھ جاتی ہے جبکہ دنیا کے علم کے بغیر مخفی طور پر کی جارہی ہے اور روشنی ابھی ظاہر نہیں ہوئی.اسی طرح غلبے کے وقت دن ہوا کرتے ہیں جب اسلام کا یا کسی بھی مذہب کا غلبہ ہو جائے تو ایک روشنی ہی پھیل جاتی ہے کہ اس غلبے کی روشنی میں وہ لوگ بھی قربانیوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں جن کی طبیعت پہلے مائل نہیں ہوا کرتی کیونکہ ایک فیشن سا بن جاتا ہے.اس وقت اونچی بولی لگانا ان کی اپنی قدر ومنزلت دنیا کی نظر میں بڑھا دیا کرتا ہے.تو بہت سے پردے ہیں جن کے پیچھے رہتے ہوئے قربانی کرنا یقینا پر دے اٹھنے کے بعد کی قربانیوں سے اونچی ہوتی ہے اور خدا کے نزدیک اس کا درجہ بڑا ہے.ابھی باوجود اس کے کہ ہمیں فتوحات کی آواز سنائی دینے لگی ہے، ان کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے، نظر آ رہا ہے کہ آج نہیں تو کل اللہ تعالیٰ احمدیت کو غلبہ عطا فرمائے گا.اب وقت ہے کہ اس آیت کی آواز پر لبیک کہیں کیونکہ یہ عظیم تر قربانیوں کے دن اب زیادہ لمبے نہیں چلیں گے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ملک ملک فتوحات کی نوبت بجنے لگے گی، جب جگہ جگہ سے فتوحات کی نوید سنائی دے گی اس وقت پھر بھی قربانیاں تو خدا کی خاطر جاری رہیں گی کیونکہ یہ قربانیوں کا مضمون صرف ایسے چندوں سے تعلق نہیں رکھتا جو غلبہ دین کی خاطر دیئے جاتے ہیں بلکہ مستقل انسانی ضروریات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ ضروریات کبھی ختم نہیں ہوسکتیں لیکن وہ قربانیاں اور ہوں گی یہ پہلی قربانیاں اور ہوں گی.اس لئے میں سمجھتا تھا کہ اس آیت کے حوالے سے بھی میں آپ کو آج کل کی مالی قربانیوں کی اہمیت سمجھاؤں.قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے مضمون کو کھولا ہے، فرماتا ہے پہلے لوگ بعد والوں کے
خطبات طاہر جلد 14 622 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء مقابل کے برابر نہیں ہو سکتے.باوجود اس کے کہ اللہ نے سب سے اچھے وعدے ہی فرمائے ہیں.بعد والوں کی قربانیوں کا بھی اجر ان کو عطا کیا جائے گا.وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے.دوسرا پہلو یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا آج ایسا دور ہے کہ جب دین خدا کو قرض کی ضرورت ہے اور جب قرض کی ضرورت ہو تو اس وقت انسان اس قرض کے ساتھ پھر کچھ عطا کے وعدے بھی کیا کرتا ہے.اگر کسی کو قرض کی ضرورت نہیں اور آپ یوں ہی قرض دیئے جائیں تو اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ آپ کو انعام و اکرام سے بھی نوازے اور اگر سودی نظام ہے تو سود بھی عطا کرے.وہ کہے گا اپنے گھر رکھو مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن ضرورت مند تو زیادہ پیسے دے کے بھی قرضے لیا کرتا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ اگر اس کو پیسے کہیں سے نہ میسر آئے تو اس کے وقت کا گزارہ نہیں چل سکتا.تو اب سوال یہ ہے کہ اللہ کو ضرورت کیوں ہے؟ اللہ کی ضرورت در اصل خدا کے ان بندوں کی ضرورت ہے جو اس کا پیغام پہنچاتے ہیں، جن پر پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے اور ہر مذہب کا آغاز غربت سے ہوا ہے اور ہر مذہب کو آغاز میں ایسے اموال کی ضرورت پڑتی ہے جو خدا کے نام پر خدا کے بندے اسے قرض کے طور پر دیتے ہیں.قرض سے مراد یہ ہے کہ وہ دیتے تو اس لئے ہیں کہ ہم جو کچھ بھی ہے، جو توفیق ہے ہم خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں لیکن قرض ان معنوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قرض شمار کرتا ہے.خدا تعالیٰ یہاں دو باتیں بیان فرماتا ہے.پہلی بات تو یہ تھی کہ جو کچھ بھی تم دو گے قرض کے طور پر ہو یا بے قرض کے ہو جس نیت سے بھی دو گے اگر خدا کو راضی کرنا مقصود ہے تو ہر چیز کا اجر ملے گا لیکن یہاں جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ یا درکھو جب دین کی ضرورت ہو اس وقت تم دو تو تمہارے اموال کا بڑھانا اللہ پر فرض ہو جاتا ہے.اس وقت عام کرم کے علاوہ ایک دوسر ارحمت کا نظام جاری ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کے اموال میں غیر معمولی برکت دی جاتی ہے.اور یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور سے اب تک ہم اس آیت کی صداقت کو اس طرح جماعت کے حالات پر چسپاں ہوتے اور اطلاق پاتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.تمام وہ غرباء جنہوں نے دین کی خاطر آغاز میں قربانیاں دی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے رنگ لگائے ہیں کہ دوسرے خاندانوں میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی اور وہ
خطبات طاہر جلد 14 623 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء سلسلہ عطا کا جاری ہے.بعض لوگ سمجھتے ہوں گے کہ اب تو تیسری چوتھی نسل آگئی، اب وہ جزا ہمیں کیوں مل رہی ہے.ہو سکتا ہے یہ اب ہماری اپنی تدبیریں ہیں جو پھل لا رہی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو جھٹلایا ہے ، غلط قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یا درکھو حضرت داؤد نے کہا تھا کہ کوئی ولی ایسا نہیں جس کی سات پشتیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث نہ بنائی جائیں اور کسی ولی کی اولا دسات پشتوں تک بھوکی نہیں مرنے دی جاتی.تو آپ کی تو ابھی تیسری چوتھی نسل ہے، سات پشتوں تک آنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے.مگر یہ آیت ابھی بھی آپ کو دعوت دے رہی ہے.اب انگلی سات پشتوں کا بھی انتظام کر جاؤ.آج ضرورت کے دن ہیں، آج اگر تم نے خدا کی راہ میں خرچ کیا تو تمہارے حق میں خدا کی تقدیر جاری ہو گی اور تمہاری انگلی سات نسلیں بھی تمہاری قربانیوں کا فیض کھائیں گی.پس یہ آیت غیر معمولی اہمیت کا پیغام رکھتی ہے اسے سمجھنا چاہئے اور آج کل خصوصیت کے ساتھ دین کی راہ میں قربانیوں کے معیار کو بڑھانا چاہئے.جہاں تک قتَلُوا کا تعلق ہے قتال مختلف حالات کے مطابق مختلف معانی رکھتا ہے اور آج کل کے دور میں یہ تبلیغ ہی قتال ہے اور مجھے ذرہ بھی شک نہیں کہ وہ چونکہ جہاد کبر بھی ہے اور اس میں بعض دفعہ قتال کی صورت بھی پیدا ہو جایا کرتی ہے خواہ یک طرفہ ہی ہو.مگر قربانیوں کی راہوں کی طرف تبلیغ بلاتی ہے اور قربانیوں کی راہوں سے بعض دفعہ انسان قربانیاں دیتے ہوئے گزرتا ہے.بعض دفعہ قربانیوں کی راہوں پر چلنا ہی قربانی سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ قربانیاں لی بھی جاتی ہیں.تو قتال سے آج کل کے حالات سے مراد دعوت الی اللہ ہے اور بہت سے ایسے دعوت الی اللہ کرنے والے ہیں جن کو اسی راہ میں سزائیں ملتی ہیں.مل رہی ہیں.اور اس کے باوجود بڑے شوق سے اور بے خوف ہو کر اس راہ میں آگے قدم بڑھارہے ہیں.صرف پاکستان کی بات نہیں، ہندوستان میں بھی ایسا ہو رہا ہے.بعض دوسرے ممالک سے بھی بعینہ اسی قسم کی اطلاعیں مل رہی ہیں کہ دعوت الی اللہ کے نتیجے میں سخت سزائیں دی گئیں اور بعض جگہ قتل کروائے گئے ، بعضوں کے گھر جلا دیئے گئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دعوت الی اللہ کرنے والے بے خوف اس راہ میں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں.تو آج کل کی قربانیوں کی جو جزا ہے وہ بہت زیادہ ہے اور عام حالات کی قربانیوں سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.
خطبات طاہر جلد 14 624 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء پھر جب آپ کو اللہ تعالیٰ وارث بنا دے گا ان قوموں کا جنہوں نے آپ پر ظلم کئے اور ان کے اموال آپ کے سپرد کر دیئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر بھی قربانیوں کا دور ختم نہیں ہوگا.ہم پھر بھی تم سے تقاضے کریں گے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو.پس وہ جو خیال کرتے ہیں کہ جب احمدیت غالب آجائے گی تو چندے ختم ہو جائیں گے ان کا یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے احمدیت غالب آجائے گی تو احمدیت ختم ہو جائے گی کیونکہ خدا کی راہ میں مالی قربانی دین کا ایسا لازمی حصہ ہے جس کے بغیر دین زندہ رہ ہی نہیں سکتا اور خدا تعالیٰ نے جان کے ساتھ مال کا سودا کیا ہوا ہے اور یہ ایک دائی تعلیم ہے.اس لئے میں نے یہ آیت آپ کے سامنے رکھی ہے تا کہ آپ کو علم ہو کہ باوجوداس کے کہ ہماری قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ کا فضل ہمیں غلبہ عطا کرے گا لیکن اس کے بعد پھر بھی قربانیاں جاری رہنی چاہئیں اور اسی کی ہمیں اپنی اولادوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہئے کہ جو کچھ ملے اس میں سے خدا کی راہ میں ضرور خرچ کرو.سورۃ الحدید آیت 8 میں ہے آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فیہ اللہ پر ایمان لاؤ اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس چیز کا بھی تمہیں اس نے مستخلف بنایا ہے اس میں سے بھی خرچ کرو.مُستَخْلَفِینَ کا مطلب ہے جنہوں نے ورثے میں پہلی قوموں کی جائیدادیں پائی ہوں.ایسا عظیم انقلاب برپا ہو گیا ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کے مالک بنے ہوئے تھے ان کے وجود کو خدا نے مٹا دیا اور وہ اپنا سب کچھ تمہارے حق میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے.ان کی جائیدادیں تمہارے نام منتقل کر دی گئیں.یہ مُسْتَخْلَفِینَ کا مضمون ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس وقت یہ نہ سمجھنا کہ اب تو ہمیں ان قوموں کا ورثہ مل گیا اب کیوں قربانیاں دیں.فرمایا تمہاری بقا کے لئے ضروری ہے کہ تم قربانیاں دو.فَالَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوْالَهُمْ كبير پھر وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لانے والے ہوں گے یعنی ایمان لانے والوں کو مخاطب کر کے پھر فرمایا ہے فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا یاد رکھنا اس وقت بھی انفاق کے ساتھ ایمان کی شرط لگی رہے گی.اگر قربانی دو گے اور ایمان کے ساتھ دو گے تو وہ مقبول ہوگی اور اگر ایمان کے بغیر ویسے ہی قومی جذبوں سے قربانیاں دے رہے ہو یا بنی نوع انسان کی ہمدردی میں دے رہے ہو تو اس کا اجر اللہ پر نہیں ہے.اس کا اجر تو تمہاری تمنا کا پورا ہو جانا ہی ہے.پس جتنی بھی زیادہ
خطبات طاہر جلد 14 625 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء خدا تعالیٰ سے اپنی قربانیوں کی قیمت وصول ہو سکتی ہے کرنی چاہئے کیونکہ اللہ مالک ہے اور اس پر کسی قیمت کا ادا کرنا دوبھر نہیں ہے.اس کی میراث ہے ساری دنیا، ساری کائنات.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میراث ہوتے ہوئے پھر وہ انفاق کیوں چاہتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ میراث لینے کا قانون اس نے بنا رکھا ہے.تجارتوں میں سودے کے قوانین ہوتے ہیں.آپ کچھ کرتے ہیں تو اس کے بدلے آپ کو کوئی چیز ملتی ہے.تو اللہ کی میراث کا مطلب یہ تو نہیں کہ چونکہ اللہ کی میراث ہے، اللہ کے سب بندے ہیں.ساری میراث اللہ سب کے سپرد کر دے.اگر یہ ہو تو پھر تو امیر غریب کی تفریق ہی نہ مٹ جائے بلکہ تمام نظام اقتصادیات تباہ ہو جائے.ہر بندہ خدا کا بندہ ،ساری جائیداد خدا کی جائیداد، سب کو برابر تقسیم کر دے اور تقسیم کر دے برابر تو ہر ایک کو اتنی مل جائے کہ جتنا ساری کائنات کی دولت ہے کیونکہ وہ دینے کے بعد پھر بھی خدا کے پاس لامتناہی بچی رہتی ہے.تو یہ بچگانہ سوالات ہیں.بغیر تدبر کے لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ ایک طرف اللہ کہہ رہا ہے مِيرَاتُ السَّمواتِ میری ہیں دوسری طرف کہتا ہے خرچ کرو میری راہ میں.بتا رہا ہے کہ میراث کے مالک بنا ہے میرے ساتھ ، اگر تم نے مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہے اس ساری دولت میں جو میری ہے تو یہ تجارتی طریق ہے جو تمہیں بتا رہے ہیں.تبھی اس کو واضح طور پر تجارت فرماتا ہے تِجَارَةً لَنْ تَبُوْر (فاطر: 30) ایسی تجارت ہے جو کبھی گھاٹے کی تجارت نہیں بن سکے گی.تو اللہ کا تو ہے پھر لینے کا طریقہ کیا ہے؟ لینے کا طریقہ ہے تم کچھ خرچ کرو اس کے بدلے تمہیں زیادہ ملے گا.اب دنیا میں بھی تو آپ اسی طرح کرتے ہیں.یہ تو نہیں کرتے کہ آپ ایک دھیلے کا خرچ نہ کریں اور توقع رکھیں کہ سارے آپ کو اپنے اموال دے جائیں.منافع کے سودے کا نام تجارت ہے.گویا اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے.پس یہ دو قسم کی تجارتیں ہمیں بتائی گئی ہیں.ایک وہ جو روزمرہ مالی قربانی ہے اس کے بغیر تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی حصہ اس کی لامتناہی دولت میں سے نہیں ملے گا.اگر اللہ کی میراث سے اس نئے قانون کے ذریعے کچھ حاصل کرنا ہے جو فضل کے طور پر ملتا ہے تو تمہیں کچھ حصہ ڈالنا پڑے گا.اب دنیا میں اس پہلو سے ہمارے سامنے حقیقت میں تین تجارتیں آئیں گی.آپ کو سمجھانے کی خاطر یہ تفصیل بتا رہا ہوں.ایک ہے وہ تجارت جو دنیا کی تجارت ہے ہر قسم کی تجارتیں اس میں شامل ہیں اور اس میں قانون یہ ہے کہ ایمان کی کوئی شرط نہیں اور کسی کی خاطر کچھ خرچ کرنے کی
خطبات طاہر جلد 14 626 خطبه جمعه 25 راگست 1995ء کوئی شرط نہیں ہے.عام تجارت ہے، آپ جتنا پیسہ ڈالیں گے اگر عقل سے کام لیں گے تو اس سے زیادہ آپ کو واپس مل جائے گا.اگر عقل سے کام نہیں لیں گے تو جو ڈالا ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گا.یہ دنیا کا عام تجارت کا قانون ہے.ایک تجارت یہ ہے کہ آپ کی عقل کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ، صرف ایمان کا دخل ہے.اگر آپ کو یہ علم ہو جائے کہ ہر چیز کا مالک خدا ہے اور وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر تم ایمان کے ساتھ میری خاطر خرچ کرو تو تمہاری تجارت کے فائدے کا ذمہ دار میں ہوں.میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس تجارت میں کوئی گھاٹا نہیں ہوگا.سب سے زیادہ یقینی یہ تجارت ہے جو کبھی ہلاک نہیں ہوگی.یہ ان دونوں تجارتوں میں لازماً بہت زیادہ اعلیٰ درجے کی تجارت ہے اور اس لحاظ سے بھی اعلیٰ ہے کہ تجارت دنیا میں ہی فائدہ نہیں دیتی بلکہ مرنے کے بعد بھی دے گی اور آپ کا مال یہیں بڑھتا ہوا بند نہیں ہو جائے گا بلکہ مرنے کے بعد بھی بڑھتا رہے گا.تو ایسی تجارت جولا متناہی ہو جاتی ہے کبھی ختم نہیں ہوتی اس تجارت سے بدرجہا بہتر ہے بلکہ کوئی نسبت ہی نہیں ہے جو تجارت دنیا کی تجارت ہے.تیسری تجارت وہ ہے قرضہ حسنہ والی.اس کو انفاق نہیں کہا گیا ، اس کو قرضہ حسنہ کہا گیا ہے.وہ تجارت ہے جبکہ دین کو ضرورت بھی ہے اور باوجود اس کے کہ اللہ زمین و آسمان کا مالک ہے، ساری جائیداد، ساری کائنات اسی کی ہے پھر بھی وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کام کو سنبھالیں اور پھر آپ کو اپنی کائنات میں سے وہ کچھ عطا کرے جو پہلی تجارت کے مقابل پر بہت زیادہ ہو اور یہاں سود درسود در سود کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.یہ سود آپ کی طرف سے سودے کے طور پر نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کے طور پر ہے.پس ضرورت کے وقت کے خرچ انفاق سے بڑھ کر قرضہ حسنہ میں داخل ہو جاتے ہیں اور قرضہ حسنہ کے دو پہلو ہیں.ایک تو قرضہ لینے والے کا پہلو ہے یعنی اللہ اور ایک قرضہ دینے والے کا پہلو ہے یعنی خدا کا بندہ.قرضہ حسنہ اس کو اس لئے کہا گیا کہ دینے والا زیادہ کی نیت سے نہیں دیتا بلکہ دین کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر دے رہا ہے.اس لالچ میں نہیں دیتا کہ وہ بڑھے گا اور حسنہ کا دوسرا پہلو ہے لینے والے کا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ لینے والا اتنا معزز ہے، اتنا کریم ہے کہ جب جانتا ہے کہ بے شرط کے دیا گیا ہے تو پھر بہت زیادہ بڑھا کے عطا کرتا ہے اور غیر مشروط قربانی کا لامتناہی اجر عطا کرتا ہے.یہ وہ تین قسم کی تجارتیں ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا
خطبات طاہر جلد 14 627 خطبه جمعه 25 اگست 1995 ء ہے.انسانی تجارت کا بھی ، عام قربانی کی تجارت کا بھی اور قرضہ حسنہ کی تجارت کا بھی.پھر فرمایا کہ جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو اس کے پیچھے روح کیا ہونی چاہئے.وہ کون سی روح ہے جو اللہ کو پسند ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قربانی کون سی ہوگی فرمایا لن تنالوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 193) اگر تم البر چاہتے ہو یعنی نیکی کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو تم ہرگز انبر کو حاصل نہیں کر سکو گے.جب تک کہ جو کچھ مال خرچ کرتے ہو اس سے تمہیں محبت ہو اور محبت والا مال خدا کی راہ میں خرچ کرو.اس کے بہت سے پہلو ہیں.ان میں ایک پہلو جو پہلے بھی بارہا میں بیان کر چکا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا کی خاطر جب پیش کرنا ہو تو محض تجارت کی غرض سے تو کرنا نہیں وہ تو قرضہ حسنہ بھی اگر ہوتو وہاں تجارت کا پہلو دینے والے کے پیش نظر نہیں ہوا کرتا.دینے والا تو محض ایک ضرورت پوری کرنے کی خاطر دیتا ہے اس کا ہی نام قرضہ حسنہ ہے.وہ کہتا ہے اگر میرا ہی لوٹا دو تو بس مجھے کافی ہوگا، اپنی ضرورت پوری کر لو.لینے والا بہت معزز ہے اس لئے وہ بڑھا کر دے گا.اس لئے نیت میں تجارت نہیں ہوتی مگر پھر بھی جانتا ہے کہ ہے تو سہی ، دوں گا تو زیادہ ملے گا.اللہ تعالیٰ اس سے اگلا درجہ اب بتا رہا ہے وہ ہے محبت کی تمنا.البر یہاں کوئی بھی اجر کی توقع نہیں ہے صرف اپنی ذات کو معزز بنانے کی توقع میں انسان خرچ کرے یعنی خدا کے نزدیک اس کی قیمت پڑ جائے اور یہ پہلو وہ ہے جس کا مال کے خرچ میں محبت کے عصر سے تعلق ہے.جب بھی آپ مال خرچ کریں اور ایسا مال خرچ کریں جس سے محبت ہو تو ظاہر ہے کہ وہ مال اس کی خاطر خرچ کر سکتے ہیں جس سے زیادہ محبت ہو، ورنہ نہیں کر سکتے.یہ ایک دائگی غیر مبدل فطری اصول ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے.آپ کو جس سے پیار ہو آپ اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں.بہت بہت قیمتی مال خرچ کر کے تحائف پیش کرتے ہیں.وہ جتنا بھی قیمتی تحفہ ہو اتنا ہی زیادہ آپ کو اچھا لگتا ہے اور کسی ایسے شخص کو آپ نہیں دے سکتے جس سے آپ کو محبت نہ ہو.آپ کو تو صدمہ پہنچے گا اگر ایسے شخص کو وہ چیز ہاتھ آجائے جو آپ کو پیاری ہو اور وہ شخص کم پیارا ہو.آپ سمجھتے ہیں نقصان ہو گیا.اگر اس سے محبت زیادہ ہو جس کی خاطر دیتے ہیں تو پھر اگر وہ نہ لے پھر صدمہ پہنچتا ہے.جس سے کم محبت ہوا گر وہ لے لے تو پھر صدمہ پہنچتا ہے.بعض دفعہ لوگ بے چارے دکھانے کی
خطبات طاہر جلد 14 628 خطبه جمعه 25 راگست 1995ء خاطر ہی یا اس خیال سے کہ اگلا انکار ہی کر دے گا کہ بیٹھتے ہیں چلو اچھا پسند ہے تو لے لو.وہ سمجھتے ہیں کہے گا نہیں رہنے دو.وہ بعض دفعہ لے ہی جاتا ہے.سارا دن ان کا پچھتاوے میں گزرتا ہے میں کیا منہ سے کہہ بیٹھا.لیکن اگر محبت ہو اور وہ نہ لے پھر بھی دکھ میں گزرتا ہے مگر بہت زیادہ دکھ میں.ایک دن نہیں بعض دفعہ ہفتوں مہینوں اس کا دکھ رہتا ہے.بعض دفعہ ساری عمر اس دکھ میں کٹ جاتی ہے کہ میں نے اتنے پیار سے تحفہ دیا تھا، اسے نا منظور کر دیا گیا.پس یہ محبت کے کھیل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں درجہ بدرجہ اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات کی طرف لے جارہے ہیں اور مالی قربانی میں بھی ہر مقام کے بعد ایک اور اعلیٰ مقام پڑا ہوا ہے پس اگر تم چاہتے کہ تم ابتر ہو جاؤ خدا کے نزدیک یعنی خدا کے نزدیک تم ایسے نیکوں میں شمار ہو کہ ان سے اللہ محبت کرنے لگے تو پھر مال وہ خرچ کرو جس سے تمہیں محبت ہو.اب جتنی زیادہ اللہ سے محبت ہو اتنا ہی زیادہ وہ مال انسان خرچ کر سکتا ہے جس سے محبت ہو.جتنی کم اللہ سے محبت ہو اتنا ہی کم وہ مال خرچ کر سکتا ہے جس سے محبت ہو.ایسا حیرت انگیز فارمولا ہمیں سمجھایا گیا ہے جو Equation کی طرح حسابی طور پر کام کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے اور عام ہمارا مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ فقیروں کے لئے غریبوں کے لئے سڑی کسی ہوئی روٹیاں پرانے پھٹے ہوئے کپڑے سنبھال کے رکھتے ہیں کہ خدا کی خاطر دان دیا جائے.کہتے ہیں خدا کی خاطر اور دیتے ہیں وہ چیز جونہایت بوسیدہ اور ذلیل ہو.قرآن کریم کی اس کی طرف بھی نظر ہے کوئی پہلو نہیں چھوڑتا، یہ عجیب کتاب ہے.فرماتا ہے، دیکھو خدا کی راہ میں ایسا خرچ نہ کرنا کہ اگر تمہیں ملے تو نہ لو سوائے اس کے کہ شرم سے آنکھیں جھکی ہوئی ہوں اور نظر اٹھا کے نہ دیکھ سکو پھر کہ میں نے کیا ذلیل چیز قبول کر لی ہے.ایسی ہی حالت انسان پر اس وقت آتی ہے جبکہ غربت کی مار سے وہ ذلیل ہو چکا ہوتا ہے.عزت نفس ہو بھی تو بے اختیار ہو چکا ہوتا ہے.کوئی شخص بھی اس کو گری پڑی ذلیل روٹی بھی دے دے گا تو وہ لے لے گا مگر یہ محبت کے سودے تو نہیں ہیں، یہ نفرت کے سودے ہیں.ایسی قربانی محبت نہیں پیدا کر سکتی یہ نفرت پیدا کر سکتی.چنانچہ بسا اوقات ایسے لوگ اس گرہ کو دل میں باندھ رکھتے ہیں کہ جب ہمیں ضرورت تھی تو اس شخص نے ایسا ذلیل سلوک کیا تھا پھر جب ان کو خدا توفیق دیتا ہے تو اگر کریم ہوں اور معزز ہوں تو ان کو بہت زیادہ اور اعلیٰ دے کر اپنا بدلہ اتارتے ہیں مگر یہ بدلہ ضرورا تا رتے ہیں اور اگر وہ کمینے لوگ ہوں تو جس ہے.
خطبات طاہر جلد 14 629 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء طرح انہوں نے سلوک کیا اسی قسم کا ذلیل سلوک ان سے کر کے اپنے انتقام کی آگ کو بجھا لیتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کریم ہے وہ ایسی چیزوں سے پکڑتا نہیں ، غض بصر کر جاتا ہے مگر قبول نہیں فرماتا.ایسی چیزیں پیش کرنا ہی گستاخی ہے.پس قرآن کریم فرماتا ہے ایسی قربانی نہ کرنا.اپنی طرف سے قربانی کر رہے ہو.تمہارے لئے اگر وہ قربانی پیش کی جائے تو شرم کے مارے جان نکل رہی ہو ، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکوکسی سے، دینے والے سے آنکھ نہ ملاسکو حیا کے نتیجے میں.اس کے برعکس یہ ہے لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ خرچ کرنا ہے تو محبت کے نتیجے میں کرو.پس جہاں محبت بڑھ گئی وہاں خرچ کے معیار یا خرچ کرنے کی جگہیں بھی بدلتی چلی جاتی ہیں.اب وہ سڑی بسی روٹی تو نہیں مگر ایک مہمان آیا ہے آپ اس کے لئے درمیانی تعلق رکھتے ہیں تو جو بھی گھر میں پکا ہے پیش کر دیتے ہیں ہاں ایک آدھ بیچ میں میٹھا بھی پکوالیا یا جلدی سے بازار بھیج دیا اور کچھ نہیں تو Fish and Chips ہی اٹھا لاؤ مہمان آیا ہوا ہے.یہ محبت کا تقاضا ہے.ایک مہمان آتا ہے تو دل چاہتا ہے کہ سب کچھ انسان نچھاور کر دے.دوڑتے پھرتے ہیں لوگ اس کو خوش کرنے کے لئے یہ بھی پکڑو وہ بھی پکڑو اور بعض دفعہ اتنا تکلف کرتے ہیں کہ وہ مہمان دس دن بھی کھاتا رہے تو وہ پھر بھی بچ جائے اس سے اور کہو کہ کیوں اتنا زیادہ پکار ہے ہو آخر ایک آدمی آ رہا ہے.تو کہتے ہیں ہم تو اپنا شوق پورا کر رہے ہیں.جتنا کھانا ہے کھا لینا اور چھوڑ دینا اور بسا اوقات مجھے تجربہ ہوا ہے اپنے دوروں کے دوران کہ بعض دیہات میں جاتے ہیں اپنے اخلاص میں اتنا کھانا نہ صرف پکاتے ہیں بلکہ پلیٹ میں اتنا ڈال دیتے ہیں کہ تین دن میں بھی آدمی نہ کھا سکے.پلیٹیں بھی بعض دفعہ دیہات میں کافی بڑی ہوتی ہیں.چھوٹے چھوٹے مجمعوں میں وہ ایک ایک پلیٹ ڈالتے ہیں.کئی دفعہ میں نے کہا یہ دیکھو مجھ میں طاقت نہیں ہے، ہو ہی نہیں سکتا میں کھاؤں.انہوں نے کہا نہیں جب بھوک ختم ہو چھوڑ دینا مگر ہمیں تو شوق پورا کرنے دو.ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو اتنا کھلا ئیں تو یہ محبت کی باتیں ہیں.تو اللہ تعالیٰ بھی پھر اتنا ہی قبول فرماتا ہے جو اعزاز کی خاطر قبول کیا کرتا ہے.آپ پیش محبت سے کریں تو بسا اوقات وہ سارا لیا ہی نہیں جاتا مگر قبول ان معنوں میں ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اس سے بھی بڑھ کر محبت عطا ہوتی ہے جتنی کہ آپ نے سودا کیا تھا اور یہ سب سے اعلیٰ قربانی کا طریق ہے.اس نیت سے قربانی کریں تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ
خطبات طاہر جلد 14 630 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء کے اموال ہی میں برکت نہیں پڑے گی وہ تو پڑنی ہی پڑنی ہے وہ ایک ضمنی چیز ہے ہنمنی بھی ایسی کہ آپ کو اس کی تمنا بھی نہیں ہے.یہ بھی تو ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اپنے محبوب کو آپ تحفہ دیں تو وہ بھی آگے سے تحفہ دیتا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس تحفے سے انسان شرمندہ ہو جاتا ہے.محبت کے نتیجے میں خوش تو ہوتا ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ہی تحفہ اس طرف رہے، اس کی طرف سے بھی آگیا، اب میں کیا کروں تو اللہ تعالیٰ کو تو اس میں آپ ہر انہیں سکتے اس نے تو دینا ہی دینا ہے اور اتنا دینا ہے کہ آپ کے تھے ہمیشہ اس کے مقابل پر ذلیل اور حقیر ہو جایا کریں گے مگر سب سے بڑا سودا محبت کا ہے.جو محبت اس کی عطا ہوگی وہ آپ کے لئے بھی ذرہ ذرہ بھی ایسا کہ آپ اس کو لینے کے لئے جان بھی قربان کر دیں تو لیں اور ہوگی بھی اتنی کہ لامتناہی ہے.آپ سے سمیٹی نہ جائے.اس دنیا میں بھی خدا کی محبت نصیب ہوگی ، اس دنیا میں بھی خدا کی محبت نصیب ہوگی.پس جن قوموں نے مال کے سودے کرنے ہیں اور قربانیاں کرنی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ ان کی باریک راہوں کو دیکھیں اور سمجھیں اور اپنی قربانی کی سب سے زیادہ قیمت لیں اور اللہ کی محبت قربانی کی سب سے زیادہ قیمت ہے.اسی کے نتیجے میں انسان البر بنتا ہے.ہر کریم ایسا جو واقعۂ معزز ہو جاتا ہے اور دنیا کے معاملات میں بھی وہ معزز کہلاتا ہے.پھر اس کے دنیا سے سلوک بھی کریمانہ ہو جایا کرتے ہیں.پس اللہ کرے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ مالی قربانی والے ایسے پیدا ہوں.جو محبت الہی کی وجہ سے قربانی کریں اور ایسے اموال پیش کریں جو چاہتے ہوں کہ محبت ہو تو پیش کئے جائیں ورنہ نہ پیش ہوسکیں.اب وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیاوی طور پر بہت حصہ پاتے ہیں، امیر ہو جاتے ہیں اب ان کا مال کی محبت کا معیار بھی ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے.ایک غریب آدمی کی مال سے محبت جو ہے وہ اگر اس کو ہزار روپیہ ملتا ہے یعنی آج کل کے زمانے میں پاکستان میں تو ہزار بھی ایک غربت کا نشان ہے، اس میں اگر وہ سو بھی دے تو بہت بڑی قربانی ہے کیونکہ وہ جو ہزار ہے وہ اس کی روزمرہ کی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا.اس لئے سوکی بحث نہیں رہی یہ بحث ہے کہ جو مال پیش کر رہا ہے اس سے محبت ہے کہ نہیں اور ضرورت مند سے زیادہ کون مال سے محبت کر سکتا ہے.پس جتنا غریب ہو اتنا ہی اس کا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے.یہ بھی اس آیت کا پیغام ہے جو بہت ہی لطیف ہے کہ تم وہ خرچ کرو جس سے تمہیں محبت ہے پھر خواہ تھوڑا بھی ہوا گر محبت زیادہ ہے تو
خطبات طاہر جلد 14 631 خطبہ جمعہ 25 راگست 1995ء اجر محبت کے نتیجے میں ملے گا نہ کہ مال کی مقدار دیکھ کر دیا جائے گا.پس اس نے بڑے اور چھوٹے کوکس طرح دیکھیں ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا اور غریب کے لئے بھی کوئی شکوے کی اور حسرت کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی.جتنا غریب اتنا ہی تھوڑے سے مال سے اس کی محبت زیادہ ، جتنی محبت زیادہ اتنا ہی اس کا خرچ خدا کے نزدیک زیادہ مرغوب اور مقبول اور اتنا ہی بڑا محبت کا اجر اسے عطا ہوگا.پس بظاہر فرق ہیں امیر اور غریب میں لیکن اللہ تعالیٰ کا جو نظام جاری ہے وہ ہر فرق کو مٹا دیتا ہے اور آخری فیصلہ ایک شخص کے دلی تعلق ہی کے نتیجے میں ہوتا ہے.تان ٹوٹتی ہے تو اس کی نیت کے اچھے یا بد ہونے پر ٹوٹتی ہے اور باقی جو چیزیں ہیں خرچ یہ ایک ظاہری سا ایک نسبتاً ایسا نظام دکھائی دیتا ہے جو بنیادی اہمیت نہیں رکھتا.بنیادی اہمیت اس تعلق ہی کی رہتی ہے جس تعلق کے نتیجے میں آپ مال خرچ کرتے ہیں یا جس کی کمی کے نتیجے میں آپ ہاتھ روک لیتے ہیں.پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کہ ایسے بھی تو لوگ ہیں جو دین میں خرچ نہیں کرتے مگر دنیا میں ان کے ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور بہت خرچ کرتے ہیں.ان کا کیا ہوگا ، ان کا خرچ کیا معنے رکھتا ہے.فرمایا مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِي هَذِهِ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ( آل عمران: 118) یعنی وہ لوگ جو خدا سے ہاتھ روکتے ہیں ان میں سے ایسے بھی ہیں جو دنیا میں بہت کھلا خرچ کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان کے خرچ کی حیثیت یہ ہے کہ كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمِظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ان کی مثال ایسی ہوا کی طرح ہے فِيهَا صِر اس میں یخ بستہ ہوائیں ہوں.ایسی تیز ہوا چلے جس کے اندر بعض حصے یخ بستہ کر دینے والے ہوں جیسی بعض دفعہ شنوب چلتی ہے کینیڈ او غیرہ میں ، بعض ممالک میں اچانک آتی ہے اور وہ سب کچھ اپنی سردی کی وجہ سے جلا کے رکھ کر دیتی ہے.اتنی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ بھی کھینچا ہوا ہے باوجود اس کے کہ قرآن کریم عرب میں نازل ہوا ہے جہاں اس قسم کی ٹھنڈی ہواؤں کا تصور نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو ایسے خرچ نہ کرنا دنیا والوں کی طرح جن کے خرچ کے نتیجے میں جو مثال بنے گی ایسی ہوگی جیسے کسی نے زمیندارہ کیا، محنت کی ، پھل پھول لگائے اور پھر ایک بہت ہی سرد ہوا چلی ہے جس نے سب کچھ بھلس کے رکھ دیا ہے.اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ سرد ہوا سے کیوں نسبت دی گئی.گرم بگولوں سے کیوں نسبت نہ دی
خطبات طاہر جلد 14 632 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء گئی.اصل میں جن کے دل اللہ کی محبت میں سرد پڑ چکے ہوتے ہیں ان کے اموال میں Energy نہیں ہوتی ، ان کی ساری قربانیاں طاقت سے عاری ہو جاتی ہیں اور دنیا میں جو آپ کو قربانیاں دکھائی دیتی ہیں یہ بے معنی ہیں، ان کے کسی کام نہیں آ سکتیں کیونکہ اصل فیصلہ یہ ہوگا کہ اللہ کی محبت کی گرمی سے کچھ خرچ کیا گیا ہے یا اس کے فقدان کے نتیجے میں ایک مرے ہوئے ، ٹھنڈے دل نے خرچ کیا ہے اور جو مرا ہوا ٹھنڈا دل خرچ کرے گا اللہ نتیجہ وہی نکالے گا.خواہ دنیا پر آپ کتنی ہی گرم جوشی سے خرچ کریں لیکن ٹھنڈی ہوا جو آپ کے دل کی خدا سے سرد مہری کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے وہ بالآخر اس کو ہلاک کر دے گی.تو خدا تعالیٰ نے مثالیں دی ہیں ان میں بھی گہری حکمتیں ہیں.یہاں محبت کی گرمی یا محبت کے فقدان کی سردی مراد ہے اور جن کے دل خدا کی محبت سے عاری ہوں ان کے دل خدا پر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور وہی سردی ہے ان کے دلوں کی جو ان کی محنتوں کو ہلاک کر دیا کرتی ہے.وَمَا ظَلَمَهُمُ اللهُ وَلكِنْ اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ اس کے نتیجے کی سمجھ آجاتی ہے.اگر آپ پہلی آیت کو سمجھ لیں.اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے تو ان پر ظلم نہیں کیا.اگر وہ مضمون نہ سمجھیں جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے تو پھر یہ نتیجہ مجیب سا لگتا ہے.ایک طرف اللہ کہتا ہے چلاتا تو خدا ہی ہے ہوا اور ایک زمیندار کے سارا سال کی محنت بھی برباد ہو جاتی ہے اور پھر بھی اللہ کہتا ہے کہ ہم نے ظلم نہیں کیا انہوں نے خود ظلم کیا.انہوں نے خود ظلم اس لئے کیا کہ اپنی قربانیوں کی ہلاکت کا سامان پہلے ہی دل میں سمیٹ رکھا تھا.ہیولا برق خرمن کا ہے خون گر دہقاں کا وہ خون گرم غریب کا جوامیر چوس جائے، غالب کہتا ہے کہ برق جو گرتی ہے خرمن پر یہ وہی غریب کا چوسا ہوا خون ہے جو برق بن کر برستا ہے.اور یہاں تمہاری اللہ کی محبت سے سرد مہری ہے جو یخ بستہ ہوا بن کر چلے گی تمہارے اعمال پر اور ان سب کو بے نتیجہ اور بے حقیقت کر کے دکھا دے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا پہ جو بھی آپ خرچ کریں اس کا یہی نتیجہ نکلے گا.آنحضرت ﷺ نے جو ہمیں مالی نظام کے باریک پہلو سمجھائے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ جو خرچ بظاہر ہم دنیا پہ بھی کرتے ہیں ان میں بھی اللہ کی محبت کی گرمی پیدا کی جاسکتی ہے اور اگر کر دی جائے تو
خطبات طاہر جلد 14 633 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء وہ دنیا کا خرج عبادت بن جاتا ہے.اب اس کی مثال اس سے بہتر نہیں دی جاسکتی کہ انسان اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کرتا ہے.کبھی خاص طور پر پیار کی موج آئی ہو تو ہاتھ سے لقمہ بنا کے اس کے منہ میں ڈالتا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ لقمہ بھی اگر تم خدا کی محبت کو غالب کرتے ہوئے بیوی کو راضی کرنے کی بجائے اس خیال سے ڈال دو کہ میرا اللہ چاہتا ہے کہ میں اس سے حسن سلوک کروں بیوی کو تو مزہ آئے گا ہی وہ تو اسی طرح لطف اٹھائے گی جس طرح تم نے لقمہ ڈالا ہوکسی اور نیت سے.مگر تم ایک اور لطف اٹھا لو گے تمہیں بیوی کی رضا بھی حاصل ہو جائے گی اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہو جائے گی.وہی تمہارا فعل جو خدا کی محبت کی گرمی سے ہو گا یہ نشو و نما پانے والا ہوگا یہ بہترین نتائج ظاہر کرنے والا ہوگا.تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ہمیں تسلی دلا دی کہ مومن خواہ بظاہر دنیا پر بھی خرچ کر رہا ہوا گر یہ نسخہ یادر کھے کہ جو کچھ بھی کرے اس میں رضائے باری تعالیٰ کا پہلو غالب رہے تو پھر اس کا ہر خرچ برکتوں والا ہے اور دین و دنیا میں وہ خدا تعالیٰ کے حضور نشو و نما پانے والا مال بنے گا اور اللہ کے فضل کی رحمتیں اور برکتوں کی ہوائیں اسے ایسی سرسبز لہلہاتی ہوئی کھیتیوں میں تبدیل کر دیں گی جو بڑی کثرت سے پھل دیتی ہیں اور ان کے پھل کی حفاظت کی ذمہ داری بھی آسمان سے اترا کرتی ہے.پس ایسے سودے کیوں نہ کریں؟ خرچ تو ہم نے کرنے ہی ہیں مگر جو خدا کی راہ میں خرچ کریں وہ ایسی نیست سے کریں کہ اس سے بہتر اجر سوچا بھی نہ جاسکتا ہو اللہ کی محبت میں.جو دنیا میں خرچ کرنے ہیں اور خود اس کے فائدے اٹھانے ہیں اس میں بھی خدا کی محبت کا عنصر شامل کر دو تو وہ بھی تمہارے لئے جزا کا موجب بن جائے گا.ہر خرچ خدا کی خاطر کیا ہوا خرچ بن سکتا ہے.پھر آنحضرت ﷺ ایک اور بہت ہی لطیف مثال دیتے ہیں کہ کس طرح نیتوں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ اموال میں ایسی برکت دیتا ہے کہ بعض دفعہ عام قانون قدرت سے ہٹ کر ایسے لوگوں کے اموال میں برکت کے سامان کئے جاتے ہیں اور ان کی نشو ونما کی حفاظت کی جاتی ہے اور یہ حدیث مسلم کتاب الزہد سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے یہ قصہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جارہا تھا.بادل گھرے ہوئے تھے یعنی ایسے جنگل میں تھا جہاں خشکی تھی اور گھاس کی پتیاں بھی نہیں اگتی تھیں لیکن با دل بہت گھر کر آئے ہوئے تھے.اس نے بادل سے ایک آواز سنی کہ اے بادل تو فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر اور وہ بادل اس جگہ
خطبات طاہر جلد 14 634 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء کو چھوڑ کر ایک اور سمت چل پڑا.اب اس شخص کے دل میں تعجب پیدا ہوا کہ میں دیکھوں تو سہی یہ کیا بات ہے.وہ اس بادل کی پیروی میں جہاں جہاں وہ بادل جارہا تھا اس طرف چل پڑا.یہاں تک کہ اس نے دیکھا کہ وہ بادل ایک نالے پر جا کر برسا ہے اور خوب برسا ہے.وہ اس نالے کے ساتھ ساتھ چل پڑا، دیکھا تو اسی نالے سے ایک شخص نے پانی نکال کر اپنے کھیتوں کی طرف رخ موڑا ہوا تھا.اس کو بادل سے جو آواز آئی اس میں اس کا نام بھی بتایا گیا تھا.اللہ کی طرف سے بادل کو حکم ملتا ہے کہ اے بادل ! میرے فلاں بندے کے کھیتوں میں جا کے برس.اس نے دیکھا تو اس نے اس سے پوچھا کہ بھائی تمہارا کیا نام ہے.اس نے وہی نام بتایا جو بادل کی آواز کے ساتھ اس نے سنا تھا.اس پر اس نے کہا کہ مجھ سے یہ عجیب واقعہ ہوا ہے.تو کرتا کیا ہے؟ مجھے بتا تو سہی کہ تیرے وہ کون سے اعمال ہیں جو اللہ کو اتنے پسند آ گئے ہیں کہ بادلوں کو حکم دیتا ہے کہ جا اور میرے بندے کی خاطر برس.تو اس نے کہا کہ اب تم نے بات چھیڑ دی ہے بتا ہی دیا ہے قصہ تو اب سن لو کہ میرا دستور یہ ہے کہ جو کچھ بھی مجھے آمد ہوتی ہے اس میں اس کا 1/3 حصہ پہلے خدا کے لئے نکال دیتا ہوں.پھر 1/3 کھیتی کا حق ادا کرنے کے لئے تا کہ آئندہ فصل کے لئے جو ضروریات ہیں وہ پوری کروں الگ کر دیتا ہوں.پھر جو 1/3 بچتا ہے وہ اپنے اہل و عیال پر ، دوستوں پر اپنی دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے خرچ کرتا ہوں.بس اتنا سا میرا کام ہے اور اللہ کو یہی بات پسند آ گئی ہے.اس سے آپ کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ہم نے جو نظام جماعت میں آپ دیکھتے ہیں کہ 1/3 تک وصیت کی اجازت ہے زیادہ کی نہیں یہ ایک مستقل آسمانی ہدایت ہے یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 113 کی شرط لگائی ہے.1/10 وصیت میں کم سے کم اور 1/3 زیادہ سے زیادہ لیکن 1/3 ہو یا 1/10 ہواگر اللہ کی محبت کی خاطر خرچ کریں گے اور با قاعدہ نیت باندھیں کہ میں اپنے اللہ کو راضی کروں گا جو کچھ اللہ کا ہے وہ آپ کا ہو جایا کرتا ہے.خدا کی کائنات آپ کی خاطر مسخر کر دی جاتی ہے اور اسی کی یہ مثال ہے کہ جو میں نے حدیث کی صورت میں آپ کے سامنے رکھی ہے.اب باقی باتیں انشاء اللہ بعد میں کروں گا اب وقت تھوڑا ہے میں بعض جنازوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.اکثر میرا طریق یہی ہے جیسا کہ پہلے خلفاء کا بھی تھا کہ حتی المقدور نماز جنازہ کو جمعہ
خطبات طاہر جلد 14 635 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء کے ساتھ ملاتے نہیں الگ رکھا جاتا ہے، بعد میں کیا جاتا ہے لیکن بعض دفعہ لوگوں کی وفات کے وقت طبعا دل میں ایک جوش اٹھتا ہے کہ ان کے لئے جمعہ کے ساتھ نما ز جنازہ ادا کی جائے اور ایسی صورت میں میں پھر یہی فیصلہ کرتا ہوں.جماعت کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ میرے ان فیصلوں کے نتیجے میں مجھ پر یہ دباؤ نہ ڈالیں کہ جس کا دل چاہے اس کے عزیز کی نماز جمعہ کے ساتھ نماز جنازہ ہو.وہ زور دے کہ فلاں جمعہ کے بعد اس کا جنازہ بھی پڑھ دیں.یہ پھر رسم و رواج بن جائیں گے اس میں نفس کی انا کا دخل ہو جائے گا.اللہ کی محبت کا دخل نہیں رہے گا ان باتوں کو مجھ پر چھوڑ دیں.یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ ہمارے فلاں عزیز کی نماز جنازہ غائب آپ پڑھا دیں یا حاضر ہو تو حاضر پڑھا دیں مگر وقت کی شرط نہ لگایا کریں.آج جو دو جنازے خصوصیت سے میرے پیش نظر ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سے جنازے ہیں جن کا اعلان ہو چکا ہے.لیکن ایک ہمارے ابراہیم نون یہ گلاسکو میں پانچ سال پہلے مسلمان ہوئے تھے مگر احمدی نہیں تھے.احمدیت کی وساطت سے نہ ان کو پیغام ملا ، نہ ان کو خیال آیا احمدی ہونے کا.ان کے دل میں اسلام کے نتیجے میں بوسنیا کے لئے قربانی کا جذبہ ابھرا اور محض اس اسلامی تعلق کی وجہ سے یہ بوسنیا کی خدمت کے لئے وقف ہو گئے اور مختلف جو قافلے جایا کرتے تھے مدد کے ان میں ان کے ساتھ جایا کرتے تھے.ایک سال پہلے ان کا تعارف اتفاقاً جماعت سے اس طرح ہوا کہ جماعت کے ایک Convoy میں یہ بھی شامل ہو کر ایک اور ادارے کے چونکہ مستقل ممبر بنے ہوئے تھے یہ بھی شامل ہو کر ساتھ چلے گئے وہاں انہوں نے جس طرح احمدیوں کو خدمت کرتے دیکھا قریب سے ان کی عبادتیں دیکھیں، ان کا تعلق باللہ دیکھا، ہر موقع پر وہ دعا کر کے کام کرتے تھے.اس سے اتنا متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنے آپ کو احمدیوں کے قافلوں کے ساتھ جانے کے لئے وقف کر دیا اور مجھے آ کر ملے اور مجھے کہا کہ میں نے قطعی طور پر احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، آج سے میں احمدی ہوں.میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ غور کر لیں آپ کو اختلافی مسائل بھی دیکھنے ہوں گے.انہوں نے کہا مجھے کچھ تو بتا دیئے ہیں بعض احمد یوں نے مگر یہاں اختلافی مسائل کی بحث نہیں ہے مجھے جس اسلام سے اطمینان نصیب ہو رہا ہے وہ یہ اسلام ہے جس پر آپ عمل کر رہے ہیں اور مجھے طمانیت ہی نہیں مل سکتی دوسری جگہ.اس لئے آپ مجھے اپنے میں قبول کریں.
خطبات طاہر جلد 14 636 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء اب مجھے یاد نہیں کہ با قاعدہ اس وقت ان سے بیعت فارم بھروایا گیا تھا کہ نہیں مگر یہ بات سن کر میں نے ان سے کہا کہ آپ آج کے بعد خدا کی نظر میں بھی احمدی اور میں بھی آپ کو احمدی ہی سمجھوں گا.انہوں نے کہا دعا کریں میں پھر خدمت پر جا رہا ہوں.چنانچہ مسلسل بوسنیا جانے والے قافلوں کی خدمت کرتے رہے.ابھی اطلاع ملی ہے یعنی چند دن پہلے کہ وہاں Srivo سرائیوو کے نزدیک ایک بارودی سرنگ کے پھٹ جانے کی وجہ سے ان کی شہادت ہوئی ہے.چونکہ بوسنیا کے جہاد میں اللہ شرکت کی ہے، نو مسلم ہونے کے باوجود، اتنا جذبہ جہاد تھا، اتنی قربانی تھی اس لئے ان کے لئے تو خصوصیت سے میرے دل میں یہی تحریک اٹھی کہ نماز جمعہ کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھائی جائے.دوسرے ہمارے عزیز مبشر احمد صاحب ہیں.جماعت جرمنی کے سرگرم کارکن اور فدائی احمدیت کے اور ایسا عشق تھا احمدیت سے اور خلافت سے کہ ان کی زندگی اس کام میں وقف رہتی تھی کہ کسی طرح مجھے خوشی کی خبر پہنچا ئیں اور کوئی بھی تکلیف کی خبر کہیں پہنچتی تھی تو وہاں پہنچتے تھے، مجھے دعا کا تار دے کر جاتے تھے ، خدمت کے لئے وقف ہوتے تھے اور بار بار مجھے چھوٹی سی بھی امید کی خبر آئے تو فیکس کر دیا کرتے تھے کہ الحمد للہ اب اللہ کے فضل سے یہ Improvement ہوگئی ہے.یہ ہوگئی ہے، یہ ہوگئی ہے.ان کے اس اخلاص کی وجہ سے میں نے ان پر بوجھ بھی بہت ڈالے لیکن ہر بوجھ خوشی سے قبول کیا اور میری توقع سے بھی بڑھ کر ادا کیا.اس لئے میں نے ایک خطبے میں بھی ان کا ذکر کیا اور اس کے بعد جماعت جرمنی نے ان پر وسیع ذمہ داری ڈال دی اور مسلسل بڑی محنت کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرتے رہے بلکہ میں تعجب کرتا تھا کہ اتنی جلدی کس طرح انہوں نے وہ سارا کام کر لیا جو ساری جماعت جرمنی کے کارکنوں کو تو فیق نہ ملی جن کو میں بارہا کہہ چکا تھا، کہتا رہا تھا کہ آپ یہ کام اس طرح کریں.نہ ان کو سمجھ آتی تھی نہ اس کی توفیق ملتی تھی.مگر جماعت جرمنی پر کوئی حرف نہیں ہے کیونکہ ان سے جن لوگوں نے تعاون کیا ہے وہ بھی تو جرمنی جماعت کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں.بکثرت گروپس بنائے انہوں نے اور بڑی اعلیٰ روح کے ساتھ سب نے لبیک کہا اور وہ کام جو کئی سال سے رکا ہوا تھا یا دو سال سے کہنا چاہئے رکا ہوا تھا اللہ کے فضل سے بڑی تیزی سے آگے بڑھا.یہ یہاں بھی اسی خدمت کے لئے آئے ہوئے تھے وہاں سے.کچھ ٹیپیں تیار کروا کے ہماری ایم ٹی اے کے لئے اپنی وین میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر یہاں پہنچے تھے.عشاء کے
خطبات طاہر جلد 14 637 خطبہ جمعہ 25 راگست 1995ء وقت میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا اسی دن آئے تھے تو انہوں نے مجھے بتایا مختصراً اور کہا میں ابھی جارہا ہوں.تو میرے دل پہ تر ڈر ہوا، بوجھ پڑا کیونکہ بسا اوقات میں کارکنوں کو روکتا ہوں کہ اتنا بوجھ نہ لو انسان آخر انسان ہے.بعض دفعہ نیند کے غلبے سے مغلوب ہو کر حادثات بھی ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ربوہ میں بھی ایک دفعہ پرانی بات ہے ہمارے فاروق کھوکھر صاحب ان کو بھی یہی جوش ہوا کرتا تھا کہ جب خدمت سپرد ہو تو نہ دن دیکھتے نہ رات اور نیند سے برا حال، مجبور ہوئے ہوئے کہ میں ابھی واپس جاؤں گا.ان کو میں نے سمجھایا کہ ٹھہر میں ابھی ساری رات چل کے آئے ہیں، ابھی ناشتہ کیا ہے، اس کا بھی اثر ہوتا ہے آپ نہ جائیں.کہ نہیں نہیں آپ فکر نہ کریں میں بڑی Drive کر لیتا ہوں اور اس کے تین گھنٹے بعد ایک کار آئی کہ فلاں کا ر آپ کے رشتہ داروں کی تو نہیں تھی کوئی ہمیں اس کی بہکی بہکی باتوں سے لگ رہا ہے کہ وہ ربوہ کا تھا اور آپ کا عزیز تھا.تو پتا لگا کہ سو گئے چلاتے وقت اور نہر کے جو بازو کا ایک بند سا ہوتا ہے سڑک چھوڑ کر موٹر اس بند میں ٹکرائی ہے اور اللہ کا خاص فضل ہی تھا جو اس کے باوجود زندہ بچ گئے ورنہ دیکھنے والوں کو امید نہیں تھی.تو میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ لوگوں کو چاہئے کہ یہ نصیحت مان لیا کریں.توفیق سے بڑھ کر اگر آپ اپنے اوپر بوجھ ڈالیں گے تو یہ جو قربانی ہے یہ غلطی کی قربانی ہے.اللہ نے نہیں مانگی.لَا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: 287) اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی توفیق سے بڑھ کر کام کرنے کے لئے پابند نہیں فرماتا.پس رک جایا کریں وہاں جہاں آپ کی ہمت جواب دے جائے.مگر بہر حال ان کو تو میں شہید ہی سمجھتا ہوں کیونکہ جس جذبے سے انہوں نے خدمت کی ہے اور آخر وقت تک کسی وجہ سے چاہتے تھے کہ جلدی لوٹوں بہت سے کام رک گئے ہیں جو جا کر ہی کئے جائیں گے.ان کی شہادت کے تعلق میں ایک اور واقعہ جو میں آپ کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص ایک اعجاز کی صورت میں مجھے ملا.جب ان کے وصال کی خبر ملی ، شہادت کی تو میرے دل میں سخت بے چینی پیدا ہوئی کیونکہ ان سے ان کی قربانی کی وجہ سے بہت تعلق تھا.یہ خطرہ تو مجھے ذرا بھی نہیں ہوا کہ کام کیسے چلیں گے وہ تو اللہ کے کام چلتے ہیں ایک مبشر لے جائے تو سو مبشر عطا کر دیا کرتا ہے.مجھے اپنے تعلق کی وجہ سے تھا کہ صدمے کا بہت بوجھ پڑ جائے گا اور میرے کاموں میں حارج نہ ہو جائے.ایسا بوجھ نہ پڑے جس سے مجھے کوئی نقصان پہنچ جائے اور اس کے ساتھ ہی
خطبات طاہر جلد 14 638 خطبه جمعه 25 راگست 1995ء دل سے دعا نکلی کہ اللہ ہی ہے سنبھالنے والا.مجھے زندگی بھر کبھی ایسا تجر بہ نہیں ہوا یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اچا نک یوں لگا جس طرح آسمان سے اس طرح سکینت اتری ہے کہ اچانک دل ٹھہر گیا وہیں.کوئی فکر کی بات نہیں رہی، نہ غم کا غلبہ رہا.ایک ایسا واقعہ جیسے عام روز مرہ کوئی واقعہ ہو جائے اس کا کوئی بھی بداثر نہیں تھا اور اس سے پہلے بھی صدمے ہوئے ہیں مگر اتنی جلدی تسکین کبھی نہیں ہوئی جو اس دعا کے نتیجے میں ہوئی ہے.اس کا بھی اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو اسکا مبشر کی اپنی ذات سے بھی ایک تعلق ہے.ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی مجھے تکلیف نہ پہنچے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف سے اس تکلیف کو جو مجھے شدت سے پہنچنی تھی خود سنبھال لیا.میں نے جب جرمنی کے امیر صاحب سے بات کی ابھی یہ بات پوری بتائی نہیں تھی میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسکین اتری ہے.تو انہوں نے کہا عجیب بات ہے ہمارا یہی تجربہ ہوا ہے ہم سب بڑے پریشان تھے اچانک خدا کی طرف سے ایک عجیب تسکین اتری ہے.تو یہ دو جنازے خصوصیت کے ساتھ ابھی نماز جمعہ کے بعد ادا کئے جائیں گے اس لئے سنتیں بعد میں پڑھی جائیں.اس کے علاوہ کچھ اور بھی عزیز ہیں مثلا آپا عائشہ، کرنل سلطان محمد صاحب کی بیوہ تھیں اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیٹی تھیں ، آپا آمنہ کی ہمشیرہ.یہ بھی ایک فرشتہ سیرت انسان اور غیر معمولی خلیق تھیں.جو بھی ان کو جانتے ہیں ان کو پتا ہے کہ کبھی ایک دفعہ بھی ان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو کسی دکھ کا موجب بنی ہو.ہمیشہ بنی نوع انسان کی ہمدردی، سچی محبت میں رہیں.دین سے بے حد محبت اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی اور ایک مثالی خاتون تھیں.پھر ہمارے عزیز میرے ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحب کی بیٹی کے میاں میر نعیم اللہ صاحب کی ابھی حال ہی میں بریڈ فورڈ میں وفات ہوئی ہے اور ان کو کینسر ہو گیا تھا اور آخر وقت میں مسلسل دین کی باتیں سنتے رہے کبھی قرآن سنواتے تھے، کبھی مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات سنتے تھے اور جب خیال آتا تھا کسی کو کہ تھک نہ گئے ہوں تو پوچھتا تھا تو کہتے نہیں نہیں اس سے میں نہیں تھکوں گا.تو بہت ہی نیک حالات میں ان کا وصال ہوا ہے.پھر ہمارے بشیر الدین صاحب مومن جو یہاں آیا کرتے تھے بنگلہ دیش سے.ان کا
خطبات طاہر جلد 14 639 خطبہ جمعہ 25 /اگست 1995ء خاندان بھی بہت مخلص اور فدائی ہے.پھر میاں جہانگیر وٹو صاحب جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو کے والد تھے.بڑے بہادر اور نڈر احمدی تھے خدا کے فضل سے اور کبھی اپنے بیٹے کی جو دنیاوی عزت تھی اس کے خیال سے نہ صرف یہ کہ احمدیت چھپائی نہیں بلکہ برادری میں چونکہ بہت معزز تھے ان کو بلا کر منہ پر سنایا کرتے تھے کہ تم کیا چیز ہو میں ہوں اصل جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا ہے.ایک دفعہ اپنے بیٹے کو بلا کر کہا منظورا، جس طرح بھی وہ بلایا کرتے تھے کہ "کنی کپاہ ہوئی اے تیری“ انہوں نے کہا جی اتنے من یا کچھ.انہوں نے کہا ساری حکومت دی مشینری نال لگی 23 من کپاہ ہوئی اے نا.میں مسیح موعود دا غلام میری 42 من ہوئی اے بڑے بہادر انسان ، نڈر اور بے خوف اور کامل و فادار احمدیت کے.اس کی وجہ سے مولویوں نے منظور صاحب پر بڑے دباؤ بھی ڈالے لیکن بہر حال جس باپ کے بیٹے تھے اس کے ساتھ وفا تو انہوں نے کی.یہاں تک کہ جماعت کو آ کے کہا آپ کا معاملہ ہے آپ سنبھالیں.آپ ہی جنازہ پڑھائیں اور یہ غیر کا نہیں.جہاں جس طرح چاہیں تدفین کریں.تو ان کے ساتھ میرا چونکہ پرانا رابطہ تھا.ابھی منظور صاحب چھوٹے ہوا کرتے تھے.اس زمانے سے ان کے ساتھ خط و کتابت اپنے بیٹے کی نصیحت کے لئے کہا کرتے تھے مجھے.اس لئے ان سے بھی میری خط و کتابت رہی ہے، ایک زمانے میں تو اللہ تعالیٰ ان کی غریق رحمت کرے.ان کے علاوہ بھی کچھ جنازے کے اعلانات ہیں کئے جاچکے ہیں.تو یہ خصوصیت سے میں نے سوچا کہ آپ کو ان کے متعلق کچھ تفصیل بتا دوں.اب انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ہوگی.
640 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 641 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء کسب خیر سے بخل دور ہو جاتا ہے.جو مال خدا کے رستے سے روکا جائے وہ ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے.( خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَاَنْفِقُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاحْسِنُوا اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة:196) پھر فرمایا:.گزشتہ خطبے میں میں نے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) کی آیت پر کچھ امور آپ کی خدمت میں پیش کئے تھے یعنی نیکی حقیقت میں وہی نیکی ہے جو محبت کے تعلق میں خرچ کے لئے انسان کو آمادہ کرے.وہ نیکی جو محبت کے تعلق میں خرچ پر آمادہ کرے حقیقی نیکی وہی ہے حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ میں بیان کر چکا ہوں کہ جس چیز سے انسان کو محبت ہو وہ خرچ کر ہی نہیں سکتا جب تک جس کے لئے خرچ کرے اس سے زیادہ محبت نہ ہو.پس یہ مضمون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی کہ اگر تم محبت چاہتے ہوتو لازم ہے کہ وہ چیزیں میری راہ میں پیش کرو جن سے تمہیں محبت ہو.پس جب تم اپنی محبوب چیزیں قربان کرو گے تو میری محبت حاصل کرو گے.ایک اور آیت میں اسی محبت کے مضمون کو آخر پر یوں کھولا ہے وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمُ إِلَى التَّهْلُكَةِ کہ دیکھو اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور خرچ نہ کر کے اپنی جانوں
خطبات طاہر جلد 14 642 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء کو ہلاکت میں نہ ڈالو کیونکہ تم بہت بڑا نقصان اٹھاتے ہو جب خدا کی راہ میں خرچ سے رک جاتے ہو.اتنا نقصان اٹھاتے ہو گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے.وَاحْسِنُوا خرچ کرو خدا کی راہ میں اور زیادہ اچھے انداز سے خرچ کرو، اس میں حسن پیدا کرو اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اور یاد رکھو کہ اللہ یقیناً احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.وہی وعدہ جو محبت کا لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ میں مضمر تھا وہ کھول کر یہاں بیان فرما دیا گیا اور تقابل پہ یہ بات کھول دی کہ خدا کی محبت کے سودے ہی اصل سودے ہیں اور وہ خدا کی راہ میں جب خرچ کرو تو اس کو خوبصورت بنا کے خرچ کرو.احسان کے مختلف مواقع پر مختلف معنی ہوتے ہیں نماز میں احسان کا اور معنی ہے اور خرچ کے تعلق میں احسان کا اور معنی ہے.خرچ کے تعلق میں احسان کا وہی معنی ہے جو ہم روز مرہ کی زندگی میں ان کے تعلق میں جن سے ہمیں محبت ہو احسان کے مضمون کو ہمیشہ طبعی طور پر جاری بھی کرتے ہیں، سمجھتے بھی ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے.ایک تحفہ انسان جب محبوب کو پیش کرتا ہے تو اس کے ارد گر دوہ کاغذ جس میں وہ لپٹا ہوا ہے اس کی در حقیقت تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی لیکن دن بدن اس کی اہمیت اتنی بڑھتی جارہی ہے اب یہ با قاعدہ ایک سائنس بن چکی ہے کہ تحائف کو کس طرح ایسے خوبصورت لباس میں لپیٹ کے پیش کیا جائے کہ دیکھنے والا اس کو جس طرح لپٹا ہوا ہے، جس طرح پیش ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر خوش ہو جائے کہ اس نے میری خاطر محنت کی اور اب تو اتنے بڑے بڑے پارسلوں میں اتنے چھوٹے چھوٹے تھے آنے شروع ہو گئے ہیں کہ اس مضمون کو انہوں نے بدل دیا ہے.قرآن کا مضمون تو حکمت پر مبنی ہے.تحفہ بنیادی مرکزی چیز رہنی چاہئے.ارد گرد کا لباس احسان کا اظہار کرنے والا ہو کہ تحفے کے ساتھ بہت محبت وابستہ ہے اس لئے اسے سجایا گیا ہے.اب جو دنیا داری کے طریق ہیں ان میں سجانے والی چیز زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور اندر والی چیز نسبتا کم اور چھوٹی.اس لئے انسان کو اس کا برعکس رد عمل پیدا ہوتا ہے.سمجھتا ہے کہ بہت بڑی کوئی چیز آئی ہے کھولے دیکھے تو اندر سے کوئی چیز خاص نہ نکلے تو ظاہر بات ہے کہ مضمون اپنے مقصد کو کھو دیتا ہے.مگر قرآن کریم نے جس رنگ میں توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ اگر تم خدا کی خاطر خرچ نہیں کرتے تو یا درکھو یہ ایسی بات نہیں کہ نہیں تو نہ سہی ، چلو ٹھیک ٹھاک ہے.فرماتا ہے اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ بیچ کی بات نہیں ہے تم ہلاکت کی طرف جارہے ہو.وہی مال جو تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے
خطبات طاہر جلد 14 643 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء سے بچاتے ہو وہ تمہاری ہلاکت پر منتج ہو گا.اتنا بڑا کھلم کھلا اعلان ہے اور پھر راہ میں خرچ کرنے کی تحریص کی خاطر یہ بیان فرمایا کہ محبت کی خاطر خرچ کرنا چاہتے ہو تو پھر سجا کر پیش کیا کرو.ایسے طریق پر پیش کرو کہ تمہاری قربانی میں مزید حسن پیدا ہو جائے اور یاد رکھنا کہ اللہ حسنین سے بہت محبت کرتا ہے.اس خرج کے مقابل پر کچھ دوسرے خرچ بھی قرآن نے بیان فرمائے ہیں لیکن اس سے پہلے چونکہ یہاں مضمون تنیہ کا چل رہا ہے ایک اور تنبیہ والی آیت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ ہلاکت کن معنوں میں ہوتی ہے.اس کی تشریح قرآن کریم خود بیان فرما رہا ہے.یا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمُ لا بَيْعٌ فِيْهِ (البقره: 255) اے لوگو جن کو ہم نے دنیا میں رزق عطا فرمایا ہوا ہے.اے ایمان لانے والو یا درکھو کہ اس دن سے پہلے پہلے خرچ کر لوجس دن پھر کوئی سودا نہیں چلے گا.تمہیں خرچ کا اختیار اس دنیا میں ہی ہے اس کے بعد کوئی خرچ کا اختیار نہیں رہے گا اور وہ وقت ہر لمحہ قریب آ رہا ہے کہ تمہارے اپنے مال سے تصرف کے اختیارات اٹھ جائیں گے اور چھین لئے جائیں گے.تو جو کچھ کرنا ہے جلدی کرو اور مرنے سے پہلے پہلے کرو.لا بيع فِيهِ اس میں کوئی سودا نہیں ہوگا وَلَا خُلةٌ اور کوئی دوستی بھی کام نہیں آئے گی.وَلَا شَفَاعَةُ اور کسی قسم کی سفارش نہیں چلے گی وَالكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ اور کا فرلوگ خود ہی ظلم کرنے والے ہیں.یہاں کا فر کا ایک اور مفہوم بھی ہے جو اس مضمون سے تعلق رکھتا ہے وہ ہے ناشکرے لوگ.وہ لوگ جو ناشکرے ہیں خدا تعالیٰ سے رزق پاتے ہیں پھر اس کی راہوں میں اس کو روک رکھتے ہیں یہاں تک کہ موت آ کر ان کو اپنے مال سے بے تعلق کر دیتی ہے اس پر ان کو کوئی تصرف نہیں رہتا.یہی ہیں جنہوں نے ظلم کیا ہے.جبکہ موقع تھا کہ اس مال کے نتیجے میں اللہ کی محبت کماتے اور لافانی اجر کے مستحق ہو جاتے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا ( ابراہیم : 32) یہی مضمون ہے مگر ایک اور رنگ میں خطاب میں ایک بہت ہی پیار کا کلمہ داخل کر کے تحریص فرما دی گئی ہے، تنبیہ کے ساتھ اس خطاب میں ایک تحریص کا پہلو بڑا نمایاں ہے.قُلْ لِعِبَادِی میرے بندوں سے کہہ دے جن پہ مجھے اعتماد ہے کہ وہ میرے بندے بن کے دکھا ئیں گے جو ایمان لائے ہیں.یقیمُوا
خطبات طاہر جلد 14 644 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء الصلوۃ نماز کو قائم کریں وَ يُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ اور خرچ کریں اس سے جو ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے.سر او عَلَانِيَةً چھپ چھپ کر بھی اور کھلم کھلا بھی.یہاں بھی دیکھ لیں مسلسل چھپانے کے مضمون کو پہلے رکھا ہے خرچ میں اور ظاہر کے مضمون کو بعد میں رکھا ہے.مطلب یہ ہے کہ اگر محبت کے خرچ ہیں تو دنیا کی خاطر ہو ہی نہیں سکتے اور ثبوت اس بات کا کہ اللہ کی خاطر ہے یہ ہے کہ صرف اللہ کی نظر میں آئے چیز کسی اور کی نظر میں نہ آئے اس رنگ میں خرچ کرو لیکن اگر تم اس رنگ میں خرچ کرتے ہو تو پھر اس بات کے بھی مجاز ہو کہ کھلم کھلے تحائف بھی پیش کرو کیونکہ بسا اوقات دنیا کی تحریص کی خاطر بعض خرچ کھلے کھلے کرنے پڑتے ہیں.اس لئے بعض دفعہ اعلانیہ چندوں کی تحریک کی جاتی ہے اور اعلانیہ چندہ دینے والوں کے نام لئے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی طریق اختیار فرمایا لیکن جو مخفی پہلو ہے وہ حفاظت کرتا ہے اعلانیہ کی.جو چھپی ہوئی نیکی ہے وہ ظاہر نیکی کی حفاظت کرتی ہے اور ضامن بن جاتی ہے اس بات پر کہ خدا کو یہ قبول ہوگی کیونکہ اس کے اس بندے نے دنیا کی نظر سے غافل محض چھپ کر کبھی راتوں کے اندھیروں میں کبھی مخفی طریق پر رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کئے ہوئے ہیں.پس یہ عبادی کا جب خطاب فرمایا تو اس کی طرف توجہ دلا دی کہ دیکھو سر کے پہلو کو بھلانا نہیں کھلی قربانیاں بھی پیش کرنا مگر ایسی مخفی قربانیاں بھی ضرور پیش کرنا کہ اس سے یقین ہو جائے کہ تم محض محبت کی خاطر کر رہے ہو اور خدا کی محبت کی خاطر کر رہے ہو، پھر اس کا جواب بھی اسی طرح ملے گا.اور یہ جو جواب ہے میں ضمناً آپ کو بتا دوں اس کا ایک بہت گہرا تعلق انسان کے ہاتھ سے رونما ہونے والے اعجازوں سے ہے.بسا اوقات ایک انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ خاص اعجاز کا سلوک فرما تا چلا جاتا ہے اور دنیا نہیں کجھتی کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے.کوئی اس کی نیکی ایسی خاص دکھائی نہیں دیتی، نمازیں بھی اسی طرح پڑھتا ہے جیسے دوسرے لوگ پڑھتے ہیں، قربانیاں بھی اسی طرح دیتا ہے جیسے دوسرے لوگ دیتے ہیں مگر ایک مخفی ہاتھ اعجاز کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.وہ سویا ہوا بھی ہو تو اس کے لئے اس کا خدا جاگتا ہے اور اس کی تائید فرماتا ہے.اس کا راز اس بات میں ہے کہ مخفی طور پر اللہ سے محبت کے ایسے اظہار کرتا ہے جس میں خدا کی نظر کے سوا اور کوئی نہیں دیکھتی.تو اللہ بھی مخفی پیار کرتا
خطبات طاہر جلد 14 645 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء ہے اور مخفی پیار کا مطلب ہے دنیا کو پتا ہی نہیں کہ پیار ہے کیوں اور اندراندر پیار کے رشتے چل رہے ہیں.وہ اظہار دیکھتے ہیں تو تعجب میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن وہ باتیں نہیں دیکھتے جو اس مخفی پیار کو پیدا کرنے کا موجب بنیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر ایک اور رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خارق عادت باتیں تو لوگ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عادت کے خلاف ایک نمایاں طور پر اعجاز دکھایا، عادت سے مراد روز مرہ کا قانون قدرت ہے، قانون قدرت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بالا قانون کو جاری فرما دیا اور یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کیوں ہوا.فرمایا تم اگر اللہ تعالیٰ سے خارق عادت تعلق پیدا کرو گے تو لازم ہے کہ اللہ تمہارے لئے خارق عادت نشانات دکھائے.پس انبیاء کے لئے جو ایسے اعجاز دکھائے جاتے ہیں جن کا حل محض قانون قدرت کے سمجھنے میں نہیں بلکہ قانون قدرت سے بالا قوانین ہیں جو خارق عادت ہیں یعنی عام قانون سے ہٹ کر ہیں ، ان کے اجرا تعلق ہے.پس جو بندہ روز مرہ کے دستور کے مطابق عبادات کے حق بجالانے کے علاوہ کچھ اور ایسے رنگ بھی رکھتا ہے جو عام انسانوں کی عادتیں نہیں ہیں.ان سے بڑھ کر ، ان سے الگ ہوکر اللہ سے تعلق قائم کرتا ہے اور اس کے لئے قربانیاں پیش کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خارق عادت اعجاز نمائی کی یہ وجہ ہے کیونکہ اللہ سب سے زیادہ شکر گزار ہے،سب سے بڑھ کر شکر ادا کرنے والا ہے حالانکہ کوئی بھی ایسا وجود نہیں ہے جو اللہ کو منون کر سکے مگر اس کے شکر کے انداز نرالے ہیں.وہ دراصل احسان کا دوسرا نام ہے.حد سے بڑھا ہوامحسن جو ہے وہ چھوٹی سی بات پر بھی جو اس کو درحقیقت فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ ایک بے ضرورت سا اضافہ ہے اس کے تصرف میں، اس پر بھی اتنا زیادہ ممنونِ احسان ہو جاتا ہے کہ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس کو اچھا بدلہ دے، پس ویسے ممنون نہیں ہوتا.ایک بادشاہ کو برگ سبز کا تحفہ دے دیں تو اس کو ویسے ممنون ہونے کی وجہ ہی کوئی نہیں.سارا ملک ہی اس کی ملکیت کی طرح کا ہے اور بے شمار خزانے ، بے شمار ضرورت کی ہر قسم کی چیزیں مہیا لیکن بعض دفعہ تحفہ دینے والا ایک غریبانہ تحفہ پیش کرتا ہے اور اس کو انعامات کی خلعتوں سے نوازتا اور بے حد اس کے اس جذبے کو قبول کرتے ہوئے اس سے پیار اور تعلق کا اظہار کئی رنگ میں
خطبات طاہر جلد 14 646 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء کرتا ہے حالانکہ بات بیچ میں کچھ بھی نہیں ہوتی.وجہ یہ ہے کہ جذ بہ جو پیچھے کارفرما ہے، تحائف کی کنجی اس جذبے میں ہے.وہ جذبہ اگر خارق عادت ہوگا تو تحائف کی شکل بھی خارق عادت ہو جائے گی اور وہ مخفی جذ بہ نیت سے تعلق رکھتا ہے اس اندرونی فیصلے کے حالات سے تعلق رکھتا ہے جن حالات میں ایک شخص نے ایک فیصلہ کیا ہے.وہ حالات اگر ایسے ہوں کہ بظاہر ایک انسان توفیق نہ پاتا ہو کچھ پیش کرنے کی اور سوچوں کے بعد آخری دل کی نیت یہ فیصلہ کرے کہ جو کچھ بھی ہے میں خدا کی خاطر یہ ضرور کروں گا.یہ چونکہ خارق عادت فیصلہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے پھر خارق عادت طریق اختیار فرماتا ہے.لیکن خارق عادت سے پہلے احسان کا مضمون ہے اور یہ جو میں نے ابھی آیت آپ کے سامنے رکھی ہے اس میں احسان ہی کا مضمون بیان فرمایا گیا ہے.وَأَحْسِنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ کہ بعض لوگ ہیں جو احسان سے کام لیتے ہیں.اپنی چیزوں کو ، اپنی قربانیوں کو حسین بناتے ہیں.یادرکھو اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے.اب فرمایا سِرًّا وَ عَلَانِيَةً اور سرا کا مضمون میں بیان کر رہا ہوں کہ جو مخفی ہے اس میں خارق عادت باتیں پائی جاتی ہیں.جو اعلانیہ ہیں ان میں نہیں پائی جاتیں.اس لئے اپنی مخفی قربانیوں کی حفاظت کریں اور ان پر نظر رکھیں اور ان کو پہلے سے بڑھ کر خوب صورت بنانے کی کوشش کرتے رہیں اور یہ وہ چیز ہے جو اس دن کام آئے گی.يَوْمُ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلل جس دن نہ کوئی تجارت کام آئے گی نہ کوئی دوستی کسی کے کام آئے گی.قیامت کے دن بھی بعض ایسے فیصلے ہوں گے جن کی لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی.قیامت کے دن بھی کچھ ستاری کے ایسے اظہار ہوں گے جن کی دنیا کوسمجھ نہیں آئے گی.بظاہر یوں لگے گا کہ خدا تعالیٰ نے یونہی بعضوں کو چن لیا ہے.ستر ہزار جو بے حساب امت محمدیہ میں بخشے جائیں گے یا امت محمدیہ میں جو خوش نصیب ستر ہزار کی تعداد میں بخشے جائیں گے یہ وہی لوگ ہیں.بے حساب ہیں ان کے اعمال نامے سے پردہ اٹھایا ہی نہیں جائے گا.کسی کو بتایا ہی نہیں جائے گا کہ نیکیاں کتنی تھیں بدیاں کتنی تھیں اور صرف یہ اعلان ہوگا کہ بخشے گئے ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں کہ ویسے تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے جس کو چاہے بخشے، کسی دلیل کا محتاج نہیں مگر چونکہ حکیم ہے اس لئے مخفی در مخفی حکمتیں ضرور کارفرما
خطبات طاہر جلد 14 647 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء ہوتی ہیں.یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ محض ملکیت کے اظہار کی خاطر کر دے اور اس میں مخفی حکمت کوئی نہ ہو.حکمت سے عاری خدا کا کوئی فیصلہ نہیں.پس میں سمجھتا ہوں ان لوگوں کا بھی مخفی قربانیوں سے تعلق ہے.کچھ باتیں انہوں نے ایسی چھپا کر خدا کی خاطر کی ہیں، اس کی محبت جیتنے کے لئے کچھ ایسے انداز اختیار کئے جو اللہ جانتا ہے یا وہ جانتے ہیں.اس لئے قیامت کے دن بھی اللہ سب سے زیادہ شکور بن کر ان پر ظاہر ہو گا.کسی کو نہیں بتائے گا کہ کیا بات ہے.جس طرح انہوں نے چھپائی اپنی محبت ، اللہ اس محبت کو ایسے رنگ میں چھپائے گا کہ دنیا پر ظاہر تو ہوگی مگر مجھ نہیں آئے گی کہ کیا وجہ ہے کیوں ان لوگوں سے ایسا احسان کا سلوک ہو رہا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض خاص ادا ئیں خدا کی محبت کی اس کو پسند آتی ہیں جبکہ ایسا شخص بعض دفعہ بدیوں میں بھی مبتلا ہوتا ہے، کمزوریوں کا بھی شکار ہوتا ہے.پس وہ بے حساب لوگ جو ہیں عین ممکن ہے کہ ان میں ایسے لوگ شامل ہوں جن کی بعض نیکیاں اتنی خالص تھیں، بعض ادا ئیں اللہ کو اتنی پیاری تھیں کہ ان کی بدیوں سے صرف نظر کرنے کا فیصلہ فرمالیا گیا.وہ کھاتے اگر کھل کر پیش کر دیئے جاتے تو خدا کے احسان میں ایک قسم کی کدورت داخل ہو جاتی.وہ کہتے اللہ نے بخشا تو ہے مگر سب کو بتا کے بخشا ہے کہ یہ تھا.اس لئے ان کو بخشا گیا ہے ایسے انداز میں کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کھاتے کے اندر کیا چیز تھی.یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ اسی حساب کتاب کے مضمون میں یہ بھی فرماتے ہیں، یہ ایک انداز ہے ویسے تو خدا کا نہ جسم ہے نہ اس کے کان ہیں ایسے، مگر اظہار بیان کا ایک طریق ہے جسے انسان سمجھ سکتے ہیں.فرمایا، بعض ایسے بندوں کو بلا کر ان کے کان میں بات کرے گا کہ دیکھو یہ بات ہے میں تجھے بخش رہا ہوں.تو یہ پیار کے انداز ہیں اور منعکس ہو رہے ہیں، اصل میں دل سے اٹھے ہیں وہ انداز اور خدا تعالیٰ کے احسان کے آئینے سے منعکس ہو کر بہت زیادہ خوبصورت بن کر بہت زیادہ دلکش ہو کر اور روشن تر ہوکر پھر وہ قیامت کے دن جزاء کے طور پر پیش کئے جائیں گے.پس یہ جو قرآن کریم فرماتا ہے سِرًّا وَ جَهْرًا ساتھ اس کے یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو اس طرح خرچ کرنے والے ہیں یہ دوسرے لوگوں کے برابر ہو نہیں سکتے ، ان کا وجود ایک مختلف وجود ہے.چنانچہ اس مضمون کو کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد 14 648 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَّزَقْنَهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا هَلْ يَسْتَوْنَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ كْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (النحل: 76) کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے غلام کی مثال بیان فرماتا ہے جو خود مملوک ہے.یہاں محض عبد نہیں کہا گیا بلکہ مملوک لفظ ساتھ شامل کر کے جو خرچ کا مضمون چل رہا ہے اس کے ساتھ اس کے تعلق کو دوہرے طور پر باندھ دیا گیا ہے.لا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ کسی چیز پر بھی وہ قادر نہیں ہے.کیا اس کی مثال اس جیسی ہو سکتی ہے وَمَنْ زَزَقْنَهُ اس کی بھی مثال پیش فرما رہا ہے اللہ ، جسے کہتا ہے ہم نے رزق عطا فرمایا حَسَنًا بہت خوب صورت رزق تھا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ پھر وہ اس میں سے خرچ کرتا ہے.سر او جَهْرًا مخفی طور پر بھی اور ظاہر کرتے ہوئے بھی هَلْ يَسْتَونَ بھلا یہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں.اب یہ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے.ایک غلام تو بے اختیار ہے وہ خرچ بے چارہ کر ہی نہیں سکتا اس کا کیا قصور ہے اور اس کے مقابل پر جو آزاد ہے اس کے خرچ کی اتنی تعریف کیوں کی جارہی ہے؟ اگر عام سرسری نظر سے یہ آپ پڑھتے رہیں قرآن کریم تو بہت سے ایسے مسائل ہیں جو کبھی بھی آپ پر حل نہیں ہوں گے.جہاں تعجب کی بات ہے وہاں ٹھہرنا چاہئے غور کر کے سمجھنا چاہئے کہ ضرور کوئی منفی پیغام ہے.دراصل یہاں عَبْدًا مَّمْلُوا سے مراد واقعہ غلام نہیں ہیں بلکہ وہ جو اپنی دولت کا غلام بن جاتا ہے جو شیطان کا بندہ ہوکر خود اپنی ہی دولت کا غلام بن جاتا ہے اور اس کے تصرف سے اس غلامی کے نتیجے میں وہ دولت نکل جاتی ہے.وہ شخص جو حد سے زیادہ مال سے محبت کرنے والا ہو وہ مال کی زنجیروں میں ایسا جکڑا جاتا ہے کہ بسا اوقات اپنی اولا د کو بھی محروم کر دیتا ہے اور میرے سامنے بارہا ایسے واقعات آئے ہیں.اولا د ہے جس میں سے بعض تو اس مقام پر پہنچ گئے کہ اپنے باپ پر لعنتیں ڈالنے لگے کیونکہ ماں کو بھی ساری عمر اس ظالم نے ہر نعمت سے محروم رکھا اور اولا د کو بھی ہر نعمت سے محروم رکھا.وہ سڑکوں پر غریبانہ فاقوں کی زندگی بسر کرنے والے اور باپ ہے جو دولت اکٹھی کئے جا رہا ہے.ان کو سمجھاتا ہوں کہ دیکھو پھر بھی اف نہیں کرنا لیکن سمجھتا بھی ہوں کہ وہ ماحول بڑا ہی صبر آزما ہو گا جس میں آئے دن وہ اپنی ماں کو ذلیل ہوتا
خطبات طاہر جلد 14 649 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء ہوا د یکھتے ہیں.باپ میں تو فیق ہے، مال جمع کر رہا ہے ، جائیدادیں بنا رہا ہے مگر اتنی توفیق نہیں ہے کہ اس کو خود اپنی ہی اولاد کے لئے خرچ کر سکے.تو یہ وہ عَبْدًا مَّمْلُوكًا ہے جس کا ذکر چل رہا ہے غلام ہے، پیسے ہیں لیکن خود اپنی ہی دولت کا غلام بن کر مملوک بن گیا ہے، مالک نہیں رہا.تو وہ دولت مند جو مالک ہی نہ ہو اس پر کس کو حسرت ہو سکتی ہے، کس کو اس پر رشک آ سکتا ہے وہ تو قابل رحم ہستی ہے ایک.دیکھنے میں مالک مگر عملاً مملوک تو مالک کے مقابل پر لفظ مملوكًا کو رکھ کر اس مضمون کو کھول دیا گیا کہ مالی معاملات کی بات ہو رہی ہے یاد رکھنا بعض لوگ مالک ہوتے ہی نہیں.تم سمجھتے ہو کہ بڑے امیر لوگ ہیں.ان کی امارت کیا خاک ہے کہ جو اپنوں پر بھی کچھ خرچ نہ کر سکیں، اپنی ضرورت بھی پوری نہ کر سکیں اور ایسے ایسے کنجوسوں کے متعلق لطیفے بھی ہیں مگر واقعہ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں.ایک ایسے کنجوس کا کسی اور ایسے کنجوس کے ساتھ اپنی کنجوسی کے متعلق مقابلہ شروع ہوا.وہ اس کنجوسی کو اپنی عقل اور فراست کا نشان سمجھتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ تاجر ہوتو ایسا ہو.تو اس نے کہا تم کیسے خرچ کرتے ہو.اس نے کہا میں تو بہت ہی احتیاط کرتا ہوں ، روٹی چپڑنے کی تو کبھی توفیق نہیں ملی میں تھوڑا سا گھی ذرا سالگا کے ایک لقمے کو اس کو ساری روٹی پر پھیر تار ہتا ہوں یہاں تک کہ ساری روٹی پر مجھے خیال ہو کہ گھی لگ گیا ہے پھر میں مزے لے لے کے وہ کھا تا ہوں.تو دوسرے نے کہا تم بڑے خراج ہو، ایسا نہ کیا کرو.میں نے تو گھی رکھا ہوا ہے روٹی دکھاتا ہوں اس کو اور کھا لیتا ہوں.یہ ممْلُوا ہیں جن کا ذکر چل رہا ہے.عبد بھی ہیں، غلام ہیں نفس کے اور مملوک بھی ہیں اپنی ملکیت کے خود مملوكًا بن چکے ہیں.جس کے مالک تھے وہ ان کا مالک بن گیا، یہ ہے مضمون جو مملوک کا نفظ آپ کو دکھا رہا ہے.لَّا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ جن کے پاس ہے ہی کچھ نہیں خرچ کرنے کو، ان کو طاقت کیا ہے کسی چیز کی.وہ مال جو طاقت بنے وہ ہے جو رعب داب کا یاد نیاوی فوائد کا موجب بنا کرتا ہے.ایسے لوگ نہ اس مال سے سیاست خرید سکتے ہیں، نہ دنیا کے مراتب خرید سکتے ہیں، نہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، نہ لوگوں کے فائدے کے سامان کر سکتے ہیں.تو فرمایا لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ ایسا مملوک جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہا ہو.وَمَنْ زَزَقْنَهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا اور مثال دیکھو کہ اسے ہم نے رزقِ حسنہ عطا فرمایا ہے.یہاں وہ مضمون نہیں ہے کہ کم ہونے کے باوجود خرچ کرتا ہے.یہاں ایک اور مضمون نکالا گیا ہے
خطبات طاہر جلد 14 650 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء کیونکہ یہاں ایسے ایک مالدار کا دوسرے مالدار سے مقابلہ دکھایا جا رہا ہے.دنیا کے لحاظ سے دونوں ہی دولت مند ہیں اس لئے رزقِ حسنہ کی بات ہونی چاہئے تھی.ایک دولت مند دولت مند ہوتے ہوئے بھی فقیر ہو گیا، وہ مالک ہوتے ہوئے مملوک بن گیا آقا ہوتے ہوئے بھی غلام ہو گیا.دوسرا دولت مند ہے اسے رزق حسن عطا فرمایا ہے.پھر وہ کیا کرتا ہے سِرًّا وجَهْرًا خرچ کرتا ہے چھپ چھپ کے بھی اور ظاہر ا طور پر بھی.هَلْ يَسْتَوْنَ کیا وہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ قرآن کریم کا طریق ہے جب بہت ہی شان دار مضمون بیان ہو تو اس کے بعد الحمد للہ بے اختیاراس آیت کا حصہ بن جاتا ہے.بڑا ہی قابل تعریف ہے وہ خدا جس نے یہ مضمون خوب کھول کر بیان فرمایا ہے.بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ لیکن حسرت کا مقام ہے کہ اکثر وہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ کیا قصے ہیں، دولت کیوں دی جاتی ہے، اس کے استعمال کون سے ہیں جو دائمی فوائد پہنچانے والے ہیں، کون سے ہیں جو عارضی ہیں، کون سے ہیں جو ہلاکت کی طرف لے جانے والے ہیں.پس اللہ کی تعریف ہو، ہر تعریف اسی کے لئے ہے جو ان باتوں کو خوب کھول کر بیان کرتا ہے جب کہ حال یہ ہے اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے.پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو مالی قربانی کرتے ہیں مگر اس قربانی کو بوجھ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور وہ قربانی ان کے کسی کام نہیں آتی.یعنی اب ایسے لوگوں کا ذکر فرمارہا ہے قرآن کریم جو خرچ کی تو فیق تو پاتے ہیں مگر نیتوں کی خرابی کی وجہ سے ان کا خرچ ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.فرمایاؤ مِن الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا اعراب میں سے جو بدوی لوگ ہیں ان میں سے ایسے بھی ہیں وہ خرچ کرتے ہیں مگر اسے چٹی سمجھتے ہیں.سمجھتے ہیں کیا مصیبت پڑ گئی ہے.یہ بھی چندہ دو، وہ بھی چندہ دو، وہ بھی چندہ دو اور کئی لوگ پھر بے چارے کئی نیک نیتی سے اور کئی گھبرا کر کہتے ہیں اتنے چندے ہو گئے ہیں ان کو سمیٹ سمٹا کر ایک بنانے کی کوشش کی جائے.یہ بار بار کبھی یہ چندہ آ گیا، کبھی وہ چندہ آ گیا جس نے مجھے لکھا اس نے تو نیک نیتی سے لکھا مگر ان لوگوں کی آواز بھی مجھ تک پہنچا دی جو بے آواز ہیں.سمجھتے ہیں کہ ہے تو چھٹی اور مصیبت ، مگر منہ سے کہہ نہیں سکتے.مگران سے پہلے قرآن یہ آواز پہنچا چکا ہے.فرمایا ایسے بدوی مزاج لوگ ہیں جب تم ان سے چندے مانگتے ہو، تو ہوتی مصیبت ہی ہے ان کے لئے اور ایسی مصیبت پڑی رہتی ہے بے چاروں کو
الله خطبات طاہر جلد 14 651 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء بِكُمُ الدَّوَابِرَ وہ چاہتے ہیں تم پر بھی گردش ایام آ جائے اور مصیبت سے ان کو چھٹکارا نصیب ہو.ایسے لوگ ہی نہ رہیں جو یہ ہر وقت خدا کے نام پر مانگنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیم اور اللہ تعالیٰ بہت سنے والا اور بہت جاننے والا ہے.سننے والا اس لئے کہ یہ جو بات کہہ رہے ہیں وہ بے آواز ہے.تو فرمایا ان کے دل کی آواز جو ابھی لفظوں میں نہیں ڈھلی ، اللہ وہ بھی سن رہا ہے اور بعضوں کے خیالات لفظوں میں نہیں ڈھلے ہوئے ہوئے ان کو بھی اللہ جانتا ہے.بے آواز پیغامات کو بھی سن رہا ہے اور وہ پیغامات جوابھی آوازوں میں یالفظوں میں ڈھلے نہیں ان کو بھی دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے، اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں.صلى الله اب آنحضرت مہ کے بعض ارشادات اسی مضمون سے تعلق میں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے بخاری کتاب الزکوۃ باب قول الله فــامـــا من اعطی و اتقی و صدق بالحسنی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ، ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے سٹی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر.یہ جو فرشتے ہیں ان کی آواز کو سمجھنا چاہئے ورنہ ظاہری طور پر جو اس سے پیغام ملتا ہے وہ ضروری نہیں کہ ہم اس کو عملاً دنیا میں اسی طرح ہوتا دیکھیں.کیا ہر کنجوس کا مال برباد ہو جاتا ہے؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ بہت سے کنجوس ہیں جیسے قارون کا خزانہ تھا وہ جمع ہی ہوتا چلا گیا.بالآ خر کسی زمانے میں جا کر برباد ہوا تو وہ ایک الگ قصہ ہے لیکن روز مرہ کے طور پر ہم خرچ روکنے والوں کو امیر ہوتا ہوا د یکھتے ہیں.اس لئے یہ کہنا کہ قاعدہ کلیہ ہے کہ فرشتے اتر کر اس کو ضرور بدحالی کی بددعا دیتے ہیں اس کا وہ مضمون نہیں ہے جو ظا ہر اسن کر سمجھ میں آتا ہے.در حقیقت جو مال خدا کے رستے سے روکا جائے وہ ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے اور روحانی ہلاکت ہے جو پہلے پیش نظر ہے.ہر ایسا شخص روحانی طور پر ہلاک ہو جاتا ہے.بعض دفعہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں، ایسی مصیبتیں گھیر لیتی ہیں کہ ان کا کوئی علاج اس کو سمجھ نہیں آتا اور آخری صورت میں ہرایسے شخص کی دولت ایک لعنتی دولت ثابت ہوتی ہے جو نہ
خطبات طاہر جلد 14 652 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء اس کو کوئی فائدہ پہنچا سکی نہ اس کی اولاد کو اور تسکین قلب سے وہ لوگ محروم رہ گئے کئی ایسے لوگ آئے دن خبروں میں پتا چلتا ہے بڑے بڑے متمول لوگ خود کشی کر کے مرجاتے ہیں.ابھی انگلستان ہی میں پچھلے چند سال ہوئے وہ شخص جو امیر ترین اور اخبارات کے اوپر بھی بہت زیادہ مؤثر انسان تھا، غیر معمولی اثر رکھتا تھا ، وہ ایک عیش و عشرت کے ٹرپ پر Yacht میں یعنی سمندری کشتی میں جو بہت ہی زیادہ عیاشی کے سامانوں سے مزین تھی اس میں بظاہر سیر کے لئے نکلا ہے اور خود کشی کر کے مر گیا.بعد کے حالات سے پتا چلا کہ وہ دیکھنے میں تو بہت کچھ تھا لیکن اس کے اموال بھی ختم ہو چکے تھے، اس کی خوشیاں بھی جاتی رہی تھیں اور جب آخری حساب کتاب ہوئے تو پتا چلا کچھ بھی اس کا نہیں رہا.تو خدا کی تقدیریں مخفی طور پر روحانی لذتیں بھی ایسے بدنصیبوں کی لوٹ لیتی ہیں اور مالی طور پر بھی بالآخر نقصان پہنچ جاتے ہیں.مگر وہ نہ بھی پہنچیں تو ہلاکت کی دعا ان معنوں میں ضرور پوری ہوتی ہے کہ اپنی دولت کے مقاصد حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں.پس دو قسم کے بدنصیب ہیں ایک وہ جو دولت ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی، اسی دولت کے غلام بن جاتے ہیں اور مالک کی بجائے مملوک ہو جاتے ہیں.کچھ ہیں جو خرچ کرتے ہیں مگر دنیا پر خرچ کرتے ہیں اور ان کا خرچ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا تا اور ان کوکوئی تسکین نہیں بخشا اور پھر وہ ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں ان کے اموال کے بڑھنے کی دعا کی گئی ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کو آج دنیا میں سب سے زیادہ جماعت احمد یہ جانتی ہے.خرچ کرنے والوں کے حق میں جو فرشتے دعائیں دیتے ہیں حیرت انگیز طور پر پوری ہوتی ہیں.ایک تو عمومی صورت میں دن بدن جماعت کے اموال بڑھتے چلے جاتے ہیں.اتنی برکت مل رہی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے دیکھ کر اور دوسرے وہ خاندان جن کے بزرگوں نے قربانیاں دیں میں بار ہا آپ کو بتا چکا ہوں انہیں کا فیض ہے کہ اب ان کی اولادوں کے رنگ بدل چکے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ.پھر انفرادی طور پر آئے دن میرے سامنے مثالیں ملتی ہیں کہ یہ موقع تھا یہ رقم تھی ہم نے سوچا کہ فلاں مقصد کے لئے جس کی خاطر رکھی گئی تھی وہ ہیں خرچ کریں یا اب موقع ہے دین کے لئے خرچ کر دیں.وہ مخفی فیصلے کا وقت تھا اس وقت انہوں نے سوچا کہ دیکھا جائے گا خرچ کر دیتے ہیں.اب خدا تعالیٰ تو بڑھا کر دیتا ہے مگر جہاں یہ دکھانا ہو کہ میں نے دیکھ لیا وہاں بعینہ اتنے دیتا ہے جتنے
خطبات طاہر جلد 14 653 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء خرچ کئے تھے اور یہ پہلا قدم ہے صرف یقین دلانے کی خاطر.اگر پانچ ہزار ایک سوخرچ کیا تو اچانک ایسی جگہ سے پانچ ہزار ایک سو ہی ملے گا جو یہ پیغام دے گا کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھ لیا ہے ، تو نے دیا تھا یہ تو اپنا واپس لے لے اور باقی حساب بعد میں چلے گا جو مزید فضلوں کا حساب ہوگا اور پھر آتا وہاں سے ہے جہاں کسی کا ذہن جاہی نہیں سکتا.مدتوں پہلے کوئی تجارت کی ، وہاں حساب میں کوئی غلطی ہوگئی، سالہا سال تک اس کمپنی نے توجہ نہ کی آخری حساب فہمی ہوئی تو اتنے روپے مل گئے جتنے روپے اس شخص نے ایک دن پہلے یا ان کی اطلاع ملی جو ایک دن پہلے اس نے خدا کی خاطر پیش کئے تھے اپنی مجبوریوں کے باوجود، اپنی ضرورتوں کے پیٹ کاٹ کر.تو اللہ تعالیٰ جب اتنے ہی دیتا ہے تو یہ مراد نہیں ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے دس گنا کا وعدہ پورا نہیں کیا یا ستر گنا کا وعدہ پورا نہیں کیا.جو مزہ اتنے میں ہے وہ ہزاروں لاکھوں میں ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ بعینہ اتنا یہ اطلاع دے رہا ہے کہ میں نے دیکھ لیا ہے تم فکر نہ کرو تم میری نظر میں ہو اور مجھے تمہاری یہ ادا پسند آ گئی ہے.تو جو خفی قربانیوں کے مزے ہیں جو وہ جہاں ہے وہ چیز ہی اور ہے.وہ قربانیاں بعض دفعہ ظاہر بھی ہوتی ہیں میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے مجھے بھی مثلاً لوگ لکھتے ہیں لیکن وہ لمحے جو فیصلہ کن لمحے تھے وہ خالصہ مخفی تھے وہ دنیا کے دکھاوے سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں رکھتے تھے.پھر بعد میں وہ چندوں کی فہرست میں بھی آجاتے ہیں، ان کو رسیدیں بھی کاٹ کے دی جاتی ہیں مگر ان کی مخفی نوعیت خدا کی نظر میں پھر بھی مخفی رہتی ہے کیونکہ یہ تو پھر اب نظام جماعت کے کاروبار ہیں اور اس نے کوئی نہ کوئی تو رسیدیں کاٹنی ہیں حساب رکھنا ہے.مگر فیصلہ کرنے والا جو عین خدا کی نظر میں راتوں کے وقت یا دوسرے اختفاء کے پردوں میں فیصلہ کرتا ہے اس کی قربانی خدا کے حضور مخفی ہی لکھی جاتی ہے اور اس لئے صبح کے وقت جو فرشتے اٹھتے ہیں وہ سب سے پہلے اس خرچ کرنے والے کو دعا دیتے ہیں جو لازماً راتوں کے وقت یا دوسرے اخفاء کے پردوں میں فیصلہ کرتا ہے اس کی قربانی خدا کے حضور مخفی ہی لکھی جاتی ہے اور اس لئے صبح کے وقت جو فرشتے اٹھتے ہیں وہ سب سے پہلے اس خرچ کرنے والے کو دعا دیتے ہیں جس نے لازما راتوں کو بھی خرچ کیا ہو کیونکہ صبح کے فرشتوں نے تو دن کا حال دیکھا ہی نہیں اس سے میں استنباط کر رہا ہوں کہ راتوں کو کچھ دیکھی ہیں باتیں ان فرشتوں نے جو صبح کو آکر ان کی نظر کے سامنے آتی ہیں تو کہتے ہیں اے خدا اس بندے کو بہت دے اور ان کے اموال میں پھر بہت
خطبات طاہر جلد 14 654 خطبہ جمعہ یکم رستمبر 1995ء برکت عطا کی جاتی ہے.اور دوسری بات لطف کی یہ ہے کہ وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اس جیسے، ان کے نقش قدم پر اور بھی پیدا کر.یہ جو اور پیدا کر“ ہے اس کا تعلق میرے نزدیک جہری قربانی سے ہے اور ظاہری قربانی سے ہے.یہ قربانیاں جو رات کو کی جاتی ہیں مخفی طور پر کرنے والے کو اجر تو دے جاتی ہیں مگر لوگوں میں تحریص نہیں پیدا کر سکتیں، ان کو پتا نہیں چلتا.پس دن کے وقت پھر یہ لوگ جب چندوں کا حساب کرتے ہیں، رسیدیں دی جاتی ہیں، ان کے متعلق اعلان کئے جاتے ہیں بتایا جاتا ہے کہ خدا کے فضل سے فلاں جماعت کو، فلاں شخص کو غیر معمولی قربانی کی توفیق ملی تو فرشتوں کی دوسری دعا پوری ہو جاتی ہے.ان کے نقش قدم پر چلنے والے اور بھی پیدا کر.چنانچہ بسا اوقات ایک شخص کا خواہ نام نہ بھی لیا گیا ہو، اس کی قربانی کا ذکر کیا گیا ہو، اسے اخفا میں رکھا گیا ہومگر قربانی کی نوعیت بیان کر دی گئی ہو تو بڑی جلدی خدا دنیا میں ایک یا دو یا دس یا زیادہ کو تحریک کرتا ہے کہ ویسی ہی قربانی وہ بھی کریں.چنانچہ پچھلے جمعہ کے بعد جب میں گیا ہوں تو ایک فیکس آئی ہوئی تھی کہ میں نے یہ سنا تھا کہ اس قسم کے ایک شخص کا آپ نے ذکر کیا ہے میرے دل میں بھی تحریک پیدا ہوئی کہ میں بھی ویسا بنوں تو فرشتوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں میں کثرت پیدا کرتا ہے اور اس کثرت کا تعلق اظہار سے بھی ہے حالانکہ نام کا اظہار نہیں مگر کسی خوبصورت قربانی کا اظہار لا زم ہو جایا کرتا ہے تا کہ لوگ دیکھیں اور ان کے دلوں میں تحریص پیدا ہو.نہ وہ اظہار دکھاوے کی خاطر ہوتا ہے نہ وہ تحریص دکھاوے کی کسی نیت سے تعلق رکھتی ہے اور وہ جو تیں بناتے ہیں وہ بھی خالصہ اللہ کے لئے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لئے یہ فیصلہ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے....یعنی مال ہم تو عام محاورے میں کہتے ہیں اولا د جگر گوشے ہیں انسان کے ، مگر علم التعبیر کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی دیکھے کہ جگر دیا ہے تو مراد مال ہے اور
خطبات طاہر جلد 14 655 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء ایک اور تعبیر میں ضمناً آپ کو بتادوں کہ اگر دیکھے کہ گند میں ہاتھ ڈالا ہے، فضلے کو اکٹھا کیا ہے تو بڑی مکروہ تصویر ہے لیکن اس کی تعبیر مال ہوتا ہے اور بسا اوقات خوا ہیں جو مجھےلوگ لکھتے ہیں اس تعلق میں کبھی مال کے نقصان کی خبر دی جارہی ہوتی ہے کبھی مال حاصل کرنے کی مگر ساتھ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ کوئی خاص عظیم الشان فضل نہیں ہے بلکہ فضل تب بنتا ہے جب یہ فضلہ رزق طیبہ، رزق حسنہ میں تبدیل ہو اور وہ رزق حسنہ میں تبدیل تب ہوتا ہے جب اپنی حیثیت مٹی میں مل کر کھو دیتا ہے اور پھر اس سے بیج نشو ونما پاتے ہیں اس سے ہری بھری تازہ فصلیں نکلتی ہیں تو جب اس مال کو جو فضلے کی طرح ہے، گندگی کی طرح ہے آپ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک پیج سے ایک کونپل نکلے پھر اس میں سات شاخیں ہوں، سات بالیاں لگیں ہر شاخ میں اور ہر بالی میں سوسو دانے ہوں.تو وہ کیا چیز ہے جو اس نے خرچ کی تھی وہ یہی فضلہ یعنی دنیا کی دولت اس نے خرچ کی تھی اور وہ مٹی میں جا کر اس قدر برکت کا موجب بنی ہے کہ اس نے آگے ایک ایک دانے کو سات سات سو دانوں میں تبدیل کر دیا.تو تعبیر میں بھی بہت حکمت کی باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس تعبیر کا ذکر فرمارہے ہیں اس کا جگر سے تعلق ہے فرماتے ہیں:...یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے.کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوق الہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے.“ ایمان کا اول جزو تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اسی کا ہو رہنا ہے اور دوسرا جز و بنی نوع انسان کی ہمدردی ہے اور ان کے لئے خرچ کرنا ہے فرماتے ہیں.وو...جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 656 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء یہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عارفانہ کلام کے حوالے سے ایک اور وضاحت کرنی چاہتا ہوں.بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دنیا میں سخت کنجوس رہتے ہیں ایک پیسہ بھی کسی دوسرے پر خرچ کرنے کے روادار نہیں ہوتے مگر دینی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور قربانیاں کرتے ہیں.بعض تجارتی قوموں میں یہ رجحان زیادہ پایا جاتا ہے.ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں، اتنی تفصیل سے ذکر کرنا بھی مناسب نہیں کہ بعض لوگوں کو پتا لگ جائے کہ کن کی باتیں کر رہا ہوں مگر اتنا مانیں کہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے دامادوں تک پر بھی خرچ کے روادار نہیں ، اپنی بیٹی کو بھی تنگی میں رکھتے ہیں مگر دین کی خاطر بعض دفعہ بڑے بڑے خرچ کرتے ہیں اور آدمی حیران رہ جاتا ہے.ان کی کنجوسی دراصل یہاں بھی ظاہر ہورہی ہے کیونکہ یہ نفسانیت کی ایک اعلیٰ قسم ہے.وہ اپنا سارا مال اپنے لئے رکھنا چاہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ کو دیں گے وہ ہمارا ہی رہے گا وہ کسی اور کو نہیں ملتا.پس یہ بھی ایک نفسا نفسی کا ہی عالم ہے اور یہ نفسانیت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ غریبوں پر خرچ ویسے نہیں کرتے ، روزمرہ ضرورت مند پر خرچ نہیں کرتے ، ایتاء ذی القربیٰ کا حکم ہے، اقرباء پر خرچ نہیں کرتے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ ایمان کا اول تقاضا تو یہی ہے کہ اللہ کی خاطر انسان خرچ کرے مگر ایمان کے دوسرے تقاضے کو نہ بھولنا.وہ لازم کرتا ہے کہ خدا کے بندوں پر بھی خرچ کرو.پس ایسا شخص کسی معنی میں بھی حریص کنجوس نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں سے ایک مثال بھی نظر نہیں آئے گی جو خدا کی خاطر خرچ کرنے کے بہانے بنی نوع انسان سے فوائد روک لیں.وہ اپنی بیویوں پر خرچ کرتے ہیں، اپنی اولاد پر بھی خرچ کرتے ہیں، روز مرہ آنے والے کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں اور پھر اللہ پر بھی خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی خاطر اول طور پر خرچ کرتے ہیں، زیادہ محبت اور ولولے اور جوش سے خرچ کرتے ہیں.ان کا ہر دوسرا خرچ بھی اللہ کا خرچ بن جاتا ہے.ہر وہ خرچ جو بنی نوع انسان کی ہمدردی میں کرتے ہیں وہ اول تو ان کو متوازن بناتا ہے اور ان کو حقیقی طور پر اللہ کی طرف سے اکرام عطا ہوتا ہے لیکن یہ ان کی نیت میں نہیں ہوتا یہ اللہ کا انعام ہے محض.دوسرے یہ کہ یہ توازن ہے جو دراصل مذہب کی جان ہے.صراط مستقیم اسی توازن کا نام ہے.نہ ایک طرف زیادہ جھکاؤ ہے نہ دوسری طرف زیادہ جھکاؤ ہے.متوازن زندگی ایسی ہے کہ اللہ
خطبات طاہر جلد 14 657 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق دونوں ادا ہور ہے ہیں اور ان کے درمیان ایک حسین توازن پایا جاتا ہے.یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں.پس مِمَّا تُحِبُّونَ میں اللہ کے خرچ ہی شامل نہیں، بنی نوع انسان کے خرچ بھی شامل کر دیئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے.محبت تو اموال سے ہے مگر ایسی محبت نہ ہو کہ اپنی خاطر ہی خدا کو دیے جاؤ کہ تمہیں پتا لگے کہ آئندہ ہماری تجوری میں پڑے گا سب کچھ بلکہ اس کے بندوں کا خیال کرو، دل نہیں بھی چاہتا تو بنی نوع انسان کی ہمدردی میں کچھ مال ان کو دے دو، چلیں نہ سہی چندہ مگر اچھے کام پر ہی خرچ ہوا ہے نا.یہ تمہاری تربیت کا موجب بنے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ تم ہر طرف کے حقوق ادا کر و بجائے اس کے کہ ایک ہی طرف جھک جاؤ کیونکہ ایک طرف جھکنا اور اللہ کی محبت اکٹھے چلتے نہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دراصل ایک طرف جھکنا نفسانیت سے پردہ اٹھا رہا ہے نہ کہ محبت الہی سے کیونکہ محبت الہی کرنے والوں کو ہم نے کبھی ایک طرف جھکتے نہیں دیکھا.بہت پیار کرنے والی طبیعتیں ، ہر ایک کا خیال رکھنے والے جیسے رحمان بندوں میں حضرت رسول اللہ تے تھے، آپ کی یادوں کے تذکروں میں سبھی بتاتے ہیں کہ ہم زیرا احسان رہے.پس یہ نہیں کیا کہ سارا خدا پر خرچ کیا یعنی نچوڑ نچاڑ کے ایک طرف دین کے لئے دے دیا اور بندوں کو فائدے سے محروم رکھا.مگر چونکہ کرتے محبت الہی میں تھے اس لئے ہر دوسرا خرچ بھی اللہ نے اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور وہ خرچ جو انسان اللہ کے کھاتے میں ڈالتا ہے دراصل اپنے کھاتے میں ڈالنے کی خاطر، مجھے ڈر ہے کہ وہ اس کے کھاتے سے نکال کر اللہ کے کھاتے سے نکال دیا جائے گا اور اس میں بھی جو بظاہر نیکی ہے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.یہ ایک احتمال ہے جس کا ذکر کر رہا ہوں.اللہ بہتر جانتا ہے وہ زیادہ رحمان رحیم ہے ہو سکتا ہے ایسے لوگوں سے بھی صرف نظر فرمائے اور ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ان کی قربانیوں کے اچھے نتیجے نکالے.مگر اس مضمون نے جو مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا اس احسان والی آیت کا ایک اور مضمون بھی ہمیں سمجھا دیا.وَاحْسِنُوا کا مطلب ہے احسان کرو اور وَاحْسِنُوا کا وہ مطلب بھی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں، سجا کر پیش کرو، قربانیوں کو زیادہ اچھا بناؤ.مگر اس کے وسیع معنوں میں بنی نوع انسان پر احسان داخل ہے.پس ہرگز بعید نہیں کہ اس آیت کریمہ میں وَاحْسِنُوا سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 14 658 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء چاہتا ہے کہ اس کی خاطر خرچ کرو مگر احسان کو نہ بھولنا.خدا کی خاطر خرچ کرنے والے ایسے محسن ہوتے ہیں کہ اس کی مخلوق پر بھی خرچ کرتے ہیں، ان کا بھی خیال رکھتے ہیں اور ایسے وسیع معنوں میں احسان کرنے والوں سے اللہ ضرور محبت کرتا ہے.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مال کے خرچ کے ذکر میں آگے فرماتے ہیں ” جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایشیار ضروری شئے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ای ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے.(محک پتھر کی کسوٹی کو کہتے ہیں.) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ یا اللہ نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاثہ البیت لے کر حاضر ہو گئے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 368-367) آپ کی جو کسوٹی تھی محبت پر کھنے کی وہ یہ یہ آپ کے کردار کے نمونے دکھاتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے دینی ضرورتوں کے لئے اموال کے خرچ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور آپ کل اثاثہ البیت لے کر حاضر ہو گئے جو کچھ تھا سب سمیٹا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر کر دیا.پھر فرماتے ہیں: ” جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرق ریزی سے کمایا گیا ہے تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے.یعنی مال کا خرچ جو بجل کی پلیدی کونکالتا ہے وہ حقیقت میں وہ مال ہے جس پر اس کی محنت کو
خطبات طاہر جلد 14 659 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء بھی دخل تھا، عرق ریزی شامل ہو اور وہ جانتا ہو کہ مال کس طرح کمایا جاتا ہے.پھر بھی خرچ کرتا ہے تو وہ جومخفی پہلو بخیلی کے فطرت کے کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے ہیں ، وہ سارے نکل کر باہر آ جاتے ہیں، باہر پھینک دیئے جاتے ہیں.فرماتے ہیں: ”...اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت اور صلابت پیدا ہو جاتی ہے...“ ایسے خرچ کرنے والے کے ایمان میں غیر معمولی طاقت آجاتی ہے اور صلابت ، چٹان کی طرح مضبوط ہو جاتے ہیں وہ.پھر کوئی چیز ان کوٹلا نہیں سکتی ، وہ اٹل ایمان بن جاتے ہیں.پھر فرماتے ہیں ”...اور وہ دونوں حالتیں مذکورہ بالا جو پہلے اس سے ہوتی ہیں اور ان میں پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی پلیدی ان کے اندر رہتی ہے...“ مِمَّا تُحِبُّونَ ہی کی تعریف ہے مال جو کمایا گیا ہو یا جس کی ضرورت ہو جو اتنا اہم ہو کہ یوں لگے کہ یہ میرا سرمایہ ہے اگر میں نے خرچ کر دیا تو کچھ بھی نہیں رہے گا اور سرمائے کے نقصان کا خطرہ ہے.فرمایا جب یہاں انسان ہاتھ ڈال دیتا ہے اللہ کی محبت کے لئے تو تب حقیقت میں اس کے دل کی ہر پلیدی دور کر دی جاتی ہے.یہ وہ شخص ہے جس کے متعلق خدا کا فتویٰ ہے کہ ہر قسم کی کنجوسی اور بخل سے پاک ہے اور وہ جو عظیم وعدے کئے جاتے ہیں وہ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جن کے حق میں کئے جاتے ہیں.اس سے پہلے کے اخراجات جو ہیں فرماتے ہیں وہ ہوتے تو ہیں مگر ان میں یہ گہرائی نہیں پائی جاتی کہ اندر سے گہرے دبے ہوئے بخل کے گند کو نکال باہر پھینکیں.پھر فرماتے ہیں:...اس میں حکمت یہی ہے کہ لغویات سے منہ پھیرنے میں صرف ترک شر ہے اور شر بھی ایسی جس کی زندگی کی بقاء کے لئے کوئی ضرورت نہیں اور نفس پر اس کے ترک کرنے میں کوئی مشکل نہیں“...فرماتے ہیں جو لغویات سے پر ہیز کرتے ہیں وہ یہ نہ سمجھو کہ ہمیشہ بہت اچھے کام ہی کر رہے ہیں.اپنے نفس کو لغویات سے محروم رکھنا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ زندگی کی بقاء کے لئے
خطبات طاہر جلد 14 660 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1995ء لغویات کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہوتی.پس بعض لوگ کنجوسی میں بھی ایسا کرتے ہیں یہ کوئی نیکی کی علامت نہیں ہے.یہ ترک شر ہے اور شہر بھی ایسا جس کی زندگی اور بقاء کے لئے ضرورت نہیں اور نفس پر اس کے ترک کرنے میں کوئی مشکل نہیں.وو..لیکن اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسب خیر ہے جس سے وہ نفس کی ناپا کی جو سب ناپاکیوں سے بدتر ہے یعنی بخل دور ہو جاتا ہے...“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 204) تو میں امید رکھتا ہوں کہ ان تشریحات کی روشنی میں جماعت ہر جگہ اپنے اخراجات کے ان مخفی گوشوں پر نگاہ رکھے گی جن کا نیتوں سے تعلق ہے جن کا ایسے حالات سے تعلق ہے جن پر خدا آگاہ ہے یا قربانی کرنے والا آگاہ ہے.اگر ان نصیحتوں کو جو قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے لی گئی ہیں آپ غور سے سن کر احسان کا طریق اختیار کرنا شروع کریں گے تو غیر معمولی برکتیں حاصل ہوں گی اور آئندہ زمانے کی جتنی ضروریات جماعت کی بڑھ رہی ہیں ان سے بھی بہت زیادہ آسمان سے اترے گا.اتنا احسان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قربانیوں کے نتیجے میں کہ جو اموال وہ عطا کرے گا وہ واقعہ سنبھالنے مشکل ہوں گے لیکن خدا کرے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے وہ بڑھتے ہوئے اموال پھر خدا کے قدموں پر نچھاور کئے جائیں اور پھر وہ اس کثرت سے بڑھیں کہ ان کو سنبھالنا پھر مشکل ہو جائے.پھر نچھاور کریں اور پھر نچھاور کریں یہاں تک کہ خدا کی ساری کائنات ان خرچ کرنے والوں کی کائنات بن جائے.وہ عَبْدًا مَّمْلُو گا نہ رہیں بلکہ مالک کی ملکیت میں شامل ہو جائیں اور یہی وہ آخری مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام، آنحضرت ﷺ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں.سب نبیوں میں ایک ہی نبی ہے جو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک پہنچا ہے اور اس نے سب کچھ خدا کی خاطر قربان کر کے اس کی ہر ملکیت میں سے حصہ پالیا.پس اگر کسی نبی کو صفت ملکیت میں شامل سمجھا جاسکتا ہے تو حقیقی معنوں میں وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ ہیں.پس ہمارے سردار ﷺ کو یہ زیبا ہے اور آپ نے کر کے دکھایا ، ہم غلاموں کو بھی تو اس میں سے حصہ ملنا چاہئے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 661 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء اقام الصلوۃ اور قرآن الفجر کے لئے بھر پور کوشش کریں.مقام محمود اور سلطان نصیر کے حصول کی دعائیں کریں.(خطبه جمعه فرموده 8 ستمبر 1995ء بمقام من ہائم.جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی: أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِكَانَ مَشْهُودًا وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْبِ نَافِلَةً لكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا وَقُلْ رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لى مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا (بنی اسرائیل: 79 تا 81) پھر فرمایا: گزشتہ جلسہ سالانہ.UK کے بعد سے طبیعت میں خصوصیت سے یہ فکر رہی کہ اللہ تعالیٰ نے جو اس کثرت سے ہمیں انعامات کے پھل نوازے ہیں جن کے نتیجے میں بھوک مٹنے کی بجائے اور بھی بڑھ گئی ہے تو آئندہ ان کو سنبھالنے کی ذمہ داریاں کیسے ادا کریں گے کیونکہ جب میں نے گردو پیش پر نظر ڈالی، ان جماعتوں پر خصوصیت سے نگاہ کی جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پھلوں کی بارش ہو رہی ہے تو مجھے محسوس ہوا کہ ابھی ان جماعتوں میں بھی تربیت کی بہت کمی ہے اور کثرت کے ساتھ مربی ہمیں مہیا نہیں ہیں.پھر ان نئے آنے والوں کی تربیت کر کے اس بات کا اہل بنانا کہ
خطبات طاہر جلد 14 662 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء جب اور وں کو دعوت دیں توان کی تربیت کی بھی اہلیت رکھیں یہ ایک بہت بڑا اور اہم کام ہے جس کے نتیجے میں میں ایک دائمی فکر میں غلطاں ہو گیا اور خصوصیت سے دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل.خود ہی اس کے حل کی کوئی راہ دکھائے.اب ایک مقام پر کھڑے ہو کر ٹھہرنا ویسے ہی انسانی فطرت کے خلاف ہے اور دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ پہلے کی طرح ہی دگنی اور چوگنی رحمتوں کی بارشیں بڑھاتا رہے.لیکن اگر محض قلبی لطف کی بات ہو تو معاملہ یہاں ختم ہو جائے لیکن قلبی لطف کی بات نہیں.ان احسانات کے ساتھ احسانات کے حق ادا کرنے کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھتی جاتی ہیں.پس یہ وہ پہلو ہے جس کے متعلق میں آج آپ سے کچھ کلام کرنا چاہتا ہوں.کل ہی اس فکر میں مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھائی کہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے انہی آیات میں ان فکروں کا حل موجود ہے.اگر جماعت نے بکثرت پھیلنا ہے اور پھیلنے کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں اللہ کی رضا کے مطابق ادا کرنا ہے تو یہ وہ آیات ہیں جن میں ان مسائل کا سب حل موجود ہے.سب سے اہم بات قیام صلوۃ ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اور یہ قیام صلوۃ دا عین الی اللہ کے لئے بھی جتنا ضروری ہے اتنا ہی ان کے لئے ضروری ہے کہ نئے آنے والوں کو بھی نماز پر قائم کر دیں اور یہ مہم اگر ساتھ ساتھ جاری نہ رہے تو ان آنے والے پھلوں کو سنبھالنا پھر تقریباً ناممکن ہو جائے گالیکن جہاں تک میں نظر ڈالتا ہوں لازم ہے کہ انصاف کی نظر ڈالوں اور خوش فہمی کی نگاہ نہ ڈالوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جماعت میں ابھی نماز باجماعت کے قیام کی طرف پوری توجہ نہیں ہے بلکہ اگر روزمرہ کے جماعت کے حالات نوجوانوں کے حالات ،لڑکوں اور لڑکیوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو حقیقت میں نماز پڑھنا جانتے نہیں.جانتے ہیں تو رسمی نماز میں شمولیت کی حد تک تو جانتے ہیں مگر وہ باجماعت نما ز جس کا ان آیات میں ذکر ہے اس سے ابھی وہ بہت دور ہیں.أقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ایک مسلسل گھیرے میں ڈالنے والی آیت ہے.جو دن کے مختلف وقتوں کو گھیر رہی ہے اور منظر یہ پیش کر رہی ہے کہ ایسا شخص جو خدا کی عبادت میں مصروف ہے، اس کا حق ادا کرتا ہے وہ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ
خطبات طاہر جلد 14 663 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء سے لے کر یعنی سورج کے ڈھلنے کے وقت سے لے کر دوسری صبح تک یعنی جب تک رات اندھیری رہے اور گہری رہے عبادت ہی میں مصروف رہتا ہے یا عبادت کے قیام کا حق ادا کرتا رہتا ہے.اب کتنے ہیں ہم میں جو واقعہ اس آیت کے مصداق نماز کو ادا کرتے ہیں.ایسے تو بہت سے بن رہے ہیں جو پہلے پوری نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اب خدا کے فضل کے ساتھ بارہا کہنے کے بعد مختلف تنظیموں کو احساس دلانے کے بعد اور ان کی کوششوں سے نماز کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں.مگر نماز کی طرف متوجہ ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ عبادت کے قیام کے بغیر دنیا کا قیام ممکن نہیں.ہم نے دنیا کو قائم کرنا ہے اور دنیا کو تو حید پر قائم کرنا ہے اور تو حید پر قائم کرنے کے لئے قیام عبادت ایسالازمہ ہے جیسے اوپر کی منزل تعمیر کر لیں اور یا نچلی منزل ہو بھی تو بنیادوں کے بغیر کیونکہ ایسی عمارت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس یہ جو باتیں میں آپ سے کر رہا ہوں گہری فکر کی باتیں ہیں.جب ہر سال اللہ تعالیٰ فضلوں کی بارش نازل فرماتا ہے تو یہ درست ہے کہ نعرہ ہائے تکبیر سے کل عالم گونج اٹھتا ہے اور ہمارے دلوں میں ایک ایسا حیرت انگیز ہیجان پیدا ہو جاتا ہے جس کی دنیا والوں کو کچھ بھی خبر نہیں.مگر یہ ہیجانی کیفیت تو آنی جانی ہے.جو دائم رہ جانے والی چیز ہے وہ ایسی نیکی ہے جسے قرآن کریم باقیات میں سے شمار کرتا ہے.جس کی تعریف میں سے شمار کرتا ہے.جس کی تعریف میں باقی رہنا داخل کر دیا گیا ہے.الصالحات کے ساتھ الباقیات کی ایک ایسی شرط قرآن نے لگادی ہے کہ جس کے بعد عارضی نیکی کا کوئی تصور بھی باقی نہیں رہتا.نیکی وہی ہے جو زندگی کا ساتھ دے، جو ہمیشہ کے لئے جزو بدن بن جائے، جو رگوں میں دوڑتی پھرتی رہے جیسے خون دوڑتا پھرتا ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہ ہو.پس نماز بھی ایسی ہی نیکیوں میں سے اول درجے کی نیکی ہے جسے ہماری سانسوں میں رچ بس جانا چاہئے ، جسے ہمارے خون میں دوڑنا چاہئے ، جسے ہمارے وجود کا ایک اٹوٹ حصہ بن جانا چاہئے.یہ وہ نماز ہے جو آپ کو بھی اور مجھے بھی قائم کرے گی اور ہمیں اس قابل بنائے گی کہ ہر بڑھتے ہوئے بوجھ کو خوشی سے اٹھائیں اور خدا سے مزید کی توقع رکھتے چلے جائیں.پس پہلی بات تو نماز کے قیام کی طرف توجہ دلا نا تھی اور اسی سلسلے میں میں آپ سے خصوصیت کے ساتھ یہ گزارش کروں گا کہ جو نو مبائعین ہم میں آتے ہیں ان پر اس پہلو سے نظر رکھنا اور ان میں نمازی بنانا ہمارا اولین کام ہے اور اس غرض کے لئے ہر جماعت میں جہاں آئندہ
خطبات طاہر جلد 14 664 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء دعوت الی اللہ کے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں بلکہ بہت سی جگہ ان پر عمل شروع ہو چکا ہے وہاں ایک احمدی جماعت کا گروہ ایسا وقف رہے جس کا کام محض قیام صلوۃ ہو.وہ اپنوں میں بھی اور نئے آنے والوں میں بھی جو اپنے بن رہے ہیں ان میں بھی نماز با جماعت کے قیام کی مسلسل جد و جہد کرتا رہے اور کسی خوش فہمی پر مبنی رپورٹ پیش نہ کرے بلکہ اعداد وشمار پر مشتمل ، جن کا با قاعدہ مسلسل وہاں انضباط ہوتا رہے، جس کو کاپیوں پر درج کیا جائے اور ہر ذمہ دار کارکن اپنے پاس اس کا ریکارڈ رکھے.وہ ہمیشہ اس کے اپنے لئے بھی یاد دہانی بنتا ر ہے اور جب وہ آئندہ مرکز میں رپورٹ بھیجے تو یقین کے ساتھ بھیجے کہ یہ کام اس حد تک ہو چکا ہے.اس کے لئے بہت سے طریق ہیں جنہیں اپنانا چاہئے.ایک دفعہ میں نے ایک سلسلہ شروع کیا تھا قیام عبادت کا کہ قیام عبادت کیا چیز ہے، یہ خطبات کا سلسلہ تھا اور اس ضمن میں بہت سی ایسی باتیں کی تھیں جو قرآن اور حدیث اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے تھیں کہ ان کے نتیجے میں مجھے جو کل عالم سے اطلاعیں ملتی رہیں، یہ محسوس ہوا کہ خدا کے فضل سے دلوں میں ایک حرکت پیدا ہوئی ہے اور عبادت کے قیام کی طرف سچی توجہ پیدا ہوئی ہے.مگر یہ باتیں ایک دفعہ کر کے ختم کرنے والی باتیں نہیں ہیں.یہ تو تذکیر ہے جو ہمیشہ جاری رہتی ہے اور جاری رہنی چاہئے.یہ وہ یاد دہانیاں ہیں جو اگر بار بار نہ کروائی جائیں تو نفس خود بخو دبھول جاتا ہے.اس لئے ان سے بھی استفادہ کیا جائے.ان خطبات کے سلسلے سے بھی، دیگر ذرائع سے بھی مل بیٹھ کر سوچیں اور مجلس عاملہ میں یا دنیا بھر کی مجالس عاملہ میں یہ مسئلہ زیر غور آئے کہ نئے حالات کے تقاضے ہیں کہ ہم قیام نماز کی طرف پہلے سے بہت زیادہ توجہ کریں.سینکڑوں گنا بھی کہا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہے کیونکہ اگر سینکڑوں گنا توجہ بھی زیادہ ہو جائے تب بھی پوری طرح حق ادا نہ ہو سکے گا کیونکہ عبادت تو زندگی کے قیام کا مقصد ہے.عبادت کی خاطر جن وانس کو پیدا کیا گیا ہے اور عبادت کے بغیر انسان کی انسانیت مکمل نہیں ہوتی اور انسانیت کی تکمیل کے بغیر دنیا کے مسائل حل ہو ہی نہیں سکتے اس لئے جن پہلوؤں سے جب ہم نظر کرتے ہیں تو کہتے ہیں انصاف کو قائم کرو تو دنیا کے مسائل حل ہو جائیں گے یہ درست ہے.مگر انصاف کو کیسے قائم کریں گے اگر بندہ اپنے خدا سے انصاف نہ کرتا ہو اور خدا کے حق ادا نہ کرتا ہوتو بنی
خطبات طاہر جلد 14 665 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء نوع انسان کے حق کیسے ادا کرے گا.ان حقوق کی طرف فطرتاً توجہ پیدا ہی نہیں ہوسکتی جب تک حقیقتاً اپنے خالق ، اپنے رب، اپنے مالک کے حقوق کی طرف دل کی گہرائی سے توجہ پیدا نہ ہو.پس اول طور پر نماز کو قائم کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ منصوبہ بنائیں بلکہ ابھی سے بنائیں.کوئی وقت اس پر ضائع نہ کریں اور ہر دنیا ک جماعت ملکی سطح پر بھی اور چھوٹی سطحوں پر بھی یہ منصوبے بنائے اور ایسی ٹیمیں مقرر کر کے جن کا کام بس یہی ہو، وہ اسی بات کے لئے وقف ہو کے رہ جائیں کہ ہم نے نماز کی اہمیت بتانی ہے، نماز پر قائم کرنا ہے، نماز کے ترجمے سکھانے کے انتظام کرنے ہیں، نماز پڑھنے سے جو روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ دلانی ہے اور مسلسل یہ کام ان تھک طور پر کرتے چلے جانا ہے اور ہارنا نہیں.ایک لمحہ بھی اس ذمہ داری سے نہ غافل ہونا ہے، نہ مایوس ہونا ہے.اگر چہ شروع میں بسا اوقات مشکلات بھی پیش آتی ہیں مگر اکثر مشکلات اپنی بے وقوفیوں سے پیش آتی ہیں.اگر انسان اپنے دائرے کو سمجھتا ہو کہ کتنا میرا دائرہ ہے اور اس سے آگے بڑھنانہ چاہے، نہ بڑھنے کی حیثیت رکھتا ہے تو پھر مایوس نہیں ہوسکتی پھر تذکیر کا کام بغیر مایوسی کے چلتا ہے.سب سے بڑی ذمہ داری تذکیر کی یعنی نصیحت کے ذریعے دنیا میں عظیم روحانی انقلاب برپا کرنے کی ذمہ داری حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے کندھوں پر ڈالی گئی.آپ نے دن رات اس کو ادا کیا ، دن رات بظاہر مایوس کرنے والے حالات کا سامنا رہا اور سالہا سال تک وہ دنیا جو آپ کے گردو پیش میں بستی تھی ان کے دلوں کو ان پتھروں کی طرح پایا جن میں کوئی چیز سرایت نہیں کر سکتی.اس کے باوجود ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہیں ہوئے.آپ کے لئے مایوسی کا تو تصور بھی گناہ ہے.جبکہ حضرت زکریا جو آپ کے مقابل پر ایک معمولی شان کے نبی تھے وہ اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اے میرے رب میرے بال سفید پڑ گئے ہیں ، میری ہڈیاں گل گئی ہیں ولَمْ أَكُنُ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا ( مریم : 5) مگر میں وہ بد بخت نہیں ہوں جو تیرے سے دعا کرنے سے مایوس ہو جاؤں.تو مایوسی کا مومن کے کاموں کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے دائرہ کار میں رہے اور ہمیشہ دعا میں لگار ہے.اگر یہ دو باتیں یقینی طور پر ساتھ ہوں تو پھر کبھی کوئی مومن کسی پہلو سے بھی کسی وقت بھی مایوس نہیں ہو سکتا.دائرہ کار میں رہنا ہی دراصل دعا کو پیدا کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 666 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء بسا اوقات میں نے نصیحت کرنے والے دیکھے ہیں خواہ وہ اپنے گھر میں بچوں کو نصیحت کریں یا باہر ماحول میں نصیحت کا کردار ادا کریں وہ پہلے اس وجہ سے مایوس ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گویا تبدیلی کر دینا ان کا کام ہے حالانکہ اگر آنحضرت ﷺ کا کام بلاغ ہے یعنی پہنچانا ہے لیکن نہایت عمدگی کے ساتھ پہنچانا ایسا پہنچانا کہ جس سے اوپر پہنچانے کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا، نصیحت کرنے کے کام کو اپنے درجہ کمال تک پہنچانا، یہ مطلب ہے بلاغ کا.تو اگر یہ پتا ہو کہ میرا کام بلاغ ہے اور بلاغ کے بعد پھر میں مصیطر نہیں بنتا ، نہ بن سکتا ہوں.حقیقت میں نصیحت کے ذریعے تبدیلی کر دکھانا اور بات ہے اور کامل یقین کے ساتھ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے نصیحت کرتے چلے جانا ایک اور بات ہے.پس قرآن کریم جو آنحضرت ﷺ کے متعلق فرماتا ہے وہ یہی ہے کہ تیرا کام صرف بلاغ ہے اور بلاغ کا مطلب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کسی بات کو عمدگی کے ساتھ پہنچا دینا کہ اس سے بہتر طریق پر پہنچائی جا نہ سکتی ہو.پہنچانے کے تمام حقوق ادا کر دینا.پھر اس کے بعد کسی زبردستی کے تصور کو دل میں جگہ نہ دینا کیونکہ بلاغ کے بعد پاک تبدیلی یا بندے کا کام ہے یا خدا کا جو اس بندے کو یہ توفیق دے.مگر پہنچانے والے کا فرض نہیں ہے کہ زبر دستی کسی کو نیک بنادے اور نہ زبر دستی کوئی انسان کسی کو نیک بنا سکتا ہے.یہ محض جاہلانہ باتیں ہیں.یہ جو مختلف اسلامی ممالک میں بعض دفعہ زبر دستی نیک بنانے کی تحریکیں اٹھتی ہیں یہ قرآن کریم سے کلیۂ جہالت کے نتیجے میں ہیں.آنحضرت کے کردار سے قطعی لاعلمی کے نتیجے میں ہیں.کوئی انسان کبھی کسی دوسرے شخص کو خواہ اپنی اولا دہی کیوں نہ ہوز بر دستی نیک نہیں بنا سکتا.حضرت نوح“ کا حال آپ نے پڑھا اور سنا ہے بار بار سنتے اور پڑھتے ہیں یا آپ نہیں جانتے کہ حضرت نوح نے بلاغ کا حق کیسے ادا کیا تھا؟ قرآن کریم میں ایک ایسا دردناک منظر کھینچا گیا ہے کہ وہ اپنے رب سے مخاطب ہو کے کہتے ہیں اے خدا میں نے سب کچھ کر دیکھا ہے.میں نے اونچی آواز میں بھی ان کو بلایا، میں نے سرگوشیوں میں بھی ان کو دعوت دی، میں راتوں کو بھی اٹھ کران کے لئے نکلا اور دن کی روشنی میں بھی انہیں پیغام پہنچا تا رہا.کبھی میں نے ان کو ڈرایا، کبھی خوشخبریاں دیں، کبھی منت سماجت کی.غرضیکہ جو کچھ میری طاقت میں تھا سب کچھ کر دکھایا مگر اے خدا یہ بدلنے کا نام نہیں لیتے.پس اب تجھ پر معاملہ ہے.پھر خدا نے جو معاملہ کیا یہ وہی بہتر جانتا ہے کہ کس قوم کے
خطبات طاہر جلد 14 667 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہئے.مگر یا درکھیں کہ یہ بلاغ اس طاقت کا تھا اور اس میں اتنی گہرائی اور سچائی پائی جاتی تھی کہ قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے حضرت نوح کے بلاغ کو قرآن کریم میں یعنی اس دانگی سچائی میں محفوظ فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ نوح میرے بندے کی ذاتی طاقت تو بس اتنی سی تھی کہ خوداس کا اپنا بچہ بھی اس کی نصیحتوں کے نتیجے میں نیک نہ بن سکا تو پھر اور کون ہے جو نوح سے بڑھ کر ابلاغ کا دعویٰ کرے اور نوح سے بڑھ کر با اثر ہونے کا دعوی کرے.پس نہ خدا کے کسی نبی کو کبھی یہ توفیق ملی کہ زبر دستی کسی کے اندر نیکی پیدا کر دے نہ حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ سے اللہ نے یہ تقاضا فر مایا کہ اٹھ اور تلوار پکڑ اور ان کے ٹیڑھے دلوں کو سیدھا کردے یا تلوار کی دھار سے دو نیم کر ڈال بلکہ یہ فرمایا کہ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِرْتُ نَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ (الغاشیہ: 22، 23 ) اے محمد ﷺ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرَ تُو تو ایک نصیحت کرنے والے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.محض نصیحت کرنا تیرا کام ہے.لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍ تو ان پر داروغہ مقرر نہیں فرمایا گیا.اب دیکھیں کہ جو شخص اپنی حیثیت کو پہچانتا ہو جیسا کہ اللہ کے نبیوں نے پہچانا اور اپنے دائرہ کار میں رہے تو پھر کیسی کیسی بے اختیاریوں اور بے بسیوں کا سامنا اس کو کرنا ہوگا.ایک طرف ایک نبی کا دل ہے کہ جو چاہتا کہ ساری قوم کو آنِ واحد میں خدا کے رستہ پر ڈال دے ایک طرف محمد رسول اللہ ﷺ کا دل تھا جس کی تمنا تھی کہ ساری کائنات کو خدا کے قدموں میں لا ڈالے لیکن اپنے مکہ کی بستی بھی آپ کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہی تھی اور حکم یہ تھا کہ تجھے کوئی اختیار زبر دستی کا نہیں.ایسی صورت میں کیوں دل سے دعا ئیں نہ اٹھیں.اگر دل سچا ہے اور دل کی بے قراریاں کچی ہیں، اگر یہ بے اختیاری کا احساس انسان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے تو ایک ہی راہ ہے کہ جو دعائیں دل سے اٹھ کر عرش تک راہ پاتی ہیں اور اس راہ کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے.پس جب میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ ان نئے آنے والوں کو بھی نمازی بنادیں، آپ بھی نمازی بنیں، اپنے گردو پیش کو بھی نمازی بنا ئیں تو میں جانتا ہوں کہ ہماری استطاعت میں کچھ بھی نہیں ہے مگر بلاغ تو ہے نا اور اگر ہم اپنی حیثیت سمجھتے ہوں اور جیسا کہ میں نے مثال دی تھی بعض نادانوں کی اپنے بچوں کو نصیحت قبول نہ کرنے پر ان پر غیظ و غضب کا مظاہرہ نہ کرتے ہوں، ان پر گالیاں دے
خطبات طاہر جلد 14 668 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء کر دل کی بھڑ اس نہ نکالتے ہوں، ان پر ہاتھ اٹھا کر اپنے دل کا غصہ نہ اتارتے ہوں تو پھر ان کے لئے سوائے دعا کے چارہ ہی کچھ نہیں رہ جاتا.بلاغ اور مسلسل بلاغ اور پھر دعا ئیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو جب ایک صحابی کے متعلق یہ شکایت پہنچی کہ وہ اپنے بچوں پر تربیت کے لحاظ سے بہت سختی کرتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور آپ کی ناراضگی میں بے حد بے قراری پائی جاتی تھی.آپ نے کہا تم کیا سمجھتے ہو اپنے آپ کو، تم تو مشرک ہو رہے ہو.کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے بچوں کی تربیت تمہارے اختیار میں ہے.تم اپنے نفس کا غیظ اتار رہے ہو، تربیت کا کوئی شوق نہیں ، نہ تمہیں تربیت کی اہلیت ہے.مغلوب الغضب ہو کر تم بچوں کو مارتے ہو اور مزید گنہ گار بنتے ہو کیوں دعا نہیں کرتے کیونکہ انسان جب نصیحت کر کے بے چارگی محسوس کرتا ہو، بے بسی محسوس کرتا ہو تو دعا کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے اور دعا میں یہ طاقت ہے کہ وہ عظیم انقلاب برپا کرے لیکن اس دعا میں نہیں جو محض خشک ہونٹوں سے اٹھتی ہو، جس کے پیچھے یہ بلاغ کا تفصیلی پس منظر نہ ہو.پس محنتیں کرنی ہوں گی پورے اخلاص کے ساتھ ، تمام سوسائٹی کو نماز کے ذریعے زندہ کرنے کا عزم لے کر اٹھنا ہوگا اور ہر نئے آنے والے کونماز کا پیغام دینا ہوگا.مگر پاک، نیک نصیحت کے ذریعے، نیک نمونوں کے ذریعے تھوڑا تھوڑا سکھا کر پیار اور محبت سے.اگر زیادہ نہیں تو شروع میں ایک نماز ہی کا عادی بنا ئیں اور پھر رفتہ رفتہ اللہ کے حوالے اس طرح کرتے چلے جائیں کہ اللہ خود ان کو سنبھال لے اور آئندہ ان کی تربیت براہ راست خدا کے سپر د ہو.ہم واسطہ تو ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تربیت اللہ ہی کی ہے.مگر اسی کا بنایا ہوا نظام ہے کہ کچھ عرصے تک انسانوں کو دوسروں کی تربیت کا ایک واسطہ بنادیتا ہے.جب تک وہ چاہے وہ واسطہ چلتا ہے.جوں جوں تربیت کامیاب ہوتی چلی جاتی ہے یہ واسطہ بیچ سے اٹھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جس کی تربیت کی جائے اس کو بھی کبھی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ اس کا مربی روز آ آ کے اس کو نصیحت کرے.بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جس کی تربیت کی جائے وہ اپنے مربی سے بھی بہت آگے نکل جاتا ہے.پس اس پہلو سے نماز ادا کرنے کی طرف توجہ دیں، اپنے گھروں میں قائم کریں، اپنے گردو پیش قائم کریں اور خصوصیت کے ساتھ داعی الی اللہ نماز پر قائم ہو جائیں اور خصوصیت کے ساتھ ان کو جو سلسلے میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں خواہ وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا غیر مسلموں میں سے ہوں ان
خطبات طاہر جلد 14 669 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء کونماز کی اہمیت بتانے کے لئے ایک نظام جاری کریں اور اس نظام کی مسلسل نگرانی رکھیں.تا کہ ایک آپ کا طبقہ جو نئی زمینیں فتح کرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اس کے پیچھے پیچھے یہ سنبھالنے والا طبقہ بھی قائم ہوتا چلا جائے جو نئے آنے والوں کو سنبھالے اور ان کے تمام حقوق ادا کرے اور ان کی ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو.یہی وہ ایک طریق ہے جس کے ذریعے سے ہم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مزید تیزی کے ساتھ بھی آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہمیں پچھلے پھلوں کی فکر نہیں رہے گی کیونکہ پچھلوں کو سنبھالنے کا نظام بھی ہم جاری کر چکے ہوں گے.تو ان آیات میں سب سے پہلی توجہ نماز کی طرف ہوئی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس سے بہتر گر غلبہ اسلام کا استقلال اور استقامت بخشنے کا اور کوئی نہیں.دوسری بات جو ان آیات کریمہ میں سمجھائی گئی ہے وہ اس سے اگلا قدم ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل :79) قرآن کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ دو اور قُرآنَ الْفَجْرِ بتاتا ہے کہ وہ دور جبکہ پو پھوٹ رہی ہو اور نیا دن چڑھ رہا ہو اس وقت قرآن کی تلاوت بہت ضروری ہے.قُرآنَ الْفَجْرِ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ صبح کے وقت تلاوت کی جائے اور یہ بہت ہی پیاری چیز ہے.جن گھروں میں صبح کی تلاوت کی عادت ہو اللہ کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی فجر قرآن ہی کے ذریعے پھوڑتا ہے.قُرآنَ الْفَجْرِ ان کے لئے ایک نیا پیغام لے کر آتا ہے.لوگوں کی صبح وسورج کے چڑھنے سے ہوتی ہے مگر ان کی صبح قرآن کا نور صبح ان کے گھروں میں پھوٹنے سے ہوتی ہے اور اس سے بہتر اور کون سی صبح ہو سکتی ہے.مگر اس کے ساتھ ایک اور پیغام بھی ہے قُرآنَ الْفَجْرِ یہ وہی فجر ہے جس کا سورۃ القدر میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کا نور ایک اندھیری رات سے پھوٹا ہے تو پھر حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر:6) سلام ہی سلام تھا.هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.یہاں تک کہ مطلعِ الْفَجْرِ ہو اور وہ مجسم سلامتی تھا.تو فجر کا ایک معنی ایک عظیم روحانی انقلاب ہے جو اندھیری راتوں کو روشنیوں میں تبدیل کر دیتا ہے.پس جس نسبت سے میں اس آیت کی تفسیر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس نسبت کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں فجر کا ترجمہ نئے روحانی دور سے کیا جائے
خطبات طاہر جلد 14 670 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء جبکہ ایک نئی صبح پھوٹنے والی ہے یا پھوٹ رہی ہو.اس روحانی انقلاب کے وقت قرآن سے کام لو، قرآن کی تلاوت ہی ہے جو اس فجر کو حقیقت میں روشن بنادے گی.اس لئے عبادت کے قیام کے بعد قرآن کریم کی تعلیم کی طرف ایک گہری توجہ ہے.اس سلسلے میں کچھ مزید باتیں کہ ہم کس طرح ان مسائل کو حل کریں گے اور خدا تعالیٰ نے کون کون سے راستے ہمارے لئے کھولے ہیں انشاء اللہ میں الوداعی خطاب میں آپ سے کروں گا.لیکن اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن الفجر کے بعد پھر فرمایا وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ که عبادت کا قیام بھی کافی نہیں ہے جب تک اس میں نوافل کے اضافے نہ ہوں اور خصوصیت کے ساتھ رات کو محنت نہ کی جائے.پس قیام تہجد مشکل مسائل کا حل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تہجد کی نماز ہی وہ نماز ہے جس کی رسائی سات آسمانوں سے پرے تک لازماً ہوتی ہے اور دوسری نمازوں کی دعاؤں کا تہجد کی نماز کی دعاؤں سے رشتہ تو ہے مگر نسبت وہ کوئی نہیں ہے.حیرت انگیز تبدیلیاں لانے کی طاقت تہجد کی دعائیں رکھتی ہیں.ورنہ روز مرہ صبح کی پانچ نمازیں تو پڑھنے والے بے شمار ہیں.وہ جو ان میں سے چند راتوں کو اٹھتے ہیں یا چندان میں سے جو راتوں کو اٹھتے ہیں اور خدا کی خاطر جب دنیا ان کو نہیں دیکھ رہی ہوتی محض اپنے رب کی محبت کے اظہار کے لئے اندھیروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں ان کی دعا ئیں ایک غیر معمولی طاقت رکھتی ہیں اور ان کی دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عظیم الشان مقامات مومن کو عطا ہوتے ہیں.تو فرمایا وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا اب نماز کتنی پیاری چیز ہے اور تلاوت قرآن بھی دیکھو کتنی اچھی چیز ہے مگران کے نتیجے کے طور پر مقام محمود کا وعدہ نہیں فرمایا.مقام محمود کا وعدہ فرمایا تو تہجد کے ساتھ وعدہ فرمایا فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ یہ قرآن جو ہے جس کی صبح تلاوت کا ہم نے حکم دیا ہے اس قرآن ہی کے ذریعے رات کو تہجد پڑھا کر اور اسی کے ذریعے اندھیروں کا جہاد کر.نَافِلَةً لَّكَ یہ فرض نہیں ہے، محض نفل ہے.مگر اتنا طاقتور نفل کہ فرمایا لَّكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ہرگز بعید نہیں بلکہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے مقام محمود پر فائز فرمادے.اب مقام محمود کی تعریف وہ فرما دی کہ جو کوئی کھڑا مقام نہیں ہے بلکہ مسلسل جاری وساری
خطبات طاہر جلد 14 671 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء مقام ہے.ایسا مقام ہے جو ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے اور قدم نہیں روکتا بلکہ قدم آگے بڑھانے میں مد ثابت ہوتا ہے.پس یہ وہ مقام نہیں ہے جس کو میم کی پیش سے پڑھا جاتا ہے جو ایک معین جگہ کا نام ہے.عربی میں مقام بھی ایک لفظ ہے جو اکثر استعمال ہوا ہے یعنی قرآن کریم میں اکثر آیات میں لفظ مقام استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے ایک ٹھہری ہوئی جگہ، ایسی جگہ جہاں آپ اتر سکتے ہیں، جہاں آپ رات بسر کر سکتے ہیں یا کچھ دیر کے لئے بسیرا کر سکتے ہیں یا لمبے ڈیرے ڈال سکتے ہیں.ہر ایسی جگہ جو آپ کے ٹھہرنے کی جگہ ہو یا جانوروں کے ٹھہرنے کی جگہ ہوا سے مقام کہا جاتا ہے.مگر یہاں اللہ تعالیٰ نے مقام نہیں فرمایا عَلَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا دیکھو ممکن نہیں بلکہ عین ممکن ہے بلکہ لازم ہے کہ تجھے اللہ تعالیٰ مقام محمود تک پہنچا دے اس تہجد کے ذریعے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور مقام کسی ٹھہری ہوئی جگہ کا نام نہیں ہے.مقام خدا کے حضور ایک مرتبے کا نام ہے اور خدا کے حضور مومن کا مرتبہ کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا بلکہ مسلسل بڑھتا ہے اور اس کے بغیر وہ مرتبہ ہے ہی نہیں جو مرتبہ بڑھنے والا نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں.اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاخْرِجُنِى صِدْقٍ جب مقام محمود تجھے عطا ہوگا یا ہورہا ہے اور ایسے مقام کے اندر تو سفر کر رہا ہے جہاں پہلے بھی مقام مل چکے ہیں لیکن آئندہ مسلسل ملتے رہیں گے.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ کا یہ ترجمہ آنحضرت ﷺ کے تعلق میں لازم ہے بلکہ اس کے سوا کوئی ترجمہ ممکن نہیں ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ پہلے مقام محمود عطا نہیں ہوا تھا آئندہ خدا عطا کرے گا مراد یہ ہے کہ ممکن نہیں بلکہ یقینی ہے کہ خدا تجھے مقام محمود عطا کرتا چلا جائے.يبعث کا معنی ” کرتا چلا جائے“ کریں تو پھر مضمون ٹھیک بیٹھتا ہے ورنہ اکھڑ جاتا ہے اور اگلی آیت اسی کی تائید فرمارہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعا کر کہ اے میرے رب اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ اے میرے رب مجھے داخل فرما اس مقام میں صدق کے ساتھ وَ اَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ اور اس سے نکال دے صدق کے ساتھ.تو کیا مقام محمود سے نکلنے کی دعا سکھائی گئی ہے؟.یہ سوچنے کی بات ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو یہ دعا سکھائے کہ اے میرے رب مجھے مقام محمود عطا تو کر
خطبات طاہر جلد 14 672 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء دینا مگر زیادہ دیر نہ ٹھہرانا وہاں میری اگلی دعا بھی سن لے مجھے جلدی سے اس مقام سے نکال کر باہر کر.ہرگز نہیں.یہ نہایت ہی جاہلانہ ترجمہ ہے.اس کا ایک ہی ترجمہ ممکن ہے کہ اے میرے خدا ایک مقام سے نکال کر دوسرے مقام میں داخل کرتا چلا جا، ایک مقام میں داخل فرما اور پھر میں دعا کروں گا کہ اے خدا یہ مقام میرے لئے چھوٹا ہو گیا ہے اور قرب کے مقامات کا خواہاں ہوں،اس مقام سے میری سیری نہیں ہورہی.پس مجھے اس سے نکال.مگر کہاں؟ ایک اور مقام محمود میں تا کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور اس سلسلے میں میرے لئے سلطان نصیر عطا فرماتا چلا جا کیونکہ بلند سے بلند تر مقامات کی طرف جانا خود انسان کی اپنی طاقت سے ممکن نہیں ہے.لازم ہے کہ اس کو غیب کی طرف سے ایسے سلطان عطا ہوں اللہ کی طرف سے جو اس کی نصرت کی طاقت رکھتے ہوں.پس حقیقت میں جب میں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں جب سے جلسہ سالانہ یو کے ہوا ہے اس مضمون پر غور کر رہا ہوں اور فکرمند ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں ، تو کل جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا جواب سمجھایا تو یہ جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے اور اس کے ساتھ سلطان نصیر کا جو ذکر ہے اس کے ذریعہ مجھ پر یہ مفہوم حقیقت میں روشن ہوا اور پھر توجہ اس طرف ہوئی کہ ان آیات کو اچھی طرح اکٹھا پڑھا جائے تو سارا مضمون کھل کر سامنے آ جائے گا.یہاں سلطان نصیر کی طرف توجہ اس لئے میرے دل میں پیدا ہوئی کہ ہم بھی تو ایک مقام محمود سے ایک اور مقام محمود کی طرف سفر کر رہے ہیں لیکن یہ مقامات ٹھہرے ہوئے مقامات نہیں ہیں.کچھ عرصہ پہلے جب ہماری دعا ئیں تھیں، التجائیں تھیں اور کچھ تعجب بھی ہوتا تھا کہ کتنی بڑی بات مانگ رہے ہیں.ہم خدا سے سال میں ایک لاکھ بیعتوں کی دعا کرتے تھے تو اس سے پہلے جو بیعتیں ہوتی تھیں وہ بھی تو اللہ کے فضل تھے ، وہ بھی تو ایک قسم کے مقام محمود تھے مگر جب ایک لاکھ بیعت کا مقام آیا تو دل حمد سے بھر گیا اور خوشیوں سے لبریز ہو گیا کہ بہت بڑی منزل طے کی ہے ایک مقام محمود ایسا ملا ہے جس کی مدت سے تمنا رکھتے تھے.مگر بہت جلد وہ مقام پرانا ہو گیا.بہت جلد دل میں یہ احساس ہوا کہ جب تک دونہ مانگیں ہماری تشنگی نہیں مجھے گی.پس اے خدا ہمیں اس مقام سے نکال دے، واپسی کی طرف نہیں بلکہ آگے کی طرف نکالنے کی دعا دل سے طبعی طور پر اٹھی ہے اور مسلسل اٹھتی رہی اور زیادہ شدت کے ساتھ اٹھتی رہی.وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ اے خدا جس طرح صدق کے ساتھ تو نے اس مقام محمود میں
خطبات طاہر جلد 14 673 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء داخل فرمایا تھا اب اس مقام سے نکال لیکن ایک اور بڑے مقام کی طرف جو اس سے زیادہ شاندار اور زیادہ سکینت بخشنے والا ہو.پس اللہ نے آپ کے دیکھتے دیکھتے ہمیں وہ دوسرا مقام محمود بھی عطا فرما دیا اور جب وہ مقام آیا تو دل پھر حمد سے بھر گئے، طبیعتوں کو ایک سکینت نصیب ہوئی کہ اب تو ہم دولا کھ احمدیوں کی خوش خبری پا کر اپنے دلوں کو ٹھنڈا کر رہے ہیں مگر بہت جلد وہی سکینت ایک قسم کی بے چینی اور ایک نئی پیاس میں تبدیل ہوگئی اور ہم نے یہ دعائیں مانگنی شروع کیں کہ اے خدا بہت مزہ آیا، بے حد تیرے احسان مند ہیں.شکروں کا تو حق ادا نہیں کر سکتے.مگر تو نے جو فطرت ہمیں بخشی ہے یہ پیاسی فطرت ہے.جب ایک نعمت کو پالیتی ہے تو اس نعمت سے واقفیت کے نتیجے میں نعمت کا احساس بھی کم ہوتا چلا جاتا یہ اور جتنا زیادہ نعمت سے واقفیت بڑھتی جائے اس کے وجود کا احساس، اس کے شکر کا احساس کم ہوتا چلا جاتا ہے.پس ہمیں اس مقام سے بھی نکال ، ایک اور مقام محمود میں داخل فرما اور پھر چار لاکھ کی تمنادل میں مچلنے لگی اور لگتا تھا کہ بہت بڑی دعا ہے.لیکن اللہ نے آپ کے دیکھتے دیکھتے اور میرے دیکھتے دیکھتے وہ چارلاکھ کی تمنا بھی دیکھیں کس شان سے پوری فرمائی اور ہمیشہ دگنے سے کچھ بڑھا کر دیا.ایک عجیب کیفیت تھی اس جلسے پر جب چار لاکھ بیعتیں ہو رہی تھیں.بہت سی آنکھوں سے آنسورواں تھے.ان آنکھوں سے بھی جو حاضرین کی ، موجودلوگوں کی آنکھیں تھیں اور ان آنکھوں سے بھی جو دور سے نظارہ کر رہی تھیں ٹیلی ویژن کے ذریعے اور کثرت سے مجھے دور دراز کے ملکوں سے خط ملے کہ ہماری نظریں اپنے ہی آنسوؤں سے دھندلا جاتی تھیں.جو نظارہ ہمیں جان سے بھی زیادہ پیارا تھا خوشی کے آنسوؤں سے روتے روتے وہ نظارہ بسا اوقات نظروں سے غائب ہو جاتا تھا.ایک عجیب کیفیت تھی جس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے.تو بہت لطف آیا کئی دنوں، ہفتوں ہم انہی کیفیات میں ڈوبے ہوئے، انہی خوابوں میں بسے رہے.مگر پھر میں جانتا ہوں کہ جیسے میرے دل کی حالت تھی ویسے ہی آپ سب کی بھی ہوگی کہ اے خدا اب یہ خوشیاں دیکھ لیں ان کے مزے اڑالئے مگر تو تو کہتا ہے کہ ہر مقام محمود کے بعد نکلنے کے رستے ہیں اور وہ نکلنے کے رستے اور مقامات محمود میں ہیں.پس ہمیں اس مقام میں سے بھی نکال لیکن صدق کے ساتھ نکال.جیسے پہلے صدق سے داخل فرمایا تھا اسی طرح صدق سے نکال اور ایک اور مقام محمود میں داخل فرما دے اور ہم پھر آئندہ سال
خطبات طاہر جلد 14 674 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء بیعتوں کو دگنا ہوتا ہوا دیکھیں.پس امسال جس کے ذکر سے میں نے بات چلائی ہے اللہ نے بے انتہا احسان فرمایا ہے.جو تصور میں بھی آ نہیں سکتی تھی کہ ہماری طاقت میں یہ ہوگی ہماری گناہ گار آنکھیں خدا کے ان احسانات کو دیکھیں گی.ہم سب نے دیکھا اور پھر آنکھوں نے تشکر اور حمد کے آنسوؤں کے دریا بہا دیئے کہ اے خدا کیسی تیری شان ہے ایک مقام محمود سے تو نے دوسرے مقام محمود میں داخل کرنے کے لئے ہمیں پہلے سے نکالا اور صدق کے ساتھ نکالا.لفظ صدق میں ہی اس بات کی چابی ہے کہ اگلا بھی مقام محمود ہی ہوگا حالانکہ دوبارہ مقام محمود کا ذکر نہیں فرمایا.مگر پہلے بھی داخل ہوتے وقت لفظ صِدْقٍ رکھ دیا جس کا مطلب تھا کہ سچائی کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، اچھی چیز ملے گی.سچائی کبھی اندھیروں میں داخل نہیں کیا کرتی.سچائی کبھی ظلمات کے تحفے لے کر نہیں آتی.پس صدق میں اس سارے مضمون کو سمجھنے کی چابی ہے.جب فرمایا و اَخْرِجُنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ تو مطلب یہ تھا کہ جیسے صدق سے داخل فرمایا ویسے ہی صدق سے نکالنا اور یہ صدق اور بھی نیکیوں کے پھل ہمارے لئے لائے.پس اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شمار ممکن نہیں.اس نے صدق کے ساتھ ہمیں اس مقام محمود سے نکال کر پھر آٹھ لاکھ سے اوپر کے مقام محمود میں داخل فرما دیا.اب بھی یہی تمنا ہے، اب بھی یہ دعا ئیں ہیں رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلطَنَّا نَصِيرًا تو ساری جماعت جو سلطان نصیر بن کران دعاؤں کو پورا کرنے میں مددگار بنی ہوئی ہے.یہ وہ سُلطَنَّا نَصِيرًا ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہو رہے ہیں اور پھر مزید دلوں میں جب خدا غیب سے وحی کے ذریعے جماعت کی طرف ان کے دلوں کی توجہ پھیرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدیت کی محبت ان کے دلوں میں بھر دیتا ہے تو پھر اور بھی سُلْطنًا نَّصِيرًا ہمیں عطا ہوتے ہیں.پھر بہت سے اور ذرائع ہیں سُلْطنًا نَّصِيرًا عطا کرنے کے جن کا مشاہدہ عالمگیر جماعت کرتی آرہی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی.مگر لفظ صدق کا ایک تعلق ما قبل سے بھی ہے اور اسی تعلق نے میری توجہ ابتدائی آیات کی طرف پھیری.صدق قیام عبادت کے بغیر ممکن نہیں ہے.پائے صدق عبادت پر ہے اور عبادت کے بغیر کسی کو پائے صدق
خطبات طاہر جلد 14 675 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء نصیب نہیں ہو سکتا.پس بات گھوم کر پھر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ اگر آپ نے ہر مقام محمود میں داخل ہونے کے بعد ہر مقام محمود سے ایک اور مقام محمود میں نکلنے کی دعا کرنی ہے تو یاد رکھیں اس دعا کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے، اس مضمون کی نوعیت کو گہرائی سے سمجھنا ہوگا، اس کا عرفان حاصل کرنا ہوگا ورنہ یہ بات ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گی.پس ان باتوں کو سمجھتے ہوئے میں تمام عالمگیر جماعتوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے لئے بھی اور ہم سب کے لئے بھی دعا کریں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے یعنی آغاز سے لے کر آخر تک اس دعا میں جب آپ کہتے ہیں صدق کے ساتھ داخل فرما تو اس بات کو شامل کر لیں کہ ایسے صدق میں تلاوت قرآن کریم بھی تھی، اس صدق میں راتوں کو صبح میں تبدیل کرنے کی طاقت بھی موجود تھی، اس صدق میں راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور تہجد کرنے کی توفیق بھی شامل تھی اور ایسے تہجد ادا کرنے کی توفیق شامل تھی جس کے بعد عرش سے لازمی طور پر یہ وعدہ اترتا ہے کہ تجھے خدا ضرور مقام محمود میں داخل فرمائے گا اور جب داخل فرمائے گا تو پھر اس سے نکلنے کی دعا کرنا مگر صدق کے ساتھ اور جب صدق سے اس سے نکلنے کی دعا کرو گے تو یاد رکھنا کہ سُلْطَنَّا نَصِيرًا کی دعا نہ بھولنا کیونکہ جتنی منزلیں بلند ہوتی چلی جائیں اتنے ہی خوف بھی لاحق ہوتے چلے جاتے ہیں.اتنے ہی مزید طاقتور اور غالب مددگاروں کی بھی ضرورت پیش آتی رہتی ہے.اتنے ہی حسد بھی بڑھتے جاتے ہیں، دشمنیاں بھی پہلے سے بڑھ کر آپ کو ہلاک کرنے کی تمنائیں کرتی ہیں ، آپ کو گزند پہنچانے کی راہوں میں بیٹھتی ہیں، دن رات کوشش کرتی ہیں کہ کسی طرح ان کے بڑھتے ہوئے قدم روک لیں.پس وہ منظر بھی اب ابھر کر سامنے آتا چلا جارہا ہے.پہلے سے کئی گنا زیادہ مشتعل ہو کر جماعت کے دشمن منصوبے بنا رہے ہیں کہ کسی طرح آپ کی ترقی کی راہیں روک لیں اور آپ کی راہ میں ایسی کمین گاہوں میں بیٹھیں کہ آپ کو کچھ خبر نہ ہو اور وہ اچانک آپ پر حملہ آور ہوں اور ان چیزوں کے منصوبے بنانے کی قطعی معین اطلاعیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہنچا دی ہیں.پس اس مضمون کا سُلطنَّا نَصِيرًا سے ایک اور تعلق بھی قائم ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ دعا مانگو اللہ سے کہ جہاں دشمن طاقتور ہے اور دنیاوی طاقتوں کے بل بوتے پر، دنیاوی سلطانوں کے بل
خطبات طاہر جلد 14 676 خطبہ جمعہ 8 ستمبر 1995ء بوتے پر وہ خدا کے بندوں کو گزند پہنچانے کے منصوبے بنا رہا ہے.اے خدا جب ہمیں مزید روحانی ترقیات عطا فرما تو ساتھ ساتھ سُلْطنًا نَصِيرًا بھی عطا کرنا کیونکہ ہم میں تو اپنی حفاظت کی طاقت نہیں ہے.ہم تو عاجز اور کمزور بندے ہیں.پس ان معنوں میں اگر آپ سُلْطَنَّا نَصِيرًا کی دعا بھی گہرائی کے ساتھ سوچ کر کرتے رہیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کوئی فکر نہیں ہے.کسی غم کی ضرورت نہیں، کسی کھوئے ہوئے پر حزیں ہونے کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو گا.آپ کو قدم قدم پر لمحہ لحہ سُلْطَنَّا نَصِيرًا عطا کرتا چلا جائے گا.پھر آپ دندناتے ہوئے شاہراہِ ترقی اسلام پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور ان دعاؤں کے ساتھ جب آپ آگے بڑھیں گے تو مجال نہیں کسی دشمن کی خواہ وہ ایک ادنی انسان ہو یا دنیا کا طاقتور بادشاہ ہو کہ آپ کی ترقی کی راہ روک سکے اور آپ کو گزند پہنچا سکے.اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور یہ گر جو اس نے ہمیں سکھایا ہے اسے سمجھنے اور مزید گہرائی سے اس کا عرفان حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین اللھم آمین)
خطبات طاہر جلد 14 677 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء نو مبائعین کی تربیت کا کام بے حد ضروری ہے.MTA کے ذریعہ دنیا کو پیغام حق دیں اور ان کی تربیت کا کام کریں (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1995ء بمقام سٹی ہال آفن باخ.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاَكِيْدُ كَيْدًا فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا (الطارق : 18:16) پھر فرمایا:.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں مومن کو حکم ہے کہ وہ حکمت سے کام لے، تدبیر سے کام لے، بیدار مغزی سے کام لے ، سرحدوں پر گھوڑے باندھے یعنی دشمن کی ہر حرکت اور سکون پر نظر رکھے اور خیال رکھے کہ دشمن جب اس کا بس چلے گا شب خون مارنے کی بھی کوشش کرے گا ، اچانک حملے کرے گا، جہاں سے تمہیں توقع نہیں ہو سکتی.اس لئے اللہ مومن سے توقع رکھتا ہے کہ ہمیشہ بیدار رہے اور بیدار مغزی کے ساتھ اس بات کا منتظر رہے کہ جب بھی دشمن کوئی کارروائی کرے تو وہ دشمن مومن کو مستعد پائے اور مومن کی جوابی کارروائی ایسی ہو جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس سے پچھلے اس سے نصیحت پکڑیں یعنی جوابی کارروائی میں نہ صرف یہ کہ مستعدی پائی جائے، بجائے اس کے کہ مومن کو دشمن حیران کر سکے، دشمن حیران ہو جائے اور اس قدر حیران ہو کہ اس کے نتیجے میں جو دوسرے منصوبہ بنانے والے پیچھے بیٹھے ہیں وہ اس کا حال دیکھ کر نصیحت پکڑیں.
خطبات طاہر جلد 14 678 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء اس پہلو سے دعوت الی اللہ کے مضمون کو سمجھنا ضروری ہے.دعوت الی اللہ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی کامیابیاں عطا فرماتا ہے ان کا میابیوں پر اس طرح راضی ہو کر بیٹھ رہنا کہ گویا اب ہم نے اپنے مقصد کو پالیا، جو کچھ حاصل کرنا تھا حاصل کر لیا اور جو ہمارا ہوا وہ ہمارا ہو چکا ہے.یہ تصور درست نہیں ، قرآن کریم اس تصور کو جھٹلاتا ہے اور کئی طریقوں سے مومن کو بیدار کرتا ہے.ان طریقوں میں سے ایک تو یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کرو یعنی جہاں جہاں سے دشمن نے حملہ کرنا ہے وہاں تمہارے گھوڑے تیار موجود ہوں اور کبھی بھی دشمن تمہیں Surprise نہ دے سکے.Surprise کا ایک محاورہ بن چکا ہے.انگریزی لفظ ہے لیکن اب دنیا میں عام مشہور و معروف بن گیا ہے.فوجی اصطلاح میں Surprise کہتے ہیں ایسے حملے کو جس کی دشمن کوکوئی توقع نہ ہو اور اچانک اس طرح حملہ ہو کہ اس کے پاؤں اکھڑ جائیں کیونکہ توقع نہ ہو تو تیاری نہیں ہوتی ، تیاری نہ ہو تو دفاع کے سامان ہونے کے باوجود انسان بسا اوقات انہیں استعمال نہیں کر سکتا.پس اس پہلو سے اول تو یہ حکم ہے کہ تمہارے مختلف کناروں سے یعنی جہاں جہاں تمہارے اور دشمن کی سرحدیں ملتی ہیں وہاں ہمیشہ دشمن کے حملوں اور شرارتوں کی توقع رہنی چاہئے اور اس کا احتمال ہمیشہ رہے گا اور تم نے ہمیشہ نظریں رکھنی ہیں کہ کب کس وقت کوئی منصو بہ ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اس ہدایت کا مرقع تھے یعنی ایک زندہ مثال تھے.باوجود اس کے کہ عرب کے ریگستان میں رسل و رسائل کے کوئی اہم ذرائع موجود نہیں تھے اور دور دور کی خبریں آنے میں بہت وقت لگتا تھا مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نظر مشرق کی سرحد پر بھی تھی مغرب کی سرحد پر بھی تھی ، شمال کی سرحد پر بھی تھی، گرد و پیش پر بھی تھی اور وہ غزوہ تبوک جس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اس کی وجہ یہی نہیں تھی کہ آنحضرت ﷺ کو یہ علم ہو چکا تھا کہ دشمن اسلام کی سرحدوں پر فوج جمع کر رہا ہے اور بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے.غزوہ تبوک کے نتیجے میں کوئی بڑی لڑائی تو نہ ہوئی کیونکہ قبال کی نوبت نہ آئی مگر بر وقت مستعد کارروائی کے نتیجے میں دشمن کے ارادے ٹل گئے اور ان کی فوجیں بکھر گئیں اور انہوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک بہت ہی مستعد اور بیدار مغز مد مقابل ہے تو اس بات کی جرات ہی نہ ہوئی کہ با قاعدہ جم کر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا مقابلہ کر سکتے.تو بیدار
خطبات طاہر جلد 14 679 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء مغزی تبلیغ یا جہاد کا ایک ایسا لازمی جزو ہے جس کو ہم نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے دور میں ہمیشہ صف اول میں پایا.مکہ میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کی خبریں آنحضرت ﷺ کو مستقل مل رہی ہوتی تھیں.کب قافلہ تیار ہو رہا ہے، کہاں کے لئے تیار ہو رہا ہے، کیا منتیں ہیں، ان سب باتوں کی اطلاعیں آنحضرت ﷺ کو مسلسل اس نظام کے ذریعے ملتی تھیں جو اس آیت کی ہدایت کے نتیجے میں آپ نے جاری فرمایا.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے ایک سبق ہے اور مجھے فکر ہے کہ اس پہلو میں کچھ کمزوری باقی ہے.دعوت الی اللہ کے کام کو تو آگے بڑھایا جا رہا ہے خدا کے فضل سے، وقت کے ساتھ ساتھ جماعت زیادہ بیدار مغزی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ، زیادہ سے زیادہ مجاہدین کو اس عظیم جہاد میں جھونک رہی ہے لیکن جو دوسرا پہلو میں نے بیان کیا ہے اس پر ابھی پوری نظر نہیں ہے.کئی دفعہ دشمن کے منصوبوں کی اطلاع اس وقت ہوتی ہے جب وہ حملہ کر چکے ہوتے ہیں اور یہ شیوہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے غلاموں کا نہیں ہونا چاہئے.آپ کا اطلاعات کا نظام پہلے سے زیادہ بیدار مغزی سے اور مستعدی کے ساتھ دشمن کے حالات کی خبر پر ہمیشہ تیار رہنا چاہئے اور خبریں حاصل کرنے کا نظام با قاعدہ منصوبے کے ساتھ بنانا ضروری ہے.اس پہلو سے پاکستان میں بھی یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور دوسری جماعتوں میں بھی یہ کمزوری پائی جاتی ہے.اکثر جب شرارت شروع ہو جاتی ہے اور رخنے ڈال دیتی ہے اس وقت اطلاع ملتی ہے کہ دیکھیں یہ ہو گیا.اب مثلاً جرمنی ہی کی مثال ہے.یہاں خدا کے فضل سے بوسیز میں، البانینز میں بہت کام ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے.جن خدام اور انصار کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے ان پر ہرگز کوئی شکوہ نہیں.انہوں نے اپنی جان کی حد تک اپنی تمام طاقتوں کو اس میں جھونک دیا ہے.دن رات محنت کر رہے ہیں مگر جتنی زیادہ محنت ہو اتنا ہی پھل عزیز تر ہونا چاہئے کیونکہ بہت محنت کی جو کمائی ہے انسان اس کی زیادہ قدر کیا کرتا ہے.پس جماعت جرمنی کو خدا تعالیٰ جو عطا کر رہا ہے یہ درست ہے کہ ان کی محنت سے ان کے کاموں کے مقابل پر بہت زیادہ عطا کر رہا ہے اور ہمیشہ اللہ کا یہی دستور ہے.مگر یہ بھی درست ہے کہ محنت بہت کی جارہی ہے.اگر سب کی طرف سے نہیں تو کم سے کم دس فیصد تو آپ میں سے ایسے ضرور ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان خدمت کے کاموں میں بہت محنت کی توفیق عطا کی ہے.تو
خطبات طاہر جلد 14 680 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء محنت کا پھل تو انسان بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کی بڑی حفاظت کرتا ہے.وہ امیر لوگ جن کو ورثے میں جائیدادیں ملی ہوں ان کی نگاہ جائیدادوں پر اور طرح ہوتی ہے.کئی ایسے ہیں جو ان کو بیچ کھاتے ہیں اور بیچتے چلے جاتے ہیں اور کھاتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا اس لئے کہ ہاتھوں کی کمائی نہیں، اس لئے کہ خون پسینے کی محنت اس میں صرف نہیں ہوئی.پس جہاں وہ محنتی ہوں، زمیندار ہوں یا تاجر جنہوں نے دن رات کوشش کر کے جدوجہد کر کے جان جوکھوں میں ڈال کر کچھ کمایا ہو وہ اپنی کمائی کی بڑی حفاظت کرتے ہیں اور اس پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو برکت دیتا ہے.پس جہاں تک آپ کی محنت کا تعلق ہے اور اس کے مقابل پر پھل کے حصول کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ پھل بہت زیادہ ہے مگر کون سے دنیا میں ایسے کاروبار ہیں جہاں خدا محنت سے بڑھ کر پھل عطا نہیں کرتا.جب بھی اللہ فضل فرماتا ہے زمینداروں کو دیکھو ایک دانے کے سینکڑوں دانے بن جاتے ہیں اور اگر یہ فضل الہی شامل نہ ہو تو انسان کی بقاء کا کوئی سامان ممکن نہیں ہے.محنت کے برابر اگر پھل اللہ دے تو انسان کی قوت کا، اس کے زندہ رہنے کا، گزراوقات کا کوئی سہارا نہ رہے.کچھ ایسا فضل ہے جیسے بارانی علاقوں میں بارش ہو جاتی ہے، از خود کھیتیاں پانی بھی حاصل کرتی ہیں، نشو ونما بھی پاتی ہیں، مرے ہوئے بیج بھی زندہ ہو جاتے ہیں اس کمائی کی اور کیفیت ہوتی ہے.پس آپ لوگ اللہ کے فضل سے محنت کر رہے ہیں اور بڑی محنت کی گئی ہے بوسینز کے تعلق میں بھی اور البانینز کے تعلق میں بھی اور افریقین ممالک سے آنے والوں کے لئے بھی اور عربوں کے تعلق میں بھی اور جب یہ خبر ملتی ہے کہ دشمن نے اچانک ان کو بدظن کرنے کے لئے ، ان کو آپ سے دور ہٹانے کے لئے ایک منصوبہ ہی نہیں بنایا بلکہ اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے.جب یہ اطلاع ملتی ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ لوگ جو پہلے تعلق رکھتے تھے وہ پیچھے ہٹ گئے ، یک طرفہ باتیں سن کر ان کے دلوں میں کئی قسم کے تو ہمات پیدا ہو گئے تو اس وقت مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر قرآن کریم کی تمام ہدایت پر عمل کیا جائے تو ایسا کوئی موقع پیش نہیں آسکتا کہ دشمن کے وار کے بعد جب آپ کو چوٹ پڑے تب پتا چلے کہ کیا ہو رہا ہے.اس چوٹ سے پہلے آپ کو چوٹ مارنے کے لئے ، چوٹ لگانے کے لئے تیار ہونا چاہئے اور یہ بھی ممکن ہے جب قرآن کریم کی نصیحت کے مطابق سرحدوں پر گھوڑے
خطبات طاہر جلد 14 681 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء باندھے جائیں اور یہ بہت ہی پیارا محاورہ ہے، بہت عمدہ نقشہ کھینچتا ہے دفاعی نظام کا یعنی مرکز میں اکٹھے نہ رہو، مرکز تو تمہیں ہمیشہ اکٹھا کرنے کا ایک مقناطیس ہے جو اکٹھارکھتا رہے گا لیکن کناروں پر نظر رکھو تا کہ مرکز یعنی مومن کی جماعت کی جان پر حملے سے پہلے کنارے سے ہی دشمن کو ایسا دھکیل دیا جائے اور ایسا مایوس کر دیا جائے کہ پھر دوبارہ اس سے پچھلے بھی سبق حاصل کریں.فَشَرِدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ (الانفال : 58) جوان کے پیچھے ہیں ان کو ایسی چوٹ مارو، ایسی سخت کارروائی کرو ان کے متعلق کہ جو پچھلے ہیں جن تک ابھی چوٹ نہیں پہنچی ، چوٹ کی آواز ایسی ہو کہ جوان کے دل دہلا دے اور وہ سمجھیں کہ اس جماعت کے مقابلے کی کوئی ہم میں استطاعت نہیں ہے.یہ نظام ہے جس میں ابھی کمزوری پائی جاتی ہے اور اسے آپ کو ضرور جاری کرنا ہوگا.ورنہ ہو سکتا ہے کہ جس طرح پہلے بسا اوقات نہیں تو بارہا ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ نقصان پہنچا ہے اور پھر اطلاع ہوئی ہے، آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.جو بھی نئی قومیں جماعت میں داخل ہو رہی ہیں وہی آپ کے کان ، وہی آپ کی آنکھیں بن سکتی ہیں.انہی میں ایسے آدمی مقرر ہو سکتے ہیں جو ہر وقت اس بات پر نظر رکھیں کہ دشمن کیا جوابی کارروائی کر رہا ہے اور دشمن کی جوابی کارروائی تو سب جھوٹ پر مبنی ہے.اس لئے اس کا علاج تو بہت ہی آسان ہے.جھوٹ تو اندھیرے کی طرح ہے اور اگر روشنی پہنچے تو اندھیرے کے مقدر میں تو بھا گنا ہے.پس بسا اوقات ایسے لوگوں کو مختلف قسم کے اندھیرے اپنے اندر گھسیٹ لیتے ہیں اور روشنی ان تک پہنچتی نہیں اور وہ اپنے اپنے دائرے ہی میں آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعہ ایک بڑی جماعت سے ہمارا تعلق قائم ہوا تھا اور بر وقت ہمیں تنبیہ کر کے بچالیا گیا ہے اور خاص طور پر ان کو یہ تاکید ہوتی ہے کہ ان سے دوبارہ بات کرو ہی نہیں ، ان سے ملو ہی نہیں.جب یہ آئیں ملنے کے لئے تو کہہ دو کہ ہرگز ہمارے قریب نہ آؤ ہم تمہیں جان چکے ہیں.کیا جان چکے ہیں، کیا تم نے دیکھا ہے، کیا نئی بات پائی ہے؟ اس کا کوئی ذکر نہ کرو اور وہ نہیں کرتے.چنانچہ جتنے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں ارتداد کے یا دلچسپی لینے والوں کے ٹھنڈا پڑ جانے کے ان میں ہر دفعہ یہی بات محسوس کی گئی کہ ان کو یہ پٹی پڑھائی گئی ہے کہ ان کے قریب نہ جانا، ان کی کسی دعوت کا جواب نہ دینا، ان سے کوئی گفتگو نہ کرنا بس اتنا کہو کہ بس ہمیں تمہاری اب ضرورت نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد 14 682 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء ان اندھیروں کو پھاڑنے کے لئے کئی قسم کی کارروائیاں ممکن ہیں.ایک تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بیدار مغزی سے ہر وقت کی نگاہ رکھنا.جہاں احتمال ہو کہ حملہ ہوگا وہاں حملے سے پہلے تیاری کرنا اور بھر پور جوابی کارروائی کرنا.بعض جگہ جب ایسا کیا گیا تو جب ان کو ورغلانے کے لئے دشمن پہنچا ہے تو انہوں نے خود دھکے دے کر نکال دیا ہے.انہوں نے کہا تم نے ہمیں کیا بتانا ہے.ہم جانتے ہیں تم کیا کہتے ہو اور اس کا جواب بھی ہمارے پاس ہے.تمہارے پاس سوائے جھوٹ کے ذریعے ورغلانے کے اور کچھ بھی نہیں.پس ایک تو یہ مستعد رہنے کا نسخہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.آنکھیں کھولنا ہر وقت ، صرف آنکھیں کھولنا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر دور تک نظر رکھنا.سرحدوں پر گھوڑے باندھنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ سرحد پر کھڑے ہوئے انسان کی نظر سرحد پار پر پڑتی ہے اور جو مرکز میں بیٹھا رہے اس کی نظر زیادہ سے زیادہ اپنی سرحد تک جائے گی اس لئے اس کو ہمیشہ Surprise مل سکتی ہے لیکن جو کناروں پر کھڑا ہے وہ عقابی نظروں سے جائزہ لیتا ہے.دور دور تک اس کی نگاہ پڑتی ہے.وہ دیکھ رہا ہے کہ وہاں کیا تیاری ہو رہی ہے، کیا کام ہو رہے ہیں.پس اس پہلو سے میں امید رکھتا ہوں کہ صرف جماعت جرمنی ہی نہیں دنیا کی تمام وہ جماعتیں جو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعوت الی اللہ کے کام میں بڑی مستعدی سے آگے بڑھ رہی ہیں وہ نظر رکھیں گی اور باقاعدہ اس کام کے لئے شعبے بنائیں گی اور وہ شعبے اس بات پر وقف رہیں گے کہ ہر وقت دشمن کی سازشوں پر نظر رکھیں اور جب نظر پڑتی ہے تو اس کے بعد جوابی کارروائی ہونا بھی تو ضروری ہے اس کے لئے بھی ایک ایسا مرکزی نظام قائم ہونا چاہئے کہ جو ہر اطلاع پر بروقت جوابی کارروائی کرے جو کارروائی بر وقت نہ ہو اس سے بھی کوئی فائدہ خاص نہیں پہنچتا کیونکہ پیشتر اس کے کہ کارروائی ہو کچھ نقصان پہنچ جاتا ہے.وہ انسان جو بیمار دفاعی نظام رکھتے ہیں ان پر جب بیرونی حملہ ہوتا ہے تو بعض اوقات اتنا آہستہ جوابی کارروائی ہوتی ہے کہ وہ بیماری ایک مزمن بیماری بن جاتی ہے یعنی Chronic Disease بن جاتی ہے.دفاع بھی ہو رہا ہے، ادھر سے جوابی حملہ بھی جاری ہے، کوئی ایک نتیجہ نہیں نکلتا.اس کو طبی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ ریزولیوشن Resolution نہیں ہو رہا.لڑائی جاری ہے مگر کسی ایک طرف کسی ایک کروٹ پر اونٹ بیٹھتا نہیں.کوئی قطعی، یک طرفہ نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا.مگر صحت مند جسم
خطبات طاہر جلد 14 683 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء ہو تو خطرے کے ساتھ ہی ایسی زبر دست جوابی کارروائی ہوتی ہے کہ چند دن کے اندر اندر ہی Resolution ہو جاتا ہے اور ریزولیوشن کا مطلب ہے کہ جو حملہ آور ہیں ان کی لاشیں پیپ کی صورت میں ، بد بودار مادوں کی صورت میں وہ جسم سے خارج ہوتی ہیں اور جسم کا نظام ان کو نکال باہر پھینکتا ہے.تو اس لئے جوابی کارروائی کا نظام بنانا بھی ایک بہت ہی ضروری امر ہے.اس میں تحریری کارروائی بھی اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہوئے مثلاً ویڈیو، آڈیو وغیرہ کے ذریعے بھی ایسی کارروائیاں ہونی چاہئیں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کا منصوبہ کچھ آگے بڑھے بھی تو بڑی قوت کے ساتھ اسے دھکیل کر باہر پھینک دیا جائے.ایک تیسری بات اس ضمن میں بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.وہ لوگ جو دعا سے غافل ہو جاتے ہیں ان کی کوئی جوابی کارروائی بھی فی الحقیقت موثر نہیں ہوا کرتی اور دعا والے میں جو جان پڑ جاتی ہے، اس کے اندر جو اعتماد پیدا ہوتا ہے وہ کسی دوسرے میں ممکن نہیں ہے.بسا اوقات دنیا بھر سے احمدی مجھے لکھتے ہیں یعنی وہ جو دعا گو احمدی ہیں کہ اس طرح کا مسئلہ در پیش تھا بظاہر کامیابی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے دل میں تحریک کی دعا کی طرف توجہ مائل ہوئی اور حیرت انگیز طور پر آسمان سے تائیدی نشان ظاہر ہوئے اور دشمن کو تصور بھی نہیں تھا کہ کس طرح اس کو ناکامی ہوگی کیسے اس کو نامرادی کا منہ دیکھنا ہوگا مگر خدا نے غیر معمولی طاقت عطا فرمائی ، تائیدی نشان ظاہر فرمائے.تو مومن کی زندگی محض اپنی جوابی کارروائیوں پر انحصار نہیں رکھ سکتی.اس ضمن میں بہت سی باتیں ہیں جو پہلے کہہ چکا ہوں اب ان کو دہرانا نہیں چاہتا.جوابی سیل کیسے کام کرنا چاہئے ، کیا کیا کارروائیاں ہونی چاہئیں، ان کی تفاصیل مختلف مواقع پر جماعتوں کے سامنے پیش کر چکا ہوں.اس لئے اب میں اس حصے پر آتا ہوں کہ دعا کی طرف ایک بیدار توجہ کی ضرورت ہے.ایک وہ دعا ہے جو غفلت کی حالت میں انسان کرتا ہی رہتا ہے اور اس پہلو سے جماعت احمد یہ دنیا کی ایک دعا گو جماعت کے طور پر ابھری ہے.کوئی دنیا میں ایسی جماعت نہیں جس میں اس کثرت سے اس کے افراد کو دعا سے شغف ہو اور دعا پر یقین ہو، ایک دوسرے کو دعا کے لئے کہتے ہوں، اپنے لئے دعائیں کرتے ہوں، دوسرے کے لئے دعائیں کرتے ہوں لیکن وہ دعا جس کی طرف میں توجہ دلا رہا
خطبات طاہر جلد 14 684 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء ہوں وہ دین کے کاموں کے لئے دعا ہے جس کے لئے بے قراری پیدا ہو اور ایک ذہن ہر وقت اس بات پر تیار ہو کہ جب بھی دین کو کوئی خطرہ لاحق ہوگا میرا دل بے قراری سے اللہ کے حضور جھکے گا اور یہ عادت بن جائے ، ایک فطرت ثانیہ ہو جائے کہ جب بھی دین کو کسی نقصان کا خطرہ ہو بے اختیار دل سے بے قرار دعائیں اٹھیں اور جب بھی دشمن سے مقابلہ ہو دعاؤں کے ساتھ طاقت پانے کے ذریعے آپ جوابی کارروائی کریں.اس کے نتیجے میں بہت سی برکتیں ملتی ہیں جن کا حقیقت میں تو شمار ممکن نہیں.مگر ان قسموں میں سے ایک قسم یہ ہے کہ جوابی کارروائی کے لئے دماغ روشن ہو جاتا ہے اور وہ وہ باتیں سوجھتی ہیں جو بغیر دعا کے سوجھ نہیں سکتیں.دوسرے یہ کہ عمل کی توفیق ملتی ہے.ورنہ محض اچھی تدبیریں سوچنا بھی کافی نہیں ہوا کرتا جب تک ان کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بھی نصیب نہ ہوا اور پھر غیب سے ایسے نشان ظاہر ہوتے ہیں کہ دعا گو، دعا کرنے والے کا دل پورے یقین سے بھر جاتا ہے کہ یہ میری کوشش کا دخل نہیں بلکہ یقیناً بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائیدی نشان ظاہر ہوا ہے اور وہ نشان اپنی ذات میں ایک طاقت رکھتا ہے، ایک ایسی عظیم قوت رکھتا ہے جسے شکست دینا دشمن کے بس کی بات نہیں ہے.تو وہ جماعتیں جو تبلیغ میں مصروف ہوں ، اللہ کے کام میں مصروف ہوں اور اللہ سے مدد لینے میں غافل ہوں ان کی حالت تو بہت قابل رحم ہے.خدا کی خاطر وقت خرچ کر رہے ہیں ، محنت کر رہے ہیں، کام اس کا ہے مگر مدد کے لئے اس کو نہیں بلاتے حالانکہ اس کی مدد کے بغیر کوئی کام بھی ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک اپنا نظام بھی جوابی کارروائی کا بنا رکھا ہے اور اس جوابی کارروائی کے نظام کا دعا سے تعلق ہے.جب مومن خدا کو پکارتا ہے تو ایک نظام ہے جو پہلے ہی سے موجود ہے وہ متحرک ہو جاتا ہے.اس نظام کا ذکر ان آیات میں ہے جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدَانٌ فَمَهْلِ الْكَفِرِيْنَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا کہ میں جانتا ہوں کہ دشمن تدبیریں کر رہے ہیں اور بڑی بڑی تدبیر میں کر رہے ہیں.يَكِيدُونَ كَيْدًا کا مطلب ہے بڑی زبر دست تدبیریں کر رہے ہیں.وَاكِيْدُ كَيْدًا، میں بھی تدبیر کر رہا ہوں.فَمَقِلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا کافروں کو اپنے حال پر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دے اور دیکھ کہ پھر میری تدبیر کیا نتیجہ ظاہر کرتی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 685 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء صلى الله یہاں بسا اوقات پڑھنے والے کو یہ دھوکا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کام چھوڑ دو اور ایک طرف بیٹھ رہو اب اللہ کے اوپر معاملہ جا پڑا ہے.ہر گز یہ مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ اول تو مخاطب آنحضرت ﷺ ہیں اور آنحضرت ﷺ کا تو ایک لمحہ بھی غفلت کا لمحہ نہیں تھا.دن رات جو کچھ بھی طاقت میں تھا خدمت دین میں جھونک رکھا تھا.اپنی جان، مال، عزت ہر چیز فدا کر دی تھی خدا کی خاطر، ایک لمحہ بھی آپ کا ضائع نہیں ہورہا تھا.پس آنحضرت کے مخاطب ہوں اور اس کا ترجمہ آیت کا یہ لیا جائے کہ اب تو آرام سے ایک طرف بیٹھ رہ، کام چھوڑ دے صرف انتظار کر، یہ درست نہیں ہے.بالکل ناجائز تر جمہ ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ تو کر سکتا تھا وہ تو کر رہا ہے.جو کچھ تیرے قبضہ قدرت میں تھا وہ سب تدبیریں تو نے کر ڈالیں لیکن دشمن کی تدبیروں تک تیری رسائی اس لئے نہیں ہے کہ دشمن بہت زیادہ ہے اور مسلسل اندھیروں میں سازشیں کر رہا ہے.اس لئے سرحدوں پر گھوڑے باندھنے کے بعد، ہر قسم کی مستعدی کے بعد، وہ اندھیرے گوشے جو پھر بھی باقی رہ جاتے ہیں اور لا زمرہ جاتے ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے اور مراد یہ ہے کہ سب کچھ ہو رہا ہے پھر بھی جس حد تک جوابی کارروائی کی ضرورت تھی وہ مومنوں کی استعداد سے باہر ہے.اس موقع پر اللہ یقین دلاتا ہے اور یہ وعدہ کرتا ہے کہ کچھ ایسی جوابی کارروائی ہے جو میں کر رہا ہوں، تمہیں اس کی خبر ہی کچھ نہیں اور وہ آسمان سے جاری ہے.مہلت دے دے، ان معنوں میں کہ اپنا جہاد تو جاری رکھ مگر ان کو بتا دے کہ کچھ ہونے والا ہے اور جو ہو گا وہ آسمان سے اترے گا اور جب وہ آسمانی کا رروائی آئے گی تو تمہاری کچھ بھی پیش نہیں جائے گی.یہ پیغام ہے اس آیت کریمہ میں.پس دعا کے ذریعے اس الہی نظام کو متحرک کرنا مومن کے لئے از بس ضروری ہے.اس کی بقاء کے لئے ضروری ہے.اس کے تبلیغی پروگرام کو کامیابی سے آخر تک پہنچانے ، جو پھل ملتے ہیں ان کو سمیٹنے ، ان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ انسان دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ان کا رروائیوں کی التجا کرتا رہے جن کا مومن کی کوششوں سے کوئی تعلق نہیں اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا کا مطلب ہے تیری کوششوں کا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.جب خدا کی تدبیر ظاہر ہوگی تو تمہیں حیران کر دے گی کہ کیسے وہ واقعہ رونما ہوا.
خطبات طاہر جلد 14 686 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء اب اس کی ایک مثال ہمارے سامنے جنگِ احزاب کی صورت میں ہے.جنگِ احزاب کے وقت تمام عرب رسول اکرم ﷺ اور آپ کے مٹھی بھر ساتھیوں کو ہلاک بلکہ صفحہ ہستی سے نابود کرنے کا عزم لے کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور تمام قبائل نے مدینے کا گھیرا ڈال لیا تھا اور ایسا سخت گھیرا تھا کہ جس کو تو ڑ کر باہر سے نہ کوئی غذا حاصل کی جاسکتی تھی ، نہ کوئی پیغام بھیجا جاسکتا تھا اور ایک ہی ذریعہ دفاع کا جو انسان کے بس میں تھا وہ یہ تھا کہ خندق کھودی جائے اور دشمن کے حملے کی راہ میں کچھ روک حائل کرنے کی کوشش کی جائے.پس فَمَهْلِ الكَفِرِینَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ بیٹھ جاؤ اور کچھ نہ کرو اب خدا کرے گا.خدا نے تو کرنا تھا اور کیا لیکن کیسے کیا اور اس عرصے میں مومن کیا کرتے رہے یہ بات میں آپ کو غزوہ خندق کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں.دن رات محنت کر کے آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ایک خندق کھودنا شروع کی.بڑی سنگلاخ زمین تھی ، سخت پتھر تھے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خوراک کی حالت ایسی گر گئی تھی کہ کئی لوگوں کو مسلسل فاقے کرنے پڑتے تھے لیکن بوڑھے، بچے جوان سارے اس کام میں شامل رہے.پس آنحضرت ﷺ سے بہتر وحی الہی کو کون سمجھتا تھا.آپ نے یہ نہیں کیا کہ بیٹھے رہو، اللہ بھی تدبیر کر رہا ہے، دشمن نے بھی تدبیر کی ہے بلکہ اس غزوہ خندق میں اس مضمون پر اور بھی کئی پہلوؤں سے روشنی پڑ رہی ہے.سرحد پر گھوڑے باندھنے کا مضمون ہے.آنحضرت ﷺ کی نظر تمام عرب قبائل پر تھی اور جو کچھ وہاں ہور ہا تھا اس کی اطلاعیں ملتی تھیں.اگر یہ اطلاعیں حملے سے بہت پہلے آپ کو حاصل نہ ہوتیں تو خندق کیسے کھودی جاسکتی تھی.وہ خندق کوئی ایک دو دن کا کام تو نہیں ہے، مہینوں کی محنت درکار تھی.تمام صحابہ کی قوت یعنی انفرادی قوت کو جمع بھی کر لیا جاتا تو یہ ایک بہت سخت کام تھا کہ مدینے کو چاروں طرف سے جہاں جہاں سے بھی دشمن کے اچانک حملے کا خدشہ ہو وہاں سے خندق کے ذریعے دشمن کو پہنچ سے دور کر دیا جائے اور خندق اتنی گہری ہونی چاہئے کہ اچانک کوئی اس کو پاٹ نہ سکے.اتنی چوڑی ہونی چاہئے کہ تیز رفتار گھوڑے بھی چھلانگیں لگا کر اس کے پار نہ اتر سکیں.تو یہ خندق کھودنا کون احمق ہے جو سمجھتا ہے کہ چند دنوں کی بات تھی اور اس خندق کی اطلاع بھی دشمن کومل رہی ہوگی.لیکن تیاری اس وقت شروع کر دی تھی حضور اکر میں اللہ نے جبکہ دشمن کے منصوبے ابھی بالکل آغاز میں تھے اور وہ فوجیں جمع کر رہا تھا ابھی اس کا نظام مکمل نہیں ہوا تھا کہ ادھر خندق
خطبات طاہر جلد 14 687 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء اصلا شروع ہو چکی تھی اور پیشتر اس کے کہ دشمن ہجوم کر کے مدینے میں داخل ہوتا، اس کی راہ میں یہ خندق کھودی جا چکی تھی اور محنت ایسی تھی کہ اس کی کم مثال دنیا میں ملتی ہے.وقار عمل آپ لوگ بھی کرتے ہیں بہت خوشی ہوتی ہے دیکھ کے بڑی محنت کرتے ہیں اور پھر دل چاہتا ہے کہ اس محنت کی داد بھی ملے اور مجھے بھی وقار عمل کے بعد خط ملتے ہیں کہ اس طرح ہم نے اتنے دن وقار عمل کیا.مگر وہ وقار عمل جو غزوہ خندق کے موقع پر کیا گیا اس کی کیا شان تھی، اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی.صحابہ پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ، دن رات مسلسل محنت میں مصروف تھے.کھانے کو روٹی میسر نہیں تھی.قسمت سے کچھ کھانے کومل جاتا تو اسی پر گزارہ کرتے تھے اور اتنی تنگی کی حالت تھی کہ صحابہ جو بہت ہی صبر سے کام کر رہے تھے.ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے کہا یا رسول اللہ ﷺ اب تو حد ہو گئی ہے.اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا.ایک صحابی نے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! دیکھیں پیٹ پر پتھر بندھا ہوا ہے یعنی بھوک کی شدت سے جو درد ہوتی ہے، تکلیف ہوتی ہے اس کو روکنے کے لئے عربوں کا دستور تھا کہ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے.آنحضرت ﷺ نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو اس پر دو پھر بندھے ہوئے تھے.آپ نے فرمایا تمہارا رہنما ہوں لیکن کسی محنت میں تم سے پیچھے نہیں ہوں.ہر محنت ، ہر قربانی میں تم سے آگے ہوں.یہ مضمون ہے فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا.یہ کہاں سے نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ بیٹھے رہو چپ کر کے، ہاتھ پہ ہاتھ دھر لو اور جو کچھ ہے خدا اوپر سے کرتا رہے گا.ان لوگوں کے لئے کرتا ہے جو اپنی طاقت کے انتہائی ذرے ذرے کو بھی خدمت دین میں جھونک چکتے ہیں اور پھر کوئی بس نہیں پاتے ، پھر بھی کوئی راہ نہیں پاتے.پس اس حال میں صحابہ نے خندق کھودی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے نشان دکھائے.ساتھ ساتھ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی دعائیں تھیں جو مومنوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ اس خندق کے ذریعے نہیں بلکہ آسمان پر ایک کارروائی ہونے والی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ہماری حفاظت ہوگی بلکہ ہمیں دنیا پر عظیم غلبہ عطا ہوگا.اسی خندق کھود نے کے دوران ایک موقع پر ایک ایسی سخت چٹان حائل ہو گئی کہ اگر اس کو توڑا نہ جاتا تو خندق بیکار ہو جاتی کیونکہ ایک خندق کا حصہ ایسا ہوتا جو دونوں کناروں کو ملائے رکھتا اور اس کے نتیجے میں خندق کا مقصد ہی زائل اور باطل ہو جاتا.اب صحابہ کی بھی رسول اکرم ﷺ سے عزت اور محبت اور پھر آپ پر ایمان کی حالت کو دیکھیں.جانتے
خطبات طاہر جلد 14 688 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء صلى الله تھے کہ رسول اللہ ﷺ فاقوں کی وجہ سے ہم سے بھی زیادہ کمزور ہو چکے ہیں لیکن جب سخت چٹان کو دیکھا کہ کسی طاقتور کی چوٹوں سے بھی نہیں ٹوٹتی تو محمد رسول اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کچھ کریں.آپ کے کدال کی چوٹیں جو بھی آلہ مارا جاتا ہے اس کی چوٹ سے کچھ ہو تو ہو ہمارے بس کی بات تو نہیں رہی اور آنحضرت ﷺ کو ان سے زیادہ اپنے رب پر ایمان تھا جتنا محمد رسول اللہ ﷺ پرصحابہ کو ایمان تھا.آپ نے گینتی اٹھائی اور فرمایا چلو دکھا ؤ کہاں ہے وہ.پہلا وار کیا اور اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور پھر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور اس چٹان کا ایک حصہ ٹوٹ گیا.پھر آپ نے دوسری بار گینتی کو اٹھایا اور بڑے زور سے اس پر وار کیا اس میں سے بھی شعلہ نکلا اور آنحضرت ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا.پھر تیسری دفعہ بھی ایسا ہی ہوا اور وہ مضبوط چٹان جو طاقتور صحابہ کی چوٹوں سے بھی ٹوٹتی نہیں تھی وہ اس حالت میں ریزہ ریزہ ہوگئی کہ پھر آگے اس کو توڑنا ایک آسان کام ہو گیا.ریزہ ریزہ نہیں ایسا شگاف اس میں پڑ گیا کہ جس کے نتیجے میں پھر آگے اس پر کام کرنا مشکل نہ رہا.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ شعلے نکلتے تھے اور آپ اللہ اکبر کے نعرے کیوں بلند کرتے تھے؟ آپ نے بتایا کہ جب پہلی دفعہ شعلہ بلند ہوا تو خدا نے مجھے کسری کے محلات کی چابیاں دکھا ئیں.پھر دوسری دفعہ شعلہ بلند ہوا تو فلاں علاقے خیبر کی چابیاں یا جس علاقے کا بھی وہ ذکر کیا تھا مجھے اس وقت تفصیل یاد نہیں ، تین دفعہ آپ کے ہروار کے نتیجے میں آپ کو ایک ایسی خوشخبری دی گئی جو دفاع کی نہیں بلکہ فتح کی خوش خبری تھی.یہ وہ مضمون ہے جہاں انسانی تدبیر کام چھوڑ بیٹھتی ہے اور الہی تدبیر کا دائرہ شروع ہوتا ہے اور یہی دعا کا مضمون ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کی دعا ہی تھی جس نے یہ عظیم الشان نتیجہ پیدا کیا ورنہ انسانی طاقت یا بس میں کہاں یہ بات تھی کہ اس وقت جبکہ اپنی جان کے لالے پڑے ہوں، جبکہ خندق تک کھودنا دشوار ہورہا ہو، جب یہ ممکن نہ ہو کہ ایک چٹان ہی کو تو ڑسکیں اس وقت یہ خبر دے سکے کوئی انسان کہ میں کسری کے محلات کی چابیاں اپنے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں اور فلاں قلعے کو فتح ہوتے دیکھ رہا ہوں اور فلاں قلعہ کو فتح ہوتے دیکھ رہا ہوں اور بعینم ویسے ہوا.پس یہ مضمون ہے فَمَهْلِ الْكُفِرِيْنَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ تو ڑ کر بیٹھ رہو.مراد یہ ہے کہ جو کچھ بس چلتا ہے کر گز رو اور پھر بھی تم دیکھو گے کہ تمہاری
خطبات طاہر جلد 14 689 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء طاقت سے بڑھ کر معاملہ ہے.تب یا درکھنا کہ اگر تم میری طرف جھکو گے تو میں آسمان پر سے ایک تدبیر کروں گا اور وہ تدبیر جب ظاہر ہوگی تو دشمن کی ہر تدبیر کے چھکے چھڑا دے گی اور ہر تد بیرکو نا کام اور نا مراد کر دے گی.پس دعوت الی اللہ کرنے والوں کو آنحضرت ﷺ پر نظر رکھنی چاہئے ، آپ کے اسوہ سے نصیحت پکڑنی چاہئے ، آپ کے راہ سے راہ عمل حاصل کرنی چاہئے اور اس طریق پر اگر آپ بیداری مغزی سے دشمن کی کارروائیوں پر نظر رکھیں گے.جوابی کارروائی جس حد تک ممکن ہے کریں گے لیکن دعا کرتے رہیں گے کہ اے خدا اپنی آسمانی تدبیر ظاہر فرما تو کمزوری کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کو بڑے بڑے عظیم ممالک اور بڑی بڑی عظیم قوموں کی فتوحات کی خوشخبریاں عطا کرے گا.یہ وہ نعرہ تکبیر ہے جو حقیقت میں آسمان کے کناروں تک پہنچتا ہے اور آسمان کے کنارے اس کی قوت سے لرزنے لگتے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس طرف نظر کرتے ہوئے الہی تدبیر کے لئے دعائیں کریں گے اور یہ تدبیر ظاہر ہو بھی چکی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے.اگر آپ آنکھیں بند کر لیں تو الگ بات ہے مگر آپ نظر ڈال کے دیکھیں کہ پاکستان کے علماء نے اور پاکستان کی حکومت نے آپ کے خلاف کیا تدبیر کی تھی.وہ ایسا وقت تھا جبکہ جماعت کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا، بالکل ناطاقتی کا عالم تھا.یہ اطلاع ملتی تھی کہ اب یہ منصوبہ بنا ہے، اب یہ منصوبہ بنا ہے، اب یہ آرڈنینس جاری ہو رہا ہے، اب یہ کاروائیاں کی جارہی ہیں.جواب میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے.ایسی حالت تھی کہ کچھ کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں تھی.اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی توجہ نہیں تھی.دن رات خدا کے حضور جماعت رو رہی تھی اور گڑ گڑا رہی تھی کہ اے خدا تو ہی ہے ہمارا، ہمارا دنیا میں اور کچھ نہیں ہے.اب دیکھو دشمن کے منصوبوں کو خدا نے کیسا الٹایا.اس منصوبے کا آخری مدعا یہ تھا کہ آپ کی آواز میں گھونٹ دی جائیں گلوں میں.آپ کو اذان تک کہنے کی اجازت نہ ملے.آپ کلمہ لا الہ الا اللہ بھی بلند آواز سے نہ پڑھ سکیں اور پاکستان میں کہیں ایک جگہ بھی جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچانے کی جماعت کو استطاعت نہ رہے.یہ وہ منصوبہ ہے جس کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا بڑا سخت منصوبہ بنارہے ہیں ظالم لوگ.ایسی تدبیر کہ اگر چل جائے تو سارا نظام جماعت بالکل معطل اور مفلوج ہو کے رہ جاتا.مگر اللہ تعالیٰ نے اس بے قرار
خطبات طاہر جلد 14 690 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء جماعت کی دعاؤں کو سنا اور آپ اس آواز کو سن رہے تھے یا نہیں سن رہے تھے مگر آسمان یہ آوازیں دے رہا تھا ؤ ا كِيْدُ كَيْدًا اے میرے مظلوم، معصوم بندو، میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں.فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدا تم کچھ نہیں کر سکتے تو اب دشمن کو اپنے حال پر چھوڑ دو اور دیکھو کہ میری تدبیر جب نازل ہوگی تو ان کی تدبیروں کا کیا ر ہے گا.اب آسمان سے MTA کے ذریعے خدا نے گھر گھر آوازیں پہنچانے کا نظام جاری فرمایا ہے یہ الہی تدبیر ہے جس کا ذکر اس آیت میں ملتا ہے واکیدُ كَيْدًا اور جب ظاہر ہوتی ہے تو بالکل مایوس اور نا کام اور قتل کر کے رکھ دیتی ہے دشمن کو کوئی پیش نہیں جاتی ،کوئی چارہ نہیں رہتا.آج ہی کی ڈاک میں ایک دشمن احمدیت اخبار کی ایک کٹنگ مجھے موصول ہوئی اس میں جیسا کہ ان کی عادت سے بڑے بول بھی بولے گئے کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں کے.مگر ہر پیرے میں کچھ سطریں مایوسی کے اظہار کی ایسی تھیں کہ جس سے یہ پتا چلتا تھا کہ اب ان کی کچھ بھی پیش نہیں جاسکتی.بار بار ایم ٹی اے کو ستے تھے کہ دیکھو اور حالت یہ ہے ان کی حماقت کی اور ظلم کی کہ دیکھو انگریز کا لگایا ہوا پودا MTA کے ذریعے تمام دنیا کو گمراہ کر رہا ہے اور امت محمدیہ کروڑوں کروڑ ہونے کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ، ان کی راہ میں کوئی روک حائل نہیں کر سکتی.کس قدر ظلم کی بات ہے یعنی ایک طرف انگریز کو رکھ رہے ہیں دوسری طرف محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کو اور اقرار یہ کر رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی امت انگریز کے پودے کے مقابل پر بالکل ناکارہ اور بے کار ہو کے بیٹھ گئی ہے، کچھ بھی اس میں طاقت باقی نہیں رہی.کاش ان کو یہ سمجھ آتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی تو پیشگوئی فرمائی تھی.آپ نے دشمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم سمجھتے ہو کہ میں انگریز کا لگایا ہوا پودا ہوں، میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں یہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الفاظ استعمال کئے مگر میں تمہیں خبر دار کرتا ہوں کہ اس دھو کے میں نہ رہنا میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں اور ناممکن ہے کہ خدا کسی کو یہ طاقت دے کہ اس پودے کو اکھاڑ پھینکے.آپ نے فرمایا جو تدبیریں تمہاری طاقت میں تھیں تم کر بیٹھے ہو اور بھی کر رہے ہو ، دعا کی تدبیر بھی استعمال کر کے دیکھ لو.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ مشورہ اپنی ذات میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک عظیم دلیل ہے.وہ دشمن جو خدا والا ہونے کا دعوی کر رہا تھا اس کو دعا کی ہوش نہیں تھی اور جس کو
خطبات طاہر جلد 14 691 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء وہ خدا سے دور کہہ رہے تھے وہ ان کو توجہ دلا رہا ہے کہ اصل فیصلے تو آسمان پر ہوا کرتے ہیں تمہاری زمینی کوششیں کیا کر سکتی ہیں.ایک رستہ جس طرف تمہاری نگاہ نہیں ہے ہاں اگر تم سچے ہو اور وہ رستہ کھل جائے تو میرا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، میرا تمام سلسلہ نیست و نابود ہو جائے گا اور وہ دعا کا رستہ ہے.پس آپ نے فرمایا کہ تدبیریں تو کر چکے اب دعا ئیں کرو اور دعائیں بھی ایسی کرو کہ روتے روتے تمہاری پلکیں جھڑ جائیں، تمہاری آنکھوں کے حلقے گل جائیں ، ایسے سجدے میں ماتھے رگڑو کہ تمہارے ماتھے گھس جائیں اور نا طاقتی سے غشیوں کے دورے پڑنے لگیں مگر خدا کی قسم تمہاری ساری دعائیں بے کار جائیں گی کیونکہ میں کسی انگریز کا لگایا ہوا پودا نہیں، میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں.وہ جانتا ہے کہ کیسے اس پودے کی حفاظت کرنی ہے.تمہاری آنکھوں کے سامنے میں بڑھوں گا، پھلوں گا اور پھولوں گا اور تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے.پس یہ ہے تدبیر الہی جب وہ آسمان سے نازل ہوتی ہے تو حیرت انگیز کام دکھاتی ہے.پس MTA کے ذریعے بھی جو پیغام اب ان کے گھروں میں پہنچ رہا ہے بالکل بے کار ہو کے رہ گئے ہیں، منصوبے بنارہے ہیں، حکومتوں کی طرف دوڑ رہے ہیں ،کبھی سعودیہ کی طرف نگاہ ہے کہ وہ پیسے دے، کبھی لیبیا کی طرف دوڑتے ہیں، کبھی ایران کی منتیں کرتے ہیں کہ کچھ کرو، کچھ پیسے دو، ہم بھی ایک سٹیشن کھولیں.مگرسٹیشن کھولو گے تو عقل کہاں سے لاؤ گے.سٹیشن کھولو گے تو قرآن کا علم کیسے حاصل کر لو گے.وہ جماعت جس پر خدا کے فضل نازل ہوں، جن کے دماغ خدا نے روشن کئے ہوں ، جن کو اللہ آسمان سے علوم سکھاتا ہو، ان کا مقابلہ تم کیسے کر سکتے ہو سٹیشن کھولو گے تو اور زیادہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں گے کیونکہ جو سٹیشن بھی تم بناؤ گے اگر عالمی بھی ہو اور دن رات بھی چلے تو اگر ان میں ناچ گانا نہ ہوا تو کسی نے سنتا ہی کچھ نہیں اور جو گندی گالیاں دیتے ہو کتنی دیر دو گے.کچھ دنوں کے بعد لوگوں کے دل بھر جائیں گے، لوگ کراہت کرنے لگیں گے یہ کیا داڑھیوں والے مولوی روزانہ آکر ہر وقت منہ سے جھا گیں نکالتے اور بکواس کرتے چلے جارہے ہیں.انسانی فطرت ہے یہ اس کا جواب میں بتا رہا ہوں میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہ رہا.ان پر ہی کل لوگ لعنتیں ڈالیں گے یہ تم نے سٹیشن کھولا ہے اس پر اتنا خرچ کر رہے ہو قوم کا ، نہ کوئی سنے گا ریڈیوٹیشن ان کے چلتے رہیں، ٹیلی ویژن چلتے رہیں اور سیٹ ہی نہ چلیں تو کن تک یہ آواز پہنچے گی مگر جماعت احمدیہ کا ٹیلی ویژن ہے اللہ کے
خطبات طاہر جلد 14 692 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء فضل سے، یہ چونکہ آسمان سے اترا ہے واكِيْدُ گیڈا کی یہ ایک تفسیر ہے اس لئے دیکھیں کہ یہ روک رہے ہیں پھر بھی لوگ سنتے چلے جا رہے ہیں.وہ لوگ جو احمدیت کے نام سے بھی نا آشنا تھے MTA کے ذریعے نہ صرف آشنا ہوئے بلکہ خطوط لکھتے ہیں کہ ظلم ہے ہمارے لئے اتنا تھوڑا پروگرام ہمیں زیادہ پروگرام دو، ہم روزانہ یہ پروگرام سننا چاہتے ہیں، کبھی بھی آج تک ہم نے کسی ٹیلی ویژن کو اسلامی پروگرام پیش کرتے نہیں دیکھا اگر کوئی حقیقت میں اسلامی پروگرام ہے تو وہ MTA کا پروگرام ہے اور یہ آواز پھیل رہی ہے ، اس کی مقبولیت پھیلتی چلی جا رہی ہے.مولوی جتنا چاہیں زور لگائیں اور لگا رہے ہیں کوئی ان کی نہیں سنتا اور زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے Transponder کی طرف رخ کر کے لگاتے ہیں بلکہ بعض ممالک میں تو حیرت انگیز مجھے اطلاع ملی ، عرب ممالک کی بات کر رہا ہوں کہ ایک احمدی وہاں وہ ڈش انٹینا کا کام کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ، دو دفعہ کی بات نہیں اب تو اکثر یہ ہورہا ہے کہ جب مجھے ڈش انٹینا لگانے کے لئے بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں تم MTA لگا سکتے ہو کہ نہیں اگر MTA نہیں لگا سکتے تو جاؤ ہم تم سے نہیں لگوائیں گے.اتنی مقبولیت بڑھ رہی ہے.اب اس آسمان سے اترنے والی مقبولیت کا یہ کیا جواب رکھتے ہیں ان کی کوئی پیش نہیں جاسکتی.لیکن اس ضمن میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا پہلے بھی بہت سے کاموں کی ضرورت ہے، ابھی بہت سے منصوبوں کی ضرورت ہے ، وہ منصوبہ خدا بناتا ہے اس کی تائید میں پھر زمین پہ بھی منصوبے بننے چاہئیں.جس رخ پہ خدا ہوائیں چلاتا ہے اس رخ پر مومن کو بھی تو آگے بڑھنے کی جد و جہد کرنی چاہئے.ہواؤں کے رخ پر چلنے کے لئے ٹانگوں کا استعمال چاہئے اور وہ مومن جن کو خدا نے پر پرواز عطا کئے ہوں، اڑنے کی طاقت ہو ان کو ہواؤں کے رخ پہ اڑتے چلے جانا چاہئے لیکن ٹانگوں کا استعمال نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خاص صلاحیتوں کو جن کو میں مومن کے پر کہہ رہا ہوں، ان کو اگر آپ استعمال نہ کریں تو پھر ان ہواؤں کا کیا فائدہ.اس ضمن میں جرمنی کی جماعت خصوصیت سے اس وقت میری مخاطب ہے.باقی دنیا کی جماعتیں بھی اسی ذیل میں آتی ہیں مگر میں اس وقت آپ کے ملک میں کھڑا ہو کے یہ خطبہ دے رہا ہوں.آپ لوگوں کی کارروائیاں دیکھی ہیں جس طرح خدا کے فضل سے آپ لوگ محنت کر رہے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 693 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء جو نتیجے ظاہر ہورہے ہیں ان کو مزید کامیاب بنانے کے لئے میں آپ کو کچھ باتیں سمجھانی چاہتا ہوں.MTA کے تعلق میں اس ایک دور ہی میں اتنے پروگرام تیار ہوئے ہیں کہ اگر آپ ان سے ہی پورا استفادہ کر سکیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی کامیابی ہوگی اور آپ کی بہت بڑی ضرورت پوری ہو جائے گی.جلسہ تو تین دن کا تھا لیکن مسلسل اس کے بعد سے پروگرام جاری ہیں.صبح، دوپہر، رات جماعت جرمنی کے مختلف علاقوں کے پروگرام ہیں ان میں کارروائیاں ہورہی ہیں اور کثرت سے لوگ یعنی غیر مسلم بھی اور غیر احمدی مسلم بھی ان میں شامل ہوتے ہیں، ہر قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مجلس کے بعد کھلم کھلا شامل ہونے والے اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری غلط فہمیاں دور ہوئیں ، ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہوا.یہ کارروائیاں جس علاقے میں ہوتی ہیں وہاں اگر زیادہ بھی آدمی آئیں تو زیادہ سے زیادہ چند سو ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایک سو ڈیڑھ سوتک تعداد پہنچتی ہے، بعض دفعہ پچاس، ساٹھ، ستر تک کی تعداد رہ جاتی ہے.لیکن جو کارروائی ہے اس کا تعلق ساٹھ ستر یا سو دوسو سے تو نہیں ہے.اس کا تعلق تو ہزاروں لاکھوں سے ہے.اگر وہ ہزاروں لاکھوں تک نہ پہنچے تو اس محنت کا بہت تھوڑا پھل ہم حاصل کر سکیں گے.اس لئے یہ وہ نظام ہے جس کو بڑے غور اور تدبر کے ساتھ جائزہ لے کر اس کے مطابق منصو بہ بننا چاہئے اور منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو جانا چاہئے.مبشر باجوہ مرحوم نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ میں جب ایک مجلس کو سارے بوسنیز تک پہنچا دوں اور دعا کریں کہ اللہ مجھے توفیق دے.اب ان کے نام پر آج انشاء اللہ یا پرسوں ایک سٹوڈیو قائم کیا جا رہا ہے اس میں یہی کام ہوں گے.مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک دل میں آگ لگی ہوئی تھی اور وہ کوشش کر رہے تھے اور دن رات محنت کرتے تھے.مگر اگر وہ کر بھی لیں تو تب بھی حقیقت میں جو اعلیٰ مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہو سکتا تھا.کہاں تک ایک انسان وڈیو لے کر لوگوں کے پیچھے بھاگے گا اور پھر ان کو اکٹھا کر کے ان کو سنائے.جن جماعتوں میں طاقت ہے ان کو کرنا چاہئے مگر اصل ذریعہ MTA کا ہے.اگر جو ویڈیوز اب تیار ہوئی ہیں ان میں سے ہر ویڈیو کے لئے جرمن ورژن German Version الگ تیار ہو ، البانین درشن الگ تیار ہو ، بوزنین ورژن الگ تیار ہو، ٹرکش ورژن الگ تیار ہو ، Arabic ورژن الگ تیار ہو بلغارین ورژن الگ تیار ہو، رومانین
خطبات طاہر جلد 14 694 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء ورژن الگ تیار ہو تو دیکھیں کتنا بڑا کام ہے.لیکن ایک دفعہ یہ کام ہو تو آپ کی بہت سی مشکلات حل ہو جائیں پھر آپ اگر سرحدوں پر گھوڑے باندھیں گے اور وقت پہ آواز دیں گے کہ فلاں طرف ہم خطرے کو محسوس کر رہے ہیں، وہاں خطرے کے آثار دیکھ رہے ہیں تو پہلے ہی سے جوابی کارروائی تیار ہوگی اور آنا فانا آپ کا پیغام ایم ٹی اے کو پہنچ سکتا ہے کہ اس وقت ہمیں بوسنین میں جوابی کارروائی کے لئے فلاں فلاں ٹیسٹس کی ضرورت ہے جو پہلے سے تیار شدہ آپ کے پاس موجود ہیں ان کو بوسنین وقت میں چلانا شروع کریں تا کہ پیشتر اس کے کہ غلط فہمیاں دلوں میں جگہ پاسکیں ان کو داخل ہونے سے ہی روک دیا جائے.یہ منصوبہ جب تک مکمل طور پر پہلے تشکیل نہ پاچکا ہو اور دفاعی نظام مکمل نہ ہو چکا ہو، اس کا ڈھانچہ مکمل نہ ہو چکا ہو، اس وقت تک اچانک اگر کچھ ہوا اور آپ کو خبر مل گئی تو آپ کچھ نہیں کرسکیں گے.اس لئے جو بات میں نے شروع میں کہی تھی اس سارے مضمون کو واپس اسی طرح لوٹا رہا ہوں اور اس کے حوالے سے اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے کاموں کو اس طرح مستعد کریں کہ ہر زبان کا ایک سیکشن ہو، اس سیکشن کے لئے وہ تمام ضروریات مہیا ہوں جو اس زبان میں احمدی ویڈیوز تیار کرنے کے لئے ضروری ہیں.ان میں کوئی ایسا انسان موجود ہو جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنیادی دینی علوم بھی سمجھتا ہو اور انتظامی صلاحیتیں بھی رکھتا ہو اور پھر ہر زبان میں وہ ویڈیوز اعلیٰ پیمانے پر تیار ہو کر اس کثرت سے ہمیں پہنچنی شروع ہوں کہ ہم پھر یقین کے ساتھ الگ پروگرام جاری کر سکیں.میری خواہش ہے کہ اب ایم ٹی اے کے اوپر مستقلاً عربی بجائے اس کے کہ تین دن کالقاء مع العرب ہو کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ کا لقاء مع العرب پروگرام چلے اور اس کے لئے مواد بہت ہے.اگر میرے دورے کی ویڈیوز کو ہی عربی زبان میں ڈھال لیا جائے اور دیگر جو ویڈیوز تیار ہو چکی ہیں مثلاً قرآن کریم کی کلاسز ہیں، مثلاً دوسرے لوگوں سے سوال و جواب کی مجالس ہیں، ان سب کو اگر عربی زبان میں ڈھال لیا جائے تو مستقلاً ہم روزانہ الگ پروگرام پیش کر سکتے ہیں.ہزاروں گھنٹوں کے پروگرام بن سکتے ہیں اور پھر ان میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جن کو لازماً دہرانا بھی ہوگا.کیونکہ وہ ایسے مضمون سے تعلق رکھنے والے ہیں جن کو ایک دفعہ بیان کرنا کافی نہیں.بعض دفعہ آج ایک بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی اگر دہرائی جائے تو پھر کل پوری طرح سمجھ آسکتی ہے.بعض
خطبات طاہر جلد 14 695 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء مضا مین گہرے ہوتے ہیں، بار بار سننے پڑتے ہیں، اس کے لئے ہمیں بار بار سنانے ہوں گے اور اس کے علاوہ Audiance بدلتے رہتے ہیں، ٹیلی ویژن Viewers بدلتے رہتے ہیں یہ تو نہیں کہ وہ ہر وقت ٹیلی ویژن سے چمٹا ہوا ہے.آج کسی نے کھولا، کل کسی نے کھولا ، آج کسی کو کوئی وقت میسر آیا کل کسی کو کوئی اور وقت میسر آیا اسی طرح لوگ دیکھتے ہیں.بعض دفعہ جن علاقوں میں آدھی رات کو ٹیلی ویژن کے پیغامات پہنچ رہے ہوتے ہیں وہاں سے آدھی رات کو یا اس کے بعد بھی ایک سننے والا سنتا ہے اور ہمیں خط لکھتا ہے کہ رات میں دیکھ رہا تھا تو اچانک MTA ظاہر ہوا اور اس میں یہ دلچسپ بات میں نے دیکھی ، مجھے بتائیں کہ آپ کے پروگرام مستقلا کن کن لوگوں کے لئے کن کن زبانوں میں جاری ہیں وغیرہ وغیرہ.تو یہ بہت ہی ضروری کام ہیں جو ہونے والے ہیں لیکن اس کے لئے وقت کی بھی بہت ضرورت ہے.وقت کا اللہ تعالیٰ نے انتظام پہلے بھی کیا تھا آئندہ بھی مجھے کامل یقین ہے کہ کرے گا.کیونکہ گزشتہ ایک سال سے میرے دل میں یہ تڑپ پیدا ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں چوبیس گھنٹے کے ٹیلی ویژن عطا کرے.اب تین گھنٹے یا چار گھنٹے یا چھ گھنٹے کی بات نہیں رہی.وہی’دوواں دا ویلا“ والی بات ہے.وہ آپ کو لطیفہ سنا چکا ہوں مگر جرمنی کی جماعت کو لطیفوں کا بڑا شوق ہے اس لئے میں پھر سنادیتا ہوں.وہ ایک دفعہ کشتی پر ایک چوہدری اور اس کے ساتھ ایک میراثی سوار ہوئے اور پنجاب کا دستور تھا اور بھی جگہوں پر ہوگا، کہ جب کشتی گرداب میں آتی ہے تو کشتی والا ملاح آواز دیا کرتا تھا کہ سائیں خضر کے نام پر کچھ خیرات ڈال دوور نہ ہلاک ہو جاؤ گے.تو عام طور پر چوہدری صاحب جب بھی میراثی کو ہرانے کی کوشش کرتے تھے میرائی زیادہ ذہین، زیادہ طاق اور چاک و چوبند تھا، وہ ہمیشہ بات الٹادیا کرتا تھا.تو چوہدری صاحب کو خیال آیا کہ اب موقع ہے اس سے انتقام لے لوں اور انتقام لینے کی ایسی سوجھی کہ وہ میراثی بے چارہ کھودا تھا، اس کی داڑھی پر صرف دو بال تھے اور چوہدری کی بھر پور داڑھی تھی.چوہدری صاحب نے جب آواز سنی کہ خواجہ خضر کے نام پر کچھ خیرات دے دینی چاہئے تو چوہدری صاحب نے بلند آواز سے کہا کہ آج بجائے پیسوں کے بہتر ہے کہ داڑھی کے دو بال اتار کر نوچ کر ہم دریا میں ڈال دیں.مراد یہ تھی کہ میراثی کی تو صرف داڑھی ہی یہ ہے، ساری داڑھی اکھڑ جائے گی.تو میراثی مڑ کے بولا ” چوہدری جی ایہہ دوواواں دا ویلا اے“ کون ہے وہ
خطبات طاہر جلد 14 696 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء خبیث جو ساری داڑھی نہ اکھیڑ کے پھینک دے.تو یہ تو لطیفے کی بات ہے مگر خدا گواہ ہے کہ دوواواں دا ویلا نہیں رہا.اب تو سب کچھ جھونک دینے کا وقت آ گیا ہے.پس میں تو یہی اللہ سے عرض کرتا رہا کہ اب دو تین گھنٹے کا وقت کہاں رہا اب تو دنیا میں ہر طرف سے طلب پیدا ہو رہی ہے، پیاس بڑھ رہی ہے، مطالبے آ رہے ہیں.اب دو گھنٹوں میں یا تین گھنٹوں میں یا چھ گھنٹوں میں کیا کام کر سکیں گے.ہمیں عالمی برادری چوبیس گھنٹوں کے پروگرام دے اور میں نے ہدایت کی ہے اس ضمن مین انشاء اللہ تعالیٰ جو بھی صورت ہوگی میں امید لگائے بیٹھا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ضرور چوبیس گھنٹے کے عالمی پروگرام عطا کرے گا اور ان پروگراموں کو بھرنے کے لئے اب یہ کاروائی ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.اگر چوبیس گھنٹے کے پروگرام ہوں تو ہر ملک کی نسبت سے اس کے اوقات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ بآسانی دنیا کے ہر ملک کے لئے مناسب حال وقت مقرر کر سکتے ہیں اور وہ زبانیں اس وقت میں چلا سکتے ہیں جو زبانیں ان ملکوں میں بولی جاتی ہیں مگر ان کے لئے تیاری چاہئے.اب یورپ کے لئے مثلاً کم سے کم ان زبانوں میں تیاری ہونی چاہئے.اس کے علاوہ جرمن پروگرام ہے ، پھر فریج پروگرام ہے، پھر ڈینش ہے، نارو تسکین ہے اور بہت سی زبانیں ہیں یہاں ، اٹالین ہے، سپینش ہے.ان سب زبانوں میں نئے پروگرام بنانے کی تو آپ کو استطاعت نہیں ہے نہ ہمارے پاس وقت ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر سے پہلے ہی سے اس کثرت سے ایسے پروگرام بنا دیئے ہیں کہ جن کو اگر ترجمہ کر کے ہم ویڈیوز میں بھر دیں تو ہر زبان کے لئے ایک با قاعدہ معین پروگرام کے مطابق بعض گھنٹے مقرر کر سکتے ہیں.البانینز کو پتا ہو کہ روزانہ ایک یا دوکون سے گھنٹے ہیں جن میں لازماً ہمیشہ البانین پروگرام سن سکیں گے.بوسیز کو پتا ہو کہ ہماری زبان کا وقت فلاں ہے، جرمنز کو پتا ہو کہ ہماری زبان کے لئے فلاں وقت ہے.سپینش کو پتا ہو کہ ہماری زبان کا فلاں وقت ہے.فرنچ کو پتا ہو کہ ہماری زبان کا فلاں وقت ہے.عرب عین وقت کے اوپر تیار رہیں اس پروگرام کو دیکھنے کے لئے.ٹرکش اپنے وقت پر اپنے پروگرام کو دیکھنے کے لئے تیار ر ہیں.یہ وہ منصوبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے اور میں جیسا کہ ہمیشہ میں نے دیکھا ہے جماعت سے اپیل کرتا ہوں اس یقین پر کہ جماعت ضرور بیداری کے ساتھ لبیک کہے گی اور جماعت جرمنی پر
خطبات طاہر جلد 14 697 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء سب سے زیادہ کام کا بوجھ ہو گا کیونکہ جتنی زبانوں میں آپ تبلیغ کر رہے ہیں، جتنی مختلف زبانیں بولنے والی قوموں کو آپ تبلیغ کر رہے ہیں، آپ کو خدا نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ دنیا میں اور کوئی ملک نہیں ہے جہاں کی جماعت احمد یہ یہ کہہ سکے کہ ہم جرمنی کے برابر قوموں کو تبلیغ کر رہے ہیں، جرمنی کے برابر مختلف زبانیں بولنے والی قوموں کو پیغام پہنچا رہے ہیں.پس یہ سعادت خدا نے بخشی ہے تو اس سعادت کی ذمہ داریوں کو بھی ادا کرنا ہوگا اور وہ ہمیں جو اس وقت بنا پا چکی ہیں یعنی ان کو بنایا جا چکا ہے کسی حد تک، ان ٹیموں کو ایک منصوبے کے مطابق کام دے کر اسے آگے بڑھانا ہوگا اور نظر رکھنی ہوگی کہ ہم روزانہ کتنے گھنٹے کام کے پروگرام بنارہے ہیں، کن کن موضوعات پر بنارہے ہیں ، کون کون سی ویڈیوز ہمارے پاس اکٹھی ہو چکی ہیں.اب خطبات کے بھی سلسلے ہیں جو ایسے ہیں کہ جن کو دہرانا بھی ضروری ہے مثلا گلف کرائسز کے اوپر ، عبادتوں کے اوپر اور بہت سے مضامین ہیں جن پر خطبات کے سلسلے تھے جن کی ہمیشہ بار بار یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی جائے گی کیونکہ انسان کو یاد دہانی کی ضرورت ہے.آپ نے سن بھی لئے ہوں تو آپ کو بھی ضرورت پیش آئے گی لیکن جن قوموں نے سنے ہی نہیں ہیں ان کو کیا پتا کہ جماعت احمدیہ کے کیا پروگرام ہیں، کیا ارادے ہیں، کس نظر سے دنیا کو دیکھتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا روشنی عطا کی ہے.پس ان سب دنیا کی قوموں کو ان کی ضروریات مہیا کرنا، ان کی طبعی پیاس بجھانا جس کا پانی آسمان سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اترا ہے اور وہ وہی پانی ہے جو محمد رسول اللہ ے پر اترا تھا جس کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ایں چشمہ رواں کہ مخلق خدا دہم یک قطره زیر کمال محمد " است ( درثمین فارسی : 89) یہ جو تم چشمے جاری ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو عرفان کے ، یہ تو محمد رسول اللہ ﷺ کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے جس سے میں نے یہ فیض پایا ہے اور میں آگے دنیا کو دے رہا ہوں.پس پانی تو وہی ہے جو آسمان سے محمد رسول اللہ پر اترا تھا آج کے دور میں ہمیں ساقی بنایا گیا ہے.آج کے دور میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مشکیں بھر بھر کے وہ پانی پلایا گیا اور اسی کے فیض کو جاری کرنے کے لئے ہم خدام آج پیدا کئے گئے ہیں.اسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ذرائع مہیا فرمائے
خطبات طاہر جلد 14 698 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء ہیں.پس جس خدا نے ذرائع مہیا فرمائے ہیں مجھے کامل یقین ہے کہ ہماری استعداد میں دیکھ کر ذرائع مہیا فرمائے ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ ہمیں استعداد دیں عطا کرنے کے بعد یہ ذرائع مہیا فرمائے ہیں.پس جس خدا نے استعداد میں عطا کی ہیں وہی ان کی تسخیر کی بھی طاقت بخشے گا مگر لازم ہے کہ دعا کریں اور دعائیں کر کے ان کاموں کو جاری کریں.ایسے ڈیسک قائم ہونے چاہئیں جو مسلسل نگاہ رکھیں کہ اس وقت مثلاً بوسنین میں ہم نے کیا کر لیا ہے، کیا آئندہ کرنا ہے.کس قسم کے تو ہمات پیدا کئے جارہے ہیں، کس قسم کے شبہات دلوں میں بھرے جارہے ہیں، ان کے کیا کیا جواب ہونے چاہئیں یہ ساری باتیں بوسنین زبان میں مؤثر طریق پر ان کو پیش کرنے کے لئے جتنا بھی آج تک مواد اکٹھا ہے اس پر وہ ڈیسک نظر رکھے اور پھر Monitor کرے اس بات کو کہ جن خدام، انصار، لجنات کے سپرد یہ کام ہے یعنی خواتین اور بچوں کے سپرد، ان کی پروڈکشن کیا ہے، کس رفتار سے وہ ان کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کے لائق پروگراموں میں تبدیل کر رہے ہیں.اور پھر ہمیں مطلع کیا جائے کہ ہر روز کے لحاظ سے اتنے گھنٹے کا پروگرام بنا رہے ہیں.اور جب کچھ پروگرام تیار ہو جائیں گے اور رفتار کا یقین ہو جائے گا کہ مستحکم ہو چکی ہے تو پھر ہم انشاء اللہ تعالیٰ بڑی خود اعتمادی کے ساتھ اعلان کریں گے کہ آؤ بوسنیز ! اب تمہارے لئے ہم نے ہر روز کا فلاں ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے مقرر کر دیئے ہیں، فلاں وقت تم بیٹھا کرو اور دیکھا کرو اور ایک دفعہ شروع ہو جائے تو پھر اس کی عادت پڑ جاتی ہے افیم کی بھی تو عادت پڑتی ہے مگر اچھے پروگرام دیکھنے کی اس سے زیادہ عادت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے پروگرام دنیا کے ذلیل لذتوں والے پروگراموں کو توڑ کر اپنی جگہ خود بنارہے ہیں اور مطالبہ بڑھ رہا ہے اس کا مزہ ہی اور ہے، اس کی کیفیت ہی اور ہے.پس اس بات سے نہ ڈریں کہ کون دیکھے گا.آپ پروگرام بنا ئیں اور مہیا کریں اور ہم عین معین پروگراموں کے مطابق ان کو مختلف قوموں اور زبانیں بولنے والوں کی خدمت میں پیش کریں گے تو پھر دیکھیں کہ کس تیزی سے خدا کے فضل سے احمدیت پھیلتی ہے.پھر آپ کا یہ فکر کم ہو جائے گا کہ جو آرہے تھے ہم نے ان کو سنبھالا بھی ہے کہ نہیں.ہمارا کام صرف یہ رہ جائے گا کہ ہر وہ جگہ جہاں خدا کے فضل سے نو مبائعین پیدا ہوتے ہیں وہاں کثرت کے ساتھ ڈش انٹینے مہیا کئے جائیں اور اس کے لئے پھر الگ ایک منصو بہ ہوگا.ایسی ایک ٹیم بنانی ہوگی جو نظر رکھے، یہ دیکھے کہ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں
خطبات طاہر جلد 14 699 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 1995ء کے پاس ذرائع بھی ہیں کہ نہیں اور اگر ہم ذرائع مہیا کریں تو ان کے ضائع ہونے کا احتمال تو نہیں ہے.ان کی نگرانی کا کیا انتظام ہوگا، کون سی جگہ ہے جہاں وہ پروگرام دکھائے جائیں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے گھر میں تو آپ ڈش انٹینا مہیا نہیں کر سکتے نہ ان بے چاروں کے حالات اس وقت ایسے ہیں کہ وہ زیادہ خرچ برداشت کر سکیں.پس اس پہلو سے بہت سے کام ہیں، میں نے خلاصہ آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اب انشاء اللہ تعالیٰ بڑی مستعدی کے ساتھ اس میدان میں بھی جماعت، جرمنی دنیا کی ساری جماعتوں کو پیچھے چھوڑ جائے گا مگر پیچھے چھوڑ جائے گا نہیں بلکہ دعوت عمل دیتا ہوا آگے بڑھے گا اشارے کرتا ہوا آگے بڑھے گا کہ ہے جان اور ہے طاقت تو آؤ ہمارے ساتھ آگے بڑھ کے دکھاؤ، اس طرح جو مسابقت کی روح سے ایک عمل کا دور شروع ہوگا وہ انشاء اللہ احمدیت کو فتوحات کے ایک نئے دور میں داخل فرمادے گا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 14 700 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء
خطبات طاہر جلد 14 701 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 1995ء نو مبائعین کو فعال حصہ بنانے کیلئے ان پر بوجھ ڈالیں.نومبائعین کو مالی قربانی اور تبلیغ کے کاموں میں جھونک دیں.( خطبه جمعه فرموده 22 /ستمبر 1995ء بمقام من سپیٹ ہالینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ جب سے دعوت الی اللہ کے کام میں بیدار ہو کر مصروف ہو گئی ہے مولویوں کے کیمپ میں تو گویا کھلبلی مچ گئی ہے.پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ بہت آگے بڑھ رہے ہیں، بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں کچھ فکر کرو اور کچھ پیسے دو کچھ ہم بھی کام کریں مقابل پر ہمیں بھی کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا ہوگا اور اب کہ رہے ہیں کہ سب گپیں مار رہے ہیں بالکل ترقی نہیں کر رہے صرف ہماری ترقی سے حسد کرتے ہوئے اب انہوں نے بوکھلا کے یہ باتیں شروع کر دیں کہ ہم بہت ترقی کر رہے ہیں.یہ جو اچانک پلٹا کھایا ہے انہوں نے یہ اس بات کا غماز ہے کہ بہت گہری چوٹ پڑی ہے.بھنا گئے ہیں ابھی تک ان کو ہوش نہیں آ رہی کہ ہم کریں تو کیا کریں، کس طرح احمدیت کے رستے روکیں لیکن جتنا یہ رستے روکنے کی کوشش کریں گے یہ قطعی یقینی بات ہے اہل ہے کہ اتنا ہی تیزی سے جماعت اور زیادہ ترقی کرتی چلی جائے گی.اب تو ان کی حسرتوں کے دن آ رہے ہیں جو بڑھتے چلے جائیں کے اب تو ہماری مرادیں پانے کے دن آ رہے ہیں اور مرادوں والی را تیں آ رہی ہیں.دن بھی ترقی ہوگی اور رات بھی ترقی ہوگی اور ہوتی چلی جائے گی کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو اس تقدیر کو اب بدل سکے.وہ آثار ہم دیکھ رہے ہیں کس رفتار سے اللہ تعالیٰ ہمیں آگے بڑھا
خطبات طاہر جلد 14 702 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 1995ء رہا ہے اور آگے بڑھاتا چلا جائے گا.اب تو لاکھوں پر خوشی ہو رہی ہے میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب اس صدی سے پہلے کروڑوں کی تعداد میں ایک ایک سال میں احمدی ہوں گے.اب فکر ہے تو سنبھالنے کا فکر ہے.مجھے تو بس یہی ایک فکر لگا رہتا ہے کہ ان آنے والے مہمانوں کو سنبھالیں کیسے، کس طرح ان کی عزت افزائی بھی کریں اور ان کو اپنی ذمہ داریاں بھی سمجھائیں تا کہ یہ ہمارے ساتھ Dead weight کے طور پر نہ چلیں بلکہ بوجھ اٹھانے والے ساتھی بن جائیں کیونکہ جتنی آئندہ رفتار میں ترقی دکھائی دے رہی ہے اس رفتار کے ساتھ ہمیں بہت کارکنوں کی ضرورت ہے جو ان کو سنبھالیں ، ان کو ساتھ لے کر چلیں اور نئے آنے والوں میں سے ہمیں لا زماوہ تیار کرنے ہوں گے.اس وجہ سے میں بہت دیر سے زور دے رہا ہوں کہ اگر آپ نئے آنے والوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ان پر کام کے بوجھ ڈالیں.میرا المبا تجربہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں جو پیدائشی احمدی بھی ہوں جب تک ان پر کام کے بوجھ نہ ڈالے جائیں وہ چمکتے نہیں.ان کی صلاحیتیں خوابیدہ رہتی ہیں.بعض ایسے ہیں جو یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کنارے کے احمدی ہیں ان سے بھلا کیا کام لیا جاسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب فطرت رکھی ہے کہ مومن پر جب بوجھ ڈالا جاتا ہے تو اور ترقی کرتا ہے اور بوجھ بھی ایک ایسا بوجھ ہے جس کو اٹھا کر وہ زیادہ ہلکے قدم ہو کر اور بھی تیزی سے چلتا ہے.اس سے پہلے اس کے قدم بو جھل ہوتے ہیں اس کا دل بھاری ہوتا ہے اس کو نماز کی طرف بھی بلاؤ تو بوجھل قدموں سے آتا ہے لیکن جب وہ اس قابل ہو کہ اس پر نماز پر لانے کی ذمہ داری ڈالی جائے تو پھر وہ ہلکے قدموں سے دوسروں کو لینے کے لئے چلتا ہے اور تھکتا نہیں ، دن کو بھی یہ کام کرتا ہے رات کو بھی یہ کام کرتا ہے.پس بوجھ میں جو دین کا بوجھ ہے، خصوصیت سے جو اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کا بوجھ ہے حقیقت یہ ہے کہ مومن پر وہ بوجھ، بوجھ نہیں ہوتا بلکہ اسے اور بھی زیادہ ہلکا کر دیتا ہے، اس کی زندگی میں ایک تر و تازگی پیدا ہو جاتی ہے، اس کے سانس ہلکے ہو جاتے ہیں، لطف آتا ہے لیکن وہ لوگ جو مذہب سے دور ہوں جن کو مذہب سے آشنائی نہ ہو جن کو خدا کا تعارف نہ ہو جن کو اللہ سے محبت نہ ہو ان کے لئے قرآن ایک دوسری مثال پیش کرتا ہے.ان کو جب نیک کاموں کی طرف بلایا جائے تو اس طرح چڑھتے ہیں جیسے دل کا مریض سیڑھیاں چڑھ رہا ہو اور اس کی سانس تنگ سے تنگ تر ہوتی چلی جاتی ہے.اس کا سینہ بوجھل ہو جاتا ہے تو دیکھو ان دونوں میں کتنا فرق ہے.ایک وہ ہیں
خطبات طاہر جلد 14 703 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء کہ جن پر جب بوجھ ڈالے جائیں تو وہ اور زیادہ ہلکے قدموں کے ساتھ ،خوشی کے ساتھ ، ذوق شوق سے آگے بڑھتے ہیں اور مزید کا مطالبہ کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کو معمولی کاموں کی طرف بلا ؤ تو تب بھی ان کے دل بھاری ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ جو نظام مقرر کیا ہے اس کے ساتھ ایک دعا بھی جاری فرمائی ہے اور وہ دعا یہ ہے رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ (البقره: 287) کہ اے ہمارے اللہ ، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہوں.اب یہ مضمون پہلے بھی میں کھول چکا ہوں اس وقت جو باتیں پہلے کر چکا ہوں ان کو نہیں دہراؤں گا.صرف یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس سے غلط فہمی شاید یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ مومن بوجھ سے بھاگ رہا ہے اور اسے خوف ہے کہ اللہ اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دے گا.طاقت کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ استطاعت اور چیز ہے اور طاقت اور چیز ہے.ایک انسان جو بہت زیادہ کھانے کی استطاعت رکھتا ہو جب بیمار ہو جائے تو بہت تھوڑا کھانے کی طاقت رکھتا ہے.ان دو چیزوں میں بہت فرق ہے.یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ استطاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دے ہاں جتنی استطاعت عطا فرمائی ہے ہم اسے استعمال نہ کر رہے ہوں اور کمزور ہور ہے ہوں، ہمیں ٹانگیں دی ہیں ہمیں باز و دیئے ہیں ، ہم ان کو استعمال نہ کریں اور عدم استعمال کی وجہ سے ایسے لاغر ہو جائیں کہ اگر لمبا عرصہ استعمال چھوڑ دیں تو بعض دفعہ لوگوں کو ہمیں اٹھائے لئے پھرنا پڑے گا.اگر بچوں کو چلنے کی تربیت نہ دی جائے تو آٹھ دس سال کی عمر تک اسی طرح رہنے دیں تو شاید ان کو چلنا آئے ہی نہ پھر.اگر بولنے کی تربیت نہ دی جائے تو اس پر تو سائنسدانوں نے تجربے کئے ہیں کہ اگر گیارہ بارہ سال تک صلاحیتوں کے باوجود، استطاعت کے باوجود، بچے کی طاقت کو استعمال نہ کیا جائے اور اسے تربیت نہ دی جائے تو اس کے بعد پھر کبھی سیکھ ہی نہیں سکتا، اس کی صلاحیت مرجاتی ہے.پس یہ وہم دل سے نکال دیں کہ آپ کو خدا نے یہ دعا سکھائی ہے کہ ہماری استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا ، یہ دعا نہیں یہ تو خدا تعالیٰ کے لئے ایک دشنام دہی ہے.نعوذ باللہ من ذلک اللہ ایسا عقل سے خالی ہے کہ وہ لوگوں پر جتنی استطاعت کا ان کو بنایا ہے اس سے بڑھ کر بوجھ ڈالتا پھرے، یہ تو خدا تعالیٰ کی ہستی پر الزام ہے، یہ دعا نہیں ہے.اس لئے یا درکھیں كه وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہ میں مراد یہ ہے کہ تو نے ہمیں بہت استطاعتیں بخشی ہیں
خطبات طاہر جلد 14 704 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 1995ء غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی ہیں ہم ایسے نکتے ہیں کہ انہیں استعمال نہیں کر سکے جس کی وجہ سے سر دست ہم میں طاقت نہیں ہے.اس کے بعد اسی لئے مغفرت کا مضمون شروع ہوا ہے رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا وقفة وقدت طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اے خدا ہم سے عفو کا سلوک فرما ہمیں بخش دے جو ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، کوتاہیاں ہوئی ہیں، تو نے ہمیں صلاحیتیں عطا کیں اور ہم استعمال نہ کر سکے اور اب ہمیں عادت نہیں رہی اور پھر وَارْحَمْنَا جس طرح کمزور بچے کو ، جس کو چلنا نہ آئے حالانکہ چلنا چاہئے آپ جب چلنا سکھائیں گے تو کچھ تکلیف اسے پہنچے گی لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آٹھ سال کے ہو گئے ہو اب تم نے ضرور اتنا ہی چلنا ہے جس طرح باقی بچے چلتے ہیں.اگر ماں باپ کی غلطی سے یا کچھ اور معاشرے کی خرابی سے اسے ٹانگیں استعمال کرنے کی طاقت نصیب ہی نہیں ہوئی تو پھر رحم کا معاملہ ہے، پھر شروع میں رحم کیا جاتا ہے اور بچوں کے ساتھ اسی مضمون میں خدا تعالیٰ نے رحم کا مضمون بھی بیان فرمایا ہے اور بوڑھوں کے ساتھ بھی، جیسا کہ فرمایا رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَ بَيْنِي صَغِيرًا ( بنی اسرائیل: 25) دعا سکھائی انسان کو کہ اے اللہ میرے ماں باپ پر اسی طرح رحم فرما جس طرح بچپن میں رحم کے نتیجے میں ہماری تربیت کیا کرتے تھے اور ہماری صلاحیتوں کو اجاگر کیا کرتے تھے.پس اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں بخشی ہیں اللہ کا حق ہے کہ ان تمام صلاحیتوں کے مطابق آپ پر بوجھ ڈالے.لیکن آپ سے کوتا ہی ہوئی ہم سے کوتاہی ہوئی ، ہم ان صلاحیتوں کے باوجو د سوتے رہے ، غفلتوں میں پڑے رہے، ان کو استعمال نہ کر سکے اس کے نتیجے میں اب ناطاقتی محسوس کرتے ہیں، تھوڑا سا کام بھی دیا جائے تو بوجھ محسوس ہوتا ہے.اس کا کیا علاج ہے؟ اس کا علاج ایک تو یہ دعا ہے، دوسرے کام ڈالنا ہے کمزوروں پر.یہ علاج نہیں ہے کہ کمزوروں کے سپر د کام نہ کیا جائے اور جتنے بھی اچھے ورکر ، اچھے کارکن خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو مہیا ہوئے ہیں، شاذ ہی ان میں سے ایسے ہوں گے جو بچپن ہی سے اچھے کام کرنے والے تھے ، جن کو فطرتا شروع ہی سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف رجحان عطا کیا تھا.بڑی تعداد ان میں سے ایسی ہے جو بظاہر نکھے محسوس ہوتے تھے.نہ کام کی عادت، نہ کام کا پتا، نہ کام کا تجربہ اور دیکھنے میں لگتا تھا بھلا ان پر بوجھ ڈالو تو کیسے اٹھا سکیں
خطبات طاہر جلد 14 705 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 1995ء گے اور جب ڈالے گئے تو اللہ نے ان کو طاقت عطا فرمائی اور اس دعا کے ساتھ جب وہ کام کرتے ہیں تو پھر بہت تیزی کے ساتھ ترقی کرتے ہیں.تو اگر جماعت کا ایک حصہ فعال نہیں ہے تو ہمارا قصور ہے.ان کا قصور ہے جن کو خدا نے فعال ہونے کی طاقت بخشی ہے، جن کو یہ دعا سکھائی ہے، جو ان باتوں کو جانتے ہیں.ان کو چاہئے کہ اپنے بھائیوں پر بوجھ ڈالیں اور بوجھ ڈال ڈال کر ہی ان کو آگے بڑھائیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ بوجھ ڈالتے وقت آپ بھی تو خدا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ اے ہمارے رب! ہم پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا.تھوڑا تھوڑا ڈالیں اتنا کہ وہ خوشی سے اٹھا سکیں اور جب اس کو اٹھا ئیں گے تو پھر اور کی طلب پیدا ہوگی پھر اور کی طلب پیدا ہوگی.وہ لوگ جو ورزش کر کے جسم کماتے ہیں پہلے دن ہی ان کو جسم کمانے کا ویسا شوق نہیں ہوتا بلکہ شروع شروع میں تو پچھتاتے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں پڑ گئے جسم میں کھلیاں پڑی ہوئیں اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو رہا ہے.ایک اعلیٰ مقصد کے لئے اپنی طاقتیں بناتے ہیں اس وجہ سے ان کو یہ خطرہ کوئی نہیں کہ محض کام کی خاطر کام کر رہے ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب وہ کام کرتے ہیں اس کی جزا بھی ان کو ملتی ہے اور کئی طریقے سے جزا ملتی ہے.اس لئے جب آپ کسی کے سپرد کرتے ہیں تو یہ نہ دیکھا کریں کہ وہ تو ادنی ہے، معمولی ہے، اس کے سپرد یہ کام کیوں کر دیں.در حقیقت جب آپ ادنی سمجھ کر کسی کے سپر د کام نہیں کرتے تو آپ کے اندر ایک تکبر کا مادہ ہے اور تکبر کے نتیجے میں ضرور نقصان پہنچتا ہے.خدا تعالیٰ نے پہلی کہانی میں ہی ہمیں یہ سبق سکھایا کہ اللہ نے تو مٹی کے سپر د کام کر دیا اور شیطان نے تکبر سے کام لیا کہ یہ اس ذلیل چیز کے سپر د تو نے کام کر دیا یہ کام کیسے کر سکے گا، یہ تو مٹی سے پیدا ہوا ہے، مٹی میں کہاں استطاعت ہے، ہاں آگ میں یہ طاقت ہے اس میں روشنی بھی ہے اس میں جان بھی ہے وہ بڑے بڑے کام کر کے دکھاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اسے دھتکار دیا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کام سپرد کرنے میں مٹی ہونا بھی ایک بہت ہی اہم صفت ہے.وہ لوگ جو نفس کے لحاظ سے مٹی ہو چکے ہوں انہی کو استطاعت ملتی ہے کہ ان سے آدم پیدا کئے جائیں.پس آپ آدم بنانے والے آدم ہیں کیونکہ خدا کی نمائندگی میں جب خدا نے آپ کو اپنا خلیفہ بنادیا تو پھر آپ نے
خطبات طاہر جلد 14 آگے اور آدم پیدا کرنے ہیں.706 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء پس اس پہلو سے دو طرح کے کام ہیں جن کو لازماً ہمیں ہر طرف ہر جگہ شروع کرنا ہوگا.اول وہ احمد بیجو بھی کمزور ہیں اور بڑی بھاری تعداد ہے ان کی.جو کمزور ہیں ، جن کو کام کی عادت نہیں ان کے سپر د ذمہ داریاں ہی کوئی نہیں کی گئیں.اب وقت آ گیا ہے کہ ایک ایک احمدی کو کاموں میں لپیٹ لیں.ایک عام لام بندی ہو جائے جس میں کوئی بھی باقی نہ رہے.دیکھو جب امن کا دور ہو تو اس وقت ہر ایک کے لئے فوج میں شامل ہونا ضروری نہیں ہوا کرتا ایک معمولی تعداد ہے جسے شامل کر لیا جاتا ہے.مگر جب قوم کی بقاء کا سوال پیدا ہو جب زندگی اور موت کا مسئلہ ہو اس وقت پھر حکومتوں کی طرف سے عام لام بندی کے اعلان ہو جاتے ہیں کہ جو بھی میسر ہے سب کو لپیٹ لو، بڑے بوڑھے چھوٹے سب حاضر ہو جائیں.دیکھو جنگ بدر میں بھی تو ایسا ہی وقت تھا سب کو حاضر کر دیا گیا.نہ کوئی بوڑھا چھٹا نہ کوئی جوان نہ بچہ، نہ لولہ نہ لنگڑا ، کمزور آنکھوں والے، کمزور جسم والے، ہر قسم کے لوگ اکٹھے ہو گئے.اور وہ مٹی تھی جس مٹی سے خدا نے ایک آدم پیدا کیا اسی مٹی پر جب خدا نے اپنی روح پھونکی تو اس نے بڑے بڑے سورماؤں کے چھکے چھڑا دئیے.تو جب مٹی خدا سے اذن پالیتی ہے جب اس میں اللہ کی روح پھونکی جاتی ہے تو پھر آگ کی کوئی پیش نہیں جاتی کہ اس مٹی کو ہلاک کر سکے.پس جماعت احمد یہ وہ مٹی ہے جس مٹی سے آئندہ بنی نوع انسان کی تعمیر ہونی ہے، جس مٹی نے از سر نو آدم بنانے ہیں.پس اس پہلو سے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے کمزوروں پر بوجھ ڈالیں ، اپنے کمزوروں کے سپر د ذمہ داریاں کریں لیکن جب میں یہ ہدایت کرتا ہوں تو یہ یا درکھیں کہ اس کے ساتھ ہم نے بعض اور شرائط مقرر کر رکھی ہیں ان کو پورا کئے بغیر ہم کمزوروں پر بوجھ ڈال نہیں سکتے.کیونکہ وہ لوگ جن پر بوجھ ڈالا جائے اور نہ اٹھائیں اور اسے رد کر چکے ہوں ان پر مزید بوجھ ڈالنا جائز نہیں ، ان کی طاقت سے بڑھ کر ہے پس اسی لئے میں نے شرط لگا رکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآنی تعلیم کی رو سے جو مالی قربانی کا ارشاد فرمایا ہے اگر کوئی اس میں حصہ نہیں لیتا اور استطاعت کے باوجود نہیں لیتا اور استطاعت زیادہ ہے اور تخفیف سے اس کام کو دیکھتا ہے یا اس کے دل کی خساست اس پر غالب آ جاتی ہے اور جانتا ہے کہ جو خدا نے دیا ہے خدا کے علم میں ہے کہ میں نے کتنا دیا ہے اس کے باوجود جماعت کے سامنے معمولی
خطبات طاہر جلد 14 707 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء معمولی رقمیں لکھوا کر سمجھتا ہے کہ میں نے جان بچالی ہے ایسا شخص وہ ہے جس کو اس ذیل میں شمار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی ابھی طاقت نہیں ہے ان پر پہلے تھوڑا تھوڑا بوجھ ڈالو.تھوڑا بوجھ ڈالنے کا دوسرا مضمون ہے جو ان کے حق میں جاری ہوتا ہے.ایسے لوگوں کے متعلق میں نے کہہ رکھا ہے کہ جن کو مالی استطاعت نہ ہو، قرضوں میں مبتلا ہیں ، دوسری ضروریات ہیں ہر انسان کے اپنے اپنے حالات ہیں آپ کو بعض دفعہ وہ امیر دکھائی دیتا ہے مگر اس کی ایسی ذمہ داریاں ہیں مثلاً پاکستان میں اس کے رشتے دار ہیں، غریب بیوہ، بہنیں ہیں وغیرہ وغیرہ اس کو چاہئے تفصیل نہ لکھے لیکن مجھے صرف اتنا لکھ دے کہ میں اس وقت استطاعت نہیں رکھتا کہ پوری طرح چندہ ادا کر سکوں اور کسی تحقیق کی ضرورت نہیں، کسی عہدے دار کی سفارش کی ضرورت نہیں ، جو مجھے لکھے گا میں سو فیصدی بات مان لوں گا لیکن پھر میری اجازت کے ساتھ وہ اتنا ادا کرے گا جتنا اس کو جماعت نے اس کا وعدہ قبول کرتے ہوئے اس پر ذمہ داری ڈالی ہے وہ پھر ا سے ضرور ادا کرنا ہوگا.پس ایسے لوگ بھی ہیں جن پر طاقت کے مطابق مالی بوجھ ڈالے جاتے ہیں اس لئے یہ مضمون کلیہ بے تعلق نہیں ہے لیکن جو سب کچھ ہوتے ہوئے پھر حاضر نہیں ہوتے ،خدا کا دیا ہوا خدا کی رضا کی خاطر اس کے حضور واپس نہیں کرتے ، ان کا پھر یہ حق نہیں کہ ان پر دوسرے بوجھ ڈالے جائیں.وہ تو اپنی دنیا پر راضی ہیں، دنیا میں رہیں ایسے لوگوں سے کوئی جماعتی خدمات نہیں لینی لیکن جنہوں نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنی جائز ضروریات کے پیش نظر اس جھگڑے میں پڑے بغیر کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا نہیں بول رہے جو بھی مجھے کہا میں نے مان لیا، جو اس شرط کو پورا کر دیتے ہیں ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے، ان کے سپرد ذمہ داریاں کی جاسکتی ہیں مگر عہدے نہیں.ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.اس لئے میں بات کھول رہا ہوں کہ اب یہ عام سلسلہ چلے گا، کثرت کے ساتھ جماعت میں لوگوں پر ذمہ داری ڈالی جائے گی جن پر پہلے نہیں تھی یہ بات خوب کھل جانی چاہئے کہ میری کیا مراد ہے.ایسے لوگوں پر کام کی ذمہ داریاں ڈالیں مگر عہدے اس لئے نہیں کہ جو عہدے دار ہے اس کو ایک نمونہ ہونا چاہئے اس پر حرف نہیں ہونا چاہئے.جو اس کے ذاتی معاملات ہیں وہ خدا کی نظر میں ہیں ہمیں اس سے غرض نہیں ہے.جب تک خدا کسی پرستاری کے پر دے رکھتا ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ جھانک کر اس کے گھر میں دیکھے اگر ایسا کرے گا تو خدا کسی پرستاری کے پر دے رکھتا
خطبات طاہر جلد 14 708 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ جھانک کر اس کے گھر میں دیکھے اگر ایسا کرے گا تو خدا خود اس کو بے پردہ کر دے گا.اس لئے جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے اگر کوئی شخص ظاہر کی شرائط پوری کرتا ہے اور عام طور پر دین دار اور متقی دکھائی دیتا ہے اور مالی قربانی میں حسب استطاعت حصہ لیتا ہے اور اگر کمزوری ہے تو پھر اپنی ناطاقتی ظاہر کر کے طاقت کے مطابق بوجھ اٹھانے کا وعدہ کرتا ہے تو ایسے شخص پر ذمہ داری ڈالی جاسکتی ہے.مگر جب عہدے دار بنایا جائے تو پھر سب کی نظر ہوتی ہے اور لوگ دیکھتے ہیں کہ کس قسم کا عہدے دار ہے.اگر وہ مالی قربانی میں پیچھے ہے تو یہ اچھا نمونہ نہیں ہوتا ، جماعت پر بداثر پڑتا ہے.اس مجبوری کے پیش نظریہ میں اعلان کر رہا ہوں، پہلے بھی کر چکا ہوں کہ عہدوں کو چھوڑ کر دوسرے کام سپرد کریں اور اگر آپ کام سپرد کریں گے تو کاموں کی برکت سے پھر ان کے دل بھی کھلیں گے اور ان کی دوسری کمزوریاں بھی دور ہوں گی کیونکہ ایک حصے میں طاقت پیدا ہو تو اس سے دوسرے حصے میں بھی بسا اوقات طاقت پیدا ہو جاتی ہے.تو اس پہلو سے لازم ہے کہ ہم جماعت میں زیادہ سے زیادہ کارکن پیدا کریں کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت بڑے بڑے بوجھ پڑنے والے ہیں اور ان کے لئے جو ہم دعا مانگتے ہیں کہ ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پر بوجھ نہ ڈال تو یہ مراد نہیں ہے کہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی.دراصل یہ وہ مضمون نہیں ہے جو میں نے کہا تھا کہ کم کی دعا مانگی جارہی ہے.اصل میں دعا مانگی جارہی ہے زیادہ سے زیادہ کی.ہماری جتنی طاقت ہے اتنا بوجھ ڈال دے اور جب طاقت کے مطابق بوجھ پڑے تو طاقت ضرور بڑھتی ہے اگر استطاعت سے زیادہ نہ ہو تو اگر استطاعت سے زیادہ بوجھ ہو تو طاقت ٹوٹ جاتی ہے اور انسان کا جسم اس زیادہ بوجھ سے پارہ پارہ ہو جاتا ہے، اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اس لئے دعاؤں کے مضمون کو سمجھنا بہت ضروری ہے.اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ہماری طاقت کے مطابق بوجھ ڈال دے ہم پر ، ہم حاضر ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اگر ایک دن میں ہیں میل چل سکتا ہے تو یہ دعا کر رہا ہے کہ اے خدا ہمیں میل ضرور چلا ، اس سے زیادہ نہیں لیکن جو بیس میل چلے گا اس کی طاقت بڑھ جائے گی اور یہ دعا اس کا پیچھا نہیں پھر چھوڑے گی.اگلی منزل پر یہ دعا پھر حاضر ہو جائے گی، اس کو پکڑلے گی کہ تم نے تو یہ کہا تھا نا کہ مجھے طاقت کے مطابق
خطبات طاہر جلد 14 709 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء بوجھ ڈال تو اب تیری طاقت تمیں میل ہو چکی ہے، اٹھ اور تمیں میل چل کے دکھا اور جب وہ تمیں میل چلے گا تو پھر جب تک استطاعت کا آخری کنارہ نہیں آتا اس کی طاقت بڑھتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے مطالبے بھی بڑھتے چلے جائیں گے.پس اس پہلو سے جماعت کی تربیت کرنے میں لازم ہے کہ ہم سب احمدیوں پر طاقت کے مطابق بوجھ ڈالیں اور یہ نہ ہو کہ یہ فعال حصہ ہے، یہ غیر فعال حصہ ہے.غیر فعال پر جب ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دل میں ایمان ہے اور دین کی محبت تو ضرور موجود ہوتی ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کو طاقت کے مطابق ہی نہیں، پھر طاقت کو بڑھا کر ، پہلی طاقت سے بہت بڑھ کر بوجھ اٹھانے کی توفیق بخش دیتا ہے.پس ایک تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی عددی طاقت کو حد استطاعت تک استعمال کر دیں.جتنی ہماری عددی طاقت ہے اس وقت اس کا پانچ فیصد یا دس فیصد استعمال ہو رہا ہے.اگر تمام نو مبائعین کو شامل کر لیا جائے تو ہوسکتا ہے دو فیصد استعمال ہورہا ہو اور جو بھی خدا تعالیٰ ہمیں پھل عطا فرمارہا ہے یہ تمام عالمی جماعت کے دو فیصد کا نتیجہ ہوگا یا مالی لحاظ سے اگر دیکھیں تو شاید پانچ فیصد کا نتیجہ ہو کیونکہ اگر ہم ایک کروڑ ہیں تو ساری دنیا میں کل چندہ دہندگان ہر طرح کے ملا کر پانچ لاکھ سے زیادہ نہیں.اگر چار لاکھ ہیں تو پھر چار فیصد ہے جو حصہ لے رہا ہے لیکن چندے میں یہ جو فیصد ہے اس کو بھی سمجھنا ضروری ہے.جب تعداد گنتے ہیں تو اس میں نہ کمانے والے بچے بھی گن لئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ عورتیں ہیں جو خود گھر چلانے کی ذمہ داری ادا کر رہی ہیں، کما تو رہی ہیں مگر اور رنگ میں کما رہی ہیں.وہ اپنی محنت کا پھل کھاتی ہیں مگر خاوند کے مال پر گھر چلتا ہے اس لئے لگتا یہ ہے کہ صرف خاوند کما رہا ہے.وہ بھی کچھ نہ کچھ چندہ ضرور دیتی ہیں مگر بچے تو اکثر چندوں کی استطاعت نہیں رکھتے.اس لئے اگر چار لاکھ بھی ہو میں نے ابھی تک پورا صحیح اندازہ نہیں لگایا لیکن شاید چار لاکھ سے بھی کم ہو، ہوسکتا ہے دولاکھ ہو.تو دو لاکھ کا مطلب یہ ہوگا کہ جو ہمارے کمانے والے ہیں ان کا تقریباً بیس فیصد ایسا ہے جو چندے دے رہا ہے اور بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ بہت سے ایسے علاقے ہیں مثلاً افریقہ کے جہاں جماعت کثرت سے پھیل رہی ہے، پھر یورپ کی نئی قوموں میں بڑی کثرت سے پھیل رہی ہے، ان کو ابھی ان باتوں کا پتا ہی نہیں کہ مالی قربانی کیا ہوتی ہے.اس لئے کبھی کبھی جب ان سے مطالبے کئے جاتے ہیں کچھ نہ کچھ وہ پیش کر
خطبات طاہر جلد 14 710 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء دیتے ہیں.مگر جو میں شمار بتا رہا ہوں ان میں ان کی گنتی نہیں ہوتی یعنی لاکھ دو لاکھ جتنے بھی با قاعدہ دینے والے ہیں ان میں ان کو شمار نہیں کیا جاتا تو ان کو بھی چندہ دہندہ بنانا یہ بھی ان کی طاقت بڑھانے کے لئے ضروری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابھی ایک بڑی گنجائش ان لوگوں میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر ان کے اوپر ہمیں توفیق بخشے کہ طاقت کے مطابق بوجھ ڈالیں تو پھر ان کی طاقتیں بڑھانا شروع کر دے گا اور اگر استطاعت تک جماعت کی طاقتیں پھیل جائیں تو دنیا تو ایک چھوٹی سی چیز آپ کے سامنے رہ جائے گی اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جاتی.جو تبلیغ والے ہیں وہ چندوں کے لحاظ سے، چندہ دینے والوں میں ابھی بہت پیچھے ہیں کیونکہ چندہ دینے کا نظام حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بہت ہی محنت کے ساتھ بڑے لمبے عرصے میں مستحکم کیا گیا ہے اور دعوت الی اللہ کا نظام ابھی گزشتہ دس بارہ سال کی بات ہے یہ با قاعدہ چندے کے نظام کے طریق پر بلکہ بعض جگہ اس سے بھی زیادہ کوشش کے ساتھ مستحکم کیا جا رہا ہے اور اب تک جو خدا کے فضل سے نتائج نکلے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں، میری توقع سے بہت بڑھ کر ہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کسی شخص کو جو نا دہندہ ہو، دہندہ بنانا نسبتاً آسان ہے مگر غیر مبلغ کو مبلغ بنادینا کہ وہ آگے پھر پھل پیش کر سکے یہ ایک بہت مشکل کام ہے.اس لئے جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے محض اللہ کا احسان ہے اس میں ہمارے نفس کو کسی دھو کے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خدا نے ہمیں اس زمانے میں داخل کر دیا تھا جو پھلوں کا زمانہ ہے جونئی بہاروں کا زمانہ ہے.ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کام شروع کیا تھا اور جس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ سے غیر معمولی نشانات پاتے ہوئے حیرت انگیز انقلابات کی بنیا درکھی تھی.پس میں سمجھتا ہوں کہ ہر صدی کے بعد یہ موسم آیا کریں گے اور ان معنوں میں دین کی تجدید ہوا کرے گی لیکن خلیفہ، خلیفہ ہی ہوگا مجدد نہیں ہوگا.خدا تجدید کیا کرے گا کیونکہ وہ موسم جب خدا کے بڑے بڑے عظیم مقرب بندے پیدا ہوتے ہیں اور بڑے کام شروع کرتے ہیں ان موسموں میں بھی ایک برکت پڑتی ہے ان میں دہرائے جانے کی طاقت ہوتی ہے.پس جس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یعنی برے معنوں میں دہرائے جانے کی طاقت ہوتی ہے.اس طرح اللہ کے فضل سے میں سمجھتا ہوں کہ اچھی تاریخ بھی اپنے آپ کو دہراتی ہے اور
خطبات طاہر جلد 14 711 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ دور اسی طرح برکتیں لے کے آ رہا ہے جس طرح پہلے لے کے آیا تھا.اس لئے ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بے وقوفی ہوگی اگر ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ ہمیں خدا بڑے بڑے کاموں کی توفیق بخش رہا ہے.بخش تو رہا ہے لیکن کیوں بخش رہا ہے اس لئے کہ موسم وہ آگیا ہے جس موسم میں خدا کے فضلوں نے پھل لگانے ہی لگانے ہیں.جب پھلوں کے موسم آتے ہیں تو جڑی بوٹیوں کو بھی پھل لگ جاتے ہیں، گھاس بھی پھل دار ہو جاتے ہیں کانٹے دار جھاڑیاں بھی پھل دار ہو جاتی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے یہ جو موسموں کو دہرایا ہے اس میں اگر چہ محض اللہ کا فضل ہے لیکن ساتھ ایک قانون یہ بھی رکھا ہے کہ تمہیں کچھ نہ کچھ تو ہاتھ ہلانا ہوگا کچھ تو کوشش کرنی ہوگی اگر تم کچھ نہیں کرو گے تو یہ موسم آکے گزر جائے گا اپنے پھل اپنے ساتھ لے جائے گا پھر وہ ان کو جھاڑ دے گا یا بوسیدہ ہو جائیں گے یا مٹی میں مل جائیں گے اور تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.پس یہ درست ہے کہ ہماری محنت نہیں ہے محض اللہ کا فضل ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اللہ کا فضل بھی محنتوں کے تقاضے کرتا ہے اور کچھ نہ کچھ تو ہاتھ ہلانے کی توقع خدا اپنے بندوں سے رکھتا ہے.اگر وہ اتنا بھی نہیں کریں گے کہ اس کے فضلوں کو سمیٹ سکیں تو ان فضلوں.محروم رہ جاتے ہیں.پس اس پہلو سے اب پھل اتنے ہو چکے ہیں اور اتنے بڑھ رہے ہیں کہ سمیٹنے والے ہاتھوں کی بڑی ضرورت ہے.سندھ میں ہمیں زمیندارے کا موقع ملا ہے مجھے خود ذاتی طور پر حضرت خلیفہ امسح الثالث نے اپنے حصہ کا نگران بنایا ہوا تھا تو وہاں سندھ میں میں نے دیکھا ہے ہمیشہ جب پھل کا وقت آتا ہے تو مقامی زمیندار جو پھل کاشت کرتے ہیں وہ سنبھال نہیں سکتے.اس لئے وہ تھر سے مزدور آتے ہیں اور بہت زیادہ آدمیوں کی ضرورت درپیش ہوتی ہے جو آ کے پھر فصلوں کو سنبھالتے ہیں اگر نہ سنبھالیں گے تو ساری فصلیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں.پس جب پھل زیادہ ہوں تو مزدوروں کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور زیادہ مزدور چاہئیں.ہمیں بھی خدا کی راہ کے مزدوروں کی ضرورت ہے اور اس طرف میں جماعت کو بلا رہا ہوں کہ اس مزدوری کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دو.تم میں جو بھی استطاعت ہے انکساری کے ساتھ وہی استطاعت لے کر جماعت کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ اور
خطبات طاہر جلد 14 712 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء جماعت کے عہدیداران جن شرائط کے ساتھ میں نے کام لینے کی اجازت دی ہے ان شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے ان مزدوروں کو سمیٹیں، ان کے سپر د کام کریں اور جتنا آپ ان پر کام ڈالیں گے دیکھنا کہ ان کی استطاعت بڑھتی چلی جائے گی.یہ جو مضمون ہے رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہ اس کو اگر صحیح معنوں میں سمجھ جائیں تو گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو پھر آپ کو گردو پیش کے معنی بھی اور طرح دکھائی دیتے ہیں.وہ شخص جس کو آرا چلانا نہیں آتا، جس کو تیسی سے کام لینا نہیں آتا بسا اوقات جب وہ لکڑی کا کام کرتا ہے یا اینٹ پتھر کا کام کرتا ہے تو اپنی انگلیاں کاٹ لیتا ہے لیکن کچھ مزدور ہیں جو بے چارے کچھ نہیں سمجھ رہے ہوتے وہ صرف مستریوں کے مددگار بن کے کام کر رہے ہیں، کوئی لکڑیاں پکڑا رہا ہے ، کوئی اینٹ پتھر اٹھا اٹھا کے لا رہا ہے لیکن یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو معمار ہیں یا نجار ہیں وہ بھی پہلے مزدور ہی تھے.وہ بھی اسی طرح پتھر ڈھو کر لایا کرتے تھے یا لکڑیاں پکڑایا کرتے تھے یا کیل کانٹے ہاتھ میں دیا کرتے تھے لیکن جب تھوڑا تھوڑا ان پر کام ڈالا گیا تو دیکھتے دیکھتے وہ بڑے بڑے ماہر مستری بن گئے اور بعض دفعہ انہیں مزدوروں میں سے ان سے بہت بہتر مستری بن جاتے ہیں جنہوں نے ان کو کام سکھایا ہو.تو آئیں گے تو آپ مزدور کے طور پر خدا کی راہ کے مزدور کے طور پر یہی بہت بڑی عزت ہے لیکن اللہ آپ ہی میں سے پھر ہر قسم کے معمار اور نجار پیدا کرے گا، ہر قسم کے ماہرین پیدا کرے گا جو آگے کام سنبھالنے کی استطاعت حاصل کریں گے جن کی طاقت کے مطابق کام کرنے کے نتیجے میں ان کی طاقتیں بڑھائی جائیں گی.پس اس پہلو سے جو دو یا چار فیصد ہم ہیں کام کرنے والے، حقیقت میں ان کی بھی پوری صلاحیتیں ابھی چمکی نہیں ہیں.ان میں بھی بڑی بھاری تعداد ہے جن کی پوری صلاحیتیں بروئے کار نہیں آئیں، جنہوں نے زیادہ مشق نہیں ابھی تک کی کاموں کی یا کاموں کی ذمہ داری کو احسن رنگ میں پوری بشاشت سے ادا نہیں کر رہے.اب سوچیں کہ اگر ان کی استعداد میں اپنی انتہا کو پہنچ جائیں جن انتہاؤں کے لئے خدا نے ان کو بنایا ہے اور وہ سارے جو اس سے پہلے فارغ بیٹھے ہوئے ہیں اور صرف مزے لے رہے ہیں دیکھ کر کہ جماعت ترقی کر رہی ہے وہ بھی اپنے آپ کو حاضر کریں اور پھر ان کی استعدادیں بھی چمکائی جائیں اور دن بدن اللہ کے فضل کے ساتھ ان میں نئی صلاحیتیں پیدا
خطبات طاہر جلد 14 713 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء ہونے لگیں تو سوچیں کہ جماعت کی طاقت کتنی بڑھ جائے گی.اگر یہ جماعت نہ بھی پھیلے صرف استعدادوں میں ہی نشو و نما پائے اور اونچی ہونے لگے تو دنیا کی عظیم ترین جماعت بنے کی صلاحیت آج بھی آپ میں موجود ہے، ایسی عظیم جو ساری دنیا میں انقلاب بر پا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.لیکن اس پر آپ جمع کریں وہ نئے آنے والے، اگر ان کی تربیت کا آپ حق ادا کریں تو پھر اندازہ کریں کہ خدا کے فضل کے ساتھ روز مرہ کتنی بشاشت پیدا ہوتی چلی جائے گی.جب ایک پارٹی کام کر رہی ہو اور اس کی طاقت کے برابر کام ہو، ابھی کام باقی ہو کچھ نئے آنے والے شامل ہو جائیں تو دیکھو کیسا ان کو حوصلہ ملتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی طاقت بھی بڑھ جاتی ہے.اگر نئے آنے والے شامل نہ ہوں تو بعض دفعہ وہ انسان نفسیاتی مایوسی کا شکار ہو کر اپنی طاقت کو پوری طرح استعمال کرنے کا اہل نہیں رہتا ، طاقت ہوتے ہوئے بھی وہ کام کو اپنی طاقت سے بڑھتا ہوا دیکھتا ہے لیکن یہ لازم ہے کہ اگر ایسی صورت میں کمک آجائے تو اچانک نئے حوصلے پیدا ہوتے ہیں، بڑے ولولے پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر دشمن کے دل ہار جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے جنگ احزاب میں ایک ایسی بات کی جس کی بہت سے مؤرخین کو سمجھ نہیں آتی.جب آندھی چلی ہے اور دشمن کے خیمے اکھڑنے لگے تھے ابھی سراسمیگی کا عالم طاری نہیں ہوا تھا تو آنحضرت ﷺ نے بڑے زور اور بڑی قوت سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.آپ نے وہ نعرے اس لئے بلند کئے تھے کہ آپ خدا کی طرف سے آثار رحمت کو آتا ہوا دیکھ رہے تھے اور بعید نہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا ہو کہ دشمن کے بھاگنے کا وقت آ گیا ہے.مگر وہ نعرے جو تھے انہوں نے دو طرح کام کیا.سخت تھکے ہوئے ، سخت کمزور مسلمانوں میں نئی جان پڑ گئی، ایسے حیرت انگیز جوش اور ولولے سے بھر گئے کہ تمام مسلمانوں کا کیمپ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھا اور دشمن نے جب یہ سنا تو وہ یہ سمجھا کہ صرف آندھی ہی نہیں ان کو کوئی کمک حاصل ہوگئی ہے کیونکہ اتنا بڑا حوصلہ اتنی تھکی ہوئی جماعت میں سوائے اس کے پیدا ہو ہی نہیں سکتا کہ کہیں سے کمک آ گئی ہو.کمک تو آئی تھی لیکن وہ فرشتوں کی کمک تھی جس کو وہ دیکھ نہیں سکتے تھے.پس اس نے دوہرا کام کیا اور مؤرخین یہ صلى الله ضرور بتاتے ہیں.خاص طور پر جو مستشرقین ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ ، رسول اللہ ﷺ نے چال چلی تھی.چال کیسی چلی تھی اس کے ساتھ تو ساری ہوا چل پڑی تھی ، آندھی بر پا ہو گئی تھی یہ خدا کی چال تھی
خطبات طاہر جلد 14 714 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء الله اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصرف کے نتیجے میں آنحضرت ﷺ نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے لیکن خدا کی چال جب چلتی ہے تو کسی دشمن کی کچھ پیش نہیں جاتی.تمام دشمن کیمپ میں جو بے شمار تعداد میں محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں سے زیادہ تھا یہ خوف بر پا ہو گیا کہ ایک تو اوپر سے آندھی چل پڑی ہے اور پھر ہماری آگئیں بجھ گئی ہیں.اب یہ بھی کوئی نعروں سے تو نہیں بجھی تھیں.وہ مشرک تھے، وہ آگ کی پرستش کرنے والے لوگ تھے ، تمام واقعات بیک وقت اکٹھے رونما ہوئے ہیں اور ایک خاص مقصد کی خاطر ایسا ہوا ہے.وہ جو آندھی چلی ہے تو وہ آگ جس کی وہ بڑی حفاظت کیا کرتے تھے جس کو خدائی کا نشان سمجھتے تھے تیز آندھیوں میں بھی وہ جلتی تھی اور جلتی رہتی تھی لیکن یہ وہ آندھی تھی جس کا مقابلہ وہ آگ نہ کر سکی اور وہ ایک نشان بن گئی کہ اب تمہاری آگ کے بجھنے کے دن آگئے ہیں.وہ جب دیکھا تو مشرک تو ہم پرستوں کے تو چھکے چھوٹ گئے اور ان کے لیڈر نے فوری طور پر اپنی اونٹنی کو پکڑا ہے اور پیشتر اس کے کہ وہ اعلان کر سکتا اس نے خود بھاگنے کی کی.وہ سمجھا کہ اب دشمن آ پہنچا ہے ہمارے اوپر اور حالت یہ تھی کہ وہ کلے سے بندھی ہوئی تھی اس کو کھولنا بھی بھول گیا.اس کو ایڑ لگا تا تھا، مارتا تھا اور اس سے بھا گا نہیں جاتا تھا.اس سر اسمیگی کے عالم کو دیکھ کر سارے دشمن کیمپ میں افرا تفری پڑ گئی اور وہ اٹھ دوڑے.تو یہ اس کی بنیاد اگر دیکھیں تو کمک سے بنتی ہے.کمک کا مضمون بڑا گہرا ہے جو جنگی داؤ پیچ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے مگر یہ کمک تھی جو اللہ کی طرف سے آئی تھی.آپ کی کمک بھی اللہ ہی کی طرف سے آئے گی مگر آپ وہ ہاتھ پاؤں ضرور ماریں گے، آپ کو مارنے ہوں گے کہ وہ لوگ جو بغیر کام کے بیٹھے ہوئے ہیں ان کو ساتھ شامل کر لیں.اس کے نتیجے میں طبیعی طور پر آپ میں حوصلہ پیدا ہوگا اور یہ لوگ فرشتوں کی طرح آپ کے دلوں کو طاقت بخشیں گے.پس اپنے میں سے بھی آدمی ڈھونڈیں اور ان کی تربیت کریں اور جونئی قو میں ہم میں داخل ہورہی ہیں ان پر جلد از جلد ذمہ داریوں کے بوجھ ڈالیں.میں نے افریقہ کے احمدیوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ اگر غربت ہے تو خواہ ایک پیسہ لینا ہو ان کو یہ نہ کہو کہ ہمیں تم اپنی آمد کا سولہواں حصہ ضرور دو.میری طرف سے اجازت ہے ان کو آپ کہیں کہ اگر تم ایک دمڑی، ایک پیسہ بھی دے سکتے ہو تو خدا کے حضور پیش کرنا ہے تم نے ، دعا کرتے ہوئے اللہ کے حضور پیش کرو کہ اے خدا میں یہ اپنی طاقت سمجھتا ہوں اور پھر یہ دعا جب کرو گے کہ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ تو یہ دعا خود
خطبات طاہر جلد 14 715 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء آپ کے اندر سے ایک مذکر پیدا کر دے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے.وہ لوگ جو اجازتیں لیتے ہیں یا شروع میں کم دیتے ہیں کہ ہم میں اتنی طاقت نہیں اگر وہ دعا گو ہوں تو ضرور ان کے اندرا نقلاب برپا ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں ہم نے تو کہا تھا طاقت کی حد تک بوجھ ڈالنا ہم تو طاقت سے بہت کم پیش کر رہے ہیں اور اگر دعا میں طاقت ہو یا Sincerity اور خلوص ہو تو یہ خیال پیدا ہو یا نہ ہو یہ دعا پکڑ لیتی ہے اور ان کو پتا ہی نہیں لگتا یہ ہوا کیا ہے، ان کے دل میں عجیب عجیب طرح کی ندامتیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں اور حیرت انگیز باتیں لکھتے ہیں.کہتے ہیں ہم روتے ہوئے خط لکھ رہے ہیں.ہمیں ہوا کیا تھا؟ ہم نے کیوں تھوڑے کی درخواست کی تھی.ہم نے اپنی زندگی گنوائی اور کہتے ہیں ہم وعدہ کرتے ہیں ہم آئندہ بھی دیں گے پچھلا بھی پورا کریں گے مگر خدا کے لئے یہ سہولت ہم سے اٹھا لیں کیونکہ اب جیا نہیں جاتا اس سہولت کے ساتھ اور پھر اللہ ان کے مالوں میں برکت ڈالتا ہے اور ان کے ایمان میں برکت ڈالتا ہے ان کے کاموں کی توفیق میں برکت ڈالتا ہے.تو عجیب لیکھے ہیں، یہ مضمون ہی الگ ہیں، کچھ ان کے لطف تو اٹھا کے دیکھو.یہ وہ بوجھ نہیں ہیں جو بوجھ پڑتے ہوں تو زیادہ انسان بو جھل ہو جائے یہ تو وہ بوجھ ہیں جہپڑتے ہیں تو جسم ہلکے ہونے لگتے ہیں کیونکہ خدا پھر خودان بوجھوں کو اٹھاتا ہے.وَاعْفُ عَنَّا کا مضمون یہی تو سمجھ رہا ہے کہ طاقت کے مطابق ڈالنا لیکن عفو سے کام لینا تا کہ ہم ان بوجھوں کو اٹھاتے ہوئے بالکل تکلیف محسوس نہ کریں.اگر یہ مضمون اس میں نہ ہو تو عفو کے معنے ہی کچھ نہیں ہیں.وَاغْفِرْ لَنَا اور جو کمزوریاں ہم میں ہیں ان سے بخشش سے کام لینا.جو ہم پہلے کر بیٹھے ہیں ان کے نقصان اب ہم نہ اٹھا ئیں.وَاغْفِرْ لَنَا کا مضمون اس دور سے تعلق رکھتا ہے جب اپنی نااہلی کی وجہ سے، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہم نے اپنی طاقتوں کو پوری صلاحیت عطا نہیں کی اور اب ترس رہے ہیں کاش ہم میں طاقت ہوتی تو ہم آگے بڑھ کر زیادہ کام کر سکتے.وَاغْفِرْ لَنَا اے خدا ہماری کوتاہیوں کو بخش دینا اور ان کے بد نتائج سے ہمیں محفوظ رکھنا.وَارْحَمْنَا اور یہ حالت قابل رحم ہے ایک آدمی دعا کرتا ہے مجھے طاقت کے مطابق دے پھر ڈرتا ہے کہ اس کے باوجود میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا میری تو بہت تھوڑی طاقت ہے.یہ حالت ہی بڑی قابل رحم ہے اس لئے دعا کا آخری نتیجہ یہ نکلا وَ ارْحَمْنَا ہم سے رحم کا سلوک فرمانا جیسے ماں باپ
خطبات طاہر جلد 14 716 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء بچوں سے رحم کا سلوک کرتے ہیں اور اس رحم کے سلوک کی یادیں ان کو پھر دعاؤں پر مجبور کرتی ہیں وہ اپنے بوڑھے، کمزور ماں باپ کے لئے دعائیں کرتے ہیں جیسے انہوں نے ہم پر رحم فرمایا تھا اے خدا تو اب ان پر رحم فرما.تو یہ وہ مضمون ہے جس کو سمجھتے ہوئے ان بڑھتے ہوئے بوجھوں کو ہم اٹھا سکیں گے.اگر ہم نے ان مضامین کو نہ سمجھا، اگر ان کا حق ادا نہ کیا، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات اور روشنی کے باوجود اپنے بڑھتے ہوئے بوجھوں کو ہلکا کرنے کی کوشش نہ کی یعنی ہلکا ان معنوں میں کہ ہمیں ہلکے محسوس ہوں اور بڑھتے ہوئے ان معنوں میں کہ جتنے ہلکے محسوس ہوں اور بڑھتے چلے جائیں اور ہم انہیں ہلکا سمجھتے رہیں، یہ وہ کام ہے جس کام کے نتیجے میں دنیا میں انقلاب برپا ہوں گے.وہ تو شروع ہو چکے ہیں ، ہور ہے ہیں لیکن فکر یہ ہے کہ یہ نہ ہو کہ ہمارے پھل ہماری طاقت سے آگے بڑھ جائیں.جس طرح بعض دفعہ میں نے بیان کیا تھا کہ سندھ میں بھی میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ فصلیں بہت زیادہ ہوں تو مصیبت پڑ جاتی ہے زمیندار کو ، مزدور جن کو آنے کی عادت ہوتی ہے وہ اسی رفتار سے اسی تعداد میں آتے ہیں اور کپاس اتنی ہو گئی ہے اس سال یا مرچیں اتنی ہو گئی ہیں کہ وہ سنبھالی نہیں جاتیں ، وہ پھر ٹوٹ ٹوٹ کر مٹی میں ملتی اور گلتی ہیں ، مرچوں کی فصلیں تو میں نے دیکھا ہے بہت ضائع ہو جاتی ہیں اگر مزدور وقت پہ نہ ملیں تو.تو آپ کی فصلیں تو مرچوں سے بہتر ہیں آپ کی فصلیں تو کپاس سے بہت زیادہ اعلیٰ درجے کی ہیں.ان فصلوں کو سنبھالنا تو آپ کے لئے ایک زندگی کا روگ بن جانا چاہئے.روگ ان معنوں میں کہ اگر ضائع ہو تو غم لگ جائے ، تکلیف محسوس ہو.اور یہ آخری بات ہے جس کی طرف میں آپ کو اس خطبے میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ آنے والوں کی ذمہ داریوں کے غم نہ لگا لیں ، جب تک آپ اپنے کمزور بھائیوں کے غم نہ لگا لیں ، آپ کو ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی.یہ غم ہے جو انسان میں طاقت پیدا کرتا ہے یہ اور طرح کا غم ہے جس کی میں بات کر رہا ہوں.ایک ماں کا غم ہے اپنے بچے کے لئے جو جانتی ہے کہ میرے دوسرے بچوں میں تو بڑی صلاحیتیں ہیں اس میں بھی ہونی چاہئیں تھیں مگر یہ کمزور رہ گیا ہے.کئی مائیں ہیں بعض دفعہ ملاقات میں رو پڑتی ہیں کہ یہ بچہ پتا نہیں کیوں دین کی طرف نہیں آ رہا
خطبات طاہر جلد 14 717 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 1995ء اس کو میں سمجھاتی ہوں لیکن اس کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی جبکہ دوسرے بچے اللہ کے فضل سے بہت اچھے ہیں، بڑے مخلص ہیں، نمازوں میں بھی بہت اچھے ہیں.تو مراد یہ ہے کہ صلاحیتیں ہوں اور پھران کو پورا نہ کیا جائے اگر محبت ہو تو پھر غم لگتا ہے.اگر محبت نہ ہو تو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی.تو بنی نوع انسان سے اگر سچی محبت ہو، اگر جماعت سے سچی محبت ہو، اس کے مقاصد سے سچی محبت ہو تو کوئی آدمی بھی چین کی زندگی بسر نہیں کر سکتا جب تک اپنے کمزوروں کا غم نہ لگالے اور جب غم لگے گا تو ہر وقت آپ کو فکر رہے گی.پھر یہ ضروری نہیں ہوگا کہ عہدیدار آپ کے دروازے کھٹکھٹائے اور آپ کو کہے کہ فلاں کو بیدار کرنے کی کوشش کرو، فلاں کو آگے بڑھانے کی کوشش کرو، پھر آپ کا غم آپ کو مجبور کرے گا.ہر وقت یہ سوچیں گے کہ وہ کمزور بھی رہ گیا ہے، وہ کمزور بھی رہ گیا ہے کیوں نہ اس کو بھی ساتھ شامل کیا جائے تو ساری جماعت میں ایک کھلبلی سی مچ جائے گی اور یہ غم ہے جو حیرت انگیز سکھ پیدا کرے گا.دیکھو بہت سے سکھ ہیں جو لازماً غموں کی کوکھ سے پھوٹتے ہیں.اگر وہ غم نہ ہوں تو وہ سکھ بھی نہیں آتے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ ماں کو بغیر تکلیف کے بھی بچہ عطا کر سکتا تھا مگر بچے کی غیر معمولی محبت کی خاطر ماں کو ان دکھوں سے گزارا جاتا ہے اور ان دکھوں کا اس بچے کی محبت سے ایک گہرا ذاتی تعلق ہے.لوگ سوچتے نہیں ان باتوں کو، بعض دفعہ جہالت میں کہہ دیتے ہیں کہ ماؤں کو تکلیف کیوں ہوتی ہے اور بے تکلیف کے یونہی بچے ہوتے تو گلیوں میں رکتے پھرتے.کوئی ان کو نہ پوچھتا ، ماؤں کو بھی ان کی کوڑی کی پرواہ نہ ہوتی.یہ نو مہینے کا دکھ ہے وَهُنَّا عَلَى وَهْنٍ (لقمان: 15) کمزوری کے بعد کمزوری پھر بھی مائیں اسے اٹھائے پھرتی ہیں اور بڑی محنت کرنی پڑتی ہے پھر بچہ پیدا ہوتا ہے.تو دیکھو کس اذیت سے، بعض دفعہ جان کا خطرہ بن کر آتا ہے.اس سے تو پھر پیار ہونا ہی ہوتا ہے یہ ایک فطرتی بات ہے وہ یہ چیز محبت پیدا کر دیتی ہے.پس ماں کے غم سے بچے کی محبت پھوٹتی ہے.ماں کے غم میں وہ رحمت ہے جو اسے ہمیشہ بچے سے ایسا پیار کرنے کی توفیق بخشتی ہے کہ کبھی کسی رشتے میں ایسا پیار آپ کو دکھائی نہیں دے گا.پس اس پہلو سے غم لگانا بہت ضروری ہے.یہ محض ٹھنڈے دلوں کی باتیں نہیں ہیں ٹھنڈی باتوں کے لیکھے نہیں ہیں یہ تو آپ کو اللہ سے پیار کے نتیجے میں اس کے بندوں کا غم لگانا ہوگا.جب غم لگ جائے گا تو پھر اور بھی بہت سی باتیں پیدا ہوں گی پھر دعا ئیں جو اٹھیں گی ان میں بڑی رفعتیں پیدا
خطبات طاہر جلد 14 718 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء ہو جائیں گی ان میں آسمان کے کنگرے ہلانے کی طاقتیں پیدا ہو جائیں گی.پھر آپ کو راتوں کو اٹھ کے تہجد پڑھنے کی بھی توفیق مل جائے گی.پھر آپ کو اس پیار سے بات کرنے کی توفیق ملے گی کہ جس پیار کی نصیحت ضائع نہیں جایا کرتی.آپ کی اکثر نصیحتیں اس وجہ سے بے کار جاتی ہیں کہ ان میں پیار کی بجائے تلخی ہوتی ہے اور بسا اوقات تکبر ہوتا ہے.اگر ایک انسان خود نمازی ہو اور دوسرے کو بے نمازی دیکھ کر اس طرح اس کو کہے کہ بڑا تو محروم انسان ہے، نماز بھی نہیں پڑھ سکتا اور دل میں یہ خیال ہو کہ دیکھو میں نمازی بن گیا ہوں اس لئے تو بے حیثیت چیز ہے.تو اس کی نصیحت اس بے نمازی پر بھی بے کار جائے گی اور اپنی نماز کو بھی کھا جائے گی ، نہ باہر کچھ رہے گا نہ اندر کچھ رہے گا لیکن اگر محبت اور رحمت کے نتیجے میں کسی کا غم لگا ہو تو اس کی نصیحت میں شان ہی اور پیدا ہو جاتی ہے.وہ باہر کی نمازیں بھی پیدا کرتی ہے اور اندر کی نمازوں کی شان بھی بڑھاتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ آپ خدا کی خاطر خدا کے کاموں میں غم لگا بیٹھیں دیکھو اپنی تجارتوں میں ، اپنے دنیا کے کاموں میں آپ غم لگائے پھرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار ہا بڑی حسرت سے یہ لکھا ہے کہ وہ لوگ جو میری جماعت میں ہوتے ہوئے دنیا کے غموں میں دن رات لگے ہوئے ہیں مجھے ان کے تصور سے تکلیف پہنچتی ہے وہ دین کا غم لگا کے تو دیکھیں.اگر وہ دین کا غم لگا ئیں گے تو ان کو اپنے غم لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ ایک اور نسخہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا ہے اور بڑا کارگر نسخہ ہے.بارہا ہم نے دوسروں میں دیکھا، اپنی ذات میں دیکھا ہر جگہ یہ نسخہ حیرت انگیز طور پر طاقتور اور کارفرما دکھائی دیا.کئی دفعہ میں نے بعض بزرگ صحابہ کی مثالیں دی ہیں کہ وہ اس نسخے کو باقاعدہ عمداً اس طرح استعمال کیا کرتے تھے جیسے کوئی ڈاکٹر کسی مریض پر کوئی نسخہ استعمال کرتا ہے اور ان میں ہمارے حضرت عبدالرحمن صاحب مہر سنگھ جو سکھوں میں سے آئے تھے لیکن بڑے ولی اللہ اور بزرگ اور مہم اور نیچے رؤیا اور کشوف دیکھنے والے بزرگ بن چکے تھے.حیرت ہوتی تھی دیکھ کر ، ایک دفعہ میں قادیان گیا جب وہ بھی ساتھ تھے تو ان کے جو سکھ دوسرے ملنے والے ان کے گاؤں سے آئے ہوئے تھے ان کے اندر زمین آسمان کا فرق تھا.حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد 14 719 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 1995ء نے خاک کی چنکی سے کیمیا بنا دیا اور وہ خود بھی محسوس کرتے تھے وہاں کے ماحول والے سارے کہ یہ کچھ کا کچھ بن چکا ہے.ان کا یہ دستور تھا ان کو جب مالی تنگی ہواب یہ نسخہ پہلے آپ نے شاید نہ سنا ہو، میں نے سنا ہوتو اور بات ہے لیکن عموماً لوگوں کو پتا نہیں کہ یہ بھی ایک نسخہ ہے، مالی تنگی محسوس ہوتی تھی تو بجائے اس کے کہ زیادہ وقت مال کمانے پہ لگائیں سارے کام چھوڑ کے تبلیغ کو نکل جاتے تھے اور فارمولا یہ بنایا ہوا تھا کہ میں اللہ کے کام کرتا ہوں اللہ میرے کام کرے گا اور کرتا تھا، کبھی بھی اس میں نا کامی نہیں ہوئی.ان کے واقعات جو اس وقت بھی سننے میں آئے اب بھی شاید ان کی اولا د نے محفوظ کئے ہوں ان میں حیرت انگیز اعجازی نشانات ہوتے تھے.وہ کام پہ گئے ہیں خدا کے کام پر تبلیغ شروع کی رات کو واپس آئے تو پتالگا کہ منی آرڈر آیا پڑا ہے کسی کی طرف سے تحفے کے طور پر، وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ رقم کہیں سے آئے گی اور وہ تحفہ مل جایا کرتا تھا.تو اللہ تعالیٰ تو خود کام بنادیتا ہے لیکن اگر غم لگا کر اس کے کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں اور اس کے کاموں پر نگاہ رکھیں.پس جتنی قو میں ہم میں نئی آ رہی ہیں خواہ اس ملک میں ہوں یا جرمنی میں ہوں یا افریقہ میں ہوں یا Far East میں جو بحر الکاہل کے جزائر ہیں ان میں ہوں ، ہر طرف ایک ہی نسخہ ہے جو کام کرے گا آپ کو اپنی صلاحیتیں بڑھانے کے لئے اپنے بوجھ بڑھانے ہوں گے اور جن پر بوجھ نہیں ہے ان پر بوجھ ڈالنے ہوں گے، جلد از جلد بھرتی شروع کریں اور کام میں آپ کو اتنے بتا چکا ہوں کہ اگر آپ نے کرنے ہیں تو اس تعداد سے ہو ہی نہیں سکتے.بھی بہت ہی زیادہ ہیں اور بہت ہی اہم کام ہیں، ہماری بقا کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں آپ کو لازماً آدمی چاہئیں.تو بجائے اس کے کہ یہ سمجھیں کہ جو چار گنتی کے آدمی کام کر رہے ہیں وہی اچھے ہیں اس تکبر میں مبتلا نہ ہوں.جن کو آپ برا سمجھتے ہیں ان کو پیار سے پکڑیں اور سمجھا ئیں ان میں سے حیرت انگیز طور پر ایسے کیسے کام کرنے والے نکل آئیں گے جو آپ سے بھی بہتر ثابت ہوں گے یعنی ہوسکتا ہے کہ بہتر ثابت ہوں پھر تمام نئے آنے والوں کو کسی طرح کاموں میں ملوث کریں.اس دفعہ جرمنی کے دورے پر جو بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے اس نصیحت کے نتیجے میں جن جن جماعتوں میں نئے آنے والوں پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان کی تو کیفیت بدل چکی ہے.جن پر کوئی بوجھ ڈالا گیا ہے وہ تو پہچانا نہیں جاتا یوں لگتا ہے جیسے صحابہ کی اولاد ہو.تمام انداز بدل گئے ، نہ یورپ کا اثر ، نہ سفید فام
خطبات طاہر جلد 14 720 کی طرف منسوب ہونے کا وہم ان کی راہ میں اور خدمت دین کی راہ میں حائل ہو یا ہوسکتا ہے، اب وہ مٹی بن گئے.پس عجیب بات ہے کہ مٹی سے آدمی بنتا ہے اور جب آدمی بنتا ہے تو پھر وہ مٹی ہو جاتا ہے وہ خدا کی راہ میں خاک ہو جاتا ہے اور یہی عرض کرتا ہے کہ میں تو خاک ہوں.مطلب یہ ہے کہ میں اپنی حیثیت نہیں بھولا اے خدا تو نے مجھے بہت ترقی دی بہت اونچی اڑانیں بخشیں مگر میں جانتا ہوں کہ میں ہوں کیا.پس خاک سے اٹھنے والا آدمی ہمیشہ خاک کی طرف لوٹتا ہے اور یہی سچا انکسار ہے جو خدا کو پسند آتا ہے.یہی وہ انکسار ہے جس سے نبی بنتے ہیں، جس سے صدیق بنتے ہیں، جس سے شہید پیدا ہوتے ہیں، جس سے ولی اٹھتے ہیں.پس اس خاک سے آپ بھی اٹھیں خود آدم بنیں اور آدم بن کر پھر مٹی ہو جائیں اور پھر آپ کی مٹی سے اور آدم اٹھیں، یہ وہ دور ہے جب ہمیں اس کثرت کے ساتھ بار بار نئے پیدا ہونے والے آدمیوں کی ضرورت ہے.اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ میں تشہد کے بعد حضور انور نے فرمایا: صدر صاحب انصار اللہ سوئٹزرلینڈ بشیر احمد صاحب طاہر کی طرف سے یہ فیکس موصول ہوئی ہے کہ اس خطبہ میں ہمارے لئے بھی دعا کی درخواست کر دیں.آج نماز جمعہ کے بعد ہمارا چوتھا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے.اللہ ان کے اس اجتماع میں برکت ڈالے اور کثرت کے ساتھ ان میں کامیاب داعی الی اللہ پیدا فرمائے ، یعنی سلطان نصیر عطا کرے.“
خطبات طاہر جلد 14 721 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء صبر کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں اللہ آپ کے تو کل کو کبھی پھلوں سے محروم نہیں فرمائے گا ( خطبه جمعه فرموده 29 ستمبر 1995ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمُ بِسُلْطَنِ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ وَمَا لَنَا أَلَّا تَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُوْنَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ (ابراہیم: 12-13) پھر فرمایا:.یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے سورۃ ابراہیم کی بارہویں اور تیرہویں آیات ہیں ان سے متعلق جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صبر کے مضمون کے بیان کے وقت میں نے پہلے بھی خطبہ دیا ہے یعنی ایک خطبے میں ان کا ذکر کیا تلاوت بھی کی لیکن آج جس غرض سے میں نے تلاوت کو دہرایا ہے وہ مضمون صبر ہی کا ہے مگر اس کے بعض مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ ان کے پیغمبروں نے انہیں کہا کہ یہ سچ ہے کہ ہم تمہاری طرح ہی کے بشر ہیں ولکن اللہ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَّشَا مِنْ عِبَادِهِ لیکن اللہ کی مرضی ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس
خطبات طاہر جلد 14 722 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء کو پسند کر لیتا ہے اور چن لیتا ہے.کسی غرض سے یمن ، احسان کرنے والے کے لئے یعنی خدا کا انتخاب احسان کے رنگ میں ہوتا ہے.اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا، یہ بحث نہیں کی جاسکتی کہ اسے کیوں چنا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں بھی ان بحثوں کو رد فرمایا ہے کہ کسی کا کوئی حق نہیں کہ یہ پوچھے کے اس کو کیوں یہ دیا گیا اس کی حکمت یہ ہے کہ فی ذاتہ کوئی انسان بھی کسی منصب کا مستحق نہیں ہے اور جسے اللہ چاہے وہ احسان کے طور پر اسے چلتا ہے اور جسے اللہ چاہے وہ مستحق ہو جاتا ہے پھر وہ مٹی بھی ہو تو اس سے آدم پیدا ہوتا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جو بہت گہرا ہے.مراد یہ ہے کہ اگر چہ ہمیں خدا کے انبیاء بہت بلند مرتبہ دکھائی دیتے ہیں اور یہ دلیل قائم کی جاسکتی ہے کہ خدا نے ان کی عظیم شان کے پیش نظر، ان کی اعلیٰ صفات کے پیش نظر ان کو چنا لیکن ایک اور دلیل بھی ہو سکتی ہے کہ خدا نے چنا اور مٹی سونا بن گئی، خدا کی نظر التفات پڑی تو کچھ سے کچھ ہو گئے.انبیاء اپنے متعلق یہی نظریہ رکھتے ہیں.انبیاء کے پیرو پہلے نظریہ کے قائل ہوتے ہیں مگر انبیا ء خود جب اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو کچھ بھی نہیں پاتے پس یہاں جو یمن کا لفظ ہے یہ بہت ہی اہم چابی ہے اس مضمون کو سمجھنے کے لئے کہ اللہ کی مرضی ہے ہم بھی تو تمہارے ہی جیسے انسان تھے مگر وہ جسے چاہتا ہے احسان کے لئے چن لیتا ہے.وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَنٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ یہ مضمون اس تشریح کو، اس تفسیر کو تقویت دے رہا ہے.خدا کے بندے، بچے بندے، عاجز بندے جب انہیں کوئی منصب عطا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہتے کہ ہماری خوبیوں کی وجہ سے، ہماری صلاحیتوں کی وجہ سے یہ منصب عطا ہوا تھا بلکہ ہم بھی تو تم ہی جیسے تھے کوئی فرق نہیں تھا.اس میں ان کی انکساری اس مضمون کو ایسے رنگ میں بیان کر دیتی ہے کہ بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ انکساری میں بھی مبالغہ کیا جارہا ہے ورنہ انبیاء کی پہلی حالت جبکہ ان کو منصب عطا نہیں ہوتا اس حالت سے مختلف ہوتی ہے جو قوم کی حالت ہو اور بہت نمایاں مختلف ہوتی ہے مگر انبیاء کی انکساری میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے.وہ اپنی پہلی حالت کو بھی اللہ کا احسان سمجھتے ہیں اور یقین جانتے ہیں کہ وہ حالت ان کو خدا سے اس لئے عطا ہوئی کہ ان سے خدا نے بڑے بڑے کام لینے تھے اگر ان کو وہ احسان والی حالت پہلے عطا نہ ہوئی ہوتی تو آئندہ مناصب کے لئے وہ موزوں ثابت نہ ہوتے.
خطبات طاہر جلد 14 723 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا ہے کہ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے (درشین : 36) یہ وہ مضمون ہے جس پر انبیاء کی نظر ہوتی ہے.پس لوگ خواہ کسی معنوں میں بھی ان کا مرتبہ دیکھیں وہ اپنے مرتبے کو سب سے زیادہ پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مِن کے سوا کچھ بھی نہیں.اللہ کا احسان ہے اور جو کچھ ہمیں عطا ہوا خدا ہی کی طرف سے عطا ہوا، منصب سے پہلے بھی اسی کی طرف سے عطا ہوا، منصب کے بعد بھی اسی کی طرف سے عطا ہوا.اس کے بعد جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ کر کے دکھاؤ تو کہتے ہیں ہم میں تو طاقت نہیں ہے.ہم نے کب کہا تھا کہ ہم تم پر فوقیت رکھتے ہیں کب دعوے کئے تھے کہ غیر معمولی طاقتوں کے حامل ہیں تو ہم سے کیا مطالبہ کرتے ہو ئا گان لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمُ بِسُلْطنٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ جس نے چنا ہے جس نے منصب عطا کیا ہے اسی کا کام ہے وہ سلطان دے تو دے ہم دکھائیں گے ورنہ خالی ہاتھ ہیں.پس دیکھیں اس تفسیر کو قرآن کی یہ آیت اپنی ذات ہی میں کس طرح تقویت دے رہی ہے ایک طرف ایک پہلو بیان ہوا ہے دوسری طرف اس کے حقیقی معنوں کو تقویت دینے والا دوسرا پہلو بھی بیان فرما دیا گیا.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اور اللہ ہی پر مومن تو کل کرتے ہیں.تو کل کا مضمون بھی اس آیت کے حوالے سے ایک اور شان سے ہمیں سمجھ آتا ہے اللہ کے نبی کہہ رہے ہیں قوم سے کہ ہم خالی ہاتھ تھے ، ہمیں خدا نے احسان کے طور پر چنا ہم اس بحث میں تم سے نہیں الجھیں گے کہ تم سے بالا ہم میں کیا خوبی تھی جب اس کی نظر پڑی ہم روشن ہو گئے جیسے سورج کی شعائیں خواہ کیسی ہی تاریک اور سیاہ چیز پر پڑیں تو اس کو روشن کر دیتی ہیں تو ہم نے تو اللہ کے نور سے سب فیض پایا ہے، اسی نے ہمیں چنا اسی نے ہمیں روشن کیا اور ہمارے پاس ذاتی طور پر کچھ نہیں تھا پس تم جو یہ مطالبے کرتے ہو کہ یہ کر کے دکھاؤ اور وہ کر کے دکھاؤ یہ ہمارے دعوی کے برعکس ہیں.ہم تو یہ دعویٰ کرتے ہی نہیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ جس نے چنا اس نے ہر ضرورت پوری کی.یہ جانتے ہیں کہ اس نے پشت پناہی فرمائی اور غیر کے مقابل پر بڑی قوت اور شان کے ساتھ پیچھے کھڑا ہوا ہے اور مجال نہیں کسی مخالف کی کہ ہمیں ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ سکے ، اس کا کوئی بدا رادہ کا میاب نہیں ہونے دیا.پس یہ ہماری طاقت سے نہیں تھا، یہ جانتے ہوئے کہ ہم کچھ نہیں ہیں پھر جو کچھ ہم نے پایا ہے یہ اس
خطبات طاہر جلد 14 724 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء مضمون کو ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہی پر تو کل ہونا چاہئے اور اسی پر ہمارا تو کل ہے اور یہاں تو کل کے مضمون میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ یہ سب مومنوں کو شامل کر لیتے ہیں جہاں تک نبوت کا مضمون تھا وہ اس سے پہلے گزر گیا اس میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺہ تنہا تھے کیونکہ آپ ہی کو چنا گیا لیکن جب تو کل کا مضمون ہے تو انبیاء میں جو الہی تائیدات دیکھنے والے مومن ہیں ان کو تو کل عطا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم اس کے ساتھ ہیں خدا ہمارے ساتھ ہے کیونکہ اس کے ساتھ یقیناً خدا ہے، وہ تو کل جو ہے وہ ہمیں عطا ہوا ہے.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ.پس مومنوں کو چاہئے کہ اس خدا پر توکل رکھیں اور تو کل جاری رکھیں جس خدا نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی بے شمار اور لامتناہی تائیدات کے ذریعے ثابت کر دیا کہ آپ کا تو کل صرف خدا پر تھا.پھر اسی مضمون کو اسی طرح جیسا کہ پہلی آیت اپنی ذات میں شہادت رکھتی تھی کہ جو مضمون بیان ہو رہا ہے اسی طرح ہے.قرآن کی طرف کوئی بیرونی بات منسوب نہیں ہو رہی ، خود قران پیش کرتا ہے، اس کے دلائل قائم کرتا ہے.اگلی آیت اسی تو کل کے مضمون کو لے کر آگے چلتی ہے وَمَا لَنَا الَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا ہمارا ماضی گواہ ہے جب ہم جانتے ہیں کہ اس خدا نے ہمیں خود ہدایت کی راہیں دکھائی ہیں اور ان راہوں پر چل کے ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں تو ہم پاگل ہو گئے ہیں وَمَا لَنَا کا مطلب ہے ہم پاگل تو نہیں ہو گئے ، ہمیں کیا ہو گیا ہے جو ہم پھر اس خدا پر توکل نہ کریں جو تمام ماضی میں ہماری پشت پناہی فرما تا رہا اور ہماری تائید کرتا رہا اور ہمیں ہدایت کی راہیں دکھاتا چلا گیا.یہاں صراط مستقیم کا ذکر نہیں ہے یہ یاد رکھنا چاہئے وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنا ہر مومن کو جو مشکل در پیش ہوتی ہے اس سے خدا نکالتا ہے یہ اصل بنیادی مضمون ہے جو یہاں بیان فرمایا جارہا ہے.ہر مومن کی اپنی راہ ہے اپنی مشکلات کی ، اپنی زندگی کی راہ ہے.کسی کی کچھ زیادہ کٹھن کسی کی کم کٹھن مگر کسی مومن کی راہ آسان نہیں ہوتی مگر تو کل کے ذریعے.ہر مومن کی راہ کو اللہ کا فضل ہی آسان فرماتا ہے.تو مومن کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی میں ہم سب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں.اس پر جو خدا کا فیض نازل ہوا اس کی روشنی پھیل گئی اور ہم پر بھی وہ روشنی پڑی ہم پر بھی وہ.
خطبات طاہر جلد 14 725 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء شعاعیں پڑیں اور ہم میں سے ہر ایک گواہ ہے کہ ہر مشکل کے وقت اللہ نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے، اسی نے ہماری تائید کی ہے.اس عظیم ماضی کو دیکھتے ہوئے ہم پاگل تو نہیں ہو گئے کہ اب تو کل چھوڑ دیں.پس آئندہ بھی خدا ہی ہمیں کافی ہے جو پہلے وکیل تھا وہ اب بھی وکیل ہے اور وکیل بنار ہے گا.وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُونَا اب یہ جو توکل کے مضمون کی تیاری ہے اس نے صبر کے مضمون پہ پہنچا دیا.تو کل کرنے والے جب تو کل کرتے ہیں تو یہ مطلب نہیں کہ ابھی مشکل پڑی اور ابھی حل ہو گئی.جو یہ دیکھتے ہیں وہ تو کل نہیں ہوتا وہ تو نقد نقد کے سودے کے عادی ہوتے ہیں.تو کل میں صبر کا مضمون داخل ہے.تو کل ایسے حالات میں کیا جاتا ہے جبکہ ظاہری طور پر کوئی مدد نہ دکھائی دے اور پھر انسان کو یقین ہو کہ ایسا ہی ہوگا اور ہو کر رہے گا.تو اللہ تعالیٰ تو کل کے مضمون کو کس لطافت کے ساتھ گھیرتے ہوئے جیسے مومنوں کو ہدایت کی راہیں دکھاتا ہے، ان کے ذہنوں کو بھی ہدایت کی راہیں دکھاتا ہے اور ایک مضمون سے دوسرے کی طرف ہاتھ پکڑ کر لے جاتا ہے.فرمایا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُونَا اب اس تو کل کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ضرور صبر کرتے کیونکہ اس راہ میں صبر کا پھل ہمیشہ ہم میٹھا پاتے کبھی تکلیفوں پر صبر کرتے ہوئے ہم نے بد نتیجہ دیکھا نہیں ہے.اس لئے جو سبل کی طرف اشارہ تھا کہ سُبُلَنا ہماری راہیں خدا کے توکل کی وجہ سے آسان ہو گئیں اس میں یہ بھی اب دینی جو تکلیف ہے اس کو نمایاں طور پر پیش فرما دیا گیا کہ مومنوں کی راہوں میں کچھ ذاتی مسائل بھی ہوتے ہیں، کچھ دینی مسائل بھی ہوتے ہیں اور یہ وہ راہیں ہیں جہاں دینی تکلیفیں ضرور ان کو پہنچتی ہیں اور ان تکلیفوں کے نتیجے میں صبران کو تقویت دیتا ہے اور تو کل حوصلہ بخشا ہے کہ نتیجہ بہر حال اچھا نکلے گا کوئی دنیا کی طاقت اس نتیجے کو تبدیل نہیں کر سکتی.پھر دوبارہ دہرایا گیا ، یہ کہنے کے بعد ہم ضرور صبر کریں گے اس پر جو تم ہمیں دکھ پہنچاؤ گے.وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ اس تکرار میں یہ حکمت بھی ہے کہ پہلا مضمون اگر ذاتی مصائب سے تعلق رکھتا تھا تو یہ دوسرا مضمون خالصہ للہ اٹھائی جانے والی تکلیفوں سے تعلق رکھتا ہے.جب خدا نے تمہاری ذاتی مسائل میں تمہیں نہیں چھوڑا، جب بھی تم نے صبر کیا اور اس پر تو کل کیا اس نے ہمیشہ تمہاری راہوں کو آسان کر دیا تو اب خدا کی خاطر اگر صبر کرتے ہوئے خدا کی خاطر تکلیفیں اٹھاتے ہو تو کیسے ممکن ہے
خطبات طاہر جلد 14 726 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء کہ وہ خدا اپنی خاطر تکلیفیں اٹھانے والوں کو چھوڑ دے، ناممکن ہے.پس اپنی ذات کے مسائل سے سبق لو ہمیشہ وہ تمہارے ساتھ غیر معمولی فضل کا سلوک فرماتا رہا ہے.ہر مشکل سے نکالنے والا وہی تھا.تو اب دین کی خاطر جو تم مشکل اٹھاؤ گے یا مشکل میں پڑو گے تو اس کا وہم بھی نہیں پیدا ہوسکتا کہ خدا جو تمہارے کاموں میں تمہارا مددگار تھا اپنے کاموں میں تمہارا مددگار نہ رہے.وہ تو بدرجہ اولیٰ تمہاری مدد کے لئے اترے گا.پس دینی معاملات میں بھی صبر ہی کی بدولت انسان تو کل کے اعلیٰ مقام کو پہچان سکتا ہے.صبر اور توکل کا چولی دامن کا ساتھ ہے.صبر نہ رہے تو تو کل کی کمی کی نشاندہی ہوتی ہے اور تو کل نہ ہو تو صبر نہیں ہو سکتا.یہ دو باتیں ایسی لازم و ملزوم ہیں کہ جب اس پر آپ مزید غور کریں تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی حکمتیں بعض صفات کو بعض دوسری صفات سے باندھ دیتی ہیں، غور کر کے دیکھیں تو الگ ہو ہی نہیں سکتی تھیں.پس جہاں انسان اپنے مقصد کی کامیابی سے مایوس ہو جائے وہاں صبر نہیں رہتا، جہاں صبر رہے وہاں مقصد کی کامیابی پر یقین لازماً رہتا ہے کیونکہ بے مقصد صبر کوئی چیز نہیں ہے.صبر کے مضمون کے دوسرے پہلو مختلف آیات کے حوالے سے میں بیان کر چکا ہوں.یہاں اديْتُمُونَا والے پہلو پر خصوصیت سے میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.صبر دکھوں پر بے چین نہ ہونا، ہمت نہ ہارنا، ایمان کو ہاتھ سے نہ کھو دینا اور یقین اور کامل یقین پر قائم رہنے کا نام ہے لیکن صبر کئی قسم کے ہیں.بعض صبر ایسے ہیں جن میں مجبوری ہے، دشمن دکھ دیتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں کوئی اختیار نہیں ہے، یہ بے اختیاری کا صبر ہے.اور یہ صبر اگر فضیلت بنتا ہے تو محض اس وجہ سے کہ اس صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو ادا کیا جاتا ہے جبکہ عام حالات میں وہ بہت مشکل کام ہے.مثلاً ایک غریب آدمی اور ایک بے طاقت آدمی پر جب کوئی ظلم کرتا ہے تو بسا اوقات اور کچھ نہیں کر سکتا تو زبان سے گالیاں تو دے دیتا ہے، اتنا تو اس کا بس ہے.بعض لوگ کہتے ہیں اچھا پھر جو کرنا ہے کرو یعنی ہم نے اپنا بدلہ اتار لیا جو ہم میں طاقت تھی اتنا تو کر دیا اور یہ صبر نہیں ہے یہ بے اختیاری ہے.مگر اگر گالی دینے کی طاقت ہے اور کوئی دکھ پہنچانے کی طاقت ہے اور خدا کی خاطر انسان رک جاتا ہے باوجود اس کے کہ عمومی غلبہ تو نہیں ہے مگر کچھ نہ کچھ دل کی بھڑاس نکالنے کی طاقت تو موجود ہے.وہاں انسان جب تالے لگا بیٹھتا ہے محض اس لئے کہ اللہ نہیں چاہتا تو یہاں دوہرے
خطبات طاہر جلد 14 727 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء صبر کی ضرورت ہے.ایک تکلیف میں پڑے ہوئے شخص کا واویلا نہ کرنا اس کے دکھ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے.وہ ماں جس کو بچے کا غم پہنچا ہوا گر وہ واویلا کرتی ہے شور مچاتی ہے تو کچھ نہ کچھ دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے.لیکن اگر اپنی زبان پر تالے لگالے اور اللہ لگائے تو یہ کمزوری تو ہے مگر کمزوری میں بھی ایک شان پیدا کر دیتی ہے یہ بات.یہ وہ صبر ہے جو تعریف کے قابل ہے جس کے متعلق قرآن کریم بار بار مومنوں کو متوجہ کرتا ہے کہ صبر کو اختیار کرو.تو عجیب شان ہے قرآن کی، ایسی عظیم تعلیم ہے کہ ہماری بے اختیار یوں کو قابل تعریف بنا دیتا ہے ورنہ بے دین انسان کی بے اختیاری تو محض اس کی ذلت اور رسوائی کا موجب ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں مگر مومن جانتا ہے کہ اس بے اختیاری کے اندر ہی میری عظمت اور میری شان نمایاں ہے، جو میں کر سکتا تھا، خدا کی خاطر نہیں کیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھ میں زیادہ کی طاقت بھی ہوتی تب بھی میں اسی طرح کا سلوک کرتا.یہ گواہ ہے اس بات پر یہ صبر کہ مومن کو جب غلبہ نصیب ہوگا تو وہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا.مومن کو جب غلبہ نصیب ہوگا تو کسی سے وہ اپنے بدلے نہیں لے گا کیونکہ بدلے کی جس حد تک بھی اس میں طاقت تھی خدا کی خاطر وہ رک گیا تھا.پس صبر ایک عظیم تربیتی دور ہے جس میں سے مومن کو گزارا جاتا ہے اور صبر کے بغیر اعلیٰ اخلاق کی تربیت اپنے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی.وہ تو میں جنہوں نے عظیم الشان کام سرانجام دینے ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ انہیں صبر کے رستے سے گزارا جائے اور صبر ہی کا رستہ ہے جو تمام عظیم الشان نتائج پیدا کرتا ہے.مثلاً قرآن کریم اسی مضمون کے متعلق فرماتا ہے.انبیاء کے متعلق فرمایا کہ ہم نے ان کو امامت عطا کی ، ان کو مہدویت عطا کی.وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِه وَجَعَلْنَهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَاعِيلَ (السجده:24) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی.پس اس کی لقاء سے یعنی اللہ سے ملاقات کے بارے میں شک میں مبتلا نہ ہو.وَجَعَلْنَهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَاءِیل اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کا موجب بنایا، ہدایت کا ذریعہ بنایا.سورۃ انبیاء میں اسی مضمون کی
خطبات طاہر جلد 14 728 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء آیت سے پہلے پانچ انبیاء کا اور ذکر ہے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام ، ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام، ایک حضرت ہارون علیہ السلام، ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور ایک حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان سب کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ یہ نتیجہ نکالتا وَجَعَلْتُهُمْ أَبِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا (الانبياء: 74) ہے.ہم نے یہ جو لوگ ہیں جن میں سے بعض نبی ہیں جن کا ذکر کیا ہے بعض دوسرے تھے جن کا پہلے ذکر گزرا ہے ان میں سے نبی چنے ہیں اور ان نبیوں کو ہم نے کیا مقام بخشا.ان کو امام بنایا يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لیکن امام مہدی بنایا کیونکہ وہ ہماری ہدایت سے آگے ہدایت دیتے تھے.ہدایت پا کر پھر ہدایت دینے والے کو مہدی کہتے ہیں.اپنی طرف سے ہدایت دینے والے کو ہادی کہا جاتا ہے.تو فرمایا وہ تمام انبیاء جن کا ذکر گزرا ہے وہ سب امام مہدی تھے یعنی اللہ نے ان کو امام بنایا اور ان کو مہدی بنا دیا ، ہدایت دی تو اللہ سے ہدایت پا کر آگے لوگوں کو دی.کیوں کیا ایسا؟ سورہ السجدہ کی آیت نمبر 25 اس پر روشنی ڈالتی ہے.فرمایا وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ أَبِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا یہ مرتبہ اور یہ مقام ان کو اس وقت عطا ہوا جب انہوں نے صبر کیا یا بوجہ اس کے کہ انہوں نے صبر کیا ان کو یہ بلند مرتبہ عطا کیا گیا.تو مومن تو اپنی ذات میں خدا کے انعامات کا کوئی استحقاق نہیں پاتا خدا کے نبی سب سے زیادہ اپنی حقیقت کو سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ایک عجیب قانون چل رہا ہے وہ خود ہی نعمتیں عطا کرتا ہے اور ان نعمتوں کو بہانہ بنا دیتا ہے مزید نعمتوں کے لئے.صبر بھی اسی نے عطا کیا اور اس کی طاقت کے بغیر صبر ممکن نہیں ہے، اسی لئے قرآن کریم نے صبر کے ساتھ دعا کے مضمون کو ہمیشہ باندھا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقره: 46) مبر کے ساتھ اور صلوۃ کے ساتھ تم خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور سورہ عصر میں بھی نصیحت کے مضمون کے ساتھ صبر کو باندھا گیا ہے لیکن یہ سب اللہ کے احسانات ہیں جن کا ذکر چل رہا ہے ورنہ جب ساری دنیا گھاٹے میں ہو تو کسے توفیق مل سکتی ہے کہ وہ صبر کے ساتھ خوبیوں پر قائم رہے تو جہاں ظاہر نہیں بھی کیا گیا وہاں مضمون کا نقشہ بتا رہا ہے کہ صبر کی توفیق اللہ کے احسان کے سوامل نہیں سکتی.پس انبیاء تو اپنے آپ کو ہمیشہ خالی ہاتھ پاتے ہیں اور جو بھی نعمتیں ان کو عطا ہوتی ہیں جانتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے عطا ہوئی ہیں.مگر اللہ نے کچھ استحقاق کے قوانین بنارکھے ہیں ان قوانین پر چلنے کی توفیق اسی سے
خطبات طاہر جلد 14 729 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء آتی ہے مگر چلتا تو کوئی ہے تب وہ انعام پاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ صبر کا پھل اتنا میٹھا ، اتنا عالی شان ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے نبوت کے مراتب تک پہنچایا اور ان کے لئے چن لیا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا.اب یہاں صرف صبر کی خوبی کا بیان ہے اور کسی چیز کا نہیں.واحد وجہ ان کی صبر بیان فرمائی ہوئی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ صبر اللہ کی خاطر صبر تمام خوبیوں کا حامل ہوا کرتا ہے.بڑے بڑے امتحانات میں سے انسان گزرتا ہے، اگر الہ صبر کرتا ہے بہت بڑی نیکی ہے اس سے بڑی نیکی ممکن نہیں ہے اس لئے حقیقت میں اس نیکی کا حق ادا کرنے والوں کو سب سے بلند مرتبہ عطا فر مایا گیا یعنی نبوت کا مرتبہ اور صبر کا ایک دوسرا معنی بھی اس میں پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو نیکی اختیار کی اس کو چھوڑا نہیں.بہت مخالفانہ کوششوں کے باوجود، دکھوں کے باوجود، نیکیوں پر قائم رہے.جو خدا نے ہدایت دے دی اس ہدایت سے ملے نہیں یہ سب صبر کے اندر داخل ہیں.پس دیکھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ صبر کے مضمون کو اس شان سے بیان فرما رہا ہے کہ نبوت بھی صبر ہی کا پھل ہے.پس جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے.آج کل جماعت احمد یہ جس دور میں سے گزر رہی ہے اس میں اس تکرار کی ضرورت ہے، بار بار دشمن کو یہ بتانے کی ضرورت ہے وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا اذَيْتُمُونَا ہم ضرور صبر کریں گے اس پر جو ہمیں دکھ پہنچاؤ گے.تم سے خیر کی تو توقع ہی کوئی نہیں ، دکھ تو تم نے پہنچانے ہی ہیں، پہلے بھی پہنچایا کرتے تھے اور جب ہم نے صبر کیا تو اللہ نے ہماری مشکل راہوں کو آسان کر دیا.پس آئندہ کے لئے خدا کی صبر ہی کی عطا ہے جو مزید انعامات کا موجب بن جائے گی، مزید انعامات کا ذریعہ بن جائے گی.صبر ہی کے ذریعے ہم نے پہلے اللہ کی عنایات کے پھل کھائے اگر چہ صبر خود بھی تو اللہ کی عنایت تھا.مگر آئندہ بھی ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں اے دشمن! کہ تم دکھ پر دکھ پہنچاتے چلے جاؤ ہم صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے.جب یہ دامن چھٹا تو ہر دوسرا دامن چھٹ گیا کیونکہ جب صبر کا دامن چھٹ جائے تو پھر انسان کے قدم اکھڑ جاتے ہیں پھر وہ کہیں سے کہیں بدکتا ہوا دور سے دور تر ہوتا چلا جاتا ہے پس صبر پر قائم رہنا اور اس یقین کے ساتھ قائم رہنا کہ دشمن نے ایذاء رسانی ضرور کرنی ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو یہ بتانا کہ جو بس چلتا ہے کرتے چلے جاؤ ہم نے بھی صبر کو ایسی مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ کوئی
خطبات طاہر جلد 14 730 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء دنیا کی طاقت ہمارے ہاتھ صبر کے دامن سے چھڑا نہیں سکتی.اور وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ پہلی جگہ فرمایا تھا الْمُؤْمِنُونَ اب وہ مومنوں کا ذکر ہو گیا ان کو متوکل بنا دیا اب مومنوں کو متوکل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ مومنوں کی جماعت اور الْمُتَوَكَّلُونَ کی جماعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس تو کل کرنے والے اللہ ہی پر تو کل کرتے ہیں کسی اور چیز پر توکل نہیں کرتے.تو جماعت احمدیہ کا بھی تو کل خالصہ اللہ پر ہے اور صبر کے ساتھ ہم اس تو کل سے بھی چھٹے رہیں گے اور ہم نے اپنے ماضی کو دیکھا ہے دوسری مذہبی قوموں کے ماضی کو دیکھا ہے کبھی ایک بھی استثناء دکھائی نہیں دیتا کہ خدا کے بندوں نے اپنے انبیاء سے صبر کا مضمون سیکھا ہواور انبیاء کی طرح تو کل کیا ہو اور پھر خدا نے ان کو چھوڑ دیا ہو.نبی کو تو صراط مستقیم عطا کی جس کے پیچھے یہ سب چلتے ہیں، اس کے ہر پیروکو وہ سبل عطا کیں، وہ راہیں عطا کیں جو پگڈنڈیاں بھی ہیں، چھوٹی چھوٹی راہیں بھی ہیں، جن میں سے ہر راہ میں خدا ان کے ساتھ چلا کرتا تھا.کوئی راہ بھی ایسی نہیں تھی جس میں انہوں نے خدا کے ساتھ کے نشان نہ پائے ہوں پس جس کا ساتھی خدا ہو جائے وہ تو کل کیوں نہیں کرے گا.اس میں دوسری حکمت کی بات یہ سمجھنے کے لائق ہے کہ وہ لوگ ہم میں سے جن کو یہ سبل عطا نہیں ہوئیں ، جن کے اندھیرے وقتوں میں خدا ان کے ساتھ نہیں دکھائی دیتا، جو بعض دفعہ دل چھوڑ بیٹھتے ہیں اپنی ذاتی مصیبتوں میں اور مشکلات میں اور تو کل سے کام نہیں لیتے ان کے لئے یہ معاملہ قابل فکر ہے.نہ وہ ان مومنوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی وہ صفات بیان کی گئیں ، نہ ان المُتَوَكَّلُونَ میں جنہوں نے تو کل کا پہلے پھل پایا تھا تب وہ تو کل عطا ہوا جو عظیم تر تو کل ہے، جو تمام دینی امور کے دکھوں پر بھی ان کا سہارا بن گیا.اس لئے ہر انسان کے لئے اس میں ایک یہ بھی سبق ہے، ہر مومن کے لئے جو مومن کہلاتا ہے کہ وہ اپنی راہوں پر نگاہ تو ڈال کے دیکھے کہ کیا اس نے صبر سے کام لیا تھا ہر مشکل کے وقت، تو کل سے کام لیا تھا.یہ جو دیکھنا ہے اس کے لئے بہت گہری نظر سے مطالعہ کی ضرورت ہے.کئی ایسے لوگ ہیں جو سرسری طور پر اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالیں گے اپنے حالات پر تجارتی نقصان ہوایا اور کئی قسم کی مشکلات درپیش ہوئیں، دعائیں کیں، اللہ نے کام کر دیا اور انہوں نے تو کل کیا لیکن یہ حقیقت میں پوری تصویر نہیں ہے.مومنوں کے مختلف درجے ہیں بعض ایسے ہیں جو کھلم کھلا بے صبری نہیں
خطبات طاہر جلد 14 731 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء دکھاتے مگر باریک راہوں پر جو سبل کی باریک راہیں ہیں، جو باریک رستے کہلاتے ہیں ان میں آ کر وہ صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں.بعض ایسے ہیں جو دشمن کی ایذاء رسانی پر تو ثابت قدم رہتے ہیں مگر اپنوں کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں دکھاتے.پس صبر کا مضمون اتنا آسان اور سیدھا مضمون نہیں ہے کہ ایک دو مثالیں اس کی آپ پر صادق آجائیں تو آپ سمجھیں کہ آپ نے صبر کے امتحان پاس کر لئے ہیں.اس کے بہت سے درجے ہیں، بہت سے امتحانات ہیں اور بظاہر یہ الٹ بات ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ صبر وغیرہ کے مضمون میں بڑے امتحان پہلے انسان پاس کرتا ہے چھوٹے امتحان بعد میں در پیش آتے ہیں اور جتنے امتحان چھوٹے ہوتے چلے جائیں اتنے ہی مشکل ہوتے چلے جاتے ہیں.جتنی راہیں تقویٰ کی باریک ہوں اتنا ہی ان پر قدم مارنا اور ان پر اپنے توازن کو سنبھالنا زیادہ مشکل مسئلہ بنتا چلا جاتا ہے.اس لئے وہ جو بڑی راہوں پر چلنے والے تھے شان سے ، وہ چھوٹی راہوں پہ مارے جاتے ہیں.اس لئے اپنی باریک راہوں کا خیال کریں.تقویٰ کی باریک راہیں ہیں جہاں اصل امتحان اور مشکل امتحان در پیش ہوتا ہے.وہاں جو کامیاب ہو اس کو بڑے مرتبے ملتے ہیں.انہی میں سے پھر وہ انبیاء ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے لَمَّا صَبَرُوا.ہم نے ان کو مہدویت اور امامت کے مقام تک پہنچا دیا.لَمَّا صَبَرُوا جب ہماری نظر میں وہ صبر کرنے والے ثابت ہوئے.یہ جورا ہیں ہیں ان کی روزمرہ کی جماعت میں مثال سامنے آتی ہے اور بعض ایسے جو دیکھنے میں بڑے بڑے سورما نظر آتے تھے، مخالفوں کے مقابل پر ڈٹے رہے، پاکستان کے حالات میں بھی مقابلے کئے لیکن میں نے دیکھا چھوٹی راہوں پہ آکے مار کھا گئے اور اندرونی طور پر ناکام ثابت ہوئے اور بعض دفعہ جب ایسے امتحانات میں انسان ناکام ہو جائے تو پچھلے سارے امتحان بھی بے کار ہو جاتے ہیں کیونکہ الہی نظام امتحانات میں وفا لا زم ہے اور آخر وقت تک ثابت قدم رہنا اور ہر امتحان میں کامیاب ہوتے چلے جانا ضروری ہے.اگر نہیں ہوئے تو استغفار کریں پھر امتحان دیں، اگر کامیاب نہ ہوئے اور آخری امتحان میں ناکامی کی حالت میں مرے تو چھلی ساری نیکیاں باطل.اس لئے بہت ہی اہم مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.مثلاً باریک نظر سے اپنے جماعتی تعلقات میں رد عمل کو دیکھیں ، تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بظا ہر بڑے بڑے صبر کرنے والے
خطبات طاہر جلد 14 732 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء کس طرح جماعتی معاملات میں صبر سے عاری ہو جاتے ہیں.اب مخالف کے دکھ پر صبر کرنا یہ دکھ بہت بڑا ہوتا ہے لیکن اس کے مقابل پر صبر نسبتا آسان ہے کیونکہ علم کلا فیصلہ ہے ایک انسان کو پتا ہے کہ اس کے بدلے مجھے ارتداد اختیار کر نا پڑے گا، خدا کا دامن چھوڑنا پڑے گا کھلم کھلا ، اسے اپنی ہلاکت دکھائی دے رہی ہوتی ہے وہ پاگل تو نہیں ہو گیا کہ وہ اس امتحان میں ناکام ہو جائے.مگر جہاں ہلاکت ایسی واضح دکھائی نہیں دیتی جہاں اندرونی امتحانات ہوں وہاں بسا اوقات انسان دھو کہ کھا جاتا ہے.قرآن کریم نے ماں باپ کے دکھوں پر بھی صبر کی تلقین فرمائی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جانتا ہے کہ ماں باپ کے رشتے میں طبعی خونی تقاضا یہ ہے کہ بچہ باپ کی اطاعت کرے، ماں کی اطاعت کرے اور ان سے ادب کا سلوک کرے لیکن اللہ چونکہ انسانی فطرت کی باریکیوں پر نظر رکھتا ہے اس لئے جانتا ہے کہ انسان ایسی خود غرض چیز ہے کہ جتنے بھی احسانات ہوں اگر کسی ایک موقع پر احسانات میں کمی آجائے یا وہ یہ سمجھے انسان کہ دوسرے پر زیادہ احسان کر دیا ہے مجھ پر کم کر دیا ہے تو ہر احسان کو بھلا کر سرکشی اختیار کر جاتا ہے اور ایسی سرکشی بسا اوقات خدا کے مقابل پر بھی ہو جاتی ہے.کوئی بیماری پڑی ہے جب تک بیمار نہیں تھا دوسروں کی بیماریاں دیکھیں، ان کے دیکھ دیکھے، ان کو صبر کی تلقین کی اور جب اپنے اوپر آپڑی تو کہا یہ کیسا خدا ہے میں نے بڑی دعائیں کیں، کوئی قبول نہیں ہوئی، میرا بچہ میرے سامنے سکتا سکتا مر گیا، اسی کو حادثہ در پیش آنا تھا، اسی کو یہ مشکل پیش آنی تھی، گویا ساری کائنات وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں.ساری کائنات کے دکھ دیکھتا ہے اور اس کو خدا تعالیٰ پر کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوتا.اپنا دکھ جس کے مقابل پر دوسرے دکھ بعض دفعہ سینکڑوں گنا زیادہ ہوتے ہیں، بعض قومی دکھ ہیں ساری قومیں ان دکھوں میں برباد کر دی جاتی ہیں اور ہرلمحہ آزمائی جاتی ہیں وہ دیکھتا ہے کہتا ہے او ہو بڑی بہادر قوم ہے، اپنے اوپر جب وہ دکھ پڑتا ہے تو سب باتیں بھلا کر خدا کا بھی ناشکرا ہو جاتا ہے.پس اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت اور توحید کی تعلیم دی وہاں فوری توجہ دلائی وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (البقرہ: 84) کہ میرے حق تو ادا کرو، ضرور کرنے ہیں تم نے ، اس کے بغیر تو تمہارا چارہ کچھ نہیں مگر یاد رکھنا والدین کے ساتھ بھی احسان کا سلوک کرنا اور پھر فرمایا کہ اگر وہ تم پر
خطبات طاہر جلد 14 733 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء زیادتی بھی کریں تو اف تک نہیں کہنی.اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں یہ رجحان ہے کہ ماں باپ کے باقی سب احسان بھلا کر کہیں زیادتی ہو تو اف کہہ بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے بھی بد نصیب ہیں کہ صرف اس جھگڑے میں کہ فلاں بیٹے کو تم نے زیادہ دے دیا یا فلاں بیٹی کو زیادہ دے دیا ہے ماں باپ سے با قاعدہ لڑائی مول لے بیٹھتے ہیں، قضاؤں میں پہنچ جاتے ہیں، وہ جھگڑے پیچھا ہی نہیں چھوڑتے پھر.کوئی اس بات کی حیا نہیں کرتے کہ احسان کا ذکر خدا نے فرمایا ہے تم پر ماں باپ نے رحم کیا تھا تم پر احسان کیا تھا تم بھی اس رحم کے مقابل پر احسان کا سلوک کرو.عدل کا نہیں فرمایا اور اس میں بڑی حکمت ہے.عدل کا ذکر نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے نا انصافی سے پیش آؤ.مطلب یہ ہے کہ تم نے جب ماں باپ کے معاملے میں کوئی زیادتی دیکھنی ہے تو عدل کے جھگڑے میں نہ پڑ جانا.یہ سوچنا کہ اللہ نے تمہیں احسان کی تعلیم دی ہے اور احسان عدل سے بالا ہے.احسان میں عدل کے بکھیڑوں میں نہیں انسان پڑتا بلکہ احسان کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے اگر کوئی زیادتی بھی کر دی ہے تو تم وسیع حوصلگی دکھاؤ، اس سے چشم پوشی کرو.پس اللہ تعالیٰ جب ہم سے ہمارے گنا ہوں کو نظر انداز کرنے کا سلوک فرماتا ہے تو یہ احسان کا سلوک ہے.اللہ جب بخشش کا سلوک فرماتا ہے تو احسان کا سلوک ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کے صبور ہے ، سب سے زیادہ صبر دکھانے والا ہے یعنی بندے دکھ دیتے ہیں، احسانات کو بھلاتے ہیں اور بار بار خدا تعالیٰ کے لئے اگر وہ انسانی جذبات ہوں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں اذیت کا موجب بنتے ہیں حالانکہ اللہ کے لئے کوئی اذیت کا موجب نہیں بن سکتا.مگر ان کا عمل ایسا ہے گویا وہ خدا کو اذیت پہنچانے سے بھی باز نہیں آتے.ان پر اللہ کی نظر ہے، جانتا ہے کہ خالق اور مالک اور سب سے بڑے محسن سے اگر یہ سلوک ہے تو ماں باپ سے کیوں ایسا نہ کریں گے.پس فرمایا دیکھو والدین سے احسان ضرور کرنا اور ان باتوں میں بے وجہ ان سے جھگڑا نہ کیا کرنا بلکہ اف تک نہیں کہنی.یہی مضمون ہے جو جماعت میں بھی جاری ہوتا ہے اور اگر اس کو نہیں سمجھیں گے تو نظام جماعت میں رخنہ ڈالنے کا موجب بنیں گے کیونکہ وہ لوگ جو عام بڑی بڑی باتوں پہ صبر کر لیتے ہیں بعض دفعہ امیر کی طرف سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حق ادا نہیں ہوا، تو سر اٹھا لیتے ہیں، بدتمیزی شروع کر دیتے ہیں، جھگڑے شروع کر دیتے ہیں.کہتے ہیں تم نے فلاں کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک کیا ہم سے.
خطبات طاہر جلد 14 734 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء یہ کیا، ہمارا یہ حق تھا تم نے نظر انداز کیا ہے اور وہ دراصل ماں باپ کا جو وسیع تر مضمون ہے اس کو پیش نظر نہیں رکھتے.امیر خدا کے نظام کا نمائندہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا ہے جو دنیا میں خدا کے نمائندہ ہیں کہ اگر تمہیں آنحضرت ﷺ کا ماں باپ سے زیادہ اقرباء سے زیادہ ادب نہیں ہے، اگر ان سے زیادہ تم ان سے محبت نہیں کرتے تو تمہیں پتا ہی نہیں ایمان کیا چیز ہے.پس ایک ماں باپ وہ ہیں جو دنیاوی رشتوں کے ماں باپ ہیں وہاں جب خدا تعالیٰ ، احسان کی تعلیم دیتا ہے باوجود اس کے کہ ممکن ہے ان کے لئے یہ عام احتمال ہے کہ انہوں نے عدل کا دامن چھوڑ دیا ہواولاد کے سلوک میں پھر بھی احسان فرمایا.تو محمد رسول اللہ اللہ جو خدا کے بعد سب سے بڑے محسن اعظم تھے ان کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ ماں باپ کیا چیز ہیں اگر تم نے ان سے بڑھ کر ان سے محبت نہ کی اور ان سے بڑھ کر ادب نہ کیا تو تمہیں پتہ ہی نہیں کہ ایمان کیا ہوتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نمائندگی میں جو امیر بنتا ہے، جو کسی ذمہ داری کو اٹھاتا ہے، اس کے ساتھ درجہ بدرجہ اس رنگ کا سلوک ہونا ضروری ہے.وہاں برابری کے جھگڑے نہیں ہوا کرتے وہاں احسان والا معاملہ کم سے کم ضروری ہے.چنانچہ آنحضرت نے اسی تعلق میں یہ فرمایا ومن عصی امیری فقد عصانی و من عصاني فقد عصى الله (مسلم کتاب الامارہ حدیث نمبر: 3416) جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی ہے اس نے میری نافرمانی کی ہے، جس نے میری نافرمانی کی ہے اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے.اب اگر کوئی امیر اٹھ کر یہ کہہ دیتا کہ دیکھو رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ حکم ہے اس لئے میری بات مانو مجھ سے بھی حسن سلوک کرو تو لوگوں نے کہنا تھا بڑا بنا پھرتا ہے رسول اللہ.تمہاری کیا بات ہے، تمہاری حیثیت کیا ہے؟ کہاں تم کہاں حضرت اقدس محمد مصطفی سید الاول والا خرما ، آپ کا مقام کہاں، تو کس باغ کی مولی ہے.کیا بات کر رہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے ادب کی تعلیم ہے میں بھی نمائندگی کر رہا ہوں اس لئے میرا بھی کرو.مگر وہ تو نہیں کہہ سکتا تھا محمد رسول اللہ ﷺ نے کہا ہے اور آپ نے اس مضمون کو جوڑ دیا ہے خدا کے ساتھ اور انکسار کا ایک عجیب مضمون ظاہر فرمایا ہے.فرمایا ہے اللہ نے جب میری اطاعت کا حکم دیا، اللہ نے جب مجھ سے پیار کا ارشاد فرمایا تو میری ذات تو کچھ بھی نہیں، وہی مضمون ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے، جس کی تلاوت میں پہلے کر چکا ہوں کہ احسان ہے جو چن لیا ہے مگر جب اللہ سے میں باندھا گیا تو پھر جو مجھ
خطبات طاہر جلد 14 735 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء سے کاٹا جائے گا وہ خدا سے کاٹا جائے گا اور جو امیر مجھ سے باندھا گیا ہے اس کی بھی خواہ کوئی بھی حیثیت نہ ہو جب وہ مجھ سے باندھا گیا تو اس سے باندھا گیا ہے جو خدا کے ساتھ باندھا گیا ہے.اس کے ساتھ اگر تم نے نا انصافی کی اور ظلم کیا اور اگر بفرض محال اس نے تم سے غیر عادلانہ سلوک بھی کیا ہو پھر بھی تم نے احسان کا سلوک نہ کیا تو تمہیں تو یہ حکم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابل پر ادنی تعلق والے ماں باپ سے بھی احسان کرو تو محمد رسول اللہ ﷺ کی نمائندگی میں جو شخص فرائض منصبی کو ادا کر رہا ہے اس کے سامنے باغیانہ سراٹھانا اور بدتمیزی کا سلوک کرنا اور عدل کے بہانے بعض دفعہ نظام جماعت کے خیر کے نام پر ایسی حرکتیں کرنا ہرگز خدا کے ہاں مقبول نہیں ہوسکتیں.وہ لوگ سمجھتے نہیں دین کو ، یہ اسی لئے فرمایا گیا ان کو ایمان کا پتا ہی نہیں.ایمان کے یہ سب تقاضے ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور یہ چیزیں صبر کے بغیر نصیب ہو نہیں سکتیں.ماں باپ کا حق بھی وہی ادا کرتے ہیں ، ان کی زیادتی کو بھی وہی حو صلے سے برداشت کرتے ہیں اور پھر بھی اکرام کی بات اور احسان کی بات کرتے ہیں جن کو صبر نصیب ہو.بے صبروں کو تو کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا.پس نظام جماعت کا حق بھی وہی ادا کر سکتے ہیں جن کو صبر نصیب ہو اور صبر کے بغیر نظام جماعت قائم ہو ہی نہیں سکتا اور اب یہ بات ہے جس پر میں خصوصیت کے ساتھ آپ کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں.جواندرونی امتحانات میں اپنے پیاروں ، اپنے عزیزوں ، اپنے بڑوں کی طرف سے پہنچنے والے ایڈا کو معاف نہیں کر سکتے ، جوان تکلیفوں پر صبر نہیں کرتے جو اپنے بڑوں سے ملی ہیں ان کو ، خواہ وہ تکلیفیں فرضی ہی کیوں نہ ہوں ان کو دنیا میں کسی کے مقابل پر حقیقت میں ایذاء رسانی کے وقت صبر کی توفیق نہیں مل سکتی.اگر ملتی ہے تو محض ایک فرضی اور بے معنی قصہ ہے وہ اس امتحان میں ناکام ہو گئے جو باریک راہوں کا امتحان تھا.اس لئے وہاں اگر کامیاب ہوئے ہیں تو اس کی کچھ اور مجبور یاں ہوں گی.بسا اوقات انسان اپنے خاندانی تعلقات کی وجہ سے، اپنے بچپن کے تعلقات یا رشتوں کی وجہ سے جس ماحول میں پرورش پائی ہے اس کے غلبے کی وجہ سے انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتا اس لئے جب تک بس چلتا ہے وہ صبر دکھاتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کی بڑی قیمت دینی پڑتی ہے اور وہ قیمت دنیاوی رشتوں سے قطع تعلق، دنیاوی تعلقات سے قطع تعلق، احمدی ماحول سے پلا ہے اس کی دوستیاں ، اس کے تعلقات ، اس کی رشتے داریاں ساری احمدیوں میں ہیں، وہ بڑے بڑے بے حیا ہی ہوتے ہیں جو ان کے باوجود پھر الگ ہو جاتے
خطبات طاہر جلد 14 736 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء ہیں اور الگ وہی ہوتے ہیں جو دراصل ان رشتوں کو پہلے ہی دھتکار چکے ہوتے ہیں یا جن کو ان رشتوں نے دھتکار دیا ہوتا ہے اس لئے آپ ارتداد کی تاریخ دیکھ لیں کوئی بھی اچھا بھلا معقول آدمی جو رستا بستا ہو وہ مرتد نہیں ہوا کرتا.اکثر مرتد ہونے والے وہ ہیں جن پر نظام نے پہلے ہی کوئی پابندی لگائی ہو، جن کے رشتے داران کی بدتمیزیوں کی وجہ سے ان سے بدظن ہو چکے ہوں ، آپس میں ان کے جھگڑے ہوں، لین دین کے معاملے میں وہ زیادتیاں کرتے رہے ہوں، اس کا رد عمل سخت دکھایا گیا ہو، ہمیشہ یہی لوگ ہیں جو ارتداد کا شکار ہوتے ہیں.مومن بننے والوں کے پس منظر میں یہ بات نہیں ہوتی.مومن بننے والے ایمان کی وجہ سے تعلقات سے کاٹے جاتے ہیں.پس یہ جو ان کا صبر ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ان کا صبر جن کے متعلق ہم یہ کہہ نہیں سکتے کہ اگر ان کے حالات ایسے ہوتے کہ اتنی بڑی قیمت نہ دینی پڑتی تب بھی یہ خدا سے وفا کے ساتھ وابستہ رہتے یہ جب تک آزمائش پڑ نہ جائے اور شاذ کے طور پر ایسی آزمائش پڑتی ہے، ان کے صبر کا کوئی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا.بظاہر امتحان میں پاس ہیں لیکن یہ بڑی راہوں میں پاس ہونے والے بعض دفعہ باریک راہوں پہ جا کے مارے جاتے ہیں اور وہی باریک راہیں ہیں جو میں آپ کو دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں.کہتے ہیں دشمن کے مقابل پر تو ہم سینہ سپر ہیں گولیاں کھا ئیں گے، جانیں قربان کریں گے مگر خدا کی نمائندگی میں کسی شخص سے جو مزاج کا محسن ہو، ہمیشہ اس نے حسن سلوک کیا ہواس سے کوئی کوتاہی ہو جائے ، اس سے کوئی غفلت دیکھیں جو ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، وہ سمجھیں کہ ہماری سبکی ہوگئی ہے، اس کے مقابل پر چھو کرے بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سینے تان کے کہتے ہیں تم نے یہ کیوں کیا، تم ہمیں جواب دو یہ بات کیوں ہوئی یا وہ بات کیوں ہوئی.یہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے والی بات ہے اور صابر آدمی یہ نہیں کر سکتا اور جو ایسا کرتا ہے وہ یادرکھے وہ الْمُتَوَكَّلُونَ کی فہرست سے کاٹ کے باہر پھینکا جاتا ہے.آئندہ کبھی اس کو خدا پر توکل کرنے کا حق نہیں ہوگا اور کبھی اس کی ضرورت پر خدا اس کے کام نہیں آئے گا.اس نے بے حیائی کی اور آزمائش کے وقت ناکام رہا اور بے وفائی کی اور محسنوں سے بدسلوکی کی کیونکہ خدا کی خاطر وہ امیر ہو یا غیر امیر ہو جو اپنے قیمتی وقت کو قربان کر کے خدا کی خدمت پر مامور ہے جبکہ وہ اپنے عیش وعشرت میں مبتلا رہتا ہے.کئی ایسے ان میں سے ہیں سراٹھانے والے جن کو میں جانتا ہوں ان کی زندگی ویڈیوز میں جو عیش و عشرت کی ویڈیوز
خطبات طاہر جلد 14 737 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء دیکھنے اور ٹیلی ویژن کے پروگرام دیکھنے میں صرف ہو رہی ہوتی ہے دین کی خدمت کی توفیق نہیں ملتی.مالی قربانی کا کہا جائے تو ہزار نفس کے بہانے ان کو گھیر لیتے ہیں کہ دیکھو جی ہمیں خدا نے دیا ہے.یہ لوگ جو ان کے نزدیک ادنی اور معمولی آدمی ہیں کوئی خاص توفیق نہیں ہے چار آنے انہوں نے اگر دے دیئے تو کیا فرق پڑتا ہے اور ہمارے Jelous ہو گئے ہیں، ہم سے حاسد ہو گئے ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں کہ جب تک ہمارے مال پر ہاتھ نہ ڈال بیٹھیں اس وقت تک ان کی انا کی طلب پوری نہیں ہوگی اس لئے خدا کی خاطر نہیں کر رہے یہ ویسے ہی ہماری دولت سے جلتے ہیں.اس قسم کے مخفی خیالات ہیں میں جانتا ہوں کہ کھلم کھلا یہ خیالات ان کے دماغ میں نہیں آتے.مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بصیرت بخشی ہے کہ میں انسانی فطرت کی باریکیوں تک اتر کر خدا کے عطا کردہ تقویٰ کی نظر سے دیکھتا ہوں اور تقویٰ کی آنکھ سے اگر دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.پس کسی کو ذاتی طور پر ماہر نفسیات ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ تقویٰ کی آنکھ سے دیکھے گا تو اندر کے سارے حال روشن دکھائی دینے لگتے ہیں جیسے باہر کی چھاتی اور باہر کا سر درمیان سے غائب ہو گئے ہیں ، دماغ کے خیالات پر نظر پڑ رہی ہے، چھاتی کے اندر ہونے والے جذبات پر نگاہ پڑ رہی ہے اس طرح صاف دکھائی دینے لگے ہیں، تو بیچ میں سے سوچتے ہیں کہ ہمیں تو خدا نے توفیق دی ہے اس لئے کہ ہم نے محنت سے کمایا ہے اور یہ شک کر رہے ہیں کہ ہم چندہ بچار ہے ہیں ، یہ اعتبار نہیں کرتے کہ جو ہم دے رہے ہیں یہ اس کے مطابق ہے.ہم نے ان کے ڈر سے دینا ہے، اللہ کے تقویٰ سے ہم دینا ہے اور تقویٰ کی باتیں امیر کے منہ پہ مارتے ہیں جو ان میں سب سے بڑا متقی ہوتا ہے، جس کی ساری زندگی اخلاص میں کئی ہوتی ہے.بڑھ بڑھ کر اس کے سامنے باتیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ انہوں نے اپنا انتقام لے لیا ہے نظام جماعت سے، ان غریبوں سے جن کو عہدے عطا ہوئے ان امیروں نے انتقام لے لیا جن کو عہدے نہیں ملے تھے جن کے تقویٰ کی نگرانی ان کے سپرد ہوئی تھی.یہ ساری وہ باریک راہیں ہیں جن میں ناکام ہونے والے زندگی کے ہر امتحان میں ناکام ہو جائیں گے.ان کی زندگی بھی نامرادی کی ہوگی ، ان کی موت بھی نامرادی کی ہوگی اور جماعت کو ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے.ماریشس نے بھی مجھ سے درخواست کی ہے کہ ان کے اجتماع کا اب اعلان کروں اور اسی
خطبات طاہر جلد 14 738 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء طرح ایک تو جماعت کا سالانہ جلسہ ہے پھر مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے جلسے تنزانیہ میں ہورہے ہیں پھر سپین کا گیارھواں جلسہ ہے.ان سب ممالک کو مخاطب کر کے میں خصوصیت سے یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ اندرونی طور پر اس وقت ایک ہونے کا وقت ہے.دشمن اذیت پہنچائے گا مگر صبر میں ایک دوسرے کے ساتھ کی ضرورت بھی پڑتی ہے.اللہ کا ساتھ ہو، مومنوں کا ساتھ ہو تو پھر صبر کا بڑا حوصلہ نصیب ہوتا ہے.وہ لوگ جو اپنی بدتمیزیوں اور کم حوصلگی کی وجہ سے نظام جماعت میں رخنہ ڈال دیتے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی دوسرے سر بھی تکبر سے اٹھنے لگتے ہیں وہ ایسا گہرا نقصان پہنچاتے ہیں جماعت کو کہ اس کے نتیجے میں جماعت کی عمومی ترقی پر اثر پڑ جاتا ہے کیونکہ اندرونی جھگڑوں میں مبتلا لوگوں کی اجتماعی قوت غیر معمولی طور پر کم ہو جاتی ہے.اس لئے نیک لوگ ہونے کے باوجود، اکثر بہت نیک ہونے کے باوجود، جہاں چند فسادی ایسی باتیں شروع کر دیں وہاں تو جہات بٹ جاتی ہیں وہاں سے برکتیں اٹھ جاتی ہیں.بعض دفعہ نیکی کے نام پر امیر سے سوال ہوتے ہیں مجلس عاملہ ہورہی ہے فلاں پیسے کا کیا بنا؟ فلاں پیسے کا کیا بنا؟ اول تو وہ جو Tone ہے بدتمیزی کی ہے اگر شک ہے کہ امیر دیانت دار نہیں ہے تو تمہارا کام ہے کہ مجھے توجہ دلاؤ.امیر کو عزت کے ساتھ ، احترام کے ساتھ جیسے شیشہ دیکھنے والے کو اپنی تصویر دکھاتا ہے، ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے نہیں، اس کو بتاؤ کہ مجھے ڈر ہے کہ اس قسم کے مالی حالات میں بعض لوگ بیمار طبیعتیں شک میں مبتلا ہوں گی ان کی اصلاح فرمائیے اور وضاحت کر دیں اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں اور اگر اس کے باوجود وہ تسلی نہ دلا سکے تو فرض ہے، صرف یہ شکایت نہیں رہے گی پھر یہ فریضہ ہے جماعت کی امانت کا کہ امیر کی معرفت آپ بالا افسران کو توجہ دلائیں کہ امیر کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے مالی معاملات میں اگر شبہات بھی پیدا ہو جائیں تو جماعت کو نقصان پہنچے گا.یہ جائز ہے اس میں کوئی بدتمیزی نہیں ہے، کوئی بداخلاقی نہیں ہے.مگر اگر نشانہ بنایا جائے اس کو تضحیک کا خواہ الفاظ تضحیک کے نہ بھی استعمال کئے جائیں، عاملہ میں اس کا وقار بر باد کر دیا جائے یا کھلی جماعت میں ایسے سوال کر کے اس پر شک کے سائے ڈالے جائیں جبکہ بسا اوقات اس وقت اس کو موقع ہی نہیں ہوتا کہ وہ تفصیل سے اپنا دفاع پیش کر سکے ، نہ اس کے لئے مناسب ہے کیونکہ یہ ایک تحقیر کی بات ہے، تذلیل کا سلوک کیا ہے.اس کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ کہے کہ آپ کی بات جو
خطبات طاہر جلد 14 739 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء مجھے پہنچائی گئی ہے میں خلیفہ مسیح کی خدمت میں پہنچادوں گا اور بتاؤں گا کہ مجھ پر یہ شک ہے اور میں مطالبہ کروں گا کہ میری تحقیق کروائی جائے اس سے بہتر جواب وہ کوئی نہیں دے سکتا.مگر وہ جماعت کے سامنے بار بار ہر الزام کی وضاحت کرنے کا نہ پابند ہے، نہ میں اس کو اجازت دوں گا کیونکہ اس سے امیر کا وقاراٹھ جائے گا.ہر دو کوڑی کا آدمی اٹھ کے لاکھوں کے الزام لگانے لگے گا اور بار باراس قسم کی باتیں اگر جماعت میں ہوں تو جماعت کے اندر عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے امیر کی حمایت میں اسی طرح کروں گا جس طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے امراء کی حمایت کی تھی ایک ذرہ بھی میں کسی قسم کے خوف میں مبتلا نہیں ہوں گا لیکن جماعت کی حمایت بھی اسی طرح کروں گا جس طرح حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے اپنے امراء کے مقابل پر ان کی حمایت کی ہے جن کی حق تلفی کا خطرہ پیدا ہوا.اس لئے تمہیں خوف کیا ہے؟ اگر امیر کے ساتھ عزت کا سلوک کرو گے تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے.اگر امیر کے متعلق یہ خطرہ محسوس کرتے ہو کہ اس نے تمہاری حق تلفی کی ہے تو اول تو احسان کا سلوک کرو جیسا قرآن نے حکم دیا ہے اور دوسرے تمہاری حق تلفی کا محافظ بھی خدا نے مجھے بنایا ہے جہاں تک مجھ میں طاقت ہے میں ہمیشہ یہی کرتا ہوں.کبھی میں نے کسی امیر کو اجازت نہیں دی کہ جماعت کے ساتھ بدسلوکی کرے یا اس کی حق تلفی کرے تو پھر آپ کو کیا خطرہ ہے.وہاں بد تمیزیاں کرنے کی بجائے، بجائے اس کے کہ اپنے ایمان کو ضائع کریں اور جماعت کے عمومی مفاد کو نقصان پہنچائیں اور صبر سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور صبر کے پھلوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں یہاں تک کہ خدا پر آپ کا تو کل نہ رہے اور خدا آپ کا وکیل نہ رہے اس کے بدلے یہ سیدھی سادھی ایمان کی صاف راہیں ہیں یہ میں آپ کو دکھا رہا ہوں.ان سب جماعتوں کو میری یہی نصیحت ہے کہ ان پر عمل کریں.تنزانیہ کے متعلق اتنا ضرور کہوں گا آخر پر کہ تنزانیہ کی جماعت میں اللہ کے فضل سے وہ انقلاب بر پا ہونا شروع ہو چکا ہے جس کے متعلق میں مشرقی افریقہ کو بار بار ہدایت دیتارہا ہوں ابھی تک ماریشس سے اس انقلاب کی خوشبو نہیں آئی.مگر وہ جماعت ، وہ ملک جہاں کبھی سال میں بھی دو تین سو سے زیادہ بیعتیں نہیں ہوتی تھیں.اب انہوں نے پوری ہدایت پر عمل کر کے کام جو شروع کیا ہے تو ہزار ہا بیعتیں پہلے مہینے ہی میں ہو چکی ہیں ان کی اور یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے اور اس بہانے سے میں
خطبات طاہر جلد 14 740 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995ء باقی جماعتوں کو بھی تحریص کر رہا ہوں کہ اب وقت بہت تھوڑا ہے.دو مہینے تو گزر گئے ہیں اور ہم نے کام دگنے سے زیادہ کرنے ہیں اس لئے ان نیک جماعتوں کی مثال پر پھر یہی کہوں گا تو کل کرتے ہوئے ،صبر کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں اللہ آپ کے تو کل کو کبھی پھلوں سے محروم نہیں فرمائے گا بلکہ ہمیشہ جیسا کہ پہلے کرتا رہا ہے آپ کے تو کل کو آپ کی توفیق آپ کی استطاعت سے بڑھ کر پھل لگائے گا.اللہ ہمیں ہمیشہ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 14 741 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء عرش مخلوق نہیں بلکہ خدا کی صفت ہے.يحملون العرش کی عرفان تشریح ( خطبه جمعه فرموده 6 اکتوبر 1995 ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.الَّذِيْنَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ رَبَّنَا وَ اَدْخِلْهُمْ جَنَّتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ أَبَابِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيَّاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيَّاتِ يَوْمَذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (المومن : 8 تا 10 ) پھر فرمایا:.یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ المومن آیات آٹھ تا دس ہیں.ان سے متعلق کراچی سے ایک نوجوان نے مجھے لکھا ہے کہ اس مضمون کے سمجھنے میں کچھ اشتباہ ہے اور چونکہ آپ پہلے بھی صفات باری تعالیٰ سے متعلق جو خطبات کا سلسلہ جاری کئے ہوئے تھے اس لئے اگر اس کو بھی
خطبات طاہر جلد 14 742 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء اس میں داخل کر لیں تو ہوسکتا ہے کئی لوگوں کی الجھن دور ہو جائے.اس لئے میں نے ان آیات کا انتخاب آج کے خطبہ کے لئے کیا ہے مگر اس سے پہلے یہ دواعلانات ہیں.ایک تو مجلس انصار اللہ کینیڈا کا دسواں سالانہ اجتماع کل 7 اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے جو تین دن جاری رہے گا اور 9 اکتوبر کو بروز سوموار یہ اجتماع ختم ہو گا.دوسرے ناروے کا جلسہ سالانہ ہو رہا ہے اور چونکہ ان کا اصرار تھا کہ میں خود وہاں پہنچ کر اس جلسے میں شمولیت اختیار کروں اور یہاں کی مصروفیات کے باعث مجھے مجبوراً اس پیشکش کو رد کرنا پڑا یعنی اس کو قبول نہ کر سکا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آج اسے خطبہ میں ان کا بھی کچھ ذکر ہو، ان سے بھی کچھ مخاطب ہوں.جہاں تک انصار اللہ کینیڈا کا تعلق ہے یہ انصار اللہ کینیڈا کی مجلس، کینیڈا کی عمومی تصویر سے کچھ مختلف نہیں ہے.کینیڈا ایک قسم کے تضادات کا مجموعہ ہے.بعض پہلوؤں سے خدا کے فضل سے نمایاں خوبیاں بھی موجود ہیں اور بعض پہلوؤں سے کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جو احمدیت کے آج کل کے موسم کے شایان شان نہیں ہیں.اگر خزاں کے موسم میں پتے زرد ہوں تو ہر درخت کے پتے زرد ہوتے ہیں ہاں اگر کچھ اجنبی بات معلوم ہوتی ہے تو یہ کہ کوئی درخت سرسبز بھی ہوتے ہیں اور بہار میں اگر درختوں کے پتے زرد ہو جائیں تو یہ اجنبی بات ہے.جماعت کینیڈا مخلص ہے، مالی قربانی میں بھی پیش پیش ہے، عموماً ان کے اندر اصلاح کا جذبہ بھی ہے، اجتماعی کاموں میں شوق سے حصہ لیتے ہیں مگر تبلیغ کی طرف نہیں آتے.ایک آدھ آدمی کے سپر د کام کیا اس سے بھی اس رنگ میں کوتاہیاں ہو گئیں کہ اس کے بنائے ہوئے آدمی جماعت کو بالعموم قبول نہ رہے کچھ بنیادی خامیاں دکھائی دی گئیں اور اس کے بعد معاملہ ختم حالانکہ دنیا کی سب جماعتوں میں تبلیغ کے لحاظ سے اتنی بیداری ہے کہ وہ زمینیں جو بالکل بنجر دکھائی دیتی تھیں ان میں بھی نشو ونما شروع ہوگئی ہے.اس لئے میں نے کہا کہ بہار کا موسم ہے اور اس موسم میں خزاں اجنبی دکھائی دیتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی توقعات کے بالکل برعکس ہے.آپ تو فرماتے ہیں: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں ( در شین : 50) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر آج تمام دنیا کی جماعتوں کی تصویر بنا ہوا
خطبات طاہر جلد 14 743 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء ہے اور یہ تصویر ان کی ذات میں زندہ ہوگئی ہے.پاکستان جیسے ملک میں جہاں احمدیت کے خلاف مظالم کی حد ہوگئی اور تبلیغ کی راہ میں ہر ممکن روک کھڑی کر دی گئی وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی شعر صادق آ رہا ہے کہ: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں تو وہ کینیڈا کا بوستاں کیوں سب سے الگ ہے یہ قابل فکر بات ہے.ان کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئے.اگر ایک صحت مند وجود میں ایک چھوٹا سا بھی نقص ہوتو وہ نمایاں دکھائی دیتا ہے.اس لئے اگر دوسرے پہلوؤں سے بے چاری کمزور، مری پٹی جماعت ہوتی تو شاید یہ بات اتنی نمایاں دکھائی نہ دیتی کیونکہ بعض جھاڑ ایسے ہیں، بعض درخت ایسے ہیں بہار کے موسم میں بھی جن کا رنگ زرد ہی ہوتا ہے بے چاروں کا اور اس کو اردو میں اس طرح مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کسی نے پوچھا میاں روتے کیوں ہو تو اس نے کہا میری شکل ہی ایسی ہے.بعض بے چارے پودوں کی شکل ہی خزاں رسیدہ ہوتی ہے.اگر ایسی بات ہوتی تو میں نمایاں طور پر محسوس نہ کرتا.ان کی شکل تو ایسی نہیں جیسا وہ بن کے دکھا رہے ہیں.ہاں بعض جماعتوں میں جہاں آغاز ہے تربیت کا ابھی پوری طرح بیداری نہیں ہوئی وہاں ہر طرف زردی کے آثار ہیں مگر یہاں سبزی کے بیج میں زردی بہت ہی بری دکھائی دیتی ہے.ایسا داغ ہے جو اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے.اس لئے میں جماعت کینیڈا کو اور مجلس انصار اللہ کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کچھ ہوش کریں اگر جلدی اس بیماری کو دور نہ کیا تو یہ بیماریاں پھر پھیلنے لگتی ہیں اور خاص طور پر ایسے موسم میں جب سب دنیا کے مزاج سے الگ ایک مزاج بنالیا گیا ہو تو اس وقت یہ بیماری بعض دوسری خوبیوں کو بھی کھا جاتی ہے اس لئے فکر کرنی چاہئے.جلد از جلد اپنی صحت کی طرف توجہ دیں.ایک دو کی بحث نہیں ساری جماعت کو تبلیغ کے میدان میں جھونک دینے کا وقت آ گیا ہے اور اس کے پھر جو تازہ شیریں پھل ملیں گے وہ ساری جماعت کے لئے زندگی کا موجب بنیں گے.وہ روحانی لحاظ سے پھل ہیں یعنی ان کو ویسے تو نہیں کھا سکتے آپ.مگر وہ پھل ایسے ہیں جن کی شیرینی کا لطف تو اٹھا سکتے ہیں.ان کی خوشبو، ان کی لذت سے فیض یاب ہو سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جماعت میں ایک نئی تازگی
خطبات طاہر جلد 14 744 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء پیدا ہو جاتی ہے، نیا حوصلہ آتا ہے.جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے دعوت الی اللہ کے کام کئے ہیں ان کے مردے بھی جی اٹھے ہیں.وہ لوگ جن کے متعلق جماعت کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ان میں کوئی روحانی زندگی کے آثار ہیں.بس سانس پر زندہ تھے مگر کوئی ایسے آثار نہیں تھے جس سے ان میں حرکت دکھائی دے، ان سے توقعات کی جاسکیں.مگر جور پورٹیں آتی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ جہاں جہاں بھی کوئی داعی الی اللہ بن گیا ہے اس کی کایا پلٹ گئی ہے اور یہی حال ہے جرمنی میں خدا کے فضل سے وہ بے چارے جو تربیت کے لحاظ سے بہت ہی پسماندہ اور محتاج تھے، ایسی جماعتوں سے آئے تھے جہاں لمبے عرصے سے ان کی تربیت نہیں کی گئی یا کی گئی تو انہوں نے اس کو رد کر دیا، جب داعی الی اللہ بنے ہیں تو ان کی کایا ہی پلٹ گئی ہے خدا کے فضل سے.اپنے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں جن پر ان کی نظر ہے پھر ان کے لئے بھی کرتے ہیں جو ان کی جھولی میں پھل کے طور پر گرادیئے گئے.پس بہت ہی قابل فکر بات ہے جماعت کینیڈا کو اس میں خاص توجہ دینی چاہئے.اور انصار اللہ کی تو عمر ایسی ہے کہ اب اس کے بعد پھر دوسری دنیا کا سفر ہی ہے نا.اکا دکا تو اطفال بھی اٹھ جاتے ہیں اور خدام بھی اٹھ جاتے ہیں.مگر بطور جماعت کے انصار کے پرلی طرف کوئی اور جماعت نہیں ہے جس میں شامل ہو جائیں گے.اطفال کی جماعت بڑی ہوتی ہے، خدام میں داخل ہو جاتی ہے.ناصرات کی جماعت بڑی ہوتی ہے لجنہ میں چلی جاتی ہے.خدام کی جماعت بڑی ہوتی ہے انصار اللہ میں داخل ہو جاتی ہے.انصار کی جماعت ہزار سال کی بھی ہوگی تو اگلی دنیا میں جائے گی.تو بحیثیت جماعت ان کا انجام دوسری دنیا کے سفر میں ہے.تو جہاں دوسری دنیا کا سفر بالکل صاف سر پر کھڑا دکھائی دے رہا ہو، وہ سٹیشن ہی وہی ہے جہاں آگے گاڑی ٹھہرنی ہے، تو پھر اور زیادہ فکر کی ضرورت ہے.ایسے وقت میں تو انسان کو اگر ساری عمر میں کچھ نہیں بھی کیا تو کوشش کرنی چاہئے کہ کچھ اتنی کمائی کرلے کہ خدا کے حضور حاضر ہو تو کچھ پیش تو کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرماتے ہیں: اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر به بند زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند (در تشین فارسی :279)
خطبات طاہر جلد 14 745 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے کہ اے بے خبر قرآن کی خدمت پر اپنی کمرکس لے ” زاں پیشتر اس وقت سے پہلے کہ بانگ برآید کہ آواز سنائی دے، ایک آواز بلند ہو ”فلاں نماند وہ نہیں رہا، وہ نہیں رہا یعنی اس دنیا سے اٹھ گیا ہے.تو انصار اللہ کی عمر تو یہ یہ بانگیں سننے کی عمر آ گئی ہے جو ان کے جانے کے بعد دوسروں کو سنائی دے گی.مگر اگر اچھے کام یہاں کر لیں گے، خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے محنت کریں گے، کچھ زادراہ بنالیں گے تو آسمان سے بھی تو ایک بانگ اٹھے گی جہاں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا یا يَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارجعي إلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةَ ( الفجر: 28 - 29)اے میرے مطمئن نفس یعنی میری ذات سے مطمئن ہونے والے پیارے آجا، لوٹ کے میری طرف آجا رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً تو مجھ سے راضی ہے میں تجھ سے راضی ہوں.تو دو قسم کی بانگیں ہیں جو بہر حال انجام کے وقت سنائی دیتی ہیں.ایک جانے والوں کے لئے پیچھے اٹھتی ہے اور ایک جانے والوں کے استقبال میں آسمان سے اترے گی.تو اس آواز کے لئے کیوں اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے اور پھر ایسا تیار کریں کہ جن کو آپ اپنی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں خدا کا قرب عطا کرنے میں ایک بہانہ بن چکے ہوں وہ آپ کی یاد میں ہمیشہ آپ کو دعائیں دینے لگیں.محض فلاں نماند کی آواز میں نہ اٹھیں بلکہ یہ آوازیں اٹھیں کہ کاش وہ رہتا اور ہم چلے جاتے.وہ ایسا پاک وجود تھا کہ اس کے جانے سے خلا ނ پیدا ہو گیا ہے.پس انصار اللہ خواہ کینیڈا کے ہوں خواہ دنیا میں کسی جگہ کے ہوں ان کو خصوصیت کے ساتھ اس اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بحیثیت جماعت وہ ایک مرنے والی جماعت ہے یعنی مادی طور پر مرنے والی مگر اس طرح مریں کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو چکے ہوں تو تب ان پر موت آئے.مر کے جانا یعنی ہمیشہ کی موت کو قبول کر لینا یہ کوئی شعور کی بات نہیں عقل کی بات ہے، یہ بہت نقصان کا گھاٹے کا سودا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ انصار اللہ دنیا میں ہر جگہ میرے اس پیغام کو غور سے سنیں گے، سمجھیں گے اور اپنے اندر اور اپنے میں سے جو کمزور تر ہیں ان کے اندر نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.
خطبات طاہر جلد 14 746 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء اور سب سے اچھا زندگی پیدا کرنے کا ذریعہ دعوت الی اللہ ہے.دعوت الی اللہ کام ایسا ہے کہ جو دونوں طرف نفع بخش ہے.جو بلاتا ہے اس کو بھی زندہ کرتا ہے، جس کو بلایا جاتا ہے وہ بھی زندہ ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ سب سے زیادہ زندہ کے سپرد یہ کام کرتا ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا کہ یہ بلانے والا جب بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو اس کی آواز پر لبیک کہا کرو.پس زندگی یعنی روحانی زندگی ایک ایسی عظیم چیز ہے کہ جب یہ عطا کی جاتی ہے تو جس کو عطا کی جاتی ہے اس کی طرف سے عطا کرنے والے کو بھی ایک فیض ملتا ہے وہ اور بھی زیادہ زندہ ہو جاتا ہے اور جو زندہ ہو وہی زندگی بخش سکتا ہے غیر زندہ کو تو فیق نہیں ملتی.پس وہ لوگ جو محنت کرتے ہیں اور پھل نہیں پاتے جب وہ دعائیں کرتے ہیں، فکر کرتے ہیں ان کے اندر تربیت کے لحاظ سے بھی ایک مربی بیدار ہو جاتا ہے، ایک دعائیں کرنے والا بزرگ ان کے نفس میں سے پیدا ہوتا ہے اور ہر پہلو سے وہ پہلے سے زندہ تر ہونے لگتے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں جماعت مجموعی صرف انصار اللہ ہی نہیں آج کے اس دور کے اہم ترین تقاضے کو پورا کریں گے اور دعائیں مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو تبلیغ کے میدان میں جھونک دیں گے.جہاں تک ناروے کا تعلق ہے ناروے کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن ترقی پذیر ہے اور ہر پہلو سے ایسی ترقی کر رہی ہے کہ جس سے دل کو حقیقی خوشی پہنچتی ہے.دعوت الی اللہ کا کام بھی جاری ہے اگر چہ اتنا زیادہ نہیں جتنا دوسری خوبیوں میں جماعت ناروے آگے بڑھ چکی ہے مگر اپنی توفیق اور حیثیت کے لحاظ سے خدا کے فضل سے بہت سی جماعتوں سے نسبتا آگے ہیں اور یہ روح دن بدن نمایاں ہو رہی ہے.زیادہ احمدی جو پہلے تبلیغ کر رہے تھے ان میں مزید کے اضافے ہو رہے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت ناروے کو بھی باقاعدہ منظم طریق پر اب یہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کون ہے جو دعوت الی اللہ میں حصہ نہیں لے رہا.ایسا آدمی اگر بیمار ہے، کمزور ہے یا ایسی خاتون ہیں جن کے بس کی بات نہیں یا ایسے آنے والے ہیں جو بڑی عمر میں پاکستان سے آئے اور ان کو زبان نہیں آتی ، کوشش کرتے ہیں تو بھی نہیں آتی ، اس گروہ کو بھی اگر خصوصیت سے منتظم کر کے دعاؤں پر ان کو مامور کیا جائے کہ تم نے دعائیں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کا بھی حصہ ہو گا.پھر اگر اور زیادہ عقل سے کام لیں تو دعاؤں کے بعد یہ سوچیں کہ ہر آدمی براہ راست
خطبات طاہر جلد 14 747 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء تبلیغ میں ملوث نہ بھی ہو تو تبلیغ کی تیاری کے سلسلے میں پیچھے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے.یہ تو ایک جہاد ہے اور جہاد میں یہ مضمون ایسا ایک لازمی مضمون ہے کہ وہ لوگ جو مذہبی نقطہ نگاہ سے جہاد کو نہیں بھی سمجھتے ، فوجی نقطہ نگاہ سے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو فو جیں ہیں ان میں لڑنے والا سپاہی باقی فوج کی تعداد کی نسبت کم ہوتا ہے اور ایک بڑی تعداد ایسی ہے ان میں جولڑنے والے سپاہی کے لئے تیاری کر رہی ہے.کچھ گولہ بارود بنانے میں مصروف ہیں جو فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں وہ بھی تو ایک فوج کا حصہ ہیں.کچھ وہ ہیں جو ان ڈپوؤں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں فوج کی ضرورت کے سارے سامان اکٹھے کئے جاتے ہیں، حسب ضرورت تقسیم کئے جاتے ہیں.کچھ میڈیکل کو رز ہیں جو ان کی صحت کا خیال رکھنے والے ہیں.کچھ سپلائی کے محکمے ہیں جن کے صرف یہ کام ہیں کہ ڈپو سے سامان لیں اور حسب ضرورت ہر ایک کو بر وقت چیز مہیا کرتے رہیں.موٹر ٹرانسپورٹس ہیں، کئی قسم کے کام ہیں اور سائنسی نقطہ نگاہ سے ایسے انجینئرز کی ضرورت ہے جو جنگی ضرورتوں کے وقت کام آ سکیں اور ان کو تجربہ ہو کہ جنگی ضرورتوں کی انجینئر نگ کے فرائض کیسے سرانجام دیئے جاتے ہیں ان سب کو آپ ملا لیں تو لڑنے والے سپاہی کی تعداد کم ہو جائے گی اور ان کی زیادہ ہو جائے گی.مگر یہ سب سپاہی ہیں.یہ بے وقوفی ہے یہ سمجھنا کہ باقی تو چھوٹے موٹے دوسرے کاموں میں مصروف ہیں.اصل سپاہی تو وہ ہے جو اپنی فوج کی مجموعی طاقت کے لئے خدمت سرانجام دے رہے ہیں.وہ سب کے سب سپاہی ہیں.پس ایسا بھی تو کام ہے جماعت میں جہاں لٹریچر کی تیاری کے لئے ضرورت ہے دن رات ویڈیوز کے انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، یہ سارے وہی کام ہیں جن کی میں اشارہ بات کر چکا ہوں تو روحانی اور مذہبی جہاد میں بھی بکثرت ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو پیچھے بیٹھ کر کام کر رہے ہیں.جیسا کہ ایم ٹی اے میں مصروف کارکن ہیں.بعض ایسے ہیں جو دن کا بڑا حصہ اپنے دوسرے مشاغل کے علاوہ ایم ٹی اے کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں اور آدمی حیران رہ جاتا ہے دیکھ کر کہ ان کو دوسرے کاموں کے لئے وقت کہاں سے ملتا ہے تو کوئی یہ کہے کہ یہ تبلیغ نہیں کر رہے یہ تو بڑی بے وقوفی ہوگی.آپ سب کی تبلیغ میں مددگار کے طور پر ان کا ایک بڑا حصہ ہے.پس اسی طرح جماعت کے بہت سے دوسرے ادارے ہیں جو تبلیغی کام کرتے ہیں.تربیتی لحاظ سے بھی ، مہمان نوازی کے
خطبات طاہر جلد 14 748 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء لحاظ سے بھی بہت سے دوسرے ادارے ہیں جو تبلیغی کام کرتے ہیں.تربیتی لحاظ سے بھی ، مہمان نوازی کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ضرورتیں ہیں ، کھانے کا انتظام جو فوجوں کے ساتھ چلتا ہے ایک بہت بڑا شعبہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنگر کو جماعت احمدیہ کے مقاصد میں پانچواں حصہ قرار دیا ہے.یعنی فتح اسلام کے لئے جو منصو بہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا اور جس منصوبے کو مختصر کتابچے میں لکھا تو اس کا نام ” فتح اسلام “ رکھا اس میں اس کارخانے کی پانچویں شاخ اور برابر کی حصے دار مہمان نوازی کو قرار دیا ہے اور لنگر خانہ اس کا نام رکھا ہے تو میں جانتا ہوں.جہاں جہاں بھی داعی الی اللہ کا میاب ہیں وہاں خدا کے فضل سے بسا اوقات گھر بیٹھے ان کی بیویاں بھی برابر کی حصہ دار ہوتی ہیں کیونکہ وقت بے وقت وہ زیر دعوت لوگوں کو گھر پر بلاتے ہیں.گھر سے بد خلقی کا سلوک ہو بیوی ان سے لڑے کہ تو نے یہ کیا مصیبت ڈال دی ہے اگر آواز میں اور بچوں کا شور باہر جائے تو وہ آنے والا تو گھبرا کر نکل جائے گا.مگر ایسی عورتیں بھی ہیں خدا کے فضل سے جو دن رات محنت میں اپنے خاوند کا ساتھ دے رہی ہیں ، مالی قربانی میں بھی ، کھانے پکانے کی محنت ، خوش اخلاقی سے آنے والوں کے دل جیتنا یہ سارے کام ہیں.تو بس دعوت الی اللہ صرف پیغام پہنچانے کا نام نہیں ، پیغام پہنچانے کے لئے فضا سازگار کرنا، اس کی تمام ماحولیاتی ضروریات پوری کرنا، ہر قسم کی خدمتیں جو دعوت الی اللہ کرنے والوں کو طاقت عطا کرتی ہیں، ان کے کام میں مد ہوتی ہیں، یہ سب دعوت الی اللہ کے کام ہیں.پس اس پہلو سے اگر جماعت ناروے ان لوگوں کو منظم کرے جو زبان نہیں جانتے ، جن میں اور بعض ایسی کمزوریاں ہیں کہ وہ میدان عمل میں جا کر خود تبلیغ نہیں کر سکتے تو آپ کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہو جائے گی.اب وہ جانتے ہیں کیونکہ ایک ایسی بات ہے جس میں وہ باقی دنیا کے لئے نمونہ بن گئے.قرآن کریم کے ترجمے کا مسئلہ تھا وہ خاتون جنہوں نے پہلے ترجمہ شروع کیا تھا نارویجین تھیں انہوں نے کچھ دیر کے بعد اس سے ہاتھ اٹھا لئے اور کہا یہ میں نہیں اب کروں گی اور اس مشکل کے وقت میں نے ناروے کی جماعت کو کہا کہ چیلنج ہے آپ کی نئی نسل کے بچے خدا کے فضل سے ایسے ہیں جنہوں نے نارو بکن زبان میں نارو بجز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور امتیازی سر ٹیفلیٹس ان کو ملے ہیں اور ان کے اساتذہ حیران رہ گئے ہیں کہ غیر قوموں سے آئے اور ہماری زبان میں ہمارے بچوں کو پیچھے چھوڑ
خطبات طاہر جلد 14 749 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء گئے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسے ہیں جن کو اردو بھی یاد ہے.ان کے ماں باپ نے اردو کی نسبت سے بھی ان کی تربیت کی ہوئی ہے.تو آپ کے پاس مواد موجود ہے خواہ عمریں چھوٹی ہوں، ان کی ٹیمیں بنائیں اور انہوں نے پھر خدا کے فضل سے اللہ امیر صاحب کو جزا دے کہ جو بھی کام کہا جاتا ہے فورا سر گرم عمل ہو جاتے ہیں.اپنی تعلیم جیسی بھی ہومگر جو اطاعت کا جذبہ ہے وہ ایسا نمایاں ہے کہ ایک سیکنڈ دیر نہیں لگنے دیتے.ادھر پیغام ملا ادھر وہ کام شروع کر دیا تو انہوں نے دیکھتے دیکھتے ٹیمیں بنالیں اور اس تیزی سے وہ ترجمہ ہوا کہ میں حیران رہ گیا.مجھے یہ خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ ترجمہ بالکل نکمہ ہی نہ ہو جو اس قدر تیز ہو گیا ہے تو یہاں کی چوٹی کی کمپنی کو جب اس کا نمونہ بھیجا تو انہوں نے کہا کہ بہترین ترجمہ ہے ایک نقص بھی ہم نہیں نکال سکے.تو یہ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اب یورپ میں ہمیں وہ نئی نسلیں عطا کر دی ہیں جن کو وہاں کی زبان انہیں لوگوں سے سیکھنے کی توفیق ملی ہے جس طرح ان کے بچوں نے سیکھی ویسے انہوں نے سیکھی اور اردو بھی آتی ہے بہتوں کو انگریزی بھی آتی ہے اور ہماری بڑھتی ہوئی لٹریچر کی ضرورتیں جن کے متعلق فکر رہتا تھا کہ اب کیسے پوری ہوں گی اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے دیکھتے دیکھتے ہماری کوششوں کے بغیر خود بخود پوری کر دیں اور پھر ان کے دلوں پر قبضہ کر لیا.یورپ میں پلنے والی نئی نسلوں کا اپنے آپ کو اس طرح پیش کر دینا جس طرح تمام یورپ میں جب بھی کہا گیا ہے احمدی بچوں اور بچیوں نے پیش کیا ہے اس کی مثال آپ کو دنیا میں دکھائی نہیں دے سکتی.یہاں تو پلنے والے بچے اپنے گھروں کے نہیں رہتے ، اپنے ماں باپ سے اجنبی ہو جاتے ہیں کجا یہ کہ مذہب کے نام پر جو اس زمانے میں ایک قدیم سی بات سجھی جاتی ہے ان کو بلایا جائے اور ذوق شوق سے آئیں اور سنیں کہ لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں تو بغیر بلائے بھی آنے شروع ہو جائیں.خط لکھیں ، اصرار کریں کہ ہم بھی تو ہیں، ہمیں بھی تو خدمت کا موقع دو.پس اس پہلو سے اب کوئی بھی ایسی آواز نہیں ہے جو اٹھائی جائے اور اس کے جواب میں لبیک لبیک کی آوازیں نہ آئیں.یہ بھی تو اللہ کا فضل ہے جو آسمان سے اترا ہے.یہ بھی اس بہار کا حصہ ہے جس کا میں نے ابتداء میں ذکر کیا تھا کہ بہار کا موسم آ گیا ہے اٹھو اٹھو، اب وہ خزاں کی باتیں پیچھے چھوڑ دو.پس جہاں خدا کے فضل سے پہلے سے بہار ہے اس میں مزید تر و تازگی کی گنجائش تو ہمیشہ
خطبات طاہر جلد 14 750 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء رہتی ہے.اس لئے ناروے کی جماعت کو چاہئے کہ دعائیں کرے، استغفار کرے اور ایک پہلو کی طرف خصوصیت سے توجہ کرے کہ بعض دفعہ خدمت دین کرنے والے خدمت دین کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ اپنی نادانی ، نا مجھی کی وجہ سے بنیادی باتوں سے غافل ہو جاتے ہیں.مثلاً نماز با جماعت ہے، نماز کا ترجمہ ہے، قرآن کریم سے محبت اور اس کی تلاوت ہے، بنیادی دینی اخلاق ہیں.تو کئی دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے یہاں ابھی میرے سامنے ایسی باتیں آئیں لیکن پاکستان میں بسا اوقات جب میں صدر مجلس تھا مجھے شکایات آتی تھیں کہ اچھی مجلس عاملہ ہے جو باہر نماز کھڑی ہوئی تھی اور یہ اپنے دفتر میں مجلس عاملہ بن کے بیٹھے ہوئے تھے.ان کو میں نے ڈانٹا، میں نے کہا جس مقصد کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو، جس مقصد کو بطور خاص سنبھال رکھا ہے اس کو بھلا کر تم کیا خدمت سرانجام دو گے، کسی ایسی مجلس کی ضرورت نہیں ہے.نماز کے قیام کا مذہب کی تعلیم میں سب سے نمایاں حصہ ہے.یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا ہے جہاں خدا تعالیٰ نے خود سہولتیں مہیا فرمائی ہیں اجتماعی طور پر جماعت ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتی ہے.جب اجتماعی باتیں ہوں سفر کے دوران یا ویسے بعض ضرورتیں ہوں جہاں خدا نے اجازت دی ہے کہ نمازیں جمع کرو وہاں جماعت نمازیں جمع کرنے کو برانہیں سمجھتی.مگر ایک نظام کے تحت کام ہوتا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ جماعت کھڑی ہو جائے اور کچھ لوگ کہیں ہم مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بیٹھے ہوئے ہیں.ان کا فرض ہے کہ ہر کام چھوڑ کر جب عبادت کے لئے آواز آئے تو اس کے لئے حاضر ہوں اور اجتماعی طور پر باجماعت نماز ادا کریں.سوائے اس کے کہ نظام جماعت ان کو کسی کام پر مقرر کرے اور ایسی صورت میں بھی نماز با جماعت کے بعد ان کو پھر با جماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.وہ لوگ جو کارکن ہیں ان کے لئے ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ ان کو بعد میں اکٹھا ایک امام کے تابع نماز پڑھنے کا موقع مل جائے.تو ناروے کو میری نصیحت یہ ہے کہ اول تو جو اس وقت بے کار ہیں ان کو بھی کام میں لائیں اور اس طرف میں نے اشارے کر دیئے ہیں کیا کیا طریق ہیں اور دوسرا یہ کہ جو نو جوان خدمت کر رہے ہیں ان کی بنیادی تربیت کی طرف توجہ دیں اور یہ دیکھیں کہ اس خدمت کے ساتھ ساتھ وہ بحیثیت مومن خدمت کے شایان شان بھی ہیں کہ نہیں.ان میں ایمان کی صفات عمل کے ساتھ جلوہ گر
خطبات طاہر جلد 14 751 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء ہیں کہ نہیں.خالی ایمان اگر کوئی جلوے دکھاتا بھی رہے تو جب تک وہ عمل ساتھ نہ ہو جس کا قرآن کریم نے بطور شرط ذکر کیا ہے یہ ایمان کچھ دیر کے بعد مرجھا جائے گا.اس کو عبادت زندہ رکھتی ہے.الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) مومن وہ ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.یہ سادہ سی تعریف ہے مگر انسان زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت ناروے خصوصیت سے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دے گی کیونکہ اگر یہ کرے گی تو ان کی نیکیوں کو استقلال نصیب ہو جائے گا، ان کی نیکیاں دائمی ہو جائیں گی کیونکہ عبادت کرنے والے کی نیکیوں کی حفاظت عبادت کرتی ہے.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنکبوت:46) قرآن کریم نے جو صفات بیان کی ہیں نماز کی اور نمازی کی اس سے پتا چلتا ہے کہ سب تر بیتوں سے بڑھ کر تربیت یہ ہے کہ کسی شخص کو باجماعت نماز کا عادی بنا دیا جائے اور پھر نماز کے قیام میں یہ بات لازماً ہے کہ جو نماز پڑھتا ہے اس کو نماز کا ترجمہ بھی آتا ہوں، سوچ سمجھ کر پڑھے.اس مضمون میں جو نماز کے دوران پڑھا جاتا ہے تربیت کے بے انتہا مصالح موجود ہیں.وہ مصلحتیں جن کے پیش نظر خدا تعالیٰ نے وہ عبادتیں مقرر فرمائی ہیں وہ بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اگر آپ کو ان کا ترجمہ آتا ہو، ان کا مضمون سمجھتے ہوں، ان کے مضمون پر غور کرنے کی عادت پڑ جائے.تو پھر ان میں سے نئی نئی باتیں از خود پھوٹتی چلی جائیں گی، ہمیشہ کا رزق نصیب ہوگا، ایسا رزق جس میں نفاد نہیں، جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا.تو اللہ تعالیٰ سب دنیا کی جماعتوں کو ان دو نصیحتوں پر خصوصیت سے عمل کی توفیق بخشے جو ایک کینیڈا کو خصوصاً پیش نظر رکھ کر کی ہے اور ایک ناروے کو بالخصوص پیش نظر رکھ کے کر رہا ہوں.اب میں ان آیات کی طرف آتا ہوں اگر بقیہ وقت میں یہ بیان نہ بھی ہو سکیں تو انشاء اللہ اگلے خطبہ میں باقی مضمون میں ادا کروں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِيْنَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ وہ لوگ جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں وَمَنْ حَوْلَهُ اور جو اس کے اردگرد ہیں يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِرَ بھم وہ سب اپنے رب کی حمد کرتے ہیں اور حمد تسبیح کے ساتھ کرتے ہیں یا تسبیح حمد کے ساتھ کرتے ہیں.تسبیح سے مراد یہ ہے کہ اس کو ہر نقص سے پاک بیان کرتے ہیں اور کچی گواہی دیتے ہیں.نظر رکھنے کے بعد یہ بیان دیتے ہیں کہ ہمارا رب ہر نقص سے پاک ہے.جس جس
خطبات طاہر جلد 14 752 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء صفت کو جس طرح دنیا میں عمل پیرا ہوتے انہوں نے دیکھا وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کہیں بھی صفات الہی کی جلوہ گری میں کوئی نقص نہیں پایا یہ مضمون ہے تسبیح کا اور یہ بہت وسیع مضمون ہے اور اگر یہ مضمون نہیں تو تسبیح بالکل بے معنی ہے کیونکہ اگر آپ کسی شخص کے متعلق یہ اعلان کریں کہ وہ نقص سے پاک ہے اور آپ کو اس سے واقفیت ہی کوئی نہ ہو اور آپ نے زندگی کا بہت تھوڑا حصہ اس کے ساتھ گزارا ہو ، اکثر نا واقف ہوں، اس کی عادتوں کا علم نہ ہو، اس کے ماحول کا علم نہ ہو، دنیا کی عدالت بھی اس کو رد کر دے گی ، اس گواہی کو قبول نہیں کرے گی.پس اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ بعض لوگوں کی گواہی اپنے حق میں پیش کر رہا ہو اور وہ گواہ جھوٹے ہوں یا لاعلم ہوں.پس ان مومنوں کی گواہی ہے جو اپنے دعوے میں خالص ہیں انہوں نے واقعہ تمام زندگی صفات باری تعالیٰ کی جلوہ گری کو دیکھا ہے اور جہاں بھی دیکھا ہے نقص سے پاک دیکھا ہے.وہ میں الَّذِینَ.بِحَمْدِرَ بھم اور پھر نقص سے پاک ہی نہیں دیکھا بلکہ ہر نقص کے مقابل پر جو مد مقابل صفت حسنہ ہے، ایسی خوبی ہے جو مثبت معنے رکھتی ہے اس کو بھی جلوہ گر دیکھا ہے.اگر ایک شخص کے متعلق کہا جائے کہ وہ بد نظری نہیں کرتا تو یہ ایک پہلو سے نقص سے پاک ہونے کا اعلان ہے مگر اس کی نظر اور اچھے کاموں میں اگر استعمال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کا مشاہدہ محبت اور پیار سے نہ کرنے والی ہو ، اس کو پتا ہی نہ ہو کہ خدا کس طرح جلوہ گر ہوا ہے تو اس کے متعلق یہ گواہی بالکل ہی ناقص اور معمولی گواہی ہوگی.مگر اگر وہ بد نظر سے پاک ہو اور حسن نظر رکھتا ہو تو پھر اس کی نظر میں ایک عجیب شان پیدا ہو جاتی ہے.یہی مضمون ہے يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِم وہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہیں، نظر ڈالتے ہیں اور بالکل سچی گواہی دیتے ہیں، عینی گواہ کے طور پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.کہتے ہیں جہاں ہماری نظر گئی ہے ہم نے کبھی بھی صفات باری تعالیٰ میں کوئی نقص نہیں دیکھا اور اس کے برعکس تو در کنار ہمیشہ خدا تعالیٰ کی صفات کو مثبت، خوبصورت، دلکش، مفید عام صفات کے طور پر جلوہ گر دیکھا ہے.یہ گواہی دینے والے ہیں جن کے متعلق فرمایا وہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں.وَيُؤْمِنُونَ بِہ اور وہ اس پر ایمان لاتے ہیں.اب یہ دلچسپ انداز ہے اس آیت کا کہ پہلے یہ گواہی دی ہے بعد میں فرمایا ہے وَيُؤْمِنُونَ بِے ایمان پہلے نہیں کہا گواہی پہلے دی ہے.جو سوال کرنے والا تھا اس کا سوال تو
خطبات طاہر جلد 14 753 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء یہ تھا کہ عرش کیا چیز ہے اور اس کے حوالے سے ہمیں بتائیں کہ کیا مطلب ہے عرش کو اٹھانا.یہ تو میں بیان کروں گا انشاء اللہ لیکن اس آیت پر ایسی نظر ڈالنا تو لازم ہے تا کہ آپ اس کو اچھی طرح الٹ پھیر کر دیکھیں کہ کیا کہنا چاہتی ہے، اس میں کیا کیا خاص باتیں ہیں جو قابل توجہ ہیں.تو ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایمان کا پہلے ذکر نہیں فرمایا بعد میں فرمایا ہے.اس موقع پر اس میں ایک خاص حکمت ہے.اگر ایمان پہلے ہو تو انسان اس کو برائیوں سے پاک ہی سمجھتا ہے.جو اپنا پیر ہے اس پر تفصیلی نظر ڈالی ہو یا نہ ڈالی ہولوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ہر برائی سے پاک ہی ہے، ہر خوبی کا مالک ہے اور اکثر دنیا میں ایمان کی یہ حالت ہے بے چاروں کی کہ جن باتوں پر ایمان لاتے ہیں یا جن رسولوں پر بھی ایمان لاتے ہیں ان کی عظمت تو بہت ہے دل میں لیکن ایمان کی وجہ سے ان کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، خوبیاں دیکھ کر بیان نہیں کرتے.ایمان کی وجہ سے برائیوں سے پاک اور ان کی عصمت کے قائل ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان کی عصمت پر انگلی اٹھائے تو اس انگلی کو کاٹ دیں گے بلکہ بعض دفعہ اسے بھی قتل کر دیتے ہیں مگر پتا ہی نہیں کہ عصمت ہے کیا چیز.پس وہ مومن اور ہیں جوایمان کی خاطر اپنے پیاروں کی یا ان کی جن کے حق میں وہ ایمان لاتے ہیں گواہیاں دیتے ہیں کہ ہ ہر نقص سے پاک ہیں ، ہر خوبی کے مالک ہیں.مگر اللہ جن کی بات کر رہا ہے یہ بہت عظیم لوگ ہیں.فرمایا ہے ان کی نظر بہت ہی گہری اور وسیع ہے اور وہ دیانت داری کے ساتھ کامل یقین اور شہادت کے اصولوں پر پورا اترتے ہوئے یہ گواہی دیتے ہیں اور دیتے رہتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی ذات میں اس کی صفات کی جلوہ گری میں کبھی کوئی نقص نہیں پایا اور نقص کی بجائے ہمیشہ خوبیاں دیکھی ہیں.یہ گواہی دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيُؤْمِنُونَ بِہ ان کا ایمان دیکھو کس شان کا ایمان ہوگا.اس کو حق الیقین کہا جاتا ہے.وہ ایمان جو آگ کی گرمی محسوس کر کے پیدا ہوتا ہے.وہ ایمان جو ٹھنڈا پانی پینے والے کو اس کی خوبیوں میں آتا ہے وہ ایمان اور طرح کا ہے اور ٹھنڈا پانی پیتے وہ دیکھا جائے کسی کو وہ ایمان اور ہے.تو یہ حق الیقین لاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو بخشش طلا کرنے کا حق عطا ہوتا ہے.اب اللہ تعالیٰ یہ نہیں بیان فرما رہا کہ وہ اپنے لئے بخشش مانگتے ہیں.وہ تو مانگتے ہی ہیں یہاں ان کا عظیم تر مرتبہ بیان ہو رہا ہے.فرمایا وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُواوه بخشش مانگتے ہیں ان کے لئے جو ایمان لائے ہیں اور ایمان لانے والوں میں صرف یہ گواہ
خطبات طاہر جلد 14 754 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء نہیں ہیں اور بھی ہیں.کچھ کمزور ہیں، کچھ نسبتا مضبوط ہیں، طرح طرح کے ایمان لانے والے ہیں اور ان کو ان کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ ان کے لئے بھی بخشش کی دعا مانگی جائے.ان بے چاروں کو کہیں اپنی لاعلمی کی وجہ سے نقصان نہ پہنچ جائے، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے وہ خدا کی بخشش سے محروم نہ رہ جائیں.تو ان پر دوسروں کی فکر غالب آ جاتی ہے.اس سے یہ بھی پتا چلا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا استغفار اور اس استغفار کی کثرت دراصل ان سب کے لئے تھا یعنی ان کی کثرت اس لئے تھی کہ وہ استغفار ان سب کے لئے تھا جن کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ پر ڈالی گئی تھی.پس اس پہلو سے میں اب اس دعا کو یہاں ابھی چھوڑتا ہوں.واپس جاتا ہوں عرش کے مضمون کی طرف.يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ سے کیا مراد ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں کہ وہ اسے اٹھائے.اگر عرش پر جلوہ گر ہے، عرش پر جانشین ہے تو جو اسے اٹھائے گا گویا انہوں نے خدا کو اٹھایا ہوا ہے.آپ نے فرمایا قرآن کریم تو بار بار فرماتا ہے کہ خدا نے ہر چیز کو اٹھایا ہوا ہے.کوئی چیز بھی نہیں ہے جو خدا کے اٹھائے بغیر اٹھی رہ سکے تو اس کو کس نے اٹھانا تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ ، استدلال کے ساتھ یہ ثابت فرمایا ہے کہ عرش تو مخلوق ہے ہی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر قسم کی تخلیق کا ذکر کرتا ہے وہاں عرش کا ذکر نہیں کرتا اور تخلیق کے بعد عرش پر جلوہ گری کا ذکر فرماتا ہے اور ہمیشہ سے جلوہ گر ہی ہے عرش پر.تو کیا اس نے اپنی سیٹ خود بنائی تھی ؟ اور اگر نہیں بنائی تھی تو اس کی طرح دائمی ہے تو دونوں پھر دوام میں ایک دوسرے کے شریک ہو گئے.اسی لئے تمام چوٹی کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عرش مخلوق نہیں ہے اور اس لئے مخلوق نہیں ہے کہ صفت ہے ایک اور صفات مخلوق نہیں ہوا کرتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عرش کے مضمون کو خوب کھولا ہے اور یہاں يَحْمِلُونَ الْعَرْش سے آپ کو سمجھ آجانی چاہئے کہ عرش سے مراد کیا ہے یہاں.وہ خدا کے مومن بندے جو اللہ تعالیٰ کے غلبے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، اپنی تمام طاقتیں پیش کر دیتے ہیں اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے ان کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہ وہ حمل ہے جس کی بات ہو رہی ہے.پس وہ دعا جو آپ کرتے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 755 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ( البقرة: 287) اس کی سمجھ آئی کہ اس سے مراد عرش کا اٹھانا ہے.اے خدا ہم تیرے عرش کو اٹھانے والے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ تیری صفات کو اپنے اوپر بھی جلوہ گر کریں اور تمام دنیا میں ان صفات کو نافذ کر دیں، ان صفات کا عرفان بخشیں اور انسانوں کی رگ و پے میں وہ صفات دوڑنے لگیں، یہ ہماری تمنا ہے یہ ہم سے توقعات ہیں.پس طاقت کے مطابق ہم سے یہ کام لے اور جس حد تک ہم میں وسعت ہے تیرے عرش کو اٹھانے کی اسی حد تک یہ بوجھ ہم پر ڈال.پس سب سے بڑا عرش کو اٹھانے والا وجود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود تھا.اس لئے وہ ترجمہ کرنے والے جو یہاں فرشتے ترجمہ کرتے ہیں اور بہت سے علماء اور چوٹی کے بزرگوں نے بھی یہ ترجمہ کیا ہوا ہے وہ اس لئے کرتے ہیں کہ بعض دوسری جگہ بھی فرشتوں کے حوالے سے عرش کو اٹھانے کا مضمون بیان ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے حالانکہ وہاں بھی فرشتوں کا ذکر نہیں ہے.اصل عرش اٹھانے والے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ساتھی ہیں کیونکہ خدا سب سے زیادہ آنحضرت کے دل پر جلوہ گر ہوا ہے.کوئی دنیا کا انسان، باشعور انسان علم کے بعد اس کا انکار نہیں کر سکتا.یہ کوئی ایسی بات نہیں جس میں فرقوں کا اختلاف ہو بلکہ ہر مذہب والا جب وہ غور کرے گا قرآن کریم پر اور دیکھے گا کہ جس طرح خدا کی صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اس کا عشر عشیر بھی دوسری الہی کتب میں نہیں ملتا اور جس تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور جس تفصیل سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ان پر روشنی ڈالی اور خود اپنی ذات میں جاری کر کے ان کو دکھایا یہ مضمون اسلام جیسا کہیں کسی دنیا کے خطے میں کسی مذہب میں دکھائی نہیں دیتا.تو اصل حمل عرش سے مراد خدا تعالیٰ کی صفات کو جاری کرنا اور ان کا مظہر بننا ہے اور اسی لئے الَّذِينَ سے پہلے جو مضمون ہے وہ ان انسانوں کی بات ہورہی ہے جو خدا کے پیغام کور د کر دیتے ہیں اور ان کے مد مقابل وہ انسان بیان ہوئے ہیں جو خدا کے پیغام کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ اس کا مظہر بن جاتے ہیں اور سب سے زیادہ ذمہ داری اس کی ادا کرتے ہیں.یہ جو آیات ہیں سورہ المومن سے لی گئی ہیں اور اس کی پہلی آیت حق ہے.اس میں شروع میں بیان ان لوگوں کا ہے جنہوں نے انبیاء کا انکار کیا.صفات باری تعالیٰ کے بیان کے بعد پھر ان کا ذکر شروع کرتا ہے پس جو عرش بعد میں
خطبات طاہر جلد 14 756 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء آئے گا اس کا تعلق صفات سے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حصہ یہ وہ قرآن کی آیات ہیں جو خدا کی حمد بیان کرتی ہیں اور اس کا مسجد بیان کرتی ہیں اس کی بزرگی کے جلوے دکھانے والی آیات ہیں.غَافِرِ الذَنْبِ (المؤمن: 4) وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے.وَقَابِلِ التَّوبِ اور تو بہ کو قبول کرنے والا ہے شَدِیدِ الْعِقَابِ جب پکڑتا ہے تو بہت سخت پکڑ ہے اس کی ذِی الطولِ اور اس کی پہنچ بہت ہے، اس کی وسعتوں کی انتہا کوئی نہیں اور ذی الطَّولِ میں بخشش کا بے پناہ ہونا بھی اس میں موجود پایا جاتا ہے.پر ذِي الطَّولِ کا جو ترجمہ مصلح موعودؓ نے کیا ہے وہ ہے بڑا احسان کرنے والا، الول میں دراصل اس کی وسعت، اس کی عظمت اس کی رحمتوں کی انتہا یہ ساری چیزیں آ جاتی ہیں.اس لئے ذنب کے مضمون کے بعد فرمایاوہ مغفرت تو کرنے والا ہے لیکن بے دھڑک بھی نہ ہو جانا.یہ نہ سمجھ لینا کہ چونکہ مغفرت کرنے والا ہے اس لئے بے دھڑک ہو کر جسارتیں کرنے لگو کیونکہ جب وہ پکڑتا ہے بہت سخت پکڑتا ہے.اس کی پکڑ سے پھر کوئی چیز کسی وجود کو بچا نہیں سکتی لیکن یاد رکھنا کہ پکڑ کا مزاج غالب مزاج نہیں ہے.جو غالب مزاج ہے وہ پس ذی الطولِ ہے، بہت ہی کریم ہے، بے انتہا خوبیوں کا مالک اور احسان کرنے والا.پس طول کے لفظ میں ہر قسم کی صفات کی وسعتیں آجاتی ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے.اِلَيْهِ الْمَصِيرُ مگر یا درکھنا لوٹ کر اس کی طرف جانا ہے.پس اس مضمون کے بعد پھر فرمایا کہ جو اہل علم ہیں اہل عقل ہیں، وہ جرات نہیں کرتے کہ اس کے نشانات کا انکار کریں.مَا يُجَادِلُ فِي آیتِ اللهِ إِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوا (المومن: 5) صرف کافر ہی ہیں جو پھر اس کی صفات میں بحث کرتے ہیں.اس کے متعلق بے ہودہ نا مناسب باتیں کرتے ہیں اور پھر اپنی طرف سے اپنے حق میں دلائل بھی پیش کرتے ہیں.یہ وہ ہیں جو جدال کرنے والے لوگ ہیں.فَلَا يَغُرُرُكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ وہ دنیا میں ایسے لوگ دوڑے پھرتے ہیں آزادانہ جو چاہیں کرتے پھریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تجھے یہ بات دھو کے میں مبتلا نہ کر دے کہ یہ لوگ غالب ہیں، یہ آزاد ہیں، اپنی من مانیاں کرنے والے ہیں، ان کو وسعتیں عطا ہوئی ہیں، جس ملک میں جائیں جو چاہیں پرو پیگنڈا کریں.فرمایا یہ بات تجھے دھوکے میں مبتلا نہ کر دے کیونکہ اس سے پہلے جن جن لوگوں نے جھٹلایا ہے ان کا انجام دیکھ کہ کیا ہوا.فرمایا كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ
خطبات طاہر جلد 14 757 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء والْأَحْزَابُ (المومن:6) اس سے پہلے نوح کی قوم نے بھی جھٹلایا تھاؤ الْأَحْزَابُ اور کئی قسم کے گروہ اور جتھے تھے جنہوں نے جھٹلا دیا تھا جو حضرت نوع کے بعد آئے.مِن بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ اور ہر امت نے ہر قوم نے جس کی طرف رسول بھیجا گیا ہے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیاؤ هَمَّت پورے ارادے کے ساتھ ، پورے عزم کے ساتھ یہ فیصلہ کر لیا.لِيَأْخُذُوهُ وَجَدَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيدْ حِضُوا بِهِ الْحَق کیا عزم کر لیا، کیا ارادہ لے کر اٹھے تا کہ وہ اس کو پکڑلیں اور رسول سے وَجدَلُوا بِالْبَاطِلِ باطل کے ذریعے جھوٹ کے ذریعے اس کے ساتھ سخت لڑائی شروع کر دیں ان کی ساری باتیں جھوٹی ہوتی ہیں جب وہ انبیاء کا اور حق کا مقابلہ کرتے ہیں.اب آپ دیکھ لیں روزانہ قرآن کریم کی اس آیت کی گواہی میں پاکستان کے اخبارات " بھرے پڑے ہوتے ہیں اور یہاں کا ”جنگ بھی اور یہاں کے اخبارات جن میں ان لوگوں کی رسائی ہے ہر خبر جو احمدیت کے متعلق دیتے ہیں اس میں جھوٹ کی ملونی ضرور ہوتی ہے.کہیں قسمت سے کوئی سچی بات منہ سے نکل جائے تو ساتھ جھوٹ شروع کر دیتے ہیں.میں نے آج تک احمدیت کے کسی مخالف کو کلیہ سچا نہیں پایا.اکثریت ایسی ہے جو بھاری تعداد میں اکثر جھوٹ بولتی ہے اور احمدیت کے ذکر میں تو جھوٹ لگتا ہے ان کو ماں کے دودھ کی طرح لگتا ہے ، وہ اس کے بغیر پل ہی نہیں سکتے.تو قرآن کریم نے دیکھو کتنا سچا بیان دیا ہے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹ پر پنپتے ہیں.ان کے ہتھیار جھوٹے ہوتے ہیں.ان کی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں اور یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے حق کو مٹانا ہے جھوٹ کے ساتھ ، کوئی پاکستان کا ہو یا پاکستان سے باہر ہو، ذی شعور ہو، اس میں انصاف کا مادہ ہو، اگر وہ دیکھے کہ ہمارے مد مقابل ہمارے خلاف کس طرح جھوٹ بولتے ہیں تو صرف یہی بات احمدیت کی صداقت کا قائل کرنے کے لئے اس کو کافی ہونی چاہئے اور قرآن کریم کی عظمت کا بھی اس کو قائل ہونا چاہئے کہ فرمایا یہ ایک دائمی دستور ہے اس میں تم کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے مٹانے کے عزم کے ساتھ جھوٹ کا عزم شامل ہو جاتا ہے اس کے بغیر ان کا گزارہ ہی کوئی نہیں لیدُ حِضُوا بِهِ الْحَقِّ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعے حق کو مٹادیں بھلا ہو سکتا ہے کہ جھوٹ حق پر غالب آ جائے.
خطبات طاہر جلد 14 758 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء فرماتا ہے فَأَخَذْتُهُمْ انہوں نے نبیوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس سے پہلے ان کو دبوچ لیا.ایک آدمی کسی کی طرف دوڑا جار ہا ہو اس کو پکڑنے کے لئے اوپر سے ایک ہاتھ اترے اور گردن سے پکڑ کے، دبوچ کے اس کو اٹھا کے ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دے یہ نقشہ ہے جو قرآن کریم کھینچ رہا ہے فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ انہوں نے کیا پکڑ کرنی تھی دیکھو میری پکڑ کیسی تھی کسی شان کی اور کیسی فیصلہ کن پکڑ تھی وَكَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ اَصْحَبُ النَّارِ (المومن : 7 ).یہ وہ مضمون ہے جس کو اگر وہ پڑھیں اور غور کریں تو ان پر یقیناً یہ بات تیرے رب کی یہ بات کھل جائے گی جنہوں نے کفر کیا کہ وہ لازماً جہنمی لوگ ہیں کیونکہ یہ عادتیں جہنمیوں کی ہیں کہ سچائی کے مقابل پر جھوٹ بولیں اور جھوٹ کو سب سے بڑا ہتھیار بنا لیں.Main Stay ان کی ان کا اصل سہارا جھوٹ ہو جائے جس کے ذریعے وہ حق کا مقابلہ کرتے ہیں اور ایسے لوگ اگر ذرا بھی غور کریں تو ان کو سمجھ آنی چاہئے کہ ہم جو جھوٹ پر منہ مار رہے ہیں اس سے سچ کی خدمت کیسے ہو سکتی ہے اور رب کے کام کیسے جھوٹ کے ذریعے چلائے جا سکتے ہیں.یہ مضمون ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کو دکھلا سکتا ہے یہ بات ، ان پر روشن کر سکتا ہے کہ وہ جہنمی لوگ ہیں.اہل نارہی ہیں جو یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں.خدا کے بندے تو حق کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (ص: 4) وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ کا مطلب ہے سچ کہنے کی نصیحت کرتے ہیں، سچ بولنے کی نصیحت کرتے ہیں، سچا ہونے کی نصیحت کرتے ہیں مگر سچ کہہ کر ، سچ بول کر سچا بن کر.” جال“ لفظ نے یہ عجیب کرشمہ دکھایا ہے بیک وقت ایک ہی فقرے میں دونوں مضمون پوری طرح داخل کر دیئے.حق کی خاطر کام کرتے ہیں مگر حق طریقے سے.سچ بولنے کی نصیحت کرتے ہیں، سچ بول کر.بچے اعمال کی وصیت کرتے ہیں مگر سچے اعمال اپنی ذات میں پیدا کر کے.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو بالکل روشن کر دیا، خوب کھول دیا کہ ان پر یہ بات کھل جانی چاہئے تھی کہ حق کو اپنے لئے اپنی تائید میں کسی جھوٹے کی ضرورت نہیں ہے اور جس کو تم باطل بھی سمجھ رہے ہو اس کو بھی جھٹلانے کے لئے باطل کام نہیں آ سکتا اور حق تمہارے پاس ہے نہیں.تو کیسا کھلا کھلا فیصلہ ہے کہ تم لازما جہنمی لوگ ہو.یہ جہنمیوں کی عادات ہیں سمجھتے کیوں نہیں.
خطبات طاہر جلد 14 759 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء ان کے بعد یہ فرمایا الَّذِينَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ کیسی بات کھول دی ہے.ان کے مقابل پر مومنون ہیں اور مومنوں کی جماعت کے سردار حضرت اقدس محمد رسول اللہ.انہوں نے وہ ساری ذمہ داریاں اٹھالی ہیں جو سچائی کو دنیا میں روشن اور غالب کرنے کے لئے اٹھانی ضروری ہیں.پس عرش سے مراد خدا تعالیٰ کی وہ صفات حق ہیں اور وہی صفات ہیں جو دراصل مومن اپنی جان پر، اپنے دل پر اٹھاتے ہیں اور مومن کا دل وہ عرش بن جاتا ہے جس پر خدا جلوہ گری کرتا ہے.اس کا جو اگلا حصہ ہے وہ انشاء اللہ میں آئندہ خطبے میں بیان کروں گا اب وقت گزر چکا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 760 خطبہ جمعہ 6 اکتوبر 1995ء
خطبات طاہر جلد 14 761 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء عرش پر قرار پکڑ نا مقام تنزہ کی طرف اشارہ ہے تا ایسا نہ ہو کہ خدا اور مخلوق و با ہم مخلوط سمجھا جائے، رسول کریمر کا قلب عرش الہی ہے.خطبه جمعه فرموده 13 اکتوبر 1995ء بمقام نام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : وَتَرَى الْمَيْكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الزمر: 86) پھر فرمایا:.اور تو اس دن ملائکہ کو دیکھے گا کہ وہ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ عرش کے چاروں طرف ، اس کے ارد گرد خدا تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کر رہے ہوں گے وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ اور جن کا فیصلہ کیا جانا ہے ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا وقیل الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اور یہ کہا جائے گا کہ تمام تعریف رَبِّ الْعَلَمِينَ ہی کی ہے.خالصہ اسی کی ہے ہر سچی تعریف، تمام تر تعریف تمام جہانوں کے رب کی ہے.اس آیت کریمہ میں بھی عرش کا ذکر ہے اور اس سے پہلے جو میں نے گزشتہ خطبے میں آیت تلاوت کی تھی اور ایک اور آیت کا حوالہ دیا تھا اس میں بھی عرش الہی کا ذکر ملتا ہے لیکن کسی آیت کریمہ میں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ فرشتوں نے عرش اٹھایا ہوا ہے اور یہ خیال مفسرین کی وجہ سے یا بعض ایسی
خطبات طاہر جلد 14 762 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء حدیثوں کی وجہ سے راہ پا گیا جو بہت بعد کے زمانہ میں اکٹھی ہو ئیں اور ادنی سے غور سے بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ وضعی احادیث ہیں ان کا حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے کوئی تعلق نہیں.ہر وہ صلى الله حدیث جو خود آپس میں بھی متضاد ہو اور قرآن کے مضامین سے بھی ٹکراتی ہو وہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتی.پھر ہر وہ حدیث جس کی جڑیں Greek Mythology میں ملتی ہوں یعنی یونانی فلسفہ اور ان کے مصنوعی خداؤں کے تصور میں ملتی ہوں صاف پتا چلتا ہے کہ وہ تصور رفتہ رفتہ اسلام میں راہ پاگئے اور بعض علماء نے اس تصور پر مبنی بعض لوگوں کی من گھڑت حدیثوں کو قبول کرلیا اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں.جواحادیث قطعی مثلاً بخاری میں ملتی ہیں یا اور مستند کتب میں ہیں ان میں ان باتوں کا اشارةُ بھی ذکر نہیں ملتا جو آخری زمانے کی ایسی احادیث میں جو مثلاً حدیث کی کتب میں ہی نہیں بلکہ وہ ایک تاریخ کی کتاب میں ملتی ہیں جس کا مصنف اس تاریخ کا سات سوسال بعد پیدا ہوا ہے یا تفسیر میں ملتی ہیں، ایسی تفسیر میں جو بہت بعد کے زمانے کے علماء کی تفسیریں ہیں یا ایسی حدیثوں کی کتب میں ملتی ہیں جن کا مصنف یا مؤلف چار سو سال بعد رسول اللہ ﷺ کے ، چار سو جمع کچھ سال کے بعد فوت ہوتا ہے اور ایسی حدیثوں کی بھر مار پیچھے چھوڑ گیا ہے جو اسلام میں کثرت کے ساتھ فتنے کا موجب تو بن سکتی ہیں نور کے پھیلانے کا موجب نہیں بنتیں کیونکہ وہ تمام احادیث اپنے اندر گواہی رکھتی ہیں کہ من گھڑت باتیں ہیں.نہ قرآن سے ان کا تعلق ہے نہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے ان کا کوئی تعلق ہے.ان احادیث کے چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھ کر پر قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریحات کے حوالے سے اس مضمون کو مزید کھولوں گا.بحواله در منشور للسیوطی، اب سیوطی کی کتاب جو سیوطی ہیں مؤلف یا مصنف، یہ علامہ جلال الدین سیوطی آنحضرت مے کے 849 سال بعد پیدا ہوئے ہیں اور 849 بعد اور بعض حدیثیں درج کر رہے ہیں جن کی کوئی بھی مستقل سند ایسی نہیں ہے جس کا رسول اللہ ﷺ تک پہنچنا قطعی طور پر ثابت کیا جا سکے کیونکہ وہ حدیث جو 800 سال تک ڈوبی رہی ہے وہ اچانک اس تفسیر نگار کے ہاتھ کیسے آگئی اور اس سارے عرصے میں بڑے بڑے عظیم محد ثین گزرے ان کو کانوں کان تک خبر نہ ہوئی کہ یہ حدیث بھی دنیا میں موجود ہے اور انہی مصنفین نے اس قسم کی حدیثیں پیش کیں جن کا اعتماد صلى الله الله
خطبات طاہر جلد 14 763 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء ان کی احادیث کے مجموعے پر نظر ڈالنے سے، ایک دفعہ نظر ڈالنے سے ہی اٹھ جاتا ہے کیونکہ ایسے ایسے لغو جنوں بھوتوں اور پریوں کے قصے، ایسی متضاد باتیں جو تاریخ سے متصادم، عقل سے متصادم اور اتنے واضح اپنے اندر تضاد رکھتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے کے ایسے واقعات جو مثلاً حضرت یحیی کے زمانے سے بھی چار، پانچ سو سال پہلے کے واقعات گزرے ہیں ان کو حضرت بی کے زمانے میں دکھارہے ہیں.غرضیکہ ایسے کھلے واضح تضادات ہیں کہ ایک محقق کا فرض تھا کہ دیکھتے ہی ایسی تمام حدیثوں کو اندرونی تضادات کی رو سے ہی رد کر دیتا مگر اکثر ان بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ مرفوع ہے کہ نہیں.اب جو مصنوعی حدیثیں بناتا ہے وہ اس کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچانے میں بھی تو ملکہ رکھتا ہوگا ، اس کو مرفوع کر دینا تو اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں لیکن محض اصطلاح مرفوع ایسی ہاتھ لگ گئی ہے کہ ان لغویات پر اعتماد شروع کر دیا جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی طرف منسوب کرنا آپ کی گستاخی ہے.قطعی طور پر وہ محمد رسول اللہ ہے جو قرآن سے جلوہ گر ہوتے ہیں، قرآن سے اٹھتے ہیں ان کی طرف وہ حدیثیں منسوب ہو ہی نہیں سکتیں.میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں عرش کے تعلق میں.در منتثور میں حضرت مکحول.رضی اللہ لکھا ہوا ہے لیکن تابعی ہیں.حضرت مکحول تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عرش کو اٹھانے والے چار فرشتے ہیں.ایک فرشتہ صورتوں کی سردار صورت پر ہے یعنی انسان کی صورت پر اور ایک فرشتہ درندوں کے سردار شیر کی صورت پر ہے اور ایک فرشتہ چار پائیوں کے سردار بیل کی صورت میں ہے اور وہ یوم العجل یعنی بچھڑے کے معبود بنائے جانے کے دن سے اس وقت تک سخت غصے کی حالت میں ہے کہ میں بیلوں میں ہوں اور ایک بچھڑے کو معبود بنالیا گیا ہے، اس لئے میری سخت بے عزتی ہوئی ہے اور اس وقت سے اس کا غصہ اتر ہی نہیں رہا اس فرشتے کا اور ایک فرشتہ پرندوں کے سردار باز کی شکل میں ہے.(ابوالشیخ بحوالہ در منثور للسیوطی ،سورہ المومن زیر آیت نمبر 8) اب جس نے بھی دیو مالائی کہانیاں پڑھی ہوئی ہیں وہ فورا سمجھ سکتا ہے کہ یہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہو ہی نہیں سکتی.دیو مالائی کہانیوں کی پیداوار اس سے زیادہ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.مگر محدثین نے بے چاروں نے یہ بخشیں اٹھائی ہیں کہ یہ صحابی پر جا کے کھڑی
خطبات طاہر جلد 14 764 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء ہوتی ہے یا تابعی پر جا کے کھڑی ہوتی ہے.اصطلاحاً اس کو مرفوع کہا جا سکتا ہے کہ نہیں اور مرفوع کہہ کر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث قابل اعتماد ہوگئی.اب ایسی ہی ایک مرفوع حدیث عن ام سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ام سعد سے روایت ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ عرش ایک ایسے فرشتے پر ہے.چار فرشتے نہیں ہیں عرش کے، ایک ہی فرشتے نے اٹھایا ہوا ہے.ایک ایسے فرشتے پر ہے جو موتی سے بنا ہوا ہے اور مرغ کی شکل پر ہے.اب چونکہ یہ مرفوع بن گئی اس لئے مولوی انہی حدیثوں کے اوپر وعظ بناتے ہیں عجیب و غریب کہاوتیں پھیلا کر اسلام کا تصور ہی بگاڑ دیتے ہیں.پھر فرمایا اس کے پاؤں زمین کی نرم تہہ میں ہیں اور اس کے پر مشرق میں اور اس کی گردن عرش کے نیچے ہے.(ابن مردود یہ بحوالہ در منثور سورہ المومن زیر آیت نمبر 8) صلى الله اب بتائیے یہ کلام حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا ہو سکتا ہے؟ کوئی انسان جس کی سیرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نظر ہو، جس نے صحیح بخاری اور دوسری صحاح کتب کا مطالعہ کیا ہو اور آنحضرت ﷺ کی اس پاک سیرت پر نظر ہو جو قرآن پیش کرتا ہے وہ ایک لحظہ کے لئے بھی اس کو مان نہیں سکتا.اس سے بڑی گستاخی آنحضور ﷺ کی مکن ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی لغویات کو آپ کی طرف منسوب کیا جائے.اور ایک اور مرفوع حدیث جس کو محققین کہتے ہیں یہ مرفوع ہے عن ابن عباس حضرت ابن عباس سے روایت ہے.حضرت ابن عباس پر جو سب سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے وہ ان لوگوں کی طرف سے کیا گیا ہے جنہوں نے آپ کا نام بیچنے کے لئے وضعی حدیثیں آپ کی طرف منسوب کر دیں.وہ روایت کیا ہے؟ عرش اٹھانے والوں میں ہر ایک کے کندھے اور اس کے پاؤں کے تلوے کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت ہے.ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید ذکر کیا کہ اس فرشتے کا ایک قدم مشرق سے مغرب تک ہے.( عبد بن حمد ابن مردویہ والیقی حوالہ در منور للسیوطی ،سورہ المؤمن زیر آیت 8).اگر پانچ سوسال کی مسافت ہے پاؤں کے تلووں سے اور اس کے درمیان پھر قدم تو اس سے بھی بہت زیادہ ہو گا جتنی زمین پوری کی پوری ہے.لیکن ایک اور حدیث بھی سن لیں حضرت عبد اللہ بن عمر کی طرف منسوب ہے.انا الله و
خطبات طاہر جلد 14 765 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء انا اليه راجعون.وہ کہتے ہیں چار نہیں آٹھ ہیں اور یہ حدیث جس نے بھی بنائی ہے اس کی قرآن کریم کی ایک آیت پر نظر ہے جس میں آٹھ کا ذکر ملتا ہے.اگر چہ فرشتوں کا ذکر وہاں نہیں ہے.ابوالشیخ وابن ابی حاتم بحوالہ در منشور.کہتے ہیں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عرش کو اٹھانے والے آٹھ ہیں.ان میں سے ایک کے گوشہ چشم سے، آنکھ کے ایک کونے سے، اس کی آنکھوں کے پچھلے حصے تک پانچ سوسال کی مسافت ہے.(ابوالشیخ وابن ابی حاتم، بحوالہ در منور للسیوطی، سورہ المومن آیت 8).یہ دیو مالائی کہانیوں کو بھی مات کرنے والی باتیں ہیں اور پتہ نہیں کون سے مصنف تھے جو اس زمانے میں بیٹھے ہوئے ہیں.ان کے اور عقل کے درمیان کروڑوں سال کا فاصلہ تھا، یہ میں کہہ سکتا ہوں.فرشتوں کی آنکھوں اور پچھلے حصے میں تو پتا نہیں کتنا فاصلہ تھا مگر ان وضع کرنے والوں اور عقل کے درمیان کروڑہا میل کا فاصلہ ہوگا یہ کروڑ ہا Light Years کا فاصلہ قرار دیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا اور پھر ظلم کتنا کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف باتیں منسوب کر رہے ہیں.ایک حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہوئی ہے مگر یہ حدیث جو ہے ایک ایسی کتاب میں موجود ہے جو کتاب اپنے لحاظ سے وقعت رکھتی ہے اور اس میں اس کا پایا جانا بہت بڑا ظلم ہے.سنن ابی داؤد میں یہ حدیث آئی ہوئی ہے اور یہ درست ہے کہ صحاح میں بھی کئی دفعہ ایسی حدیثیں آئی ނ ہیں جن میں اندرونی شہادت اس بات کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کلام نہیں ہوسکتا.یہ بھی انہی میں.ایک ہے.حضرت جابر کی روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اذن ملا ہے کہ میں عرش اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں کچھ بتاؤں جس کے کانوں کی لو سے اس کے کندھوں تک سات سال کی مسافت ہے ( سنن ابی داؤد کتاب السنتہ باب فی انھیم ).اب فرشتوں کا سارا تصور ہی مکانی، مادی تصور اور ایسا عجیب و غریب تصور جو آپ کو یونانی دیو مالائی کہانیوں میں بھی نہیں ملے گا ان کا تصور بھی اس کے مقابل پر بہت محدود ہے.یعنی لو سے لے کر کندھے تک سات سو سال کی مسافت ہے.یہ ان لوگوں کی بنائی ہوئی حدیثیں ہیں جنہوں نے عرش کو اونچا کرنے کی کوشش کی ہے.وہ کہتے ہیں عرش الہی تو پھر بہت ہی اونچا ہو گا تو جن فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے ان کا بھی تو قد کافی ہونا چاہئے.یہ اس تصور کی پیداوار حدیثیں ہیں بالکل واضح طور پر اس سے تو غالب بہتر نکلا، اس نے تو یہ کہا ہے صرف کہ:
خطبات طاہر جلد 14 766 منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا دیوان غالب : 89) یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارا بنایا ہوا منظر ہے لیکن یہ ظلم کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف جن پر ایسی بیان کتاب اتری ہے.جس کی کوئی مثال الہی کتابوں میں دکھائی نہیں دیتی.قرآن میں پڑھ کر دیکھیں کہیں اس قسم کی واہیات باتیں اشارہ بھی موجود ہیں؟ لیکن باقی کتب میں بعد میں انسان نے کچھ باتیں داخل کر دیں مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت فرما کر ہمیشہ ہمیش کے لئے انسانیت کو فتنوں سے بچالیا ہے.جو بھی حدیث منسوب ہو اور قرآن کے تصورات سے ٹکراتی ہو، قرآن کی طرز بیان سے ٹکراتی ہو، قرآن میں مذکور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور آپ کی ذات سے ٹکراتی ہو وہ رد کرنے کے لائق ہے ہرگز وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام نہیں ہو سکتا.اب یہ حدیث جو ہے عبد بن حمید، یہ بھی در منشور ہی کا کارنامہ ہے اور ایک صحابی کی معرفت رسول اللہ ﷺ تک مرفوع کی گئی ہے.حضرت میسرہ سے روایت ہے کہ عرش اٹھانے والوں کے پاؤں زمین کی تہہ میں ہیں اور ان کے سرعرش کو پھاڑ کر نکلے ہوئے ہیں یعنی نعوذ باللہ من ذالک خدا جہاں جسمانی طور پر بیٹھا ہوا ہے اس کی پیٹھ تخت سے نہیں لگ رہی کیونکہ جو اٹھانے والے ہیں وہ اتنے لمبے تھے کہ پاؤں زمین کی تہہ میں لیکن قد عرش کو پھاڑ کر اوپر نکلے ہوئے ہیں اور انتہائی خشوع کی حالت میں ہیں.اپنی آنکھیں اوپر نہیں اٹھاتے.ساتویں آسمان والوں سے وہ سخت خوف میں ہیں اور ساتویں آسمان والے اپنے سے نچلے آسمان والوں سے شدید خوف میں ہیں اور اپنے سے نیچے آسمان والوں سے شدید خوف میں ہیں.( عبد بن حمید، بحواله در منثور، سورہ المومن زیر آیت 8) اوپر والوں کا خوف کوئی نہیں نچلوں کا ہی خوف ہے صرف اور یہ عجیب بات ہے کہ ساتو میں آسمان کے اوپر عرش ہے اس پر ان کو بٹھایا اور عرش سے اوپر سر نکال دیئے.یہ اس رسول کی طرف منسوب ہوا ہے جس کے متعلق قرآن گواہی دیتا ہے کہ آپ کے معراج کے ارتقائی سفر میں جو آپ کی روحانیت کا سفر تھا اس میں عرش سے پہلے آپ رک گئے ہیں اور آگے کسی کو مجال نہیں ہے.وہ عرش یعنی معنوی عرش جو تنز یہی عرش ہے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالوں سے میں کروں گا تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ خدا سے نور یافتہ انسان،
خطبات طاہر جلد 14 767 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء خدا سے تائید یافتہ مہدی کیا چیز ہے اور یہ علماء جن من گھڑت قصوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے.وہ کہتے ہیں وہ خوف میں ہیں اور سارے اپنے نچلے والوں سے ڈر رہے ہیں بڑا سخت.اور عرش پھاڑ کر اس بے چارے کا تو رہنے ہی کچھ نہیں دیا ، عرش کو تو پارہ پارہ کر دیا انہوں نے کسی چیز کو آپ پتلی تختی ہو یا کاغذ ہو کیلوں کے اوپر یوں گاڑ دیں جس طرح کیل باہر نکل آتے ہیں کہتے ہیں اس طرح ان فرشتوں کے سر عرش سے باہر آئے ہوئے ہیں.اور در منثور ہی کا ایک اور کمال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے ، صحابہ ذکر کی مجلس میں تھے.آپ نے فرمایا میں نہ تمہیں بتاؤں اللہ تعالیٰ کی شان کی باتیں.تو انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ آپ بتا ئیں تو آپ نے فرمایا عرش اٹھانے والوں میں ایک فرشتہ ہے جسے اسرافیل کہتے ہیں ، عرش کے کناروں میں سے ایک کنارہ اس کے کندھے پر ہے.اس کے قدم ساتویں زمین کی تہہ کو پار کر گئے ہیں.یعنی نیچے لٹک رہے ہیں قدم اور سر ساتوں آسمان کو پار کر گیا ہے اور یہ بھی تمہارے رب کی مخلوق میں سے ہے ( ابوالشیخ بحوالہ درمنثور ،سورہ المومن زیر آیت (۸).مخلوق لفظ نے ، باقی کہانی تو ویسے ہی لغو تھی مگر لفظ مخلوق نے تو اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا.تو جب تک خدا کا عرش نصیب نہیں ہوا جب تک یہ مخلوق پیدا نہ ہوئی کیونکہ عرش پر قرار اس کا دائمی قرار ہونا چاہئے مگر جو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ مخلوق ہیں.پس اگر وہ مخلوق ہیں تو ازل سے خدا بغیر عرش کے تھا جب تک یہ مخلوق پیدا نہ ہوئی اور ازل ایک ایسی چیز ہے جس کی انتہا کوئی نہیں اس کے دوسری طرف جتنا بھی آپ چلتے جائیں کوئی کنارہ ہی نہیں ہے.تو خدا ابد میں رہے تو رہے، ازل میں تو باقی نہیں رہتا پھر.غرضیکہ یہ وہ تصور عرش ہے جو ان کے تصورات کی انتہائی چھلانگ ہے.اور ایک اور در منثور کی حدیث سن لیجئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اجازت دی گئی ہے اب کہ میں ایک ایسے فرشتے کے بارے میں بتاؤں جس کے پاؤں ساتویں زمین کو بھی پار کر گئے ہیں اور عرش اس کے کندھوں پر ہے.یہاں تضاد جو ہے دوسری حدیث سے واضح ہے وہاں سر بھی پار کر گیا تھا لیکن یہاں عرش اس کے کندھوں پر ہے اور وہ اکیلا ہی ہے.وہ کہتا ہے تو پاک ہے، تو کہاں تھا، تو کہاں ہوگا.(ابو یعلی وابن مردویہ بحواله در منتو السیوطی سورہ المومن زیر آیت ۸).
خطبات طاہر جلد 14 768 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء بس یہ کلام ہے جو اس کی زبان سے جاری وساری ہے تو پاک ہے، تو کہاں تھا ، تو کہاں ہو گا.یہ جو تصورات ہیں ان ظلمات سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور امام مہدی نے اللہ کے نور سے نجات بخشی ہے.وہ نور عطا کیا جو خدا کے نور کے تصور کے لئے لازم تھا کیونکہ آنکھ نور کی طرح ہے جس کے بغیر آسمان کا نور دکھائی نہیں دے سکتا.جب تک عقلوں کو جلا نہ ملے ، جب تک عقلوں کو نور نہ عطا ہو آسمان کا نور بالکل بے کار اور بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ اندھا سورج کی روشنی کو دیکھ نہیں سکتا.اس لئے اپنی ذات میں تو وہ معنے نہیں کھوتا لیکن ہر اس شخص کے لئے بے معنی ہو جاتا ہے جو آنکھ کے نور سے یا اپنے فطری نور سے محروم ہو.پس اس قسم کے لوگوں نے اسلام کو دیکھا، اسلام کو بدنام کیا، ایسی تفسیروں میں یہ قصے راہ پاگئے جنہوں نے امت محمدیہ کو قصوں، کہانیوں کی امت بنا دیا.پس اب میں آپ کو دو احادیث صحیحہ جو بخاری سے لی گئی ہیں ان کے حوالے سے عرش کا تصور بتاتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر جو روشنی ڈالی ہے اس کے متعلق کچھ کہوں گا.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ قرآن کریم میں فرشتوں کے عرش کو اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا.بعض لوگ تعجب کریں گے کیونکہ تفسیر صغیر میں بھی بعض آیات کے ترجمے میں فرشتوں کے اٹھانے کا ذکر ملتا ہے.مگر جب اصل آیات دیکھیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ عبارتیں جو میں آپ کو پڑھ کے سناؤں گا ان پر غور کریں اور قرآن کریم کے جو حوالے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دیئے ہیں ان کو دیکھیں تو یہ ترجمہ درست دکھائی نہیں دیتا.یا معنوی ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکے.کوئی تفسیری محاورہ استعمال کیا گیا ہے اور حضرت مصلح موعودؓ بعض دفعہ ایسے ترجمے کرتے ہیں جن کا معنی آپ کو تو علم ہے لیکن پڑھنے والا اس سے کچھ اور اخذ کرسکتا ہے کیونکہ تفسیر صغیر خصوصیت سے چونکہ بیماری کے ایام میں لکھی گئی تھی اور اس کو خود براہ راست آپ کو دوسری تیسری دفعہ دہرانے کا موقع نہیں ملا.اس لئے ایسی چیزوں کا وہاں پایا جانا ہرگز بعید از قیاس نہیں لیکن حضرت مصلح موعودؓ کا ایک مقام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مقام ہے اور آنحضرت ﷺ کا ایک مقام ہے اور قرآن کا ایک مقام ہے.ان مقامات کے دائرے میں ہمیں نچلے مقام کو اوپر کے مقام پر فضلیت دینے کا ہرگز کوئی حق نہیں ہے.جو چاہے میرے اس اعلان پر اعتراض کرے مجھے خوشی سے قبول ہے مگر اگر مضمون نکرا تا ہوا دکھائی دے تو ادنیٰ مقام پر اعلیٰ مقام ضرور حاوی ہوگا اور لیکن اس کا یہ ہرگز
خطبات طاہر جلد 14 769 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء مطلب نہیں ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر نعوذ باللہ من ذالک بالا مضمون سے انحراف کر کے کوئی اور بات پیدا کی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ فرشتوں کا تصور بھی مختلف ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ملائكة الله آپ پڑھیں تو اس سے پتا چلے گا کہ تمام صفات دراصل فرشتوں کے زیر نگیں ہیں اور صفات اور فرشتے آپ کے نزدیک بعض دفعہ ایک ہی چیز کی دوصورتیں دکھائی دیتی ہیں.تو اس لئے میں اشارہ کر رہا ہوں کہ وہاں تضاد دور کرنے کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرشتوں کو عام انسانی تصور کے مطابق ہرگز نہیں لیا.نہ عرش کا وہ معنی سمجھا ہے جو عرف عام میں سمجھا جاتا ہے کیونکہ تفسیر صغیر تھی تفصیل کی بحث وہاں موقع نہیں تھا اس لئے مختصر لفظ استعمال کیا ہے جو قرآن سے یوں ہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہوگا مثلاً وَانْشَقَتِ السَّمَاءِ فَهِيَ يَوْمَبِذْقَاهِيَةٌ (الحافة: 17 ،18) اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن بودا دکھائی دے گا وَ الْمَلَكُ عَلَى اَرْجَابِهَا اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَبِذٍ ثَمُنِيَةٌ اور اس دن آٹھ طاقتیں ثَانِيَةٌ آٹھ طاقتیں عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہوں گی.اب چونکہ پہلے فرشتوں کا ذکر کیا گیا تھا اس لئے سیاق و سباق کے پیش نظر اگر ان طاقتوں کو فرشتے کے نام سے ظاہر کیا گیا ہوتو یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص لفظ فرشتہ پر زور دے تو اس کو میرا جواب ہے جو میں پہلے دے چکا ہوں.اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت مصلح موعود اور دوسرے مضامین میں تضاد ہے تو اصل اس کا جواب یہ ہے کہ تضاد نہیں، تم سمجھ نہیں سکے ، حضرت مصلح موعود کی نظر فرشتوں کے مضمون پر بہت گہری اور وسیع تھی جس نے کتاب ملائكة اللہ کا مطالعہ کیا ہو وہ جسمانی تصور حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منسوب کر ہی نہیں سکتا، نہ عرش کا نہ فرشتوں کا.اس لئے فرشتہ کہنے کے باوجود آپ فرشتوں کو صفات الہی کا مظہر ہی سمجھتے ہوں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.یہ میں اس لئے بہت کھل کر تفصیل بیان کر رہا ہوں کہ بعض نیم پڑھے ہوئے لوگوں کا یہ طریق ہے کہ ساری بات پر نظر ہوتی نہیں ایک بات کہیں اور دکھائی دے دی اور اعتراض شروع کر دیئے اور خطوط کی بھر مار شروع کر دی کہ آپ نے تو یہ کہا ہے مصلح موعودؓ نے تو وہ کہا ہے تو بعد میں جو میں جواب دیہیاں کرتا رہوں میں ابھی سے کھول دیتا ہوں بات مجھے پتا ہے کیا کہا ہے مگر میں اس کا
خطبات طاہر جلد 14 770 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء یہ مفہوم سمجھتا ہوں اگر آپ اس کا دوسرا مفہوم سمجھتے ہیں آپ کے مفہوم کو میں رد کرتا ہوں کیونکہ قرآن اور حدیث اور کلام الہی کا انداز اس حقیقت کو رد کر رہا ہے اور کلام الہی میں واضح قطعی طور پر کسی فرشتے کا آسمان کو ، عرش کو اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں ہے.اب سنئے احادیث.صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے.اب اللہ کا دایاں ہاتھ خود بتارہا ہے کہ یہ باتیں اور عرش کا مضمون اور اٹھانے کا مضمون یہ سب معنوی باتیں ہیں اس کو جسمانی قرار دینا بالکل غلط اور حدیث کے مزاج کے ہی مخالف ہے.فرماتے ہیں اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اس میں سے بغیر کسی وقفہ کے خرچ کرتے چلے جانا کوئی بھی کمی نہیں کر سکتا.کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے اب تک کیا کچھ خرچ کیا لیکن اس خرچ نے بھی اس کے دائیں ہاتھ میں ذرہ بھر کمی نہیں آنے دی اور اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں فیض ہے یا فرمایا کہ اس کے دوسرے ہاتھ میں قبض ہے، یہ راوی کو شک ہے.وہ بلند کرتا ہے اور نیچے گراتا ہے یعنی اٹھانا اور گرانا اللہ کا کام ہے خود اس کو کسی نے نہیں اٹھایا ہوا.( صحیح بخاری کتاب التوحید باب وكان عرش على الماء ) اور یہاں پانی پر عرش کہنا صاف بتاتا ہے کہ یہ حدیث مبنی بر قرآن ہے کیونکہ قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ (صور: 8) کہ اس سے پہلے اس کا عرش الماء پر تھا.اب یہ تشریح کہ الْمَاء سے کیا مراد ہے جس پر اللہ کا عرش تھا یہ تو میں ابھی آپ کو بتاؤں گا لیکن ایک بات تو قطعی ہو گئی کہ الْمَاء فرشتے تو نہیں ہیں اور پانی نے اگر عرش اٹھایا ہوا ہے تو پانی نے اٹھایا ہوا ہے تو ساتھ ہی اللہ یہ فرمارہا ہے کہ ہر چیز وہ اٹھاتا ہے.وہی گراتا ہے تو پھر پانی کس طرح نے اٹھایا ہوا ہے.اگر ظاہری پانی مراد لیا جائے تو جب یہ سوال اٹھتا ہے کس نے اٹھایا ہوا ہے تو پھر آپ کو اس قسم کی حدیثیں ملیں گی جو بیہقی میں مثلاً کثرت سے ہیں کہ نیچے اس کی گہرائی میں زمین ہے زمین کے نیچے بیل ہے بیل کا ایک سینگ وہ سینگ زمین کو اٹھائے ہوئے ہے اس کے اوپر عرش الہی پھر اس کے اوپر خدا تعالیٰ اور جب وہ سینگ بدلتا ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے.وہ لوگ جو کہانی پرست ہوتے ہیں، جو ظاہر پرست ہیں، وہ مفہوم سمجھنے کی بجائے خواہر کو پکڑ بیٹھتے ہیں اور اس سے مفاہیم کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں.پس سب سے پہلے تو نظر اس بات پہ ہونی
خطبات طاہر جلد 14 771 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء چاہئے تھی کہ دائیاں ہاتھ اگر پانی سے مراد ظاہری پانی ہے تو پھر دایاں ہاتھ سے مراد دایاں ہاتھ ہی لینا پڑے گا اور جس اللہ کا بدن ہو گیا اس کا دایاں ہاتھ ہو گیا، اس کا بایاں ہاتھ ہو گیا اس کا وجود ہی جاتا رہا.وہ بھی قصہ اور پانی بھی قصہ مگر بخاری کی حدیث دیکھیں کیسی نور پر بنی حدیث ہے بالکل واضح اور قطعی اور قرآن کے مزاج کے مطابق ہے.پھر حضرت ابن عباس سے بخاری ہی میں مروی ہے کہ آنحضرت مو غم اور پریشانی کے وقت ان الفاظ میں دعا کیا کرتے تھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عظمت والا اور بردبار ہے، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو عظمت والے عرش کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور بزرگی والے عرش کا رب ہے ( صحیح بخاری کتاب التوحید باب تعرج الملائكة والروح لیہ ).اب میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے سمجھا تا ہوں کہ یہ اصطلاح کیا معنی رکھتی ہے اور اللہ کے نور سے دیکھنے والے امام زمانہ نے ہمیں کیا بتایا کہ عرش کیا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے آتا ہے کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے.یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے.خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں“.(الاستفتاء روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 117-116) پس ہر مزعومہ حدیث جو قرآن کریم میں صفات باری تعالیٰ سے ٹکراتی دکھائی دے وہ کسی قیمت پر بھی آنحضرت ﷺ کا کلام نہیں ہوسکتا.جو اس کو کہے گا وہ گستاخی کا موجب ہوگا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر عرش پر قرار پکڑا یعنی اول اس نے اس تمام دنیا کے تمام اجرام سماوی اور ارضی کو پیدا کیا اور چھ دن میں سب کو بنایا.( چھ دن سے مراد ایک بڑا زمانہ ہے ) اور پھر عرش پر قرار پکڑ ا یعنی تنزہ کے مقام کو اختیار کیا.یادر ہے کہ استویٰ کے لفظ کا جب علی پر صلہ آتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ ایک چیز کا
خطبات طاہر جلد 14 772 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء اس مکان پر قرار پکڑنا جو اس کے مناسب حال ہوجیسا کہ قرآن شریف میں بھی آیت ہے وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِي ( صور : 45) ( یعنی حضرت نوح کی کشتی نے پھر جودی پر قرار پکڑا یعنی جو مناسب اس کی بہترین جگہ تھی اتر نے کی وہاں وہ کشتی کھڑی ہوئی ہے ).یعنی نوح کی کشتی نے طوفان کے بعد ایسی جگہ پر قرار پکڑ ا جو اس کے مناسب حال تھا.یعنی اس جگہ زمین پر اترنے کے لئے بہت آسانی تھی.سواسی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے لئے استواء کا لفظ اختیار کیا یعنی خدا نے ایسی وراء الوراء جگہ پر قرار پکڑا جو اس کی تنزہ اور تقدس کے مناسب حال تھی.چونکہ تنزہ اور تقدس کا مقام ماسوی اللہ کے فنا کو چاہتا ہے سو یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جیسے خدا بعض اوقات اپنی خالقیت کے اسم کے نقاضا سے مخلوقات کو پیدا کرتا ہے پھر دوسری مرتبہ اپنے تنزہ اور وحدت ذاتی کے تقاضا سے ان سب کا نقش ہستی مٹا دیتا ہے.غرض عرش پر قرار پکڑ نا مقام تنزہ کی طرف اشارہ ہے تا ایسا نہ ہو کہ خدا اور مخلوق کو باہم مخلوط سمجھا جائے پس کہاں سے معلوم ہوا کہ خدا عرش پر یعنی اس وراء الوراء مقام پر مقید کی طرح ہے اور محدود ہے.قرآن شریف میں تو جابجا بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.66 (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ : 119) یہ چونکہ عبارت بعض دوستوں کے لئے جن کو زیادہ عبور نہیں ہے زبان پر زیادہ توجہ اور غور سے اس کلام کو نہیں سن سکے، سمجھنا مشکل ہوگی.اس لئے میں اس کی کچھ تشریح آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب زمین و آسمان کو پیدا کیا، چھ دن سے مراد چھ دن نہیں بلکہ بہت لمبے زمانے ہیں، ان زمانوں میں جب پیدا فرما دیا تو تخلیق سے وہ ہم آہنگ بھی ہوا اور اس کی صفات ہی سے یہ تخلیق ہوئی ہے.مبادا بعد میں کوئی یہ سمجھے کہ خدا اور تخلیق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جیسا کہ بعض مذاہب اس بات پر پیدا ہوئے جو صوفیوں میں ہمہ اوست کہلائے اور باہر کی دوسری دنیا میں Pantheism سے بعض مذاہب بنے.ان کا خیال تھا کہ خدا نے چونکہ پیدا کیا ہے اور صفات سے پیدا کیا ہے اور ہر چیز اپنی صفات سے الگ نہیں ہو سکتی اس لئے اگر ساری
خطبات طاہر جلد 14 773 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء کائنات صفات باری تعالی ہی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور وہی صفات اس میں جلوہ گر ہیں تو وہی خدا ہیں کیونکہ صفات موصوف سے الگ نہیں ہو سکتیں.یہ منطقی دلیل قائم کر کے صوفیاء میں ہمہ اوست کا عقیدہ جاگزیں ہوا اور دوسری دنیاؤں میں اس نام کے مذاہب بن گئے کہ وہی وہی ہے گویا مخلوق کوئی چیز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ کمال ہے اور اس کے عرفان کی یہ شان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تخلیق کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ تخلیق سے جدا ہونے کا ذکر بھی فرما دیا.پیدا کیا لیکن مل جل نہیں گیا.پھر وہ جدا ہوا اور اس مقام تنزہ پر عروج کیا جو اس کو ہر خلق سے بالا اور پاک اور صاف دکھاتا ہے.بلکہ وہ ایسا مقام ہے جو مخلوق کی نظر سے بھی بالا تر ہو جاتا ہے.پس تخلیق کے رستے سے تشبیہی صفات کا ہم نظارہ کرتے ہیں اور جب تخلیق سے جدا ہو کر اللہ تعالیٰ اپنی ایسی شان میں جلوہ گر ہو کہ وہ اس میں تخلیق کا عنصر شامل نہ ہو، وہ صفات تنزیہی صفات کہلاتی ہیں اور انہی کا نام اس Context میں، ان عبارتوں میں ، جن میں تخلیق کائنات کا ذکر ہے عرش مراد ہے.ان آیات میں جہاں تخلیق کائنات کا ذکر ہے عرش پر مستوی ہونے یا قرار پکڑنے سے یہی مراد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرما رہے ہیں کہ وہ تنزیہی صفات ہیں جو تخلیقی صفات سے خدا تعالیٰ کو الگ کر کے دکھاتی ہیں تاکہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری سے شرک میں مبتلا نہ ہو جائے اور مخلوق ہی کو خالق نہ سمجھ بیٹھے.ایک یہ معنی ہے.دوسرا معنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے یعنی اسی معنے کی اول تو مختلف تشریحات فرمائی ہیں.پھر وہ معنی بھی کیا ہے جو میں آپ کے سامنے پہلے پیش کر چکا ہوں.وہ دل ہے اور مرد کامل اور دل ہے جس کو عرش قرار دیا جا سکتا ہے.میں نے جو یہ استنباط کیا اس کی بڑی وجہ پانی پر قرار تھا.اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے ساتھ جو یہ ذکر فر ما دیا وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ خدا کا عرش پانی پر تھا.تو پانی پر عرش سے مراد کیا ہے؟ دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيَّ ( الانبياء: 31).خدا نے پانی ہی سے ہر چیز کو پیدا : کیا ہے.پس پانی سے زندگی کا تعلق ہے اور زندگی کا شعور سے تعلق ہے.شعور کے بغیر خدا دکھائی ہی نہیں دے سکتا.پس باشعور طور پر خدا کے وجود کا احساس زندگی پر منحصر ہے اور عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ -
خطبات طاہر جلد 14 774 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے آغاز آفرینش ہی سے پانی کو وہ صفات عطا کر دی تھیں جن سے زندگی پیدا ہوئی تھی ، جن سے شعور رونما ہونا تھا اور پھر اس شعور نے خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھنا تھا اور اس جلوہ گری کے لئے اپنے آپ کو اس کے حضور پیش کر دینا تھا.یہ وجہ ہے جو عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو چنانچہ ایک جگہ دل کو بھی عرش کہا گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تجلی بھی دل پر ہوتی ہے اور ایسا ہی عرش اس وراء الوریٰ مقام کو کہتے ہیں جہاں مخلوق کا نقطہ ختم ہو جاتا ہے...“ پس یہاں ان دونوں باتوں کو اکٹھا فرما دیا آپ نے.اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جو میں نے پچھلے خطبے میں قلب کا ذکر کیا تھا اور خصوصیت سے حضرت محمد مصطفی اے کے قلب کو خدا کی تخت گاہ بتایا تھا تو یہ ایک اپنے نفس کا خیال تھا، ایک فرضی بات تھی.قرآن کریم واضح طور پر ، حضرت مسیح موعود ہ السلام فرماتے ہیں، قلب کو ایک جگہ عرش قرار دیتا ہے اور وہ قلب جہاں خدا جلوہ گر ہوا ہے یعنی ان صفات کا ملہ کے ساتھ جو اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں دیکھی تھیں، اپنی کامل شان کے ساتھ نہیں دیکھی تھیں ، وہ محمد رسول اللہ نے کا دل تھا.چنانچہ معراج کے وقت آپ کے دل کا یہ نقشہ کھینچا گیا ہے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (النجم : 13) اللہ نے محمد رسول اللہ اللہ کے دل کو جو کچھ دکھایا تھا یا اس دل نے جو کچھ دیکھا تھا معراج کی رات کو اس نے کوئی جھوٹ نہیں بولا.یہ جو مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَای کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک ، رسول اللہ ﷺ کا دل جھوٹ بول سکتا تھا تو نفی فرما دی گئی ہے.اصل جو گہرا مفہوم ہے اس کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دل نے صفات الہیہ کی جس جلوہ گری کو سمجھا ہے اس میں کہیں بھی غلطی نہیں کی.ایک انسان کے دل پر خدا جلوہ گر ہوتا ہے، معمولی رنگ میں ہر ایک کے دل پر جلوہ گر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ باشعور ہے، وہ پانی سے پیدا کیا گیا ہے، اس کو یہ صفات عطا ہوئی ہیں کہ وہ خدا کا تصور باندھ سکے مگر اکثر انسان غلطی کر جاتا ہے.جلوہ ہو بھی تو سمجھنے میں غلطی کر جاتا ہے اور اسی وجہ سے اختلاف مذاہب پیدا ہوتے ہیں.مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأی کا مطلب ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ
خطبات طاہر جلد 14 775 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء کے دل نے جو کچھ دیکھا بعینہ وہی سمجھا جو دکھایا گیا تھا، ایک ذرے کی بھی غلطی نہیں کی.پس جب رسول الله صفات باری کا بیان کریں تو کامل یقین کے ساتھ اس پر ایمان لاؤ، اس کو درست سمجھو کیونکہ اس دل میں نا سمجھی اور غلط نہی کے نتیجے میں بھی غلط بیان کرنے کا ملکہ ہی نہیں پیدا کیا گیا.خدا نے بنایا ہی نہیں یہ دل ایسا جو غلط سمجھ کر بات کر دے اور عملاً وہ جھوٹ نکلے.تو اب دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:...عرش اس وراء الوریٰ مقام کو کہتے ہیں جہاں مخلوق کا نقطہ ختم ہو جاتا ہے...“ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا معراج بھی وہاں تک ہوا تھا جہاں مخلوق کا نقطہ ہو جاتا ہے اور اس سے پرے خدا کی تنزیہی صفات تھیں.پس اس سے ورے ورے اگر کوئی عرش تھا صلى الله جس نے خدا کی صفات کو اٹھایا ہوا تھا تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تھے.فرشتوں کا کہاں ذکر ملتا ہے وہاں.نہ قرآن میں نہ حدیث میں.حدیث میں یہ تو ملتا ہے کہ حضرت جبرائیل کے پر جلتے تھے وہاں تک پہنچنے سے جہاں آنحضرت ﷺ کا معراج ہوا.کائنات کی ہر دوسری چیز پیچھے رہ گئی تھی.اتنی قطعی حدیث جو قرآنی آیات کی قطعی طور پر، واضح طور پر تشریح فرما رہی ہے اس کے مقابل پر ان حدیثوں کو کون دیکھے گا جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کانہیں فرشتوں کا سر تھا جو عرش تک ہی نہیں پہنچا عرش کو پھاڑ کر اوپر نکل گیا تھا اس تنزیہی مقام میں داخل ہو گیا جہاں خدا کے سوا کچھ بھی نہیں تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو...اہل علم اس بات کو جانتے ہیں کہ ایک تو تشبیہہ ہوتی ہے اور ایک تنزیہہ ہوتی ہے.مثلاً یہ بات کہ جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جہاں پانچ ہوں وہاں چھٹا ان کا خدا ہوتا ہے.یہ ایک قسم کی تشبیہہ ہے جس سے 66 دھو کہ لگتا ہے کہ کیا خدا پھر محدود ہے...پانچویں کے ساتھ چھٹا ہو گیا جہاں کہیں کوئی ہوا وہاں خدا چلا گیا فرمایا ہر گز نہیں یہ مراد نہیں ہے.”...اس لئے اس دھوکا کو دور کرنے کے لئے بطور جواب کے کہا گیا ہے کہ وہ تو عرش پر ہے جہاں مخلوق کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد 5 صفحہ: 382)
خطبات طاہر جلد 14 776 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء یعنی موجود تو ہر جگہ ہے مگر تخلیق کی پہنچ نہیں ہے وہاں تک.بار ہا میں یہ مثال دے کر کھول چکا ہوں کہ Dimensions بھی بدل جائیں تو ہمارا تصور اپنی Dimensions کی حدوں سے ٹکرا کر لوٹ آتا ہے اور انگلی Dimensions میں داخل ہی نہیں ہوسکتا.حساب کی رو سے سائنس دانوں نے آج کل چودہ Dimensions تک بنارکھی ہیں لیکن وہ حساب کرنے والے خود بھی ذرہ بھی نہیں سمجھتے کہ وہ Dimensions کیا چیز ہے.اس میں کیسے کوئی چیز ہو سکتی ہے صرف حسابی سکتے ہیں.اپنی Dimension سے مراد یہ یہ کہ دائیں بائیں، اوپر نیچے ، اطراف اور وہ وقت جو ان اطراف میں سمٹی ہوئی چیز کے اوپر سے گزر رہا ہے یا بیچ سے گزر رہا ہے.ان کو Dimension کہتے ہیں اور یہ Dimension چار ہیں یعنی چار اطراف ہیں ایک وقت کی طرف اور باقی تین جسمانی اطراف.ہماری کائنات انہی چار میں محدود ہے لیکن یہ ثابت ہے قرآن کریم سے بھی کہ اور Dimension ہیں اور اس کا ثبوت آنحضرت ﷺ کے ذریعے ہمیں ملا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ جنت کا عرض اس کا پھیلاؤ، اس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے.اب صحابہ تو یہی سمجھے کہ یہ Dimension جو ہماری ہیں ان میں باتیں ہورہی ہیں.اگر یہ ان کا سمجھنا درست ہوتا تو جہنم کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں بچتی کیونکہ ایک ہی Dimension میں ایک ہی طول وعرض اور وقت میں ایک سے زیادہ چیزیں ایسی نہیں سما سکتیں جو ایک دوسرے کی نفی کرتی ہوں.یا یہ ہو گی یادہ ہوگی.مثلاً ایک بوتل میں جتنا پانی آتا ہے اتنا ہی آئے گا.اس بوتل میں اتنا پانی، اتنا شہد، اتنا شربت اتنا کوکا کولا اکٹھا تو نہیں آپ بھر سکتے.تو یہ مراد ہے Dimension سے.تو صحابہ یہ سمجھے کہ آنحضرت یہ قرآن کریم کی اس آیت کو جس میں فرمایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کے برابر جنت کی Dimensions ہیں شاید نظر انداز فرما رہے ہیں کیونکہ اگر یہ درست ہے تو جہنم کہاں ہوگی پھر.یہی سوال انہوں نے کیا.رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ جہنم بھی وہیں ہوگی مگر تم اس کا شعور ہی نہیں رکھتے یعنی تمہیں پتا ہی نہیں کہ Dimensions ہوتی کیا چیز ہیں.اگر Dimensions بدل جائیں تو اسی ظاہری جگہ میں جہاں ایک بوتل پانی آتا ہے اگر Dimensions بدل جائیں تو اسی ظاہری جگہ میں ایک ریڈیائی طاقت بھی موجود ہو سکتی ہے.لہروں کی مختلف شکلیں بھی تو موجود ہو سکتی ہیں.حالانکہ ان کی بھی Dimension یہی ہے.اس
خطبات طاہر جلد 14 777 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء کے باوجود اپنی لطافت کی وجہ سے وہ اس جگہ کو بھر سکتی ہیں جو پہلے ہی بھری ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اس سے بے تعلق بھی ہوں گی.چنانچہ ایک بوتل جو پانی سے بھری ہوئی ہو اس میں اتنی قسم کی ریڈیائی لہریں اور ایکسرے لہریں اور کئی قسم کی اور لہریں اور مائیکرو ویوز اور دوسری موجود ہیں کہ ان کا شمار آپ نہیں کر سکتے.ان میں سے ہر ایک، ایک پیغام رکھتی ہے ایک تصویر رکھتی ہے، ایک آواز رکھتی ہے، ایک اپنا انداز رکھتی ہے.تو یہ جو مضمون تھا یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کوسمجھایا.پس اس مضمون کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کلام آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں.فرماتے ہیں یہ Dimensions کی بات ہے.یہاں یہ کہہ رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہ اللہ وہاں ہونے کے باوجود وہاں نہیں ہے کیونکہ اپنی تنبیہی صفات میں وہاں ہے اور تنزیہی مضمون کو سمجھنا ہو تو قرآن کریم کی وہ آیات دیکھیں جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ قریب ہے، قریب تر ہے شہہ رگ سے.زندگی کی رگ سے بھی قریب تر ہے اور بعید تر ہے اس سے زیادہ لطیف کوئی چیز نہیں اس سے زیادہ حاضر کوئی چیز نہیں وہ ظاہر بھی ہے باطن بھی ہے، وہ حاضر بھی ہے غیب بھی پھر ہے تو یہ متضاد با تیں Dimensions کے بدلنے کے نتیجے میں ہی صحیح ہو سکتی ہیں ورنہ نہیں.پس ہر جگہ ہو اور اندھوں اور بدنصیبوں سے دور تر بھی ہو اور ان باتوں کو اس طرح آپ سمجھیں تو پھر یہ عرش الہی کا مضمون سمجھ آئے گا.عرش الہی کا ایک مفہوم یہ بنتا ہے کہ وہ خدا جس کی تنزیہی صفات تخلیق کی پہنچ سے بالا تر ہیں، ایسی بالا ہیں کہ مخلوق کو جو بلند ترین مقام نصیب ہو سکتا تھا وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو نصیب ہوا اور آپ بھی اس مقام پر جا کر رک گئے جس کے بعد محض خدا کا مقام رہ جاتا یہ اور تشبیہی صفات کو اجازت ہی نہیں ہے، توفیق ہی نہیں ہے کہ وہ تنزیہی صفات کا کچھ پاسکیں.پس ایک تو عرش کی جلوہ گری یہ ہے.دوسری بالکل واضح اور کھلی کھلی بات ہے کہ خدا کوئی جسم تو ہے نہیں جو پانی کے اوپر بیٹھا ہو.ہاں پانی سے جو زندگی پیدا ہوئی اس کو یہ توفیق ملی ہے کہ خدا کا تصور باندھ سکے ورنہ گندگی کے کیڑے کو خدا کا تصور کیا ہوسکتا ہے.اگر کوئی ہے تو بہت ہی مبہم اور مخفی اور بالکل ہی معمولی، اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں مگر اس پانی سے جو وجود زندہ ہوا ہے جو سب سے اعلیٰ اور سب سے فائق اور سب سے اعلیٰ اور
خطبات طاہر جلد 14 778 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 1995ء الله برتر تھا وہ محمد رسول الله لتے تھے.پس کجا یہ کہ مد رسول اللہ ﷺ کے دل پر خدا جلوہ گر ہو کجا یہ کہ پانی پر بیٹھا ہو یعنی ظاہری پانی پر ، زمین و آسمان کا فرق ہے ان دو باتوں میں.ایک صرف کہانی ہے اور ایسی کہانی ہے جو خدا کے وجود کو مادی بنا کر دکھاتی ہے.ایک حقیقت ہے اور ایسی صاحب عرفان حقیقت ہے کہ جس پے جتنا بھی غور کریں اتنا ہی دل یقین سے بھرتا چلا جاتا ہے کہ یہ بات سچی ہے.پس وہ خدا جو کبھی جلوہ گر ہوا ہے یعنی اس دائرے میں جس میں انسانوں کو پیدا کیا گیا.وہ کبھی کسی نبی کے دل پر اس طرح جلوہ گر نہیں ہوا جیسے محمد رسل اللہ ہے کے دل پر جلوہ گر ہوا.وہ خدا جس کو موسی" کو دیکھنے کی طاقت نہیں تھی جس کو خدا نے بتایا کہ تجھ میں جان نہیں ہے، تجھ میں استطاعت نہیں ہے کہ میرا وہ جلوہ دیکھ سکے جس کا تو مطالبہ کر رہا ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا دل تھا جس نے وہ جلوہ اٹھایا ہے.وہ جلوہ جس کی آسمانوں کو طاقت نہیں تھی ، جس کی زمینوں کو طاقت نہیں تھی ، نہ بڑے کو طاقت تھی ، نہ چھوٹے کو طاقت تھی " حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ( الاحزاب : 72) اس کو انسان نے اٹھالیا.اب دیکھ لیں حمل کا لفظ یہاں موجود ہے.عرش کا حمل اس کو کہتے ہیں.محمد رسول اللہ کے دل نے وہ صفات باری اپنی ذات پر اٹھائی ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ اس انسان کامل نے خدا کے اس کامل جلوے کو اٹھایا جو اس مخلوق کی انتہائی طاقت تھی اس سے آگے اس مخلوق کو پہنچنے کی استطاعت ہی عطا نہیں کی گئی تھی.پس یہ معنے ہیں عرش الہی کے اور بھی ہیں مگر اگر وقت ملا تو اسی مضمون پر آئندہ انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا ورنہ پھر ہوسکتا ہے کوئی دوسرا مضمون شروع کر دیا جائے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ.
خطبات طاہر جلد 14 779 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء عرش کو اٹھانے کے معنی خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں.چار صفات باری کا قیامت کے دن آٹھ ہونے کا مفہوم ( خطبه جمعه فرموده 20 /اکتوبر 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَانْشَقَّتِ السَّمَاءِ فَهِيَ يَوْمَذِوَاهِيَةٌ وَالْمَلَكَ عَلَى أَرْجَابِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَذٍ ثَمُنِ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ (الحاقہ : 1917) پھر فرمایا:.يَوْمَذٍ تُعْرَضُونَ اللہ تعالیٰ کی صفات کے تعلق میں عرش کا کیا مفہوم ہے اس سلسلے میں دو خطبے پہلے گزر چکے ہیں اب یہ تیسرا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ قرآن کریم میں کہیں بھی واضح طور پر فرشتوں کے عرش اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا.ہاں استنباط کے طور پر ، تشریحی ترجمے کے طور پر یہ ترجمہ ضرور ملتا ہے کہ فرشتے وہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے.اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر صغیر سے بھی حوالہ پیش کیا تھا کہ آپ نے بھی فرشتوں کے اٹھانے کا ذکر کیا ہے اس لئے کہیں کوئی اس مخمصے میں نہ پھنس جائے کہ گویا نعوذ باللہ میری بات میں اور حضرت مصلح موعود کی بات میں تضاد ہے.کوئی تضاد نہیں بلکہ میں نے تو توجہ دلائی ہے کہ حضرت مصلح موعود فرشتوں کا جو مفہوم سمجھتے ہیں جس کو اپنی کتاب ملائکہ اللہ میں بیان کیا ہے اس کی رو سے یہ ترجمہ
خطبات طاہر جلد 14 780 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء جائز بنتا ہے مگر وہ ترجمہ نہیں جو عامۃ الناس کے تصور میں فرشتوں کے اٹھانے کا خیال موجود ہے وہ بالکل غلط تصور ہے اس پر مبنی ہر خیال بھی غلط ہے.اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک حوالہ مجھے کراچی سے صغیر احمد صاحب چیمہ نے بھجوایا ہے جو اسی بات پر مزید روشنی ڈال رہا ہے جو میں نے بیان کی تھی ،فرماتے ہیں: ملائکہ تمام نظام عالم کی ابتدائی کڑیاں ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کو چلانے والے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا (المومن : 8 ) ( یہ ترجمہ نہیں ہے معنے بیان فرمائے گئے ہیں ) یعنی فرشتے جو عرش کو اٹھا رہے ہیں اور وہ بھی جو عرش کے گرد ہیں اپنے رب کی حمد کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کے قصوروں کے لئے معافی کی دعاؤں میں لگے رہتے ہیں.عرش کے معنے سورہ یونس نوٹ پانچ میں بیان کئے گئے ہیں اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس سے مراد صفات الہیہ کے ظہور کے ہیں.یعنی عرش کوئی ایسی چیز نہیں جسے کوئی کندھا دے کر اٹھا لے.تو فرشتوں کا صفات الہی سے تعلق ہے اور قرآن کریم سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے اور وہ آیات بھی اور اس سلسلے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی عرش اور فرشتوں کا اکٹھا ذکر فرمایا ہے وہ میں حوالے آج آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ یہ مضمون پوری طرح کھل جائے ، فرماتے ہیں: عرش کو اٹھانے کے یہ معنے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں“ اس سے زیادہ کوئی معنے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس مضمون کو اسی طرح کھولا ہے اور جو میں بات بیان کر رہا ہوں وہ بھی بعینہ یہی ہے کہ فرشتوں کے اس طرح کسی چیز کو اٹھانے کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ملتا گویا وہ کوئی مادی چیز ہو جو فرشتوں کے کندھے پر رکھی گئی ہو بلکہ اس آیت کریمہ کی تشریح جو غالباً میں نے پچھلی دفعہ کی تھی ، تو میں آپ کو بتا تا ہوں اس کی رو سے میں اول اس آیت کا اطلاق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے
خطبات طاہر جلد 14 781 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء صحابہ پر کرتا ہوں اور وہی دعائیں جو فرشتوں کی بتائی گئی ہیں وہی حضرت اقدس محمد رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کی تھیں.وہی تھے جو دن رات مومنوں کے لئے دعائیں مانگا کرتے تھے صلى الله ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر جس طرح صفات باری تعالی جلوہ گر ہوئی ہیں قرآن سے ثابت ہے کہ فرشتوں کے سردار پر بھی اس طرح صفات باری تعالی جلوہ گر نہیں ہوئیں.ورنہ معراج کی شب حضرت اقدس محمد رسول اللہ لہ قرب الہی کے لحاظ سے اس مقام تک نہ پہنچتے جس پر جبرائیل نہ پہنچ سکا اور یہ محاورہ استعمال ہوا ہے کہ اس کے پر جلتے تھے آگے جاتے ہوئے اور پر صفات ہی کا نام ہے.پس اگر طاقت سے بڑھ کر بوجھ پڑے تو اس کو یوں کہا جا سکتا ہے اس کی طاقتیں جل گئیں، اس میں طاقت نہیں رہی ، وہ بوجھ ایسا تھا جس نے کمر توڑ دی.پس جو استعداد میں ملائکہ کو عطا نہیں ہوئیں ان استعدادوں سے تعلق میں صفات باری تعالیٰ کا حمل ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے.ہاں وہ تمام صفات باری تعالیٰ جو انسانوں کے لئے بنائی گئیں ان پر بھی فرشتے مقرر ضرور ہیں کیونکہ وہ خدا کی نمائندگی میں ان صفات کی تیاری کے لئے قانون قدرت استعمال کرتے ہوئے انسان کو وہاں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوئے.باوجود اس کے کہ ان صفات کا ذاتی تجربہ اور فہم ان کو پیدا نہیں ہو سکتا تھا مگر اللہ کے امر سے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے اور یہی وہ منظر کشی ہے جو ابتدائے آفرینش سے متعلق قرآن کریم کھینچ رہا ہے کہ اللہ نے جب ذکر کیا کہ میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا خلیفہ بنائے گا تو یہ یہ کام کرے گا اور جب آدم کو خدا تعالیٰ نے وہ صفات سمجھائیں، وہ اسماء بتائے جن کا آدم سے تو تعلق تھا، فرشتے سمجھ نہیں سکتے تھے.جب مقابل پر کھڑا کیا گیا تو فرشتوں نے لاعلمی کا اظہار کیا.آدم نے وہ صفات بیان کی ہیں اور یہاں سب سے اول آدم کا معنی یعنی خلیفہ اللہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر صادق آتا ہے.اس لئے جو بھی میں آپ کے سامنے یہ مضمون بیان کر رہا ہوں سو فیصدی قرآن پر مبنی اور قرآن کے ان اعلیٰ لطائف پر مبنی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی شان کے شایان ہیں اور کسی اور وجود پر وہ پورے آہی نہیں سکتے.پس ملائکہ کا اٹھانا اسی لئے لفظا ذ کر نہیں ہے.ضمنا معنی کئے جاتے ہیں.اس لحاظ سے کہ ہر طاقت پر فرشتے مامور ہیں اور اس کو چلا رہے ہیں لیکن ان کو پوری طرح نہ بھی سمجھیں تو خدا کے امر کے تابع مجبور ہیں
خطبات طاہر جلد 14 782 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء اور اس پہلو سے وہ بھی انسان کامل کی خدمت پر مامور ہیں.پس وہ ساتھ دیتے ہیں انسان کامل کا وہاں تک جہاں سے آگے ان کی رسائی نہیں، جہاں ان کی طاقتیں جواب دے جاتی ہیں اور پھر انسان کامل اکیلا اس بوجھ کو اٹھاتا ہے جسے آسمانوں اور زمین نے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا.یہ وہ بوجھ ہے جس کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کو استعداد میں عطا کی گئیں جو بنی نوع انسان کو دی گئیں مگر کوئی ان سے کامل فائدہ نہ اٹھا سکا.اس لئے اس میں کوئی نا انصافی کا سلوک نہیں ہے.تمام استعداد میں اگر چہ انفرادی طور پر مختلف بھی ہیں مگر بنیادی طور پر جس کو Potential کہتے ہیں،Potential کے لحاظ سے ہر انسان کو عطا ہوئی ہیں.بعض نے ان کو استعمال کیا ، بعضوں کو وہ Potential زیادہ عطا ہوئے اس وجہ سے نہیں کہ چونکہ Potential زیادہ تھے اس لئے انہوں نے بہتر نمونہ دکھایا.اس لئے کہ ان کے سجدے کا علم خدا کو تھا کہ اپنی تمام تر صفات کے ساتھ وہ سجدہ کریں گے.اس لئے انصاف کا تقاضا تھا کہ ان کو استعداد میں اس درجہ کامل تک عطا کی جاتیں جس تک ان کی روح سجدوں کے لئے تیارتھی.پس بار یک نظر سے بھی دیکھیں تو خدا کے ہاں کوئی فیصلہ بھی بغیر حکمت بالغہ کے نہیں ہے اور کوئی نا انصافی کا مضمون نہیں ہے.اس دائرے میں رہتے ہوئے جو کامل وجود جوسب سے اوپر نکل گیا در اصل عرش کو اٹھانے والا وہ اور اس کے ساتھی ہیں یعنی صفات باری تعالیٰ کے درجہ کمال کو پہنچنے والا وہ وجود تھا.- ابتداء میں یہ چار صفات تھیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے اور وہ سورہ فاتحہ کے اندر بیان کردہ چار صفات باری تعالیٰ ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام صفات کا مظہر کامل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر صفت پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر صفت کو جاری کرنا، اس کی خدمت کرنا ، قانون کو اس کے تابع چلا نا یہ معین طور پر ایسے کام ہیں جو بعض فرشتوں کے سپرد کئے گئے ہیں لیکن دنیا میں تو چار ہیں اور آخرت میں پھر آٹھ کا ذکر ملتا ہے اور وہ بھی صفات ہی کا دراصل ذکر ہے جس کا نام فرشتہ رکھا جا سکتا ہے.اس پہلو سے وہ قابل اعتراض نہیں کیونکہ تمام صفات کے اجراء میں فرشتوں کا دخل ہے اور فرشتے خدمت پر مامور ہیں.اس پہلو سے جب وہ صفات کو جاری کرتے ہیں، ان کو انسانوں میں چلانے اور ان میں افزائش کے لئے کوشش کرتے اور تحریک کرتے ہیں تو اٹھانے والا تو دراصل انسان
خطبات طاہر جلد 14 783 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء ہی بنتا ہے لیکن ضمنا چونکہ فرشتوں کی خدمت کا حصہ ہے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے.پس اس ضمن میں میں چار اور آٹھ کے مسئلے کو تو آپ کے سامنے پہلے حل کروں.قرآن کریم فرماتا ہے.وَانْشَقَتِ السَّمَاءِ فَهِيَ يَوْمَبِذٍ قَاهِيَةٌ وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَابِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَبِذٍ ثَمُنِيَةٌ (الحاق : 17 ،18) جب آسمان پھٹ پڑے گا اور یہ بودا اور بے طاقت دکھائی دے گا، کچھ بھی باقی نہیں رہے گا - وَالْمَلَكُ عَلَى اَرْجَابِهَا اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوقَهُمُ اور اس دن تیرے رب کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوگا.کون؟ يَوْمَينِ ثمنية اس دن آٹھ.اب وہ ثمانیہ چونکہ تانیث ہے اس لئے صفات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.اس لئے صفات باری تعالیٰ کا ترجمہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے بعینہ اس مضمون کے مطابق ہے لیکن یہ بھی فرمایا کہ چونکہ فرشتوں کا صفات سے بھی تعلق ہے اس لئے گویا تمثیلی طور پر فرشتوں کو بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اٹھائے ہوئے ہیں ورنہ حقیقت میں نہیں تمثیلی رنگ میں فرشتوں کو کہا جاتا ہے.یہاں تو آٹھ کا ذکر ہے اور دنیا میں چار صفات ہم پر روشن ہوئی ہیں یہ کیا حکمت ہے، یہ کیا فرق ہے.قیامت کے دن چار، آٹھ کیسے ہو جائیں گے.قرآن کریم میں سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ اس مضمون کے اوپر فرشتوں کی صفات کے تعلق میں روشنی ڈالتا ہے.فرماتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (فاطر: 2) تمام اور کامل اور حقیقی تعریف اللہ ہی کی ہے کہ جو آسمانوں اور زمین کا آغاز کرنے والا ہے، اس کی تخلیق کا آغاز کرنے والا ہے جَاعِلِ الْمَلَكَةِ فرشتوں کا بنانے والا ہے رُسُلًا پیغمبر کے طور پر ، ان کے ذریعے سے کام لیتا ہے.جو خدا ان کو پیغام دیتا ہے اس پیغام کے مطابق وہ آگے ان کاموں کو جاری کرتے ہیں اس لحاظ سے وہ رسول ہیں أولى أَجْنِحَةٍ وہ پروں والے ہوتے ہیں مَّثْنى وَثُلُثَ وَرُبع ان میں دو پروں والے بھی ہیں اور تین تین پروں والے بھی اور چار چار والے بھی يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ مگر چار پر بات محدود نہیں رہے گی.جب اللہ چاہے گا اور جو چاہے گا وہ اپنی خلق میں اضافہ فرما دے گا.پس آٹھ اور چار میں تضاد نہیں ہے بلکہ اسی مضمون کو آگے بڑھایا گیا ہے جہاں آٹھ کا ذکر ملتا ہے اور پر صفات
خطبات طاہر جلد 14 784 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء ہیں اس میں قطعا کوئی شک نہیں.قرآن کریم واضح طور پر پروں کو صفات کے معنوں میں استعمال فرماتا ہے.ان پر رحمت کے پر جھکا دے، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو فرماتا ہے، ان مومنوں پر اپنی رحمت کے پر جھکا دے.پس پروں کا اور بھی جگہ انہی معنوں میں، صفات کے معنوں میں ذکر ملتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صفات ہیں جو فرشتوں کی ذاتی صفات نہیں ہیں، بعض صفات باری تعالیٰ سے ان کا تعلق ہے اور دنیا میں بنیادی صفات جو انسان پر ظاہر ہوئیں وہ چار صفات تھیں، مرنے کے بعد اگلی دنیا میں انہی صفات کو آٹھ فرمایا گیا.اس میں ایک گہری حکمت ہے اول تو یہ وعدہ موجود تھا پہلے ہی جہاں چار صفات کا ذکر ہے وہاں وعدہ تھا کہ اور بھی خدا بڑھائے گا.بشار کا مطلب ہے کہ ہوسکتا ہے آئندہ لامتناہی دور میں ان صفات میں سے اور صفات بھی پھوٹتی رہیں.اب کیسے بڑھتی ہیں یہ صفات؟ ربوبیت تو ربوبیت ہی ہے.مگر یہاں جن چیزوں پر انسان کی اور زندگی کی ربوبیت ہورہی ہے وہی چیزیں بعینہ اس دنیا میں اس کی ربوبیت کے لئے کافی نہیں ہیں بلکہ کام آ سکتی ہیں.کوئی روح روٹی کھا کر زندہ نہیں رہ سکتی.اس کو روٹی کھانے کا نہ سلیقہ عطا کیا گیا ہے، نہ اعضاء عطا کئے گئے ہیں، نہ وہ معدہ ، نہ وہ نظام انہضام، کچھ بھی اس کا نہیں ہے.وہ کیسے جائے گی روٹی کے ٹکڑوں کو یا میٹھے کو یا نمک کو جو بھی خوراک اس دنیا میں ہے زندگی کے کسی حصے سے بھی تعلق رکھتی ہو وہ ربوبیت کا مظہر تو ہے لیکن اس دنیا میں ہم اسے جس طرح دیکھ رہے ہیں اخروی دنیا میں وہ خوراک بن کے تو آئے گی لیکن یہ خوراک نہیں ہو گی.جب لوگ سمجھیں گے یہ پھل تو ہمیں دنیا میں بھی عطا کئے گئے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا ( البقرہ : 26) وہ اور چیزیں ہیں.تو متشابہ ہونا بتا رہا ہے کہ صفات باری تعالیٰ ایک ایسا جلوہ دکھائیں گی جور بوبیت ہی کا جلوہ ہوگا لیکن متشابہ جلوہ ہوگا.پس اس پہلو سے صفات دگنی ہو جائیں گی اور یہی رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت کا حال ہے.ہر صفت باری سے جو یہاں بنیادی طور پر چار ہیں جن کا انسان کو علم دیا گیا ہے قیامت کے بعد خدا کے پاک بندوں پر وہ صفات ایک نئی شان کے ساتھ اس طرح پھوٹیں گی گویا ہر صفت کے بطن سے ایک اور صفت پھوٹ آئی ہے اور پھر آٹھ ہو جائیں گی اس پہلو سے اور اس میں بہت گہرائی ہے اس مضمون میں کیونکہ لطافتوں کا کوئی شمار نہیں، کوئی حد نہیں ہے.پس جب Dimensions بدلیں گی تو صفات بھی ان Dimensions کے مطابق تبدیل ہوں گی.ایک
خطبات طاہر جلد 14 785 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء Dimension سے دوسری میں جائیں گی تو دو کی بجائے چار دکھائی دیں گی دوسری سے تیسری میں جائیں گی تو چار کی بجائے آٹھ بھی دکھائی دے سکتی ہیں اور آٹھ کی بجائے سولہ بھی دکھائی دے سکتی ہیں لیکن آغاز کا جو ذکر ہے اس میں آٹھ کا وعدہ فرمایا گیا ہے لیکن يَزِيدُ میں جو زائد کا وعدہ فرمایا گیا ہے اس میں حد بندی نہیں فرمائی.وہاں یہ نہیں کہا کہ میں آٹھ پر جا کر ٹھہر جاؤں گا یا سولہ یا چھتیس پر جا کے ٹھہر جاؤں گا اس میں ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے امکانات کھول دیئے گئے ہیں.آگے جو بھی ہوگا ہم چونکہ ابھی تک آٹھ کو بھی پوری طرح سمجھ نہیں سکتے اس لئے اگلے مخمصے میں ہمیں ڈالا ہی نہیں گیا.اگلے مخمصے میں جب وہ منزل آئے گی خدا خود سمجھائے گا کہ وہ صفات میں کیا نئے رنگ پیدا فرماتا ہے اور کس طرح وہ صفات بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.پس یہ مضمون ہے چار اور آٹھ والا.اب میں آپ کے سامنے یہ عرض کروں گا کہ میں نے کہا تھا کہ وہ جو آیت کریمہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے پہلے بھی پیش کی تھی.میں نے کہا تھا یہاں اول طور پر محمد رسول الله الله جو جسم ذکر الہی تھے وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح: 30) وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کو جو ذکر کا نور تھا اپنے گھروں میں بھی لے گئے ، اپنے سینوں میں بھی انہوں نے داخل کر لیا اور سینوں میں سمیٹے ہوئے جس گھر میں گئے وہاں نور کی اور شمعیں پھوٹ پڑیں اور ایک نہیں رہی بلکہ زیادہ ہو گئے.پس قیامت کے دن جو ذکر ہے کہ فرشتے تو اردگرد ہوں گے اور ان کا لفظ ہے وَتَرَى الْمَلَبِكَةَ حَافِينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ (الزمر: 76) کہ فرشتے عرش کے ارد گرد، چاروں طرف حافین ہوں گے یعنی تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوئے.یہ جو مضمون ہے اس پر ایک حدیث نبوی ﷺے پوری طرح روشنی ڈال رہی ہے اور لفظ حف ہی کا استعمال فرما کر آپ نے ہمیں سمجھا دیا کہ فرشتے کون ہیں اور وہ کون سا عرش ہے جس کے گرد یہ حاف ہوا کرتے ہیں ، جس کے گرد یہ ہجوم در ہجوم تہہ بہ تہ ا کٹھے ہو جاتے ہیں.صلى الله آنحضرت ﷺ نے فرمایا : عن ابي هريرة عن النبی الله قال ان الله تبارک و تعالى ملائكة سيارة فضلا يتبعون مجالس الذكر فاذا وجدو امجلسا فيه ذكره قعدوا معهم.یعنی ایسے فرشتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں جو صاحب فضیلت ہیں،
خطبات طاہر جلد 14 786 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء گھومنے پھرنے والے ہیں اور مجالس ذکر کے پیچھے چلتے ہیں جہاں ذکر الہی کی مجلس لگے اس کے تو وہ عاشق ہوتے ہیں گویا ہر وقت اس تاک میں رہتے ہیں کہ کہاں ذکر کی مجلس ملے تو وہ اس کے گردا کٹھے ہو جائیں اور جو ذ کر کی مجلس لگاتا ہے وہ انسان ہے وہ فرشتہ نہیں ہے.فرماتے ہیں فاذا وجدوا مجلسا فيه ذکر جب وہ ایسی مجلس کو دیکھتے ہیں یا پاتے ہیں جہاں ذکر الہی چل رہا ہو قعد و امعھم وہ ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں پھر کیا ہوتا ہے و حف بعضهم بعضا اور ہجوم کر کے ایک دوسرے سے لیٹتے ہیں، ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں جیسے بھیڑ لگ گئی ہو اس قدر وہ ایک دوسرے کے اوپر ٹوٹ پڑتے ہیں گویا کہ بـاجـنـحتهم حتى يملاء مابينهم و بين السماء الدنیاوہ اپنے ا پروں کے ساتھ جو ان کی صفات ہیں ان کے ساتھ وہ اکٹھے ہوتے ہوتے تہہ بہ تہہ اس طرح اونچے ہوتے چلے جاتے ہیں کہ آسمان تک، زمین سے آسمان تک سارے جو کو بھر دیتے ہیں اور یہ سماء الدنیا ہے.یعنی اس دنیا میں جب ذکر کی مجلس لگتی ہے تو چونکہ دنیاوالوں سے تعلق ہے یہاں چار پروں والوں کا قصہ ہے اس لئے دنیا کے آسمان تک ان کا بیان فرمایا اس سے اوپر ان کا ذکر نہیں لتايملاء ما بينهم وبين السماء الدنيا فاذا تفرقواعر جو اوصعدوا الى السماء (مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذکر ).پس جب وہ بکھر جاتے ہیں ذکر کرنے والے تو فرشتے پھر صعود کرتے ہیں رب کی طرف اور اس سے پھر تذکرہ کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کچھ دیکھا یہ مراد نہیں کہ اللہ کو علم نہیں مگر انسان کے ذکر کے گواہ بنا دیئے جاتے ہیں جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبح کی تلاوت وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل: 79) کہ جو فجر کی تلاوت ہوتی ہے وہ مشہور ہوتی ہے اس پر گواہ اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ دیکھی جا رہی ہوتی ہے تو دراصل مشہود سے یہ مراد نہیں کہ لوگ سن رہے ہیں ، لوگ گواہ بن گئے ہیں، وہ فرشتے جو سیارہ ہیں جو ہر وقت گھومتے پھرتے ہیں اور یہاں لفظ سیارہ کا معنی بھی اس طرح نہیں ہے جیسے سورج چاند گھوم رہے ہیں ان کی صفات ایسی ہیں کہ وہ ہر وقت نظر رکھ رہے ہیں کہاں ذکر کی مجلس ہو اور وہاں ان کی توجہ مرکوز ہو جاتی ہے اور اسی طرح تلاوت قرآن جو صبح کے وقت اٹھتی ہے وہ ایسی پیاری لگتی ہے فرشتوں کو کہ وہ ہر ایسے قاری کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں جو فجر کے وقت تلاوت قرآن کرتا ہے.فرمایا اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا.تو یہ مضمون ہے جو صفات باری تعالیٰ کا اور عرش کا مضمون
خطبات طاہر جلد 14 787 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء ہے.اس لئے ہر انسان صاحب عرش ہو سکتا ہے اگر وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی معیت کی کوشش کرے کیونکہ عرش کو اٹھانے والے دراصل محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے مع ساتھ جو بھی ہیں وہ ہیں اور فرشتے اس مضمون میں مددگار ہیں اور فرشتوں کی مدد اور تائید کے بغیر یہ مضمون آغاز سے آخر تک تکمیل پا ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ذریعہ بنا دیا ہے.یہ ہے عرش کا مضمون.اب میں اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ حضرت اقدس کے الفاظ ہی میں آپ عرش کے مختلف پہلوؤں کو سمجھیں اور آئندہ یہ دھوکہ نہ لگے کہ کوئی نعوذ باللہ جسمانی چیز ہے جو مخلوق ہے، عرش مخلوق نہیں ہے.اگر صفات باری تعالیٰ ہے تو مخلوق ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے مخلوق چیزوں کا اس کو اٹھانے کا سوال کوئی نہیں اور فرشتے مخلوق ہیں.جاعِلِ فرمایا ہے ان کو بنایا اللہ تعالیٰ نے اور ہمیشہ سے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنی کائناتیں بنیں، کتنے فرشتے کب سے چلے آ رہے ہیں مگر ازل سے کوئی فرشتہ خدا کے ساتھ نہیں ہے.ازل میں مختلف قسم کے وجود روحانی اور غیر روحانی خدا نے پیدا کئے ہیں اور کرتا چلا آیا ہے کیونکہ اس کی وفات معطل نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی بھی تخلیق از لی نہیں ہے.نظام تخلیق ازلی ہے کیونکہ یہ خالق کا نظام ہے.تخلیق فی ذاتہ از لی نہیں ہے.اس لئے اس بات کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور یہی وہ معنے ہیں جن کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ خدا میں زمانہ نہیں پایا جاتا تخلیق میں زمانہ پایا جاتا ہے اور تخلیق کا زمانہ جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کے حوالے سے خدا کا ایک زمانہ دکھائی دیتا ہے.جو تخلیق کی زندگی کے دور میں خدا کے اور تخلیق کے تعلق میں ہمیں نظر آتا ہے ہم سمجھتے ہیں ایک زمانہ ہے.مگر زمانہ وہ تخلیق کا ہے مگر اللہ سے اس تخلیق کا جو تعلق قائم ہوتا ہے اس لئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں خدا کا ان سے یہ تعلق قائم ہوا لیکن زمانہ فی ذاتہ اللہ کا نہیں ہے کیونکہ وہ زمانوں سے بالا اور پاک ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں:.مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تمام قرآن شریف کو اول سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی محدود چیز اور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن
خطبات طاہر جلد 14 788 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین و آسمان اور روحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے (اگر فرشتے موجود ہیں تو اللہ کی پیدائش ہے، پیدائش بمعنی تخلیق ) مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں“.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ :453) اس لئے عرش صفات باری تعالیٰ کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا مگر وہ صفات جس دل پر جلوہ گر ہوں اس کو بھی جس طرح ہم فرشتوں کو کہتے ہیں عرش اٹھانے والے اول طور پر وہ دل عرش اٹھانے والا ہے نہ کہ کوئی اور : " قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چار ہیں“.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 455) ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ چار مظہر سورہ فاتحہ میں درج وہ ام الصفات ہیں یعنی وہ چار صفات جو خدا تعالیٰ کی ایسی چار مرکزی صفات ہیں جن سے وہ تمام صفات پھوٹتی ہیں جن کا بنی نوع انسان سے تعلق تھا جن کا اس کائنات سے تعلق ہے کیونکہ ساری کائنات کا اور اس کی صفات کا بنی نوع انسان سے تعلق ہے.جب ان سب کو مسخر کیا ہے خدمت پر تو ہر صفت جو پیدا فرمائی گئی ہے اس کائنات میں خواہ وہ دور ترین کے پیچھے ہٹتے ہوئے سیاروں میں پائی جائے اس نے انسان کی پیدائش پر اور اس کی صفات پر ضرور کچھ اثر چھوڑا ہے.یہ ہے وہ مضمون جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھول رہے ہیں: خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چار ہیں.ان مظاہر کو جو صفات کے مظہر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات طاہر جلد 14 فرماتے ہیں کہ: 789 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء وو وید کے رو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کی رو سے ان 66 کا نام فرشتے بھی ہے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 456،455) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے جس سے اشارۃ النص کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں...“.تو دراصل وہ چار صفات باری تعالیٰ ہی ہیں اور اشارۃ النصق اس سے بھی ہے اور اس آیت کریمہ سے بھی جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ چار چار صفات والے فرشتے بھی ہیں، دو دو سے شروع کیا ہے جس طرح چار شادیوں کی اجازت میں بھی مثنی و ثلث وربع ہے لیکن اول تو موجود ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ دو دو بھی ہیں تین تین بھی اور چار چار یہ مراد ہے اس کی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-....جس سے اشارۃ النص کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی شخص اس کے عرش کو اٹھا دے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم سن چکے ہو کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور تقدس کے مقام کا نام عرش ہے...“ اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے الفاظ میں یہاں بھی اور آگے بھی آئے گی.وو...اسی لئے اس کو غیر مخلوق کہتے ہیں ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیونکر باہر رہ سکتی ہے اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں.پس اسی سے ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض
خطبات طاہر جلد 14 790 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء محض حماقت ہے.اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں...66 جہاں استعارہ فرشتوں کا ذکر ہے کہ وہ اٹھائے ہوئے ہیں وہ لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ استعارہ ہے.وو...اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نئز ہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جبکہ اس کی صفت تنز ہ اس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے.جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے.تب خدا عقول انسانیہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اس کو دریافت کر سکے تب اس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں...“ چار صفتیں ہیں جن کو فرشتوں کا نام دیا گیا ہے مگر ہیں صفات اور ربوبیت فی ذاتہ فرشتہ نہیں ہے کیونکہ یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کوئی شخص اس کو پڑھ کر یہ غلط نتیجہ نہ نکال لے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرشتوں کو صفات اور صفات کو فرشتے کہہ رہے ہیں.ان صفات کو فرشتوں کا نام دیا گیا ہے مگر ہیں صفات اور وہ صفات از لی ہیں اور فرشتے ازلی نہیں ہیں.وہ صفات از لی ہیں اور صفات از لی خدا کی ذات کا نام ہی ہے کیونکہ کوئی وجود اپنی صفات کے بغیر وجود ہی نہیں رہتا.پس صفات باری تعالیٰ اس کے وجود کا مظہر ہیں اور اظہار کے طور پر فرشتوں کا نام بھی دیا گیا ہے مگر کن چار صفات پر فرشتوں کے نام کا اطلاق ہے اور وہ سورہ فاتحہ کی چار صفات ہیں.اول ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے.چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا سے ہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے“.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ: 278 279) ربوبیت کی دوتشریحیں فرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا
خطبات طاہر جلد 14 791 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء 66 سے ہے یہ اللہ کی صفت ربوبیت ہے جس کے نتیجے میں جسم کا بھی ظہور ہوا اور بالآ خر روح کا بھی وجود قائم ہوا.اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے.یعنی اس دنیا ہی میں جو خلق آخر نصیب ہوتی ہے اور مذہب نازل ہوتا ہے ، کلام الہی اترتا ہے تو جس طرح مادی ضرورتوں کے لئے جسمانی غذا ئیں بنائی گئیں ربوبیت کے تابع تا کہ جسم کو سنبھالیں اسی طرح روح کو سنبھالنے کے لئے اور اسے زندہ رکھنے کے لئے روحانی غذاؤں کا نزول ہوتا ہے اور وہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اوامر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے.اگر ان کو ترک کر دیں گے تو روح میں زندگی کے لئے کوئی طاقت باقی نہیں رہے گی.اس کے بغیر تو انسان مردہ ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے آپ نے فرمایا کہ ربوبیت نے دونوں تقاضوں کو پورا فرمایا ہے.جسم اور روح کی پیدائش خودر بوبیت کے نتیجے میں اور دونوں کو زندہ رکھنے کے لئے الگ الگ نظام جاری فرما دیئے اور وہ نظام کیا ہے جو روح کی غذا کے لئے ہے.”خدا کا کلام نازل ہونا اور اس کے خارق عادت نشان کا ظہور میں آنا ہے.حیرت انگیز اعجاز دکھاتا ہے تا کہ روح زندہ رہے.کئی دفعہ آپ کہتے ہیں جی ایسا خدا نے معجزہ دکھایا ، ایسا نشان کہ روح تازہ ہوگئی ، ایمان زندہ ہو گیا.تو یہی معنے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کہ صرف کلام الہی کے ذریعے جو شریعت نازل ہوئی ہے وہ روح کی غذا کے لئے ضروری ہے مگر بعض دفعہ بے اختیار دل سے آواز اٹھتی ہے کہ آہاہا، کیا دیکھا ہے ہم نے.روح زندہ ہو گئی.نئی زندگی مل گئی ایمان کو.یہ ایسا ہی ہے جیسے دن رات موسموں میں سے ہم گزرتے ہیں کئی ایسی بھی گھٹائیں اٹھتی ہیں لہر دار اور مست کہ ان کو دیکھ کر انسان عش عش کر اٹھتا ہے کہ روح تازہ ہوگئی حالانکہ وہ گھٹا ئیں نہ بھی ہوتیں تب بھی بھی ان کا جسم زندہ ہی رہتا.تو خدا کی ربوبیت میں سے بعض اور ربوبیت کے جلوے یوں پھوٹتے ہیں کہ انسان کا جسم بھی عش عش کر اٹھتا ہے اور اس کی روح بھی عش عش کر اٹھتی ہے.تو معجزے یہ کام دکھاتے ہیں جو ربوبیت کا دائمی حصہ ہیں.حیرت انگیز خوب صورت مناظر اور موسموں میں حیرت انگیز پاک تبدیلیاں جو انسانی زندگی کو لطف سے بھر دیتی ہیں یہ دنیاوی معزہ ہے اور روح کے لئے بھی خدا نے معجزے مقرر فرمائے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کو غور سے پڑھیں ایک ایک دود و فقروں میں حیرت انگیز مضامین کو
خطبات طاہر جلد 14 سمیٹا گیا ہے.792 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اس نے بغیر پاداش اعمال بے شمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے...“ رحمانیت کی تفصیلات میں اس وقت جانے کا وقت نہیں لیکن میں پہلے بھی بعض خطبوں میں رحمانیت ہی کے موضوع پر گفتگو کر چکا ہوں.بے شمار ایسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کی نشو و نما کے لئے اور آئندہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مخفی خزانے اکٹھے کر رکھے ہیں کہ جن کا ہر زمانے کے انسان سے تعلق نہیں ہے، ان کے بغیر انسان ویسے بھی زندہ رہ سکتا تھا مگر ہر آنے والی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انسانی ضرورت کے لئے مخفی خزانے محفوظ کر رکھے ہیں.یہ رحمانیت ہے جو بن مانگے دیتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہی فرمار ہے ہیں کہ دوسرا خدا کی رحمانیت ہے یعنی جو کچھ اس نے بغیر پاداش اعمال ، یہ رحمانیت کی روح ہے.عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ عمل کرنے والا ا بھی پیدا نہیں ہوا اور پھر بھی خدا تعالیٰ نے آئندہ اس کی ضرورتوں کے پیش نظر جو رحمت کے جلوے دکھائے ہیں یہ اس کی دوسری صفت ہے جس کا خدا کی تمام صفات سے ایک بنیادی تعلق ہے....تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اول تو صفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال ان سے ظہور میں لاتا ہے...“ یہ بھی توفیق الہی سے ہوتا ہے کہ جو صلاحیتیں ہیں ان کو نیک محل پر استعمال کر کے فائدہ بھی تو اٹھائے ورنہ بے کار بیٹھا رہے تو چلنے کی بھی طاقت باقی نہیں رہتی.دو ہفتے کی بیماری سے ٹانگوں کی جان نکل جاتی ہے.تو رحیمیت رحمانیت کو دائم اور جاری و ساری رکھنے کے لئے ایک اور صفت ہے اور رحمانیت کے جلوے جو بار بار رحیمیت کے ذریعے ظہور ہوتے ہیں ان کی تفصیل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت جگہ لکھی ہے یہاں صرف اتنا فرمایا ہے کہ پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال ان سے ظہور میں لاتا ہے جو رحمانیت کے تقاضا سے استعدادوں کے طور پر ان کو ملے ہوئے ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 793 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء ان استعدادوں سے وہ پھر نیک اعمال رونما ہونے میں رحیمیت مددفرماتی ہے....اور اس طرح پر ان کو آفات سے بچاتا ہے اور یہ صفت بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے.چوتھی صفت مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی ہے یہ بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزاء اور بدوں کو 66 سزا دیتا ہے..." یہ بہت ہی اختصار سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کیونکہ چشمہ معرفت میں ایک ہندوؤں کو عقل دینے کے لئے ، ان کو سمجھانے کے لئے ، ان کے فلسفوں کے رد کے طور پر قرآنی فلسفہ کے ایسے نکات ان کے سامنے رکھے مثالیں دے دے کر کہ ان کو سمجھ آئے اور ان کے وید سے بھی وہ حوالے پیش کئے جن سے وہ سمجھیں کہ ہم نے خود دید ہی کی تعلیم کو غلط سمجھا تھا اور قرآنی تعلیم ہی ہے جو وید کو بھی سچا کر کے دکھاتی ہے ورنہ اس تعلیم کی روشنی کے بغیر وید محض جھوٹی ثابت ہوتی ہے.یہ طرز کلام ہے اس لئے یہاں بہت تفصیل بیان نہیں فرمائی، ضمنا ذکر فرمایا ہے....یہ چاروں صفتیں ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں.“ وو چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ: 279) اب دیکھ لیں یہ صفتیں ہیں جو اٹھائے ہوئے ہیں اس لئے ملائکہ کے حوالے سے تمثیل کے طور پر عرش اٹھانے کا ذکر ملتا ہے اور یہ صفات کس نے اٹھائی ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات تو خود خداس کی ہیں، اٹھانے کا مطلب یہاں صرف یہ بنے گا ان معنوں میں کہ جس کے دل پر جلوہ گر ہوئیں، جس کی روح جس کے مزاج میں سرایت کر گئیں.اس پہلو سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کیونکہ صفات باری تعالیٰ کو اپنی ذات میں، اپنے وجود پر اٹھانے میں درجہ کمال کی انتہا کو پہنچ گئے وہ آخری انتہا جہاں تک کمال پہنچ سکتا تھا.اس لئے میں بار بار یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیک عرش کا اعلیٰ اور ارفع معنی جو اس دنیا میں ہیں دکھائی دیتا ہے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا دل ہے جس پر عرش الہی جلوہ گر ہوا ہے.پس یہاں بھی ہم تمثیلاً دل کو عرش کہتے ہیں مگر دل عرش نہیں ہے.دل پر عرش نازل ہوا ہے یعنی صفات باری تعالٰی نازل ہوئی ہیں.وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ (الاحزاب: 73) اب آپ کو سمجھ آئے گی که وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ کے کیا معنے ہیں.آسمان، زمین ، پہاڑوں اور ہر چیز نے انکار کر دیا کہ ہم
خطبات طاہر جلد 14 794 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء ان صفات کو نہیں اٹھا سکتے وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ دیکھو محد مصطفی یہ انسان کامل آگے بڑھا اور ان کو اٹھالیا.پس جب میں کہتا ہوں عرش الہی محمد رسول اللہ ﷺ کا دل ہے تو دل فی ذاتہ نہیں ہے بلکہ انسان کو جو استطاعت بخشی گئی ہے، استعداد اور طاقت بخشی گئی ہے کہ صفات باری تعالیٰ کو اپنی ذات میں جاری کرے اور اس کا مظہر بن جائے.پس جب فرشتے مظہر ہوتے ہیں تو ان کو عرش اٹھانے والا کہہ دیا جاتا ہے.جب انسان مظہر ہوتے ہیں تو پھر ان انسانوں کو عرش اٹھانے والا کہہ دیا جاتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس اٹھانے میں اکیلے نہ رہے بلکہ اپنے ساتھ وہ دوسرے نور پیدا کر دئیے جو عرش کو اٹھانے میں آپ کے ساتھ تھے اور وہ دعا ئیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہمیشہ کیں.قرآن نے ان دعاؤں کو عرش اٹھانے والوں کی طرف منسوب فرما دیا، یہ ہیں جنہوں نے آسمان اٹھا رکھا ہے.اس کو صوفیاء اپنی اصطلاح میں بعض دفعہ قطب کے طور پر بیان کرتے ہیں.چار قطب ہوتے ہیں جنہوں نے آسمان اٹھا رکھا ہے.اب جو بے چارے تماش بین ہیں، جن کو پتا ہی نہیں کہ صوفی ازم ہے کیا.اس کے عرفان کے معنے کیا ہیں؟ وہ سمجھتے ہیں کہ چار قطب ہر جگہ کہیں موجود ہیں انہوں نے عرش کو اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے حالانکہ وہ قطب یہی صفات باری تعالیٰ کے مظہر ہیں اور امت محمدیہ میں صرف رسول اللہ کے زمانے ہی میں نہیں بلکہ اس صوفی اصطلاح سے پتا چلتا ہے جس کی بنیاد ہے حقائق پر ، ہر زمانے میں محمد رسول اللہ ﷺ کے ایسے غلام ہیں جو اقطاب کہلاتے ہیں، پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کوئی ایک صفت کی جلوہ گری میں کمال حاصل کر لیتا ہے، کوئی دوسری صفت کی جلوہ گری میں کمال حاصل کر لیتا ہے لیکن چاروں صفات کا مظہر کامل حضرت محمد مصطفی ﷺ کےسوا دنیا میں کبھی نہ پیدا ہوا، نہ ہوگا سوائے اس کے کہ آپ کی غلامی کے اندر آ کر اپنی شخصیت کو مٹا دے اور آپ کا نام اس پر اطلاق پائے ورنہ الگ وجود پیدا نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- خدا تعالیٰ نے تمام اجرام سماوی و ارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو صلى الله وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام عرش ہے...“ اب عرش کا ایک معنی وہ ہے جو چار صفت کے حوالے سے اس دنیا میں انسانوں پر ظاہر ہے
خطبات طاہر جلد 14 795 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء اور یہ صفات مخفی نہیں ہیں.مگر ان صفات کے کچھ اور بھی مظاہر ہیں جن کا انسان سے تعلق نہیں ہے، ذات باری سے تعلق ہے اور وہ لامحدود صفات ہیں.خدا تعالیٰ کا اس طرح ان صفات کی طرف لوٹنا جو جسمانی لوٹنا نہیں ہے بلکہ ایک تنزیہی مقام ہے گویا وہ ان صفات پر بیٹھ گیا ہے جاکے.یہ کیا چیز ہے، اس میں حکمت کیا ہے، کیوں فرمایا گیا ہے، ان امور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روشنی ڈال رہے ہیں.فرماتے ہیں:..تمام اجرام سماوی و ارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام عرش ہے اور یہ ایسا نہاں در نہاں مقام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی چار صفات ظہور پذیر نہ ہوتیں جو سورہ فاتحہ کی پہلی آیات میں ہی درج ہیں تو اس کے وجود کا کچھ پتانہ لگتا...“ یعنی اس مقام اخفاء میں خدا کا چلے جانا ایسا کامل ہوتا ہے کہ اگر بندوں پر ان صفات کا جلوہ عطا کر کے اپنے تعلق کو ہمیشہ قائم نہ رکھتا تو جس مقام تنزہ میں وہ جاتا ہے اس مقام کی انسان کے وہم و گمان میں بھی طاقت نہیں تھی کہ وہاں پہنچ سکتا: الجزا ہونا.سو یہ د یعنی ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت مالک یوم الجزا.چاروں صفات استعارہ کے رنگ میں چار فرشتے خدا کی کلام میں قرار دئیے گئے ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ: 279 ، حاشیہ) پس استعارہ معنی کئے جاتے ہیں فرشتے حقیقی معنے نہیں ہیں.یہ صفات ہی ہیں جن کو استعارہ فرشتے کہا جاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.یہ چاروں صفتیں دنیا میں ہی کام کر رہی ہیں مگر چونکہ دنیا کا دائرہ نہایت تنگ ہے اور نیز جہل اور بے خبری اور کم نظری انسان کے شامل حال ہے اس لئے یہ نہایت وسیع دائرے صفات اربعہ کے اس عالم میں ایسے چھوٹے نظر آتے ہیں جیسے بڑے بڑے گول ستاروں کے دور سے صرف نقطے دکھائی دیتے ہیں.یہ بھی حیرت انگیز کلام ہے جو انسانی فطرت کی پاتال میں اتر کر اس کی حقیقتیں بیان کرنے
خطبات طاہر جلد 14 796 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء والا کلام ہے.باوجود اس کے کہ یہ چاروں صفات اس شان سے جلوہ گر ہیں کہ ان کے چھپنے، ان کے مخفی ہونے کا سوال ہی کوئی نہیں پیدا ہوتا.کون سی وہ جگہ ہے، کون سی وہ فضا ہے جہاں رحمانیت جلوہ گر نہیں، جہاں ربوبیت جلوہ گر نہیں ، جہاں رحمانیت نہیں اس کی مالکیت کی شان جلوہ گر نہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان ایسا غافل ہے کہ اس کو بہت دور کی نظر میں کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے یعنی زندگی میں شاذ کے طور پر اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے.کبھی دھیان جاتا ہے، غور کرتا ہے، ہاں شاید رحمان بھی ہے.فرمایا، یہ عجیب شان ہے قریب تر ہوتے ہوئے بھی دورتر بھی ہو جاتا ہے معنے ہیں، اس کے یعنی ایک معنے یہ بھی ہیں.بعض انسانوں کے قریب تر ہے جن کو ہر وقت خدا تعالیٰ کی صفات دکھائی دیتی ہیں ہر جلوے میں، صبح شام، اٹھتے بیٹھتے يَذْكُرُونَ الله قيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ ( آل عمران : 192) وہ کھڑے ہو کے بھی یاد کرتے ہیں، بیٹھ کے بھی یاد کرتے ہیں، پہلوؤں کے بل لیٹے ہوئے بھی یاد کرتے ہیں ان کو ہر طرف، چاروں طرف، صفات باری تعالی دکھائی دیتی ہیں اور وہ ہیں جن کو بہت دور دکھائی دیتا ہے خدا.تو خدا بیک وقت قریب بھی ہے اور دور بھی ہے.مگر جسمانی لحاظ سے قریب ہوتایا بہتا ہوانہ دکھائی دیتا ہے ندوہ بھی ایسا کرتا ہے.اپنی جلوہ گری میں بیک وقت وہ نزدیک بھی ہے اور دور بھی ہے، شہ رگ کے قریب بھی ہے....لیکن عالم معاد میں پورا نظارہ ان صفات اربعہ کا ہوگا اس لئے دو حقیقی اور کامل طور پر يَوْمِ الدِّینِ وہی ہوگا جو عالم معاد ہے...“ جو آخر پر جہاں پہنچنا ہے ہم سب نے وہ عالم جو ہے اس میں اس کا پورا نظارہ ہوگا.اس عالم میں ہر ایک صفت ان صفات اربعہ میں سے دو ہری طور پر اپنی شکل دکھائے گی“.اب دیکھیں یہ پڑھ کے میری روح وجد میں آگئی کیونکہ میری پہلے اس پر نظر نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات یقین کی طرح گاڑ دی تھی کہ یہی چار صفات ہیں جو بصارت کی تیزی کے نتیجے میں ، روح کی نئی لطافتوں کے نتیجے میں دگنی ہو کے دکھائی دیں گی اور قرب کے نتیجے میں ایک چیز بڑی دکھائی دیتی ہے.اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعینہ یہی بات فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 14 797 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء اس وقت یہ چار صفتیں آٹھ معلوم ہوں گی.اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا گیا ہے کہ اس دنیا میں چار فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اٹھا رہے ہیں اور اس دن آٹھ فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اٹھائیں گے.یہ استعارہ کے طور پر کلام ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہر صفت کے مناسب حال ایک فرشتہ بھی پیدا کیا گیا ہے...66 مگر صفت کے مناسب حال پیدا کیا گیا ہے وہ خود وہ صفت نہیں ہے.اس لئے چار صفات کے متعلق چار فرشتے بیان کئے گئے اور جب آٹھ صفات کی تجلی ہو گی تو ان صفات کے ساتھ آٹھ فرشتے ہوں گے کیونکہ ان صفات کے مناسب حال فرشتہ پیدا کیا جائے گا.اور چونکہ یہ صفات الوہیت کی ماہیت کو ایسا بھنا اپنے اوپر لئے ہوئے ہیں کو یا اس کو اٹھا رہے ہیں.یہ صفات ہیں جو الوہیت کی ماہیت کو گویا ایسے اپنے اوپر لئے ہوئے ہیں گویا اس کو اٹھا رہے ہیں.اس لئے استعارہ کے طور پر اٹھانے کا لفظ بولا گیا ہے.ایسے استعارات لطیفہ خدا تعالیٰ کی کلام میں بہت ہیں جن میں روحانیت کو جسمانی رنگ میں دکھایا گیا ہے...ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 252-251) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر اتم قرار دیا ہے اور اسی لئے صرف اس قدر ذکر پر نتیجہ مرتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندر رکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے اور در حقیقت یہ صفتیں بہر وجہ کامل ہیں اور ایک دائرہ کے طور پر الوہیت کے تمام لوازم اور شرائط پر محیط ہیں کیونکہ ان صفتوں میں خدا کی ابتدائی صفات کا بھی ذکر ہے اور درمیانی زمانوں کی رحمانیت اور رحیمیت کا بھی ذکر ہے اور پھر آخری زمانہ کی صفت مجازات کا بھی ذکر ہے اور اصولی طور پر کوئی فعل اللہ تعالیٰ کا ان چار صفتوں سے باہر نہیں.پس یہ چار صفتیں خدا تعالیٰ کی پوری صورت دکھاتی ہیں سو
خطبات طاہر جلد 14 798 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1995ء در حقیقت استواء علی العرش کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کر کے ظہور میں آگئیں تو اللہ تعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر تجلی ہوگئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے.“ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 457-455- حاشیہ ) پس اس تخت کا ایک اور معنی بھی بیان فرما دیا.پس یہ خیال کرنا کہ ایک جگہ فلاں معنی کیا گیا ہے، دوسری جگہ فلاں معنی کیا گیا، یہ جہالت ہے.خدا تعالیٰ کے کلام میں بہت سے بطون ہیں اور اس کی صفات کو الٹ پلٹ کے دیکھیں تو نئے جلوے اس میں دکھائی دیتے ہیں.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شان ( الرحمان : 30) کا یہی مطلب ہے.صفات اگر ننانوے ہیں جو ہمیں بتائی گئی ہیں تو ہر یوم جو بے شمار زمانوں پر اطلاق پاتا ہے.اس میں نئی جلوہ گری کیسے ہوسکتی ہے اگر صفات نوع بہ نوع جلوے نہ دکھا ئیں اور اس پہلو سے عرش الہی جو صفات کا نام ہے اس کے بھی مختلف جلوے ہیں.پس ایسی بحثوں میں نہ پڑو جو تمہاری استطاعت اور سمجھ سے باہر کی بات ہے.وہاں تو فرشتوں کے بھی پر جل گئے.الله محمد رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے ہم اس عرش کی باتیں سنتے اور سمجھتے ہیں جن کی رویت صرف ایک انسان کامل کو ہوئی یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور اس رویت کو اس نے اس طرح دیکھا جس نے اپنی آنکھیں چھوڑ دیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اختیار کر لیں.اپنا دماغ ترک کر دیا اورمحمد رسول اللہ کے دماغ میں مدغم ہو گیا.اپنے نفس کے، اپنے ورد، ذکر، اپنے دل کے ہر تقاضے کو قربان کر دیا اور محمد رسول اللہ ﷺ آپ کے دل پر اس طرح مستوی ہوئے جس طرح اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر مستوی تھا.پس آپ کی آنکھوں سے، آپ کے دل سے، آپ کی کیفیات سے آپ نے خدا کو دیکھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں، یہ آپ کا مرتبہ اور مقام ہے.اس کو سمجھتے ہوئے ہمیں بھی انہی راہوں پر قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن توفیق خدا سے ہی مانگنی ہوگی.اس کی توفیق کے بغیر ایک قدم اٹھانا بھی اس راہ میں ممکن نہیں.
خطبات طاہر جلد 14 799 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 1995ء خطبہ ثانیہ سے پہلے یہ اعلان کرنا تھا وہ میں نے نہیں کیا غالبا.آج کے جمعہ میں دعائیہ اعلان کے لئے ایک بھارت کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے سالانہ اجتماعات آج سے شروع ہو رہے ہیں، تین دن تک جاری رہیں گے.ان سب کو ہم سب کی طرف سے مبارک ہو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ اور ان کو بھی جن کے میں نام پڑھ کر سنانے لگا ہوں.اللہ ان سب کے اجتماعات مبارک کرے.مجلس خدام الاحمد یہ جرمنی کی چھٹی مجلس شوری کل 21 راکتو بر کو شروع ہورہی ہے، انشاء اللہ دو دن جاری رہے گی.خدام الاحمدیہ سویڈن کا تیرھواں سالانہ اجتماع اور خدام الاحمدیہ تقسیم کا چوتھا سالانہ اجتماع کل سے شروع ہو رہا ہے.یہ بھی دو دن جاری رہیں گے.اللہ ان سب اجتماعات کو با برکت کرے.آمین
800 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 801 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام صفات کا ملہ کا جامع ہے جن کے کامل امتزاج کا نام نور ہے ( خطبه جمعه فرموده 27 /اکتوبر 1995ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا b مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةِ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّشَيْءٍ عَلِيمُ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ پھر فرمایا:.لا (النور: 37،36) یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ النور کی 36 اور 37 آیات ہیں.ان آیات سے متعلق میں ایک خطبے یا دو خطبات میں اس سے پہلے ایک رنگ میں روشنی ڈال چکا ہوں یا ان سے روشنی حاصل کر کے آپ کے ساتھ اس میں شریک ہو چکا ہوں لیکن اب ایک اور پہلو سے اس
خطبات طاہر جلد 14 802 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء مضمون کو میں نے دوبارہ لیا ہے.چند دن ہوئے ایک خط کے ذریعے مجھ سے یہ بڑے زور سے توقع رکھی گئی کہ وہ جو صفات باری تعالیٰ اور اسماء باری تعالیٰ کا سلسلہ تھا اسے پھر کبھی کبھی لے لیا کروں، دوبارہ اس پر خطبات شروع کر دیا کروں کیونکہ لکھنے والے نے لکھا کہ کئی پہلو سے نہ صرف عقلی اور قلبی لحاظ سے یہ سلسلہ مفید ہے بلکہ روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسماء باری تعالیٰ کے مضمون پر بار بار گفتگو کرتے رہیں اور غور کرتے رہیں.دلیل بڑی قطعی اور مضبوط ہے لیکن میں نے شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ یہ تو ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو پھر کبھی ختم نہیں ہوسکتا لیکن دوسری باتیں جو بیچ میں ضرور پیش آتی رہتی ہیں ان کا بیان بھی ضروری ہے.ہر چند کہ ذکر الہی کا مضمون غالب اور افضل ہے مگر فی الحقیقت جو دوسری باتیں بھی خطبات میں پیش ہوتی ہیں وہ ذکر الہی کے تابع ہیں، ذکر الہی کی تیاری کے سلسلے میں ہیں.اگر وہ تربیتی اور اصلاحی امور جماعت پر نہ کھولے جائیں تو وہ ذکر الہی کے مضمون کو قبول کرنے ، سمجھنے اور اپنی ذات میں جاری کرنے کے اہل ہی نہیں ہو سکتے.پس یہ تفریق درست نہیں ہے کہ گویا کچھ خطبات تو ذکر الہی پر چلتے ہیں.بعض ظاہری طور پر ایسے تعلق ہیں جو ظاہری طور پر دکھائی دے جاتے ہیں.بعض ایسے تعلق ہیں جب گہری نظر سے دیکھیں تو وہ دکھائی دینے لگتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ ذکر الہی کا مضمون زندگی کے ہر شعبے بلکہ وجود کے ہر شعبے سے تعلق رکھتا ہے.انہوں نے اپنے خط میں خصوصیت سے لفظ نور پر روشنی ڈالنے یعنی الفاظ تو یہ استعمال کئے مگر حقیقت یہ ہے کہ کہنا وہ یہ چاہتے تھے کہ لفظ نور سے روشنی حاصل کر کے ہمیں بھی وہ روشنی دکھا ئیں جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے اسم نور سے ہے اور یہ چونکہ ایک مرکزی اسم ہے، اللہ کے بعد وہ اسم جو تمام صفات باری تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے وہ نور ہے اور حقیقت میں ایک رنگ میں اللہ کا متبادل دکھائی دیتا ہے.اس پہلو سے میں پہلے بھی گفتگویا آپ کو اس مضمون کو سمجھانے کی بات کا سوچ چکا ہوں لیکن مشکل یہ در پیش تھی کہ یہ مضمون بہت مشکل ہے.بہت دقیق ہے، بہت باریک بھی ہے، وسیع بھی ہے اور ایک دفعہ اس مضمون کو شروع کیا جائے تو جماعت کے ہر طبقہ علم کو، ہر ذہنی درجے کو ٹلو ظ ر کھتے ہوئے اسے سمجھا دینا ایک مشکل کام ہے.اس لئے اس بات کا حوصلہ نہیں پڑا کہ اس مضمون کو اٹھاؤں لیکن انہوں نے اب واضح طور پر مطالبہ یہ کیا ہے کہ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا ہے تو اسم نور سے شروع
خطبات طاہر جلد 14 803 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء کریں.اس غرض سے میں نے اس آیت کی دوبارہ تلاوت کی ہے جس کے بعض پہلوؤں پر میں پہلے بات کر چکا ہوں.اب کچھ ایسے پہلو ہیں جو نور کی ماہیت سے تعلق رکھتے ہیں اس کی ماہیت کو ہم صرف اسی حد تک سمجھ سکتے ہیں جس حد تک قرآن کریم نے یا حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سمجھایا ہے یا ان دونوں سے اخذ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت ہی تفصیل سے عارفانہ مطالب بیان فرمائے ہیں.- سب سے پہلے تو عموما نور کی بات ہے، نور کیا چیز ہے؟ نور کے متعلق عموماً تصور یہ ہے کہ جس کو ہم روشنی کہتے ہیں وہی نور ہے اور سورج کی روشنی ہو یا چراغ کی روشنی ہو یا کوئی ایسی چیز جو چمک رہی ہو جیسے جگنو چمکتا ہے یہ سب روشنیاں نور ہیں.یہ درست ہے کہ نور کے ایک معنی کے تابع یہ ساری روشنیاں آتی ہیں مگر جب اللہ کے نور کی بات ہو تو اس کو ان روشنیوں کے حوالے سے سمجھانا ناممکن ہو جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال کے وقت کسی ظاہری نور کی بات نہیں فرمائی بلکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مثال دی ہے.جس سے پتا چلتا ہے کہ نورالہی کی کہہ میں فی ذاتہ چمکنا ں ہے.چمکنے والا نور اور ہے جو آنکھ دیکھ سکتی ہے.کچھ نور ہے جو باطن میں ہے جو ہر چیز کی اصلی وجہ ہے، جس سے ہر چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ نور ہے جو انسان اپنی عام آنکھ سے دیکھ ہی نہیں سکتا اور اصل وہ نور ہے اور جس سے دوسرے سب نور ایک ظاہر میں دکھائی دینے والی کچھ حقیقتیں ہیں.ان کا کیا تعلق ہے اللہ کے نور سے اور اللہ نے اپنے نور کی مثال کے وقت چاند سورج کا ذکر کیوں نہ فرمایا بلکہ صرف حضرت محمد مصطفی عملہ کا ذکر فرمایا اور ایک ایسے انداز میں جس سے نور کی وہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے جس حقیقت کا انسان کے ارتقاء سے تعلق ہے، جس حقیقت کا انسان کے اس ارتقاء سے تعلق ہے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف رفعتوں میں لے جاتا ہے.پس یہ وہ پہلو ہے جس کو میں اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق آج کھولنے کی کوشش کروں گا اور اگر آج جیسا کہ نظر آ رہا ہے کہ وقت کافی نہیں ہوگا تو پھر آئندہ ایک دو خطبات میں بھی یہی مضمون چلے گا.سب سے پہلے لفظ نور کے متعلق عمومی بات میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ نور دراصل اپنی ذات میں ایک ارتعاش کا نام ہے اس سے زیادہ یہ کچھ نہیں ہے اور جتنی بھی تو انا ئیاں ہیں وہ ارتعاش ہی ہیں.ارتعاش کا مطلب ہے تموج ، حرکت اور تموج اگر کسی چیز میں پیدا ہوتو وہ ایک توانائی کا مظہر
خطبات طاہر جلد 14 804 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء بن جاتا ہے اور کوئی توانائی بھی تموج کے بغیر متصور نہیں ہوسکتی.ہر توانائی میں ایک تموج پایا جاتا ہے.یعنی زیر و بم ، حرکت ، ایک اندرونی حرکت جو بیرونی طور پر بعض انسانی حسی قوتوں سے مشاہدہ کی جا سکتی ہے.مثلاً آگ ہے یہ ایک توانائی ہے.اس کے اندر بھی تموج ہے لیکن وہ تموج بسا اوقات نظر نہیں بھی آتا.جب آپ اس کو ہاتھ لگاتے ہیں تو تب محسوس ہوتا ہے کہ اس میں گرمی ہے.پس آگ نہ نظر آنے والی توانائی بھی رکھتی ہے اور نظر آنے والی توانائی بھی رکھتی ہے لیکن جو نظر آنے والی توانائی ہے اس کا نور سے تعلق ہے نار سے تعلق نہیں.اس کا روشنی سے تعلق ہے، اس کا گرمی سے تعلق نہیں ہے.پس توانائیوں میں مختلف قسم کی توانائیاں اس طرح داخل ہو جاتی ہیں کہ تموج کی شکلیں بدل جاتی ہیں.لہریں تموج ہی کو کہتے ہیں.تموج ہی کا ایک اظہار ہے لہر اور جتنی بھی توانائیاں ہم دیکھتے ، سنتے یا محسوس کرتے ہیں ان کا لہروں سے تعلق ہے.پس مادہ دکھائی دیتے ہوئے بھی ان کا کنہہ مادہ نہیں ہے بلکہ مادے سے وراء الوراء کچھ اور ایسا اول محرک ہے جس نے ان کو حرکت دی اور حرکت دے کر جب اس حرکت نے ایک جگہ اجتماع کر لیا اور یہ حرکت ایک منجمد صورت میں تبدیل ہو گئی تو اسے ہم مادہ کہتے ہیں.پس توانائی بھی مادے کی شکل ہے اور مادہ بھی توانائی ہی کی ایک شکل ہے.اب یہ مضمون سائنس کے لحاظ سے بہت وسعت رکھتا ہے اور بہت گہرا اور باریک ہوتا چلا جاتا ہے مگر میں یہاں اس سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ اس دائرے میں رہتے ہوئے اسے مزید کھولنے کی کوشش کرتا ہوں.اب جو آواز میری آپ سن رہے ہیں یہ اس لئے سن رہے ہیں کہ اس آواز کو ایک تموج نے پیدا کیا ہے.وہ تموج میرے گلے کے ان دھاگوں سے پیدا ہوا، ریشوں سے پیدا ہوا جو اللہ تعالیٰ نے آواز پیدا کرنے کی خاطر بنائے ہیں.اور ہونٹوں سے اور زبان سے اور گلے کے سوراخ سے جس کے ملنے اور الگ ہونے سے کچھ تموج پیدا ہوتے ہیں.ان سب تموجات کو ہم کانوں کے ذریعے سنتے ہیں اور کانوں کے اندر پر دے ہیں جو بعینہ اسی طرح، اسی زیر و بم کے ساتھ متحرک ہو جاتے ہیں جو زیرو بم آپ کے بولتے وقت آپ کے گلے میں پیدا ہو رہا ہے یا ہونٹوں میں پیدا ہو رہا ہے یا زبان کے منہ کے اندر مختلف حصوں کے ملنے اور الگ ہونے سے پیدا ہو رہا ہے، گلے کے سوراخ کے تنگ ہونے اور کھلنے سے پیدا ہو رہا ہے.یہ سب تموجات ہیں جو آپ کے ذہن تک پہنچتے ہیں لیکن براہ
خطبات طاہر جلد 14 805 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء.راست نہیں.ایک کانوں کا پردہ آپ کو عطا ہوا ہے اس پردے پہ اگر ویسا ہی تموج پیدا ہو جائے جیسا کہ بات کرنے والے نے اس کو چلایا تھا تو وہ تموج پر دے کو متحرک کر کے ایک ایسے حسی تار کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے جس کو ہم Auditory Nerve کہتے ہیں یعنی سماعت کا وہ حسی ریشہ، Nerve کا ترجمہ میرے لئے اردو میں مشکل ہے لیکن مراد یہ ہے کہ وہ ریشہ جوکسی چیز سے بنا ہوا ہے اور وہ حسیات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے کام آتا ہے.اب وہ ریشہ بھی اس تموج کو غیر صوتی انداز میں دماغ تک منتقل کرتا ہے، پردے کی حد تک صوت ٹھہر گئی اس کے بعد جب وہ حرکت منتقل ہوئی تو ایسے صوتی ریشے میں منتقل ہوئی ہے جس نے اس آواز کے تموج کے مطابق خود لرزتے ہوئے اس پیغام کو بغیر شور کے آگے پہنچانا ہے.دماغ کے اندر جو اعصابی ریشے بے انتہا کام کر رہے ہیں ، ان گنت میلوں کا سفر یہ حرکتیں ہر روز ہر وقت ہمارے دماغ میں کر رہی ہیں، ان کا کوئی شور نہیں ہے.اس لئے ایک صوتی نظام کو ایک بے آواز نظام میں تبدیل کیا گیا اور وہ تموج کی آخری شکل ہے جو ذ ہن سنتا ہے.یعنی سنتا ہے لیکن سنتا نہیں بھی ہے.کوئی شور نہیں ، کوئی آواز نہیں مگر اس کا پیغام سمجھ جاتا ہے کیونکہ تموج کی شکل وہی ہے.اب یہ جو نظام ہے اس پر غور کریں تو پھر آپ نور کی اس مثال کو بھی سمجھنے کی زیادہ اہلیت رکھیں گے ، جو میں آپ کے سامنے رکھنے والا ہوں، جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے بیان فرمائی ہے.جہاں گلے کی حرکت، آواز کا زور سے نکلنا ، اس کی شدت جہاں تک اس میں قوت کے استعمال کا تعلق ہے یہ کیسے ہوا.اس کا آغاز ذہن سے ہوا اور ذہن میں کوئی شور نہیں تھا.ذہن میں کوئی تصور ایسا نہیں تھا جسے محسوس کیا جاسکے، جسے سنا جاسکے.پس لطیف تر تموج پہلے پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ کثیف یعنی گاڑھے اور مادی اور دکھائی دینے والے اور سنائی دینے والے تموج میں تبدیل ہو جاتا ہے یا محسوس ہونے والے تموج میں تبدیل ہو جاتا ہے.اول طاقت جو پس پردہ ہے وہ بے آواز ہے اور وہ طاقت جو ہم جانتے ہیں وہ آواز رکھتی ہے، ایک شور رکھتی ہے، ایک ہنگامے کی کیفیت رکھتی ہے.ایسی شدت بھی اختیار کر سکتی ہے کہ اس کے لرزنے سے بڑی بڑی عظیم چٹانوں میں دراڑ پڑ جائیں.یہ صوتی تموج ایسی عظیم قوت بھی اختیار کر سکتا ہے کہ جس کے لرزنے سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں.پس اصل توانائی ہے مگر جہاں سے توانائی
خطبات طاہر جلد 14 806 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء شروع ہوئی ہے اس میں فی ذاتہ کوئی تموج دکھائی نہیں دے سکتا، کامل خاموشی ہے اور وہ اول تموج کی وجہ ہے جو ذہن کے اندر پیدا ہو رہا ہے.اس لئے جب تک اسی قسم کے تموج میں اس ظاہری شور کو تبدیل نہ کیا جائے اسے بے آواز نہ بنایا جائے دماغ کا دماغ سے رابطہ نہیں ہوسکتا.پس ہر توانائی کی یہی مثال ہے جو دکھائی نہیں دے رہی ، جو سنائی نہیں دے رہی وہ محسوس کی جاتی ہے لمس کے ذریعے.پس لمس کے ذریعے جو احساس ہے وہ بھی گرمی کی صورت میں دماغ میں نہیں پہنچتا اور نہ دماغ میں آگ لگادے.سوچنے والا دماغ ہے.اگر دماغ سے تعلق کاٹ دیں تو انگلی جوگرم چیز پرلگی ہے وہ بھسم ہو جائے گی اور اگر بہت گرم چیز ہو تو آنا فانا غبار بن جائے گی لیکن اس کی گرمی دماغ تک نہیں پہنچے گی.دماغ تک نہ کوئی ٹھنڈ پہنچتی ہے، نہ کوئی گرمی پہنچتی ہے، نہ کوئی آواز پہنچتی ہے، نہ کوئی روشنی پہنچتی ہے.لیکن جو کچھ پہنچتا ہے وہیں پہنچتا ہے، وہاں نہ پہنچے تو کچھ بھی نہیں.اگر وہ تعلق توڑ دیں تو نہ روشنی کی کوئی حقیقت رہے گی ، نہ گرمی کی کوئی حقیقت رہے گی نہ جس کی طاقتوں سے محسوس ہونے والی چیزوں کی کوئی حقیقت رہے گی.نہ خوشبو کی حقیقت رہے گی، نہ ذائقہ کی حقیقت رہے گی.تو خدا تعالیٰ کی طرف حرکت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے حرکت کو اس مضمون کو سمجھنے کے لئے انسان اگر اپنے نفس پر اور اپنی تخلیق پر غور کرے تو اس کو بہت مددمل سکتی ہے اور اس کے بغیر انسان ان حقیقتوں کو پانہیں سکتا.اب گرمی ہوا اور خدا کا وجود بھی وہاں ہو، جہنم ہو اور خدا کا وجود بھی موجود ہو کیونکہ کوئی کائنات کا ایسا حصہ نہیں.جہاں خدا موجود نہیں جنت ہو سخت سردی ہو اور خدا کا وجود وہاں موجود ہو اور پھر ان سے بالا رہے اس کی اگر سو فیصدی نہیں اور یقیناً سو فیصدی نہیں تو سمجھانے کے لئے یہ مثال آپ کے کام آ سکتی ہے کہ دماغ تک تو نہ آواز پہنچتی ہے، نہ گرمی پہنچتی ہے، نہ خوشبو بلکہ اگر یہ ساری چیزیں وہاں پہنچ جائیں تو دماغ مختل ہو جائے اور دماغ کام کرنے کے قابل ہی نہ رہے.اس کی خدا تعالیٰ نے حفاظت فرمائی اور ان چیزوں کا مرکز ہونے کے باوجود اور ان چیزوں کے تصورات کی آماجگاہ ہونے کے باوجود ان چیزوں کے ذاتی اور براہ راست اثر سے اس کی حفاظت فرمائی گئی ہے اور یہ چیز ہمیں بتاتی ہے کہ جس کو ہم مادہ سمجھ کر اتنی اہمیت دے رہے ہیں یہ مادہ فی ذاتہ کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا اگر شعوری موجوں میں تبدیل نہ ہو جائے اور شعوری موجیں اپنی ذات میں بہت ہی لطیف چیزیں ہیں جن کی کنبہ کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا.آج تک اتنی ترقیات کے باوجود انسان کو ذوق کا بھی پوری
خطبات طاہر جلد 14 807 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء طرح نہیں پتا چل سکا کہ یہ کیا چیز ہے.ٹو کی حس کا بھی پوری طرح پتا نہیں چل سکا کہ یہ کیا چیز ہے.اب تک جو ترقی ہوئی ہے اس کا تعلق سماعت سے ہے اور بینائی سے ہے.ٹیلی ویژن میں آپ سماعت کو بھی منتقل ہوتا دیکھتے ہیں اور بینائی سے تعلق رکھنے والی توانائیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں.مگر ٹیلی ویژن سے کبھی آپ کو خوشبو نہیں آئے گی ، ٹیلی ویژن سے کبھی آپ کو مزہ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ خوشبو اور مزے پر ابھی انسانی علم اتنا محدود ہے اور اتنا سرسری ، سرسری کے بھی کنارے پر کھڑا ہے کہ آج تک اس میں کوئی ترقی نہیں ہو سکی ، کوئی سائنسی قدم ایسا آگے نہیں بڑھ سکا جو جس طرح قوت سماعت اور قوت بینائی کے متعلق حیرت انگیز کام انسان نے کئے ہیں اس میں بھی کر سکے.اسی لئے میں بارہا احمدی سائنٹسٹس کو توجہ دلا چکا ہوں کہ یہ دو میدان آپ کے لئے خالی پڑے ہیں.پہلے دومیدانوں پر عیسائیت نے قبضہ کر لیا اور یہ دولطیف تر میدان ہیں جو زیادہ رفعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ گہرائیوں سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ان کا شعور براہ راست مادی شعور سے اتنا قریب نہیں ہے جتنا سماعت کا شعور مادی شعور سے قریب تر ہے اور بینائی کا شعور مادی شعور سے قریب تر ہے.یہ ابھی انسانی عقل کی پہنچ سے بہت دور کی باتیں ہیں اس لئے جماعت کو ان پر غور کرنا چاہئے اور یہ سارے نور ہیں.پس میں جو آپ سے نور کی بات کرتے کرتے آپ کو سماعت کی طرف لے گیا یا قوت ذائقہ کی طرف لے گیا یا خوشبو کی طرف لے گیا تو یہ نہ سمجھیں کہ میں بات کرتے کرتے بہک گیا ہوں.یہ تمام باتیں نور سے تعلق رکھتی ہیں اور نور کی جو بنیادی تعریف قرآن کریم نے پیش فرمائی ہے اس میں اس کا دکھائی دینا شامل نہیں ہے بلکہ جو دکھائی دیتا ہے وہ دراصل نور کا پردہ ہے.اصل نور اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یا اس کی ذات سے پھوٹتا ہے اور وہ نور صفات ہے اور وہ نور صفات اس ظاہری نور سے بعض مشابہتیں رکھتا ہے جسے ہم نور سمجھتے ہیں.نور صفات سے ظاہری مشابہتیں مثلاً یہ ہیں کہ جو ظاہری نور ہے جس کو ہم سفید روشنی کی طرف ، جس طرح وہ دیکھیں آپ کے سامنے وہ ٹیوبز جل رہی ہیں سورج کی روشنی کے مشابہ سفید روشنی پیدا کر رہی ہیں، ان پر غور کریں تو ان میں ایک روشنی تو نہیں ہے، ان میں کئی قسم کی روشنیاں ہیں اور ہر روشنی کی لہروں کے مزاج کا فرق ان کے مختلف رنگ ظاہر کرتا ہے اور ان کے کامل امتزاج سے وہ چیز نکلتی ہے جس کو عرف عام میں نور کہا جاتا ہے.پس الله نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام
خطبات طاہر جلد 14 808 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء صفات کاملہ کا جامع ہے جن کے کامل امتزاج کا نام نور ہے.جیسے روشنی کی لہروں کو جو مختلف درجوں سے تعلق رکھتی ہیں، مختلف شکلوں سے تعلق رکھتی ہیں، اگر ایک خوبصورت توازن میں ڈھال کر اکٹھا کر دیا جائے تو وہ سفید روشنی جس کو ہم نور کہتے ہیں وہ بن جائے گی.ورنہ الگ الگ ہوں یا چھوٹے دائروں میں ہوں تو کہیں وہ نیلی دکھائی دے گی، کہیں سبز دکھائی دے گی ، کہیں زرد دکھائی دے گی، کہیں Violet دکھائی دے گی، کہیں Ultra Violet دکھائی دے گی، کہیں ایسی شکلیں اختیار کر لے گی کہ جن میں حدت یعنی گرمی تو ہے، نار کے مشابہ زیادہ ہے مگر نور نہیں ہے یعنی دکھائی نہیں دیتا.کہیں وہ لہریں ایسی شکل اختیار کر لیں گی کہ جسے انسان تو نہیں دیکھ سکتا مگر شہد کی مکھیاں دیکھ رہی ہیں.جسے شہد کی مکھیاں تو نہیں دیکھ سکتیں مگر بعض پرندے دیکھ رہے ہیں، بعض پرندے تو نہیں دیکھ رہے مگر بعض کیڑے مکوڑے دیکھ رہے ہیں.تو آگے پھر اس نور کی بے شمار قسمیں ہیں جسے ہم ایک روشنی سمجھتے ہیں.رنگوں کے لحاظ سے پانچ بنیادی رنگوں میں سائنس دانوں نے اسے تقسیم کیا ہے اور یا کم و بیش ہوں گے.سات رنگ بتاتے ہیں ان کے اندرونی ادل بدل اور ملنے جلنے سے جو پیدا ہوتے ہیں.مگر پانچ یا سات کی بحث نہیں ہے اگر آپ روشنی کے مزاج کو سمجھنے کے لئے ، اس کی لہروں پہ زیادہ غور کریں اور ان کے اندرونی فرق کو دیکھیں تو اس میں اور بھی بہت سی چیزیں ایسی دکھائی دیں گی جو اس نور کا ایک لازمی حصہ ہیں، جو ایک اجتماعی شکل میں اس کو سورج کی روشنی کے طور پر ہمارے سامنے لاتے ہیں.مگر یہ وہ نور نہیں ہے جو اللہ کا نور ہے.یہ وہ نور ہے جو اللہ کے نور سے پیدا ہوا ہے.اس لئے وہ تاریک کائنات جو انسان کو دکھائی نہیں دیتی وہ بھی اللہ کا نور ہے.کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ سماوات والارض میں سے بعض چیزیں اللہ کا نور ہیں اور بعض نہیں یا بعض چیزوں کا ، اللہ نور ہے، یہ کہنا چاہئے ، قرآن تو یہ فرما رہا ہے کہ بعض چیزوں کا اول محرک اللہ ہے، اول اللہ نور ہے اور وہ ثانوی ہیں بلکہ ساری کائنات میں جو Dark Matter ہے جس میں انسان کو کوئی بھی ایسا تموج دکھائی نہیں دیتا جسے وہ روشنی کہہ سکے اندھیرا دکھائی دیتا ہے اس کو.مگر جب توانائی ہے تو تحرک اس میں ضرور ہے، جب توانائی ہے تو تموج ضرور ہے.اس تموج کو بھی اللہ نور ہی قرار دے رہا ہے یعنی نور سے پیدا شدہ مگر فی ذاتہ اللہ کا نور نہیں ہے.اس کی بہت سی لطیف تفاسیر ہیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے ارشادات میں ملتی
خطبات طاہر جلد 14 809 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عارفانہ تفاسیر میں دکھائی دیتی ہیں.میں اس عمومی تمہید کے بعد پھر ایک ایک چیز لے کر آپ کے سامنے کھولوں گا.سب سے پہلی بات یہ ہے جو اللہ کے نور کی اصل ماہیت ہے اس کی کسی کو کوئی خبر نہیں اور اس کی صرف مثالیں ہی ہیں جو بیان ہوسکتی ہیں.بعض احادیث سے یہ شک پڑتا ہے کہ شاید رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے نور کی ماہیت کا دیدار ہوا ہے مگر بعض دوسری احادیث نے اس پر مزید روشنی ڈال کر اس شک کا خود ازالہ فرما دیا ہے.میں ایسی ہی پہلی نوعیت کی ایک حدیث صحیح مسلم کتاب الایمان سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.صلى الله حضرت عبداللہ بن شقیق جو تابعی تھے ، بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہوتا تو میں آپ سے ایک سوال ضرور کرتا.حضرت ابو ذر غفاری نے فرمایا کہ بتاؤ تو سہی وہ کیا سوال تھا جو تم کرتے اگر تم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہوتا.تو اس نے کہا میں رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کرتا اگر میں نے ان کو دیکھا ہوتا کہ کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے؟ اور دیکھنے کا تعلق اس رنگ میں رسول اللہ ﷺ کے وسیلے سے خدا تک پہنچا دیا.ابوذرغفاری نے کہا کہ تمہارے نہ دیکھنے کا کوئی فرق نہیں پڑا.میں نے دیکھا ہے اور میں صلى الله نے خود یہ سوال کیا تھا اور جب میں نے سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیار ایـت نـوراً میں نے ایک نور دیکھا ہے یعنی ایک قسم کا نور دیکھا ہے.(مسلم) کیا مراد ی تھی کہ میں نے اللہ کا نور اس کی ماہیت کے لحاظ سے دیکھا ہے؟ یہ ایک انسان کے ذہن میں خیال ابھر سکتا ہے.اس کا جواب بخاری کی حدیث میں حضرت ابوذر سے ہی مروی ہے.دوسری حدیث بھی مسلم ہی کی ہے بخاری کی نہیں.حضرت امام مسلم نے ایک باب میں دو حدیثیں باندھی ہیں، میرے ذہن پہ یہ تاثر تھا کہ وہ بخاری کی حدیث ہے جب میں نے چیک کیا ہے تو بخاری کی نہیں وہ مسلم ہی کی دوسری حدیث ہے.ایک حدیث میں حضرت ابو ذرغفاری سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت مہ نے جواب دیا میں نے ایک نور دیکھا ہے.دوسری حدیث میں یہ روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے جب پوچھا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، آپ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں.قال هو نورانی اراہ تو نوراً جو لفظ تھاوہ دراصل نور تھا جو فرمایا اور انسی کا جو حصہ ہے وہ ایک راوی بھول گیا اور دوسرے راوی نے اس کو مکمل کر دیا.یہ پوری شکل
خطبات طاہر جلد 14 810 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء بنی ہے اب کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں.(مسلم) اس حدیث نے ایک اور مضمون سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ اللہ کا نور آنحضرت مے کے عرفان کے مطابق ظاہری نور نہیں تھا اور نہ ظاہری نور کو تو ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے.ظاہری نور ہی کے صلى الله ذریعے دیکھتے ہیں ، ظاہری نور ہی کو دیکھتے ہیں.چاند سورج کو دیکھتے ہیں مگر حضرت رسول اللہ ہے ان کے نور کو خدا کا نور ان معنوں میں قرار نہیں دے رہے کہ گویا اس نور کو دیکھنا خدا کا دیکھنا ہے.اللہ کا نور اس نوعیت کا ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ انسان اس کو دیکھ نہیں سکتا.پھر یہ نور کیا ہے جو ہمیں دکھائی دیتا ہے؟ اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ ایک دوسری حدیث میں یہ ذکر موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نور، خدا تعالیٰ کا حجاب ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا پردہ ہے یعنی جن کے پیچھے اللہ چھپا ہوا ہے.جو تمہیں ظاہری روشنی سورج کی دکھائی دیتی ہے تم اس کو نور سمجھ رہے ہو، یہ حجاب ہے جو صفات باری تعالیٰ پر ہے اور خدا اس سے پرے ہے اور خود یہ نور نہیں ہے.یہ وہ ابتدائی باتیں ہیں نور سے متعلق جن کو آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اس مضمون کو مزید آپ پر کھولتے چلے جائیں گے.آپ فرماتے ہیں: قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے جب تمام صفات کا ملہ اس میں پائی جائیں.پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن اس کا ظاہر ہے.اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے.جیسا کہ فرمایا ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے.ہر ایک نور اسی کے نور کا پر تو ہے“.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ: 247) یعنی اپنی ذات میں وہ خدا کا نور ہے.خدا کا ایک عکس ہے جو اس پردے پر ظاہر ہوتا ہے.اور وہ عکس اس طرح کا بھی نہیں جیسے مادی عکس ہو یعنی مراد اس کی یہ ہے.توانائی کا مضمون آپ کو سمجھانے کا مقصد یہ تھا تا کہ ان لطیف باتوں کو آسانی سے سمجھ سکیں.توانائی کا آخری منبع اور اول منبع
خطبات طاہر جلد 14 811 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء اللہ تعالیٰ ہے.ہر قسم کی حرکت، ہر قسم کا تموج خدا کی ذات کے ارادے سے پیدا ہوتا ہے.جس طرح آپ کا اردہ آپ کے بدن کو جنبش دیتا ہے، آپ کے گلے کی صوتی تاروں کو جنبش دیتا ہے اور وہی ارادہ ہے جو جنبشیں بن بن کر دوسرے انسانوں کے ذہن میں منتقل ہوتا ہے اور وہاں پہنچ کر ظاہری جنبش میں دکھائی نہیں دیتا کچھ اور قسم کی چیز ہو جاتی ہے ، لطیف تر ہو جاتا ہے.تو لطافت سے آغاز ہوا، لطافت تک پہنچا اور اس کے بغیر ایک جگہ کی کیفیت کو دوسری جگہ منتقل کرنا ناممکن ہے.جس لطافت سے کسی چیز کا آغاز ہوا ہے جب تک دوبارہ اس لطافت میں اس کو تبدیل نہ کریں اس کا دوسری جگہ انتقال ممکن نہیں ہے یعنی معنی خیز نہیں رہتا، ایک بے معنی انتقال ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ اول ہے جس کا ارادہ، جس کی قوت فیصلہ، جس کی چاہت یا جس کی ناپسندیدگی جو بھی شکلیں اختیار کرتی ہے وہ ساری کائنات ہے.تمام کائنات اس ابتدائی تموج سے پیدا ہوتی ہے جس کو تموج کہنا بھی ایک انسانی کلام کی مجبوری ہے.جس طرح ہمارے ہاں دکھائی دینے والا تموج محسوس ہونے والا تموج خواہ وہ آواز سے تعلق رکھتا ہو یا روشنی سے تعلق رکھتا ہو، جب تک ظاہر ہے اس وقت تک کسی نہ کسی صورت میں لطیف ہونے کے باوجود اسے تموج کہا جا سکتا ہے لیکن وہ جگہ جہاں سے تموج شروع ہوا، جہاں پہنچ کر دوبارہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹتا ہے وہاں کم سے کم لطیف ترین تموج ہے.اتنا ہلکا کہ ظاہری تموج کو اس تموج سے کوئی نسبت ہی دکھائی نہیں دیتی.آپ کی آواز سے پہلے جو آپ کا خیال تھا اگر تموج نہ ہو تو خیال پیدا نہیں ہو سکتا لیکن اتنا خاموش کہ آپ زندگی بھر جو چاہیں سوچتے رہیں ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کو آواز سنائی نہیں دے گی.لیکن جب وہ تموج آواز میں ڈھلتا ہے تو کہیں ہلکی نحیف آوازوں میں بھی ڈھلتا ہے، کہیں پر شوکت اور بلند آوازوں میں ڈھل جاتا ہے.اب اذانیں بھی آپ نے مختلف سنی ہیں ہمارے مبارک ظفر صاحب ناروے میں اذان دیا کرتے تھے تو لگتا تھا تکبیر کہہ رہے ہیں اور تکبیر غور سے سنی پڑتی تھی.اب چوہدری آفتاب صاحب ہیں یہ تکبیر کہیں تو لگتا ہے اذان دے رہے ہیں لیکن دونوں کے ذہن میں تموج کی قوتوں میں کوئی فرق نہیں ہے.ویسا ہی تموج ہے اور کوئی آواز کسی کی سنائی نہیں دیتی.تو ذات باری تعالیٰ کا نور ہونا یہ معنے رکھتا ہے کہ تمام کائنات اس کے ارادے، اس کے فکر سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے بغیر کا ئنات میں کسی چیز کا ہونا ناممکن ہے، ہو ہی نہیں سکتی.
خطبات طاہر جلد 14 812 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء پس نور بمعنی توانائی ہے.نور بمعنی اس روشنی کے نہیں ہے جو آپ کو ظاہری آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے اور اب روشنی کو ظاہری تصویر اگر اپنے سامنے رکھ لیں تو ایک اور بات واضح طور پر سمجھ آجائے گی.میں نے بیان کیا تھا کہ سائنس دان تو یہ بتاتے ہیں کہ اس روشنی میں جو تموج کی قسمیں ہیں جن کو ہم رنگ کہتے ہیں وہ پانچ رنگ ہیں یا بعض تین بھی کہتے ہیں ، سات ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ ان کا تجزیہ کریں تو اس میں بہت زیادہ رنگ ہیں.جب سائنس دان چند رنگ بیان کرتے ہیں تو ان کی مراد صرف اتنی ہوتی ہے کہ انسانی آنکھ جن رنگوں کو دیکھ سکتی ہے وہ اتنی قسم کے تموجات سے تعلق رکھتے ہیں.بہت سی ایسی لہریں ہیں جن کی توانائی کو ہماری آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی.اور بعض نہ دکھائی دینے والی لہریں اتنی شدید ہیں کہ اگر آنکھ میں پڑیں تو آنا فا نا آنکھ کو اندھا کر دیں، اس کو جلا کر خاکستر کر دیں.پس جہاں تک دیکھنے کا تعلق ہے یہ بچگانہ خیال ہے کہ جو چیز دکھائی دے وہی زیادہ عظمت والی ، وہی زیادہ قابل یقین ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ توانائی کی جتنی قسمیں ہیں ان میں سے سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ غیر معمولی قوتوں کا سرچشمہ وہ چار چیزیں ہیں جو ہمیں دکھائی نہیں دیتیں.روشنی آپ کو دکھائی دیتی ہے آپ کا کہاں نقصان کرتی ہے.مگر X-Rays کی قسمیں ہیں یا Radiation کی بعض قسمیں ہیں جو وجود کے ذرے ذرے کو ہلا کے رکھ دیتی ہیں.انسانی تخلیق کا نظام بگاڑ کے رکھ دیتی ہیں ، انسانی وجود کو پارہ پارہ کر دیتی ہیں.تبھی ریڈیائی طاقت سے جتنا انسان ڈرتا ہے اتنا کسی ظاہری طاقت سے نہیں ڈرتا.وہ ہم جو بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹتے ہیں جن کے ذریعے ظاہری زلزلے پیدا ہوتے ہیں وہ بم بظاہر دیکھنے میں کتنے ہی مرعوب کرنے والے ہوں مگر Radiation ایک دفعہ ظاہر ہو جائے تو پھر نہ آواز رکھتی ہے ، نہ رنگ رکھتی ہے ، نہ بورکھتی ہے لیکن ہلاکت خیزی میں ان ظاہری پھٹنے والے بموں سے بہت زیادہ ہے.روس کے علاقے میں چرنوبل میں ایک حادثہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ان کا Atomic Plant پھٹ گیا اور آج تک اس واقعہ کے بعد خاموش لہریں، بے آواز لہریں نظر نہ آنے والی لہریں زندگی کے ساتھ ایک ہلاکت خیز کھیل کھیل رہی ہیں.ایسے دردناک نظارے ہیں ان بچوں میں جو اس خاموش طاقت سے متاثر ہو کر پیدا ہوئے کہ ان کا پورا نظام درہم برہم ہو کے رہ گیا ہے.کہیں عجیب و غریب قسم کے اعضاء نئے نئے ظاہر ہونے شروع ہو
خطبات طاہر جلد 14 813 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء گئے ہیں، کئی اعضاء بالکل مارے گئے.صرف یہی نہیں بلکہ محسوسات کی دنیا میں بھی ان کے لئے طرح طرح کے عذاب مہیا ہوچکے ہیں جن کو دیکھنا ، جن کو محسوس کرنا اگر انسان میں احساس کی طاقت ہو بڑا مشکل کام، بڑا صبر آزما کام ہے.تو نور کے تعلق میں یہ بھی یادرکھیں کہ نور ضروری نہیں کہ دکھائی دے بلکہ جتنا لطیف ہوگا اتنا ہی نہ دکھائی دینے والا ہوگا اور نہ دکھائی دینا اس کے عدم کی دلیل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات یہ عظیم تر ہوتا ہے جب دکھائی نہیں دیتا.زیادہ قوی ہو جاتا ہے جب دکھائی نہیں دیتا اور موجودات کی دنیا میں جو خدا کا نور ہے، نور کا اکثر حصہ غیب میں ہے.بہت تھوڑا ہے جو دکھائی دینے والے تموجات سے تعلق رکھتا ہے.تبھی یہ نور ہی کی تعریف ہے جب فرمایا کہ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:۴۰).اگر حاضر فرما تا اللہ تعالیٰ تو بظاہر مضمون زیادہ طاقتور ہوتا کہ خدا کو ہر وقت حاضر دیکھ کر وہ عمل کرتے ہیں کیونکہ حاضر سے انسان ڈرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ متقی کی تعریف ، ڈرنے والے کی تعریف یہ ہے کہ حاضر سے پرے دیکھے تو حیران رہ جائے گا کہ جو نہ دکھائی دینے والا ہے وہ انت طاقتور ہے کہ اس کے تصور کے بعد کسی بے عملی کا سوال ہی باقی نہیں رہنا چاہئے.عمل کی ہر طاقت اس نور غیب سے عطا ہوتی ہے جو انسان کو دکھائی نہیں دیتا جو انسان کو محسوس نہیں ہوتا.پس عظیم الشان کتاب ہے جس نے ایمان کی یہ تعریف فرما دی الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بالغیب اور اس کے معا بعد نتیجہ یہ نکالا وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اس کی غیب کی طاقت کا ایسا اثر ان کے دلوں پر ، ان کے دماغ پر ، ان کے حواس پر پڑتا ہے کہ اس سے مرعوب ہو کر بلا توقف عبادت گزار ہو جاتے ہیں.نمازیں قائم کرتے ہیں اور اس غیب کے اثر سے اور اس کی محبت اور اس کی طمع اور اس کے خوف سے وہ پھر جو خودا پنا ہے وہ غیروں کو دینے لگتے ہیں تا کہ وہ جو غیب ہے وہ اپنا ہو جائے اور یہ مضمون ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں جو جاری و ساری سلسلہ ایک چلتا ہے اور جتنا یہ جاری ہوتا ہے غیب کے تعلق میں اتنا غیب قریب ہوتا جاتا ہے.جتنا غیب کا تصور عبادتوں پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور غیب کو انسان جتناطاقتور سمجھتا ہے اتنا ہی اس کی نمازیں قوی ہوتی چلی جاتی ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 814 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء پس نور کوئی ایسی فرضی چیز نہیں ہے جو ماوراء الوراء ہونے کے بعد ہم سے بے تعلق ہو جاتا ہے بلکہ اس کا ماوراء الوراء ہونا یعنی دکھائی دینے کے پردے سے پرے اور اس سے بھی پرے ہونا اس کی طاقتوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک جب وہ وجہ اول بن جاتا ہے تو وہاں انسان کی عقل کا کوئی دخل نہیں ہے.بڑے بڑے فلسفی وہاں پہنچ کر خاموش ہو جاتے ہیں اور اس میں دنیا دار فلسفیوں کی بات کر رہا ہوں، مذہبی فلسفیوں کی بات نہیں کر رہا.خاموش ہو جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہاں تک ہماری عقل کی رسائی تھی.یہاں ایک انگلی دکھائی دے رہی ہے جو اس پر اشارہ کر رہی ہے پس ہماری عقل نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہی وجہ اول ہے.وہ وجہ اول کیا ہے ہم نہیں سمجھ سکتے.ہماری عقل نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ وجہ اول پیدا کرنے والی تو ہے، پیدا نہیں ہوئی کیونکہ جس مقام تک ہماری عقل کو رسائی ہوئی اس وقت تک یہ مرحلے طے ہو چکے ہیں کہ جہاں تک ہم نے دیکھا یہ باتیں ثابت ہوگئیں کہ وجہ اول وہ نہیں ہے جس کو ہم سمجھ سکے ہیں یا دیکھ سکتے ہیں یا محسوس کر سکتے ہیں یا سن سکتے ہیں بلکہ وجه اول ان محسوسات سے پرے ہے اور یقیناً وہ خالق بھی ہے کیونکہ یہ چیزیں جو ہم نے محسوسات کی دنیا میں دیکھی ہیں، یہ ہمیشہ سے نہیں ہیں.اس لئے جو ہمیشہ سے نہیں ہے وہ لازماً مخلوق ہے اور جو خالق ہے وہ لازماً مخلوق نہیں ہے کیونکہ اگر وہ مخلوق ہوگا تو ہمیشہ سے نہیں ہوگا اور پھر اس کا وجود ہی ناممکن ہو جائے گا.یہ ایک منطقی باریک استدلال ہے جس کے نتیجے میں ارسطو تھا یا افلاطون تھا یا بعد میں آنے والے بعض یورپین فلاسفرز تھے سب نے یہی نتیجہ نکالا کہ وجہ اول سب سے کم متمو جہے بلکہ جو قدیم فلسفی ہیں انہوں نے کہا وجہ اول میں تموج کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن وہ تموج کا خالق ہے.یہاں تک اس کو غیر متحرک قرار دیا گیا اس خطرے سے کہ اگر تموج ہے تو توانائی کا ضیاع بھی ہوگا اور توانائی کا ضیاع ہوگا تو وہ چیز ازلی ابدی نہیں ہوسکتی.اس کے تموج کے نتیجے میں وہ ضرور کچھ نہ کچھ گھٹتی.ہے اور یہ بھی ایک ایسا مضمون ہے جسے Physicts خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں.ساری کائنات اپنی مجموعی قابل استعمال توانائی میں کم ہو رہی ہے اور اس کی وجہ تموج ہے.تو کہتے ہیں تموج پیدا کرنے والی ذات کو خود تموج سے پاک ہونا ہوگا ورنہ وہ نہ وجہ اول بن سکتی ہے اور نہ دائمی کہلا سکتی ہے اور اس منزل کی طرف جاتے وقت یہ سفر جو چھوٹا سا میں نے آپ کو کروایا ہے آغاز میں، اس سفر کو دوبارہ ذہن میں
خطبات طاہر جلد 14 815 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء حاضر کر لیں کہ ظاہری تموج سے وجہ اول کی طرف جو آپ نے حرکت اپنی دنیا میں کی ہے وہاں وجہ اول کا تموج اس کے مقابل پر اتنا خفیف ہے کہ کوئی نسبت ہی نہیں ہے لیکن وہ خفیف تموج اتنی زبر دست قو تیں پیدا کر دیتا ہے کہ اردگرد ماحول میں ایک ہیجان برپا کر دیتا ہے اور صرف وقتی طور پر ہی نہیں دور رس نتائج اس کے نکلتے ہیں.ایک خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ خیال دنیا کے خیالات پر اثر انداز ہو جاتا ہے.ان خیالات کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں بدن متحرک ہو جاتے ہیں.وہ لاکھوں کروڑوں بدن آگے ورثے میں ان خیالات کو اس طرح چھوڑتے ہیں کہ آنے والی نسلیں پھر متموج ہوتی چلی جاتی ہیں، متحرک ہوتی چلی جاتی ہیں اور ایک خیال جو اپنی ذات میں معمولی حرکت، اگر حرکت تھا بھی تو معمولی سی حرکت تھا، کتنی بڑی بڑی حرکتیں پیدا کر دیتا ہے.عالمی جنگوں کے اندر دیکھیں کتنا تموج ہے، کتنی بربادی ہے، کتنی ہلاکت خیزی ہے، کیسے کیسے حیرت انگیز زلزلے دنیا پر وارد ہو جاتے ہیں.انسانی دنیا پر بھی ، حیوانی دنیا پر بھی ، جسمانی دنیا پر بھی لیکن جس ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا ہے وہ ذہن جو طاقت کے سرچشمے پر واقع تھا.اس ذہن کی حرکت کو آپ ما ہیں تو جو توانائی آخر اس سے پھوٹی ہے، اس کے ساتھ اس کو کوئی بھی نسبت نہیں اور اس کی مثال صرف انسانی سوچوں سے تعلق نہیں رکھتی، انسانی سوچوں کے ذریعے صرف نہیں دی جاسکتی بلکہ مادی دنیا میں بھی فزکس نے جن چیزوں کا انکشاف کیا ہے ان میں بھی نور کی یہ تشریح جو بیان کر رہا ہوں اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ جو کشش ثقل ہے جو تمام توانائیوں کا ماخذ سمجھی جاتی ہے، ابھی تک سائنس دان چار قسم کی توانائیوں کو تین میں تو تبدیل کر چکے ہیں یعنی ان کو تین اکائیوں میں تو دیکھ رہے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے عظیم الشان کام اور ان کے ساتھی کے کام کے نتیجے میں اب چار کی بجائے تین توانائیوں کا تصوررہ گیا ہے.مگر جانتے ہیں کہ آخر پہ ایک ہی نکلے گا.یہ جانتے ہیں کہ کشش ثقل ہی ہے جو ان توانائیوں کی ماں ہے اور کشش ثقل سب سے کم متحرک ہے.کشش ثقل کی حرکت کے متعلق ہی Debate ہے کہ اس میں حرکت ہے بھی کہ نہیں بالکل خاموش، متموج کا تو سوال ہی ان کو دکھائی نہیں دیتا.اس لئے بعض لوگ تو اسے صرف فیلڈ Field ہی کہتے ہیں اور ایسی فیلڈ جس میں کوئی حرکت ، کوئی تموج نہیں ہے.اگر وہ تموج مانیں تو آگے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.مگر تموج کسی قسم کا ہے.مشکل یہ ہے کہ کشش ثقل کے ذریعے جتنی توانائی ہم پیدا ہوتی دیکھ رہے ہیں سائنس کے
خطبات طاہر جلد 14 816 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء اصول سے اتنی ہی خرچ بھی ہونی چاہئے مثلاً زمین ہے وہ اپنے مرکزی نقطے کی طرف ہر چیز کو کھینچ رہی ہے اور اتنی غیر معمولی طاقت سے کھینچ رہی ہے کہ اب سارے پہاڑ چھٹے پڑے ہیں، انسان جتنی مرضی چھلانگ لگائے پھر آخر زمین پر آجاتا ہے اور ارد گرد گزرنے والے سیاروں کو ، اردگر دگزرنے والے فلکی اجرام کو یہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور زمین کی کشش بالکل معمولی ہے.یہ کشش اگر بڑھ جائے تو کائنات میں ایک ہنگامہ برپا کر دیتی ہے.ایسے ایسے ستاروں کو ، بعض ستارے اپنی کشش سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جن کا فاصلہ ان سے لاکھوں سال کے فاصلے پر ہوتا ہے.لاکھوں سال توانائی سفر کرے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے جتنا ایسے ستاروں کا پیٹ بھرے گا جو Black Hole میں تبدیل ہو جاتے ہیں یعنی وہاں بھی توانائی نہ دکھائی دینے والی ہے اور عجیب بات ہے کہ یہ بھی ایک مثال ہے نور کی کہ جہاں سب سے زیادہ نور کی شدت ہے وہ سب سے زیادہ نہ نظر آنے والی چیز ہے.اس کا نام ہیBlock Hole ہے.نہ دکھائی دیتا، نہ سنائی دیتا، نہ چکھا جا سکتا ، نہ محسوس کیا جاسکتا اور ایسی قوت ہے کہ اس کے دھما کے ہی سے بالآ خر کا ئنات پیدا ہوئی ہے.تو خدا کا نور سمجھنا ہے تو خدا کی اس تخلیق کے حوالے سے سمجھیں جس کے متعلق اللہ فرماتا ہے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے.یہ بیان سن کر آپ کو کیا سمجھ آئے گا اگر السمواتِ وَالْأَرْضِ پر غور نہیں کرتے.تبھی اللہ تعالیٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ کی تعریف میں یہ بات داخل فرما دیتا ہے.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ( آل عمران: 191) زمین و آسمان کی پیدائش میں اور رات اور دن کے بدلنے میں حیرت انگیز نشانات ہیں، عظیم نشانات ہیں لایت کن لوگوں کے لئے؟ جو لأ ولی الالباب ہیں، جن کو خدا نے عقلیں عطا فرمائی ہیں اور صاحب عقل انسان وہ نہیں ہے جو محض خشک سائنس دان ہے کیونکہ وہ اپنے تلاش کے سفر کو کناروں پر ختم کر دیتے ہیں اور نیچے اتر کر اس کی ماہیت جونور کے پردوں کے پرے دکھائی دینی چاہئے اس تک نہیں پہنچ سکتے.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللهِ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ (آل عمران: 192) ایسا دلچسپ سفر ہے اتنا حیرت انگیز یہ سوچ کا نظام ہے کہ جو اس میں ایک دفعہ مبتلا ہو جائے کوئی Drug Adiction اس سے زیادہ سخت نہیں ہوسکتی.انسان ہر بات میں اس کی ماہیت
خطبات طاہر جلد 14 817 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 1995ء پر غور کرتے ہوئے خدا کی طرف پہنچنے کا مزہ چکھ لے تو پھر وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو یہ آیت کریمہ پیش کر رہی ہے.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ نہ دن کو بھولتے ہیں نہ رات کو ، نہ کھڑے ہوئے ، نہ بیٹھے ہوئے.وہ تو کروٹیں بدلتے ہیں تو تب بھی ان کو خدا یاد آتا ہے اور یہ لامتناہی ذکر کا سفر ہے جو کائنات پر غور کرنے کے نتیجے میں ضرور شروع ہوگا اگر لِأُولى الْأَلْبَابِ ہو گے.تو جب تک کائنات پر غور نہیں کرتے نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کوکس طرح سمجھ سکتے ہیں.اور نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ کو صرف اسی حد تک سمجھتے ہیں یا سمجھ سکتے ہیں جس حد تک کائنات کا شعور حاصل کرنے کی خدا تعالیٰ نے صلاحیت بخشی ہے اور پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ سب پردہ ہی تھا اور وجہ اول ان پردوں سے پرے ہے.جو نور ہم دیکھتے ہیں، جو کائنات کی روشنائی ہے جو کائنات کے اندر متحرک روح ہے وہ خدا نہیں ہے.اس میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں اور نور اللہ اس سے پرے لطیف تر کوئی چیز ہے جو تموج سے بھی پاک ہے، جو ہر قسم کی فناء کے تقاضوں سے بالا ہے.وہ ازلی ہے ، وہ ابدی ہے.وقت کا اس پر کوئی دخل نہیں.وہ وقت کا خالق ہے اس کو کسی نے خلق نہیں کیا.یہ وہ نور ہے جس کا ذکر میں انشاء اللہ اب آئندہ خطبے میں قرآن کریم کی بعض آیات کے حوالے سے، اسی آیت کے حوالے سے بھی اور دوسری آیات کے حوالے سے بھی اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں سے مدد لے کر آپ کے سامنے پیش کروں گا.
818 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 819 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان سرا اور جہڑا دونوں قسم کی قربانیاں فائدہ دیتی ہیں.( خطبه جمعه فرموده 3 نومبر 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْ كَالًا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَّزَقْنَهُ مِنَارِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَ جَهْرًا هَلْ يَسْتَوْنَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (النحل: 76) پھر فرمایا:.یہ سورہ النحل کی 76 ویں آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.اس کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آج کے خطبے کا موضوع مالی قربانی ہے اور اس کا موقع یہ پیش آیا کہ تحریک جدید کا ایک سال ختم ہو کر اب نئے سال کا آغاز ہوا ہے اور ایک لمبے عرصے سے یہی دستور چلا آ رہا ہے کہ جب تحریک جدید کا ایک مالی سال ختم ہو کر دوسرے سال میں داخل ہوتا ہے تو پہلے خطبے میں سوائے اس کے کہ کوئی مانع ہو جائے، کوئی اور روک پیدا ہو جائے تحریک جدید ہی کے موضوع پر خطبہ دیا جاتا ہے.پس اس پہلو سے مالی قربانی کا جو مضمون میں نے اس آیت کے حوالے سے بیان کرنا ہے پہلے اس سے متعلق بات کروں گا پھر انشاء اللہ وہ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھوں گا جو گزشتہ سال کے اور اس سے پیوستہ سال کے ہمارے سامنے آئے ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 820 خطبہ جمعہ 3 /نومبر 1995ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْ كَالًا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ اللہ ایک ایسے غلام کی مثال پیش کرتا ہے جس کے قبضے میں کچھ بھی نہ ہو وَ مَنْ رَّزَقْنَهُ مِنَارِزْقًا حَسَنًا اور ایک ایسے شخص کی مثال جسے ہم نے اپنی جناب سے پاکیزہ رزق عطا کیا ہو فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَ جَهْرًا اور وہ اس میں سے چھپا کے بھی خرچ کرے اور ظاہر کر کے بھی خرچ کرے ھل يَستَونَ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ سب تعریف اللہ کے لئے ہے بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ بلکہ اکثر ان میں ایسے ہیں جو نہیں جانتے.یہاں جو عَبْدًا مَّمْلُوکا کی مثال ہے اس سے ذہن میں یہ مضمون ابھرتا ہے کہ کوئی ایسا شخص ہو جو بے چارہ غریب ہو، اس کے پلے کچھ نہ ہو، قبضہ قدرت میں کچھ نہ ہو، اس کی مثال کے مقابل پر خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے کی مثال دی گئی ہے.اگر کوئی ایسا شخص ہے تو وہ تو معذور ہے اس کا تو اختیار ہی کچھ نہیں.اس کو ایک نیک، صاحب حیثیت کے مقابل پر رکھنا کیا معنی رکھتا ہے اس لئے دراصل عَبْدَ مَمْلُوكًا کے مضمون کو سمجھا نہیں گیا.عَبدَا مَّمْلُوكًا سے مراد وہ شخص ہے جو مالی لحاظ سے خواہ کیسی ہی کشائش کیوں نہ رکھتا ہو مگر جس مال کا مالک ہے اس کا غلام بھی ہے اور اسی مال کے بندھنوں میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ کلیۂ بے اختیار ہو چکا ہے.یا جس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو دنیا کے دام میں پھنس چکا ہے اور اسے کوئی آزادی دنیا سے نصیب ہی نہ ہو کہ کار خیر میں کچھ کوشش کر سکے.تو عَبْدًا مَّمْلُوكًا کے مقابل پر وہ عباد اللہ ہیں جو خدا کے غلام ہو جاتے ہیں اور ان کو پھر خیر کی آزادیاں نصیب ہوتی ہیں.پس یہ دو قسم کے غلام ہیں جن کا موازنہ قرآن کریم فرماتا ہے یہاں اختصار کے ساتھ ، بعض دوسری جگہوں پر تفصیل کے ساتھ.پس دو میں سے ایک غلامی تو تمہیں بہر حال اختیار کرنی ہوگی.ایک غلامی وہ ہے جو شیطان کی یادنیا کی لالچ کی اور دنیا کے اموال کی غلامی ہے.اس غلامی میں تم ہر خیر کے فعل سے عاجز آ جاؤ گے.کسی نیک کام کی توفیق نہیں ملے گی اور دن بدن زیادہ سخت بندھنوں میں تم بے بس اور مقید ہوتے چلے جاؤ گے اور یہ وہ سلسلہ ہے جس کے متعلق پھر عَبْدًا مَّمْلُوکا کی وہ مثال صادق آتی ہے کہ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ اس کو کچھ بھی اختیار نہیں، کچھ بھی نہیں کر سکتا.اب وہ لوگ جو بے حد امیر ہوں مگر جتنے امیر ہوں اتنا ہی اپنے اموال کے خود غلام بن چکے ہوں، وہ
خطبات طاہر جلد 14 821 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء بیچارے کچھ بھی نہیں کر سکتے.اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کر سکتے ، اپنے بچوں پہ بھی خرچ نہیں کر سکتے.اپنی خواہشات بھی اس سے پوری نہیں کر سکتے کیونکہ مال کی غلامی کے سوا اور کوئی خواہش باقی نہیں رہتی اور یہ خواہش ہر دوسری خواہش پر غالب آجاتی ہے.تو یہ اس سفر کی انتہا دکھائی گئی ہے جو مادہ پرستی کا سفر ہے.جس میں انسان خود اپنی گردن مادے کے نیچے دے دیتا ہے اور وہ پھر اس پر قبضہ کرتا چلا جاتا ہے.پس یہ کیسی آزادی ہے کہ انسان خودا پنی ملکیت کا غلام ہو جائے.اس کے برعکس اللہ کی غلامی کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ہم ایسے شخص کو جو ہمارا غلام ہو جاتا ہے وہ ہمارے رنگ سیکھتا ہے ہم اسے عطا کرتے ہیں وہ آگے عطا کرتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ غلام ہو اور آقا کے مزاج کے خلاف مزاج رکھے کیونکہ آقا کے مزاج کے خلاف اگر مزاج ہو بھی تو اس مزاج کو استعمال کرنے کی اسے اجازت ہی نہیں ہوتی.مملوک کامل تو وہ ہے جو اپنے آقا کے مزاج کے مطابق چلتا ہے.پس دھن کا بھی ایک مزاج ہے جس کو ایک ہندی مصرعہ کی صورت میں یوں کہا گیا ہے گویا ایک قسم کی ضرب المثل ہے کہ: مایا کو مایا ملے کرکر لانے ہاتھ تلسی داس غریب کی کوئی نہ پوچھے بات یعنی شعر ہے مصرعہ نہیں، کہ دولت کا مزاج تو یہ ہے کہ دولت ملتی ہے اور لمبے لمبے ہاتھ کر کے اسے سمیٹتی چلی جاتی ہے اور یہ مزاج جو ہے وہ غریب سے مستغنی ہو جاتا ہے اسے کچھ بھی پرواہ نہیں رہتی کہ بنی نوع انسان میں سے دوسرے لوگ کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ دولت کو دولت کی حرص ہوتی ہے یہی جہنم کا مزاج قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور مادہ پرستی کے اندر یہ بات شامل ہے.پس فرمایا جن کو ہم رزق دیتے ہیں وہ تو ہمارا مزاج لیتے ہیں یعنی اللہ تو رزق سب کو دیتا ہے مگر یہاں بڑے پیار سے ان بندوں کا ذکر ہے جو خدا کے ہو چکے ہوں جب وہ خدا سے رزق لیتے ہیں تو پھر خدا کی طرح اس مال کو آگے خرچ کرتے ہیں اور خرچ بھی سراً و علانیہ چھپا کے بھی اور ظاہر بھی ، سر او جَهْرًا چھپا کے بھی اور اونچی آواز سے بھی یعنی بتا کے بھی.اب یہ بھی اللہ کا مزاج ہے اور اللہ کی اکثر عطا میرا ہے اس میں اکثر صفات جو انسان کو دی ہیں یا اپنی ہر مخلوق کو جو عطا کی ہیں وہ بغیر شور کے ہیں ان میں کوئی اظہار نہیں ، نہ ان صفات کے مالک
خطبات طاہر جلد 14 822 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء کو جن کو عطا کی گئی ہیں، اس کا شعور ہی ہوتا ہے کہ میں کن کن صفات کا مالک ہوں.نہ وہ گفتگو میں ظاہر ہوتی ہیں.اب سائنس دان مثلاً انسان کے اندرونی اعضاء کی ، جو خفی اعضاء ہیں انسان کی نظر سے ، ان کی جو صفات معلوم کر رہے ہیں یہ تو ابھی سفر کا آغاز ہے مگر جتنی بھی معلوم کر چکے ہیں بے انتہا علم کے خزانے ہیں جو ہمارے ہاتھ آئے ہیں اور ان کے متعلق کوئی شور نہیں تھا، کچھ بتایا ہی نہیں گیا ، کوئی احسان تفصیل سے جتایا نہیں گیا.اللہ کے مخفی ہاتھ نے ایک عطا کر دی ہے اور وہ ساری کائنات میں اسی طرح ایک مخفی ہاتھ سے عطا کرتا چلا جاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس عطا کو کھل کر اپنے جو ہر دکھانے کا موقع ملتا ہے وہ آواز کی صورت میں دوسروں تک پہنچتی ہے.انسان کو جو صفات حسنہ عطا کی گئی ہیں ان میں انسان بولتا بھی ہے لکھتا بھی ہے، اپنے کلام کے ذریعے، اپنے اشاروں کے ذریعے ، اپنی دوسری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بنی نوع انسان پر اپنی صفات کو اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ اس کی انا اس سے تسکین پاتی ہے.پس وہ تو اپنی تسکین انا کی خاطر کرتا ہے مگر در حقیقت یہ اللہ کا ہاتھ ہے جو اس کے اندر بول رہا ہے.اس کی نیت اور ہے مگر اللہ نے اس کو وہ صلاحیت بخشی ہے جو بلند آواز سے بتا سکتی ہے کہ میں ایک صلاحیت ہوں.ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جن میں طاقت ہے اپنے اظہار کی اور وہ پھر چھپی نہیں رہتیں اور اس مضمون کا تعلق صرف لفظی اظہار سے نہیں ہے یا تحریری اظہار سے نہیں ہے بلکہ عملاً بہت سی ایسی نعمتیں ہیں جو اپنی زبان حال سے بولتی ہیں.آنکھیں ہیں ، ایک انسان جو آنکھوں والا پھر رہا ہے اس کی آنکھوں کی طرف خواہ آنکھوں والے کا دھیان عام طور پر نہ بھی جائے یا خود اپنی آنکھوں پر بھی غور نہ کرے مگر جب کوئی اندھا دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں بولنے لگتی ہیں اور جن آنکھوں کو وہ دیکھتا ہے وہ بھی بولنے لگتی ہیں.انسان کو بتاتی ہیں کہ اللہ کا بڑا احسان تھا جو سرا تھا تمہاری نظر سے مگر عملاً تو جھرا ہے.یہ تو ہر وقت دکھائی دینے والی چیز ہے.اس کا پیغام ہر لمحہ سمجھنے والا ، سننے والا اور سمجھنے والا ہے.زبان بولتی ہے کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو کھلی اور ظاہر نعمت ہے.مگر جب گونگے سے بات کرنی پڑے کسی گونگے کو مشکلات میں مبتلا دیکھیں تب سمجھ آتی ہے کہ یہ تو ایک خدا کا انعام جہر ہے.نوک پلک درست ہو انسان کے چہرے کی، دونوں آنکھیں ہوں، ناک
خطبات طاہر جلد 14 823 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء ہو، ہونٹ ہوں متوازن ہوں تو یہ بھی ایک جہری انعام ہے، یہ سری انعام نہیں.مگر انسان بسا اوقات اللہ کی نعمتوں کو ، ان کے جھر کو بھی سر میں بدل دیتا ہے.خیال ہی نہیں کرتا ان کا لیکن جب ایک انسان کے ہاں مثلاً ایک معذور بچہ پیدا ہوتا ہے.اس کے ناک کے اندر ایک پردہ نہیں تو آواز ہی ناک سے نکلتی ہے اور ساری زندگی کے لئے وہ آواز اسے اپنی اس نعمت کا احساس دلاتی ہے جو اسے میسر ہے پہلے خیال ہی نہیں آتا تھا.تو ایک بگڑی ہوئی آواز ایک صحت مند آواز کے حق میں بولتی ہے اور بتاتی ہے کہ کتنا بڑا انعام تھا جو جہری انعام تھا جس سے تم نے آنکھیں بند رکھیں اور اپنے کان بند رکھے.تو یہ نظام ہے اللہ تعالیٰ کی عطا کا.تو جو اس کے بندے ہیں انہوں نے اسی سے آخر زندگی کی رمزیں سیکھنی ہیں، زندگی کی ادائیں سیکھنی ہیں.پس خدا کے پاک بندے بھی سرا بھی نیکیاں کرتے ہیں اور جھرا بھی کرتے ہیں.اور یہ عجیب لطف کی بات ہے کہ جتنا خدا سے دور ہو لیکن خدا کی طرف حرکت کر رہا ہو اس کی ظاہری نیکیوں کا توازن سر نیکیوں کے مقابل پر زیادہ ہوتا ہے اور جتنا کوئی خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہ توازن التا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی ظاہری نیکیاں اس کی سر نیکیوں سے مغلوب ہو جاتی ہے اور اکثر نیکیاں اس کی مخفی رہتی ہیں.یہاں تک کہ انبیاء کی ذات پوشیدہ ہو جاتی ہے.جب تک خدا نہ ان کو ابھار کے ان کی طرف سے اعلان کرے اور ان کے حسن کا اظہار نہ کرے وہ مخفی رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے ابتدائی دور اور دوسرے دور کا موازنہ فرمایا ہے.اس میں یہی راز کھولا ہے کہ اگر خدا مجھے مجبور نہ کرتا اور خود مجھے باہر نکال کر دنیا کو نہ دکھاتا تو میں اس حال پر راضی تھا جو میر امنفی حال تھا.پس سوائے اللہ کے کوئی آنکھ نہیں جانتی تھی کہ میں کیا کرتا تھا، کیوں کرتا تھا، میری کیا سوچیں تھیں، میرے کیا اعمال تھے کیونکہ وہ دنیا کی نظر س مخفی تھے.پس یہ بھی ایک عجیب سفر ہے جو اظہار سے اخفاء کی طرف چلتا ہے جو جہر سے سر کی طرف روانہ ہے اور انفاق فی سبیل اللہ میں بھی یہی مضمون ہے.اللہ کی راہ میں ظاہری مال خرچ کرنے والے بھی شروع میں اتنا خفی ہاتھ نہیں رکھتے لیکن دن بدن پھر اظہار سے کچھ گھبرانے لگتے ہیں.اظہار
خطبات طاہر جلد 14 824 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء مزاج کے مطابق نہیں رہتا پھر جیسا کہ مجبوریاں ہیں مثلاً آنکھ کے حسن کا اظہار تو ہو گا ہی اگر چہ اس کے پیچھے وہ رگیں پوشیدہ ہیں جن کے بغیر آنکھ بے کار ہے، وہ دماغ پوشیدہ ہے جس کے بغیر ان رگوں کا نظام بے کار ہو جاتا ہے، وہ دماغ کے اندرونی رابطوں کا نظام ہے جو نظر میں نہیں آتا تو آنکھ میں جو ظاہر ہے اس سر کا پہلو بہت زیادہ ہے.کان میں بھی جو ظاہر ہے سر کا پہلو بہت زیادہ ہے.زبان میں بھی جو بولتی ہے وہ مخفی اسرار اور علامات جو زبان کے بولنے کے نظام کے پیچھے کام کر رہے ہیں وہ دکھائی نہیں دیتے نہ وہ سنائی دیتے ہیں.تو اسی طرح خدا کے بندے جب خدا کی طرف حرکت کرتے ہیں اور نسبتاً کم مملوک ہوتے ہوئے زیادہ مملوک بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی غلامی سے آزاد ہو کر ان کی زنجیریں اتار رہے ہوتے ہیں اور اللہ کی رضا کی زنجیروں کے لئے اپنے ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں یہاں تک کہ یہ سفر کامل طور پر ان کو خدا کا مملوک بنادیتا ہے.ان کے متعلق پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عباد الرحمن.اب وہ صفات دیکھیں جو عباد الرحمن کی ہیں.لفظ عباد وہی استعمال فرمایا جارہا ہے جو خدا کے سب بندوں پر استعمال ہوتا ہے لیکن وہ صفات مخصوص ہیں ان عباد کی جو طوعی طور پر خدا کے عبد بنتے ہیں.مجبور اسب عبد ہیں ہی لیکن مجبوری کی غلامی ، صفات حسنہ جو خدا کی طرف سے بندے میں منتقل ہوتی ہیں ان کی راہ میں روک بن جاتی ہیں.مجبوری کی غلامی کا مطلب یہ ہے کہ دل کسی اور کا غلام ہے اور خدا کے رستے میں ہم مجبور ہیں وہی مالک ہے اس کی مرضی کے خلاف کچھ کر ہی نہیں سکتے.اس لئے وہ جو خدا کی صفات حسنہ یا اسماء کا ایک بہاؤ ہے خدا کی طرف سے بندے کی طرف وہ عبادالرحمن کے سوا دوسرے بندوں کو نہیں پہنچتا سوائے اس کے جو فیض عام کی صورت میں ہر مخلوق کو حاصل ہی ہے.وہ حاصل نہ ہو تو کوئی سفر اس کی جانب ہو ہی نہیں سکتا.تو ایسی صورت میں اپنے خرچ کو دیکھ کر اس سے بھی اپنی ذات کو پہچانا جا سکتا ہے.اپنے خرچ کے انداز کو دیکھ کر اس کے آئینے میں بھی انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں اپنی روح کی کیا شکل بنا رہا ہوں اور پھر پہلے اور بعد کے مواز نے سے انسان یہ معلوم کر سکتا ہے کہ میرا سفر خدا کی سمت ہے یا خدا سے دور ہے.پس خرچ کرنے والا اگر آخری عمر میں جا کر اپنے خرچ سے تھک رہا ہو اس کی طبیعت پہ خرچ کی صورت میں زیادہ بوجھ پڑنے لگا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا کی غلامی کی زنجیریں بھاری
خطبات طاہر جلد 14 825 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء لگنے لگی ہیں اور وہیں سے اس کا سفر ترقی معکوس کی طرف الٹ جاتا ہے.پس مالی نظام سے وابستہ جماعت کو مالی نظام کی تقویٰ کی باریک راہوں پر ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے کیونکہ جو خدا کے دین کی ضرورت ہے، تحریک تو اس کی خاطر کی جاتی ہے، مگر وہ ضرورت پورا کرنا اس نظام کی پوری تصویر نہیں ہے.اس نظام کے پس منظر میں جو سر انعامات ہیں اللہ تعالیٰ کے وہ اس سے زیادہ ہیں جو ضرورت کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بہت باریک نکات ہمارے سامنے رکھے ہیں اور ان سب کی بنیا د قرآن کریم کی آیات پر ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر ہے.اس لئے مالی نظام کا وہ پہلو تو ہمیں جماعت میں دکھائی دے رہا ہے جو ضرورت حقہ پوری کرتے وقت دکھائی دیتا ہے.یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ الحمد للہ ، اللہ تعالیٰ نے آج کے زمانے میں ایک ہی منفرد جماعت دنیا میں پیدا فرمائی ہے.جو خالصہ اللہ وہ قربانی کرتی چلی جاتی ہے جو دنیا کی نظر میں کمر توڑنے والے بوجھ ہیں.جو عام دنیا دار کے اوپر ڈالے جائیں خواہ وہ ٹیکس کی صورت میں ڈالے جائیں یا اور کسی بہانے سے تو تمام دنیا کا انسان اس نظام کے خلاف بغاوت کر دے اور دنیا کا امن برباد ہو جائے.انسان اتنے بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتا خواہ قانون کی مجبوری سے بھی اٹھانے پڑیں لیکن ایک جماعت ایسی ہے جو جتنا بوجھ اٹھاتی ہے اور زیادہ دل چاہتا ہے کہ اور بھی اس میں اضافہ کرتے چلے جائیں ، اور نظریں ڈھونڈتی ہیں، اپنی جیبوں کی تلاش کرتی ہیں، اپنے عزیزوں کی جیبوں کو تلاش کرتی ہیں ، بہانے ڈھونڈتی ہیں کس طریقے سے ہم کچھ خرچ کم کر دیں، کس طریقے سے محنت زیادہ کر کے کمائی زیادہ کریں تا کہ یہ ضرورت پوری ہواور ہمارے دل کو چین نصیب ہو.تو یہ سفر جو ہے یہ عبودیت کی طرف عبد کا سفر ہے، عباد الرحمن کی جانب سفر ہے، جس کی تفصیل اس آیت میں ملتی ہے کہ پھر وہ خدا کے رنگ اختیار کر کے مخفی بھی خرچ کرتے ہیں اور جھرا بھی.اب مخفی کو پہلے رکھنا بتا رہا ہے کہ مخفی کو فوقیت دیتے ہیں.پس یہ بات جو میں نے بیان کی ہے کہ ان کا سفر مخفی نظام قربانی کو بڑھانے کی طرف رکھنا بتا رہا ہے کہ مخفی کو فوقیت دیتے ہیں اور ظاہر کا نمبر بعد میں آتا ہے.یہ اس آیت کے کلمات کی ترتیب سے ظاہر ہے سِرًّا وَ جَهرا دل ان کا چاہتا ہے
خطبات طاہر جلد 14 826 خطبہ جمعہ 3 /نومبر 1995ء ا کرنے کو فوقیت دیتے ہیں سر کو لیکن مجبوریاں ہیں بعض دفعہ اگر سو ہی رہے تو سارے مومنین سر میں جو جذ بے کو آگے بڑھانے کا نظام ہے اس میں کمزوری آجائے گی اور ان کا اعلان ، ان کا جہر اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے لئے نہیں بلکہ دوسرے مومنوں میں قربانی کا جذبہ بڑھانے کی خاطر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے نظام جماعت کو بعض دفعہ ان کے ذکر بھی کرنے پڑتے ہیں.اگر انفرادی طور پر نہ کیا جائے تو جماعتی طور پر کرنے پڑتے ہیں اور جماعتی طور پر جب ظاہر کئے جاتے ہیں تو جماعت کی عمومی انا کوضرور کچھ تسکین ملتی ہو گی مگر یہ وہ تسکین ہے جو اللہ کی خاطر قربانی کرنے کے احساس کے نتیجے میں ملتی ہے.اس لئے یہاں انا کی تسکین نا جائز نہیں بلکہ پر لطف بھی ہے اور جائز بھی ہے.مگر انفرادی طور پر اگر بار بار نام لئے جائیں جو بعض دفعہ کبھی کبھی لینے بھی پڑتے ہیں تو اس صورت میں خطرہ یہ ہے کہ اس فرد کی انا موٹی ہو جائے اور محض اللہ تسکین نہ پائے بلکہ اس کی جو اپنے دکھاوے کی فطری تمنا ہے، اپنے آپ کو بڑا دکھانے کا جو جذ بہ زندہ چیز میں پایا جاتا ہے وہ جذ بہ موٹا ہو جائے اور اسی حد تک وہ خدا کے قرب سے محروم ہوتا چلا جائے.پس یہ سارے جو توازن ہیں ان کو برقرار رکھنا پڑتا ہے اور کبھی ایک پہلو پر زور دیا جاتا ہے کبھی دوسرے پہلو پر.مگر جہاں تک جماعتوں کی دوڑ کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے اس میں کوئی قباحت کا پہلو نہیں ہے، کم از کم اب تک ہمیں کوئی قباحت کا پہلو دکھائی نہیں دیا.اس لئے پہلے تو بسا اوقات نام بھی لئے جاتے تھے مگر اب حتی المقدور میری کوشش یہی ہے کہ جماعتی مواز نے کئے جائیں اور انفرادی مواز نے نہ کئے جائیں.انفرادی موازنہ ہے ضروری لیکن ہر شخص کے لئے ضروری ہے.اس لئے میرے خطبے کے اس پہلے حصہ کا اس انفرادی موازنے سے تعلق تھا جو میں چاہتا ہوں آپ میں سے ہر ایک اور میں بھی، ہم سب ہمیشہ کرتے رہیں اور وہ موازنہ ہے صفات حسنہ کا جو کامل تصور خدا تعالیٰ نے پیش فرمایا ہے یعنی ان عباد الرحمن کا جو عبد مملوک نہیں رہے، جو شیطان کی غلامی سے کامل طور پر آزاد ہو گئے ہیں، جن کی دولت ، جن کی ملکیت ان کی غلام ہے.وہ نہ اپنی دولت کے غلام ہیں، نہ اپنی ملکیت کے، نہ اپنی اولاد کے، نہ اپنے عزیزوں کے، نہ نفسانی خواہشات کے ، وہ جب آزاد ہوتے ہیں تو پھر خدا کی راہ میں کیسے کیسے خرچ کرتے ہیں اس کی تفصیل قرآن کریم میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے اور آنحضرت اور آپ کے صحابہ کی سیرت میں ملتی ہے.پس اس موازنے سے مراد یہ ہے کہ اپنا موازنہ ان صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 827 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء مثالی تصویروں سے کرتے رہنا چاہئے اور یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ ہم زندگی کے سفر کے ساتھ ساتھ ان تصویروں کے قریب آ رہے ہیں یا ان سے دور ہٹ رہے ہیں.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک الفاظ میں مالی قربانی کی تحریص کا تعلق ہے.میں ایک دو اقتباسات حضرت اقدس کے پڑھ کے سناتا ہوں پھر وہ جو جماعتی موازنہ ہے وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرق ریزی سے کمایا گیا ہے تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے...اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کو دوبارہ غور سے سنیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ آپ محض مالی قربانی کی بات نہیں کر رہے.آپ ایسی مالی قربانی کی بات کر رہے ہیں جس کا اثر بنیادی ضروریات تک پہنچتا ہے، جس کی آواز اس دکھ میں محسوس ہوتی ہے جو انسان اپنی ضرورت کی چیز قربان کرتے وقت ویسے محسوس کرتا ہے.وہاں تک جب تک قربانی کی دھمک نہ پہنچے اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس قربانی نے بخل کی ہر پلیدی کو اندر سے نکال پھینکا ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو محض سطحی نظر سے دیکھنے سے آپ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے.بار بار پڑھنے کا اس لئے ارشاد ہے کہ غور کریں تو پھر آپ کو اس کا پیغام سنائی دینے لگے گا اور جب وہ روشن ہوتا ہے تو اس کے ساتھ دل و دماغ روشن ہو جاتے ہیں.فرمایا: وو...اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرق ریزی سے کمایا گیا ہے...66 اکثر وہ امراء یا درمیانے درجے کے لوگ بھی جو روز مرہ کی زندگی کی ضرورتوں کے معاملے میں پریشان نہیں رہتے ان کے پاس کچھ مال بچ جاتا ہے.وہ جب مالی قربانی کرتے ہیں اس کے ثواب سے تو خدا ان کو کبھی محروم نہیں رکھے گا.اگر جذ بے نیک ہیں تو اس کا ثواب ضرور عطا ہوگا.مگر
خطبات طاہر جلد 14 828 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء ایک اور مضمون ہے جو مسیح موعود علیہ السلام بیان فرمار ہے ہیں کہ مالی قربانی سے جونفس کی پاکیزگی کا تعلق ہے اس میں مالی قربانی کرتے وقت اس کا کچھ دکھ محسوس ہونا چاہئے تا کہ انسان سمجھے کہ میں نے تکلیف اٹھائی ہے مگر خدا کی خاطر اٹھائی ہے.یہ احساس ہے جو اس کے اندر پاکیزگی پیدا کرتا ہے.فرمایا اگر یہ ہو جائے تو تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے، یعنی بخل ایک پلیدی ہے.بخل کی تعریف تو کئی طرح سے کی گئی ہے مگر یہاں بخل سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ ضرورت حقہ جس پر خرچ کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے اس ضرورت حقہ کو پوری کرتے ہوئے خواہ وہ اپنوں کی ہو یا غیروں کی ہو، جماعت کی ہو یا افراد کی ہو جو روک طبعیت میں پیدا ہوتی ہے اسے بخل کہا جاتا ہے اور ضرورت حقہ کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ اپنے نفس کو کاٹ کر یا مار کر نہیں بلکہ اسی حد تک پوری کی جائے گی کہ غریب کی تکلیف میں بھی آپ شامل ہو جائیں اور آپ کی خوشیوں میں بھی وہ شامل ہو جائے اور دونوں طرح سے شراکت ہو.یہ مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں.جب یہ ہوگا تو تمہارے نفس سے بخل کی پلیدی نکال باہر پھینکی جائے گی.فرماتے ہیں :- ”...اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت اور صلابت پیدا ہو جاتی ہے...“ فرمایا ہے اس کے نتیجے میں ایمان چمک اٹھتا ہے اور اس کے اندر صرف قوت ہی نہیں بلکہ مضبوطی اور روشنی پیدا ہو جاتی ہے.ایمان کی مضبوطی اور اس کی صلابت سے مراد یہ ہے کہ اس کے اندر سے ایک شعلہ نو راٹھتا ہے جو اسے زیادہ روشن کر دیتا ہے، زیادہ یقینی بنادیتا ہے.پس یہ وہ مخفی فائدے تھے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا یہ سر کا پہلو ہے انفاق کا جو ظاہری انفاق کے علاوہ اپنے فیوض میں بھی سر رکھتا ہے.وہ انفاق فی سبیل اللہ جو مخفی طور پر کیا جائے اس سے نفس کی بخیلی بہت زیادہ دور ہوتی ہے بہ نسبت اس انفاق فی سبیل اللہ کے جو ظاہر کر کے کیا جائے کیونکہ مخفی اتفاق کوتو کوئی دیکھ ہی نہیں رہا مخفی انفاق تو ایسے ہے جیسے کہتے ہیں ” جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا“ خوب صورت تو لگتا ہو گا لیکن دیکھا ہی کسی نے نہیں تو کیا فرق پڑتا ہے نا چایانہ نا چا.ایسی کیفیت میں جب انسان مالی قربانی کرتا ہے تو تب خدا اسے دیکھتا ہے حالانکہ سب کو دیکھ رہا ہے مگر ایک حسن پر جب نگاہ پڑتی ہے تو اور طرح سے پڑتی ہے.آپ بھی تو رستہ چلتے ہر جگہ دیکھ رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 829 خطبہ جمعہ 3 /نومبر 1995ء سفر کرتے ہیں تو دیکھ رہے ہیں مگر وہاں نگاہ پڑتی ہے جہاں حسن آپ کو کھینچتا ہے، کسی موڑ پر کوئی خوبصورت وادی دکھائی دے تو وہ دیکھنا اور ہے اور ویسے سارا راستہ دیکھتے ہی تو جارہے ہیں.اگر سوئے نہیں ہوتے تو دیکھ رہے ہوتے ہیں.تو ان معنوں میں خدا دیکھتا ہے کہ جہاں اس کو اپنا کوئی عبد مملوک دکھائی دے اس کی کوئی خوبصورتی چمک اٹھے تو تب اس پر نظر پڑتی ہے پس ایسا بندہ جو سر میں خرچ کرتا ہے اور اس حالت میں دنیا کی نظر سے غائب ہو جاتا ہے، دیکھنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں رہتا تب خدا اسے کئی طرح سے دیکھتا ہے.ایک تو اس طرح جیسے میں نے بیان کیا، وو دوسرے اس طرح کہ جب میری خاطر اس نے چھپا لیا اس کو کوئی دیکھنے والا نہیں تو میں اور میرے فرشتے اس کو دیکھیں گے اور اس نظر کی جو قدرو قیمت ہے اور اس کا جو فیض ہے وہ بھی اپنی ذات میں منفرد ہے.وہ انسان کے دیکھنے سے نہیں پہنچ سکتا.اس کے فیض میں پھر نفس کی پلیدیاں دور ہوتی ہیں.خدا کی نظر مزکی ہے.خدا کا اپنے بندے کے حال کو دیکھنا جو کہ اس کے پیار میں ایک ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف حرکت کر رہا ہے وہ انسانی روح اور اس کی فطرت جو خدا کی خاطر بجتی ہے اسے پھر خدا اور نظر سے دیکھتا ہے اور وہ نظر خود اس کے سنگھار کرنے کا موجب بن جاتی ہے.اس کی پلیدیاں دور کرنے کا موجب بن جاتی ہے.یہ کوئی فرضی مضمون نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چونکہ ساری زندگی کا یہ تجربہ تھا کہ جب خدا دیکھ رہا ہو تو اس کے کیا نتائج پیدا ہوتے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب ایسی بات لکھتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک زندگی کے تجربے کا مضمون ہے جو بیان ہو رہا ہے.وہ نظم نہیں آپ نے پڑھی.بار ہا پڑھی یا سنی ہے سبحان من یرانی.اب یہ کوئی جھوٹا سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ مصرعہ لگائے کہ سبحان من یرانی.اس لئے کہ اس یرانی کے اندر جب بھی آپ اس کو دہراتے ہیں ایک نیا لطف محسوس کرتے ہیں اور اس خدا کی نظر کا ایک لمبا تجربہ ہے.پس جہاں بھی خدا کے دیکھنے کا مضمون پیدا ہوتا ہے اس میں یہ پس منظر بھی ضرور اس کے پیچھے جلوے دکھا رہا ہے خواہ آپ گہری نظر سے اسے نہ بھی دیکھ سکیں مگر ہوتا ضرور ہے.پس دیکھنے کا جو مضمون ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے میں اس کی بات اب کر رہا ہوں اس موقع پر وہ چسپاں ہوتا ہے.جب ایک انسان خدا کی
خطبات طاہر جلد 14 830 خطبہ جمعہ 3 /نومبر 1995ء خاطر سو کے ہاتھ سے کچھ خرچ کرتا ہے اس وقت خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہیں رہا.جب خداد یکھتا ہے تو پھر ایسے آثار ظاہر فرماتا ہے کہ ایسا بندہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میں خدا کی نظر میں ہوں اور جو کسی ایسے وجود کی نظر میں ہو جس کی عظمت دل پر چھائی ہو، جس کے سامنے انسان کو اچھا بننے کی تمنا ہو تو لازم ہے کہ وہ پھر سنگھار کرے گا.اگر بیوی ہے جس کی طرف اس کے خاوند کی اگر اس سے اس کو پیار ہے، توجہ ہے تو ہر توجہ اس کو اپنی کوئی کمزوری دور کرنے کی طرف متوجہ کرے گی.کوئی داغ ہے وہ اسے دور کرے گی.کوئی خوبصورتی نہیں ہے وہ زائد اس پر پیدا کرنے کی کوشش کرے گی.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا کہ اس کی پلیدیاں دور ہوتی ہیں اور حسن میں اضافہ ہوتا ہے.اگر اس مضمون کو اس طرح نہ سمجھیں تو مال خرچ کرنے سے کیوں پلیدیاں دور ہوئیں ، کیوں حسن میں اضافہ ہوا، اس کی سمجھ نہیں آسکتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” اور وہ دونوں حالتیں مذکورہ بالا جو پہلے اس سے ہوتی ہیں ان میں یہ پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی پلیدی ان کے اندر رہتی ہے...پھر فرماتے ہیں :- وو...اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسب خیر ہے جس سے وہ نفس کی ناپا کی جو سب ناپاکیوں سے بدتر ہے یعنی بخل دور ہو جاتا ہے ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 204) اب بخل کو سب ناپاکیوں سے بدتر قرار دیا ہے.یہ بھی بہت ہی گہرا مضمون ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ بخل ہر فیض سے انسان کو محروم کر دیتا ہے کیونکہ اللہ سے تعلق توڑ دیتا ہے.خدا سے تعلق کے قیام کے لئے قرآن نے انفاق فی سبیل اللہ ضروری شرط بیان کی ہے کیونکہ خدا اپنے بندوں پر ویسے ہی مہربان ہوتا ہے یا ان سے صرف نظر فرماتا ہے جیسے وہ اس کے بندوں سے کرتے ہیں یا اس کے دین سے کرتے ہیں.جو شخص خدا کے دین کے لئے بخیل ہوگا، جو شخص خدا کے بندوں کے لئے بخیل ہو گا، ضرورت مندوں کے لئے بخیل ہوگا اللہ اسی حد تک اس سے ویسا ہی
خطبات طاہر جلد 14 831 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء معاملہ کرتا ہے اور انا عند ظن عبدی بی کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ میں اپنے بندے کے اس فن کے مطابق ہو جاتا ہوں جو وہ میرے متعلق کرتا ہے.اگر وہ طن خیر ہے تو خود بھی ویسا ہی بنے گا.اگر وہ ظن بد ہے تو وہ خود بھی ویسا ہی بن رہا ہوگا تو اللہ اس سے ویسا ہی سلوک کرنے لگ جاتا ہے.پس اگر وہ بخیل ہے تو اسی حد تک اپنے فیض کا ہاتھ اس سے روک لیتا ہے تبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ ہر پلیدی سے بدتر اور بد بخت پلیدی بخل ہے کیونکہ جو فیض کے لافانی چشمے سے محروم رہ جائے اس سے زیادہ پلید اور کیا چیز ہوگی.اس میں تو کچھ بھی نہیں رہتا سوائے گند کے.پس مالی نظام محض جماعتی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے نہیں ہے.ہر اس فرد کی روحانی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ہے جو اس مالی نظام میں حصہ لیتا ہے اور مالی نظام میں اس کی روح کو سمجھتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو سرا، جہاں تک ممکن ہو جھرا بھی حصہ لینے کے نتیجے میں جو فیض جماعت پاتی ہے اس پر ہر فر د جماعت گواہ ہے.اتنے مختلف طریق سے یہ فیض عطا ہوتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے اور اس طرح خدا ان کو بعض دفعہ گنتی کر کر کے ان کی قربانیاں واپس کرتا ہے اس لئے نہیں کہ خدا زیادہ دے نہیں سکتا اس لئے کہ فوراً زیادہ دیا جائے تو ان کو پتا ہی نہیں لگے گا کہ کیوں ملا ہے.مگر ایک شخص ہے جس نے اپنی جمع شدہ پونچی میں سے کل کی کل پیش کرنے کا فیصلہ کر دیا جبکہ دوسری ضروریات تھیں مثلاً چار ہزار دوسو بائیس مارک تھے غالباً یہی تعداد تھی ، Figure تھی.اس نے کہا میں نے اب دے دینا ہے ورنہ پھر کوئی پتا نہیں کہاں چلا جائے اور اس کے بعد اس کو ایک ایسی رقم ملتی ہے جس کا اس کو وہم و گمان بھی نہیں تھا اور وہ شمار کرتا ہے تو بعینہ چار ہزار دوسو بائیس مارک بنتی ہے.اب کوئی یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے میں بڑھا کے دیتا ہوں تو یہ کیوں دیا.امر واقعہ یہ ہے کہ بڑھانے کا مضمون بھی سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے.مال جب بڑھایا جاتا ہے، جتنا دیا ہے اس سے زیادہ دیا جاتا ہے تو خوشی ہی تو بڑھائی جاتی ہے اور اس میں کیا چیز ہے.اگر مال بڑھے اور خوشی نہ ہو تو مال جیسا بڑھا ویسانہ بڑھا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے بندوں کو کس طرح زیادہ خوشی پہنچا سکتا ہوں.ایسا شخص جس کو یہ علم ہو جائے کہ اللہ کے علم میں آچکا ہوں اور اس نے مجھے بتانے کے لئے مجھ سے یہ احسان کا سلوک کیا ہے وہ تو چھلانگیں مارتا پھرتا ہے.اس کو تو اگر چار لاکھ مارک بھی مل جاتے تو ایسی خوشی نصیب نہ ہوتی جیسی اس طرح خوشی نصیب ہوئی کہ اللہ کی خاطر میں
خطبات طاہر جلد 14 832 خطبہ جمعہ 3 /نومبر 1995ء نے قربانی کی، اللہ نے مجھ پر نظر فرمائی اور دیکھو کس طرح مجھے بتا بھی دیا کہ تمہاری قربانی رائیگاں نہیں جاتی، میں دیکھ رہا ہوں.یہ وہ دیکھنا ہے جو سر والوں کو نصیب ہوتا ہے اور یہ وہ دیکھنا ہے جو بتاتا ہے کہ سر تو تم کرتے ہو خدا کی خاطر مگر خدا سے کوئی سر نہیں ہے.اس کی نظر ہر جگہ پہنچتی ہے، ہر تاریک گوشے پر بھی پڑ رہی ہے اور یہ جو عطا ہے یہ سب سے بڑی عطا ہے اور نفس کی پلیدیاں دور ہونے کا ایک سلسلہ ہے جو شروع ہو جاتا ہے.جس آدمی کو یہ احساس ہو جائے کہ اللہ مجھ سے پیار کرتا ہے لازم ہے کہ وہ پھر اپنے لئے پاکیزگی کے رستے تلاش کرے، اپنے آپ کو پاکیزہ تر کرنے کی کوشش شروع کر دے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو سمجھیں تو مالی قربانی کسی بھی مقام پر بوجھ محسوس نہیں ہوگی اور جتنی بھی زیادہ تحریکیں ہوں گی آپ کو اور زیادہ خوشی محسوس ہوگی.اگر اللہ دے رہے ہوں اور ہر توفیق پر آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کی توفیق بخشی ہے.پس دیکھیں کس طرح بے اختیار یہی آیت اس کے بعد فرماتی ہے فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا قَ جَهْرًا هَلْ يَسْتَوْنَ کیا یہ برابر ہو سکتے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ یہ جو الْحَمْدُ لِلَّهِ ہے یہ وہی الحمد کا مضمون ہے جو کھول کر آپ کے سامنے رکھا ہے.بے اختیار ایسا شخص جس کو اپنے اندر اور عبد مملوک کے درمیان فرق محسوس ہو جاتا ہے، جو خدا کے مملوک ہونے کا فیض پاتا ہے جانتا ہے کہ خاص یہ مائدہ اس پر اترا ہے.اس کے منہ سے تو بے اختیار الْحَمدُ لِلهِ نکلتی ہے اور اللہ نے اس کی جگہ یہی فرما دیا ہے.فرماتا ہے تمہارے دلوں کا حال میں جانتا ہوں جب یہ فرق ہوگا تو حمد میں ڈوب جاؤ گے، تمہاری زندگی کا ذرہ ذرہ اللہ کی حمد بن جائے گا.بَل اَكْثَرُ هُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ لیکن افسوس کہ اکثر کو پتا ہی نہیں کہ کیا نیکیاں ہیں، کیا خیرات ہیں، کیا لطف کے قصے ہیں جن کی ان کو کانوں کان خبر نہیں ہے.پس تحریک جدید کی قربانی ہو یا دوسرے اموال کی قربانی یہ درست ہے کہ جوں جوں ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں اور خدا کے انعامات زیادہ نازل ہو رہے ہیں ، مالی ضرورتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں ان کو پورا کرنے کی خاطر ہی آپ دیں گے مگر دیں اس طرح جس طرح قرآن نے فرمایا ہے.اس روح کے ساتھ دیں جس کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روشنی ڈالی ہے تو آپ کی مالی قربانیاں دنیا میں بھی پھلیں گی اور آخرت میں بھی پھلیں گی اور آپ کے لطف تو بڑھتے
خطبات طاہر جلد 14 833 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء چلے جائیں گی اور جو تکلیفیں خدا کی خاطر آپ اٹھاتے ہیں ان میں لذت آنی شروع ہو جائے گی.پس جس کی تکلیفیں بھی خوشیاں بن جاتیں ہوں، جس کی خوشیاں بھی خوشیاں ہوں اس سے زیادہ کامیاب اور کون ہوسکتا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس مضمون کی گہرائی تک ہمیں اس پر عمل کرنے کی استطاعت بخشے.آمین اب مختصر وقت میں میں موازنہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.الحمدللہ کہ تحریک جدید دفتر اول کا اکسٹھواں سال اب 31 / اکتوبر 1995ء کو ختم ہوا ہے اور اب باسٹھواں سال طلوع ہو رہا ہے.پہلے میں دفتر اول، دفتر دوم دفتر سوم، دفتر چہارم کے سالوں کے متعلق یہ کہا کرتا تھا مگر میں نے سوچا ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کے دماغ Confuse ہو جائیں گے.دفتر خواہ چار ہوں یا پانچ ہوں سال ایک ہی ہے جو اکٹھا طلوع ہوتا ہے اکٹھا ختم ہوتا ہے.دفتر سے مراد صرف اتنا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے 1934ء میں پہلی بار تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک زندہ ہیں ان کے اکسٹھ سال پورے ہوئے اور باسٹھواں سال شروع ہونے والا ہے.یہ دفتر اول ہے.جنہوں نے دس سال کے بعد یا میں سال کے بعد ، اس کی تفصیل اب مجھے یاد نہیں مگر مختلف وقتوں میں مختلف دفاتر کا اضافہ ہوا ہے، شمولیت اختیار کی ان کا سال اکٹھا ہی ختم ہوگا لیکن ان کی قربانی کا سال اکسٹھواں نہیں بلکہ چونتیسواں یا پچیسواں یا جو بھی صورت ہو وہ سال ختم ہوگا اور ایک نئے سال میں داخل ہوں گے.پس چاروں دفاتر جو مختلف وقتوں میں جاری ہوئے ان سب کا تحریک جدید کا سال اس ماہ اکتوبر میں ختم ہوا اور اب نومبر سے نیا سال شروع ہو رہا ہے.اس ضمن میں تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا قدم ترقی کی جانب ہے اور پہلے سے بڑھ کر مالی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں.یہ مواز نے جب پیش کئے جاتے ہیں تو بعض سنکی مزاج لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہیں کہ آپ کے اعداد وشمار میں صحیح تصویر ظاہر نہیں ہوئی کیونکہ آپ نے Inflation کو نظر انداز کر دیا اور آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس روپے کی قیمت پچھلے سال کتنی تھی اور اس سال کتنی ہے.اگر میں یہ بتانے لگ جاؤں تو ایک سو پچاس ملکوں کی Inflation کے تذکرے میں کئی خطبے خرچ ہو جائیں گے.عام باتوں کی ہر آدمی کو سمجھ ہے اس کے لئے کسی بڑے اکانومسٹ کی ضرورت نہیں.مہنگائی کا احساس تو وہ ہے جو غریب سے غریب، نادان سے نادان کو بھی ہے بلکہ اس کو
خطبات طاہر جلد 14 834 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء زیادہ ہے.کیا جاہل کو یہ پتا نہیں کہ ہم مصیبت میں مبتلا ہیں ،مہنگائی ہورہی ہے.اس لئے کسی کو غلط فہمی نہیں ہو رہی کہ ہم نے اپنی ترقی کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے گویا دنیا کو دھو کے میں مبتلا کر دیا ہے سوائے ایسے شخصوں کے کوئی دھوکے میں مبتلا نہیں.سب کو پتا ہے کیا ہو رہا ہے.اور دوسرا ایک بات یہ بھول جاتے ہیں، ان کو وہم ہے شاید یعنی ایک آدمی نہیں کئی لکھتے ہیں، ایسے لوگوں کو شاید یہ وہم ہے کہ جس ملک میں Inflation ہو گی، اسی نسبت سے ہر شخص کی آمدنی بڑھ جاتی ہے.اس لئے جب تک مہنگائی کا خانہ رکھتے ہوئے اس سے زیادہ چندہ نہ دے گا اس وقت تک اس کی قربانی کو اگلا قدم نہیں کہہ سکتے.یہ بھی بالکل نادانی ہے.بسا اوقات مہنگائی ہوتی ہے اور آمد نہیں اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی ہوتیں ورنہ وہ مہنگائی تو کوئی مہنگائی نہیں ہے جس کے ساتھ ساتھ آمد نیں بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہوں.ہمیشہ وہ مہنگائی چٹکیاں لیتی ہے جس مہنگائی کے ساتھ آمد کی رفتار ویسی نہ ہو.پھر لوگ شور مچاتے ہیں حکومت سے پھر جا کر کہیں تنخواہوں میں اضافے کر دیتی ہے.کچھ غریب ہیں جن کی مزدوری اتنی ہی رہتی ہے بے چاروں کی لیکن جن کے اضافے ہوتے ہیں وہ بھی اتنے نہیں ہوتے جتنی مہنگائی بڑھ رہی ہوتی ہے.تو جب ملک غربت کی طرف سفر کر رہے ہوں اس کے باوجود قربانی زیادہ ہو رہی ہو تو قابل فخر ہے اور مومنوں کے لئے اس فخر میں انکساری کا پہلو بھی شامل ہے اور بھی زیادہ وہ خدا کے حضور تشکر سے جھکتے ہیں کہ تو نے ہمیں آگے قدم بڑھانے کی توفیق بخشی.پس اس قسم کے اقتصادی سبق مجھے نہ دیا کریں.مجھے علم ہے میں نے وقف جدید میں اس کثرت سے مختلف پہلوؤں سے چارٹ بنائے تھے جن سے حقیقی قدم آگے بڑھنے یا نہ بڑھنے کے پہلو کے اوپر ہر طرح سے روشنی پڑتی تھی اور جو ماہرین اقتصادیات آکے دیکھتے تھے کبھی انہوں نے ایک بھی ایسا اشارہ نہیں کیا کہ یہ بھی ہو جائے تو اور بہتر ہو جائے گا.اللہ کے فضل سے ایک نظر سے آپ کمرے میں گھوم جائیں آپ کو یہ سب کچھ پتا چل جائے گا.مگر اس غرض سے نہیں تھا کہ ساری جماعت میں یہ تفصیلیں پیش کی جائیں.اس غرض سے تھا کہ میری نظر رہے کہ جب ہما را چندہ بڑھتا ہے تو عملاً کیا ہوا ہے اور آسان بات دیکھنے والی صرف یہ ہے جو ہر ایک سمجھ سکتا ہے اس کو چارٹوں کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ جماعت کے کام ترقی پذیر ہیں کہ نہیں.جماعت کے بڑھتے ہوئے
خطبات طاہر جلد 14 835 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء اخراجات پورے ہورہے ہیں کہ نہیں.اگر بڑھتے ہوئے اخراجات پورے ہورہے ہیں اور اخراجات بڑھ رہے ہیں اور پورے بھی ہو رہے ہیں تو یہ کہنا کہ شاید Inflation کی وجہ سے دھوکا لگ گیا ہو جماعت نے زیادہ قربانی نہیں کی، نہایت ہی بے وقوفی کی بات ہے.آمد کا بڑھنا خرچ سے تعلق رکھتا ہے اگر بڑھتے ہوئے خرچ پورے ہورہے ہیں تو لازما آمد بڑھ رہی ہے.کوئی اقتصادیات کا ماہر یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ فرضی آمد بڑھائی گئی ہے.جب حقیقی ضرورت پوری ہوگی تو آمد کیسے فرضی ہو جائے گی.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ توفیق بخشی ہے کہ گزشتہ سب سالوں پر جن پر میری نظر ہے ہمیشہ ترقی ہوئی ہے.ایک بھی سال ایسا نہیں آیا کہ ہمارے خرچ رک جائیں اور ہمیں ہاتھ کھینچ کر اس لئے خرچ کرنا پڑے کہ آمد پیچھے رہ گئی ہے.خواہشات کے مقابل پر تو ہاتھ کھینچنے پڑتے ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں.زیادہ کی خواہش تو ہمیشہ رہتی ہے.مگر جو خرچ گزشتہ سال ہوئے تھے اس کے مقابل پر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ خرچ پورے نہ ہو سکے ہوں بلکہ اس سے زیادہ خرچ پورے ہوتے ہیں.پس اعداد و شمار جو بھی بولیں یہ حق گواہی دیتے ہیں کہ جماعت کی قربانی کا قدم آگے کی طرف ہے اور پھر الْحَمْدُ لِله کا مضمون ہے جو دل سے بے اختیار اٹھتا ہے.اس ضمن میں خلاصہ یہ ہے کہ جواب تک ستر (70) ممالک کی رپورٹیں ملی ہیں ان کے مطابق وعده جات 6,52,49,000 تھے اور وصولی 6,00,05,204روپے ہے.وصولی اگر چہ تھوڑی ہے لیکن یہ تحریک جدید کا دستور ہے کہ جب ہمیں رپورٹیں پہنچتی ہیں تو اس وقت اور سال ختم ہونے کے درمیان بہت سی وصولیاں ہیں جو چلی ہوئی ہیں اور وہ رپورٹ بنانے والے سیکرٹری کے علم میں اس وقت نہیں ہوتیں.اس لئے حقیقی رپورٹ بنتی ہے 15 دن یا ایک مہینے کے بعد اور اس رپورٹ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیشہ خدا کے فضل سے وعدوں سے وصولیاں بڑھ جاتی ہیں.اس لئے جو تھوڑی سی کمی دکھائی دیتی ہے اس میں پریشانی کی بات نہیں.کرنسی جو ہم نے اس کو سٹرلنگ میں تبدیل کیا ہے اس حساب سے 13,31,620 پاؤنڈ کے وعدے تھے اور 12,24,596 کی وصولیاں ہیں.ان میں جو کمی ہے وہ زیادہ تر مشرقی ممالک کی ہے.جہاں تک مغربی ممالک کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب میں اب تک کی وصولی کی اطلاع کے مطابق وعدوں سے ہر جگہ وصولی بڑھ گئی ہے.اس سے جماعت کی قربانی کے ساتھ اس کے ولولے کا بھی پتہ چلتا ہے اور غریب
خطبات طاہر جلد 14 836 خطبہ جمعہ 3 /نومبر 1995ء ممالک میں کچھ یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ وعدے کئے تھے اس وقت حالات بہتر تھے بعد میں حالات گر گئے.کچھ یہ بھی ہوتا ہے کہ نظام مواصلات کمزور ہے دیر کے بعد اطلاعیں ملتی ہیں.دیہاتی علاقوں میں ٹیلی فون بھی نہیں ہوتے تو اس لئے زیادہ تر جو کمی ہے وہ ان علاقوں میں ہے اور جہاں سے فوراً خبریں ملتی ہیں وہاں صورت حال بہت بہتر ہے.تعداد مجاہدین کے لحاظ سے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں کیونکہ اگر کوئی ایک آنہ بھی خدا کی راہ میں دینے والا پیدا ہو جس کو پہلے عادت نہیں ہے اور آنہ بھی تکلیف دے رہا ہے تو اس کی اصلاح کا بھی آغاز ہو گیا.اس لئے میں نے کہا تھا کہ اب یہ شرطیں بھول جائیں کہ چھ روپے یا بارہ روپے یا چوبیس روپے کم سے کم چندہ ہے.مجھے اس ظاہری فائدے کی ضرورت تو ہے جماعت کی خاطر مگر زیادہ میری نظر اور حرص اس مخفی فائدے میں ہے جو مالی قربانی سے وابستہ ہے اور نئے آنے والے خصوصیت سے جو آٹھ لاکھ چالیس ہزار سے زائد کی تعداد میں پچھلے سال آئے تھے اگر آپ نے ان سے کچھ کچھ مالی قربانی وصول نہ کرنا شروع کی تو ان کی تربیت کے آپ اہل نہیں رہیں گے.اس لئے کوشش کریں کہ وہ آٹھ لاکھ کے آٹھ لاکھ مگر آٹھ لاکھ تو اس طرح شامل نہیں ہو سکتے ، اس میں بچے بھی شامل تھے، نہ کمانے والے بھی تھے، مگر یہ شرط لگا ئیں کہ آٹھ لاکھ کا وہ فعال حصہ جو غریب ہے تو اپنی غریبانہ معیشت کے ذریعے وہ اپنی ضرورت پوری کر رہا ہے وہ بھی دین کی ضرورتیں پوری کرنے میں کچھ نہ کچھ حصہ لے خواہ تھوڑا ہی ہو اور شروع میں اتنا صرف لیا جائے جو وہ بشاشت سے دے سکے اور اس بشاشت کی خیر سے وہ پھر آگے جا کر اور زیادہ فیوض حاصل کرے گا ، اس کو اور زیادہ قربانیوں کی توفیق ملے گی اس کا دین سنورے گا، اس کو وابستگی کا احساس زیادہ مضبوط ہوگا.اس کے ایمان میں جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا صلابت پیدا ہو جائے گی.پس تحریک جدید کے جو شامل ہونے والے اعداد و شمار ہیں وہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ابھی اس پہلو سے بہت سا خلا ہے.جب سے بار بار ہدایت کی گئی ہے جماعت نے ترقی تو بہت کی ہے اور اس سال خدا کے فضل سے مجاہدین کی تعداد ایک لاکھ سٹرسٹھ ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ اکیاسی ہزار دوسو انتیس ہو چکی ہے اور یہ چندہ دہندگان کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی خوش کن ہے.کیونکہ اگرچہ بہت بڑی جماعت پیچھے خالی پڑی ہوئی ہے.ان میں ابھی بہت سے تربیت کا کام کرنے
خطبات طاہر جلد 14 837 خطبہ جمعہ 3 نومبر 1995ء والے ان کو عادت بنانی ہے اور تحریک جدید کے چندے سے پہلے کچھ نہ کچھ ہمیں بنیادی چندہ ضرور وصول کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر طوعی چندے چل نہیں سکتے.پس اس لحاظ سے میرا نصیحت کا خلاصہ یہ ہے کہ نئے آنے والوں کو ضرور شامل کریں.مگر ان کو تحریک جدید یا وقف جدید میں شامل کرنے سے پہلے کچھ نہ کچھ چندہ عام میں یا موصی ہو تو چندہ وصیت میں ان کو ضرور شامل کریں.اس میں رعایت ان کو دے دیں میری طرف سے اجازت ہے.سولہواں حصہ کی شرط بے شک نہ لگائیں.مگر جب وہ پورا اس بات کا شعور حاصل کر لیں اور ان کو اس بات کا لطف آئے کہ ہم با قاعدہ جماعت کے چندہ دہند ہیں اور مالی نظام میں شامل ہو گئے ہیں پھر طوعی تحریکات کر کے اس تعداد کو بڑھانے کی کوشش کریں.اس طرح انشاء اللہ بہت کثرت کے ساتھ تحریک جدید، وقف جدید وغیرہ میں لوگ شامل ہوں گے اور جتنا زیادہ ان کو چندے کی عادت پڑے گی اتنا ہی اللہ تعالیٰ سے برکتیں حاصل کریں گے اور اس کے قرب کے نشان دیکھیں گے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مالی قربانی کرنے والوں کو خدا اس نعمت سے محروم رکھے.خلاصۂ اب صرف فہرست پڑھ دیتا ہوں.امسال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت جرمنی کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ وہ دنیا بھر کی جماعتوں میں تحریک جدید کے چندے میں اول آئی ہے اور جو لازمی چندے ہیں ان میں بھی اول آئی ہے.بعض دوسری جماعتیں بہت زور لگا رہی ہیں مگر اللہ کا احسان ہے جس کو توفیق مل گئی مل گئی.ہمیں حسد نہیں ہے صرف رشک ہونا چاہئے.اس لئے ان کی خوشیوں میں وہ جماعتیں بھی شامل ہونی چاہئیں جن کی پوری کوشش تھی کہ ان سے آگے بڑھ جائیں لیکن نہیں بڑھ سکے.دوسرے نمبر پر پاکستان ہے اور ان کے درمیان ایک لاکھ پاؤنڈ کا فرق رہ گیا ہے.تو اس سے آپ اندازہ کریں کہ وہ بے چارے جو پاکستان میں دینی لحاظ سے بھی کمزور تھے ویسے بھی ان کے آنے سے پاکستان کے چندوں کو پتا بھی نہیں لگا کتنا فرق پڑا ہے.اکثر بہت تھوڑا دیا کرتے تھے تو یہاں آ کر خدا نے ان کو کیسی ہجرت کی برکتیں عطا فرمائی ہیں.ان کے اموال کشادہ کر دیئے ، ان کے دل کشادہ کر دیئے اور اب وہ اپنے آبائی وطن کو ان قربانیوں میں بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں.امریکہ جو مسلسل خدا کے فضل سے ترقی پذیر ہے اور توازن کے ساتھ ، امریکہ کی جماعت میں یہ خوبی ہے کہ ان کی قربانیوں میں توازن بہت ہے.تحریک جدید کا چندہ ہے
خطبات طاہر جلد 14 838 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء 1,75,000 پاؤنڈ اور وقف جدید کا چندہ ہے 98,000.وقف جدید میں دنیا میں سب سے اول ہیں.تحریک جدید میں تیسرے نمبر پر لیکن تو ازن یہ ہے کہ تحریک جدید کا چندہ وقف جدید سے آگے ہے.پاکستان میں پتا نہیں کیوں یہ توازن بگڑ گیا ہے.اس سے پتا چل رہا ہے کہ تحریک جدید کی انتظامیہ اپنے فرائض سے غافل ہے.ورنہ میں جانتا ہوں وقف جدید کو خدا تعالیٰ نے بڑی برکت دی ہے مگر ہمیشہ جماعت میں یہ بات راسخ رہی ہے کہ پہلے تحریک جدید پھر وقف جدید.اب مالی قربانی میں تو توازن بالکل الٹ گیا ہے یہ وقف جدید کے لئے تو بہت خوشی کی بات ہے مگر ہم سب کے لئے فکر مندی کی بات بھی ہے.تحریک جدید نے کیا کیا ہے جو ان کا تاثر وہاں کچھ عجیب سا، پھیکا سا پڑ گیا ہے اور کوئی وجہ ضرور ہے یا ان کی تحریکوں کی طرز وہی پرانی ٹکسالی کی چلی آرہی ہے جبکہ زمانے بدل چکے ہیں.وہی چھ پر زور، بارہ پر زور اور اس قسم کی رسمی باتوں پر.چندے لینے ہیں تو دلوں کو کشادگی عطا کریں.ان کو ایسی باتیں پہنچائیں جن سے دل تازہ ہوں ، حوصلے بڑھیں ، رشک کے جذبات پیدا ہوں.مگر محض چند امیروں کے پیچھے پڑ جانا یا کمی طور پر کم سے کم مقرر کر کے سب کو کہنا کہ آپ پر لازم ہے بارہ حضرت مصلح موعودؓ نے مقرر کیا تھا، چوہیں اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے زمانے میں مقرر کیا اس سے کم آپ نے نہیں لینا یا ضرور پورا کریں ، اس سے تحریک کوئی نہیں ہوتی.صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی ڈانٹ رہا ہے کہ ہم بڑے نکے لوگ ہیں.تو میں بھی آپ کو ڈانٹ نہیں رہا میں کچو کے دے رہا ہوں.تحریک جدید اٹھے اور خیال کرے کہ ایک پیچھے سے آنے والا گھوڑا جو بہت پیچھے تھا وہ اتنا آگے نکل گیا ہے.تو اللہ کرے کہ یہ غیرت کام آئے مگر وقف جدید کو دبا کے نہ آگے نکلیں.یہ نہ کریں کہ جو وقف جدید کے چندے دے رہے ہیں آپ کہیں کہ نہیں ہمارا بڑھاؤ، ان کا کم کرو.تو اللہ تعالیٰ سب کو ہی آگے بڑھنے کی توفیق بخشے لیکن بعض جو پرانی ترتیبیں خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہوئی ہیں وہ جب بدلتی ہیں تو تعجب ضرور ہوتا ہے.برطانیہ نمبر چار ہے، کینیڈا نمبر پانچ ، انڈونیشیا چھ، سوئٹزر لینڈ سات، ماریشس آٹھ ، جاپان نو اور ہندوستان دس.اس پہلو سے ہندوستان نے کافی ترقی کی ہے.پہلے ان چندوں میں ہندوستان بہت پیچھے رہ گیا تھا.اب خدا کے فضل سے نئی بیداری پیدا ہو رہی ہے.فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ نمبر ایک ہمیشہ کی طرح اور بہت فرق ڈال گیا ہے
خطبات طاہر جلد 14 839 خطبہ جمعہ 3 رنومبر 1995ء باقی جماعتوں سے، جاپان نمبر دو، امریکہ نمبر تین الیم نمبر چار، بر طاحہ نہر پانی اور اس کے قریب قریب ہی جرمنی بھی ہے یعنی معمولی فرق کے ساتھ کیونکہ عموماً وہاں جماعت غریب ہے اس لئے فی کس قربانی کے معیار کے لحاظ سے وہ بعض دفعہ نسبتا کم قربانی کرنے والی جماعتوں سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں مگر اجتماعی قربانی میں وہ خدا کے فضل سے بہت آگے ہیں اور مجاہدین کی تعداد کے لحاظ سے اب وقت نہیں رہا بہت سے ممالک ہیں جو ترقی کر کے آگے آرہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہم سب کو مالی قربانی کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے ظاہر کا حق بھی پورا کرنے کی توفیق بخشے اور اس کے باطن کا بھی جھرا کا بھی اور سدا کا بھی خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
840 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 841 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء اللہ کے نور کا مظہر کامل دنیا میں ظاہر ہوا اور مخلوقات میں سراج بن کے چمکا وہ حضرت محمد مصطفی ملے تھے.صلى الله ( خطبه جمعه فرموده 10 نومبر 1995ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبْرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌن فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُو وَالْآصَالِ پھر فرمایا:.( النور : 37،36) یہ سورۃ النور کی 36 ویں اور 37 ویں آیتیں ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.اس میں سے پہلی یعنی 36 ویں آیت وہ آیت نور ہے جس پر دراصل اس سورۃ کو ہی سورہ نور کہا جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کو تحریر فرما کر جو اس کی تفسیر فرماتے ہیں آپ ہی کے الفاظ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں.یہ آیت لکھ کر حضرت اقدس فرماتے ہیں:.
خطبات طاہر جلد 14 842 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء ”خدا آسمان و زمین کا نور ہے یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں ہے نظر آتا ہے...66 صرف بلندی ہی کا نور سے تعلق نہیں.ہر پستی کا بھی نور سے تعلق ہے....یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ وو ارواح میں ہے، خواہ اجسام میں ہے اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی...“ ذاتی سے مراد یہ ہے کہ اس کی ہیئت کے اندر بات داخل ہے اس کے جسم میں چیز داخل ہے اس کے وجود کا حصہ ہے اور عرضی کہتے ہیں ایسی صفات کو جو آتی جاتی رہتی ہیں.ان صفات سے وجود کے حجم میں، اس کے وزن میں نہ اضافہ ہوتا ہے نہ کمی ہوتی ہے.ایسی صفات کو عرضی کہتے ہیں.پس ایک انسان کا اچھا ہونا یا برا ہونا اس کی عرضی صفات ہیں.اس کے جسم کا حجم اور اس کی شکل، صورت، اس کی بناوٹ یہ ساری مل کر اس کی ذاتی صفات بن جاتی ہیں.مگر شکل پھر بھی ذاتی نہیں ہے.ان معنوں میں کہ شکل بدل بھی جائے تو اس کے تجسم پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو وہ تمام چیزیں جو صوتی رنگ رکھتی ہوں یا ایسی صفات ہوں جو کسی چیز میں اضافہ نہ کریں بلکہ کسی چیز کو مختلف شکلوں اور مختلف رنگ میں اس طرح پیش کریں کہ ان کے تشخص میں تبدیلی ہو لیکن ان کی جسامت، حجم اور ان کی اندرونی حالت میں تبدیلی نہ ہو ان کو عرضی صفات کہا جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نور خواہ جسم سے تعلق رکھتا ہو یعنی اس کی بناوٹ میں داخل ہو جو جسم ہے یا ایک عارضی صفت ہے جو آئی اور گزرگئی، ہر دوصورت میں یہ اللہ ہی کا نور ہے خواہ باطنی ہو اور خواہ ذہنی ہو، خواہ خارجی.پھر فرماتے ہیں اور خواہ ظاہری ہو ، عرضی ہو خواہ ظاہری ہو اور خواہ باطنی ، جو دکھائی دینے والا ہو وہ ہو یا وہ جو خفی ہے مثلاً ایک ہی انسان کی خوبیاں بسا اوقات اس میں مخفی ہوتی ہیں جب تک وہ جلوہ نہ دکھا ئیں اس کی خوبیوں کا پتہ نہیں چلتا اور صورت بالعموم ظاہر وباہر ہوتی ہے اور وہ دکھائی دے دیتی ہے.اس صورت میں خواہ یہ کیفیت ہو یا دوسری خواہ ذہنی ہو خواہ خارجی، خواہ ذہن کے اندر کوئی نور پیدا ہوا ہے جس کا ظاہر سے تعلق نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی کوئی صفت ذہن پر روشن ہوئی ہے، کوئی عرفان کا نکتہ ہاتھ آیا ہے.یہ نور کے لمحات ہیں جو ذہن کو میسر آتے ہیں.ایک ظاہری طور پر خدا کی جلوہ گری کو کسی چیز میں دیکھتا ہے وہ بھی نور ہے.تو
خطبات طاہر جلد 14 843 فرمایا جو بھی مختلف شکلیں نور کی تم سوچ سکتے ہو وہ تمام ترش ”...اسی کے فیض کا عطیہ ہے...“ شکلیں خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء یہ ہے مطلب اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ کا کہ کوئی بھی فیض ایسا نہیں جو کائنات میں ظاہر ہو یا مخفی ہو.اس صورت میں جو خدا سے فیض یافتہ نہ ہو.پس ان معنوں میں اللہ نُورُ السَّمواتِ کا مطلب یہ بنے گا کہ ہر مخلوق خدا تعالیٰ سے فیض یافتہ ہے اگر خدا کا فیض اس سے تعلق توڑلے تو وہ کالعدم ہو جائے گی بلکہ عدم ہو جائے گی.کوئی وجود ، وجودرہ ہی نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فیض اس پر جلوہ گری نہ کرے.یہ عام معنی ہے جس کا رحمانیت سے تعلق ہے اور جانداروں، بے جانوں ، کائنات کا ذرہ ذرہ جو نظر آتا ہے یا نہیں آتا ان سب کا صفتِ رحمانیت سے تعلق ہے اور رحمانیت ان میں جلوہ گر ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس تشریح کے بعد فرماتے ہیں.”...یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروز بر کی پناہ ہے.یعنی تمام کائنات کا قیوم اس کو سہارا دینے والا ہے اور ہر نیچے اور اوپر کی پناہ بھی وہی ہے.اس کو پناہ ملتی ہے تو خدا کی طاقت میں ملتی ہے.یہ تعریف ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کی.پھر فرمایا.وہی ہے جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا یعنی نور کیوں کہا گیا ہے.عدم کو ظلمت خانہ قرار دیا ہے.عدم، وجود کے مقابل پر ایک ظلمت خانہ ہے اور عدم سے جب وجودا بھرتا ہے تو گویا نورا بھرتا ہے اور عدم سے وجود میں اچھالنے والی ذات اللہ کی ذات ہے.پس اس پہلو سے ہر چیز کا نور اللہ تعالیٰ ہے...جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعتِ
خطبات طاہر جلد 14 844 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو...66 یہ تعریف ہے اللہ کے نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہونے کی کیونکہ نُورُ السَّمَواتِ وَالْاَرْضِ فی ذاتہ ہیں نہ واجب ہیں یعنی اپنی ذات میں نہ ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی ہیں نہ ہمیشہ سے ہیں.پس یہ خدا کا نور نہیں ہیں بلکہ خدا کے نور کے مظہر ہیں.یہ نتیجہ آخر پر نکلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخر پر یہ فقرہ زائد کرنا ایک بہت ہی اہم مسئلے کا حل کر گیا ہے جسے ہزار ہا سال سے فلسفی حل کرنے کی کوشش میں ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ نور ہے تو پھر جو چیز اس کا مظہر ہے وہ خدا ہی ہوئی.اگر اس کے سوا کچھ نہیں تو ہم بھی خدا ، یہ بھیڑ بکریاں، یہ پتے ، یہ روشنی کی قسمیں، یہ کرہ ہائے ارض و سماوات یہ تمام کے تمام اللہ ہی ہیں.وہ حد فاصل کیا ہے.اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ظاہر فرمایا ہے کہ یہ سارے جو اللہ کا نور کہلاتے ہیں ان میں اور اللہ میں یہ فرق ہے کہ یہ نور صرف خدا کے نور کے حجاب ہیں.فی ذاتہ ان میں نہ ہمیشہ سے ہونے کی صفت پائی جاتی ہے نہ ان میں سے کوئی چیز اپنی ذات میں قائم رہ سکتی ہے.خدا اپنی تکوین کی تجلی جب کسی چیز سے اٹھائے وہ عدم ہو جائے گی اور خدا عدم ہو نہیں سکتا.ان سب چیزوں کا ایک آغاز ہے اور خدا کا آغاز کوئی نہیں.تو یہ حد فاصل آپ نے قائم فرما دی جس کے نتیجے میں یہ تو ہمات اٹھ گئے کہ یہ گویا خدا ہی ہیں اور کچھ نہیں ہیں.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان، حج اور شجر اور روح اور جسم سب اسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں...66 کوئی بھی ایسا وجود کا تصور نہیں ہوسکتا جو خدا کے فیض کے بغیر اپنی ذات میں قائم رہ سکتا ہو.66...یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر ایک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے...کوئی بھی وجود جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں اس دائرے سے باہر نہیں جاسکتا.خدا کے فیضان کے دائرے کے اندر رہے گا.
خطبات طاہر جلد 14 845 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت کی شرط نہیں“.یعنی اس کے لئے کسی قسم کی ذاتی قابلیت کی کوئی شرط نہیں ہے.بری چیز کا تصور کر لیں، اچھی چیز کا تصور کر لیں جو کچھ بھی ہے وہ خدا کے نور سے فیض یافتہ ہے یعنی جب تک جس حالت میں ہے خدا کے فیصلے کی محتاج اور اسی کی طاقت کی محتاج ہے.یہ سمجھنے سے شیطان کا وہ سوال بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ مجھے قیامت تک مہلت دے.شیطان کو اتنا عرفان تو تھا کہ خدا کے سہارے کے بغیر اگر وہ مجھے اجازت نہ دے تو میں ایک لمحہ بھی ان بری کارروائیوں کو بھی نہیں کر سکتا جن میں میں ملوث ہونا چاہتا ہوں.پس قیامت تک شیطان بھی ، اللہ نے اس کو مہلت دی ہے تو وہ کام کرتا ہے ورنہ یہ کام بھی نہیں کر سکتا تھا.تو اس سے وہ تعلق سمجھ آ گیا جو نیک و بد کا تعلق ہے اور خدا کی ذات میں یہ تعلق کہاں کیسے قائم ہوتے ہیں.اللہ نیکی چاہتا ہے مگر جب کوئی بد بنتا ہے تو ایک فیصلہ کرتا ہے کہ میں نیکی نہیں چاہتا میں بدی چاہتا ہوں.اللہ جن چیزوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ چاہیں تو نیک رہنے کا فیصلہ کریں، چاہیں تو بد ر ہنے کا فیصلہ کریں وہ نیک اور بد کی تمیز بھی رکھتی ہیں اور نیک اور بد ہونے کی طاقت بھی رکھتی ہیں لیکن چونکہ خدا کے بغیر نہ ان کی بد حالت قائم رہ سکتی ہے نہ نیک حالت اس لئے نور کا ایک تعلق دونوں سے بن جاتا ہے.بذات خود خدا سے بدی نہیں پھوٹ سکتی مگر بدی کو مجال نہیں کہ خدا کی اجازت کے بغیر قائم رہ سکے.پس اجازت کا ہونا نیک و بد کی تقدیر کا حل ہے اور اس کو آپ سمجھ جائیں تو پتا لگے گا کہ خدا سے شہر نہیں پھوٹتا مگر خدا کی اجازت کے بغیر شررہ بھی نہیں سکتا اور چونکہ اجازت سے رہ سکتا ہے اور رہنے اور شرکور رکھنے والا اس فیصلے میں مختار ہے کہ شر کو اختیار کرے یا نیکی کو اختیار کرے اس لئے جزا سزا کا حکم جاری ہو جائے گا.پس اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس مکالمہ کو محفوظ کر کے ہمیشہ کے لئے ہمارے سامنے یہ مسئلہ کھول دیا کہ شیطان بھی میری اجازت کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا.میں نے اجازت دی اور یہ بھی کہا کہ اپنے بندوں کو بھی اجازت دیتا ہوں کہ چاہیں تو تیری پیروی کریں، چاہیں تو میری پیروی کریں.پس یہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے عام ہونے کا ایک حیرت انگیز نظارہ ہے.شیطان کو اجازت دے کر بندوں کو یہ نہیں کہا کہ تمہیں بالکل اجازت ہی نہیں ہے.تم اس کی طرف جاہی نہیں سکتے.جو اجازت دی وہ واپس لے لیتا دوسرے ہاتھ سے فرمایا تم فکر نہ کرو تم جوزور لگانا ہے لگاؤ.
خطبات طاہر جلد 14 846 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء اپنے پیارے چڑھالا ؤ، اپنے گھوڑے دوڑ الاؤ.تمام تر طاقتیں استعمال کرو.دائیں سے بھی آؤ بائیں سے بھی آؤ.جہاں سے تم نظر نہیں آتے وہاں سے بھی حملہ آور ہو.اجازت ہے کہ جو چاہے تمہارے پیچھے چلے، جو چاہے میرے پیچھے آئے.مگر جو میرے خالص بندے ہیں وہ کبھی تیرے پیچھے نہیں لگیں گے اجازت کے باوجود تیرا، ان پر غلبہ نہیں ہوگا.یہ تقدیر خیر وشر ہے جو قرآن کریم نے اس ازلی نکتے کے حوالے سے بیان فرمائی ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہر چیز جس کا بھی آپ تصور کر سکتے ہیں وہ نور ہی پر مبنی ہے.تو مطلب ہے فیض یافتہ ان معنوں میں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی بد حالت بھی قائم نہیں رہ سکتی ، کوئی اندھیرا قائم نہیں رہ سکتا، کوئی گڑھا قائم نہیں رہ سکتا، کوئی نقصان کا موقع پیدا ہو نہیں سکتا مگر ایک اجازت عام ہے جس کے تحت یہ واقعات اور حادثات رونما ہوتے ہیں.لیکن اس کے علاوہ ایک فیضِ خاص بھی ہے اور اس آیت کے پہلے ٹکڑے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فیض خاص کی بات شروع ہو گئی ہے.اب اس کی تفصیل کیا ہے اس ایک تمثیل کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے.فرماتے ہیں.وو..لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہی افراد خاصہ پر فائز ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت واستعداد موجود ہے...66 یہ جو فیض عام تھا جیسا کہ میں نے دکھا دیا آپ کو، اس میں نیک و بد ، خدا کے بندے مخلص جو خدا کے ہو چکتے ہیں وہ بھی شامل ہیں اور بد بھی شامل ہیں اور اس فیضِ عام کی مثال ایسی بارش کی طرح ہے جو نیک و بد سب پر برابر اترتی ہے.وہ نعمتیں دنیا کی جن سے بسا اوقات بد زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور نیک کم فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں یہ اللہ کا نور ہی تو ہے، یہ ساری نعمتیں.پس جب بدقو میں بھی زندہ ہیں اور بعض دفعہ طاقتور ہو جاتی ہیں بعض دفعہ انہیں عارضی غلبہ نیک قوموں پر بھی نصیب ہو جاتا ہے تو صاف دکھائی دے دیتا ہے کہ ان کی یہ طاقت، ان کی عیش وعشرت ، ان کا خدا کے انعامات سے فیض پانا اس رحمت عامہ کے نتیجہ میں ہے اور یہ اعتراض نہیں اٹھتا کہ گویا بدی کا خدا
خطبات طاہر جلد 14 847 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء سے تعلق ہے.بدی اس کے اذن اور اس کی رحمت سے بعض دفعہ اسی طرح فائدہ اٹھاتی ہے جس طرح نیکی فائدہ اٹھاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مضمون کو دوسری جگہ یوں کھول دیا ہے کہ میں نے اچھی چیزیں جتنی بھی تھیں یہ دنیا میں تو نیک و بد دونوں کے استفادے کے لئے پیدا کی ہیں.نیکوں کے لئے پیدا کیں مگر بد بھی فائدہ اٹھا ئیں گے لیکن مرنے کے بعد یہ چیزیں ان کے لئے مخصوص ہو جائیں گی جو میرے بندے بن کر، میرے بندے بننے کی حالت میں وفات پائیں.وہاں نیک کے لئے خاص ہوں گی بدان سے محروم رہ جائیں گے.یہ وہ افاضہ ء خاص ہے یہ وہ خاص رحمت ہے جوان بندوں پر نازل ہوتی ہے جو شیطان کے اثر کو قبول نہیں کرتے اور ان کے اس رحمت کے مستحق بننے کے لئے کچھ شرطیں مقرر ہیں، کچھ ایسے اعمال ان سے وابستہ ہیں جن کے نتیجے میں پھر یہ فیض خاص اترتا ہے ورنہ نہیں اترتا.نور کی اس قسم کو اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں ظاہر کیا جس میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ا نے کو نور کی مثال بنا کے دکھایا یعنی یہ رحمت خاص جو خدا کے خاص مخصوص بندوں پر نازل ہوتی ہے یہ جب عروج کرتی ہے اور اپنے ارتقاء کو پہنچ جاتی ہے جب یہ معراج کی حالت تک پہنچ جاتی ہے اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کا نور چمک اٹھتا ہے اور وہی نور ہے جو اس حالت کی آخری ترقی کا نام ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تعریف میں فرماتے ہیں:...افراد خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے یعنی نفوس کا ملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفی ملے وو پس خدا کے بندوں میں سے وہ طبقہ خاص جسے انبیاء کہا جاتا ہے وہ بطور خاص اس نور کے محل بن جاتے ہیں، مورد ہو جاتے ہیں اور ان میں سب سے اوپر اور بالا مقام محمدیت کا مقام ہے جس پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم فائز ہوئے.میں کوشش تو کر رہا ہوں آپ کو سمجھانے کی مگر کئی خطوں سے پتا چلتا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے.کئی خطوں سے پتا چلتا ہے کہ ان کے مدتوں کے الجھے ہوئے مسئلے حل ہو گئے اس لئے میں مضمون پر بے شک اور بھی کہتا چلا جاؤں اور جو عجیب لطف کی
خطبات طاہر جلد 14 848 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء بات ہے جس کا اس مضمون سے تعلق ہے وہ یہ ہے کہ ان خطوں میں تعلیم کا فرق مظہر نہیں ہے تعلیم کوئی شرط نہیں ہے.بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ لکھتے ہیں کہ کچھ نہیں پلے پڑا ، کچھ سمجھ نہیں آئی.بعض بالکل ان پڑھ جو صرف لکھنا پڑھنا جانتے ہیں وہ حیرت انگیز طور پر سمجھتے بھی ہیں اور پھر تبصرہ ایسا کرتے ہیں جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان کا دل روشن ہوا تھا تو یہ تبصرہ ہوا ہے اور اس سے اس مضمون کا تعلق ہے جواب میں بیان کرنے لگا ہوں.آنحضرت ﷺ جو مخلوقات میں نور کامل تھے، تعلیم میں بالکل سب سے نیچے تھے بظاہر، ایک ایسی قوم میں جن کو پڑھنے لکھنے کا شوق ہی نہیں تھا اس قوم میں ایک بظاہر ان پڑھ کی صورت میں پیدا ہوئے اور اس کے باوجود اتنی ترقی کی کہ نور کامل کا مخلوق میں مظہر بن گئے.اللہ کے نور کا مظہر کامل اگر دنیا میں کوئی ظاہر ہوا یا مخلوقات میں کوئی بھی نور بن کے چمکا تو حضرت اقدس محمد مصطفی اتے تھے.پس ان باتوں کو جو لوگ عالمانہ باتیں کہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اہل علم کی مجلس میں گفتگو ہونی چاہئیں ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی باتوں کا تمام بنی نوع انسان سے تعلق ہے اور کوئی یہ عذر نہیں رکھ سکتا کہ میں تعلیم یافتہ نہیں تھا میں اس لئے سمجھ نہیں سکا کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو کس نے تعلیم دی تھی.یہ نور تقوی ہے جو روشنی عطا کرتا ہے، جو علم سکھاتا ہے، جو عرفان کو بڑھاتا ہے.پس اگر کچھ دقت ہے تو اپنی نظر کی فکر کریں کیونکہ آسمان سے جو نو را تر تا ہے اگر بصیرت تیز ہوتو وہ دھندلا بھی دکھائی دے دیتا ہے اس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں چونکہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں اس لئے دن کے وقت مجھ سے چلنا مشکل ہے، مجھے روشنی نظر نہیں آتی ، میری بہت معمولی تعلیم ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میری تعلیم بہت ہے اس لئے اندھیرے میں میں صاف چلتا ہوں.اس کا نور بصیرت سے تعلق ہے جس طرح مادی دنیا میں نو ر اعلیٰ نظر کا محتاج ہے اسی طرح روحانی دنیا میں بھی نظر کے صیقل ہونے سے مسائل آسان ہو جاتے ہیں.پس نظر کی فکر کرنی چاہئے یعنی ان معنوں میں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نور بصیرت کو تیز کرے اور وہ چیزیں جو واقعہ بعض مراحل پر مشکل ہو جاتی ہیں مثلاً دور سے بعض بار یک چیزیں عام نظر کو دکھائی نہیں دیتیں تو اس پہلو سے بعض مضامین مشکل بھی ہو جاتے ہیں کہ بار یک باتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے لئے بار یک نظر کی ضرورت ہے لیکن وہ باریک نظر کی صلاحیت خدا نے سب کو عطا کی ہے اور اسے اجاگر صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 849 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء کرنے کے لئے تقویٰ کی عینکوں کی ضرورت ہے.اعلیٰ درجہ کی تقوی کی عینک لگا ئیں تو باریک سے بار یک چیز موٹی ہو کر آپ کی نظر کے سامنے ابھر آئے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے یہ باتیں دکھائی دے رہی ہیں کہ اس دور میں آپ سے بڑھ کر متقی کوئی نہیں تھا اور آپ کی آنکھ سے ہم بھی تو دیکھ سکتے ہیں کسی حد تک، اگر پوری طرح نہیں تو کچھ نہ کچھ شعوران نظاروں کا ہم کر سکتے ہیں.جو مسیح موعود علیہ السلام نے کئے.اسی لئے ان باتوں کو سمجھا کر، آپ کے لئے نسبتاً آسان بنا کر میں سامنے رکھ رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہم سب کی وہ نظر تیز کرے جو الہی نور دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو جب خدا اسے دکھائے کیونکہ بذات خود الہی نور کو دیکھنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا.فرماتے ہیں: وو 66...اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت بار یک صداقت ہے...اب دیکھ لیجئے وہی مضمون ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھا تھا.”...اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت بار یک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے...“ کیونکہ یہ فیضان مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں جس کی میں بات کرنے لگا ہوں یہ ایک بہت بار یک صداقت ہے اور وہ دلائل جو حکمتوں سے تعلق رکھتے ہیں ان دلائل میں باریک ترین حکمتوں سے تعلق رکھنے والے دلائل ہیں جو میں آپ کے سامنے کھولنے لگا ہوں فرماتے ہیں:....اس لئے خدا وند تعالیٰ نے اول فیضان عام کو (جو بدیہی وو الظہو ر ہے ) بیان کر کے پھر اس فیضانِ خاص کو جو بغرض اظہار کیفیت نور ،، حضرت خاتم الانبیا ﷺ ایک مثال میں بیان فرمایا ہے...“ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مسئلہ آسان فرما دیا ہے.پہلے نور عام کی بات کی جسے ہر کس و ناکس سمجھ سکتا تھا اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اس پر غور کرو تو واقعہ ہر آدمی کو سمجھ آ جائے گی کہ خدا کی منشاء اور اس کے ارادے کے بغیر کوئی چیز نہ بن سکتی ہے نہ قائم رہ سکتی ہے.اس وقت تک رہے گی جب تک خدا چاہے گا اور اس کی تمام صفات مبنی ہیں اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کیا صفات رکھی ہوئی ہیں.جب تک ان صفات کی حفاظت فرماتا ہے اللہ یا اس کا قانون اس
خطبات طاہر جلد 14 850 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء وقت تک وہ رہتی ہیں.جب وہ حفاظت کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے تو ضائع ہونی شروع ہو جاتی ہیں جب تک خدا کی تقدیر کے ڈیزائن میں کسی کے نور کے قائم رہنے کی مدت چلتی ہے اس وقت تک وہ چلے گی اس کے بعد جواب دے جائے گی.انسان کے ڈیزائن میں اللہ کے نور کا دخل ہے اس کے بغیر انسان کی تصویر، اس کی تشکیل ہو ہی نہیں سکتی تھی اس ڈیزائن میں اللہ تعالیٰ نے یہ رکھا ہے کہ ایک وقت تک میں اسے بڑھاتا چلا جاؤں گا اس کی تمام صلاحیتیں چمکتی جائیں گی اور زیادہ طاقتور ہوتی چلی جائیں گی پھر ایک وقت آئے گا کہ وہ ڈھلنے لگیں کی اور جس طرح دن ڈھل جاتا ہے سورج غروب ہونے لگتا ہے اسی طرح وہ انسان واپس اپنی حالت کو لوٹنا شروع ہو جائے گا اسی کو بڑھاپا کہتے ہیں.ایسا بڑھاپا جو تمام صلاحیتوں پر قابض ہو جائے اس کو ارذل العمر کہا جاتا ہے.تو صلاحیتیں آتی ہیں ہٹتی ہیں مگر نور خدا انہیں ملتا اس لئے یہ صلاحیتیں نورِ خدا کہلانے کے باوجود نورِ خدا نہیں ہیں یعنی نو ر کا پر تو تو ہیں لیکن خود اپنی ذات میں نور نہیں ہیں.اور جہاں تک اللہ کے نور کی کیفیت کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ صرف ایک مثال کی صورت میں دیا جا سکتا تھا کیونکہ خدا کے نور کی کنبہ ،اس کی حقیقت ، اس کا فیض انسان کسی صورت پاہی نہیں سکتا.اس کا فیض تو پاسکتا ہے اس کا عرفان حقیقی عرفان اس کا ادراک حاصل کر نہیں سکتا.یہ انسان کی صلاحیتوں سے بالا بات ہے.پس تمثیلات دے کر اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھاتا ہے اور سب سے اچھی مثال ، سب سے پیاری، سب سے پاکیزہ ،سب سے زیادہ صادق آنے والی مثال جو خدا کو نظر آئی وہ محمد رسول اللہ تھے اور صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ ہیں.تو فرماتا ہے: و, ”...مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ اور بطور مثال اس لئے بیان کیا...“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: رہے...‘“ ”...کہ تا اس دقیقہ نازک کے سمجھنے میں ابہام اور دقت باقی نہ اگر خدا تعالی محمد رسول اللہ اللہ کی مثال دے کر اپنے نور کو نہ سمجھاتا تو یہ اتنا باریک نکتہ تھا کہ انسان کے بس میں اس کا سمجھنا نہیں تھا اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی مثال کے حوالے سے ان باریک
خطبات طاہر جلد 14 851 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء تر معارف کو ہم پر کھولنے کا ایک رستہ پیدا فرما دیا....کیونکہ معانی معقولہ کو صور محسوسہ میں بیان کرنے سے ہر ایک غبی و بلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے...“ اس لئے ایسا کیا گیا کہ اگر معقولات کی دنیا کو تصویری زبان میں پیش کر دیا جائے اور بنا کر Demonstrate کر کے دکھایا جائے تو ایک نبی ، موٹی عقل والا اور معمولی فہم والا انسان بھی ان لطائف کو سمجھ سکتا ہے جو اس مثال کی مدد کے بغیر سمجھ نہیں آسکتے تھے.پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی مثال بیان فرمائی ہے.دو...بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ یہ ہے اس نور کی مثال ( فرد کامل میں جو ،، پیغمبر ہے ) یہ ہے جیسے ایک طاق (یعنی سینه مشروح حضرت پیغمبر خدام یہ جو فرمایا ہے کہ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ مُشکوۃ کہتے ہیں طاق کو تو آپ نے فرما یا طاق سے مراد ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی مثال میں ان کے کیا معنی ہیں، فرماتے ہیں، حضرت اقدس محمد رسول صلى الله اللہ ﷺ کا کھلا سینہ، وہ سینہ جو کائنات کی وسعتوں کو سمیٹنے کے لئے کھل چکا تھا اور ایسا وسعت پذیر تھا کہ اللہ کے نور کی وسعتیں اس سینے میں معرفت بن کر اتر سکتی تھیں اور اترتی تھیں اس کو مشکوۃ فرمایا ہے.مشروح لفظ میں یہ حکمت بیان ہوئی ہے کہ کیوں محمد رسول اللہ ﷺ کا سینہ چنا گیا کیونکہ اس میں صلى الله وسعتیں بہت تھیں.”...اور طاق میں ایک چراغ...،، اور طاق کے اندر یعنی اس سینے میں ایک چراغ ہے وہ کیا ہے فرمایا وہ وحی ہے.اللہ کی وحی جو نازل ہوتی ہے وہ چراغ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کو اپنے نور کی مثال کے طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کے سینے میں روشن دکھایا ہے.وو ”...اور چراغ ایک شیشے کی قندیل میں جو نہایت مصفی ہے...66 چراغ کہاں ہے ایک شیشے کے لیمپ میں.قندیل شمع کو کہتے ہیں جس میں اردگر دشیشے کا گلاس ہو تو فرمایا ایک شیشے کی قندیل میں ہے جو نہایت مصفی ہے وہ ایسا صاف ہے کہ اس روشنی کو اپنے سے گزارتے ہوئے گدلا نہیں کرتا بلکہ وہ پوری طرح مصفیٰ حالت میں چمکتی ہوئی ہر طرف پھیلتی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 صلى الله 852 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء پس محمد رسول اللہ ﷺ کا دل اس لئے لازم تھا کہ اللہ کا نور جیسا محمد رسول اللہ ہے کے دل میں جلوہ گر تمام دیکھنے والوں کو دکھائی دے سکتا تھا اور دنیا میں کسی وجود میں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ اس طرح شفاف طور پر ایک ادنی سی بھی میل ڈالے بغیر بعینہ جیسا حاصل کیا تھا اسی صورت میں وہ روشن کر کے دنیا کو دکھا دے.یہ بنیادی صفت تھی محمد مصطفی میلے کے دل کی جس کی وجہ سے آپ کو نور کی قندیل بنایا گیا.فرماتے ہیں:.وو...یعنی نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت ﷺ کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشہ سفید اور صافی کی طرح ہر یک طور کی کثافت اور کدورت سے منزہ اور مطہر ہے...“ یعنی ایسے صاف شیشے کی طرح جس میں ادنی سی بھی میل نہ ہو، ہر چیز سے پاک کر دیا گیا ہے، ہر کدورت سے صاف ہے اور مطہر ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے پاکیزگی عطا فرمائی گئی ہے....اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے...“ اب آپ یہ دیکھیں کہ کیسی عظیم الشان تفسیر ہے دل کے پاک اور صاف، کدورتوں سے پاک ہونے کی.فرماتے ہیں اللہ کے سوا ہر دوسرے تعلق کی میل سے پاک ہے اور وحی الہی اگر ایسے دل سے جلوہ گر ہو جس میں دنیا کا کوئی بھی میلان ہو تو اسی حد تک وحی الہی کا انعکاس مکدر ہو جائے گا.پس جس کو ہم شیشوں کے داغ کہتے ہیں وہ خدا کے سوا دنیا کے تعلقات کے داغ ہیں جو انسان کو خود وحی و الہی سمجھنے سے بھی محروم کر دیتے ہیں.کسی حد تک اس کا انعکاس جو ہوتا ہے وہ ان رشتوں کے حوالے سے بھی ہونے لگتا ہے جو اس کے دل کے خدا کے علاوہ رشتے ہیں.تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بے داغ ، کدورت سے پاک تو یہ فرضی باتیں نہیں ہیں کہ فرضی تعریف ہورہی ہے.لفاظی نہیں ہے ایسی گہری حقیقتیں ہیں کہ ان میں اتر کر جب آپ منشاء مبارک کو سمجھیں تو پھر سمجھ آتی ہے کہ نو ر کیا تھا اور کیا ہے اور کن معنوں میں اسے نور قرار دیا گیا ہے پس وہ قلب صافی حضرت اقدس محمد مصطفی ملے جو ایک قندیل کے طور پر نور اللہ کے لئے بنایا گیا یعنی اس پر وحی نازل ہو اور اس وحی کی چمک ہر کثافت سے پاک ہو کر تمام دنیا کو روشن کر
خطبات طاہر جلد 14 853 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء دے یہ وہ نور کی مثال ہے جو آنحضرت ﷺ کے حوالے سے پیش کی گئی ہے.پھر فرماتے ہیں: ”اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم النور ستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں جن کو کو کب دری کہتے ہیں...“ یعنی دنیا کی بات کرتے ہوئے گوگ درمی (النور: 36) کہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے بلند کر دیا ہے کہ سطح سے بالا ستاروں کے جھرمٹ میں داخل فرمایا ہے اور اس ستارے کی مثال دی ہے جو سب سے زیادہ روشن ہے اور وہ بھی اللہ ہی کے نور سے چمکتا ہے تو ارضی ہوتے ہوئے سماوی ہو جانا یہ اس دل کا ایک خاصہ تھا جسے كَوْكَبٌ دُرِی نے ظاہر فرما دیا....یعنی حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کوکب دری کی وو طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے وہ چراغ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے یعنی زیتون کے روغن سے روشن کیا گیا ہے...“ اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے جس پر لوگ غور کرتے ہیں پھر ہار کے چھوڑ دیتے ہیں کہ زیتون کے روغن سے کیا مراد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اللہ نے جو انکشاف فرمایاوہ یہ ہے..شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجود مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ وو نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علی سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا.....یہ فرمانا اس غرض سے ہے کہ جتنے بھی خدا تعالیٰ نے شجر بنائے ہیں انسان کے فائدے کے لئے ، آپ فرماتے ہیں کہ زیتون کا شجر آنحضرت ﷺ کی صفات کی مثال بننے کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے کیونکہ یہ وہ شجر ہے جو شرق و غرب میں برابر پایا جاتا ہے اور جس کے اندر سے نہایت ہی صافی تیل نکلتا ہے.ایسا صاف تیل کسی اور درخت کے پھل میں سے نہیں نکلتا جیسا صاف اور پاکیزہ اور مفید تیل زیتون کے درخت سے نکلتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 854 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء پس شجرہ طیبہ سے آنحضرت ﷺ کا وجود مراد ہے اور اس شجرہ طیبہ کی مثال زیتون سے دی گئی ہے.زیتون کے تیل کے اور جو فوائد ہوں، یہ پاک تیل جب جلتا ہے تو کم سے کم دھواں پیدا ہوتا ہے اس سے بلکہ شاید دھواں نہ ہی پیدا ہوتا ہو.میرے علم میں ظاہری تیل کی تفصیلات تو معلوم نہیں مگر آنحضرت ﷺ کی مثال اس سے بہتر دی نہیں جاسکتی تھی اس لئے اسی پر اکتفا ہے مگر کن معنوں میں یہ تیل محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے.اس کی تشریح خود قرآن نے کر دی اور اس پہلو سے زیتون کا درخت بھی نیچے گرا ہوا دکھائی دیتا ہے.پس مثال کے لئے ضروری نہیں کہ جس کی مثال ہو اس پر بعینم چسپاں ہو.اللہ کے نور کی مثال دی گئی ہے مگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ عین اللہ تو نہیں ہیں اس لئے مثال کے وقت یہ جو کمزوریوں کا فرق ہے یہ ایک مجبوری ہے مثال کے وقت قریب ترین چیز ڈھونڈی جاتی ہے.پس نور الہی کے لحاظ سے قریب ترین چیز محمد رسول اللہ ﷺ تھے.محمد رسول ﷺ کے وجود کی مثال کے لئے قریب ترین چیز شجرہ مبارکہ زیتون ہے جس کا تیل نہایت شفاف ہے اور بیماریوں سے پاک ہے اور کم سے کم کثافت رکھتا ہے.اس مضمون کو طبی نقطہ نگاہ سے آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جتنے بھی Fats ہیں جن میں کھانے پکتے ہیں، جتنے بھی روغنیات ہیں جن سے کھانے پکتے ہیں ان میں تمام دنیا بھر کے سائنس دانوں نے تحقیق کے بعد یہ اتفاق کیا ہے کہ زیتون کا تیل کھانے والوں کو کم سے کم دل کا حملہ ہوتا ہے اور کسی اور روغن سے دل اتنا محفوظ نہیں جتنا اس روغن سے محفوظ ہوتا ہے.پس وہ علاقے جہاں زیتون کا تیل کھایا جاتا ہے اور خوب کھایا جاتا ہے ان میں کم سے کم دل کے حملے کی واردات ہوتی ہے.تو کثافت کے نقطہ نگاہ سے روغن چاہے کوئی بھی ہوا ایک کثافت اپنے اندر رکھتا ہے جو دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ کثافت نالیوں میں بیٹھتی ہے اور اس کے نتیجے میں دل غرق ہو جاتے ہیں تو زیتون میں آپ دیکھ لیں وہ کثافت کم سے کم ہے.لیکن روحانی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کو یوں بیان فرمایا جو آگے ذکر آئے گا میں وہاں بتاؤں گا پھر.اب واپس اس عبارت پہ چلتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی میں آپ کے سامنے پڑھ رہا تھا.زیتون کے شجرہ مبارکہ سے وہ روشن کیا گیا ہے وو..شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجو دمبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ
خطبات طاہر جلد 14 855 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علی سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے، کبھی منقطع نہیں ہوگا اور شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی...یہاں آنحضرت ﷺ کے وجود کے متعلق فرمایا ہے کہ نہ یہ شرقی ہے نہ غربی ہے اس کا تعلق کل عالم سے ہے.یعنی جس طرح زیتون ایک عالمی فیض کا درخت ہے جس کے تیل سے الله شرق و غرب برابر استفادہ کرتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود اپنے روحانی خصائل کے لحاظ سے شرق و غرب کی کوئی تمیز نہیں کرتا کسی ایک کے لئے آپ کے دل میں کوئی تعصب نہیں پایا جاتا، سب کے لئے برابر فیض رساں ہیں.پھر فرماتے ہیں: "...یعنی طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط بلکہ نہایت توسط واعتدال پر واقع ہے...“ دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ شرق و غرب نہیں یعنی نہ ایک طرف رجحان نہ دوسری طرف یعنی وسط میں واقع ہیں.نہ شرقی نہ غربی کا مطلب ہے پنڈولم کے دو کناروں کی طرح یہ نہیں کہ آپ کسی ایک کنارے پر واقع ہوں یا ایک یا دوسرے پر بلکہ وسط میں جہاں قرار ملتا ہے پنڈولم کو جو ایک دائمی حالت ہے اور وہ شرق و غرب کی حرکتوں کی عین بیچ میں واقع ہے جو دونوں کے لئے یکساں اور سانجھا ہے اس مرتبہ وسط پر آ نحضرت ﷺ کو پیدا فرمایا گیا.اس لئے تمام انسانی صلاحیتوں کے نقطہ نگاہ سے بھی آپ وسط میں واقع ہیں.تمام انسانی تعلقات کے نقطے سے بھی آپ وسط میں واقع ہیں اپنی تعلیمات کے لحاظ سے بھی آپ وسط میں واقع ہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلیمات مشرق کے لئے تو موزوں ہیں مغرب کے لئے نہیں یا مغرب کے لئے تو موزوں ہیں مشرق کے لئے نہیں.اس لئے وسطی ہونا آپ کے اعتدال، عدل اور انصاف کا بھی مظہر ہے اور آپ کے بہترین ہونے کا بھی.اسی لئے اوسط کا لفظ عربی میں اعلیٰ اور ارفع کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.جو سب سے بیچ میں ہے وہ سب سے اعلیٰ ہے.پس اس لحاظ سے آپ کا وجود شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 856 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء آپ کی ان صفات سے تعلق رکھتا ہے جو عالمی نوعیت کے ہیں جن صفات کی بنا پر آپ ہی ہیں جو اس بات کے حق دار تھے کہ کل عالم کے لئے خدا کے نور کا نمونہ بن کر اتریں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں "...اور احسن تقویم پر مخلوق ہے...66 أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (اتین : 5) کی ایک عظیم الشان تعریف بھی یہ آپ نے فرما دی.جو سورہ التین کی ایک آیت میں محاورہ ملتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اس تفسیر کی روشنی میں کہ تمام صفات کو معتدل بنادیا ہے.ہم نے انسان کو اس حال پر پیدا کیا ہے کہ کسی جانور کی طرح کوئی ایک ہی حد سے بڑھی ہوئی صفت اکیلی اس میں نہیں پائی جاتی ،اس میں شیر کی طرح بھرنے کی بھی استطاعت ہے اور بھیڑ کی طرح جھک جانے اور عاجزی اختیار کرنے کی بھی صفات ہیں.غرضیکہ ہر قسم کی صفات جو تمام دنیا کے جانوروں کو دی گئی ہیں ان کو برابر کر کے ، ان میں عدل پیدا کر کے ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے.اور ارتقاء کے ایک لمبے دور کی طرف اشارہ ہے جو دراصل تعدیل کا دور ہے اس دور کی تکمیل پر پھر انسان کا پھل لگتا ہے.اس سے پہلے دوسرے جاندار تو ہیں مگر وہ تعدیل سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا چکے ہیں، اس عدل کے نظام کی مکمل تصویر نہ بن سکے.تو تمام انسان سے نیچے کی حالتیں احسن تقویم کا پھل تو ہیں مگر پہلی منزلوں کے پھل ہیں ، آخری منزل نہیں.انسان اس کی آخری منزل ہے اور انسان کی آخری منزل جس نے ایک وجود میں احسن تقویم کا تمام تر جلوہ پوری شان سے دکھایا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کی ذات جامع برکات ہے.فرماتے ہیں:...اس شجرہ ء مبارکہ کے روغن سے جو چراغ وحی روشن کیا گیا ہے سور وغن سے مراد عقل لطیف نورانی محمدی مع جمیع اخلاق فطرتیہ ہے جو اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں...“ ( براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 193-191 - حاشیہ ) اب یہ جو مضمون ہے یہ بہت اور بھی زیادہ باریک ہوتا جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 14 857 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء علیہ السلام کو ایسا صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آپ فرماتے ہیں اس کے بعد کوئی نبی ہی ہوگا جو نہ سمجھے گویا کہ اکثر انسان واقعہ جو ان باتوں کو بہت دقیق دیکھنے کی وجہ سے نہیں سمجھ سکتے اس مثال کے باوجود نہیں سمجھ سکتے وہ اپنے درجے کے اعتبار سے نبی دکھائی دیتے ہیں.اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا نور فطرت ایسا صیقل کیا گیا تھا، آپ کو جو مزاج کا تیل عطا کیا گیا تھا وہ آنحضرت کے اس صافی تیل کی برکتوں سے خود فیض یافتہ تھا اس لئے آپ کو تو آسانی سے دکھائی دے دیا ہے اور وہ جو فقرہ ہے اس کا بوجھ اس لئے ہلکا ہو جاتا ہے جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ آپ تو اُسی دنیا کے تھے، اُس دنیا کی چیزیں صاف دکھائی دیتی تھیں ہم جیسے کور باطنوں کے لئے تو نبی کہلانے کے سوا چارہ ہی نہیں رہا کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا مگر اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں دکھا رہے ہیں پھر تو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے اتنی سی بات تو دنیا کے عام شاعروں کو بھی پتا ہے.ایک شاعر کہتا ہے: صلى الله آئینہ تیری قدر کیا جانے میری آنکھوں سے دیکھ تو کیا ہے پس عام آئینہ بصیرت جو ہر انسان کو عطا کیا گیا ہے اس کو محمد رسول اللہ ﷺ کی قدر کا کیا صلى الله پتا.اگر دیکھنا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھوں سے دیکھیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا حسن کیا ہے اور یہ تفسیر جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کوئی انسان جس میں شرافت کا مادہ ہو اور حیاء ہو اس تفسیر کو پڑھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کبھی گستاخی کی زبان دراز نہیں کر سکتا.اسے سمجھ آئے نہ آئے اتنا یقین ضرور ہو جائے گا کہ ایک ایسے عارف باللہ کا کلام ہے جس کا محمد رسول اللہ ﷺ سے ایک ازلی اتصال ہے جیسا عاشق و معشوق کا کامل اتصال ہوتا ہے اور اس اتصال کے بغیر یہ نور آپ کو میسر آ ہی نہیں سکتا تھا.فرماتے ہیں ، جو چراغ وحی روشن کیا گیا ہے اب آپ دیکھ لیں وحی کا چراغ اس تیل سے روشن ہوا ہے.اس سے ایک بہت ہی بڑا عقدہ حل ہو گیا جو پیرا سائیکالوجی کی دنیا والے حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ابھی تک ان کو سمجھ نہیں آئی.بات یہ ہے کہ وحی کے بغیر بھی بعض دفعہ انسانی قلب جو عام چیزوں سے ملوث نہ ہو بعض خاص دائروں میں صفا ہوان دائروں میں چمک اٹھتا ہے اور ایسی
خطبات طاہر جلد 14 858 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جیسے وحی کے ذریعے وہ چیز دیکھ رہا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آرہی.یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے جو آج کل سائنس کی دنیا میں زیر بحث ہے اور اکثر سائنس دان جو شروع میں اس کو رد کر دیا کرتے تھے اب اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں خواہ ان کو سمجھ آئے یا نہ آئے.امریکہ میں بھی اس پر بہت کام ہوا ہے، روس میں بھی بہت ہوا ہے.یہاں کیمبرج یونیورسٹی میں بھی اس پر باقاعدہ کام ہو رہا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ حواس خمسہ کے بغیر ایک چیز ایسی باتیں کیسے معلوم کر سکتی ہے جس کے درمیان اور اس کے معلوم کرنے والے کے درمیان کوئی ایسا رابطہ نہ ہو جو حواسِ خمسہ کے ذریعے اسے خبر دے.مثلاً روشنی کے بغیر کسی نظارے کو دیکھنا یہ سائنس کے لحاظ سے ایک نہایت غیر معقول اور نا قابل قبول بات ہے مگر آنکھیں بند کر کے آپ ایک ایسا نظارہ دیکھ لیتے ہیں جو چین میں واقع ہورہا ہے اور چین کے واقعہ کی اگر تحقیق کی جائے اور ثابت ہو جائے کہ عین اس لمحہ چین میں وہ واقعہ ہو رہا تھا تو ایک بڑی مشکل میں انسان مبتلا ہو جائے گا لیکن انسان کو جو اللہ تعالیٰ نے نور کی صلاحیت بخشی ہوئی ہے نور کے رابطے کی صلاحیت بخشی ہوئی ہے وہ اس تیل کی لطافت کو چاہتی ہے جو مثال کے طور پر شجرہ مبارکہ کا تیل محمد رسول اللہ اللہ کی طرف منسوب فرمایا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وحی کو قبول کرنے کے لئے پہلے یہ تیل صاف اور شفاف ہونا چاہئے کیونکہ جو بھڑکتا ہے وحی سے وہ تیل بھڑکتا ہے اگر نہ ہو تو وحی سے کچھ بھی نہیں بھڑ کے گا.پہاڑ پر جلوہ ہو تو پہاڑ ریزہ ریزہ تو ہو جائے گا اسے وحی کا شعور کچھ نصیب نہیں ہوگا.پس وحی کے شعور کے لئے ، اس سے روشنی پانے کے لئے اور ایک نئی تخلیق بن کر ابھرنے کے لئے ایک بنیادی فطرتی تیل کی ضرورت ہے.جس کے لئے شفاف ہونا شرط ہے جتنا شفاف ہو اتنا ہی اس کے جلد تر بھڑک اٹھنے کا امکان موجود ہے اور روشن تر ہو جانے کا رستہ کھلتا ہے ورنہ نہیں.حضرت صلى الله ،، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ کیا چیز تھی ، روغن کیا تھا عقل لطیف نورانی محمد ہے.عقلِ لطیف تو سمجھ آگئی جو انسان کی عام عقل روشن ہولیکن نورانی عقل سے مراد وہ چھٹی حس ہے جو ہر خاصہ سے تعلق رکھتی ہے جس کو حواسِ خمسہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک حس میں ایک آخری مقام ہے لطافت کی انتہا کا اسے نورانی مقام کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمار ہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے حواس خمسہ تو بہت لطیف تھے لیکن اس کے علاوہ نورانی بھی تھے.وہ اس حد
خطبات طاہر جلد 14 859 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 1995ء تک صیقل ہو چکے تھے کہ عام انسانوں کے حواس سے بڑھ کر ان میں ایک نور پیدا ہو چکا تھا.ایسی عقل لطیف جو نورانی ہو محمدی عقل کی طرح ” مع جمیع اخلاق فاضلہ فطرتیہ ہے یعنی صرف یہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ اخلاق فاضلہ کا ہونا ضروری ہے اس لطیف چشمہ نور سے جو ایک تیل کی مثال کے طور پر بتایا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں اخلاق فاضلہ بھی پھوٹتے ہیں یہ جب اکٹھے ہو جائیں تو اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں اور وحی کا چراغ لطائف محمد یہ سے روشن ہونا ان معنوں کے لحاظ سے.“ 66 اب یہ دیکھیں آپ ہے کہ نور کی جو لطافتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مثال سے سمجھی ہیں اس مثال سے ان لطافتوں کو سمجھنا ایک نور کا تقاضا کرتا ہے اور وہ نور کی آنکھ ہی ہے جو نصیب ہو تو انسان نور کو دیکھ سکتا ہے جس طرح دنیا کی آنکھ سب کو برابر میسر ہے اور آیت کے پہلے حصے کے ساتھ اس کا تعلق ہے.الله نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اسی طرح دوسرے حصہ کے ساتھ عباداللہ کا تعلق ہے جن پر شیطان کا غلبہ نہیں ہے.ان کے غلبے سے آزاد شیطانی غلبے سے آزاد خدا کے بندوں کو نور عطا ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا نور فطرت بھی چمک رہا ہوتا ہے، ان کے اخلاق فاضلہ بھی لطیف تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کا سفر خدا کی طرف اس طرح ہوتا ہے کہ ہر لحظہ ان کے اندروحی کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی رہتی ہے.یہ سفر جو صراط مستقیم کا سفر ہے جو اوسط رستے کا سفر ہے.جب انبیاء کی منزل میں داخل ہوتا ہے اور اسے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی آخری منزل فرمایا گیا ہے.اس منزل میں داخل ہو کر یہ وحی کو قبولیت کی صلاحیتیں جو پہلے بھی رکھتا تھا ان صلاحیتوں کو بروئے کار لے آتا ہے.صلاحیتیں موجود تھیں، وہ عمل کی دنیا میں ڈھلتی ہیں اور ان کے نتیجے میں کچھ پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ وحی کا نزول ہے.پس اللہ کی وحی جس پر چاہے نازل فرماتا ہے مگر بے سوچے سمجھے نازل نہیں فرماتا ، جو مستحق ہے اس پر نازل فرماتا ہے اور یہ فیض عام نہیں، فیض خاص ہے.فیض عام سب پر برابر ہے اور فیض خاص ان بندوں پر ہے جنہوں نے شیطان کو رد کیا.تو نور کی طرف حرکت کرنے کے یہ سارے مراحل ہیں.ان کو سمجھانا محض عقلی لطف کے طور پر نہیں ایک ضرورت حقہ کے طور پر ہے.آپ جب تک اس نور کے سفر کے آداب نہیں سمجھیں گے اس سفر کے طور طریق آپ پر روشن نہیں ہوں گے اس کے قوانین و قواعد سے
خطبات طاہر جلد 14 860 خطبہ جمعہ 10 نومبر 1995ء واقف نہیں ہوں گے یہ سفر کر ہی نہیں سکتے اور نور کی طرف سفر ہمارا لازم ہے کیونکہ قرآن کریم نے مذہب کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے کہ اللہ اور اللہ والے خدا کے بندوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہیں.پس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے متعلق کہا جائے کہ جی آپ تو صاحب علم لوگوں کی بات کر رہے ہیں.صاحب علم کی باتیں نہیں ہر انسان کی ضرورت کی لازمی باتیں ہیں.اس کو ان لطائف کے انداز میں نہ سمجھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے جاری ہوئے ہیں، آپ کے قلم سے جاری ہوئے ہیں لیکن ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آسان بنا کر عام زبان میں آپ کو دکھا دیتے ہیں تو اس کو سمجھنا لا زم ہے اس سے تو کوئی مفر نہیں ہے.پس نور کا سفراب خلاصہ میں اس خطبے کا خلاصہ یوں نکال رہا ہوں کہ نور کا سفر چاہتا ہے کہ ہم اپنے دل کو کدورتوں سے پاک کریں.نور کا سفر چاہتا ہے کہ ہم اپنے سینے کو کشادہ کریں، اپنے خاندان کے تعلقات سے بھی کشادہ کریں، اپنی قوم کے تعلقات سے بھی کشادہ کریں اور اپنے مذہب ، ہم رنگ، ہم نسل لوگوں کے دائرے سے بھی اس کا دائرہ وسیع تر کر دیں.یہ سینہ جب اتنا کشادہ ہو جائے گا تو پھر نور محمدی ﷺ کو قبول کرنے کے لئے اس میں استطاعت پیدا ہو جائے گی کیونکہ آنحضرت ﷺ کا سینہ کل عالم کو سمیٹنے کے لئے وسیع فرما دیا گیا تھا.اس لئے سینہ' مشروح محمدی ﷺ اس کو کہتے ہیں پس اپنے سینے کو وسعت دیں اور پھر اپنے دل کو ان کثافتوں سے پاک کریں جو دنیاوی آلائشوں کی کثافتیں ہیں کیونکہ جب آپ صاف کریں گے تو پھر وہ فطرت میں جو نور ہے وہ بھی دکھائی دینے لگے گا، وہ بھی جولانی دکھائے گا اور وہ نور جو آسمان سے اترا کرتا ہے اسے قبول کرنے کی بھی صلاحیت پیدا ہوگی.یہ وہ مضمون ہے جو باقی آیت کے حصے میں اور کھول کر بیان فرمایا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کے ابھی کئی صفحے باقی ہیں اس لئے میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں جہاں اس مضمون کو چھوڑا ہے وہاں سے شروع کروں گا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطبات طاہر جلد 14 861 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء نُورٌ عَلَى نُورٍ کی لطیف تشریح رسول کریم کا وسیلہ ہونا اور مسیح موعود کا چاند ہونے کا مفہوم ( خطبہ جمعہ فرموده 17 نومبر 1995 بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے آیت کریمہ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاح (النور: 36) کی تغییر پیش ہورہی تھی جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمائی اور جس کو میں نے مزید وضاحت سے کھول کر جماعت کے سامنے رکھا.یہ مضمون ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ خطبے کا وقت ختم ہو گیا اور اس کے علاوہ بھی اور بہت سی باتیں خدا تعالیٰ کے اسم نور کے حوالے سے کرنے والی ہیں.اس لئے خطبے میں جہاں میں نے مضمون کو چھوڑا تھا وہاں سے بات کو آگے بڑھاؤں گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شجرہ مبارکہ زیتون کی مثال کی تشریح فرمار ہے تھے اور اس موقع پر کچھ حصہ مضمون کا بیان کرنے کے بعد وقت ختم ہو گیا تھا.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ جو زیتون کا تیل ہے جس سے وہ وحی کا مبارک چراغ روشن ہے وہ تیل کیا چیز ہے جو عبارت ہے وہ اگر تمام تر پڑھی جائے تو چونکہ مشکل عبارت ہے اور بہت سے سننے والے جوار دو کو اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ بھی اس عبارت کو سمجھ نہیں سکیں گے.پس بجائے اس کے کہ میں اس عبارت کو پڑھوں اس کے سر دست پہلے حصے کا مضمون بیان کرتا ہوں بعد میں پھر کچھ عبارتیں بھی پڑھوں گا ان کا مضمون
خطبات طاہر جلد 14 بھی بیان کروں گا.862 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ جو تیل ہے وہ خلاصہ ہوا کرتا ہے کسی چیز کی ذات اور درخت کا تیل اس کی صفات کا خلاصہ ہوا کرتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو تمثیل کے طور پر زیتون قرار دے کر جب اس کے تیل کی بات شروع کی تو مراد حضرت محمد مصطفی علیہ کی فطرت سلیمہ، آپ کی عقل آپ کی روحانی قوتیں اور وہ تمام صفات جو آپ کی ذات کا خلاصہ ہیں اور وہ صفات جو خود اللہ تعالیٰ کے کلام سے پروردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور فضل کے نتیجے میں پروردہ ہیں یعنی آغاز میں بھی اللہ ہی کا فضل ہے اس نے ایک وجود پیدا فرمایا اور اس وجود کی ان صفات کو پوری طرح نشو و نما کی تو فیق عطا فرمائی.پھر نشو و نما جب اپنے درجہ کمال کو پہنچی ہے تو ان کی کیفیت یوں بیان فرمائی کہ گویا وہ نور از خود بھڑکنے کے لئے تیار تھا یعنی آنحضرت ﷺ کی صفات حسنہ کا آسمانی نور کے ساتھ کامل اتصال ہے کیونکہ جب تک یہ اتصال نہ ہو اس وقت تک آسمانی نور اپنے درجہ کمال کے ساتھ آپ کی ذات پر نازل نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے یہ مثال کسی اور نبی کی وحی کے متعلق استعمال نہیں فرمائی گئی کہ وہ نور جو آپ کی صفات حسنہ کا خلاصہ تھا وہ از خود بھی چمکتا رہا مگر از خود ، لفظ دھو کے والا ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس انداز میں پیش فرمایا ہے اس از خود کا تصور اس میں سے غائب ہو جاتا ہے.فرمایا ہے یہ مقدر بات تھی کہ اللہ ہی کے فیض سے تربیت یافتہ وجود تھا.چنانچہ فرماتے ہیں ”جو اس عقل کامل کے " چشمہ صافی سے پروردہ ہیں وہ صفات محمد یہ جو اس عقل کامل یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات کی طرف اس عقل کامل“ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے.” اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں“ خدا تعالیٰ کا جو حکمت کا ملہ کہلا سکتا ہے ہر عقل، ہر حکمت کا سرچشمہ وہی ہے.اس چشمہ صافی سے جس شجرہ طیبہ نے فیض پایا وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا شجر تھا اور اس مثال کا استعمال فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کیونکہ اگر مثال زیتون کے درخت کی تھی تو زیتون کا درخت بھی تو کسی پانی کا محتاج ہے.وہ پانی کون سا تھا ، کہاں سے اترا تھا وہ زمینی پانی نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ کا وہ پانی تھا جو اس کی عقل کا ملہ سے اترتا ہے.ویسے تو ہر فیض خدا ہی سے ملتا ہے، جن لوگوں کو تھوڑی سی بھی عقل ملے ان کو بھی خدا ہی سے نور ملتا ہے لیکن محمد رسول اللہ اللہ کے تعلق میں خدا تعالیٰ کو عقل کامل قرار دینا بتا رہا ہے کہ اللہ کا جو
خطبات طاہر جلد 14 863 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء نوربصیرت یا جو بھی اسے آپ کہہ لیں عقل کامل جو تمام حقائق کا سر چشمہ ہے جس میں کوئی تضاد نہیں ہے، جو تمام موجودات کی کنبہ ہے اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے محمد رسول الله الا اللہ کا شجرہ طیبہ یعنی وہ زیتون کا درخت پرورش یافتہ تھا.پس از خود کی بحث اٹھ گئی.آغاز ہی سے آنحضرت ﷺ کی تخلیق خدا کے عقل کامل کے چشمہ سے ہوئی اور وہ جو درخت تھا جو عقل کامل سے فیض یافتہ ہو وہ دنیا کی کسی اور چیز سے فیض یافتہ نہ ہوا اس کا شفاف اور پاکیزہ ہونا باالبداہت ثابت ہے.اب اس کا ایک اور تعلق بھی ہے.جو دوسرے عام عقل والوں کے ساتھ اس مضمون کا تعلق ہے.وہ جہاں تک حقیقی اور کچی عقل کا تعلق ہے اللہ ہی سے فیض یافتہ ہوتے ہیں مگر محض اس سے فیض یافتہ نہیں رہتے کچھ دنیاوی عقول کے چشموں سے بھی پانی پیتے ہیں، کچھ دنیاوی حکماء کی باتوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں ، کچھ اپنی تحقیقات سے بھی وہ فیض یافتہ ہوتے ہیں.اس لئے خالصہ اللہ کی عقل کل سے فیض یافتہ ان کو قرار نہیں دیا جا سکتا.پس اس چشمے میں کچھ دوسرے پانی بھی آملتے ہیں.ان معنوں میں آنحضرت ﷺ کو امی کہنا آپ کی ایک عظیم تعریف ہے اور یہی لفظ امی جب دوسری عرب قوم پر اطلاق پاتا ہے تو دوسرے معنے رکھتا ہے کیونکہ ہر لفظ اپنے موقع اور محل کے مطابق سمجھا جاتا ہے.ان کے معنوں میں یہ تھا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں ہی نہیں ، نہ خدا سے نہ بندوں سے، نہ اللہ کی عقل سے انہوں نے تعلق جوڑا نہ اپنی عقل سے کچھ فائدہ حاصل کیا اور آنحضرت ﷺ نے چونکہ دنیا وی عقول کا استعمال نہیں کیا اور دنیاوی علوم کے چشموں سے پانی نہیں پیا اس لئے آپ کی نشو و نما خالصہ اس عقل کل سے ہوئی ہے جسے ہم خدا بھی کہتے ہیں اور عقل کل نے آغاز ہی سے آپ ﷺ کو پانی پلایا آپ کی آبیاری فرمائی اور اس پانی کو پی پی کر یہ شجرہ طیبہ بڑھا اور جوان ہوا اور اس نے شاخیں نکالیں اور پھول پھل لایا.ان سارے مراحل سے گزر کر جب وہ اس مرتبے تک پہنچا ہے کہ اس سارے وجود کا عطر خالص ایک تیل کی شکل میں ظاہر ہو گیا یعنی آنحضرت ﷺ اپنی بلوغت کو پہنچے اور یہ وجود اس مقام پر پہنچا جب کہ درخت سے تیل الگ ہو کر ، صاف ہو کر نتھر کر باہر آنے لگتا ہے.اس تیل پر وحی کا نزول ہوا ہے اور یہ وہ تھا تیل جو بھڑک اٹھنے کو تیار تھا.اس لئے نہیں کہ انسان بذات خود اپنی عقل سے روشن ہوسکتا ہے اس لئے کہ شروع ہی سے عقل کل سے فیض یافتہ تھا.یہ تفصیل ہے جو حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد 14 864 علیہ الصلوۃ والسلام کے اس چھوٹے سے فقرے کی ہے کہ اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں“ خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء تمام صفات محمدیہ ﷺ اللہ کی عقل کامل کے سرچشمے سے پروردہ ہیں.پھر وحی کے نزول اور خصوصاً اس ذات پر نور الہی کا نزول اس طرح کہ یہ خود نور مجسم بن جائے یا نور مجسم کی طرح دکھائی دے اور اس سے پھر دوسرے نور روشن ہوں اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ان لطائف قابلہ پر وحی کا فیضان ہوا.وہ لطائف جو اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں.یہاں درجہ کمال سے مراد یہ ہے کہ آسمانی نور کے اترنے سے پہلے آسمانی نور نے جس درخت کی آبیاری کی ہے اس کے اندر لطیف صفات کی پرورش کی اور وہ لطیف صفات جب تیار ہو گئیں تو پھر وہ محتاج تھیں کہ آسمان سے بھی ایک نور نازل ہوتا.اس کی تفاصیل آگے پھر آئیں گی تو آپ کے سامنے مضمون اور بھی کھل جائے گا اور فرماتے ہیں اور ظہور وحی کا موجب وہی ٹھہرئے“.اب یہ عجیب بات ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ظہور وحی کا موجب قرار دیا ہے حالانکہ وحی ایک موہبت ہے جو آسمان سے اترتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس موہبت اور موجب وحی کے بظاہر متصادم مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے خوب کھول دیتے ہیں اور اس میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا.مطابق ہوا.اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضان وحی ان لطائف محمد یہ کے اس میں بہت سے مسائل حل ہو گئے جو بہت دیر مدتوں سے اہل علم وفکر کو الجھنوں میں مبتلا کئے رہے یعنی انبیاء کی وحی میں فرق کیا ہے، کیوں ہوا ہے؟ انہوں نے ایک ہی چشمے سے پانی پیا.اس کی وحی مختلف ، اُس کی وحی مختلف.اس کا انداز کلام مختلف ، اُس کا انداز کلام مختلف.تو کیا مختلف خداؤں نے ان کی پرورش فرمائی ہے یا ایک ہی خدا کے فیض یافتہ ہیں ، پھر فرق کیوں ہے؟ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضان وحی ان لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا اس میں دراصل وہی مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا.ویسا ہی بوجھ اس پر ڈالتا ہے جیسے بوجھ کا وہ
خطبات طاہر جلد 14 865 خطبہ جمعہ 17 /نومبر 1995ء متحمل ہو سکتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: 287) پس محمد رسول اللہ اللہ کی وسعتوں کا عظیم تر ہو جانا اور تمام بنی نوع انسان کی وسعتوں سے آپ کا دائرہ پھیل کر بڑھ جانا یہاں تک کہ ان تمام بنی نوع انسان کی صفات پر آپ کی وسعتیں محیط ہو جائیں.یہ بات اس بات کا تقاضا کرتی تھی یہ موجب وحی ہے کہ آپ پر وحی نازل ہو جو اپنی وسعتوں میں کل عالمی ضروریات پر محیط ہو جائے ، تمام بشری ضروریات کو پورا کرنے والی اور ان کے تمام سوالات کا جواب رکھتی ہو.پس وحی کا صاحب وحی کے مطابق ہونا یہ معنی رکھتا ہے اور اسی لئے ہر نبی کی وحی کا دائرہ مختلف ہے اور اس کے نور کی چمک میں بھی فرق ہے حالانکہ نوراللہ ہی کا ہے جس سے وہ روشن ہوتے ہیں.اب تیلوں کو دیکھ لیں ایک تیل کو جلائیں اس کی روشنی اور طرح کی ہوتی ہے دوسرے تیل کو جلائیں اس کی روشنی اور طرح کی ہوتی ہے.وہ کیمیا جن کو روشن کیا جاتا ہے ان میں سے بعض کیمیا ہیں جن کی روشنی بہت ہی تیز سفید ہوتی ہے جیسے سورج کی روشنی ہو.کیلشیم کا رہائیٹ کے جو چراغ جلتے ہیں لاہور میں مونگ پھلیاں بیچنے والے یا اس قسم کے بھنے ہوئے دوسرے Nuts بیچتے ہیں کئی دفعہ اس کے اوپر ان کا چراغ رکھا ہوتا ہے وہ بالکل لگتا ہے دن کی روشنی ہے.ربوہ میں جب بجلی نہیں آئی تھی تو میں نے بھی بنایا تھا.تو نور تو وہی ہے جو خدا نے ہر چیز کے اندر رکھا ہوا ہے مگر ہر چیز کے چمک اٹھنے میں اس کی اپنی صلاحیتیں بھی جلوہ گر ہوتی ہیں اور آگ تو سب کو اسی طرح جلاتی ہے اور روشن کرتی ہے مگر مادے کے فرق سے اس کی تجلی میں فرق پڑ جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیا کے تیل کو بھی ایک روحانی تیل کے طور پر شرف بخشا اور ان کو بھی روشن کیا لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کا تیل روشن ہوا ہے تو کل عالم روشن ہو گیا اس لئے کسی اور کو سراج نہیں فرمایا بلکہ آپ ہی کو سراج قرار دیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.فیضان وحی ان لطائف محمد یہ کے مطابق ہوا اور انہی اعتدالات کے مناسب حال ظہور میں آیا کہ جو طینت محمدیہ میں موجود تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر یک نئی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 193)
خطبات طاہر جلد 14 866 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء کہتے ہیں تفصیل اس کی یہ ہے ”منزل علیہ وہ پاک نبی جس پر وحی نازل ہو رہی ہوتی ہے، اسے منزل علیہ فرما رہے ہیں جس پر وحی نازل ہوئی.اس کی فطرت کے مطابق نازل ہوتی ہے اور اس کے مطابق نازل ہونا خود ایک فصاحت و بلاغت کا کرشمہ ہے کیونکہ فصاحت و بلاغت کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جو متقصائے حال کے مطابق ہو.اگر کسی بچے سے خطاب ہورہا ہو تو بچوں کی طرح بنا پڑتا ہے.بعض دفعہ بچوں کی زبان میں تو تلا بھی ہونا پڑتا ہے اور جوکم فہم لوگ ہیں بسا اوقات وہ سمجھتے ہیں یہ وقار کے خلاف بات ہے کہ بچوں کی طرح حرکتیں کر رہا ہے.حالانکہ اگر یہ وقار کے خلاف ہے تو اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ انا عند ظن عبدی بی ،، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تو اپنے بندے کے گمان اور اس کی سوچ کی توفیق کے مطابق ڈھل جاتا ہوں تبھی ہمارے اندر پیار کی باتیں چلتی ہیں اور نہ تو ناممکن ہے کہ کوئی شخص میر ورنہ میرے جیسا ہو سکے مجھے ہی اس جیسا ہونا پڑتا ہے.ضمنا مجھے یاد آ گیا کہ ایک ہمارے جماعت احمدیہ کے مداح دانشور مجھے ملنے آئے.انہوں نے کہا باقی باتوں میں تو مجھے اتفاق ہے لیکن یہ جو آپ نے بچوں کی کلاس یا اردو کی کلاس شروع کر رکھی ہے آپ کی شان کے خلاف ہے.آپ کو ویسی حرکتیں کرنی پڑتی ہیں اور آپ کے منصب اور آپ کی شان کے خلاف ہے.اس نے بڑی ہمدردی اور نیکی میں مشورہ دیا.میں نے کہا جو باتیں میں نے خدا سے سیکھی ہیں ، خدا کے مزاج سے سیکھی ہیں تمہاری نظر میں یا کسی کی نظر میں خلاف ہوں یا نہ مجھے کوئی بھی پروا نہیں.میں نے کہا گھر میں جو تم اپنے بچوں سے تو تلی باتیں کرتے ہو تو اس وقت تمہاری شان اس راہ میں کیوں حائل نہیں ہوتی.جب ایک بادشاہ خواہ کیسا ہی صاحب منصب اور صاحب جلال ہو اپنے گھر میں اپنے چھوٹے سے بچے سے پیار سے باتیں کرتا ہے تو منہ بھی متلے بنالیتا ہے، اسی طرح کی حرکتیں کرتا ہے اور اس کی شان کے خلاف نہیں ہوتا.اگر یہ شان کے خلاف ہو تو خدا کا اپنے کسی بندے سے تعلق نہ ہو سکے.میں نے کہا میں تو مجبور ہوں اور تمہیں یہ بھی نہیں شاید پتا کہ ہمارے محبت کے رشتے چل رہے ہیں.اگر میں یہ نہ سکھاؤں تو بہت سے دیکھنے والے ان مجالس میں آئیں ہی نہ اور تم لوگوں کو جو غیر ہو ، جماعت سے باہر، محبت بھی رکھتے ہو تو ان باتوں کی سمجھ نہیں ہے.میں نے کہا مجھے یہ بھی احساس ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے.مثلاً آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ نے اردو کی تعلیم با قاعدہ کالج میں حاصل نہیں کی نہ تعلیم
خطبات طاہر جلد 14 867 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء دینے کی کوئی سند حاصل کی ہے اس لئے کیوں نہیں ان لوگوں کے سپر د کر دیتے جو اس مضمون سے واقف ہیں اور اس بات کی اہلیت بھی رکھتے ہیں کہ صحیح زبان سکھا سکیں یہ ایک الگ بحث ہے.اس کا میں ایک دفعہ پہلے بھی جواب دے چکا ہوں کہ میں نے کوشش بہت کی تھی کہ ایسے لوگ آئیں اور جو میں جس رنگ میں سمجھانا چاہتا ہوں سمجھا دیں اور تقریباً ایک سال ضائع کرنے کے بعد پھر مجبور ہوا تھا مگر یہ ایک الگ بحث ہے.میں نے جوان کو سمجھانا تھا جو اس مضمون سے تعلق رکھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ بسا اوقات محبت کی وجہ سے تعلیم کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور اگر محبت نہ ہوتو وہ تعلیم کا رشتہ قائم ہی نہیں ہوتا اس مضمون کو آپ لوگ نہیں سمجھتے.اگر میں خود اس مضمون کو نہ اٹھاتا تو وہ بچے جو ایک دوسرے سے مقابلے کر کر کے یہاں پہنچ رہے ہیں یہاں تک کہ چھت پر بھی جگہ باقی نہیں رہی وہ کبھی بھی نہ آتے اور یہ مضمون سب سے زیادہ اللہ سمجھتا ہے.اس لئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سب سے زیادہ محبت ہمارے دل میں پیدا کر دی کیونکہ معلم کا متعلم سے جب تک محبت کا رشتہ نہ ہو حقیقت میں صحیح تعلیم ہو ہی نہیں سکتی.تو وہ ایک طرف کمزوریاں رہ گئی ہوں گی اور رہتی ہیں.میں جانتا ہوں اور مانتا بھی ہوں ساتھ ساتھ کہ مجھے اس کا یہ بھی نہیں پتا کہ یہ مذکر ہے یا مونث ہے، دیکھیں گے پھر بتائیں گے اور کئی غلطیاں رہ جاتی ہوں گی.مگر اس کے مقابل پر فوائد اتنے ہیں کہ ان فوائد کو میں نظر انداز نہیں کرسکتا.جہاں تک حرکتوں کا تعلق ہے آپ کے نزدیک یا کسی کے نزدیک وہ وقار کے خلاف ہوں مگر میرے نزدیک تو اگر وقار کا مسئلہ لیا جائے تو اللہ کا ہر دنیا کی مخلوق سے تعلق ٹوٹ جائے اور اس کی زبان میں بات ہی نہ کرے مگر اپنے گھر میں آپ کرتے ہیں.بادشاہ اپنے بچوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں اگر وہ وقار کے خلاف ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے.فطرت کے تو مطابق ہے اور جو شخص وقار کے خیال سے اپنی فطرت کو سخ کرتا ہے وہ مصنوعی وجود ہے.آنحضرت ﷺ اپنے عظیم مرتبے کے باوجود فرماتے ہیں.و ما انا من المتکلفین.یعنی جو کچھ بھی ہو میں متکلف نہیں ہوں ، جو کچھ میں ہوں جیسا ہوں تمہارے سامنے ہوں.پھر ان حرکتوں سے میرے کچھ نقائص بھی تو سامنے آتے ہوں گے جس میں میں خوش ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف خطبوں کے ذریعے تعارف ہو تو لوگ پتا نہیں مجھے کیا سمجھ بیٹھیں
خطبات طاہر جلد 14 868 خطبہ جمعہ 17 /نومبر 1995ء الله کیونکہ خطبے میں قرآن کی باتیں ، حدیث کی باتیں، رسول اللہ ﷺ کی باتیں اور ایسے عظیم مضمون ہو رہے ہوتے ہیں کہ مجھے وہ کچھ کا کچھ بنا بیٹھیں.میں چونے اتار کر بھی ان کے سامنے آتا ہوں جس طرح اپنے گھر میں کپڑے کوٹ اتار کے صرف سادہ لباس میں انسان اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے اس کو وہ اس نظر سے بھی دیکھتے ہیں جو محض انسانی اور بشری نظر ہے.تو ان سب امور کے فوائد ہیں اور یہ واقعہ ہے.بہر حال کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے کونے کونے سے محض اس لئے ان کلاسوں کے وقت اپنے ٹیلی ویژن On کر لیتے ہیں کہ خلیفہ وقت سے ایک احمدی کا ایسا محبت کا رشتہ ہے کہ جو کچھ بھی کہے وہ دیکھنا چاہتا ہے وہ کیا کر رہا ہے بلکہ نہ بھی سمجھے تو بیٹھا رہتا ہے بسا اوقات.اس عورت کی بات نہیں بتائی تھی وہ کہتی تھی کسی نے پوچھا کہ تم تو بولی ہو یعنی کانوں سے بہری ہو.کچھ سمجھ نہیں آئی کیا کرتی رہی وہاں بیٹھ کے.اس نے کہا ” ڈٹھیا بڑا اے سنا تو کچھ نہیں پر دیکھا بڑا ہے.تو محبت کی باتوں میں وہ دلائل کام نہیں آتے کہ یہ سند یافتہ ہے کہ نہیں ہے اور جہاں تک سند یافتہ ہونے کا تعلق ہے یہی مضمون تو چل رہا ہے اس وقت کہ بسا اوقات ایک شخص سند یافتہ نہ بھی ہو وہ براہ راست خدا سے سیر یافتہ ہو یا سیراب ہو رہا ہو بعض معنوں میں تو اس کی تعلیم اور ایک سند یافتہ کی تعلیم میں ایک فرق ضرور ہوتا ہے وہ دل کی گہرائی میں اتر کے تعلیم دیتا ہے وہ فطرت کے قریب رہ کر تعلیم دیتا ہے کوئی تصنع نہیں اور اس پہلو سے خواہ اردو زبان کا معیار ہو نہ ہو تعلیم کی روح اس میں ضرور موجود رہتی ہے اور یہ میں نے اس لئے جاری کیا ہے بتا چکا ہوں کہ تا کہ سب دوسروں کے لئے نمونہ ہو اور کثرت سے جو احمدی اس زبانوں کی تعلیم کے ویڈیوز تیار کر رہے ہیں اپنی اپنی زبان کی ، ان سے میں نے کہا ہے وہ دیکھا کریں کہ میں کس طرح کرتا ہوں سو فیصدی اس کی نقل نہیں اتارنی مگر عمومی انداز ویسا ہی ہوتا کہ کوئی جرمن سیکھ رہا ہو تو اس کو اسی بے تکلف انداز میں جرمن سکھائی جائے جس طرح میں کوشش کرتا ہوں کہ اردو سکھائی جائے.اسی طرح دوسری زبانیں ہیں تو ان کو بھی ضرورت ہے کہ وہ مجھے دیکھ دیکھ کر اس انداز کو اختیار کریں جو میں نے بتایا تھا کہ فطرت کا انداز ہے جس پر مائیں بچوں کو سکھاتی ہیں اور مائیں جب بچوں کو سکھاتی ہیں تو اس سے پہلے ان کو کوئی علم نہیں ہوتا کسی سکول کی تربیت یافتہ نہیں ہوتیں.دنیا جہان کی مائیں خواہ کسی زبان سے تعلق رکھتی ہوں کسی قوم سے تعلق رکھتی ہوں ، وہ
خطبات طاہر جلد 14 869 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء وحشی قبائل سے تعلق رکھتی ہوں ، وہ بھی سکھا دیتی ہیں بلکہ جانور مائیں بھی سکھاتی ہیں اپنے بچوں کو.کیوں اس کا فطری تعلیم سے تعلق ہے تو میں نے جو زبانوں کا مضمون شروع کیا تھا اس نقطہ نگاہ سے کیا تھا کہ خدا نے جو مضمون ماؤں کے ذریعے ہمیں سکھایا ہے ہم اسے اپنا لیں اور مائیں بھی پھر منہ بھی ٹیڑھے کرتی ہیں ان کو ہنسانے کے لئے عجیب عجیب شکلیں بھی بناتی ہیں تو اگر کوئی سمجھتا ہے وقار کے خلاف ہے مجھے کوئی بھی پرواہ نہیں.میرا وقار ہے ہی کچھ نہیں.میرا وقار اگر ہے تو سچا ہونے میں ہے.جس حد تک میں سچارہ سکتا ہوں اسی حد تک میر اوقار ہے.اس سے آگے نہیں ہے اور یہ مجبوریاں ہیں اور اس سے فوائد بھی ہو رہے ہیں مگر میں کوئی دفاع نہیں کر رہا.اس مضمون سے میرا ذہن اس طرف چلا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کو چنا اور دوسری تعلیمات سے بے بہرہ رکھا اس لئے کہ وہ تمام تر تعلیمات خدا نے خود دینی تھیں اور یہ واقعہ جہاں تک میری نظر ہے کسی اور نبی کے ساتھ ظہور میں نہیں آیا.اس لئے امی لقب ہونا آپ کا ، آپ کی منفر وصفت ہے اور اس طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس چھوٹے سے فقرے میں اشارہ فرمارہے ہیں کہ آپ ﷺ کا وجود مبارک جو شجرہ طیبہ کی اعلیٰ ترین مثال تھا سب سے اونچی مثال تھا، وہ محض اللہ کے پانی سے سیراب یافتہ ہوا.کوئی دنیاوی علوم اس کی عقل کو چمکانے پر اثر انداز نہیں ہوئے.تمام دنیاوی علوم سے بے بہرہ رہا.یہاں تک کہ لکھنا پڑھنا بھی نہیں آیا اور خدا نے اسے سب دنیا کا معلم بنا دیا.پس تعلیم دینا بھی خدا ہی عطا کرتا ہے اور تعلیم حاصل کرنا بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جس کی فطرت میں خدا نے تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہو.پس کلیۂ انحصار اللہ کے فضلوں پر ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اب دیکھیں.انہی اعتدالات کے مناسب حال ظہور میں آیا“ جوخدا نے صفات رکھ دی تھیں ان کے عین مطابق وحی نازل ہوئی ہے اور چونکہ صفات ایسی تھیں جو عالمی نوعیت کی تھیں اس لئے وہی عالمی ہو گئی اور دوسرے انبیاء اس کے مستحق ہی نہیں تھے کہ ان پر ویسی ہی وحی کی جاتی جیسے محمد رسول اللہ ﷺ پر فرمائی گئی.اب اس کی تفصیل میں بعض انبیاء کے مزاج کے فرق آپ بیان فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں:...جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب
خطبات طاہر جلد 14 870 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء تھا توریت میں بھی موسوی فطرت کے مطابق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی“.وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج کے عین مطابق ہے.حضرت موسی جس طرح کلام کیا کرتے تھے جو خاص ان کی ادائیں ہیں جو دل نشین بھی ہیں اور جلال کا پہلو بھی رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ آپ سے ویسے ہی کلام فرما تارہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وو...حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں علم اور نرمی تھی.سوانجیل صلى الله کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے مگر آنحضرت ﷺ کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا...(براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 193) وضع استقامت صراط مستقیم جسے ہم کہتے ہیں وہ لفظ مستقیم لفظ استقامت سے ہی نکلا ہے.استقامت کے بہت سے معانی ہیں یہاں ان معنوں میں استعمال فرمایا گیا ہے کہ وہ عین مرکز میں واقع ہو.نہ اس طرف اس کا جھکاؤ ہو ، نہ اس طرف جھکاؤ ہو اور جو مرکز میں واقع ہو وہی قرار پکڑتی ہے جو مرکز میں واقع نہ ہو وہ چیز قرار نہیں پکڑتی.Equilbrium کا اصول ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں بیان فرمارہے ہیں.ہر وہ چیز جو عین اس جگہ واقع نہ ہو جو اس کے او پر اثر انداز طاقتوں کے درمیان کا محل ہے وہ ہر وقت مائل بہ تبدل رہے گی.ایک پیالی کو بھی آپ اٹھا کے ذرا سایوں ٹیڑھا کر کے رکھیں جب تک آپ سہارا دئیے رکھیں گے وہ اس حالت میں رہے گی مگر اس کا مزاج یہ ہوگا کہ میں ہر وقت واپس لوٹوں اس حالت پر لوٹ جاؤں جہاں مجھے قرار نصیب ہے.تو اگر ایک شخص کی فطرت بعینہ ان طاقتوں کے مرکز پر واقع ہو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی تقویم کی خاطر پیدا فرمائی ہیں تو اس کی کشش اس کو اسی مقام پر ٹھہرائے رکھے گی اور اس سے استقامت پیدا ہوتی ہے.پس کسی ایک مقام پر قرار پکڑ جانا اور قائم رہنا یہ استقامت ہے اور اگر اس کے ساتھ شعور پیدا ہو جائے تو اس استقامت کو بدلنے والی طاقتوں کے مقابلے کی طاقت بھی اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.تو استقامت دو قسم کی ہے ایک طبعی یعنی جیسا کہ ایک چیز Equilibrium کی حالت میں ہے، وہ ایسی جگہ پڑی ہوئے ہے کہ اس پر کوئی قوت اثر انداز نہیں وہ وہیں ٹھہری رہے گی.دوسری ہے اس کو ہلانے کی کوشش کی جائے ، اس کی جگہ بدلنے کی کوشش کی جائے.اگر وہ بے جان چیز ہے تو طبعی
خطبات طاہر جلد 14 871 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء حالت کے طور پر جو وزن اسے عطا ہوا ہے صرف اسی حد تک دفاع کر سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں مگر اگر جاندار ہے تو وہ اپنا دفاع جانتا ہے اگر ایک بچے کو بھی اس کی مرضی کے خلاف اٹھانے کی کوشش کریں اور وہ اس کی حالت مستقیمہ ہے جہاں مزے سے وہ بیٹھا ہوا ہے تو وہ آگے سے مارے گا ، ہاتھ پاؤں جھٹکے گا بعض دفعہ آپ زور کریں گے تو آپ کو ٹانگیں بھی مارے گا لیکن اگر اس میں طاقت نہ ہو تو زبر دستی اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کی حالت مستقیمہ فطرت کے اعتدال پر واقع تھی اور ذاتی مزاج میں بھی جبکہ دوسرے انبیاء کے مزاج میں بعض ایک طرف رجحان کے شامل تھے آپ کے مزاج میں اعتدال تھا اس لئے خلق میں نرمی بھی تھی ، خلق میں برمحل سختی بھی تھی اور اس کا توازن ایسا تھا کہ اس سے آپ از خود ہٹ ہی نہیں سکتے تھے.اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو متنبہ فرما دیا کہ لوگ تجھے ہٹانے کی کوشش کریں گے اور تو نے پوری قوت سے اس کا مقابلہ کرنا ہے.فرمایا اگر ایک ذرہ بھی تو اس راہ سے ہٹ گیا جس پر تو گامزن ہے اور اللہ کے فضل سے گامزن ہے تو پھر کہیں کا بھی نہیں رہے گا.اب یہ عجیب بات ہے بظاہر لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سختی کر دی ہے.ہم سے تو بے شمار غلطیاں ہو جاتی ہیں محمد رسول اللہ اللہ کے متعلق فرمایا ایک ذرہ بھی ایک قدم ایک طرف ہوا تو یہ نہیں فرمایا کہ اس کے مطابق سزا ہوگی فرمایا تو کہیں کا بھی نہیں رہے گا ، اکھڑ جائے گا تو گیا.یہ در اصل مضمون حالت مستقیمہ سے تعلق رکھتا ہے.ایک چیز کو آپ ہٹانا شروع کریں ایک طرف تو ایک مقام ایسا آئے گا کہ ایک ذرہ بھی ادھر ہوا تو وہ گر کے اپنے وجود کو ضائع کر دے گا.تو ایک لغزش چھوٹی سی شروع ہوتی ہے اگر حالت مستقیمہ سے تعلق رکھتی ہو تو پھر اس پر نہ صرف یہ کہ قرار نہیں رہ سکتا بلکہ اس سے گر کر وہ پھر تنزل کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور گرتا چلا جاتا ہے.پس انبیاء کو جو خدا تعالیٰ حالت مستقیمہ عطا فرماتا ہے، جس تعلیم پر ان کا اعتدال ٹھراتا ہے اس سے ایک ذرہ بھی اگر وہ حرکت کر کے الگ ہوں تو ان کے گرنے اور تنزل کا دور شروع ہو جاتا ہے.یہ مراد ہے کہ تو نے ہر حالت میں ہر مد مقابل کی کوششوں کو رد کرتے ہوئے ، ہر دشمن کی تمام تر جد و جہد جو تیرے پیغام اور مسلک سے تجھے ہٹانے کی کی جائے گی کلیہ رد کرتے ہوئے اس حالت کو قائم رکھنا ہے، چھٹے رہنا ہے اس سے زرا انحراف نہیں کرنا اور اسی سے امت مستقیم ہوگی.اگر حضرت
خطبات طاہر جلد 14 872 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء محمد مصطفی ی مستقیم نہ ہوتے اور استقامت کا یہ مرتبہ آپ کو حاصل نہ ہوتا کہ ہر دوسرے کی معاندانہ کوشش کے باوجود اپنی حالت مستقیمہ پر قائم رہتے اس کی حفاظت کرنا جانتے تو اُمتِ مستقیمہ کہلا ہی نہیں سکتی تھی.پس یہ صراط مستقیم محمد رسول اللہ ﷺ کی فیض یافتہ ہے.آپ نے صراط مستقیم پر قدم رکھا ہے تو پھر ہمیں توفیق ملی ہے ورنہ اس کا کوئی وجود ہی ہمارے لئے نہ ہوتا تبھی اللہ تعالیٰ نے أَنْعَمْتَ کہہ کر فرمایا کہ اس صراط کو کہیں اپنی کمائی نہ سمجھ بیٹھنا.تم یہ دعا مانگو کہ جن پر خدا نے انعام کیا تھا انہوں نے جو راہ بنائی ہے یعنی ان کے قدموں کے نشان سے جو تمہاری راہنمائی کر رہی ہے ان کے پیچھے چلو گے تو مستقیمہ حالت میں رہو گے.جب ان کے قدموں سے انحراف کیا تو تمھاری حالت مستقیمہ ختم ہو جائے گی.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں اعتدالات کا نام، ان کے صفات کے مناسب ظہور کا نام صفتِ محمدیہ ہے.جسے آپ صفت مستقیمہ بھی قرار دیتے ہیں.فرماتے ہیں.، دد مگر آنحضرت اللہ کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا.“ آپ کا مزاج ہی وہاں تھا جہاں الہی تعلیمات انسان کو لے جانا چاہتی تھیں اور از خود فطرتاً وہاں تھے.یعنی اپنی طبیعت پر زور ڈال کر اس کے مخالف چل کر آپ نے الہی تعلیمات سے اخلاق نہیں سیکھے بلکہ آپ کی فطرت سے وہی اخلاق پھوٹ رہے تھے جو انسان کو سکھا نا خدا کا مقصود تھا اور اس لئے تھا کہ فطرت صافی چشمہ صافی سے پروردہ تھی اس لئے آپ کو زور لگا کر سچ نہیں بولنا پڑا اور اس سے بھی حالت مستقیمہ پر ایک روشنی پڑتی ہے.ایک شخص جس کو سچ سے طبعی تعلق نہ ہو جھوٹ بولنے کا مادہ رکھتا ہو وہ جب بیچ بولتا ہے تو زور لگا کر اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے اور اگر مقابل کا تقاضا بڑھ جائے تو وہ زور کام نہیں آتا اور انسان سچائی کے تقاضوں کو جھوٹ کی قربان گاہ پر شار کر دیتا ہے.یہ خطرہ اس کو لاحق رہتا ہے.پس جسے خطرہ لاحق ہے اس کے متعلق یہ بھی تو احتمال ہے کہ کہیں ٹھو کر کھا جائے گا.پس فطرت محمدیہ کو اندرونی کوئی بھی خطرہ نہیں تھا.اتنی مستحکم تھی ان صفات حسنہ پر کہ مزاج کا خطرہ نہیں تھا.جہاں مزاج کی طرف سے خطرہ نہیں تھا بیرونی خطرے تھے، ان کے متعلق ایک تو خدا تعالیٰ نے نصیحت فرمائی کہ خوب ہوشیار ہو کر بیدار نظر کے ساتھ دیکھو کہ کوئی تجھے اپنے مسلک سے ہٹا تو نہیں
خطبات طاہر جلد 14 873 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء رہا اور نہیں ہٹنا اور پھر وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائده: 68 ).اس میں یہ مضمون بھی ہے.صرف بدنی حفاظت نہیں ہے فرمایا فکر نہ کر تو عزم صمیم لے کر اٹھ کھڑا ہو اللہ وعدہ کرتا ہے کہ تجھے دشمنوں کی کوششوں سے بچاتا رہے گا اور اپنی حفاظت میں رکھے گا.پس یہ ہے وہ شریعت جو آنحضرت ﷺ کی وضع استقامت پر واقع ہونے سے تعلق رکھتی ہے اس کے مناسب حال وحی ہونی چاہئے تھی.ورنہ اللہ تعالی فصیح و بلیغ نہ رہتا کیونکہ حمل کا نتقاضا اور ہوتا ہے اور خدا کچھ اس سے اور معاملہ کرتا جو اس کے عدل کے بھی خلاف تھا اور خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ایک فصاحت و بلاغت کی جلا ہے جس سے دنیا کی فصاحت و بلاغت فیض پاتی ہے اس کے خلاف ہوتا اگر وحی اس کے عین مطابق نہ ہوتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وو...بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقع کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی.سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزوں و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت و رحمت و هیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وحی فرقان اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے...“ اب یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس سے روشن ہوا ہے تو بتارہے ہیں کہ یہ مطلب نہیں ہے، حضرت صلى الله مسیح موعود علیہ السلام ہی میں یہ سمجھا رہے ہیں کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ وحی الہی از خودمحمد رسول اللہ ہے سے پھوٹی ہے.فرمایا اول تو وہ تیل فیض یافتہ ہے اس پانی کا جو عقل کل کا پانی تھا جس سے وہ سیراب ہوا.دوسرے یہ کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ اس تیل سے پھوٹی ہے مطلب ہے کہ یہ تیل اس بات کا متقاضی تھا کہ عین اس کی شان کے مطابق وحی نازل ہو گویا اس تیل سے وہ ظاہر ہوئی.یہ گویا کے معنی ہیں جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام توجہ دلاتے ہیں.”...اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وحی فرقان اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے یعنی طینت معتدلہ محمدی کے موافق نازل ہوا ہے...“ یہ مطلب ہے اس تیل سے اس نور کے پھوٹنے کا.
خطبات طاہر جلد 14 874 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء وو...جس میں نہ مزاج موسوی کی طرح درشتی ہے نہ مزاج عیسوی کی مانند نرمی بلکہ درشتی اور نرمی اور قہر اور لطف کا جامع ہے اور مظہر کمال اعتدال اور جامع بین الجلال والجمال ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 194-193 ) یہ ہے آنحضرت ﷺ کا تیل جو روشن ہوا ہے آگے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا تعلق اس آیت کے اس حصے سے ہے کہ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَار یعنی یہ نور، یہ تیل تو ایسا شفاف تھا کہ از خود روشن ہو کر بھڑک اٹھنے پر تیار بیٹھا تھا.اگر آسمان سے شعلہ نور نہ بھی نازل ہوتا تو یہ تیار تھا.پس جب یہ شعلہ نور نازل ہوا تو نُور عَلى نُورٍ یہ فطری صفات اس نور سے چمک اٹھیں اور جس طرح Lesar Phenomenone ہوتا ہے کہ ایک لہر کے مطابق دوسری لہر باہر سے آتی ہے تو کئی گنا اس کے اندر جلاء پیدا ہو جاتی ہے اور طاقت بڑھ جاتی ہے.ارا اگر بعینہ اس کے مطابق نہ ہو تو مخالف جوامواج ہیں یعنی waves وہ آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر یعنی مخالف امواج اور کسی معاملے کے موافق امواج ساری طاقت کو کم کر دیتی ہیں اور بعض دفعہ کلیہ زائل بھی کر دیتی ہیں.اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص جس کو کچی خوا میں بھی آتی ہیں اگر اس کا نور فطرت پوری طرح روشن نہ ہو تو بعض دفعہ وہ خوا ہیں اس کو بچانے کی بجائے اس کی ہلاکت کا موجب بھی بن جاتی ہیں.اس کے اندر نفسانیت کا اندھیرا ہوتا ہے.ان خوابوں کے ذریعے وہ بجائے اس کے کہ اور زیادہ بجز اختیار کرے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے وحی کے نزول کے آغاز میں بجز کا مظاہرہ فرمایا اور تمام زندگی کے سفر میں عاجز بندے بنے رہے وہ اس نور کی وجہ سے تھے جو آپ کی ذات میں تھا اور اس نور میں اعتدال تھا.یہاں اعتدال کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے مقابل پر اپنی حیثیت کو ایک لمحہ بھی نظر انداز نہیں فرمایا اور اس کے مقابل پر اس کی عظمت کو دیکھ کر اپنا انتہائی بے بس اور خالی ہاتھ ہونا، یہ آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی میں آپ کے ہر فعل پر اثر انداز ہوا ہے.کامل عجز جس کے نتیجے میں خدا کے نور کو یہ موقع ملا کہ جہاں آپ نے اپنے آپ کو مٹایا وہاں اس نور نے جگہ لے لی اور سارا سینہ اللہ کے نور کے لئے خالی کر دیا، اپنا نور اس میں باقی نہیں رکھا.یہ بھی ایک نور بصیرت ہے نور فطرت تقاضا کرتا ہے کہ وہ بجز دکھائے تو آسمان سے نو ر اس پر اترے اور اس کی کمی کو پورا کرے اور جو کمزور
خطبات طاہر جلد 14 875 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء ہوتے ہیں ان کے اندر چونکہ نور نہیں ہوتا اس لئے اگر نور نازل بھی ہو تو بسا اوقات نوراندھیرے پیدا کر کے چلا جاتا ہے اور ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا.اب یہ بھی کوئی پوچھ سکتا ہے نور سے اندھیرے کیسے پیدا ہوتے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم ایسی مثالیں دیتے ہیں جو بعض لوگوں کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں ، بعض لوگوں کی بیماریوں کو اور بڑھا دیتی ہیں.تو نور تو حقائق کی اصل تصویر کو ظاہر کرتا ہے.پس وہ نازل ہونے والا نور جوان لوگوں پر اترتا ہے یا ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.یہ اس طرح کا نور نہیں ہے جو موہبت ہوا ہے انعام کے طور پر.یہاں نور سے مراد یہ ہے کہ ان کی حقیقت کو ظاہر کرنے والا نور ہے.قرآن کریم کی وحی نازل ہوتی ہے بعضوں کے اوپر ابتلاء لے آتی ہے.فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وہ مرض میں بڑھنے لگ جاتے ہیں اور بعضوں کی پاک صفات کو اس طرح اجاگر کرتی ہے کہ جو لوگوں کی نظر سے غائب تھیں ان کو بھی دکھائی دینے لگتی ہیں اور ان کو مزید روشنی عطا کر دیتی ہے.پس یہ نُور عَلَى نُورِ کا جو منظر قرآن کریم نے کھینچا ہے اس سے یہ مراد نہیں ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مضمون کھولا ہے کہ اللہ کی وحی کے بغیر بھی رسول اللہ ﷺے اس کی محتاجی کے بغیر ہی سارے عالم کی ہدایت کا سامان کرتے.یہ مراد نہیں ہے.مراد یہ کہ اس آخری مرتبہ کمال تک پہنچ چکا تھا گویا بھڑک اٹھنے کے لیئے وہ خود تیار ہے اور دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ پر میں ایک فرض محال کے طور پر بات کر رہا ہوں یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ پر وحی نازل نہ ہوتی مگر نہ بھی نازل ہوتی تو دنیا کی جس موضوع پر بھی سیادت فرماتے ، جس انسانی دلچسپی کے دائرے میں بھی آپ قیادت ہاتھ میں لیتے وہ بالکل صاف اور پاک اور شفاف قیادت ہوتی.یہی مضمون ہے جو غیر شعوری طور پر کارلائل سمجھ گیا یعنی قرآن کریم کی ان باتوں پر تو اس کی نظر نہیں تھی مگر اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کو اس طرح چمکتے دیکھا کہ یہ راز وہ سمجھ گیا کہ یہ وہ شخص ہے کہ جہاں بھی جاتا وہاں بھی اسی طرح چمک اٹھتا جس طرح مذہب میں چکا ہے.پس Hero and Hero Worship اس کی کتاب میں صلى الله حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اگر وہ جرنیل ہوتا تو دنیا میں جرنیلوں میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کا مقابلہ کر سکتا.اگر وہ سیاست دان بن کر اٹھتا تو دنیا کے تمام سیاست دانوں کو مات کر دیتا.اگر وہ طبیب بن کر اٹھتا تو تمام دنیا کے طبیبوں کو اس کے سامنے زانوئے ادب تہہ
خطبات طاہر جلد 14 876 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء کرنے پڑتے ، وہ اس سے سیکھتے.ان الفاظ میں تو نہیں مگر بالکل اسی مضمون کو کارلائل نے حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے ضمن میں اٹھایا ہے اور کہا ہے یہ چونکہ مذہب کی دنیا میں نکلا ہے اس لئے تمام دوسرے انبیاء سے آگے بڑھ گیا اور ان کا سردار ہو گیا کیونکہ اس کی فطرت میں سرداری تھی یہ بغیر سردار بنے رہ ہی نہیں سکتا تھا.یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر آسمان سے شعلہ نور نہ بھی نازل ہوتا تو اپنے دنیا کے تمام تعلقات میں اس نے نور ہی رہنا تھا اور سیادت کے لئے کامل ہو چکا تھا.پس اب اگر یہ امر محال ہے پھر میں بتا رہا ہوں، اگر رسول اللہ ﷺ پر یہ وحی نازل نہ ہوتی تو دنیاوی امور میں عرب کی جیسی سیادت آپ فرما سکتے تھے اس کی دنیا کی سیادتوں میں کوئی دوسری مثال نہ ہوتی مگر آپ نے تو اپنے آپ کو کلیۂ خدا کے تابع فرما دیا تھا.اپنی صلاحیتوں کو اس کے حضور پیش کر دیا تھا.اس لئے آپ پر وہ شعلہ نوراترا ہے جس نے آپ کو نُورٌ عَلى نُورٍ کر دیا.صل الله اس کی دوسری توجیہہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں فرماتے ہیں کہ دراصل کوئی بھی نور جو آسمان سے اترتا ہے جب تک اندرونی نور موجود نہ ہو اس نور سے کوئی تعلق قائم بھی نہیں کر سکتا اور فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتا.آپ نے فرمایا روشنی ہے.اب دیوار میں تو روشنی کو نہیں دیکھ سکتیں.وہ جانور جو اندھے ہوں یا انسان جو اندھے ہوں لاکھ روشنی ہو وہ اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ارتعاش پایا جاتا ہے ساری کائنات میں جس کو ہم مکمل خاموشی کہتے ہیں اس کا کوئی وجود نہیں مگر اس ارتعاش کو سننے کے کان تو سنتے ہیں اور اسی طرح چکھنے کے لئے اندرونی نور موجود ہو تو انسان چکھتا ہے ،خوشبو کے لئے اندرونی نور موجود ہو تو سونگھتا ہے.اگر وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں پتا لگتا یہ خوشبو ہے کہ بد بو ہے.میں تو ہومیو پیتھک علاج کرتا ہوں میرے سامنے تو بارہا ایسے آتے ہیں کہ جی کھانے کا مزہ اٹھ گیا.کچھ نہیں.جو مرضی کھائیں لگتا ہے، مٹی کھا رہے ہیں.جب خوشبو ہی نہیں آتی تو ہم کیا کریں.نہ بد بو نہ خوشبو.تو ایک چھوٹی سی خدا کی رحمانیت کی صفت کا جلوہ اٹھتا ہے تو انسان کیسی بریکار چیز رہ جاتا ہے، مٹی کا مٹی رہ جاتا ہے.تو آنحضرت ﷺ کو وہ اندرونی نور اس شان کے عطا ہوئے تھے کہ گویا از خود دیکھنے پر تیار بیٹھے تھے.ان پر جب آسمان سے نورا اترا ہے تو نُورٌ عَلى نُورِ سبحان اللہ کیسا نور اٹھا ہے کہ ساری
خطبات طاہر جلد 14 877 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء دنیا کو منور کر جاتا ہے اور ہر صفت نور کے تعلق میں آنحضرت ﷺ سب سے بڑھ کر چکے ہیں.یہاں تک کہ قرآن کریم ایک پہلو سے آپ کو سِرَاجًا منيرا (الاحزاب:47) کہہ دیتا ہے.گویا کہ ہر وہ شخص جو نور پاتا ہے محمد رسول اللہ اللہ کے نور سے فیض یافتہ ہے اور جو اس سراج سے نور یافتہ نہیں وہ اندھیرا ہے اور دوسرے مقام پر جیسا کہ اس مقام پر ہے آپ کو نور قرار دے رہا ہے.تو یہ بھی ایک مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اگر آپ سِرَاجًا منیرا ہیں تو نور اور سراج میں تو فرق ہے.سراج تو اس چراغ کو کہتے ہیں جو خو د روشن ہو اور جب وہ کسی چیز پر پڑتا ہے جو روشن نہ ہو تو وہاں جو روشنی دکھائی دیتی ہے اس کو نور کہتے ہیں، اس لئے قرآن کریم نے سورج کو ضیاء قرار دیا اور چاند کو ”نور“.ضیاء سراج سے تعلق رکھنے والی روشنی ہے جو اس کی ذات سے اٹھی ہے اور نو ر اس روشنی کا نام ہے جو کسی پر پڑتی ہے تو اس کے پرتو سے وہ روشن ہو جاتی ہے.تو آنحضرت ﷺ کو ایک پہلو سے سراج قرار دے دیا کہ دنیا میں ساری کائنات میں اب کوئی شخص روشن نہیں ہو گا جب تک اس سورج سے فیض یافتہ نہ ہواور وہ نور یافتہ ہو گا وہ سراج نہیں بن سکتا اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ کونور فرما دیا یہ بتانے کے لئے کہ اللہ کے تعلق سے آپ نور ہیں اور بنی نوع کے تعلق سے سراج ہیں.جو کچھ آپ کی ذات میں جلوہ گر ہے وہ اللہ کا نور ہے اور اس وجہ سے آپ سراج بن کر اٹھے ہیں مگر سراج ہیں بنی نوع انسان کے لئے.پس یہ دو تعلق کے رخ الگ الگ ہونے کی وجہ سے یہ نام بدل گئے.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے سراج کا لفظ کہیں نہیں آتا.نور کا ذکر ہی چلتا ہے صرف.اس لئے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نور آپ کی ذات میں صلى صلى الله اس طرح چمکا ہے جیسے چودہویں کا چاند سورج سے چمک اٹھتا ہے اور اس کا ہر گوشہ روشن ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ضیا کا لفظ اور سراج کا لفظ استعمال کرنا غیر حقیقی ہے.جائز نہیں کہ آپ کو سراج کہا جائے کیونکہ آپ سراج نہیں تھے.آپ قمر تھے اور قمر کے لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو نور بنایا ہے.پس آنحضرت کے جن معنوں میں خدا کے حضور نور تھے ،خدا تو نہیں تھے مگر اس کے نور کو منعکس کرنے والے تھے.انہی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام محمد رسول الله و تو صلى الله نہیں مگر محمد رسول اللہ اللہ کے نور کو منعکس کرنے والے وجود تھے اور اس دور میں اس کمال صفائی کے
خطبات طاہر جلد 14 878 خطبہ جمعہ 17 نومبر 1995ء صلى الله ساتھ کہ اپنے وجود کو مٹا کر کلیۂ محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کے منعکس ہو گئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے سوا اور کوئی وجود نہیں ہے.پس جس نے بھی یہ نور پانا ہے یعنی نورمحمد مصطفیٰ وہ آج محتاج ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھ سے محمد ﷺ کا نور دیکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کان سے محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام سنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے احساسات کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کے احساسات سے فیض یافتہ ہو.یہ جو وسیلہ ہے یہ وسیلہ دوری پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ اتصال کے لئے استعمال ہوتا ہے.ورنہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا نے کیوں وسیلہ کر دیا کیوں براہ راست ہر ایک سے تعلق نہ جوڑ لیا.کیا محمد کا وسیلہ ہونا بندے اور خدا کے درمیان ایک تیسرے کا دخل ہے، ہرگز نہیں.وسیلہ کہتے ہیں جو اگر نہ ہو تو اس نور سے تعلق جڑ ہی نہ سکے اور اگر تعلق خام ہے تو تام ہو جائے.تھوڑا ہے تو بڑھ جائے.پس چاند کی ضرورت اس وقت در پیش ہوتی ہے جب براہ راست سورج دکھائی نہ دے رہا ہو اور اس مماثلت کا اطلاق یہاں ہوتا ہے.یہ وہ دور آگیا ہے جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی پیش گوئیوں کے مطابق گویا زمین سے ایمان اٹھ کر ثریا پر چلا گیا.جب مکمل تاریکی چھا گئی اس وقت کوئی چہرہ ایسا ہونا چاہیے تھا جو دنیا کی اس سطح سے بلند ہو کر اپنے سورج کو دیکھے اور اس سے وہ نور پائے جو سب میں پھر تقسیم کر دے.یہ جو صفت ہے اپنی ذات کو مٹا کر اور دنیا کے ماحول سے بلند تر ہو کر ایک انفرادیت اختیار کرتے ہوئے وہ سورج دیکھنے لگے جو دنیا کو دکھائی نہ دے اور اس کی روشنی کو پھر کمال صفائی اور وفا کے ساتھ اس دنیا کو دے جونور کے نہ ہونے کی وجہ سے اندھی ہو چکی ہو.اس کو اگر کوئی کہے کہ بیچ میں ڈالا جا رہا ہے تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو سکتا.اگر بیچ کی بات ہے تو محمد رسول اللہ اللہ کو اپنے اور خدا کے درمیان سے نکال کے تو دیکھیے کیسے کیسے اندھیروں میں بھٹک جاؤ گے.پس یہ شرک نہیں ہے، یہ تو حید بلکہ خالص توحید بلکہ اعلیٰ درجے کی توحید کا مظہر مضمون ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور اس کا تعلق نور سے ہے لیکن اس کے متعلق اور بھی باتیں ہیں جو انشاء اللہ پھر آئندہ خطبات میں پیش کروں گا.
خطبات طاہر جلد 14 879 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء صفات باری تعالیٰ کے حسین اجتماع کا نام نور ہے.ذکر الہی سے نورالہی ملتا ہے.( خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1995ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.في بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ پھر فرمایا:.( النور : 37) نور کے تعلق میں جو خطبات کا سلسلہ شروع ہے یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے حوالے سے بعض تشریحات آپ کے سامنے رکھ رہا تھا لیکن اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے جماعت احمد یہ سنگا پور کی درخواست کے پیش نظر یہ اعلان کر رہا ہوں کہ ان کا آٹھواں جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے اور تین دن رہ کر 26 نومبر کو اختتام پذیر ہوگا.صدر صاحب جماعت احمد یہ سنگا پور عبد العظیم صاحب بولیا نے سب کو السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کے تحفے کے بعد یہ درخواست کی ہے کہ ان کو اس جلسے کے کامیابی کے لحاظ سے بھی اور ویسے بھی جماعت سنگا پور کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے جو میں نے پہلے پڑھی تھی اور اس کے بعد یہ دوسری ایت اسی کے معا بعد ہے جو میں نے آج پڑھی ہے.حضرت
خطبات طاہر جلد 14 880 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں."...لفظ عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.مثلاً جب کہیں کہ درخت عظیم ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جس قدرطول وعرض درخت میں ہوسکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطہ ادراک سے باہر ہو اور خلق کے لفظ سے قرآن شریف اور ایسا ہی دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازہ روی اور حسن اختلاط یا نرمی و تلطف ، ملائمت جیسا کہ عوام الناس خیال کرتے ہیں مراد نہیں ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 194) یہ عبارت ایک مضمون سے دوسرے مضمون میں داخل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.اس لئے میں اس کو کھول دوں کہ کیا بحث ہو رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس پہلو پر روشنی ڈال رہے ہیں.آپ نے آنحضرت ﷺ کے نور ہونے کی تشریح فرماتے ہوئے یہ بتایا کہ آپ کے اخلاق حسنہ بھی نور تھے اور ایسا کامل نور تھے کہ وحی الہی کے شعلے کے نزول سے پہلے بھی وہ اخلاق حسنہ فی ذاتہ بھڑک اٹھنے اور روشن ہونے پر تیار بیٹھے تھے اور اخلاق کو نو ر کہنا کن معنوں میں ہے؟ اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دوسری جگہ خدا تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ وہ ذات ہے جس کی طرف تمام صفات لوٹائی جاتی ہیں.ایک ہی یہ اسم ذاتی ہے جس کے اردگرد تمام صفات بلا استثناء گھومتی ہیں اور اسی سے حوالہ پاتی ہیں.پس وہ تمام روشنی کی قسمیں جو مختلف النوع ہیں جب اکٹھی ہو جائیں تو وہ جو روشنی کی ایک اجتماعی شکل ظاہر ہوتی ہے اس کو نور کہا جاتا ہے.پس صفات باری تعالی ہی کے ایک حسین اجتماع کا نام نور ہے.وہی صفات ایسی ہیں جنہوں نے بندوں پر بھی پر تو فرمایا اور انسانوں کو بھی کچھ ایسی صفات عطا ہوئیں جو ذات باری تعالیٰ میں موجود تھیں ورنہ از خود انسان میں کچھ بھی نہیں تھا.وہ صفات جب اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہوئی ہیں اور ایک ذات میں سب نے اجتماع کر لیا ہے تو وہ محمدمصطفی امی کا وجود ہے جس میں یہ تمام صفات اکٹھی ہو ئیں اور پھر اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئیں.یہ نور ہے پس یہ نہ
خطبات طاہر جلد 14 881 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء سمجھیں کہ غلط مبحث ہو گیا ہے بات کچھ شروع ہوئی تھی اب کہیں اور جا پہنچی ہے.نور ہی کو سمجھانے کے لئے یہ باتیں بتائی جارہی ہیں.نور کا اس ظاہری آنکھ سے بھی ایک تعلق ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جو چیز چمکتی ہوئی دکھائی دے وہی نور ہے حالانکہ جو چمکنے والی لہریں جو نور کہلاتی ہیں ان کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ ان کا اکثر حصہ آنکھ سے دکھائی دے ہی نہیں سکتا.وہ بہت زیادہ ہے جو دکھائی نہیں دیتا جود کھائی دیتا ہے وہ اس نوع میں سے بھی بہت کم ہے.پس آنکھ سے نور کا تعلق ایک سرسری تعلق ہے یا یوں کہنا چاہئے سرسری نہیں تو محدود ہے اور نور اس کے علاوہ ایسا بھی ہے کہ جو چمکتا دکھائی نہیں دیتا.پس نور نظر جس سے باہر کا نور دکھائی دیتا ہے وہ بھی کسی کو چمکتا دکھائی نہیں دیتا.بعض دفعہ زندہ انسانوں کی کھوپڑیاں بھی اتار دی جاتی ہیں اور دماغ اسی طرح کام کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کہیں کوئی چمک دکھائی نہیں دیتی.تو نور کا چمک کے ساتھ جو تعلق ہم نے باندھ رکھا ہے یہ اپنے محدود تجربے کی وجہ سے ہے ورنہ نور کا چمک سے براہ راست کوئی لازمی تعلق نہیں ہے اگر ہے تو ہم اسے نہیں سمجھ سکتے.ہماری آنکھوں کو وہ صلاحیت عطا نہیں ہوئی کہ نور کی ہر قسم کو چمکتا ہوا دیکھ لیں.پس اکثر نور ہماری نظر سے اوجھل رہنے والے نور ہیں لیکن جب ان کو دوسرے مضامین میں ڈھال کر دیکھیں تو عقل کا نور انہیں دیکھنے لگ جاتا ہے.یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے آسان کر کے بیان فرما دیا.یعنی نور کی وہ تشریحات بیان فرمائیں جن کو عقل کا اجتماعی نور دیکھتا اور پہچانتا ہے اور اس کی چمک دمک کو محسوس کرتا ہے.اگر چہ ظاہری آنکھ کا وسیلہ بیچ میں کوئی نہیں ہے.ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جارہا اور وہ صفات کا نور ہے.پس صفات کے نور کو نور کہنے کے لئے بنیادی دلیل کیا ہے وہ یہ قائم فرمائی ہے کہ اللہ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور: 36) اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اور اللہ کیا ہے ؟ اللہ صفات حسنہ کے مجموعے کا نام ہے.وہ صفات حسنہ باری تعالیٰ جو دائمی ہیں اور جن کے اجتماع سے خدا بنتا ہے، ان میں سے ایک بھی نہ زائل کی جاسکتی ہے نہ باطل کی جاسکتی ہے، نہ وقتی طور پر ہٹائی جاسکتی ہے، نہ اس میں کوئی کمی کی جاسکتی ہے اور زیادتی کی گنجائش ہی کوئی نہیں کہ وہ پہلے ہی درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے.تو یہ اگر نور ہے تو انسانوں نے نور بنا ہو تو کیسے بنیں.اگر یہ نور ہے تو پھر اس نور کو اپنانے کے لئے انسانوں کو بھی تو کوئی راہ دکھائی گئی ہوگی.
خطبات طاہر جلد 14 882 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی راہ ہے جو دکھائی گئی ہے.آپ کو وسیلہ بنایا گیا ہے.پس محض نور نور کہہ کر یہ نہ سمجھو کہ تمہارے دل یہ بار بار کہنے سے ہی روشن ہو جائیں گے.سمجھو تو سہی کہ کیا کہہ رہے ہو اور دیکھو یہ نور تمہارے اندر آ بھی سکتا ہے کہ نہیں.آسکتا ہے تو کیسے؟ اگر تمہاری استطاعت میں نہیں تھا تو خدا یہ کیوں کہتا کہ یہ وسیلہ بنا دیا گیا ہے.تم میں سے ہر ایک کی استطاعت میں ہے کہ وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے نور سے روشن ہو جو ا ؤل طور پر اللہ کا نور ہے اور آپ کی ذات میں اس حد تک جلوہ گر ہوا ہے جس حد تک انسان میں یہ صلاحیت ہے کہ خدا کے نور کو اپنی ذات میں سمو سکے اور اس کا جلوہ انسان کی صفات میں ظاہر ہو.پس اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا جو میں نے آپ کو پڑھ کر سنایا.اور یہ عظیم کی بحث یوں چلی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 5) کہ اے محمد ہے تو خلق عظیم پر واقع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عظیم لفظ کیا ہے پہلے اس کو تو سمجھو عظیم اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے استعمال ہوا ہے.درختوں کو بھی عظیم کہ دیا جاتا ہے.دریاؤں کو بھی عظیم کہہ دیا جاتا ہے.پس عظیم، پہلی بات تو یہ ہے کہ تقابلی لفظ نہیں ہے جیسے ہم اکبر کہہ دیتے ہیں.اکبر کا مطلب ہے سب سے بڑا عظیم میں کوئی مقابلہ ذہن میں نہیں آتا مگر اس کی ذات میں بے حد بڑا ہو نا شامل ہے.اس تعریف کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھول رہے ہیں کہ جب کہا گیا کہ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ تو آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق ہم کیا تصور باندھیں ، کیا تھے؟ فرماتے ہیں: عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا د نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.“ اب دیکھ لیں اپنا نوعی کمال کہہ کے کئی جھگڑے نپٹا دئے.خدا بھی عظیم ، درخت بھی عظیم ، بندہ بھی عظیم ، پہاڑ بھی عظیم.فرمایا لفظ عظیم میں تو تقابل ہے ہی نہیں.اپنا ذاتی کمال اس حد تک پہنچ جائے کہ اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا.تو ہر چیز جو ایک خاص حالت پر تخلیق ہے اس کے اندر اس کی صلاحیتیں اس طرح تخلیق کی گئی ہیں کہ ان کی حدیں بھی معین کر دی گئی ہیں.وہ قُل كُلٌّ يَعْمَلُ
خطبات طاہر جلد 14 883 خطبہ جمعہ 24 /نومبر 1995ء عَلى شَاكِلَتِه (بنی اسرائیل: 85) کے لفظ میں شَاكِلَتِہ کے تابع بیان فرمایا گیا ہے کہ ہر چیز کی شاكلته بنادی گئی ہے.اس شاکلیہ کے اندر رہتے ہوئے وہ عمل کر سکتا ہے اس سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا.پس ہر چیز کو ہم عظیم کہتے ہیں اس کی شاکلیہ کے تعلق میں کہتے ہیں ، اس کے حدود اربعہ کے تعلق میں کہتے ہیں جو حدوداربعہ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرما دیا ہے اور ایک ہی ذات ہے جس کا کوئی حدوداربعہ نہیں ہے.مرضی اللہ کی ذات.پس وہاں عظیم لا انتہا، غیر متناہی جس کی کوئی حد نہیں ہے، کوئی بس نہیں اور انسانوں پر یا دوسری مخلوقات پر یہ لفظ جب صادق آئے گا تو ان میں جتنا بھی بڑے ہونے کی طاقت موجود ہے یا صلاحیت عطا کی گئی ہے اس حد تک کوئی پہنچ جائے تو اسے کہتے ہیں عظیم ہے اور وہ حد بسا اوقات ایسی ہوتی ہے کہ عام آدمی اپنے نظر سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتا.پہاڑ بھی عظیم کہلاتے ہیں مگر ایک ملک کا پہاڑ بھی عظیم کہلاتا ہے ایک دوسرے ملک کا پہاڑ بھی عظیم کہلاتا ہے اور جب ہم پہاڑ کے دامن میں جا کر اس کی عظمت کا نظارہ کرتے ہیں تو بیک وقت اس سارے پہاڑ کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتے.پس عظمت میں جو نسبتا ادنی درجہ کے کے دیکھنے والے ہیں اس احاطے کا امکان نہیں ہوتا ممکن ہی نہیں ہوتا ادنیٰ درجے سے دیکھنے والوں کے لئے کہ وہ اس کا احاطہ کر سکیں.پس آنحضرت عیہ چونکہ نوع انسانی میں اس درجہ کمال پر واقع ہوئے ہیں جہاں نوع انسانی کی آخری حد تھی.اس لئے آپ کے حوالے سے عظیم کا مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ اخلاق جس حد تک بھی انسان کی شاکلہ میں ڈھل کر وسیع ہو سکتے تھے اور روشن ہو سکتے تھے.وہ سارے آپ کی ذات میں روشن ہو گئے اور اس کا احاطہ بندہ نہیں کرسکتا کیونکہ جواد نی حالت پر واقع ہے وہ اس عظمت کو اپنے ادراک کے دائرے میں نہیں لا سکتا.اس لئے اللہ ہی تھا جو گواہی دے سکتا تھا اور اللہ ہی ہے جس نے گواہی دی ہے اور یہ گواہی کسی اور کے لئے نہیں دی گئی، پس یہ وہ نور ہے جس کو سمجھنا ہے اور پھر نور کی تعریف کرنی ہے تو نور مانگنا بھی تو ہے.نور اپنا نا بھی تو ہوگا اور ہر نور کے اپنانے کے لئے کتنے لمبے فاصلے طے کرنے ہیں، کتنی محنتیں اور مشقتیں کرنی ہیں، پھر نو ر کمایا جائے گا.ورنہ فطرت میں موجود رہنے کے باوجود جب تک دوسرے نور سے جو باہر سے آکر فطری نور پر پڑتا ہے تعلق قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اندر کا نور بھی اندھا ہی رہتا
خطبات طاہر جلد 14 884 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء ہے.چنانچہ آنکھ کے اندھے نہ بھی ہوں اگر روشنی سے محروم ہوں تو آنکھ کے اندھوں کی طرح ہی ہوتے ہیں.روشنی کے بغیر ان کو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا.پس آنحضرت ﷺ کی عظمت کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے کیونکہ اللہ نے آپ کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام تر جلوے سے اس طرح فیض یاب ہونے کی توفیق بخشی جیسا کہ چاند کو توفیق ہوتی ہے کہ سورج کی روشنی کو اپنے اندر لے اور آگے منعکس کرے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھ سے جب دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ ﷺ کیا دکھائی دیتے ہیں یہ ہے مضمون جو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.نور ہی نور ہیں مگر کن معنوں میں نور ہیں.فرماتے ہیں....بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد دو تک پہنچ جائے کہ حطیہ ادراک سے باہر ہو اور خلق کے لفظ سے قرآن شریف اور ایسا ہی دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازہ روی اور حسن اختلاط یا نرمی و تلطف ، ملائمت ( جیسا کہ عوام الناس خیال کرتے ہیں ) مراد نہیں ہے...اب ایک فقرہ بھی سمجھانے کے بغیر عام قاری کو سننے والے کو سمجھ نہیں آسکے گا.اس لئے کہ ایک تو جتنا مشکل مضمون ہو اتنی زبان میں ساتھ مشکل ہوتی چلی جاتی ہے اس کے مناسب حال زبان استعمال کرنی پڑتی ہے اور اردو کا عام معیار ایسا نہیں ہے کہ علمی اصطلاحوں کو یا گہرے مشکل الفاظ کو جو زیادہ علم سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں ان کو آسانی سے سمجھ سکے.پس اس لئے آہستہ روی بھی ضروری ہے صرف تازہ روی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازہ روی اب تازہ روی سے کیا مراد ہے.ایک انسان کسی انسان سے ملتا ہے تو اسے تازگی کا احساس ہوتا ہے اور ایک انسان سے ملتا ہے تو بوسیدگی کا احساس ہوتا ہے.اس کے چہرے پر ہی نہوست سی آئی ہوتی ہے اور اس کو مل کر طبیعت میں بشاشت نہیں پیدا ہوتی.پھر تازگی جیسے پھولوں کی تازگی ، جیسے بہار کی تازگی ہے جو ہر نباتات پر ظاہر ہو جاتی ہے.اسی طرح تازگی بھی نسبتا کم اور نسبتاً زیادہ ہوا کرتی ہے.موسم بہار کی تازگی ہر چیز کو سمیٹ لیتی ہے.پس آپ کی چال ڈھال ، آپ کی ہر حرکت اور سکون میں بھی لیکن لفظ روش کا استعمال ہوا ہے اس لئے یوں کہنا چاہئے آنحضرت ﷺ کے اخلاق جو آپ کے چہرے اور بشرے سے ظاہر اور باہر تھے جو ہر وقت متحرک دکھائی دیتے تھے ان میں تازگی پائی
خطبات طاہر جلد 14 885 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء جاتی تھی، کو ئی تھکن نہیں تھی، کوئی بوجھ نہیں تھا.نہ اپنی ذات میں محسوس فرماتے تھے ، نہ ملنے والے کو کچھ محسوس ہوتا تھا.تو یہ تعریف تو عمومی فرما رہے ہیں لیکن حوالہ چونکہ آنحضرت ﷺ کا ہے اس لئے ظاہر ہے کہ یہ تمام صفات جن کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں یہ رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ثابت تھیں.اور حسن اختلاط ملنے جلنے کا بھی ایک انداز ہوا کرتا ہے.بھونڈا اپن بھی اس میں ہوتا ہے کہیں توازن کھو دیتا ہے تو حد سے زیادہ بے تکلفی کہیں توازن کھو دیتا ہے تو بہت ہی دوری اور اجنبیت.یہ ساری چیزیں اختلاط کے حسن کے مخالف ہیں.اختلاط کا حسن یہ ہے کہ ملنا، اس طرح ملنا کہ اپنی ذات کو الگ قائم رکھتے ہوئے بھی ، اپنی ذات کو دوسرے کی ذات میں گھل ملا دینا مگر اس طرح کہ وقار قائم رہے اور یہ جو ملنا جلنا ہے اس میں گھٹیا پن دکھائی نہ دے اور اختلاط ایسا نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کر جائے.وہاں تک چلے جہاں تک اجازت ہے.وہاں ٹھہر جائے جہاں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ہے.تو اختلاط بھی ایک خلق کا نام ہے اور اس کو بھی اس میں داخل فرمایا ہے کہ کتب حکمیہ میں فرماتے ہیں، جو حکمت کی کتب ہیں ان میں لکھا ہے یہ اخلاق ہوتے ہیں.خلق اس کو کہتے ہیں کہ تازہ روی ہو حسن اختلاط ہو نرمی و تلطف ، ملائمت یعنی نرمی اور لطف کا سلوک کرنا اور ملائمت کہ بات کھر دری محسوس نہ ہو.وو..جیسا عوام الناس خیال کرتے ہیں مراد نہیں ہے بلکہ خلق بفتح خا اور خلق بضم خا دولفظ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل واقع ہیں...“ جیسا عوام الناس خیال کرتے ہیں مراد نہیں ہے.یہ مطلب بنے گا کہ قرآن کریم میں یہ جو باتیں بیان ہوئی ہیں اس کا جو مفہوم عوام الناس لیتے ہیں وہ درست نہیں ہے.بات درست ہے قطعی طور پر ،اگر قرآن نے بیان کی ہے تو اس کے غیر درست ہونے کا تصور ہی نہیں پیدا ہوسکتا پھر اس بریکٹ کا یہ مطلب بنا کہ اس کا جو معنی عامتہ الناس سمجھتے ہیں وہ درست نہیں ہے.میں اب تفصیل سے بتاتا ہوں کہ وہ معنی کیا ہے.اس مضمون میں داخل ہوتے ہوئے آپ نے خلق اور خلق دو الفاظ کو الگ الگ پیش کر کے ان کے معانی کو ہمیں سمجھا دیا اور فرمایا کہ جب خلق کہا جاتا ہے تو یہ مطلب ہوتا ہے، خلق کہا جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے اور جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں خلق کی
خطبات طاہر جلد 14 886 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء یہ جو پہلی تعریف تھی اس معانی کے مطابق ہوگی نہ کہ عامتہ الناس کی سوچ کے مطابق.اب یہ مضمون کچھ مشکل ہو جاتا ہے لیکن لازم ہے کہ اس کو سمجھا جائے.ہر بندے کا نہ صرف یہ کہ حق ہے بلکہ فرض ہے کہ اس مضمون کو سمجھے کیونکہ اس کا نور سے اتصال ہونا اس کے فرائض دینیہ میں داخل فرما دیا گیا ہے، اس کی پیدائش کی غرض و غایت میں داخل فرما دیا گیا ہے.اس لئے دقت خواہ زیادہ ہی ہو آپ کو یہ بات لاز ما سمجھانی ہوگی.آنحضرت ﷺ کو وسیلہ کہ کر ، وسیلہ مان کر ، وسیلہ یقین کرتے ہوئے ہم وہیں کھڑے رہ جائیں تو آپ وسیلہ نہیں بن سکتے.وہ وسیلہ کس صراط مستقیم کا نام ہے.اس میں کتنی راہیں چل رہی ہیں.بعض چھوٹی راہیں صراط ہوتی ہیں جن میں دو Lanes چلتی ہیں بعض میں تین Lanes کی سڑک بن جاتی ہے.بعض دو رویہ ہو جاتی ہیں.چھ چھ سات سات Lanes کی دو رویہ سڑکیں بھی دوڑتی ہیں، مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی جو صراط مستقیم ہے اس میں وہ ساری سڑکیں ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگے چل کر خلق کی تعریف میں بیان فرمائیں گے اور ہرسڑک پر قدم رکھنے کے لئے ، ہر سڑک پر رسول اللہ ﷺ کے قدموں کی پیروی کے لئے ایک مناسب صفت ہمیں عطا ہوئی ہے.اس لئے پورا قافلہ ہے جو آگے بڑھے گا.تمام انسانی صفات وہی ہیں جو آنحضرت ﷺ کو عطا ہوئی تھیں صرف درجہ کمال کا فرق ہے اور ان صفات کو جس درجے پر بھی وہ واقع ہیں روشن کرنے کے لئے بے حد گنجائش موجود ہے کیونکہ بہت سی ایسی صفات ہیں جو ہمارے اندر موجود ہیں جن کی ہم نے کبھی پرورش ہی نہیں کی.عدم استعمال کی وجہ سے مرجاتی ہیں.وہ اعضاء جو حیوانوں کو ملے ان میں سے کئی اعضاء ایسے ہیں جن کا استعمال جب انسان کی سطح تک پہنچتے پہنچتے زندگی نے چھوڑ دیا تو وہ اعضاء سکڑ کر بالکل معمولی سے رہ گئے.ان کے نشان باقی ہیں.ریڑھ کی ہدی کی جود مچی ہے وہ جگہ ہے جہاں دم لگی ہوئی تھی اور لاکھوں سال سے انسان کو دم کی ضرورت پیش نہیں آئی اس لئے رفتہ رفتہ وہ دیچی ایک چھوٹی سی ہڈی کے نشان کے طور پر ، ایک یادگار کے طور پر رہ گئی.تو بسا اوقات انسان اپنی صلاحیتوں کو اپنی ریڑھ کی ہڈی کی دمچی بنا دیتا ہے، استعمال ہی نہیں کرتا ،ان کی نشو ونما ہی نہیں ہوتی وہ پڑے پڑے سوکھ جاتی ہیں.ٹانگیں سوکھ جاتی ہیں اگر ان کو استعمال نہ کریں.ایک بچے کو گود میں اٹھائے پھریں وہ لولی لنگڑا ہو جائے گا.اس کی ربڑ کی سی ٹانگیں لٹکی رہیں گی.کبھی بھی وہ ان کو استعمال نہیں کر سکتا.مگر رہتی ہیں مگر جب حد سے زیادہ تغافل ہو جائے اور لمبا
خطبات طاہر جلد 14 887 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء صلى الله عرصہ ہو جائے تو گویا وہ مٹ ہی جاتی ہیں مگر ان کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں یہ بتانے کے لئے کہ اللہ نے تمہیں کیا دیا تھا.پس وہ قومیں جو بدنصیبی سے ہزاروں سال تک بداخلاقی پر قائم رہتی ہیں ان کا یہی حال ہو جاتا ہے.پس ہم نے تو ویسا نہیں بننا.ہمیں تو آنحضرت ﷺ کا نمونہ عطا کر کے ہماری ہر صلاحیت کو پیروی کی راہیں دکھا دی گئیں ہیں اور ایک عظیم صراط پر دوڑا دیا گیا ہے اور کہا ہے سب کو ساتھ لے کر چلو.جہاں بھی کسی صفت کو تم نے کالعدم کر دیا یا توجہ، جیسا کہ حق ہے نہ دی اس حد تک تم رسول اللہ کے توازن کے حسن سے محروم ہوتے چلے جاؤ گے.روشنی تو ہے اگر روشنی کی پیروی کی جائے مگر جہاں سب رنگوں کا امتزاج ہو جہاں تمام رنگ بیک وقت ایک تناسب سے جلوہ گری کریں وہاں اس سے جتنا بھی وہ روشنی ہے گی اس حد تک اس روشنی کا رنگ روپ بدل جائے گا.اب سورج کی روشنی اپنی ذات میں وہ کامل توازن رکھتی ہے جو مادی روشنیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے.جتنا آپ اس سے ہٹتے ہیں اتنا ہی روشنی کا روپ بدلتا رہتا ہے اور اگر آپ موازنہ نہ کریں تو بعض دفعہ ہمیں خیال بھی نہیں آتا کہ فرق ہے.رات کے وقت تیز روشنیاں جل رہی ہیں بھول جاتا ہے انسان کہ اس روشنی کا سورج کی روشنی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے.جب سورج چڑھے پھر ساری روشنیاں پھیکی پڑ جاتی ہیں.ان کے چہرے پر کوئی نور دکھائی نہیں دیتا.الله پس محمد رسول اللہ ﷺ کو سورج کہنا ان معنوں میں ہے کہ ایسے کمال کے اخلاق ہیں، ایسے آخری مقام تک پہنچے ہوئے ہیں، درجہ منتہا تک کہ جب آپ کا سورج طلوع ہو تو ہر نور والے کا چہرہ اس کے مقابل پر پھیکا پڑ جاتا ہے یا جس حد تک وہ خام ہے، جس حد تک اس نور کی بعض صفات سے عاری ہے اس حد تک اس کا رنگ بدل جاتا ہے.ویسی روشنی دکھائی نہیں دیتی.پس اللہ تعالیٰ کا یہ امت محمدیہ پر بہت بڑا احسان بھی ہے کہ ایسا کامل نور پیروی کرنے کے لئے عطا فرمایا لیکن ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئیں ، محنت بھی بہت شاقہ ہے جو کرنی پڑے گی لیکن آسان بھی تبھی ہوگی اگر آنحضرت ﷺ کے نور کے اس پہلے حصے پر غور کریں جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صفات کے بیان کا آغاز فرمایا ہے.” تازہ روی.تازہ روی کے بغیر اس نور کی پیروی ممکن ہے نہ ہمارے اندر طاقت ہے بلکہ برعکس صورت پیدا ہو سکتی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا دیکھو دین کو
خطبات طاہر جلد 14 888 خطبہ جمعہ 24 /نومبر 1995ء آسان کر دیا گیا اور اگر آسان ہونے کے باوجود تم کوشش کر کے دین پر غالب آنا چاہو گے تو تم ٹوٹ جاؤ گے، دین پر تم غالب نہیں آ سکتے.اس لئے وہی لفظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تعریف میں سب سے پہلے استعمال فرمایا آنحضرت ﷺ اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں حسب توفیق کچھ صبح چلا کرو، کچھ دوپہر کو ، کچھ آرام کر لیا کرو، جیسے درخت کے سائے تلے ایک مسافر آرام کر لیتا ہے پھر شام کو سفر طے ہوتا رہے گا.تم آگے ہی بڑھو گے غرضیکہ کچھ آرام اور کچھ حرکت اس کے درمیان رفتہ رفتہ تمھارے فاصلے کم ہوں گے لیکن ضروری یہ ہے کہ ہر رات جو آئے تمہیں پہلی حالت پر نہ پائے بلکہ اس سے آگے بڑھا ہوا دیکھے.ہر دن جو چڑھے وہ تمہیں پہلی حالت پر نہ پائے بلکہ اس سے آگے بڑھا ہوا دیکھے.آنحضرت ﷺ کی پیروی میں جو سفر ہم نے اختیار کیا ہے یہ نور کی پیروی کا سفر ہے اور ہر روز ہماری حالت بدلنی چاہئے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے جس نو رازل کی پیروی کا سفر اختیار فرمایا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ نَّكَ مِنَ الأولى (الضحی : 5) یقینا تیری آخرت تیرے اولی سے بڑھ کر ہے، بہتر ہے، تو وہ سفر بھی دائمی ہے.اس کے پیچھے چلنے والوں کا سفر بھی دائمی ہے.مگر سفر طے ہونے کے لئے ایسے سنگ میل راستے میں ملتے ہیں جن سے پتا چل جاتا ہے کچھ آگے بڑھے بھی کہ نہیں بڑھے اور وہ سنگ میل طے نہیں ہو سکتے جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک تفصیلی یا عمومی نظر نہ ہو تفصیلی نظر کی تو کوئی انتہا نہیں.خلاصہ جو مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے وہی اتنا دقیق ہے کہ اسے بیان کرتے ہوئے بھی ایک مدت چاہئے مگر چونکہ ایک لازم کام ہے اس کو سمجھے بغیر ہمارے سفر آسان نہیں ہو سکتے.ہم اس رخ پر آگے نہیں بڑھ سکتے اس لئے یہ فرض جو بہر حال ادا کرنا ہوگا.فرماتے ہیں خلق يفتح ، خا سے مراد، فتح کہتے ہیں زبر کو توخ کے اوپرا گر ز بر ڈالی جائے تو خلق پڑھا جائے گا.وو "...خلق فتح خا سے مراد یہ صورت ظاہری ہے جو انسان کو حضرت واہب الصور اس ذات کی طرف سے عطا ہوئی.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 194)
خطبات طاہر جلد 14 889 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء وہ ظاہری شکل ہے.انسانی جسم کی ساخت جو واہب الصور اس ذات کی طرف سے عطا ہوئی ہے جو صورتیں عطا فرمانے والی ذات ہے جو صورتیں بخشنے والی ذات ہے جس کا ایک نام مصور بھی ہے تو فرمایا اس نے جو ظاہری شکل عطا فرمائی ہے.ظاہری شکل سے مراد یہ مراد نہیں ہے جو ہمیں دکھائی دے رہی ہے.مراد ہے جسمانی شکل جو اندر بھی ہے، باہر بھی ہے اور ہر جزو میں ہے اور ہر جزو کی شکل کا تعلق کل سے بھی ہے اور ہر دوسرے جزو سے بھی ہے تو یہ مضمون ہے کہ ہمیں کون سی صور عطاء کی گئی ہیں یہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اپنی ذات میں ایک بہت لمبا سفر ہے.هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ (آل عمران:7) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھا کر وغور کر وہم تمہیں رحموں کے اندر کیا کیا صورتیں بخشتے ہیں اور رحموں کے اندر جو صورتیں بخشتے ہیں ان کے متعلق سائنس دانوں اور ہمیں یہ کہہ کر اس سفر کو ہی لامتناہی بنا دیا، سائنس دان کہتے ہیں کہ زندگی کا پہلا ذرہ جو پیدا ہوا ہے اس وقت سے لے کر ایک ارب سال کا سفر جو ارتقاء کا سفر ہے جس میں انسان ٹھیک ٹھاک کیا گیا ہے.مٹی سے بنا کر اس ایک ارب سال کے سفر میں انسان جن جن شکلوں سے گذرا ہے وہ ساری شکلیں نو مہینے کے اندر رحم مادر میں دہرائی جاتی ہیں اور ایک فلم چل جاتی ہے جو ایک ارب سال کا سفر بچہ نو مہینے میں طے کر رہا ہے اور قرآن کے سوا کوئی دنیا کی کتاب نہیں ہے جو یہ کہتی ہو کہ رحم مادر میں ہم نے تمہیں جو تصویر میں دی ہیں دیکھو تو سہی.تم یونہی تو نہیں بن گئے کہ مٹی سے تھوپ تھاپ تمہیں ایک گڈا سا بنا کے کھڑا کر دیا ہے، بے وقوفی کی بات ہے.ان نو مہینے کا سفر اگرتم کرلو تو تمہیں یہ پتہ چل جائے گا کہ ہم نے تمہیں کتنی دیر میں کتنے مراحل سے گزار کر وہ صورت بخشی ہے جس پر تم اب فخر کرتے ہو کہ کیسی اچھی صورت ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب واہب الصور کی بات کرتے ہیں تو جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے صور صورتوں کے بخشنے والے نے گویا انسانی صورت کے اندر یا اس کے ماضی میں جتنی صورتیں بھی انسان کو عطا ہوتی رہیں یہ خلق ہے تفتح خاء.جس صورت کے ساتھ وہ دوسرے حیوانات کی صورتوں سے ممیز ہے...“ یہ آخری شکل ہے اس کی.
خطبات طاہر جلد 14 890 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء وو...اور خلق بضم خا سے مراد وہ صورت باطنی یعنی خواص اندرونی ہیں جن کی رو سے حقیقت انسانی، حقیقت حیوانیہ سے امتیاز کلی رکھتی ہے...“ اب جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امتیاز کی بات کر رہے ہیں وہاں صرف انسان کی صورت پر آکر جو ہر عضو اور ہر ذرہ درجہ کمال کو پہنچ گیا ہے وہاں اس وقت کی بات کر رہے ہیں مگر میں نے قرآن کے حوالے سے آپ کو بتایا تھا کہ ان صورتوں سے پہلے بھی ایک بہت لمبا صورتوں کا سفر موجود ہے.یہ جو موجودہ آخری صورت ہے یہ وہ ہے جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے ورنہ انسان کی صورت میں اور حیوان کی صورت میں مشابہتیں ہیں تو سہی مگر امتیاز بھی ہے.فرمایا یہ ہے خلق اور انسان کی خلق ، خلق ظاہر جو اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہے.فرمایا ایک اس کو خلق عطا ہوا ہے خلق کیا ہے؟ خلق ، ان اندرونی صفات کا نام ہے جو انسان کو عطا ہوئیں اور ان صفات کے لحاظ سے باقی جانوروں سے وہ ممتاز اور الگ ہے اور کوئی جانور یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بھی اس نوع کی یہ صفت ملی ہوئی ہے اس سے ملتی جلتی تو ہیں.جیسا کہ جنت میں جو خدا ہمیں تحائف عطا فرمائے گا ہمیں کچھ ملتا جلتا دکھائی دے گا تو ہم کہیں گے نا کہ ہم نے پہلے بھی کھایا ہوا ہے.اللہ فرمائے گا نہیں ملتی جلتی ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ملتی جلتی صفات کا انکار نہیں فرما رہے اس غلطی میں نہ مبتلا ہو جائیں.فرمایا ہے ہلتی جلتی ہونے کے باوجود جب انسان کے درجہ پر پہنچ کر وہ خلق ظاہر ہوتا ہے جو خالصہ انسان کو عطا ہوا ہے تو وہ خلق کسی اور جانور کو نہیں ملا اور وہاں انسان ہر دوسرے جانور سے الگ.اور ممتاز ہو جاتا ہے.پھر فرماتے ہیں: و, -...پس جس قدر انسان میں من حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں اور شجرہ و انسانیت کو نچوڑ کر نکل سکتے ہیں...“ اب انسانیت کا شجرہ کیا ہے.وہ تمام صفات حسنہ جو خلق کے طور پر انسان کو ودیعت ہوئی ہیں اور وہ صفات حسنہ جو دوسرے جانوروں اور اس کے درمیان ایک امتیا ز قائم کر دیتی ہیں وہ اگر انسان کو نچوڑا جائے تو جو خلاصہ نکلے گا اس کا نام خلق ہے.وہ روح انسانی ہے کیونکہ خلاصے اور نچوڑ کو بھی روح کہا جاتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ روح بھی اسی سے بنے گی.مرنے کے بعد جس روح کو ایک آزاد حیثیت عطا ہو گی وہ انسانی خلق سے ہی بنے گی اور وہ خلق اگر چہ آغاز میں حسین دیا گیا تھا جو
خطبات طاہر جلد 14 891 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء جس حد تک اس خلق کو بگاڑے گا اسی حد تک اس کی روح بدصورت اور بد زیب اور بدمزہ ہوتی چلی جائے گی اور وہ روح جو پیدا ہوگی وہ انسان کے اپنے گناہوں، اپنے ظلم کے نتیجے میں پیدا ہوگی اس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر نہیں ہے تو فرمایا کہ اس شجرہ کو اگر نچوڑ کر دیکھیں تو جو کچھ اس کا پھل تم پاؤ گے وہ خلق ہے.جو کہ انسان اور حیوان میں من حیث الباطن مابہ الامتیاز ہیں“.یہ ساری باتیں وہ ہیں جو باطنی طور پر انسان اور حیوان میں ایک امتیاز قائم کرتی ہیں ان سب کا نام خلق ہے.“..اور چونکہ شجرہ فطرت انسانی اصل میں توسط اور اعتدال پر واقع وو ہے اور ہر وقت افراط و تفریط سے جو قوای حیوانیہ میں پایا جاتا ہے منزہ ہے.جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (تين :5) ( براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 195-194) اب یہ فقرہ بھی سمجھانا ہے لازماً کیونکہ عموما جو سننے والے ہیں علمی لحاظ سے خواہ کسی درجے پر واقع ہوں فطری لحاظ سے اس فقرے کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں.اگر یہ نہ ہوتا تو انسان کو اس مضمون کے لئے پیدا ہی نہ کیا جاتا اور چونکہ آنحضرت ﷺہ ظاہری علم کے بغیر ہم سب میں سانجھے ہیں اور شریک ہیں یعنی ہمارے ہیں اس لئے علم کا کوئی پردہ بیچ میں حائل نہیں ہے.آپ کی ذات کو سمجھنے کے لئے وہ جو خدا سے علم پاتا ہے وہ علم پا کر آگے بتاتا ہے اور اگر غور سے سنا جائے یا مزید محنت سے سمجھایا جائے تو سمجھ آنے والی بات ہے.اس کا ظاہری علم سے کوئی تعلق نہیں ہے.مگر چونکہ ظاہری علم کے بغیر یہ باتیں بیان نہیں ہوتیں اس لئے کھولنی پڑتی ہیں.پس اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرما رہے ہیں.”شجرہ فطرت انسانی اصل میں توسط اعتدال پر واقع ہے حقیقت کے اعتبار سے جو خدا تعالیٰ نے انسان کو صفات عطا فرمائی ہیں ان صفات میں آغاز میں اعتدال تھا اور وسطی طور پر واقع ہوئی تھیں.ان میں کوئی انتہا پسندی نہیں تھی.کسی انتہا کی طرف جھکنا فطرتا نہیں تھا، اگر یہ ہوتا تو يـولـد عـلـى الفطرۃ کا معنی سمجھ میں آتا کہ کیا ہے.ہر انسان کو اللہ نے فطرت پر پیدا کیا ہے جو قرآن کریم فرما رہا ہے.یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس میں اعتدال ہو.ورنہ اگر خدا نے فطرت میں بے اعتدالی رکھی ہوتی تو پھر کوئی اعتدال والی
خطبات طاہر جلد 14 892 خطبہ جمعہ 24 /نومبر 1995ء تعلیم انسان قبول کرنے کے اہل ہی نہ رہتا.اس لئے بے اعتدالیاں ہوتی ہیں تو بعد میں لوگ بناد ہتے ہیں.فطرت کو آغاز میں اعتدال ہی عطا ہوا ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.کل مولود يولد على الفطرة فابواه یهودانہ اور ینصرانہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے.ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے.فابواه یهودانه او ينصرانه پر اس کے ماں باپ ہیں جو ان میں سے کسی کو یہودی بنا دیتے ہیں، کسی کو نصرانی بنا دیتے ہیں یعنی یہ جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں یہ انسان کی پیدا کردہ " تبدیلیاں ہیں.اب صرف ” یهودانہ “ اور ” ینصرانہ کا ذکر فرمایا اور مسلمان بنا دیتے ہیں کا کوئی ذکر ہی کوئی نہیں.اس میں کیا حکمت ہے؟ کسی اور مذہب کا بھی ذکر نہیں فرمایا.پہلی حکمت تو یہ ہے کہ دو انتہاؤں کی اس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی کہ یا یہودی بنادیتے ہیں یا عیسائی بنادیتے ہیں.فطرت وسط میں واقع ہوئی ہے.اس کو ایک طرف کھینچ لو تو یہودیوں کی طرح تشد داور سختی اور انتظام اور غیظ وغضب پر زور ہو جائے گا اور وہاں اسی مرکز سے ہٹا کر دوسری طرف کھینچ لو تو عیسائیت کی نرمی اور عفو اور درگزر یہاں تک کہ ایک گال یہ تھپڑ مارے تو دوسری گال پیش کر دو کی تعلیم شروع ہو جاتی ہے.تو درمیان میں واقع ہے تو دونوں کو کھینچا گیا ہے نا.اس لئے اس کلام محمد مصطفی ﷺ میں بھی ایک حیرت انگیز توازن اور اعتدال واقع ہے.پھر یہ کہ فطرت کو تو اسلام فرمایا گیا ہے.قرآن کریم میں بھی اور رسول کریم ﷺ کی طرف سے بھی.تو ماں باپ تو مسلمان نہیں بناتے خدا نے مسلمان بنا کے بھیجا ہے.اس لئے اس کا مسلمان کا بننا ایک فطری بات ہے.اس کے ساتھ تو وہ پیدا ہوا تھا.اس لئے اسلام کی تعریف فطرت سے باندھی گئی ہے اور وہی تعلیم ہے جو درحقیقت انسان کی فطرت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے غیر مبدل ہو جاتی ہے.اگر فطرت انسانی سے اسلام کی تعلیم کامل طور پر نہ جوڑی جاتی تو زمانے کے بدلنے سے اس تعلیم کا بدلنا لازم ہو جاتا.اگر یہ اعتدال اور وسط پر واقع نہ ہوتی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا اور آنحضرت می ﷺہ اس سے بہت پہلے اس کو مثال دے کر ظاہر فرما چکے ہیں تو پھر یہ غیر زمانی تحریک نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ جب اعتدال پر چیز نہ رہے تو اسے استقامت نہیں رہتی اور یہ مضمون میں پہلے بیان کر چکا ہوں.تو اسلام کا توسط پر واقع ہونا ایک طبعی امر ہے.اگر انسان، ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا کیا جائے تو لازماً اسلام پر پیدا ہوا ہے اور اگر کوئی فطرت کو قائم رکھے ، اگر جو صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 893 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء خدا کی ودیعت ہے اس امانت میں ایک ذرہ بھی فرق نہ آنے دے تو پھر آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ فرمانا کہ وہ تو از خود ہی بھڑک اٹھنے کے لئے تیار بیٹھا تھا مراد یہ ہے کہ جو کچھ پایا تھا خدا سے پایا تھا مگر اس کی حفاظت کی تھی ، اس اعتدال کو قائم رکھا تھا.اس توازن پر ہمیشہ قائم رہا اور یہی تو وحی کا مقصد تھا کہ تمہیں تو ازن عطا کرے جس توازن کو تم کھو بیٹھے تمہیں دوبارہ نصیب ہو وحی کی بدولت آسمان کا نور تمہیں پھر ان نوری اقدار پر قائم کر دے جن اقدار سے تمہارے سفر کا آغاز ہوا تھا تا کہ تمہارا انجام بھی اسی پر واقع ہو.پس وہ رسول ﷺ جس نے آغاز ہی سے اپنی ساری زندگی اس اعتدال سے سرمو بھی فرق نہ کیا ہو اس کے متعلق یہ فقرہ کیسا خوبصورت اور کیسا برمحل ہے ایک ادنی بھی مبالغہ نہیں کہ یہ نور تو اپنی ذات میں بھڑک اٹھنے پر تیار بیٹھا تھا یعنی کامل اعتدال پر تھا اور تھا ہی نور.پھر اس پر جب شعلہ نور اترا ہے تو نُورٌ عَلى نُورِ بن گیا اور اس کمال کا نور پھوٹا ہے کہ سارے عالم کو روشن کر دیا.اس درجے کی اس میں شدت پیدا ہوئی ہے کہ خدا نے اسے سِرَاجًا منيرا (الاحزاب : 47) کے طور پر تمہارے سامنے پیش کیا مگر اس نور کی طرف سفر کیسے ہوگا.محض تعریفوں کے ذریعے نہیں بلکہ ان صفات حسنہ کو اپنانے کی کوشش کے ذریعے ، وہاں پہنچ کر تعریف کی حد ختم ہو جاتی ہے.پھر تعریف کی سچائی کی حد شروع ہوتی ہے.ایک انسان کسی کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے واہ واہ کیسا اچھا ہے، کیسا مضبوط ہے، کیسا طاقتور ہے لیکن اگر وہ ہونٹوں کی تعریف ہے تو ویسا بنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اس میں محنت درکار ہے.بہت مشقت کا بعض دفعہ سامنا ہوتا ہے.ایک کرکٹر بننے کے لئے ہی آپ دیکھیں پوری زندگی بعض لوگوں کو وقف کرنا پڑتی ہے.وہ بچے جو تعریف کرتے ہیں دل کی گہرائی سے ان کو میں نے دیکھا ہے کرکٹ کی لوگ جاتی ہے.بعض بچے مجھے دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں کہ میرے لئے دعا کریں میں ایسا کرکٹر بنوں کہ بس دنیا میں کمال ہو جائے.وہ بچپن سے ہی تصویریں بھی کرکٹ کی بناتے ہیں، دیکھتے بھی ہیں ، نام بھی ان لوگوں کے اکٹھے کرتے ہیں جو کرکٹ میں اچھے ہوا کرتے تھے.کتابیں وہ پڑھا کرتے ہیں جن میں کرکٹ کے ریکارڈ ہوتے ہیں.اب چھوٹی سی معمولی سی کھیل ہے لیکن جو سچی تعریف کرنے والا ہے وہ صرف زبان سے عاشق نہیں ہوتا ، دل سے اور عمل سے عاشق ہو جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 894 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء بس یہی حال نور بننے کا ہے.کسی ایک صفت کو اگر آپ اچھا سمجھیں اور واقعہ دل کی گہرائی سے اچھا سمجھیں تو اسے اپنانے کی لگن لگ جائے گی.اللہ تعالیٰ کے حوالے سے براہ راست ہم ان صفات کو دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں.مگر یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ خدا کی جوصفات ہم سے بہت ہی بالا، بہت ہی دور واقع ہوئی ہیں جہاں تک انسانی عقل کا تعلق ہے ،نزدیک ہیں سمجھنے کے اعتبار سے، دور ہیں اپنانے کے اعتبار سے نزدیک ہیں اس اعتبار سے کہ خدا نے خود انہیں ہم پر ظاہر فرما دیا.دور ہیں اس اعتبار سے کہ ظاہر ہونے کے باوجود ہم ان کی کنہ کو نہیں سمجھ سکتے.اس سفر کو آسان کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی کے کونور کی مثال بنا کے دیا گیا.فرمایا یہ دیکھ لو.اس طرح میرا نور ایک انسان میں اپنے کمال کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے.یہ یہ باتیں کرنی پڑتی ہیں.یہ اخلاق اپنانے پڑتے ہیں.یہ اعتدال واقع کرنا پڑتا ہے اپنی طبیعت میں.یہ تم کرو تو تم بھی ویسے ہی ہو جاؤ گے.یہ ایک فرضی دعوی نہیں.یہ دعوی اس لئے بھی ضروری تھا کہ شرک کا کوئی شائبہ بھی اسلامی تعلیم میں باقی نہ رہے.اگر خدا تعالیٰ نہیں بات ختم کر دیتا کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ اور مَثَلُ نُورِہ آگے بات محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ پر جا کے کھڑی کر دیتا تو دنیا میں ایک اور قسم کا شرک پیدا ہوتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں جو صفات باری تعالیٰ سے ایسی یگانگت رکھتے تھے کہ انہیں اپنا سکتے تھے اور کوئی بشر ایسا نہیں جو ایسا کر سکے.تو وہ اپنی ذات میں خواہ آپ خدا کا شریک نہ بھی کہیں مگر شرک کا ایک مضمون ضرور دماغ میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے.قرآن کریم جو حکیم کتاب ہے اور روحانی طب میں اس سے اعلیٰ درجہ کی مرض شناس کتاب اور کوئی واقع نہیں ہوئی کبھی پیدا نہیں ہوئی یعنی انسان کو کبھی عطا نہیں ہوئی.اس آیت کے معا بعد فرماتا ہے.في بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُقِ وَالْأَصَالِ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نور ایسی مثال نہیں تھی کہ تم اپنا نہ سکو.اس غرض سے نہیں تھی کہ اسے انسانوں سے الگ کر کے دکھایا جائے.اس غرض سے تھی کہ انسان کو بتایا جائے کہ تمہاری صلاحیتیں کیا کیا ہیں، تمہاری رسائی کہاں کہاں تک ہے.تمہی میں سے وہ شخص پیدا ہوا ہے یعنی محمد رسول اللہ اللہ جنہوں نے نور کی تحصیل میں یہ کمال دکھا دیا ہے.درجہ کمال کو پہنچ گیا ہے اور تم اگر چا ہو تو اس نور کی پیروی سے اسی طرح نور سے حصہ پاسکتے ہو اور صرف تعلیم نہیں دی فرمایا یہ نور جو ایک دل پر اترا تھا ، جس دل میں جلوہ گر ہوا تھا اب دیکھو کہ محمد رسول اللہ اللہ کے فیض سے اور آپ کی
خطبات طاہر جلد 14 895 خطبہ جمعہ 24 نومبر 1995ء پیروی کی برکت سے کتنے نوروں میں بدل گیا ہے.في بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وہ ایک گھر میں نہیں رہا وہ تو اب گھر گھر میں روشن ہو گیا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح : 30) محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے جو ساتھی تھے جو واقعہ معیت رکھتے تھے یعنی صحبت صالحہ سے فیض پاتے تھے ان کے دل بھی تو دیکھو وہ بھی تو روشن ہورہے ہیں.ان کے دلوں سے بھی تسبیحات بلند ہو رہی ہیں اور خدا نے چاہا ہے کہ ان کے دلوں کو اس کی برکت سے بلند کر دیا جائے.ان گھروں کو بلند کر دیا جائے جن میں وہ نور روشن ہے اور سراجا منیرا کا جو وہ مضمون تھا ان کا اس بلندی سے تعلق ہے.نور جو وسیع طور پر فیض رساں ہو وہ چھوٹی حالت میں رہ کر نہیں ہو سکتا.اسے لازماً رفعت اختیار کرنی ہوگی کیونکہ جتنی بلند چیز ہواتنا ہی اس کے نور سے دنیا فیض یاب ہو سکتی ہے.بعض دفعہ ہم جب بجلیاں نہیں ہوتی تھیں ہم لائین کو یا عام چراغ کو زمین پر رکھتے تھے تو وہی کمرہ اندھیر الگتا تھا پھر جب اچھی طرح دیکھنا ہو تو اسے ہاتھ سے بلند کر کے اونچا کر کے دیکھتے تھے تو سارا کمرہ جگمگ کرنے لگتا تھا.تو محمد رسول اللہ ہے جو سِرَاجًا منيرا فرمایا گیا ہے اس پہلو سے بھی فرمایا گیا ہے کہ یہ اتنا بلند ہو گیا اس نور کی برکت سے جو خداس نور پر نازل فرمایا اور یہ دونوں مل گئے.اتنا رفع اور بلند ہو گیا کہ وہ سِرَاجًا منیرا کی طرح کل عالم پر چمکنے کی اہلیت پا گیا اور کل عالم اس سے فیض یاب ہونے کی صلاحیت اختیار کر گیا اور اس نے اس حسن کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے زمانے میں چمک کر دوسروں کو ایسی ہی صلى الله صفات عطا کر کے ثابت کر دیا کہ نوروں میں سے سب سے وسیع تریہ محمد رسول اللہ ہے تھے.اس کثرت سے اپنے معیت میں بسنے والوں کو اپنے نور کی شان عطا کرنے والا دنیا میں کبھی کوئی نبی نہیں پیدا ہوا.آپ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں.اپنی زبان سے نہیں ان کتابوں کی زبان سے مطالعہ کر کے دیکھ لیں.بدھ نے کتنے بدھ پیدا کئے یا اپنے جیسے عقل کل جس کو وہ کہتے ہیں عقل کل تو صرف خدا کے لئے میرے نزدیک استعمال ہو سکتا ہے لیکن اپنی طرح عقل والے کتنے اور پیدا کیے تھے.موسیلی نے ہارون کے سوا کون سا پیدا کیا تھا جو اس سے مشابہ ہو اور وہ بھی دعا مانگ کے لیا تھا.اپنی ذات میں تو ہارون میں وہ روشنی نہیں تھی.حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے سے ملتے جلتے کتنے حواری پیچھے چھوڑے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی شان دیکھو کہ کتنا جلدی جلدی اپنے جیسے ہی اور نور
خطبات طاہر جلد 14 896 خطبہ جمعہ 24 /نومبر 1995ء دوسروں کے سینوں میں روشن کرنے شروع کر دیئے ، گھر گھر میں وہ شمعیں جلنے لگیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے في بيوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ان گھروں میں جن کے متعلق خدا نے ، تقدیر نے فیصلہ کر دیا ہے کہ ان گھروں کو بلند کیا جائے گا.وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ اور ان میں اس کا نام یاد کیا جائے گا اور نام یاد رکھا جائے گا.دوسرا معنی ہے تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمه اس کا نام بلند کیا جائے گا اور نام یا د رکھا جائے گا.مگر گھروں کی بلندی تو ناموں کی بلندی سے ہی ہے.جس گھر میں نام بلند ہو وہ گھر بلند ہو جایا کرتا ہے.يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا اس میں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ اللہ کے ساتھی ہیں وہ خدا کی تسبیح کریں گے یا کرتے ہیں بِالْغُدُقِ وَالْأَصَالِ صبح بھی اور شام بھی.تو وہ نور کیسے حاصل ہوتا ہے.تسبیح الہی سے، ذکر الہی سے،خدا کا ذکر بلند کر واس کی تسبیحات بلند کرو، صبح بھی کرو ، شام بھی کرو تو تمہیں اس نور سے حصہ ملنا شروع ہو جائے گا.جو آنحضرتﷺ کا وہ نور ہے جو خدا نے مثالاً بیان فرمایا ہے ورنہ اللہ کے نور کی حقیقت کو کوئی دنیا میں نہیں جانتا.اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے باقی انشاء اللہ آئندہ خطبے میں.
خطبات طاہر جلد 14 897 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء نورالہی بصارت عطا نہ کرے تو انسان اپنے نقص بھی نہیں دیکھ سکتا اور جب تک نقص دور نہ ہوں اور الہی عطا نہیں ہو سکتا.(خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1995ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ اَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا اج الْأَنْهرُ يَوْمَ لَا يُخْزِى اللهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ امَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (اتحريم (2) پھر فرمایا:.نور ہی کے تعلق میں خطبات کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور آئندہ بھی شاید چند خطبات اسی سلسلے کے لئے وقف رہیں گے.بہت ہی وسیع مضمون ہے اس لئے تھوڑے وقت میں اختصار بھی کیا جائے تب بھی وہ پوری طرح پیش نہیں کیا جا سکتا.اختصار اور پوری طرح سے مراد یہ تھی کہ اس حد تک اختصار جس سے سمجھ کچھ نہ آئے وہ کیا تو جاسکتا ہے مگر فائدہ کوئی نہیں.پوری طرح اختصار سے مراد یہ تھی کہ اس حد تک اختصار کہ جو کچھ کہنا ہے اس کی سمجھ تو آ جائے.اس لئے کوشش میں کرتا ہوں کہ اختصار رہے مگر اس کے باوجود تفصیل کے ساتھ بعض باتیں سمجھانی پڑتی ہیں جن کی اس سے بھی زیادہ
خطبات طاہر جلد 14 898 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء تفاصیل موجود ہیں اس لئے نسبتاً اختصار ہے ورنہ جہاں تک دکھائی دیتا ہے میں باتیں کھول کھول کر ہی پیش کر رہا ہوں.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تُوبُوا إِلَى اللهِ تَوْبَةً نَصُوحًا اللہ کے حضور کے تو بہ کرتے ہوئے جھک جاؤ، اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے رجوع کرو.نَّصُوحًا ایسی تو بہ جو تَوْبَةً نَصُوحًا ہو.نصوحا سے مراد ہے خالص ایسی تو بہ جو اللہ کے لئے بھی خالص ہو اور تمہیں بھی خالص کرنے والی ہو، پاک صاف کرنے والی ہو.عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ تُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ تو بہ تم کرو گے اور صفائی اللہ عطا فرمائے گا.تو بہ کا جہاں تک تعلق ہے اس کا نصوحا ہونا تمہارے دل کی پاکیزگی اور خالص عزم سے تعلق رکھتا ہے مگر توفیق انسان کو اپنی پاکیزگی کی نہیں مل سکتی.ارادہ نیک ہو کوشش مخلصانہ ہو تو فرمایا عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمُ ایسا ہو تو ہرگز بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہاری کمزوریوں کو دور فرمادے ، تمہاری برائیاں تم سے دور ہٹا دے.وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ دور.تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ پھر تمہیں ان جنتوں میں داخل فرمائے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.يَوْمَ لَا يُخْزِى الله النَّبِيَّ وَالَّذِينَ امَنُوا مَعَهُ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو رسوا نہیں کرے گا اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ہیں.نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ ان کا نوران کے سامنے بھی چل رہا ہوگا اور ان کے دائیں ہاتھ بھی چل رہا ہوگا.يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے نور کو تام کر دے مکمل کر دے.وَاغْفِرْ لَنَا اور ہمیں بخش دے إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يقيناً تو ہر چیز پر قادر ہے.یہاں پہلی بات تو یہ قابل توجہ ہے کہ مغفرت کی اور برائیوں کے دور کرنے کی شرط تَوْبَةً نَصُوحًا ہے اور آنحضرت ﷺ کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کے اندر کوئی بھی کدورت نہیں تھی تو مراد یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا داغ نہیں تھا، کوئی بھی ایسی میل نہیں تھی جو آپ کی روح کے خلوص پر ایک دھبہ بن سکتی ہو یا خدا سے تعلق کی راہ میں حائل ہو یا اس کے نور کے راستے میں ایک پردہ ڈال دے اور پوری طرح خدا کے نور کو آپ اخذ نہ کر سکتے
خطبات طاہر جلد 14 899 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء ہوں.مومنوں کو تو سب کو یہ عظیم مقام حاصل نہیں ہے مگر حکم یہ ہے کہ محمد رسول اللہ کے کے ساتھ ہو.لازم کر دیا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرو اور اس جیسا بننے کی کوشش کرو.اس لئے تَوْبَةً نَصُوحًا سے مراد یہ ہے کہ تم بھی بے داغ ہونے کی کوشش کرو کیونکہ جو تمہاری آخری منزل ہے وہ اللہ کے نور کی منزل ہے اور نور کی منزل کی راہ میں تمہاری کثافتیں حائل ہوں گی اس لئے سفر کا آغا ز ایسی تو بہ سے ہوگا جو خدا کے لئے خالص ہو اور تمہیں پاک اور صاف کرنے والی اور پوری طرح دھو دینے والی ہولیکن اس کے باوجود خدا کے فضل کے سوا اور اس کی خاص قدرت کے سوا تمہاری برائیاں دور نہیں ہوسکتیں اور یہ اس لئے بھی اہم بات ہے کہ بسا اوقات انسان حصول نور سے پہلے اپنی برائیاں نہیں دیکھ سکتا اور یہ عجیب مشکل ہے کہ جب تک نورالہی اپنی بصارت عطا نہ کرے اس وقت تک انسان اپنے نقص بھی نہیں دیکھ سکتا اور جب تک وہ نقص دور نہ ہوں نو ر الہی عطا نہیں ہوسکتا.نور الہی کی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے ہی تو نصیحت فرمائی گئی کہ پہلا قدم تَوْبَةً نَصُوحًا سے اٹھاؤ گے تو اس منزل کی طرف آجاؤ گے اور آخر پر نور کی عطا کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن اس سے پہلے یہ وعدہ کر دیا گیا کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہارے اندر کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریاں ہوتے ہوئے تمہیں خودا اپنی شناخت بھی نہیں ہوسکتی.پس اپنی ذات کی معرفت کے لئے جو نور چاہئے اگر وہ بھی حاصل نہ ہو تو پھر کیسے انسان اپنی کمزوریوں کو دور فرما سکتا ہے.اس بظاہر عقده لا ينحل کا حل یہ فرمایا کہ تم یہ کرو ہم یہ کریں گے.تم نیت صاف کر لو اور پورے خلوص کے ساتھ جس میں دنیا کا کوئی میل داخل نہ ہو نیتوں میں کوئی فتور نہ ہو یہ ارادہ کر لو کہ میں نے اپنے آپ کو ہر داغ سے پاک کرنا ہے اللہ کیا فرمائے گا.عَلَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ پھر تم دیکھو گے دور کی بات نہیں عسی کے معنی قریب ہے یعنی تم جس چیز کو دور دیکھ رہے ہو کہ تم ہر قسم کے گند سے پاک ہو جاؤ اللہ کے نزدیک وہ اتنی آسان بات ہے کہ ہر گز بعید نہیں.اس کے لئے کہ تم سے تمہاری برائیاں دور فرمادے اور یہ وہ شرائط ہیں جن کے پورا ہونے کے بعد وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتِ یہ حالت جب تک حاصل نہ ہو جائے ، یہ مقام جب تک حاصل نہ ہو جائے انسان ان جنتوں میں داخل ہونے کا اہل نہیں ہوتا جو جنتیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی معیت سے تعلق رکھتی ہیں چونکہ یہاں مضمون ہر جنت کا نہیں بلکہ ایسی جنتیں ہیں جن کا آنحضرت مے کی معیت کا ان کے ساتھ رہنے سے تعلق ہے.
خطبات طاہر جلد 14 900 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء چنانچہ فرمایا کہ وہ ان جنتوں میں کب داخل ہوں گے يَوْمَ لَا يُخْزِى اللَّهُ النَّبِيُّ وَالَّذِيْنَ امَنُوا مَعَه جس دن اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کو رسوا نہیں کرے گا اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے یا اس پر ایمان لائے دونوں معنی شامل ہیں.آنحضرت ﷺ اور مومنوں کے رسوا نہ ہونے کا مضمون یہاں بیان ہونا کوئی خاص معنی رکھتا ہے.مراد یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھی گندے ہوں تو ساتھیوں کی وجہ سے بعض دفعہ کسی کو رسوائی ملتی ہے.بچے خراب ہوں تو طعنے پڑتے ہیں ماں باپ کو کہ دیکھو تمہاری اولاد کیسی نکلی.بعض دفعہ ان کو نصیحت کرنے کی خاطر ، ان کو جھنجوڑنے کی خاطر کہا جاتا ہے صلى الله صل الله دیکھ نہیں تم کس ماں باپ کے بیٹے ہو.تو یہ مضمون ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ساتھ اس جنت میں دینے کے لئے تمہیں حقدار بنایا جائے گا تب تم داخل کیے جاؤ گے.اس کے بغیر تو رسول کریم ہے کے لئے ایک خفت کا مضمون پیدا ہو جائے گا کہ اپنی ذات میں ایسے کامل اور اتنے موثر اور ساتھ دیکھو کیسے لوگ پھر رہے ہیں.تو فرمایا اس دن وہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پھریں گے جن کو یہ تو بہ نصیب ہوگی جو اپنے آپ کو بے داغ کرنے کی کوشش کریں گے، اللہ کا فضل ان کو بے داغ کر دے گا ، ان کی کمزوریاں ان سے دور فرمادے گا.پھر جنت میں داخل کرے گا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی معیت اس شان سے عطا ہوگی کہ ان کا ساتھ محمد رسول اللہ لے کے لئے کسی شرم کا موجب نہ ہوگا.یہ وہ لوگ ہیں نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ ان کا نور ہے جو ان کے سامنے آگے آگے دوڑے گا اور ان کے داہنے ہاتھ بھی چلے گا.جہاں تک داہنے ہاتھ کا تعلق ہے یہ بھی ایک اہم مضمون ہے.دو جگہ قرآن کریم میں نور کے آگے چلنے اور داہنے ہاتھ چلنے کا ذکر ہے اور انسان تعجب میں مبتلا ہوتا ہے کہ بائیں ہاتھ کیوں نہیں.دراصل جس طرف انسان چلتا ہے اسی طرف کو روشن ہونا چاہئے کبھی آپ نے ٹارچ لے کر ایسا آدمی چلتا نہیں دیکھا ہوگا جو اپنے پیچھے ٹارچ مارتا ہو اور آگے چل رہا ہو.یہاں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ان کا ہر قدم نیکی کی طرف اٹھتا ہے اور ان کا داہنا ہاتھ نیکی کی علامت ہے تبھی مومنوں کو جو جنت کی خوشخبری ملے گی ان کو ان کی کتاب داہنے ہاتھ سے پکڑا ئی جائے گی یعنی نیکیوں کی کتاب ہوگی اور بایاں ہاتھ بدی کی علامت کے لئے ہے اس لئے بدوں کو ان کی کتاب بائیں ہاتھ سے پکڑائی جائے گی.پس جنت میں تو ہر قدم نیکی کی طرف اٹھنے والا ہے اور آگے بڑھنے والا ہے.
خطبات طاہر جلد 14 901 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء ان دو صورتوں کو نور کی دو طرفوں کے بیان سے ظاہر فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا قدم اب نیکی کی بجائے کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتا اور ان کی ہمیشہ پیش رفت رہتی ہے، ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.یہ قافلہ ہے اور یہ سفر ہو گا جنتوں کے اندر.اب یہ جو تصور ہے کہ جنت میں ایک دفعہ پہنچ گئے تو پھر رات دن کھایا پیا اور آرام فرمایا.کاؤ چوں پہ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہی منتی ہے اس تصور کو یہ آیت کلیپ جھٹلا رہی ہے.میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ جنت بھی لا متناہی ترقیات کی جگہ ہے جہاں ٹھہراؤ نہیں ہے کیونکہ ٹھہراؤ موت کا نام بھی ہے اور تنزل کا آغاز بھی ہے اور جنت کی زندگی میں نہ موت ہے نہ تنزل ہے.اس لئے لازم ہے کہ جنت میں ہر حال میں انسان آگے بڑھے اور دوسرا اس لئے بھی لازم ہے کہ جب تک تبدیلی نہ ہو اس وقت تک انسان لطف کو قائم نہیں رکھ سکتا.لطف آ بھی رہا ہو اور انسان ایک جگہ ٹھہر جائے تو وہیں وہ لطف جو ہے آہستہ آہستہ بدمزگی اور اکتاہٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے Boredom کہا جاتا ہے.بور ہو جاتا ہے انسان.تو حرکت میں اور تبدیلی میں وہ لذت ہے جو دائم رہتی ہے اور ہمیشہ آگے بڑھتی رہتی ہے.پس ایسی جنت جہاں ٹھہر جانا ہے وہ جنت تو کسی تمنا کے لائق نہیں ہے.فرمایا وہ کیا کہیں گے نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اے ہمارے رب ہمارے نوروں کو کامل کر دے.پس کمال نور ایک ایسی چیز ہے جس کا کوئی انتہا نہیں ہے کیونکہ نور کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی صلاحیت ہی کا نام نور رکھا گیا ہے اور چونکہ مقصود بے انتہاء ہے، اس کا کوئی منتہا نہیں ، اس لئے لازما یہ نور آگے بڑھے گا تو قدم خدا کی طرف بڑھیں گے.پس وہ جو پہلا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ان کے آگے بھی نور بھاگ رہا ہوگا ور ان کے دائیں طرف بھی اس منزل کے حصول کی خاطر جو لا متناہی سفر ہے لیکن ہمیشہ آگے بڑھنے والا ہے، ہمیشہ مزید نیکیاں کمانے والا ہے ، اس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یہ دعا سکھا دی گئی یا بتایا گیا کہ مومن جنت میں محمد رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ہمیشہ یہ دعا کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں گے رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا اے ہمارے رب ہمارے نور کو کامل فرما دے وَاغْفِرْ لَنَا اور ہمیں بخش دے إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ تو ہر چیز پر قادر ہے.صلى الله
خطبات طاہر جلد 14 902 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء اب جہاں تک بخش کا تعلق ہے یہ ایک چھوٹی سی الجھن باقی رہ جاتی ہے کہ جنت میں کون سے گناہ ہوں جن کی بخشش کی طلب ہے اور یہ مضمون آنحضرت ﷺ کی بخشش کی دعاؤں کا مضمون بھی کھول رہا ہے.بخشش گناہوں کی موجودگی کو نہیں چاہتی ، ضروری نہیں ہے کہ گناہ کے بغیر بخشش نہ مانگی جائے.بخشش میں کچھ اور بھی مضامین ہیں اور نور والوں کے تعلق میں بخشش اور معنے رکھتی ہے.وہ نور جو بھی تمام کو نہیں پہنچا جبکہ سفر کرنے والے بہت ہیں اور ہر ایک کے نور کی منزل الگ الگ ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ ہر شخص کو نو ر اس کی حسب استطاعت ملا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے کوئی حتمی فیصلہ ایسا نہیں فرمایا کہ جبر کسی کو کم دے دیا اور کسی کو زیادہ دے دیا.نور کے کم ہونے یا زیادہ ہونے کا تعلق اس شخص کی اپنی کمزوریوں سے ہی ہو سکتا ہے.ان سابقہ اعمال سے بھی ہوسکتا ہے کس کے نتیجے میں ان کی نورانی شکل بنی جس کے ساتھ وہ جنت میں سفر کریں گے.تو وہ دعا کریں گے وَاغْفِرْ لَنَا نور مانگنے کے بعد کہ ہمارا نور کامل فرما دے، ساتھ یہ دعا بھی ہوگی کہ اگر کامل نہیں ہوا تو کچھ ہماری اندرونی کمزوری رہ گئی ہے، کچھ ہماری جدو جہد میں کمی واقع ہوئی ہوگی ، کچھ ایسی بات تو ضرور ہے کہ ہمیں نسبتاً کم نور عطا ہوا ہے.پس وہ قافلہ جو ہے اس کا نور یکساں نہیں ہے اور ہر جو قافلے میں شامل انسان ہے اس کی دعا ان معنوں میں الگ الگ ہے اس کی بخشش کا مضمون بھی الگ الگ ہے.آنحضرت ملے کی بخشش کا مضمون بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس دنیا کی دعاؤں میں بھی گناہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا.بخشش دراصل وہ جو ہمارے اردو اور پنجا بیمیں کشیش کہا جاتا ہے اس سے بھی بخشش ایک تعلق رکھتی ہے کیونکہ غفران کا تعلق ایسی عطا سے ہے جس کا بندہ حق دار نہیں ہوا کرتا اور بے حق کے مانگتا ہے دور نہ گناہ گار کو کبھی بخشا جا ہی نہیں سکتا.گنہگار کی بخشش اس کے حق کی وجہ سے نہیں خالصہ عطا سے تعلق رکھتی ہے اور غالبا یہی وجہ ہے کہ پنجابی میں خصوصاً اور اردو میں بھی لفظ کشیش جگہ بنا گیا ہے کہ ہمیں بخشیش کر.تو مراد ایسی عطا ہے جس کے ہم ہر گز حق دار نہیں ہیں اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں عطا کر دے.تو میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی بخشش کی دعا ئیں اس مضمون سے تعلق رکھتی تھیں اور بھی مضامین ہیں لیکن یہ خصوصیت کے ساتھ میرے پیش نظر رہتا ہے اور یہاں جنت میں بخشش کی دعا مانگنا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ یہ استنباط غلط نہیں ہے کیونکہ جنت میں تو کوئی گناہ نہیں ہوں گے.داخل اس وقت کیا گیا جبکہ کمزوریاں بھی دور کر دی گئیں اور بخش بھی دیا صل الله
خطبات طاہر جلد 14 903 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء گیا، سابقہ گناہوں سے تعلق کاٹ بھی دیا گیا.تو اگر چہ یہ بھی انسان سوچ سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ ماضی کی ان کمزوریوں کا حوالہ دے رہے ہوں جن کے نتیجے میں ان کا نور مکمل ہونے میں کچھ کمی رہ گئی ہے یا نسبتا کمی رہ گئی ہے.مگر چونکہ اس قافلے کے قافلہ سالار حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جو آغا ز ہی سے نور بنائے گئے تھے اور پاک اور صاف اور ہر قسم کے عیوب کے داغ سے منزہ یہاں تک کہ کشفاً بچپن میں آپ کے دل کو دوبارہ بھی دھویا گیا یعنی تخلیق کے بعد بھی کشفی حالت میں فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے آپ کے دل کو دھویا.تو جس کو ایسی پاکیزگی اور ایسی عصمت نصیب ہواس کے تعلق میں جب بخشش کی دعا کے متعلق انسان سوچتا ہے تو ہرگز وہ مراد نہیں ہوسکتی جو عام دنیا کی فہم میں ہے.صرف ذنوب کی بحث باقی رہ جاتی ہے اس لئے میں نے کہا تھا یہ الگ وسیع مضمون ہے مگر جب محض بخشش کا لفظ آئے تو اس وقت میرے نزدیک بخشش سے مراد محض عطائے کامل ہے جس کا استحقاق سے کوئی تعلق نہیں اور یہاں ذنوبنا کو کوئی ذکر نہیں.ربنَّا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اے ہمارے رب ہمارے نور کو کامل فرما دے اور خواہ ہمیں استحقاق ہو یا نہ ہو کہ ہم اس منزل سے آگے بڑھیں تو ہمیشہ ہم سے ایسا بخشش کا معاملہ کر کہ تیری عطا، تیر رحم ہماری کمائیوں ،محنتوں اور کوششوں سے بالا ہو.اس سے مستثنیٰ اور بے نیاز ہو اور محض تیری طرف سے اترے اِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدیر تو اس چیز پر بھی قادر ہے یعنی ہر چیز پر قادر ہے تو چاہے تو اپنے بندے کو بے حساب دے دے، چاہے تو بندے کو بغیر حق کے دے دے.بے حد گناہ گار ہو اس کو بھی دھو دے اور پاک صاف کر دے.جب تیری ذات ایسی کامل اور ایسی مقتدر ہے ، ہر چیز پر تو قدیر ہے تو پھر ہما را دعا مانگنا بے محل نہیں ہے.اس نور کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس یا چند اور صلى الله اقتباس آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور آنحضرت میلہ کے نور کی مثال بننے کے لحاظ سے کچھ اور باتیں وضاحت طلب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور : 36) یعنی خدا اصل نور ہے.ہر ایک نور زمین و آسمان کا اسی سے نکلا ہے...“ یہاں اصل نور کا لفظ یہ ظاہر کرنے کی خاطر ہے کہ جہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بات
خطبات طاہر جلد 14 904 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء ہوئی تھی وہاں تو مَثَلُ نُورِ؟ فرمایا گیا تھا اور یہاں ساری کائنات کو اللہ کا نور کہہ دیا گیا ہے تو کہیں صلى الله کوئی یہ دھو کہ نہ کھالے کہ کائنات تو ساری کی ساری نور خدا ہے اور محمد رسول اللہ یہ صرف ایک مثال ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی لفظ بھی ضرورت سے زائد نہیں رکھتے اور جولا زم ہیں وہ ضرور رکھتے ہیں.اس لئے آپ نے فرمایا کہ یہاں اصل کا لفظ حذف ہے.مراد یہ ہے کہ دراصل اللہ ہی نور ہے اور جو کچھ تمہیں دوسری صورتیں دکھائی دیتی ہیں وہ اس کے نور کا پر تو ہے....ہر ایک نور زمین و آسمان کا اسی سے نکلا ہے پس خدا کا نام استعارہ پتا رکھنا ( جیسے باپ کہا گیا ہے بائبل میں ) اور ہر ایک نور کی جڑ اسی کو قرار دینا اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانی روح کا خدا سے کوئی بھاری علاقہ 66 ہے...(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 387،386) یعنی روح انسانی کا خدا تعالیٰ سے کوئی ایسا رشتہ ہے جس کو لفظ نور کے اشتراک سے ظاہر فرمایا گیا ہے.وہی نور انسان کی روح کی صورت میں جلوہ گر ہوا ہے کیونکہ اس روح نے بالآخر اللہ کے نور کی طرف حرکت کرنا تھی یہ مراد ہے اور خدا کا نور جب کہا جاتا ہے تو کیا مراد ہے؟ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ فرماتے ہیں ان الله لا ينام صحیح مسلم کتاب الایمان سے حدیث لی گئی ہے جس کا عنوان ہے اللہ تعالیٰ یقینا نہیں سوتا.عن ابي موسى قال قام فينا رسول الله الله بخمس كلمات “ پانچ باتوں صلى الله کے لئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوے یعنی پانچ باتیں بیان فرماتے ہوئے فقال ان الله عز وجل الاينام ولا يبتغى له ان ينام که یقینا اللہ تعالیٰ صاحب عزت و جلال نہیں سوتا نہ ہی اسے زیبا ہے نہ اس کی شان کے مطابق ہے کہ وہ سوۓ یــخــفــض القسط و یرفعہ وہ تکڑی کے پلڑوں کو نیچا بھی کرتا ہے اور اونچا بھی کرتا ہے.قسط معنی انصاف.تو مراد ہے کہ تکڑی کے دو پلڑے ہوتے ہیں کوئی پلڑ انیچا ہو جاتا ہے کوئی اوپر چلا جاتا ہے.مفسرین کہتے ہیں یہاں مراد ہے کہ اعمال کا وزن کرتا ہے وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کے اعمال ہلکے ہیں اور کس کے بھاری ہیں، کس کے قابل قدر ہیں کس کے رد کے لائق ہیں و یرفع اليه عمل الليل قبل عمل النهار پیشتر
خطبات طاہر جلد 14 905 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء اس کے کہ دن کے اعمال شروع ہوں رات کے اعمال کا حساب لے لیا جاتا ہے.یعنی یہ خیال بھی پوری طرح ایک معاملے کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے کہ صرف آخرت کے دن ہی حساب کتاب ہوگا.وہ حساب کتاب ہو چکا ہو گا صرف اس کے نتیجے ظاہر کئے جائیں گے.حساب کتاب تو روز روز ساتھ ساتھ ہورہا ہوتا ہے ، اسی حساب کتاب کے نتیجے میں ہماری روح، جہنمی بن رہی ہوتی ہے یا جنتی بن رہی ہوتی ہے.پس سَرِيعُ الْحِسَابِ ( البقرہ : 203) کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ انتظار نہیں کرتا بہت لمبے عرصے ، حساب کا، ساتھ ساتھ ایک حساب کا نظام جاری و ساری ہے اور انسان کی روح پر نیک اثرات بھی مرتب ہو رہے ہوتے ہیں ، بداثرات بھی مترتب ہو رہے ہوتے ہیں اور جو اس کا عمل ہے وہ اپنے ساتھ نتیجے پیدا کرتے چلا جاتا ہے.پس وہ تکڑی کے دو تھال ہیں جس کے اوپر وزن رکھا جاتا ہے مراد یہ ہے کہ ان کو نیچا بھی کرتا ہے اور اونچا بھی کرتا ہے.ارادہ نہیں بلکہ فیصلہ فرماتا ہے ایسا کہ جن کے نتیجے میں بعض اعمال بے وزن دکھائی دینے لگتے ہیں اور بعض اعمال با وزن دکھائی دینے لگتے ہیں اور اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ ہر رات کی صف لپیٹنے کے ساتھ ہی اس رات میں جو بھی اعمال ہوئے ہیں ان سب کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ یہ اعمال کس نوعیت کے تھے، کیا ان کی حیثیت ہے، ایسا کرنے والے سے کیا سلوک ہونا چاہئے اور ساتھ ہی دن کے اٹھنے سے پہلے دن کے حسابات بھی سارے طے ہو چکے ہوتے ہیں.پھر فرمایا حجابهم نور اس کا حجاب نو ر ہے یعنی لوگوں کے حجاب تو نور کو چھپانے کے لئے جیسے ہوتے ہیں ورنہ جو لوگ چھپنا چاہیں وہ اگر حجاب کے بغیر رہیں گے تو ننگے ہو جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ نے نور کا حجاب اوڑھا ہوا ہے، عجیب مضمون ہے لوگ نور چھپانے کے لئے حجاب استعمال نور کا حجاب اوڑھا ہوا ہے.اس کا حجاب ہی نور ہے.پس جدھر تم دیکھو گے خدا کا نور دکھائی دے گا اور یہ وہ مضمون ہے جو کائنات پر نظر ڈالنے میں ایک نیا رنگ پیدا کر دیتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جدھر بھی دیکھو اسی طرف خدا کا نور دکھائی دیتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ نظم چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا (درشتین: 10)
خطبات طاہر جلد 14 906 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء یہ حجاب کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں اور پھر ساری نظم نور ہی کی نظم ہے اور سب حجاب کی باتیں ہیں پر حجاب پر غور کرو تو وہ حجاب نور دکھائی دے رہا ہے حالانکہ ہے حجاب.پس اللہ تعالیٰ کا جونور ہے وہ ایک ایسا حجاب ہے یا اللہ کا حجاب ایسا نور ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ نور ہوتا ہے اور خدا نہیں کیونکہ خدا اس نور کے پردے کے پیچھے ہے.پس ہر چیز جو نور دکھائی دیتی ہے وہ ایک پردہ ہے اور جو پردہ زیادہ لطیف ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کے پر لی طرف خدا دکھائی دے گا.ان معنوں میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پردہ کیونکہ سب سے زیادہ شفاف تھا اس لئے فرمایا گیا کہ وہ مثال ہے اللہ کے نور کی.اگر قریب تر کوئی چیز دیکھنی ہے تو اس پر دے کو دیکھو اس میں سے خدا کے نور کی زیادہ جھلکیاں دکھائی دیں گی.ورنہ ہر دوسرا پر دہ جونسبتا کثیف ہے وہ اتنی زیادہ شان کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ خدا کے نور کو ظاہر نہیں کر سکتا.پھر فرمایا نور کا حجاب خدا نے کیوں اوڑھا ہوا ہے.لو كشفه لا حرقت سبحات وجهه ما انتهى اليه بصره من خفته اگر خدا اپنے نور کا پردہ اٹھا دے تو اس کے چہرے کے جلوے، اس کی سبحات ، اس کی جھلکیاں ہیں وہ حد نظر تک ہر مخلوق کو مٹاکر ، جلا کر رکھ دیں، کوئی بھی چیز اس کو دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور ہر چیز جل کر خاک ہو جائے.اس لئے یہ پردہ محض ایسے حجاب کے طور پر نہیں کہ کوئی انسان اپنے عاشق سے چھپنا چاہتا ہے اور پوری طرح کھلے دل کے ساتھ اپنے محبوب کو نظارہ نہیں کروانا چاہتا یہ اور معنی رکھتا ہے.یہ معنی رکھتا ہے کہ اے میرے عاشق میں تجھ سے اتنا پیار کرتا ہوں کہ تجھے ہلاک نہیں کرنا چاہتا، تجھے اپنا اتنا ہی نظارہ دکھاؤں گا جتنا تجھے برداشت کرنے کی استطاعت ہے.اس سے اگر آگے دکھایا تو پھر یہ مجھ پر ظلم ہوگا.دیکھنے والا ہی کوئی باقی نہیں رہے گا.پس حضرت موسیٰ سے جو طور پر سلوک ہوا تھا وہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کنجوسی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے.خدا تعالیٰ تو ہر ایک کو اپنا وجود دکھانا چاہتا ہے مگر اس کا نور یا اسکی ذات جو ہے وہ ایک نا قابل فہم جلوہ ہے.ہمارے لئے جس تک ہمارے تصور کی بھی رسائی نہیں ہے جس کا پردہ جگمگا اٹھے ایک یہ بھی معنی ہے " حجابه النور‘ کہ اس کا پردہ تو ہر جگہ جگمگا رہا ہے وہ خود کیا ہوگا.جدھر بھی نظر ڈالو وہاں اس کی روشنی دکھائی دیتی ہے لیکن نظر میں نور ہو تو دکھائی دیتی ہے اگر نظر میں نور ہو تو کائنات کے ذرے ذرے میں اتنا نور دکھائی دیتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 907 کیا عجب تو نے ہر اک ذرے میں رکھے ہیں خواص خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء (در مشین : 10 ) کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتران اسرار کا تو نے کیسے عجیب خواص ہر ذرے میں رکھ دیئے ہیں ہر ایٹم میں ہر چھوٹی چیز میں ” کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتران اسرار کا کہ ایک ذرے پر بھی نظر ڈال کے دیکھو تو اس کے اندر ایک اسرار کا عالم ہے.کون ہے جو اس سارے عالم پر محیط ہو سکے اور سب کا نظارہ کر سکے.اور یہ بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی اس وقت تک ایٹم کی توانائی اور اس کے اسرار کی بات لوگ سنتے نہیں تھے.ابھی یہ بات عام گفتگو میں داخل ہی نہیں ہوئی تھی.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کے نور سے دیکھ رہے تھے اس لئے آپ نے اس حقیقت کو جان لیا یعنی قرآن کے نور سے اور محمد اللہ کے نور سے کہ خدا نے جو کچھ بھی پیدا کیا اس کا ذرہ ذرہ ایک نور ہے جو خدا کا حجاب ہے اور حجاب کا نور ہونا میرے نزدیک یہی معنی رکھتا ہے جو اس کے پیچھے ہے اس سے چمک رہا ہے اور کثیف سے کثیف بھی ہو تو جو اس کے پیچھے جلوہ گر ہے اتنی شان کا جلوہ گر ، اتنی قوت سے جلوہ گر ہے کہ ہر حجاب اس کے چہرے کا نور بن گیا ہے.پس اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں تو بے اختیار کہتے ہیں ”کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا اور یہی مضمون ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا.حجابه النور تو اس کے چہرے کا نقاب ہے.لو کشفہ اگر وہ اپنا چہرہ دکھا دے لا حرقت سبحات وجهه ما انتهى اليه بصره من خلقہ تو اس کے چہرے کا جلال اور اس کی چمک دمک اس کا جلوہ تا حد نظر ہر مخلوق چیز کو جلا کر رکھ دے.پھر صحیح بخاری میں ایک اور بڑی حدیث ہی بہت گہری اور آسمانوں کی سیر کرانے والی ہے مگر اس کا جس کا نور سے تعلق یہ حدیث بھی ایک خاص لطف اپنے اندر رکھتی ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبه با لیل‘اس کا ترجمہ میں آپ کے سامنے پڑھ کر سنا دیتا ہوں.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی خاله ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ہاں رات بسر کی.رسول اللہ ﷺ نے رات کو اٹھ کر وضو کیا اور نماز تہجد ادا کی اور آپ یہ دعا پڑھتے تھے اے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر
خطبات طاہر جلد 14 908 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء دے اور میری آنکھوں میں نور اور میرے کانوں میں نو ر اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور کر دے اور مجھے نور بنادے.اب یہ جو حدیث ہے یہ اس لئے میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اس سے بعض جو سرسری نظر سے دیکھنے والے ہوں ان کے لئے غلط نبی پیدا ہوسکتی ہے.آنحضرت ﷺ کو مَثَلُ نُورِ؟ قرار دے کر پھر جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ تو حیرت انگیز ہے کہ آسمان سے شعلہ نور نہ بھی اترا تو یہ از خود بھڑک اٹھنے کے لئے تیار تھا پھر یہ دعا کیا معنی اور پھر قرآن کریم میں جو خوشخبری دی گئی ہے نور کی اس کے دائیں طرف چلنے کا ذکر ہے اور یہاں بائیں طرف بھی نور مانگا گیا ہے اور انسان پیچھے کی طرف تو نہیں جایا کرتا ، پیچھے بھی نور مانگا گیا ہے تو اس حدیث کے حوالے سے ان اطراف کا کیا معنی ہے اور اس دعا کا کیا مقصود ہے.فرمایا اے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر دے.اب آپ کا دل تو نورالہی کا تخت گاہ تھا اور منور اور روشن دل تھا ” پیدا کر دے سے کیا مراد ہے؟ در حقیقت یہ وہ نور ہے جو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جس کی انتہا کوئی نہیں ہے جو بڑھنے والا ہے.اس دعا میں دو باتیں ہیں جو بالکل واضح ہیں اول یہ کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مقام انکسار دکھایا گیا ہے.دوسرا مقام عرفان بتایا گیا ہے.انکسار اس پہلو سے کہ جس کو خدا تعالیٰ یہ خوشخبری دے کہ اول ما خلق الله نوری آپ فرماتے ہیں مجھے جو خدا نے بتایا ہے اس لحاظ سے خدا نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا.جس کو یہ خوشخبری مل چکی ہو جس کو خدا کے نور کی مثال قرار دیا گیا ہو اور جس کو آسمان سے اترنے والا نور قرار دیا گیا ہو جس کے ساتھ قرآن کا نورا ترا وہ یہ کیا کہ رہا ہے کہ اے خدا میرے دل میں نور رکھ دے.اس کا مطلب واضح ہے کہ آپ انکسار کے بھی انتہائی مقام پر تھے اور عرفان کے بھی انتہائی مقام پر تھے.آپ جانتے تھے کہ نور کے عطا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پورا خدا مل گیا ہے یا خدا کے نور کی انتہا کسی کو عطا ہوسکتی ہے.آپ بندے کا مرتبہ سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ یہ نسبتی باتیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کا سفر لامتناہی ہے، کبھی ختم ہونے والا نہیں اور خدا سے نور اس طرح مانگوں جیسے جھولی خالی ہو.یہ انکسار کا بھی کمال ہے اور عرفان کا بھی کمال ہے.رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرِ فَقِيرُ (القصص: 25) میں جس طرح ایک خالی جھولی والا فقیر بن کر حضرت موسی نے دعامانگی تھی آپ نے یوں دعامانگی گویا میں تو
خطبات طاہر جلد 14 909 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء نور مانگ رہا ہوں مجھے تو نور نہیں ملا بھی نہیں ملا کا لفظ نہیں ہے لیکن دعا کی طرز یہ ہے اللہ میرے دل میں صلى الله نور پیدا کر دے.دوسرے اس میں یہ مضمون ہے کہ نور کی عطا کے ساتھ نور کی پیاس بجھ نہیں جایا کرتی بلکہ بڑھ جایا کرتی ہے اور وہ سب جاہل جو کہتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ پا لیا.ہمیں اللہ سے مل گیا ، وحی نازل ہوگئی ، بیل گیا ، وہ مل گیا.ان سے بڑا بے وقوف دنیا میں کوئی نہیں کیونکہ جس کو سب سے زیادہ ملا اس نے ایسے جھولی پھیلائی جیسے خالی ہو.اس نے تو ایسے ہاتھ بڑھایا جیسے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا تو مراد یہ ہے کہ دینے والے کی عطالا متناہی ہے اور ہر عطا کے بعد اور مانگو اور مانگو اور مانگو.یہی وجہ ہے کہ جنت کے سردار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ جنت میں اس طرح آگے بڑھتا ہوا دکھایا گیا ہے کہ منہ پر یہی دعا تھی رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا - رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا اے ہمارے رب ہمارا نور تمام کر دے.مکمل کر دے تو وہی دعا جو آپ نے جنت میں کرنی تھی یہ وہی مضمون ہے اس دنیا ہی سے اس کا آغاز ہو چکا تھا.آپ فرماتے تھے کہ اے میرے رب میرے دل میں نور پیدا کر دے یعنی اتنا لطف آیا ہے پہلے نور سے اس کے باوجود بھوک نہیں مٹی اور مزید کی طلب پیدا ہوگئی ہے پس پیدا کر دے سے مراد ہے نیا اور نور عطا کر دے یہ مراد ہے نہ کہ واقعہ ایک خالی دل ہو.پس یہ دعا کے بھی انداز ہیں اور انکسار کے بھی اور معرفت کے یہ خاص انداز ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے سیکھے اور ہمیں سکھائے.فرمایا میری آنکھوں میں نور اور میرے کانوں میں نو ر اور آنکھوں کا نور نہیں تھا تو دیکھا کس طرح پھر.آنکھوں کا نور تھا اور اتنا تھا کہ دنیا میں کسی کو وہ نور عطا نہیں ہوا کیونکہ آنکھ کے نور کے نتیجے میں انسان آسمانی نور کو دیکھ سکتا ہے اور سب سے زیادہ نورالہی کے جلوے ، نورالہی ذات میں تو کسی کو دکھائی دے نہیں سکتا.اس کی تجلیات آپ نے دیکھی تھیں.ابھی آنکھوں کی حرص بھی پوری نہیں ہوئی اور ایک ایک عضو کر کے بتایا جا رہا ہے اس میں محبت کی انتہا بھی دکھائی دیتی ہے.اتنا پیار ہے اللہ کے نور سے کہ ایک ایک عضو کے لئے الگ الگ جھولی پھیلائی جا رہی ہے، ہاتھ اٹھایا جارہا ہے ، اے اللہ مجھے تجھ سے اتنا پیار ہے کہ میرے دل میں نور پیدا کر دے.میری آنکھوں میں نور عطا کر دے اور میرے کانوں میں نور، میرے کان کیوں محروم رہیں ان کو بھی نور کی بھیک عطا کر اور میرے دائیں بھی
خطبات طاہر جلد 14 910 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء نور عطا کر اور میرے بائیں بھی نور عطا کر دے.یہاں نیکی اور بدی والا مضمون نہیں ہے.یہاں محبت کی انتہا کا مضمون ہے کہ مجھے غرق کر دے اپنے نور میں.میری ہر طرف نور سے روشن ہو جائے اور ان معنوں میں کہ بائیں طرف بھی نیکیوں کی آماجگا بن جائے.یہ دعا اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری رگوں میں بھی تمہاری رگوں کی طرح شیطان دوڑا کرتا تھا یعنی دوڑتا ہے طبعا لیکن وہ مسلمان ہو چکا ہے وہ کلیہ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر چکا ہے تو بائیں طرف سے ہمیشہ شیطان حملے کرتا ہے اور عموماً نور کا تعلق ان معنوں میں دائیں طرف سے رکھا جاتا ہے.مگر جہاں محبت کا مضمون ہو جہاں عشق کی انتہاء ہو اور انسان یہ کہنا چاہے کہ اے خدا مجھے اپنے نور میں غرق کر دے وہاں بائیں طرف بھی نور مانگا جاتا ہے اور یہ نو ر آپ کو عطا ہو چکا تھا کیونکہ آپ ہی نے تو فرمایا ہے کہ میرا شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے.وہ بھی بدی کی طرف نہیں بلکہ نیکی کی طرف ہدایت دے رہا ہے، میرانفس امارہ بھی گویا نیکی کی تعلیم دینے والا بن چکا ہے.پس یہ مضمون ہے جس میں وہ مضمون جو میں نے پہلے بیان کیا تھا چونکہ وہ مراد نہیں ہے اس کا زاویہ مختلف ہے اس لئے تصادم نہیں ہے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ ایک اور انداز نور مانگنے کا اور نور کے معنوں کا اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور بھی وہی غرقابی کا مضمون اور غرق ہو کے انسان تہہ تک تو پہنچ جایا کرتا ہے مگر اس چیز کی تہہ جس کی کوئی تہہ ہو.وہ سمندر جو اتھاہ ہو، جس کی کوئی تہہ موجود نہ ہو، جس کا نہ دائیں کنارہ نہ بائیں ، نہ آگے نہ پیچھے، نہ اوپر نہ نیچے ، اس میں یہی دعا ہے جو موزوں دکھائی دیتی ہے اور بعینہ یہی ہونی چاہئے تھی مگر صاحب عرفان کے لئے.فرمایا میں تجھ میں ڈوبتا چلا جاؤں لیکن ہمیشہ میرے نیچے تو رہے گا میں کبھی بھی تیری آخری حد کو نہیں پہنچ سکتانہ او پر نہ دائیں نہ بائیں، نہ آگے نہ پیچھے ہر طرف تو ہی تو ہو اور پھر بھی سفر جاری رہے.سفر جاری ہونا اس دعا سے ظاہر ہے یعنی میں دعا مانگ رہا ہوں ، مانگتا چلا جاؤں گا اور اس مضمون کو میرے لئے تو کامل فرما تا چلا جا اور پھر فرمایا مجھے نور بنا دے حالانکہ نور بن چکے تھے.پس جو نور بن چکا ہو وہ کہتا ہے مجھے نور بنادے اس میں وہی مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.نور بننے کے بعد آپ کی طبیعت کا انکسار بھی اس نور سے چمک اٹھا ہے.طبیعت کا جو انکسار ہے یہ بعض دفعہ اندھیروں کی وجہ سے ہوتا ہے بعض دفعہ روشنی کے نتیجے
خطبات طاہر جلد 14 911 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء میں.اندھیروں کے نتیجے میں تو انسان کو اپنی جہالت میں اپنا پتا ہی کچھ نہیں اور اس وجہ سے بعض دفعہ منکسر ہو جاتا ہے اور یہ بات اندھیروں کے انکسار کی ایک تمثیل کی صورت میں بتائی گئی ہے کہ ایک دفعہ ایک شیر کو بھیڑوں کے گلے میں پالا گیا تو وہ بے چارہ اپنے آپ کو بھیڑ ہی سمجھا کرتا تھا اور ہر کتے کے بھونکنے سے ڈر جایا کرتا تھا ، حالانکہ تھا شیر.تو انکسار وہ کوئی نیکی کا انکسار نہیں تھا وہ جہالت کا انکسار تھا.اپنے نفس کی معرفت نہیں تھی اس کو کہ میں کون ہوں یہاں تک ایک دفعہ واقعہ ایک شیر گر جاہے تو اس کے اندر کا شیر بھی جاگ اٹھا اور پھر وہ پلٹتا ہے اس کے اوپر حملہ آور ہوکر تو سارے گلے کی حفاظت کا موجب بن گیا.تو ذات کا عرفان نہ ہونے کے نتیجے میں بعض دفعہ انسان اپنی عظمت سے محروم رہ جاتا ہے.بعض دفعہ اپنی اصل حقیقت سے محروم ہو جاتا ہے اور جو دوسرا عرفان ہے وہ انکساری پیدا کرتا ہے لا علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ پھر کچھ جاننے کے باوجود انسان سمجھتا ہے میں تو کچھ بھی نہیں.جو کچھ وہاں سے ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے وہ مکمل ہوہی نہیں سکتا کیونکہ ذات لا محدود ہے.جس کے اندر لامتناہی عطا کی قوتیں موجود ہوں اس سے ایک گھونٹ مانگ بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑے گا.اگر سمندر بھی مانگ لو گے تو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تمہارا جو ظرف ہے وہ تو محدود ہے مگر عطا کرنے والا محدود نہیں ہے.پس اس سے مانگو ، اس میں ایک اور مضمون جو محمد رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا ظرف بھی بڑھ رہا تھا اور جتنا خدا تعالیٰ کا نور آپ پر جلوہ گر ہورہا تھا آپ کے ظرف کی توفیق بڑھتی چلی جارہی تھی.سیرابی کی کوئی ایسی منزل نہیں آئی جس میں آپ نے سمجھا ہو کہ جتنا سما سکتا تھا سا چکا ہوں بس اب اس سے زیادہ میں سمیٹ نہیں سکتا.ورنہ ایک پیالی کو آپ سمندر میں ڈبوئیں اور پھر وہ پیالی اور پانی مانگے تو بالکل بے معنی بات ہے.وہ پیالی ڈوبے گی.جتنا بھرنا تھا بھر گئی پھر جب تک وہ الٹے نہ ایک دفعہ اور پانی مانگ نہیں سکتی اور خدا کا نور کب الٹا دیا جاتا ہے وہ تو ہمیشہ کے لئے ساتھ چمٹا کے رکھا جاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کا ظرف ہمیشہ تدریجا ترقی کر رہا تھا.جتنا نور عطا ہوتا تھا ظرف بڑھ جاتا تھا اور یہی اہل جنت کی دعا کا مفہوم ہے جو اس مثال سے میں نے آپ پر کھولا ہے.اہل جنت جو یہ دعا مانگیں گے کہ اے خدا ہمارے آگے بھی نور کر ہمارے دائیں بھی نور کر اور ہمارے نور کو تمام کر الله دے کامل کرتا چلا جا.یہ مراد ہے سب کچھ عطا ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ ان کے ظرف بڑھاتا رہے
خطبات طاہر جلد 14 912 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء گا.ان کی پیاس پہلے سے زیادہ کرتا چلا جائے گا اور یہ لا متناہی سفر جو ہے وہ چونکہ ہمیشہ نئی منزلوں کی طرف ہے، نئے نئے حسن کے نظاروں کی طرف ہے اس لئے کبھی بور نہیں ہوسکتا.خدا کے حجاب میں بھی ایسا حسن ہے کہ اس کے سفر میں اگر آپ حرکت میں رہیں اور ایک حجاب سے دوسرے حجاب کی طرف منتقل ہوتے رہیں تو ساری زندگی یہ سفر کریں کبھی ایک لمحہ بھی اکتانے کا نصیب ہو نہیں سکتا، کبھی آپ اکتاہٹ محسوس نہیں کر سکتے.اور یہ مضمون اسی آیت کی طرف پھر اشارہ کرتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ الَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ (الرحمن : 31،30) دیکھو خدا تمہاری خاطر کیسے کیسے جلوے دکھاتا چلا جا رہا ہے ، ہر لمحہ اس کی شان بدلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے حالانکہ وہ بدلتا نہیں ہے.پس دیکھو تو سہی اپنی آنکھیں پیدا کرو اس کے حسن کے نظارے کی پھر یہ تمہاری زندگی کا تمام سفر حسن کا سفر ہو جائے گا اور کبھی ایک لمحہ کے لئے تم اکتا نہیں سکتے ، بور نہیں ہو سکتے.پس یہ سفر ہے جو اس دنیا میں ہمیں کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے اور پھر جنت کے سفر کی اہلیت عطا ہوگی اور اس شرط کو یا رکھو کہ جنت میں کوئی ایسا شخص حضرت محمد ﷺ کی معیت میں چلنے کی توفیق نہیں پائے گا جو آپ کے لئے کسی پہلو سے بھی ندامت کا موجب بنتا ہو.جو ندامت کے موجب بنتے تھے دنیا میں ہی وہ اپنی معافیاں مانگ چکے ہوں گے.تب ایسی جنت میں داخل کیے جائیں گے جو کمزوریاں اور داغ رکھتے تھے دنیا میں تَوْبَةً نَصُوحًا کے ذریعے وہ کمزوریاں اور داغ دھونے کے فیصلے کر چکے ہوں گے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو دھو ہو چکا ہوگا.اس لئے ایسی موت مانگو جس موت سے پہلے یہ سارے مراحل طے ہو چکے ہوں اور کوئی ایسی کثافت اپنے ساتھ لے کر ہم اس دنیا میں نہ جائیں جو ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کی معیت سے اس لئے محروم کر دے کہ ہمارا ساتھ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے کسی پہلو سے ندامت کا موجب ہو.یہ نور ہے اور یہ نور کا سفر ہے جسے سمجھنا چاہئے ، جس کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور جس طرح آنحضور ﷺ نے اپنی دعا کے ذریعے ہمیں اس نور کے مانگنے کے انداز سکھائے اور نور عطا ہو جانے کے باوجود پھر مزید طلب کی حکمت بھی ہمیں سمجھا دی اور خود ہمیشہ اس کی لامتناہی طریق پر طلب کرتے چلے گئے.کبھی نہ تھکے نہ ماندہ ہوئے.یہ مضمون بھی سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ نور کے سفر
خطبات طاہر جلد 14 913 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء میں بعض دفعہ نور ہی ظلمات میں انسان کو غرق کر دیا کرتا ہے.ایسے شخص کا نور جس میں تکبر پایا جائے ، جس میں محمد رسول اللہ ﷺ کا انکسار نہ ہو اس کا نور بسا اوقات اس کو ہلاکت میں مبتلا کر دیتا صلى اللهم ہے.ایسے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے جس سے نکلنا اس کے بس میں نہیں رہتا بلکہ اس میں ہمیشہ رہنا اس کی تقدیر بن جایا کرتا ہے.پس نور کا حصول خود بھی تو خطرات کا ایک مضمون ہمیں دکھا رہا ہے.ایک خطرات سے پر رستہ بھی دکھا رہا ہے اور یہ نور ہو تو دکھائی دیتے ہیں اور جب نو ر اس درجہ روشن ہو جائے کہ وہ اس رستے کے نقصان اور خطرات بھی دکھانے لگے تو پھر بخشش کی ایک بے ساختہ دعا ہے اور ان معنوں میں حصول نور کے بعد پھر بخشش کی دعا آتی ہے.پس اپنے لئے نور بھی مانگتے چلو اور بخشش بھی مانگتے چلو اور اس کامل انکسار کے ساتھ آگے بڑھو جہاں ہر منزل کا حصول تمہیں اوپر کے رستوں کو دکھا کر اپنے آپ کے اندر ایک ادنیٰ ہونے کا احساس تو پیدا کرے ، نیچے کی طرف دکھا کر تکبر پیدا نہ کرے.اللہ کرے کہ ہمیں حضرت محمد رسول اللہ ہے جیسے کامل رہنما کے پیچھے چلنے کے انداز عطا ہوں.وہ اسلوب عطا ہو جائیں جو خود اس کامل رہنما ہی نے ہمیں سکھائے ہیں.اللهم صل على محمد و علی محمد و بارک وسلم انک حمید مجید.
خطبات طاہر جلد 14 914 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 1995ء
خطبات طاہر جلد 14 915 خطبہ جمعہ 8 رو سمبر 1995ء جو تعلق نیکی سے باندھا جائے ، حضرت اقدس محمد مصطفی علی لالی سے قائم کیا جائے وہ نور سے تعلق قائم کرنا ہے.( خطبه جمعه فرموده 8 دسمبر 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبے میں میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس سے استنباط کرتے ہوئے میں نے یہ گزارش کی تھی کہ ان میں آنحضرت ﷺ کے نور ہونے کے مضمون کو صفات کی صورت میں پیش فرمایا گیا ہے اور ایک ایک کر کے ان تمام صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اس مضمون کی مناسبت سے آپ نے پیش فرمائیں اور کہا کہ تمام صفات کا مجموعہ محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ نور ہے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے نور کی مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے.میں نے یہ اشارہ کیا تھا کہ باقی آئندہ انشاء اللہ آئندہ خطبات کے سلسلے میں ان تمام صفات کا ذکر کر کے ان کی وضاحت کروں گا لیکن جب میں نے دوبارہ غور کیا تو مجھے خیال آیا کہ دراصل یہ تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مکمل بیان بن جائے گا اور ایک لمبا سلسلہ خطبات کا سیرت کے بیان پر وقف ہو تب جا کر یہ بات ختم ہو سکتی ہے کیونکہ کان خلقه القرآن (مسند احمد بن حنبل جلد ۸ حدیث نمبر: ۲۵۱۰۸) جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ آپ کا خلق تو قرآن تھا اور قرآن کو بھی اللہ نے اپنا نور قرار دیا ہے اور آنحضرت ﷺ کو بھی نور قرار دیا ہے.پس تمام قرآن کے حوالے سے سیرت طیبہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ نے جس شان سے جلوہ گری کرتی ہے وہ مضمون تو عام حالات میں
خطبات طاہر جلد 14 916 خطبہ جمعہ 8 رو سمبر 1995ء انسان کے احاطہ تصور میں بھی نہیں آسکتا مگر جب غور کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ ملتا ہے اور غور کرو اور محنت کرو تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کچھ نہ کچھ عطا فرما دیتا ہے.پس اس پہلو سے اس وقت اس مضمون کا میں صرف اشارہ ہی ذکر کر سکتا ہوں.آئندہ کبھی توفیق ملی اور آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مضمون کو بطور سیرت کے خطبات میں بیان کرنے کا موقع ملا تو پھر انشاء اللہ اس مضمون کو وہاں اٹھاؤں گا.سیرت کے بغیر تو کوئی بات ہوتی ہی نہیں اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں کہہ رہا ہوں کہ میں سیرت کا بیان اب نہیں کر رہا آئندہ کروں گا.میری مراد صرف اتنی ہے کہ سیرت کے عنوان کے تابع آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ پر بات کرنا ایک بہت ہی لمبی محنت کا تقاضا کرتا ہے اور بہت ہی لمبے سلسلہ خطبات کا تقاضا کرتا ہے.مگر ویسے جو بات بھی کی جائے اس میں سیرت طیبہ کا حوالہ تو لازم ہے کیونکہ آنحضرت کی صفات حسنہ کے بغیر تو کوئی بھی انسانی زندگی کا مضمون مکمل ہو ہی نہیں سکتا خواہ زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو.پس اس وضاحت کے بعد اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی حوالے سے اس مضمون کا خلاصہ پیش کر دیتا ہوں جو پچھلے خطبہ میں بیان کیا.یعنی اگر نور کا لفظ سمجھنا ہے تو صلى الله سیرت طیبہ کے ہر پہلو کو دیکھو.اس سیرت طیبہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا ہر پہلو اپنا ایک نور کا رنگ رکھتا ہے مگر دوسرے پہلو کے مقابل پر جدا بھی دکھائی دیتا ہے اور ایک تیسرے پہلو کے مقابل پر پھر اس سے اور الگ دکھائی دیتا ہے لیکن اپنی ذات میں ہر ایک نور ہے اور جب ان سب کا اجتماع ہوتا ہے، یہ نور ایک مشعل میں اکٹھے ہو جاتے ہیں تو پھر جو روشنی پیدا ہوتی ہے وہ ان نوروں کے اجتماع سے پیدا ہوتی ہے اور آخری صورت کو نور کہا جاتا ہے.پس کسی کا نوراگر روشن ہونا ہوتو صفات اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اپنی ذات میں جاری کرنے اور اسے اپنانے سے ان سے محبت کرنے اور انہیں گلے اور سینے سے لگانے سے ہی پیدا ہو سکتا ہے مگر یہ باتیں انشاء اللہ اس خطبے کے دوران یا بعد میں اور مواقع پر انشاء اللہ کچھ نہ کچھ پیش کرتا رہوں گا.خلاصہ یہ ہے: آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتلایا ہم نے ( در مشین : 16) اسلام ہی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تم نور خدا پاؤ گے
خطبات طاہر جلد 14 917 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء اور اسلام اور آنحضرت ﷺ کے عشق میں لکھی ہوئی یہ نظم دو الگ الگ چیزوں کے طور پر پیش نہیں کرتی.آنحضور اور اسلام کے حوالے آپس میں اس طرح مل گئے ہیں کہ ایک ہی وجود کے گویا دو نام رکھ کر بات کی جارہی ہو، فرماتے ہیں: آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے (در نمین: 16) پس وہ روشنی جس کی بات میں کر رہا تھا اب پھر کر رہا ہوں وہ تمام صفات حسنہ سے محبت اور تمام صفات حسنہ کو اپنانا ہے.یہ نہیں آپ کہہ سکتے کہ کچھ صفات ہم چھوڑ دیں گے تو ہم وہ مثال بن جائیں گے جس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے.اس مثال میں تمام صفات میں سے کچھ نہ کچھ پانا لازم ہے اور اس کے بغیر معہ“ کا مقام عطا نہیں ہوسکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جونور پائے ، وہ فرماتے ہیں کہ اسلام سے پائے اور محمد رسول اللہ ﷺ سے پائے ، آپ فرماتے ہیں: دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں (در متین : 16) یہاں جا کے بات کھول دی کہ یہ محمد مصطفی ﷺ ہی کے نور سے ملا ہے.ذات سے حق کی وجود ملایا ہم نے آنحضرت ﷺ کے صلہ ہونے کو اس سے بہتر الفاظ میں بیان نہیں فرمایا جاسکتا.آپ وسیلہ کیسے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات اور بندے کے درمیان وہ کیسا جوڑ ہے جو محمد رسول اللہ یہ قائم فرماتے ہیں.اس جوڑ کی تشریح ہے کہ: جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں.ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ( در مین: 16) بے اختیار درود اٹھتا ہے پھر ، بے اختیار دل سے سلام اٹھتا ہے اور اس وجود سے جس نے کچھ پایا ہو.فقیر کے دل سے بھی دعائیں نکلتی ہیں مگر جب خیرات ملتی ہے تو دعائیں نکلتی
خطبات طاہر جلد 14 918 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء ہیں.بےاختیار، بے ساختہ پھوٹنے والا درود ایک ایسے دل سے نکلا ہے جس نے فیض پایا اور یہ کہتا ہے کہ: دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے تو درود سے پہلے کچھ تیاری بھی تو ہونی چاہئے اور درود کی حکمت یہ ہے کہ انسان اپنی ذات میں محمد رسول اللہ ﷺ کا احسان ایک تجربے کے طور پر محسوس کرے ورنہ کروڑ بار بھی ایک شخص دن رات درود پڑھتار ہے اس کے کچھ بھی معنی نہیں.درود کا تعلق احسانات سے ہے اگر احسانات سے تعلق نہ ہوتا تو آنحضرت مے پر سب نبیوں سے زیادہ درود بھیجنے کا حکم نہ ملتا.براہ راست احسانات سے درود کا تعلق اس طرح ثابت ہے کہ انبیاء کی مجلس میں سب سے بڑے محسن نبی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور پھر آپ کے بعد اور آپ سے افضل حضرت محمد رسول اللہ اللہ تھے اور درود نے دونوں کا رشتہ باندھ دیا.پس وہ جو حسن ہو اس پر درود پڑھا جاتا ہے مگر احسان ہو تو پھر درود دل سے نکلتا ہے ورنہ خیالی باتیں ہیں.ایک آدمی کسی امیر کو دیکھ کر یا کسی دنیا کی بڑی شخصیت کو دیکھ کر ویسے بھی دعائیں کر دیا کرتا ہے کہ اللہ کرم کرے بہت بڑا آدمی ہے.بہت لجاجت کی باتیں کر کے اس کا دل خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے.مگر کہاں وہ آواز ، کہاں وہ آواز جو ایک بھوکے کو کھانا کھلانے کے نتیجے میں اس کے پیٹ سے نہیں اس کے دل سے اٹھتی ہے اور بے ساختہ اٹھتی ہے.وہ دعائیں رنگ ہی اور رکھتی ہیں.وہ دعائیں اشک بار ہوتی ہیں.ان کے ساتھ آہوں کی ہوائیں چلتی ہیں اور یہ ہے درود کا انداز جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نوروں کے حوالے سے ہمیں سمجھا دیا.لازماً آپ نے بہت کچھ پایا ورنہ بے اختیار یہ بات نہ نکلتی: مصطفیٰ پر تیرا ہو بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے ( در تمین : 16) فرمایا جس نے خدا سے ملا دیا، جس سے ملنا خدا سے ملنا ہے اس سے ایک لمحہ بھی تعلق توڑو گے تو خدا سے تعلق ٹوٹے گا.پس بیک وقت محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق رکھنا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق
خطبات طاہر جلد 14 919 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء رکھنا یہ شرک نہیں ہے بلکہ توحید کامل کا درس ہے.اس میں چند شعروں میں سب مضامین اکٹھے کر دیئے ہیں.فرمایا اس لئے میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اس وجود نے خدا سے ملا دیا اور جس وجود سے ملنا خدا سے ملنا ہو اس وجود سے ایک لمحہ بھی جدائی برداشت نہیں ہوسکتی کیونکہ جہاں جس پہلو سے آپ نے محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق کاٹا اس پہلو سے خدا سے تعلق کٹ جائے گا اور یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں.ایک اتنی گہری حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خبر دی کہ ماں سے بھی جو تعلق کا تھا ہے اس سے خدا تعلق کاٹ لے گا کیونکہ رحمی رشتے کے ذریعے خدا سے تعلق قائم ہوتا ہے اور رحم کا تعلق اللہ کی ذات کی صفت رحمانیت سے بھی ہے.پس اگر عام ماؤں سے تعلق کاٹنے سے یا ماؤں سے پیدا شدہ رشتوں سے تعلق کاٹنے سے اللہ سے تعلق کٹ جاتا ہے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے ادنی سا تعلق کاٹنے سے بھی کیا کچھ نہ ہوگا.لازما وہیں سے علیحدگی کا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور علیحدگی میں یا درکھیں کہ علیحدگی اس مقام تک محدود نہیں رہا کرتی جہاں سے علیحدگی شروع ہو.ایک دفعہ جب تعلق کے بعد بے تعلقی ہو جائے تو پھر انسان اکھڑ نے لگتا ہے اور ہر چیز ا کھڑ نے لگتی ہے.پس جان محمد اللہ سے ایک دفعہ ربطہ ہو چکا ہو تو اس علیحدگی کا تصور بھی انسان کے دل میں نہیں آسکتا.ورنہ جس طرح جلد کو مائع کھدی ہو جانے کے نتیجے میں کاغذ چھوڑتا ہے جب ایک دفعہ چھوڑ نا شروع کرے تو پھر چھوڑتا چلا جاتا ہے.جہاں سر میں گنج شروع ہو جائے پھر وہ باقی بال بھی گرنے لگ جاتے ہیں.جہاں دیوار میں اکھڑنے لگیں تو پھر عمارت ہی اکھڑ جایا کرتی ہے.تو ربط کے بعد بے ربطگی بہت ہی بڑا ظلم ہے اور اس کے بعد پھر خطرہ ہے کہ انسان اپنی ہلاکت کی آخری منزل تک پہنچ جائے.پس جو تعلق بھی نیکی سے باندھا جائے، جو تعلق بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے قائم کیا جائے وہ نور سے تعلق ہے.جیسا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے اور نور سے ایسا تعلق ہے جس کے چھپنے اور اس سے الگ ہونے کا پھر کوئی تصور نہیں پیدا ہوسکتا.ہول اٹھنے چاہئیں دل میں کہ ایک تعلق قائم ہو اور پھر وہ علیحدہ ہو جائے کیونکہ آگے تنزل کی بہت راہیں ہیں جو أَسْفَلَ سَفِلِينَ (التين : 6) تک بھی انسان کو پہنچادیتی ہیں.بہت سے حوالے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کرنے ہیں اور اس حوالے سے بات کو اور زیادہ سمجھانا ہے مگر اب میں پہلے حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی ایک
خطبات طاہر جلد 14 920 خطبہ جمعہ 8 رو سمبر 1995ء حدیث آپ کو سناتا ہوں جو صیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعائاذا نبته بالیل.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم ہے جب رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تو یہ دعا کرتے اے اللہ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اس کا نور ہے اور اسے قائم رکھنے والا ہے.پس جہاں جس حد تک نور سے تعلق ٹوٹا وہاں انسان ڈھے گیا، وہاں مسمار ہو گیا کیونکہ قیام کا تعلق آنحضرت ﷺ نے نور سے باندھا ہے.تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اس کا نور ہے اور اسے قائم رکھنے والا ہے.یعنی صرف پیدا کرتے وقت تخلیق کے وقت ہی نور نے کارروائی نہیں کی بلکہ اس کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے نور کے ساتھ اس کا ایک تعلق رابطہ ہے جو نہ ختم ہونے والا ہے.پھر فرمایا اے اللہ ! تجھے ہی سب حمد زیبا ہے.سب تعریف اگر بجھتی ہے تو تجھے بجتی ہے.تو حق ہے.تیرا وعدہ سچا ہے، تیری بات کچی ہے اور تجھ سے ملاقات برحق ہے اور جنت حق ہے اور آگ حق ہے اور قیامت حق اور سب نبی حق اور محمد حق ہے.اے اللہ میں تیرے لئے فرمانبردار ہوا اور تجھ پر تو کل کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تیری طرف جھکا تیری ہی تائید سے مد مقابل کا سامنا کیا اور اپنے معاملے کا فیصلہ تیرے سپرد کیا.پس مجھے بخش دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں سرزد ہو اور جو میں نے چھپایا اور جو میں نے ظاہر کیا اسے بھی بخش دے.تو ہی آگے بڑھانے والا اور تو ہی پیچھے ہٹانے والا ہے.تیرے سوا کوئی معبود نہیں.یہ دعا در اصل نور ہی کے حوالے سے کی جارہی ہے اور اس میں جگہ جگہ کھلے لفظوں میں کہے بغیر وہ حوالے دکھائی دیتے ہیں.مثلاً آنحضرت مو عرض کرتے ہیں مجھے بخش دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں سرزد ہو.نور کا علم سے ایک تعلق ہے اور علم اور نور بعض پہلوؤں سے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس آپ فرماتے ہیں کہ جو میں پہلے کر چکا ہوں مجھے تو اس کے متعلق بھی پورا علم نہیں کہ کوئی ایسی بات نہ ہوگئی ہو جو تیرے لئے ناپسندیدگی کا موجب ہو.مگر جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے وہ جواب آچکا ہے کہ جو کچھ تو نے کیا، جو کچھ آئندہ کرے گا سب خدا کے نزدیک قبولیت کی جگہ پاچکا ہے اور مغفرت کی چادر نے ہر چیز کو ڈھانپ رکھا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نور پانے کے لئے سب سے بڑا مقام عبودیت قرار دیا ہے.یہ حوالہ میں بعد میں آپ کے سامنے پیش کروں گا کیونکہ جب کہا جاتا ہے کہ نور کو پاؤ تو اس کے ذریعے بھی تو سمجھانے چاہئیں کہ کیسے اللہ کا
خطبات طاہر جلد 14 921 خطبہ جمعہ 8 رو سمبر 1995ء نور حاصل کیا جا سکتا ہے.آپ نے فرمایا ہے سب ذرائع سے بڑھ کر سب سے اعلیٰ درجہ کا نور حاصل کرنے کے لیے عبودیت کا مقام ضروری ہے اور عبد ہونا سب سے بڑا کام ہے.الله اس پہلو سے یہ نمونے ہیں آنحضرت ﷺ کی عبودیت کے اور عبدیت کے کہ اپنے آپ کو مٹاتے چلے جاتے ہیں، کچھ بھی نہیں چھوڑتے.فرماتے ہیں جو کچھ میں نے کیا تو جانتا ہے.جہاں تک میں جانتا ہوں میں سمجھتا ہوں مجھے اس کی بخشش طلب کرنی چاہیے.یعنی یہ نہیں فرماتے کہ جو کچھ میں نے کیا اچھی باتیں کی ہیں ان کی بھی جزا دے جو کمزوریاں کہیں رہ گئیں ہیں ان کو بخش دے بلکہ ساری زندگی کا ہرلمحہ بخشش کی چادر کے نیچے لانا چاہتے ہیں اور کسی ایک لمحے پر بھی خودسری نہیں ، خود اعتمادی اس رنگ کی نہیں کہ گویا اس پر آدمی تکبر سے نظر ڈال سکے کہ وہ تو ٹھیک تھا.اب دیکھیں مقام نبوت اور دیگر مقامات کے فرق کیسے ہوتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری لمحات میں یہ عرض کی تھی لالی و علی اور مفسرین لکھتے ہیں کہ مراد یہ تھی کہ میں نے بہت سے نیک اعمال بھی کیے ہیں اور میں یہ نہیں کہتا کہ ان نیک اعمال کے بدلے مجھے بخش دے کیونکہ جو مجھ سے کمزوریاں سرزد ہو گئی ہیں ان کے مقابل پر ان کو لکھ کر برابر کر دے.یہ ایک بہت ہی عارفانہ دعا تھی.مگر اب مگراب دیکھیں آنحضرت ﷺ کی التجا جو ہر رات کو اٹھ کر خدا کے حضور کیا کرتے تھے ، اپنی ساری زندگی کی نیکیوں کو کلیۂ مٹا ہوا دیکھ رہے ہیں اور یہ عرض کر رہے ہیں کہ ان پر اپنی بخشش کی چادر ڈال دے.میں نہیں جانتا میں نے کیا کیا ہے اور جس نے دیکھا ہو کہ ساری زندگی نیکی میں گزری ہے اور غلامی کی یہ شان ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے بھی یہ جانتا ہے کہ محض اللہ کے فضل سے یہ توفیق ملی تھی اس لئے جو لغزش ہوئی ہے وہ میری کمزوری سے ہوئی ہے.یہ نکتہ ہے جو عارفانہ نکتہ ہے.محض ایک فلسفیانہ بحجز نہیں ہے بلکہ عارفانہ بجز ہے.آنحضرت ﷺ سب سے بڑھ کر جانتے تھے کہ جو کچھ عطا ہوا ہے اللہ کے فضل سے عطا ہوا ہے پھر اسے اپنے کھاتے میں اپنی طرف کس طرح منسوب کر دیں.مگر اس فضل کے مقابل پر شکر میں کوئی کوتا ہی ہوگئی ہو ، اس فضل کے بہترین اور سب سے اعلیٰ درجے کے استعمال میں کمزوری ہوگئی ہو تو وہ اپنی طرف منسوب فرما رہے ہیں اور کہتے ہیں اس پر بخشش کی چادر ڈال دے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا کوئی حال معلوم نہیں.پس اللہ کے علم میں اللہ کے نور میں یہ ساری باتیں موجود ہیں.جو پہلی تھیں وہ بھی اور جو آئندہ آنے والی تھیں.وہ بھی.
خطبات طاہر جلد 14 922 خطبہ جمعہ 8 دسمبر 1995ء فرماتے ہیں اور جو میں نے چھپایا اور جو میں نے ظاہر کیا اس کے متعلق بھی میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں.فرمایا اسے بھی بخش دے.اب یہ بھی عجیب مضمون ہے، چھپایا اور ظاہر کیا.حقیقت میں اللہ کے سامنے جو نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ (النور :36) ہے کوئی چیز چھپ سکتی ہی نہیں.ناممکن ہے کہ اس نور سے کوئی چیز چھپ جائے جس کا پردہ نور ہے جو اس پردہ نور کے پیچھے ایک مخفی نور ہے جس تک انسان یا کسی مخلوق کے تصور کی رسائی ممکن نہیں ہے.اس سے کوئی چیز چھپ ہی نہیں سکی اور وہ ہر چیز سے چھپا ہوا ہے یعنی اپنی نور کی انتہائی صورت میں مقام تنزہ پر واقع ہے.اس عرش پر واقع ہے جو مخلوق سے پر لی طرف ایسے مقام پر ہے یعنی اپنے مرتبے کے لحاظ سے اور اپنی لطافت کے لحاظ سے کہ وہاں رسائی ممکن نہیں ہے.سب سے بڑی رسائی ،سب سے اونچی رسائی ،سب سے اعلیٰ اور ارفع رسائی معراج کے وقت حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو نصیب ہوئی مگر ایک مقام پر جا کر وہاں ٹھہر گئے.اس سے آگے توحید کامل کا وہ مقام ہے جس میں مخلوق کو خواہ وہ کیسی ہی اعلیٰ درجے کی ہو دخل نہیں ہے اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقام تنزہ کا عرش فرمایا ہے.فرمایا عرش کی تو بہت سی قسمیں ہیں.آپ بیان بھی فرماتے ہیں لیکن ایک ہے مقام تنزہ کا عرش اس میں صرف خدا اور خدا کی ذات رہ جاتی ہے اور کچھ نہیں پہنچتا.تو خدا تعالیٰ کی ذات سے وہ چونکہ ہر جگہ ہے، کوئی چیز مخفی نہیں اور بہت سے اس کے ایسے مراتب اور مقامات ہیں جو حقیقت میں ان گنت ہیں اور ان کا کوئی کنارہ نہیں ہے جس تک مخلوق کی پہنچ نہیں ہوسکتی خواہ وہ کیسا ہی ترقی کرلے تو صلى الله اس لئے اس سے تو کچھ چھپ نہیں سکتا.حضرت رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو میں نے چھپایا اور جو میں نے ظاہر کیا اسے بھی بخش دے.تو ہی آگے بڑھانے والا ہے اور تو ہی پیچھے ہٹانے والا ہے.پس قیام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو ایک ہی جگہ ٹھہرائے رکھا جائے.قیام کا یہ اگر مطلب ہے تو وہ غلط مجھتے ہیں کیونکہ قیام سے مراد جمود نہیں ہے.قیام سے مراد اپنی طاقتوں میں قائم رہنے والا جس سے کسی وجود کی طاقتوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آئے.مگر آنحضرت ﷺ کا ئنات کا جو نقشہ کھینچ رہے ہیں اس میں دو ہی باتیں بیان فرماتے ہیں ، آگے بڑھانے والا اور پیچھے ہٹانے والا اور یہی ہر چیز کی حقیقت ہے.کوئی چیز کسی مقام پر جامد نہیں ہے.یا آگے بڑھ رہی ہے یا پیچھے ہٹ رہی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہاں یہ عرض کیا تھا اپنے رب سے کہ اس نور
خطبات طاہر جلد 14 923 خطبہ جمعہ 8 دسمبر 1995ء سے میراتعلق کبھی نہ ٹوٹے کیونکہ ٹوٹا تو پھر وہ سلسلہ ٹوٹتا چلا جائے گا.یا انسان آگے بڑھ سکتا ہے یا پیچھے ہٹ سکتا ہے.یہ سب کچھ کہنے کے بعد، یہ سب مناجات کرنے کے بعد آپ تعرض کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبود نہیں لا الہ الا انت اور توحید کی یہ ساری تصویر ہے جو کھینچی جارہی ہے.پس اپنی دعاؤں میں اس مضمون کو یا درکھیں جو نور سے شروع ہوا ہے اور سارا سفر نور کا سفر ہے.اگر چہ بار بار لفظ نور استعمال نہیں ہوا مگر حقیقت میں تو حید اور نور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور اس پہلو سے اس توحید کی مثال تو دی جاسکتی ہے.یعنی تمثیل تو بیان کی جاسکتی ہے.وہ اپنی ذات میں کسی اور کو مکمل طور پر نصیب ہو ہی نہیں سکتی اگر ہوگی تو پھر شرک ہو جائے گا.پس اسی لئے مَثَلُ نُورِم ( النور : 36) فرمایا ہے.آنحضرت ﷺ تمام صفات میں اس حد تک آگے بڑھے کہ ہر اس صفت کو جو انسان کی تشکیل میں خدا تعالیٰ نے ازل سے رکھی ہوئی تھی مگر جس کی طرف باشعور بڑھنا مقدر فرما دیا تھا.ہر ایسی صفت کو باشعور طور پر آگے بڑھ کر اپنا لیا اور ہمیشہ کے لئے اس میں اپنے وجود کوضم کر دیا اور اسے اپنے وجود پر طاری کر لیا پھر آپ وہ نور بنتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ نُورِ؟ مگر اس کے باوجود وہ نور، اللہ نہیں ہے بلکہ مخلوق ہے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے نور کو مخلوق ہی قرار دیا ہے.فرمایا ہے جو و جو دسب سے پہلے وجود مخلوق کیا گیا وہ میرا نور تھا.اب اس ضمن میں تخلیق نور میں سب سے پہلے ہونے سے کیا مراد ہے.یہ وضاحت کروں تو پھر اس کے بعد میں اگلے اقتباسات کی طرف متوجہ ہوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی بات آنحضرت ﷺ کے متعلق لکھی ہے اور انہی احادیث پر وہ پینی ہے جن میں آنحضور کا سب سے پہلے وجود پذیر ہونا بتایا گیا ہے.اس سے عام طور پر جو صوفی مزاج لوگ لکھتے ہیں تو وہ یہی تصور پیش کرتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو گویا محمد رسول اللہ ﷺ کو بنادیا گیا تھا.یہ درست نہیں ہے یہ غلط بات ہے.محمد رسول اللہ ﷺ جب انسان کے روپ میں پیدا ہوئے ہیں تو اس وقت معرض وجود میں آئے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ سب سے پہلے بنا گئے اس کا کیا مطلب ہے.اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہر چیز جو انسان بنانا چاہتا ہے یا کوئی بھی خالق بنانا چاہتا ہے جب تک اس کا منتہی اس کے ذہن میں نہ ہو اس کا آغاز بھی نہیں ہو
خطبات طاہر جلد 14 924 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء سکتا.کوئی بھی انجینئر خواہ وہ عمارت کا نقشہ ہی تجویز کرے یا مثلاً انجینئر میں نے کہہ دیا ہے مگر اس کو آرکیٹیکٹ کہا جاتا ہے انگریزی میں، جو نقشہ بناتا ہے مگر آرکیٹیکٹ کے علاوہ انجینئر ز بھی ہیں جو ڈیزائن کرتے ہیں ان سب چیزوں کو جو انہوں نے بنانی ہوں.جب تک آخری مقصد ذہن میں پوری طرح تشکیل نہ پا جائے وہ ڈیزائن شروع ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اگر آخری مقصد کی واضح موجودگی کے بغیر ، واضح طور پر ذہن کے سامنے دکھائی دینے کے بغیر کوئی ڈیزائن کرنے والا ڈیزائن شروع کرے گا وہ ہر قدم پر غلطی کرے گا کیونکہ دو ہی طریق ہیں ایک انجام تک پہنچنے کے لئے.ایک ہے آغا ز سفر سے پہلے آخری منزل کا پتا ہو اور یہ وہ طریق ہے جس کے نتیجے میں ہر حکیم ، ہر صاحب فہم پہلے منزل کا تعین کرتا ہے پھر راستے ڈھونڈتا ہے اور پھر اگر اسے جغرافیہ پر عبور ہو اور دیگر صلاحیتیں موجود ہوں تو پھر اچھے راستے تراشتا ہے اور وہ بہترین رنگ میں سفر کرتے ہوئے اس منزل کو پہنچ جاتا ہے.ایک وہ دیوانہ یا اندھا ہے جو بغیر نور کے سفر شروع کرتا ہے اسے آخری منزل کا پتا نہیں ہوتا.وہ چلتا ہے کہیں تو پہنچ جائیں گے اور اگر سفر پہلے شروع ہو جائے اور بیچ میں خیال آئے کہ میں نے تو اس طرف جانا تھا تو سارے قدم غلط ہو گئے.اس لئے اللہ کی طرف یہ بات منسوب ہو ہی نہیں سکتی.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک خیالی ، ایک فرضی تعریف ہے نعوذ باللہ من ذالک اور جو ماننے والے ہیں صرف انہی کا کام ہے کہ اس کو مانتے چلے جائیں.حالانکہ آنحضرت علیہ کی تمام تعریفیں حق ہیں.جیسا کہ اسی عبارت میں جو آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی گئی ہے.تمام باتوں کو حق کہہ کر سب سے آخر پر اپنے آپ کو حق فرمایا.پس جو حق آخر پر تھا اس کا مطلب یہ نہ سمجھیں کہ اس سے آپ کا مقام مراد ہے سب نبیوں کے بعد مقام ہے بلکہ آخر اور اول بعض صورتوں میں ایک ہی چیز کے دو نام ہوا کرتے ہیں.اگر آخری منزل ہو تو پھر اس کا پہلا قدم بھی اس آخری منزل کی تصویر بننے کے بعد اٹھتا ہے اس سے پہلے نہیں اٹھ سکتا.پس وہ تمام زندگی کا سفر یا کائنات کی تخلیق کا سفر جب کہ ابھی زندگی بھی وجود میں نہیں آئی تھی ، وہ سفر اگر حضرت محمد رسول اللہ یہ کے تصور کے بغیر شروع ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حرف تھا، اللہ تعالیٰ کی تخلیقی طاقتوں پر حرف تھا کسی اور سمت میں جانے کے بعد پھر اس سمت میں لوٹنا پڑتا.پس اول سے لے کر آخر تک تمام صفات جو کائنات کو عطا کی گئیں ہیں ان کا ذرہ ذرہ اس
خطبات طاہر جلد 14 925 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء بات کے پیش نظر تھا کہ وہ وجود پیدا ہو گا جس نے بالآخر مجھ سے ملنا ہے اور میرا کامل عبد ہو گا اور وہ وجود پیدا ہوگا جس کے لوٹنے سے گویا ساری کائنات خدا کی طرف لوٹ گئی ہے.یہ معنی ہے اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ ( البقرہ: 157) کہ ہم نے اللہ ہی کی طرف جانا ہے.ہم سب تو نہیں جاتے ، مرکر جانا اور معنیٰ رکھتا ہے.مگر اس کا اعلیٰ مفہوم یہ ہے کہ خدا نے ہر چیز کو اپنی ذات سے، اپنے نور سے پیدا کیا ہمیشہ کے لئے دور تر ہونے کے لئے نہیں ، ہمیشہ کے لئے اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے نہیں بلکہ واپس اپنی طرف لے جانے کے لئے اور یہ واپسی کا سفر شعور کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ شعور کا سفر ہر حالت میں ناقص تھا جب تک اپنے درجہ کمال کو نہ پہنچے یعنی حمد مصطفی ﷺ کا شعور کامل پیدا نہ ہو.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی یہی ہے اگر چہ اپنے آپ کو حق کہنے میں آخر پر رکھتے ہیں مگر وہاں اصل مراد وہی ہے جو دوسری احادیث سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ آخر ان معنوں میں ہوں جن معنوں میں اس آخر کا اول ہونا ضروری ہے.بیچ کی منازل کا اول ہونا ضروری نہیں کیونکہ بیچ کی منازل کو سامنے رکھ کر سفر کے رستے طے نہیں کیے جاتے یا کسی چیز کو ڈھالا نہیں جاتا.اگر ایک جمہو جیٹ بنانا مقصود ہو تو سب سے پہلے طے کیا جاتا ہے کہ بنانا کیسے ہے.کتنا لوڈ اٹھانے والا ہو،کس رفتار کی چیز چاہئے، کیا کیا اس میں حفاظتی اقدام ہونے ہیں.یہ جب تک نقشہ پہلے پیدا نہ ہو جمبو جیٹ بھی نہیں بن سکتا اور ہر دوسرا جہاز جو آپ کو دکھائی دیتا ہے خواہ وہ کسی نوعیت کا بھی ہو اس کا سفر شروع ہونے سے پہلے اس کی آخری تصویر لازماً واضح طور پر ایک بنانے والے کے ذہن میں ابھر آتی ہے.پھر وہ اس سے روشنی لیتا ہے.ہر قدم اٹھاتے وقت وہ تصویر سامنے رکھتا ہے.جب نٹ (Nut) بناتا ہے، جب بولٹس (Bolts) بناتا ہے، جب پر اور اس کے بعض حصے بناتا ہے ، جب انجن کی تشکیل کرتا ہے ، جب طاقت کے فیصلے کرتا ہے، کتنی طاقت دینی چاہیے تو شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر اور بسا اوقات شعوری طور پر اس جیٹ کا آخری بوجھ جو اس نے اٹھانا ہے وہ ہمیشہ اس کے پیش نظر ہوتا ہے.وہ پھر باقاعدہ بوجھ تقسیم کرتا ہے.جب کہتا ہے کہ اتنے مسافر لے کر اٹھے گا، اتنا انجن کا پٹرول اس کے لئے ضروری ہوگا اور آخری وزن اس کا یہ بنتا ہے تو ہر Nut جو وہ لگاتا ہے اس کی ضر میں اور تقسیمیں کر کے اس کے اوپر تقسیم کر کے بتاتا ہے کہ اس Nut پر کتنا بوجھ پڑے گا اور کتنے سال تک اڑے گا.اس کی عمر بھی طے کرتا ہے اور پھر سارے اربعے لگا کر اگر وہ Nut کو اس
خطبات طاہر جلد 14 926 ۷ خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء کی طاقت کے مطابق بنائے جو حصہ رسدی اس پر پڑنے والی ہے تو وہ جہاز ٹھیک رہتا ہے اور اگر معمولی سا بھی حساب میں فرق پڑ جائے تو بالآخر اپنی مدت سے پہلے وہ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ سب جہاز جو حادثے کا شکار ہوئے ان کے اوپر سائنس دانوں نے مکمل تحقیق کی تو آخر یہ پتا چلا کہ آخری بو جھ جو اس پر پڑنا چاہیے تھا اور پڑتا رہا اس میں فلاں پرزہ پورا کام نہ کر سکا کیونکہ اس میں اپنا حصہ رسدی بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں تھی.پس لوگ سمجھتے ہیں کہ فرضی باتیں ہو رہی ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ سب سے پہلے بنائے گئے ناممکن تھا کہ کائنات کا ایک ذرہ بھی بنایا جاتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشکیل اللہ کے حضور اس کے پیش نظر نہ ہوتی.ورنہ خدا کی خدائی باطل ہو جاتی ورنہ خدا ان دنیا کے انجینئروں سے بھی زیادہ کم فہم ہوتا جو ڈیزائن کے کمال سے پہلے ڈیزائن کی تعمیر کا سفر شروع کر دیتا ہے.پس ایک بھی دعوی آنحضرت ﷺ کی بڑائی کا فرضی دعوی نہیں ، زبانی دعوی نہیں.گہرے حقائق پر مبنی اور گہرے حقائق پر مشتمل ہے اور ہمیں جس سفر کا حکم ملا ہے وہ اس نور کی طرف سفر کرنے کا حکم ہے.ساری زندگی ہم یہ سفر کرتے رہیں تو پھر بھی ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنی بہت سی طاقتوں کو ضائع کر کے جتنا سفران کی استطاعت میں اللہ نے رکھا تھا اس کو بھی حاصل نہیں کر سکتے ، اس منزل تک بھی نہیں پہنچ سکتے.اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف یہ سفر اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کی شاہراہ کی طرف بڑھنے والی مختلف شاخیں ہیں.وہ سڑکیں ہیں جو اسی شاہراہ کی طرف بڑھ رہی ہیں.اگر ہم اپنی صلى الله حرکت اور سکون کو یہ سمت دے دیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف جاری ہے تو پھر ہم اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کا سفر کر رہے ہیں ، پھر ہمیں فکر کی کوئی بات نہیں ، پھر ہمارا کوئی نقصان نہیں.اِنَّا لِله در اصل نقصان کے خیال سے نہیں پڑھا جاتا بلکہ یہ بتانے کے لئے پڑھا جاتا ہے کہ ہر چیز نے خدا کی طرف لوٹنا ہے، تم اس کی جدائی کا فکر کر رہے ہو اپنا نہیں سوچ رہے کہ تم گم شدہ ہو تم ضائع شدہ ہو تم نے اپنے رب کی طرف واپس جانا ہے.لوگ اس بات کو تو بھول جاتے ہیں اور گم شدہ چیز پر پھونک مارنے کی خاطر کہ وہ ان کو مل جائے اِنَّا لِلہ پڑھ دیتے ہیں حالانکہ واضح مضمون یہ ہے کہ دیکھو جو تمہاری چھوٹی سی ملکیت تھی جب تک تمہاری طرف واپس نہ آجائے تم تسلی نہیں پاتے.تم بھی تو
خطبات طاہر جلد 14 927 خطبہ جمعہ 8 دسمبر 1995ء کسی کی ملکیت ہو.اس وجود کی تسلی کا سامان کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور پھر کھودیا اور واپس لوٹو اس کی طرف جو تمہارا منتظر ہے.یہی وہ مضمون ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے ایک گم شدہ اونٹنی کی مثال دے کر بیان فرمایا ہے.یعنی ایک عجیب بات ہے انسان سوچتا ہے کہ اللہ کو ہماری کیا انتظار ہے.اگر اس کو انتظار نہ ہوتا تو اِنَّا لِلہ کا مضمون بے معنی ہوتا اور اگر اس کو ہمارا انتظار نہ ہوتا تو پھر تخلیق کائنات بے معنی ہو جاتی، بالکل باطل اور بے مقصد ہوتی.پس آپ نے ایک اونٹنی کی مثال دے کر اسے خوب کھول دیا.فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنے اس بندے کی توبہ سے جو گناہوں کی دنیا میں کھو گیا ہو اور پھر تو بہ کر کے خدا کی طرف واپس آئے اس سے بہت خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ایسے مسافر کو اپنی گم شدہ اونٹنی پانے سے خوشی ہوتی ہے جو پیتے ہوئے لق و دق صحراء میں کسی ایک درخت کے سائے میں دو پہر گزارنے کے لئے لیٹا ہو، اس کی آنکھ لگ جائے اور اس کی اونٹنی جس پر اس کا پانی ، اس کا سارا سامان خوردونوش ہر چیز ہو وہ جنگل میں کھو جائے.جو اس کا حال ہوگا اور جیسی اس کی طلب ہوگی اس کا اندازہ کرو اور جب وہ کلیہ مایوس ہو چکا ہو تو شام کو وہ دیکھے کہ وہ اونٹنی افق کی طرف سے آتی دکھائی دے رہی ہے جیسی خوشی اس شخص کو اپنی گھی ہوئی اونٹنی کو پالینے سے ہوتی ہے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنے کھوئے ہوئے بندے کو دوبارہ پا کر خدا کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے.پس جتنی طلب آپ کو ہونی چاہئے اس کا اندازہ کریں جو نہیں ہے اور خدا کو طلب ہے.جس نے آپ کو پیدا کیا وہ چاہتا تو آپ کو زبردستی اپنی طرف لوٹا سکتا تھا مگر اس دنیا میں اس طرح آپ کو کھلا چھوڑ دیا کہ اس کی پیدا کردہ چیزوں کے حسن میں تو آپ کھو جاتے ہیں خالق کی طرف دھیان نہیں جاتا.یہ مضمون ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے اس تمثیل کے ذریعے ہمیں سمجھایا.پس اس کا نور کے ساتھ کیا تعلق ہے.نور کے ساتھ واضح تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور پھر فرمایا کہ میں زمین و آسمان کا نور ہوں اور پھر فرمایا کہ میری ہی طرف تمہیں لوٹنا ہے.اب یہ سفر نور کے رستے سے ہونا چاہئے نور پر بیٹھے رہنے سے نہیں.بلکہ نور کے وسیلے سے.پس اگر کوئی شخص حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے نور کا عاشق ہو کر وہیں بیٹھ رہتا ہے تو
خطبات طاہر جلد 14 928 خطبہ جمعہ 8 رو سمبر 1995ء وہ مشرک ہے اگر وہ اس نور کے حوالے سے سفر شروع کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح یہ کہ سکتا ہے کہ: جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے (در نمین: 16) تو اس میں شرک کا شائبہ تک نہیں ہے.وہی کامل موحد ہے اور یہی حال خدا تعالیٰ کی دنیا میں جلوہ گری کا ہے.ہر چیز اس نے پیدا کی ہے وہ خدا کے اصل نور کا ایک پر تو ہے جونور کی صورت میں آپ کو دکھائی دیتا ہے.اگر اس نور پر بیٹھ رہیں ، اس سے محبت کریں اور پس پردہ نور جو ہے جس کی جلوہ گری سے دراصل وہ نور کا پردہ بنایا گیا ہے غافل رہیں تو پھر آپ نے اپنے سفر کا مقصد کھو دیا اور خدا تعالیٰ منتظر ہے کہ آپ دیکھیں ، ہر طرف نور کا جلوہ دیکھیں اور خیال اس خالق و مالک کی طرف جائے جو سب کے اندر تہ بہ تہ آخری صورت میں جلوہ گر ہے جس کی وجہ سے ہر چیز کو نور عطا ہوا ہے اور نور دکھائی دیتا ہے.اگر آپ اس بات کو نہ سمجھیں تو دنیا کی ہر لذت ایک شرک کی طرف لے جانے والی چیز ہے اور جو نہی لذت پیدا کرنے والے کا خیال آتا ہے وہیں یہ شرک توحید میں بدل جاتا ہے.پس توحید اور شرک کے درمیان ایک پل صراط ہے، بہت ہی باریک فرق ہے.اور جہاں تک نور کا تعلق ہے آپ اس بات کو اگر ٹھہر کر تسلی سے، غور کر کے دیکھیں تو آپ ایک اور بات پا کر حیران رہ جائیں گے اور ششدر رہ جائیں گے کہ اگر خدا ہی کے نور سے جو اصل نور ہے جس کو ہم نہیں دیکھ سکتے.ہر پردہ نور پیدا ہوا ہے جو خدا کی طرف لے جانے والا ہے تو وہ ہر پردہ بھی ہمارے نقطۂ نگاہ سے لامحدود ہونا چاہئے کیونکہ جو لا محدود چیز کوئی چیز پیدا کرتی ہے اس میں لا محدودیت کی صفات دکھائی دیتی ہیں.اس پہلو سے اگر آپ سائنس کے سفر کا مطالعہ کریں تو یہ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ خدا تعالیٰ کی تخلیق کے جس ذرے پر بھی سائنس دانوں نے غور شروع کیا ہے ان کو کبھی اس کا آخری کنارہ نہیں ملا.ہر سفر لامتناہی سفر ہے حالانکہ یہ پردہ نور کا سفر ہے.خود نو را بھی اس سے پرے وراء الوریٰ کہیں اور ہے لیکن جو کچھ نور کا پردہ اس نے ڈالا ہے وہ پردہ بھی لامتناہی ہے.جتنا بھی سائنسی سفروں کا مطالعہ کرنے کی مجھے توفیق ملی ہے کوئی ایک بھی ایسا سفر میرے علم
خطبات طاہر جلد 14 929 خطبہ جمعہ 8 رو سمبر 1995ء میں نہیں آیا جس میں سائنس دانوں نے یہ کہا ہو کہ اس چیز کا آخری کنارہ ہمیں میسر آ گیا ہے اب اس مضمون پر اور کچھ نہیں رہا.اس کے بالکل برعکس تمام سائنس دان جو صاحب فہم اور صاحب ادراک ہوں جن کو حقیقت فہمی کا سلیقہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہو اور اکثر سائنس دان ایسے ہی ہیں.شاید ہی کوئی متکبر ہومگر میرے علم میں ایسا کوئی متکبر نہیں آیا جس نے یہ کہا ہو کہ ہم نے اس چیز کی تحقیق کرتے کرتے یہاں پہنچ کر اس مضمون کو ختم سمجھا ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہے.ہاں یہ سب کہیں گے کہ جب ہم یہاں پہنچے تو جتنے دروازے ہم نے کھولے تھے اس سے اور زیادہ دروازے دکھائی دیئے ہیں اور اب ہمارا تنہا کام نہیں اور ٹیمیں شامل ہونی چاہئیں اور محققین ہونے چاہئیں جو کوئی اس قفل کو کھولے اور اس دروازے کا سفر شروع کر دے یعنی جس طرف وہ دروازہ کھلتا ہے.یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے اس لئے سائنس کی ترقی نے سائنس دانوں کی تعداد کم نہیں کی بڑھائی ہے اور بے شمار بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود ان کی کمی محسوس ہورہی ہے.ہر علم میں اور شاخیں نکلتی چلی آرہی ہیں.ہر شاخ کے لیے مزید خدمتگار اور تحقیق کرنے والے میسر آنے چاہئیں.اپنے چھوٹے سے تجربے سے میں آپ کو بتا تا ہوں کہ انگلستان آنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ لوگ تو اسلام کی تحقیق کے نام پر ہر جگہ عیوب تلاش کرتے پھرتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ملے وہاں اسے اچھال کر اسلام کے خلاف پرو پیگنڈہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.قرآن کے اوپر ان لوگوں نے تفسیریں لکھی ہوئی ہیں اپنی طرف سے قرآن کے اوپر جرح و قدح کی ہوئی ہے مگر آج تک مجھے کوئی مسلمان نہیں دکھائی دیا سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس نے اس گہری نظر سے بائبل کا مطالعہ کیا ہو اور بائبل پر تحقیق کی ہو اور جہاں تک بائبل کی تفاسیر کا تعلق ہے مجھے تو کبھی کوئی تفسیر نظر نہیں آئی جو کسی مسلمان نے لکھی ہو یا کسی غیر نے لکھی ہو اور وہ بائبل کی تفسیر ہو.تو اگر ان کو حق ہے کہ اندھا ہونے کے باوجود نور کی تفسیر لکھنے کی کوشش کریں تو ہمیں نور یافتہ ہونے کے باوجود نور کامل سے فیض پانے کے باوجود کیوں حق نہیں بلکہ ہم پر تو فرض ہے کہ ان کی بائبل کی تفسیریں لکھیں اور جن پہلوؤں کو یہ اندھیروں کے طور پر پیش کرتے ہیں ان سے پردے اٹھا ئیں اور بتائیں کہ یہ بھی اسی نور کا فیض تھا جس سے قرآن جاری ہوا ہے.پس اس نقطہ نگاہ سے میں نے ایک ریسرچ ٹیم بنائی.چندلوگوں سے شروع ہوا سفر اور چند معین
خطبات طاہر جلد 14 930 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء نکات ان کے سامنے رکھے اور آخری منزل جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آخری منزل ہر ایک چیز کی طیبہونی ضروری ہے ورنہ وہ سفر ٹامک ٹوئیوں کا سفر ہوگا.اندھا جیسے لاٹھی کے ذریعے چلتا ہے ویسا سفر ہو گا.میں نے ان کے سامنے آخری بات یہی رکھی تھی کہ جو چند شاخیں تھیں ان میں سے ایک شاخ یہ بیان کی تھی کہ آپ نے بالآخر بائبل کے مفسر بننا ہے اور بائبل کے مفسر قرآن کی روشنی میں بننا ہے اور بائبل کا مفسر اس رنگ میں بننا ہے کہ بائبل کے مؤید بنیں اور منکر اس کے بہنیں جو بائبل میں خدا کی طرف منسوب کر کے داخل کیا گیا ہے اور اسے کھول کے دکھا دیں اور قرآن کی مدد سے بتائیں کہ بائبل جھوٹی نہیں بلکہ سچی کتاب ہے، تم جھوٹے ہو جس نے بائبل کو سمجھا نہیں.تو اس پہلو سے بائبل کی بھی تو تفسیر کریں کیونکہ انہوں نے جو تفسیریں لکھی ہیں وہ ساری اندھی ہیں.بائبل کی تفسیریں بھی اندھی لکھی ہیں تو یہ قرآن کی تفسیریں کیسے روشنی والی لکھ دیں گے.تو یہ سفر جب شروع کیا تو جیسا میں نے بیان کیا ہے دو تین معین راہیں تھیں جن کی منزل سامنے تھی اور اس سفر کے دوران ہر راہ میں سے اتنی شاخیں پھوٹنی شروع ہوئیں کہ آگے پھر اور مزید ، اور مزید اور اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہئیں اور جو سفر پہلے شروع کیا گیا تھا اب اس کے محدود دائرے میں ہی بے شمار لامحدود با تیں اور دکھائی دینے لگیں.تو اب پھر ہم نے مختلف ملکوں پر ٹیمیں پھیلا دیں اور اب ان ٹیموں کے سپر د جو کام کئے جا رہے ہیں وہ بھی ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں.باسط احمد ہمارے یہاں انچارج ان کو بنایا گیا ہے ، شیخ مبارک احمد صاحب کے صاحبزادے ، بڑی محنت اور بڑے خلوص کے ساتھ ، بڑی حکمت کے ساتھ وہ ٹیموں کو تیار کر رہے ہیں.ایک مسئلے کے اوپر میں نے ان سے کہا کہ آپ کی ٹیم آئے اور مجھ سے دوبارہ گفتگو کرے میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہ خطوط نہیں بلکہ ان خطوط پر بات ہوئی ہے.دو تین اجلاسوں کے بعد انہوں نے ہاتھ اٹھا لئے.انہوں نے کہا جواب آپ نے باتیں بتائی ہیں یہ تو ہم تین چار کے بس کی بات ہی نہیں ہے.میں نے کہا پھر ٹیمیں بناؤ.میں نے کب کہا ہے نہ بناؤ.تو یہ خدا کے نور کی مثال ہے یعنی اس نور نے جب ہر چیز پیدا کی اور ہر چیز کی کنہ وہ ہے تو اگر وہ لامحدود ہے تو اس کی تخلیق میں بھی لا محدودیت کی جھلکیاں آپ کو ضرور دکھائی دیں گی اور ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرے میں بھی خدا کا سفر اس نور کے حوالے سے کریں جو اس نے پیدا کیا ہے تو وہ لامتنا ہی ہو جائے گا.ورنہ یہ سمجھنا پڑے گا کہ ایک مقام پر آکر آپ کھڑے ہو جا ئیں اور کہیں کہ اس سے آگے کچھ بھی نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد 14 931 خطبہ جمعہ 8 /دسمبر 1995ء وہ مقام جس مقام تک مخلوق پہنچی ہے اس کا آخری کنارہ جہاں پہنچا جا سکتا تھا وہ وہ کنارہ ہے جو معراج کی رات آنحضرت ﷺ کو دکھائی دیا اور اس سے آگے انسانی استعداد کا سفر ختم ہوا ہے.خدا کا نور ختم نہیں ہوا.یہ مضمون سمجھیں تو پھر تو حید قائم رہتی ہے ورنہ شرک شروع ہو جائے گا.پس ہمیں بھی آنحضرت ﷺ کی سمت میں سفر کرنا ہوگا.آپ کو معبود اور مقصود بنا کر نہیں بلکہ معبود اور مقصود کی طرف لے جانے والا سمجھتے ہوئے.قبلہ بناتے ہوئے نہیں بلکہ قبلہ نما بناتے ہوئے.جس قبلے کی طرف آپ کا رخ ہمیشہ رہا آپ ﷺ سے اس رخ کے انداز کو سمجھتے ہوئے اس رخ کی تعین کے گر آپ سے سیکھتے ہوئے ، آپ کے پیچھے چل کر آپ کی پیروی کرنا اس غرض سے ہو کہ آپ کے معبود کی پیروی ہوگی.جس معبود سے آپ نے سب فیض پایا ہم بھی اسی معبود تک پہنچنے کا یہ ذریعہ اختیار کرتے ہیں.یہ جب میں بات کہتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے ذاتی تعلق ختم ہو رہا ہے اور ایک قسم کا میکانکی یعنی مکینیکل ساتعارف بن گیا ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے کیونکہ انسان جس سے فیض پاتا ہے اس سے رسمی تعلق رہ ہی نہیں سکتا.اس سے بے ساختہ قلبی تعلق قائم ہوتا ہے.پس تو حید کے حوالے سے جب میں بات کروں تو شاید آپ میں سے بعضوں کو کچھ اور بات سمجھ آئے.اگر اس حوالے سے بات کروں جس سے میں نے بات شروع کی تھی تو پھر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہی اصل حق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سمت میں سفر خدا کو پانے کے لئے ہے اور جتنا آپ قدم اس سمت میں آگے بڑھاتے ہیں خدا آپ کو ملتا چلا جاتا ہے.پس خدا کوئی ایسی چیز نہیں جو اس سے پرے کہیں آخر پر جا کر ملے.ہر قدم پر ملتا ہے اور اس کا قرب محسوس ہوتا ہے اور جب ملتا ہے تو بے ساختہ دل سے یہ دعا اٹھتی ہے کہ: مصطفی پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بارِخدایا ہم نے ( در شین: 16) یہ ہے وہ تعلق باللہ جو شرک سے پاک ہے.یہ عشق محمد مصطفی اللہ ہے جو ہر قسم کے شرک کی ملونی سے پاک ہے.یہی ہے جو پاکیزگی بخشنے والا اور یہی ہے جو اپنے ساتھیوں کو نور بنانے والا تعلق ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
932 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 933 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء وہ کامل نور بصیرت جس سے قرآن کی ہر ہدایت کو دیکھنے کی صلاحیت صلى الله پیدا ہوتی ہے وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو نصیب ہوا تھا.( خطبه جمعه فرموده 15 / دسمبر 1995ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا پھر فرمایا:.(النساء: 175 176) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان کے ترجمے اور ان کی تشریح سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ نیوزی لینڈ کا ساتواں جلسہ سالانہ اتوار 17 / دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے اور صدر صاحب نے سب دنیا کی جماعتوں کو السلام علیکم بھی پہنچایا ہے اور اس موقع پر ان کو دعا میں یاد رکھنے کی درخواست کی ہے.ان آیات کا جو میں نے تلاوت کی ہیں ترجمہ یہ ہے یا يُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمُ اے لوگو تمہارے پاس یقیناً خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل آچکی ہے.وَاَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مبینا اور ہم نے تمہاری طرف ایک کھلا کھلا نو را تا را ہے فَأَمَّا الَّذِينَ
خطبات طاہر جلد 14 934 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِه پس وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائیں اور مضبوطی سے اسے پکڑیں فَسَيْدُ خِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ پس ضرور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا وَفَضْل اور فضل میں وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا اور انہیں اپنی طرف سیدھی راہ پر ڈال دے گا جو خدا ہی کی طرف جاتی ہے تو صِرَاطًا مستقیما سے پہلے کے بعض شرائط کا ذکر ہے کہ یہ شرطیں پوری ہوں ، یہ مقاصد حاصل ہوں تو مقصد اول اور سب سے اعلیٰ مقصد یہی ہے کہ تم اس رستے پر پڑ جاؤ جو سیدھا خدا کی طرف جاتا ہے.یہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ترجمہ پیش فرمایا ہے اس میں آنحضرت ﷺ کو بھی اللہ کا نور قرار دیا ہے اور قرآن کریم کو بھی اللہ کا نور قرار دیا ہے اور یہی انداز قرآن کریم کا دوسری بہت سی جگہوں پر ہے جسے اچھی طرح سمجھنا چاہئے.بارہا جہاں میں نے عام ترجموں سے میں نے اختلاف کیا ہے وہاں یہی وجہ ہے کیونکہ میرے نزدیک جب ضمیر کھلی چھوڑ دی گئی ہو، یعنی انگلی اٹھ رہی ہو ایک آیت کی اور جس طرف اٹھتی ہے وہاں قرآن بھی موجود دکھائی دیتا ہے.محمد رسول اللہ ﷺ بھی دکھائی دیتے ہیں تو یہ کہنا کہ یہ قرآن کی طرف ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف نہیں ہے یا محمد رسول اللہ اللہ کی طرف ہے قرآن کی طرف نہیں ہے ، یہ درست نہیں ہے.لازماً دونوں کی طرف ہی انگلی اٹھی ہے اور دونوں اس اشارے میں شامل ہیں اور آیات کا مضمون جو بعد میں کھلتا ہے اس بات کا قطعی ثبوت مہیا کرتا ہے کہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ ﷺ میں بسا اوقات قرآن کریم بھی کوئی فرق نہیں کرتا اور ایک ہی اشارے میں دونوں کو شامل فرمالیتا ہے.پس یہ آیت انہی آیات میں سے ایک ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کرامات الصادقین صفحہ 14 پر لکھتے ہیں.اس کا ترجمہ یوں ہے پھر ہم بقیہ آیات کریمہ کا ترجمہ کر کے لکھتے ہیں آپ یہ فرما رہے ہیں اس آیت کی طرف آتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن اور رسول ﷺ ایک نور ہے.اب دیکھیں بظاہر اردو میں غلطی دکھائی دے رہی ہے قرآن اور رسول ﷺ ایک نور ہیں چاہئے تھا مگر فرما رہے ہیں یہ قرآن اور رسول ایک نور ہے مراد یہ ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا ، ناممکن ہے کہ نور قرآن میں کوئی ایسا پہلو ہو جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں جھلکتا ہوا نہ
خطبات طاہر جلد 14 935 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء صلى الله دکھائی دے.پس ایک ہی چیز کے مختلف پہلوؤں سے مختلف نام ہیں.اس نور کا ایک نام قرآن ہے اور ایک نام محمد رسول اللہ لہ ہے.پس آپ نے ” ہے“ کہہ کے دونوں کو ایک بنا دیا جیسا کہ قرآن کریم نے ایک اشارہ میں دونوں کو ایک ہی بنا کے دکھایا تھا.فرمایا نور ہے جو تمہاری طرف آیا.یہ کتاب ہر یک حقیقت کو بیان کرنے والی ہے.خدا تعالیٰ کے ساتھ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھلاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ جو اس تک پہنچتی ہے ان کو دکھلاتا ہے.وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول گو اس ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.اے لوگو! قرآن ایک برھان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلا نور ہے جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.آج تمہارے لئے دین کامل کیا گیا اور تم پر سب نعمتیں پوری کی گئیں...“ یہاں بعد کی عبارت سے شبہ پڑتا ہے کہ واحد جو استعمال کیا گیا ہے اس میں محمد رسول اللہ ﷺ کو بطور نور شامل نہیں کیا گیا اور واحد کا اشارہ صرف بعد میں آنے والے ذکر یعنی قرآن پر محدود ہے.بعد کی عبارت سے یہ بھی شبہ پڑتا ہے لیکن اس کے برعکس واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ جو آج میں نے شامل کرنے کی ہدایت کی تھی اور مجھے یہاں دکھائی نہیں دیا جس میں اسی آیت یا اس سے ملتی جلتی آیت کے حوالے سے قرآن کو بھی اترنے والا نور قرار دیا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی.بہر حال قطعی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کو بھی اترنے والا نور قرار دیا ہے اور قرآن کو بھی اتر نے والا نور قرار دیا ہے اور دونوں کے ذکر کو اس طرح اکٹھا کر دیا ہے کہ بظاہر ایک ذکر ملتا ہے مگر قرآنی آیات اس مضمون کو کھول دیتی ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر انہی صفات کے ساتھ کیا گیا جو قرآن کریم کے ذکر میں ملتی ہیں.پس فرمایا: وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو اس ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.اے لوگو! قرآن ایک
خطبات طاہر جلد 14 936 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء برہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلا نور ہے جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.آج تمھارے لئے دین کامل کیا گیا اور تم پر سب نعمتیں پوری کی گئیں، پھر فرمایا! خدا اس کے ساتھ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھلاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ جو اس تک پہنچتی ہے ان کو دکھلاتا ہے.اب یہی الفاظ بعینہ آنحضرت میے کے متعلق آتے ہیں کہ وہ ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے.پھر دیگر تمام صفات جو قرآن کریم کی یہاں بیان ہوئی ہیں جو میں نے دوبارہ پڑھ کر سنائی ہیں، یہ تمام صفات آنحضرت ﷺ کی بھی بیان ہوئی ہیں.اس لئے میرے نزدیک اس بات میں ایک ذرے کا بھی شک نہیں کہ قرآن جب بھی محمد رسول اللہ ﷺے اور کتاب اللہ کا ذکر کر کے دونوں کی طرف یا ایک ضمیر سے اشارہ کرتا ہے تو وہ ضمیر دونوں پر شامل ہوتی ہے.اس کی ایک اور دلیل ہمیں سورہ کہف کی پہلی آیت اور سورہ طلہ کی ایک درمیانی آیت سے ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهُ عِوَجًا ( كهف :2) وہی اللہ ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کامل کتاب اتاری.اب دو ذ کر ا کٹھے ہو گئے ایک بندہ اور ایک کتاب.اور آخر پر یہ فرمایا وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا - لهما نہیں فرمایا بلکہ لہ فرمایا کہ ان میں کوئی کچھی نہیں رکھی.اس دھوکے میں پڑ کر کہ ھما نہیں ہے بلکہ واحد کا لفظ ہے.بہت سے مفسرین اور مترجمین نے اس کا ترجمہ کرتے وقت ضمیر کو ایک خاص طرف کر دیا.چنانچہ اکثر تر جموں میں آپ کو یہ ضمیر قرآن کی طرف دکھائی دے گی.ترجمہ کرنے والے اس کا مطلب سمجھتے ہیں کہ جب خدا نے کہا وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا اس میں کوئی کبھی نہیں رکھی تو یا محمد رسول اللہ ﷺے مراد ہیں یا صلى الله قرآن مراد ہے اور قرآن کے حق میں اکثر مفسرین نے ترجمہ کر دیا کہ کتاب کی صفات بیان ہو رہی ہیں کتاب ہی مراد ہے لیکن بعض مفسرین نے اس مضمون کو بھانپ لیا اور یہ وضاحت کی کہ اس ضمیر میں محمد رسول اللہ یہ بھی شامل ہیں اور قرآن کریم بھی شامل ہے.
خطبات طاہر جلد 14 937 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء سورہ طلہ کی جن آیات کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے يَوْمَبِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ (طہ: 109 ) وہ جب بڑے بڑے انقلاب بر پا ہوں گے، جب پہاڑ پہیں دیے جائیں گے اور دنیا کو برابر کر دیا جائے گا اس دن وہ وہ بڑی بڑی طاقتوں والے لوگ، بڑے بڑے مغرور لوگ لازماً اس رسول کی پیروی کریں گے جس میں کوئی عوج نہیں ہے.لَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا اور لَا عِوَجَ لَهُ دیکھ لیں ایک ہی مضمون کے دو بیان ہیں، قطعاً کوئی فرق نہیں ہے.پہلی آیت میں جو سورہ کہف سے لی گئی تھی اس میں یہ فرمایا تھا اَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ہم نے کتاب اتاری اور اس میں کوئی عوج نہیں رکھا، اس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ہے.سورہ طہ میں جو اس کے بعد آ رہی ہے اس میں یہ فرمایا یہ لوگ اس دن اس داعی کی پیروی کریں گے جس داعی میں کوئی عوج صلى الله نہیں.تو ثابت ہوا کہ لَا عِوَجَ لَه " کا مضمون لازماً محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور ثابت ہورہا ہے کہ آپ مراد ہیں.مگر کتاب کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے اس لئے کتاب کا ترجمہ کرنا بھی درست ہے.بعض دفعہ کتاب کی طرف زیادہ راجع دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف اشارہ استنباط کرنا پڑتا ہے.بعض دفعہ آنحضرت ﷺ کی طرف واضح طور پر انگلی اٹھتی ہے اور قرآن اس اشارے میں شامل ہوتا ہے.پس کوئی تفریق نہیں ہے نور قرآن میں اور نور محمد رسول اللہ ہے ہیں.قرآن کی عملی زندہ تفسیر حضرت محمد رسول الله لتے تھے.قرآنی آیات کو سمجھنے کے لئے اگر آپ غور کریں تو آنحضرت ملے کی سیرت کا کوئی نہ کوئی پہلو آپ کا مددگار ہو جائے گا اور جہاں آپ کی تفسیر نور محمد رسول اللہ ﷺ سے ہتی ہوئی دکھائی دے گی وہیں وہ ظلمت میں داخل ہو جائے گی.اس کا نور محمدی سے کوئی تعلق نہیں ہے.میری ہرگز مراد یہ نہیں کہ خالصہ حدیثوں سے اور حدیثوں کے حوالے سے تفسیر کی جائے.آنحضرت ﷺ کا وجود بلاشبہ ایک ایسا دمکتا ہوا نور ہے جس کا تصور بالکل واضح اور قطعی ہے.مثلاً کوئی ایسی حدیث ہو جس سے استنباط کرتے ہوئے نعوذ باللہ ، رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی حرکت منسوب ہو جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کے منافی ہے جو قرآن کے اس نور کے منافی جسے سب سے زیادہ شاندار نور کے طور پر قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے.ہر ایسے موقع پر وہ حدیث ، حدیث نہیں
خطبات طاہر جلد 14 938 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء رہے گی.حدیث ہے تو غیروں کی حدیث ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کی حدیث نہیں رہے گی.پس اس بارے میں کوئی بھی شک کی گنجائش نہیں جیسا کہ قرآن کے بارے میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ایک ایسے نور کے طور پر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی شک الله نہیں لَا رَيْبَ فِيهِ - اب لَا رَيْبَ فِيهِ کو میں معنا محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بھی لگا رہا ہوں اور قرآن کی طرف بھی.یہ نہیں کہ اس آیت میں معین طور پر ذکر ہے اور عملاً آپ دیکھیں کہ دونوں نوروں سے ہدایت پانے کے لئے شرط ایک ہی ہے اور وہ ہے متقی ہونا.لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة :3) - محمد رسول اللہ اللہ کے نور سے فیض پانا یا آپ کی سرشت کو ، آپ کی فطرت کو ، آپ کے اعلیٰ اخلاق کو ، آپ کی سیرت کو سمجھنا لازماً ایک پاکیزگی کا تقاضا کرتا ہے.جہاں جہاں اس پاکیزگی میں فرق آئے گا وہاں ایک ہی مضمون آپ کو مختلف سمتوں میں اشارہ کرتا ہوا دکھائی دے گا.دیکھنے والے کی آنکھ جب نور کو دیکھتی ہے تو طرح طرح سے دیکھتی ہے.بعض لوگوں کو سبز اور سرخ بھی کالا اور سفید ہی دکھائی دیتا ہے.بعض لوگوں کو گلابی دکھائی دیتا ہے.بعضوں کو مد هم مدھم ، دھندلا سا جیسے ایک دودھیا سفیدی سامنے آئی ہو ویسا دکھائی دیتا ہے.بعضوں کو اس میں کئی قسم کے سیاہی کے داغ دکھائی دیتے ہیں بھتنے سے ناچتے نظر آتے ہیں.تو یہ سارے بدنی یا جسمانی تقویٰ کی کمی سے ہیں.تقویٰ اس اندرونی نور کو کہتے ہیں جو وہی بات دیکھتا ہے جو حقیقت میں باہر ہے.اس اندرونی نور میں جہاں کمی آئے گی جیسا انسان کی دیکھنے کی طاقت میں خرابی پیدا ہو جائے تو وہاں لازم اریب دکھائی دیں گے.شبہ پیدا ہو جائے گا کہ یہ رنگ تھا یا وہ رنگ تھا، اس شکل کا آدمی دیکھا کہ اس شکل کا آدمی دیکھا.پس قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ ایک ہی نور کی دوصورتیں ہیں اور جتنا بھی آنحضرت ﷺ کی ذات اور صفات پر غور کریں جو مطالب کھلتے ہیں وہ سب قرآن کے مطالب صلى الله ہیں.ایک بھی غیر قرآنی مطلب اس سے دکھائی نہیں دیتا، تمام تر قرآنی مطالب ہیں.پس اس پہلو سے جب ہم نور کی گفتگو کرتے ہیں یا کریں گے تو یا درکھیں کہ ذکر قرآن کا چل رہا ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ بھی اس ذکر میں شامل ہیں.ذکرِ رسول ﷺ کا چل رہا ہو تو قرآن اس میں شامل دکھائی دے گا.پس برہان جو اتاری گئی رب کی طرف سے اور نور مبین اتارا گیا وہ ایک زندہ برہان حضرت محمد رسول اللہ یا اللہ بھی تھے اور قرآن بھی تھا.ایک نور محمد رسول اللہ والے بھی تھے اور
خطبات طاہر جلد 14 939 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء قرآن بھی تھا.یہاں اگر قرآن نور ہے تو اس آیت کو کہاں لے جائیں گے جہاں مَثَلُ نُورِ؟ ( النور : 36) میں واضح طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر ملتا ہے اور ایک زندہ ظاہر وجود کا ذکر ملتا ہے.پس ایک ہی جگہ دو معنی مانیں یا مختلف جگہوں میں وہی معنے الگ الگ دیکھیں، یہ انگلی ایک ہی طرف اشارہ کرتی ہے یا دونوں انگلیاں ایک ہی طرف اشارہ کریں گی یعنی محمد رسول اللہ اللہ اور قرآن کریم.قرآن کریم کو حبل اللہ کے طور پر مضبوطی سے پکڑنا ضروری قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت کو بھی مضبوطی سے حبل اللہ کے طور پر پکڑ نا ضروری قرار دیا گیا ہے.ایک پہلو سے حبل اللہ قرآن ہے دوسرے پہلو سے حبل اللہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺے ہیں.ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہو صلى الله سکتی.ناممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے میں نے قرآن پر تو مضبوطی سے ہاتھ ڈال دیا ہے مگرمحمد رسول اللہ نے پر مضبوطی سے ہاتھ نہیں ڈالا ہوا.کہیں کہیں کچھ کمزوری رہ گئی ہے کہیں کوئی رخنہ رہ گیا ہے.یہ ناممکن ہے.اگر قرآن پر ہاتھ ہے تو سیرت محمدی پر بھی پورا ہاتھ ہونا چاہئے اور کوئی فرق نہیں ہوسکتا.پس قرآن پر ہاتھ ڈالنا تو ہر کس و ناکس کا کام بھی نہیں ہے.اس کے لئے جو گہرے فہم کی ضرورت ہے اس کے لئے بھی تو ایک نور چاہئے اور بغیر اس نور کے آپ اس نور کو دیکھ نہیں سکتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارا گیا اور اس نور کو دیکھنے کے لئے کمی ، تقویٰ کی کمی سے ہوتی ہے.اب ان دونوں باتوں کو ملا کر دیکھیں تو پھر اس حدیث کی سمجھ آتی ہے کہ جہاں آنحضرت ﷺ نے تقویٰ کا ذکر فرماتے ہوئے بڑے جلال کے ساتھ بار بار اپنی چھاتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.وہ کامل نور بصیرت جس سے قرآن کی ہر ہدایت کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے.وہ تمام تر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کونصیب ہوا تھا.پس اگر کسی کی نظر کمزور ہو تو دیکھنے والے کا سہارا لیا کرتا ہے.خالی لاٹھی سے تو زندگی کے گزارے نہیں چلتے.لاٹھی سے ٹولتا ہوا اندھا جاتا ہے پھر بھی ٹھوکریں ہی کھاتا ہے.مگر لاٹھی سے تو بہتر وہ کہتے ہیں جن کو کچھ دکھائی دیتا ہے اور جو اپنے مالکوں کو ہمیشہ خطروں سے بچا کر چلتے ہیں اور وہ جس کو کامل نور بصیرت عطا ہوا، اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا جائے تو اپنی آنکھوں کی سب خرابیوں سے بچ کر ان کے شرور سے جو اپنے نفس کے شرور ہیں ان سے پہلو تہی کرتے ہوئے ، ان سے بیچ کر قدم قدم صحیح ہدایت کی طرف چلنے کی توفیق مل سکتی ہے اور ان معنوں میں ہی آنحضرت ﷺے وسیلہ ہیں.انہی معنوں میں
خطبات طاہر جلد 14 940 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء قرآن وسیلہ ہے اور انہی معنوں میں ان آیات میں آخر صراط مستقیم پر پہنچنے کا ذکر ملتا ہے.اب دوبارہ آپ ان کو سنیں تو پھر آپ پر یہ بات کھل جائے گی.يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا (النساء : 175) اے لوگو تمہارے پاس ایک کھلی کھلی روشن دلیل آچکی ہے اور روشن دلیل ایسی جو صدیقوں کو دکھائی دیتی ہے اور جانتے ہیں کہ اس سے بڑی دلیل کوئی نہیں.اس دلیل کے طور پر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد برهان صلى الله ( در تین فارسی: 141) صلى الله اگر دلیل ڈھونڈ رہے ہو تو عاشق ہو جاؤ کہ برہان جس کا ذکر ملتا ہے وہ خود محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں.محمد سے بڑھ کر محمد کی اور کوئی برہان نہیں ہے.پس وہاں یہ نہیں کہا کہ محمد کو دیکھنا ہے تو پہلے قرآن کو سمجھو.قرآن سمجھنے کی سب میں کہاں توفیق ہے.وہ نور ہی نہیں ہے جس کے ذریعے قرآن دکھائی دے یا کامل طور پر دکھائی دے سکے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ ایسے نور مبین ہیں جو دور دور تک دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے لئے بھی کچھ اندرونی صداقت کا ہونا ضروری ہے اور یہ نور ، قرآن کے نور کے مقابل پر زیادہ عیاں ہے کیونکہ انسانی شکل میں ہے.زیادہ قریب الفہم ہے کیونکہ انسانی فطرت اس کو دکھانے میں ، اس کو سمجھانے میں انسان کی مددگار ہو جاتی ہے لیکن تقویٰ کی وہاں بھی شرط ہے لیکن وہ تقوی نہیں جو علم عطا کرتا ہے.وہ تقویٰ اور ہے اور ایک تقویٰ یہ ہے کہ جہاں بیچ دیکھا وہاں اسے پہچان لیا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو دلیل سمجھنے کی سب سے زیادہ عظیم الشان مثال حضرت ابوبکر صدیق کا ایمان لانا ہے.جب آنحضور ﷺ نے دعوئی فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق وہاں موجود نہیں تھے بلکہ کسی سفر پر گئے ہوئے تھے.جب واپس تشریف لائے تو آپ کی لونڈی نے اس خیال سے کہ بہت گہرا دوست تھا اگر اس کو پتا چل گیا کہ محمد رسول الله ، یعنی رسول اللہ ہے تو اس نے نہیں کہا وہ تو مشرکہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کی طرف ذہن لے جاتے ہوئے اس نے سوچا کہ یہ شخص محمد ایسا ایسا ہو گیا ایسی ایسی باتیں کرتا ہے تو کہیں بہت گہرا صدمہ نہ پہنچ جائے تو اس نے آہستہ آہستہ جس طرح کوئی
خطبات طاہر جلد 14 941 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء صلى الله بہت بری خبر کسی کا دل ٹھہرانے کی خاطر آہستہ بیان کی جاتی ہے.کہنا شروع کیا اوہ بے چارہ محمد یہ ہوگیا ہے، وہ ہو گیا.باتیں نہیں کرتی تھی اور اشارے کر رہی تھی.کھل کر بات نہیں بتاتی تھی.حضرت ابوبکر کو سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی کیا واقعہ ہو گیا، کیا ہوا؟ کیا ہوا ؟ مجھے بتاؤ.تب اس کو بتانا پڑا اس نے تو دعوی کر دیا ہے کہ مجھ پر خدا اترتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں اس زمانے کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.ایسی ایسی باتیں کرتا ہے.ہر چیز وہیں چھوڑ دی، سیدھا حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہا اے محمد ہے تیری طرف یہ باتیں منسوب کی جارہی ہیں، بتا کیا تو نے ایسا دعوی کیا ہے.آنحضرت ﷺ کو بھی وہی فکر لاحق ہوئی کہ میرا عزیز دوست ہے اگر اچانک میں نے اس کو بتادیا تو کہیں ٹھو کر نہ کھا جائے.تو آپ نے فرمایا سنوا بو بکر یہ یہ بات ہے، یہ دلیل ، اس قسم کی باتیں شروع کیں تو حضرت ابو بکڑ نے کہا میں نے تو یہ نہیں پوچھا کہ دلیل کیا ہے.میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے یا نہیں.حضرت رسول اکرم ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ ہاں میں نے یہ دعویٰ کیا ہے.انہوں نے کہا اگر آپ نے دعوی کیا ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ سچے ہیں.آج ہی میں گواہی دیتا ہوں کہ جو آپ کی گواہی ہے وہی میری گواہی ہے.الفاظ یہ نہ ہوں مختلف ہوں مگر مضمون بعینہ یہی تھا.یہ صدیقیت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے چہرے کو ایک دلیل الله کے طور پر پہلے ہی دیکھ رہے تھے اور جانتے تھے کہ اس کی سچائی کی اس سے بڑھ کر دلیل ہو ہی نہیں سکتی.مگر اس کے لئے جس نور کی ضرورت ہے ضروری نہیں کہ نور قرآن کے مطالعے میں بھی وہی کرشمے دکھائے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی سچائی کو پہچاننے کے باوجود قرآن کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے جس نور کی ضرورت ہے وہ سب سے زیادہ اور سب سے اکمل طور پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کو عطا ہوا اور پھر ان کو عطا ہوتا ہے جن کو خدا جس حد تک نورِ بصیرت عطا فرماتا ہے اور خود ان کی حفاظت کرتا ہے.اور یا درکھیں صرف نور بصیرت عطا ہونا کافی نہیں ہے خود اس کی حفاظت بھی ضروری ہے اور اسے صحیح راستے پر گامزن رکھنے کے لئے جو حفاظتی تدابیر روحانی دنیا میں مقرر ہیں ان کو عملاً مامور کر دینا اس بات پر کہ یہ بندہ جس کو ہم قرآن کا کچھ نور دکھانا چاہتے ہیں یہ غلط نہ دیکھے تم اس کی حفاظت کرو.یہ اس لئے واضح اور قطعی حقیقت ہے کہ جہاں قرآن کی حفاظت کا وعدہ ہے وہاں یہ وعدہ شامل
خطبات طاہر جلد 14 942 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء ہے،اس کے بغیر یہ وعدہ مکمل ہو نہیں سکتا.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس زمانے میں نور فرقان کو ظاہر کرنے کے لئے پیدا فرمایا گیا تو وہی نور بصیرت جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کو پہچاننے اور اس پر گواہ بننے کے لئے درجہ کمال کو پہنچ چکا تھا، وہی نور بصیرت قرآن کو سمجھنے میں بھی درجہ کمال کو پہنچ چکا تھا، وہی نور بصیرت قرآن کو سمجھنے میں بھی درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے اور اس پہلو سے اندرونی نور کے مختلف مظاہر میں فرق دکھائی دیتا ہے.ایک نور وہ ہے جو صداقت کو پہچانتا ہے اور چہروں کو دیکھتا ہے اور پھر گواہی دیتا ہے اس کے بعد اور کسی گواہی کی ضرورت نہیں رہتی.ایک نور اس درجہ تک صیقل ہو جاتا ہے کہ نور محمد کے اندراس درجہ مستغرق ہو جاتا ہے، ایسا گہرائی تک اتر جاتا ہے کہ جب قرآن کو پڑھتا ہے تو قرآن کے مخفی راز بھی اس پر روشن ہونے لگتے ہیں مگر وحی الہی کے نور اور محمد رسول اللہ اللہ کے نور میں ایک فرق یہ ہے، اگر کوئی فرق ہے تو یہ ہے کہ وحی الہی کا نور دائمی طور پر اپنے معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتا چلا جاتا ہے اور ہر موقع اور حال کے مطابق وہ معانی اس میں دکھائی دیتے ہیں اور نورمحمد رسول اللہ ﷺ کے نور میں وہ معانی اس طرح سمجھ میں نہیں آتے سوائے اس کے کہ قرآن کے حوالے سے آپ پیش گوئیاں کرتے ہیں تو پھر معنی دکھائی دینے لگتے ہیں تو ایک دوسرے کے آئینہ بن جاتے ہیں.پیش گوئیاں فی ذاتہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں نہیں ہیں.فی ذاتہ قرآن کریم میں ہیں.آئندہ کی خبریں اور حالات کا چارہ قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے.آنحضرت ﷺ کے نور بصیرت نے انہیں دیکھا، سمجھا اور اس کے علاوہ مزید وحی آپ پر نازل ہوئی اور وحی کی مدد کے بغیر آپ کو بھی کلیہ وہ باتیں اس طرح دکھائی نہیں دیں جس طرح آپ نے دیکھیں اور پھر ہمیں دکھا ئیں.تو جہاں ہم کہتے ہیں کہ کتاب اور رسول ﷺ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یہ ایک طرز کلام ہے.اس کو لفظ لفظ اسی طرح چسپاں کر دینا کہ بالکل ایک ہی چیز ہیں.یہ بالکل نا معقول بات ہے.جو تمثیلات کے اعلیٰ پہلو ہیں.جو عقلاً ایک دوسرے پر چسپاں کئے جاسکتے ہیں اسی حد تک تمثیل صادق آتی ہے ورنہ محمد رسول اللہ ﷺ کو تو اس کتابت قرآن کی طرح لکھا تو نہیں جا سکتا اور قرآن کریم کی بہت سی باتیں ہیں.قرآن کریم جستہ جستہ وحی کی صورت میں نازل ہوا ہے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے نور متعلق یہ بھی آتا ہے کہ سب سے اول بنایا گیا اور پھر جب آپ پیدا ہوئے تو تمام نورانی صفات آپ
خطبات طاہر جلد 14 943 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء کے اندر داخل تھیں.مگر جب تک قرآن نہیں اترانُور عَلى نُورٍ (النور: 36) ان پہلوؤں سے نہیں بنے.ہر وحی نے آپ کے ایک نور پر جلوہ گری کی ہے پھر وہاں امتزاج کامل ہوا ہے.پھر ہم کہہ سکتے صلى الله ہیں کہ وہ نور جو قرآن میں ہے وہی نور محمد رسول اللہ ﷺے ہیں اور اس کو تئیس (23) سال لگے ہیں مکمل ہونے میں.مگر یہ سلسلہ نور کی جلاء کا جیسا کہ میں نے پچھلے خطبے میں بیان کیا تھا یہ حضور اکرم ہے کے وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے اور اسی نور کی پیروی سے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر ایک خوب صورت پیکر کی صورت میں ابھری ہے اور جہاں فرق ہیں وہاں فرق ہیں اور جہاں مماثلتیں ہیں وہاں مماثلتیں ہیں.مگر اولیت بہر حال اولیت ہے اور جو کچھ بھی مسیح موعود علیہ السلام نے نور پایا قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ سے پایا اور محمد رسول اللہ اللہ سے تعلق کے بغیر آپ کو قرآن کا کوئی نور بھی نہیں مل سکتا تھا.ایک ذرہ بھی ہدایت کا آپ پانہیں سکتے تھے اگر اس دائرے میں محمد رسول اللہ سے استغناء ہوتا، ضرورت کا احساس نہ ہوتا اور عملاً استفادہ نہ کیا جاتا.پس یہ تمام شرطیں اس تعلق میں سمجھنی ضروری ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن اور رسول اللہ ﷺ سے کیا تعلق تھا.پس آپ نے جو نور دیکھا، جو ہمیں دکھا یاوہ آپ کی کتابوں میں اس طرح دمک رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص نے اپنی زندگی کی اتنی مصروفیات کے باوجود اتنے عظیم معارف کیسے بیان کئے ، کیسے کھولے.کیسے وقت پایا اور پھر ان کو اس طرح اجتماعی شکل میں تھوڑے وقت میں بڑے مضمون کو کوزے میں دریاؤں کی طرح بند کر دیا اور اس پر اب غور کی ضرورت ہے.اس پر ہمیشہ گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہوئے ، دیکھتے ہوئے ، بیچ میں اترتے ہوئے اس طرح آپ سفر کریں تو تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں ورنہ کئی دفعہ دھو کے بھی لگ جاتے ہیں ایک ہی تحریر سے بعض دفعہ بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ یہاں گویا رسول اللہ ﷺ کی اس ظاہری رویت کا ذکر ہے جس میں آپ نے خدا کو دیکھا حالانکہ ظاہری رویت خدا کی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے.ناممکن ہے ہو ہی نہیں سکتی اور کبھی آنحضرت ﷺ کی ظاہری رویت کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا.مگر یہ الگ مضمون ہے میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں سے اس قسم کے اشتہات پیدا ہوتے ہیں.پھر پڑھیں ، پھر پڑھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ الله
خطبات طاہر جلد 14 944 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء اصل مقصد کیا تھا.مثلاً ایسا ہی ایک اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا وَخَرَّ مُوسى صَعِقَا (الاعراف : 144 ).موسیٰ علیہ السلام کا بے ہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نو رانی تھا جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی.بلکہ تجلیات صفات الہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں وہ اس کا موجب اور 66 باعث تھیں.“ اب اس مضمون کو اچھا اردو دان بھی فورا نہیں سمجھ سکتا کیونکہ زبان ہے تو اردو مگر چوٹی کی اردو ہے جس میں عربی کے تمام الفاظ شامل کیے گئے ہیں جو اس مضمون سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ مجبوری ہے کیونکہ تھوڑی جگہ جب زیادہ مضامین باندھنے ہوں تو اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ کچھ مشکل راستوں سے گزرا جائے.احتیاطاً تاکید بھی فرما دی کہ دیکھوتم یہ نہ سمجھ لینا کہ ایک ہی دفعہ کتا ہیں پڑھ کر تم فارغ ہو جاؤ گے.تمہیں بار بار پڑھنا پڑیں گی اور اگر یہ سمجھو کہ ایک ہی دفعہ کی پڑھائی سے تم سب کچھ پا لو گے تو یہ تکبر ہے.چنانچہ بعض لوگ بڑی گھبراہٹ میں لکھتے ہیں کہ ہم نے تو ابھی تک ایک دفعہ بھی نہیں پڑھیں اگر آج مر گئے تو کیا ہم متکبر مریں گے.ان کو میں سمجھا تا ہوں کہ تم بات نہیں سمجھ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مطلب ہے کہ بعض علماء مثلاً یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک دفعہ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں، بعض سمجھتے ہیں ایک دفعہ پڑھ لیا کافی ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام متوجہ فرما رہے ہیں، متنبہ کر رہے ہیں کہ میں نے جو علوم کے خزانے لٹائے ہیں اس میں بارہا اتنا گہرا مضمون اتنی تھوڑی جگہ میں بیان فرمایا ہے کہ عام عقل والا آدمی تو الگ علماء بھی جب تک اس کو بڑی توجہ سے انکسار کے ساتھ بار بار نہ پڑھیں وہ مطلب نہیں پاسکیں گے.یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نور یافتہ ہیں.عام دنیا کے حالات میں شعراء بھی ایسی باتیں کرتے ہیں جن کو پتا ہو کہ ہم ذرا مشکل ہیں: آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے اپنے عالم تحریر کا (دیوان غالب صفحہ: 25)
خطبات طاہر جلد 14 945 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء غالب کہتا ہے کہ ہوش، توجہ کے ساتھ تم سننا اور سمجھنا، سننے کا جال شنیدن سننا، اس کے جتنے چاہے جال بچھا دے مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا کہ ہمارے لکھنے یا ہمارے کلام کا جو مدعا ہے وہ تو عنقا ہے پھر بھی نہیں پکڑا جائے گا.مراد یہ ہے، اب یہ مبالغے کی حد ہے، دیکھیں انبیا تو ایسے مبالغے نہیں کیا کرتے مگر وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ ہم نے بالا رادہ زیادہ مضامین باندھے ہیں اور بمشکل انہیں بیان کر سکے ہیں یہ بھی ایک احساس رکھتے ہیں کہ ہر کس و ناکس اس مضمون کو پا نہیں سکے گا.مگر مضمون کا مشکل ہونا اس کی قدر نہیں گھٹاتا بلکہ اس کی قدر بڑھا دیتا ہے.یہ کہنا چاہتا ہے غالب.عنقا ایک ایسے فرضی پرندے کا نام ہے جیسے ہما ہے اب مجھے صحیح تلفظ یا دنہیں عنقا ہے کہ عنقا.میں تو عنقا ہی پڑھا کرتا ہوں وہ کہتا ہے کہ وہ پرندہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر کسی پر اس کا سایہ پڑ جائے تو وہ بادشاہ ہو جاتا ہے وہ پرندہ کسی دام میں ہاتھ نہیں آیا کرتا.پس میرے مضمون کو تم اگر پاگئے تو بادشاہ ہو جاؤ گے، دولت مند ہو جاؤ گے مگر تمہاری توجہ جتنا چاہے سنے، سننے کے لئے جال بچھا لے تم اس کو پکڑ نہیں سکو گے.مگر اگر پکڑ لیا تو پھر بہت بڑا مطلب پاؤ گے.یہ بات اسی طرح حقیقت سے خالی ہے جیسے عنقا کا وجود خالی ہے کچھ بھی نہیں.مگر میں آپ کو انسانی فطرت کے طریقے بتا رہا ہوں کہ وہ اس طرح بھی باتیں کرتے ہیں.وہ لوگ جو مشکل پسندی کرتے ہیں یا مشکل باتیں لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں توجہ ضرور دلا دیا کرتے ہیں کہ بڑی قیمتی باتیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اللہ سے نور یافتہ تھے اس لئے نور کا کام ہے کہ ہر رستے کے اونچ نیچ سے آگاہ کرے ، متنبہ کرے، ہر ٹھوکر سے پہلے ہی سے خبر دار کر دے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو تین دفعہ فرمایا ہے اور بعید نہیں کہ وہ کئی لوگ ہوں جن کو تین دفعہ پڑھ کے بھی سمجھ نہ آئے.مگر یہ تو دعا کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مطالب کو سمجھنے کا نور ہمیں اللہ ضرور عطا کرے کیونکہ وہ مطالب ہیں جو قرآن کے مطالب ہیں ، وہ مطالب صلى الله ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے مطالب ہیں.پس آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ جسمانی ظلمت نہ تھی.یہ واقعہ روحانی تھا جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی مراد یہ ہے کہ موسیٰ کے وجود میں کوئی جسمانی ظلمت ایسی نہیں تھی جس کے نتیجے میں بجلی کو دیکھنے سے آپ محروم ہو گئے اور بے ہوش ہو کے جا پڑے.یہ ایک نورانی واقعہ ہے یعنی وہ
خطبات طاہر جلد 14 946 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء صفات الہیہ کی روحانی جلوہ گری جو انسان کے لئے یعنی انسان کامل کے لئے مقدر تھی حضرت موسی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.یہ مراد ہے.چنانچہ فرماتے ہیں بلکہ تجلیات صفات الہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں اشراق نور ، نور جب چمک اٹھتا ہے اور ہر طرف پھیل جاتا ہے اس کو کہتے ہیں اشراق اور بغایت جو حد تک،اس حد تک جو انتہائی حد ہے اس حد تک جو نو را چانک پھوٹ پڑے اور تمام ماحول کو، تمام سمتوں کو منور کر دے، تمام اطراف کو منور کر دے، ایسا نور جو غیر معمولی قوت سے پھوٹا ہو وہ تجلی ان لوگوں کو دکھائی دے نہیں سکتی جن کی آنکھیں اس انتہائی نور کی انتہائی جلوہ گری کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی ہوں جو محمد رسول اللہ اللہ کے لئے مقدر تھا.یہ مراد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمار ہے دو ہیں کیونکہ ہر سمت میں نور پھیلا تو تھا مگر ہر سمت میں وہ آنکھ نہیں تھی جو اس نور کی متحمل ہو سکتی.پھر فرماتے ہیں ظہور میں آئی تھیں وہ اس کا موجب اور باعث تھیں، یعنی جلوہ خود پردہ بن گیا تھا.وہ جلوے کی انتہا خود نظر کے لئے پردہ ثابت ہوئی اور یہ واقعہ ہے کہ اگر اچانک روشنی اپنا تموج دکھائے غیر معمولی جولانی دکھائے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور نظر اندھی ہو جایا کرتی ہے.تو اندرونی کسی بنیادی روحانی نقص کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا تھا یا بدنی کمزور کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ایک روحانی کیفیت تھی جو ان کی روحانی استطاعت سے بڑھ کر تھی.یہ بات جو حضرت مسیح موعود اس مضمون میں واضح فرمارہے ہیں ،مگر کس لطیف انداز میں، کہتے ہیں اس کا موجب اور باعث تھیں جن کی اشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بے ہوش ہو کر گر پڑا عاجز بندہ، عمران کا بیٹا اس کی کہاں طاقت تھی ، اس میں کہاں تاب تھی کہ وہ جلوہ دیکھ سکے جو اشراق تام کا جلوہ ہے.پھر فرماتے ہیں اگر عنایات الہیہ اس کا تدارک نہ فرمایا کرتیں تو اسی حالت میں گداز ہوکرنا بود ہو جاتا“ اسی حالت میں پکھل کر وہ نیست میں چلا جاتا، جو تھا وہ نہ رہتا، کچھ بھی نہ ہوتا اسکا.نابود کا لفظی ترجمہ ہے جو نہیں تھا.جو تھا وہ ایسا ہو گیا گویا نہیں تھا یہ کیفیت ہو جاتی.اب دیکھیں یہ جو کیفیت
خطبات طاہر جلد 14 947 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء ہے یہ پردہ نور کی تجلیات سے تعلق میں ہے.جو خدا تعالیٰ کی ذات کا نور ہے جونور کے پردے میں مخفی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اس نور کو جو پردہ نور کے پیچھے چھپا ہوا ہے اس ذات الہیہ کو حضرت رسول اللہ ﷺ نے گویا اپنی بدنی آنکھوں سے دیکھا صلى الله تھا، کہیں اشارہ بھی ذکر نہیں ملتا.یہ وہ نور کی تجلی ہے جس نور کا ذکر رسول اللہ علیہ فرما چکے ہیں صلى الله اور بتا چکے ہیں کہ یہ سب پردے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی کی تشریح میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا والے واقعہ کو بیان کر کے خود فرماتے ہیں کہ جو اصل نورالہی ہے اس کو تو کوئی دیکھ سکتا ہی نہیں.عام دنیا کی چیزوں میں جب خدا کو جلوہ گر دیکھتے ہیں تو جو دکھائی دے رہا ہوتا ہے ہم اسی کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں اور یہ غلطی ہے.نور بہر حال پیچھے ہے جس کی حرکت سے دنیا کا ہر جلوہ دکھائی دیتا ہے اور اسی سے پیدا ہوتا ہے.بہر حال اس مضمون میں آگے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مگریہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے“ جو مرتبہ عطا ہوا ہے موسیٰ کو اور اس سے ملتے جلتے مراتب یہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں.ہے.انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى (النجم: 18) جس کے متعلق لکھا ہے کہ نظر نے دھوکہ نہیں کھایا.وَمَا طَغَی اور کجی نہیں دکھائی اس چیز میں جو اس کو دکھائی دی.اتنا حصہ پڑھنے کے بعد یہ اثر پڑتا ہے کہ پہلے جو تجلیات نور کا ذکر تھا اس سے ہٹا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرف لے جارہے ہیں کہ باقی انبیاء نے تو خدا تعالیٰ کے اس نور کو دیکھا جو مخلوق کے لئے مقدر تھا یا مخلوق کے اعلیٰ مظاہر کے لئے یعنی انبیاء کے لئے اس کی رویت مقدر صلى الله تھی ، ان کی طاقت میں تھی.مگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس سے بڑھ کر ظاہری آنکھوں سے بھی گویا خدا کو دیکھ لیا ، یہ ترجمہ درست نہیں ہے ، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے ساتھ آگے بھی کچھ لکھ رہے ہیں.فرمایا.”انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے.عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اس پر وارد ہوتی ہیں مگر اعلیٰ مقام اس کی عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری ہے اور سکر اور شطع سے
خطبات طاہر جلد 14 948 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء بکلی بیزاری ہے.“ (مکتوبات احمد جلد 1، صفحہ: 521) یہ جو مضمون ہے اس کا اب خلاصہ میں یہاں اس وقت بیان کر سکتا ہوں.آپ کی مراد یہ ہے کہ انسان جب خدا کو دیکھتا ہے تو وہ حالت کشفیہ ہوتی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن حالتِ کشفیہ میں دو قسم کے تجارب دیکھنے میں آتے ہیں.عباس علی شاہ جو بعد میں مرتد ہو گیا تھا شروع میں اس کا جو معاملات میں چھان بین کرنا تجسس کرنا، معاملات کی تہہ تک اتر نا ایسا رنگ اختیار کئے ہوئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس سے نیک توقعات بھی وابستہ ہوئیں مگر اس کی بد نصیبی کہ وہ پھر زمین کی طرف جھک گیا اور ان صفات سے فائدہ نہ اٹھا سکا جو اس کے رفع کا موجب بن سکتی تھیں.اس لئے عباس علی شاہ کا ذکر کرتے ہوئے مجھے آپ کو بتانا چاہئے کہ یہ اس کا پس منظر ہے.اس نے ایک خط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کہ وہ لوگ جو صوفیا ہیں اور اپنی ذات میں غرق ہو کر خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں ان پر ایک ربود گی سی طاری ہو جاتی ہے اور نیند کی سی حالت اور کیفیت ہوتی ہے.مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر تم نیند کی کیفیت محسوس کرو تو نماز کے قریب تک نہ جاؤ تو ان دو باتوں میں کیا تضاد ہے؟ یہ مضمون ہے جس کو کھولتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مثالیں پیش فرمائی ہیں.خلاصہ مطلب یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ جونور کی جلوہ گری سے ربودگی پیدا ہوتی ہے وہ عبودیت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے سوا جو غنودگی ہے وہ دنیا داری ہے اور مردنی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں.آپ فرماتے ہیں کہ دراصل یہ دیکھنا ہوگا کہ نیند کا سا نشہ یا غنودگی جس کو کہتے ہیں وہ کس باعث سے ہوئی ہے.کیا وہ خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کے نتیجے میں ہوئی ہے یا دنیا داری کے نتیجے میں ہوئی ہے.اگر وہ دنیا داری کے نتیجے میں ہے تو وہ محض موت ہے اور اس حالت میں تم نماز کے قریب تک نہ جاؤ اور اگر اس وجہ سے ہوئی ہے کہ تم خدا کی محبت میں ڈوب کر اس کے سرور میں غائب ہو گئے ہوتو وہ ربودگی اور قسم کی چیز ہے.اس حالت میں تو انسان کی بینائی اور روشن ہو جاتی ہے اور اسی حالت میں اللہ کا جلوہ انسان دیکھ سکتا ہے اور دیدار الہی کی وہ تو فیق پاتا ہے جو عام انسان کو میسر نہیں آسکتی اور اس کا تعلق عبودیت سے ہے، تکبر سے نہیں ہے.پس اہل تکبر بھی ایک غفلت کی حالت میں رہتے ہیں اور اہل انکسار بھی ایک قسم کی غفلت کی
خطبات طاہر جلد 14 949 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء حالت میں ڈوب جاتے ہیں مگر وہ غفلت ان کو دنیا سے غافل کرتی ہے اور اللہ کے احساس کو روشن تر کرتی چلی جاتی ہے اس حالت میں نماز سے منع نہیں فرمایا گیا وہ تو نماز کا مقصد ہے.تو یہ خلاصہ کلام ہے.ہوشیاری بھی ہے اور چالا کی بھی دو قسم کی چیزیں ہیں اور ہوشیاری بھی اور بیہوشی بھی ، بیدار مغزی بھی ہے اور بے ہوشی بھی ہے.ان دونوں کا ایسا لطیف اور باریک فرق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس خط میں کر دکھایا ہے کہ بالآخر یہ نتیجہ نکالا کہ اس قسم کی حالت جو عبودیت سے پیدا ہوتی ہے یہ سب سے اعلیٰ مقام ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوا اور عبودیت کاملہ کے نتیجے میں آپ نے وہ دیکھا جو اور کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا مگر انسان کے دائرے میں رہتے ہوئے اور انسان محض کشفی حالتوں میں دیکھ سکتا ہے ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا کرتا.آپ کے الفاظ ہیں انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے یہ کشفیہ حالت اس نیند سے بالکل مختلف ہے جو نفسانی وجوہات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور وہ نیند وہ ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اس حالت میں تم نماز کے قریب تک نہ جاؤ.اب جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رویت کا تعلق ہے وہ لازما وہی رویت ہے جو خدا تعالیٰ کے پردہ نور کی انتہاء درجے تک فراست اور اس کی کنہ کو اس حد تک پانا ہے جس حد تک انسان کامل کے لئے مقدر تھا.ان سے آگے بڑھنے کا کوئی ذکر نہیں.چنانچہ حضرت عکرمہ کی ایک حدیث ترمذی کتاب التفسیر میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا.عکرمہ کہتے ہیں جب میں نے یہ سنا تو میں نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا: لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام : 104) کہ اللہ کو آنکھیں نہیں پہنچ سکتیں ،نظر نہیں پہنچ سکتی.ہاں اللہ نظروں تک پہنچتا ہے تو پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے دو دفعہ اپنے رب کو دیکھا.اس پر حضرت ابن عباس نے کہا تیرا بھلا ہو یہ وہ رویت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائی جو اس کا نور ہے.اور وہ نور کیا ہے حضرت محمد رسول اللہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حجاب ہے اور اس حجاب سے صل الله بڑھ کر کچھ دکھائی نہیں دے سکتا.اگر دکھائی دے تو ساری کائنات کالعدم ہو جائے ،اچانک
خطبات طاہر جلد 14 950 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء ہست سے نیست میں منتقل ہو جائے.ہر مخلوق آپ نے فرمایا ہے، پس ان دو احادیث میں جو بھی تضاد پیدا کرنے کی کوشش کرے گاوہ دونوں نوروں سے محروم رہ جائے گا.اس حدیث کے نور سے بھی محروم رہ جائے گا ، اس حدیث کے نور سے بھی محروم رہ جائے گا.پس وہ رویت جو محمد رسول اللہ ﷺ کو دکھائی گئی حضرت ابن عباس کہتے ہیں وہ تو اس نور کے جلوے سے دکھائی گئی جس نور کے جلوے سے خدا دکھائی دے سکتا ہے اور اب اس پر وہ آیت پڑھیں نُورٌ عَلی نُورٍ کہ محمد رسول اللہ اللہ کے نور پر عرش سے خدا کا نورا ترا ہے وہ نور جو اترا ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کے ساتھ بغایت درجہ یکجا ہو گیا، یک جان ہو گیا.ایک ہی چیز تھی جس کے آپس میں ملنے سے بجلی نے غیر معمولی اس طرح جلوہ گری کی ہے جیسے بڑی قوت کے ساتھ کوئی چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور غیر معمولی رفعتیں پیدا ہوئیں اور یہ نور مخلوق ہے اور اللہ کی ذات کا نور مخلوق نہیں ہے، اس فرق کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں تا کہ آپ کبھی بھی شرک میں مبتلا نہ ہوسکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جو باتیں بھی بیان فرمائی ہیں ان میں ایک ذرہ بھی قرآن اور حدیث کے منافی کوئی بات نہیں اور قرآن اور حدیث نے یہ بات کھول دی ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ اپنے نور کومخلوق فرما رہے ہیں اور خدا تعالیٰ ہر مخلوق چیز کو اپنے اپنے مرتبے اور مقام کے مطابق نور کہہ رہا ہے.فرماتا ہے ہر چیز جو خلق ہے اس میں میرا کچھ نہ کچھ جلوہ ضرور موجود ہے اور وہ جلوہ جو ہے وہ دراصل میرے نور کا جو اندرونی نور ہے جو باطن میں میں ہوں اس پر پردہ ہے کیونکہ اس پردے کے بغیر تم مجھے دیکھ ہی نہیں سکتے.پس یہ وہ خلاصہ کلام ہے ان مختلف عبارتوں کے مجموعی طور پر دیکھنے سے جس کے تعلق میں انشاء اللہ میں آئندہ خطبے میں بعض دوسری باتیں بیان کروں گا اور اس پہلو پر بھی کچھ اور روشنی ڈالوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مختلف عبارتوں میں اپنے مضمون کو خوب کھولا ہے وہ عبارتیں آپ کو دکھاؤں گا تا کہ کسی احمدی کے دل میں اس پہلو سے کوئی اشتباہ کا سوال باقی نہ رہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جب یہ باتیں آپ پر روشن ہو جائیں گی تو پھر آپ کے اندر وہ نور چمکنے لگے گا اور بیدار ہونے لگے گا جو آپ کو عطا ہوا ہے.ہر انسان کو عطا ہوا ہوا ہے، ہر انسان کی فطرت میں وہ نور رکھا گیا ہے، کہیں باہر سے نہیں آئے گا.یہ نور جب چمکے گا تو پھر آسمان سے شعلہ نور آپ پر بھی اترے گا اور لا زم ہے کہ اترے کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں پر آپ کے ماحول میں،
خطبات طاہر جلد 14 951 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 1995ء آپ کے اردگرد وہی شعلہ نور اترتا رہا اور ان کے گھر بھی مشعلیں روشن ہو گئیں، وہ چراغ جلنے لگے جو محمد رسول اللہ اللہ کے نور سے روشن ہوئے تھے.پس اس نور کو اس دنیا میں زندہ کرنا اپنی ذات میں، اپنی ذات کو چراغوں میں تبدیل کر دینا، اس دنیا کے اندھیرے دور کر دینے کے لئے لازم ہے، ہرگز یہ کوئی ایسا مضمون نہیں جو علمی، ذوقی دلچسپیوں کی خاطر بیان کیا جا رہا ہو.ہم میں سے ہر ایک کی ذات سے اس کا گہرا ذاتی تعلق ہے.ہماری زندگی اور موت سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.اس مضمون کو مجھیں اور نور بنیں گے تو آپ بھی زندہ ہوں گے اور زندہ رہیں گے اور ساری کائنات کو زندہ کرنے کی صلاحیت آپ میں پیدا ہو جائے گی.اگر اس کے بغیر غفلت کی حالت میں زندگی بسر کریں گے تو صلى الله غفلت کا نام تو اندھیرے ہیں.پھر ان اندھیروں سے جن سے محمد رسول اللہ ا نکالنے کے لئے تشریف لائے ان اندھیروں سے آپ تو پھر کبھی نہیں نکل سکیں گے.اس لئے بہت ہی بیدار مغزی کی ضرورت ہے.جاگیں ، ہوش کریں ، اٹھیں اور اپنی ذات میں ان نوروں کو تلاش کریں جو خدا نے آپ کی ذات میں رکھ دیئے ہیں اور آنحضرت مے کے حوالے سے آپ کی پیروی میں ان کو جلا بخشیں.پس میں تو اس مضمون کو یوں سمجھتا ہوں اور آخر پر یہی آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں کہ جس طرح خدا کے نور نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور پر جلوہ گری کی تھی اور نُورٌ عَلی نُورِ بن گیا تھا آج ہمارے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کا نور وہی کام دکھائے گا.جس حد تک آپ کسی گوشے کا روشن کریں گے یا چمکائیں گے اسی حد تک وہاں نور محمد مصطفی ملے آپ پر نازل ہو کر آپ کے اندر ایک نُور عَلَى نُورٍ کا منظر پیدا کر دے گا.
952 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 953 خطبہ جمعہ 22 دسمبر 1995ء اصلى الله آنج غلامان محمد مصطفی ﷺ کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے پس ہراند ھیرے کو نور میں بدل دو یہاں تک کہ نور مصطفوی غالب آجائے.( خطبه جمعه فرموده 22 دسمبر 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) (الصف: 8 تا 10) پھر فرمایا:.ان آیات سے متعلق خطاب سے پہلے چند اعلانات ہیں ایک تو یہ کہ جماعت احمد یہ نائیجیریا کا جلسہ سالانہ آج 22 دسمبر سے شروع ہو رہا ہے تین دن جاری رہ کر 24 / دسمبر کو اختتام پذیر ہوگا.دوسرے جماعت احمد یہ West Coast USA کا سالانہ جلسہ آج 22 دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے اور امیر صاحب یونائیٹیڈ اسٹیٹس مکرم ایم ایم احمد صاحب بھی خدا کے فضل سے وہاں شرکت کے لئے تشریف لے گئے ہیں.یہ اس لئے بتانا ضروری تھا کہ ان کی طبیعت پیچھے کافی خراب رہی اور میں دعا کی تحریک بھی کرتا رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا بخشی اور اتنی طاقت عطا فرما دی کہ
خطبات طاہر جلد 14 954 خطبہ جمعہ 22 دسمبر 1995ء واشنگٹن سے لاس اینجلس کا سفر اختیار کیا اور اب وہ بنفس نفیس وہاں شمولیت فرمارہے ہیں.جماعت احمدیہ ہالینڈ کا ایک سالانہ تربیتی اجتماع ہے وہ آج سے شروع ہو رہا ہے.تین دن تک جاری رہے گا.اسی طرح جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ کا بھی ایک سالانہ تربیتی اجتماع ہے جو آج منعقد ہو رہا ہے ، 25 / دسمبر تک جاری رہے گا.مجلس انصار اللہ انڈونیشیا کا سالانہ اجتماع اور مجلس شوریٰ آج سے شروع ہو رہے ہیں پہلے دو دن اجتماع اور آخری روز شوری کا انعقاد ہو گا.مجلس انصاراللہ ناروے کی پانچویں مجلس شوری 24 دسمبر بروز اتوار منعقد ہو گی.ان تمام ملکوں کے امراء نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کی طرف سے تمام دنیا کی جماعتوں کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کا تحفہ پہنچایا جائے اور درخواست کی جائے کہ وہ ان اجتماعات کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ ہر پہلو سے بابرکت بنائے اور جو برکتیں شامل ہونے والوں کو نصیب ہوں وہ دائمی ہوں چند دن ساتھ رہ کر چھوڑ جانے والی نہ ہوں.آخری درخواست جو امیر صاحب جماعت احمد یہ جرمنی کی طرف سے موصول ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خطبہ جمعہ میں تبلیغ کی طرف دوبارہ احباب جماعت کو توجہ دلائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے خطبے کا اچھا اثر ظاہر ہوا تھا اور یہ ایسا مضمون ہے جس کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے.امیر صاحب جرمنی نے اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ بہت محنت کے ساتھ تبلیغ کی ذمہ داری کو نبھانا شروع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ ایک ایک جماعت میں پہنچ رہے ہیں اور وہاں جا کر یا بعض جماعتوں کے مراکز بنا کر وہاں پہنچ رہے ہیں اور از خود بڑی محنت سے ان کے تبلیغی پروگراموں کا جائزہ لے رہے ہیں ، نئے مشورے ان کو دے رہے ہیں اور اس طرح جماعت جرمنی میں ایک بہت بڑی تبلیغی مہم کا آغاز ہو چکا ہے جس میں کثرت کے ساتھ جرمن جماعت کے احمدی شامل ہیں اس سلسلے میں وہ فرما رہے تھے انہوں نے خط بھی لکھا اور فون پر بھی درخواست بھیجی کہ میں ضرورت سمجھتا ہوں کہ آپ براہ راست اگر کچھ کہہ دیں گے تو ہماری اس مہم کے حق میں ہوا چل پڑے گی.یہ امر واقعہ ہے جب بھی اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ کو بھی کسی تحریک کی توفیق عطا فرماتا ہے تو جس طرح غیر معمولی طور پر لبیک لبیک کی آوازیں اٹھتی ہیں اور جماعت تیزی سے اس طرف چل پڑتی ہے ویسا اثر دوسری تحریکات میں نہیں ہے اور یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ
خطبات طاہر جلد 14 955 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء خلافت احمدیہ کی ضرورت پر ایک نشان ہے ، ایک دلیل ہے ،ایک برھان ہے جس کا کوئی جواب نہیں.نہ عقلی طور پر ، نہ مثال کے طور پر.دنیا بھر میں کسی آواز کو خدا نے وہ طاقت نہیں بخشی کہ وہ آواز اٹھے تو ساری دنیا کے کونے کونے سے نہ صرف زبانیں تائید کا اقرار کریں،اطاعت کا اقرار کریں بلکہ سارا جسم ، سارا وجود اس کی تائید میں اپنے آپ کو اس طرح پیش کر دے جیسے وہ آدم کو سجدہ کرنے والا مضمون ہو یعنی شرک سے ہٹ کر جو سجدہ بھی آدم کو جائز ہے وہ سجدہ خلافت سے تعلق رکھتا ہے اور انہی معنوں میں میں نے یہ مثال دی ہے اور خلافت احمد یہ حقہ کے لئے لازم تھا کہ خدا طبیعتوں میں وہی میلان سجدہ پیدا فرمائے جو آدم کے لئے ان معنوں میں تھا کہ چونکہ خدا کی آواز کی پیروی کر رہا ہے اس لئے اس کی اطاعت کرو.تو یہ ہمارا تجربہ اتنا وسیع ہے، پچھلے خطبہ میں مجھے یاد ہے جب وہ خطبہ دیا تھا جس میں کینیڈا کو بیدار کرنے کی کوشش کی تھی جھنجھوڑا تھا ، اس پر اس کثرت سے خط آئے ہیں مردوں ، عورتوں اور بچوں کے کہ میں حیران ہو جاتا ہوں دیکھ کر ، وہ کہتے ہیں ہم سے کوتاہی ہوئی جو سابقہ غفلتیں تھیں ان کو معاف کیا جائے ، اب تو ساری جماعت میں ایک قسم کی سنسنی سی پھیل گئی ہے.ہر چھوٹا بڑا تبلیغ کے رستے ڈھونڈھ رہا ہے اور بہت ہیں جو تبلیغ میں مصروف ہو چکے ہیں.تو اس پہلو سے مکرم امیر صاحب جرمنی عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کا مشورہ بالکل درست ہے لیکن یہ حسن اتفاق کہہ لیں یا تصرف الہی کہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ پہلے سے منتخب شدہ آیات تھیں یعنی ان کی باری ان آیات میں یہیں تھی جہاں یہ اس وقت موجود ہیں.گزشتہ جو سلسلہ جاری ہے نور کے خطبات کا اس میں جن آیات کو میں نے ترتیب دے رکھی تھی ان میں آج یہی آیت میرے پیش نظر تھی اور اسی آیت میں تبلیغ کا ذکر ہے اور اس آیت کے حوالے سے خواہ امیر صاحب جرمنی مجھے توجہ دلاتے یا نہ دلاتے مجھے لازماًیہ ذکر کرنا ہی تھا.پس اس پہلو سے میں اب اس آیت کی طرف لوٹتے ہوئے اس کا مضمون آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.پہلی آیت جو ہے وہ تو اس امر سے تعلق رکھتی ہے کہ کوئی ایسا شخص جس کو اسلام کی طرف بلایا جارہا ہو اور وہ خدا پر جھوٹ بھی بول رہا ہو وہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتا، لازما وہ ظالم ہے.پس اگر ایک شخص خدا کی طرف بلا رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور لوگ اسے کہیں مسلمان ہو جاؤ، مسلمان ہو جاؤ تم مسلمان نہیں ہو اور وہ اپنے اس دعوے پر قائم رہے اگر وہ
خطبات طاہر جلد 14 956 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء کامیاب ہوتا ہے تو وہ لازماً سچا ہے کیونکہ ظالموں کی تائید اللہ تعالیٰ نہیں فرمایا کرتا.ظالموں کو کبھی کا میابی نصیب نہیں ہوتی.یہ دلیل قائم کرنے کے بعد پھر فرمایا ایسا تو ہوگا لیکن مخالف کوشش ضرور کریں گے کہ اپنے مونہوں سے اس چراغ کو بجھا دیں جو خدا نے روشن فرمایا ہے.پس وَمَنْ أَظْلَمُ کا الٹ مضمون یوں بیان ہوا کہ ایسا شخص جو خدا کی طرف سے ہو ،اس پر جھوٹے الزامات لگیں ،اس کو دھوکے باز ،خدا پر افتراء کرنے والا ،فریبی جو چاہو کہ لو، اگر تمہاری بات درست ہے تو وہ سب سے ظالم ہے اللہ اس سے نپٹنے کے لئے کافی ہے اور اگر تمہاری بات درست نہیں تو پھر اس کی مخالفت تمہارے مونہوں کی پھونکیں ہیں اور خدا کا روشن کردہ چراغ مونہوں کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا.جو چاہو کر لوتم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اس آواز کو نامراد کرنے میں جو آواز خدا کی طرف سے اٹھی تھی اور تم سمجھتے ہو کہ وہ جھوٹا ہے.یہ مضمون ہے يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں اپنے مونہوں سے ، اپنی مونہوں کی پھونکوں سے وَاللهُ مُتِمُّ نُورِ ؟ اور اللہ تو ضرور اپنے نور کو تمام کر کے چھوڑے گا وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ انکار کرنے والے جتنا چاہے نا پسند کریں ان کی ناپسندیدگی ان کے کسی کام نہیں آئے گی.یہ جونور کا معنی ہے یہاں نور سے مراد دین اسلام ہے.پس اسی پہلو سے میں نے آیت کو ترتیب دی تھی کہ اسلام کس آیت سے نور ثابت ہوتا ہے اور کن معنوں میں ثابت ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں اس نور کو پھیلانے کے لئے جو جماعت احمدیہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ہمیں کیا خوشخبری عطا ہوئی ہے.خوشخبری یہ ہے - هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ که محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ ہی نے ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ اس غرض سے بھیجا ہے کہ اسے ضرور عَلَى الدِّينِ كُلِّم تمام ادیان پر غالب کر دے وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ خواہ مشرک لوگ اسے کیساہی ناپسند کیوں نہ کریں.پس جماعت احمدیہ کے دور میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی مقد رتھی کیونکہ سورۃ صف کی آیات حضرت مسیح کی پیشگوئی سے تعلق رکھتی ہیں اور اسی تسلسل میں اس مضمون کو کھولا جا رہا ہے کہ جیسا کہ مسیح " نے کہا تھا کہ ایک آنے والا احمد آئے گا وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺے ہیں لیکن اس احمد نے ایک دوسری
خطبات طاہر جلد 14 957 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء جلوہ گری بھی کرنی تھی یعنی اس احمد کی اطاعت میں اسی سے رنگ پکڑ کر آخری زمانے میں احمدیت کا ایک مثیل دنیا میں ظاہر ہونا تھا.اس کے متعلق لوگوں نے یہ کہنا تھا کہ وہ جھوٹا ہے.اس الزام کے خلاف یہ دلیل قائم کی جارہی ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو خدا اسے کیسے پینے دے گا جبکہ مزید اس پر یہ اتہام بھی ہو کہ اس پر حجت تمام کی جا چکی تھی.اس نے جھوٹے دعوے کیے اور ہم نے اس کو اسلام کی طرف بلایا بھی.پس یہ بلانے والا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہر گز نہیں ہیں.پس جیسا کہ میں نے ایک مضمون کو دوسرے مضمون کی طرف منتقل کیا ہے اس کا قطعی ثبوت یہ آیت ہے کیونکہ آنحضرت ما کو تو کبھی کسی نے اسلام کی طرف نہیں بلایا.پس لازماً احمد کی اس شان کا ذکر ہے جس شان نے دنیا کے آخر پر ظاہر ہونا تھا اور اس کا یہ دعوی ہونا تھا کہ خدا نے مجھے قائم فرمایا ہے اور اس کو لوگوں نے بلانا ا تھا کہ تم جھوٹے ہو، دغا باز ہو، آؤ ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں اسلام قبول کرلو.حالانکہ اسلام کا محافظ اور علم بردار اور سب سے بڑی خدمت کرنے والا تو وہی وجود ہونا تھا جسے خدا نے چنا تھا.تو یہ پیشگوئی بڑی وضاحت، بڑی تفصیل، بڑی شان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی صورت میں حضرت مسیح موعود کی بعثت کے بعد پوری ہو چکی ہے.آج بھی جب مولویوں کی باسی کڑھی میں ابال اٹھتے ہیں تو یہی خط اخباروں میں شائع کرتے ہیں ، کھلے خط ، ہم مرزا طاہر احمد کو اسلام کی طرف بلا رہے ہیں.تمہارے آباؤ اجداد نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جو کیا وہ یہی تو تھا اور یہی تو پیشگوئی ہے جو قرآن کریم میں محفوظ تھی اور آج اسی طرح پوری ہو رہی ہے جس طرح ایک سو سال پہلے پوری ہو چکی ہے.تم جس کو اسلام کی طرف بلا رہے ہو وہی تو اسلام کا نمائندہ اس دنیا میں ہے ،اسی کے سائے تلے تم آؤ تو اسلامی کہلاؤ گے ورنہ تمہارا اسلام سے تعلق کاٹا جائے گا.اس کو سمجھو اگر نہیں سمجھتے تو تمہارا اپنا نقصان ہے.مگر جو چاہو کر لو، جتنی کوششیں کرنی ہیں کرو اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے جو ضرور پورا ہوگا ، اٹل.تمہاری کوئی کوشش کوئی تدبیر اس الہی تقدیر کو ٹال نہیں سکتی ، تبدیل نہیں کر سکتی.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ یہ جاہل سمجھتے ہیں کہ اپنی مونہوں کی پھونکوں سے اس چراغ کو بجھا دیں گے جو خدا کا چراغ ہے ، جو اللہ نے روشن فرمایا ہے وَاللهُ مُتِمُّ نُورِ؟ یہ تو تقدیر کا فیصلہ ہے ضرور اسے پورا کر کے چھوڑے گا وَلَوْ كَرِهَ الْكُفِرُونَ خواہ کا فرکیساہی ناپسند کریں.ہے.
خطبات طاہر جلد 14 958 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء اب اتمام نور سے کیا مراد ہے؟ یہاں سے گفتگو آگے بڑھنی چاہئے.سب سے پہلی بات کہ وہ نور جو اسلام کا نور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی صورت میں اور قرآن کی صورت میں اترا اور دونوں ایک ہی وجود کے دو نام بن گئے وہ نور اپنی صفات کے لحاظ سے تمام ہو چکا.اس کے بعد پھر اتمامِ نور کا کیا معنی؟ یہ وہ دوسرا معنی ہے جس کو خدا نے خود اس اگلی آیت میں کھول دیا ہے.مطلب یہ ہے کہ یہ نور ہے تو تمام لیکن اس کے تمام ہونے کے اور بھی معنی ہیں، اس کے تمام ہونے کا یہ بھی معنی ہے کہ دنیا کے ہر دوسرے دین پر یہ غالب آجائے اور تمام سطح ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور کوئی جگہ بھی باقی نہ چھوڑے جہاں یہ نہ چمکا ہو.یہ بھی اتمام نور کا ایک معنی ہے.چنانچہ اس معنی کے لحاظ سے فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.وہی اللہ ہے جس نے اپنے اس رسول کو ہدایت اور حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے.یہ غلبہ کس صورت میں مقدر تھا.ظاہر ہے اور قطعی طور پر یہی درست ہے کہ اس غلبے سے مراد حضرت صلى الله اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے نور کا غلبہ ہے جو باقی ادیان پر ہونا ہے.مگر آج چودہ سو برس ہونے کو آئے ابھی تک وہ بدنصیب انسانیت کا حصہ جو اسلام کا اور اس نور کا انکار کر رہا ہے عددی لحاظ سے مسلمانوں سے بہت زیادہ ہے اور مسلمانوں کی تعداد دنیا کی آبادی کی چھپیں فی صد سے زائد نہیں ہے اور تمام ادیان پر اسلام کا غلبہ ابھی تک نہیں ہو سکا.تو کن لوگوں کے ہاتھوں میں کیسے مقدر تھا اس سلسلے میں بعض گزشتہ بزرگوں یا جنہیں بزرگان سلف کہا جاتا ہے ان کے حوالے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ ایسے بزرگوں کے اقوال سے اس بات کو کھولوں جن کی مخالفت کی کسی ملاں کی جرات نہیں ہے اور جن کی بزرگی ان کے لئے تسلیم شدہ حقیقت ہے.حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید ، آپ کی بہت عزت ہندوستان میں ہے، بہت بڑی تعداد میں آپ کو عظیم بزرگ اور اپنے وقت کا مجدد ماننے والے موجود ہیں ، ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی.وہ فرماتے ہیں، فارسی کا کلام ہے.دو و ظاہر است که ابتدائے ظہور دین در زمان پیغمبروه بوقوع آمده و اتمام آن از دست حضرت مهدی واقع خواهد گردید
خطبات طاہر جلد 14 959 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء منصب امامت از مولانا محمد اسماعیل شہید صفحه 70 مطبوعہ آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور مطبوعہ 1967 ء ( اب اگر فارسی تلفظ میں غلطی ہوگئی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں ) ترجمہ یہ ہے یعنی ظاہر ہے کہ دین کی ابتداء حضرت رسول مقبول ﷺ سے ہوئی ابتدائے ظهور دین در زمان پیغمبر ، لیکن اس کا اتمام امام مہدی کے ہاتھ پر ہو گا اور یہاں جس اتمام کی خوش خبری ہے یہ مہدی کے وقت کے ساتھ منسلک ہے اور مہدی کے زمانے ہی میں یہ تمام والا حصہ اپنی بڑی شان کے ساتھ پورا ہوگا.حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں.انہوں نے یہ روایت درج کی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت میں وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام دینوں پر اسلام کو غالب کرے گا اور اس وعدے کی تکمیل مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں ہوگی اور سُدی کہتے ہیں کہ یہ وعدہ مہدی موعود کے زمانے میں ہوگا.(تفسیر رازی جز نمبر 16 تفسیر سوره تو به صفحہ 40 زیر آیت ہذا.زیر عنوان الوجہ الثانی) پس سینکڑوں سال پہلے جو چوٹی کے بزرگ مفسرین تھے یا دیگر بزرگ انہوں نے اس آیت کا منطوق یہی سمجھا کہ یہ لازمی طور پر پورا ہونے والا وعدہ مسیح موعود یا مهدی معہود کے دور میں پورا ہوگا.پھر تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے و ذالک عند نزول عيسى عليه السلام (الجزء العاشر سورۃ توبہ صفحہ 77 زیر آیت ہذا) یعنی اکثر مفسرین اس امر پر قائل ہیں کہ یہ وعدہ مسیح کے زمانے میں پورا ہوگا.(عند نزول عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ ہیں).تو ترجمہ اب یہی بنتا ہے کہ وہ اکثر مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہ واقعہ یعنی اسلام کا غلبہ دوسرے ادیان پر عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت ہو گا.اب خواہ حضرت مسیح موعود کو وہ عیسی مانیں یا نہ مانیں یہ لاز مامانا پڑے گا کہ اس وعدے کا تعلق آنے والے مسیح سے ہے اور چونکہ ہم جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ آنے والا مسیح آپکا اس لئے ہم پر تو سند کامل مکمل ہوگئی اور حجت تمام ہوگئی.ہر احمدی کا فرض ہے کہ ان پیشگوئیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں پورا ہوتے ہوئے تسلیم کر کے اس کے نتیجے میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو ادا کرے.تفسیر قرطبی جز نمبر 8 سورۃ تو بہ زیر آیت ہذا.131 پر ہے.قال ابو هریره والضحاک
خطبات طاہر جلد 14 960 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء هذا عند نزول عيسى علیه السلام وقال سدی ذاک عند خروج المهدی که حضرت ابو ہریرہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ یہ وعدہ نزول مسیح کے وقت پورا ہوگا اور سدی کہتے ہیں کہ ظہور مہدی پر یہ وعدہ پورا ہوگا یعنی عملا بات ایک ہی ہے.پس اب میں پھر واپس اس مضمون کی آیت کی طرف لوٹتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے مُتِمُّ نُورِہ میں اپنے نور کو تمام کروں گا یعنی مکمل کر دوں گا، اس کی انتہا تک پہنچا دوں گا اور اس نور کے انتہاء تک پہنچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ازل سے مہدی معہود اور مسیح موعود کو وسیلہ بنا رکھا تھا جس کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں یہ شرف نصیب ہونا تھا کہ اس وعدے کو اس کے زمانے میں پورا کیا جائے اور اس کے ماننے والے اس پیشگوئی کو پورا کر کے اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کریں.پس جماعت احمدیہ کی تخلیق کا ایک مقصد ہے.وہ یہ مقصد ہے اتمام نو محمد مصطفی ﷺ.اتمام نور مصطفوی ان معنوں میں جن معنوں میں میں بیان کر چکا ہوں اور تمام ادیان پر غالب کرنا ہے کسی ایک دین پر غالب نہیں کرنا.پس اس پہلو سے نور کا انتشار ہمارے ذریعے مقدر ہے اور یہ نور کا انتشار ممکن نہیں ہے جب تک ہم اس نو ر میں سے حصہ نہ پالیں کیونکہ یہ دلائل کے ذریعے غلبے کی بحث ہوہی الله نہیں رہی.نور کا غلبہ ایک اور چیز ہے اور سبھی آنحضرت ﷺ کے نور کے حوالے سے یہ بات پیش کی گئی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود با رہا ہمیں سمجھا چکے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا نور دائمی ہے اور آج بھی زندہ ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ایک زندہ رسول ہیں تو مشرکین کے معنوں میں نہیں کہتے بلکہ اس برحق کلے کی رو سے کہتے ہیں جو قرآن میں آپ کی شان میں لکھا گیا.آپ کا نور ہے جو غالب آئے گا اور وہ نور کیا ہے؟ وہ صفات کا نام ہے جیسا کہ گزشتہ خطبات میں میں آیات کے حوالے سے ثابت کر چکا ہوں.صفات باری تعالیٰ جو آنحضرت ﷺ کی ذات میں ایسے جلوہ گر ہوئیں گویا آپ مجسم نور ہو گئے وہ نور ہے جسے غلبہ نصیب ہوگا اور دلائل کی اس میں کوئی بحث نہیں ہے.یہ نور کردار کا نور ہے.یہ وہ نور ہے جب چمکتا ہے تو دیکھنے والوں کی آنکھوں کو روشنی عطا کرتا ہے.اندھیروں کو ظلمات کو نور میں اور راتوں کو دن میں بدل دیتا ہے.اس ضمن میں ایک اور آیت اس مضمون پر یوں روشنی ڈال رہی ہے.
خطبات طاہر جلد 14 961 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَالَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكُفِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام:123 ) کہ بتاؤ تو سہی ،غور تو کر و اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا کہ وہ جو مردہ ہوۓ فَأَحْيَيْنَهُ پس ہم نے اسے زندہ کر دیا ہو وَ جَعَلْنَا لَهُ نُورًا اور اس کے لئے ایسا نور بنا دیا ہو يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ وہ نور لئے لوگوں میں پھرتا ہو.کیا اس کی مثال ویسی ہو سکتی ہے.كَمَنْ مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا ایسے اندھیروں میں بھٹکنے والے جیسی مثال یہ ہو سکتی ہے جو ان اندھیروں سے کبھی نکل نہ سکے.پس نور محمد مصطفی ہے جس کے غلبے کی خبر دی گئی ہے اس کی یہ تعریف فرمائی گئی کہ مردوں کو زندہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور خدا جب زندہ کر دیتا ہے ان مردوں کو تو ہر زندہ ہونے والے مردے کو ایک نور عطا کرتا ہے اور وہ نور لے کر عوام الناس میں بنی نوع انسان کے اندر پھرتے ہیں، اپنی روشنی کو لئے ہوئے اور ہر آدمی ان کی روشنی سے ان کو پہچان سکتا ہے.یہ نور ہے جس کے حق میں غلبے کا وعدہ ہے.پس اگر جماعت احمدیہ نے تبلیغ کرنی ہے تو اس نور سے لازماً حصہ لینا ہوگا اور تبلیغ تو ہمارا فرض منصبی ہے ایسا فریضہ ہے جس سے کوئی بھی آزاد نہیں.چھوٹے بچے بھی اپنی توفیق کے مطابق تبلیغ کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کی بھولی بھالی صاف باتوں کا بھی دوسرے بچوں گہرا اثر پڑتا ہے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ جو عیسائی متعصبین سے بحثوں میں مبتلا رہتے ہیں بسا اوقات کبھی بھی اس کا نیک انجام نہیں ہوا مگر جو اپنے کردار کے ساتھ اثر انداز ہو جاتے ہیں ، ان بچوں پر نیک اثر ڈالتے ہیں ان کو اپنے گھروں میں بلاتے ہیں ان کی کایا پلٹ جاتی ہے.بچپن سے ہی ان کے اندر اسلام کی محبت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.ابھی کل ہی ایک علاقے کے سکول کے بچے مجھے ملنے آئے اور تین بچے عیسائی تھے اور تین احمدی بچے تھے اور تینوں نے بتایا کہ یہ ہمارے دوست ہیں ان کو دیکھ کر ہمیں توجہ پیدا ہوئی ہے.ان کے ساتھ رہ کر ہمارے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ آپ سے بھی ملاقات کریں اور ملاقات کے وقت میں حیران ہوا ان کی طرز گفتگو، ان کا انداز ایسا سلجھا ہوا تھا اور لگتا تھا پہلے ہی ایک تعلق قائم ہو چکا ہے تو بچے بھی خدا کے فضل سے تبلیغ کی صلاحیت رکھتے ہیں
خطبات طاہر جلد 14 962 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء اور اپنے اپنے دائرے میں اپنے نیک عمل اور نیک نمونے کے ذریعے وہ اپنے ماحول کو روشنی عطا کر سکتے ہیں اگر وہ خود روشن ہو چکے ہوں.پس روشنی شرط ہے.نور شرط ہے پھر جتنا بھی آپ سفر کریں گے وہ نور ہی کا سفر ہو گا.جہاں جائیں گے آپ کو مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت عطا کی جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے در اصل لیکن جب مردہ زندہ ہوتا ہے تو اس کو نور مل جاتا ہے.پس اس میں دو پہلو ہیں جن کو میں نمایاں طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جرمنی کی جماعت سے خصوصیت سے یہ بار بار سوال اٹھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی تربیت کیسے کی جائے اور تربیت کے متعلق انہوں نے بہت ہی عمدہ کارروائیاں بھی کی ہیں.مگر تربیت کا آخری مرکزی نقطہ وہی ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ اگر تم اپنے نور سے کسی کو زندہ کرو گے جو خدا کی طرف سے تمہیں عطا ہوا ہے تو وہ زندہ ہونے والا ضرور نور حاصل کر لے گا اور اگر دلائل سے کرو گے تو دلائل کی مار میں وہ ان سے دور بھی ہٹ سکتا ہے.مگر جسے خدا کا نور نصیب ہو جائے وہ کبھی دور نہیں جاسکتا.تو سب سے پہلے اپنے اندر وہ جلا پیدا کریں وہ مزاج روشن کریں جس مزاج سے آپ نے دنیا کو فتح کرنا ہے اور ایسا روشن وجود بن جائیں جس کی طرف اندھیروں سے دنیا از خود اس طرح دوڑی چلی آئے جیسے راتوں کو شمعیں دیکھ کر پروانے اپنے سوراخوں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں.وہ جو اڑ نا نہیں جانتے ان کو بھی اللہ پر عطا کر دیتا ہے اور وہ نور پر ایسا فدا ہوتے ہیں کہ مسلسل اس کی طرف جاتے ہوئے اپنی جانیں بھی فدا کر ڈالتے ہیں اور وہی نور کی محبت ان کے دل میں جو پیدا ہوتی ہے اسی کے نتیجے میں، اسی تعلق میں پھر ان سے وہ نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو آگے بڑھتی ہیں اور ان کی نشو و نما اور ان کے دوام کا موجب بن جاتی ہیں.ان کی تولید کا نظام اس نوری محبت کے ساتھ منسلک فرما دیا گیا ہے.پس آپ کو بھی ویسا ہی نور بنا ہوگا کہ اندھیروں سے از خود پروانے نکل نکل کر آپ کی طرف آئیں گے.پروانوں کو کوئی بلانے والی آواز شمع کے رخ سے ہٹا نہیں سکتی.ناممکن ہے کہ پروانے نور کو دیکھ لیں اور رستے میں کچھ ان کو بہکانے والے اور بھڑ کانے والے اور وساوس پیدا کرنے والے دل میں یہ بات پھونک دیں کہ یہ شمع تو تمہیں جلا دے گی ، بہت بری ہے، قربانیاں دینی پڑیں گی اس کی طرف نہ ہی جاؤ تو اچھا ہے ، جو مرضی کریں انہوں نے تو جانا ہی جانا ہے.چونکہ نور کے ساتھ
خطبات طاہر جلد 14 963 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء اندھیروں میں رہنے والے جن کے اندر نور کی پہچان کی صلاحیت ہو ایک عشق کا تعلق رکھتے ہیں اور عشق ہر قسم کی دلیل پر غالب آجاتا ہے.وہی مضمون جو ایک شعر میں میں نے پہلے بھی آپ کے سامنے رکھا اس موقع پر ہمیشہ وہ یاد آتا ہے کیونکہ بہت ہی پر لطف اور بڑا طاقتور شعر ہے.یہ تو نے کیا کہا نا صبح نہ جانا کوئے جاناں میں ہمیں تو راہرووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا اے ناصح کیا بات کہہ گئے ہو تم کہ اپنے محبوب اپنے معشوق کے کوچے میں نہ جاؤں.ہمیں تو رستہ چلتے مسافر ٹھوکریں مارتے رہیں تب بھی ہم نے جانا ہی جانا ہے.پس وہ جو کہتے ہیں کہ فلاں مولوی نے بہکا دیا ترک علماء رستے میں حائل ہو گئے ،افغان علماء آگئے ، فلاں علماء نے جو بوسنین یا البانین علماء تھے ، انہوں نے آکر لوگوں کو بہکا دیا.ان کو میرا جواب یہ کہ اگر آپ نور کے ذریعے تبلیغ کریں، اپنی طبیعت کے نور کو منتقل کریں تو مجال نہیں کسی کی کہ ان کو بہکا سکے.ان کا تو وہی حال ہو گا کہ ”ہمیں راہرووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا اور خدا کے فضل سے ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں اور بسا اوقات جہاں یہ اس قسم کی منفی اطلاعیں ملتی ہیں کہ فلاں حائل ہو رہے ہیں فلاں حائل ہورہے ہیں وہاں ایسی مثبت اور دل کو پگھلا دینے والی نشانیاں بھی نظر آتی ہیں یا ایسی روایات مجھے بھیجی جاتی ہیں کہ بعض نو مسلم بوسنینز کے پاس علماء پہنچے.غیر ملکوں کے نمائندے تھے، جب ان سے باتیں کیں اور ان کو روکا کہ دیکھو اس رستے پر نہ جانا.تو انہوں نے جواب دیا کہ تم کدھر سے، کس سے روکنے کے لئے ہمیں آئے ہو.خبر دار ہے جو آئندہ اس طرف رخ کیا.ہم نے تو روشنی پالی ہے.ہمیں تو جس چیز کی تلاش تھی ہم نے دیکھ لیا ہے.اب تم جو چاہے کرو ہم ان سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے.ہم نے ضرور جانا ہی جانا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ساتھ اور لوگوں کو تیار کرتے چلے جا رہے ہیں.جتنی آواز میں اٹھ رہی ہیں کہ نہیں جانا نہیں جانا یہ رستہ نہ پکڑو، اتنے ہی زور اور شدت کے ساتھ ان لوگوں کا رجحان ہو رہا ہے.جو نو ر یافتہ ہیں اور جن کو احمدیت کے نور کا مزہ حاصل ہو چکا ہے ان کی کایا پلٹ چکی ہے ان کے آثار بدل گئے ہیں.حیرت ہوتی ہے ان سے مل کر.بعض کے اندر ایسی فدائیت ہے جیسے کوئی اعلیٰ پرورش یافتہ پیدائشی احمدی ہو ، بعض ان کو بھی مات کرتے دکھائی دیتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 14 964 خطبہ جمعہ 22 دسمبر 1995ء صلى الله تو نور میں زندہ کرنے کی صلاحیت ہے اس لئے کہ یہ نور مصطفوی ہے.اگر یہ نور مصطفوی نہیں تو اس نور کے کوئی معنی نہیں ہیں ، بے حقیقت ہے اور نورِ مصطفوی محمد رسول اللہ ﷺ ہی سے تو حاصل کیا جائے گا.یہ وہی نور ہے جس کا قرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر آچکا ہے کہ وہ تنہا روشن ہوا تھا ، خدا کی نمائندگی میں وہ ایک تھا جس کے اندر اللہ کا نور چمکا ہے اور دیکھتے دیکھتے دوسرے گھروں میں، ایسے گھروں میں وہ نور روشن ہو گیا جن کے متعلق خدا نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ ان کے مرتبے اور مقام کو ہمیشہ بڑھاتا رہے گا.پس آج وہ دور پھر آیا ہے، آج فتح اسی نور کی ہوگی جس نور کی فتح کل ہم دیکھ چکے ہیں.جس نور میں یہ صلاحیت تھی کہ ایک سے دو اور دو سے چار ہوتا چلا جائے.وہ صلاحیت آج بھی زندہ ہے کیونکہ وہ نور زندہ ہے.پس اسے اپنا لوتو تمہاری تبلیغ کی تمام مشکلات رستے سے ہٹ جائیں گی.ایک خاتون کے متعلق کل ہی خط ملا کہ بالکل ان پڑھ ہیں، کچھ نہیں آتا ان کو مگر احمدیت کی صداقت سمجھ کر جب سے قبول کیا ہے وہ عاشق ہو چکی ہیں اور سارے شہر میں انہوں نے تبلیغ شروع کر رکھی ہے.ایسی ہی ایک بوسنین خاتون سے بھی امیر صاحب جرمنی نے گزشتہ دورے پر تعارف کروایا تھا.اب بھی ان کے متعلق یہی اطلاعیں مل رہی ہیں کہ وہ دن رات فدا ہیں احمدیت اور اسلام کے نور پر اور اس نور کو آگے پھیلاتی چلی جارہی ہیں.پس آپ شمعوں سے شمعیں روشن کریں.یہ راز ہے جو قرآن نے ہمیں سمجھا دیا ہے.نام کے آدمی اگر آپ کھینچ کر لے آئیں جن میں نور بصیرت ہی نہ ہو وہ شمعیں دیکھ کر اس کے عاشق نہ ہوئے ہوں بلکہ ان کا ہاتھ پکڑ کر آپ شمع کے دامن میں لا کھڑا کریں تو آپ کے ہونے کے باوجودان کا ہمیشہ آپ کا رہنا ہر گز قابل اعتماد نہیں.کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے رہیں گے.کوئی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اس شمع کے دامن سے نکال کر دور لے جائے تو وہ ساتھ چلے جائیں گے.ایک عاشق کو دور نہیں کیا جاسکتا.جس نے نور دیکھ لیا ہو اور پھر اس سے حصہ پالیا ہو وہ خود بھی چمک اٹھا ہو وہ تو دوسروں کو بھی کھینچتا ہے.پس یہ مضمون ہے تبلیغ حقہ کا جو قرآن نے ہمیں سمجھایا اور جس کا تعلق حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت سے خصوصیت کے ساتھ باندھا ہے.فرمایا اس راز کو سمجھ جاؤ تم ضرور غالب آؤ گے کیونکہ خدا کا فیصلہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا نور تمام دنیا پر غالب آجائے.پس اس پہلو سے آپ تبلیغ کی طرف توجہ کریں.
خطبات طاہر جلد 14 965 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء جہاں تک عمومی جائزے کا تعلق ہے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اس وقت خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ جرمنی کو غیر معمولی توفیق عطا ہورہی ہے اور وہاں نور سے نور بننے والی شمعوں کی ایک اور صورت بھی ہے ایک داعی الی اللہ کو دیکھ کر دوسرا نور پکڑتا ہے اور وہ بھی اس کو دیکھ کر داعی الی اللہ بن جاتا ہے اس کو دیکھ کر پھر اور شامل ہوتے جاتے ہیں بہت وسیع پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے.لیکن ابھی بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑی تعداد ان کی ایسی ہے جو پوری طرح اس میں شامل نہیں ہوئی یا شامل ہوئی ہے تو ابھی اپنے نفس کو ، اپنی ذات کو انہوں نے اس طرح نہیں چمکایا کہ انہیں نور کو منعکس کرنے والا وجود کہا جا سکے.پس ان دونوں پہلوؤں سے بیک وقت توجہ دینا ضروری ہے.ایسی نور کی شمعیں بنیں جنہیں دلیل کی ضرورت اور احتیاج نہ رہے اگر چہ دلیل بھی روشنی ہے مگر اس نور کا ایک اور مضمون سے تعلق ہے جو میں انشاء اللہ اپنے وقت پر آپ پر کھولوں گا.کو دلیل حقہ بھی نور ہی ہوا کرتی ہے مگر یہاں جس نور کا ذکر ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کا نور ہے کیونکہ فرمایا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الذِيْنِ كُلِهِ اس رسول ، محمد مصطفی ﷺ کو جونور مجسم ہے، جس کو بجھانے کی ظالم کوششیں کر رہے ہیں ، اس کے خلاف افواہیں پھیلا رہے ہیں ،اس کو منہ کی پھونکوں سے ناکام بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں.وہ جانتے نہیں کہ یہ خدا کا نور ہے،اس نے روشن کیا ہے وہ اسے ضرور غالب کر کے رہے گا، کوئی دنیا کی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی.اس پہلو سے جب میں نور کی بات کرتا ہوں تو یہ اولین ذریعہ تبلیغ کا ہے.آپ آنحضرت ﷺ کی سیرت سے اپنے لئے بھیگ مانگیں اور سیرت سے بھیگ مانگنے کا مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجتے ہوئے خدا سے مانگیں کہ اے خدا اس پاک رسول ﷺ کی وہ صفات کچھ نہ کچھ تو ہمیں بھی عطا کر جن کی ہم میں اپنانے کی استطاعت ہے.ایسی صفات ہمیں عطا کرتا کہ ہم بھی چمک اٹھیں جیسے صفات محمد مصطفی می دیگرصحابہ نہیں چمک اٹھی تھیں اور آج کے دور میں یہ عظیم کام ہمیں کرنے کی توفیق عطا فرما کہ دنیا کے ہر دین پر دین مصطفوی آیا دین مصطفی امیے کے نور کو ہم غالب کر کے دکھا دیں.پس اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.دنیا میں شاید ہی کسی قوم بلکہ نہیں کبھی دنیا میں کسی قوم کے سپرد اتنا بڑا کام کسی نبی کی غلامی میں نہیں کیا گیا جتنا آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آج ہمارے، آج آپ کے، آج غلامان محمد مصطفی سے جماعت احمدیہ
خطبات طاہر جلد 14 966 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء کے سپرد کیا گیا ہے.تمام دنیا کی کایا پلٹ دو، ایک عظیم انقلاب بر پا کر دو، ہر اندھیرے کو روشن کر دو اور اتنا روشن کر دو که دنیا جان جائے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ گوشے گوشے پہ نور غالب آ گیا ہے اور اندھیرے کونوں کھتروں میں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں.یہ وہ آخری غلبہ نور مصطفوی ہے جس کے لئے ہم دیوانوں کو چنا گیا ہے اور دیوانے اس لئے کہ جب تک دیوانگی پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک نہ عشق کا مضمون ہم سمجھ سکتے ہیں نہ ہم پروانوں کا رنگ اختیار کر سکتے ہیں.دیکھو جب پروانہ جل بھی جاتا ہے تو ایک نور کی صورت میں جلتا ہے، ایک چھوٹی سی روشنی پیدا کرتا ہوا مرتا ہے.پس اگر اس راہ میں جانیں بھی فدا کرنی پڑیں تو اٹھو اور محمد مصطفی ﷺ کے نور پر جل جاؤ اور تھوڑی سی روشنی پر جس میں تمہاری جان فدا ہو ہمیشہ کے لئے فخر کرو کیونکہ یہی نور ہے جو آئندہ تمہارے لئے موت کے بعد ایک دائگی نور بن جائے گا.پس نور کے سوا چارہ کوئی نہیں ہے اور یہی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اب اس پیغام کے بعد میں مختصر MTA1 کے متعلق کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تفصیل سے اس موضوع پر پھر بعد میں روشنی ڈالوں گا.لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ کچھ عرصے سے MTA کے خلاف کچھ سازشیں ہو رہی تھیں اور بے حد کوشش تھی کہ ایسے موقع پر اچانک ہمیں بے بس اور نہتا کر کے چھوڑ دیا جائے کہ ہم چاہیں بھی تو کوئی متبادل نصیب ہو.یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور اس کا تعلق بھی نور سے ہے کہ جب خدا تعالیٰ ایسے حالات کو دیکھتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت طبیعتوں کو جھنجوڑتا اور متوجہ کرتا ہے کہ متبادل انتظام کی کوششیں شروع کر دو.چنانچہ ایک سال کا عرصہ ہوا جبکہ خدا نے میرے دل میں یہ بے چینی پیدا کی کہ موجودہ نظام پر ہرگز انحصار نہیں کیا جا سکتا اور جماعت احمدیہ کو کسی ایک کی مرضی پر نہیں چھوڑا جا سکتا اس لئے فوری طور پر متبادل انتظامات شروع کرو اور بظاہر ایسی مشکلات تھیں جیسے ٹھوس دیوار سے آدمی سر ٹکرائے اور کوئی راہ نہ پائے لیکن میرے دل میں کامل یقین تھا ، رہا اور اب بھی ہے اور آئندہ رہے گا کہ یہ نظام اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے اس لئے خواہ کیسی ہی مشکلات ہوں ہمارا فرض صرف اتنا ہے کہ حتی المقدور استطاعت کے مطابق کوشش کریں ، آگے راہیں کھولنا خدا کا کام ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہر مشکل کے وقت ایک اور رستہ پیدا ہوتا دکھائی دیا اور اس کی پیروی کے نتیجے میں کچھ مشکلات اور ابھریں پھر
خطبات طاہر جلد 14 967 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء اور رستے پیدا ہوتے دکھائی دیئے یہاں تک کہ خدا کے فضل کے ساتھ وہ چیلنج جو اندر ہی اندر کیڑوں مکوڑوں کی طرح پل رہے تھے ، جو جراثیم کی طرح آخری ہلہ بول کر پھٹ پڑنے کے لیے تیار بیٹھے تھے جب وہ ظاہر ہوئے تو اس سے پہلے خدا نے ہمارا متبادل انتظام فرما دیا تھا اور یہ تفصیل کہ آئندہ کیسے چلے گا یہ کام اس پر میں جب تمام باتیں آخری صورت اختیار کر لیں گی پھر انشاء اللہ میں ان سے متعلق آپ کو مطلع کروں گا.سر دست یہ بتانا ضروری ہے کہ جیسا کہ Teething Problems دانت نکالنے کے زمانے کی مشکلات ہوا کرتی ہیں ہر نظام کی تبدیلی کے وقت ایسی مشکلات ضرور ہوا کرتی ہیں لیکن اگر مشکلات کے بعد کا دور پہلے دور سے بہت بہتر ثابت ہو تو یہ مشکلات بہت معمولی دکھائی دیتی ہیں اس لئے یقین جانیں کہ اللہ اپنے فضل کے ساتھ اس نظام کو ایک بہتر نظام میں تبدیل کر دے گا اور اس کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں اور اس کے لئے جن جن جماعتوں کے احباب کے سپر د ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو ادا کرتے رہیں.انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ نظام بہت بہتر اور بہت زیادہ عالمگیر منفعتیں رکھنے والا نظام ثابت ہوگا اور آئندہ کے لئے بے فکر ہو کر انشاء اللہ ہم اطمینان کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھ سکتے ہیں اور آئے دن کی یہ اطلاعیں کہ اب یہ جو Transpodent تھا بند کر دیا گیا اسے کسی اور پروگرام میں منتقل کر دیا گیا.آپ کا خطبہ آرہا تھا کہ اچانک اپنا ٹیلی ویژن شروع ہو گیا، اچانک آواز بند کر دی گئی یا اچانک وہ سب کچھ ڈولنے لگا اور پھر ہمیں رخ تبدیل کرنے پڑے.یہ تمام شکایتیں جو پیدا ہو رہی تھیں ان پر ایک یہ بھی تھی کہ عین دینی پروگراموں کے وقت غلیظ گندے ہندوستانی گانوں کے پروگرام بیچ میں شروع کر دیئے جاتے تھے تو یہ چیزیں ایسی تھیں جنہیں ہم مستقل طور پر برداشت کر سکتے ہی نہیں تھے.اس لئے دعا کر کے میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یا یہ ٹھیک ہوں گے یا میں زیادہ پسند کروں گا کہ کچھ عرصے کے لئے ٹیلی ویژن کو بند کر دیا جائے.مگر تو کل کرتے ہوئے کہ خدا متبادل انتظام کر دے گا اللہ کے فضل کے ساتھ ہماری ٹیم کو کوششوں کی توفیق ملی اور وہ متبادل انتظام تقریباً اپنے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں.وقتی نافے کا شاید ان معنوں میں ہمیں سامنا کرنا پڑے کہ بارہ گھنٹے کی سروسز کی بجائے پاکستان اور ایشیا کے ممالک کے لئے ہمیں وقتی طور پر تین گھنٹے پر انحصار کرنا پڑے، تین گھنٹے پر راضی رہنا پڑے مگر لمبے عرصے کے لئے نہیں.تین چار مہینے بس
خطبات طاہر جلد 14 968 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 1995ء اس سے زیادہ نہیں.اس کے بعد جو نظام جاری ہوگا انشاء اللہ وہ اس چار مہینے کی تکلیف کا بہت مداوا کرے گا اور بارہ گھنٹے کی بجائے چوبیس گھنٹے کا نظام جاری ہوگا، انشاء اللہ.تو اس لئے یا درکھیں جہاں خدا نے اپنے فضل فرمائے اور ہم میٹھا میٹھا کر کے ان کو ہڑپ کرتے رہے اور مزے لیتے رہے ،کبھی کچھ تھوڑ اسا کڑوا گھونٹ بھی مل جائے تو شکر کے ساتھ اسے پئیں.شکایتوں کے طومار نہ لگایا کریں، کئی ممالک سے شکایتوں کے طومار لگ گئے ہیں کہ کہاں ، کیا ہو گیا، کیا ہوگیا ، آواز میں بند ہو گئیں ، ٹیلی ویژن فلاں جگہ بند ہو گیا، فلاں جگہ وہ گندی فلمیں آنا شروع ہو گئیں ، ان کو میں نے لکھا مجھے پتا ہے نیتیں آپ کی اچھی ہیں.آپ کا دل چاہتا ہے کہ روحانی مائدہ جو خدا تعالیٰ نے جاری فرمایا ، اس کی عادت آپ کو پڑ چکی ہے، یہ ہمیشہ ملتا رہے لیکن اس پر اتنا بے چین نہ ہوں کہ وہ بے چینی ناشکری میں تبدیل ہو جائے.اس بات کو یا درکھیں ایک دفعہ ایک بادشاہ نے جس کو اپنے خاص غلام سے جو غلامی ہی کے رستے سے وزارت تک پہنچا تھا بہت زیادہ پیار تھا.اس پر ہونے والے اعتراضات سن سن کر آخر فیصلہ کیا کہ اس قضیے کو ایک دفعہ چکا دیا جائے کہ کون اچھا ہے اور کیوں اچھا ہے.چنانچہ ایک دفعہ بھرے دربار میں اس نے ایک ایسا بڑا خربوزہ یا سردہ یا گرما جس کو جو بھی آپ کہیں اس کی ایک قاش اس غلام کو پیش کی جس کے متعلق اس نے تسلی کر لی تھی کہ انتہائی کڑوا اور سخت بد مزہ پھل ہے جس کی قاش پیش کی جارہی ہے کیونکہ بعض دفعہ پانی وقت پر نہ ملے تو بعض پھل بیلوں میں وہیں کڑوے ہو جایا کرتے ہیں اور ان کی کڑواہٹ اتنی سخت ہوتی ہے کہ عام روز مرہ کی کڑواہٹ سے بھی زیادہ شدید متنفر کرنے والی.تو جب قاش اس غلام کو پیش کی تو اس نے کھانی شروع کی اور اس قدر مزے لے لے کر کھائی ، اس نے کہا بادشاہ سلامت لطف آ گیا.جزاک اللہ.کمال کر دیا آپ نے ، آپ کے بڑے احسانات ہیں اور ساری قاش کھا گیا.اس کے بعد نمبر دو اس گروہ کے سردار کو پیش کی جو اعتراضات کیا کرتے تھے تو ایک لقمہ ہی منہ میں گیا تھا کہ تھو کر کے درباری آداب کو بھی ملحوظ نہیں رکھا قاش اٹھا کے پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت اتنی خطرناک بدمزہ.ایسی کڑوی چیز تو میں نے زندگی میں کبھی نہیں چکھی.بادشاہ نے کہا مجھے یہ پتا تھا مگر یہ بھی تو انسان ہے، اس کو بھی میں نے یہی قاش دی تھی اس نے تو کچھ اور ردعمل دکھایا ہے تمہارا رد عمل اور ہے.اس نے پھر اس کی طرف متوجہ ہو کے کہا، پوچھا اس سے کہ تمہیں کیا ہو گیا تھا اتنی کڑوی، اتنی بدمزہ قاش کھاتے وقت ذرہ بھی چہرے پراثر
خطبات طاہر جلد 14 969 خطبہ جمعہ 22 دسمبر 1995ء ظاہر نہیں کیا اور ساری کی ساری کھا گئے ہو.اس نے کہا اے بادشاہ سلامت آپ کے احسانات میں ڈوبا پڑا ہوں.ایک ایک میٹھی قاش جو آپ نے مجھے عطا کی ہے ساری زندگی ان قاشوں کے مزے لوٹتا رہا ہوں.میں ایسا بد نصیب اور بد بخت نہیں ہوں کہ ایک آزمائش کی قاش آئے تو اس پر تھو تھو کر دوں.بادشاہ نے کہا یہ فرق ہے.جو شکر گزار بندے ہوا کرتے ہیں انہی کو عظمتیں عطا کی جاتی ہیں ، انہی کو سعادتیں نصیب ہوتی ہیں.پس جو بھی خدا نے ہم پر احسان فرمائے یہ ہماری کسی کوشش اور کاوش کا نتیجہ نہیں تھے ، جاہل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر بنا ہے اور ہماری کوشش کے نتیجے میں ہمیں کچھ نصیب ہورہا ہے، وہ مالک اور قادر خدا جس طرف سے چاہے جہاں سے چاہے اس نے آسمان سے ہم پر رحمتوں کی بارشیں نازل فرمانی ہی فرمانی ہیں.پس اگر وقتی ابتلاء پیش آئیں تو ان میں ثابت قدم رہیں.ان پر بھی خدا کا شکر ادا کریں اور یہ بھی سوچیں کہ آپ کو کتنی عظیم نعمت ملی تھی کہ اب اس کے نہ ہونے سے کتنی بے چینی محسوس ہو رہی ہے.تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ نعمتوں کی قدر کیسے کی جاتی ہے تب آپ کا ذہن اس طرف منتقل ہونا چاہئے کہ اتنا عرصہ تو ہم نے ناشکری میں گزارا ہے.احساس ہی نہیں کیا کہ خدا نے ہمیں کیا کچھ عطا فرمایا تھا.پھر اس کے نتیجے میں جب خدا کے فضل نازل ہوں گے تو ان کی کوئی انتہا نہیں ہوگی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ دنیا کی طاقت خدا کے فضلوں کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی.یہ الہی تقدیر ہے تمام دنیا کی پھونکوں سے بھی یہ چراغ بجھایا نہیں جا سکتا جو آج محمد مصطفی ﷺ کے دین کو غالب کرنے کے لئے روشن فرمایا گیا ہے.
970 خطبات طاہر جلد 14
خطبات طاہر جلد 14 971 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء خدا کی تقدیر یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ ہر سال احمدیت کے حق میں ایک نئی شان لے کر آئے گا.ہر سال احمدیت کا سال ہوگا.( خطبه جمعه فرموده 29 دسمبر 1995ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں: مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمةٍ لا يُبْصِرُونَ صُمٌّ بُكْمُ عُى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقرة:19:18) پھر فرمایا:.سب سے پہلے تو میں آج کے خطبے میں یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا سال 1995ء اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سی برکتیں لے کے آیا، بہت سے اہم واقعات اس سال میں رونما ہوئے اور بہت سی خوشخبریاں جماعت کے لئے پیچھے چھوڑ کر اب یہ رخصت ہونے والا ہے صرف اس سال کی چند گھڑیاں باقی ہیں اور پھر ہم ایک نئے سال میں داخل ہوں گے.اسی نسبت سے ہمیں ، سب کو اپنے سال گزشتہ کے حالات پر ایک نظر ڈالنی چاہئے اور اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ ہم نے اس سال میں کتنی بدیاں اتار پھینکی ہیں، کتنی خوبیاں نئی حاصل کی ہیں، کون سی نیکیاں ہیں جن سے پہلے محروم تھے اس دفعہ ہمیں توفیق ملی ، کون سی نیکیاں ہیں جن سے ہم محروم رہ گئے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلے عادی تھے مگر اب سست پڑ گئے.یہ جائزہ ہر سال کے اختتام پر ہوتا رہنا چاہئے اور بہت ہی اہم جائزہ ہے.
خطبات طاہر جلد 14 972 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء ٹھنڈے مزاج کے ساتھ غور کرنا چاہئے اپنے حالات پر غور کرنا چاہئے.وہ ذمہ داریاں جو آپ کے سپرد ہیں ان پر غور کرنا چاہئے.مثلاً شادی شدہ ہیں تو بیوی اور بچوں پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ کتنا وہ دین کے قریب آئے ہیں، کتنادین سے دور ہٹے ہیں.نیکی کی باتوں میں دلچسپی پر کیا کیا حال ہے.کیا اس سال میں وہ دنیا کے گندے پروگرام دیکھنے کی طرف زیادہ مائل ہوئے ہیں یا دینی پروگراموں میں دلچسپی بڑھی ہے.غرضیکہ یہ جائزہ بہت وسیع ہے اور اپنے زیر نگیں سب کا خیال رکھنا چونکہ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، جو ہمارے سپرد ہوئے ہوئے ہیں ان کے متعلق بھی ہم پوچھے جائیں گے تو اپنی ذات سے یہ جائزے کا سفر شروع کریں اور اس کو پھیلاتے چلے جائیں، گردو پیش میں، اپنی بیوی، اپنے بچوں پر، اپنے ماحول پر ، دوستوں پر ، عزیزوں پر اور بالعموم یہ نظر ڈالیں کہ یہ سال ہمارا کیسا رہا اور پھر اس سے گزشتہ سال پر بھی ایک اڑتی سی نظر ڈال لیں یہ طے کرنے کے لئے کہ آپ کا قدم روحانی لحاظ سے آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے کیونکہ یہ جائزہ وقتا فوقتا ضروری ہے.خصوصیت کے ساتھ جب سالوں کے جوڑ آتے ہیں اس وقت تو یہ جائزہ بہت ہی ضروری ہو جایا کرتا ہے.رمضان مبارک بھی آنے والا ہے.پچھلے رمضان سے اس کا موازنہ بھی ہم کریں گے انشاء اللہ اور میں گزشتہ رمضان میں یہ آپ کو واضح طور پر نصیحت کر چکا ہوں کہ رمضان سے رمضان کے سفر کا بھی جائزہ لیا کریں.سال کبھی ایک خاص مقام سے باندھے جاتے ہیں اور خاص مقام تک چلتے ہیں.کہیں ایک دوسرے مقام سے باندھے جاتے ہیں اور پھر اسی مقام تک آئندہ سال تک چلتے ہیں.تو جہاں تک انگریزی مہینوں کا تعلق ہے اس کا سفر یکم جنوری سے شروع ہوگا اور 31 / دسمبر پر ختم ہو گا.جہاں تک اسلامی مہینوں کا تعلق ہے رمضان سے ہمارا سال شروع ہوتا ہے یعنی عملاً ہم شعوری طور پر رمضان ہی سے سال شروع کرتے ہیں اگر چہ محرم سے سال شروع ہوتا ہے مگر میرے نزدیک تو رمضان ہی ہے سال کا پیمانہ.رمضان سے شروع ہوتا ہے اور رمضان پر جا کر ختم ہوتا ہے.اس پہلو سے ایک اور بات بھی ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اس سال کے آغاز میں میں نے آپ کے سامنے یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بعد گیارہ انشاء اللہ ( تذکرہ صفحہ: 327) الہام کا ذکر فرمایا ہے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کی تفہیم پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی.مختلف علماء مختلف وقتوں میں اسے مختلف حالات پر چسپاں کرتے
خطبات طاہر جلد 14 973 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء رہے.میں نے دعائیہ رنگ میں اور بھاری امید رکھتے ہوئے کہ اللہ اپنی رحمت سے میرے اس دعائیہ جذبے کو قبول فرمائے گا آپ کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ ہو سکتا ہے ہجرت کے آغاز سے لے کر گیارہ سال پورے ہونے کے بعد جو سال چڑھے گا وہی سال بعد گیارہ انشاء اللہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہو گا.اس پہلو سے ابھی کچھ مہینے باقی ہیں اور اگر سال کو ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو 1984ء کا سال وہ سال ہے جس میں دشمن نے ظلموں کی انتہاء کر دی اور وہ سال 1995ء کے اختتام تک گیارہ سال پورے کرتا ہے اور پھر 1996 ء کا پورا سال بعد گیارہ “ کے دائرے میں آتا ہے.لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ پیشگوئی ایک رنگ میں تو پوری ہو چکی ہے.اس کی تفاصیل ابھی کھل کر آپ کے سامنے نہیں آئیں لیکن رفتہ رفتہ جب ان رازوں سے پردہ اٹھے گا تو جماعت حیران رہ جائے گی کہ کتنی عظیم الشان ” بعد گیارہ“ کی پیشگوئی تھی جو جماعت کے حق میں پوری ہوئی ہے اور ابھی آپ پوری طرح اس کے اسرار سے واقف نہیں ہیں.اسی ضمن میں میں نے یہ آیت تلاوت کی ہے مثلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْ قَدَ نَارًا ان لوگوں کی مثال ایسے شخص کی ہے جس نے آگ بھڑکائی ہو.فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جب وہ ماحول کو چمکا دے مَا حَولَہ اپنے گردو پیش کو چمکا دے ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ اللہ ان کا نور لے جائے وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلمتِ لَا يُبْصِرُونَ اور ایسے اندھیروں میں بھٹکتا چھوڑ دے کہ وہ کچھ دیکھ نہ سکیں صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں اور اندھے ہیں فَهُمُ لا يَرْجِعُونَ اور وہ حق کی طرف سچائی کی طرف لوٹیں گے نہیں.اس آیت میں بھی ایک نور کا ذکر ہے اور اس آیت میں ایک نارکا بھی ذکر ہے.اس ذکر کو واپس اس مضمون کی طرف لے جانے سے پہلے جس کا میں نے ابھی بیان کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس نور اور نار کے معاملے کو اس آیت کے ساتھ رکھتے ہوئے آپ کے سامنے حل کروں جس میں صلى الله اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی مثال اپنے نور سے دی ہے یا اپنی مثال محمد رسول اللہ ہے کے نور سے دی ہے اور وہاں بھی ایک نارکا ذکر ہے وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ.صلى تو ایک نور اور نار کا ذکر اس آیت میں ہے، اکٹھے آتا ہے.ایک نور اور نار کا ذکر اس آیت میں ہے جو ایک ہی جگہ ملتا ہے.تو وہاں نار سے کیا کیا مراد ہے.بسا اوقات یہ سمجھا جاتا ہے اور اپنے
خطبات طاہر جلد 14 974 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء اندر یہ بھی ایک طرح سے صحیح ترجمہ ہو سکتا ہے میں اس کا انکار نہیں کرتا مگر جس پہلو سے میں اسے دیکھ رہا ہوں یا دعا کے بعد اللہ نے مجھے سمجھایا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زیادہ گہرا ترجمہ ہے جو آنحضرت ﷺ کے تعلق میں زیادہ عمدگی سے چسپاں ہوتا ہے.وہاں یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ ولو لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ یہ تیل اپنی ذات میں ایسا شفاف تھا جو بھڑک اٹھنے کے لئے تیار بیٹھا تھا خواہ اسے آگ نہ بھی Touch کرے یعنی مس نہ کرے.پھر جب اللہ کا نور نازل ہوا تو گویا اس شعلہ نور نے آگ کا کام کیا جس نے اسے اور بھی بھڑ کا دیا اور نُورٌ عَلَى نُورِ بن گیا.لیکن وہاں اللہ کی طرف سے نار اترنے کا تو کوئی ذکر نہیں ہے، نور اترنے کا ذکر ہے اور پہلی جگہ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَار کا ذکر ہے.اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسانی صلاحیتوں کے تیل پر بعض دفعہ اس کی فطرت کی نار بھی اثر انداز ہوتی ہے اور بسا اوقات انسان اپنی صلاحیتوں کو اپنی اندرونی نار سے بھڑکا تا ہے اور وہ فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان کا موجب بن جاتی ہیں.بنیادی طور پر وہ صفات نیک و بدسب میں برابر ہیں لیکن نارنے ان کو بھڑ کا یا ہے یا نور سے وہ بھڑ کی ہیں، ان دو چیزوں میں بڑا نمایاں فرق ہے.لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ سے میرے نزدیک مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وجود کو نارمس نہیں کر سکتی تھی ، ناممکن تھا کہ کسی پہلو سے بھی نار آپ کی ذات پر اثر انداز ہو.لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَار کا مطلب ہے باوجود اس کے کہ آپ کی کسی نفسانی خواہش نے آپ کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں ڈالا.ایک لمحہ کے لئے بھی کسی نفسانی خواہش سے آپ متاثر نہیں ہوئے پھر بھی وہ ایسا نور تھا جو خود بخود چمک اٹھنے کے لئے تیار بیٹھا تھا.پس نارنے تو مس نہیں کیا ہاں آسمان سے ایک شعلہ نور اترا ہے جو وحی کا نور تھا اور اس نے نُورٌ عَلَى نُورِ کی کیفیت پیدا فرما دی.پس نار اور نور کا ایک اکٹھا کر وہاں ملتا ہے اور ایک یہاں ملتا ہے جہاں اہل نار کے نور کا ذکر ہے ان کو بھی ایک قسم کا نور ملتا ہے.اہل نار وہ ہیں جو آگ بھڑ کانے والے ہیں جیسے تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وتَبَّ ( الهب: 1) میں ذکر ملتا ہے کہ ایسا بھی بد بخت تھا جو آ گئیں بھڑکا تا پھرتا تھا اور قرآن کریم کے آغاز ہی میں یہ بات بعض گروہوں کی طرف منسوب فرمائی گئی.بعض شریروں اور کفار کی طرف کہ وہ بھی مومنوں کے خلاف آگ بھڑکاتے پھرتے ہیں اور جب آگ بھڑک اٹھتی ہے تو وہ اس سے
خطبات طاہر جلد 14 975 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء لذت یاب ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب ہمیں لطف آئے گا.اس وقت وہ اندھے ہو جاتے ہیں، کچھ ان کی پیش نہیں جاتی اور جو نتائج دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں ان نتائج سے کلیہ محروم کر دیئے جاتے ہیں.یہ سال جو گزرا ہے اس میں ایسا بھی ایک واقعہ ہو چکا ہے اور اسی وقت مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھا دیا کہ یہ کیا سازش ہے کیونکہ یہ سال ہماری جماعت کے خلاف سازشوں کا سال بھی ہے اور اس پہلو سے ہماری تاریخ میں یا درکھا جائے گا.جب میں نے یہ اعلان کیا اس سے پہلے میں یہ بھی اعلان کر چکا تھا کہ دعائیں کریں اللهم مزقهم كل ممزق و سحقهم تسحیقا کہاے اللہ دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے.وہ دشمن عامتہ الناس نہیں.وہ دشمن مسلمان شریف علماء نہیں بلکہ وضاحت کے ساتھ میں نے یہ بات کھول دی تھی کہ وہ دشمن ، وہ شریروں کے راہنما ہیں جو شرارتوں کے مرکز ہیں، جہاں سے آگ کے شعلے اٹھتے ہیں اور بھڑکائے جاتے ہیں.وہ شریر پیش نظر ہیں یعنی دشمنوں کے سردار ایسے راہنما جو کسی صورت بھی باز نہیں آتے اور لا زما ہمیشہ شر اور فساد کی آگ بھڑ کانے کے لئے وقف رہتے ہیں.میں نے یہ وضاحت اس لئے کی کہ جماعت کی شان نہیں ہے کہ وہ بددعائیں کرتی پھرے یا بد دعا میں جلدی کرے.صرف ان بد بختوں کے لئے بددعا کرنی چاہئے جن کے لئے بددعا قوم کے لئے لازما دعا بن جاتی ہے.ان کی بدی سے ان کے شر سے نجات کا ذریعہ ہی یہی رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے ایسے سامان پیدا فرمادے کہ ان کے شر سے دنیا محفوظ ہو جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ شرارتیں اپنے منطقی نتیجے کو ضرور پہنچیں گی اور یہاں اس وقت میرے پیش نظر احمدیوں کو پہنچنے والا ثر نہیں تھا بلکہ اہل پاکستان کو پہنچنے والا شر خصوصیت سے پیش نظر تھا اور وہ شر ایسا تھا جس کی تیاریاں وہاں کی جاچکی تھیں اور ہورہی تھیں.چنانچہ ایک وہ پہلو تھا جس کے پیش نظر اچانک یہ واقعہ ہوا کہ سارے علماء نے سر جوڑے اور کہا ہم اکٹھے ہوتے ہیں اور ہم ایک ہو جائیں گے اب، ہمارے اندر کوئی اختلاف نہیں ہوگا.مجھے اسی وقت سمجھ آ گئی کہ یہ تو جواب دیا جا رہا ہے ہماری دعا کا.ہماری دعا تو اللہ سے تھی اور اس دعا کی عرض حال یہ تھی کہ اے خدا ان کو پارہ پارہ کر دے تو کہتے ہیں دیکھ لو جی تمہاری دعا کا اثر ہم تو ا کٹھے ہو گئے.لیکن چند دن ہی میں وہ جھوٹی وحدت ٹوٹ گئی اور اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف ہونا شروع ہو
خطبات طاہر جلد 14 976 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء گئے.لیکن صرف یہ بات کافی نہیں ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو انشاء اللہ آئندہ وقت آنے پر میں آپ کے سامنے رکھوں گا.ایک دوسرا منصوبہ انہوں نے یہ بنایا کہ اگلے سال ہجرت کا سال پورا ہوتے تک جماعت کے خلاف ایک عظیم فساد برپا کر دیا جائے کہ جس کے بعد ہم کہہ سکیں کہ یہ جماعت پاکستان سے اب ختم ہو چکی ہے اور وہ سکیم بنانے کے بعد انہوں نے لندن پہنچ کر مجھے پیغام بھیجا کہ ہم ایک ضروری بات کے لئے آپ سے ملنا چاہتے ہیں.جو پیغام بھیجا اس میں جھوٹی باتیں تھیں، جھوٹے عذر تھے، جو اصل بات نکلی وہ اور تھی جو میں اب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پیغام یہ تھا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کو امت مسلمہ کی ہمدردی تو ہے نا کم سے کم اور اسی لئے ہم کچھ افہام وتفہیم کے لئے آنا چاہتے ہیں.میں نے ان سے کہا کوئی افہام و تفہیم آپ سے مجھے نہیں کرنا.میری باتیں کھلی کھلی ہیں میں خطبات میں سب کچھ کھول دیتا ہوں اور آپ کو پیغام مل چکا ہے اب آپ کی مرضی ہے کہ مانیں یا نہ مانیں مگر اگر کوئی بات کرنی ہے تو میری نمائندگی میں امیر صاحب یو.کے موجود ہیں اور ان کے ساتھ بعض اور وں کو بھی شامل کر دوں گا آپ نے جو کچھ کہنا ہے ان سے کہہ دیں.جب وہ ملنے کے لئے آئے تو پھر بات اور نکلی.بہت سی ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انہوں نے کہا ہم آپ کو دراصل وارننگ دینے آئے ہیں.آپ یعنی مجھے پیغام پہنچادیں کہ اب دو ہی رستے رہ گئے ہیں یا تو وہ اسلام الله قبول کر لیں جو ان کا اسلام ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے اسلام کو چھوڑ دیں.یعنی عملاً یہ پیش نظر تھا کہ وہ اسلام جو حقیقی اسلام ہے، جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا اسلام ہے جس میں جھوٹ کی کسی قیمت پر اجازت نہیں، کسی حالت میں اجازت نہیں اس کو چھوڑ کر ان جھوٹوں کا اسلام قبول کرلوں.یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر ویسے میں ان کی بات بتا رہا ہوں.یہ کریں ورنہ پھر بدنتائج کے لئے تیار ہو جائیں اور ساتھ یہ کہا کہ ہم اگلی اپریل کے آخر پر پھر ملنے آئیں گے اور اس کے بعد ایک میرے نام کھلا خط شائع کیا جس میں یہ ساری باتیں بیان کیں سوائے اس بات کے جو زبانی پیغام دے گئے تھے.صلى الله امیر صاحب اور ان کے ساتھ جیسے مومن عموما بھولا ہوتا ہے وہ سمجھے، بھولے سے مراد ہے بعض دفعہ زیادہ ہی اعتماد کر جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ جس کو دکھانا چاہتا ہے، جس کے سپر د ذمہ داریاں
خطبات طاہر جلد 14 977 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء کرتا ہے اس کو ایک بھولے پن سے بلند تر مقام دیتا ہے اور دکھا دیتا ہے کہ کیا بات ہے.میں نے ان سے کہا آپ پیغام ہی نہیں سمجھتے وہ یہ کہ کر گئے ہیں کہ اگلی اپریل تک تم سمجھتے ہو کہ اللہ تمہارے حق میں کوئی نشان دکھائے گا ہم تمہیں بتانے آئے ہیں کہ وہ نشان جماعت احمدیہ کی ہلاکت کا نشان ہوگا اور ہم پھر آئیں گے اور پھر اس تاریخ کو مل کر بتائیں گے کہ کس طرح تمہاری پیش گوئیاں جھوٹی نکلی ہیں اور جھوٹوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتا ہے.یہ بد بخت نیت تھی جس کو اسی سال نے پرورش دی ہے اور اور بھی کچھ نیتیں ہیں اور سازشیں ہیں جو اس سال میں اندر اندر پنپتی رہی ہیں جس طرح کیڑے پلتے ہیں.خوراک کے نیچے سطح سے نیچے بظاہر آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے مگر وہ کلبلا رہے ہوتے ہیں اور جب سطح پھٹتی ہے تو پتا لگتا ہے کہ ساری خوراک کیڑے کیڑے بن چکی ہے.پس یہ سال جو گزرا ہے یہ بعض عظیم برکتوں کی تیاری کا سال بھی ہے اور بعض نہایت بھیا نک اور خوفناک سازشوں کا سال بھی ہے اور ایسی سازشیں بھی ہیں جو جماعت کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتیں سارے ملک پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اور ایسی سازشیں ہیں جن کی ایک نوع کی سازش کو دوسرے سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا.پس کچھ آثار ایسے ظاہر ہوئے ہیں جن کے اوپر سے مزید پردے اٹھائے جائیں گے.جس کے حالات معلوم کر کے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ کتنی خوفناک سازش جماعت کے خلاف تھی جسے اللہ نے چاک کر کے اس کے پر خچے اڑا دیئے ہیں اور دشمن کے لئے وہی سازش اس کی سزا میں تبدیل کی جائے گی.یہ وہ مضمون ہے جس کا اس آیت کریمہ ے تعلق ہے.اور ان کا نور جو ہے وہ عارضی آگ کے شعلوں سے تعلق رکھنے والا نور ہے لیکن وہ وفا کرنے والا نو ر نہیں.وہ نور جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے وہاں بھی ایک آگ کا ذکر ہے مگر آگ سے بچائے جانے کا ذکر ہے.فرمایاوہ نور کسی آگ کا محتاج نہیں ہے.وہ آسمانی نور ہے خواہ وہ زمین سے پیدا ہو اور اس آسمانی نور پر آسمان سے ایک نور اترتا ہے لیکن یہ نور جو آگ کی پیداوار ہے یہ تو ایسا بے وفا نور ہے کہ اس آگ کے بھڑ کانے والوں کو اپنی آگ کے نتیجے دیکھنے تک کی وفا بھی نہیں کرتا.پیشتر اس کے کہ اس کے نتیجے ظاہر ہوں وہ نوران کو چھوڑ کے چلا جاتا ہے، ان کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور حیران رہ جاتے ہیں کہ ہوا کیا ہے ہم سے اور بالکل برعکس نتائج ظاہر ہوتے
خطبات طاہر جلد 14 978 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء ہیں ان نتائج سے جن کی توقع لے کر یہ بیٹھے ہوتے ہیں.پس ایک بہت ہی خوفناک سازش جو پاکستان کے خلاف کی گئی تھی اس پر سے اسی سال ایک پردہ اٹھا ہے اور میرے اس اظہار کے بعد کہ میرے نزدیک کوئی عظیم نشان بعد گیارہ پاکستان میں ظاہر ہونا ہے اس کا ایک پہلو تو ظاہر ہو گیا ہے، ایک نہایت خوفناک سازش فوجی بغاوت کی گئی تھی جو اس نوعیت کی تھی کہ ناممکن تھا کہ وہ اگر تھوڑی دیر کے لئے کامیاب ہوتی بھی تو بغیر فساد کے بجھ سکتی.لا زما اس صورت میں پاکستان کی فوج میں خطر ناک لڑائیاں شروع ہونی تھیں اور پاکستانی فوج کا مزاج اس سازش کو قبول کر ہی نہیں سکتا تھا.سارا ملک خانہ جنگی میں دھکیل دیا جا تا اور ان حالات میں کہ جب کشمیر کا فتنہ موجود ہے، ہندوستان اور پاکستان دونوں ایک دوسرے سے خطرات محسوس کر رہے ہیں، ان حالات میں اگر یہ واقعہ ہو جاتا تو ایک عام تباہی مچ جانی تھی ، اس ملک کا کچھ بھی باقی نہ رہتا.پس اللہ کا بے انتہاء احسان ہے کہ اس نے وقت کے اوپر ان دعاؤں کی تحریک میرے دل میں ڈالی اور ہمیں کچھ بھی علم نہیں تھا کہ سازش کیا ہو رہی ہے.مگر خدا تعالیٰ نے جس کی نظر تھی سازش کے ہر کونے پر ، ہر گوشے پر اپنے اس وعدے کو پورا فرمایا کہ تمہیں پتاہی نہیں کہ دشمن تمہارے لئے کیا سوچتا ہے.مجھے پتا ہے میں ہی تدبیر کرتا ہوں اس کے خلاف.ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ جماعت احمد یہ خدا کی حفاظت میں اور خدا کے امن کے سائے تلے ہے.ہمیں کچھ بھی خبر نہ ہو کہ دشمن کیا کر رہا ہے اور کیا تدبیریں کر رہا ہے، کیا سوچ رہا ہے اور خدا کے علم میں ہوتا ہے اور خدا ان تدبیروں کو ان کے منہ پر ردکر کے مارتا ہے اور ان کی سازشوں کو ان پر الٹا دیتا ہے.پس وہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں کہ یہ نشان کب ظاہر ہوگا ایک پہلو تو ظاہر ہو چکا ہے اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے اور اس کے اندر پلنے والی اور سازشیں بھی تھیں اور ان کا براہ راست جماعت سے تعلق تھا.اب وقت آئے گا تو پھر جب پر دے اٹھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر آسمان سے جماعت کی حفاظت کے سامان فرمائے ہیں ورنہ بہت ہی خطر ناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا.مگر وہ کرنا پڑتا بھی تب بھی جماعت کا کچھ نہ بگڑتا اس میں بھی مجھے ذرہ بھی شک نہیں ہے.مگر بہت تکلیف میں سے گزرنا پڑتا اس میں بھی شک نہیں.تو اللہ تعالیٰ غیب سے حالت پر نظر رکھ رہا ہے، غیب کے حالات پر نظر رکھ رہا ہے اور ہم عاجز بندوں کو جن کو کچھ بھی علم
خطبات طاہر جلد 14 979 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء نہیں اپنی ذات پر گزرنے والے لمحے کے انجام کی بھی خبر نہیں.ہمیں بسا اوقات ایسے خطرات سے آگاہ فرما دیتا ہے جن کے متعلق ہمارا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور تفصیل بتائے بغیر دعاؤں کی طرف متوجہ کر دیتا ہے.اور دل میں ایک بات گاڑ دیتا ہے جو میچ کی طرح گڑ جاتی ہے کہ کچھ ہونے والا ضرور ہے اور اس کے مطابق جب مومن دعائیں کرتا ہے اور گریہ وزاری کرتا ہے تو پھر خود ہی غیب سے، آسمان سے فرشتوں کی فوجیں اتارتا ہے اور وہی عاجز، بے بس اور دفاع کی طاقت سے عاری مومنوں کی حفاظت فرماتے ہیں.پس یہ جو سلسلہ نشانات کا شروع ہوا ہے یہ ابھی اور آگے بڑھے گا.اور جہاں تک دشمن کی اس دھمکی کا تعلق ہے کہ ہم دوبارہ آئیں گے میں آج کھل کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ وہ لاکھ سال زندہ رہیں وہ چیز نہیں دیکھ سکتے جس کی امید لئے بیٹھے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والا سال ملاں کا سال ہوگا اور احمدیت کے معاندین کا سال ہوگا.اس سے پہلے بھی ایک دفعہ یہ اعلان کر بیٹھے تھے، اس سے پہلے بھی جلسہ سالانہ میں میں ان کو جواب دے چکا تھا کہ تم لاکھ دفعہ مرو، لاکھ دفعہ جیو، وہ سال کبھی طلوع نہیں ہو گا کہ احمدیت کا سال نہ ہو اور تمہارا سال ہو، یہ ناممکن ہے.ہر گز نہیں ہو سکتا.خدا کی تقدیر یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ ہر سال احمدیت کے حق میں ایک نئی شان لے کر آئے گا.ہر سال احمدیت کا سال ہوگا.پس وہ جس کے انتظار میں ہم بیٹھے تھے وہ بات تو ہماری توقع سے بھی پہلے پوری ہوگئی لیکن ابھی سال کے دن باقی ہیں.اس لئے آپ کو دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ تائیدی نشان دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو دشمن کے شر سے بچانے والا نشان ہے وہ تو بڑی شان کے ساتھ ، بڑی آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہو چکا ہے لیکن اس کے علاوہ بعض تائیدی نشان مثبت رنگ کے ہوتے ہیں غیر معمولی کامیابی ، غیر معمولی فتح، وہ نشان دیکھنے کے ابھی دن باقی پڑے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ عالمی بیعت کے وقت خدا تعالیٰ اس پہلو سے بھی ہمیں نشان دکھائے گا.لیکن خدا کے دینے کے ہاتھ لا محدود ہیں.غیب سے جو عطا ملتی ہے اسے کون کہہ سکتا ہے کہ کہاں سے آئے گی اور کیسے آئے گی.پس یہ دعا ئیں جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ غیب سے ہماری مدد کے سامان فرماتا رہے اور ایسی ایسی نعمتیں اور فتوحات کی خوشخبریاں عطا کرے جن خوشخبریوں کو پھر اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے بھی دیکھیں اور اس طرح احمدیت کی فتوحات کا زمانہ لامتناہی ،نئی شان کے ساتھ ہمیشہ آگے بڑھتا رہے.(آمین)
خطبات طاہر جلد 14 980 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء اس کے علاوہ ایک اور خیال بھی آتا ہے کہ اگر اس کو ہجرت کے ساتھ نہ باندھا جائے بلکہ اس سال کے ساتھ باندھا جائے جس سال شرارتوں نے آغاز پکڑا تو وہ 1984ء کا سال تھا.اس پہلو سے یہ 1995 ء کا سال جو ختم ہو رہا ہے یہ گیارھواں سال بنتا ہے جو ختم ہوگا اور گیارھواں سال ختم ہونے کے بعد جو 1996 ء کا سال ہے وہ بہت ہی برکتوں کا سال اور غیر معمولی کامیابیوں والا سال قرار پاتا ہے.اگر میرا یہ استنباط درست ہے کیونکہ ظاہر بات ہے کہ الہام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے جو سو سال سے بھی پہلے سے نازل ہو چکا ہے.ہم استنباط کر رہے ہیں اور جہاں تک استنباط کا تعلق ہے اس کا ایک پہلو تو خدا نے بڑی شان سے پورا کر دیا.وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کس پہلو سے کس طرح پورا ہوگا لیکن اچانک اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالی کہ تم تو انتظار کر رہے ہو وہ بات تو پوری ہو چکی ہے اور بہت بڑی سازش تھی ، بہت ہی بھیانک سازش تھی ، ملک کے ٹکڑے اڑا دینے تھے اس سازش نے.اللہ تعالیٰ نے بر وقت متنبہ کر دیا فوج کو اور اس نے اپنے یونٹ فوج کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو اور پاکستان کی حیثیت سے اس ملک کو بچائے کی فوراً موثر کارروائی کی ہے.شریروں نے بہت بہت روکیں ڈالیں ، بہت ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کیں، اسلام کا نام بیچ میں گھسیٹا کہ اس سے مرعوب ہو کر یہ جوابی انسدادی کارروائیوں سے ڈر جائیں گے مگر جسے خدا ہمت دیتا ہے یا جس تقدیر کے تابع ایک بات کو کھولتا ہے لازماً اس کی پھر توفیق بھی عطا فرماتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کا بے انتہاء احسان ہے کہ اس نے پاک فوج کو اپنی اجتماعیت کو محفوظ کرنے کی توفیق بخشی.اس فوج کے خلاف سازش کو کلیۂ رد کر دینے کی توفیق بخشی اور جھوٹی دھمکیوں سے یہ مرعوب نہیں ہوئے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو جو فائدہ پہنچا ہے جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں عام آدمی کو تصور ہو اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو جو فائدہ پہنچا ہے جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں عام آدمی کو تصور نہیں ہے کہ کتنا بڑا خطرہ تھا اور کتنا بڑا فائدہ پہنچا ہے.بلا شبہ اس کے نتیجے میں فوج نے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا تھا.جو سکیمیں تھیں ان لوگوں کی وہ مسکیمیں جڑوں کے لحاظ سے گہری زیادہ نہیں تھیں.چند آدمیوں کے دلوں میں چند مولویوں کے دل میں اس کی جڑیں تھیں.عام فوج کے مزاج سے بالکل مختلف مزاج تھا.عام پاکستانی کے مزاج سے مختلف مزاج تھا جو اس انقلاب کو دیا جانا تھا اور ناممکن تھا کہ فوج کی اعلیٰ سیادت اس کو قبول کر لیتی.اس لئے کہ وہ کور کمانڈر کے لیول پر اور اسی طرح
خطبات طاہر جلد 14 981 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء بڑے بڑے جرنیلوں کی سطح پر وہ لوگ اس سازش میں نہ صرف یہ کہ شریک نہیں تھے ان کو ہوا تک نہیں لگی تھی.چند غیر ذمہ دار آدمیوں نے مل کر یہ کی اور ان کا خیال تھا کہ اسلام کے نام پر جب اس سازش کا انکشاف کریں گے تو مولوی جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بلے بلے تم چلو آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں اچانک یہ قوم کو آواز دیں گے اور قوم کہے گی عظیم انقلاب بر پا ہو گیا.ایسی جاہلانہ خواب تھی کہ جس کا پارہ پارہ ہونالازم تھا.میں صرف اس لئے یہ نہیں کہ رہاوہ سازش مٹ گئی اور ظاہر ہوگئی میں یہ بتارہا ہوں کہ اگر یہ کامیاب ہوتی تو ان معنوں میں کامیاب ہوتی کہ فوج کو پارہ پارہ کر دیتی اور ملک کے ٹکڑے اڑا دیتی.یہ اتنی بڑی سازش، اتنی خطرناک سازش اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمدیہ کی دعاؤں سے ملی ہے اور وہ دعاؤں کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے.پس جہاں تک ہجرت سے ہجرت تک کے سال کا تعلق ہے یہ مضمون میں نے آپ پر کھول دیا مگر جہاں تک سال 1995ء اور 1996ء کا تعلق ہے ابھی ایک سال پورا باقی ہے خوشخبریاں دیکھنے کا اور یہ خوش خبریاں میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ سال کے پہلے چار مہینے میں زیادہ اکٹھی ہوں گی.مگر اللہ بہتر جانتا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض سال ایسے ہوتے ہیں ابتلاء اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جوابی کارروائیوں کے تانے بانے کے ساتھ بنے جاتے ہیں.ایک ابتلاء کا دھاگہ چل رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی جوابی کارروائی کا روشن دھاگہ بھی چلتا ہے اور اس طرح سیاہ اور سفید میں بٹا ہوا ایک ڈورا بن جاتا ہے.1995ء کا سال اسی طرح کے دو ڈوروں کا بٹا ہوا سال ہے اور اس کے بعد جو حالات ظاہر ہونے ہیں آپ میں سے ہر سوچنے والا جیسا کہ میں نے بنیاد آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے، اپنی سوچ کا جو میرا دائرہ ہے اس میں آپ کو بھی شامل کر لیا ہے، تو آپ اپنے طور پر سوچیں اور آپ میں سے ہر ایک اندازہ کر سکے گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک بہت بڑا احسان ہے جو جماعت پر ہوا ہے اور اس احسان کے نتیجے میں پاکستان پر بہت بڑا احسان ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو تباہی سے بچالیا ہے.پس مزید دعائیں کریں تا کہ یہ قوم جو تباہی سے بچائی گئی ہے کسی مقصد کے لئے بچائی جاۓ اور وہ مقصد بھی پورا ہو سکتا ہے جب یہ کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کی جھولی میں آئے اور
خطبات طاہر جلد 14 982 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء امن کے سائے تلے آجائے اور اس ملک سے پھر آنحضرت ﷺ کے نور کے غلبے کے لئے ایک عظیم الشان تحریک اٹھے.یہ وہ مثبت باتیں ہیں جن کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.دعائیں کریں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ جیسے اس سازش کو نا کام بنایا ہے آئندہ اور سازشوں کو بھی جن کا ہمیں کچھ پتہ نہیں ان کو بھی ناکام بنا دے اور خدا تعالیٰ کی جوابی کارروائی بڑی شان کے ساتھ احمدیت کے حق میں پے در پے ظاہر ہونے لگے یہاں تک کہ جیسے کہتے ہیں کانوں تک راضی ہو گئے ، ہم سر کی چوٹی تک خدا کے انعامات اور احسانات میں ایسے ڈوب جائیں کہ گویا شکر میں تحلیل ہو جائیں.اس تصور کے مزے لیتے ہوئے ، اس کے چسکے لیتے ہوئے اپنی دعاؤں کو آگے بڑھا ئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو خود ہی اثر عطا کرے اور ان دعاؤں کی قبولیت کی شان ہم آسمان سے برستے ہوئے دیکھیں.دوسرا پہلو وہ تھا جس کا میں نے اس سے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ایم ٹی اے کے خلاف بھی ایک سازش ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بر وقت اس سازش کو منکشف فرما دیا.اب صحیح تاریخیں اس وقت معین طور پر تو نہیں میں پیش کر سکتا لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے یہی فروری یا مارچ کا ہی غالباً زمانہ تھا.اسی سال کے مارچ میں جب پہلی بات میں نے متبادل انتظامات کی تیاری کی ہدایت دی تھی اور ہمارے سید نصیر شاہ صاحب جن کو میں نے اس کام پر مامور کیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی محنت کر رہے ہیں.اس دن سے لے کر آج تک، دن رات اس کام میں مصروف ہیں اور خدا نے ان کی محنت کو بہت پھل بھی لگایا ہے ان کو یاد ہو گا کہ وہ کون سے دن تھے جب میں نے ان کو کہا لیکن کم و پیش وہی وقت تھا جبکہ مولوی یہ سازش تیار کر رہے تھے اور ایک اور سازش تیار ہو رہی تھی اور خودمولویوں کی بے احتیاطی سے ہمیں علم ہو گیا کہ کیا واقعہ ہو رہا ہے اور ادھر دوسرے سازشیوں کی بے احتیاطی سے ہمیں یہ علم ہو گیا کہ وہاں کیا واقعہ ہو رہا ہے اور خدا نے ایک لمبا عرصہ تیاری کا دیا جو اگر اس وقت تیاری نہ کرتے تو لا زما بہت بڑا وقفہ پڑنا تھا آج کے ایم ٹی اے کے نظام میں اور آئندہ ہونے والے نظام میں بلکہ ہوسکتا تھا کہ پھر ہم بہت لیٹ ہو چکے ہوتے کیونکہ ابھی بھی جہاں جہاں ہم نے رابطے کر کے خدا کے فضل سے اپنے وقت واضح طور پر ریز رو کر والئے ہیں یعنی پنجابی میں کہتے ہیں جگہ مل لئی وہ ہم نے ان کے وقت مل لئے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر تم ذرا بھی دیر کرتے تو اتنا اس
خطبات طاہر جلد 14 983 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء وقت رش ہے، اتنی بڑی بڑی کمپنیاں اور بڑی بڑی حکومتیں وقت کے لئے بے تاب ہیں کہ یہ وقت پھر تمہارے ہاتھ سے نکل جانا تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان فرمایا اور بعض وقت تو واضح طور پر قطعی طور پر مہیا ہو چکے ہیں بعض کے متعلق وعدہ ہے کہ اتنی دیر تک امید ہے کہ ہو جائیں گے اس میں بھی دو قسم کے امکانات ہیں.جو میری خواہش تھی وہ تو یہ تھی کہ چوٹی کا جو بھی سامان مہیا ہو سکتا ہے خواہ کیسی ہی قیمت دینی پڑے اتنا اعلیٰ ہو کہ کسی احمدی کی طرف سے پھر کبھی شکایت نہ آئے کہ اب یہ سیٹلائیٹ ڈول گیا، اب یہ مدھم پڑ گیا ، اب نکتے آنے شروع ہو گئے ، اب اپنا ٹیلی ویژن شروع ہوگئی.اس قسم کی پھر کبھی کوئی شکایت کا موقع نہ ملے ایسا انتظام دے.اس انتظام کے جو امکانات ابھرے ان میں ایک ایسا بھی تھا جو دنیا میں سب سے زیادہ روشن اور طاقتور نظام ہے اور اس میں ہم نے جگہ بک کرائی لیکن ابھی اس کی آخری صورت طے ہونے میں کچھ دقتیں ہیں.لیکن متبادل جو اس سے دوسرے درجے کی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بک ہو چکی ہے.اس لئے مئی کے آغاز سے لے کر پھر آئندہ ساڑھے پانچ سال تک خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو میں خوشخبری دیتا ہوں کہ پھر کوئی جماعت کو تنگ نہیں کر سکے گا لیکن جو بیچ کا عرصہ ہے اس کے لئے متبادل انتظام جہاں تک تعلق تھا یورپ کا تو پختہ ہو گیا ہے وہ تو طے ہو چکا، قیمتیں ادا ہو گئیں ،سودے ہو گئے تحریر یں مکمل ہو گئیں.جہاں تک ایشیاء کا تعلق ہے اس کی راہ میں ابھی کچھ مشکلات ہیں.میری یہ خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ربط نہ ٹوٹے اس لئے خواہ تین گھنٹے کا وقت ملے جو بنیادی طور پر بہت کافی ہے یعنی روزانہ تین گھنٹے جو مرکزی حصہ ہمارے پروگراموں کا ہے وہ یکم مئی تک مسلسل دکھایا جائے.اس سلسلے میں خدا کے فضل سے کارروائی تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ہے، کچھ معمولی روکیں ابھی راہ میں ہیں.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان روکوں کو دور فرمادے تو پھر تین مہینے جو صبر کے ہیں وہ ایشیا کے لئے تو اس حد تک صبر کے مہینے ہوں گے کہ بارہ گھنٹے یا چوبیس گھنٹے کی بجائے صرف تین گھنٹے روزانہ کا رابطہ رہے گا اور جہاں تک افریقہ کا تعلق ہے ان تین مہینوں میں افریقہ سے ہمارا رابطہ کٹ جائے گا مگر اس کے متبادل کے طور پر خدا نے بعض اور سامان پیدا کر دیئے ہیں.مثلاً ایک ملک میں جہاں اس وقت جماعت کے رابطے کی شدید ضرورت ہے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا فرما دیا کہ وہاں کی ایک آزاد ٹیلی ویژن کمپنی جس کے پروگرام تقریباً ایک سو کلومیٹر کے دائرے میں مرکز سے، ان کے
خطبات طاہر جلد 14 984 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء Capital سے ایک سو کلو میٹر کے Radius میں یعنی اس دائرے میں سنے جاسکتے ہیں.ان کو از خود توجہ پیدا ہوئی اور شوق پیدا ہوا ہے کہ وہ ایم ٹی اے کے پروگرام دکھا ئیں اور بغیر کسی معاوضہ کے، بلکہ شکریہ کے ساتھ انہوں نے یہ بات منظور کر لی ہے کہ آپ ہمیں اگر براہ راست رابطہ نہ بھی دے سکتے ہوں تو ویڈیوز مہیا کر دیں.ہم روزانہ آپ کی ویڈیوز دکھائیں گے اور آپ کا چینل ٹیلی ویژن کا رابطہ نہیں ٹوٹے گا.پس الحمد للہ کہ ان کو بھی ہم نے ویڈیوز بھجوا دی ہیں.پس اس طرح خدا تعالیٰ خود ہی سامان فرما رہا ہے.ایک ملک میں جہاں ویڈیوز یا ٹیلی ویژن کے ذریعے تو رابطہ قائم نہیں ہوسکا وہاں سے خدا نے یہ سامان کر دیا کہ ریڈیو کا Chain سٹیشن ہے ایک، جنہوں نے بہت ہی معمولی قیمت پر یعنی اتنی معمولی قیمت پر کہ وہ آدمی سن کے حیران رہ جاتا ہے، جماعت کے لئے ایک سال کے پروگرام وقف کر دیئے ہیں کہ ہم آپ کے یہ پروگرام با قاعدہ دکھائیں گے.شروع میں انہوں نے تھوڑے پروگرام لئے ہیں.اب میں ان کو لکھ رہا ہوں کہ اس کو زیادہ کریں.مگر ابھی سے ان کا جواثر ہے وہ بہت حیرت انگیز ظاہر ہو رہا ہے.ان پروگراموں کے نتیجے میں دور نزدیک سے لوگ رابطے کر رہے ہیں اور احمدیت کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے.پس یہ سال جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جہاں سازشوں کا سال تھا وہاں سازشوں کی جوابی کارروائی کا سال بھی تھا اور وہ جو جوابی کارروائی ہے وہ جاری رہے گی اور یہ سال ختم ہونے تک سازشوں کے گلے گھونٹے جائیں گے انشاء اللہ اور آپ دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے گا اور آسمان سے جو رحمت برسنے کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ تو بر سے گی بہر حال، دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی.اب اس کے بعد جو نو ر والا مضمون تھا اس کی طرف واپس جانے کا اب وقت نہیں رہا کیونکہ وہ ایک اور آیت کے حوالے سے میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا تھا.وہ انشاء اللہ ہم آئندہ خطبے میں تو نہیں مگر اس کے بعد کا غالباً جو جمعہ آئے گا اس میں پھر اس مضمون کو شروع کر سکیں گے.آئندہ خطبے میں اس لئے نہیں کہ یہ ایک لمبے عرصے سے جماعت کا دستور چلا آ رہا ہے کہ سال کا آخری خطبہ یا اگلے سال کا پہلا خطبہ وقف جدید کے لئے وقف ہوتا ہے اور مجھ پر دباؤ تو یہی تھا یعنی درخواستیں تو یہی
خطبات طاہر جلد 14 985 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء تھیں مرکز کی طرف سے بھی ، دوسری جگہوں سے بھی کہ اس خطبے میں وقف جدید کی تحریک کی جائے اور جس طرح میں کو ائف بیان کیا کرتا ہوں وہ کوائف پیش کئے جائیں مگر چونکہ یہ دوسری باتیں یہاں کرنے والی لازم تھیں اس لئے میں نے آئندہ جنوری کے پہلے خطبے کو وقف جدید کے لئے وقف کیا ہے.تو انشاء اللہ اس وقت تک جو کوائف دنیا سے اکٹھے ہو چکے ہوں گے ان کی روشنی میں میں آپ کو وقف جدید کے مضمون سے آگاہ کروں گا اور اس کے بعد جو خطبہ آئے گا پھر انشاء اللہ ، سوائے اس کے کہ کوئی غیر معمولی ایسی بات پیدا ہو جس کے لئے ہمیں اس مضمون کو بھی چھوڑنا پڑے ورنہ یہی نور والے خطبات کے تسلسل کو پھر شروع کر دیں گے.ایک ضمنی بات میں یہ کہ دینا چاہتا ہوں کہ اس سال پر غور کرتے ہوئے ایک اور بات کا بھی خیال رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی مالی توفیقات کو جو بڑھایا ہے کیا آپ نے ان توفیقات کے مطابق اپنی مالی قربانی کو بھی بڑھایا ہے کہ نہیں.اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ خطرہ ہے کیونکہ قربانیوں کا مضمون دو طرح سے آگے بڑھتا ہے.ایک یہ کہ توفیق کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ قربانیاں ضرور بڑھا کرتی ہیں.ان لوگوں کی قربانیاں جو خالصہ اللہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں ان کی تو لا زما بڑھتی ہیں اور اگر توفیق نہ بڑھے تو آرزوئیں بڑھتی رہتی ہیں، تمنا ئیں بڑھتی رہتی ہیں، دل مچلتے ہیں کہ کاش ایسا ہو کہ ہمیں یہ توفیق ملے تو پھر یہ بھی کر دیں اور وہ بھی کر دیں اور بعض اوقات ایسے مردوں اور عورتوں کے خط ملتے ہیں کہ ہم یہ قربانی پیش کر سکتے ہیں مگر دل روتا ہے تمنا بڑی ہے کہ کاش خدا اور دے تو پھر ہم اور بھی زیادہ قربانیوں کو بڑھا دیں.اس ضمن میں جب اپنے سال پر غور کریں گے تو آپ کے دل آپ کو بتائیں گے کہ قربانیوں سے بے زاری بڑھی تھی یا قربانیوں کی محبت بڑھی ہے.عملاً پہلے سے زیادہ قربانیاں دی ہیں یا عملاً پہلے سے قربانیوں میں کمی واقع ہوگئی ہے.اس پہلو سے بھی سال پر نظر کریں.جہاں تک نیک تمناؤں کا تعلق ہے ان میں بھی دعاؤں کی ضرورت ہے کہ وہ تمنائیں سچی ہوں کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ بعض لوگ یہ دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا ہمارے اموال میں برکت دے پھر ہم بہت قربانیاں کریں تیری راہ میں مگر جب اللہ تعالیٰ ان کو اموال میں برکت دیتا ہے تو وہ قربانیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور خرچ نہیں کر سکتے.تو جہاں یہ نیک تمنائیں پیاری ہیں، اچھی
خطبات طاہر جلد 14 986 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء لگتی ہیں وہاں یہ خطرات بھی ہیں جن کی نشان دہی قرآن کریم فرماتا ہے اور ایسی کتاب ہے کہ اس کا کوئی جواب نہیں.کوئی نظیر دنیا میں نہیں ہے اور بھی کتابیں اتری ہیں اور اس شان کی کتاب پہلے کبھی کہیں نہیں اتری.ہر اچھی چیز کی تحریک فرماتے ہوئے ہر اچھی چیز کے ساتھ منسلک خطرات سے بھی آگاہ کرتا ہے.کوئی نکال کے تو دکھائے دنیا سے کوئی ایسی کتاب.اس لئے کہ یہ ایک جاری کتاب تھی جو فطرت کے ساتھ باندھی گئی اور فطرت کے ہر گوشے پر نظر رکھنا اس کتاب کے لئے لازم تھا ورنہ یہ عالمگیر تعلیم نہیں بن سکتی تھی.پس باقی کتب کا نقص نہیں ہے ان کی مجبوری ہے وہ وقت کے دائروں میں بٹی ہوئی شریعتیں تھیں.چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایک عالمی نور نازل ہوا ہے جو کل عالم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے فطرت سے اس کا باندھا جانا ضروری تھا اور فطرت میں مخفی ہر پہلو کے ساتھ جہاں جہاں تعلق ضروری ہے وہاں قرآن نے باندھا ہے.جہاں خوش خبریاں دی ہیں وہاں ان خوشخبریوں سے تعلق میں خطرات سے بھی آگاہ فرمایا ہے.پس یہ خطرات بھی ہیں جو نیک تمناؤں کے ساتھ وابستہ ہیں.مجھے تو کہیں کسی کتاب میں یہ پڑھنا یاد نہیں کہ نیک تمناؤں کے ساتھ ان کے خطرات کا بھی علم دیا گیا ہو.قرآن دیتا ہے کہتا ہے یہ دعا بھی، یہ خواہش نیک ہونے کے باوجود بھی خطرے کا موجب بن سکتی ہے.ہو سکتا ہے تم پہلے سے بھی بدتر حال کی طرف لوٹ جاؤ.اس لئے جب نیک تمنائیں کیا کرو تو اول خوب غور کر کے، سوچ کر کیا کرو، اپنے دل کی گہرائی تک اپنے نفس کو کر یدو کہ کیا واقعہ تم میں اس کی طاقت ہے بھی کہ نہیں.کیا جب یہ نصیب ہو جائے گا تمہیں تو تم اس عہد پر قائم رہو گے.اگر نہیں تو ڈرو اس تمنا سے جو تمنا تمہیں کامیابی کی بلندی عطا کرنے کی بجائے ہلاکت کے گڑھوں کی طرف دھکیل سکتی ہے اور ساتھ دعائیں کرو.اگر نہ پتا لگے کہ میری تمنا میں کیا کمزوریاں ہیں تو پھر دعائیں کرو کہ اے اللہ ہم تمنا تو کرتے ہیں مگر ہمیں اپنے نفس کے نفوس کے شرور سے بچا اور ہماری تمناؤں کی بھی حفاظت فرما، ان کو پاک اور صاف کر دے اور پھر انہیں پاک اور صاف حالت میں قبول فرما.پس یہ بھی ایک جائزے کا پہلو ہے اور جائزے میں اپنی اس اولادکو بھی پیش نظر رکھیں کیونکہ میں نے جائزے میں یہ آپ سے گزارش کی تھی کہ اپنا ہی نہیں اپنی بیوی کا بھی ، بچوں کا بھی جائزہ لیں.آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی کامیابیاں دکھائی ہیں اپنے
خطبات طاہر جلد 14 987 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء Profession میں یا یونیورسٹی کے دوسرے امتحانات میں یا سکول کے یا کسی ٹیکنیکل ٹریننگ کے امتحان میں یعنی وہ جو کسب معاش کے لئے مختلف ذریعے بنائے گئے ہیں ان کی تربیت حاصل کر کے وہ کامیاب ہوئے ہیں اور بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جن کو خدا کے فضل سے اچھی نوکریاں مل گئی ہیں یا آزاد تجارتوں کے موقعے ملے ہیں، آزاد اپنے ذریعہ معاش کو برکت دینے کے، بڑھانے کے موقع ملے ہیں تو یہ بھی نظر رکھیں کہ ان کے اندر بھی خدا تعالیٰ نے مالی قربانی کی تحریک پیدا کی ہے کہ نہیں.اگر نہیں تو ان کو سمجھائیں پیار کے ساتھ ، ان کو کہیں کہ یہی وقت ہے آج یہ عہد کر لو کہ گھر میں پیسے لانے سے پہلے لازما خدا کا حصہ نکالو گے.وہ نکالنا شروع کر دو آج تمہارے لئے زیادہ آسان ہے کیونکہ ابھی آغاز میں تھوڑے پیسے ملتے ہیں.اگر تھوڑے پیسے دینے لگو گے تو پھر بڑوں کی بھی توفیق ملے گی.اگر بڑی رقموں کی توفیق ملے گی تو لذتیں بھی خدا تمہاری بڑھائے گا اور پھر ایسا چسکا پڑ جائے گا کہ قربانی نہ دینا عذاب ہو جائے گا قربانی دینا چٹی نہیں بنے گا.پس پیار اور محبت کے ساتھ ان نسلوں کی بھی تربیت کریں تا کہ خدا تعالیٰ دین کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان کی نسلوں کو بھی توفیق عطا فرمائے اور یہی پیغام پھر آئندہ نسلوں میں بھی منتقل کرتے رہیں.تو اس پیغام کے ساتھ جو اس گزرے ہوئے سال کی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے اب میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.اب میں بعض مرحومین کا مختصر ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی نماز جنازہ آج نماز جمعہ اور عصر کے جمع ہونے کے بعد پڑھی جائے گی.ان میں سب سے پہلے تو مکرم و محترم چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت شیخو پورہ کا مختصر ذکر کرنا چاہتا ہوں.بہت ہی مخلص اور فدائی انسان تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا.ایسی ہر دلعزیز شخصیت تھی کہ اپنے کیا اور غیر کیا جوبھی ان کے قریب آتا تھا اس کا دل موہ لیتے تھے اور کسی جگہ میں نے کسی امیر ضلع کو اتنا ہر دلعزیز نہیں دیکھا جتنا چوہدری انور حسین صاحب کو شیخو پورہ ہی میں نہیں اس کے گرد و پیش میں بھی دیکھا ہے.جب وہاں کبھی میں جاتا تھا تو دعوت دیا کرتے تھے وہاں کے دانشوروں کو، حکومت کے افسر، غیر افسر، وکیل، زمیندار سب کشاں کشاں چلے آتے تھے.کبھی کسی نے اس بارے میں خوف محسوس نہیں کیا کہ احمدیت کی تبلیغ ہونی ہے وہاں سوال و جواب ہوں گے ہم کیوں شامل ہوں ، سارے آیا کرتے تھے
خطبات طاہر جلد 14 988 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء اور بے حد عزت تھی چوہدری صاحب کی ان کے دلوں میں.اپنی ساری برادری پر بہت اثر رکھتے تھے اور ان کا مختصر تعارف یہ ہے کہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو احمدیت کا سخت مخالف تھا ان کے بہنوئی رئیس احرار افضل حق تھے.ایک عبد الرحمن صاحب تھے جو پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے اور چوٹی کے جماعت کے مخالفین اور احمدی کب ہوئے چودہ سال کی عمر میں.1918ء میں پیدا ہوئے اور 1932ء میں احمدی ہو گئے.وہ چھوٹا سا بچہ چودہ سال کا ایسی مصیبت میں مبتلا ہوا کہ قیامت برپا ہو گئی اس خاندان پر ، دور دور سے چوٹی کے ہندوستان کے علماء کو بلایا گیا ، ان کے ساتھ مجالس لگائی گئیں کہ اس کو تو بہ کرا دو.جب وہ کامیاب نہیں ہوئیں کوششیں اور چوہدری صاحب کو جو اللہ نے غیر معمولی ذہانت عطا فرمائی تھی اس سے چوہدری صاحب ہر ایک کا منہ بند کر دیتے رہے تو پھر پیروں فقیروں کے پاس لے گئے اور کہا اس پر جنتر منتر کرو، کوئی دعائیں پڑھو.چوہدری صاحب واقعات سنایا کرتے تھے بعض پیروں نے کہا کہ نہیں اس پر کسی کا جادو نہیں چل سکتا یہ بڑی سخت ہڈی ہے.تو اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا بڑی تبلیغ کی توفیق ملی.اپنے خاندان میں، غیروں میں، ہر جگہ احمدیت کے لئے ایک تو غیرت میں ننگی تلوار اور تبلیغ کے لحاظ سے ایسا میٹھا رس تھے جو دلوں کی گہرائی تک اتر تا تھا.1974ء میں جو جماعت کے خلاف شور اٹھا ہے اس کے پس منظر میں وہ کامیاب تبلیغ تھی جماعت کی جس کے نتیجے میں مولویوں کے کیمپوں میں تہلکہ مچ گیا تھا.حکومت بھی بے قرار ہوگئی تھی کہ اگر اس طرح احمدیت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی تو کیا بنے گا ہمارا.اس میں چوہدری صاحب کا ضلع سب سے آگے تھا.ضلع شیخو پورہ سے سب سے بڑے وفد آیا کرتے تھے ہر ہفتے اور اللہ کے فضل سے رونقیں لگ جاتی تھیں.ربوہ میں ہر طرف مولوی ہی مولوی پھر رہا ہوتا تھا مگر آنے والا مولوی اور ہوتا تھا جانے والا اور ہوتا تھا، شکل ہی بدل جاتی تھی ان کی.تو چوہدری صاحب نے اس مہم میں سب سے زیادہ مرکزی کردار ادا کیا تھا.انہیں کی وجہ سے پھر دوسرے دلوں میں بھی شوق پیدا ہوا تھا اور بڑا ہی فدائی انسان احمدیت کے عاشق، مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق ، خلافت کے عاشق اور ایسی طبیعت مزے کی کہ باتیں کرتے تھے تو پھول جھڑتے تھے.لطائف کا بہت پیارا ذوق تھا اور حاضر جوابی تو درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی.کئی لوگ چوہدری صاحب کی حاضر جوابی کی وجہ سے سوچ سوچ کر،
خطبات طاہر جلد 14 989 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 1995ء سکیمیں بنا بنا کر آتے تھے کہ یہاں ہم ان کو پچھاڑیں گے اور بات کرتے کرتے چوہدری صاحب ایسا جواب دیتے تھے کہ الٹے پاؤں ان کو بھا گنا پڑتا تھا.کبھی آج تک میں نے یہ حاضر جوابی کے مقابلے میں چوہدری صاحب کو کسی سے شکست کھاتے نہیں دیکھا.غیروں کے مقابل پر بھی یہی حال تھا، احمدیت کے دلائل کے تعلق میں بھی یہی حال تھا.تو بہت ہی پیارا و جود تھا.حضرت مصلح موعودؓ کے بہت پیارے تھے، حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو بہت پیارے تھے اور مجھے بہت ہی پیارے تھے.بہر حال اللہ جو بلانے والا ہے وہ سب سے پیارا ہے اسی پر ہماری جان ہمارا سب کچھ شمار ہو اور اسی کے قدموں پہ ہماری روحیں فدا ہوں.اللہ چوہدری صاحب کی روح کو بھی غریق رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو بھی وہ خوبیاں عطا کرے جن خوبیوں کے وہ علمبر دار ر ہے ہمیشہ تفصیلی ذکر کا تو بہر حال موقع نہیں.نہ مناسب ہے جمعہ کو اس قسم کے تفصیلی ذکر میں تبدیل کرنے کا مگر یہ باتیں میرا خیال ہے دلوں میں دعا کی تحریک پیدا کرنے کے لئے کافی ثابت ہوں گی.ایک اور ہمارے بزرگ دوست سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب گوجرہ میں وفات پاگئے ہیں.ابن سید چراغ دین شاہ صاحب مرحوم اور استانی چراغ بی بی صاحب مرحومہ.یہ 22 دسمبر 1995ء کو وفات پاگئے ہیں انـا لـلـه وانا اليه راجعون.جسمانی لحاظ سے ان میں کچھ کمزوریاں تھیں اور اس کے باوجود بڑے ہمت والے انسان اور اعلیٰ ظرف اور اچھے اعلیٰ پائے کے شعر کہتے تھے.اور نچ نچ تھا اس میں لیکن بعض دفعہ شعر چمک کے ایسا اٹھتے تھے کہ بہت اونچی فضا تک پہنچ جاتے تھے.ان کی ایک نظم تو اتنی مقبول عام ہوئی کہ ایک زمانے میں ربوہ میں تو بچہ بچہ اس نظم کوگا تا پھرتا تھا.عرفان کی بارش ہوتی ہے دن رات ہمارے ربوہ میں اک مرد قلندر رہتا ہے دریا کے کنارے ربوہ میں ظلمت کی گھٹائیں چھائی ہیں اسلام کے روئے تاباں پر اس دور میں بھی آتے ہیں نظر کیا چاند ستارے ربوہ میں تو حید کی باتیں کرتے ہیں محبوب خدا پر مرتے ہیں یہ کوئی فرشتے ہیں یا رب جو تو نے اتارے ربوہ میں یہ زندہ جاوید کلام سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب کا ہے.ان کی نماز جنازہ بھی انشاء اللہ
خطبات طاہر جلد 14 990 خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1995ء ہوگی اور اس کے علاوہ کچھ اور بزرگوں کی یا عزیزوں کی بھی ہوگی جن کے اعلان پہلے کئے جاچکے ہیں.اکرم ظفر اللہ الشواء ابن مکرم محمد الشواء ایڈووکیٹ.یہ 16 دسمبر 1995ء کو 47 سال کی عمر میں کینسر سے وفات پاگئے.پچھلے اجتماعی نماز جنازہ غائب میں ان کا اعلان کرنا بھول گئے تھے.صرف میں نے اپنی ذات میں ان کی یاد میں نماز جنازہ غائب پڑھ لی تھی لیکن اب اس ساری اجتماعی نماز جنازہ غائب میں بھی ان کو پھر یا د رکھا جائے.ان کی خاص بات تھی کہ ان کے والد تو 1947ء میں احمدی ہوئے یعنی روحانی طور پر 1947ء میں پیدا ہوئے.یہ 1948ء میں پیدا ہوئے اس لئے پیدائشی احمدی تھے اور سلسلہ کے عاشق تھے.ایم ٹی اے کے پروگراموں کا اتنا شوق تھا کہ ایک لمحہ کے لئے وہاں سے نظر ہٹا نہیں سکتے تھے اور پیغام بھیجا کرتے تھے کہ ایم ٹی اے زندہ باد.مجھے زندگی کا مزہ مل گیا ہے اس سے اور سمجھ آئے نہ آئے بیٹھے رہتے تھے اس کے سامنے.دماغ کا کینسر ہوا اس وجہ سے بالآ خرآ پریشن بھی ہوا سوئٹزر لینڈ میں لیکن عام طور پر دماغ کا کینسر آپریشن کے جواب میں رد عمل دکھایا کرتا ہے.کچھ دیر کا وقتی آرام پھر پہلے سے بھی بڑھ کر خرابی.چنانچہ ہر دنیاوی کوشش ناکام رہی.ان کے والد بھی بہت بزرگ ہیں اور اس علم پر کہ میں نے ان کی نماز جنازہ غائب پڑھی ہے ان کا نہایت ہی محبت اور خلوص کا خط آیا ہے کہتے ہیں میں تو اتنی سی بات سے ہی راضی ہو گیا ہوں، مجھے بہت ہی صبر ملا ہے اس سے.تو اس لئے ضروری ہے کہ ان کو دوبارہ ہم سب اپنے ذہن میں پیش نظر رکھتے ہوئے نماز جنازہ غائب پڑھیں.
اشاریه خطبات طاہر جلد 14
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 1 آنا آئن سٹائن اشاریہ واتوا به متشابها (26) ان الله لا يستحيى (27) آئن سٹائن میں خدا کے تصور کے متعلق دیانت کی کمی 162 واستعينوا بالصبر والصلوة (45) آئیوری کوسٹ 290,307 مسلمة لا شية فيها (72) حضرت آدم علیہ السلام 348,706 | فادارئتم فيها (83) 955 والله سريع الحساب (103) آدم کو سجدہ سے مراد آدم کو سکھائے جانے والے اسماء 200,244,781 فاينما تولوا فثم وجه الله (116) آدم کی پیدائش کی غرض 286 ما يأفكون (118) آدم کے ایک بیٹے کا قتل کرنا اور اللہ کا کہنا کہ سب کو قتل کر اسلم قال اسلمت (132) دیا، اس سے مراد آریہ 336 يايها الذين أمنوا استعينوا (154) انا الله وانا اليه راجعون (157) آریوں کا اللہ کے خالق ہونے کی بابت غلط عقیدہ 168 خلدين فيها (163) آریوں کا عقیدہ کہ پر میشر روحیں پیدا نہیں کرسکتا، اس والهكم الله واحد (164) کا نقصان 379 784 279 564,604,728 149 132 356 359 170 387 512 38,410,925 284 193 يايها الذين أمنوا كتب عليكم الصيام (187-184) آریوں کا مناظروں کے دوران حضرت اقدس سے فانی قریب (187) قرآن کے متعلق نہایت گندی زبان استعمال کرنا چوہدری آفتاب صاحب آفن باغ جرمنی آیات قرآنیہ الفاتحة الحمد لله (4-2) البقرة 279 811 677 426 5,318 938 400,484,751,813 971 الم ذلک الکتاب (4-2) لا ريب فيه (3) الذين يؤمنون بالغيب (4) مثلهم كمثل الذي استوقد نارا (19-18) ولا تاكلوا اموالكم بينكم (189) وانفقوا في سبيل الله (196) متی نصر الله (215) والذين أمنوا وهاجروا (219) يايها الذين أمنوا انفقوا (255) يايها الذين أمنوا انفقوا (268) لیس علیک هداهم (275-273) الذين ينفقون اموالهم باليل (275) 50 59 344 429 641 515 526 643 405 579 594 لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (287) 452,637,703755 آل عمران الم الله لا اله الا هو (3-2) 206
157 73,176,351,949 433 434 961 401 152 602 435 944 431 345 529 532 524 451 541 681 523 461 4,389 460 770 514 بديع السموات والارض (105-102) لا تدركه الابصار (104) ان يتبعون الا الظن (117) ان ربك هو اعلم (118) او من كان ميتا فاحيينه (123) وربک الغنی (134) ما ظهر منها (152) قل ان صلاتي ونسكي (163) الاعراف سحروا اعين الناس (117) فلما تجلى ربه للجبل (144) قل يايها الناس انی رسول الله اليكم (159) قل لا املك لنفسي نفعا (189) الانفال انما المؤمنون الذين اذا ذكر الله (3) الذين يقيمون الصلوة (4) اولئک هم المؤمنون حقا (5) تودون ان غير ذات الشوكة (8) يايها الذين امنوا اذا لقيتم فئة (47-46) فشردبهم من خلفهم (58) والذين أمنوا وهاجروا (75) التوبة لا تحزن ان الله معنا ، معنا (40) ان الله اشترى من المؤمنين انفسهم (111) يونس فلما جاء السحرة (83-81) هود وكان عرشه على الماء (8) الا الذين صبروا (11) 2 889 182 230 472 627,641,655,657 631 549,550 331 133,213,302,303 428 816 274,816 65 410 543 189 940 933 145 873 584 510 346 439 425 431 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 هو الذي يصور كم في الارحام (7) سريع الحساب (20) ومكروا ومكر الله (55) ياهل الكتب لم تلبسون الحق (72) لن تنالوا البر (93) مثل ما ينفقون في هذه الدنيا (118) ان تمسسكم حسنة تسؤهم (121) عرضها السموات والارض (134) فبما رحمة من الله (160) لا تحسبن الذين كفروا (189) ان في خلق السموات والارض (191) ربنا ما خلقت هذا باطل (192) وتوفنا مع الابرار (195) النساء سميعا بصيرا (59) اطيعوا ا ا الله ، واطيعوا الرسول (60) ومن يطع الله والرسول (70) يايها الناس قد جاء كم برهان (175) يايها الناس قد جاء كم (176-175) المائدة اليوم اكملت لكم دينكم (4) والله يعصمك من الناس (68) لا تسئلوا عن اشياء (102) ولقد كذبت رسل (35) الانعام لا اقول لكم عندى خزائن الله (51) وهو القاهر فوق عباده (63-62) ثم ردوا الى الله (63) ام القرى ومن حولها (93)
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 واستوت على الجودى(46) كنت فينا مرجوا (63) لا تخف (71) يوسف لم اخنه بالغيب (53) انما اشكوا بثى (87) له معقبت من بين يديه (12) انزل من السماء ماء (18) الرعد والذين صبروا ابتغاء وجه ربهم (23) قالت لهم رسلم (13-12) ابراهيم قل لعبادي الذين أمنوا (32) ان عبادی لیس علیک علیهم سلطان (42) الحجر فاذا سويته ونفخت فيه (30) فلا تزكوا انفسكم(33) النحل الهين (52) ضرب وب الله مثلا عبدا (76) ان الله يامر بالعدل والاحسان (91) ثم ان ربك للذين هاجروا (111) ادع الی ربک بالحكمة (126) وان عاقبتم فعاقبوا (127) وما صبرك الا بالله (128) المؤمن، المهيمن (24) بنی اسرائیل ارحمهما كما ربيني صغيرا (25) ومن كان في هذه اعمى (73) 772 430 461 363 531 440 463 603 559,721 643 133 186 296 311 648,819 489 548 461,506 127 517,555 497 704 333 3 اقم الصلوة لدلوك الشمس (79) وقل جاء الحق وزهق الباطل (82) قل كل يعمل على شاكلته (5) ويسئلونک عن الروح (86) 661.669,786 445,469,494 882,883 168 الكهف الحمد لله الذي انزل (2) 936 فمن شاء فليؤمن(30) 352 مال هذا الكتاب(50) وما نرسل المرسلين (57) 355 449 مریم ولم اكن بدعائك رب شقیا (5) اسمه يحيى (8) 281,665 282 طة يومئذ يتبعون الداعي (109) واصطبر عليها (132) 937 565 الانبياء وما خلقنا السماء (17) لو اردنا ان نتخذ لهوا (18) بل نقذف بالحق (19) لفسدتا (23) وجعلنا من الماء كل شيء حتى (31) يخشون ربهم بالغيب (50) ینار کونی بردا (70) وجعلتهم ائمة (74) 273 285 472 311 773 354 388 رحمة للعلمين(108) 728 332,557 القصص رب اني لما انزلت (25) 908 النور الله نور السموات والارض (36)305,861,881,903,923
599,621,625 557,558 497 343,484 480 761.785 756 756 756-757 758 741.780 530 145 519 32 32 215 505 164,288 175 211 515 ان الذين يتلون كتب الله (30) الصفت فلما بلغ معه السعى (103) ص نعم العبد (31) الزمر تقشعر منه جلود (24) اليس الله بکاف عبده (37) وترى الملئكة حافين (76) المؤمن غافر الذنب (4) ما يجادل في آيت الله (5) كذبت قبلهم قوم نوح (6) و کذلک حقت کلمت ربک (7) الذين يحملون (8) حم السجدة ان الذين قالوا (31) ان الذين قالوا ربنا الله (33-31) ولكم فيها ما تشتهى انفسکم (33-32) ومن احسن قولا (34) فاذا الذي بينك وبينه عداوة (35) ولا تستوى الحسنة (36-35) وما يلقها الا ذو حظ عظيم (36) الشورى ليس كمثله شيء (12) فاطر السموات والارض (13-12) والذين استجابوا لربهم (39) الاحقاف فاصبر و اولو العزم (36) كما صبر 939,943 801,841 879 383 545 518 435 457 148 344,751 208,388 717 727 111 893 778 607 382 783 395 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 الله نور السموات (37-36) في بيوت اذن الله (37) وليبدلنهم من بعد خوفهم امنا (56) المؤمنون انه كان فريق من عبادی (112-110) الشعراء لعلک باخع نفسک (4) فالقى موسى عصاه (46) لشرذمة قليل (55) بقلب سليم (90) ان الصلوة تنهى (46) والذين جاهدو فينا (70) العنكبوت لقمان وهنا على وهن (15) السجدة ولقد اتينا موسى الكتاب (24) الاحزاب يايها النبي انا ارسلنک شاهدا (48-46) سراجا منيرا (47) حملها الانسان (72) السبا قل ان ربي يبسط الرزق (40) يس سلم قولا من رب رحيم (59) فاطر الحمد لله فاطر السموات (2) يايها الناس انتم الفقراء (16)
953 779.769 186 1 897 882 320 597 276 333 180 677 572 572,667 373,667 745 ومن اظلم ممن افترى (10-8) 5 الحاقة وانشقت السماء (18-17) ويحمل عرش ربک (18) التغابن انما اموالكم واولادكم فتنة (18-16) التحريم يايها الذين أمنوا توبوا (9) القلم وانک لعلی خلق عظیم (5) الجن فلا يظهر على غيبه احدا (28-27) المدثر ولا تمنن تستكثر (7) الدهر لا نريد منكم جزاء والا شكورا (10) المرسلات مما يشتهون (43) الانفطار ثم ما ادراك ما يوم الدين (20-19) الطارق انهم يكيدون كيدا (18-16) الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى (10) الغاشية فذكر انما انت مذكر (22) لست عليهم بمصيطر (23) الفجر يايتها النفس المطمئنة (29-28) 399 785 611,895 294 569 350 774 947 197 471 488 488 159,912 624 619 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 هانتم هؤلاء تدعون (39) والذين معه (26) محمد رسول الله (30) محمد الفتح الحجرات ان اکرمکم عند الله اتقكم (14) ق هل من مزيد (31) الذاريات وانا لموسعون (48) النجم ما كذب الفؤاد ما رأى (13) ما زاغ البصر (18) الرحمن الرحمن علم القرآن (25) علمه البيان (5) والسماء رفعها (89) فبای الاء ربكما تكذبن (14) كل يوم هو في شان (31-30) امنوا بالله ورسوله (8) الحديد وما لكم الا تنفقوا في سبيل الله (12-11) الحشر 26,39 147,295,309,329,347,385 يايها الذين أمنوا اتقوا الله (20-19) هو الله الذي (24) 365 هو الله الذي ارسل (24-23) الصف
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 راضية مرضية ( 31-29 وللآخرة خير لك (5) الضحى العلق علم بالقلم (5) القدر بسم الله الرحمن الرحيم (6-1) حتى مطلع الفجر (6) الزلزال اذا زلزلت الارض زلزالها (26) بان ربک اوحی لها (6) البلد 332 888 161 142 669 150,322 202 مومن کے اسلام کی آزمائشیں حضرت ابراہیم علیہ السلام 400 728 ابراہیم کا آگ میں پڑنے کے باوجود ٹھنڈا ہوا، وجہ 388 ابراہیم کو اسلام کا حکم ابراہیم کو کمل سلامتی ملنے کی وجہ 387,398 390 آنحضرت کا معراج میں آپ کو بچوں کی تربیت کرتے دیکھنا 185 درود شریف میں ابراہیم کے ذکر کی وجہ آپ کا رویا میں اسماعیل کو ذبح کرنا 397 558 ابرا ہیم نون صاحب احمدیت میں شمولیت اور وفات پر ذکر خیر ابن ابی حاتم ابن ابی قحافہ 635 765 224 ثم كان من الذين امنوا (18) لقد خلقنا الانسان (5) اسفل سافلین (6) التين 504 حضرت ابن عباس 69,771,907,920,949 وضعی احادیث کے حوالہ سے آپ پر ظلم 856,891 919 العصر والعصر (4-2) وتواصوا بالحق (4) اللهب تبت يدا أبي لهب وتب(2) 501 470,758 ابن ماجه ابن مردویہ حضرت ابن مسعود ابوح حضرت ابوالدرداء ابوالعطاء جالندھری صاحب 974 حضرت ابو برده 764 97,100,109,206 764 106,612 765,767 21,239 153 112 حضرت ابو بکر ابتلاء ابوبکر کی نماز یں عام نمازوں کی طرح نہ تھیں ابتلاؤں پر ثابت قدمی سے جو انعام ملے وہ بغیر ابتلاء کل اثاثہ لے کر حاضر ہو جانا کے انعام سے بعض اوقات بڑھ جاتا ہے ابتلاؤں کی وجہ انبیاء کا ابتلاؤں پر نمونہ اور توکل دعوت الی اللہ سے ابتلاؤں کا پھیلنا انسان کے لئے ابتلاء ہیں اللہ کے لئے کوئی نہیں 484 497 494 531 بغیر کسی دلیل کے آنحضرت پر ایمان لانا 616 658 940 آپ کا اُسامہ کے لشکر کو بھیجنے کا فیصلہ اور صحابہ کا مشورہ 223,304 545 ابو جہل ابو جہل میں آج کل کی خباثت کا مادہ ہی نہیں تھا 57
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 ابو حنیفہ حضرت ابوذرغفاری ابوظہبی حضرت ابوقتادة ابو محمد حضرت ابو موسی رض 7 107 809 259 961 109 239 904 احمدیت میں مرتدین کی تعداد میں بیعت کرنے والوں کی نسبت اضافہ نہ ہونے کی وجہ 454 تبلیغ کرنی ہے تو آنحضرت کے نور سے حصہ لینا ہو گا احمدیت نے نئے آدم بنانے ہیں 705,706 پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی حرکت اور اس حضرت ابو ہریرہ 67,68,69,70,240,280 ظلم کو کالعدم کرنے کی کسی میں طاقت نہیں 608,633,651,767,770,785,959 اصحاب الصفہ میں شمولیت اور اس کی برکت سنن ابی داؤد 592 پاکستان میں بعض دفعہ نو جوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر جوابی کارروائی کرنا ، ان کیلئے نصیحت 42 553 ایک حدیث جس کا اُس میں ہونا بہت بڑا ظلم ہے 765 پہلے نہیں ہوتی احسان احسان پر انسان کا لطف اندوز ہونا اور اس کی کیفیت 275 دور شروع ہو جاتا ہے احسان کے مختلف معانی احسان کے نتیجہ میں مختلف رد عمل سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب 642 284 ان کی وفات پر ذکر خیر احمد نگر احمدیت 989 443 پاکستان میں دشمن کی شرارتوں اور منصوبوں کی اطلاع پاکستان میں نئے احمدی پر مصیبتوں کا نہ ختم ہونے والا جماعت احمدیہ کا مالی قربانی کے لحاظ سے سورۃ الحدید کی چند آیات سے تعلق جماعت احمدیہ کی لیلتہ القدر جماعت کو دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کے لئے شعبہ قائم کرنے کی ہدایت جماعت کو دنیا بھر میں نئی نسل سے تبلیغ کے سلسلہ میں 679 546 620 152 682 احمدیت اور اسلام کی فتح کے دن بہت قریب آرہے ہیں 38 مجاہدین کی ضرورت ہے 730 267 احمدیت کا تو کل خالصہ اللہ پر ہے، اس کا اجر جماعت کے ایک ہزار سال تک تقویٰ پر رہتے ہوئے 150 ممالک میں نفوذ اور غلبہ کے حوالہ سے تنبیہ 620 صحیح فیصلہ کرنے میں مجلس شوری کا اہم کردار ہو گا 298 احمدیت کی تاریخ گواہ کہ خلوص کے ساتھ قربانی کرنے جماعت کے عبادت گزار بندوں کی تعداد دوسروں سے الله 393 بہت زیادہ ہے 138 والا ضائع نہیں ہوتا احمدیت کی تخلیق کا مقصد ہے اتمام نور مصطفوی ﷺ 960 جماعت میں عظیم الشان مالی قربانیوں کے نظاروں کی وجہ 6 احمدیت کے حقیر ہونے کی بابت بھٹو اور ضیاء الحق کا تبصرہ 457 جماعت میں مالی قربانی کے جذبہ کی ترقی احمدیت کے متعلق پاکستان کی اخبارات میں ہر خبر میں جماعت میں جہاں سے برکت اٹھی ، اس کی وجہ حضور کی خلافت سے قبل کی ایک رؤیا جس میں مخالفتوں پر جھوٹ کی ملونی ضرور ہوتی ہے احمدیت میں ارتداد کی تاریخ پر ایک نظر 757 736 غلبہ اور جماعت کی عاجزی کا ذکر تھا 12 543 509
8 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 دشمن کے مقابل صبر کے ساتھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں 551 جماعت کی تاریخ گواہ کہ تقویٰ رکھنے والوں کے کاموں ساری دنیا کی جماعتوں کا ایک مزاج ہو جائے ، کالے میں برکت پڑی ہے خواہ علم کے لحاظ سے ادنی ہوں 294 گورے کا فرق ہی نہ رہے ، سب کا سانجھا نور ہو 305 جماعت کی دو فیصد عددی طاقت کے استعمال کا نتیجہ اور صبر اور دعاؤں سے جماعت دوگنی ترقی بھی کر سکتی ہے 578 اسے سو فیصد تک پہنچانے کی خواہش ضیاءالحق کا اعلان کہ احمدیت کے کینسر کی جڑیں اکھیڑنی ہیں 450 جماعت میں نئے آنے والوں کو پہنچنے والی مصیبتیں اور لکھو کھپا لوگوں کا احمدیت قبول کرنا حضرت اقدس کی صبر کی تلقین لنگر کو حضرت اقدس نے جماعت کے مقاصد کا پانچواں جماعتوں کو صبر اور اندرونی طور پر ایک ہونے کی تلقین 738 حصہ قرار دیا ہے مسلمان اور احمدی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 89 748 447 709 570 کمزور احمدیوں کے سپر دذمہ داری کرنے کی تلقین 706 مخالف مولویوں کو چیلنج کہ وہ لاکھ زندہ رہیں مگر احمدیت مخالفتیں ہماری نشو و نما کو روک نہیں سکتیں 979 458 نظام جماعت میں عملاً امیر اور غریب میں قطعاً فرق نہیں کی پسپائی نہیں دیکھ سکتے تقویٰ کا فرق ہے وحدت کے حصول کا طریق 600 544 وہ لوگ جو جماعتی معاملات میں صبر سے عاری ہو جاتے ہیں 732 وہ مضامین جن کو جماعت کی بھاری اکثریت خطبات میں ہمارا یہ دور کثرت سے تبلیغ کا دور ہے اور ملک ملک صلاحیت اور علم کے اعتبار سے ہضم کرنے کی صلاحیت میں انقلاب برپا ہو رہا ہے جو تصور میں بھی نہیں تھا 474 1974ء میں جماعت کے خلاف شور کا پس منظر جماعت نہیں رکھتی 161 988 ہر ابتلا کے بعد جماعت کی مالی قربانی میں بے پناہ اضافہ 580 کی کامیاب تبلیغ تھی یہ سال جماعت کے خلاف سازشوں کا سال ہے 975 1974ء میں یہود کے عیسائیوں کو خارج کرنے کی طرح آج اسلام کا نمائندہ حضرت مسیح موعود اور جماعت احمد یہ ہے 957 مسلمانوں کا احمدیت کو اسلام سے خارج کرنے کے اس خیال کی تردید کہ احمدیت کے غلبہ پر چندے ختم ہو 624 لئے کونسل بلانا احمد یوں پر طاقت کے مطابق بوجھ ڈالیں ، فعال اور چندہ نہ وصول کرنے کی سزا کا احمدیوں پر اثر جائیں گے اگر جماعت کا ایک حصہ فعال نہیں تو ہمارا قصور ہے 705 غیر فعال دونوں حصوں پر 978 457 709 6 اللہ کا جماعت کی فتنوں سے حفاظت کرنا انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کے اعتراض کا جواب 690 اس نظریہ کی تردید کہ inflation کی وجہ سے جماعت جس تیزی سے جماعت پھیل رہی ہے اس تیزی سے 616 نے زیادہ قربانی نہیں کی اختلاف مالی تقاضے بڑھ رہے ہیں جماعت احمد یہ آج جس دور سے گزر رہی ہے اسے صبر جہاں الہی جماعتوں میں اختلاف ہوں وہاں ضروران 729 کی بہت ضرورت ہے جماعت کو زیادہ سے زیادہ کارکن پیدا کرنے کی طرف اخلاص توجہ دلانا 708 کی طاقت ختم ہو جاتی ہے مالی قربانی کے بغیر اخلاص نہیں بڑھتا 834 543 16
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 اراده ارادہ کا روح سے تعلق ارادہ کا زمانہ کی قید سے آزاد ہونا ارادہ کے حوالہ سے اللہ اور انسان میں فرق 168 167 167 871 انبیاء کو حاصل ہونے والی حالت مستقیمہ آنحضرت کا مزاج کا بغایت درجہ وضع استقامت پر تھا 872 حضرت اسحاق اسرافیل کے صور پھونکنے سے مراد اللہ ارادہ سے مادہ کیسے پیدا کرتا ہے.اس کی وضاحت 168 اسلام کی خاطر سپین کے مسلمانوں کی قربانیاں ارتداد اسلام بے صبری کی وجہ سے احمدیت میں ارتداد کی تاریخ پر نظر 736 اسلام کے اتمام نور سے مراد احمدیت میں مرتدین کی تعداد میں بیعت کرنے والوں اسلام کے اندر سلام کا مضمون کی نسبت اضافہ نہ ہونے کی وجہ ارسطو 454 814 اسلام لانے سے قبل جن صحابہ نے آنحضرت کو دیکھ 728 185 426 958 148 دیئے حیا سے اُن کی آنکھیں بعد میں نہیں اٹھتی تھیں 523 ارسطو جس خدا تک پہنچا وہ بالآخر ایک فلسفہ ہی ہے 177 اسلام نور ہے اور مخالفین اپنے مونہوں کی پھونکوں سے ارسطو کا خدا کے متعلق تصور ارسطو کے فلسفہ میں اشتراکیت کا مضمون 161 177 اسے بجھا نہیں سکتے 956 احمدیت اور اسلام کی فتح کے دن بہت قریب آ رہے ہیں 38 افلاطون اور ارسطو کا خدا کے متعلق تصور اور اس میں فرق 164 ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت شوری طلب کرے یا امیر طلب سب سے عظیم فلسفی جو آج تک مذہبی دنیا سے باہر پیدا ہوا 161 کرے، بلکہ مشورہ کا رواج اسلام کا امتیازی شان ہے 225 حضرت اسامہ بن زید اسا علم 223,304 بزرگان سلف کے حوالے کر دین اسلام کا اتمام مہدی کے ہاتھ پر ہوگا 958 اسامکم میکر زکو نصیحت کہ جھوٹ بولنے سے ہجرت ضائع آج اسلام کا نمائندہ حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ ہے 957 ہو جائے گی 495 اسلام آباد ایک شخص کا پہلے کیس میں جھوٹ بولنا، خطبہ سے متاثر ہوکر اسلام آباد ٹلفورڈ 18 155,541 سچ بولنا اور حج کا اس کے حق میں فیصلہ کرنا استغفار استغفار کا حقیقی مطلب استغفار کا لغزشوں اور کمزوریوں سے تعلق اللہ اور انسان کی مغفرت میں فرق آنحضرت کے استغفار کی کثرت کی وجہ استقاء استقامت کے بہت سے مضمون استقامت کے معانی اور اقسام 496 اسلامی اصول کی فلاسفی 311,314,316 370,371,377,380 2 61 | اسما اسم اعظم 61 62 753 اسم اعظم پر روشنی ڈالنے والی ایک حدیث اسم اعظم کی حقیقت 206 202 اللہ کی صفت ربوبیت کا اسم اعظم کے ضمن میں ذکر 205 حضرت اسماعیل 530 870 اسماء بنت یزید 556 206 اصحاب الصفہ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 10 حضرت ابو ہریرہ کا بتانا کہ وہ اصحاب الصفہ میں کیوں شامل افلاطون ہوئے اور اس کی برکت پاکستانی اصحاب الصفہ اصلاح 592 592 161,177,814 افلاطون اور ارسطو کا خدا کے متعلق تصور اور اس میں فرق 164 علامہ اقبال 140 دنیا کے سب سے بڑے جھوٹوں کا تعلق اقتصادیات سے ہے479 نظام جماعت میں مؤاخذہ کا نظام اور اصلاح کا ہونا 416 اکبرالہ آبادی اکرم خالد اطاعت خلیفہ وقت کا جماعت سے دلی تعلق اور جماعت کی اطاعت اکرم ظفر اللہ الشواء کا حال 226 ان کی وفات پر ذکر خیر صحابہ کی تاریخ کا صرف ایک ہی واقعہ کہ جب انہوں نے الاستفتاء فوراً لبیک نہ کہا اللہ اور رسول کی اطاعت سے ثبات کا حصول اعتکاف 219 الترغيب والترهيب 542 الحاد الحكم معتکفین کا ایسی رویا سنانا جن کا انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ 99 464 990 771 105 238 658 رویا کیا ہے اعجازاح افریقہ 155 196 91,178 اللہ ارادہ سے مادہ کیسے پیدا کرتا ہے.اس کی وضاحت 168 اللہ اسم اعظم ہے اللہ اور اس کی صفات مشتق نہیں ہیں افریقہ کے احمدیوں کو ہدایت کہ پیسہ دیں خواہ ایک دمڑی ہو 714 اللہ اور اس کی کائنات میں کوئی تضاد نہیں ہے افریقہ کے ایک ملک میں چندہ کا نظام ابھی مستحکم نہیں ہوا 305 اللہ اور انسان کی مغفرت میں فرق افریقہ میں جماعت کے پھیلنے کے باوجود مالی قربانی کے اللہ اور انسان کے تعلقات میں فرق نظام کا علم ہی نہیں وقف جدید کے ایک حصہ کی افریقہ کی طرف منتقلی 709 16 سارے مشرقی افریقہ میں بعض کمزوریاں مگر مغربی افریقہ اللہ بطور السلام میں رفتار میں اضافہ افریقی ممالک میں بیعتوں میں اضافہ کی وجہ افضل حق ، رئیس احرار افغانستان 417 447 988 255 202 237 93 62 397 اللہ اور انسان میں طاقت کے حوالہ سے فرق 172,176 اللہ اور رسول کی اطاعت سے ثبات کا حصول اللہ بطور سریع الحساب اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا قیوم اللہ تعالیٰ کے ذی الطول ہونے سے مراد 542 380 905 843 756 اللہ تعالیٰ کے عرش کی حقیقت صحیح احادیث اور افغانستان کی نجات کا راستہ اب ہدایت ہی ہے 262 ارشادات حضرت اقدس کی روشنی میں صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کی وجہ سے اللہ تمام صفات حسنہ کا منبع اور مرجع ہے افغانستان پر ایک کے بعد دوسری بلا کا نزول 260 770 182 اللہ سے انسان کے تعلق کا انحصار اس کے اخلاق پر ہے 29
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 اللہ سے بدی نہیں پھوٹ سکتی اللہ سے تعلق جوڑنے کے لئے حق پر قائم ہونا ضروری ہے جس کا دوسرا نام عدل ہے اللہ سے تعلق کے حوالہ سے مختلف قسم کے بندے اللہ سے حسن ظن کا تعلق انسان کی بھلائی اور بہبود کے 845 492 54 11 اللہ کی خاطر خرچ کرنے والوں کو لامتناہی فیض کا ملنا 603 اللہ کی ذات کے حوالہ سے زمانہ کا تصور 163 اللہ کی ذات میں کوئی غور ممکن نہیں جب تک خدا خود اس کی مدد نہ فرمائے اللہ کی رحمانیت کا غیب سے تعلق 177 338 403 لئے ضروری 281 اللہ کی رحمت کا ذکر اللہ سے ذاتی تعلق میں محض عرفان الہی کافی نہیں 209 اللہ کی رحمت کا منظر 65 اللہ سے بخل کا نقصان اللہ صفات حسنہ کے مجموعہ کا نام ہے 400 881 277 اللہ کی رحیمیت کا حاضر کی دنیا سے تعلق اللہ کی رضا سے مختلف قسم کی برکتوں کا حصول اللہ کا احسان سے لطف اٹھانا اللہ کا اقتدار دو طرح سے دوسرے وجود میں متصور ہو سکتا ہے 312 اللہ کی ساری دنیا میراث ہے تو پھر وہ انفاق کیوں چاہتا اللہ کی رضا کی خاطر مالی قربانی کا اجر 339 585 590 اللہ کا چہرہ دیکھنے کے حوالہ سے قرآن میں موسی اور آنحضرت کا ذکر اور مقام اللہ کا غیب سے حفاظت کرنا 29 352 ہے؟ اس کی وضاحت اسماء باری تعالیٰ پر غور کی تعلیم اللہ کی شان میں تبدیلی اور زمانہ 625 172 164 اللہ کا غیب میں ہونا کسی غفلت کے نتیجہ میں نہیں اور نہ ہی اللہ کی صفات سمیع اور بصیر کا انسان کے زادراہ سے تعلق 409 358 اللہ کی صفات کا ایک دوسرے سے پھوٹنا کسی فساد کا موجب بنتا ہے اللہ کا ملنا ساری دولتوں کے ملنے سے اچھا سودا ہے 400 اللہ کی صفات کا پھوٹنے سے تعلق ہے اللہ کا نام سلام اللہ کا نور کہلانے والوں میں اور اللہ میں فرق 151 844 اللہ کا نور ہو جانے سے مراد اور انسان پر اس کا اثر 454 271 389 186 793 اللہ کی صفات کو اٹھانے سے مراد اللہ کی صفات کو سمجھنے کے لئے جوڑوں کا استعمال 406 اللہ کی صفات کے حوالہ سے صور کی قسمیں اللہ کی صفت الحق کا تذکرہ اللہ کا ہیجان سے پاک ہونا اللہ کو حمد کے لئے جھوٹ کی ضرورت ہی ممکن نہیں 429 اللہ کی صفت حمید کا تذکرہ اللہ کو قرضہ حسنہ دینے سے مراد 9 186 427 408 اللہ کی صفت ربوبیت کا اسم اعظم کے ضمن میں ذکر 205 اللہ کو قرضہ حسنہ کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کا جواب 622 اللہ کی صفت ربوبیت کا تذکرہ اللہ کی اکثر عطا سرا ہے اللہ کی بادشاہت اور قدوسیت 821 378 784,790 اللہ کی صفت ربوبیت کا لامتناہی اور مشکل سلسلہ 329 اللہ کی صفت رحمانیت اور رحیمیت کا ذکر اللہ کی پانچ صفات کے تذکرہ پرمشتمل ایک حدیث 904 اللہ کی صفت رحمانیت کا تذکرہ اللہ کی صفت رحمانیت کے جلوے اللہ کی تشبیہی اور تنزیہی صفات 777 اللہ کی خاطر بندوں پر احسان کے نتیجہ میں خدا کا فضل 597 اللہ کی صفت رحیمیت کا تذکرہ 197 792 341 792
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 12 اللہ کی صفت رحیمیت کا مطلب اور اس کے تقاضے 340 اللہ کے عالم الغیب ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعود اللہ کی صفت سلام کا تذکرہ ، تعریف اللہ کی صفت شہید 386 392 351 اللہ کی صفت غنی اور حمید کا تعلق اللہ کی صفت غنی کا تذکرہ اللہ کی طرف لوٹنے کا مضمون اللہ کی غلامی اختیار کرنے والے کا رنگ 396 389,395,406 410 821 73 632 560 اللہ کی لقا اور اس کے ملنے کا لامتناہی سفر اللہ کی محبت میں کمی کے نتیجہ میں قربانی میں کمی اللہ کے احسان کے طریق اللہ کے اور اک کے حوالہ سے انسان کا دائرہ اور قرآن اور آنحضرت کی تعلیم اللہ کے بدیع ہونے سے مراد 158 160 کی ایک تشریح 285 اللہ کے عالم الغیب ہونے میں خدا کا ہمیشہ ہونے کا نکتہ 369 اللہ کے فضل سے حسنات کا نازل ہونا اور تکلیف سے بچانا 550 اللہ کے فضلوں پر اس کا شکر کریں اللہ کے کُن فیکون کہنے کی حقیقت 562 167 311 اللہ کے لاشریک ہونے کا ثبوت اللہ کے متعلق اس تصور کی تردید کہ خدا اور تخلیق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 772 اللہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے مؤقف اور گزشتہ علماء کے موقف میں فرق 195 اللہ کے متعلق کسی کے اچھے اور برے تصور کی وضاحت 281 اللہ کے مخلوق سے تعلق کے نتیجہ میں اللہ میں کوئی تبدیلی اللہ کے بعد وہ اسم جو تمام صفات سے تعلق رکھتا ہے 802 نہیں آتی 180 اللہ کے بن مانگے دینے سے مراد اللہ کے تعلق میں لفظ قاہر سے مراد اللہ کے تو اب ہونے سے مراد اللہ کے حسن و احسان کا معراج اللہ کے حوالہ سے انسان کی غفلت کا عالم 198 439 62 283 796 645 اللہ کے مقابل پر استغناء کرنے والی قوم کے بدلہ خدا اور لے آتا ہے 401 اللہ کے نور پر مشتمل احادیث کا تذکرہ 907 اللہ کے نور سے پیدا ہونے والا ہر پر دہ نور کا لامتناہی ہونا 928 اللہ کے نور سے دیکھنے والے 296 928 اللہ کے خارق عادت اعجاز نمائی کی وجہ اللہ کے خوف میں محبت اور رعب دونوں داخل ہیں 529 اللہ کے نور کا اصل پر تو اللہ کے دائیں طرف بیٹھنے کا مضمون اللہ کے دیدار اور جلوہ کو حاصل کرنے کا اہل 411 948 اللہ کے نور کو حاصل کرنے کے لئے فیضان عام اور خاص 846 816 اللہ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے سے مراد کہ اپنی ذات اللہ کے نور کی ماہیت کو آپ ہی جانتا ہے، اس کی وضاحت اللہ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے سے مراد اللہ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے کی حقیقت اللہ کے عالم الغیب ہونے کے حوالہ سے مومن کے لئے کامیابیاں اور دشمن کی ناکامیاں مضمر ہیں 315 295 351 367 اللہ کے نور کو خدا کی تخلیق کے حوالہ سے سمجھیں اللہ کے نور کے ساتھ آنحضرت کے ذکر کی وجہ اللہ کے نور کے سامنے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی اللہ کے وقت سے بالا ہونے کا مضمون اللہ کے نور کا حجاب ہونا اللہ مالک کے طور پر ہے نہ کہ عادل کے طور پر 809 803 922 370 905 491
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 13 اللہ نور السموات والارض کا مطلب 808,844,882,904 جنتوں کا دام بھی اسماء باری تعالیٰ پر غور کرنے سے سمجھ آتا ہے 284 842 چندوں کے نظام میں غنی اور حمید کی اہمیت اللہ آسمان وزمین کا نور ہے، لطیف تشریح اللہ نے انسان کو اپنی فطرت پیدا کیا، اس کے دو پہلو 245 حديث انا عند ظن عبدی بی سے مراد ارادہ کے حوالہ سے اللہ اور انسان میں فرق خدا چھوٹے جرم کی بڑی سزا کیوں دیتا ہے حالانکہ یہ 167 413 29 ارسطو جس خدا تک پہنچاوہ بالآخر ایک فلسفہ ہی ہے 177 انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے.اس کا جواب خدا کی خاطر غیر اللہ سے آنے والے رزق سے آنکھیں ارسطو کا خدا کے متعلق تصور اسماء باری تعالٰی کا مضمون بہت اہم ہے 161 193 بند کر لینے والوں سے خدا کا سلوک 41 530 افلاطون اور ارسطو کا خدا کے متعلق تصور اور اس میں فرق 164 دنیا کو آج صفت سلام کی بہت زیادہ ضرورت ہے 383 اللہ کے حوالہ سے رحمانیت کا مضمون الہی نور کی پہچان 196 34 دہریوں نے بھی محسوس کر لیا کہ اخلاق ہی خدا کی ہستی پر اعتماد کی جان ہیں 37 197 200 انبیاء کے مخالفین کا رحمانیت اور رحیمیت کا غلط استعمال 342 رحمان کے دو معافی انسان کا اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنا اور صفت سلام 390 رحمانیت سے محمد اور رحیمیت سے احمد کا تعلق انسان کے لئے ابتلاء ہیں اللہ کے لئے کوئی نہیں 484 رحمن کا تعلق رحم سے جوڑا گیا ہے، اس سلسلہ میں احادیث 239 انی قریب کے مضمون کا آنحضرت کی ایک تمثیل میں ذکر 63 صفت رحمن کی تفصیلات بسم اللہ میں رب کے ذکر کے نہ ہونے کی وجہ بسم اللہ میں رحمان، رحیم کا پہلے اور فاتحہ میں اللہ کے بعد ربوبیت کا ذکر ہے، اس کی حکمت 198 199 بعض اسماء الہی آنحضور پر بطور وحی ظاہر ہوئے 503 بلیک ہول کے نظریہ سے خدا کا ثبوت روزمرہ کی دعاؤں کی قبولیت کا انحصار روزمرہ کے اللہ سے تعلق پر منحصر ہے زمانہ کا تصور اور خدا تعالیٰ کی بلندشان 239 53 190 زمانہ کن معنوں میں خدا میں نہیں پایا جاتا.اس کی وضاحت 159 زمانہ کی حقیقی تعریف جو خالق کو مخلوق سے الگ کرتی ہے 179 بندے کے گمان کے متعلق اللہ کا سلوک زمانہ کے جاری رہنے کا صفات باری تعالیٰ کے تعلق سے تصور 349 بیک وقت محمد اور اللہ سے تعلق رکھنا شرک نہیں بلکہ توحید کامل سائنسدانوں کے خدا کے متعلق ٹھو کر کھانے کی وجہ 164 184 280 919 کا درس ہے بیمار بچہ پیدا کرنے کا نقص خدا، قانون قدرت کا نہیں 391 شرک اللہ کے قرب کے راستے روکتا ہے تمام عالم میں فساد کی جڑ کسی اسم الہی کی مخالفت ہے 411 شرک سے پاک تعلق باللہ تمام نظام کائنات صفات باری تعالیٰ سے پھوٹتا ہے 386 شوری اور اللہ پر توکل سلام خدا سے تعلق کے نتیجہ میں سلامتی کا لامتناہی سفر 382 810 صفات باری تعالیٰ کا مضمون کوئی علمی نخر نہیں ، خدا سے 312 931 224 332 توانائی کا پہلا اور آخری منبع اللہ کی ذات ہے جس صفت میں آپ تعلق بڑھائیں گے اس صفت کے تعلق کے لئے انتہائی ضروری ہے اعتبار سے خدا آپ پر مزید روشن ہوتا چلا جائے گا 345 صفات باری تعالی کے تعلق میں محمد اور احمد کا ذکر 200 جنت کے تعلق میں اللہ کی اپنائیت کا ایک انداز 521 صفات باری تعالیٰ کے حسین اجتماع کا نام نور ہے 880
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 14 صفات باری کا علم سب سے بڑھ کر آنحضرت کو عطا ہو ا 199 نور کے کمال کی کوئی انتہا نہیں کیونکہ اس کا تعلق اللہ کی صفات کو سمجھنے کے لئے چار بنیادی صفات کا سمجھنا بہت ضروری ہے صفت سلام اور غنی میں تعلق صفت سلام اور نظام جماعت 372 389 388 ذات سے ہے نیک و بد دونوں کے استفادہ کے لئے دنیا میں اللہ نے چیزیں پیدا کی ہیں 901 487 وہ شریعت جس پر عمل ظاہری ہو وہ ایسی غلامی کے بندھن صلاحیتیں جو اللہ نے عطا کی ہیں ان کے مطابق بوجھ ڈالنا ہیں جن کے ساتھ اللہ کی محبت کا تعلق نہیں 89 اللہ کا حق ہے صوفیاء کے انا الحق کے نعروں کی حقیقت غیر اللہ کے رعب کا تربیت پر بُرا اثر 704 602 48 ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کی وضاحت 332 آریوں کا اللہ کے خالق ہونے کی بابت غلط عقیدہ 168 آنحضرت کے وقت صفات الہیہ کا کامل ارتقاء 348 فطری تعلق سے خدا کے غیب اور حاضر ہونے کا ثبوت 353 ابتداء میں چار صفات اور قیامت کے روز ان کے آٹھ فلسفہ میں اللہ کا قدیم سے تصور 161 ہو جانے کی حقیقت 782 قانون قدرت کا کسی نہ کسی ام الہی یا صفت الہی سے تعلق ہے 386 احادیث میں اللہ کے خوشی اور غم کا جو مفہوم ملتا ہے، اس سے قرآن کی اصطلاح میں اللہ کا مطلب قرآن میں خدا کا تصور اور اس کی صفات 204 177 کیا مراد ہے اسماء باری تعالیٰ کا سورۃ فاتحہ میں مندرج اسماء سے قوموں کے عروج وزوال سے اللہ کی مالکیت کا تعلق 181 بنیادی تعلق قیامت کے دن اللہ سب سے زیادہ شکور ہوگا 647 الحق کار حمن سے تعلق 275 483 483,484,488 کیا زمانہ انسانوں کی طرح اللہ پر بھی کوئی اثرات پیدا انسان خود اپنی کوشش سے خدا کا ادارک نہیں حاصل کر سکتا 176 271 ایک اسم سے دوسرے اسم کا پھوٹنا 483 کرتا ہے، اس کا جواب لفظ اللہ کا مطلب اور معانی، کیا یہ مشتق ہے یا جامد 194 تمام صفات سورۃ فاتحہ کی چار بنیادی صفات سے پھوٹتی ہیں 426 مادی علم بھی خدا کے بعض اسماء کی تجلیات کے نتیجہ میں دنیا کو تمام صفات کا توحید کی آخری سورۃ سے تعلق عطا ہوتے ہیں جو زمانہ نبوت سے تعلق رکھتی ہیں 322 حق ذات وہ ہے جسے حمد کا احتیاج نہ ہو مارکس کا خدا سے تعلق منقطع کرنا اور لیفن کا کہنا کہ اخلاق حمید ذات سے تعلق کے نتیجہ میں محمد اور احمد بنبنا سے تم بالآ خر خدا کی طرف لوٹو گے مخلوقات کی تخلیق میں ایک یا ایک سے زائد اسماء الہی کارفرما ہیں 245 23 ربوبیت کا مظہر بننے کے عوامل رحمانیت کے تابع بعض کام رحمانیت کے تقاضے مغربی فلسفیوں کے بابا آدم کا خدا کی ہستی کی دلیل دینا 314 سبحان خدا تعالیٰ کا نام ہے مغفرت کا سب سے زیادہ تعلق رحمانیت سے ہے 243 سورۃ فاتحہ میں اللہ کی چار صفات کا ذکر 371 478 479 480 489 484 426 181 ملک اور قدوس کی حقیقت مہمان نوازی کا صفت غفور سے تعلق 374 520 سورۃ فاتحہ میں مذکور صفات سے تعلق قائم کرنے کا طریق 490 صفات الہیہ کے اجراء میں فرشتوں کا مقرر ہونا 782
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 15 صفات باری تعالیٰ پر غور کے نتیجہ میں جنت بنانا 343 سائنسدانوں کو انبیاءوالا الہام تو نہیں ہوتا مگر الہام سے صفات باری تعالیٰ کا کامل علم آنحضرت کو دے کر مسلمانوں ملتی جلتی کیفیات ہیں کو جو مقاصد بتائے گئے ہیں صفات باری تعالیٰ کی ماں سورۃ فاتحہ ہے 248 437 325 میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 301 حضرت ام سعد 444 764 امانت امانت کے حق ادا کرنے کا تعلق 277 امریکہ 17,445,464,587,837,858 امریکہ دعوت الی اللہ میں بہت پیچھے امریکہ کی ایم ٹی اے کے حوالہ سے سستی 446 129 امن دنیا کا امن جس چیز سے وابستہ ہے 382 انانیت صفات باری تعالیٰ کے علم کی ہمیں ضرورت کیوں ہے؟ ام الكرامه اس سوال کا جواب صفات باری تعالیٰ کے غیب سے منظر عام پر آنے کے دوطریق صفات کا لامتناہی سفر صفت حق کا ملکیت سے تعلق صفت حمید کا تذکرہ سورۃ فاتحہ کی روشنی میں صفت سلام کا رحمانیت، رحیمیت سے تعلق صفت صبور کا تذکرہ صفت صبور، صبار نام کی قرآن میں نہیں پائی جاتی 409 348 350 437 426 390 502 صرف حدیث میں ہے، اس کی وجہ 501,502,508 انانیت کے باعث انسان کا خود سے غافل ہونا کا عالم الغیب والشہادۃ کا روز مرہ کی زندگی سے گہرا تعلق 310 انتخاب غنی سے تعلق توڑنے کے نتیجہ میں مقدر سزارک نہیں سکتی 402 انتخاب کے وقت بعض اوقات تعلقات، رشتہ داریاں غیب خدا کی عبادت سے توحید کے معنی سمجھ میں آئیں گے 339 اثر انداز ہو جاتی ہیں قیامت کے روز اللہ کی آٹھ صفات مالک یوم الدین کا مطلب 186 372 292 انتخاب میں چندہ میں بقایا داران کے حوالہ سے شرط 305 26 شوری میں ووٹ دیتے وقت قرآن کی نصائح کو مد نظر رکھیں 293 مالک یوم الدین کو زمانہ سے باندھے جانے کی وجہ 180 کسی کے انتخاب پر لوگوں کا حضور کو غلط رپورٹس بھجوانا اور مخفی طور پر اللہ سے محبت کرنے والے انسان کے ساتھ حضور کی نصیحت 644 متقیوں کی جماعت کے خلیفہ چنے کے فیصلہ پر اللہ کی ایک مخفی ہاتھ جو اعجاز کے طور پر کام کرتا ہے ہر وہ صفت جس کے درمیان اور انسان کے درمیان فاصلہ طرف سے اس انتخاب پر صاد ہو جاتا ہے ہے، وہ فاصلہ مٹانے کا طریق المنبر رساله الہام الہام سے تعلق رکھنے والی خدائی صفت 484 12 410 ایک شخص کا ہارنے کے بعد ووٹ نہ ڈالنے کے حوالہ سے اپنے رشتہ داروں سے اظہار نا راضگی کرنا انتقام انتقام کی آگ خود ایسی ہے جو مزید کا مطالبہ کرتی چلی الہام کا غیب کو شاہد میں تبدیل کرنے کا ایک گہرا تعلق 323 جاتی ہے 299 297 293 569
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 انجیل عیسی کے مزاج کے مطابق انجیل کی تعلیم اندازه اندازہ بھی ایک قسم کا جھوٹ ہے 870 433 16 انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت کے متعلق احادیث انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ مغفرت کا تعلق انفاق کے سلسلہ میں احسان کا مطلب انفاق ہی سے امیر آدمی کو سکون مل سکتا ہے 609 11 642 610 انڈونیشیا 15,234,445,581,585,838,954 اللہ کی خاطر خرچ کرنے والوں کو لامتناہی فیض کا ملنا 603 انڈونیشیا دعوت الی اللہ میں بہت پیچھے انڈونیشیا کا اثر مشرق بعید کے ممالک پر انڈیا انسان انسان کا علم سیکھنا اعزاز ہے تذلیل نہیں انسان کو عطا کی جانے والی صفات حسنہ انسان کی خود غرضی کی حالت 446 447 585 140 822 732 اللہ کی ساری دنیا میراث ہے تو پھر وہ انفاق کیوں چاہتا ہے؟ اس کی وضاحت انفقوا خيرًا کے مختلف معانی 625 8 بعض لوگوں کا فقیروں کے لئے سڑی ہوئی روٹیاں یا پھٹے کپڑے سنبھال کے رکھنا اور کہنا کہ خدا کی خاطر دیے یہ درست نہ ہے 628 حضرت اقدس کا دود و آنے دینے والوں کا ذکر کرنا اور 614 محبت سے خرچ کے معیار بھی بدل جاتے ہیں 629 اس اعتراض کا جواب کہ جو روپیہ خرچ کرتے ہیں ان کو انسان کے زادراہ کے لئے دوصفات سمیع اور بصیر ہیں 410 بے حد فیض پانا انسانیت کے شجرہ سے مراد اللہ اور انسان کے تعلقات میں فرق 890 397 اللہ کا نور ہو جانے سے مراد اور انسان پر اس کا اثر 454 بہت اہمیت دی جاتی ہے اور جو نہیں کر سکتے انہیں اہمیت جانور اور انسان میں صفات کے لحاظ سے ایک فرق 410 نہیں دی جاتی 600 غیب سے انسان کی کامیابی کا تعلق وہ چیز جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے انصار الله 317 890 سات سو گنا زیادہ ثواب ملنے والی حدیث کی تشریح 613 انقلاب اللہ کو قرضہ حسنہ کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کا جواب 622 بظاہر مادی طور پر مرنے والی جماعت ہے مگر اس طرح انقلاب برپا کرنے کے لئے چھوٹی بات کافی ہے 471 مریں کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو چکے ہوں انصار اللہ کینیڈا کو تبلیغ کے لئے بیداری کی نصیحت انصاف خدا چھوٹے جرم کی بڑی سزا کیوں دیتا ہے حالانکہ یہ انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے.اس کا جواب انفاق فی سبیل اللہ 745 744 41 اپنے اندر انقلاب کی صلاحیتیں پیدا کرنے کا طریق 480 ملک ملک میں انقلاب برپا ہورہا ہے جو تصور میں بھی نہیں تھا 474 انکسار انکسار جو رحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے انکساری میں بھی مبالغہ آنحضرت کے انکسار کا عالم 402 722 908 اس کا بعض دوسری نیکیوں کے ساتھ باندھے جانا 600 انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کی صفات 600 اپنی ذات کے عرفان سے انکساری پیدا ہوتی ہے 911 وہ سچا انکسار جو خدا کو پسند آتا ہے 720
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 انگلستان 17 443,549 بچپن میں ماں باپ جسے اچھا کہیں اولا د آ نکھیں بند کر انگلستان کے اس جہاز کا پہلے ہی سفر میں ڈو بنا جس کے کے مانتی ہے کامل ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا 335 ماں باپ کے رحم کے سلوک کی وجہ سے ان کا دعاؤں پر انگلستان کے ایک امیر ترین شخص کا خودکشی کرنا 652 مجبور ہونا انگلستان میں اس بحث کا شور کہ طالب علم استادوں کی ایاز محمود خان صدر عمومی ربوه عزت نہیں کرتے انگلستان میں ایک بڑی مسجد کی ضرورت اور حضور کے ذہن میں مسجد کا نقشہ 138 99 ايام ا ع ایران ایشیا انگلستان میں ایک محفل میں یہ سوال اٹھایا جانا کہ کیا ایم ایم احمد صاحب انسانی سوچ میں طاقت ہے کہ بغیر کسی سائنسی واسطہ ایم ٹی اے 716 8 137 797,810 222,691 967 953 695 کے دوسرے پر اثر انداز ہو سکے، حضور کا ذاتی تجربہ 171 ایم ٹی اے اچانک دیکھنے کے خطوط کا ملنا جرمنی نیکی کے معاملہ میں انگلستان کی رقیب جماعت ہے 139 ایم ٹی اے کا عالمی تو حید کے قیام میں آسانیاں پیدا کرنا 120 انگلینڈ میں تبلیغ کے جمود کا ٹوٹنا اولاد 469 51,668 ایم ٹی اے کی راہ میں روکیں اور خدا کا فضل ایم ٹی اے کی مقبولیت اور برکت 983 692 اولاد کی تربیت میں سختی پر حضرت مسیح موعود کی ایک شخص ایم ٹی اے کی ویڈیوز کا ریکار ڈ اور لائبریری ترتیب دیں 131 سے ناراضگی ایم ٹی اے کے بالمقابل اسٹیشن کھولنے کے لئے مخالفین اولاد کے حق میں وہ دعا ئیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں جوان کا مختلف حکومتوں کی طرف پیسے کے لئے بھاگنا 691 ایم ٹی اے کے پانچ پروگرام جن کے متعلق بار ہا جماعت 55 کے پیدا ہونے سے پہلے کی جاتی ہیں بعض ماں باپ کا بتانا کہ اس کی بیٹی نے عیسائی سے شادی کو سمجھایا کہ ٹیمیں بنا ئیں مگر کر لی وغیرہ.اس کی وجہ بعض نیک لوگوں کے ہاں کیوں اُن کے مزاج کے برعکس بچے نکل آتے ہیں.اس کی وجہ دعا کے نتیجہ میں اولاد کی تربیت 46 44 50 119 ایم ٹی اے کے پروگرام جو لاعلمی یا عدم تعاون کی وجہ سے ابھی شروع نہیں ہوئے اُن کی طرف توجہ 110 ایم ٹی اے کے پروگراموں کے حوالہ سے یو کے جماعت کو ہدایات 130 مغرب میں اولاد کی تربیت اور ان کے مستقبل کی بہت ایم ٹی اے کے حوالہ سے سب سے مستعد جرمنی ہے 116 زیادہ فکر 44 46 ایم ٹی اے کے خلاف سازشیں 966,982 ماں باپ کی تربیتی کمزوریوں کا اولاد پر اثر وہ مائیں جونرمی کی وجہ سے بچوں کو بگاڑ دیتی ہیں 427 ایم ٹی اے کے ذریعہ گھر گھر پیغام پہنچنا ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمی وحدت کی لڑی میں پروئے جانا 131 690 یورپ کی جماعتوں کو تحریک کہ والدین اپنی کمانے والی اولاد ایم ٹی اے کے لئے جرمنی ، پاکستان اور انگلستان کی قربانی 127 کو تحریک کریں کہ پہلے ہفتے کی آمد مسجدوں میں دیں 17 کہ ایم ٹی اے کے متعلق حضور کے ذہن کا نقشہ ایک عالمی
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 اوپن یونیورسٹی کا نقشہ ہے 114 18 دہرانا ضروری ہے ایم ٹی اے کے منتظمین کا حضور کی ہدایات پر مستعدی سے دشمنوں کا ایم ٹی اے پر مایوسی کا اظہار عمل نہ کرنا ایم ٹی اے میں وسعت اور غیر احمدیوں میں مقبولیت اور مخالفت 115 464 697 690 یورپ کی مختلف زبانوں میں پروگرامز تیار کرنے کی تلقین 696 ایمان ایمان کو عبادت زندہ رکھتی ہے اردو زبان کی 45 کلاسوں کا ہونا اور اس کا فائدہ 128 ایمان کے ساتھ عمل کا ہونا بہت ضروری ہے ایک دانشور کا کہنا کہ باقی باتیں تو ٹھیک یہ جو اردو کلاس حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے مال خرچ کرنا آپ نے شروع کر رکھی ہے یہ آپ کے منصب اور شان جزوایمان ہے کے خلاف ہے 866 751 751 655 رمضان میں ایمان کے تقاضوں اور ثواب کی نیت کے نتیجہ بعض لوگوں کی شکایت کہ حضور آپ پروگرام میں جس چیز میں بخشش کے مضمون کی وضاحت کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ چیز کیمرہ مین نہیں دکھاتا 125 غیب پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے بنگلہ دیش میں بہت کم لوگ باوجود ڈش انٹینا لگنے کے ایم ٹی اے دیکھ رہے ہیں ، ایک جائزہ ، اس کی وجہ 119 ایمان کو چاہتا ہے جب ایسا زمانہ آئے گا کہ پورے کے پورے سیٹیلائٹ مالی قربانی ایمان سے پیدا ہوتی ہے جماعت کے ہوں گے تو ان کے سارے چینلز یہ انشاء اللہ حضرت ایوب علیہ السلام فرعون کے پیچھے آنے پر ان الله معنا کا کہنا غیر معمولی علوم کے دریا بہیں گے 128 آپ کی آزمائیں ب، ،، پ، ت،ٹ جو لوگ سن رہے ہیں وہاں ٹیپ ریکارڈنگ کا نظام بھی ہونا چاہئے تا کہ جن کے پاس ڈش انٹینا نہیں ان تک پہنچے 131 باٹلے ڈش انٹینا کے اجتماعی اور انفرادی طور پر لگنے میں اضافہ 78 باسط احمد لقاء مع العرب پروگرام کو روزانہ کرنے کی خواہش 694 بائیل امیر ہالینڈ کا حضور کے پروگرامز کے ترجمہ کے لئے ٹیموں بائبل کی کوئی تفسیر کسی مسلمان نے نہیں لکھی کا تشکیل دینا ہر ملک کے امیر کو ٹیمیں بنانے کی ہدایت 123 132 68 335 402 587 497 469 930 497,904 929 بائبل کے حوالہ سے حضور کا ایک ریسرچ ٹیم بنانا 929 حضرت امام بخاریؒ جرمنی میں مبشر باجوہ صاحب کے نام پر سٹوڈیو کے قیام امام بخاری بہت زیرک تھے کا اعلان حضور کے پروگراموں کے لئے مختلف زبانوں میں مترجمین کی ضرورت 114 بخاری 29,70,112,189,612,762,770 693 122 بخل گزشتہ سال سے تڑپ کہ چوبیس گھنٹے کا ٹیلی ویژن ملے 695 بخل کی تعریف اور اس کی پلیدی خطبات کے بعض سلسلے ایسے ہیں جنہیں ایم ٹی اے پر بخل کے نقصانات 771,809,907,920 828 399
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 بجل ہر فیض سے انسان کو محروم کرتا ہے بخل ، لطیفہ کے رنگ میں دو کنجوسوں کا واقعہ 19 831 649 انگلستان کے ایک امیر ترین شخص کا خود کشی کرنا 652 بردباری اور صبر کیا دوالگ الگ چیزیں ہیں 567 کیا ہر بخیل کا مال برباد ہوجاتا ہے؟ وضاحت 651 رطانیہ برمنگھم بعض بخیلوں کی دنیا میں کنجوسی مگر دینی معاملات میں بڑھ بریڈ فورڈ چڑھ کر قربانی کرنا خلقی بد خلقی اور کرختگی میں فرق 656 بشری بیگم صاحبہ بشیر احمد طاہر صدر انصار اللہ سوئٹزرلینڈ 14,585,838 469 469,638 444 720 27 بشیر الدین مومن صاحب بدخلقی کے حوالہ سے معاشرہ جس کو کہے ایسے شخص کو تسلیم کر ان کی وفات پر ذکر خیر لینا چاہئے جنگ عظیم کے دوران مغربی ممالک کے مظالم اور اسیح الثانی بداخلاقی دراصل دہریت کی پیداوار ہے نیکی کے ساتھ بدخلقی نہیں چل سکتی 25 638 32 ( حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ 24 چندہ کے نظام کو حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں بڑی بدر بدر میں ہر قسم کے مسلمانوں کی حاضری حضرت بدھ بدی بدی کا خدا سے تعلق نہیں 706 895 محنت سے لمبے عرصہ میں مستحکم کیا گیا 710 حضرت مصلح موعودؓ کے دور سے پہلے ہفتہ کی آمد مسجد کے لئے دینے کی نیک روایت شوری کے متعلق حضرت مصلح موعود کی ہدایات جماعت 17 کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک چارٹر کی حیثیت رکھتی ہیں 228 اللہ سے بدی نہیں پھوٹ سکتی 846 845 میر حامد شاہ صاحب کے بیٹے کے واقعہ سے سہوا جو چیز بیان کرنے سے رہ گئی 486 نیک و بد دونوں کے استفادہ کے لئے دنیا میں اللہ نے آپ کی ایک رؤیا جس سے پتا چلتا ہے کہ بالآخر وقف جدید چیزیں پیدا کی ہیں نیکی کے نام پر بدی پھیلانا برائی حمد اور برائی کا گہرا تعلق براہین احمدیہ حصہ پنجم 487 292 کا فیض بیرونی دنیا پر بھی پھیلانا ہوگا اندازے لگانے والوں سے الرجک تھے آپ کا فرشتوں کے متعلق تصور 430 بشیر، قائد سوئٹزرلینڈ 660,830 بلیک ہول براہین احمدیہ 168,237,379,856,865,870 بلیک ہول کے نظریہ سے خدا کا ثبوت 18 433 769 476 بُردباری جماعت کو بردباری کی تعلیم 874,880,888,891 564 مادی اور روحانی دنیا کا بلیک ہول بنگال 184 185 12 بنگال میں مولویوں کی بڑی سخت مہم اور ان کی انصاف مزاجی 120
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 20 بنگلہ دیش 15,18,91,405,429,533,638 پاکستان کے ایک امیر شخص کا کہنا کہ اندر آگ لگی ہوئی ہے 610 بنگلہ دیش کی شوریٰ میں نمائندہ کو چندہ کے حوالہ سے تاکید 415 پاکستان کے خلاف سازش کو دور کرنے میں فوج کا کردار 980 بنگلہ دیش کے متعلق دعا کی تحریک بنگلہ دیش کے 71 ویں جلسہ سالانہ کا آغاز بنگلہ دیش میں بہت کم لوگ باوجود ڈش انٹینا لگنے کے ایم ٹی اے دیکھ رہے ہیں، ایک جائزہ بنگلہ دیش میں چندوں میں کمزوری اور پھر بہتری بنگلہ دیش میں ست اور مستعد مربی بوسنیا بہاولنگر بیت النور ننسپٹ ہالینڈ 42 40 119 413 119 635 444 385 پاکستان کیخلاف ایک خوفناک فوجی سازش 978 پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی حرکت اور اس 42 پاکستان میں احمدی جن کو حالات نے جکڑ رکھا ہے 591 ظلم کو کالعدم کرنے کی کسی میں طاقت نہیں پاکستان میں بعض دفعہ نو جوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر جوابی کارروائی کرنا ، ان کیلئے نصیحت پاکستان میں تحریک جدید اور وقف جدید کے حوالہ سے توازن کا الٹنا ، انتظامیہ کی غفلت پاکستان میں خدام الاحمدیہ کی انتالیسویں تربیتی کلاس 309 553 838 پاکستان میں دشمن کی شرارتوں اور منصوبوں کی اطلاع بیعتوں کے حوالہ سے ساری جماعت سلطان نصیر ہے 674 پہلے نہیں ہوتی 679 بیعتوں میں اضافوں کے حوالہ سے مختلف مقامات محمود 672 پاکستان میں مجلس شوری کے موقع پر حضور کا خطبہ 211 جلسہ سالانہ یو کے پر چار لاکھ بیعتوں کا اعلان اور کیفیت 673 پاکستان میں نئے احمدی پر مصیبتوں کا نہ ختم ہونے والا بیلجئیم پاپوانیوگنی اس کا محل وقوع اور جماعتی تاریخ 17,18,586,799 234 دور شروع ہو جاتا ہے پاکستانی پولیس کا احمد یوں کچھ الہ سے امن عامہ کا مفہوم اور اس کی ایک مثال پاپوانیوگنی کی مسجد کے بنانے میں مشکلات کا ذکر اور ایک پاکستانی قوم کے لئید عا کی کی تحریک عجیب نشان 235 546 258 981 انکم ٹیکس کے حوالہ سے ہمارے ملک میں درپیش مسائل 583 پاپوا نیو گنی میں مسجد بیت الکریم کے افتتاح کا اعلان 233 صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی حضور سے مالی قربانی پاکستان 12,14,18,91,429,497,533 کے حوالہ سے پاکستان کے لئے دعا کی درخواست 583 581,585,837 پاکستان کی جماعت کو مالی قربانی میں آگے بڑھنے کے راستوں کا بتانا پانی سے زندگی کا تعلق 583 پانی میں حیات کا مطلب پاکستان کی جماعت کے مالی قربانی میں بلند معیار کی وادیوں کے بہہ نکلنے سے مراد بابت حضور کی خواہش 582 پشاور پاکستان کی حکومت کی مخالفانہ کارروائیوں کے خلاف ہم صرف پل صراط دعا ہی کر سکتے تھے مگر اب ان مخالفانہ منصوبوں کا الٹنا 689 پل صراط جس پر ہم روزانہ چلتے ہیں 773 113 465 257 402
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 پنجاب پیرا سائیکالوجی 21 695 عبد الرحمن مہر سنگھ کا مالی تنگی کے وقت نسخہ کہ تبلیغ کے لئے نکل جاتے 719 وحی کے بغیر بھی انسانی قلب کا بعض خاص دائروں میں کامیاب مبلغ بننے کے لئے حکمت تو ہے مگر بزدلی نہیں 461 چمک اٹھنا اور پیرا سائیکالوجی کے ایک عقدہ کامل 857 آنحضرت کی تبلیغ کی کامیابی کا نکتہ دعا ہے تاریخ تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا تبلیغ ( نیز دیکھئے دعوت الی اللہ ) 710 ایک سکول کے تین عیسائی بچوں کی حضور سے ملاقات احمدی بچوں کی وجہ سے 506 961 ایک غیر احمدی کا حضور کا خطبہ سنتا اور کہنا کہ شکر ہے تم نے مجھے تبلیغ کے جہاد کے لئے مختلف قسم کے سپاہی چاہئیں 747 وہ دکھا دیا جس کے برعکس میں سنتا تھا، اس کے چند سوالات 408 تبلیغ سے رحمت کا تعلق جس کے نتیجہ میں صبر دو طرح سے ساری دنیا میں تبلیغ اور مخالفت کا شور 466 کام آتا ہے تبلیغ کے بعد ہر مبلغ پھر لازمی مربی بنتا ہے تبلیغ کے حوالہ سے شکر کی تعلیم تبلیغ کے ساتھ حق کا تعلق 505 37 578 466 ہمارا یہ دور کثرت سے تبلیغ کا دور ہے اور ملک ملک میں انقلاب برپا ہو رہا ہے جو تصور میں بھی نہیں تھا 474 یہ تبلیغ کا دور ہے اور یہ جلسہ عالمی تبلیغ کی عظیم الشان کامیابیوں کا ایک مظہر تھا تبلیغ کے لئے اعلیٰ اخلاق سے مزین ہونا ضروری ہے 34 آج دنیا میں صرف احمدیت آخری غلبہ نور مصطفوی کے تبلیغ کے معاملہ میں جمود توڑنے کا کلیہ 469 471 12 501 36 لئے پیدا کئے گئے ہیں 564 965 1974ء میں جماعت کے خلاف شور کا پس منظر جماعت کی کامیاب تبلیغ تھی تجارت تبلیغ کے معاملہ میں دوطرح کا صبر تبلیغ کے میدان میں تیزی تبلیغ کے میدان میں صبر کا تعلق تبلیغ کے نتیجہ میں انقلاب کے حصول کا طریق تبلیغ میں دیوانگی کی ضرورت 467 تجارت کی اہمیت اور قسمیں وہ تجارت جو ہلاک ہونے والی نہیں تحریک 988 625 599 644 تبلیغ میں قوم کا ایکسائیٹ ہونا بہت ضروری ہے 468 تبلیغ میں کم گو چرب زبان سے زیادہ کامیاب ہے 474 اعلانیہ چندوں کی تحریک کی وجہ تبلیغ ہی آج کے دور میں قتال اور جہادا کبر ہے 623 مساجد کی تعمیر اور توسیع کے ایک نئے دور کی تحریک 137 اب پھل گننے کا وقت ہے بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے 426 ہر بڑی تحریک کا سواں حصہ میں اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں 139 احمدیت نے تبلیغ کرنی ہے تو آنحضرت کے نور سے حصہ یورپ کی جماعتوں کو تحریک کہ والدین اپنی کمانے والی اولاد کو تحریک کریں کہ پہلے ہفتے کی آمد مسجدوں میں دیں 17 لینا ہوگا 961 جرمنی کے شعبہ تبلیغ کا پریشانی کا اظہار کہ محنت کے باوجود تحریک جدید پھل نہیں لگ رہے رحمت ہی تبلیغ کا محرک ہونی چاہئے 368 505 تحریک جدید کے باسٹھویں سال کا اعلان اور گزشتہ سال کے کوائف 833
772 602 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 تحریک جدید کے مختلف دفاتر سے مراد تحفہ 833 22 تصوف ہمہ اوست کہلانے والوں کی پیدائش کی وجہ تحفہ جتنا قیمتی ہو اگر کسی سے محبت نہ ہو اور وہ لے لے تو صوفیاء کے انا الحق کے نعروں کی حقیقت صدمہ پہنچتا ہے 627 تفسیر رازی تحفہ کو خوبصورت بنانے کے لئے اوپر کاغذ کا پیٹا جانا 642 تفسیر صغیر حضور کو تحفہ پیش کرتے ہوئے ہر ایک کا اپنی استطاعت تفسیر صغیر کی خصوصیت خاص کر جب حضرت مصلح موعود کے مطابق پیش کرنا 959 کی بیماری میں لکھی گئی تفسیر صغیر میں فرشتوں کے عرش اٹھانے کا ذکر عرش ، فرشتوں کے عرش اٹھانے کا ذکر تفسیر صغیر میں ہے 768 779 اس کے متعلق وضاحت 768 تفسیر قرطبی 959 تقدير 353 440 495 294 939 317 731 تقدیر مبرم کے سامنے انسان کی مجال نہیں تقدیر الہی ہی ہے جو زندگی اور موت بخشتی ہے 419 412 646 885,888 256,972 668 غریب کے امیر کو تحفہ دینے کی وجہ وہ جذ بہ جس میں تحائف کی کنجی ہے متخلیق خلق اور خلق میں فرق تذکره تربیت تربیت اور دعا کا تعلق تربیت کی جماعتوں میں بہت کمی ہے 661 عمرؓ کا طاعون کی وجہ سے ایک وادی سے فوراً نکلنے کا حکم ایک بچے کا زنجیر پہن کر ملاقات کے لئے آنا اور حضور اور تقدیر خیر کی طرف جانا کے سمجھانے پر اس کاز نجیر توڑ دینا بچوں کی تربیت کے حوالہ سے ایک صحابی کی سختی اور حضرت اقدس کا اظہار نا راضگی دعا کے نتیجہ میں اولاد کی تربیت ماں باپ کی تربیتی کمزوریوں کا اولاد پر اثر 47 تقوی تقومی اور بے وقوفی اکٹھے نہیں ہو سکتے 51,668 50 46 تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت کا اپنی چھاتی کی طرف اشارہ کرنا (حدیث) تقویٰ کا غیب سے تعلق نو مبائعین کی تربیت کیسے کی جائے اس کا جواب 962 تقویٰ کی باریک راہیں ہیں وہ مائیں جونرمی کی وجہ سے بچوں کو بگاڑ دیتی ہیں 427 تقویٰ کی پہچان اور نشانیاں 295 318 تقویٰ کی پہلی تعریف غیب پر ایمان لانا ہے تقویٰ کی آنکھ سے انسان کے اندر کے سارے حال روشن ہو جاتے ہیں 737 تقویٰ کے نتیجہ میں غلط فیصلہ کو بھی اللہ ٹھیک کر دے گا 296 باریک نظر کو اجاگر کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے 848 جماعت کی تاریخ گواہ کہ تقوی رکھنے والوں کے کاموں 44 آئندہ نسل کی تربیت کا راز ترندی تزکیه نفس 34,66,106,613,614,949 96 96 751 تزکیہ نفس کے حصول کا طریق تسبیح کی حقیقت
23 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 میں برکت پڑی ہے خواہ علم کے لحاظ سے ادنی ہوں 294 توحید کے قیام کے لئے عبادت لازمی حصہ ہے 663 حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے مال خرچ کرنا ایم ٹی اے کا عالمی تو حید کے قیام میں آسانیاں پیدا کرنا 120 جزوایمان ہے 655 تمام صفات کا توحید کی آخری سورۃ سے تعلق شادی کے موقع پر تقویٰ کی تکرار پر مشتمل آیات کے چناؤ حسن خلق اور تو حید کا تعلق میں حکمت غیب کا مضمون تقویٰ کی رفعتوں کی انتہا ہے نظام جماعت میں عملاً امیر اور غریب میں قطعا فرق 241 334 371 38 غیب خدا کی عبادت سے تو حید کے معنی سمجھ میں آئیں گے 339 آنحضرت کی عالمی بعثت کا توحید سے تعلق بیک وقت محمد اور اللہ سے تعلق رکھنا شرک نہیں بلکہ توحید 36 نہیں ، تقویٰ کا فرق ہے 600 آنحضرت اور قرآن کے نور سے ہدایت پانے کے لئے تقویٰ کی شرط آنحضرت کے نزدیک متقی کی تعریف 938 34 کامل کا درس ہے توکل 919 تو کل اور اللہ کے فضل سے مومن کا مشکلات سے نکلنا 724 تو کل اور صبر کا تعلق تو کل کے نتائج 725.730 تکبر کے مادہ کے پیدا ہونے کا وقت اور اس کا نقصان 705 560 جو حضرت مسیح موعود کی کتابیں صرف ایک دفعہ پڑھے انبیاء کا ابتلاؤں پر نمونہ اور توکل اس میں تکبر ہے جو غنی اور حمید ہو وہ متکبر نہیں ہو سکتا تلاوت فجر کے وقت تلاوت کی اہمیت آنحضرت کی تلاوت کا اثر صبح کی تلاوت بہت پیاری چیز ہے تزانیه 944 398 786 96 669 738 شوری اور اللہ پر توکل مشورہ اور توکل علی اللہ کا مضمون مشورہ کے ساتھ تو کل کی اہمیت نجد تہجد کی نماز کا وقت اور تہجد کا اجر تہجد کی نماز کی اہمیت تہجد کے ساتھ مقام محمود کا وعدہ 531.723 224 304 229 621 670 670 اس جماعت میں انقلاب برپا ہونا شروع ہو گیا ہے 739 جو تہجد کے وقت اٹھتا ہے اس کی صبح کی نماز کچی ہو جاتی ہے 595 توبہ تو بہ نصوح سے مراد تھائی لینڈ 898 ٹیکس 234,586 ایک گمشدہ اونٹنی ملنے پر خوشی سے زیادہ اللہ کو اپنے بندہ کو انکم ٹیکس کے حوالہ سے ہمارے ملک میں در پیش مسائل 583 دوبارہ پا کر ہوتی ہے(حدیث) توحید 282,927 ٹیلی ویژن ٹیلی ویژن دیکھنے کا رواج وقت کو تباہ کرنے کی شکل ہے 272 تو حید اور نور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 923 ج، چ، ح، خ توحید سے دوری کے اخلاق پر اثرات 35 حضرت جابر 765
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 24 جاپان 15,17,178,310,585,586,838 جلسہ سالانہ اور بہار کی آمد آمد جاسوسی جاسوسی کے نظام کا طریق جانور 355 جلسہ سالانہ یو کے پر چار لاکھ بیعتوں کا اعلان اور اس وقت کیفیت جلسہ کے ایام میں مہمانوں کو چند دن کے لئے خدا کا ذکر جانور اور انسان میں صفات کے لحاظ سے ایک فرق 410 سنے کی خاطر قربانی اور برداشت کی تلقین جرم جلسہ کے ایام میں نماز کے قیام کی تلقین 519 673 533 535 خدا چھوٹے جرم کی بڑی سزا کیوں دیتا ہے حالانکہ یہ جلسہ کے لئے ایک عورت کا ایمبیسی کا واقعہ کہ اس کو ویزہ انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے.اس کا جواب 41 کیسے ملا دنیا کے اکثر جرائم رحمانیت سے ہی پھوٹ رہے ہیں 488 جلسہ میں شاملین کو بعض اوقات ایمبیسیز کا ویزہ نہ دینا 14,15,267,494,497,533,549,585 جرمنی کا تحریک جدید میں اول آنا 799,962,964 837 اور اُن کے رد عمل کی بناء پر بعد میں دے دینا جلسہ میں شریک مہمانوں کی ایک قسم کی ہجرت بنگلہ دیش کے 71 ویں جلسہ سالانہ کا آغاز 527 527 526 40 جرمنی کی جماعت کا خمیر ہندو پاک کی مٹی سے اٹھا ہے ربوہ میں جلسہ کے دوران گھروں میں مہمانوں کی رہائش 582 کا طریق 524 اس میں قربانی کی روح جرمنی کی جماعت میں دعوت الی اللہ کی طرف خصوصی توجہ 965 یہ جلسہ عالمی تبلیغ کی عظیم الشان کامیابیوں کا ایک مظہر تھا 564 جرمنی کی جماعت میں مخلصین جرمنی کی جماعت ہر پہلو، ہر شعبہ میں ترقی کی طرف تیزی سے رواں دواں جرمنی کے امیر صاحب کی درخواست کہ خطبہ جمعہ میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی جائے 636 365 954 368 خدا کی خاطر منعقدہ جلسوں میں شمولیت سعادت ہے اُن کے لئے بھی جو بطور مسافر شامل ہو یہ نہ دیکھیں کہ تقریر کس کی ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ اور ذوق ہے 446 534 آئندہ جلسہ کی تیاری آج کے شکر سے شروع کریں 562 جلسے کے ماحول میں گپ شپ مارنے سے ممانعت 532 جرمنی میں پانچ ہزار دوسو بیاسی بیعتیں ہونا جرمنی میں حضور کی مخالف علماء کے خلاف بددعا 507 ڈاکٹر جمال الدین صاحب ضیاء جرمنی میں خدام الاحمدیہ کے سولہویں سالانہ اجتماع کا آغاز 365 | جمعۃ الوداع جرمنی میں دعوت الی اللہ سے انقلاب 744 ایم ٹی اے کے حوالہ سے سب سے مستعد جماعت 116 جنازه جسوال برادران جلال الدین سیوطی جلسہ سالانہ 125 762 464 135 جمعۃ الوداع کی حقیقت خلفاء کا طریق کہ اکثر نماز جنازہ کو جمعہ کے ساتھ ملاتے نہیں مگر بعض کی وفات پر طبعا جوش اٹھتا کہ جمعہ کے ساتھ نماز جنازہ ادا ہو 634 جلسہ سالانہ انگلستان کے ختم ہونے پر اس کیا ثر کا ذکر 559 نماز جنازہ غائب پڑھانے کے حوالہ سے خلیفہ وقت
451 574 713 513 678 678 639 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 سے درخواست کا طریق جنت کے تعلق میں اللہ کی اپنائیت کا ایک انداز 635 521 25 بدر کے موقع پر مسلمانوں کی قافلہ سے مڈ بھیٹر کی خواہش جبکہ خدا کا اور ہی ارادہ تھا تو ہیں دلوں کو فتح نہیں کیا کرتیں جنت لامتناہی ترقیات کی جگہ ہے جہاں ٹھہراؤ نہیں 901 جنگ احزاب میں آنحضرت کی وہ بات جس کی اکثر جنت میں شیطان کو داخل نہ ہونے کی اجازت سے مراد 334 مورخین کو سمجھ نہیں آتی جنت میں کون سے گناہ ہوں گے جن کی بخشش کی طلب ہے 902 جنگ بدر میں آنحضرت کی دعا سے کایا پلٹنا جنتوں کا دام اسماء باری تعالیٰ پر غور کرنے سے سمجھ آتا ہے 284 غزوہ تبوک کے موقع پر مستعد کارروائی کا نتیجہ جہنم اور جنت کے درمیان درمیان کے بعد دروازہ کی وجہ 493 آنحضرت کو ہر طرف سے خبریں ملتی رہیں اور آپ آنحضرت کی معیت کی جنتیں کسی صفت کی طرف سفر جنت کی طرف ہے جنگ اخبار جہاد جنگ احزاب میں سخت محنت سے خندق کا کھودا جانا کامیاب حکمت عملی 899 411 757 686 نے بروقت کارروائی کی میاں جہانگیر وٹو صاحب ان کی وفات پر ذکر خیر جھوٹ جھوٹ اندھیرے کی طرح ہے جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے میں فرق جنگ عظیم کے دوران مغربی ممالک کے مظالم اور بد اخلاقی دراصل دہریت کی پیداوار ہے جہاد اصغر اور جہاد اکبر جہاد کے لئے تیاری کا حکم اور اس کا اجر احد کی جنگ میں ایک صحابی کا کہنا کہ میرے اور جنت کے درمیان ایک کھجور ہی حائل ہے 24 552 33 254 455 681 90 418 جھوٹ کا یوگنڈا میں عام استعمال جھوٹ کی خاطر غلیظ چیزوں کا حصول حرص کی وجہ سے ہے 429 جھوٹ کی وجوہات جھوٹ کے خلاف جہاد جھوٹ کے معاملہ میں تیسری دنیا کے ممالک کا حال جھوٹ کے خدا جگہ جگہ راہ میں کھڑے ہوں گے 428,430,433,436 93 91 499 اللہ کو حمد کے لئے جھوٹ کی ضرورت ہی ممکن نہیں 429 باطل حق کو کیوں مٹانے کا جہاد کرتا ہے تبلیغ ہی آج کے دور میں قبال اور جہاد اکبر ہے 623 ایک شخص کا پہلے کیس میں جھوٹ بولنا، خطبہ سے متاثر ہو 496 صحابہ کا جہاد کے لئے آنحضرت کی خدمت میں سوار یوں کر سچ بولنا اور حج کا اس کے حق میں فیصلہ کرنا کے لئے حاضر ہونا اور ان کی کیفیت دشمنوں کا جھوٹ پر پہنچنا عبد اللہ بن ابی بن سلول کے احد میں پیچھے ہٹنے کی وجہ 216 دنیا کے سب سے بڑے جھوٹوں کا تعلق اقتصادیات سے ہے479 7 قبال مختلف حالات کے تحت مختلف معانی رکھتا ہے 623 رزق کا احتیاج جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے قرآن میں جوابی کارروائی کے لئے حکمت ، تدبیر 757 میاں مغلا کا احمدی ہو کر جھوٹ نہ بولنے کا فیصلہ اور اُن پر 479 476 سخت مصیبتیں اس وجہ سے آنا روزمرہ کی زندگی میں بچوں کے جھوٹ کے عادی ہونے 677 678 اور بیدار مغزی سے کام لینے کی نصیحت آنحضرت کا عرب کی سرحدوں کی حفاظت کرنا
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 کا نقصان جودی ( پہاڑ ) چاند 473 772 26 وصولی میں حضور کی ممانعت کی وجہ نو مبائعین کو دیگر تحریکوں سے پہلے کچھ نہ کچھ چندہ عام یا وصیت میں ضرور شامل کریں پہلے دن کا چاند دیکھنے کے دوامکانات کا ذکر 67 چوک مینا را نار کلی لاہور استانی چراغ بی بی صاحبہ چراغ دین شاہ صاحب چرنوبل چرنوبل کے حادثہ کا برا اثر 989 چین 989 سید حامد شاہ صاحب 812 414 837 958 858 ان کے بیٹے کا مکا لگنے سے مد مقابل کا مرنا اور اُن کے بیٹے کا سچ بولنا جس سے ڈپٹی کمشنر کا مرعوب ہونا چشمه معرفت 772,790,793,795 | حبیب اللہ خان صاحب 474 444 218,219,303 34 286 206 97 69 129 395 262 240 785 29,830,866 908 22,39 98 97 280 904 915 حدیث / احادیث اتقوا فراسة المومن 413 413 چنده چندوں کے نظام میں غنی اور حمید کی اہمیت چندہ کا پاک روحانی نظام چندہ کے نظام کو حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں بڑی اردت ان استخلف فخلقت آدم محنت سے لمبے عرصہ میں مستحکم کیا گیا چندہ کے نظام میں انسان کا امتحان 710 392 چندہ نہ دے سکتے میں حضور کی رخصت سے فائدہ اٹھانے والوں کو حضور کی نصیحت چندہ نہ وصول کرنے کی سزا کا احمدیوں پر اثر 305 6 اسم الله في هائين الايتين افضل الصدقة ان يتعلم المرء المسلم علما الصيام جنة العلم علمان علم الاديان وعلم الابدان الغنى غنى النفس اس خیال کی تردید کہ احمدیت کے غلبہ پر چندے ختم ہو اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون جائیں گے اعلانیہ چندوں کی تحریک کی وجہ 624 644 ان الرحم شجنة من الرحمن ان الله بارک و تعالى ملائكة سيارة بچہ نہ ہو پانے پر بعض عورتوں کا پہلے سے ہی اُن کا چندہ انا عند ظن عبدی بی دینا اور اس برکت سے بچہ کا بھی پیدا ہو جانا 19 اول ما خلق الله نوری بنگلہ دیش کی شوریٰ میں نمائندہ کو چندہ کے حوالہ سے تاکید 415 بعثت لاتمم مكارم الاخلاق پاکستان میں تحریک جدید اور وقف جدید کے حوالہ سے تعلموا العلم اتعلموا للعلم السكينة والوقار توازن کا الٹنا، انتظامیہ کی غفلت نومبا لعین کو کثرت سے چندوں میں شامل کریں 838 16 طلب العلم فريضه على كل مسلم قال الله عز وجل انا عند ظن عبدی بی افریقہ کے ایک ملک میں چندہ کا نظام ابھی مستحکم نہیں ہوا 305 قام فينا رسول الله الله بخمس كلمات بعض ممالک میں بہت زیادہ چندہ دینے والوں سے كان خلقه القرآن
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 كل مولود يولد على الفطرة كلمة الحكمة ضالة المومن کنت کنزا مخفيا فاردت ان اعرف ما من شيء في الميزان اثقل من حسن الخلق مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم وما انا من المتكلفين و من عطی امیری فقد عصانی هو نور انی اراه احادیث بالمعنیٰ 892 400 249,286 21,25 112 867 734 809 27 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عظمت والا اور بردبار ہے 771 امت محمدیہ میں سے ستر ہزار بے حساب بخشے جائیں گے 646 انسان کو جو کچھ اللہ عطا فرماتا ہے یا وہ کنجوسی سے روک رکھتا ہے یا وہ اپنے اور بچوں پر خرچ کر لیا ہے ایک عورت کا بیٹے کی وفات پر واویلا کرنا اور حضور کی اسے صبر کی تلقین ایک گمشدہ اونٹنی ملنے پر خوشی سے زیادہ اللہ کو اپنے بندہ کو دوبارہ پا کر ہوتی ہے 79 555 282,927 ایک گنہ گار شخص کا شعور بیدار ہونے پر نیک لوگوں کے پاس 62 آپ ﷺ کی خاطر ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے 140 جا کر پوچھنا کہ کیا میری بخشش ممکن ہے آنحضور کا ایک موقع پر کھجور کی پنیری دوسری جگہ منتقل ایک مہمان کا مسجد کو گندہ کرنا اور آنحضرت کا خود دھونا 525 کرنے سے منع فرمانا اور اس سال فصل کا ضائع ہونا 103 ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جارہا تھا کہ بادل آج سے سو سال تک کوئی نہیں رہے گا سے ایک آواز آئی فلاں نیک کے باغ کو سیراب کر 633 آنحضرت کا صحابہ کو جنت و جہنم کے ایک ہی جگہ ہونے اے اللہ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں تو آسمانوں اور زمین کے تصور کا بتانا آنحضرت کو رعب کی نصرت عطا فرمائی جانا آنحضرت کی نیا چاند دیکھنے کی دعا آنحضرت نے اللہ کو نور کی شکل میں دیکھنا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا بھی عبادت ہے 337 331 453 66 809 633 اور جو کچھ ان میں ہے اس کا نور ہے اے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر دے اے میرے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو بے فائدہ ہو 920 907 109 بہترین چیزیں جو انسان اپنی موت کے بعد پیچھے چھوڑتا احد کی جنگ میں ایک صحابی کا کہنا کہ میرے اور جنت کے ہے وہ تین ہیں 254 تم جنت کے باغوں میں سے گز رو تو خوب چرو درمیان ایک کھجور ہی حائل ہے اگر ایک انسان اللہ سے ساری کائنات مانگ لے تو 389 تم چاند کو دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور تمیں دن پورے کرو 106 تم علم اس غرض سے نہ حاصل کرو کہ اس کے ذریعہ اور آگے اسی طرح پہنچایا اللہ فرماتا ہے انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر کر سکو جو اللہ کے رستہ میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے نگر روزہ میرے لئے ہے اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے 71 770 بدلے سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے اللہ کے ذکر کے لئے اکٹھے ہونے والوں کے پاس بیٹھنے جو بھی تفقہ فی الدین پیدا کرتا ہے اللہ اس کے کاموں 109 105 67 105 613 سے برکت کا ملنا 446 کا خود متکفل ہو جاتا ہے 107
28 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 278 جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان ایک صحابی کی مہمان نوازی پر خدا کا مچا کے لینا رحمن کا تعلق رحیم سے جوڑا گیا ہے، اس سلسلہ میں احادیث 239 68 کی راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے جو شخص جہاد کی خاطر گھوڑے پالتا ہے اسکی پیشانی کی عرش کو فرشتے کے اٹھانے والی احادیث کی حقیقت اور سفیدی میں اس کے لئے برکتیں رکھ دی جاتی ہیں 33 776 ان میر جرح 763 187 651 جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں فرشتوں کے دیو مالائی تصورات پر مشتمل احادیث 765 کرتا اللہ کو اس کے بھوکا پیا سارہنے کی کوئی ضرورت نہیں 90 قیامت کے روز آنحضرت کی شفاعت کے متعلق ایک جور حم سے تعلق کالے اس کا رحمان سے تعلق کٹ جائے گا198 حدیث پر مزید تحقیق جہنم بھی وہیں ہوگی جہاں جنت ہوگی مالی قربانی کی اہمیت کے متعلق احادیث خدا کو پانے کے لئے آنحضرت کی سمت میں سفر 931 اعداد و شمار والی احادیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے 613 خدا کی خاطر بیٹھنے والوں کی صحبت ایسی بابرکت ہوتی ہے 535 بعد کے زمانوں کی کتابوں میں ایسی احادیث کی بھر مار ہے دو شخصوں کے علاوہ کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے ، مال کو اللہ جو اسلام میں کثرت کے ساتھ فتنوں کا موجب بن سکتی ہیں 762 کی راہ میں خرچ کرنے والا ، دانائی سے فیصلہ کرنے والا 612 تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت کا اپنی چھاتی کی دین آسان کر دیا گیا ہے رحم رحمن سے جوڑا ہوا ہے شیطان رگوں میں دوڑتا ہے 888 240 910 طرف اشارہ کرنا قرآن کے منافی حدیث سے سلوک وضعی احادیث کی پہچان کا طریق حرص تعریف کے ساتھ حرص کا مضمون 939 937 762 عرش ایک ایسے فرشتے پر ہے جو موتی سے بنا ہوا ہے 764 عرش کو اٹھانے والے چار فرشتے ہیں 763 مجھے اذن ملا ہے کہ میں عرش اٹھانے والے فرشتوں میں جھوٹے مقدمات کی وجہ سے ایک کے بارہ میں بتاؤں محمد نے اپنے رب کو دیکھا 765 949 حق 435 429 حق تب تک رہے گا جب تک حق سے تعلق ہے 459 مومن ایسے بھائی ہیں کہ اگر پاؤں کی انگلی پر زخم پہنچے تو حق ذات سے تعلق کی نشانی 451 453 478 448 466 455 49 459 سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے سارے کام ہی برکت ہیں مومن کی فراست سے ڈرو 366 562 296 حق ذات سے تعلق کے نتیجہ میں روحانی وسعتوں اور طاقتوں میں اضافہ حق ذات وہ ہے جس کو حمد کا احتیاج نہ ہو حق کے آنے سے باطل کے بھاگنے سے مراد میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں اور میں نے رحم کو پیدا کیا 239 حق کے ساتھ تبلیغ کا تعلق ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ باطل حق کو کیوں مٹانے کا جہاد کرتا ہے کرنے والے بھی کو اور دے وضعی احادیث کے حوالہ سے ابن عباس پر ظلم 609,651 764 بیوی بچوں کا انسان پر حق ہے دعوت الی اللہ کا راز حق سے جوڑنے میں ہے
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 حکمت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فوائد بد دیانتی اور حکمت میں فرق 612 584 29 ایک شخص کا پہلے کیس میں جھوٹ بولنا، خطبہ سے متاثر ہو کر بیچ بولنا اور حج کا اس کے حق میں فیصلہ کرنا 496 ایک غیر احمدی کا حضور کا خطبہ سننا اور کہنا کہ شکر ہے تم نے علم اور حکمت کے حصول میں برا منانے کا مضمون داخل نہیں 101 مجھے وہ دکھا دیا جس کے بر عکس میں سنتا تھا 408 علم و حکمت کے اوپر بہت زور دینے کی ضرورت ہے 97 خطبات کے ذریعہ ایک عالمی جماعت ایک نفس واحدہ كلمة الحكمة ضالة المومن حمد اور برائی کا گہرا تعلق حمد کار بوبیت سے تعلق حمید ذات سے تعلق کے نتیجہ میں محمد اور احمد بننا 140 430 434 479 کی طرح تیار ہو رہی ہے سپین میں خطبات کے تراجم کا بہت اچھا کام 120 130 عبادت کی اہمیت اور اس کے متعلق خطبات کا سلسلہ 664 وہ مضامین جن کو جماعت کی بھاری اکثریت خطبات میں صلاحیت اور علم کے اعتبار سے ہضم نہیں کر سکتی 161 اگر حمد کی تمنا دل میں رہتی ہے تو پھر ایسا خوشامد پسند سچا نہیں خطبے اور دوسرے پروگراموں کے ذریعہ خلیفہ وقت ہو سکتا 479 کے تعارف میں فرق انسان چونکہ محتاج ہے اس لئے وہ حمید نہیں ہوسکتا 408 خلافت / خلیفہ وقت 868 تعریف کے ساتھ حرص کا مضمون صاحب تعریف ہونے کے لئے لازمی امر حمید صاحب ڈچ زبان میں قرآن کا ترجمہ شروع کرنا حیدر آباد حضرت خریم بن فاتح خطبہ خطبات کی ٹرانسلیشن کا کام ابھی ٹھیک نہیں 435 413 123 444 613 695 121 خلافت احمدیہ کی ضرورت کی ایک نشانی اور دلیل 955 خلافت سے جڑنے والے ہی امن وامان میں رہیں گے 383 خلافت صرف خدا کے حضور سر نہیں جھکاتی اپنے سے پہلے اولوالامر کے حضور بھی جھکاتی ہے خلافت آنحضرت کی نمائندگی کا منصب ہے 224 543 ہر ایک کا اپنی استطاعت کے مطابق تحفہ پیش کرنا 419 دین کی تجدید اب ہر صدی میں خلیفہ کرے گا وہ مسجد نہیں ہو گا710 وہ سجدہ جو خلافت سے جائز ہے 955 امیر اور جماعت کی حق تلفیوں کا محافظ خدا نے مجھے بنایا ہے 739 خطبات کے بعض سلسلے ایسے ہیں جنہیں ایم ٹی اے پر کسی بھی خلیفہ کی تحریک پر غیر معمولی طور پر لبیک کی دہرانا ضروری ہے خطبہ کے لئے حضور کا خالی الذہن کھڑے ہونا مگر خدا کا مضامین القا کرنا 697 141 آوازوں کا اٹھنا خلفاء مشورہ سننے کے بعد رد کرتے یا قبول کرتے اور 954 پرواہ نہ کرتے کہ اکثریت کی یا اقلیت کی رائے ہے 303 خطبہ کے وقت خدا کی تقدیر جس طرف چاہتی ہے اس خلیفہ وقت سے محبت کا رشتہ سمت چل پڑتے ہیں 485 868 خلیفہ وقت کا جماعت سے دلی تعلق اور جماعت کی اطاعت خطبہ میں واقعہ کے بیان میں غلطی ممکن ہے مگر مقصد میں نہیں 485 کا حال 226
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 30 خلیفہ وقت کی طرف سے فیصلہ کے بعد پھر اس کے سخت سے سخت آزمائش کے وقت بھی خدا والوں کے اخلاق خلاف بات کرنے سے جماعت سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے 302 کو ٹھو کر نہیں لگتی ایران سے جنگ کے موقع پر حضرت عمر کا صحابہ سے مشورہ لین 222 قوموں کی اخلاقی قدروں کے عروج وتنزل سے تعلق خطبے اور دوسرے پروگراموں کے ذریعہ خلیفہ وقت کے تعارف میں فرق 868 رکھنے والی ایک آیت لینن کا اخلاق کے متعلق نظریہ ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت شوری طلب کرے یا امیر طلب مذہب اعلیٰ اخلاق سے پھوٹتا ہے اور اعلیٰ اخلاق کو مزید کرے، بلکہ مشورہ کا رواج اسلام کا امتیازی شان ہے 225 صیقل کرتا ہے نماز جنازہ کے متعلق خلفاء کا طریق نماز جنازہ غائب پڑھانے کے حوالہ سے خلیفہ وقت سے درخواست کا طریق 634 635 مذہب کی بنیا د اعلی خلق پر ہے وہ چیز جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے 890 24 43 لله الله 23 25 له شم 22 آنحضرت کا خلق عظیم پر واقع ہونا، لفظ تنظیم کی بحث 880,882 متقیوں کی جماعت کے خلیفہ چنے کے فیصلہ پر اللہ کی آنحضرت کا مکارم اخلاق پر فائز فرمایا جانا طرف سے اس انتخاب پر صاد ہو جاتا ہے خلیفہ اللہ رحمانیت کا مظہر خلیفہ اور ڈکٹیٹر میں فرق خلق خلق کی تبدیلی اور دعوت الی اللہ اخلاق اور دین کا گہراتعلق ، اس بات کارڈ کہ یہ دونوں الگ الگ ہیں 297 246 22 آنحضرت کے اخلاق میں تازگی کا پایا جانا اختلاط کے وقت آنحضرت کا حسن خلق اور خلق میں فرق 22 884 885 885,888 ہزاروں سال سے بداخلاقی پر قائم قوموں کی حالت 887 32 خلیل احمد مبشر خواب 21 خواب میں جگر نکالنے کی تعبیر مال ہے 444 654 اخلاق کی درستی کے حوالہ سے ایک نفسیاتی نکتہ 30 خواب میں گند اور فضلہ میں ہاتھ ڈالنے سے مراد مال ہے 655 اللہ سے انسان کے تعلق کا انحصار اس کے اخلاق پر ہے 29 بعض دفعہ کچی خواہیں نور فطرت کے روشن نہ ہونے کی وجہ بعض دفعہ چھوٹی باتیں بڑے فوائد سے محروم کر دیتی ہیں 116 سے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں 35 چوہدری خورشید احمد صاحب توحید سے دوری کے اخلاق پر اثرات حسن خلق اور توحید کا تعلق 38 | خوشاب حضرت خلیفہ اول نے ایک پرائیویٹ بات کے لئے مجلس میں بیٹھے افراد سے کہا کہ اٹھ جائیں تو پہلی مرتبہ ایک اٹھا 30 دشمن کو نیک نمونہ اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کی تعلیم 572 خیبر و، د، ذ، ر، ز دارالانوار 874 263 444 688 319 دنیا وی اخلاق بالآخر مذ ہب کی طرف لے آتے ہیں 23 داؤد مظفر شاہ صاحب دہریوں نے بھی محسوس کر لیا کہ اخلاق ہی خدا کی ہستی پر حضرت داؤد علیہ السلام اعتماد کی جان ہیں آپ کے متعلق فرضی قصے 37 319 623 436
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 در مین 47,63,313,367,503,511,607 723,742,905,916,917,918,928,931 31 صبر جیسی کوئی شے نہیں مگر کرنا بڑا مشکل ہے اس لئے دعا اور عبادت کا مفہوم ساتھ شامل ہے عمرہ کی آخری لمحات کی دعا در مین فارسی 72,107,459,697,744,940 صبر اور دعا کے تعلق در منثور درود شریف درودشریف میں ابراہیم کے ذکر کی وجہ 767t762 397 قبولیت دعا کی حقیقت اور فلاسفی 564 728 921 82,84 مسلمانوں میں جسمانی کمزوری کے وقت آنحضرت کا درود کا آنحضرت کے احسانات سے براہ راست تعلق 918 بددعا سے بھی منع کرنا اور صبر کے واقعات سنائے دعا دشمن کے لئے غائبانہ دعا کی تعلیم 571 نئے آنے والوں کے وقت آنحضرت کی دعا ہر مقام محمود میں داخل ہونے کے بعد ہر مقام سے ایک دعا کا نظام عام قانون قدرت کے سوا کیوں بنایا گیا ہے اور مقام محمود میں نکلنے کی دعا کرنی ہے 502 307 675 اس کا جواب دعا کی طاقت دعا کے نتیجہ میں اولاد کی تربیت 83 507 50 246 503 دعاؤں کی قبولیت کا راز انبیاء کا وہ مقام جب وہ بددعا کرتے ہیں اولاد کے حق میں وہ دعائیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں جوان کے پیدا ہونے سے پہلے کی جاتی ہیں پاکستانی قوم کے لئے دعا کی کی تحریک تربیت اور دعا کا تعلق جرمنی میں حضور کی مخالف علماء کے خلاف بد دعا 55 981 668 507 آنحضرت کی تبلیغ کی کامیابی کا نکتہ دعا ہے اذن الہی سے بددعا دشمن کو ہلاک کر دیتی ہے تہجد کے وقت کی دعاؤں کا مقام خارق عادت دعاؤں کا وقت 506 511 670 53 روزمرہ کی دعاؤں کی قبولیت کا انحصار روز مرہ کے اللہ سے 53 تعلق پر ق پر منحصر ہے طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنے والی اس کی وضاحت 703 ماں باپ کے رحم کے سلوک کی وجہ سے اولاد کا دعاؤں پر مجبور ہونا 716 مخالف علماء کے لئے اللہم مزقہم کی دعا 507,975 حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد حضرت اماں جان نیک تمناؤں کے تعلق میں دعا کی ضرورت ہے 985 کا کہنا کہ تمہارے والد نے لامتناہی دعاؤں کا خزانہ چھوڑا 56 وہ مقام جب بددعا انسانیت کے لئے دعا کے مترادف ہو دین کے کاموں کے لئے دعا کی طرف بیدار توجہ کی ضرورت ہے رمضان میں دعا کے مضمون کی طرف توجہ 683 جاتی ہے آنحضرت کی نور کے حصول کی دعا 65 دعوت الی اللہ زکریا کی بیٹے کی پیدائش کے بعد بد بخت نہ ہونے کے داعیان الی اللہ کو رمضان میں خدا سے مضبوط تعلق قائم متعلق دعا 281 کرنے کی تلقین صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی حضور سے مالی قربانی داعیان کے ساتھ ساتھ نئے آنے والوں کے لئے قیام کے حوالہ سے پاکستان کے دعا کی درخواست 583 صلوۃ ضروری ہے 263 920 878 662
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 دعوت الی اللہ اور دعا دعوت الی اللہ پر تمام دنیا میں بڑا زور شور 32 683 544 داعیان الی اللہ کی کامیابی میں بیوی کا کردار 748 مخالفت کی آگ پر ہجرت اور پھر بھی دعوت الی اللہ 548 دعوت الی اللہ سب سے اچھا زندگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے746 ہر داعی الی اللہ کو اپنے اندرسچائی کے معیار کو بلند کرنا ہو گا472 دعوت الی اللہ سب سے کڑوا کام ہے لہذا اخلاق کی ترقی دشمن کے مقابل صبر کے ساتھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں 551 بہت ضروری ہے دعوت الی اللہ سے ابتلاؤں کا پھیلنا دعوت الی اللہ کا ایک راز دعوت الی اللہ کار از حق سے جوڑنے میں ہے دعوت الی اللہ کی طرف توجہ کی تلقین 33 دولت خان 545 32 459 156 504 دہریت جنگ عظیم کے دوران مغربی ممالک کے مظالم اور بد اخلاقی در اصل دہریت کی پیداوار ہے دہریوں نے بھی محسوس کر لیا کہ اخلاق ہی خدا کی ہستی پر 255 24 دعوت الی اللہ کی کامیابی میں صبر کا تعلق دعوت الی اللہ کے حوالہ سے سرحدوں پر گھوڑے باندھنے کا مضمون 680 اعتماد کی جان ہیں دہلی دیلی کی سرزمین سخت ہے دعوت الی اللہ کے حوالہ سے ہر قسم کے صبر کا قرآن میں ذکر 541 دین دعوت الی اللہ کے فوائد دعوت الی اللہ کے میدان میں بیداری پر مولویوں کے کیمپ میں کھلبلی مچنا 746 701 563,566 37 718 دین کا غم لگائیں دین کی بجائے دنیا پر خرچ کرنے والوں کی مثال 631 دین کی تجدید اب ہر صدی میں خلیفہ کرے گاوہ مجد نہیں ہو گا 710 دین کی خدمت کرنے والوں کا بعض اوقات بنیادی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں احمدیوں کو سزائیں ملنا 623 دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں سنبھالنے کی ذمہ داری کا فکر 702 دینی اخلاق سے غافل ہو جانا دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں کامیابیوں پر خوش ہو کر بیٹھ جانا دین میں خرچ ہونے والے اوقات کی وقعت غلط تصور ہے دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں مخالفت دعوت الی اللہ میں پیچھے رہنے والے دو ممالک دعوت الی اللہ میں ثبات قدم کا راز 678 449 446 542 تفقہ فی الدین سے مراد اور اس کا فائدہ صحابہ حضرت مسیح موعود میں سے جنہوں نے تفقہ میں 750 80 107 وقت صرف کیا ان کی اولاد میں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں 108 غریب صحابہ جنہوں نے دین کے آغاز میں قربانیاں دی جرمنی کی جماعت میں دعوت الی اللہ کی طرف خصوصی توجہ 965 اُن کو اللہ نے ایسے رنگ لگائے کہ مثال نہیں 622 دنیا کا سب سے زیادہ صبر کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا گھر کے حقوق ادا کرنا ، گھر سے تعلق رکھنا دین کا حصہ ہے 50 داعی الی اللہ افریقی ممالک میں بیعتوں میں اضافہ کی وجہ جہاں جماعت نے دعوت الی اللہ کے کام کئے ہیں وہاں مردے بھی جی اٹھے ہیں 556 447 دیوان غالب 744 624 31,632,766,944 مالی قربانی دین کا لازمی حصہ ہے ڈارون ڈارون کو کوئی معلوم نہ تھا کہ fittest کیا ہوتا ہے 391
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 ڈسکارٹ مغربی فلسفیوں کا بابا آدم ،خدا کی ہستی کا قائل ڈنمارک ذکر الہی ذکر الہی سے لذت کے حصول کا طریق 534 314 310 33 انکسار جو رحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے صبر کا رحمت سے تعلق مخالفین پر رحم کے نتیجہ میں صبر کا مقام رحمی رشتوں کے کاٹنے سے مراد رحمن خدا سے تعلق کے ساتھ آنحضرت سے تعلق قائم ذکر الہی کا مضمون زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے 802 رکھنا بہت ضروری ہے ذکر الہی کی حقیقت اور کیفیت 489 صبر کے مضمون کا رحم سے تعلق ذکر الہی میں دعوت الی اللہ میں ثبات قدم کا راز ہے 542 رحمی رشتے ایک موقع تک ایک رستہ پر چلتے ہیں پھر آگے ذکر اللہ کے بڑا ہونے سے مراد ذکر الہی کا فائدہ 344 248 ذکر الہی کرنے والوں کے پاس بیٹھنے میں برکت 446 457 جا کر اُن کا جوڑ دوسرے رستوں سے ہو جاتا ہے رحمن کا تعلق رحم سے، اس سلسلہ میں احادیث رزق رزق کا احتیاج جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے 402 505 517 241 246 557 241 239 ذوالفقار علی بھٹو را شده پروین امام راغب ربوبیت ربوبیت کا نظام ساری کائنات میں جاری ہے 444 194 184 رزق کے ذرائع میں مشکلات 479 490 مہمان نوازی کے تعلق میں رزق کریم سے مراد 523,526,528 خدا کی خاطر غیر اللہ سے آنے والے رزق سے آنکھیں بند کر لینے والوں سے خدا کا سلوک ربوبیت کی سب سے زیادہ صفات آنحضرت نے حاصل کیں 186 ڈاکٹر رشید احمد خان صاحب ربوه 18,221,257,431,606,615 136 530 253 ان کو اپنے داماد کی شہادت کی خبر بذریعہ رویا ملنا 260 ان کے زندہ بچ جانے کا واقعہ اور پاکستانی پولیس کا حال 258 ربوہ کی مساجد کا رمضان میں چھوٹا ہونا ربوہ میں جلسہ کے دوران گھروں میں مہمانوں کی رہائش ان کے قتل کے فتوے اور بھائی کی شدید مخالفت اور افغانستان کا طریق اہل ربوہ سے حضور کا خوش ہونا 524 سے قتل کے فتووں کے لئے مولوی منگوانا 137 رشید احمد صاحب ایمبیسڈر ربوہ کے فاروق کھوکھر صاحب کا جوش کی وجہ سے ایکسیڈنٹ 637 رفیق چانن صاحب 254 268 234 موت کی خاطر دومیاں بیوی کا ربوہ آنا رپورٹ مجلس شوری رحم ارحمت رحم رحمن سے جوڑا ہوا ہے رحمت اور غناء کے مضمون کا تعلق رحمت ہی تبلیغ کا محرک ہونی چاہئے 443 222 240 396 505 رمضان رمضان اور دعاؤں کا تعلق 83 رمضان کا پچھلے رمضان سے موازنہ کر کے جائزہ لیں 972 رمضان کا مہینہ ایک رجمنٹل سنٹر کا کام کرتا ہے رمضان کے ڈھال ہونے سے مراد رمضان کے مہینہ میں دعائیں کرنے ، دعائیں سیکھنے اور خدا 60 69
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 34 259 کی ہستی کا ایک ذاتی تعارف حاصل کرنے کا موقع ہے 87 انہیں ابوظہبی سے تبلیغ کی وجہ سے فارغ کیا جاتا ریاض صاحب کو احمدیت کی خاطر ملنے والی تکلیفیں 254 66 رمضان کے مہینے کی برکتیں رمضان میں ایمان کے تقاضوں اور ثواب کی نیت کے نتیجہ ریاض صاحب کی بھا بھی کی رؤیا کہ ایک بکری ذبیح ہو گئی 68 65 اور ایک بچ گئی اور دیگر رویا 256,259,260 میں بخشش کے مضمون کی وضاحت رمضان میں دعا کے مضمون کی طرف توجہ رمضان میں شریعت کے احکامات کا اجتماعی طور پر عروج ان کی شہادت کی خبر کا اُن کے داماد کو بذریعہ رویا ملنا 260 پر پہنچنا 60 عبد اللطیف شہید صاحب کا مقام حاصل کرنے کی تمنا 256 ان کی شہادت کی صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب رمضان میں کچھ نیکیوں کے نقوش کو بہتر بنایا جاسکتا ہے 80 کی شہادت سے مماثلت رمضان میں آنحضرت ﷺ کے صدقات کی کیفیت 69 ریاض صاحب کے بھائی اور ان کی اہلیہ سے حضور کی اس رمضان میں خدا سے لقاء کے جاری وسفر کا نصیب بذریعہ فون گفتگو اور اُن کا حوصلہ میں ہونا ہونا ما نگیں افطاری کے وقت کی دو فرحتیں 74 ریجٹ پارک 71 | رویا 256 263 138 ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان پل 82,84 حضور کی رؤیا کی تشریح جو آپ نے رمضان میں دیکھی 159 جبرائیل کے ساتھ رمضان میں آنحضرت کا قرآن کا دور 70 حضور کی جماعت سے متعلق ایک بہت دلچسپ رؤیا 141 چاند نہ نظر آ سکنے کی وجہ سے ایک دن قبل ہی روزہ رکھ لینے حضور کی خلافت سے قبل کی ایک رؤیا جس میں مخالفتوں پر کے بارہ میں آنحضرت کی ممانعت ربوہ کی مساجد کا رمضان میں چھوٹا ہونا 67 136 غلبہ اور جماعت کی عاجزی کا ذکر تھا خواب میں سوچ کا بے شمار تصورات کو جنم دینا لیکن وہ ان نیکیوں کے لحاظ سے ایک رمضان کا دوسرے سے تعلق 81 کو ظاہری وجود نہیں بخش سکتی روزے کی اہمیت اور روزے کے اجر عظیم پر مشتمل روایت 71 رحمانی رویا کی علامت روح زار روح انسانی کی تخلیق اور مرنے کے بعد اس کی حیثیت 890 زبان روحانیت ، حق ذات سے تعلق کے نتیجہ میں روحانی وسعتوں اور طاقتوں میں اضافہ ارادہ کا روح سے تعلق نور کے حوالہ سے انسانی روح کا خدا سے رشتہ روح المعانی روس 453 168 904 ایم ٹی اے کے ذریعہ زبان سکھانے کا فائدہ ہوگا اگر چہ پروفیشنل نہیں 509 170 156 377 128 صفت باری تعالیٰ کے لئے عربی کا علم ضروری ہے 207 شمن کو نرمی سے جواب دینے کی تلقین 959 زبیدہ بیگم 38,858 زراعت 573 444 چوہدری ریاض احمد صاحب شہید ان کی شہادت کی تفصیلات 264 بیج بونے کی مشینوں کا صحیح استعمال نہ جاننے کی وجہ سے نقصان 115 آنحضرت گوزراعت کا علم حاصل تھا 104
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 35 زیادہ پھلوں کے وقت زیادہ مزدوروں کی ضرورت ہوتی یہ سال جماعت کے خلاف سازشوں کا سال ہے 975 ہے ورنہ پھل خراب ہو سکتے ہیں حضرت زکریا علیہ السلام زمانه زمانہ سے مراد زمانہ کا تصور اور خدا تعالیٰ کی بلندشان 711 281,665 159 190 یہ سال جو گزرا ہے عظیم برکتوں کی تیاری کا سال ہے 977 1974ء میں جماعت کے خلاف شور کا پس منظر جماعت کی کامیاب تبلیغ تھی 1984ء میں دشمن نے ظلم کی انتہا کر دی تھی 988 973 1995ء کا بہت سی برکتیں لے کر آنا اور اس کا جائزہ 971 زمانہ کن معنوں میں خدا میں نہیں پایا جاتا.اس کی وضاحت 159 | سائنس زمانہ کی حقیقی تعریف جو خالق کو مخلوق سے الگ کرتی ہے 179 سائنس کی ترقی سے سائنسدانوں کی تعداد کا بڑھنا 929 زمانہ کے جاری رہنے کا صفات باری تعالیٰ کے تعلق سے تصور 349 سائنس کی ترقی کا غیب سے شہادۃ کی طرف سفر 321 سائنسدانوں کو انبیاء والا الہام تو نہیں ہوتا مگر الہام سے ارادہ کا زمانہ کی قید سے آزاد ہونا اللہ کی ذات کے حوالہ سے زمانہ کا تصور کیا زمانہ انسانوں کی طرح اللہ پر بھی کوئی اثرات پیدا کرتا ہے ، اس کا جواب 167 163 271 مالک یوم الدین کو زمانہ سے باندھے جانے کی وجہ 180 ہیجان کا زمانہ سے گہرا تعلق یہ زمانہ مسیح موعود کا ہی زمانہ ہے اور جلوے دوہرائے جا رہے ہیں زمخشری حضرت زید بن ارقم س ،ش سال 272 249 195 109 ملتی جلتی کیفیات ہیں 325 سائنسدانوں کو خدا کے قریب آنے سے خوف آنے لگا ہے 359 سائنسدانوں کے خدا کے متعلق ٹھو کر کھانے کی وجہ 164 سائنسدانوں کے مطابق انسان کی اربوں سال کی زندگی 889 کے سفر کا رحم مادر میں نو مہینے میں طے کرنا اللہ ارادہ سے مادہ کیسے پیدا کرتا ہے.اس کی وضاحت 168 354 انسان کے اعضاء کی گواہیاں انگلستان میں ایک محفل میں یہ سوال اٹھایا جانا کہ کیا انسانی سوچ میں طاقت ہے کہ بغیر کسی سائنسی واسطہ کے دوسرے پر اثر انداز ہو سکے حضور کا ذاتی تجربہ 171 ایکسریز یاریڈی ایشن کی قسمیں اور ان کی غیر معمولی طاقت 812 اگر چہ محرم سے اسلامی سال شروع ہوتا ہے تا ہم رمضان بارش کے پانی سے بننے والی کھاد کی مقدار 972 بلیک ہول کے نظریہ سے خدا کا ثبوت 465 184 سے ہم سال شروع کرتے ہیں جس سال میں داخل ہوتا ہوں اس سال سے سو سال قبل کے بیمار بچہ پیدا کرنے کا نقص خدا، قانون قدرت کا نہیں 391 حضرت اقدس کے الہامات پر خصوصیت سے نظر ڈالتا ہوں 507 توانائیوں میں مختلف قسم کی توانائیاں سال پر غور کرتے ہوئے مالی توفیقات کے بڑھائے جانے چرنوبل کے حادثہ کا برا اثر کا جائزہ لیں سال کے آخر پر اولاد کے متعلق جائزہ لیں 985 987 زیتون کے تیل کی افادیت ، اہمیت اور اثر سٹیم انجن کی ایجاد کا ذکر 804 812 853 341 ہر سال احمدیت کے حق میں ایک نئی شان لے کر آئے گا979 سنگر مشین کے موجد کو ایک کشفی نظارہ کا دکھائی دینا اور پھر
928 886 812 485 804 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 مشین کی ایجاد ہوئی شش جہات دراصل تین جہات ہیں 36 325 331 خدا کی تخلیق کے جس ذرہ پر سائنسدانوں بیغور کیا انہیں آخری کنارہ نہیں ملا قرآن کے نزول کے وقت عرب میں ٹھنڈی ہواؤں کا مچی کی جگہ پر دم لگی ہوتی ہے، انسان کی دُمچی کی ہڈی تصور نہیں تھا 631 کی حقیقت کائنات کا اپنی مجموعی قابل استعمال توانائی میں کم ہونا اور روشنی میں تموج کی پانچ یا سات اقسام اس کی وجہ 814 811 صفاتی ہم آہنگی اب کھلی حقیقت ہے کان کے آواز کو سننے کا طریق کائنات کا تموج سے پیدا ہونا کائنات کا چار dimensions میں محمد ود ہونا لیکن قرآن میں اس کے علاوہ کا بھی ذکر ہے مادہ کے فرق سے اس کی تجلی میں فرق پڑتا ہے مادی اور روحانی دنیا کا بلیک ہول مخلوقات کی تخلیق میں اسماء الہی کا کار فرما ہونا 776 865 185 245 مغربی سائنسدانوں کا اللہ کی رحمانیت کے جلووں کو پہچاننا جس کے نتیجہ میں ترقی پائی 341 آنحضرت کے زمانہ میں زمین و آسمان کی اقطار سے باہر نکلنے کا مضمون متصور بھی نہیں ہو سکتا تھا 325 ماں کے پیٹ میں جس چیز کا پرنٹ نہیں بنا بعد میں وہ نہیں بن سکتا 372 آئس برگ کا دسواں حصہ سمندر سے باہر دکھائی دیتا ہے 335 آئندہ کی ہر ایجاد کی بنیاد کا قرآن میں ذکر ہے ultimate کمپیوٹر کا تصور ملکہ سبا سپین سچائی 355 355 947 130,267,425,426 سچائی اور رحمانیت کے تعلق میں میر حامد شاہ صاحب کا اگر بچوں کو بولنے اور چلنے کی تربیت نہ دیں تو دس بارہ سال اپنے بیٹے کے حوالہ سے واقعہ 703 822 474,487 473 674 کی عمر میں کچھ بھی نہ ہو سکے سچائی کو بظاہر شکست دکھائی دینے سے مراد انسان کے اندرونی مخفی اعضاء کی بابت علم کے خزانوں سچائی کی آزمائش مختلف پہلوؤں سے زندگی بھر رہتی ہے 494 کی وسعت سچائی کے معاملہ میں یورپ اور تیسری دنیا کے ممالک کا حال 91 ایجاد کرنے والا اُس چیز کی گہری گنہ سے واقف ہوتا ہے 434 اگر حمد کی تمنادل میں ہو تو پھر ایسا خوشامد پسند سچا نہیں ہوسکتا 479 حضر اقدس کی تحریر میں پیرا سائیکالوجی کے ایک عقدہ کاحل 857 صدق کا قیام عبادت کے بغیر ممکن نہیں پیرا سائیکالوجی کے ذریعہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کی سوچ ہر داعی الی اللہ کو اپنے اندرسچائی کے معیار کو بلند کرنا ہو گا 472 بغیر کسی سائنسی ذریعہ کے کسی اور انسان پر اثر انداز ہوسکتی ہے 170 حق بات کرنے پر صبر بھی دکھانا پڑے گا توانائی کا پہلا اور آخری منبع اللہ کی ذات ہے حق کو مولی بنانے میں ہی زندگی اور تحفظ ہے توانائی کی سب سے زیادہ چار غیر معمولی قو تیں جو ہمیں حق کے آنے سے باطل کے بھاگنے سے مراد نظر نہیں آتیں چار توانائیوں میں سے ایک کا کم ہونا اور کشش ثقل ان توانائیوں کی ماں ہے 810 812 815 صفت الحق کا تذکرہ 477 442 448 427 سچ ، میاں مغلا کا احمدی ہو کر جھوٹ نہ بولنے کا فیصلہ اور اُن پر سخت مصیبتیں اس وجہ سے آنا 476
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 37 خدا کے بندے حق کی نصیحت حق کے ساتھ کرتے ہیں 758 سود سرائیوو سرگودها سری لنکا 636 18,254 289 سزا سود والے کو حضرت مسیح موعود نے نہیں فرمایا کہ اسے چندہ دے دو سودی ملکیت کے تصور میں خباثت 421 422 خدا چھوٹے جرم کی بڑی سزا کیوں دیتا ہے حالانکہ یہ سوئٹزر لینڈ 15,17,443,586,587,720,799 41 سویڈن انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے.اس کا جواب نظام میں سزا کے مستحق کو سزا نہ دینا رحمت نہیں شرک ہے 403 سیاست 838,954,990 799 غنی خدا سے تعلق توڑنے کے نتیجہ میں مقدر سزارک نہیں سکتی 402 سیاست میں علم الغیب کی روشنی میں مستقبل کے بارہ میں سعودی عرب سید سعید احمد فظ سکندراعم سلام اسلامتی 133,691 486 161 386 392 147 تبصرہ کیا جاتا ہے 320 تیسری دنیا کے ممالک کی سیاست میں جھوٹ کا عصر 92 جہاں آئے دن حکومت بدلتی ہے وہاں سول سروس کے لئے بڑی مصیبت ہوتی ہے سیالکوٹ سیبویه سلام سے مراد سلام کی تعریف سلام کے معانی سیرالیون سلام خدا سے تعلق کے نتیجہ میں سلامتی کا لامتناہی سفر 382 شعر (اس جلد میں مذکور اشعار ) 311 18 8,195 444,586 اسلام کے اندر سلام کا مضمون قلب سلیم سے مراد لیلۃ القدر میں سلام سے مراد 148 148 146 اردو اشعار آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں 917 آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے 915 نظام جماعت کا کام کرنے والوں میں سلامتی کی برکت 392 اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھیڑے ہلکے سے قیامت تک جاری رہنے والا سلام سلطان محمد صاحب کرنل حضرت سلمان فارسی سلیمان سندھ سنگاپور سنن الكبرى سوانح فضل عمر 151 638 50 947 711 بدلا زمانہ ایسا لڑکا بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں بہرہ ہوں میں چاہئے دونا ہو التفات جانتا ہوں ثواب طاعت و زہر 99 742 191 490 جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں 928 917 586,879 چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا 905 دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے 917 22 228 سب کچھ تیری عطا ہے 400
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 38 سب کچھ خدا سے مانگ لیا اس کو مانگ کر 72 صحتیں لاکھوں میری بیماری غم پر شار 498 عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں 467 عرفان کی بارش ہوتی ہے دن رات ہمارے ربوہ میں 989 در شادی شادی کے موقع پر تقویٰ کی تکرار پرمشتمل آیات کے چناؤ اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر به بند 744 دو عالم مرا عزیز توئی 72 غموں کا ایک دن اور چار شادی 367 607 میں حکمت 241 بعض ماں باپ کا بتانا کہ اس کی بیٹی نے عیسائی سے شادی کر لی وغیرہ.اس کی وجہ قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں 63 کیا عجب تو نے ہر اک ذرے میں رکھے ہیں خواص 907 شاما آیا گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو 503 شرک 46 485 گدا سمجھ کے وہ چپ تھا میری جو شامت آئی 373 شرک اللہ کے قرب کے راستے روکتا ہے گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر مایا کو مایا لے کر کر لانے ہاتھ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے 140 31 821 شرک سے پاک تعلق باللہ نظام جماعت میں سزا کے مستحق کو سزا نہ دینا رحمت نہیں شرک ہے 931 شریعت 766 مصطفی پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب 373 وہ دن بھی تھے کہ خدمت استاد کے عوض 99 وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے 313 ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر 431 یہ تو نے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں 963 شریفہ بی بی عربی اشعار 312 931 403 شریعت کی تکمیل پر صحابہ پر خوش ہونے کی بجائے رونا کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ حضور کا آخری وقت ہے 145 شریعت کے حوالہ سے رحمانیت اور رحیمیت کا تعلق 201 وہ شریعت جس پر عمل ظاہری ہو وہ ایسی غلامی کے بندھن ہیں جن کے ساتھ اللہ کی محبت کا تعلق نہیں 89 444 اذا ـــــاخــــلاقـــــــــام سـيــــــد نا ان زرتنا لوجدتنا فارسی اشعار 268 538 تبلیغ کے حوالہ سے شکر کی تعلیم قیامت کے دن اللہ سب سے زیادہ شکور ہوگا 578 647 نعمتوں کی قدر کرنی چاہئے یہ نہ ہو کہ نا شکری ہو جائے 968 آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے 944 اللہ کے فضلوں پر اس کا شکر کریں اگر خواہی دلیلے عاشقش باش 940 شوری اے دل تو نیز خاطر ایناں نہگدار 508 شوری اور اللہ پر توکل ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دهم 697 شوری دنیا کی پارلیمنٹ نہیں ہوتی شوری کا عالمی شوری کا رنگ اختیار کرنا اے آں کہ سوئے من بدویدی بصد تبر 459 562 224 302 221
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 39 شوری کے انتخاب پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت 298 کا لحاظ فرمایا ہے 218 شوری کے ذکر میں آخری فیصلہ نبی کے بعد صاحب امر حدیبیہ کے مقام پر حضور کا تمام صحابہ کے مشورہ کو نہ ماننا 218 کرے گا شوری کے فیصلوں کی حیثیت شوری کے متعلق حضرت مصلح موعود کی ہدایات جماعت 221 حضرت ابوبکر کا اُسامہ کے لشکر کو بھجنے کا فیصلہ اور صحابہ کا مشورہ 223 302 شهادة القرآن شہادت کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک چارٹر کی حیثیت رکھتی ہیں 228 شہید کا بلند مرتبہ 149 252 شوری کے نظام میں احتیاط اور تقویٰ کی ضرورت 290 شہید کو اپنے لواحقین کے حوالہ سے فکر اور اسلامی تعلیم 264 شوری میں کسی فیصلہ سے اختلافی نوٹ کے حوالہ سے صدر شوری کا کردار 303 شہید کو مردہ نہ کہو، اس مضمون کے بیان میں مشکلات 252 شہید کی اولا د کا بلند مقام حاصل کرنا شوری میں مالی اخراجات سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں 213 احد کی جنگ میں ایک صحابی کا کہنا کہ میرے اور جنت شوری میں ووٹ دیتے وقت قرآنی نصائح کو مد نظر رکھیں 293 کے درمیان ایک کھجور ہی حائل ہے ایران سے جنگ کے موقع پر حضرت عمر کا صحابہ سے مشورہ 222 شیخوپورہ پاکستان کی ایک مجلس شوری کی ریکارڈنگز حضور کا منگوانا اور بعض ٹیڑھی سوچوں کا داخل ہونا 291 شیطان شیطان کا نام غرور جماعت کے ایک ہزار سال تک تقومی پر رہتے ہوئے شیطان کو بندوں کو بہکانے کی اجازت 265 254 18,987 359 845 357 صحیح فیصلہ کرنے میں مجلس شوریٰ کا اہم کردار ہو گا 298 جنت میں شیطان کو داخل نہ ہونے کی اجازت سے مراد 334 جماعت میں شوری کا قیام 1922ء میں ہوا، اس کی اہمیت 220 وہ لوگ جو شیطان کے حملوں سے محفوظ ہیں حدیبیہ کے مقام پر ایک عورت کا مشورہ اور اس کا اثر 219 آنحضرت کے شیطان کا مسلمان ہونا عبد اللہ بن ابی بن سلول کے احد میں پیچھے ہٹنے کی وجہ اس صص کا مشورہ نہ مانا جاتا ہے 216 صادق محمد طاہر مجلس شوری سے متعلق جماعت کو تعارفی کتاب شائع مولوی صالح محمد صاحب کرنی چاہئے مجلس شوریٰ کا دیگر دنیا وی مجالس سے امتیاز مشورہ انسان کی صلاحیتوں کو چمکاتا ہے 229 حضرت صالح 212 220 صبر بڑا جو ہر ہے 910 444 444 430 563 آنحضرت کا مالی اخراجات کے متعلق آخری فیصلہ اور صحابہ صبر جیسی کوئی شے نہیں مگر کرنا بڑا مشکل ہے اس لئے دعا کا مقام 213 216 اور عبادت کا مفہوم ساتھ شامل ہے صبر سے مقصد کی کامیابی پر یقین لازما رہتا ہے آنحضرت کوصحابہ سے مشورہ لینے کا حکم آنحضرت کی مجلس شوری سارا سال جاری رہتی تھی 217 صبر کا اعلیٰ اخلاق کی تربیت اور تعظیم الشان اقوام کی تکمیل آنحضرت نے بالعموم سوائے ایک دو واقعات کے مشوروں میں کردار 564 726 727
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 صبر کا رحمت سے تعلق 40 505 کی بہت ضرورت ہے صبر کا مضمون نماز کے علاوہ عمل صالح سے بھی تعلق رکھتا ہے 513 جماعت میں نئے آنے والوں کو پہنچنے والی مصیبتیں اور صبر کی اقسام صبر کی تعریف جو آنحضرت نے بیان فرمائی 726 549 729 570 حضرت اقدس کی صبر کی تلقین جماعتوں کو صبر اور اندرونی طور پر ایک ہونے کی تلقین 738 صبر کی طاقت نہ ہوگی تو ہمیشہ غریب آدمی سے سوسائٹی کو حضرت اقدس کو گالیاں دی جانے پر بھی آپ کی جماعت زیادہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے صبر کی نصیحت صبر سے صبر کے امتحان کے بہت درجے ہیں صبر کے ساتھ صلوۃ کا تعلق 605 470 731 512 کو صبر کی تعلیم 575 حق بات کرنے پر صبر بھی دکھانا پڑے گا 477 دعوت الی اللہ کے حوالہ سے ہر قسم کے صبر کا قرآن میں ذکر 541 دنیا کا سب سے زیادہ صبر کرنا والا دنیا کا سب سے بڑا صبر کے متعلق احادیث اور ارشادات حضرت اقدس 561 داعی الی اللہ 556 صبر کے بغیر نظام جماعت کا حق ادا ہو نہیں سکتا صبر کے ساتھ نصیحت کا قرآن میں ذکر صبر کے مضمون کا رحم سے تعلق صبر میں بنیادی طور پر دو طرح سے آزمائشیں صبر اور دعا کا تعلق 735 504 557 502 728 صفت صبور، صبار نام کی قرآن میں نہیں پائی جاتی صرف حدیث میں ہے، اس کی وجہ 501,508 مخالفین کے بدانجام کے حوالہ سے آنحضرت کو صبر کی تعلیم 515 نبوت صبر کا پھل ہے نماز کا صبر کے ساتھ تعلق صبر اور دعاؤں سے جماعت دوگنی ترقی بھی کرسکتی ہے 578 والدین کے دکھوں پر بھی صبر کی تلقین صبر اور صلوۃ کو قرآن میں اکٹھا باندھا گیا ہے آنحضرت صبر کے سب سے بلند معیار پر 729 565 732 505 554 اسماعیل کا صبر انبیاء کا بھی مشکلات میں صبر کرنا انبیاء کا صبر اور انہیں اچانک نصرت کا ملنا 604 556,558 570 511 آنحضرت قبر کیسا تھ پیدا کئے گئے تھے پاکستان میں بعض دفعہ نو جوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر جوابی کارروائی کرنا ، ان کیلئے نصیحت 553 ایک عورت کا بیٹے کی وفات پر واویلا کرنا اور حضور کی اسے شمن کی تکالیف کے مقابل پر صبر اور خدا کی رحمتوں کا نزول 561 صبر کی تلقین بردباری اور صبر کیا دو الگ الگ چیزیں ہیں 555 567 دشمن کی مخالفت پر انتظام نہ لینے میں حکمت 569 دشمن کے مقابل صبر کے ساتھ احتیاطی تدابیر ضروری ہیں 551 تبلیغ سے رحمت کا تعلق جس کے نتیجہ میں صبر دو طرح سے ذاتی مصیبتوں اور مشکلات میں صبر اور تو کل سے کام نہ کام آتا ہے تبلیغ کے معاملہ میں دوطرح کا صبر تبلیغ کے میدان میں صبر کا تعلق 505 471 501 725 730 544 لینے والوں کا ذکر غلط فیصلہ پر بھی اطاعت اور صبر کا نمونہ دکھاؤ کیا آنحضرت پر بھی کوئی ایسے لحات آئے کہ اللہ کو کہنا پڑا کہ صبر کر، اس کی وضاحت 554 تو کل اور صبر کا تعلق جماعت احمدیہ آج جس دور سے گزر رہی ہے اسے صبر مخالفین پر رحم کے نتیجہ میں صبر کا مقام 517
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 41 مظلوم بعض اوقات بے اختیار ہوکرصبر کرتا ہے تو بعض آج کل دنیا میں صدقہ و خیرات کے محل، بوسنیا، کشمیر لوگ پاگل ہو کر گالیاں بکنے لگ جاتے ہیں 517 روس، افریقہ وغیرہ کے مظلوم ہیں 514 صراط مستقیم وہ صبر جو طاقتور ہے جماعتی معاملات میں صبر سے عاری لوگ آنحضرت اور آپ کے غلاموں کا عظیم صبر صحاب 732 552 صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین وضع استقامت صراط مستقیم ہے صغیر احمد صحابہ حضرت مسیح موعود کی شان، ان کے رعب کا ذکر 49 صلاحیت 70 934 870 780 صحابہ کا جہاد کے لئے آنحضرت کی خدمت میں سواریوں صلاحیتوں کے ہوتے ہوئے انہیں پورا نہ کرنے کا غم 717 کے لئے حاضر ہونا اور ان کی کیفیت صحابہ کا قربانی کا طریق صحابہ کا آنحضرت سے عشق 7 594 219 صلاحیتیں بڑھانے کے لئے نئی اقوام پر بوجھ ڈالنے ہوں گے 719 اپنے اندر انقلاب کی صلاحیتیں پیدا کرنے کا طریق 480 آنحضرت کی وجہ سے ہمیں عظیم صراط مستقیم پر دوڑایا گیا صحابہ کی تاریخ کا صرف ایک ہی واقعہ کہ جب انہوں نے ہے اس لئے ہر صلاحیت کو استعمال کرنا ہے بسا اوقات انسان اپنی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے 218,219 فوراً لبیک نہ کہا اسلام لانے سے قبل جن صحابہ نے آنحضرت ﷺ کو دکھ جماعت کی بڑی بھاری تعداد کی صلاحیتیں ابھی بروئے دیئے حیا سے اُن کی آنکھیں بعد میں نہیں اٹھتی تھیں 523 کار نہیں آئیں ایران سے جنگ کے موقع پر حضرت عمر کا صحابہ سے مشورہ 222 صور 668 887 886 712 185 اسرافیل کے صور پھونکنے سے مراد وہ صور جس کے نتیجہ میں سب کلیہ کا لعدم ہو جائیں گے 187 بچوں کی تربیت کے حوالہ سے ایک صحابی کی سختی اور حضرت اقدس کا اظہار نا راضگی بعض صحابہ کا کہنا کہ یا رسول اللہ اب میں ساری عمر روزے صور، اللہ کی صفات کے حوالہ سے صور کی قسمیں رکھوں گا یا نمازیں پڑھوں گا.آپ کا انہیں منع فرمانا 49 صوفی احمد جان صاحب صحابہ حضرت مسیح موعود میں سے جنہوں نے تفقہ میں حضرت صہیب بن سنان وقت صرف کیا ان کی اولادیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں 108 ضحاک غریب صحابہ جنہوں نے دین کے آغاز میں قربانیاں دی ضیاء الحق اُن کو اللہ نے ایسے رنگ لگائے کہ مثال نہیں 622 186 431 562 959,960 اس کا اعلان کہ احمدیت کے کینسر کی جڑیں اکھیڑ دینی ہیں 450 آنحضرت کا صحابہ کے حوالہ سے پیدا کردہ انقلاب 214 احمدیت کے حقیر ہونے کی بابت بھٹو اور ضیاء الحق کا تبصرہ 457 آنحضرت کا مالی اخراجات کے متعلق آخری فیصلہ اور صحابہ کا مقام آنحضرت کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم صدقہ 213 216 ط،ظر حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع انگلستان میں ایک بڑی مسجد کی ضرورت اور حضور کے ذہن میں مسجد کا نقشہ 138
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 42 737 اس سوال کے متعلق حضور کا ذاتی تجربہ کہ کیا انسانی سوچ میں آپ کا واقف ہونا طاقت ہے کہ بغیر واسطہ کے دوسرے پر اثر انداز ہو سکے 171 دوروں کے دوران کھانے کے حوالہ سے دیہاتیوں کا خلوص 629 آپ کی رؤیا کہ فرینکوفون ممالک میں بہت تیزی سے ربوہ کے فارم میں حضور کا بعض درختوں کے ڈنڈے پیوست کرنا جو کسی غریب کا ایندھن کے لئے اکھیڑ کر لے جانا 606 جماعت پھیلے گی 307 228 ایک بچے کاز نجیر پہن کر ملاقات کے لئے آنا اور حضور سوان فضل عمر کی دوسری جلد پر حضور کا کام کرنا علماء کی ملاقات میں حضور کو کھلی دھمکی اور کھلا خط شائع کرنا 976 47 کے سمجھانے پر اس کا زنجیر توڑ دینا ایک خاتون کا ایک انگریزی لفظ کے تلفظ غلط ہونے پر خط کار چلاتے ہوئے بیسیوں دفعہ اونگھا آئی مگر خدا نے محفوظ رکھا 362 لکھنا اور حضور کی پر حکمت تشریح ایک سکول کے تین عیسائی بچوں کی حضور سے ملاقات احمدی بچوں کی وجہ سے جرمنی کے ایک کارکن کی وفات پر صدمہ اور اللہ کی طرف سے سکینت کا نزول جرمنی میں حضور کی مخالف علماء کے خلاف بد دعا خطبہ کے لئے حضور کا خالی الذہن کھڑے ہونا مگر خدا کا مضامین القا کرنا 101 آپ خلیفہ ثالث کی سندھ کی زمینوں کے نگران تھے 711 طاہر عبداللہ 961 حضرت طلحہ بن عبید الله طور 638 طوماس لوئیس 507 ظلم ظلم کی وجہ سے جھوٹ بولا جانا جنگ عظیم کے دوران مغربی ممالک کے مظالم اور اخلاقی دراصل دہریت کی پیداوار ہے ن خلافت سے قبل کی ایک رویا جس میں مخالفتوں پر غلبہ اور جماعت کی عاجزی کا ذکر تھا کھٹا پھل کھانے کی وجہ سے آواز کا بیٹھنا میں اصل طالب علم خلیفہ بننے کے بعد بنا ہوں 141 509 347 103 464 66 30 464 436 24 اللہ سے حسن ظن کا تعلق انسان کی بھلائی کے لئے ضروری 281 بندے کے گمان کے متعلق اللہ کا سلوک ہر بڑی تحریک کا سواں حصہ اپنی طرف سے پیش کرنا 139 آپ کا زمانہ طالب علمی تو سیر و تفریح اور اپنی مرضی کی حضرت عائشہ کتابیں پڑھنے کا زمانہ تھا 103 عائشہ آیا ایک دانشور کا کہنا کہ باقی باتیں تو ٹھیک یہ جو اردو کلاس آپ ان کی وفات پر ذکر خیر ع ، ع نے شروع کی ہے یہ آپ کے منصب کے خلاف ہے 866 عائلی معاملات بائبل کے حوالہ سے آپ کا ایک ریسرچ ٹیم بنانا 929 عائلی معاملات اور نظم وضبط 280 915 638 361 242 جس سال میں داخل ہوتا ہوں اس سال سے سو سال قبل کے عائلی معاملات میں تقویٰ کی ضرورت اور اہمیت حضرت اقدس کے الہامات پر خصوصیت سے نظر ڈالتا ہوں 507 ایک صحابی کا دوست کی بیوی سے پوچھنا کہ تم اس برے حال حضور کی اس رویا کی تشریح جو آپ نے رمضان میں دیکھی 159 میں کیوں ہو اس کا بتانا کہ خاوند کو اس میں دلچسپی ہی نہیں خدا کی عطا کردہ بصیرت سے دماغ کے غلط خیالات سے اور صحابی کی نصیحت 50
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 43 بعض بد خلقیوں کی بناء پر گھروں کا ٹوٹنا 25 | مرزا عبد الغنی گھر کے حقوق ادا کرنا، گھر سے تعلق رکھنا دین کا حصہ ہے 50 صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب عبادت عباد الرحمن کی صفات 824 444 آپ کا خون ابھی بھی رنگ دکھلا رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے 41 ریاض صاحب کی شہادت کی صاحبزادہ عبداللطیف عبادت کا قیام کافی نہیں جب تک اس میں نوافل اور خاص شہید صاحب کی شہادت سے مماثلت کر تہجد نہ ہو 670 256 آپ کی شہادت کی وجہ سے افغانستان پر ایک کے بعد دوسری عبادت کی اہمیت اور اس کے متعلق خطبات کا سلسلہ 664 بلا نازل ہو رہی ہے جس کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکا 260 663 آپ کی اولاد کا دنیا میں پھیلنا اور بلند مقام حاصل کرنا 265 عبادت کے قیام کے بغیر دنیا کا قیام ممکن نہیں بعض صحابہ کا کہنا کہ یا رسول اللہ اب میں ساری عمر عبداللہ بن ابی بن سلول روزے رکھوں گایا نمازیں پڑھوں گا.آپ کا انہیں منع فرمانا 49 عبداللہ بن شقیق جماعت کے عبادت گزار بندوں کی تعداد دوسروں سے حضرت عبداللہ بن عمر بہت زیادہ ہے 138 جنگ بدر میں عبادت کے حوالہ سے آنحضرت کی دعا اور سختی کے باوجود سیدھا ہو گیا کایا پلٹنا 513 عربوں کے لئے قرآن کے ترجمہ کی ضرورت 216 809 764 557,876 563,566 صبر جیسی کوئی شے نہیں مگر کرنا بڑا مشکل ہے اس لئے دعا قرآن کے نزول کے وقت عرب میں ٹھنڈی ہواؤں کا اور عبادت کا مفہوم ساتھ شامل ہے صدق کا قیام عبادت کے بغیر ممکن نہیں غیب کے تصور کا عبادتوں پر اثر عباس علی شاہ عبد بن حمید حضرت مرزا عبدالحق صاحب عبدالحمید در فیلڈن 564 674 تصور نہیں تھا آنحضرت کا عرب کی سرحدوں کی حفاظت کرنا 813 | عرش عرش سے مراد 948 764,766 268 124 239 عرش کو اٹھانے سے مراد اور اس کی حقیقت 132 631 678 759,922 754 عرش کو سب سے بڑا اٹھانے والا وجود آنحضرت تھے 755 عرش کو فرشتے کے اٹھانے والی احادیث کی حقیقت اور ان پر جرح 763 حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت عبدالرحمن مہر سنگھ عرش کو قیامت کے دن 8 فرشتے اٹھائے ہوں گے آپ کا مالی تنگی کے وقت نسخہ کہ تبلیغ کے لئے نکل جاتے 719 اس اعتراض کا جواب حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں 789 عبدالرحمن ممبر پنجاب اسمبلی عبدالرحمن ڈاکٹر عبدالسلام صاحب عبدالعظیم بولیا 988 615 815 879 عرش کی حقیقت کے متعلق صحیح احادیث عرش کی حقیقت ، حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں عرش مخلوق نہیں ہے 768,787 754 770
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 44 فرشتوں کے عرش اٹھانے کا ذکر تفسیر صغیر میں ہے،اس بے فائدہ ہو (حدیث) کے متعلق وضاحت آنحضرت کے دل پر عرش الہی کا جلوہ گر ہونا پانی پر عرش کی حقیقت دل کو بھی ایک جگہ عرش کہا گیا ہے 768 793 770,773 774 بہترین چیزیں جو انسان اپنی موت کے بعد پیچھے چھوڑتا ہے وہ تین ہیں.ایک علم ہے (حدیث) 109 109 تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چھو.اس سے مراد علمی مجالس ہیں (حدیث) 105 کسی آیت سے فرشتوں کے عرش کو اٹھانے کا ذکر نہیں ملتا 761 تم علم اس غرض سے نہ حاصل کرو کہ اس کے ذریعہ دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر کر سکو ( حدیث ) عرفان اللہ سے ذاتی تعلق میں محض عرفان الہی کافی نہیں 209 جماعت کی تاریخ گواہ کہ تقویٰ رکھنے والوں کے کاموں 105 اپنی ذات کا عرفان نہ ہونے کا بعض اوقات نقصان 911 میں برکت پڑی ہے خواہ علم کے لحاظ سے ادنی ہوں 294 عزیز احمد عطاء المجیب راشد صاحب عطاءا 444 153 153 949 حدیث کی رو سے دو قسم کے علم صحابہ حضرت مسیح موعود میں سے جنہوں نے تفقہ میں 129 وقت صرف کیا ان کی اولادیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں 108 صفت باری تعالیٰ کے لئے عربی کا علم ضروری ہے 207 علم کے ساتھ اموال، طاقت ، وجاہت میں برکت کے علم و حکمت کے حصول میں برا منانے کا مضمون داخل نہیں 101 متعلق آنحضرت کا ارشاد علم پڑھانے والوں کا وقار جس قوم سے اٹھ گیا ہے ان فیض نبوت سے دنیا کا علوم سے فیض پانا کے ہاں علمی معیار ہمیشہ تنزل اختیار کر گیا ہے علم کا مضمون دو طرفہ چلتا رہتا ہے کبھی استاد معلم کبھی شاگرد معلم 98 102 433 علم کی کمی پر پردہ ڈالنے کے لئے جھوٹ بولا جانا علم کے حصول اور اس کی فضیلت کے متعلق احادیث 97 108 150 قرآن کی تعلیم جہاں تک ممکن ہو بغیر معاوضے کے ہو 99 محبت کی وجہ سے تعلیم کا رشتہ 867 104 107 وہ مضامین جن کو جماعت کی بھاری اکثریت خطبات میں صلاحیت اور علم کے اعتبار سے ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں 161 آنحضرت گوزراعت کا علم حاصل تھا آنحضرت کے دائمی معلم ہونے کا ثبوت صاحب علم قوموں کا صفت علیم کے تحت اپنی جنت بنانا 411 کی عزت نہیں کرتے مادی علم بھی خدا کے بعض اسماء کی تجلیات کے نتیجہ میں دنیا کو ایک حدیث کی رو سے علم کا تین قسم کی زمینوں کو بارش کی عطا ہوتے ہیں جو زمانہ نبوت سے تعلق رکھتی ہیں 322 علم و حکمت کے اوپر بہت زور دینے کی ضرورت ہے 97 انگلستان میں اس بحث کا شور کہ طالب علم استادوں 99 112 حضرت عمر طرح سیراب کرنا ایک خاتون کا ایک انگریزی لفظ کے تلفظ غلط ہونے پر خط آپ کی آخری لمحات کی دعا لکھنا اور حضور کی پُر حکمت تشریح 101 921 طاعون کی وجہ سے ایک وادی سے فورا نکلنے کا حکم 495 اے میرے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو ایران سے جنگ کے موقع پر صحابہ سے مشورہ 222
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 45 عہدہ عہد یداران ربوہ کے فارم میں سے درختوں کے ڈنڈوں کو کسی غریب کا عہدہ دار کو ایک نمونہ ہونا چاہئے اس کے ذاتی معاملات پر ایندھن کے لئے اکھیڑ کر لے جانا خدا کی نظر ہے 707 صبر کی طاقت نہ ہوگی تو ہمیشہ غریب آدمی سے سوسائٹی کو امیر اور جماعت کی حق تلفیوں کا محافظ خدا نے مجھے بنایا ہے 739 زیادہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے 606 605 بعض دفعہ نیکی کے نام پر امیر سے سوال اور بد تمیزی کی جانا 738 اکثر دنیا میں غریب کو اس کی محنت کا پھل نہیں دیا جا تا 490 مالی قربانی کے حوالہ سے عہدہ دار کونمونہ بننے کی ضرورت 708 غربت کی مجبوریاں اور خوبیاں نظام جماعت کا کام کرنے والوں میں سلامتی کی برکت 392 غلام نبی گلگار یوسف کے عہدہ لینے سے انکار کی وجہ امیر خدا کے نظام کا نمائندہ ہے عید 376 734 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام 606 444 اولاد کی تربیت میں سختی پر آپ کی ناراضگی 51,668 بزرگان سلف کے حوالے کہ دین اسلام کا اتمام مہدی عید کے دن فجر کی حاضری وہ میزان ہے جس سے رمضان کے ہاتھ پر ہوگا 958 میں کمائے جانے والے ایمان کو تو لا جائے گا عید کے دن موسم کا خوشگوار رہنا عیسائیت 136 155 جس سال میں داخل ہوتا ہوں اس سال سے سو سال قبل کے آپ کے الہامات پر خصوصیت سے نظر ڈالتا ہوں 507 آپ نے دود و آنے کا کتابوں میں شکر یہ ادا کیا ہے 581 عیسائیت کو دائرہ یہودیت سے خارج کرنے کے لئے آپ کے زمانہ میں کرکٹ کا میچ اور حضور کا جواب 273 یہودیوں کی کونسل کا بیٹھنا عیسائیت کی نرمی اور عفو کی تعلیم حضرت عیسی علیہ السلام 457 892 عیسی کو خدا کے دائیں طرف بٹھانے کا غلط مفہوم 411 عیسی کے مزاج کے مطابق انجیل کی تعلیم 870 آپ کے وصال کے بعد حضرت اماں جان کا اولاد کو کہنا کہ تمہارے والد نے لامتناہی دعاؤں کا خزانہ چھوڑا ہے 56 یہ زمانہ آپ کا ہی زمانہ ہے ، جلوے دوہرائے جارہے ہیں 249 آپ شان احمد کا مظہر بن کر روحانی خزانے لٹانے آئے 201 اپنے وجود کو آنحضرت میں مٹادینا تب احمد پیدا ہوا 247 عیسی حق کے نمائندہ تھے، آپ کے وقت یہود کی حالت آپ کا پہلا مناظرہ بٹالوی کے ساتھ ہوا جس میں بظا ہر ہار 456 65 64 191,373,945 اور آپ کی بدلہ نہ لینے کے متعلق تعلیم آپ کا قول کہ کوئی نیک نہیں صرف ایک ہے آنحضرت اور حضرت عیسی کی تماثیل میں فرق غالب غربت اغریب پر خدا کا الہام کرنا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا 301 آپ کی ایک نظم میں سبحان من بیرانی کے الفاظ میں حکمت اور لطف آپ کی تحریرات میں گہرائی 829 310 آپ نے اپنی تحریرات کو بار بار پڑھنے کی تلقین فرمائی ،وجہ 178 غریب صحابہ جنہوں نے دین کے آغاز میں قربانیاں دی آپ آدم ثانی تھے، آپ کو بھی اسماء کا علم عطا فرمایا گیا 172 اُن کو اللہ نے ایسے رنگ لگائے کہ مثال نہیں غریب کی مالی قربانی کا بڑھنا 622 630 آج اسلام کا نمائندہ حضرت مسیح موعود اور جماعت احمد یہ ہے 957 آریوں کا مناظروں کے دوران آپ سے قرآن کے
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 متعلق نہایت گندی زبان استعمال کرنا آنحضرت سے کامل عشق کے نتیجہ میں فیض پانا آنحضرت کی عظمت کو سمجھنے کے لئے حضرت اقدس کی آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے 279 313 46 پر الہام الہی آپ کے صبر کا تبلیغ سے گہرا تعلق آپ کے کلام کی تاثیر 607 503 857 الہام، بعد گیارہ کی تشریح الہام،شاتان تذبحان 884 972,980 256 آپ کے لئے ضیا اور سراج کا لفظ استعمال کرنا غیر حقیقی ہے آپ قمر تھے 877 آپ مہمان کے مزاج کے مطابق چیزیں مہیا کرتے 520 943 آپ کا الہامی شعر قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے 607 آپ نے جو نور پایا وہ اسلام اور آنحضرت سے پائے 917 ایک دور تھا کہ دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے میری غذا تھی آپ نے فرمایا کہ اگر خدا مجبور نہ کرتا تو میں مخفی رہتا 823 اور آج لاکھوں میرے دستر خوان سے کھانا کھا رہے ہیں 480 آنحضرت اور قرآن سے عشق ایک معاند مولوی کے آپ دعاوی کے متعلق اعتراضات اور آنحضرت کے نور کی پیروی سے آپ کی تصویر کا ویسے اعتراضات آنحضرت پر غیروں نے کئے 431 ایک خوبصورت پیکر کی صورت میں ابھرنا ک خوبصورت پاک کی صو پریشانی کی خبر پر آپ وضو کر کے حجرہ بند کر کے خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے 565 غنی کا لفظ قرآن میں دو طرح سے انسان کو اس کی بعض 943 جو آپ کی کتابیں ایک دفعہ پڑھے اس میں تکبر ہے 944 مہلک حالتوں سے متنبہ کرنے کے لئے آیا ہے 406 حضرت اقدس کا دو دو آنے دینے والوں کا ذکر کرنا اور غنی کے دو مطلب بے حد فیض پانا 614 غیب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں حضرت اقدس نے غیب پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے کام شروع کیا تھا، ہر صدی کے بعد یہ موسم آیا کریں گے 710 غیب پر غور کریں 480 718 غیب سے انسان کی کامیابی کا تعلق 407 335 338 317 321 غیب سے ہمیشہ مومن کے لئے ایسے امور رونما ہوتے ہیں جو آپ ربوبیت کے مظہر آپ کا اپنے وجود کوکلیۂ مٹا کر محمد کے نور سے منعکس ہونا 878 غیب سے رسالت کا تعلق آپ کا دین کے غم لگانے کی تلقین آپ کو جس ظلم اور سفا کی کے ساتھ جھٹلایا گیا ہے اس کی اس کے دل کو پسند ہوں ، تکلیفیں بھی ہوتی ہیں غیب کا سفر ہمارے علم کے تصور کے مطابق ہو ہی نہیں سکتا 330 مثال نہیں 512 آپ کو جیسی گالیاں دی گئیں ویسی کسی پیغمبر کو بھی نہیں غیب کا علم حاصل کرنے کے لئے عالم الغیب سے دی گئی ہوں گی 367 318 576 575 857 577,690 گالیوں پر بھی آپ کی جماعت کو صبر کی تعلیم آنحضرت کے فیض سے حاصل ہونے والانور آپ کی صداقت کی ایک دلیل تعلق ضروری ہے غیب کا علم دراصل خزائن کا علم ہے غیب کا مضمون تقویٰ کی رفعتوں کی انتہا ہے 345 334 الہام کا غیب کو شاہد میں تبدیل کرنے کا ایک گہرا تعلق 323 آپ کے ایک مالدار صحابی کی تجارت کے ضائع ہونے پردہ غیب میں جو ہے وہ بہت زیادہ ہے 348
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 تقوی کی پہلی تعریف غیب پر ایمان لانا ہے سائنس کی ترقی کا غیب سے شہادۃ کی طرف سفر 47 318 321 معراج کی شب جبرائیل کے پیچھے رہ جانے کی وجہ 781 موت کے فرشتے 442 قرآن کی مستقبل کی خبروں پر مشتمل آیات پر عقلیں آنحضرت کے حق میں فرشتوں کی دعائیں سب سے زیادہ 322 سنی گئیں ششدر رہ جاتی ہیں قرآن میں 49 مرتبہ غیب کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ملائکہ تمام نظام عالم کی ابتدائی کڑیاں ہیں، اقتباس 330 حضرت مصلح موعود 4 دفعہ غیوب کا لفظ مادی علم بھی خدا کے بعض اسماء کی تجلیات کے نتیجہ میں دنیا کو فرعون عطا ہوتے ہیں جو زمانہ نبوت سے تعلق رکھتی ہیں 322 فساد پردہ غیب سے پردہ شہود میں ابھرنے کا ہمیشہ کا سفر 350 فساد اور ہنگاموں والی جگہ سے کھسکنے کا حکم 611 780 170,402 573 تمام عالم میں فساد کی جڑ کسی اسم الہی کی مخالفت ہے 411 فاروق کھوکھر صاحب فتح اسلام چوہدری فتح محمد سیال صاحب فخر الدین رازی فراست فراست کی سب سے اعلیٰ تعریف مومن کی فراست سے ڈرو 637 151,748 638 959 35 296 ی کواجاگرکرنے کے لئے باریک نظر کو اجاگر کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے 848 فرانس فرشته 586 فرشتوں کا ذکر الہی کی مجالس کی تلاش کرنا (حدیث ) 785 فرشتوں کا صفات الہیہ سے تعلق 780 ملاں فضل ربی سیده فضیلت بیگم فطرت پر انسان کی پیدائش 255 485 891 فطری تعلق سے خدا کے غیب اور حاضر ہونے کا ثبوت 353 محمد پر عالمی نورنازل ہوا جس کا فطرت سے باندھا جانا ضروری ہے 986 انہیں سڑی روٹیاں دینایا پھٹے کپڑے دینا درست نہ ہے 628 وہ فقراء جن پر خرچ کرنے کا حکم آیا ہے فلسطین فلسفه فرشتوں کے دیو مالائی اور یونانی تصورات پر مشتمل احادیث 765 فلسفہ میں اللہ کا قدیم سے تصور 591 179 161 فرشتوں کے عرش اٹھانے کا ذکر تفسیر صغیر میں ہے، اس ارسطو جس خدا تک پہنچاوہ بالآخر ایک فلسفہ ہی ہے 177 کے متعلق وضاحت مغربی فلسفیوں کے بابا آدم کا خدا کی ہستی کی دلیل دینا 314 فرشتوں کے متعلق حضرت مصلح موعود کا تصور فرشتوں کے نظام کا ذکر صفات الہیہ کے اجراء میں فرشتوں کا مقرر ہونا 768 769 609 782 فلسفیوں کے ٹھوکریں کھانے کی وجہ فیصل آباد فیصلہ 172 13,18 کسی آیت سے فرشتوں کے عرش کو اٹھانے کا ذکر نہیں ملتا 761 ایک شخص کا پہلے کیس میں جھوٹ بولنا، خطبہ سے متاثر ہوکر
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 48 سچ بولنا اور حج کا اس کے حق میں فیصلہ کرنا 496 قرآن کریم تقویٰ کے نتیجہ میں غلط فیصلہ کو بھی اللہ ٹھیک کر دے گا 296 قرآن کا نا رو تجبین زبان میں ترجمہ نو جوانوں کی ٹیم کا کیا ہوا 749 جماعت کے ایک ہزار سال تک تقومی پر رہتے ہوئے جو بہت تیزی سے ہوا اور اس میں کوئی سقم نہ تھا صحیح فیصلہ کرنے میں مجلس شوری کا اہم کردار ہوگا 298 قرآن کریم کا موزوں اور معتدل حالت میں نازل ہونا 873 خلیفہ وقت کی طرف سے فیصلہ کے بعد پھر اس کے خلاف قرآن کی اصطلاح میں اللہ کا مطلب بات کرنے سے جماعت سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے 302 قرآن کی تعلیم جہاں تک ممکن ہو بغیر معاوضے کے ہو 99 204 انسان اور اللہ کے فیصلہ کرنے میں فرق غلط فیصلہ پر بھی اطاعت اور صبر کا نمونہ دکھاؤ فیض قادیان میر قاسم علی صاحب قانتہ شاہدہ صاحبہ قربانی 491 544 260 432,472,524,651 قربانی کرنے والوں کا اور اُن کی اولاد کا ولی بننا قربانی کی وہ روح جو پیدا ہونی چاہیئے 266 153 393 627 قرآن کی تعلیم نو مبائعین کو دی جائے قرآن کی عملی زندہ تفسیر آنحضرت تھے قرآن کی مستقبل کی خبروں پر مشتمل آیات پر عقلیں 669 937 ششدر رہ جاتی ہیں 322 قرآن کے مقام کے سامنے کسی اور کا مقام نہیں 768 قرآن کے نزول کے وقت عرب میں ٹھنڈی ہواؤں کا تصور نہیں تھا 631 قرآن میں استنباط کے طور پر فرشتوں کے عرش اٹھانے کا ذکر ہے 779 892 قربانی نہ کرنے والوں کو ہونے والے نقصانات 399 قرآن میں حیرت انگیز توازن اور اعتدال قربانیوں کا مضمون صرف غلبہ دین کی خاطر چندوں سے نہیں قرآن میں خدا کا تصور اور اس کی صفات بلکہ مستقل انسانی ضروریات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے 621 قرآن میں شیطان کا نام غرور احمدیت کی تاریخ گواہ کہ خلوص کے ساتھ قربانی کرنے قرآن میں کمپیوٹر کی ایجاد کا بنیادی ذکر والا ضائع نہیں ہوتا غریب صحابہ جنہوں نے دین کے آغاز میں قربانیاں دی 4 دفعہ غیوب کا لفظ اُن کو اللہ نے ایسے رنگ لگائے کہ مثال نہیں دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار 393 622 قرآن میں 49 مرتبہ غیب کا لفظ استعمال ہوا ہے اور 177 359 355 330 اسماء باری تعالیٰ کا سورۃ فاتحہ میں مندرج اسماء سے بنیادی تعلق 483 ضروری ہے مخفی قربانی کی اہمیت قرض قرضہ حسنہ والی تجارت اور اس کے دو پہلو اللہ کو قرضہ حسنہ دینے سے مراد 658 621 الحمد کار بوبیت سے تعلق 330,333 اللہ کے اور اک کے حوالہ سے انسان کا دائرہ اور قرآن اور آنحضرت کی تعلیم 626 9,622 اللہ نور السموات والارض کا مطلب بدع اور خلق میں فرق آنحضرت نے کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی مگر قرضے لئے 10 بسم اللہ میں رب کے ذکر کے نہ ہونے کی وجہ 158 808 160 198
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 49 بسم اللہ میں رحمان، رحیم کا پہلے اور فاتحہ میں اللہ کے بعد ربوبیت کا ذکر ہے، اس کی حکمت 199 355 آئندہ کی ہر ایجاد کی بنیاد کا قرآن میں ذکر ہے سورہ یوسف بڑے گہرے مضامین سے بھری پڑی ہے 375 جب بہت ہی شاندار مضمون بیان ہوتو الحمد للہ بے اختیار سورۃ الصف کی پیشگوئی احمد کی دو طرح سے جلوہ گری 956,957 650 سورۃ فاتحہ میں اللہ کی چار صفات کا ذکر 181 427 اس آیت کا حصہ بن جاتا ہے جبرائیل کے ساتھ رمضان میں آنحضرت کا قرآن کا دور 70 سورۃ فاتحہ میں لفظ حمد کا گہرا اور وسیع معنی دعوت الی اللہ کے حوالہ سے ہر قسم کے صبر کا قرآن میں ذکر 541 فاتحہ میں مذکور صفات سے تعلق قائم کرنے کا طریق 490 دولت کا غلام بننے والوں کی قرآن میں مثال سورة فاتحه ام الكتاب سورۃ فاتحہ میں چار صفات کا تذکرہ 648 372 790 شادی پر تقوی کی تکرار پر مشتمل آیات کے چناؤ میں حکمت 241 رکھنے والی ایک آیت مبر کے ساتھ نصیحت کا قرآن میں ذکر صبر اور صلوۃ کو قرآن میں اکٹھا باندھا گیا ہے صفات باری تعالیٰ کی ماں سورۃ فاتحہ ہے صفت صبور، صبار نام کی قرآن میں نہیں پائی جاتی 504 604 فجر کے وقت تلاوت کی اہمیت 786 قوم قوموں کی اخلاقی قدروں کے عروج و تنزل سے تعلق 43 قوموں کے عروج و زوال سے اللہ کی مالکیت کا تعلق 181 ہزاروں سال سے بداخلاقی پر قائم قوموں کی حالت 887 قیامت تک جاری رہنے والا سلام 437 قیامت صرف حدیث میں ہے، اس کی وجہ 501,502,508 قیامت کے دن اللہ سب سے زیادہ شکور ہوگا 132 عربوں کے لئے قرآن کے ترجمہ کی ضرورت قیامت کے دن ستاری کے فیصلے غنی کا لفظ قرآن میں دو طرح سے انسان کو اس کی بعض مہلک قیامت کے روز اللہ کی آٹھ صفات حالتوں سے متنبہ کرنے کے لئے آیا ہے فجر سے مراد ایک عظیم روحانی انقلاب ہے قوموں کی اخلاقی قدروں کے عروج و تنزل سے تعلق رکھنے والی ایک آیت کائنات کا چار dimensions میں محدود ہونا لیکن قرآن میں اس کے علاوہ کا بھی ذکر ہے 406 669 43 776 قیامت کے روز آنحضرت کا شفاعت کرنا ابتداء میں چار صفات اور قیامت کے روزان کے آٹھ ہو جانے کی حقیقت روز مرہ اور قیامت والا یوم الدین کارلائل اس کا آنحضرت کے نور کو پہچاننا کائنات اور رفعتوں کی بناء عدل پر ہے 151 647 646 186 187 782 184 875 مالک یوم الدین کو زمانہ سے باندھے جانے کی وجہ 180 کائنات 279 488 مچھر کی مثال میں فما فوقتہا سے مراد نوجوان نسل سے نارو یجئین زبان میں قرآن کا ترجمہ کا ئنات کا اپنی مجموعی قابل استعمال توانائی میں کم ہونا اور 118 اس کی وجہ کرنے کی حضور کی امیر صاحب کو ہدایت آدم کے ایک بیٹے کا قتل کرنا اور اللہ کا کہنا کہ سب کو قتل کر کائنات کا تموج سے پیدا ہونا دیا، اس سے مراد 336 کائنات کا چار dimensions میں محدود ہونا 814 811
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 لیکن قرآن میں اس کے علاوہ کا بھی ذکر ہے کا ئنات کا آغاز کیسے ہوا 50 776 172 گلاسکو گناه کائنات میں زندگی کی تمام قسمیں امتحانات میں آزمائی گناہ سے نجات بخشنے والا احساس جاتی ہیں 391 جنت کے گناہ جن کی بخشش کی طلب ہے تمام نظام کائنات صفات باری تعالی سے پھوٹتا ہے 386 گواہی 138,635 354,356 902 ڈارون کو کوئی معلوم نہ تھا کہ fittest کیا ہوتا ہے 391 انسان کے اعضاء کی گواہیاں ربوبیت کا نظام ساری کائنات میں جاری ہے 184 مادی کائنات کے ہمیشہ سے نہ ہونے کی بابت آئن سٹائن کا نظریہ کراچی کرشن کرامات الصادقين کرم الہی ظفر صاحب کریم اللہ کسری کشاف کشمیر کلام محمو کلیات اقبال کوریا 163 18,741,780 گوجرانوالہ گوجره گوئٹے مالا 354 18 989 585 گوئٹے مالا میں ایم ٹی اے دیکھے جانے کا تاریخی دن 463 934 | گیانا 432 لاس اینجلس 267 444 688 195 978 467 140,261 17 18 لاہور لطیفه لغو 15 954 18 ایک کشتی پر چوہدری، میراثی کا وار ہوا اور گرداب میں پھنسنا695 نفس کو لغویات سے محروم رکھنا کوئی بڑی بات نہیں 659 لقاء لقاء کا مضمون 410 کوئٹہ کھیل اس رمضان میں خدا سے لقاء کے جاری وسفر کا نصیب ہونا ما نگیں اللہ کی لقا اور اس کے ملنے کا لامتناہی سفر حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں کرکٹ کا میچ اور حضور کا جواب 273 لندن جسمانی صحت سے متعلق کھیلوں کو لہو ولعب نہیں کہہ سکتے 273 کیمبرج یونیورسٹی کینیڈا 858 14,15,585,587,743,838 ہے کینیڈا ایک قسم کے تضا داستان ہم من گجرات (صوبہ) 74 73 450,469,976 لنگر کو حضرت اقدس نے جماعت کے مقاصد کا پانچواں حصہ قرار دیا ہے 742 لوکاس صاحب 267 748 464 691 432
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 لیلة القدر 51 مالی قربانی کے نتیجہ میں ملنے والا رزق 599 581 لیلۃ القدر کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات 149 مالی قربانی میں اضافہ کی کئی راہیں ہیں لیلۃ القدر کے 80 مہینوں سے بہتر ہونے سے مراد 146 مالی قربانی میں جو معمولی وعدے لکھواتا ہے با وجو د مالی فراخی لیلۃ القدر میں سلام سے مراد لیلۃ ، جماعت احمدیہ کی لیلۃ القدر سارازمانہ نبوی لیلۃ القدر پر محیط ہے مطلع الفجر سے مراد یہ لیلۃ القدر کا زمانہ ہے، اس کی اہمیت آنحضرت کا ذکر لیلۃ القدر کے حوالہ سے لینن مارکس ماریشس 146 152 144 143,152 142 448 23 23 15,585,737,838 مال / مالی قربانی مال خرچ کرنے میں مومنوں کا فائدہ ہے مال کے ساتھ خبیث لفظ کے استعمال میں حکمت مال کے ہوتے ہوئے دو قسم کے بدنصیب لوگ مالی قربانی دین کا لازمی حصہ ہے 590 420 652 624 کے ، ایسے لوگوں کی تربیت کے متعلق حضور کا انداز 706 مالی قربانی میں ظاہراً اور سر چندہ دینے میں حکمت 595 مالی قربانی میں نیتوں کو کھنگالنے کی تعلیم 420 مالی قربانیوں اور سودے کرنے والی اقوام کے لئے باریک راہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے مالی نظام کا مقصد 630 831 مالی نظام کی زندگی کی بقا کا راز 227 نا پاک مال خدا کے حضور پیش ہی نہیں ہو سکتے ، وجہ 420 افریقہ کے احمدیوں کو ہدایت کہ پیسہ دیں خواہ ایک دمڑی ہو 714 اللہ کی راہ میں خرچ مال ہی آگے بھیجا جاتا ہے اللہ کی رضا کی خاطر مالی قربانی کا اجر 79 590 اللہ کے مقابل پر استغناء کرنے والی قوم کے بدلہ خدا اور لے آتا ہے 401 مالی قربانی کا جماعت کو جو اعزاز ملا ہے اس کی نظیر عائم المنبر رسالہ میں جماعت کی مالی قربانی کا ذکر میں نہیں مالی قربانی کا نفس کی پاکیزگی سے تعلق 586 828 12 انبیاء اپنی قربانی کی سب سے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں 601 652 انگلستان کے ایک امیر ترین شخص کا خود کشی کرنا بعض بھیلوں کی دنیا میں کنجوسی مگر دینی معاملات میں بڑھ چڑھ کر قربانی کرنا 656 مالی قربانی کی اہمیت از ارشادات حضرت اقدس مالی قربانی کی اہمیت کے متعلق احادیث مالی قربانی کے حوالہ سے اللہ کی صفت غنی مالی قربانی کے حوالہ سے جماعتوں کے کوائف 827 651 412 585 پاکستان کی جماعت کے مالی قربانی میں بلند معیار کی بابت حضور کی خواہش 582 مالی قربانی کے حوالہ سے عہدہ دار کو نمونہ بننے کی ضرورت 708 جس تیزی سے جماعت پھیل رہی ہے اس تیزی سے مالی مالی قربانی کے حوالہ سے قرآن میں دو غلاموں کی تمثیل 820 تقاضے بڑھ رہے ہیں مالی قربانی کے لحاظ سے ناشکرے لوگ مالی قربانی کے نتیجہ میں اموال میں برکت کے 643 616 جماعت میں عظیم الشان مالی قربانیوں کے نظاروں کی وجہ 6 حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک صحابی جنہیں ماٹا مالی قربانی کے نتیجہ میں مال میں برکت کے حصول کا طریق 596 کہتے تھے ان کا حضور سے پیسے مانگنا آپ کا اسے دو آنے
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 دینا اور تجارت کا طریق سکھانا اور برکت پڑنا 614 52 کیوں دی؟ وضاحت خواب میں اگر کوئی دیکھے کہ جگر نکال کر دیا ہے تو اس سے دین کی بجائے دنیا پر خرچ کرنے والوں کی مثال مراد مال ہے دولت کا غلام بننے والوں کی قرآن میں مثال 654 648 سود والے کو حضرت مسیح موعود نے نہیں فرمایا کہ اسے چندہ دے دو سال پر غور کرتے ہوئے مالی توفیقات کے بڑھائے جانے قربانی کو ٹیکس سمجھنے والوں اور بہانے بنا کر کم چندہ دینے کا جائزہ لیں سودی ملکیت کے تصور میں خباثت 985 422 والوں کے حوالہ سے ذکر 631 631 421 825 مالی قربانی کو بوجھ سمجھنے والوں کے کام وہ قربانی نہیں آتی 650 شوری میں مالی اخراجات سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں 213 مالی قربانی میں تیم کا مطلب 407 محبت کے خرچ دنیا کی خاطر ہو نہیں سکتے ، اس کا ثبوت 644 غریب کی مالی قربانی کا بڑھنا کیا ہر بخیل کا مال برباد ہو جاتا ہے؟ وضاحت نیت پر مالی قربانی کی تان ٹوٹتی ہے وہ فقراء جن پر خرچ کرنے کا حکم آیا ہے ہجرت کے مضمون کا مالی فراخی سے تعلق 630 651 631 591 582 نو مبائعین کو مالی قربانی کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی 581 وہ لوگ جن کا مال ان کے لئے ہلاک ہو جاتا ہے 609 ماں ماں کی بچہ سے محبت صفت حمید کا اظہار ہے 396 ہر ابتلا کے بعد جماعت کی مالی قربانی میں بے پناہ اضافہ 580 وہ مائیں جو نرمی کی وجہ سے بچوں کو بگاڑ دیتی ہیں 427 اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے سے ہلاکت میں ڈالنا 642 مایوسی انفرادی طور پر بعض اوقات لوگوں کے نام لینے کی وجہ 826 تذکیر کے کام میں مایوسی ہے ہی نہیں، آنحضرت کا اسوہ 665 584 حضرت زکریا کا مایوس نہ ہونے کا اعلان 665 930 811 بعض لوگوں کا حضور کو لاکھوں روپیہ چندہ دینا پاکستان کے ایک امیر شخص کا کہنا کہ اندر آگ لگی ہوئی ہے 610 شیخ مبارک احمد صاحب جماعت احمد یہ کامالی قربانی کے لحاظ سے سورۃ الحدید کی مبارک ظفر صاحب چند آیات سے تعلق 620 مبشر احمد صاحب جماعت کے مالی نظام کا وہ مخفی حصہ جس پر نظر نہیں جاتی 825 جماعت جرمنی کے فدائی کارکن کی وفات پر ذکر خیر 636 مبشر باجوہ کی جرمنی میں اچھی اور بُری شہرت کا ذکر 117 جماعت میں مالی قربانی کے سال کی کل رقم 581 حضرت اقدس نے دود و آنے کا کتابوں میں شکر یہ ادا کیا ہے 581 مبشر باجوہ مرحوم حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے مال خرچ کرنا جزوایمان ہے 655 مد مغل خیل مجلس 693 254 خواب میں گند اور فضلہ میں ہاتھ ڈالنے سے مراد مال ہے 655 مجلس میں گئیں لگا نیوالے ایک شخص کے اپنے بچے کا رد عمل 428 دنیا پر خرچ میں بھی اللہ کی محبت کی گرمی پیدا کی جاسکتی مجید احمد خان 444 ہے، اس کا طریق دنیا میں مال خرچ کرنے والوں کی مثال سرد ہوا سے 632 محبت محبت سے خرچ کے معیار بھی بدل جاتے ہیں 629
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 محبت کی عطا کے قبول ہونے کا طریق محبت کی وجہ سے تعلیم کا رشتہ 53 629 867 آنحضرت کا دنیاوی عقول کو استعمال نہ کرنا اور عقل کل سے آپ کی نشو ونما ہونا 863 448 محبت کے خرچ دنیا کی خاطر ہو نہیں سکتے ، اس کا ثبوت 644 آنحضرت کا ذکر لیلۃ القدر کے حوالہ سے اس دنیا اور آخرت میں خدا کی محبت کے حصول کا طریق 630 آنحضرت کا سب انبیاء سے بڑھ کر خدا کا قرب حاصل تحفہ جتنا قیمتی ہو اگر کسی سے محبت نہ ہو اور وہ لے لے تو صدمہ پہنچتا ہے 627 کرنے کا راز آنحضرت کا سینہ نور کا طاق تھا 28 851 مخفی طور پر اللہ سے محبت کرنے والے انسان کے ساتھ آنحضرت کا شفقت اور رحمت کے نتیجہ میں رونا 396 ایک مخفی ہاتھ جو اعجاز کے طور پر کام کرتا ہے حضرت محمد مصطف عمان الله 644 678 آنحضرت کا صحابہ کے حوالہ سے پیدا کردہ انقلاب 214 آنحضرت کا عرب کی سرحدوں کی حفاظت کرنا آنحضرت اور حضرت عیسیٰ کی تماثیل میں فرق آنحضرت اور قرآن کریم حبل اللہ 64 939 آنحضرت کا مالی اخراجات کے متعلق آخری فیصلہ اور صحابہ کا مقام آنحضرت اور آپ کے غلاموں کیصبر کے عظیم نمونے 552 آنحضرت کا مجسم حق بننا آنحضرت بطور سراج منیر آنحضرت بطور مذکر آنحضرت پر خدا سب سے زیادہ روشن ہوا آنحضرت پر ہونے والی وحی کا کمال 111,877 667 351 865 آنحضرت کا مخالفین کے لئے اپنی جان پر ظلم 213 453 518 آنحضرت کا مزاج کا بغایت درجہ وضع استقامت پر تھا 872 آنحضرت کا معراج آنحضرت کا مکارم اخلاق پر فائز فرمایا جانا آنحضرت تمثیل کے طور پر زیتون کا درخت،اس سے مراد 862 آنحضرت کا نور علی نور ہوتا 922 22 974 آنحضرت صبر کی وجہ سے رحمۃ للعالمین بنے آنحضرت صبر کے سب سے بلند معیار پر آنحضرت کا اپنے رب کو دیکھنا آنحضرت کا اپنے آپ کو کلیۂ خدا کے تابع کرنا آنحضرت کا اعتدال اور توازن آنحضرت کا ایک لمحہ بھی غفلت کا نہ تھا 557 505 949 588 893 685 آنحضرت گانور کے حصول میں سب سے بلند مقام 847 آنحضرت کا نور آپ کی وفات کے بعد بھی جاری ہے 943 آنحضرت محاوحی کے نزول کے آغاز پر عجز کا اظہار اور ساری زندگی کامل عجز 874 آنحضرت کا نور علی نور ہونا 875 آنحضرت کس حد تک تمام صفات میں آگے بڑھے 923 آنحضرت گا اُس زمانہ میں جنت و جہنم کی مکانیت کا تصور آنحضرت کو امی کہنا آپ کی عظیم تعریف ہے صحابہ کو بتانا جبکہ dimensions کا تصور بھی نہ تھا 331 آنحضرت کو خالصہ اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں مستقبل کی آنحضرت کا اُمی ہونا آپ کی منفر د صفت ہے تمام صحابہ کے مشورہ کو حدیبیہ کے مقام پر رد کرنا آنحضرت کا حسن اختلاط 869 303 885 غیب کی خبروں کا ملنا 863 323 آنحضرت گورعب کی نصرت عطا فرمائی جانا ، اس سے مراد 453 آنحضرت گوزراعت کا علم حاصل تھا آپ کا خلق عظیم پر واقع ہونا، لفظ عظیم کی بحث 880,882 آنحضرت کو سورج کہنے میں حکمت 104 887
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 آنحضرت کوصحابہ سے مشورہ لینے کا حکم آنحضرت کو ملنے والی مالکیت کی وضاحت 216 312 54 آنحضرت کے اخلاق میں تازگی کا پایا جاتا آنحضرت کے استغفار کی کثرت کی وجہ 884 753 آنحضرت کو وسیلہ بنایا جانا ، اس کی وجہ 882,886 آنحضرت کے اندر کوئی کدورت نہ تھی ، اس سے مراد 898 آنحضرت کی بعثت سے دوسرے تمام نبیوں کے فیوض آنحضرت کے اندرونی نور کی شان کے چشم ختم کر دیئے گئے آنحضرت کی پیروی میں نور کا سفر آنحضرت کی تبلیغ کی کامیابی کا نکتہ دعا ہے آنحضرت کی تلاوت کا اثر آنحضرت کی خاتمیت کا حقیقی معنی آنحضرت کی ختم نبوت کا غلط تصور آنحضرت کی ذات میں احسن تقویم کا جلوہ 189 888 506 96 350 349 856 876 908 277 آنحضرت کے انکسار کا عالم آنحضرت کے اہل مکہ پر احسانات آنحضرت کے تمام عالم پر فوقیت کی وجہ آپ کا ذاتی نور تھا 297 آنحضرت کے حواس خمسہ لطیف اور نورانی تھے آنحضرت کے دائی معلم ہونے کا ثبوت آنحضرت کے دل پر خدا کی جلوہ گری آنحضرت کے دل پر عرش الہی کا جلوہ گر ہونا 858 107 778 793 853 آنحضرت کی ذات میں دیگر انبیاء کے اخلاق کی حفاظ 22 آنحضرت کے دل کی صفائی کا عائم آنحضرت کی سیرت کے بغیر تو کوئی بات ہوتی ہی نہیں 916 آنحضرت کے ذکر میں زیتون کے درخت سے تشبیہ 853 آنحضرت کی عالمی بعثت کا توحید سے تعلق آنحضرت کی عبودیت اور عبدیت کے نمونے نور کے 921 36 آنحضرت کے رحمۃ للعالمین ہونے کا مطلب آنحضرت کے زندہ رسول ہونے سے مراد 504 960 حصول کے لئے ضروری ہیں آنحضرت کی عظمت کو سمجھنے کے لئے حضرت اقدس کی آنحضرت کے سراج منیر ہونے میں حکمت آنحضرت کے سب سے پہلے وجود پذیر ہونے سے مراد 923 884 آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے آنحضرت کے شیطان کا مسلمان ہونا آنحضرت کی فطرت کو اندرونی طور پر کوئی خطرہ نہ تھا 872 آنحضرت کے ظرف کانور کی طلبی کے حوالہ سے تدریجا آنحضرت کی قیامت کے دن شہید ہونے کی حقیقت 320 ترقی کرنا 894 910 911 آنحضرت کی مجلس شوری سارا سال جاری رہتی تھی 217 آنحضرت کے قیامت تک رسول ہونے کا ایک مطلب 106 آنحضرت کی معیت کی جنتیں آنحضرت کی نصیحت کا عالم آنحضرت کی نور کے پیدا کرنے کے لئے دعا آنحضرت کی نور کے حصول کی دعا 899 504 908 920 آنحضرت کے نور کا ایک اندھیری رات سے پھوٹنا 669 آنحضرت کے نور کی کیفیت آنحضرت کے وجود کا کل عالم سے تعلق آنحضرت کے وسیلہ ہونے سے مراد آنحضرت کی وجہ سے ہمیں عظیم صراط مستقیم پر دوڑایا گیا آنحضرت کے وسیلہ ہونے کی حقیقت ہے اس لئے ہر صلاحیت کو استعمال کرنا ہے آنحضرت کی ہدایت کی صلاحیتیں اللہ کے اذن سے 887 وابستہ تھیں 588 آنحضرت کے وسیلہ ہونے میں حکمت آنحضرت کے وقت صفات الہیہ کا کامل ارتقاء آنحضرت مجسم ذکر الہی اور نور 85 855 917 939 878 348 785
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 آنحضرت مقام محمود پر فائز آنحضرت میں تکلف کا بالکل نہ ہوتا آنحضرت نے ابراہیم کو معراج میں دیکھا کہ بچوں 671 867 185 55 درود کا آنحضرت کے احسانات سے براہ راست تعلق 918 رحمانیت سے محمد اور رحیمیت سے احمد کا تعلق رحمن خدا سے تعلق کے ساتھ آنحضرت سے تعلق قائم رکھنا بہت ضروری ہے الله 200 246 کی تربیت کر رہے ہیں آنحضرت نے اپنی امت کا علم بڑھانے ،سکھانے ، تربیت رمضان میں آنحضرت ﷺ کے صدقات کی کیفیت 69 پر جتنا زور دیا اس کی تفصیل کسی اور نبی میں نہیں ملتی 105 سارا زمانہ نبوی لیلۃ القدر پر محیط ہے آنحضرت نے اللہ کو نور کی شکل میں دیکھنا 809 آنحضرت نے بالعموم سوائے ایک دو واقعات کے مشوروں کو جو مقاصد بتائے گئے ہیں 218 144 صفات باری تعالیٰ کا کامل علم آنحضرت کو دے کر مسلمانوں صفات باری تعالیٰ کے تعلق میں محمد اور احمد کا ذکر 248 200 کالحاظ فرمایا ہے آنحضرت نے کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی مگر قرضے لئے 10 صفات باری کا علم سب سے بڑھ کر آنحضرت کو عطا ہوا 199 353 150 875 آنحضرت وہ آدم ہیں جن کو تمام اسماء سکھائے گئے 166 فیض نبوت سے دنیا کا علوم سے فیض پانا اللہ آپ کی جنت تھی کارلائل کا آنحضرت کے نور کو پہچاننا حدیبیہ کے مقام پر حضور کا تمام صحابہ کے مشورہ کو نہ ماننا 218 کیا آنحضرت پر بھی کوئی ایسے لمحات آئے کہ اللہ کو کہنا پڑا معراج کی شب جبرائیل کے پیچھے رہ جانے کی وجہ 781 کہ صبر کر، اس کی وضاحت آنحضور کا ایک موقع پر کھجور کی پنیری دوسری جگہ منتقل مسیح کی دعا اے خدا جو آسمان پر ہے زمین پر بھی اتر کرنے سے منع فرمانا اور اس سال فصل کا ضائع ہونا 103 یہ آنحضرت کی ذات میں پوری ہوئی آپ کی وسعتوں کا عظیم تر ہو کر بنی نوع کی وسعتوں سے معراج کے وقت آنحضرت کے دل کا نقشہ بڑھ کر پھیلنا 865 894 معراج آپ ﷺ کی روحانیت کا سفر تھا منافقین کا آنحضرت کے سامنے ہدایت کا اعلان جبکہ محمد کے نور کو اپنانے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے ابوبکر کا بغیر کسی دلیل کے آنحضرت پر ایمان لانا 940 دل بد بخت تھے 554 333 774 766 589 95 احمدیت کی تخلیق کا مقصد ہے اتمام نور مصطفوی 960 آپ کی رسالت کے چار عظیم فرائض اسلام لانے سے قبل جن صحابہ نے آنحضرت ﷺ کو دکھ آپ کی شفاعت سے سب انبیاء بھی شفاعت پائیں گے 187 دیئے حیا سے اُن کی آنکھیں بعد میں نہیں اٹھتی تھیں 523 آپ ﷺ کی خاطر ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے 140 اللہ کے نور کے ساتھ آنحضرت کے ذکر کی وجہ اللہ کے ساتھ ساتھ آنحضرت کی طرف سفر بیک وقت محمد اور اللہ سے تعلق رکھنا شرک نہیں بلکہ تو حید کامل خندق کھودے جانے کے دوران سخت پتھر کا آنا اور کا درس ہے 803 919 تین علاقوں کی فتوحات کی بشارتیں تذکیر کے کام میں مایوسی ہے ہی نہیں، آنحضرت کا اسوہ 665 دنیا کا سب سے زیادہ صبر کرنا والا دنیا کا سب سے بڑا جنگ بدر میں عبادت کے حوالہ سے آنحضرت کی دعا اور داعی الی اللہ کایا پلٹنا 513 کثرت سے اپنے معیت میں بسنے والوں کو اپنے نور کی 926 687 556
56 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 شان عطا کرنے والا دنیا میں بھی کوئی نبی پیدا نہیں ہوا 895 مردان محمدیت اور احمد بیت کا مرتبہ آپ پر عالمی نور نازل ہوا جس کا فطرت سے باندھا جانا ضروری ہے محمد اسماعیل صاحب شہید سیٹھ محمد اعظم شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ ان کا ذکر خیر اور ان کی نماز جنازہ غائب محمد اکرم احمدی صاحب محمد ا کرم صاحب عمر محمد الشواء ایڈووکیٹ محمد انور 253,254 432 247 مرلی دھر مسجد 986 958 444 مساجد کے نام اللہ کی صفات پر رکھے جانا مسجد بشارت سپین انگلستان میں ایک بڑی مسجد کی ضرورت اور حضور کے ذہن میں مسجد کا نقشہ 268 234 464 990 444 پاپوانیوگنی کی مسجد کے بنانے میں مشکلات کا ذکر اور ایک عجیب نشان 234 251 138 235 پاپوانیوگنی میں مسجد بیت الکریم کے افتتاح کا اعلان 233 جماعت کی مساجد کے دن بدن بھرنے کی خوشخبریوں کا ملنا 136 حضرت مصلح موعود کے دور سے پہلے ہفتہ کی آمد مسجد کے چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت شیخوپورہ لئے دینے کی نیک روایت ان کی وفات پر ذکر خیر محمد حسین بٹالوی محمود احمد خان، باڈی گارڈ محمود احمد ناصر، میر پرنسپل جامعہ احمدیہ سید محمود اللہ شاہ صاحب محمودہ بیگم مخالفت خداوالوں کی مخالفت دائمی ہے 987 301 260 191 638 101 41 17 136 ربوہ کی مساجد کا رمضان میں چھوٹا ہونا عطاء المجیب راشد صاحب کا مسجد کی تحریک کے اعلان پر خطبہ کے دوران ہی چندہ کی چٹ بھیجنا اور حضور کی شفقت 153 مساجد کی تعمیر اور توسیع کے ایک نئے دور کی تحریک 137 یورپ کی جماعتوں کو تحریک کہ والدین اپنی کمانے والی اولاد کو تحریک کریں کہ پہلے ہفتے کی آمد مسجدوں میں دیں 17 آپ ﷺ کی خاطر ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے 140 مسعود مبارک شاہ صاحب مخالفین کے بد انجام کے حوالہ سے آنحضرت کو صبر کی تعلیم 515 امام مسلم مذہب مسلمان مذہب اعلیٰ اخلاق سے پھوٹتا ہے اور اعلیٰ اخلاق کو مزید مسلمان اور احمدی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صیقل کرتا ہے مذہب کی بنیا داعلی خلق پر ہے مربی 25 به شه 22 مسلمانوں میں جسمانی کمزوری کے وقت آنحضرت کا 319 809 447 بد دعا سے بھی منع کرنا اور صبر کے واقعات سنائے 502 صحیح مسلم 12,69,280,633,786,809,904 915 107 مسند احمد بن حنبل مسند الامام الاعظم 119 37 بنگلہ دیش میں ست اور مستعد مربی تبلیغ کے بعد ہر مبلغ پھر لازمی مربی بنتا ہے
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 مشتاق احمد صاحب چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب مشوره مشورہ انسان کی صلاحیتوں کو چمکاتا ہے مشورہ اور خدا پر توکل کا مضمون 444 443 220 220,229,304 57 آنحضرت کا معراج معین احسن جذبی سیٹھ معین الدین مغفرت 922 126 444 مغفرت کا سب سے زیادہ تعلق رحمانیت سے ہے 243 اللہ اور انسان کی مغفرت میں فرق 62 خلفاء مشورہ سننے کے بعد رد کرتے یا قبول کرتے اور پرواہ امت محمدیہ میں سے ستر ہزار بے حساب بخشے جائیں گے 646 نہ کرتے کہ اکثریت کی یا اقلیت کی رائے ہے شوری اور اللہ پر توکل ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت شوری طلب کرے یا امیر 303 224 انبیاء کا بھی کہنا کہ محض اللہ کے کرم سے بخشش ہوتی ہے 522 انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ مغفرت کا تعلق رمضان میں ایمان کے تقاضوں اور ثواب کی نیت کے نتیجہ طلب کرے، بلکہ مشورہ کا رواج اسلام کا امتیازی شان ہے 225 میں بخشش کے مضمون کی وضاحت قاضی مظفر احمد صاحب معاشرہ معاشرہ میں پکڑ کے ڈر سے جھوٹ کا بولا جانا معاشرہ میں زہر گھولنے والی چیزیں 444 430 مہمان نوازی اور مغفرت کا تعلق جنت کے گناہ جن کی بخشش کی طلب ہے میاں مغلا 428 مقام محمود بدخلقی کے حوالہ سے معاشرہ جس کو کہے ایسے شخص کو تسلیم کر اس کی تعریف اور تہجد کے ساتھ اس کا وعدہ لینا چاہئے 32 11 68 524 902 476 670 بیعتوں میں اضافوں کے حوالہ سے مختلف مقامات محمود 672 صبر کی طاقت نہ ہوگی تو ہمیشہ غریب آدمی سے سوسائٹی کو ہر مقام محمود میں داخل ہونے کے بعد ہر مقام سے ایک 605 اور مقام محمود میں نکلنے کی دعا کرنی ہے زیادہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ہمارے معاشرہ میں کسی کا مذاق اڑانے کے لئے لطیفے بنانا 473 مکتوبات احمد معجزه اللہ کے خارق عادت اعجاز نمائی کی وجہ 645 مکحول (تابعی) مکه مخفی طور پر اللہ سے محبت کرنے والے انسان کے ساتھ ملا نگہ اللہ ایک مخفی ہاتھ جو اعجاز کے طور پر کام کرتا ہے 644 ملائیشیا تائیدی نشان دو قسم کے ہوتے ہیں معراج 979 675 948 763 218,277,557,667,679 769,779 234 لملفوظات 564,569,573,577,685,775 منڈی بہاؤالدین معراج کی شب جبرائیل کے پیچھے رہ جانے کی وجہ 781 منصب امام معراج کے وقت آنحضرت کے دل کا نقشہ 774 صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب معراج آپ ﷺ کی روحانیت کا سفر تھا 766 ڈاکٹر منظور احمد 444 958 583 260
مہمان نوازی اور محبت 521 مہمان نوازی اور مغفرت کا تعلق مہمان نوازی کا صفت غفور سے تعلق 524 520 مہمان نوازی کا قرآنی آیات کی روشنی میں تذکرہ 519 مہمان نوازی کے تعلق میں رزق کریم سے مراد 523 مہمان نوازی کے حوالہ سے ایک عرب بدو کا واقعہ کہ 58 639 661 367 443 442 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 میاں منظور وٹو منہائم ، جرمنی موت موت اجزاء کے منتشر ہونے کا نام ہے موت کی خاطر دومیاں بیوی کا ربوہ آنا موت کے فرشتے حضرت موسی 148,170,348,770,778,895,908 میز بان روٹی لا تا تو سالن ختم ، سالن لاتا تو روٹی ختم 538 944 موسیٰ کا بے ہو شکر گرنا ایک روحانی واقعہ تھا مہمانوں کو کون سی صفات اپنانی چاہئیں موسیٰ کے مزاج کے مطابق موسوی شریعت کا نزول 869 مہمانوں کو نماز قائم کرنے کی تلقین موسیٰ کے مقابل پر ساحروں کی حالت مہمانوں کے قرضہ مانگنے کا بُرا نتیجہ 435 529 532 531 موسٹی کا ساحروں کے فریب پر غالب آنا ، نفسیاتی نکتہ 460 ربوہ میں جلسہ کے دوران گھروں میں مہمانوں کی رہائش 524 532 528 278 کا طریق اللہ کے مہمان بننے والی صفات اللہ کے مہمانوں کی ویسی مہمان نوازی کریں جو اللہ اپنے بندوں کی کرتا ہے ایک صحابی کی مہمان نوازی پر خدا کا مچا کے لینا 475 402 982 موسیٰ کے ایک مکے سے مد مقابل کا مرنا موسی ، فرعون کے پیچھے آنے پر ان الله معنا کا کہنا غیر معمولی ایمان کو چاہتا ہے مولوی مولویوں کی ایم ٹی اے کے خلاف سازش علماء کی ملاقات میں حضور کو کھلی دھمکی اور کھلا خط شائع کرنا 976 ایک مہمان کا مسجد کو گندہ کرنا اور آنحضرت کا خود دھونا 525 مخالف مولویوں کو چیلنج کہ وہ لاکھ زندہ رہیں مگر احمدیت توفیق سے بڑھ کر مہمان نوازی کا حکم نہیں 979 522 کی پسپائی نہیں دیکھ سکتے محبت کے نتیجہ میں مہمان نوازی بھی بدل جاتی ہے 629 جماعت کے خلاف مولویوں کا اکٹھ اور ان کی منصوبہ بندی 975 میز بان کیسا ہی ہواپنے مہمان کی خاطر جھکتا ہے 529 آنحضرت ﷺ نے تین دن کی مہمان نوازی رکھی ہے مومن مومن پر بوجھ ڈالا جائے تو اور ترقی کرتا ہے مومن کی فراست سے ڈرو مومن کے اسلام کی آزمائشیں 702 296 اس کے بعد صدقہ ہے میر حامد شاہ صاحب 400 عبد السلام کرکٹر تو کل اور اللہ کے فضل سے مومن کا مشکلات سے نکلنا 724 حضرت میسرہ غیب سے ہمیشہ مومن کے لئے ایسے امور رونما ہوتے ہیں حضرت میمونہ جو اس کے دل کو پسند ہوں، تھوڑی تکلیفیں بھی ہوتی ہیں 367 چوہدری نادر علی خان مهمان نوازی ناروے 537 484,485,486 485 766 907 444 123,586,742,750,811 مہمان کے مزاج کے مطابق چیزیں مہیا کرنے کی تعلیم 520 ناروے جماعت کو دعوت الی اللہ کے حوالہ سے نصائح 748
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 ناروے کی جماعت کی ترقی کا ذکر ناروے کی جماعت میں انکسار اور اطاعت کا مادہ ناصر باغ جرمنی چوہدری ناظر علی خان حضرت بابا نانک نائیجیریا نبوت انبی نبوت صبر کا پھل ہے انبیاء کا صبر اور انہیں اچا نک نصرت کا ملنا انبیاء کو حاصل ہونے والی حالت مستقیمہ انبیاء کی صداقت کی ایک گہری دلیل نبوت کے منصب کے مستحق ہونے کے متعلق بحثوں کی قرآن نے اجازت نہیں دی نبی اور غیر نبی کی شان میں فرق 59 746 118 365 444 432 953 729 انبیاء کا بھی کہنا کہ محض اللہ کے کرم سے بخشش ہوئی ہے 522 انبیاء کا بھی مشکلات میں صبر کرنا انبیا ء کا وہ مقام جب وہ بد دعا کرتے ہیں 570 503 انبیاء کے مخالفین کا رحمانیت اور رحیمیت کا غلط استعمال 342 تمام انبیاء امام مہدی تھے 728 خدا کی نظر التفات پڑنے پر انبیاء کا اپنے متعلق نظریہ 722 فیض نبوت سے دنیا کا علوم سے فیض پانا نسیم دعوت 150 788,798,904 511 حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحب 871 430 حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد اولا دکو کہنا کہ تمہارے والد نے لامتناہی دعاؤں کا خزانہ چھوڑا ہے 56 نصیحت نصیحت کرنے کے کام کو درجہ کمال تک پہنچانے کا کام بلاغ ہے 666 نبی حق لاتا ہے انبیاء کا خدا پر توکل انبیاء کی صاف دلی اُن کی دلی صداقت کی دلیل 722 187 448 723 461 خدا کے بندے حق کی نصیحت حق کے ساتھ کرتے ہیں 758 دشمن کے مقابل صبر کے ساتھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں 551 470 انبیاء کی وحی میں فرق کیا ہے، کیوں ہوا ہے،اس کا جواب 864 صبر کی نصیحت صبر سے بعض دفعہ نبی پر ایک غیر نبی کو ایک جزوی فضیلت ہوتی ہے 187 صبر کیساتھ نصیحت کا قرآن میں ذکر پہلے انبیاء اللہ کی بعض صفات کے مظہر تھے مگر مالکیت کا آنحضرت کی نصیحت کا عالم بار بار نصیحت ماموریت کا خاصہ ہے تذکیر کے کام میں مایوسی ہے ہی نہیں، آنحضرت کا اسوہ 665 مظہر صرف آنحضرت تھے غیب سے رسالت کا تعلق 188 321 504 504 572 982 مادی علم بھی خدا کے بعض اسماء کی تجلیات کے نتیجہ میں دنیا کو سید نصیر شاہ صاحب عطا ہوتے ہیں جو زمانہ نبوت سے تعلق رکھتی ہیں 322 نظام وہ مقام جب انبیاء کو بھی اپنے آپ میں کمزوری دکھائی نظام جماعت اور صفت سلام کا تعلق دیتی ہے باوجود معصوم ہونے کے آپ کی شفاعت سے سب انبیاء بھی شفاعت پائیں گے 187 نظام جماعت کا کام کرنے والوں میں سلامتی کی برکت 392 انبیاء اپنی قربانی کی سب سے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں 601 نظام جماعت میں سزا کے مستحق کو سزا نہ دین رحمت نہیں انبیاء کا ابتلاؤں پر نمونہ اور توکل 531 61 نظام جماعت کا احترام ہر جگہ ضروری ہے شرک ہے 388 394 403
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 60 نظام جماعت میں عملاً امیر اور غریب میں قطعا فرق نہیں، تقویٰ کا فرق ہے 600 نماز کا صبر کے ساتھ تعلق نماز کے ذریعہ کمزور لوگوں کا طاقتور بننا 565 513 نظام جماعت میں مؤاخذہ کا نظام اور اصلاح کا ہونا 416 نماز کے قیام کا مذہب کی تعلیم میں سب سے زیادہ نمایاں امیر اور جماعت کی حق تلفیوں کا محافظ خدا نے مجھے بنایا ہے 739 انتظامیہ کی کمزوری کا نقصان 115 حصہ ہے 750 نماز کے متعلق سکیمیں اور رپورٹس بنانے کی تلقین 664 جرمنی میں کوئی نظام کی بے حرمتی کی جرات نہیں کر سکتا 291 نمازوں کے پڑھنے کے باوجود بری باتیں ہونے کی وجہ 25 735 صبر کے بغیر نظام جماعت کا حق ادا ہو نہیں سکتا الہی نظام امتحانات میں وفات اور ثابت قدمی لازم ہے 731 تھپڑ مارنا امیر خدا کے نظام کا نمائندہ ہے 734 ایک صحابی کا نماز کے دوران آگے سے گزرنے والے کو تہجد کی نماز کی اہمیت 28 670 535 662 بعض دفعہ نیکی کے نام پر امیر سے سوال اور بد تمیزی کی جانا 738 جلسہ کے ایام میں نماز کے قیام کی تلقین بعض صدروں کی نا اہلی کی وجہ سے اختلافات پیدا ہونا 292 جو تہجد کے وقت اٹھتا ہے اس کی صبح کی نماز کچی ہو جاتی ہے 595 دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کے لئے شعبہ کی ہدایت 682 داعیان کے ساتھ ساتھ نئے آنے والوں کے لئے قیام میری طبیعت میں سختی نہیں مگر نظام کی خاطر سختی کرنی پڑتی ہے 394 صلوۃ ضروری ہے نظام جماعت کا وقار اور چوہدریوں اور بڑوں کو ملنے والی سزا صبر اور صلوٰۃ کو قرآن میں اکٹھا باندھا گیا ہے پر سفارش پر حضور کاردعمل عید کے دن فجر کی حاضری وہ میزان ہے جس سے وہ بات جس سے جماعت کے اندر استحکام پیدا ہوسکتا ہے 739 رمضان میں کمائے جانے والے ایمان کو تو لا جائے گا 136 394 604 نظم و ضبط کی ہر جگہ ضرورت ہے نعیم اللہ صاحب ان کی وفات پر ذکر خیر لعیم عثمان صاحب ان کی وفات پر ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب 361 638 266 قرآن میں جہاں اقام الصلوۃ آیا ہے وہاں رزقناهم ينفقون کا بھی آیا ہے اقام الصلوۃ سے مراد 212 535 اللہ کی ذات پر غور کرنے سے ربودگی اور نیند کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے، اور قرآن میں حکم ہے کہ نیند کی سی حالت میں نماز نہ پڑھیں ، اسکا جواب انسان اپنے نفس سے جتنا غافل ہوتا ہے اتنا کسی اور چیز جس کی نمازیں درست تو اس کے باقی کام بھی درست 948 سے نہیں مالی قربانی کا نفس کی پاکیزگی سے تعلق اپنی تعریف کی خاطر جھوٹی تعلیاں نماز نماز اور صبر کا تعلق 106 828 428 512 ہو جاتے ہیں جماعت میں ابھی نماز با جماعت کے قیام کی طرف پوری توجہ نہیں 537 662 حضرت ابوبکر کی نماز میں عام نمازوں کی طرح نہ تھیں 616 حضرت نوح نماز پر لانے کی ذمہ داری ڈالی جائے تو پھر مومن جھکتا نہیں 702 آپ کی قوم کے مٹائے جانے کی وجہ 757 263
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 نوح کی کشتی کے اترنے کی جگہ نور نوح کا بلاغ کا حق ادا کرنا نو راور black hole کا تصور 772 666 816 61 اللہ کے نور کا حجاب ہونا اللہ نور السموات والارض کا مطلب اللہ آسمان وزمین کا نور ہے، لطیف تشریح الہی نور کی پہچان 905 808 842 34 نور بصیرت عطا ہونے کے بعد اس کی حفاظت ضروری ہے 941 بعض دفعہ کچی خوا ہیں نور فطرت کے روشن نہ ہونے کی وجہ 812 نور بمعنی توانائی سے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں نور بنے اور اسے اپنانے کے لئے لگن کی ضرورت 894 تو حید اور نور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں 874 923 نور پانے کے لئے سب سے بڑا مقام عبودیت کا ہے 920 حضرت اقدس کے الفاظ میں سورۃ النور آمین کی تفسیر 861 نور جیسے جیسے لطیف ہوگا اتنا قوی ہوتا جائے گا نور سے زندہ کرنے کا طریق نور قرآن اور نور آنحضرت کا اکٹھا ذکر نور کا تذکرہ حضرت اقدس کے الفاظ میں 813 962 942 916 محمد پر عالمی نور نازل ہوا جس کا فطرت سے باندھا جانا ضروری ہے محمد کے نور کو اپنانے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے ہر چیز جس کا تصور کیا جائے وہ نور پر مبنی ہے آنحضرت کی نور کے پیدا کرنے کے لئے دعا اندرونی نور نہ ہو تو آسمانی نور بھی بے فائدہ ہے نور کا ماوراءالوراء ہونے کے باوجود بہت زیادہ طاقتور ہونا 814 آنحضرت کی پیروی میں نور کا سفر نور کی تشریح حضرت اقدس کے اقتباس سے 986 894 846 888 908 876 973 نور کی تعریف نور کی طرف سفر کے تقاضے نور کے حوالہ سے انسانی روح کا خدا سے رشتہ نور کے کمال کی کوئی انتہاء نہیں کیونکہ اس کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے 904 494 859 904 901 ایک آیت میں نا ر اور نور کا ذکر ، اس کی تشریح بعض بدلوگوں کا مرنے کے بعد نیکوں سے نور کا تقاضا کرنا 493 صفات باری تعالیٰ کے حسین اجتماع کا نام نور ہے 880 لولم تمسسه نار سے مراد نور کے آگے چلنے اور داہنے ہاتھ سے تعلق سے مراد 900 آنحضرت اور قرآن کے نور سے ہدایت پانے کے لئے نور کی حقیقت و ماہیت الله 803 تقویٰ کی شرط 974 938 احمدیت کی تخلیق کا مقصد ہے اتمام نور مصطفوی ﷺ 960 آنحضرت اور قرآن ایک نور ہے، اسکے متعلق وضاحت 934 احمدیت نے تبلیغ کرنی ہے تو آنحضرت کے نور سے حصہ آنکھ سے نور کا تعلق سرسری اور محدود ہے 961 نورالدین احمد صاحب لینا ہوگا اللہ کا نور کہلانے والوں میں اور اللہ میں فرق اللہ کا نور ہو جانے سے مراد اور انسان پر اس کا اثر 881 259) 844 حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ایح 454 الاول اللہ کے بعد وہ اسم جو تمام صفات سے تعلق رکھتا ہے وہ نور ہے 802 آپ نے ایک پرائیویٹ بات کے لئے مجلس میں بیٹھے اللہ کے نور سے پیدا ہونے والا ہر پر وہ نور کا لامتناہی ہونا 928 افراد سے کہا کہ اٹھ جائیں تو پہلی مرتبہ ایک اٹھا، دوسری اللہ کے نور کا اصل پر تو 928 مرتبہ دو.بالآخر آپ نے کہا کہ اب چوہدری بھی اٹھ
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 جائیں 30 62 ایک صحابی کا آپ سے پیسے مانگا اور آپ کا تجارت سکھانا 614 بر نی پر ملی قربانی کی ان ٹوٹی ہے وہ کوئی امیر و باغ ر ب 63 خواہ یا نومبالعین نومبائعین کا ابتلاؤں میں پڑنا اور اُن کا سابقہ گناہوں سے بخشش طلب کرنا نو مبائعین کا بکثرت دوسروں کی بیعت کروانا 545 547 نیکی نیک و بد دونوں کے استفادہ کے لئے دنیا میں اللہ نے چیزیں پیدا کی ہیں نیکی کا شعور در جے رکھتا ہے نو مبائعین کو تحریک جدید یا وقف جدید میں شامل کرنے نیکی کا مخفی پہلو اعلانیہ کی حفاظت کرتا ہے سے پہلے کچھ نہ کچھ چندہ عام یا وصیت میں ضرور شامل کریں ،سولہویں حصہ کی شرط نہ لگائیں نو مبائعین کو کثرت سے چندوں میں شامل کریں 837 16 نیکی کے ذریعہ برائی دور کرنے کا مضمون 487 65 644 605 25 نیکی کے ساتھ بدخلقی نہیں چل سکتی نیکی کے نام پر بدی پھیلانا 292 نیکیوں کے لحاظ سے ایک رمضان سے دوسرے رمضان کا تعلق انفاق فی سبیل اللہ کا بعض دوسری نیکیوں کے ساتھ باندھے جانا نو مبائعین کو مالی قربانی کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی 581 نو مبائعین کی تربیت کا طریق نو مبائعین کی تربیت کی طرف توجہ کی تلقین 662 702 نو مبائعین کی تربیت کیسے کی جائے اس کا جواب 962 داعیان کے ساتھ ساتھ نئے آنے والوں کے لئے قیام صلوۃ ضروری ہے قرآن کی تعلیم نو مبائعین کو دی جائے جرمنی میں پانچ ہزار دوسو بیاسی بیعتیں ہونا جماعت میں نئے آنے والوں کو پہنچنے والی مصیبتیں اور حضرت اقدس کی صبر کی تلقین لکھوکھہا لوگوں کا احمدیت قبول کرنا اور نومبائعین کی 662 669 368 570 بعض نیک لوگوں کے ہاں کیوں اُن کے مزاج کے 81 600 44 برعکس بیچے نکل آتے ہیں.اس کی وجہ جرمنی نیکی کے معاملہ میں انگلستان کی رقیب جماعت ہے 139 رمضان میں کچھ نیکیوں کے نقوش کو بہتر بنایا جا سکتا ہے 80 مالی قربانی کے لحاظ سے حقیقی نیکی وہ ہے جو محبت کے تعلق میں خرچ پر آمادہ کرے نیکیوں کے سر او جہر ہونے میں حکمت 641 822 تربیت کا فکر نئے آنے والوں کے وقت آنحضرت کی دعا ایک ان پڑھ خاتون کا احمدی ہونا 89 307 بعض لوگ فطرت کی مجبوری سے نیک کام کرتے ہیں 602 داہنا ہاتھ نیکی کی علامت 964 نیوزی لینڈ بعض نو مسلم بوسنیئنز کے پاس غیر ملکوں کے نمائندوں نیو یارک ٹربیون کا جانا اور اسلام سے دور کرنا مگراُن کا جواب پچھلے سال بیعتیں کرنے والوں کو مالی قربانی کا فعال حصہ بنادیں نئی اقوام پر جلد از جلد بوجھ ڈالیں 963 836 714 و، ه ،ی 900 933 162 واشنگٹن 954 والدین والدین کے حقوق کا عبادت اور توحید کے ساتھ ذکر 732
اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 والدین کے دکھوں پر بھی صبر کی تلقین وحی 732 63 حضرت ہارون ہالینڈ وحی کے بغیر بھی انسانی قلب کا بعض خاص دائروں میں جبة النور صاحب چمک اٹھنا اور پیراسائیکالوجی کے ایک عقدہ کامل 857 ہٹلر وحی کے لئے تیل کا صاف اور شفاف ہونا ضروری ہے 858 ہجرت انبیاء کی وحی میں فرق کیا ہے، کیوں ہوا ہے،اس کا جواب 864 ہجرت کی مختلف اقسام زیتون کے تیل کاوحی سے تعلق وصیت 861 728,895 15,123,385,945 123 ہجرت کے مضمون کا مالی فراخی سے تعلق جلسہ میں شریک مہمانوں کی ایک قسم کی ہجرت 167 526 582 526 وصیت کے نظام میں 1/3 سے زیادہ نہ اجازت کی وجہ 634 مخالفت کی آگ پر ہجرت اور پھر بھی دعوت الی اللہ 548 وقت وقت کے احساس کا مسئلہ، یہ یکساں طور پر ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طرح تعلق نہیں رکھتا وقت کے صحیح استعمال کا ذکر اللہ کے وقت سے بالا ہونے کا مضمون 271 273 370 پاکستان سے ہجرت کر کے مغرب میں میں آنے والے احمدیوں کی ہجرت کے بعد دعوت الی اللہ پر حضور کا ایک آیت کی روشنی میں سلام ہدایت ہدایت کا اللہ کے سپرد ہونا 549 588 ٹیلی ویژن دیکھنے کا رواج وقت کو تباہ کرنے کی شکل ہے 272 ہدایت گہرائی تک دینا انسان کے بس کی بات نہیں 589 دین میں خرچ ہونے والے اوقات کی وقعت وقف جدید ولی وقف جدید کے معاملہ میں اللہ کی برکتیں وقف جدید میں بعض معلمین کی چرب زبانیاں پاکستان اور ہندوستان کی طرح دیگر جماعتوں کو بھی دفتر اطفال کا ریکارڈ رکھنا چاہئے 80 آنحضرت اور قرآن کے نور سے ہدایت پانے کے لئے تقوی کی شرط 938 ہندوستان 15,18,91,267,429,432,533 12 474 18 581,585,838,978 ہندوستان میں ابھی بھی دکانیں بند کرنے کے معاملہ پر قانون کی پابندی نہیں حضرت مصلح موعود کی ایک رویا جس سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں تبلیغ کے معاملہ میں جمود کا ٹوٹنا بالآ خر وقف جدید کا فیض بیرونی دنیا پر بھی پھیلانا ہوگا 18 ہو میو پیتھی ہومیو پیتھی کے لیکچرز کے متعلق وضاحت پیجان 127 469 129 272 282,763 464 953 248 393 ہیجان کا زمانہ سے گہراتعلق حضرت یحی 131 تیمی رشید 469 یوایس اے میں آپ کو صوفی نہیں ولی بنانا چاہتا ہوں قربانی کرنے والوں کا اور اُن کی اولاد کا ولی بنیتا ویڈیو ویڈیوز کا ریکارڈ اور لائبریری ترتیب دیں ہارٹلے پول
Spynoza ہالینڈ کا یہودی فلسفی West Coast USA 64 139 اشاریہ خطبات طاہر جلد 14 یورپ یورپ کی جماعتوں کو تحریک کہ والدین اپنی کمانے والی اولاد کو تحریک کریں کہ پہلے ہفتے کی آمد مسجدوں میں دیں 17 یورپ کی نئی قوموں کو مالی قربانی کا علم نہیں حضرت یوسف 709 امین خدا سے تعلق ہونے کی بنا پر خزانوں کا مالک بننا 388 یوست کا سامان دیتے وقت بھائیوں سے سلوک 590 یوسف کے عہدہ لینے سے انکار کی وجہ 376 یوسٹ نے دیانت اور تقویٰ کی خاطر اپنے اوپر داغ نہیں لگنے دیا، اس پر فضل الہی یوکے 376 385,463 ایم ٹی اے کے پروگراموں کے حوالہ سے یو کے جماعت کو ہدایات یوگنڈا 130 405 یوگنڈا کے پیچھے رہنے کی دو وجوہات 417 یوگنڈا کے سر براہ مملکت کو اخلاقی قدروں کی فکر کی تلقین 418 یوگنڈا میں چندوں میں کمزوری یوگنڈا میں نو جوانوں میں عقل کی روشنی 413 418 حضرت یونس آپ کے نام کا کشتی سے پھینکے جانے کا قر عدنکلنا 380 یہوو یہود پر دنیا اور آسمان سے عذاب پہنچنے کی وجہ یہود کی ٹیسٹی کے وقت حالت یہود میں تختی اور انتقام کی تعلیم عیسائیت کو دائرہ یہودیت سے خارج کرنے کے لئے یہودیوں کی کونسل کا بیٹھنا Bogdanov روسی لیڈر Hero and Hero Worship Mata Physics 41 456 892 457 23 875 163 162 953