Khutbat-eTahir Vol 13 1994

Khutbat-eTahir Vol 13 1994

خطبات طاہر (جلد 13۔ 1994ء)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

مطلبات طاہر خطبات جمعہ ۱۹۹۴ء سیدنا حضرت مرزا طاہر احم خلیفہ مسیح الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد ۱۳

Page 2

نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر 13 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ

Page 3

milaM ען تاریخ احمدیت کا ایک سنگ میل ،MTA انٹرنیشنل کا باقاعدہ آغاز (1994ء)

Page 4

1 i فہرست خطبات نمبر شمار خطبه جمعه فرموده عنوان 1 07 جنوری 1994 ء | انٹر نیشنل ٹیلی ویژن کا با قاعدہ آغاز حضرت محمدمصطفی میلے کا ذکر الہی کا عظیم الشان نمونہ 14 جنوری 1994 ء ذكراً رسولا ایسا رسول جو مجسم ذکر ہے.آپ ﷺ کے ذکر الہی کرنے کے حسین تذکرے 21 21 جنوری 1994ء اپنی لذتوں کو اللہ کی طرف منتقل کرنے کا جہاد شروع کریں 28 جنوری 1994ء حضرت داؤد کی دعا رسول کریم کے دل کی آواز تھی 04 فروری 1994 ء رسول کریم کا ذکر الہی تھاجو اعجاز بنا.آپ ذکر الہی سے زندگی پاتے اور ذکر الہی سے زندگی بخشتے 11 فروری 1994ء رمضان مبارک اللہ تعالیٰ کے جلوہ کی خاطر قائم فرمایا گیا ہے 41 59 59 1: 79 99 18 فروری 1994 ء رمضان میں نیکی کی فضا سے فائدہ اٹھا ئیں نمازوں کا عرفان حاصل کر کے لطف اٹھائیں 119 25 فروری 1994 ء روزہ جسم اور روح کی زکوۃ ہے.قیام نماز اور مالی قربانی سے خدا آپ میں نور پیدا کرے گا.139 رمضان میں انسان خدا کی مشابہت میں قریب تر ہو جاتا ہے 04 مارچ 1994ء 159 11 مارچ 1994 ء جمعۃ الوداع کے متعلق وضاحت کسوف و خسوف کے نشان پر سو سال پورے ہونے پر مبارکباد 177 195 213 18 مارچ 1994ء بنی نوع انسان سے ہمدردی اور حضرت مسیح موعود کا جوش تمنا کہ جماعت روح القدس بن جائے.25 مارچ 1994ء ذکر الہی یہ ہر موقع میں خود داخل ہوتا ہے، نمازوں کو ذکر الہی سے بھریں.یکم اپریل 1994 ء تمام مذاہب کا آخری مقصد اللہ سے بندے کی محبت پیدا کرنا ہے.ذکر الہی سے غافل شخص عملا کفر کرتا ہے.233 8 اپریل 1994 ء حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کی صیحتیں بنی نوع انسان کے لئے امن کی ضمانت ہے.253 15 اپریل 1994 ء جماعت کی زندگی خلافت اور شوری میں ہے.مجلس شوری جماعت کے باہمی تعامل کا نام ہے.271 22 اپریل 1994ء مسلمان وہی ہے جس سے شرنہ پہنچے اور وہ نیکیوں کی طرف دوڑے.29 اپریل 1994ء امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے اسلوب محمد سے سیکھیں.6 مئی 1994ء جرمنی میں ریس ازم کے خلاف عظیم جہاد کی ضرورت ہے.289 307 327 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18

Page 5

ii 19 20 221 21 22 23 23 24 25 25 26 13 مئی 1994ء اخلاق محمدی سے دنیا فتح ہوگی.دعا کے بعد سب سے قوی ہتھیار حسن خلق کا ہتھیار ہے.20 مئی 1994ء 27 مئی 1994ء آنحضرت ﷺ کا سب سے بڑا ہتھیار حسن عمل تھا.حبل اللہ سے مراد قرآن اور محمد ﷺ کی سنت ہے.347 365 385 467 491 3 جون 1994 ء حبل اللہ سے مراد خلاق محمدی ہیں جو آب حیات ہیں.جھوٹ اور بددیانتی کو جڑ سے اکھیڑ دیں.407 10 جون 1994 ء ی محب بانی بغض و اسوہ رسول نے کی روشنی میں محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں کا مفہوم.427 17 جون 1994 ء حکم و عدل کو مانے کے سوا کوئی صراط مستقیم نہیں.حضرت امام حسن، امام حسین اور صحابہ کا مقام.447 24 جون 1994ء حبل اللہ کی قدر کرو، اس نعمت کی حفاظت میں جان بھی جائے تو دریغ نہ کرو.8 جولائی 1994ء جلسہ سالانہ کا نظام عالمی بھائی چارے کو تقویت دیتا ہے.27 15 جولائی 1994 ء تو ہین خداوندی کا سوال توہین رسالت سے پہلے ہے.گستاخی رسول کے قانون پر تبصرہ 507 28 22 جولائی 1994 ء مشرک فی التوحید اور شرک فی الرسالت کی وضاحت گستاخی و رسول کا ان جماعت حمدیہ پتہ چلانے کیلئے ہے 525 29 | 29 جولائی 1994 ء حمد ﷺ اور قرآن پر الزام سے پاک اور بلندتر ہیں تو ہین رسالت کا مضمون قرآن کریم کی روشنی میں 5 اگست 1994ء میں والی خلافت رابعہ میں اجتماعیت کا آغاز ہوا ہے.خلافت رابعہ آنے والی آسمانی تقدیروں کے لئے پیش خیمہ بن گئی.571 31 12 اگست 1994 ء | حضرت محمد مصطفی ملنے کی نصائح کی حقیقی پہچان اور عرفان حاصل کر کے عمل کرنا چاہئے.591 32 | 19 اگست 1994 ء | 30 34 نو مبائعین کی تربیت کیلئے کلاسز کا اجراء کی تحریک 547 609 33 26 اگست 1994ء - پیار محبت اور دعاؤں کے ساتھ کی ہوئی نصیحت اثر کرتی ہے رسول کریم اللہ کی پراثر نصائح 627 2 ستمبر 1994ء خلق محمدی ﷺ میں ہماری نجات ہے اس کو اپنا ئیں.لین دین کے معاملات احادیث کی روشنی میں 651 9 ستمبر 1994 ء اپنے کردار میں ہی اعلی پاک نمونے قائم کریں جن کی حضرت محمد صلی اللہ کے غلاموں سے توقع ہے.673 36 16 ستمبر 1994ء حضرت محمدؐ کیلئے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے.روالپنڈی میں احمدیہ مسجد کو مار کر دیا گیا.35 37 23 ستمبر 1994 ء اخلاق حسنہ اپنا ئیں اور ان کے غلبے کی دعامانگیں، بدخلق گھر عزت نہیں پاتا 38 39 | 691 709 30 ستمبر 1994 ء اپنے دلوں کی حالت تبدیل کریں اور ان کو زرخیز زمین بنائیں.نارتھ امریکہ وال تبلیغ کو ر ز جان بنا ئیں.729 17اکتوبر 1994ء احمدی اپنے اندرونی تعلقات کو مالی بنا ئیں بنی نوع انسان پر اسلام کے غلبے کے لئے یہی تیاری ہے.749

Page 6

769 iii 14 اکتوبر 1994ء امریکہ میں بیت الرحمن اور مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ارتھ شیشن کا افتتاح.40 41 21 اکتوبر 1994ء اعلی اقدار کی حفاظت کریں کسی قسم کی اساس کمتری کا شکار نہ ہو اور اپنی سوں میں ان اقدار کو کلک کریں 789 ہے 43 28 اکتوبر 1994 ء حضرت رول کر کر نے کی نصائح میں عظیم لشان بی ہیں.جس سے زندگی میں جنت نیت ہے اورجہنم حرام کردی جاتی ہے.809 4 نومبر 1994ء مالی قربانیاں تقویٰ کی استطاعت کے مطابق کریں.44 | 11 نومبر 1994ء نورمحمدی ﷺ اور اخلاق حسنہ کی برکت سے دنیا کو امت واحدہ بنا ئیں 45 46 46 47 48 49 50 50 51 827 847 18 نومبر 1994 ء غیبت سے کلیۂ اجتناب کریں، اگر جماعت میں غیبت کا قلع قمع ہو جائے تو عظیم کامیابی ہوگی.867 25 نومبر 1994 ء بدظن، غیبت کرنے والا ، چغل خور بدترین شخص ہے.حسد سے بچیں یہ نیکیوں کوکھا جاتا ہے.تمام دنیا کی فتح کل از آپ کے حسن خلق میں ہے.2 دسمبر 1994ء 887 907 9 دسمبر 1994ء اصلاح معاشرہ سب سے ضروری ہے.اعلیٰ حسین اخلاق ہی معاشرے کا حسن ہیں.927 16 دسمبر 1994 ء MTA کے پروگرام بنانے کے لئے ہدایات بے تکلفی اور سادگی سے نافع الناس پروگرام بنائیں.947 23 دسمبر 1994 ء مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کومتنوع اور مفید پروگراموں کی تیاری کیلئے تفصیلی ہدایات.967 30 دسمبر 1994 ء نئے سال پر ہر ذات اپنا محاسبہ کرے کیا کھویا کیا پایا 1894ء اور 1994ء کی مماثلت اور جماعتی ترقیات | 987

Page 7

خطبات طاہر جلد 13 1 خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994 ء انٹرنیشنل ٹیلی ویژن کا با قاعدہ آغاز صلى الله حضرت محمدمصطفی ﷺ کا ذکر الہی کا عظیم الشان نمونہ (خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران 192-191) پھر فرمایا:.الحمد للہ کہ آج وہ جمعہ کا دن آیا جس کی بہت دیر سے دل میں تمنا تھی اور ایک مدت سے انتظار تھا کہ آج خدا کے فضل کے ساتھ انٹر نیشنل احمد یہ مسلم ٹیلی ویژن کا با قاعدہ آغاز ہورہا ہے.وہ جو جمعہ کا خطبہ پہلے ہر جمعہ سنایا جاتا تھا وہ اگر چہ اسی ٹیلی ویژن کے ذریعے تھا لیکن یہ سروس روز مرہ کے طور پر ابھی جاری نہیں ہوئی تھی.الحمد للہ کہ جو خوشخبری میں نے ماریشس کی سرزمین سے دی تھی.آج انگلستان کی سرزمین سے یہ اعلان کرنے کی توفیق مل رہی ہے آج سے باقاعدہ مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ کی روزانہ سروس کا آغاز ہو چکا ہے.یورپ میں ساڑھے تین گھنٹے یا تین گھنٹے روزانہ اور باقی ایشیا اور

Page 8

خطبات طاہر جلد 13 2 خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994ء افریقہ وغیرہ میں روزانہ بارہ گھنٹے کا پروگرام چلا کرے گا.شروع میں یہ پروگرام تجرباتی ہیں یعنی پروگرام تو مستقل ہیں.لیکن تجرباتی ان معنوں میں کہ ہماری تمام ٹیمیں نو آموز ہیں، انہیں اس کام کی با قاعدہ کوئی تربیت نہیں دی گئی اور جو بے شمار روپے کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے.اخلاص کی دولت ہے، دعاؤں کی مدد سے، اس اخلاص کو عمل میں ڈھالتے ہیں.اور جو کچھ بھی اس کے نتیجہ میں پیدا ہوگا ، مجھے امید ہے کہ بابرکت ہوگا اور جماعت کی تربیت ہی کے لئے نہیں.بلکہ سب دنیا کے لئے بھی ٹیلی ویژن کے ذریعے تربیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا.کہیں دنیا میں ٹیلی ویژن کو ان اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا.جن اعلیٰ مقاصد کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک ٹیلی ویژن کے نئے دور کے آغاز کی تو فیق مل رہی ہے.مختلف جماعتوں کو لکھا گیا تھا اور پیغامات برقی بھی ٹیلیفون کے ذریعے بھی بھجوائے گئے کہ جلد از جلد اپنے پروگرام بنا کر بھجوائیں کیونکہ سب دنیا کے مختلف خطوں کی مختلف ضروریات ہیں.مختلف زبانوں کی مختلف ضروریات ہیں اور یہاں بیٹھے ان سب کی ضروریات کا اندازہ لگا کر پھر ان کی زبانوں میں ان کے پیغامات دینا ممکن نہیں ہے.جس حد تک آپ کا ملک بیدار ہوگا جماعتی لحاظ سے اس حد تک اس ملک کے فائدے کے انتظامات ہوں گے تو اس لئے اگر کوئی سستی کریں گے تو آپ کا نقصان ہے، عالمگیر نقصان ہے بھی لیکن خصوصیت سے آپ کا نقصان ہے.اس ضمن میں سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے ساری جماعتوں پر اس معاملے میں سبقت حاصل کرلی ہے اور پہلا پروگرام جو ہمیں پہنچا ہے بنگلہ زبان میں ہے اور جماعت احمد یہ بنگلہ دیش کی طرف سے ہے.کئی ویڈیوز انہوں نے بڑی جلدی میں مگر عمدگی سے تیار کی ہیں رفتہ رفتہ انشاء اللہ جوں جوں تجر بہ بڑھتا جائے گا خدا کے فضل کے ساتھ پروگرام زیادہ دیدہ زیب ہوتے چلے جائیں گے اور خوب صورت ہوتے چلے جائیں گے.جہاں تک مستقل نوعیت کے تعلیمی وتربیتی پروگراموں کا تعلق ہے.ان پر بھی کام ہو رہا ہے لیکن کچھ وقت لگے گا جو نہی اتنے پروگرام تیار ہو گئے کہ یہ امکان ہوا کہ سلسلہ ٹوٹے بغیر ہم ان کو جاری رکھ سکیں گے تو ہم انشاء اللہ ان کو شروع کر دیں گے.زبانوں پر بھی بڑے زور سے کام ہو رہا ہے.علاقائی حالات پر ان کے خوبصورت مقامات اور جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے اوپر اس قسم کے سبھی

Page 9

خطبات طاہر جلد 13 3 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 /جنوری 1994ء کام شروع ہو چکے ہیں.انگلستان غالبا اس معاملے میں سب سے آگے ہیں.رفیق حیات صاحب کی ٹیم ما شاء اللہ دن رات بڑی محبت سے کام کر رہی ہے.سارے دنیا کے پروگراموں کو تر تیب دینے میں اس پہلو سے جماعت UK کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت بخشی ہے اور سبقت عطا فرمائی ہے کہ ان سب کاموں کا سب سے بڑا بوجھ جماعت UK نے اٹھایا ہے.کل جب یہاں ہماری وہ وین آئی جس کے ذریعے ہم براہ راست دنیا میں کسی جگہ سے بھی خود اپنے پروگرام اٹھا کر سیاروں تک پہنچا سکتے ہیں اور جب میں وہ Van دیکھنے کے لئے گیا تو بتایا گیا کہ یہاں UK کے خدمت کرنے والے بھی موجود ہیں، ان کو بھی دیکھیں.میں یہ دیکھ کے بہت خوش ہوا کہ لڑکوں کی ٹیمیں بھی اور لڑکیوں کی ٹیمیں بھی دن رات مگن ہیں اور بہت محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلیقے کے ساتھ کاموں کو سنوار رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.سب سے پہلا بیرونی مبلغ جو دنیا میں بھجوایا گیا تھا وہ غالبا انگلستان تھا اور اس کے بعد ماریشس کی باری آتی ہے تو ان دو باتوں میں بھی ماریشس اور انگلستان کا تعلق قائم ہوا ہے.ماریشس اگر چہ اعلان میں پہلے ہے لیکن کام کو ترتیب دینے اور سب سے نمایاں حصہ لینے میں لازما UK دنیا میں سب سے پہلا ہے.یہ دونوں اعزاز ان دونوں جماعتوں کو اللہ تعالیٰ بہت بہت مبارک فرمائے.اب میں چند کلمات میں ماریشس کی جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اس دورے کے عرصے میں ہم نے ان کو بہت ہی مخلص اور محنتی اور فدائی پایا اور بڑے وسیع تعلقات، بڑے وسیع رابطے قائم ہوئے ہیں.شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کی تقریبا ہر بڑے چھوٹے مرد عورت بچے سے ملاقات ہوئی ہو اور انہوں نے دن رات اپنے اپنے حصے کے اوقات میں باری باری آ کے ملاقات کی ہو، کچھ جگہ ہمیں بھی جانا پڑا.مجھ پر جو عمومی تاثر ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے فضل سے جماعت کے اندر اخلاص کا معیار بہت نمایاں ہے اور ہر طرف ہر جگہ ہے یعنی یہ نہیں کہ کوئی جماعت پیچھے ہے، کوئی آگے ہے.تمام جماعتوں میں، مردوں عورتوں اور بچوں میں خدا کے فضل کے سلسلے سے بہت محبت ہے اور اپنے بزرگ مربیوں کو بھی بڑے پیار اور محبت سے یادر کھتے ہیں.اول سے آخر تک ان کی یاد میں نسلاً بعد نسل منتقل کی جارہی ہیں اور یہ پہلو مجھے ان کا بہت ہی پیارا لگا کہ اپنے ان محسنین کو یا در کھتے ہیں جن کے ذریعے خدا تعالیٰ نے ان کے مقدر جگائے اور خدا کے فضل سے ان کو احمدیت کی آغوش میں آنے

Page 10

خطبات طاہر جلد 13 خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 1994 ء کی توفیق ملی.باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی یہ ضرور کرنا چاہئے.انگلستان کی جماعت کو بھی اپنے ابتدائی خدمت کرنے والوں کے ذکر کو زندہ رکھنا چاہئے اور جس طرح وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ہر خاندان میں وہ ذکر چلتے ہیں.اور کسی کا نام اگر اولین مبلغین میں سے کسی نے رکھا تھا تو وہ ضرور فخر سے بتاتا تھا کہ میرا نام حافظ جمال احمد صاحب نے رکھا، میرا نام فلاں نے رکھا، میرا نام فلاں نے رکھا اور اس طرح مجھے ان سے کچھ تعلیم حاصل کرنے کی توفیق ملی.یہ جو عام تذکرے ہیں یہ نیکیوں کو زندہ رکھنے میں مددگار بنتے ہیں.اس لئے جہاں زندہ مبلغین کے ساتھ رابطہ ضروری ہے وہاں فوت شدہ مبلغین کے ذکر کو زندہ کرنا بھی ضروری ہے.اذکر و امحاسن موتاکم ترندی کتاب الجنائز حدیث نمبر (940).کو ضرور پیش نظر رکھیں اس میں بہت فائدے ہیں.باقی دنیا کی جماعتیں بھی ایسے پروگرام بنائیں کہ ابتدائی خدمت کرنے والے چاہے وہ سلسلے کے باقاعدہ مبلغ تھے یا انفرادی طور پر آ کر فیض پہنچانے والے تھے ان سب کے ذکر کو زندہ کریں اور اپنی جماعت میں ان کو عام کریں.جماعت ماریشس کا میں تمام عالمگیر جماعتوں کی طرف سے بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں.انہوں نے بہت محبت اور محنت کے ساتھ بڑے خلوص کے ساتھ پروگرام مرتب کئے اور بہت غیر معمولی محنت کی ہے اور پھر بھی تھکے نہیں.بڑی بشاشت کے ساتھ آخر وقت تک وہ غیر معمولی کوشش کرتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.آج کے مبارک جمعہ میں جو مختلف اجتماعات ہو رہے ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے.اول جماعت احمد یہ سرگودھا شہر کا جلسہ سالانہ آج منعقد ہو رہا ہے.پھر تحصیل بھلوال کی جماعتوں کا جلسہ سالانہ بھی آج ہی منعقد ہو رہا ہے.لندن ریجن کی مجلس اطفال الاحمدیہ کا ایک روزہ اجتماع پرسوں منعقد ہو رہا ہے.بعض عرب جماعتوں کے انصار ، خدام، لجنات اور ناصرات کے اجتماعات 9 جنوری کو منعقد ہورہے ہیں.جماعت احمد یہ ضلع میر پور خاص کا پانچواں جلسہ سالانہ 13 جنوری کو منعقد ہو رہا ہے انہوں نے بھی آج ہی ذکر کرنے کی درخواست کی ہے.ان سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ یہ سارے اجتماعات مبارک فرمائے اور اب جو بھی اچھے اجتماعات ہوں ، اگر ممکن ہو تو ان کی ویڈیوز بھی محفوظ کر لینی چاہئیں.ماریشس کی ویڈیوز جو تھیں وہ اب یہاں آپ کو دکھائی گئی ہیں.باقی دنیا کو بھی دکھائی جا رہی ہیں.اسی طرح یہ سارے اجتماعات جھلکیوں کے طور پر عالمی بن

Page 11

خطبات طاہر جلد 13 5 خطبہ جمعہ فرموده 7 / جنوری 1994ء جائیں گے.دنیا میں جہاں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں چھوٹی یا غریب جماعت ہو، بڑی یا مخلص جماعت ہو کوئی بھی ہو دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتی ہو، اس کے اپنے کچھ رنگ ہیں،سب جماعتوں کی اپنی خوشبوئیں ہیں اور ان کی آوازیں بھی اپنا ایک خاص اخلاص اور پیار کا رنگ رکھتی ہیں، ان کی زبانیں بھی ایک کشش رکھتی ہیں.احمدیت کے گلدستے میں یہ سارے پھول اللہ نے سجا دیئے ہیں اور خدا کرے یہ گلدستہ بڑھتا چلا جائے.ان پھولوں کی خوشبوؤں اور رنگوں کو ہم اس عالمی پروگرام کے ذریعے سب دنیا تک پہنچاتے رہیں.اس سے ایک بین الاقوامی اخوت کی فضا پیدا ہوگی اور مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی، رابطے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو احساس ہوگا کہ ہم کیا ہیں.کتنی وسیع عالمگیر جماعت سے ہمارا تعلق ہے، اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام یاد آتا رہے گا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ (تذکره: 260) میں اس میں ہمیشہ ”میں“ کے لفظ پر زور دیتا ہوں.عام طور پر جب پڑھنے والے پڑھتے ہیں تو میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یا کناروں پر زور دیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں میں پر زور ہے کہ دنیا سے کیا ہونا ہے، میں پہنچاؤں گا.دنیا تو مخالفت پر زور مارے گی اور تیرے ماننے والوں میں بھی اتنی توفیق کہاں ہے کہ وہ خود اپنی طاقت سے اس پیغام کو دنیا تک پہنچا سکیں.میں ہوں جو پہنچاؤں گا اور آج دنیا میں ہم انٹر نیشنل ٹیلی ویژن کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پہنچارہے ہیں.یہ اللہ ہے جو پہنچارہا ہے، اس میں ہماری کوششوں کا اگر دخل ہے تو محض ہم بہانہ بنائے گئے ہیں ورنہ حقیقت میں یہ سارے بڑے کاروبار اور بندوبست ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور نہیں ہے اگر اللہ کا فضل اٹھ جائے تو سارے پروگرام بے کار اور بے معنی اور بے حقیقت ہو کے رہ جائیں گے.ہمیں ان بارہ گھنٹوں کو خوب صورتی سے مفید چیزوں سے بھرنے کی توفیق ہی نہیں ملے گی کیونکہ بہت بڑا کام ہے.اللہ کا فضل ہی ہے جو ساتھ ساتھ نازل مسلسل ساتھ دے اور اسی کی رحمتوں کے سائے تلے یہ پروگرام آگے بڑھیں.آج کا مبارک جمعہ وہ جمعہ بھی ہے جس میں پہلی مرتبہ با قاعدہ ”الفضل انٹرنیشنل کا اجراء ہو چکا ہے اور چودھری رشید احمد صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ماشاء اللہ بڑی محنت سے ایک بہت ہوتار ہے،

Page 12

خطبات طاہر جلد 13 6 خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994 ء خوب صورت پیش کش کی ہے جو ہر ہفتے انشاء اللہ سب دنیا کی جماعتوں کو پہنچتی رہے گی اور اس سلسلے میں اگر چہ شروع میں قیمت 50P رکھی گئی ہے لیکن یہ غریب ملکوں کے لئے زیادہ ہے اور یہاں بھی اگر نسبتا کم پہ مہیا ہو سکے تو بہت بہتر ہے.اس کے لئے ہم نے ایک الگ ٹیم بنائی ہے جو اشتہارات اکٹھے کرے گی.اس ٹیم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے قابل تجربہ کار یا ویسے جوش رکھنے والے نوجوان ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس ٹیم کے ذریعے جوں جوں ہماری آمد بڑھے گی.ہم ایک وقت ایسا آئے گا کہ چندے کو کم کرنا شروع کر دیں گے اور کوشش کریں گے کہ جیسا کہ ہمیشہ سے دستور رہا ہے اصل ”الفضل کبھی بھی منافع کمانے کا ذریعہ نہیں بنا بلکہ کوشش یہی رہی ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو الفضل بھی اور ریویو بھی اگر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جا ئیں تو ہم پر یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور نعمت ہے اور اس پہلو سے انشاء اللہ خریداروں پر بوجھ کم کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی.ریویو" کے متعلق ایک ہفتے کی تاخیر کا مجھے بتایا گیا ہے.بعض فنی مشکلات کی وجہ سے اس کے چھپوانے میں دیر ہو رہی ہے، اس لئے آج کی بجائے وہ اگلے ہفتہ انشاء اللہ شائع ہو گا لیکن وہ چونکہ ماہانہ رسالہ ہے اس لئے چند دن یا ہفتوں کی تاخیر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا.آئندہ کے لئے ان کا خیال ہے اور امید ہے کہ با قاعدہ ہر مہینے کے آغاز میں وہ ریویو شائع کر دیا کریں گے.مضامین اگلے ریویو کے لئے بھی تیار ہیں اور اس کو چھپوانے کی تیاری بھی شروع ہو چکی ہے.امید رکھتا ہوں کہ آئندہ انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن مجھے ریویو کے متعلق جو فکر ہے وہ اس کی اشاعت کی ہے.دس ہزار کی تعداد میں ہم نے شائع تو کر دیا یعنی ہو رہا ہے.سوال یہ ہے کہ وہ احمدی جو انگریزی دان ہیں اور اس سے استفادہ کر سکتے ہیں، ان کے علاوہ غیروں تک پہنچانے کا کیا انتظام ہو گا.اس سلسلے میں سب دنیا میں ایسے دانشور، صاحب اثر مخلصین خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن مخلص ان معنوں میں کہ دل کے بچے ہوں ایسے لوگوں کی تلاش ہونی چاہئے.یہ جو مخلص کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے یہ ہر انسان پر برابر صادق آتا ہے خواہ وہ دنیا کے کسی حصے سے تعلق رکھتا ہو، کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہوا گر وہ اپنے قول کا سچا ہے تو دیکھنے میں فوڈ اپتا چل جاتا ہے کہ کس مزاج کا، کسی سرشت کا انسان ہے.مخلصین ہی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں متقین کے طور پر آغاز میں کیا "

Page 13

خطبات طاہر جلد 13 ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ 7 خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 1994ء یہ وہ لوگ ہیں جو دل میں ایک قسم کا خدا کا خوف رکھتے ہیں یعنی سچے لوگ ہیں ان کو ضرور ہدایت ملتی ہے چونکہ ریویو کو سب دنیا کی ہدایت کے لئے جاری کیا جارہا ہے اس لئے پہلے بھی میں نے بارہا تاکید کی کہ محض زیادہ پتے اکٹھے کرنے کے مقابلے نہ کریں کہ جرمنی دو ہزار دے دے اور بنگلہ دیش تین ہزار بھیج دے کہ جی ہم نے زیادہ پتے اکٹھے کر لئے ہیں.پتے اکٹھے کرنا تو ہرا میرے غیرے کے قبضے میں ہے کوئی ڈائر یکٹڑی اٹھالے اور جتنے مرضی پتے اکٹھے کر لے.ہمیں ایسے اندھے پتوں کی ضرورت نہیں ہے.ہمیں ضرورت ہے ایسے انسانوں کے پتوں کی جو صاحب علم بھی ہوں.اپنی زندگی کے دائرے میں ایک مقام رکھتے ہوں، ان کی آواز دوسروں تک پہنچ سکے اور عموما جن کے متعلق یہ خیال ہو کہ وہ اچھے مزاج کے لوگ ہیں، شریف النفس لوگ ہیں، قول کے سچے ہیں.ان تک اگر ریویو پہنچا تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ایک دوسال کے اندر ریویو کے ذریعے ہی بہت ہی بالا طبقے سے تعلق رکھنے والی ہزار ہا بیعتیں آنی شروع ہو جائیں گی اور پھر ان کے ذریعے سے یہ روشنی اور بھی پھیلے گی.آپ سب سے پہلے تو پتا جات حاصل کرنے میں جلدی کریں جس طرح میں نے بتایا ہے اس طرح حاصل کریں.پھر ساتھ ہی اس کے بجٹ کی طرف بھی توجہ کریں جن جن جماعتوں میں لوگ اپنے طور پر ریویو لگوا سکتے ہیں وہ کوشش کریں اور ہمیں لکھ دیں کہ ہم اتنے ریویو کا چندہ ضرور دیں گے لیکن ہمیں ضرورت زیادہ ہے.ہم انشاء اللہ زائد ضرورت پوری کریں گے اور جو چندہ ان کی طرف سے ملے گا وہ شکریہ کے ساتھ قبول کریں گے.اس طرح انشاء اللہ تعالی ریویو" کو بھی مفید اور وسیع دائرے پر اثر رکھنے والا رسالہ بنائیں گے.جہاں تک ٹیلی ویژن کا تعلق ہے اس کے لئے ابھی تک اشتہارات آنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا اور میں سمجھتا ہوں کہ تمام ملک اپنے طور پر جائزہ لیں انٹرنیشنل احمد یہ ٹیلی ویژن کولوگوں سے پہلے واقف کروانا ہے.بہت بڑے بڑے کاروبار والے لوگ ہیں اگر ان کو یہ پتا ہو کہ ایک انٹر نیشنل ٹیلی ویژن ہے جس کو بڑے انہماک سے مختلف دنیا کے ملکوں میں دیکھا جاتا ہے تو پورے تعارف اور اچھے تعارف کے نتیجے میں کئی ایسے کاروباری ادارے ہیں جو اشتہار دے سکتے ہیں.کئی ایسے ادارے ہیں جو زیادہ وقت خریدنا چاہیں گے مثلا اشتہار دینے کی بجائے وہ گھنٹہ دو گھنٹے روزانہ خریدنا چاہیں گے

Page 14

خطبات طاہر جلد 13 8 خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994 ء پھر وہ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں.دنیا کے ٹیلی ویژن کی اخلاقی حالت پر ہمارا تو کوئی اختیار نہیں ہے مگر ہم پھر احمد یہ ٹیلی ویژن کے نام پر نہیں بلکہ اپنا کچھ زائد وقت ان کو بیچ دیں گے اس ضمن میں ہمارے پاس مزید گنجائش بھی ہے اور ہم اور بھی وقت خرید سکتے ہیں تو ان سے جو فائدہ پہنچے گا وہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس روپے کو دنیا کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کریں گے.ٹیلی ویژن کی جوٹیم جسوال برادران کی ہمارے پاس کام کر رہی ہے.وہ بے حد محنت کر رہے ہیں جو کچھ ان کا ہے سب ڈال بیٹھے ہیں.مزید طاقت نہیں رہی جو پیش کر سکیں اور وہاں ماریشس میں بھی ماشاء اللہ غیر معمولی ہمت اور محنت اور اخلاص سے انہوں نے پروگرام تیار کئے مگر کام بڑھ چکا ہے ان کے بس میں نہیں رہا.اپنا مرکزی کردار تو انشاء اللہ یہی سنبھالے رکھیں گے لیکن اردگرد کے مؤیدین اور مدد کرنے والوں کی ضرورت ہے وہ بہت زیادہ پھیل رہی ہے جس طرح انگلستان کی جماعت نے لبیک کہا ہے میں امید رکھتا ہوں کہ باقی دنیا کی جماعتیں بھی اس طرح Soft Programing کے سلسلے میں یعنی ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مختلف نوعیت کے اچھے پروگرام بنانے کے سلسلے میں اپنی اپنی کوششیں بڑھائیں گے اور زیادہ سے زیادہ قابل لوگوں کو ٹیموں کی صورت میں ان کاموں میں منہمک کریں گے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.ذکر الہی کے سلسلے میں میں نے گزشتہ سے پیوستہ خطبہ میں جو ذ کر کیا تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہر موقع اور محل کی مناسبت سے ذکر فرمایا کرتے تھے اور ذہن ایسے حیرت انگیز طریق پر اتنی باریکی سے مضامین کی تہہ میں اترتا تھا کہ عام حدیث کو پڑھنے والا انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس میں کیا کیا فلسفے کیا کیا حکمت کی باتیں پوشیدہ ہیں اور موقع سے کیا تعلق ہے عموما لوگ سرسری طور پر حدیث پڑھ کے آگے گزر جاتے ہیں حالانکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا کلام کلام الہی کے بعد سب سے زیادہ گہرائی رکھتا ہے.اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے آنحضرت ملے کے ذکر کے مضمون کو میں بیان کر بھی دوں تو یہ ذکر مکمل نہیں ہو سکتا میری نصیحت جماعت کو یہ ہے کہ حضور اکرم کے ذکر کو غور سے پڑھ کر اس میں ڈوب کر اس کی گہرائی سے نئے نئے موتی تلاش کیا کریں اور اپنے ماحول میں پھر اس ذکر کو چلایا کریں.اب مثلا کھانے کے متعلق میں نے بیان کیا تھا، کھانا اٹھایا جا رہا ہے تو آنحضرت مﷺ کیا

Page 15

خطبات طاہر جلد 13 9 خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 1994ء ذکر فرماتے ہیں.وہ زبانی تو بتایا تھا.حدیث غالبا میں نے نہیں پڑھی تھی.وہ حدیث ترمذی ابواب الدعوات سے لی گئی ہے.حدثنا محمد بن بشار اخبر یحی ابن سعید اخبرنا ثور ابن سعيد اخبرنا ثور بن يزرد اخبرنا خالد بن معدان عن ابي امامة قال: صلى الله كان رسول الله علم اذا رفعت المائدة من بين يديه يقول الحمد لله حمدًا كثيرا طيبا مباركا فيه غير مودع ولا مستغنى عنه ربنا.هذا حديث حسن صحیح ترندی کتاب الدعوات حدیث نمبر : 3378) یہ الفاظ اب اردو میں پڑھتا ہوں.حضرت ابی عمامہ سے روایت ہے یعنی آخری روایت حضرت ابی عمامہ کی طرف سے ہے کہ آنحضرت ﷺ کے آگے سے دستر خوان اٹھایا جاتا تو یہ دعا کرتے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.بہت زیادہ تعریفیں.بہت زیادہ پاکیزہ اور برکت والی.تجھے ترک نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی تجھ سے بے نیاز ہو سکتے ہیں.یعنی کھانا کھا بیٹھے اور نہ صرف یہ کہ اسے ترک کیا جا سکتا ہے اب بلکہ لازم ہے کہ ترک کریں اس سے زیادہ گنجائش نہیں ہے اور ایک زیادہ سے زیادہ کھانے والا بھی ایک مقام پر کہہ دے گا کہ بس اٹھالو اور پھر فرمایا اور نہ ہی تجھ سے بے نیاز ہو سکتے ہیں کیونکہ رزق کے تعلق میں ایک بے نیازی کے ہونے کا مضمون بھی ہے.وقتی طور پر کھانا اٹھایا جاسکتا ہے مگر مستقل بے نیاز نہیں ہو سکتے لیکن اللہ سے نہ عارضی بے نیازی ہے نہ مستقل بے نیازی ہے کیونکہ روحانی زندگی کی یہ ساری طاقت اللہ سے وابستہ ہے.پس آنحضرت ﷺ ہر موقع اور محل کی مناسبت سے ایسا ذکر فرماتے تھے جس میں خود حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کے عظیم دلائل پوشیدہ ہیں.اب کسی ایسے شخص کو جس نے اپنی طرف سے افتراء کیا ہو اور اللہ کا مضمون گھڑا ہو اسے یہ توفیق مل ہی نہیں سکتی ، اگر کوئی کہے کہ ہو سکتا ہے تو وہ جھوٹا اور پاگل ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو افتراء کرنے والا ہے کھانا اٹھایا جا رہا ہے تو یہ باتیں سوچ رہا ہے.اس کے تو وہم وگمان میں بھی یہ باتیں نہیں آسکتیں عام طور پر دنیا میں جو اللہ والے ہیں ان کے ذہن بھی اس طرف نہیں جاتے تو ایک دہریہ اور مفتری کا دماغ کیسے ان باتوں کی طرف جا سکتا ہے.بڑے بڑے خدا والے ہیں بڑے بڑے انبیاء گزرے ہیں ان کی کتابوں کا مطالعہ کر لیں ان کی زندگی کے حالات دیکھ لیں

Page 16

خطبات طاہر جلد 13 10 10 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جنوری 1994ء جس طرح ہر مرحلے، ہر موقع پر ہر وقت کی اور ماحول کی اور مزاج کی تبدیلی کے وقت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے رب کو یاد کیا ہے وہ ایک ایک پہلو نہ صرف اللہ کی عظمت کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ آپ کی صداقت کے اوپر دلالت کرتا ہے.ایک بچے ، گہرائی کے ساتھ پورے صدق کے ساتھ عاشق ہو نے والے شخص کے سوا کوئی ایسے مواقع پر اپنے رب کو اس طرح یاد نہیں کر سکتا.یہ انسانی فطرت کے خلاف بات ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے میں نے ذکر کیا تھا کہ آنحضرت می سجدہ کیسے کیا کرتے تھے، سجدے میں کیا کیفیت ہوا کرتی تھی اسی مضمون کی ایک اور حدیث ہے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قرآن کریم کے سجدہ میں یہ دعا کرتے تھے ” میرا چہرہ اس ذات کے لئے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا.اس کی شنوائی کو بنایا اور اس کی بینائی کو بنایا.“ اب چہرے کے ساتھ دو بہت ہی اہم حواس خمسہ کے ذرائع وابستہ کر دیئے گئے ہیں اور چہرے میں اندر کا منہ شامل نہیں ہے.اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے مزے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ عربی زبان میں جو چہرہ ہے وہ باہر دکھائی دینے والا حصہ ہے.اس لئے ان دو کے تعلق میں آپ نے ذکر فرمایا کہ میرا چہرہ اس ذات کے لئے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا ، اس کی شنوائی کو بنایا اور اس کی بینائی کو بنایا اور پھر فرمایا وبحوله وقوته اپنے حول کے ساتھ اور اپنی قوت کے ساتھ.(ترمذی کتاب الجمعہ حدیث نمبر : 529).اب ایک عام پڑھنے والا سوچتا نہیں ہے کہ حول “ کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے.”قوة“ کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے لیکن ذرا توقف کریں اور غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ بینائی اور شنوائی یہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے انسان تمام خوف کی جگہوں سے بچ سکتا ہے.ہر قسم کے خطرات سے بچنے کا سب سے اہم ذریعہ جو جاندار کو عطا کیا گیا ہے وہ شنوائی اور بینائی ہے.اگر شنوائی اور بینائی نہ رہیں تو کسی خوف سے کوئی آزادی نہیں تو فرمایا: وبحوله حول“ اس طاقت کو کہتے ہیں جو خطرات سے بچانے والی ہے تو دیکھیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نگاہ کتنی گہرائی پر اتری ہے.فرمایا میرا وہ چہرہ گو تیرے حضور سجدہ ریز ہے جس کو تو نے شنوائی اور بینائی عطا کی اپنے حول کے ساتھ یعنی اپنی ان قوتوں کے ساتھ جو ہر خطرے سے بچانے والی ہیں اور پھر فرمایا:

Page 17

خطبات طاہر جلد 13 11 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 /جنوری 1994ء وبقوته بینائی اور شنوائی کے ذریعے انسان تمام منفعتیں حاصل کرتا ہے.اگر اندھا اور بہرہ ہو جائے تو کچھ بھی نہیں رہتا محض ایک سبزی کی طرح لاٹھ سی رہ جاتی ہے.اس کا کوئی وجود نہیں رہتا.تمام انسانی فوائد، تمام انسانی ترقیات سب سے زیادہ ان دو قوتوں یعنی شنوائی اور بینائی سے وابستہ ہیں.حضرت محمد رسول اللہ بڑی گہرائی اور فکر کے ساتھ سوچنے کے بعد موقع اور محل پر دعا مانگتے تھے.اس مضمون کے تعلق میں بات کیا کرتے تھے.فرمایا یہ میری آنکھیں بھی تیرے حضور سجدہ ریز ہو رہی ہیں.میرے کان بھی.اور تو ہی ہے جواب ان دونوں کی قوتوں کو بڑھا اور ان کو رفعتیں بخش، اور ایسے موقع پر پھر سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلیٰ کے مضمون میں ایک نئی شان پیدا ہوتی ہے ایک نئی بلندی پیدا ہوتی ہے.اللہ کی رفعتوں کے ساتھ سماعت کو بھی رفعت ملتی ہے.اللہ کی رفعتوں کے ساتھ بینائی کو بھی ایک رفعت ملتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ملے سے بہتر ذکر کرنے والا کبھی دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے.پس ذکر کرنے ہیں تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ عليسة ماہ سے سیکھیں.ابوداؤد کتاب الادب میں ایک یہ حدیث درج ہے.حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ جب شام ہو جاتی تو رسول کریم یہ دعا کرتے کہ ہم نے شام کی اور تمام ملک نے اللہ کے لئے شام کی.اب یہ بظاہر ایک عام سا فقرہ ہے لیکن اس میں عام طور پر خاص بات دکھائی نہیں دے گی مگر آپ کو غور کرنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تمام دنیا نے شام کی ہے.اس زمانے میں جو انسان کا دنیا کا تصور تھا وہ یہ تھا کہ ساری دنیا پر بیک وقت رات آتی ہے اور بیک وقت صبح آ جاتی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ بھی اسی سوچ کے مطابق یہ فرما سکتے تھے کہ اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں جس کے لئے ہم نے بھی شام کی اور ساری دنیا نے بھی شام کی مگر آنحضور یہ نہیں فرماتے.فرماتے ہیں اور ملک نے اللہ کے لئے شام کی اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے شعور عطا ہوا تھا کہ ہر ملک کی صبح الگ ہے ہر ملک کی شام الگ ہے.ایک ملک تو شام میں شریک ہوسکتا ہے اور چونکہ مراد ملک عرب تھا اس لئے عرب کی تو بہر حال ایک ہی شام تھی مگر ملکوں اور خطوں کی شامیں الگ الگ ہو سکتی ہیں.یہ مضمون واضح ہے کہ آنحضرت ﷺ پر روشن تھا.پس فرمایا جب شام ہو جاتی ہے.”ہم نے شام کی اور تمام ملک نے اللہ کے لئے شام کی اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.اللہ کے سوا کوئی صلى الله

Page 18

خطبات طاہر جلد 13 12 خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994ء عبادت کے لائق نہیں.وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.“ فرماتے ہیں حکومت اسی کی ہے اور سب حمد اسی کو زیبا ہے، وہ ہر شئے پر قادر ہے.میں مانگتا ہوں خیر جو اس رات میں ہے یعنی اندھیروں سے صرف شر ہی تو وابستہ نہیں، خیر میں بھی تو وابستہ ہیں.سکینت بھی ملتی ہے اور بہت سے فوائد ہیں جو ملتے ہیں جو اندھیروں سے وابستہ ہیں.فرمایا ” میں مانگتا ہوں خیر جو اس رات میں ہے اور خیر جو اس رات کے بعد آنے والی ہے اور اس رات کے شہر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس رات کے بعد کی برائی سے بھی سستی سے اور تکبر کی برائی سے میں آگ کے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں.سستی سے اور تکبر کی برائی سے یہ دو باتیں خصوصیت سے میرے نزدیک رات کے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں کہ رات چونکہ آرام کے لئے ہے اس لئے سستی اور آرام کا آپس کا ایک رشتہ ہے اور آرام اگر زیادہ ہو جائے اور بے وجہ ہو جائے تو اسی کا نام سستی ہے اور عموما قو میں جو زیادہ آرام طلب ہو جاتی ہیں وہ تنزل اختیار کر جاتی ہیں.راتیں آرام کے لئے ہیں مگر اتنے آرام کے لئے کہ جو کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کر دے.اگر نیند کو ایک عیش کا ذریعہ بنالیں تو وہ پھر ستی طاری کر دیتی 66 ہے اور ہر کام پرشستی طاری ہو جاتی ہے.(ابوداؤد کتاب الادب حدیث نمبر: 4409) پھر فرمایا تکبر.تکبر کارات کے ساتھ یا بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ راتوں کے جو آرام ہیں ان میں متکبر جس جس قسم کی نعمتیں جس جس قسم کے محل اپنے لئے بناتے ہیں.اپنی راتوں کو جس طرح عیش وعشرت کا ذریعہ بناتے ہیں غالبا اس طرف اشارہ ہو گا کہ راتیں اپنے ساتھ متکبروں کے لئے خاص قسم کے پیغامات بھی لاتی ہیں.خاص قسم کے سامان فراہم کرتی ہیں اور ان کی راتوں کی زندگی خاص طور پر تکبر میں صرف ہوتی ہے اور سجدہ ریزی میں صرف نہیں ہوتی.وہ سمجھتے ہیں راتیں ہمارے عیش و عشرت کے لئے بنائی گئی ہیں اور امیر لوگ بعض علاقوں میں بعض دفعہ ساری رات جاگ کر ہر قسم کی گندگی میں مبتلا ہوتے ہیں.ان کی رعونت اور ان کا تکبر کا سب سے زیادہ مظہر ان کی راتیں ہوتی ہیں.پس سُستی سے بھی نجات کے لئے دعا مانگی اور تکبر سے بھی نجات کے لئے اور بچنے کے لئے دعا مانگی.پھر فرمایا اور میں آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں.آگ کے عذاب کا تعلق تو پہلی دونوں باتوں سے ہے یعنی شر والا پہلو بھی ہے رات میں اور اس کے بعد جو آنے والا ہے اس میں بھی شر کا پہلو ہے.

Page 19

خطبات طاہر جلد 13 13 خطبه جمعه فرموده 7 / جنوری 1994 ء سستی کا پہلو بھی ہے، تکبر کا پہلو بھی ہے اور یہ دونوں باتیں انسان پر آگ واجب کر دیتی ہیں.اس لئے فرمایا کہ میں آگ سے پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں.قبر کے عذاب سے“ کا ذکر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ نیند کوموت کے ساتھ ایک مشابہت ہے اور موت کی جو کیفیت قبر کی حالت میں ہوگی وہ ایک نیم جاگنے اور نیم سونے کی سی کیفیت ہے تو سوتے وقت کو قبر کے وقت کے مشابہ قرار دینا بھی ایک بہت فصاحت و بلاغت کا کلام ہے.سونے سے پہلے موت کا خیال آنا لیکن عارضی موت کا.ابھی پوری طرح موت اپنے تمام عوارض کے ساتھ آگے نہیں بڑھی.قبر کی حالت وہ ہے جو اگلی دنیا کے لئے پہلی تیاری کا حکم رکھتی ہے اور جس طرح ہمارے لئے نیند ہے اسی طرح اگلی دنیا کی جاگ سے پہلے قبر کی حالت ہے تو فرمایا میں قبر کے عذاب سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں.پھر ترمذی کتاب الدعوات ہی سے حذیفہ بن الیمان کی یہ حدیث لی گئی ہے وہ عرض کرتے ہیں کہ ”جب نبی کریم سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنے ہاتھ سر کے نیچے رکھتے اور پھر عرض کرتے.اے میرے اللہ مجھے اس دن کے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا یا اٹھائے گا.“ ( ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر: 3320) اب اس کا بھی اسی مضمون سے تعلق ہے.سونے سے پہلے چونکہ انسان پر ایک قسم کی موت طاری ہونے والی ہوتی ہے.اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا (الزمر: 43) یہی مضمون ہے قرآن کریم کا جس کو حدیث میں مختلف دعاؤں میں ڈھالا جا رہا ہے کہ ہم ایسی حالت میں جارہے ہیں کہ موت سے کچھ مشابہت ہو رہی ہے اور موت سے تعلق میں سب سے زیادہ پہلا خیال انسان کو قبر کے عذاب یا آگ کے عذاب کا آنا چاہئے کیونکہ یہی دو بدانجام ہیں جو انسان کو موت کے بعد ملا کرتے ہیں.تو بد انجام سے پناہ کے وقت پناہ حاصل کرنے کے لئے بہت ہی اچھا موقع ہے کہ سونے سے پہلے انسان یہ دعائیں کرے.پھر اسی کیفیت کی ایک اور دعا کتاب الدعوات ہی میں حذیفہ ابن الیمان سے مروی ہے.وہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم کہ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو کہتے ”اے اللہ تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ جیتا ہوں.یہاں بھی وہی مضمون ہے کہ ایک عارضی موت میں سے

Page 20

خطبات طاہر جلد 13 14 خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1994ء انسان گزرنے والا ہے جومستقل بھی ہو سکتی ہے کوئی پتا نہیں کہ پھر اٹھیں گے کہ نہیں اٹھیں گے.تو ہر دفعہ جب سونے لگے تو انسان موت کو ضرور یاد کرے اور موت سے پہلے جس طرح انسان گھبراہٹ میں دعائیں مانگتا ہے اور دنیا کو بھلا کر سب سے زیادہ خدا کی ناراضگی کے خوف سے بچنے کے لئے استغفار کرتا ہے وہی کیفیت ہر رات کو حضرت اقدس محمد مصطفی میلے پر طاری ہوتی تھی.باوجود اس کے کہ آپ کو ہر عذاب سے پناہ دی جا چکی تھی.پس اگر آنحضرت میں نے بھی اپنے بارے میں ایسی احتیاط فرماتے تھے کہ عارضی موت سے پہلے بھی خدا تعالیٰ کی طرف گریہ وزاری سے متوجہ ہوتے اور آگ کے عذاب سے بچنے کی دعائیں کرتے تھے تو ایک عام گنہگار انسان کے لئے تو ہزار گنا زیادہ یہ واجب ہے کہ موت کے مشابہ ہر کیفیت سے پہلے وہ استغفار سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرے اور آگ کے عذاب سے پناہ مانگے.آنحضور فرماتے ہیں.اے اللہ تیرے نام کے ساتھ میں مرتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ جیتا ہوں.اس میں صبح اٹھنے کی دعا بھی شامل ہوگئی ہے تیرے نام کے ساتھ روز مرتا ہوں یعنی رات کے وقت اور پھر تیرے نام کے ساتھ جیتا ہوں اور جب نیند سے بیدار ہوتے تو کہتے ”تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے مجھے مارنے کے بعد زندہ فرمایا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : 3336) پھر ترمذی کتاب الدعوات ہی سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث لی گئی ہے کہ نبی اکر م جب رات بستر پر سونے کے لئے تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے ان میں پھونک مارتے اور ان میں سورۃ اخلاص اور معوذتین پڑھتے اور پھر ان سے جس حد تک پہنچ سکتے جسم کا مسح فرماتے.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر : 3324) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سارے جسم کے ہر حصے پر ہاتھ پہنچانا اور اس کو رگڑنا ضروری ہے یہ غلط ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ حدیث ہے کہ وہ جس حصے تک آرام سے ہاتھ پہنچ سکتا تھا پہنچاتے باقی ہاتھ کا اشارہ ہی کافی سمجھتے تھے.سراور چہرے سے شروع فرماتے اور جسم کے سامنے والے حصے پر زیادہ مسح فرماتے.یعنی یہ نہیں کہ اٹھ اٹھ کر پیچھے بھی ہاتھ پھیرے جائیں.بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے جن کو اس حدیث کا پورا علم نہیں ہوتا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الٹ پلٹ کر کے سارے بدن پر ہاتھ ملنے ضروری ہیں، یہ غلط طریق اور غیر فطری

Page 21

خطبات طاہر جلد 13 15 خطبہ جمعہ فرموده 7 / جنوری 1994ء طریق ہے.آنحضور جسم کے سامنے والے حصے پر جہاں آسانی سے ہاتھ پہنچتے ہیں وہاں تک تبر گا پھیرتے تھے اور ایک علامتی طور پر یہ بات فرمایا کرتے تھے.تین مرتبہ ایسا کیا کرتے تھے ورنہ دعا تو وہی تھی جو دل سے اٹھتی تھی اور فور قبول ہو جایا کرتی تھی.حضرت انس بن مالک کی روایت ہے یہ بھی ترندی کتاب الدعوات سے لی گئی ہے کہ جب صلى الله رسول کریم بستر پر تشریف لے جاتے تو یوں خدا کا ذکر کرتے ”سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور ہمیں پلایا اور ہمارے لئے کافی ہوا اور ہمیں پناہ دی اور کتنے ہی ہیں جن کے لئے کوئی ایسا وجود نہیں کہ ان کے لئے کافی ہو اور انہیں پناہ دے.(ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر :3318) سارے دن کے مشاغل کے بعد رات کو دراصل نیند میں انسان تھکاوٹ سے پناہ مانگتا ہے.ہر قسم کی محنتوں کے بعد اور پھر ہر قسم کے خطرات سے جو پناہ بستر میں ملتی ہے دیسی پناہ کسی اور جگہ نصیب نہیں ہوتی.سب جانور بھی تھک کر جب اپنے آرام کی جگہ کو پہنچتے ہیں تو وہی ان کی پناہ گاہ بن صلى الله جاتی ہے.آنحضرت ﷺے دن پر نظر کرتے ہوئے یاد فرماتے تھے کہ ہمیں اللہ نے کھانا کھلایا اللہ ہی نے پلایا اور ہمارے لئے کافی ہوا اور ان پر بھی نظر ڈالتے تھے جن کے لئے وہ کافی نہیں ہوا یعنی اللہ تو ویسے سب کا ئنات کے لئے ہے لیکن وہ لوگ جو خدا سے تعلق تو ڑلیتے ہیں پھر وہ خدا کے ذمے سے نکل جاتے ہیں یعنی عمدا گناہوں میں بڑھ کر بعض دفعہ انسان واقعہ اللہ کے ذمے سے باہر چلا جاتا ہے.تو ان کا بھی خیال کرتے اور فرماتے کتنے ہی ہیں جن کے لئے کوئی ایسا وجود نہیں کہ ان کے لئے کافی ہو اور انہیں پناہ دے.پھر حضرت عبد اللہ بن سر جس سے روایت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر تشریف لے جاتے تو کہتے اے اللہ سفر میں تو ہی ہمارا ساتھی ہے یعنی نیند کے ذکر کے بعد اب سفر کے ذکر میں ہم داخل ہوتے ہیں.ان حدیثوں سے یہ ظاہر ہے کہ سونا جاگنا اللہ ہی کے نام پر ہوتا تھا.اللہ ہی سے باتیں ہوتی تھیں.اللہ کے نام سے سوتے تھے اللہ کے نام سے جاگتے تھے اور رات کی جو کیفیت تھی اس میں بھی عام حالتوں کے مقابل پر زیادہ قرب الہی نصیب تھا کیونکہ دنیا سے جب ہم وفات کے بعد عالم برزخ میں جاتے ہیں تو احادیث سے ثابت ہے کہ اگر ہم جنتی وجود ہیں تو ہمیں جنت کی ہوائیں زیادہ ملتی ہیں اور اگر جہنمی وجود ہو تو جہنم کے بھیجھکے بھی پہنچتے ہیں اگر چہ پوری قوت

Page 22

خطبات طاہر جلد 13 16 خطبه جمعه فرموده 7 / جنوری 1994ء کے ساتھ نہیں.اس لئے وہ خدا کے بندے جو خدا کا قرب چاہتے ہوئے دن گزارتے ہیں جب وہ رات کو سوتے ہیں تو ان کا عالم برزخ ایک قسم کی جنت کا عالم برزخ ہوتا ہے.پس سوتے بھی اللہ کا نام لے کر تھے اٹھتے بھی اللہ کا نام لے کر تھے اور رات کے وقت مختلف رویائے صادقہ کے ذریعے وحی جاری رہتی تھی اور اللہ کی طرف سے اپنے قرب کی ایسی علامتیں ضرور نصیب ہوتی ہوں گی جن کو ہم جنت کی کھڑکیوں کے ٹھنڈے جھونکے قرار دے سکتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن سر جس کی روایت ہے کہ سفر پر روانہ ہوتے تو خدا کے حضور یہ عرض کرتے ”اے اللہ سفر میں تو ہی ہمارا ساتھی ہے اور گھر میں تو ہی نگران ہے.اے اللہ ہمارے سفر میں تو ہمارا ساتھی بن اور ہمارے اہل پر ہمارا جانشین می دو باتیں ہیں.اے اللہ سفر میں تو ہی ہمارا ساتھی ہے اور گھر میں تو ہی نگران ہے ایک یہ بیان کیا ہے اور ساتھ ہی یہی دعا کی ہے کہ اے اللہ ہمارے سفر میں تو ہمارا ساتھی بن اور ہمارے اہل میں ہمارا جانشین بن.( ترمذی کتاب الدعوات: 3360) اس میں ایک تو مستقل طور پر جو دائی حقیقت ہے اس کا بیان ہے کہ سفر میں اللہ کے سوا کوئی ساتھی نہیں ہے حقیقت میں وہی ہے اور گھر کا بھی حقیقی نگران وہی ہے.یہ ایک عام جاری وساری کیفیت کا اور حقیقت کا حال بیان ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں پھر ذہن دعا کی طرف مائل ہوتا ہے اور بذات خود انسان با شعور طور پر یہ تمنا کرتا ہے کہ اے اللہ تیرے سوا کوئی سفر کا ساتھی ہو نہیں سکتا اس لئے تو ہمارا ساتھی بن جا یعنی بالا رادہ ہمارے ساتھ ہو.ہماری ہر مشکل اور مصیبت میں کام آ اور پیچھے ہمارے گھر کا تو ہی نگران اور جانشین ہو جا، یعنی گھر کو ہر قسم کی آفات سے بچائے رکھ.ہر قسم کی ضرورتیں ان کی پوری فرمانے والا ہو.ہر قسم کے خوف سے امن دینے والا ہو.پس صرف اپنے لئے جاتے ہوئے دعا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے بھی جن کو پیچھے چھوڑ کر جایا کرتے تھے اور دونوں کو اللہ ہی کے سپر در کھتے تھے.اے اللہ ہم سفر کی مشقت سے اور بُرے لوٹنے سے تجھ سے پناہ مانگتے ہیں.یعنی سفر میں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں ان کی مشقت سے بھی اور بد حال گھروں کو لوٹنے سے، تجھ سے پناہ مانگتے ہیں اور مظلوم کی پکار سے اور کسی بُرے منظر سے.مظلوم کی پکار سے اور برے منظر سے اس لئے کہ حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں صرف یہی نہیں کہ آپ ہی پناہ میں آئیں بلکہ اگر کسی تکلیف دہ منظر کو آنکھوں سے دیکھ بھی لیں تو وہ بھی بڑی تکلیف کی چیز ہے تو فرمایا کہ نہ صرف ہم تک

Page 23

خطبات طاہر جلد 13 17 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 / جنوری 1994ء شر نہ پہنچے بلکہ شر کی جگہوں سے ہمیں بچائے رکھا اور اس میں آپ کے ساتھ مسافروں کے لئے بھی دعا ہوگئی اور سفر میں جن جن جگہوں سے جن جن گلیوں سے آپ کا گزر ہوتا تھا ان سب کے لئے دعا ہو گئی یعنی ایسا پاک وجود جس کے جانے سے ہر جگہ برکت ہی برکت ہو جس کے ماحول میں کوئی برا واقعہ پیش نہ آ رہا ہو.یہ ایک بہت ہی پیاری دعا ہے جسے آپ نے ہم سب کے لئے ایک فیض عام کے طور پر ہم تک پہنچایا ہے کہ میں یعنی رسول کریم ﷺ یہ کیا کرتا تھا اور اگر آپ یہ دعا نہیں بھی کرتے تو بھی اللہ کی رحمت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتی تھی لیکن اس کے ذریعہ ہمیں یہ بتایا کہ ایسی دعا کیا کرو کہ اس دعا کا فیض صرف تم تک نہ پہنچے تمہارے گھر تک نہ پہنچے بلکہ تمہارے ساتھ عام نور بن کر پھرتا رہے.جن شہروں میں تم جاؤ ان کے لئے برکت کا موجب بنے ، جن گلیوں سے تم گزروان کے لئے برکت کا موجب بنے ، جن سواریوں پر تم سوار ہو ان کے لئے برکت کا موجب بنے اور کوئی برائی تم نہ دیکھو یعنی تمہارے ماحول تمہارے گردو پیش میں کوئی برائی پیدا نہ ہو اس لئے یہ دعا بھی بہت ہی اہم ہے جسے ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.’ اور مظلوم کی پکار سے عام طور پر دنیا میں ظلم ہوتے رہتے ہیں اور ایک انسان بعض دفعہ بے بس ہو جاتا ہے.مسافر ہے کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن جب یہ کسی مظلوم کی پکار کوسنتا ہے تو دل کو بہت چوٹ لگتی ہے تو فرمایا کہ اس سے بھی ہمیں بچا کہ ہم تک کسی تکلیف زدہ کی کوئی چیخ پہنچے.(ترمذی کتاب الادب حدیث نمبر : 3349).حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ہے جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو یہ الفاظ دہراتے اللہ کے نام کے ساتھ گھر سے باہر نکلتا ہوں.اللہ پر ہی تو کل کرتا ہوں.اے اللہ ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس بات سے کہ ہم لغزش کھائیں یا گمراہ ہوں یا ظلم کریں یا ہم پر ظلم کیا جائے یا ہم جہالت کی کوئی بات کریں یا ہمارے خلاف کوئی جہالت کرے.“ یہ تمام وہ باتیں ہیں جو سفر میں در پیش ہوتی ہیں اگر چہ عام دنیا کے حالات میں ایک مقیم کے لئے بھی یہ خطرات رہتے ہیں لیکن مسافر ہونے کی حالت میں یہ خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں اور ایک مسافر کے لئے زیادہ اس بات کا احتمال ہے کہ اس پر جہالت کی جائے.تو آنحضرت ﷺ نے جہاں جہاں ظلم اور جہالت سے بچنے کی دعا مانگی ہے وہاں یہ بھی مانگی ہے کہ دنیا کو بھی ہمارے ظلم اور ہماری جہالت سے بچا.

Page 24

خطبات طاہر جلد 13 18 خطبہ جمعہ فرموده 7 / جنوری 1994ء اس دعا میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی فطرت کی صداقت کس طرح ظاہر وباہر ہے یعنی محض اپنے لئے طلب نہیں ہو رہی بلکہ جو چیز اپنے لئے چاہتے ہیں غیر کے لئے بھی وہی چاہتے ہیں اور صرف یہ نہیں کہ ہمیں ہی ظلم سے اور جہالت سے بچائے رکھ.بعض دفعہ نا دانستہ بھی انسان دوسرے پر ظلم کر بیٹھتا ہے، نادانستہ یا بلا ارادہ جہالت کی بات کر بیٹھتا ہے تو فرمایا کہ ہم صرف دوسروں کے ظلم اور جہالت سے پناہ نہیں مانگ رہے.اے خدا ہمارے ظلم اور جہالت سے بھی دنیا کو پناہ دینا.اس میں بہت گہرے سبق ہیں اور ایک سبق اس میں یہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ قبولیت دعا کے لئے دعا کا فیض عام کرنا چاہئے اگر دعا محض خود غرضی کی ہو تو اسے پایہ قبولیت میں ایسی جگہ نہیں مل سکتی جیسی ایک بے غرض کی دعا ہوتی ہے پس جہاں غیروں کی غرض کو اپنی غرض میں شامل کر لیا جائے وہ دعا زیادہ مقبول ہو جاتی ہے کیونکہ وہ رب العالمین کے ساتھ ایک گہرا تعلق رکھتی ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے، سب جہان کے لئے جب آپ فیض مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے.دوسرے یہ کہ جو سبق میں نے اس سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ واقعہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو اللہ دشمنوں کی جہالت اور ان کے ظلم سے بچائے تو اپنے ہاتھ ظلم اور جہالت سے روکیں اگر آپ کے ہاتھ ظلم پر لمبے ہوتے ہیں اور جہالت پر دراز ہوتے ہیں تو پھر یہ دعا کرنا کہ اے اللہ ہمیں ظلم سے بچا اور ہمیں جہالت سے بچا محض ایک کھو کھلی اور بے معنی دعا ہو گی.پس دعا کے دوسرے پہلو نے صرف دعا نہیں سکھائی زندگی کے آداب سکھائے ہیں ایک روز مرہ کی زندگی کا سلوک بتایا ہے کہ تم اگر اللہ تعالیٰ سے جہالت سے بچنے کی دعا مانگتے ہو تو لازم ہے کہ خدا کے بندوں کو اپنی جہالت سے بچاؤ.اگر اللہ تعالیٰ سے ظلم سے بچنے کی دعا مانگتے ہو تو لازم ہے کہ خدا کے بندوں کو اپنے ظلم سے بچاؤ.اگر اللہ تعالیٰ سے ظلم سے بچنے کی تمنار کھتے ہو تو تم پر فرض ہے کہ دنیا کو اپنے ظلم سے بچاؤ اور پھر نیک عمل کے ساتھ یہ دعا کرو گے تو دعا مرفوع ہوگی کیونکہ قرآن کریم نے یہ راز ہمیں سمجھا دیا ہے کہ وہ کلمہ طیبہ جو عمل صالح ساتھ رکھتا ہو، عمل صالح کی طاقت رکھتا ہو وہ آسمانوں کی رفعتوں تک بلند ہو جاتا ہے اور جس کے ساتھ اعمال کا ایندھن نہ ہو اس میں اٹھنے کی طاقت نہیں جیسے بغیر ایندھن کے جہاز اڑانے کی کوشش کی جائے.تو اسی دعا نے یہ سارے مضمون ہمیں سکھا دیے کہ دعا غیروں کے لئے بھی کرو اور اپنے لئے بھی کرو اور عمل سے بھی اس دعا کی تائید کرو تو پھر دیکھو کہ کس طرح تمہارے حق میں یہ دعا

Page 25

خطبات طاہر جلد 13 قبول ہوتی ہے.19 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جنوری 1994ء نبی کریم ہے جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو یوں کہتے.”ہم لوٹ رہے ہیں تو بہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے.“ یہ دعا بھی گہری حکمت رکھتی ہے.عام طور پر جب ہم سفر سے واپس لوٹتے ہیں تو پہلی بات یہ کرتے ہیں اور اکثر یہی کرتے چلے جاتے ہیں کہ الحمد للہ خدا نے خیر و عافیت سے سفر تمام کیا اور ہم خوش خوش اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے ہیں مگر حضرت اقدس محمد مصطفی مے خدا کی طرف لوٹنے کے ساتھ اس مضمون کو باندھ دیا کرتے تھے اور یہ آپ کی سچائی کی بہت گہری دلیل ہے.حقیقت میں اگر کوئی اپنے نفس کا عرفان رکھتا ہو تو اس کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے عرفان کی بھی صلاحیت عطا ہو جاتی ہے اگر اپنے نفس کا ہی عرفان نہ ہو تو کسی عرفان کی بھی صلاحیت نہیں ہوسکتی تو وہ جاہل اور گستاخ جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر حملے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیا نشان دیا ؟ کیا دکھایا؟ اگر ان میں ذرا بھی بصیرت ہو اور آنحضور ﷺ کی روزمرہ کی زندگی کے ایک عام دستور کو دیکھیں تو وہیں سے ان کو آپ کی صداقت کے نشان مل جائیں گے اور ہر نشان کافی ہو گا.ایک ہی دلیل حضور اکرم کی صداقت پر روز روشن کی طرح گواہ رہے گی.اب یہ دیکھیں کہ سفر سے لوٹنے کے بعد یہ عرض کر رہے ہیں کہ ہم تیری طرف تو بہ کے ساتھ لوٹتے ہوئے لوٹ رہے ہیں یعنی انسان سفر سے گھر کے آرام کی طرف آتا ہے اور اسے پناہ ملتی ہے.اگر انسان نے خدا کی طرف جانا ہے اور تو بہ کے بغیر اسے وہ پناہ مل نہیں سکتی.تو عارضی سفر کا خیال دل سے وقتی طور پر محو ہو جاتا ہے اور زندگی کے لمبے سفر کی طرف دھیان چلا جاتا ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ ہم نے خدا کی طرف جانا ہے پس اس سے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم تو بہ کے ساتھ تیری طرف لوٹنے والے بہنیں اور تو ہمیں قبول فرما اور ہمیں اس طرح پناہ دے جس طرح سفر کی تھکاوٹ کے بعد گھر پناہ دیا کرتا ہے.ہم اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے حضر اور سفر کو ویسا ہی بنادے جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے کلام سے اور اپنے اسوہ سے ہمیں تعلیم عطا فرمائی ہے.یہ مضمون لمبا ہوتا چلا جارہا ہے مگر اچھا ذ کر ہے بہت ہی پیارا ہے جتنا لمبا ہو، اچھا ہے.انشاء اللہ باقی آئندہ خطبے میں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ.

Page 26

خطبات طاہر جلد 13 20 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جنوری 1994ء پھر فرمایا.اگر چہ انٹرنیشنل احمد یہ ٹیلی ویژن کے وقت کے لحاظ سے کوئی قید نہیں ہے جو خطبہ کو میں لمبا بھی کر سکتا ہوں لیکن ربوہ والوں کے مجھے ابھی سے خط آ رہے ہیں شکووں کے کہ آپ ٹیلی ویژن پر لمبے لمبے خطبہ دیا کریں گے ہم کیا کریں گے ہمارا تو گھنٹے کا وقت ختم ہو جائے گا.اس لئے گھنٹے کے اندر مضمون سمیٹا کریں تو جب تک ان کا وقت نہ بڑھ جائے اس وقت تک بہر حال ہمیں احتیاط کرنی چاہئے اور وقت کے اندر مضمون کو ختم کرنا چاہئے.

Page 27

خطبات طاہر جلد 13 21 24 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994 ء ذِكْرًار سُولًا ایسا رسول جو مجسم ذکر ہے.صلى الله آپ کے ذکر الہی کرنے کے حسین تذکرے (خطبہ جمعہ فرموده 14 جنوری 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی.وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيْضُ لَهُ شَيْطَنَّا فَهُوَ لَهُ قَرِيْنٌ.پھر فرمایا:.(الزخرف: 37) ذکر الہی پر جو خطبات کا سلسلہ جاری ہے اس سلسلے کی یہ کڑی ہے جس کے آغاز میں میں نے چند ایسی حدیثوں کا انتخاب کیا ہے جن کا تعلق ذکر نہ کرنے والوں سے ہے اور اس کے بعد پھر میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ذکر کے آغاز کے متعلق چند احادیث آپ کے سامنے رکھوں گا.آج کے اجتماعات کے سلسلے میں ایک اعلان ہے جو میں اس سے پہلے کرنا چاہتا ہوں.ضلع میر پور آزاد کشمیر کا پانچواں جلسہ سالانہ آج منعقد ہو رہا ہے اور امیر صاحب ضلع کی درخواست ہے کہ ہمیں تمام دنیا کی جماعتیں خصوصیت سے دعا میں یاد رکھیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا جو کوئی ایسی جگہ بیٹھا جس میں اس نے اللہ کا ذکر نہ کیا اس پر اللہ کی طرف سے حسرت ہوگی اور جو کوئی اس حال میں لیٹا کہ اس میں وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتا اس پر اللہ کی طرف سے حسرت اور گھاٹا ہے اور

Page 28

خطبات طاہر جلد 13 22 22 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء جو کوئی تم میں سے کچھ چلا اور وہ اس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتا اس پر اللہ کی طرف سے حسرت اور گھاتا ہے.یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کا عکس بعینہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر صادق آتا ہے کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی گھاٹے والا نہیں تھا.پس جب آپ فرماتے ہیں کہ کوئی ایسی جگہ بیٹھا جہاں ذکر نہیں کیا اس کے لئے گھاٹا ہے اور حسرت ہے تو یہ خیال ایک ذکر کرنے والے ہی کو آسکتا ہے.جب آپ فرماتے ہیں کہ جو چلا اور اس نے ذکر نہ کیا اس کے لئے گھاٹا ہے تو یہ خیال بھی ایک ذکر کرنے والے ہی کو آسکتا ہے.جس نے یہ کہا کہ وہ شخص جو اس حال میں لیٹا کہ اس نے ذکر نہیں کیا یہ خیال بھی صرف ذکر کرنے والے کو ہی آ سکتا ہے ورنہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اٹھتے بھی ہیں، بیٹھتے بھی ہیں، چلتے بھی ہیں، سوتے بھی ہیں اور کتنا ہی اٹھنا بیٹھنا اور چلنا اورسونا ذکر سے خالی ہوتا ہے.پس وہ گھاٹے کا سودا جس کا اس میں ذکر ہے آج اس دنیا پر اس کا اطلاق ایسے ہو رہا ہے جیسے کبھی پہلے نہیں ہوا تھا چنا نچہ قرآن کریم نے جو گواہی دی ہے.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر :۲تا۴) اس میں جو گھاٹے والا زمانہ بتایا گیا ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے فرمان سے یہ مسئلہ حل ہوا کہ کس چیز کا گھاتا ہے کہ دنیا چلتے ہوئے بھی خدا کو بھولے رہتی ہے، بیٹھے ہوئے بھی اس کو بھولتی ہے، اٹھتے ہوئے بھی بھولتی ہے.سوتے جاگتے ہر حالت میں خدا کو بھولے ہوئے ہے،صرف ایک ایسا موقع ہے جب دنیا کو خدا یاد آتا ہے یعنی جب مصائب انسان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں، جب آفات سماوی اس پر آپڑتی ہیں، جب طرح طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوتا ہے.صرف وہ وقت ہے جس وقت انسان اللہ کو یاد کرتا ہے مگر ایسا یاد کرنا بے کار ہے کیونکہ وہ یاد خالصہ نفس کی یاد ہے اللہ کی نہیں.حقیقت میں نام تو اللہ کا لیا جارہا ہے لیکن اپنے نفس کی محبت نے مجبور کیا ہے.اللہ کی محبت کے حوالے سے نفس یاد نہیں رہتا بلکہ نفس کے حوالے سے اللہ یاد آتا ہے اور ان دونوں مضمونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے.پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم ان بدنصیبوں میں سے نہ ہوں جن کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خبر دی کہ جو ذکر الہی کے بغیر

Page 29

خطبات طاہر جلد 13 23 23 جیتے ہیں ان کی ساری زندگی گھاٹے کی زندگی ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيْضُ لَهُ شَيْطَنَّا فَهُوَ لَهُ قَرِيْنَّ که جوشخص اللہ کے ذکر سے احتراز کرتا ہے اس کے لئے ہم ایک شیطان کو مقرر کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے.اب زمانے کے حالات کو اس حدیث کی روشنی میں دوبارہ دیکھیں تو یہ مسئلہ سمجھ آتا ہے کہ حقیقت میں کوئی انسان خلا میں نہیں رہ سکتا.جب اللہ کے ذکر سے دل خالی ہو تو اس دل پر ضرور شیطان قبضہ کرتا ہے اور شیطان اس وقت دنیا کا ساتھی بن جاتا ہے جب دنیا ذکر سے خالی ہو جاتی ہے.تو ساری دنیا میں جو آفات اور مصائب پھیلے پڑے ہیں حقیقت میں یہ ذکر الہی کے فقدان کے نتیجے میں ہیں.اگر ذکر الہی ہو تو شیطان کو وہاں قدم رکھنے کی مجال نہیں ہے، اجازت نہیں ہے.پس ہر قسم کی آفات سے بچنے کے لئے ہمیں ذکر الہی کو زندہ کرنا ہے اور پہلے اپنی ذات میں ہمیں اس ذکر کو زندہ کرنا ہو گا ، اپنے دل کو ذکر سے معمور کرنا ہو گا پھر اس ذکر کو عام کرنا ہوگا کیونکہ ذکر کے لفظ میں اگر چه خاموش یاد بھی شامل ہے لیکن حقیقت میں اس میں آواز دے کر یاد کرنے کا مضمون زیادہ غالب ہے کیونکہ اس کے ذریعے دنیا کو نصیحت ہوتی ہے اس لئے ذکر کے معنی نصیحت کے بھی ہیں.آباؤ اجداد کی اچھی باتیں فخر سے بیان کرنے کو بھی ذکر کہتے ہیں، دل میں خاموشی سے بھی اللہ کو یاد کرنے کو ذکر کہا جاتا ہے مگر زیادہ تر ذکر کے ساتھ اونچی آواز میں یاد کرنا سمجھا جاتا ہے اور یہ اس مضمون میں داخل ہے.پس میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اکثر دل میں ذکر تو کرتے ہی ہوں گے کہ احمدی ذکر سے خالی نہیں ہیں مگر اپنی مجالس کو ذکر سے سجائیں.اپنے گھروں میں، اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اور کھانوں کے اوقات میں مہمانوں کی آمد پر مجلسوں کے دوران کچھ وقت ضرور ذ کر کیا کریں کیونکہ ذکر کے نتیجے میں آپ کی مجالس کو تقدس حاصل ہوگا.آپ کی مجالس اگر ذکر سے خالی ہوں گی تو کسی نہ کسی حد تک شیطان ان میں ضرور دخل دے گا.پس ہماری عورتوں میں جتنی بھی چغلی کرنے کی عادت ہے، اکٹھی بیٹھیں تو کسی اور بہن کی برائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور بعض علاقے ہیں وہاں مردوں کی بھی ایسی عادت ہے.ان کی اس عادت پر یہی مضمون صادق آتا ہے کہ جہاں ذکر نہیں ہوگا وہاں شیطان مقرر کر دیا جائے گا وہ اپنے تذکرے چھیڑ دیتا ہے اور یہ ساری لغو

Page 30

خطبات طاہر جلد 13 24 خطبه جمعه فرمودہ 14 جنوری 1994ء باتیں ذکر کے فقدان سے ہوتی ہیں اگر ذکر ہو تو اس میں مزاح کا موقع بھی موجود ہوتا ہے.یہ نہیں کہ ذکر کے وقت ناممکن ہے کہ انسان ہنس سکے.اگر حضرت رسول اکرم سے ذکر سیکھا ہے تو آپ کی زندگی پر غور کر کے دیکھیں آپ اسی ذکر کی حالت میں ہنستے بھی تو تھے.لطائف بھی چلتے تھے ، مگر ایک فرق تھا جو آپ کے لطائف اور باقی لطائف میں تھا.آپ کا لطیفہ بھی کسی کو دکھ نہیں دیتا تھا، آپ کے لطیفے میں کوئی تحقیر کا پہلو نہیں تھا بلکہ محبت غالب رہتی تھی، پیار کے ساتھ ہنستے تھے اور پیار کے ساتھ ہنساتے تھے ، پس اس پہلو سے اگر آپ ذکر کے مضمون کو سمجھیں تو ذکر کسی ایسی حالت کا نام نہیں جس میں آپ روز مرہ زندگی کے مشاغل میں حصہ نہ لے سکیں جیسا کہ میں آگے جا کے بیان کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی کے مشاغل کے ساتھ ساتھ ذکر چلتا تھا.اس کے لئے کوئی الگ بیٹھ کر ، ایک طرف ہو کر ، خدا کو یاد کرنے کے لئے وقت نکالنے کی ضرورت نہیں.وہ زندگی کے ہر لمحے میں ساتھ ساتھ رہتا تھا اور یہی وہ ذکر کا طریق ہے جسے آج ہمیں اپنانا ہو گا اور سب دنیا کو سکھانا ہوگا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے.صلى الله قال قال رسول الله له ما من قوم يقومون من مجلس لا يذكرون الله فيه الا قاموا عن مثل جيفة حمار وكان لهم حسرة.(ابوداؤد کتاب الادب حدیث نمبر : 4214) ابو داؤد کتاب الادب سے یہ حدیث لی گئی ہے.ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا جو کوئی قوم یا کوئی گروہ ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں وہ اللہ کا ذکر نہ کرے تو گویا گدھے کی لاش پر بیٹھے ہیں ان پر حسرت ہے.اب گدھے کی لاش پر بیٹھنے کا مضمون بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے.بات یہ ہے کہ فی الحقیقت انسان، انسان ہی کی لاشوں پر بیٹھا کرتا ہے اور جانور، جانوروں کی لاشوں پر اکٹھے ہوتے ہیں.میں نے بارہا دیکھا ہے کہ اگر ایک گدھا مر جائے تو گدھے اس کو آ کے سونگھتے ہیں اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور ایک دفعہ گھوڑی کے بچے کو مرے ہوئے میں نے دیکھا کہ صرف اس کی ماں ہی نہیں دوسرے گھوڑے بھی قریب آتے تھے اور اس کو سونگھتے تھے اور چلے جاتے تھے.اسی طرح جنگلوں میں اپنے ہم جنسوں کی لاشوں پر ہم جنس

Page 31

خطبات طاہر جلد 13 25 خطبہ جمعہ فرموده 14 / جنوری 1994ء اکٹھے ہو جاتے ہیں تو حقیقت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا یہ پیغام ہے کہ تم گدھے ہو جو ایسی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے ہو جہاں خدا کا ذکر نہیں کیونکہ گدھے کی لاش پر اکٹھے ہونے والے گدھے ہی ہو سکتے ہیں.پس کیسی بے وقوفی کا عالم ہے کہ تم بیٹھے ایسی باتیں کرتے ہو جن کا کوئی مقصد نہیں.کوئی ان کا فائدہ نہیں ہے.کسی سے نقصان کو بچانے کا کوئی قصہ نہیں.خالصہ حماقت سے اپنا وقت ضائع کر رہے ہو.مجلسوں میں لطف بھی اٹھانا ہوتو ذکر الہی سے لطف اٹھایا جاسکتا ہے اور بعض دفعہ ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی اور لطف میں وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی.تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ (الزمر:24) قرآن کریم فرماتا ہے کہ انسان کو جھر جھری آجاتی ہے.ذکر سے اس قدر لذت پیدا ہوتی ہے کہ سارا بدن کانپ اٹھتا ہے اس لئے یہ خیال کہ ذکر کوئی بوریت کا دوسرا نام ہے بالکل بے ہودہ خیال ہے، جہالت کی بات ہے.ذکر میں لطف ہے کیونکہ ذکر کا مضمون محبت سے تعلق رکھتا ہے اور محبت اگر کسی سے ہو جائے تو وہ محبوب چاہے کیسا ہی برا کیوں نہ ہو دنیا کی نظر میں انسان کو اس کے ذکر میں بڑا لطف آ رہا ہوتا ہے کیونکہ انسان کو اپنا محبوب ضرور حسین معلوم ہوتا ہے اور دنیا کی نظر میں خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہوا اپنے محبوب کے ذکر سے ایک انسان لطف اٹھاتا ہے.ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اس مضمون کو ثابت کرنے کے لئے کہ کس طرح ہر انسان اپنے تعلق سے کسی کو حسین پاتا ہے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے ایک جشن کو بلایا جس کا بیٹا بہت ہی سیاہ اور بہت بدصورت بھی تھا اور بھی لوگوں کے بچے وہاں اکٹھے ہوئے تھے.بادشاہ نے اس حبشن کو بلایا اور کہا کہ یہ قیمتی ہار ہے تم غور سے دیکھو جو سب سے زیادہ پیارا بچہ ہے اس کی گردن میں ڈال دو.اس نے چاروں طرف دیکھ کر جائزہ لیا اور اپنے بچے کی طرف بڑھی اور اس کی گردن میں ڈال دیا.جھوٹ نہیں بولا تھا، بادشاہ کی تمکنت کے سامنے اس کو جرات بھی نہیں ہو سکتی تھی.بادشاہ کی ہیبت تھی لیکن دل کی گواہی تھی.سب سے زیادہ پیارا بچہ اسے اپنا بچہ دکھائی دیا.محبت اور ذکر کا ایک گہرا تعلق ہے اس کے بغیر ذکر ہو نہیں سکتا.پس اگر محبت سے ذکر کیا جائے تو یہ مکن ہی نہیں کہ وہ ذکر لطف سے خالی ہواور اللہ تعالیٰ کا ذکر تو سب ذکروں سے زیادہ حسین ہے، سب سے زیادہ دلکش ہے.پس ذکر کے مضمون کو فرض کے طور پر ادا کرنے کی کوشش نہ کریں.ہو بھی نہیں سکے گا.فرض کے طور پر کبھی محبتیں ادا نہیں کی جاتیں اس کے لئے دل میں محبت پیدا کرنی ہوگی.پس ذکر سے پہلے ذکر کی تیاری

Page 32

خطبات طاہر جلد 13 26 خطبه جمعه فرمودہ 14 جنوری 1994ء بھی تو چاہئے.اللہ تعالیٰ سے پیار پیدا کرنے کے ذریعے تلاش کریں اور اس میں ایک ذریعہ یہ ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو محبت عطا فرمائے.آنکھیں کھول کر روز مرہ یہ محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کیوں کسی سے محبت کرتے ہیں اس مضمون پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے تمام محرکات آپ کو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے دکھائی دیں گے.آپ ان محرکات میں گھرے ہوئے ہیں صرف آنکھیں نہیں کھولتے.انسان کسی سے کیوں محبت کرتا ہے؟ ماں نے پیدا کیا ہے اور نو مہینے پالا ہے اور اپنی صفات میں سے کچھ بخشی ہیں اس کے نتیجے میں طبعا ایک بچے کو ماں سے محبت پیدا ہو جاتی ہے.خالق وہ ہے جس نے ارب ہا ارب سال سے انسان کی پیدائش کی تیاری کی ہے اور ہر لمحے جو کائنات ارتقاء کی طرف مائل تھی اس کا ہر لمحے ہر قدم انسان کی طرف اٹھ رہا تھا کیونکہ بالآخر انسان پیدا کرنا مقصود تھا اور جو تغیرات اس عرصے میں ہوئے ہیں تمام تر انسان کی پیدائش کی خاطر ہوئے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قرآن کریم کی آخری سورتوں کی تفسیر میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ کوئی بھی کائنات میں ایسی تاثیر نہیں ہے جس سے انسان کو حصہ نہ دیا گیا ہو گویا کہ یہ ایک مختصر کا ئنات ہے اور اس کی تیاری کے سلسلے میں اگر آپ کا ئنات کے ارتقاء پر نظر دوڑائیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.ناممکن ہے کہ اس مضمون کا کوئی احاطہ کر سکے.اس مضمون میں جتنا بھی سفر کریں، جتنی بھی سیر کریں آپ کی زندگی گزر جائے ، آپ کی نسلوں کی گزر جائے ، قیامت تک یہ کرتے چلے جائیں تب بھی اللہ تعالیٰ کی اس شان کا جو تخلیق کا ئنات میں مضمر ہے احاطہ نہیں ہوسکتا اور جو محض اس لئے خدا تعالیٰ نے ان مخلوقات کو عطا فرمائی.ان کے ہر ذرے میں رکھی کہ بالآخر اس سے انسان پیدا ہوگا اور انسان کیسا پیدا ہوا جو خدا کو بھلا بیٹھا، تکبر کی باتیں کرنے لگا.پس اگر آپ ذکر سے محروم ہیں تو بہت ہی بڑا نقصان کا سودا ہے.پس اپنے گردو پیش دیکھیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک ایک بات پر غور کریں کہ آپ کو کسی سے کیوں تعلق ہے.حسن سے تعلق ہے اور حسن کا سر چشمہ اللہ ہے.ہر چیز جو حسین دکھائی دیتی ہے اس میں خدا کا چہرہ دکھائی دیتا ہے اگر دیکھنے والی آنکھ ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا (درین صفحہ: 10)

Page 33

خطبات طاہر جلد 13 27 خطبه جمعه فرمودہ 14 جنوری 1994ء کہ ہر وہ آنکھ جس میں حسن کی مستی ہے وہ ہمیں تو تجھے ہی دکھا رہی ہے اور آنکھ کا دکھانا کتنا خوبصورت مضمون ہے جس آنکھ کو آپ دیکھ رہے ہیں اگر آپ میں بصیرت ہو تو اس آنکھ سے کسی اور کو دیکھیں گے وہ خدا کی ذات ہے.ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا گیسو کا ہاتھ یوں معلوم ہوتا ہے اشارے کر رہا ہے.اس کا آخری کو نہ اس طرح اٹھا ہوا ہوتا ہے جیسے انگلی اشارہ کر رہی ہو.تو فرمایا تیری ہی طرف ہر بل کھائے ہوئے خوب صورت گیسو کا ہاتھ ہے.اس میں ہمیں تو ہی دکھائی دیتا ہے.اگر محبت ہو تو محبت کے نتیجے میں ہر چیز اسی محبوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے اور اگر محبت نہ ہو تو اشارے سمجھنے کی عقل تو پیدا کریں.اشارے سمجھنے کی کوشش تو کریں وہ آنکھ تو لیں جس سے یہ اشارے سمجھے جائیں گے.پس خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کے لئے ضرور ہے کہ ہم اپنے ماحول، اپنے گردو پیش پر اس پہلو سے نظر ڈالیں کہ ہم کیوں کسی سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کے محرکات خدا کے تعلق میں موجود ہیں کہ نہیں.کوئی ایک پہلو ایسا نہیں ہے جو محبت پیدا کرنے والا ہو اور اللہ کی ذات میں موجود نہ ہو.ہر لذت خدا کی ذات میں ہے بعض لوگ یہ سوچتے ہیں اور اس سوچ سے ڈرتے ہیں کہ شہوانی لذات بھی تو لذات ہیں وہ تو اللہ میں نہیں ہیں لیکن شہوانی لذات کی حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نتیجے میں وہ چیزیں پیدا ہوئی ہیں جن سے شہوانی لذت پیدا ہوتی ہے اصل محرک شہوانی لذت نہیں تھا آغاز میں اصل محرک جس سے انسان نے نشو و نما پا کر وہ اعضاء حاصل کئے جس سے شہوانی لذت حاصل کی جاتی ہے وہ اپنے نفس کی محبت تھی اس محبت نے انسان کو باقی رہنے کی تمنادی اور بقا کی تمنا پوری کرنے کے لئے جو ذرائع میسر آئے ان میں اسی نسبت سے مزہ پیدا ہونا شروع ہو گیا.یہ ایک بہت لمبا فلسفہ ہے جس کی تفصیلی بحث میں میں نہیں جا سکتا لیکن اشارۃ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ کوئی دنیا کی لذت نہیں ہے جو آپ کو اپنے مضمرات کے لحاظ سے خواہ بھیا نک ہی کیوں نہ دکھائی دے جس کا اصل، جس کی کنہ، پاکیزہ محبت نہ ہو اور محبت ہی سے ساری کائنات کا سلسلہ ہے اسی سے سب نشو ونما ہے اسی سے ارتقاء جاری ہے کوئی ایک بھی پہلو ارتقاء کا ایسا نہیں ہے جسے بالآ خر آپ محبت میں جا کر مرکوز نہ کر سکیں.میں نے اس پہلو سے ایک دفعہ بہت غور کیا اور بچپن سے مجھے یہ شوق تھا کہ اس

Page 34

خطبات طاہر جلد 13 28 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء پہلو پر غور کروں کہ آخر ہمارا کہنہ ہے کیا ؟ بالآ خر کہاں پہنچتے ہیں؟ تو وہیں پہنچا جہاں سے قرآن شریف کی سورۃ البقرہ شروع ہوتی ہے یعنی اَنَا اللهُ أَعْلَمُ.انا یعنی میں.جس نے سارے وجودوں کو پیدا کیا ہے اور اگر اللہ اپنی انا سے اپنی مخلوق کو یہ نعمت عطا نہ کرتا کہ وہ اپنے شعور کا احساس کرلے تو اس مخلوق میں بھی آن پیدا نہیں ہو سکتی تھی.خدا کی انا نے ہماری انائیں پیدا کی ہیں لیکن یہ ا نا ئیں اس لئے پیدا کیں کہ اللہ کی انکا کی طرف بالآ خرلوٹ جائیں کیونکہ وہی تمام انا کا منبع بھی ہے اور مرجع بھی ہے.اس سمندر میں ہمارے قطرے کو لوٹنا ہے اس کے بغیر ہماری آنا کی تکمیل ہو ہی نہیں سکتی اور یہ مضمون محبت کا ہے.اپنے نفس کی محبت اتنا ترقی کرے کہ اس محبت کے اعلیٰ تقاضے پورے ہونے شروع ہوں تب خدا ملتا ہے اور ہر محبت کے نتیجے میں ایک لذت پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی لئے فرماتے ہیں.”ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.“ ( کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ : 21) صرف لذات نہیں فرمایا ” اعلیٰ لذات“ کہ ہر لذت کا ایک ارتقاء ہوا کرتا ہے اور اس ارتقاء کا منتہی خدا تعالیٰ کی ذات پر ختم ہوتا ہے اور اسی کی طرف سب نے لوٹنا ہے.پس اپنی آنکھیں کھولیں اپنے گردوپیش کو دیکھیں اور معلوم کریں غور کریں کہ آپ کیوں محبت کرتے ہیں.ان محبتوں کے تمام تر محرکات اپنی اعلیٰ صورت میں اللہ کے وجود کے ساتھ آپ متعلق پائیں گے اور پھر آپ کو سمجھ آئے گی ، سلیقہ نصیب ہو گا کہ کس طرف اللہ کی محبت حاصل کی جاتی ہے.جب ایک دفعہ یہ محبت نصیب ہو جائے تو پھر آپ کی لذتوں کی کیفیات کے پیمانے بدل جائیں گے اور طرح طرح کی لذتیں آپ کو نصیب ہونی شروع ہوں گی.ہر چیز سے ایک مادی لذت بھی ہو گی اور ایک اس کا اعلیٰ اور برتر حصہ جو اس محبت کے ساتھ منسلک ہوگا لیکن اس سے ارفع ہوگا اس سے بلند تو ہوگا.پس خدا کے بندے دو لذتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور سورہ رحمن میں جن دو جنتوں کا ذکر ہے میں سمجھتا ہوں ان میں سے دو جنتیں اس دنیا کی وہ دو جنتیں بھی ہیں جن میں ہر لذت کے ساتھ ایک اعلیٰ لذت بھی وابستہ ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اس نیت سے دو کہ اللہ کو یہ بات پسند ہے.اللہ تم سے حسن سلوک کی توقع رکھتا ہے اور تمہیں صلى الله

Page 35

خطبات طاہر جلد 13 29 29 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے تو وہ لقمہ تمہاری عبادت بن جائے گا.( بخاری کتاب الایمان ) اب اس حدیث کی روشنی میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ساری زندگی کے تعلقات کو دوبارہ دیکھیں تو ہر تعلق میں آپ کو د ولذتیں دکھائی دیں گی.ایک وہ جو خدا کی پاک تعلیم کے نتیجے میں اس کی محبت کی بنا پر آپ نے بنی نوع انسان سے تعلق رکھا.اس تعلق کی ایک اپنی لذت تھی جو آپ نے حاصل کی لیکن چونکہ اس محبت کا آغاز اللہ کی محبت سے ہوا تھا اسی لئے اس کے ساتھ ایک بہت اعلیٰ درجے کی محبت بھی شامل رہی اور ساری زندگی آپ نے دو جنتوں میں گزاری.پس ذکر کا مضمون سرسری بیان سے سمجھ نہیں آ سکتا اس کے لئے ساری زندگی کی محنت کی ضرورت ہے آنکھیں کھول کر تجربے کی ضرورت ہے.اس مضمون میں ڈوب کر آپ خود کچھ حاصل کریں.آنکھیں کھول کر گر دو پیش کو دیکھیں اور پھر کچھ لذتیں حاصل کرنا شروع کریں.پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ ذکر ہوتا کیا ہے اور ذکر پھر آپ کو خود بڑی قوت سے اپنی طرف کھینچ لے گا اور ذکر کے بغیر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دنیا کے گھاٹے فائدوں میں تبدیل نہیں ہو سکتے.آپ جو چاہیں کر لیں، جو چاہے تعلیم دے دیں، جس قسم کا چاہیں نظام دنیا میں نافذ کرلیں ، عدل بھی قائم کر لیں تب بھی دنیا کو جنت نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کے ذکر کا سلیقہ اور شعور حاصل نہ ہو جائے اور اللہ کے ذکر سے لذت حاصل کرنا دنیا نہ سیکھ لے ورنہ تو وہی بات ہے کہ گدھے کی لاش پر بیٹھے ہم نے زندگیاں بسر کر دیں.بخاری کتاب الدعوات میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ' ذکر الہی کرنے والے اور ذکر الہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے یعنی جو ذکر الہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے.( بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر : 5928) مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ' وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے.ذکر سے زندگی ملتی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو جو زندگی عطا ہوئی ہے یہ دراصل ایک روحانی زندگی حاصل کرنے کی خاطر ہے.اس کا ذریعہ ہے اور اگر دوسری زندگی عطا نہ ہو تو بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی انسان مردہ ہے.قرآن کریم جس خلق آخر کا ذکر کرتا ہے یہ وہی روحانی خلق آخر ہے جس سے ایک نئی زندگی

Page 36

خطبات طاہر جلد 13 30 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء انسان کو نصیب ہوتی ہے اور وہ شخص جو خدا کے ذکر کے بغیر اپنی زندگی گزار دیتا ہے بظاہر زندہ ہے مگر حقیقت میں مردہ ہے کیونکہ اصل زندگی خدا کی خاطر دی گئی تھی تا کہ اس زندگی سے خدا نصیب ہو اور خدا نصیب ہوتو ایک نئی زندگی عطا ہو.اسی لئے جب آنحضرت ﷺ ان لوگوں کو بلاتے ہیں جو آپ پر ایمان لائے تو اللہ فرماتا ہے کہ اس لئے ان کو بلاتا کہ انہیں زندہ کر.اب ایمان لے آئے ہیں تو زندہ کیوں نہیں ہیں ایمان لانے کے بعد زندگی حاصل کرنے کا ایک دور شروع ہوتا ہے جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ آغاز میں جنم لیتا ہے، زندہ تو ہو جاتا ہے لیکن محض زندگی کا آغاز ہے اور اس کے بعد پھر سارے مراحل اس زندگی کی تکمیل کے مراحل ہیں اور حقیقی زندگی پھر اس وقت نصیب ہوتی ہے جب وہ اپنے آزاد وجود کے ساتھ ، خود مختار وجود کے ساتھ ماں کے پیٹ سے باہر آ جاتا ہے.تو یہی مضمون خلق آخر کا ہے اور تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق فرمایا گیا کہ اے مومنو! جب یہ رسول تمہیں اپنی طرف بلائے تو جواب دیا کرو.لِمَا يُحْيِيكُم (الانفال: 25) تاکہ تمہیں زندہ کرے.پس زندگی وہی ہے جو ذکر الہی کی زندگی ہے اور جو اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا.آپ فرماتے تھے کہ دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے ذکر الہی کے اور اس چیز کے جو ذکر سے متعلق ہے جس کا تعلق ذکر سے ہے مثلاً عالم جو ذکر الہی کرنے والا ہو اور طالب علم جو عالم سے ذکر الہی سیکھتا ہو وہ ملعون نہیں ہیں.یہاں ملعون کا جو لغوی معنی ہے وہ پیش نظر ہے.لعنت دوری کو کہتے ہیں.پس جو شخص خدا کے قریب آنا چاہتا ہے وہ ذکر سے قریب آ سکتا ہے ورنہ وہ دوری کی حالت میں پڑا ہوا ہے وہ تمام دنیا جو ذکر سے خالی دنیا ہے وہ اللہ سے دور ہے اور ان معنوں میں ملعون ہے.ہاں وہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں وہ جو سکھاتے ہیں اور سیکھتے ہیں ان کے متعلق فرمایا کہ یہ استثناء ہیں.(ترمذی کتاب الذھد حدیث نمبر : 2243) شھر بن حوشب سے روایت ہے کہ ام سلمہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا آپ کون سی دعا ہے جو بار بار کرتے ہیں جو کثرت سے دعا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا اے دلوں کو پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما.یہ دعا میں بہت کثرت سے کرتا ہوں

Page 37

خطبات طاہر جلد 13 31 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء کہ اے دلوں کو پھیر نے والے میری دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما.حضرت ام سلمہ نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آپ یہ دعا کرتے ہیں جن کا دل سب سے زیادہ اللہ کے دین پر ثبات حاصل کر چکا ہے! آنحضرت ﷺ کی انکساری کا یہ معراج ہے کہ آپ جواب میں فرماتے ہیں کہ میں اس لئے کرتا ہوں کہ دل تو اللہ کی انگلیوں میں اس طرح ہیں کہ جب چاہے جدھر چاہے بدل دے.( ترندی کتاب القدر: 2066 ) وہ مالک ہے اگر خدا یہ فیصلہ نہ کرے کہ مجھے ثبات عطا کرے گا تو مجھے کیسے ثبات ہو سکتا ہے.پس وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں بعض دفعہ اس ذکر کے نتیجے میں متکبر ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ہم خدا والے ہو گئے ہیں اور باقی دنیا کو یعنی سب کو حقیر اپنے سے نیچے دیکھ رہے ہوتے ہیں یہ بہت بڑی جہالت ہے.ذکر نے سب سے زیادہ رفعت حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بخشی تھی کیونکہ آپ کا ذکر سب سے زیادہ رفیع الشان تھا اور سب سے زیادہ گرنے کے خوف میں آپ ہی مبتلا تھے یہ خوف کسی حقیقی خطرے کے نتیجے میں نہیں تھا کیونکہ آپ خدا کی طرف سے امن یافتہ تھے اس لئے اس خوف کا محرک ایک مختلف محرک ہے.یہ بہت ہی لطیف ہے اور بہت ہی حسین ہے.تمام تر ضمانتوں کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار ہا عطا فرمائیں یہ احساس کہ میری ذات میں کچھ بھی نہیں جو وہ مجھے ان ضمانتوں کا حق دار قرار دے.محض اللہ کا فضل ہے، محض اس کی طرف سے ثبات نصیب ہوتا ہے جب وہ چاہے چھوڑ دے، میرا کیا شکوہ ہو سکتا ہے، سب کچھ اسی کی عطا ہے.یہ انتہائی لطیف احساس جو محبت کے آخری نقطے سے آغا ز پاتا ہے اور اسی کی طرف لوٹتا ہے یہ وہ احساس ہے جس کا اس حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ میں کیوں نہ کروں.میں کیوں اپنے رب سے ثبات نہ مانگوں اسی کی عطا ہے جو کچھ نصیب ہوا ہے اور جب چاہے بدل دے مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوسکتا، میرا کوئی حق نہیں.پس اگر ذکر الہی کرنا ہے اور اس سے کچھ مناصب حاصل کرنے ہیں تو حضرت محمد مصطفی ﷺ سے ان باتوں کا سلیقہ سیکھیں.ذکر کے نتیجے میں انانیت اونچی نہیں ہونی چاہئے.ذکر کے نتیجے میں سر اور بھی خدا کے حضور جھکنا چاہئے اور جتنی بلندی حاصل کریں اتنا ہی گرنے کا خوف آپ کو دامن گیر رہے اور اللہ کے ہاتھ سے اور زیادہ شدت کے ساتھ اور قوت کے ساتھ چھٹے رہیں.یہی وہ اسلوب تھا جو حضرت محمد مصطفی امیہ نے اختیار فرمایا اور جس کی ہمیں نصیحت کی.اب وہ لوگ جو ذکر سے اجتناب کرتے ہیں اور شیطان کے ساتھی بن جاتے ہیں، ان کا

Page 38

خطبات طاہر جلد 13 32 32 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء اٹھنا بیٹھنا سب ہمارے علم میں ہماری نظر میں ہے.بارہا ہم ان تجربوں سے گزرے ہیں.اب آنحضرت ﷺ کے ذکر پر میں اس مضمون کو ختم کروں گا آپ کی کیفیت یہ تھی کہ جب حاجات بشری کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جاتے تھے تو اس وقت بھی ذکر کرتے تھے اور یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ مجھے ناپاکی سے اور ناپاکوں سے بچانا.میں ناپاکی سے اور نا پاکوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں.پھر جب فراغت کے بعد وضو کرتے تھے تو پھر بھی ذکر الہی سے وضو کا آغاز ہوتا تھا.عرض کرتے تھے اللهم اجعلنى من التوابين واجعلني من المتطهرين ( ترندی کتاب الطہرۃ حدیث : 50 ) کہ اے میرے اللہ ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں سے بنانا اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں میں سے بنانا.جو وضو ہے یہ تو بہ اور پاکیزگی دونوں کا مظہر ہے اور اس دعا میں وضو کا فلسفہ بیان ہو گیا.پھر انسان صبح اٹھتا ہے، فارغ ہوتا ہے، وضو کرتا ہے، مسجد کی طرف جاتا ہے تو جو صبح مسجد کی طرف جانے کی دعا تھی اس کا مضمون اور تھا اور روزمرہ عام مختلف وقتوں میں جانے کی دعا تھی اس کا ایک اور مضمون ہے.اس مضمون کا صبح سے تعلق ہے چنانچہ آپ مسجد کی طرف جاتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے.اللهم اجعل في قلبي نورا واجعل في لساني نورا و اجعل في سمعی نورا و اجعل في بصری نورا (ابوداؤد کتاب الصلوة ) کہ اے میرے اللہ میرے دل کو نور سے بھر دے میری زبان کو نور عطا کر، میرے کانوں کو نور بخش اور میری نظروں کو ، میری آنکھوں کو نور عطا کر.واجعل من خلفى نورا و اجعل من امامی نورا و اجعل من فوقی نورا واجعل من تحتى نورا.اللهم اعطنى نورا.کہ اے میرے اللہ میرے آگے بھی نور کر دے میرے پیچھے بھی نور کر دے میرے اوپر بھی نور کر دے.میرے نیچے بھی نور کر دے.تو مجھے مجسم نور بنادے.مجھے نور عطا کر.(مسلم کتاب الصلوۃ) رات کے اندھیروں سے صبح روشنی میں داخل ہوتے وقت کیسی پیاری دعا ہے لیکن مسجد جاتے وقت یہ دعا کرنا بتاتا ہے کہ مومن کا دل مسجد میں ہے.مسجد سے باہر اندھیرے ہیں.پس جو اپنا نور سجدہ گاہوں میں ڈھونڈے، جس کو روشنی وہاں دکھائی دے، وہی دل اور وہی دماغ ہے جو اس دعا

Page 39

خطبات طاہر جلد 13 33 33 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے ورنہ ناممکن ہے کہ کسی کو ایسی دعا کا خیال آئے.ساری دنیا کے پردے پر عبادت کرنے والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، پہلوں کا بھی اور اگلوں کا بھی.آپ کو کہیں اس دعا کی کوئی مثال دکھائی نہیں دے گی.صبح کے تعلق میں یہ دعا کتنی کامل ہے اور پھر صبح کی روشنی میں دن کی ظاہری روشنی سے مسجد کی باطنی روشنی کی طرف منتقل ہوتے وقت کتنا اعلیٰ اور کتنا ارفع مضمون بیان فرمایا گیا ہے اور کوئی عارف باللہ اس مرتبے تک نہیں پہنچا جس مرتبے تک تمام عارفوں کے سردار حضرت محمد مصطفی عے پہنچے تھے.پس میں آپ کا مقابلہ دنیا کے عام انسانوں سے کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا.یہ تو گستاخی ہوگی.نبیوں کی مثال دے کر کہتا ہوں ان میں تلاش کر کے دیکھ لیں آپ کو اس حدیث کی کوئی مثال دکھائی نہیں دے گی.کتنا پاکیزہ کتنا ارفع کلام ہے.کتنا فصیح و بلیغ ہے کہ صبح اٹھتے ہیں اور نور کے خیال سے جب مسجد جاتے ہیں تو یہ دعا کرتے ہیں اور اگر مسجدوں سے آپ نے تعلق قائم رکھا تو یقین کریں کہ آپ کی آنکھوں کو بھی نور عطا ہو گا آپ کی زبان کو بھی نور عطا ہوگا.آپ کے کانوں کو بھی نور عطا ہوگا.آپ کے آگے بھی نور ہوگا اور پیچھے بھی اور دائیں بھی اور بائیں بھی اور او پر بھی اور نیچے بھی اور آپ مجسم نور بن جائیں گے کیونکہ تمام نور مساجد سے اور سجدہ گاہوں سے حاصل ہوا کرتے ہیں.پس اپنی مسجدوں کو آباد رکھیں انہی میں آپ کے دلوں کی آبادی ہے.انہی میں آپ کے مستقبل کی حفاظت ہے.آپ کے بچوں کے لئے کوئی ایسی دولت نہیں جو آپ پیچھے چھوڑ کر جاسکیں سوائے اس کے کہ آپ انہیں مسجدوں سے وابستہ کر دیں.نماز کے بعد فارغ ہو کر آپ یہ دعا کیا کرتے تھے.اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامِ وَمِنكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَام - (مسلم کتاب المساجد ) اور بھی دعا ئیں تھیں ایک یہ بھی تھی اور اکثر نماز کے معابعد یہی پڑھا کرتے تھے.اللَّهُمَّ اَنتَ السَّلام وَمِنكَ السَّلَامُ.اے اللہ تو سلام ہے وَمِنكَ السَّلام اور تجھ سے سلام ہے.اے جلال اور اکرام کے مالک تیری ذات بہت بابرکت ہے.اب سلام نماز میں بھی ہم پھیرتے ہیں.نماز کے بعد سب سے پہلی دعا یہ ہوا کرتی تھی.پھر ہم دائیں طرف کہتے ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ پھر بائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہیں.تو یہ دو سلام جو ہیں یہ اہل دنیا کو اپنے دائیں اور بائیں اور اپنے گردو پیش پیغام پہنچاتے ہیں کہ ہم تمہارے لئے سلامتی کا پیغام لائے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اس دعا نے بتایا کہ

Page 40

خطبات طاہر جلد 13 34 == خطبہ جمعہ فرموده 14 / جنوری 1994ء اللہ سلام ہے.اللہ سے سلام پانے کے بعد آپ دوسروں کو سلام کہہ سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں.وَمِنْكَ السَّلام اور تجھ ہی سے سلام نصیب ہو سکتا ہے.پس وہ لوگ جو عبادت سے غافل ہیں وہ دنیا میں ہزار سلام کرتے پھریں ان کے سلام کا کوئی بھی معنی نہیں.محض جھوٹ ہے.کیونکہ دنیا سوائے اللہ والوں کے کسی سے امن میں نہیں ہے یہ محض واہمہ ہے.یہ خیال کر لینا کہ انسان کسی بے خدا انسان سے امن میں رہ سکتا ہے حماقت ہے.امن اللہ سے نصیب ہوتا ہے اور یہ ایسا امن ہے جو نصیب ہونے کے بعد دوسروں کو عطا ہوتا ہے اور آگے اس کے سلسلے چلتے ہیں.پس السلام علیکم کی کیسی حکمت ہمیں سمجھا دی کہ جب تم نماز سے سلام کہہ کر فارغ ہو تو پھر سوچا کرو.غور کیا کرو کہ تم سلام کے مجاز ، خدا کی طرف سے بنائے گئے ہو.اللہ کے پاس آئے تھے تو سلام نصیب ہوا اور اللہ کے ساتھ رہو گے تو سلام نصیب رہے گا.جب تعلق تو ڑو گے سلام تم سے خالی ہو جائے گا.کیونکہ خدا کی ذات کے سوا کہیں اور کوئی سلام کا وجود نہیں.مسجد میں عام حالت میں داخل ہونے کی دعا یہ تھی ـ بِسْمِ اللَّهِ وَالصَّلوة والسَّلام عَلَى رَسُول الله اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِى وافتح لِي اَبْوَابَ رَحْمَتِكَ.(ابن ماجہ کتاب المساجد ) کہ میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں و الصلوة والسلام اور درود اور سلام اس کے رسول پر ہوں اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِی، میرے اللہ ! میرے گناہ بخش دے وافتح لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ اور میرے لئے اپنی رحمت کے باب کھول دے.پھر مسجد سے باہر نکلنے کی دعا انہی الفاظ میں تھی صرف ایک چھوٹے فرق کے ساتھ بسم الله والصلواة والسلام على رسول الله الله کے نام کے ساتھ ، تمام درود و سلام ہوں اللہ کے رسول پر اللهُمَّ اغْفِرُ لِي ذُنُوبِی میرے الله میرے گناہ بخش دے.وافتح لی ابواب فضلک اور میرے لئے اپنے فضلوں کے دروازے کھول دے.یہ جو لفظ رحمت اور فضل کا فرق ہے اس میں بڑی وجہ یہ ہے کہ رحمت خالصہ اللہ سے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اس کا ہمارے اکتساب سے کوئی تعلق نہیں ہے.رحمت بن مانگے دینے والا عطا کرتا ہے.رحمن، رحیم خدا سے اترتی ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں رحمت کا بنیادی مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا سے حاصل ہوتی ہے اس کا روز مرہ کی زندگی کی محنتوں سے کوئی تعلق نہیں.فضل خدا

Page 41

خطبات طاہر جلد 13 35 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء کی طرف سے ملتا ہے لیکن روز مرہ کی زندگی کی محنتوں سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ سورۃ جمعہ میں جمع کے بعد جب انتشار کا حکم فرمایا: وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الجمعہ ) کہ تم پھر آزادی کے ساتھ زمین میں پھر واور فضل کماؤ تو فضل کا دنیا کی کمائیوں سے ایک تعلق ہے اور دنیا کی دولت جو پاک حالت میں کمائی جائے اس کو بھی فضل کہتے ہیں.يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا اللہ سے وہ فضل بھی چاہتے ہیں اور اس کی رضا بھی چاہتے ہیں.تو اندر جاتے وقت خالص رحمت ہی ہے جو کچھ اس ڈر سے ملے گا آسمان سے اترے گا اور بطور رحمت آپ پر نازل ہوگا جب باہر نکلیں گے تو اللہ سے فضل چاہیں گے یعنی ہمارے کاموں میں برکت ملے ہمارے رزق میں برکت ملے.جو ہمیں نصیب ہو با فراغت ہو اور پاکیزہ ہو.تجھ سے پانے والے ہوں شیطان سے پانے والے نہ ہوں.پھر گھر میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا کرتے تھے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلِج وَخَيْرَ الْمَخْرِجُ بِسْمِ اللهِ وَلَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا.(ابودا و دکتاب الادب) اے میرے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں خَيْرَ الْمَوْلِج بہترین داخل ہونا وَخَيْرَ المَخْرِج اور بہترین نکلنا یعنی اس گھر میں بہترین طریق پر داخل ہوں، خیر کے ساتھ بھلائی کے ساتھ داخل ہوں اور بھلائی کے ساتھ نکلوں.بسم اللهِ وَلَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا.اللہ ہی کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوتے ہیں اور اسی پر جو ہمارا رب ہے ہم تو کل کرتے ہیں.پھر گھر سے باہر نکلتے وقت بھی خدا یاد آتا تھا.کوئی زندگی کا ایسا مشغلہ نہیں، کوئی ایک زندگی کی حرکت ایسی نہیں جو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف ہو جس میں حضرت محمد مصطفی ذکر سے خالی ہوں.تبھی اللہ نے آپ کو ذِكْرًا رَّسُوْلًا (الطلاق: 11) فرمایا کہ یہ تو رسول وہ ہے جو مجسم ذکر ہے اس میں اور ذکر میں کوئی فرق نہیں رہا.محمد اور ذکر ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں.ہر کیفیت سے ہر دوسری کیفیت میں داخل ہوتے وقت ذکر الہی جاری رہتا تھا.ہر موسم میں ذکر.بارش کا قطرہ آسمان سے اتر تا دیکھتے تھے تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے اپنی زبان آگے بڑھا دیا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت کا یہ قطرہ میری زبان پر پڑے.اتنی محبت تھی.ایسا عشق تھا کہ کفار مکہ اپنی تمام تر دشمنیوں کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہو گئے

Page 42

خطبات طاہر جلد 13 36 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّهُ (غزالی: 151) اس کی جو کچھ برائیاں بیان کرو مگر ایک بات سچی ہے کہ محمد اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے.عاشق کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں کہ یہ تکلیفیں برداشت کر سکے.عاشق کے سوا کسی کو یہ توفیق نصیب ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ خدا کی راہ میں وہ دکھ برداشت کرے جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ساری زندگی اللہ کی راہ میں برداشت کئے ہیں.پس یہ آپ کی کیفیت تھی.گھر میں داخل ہوتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے داخل ہوتے ہیں گھر سے نکلتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے نکلتے ہیں.بسم الله توكلت على الله ولا حول ولا قوة الا بالله.اللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَو أُضَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أَظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَو يُجْهَل عَلَى (ترمذی کتاب الادب) کہ بسم اللہ اللہ کے نام کے ساتھ توکلت علی اللہ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں یعنی گھر سے باہر انسان جب نکلتا ہے.اپنی زندگی میں سب سے زیادہ امن کی جگہ تو انسان اپنے گھر کو پاتا ہے تو گھر سے باہر نکلنا گو یا کئی قسم کے خطرات کو دعوت دینا ہے اس لئے پہلا تصور جو ذہن میں آتا ہے وہ تو کل کا ہے.کس سہارے سے میں نکل رہا ہوں.غیروں سے میرے رابطے ہوں گے.گھر کا امن میرے ساتھ ساتھ تو نہیں چل سکتا تو حضرت محمد مصطفی امیہ کو سب سے پہلے اللہ کا خیال آتا تھا کہ اللہ کے تو کل پر جارہا ہوں وہ تو ہر جگہ میرے ساتھ ہے گھر تو ساتھ نہیں چل سکتا مگر اللہ تو ہمیشہ ساتھ رہنے والا ہے.بسم الله توكلت على الله وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ.کوئی حول “ نہیں اور کوئی ”قوة نہیں الا بالله حول “ کہتے ہیں خطرات سے بچانے کی قوت کو یعنی اللہ کے حوالے سے جب حول کہا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ ہر قسم کے خطرے سے بچانے کی قوت اللہ کے پاس ہے.ولا قوة.”قوة مثبت معنوں میں کہ ہر چیز عطا کرنے کی طاقت بھی اللہ کونصیب ہے.پس کسی شر سے ہم بچ نہیں سکتے مگر اللہ کی طاقت سے.کسی خیر کو ہم پانہیں سکتے مگر اللہ کی طاقت سے.اللهم أنى أعوذ بِكَ أَنْ أَضِلّ یہ کہنے کے بعد جب ایک ہی پناہ گاہ ہے ہر چیز سے وہی پناہ کی جگہ ہے تو عرض کرتے ہیں اے میرے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے اَنْ اَضِلَّ أَوْ أَضَلَّ کہ

Page 43

خطبات طاہر جلد 13 37 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء میں گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کیا جاؤں کئی قسم کے ٹھوکر کے مقامات راستے میں آتے ہیں.انسان کو کئی قسم کے ایسے فتنے در پیش ہوتے ہیں جن میں دل پھسل جاتے ہیں انسان گناہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے ار کئی قسم کی ٹھوکریں کھا جاتا ہے اور پھر باہرنکل کر رستہ بھولنے کا مضمون تو ایک طبعی مضمون ہے جو ذہن میں آنا چاہئے.حقیقت میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کلام، کلام اللہ کے بعد سب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے یعنی ایک ہی لفظ میں دونوں باتیں، اور برمحل ان باتوں کا بیان ہے.باہر نکلتے ہیں تو ہم رستہ بھی بھول سکتے ہیں.مسافر کہیں سے بھٹک کر کہیں اور چلے جائیں بعض دفعہ گھر کا رستہ بھی نہیں ملتا.فرمایا اے میرے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں راستہ بھول جاؤں یا بھلا دیا جاؤں لیکن یہاں اول طور پر پیش نظر دین کا رستہ ہے اور دین کی باتیں ہیں کہ میں تیری راہ بھول جاؤں یا مجھے تیری راہ سے بھٹکا دیا جائے اَوْ اَظْلَمَ یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے.اجهل او اجهل على یا میں کسی پر جہالت کروں یا مجھ پر کوئی جہالت کی جائے.ہم نئے کپڑے پہنتے ہیں.کتنے ہیں جنہیں کپڑا پہنتے وقت خدا یاد آتا ہو.کپڑا پہنتے وقت ہم نے تو لوگوں کو یہ دیکھا ہے کہ Selfridges یاد آتا ہے یا دوسرے سٹور یاد آ جاتے ہیں کہ ہم نے وہاں سے لیا اور وہاں سے لیا.سیل سے لیا یا بغیر سیل کے لیا.کیسی ہوشیار یاں اختیار کیں کتنے پیسے بچائے یہی باتیں سنتے ہیں لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺے کپڑا پہنتے ہیں تو عرض کرتے ہیں.اللھم لگ الـحـمـد كما كسوتنیہ.( ابوداؤ د کتاب اللباس ) اے میرے اللہ سب حمد تیرے لئے ہے کیونکہ تو نے مجھے یہ پہنایا ہے مجھ میں کب طاقت تھی کہ میں اپنے لئے کچھ لباس حاصل کر سکتا کچھ پہن لیتا ہر عطا تیری عطا ہے.پس ایک بھی زندگی کا ایسا لمحہ نہیں جہاں آخری قدرت والے خدا کو یاد نہیں کیا جاتا.اس کے بظاہر سلسلہ بہ سلسلہ ہم تک پہنچتے پہنچتے مظہر اول اور اس ذات کو بھلا دیتے ہیں جس سے تمام مذاہب نکلتے ہیں رب تو اللہ ہے لیکن یہ ربوبیت مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی ہے کبھی ماں باپ کے ذریعے، کبھی اپنے مالکوں کے ذریعے، کبھی دوستوں کے ذریعے کبھی اتفاق میں راہ چلتے بھی دولتیں نصیب ہو جاتی ہیں، مگر یہ وہ آخری چہرہ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں ہماری نظریں ان چہروں پر کھڑی ہو جاتی ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نظر ان تمام چہروں سے پاک، جیسے ان کا کوئی وجود نہ ہو، اس آخری ہاتھ پر پڑتی ہے جو اول ہاتھ ہے جو اللہ کا ہاتھ ہے اس کے سوا اور کوئی ہاتھ نہیں ہے دینے والا ،

Page 44

خطبات طاہر جلد 13 38 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء تو فرماتے ہیں.اللهم لک الحمد کما گسوتنیہ.اے میرے اللہ تیرے ہی لئے سب حمد ہے جو تو نے مجھے یہ لباس پہنایا ہے.پھر آئینہ دیکھتے تھے تو دعا کرتے تھے.اللَّهُمْ كَمَا حَسَّنَتَ خَلْقِي فَاحْسِنُ خُلْقِي (مسند احمد صفحہ: 150) اے میرے اللہ جیسے تو نے میرا چہرہ خوب صورت بنایا ہے ویسے ہی میرا اندرونہ بھی پاکیزہ کر.خوب صورت بنادے میرے اخلاق کو خوب صورت کر دے.اب یہ وہ ایک موقع ہے جس سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ظاہری چہرے کی ایک جھلک ہمیں دکھائی دینے لگتی ہے ورنہ اتنے منکسر مزاج تھے کہ انسان سوچ نہیں سکتا کہ اپنے حسن کی بات کریں لیکن سچے بھی اتنے زیادہ تھے یہ مشکل تھی.اپنے خدا کی حمد بیان کرنی تھی وہاں تو سچ بولنا ہی بولنا تھا چاہے اس سے شرمندگی ہی ہوتی تو اللہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں میں نے چہرہ دیکھا ہے بہت خوب صورت ہے میں تیرا بے حد ممنون ہوں اتنا پیارا چہرہ تو نے مجھے عطا کیا پس میرے خُلق کو بھی ایسا ہی بنا دے.وَحَرِّمُ وَجْهِی عَلَى النَّارِ اور میرے چہرے کو آگ پر حرام کر دے.یہاں ایک نیا انداز بیان ہے یہ نہیں فرمایا کہ آگ کو میرے چہرے پر حرام کر دے بلکہ فرمایا کہ میرا چہرہ آگ پر حرام کر دے.آگ کو اجازت نہ ہو کہ اس چہرے کو جلائے بہت ہی زیادہ عظیم الشان کلام ہے.بہت قوت والا کلام ہے.کہیں آگ ہو کوئی آگ ہو لیکن اسے مجال نہ ہو کہ وہ میرے چہرے کو جلا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک دفعہ اسی طرح کا الہام ہوا تھا کہ: آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.“ ( تذکرہ:324) ہے.“ تو یہ وہی مضمون ہے کہ آگ کو اجازت نہ ہو کہ وہ مجھے جلا سکے.الحمد لله الَّذِي سَوَّى خَلْقِیٰ بہت ہی قابلِ تعریف ہے وہ ذات جس نے میری تخلیق کو میرے وجود کو مناسب بنایا وَأَحْسَنَ صُورَتِی اور میری صورت کو بھی ایسا خوب صورت بنایا مِنِّى مَا شَأْنَ مِنْ غَيْرِى اور جو کچھ غیروں کو نصیب نہیں ہو سکا حسن کی صورت میں جو ان کے ہاں بدصورتی ہے وہ میرے ہاں تو نے حسن رکھ دیا یعنی ہر وہ عضو جہاں کسی بھی قسم کی غیر بدصورتی کا حامل ہے وہاں وہی میرا عضو حسین تر ہے.یہ جو کلام ہے بہت گہرائی کا کلام ہے اصدق الصادقین کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا تمام وجود سر تا پا حسین تھا ورنہ دعا کے وقت یہ کلام آپ نہیں کہہ سکتے تھے جس کے مقابل پر ہر دوسرے میں کہیں نہ کہیں کوئی بدی دکھائی جائے گی مگر یہ وجود ہر سقم ہر

Page 45

خطبات طاہر جلد 13 39 39 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 1994ء کمزوری سے پاک تھا.الحمد للهِ الَّذى سَوَى خَلْقِي فَأَعْدَلَهُ وَصَوَّرَ صُورَةٍ وَجْهِي فَأَحْسَنَهَا."الحمد للهِ الَّذی تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے.سَوَّى خَلْقِی جس نے میری تخلیق کو موزوں بنا یا وَ صور صورة وجهی اور میرے چہرے کی شکل کو میرے چہرے کے وجود کو خد و خال کو بہت ہی متناسب کر دیا یعنی اتنا متوازن ہے کہ کوئی ایک بھی اس کا خدو خال میں سے کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے ٹکراتا نہیں بلکہ اس سے ہم آہنگ ہوا ہوا ہے اور اسے پھر بہت ہی خوب صورت بنایا ہے.فَاحْسَنَهَا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے مسلمانوں میں سے بنایا.نیا پھل کھانے کی بھی آپ دعا کیا کرتے تھے.بازار میں داخل ہونے کی بھی دعا کیا کرتے تھے غصے اور طیش سے بچنے کی بھی دعا کیا کرتے تھے.بیمار کو دیکھتے تھے تو اس وقت بھی یاد اللہ ہی آتا تھا.پس حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی آثار دکھائی دیتے تھے وہ سب اللہ ہی کے آثار تھے.پس وہ مضمون جو امراً القیس کا میں نے بیان کیا تھا وہ یہ تھا کہ قِفَا نَبُكِ مِنْ ذِكرَى حَبيبٍ وَمَنْزِلِ بسقط اللوى بين الدخول فحومل کہ اے میرے دو ساتھیو! ظہر و ہم اس محبوب کے ذکر سے کچھ رولیں جس کی منزل پر ہم یہاں ٹھہرے ہیں اور اس کی منزل کے ذکر سے رولیں اس منزل کے نشان تو مٹتے چلے جا رہے تھے اور دن بدن مٹتے مٹتے آخر وہ کلیۂ صفحہ ہستی سے نابود ہو گئے مگر خدا کے حسن کے آثار کبھی مٹنے والے نہیں یہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور یہی حضرت محمد مصطفی یہ ہے کے اپنے آثار کا حال ہے.دیوان حسان بن ثابت سے حضرت محمد مصطفی امیے کے ذکر پر میں شعر آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ اندازہ کریں کہ آپ کے عشاق کا کیا حال تھا جب ان آثار کو دیکھتے تھے جو محمد رسول اللہ کے آثار تھے جس طرح اللہ کے آثار دیکھتے ہوئے محمد رسول اللہ کے دل کی کیفیت ہوتی تھی.ویسے ہی آپ کے عشاق کی کیفیت آپ کے آثار دیکھ کر ہوتی تھی وہ کہتے ہیں.کہ اے میرے دوستو ! یثرب میں مجھ پر ایک بڑی مشکل رات آئی وہ مدینہ جس میں میرا محبوب رہا کرتا تھا اور ساری رات جگائے رکھنے والے غم نے مجھے آ پکڑا جبکہ سارے لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے.

Page 46

خطبات طاہر جلد 13 40 وہ یاد کیا تھی یہ ایک ایسے پیارے وجود کا غم تھا جس نے میرے آنسو بہا دیئے اور اس رونے کا سبب میرے پیارے کی یاد تھی.پھر ایک اور قصیدے میں عرض کرتے ہیں.کہ طیبہ یعنی مدینے میں میرے محبوب کے روشن آثار ہیں حالانکہ آثار تو مٹ جایا کرتے ہیں مگر میرے محبوب کے آثار وہ نہیں ہیں جو مٹ جائیں وہ ہمیشہ روشن سے روشن تر ہوتے چلے جائیں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے.اس حرمت والے گھر کی آیات و نشانات نہیں مٹتے جس میں نبی ہادی کا مبارک منبر ہے جس پر آپ رونق افروز ہوا کرتے تھے اور واضح اور روشن نشانات ہیں اور باقی ماندہ آثار ہیں.آپ کا گھر ہے جس میں آپ کی مسجد تھی وہاں ایسے کمرے ہیں جن کے درمیان خدا تعالیٰ کی طرف سے نور نازل ہوتا تھا جس سے روشنی حاصل کی جاسکتی تھی ، وہاں ایسے آثار ہیں جو بظاہر اگر چہ کچھ بوسیدہ ہو گئے مگر صلى الله ان میں موجود روشن نشانات نہیں مٹے بلکہ مسلسل نکھرتے چلے جارہے ہیں وہاں میں نے رسول اللہ ہے کی یادگاریں دیکھیں اور آپ کی وہ قبر دیکھی جس میں لحد بنانے والے نے آپ کو مٹی میں چھپا دیا.پس سب سے زیادہ ذکر کرنے والا وجود جو کائنات میں کبھی پیدا ہوا ، جو اپنے رب کی یاد میں مجسم یاد بن گیا وہ محمد مصطفی ملے تھے اور خود آپ مجسم ذکر بن گئے اور وہ تمام صفات حسنہ خدا سے آپ نے پائیں جو ذ کر کو ابدیت بخشتی ہیں جو ذ کر کو ہمیشہ کے لئے زندہ کرتی ہیں پس صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ( الاحزاب:57) اے تمام لوگو! جو اللہ کے ذکر کی توفیق پاتے ہو اس ذکر کے ساتھ سب سے بڑے ذکر کرنے والے محمد مصطفی ﷺ کو بھی یاد کر لیا کرو.بحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (الاحزاب: 43) اور صبح بھی اس پر درود بھیجا کرو اور رات کو بھی درود بھیجا کرو.

Page 47

خطبات طاہر جلد 13 41 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /جنوری 1994ء اللہ نے اپنی ”انا“ سے آپ کو سب کچھ عطا کیا ہے.اپنی لذتوں کو اللہ کی طرف منتقل کرنے کا جہاد شروع کریں.( خطبه جمعه فرموده 21 / جنوری 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَإِذَا جَاءَ أجَلُهُمْ فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا (الفاطر : 46) پھر فرمایا :.اس آیت سے متعلق گفتگو سے پہلے میں اول تو کچھ اجتماعات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.اس کے بعد گزشتہ خطبے میں کہی ہوئی ایک بات کے متعلق مزید وضاحت پیش کروں گا.آج حلقہ شورکوٹ ضلع جھنگ اور حلقہ چک سکند رضلع گجرات کی جماعتیں اپنا سالانہ جلسہ منعقد کر رہی ہیں.چک نو پنیار ضلع سرگودھا کا جلسہ سالانہ بھی آج ہی ہو رہا ہے، بھکر میں بھی ضلعی سطح پر سالانہ جلسہ ہو رہا ہے، اور مجلس انصار اللہ بین افریقہ کا تیسرا سالانہ اجتماع آج 21 جنوری سے شروع ہورہا ہے اور کل تک جاری رہے گا.ان سب کو احباب اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.گزشتہ جمعے میں، میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ ہماری تمام اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں اور اسی طرح دیگر انبیاء بھی خدا میں ایسے منہمک

Page 48

خطبات طاہر جلد 13 42 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /جنوری 1994ء ہو جاتے ہیں اور اس کے عشق میں ایسے ڈوبے جاتے ہیں کہ گویا کسی اور لذت کی کوئی پرواہ نہیں رہی.تو سوال یہ ہے کہ ایک عاجز انسان جس کی لذتیں مادی ، جس کے تجربے دنیاوی لذتوں کے حصول میں ہی صرف ہوتے رہے ہوں جس کے تجربے دنیاوی لذتوں کے حصول سے ہی تعلق رکھتے ہیں.وہ خدا سے کیسے تعلق باندھے اور ان مادی تعلقات کو خدا کی محبت میں کیسے تبدیل کرے اور کیسے اس سے لذت حاصل کرے.ایک جانور کو جتنی استطاعت دی گئی ہے وہ اپنی استعداد سے بڑھ کر ان لذتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتا.پس انسان کے لئے پھر یہ کیسے ممکن ہوگا کہ وہ اپنی تمام لذتیں خدا میں ڈھونڈے، مثلاً اس کو کھانے میں بھی لذت آتی ہے، کھانے پینے میں بھی لذت آتی ہے لمس سے لذت آتی ہے، اور دیگر اس قسم کی دوسری لذات جن کو انسانی خواہشات یا جذبات سے کوئی رشتہ ہے ، وہ سب ایسی معلوم ہوتی ہیں جن کا خدا سے کوئی تعلق نہیں.اس ضمن میں میں نے ایک بات آپ کے سامنے رکھی تھی جس سے متعلق بعض دوستوں کو ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ مزید وضاحت کی جائے.وہ یہ تھی کہ ہر لذت کا آغاز ، اس کا مبداء، اس کا منبع ایک ہی ہے.یعنی آنا جواللہ کا ”انا“ ہے.اللہ کا اپنے نفس کے وجود کا احساس وہی ہے جس سے ہر دوسری چیز پھوٹی ہے.پس الم میں، جو الف ہے یہ ہر چیز کا آغاز ہے.ایک ہے اور اس سے ہر چیز پھوٹتی ہے اور وہ اپنے وجود کا احساس ہے.اس احساس سے اللہ تعالیٰ نے زندگی کو یہ احساس و دیعت فرما دیا منعکس کر دیا زندگی پر ، اور وہیں سے پھر زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے.زندگی کی آپ جو بھی تعریف کر لیں اس کا آخری نقطہ ”انا“ سے شروع ہوتا ہے.یہاں آنا‘ سے وہ انانیت مراد نہیں.جس کا شعر و شاعری میں بھی ذکر ملتا ہے.جس کے متعلق منفی معنوں میں ہم سوچتے ہیں کہ اس سے مراد اپنے وجود کا دوسروں پر سبقت کا احساس، بڑائی کا احساس برتری کا احساس یا دوسرے لفظوں میں تکبر کا احساس ہے.ہرگز ان معنوں میں یہاں ان کی بات نہیں ہورہی.”انا“ سے مراد حساس وجود ہے جو ہر دوسری چیز سے زیادہ پیارا ہے.پس اس احساس وجود میں انسان کی پیدائش سے بہت پہلے زندگی کے آغاز ہی میں، زندگی کے پہلے ذرے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس احساس میں ظلی طور پر شامل فرمالیا اور وہیں سے پھر زندگی کا سفر شروع ہوا.ہر ذرہ زندگی کا ایک ”انا“ رکھتا ہے اور یہ آنا

Page 49

خطبات طاہر جلد 13 43 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /جنوری 1994ء اسے دوسری چیزوں سے ممتاز کر دیتی ہے.اب جب آپ زندگی کے ارتقاء پر غور کریں تو آپ یہ معلوم کر کے حیران رہ جائیں گے کہ تمام تر ارتقاء اس ان کے گرد گھوم رہا ہے.شروع میں لاشعوری طور پر اور پھر انسانی سطح پر پہنچ کر شعوری حالت میں.یہ مضمون چونکہ بہت گہرا اور بہت ہی وسیع ہے.اس لئے میں نے اشارۃ ذکر کیا تھا.اب بھی اس مضمون کے تمام تر پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرنے کا وقت نہیں ہوگا.میں اسی جگہ سے شروع کرتا ہوں جہاں میں نے بات ، جہاں میں نے بات پچھلے جمعے میں ختم کی تھی کہ ہم اپنی لذات کو اگر تجزیہ کرتے ہوئے آغاز تک پہنچانے کی کوشش کریں.تو معلوم ہوگا کہ ہر لذت کا منبع احساس وجود یعنی ”انا“ ہے.ہم زندگی میں پھیلنا چاہتے ہیں اور یہ پھیلنا آغاز میں وجود کے پھیلنے کے ذریعے تھا.اس وجود کو زیادہ سے زیادہ تقویت دینا چاہتے ہیں.اور ان دونوں باتوں کی سیری کے لئے ، ان دونوں باتوں کی سیرابی کی خاطر ہمیں زندگی میں ہر مقام پر دوسری چیزوں کی احتیاج رہتی ہے.اور یہ احتیاج کئی طریق سے پوری ہوتی ہے.مثلاً ہر زندہ چیز اپنے ماحول سے کوئی چیز لیتی ہے جس کو ہم کھانا کہتے ہیں کوئی چیز اخذ کرتی ہے، جسے پینا بھی کہا جاتا ہے اور جو کچھ لیتی ہے خواہ وہ کسی شکل میں بھی ہو اس میں سے کچھ حصوں کا انتخاب کرتی ہے اور وہ جو اس کی بقاء کے لئے ، اس کی بنیادی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو اس میں اس کو مزا آنا شروع ہو جاتا ہے.پس اصل لذت بقاء میں ہے اور اپنے وجود کے پھیلنے میں ہے.اپنی نشو ونما میں ہے.آغاز میں ہمیں اس کے لئے کوئی الگ الگ بڑ زیا سیل دکھائی نہیں دیتے.زندگی کے آغاز میں ایک مبہم سا خیال ہے کہ مجھے مزا آ رہا ہے.لیکن اس مزے کی تکمیل کے لئے زندگی نے ابھی بہت سفر کرنا ہے اور مختلف ذرات میں مختلف اجزاء نے نہ صرف اندرونی طور پر ترقی کرنی ہے بلکہ باہمی رشتوں میں بھی ترقی کرنی ہے.پس اب دیکھیں جس چیز کو ہم مزہ کہتے ہیں، منہ کا مزہ، اس میں کچھ Buds ہیں.ان Buds کے ذریعے ہم نمک محسوس کر لیتے ہیں.کڑواہٹ محسوس کر لیتے ہیں.مٹھاس محسوس کر لیتے ہیں.اور ان کا تعلق صرف ناک کے Buds سے ہے جن سے ہم خوشبو محسوس کرتے ہیں.پھر لمس کے ساتھ تعلق ہے، جو چیز نرم ہے یا سخت ہے.Crish ہے یائو گی ، ایسی ہے جو چیٹ کے ساتھ ٹوٹتی

Page 50

خطبات طاہر جلد 13 44 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء ہے یا پھپھی سی ہے.پھر وہ گرم ہے کہ سرد ہے.ان سب چیزوں کے لئے خدا تعالیٰ نے پھر زندگی کو محسوس کرنے کے ذرائع عطا کئے حالانکہ آغاز صرف بقاء کا ہے.بقاء کی خاطر سفر شروع ہوا ہے.لیکن زندگی خود تو یہ چیزیں بنا نہیں سکتی تھی.احساس تھا کہ کاش میں جو کچھ لذت حاصل کرتی ہوں تو مجھے اس کی لذت کو معلوم کرنے کے لئے معین ذرائع بھی میسر آجائیں.قرآنِ کریم نے اس مضمون کو ایک سورۃ میں مکمل طور پر پیش فرمایا ہے کہ تم یہ کچھ جو تم نے کیا، کیا تم اس کے خالق تھے یا ہم خالق تھے؟ یہ بتانے کے لئے کہ تمہیں احساس وجود تو تھا مگر اس احساس وجود کی سعی کے لئے تم کچھ بھی خود پیدا نہیں کر سکتے تھے.لیکن لگتا یوں ہے کہ خود بخود پیدا ہورہا ہے.تو جتنی بھی لذتیں کھانے پینے اور کس سے تعلق رکھتی ہیں.ان سب لذتوں کا تعلق اپنے وجود کی نشو ونما اور اس کی بقاء سے ہے.اصل مزہ اس بات کا ہے کہ بڑھ رہے ہیں، ہم پھیل رہے ہیں، ہم باقی ہیں، ہم زندہ ہیں.ہم طاقتور ہیں اور اس کو معین طور پر محسوس کرنے کے لئے ہمیں منہ کے اندر بعض ایسے سیل عطا کئے گئے ، ایسے خلیے عطا کئے گئے جو ان چیزوں کو محسوس کر سکتے ہیں.ہمارے ہاتھوں میں ، ہماری جلدوں میں، اس قسم کے خلیے عطا کئے گئے جوان چیزوں کو محسوس کر کے ان کا الگ الگ تجزیہ کر سکتے ہیں اور پھر وہ اعصاب عطا کئے ، جن اعصاب کے ذریعے یہ سارے پیغامات دماغ تک پہنچتے ہیں اور پھر دماغ میں وہ صلاحیت عطا کی گئی کہ ان تمام احساسات کو نہایت تیزی کے ساتھ ، برقی رفتار کے ساتھ کمپیوٹ کر کے جیسے کمپیوٹر ایک چیز کا حساب لگاتا ہے، حساب لگا کر نہ صرف یہ کہ اپنے اپنے الگ الگ خانوں میں جن کو وہ الگ الگ کر کے دکھائے ، یہ جو چیز تم کھا رہے ہو، یہ اتنی ٹھنڈی ہے، اتنی گرم ہے، اتنی نرم ہے، اتنی سخت ہے، اس میں تمہاری بقاء کے لئے غذا کس کس شکل میں پائی جاتی ہے.وغیرہ وغیرہ اور اس کی بیو کیسی ہے.یہ دماغ پھر الگ الگ خانوں میں سجا کے دکھاتا ہے لیکن ابھی اس کا نام لذت نہیں ہے.لذت اس آخری کمپیوٹیشن میں ہے جس میں دماغ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں ہر طرف سے مطمئن ہوں اور مجھے بہت ہی لطف آیا ہے کہ مجھے جو چیز اپنے وجود کی تقویت کے لئے جتنی جتنی جیسی جیسی شکل میں ضرورت تھی، وہ سب مجھے مل گئی.لمس کے لحاظ سے بھی میں مطمئن ہو گیا، درجہ حرارت کے لحاظ سے بھی مطمئن ہو گیا ،نمکین ہونے یا میٹھا ہونے کے لحاظ سے بھی مطمئن ہو گیا وغیرہ وغیرہ.

Page 51

خطبات طاہر جلد 13 45 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /جنوری 1994ء پھر آخری اطمینان اگر چہ ہم مادی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں.لیکن اس کا منبع صرف وہی ”انا“ ہے.یعنی احساس وجود، جسے تقویت مل رہی ہے.اس تقویت کے نتیجے میں ایک بہت لمبے سفر سے زندگی گزری ہے اور ہر تقویت، کچھ اور وجود میں اضافہ کرتی چلی گئی اور اس کے نتیجے میں مختلف سیلز کی شکل میں انسان کے احساس کی قوت ڈھلتی رہی اور اس طرح یہ سفر بالآخر انسان تک پہنچا ہے.اور حواسِ خمسہ کو جب آپ دیکھتے ہیں تو حواس خمسہ اسی سفر کی آخری شکل ہے جو انسان سے جا کر آخر پر منتج ہوئی ہے.حواس خمسہ تک پہنچنے سے پہلے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا ویسا نمایاں احساس ممکن نہیں تھا.جیسا حواسِ خمسہ کے ذریعے ہوا.تو اگر چہ یہ سفر انفرادی طور پر ایک ایک واسطے کے تعلق کو سمجھانے کے لئے اختیار کیا گیا.لیکن مزہ و ہیں آیا جہاں ہمارے وجود کی مددگار چیزیں ثابت ہوئیں.جہاں ہمارے وجود سے زندگی کم کرنے والی طاقتیں، اڑانے والی چیزیں پیدا ہوئیں.وہاں مزے کی بجائے اس سے نفرت کا احساس پیدا ہوا ، اس سے خوف پیدا ہوا جو پھر آگے مختلف قسم کے سیلز میں ڈھلنا شروع ہوا.پس درد کا احساس تکلیف کا احساس، کھوئے جانے کا احساس، یہ سارے ہمارے وجود کے خلاف اثر کرنے والے محرکات ہیں.جن سے ہمیں بنیادی طور پر صرف نفرت ہے.ہمیں پسند نہیں ، ہمارے وجود کے خلاف کام کر رہے ہیں.اس نفرت کو خدا تعالیٰ نے پھر ڈھالا ہے، مختلف قسم کے احساسات میں.ایک انگلی کائی جاتی ہے درد ہوتی ہے.سوئی سے کسی جگہ کچھ چھویا جائے تو درد ہوتی ہے.کیوں ہوتی ہے.آخری Anphisis ہے اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس نے وجود کو خطرہ پیدا کیا ہے اور جہاں جہاں ، جس جس سمت سے بھی وجود کو خطرہ در پیش ہوگا وہاں تکلیف ہوگی اور اس تکلیف کا نام ہم کبھی بھوک رکھ لیتے ہیں، کبھی در درکھ لیتے ہیں، کبھی سردی رکھ لیتے ہیں، کبھی گرمی رکھ لیتے ہیں اور ان سب کے لئے الگ الگ ذرات اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کئے ہیں یا خلیات جن میں ان چیزوں کو محسوس کرنے کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں.لیکن آخری Analysis آخری تجزیہ یہی ہے کہ لذت بقاء میں ہے اور بقاء کی لذت نے جو لمبا سفر اختیار کیا ہے اس سفر کے نتیجے میں اس لذت کو محسوس کرنے کے لئے احساسات میں نشو ونما پیدا ہوئی ہے.اور یہ نشو و نما احساس آنا “ نے پیدا نہیں کی.چونکہ وہ بالکل اس بات کا اہل ہی نہیں تھا کہ کچھ پیدا کر سکتا.اللہ کی ”انا“ نے پیدا کی ہے.جس سے زندگی

Page 52

خطبات طاہر جلد 13 46 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء 66 میں احساس آن منعکس ہوا.تو اگر کوئی شخص حواس خمسہ تک پہنچتے پہنچتے سر کو ختم کردے تو اندھامر جائے گا.اگر حواس خمسہ تک پہنچنے کے بعد اس کا سفر اس مقام پر ہسمت میں حرکت کرنے لگے کہ سب چیزیں میری بقاء کے وجود کے تمام لوازم اور ان میں جو رکھی ہوئی لذتیں ہیں ، یہ ساری اس آنا“ سے پیدا ہوئی ہیں جو اللہ کی ”انا“ ہے اور اس کے سوا ہمارے احساس وجود میں طاقت ہی نہیں تھی نہ عقل تھی دماغ تو اس کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، دماغ تو حواس خمسہ کو محسوس کرنے اور پھر اس کے اندرونی نظام کو مختلف شکلیں دینے کے لئے پیدا کیا گیا اور ان کا باہمی آپس میں ایک رشتہ ہے جو اکٹھے ساتھ ساتھ ترقی کے منازل طے کرتے چلے گئے ہیں.تو بقاء کا احساس ہے، جس نے ہمیں بہت سی لذتیں بخشیں اور لذت کے ذرائع بخشے.اب ہم ان کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ مادی لذتیں ہیں.مگر اگر آپ اس کی مبداء کی طرف لوٹ جائیں تو ہر مادی لذت کا مبداء، اس کا منبع ایک روحانی لذت ہے جس کو ہم اعضاء میں تقسیم نہیں کر سکتے جس کو کوئی مادی صورت دے نہیں سکتے.اس کا کوئی ایسا وجود نہیں جس کو مادی طور پر کہ سکیں کہ یہ یہ ہے.پس وہ احساس آنا جس کی میں بات کر رہا ہوں.یہ اللہ کے الف یعنی ”انا“ کی ایک تفصیل ہے جو زندگی میں ڈھالی گئی.جس کو آپ جنسی خواہشات کہتے ہیں اور جنسی لذات.اب بظاہر جانوروں میں دیکھیں یا انسان میں دیکھیں تو باقی پہلوؤں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں.خالصہ مادی اور شہوانی جذبات ہیں روحانیت کا ان سے کیا تعلق ہے.حالانکہ جب ان کے سفر پر آپ غور کریں تو پتا لگے گا کہ یہ سفر بھی روحانی سفر تھا.جس نے رفتہ رفتہ جسمانی شکلیں ڈھالی ہیں کیونکہ انسان صرف اپنے وجو دکوShase میں یعنی کائنات میں نہیں بڑھانا چاہتا بلکہ وقت میں بھی بڑھانا چاہتا ہے اس لئے بھی زندگی کی خواہش ہے.لیکن یہ خواہش ایک مقام پر آ کر آگے نہیں بڑھ سکتی.جو اجل مسمی والی آیت میں نے پڑھ کر سنائی ہے.ہرشخص کی ایک اجلِ منسٹمی ہے.ہر وجود کی ایک اجل مسٹمی ہے.اس سے آگے ایک ذرہ بھی نہیں بڑھ سکتا.تو آگے کیسے بڑھیں پھر.پھر وہ پیدائش کے ذریعے آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا پھر.شروع میں زندگی کے آغاز میں پیدائش کے ساتھ وہ لذتیں نہیں تھیں.صرف ایک احساس کی سیری تھی کہ ہم زمانے میں آگے بڑھ گئے ہیں اور یہ سیری کچھ لذت بخشی تھی.جس نے ارب ہا سال تک ترقی کا سفر طے کیا اور

Page 53

خطبات طاہر جلد 13 47 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء پھر اس لذت کو احساس کے لئے مختلف خلیے عطا ہونے شروع ہوئے اور اسی طرح اعصابی نظام بنایا گیا اسی طرح دماغ بنایا گیا جس تک اعصابی نظام کے ذریعے پیغامات پہنچتے تھے اور اس سے تعلق والی تمام چیزوں کو جب مجموعی صورت میں دیکھا جائے تو یہ ایک مادی لذت کی ، ایک اپنی الگ شان ہے جس کو کھانے پینے کی لذت سے ملایا نہیں جا سکتا ، ایک الگ قسم کی چیز ہے.لیکن اس کے باوجود اس کا آغاز بقاء کی تمنا سے ہی شروع ہوا، ایک بقاء کی تمنا ہے ایک مکان کے اندر انسان بڑھنا چاہتا ہے جسم میں بھی اور جسم میں جب نہیں بڑھ سکتا تو پھر علم میں بڑھنے کی تمنا اسے ایک لذت بخشتی ہے.اور جتنا انسان علم میں ترقی کرتا ہے اتنی اس کی کائنات پھیلتی چلی جاتی ہے اور وہ وجود جو محدود ہے علم کے ذریعے لا محدودیت کی طرف اس کا سفر شروع ہو جاتا ہے.اسی طرح زمانے میں آگے بڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جنسی خواہشات عطا کیں، جو اپنی ذات میں مقصد نہیں ہیں بلکہ ہمارے آگے بڑھنے کے احساس کے نتیجے میں ہمیں یہ صلاحیتیں عطا ہوئیں کہ ہم جب سمجھتے ہیں ہاں ہم آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس سے ایک لذت پیدا ہوتی ہے.اس لذت کو ان خلیوں میں ڈھالا گیا اس اعصابی نظام میں ڈھالا گیا وغیرہ وغیرہ.پس عام انسانی سفر پر جب ہم غور کرتے ہیں تو بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ بڑی بھیا نک قسم کی لذات ہیں یعنی ایک مومن کو جو روحانیت کو فوقیت دیتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ یہ لذتیں تو دنیاوی ہیں.ان لذتوں کی سیری کیسے ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ کے تعلق میں.یہ درست ہے کہ کھانے پینے کی لذت کی، جنسی لذت کی لمس کی لذت کی، خدا تعالیٰ کی ذات سے براہ راست سیری ناممکن ہے.ویسی ہی مثال ہے جیسی ایک جانور کی میں نے دی تھی کہ وہ انسانی لذتوں کا تصور نہیں کر سکتا اور انسان سے وہ لذتیں پا نہیں سکتا.جو اس کو اپنے محدود دائرے میں عطا ہوئی ہیں.تو پھر وہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خدا سے اسی قسم کے مضمون کی اعلیٰ لذات حاصل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہماری تمام اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 ، صفحہ: 21) وہ اعلیٰ لذات کیا چیز ہیں؟ یہ مضمون ہے جو پوری طرح پچھلی دفعہ واضح نہیں ہوسکا تھا.جسے

Page 54

خطبات طاہر جلد 13 48 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /جنوری 1994ء میں گزشتہ جمعے، میں کہہ چکا ہوں ان کے حوالے سے آگے بڑھانا چاہتا ہوں.جس طرح مادی ترقی نے ”انا“ کے سہارے ایک بہت لمبا سفر طے کیا.اسی طرح روحانی ترقی میں بھی یہی آنا ہے 66 66 جو ایک سفر میں آپ کی مددگار اور معین ہو جاتی ہے آپ کو قدم قدم آگے بڑھاتی ہے.مادی ترقیات میں آنا “ نے کانشس رول ادا نہیں کیا.یعنی با شعور طور پر ”انا“ میں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ آپ کو وہ چیز میں عطا کرسکتی.جو آپ کی لذت کے پیمانے ہیں.اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنی ”انا“ سے یہ سب چیزیں آپ کو عطا کیں ہیں اور آپ کو سمجھانے کی خاطر کہ لذت کیا ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے.جب آپ انسان کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں اور حواس خمسہ پوری طرح مکمل اور تیار ہو جاتے ہیں.تو یہ وہ وقت ہے جس سے خلقِ آخر کا وقت کہا جاتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے شعلہ الہام نازل ہو سکتا ہے اور آپ کی صلاحیتیں اتنی ترقی کر چکی ہیں کہ آپ ماوراء کسی چیز کا تصور کر سکتے ہیں.یعنی مادے سے ماوراء، مادے سے پرلی طرف کی دنیا کی بھی تصور کرنے کی اہلیت اختیار کر جاتے ہیں.پھر شعور جوں جوں بیدار ہوتا ہے.آپ جانتے ہیں کہ ہماری بقاء، یہ جو ہمیں لذتیں بخشی ہیں.یہ بقاء تو ایک عارضی سی بے معنی سی بقاء ہے.اصل بقاء اس بات میں ہے کہ بقاء کے سرچشمے میں اپنے آپ کو کھو دیں.قطرہ سمندر کی طرف واپس لوٹ جائے.وہ جو مبداء تھا وہ مرجع بن جائے.جہاں سے ہم نکلے تھے اس میں ڈوب جائیں.اور یہ احساس پوری طرح عرفانِ الہی سے نصیب ہوتا ہے جو کلام الہی کے پڑھنے سے اور عارف باللہ کے تعلقات سے محض نصیب ہوتا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جو حقیقت میں مذہب کا مضمون ہے اور مذہب کے سفر کی داستان یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم اپنی لذتوں کو اللہ کی طرف منتقل کرنے کا جہاد شروع کریں.اللہ کی طرف منتقل کرنے کا جو سفر ہے.یہ سفر ہی روحانی ترقی کا سفر ہے.پس جس طرح بقاء کے احساس نے اور ان ذرائع نے جو بقا کو طاقت بخشتے تھے اور ہمیشہ رہنے کی تمنانے اور ان ذرائع نے جو ہمیشہ رہنے کی تمنا کو پورا کرنے میں مددگار تھے ہمیں مادی طور پر کچھ ایسے خلیے ، کچھ ایسے ذرائع آلات عطا کر دیئے جس کے ذریعے ہم ان لذتوں کو ایک مبہم لذت کے طور پر نہیں بلکہ معین لذتوں کے طور پر محسوس کر سکتے تھے.اسی طرح روحانی زندگی میں جب آپ تعلق باللہ شروع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر

Page 55

خطبات طاہر جلد 13 49 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء سے اس تعلق کو تقویت دیتے ہیں.وہ وقت جب آپ کو واقعہ اللہ کے پیار میں لذت آنی شروع ہو جاتی ہے.وہ جب واقعہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری بقاء کا آغاز تو اللہ ہی سے ہے اور اسی کے سہارے ہوا ہے مسلسل، اور ہم نادانی میں اس بات کو بھولے رہے.پھر جب آپ خدا سے ایک نئی طاقت پاتے ہیں، ایک نئی رفاقت نصیب ہوتی ہے وہ آپ کو ایک روحانی لذت بخشتی ہے.یہی وہ روحانی لذت ہے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے سے پہلے پہلے اسی طرح ایک لمبا سفر کرے گی.جس طرح انسانی زندگی یا حیوانی زندگی نے سفر کر کے بعض لذتوں کو متعین طور پر محسوس کرنے کے ذرائع حاصل کر لئے.وہ روحانی وجود جو جنت کے مقام تک پہنچتے پہنچتے آپ کو عطا ہو گا وہ روح کا یہ سفر ہے جس کے دوران آپ کو یہ عطا ہوگا.اس سفر پر بھیجنے کے لئے آپ نے اپنی زندگی میں کچھ کام کرنے ہیں.اگر اپنی زندگی میں اس سفر کی تیاری نہ کی تو زادراہ کے بغیر جو سفر ہے وہ تو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا.اسی طرح گنہگار لوگ جن کی اپنے اپنے وجود کی ہر ایک کی ایک جہنم ہوتی ہے اس لئے میں کہتا ہوں اپنی جہنم تک پہنچنے تک جو سفر اختیار کرتے ہیں.اس سفر تک پہنچنے کے لئے ان کو اسی طرح منفی اعصاب نصیب ہوتے ہیں.جس طرح درد اور تکلیف کو محسوس کرنے کے لئے ہمیں زندگی کے سفر میں منفی اعصاب نصیب ہوئے تھے.اور وہ منفی اعصاب جہنم تک پہنچنے تک ان کے اندر غیر معمولی تکلیف کے احساس کی طاقت پیدا کر چکے ہوتے ہیں.پس خدا سے دوری کا سفر در اصل وہ جہنم کی جانب سفر ہے جس میں ایک لمبے عرصے میں، جس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب تک کا ہوگا.رفتہ رفتہ ہماری روح کو وہ شعور نصیب ہو جائے گا کہ وہ اپنی حماقتوں کے نتیجے میں جو کچھ کھویا ہے اس کی تکلیف محسوس کریں اور تکلیف کھونے کا نام ہے.بقاء کے خلاف جو کوئی چیز بھی آپ پر عمل دکھاتی ہے وہی تکلیف ہے.اور بقاء کے حق میں جو طاقتیں آپ پر عمل کر رہیں ہیں وہی لذتیں ہیں.تو آخری Analysis میں نہ کوئی جسمانی لذت ہے، نہ کوئی جنسی لذت ہے، نہ کوئی کھانے کی لذت ہے، نہ کوئی سردی گرمی کا مزہ ہے.سارے مزے ”انا“ تک پہنچتے ہیں اور اس ”ان “ میں جب کمزوری کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے بہت لمبے سفر کئے مگر پھر بھی کافی نہیں ہے.مزید کی تمنا اسی طرح باقی ہے، پھر بھی پیاس ہے، جو نا ختم ہونے والی ہے.وہ وقت ہے شعور کا، جب اللہ کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور انسان جان لیتا ہے کہ بقاء تو اسی کی ذات میں ہے اسی کی رفاقت میں ہے.اور ہمیشہ کی زندگی بھی اسی سے نصیب

Page 56

خطبات طاہر جلد 13 50 50 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /جنوری 1994ء ہو سکتی ہے.تو پھر یہ جو کھانے پینے کی ، جنسی لذتیں وغیرہ یہ بالکل بے حقیقت، اس کے مقابل پر بے حقیقت اور بے معنی ہو جاتی ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں ایک نیا احساس لذت پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہماری اعلیٰ لذات سے یہ مراد ہے.بہت سے انسان تو ہیں جن کو ادفی لذات سے باہر نکل کر سوچنے کا موقع ہی کبھی نہیں ملا.یہ کلام ایک عارف باللہ کا کلام ہے.ناممکن ہے کہ ایک عارف باللہ جو خدا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہو اس کے سواء کسی کا تصور بھی اس بات تک نہیں پہنچ سکتا.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ایک جملے میں فرما دیئے ہیں.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.وہ کون سی اعلیٰ لذات ہیں.وہ یہی لذات کا روحانی سفر ہے، جو انسان کے مقام پر پہنچنے کے بعد پھر آگے بڑھتا ہے اور اس سفر کا اختتام مرنے کے ساتھ نہیں ہو جاتا.قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد اس سفر کا آغاز ہوتا ہے.ان معنوں میں جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ بن رہا ہوتا ہے.اور ایک لمبا سفر نو مہینے کے عرصے میں طے کرتا ہے.نو مہینے کا عرصہ تو تھوڑا ہے.لیکن یہ جو وہ سفر کرتا ہے.وہ ساری زندگی کا سفر ہے، جود ہرایا جا رہا ہے اس کے اندر، یعنی ماں کے پیٹ کے اندر، بچے کی ذات میں، یہ سفر د ہرایا جاتا ہے.یہ بھی ایک لمبی تفصیل ہے.جس میں اس وقت جانا مناسب نہیں.مختصر ا آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ سفر، جو روحانی سفر خدا کی جانب ہے اور الہی تعلق کی لذات حاصل کرنے کی تمنا کے سہارے چلتا ہے.یہی وہ سفر ہے جس نے ہماری جنت کی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں.ورنہ یہ وہم ہے کہ ہم جنت میں چلے جائیں گے.جنت میں جانے کی وہ تیاری جس سے جنت کی لذتیں محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے وہ تیاری کئے بغیر ، اس صلاحیت کے بغیر کس سے آپ مزہ اٹھالیں گے.ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی آنکھیں نہیں ہیں.بغیر آنکھوں کے وہ وہ لذتیں کیسے پا سکتا ہے جو آپ آنکھوں والے حاصل کر رہے ہیں.ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں اس وقت اور دنیا کے باہر جب نکلتے ہیں نظارے دیکھتے ہیں رنگوں کی تمیز کرتے ہیں.حسن کو پہچانتے ہیں اور اس سے ایک لذت پاتے ہیں.ہر قسم کے حسن سے لذت پانے کے وہ ذرائع جو آنکھ کو میسر ہیں ان کا تعلق ایک لذت یابی سے ہے.اندھے بے چارے کو پتا ہی کچھ نہیں.اسی طرح سماعی لذتیں ہیں.جس کو کان نصیب نہیں ہوئے اس کو کیا پتا کہ یہ کیا لذتیں ہیں.تم ، یہ تو محض کافی نہیں کہ ایک

Page 57

خطبات طاہر جلد 13 51 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء اندھے کو ایک بہت ہی خوب صورت وجود یا خوب صورت بندے کے سامنے لا بٹھا ؤ لا بٹھا لیکن وہ لذت حاصل نہیں کر سکے گا.یہ تو کافی نہیں کہ ایک بہرے کو ایک نہایت ہی خوب صورت اور دلکش محفلِ سماع میں پہنچادو.وہ بت کا بت ، پتھر کا پتھر ، بیٹھا رہے گا.اس کو کچھ بھی پتا نہیں لگے گا کہ کیا ہورہا ہے.تو جنت کوئی ظاہری ایسا وجود نہیں ہے جہاں جو داخل ہو گیا اس کو مزہ آنا شروع ہو جائے گا.ہم اپنی جنت کی خود تعمیر کرتے ہیں.جتنا جتنا یہ روحانی صلاحیتوں کے ذرائع ترقی کریں گے اتنا ہی ہماری جنت کا معیار بڑھتا چلا جائے گا.اگر ایک ہی چیز دو آدمی کھا رہے ہوتے ہیں.ایک کو کم مزہ آ رہا ہوتا ہے ایک کو زیادہ مزہ آ رہا ہوتا ہے.ایک ہی شعر دو آدمی سن رہے ہوتے ہیں.ایک لطف سے ایسا مستی پاتا ہے گویا کہ وہ آسمانوں میں اڑ رہا ہے.اس کی کیفیت ہی اور ہو جاتی ہے.اسے بعض شعر ز مین کی سطح سے بلند رفعتوں پر پہنچا دیتی ہیں اور ایک آدمی سنتا ہے اور اسے کچھ پلے نہیں پڑتا کہ کیا ہو رہا ہے کیا بات ہے.وہیں بہت کا بت زمین پر بیٹھا رہتا ہے.شعر اس کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے یا ایک طرف سے آتا ہے، دوسری طرف سے نکل جاتا ہے، پتا نہیں اس کو کہ کیا بات ہو رہی ہے.اب وہ ایک خاص دائرے میں جو کچھ ہو رہا ہے.وہاں جس کو چاہیں لے جائیں ہر ایک کا ماحصل مختلف رہے گا.بعض شعری مجلس میں جا کر سزا پاتے ہیں.کہ پتہ نہیں یہ کیا بکواس ہورہی ہے.جھوم جھوم کے ایک آدمی کچھ باتیں کر رہا ہے.لوگ داد یں دے رہے ہیں.پاگل ہوئے ہوئے ہیں یہ سارے، کہنے والا بھی پاگل سننے والے بھی پاگل.اصل میں وہ خود پاگل ہوتا ہے، اس کو پتا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.تو اس لئے جو لذتوں کے حصول کے ذرائع ہیں.وہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے ہی جنتیں بنتی ہیں ان سے ہی دوز خیں بنتی ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کی جنت الگ ہے اور ہر شخص کی دوزخ الگ ہے.پس محض دعائیں کرنا کہ اے اللہ ہمیں اعلی علیین میں پہنچا دے.ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قدموں میں جگہ دے.ہمیں اپنے پیاروں سے ملا دے.بے کار ہے اگر ان باتوں کی کوئی تیاری نہ کی گئی ہو تو اندھا کہہ سکتا ہے اے خدا اے خدا! ہمیں دنیا کی سب سے خوب صورت جگہ پہ پہنچا دے.سب سے زیادہ حسین وجود کے سامنے بٹھا دے.تو اللہ دعا قبول کر لے گا ؟ اگر چہ گریہ و زاری سے کرے گا.مگر دعا کرنے والے کو کیا فائدہ؟ وہ اسی طرح اندھے کا اندھا ہی

Page 58

خطبات طاہر جلد 13 66 52 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء ہے.پس یہ جو روحانی سفر ہے اس کے متعلق یاد رکھیں کہ آپ کی تمام مادی لذات بعض صورتوں میں بڑی بھیا نک دکھائی دیتی ہیں.مگر ان سب کا منبع ، ان سب کا مبداء اللہ کی ذات ہے.اور آغاز میں یہ بہت ہی پاکیزہ ہیں اور گہری حکمتیں ان سے وابستہ ہیں اور آخری حکمت کی بات یہ ہے.کہ ان سب کا تعلق اس ”انا“ سے ہے.اللہ کی ذات سے آپ میں منعکس ہوئی.اور اس نے ایک بہت لمبا سفر اختیار کیا.جب آپ کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ منبع حسین ہے اور باقی سب لذتیں.اس منبعے کی عطا ہیں.تو اس طرف جو لوٹنے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.وہ سفر ہے جو مرجع کا سفر بن جاتا ہے.پس آخری دائرہ وہی ہے جو انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میں بیان فرمایا گیا ہے.کہ اللہ ہی سے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور اللہ پر ہی سفر جا کر ختم ہوتا ہے.وہ لوگ جن کا سفر اندھا شروع ہو اور اندھا ہی ختم ہو ان کو مرنے کے بعد کسی لذت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے.وہ جو باشعوری طور پر دل میں وقتا فوقتا اپنے جذبات میں ایک ہیجان اٹھتا ہوا دیکھتے ہیں.وہ اللہ کی طرف اپنے وجود کو لپکتا ہوا پاتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ ذات، وہ پاک اور بلند تر ذات جس تک ہمارا تصور بھی نہیں پہنچتا اس طرف جانے کی تمنا میرے دل میں پیدا ہورہی ہے اور اس کی طرف میری روح حرکت کر رہی ہے.یہ وہ تمنا ہے جو رفتہ رفتہ آپ کو لا ز ما وہ روحانی اعصاب عطا کر دے گی جن اعصاب کے ذریعے واقعہ آپ غیر معمولی لذت حاصل کریں گے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مرنے کے بعد روح کو ایک جسم عطا کیا جائے گا.ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ کیا ضرورت ہے روح کو ایک جسم عطا کرنے کی ، ایک جسم سے چھٹکارا ملا، ایک اور جسم عطا ہو گیا.بات یہ ہے کہ روح کا جو شعور ہے وہ ایک غیر منقسم شعور ہے.اس میں کسی قسم کی کوئی شعور کے اندر ایسے مختلف قسم کے حصے نہیں ہیں کہ اس شعور کو آپ تقسیم کر سکتے ہوں کہ یہ حصہ فلاں چیز سے تعلق رکھتا ہے یہ فلاں چیز سے تعلق رکھتا ہے.ہر شعور اپنے آخری شکل میں غیر منقسم ہے.اس لئے کہ وہ توحید کا عطا ہوا ہے.”آنا کا الف ایک ہی ہے.اور اسے آپ تقسیم اور نہیں کر سکتے.لیکن تقسیم ہوئے بغیر اس سے پھر آگے صفات پھوٹتی ہیں.پس جس طرح ہم کہتے ہیں کہ الم ، أَنَا اللهُ اَعْلَمُ یہ بھی کہا جا سکتا ہے.کہ الف سے مراد ”انا“ ہو اور لام سے اللہ ہو اور میم سے رحمن اور رحیم ہوں.کیونکہ رحمانیت سے ہی ہر چیز کا آغاز ہوا ہے اور ربوبیت دراصل رحمانیت اور

Page 59

خطبات طاہر جلد 13 53 33 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء رحیمیت کے آپس کے تعلق سے بنتی ہے.مگر یہ بھی سر دست اس کو چھوڑنا پڑتا ہے.کیوں کہ ایک لمبا مضمون ہے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم جو کہتے ہیں انا اللهُ أَعْلَمُ کا مطلب ہے میں ہوں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا.یہ بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ قرآن کریم کے بہت سے بطن ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الف جو ہے وہ آنا کا ہو اور لام اللہ کا اور میم رحمانیت اور رحیمیت کی ہو اور مراد یہ ہے کہ میں ایک وجود ہوں جس سے آگے صفات کے پھوٹنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور میری پہلی صفت رحمانیت ہے اور پھر رحیمیت ہے پھر آگے ان کے مختلف تعلقات اور جلووں سے تمام صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں جس طرح ایک ہوں اور کوئی میرا ثانی نہیں.اسی طرح میم سے مراد محمد ہو ، اور مراد یہ ہو کہ مخلوقات میں محمد بھی اسی طرح ایک ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں لیکن جس طرح میں ایک ہونے کے باوجود مختلف صفات میں جلوہ گر ہو کر تمہیں مختلف رنگوں میں دکھائی دے رہا ہوں اور تم ان صفات کو اپنا بھی سکتے ہو.اسی طرح اگر چہ محمد بھی ایک ہے لیکن تم اگر چاہو تو اس کی صفات کو اپنا کر اس کا قرب حاصل کر سکتے ہو اور ویسے ہی جلوے دکھا سکتے ہو.تو ”انا“ کا سفران معنوں میں کہ خدا کی ذات سے نکلا ہے ہر قسم کے رنگ سمیٹے ہوئے ہے، ہر قسم کے حسن کی آماجگاہ ہے اور یہیں سے حسن پھوٹتے ہیں اور جب ہمارا تصور اس مضمون کو پا لے اور ہم سمجھ لیں کہ ہم نے زندگی کا سفر کیوں اختیار کیا اور کس جانب یہ سفر ہے.تو پھر ایک تمنا پیدا ہوتی ہے کہ ہم اس طرف لوٹ جائیں تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے وصال کے وقت بار بار یہ الفاظ ادا کئے اللهُمَّ فِى الرَّفِيقِ الأَعْلَى اللَّهُمَّ فِى الرَّفِيقِ الْأَعْلَى اے میرے اللہ اب تو میں رفیق اعلیٰ میں ڈوبنے کی تمنا رکھتا ہوں، تو میرا وہ اعلیٰ دوست ہے، اعلیٰ لذات کے مضمون پر غور کریں.یہ وہی مضمون ہے اعلیٰ لذات والا ، کہ دنیا میں بھی رفیق تھے جو تیری وجہ سے پیارے لگتے تھے.مگر وہ سارے تیرے مقابل پر ادنی رفیق ہیں.ان کے تعلق کی لذتیں تیری لذت کے مقابل پر ادنی کہلاتی ہیں، ادنی کہلائیں گی ادنیٰ ہیں.ایک ہی ہے جو رفیق اعلیٰ ہے جس کے ساتھ رفاقت کی سب سے اعلیٰ لذتیں وابستہ ہیں.پس اللهُمَّ فِى الرَّفِيقِ الأغلى اے خدا میں تیری ذات میں لوٹ کر تجھ میں ڈوب جانا چاہتا ہوں.یہ ہے مرجع تام یعنی باشعور خدا کی طرف لوٹنے کی تمنا پیدا ہو اور اس کے پیچھے اس کی

Page 60

خطبات طاہر جلد 13 54 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء زندگی کی ساری کہانی اس مضمون کی صداقت پر گواہ بن چکی ہو.محض حرفوں اور لفظوں میں یہ بات نہ کہی جائے بلکہ ساری زندگی کے مضمون اس کے پیچھے اس کا گواہ بن کے کھڑا ہو.جس طرح حضرت محمد مصطفی اس کی زندگی کا خلاصہ یہ تھا کہ اَللّهُمَّ فِى الرَّفِيقِ الْاعْلٰی اے میرے اللہ میں تیری ذات میں لوٹنا چاہتا ہوں.پس یہ قطرہ جس کا سفر ایک لامتناہی سمندر سے شروع ہوا تھا جب شعور کی منازل طے کرنے کے بعد عشق کی منازل طے کرتا ہوا واپس اپنے مرجع کے طرف لوٹنے کی تمنا رکھتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو پھر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کی کامل تصویر بن کر ہمیں اپنے خدا کی طرف لے جاتا ہے اور یہ واپس لوٹنا دراصل اعلیٰ جنت ہے.فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتی (الفجر: 30 تا 31) اس جنت کی کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی.جو نسبتا کم درجہ کی جنتیں ہیں ان کے اندر آپ باغوں کے ذکر پڑھیں گے، پھلوں کے ذکر پڑھیں گے، بڑے بڑے باغوں کے قصے ہوں گے.جنت میں نہریں بہہ رہی ہوں گی لیکن ایک اعلیٰ جنت ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی جنت اور آپ کی غلامی میں پیدا ہونے والے عباد کی جنت ہے.اس کی تفصیل خدا نے کوئی بیان نہیں فرمائی کیونکہ وہ ایک ایسی اعلیٰ جنت ہے جس کی کوئی تمثیل ہی نہیں ہے.فرماتا ہے میں آواز دوں گا ان لوگوں کو جو میری طرف آ رہے ہوں گے.یايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إلى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر: 28 (29) اے وہ نفس جو مجھ سے مطمئن ہو گیا ہے.جو تا ساری زندگی کے سفر کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہے.کہ میرا اطمینان، میرا سکون خالصہ اللہ ہی میں ہے اور کوئی چیز نہیں ہے.جو مجھے کامل طمانیت بخش سکے.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِى إِلى رَبَّتِ تو تھک گیا ہے لمبے سفر سے ارجعي إلى ربك اپنے رب کی طرف اب لوٹ آ ، فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي پس میرے عباد میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا، اب باقی جنتیں چاہے کیسی دلکش اور حسین دکھائی دیں، کیسی کیسی تفصیل ان کی نظر آئے ، مگر جو میری جنت اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے.یہ کوئی اور ہی چیز ہے اور یہ ہی وہ جنت ہے جو رفیق اعلیٰ کی جنت ہے.پس اس عظیم سفر کی تیاری کریں اور اپنی جنتیں خود بنائیں اور یہ جنتیں ذکر الہی سے بنیں گی.ذکر الہی مختلف پھل بن کر آپ کے سامنے متمثل ہوگا.ذکر الہی سے جو پھل پھوٹیں گے وہ کچھ لذتیں

Page 61

خطبات طاہر جلد 13 55 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء محسوس کرنے کی صلاحیتیں آپ کو عطا کریں گے اور ان لذتوں سے پھر آپ کی روحانی نشوونما کا سلسلہ شروع ہوگا اور بالآخر جب یہ لذتوں کا حصول اپنے کمال کے درجے تک پہنچے گا تو آخری لذت آپ کو سوائے رب کے کسی چیز میں نظر نہیں آئے گی.یہ ہے ذکر الہی جس کی طرف میں آپ کو بلا رہا ہوں.جس کی طرف قرآن آپ کو بلاتا ہے.جس کے اسلوب اور انداز ہمیں خود اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی عملے کے دل پر نازل ہونے والے نور میں بیان فرمائے اور روشن کئے.جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات میں جلوہ گر ہوا یہ وہ ذکر الہی ہے جو وہ آپ کی روحانی تخلیق کرتا ہے اور آپ خلق آخر میں داخل ہو جاتے ہیں جب دوبارہ پیدا ہو جاتے ہیں.اس مضمون کے بعد جو میرا خیال تھا کہ نیا مضمون شروع کروں گا.اب اس کا وقت تو نہیں رہا اس لئے میں ایک دو اور امور کے متعلق اعلان کر کے اس خطبے کو ختم کرتا ہوں.سب سے پہلے یہ کہ کچھ غم کی خبریں آئی ہیں.جن کا تعلق إِنَّا لِلہ کے مضمون سے ہے.سب سے پہلے مکرم میاں عبد الحئی صاحب کی وفات کی اطلاع ملی ہے.یہ مبلغ انڈونیشیا تقریباً 25 سال تک انڈونیشیا میں خدمت دین سرانجام دیتے رہے.اس لئے عموما ان کا تعارف مبلغ انڈونیشیا کے طور پر ہی کرایا جاتا ہے اور جہاں تک خدمت دین کا تعلق ہے.یہ ایک لمبا عرصہ ہے.55 سال تک یہ واقف زندگی کے طور پر مختلف مناصب پر خدمت دین سرانجام دیتے رہے.نہایت میٹھا مزاج تھا بہت ہی طبیعت کے اندر نرمی اور رفق پایا جاتا تھا شفقت تھی دوستوں کے ساتھ ، اچھے دوست مسکرانے والے اچھی باتوں پر بننے والے بری بات کہو تو خاموش ہو کر الگ ہو جانے والے، اس قسم کا مزاج تھا جو ایک نظر دیکھنے میں ہی ایک پاکیزہ مزاج دکھائی دیتا ہے.صاف ستھرا، پاکیزہ مزاج اور خدمت بھی بے لوث کی اور مسلسل کی ہے.ہر حالت میں کی ہے سخت بیماری کی حالت میں بھی جبکہ کینسر کے مریض تھے تب بھی آپ خدا کے فضل کے ساتھ خدمت دین کو اس طرح سرانجام دیتے رہے جیسے آپ کا عزیز ترین کوئی مشغلہ ہو جس کے بغیر آپ کو لطف نہ آئے زندگی کا.بیماری کی حالت میں بھی میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے مجھے بھی جو خط لکھے ان میں یہی تھا کہ دعا کریں مجھے اور خدا تعالیٰ خدمت دین کی توفیق بخشے.ان کے متعلق مزید معلومات یہ ہیں کہ 1920ء میں 28 فروری 1920 ء کو قادیان میں

Page 62

خطبات طاہر جلد 13 99 56 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء پیدا ہوئے تھے.اور یکم مئی 1938ء کو یہ مجاہدین تحریک جدید کے ساتھ وابستہ ہوئے.1946ء میں پہلی مرتبہ اعلائے کلمہ اسلام کے لئے سنگا پور بھجوائے گئے.پھر چار سال وہاں خدمت بجالانے کے بعد انڈونیشیا میں متعین ہوئے.1974ء سے 1980 ء تک کراچی واہ کینٹ اور ربوہ میں خدمات سرانجام دیں.پھر دوبارہ 1980ء سے 87 ء تک انڈونیشیا میں جہاد تبلیغ میں مصروف رہے.واپسی کے بعد زندگی کی آخری سانس تک تحریک جدید کے مفوضہ فرائض سرانجام دیتے رہے.19 جنوری 1994 ءکولا ہور میں وفات پائی.سید بر مسعود مبارک شاہ صاحب جو میرے ماموں زاد بھائی سید محمود اللہ شاہ صاحب کے صاحبزادے اور ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے.ان کی جو والدہ کی طرف سے بھی ان کو یہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل نصیب ہوا.یہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کے نواسے تھے.میرے ماموں کی ایک شادی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی تھی تو میرے بہنوئی سید داؤ د مظفر صاحب بھی انہی کے بطن سے ہیں.وقف زندگی کے بعد ایک بہت لمبے عرصے تک آپ نے جماعت کی اسٹیٹ تک یعنی سندھ کی جو زمینیں تھیں ان پر خدمات سرانجام دیں.لائل پورا یگریکلچر کالج سے باغوں کے فن پر انہوں نے ایک ڈپلومہ لیا تھا حضرت مصلح موعودؓ کے کہنے پر چنانچہ وہاں جو بڑے بڑے باغ لگائے گئے ہیں.ان میں ان کی محنت اور ان کی صلاحیت کا بھی کافی دخل ہے.ان کی شادی میرے دوسرے ماموں عبدالرافع صاحب کی بیٹی سے ہوئی تھی.اور پندرہ سال ان کو لنڈن کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کثرت سے طوبیٰ شاہ انہی کے صاحبزادے تھے اور اسی طرح عقیقہ ڈاکٹر فرید کی بیگم وہ بھی سید مسعود مبارک شاہ صاحب کی صاحبزادیاں ہیں.یہ دونوں آج انشاء اللہ جنازے میں شرکت کرنے کے لئے تشریف لے جائیں گے.ان کو بھی اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.دونوں نام وہ ہیں جن کی نماز جنازہ جمعہ کے بعد اور پھر عصر کی نماز کے بعد دونوں نمازوں کے بعد ادا کی جائے گی.کیوں کہ ابھی تک وقت ، دن اتنا چھوٹا ہے کہ جمعے کے ساتھ ہی عصر کا وقت شروع ہو رہا ہے.امام صاحب ٹھیک ہے! جب ایسا وقت کہ دونوں کو الگ الگ پڑھا جائے تو انشاء اللہ اعلان کر دیا جائے گا.اس کے علاوہ اس سلسلے کے بہت ہی مخلص کارکن سید سخاوت علی شاہ صاحب یا سید خاور شاہ صاحب جو اصلاح وارشاد کراچی کے ایڈیشنل سیکریڑی تھے

Page 63

خطبات طاہر جلد 13 57 خطبہ جمعہ فرمودہ 21/جنوری 1994ء ان کی بھی آج اچانک وفات کی اطلاع ملی ہے اور اسی طرح ڈاکٹر عبدالغفور صاحب اسیر راہ مولی ننکانہ صاحب کی وفات کی اطلاع ملی ہے.انشاء اللہ جمعے کی نماز کے بعد ان سب کے لئے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور ان کو اور ان کی اولادوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.ایک مختصر اعلان یہ کر دوں کہ ریڈیو پہ سننے والے بکثرت شکایت کر رہے ہیں کہ آپ ہمارے وقت کا نہیں خیال رکھتے یا ہمیں ریڈیو کا وقت زیادہ لے کے دیں یا خطبہ وقت کے اندر ختم کریں کیونکہ عین اس وقت جبکہ مضمون اپنے اختتام تک پہنچ رہا ہوتا ہے.جب آپ سمیٹ رہے ہوتے ہیں باتوں کو اس وقت اچانک ریڈیو بند ہو جاتا ہے تو ان کی اطلاع کے لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ اب ہم نے ریڈیو سے سر دست تو یہ انتظام کیا ہے کہ بجائے ڈیڑھ بجے خطبہ شروع کرنے کے، ہمارا پروگرام شروع کرنے کے وہ ایک پینتیس پر شروع کریں گے اور دو پینتیس پر ختم کریں گے.لیکن یہ تجربہ بھی سر دست جو ہم نے دیکھا ہے کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ پچھلے ایک دو خطبات میں میں چالیس منٹ تک خطبہ دیتا رہا.بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ وہ بے چارے پھر محروم رہ جائیں گے.تو آج بھی ڈاک میں کئی شکایتوں کے خط تھے.میں ان کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہم اس طرف توجہ دے رہے ہیں.اللہ کے فضل کے ساتھ ٹیلی ویژن کی طرح ریڈیو کے وقت کو بڑھانے کے لئے بھی گفت و شنید جاری ہے اور یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ، ریڈیو اسٹیشن کی اس پروگرام کی طاقت بڑھائی جائے.کیونکہ جتنی بجلی خرچ کرے اتنا ہی زیادہ وضاحت کے ساتھ دور دور تک ریڈیو سنا جاسکتا ہے.تو امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ یہ ریڈیو اسٹیشن بھی بہت وسیع دائرے میں سنا جا سکے گا اور اطمینان کے لئے میں عرض کرتا ہوں کہ خطبہ جمعہ کو پورا Cover کرنے کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں.ہمیں وقت مل جائے.مشکل چیز یہ ہے کہ ان کے وقت آگے سے طے شدہ ہیں.ورنہ ہماری طرف سے اس معاملے میں کنجوسی نہیں ہے.یہ جو پانچ منٹ آگے بڑھایا گیا ہے یہ بھی انہوں نے بڑی مشکل سے مانا اور کہا کہ پہلے پانچ منٹ چھوڑو پھر ہم تمہیں اگلے پانچ منٹ دے دیتے ہیں.لیکن امید ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.بعض دفعہ بعض کمپنیاں پروگرام بنا کر پھر اس سے الگ ہو جاتی ہیں تو وہ وقت مل جاتا ہے اور دعا میں یا درکھیں کہ اللہ کرے کہ انشاء اللہ یہ کی بھی پوری ہو جائے گی.باقی جو ریکارڈ کرتے ہیں یہ ہمارا ویڈیو کا پروگرام ان کو چاہئے اپنے اپنے علاقوں میں یہ اعلان کر دیں کہ جو دوست

Page 64

خطبات طاہر جلد 13 58 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء خطبہ ریڈیو کے ذریعے سنتے ہیں.اگر ان کو بقیہ خطبہ معلوم کرنے کی خواہش ہو تو وہ ان سے کیسٹ منگوالیا کریں.وہ کیسٹ کا جو نظام پہلے چل رہا تھا، اس حد تک اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر دوبارہ جاری کیا جا سکتا ہے.

Page 65

خطبات طاہر جلد 13 59 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /جنوری 1994ء حضرت داؤد کی دعا رسول کریم ہے کے دل کی آواز تھی.لحن داؤدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں (خطبہ جمعہ فرموده 28 جنوری 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ پھر فرمایا:.(النحل:62) ذکر الہی کا جو مضمون جاری ہے.اس آیت کا اس سے کیا تعلق ہے اس کے متعلق میں انشاء اللہ آج گفتگو کروں گا اور اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ایک حدیث کی روشنی میں حضرت داؤد علیہ السلام کے کردار پر اور آپ کی مناجات پر جو روشنی پڑتی ہے وہ میرا آج کے خطبے کا موضوع ہے.لیکن اس سے پہلے کچھ اعلانات ہیں.آج جماعتہائے احمد یہ ضلع اسلام آباد ضلع راولپنڈی ضلع لودھراں اور گوجرانوالہ شہر کے سالانہ جلسے ہو رہے ہیں.یہ سالانہ جلسوں کا نظام یعنی جگہ جگہ پر سالانہ جلسے منانا اس وجہ سے جاری ہوا کہ ربوہ کے سالانہ جلسے پر ایک لمبے عرصہ سے پابندی

Page 66

خطبات طاہر جلد 13 60 60 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء عائد ہے.یہ سلسلہ حکومت نے جبراً بند کر دیا.نظام جماعت میں سالانہ جلسے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، ایک خاص مقام اور مرتبہ ہے اور سالانہ جلسوں کے نتیجے میں جماعتوں کی تربیت پر بہت گہرا اثر پڑتا تھا.اس لئے متبادل کے طور پر پاکستان میں یہ نظام جاری ہوا کہ بعض علاقے اپنا اپنا سالانہ جلسہ کیا کریں اور اس طرح سالانہ جلسے کی طرز پر مسیح موعود کا لنگر جاری ہو اسی طرح آپس میں علاقے کے لوگوں کا محبت کے ساتھ ملنا جلنا اور جس حد تک ممکن ہو اسی انداز کی تقریر میں ہوں اور اس کے لئے مرکز سے مختلف علماء کو بھی وہاں بھجوایا جاتا تھا.پس اسی تسلسل میں یہ جلسے ہو رہے ہیں لیکن جیسا کہ پاکستان سے بہت سے لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ پہلے تو سال میں ایک دفعہ جلسہ ہوا کرتا تھا اب تو روز جلسے ہو رہے ہیں اور واقعہ ویسی ہی کیفیت ہے جیسی جلسہ سالانہ کی کیفیت ہوتی تھی اور ساری جماعت پاکستان روز عید منا رہی ہے.اس لئے عملاً تو اب جلسے روزانہ ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے انشاء اللہ اور ان کا فیض پھیلتا رہے گا اور یہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سب دنیا پر محیط ہو گا تمام دنیا کی جماعتیں اب روزانہ ان جلسوں میں شامل ہوتی ہیں.لیکن پھر بھی اس یاد کو زندہ رکھنے کے لئے کہ ہم اپنے ایک حق سے محروم کئے گئے ہیں پاکستان میں یہ جلسوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا.یہ ایک قومی احتجاج ہے اور باشعور زندہ تو میں فضول گلیوں میں جا کر احتجاج نہیں کیا کرتیں ، وہ اپنے مقاصد کو زندہ رکھنے کے لئے، ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنے کے لئے ، ان باتوں کو یاد کرتی ہیں جن کا تذکیر سے تعلق ہے.تذکیر سے مراد یہی ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کی خوبیوں کو ، ان کے چال چلن کو ، ان کی دیگر باتوں کو ہمیشہ عزت سے یادرکھا جائے تا کہ اس کے نتیجے میں آنے والی قوم کی نسلوں میں وہی یادیں کارفرمار ہیں اور ان کے اعمال کو حسین سے حسین تر بناتی رہیں.پس اس تذکیر کے نفوذ کے پیش نظر پاکستان کی جماعتوں کو یہ جلسے اسی طرح جاری رکھنے چاہئیں.ہر چند کہ خدا نے اپنے فضل سے اب روز کا جلسہ عطا کر دیا ہے مگر حکومت پاکستان نے جو ہمارے بنیادی حق پر تبر رکھا ہے اس کی حیثیت تو تبدیل نہیں ہوئی وہ تو ابھی تک اسی طرح ہے.اس کے علاوہ آج ضلع خوشاب کی جماعتوں کے تین جگہ پر جلسے ہیں اور امریکہ سے اطلاع ملی ہے کہ Hosten میں ناصرات الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کا لوکل اجتماع منعقد ہو رہا ہے.ان سب کو احباب اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.جو آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھی تھی اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ

Page 67

خطبات طاہر جلد 13 61 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء بنی نوع انسان کے ظلموں پر نظر رکھتا تو سطح زمین پر ایک جاندار کو بھی زندہ نہ چھوڑتا.اس آیت کا حقیقی عرفان در حقیقت انبیاء کو ہوتا ہے اور اس آیت کے عرفان کے نتیجے میں ان میں ایک حیرت انگیز عاجزی پیدا ہو جاتی ہے.انسان خواہ کتنے ہی بڑے مقام پر کیوں نہ پہنچ جائے اس کی بنیادی بشری کمزوریاں ایسی ہیں کہ جو اسے پوری طرح خدا کی عبادت کا حق ادا نہیں کرنے دیتیں.پس ظلم سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ کسی پر زیادتی کی جائے یا کھلم کھلا گناہ کیا جائے.یہاں ظلم سے مراد کو تا ہیاں ہیں.تو انسان کی کوتاہیاں ایسی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ان پر نظر رکھتا تو تمام مخلوقات کو ہلاک کر دیتا.حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں کی خوبیوں پر نظر رکھتا ہے اور ان خوبیوں کے رستے ان سے تعلق قائم فرماتا ہے.اگر بندے کی بدیاں سامنے رکھتا تو کسی بندے سے اس کا کوئی تعلق نہ رہتا کیونکہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی بعض ایسی عادتیں ، بعض بشری کمزور یاں خدا تعالیٰ کی شان سے اتنا نیچے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اللہ کا تعلق اس سے قائم ہو نہیں سکتا.اب نیک سے نیک انسان کا بھی آپ تصور کر لیں اس کی روز مرہ کی بشری حاجات ایسی ہیں وہ کسی جگہ جاتا ہے تو دعا مانگتا ہے اللہ میں خبث سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں ، خبائث سے بھی پناہ مانگتا ہوں.روز مرہ کی انسانی زندگی کا دستور ایسا ہے کہ ایک کامل روحانی ذات کے ساتھ کامل تعلق قائم ان معنوں میں ہو ہی نہیں سکتا.آپ بعض دفعہ اپنے تعلق والوں میں ایک معمولی سی بدی دیکھتے ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہیں، طبیعت میں کراہت پیدا ہو جاتی ہے.بعض خاوند بڑے شوق سے بیویاں بیاہ کے لاتے ہیں اور ان کے اندر کوئی مکروہ عادت دیکھتے ہیں تو دل سے اتر جاتی ہیں.بعض بیویاں بڑے شوق سے بعض مردوں سے بیاہ کرتی ہیں اور اس کے بعد ان کا دل نہیں لگتا، ایسے کئی معاملات میرے سامنے آتے رہتے ہیں پوچھا جائے تو کہتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں تھا اس میں یہ عادت ہے اور یہ عادت تو ہم برداشت کر ہی نہیں سکتے.ایک لڑکی نے لکھا کہ میرے خاوند میں عورتوں کی طرح چغلی کی عادت ہے اور میں کسی قیمت پر ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی.تو اس قسم کے چھوٹے چھوٹے نقائص انسان، انسان میں برداشت نہیں کرتا حالانکہ اس سے بہت زیادہ نقائص اس کے اپنے اندر بھی ہوتے ہیں.تو اللہ کی شان دیکھیں کتنی بلند ہے اگر وہ اس طرح انسانوں کی کمزوریوں اور بدیوں پر نظر رکھتا تو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ اصدق الصادقین یہ فرماتے ہیں اس کا

Page 68

خطبات طاہر جلد 13 کسی بشر سے کوئی تعلق نہ رہتا.20 62 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء پس اس مضمون کو یہ آیت بیان فرما رہی ہے لیکن ایک اور رنگ میں، اس طرح کہ یہ نہیں فرما تا کہ ہر بندے سے تعلق کٹ جاتا ، فرماتا ہے زمین پر میں کوئی جاندار زندہ نہ چھوڑتا.اب انسانوں کی غلطیوں میں جانداروں کا کیا قصور؟ اس میں بہت گہرا فلسفہ یہ سمجھایا گیا ہے کہ تمام مخلوقات اپنی ذات میں پیدا کرنا مقصود ہی نہیں انسان پیدا کرنا مقصود تھا اور انسان کی خاطر یہ مختلف زندگیوں کی صورتیں پیدا کی گئیں اور انسان کے فائدے میں پیدا کی گئیں.زندگی کی ہر شکل اس کا خواہ کیسا ہی بھیانک تصور آپ کے ذہن میں ہو کوئی نہ کوئی فائدہ اس عالمی وسیع اسکیم میں رکھتی ہے یعنی اس کا کوئی نہ کوئی کردار ایسا ہے جو خدا تعالیٰ کی وسیع تخلیق کی اسکیم میں وہ ادا کر رہی ہے اور کوئی چیز فائدے سے خالی نہیں ہے.پس اس پہلو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انسان سے میراتعلق ٹوٹ جائے تو مخلوقات کو پھر زندہ رکھنے کا مقصد کوئی نہیں رہتا.جس کی خاطر پیدا کی گئی تھی وہی نہیں رہا تو ان کے رہنے کا کیا فائدہ.پس انسان کی سزا مخلوقات کو نہیں دی جائے گی لیکن چونکہ وہ انسان کی خاطر پیدا کی گئی تھیں اس لئے بے کار ہو جائیں گی.اس مضمون کے پیش نظر انبیاء میں غیر معمولی انکسار پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح اپنے خدا کے حضور عاجزی اور گناہوں کا اقرار کرتے ہیں کہ ایک عام دنیا کا انسان حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ جن کو میں بے داغ سمجھتا تھا جن کو میں سب سے اوپر سمجھتا تھا ان کا یہ حال ہے پتا نہیں کیا کیا گناہ ان سے سرزد ہوئے ہیں جو اتنی بخششیں طلب کر رہا ہے.پس وہ لوگ جو تکبر کے کیڑے رکھتے ہیں ان کو اس مضمون کا عرفان حاصل ہو ہی نہیں سکتا.اگر اپنی ذات میں انسان اتر کے دیکھے تو پھر اس کو پتا چلے گا کہ کتنے داغوں سے پر ذات ہے اتنے داغ ہیں کہ ان داغوں سے سینہ چھلنی ہو جاتا ہے.ایسا چھلنی ہو جاتا ہے کہ نیک اعمال ان میں رہ نہیں سکتے اور انسان اپنے زعم میں سمجھتا ہے کہ میں بہت کچھ آخرت کے لئے جمع کر رہا ہوں.پس انبیاء سے انکسار سیکھیں پھر آپ کو ذکر الہی سے فائدہ پہنچے گا کیونکہ ذکر الہی سے بعض دفعہ تکبر بھی پیدا ہو جاتا ہے اور کئی چھوٹے ظرف کے لوگ ، چھوٹے دل کے لوگ تھوڑی سی نیکیاں کرتے ہیں تھوڑا سا خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے آپ کو بہت بڑا بزرگ بنا لیتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ اور گریں اور زیادہ عاجزی اختیار کریں، ان کے سر بلند ہونے لگ جاتے ہیں حالانکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جتنا

Page 69

خطبات طاہر جلد 13 63 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء اللہ کو یاد کرواتنا جھکتے چلے جاؤ اور دعاؤں کی رفعتوں کا راز اس میں ہے کہ انسان کا سرسب سے زیادہ خدا کے حضور جھکا ہوا ہو.میں نے پہلے خطبہ میں یہ بیان کیا تھا کہ ہماری نمازوں کا ہر سجدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ کیفیت جس میں سرزمین سے لگ گیا ہے اس سے نیچے جانہیں سکتا.اس وقت ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ کہو سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى- کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں زمین پر اپنی پیشانی رگڑ رہا ہوں اور میں نے اپنے آپ کو سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر تر کر دیا ہے لیکن میرا رب جو ہر بدی سے پاک ہے،سب سے اعلیٰ ہے اور اسی کے تعلق میں اعلیٰ ہوسکتا ہوں اس کے بغیر نہیں ہو سکتا.پس جتنا انسان ذکر الہی کے نتیجے میں انکسار حاصل کرتا ہے وہ جتنا خدا کے حضور جھکتا ہے، اتنا ہی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رفعتیں عطا ہوتی ہیں اور یہ رفعتیں اللہ کا فضل ہے.انسان کا مقام وہی ہے جو سجدے میں ہے، خدا کے حضور مٹی ہو جانا، اس کے سوا انسان کا کوئی مقام نہیں کہ جتنی رفعتیں نصیب ہوتی ہیں فضل سے نصیب ہوتی ہیں اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اس مضمون کو بار بار کھولا ہے، خود اپنی ذات کے حوالے سے کھولا ہے.فرمایا میں بھی نہیں بخشا جاؤں گا جب تک فضل نہیں ہوگا اور دنیا کے عام چھوٹے چھوٹے انسان معمولی نیکیوں پر بھی شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں اور دوسروں کو حقارت سے دیکھنے لگتے ہیں معاشرے کی بہت سی بدیاں اس راز کو نہ پانے کے نتیجے میں ہیں.ایک انسان میں، ایک خاندان میں ایک برائی دیکھیں تو کس طرح زبانوں پر وہ برائیاں اُچھلتی پھرتی ہیں ایک زبان دوسری زبان سے اٹھاتی ہے اور آگے چلاتی ہے گویا کہ یہ تو ذلیل لوگ ہیں اور ہم پاک صاف ہیں.بنیادی کیڑا دماغ میں یہی ہوتا ہے.دوسرے کو فورا گنہگار اور حقیر جان لینا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، اس کے نتیجے میں اصلاح کی کوشش نہیں ہوتی.اس کے نتیجے میں معاشرے اور بگڑتے ہیں اور تکبر سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.یہ وہ کڑوی بیل ہے جس کو کبھی میٹھا پھل نہیں لگ سکتا.پس جن کے اندر ذکر الہی ، عاجزی پیدا کرتا ہے ان کا سمجھانے کا انداز اور ہوتا ہے اور جو لوگ چھوٹے دل کے اور کم ظرف لوگ ہوتے ہیں وہ تیز زبانوں کے ساتھ پھر دوسروں پہ حملے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہمارا حق ہے معاشرے کی اصلاح کی خاطر ہم یہ کر رہے ہیں.ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو قادیان میں دیکھا ہے وہ فرشتے انسانوں کے روپ میں گلیوں میں پھرتے تھے ان سے کبھی ہم نے تلخ کلامی نہیں سنی.ہماری

Page 70

خطبات طاہر جلد 13 64 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء برائیاں دیکھتے تھے ہمارے عیوب پر نظر رکھتے تھے، بڑی محبت اور پیار سے الگ ہو کر ہمیں سمجھایا کرتے تھے لیکن کبھی تیز زبان سے لوگوں کے دلوں پرچر کے لگاتے ہم نے ان کو نہیں سنا لیکن ان کے مقابل پر ایسے لوگ بھی تھے جو ہر وقت اسی مشغلے میں رہتے تھے کہ فلاں میں یہ برائی ہے.فلاں میں یہ برائی ہے.فلاں فلاں کا بیٹا ہے دیکھو اس کی حرکتیں کیا ہیں اور اسی طرح انہوں نے اپنی عمریں ضائع کر دیں اور اپنی اولادیں ہاتھ سے ضائع کر دیں کیونکہ وہ لوگ جو نیکی میں انکسار رکھتے ہیں اللہ ان کی اولاد کی حفاظت فرماتا ہے اور وہ لوگ جو نیکی میں تکبر اختیار کر جاتے ہیں وہ پھر بعض دفعہ بغیر نیکی کے بھی اچھلنے لگتے ہیں اور ان کی نیکیاں تو ویسے ہی ضائع ہو جاتی ہیں ان کی اولا دوں کو ہم نے پھر بہت کم بچتے دیکھا ہے اکثر ضائع ہو جاتی ہیں.حضرت رسول اکرم ﷺ نے اللہ کی محبت اور ذکر کے بیان میں حضرت داؤد علیہ السلام کا نام لیا ہے اور اس میں خاص حکمت ہے.انبیاء میں سے جو سب نبیوں کا سردار ہے وہ ایک نبی کی مثال پیش کر رہا ہے جو اس کے مقابل پر ایک ادنی آسمان سے تعلق رکھتا تھا.فرماتے ہیں.عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضى الله عنه قَالَ قَالَ رسولُ الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم كان مِن دُعَاءِ داؤد عليه السلام: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِى حُبَّكَ.اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ( ترمذی، کتاب الدعوات) حضرت اقدس محمد مصطفی علی علیہ نے فرمایا داؤڈ یوں دعا مانگا کرتے تھے.بڑے پیار کے ساتھ حضرت داؤڈ کا نام لیا ہے کیونکہ دعاوہ تھی جو عین آپ کے دل کی آواز تھی اور کیا کیفیت ہوگی ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے.اس میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل کی آواز کو ایک اور نبی کی زبان میں سنایا الله ہے فرماتے ہیں یہ دعامانگا کرتے تھے اے میرے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں.وَحُبِّ مَنْ يُحِبُّكَ اور اس کی محبت مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت میں بڑھاۓ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي جنگ اور ایسے اعمال مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دیں اَللَّهُمَّ اجْعَلُ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ اے میرے اللہ اپنی محبت کو میرے لئے بنا دے اَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِی.میری جان سے بھی زیادہ

Page 71

خطبات طاہر جلد 13 99 65 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء پیاری وَاَهْلِی اور میرے اہل و عیال سے بھی زیادہ پیاری وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ.ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ پیاری.جب جان جاتی ہو تو پانی کتنا پیارا لگتا ہے اور پھر ٹھنڈا پانی.فرمایا اس کیفیت میں جس طرح انسان پانی کے لئے مچلتا ہے اس سے پیار ہو جاتا ہے اس سے بھی زیادہ مجھے اے اللہ اپنی محبت عطا فرما.حضرت داؤد کے اندر وہ کیفیت جو میں نے بیان کی ہے کہ ذکر کے ساتھ بجز بڑھتا چلا جائے یہ کیفیت بڑی شان کے ساتھ پائی جاتی ہے اور اس پہلو سے زبور کو تمام کتب میں ایک عظیم مقام حاصل ہے اور زبور کے گیت آج تک پڑھتے ہوئے وجد سا طاری ہو جاتا ہے کس طرح اللہ کی محبت میں آپ نے گیت گائے ہیں اور یہ اس دعا کا نتیجہ ہے.پھر حضرت رسول اکرم ﷺ نے آپ کی فطرت کا وہ مرکزی نقطہ پکڑ لیا ہے جس کے نتیجے میں آپ کو پھر سب رفعتیں عطا ہوئی ہیں.پس آج بھی جب ہم ذکر الہی کی باتیں کرتے ہیں تو بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں کہ خوف پیدا ہو جاتا ہے.کہ ہم میں ان رفعتوں کو حاصل کرنے کی کہاں طاقت ہے اور دل ڈرتا ہے اور اسی مضمون کے خطوط مجھے سب دنیا سے آتے ہیں کہ آپ نے وہ وہ باتیں شروع کر دی ہیں کہ ہم تو اپنے آپ کو بالکل اہل ہی نہیں پاتے ہمیں کیسے یہ باتیں نصیب ہوں گی اور دل ڈرتا ہے کہ اگر نہیں ہوں گی تو ہم گنہ گار نہ ہو جائیں اس کا جواب میں آج دے رہا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا تم داؤد کی دعامانگا کرو اس کے نتیجے میں اللہ نے اسے اپنی محبت عطا کی اور اپنی محبت میں گیت گانے کی صلاحیتیں عطا کیں.یہ عشق کے ترانے حضرت داؤڈ کے زبور میں ملتے ہیں اس کی مثال آپ کو دوسرے نبیوں کی کتب میں نظر نہیں آئے گی.فرماتے ہیں.میں چلاتے چلاتے تھک گیا میرا گلا سوکھ گیا میری آنکھیں اپنے خدا کے انتظار میں پتھرا گئیں مجھ سے بے سبب عداوت رکھنے والے میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں میری ہلاکت کے خواہاں اور ناحق دشمن زبر دست ہیں پس جو میں نے چھینا نہیں، مجھے دینا پڑا.اے خدا تو میری حماقت سے واقف ہے اور میرے گناہ مجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں.“ (زبور باب 69 آیت 3 تا5) بندوں کے اعتبار سے کہہ رہے ہیں جو میں نے چھینا نہیں مجھے دینا پڑا.ناکردہ گناہ کی سزا پا

Page 72

خطبات طاہر جلد 13 99 66 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /جنوری 1994ء رہا ہوں لیکن دعا کرتے وقت یہ نہیں کہتے کہ اے خدا میں معصوم ہوں میری خاطر کچھ کر.اللہ تعالیٰ کا کتنا گہرا عرفان تھا اس کی طرف منہ موڑتے ہیں تو کہتے ہیں اے خدا تو میری حماقت سے واقف ہے میرے گناہ تجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں.میں کس منہ سے مانگوں مگر تیرے سوا مانگوں کس سے؟ اسی درد کی کیفیت کو کہ سر سجدے میں پڑا ہے اور انتظار ہے کہ خدا آ کیوں نہیں رہا، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان کرتے ہیں.شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا (درین صفحہ: 10) یہ وہ مناجات ہیں جو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بجز میں زمین پر چھی ہوئی ہیں لیکن آسمان تک رفعتیں پا جاتی ہیں.حضرت داؤڈ کا ایک اور عشق باری تعالیٰ کا گیت ہے آپ کہتے ہیں: ”اے خداوند میں تیری تمجید کروں گا کیونکہ تو نے مجھے سرفراز کیا ہے اور میرے دشمنوں کو مجھ پر خوش نہ ہونے دیا.“ پہلے دعا مانگی تھی کہ میرے دشمن میرے سر کے بالوں سے بھی زیادہ ہیں اب یہ قبولیت دعا کی طرف اشارہ ہے اور میرے دشمنوں کو مجھ پر خوش نہ ہونے دیا تو سُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاَعَادِي ( درشین : 46) جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں ملتا ہے وہی مضمون ہے.”اے خداوند میرے خدا میں نے تجھ سے فریاد کی اور تو نے مجھے شفا بخشی.اے خدا تو میری جان کو پاتال سے نکال لایا.“ میرا مقام تو یہ تھا کہ میں زمین کی سب سے نیچی گہرائی میں تھا.کتنا پیارا کلام ہے.”اے خدا! تو میرے جان کو پاتال سے نکال لایا.تو نے مجھے زندہ رکھا ہے کہ گور میں نہ جاؤں.خداوند کی ستائش کرو.اے اس کے مقدسو! اس کے قدس کو یاد کر کے شکر گزاری کرو.کیونکہ اس کا قہر دم بھر کا ہے اس کا کرم عمر بھر کا.“ لیکن ایک بات جو قرآن نے بیان فرمائی اور وہ یہاں کھلم کھلا دکھائی نہیں دے رہی وہ یہ ہے کہ اس کا ایک دم کا قہر بھی ساری عمر کی نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے.اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ ایک دم کا غضب ہے اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ ایک دم کا غضب سب کچھ فنا کر جاتا ہے جب سیلاب

Page 73

خطبات طاہر جلد 13 67 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء آتے ہیں تو گزر بھی تو جاتے ہیں پھر زندگی معمول پر آ جاتی ہے مگر جو ڈوب گئے وہ تو ڈوب گئے.سیلاب جو علاقے ویران کر گیا وہ فصلیں تو پھر دوبارہ نہیں آسکتیں اس لئے دم بھر کے غضب میں بہت کچھ ہو جاتا ہے انسان کی ساری زندگی رائیگاں چلی جاتی ہے.رات کو شاید رونا پڑے اور صبح کو خوشی کی نوبت آتی ہے.“ رات کو شاید رونا پڑے کیونکہ خدا کے حضور جوراتوں کو روتے ہیں انہی کو صبح خوشی کی نوبت آتی ہے.” میں نے اپنی اقبال مندی کے وقت یہ کہا تھا کہ مجھے بھی جنبش نہ ہوگی.اے خداوند تو نے اپنے کرم سے میرے پہاڑ کو قائم رکھا تھا.“ اس میں ایک پوری داستان ہے اللہ تعالیٰ سے محبت کی باتیں کرنے اور خدا سے وفا کے وعدے کرنے کی.کہتے ہیں میں نے اپنے اقبال مندی کے وقت یعنی جب تو نے مجھے سرفراز فرمایا اور مجھے اپنا بنالیا یہ عرض کیا تھا کہ مجھے کبھی جنبش نہ ہوگی میں اب کبھی اس راستے سے ٹلوں گا نہیں لیکن مجھ میں کہاں طاقت تھی کہ میں اس عہد پر قائم رہتا.اے خداوند تو نے اپنے کرم سے میرے اس پہاڑ کو قائم رکھا.محض تیرا کرم اور فضل تھا کہ میرے پہاڑ کو میرے عزم کے پہاڑ کو ثبات عطا ہوا ہے اور واقعہ مجھے کبھی جنبش نہیں ہوئی.” جب تو نے اپنا چہرہ چھپایا تو میں گھبرا اٹھا.اے خداوند میں نے تجھ سے فریاد کی میں نے خداوند سے منت کی.جب میں گور میں جاؤں تو میری موت سے کیا فائدہ.کیا خاک تیری ستائش کرے گی کیا وہ تیری سچائی کو بیان کرے گی.“ اس سے مرادظاہر قبر نہیں ہے.ظاہری قبر میں تو ہر انسان جانتا ہے کہ میں نے بہر حال جانا ہے اور خدا کی ستائش پھر بھی باقی رہے گی.یہ وہی گور ہے جس کے متعلق حضرت داؤ پہلے کہہ چکے ہیں کہ تو نے مجھے گور سے نکالا یعنی خدا تعالیٰ سے دوری کے اندھیرے.خدا تعالیٰ کے وصل سے پہلے کی کیفیت.تو عرض کرتے ہیں کہ اے خدا اگر میں گور میں چلا گیا تو میری مٹی تو بے کار ہو جائے گی وہ مٹی جو روحانی لحاظ سے مر جائے وہ تو تیری ستائش نہیں کر سکتی.سن لے اے خداوند اور مجھ پر رحم کر.اے خداوند تو میرا مددگار ہو تو

Page 74

خطبات طاہر جلد 13 68 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء کھینچا ہے.نے میرے ماتم کو ناچ سے بدل دیا.“ یعنی ایک طرف گریہ وزاری کرتے ہیں تو خدا کی طرف سے خوشخبری پاتے ہیں اور کیسا پیارا نقشہ تو نے میرے ماتم کو ناچ سے بدل دیا تو نے میرا ٹاٹ اتار ڈالا اور مجھے خوشی سے کمر بستہ کیا تا کہ میری روح تیری مدح سرائی کرے اور چپ نہ رہے.اے خداوند میرے خدا میں ہمیشہ تیرا شکر کرتا رہوں گا.“ پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ذکر الہی کے تعلق میں جس نبی کی مثال چنی ہے دیکھیں صلى الله کس شان کے ساتھ اس پر چسپاں ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ کے کلام کو سرسری نظر سے نہ دیکھیں اس میں گہرے حکمتوں کے راز ہوتے ہیں یہ فور آدل میں خیال اٹھنا چاہئے کہ داؤد کو کیوں چن لیا بڑے بڑے پاک باز اور بڑے بڑے بلند مرتبہ نبی اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور قرآن نے ان کا بڑی شان سے ذکر فرمایا تو محمد رسول اللہ نے داؤد کو کیوں چنا ہے صرف اس لئے کہ حضرت داؤد کو یہ خاص مرتبہ حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی محبت کے گن گانے کا سلیقہ خود عطا فرمایا تھا اور اس دعا کے نتیجے میں جس دعا کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ہمارے لئے محفوظ فرمایا اور آئندہ ہمیں پڑھنے کی ہدایت کی.یہ حدیث قدسی ہے کیونکہ کوئی نبی بھی اپنی طرف سے کلام نہیں کرتا سوائے خدا کے اشارے کے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ اس معاملے میں سب نبیوں سے ممتاز ہیں.کوئی ایک ادنی سا کلمہ بھی آپ نے اپنے دل سے اپنی جان سے نہیں کہا وہی کہا جو اللہ چاہتا تھا کہ آپ کہیں اور جو اللہ کا منشاء تھا.پس بسا اوقات قرآن کے علاوہ بھی آپ پر وحی نازل ہوئی بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ گویا آپ ہمیشہ ایک وحی کی کیفیت میں زندہ رہے اور آپ کی رویا بھی وہی تھی.پس یہ جو باتیں ہیں یہ وحی کے سوا نصیب نہیں ہوسکتیں.پس حضرت داؤد کے ذکر کو آپ نے جو چنا ہے اور خاص معین دعا کے ساتھ.یہ دعا آسمان سے آپ پر نازل فرمائی گئی اور اس حکمت کے پیش نظر کہ لوگ حضرت داؤد کی مناجات کی طرف توجہ کریں اور ان سے استفادہ کریں.عرض کرتے ہیں : ”اے خدا میرا انصاف کر اور بے دین قوم کے مقابلے میں میری

Page 75

خطبات طاہر جلد 13 69 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء وکالت کر اور دغا باز اور بے انصاف آدمی سے مجھے چھڑا کیونکہ تو ہی میری قوت کا خدا ہے تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا.میں دشمن کے ظلم کے سبب سے کیوں 66 ماتم کرتا پھرتا ہوں.“ آپ جانتے ہیں، تمام انبیاء جانتے ہیں کہ اللہ نے انہیں چھوڑا نہیں ہے لیکن ایک نہایت دردناک بجز کی کیفیت ہے جس کا بیان ہے.پس مرادی تھی تو مجھے چھوڑ بھی دے تو تیرا حق ہے.پس بعض دفعہ محبوب کی آنکھوں میں ذرا بھی تغافل پیدا ہو تو محبت کرنے والا انسان یہی سوچتا ہے کہ مجھے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ خدا نے ترک کر دیا تھا دونوں باتیں ہیں اس میں ایک عجز کا اظہار کہ اے میرے مولا تو ترک کر دے تو کوئی شکوہ نہیں یعنی میرا حق نہیں ہے کہ تو مجھے یا در کھے اور دوسرا یہ مضمون کہ اے خدا میں جب بھی تیری طرف سے محبت کے آثار میں معمولی سی کمی دیکھتا ہوں بعض دفعہ ایک خاص وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے بعض دفعہ انسان پر ایک قبض کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ہر حال میں خدا ایک ہی طرح ظاہر نہیں ہوتا.پس وہ کیفیات جن میں کچھ محسوس ہو کہ شاید میرے آقا نے مجھ سے کوئی ایسی بات دیکھی ہے وہ پہلی سی بات اس کے پیار میں نہیں رہی ، ایسے وقت کی یہ دعا ہوتی ہے کہ اے خدا تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا جیسے کہا جاتا ہے.یک عشق و ہزار بدگما نیست ایک عشق اور ہزار بدگمانیاں اس سے پیدا ہو جاتی ہیں.پس محبوب کے متعلق ہمیشہ یہ فکر کہ کہیں نظریں نہ پھیر لے اس سے پھر دعا کے یہ مضمون پیدا ہوتے ہیں جو آپ سن رہے ہیں.کیونکہ تو ہی میری قوت کا خدا ہے تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا میں دشمن کے ظلم کے سبب سے کیوں ماتم کرتا پھروں ، تو میرا نہیں ہے کہ میں دشمن کے ظلم کے سبب سے ماتم کرتا پھروں؟ اپنی نور اور سچائی کو بھیج.وہی میری راہبری کریں وہی مجھے تیرے کو ہ مقدس اور تیرے مسکنوں تک پہنچا ئیں.تب میں خدا کے مذیح کے پاس جاؤں گا خدا کے حضور جو میری کمال خوشی ہے.“ وہی مضمون ہے ”ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں تو ہر خوشی کا کمال اللہ کی ذات میں ہے اور اس سے تعلق میں ہے.

Page 76

خطبات طاہر جلد 13 70 10 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء ”اے خدا میرے خدا! میں ستار بجا کر تیری ستائش کروں گا“ ستار بجا کر ستائش کرنا ایک خاص عشق کا مضمون ہے یہ مراد نہیں ہے کہ انبیاء ہاتھوں میں ستار پکڑ کے خدا کی عبادت کیا کرتے تھے یا اس کی ستائش کیا کرتے تھے.جیسے پنجابی میں کہتے ہیں خدا تعالیٰ سے محبت کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ساری رات ناچ کے میں روٹھا یار منا لوں.وہ یہ نہیں کہ نعوذ بالله من ذالک وہ بزرگ لوگ ساری رات گاتے تھے ناچتے رہتے تھے.ان کی قبروں پر جاہل تو ناچتے ہیں مگر وہ نہیں ناچا کرتے تھے.دل ناچا کرتے ہیں.روح وجد میں آتی ہے، انسان کی روح وہ مرلی بجاتی ہے وہ سر نکالتی ہے وہ آسمانی مرلی ہے آسمانی مرلی کی سر ہے.پس یہ اشارہ ہے.میں ستار بجا کر تیری ستائش کروں گا.اے میری جان تو کیوں گری جاتی ہے تو اندر ہی اندر کیوں بے چین ہے خدا سے امید رکھ کہ وہ میرے چہرے کی رونق اور میرا خدا ہے.“ کتنا عظیم کلام ہے اور اندر ہی اندر جان کھلی جاتی ہے.وہ نبی جن کا مرتبہ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ان کی ایک دعا کو پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کا تو یہ مرتبہ ہے یہ حال ہے اور چھوٹے چھوٹے نیکیاں کرنے والے لوگ وہ نیکیاں بھی اللہ بہتر جانتا ہے کہ نیکیاں تھیں بھی کہ نہیں، خودستائشی بھی ہو سکتی ہیں وہ تھوڑی سی نیکی پر تکبر سے دیکھیں کیسی کیسی چھلانگیں مارتے ہیں اور یہاں یہ کیفیت ہے کہ اندر ہی اندر میں کیوں بے چین ہوں، جان گھلی جاتی ہے اس غم سے کہ کہیں میرے خدا کی نظر نہ مجھ سے پھر جائے.”خدا سے امید رکھ کہ وہ میرے چہرے کی رونق اور میرا خدا ہے میں پھر اس کی ستائش کروں گا.پھر عرض کرتے ہیں: ”اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا تو میری مدد اور میرے نالہ فریاد سے کیوں دور رہتا ہے.اے میرے خدا میں دن کو پکارتا ہوں پر تو جواب نہیں دیتا اور رات کو بھی اور خاموش نہیں ہوتا.لیکن تو قدوس ہے تو جو اسرائیل کی حمد وثنا پر تخت نشین ہے.“ جب میں نے یہ بیان کیا کہ اصل عرش جس پر خدا تخت نشین ہوتا ہے رونق افروز ہوتا ہے وہ اس کے پاک بندوں کی حمدوثنا ہے ورنہ کوئی ظاہری عرش دنیا میں ایسا نہیں ہے.فرشتے بھی جو اس کا

Page 77

خطبات طاہر جلد 13 71 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء تخت اٹھائے ہوئے کہا جاتا ہے وہ حمد وثناء کا تخت ہے ورنہ ظاہری تخت کون سا ہے جس پر خدا بیٹھتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اسی مضمون کو بیان فرماتے ہیں اور حضرت داؤڈ بھی یہی کہ رہے ہیں تو جو اسرائیل کی حمد و ثنا پر تخت نشین ہے یہ تیرا عرش اسرائیل کی حمد وثناء پر ہے.فرماتے ہیں.دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش رب العالمین قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اترا مجھ میں یار (درین صفحہ: 140) کہ میرے قرب کی وجہ سے میرا یار مجھ میں اترا ہے اور خدا کا قرب عرش عطا کرتا ہے یعنی قرب الہی کا بلندی سے ایک گہرا اٹوٹ تعلق ہے پس دل عرش بن جایا کرتے ہیں ورنہ ظاہری طور پر کوئی قرب نہیں ہوا کرتا.پھر حضرت داؤد کہتے ہیں ”ہمارے باپ دادا نے تجھ پر توکل کیا انہوں نے تو کل کیا اور تو نے ان کو چھڑایا ، یعنی ہم تو وہ لوگ ہیں جو نسلاً بعد نسل تیرے نوکر چلے آ رہے ہیں ”انہوں نے تو کل کیا اور تو نے ان کو چھڑایا انہوں نے فریاد کی اور رہائی پائی انہوں نے تجھ پر تو کل کیا اور شرمندہ نہ ہوئے پر میں نے ، کیڑا ہوں انسان نہیں.“ کتنا عظیم کلام ہے جو حمد و ثناء کے ساتھ فوراً بجز کی طرف مائل کر دیتا ہے پہلی دعا کا جو انداز تھا بالکل وہی انداز حضرت داؤد کا یہاں بھی ہے.بظاہر یہ کہہ رہے ہیں جس طرح عام لوگ کرتے ہیں کہ باپ دادا کی خاطر ہی ہمیں معاف فرمادے ہم بھی ان کی عظمتوں کے نشان ہیں.دادا ہم ” اور میں کس منہ سے مانگوں میں تو کیڑا ہوں ان میں تو نیکیاں تھیں میں انسان نہیں ہوں آدمیوں میں انگشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر میں وہ ہوں جس کی طرف حقارت سے انگلیاں اٹھتی ہیں کہ ذلیل کیڑا ہے اس کو دیکھو.“ وہ سب مجھے دیکھتے ہیں میرا مضحکہ اڑاتے ہیں وہ منہ چڑاتے ہیں سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں اپنے کو خدا وند کے سپر د کر دے وہی اسے چھڑائے جبکہ وہ اس سے خوش ہے تو وہی اسے چھڑائے پر تو ہی مجھے پیٹ سے باہر لایا جب میں شیر خوار ہی تھا تو نے مجھے تو کل کرنا سکھایا.میں پیدائش ہی سے تجھ پر چھوڑا گیا.میری ماں کے پیٹ ہی سے تو میرا خدا ہے.مجھ سے دور نہ رہ کیونکہ مصیبت قریب

Page 78

خطبات طاہر جلد 13 72 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء ہے اس لئے کہ کوئی مددگار نہیں.(زبور باب 22 آیات 1 تا 11) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے داؤدی لحن عطا فرمائی تھی اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام اپنے متعلق داؤد ہونے کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ میں کبھی داؤد بھی ہو جاتا ہوں.آپ نے خدا کے حضور عرض کیا.کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ( در مشین صفحہ: 125) دیکھئے حضرت داؤد کی اس عبارت سے کتنی مشابہ اور کتنی قریب ہے کہ ”میں تو کیڑا ہوں انسان نہیں.آدمیوں میں انگشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر.پھر عرض کرتے ہیں.یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ور نہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار ( در شین صفحه : 125) تو نے مجھے اپنے فضل سے چنا ہے.مجھ میں کون سی خوبی تھی یہ محض تیرا احسان ہے کہ مجھے اس خدمت کے لئے چن لیا ہے.پھر اسی مضمون کو دوبارہ ایک اور شعر میں یوں بیان فرماتے ہیں.کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں فضل کا پانی پلا اس آگ برسانے کے دن (در ثمین صفحہ: 96) حضرت داؤد کہتے ہیں جب میں شیر خوار ہی تھا تو نے مجھے تو کل کرنا سکھایا میں پیدائش ہی سے تجھ پر چھوڑا گیا میری ماں کے پیٹ ہی سے تو میرا خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عرض کرتے ہیں.ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار ( در شین صفحہ: 126) اور آجکل کے بد نصیب ملاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کو تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں جو دراصل حضرت داؤد کی لجن ہی میں ایک شعر کہا گیا ہے.بیچین داؤدی ہے وہی مضمون ہے جو حضرت داؤد نے بیان کیا اور آپ کبھی کسی ملاں کی آواز میں سن لیں کہ کس کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تمسخر اڑاتے ہیں کس طرح حاضرین کو ابھارتے ہیں اور

Page 79

خطبات طاہر جلد 13 73 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /جنوری 1994ء کہتے ہیں بتاؤ تمہاری جائے نفرت کیا ہے یہ کیا چیز ہے جس کا ذکر کر رہے ہیں اور پھر جو بکواس ان کے منہ میں آتی ہے کہتے ہیں اور حضرت داؤد کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ گلیوں کی زبانیں تضحیک کا نشانہ بناتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کہنا کہ خدا نے مجھے بھی اس زمانے کا داؤد بنایا ہے اس لحاظ سے لفظاً لفظا پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مناجات کی میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ عرض کرتے ہیں :.اوراے میرے خدا میں ایک تیرا نا کارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سواب بھی مجھے نالائق اور پر گناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے چارہ گر کوئی نہیں.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں:.”اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں میرے گناہ بخش تا کہ میں ہلاک نہ ہو جاؤں.“ ہر مقدس جانتا ہے کہ اس کی روحانی زندگی خدا کے فضل سے وابستہ ہے.حضرت داؤڈ نے جود عا کی کہ میں گور میں نہ چلا جاؤں اور نہ کیا مٹی تیری ستائش کرے گی وہی مضمون ہے کہ : میں ہر دم تیری ثناء کر رہا ہوں مجھے ہلاک نہ ہونے دینا میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں:.

Page 80

خطبات طاہر جلد 13 74 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء ”اے خدا تعالیٰ ! قادر و ذوالجلال! میں گنہگار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں.“ یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کو سکھائی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہتے تھے کہ ہمیں وہ کیفیت نصیب نہیں ہوتی جس کیفیت کے ساتھ خدا کی محبت میں ایک لذت پیدا ہو جائے اور ہماری دعا ئیں جاگ اٹھیں اور زندہ ہو جائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں ان کو یہ نسخہ لکھ کر دیا ہے.(فتادی مسیح موعود صفحہ ۳۶) پر درج ہے کہ یوں دعا کیا کرو.اب رقت اور حضور نماز کا حاصل نہ ہونا یہ ایک روزمرہ کی عام بات ہے جو دنیا کے اکثر نمازیوں کا روز مرہ تجربہ ہے پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اس بیماری سے نجات کا نسخہ لکھ رہے ہیں اس میں اسے ایک ایسی کیفیت قرار دیتے ہیں جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ رگ وریشہ میں زہر سرایت کر جائے.یہ ایک ایسی بات ہے جسے ٹھہر کر سمجھنا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا کلام یونہی کسی نثر نگار کا کلام نہیں جو سجا سجا کر جو بات ذہن میں آئے اپنی نثر کو سجانے کے لئے پیش کر دیتا ہے اس میں گہری حکمت ہوتی ہے اور حقیقت ہوتی ہے امر واقع یہ ہے کہ نمازوں میں لذت اس وقت نصیب نہیں ہوتی جبکہ انسان کی ساری لذت کی تمنا ئیں دنیا کی طرف مائل ہو چکی ہوتی ہیں.اس کا صبح اٹھنا، اس کا رات کو سونا، ایسی امنگوں اور خوابوں میں اور اپنے نفس کے ساتھ باتوں کے ساتھ ہوتا ہے جس میں دنیا طلبی کی باتیں ہوتی ہیں.آج مجھے یہ بھی مل جائے آج مجھے وہ بھی مل جائے.آج میرا یہ کام پورا ہو، آج میں اس طرح اپنے محبوب کو پاؤں، اس طرح اس کے ساتھ وصل کی راتیں کئیں وغیرہ وغیرہ یا اس سے ملتے جلتے دوسرے مضمون.ساری زندگی اسی طرح روز وشب میں کٹ جاتی ہے.وہ روز مرہ کی تمنائیں اسے گھیرے رکھتی ہیں ، ان کے ساتھ سوتا ہے، ان کے ساتھ جاگتا ہے پھر نماز میں سرور کیسے پا سکتا ہے.کبھی سوتے جاگتے اللہ کا ذکر بھی تو کرے از خود اس کی طرف دھیان جائے جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی تھیں.رات کو خدا کے ذکر کے ساتھ سویا کرتے تھے صبح اس ذکر کے ساتھ اٹھتے تھے اور ساری رات اسی ذکر میں صرف ہوا کرتی تھی.پس ایسے شخص کی عبادت ذکر سے زندہ ہو جایا کرتی ہے.اس

Page 81

خطبات طاہر جلد 13 75 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1994ء زندگی میں سرور ولطف ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کیفیت کو ایک معمولی ابتدائی بیماری قرار نہیں دیا.فرمایا ہے توجہ کرو کہ تمہارے نفس میں دنیا کا زہر گھل گیا ہے اور تمہاری رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے اس کے نتیجے میں یہ کیفیت پیدا ہوئی ہے جس کو تم معمولی سمجھ رہے ہو اور اسے دور کرتے کرتے وقت لگے گا.محنت لگے گی، توجہ کرنی ہوگی ، خدا سے عاجزانہ دعائیں کرنی ہوں گی.آنافا نا تو کینسر ٹھیک نہیں ہو جایا کرتے.بعض مریض مختلف قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور نسخہ ایسا مانگتے ہیں کہ ادھر نسخہ منہ کے اندر گیا اور نسخہ کا تیار کردہ جو بھی محلول ہے اور اسی وقت شفا ہو گئی.بعض دفعہ اتنے لمبے عرصے تک ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں اور شفا کے متلاشی کو اگر وہ دعا بھی ساتھ کرے شفامل بھی جایا کرتی ہے اور کبھی نہیں بھی ملتی مگر دنیا میں بھی شفا اس وقت نہیں ملتی جبکہ مرض حد سے گزر چکا ہو اور توجہ عارضی ہو جو اس کے مقابل پر اتنی طاقت نہ رکھتی ہو.روحانی دنیا میں بھی یہی حال ہے.ایک عدل کا نظام ہے جو جاری و ساری ہے پس جتنی کمزوری ہے اتنی شدت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لئے ذہن اور روح اور دل کو بیدار ہونا پڑے گا اور بڑی فراست کے ساتھ اس بیماری کو پہچانا ہوگا اور اس کے مقابل پر کوئی نسخہ تجویز کرنا ہوگا اور سب سے پہلے ہر نسخے کا آغاز دعا سے ہونا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہی ذکر کر رہے ہیں اس کو پھر غور سے سنئے.میں گنہگار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں رہا.“ کتنے لاکھوں کروڑوں عبادت کرنے والے ہیں جو بے چارے اسی کیفیت میں سے گذر رہے ہیں ان کو پتہ نہیں کہ ہماری کیفیت ہے کیا؟ ” میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تا کہ اس 66 کے ذریعے سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میسر آوے.“ پس سب سے بڑا اور مؤثر نسخہ اپنے نفس کی شناخت اور اس شناخت کے بعد دعا ہے ورنہ خالی دعا اگر سکھا دی جائے تو انسان منہ سے باتیں کرتا رہتا ہے اس کو پتا ہی نہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں اور جس طرح وہ باتیں اس کے دل پر اثر نہیں کر رہی ہوتیں اللہ پر بھی اثر نہیں کرتیں ، آپ کے دل

Page 82

خطبات طاہر جلد 13 76 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /جنوری 1994ء فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی دعا قبول ہوگی یا نہیں ہوگی یہ دل کی کیفیات ہیں جو اس کی طرف منتقل ہوتی ہیں جس سے مانگا جارہا ہے.بعض دفعہ مانگنے والے ایسی بے کسی اور بے بسی سے مانگتے ہیں کہ پتھر دل بھی موم ہو جاتے ہیں لیکن اپنی شناخت ضروری ہے اس کے بغیر یہ بجز پیدا نہیں ہوگا اس کے بغیر یہ اضطراب پیدا نہیں ہوگا، جو قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس طرح لحن داؤدی میں ایک اور دعا ہمیں سکھاتے ہیں فرماتے ہیں: ”اے میرے خدا میری فریا دسن کہ میں اکیلا ہوں.اے میری پناہ ، اے میری سپر.میری طرف متوجہ ہو کہ میں چھوڑا گیا ہوں.“ کیلا ہوں میں ایک مضمون بیان ہوا ہے اور چھوڑا گیا ہوں میں دوسرا مضمون بیان ہوا ہے ایک اکیلا ویسے ہی اکیلا ہوتا ہے لیکن ایک دشمنی اور نفرت کے سبب سے چھوڑ دیا جاتا ہے.بعض لوگ بعض لوگوں سے اس لئے اجتناب کرتے ہیں کہ ان کو مکروہ دیکھتے ہیں پس حضرت داؤد نے جو یہ مضمون بیان فرمایا ہے وہی ایک اور رنگ میں حضرت داؤد سے زیادہ ایوبی کیفیت کی طرف متوجہ کرتا ہے.حضرت ایوب کی دعاؤں میں یہ پتا چلتا ہے کہ آپ ایسے بیمار ہوئے کہ جلد کی بیماری ہوگئی اور یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ گویا آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور لوگ کراہت سے دیکھتے تھے اور منہ پھیرتے چلے جاتے تھے.انگلستان میں بھی رواج تھا کہ یہاں ایک زمانے میں کوڑھی کے لئے حکم تھا کہ وہ گلے میں گھنٹی ڈال کے پھرے تا کہ کسی کی نظر نہ اس پر پڑ جائے یعنی لوگوں کی نظروں کو اس عذاب سے بچانے کے لئے یا اس کی نحوست سے بچانے کے لئے کوڑھی کا فرض تھا کہ وہ گھنٹی بجاتا پھرے کہ میں اس راہ پہ آ رہا ہوں تم لوگ رستہ چھوڑ دو یا کسی اور طرف چلے جاؤ تو چھوڑا گیا ہوں، میں جو مضمون ہے وہی مضمون ہے.اکیلا ہوں تو ہی ہے تیرے سوا میرا کوئی نہیں رہا.کوئی نہیں ہے.دنیا نے حقارت سے مجھے چھوڑ دیا ہے.”اے میرے پیارے! اے میرے سب سے پیارے! مجھے اکیلا مت چھوڑ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری درگاہ میں میری روح سجدہ میں ہے.66 اکیلا چھوڑنے میں اللہ کی طرف دھیان گیا ہے، سب دنیا چھوڑ گئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا.میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا میری طرف واپس آ جائے.میں یہ عرض کرتا ہوں تو مجھے نہ چھوڑ.اگر تو مل گیا تو پھر سب کچھ مل گیا.پھر ایک دعا ہے.

Page 83

خطبات طاہر جلد 13 77 خطبہ جمعہ فرمودہ 28/جنوری1994ء میں ایک تیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں.اے میرے اللہ تو نے مجھے اس دور کا مسیحا بنا دیا ہے، میں ان بیماروں کا تیمار دار بنایا گیا ہوں.“ پس اس کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے جیسے ماں بچے کے غم میں مبتلا ہویا باپ بیٹے اور بیٹی کے غم میں مبتلا ہو اس طرح میں اس قوم کے غم میں مبتلا کر دیا گیا ہوں.”اس ناشناس کے لئے ایسی قوم کا مجھے غم لگ گیا ہے جو پہچانتی نہیں کہ اس کا مسیحا کون ہے.بیمار اتنی کہ قبروں میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہے اور حالت یہ ہے کہ اپنے مسیحا کو پہچانتی نہیں.دعا کرتا ہوں کہ اے قادر و ذو الجلال خدا.ہمارے ہادی اور راہنما.تو لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش.“ آخر پر میں چند مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ابھی بھی دن چونکہ چھوٹے ہیں، نماز جمعہ کے بعد نماز عصر ہوگی اس کے معابعد نماز جنازہ غائب ہوگی.سب سے پہلے صوفی بشارت الرحمن صاحب وکیل التعلیم کی وفات کی آپ کو اطلاع دیتا ہوں.آپ چند روز بیمار رہ کر ہسپتال میں وفات پاگئے.18 دسمبر 1928ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صوفی عطا محمد صاحب 1910ء میں احمدیت میں داخل ہوئے.آپ کے نانا شیخ محمد اسماعیل صاحب 313 صحابہ میں سے تھے.مکرم صوفی صاحب مرحوم و مغفور کو تقریبا سب جماعت جانتی ہے.کالج میں پروفیسر بھی رہے، اور مختلف رنگ میں دین کی بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور جانفشانی کے ساتھ خدمات سرانجام دیتے رہے.بہت علمی ذوق تھا اور اللہ کے فضل کے ساتھ دینی علم بڑا گہرا تھا اور ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے جس خدمت پر بھی یہ مامور رہے علمی مشاغل کو اس کے علاوہ ہمیشہ جاری رکھا.وفات کے وقت تحریک جدید میں وکیل التعلیم تھے.شیخ عبدالواحد صاحب بہت وسیع تعارف کے حامل تھے.جماعت میں بہت بھاری تعداد ان کو جانتی تھی.ان کی اہلیہ امتہ البشیر صاحبہ وفات پاگئی ہیں ان کی بھی نماز جنازہ ہوگی.مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب آف کراچی جو شیخ عطا محمد صاحب کے صاحبزادے تھے جو

Page 84

خطبات طاہر جلد 13 78 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /جنوری 1994ء علامہ اقبال کے چچا تھے یا تایا تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ابتدائی بیعت کرنے والوں میں سے تھے اور اللہ کے فضل سے بہت مخلص صحابی تھے.شیخ اعجاز احمد صاحب کو آپ کے ساتھ بیعت کرنے کی توفیق نہیں ملی تو غالبا والدہ یا دیگر رشتہ داروں کا اثر ہوگا.لیکن آپ نے 1931 ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ بہت ہی پاکباز انسان ، بہت ہی مرنجاں مرنج طبیعت، مہمان نواز ، خوش اخلاق، اعلیٰ پاکیزہ مجلسیں لگانے والے تھے.چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی صحبت کا ان میں کافی رنگ پایا جاتا تھا.چودھری صاحب کو ان سے بہت پیار تھا.آپ نے تحدیث نعمت میں بھی ان کا ذکر کیا ہے.ان کی ایک کتاب مظلوم اقبال“ کے نام سے شائع ہوئی تھی.جب علامہ اقبال کے متعلق بہت سے لکھنے والوں نے اس نئے دور میں جھوٹی باتیں پھیلانی شروع کیں کہ ان کا احمدیت سے کوئی تعلق کبھی نہیں رہا اور خاندان میں یہ بات نہیں تھی اور احمدیت کے خلاف ایسے ایسے معاندانہ انہوں نے کام کئے وغیرہ وغیرہ تو شیخ صاحب نے چند سال پہلے اس کے جواب میں باوجود بڑھاپے اور کمزوری کے بہت اچھی کتاب لکھی اور کہا کہ میں گھر والا ہوں.میں جانتا ہوں کہ ہمارے گھر میں کیا ہوتا تھا.کس طرح انہوں نے اپنے بیٹے کو عقیدت کے ساتھ قادیان سکول میں پڑھنے کے لئے بھجوایا تھا کہ باقی دنیا میں دوسرے سکولوں میں بے دینی پائی جاتی ہے وہیں سے دین سیکھے گا، تو اگر یہ شخص آغاز ہی سے احمدیت کے خلاف ہوتا تو یہ کام کیوں کرتا وہ کتاب بھی پڑھنے کے لائق ہے جس کسی کو موقع ملے تو اس کتاب کا مطالعہ کرے.بہت اچھی کتاب ہے.عبدالعزیز بر ما مجلس انصار اللہ کے آڈیٹر تھے.1978ء میں بیعت کی تھی مگر بہت جلد جلد اخلاص میں ترقی کی اور شدید مخالفت میں ایذاء رسانیوں کے باوجود بڑے اخلاص سے احمدیت پر قائم رہے ان کے لئے بھی نماز جنازہ میں دعا کی جائے گی.حمیدہ منصور صاحبہ، طاہرہ مسعود حیات صاحبہ، ہمارے لندن کی جماعت کے مسعود حیات صاحب کو آپ جانتے ہیں حمیدہ منصور صاحبہ ان کی بیگم طاہرہ کی بہن تھیں اور جرمنی میں وفات پاگئی ہیں.

Page 85

خطبات طاہر جلد 13 79 خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1994ء صلى الله رسول کریمﷺ کا ذکر الہی تھا جو اعجاز بنا.آپ ذکر الہی سے زندگی پاتے اور ذکر الہی سے زندگی بخشتے.( خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُو لاذَ القِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ پھر فرمایا:.(الانفال: 46 تا 47) گزشتہ جمعہ میں میں نے جن جماعتوں کے جلسوں کا اعلان کیا تھا ان میں ایک اعلان ضلع جھنگ کے ایک جلسے کا رہ گیا تھا اور ان کو صرف اس وقت شدت سے انتظار نہیں تھی بلکہ فیصلہ یہ ہے کہ ابھی بھی انتظار ہے حالانکہ جلسہ گزر بھی چکا ہے تو بہر حال ان کا بھی ذکر خیر کریں تو کوئی حرج نہیں.اللہ ان کو مزید خدمت کی توفیق بخشے اور نیک مجالس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی بھی توفیق بخشے.جلسہ سالانہ جماعت ہائے احمد یہ بنگلہ دیش آج سے شروع ہو رہا ہے.ان کو خصوصیت سے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.جو چھوٹی کمزور جماعتیں ہیں یعنی دنیاوی لحاظ سے، عدد کے لحاظ سے، اموال کے لحاظ سے لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ ایمان کی دولت سے اس طرح مالا مال ہیں اور اتنا

Page 86

خطبات طاہر جلد 13 80 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء غیر معمولی ان میں تو کل ہے اور اس قدر دین کی غیرت ہے کہ تھوڑے ہوتے ہوئے شیروں کی طرح سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں.جب پچھلے دنوں مجلس تحفظ ختم نبوت والوں نے اور احراریوں نے کھلے عام دھمکیاں دیں کہ ہم چہار بخشی بازار مسجد کو گرانے کے لئے آ رہے ہیں اور لاکھوں کا مجمع حملہ آور ہو گا.اس کے مقابل پر یہ ہر طرف سے چار سو کی ایک چھوٹی سی نفری اکٹھی ہوئی.ان سب نے عہد کیا کہ تمام جان دے دیں گے.ایک بھی پیٹھ نہیں دکھائے گا.اور ہنستے ہوئے کلمہ پڑھتے ہوئے جان دیں گے اور فخر کریں گے.اور ان کے عزیزوں نے بھی بڑی شان کے ساتھ ان کو بھیجا ان کی مائیں راضی تھیں ان کی بہنیں راضی تھیں ان کی بیٹیاں راضی تھیں اگر بچے تھے تو ان کے سب عزیز پوری طرح موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہے تھے مگر اس موت کو جس کا نام اللہ نے زندگی رکھا ہے.اس موت کو جس کا نام خدا نے ہمیشہ کی زندگی رکھا ہے، اور ایسی زندگی جو مرنے کے معا بعد عطا ہوتی ہے.ایک زندگی تو ایسی ہے جو مرنے کے لمبے عرصے کے بعد رفتہ رفتہ پرورش پاتی ہے.پس یہی ایک بڑا فرق ہے شہادت کی زندگی اور دوسری زندگی میں جو مرنے کے بعد لا زما سب کو عطا ہو گی.قرآن کریم نے فرمایا ہے بل احیا ہم وہ زندہ ہیں.وَلكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرہ: 155) تمہیں پتا نہیں ہو گا تم سمجھ نہیں سکتے کیسے زندہ کئے گئے ہیں.اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفی مے نے جو بعض شہداء کو جنت میں پھرتے دیکھا.ایک لنگڑے شہید تھے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ جنت میں پھدکتے پھر رہا تھا اور خدا اس سے بہت راضی تھا.یہ جو واقعہ سنا اس کے بیٹے نے، تو بیٹے کے سب غم بھول گئے.اس نے کہا کہ اس سے کیا بڑی سعادت ہو سکتی ہے.تو جن لوگوں کو خدا زندہ کہہ دے وہ کیسے مرسکتے ہیں.تو ایسا نظام جاری ہے کہ شہید کی زندگی معا بعد اسی طرح جاری رہتی جیسے پہلے تھی یعنی اس کے شعور کو اللہ تعالیٰ مرنے نہیں دیتا اس کو مٹنے نہیں دیتا اور یہ بہت عین سعادت ہے.عظه پس بنگلہ دیش کی جماعت نے اس سعادت کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس کو بڑی خوشی سے سینے سے لگایا اسے قبول کیا اور اس کے لئے تیار رہے اور ہمیں اس بارے میں ادنیٰ بھی شک نہیں کہ وہ اپنے دعوئی میں بچے تھے البتہ دعا یہی تھی کہ اے اللہ ان کو اسی زندگی میں شہادت کی سعادت عطا فرما دے تو تجھ سے یہ بھی تو بعید نہیں کیونکہ ان کو اگر اپنی جانوں کی ضرورت نہیں تیری راہ میں تو ہمیں تو ان کی

Page 87

خطبات طاہر جلد 13 81 خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء ضرورت ہے.پس اللہ نے اس دعا کو بھی قبول فرما لیا اور ان کو کوئی آنچ نہیں آئی.حالات نے پلٹا کھایا، راہیں تبدیل کر دی گئیں.سارے ملک کے اخباروں نے اتنی شدت اور زور کے ساتھ اس تحریک کے خلاف مقالے لکھے اور ایڈیٹوریل جاری کئے اور اس تحریک کا تجزیہ کر کے اسے گندی نا پاک تحریک قرار دیا جو اسلام کے نام کو بدنام کرنے والی ہے.انسان کو انسان سے کاٹنے والی ہے.بڑی جرات سے یہ اعلان کئے کہ ہم ہرگز یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کسی نام پر بھی بنگلہ دیشی کو بنگلہ دیشی سے کاٹ کر رکھ دیا جائے.ہم ایک قوم ہیں، ایک قوم رہیں گے، اپنی وحدت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں.بڑے عظیم الشان مقالے اللہ تعالیٰ نے ان کو لکھنے کی توفیق بخشی یہاں تک کہ وہ سب جو پہلے ان کی مدد پر آمادہ بیٹھے تھے، بڑے سیاست دان جو رعب میں آکر ان کے خلاف کوئی لفظ نہیں بول سکتے تھے ان کے اندر جان پڑنی شروع ہو گئی.وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے.جنہوں نے ان سے وعدے کئے تھے کہ ہم تمہارے جلسوں پر آئیں گے وہ اپنے وعدوں سے منحرف ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نہیں آسکتے.تو کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر سے ان کی تدبیر بدل دی.یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جو دعاؤں کی صورت میں جماعت احمدیہ پر ہمیشہ نازل ہوتا رہا ہے.آئندہ بھی انشاء اللہ ہمیشہ نازل ہوتا رہے گا.میں بنگال کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ شکر کے دور میں داخل ہوں اور اللہ نے جوان پر فضل فرمائے ہیں ان کا کثرت سے ، خدا کا ذکر کر کے شکر کریں اور ذکر الہی کو اس جلسے میں بھی بلند رکھیں اور جلسے کے بعد بھی گھروں کی طرف واپس جاتے ہوئے ذکر کرتے ہوئے لوٹیں ، گھروں کو بھی ذکر سے بھر دیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جب ذکر کیا جائے تو اللہ آسمان پر ان کا ذکر فرماتا ہے جن کا زمین پر ذکر کیا جاتا ہے.جو زمین پر خدا کا ذکر کرتے ہیں اور وہ ذکر صرف آسمان پر ہی نہیں رہتا حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے ہمیں خبر دیتے ہیں کہ جب خدا ذکر کرتا ہے تو اس کے فرشتے ذکر کرتے ہیں اور وہ ذکر لے کر زمین پر اترتے ہیں اور پھر لوگوں کے دلوں میں ان کا ذکر جاری کیا جاتا ہے جو خدا کا ذکر کرنے والے تھے.پس یہ وہ انعامات کا سلسلہ ہے جو ایک انعام سے پھوٹتا ہے دوسرے انعام پر منتج ہوتا ہے دوسرے انعام سے پھوٹتا ہے تو تیسرے انعام پر منتج ہوتا ہے.ایک لامتناہی ، لا زوال سلسلہ ہے.یہ

Page 88

خطبات طاہر جلد 13 82 خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء ذکر سے چلتا ہے اور انسان کو نہ صرف نئی زندگی عطا کرتا چلا جاتا ہے بلکہ اس کے درجات اس دنیا میں ہی بلندتر ہونے لگتے ہیں.کیونکہ ذکر کے ذریعے انسان سب رفعتیں حاصل کر سکتا ہے اور کرتا ہے.ذکر کے ذریعے خدا سے تعلق باندھنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس کی صفات کا جلوہ انسان پر اترتا ہے اور اس کا جلوہ انسان کو ، اس کی صفات کو ڈھانپ لیتا ہے.پس اس پہلو سے میں آپ کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ آج کل چونکہ ذکر ہی کے مضمون پر خطبات جاری ہیں.اس لئے آپ خاص طور پر ذکر الہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس سے یہ دعا مانگیں کہ آپ کی نیکیوں کی حفاظت فرمائے ، آپ کو ثابت قدم بنائے اور صبر عطا کرے.صبر سے مراد صرف تکلیف کا صبر نہیں بلکہ اصل اور اعلیٰ مزاج نیکی پر صبر ہے.صبر کی کچی اور اعلیٰ تعریف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمائی اور قرآن کریم کے مضمون ہی کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایاوہ یہ ہے کہ نیکیوں پر انسان ثابت قدم ہو جائے ان کو پکڑ کر بیٹھ رہے.پس اس پہلو سے آپ اپنی نیکیوں پر صبر کریں لیکن صبر کے لئے اللہ تعالیٰ سے استعانت کریں اس سے دعا کریں کہ وہ آپ کو توفیق بخشے کہ آپ صبر کرنے والے ہوں.آپ نے جو نیکیاں اختیار کیں ہیں ان پر اگر صبر کر جائیں گے تو آئندہ کے لئے ہمیشہ یہی صبر آپ کی ڈھال بن جائے گا.اور اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ “ کے مضمون کو آپ بار بار اپنے حال پر اطلاق پاتے دیکھیں گے.اِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِينَ “ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اور یہ مضمون جو ہے وہ جزا کے مضمون سے اعلیٰ تر مضمون ہے.اللہ ان کے ساتھ رہتا ہے چونکہ انہوں نے تنگ لمحوں پر خدا کی خاطر صبر کیا تھا.اس لئے آئندہ غموں سے حفاظت کے لئے خدا ساتھ رہنے لگ جاتا ہے.فرشتوں کے نزول کے مضمون سے بھی یہ بالاتر رہے.پس صبر ایک بہت عظیم نیکی ہے، بہت عظیم خوبی ہے.اللہ تعالیٰ نے اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ والصلوة ( آل عمران : 154) فرمایا ہے.اب دیکھیں یہاں صلوۃ کا لفظ بعد میں رکھا اور صبر کا پہلے کر دیا.حالانکہ صلوۃ ہر نیکی کی گنجی ہے.لیکن اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ مبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور صبر کی دعا مانگو، صبر عطا کرنے کی دعا مانگو اور نماز کے ذریعہ اس مضمون کو مزید تقویت دو، تو اللہ تعالیٰ آپ کو صبر کا بہترین مضمون سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں اسے جاری کرنے کی

Page 89

خطبات طاہر جلد 13 83 خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء توفیق عطا بخشے.تمام احباب جماعت بنگلہ دیش، خواتین ، بچوں سب کو عالمگیر جماعتوں کی طرف سے محبت بھر اسلام ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.آپ کی دعا ئیں ہمارے ساتھ رہیں گی.اب ذکر کے مضمون میں میں نے جو آیات تلاوت کیں تھیں.ان کے تعلق میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک عربی شاعر کہتا ہے.ذکر تک ولخطي يفطر بنا وقد نهبت من المشقت الصلب فوالله ما ادرى وان لصادق اداء ارانی حبابک امس کہ اے میری محبوبہ میں نے تجھے اس وقت یاد کیا جب خطی نیزے ہم پر چل رہے تھے.اور خون آلود نیزوں نے ہمارے خون پٹے ہوئے تھے.خدا کی قسم مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آیا مجھے تیرے عشق کی وجہ سے کوئی بیماری لگ گئی ہے یا تیرے حسن کا جادو جو کر شمے دکھا رہا ہے.او یہ بات خدا گواہ ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں.یہ مضمون دنیاوی شعراء کے حق میں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس حد تک پورا ہوتا ہے.بعض جنونی ایسے بھی ہوتے ہیں جو بندے کے فانی عشق میں اپنے آپ کو فنا کر دیتے ہیں.لیکن فی الحقیقت یہ مضمون اللہ کی ذات پر اطلاق پاتا ہے.بندے اور اللہ کے تعلق پر اطلاق پاتا ہے اور اس پہلو سے سب سے بڑی گواہی حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی ہے.شاعر تو اپنے متعلق کہتا ہے کہ میرا عشق شاید بیماری بن گیا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق کفار یہ گواہی دیا کرتے تھے کہ عشق مُحَمَّدٌ رَبَّهُ كه محمد کو تو اپنے رب سے عشق ہو گیا ہے اور اس عشق کو بیماری کے طور پر بھی پیش کیا کرتے تھے.کہتے یہ بیمار ہے.مجبور ہے اس کو جنون ہو چکا ہے اور وہ عشق کا جنون ہے.پس حقیقت میں جب سچا عشق ہو تو یہ کیفیات ضرور پیدا ہوتی ہیں اور سخت تکلیف کے وقت بھی جبکہ دنیا کی دوسری چیزیں بھول چکی ہوتی ہیں.اس وقت بھی اپنا محبوب ضرور یاد رہتا ہے.اور بشدت یاد آتا ہے.تو یہ دنیا کے لوگ ہیں ان کو تکلیفوں کے وقت اپنے دنیا کے محبوب یاد آتے ہیں.جو اللہ والے ہیں ان کا ذہن زیادہ سے زیادہ اللہ کی طرف جھکتا ہے.لیکن ایک فرق ہے ان دونوں

Page 90

خطبات طاہر جلد 13 84 خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1994 ء باتوں میں اللہ کی طرف مشقتوں اور تکلیفوں کے وقت بعض اوقات دہریوں کے ذہن بھی چلے جاتے ہیں.وہ بھی سمجھتے ہیں کہ شاید اس راہ سے ہماری نجات مل جائے اگر کوئی ذات ہے اور ہماری آواز سن رہی ہے تو ہو سکتا ہے ہمیں بخش دے اور ہمیں اس مصیبت سے نجات بخش دے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ ایسی ہوائیں چلاتے ہیں جو نرم خو اور اچھی اچھی ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں.کشتی والے سمندر میں سفر کر رہے ہوتے ہیں.یہاں تک کہ ان ہوا ؤں میں تیزی آجاتی ہے اور ہوائیں تند ہو جاتی ہیں اور خوفناک طوفان میں بدل جاتی ہیں.اس وقت دعا کرنے والے گریہ وزاری سے خدا کی طرف جھکتے ہیں.اے خدا اگر تو ہمیں اب بچالے تو ہم تیرے شکر گزار بندے بنیں گے یا نیکیوں کا دعوی کرتے ہیں یہ کریں گے.اللہ جانتا ہے کہ جب وہ خشکی پر پہنچ جائیں گے تو ایسا نہیں کریں گے.پھر وہ اپنے شرک اور کفر کی طرف لوٹ جائیں گے.مگر اللہ پھر بھی ان کی اس دردناک پکار کوسن لیتا ہے.تو ایسے بھی لوگ ہیں جو مصیبت کے وقت اور تکلیف کے وقت اور ہوسکتا ہے جنگ کی شدت کے وقت بھی اللہ کا نام لیتے ہوں مگر اسے ذکر الہی نہیں کہا جاتا ، وہ اپنی ذات کا ذکر ہے.اپنی جان کو بچانے کے لئے جیسے فرعون نے غرق ہوتے وقت خدا کا نام لیا تھا.وہ روح کی خاطر نہیں.بدن کی خاطر ہے.اللہ ان آیات میں جن عشاق کا ذکر فرما رہا ہے.وہ وہ لوگ ہیں جو جائیں بچانے کے لئے خدا کو یاد نہیں کرتے بلکہ جانیں پیش کرنے کے لئے کرتے ہیں.وہ دعائیں کرتے ہوئے جاتے ہیں کہ اے خدا ہماری جان اپنی راہ میں قبول فرمالے، اس کو ذکر الہی کہتے ہیں.یہ ہے محبوب کا ذکر جو اس شان کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی اے اور آپ کے صحابہ کے حق میں پورا ہوا ہے.تو تمام عالم میں اس کی مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی.ان آیات کا ترجمہ یہ ہے میں ترجمہ کرنا بھول گیا تھا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب تمہاری جنگ میں مٹھ بھیڑ ہو کسی گروہ سے، فَاثْبُتُوا تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا بہت کثرت سے ذکر کیا کرو.لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم کامیاب ہونے والے ہو جاؤ.وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو وَ لَا تَنَازَعُوا اور آپس میں پھٹو نہیں، جھگڑے نہ کرو.فَتَفْشَلُو اور نہ اس سے تم منتشر ہو جاؤ گے، پیٹھ دکھا کر

Page 91

خطبات طاہر جلد 13 85 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء بھاگ جاؤ گے.کمزور ہو جاؤ گے.فَتَفْشَلُوا کا اصل مطلب ہے تو ہے کہ بزدلی دکھانا، کمزوری دکھانا.کہ تم کمزوری دکھا جاؤ گے پھر.وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ اور تمہاری پھوک نکل جائے گی.جیسے کہتے ہیں بڑا پھو کی ہے یہ تو حقیقت میں مومن کو جو رعب عطا ہوتا ہے وہ اس کی ذاتی خوبیوں کا رعب نہیں ہوتا اللہ سے تعلق کے نتیجے میں وہ رعب پیدا ہوتا ہے اور جتنی اس کی ذات ہے اس کہیں بہت بڑی دشمن کو دکھائی دیتی ہے.جماعت احمدیہ کا ہمارا سو سالہ تاریخ سے زیادہ کی تاریخ ہو چکی ہے اب، یہی تجربہ ہے کہ جماعت بہت تھوڑی بھی ہو تو اللہ کے فضل سے اس کا رعب بہت ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ جب جماعت کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے.تو ہم سے بہت زیادہ طاقتور دشمن اس سے بے قرار اور بے چین ہو کر کہنے لگتے ہیں کہ آگئے آگئے، یہ غالب آ گئے.یہ غالب آگئے.ان کو کسی طرح روکو، یہ ہماری تدبیر سے تو نہیں رکھتے ، تو یہ جو تھوڑی سی تعداد سے اس قدر پریشان ہو جانا، یہ اس رعب کی وجہ سے ہے جس کا قرآن کریم ذکر فرماتا ہے اور محاورہ بڑا پیارا استعمال فرمایا ہے.تمہاری پھوک نکل جائے گی.اللہ کا ذکر گیا تو تم بھی گئے بیچ میں سے.تم تو اس کا ئنات کے ذرے کی طرح ہو جسے ایٹم کہا جاتا ہے.یعنی جس کا وجود آپ کو ہزاروں، لاکھوں گنا بڑا دکھائی دے رہا ہے.اگر اس کی پھوک نکال دی جائے تو چپک کر کچھ بھی باقی نہ رہے.یہ زمین ایک فٹ بال کے برابر ہو جائے.پس اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رعب سے اللہ کی طرف سے مومنوں کو ایک رعب عطا ہوتا ہے اور اپنے وجود سے زیادہ بڑے ہو کر دنیا کو دکھائی دیتے ہیں.لیکن ان کی مثال غبارے کی سی نہیں ہے.بلکہ ایٹم کی سی ہے، ان مالیکیولز کی سی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ، جن کے اپنے اصل وجود سے بہت بڑا بنا کے دکھایا ہے کیونکہ وہ ان کی بڑائی خدا تعالیٰ کی طاقت سے ہوتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ (النحل : 85) ہم نے صرف ان کو بڑا ہی کر کے نہیں دکھایا.ہم نے ہر چیز کو بہت مضبوط بنایا تو جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رعب مومن کو عطا ہوتا ہے، نہ صرف یہ کہ وہ اپنی حیثیت سے بڑا دکھائی دیتا ہے.بلکہ اس بڑائی میں ظاہری طور پر خواہ اندر کچھ بھی نہ ہو.لیکن خدا کی طاقت اس کو نصیب ہوتی ہے.اس لئے واقعہ دشمنوں کے لئے ایک بہت بڑی ہیبت بن کے ابھرتا ہے اور جب دشمن سے ٹکراتا ہے.تو وہ تاریخ بار بار گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةِ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً (البقره:250) کتنی ہی چھوٹے چھوٹے گروہ

Page 92

خطبات طاہر جلد 13 86 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء ہیں.بالکل معمولی حیثیت کے، جو بڑی بڑی قوتوں کے اوپر غالب آ گئے.پس یہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تم اللہ کا ذکر کرنا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم اس ذکر کی برکت سے کامیاب ہو، کامیابیاں ذکر سے عطا ہوتی ہیں اور ذکر ہے جو انسان کو رعب عطا کرتا ہے اور اس ذکر کے ساتھ ایک لازم بات ہے.وَ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ اگر تم بظاہر ذکر کرتے ہو اور اللہ کی اطاعت نہیں کرتے.بظاہر ذکر کرتے ہو اور رسول کی اطاعت نہیں کرتے تو ذکر جھوٹا ہے.وَلَا تَنَازَعُوا اور ہر گز تم آپس میں جھگڑا نہ کرو.ورنہ بھاگ جاؤ گے فَتَفْشَلُوا تمہارے پاؤں پھسل جائیں گے.یعنی پیٹھ دکھا کر پیچھے چلے جاؤ گے.وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ اور تمہاری پھوک نکل جائے گی.یعنی رعب جاتا رہے گا.وَاصْبِرُوا اور صبر کرو.اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ اللہ تعالیٰ یقیناً صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غزوات میں ہمیں یہی نظارہ دکھائی دیتا ہے کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ نے ہر غزوہ میں شمولیت فرمائی اور شدید جنگ کی کیفیت اور سختی کی حالت میں بھی ذکر اللہ ہی تھا.جو دراصل آپ کی قوت کا راز تھا.جنگ بدر کے موقع پر بظاہر آپ جنگ میں خود جسمانی طور پر حصہ نہیں لے رہے تھے مگر وہ جنگ اس چھوٹے سے خیمے میں لڑی جارہی تھی.جہاں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ذکر الہی میں مشغول تھے اور اس شدت کے ساتھ آپ پر رقت طاری تھی کہ روتے روتے بار بار کندھے کی چادر گرتی تھی اور حضرت ابو بکڑ ا ٹھا اٹھا کر واپس پھر کند ھے پر ڈالتے تھے.ایک عجیب کیفیت تھی باہر جنگ ہو رہی ہے اور یہاں خدا کے حضور گریہ وزاری کی جارہی ہے اور لوگ سمجھ رہے ہیں کہ رسول کریم ﷺہ الگ کھڑے ہیں.حالانکہ آنحضرت اس جنگ میں شامل تھے اور یہی وہ جنگ تھی.لیکن پھر آپ نے شرکت فرمائی.اس حالت میں سارا وقت نہیں گزارا.ان دعاؤں کے بعد ایک غیر معمولی طاقت حاصل کر کے شرکت فرمائی اور وہ جو مٹھی کنکروں کی اٹھا کر پھینکی ہے.اس مٹھی میں ایک ایسی غیر معمولی طاقت پیدا ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى (الانفال : 18) اے محمد تو نے مٹھی نہیں چلائی تھی.تو جو اللہ سے طاقت لے کر باہر نکلا تھا.تیرا سارا وجود الہی طاقت کا مجسمہ بن چکا تھا.اس وقت جو مٹھی تیرے ہاتھوں نے چلائی تھی وہ اللہ کے ہاتھوں نے چلائی تھی.تو ذکر میں

Page 93

خطبات طاہر جلد 13 87 خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1994ء ایک غیر معمولی طاقت ہے.وہ کمزوروں کو غیر معمولی طور پر بڑے بڑے طاقتوروں کے مقابل پر قو تیں عطا کرتی ہے اور ان پر غالب کر دیتی ہے اور اس طاقت کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس پہلو سے میں خاص طور پر آپ کو دعوت الی اللہ کے مضمون کے ساتھ ، اس مضمون کو ملانے کی تلقین کرتا ہوں.ہم بھی آج کل ایک عظیم جہاد میں مبتلا ہیں.اور ساری دنیا میں اس وقت دعوت الی اللہ کی ہوائیں چل رہی ہیں اور چھوٹے بڑے، مرد کیا اور عورتیں کیا ، سارے دن رات یہی سوچ رہے ہیں کہ کس طرح ہم بھی اس میں کامیاب حصہ لیں.ہمارے ذریعے بھی خدا تعالیٰ کسی سعید روح کو دائمی زندگی عطا کرے.وہ جو جہاد ہے وہ جہاد کبر ہے.ان معنوں میں کہ جو قتال ہے اس کے نتیجے میں دشمن کو مارا جاتا ہے اور جہاد کے نتیجے میں دشمن کو زندہ کیا جاتا ہے.پس ان دونوں میں نمایاں فرق ہے.کبھی خدا والے کسی دشمن کو مارنے کے در پے نہیں ہوتے سوائے اس کے کہ وہ مجبور کر دے اور وہ بے اختیار ہو جائیں.یہاں تک کہ یہ فیصلہ پھر کرنا پڑے یا خدا کے منکر زندہ رہیں گے یا خدا والے زندہ رہیں گے.اسی مجبوری کے نتیجے میں جہاد قتال میں تبدیل ہوا کرتا ہے.ورنہ حقیقی جہاد جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ مردوں کو زندہ کرنے کا جہاد ہے.جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہمیشہ مصروف رہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بات سمجھائی، کھول کر سمجھائی کہ جب یہ رسول، تمہیں اپنی طرف بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو تم لبیک کہا کرو، اس کی دعوت کو قبول کیا کرو.پس آج جماعت احمد یہ ایک عالمگیر زندگی کا پیغام لے کر نکلی ہے.ایک ایسے عالمگیر جہاد میں جھونک دی گئی ہے خدا کی طرف سے، جس میں ہر چھوٹا بڑا ، مردوں کو زندہ کرنے کے اعلان بلند کر رہا ہے.اور مردوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے کہ آؤ اور اللہ کی فوج کے ساتھ ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی برکت سے آج بھی تم زندہ کئے جاؤ گے.یہ نہ سمجھو کہ اس رسول کو زندگی کا معجزہ ، زندہ کرنے کا معجزہ ، چودہ سوسال پہلے دیا گیا تھا اور اب وہ معجزہ مر چکا ہے.جیسے وہ رسول آج بھی زندہ ہے اس کے تمام صلى الله معجزات زندہ ہیں اور آج بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دم سے ہی تمام دنیا کو شفاء مل سکتی ہے.آپ کے اعجاز ہی سے یہ مردے زندہ ہو سکتے ہیں اور اس اعجاز کا رنگ کیا تھا؟ یہ ذکر الہی تھا.آپ کا

Page 94

خطبات طاہر جلد 13 ذکر الہی تھا جو اعجاز بنا تھا.88 خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء پس یہ کہنا کہ جیسے کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے چودہ سو سال پہلے مردے زندہ کئے تھے ہم آج کریں گے.اگر یہ ذکر سے خالی بات ہو تو محض خیالی ہے تو کھوکھلا دعویٰ ہے کچھ بھی نہیں ہونا پھر ،جس عظیم معالج کا حوالہ دے کر آپ اس کی شفاء کی باتیں کرتے ہیں اس کے نسخے کو بھی تو تلاش کرتے ہیں.بوعلی سینا کا نام اگر علاج کی دنیا میں زندہ ہے تو اس وجہ سے کہ آج اس کے نسخے بھی زندہ ہیں اور صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی بہت سے معالج اس کے نسخوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.پس محض معالج کے نام سے کوئی مردہ زندہ نہیں ہوا کرتا اس کے نسخوں سے زندہ ہوا کرتا ہے.پس دیکھنا یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہ زندگی کیسے بخشتے تھے.وہ ذکر الہی کی زندگی تھی.وہ ذکر الہی سے زندگی پاتے اور ذکر الہی سے زندگی بخشا کرتے تھے اور جنگ کے دوران اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تمہاری مٹھ بھیڑ ہو جائے تو جب شدت کی گھمسان کی لڑائی ہو، اس وقت وہ یہاں یہ نہیں فرما رہا کہ اپنے ہتھیار تیز کرو، اپنی قوتوں کو چمکاؤ.بعض دوسری جگہ وہ بھی ذکر ہے.لیکن یہاں فتح کا راز بیان کیا جا رہا ہے کہ جتنی لڑائی تیز ہوتی چلی جائے، تمہارا مقابلہ ہو، وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرً ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ثبات قدم رکھو لیکن ذکر الہی سے برکت حاصل کرو، قوت حاصل کرو.ورنہ تمہیں ثبات قدم بھی نصیب نہیں رہے گا.بھاگتے ہوئے پیٹھ دکھا کر ذکر کا کوئی مضمون نہیں ہے.اپنی جانیں پیش کرو، حاضر ہو اور پھر ذکر کرو، پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہیں کتنی غیر معمولی طاقت عطا فرماتا ہے.پھر اسی مضمون کو صبر پر جا کے ختم فرمایا کہ صبر کے بغیر کوئی حقیقی کامیابی نہیں ہوسکتی اور صبر ہی ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے.پس آج کل جو بھی داعین الی اللہ دنیا میں پیغام دے رہے ہیں ان کو ذکر پر زور دینا چاہئے اور دعوت میں محض دلیلوں سے کام نہ لیں بلکہ ذکر کریں اور ذ کر سکھائیں.اللہ کی طرف بلانے کا حکم ہے.عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں کہیں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بلانے کا حکم نہیں ہے سوائے اس کے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم ہے.کہ تم اپنی طرف بلاؤ.کیونکہ آپ کی طرف خدا کی طرف تھی.لیکن ساتھ یہ ہے حکم کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف جب بلا ئیں تو دوڑا کرو، اس طرف جایا کرو.لیکن مومنوں کو پیغام یہ ہے کہ اللہ کی طرف بلاؤ صلى الله

Page 95

خطبات طاہر جلد 13 89 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء کیونکہ دائمی دعوت خدا ہی کی طرف ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی اللہ ہی کی طرف بلاتے تھے.پس دعوت الی اللہ اسی لئے قرآن سے محاورہ لے کر اسی مہم کا نام رکھا گیا کہ اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے.اللہ کی طرف بلائیں تو بحثوں اور دلیلوں سے بہت زیادہ اس کے حسن اور اس کی کشش سے کام لیں.جس کی طرف بلایا جاتا ہے اس کا تعارف بھی تو کروانا پڑتا ہے.کس کی طرف بلا رہے ہیں؟ اگر آپ جاتے ہی ان بحثوں میں مبتلا ہو جا ئیں کہ تم اپنے عقائد میں بچے ہو یا میں اپنے عقائد میں سچا ہوں.ایک لمبے عرصے کے بعد ان ذریعوں ہی سے بعض دفعہ انسان کو کامیابی نصیب ہوتی ہے.لیکن وہ لوگ جو متقی ہیں جو اللہ کی محبت رکھتے ہیں.اگر وہ سچے دل سے اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیں تو یہ بہت زیادہ کارگر حربہ ہے.بہت اس کا گہرا اثر پڑتا ہے.میں نے بارہا ہندوؤں پر یہ نسخہ آزمایا ہے.وہ بعض دفعہ ملنے آتے ہیں بعض دفعہ خطوں کے ذریعے دعا کی خاطر لکھتے ہیں.تو میں ان کو صرف تو حید کا پیغام دیتا ہوں.کبھی یہ بحث نہیں کی ویدوں میں یہ لکھا ہے اور تمہاری گیتا میں یہ لکھا گیا ہے اور قرآن یہ فرماتا ہے.ان بحثوں میں الجھا دیں گے ہو تو ان کی غیرت بھی اٹھ کھڑی ہوگی.اور رفتہ رفتہ ایک مدافعانہ رنگ پیدا ہو جائے گا.قرآن کریم فرماتا ہے جب وہ مدافعانہ رنگ اختیار کریں، جھگڑمیں تو تم بھی ان سے مجادلہ کرو.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی ضرورت پیش آ سکتی ہے.مگر سب سے احسن ، سب سے اعلیٰ طریق ، سادہ طریق پر اللہ کی طرف بلانا ہے.اور اس میں صرف ہندو ہی پیش نظر نہیں ، تمام اقوام، تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کے لئے ، سب سے اچھا پیغام یہی ہے کہ ہم تمہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں.اللہ کی خاطر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر واللہ کی طرف جھکو اس سے دعائیں مانگو اور اگر تم ہمیں بدسمجھ رہے ہو تو اللہ سے دعا کرو کہ ہمیں بھی صحیح سچا رستہ عطا ہو.اور اگر ہم بچے ہیں تو اللہ سے دعا کرو کہ تمہیں بھی اس رستے پر ڈال طریق ہے جو تبلیغ کا اس سے کوئی اشتعال بھی پیدا نہیں ہوتا.اس سے اشتعال ٹھنڈے پڑتے ہیں.طبیعت میں کچھ سلجھاؤ پیدا ہوتا ہے.انسان زیادہ سنجیدگی سے غور پر آمادہ ہوتا ہے.اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے جتنے بھی ہندوؤں سے مجھے واسطہ پڑا ہے.جب میں نے انہیں توحید کی طرف بلایا ہے تو طبعی طور پر ان کا رد عمل مثبت تھا.کبھی بھی مخالفانہ رد عمل نہیں ہوا.اور کئی ایسے ہیں جو اللہ کے فضل سے جماعت میں داخل ہو چکے ہیں کئی ایسے ہیں جو ا بھی داخل نہیں ہوئے لیکن دعا کے دے.

Page 96

خطبات طاہر جلد 13 90 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء لئے لکھتے ہیں کہ ہمیں توفیق دے اللہ، ہمت عطا کرے.کئی ایسے ہیں جنہوں نے ہمارے سیٹلائیٹ میں چندے بھی دینے شروع کر دیئے اور ہندو ہیں.لیکن خطبے سنتے ہیں ہندو ہیں لیکن دعا کے لئے ہمیں لکھتے ہیں.ہندو ہیں لیکن اگر کوئی مرجائے تو اس کی اخروی نجات کے لئے ہمیں لکھتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے جو تعلق انسان کی روح میں فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے.وہ ایک ایسا دائی سر چشمہ ہے.جس سے آپ ہمیشہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پیاسی روحوں کو اس چشمے کی طرف متوجہ کر نے سے وہ روحیں طبعا اس کی طرف مائل ہونے پر آمادہ ہیں.اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، سب روحوں کو گویا کہ ایسے عالم میں اکٹھا کیا جس کا تصور ہمارے لئے ممکن نہیں.بات صرف حقیقت میں یہ ہے.کہ ان روحوں کے خمیر میں داخل کر دی ہے یہ بات.یہ سوال و جواب ایسا سوال اور جواب ہے جو ان کی روحوں پر پرنٹ ہو گیا ہے، چھپ گیا ہے.اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں.قَالُوا بَلی ان سب نے کہا ہاں کیوں نہیں، کیوں نہیں، پس وہ بلی کی آواز آج بھی روحوں سے آ سکتی ہے.اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کا پیغام تو ان کو خدا کی طرف سے دیں.پس دعوت الی اللہ میں آغاز ہی اس طرح ذکر سے ہونا چاہئے کہ وہ خالصہ ذکر ہو اور اس میں مذاہب کی تفریق کی بحثیں بعد میں آئیں، اگر وہ اٹھیں سب سے پہلے اللہ کی طرف بلائیں.اور اللہ کی طرف بلانے کے لئے آپ کے اندر خود ذکر کے پھل لگنے چاہئیں آپ کی ذات میں، آپ کے اندر ذکر کے نتیجے میں پاک تبدیلیاں ہونی چاہئیں ، ذکر کے رنگ آپ کے اندر جاری ہوں، ذکر کے نتیجے میں آپ سرسبز وشاداب ہوں ، پھول کھلیں ، پھل لیگیں اور ایسے ثمر دار درخت بن جائیں جو صرف ثمر دار ہی نہ ہوں.بلکہ پر رونق ہوں، خوب صورت دکھائی دے.اس کے اندر کشش پائی جائے اور یہ کشش ذکر کا ایک طبعی نتیجہ ہے.ایک شاعر کہتا ہے کہ مٹی میں جو تو خوشبو دیکھ رہا ہے اس مٹی میں جو گلاب کے نیچے اس کے جڑوں کے آس پاس ہے، یہ نہ سمجھنا کہ مٹی کی خوشبو ہے.یہ گلاب کی خوشبو ہے جو مٹی میں آگئی ہے.پس ذکر الہی کی خوشبو تو گلاب کی خوشبو سے انگنت گنا زیادہ طاقت ور ہے.اگر آپ کو ذکر نصیب ہو جائے تو آپ کے اندر اللہ کی خوشبو آئے گی.اللہ کے رنگ آپ میں جاری ہوں گے اس کے ذکر کے نتیجے میں اس کی صفاتِ حسنہ آپ کی ذات میں جلوہ گر ہوں گی.آپ کو ایسی عظیم کشش عطا ہوگی کہ دنیا کی طاقتوں

Page 97

خطبات طاہر جلد 13 91 خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1994ء کے لئے اس کا مقابلہ ممکن نہیں رہے گا.پس خدا جو فرماتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں ثبات قدم دکھاؤ اور ذکر الہی کرو.یہ مضمون آج بھی ہر جہاد میں جاری ہے اور وہ نصیحت آپ کو ہمیشہ، لا ز ما حرز جان بنانی ہوگی.اپنی جان اور سینے سے چمٹا کے رکھنی ہوگی.فاثبتوا کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کی طرف بلا ؤ اور پھر کچھ دیر کے بعد ٹھنڈے پڑ جاؤ اور پھر خالی ذکر کرو تو یہی کچی بات نہیں ہے.پہلے ثبات قدم رکھا ہے.پھر ذکر فرمایا.تو اپنی نیک کوشش میں یہ عہد کر لو کہ میں اسے ذکر ضرور جاری رکھوں گا.اور اسی مضمون کو آخر پر صبر کے الفاظ سے مزید کھول کر پیش فرمایا ہے.پس جنگ میں ثبات قدم ہو، تبلیغ میں انسان وفا دکھائے اور ہمت کے ساتھ ہمیشہ اس نیک کام کو جاری رکھے یا تکلیفوں پر صبر کرے، یہ تینوں حقیقت میں ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں.تو فرمایا تم جو کام کرو گے اس کو چھوڑنا نہیں پھر تو خدا کی راہ میں جہاد کرنے نکل کھڑے ہو.تو پھر لازما اس کو ہمیشہ، زندگی بھر جاری رکھنا ہو گا.ایک دو مہینے ، ایک دو سال کی باتیں نہیں ہیں.اور پھر جب ذکر الہی کرو گے تو پھر تمہیں غلبہ عطا ہو گا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا یہ صرف ذکر نہیں کثرت سے ذکر کرو.پس یہ جو کثرت سے ذکر الہی کا میں مضمون بیان کر رہا ہوں.اس کا آخری تعلق دعوت الی اللہ سے ہے.آغاز میں یہ آپ کی ذات کو سنوارنے کے لئے ذکر شروع ہوا تھا.جب آپ بن سنوار کر تیار ہو جا ئیں تو آپ میں انہی کشش پیدا ہو جاتی ہے.پھر آپ دعوت الی اللہ کے لئے نکلیں، پھر وہ ذکر کو اور تیز کردیں.تو دنیا کی فتح تو چند قدم کی باتیں رہ جائیں گی.یہ جو آپ اگلی صدیوں میں باتیں دیکھ رہے ہیں اور جو خوا میں ہیں.ان خوابوں کی تعبیر اس دنیا میں دیکھیں گے اور آج دیکھ بھی رہے ہیں.کثرت سے مجھے ایسے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں فلاں وقت یہ خواب دیکھی تھی فلاں وقت یہ خواب دیکھی تھی.ہم بعض دفعہ یہ سوچ کے سویا کرتے تھے کہ کب ہمیں اللہ تعالیٰ اپنا ٹیلی ویژن عطا کرے گا.بعض ماؤں کا قصہ دیکھتے ہیں کہ بڑی حسرت سے انہوں نے کہا کاش یہ لوگ جو ہماری مخالفت میں ٹیلی ویژن کو گندہ کرتے ہیں.خدا ہمیں بھی موقع دے کہ ہم ٹیلی ویژن پر ذکر الہی بلند کرنے والے ہوں دنیا کو پتا لگے کہ ہماری حقیقت کیا ہے.کئی ایسے خواہش رکھنے والے مر گئے لیکن بہت سے آج بھی زندہ ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے انہوں نے وہ بات پوری ہوتی دیکھی جس کا

Page 98

خطبات طاہر جلد 13 92 92 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.پھر خوا ہیں بہت سی لوگوں نے لکھ کے بھیجی بعض پرانی خوابوں کے حوالے دیئے.جو ہماری فائل میں موجود ہیں.اس وقت اس کی تعبیر میں میں نے یہی لکھا کہ اللہ مبارک کرے، کوئی خوشخبری معلوم ہوتی ہے اور خود مجھے بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ لفظا لفظاً پوری ہوگی.اور وہ جو نظارے ان لوگوں نے دیکھے تھے اللہ نے ویسے ہی دکھا دیئے.تو آج کل خدا اتنا مہربان ہے جماعت احمدیہ پر اور بنی نوع انسان پر اس حوالے سے کہ جیسے زمین پر اتر رہا ہو، اس وقت اپنی کیفیت کو نہ بدلیں ورنہ تو بڑی محرومی ہوگی.وہ وقت جو خاص خدا کی خاطر جہاد کے وقت ہوا کرتے ہیں.ان دنوں میں واقعی خداز مین پر آ جاتا ہے جب خدا اپنے تمام جلووں کے ساتھ انسان کے قریب تر آ جاتا ہے.اس تھوڑے سے ذکر سے بھی آپ کو بہت بڑی برکتیں عطا ہو سکتی ہیں اور تھوڑا سا ذ کر خود کثیر ہوتا چلا جائے گا کیونکہ لڑائی میں کثیر کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فطری تعلق ہے.اپنا پیارا خطروں کا وقت زیادہ یاد آتا ہے.وہ جو پہلے تھوڑ اذکر کیا کرتے تھے وہ بھی جب موت کے خطرات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں تو وہ جو محبوب ہے وہ زیادہ یاد آنے لگ جاتا ہے.پس ایک دنیا کا شاعر اگر سچا ہے اور یہ کہتا ہے.فوالله ما ادري واني لصادق اداء ارانی من حبابک ام سحر تو میں خدا کی قسم سچ بول رہا ہوں جھوٹ نہیں کہہ رہا.تیری محبت میں مجھے کیا ہو گیا ہے.کوئی تکلیف پہنچی ہے یا پاگل ہو گیا ہوں.مجھے جادو ہو گیا اس حسن کا یا کسی بیماری نے آلیا ہے.یہ وہ کیفیت ہے جو بچے عشق سے پیدا ہوتی ہے اور اس سے پھر ذکر پھوٹتا ہے اور جتنا گہرا مصیبت کا وقت ہوا تنا ہی ذکر زیادہ گہرا اور کثیر ہوتا چلا جاتا ہے.پس آج کثرت کے ساتھ ذکر کے دن آگئے ہیں ہم رمضان کے دروازے پر کھڑے ہیں.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ اس رمضان کو خصوصیت سے دعوت الی اللہ کی خاطر کثرتِ ذکر میں تبدیل فرما دیں.روزے تو ویسے ہی ذکر کے لئے خاص ہیں.لیکن دعوت الی اللہ کے مضمون کو ذہن میں اور قلب میں مستحضر کر کے اس کو یا درکھتے ہوئے.اس کا تعلق اس ذکر سے باندھتے ہوئے.جس کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ جہاد کے وقت غیر معمولی طور پر ذکر کیا کرو.ذکر

Page 99

خطبات طاہر جلد 13 93 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء کریں کیونکہ آگے پھر تھوڑے مہینے رہ گئے ہیں.جلسہ سالانہ یو.کے تک پر ابھی کام بہت پڑا ہوا ہے یعنی چند مہینے میں آپ نے پورے سال کے پھل لینے ہیں.پہلے تین مہینے جو گزشتہ جلسے کے بعد گزرے تھے.میں نے نصیحت کی تھی کہ زیادہ تر توجہ تربیت کی طرف کریں اور واقعہ اس کا بہت ہی اچھا نتیجہ ظاہر ہوا، حیرت انگیز بعض ایسے تجارب ہوئے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ یہ تحریک دل میں نہ ڈالتا تو جو ہم پا رہے تھے وہ دوسرے رستے سے کھوتے چلے جاتے.ہزار ہا کی تعداد میں تھوڑے سے علاقے میں اس طرح احمدی ہوئے ہیں کہ بعض جگہ علاقے کا علاقہ تمہیں تھیں، چالیس چالیس ہزار کی آبادی پورا احمدی ہو گیا.اگر یہ دوسری تحریک نہ چلتی اور تین مہینے شدت کے ساتھ وہاں تربیت کی مجالس نہ لگائی جاتیں تو جو حال ہوتا اس کا صحیح تصور تو وہ رپورٹیں پڑھ کر ہوتا ہے.تو جب یہ احمدی ہونے والوں کے پاس پہنچے ہیں تو کتنی جلدی ان کو خالی پایا.یعنی احمدیت قبول کر لی ہے، لیکن بعد میں کوئی توجہ نہیں، کوئی تبدیلی نہیں، کوئی غیر معمولی نمازوں کی طرف توجہ نہیں بدرسمیں دور کرنے کی طرف توجہ نہیں.جیسے تھے ویسے ہی رہے اور اگر وہ کچھ سال اس طرح رہتے ، کچھ دیر اس طرح رہتے تو پھر ان کا حال بد سے بدتر ہو جانا تھا تو کچھ عرصے کے بعد ان کو یاد بھی نہ رہتا کہ کیا ہوئے تھے.پس وہ تین مہینے ضائع نہیں ہوئے ان سے بہت برکت ملی ہے اور پوری طرح شعور کے ساتھ یہ لوگ اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور ان میں نظام جماعت جاری ہو گئے ہیں مساجد کے با قاعدہ نظام کے تابع امام مقرر ہیں.ان کو اختلافی مسائل جو پہلے سرسری سے پتا تھے تفصیل سے سمجھائے گئے ہیں.انہوں نے اعتراضات کئے تو ان کے جواب دیئے گئے بڑی محبت کے ساتھ اور اللہ کے فضل کے ساتھ الّا ما شاء الله بعض جگہ بعض لوگ دباؤ کے نیچے آ کر کچھ لوگ پیچھے ہٹے لیکن وہ ہزار میں ایک بھی نہیں.لیکن اس ایک کے مقابل پر ہزار مگر ہزار میں سے ایک بھی ہو تو خدا نے سینکڑوں اور دیئے یعنی تبلیغی مہم کے دوران ، پھر تربیتی مہم کے دوران خود بخود اللہ تعالیٰ پھل عطا کرتا گیا.تو وہ جو عرصہ گزرا ہے تو ضائع تو نہیں ہوا بلکہ بہت ہی مبارک اور ثمر دار عرصہ تھا، لیکن خالصی تبلیغ کی مہم کے لئے نہیں تھا.اس کے بعد پھر انہوں نے تھوڑا سا آرام کیا پھر تبلیغیں سوچنی شروع کیں.اب کچھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی ہیں جماعتیں اور تبلیغ کے لئے تیزی کے ساتھ مائل ہیں.تبلیغ کی طرف تیزی کے ساتھ قدم آگے بڑھا رہی ہیں.

Page 100

خطبات طاہر جلد 13 94 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء مگر جہاں تک یورپین ممالک کا تعلق ہے اللہ کے فضل سے یورپین ممالک میں خصوصا جرمنی میں تو تربیت کے ساتھ ساتھ تبلیغ کی مہم بھی انہوں نے ایسی شدت سے جاری کی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ساری جماعت جرمنی اس مہم میں ڈوب چکی ہے اپنے وجود کو اس میں کھو دیا ہے.لیکن جب میں ساری کہتا ہوں تو میں جانتا ہوں بہت سے خلا ہوں گے شاید سینکٹروں کیا ، ہزاروں ایسے ہوں جن کو ابھی تک تبلیغ کا سلیقہ بھی نہ آتا ہو.جنہوں نے یہ کام نہ شروع کیا ہو.لیکن اللہ کا یہ ایک خاص سلوک ہے مومنوں سے کہ ان کا دسواں حصہ بھی اگر مستعد ہو جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ساری کی ساری جماعت مستعد ہوگئی ہے.ایک کو دس پر غلبہ عطا ہونے کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ ان میں دس کے برابر طاقت پیدا ہوتی ہے تو غلبہ پاتے ہیں دس پر، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ طاقت ایک کی رہے اور دس پر غلبہ پا جائیں.پس اس میں ایک وعدہ ہے اور ایک خوشخبری ہے.وعدہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے ہر ایک کو دس کی طاقت عطا کریں گے.اور خوشخبری یہ ہے کہ پھر تم بظاہر برابر ہو گئے ان کے، پھر بھی ان پر غالب آ جاؤ گے.یعنی یہ نہیں فرمایا کہ وہ دس ہوں گے تو تم گیارہ ہو جاؤ گے.قرآن کریم یہ فرما رہا ہے کہ تمہارے ایک کے مقابلے پر وہ دس ہوں گے اور پھر بھی وہ غلبہ عطا کرے گا.تو اس میں یہ نکتہ سمجھنے کے لائق ہے.اگر خدا نے جو طاقت تمہاری بڑھائی ہے.محض اس طاقت سے جو خدا نے عطا کی مگر پھر بھی تمہاری ذات میں ظاہر ہوئی.اس سے تمہیں غلبہ عطا ہوتا تو کئی بے وقوفوں کو غلط نہی ہو جاتی تھی کہ ہم نے اپنی طاقت سے دشمن کو مارا ہے.وہ کہہ سکتے تھے سب طاقتیں اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں مگر ہمارے جسم سے یہ معجزہ ظاہر ہوا ہے.اللہ نے اب برابر کر کے چھوڑ دیا ہے اور پھر خوشخبری دی ہے کہ ہم پھر تمہیں غالب کریں گے اور غلبہ بھی اس شان سے عطا کرتا رہا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ورنہ تو برابر کی چوٹ تھی.اتنا عظیم الشان غلبہ کیسے عطا ہوا وہ فضل ہے.جو ان وعدوں کے ساتھ لگارہتا ہے.جتنا اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے اسے پورا کرتے وقت ہمیشہ بڑھا چڑھا کر دیتا ہے.اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں کہ یوں لگتا تھا کہ ساری جماعت جرمنی نے اپنے آپ کو اس میدان میں جھونک دیا ہے تو اتنا تو مجھے اندازہ ہے کہ دسویں حصے سے کم نہیں ہیں وہ لوگ ، جو اس وقت تبلیغ میں بجھتے ہوئے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ کا وعدہ ہے.جب دسواں حصہ بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم کو زندہ کر دے تو بقیہ نوع کی کمزوریاں بھی ان کی زندگی کے تابع چھپ جاتی ہیں اور ان پر پردہ پڑ جاتا ہے.

Page 101

خطبات طاہر جلد 13 95 خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء پس اللہ کرے کہ ساری جماعت اسی طرح بیدار ہو جائے.مجھے یاد ہے میں علماء کو کہا کرتا تھا کہ تم ایسی بڑھ بڑھ کے باتیں نہ کرو تمہاری کوئی تعداد نہیں ہے.تم سمجھتے ہو کہ تمہیں ہم پر عددی غلبہ ہے جتنے احمدی ہیں یہ جاگ اٹھیں تو پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ طاقت ہوتی کیا ہے.جتنی احمدیوں کی تعداد ہے اس سے کئی گناہ زیادہ خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ان کو قوت عطا ہوتی ہے اور پھر اس کے اوپر رعب ہے.وہ رِيحُكُم والی بات جو ہے وہ اس کے علاوہ ہے.رعب کے ساتھ ان کو غلبہ عطا ہوتا ہے پھر نُصِرْتَ بِالرُّعب ( تذکرہ صفحہ 566) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالی نے وعدہ فرمایا تھا کہ تمہیں رعب کے ساتھ ہم نصرت عطا کریں گے.تو وہی رِيحُكُم والی بات ہے.جو خدا کی طرف سے مومن کو اس سے زیادہ بڑا بنا کے دکھایا جاتا ہے جتنا وہ اصل میں نظر آنا چاہئے اور جو اصل میں نظر آنا چاہئے وہ اس کی حقیقت سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے.تو وہ مضمون جو فتح کا مضمون ہے.اس حساب کے بغیر فتح ممکن ہی نہیں ہماری.ہماری اصلیت کیا ہے وہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ کسی ملک میں بھی دیکھ لیں ہماری ذاتی حیثیت ان سب باتوں کے با وجود کچھ بھی نہیں.لیکن سامان اللہ کر رہا ہے.غیب سے خدا کے فرشتوں کی فوجیں اتر رہی ہیں، ہر کام میں برکت پڑ رہی ہے، ہر کام ہماری طاقت سے زیادہ ہوکر رونما ہورہا ہے.پس اس دور سے فائدہ اٹھا ئیں یہ روز روز مرہ قوموں کو عطا نہیں ہوا کرتے جب خدا کی طرف سے آتے ہیں تو غیر معمولی انقلابات کی خوشخبریاں لے کر آتے ہیں.مگر ان کو عطا ہوتی ہیں جو کہ ان ہواؤں کے رخ پر چلنا شروع کریں.پس یہ سفر اختیار کریں اور بڑے زور اور شدت کے ساتھ اختیار کریں.رمضان میں یہ ہوا ئیں تیز ہونے والی ہیں ان تیز ہواؤں کے ساتھ بلند تر آواز سے ذکر الہی بلند کرتے چلے جائیں اور ذکر الہی کے ترانے گاتے ہوئے اس سفر میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں اور یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دور میں احمدیت کے لئے بڑی عظیم الشان کامیابیاں مقدر کر رکھی ہیں.میں جب پچھلے سالوں میں، سال کے آخر پر کہا کرتا تھا کہ یہ ہو گیا یہ ہو جائے گا انشاء اللہ تو میں سوچا کرتا تھا کہ یہ تو ہو گیا اگلے سال کے لئے کیا کہوں گا.پھر اگلے سال کے لئے اللہ کچھ اور بات عطا کر دیتا تھا جس کی طرف ذہن جاہی نہیں سکتا تھا.جب چالیس ہزار کی خوشخبری ملی تھی بیعتوں کی تو

Page 102

خطبات طاہر جلد 13 96 خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1994ء میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو ایک دم آگئے باقی اگلے سال کیا ہو گا.اللہ تعالیٰ نے روز مرہ کی تبلیغ سے ذریعے ایک ملک کو پچاس ہزار عطا کر دیئے.پنجابی میں جس کو ” گپھا“ کہتے ہیں وہ پہلا گچھا آیا تھا.یعنی اکٹھا جس کا پھل درخت کو جھنجھوڑا جائے ایک دم سب پر گر پڑتا ہے.میں نے کہا یہ روز مرہ تو نہیں گچھے ملا کرتے ناں.یعنی دماغ میں ایک وہم آیا.دعا کی کہ اللہ میاں ، تو مالک ہے دے دے تو تو تیری شان ہے مگر ہمیں محنت زیادہ کرنی ہوگی.چنانچہ جماعتوں کو توجہ دلائی، دعاؤں کی طرف عمل کی طرف پھر خدا نے اگلے سال حیرت انگیز طور پر تبلیغ کی برکت کو بڑھا دیا اور اس کے بعد پھر وہ نظارہ دیکھا کہ جب مسٹر خدیجہ نذیر نے مجھے لکھا کہ آپ جب سے یہاں آئے ہیں.اس وقت سے اب تک اڑھائی لاکھ بیعتیں ہو چکی ہیں.تو میں نے اللہ سے دعا کی کہ ” جب میں تو کافی دیر ہوگئی ہے.لیکن اس سے تو ہمارا کام نہیں بنے گا مجھے اب اس سال باقی چھ مہینے باقی تھے ان باقی چھ مہینوں میں ڈیڑھ لاکھ تو دے تا کہ چار پورے ہو جائیں.اللہ تعالیٰ نے دولاکھ سے زائد دے دیئے اور جب میں وہ اعلان کر رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ اگلے سال کے لئے کیا کہوں گا.اب یہ سال آپ دیکھ لیں کہ خدا نے ایسی خوشخبریاں دی ہیں کہ میرے ذہن کی بلند ترین چھلانگ بھی نہیں پہنچ سکتی تھی.وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ ایسے فضل جاری فرما دے گا.اللہ کی تقدیر جو کھل کر ہمارے سامنے آچکی ہے.جو اپنے حسن سے دن بدن پردے اٹھا رہی ہے.ہر پردے کے پیچھے ایک زیادہ دلکش چہرہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے.یہ ایک جاری وساری مضمون ہے.آپ کے لئے خدا جلوہ گر ہوا ہے، آپ پر خدا جلوہ گر ہوا ہے.اس حسن سے مسحور ہو جائیں.اپنے آپ کو اس حسن پر خدا اور فریفتہ کر دیں.اب عاشقی کا دور ہے اب منطقوں کے دور ختم ہو چکے ہیں.اب تو عشاق ہی ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کریں گے.پس ذکر الہی بلند کرتے ہوئے.جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ جنگوں کی حالتوں میں عین اس وقت جب چاروں طرف سے بظاہر موت حملہ آور ہو رہی ہوتی تھی.آپ اللہ کے ذکر سے زندگی پایا کرتے تھے.جو ظاہری طور پر زندہ رہتے تھے وہ مزید زندگی پا جاتے تھے اور جو ظاہری طور پر مرتے تھے وہ بھی ہمیشہ کی زندگی پا جایا کرتے تھے.پس جن کے مقدر میں زندگی میں بھی زندگی ہو اور موت میں بھی زندگی ہو ان کو کیا ڈر ہے.پس دندناتے ہوئے خدا کے زندہ شیروں کی طرح

Page 103

خطبات طاہر جلد 13 97 خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1994ء آگے بڑھو.یہ دنیا تمہارے لئے مسخر کر دی گئی تسخیر کرنے والے تم نہیں ہو تسخیر کرنے والا اللہ ہے اور سب سے عظیم تسخیر محبت کی تسخیر ہوا کرتی ہے.آپ سب بھی تو محبت کے مارے ہوئے ہیں.یہاں پچھلے دنوں ایک مجلس مشاعرہ عبید اللہ علیم کے ساتھ ایک شام ہمارے ٹیلی ویژن پر پیش کی جارہی تھی.تو اس میں ہمارے بہت سے کارکن جونو جوان، بچے، بچیاں سب اکٹھے ہو کر اس کو سننے کے لئے ذرا تھوڑی دیر کے لئے متوجہ ہو گئے.ان کا ایک شعر تھا: کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھا یوں میں نے جیون ہار دیا ( یہ ہے زندگی ہماری) تو کسی کارکن نے کہا ہاں کتنی سچی بات ہے ہم جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں سارے، سارے دنیا کی لذتیں چھوڑ کر ، کام چھوڑ کر، اپنی پڑھائیاں چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں تو ہے کیا.کچھ عشق ہے کچھ مجبوری ہے.عشق ہے اللہ تعالیٰ کی ذات سے اور مجبوری یہ ہے کہ جب یہ عشق آ جائے تو وہ مجبوری بن جایا کرتا ہے.پس آپ عشق کے دور میں داخل ہیں اور وہی نمونے دکھائیں جو عشاق کے نمونے ہوا کرتے ہیں.کہ دشمن بھی اسی طرح کہے عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّهُ کہ محمد نہیں تو محمد کے غلام اپنے رب پر عاشق ہو گئے ہیں اور جب خدا کے بندے خدا پر عاشق ہو جائیں تو خدا کی قسم خدا کی محبت ہے جو کل عالم کو تسخیر کر دیا کرتی ہے.پس اس تفضیل کے لئے آگے بڑھو اور ذکر الہی کو بلند کرتے ہوئے آگے بڑھو.خدا کی محبت کے گیت گاتے ہوئے آگے بڑھو.اللہ تمہارے ساتھ ہو، اللہ ہمارے ساتھ ہو.(آمین)

Page 104

98 خطبات طاہر جلد 13

Page 105

خطبات طاہر جلد 13 99 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء رمضان مبارک اللہ تعالیٰ کے جلوہ کی خاطر قائم فرمایا گیا ہے.روزے کا مقصد ہر نیکی کو اپنے عروج تک پہنچانا ہے.(خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيْنَتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدْيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

Page 106

خطبات طاہر جلد 13 100 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پھر فرمایا :.(البقره 184 تا 187) یہ وہ آیات ہیں جن میں رمضان کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اے مومنو! تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم رمضان کے روزے اسی طرح رکھو جیسے تم سے پہلوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو آیا ما مَّعْدُودَتِ چند دن ہی کی بات ہے، چند دن کا فریضہ ہے.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا پس تم میں سے جو کوئی بھی بیمار ہو اَوْ عَلى سَفَرٍ یا سفر پر ہو فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ تو پھر اس مدت کو دوسرے ایام میں پورا کرنا ہو گا اور الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكَيْنِ وہ لوگ جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں ان پر فدیہ بھی فرض ہے یا ان کے لئے فدیہ دینا بہتر ہے.ایک تو اس کا یہ ترجمہ بنتا ہے اور بھی تراجم ہیں اور وہ سارے بیک وقت درست ہیں چنانچہ میں باری باری اس آیت کے مختلف ترجمے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس میں یہ بحث نہیں ہے کہ یہ درست ہے یا وہ درست ہے یا اسے اختیار کیا جائے یا اسے اختیار کیا جائے.میرے نزدیک یہ چونکہ مضمون کو کھول رہے ہیں اور وسعت دے رہے ہیں اس لئے بیک وقت سارے درست ہیں اور بیک وقت ان تمام معانی پر نظر رکھتے ہوئے اپنے اعمال کو ڈھالنا چاہئے.جیسے بعض دفعہ ایک تنگ جگہ سے دریا گزرتا ہے تو اسکی گہرائی تک نظر نہیں جاسکتی پھر جب وسعت اختیار کرتا ہے تو وہ پھیل جاتا ہے لیکن پانی تو وہی پانی رہتا ہے.پس خدا کا کلام اسی طرح عرفان کا کلام ہے خواہ وہ آپ کو تھوڑا دکھائی دے اس وقت وہ زیادہ گہرائی میں جا چکا ہوتا ہے بعض دفعہ وہ پھیل جاتا ہے اور کھلا کھلا وسیع دکھائی دیتا ہے.پس یہ وہ موقع ہے جہاں آیت کریمہ ایک ایسی جگہ داخل ہوگئی ہے جہاں منظر بہت کشادہ اور وسیع دکھائی دینے لگا ہے.پس اس پہلو سے اس کے ترجمے کے پھیلاؤ کے متعلق پہلے یہ اصولی بات بیان کروں اور وہ پہلے بھی کر چکا ہوں مگر چونکہ بہت سے نئے سننے والے شامل ہوتے رہتے ہیں نئی نسل کے لوگ بھی آگے آتے رہتے ہیں اس لئے بعض

Page 107

خطبات طاہر جلد 13 باتیں بار بار سمجھانی مفید ہوتی ہیں.101 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء لفظ اطاق يُطِيقُ طاقت کے مادے سے نکلا ہے اور جب اس کو باب افعال میں جس طرح کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے استعمال کیا جائے تو اس میں بیک وقت مثبت معنی بھی آجاتے ہیں اور منفی معنی بھی آجاتے ہیں اور موقع محل کے مطابق استعمال کرنے والا یا سنے والا یہ فیصلہ کرتا ہے تو يطيقُونَ کا مطلب یہ ہے وہ لوگ جو اس کی طاقت رکھتے ہیں اور يُطيقُونَ کا مطلب یہ 66 99 له ہے کہ وہ لوگ جو اس کی طاقت نہیں رکھتے.جب ان دو پہلوؤں سے الگ الگ آیت پر غور کریں تو پھر اگلا سوال یہ اٹھے گا کہ کس کی طاقت نہیں رکھتے.ہ “ کی ضمیر کس طرف جا رہی ہے تو جو باتیں اس آیت میں مذکور ہیں ان میں عقلاً وہ جگہ تلاش کرنی ہوگی جن کا تعلق ہ “ کی ضمیر سے ہے یعنی وہ لوگ جو اس کی طاقت نہیں رکھتے.جس کی طاقت نہیں رکھتے کیا چیز ہے؟ 66 چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ 66 66 ایک روزے کا ذکر گزرا ہے اور ایک فدیہ کا.پس یا ہ“ سے مرا دروزہ ہے یا ہ“ سے مراد فدیہ ہے یا بدلتی ہوئی شکلوں میں دونوں ہی باری باری مراد ہو سکتے ہیں.چنانچہ ایک معنی جو میں نے آپ کے سامنے پڑھا تھا وہ یہ تھا کہ وہ لوگ جو فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں سب پر فریضہ نہیں ہے، یہ ایک ایسا فعل ہے جو پسندیدہ ہے اور اس طرح فرض نہیں جیسا کہ روزے فرض ہیں.پس جولوگ فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر روزہ نہیں رکھ سکتے تو فدیہ دیں.دوسری ضمیر اس کی چلے گی روزے کی طرف.جولوگ روزے کی طاقت رکھتے ہیں اور کسی مجبوری کے پیش نظر روزہ نہیں رکھ رہے ان کو فدیہ دینا چاہئے.اس کا دوسرا مطلب یہ بنے گا کہ وہ لوگ جو دائمی مریض ہیں یا عمر کے اس حصے کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے تو وہ فدیہ بے شک نہ دیں لیکن جو روزے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ضرور فدیہ دیں.یعنی بیمار ہیں اور روزے کی طاقت رکھتے ہیں.یہاں (Potential) طاقت مراد ہے یعنی اپنی استطاعت کے لحاظ سے جو ان کو فطرت نے ودیعت کی ہے یا ابھی روزے رکھنے کی عمر میں ہیں اور نہیں رکھ سکتے وہ فدیہ دیں.یہ وہ معنی ہے جسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی ایک تحریر میں قبول کرتے ہوئے یعنی اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اوپر روشنی ڈالی ہے کہ کیوں فدیہ دیا جائے پھر اگر روزے کی طاقت ہے اور نہیں رکھ سکتے تو فدیہ کا کیا سوال پیدا ہوا.اس کا

Page 108

خطبات طاہر جلد 13 اس سے کیا تعلق ہے.آپ فرماتے ہیں: 102 خطبہ جمعہ فرموده 11 فروری 1994ء ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے 66 تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.“ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذہن میں اس تحریر کے وقت یا اس بیان کے وقت یہی معنی موجود دکھائی دیتے ہیں.ایک انسان ہے جو روزہ رکھ سکتا ہے لیکن وقتی طور پر اس طاقت سے محروم ہے.پس وہ لوگ فدیہ دیں اور فدیہ دے کر اللہ سے مدد مانگیں کہ اے خدا ہمیں اس کی طاقت عطا فرما دے.وو...خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالی طاقت بخش دے گا.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه : 563) دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ وہ لوگ جن کو اس کی طاقت نہیں ہے.جو اس کی طاقت نہیں رکھتے.اس معنی میں ضمیر فدیہ کی طرف نہیں جائے گی اور صرف روزے کی طرف جائے گی یعنی معانی نسبتا محدود ہوں گے اور اس سے مراد یہ ہوگی کہ یہ لوگ جو روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ تو بعد میں روزے رکھ ہی لیں گے.یعنی یہ ترجمہ اختیار کرنے والوں کا رجحان اس طرف ہے کہ اس سے یہ معنی پیدا ہو جاتے ہیں کہ فدیہ کی حکمت یہ ہے کہ وہ لوگ جو روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ تو بعد میں رکھ لیں گے مگر جن کو طاقت نہیں ہے وہ کیا کریں گے کچھ تو ان کے دل کی تسلی کا سامان ہو.پس ان کو فرمایا گیا ہے کہ تم فدیہ دے کر اس حسرت کو کسی حد تک مٹا لو کہ ہم اس نیکی سے محروم ہو گئے.مگر جو پہلے معانی

Page 109

خطبات طاہر جلد 13 103 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا وہ زیادہ وسیع ہیں اور یہ معنی بھی غلط نہیں ہے بلکہ درست ہے.ایک اور خوب صورت پہلو کو ہمارے سامنے لاکھڑا کرتا ہے.پس تو فیق کی بات ہے.یہاں روزے کی یا فدیہ کی توفیق کی بات نہیں کر رہا انسانی نیکی کی توفیق کی بات کر رہا ہوں.وہ لوگ جن کی نیکی کی توفیق وسیع ہو وہ جس حد تک کسی معنی میں نیکی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اس میں کرتے ہیں.پس اسی مضمون کو قرآن کریم پھر آگے بیان فرماتا ہے.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ہم تو نیکی کی بات کر رہے ہیں جو شوق کی نیکی کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے اور نفلی طور پر بھی نیکی اختیار کرتا ہے فَهُوَ خَيْرٌ لَّہ اس کے لئے بہتر ہے پس وہ لوگ جو طاقت نہیں رکھتے وہ تو دیں گے ہی ، جو طاقت رکھتے ہیں وہ بھی آیت کا یہ معنی سمجھتے ہوئے کہ ہم مخاطب ہیں اور ہمیں کہا گیا ہے کہ تم روزے کی طاقت رکھتے ہو اس لئے اگر چہ تم نے بعد میں روزے رکھنے ہیں مگر اس وقتی محرومی سے بچنے کے لئے خدا کی خاطر غریبوں کو کھانا کھلاؤ تاکہ تمہاری یہ دل کی تمنا آئندہ پوری ہو سکے.وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور اگر تم روزے رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے.اس آیت کے اس مضمون کا یہاں کیا موقع ہے اسے ضرور سمجھنا چاہئے.یہ تو عام بات ہے جب نیکی کی باتیں ہو رہی ہوں تو روزہ رکھنا بہر حال بہتر ہے.یہاں نفس کے بہانہ جوؤں کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.بیماری حقیقی ہو یقینی ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رخصت عطا فرمائی ہے تقویٰ اسی میں ہے کہ خدا کی دی ہوئی رخصت سے انسان فائدہ اٹھائے لیکن اگر نفس کے بہانے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میں تو بیمار ہوں اس لئے میں روزہ نہ ہی رکھوں تو بہتر ہے ایسے لوگوں کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ دیکھو روزہ رکھنا بہر حال بہتر ہے.فدیہ دے بھی دو گے تو وہ بات نہیں بنے گی.تو فدیہ کے مقابل پر روزے کا ذکر ہو رہا ہے کہ فدیہ دے کر تم یہ نہ مجھنا کہ تم نے نیکی کو پالیا ہے.روزہ ، روزہ ہی ہے جو اس کے فوائد ہیں وہ فدیہ سے حاصل نہیں ہوسکیں گے اس لئے اپنے نفس پر غور کر لو اگر حقیقی اور بچے بیمار ہوتو نیکی اس میں ہے کہ روزے نہ رکھو اور صرف فدیہ دو اور اگر کے بہانے ہیں تو پھر کوشش کر کے دیکھو اگر تمہیں خدا تعالیٰ توفیق عطا فرما دے تو روزہ رکھنا بہر حال بہتر ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ رمضان کا

Page 110

خطبات طاہر جلد 13 104 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جیسا کہ پہلے بھی بارہا اس مضمون کو سمجھایا گیا ہے مفسرین اس آیت پر جب غور کرتے ہیں تو ان کے سامنے یہ الجھن ہوتی ہے کہ رمضان مبارک میں تو سارا قرآن نہیں اتارا گیا پھر یہ کیوں فرمایا گیا کہ وہ مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا.اس کی توجیہات مختلف پیش کی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ رمضان مبارک میں اس کا آغاز ہوا تھا اور پہلی وحی جو غار حرا میں نازل ہوئی ہے وہ رمضان ہی کے کسی دن میں ہوئی ہے.تو اس لئے یہ ایک خیال ہے کہ چونکہ شروع اس وقت ہوا تھا اس لئے شروع میں اتارنے کا ذکر ہے.بعض دوسرے مفسرین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چہ وحی مسلسل سارا سال نازل ہوتی رہتی تھی مگر رمضان میں قرآن کریم کو دہرایا جاتا تھا اور کوئی انسان تو نہیں آ کر حضور اکرم ﷺ قرآن کو دہراتا تھا.جبرائیل کے ذریعے خدا تعالیٰ کی تجلی ظاہر ہوتی تھی اور وہ قرآن جو آپ پر اتارا جا چکا تھا اس کی دہرائی کر وا تا تھا کوئی تحریری شکل نہیں تھی جسے سامنے رکھ کر پڑھ کر آپ یاد کر لیں.آج کل کے زمانے میں بھی جو اچھا حافظہ رکھنے والے ہیں ان کو بھی بار بار قرآن کریم کے تکرار کی ضرورت پیش آتی ہے اور اگر یہ نہ میسر ہو اور ان کو پڑھنا بھی نہ آتا ہو تو وہ پھر بعض دوسروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں مثلاً اندھے قاری ہیں ان کے سامنے کوئی بچہ آ کے بیٹھ جاتا ہے جس کو پڑھنا آتا ہے یا کوئی بڑا وہ قرآن کریم کی دہرائی کرواتے رہتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی دہرائی کروانے والا تو جبرائیل کے سوا اور کوئی نہیں تھا اس لئے ہر رمضان مبارک میں جبرائیل حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی قرآن کریم کی دہرائی کرواتے تھے اور مفسرین کا خیال ہے کہ یہ اسی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہر دفعہ قرآن نازل ہوتا تھا.جب وحی کا فرشتہ دوبارہ قرآن لے کر اترتا ہے اس وقت تک جتنا قرآن نازل ہو چکا تھا اس کی دہرائی کی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ پورا دور مکمل ہوا.تو یہ معنی ہیں کہ یہ ایک ایسا مبارک مہینہ ہے کہ اس میں سارا قرآن دہرایا جاتا ہے.آغاز بھی اسی مہینے سے ہوا اور پھر ہر مہینے وہ ساری وجی جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہو چکی تھی وہ اس مبارک مہینے میں دہرائی جاتی تھی.صلى الله اس میں اور بھی فوائد ہیں.یہی آیت آگے ان فوائد کا ذکر کرتی ہے اس مہینے کی برکت ایک تو یہ ہے.دوسرے یہ کہ هُدًى لِّلنَّاسِ تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ ہدایت ہے.تمام بنی نوع انسان کے لئے کیسے ہدایت ہو گیا ؟ بات تو مومنوں سے شروع ہوئی تھی.کہا تو مومنوں کو جارہا

Page 111

خطبات طاہر جلد 13 105 خطبہ جمعہ فرموده 11 فروری 1994 ء ہے کہ تم روزے رکھو.تو رمضان کا بنی نوع انسان کی ہدایت سے کیا تعلق ہے.اس مضمون کو قرآن کریم کی انہی آیات میں پہلے بیان فرما چکا ہے.كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُم یہ روزوں کا مضمون پہلی دفعہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا.خدا تعالیٰ کا قانون ہے اور ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ تمام وہ قو میں جن کو آسمانی ہدایت عطا ہوئی ہے ان کو روزہ رکھنے کا کسی نہ کسی رنگ میں حکم دیا گیا تھا اور رمضان میں تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے.اس سے مجھ پر یہ مضمون کھلتا ہے کہ روزے کا جب بھی آغاز ہوا تھا وہ رمضان ہی میں ہوا تھا اور چونکہ بنی نوع انسان آغاز میں ایک ہی تھے.جیسا کہ حج کی آیت میں بھی لِلنَّاسِ کا ذکر آیا ہے یعنی مکے کا بیت اللہ ، اس کی برکتوں کا ذکر کرتے ہوئے هُدًى لِلنَّاسِ کا ذکر ہی آتا ہے.تو معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں چونکہ وہی ایک کعبہ تھا جو تمام بنی نوع انسان کے لئے تھا اس وقت ایک نبی کے نیچے سب بنی نوع انسان مجتمع تھے.پس اس بات نے اس وقت دہرایا جانا تھا اس وقت جبکہ دین کامل ہوجاتا اور ایک دفعہ پھر تمام بکھرے ہوئے بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا تھا یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر اور ایک کعبہ کی طرف مائل کرنا تھا یہ وہی کعبہ ہے جس سے خدا کی توحید کی طرف بنی نوع انسان کو بلانے کا آغاز ہوا.تو یہی روزے والا مضمون نظر آتا ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو روزے کی تعلیم دی اور بیچ میں پھر دنیا بکھر گئی مختلف اوقات مقرر ہو گئے، مختلف شکلیں ظاہر ہوئیں لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر ایک دفعہ پھر بکھری ہوئی انسانیت کو مجتمع کرنا تھا اور تمام قوموں کو امت واحدہ بنانا تھا تمام مذاہب کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنا تھا.پس رمضان ہی کو چنا گیا تا کہ اسے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے استعمال کیا جائے.اس مضمون کے بعد اللہ تعالیٰ ہے.وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ بنی نوع انسان کی جو عام ہدایت ہے اس کا تعلق تو ایک عام مضمون سے ہے اور آغاز سے بھی ہے لیکن قرآن میں ایک اور بات بھی پیدا ہوئی ہے وہ عام ہدایت کی تکمیل کرتا ہے.پس رمضان میں بھی ایک اور بات پیدا ہو چکی ہے جس شان کے ساتھ رمضان کی عبادت اور رمضان کے حق ادا کرنے کی تعلیم حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے دی اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس کو یہ تعلیم دی گئی

Page 112

خطبات طاہر جلد 13 106 خطبہ جمعہ فرموده 11 فروری 1994ء ہو تو اگر صرف هُدًى لِّلنَّاسِ کہہ کر بات چھوڑ دی جاتی تو پھر اس رمضان میں اور گزشتہ رمضانوں میں یا دوسرے مہینوں میں جن میں روزے اترے یا روزے فرض کئے گئے کوئی خاص فرق نہ رہتا.ایک جیسی ہی ہدایت سب کے لئے مگر قرآن کریم یہ امتیاز دکھانا چاہتا ہے کہ یہ رمضان اور ہے اور وہ رمضان اور تھے جو اس سے پہلے گزرے ہیں اب وہ کتاب نازل ہوئی ہے وہ قرآن نازل ہوا ہے وَ بَيْتِ مِنَ الْهُدی جو صرف ہدایت ہی پیش نہیں کر رہا.ہدایت میں جو سب سے زیادہ روشن نشانات ہیں، ہدایت کی سب سے اعلیٰ اور ارفع شکلیں اور سب سے زیادہ چمکتی ہوئی صورتیں وہ دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے اور یہ رمضان جو مسلمانوں پر فرض کیا جا رہا ہے یہ ہدایت کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کی بہترین صورتوں تک پہنچاتا ہے.وَالْفُرْقَان اور پھر فرقان عطا کرتا ہے.فرقان سے مراد ہے، ایسی روشن دلیل جو فرق کر کے دکھا دے، جو اپنے اندر خود تمیز کرنے کی طاقت رکھتی ہو پھر ایسی دلیل جو غالب آنے والی ہو.پس فرمایا کہ قرآن کریم کی جو تعلیم دی جارہی ہے اور قرآن کریم نے جو رمضان تمہارے سامنے رکھا ہے اس کے ذریعے تمہیں عام ہدایت بھی ملے گی جو تمام بنی نوع انسان میں مشترک ہے، وہ ہدایت بھی ملے گی جو اس سے زیادہ درجہ کی ہدایت ہے اور جسے بنتِ مِنَ الْهُدَی کہا جا سکتا ہے اور پھر تمہیں فرقان نصیب ہوگی اور یہ ساری برکتیں رمضان کے ایک مہینے میں اکٹھی کر دی گئی ہیں.پھر فرماتا ہے.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ اس سے پہلے بھی حکم دیا جا چکا ہے کہ روزے رکھو، فرض ہو چکے ہیں.اب اس مضمون کو کھول کر بیان کرنے کے بعد پھر دعوت دی جارہی ہے اب تم سمجھ گئے ہونا کہ یہ کیا چیز ہے.تم پر خوب کھول دیا گیا ہے کہ اس مہینے کی عظمت کیا ہے؟ اب پھر ہم تمہیں بلاتے ہیں.جس کو بھی یہ توفیق نصیب ہو کہ وہ اس مہینے کو پالے.فلیصمہ تو اس مہینے کے ضرور روزے رکھے.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ آخر ہاں جو مریض ہو حقیقتہ بیمار ہو یا سفر پر ہو ان کے لئے حکم یہی ہے کہ وہ بعد کے دوسرے ایام میں یہ روزے پورے کریں.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ نیکی کا فلسفہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تمہیں تکلیف میں ڈالتا ہے اور اس سے خوش ہوتا ہے.نیکی کا مضمون بہت وسیع ہے نیکی کے

Page 113

خطبات طاہر جلد 13 107 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء دوران تکلیف بھی آتی ہے لیکن تکلیف مقصد نہیں ہوا کرتی.پس ہر وہ تکلیف جو انسان اپنی طرف سے نیکی سمجھ کر برداشت کرے لازم نہیں کہ نیکی ہو.نیکی کی تکلیف میں ایک مقصد داخل ہوتا ہے.ہر وہ تکلیف جو اعلیٰ مقصد کی راہ میں آتی ہے وہ نیکی ہے اس کے سوا کوئی تکلیف نیکی نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ رمضان میں تم تکلیفیں اٹھاؤ گے اور خدا کو راضی کر لو گے چنانچہ ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ رمضان کی جو شدت ہے وہی نیکی ہے وہ بعض دفعہ اتنی سختی کرتے ہیں روزے کے دنوں میں خصوصیت سے صوبہ سرحد میں اور دیگر پٹھان علاقوں میں یہاں تک حد سے تجاوز کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی اگر روزہ رکھ کر گرمیوں کے دنوں میں بے ہوش ہو کر زمین پر جاپڑے تو اس کے منہ میں پانی کا قطرہ نہیں ڈالنے دیتے.جب تک پہلے تھوڑی سی مٹی یا ریت ڈال کے نہ دیکھیں کہ منہ میں کوئی لعاب کا نشان باقی ہے کہ نہیں.اگر وہ مٹی سوکھی نکل آئے پھر کہتے ہیں حق ہے اس کا روزہ تڑوا دو اور اگر کہیں تھوک لگا ہوا دکھائی دے دے تو کہیں گے نہیں ابھی نہیں ابھی مرنے میں کچھ وقت باقی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں کس نے بتایا ہے کہ ہم تمہیں تکلیف دے کے خوش ہوتے ہیں.نیکی کا مضمون بہت گہرا اور بہت وسیع اور بہت اعلیٰ ہے.نیکی اگر مقصد ہوتو اس راہ میں جو تکلیف آئے وہ خوشی سے برداشت کرنا اس نیکی کو چار چاند لگا دیتا ہے لیکن وہ تکلیف ہرگز مقصود نہیں ہوتی.پس فرمایا ہم تمہیں مصیبتوں میں نہیں ڈالنا چاہتے.ہم دیکھتے ہیں کہ جس کی جو تو فیق ہو اس کے مطابق اس پر بوجھ ڈالتے ہیں اگر تم کو توفیق نہیں بعد میں رکھ لینا اور پھر بعد میں اپنی مرضی پر چھوڑ دیا جب چاہو رکھ لو جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکلیف مراد نہیں تھی ورنہ رمضان کے گرمی کے روزوں کے متعلق قرآن کریم حکم دیتا کہ تم نے گرمی کی شدت میں روزے نہیں رکھے تھے اب دوبارہ گرمی کے مہینے میں انہی دنوں میں رکھنا یا کہیں سردی کے دنوں میں بعض علاقوں میں سردی کی وقت ہوتی ہوگی ان کے لئے بعض سردی کے روزے مشکل میں پڑ جاتے ہوں گے.ان کی راتیں بہت لمبی ہو جاتی ہیں اور لمبے عرصہ تک راتوں کو عبادت کرنا شاید بعضوں کے لئے دو بھر ہو.بہر حال مختلف موسموں کی مختلف اپنی بعض خصوصیات ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے گرمیوں میں چونکہ دن یہاں لمبے ہو جاتے ہیں سردی کے باوجود وہ کہتے ہیں ہم سے اتنی بھوک برداشت نہیں ہوتی اس سے تو بہتر تھا کہ ہم پاکستان چلے جاتے.چنانچہ ایک ہمارے مہمان آئے ہوئے تھے وہ گرمیوں میں روزے کے

Page 114

خطبات طاہر جلد 13 108 خطبه جمعه فرموده 11 / فروری 1994ء دنوں میں بیٹھے پاکستان کو یاد کر رہے تھے کہ وہاں چھوٹے تو تھے نا کم سے کم.پیاس تو کوئی بات نہیں مجھ سے بھوک نہیں برداشت ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی ہے جو برداشت ہوتا ہے یہ اس کے مطابق کر لو.” اَيَّامٍ أُخَرَ “ ہیں.بعد کے ایام چن لو.دوسرے ہوں.ہم تمہیں تکلیف دینے کی خاطر نیکی نہیں کردار ہے.روزے میں بعض نیکی کی ایسی باتیں مضمر ہیں جنہیں اختیار کرو گے تو وہ نیکی بنے گی ورنہ محض بھوک سے یا پیاس کی تکلیف سے نیکی نہیں پیدا ہوگی.پھر فرماتا ہے وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ بس اتنی سی بات ہے کہ عدت ضرور پوری کرنا.اگر تیں روزے فرض ہیں تو تمیں ہی رکھتے ہیں جتنے جھٹے ہیں وہ پورے کرنے ہوں گے وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور خوب اللہ تعالیٰ کی تکبیر بلند کرو اس کی عظمت اس کی بڑائی کے گیت گاؤ کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرما دی ہے تا کہ اس کے نتیجے میں لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تا کہ تم شکر گزار بندے بنو، شکر کرنے والے بنو.دو باتیں ہیں عَلَى مَا هَديكُمْ ایک اس وجہ سے تکبیریں بلند کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی اور ایک اس لئے کہ جب تم تکبیر بلند کرو گے خدا کی بڑائی کے گیت گا ؤ گے تو پھر تمہیں شکر نصیب ہوگا.اللہ کا شکر اس طرح کیا کرتے ہیں.اب آخری بات جو دراصل روزے کا قبلہ اور کعبہ ہے ہر روزے کی انگلی اس بات کی طرف اٹھتی ہے بلکہ ہر نیکی ہر عبادت کی انگلی اسی طرف اٹھ رہی ہے.یہ وہ بیان فرمائی گئی ہے جو اس آیت کا معراج ہے یا اس مضمون کا معراج ہے.فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّي فَانِي قَرِيب " جب بھی لوگ تجھ سے پوچھیں کہ میں کہاں ہوں میرے متعلق سوال کریں.فَانِي قَرِيبٌ میں تو قریب ہوں یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تو ان سے کہہ دے کہ میں قریب ہوں.ایک ایسے حاضر ناظر کا کلام ہے جو موجود ہے اور سننے والے سے پہلے اس کو جان لیتا ہے کہ سوال کیا پیدا ہوا ہے.یہ

Page 115

خطبات طاہر جلد 13 109 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قلب مطہر تک پہنچتے پہنچتے جہاں باتوں کا آخری عرفان حاصل ہوتا ہے کچھ وقت لیتا ہے آواز کی لہریں بھی ایک صوت کو دوسری جگہ تک منتقل کرنے کے لئے کچھ وقت لیتی ہیں مگر اللہ تو ہر جگہ حاضر ناظر موجود ہے وہ جب خیال دل میں پیدا ہوتا ہے سوال اٹھ رہا ہوتا ہے اس وقت بھی جانتا ہے کہ کیا ہے تو فوراجواب دے دیتا ہے اِنِّی قَرِيبٌ میں تو قریب ہوں.اس سے ایک بات تو یہ چھنی چاہئے کہ یہاں اس سوال سے اعلیٰ اور اول مفہوم خدا کی تلاش کرنے والوں کا سوال ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ لوگ جو مجھ سے مرادیں مانگتے ہیں ان کو کہہ دو کہ میں قریب ہوں.یہ بھی معنی ہیں لیکن بعد میں آئیں گے، اول معنی یہ ہے کہ تجھ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اے محمد ! تیرا رب ہے کہاں؟ کیا ہم بھی اس تک پہنچ سکتے ہیں؟ تو میں یہ جواب دیتا ہوں کہ میں قریب ہوں لیکن اس قرب کو محسوس کرنے کے لئے اس قلبی رؤیت کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے وہ صلاحیتیں پیدا ہونی ضروری ہیں، آگے جا کر اس مضمون پہ بھی اللہ تعالیٰ روشنی ڈالے گا تو پہلی بات تو یہ سمجھ لیں.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب کہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہر طلب گار کے قریب موجود ہے اسے لمبے سفر کے بعد تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے.دل کے معاملات ہیں اگر دل اخلاص کے ساتھ یہ فیصلہ کر لے کہ میں اپنے رب تک پہنچنا چاہتا ہوں تو وہ ہر جگہ ہے.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اس میں دوسرا مضمون پھر آ گیا کہ میں دعوت دینے والے کی دعوت کا جواب دیتا ہوں.اس میں پہلا معنی یہ ہے کہ قریب تو ہوں پر تم پوچھو گے تو میں جواب دوں گانا.تمہارے دل میں خواہش ہی کوئی نہیں تو میں یونہی اپنے حسن سے پردے اٹھاتا پھروں.کوئی طلب گار آنکھ ہو تو اس کو جلوہ دکھاؤں.تو رمضان مبارک اللہ تعالیٰ کے جلوہ کی خاطر قائم فرمایا گیا ہے اور یہ آخری نتیجہ ہے رمضان کا اور رمضان کی نیکیوں کا.تو فرمایا تم پہلے اپنے دل میں اپنے رب کو حاصل کرنے کی طلب پیدا کرو یہ طلب ہوگی تو میں تمہارے قریب ہوں اور تم مجھے قریب پاؤ گے.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اور میں خاموش قریب نہیں ہوں بلکہ تمہاری دعوت کا جواب بھی دوں گا.تم پکارو گے تو میں جواب میں بولوں گا اور تم سے کلام کروں گا.فَلْيَسْتَجِوانِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ مگر ایک شرط ہے کہ تم بھی تو میری باتیں مانا کرو.اگر چہ یہ بات سب سے آخر پر رکھی ہے لیکن اصل میں اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ

Page 116

خطبات طاہر جلد 13 110 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء اور سوال کے درمیان میں کھڑی ہے.مراد یہ ہے کہ میں قریب ہوں تمہاری بات کا جواب دیتا ہوں اور دوں گا فَلْيَسْتَجِيبُوالی اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی لازما میری باتوں کا جواب دیا کرو.یہ نہ سمجھ لینا کہ جب ضرورت تمہیں پڑے مجھے آوازیں دو اور میں حاضر ہو جاؤں.یہ تو آقا اور غلام کا تعلق بن گیا یعنی آواز دینے والا آقا ہو گیا اور ہاں جی حاضر سائیں کہنے والا غلام بن گیا.اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ میں جب کہتا ہوں کہ ہاں میں حاضر ہوں اور جواب دیتا ہوں تو ایک نوکر کی طرح نہیں، ایک مالک کی طرح حاضر ہوں، ایک محبوب کی طرح حاضر ہوں تم میں خادمانہ ادائیں ہوں گی تو میں مالک بن کر تم پر روشن ہوں گا تم میں عاشقانہ جذبے ہوں گے تو محبوب کی طرح میں تم پر ظاہر ہوں گا اور تمہیں جلوے دکھاؤں گا.یہ مضمون ہے فَلْيَسْتَجِیوانی کا.وہ لوگ جو خدا کی باتیں مانتے ہیں خدا ان کی اسی طرح مانتا ہے جس طرح وہ خادم جو آقا کی ہر بات پر لبیک کہتا ہے جب اس کو ضرورت پڑتی ہے تو کون آقا ہے جو دل کی وسعتیں رکھتا ہو اور پھر اس سے انکار کر دے.بعض بد کر دار تنگ دل لوگ ایسے بھی ہیں جو ساری عمر خدمتیں لیتے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے تو منہ پھیر لیتے ہیں.وہ اللہ توان میں سے نہیں نعوذ باللہ من ذالک اللہ فرماتا ہے تم مجھ سے عبدیت کا عبودیت کا تعلق رکھو میرے سامنے جھکو، میری باتیں مانا کرو، پھر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی تم سے دور نہیں رہوں گا جب تمہیں ضرورت پیش آئے گی میں تمہارے ساتھ ہوں گا جب تم مجھے پکارو گے میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا.پھر فرمایا وَلْيُؤْمِنُوا بِی اور مجھ پر ایمان لے آؤ.اب ایمان ہی سے تو بات شروع ہوئی تھی يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قبْلِكُم اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تو یہ ساری بات ختم کر کے پھر ایمان کہاں سے لانا ہے.یہاں ایمان کے معراج کی بات ہو رہی ہے جیسے روزہ عبادت کے معراج پر خدا کو دکھاتا ہے اب یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ ایمان تو یہ ہو گا جب خدا تم سے بولے گا جب تم اس کے کامل بندے بن چکے ہو گے.جب اسے اپنے قریب دیکھا کرو گے، جب وہ تمہاری باتوں کا جواب دے گا حقیقی ایمان تو وہ ہے ورنہ تمہیں کیا پتا کہ تم ایمان لائے بھی ہو کہ نہیں.دور سے دیکھ رہے ہو ایک بات کا تمہیں خیال ہے کہ تم ایمان لاتے ہومگر جب

Page 117

خطبات طاہر جلد 13 111 خطبه جمعه فرموده 11 فروری 1994ء مشکلات کے وقت آتے ہیں جب مصائب کے زلزلے آتے ہیں تو تمہارے ایمان کی بنیادوں پر زلزلہ طاری ہو جاتا ہے اور بسا اوقات تمہارے ایمان بنیادوں سے اکھیڑے جاتے ہیں.تو ایمان تو وہ ہے جو ہر قسم کے مصائب کے ابتلاء میں پڑنے کے بعد پھر بھی ثابت قدم رہے اور اسی طرح وہ آسمان سے باتیں کر رہا ہو جیسے ایک مضبوط تناور درخت جس کی جڑیں زمین میں قائم ہوں وہ ابتلاؤں اور زلازل کے وقت بھی اسی طرح ثابت قدم رہتا ہے اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی رہتی ہیں پھر فرمایا وَلْيُؤْمِنُوا لی اب ہم تمہیں سمجھا رہے ہیں کہ ایمان اس کو کہتے ہیں، عبادت کے حق ادا کرو، خدا کے حضور جھکو اس کی ہر بات پر لبیک کہو اور اس کے نتیجے میں پھر کسی دور کی جنت کا انتظارنہ کرو بلکہ خدا کی جنت اپنی رضالے کر تمہارے پاس کھڑی ہوگی.تمہاری ہر تمنا کو دیکھے گی اور ہر خواہش کا جواب دے گی.پس یہ وہ مضمون ہے جو رمضان مبارک سے تعلق رکھتا ہے پس مجھ پر وہ ایمان لے آئیں.اس کے بعد فرمایا لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا که عقل کامل حاصل کر سکیں.رشد ہدایت کو بھی کہتے ہیں اور عقل کو بھی کہتے ہیں اور حقیقت میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.تو امر واقعہ یہ ہے کہ اہل اللہ ہی ہیں جن کو عقل کامل نصیب ہوتی ہے اس کے بغیر یونہی دنیا کے ڈھکوسلے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اہل عقل ہیں لیکن جن کے فیصلے خدا کے حوالے سے نہ ہوں ان کے فیصلے کبھی درست نہیں ہو سکتے.صرف اسی وقت درست ہوں گے جب خدا کا حوالہ اس طرف کھڑا ہو جس طرف ان کا اپنا مفاد کھڑا ہے جب دونوں کی سمت ایک ہو جائے گی تو وہ ضرور درست فیصلہ کریں گے لیکن جہاں یہ سمت بدلے گی خدا ایک طرف ہوگا اور ان کا مفاد دوسری طرف وہاں وہ بے وقوف لوگ ہمیشہ اپنے مفاد کے حق میں فیصلے کریں گے اور خدا کے حق میں نہیں کریں گے تو ان کی عقل عارضی ہے اور وقتی حالات سے تعلق رکھتی ہے جب وہ حالات بدلتے ہیں تو عقل ماری جاتی ہے.پس آج دنیا کی بڑی بڑی قو میں جو اپنے سیاسی یا دیگر ملکی فیصلہ جات میں غلطیاں کرتی ہیں اس کی بنیادی وجہ آپ یہی دیکھیں گے کہ وہ خدا سے عاری فیصلے کرتے ہیں اگر اتفاقا وہ بات ہدایت کی ہو جائے تو ہو جائے گی ورنہ جب بھی ان کا مفاد عقل گل کے مفاد سے ٹکرائے گا وہ اپنے مفاد میں فیصلے کریں گے اور عقل کل کو ترک کر دیں گے.رمضان مبارک میں ہم نے یہ سب کچھ حاصل کرنا ہے ایک مہینے کا سفر ہے اَيَّامًا

Page 118

خطبات طاہر جلد 13 112 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء مَّعْدُودَتِ یہاں اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اتنی بڑی مصیبت نہیں ہے کہ تم کہو کہ او ہو بڑی مشکل میں پڑ گئے.ایک سال کا بارہواں حصہ ہی ہے نا.وقت گزار لو وہاں دوسری طرف ایک اور پیغام بھی ہے کہ یہ دن بار بار سال میں نہیں آئیں گے ایک سال میں یہ چند دن ہیں، آئیں گے اور گذر جائیں گے، یہ بہار کے ایام ہیں ان سے فائدہ اٹھا لو.اگر نہ اٹھا سکے تو پھر سال بھر حسرت رہے گی اور تم حسرت سے دیکھو گے کہ کاش یہ چند دن ہم نیکیاں کر کے خدا کو راضی کر لیتے اور اس مہینے کی برکات سے مستفیض ہو سکتے.پس آیا ما مَّعْدُود ہیں جو تکلیف محسوس کرتے ہیں ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ چند دن ہی تو ہیں گزر جائیں گے.انشاء اللہ اللہ تعالیٰ سہارا دے گا اور توفیق بخشے گا پھر جس کو تم مشکل سمجھ رہے ہو آسان دکھائی دینے لگیں گے اور وہ لوگ جو حقیقت میں نیکی کا عرفان رکھتے ہیں اور اپنی کمزوریوں پر نگاہ ہے ان کو علم ہے کہ بخشش طلب کرنے والی بہت باتیں پڑی ہیں.انسان اتنے گناہ کر چکا ہے، اتنا اپنے آپ کو داغ دار کر چکا ہے کہ ایک رمضان کی بات نہیں، بیسیوں رمضان آئیں اور اسے دھوتے جائیں اور پتھروں پر پھٹتے جائیں تب بھی بعض ایسے داغ ہیں جو شاید مٹنے میں نہ آئیں اور یہ رمضان تو پھر چند دن میں گزر جائے گا اس لئے کمر ہمت کسو اور پورے ارادے کے ساتھ اور قوت کے ساتھ اور عزم صمیم کے ساتھ اس بات پر مستعد ہو جاؤ کہ اس مہینے میں جتنی نیکیاں ہم کما سکتے ہیں ضرور کمائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو جہاں تک بندے کی توفیق ہے اسے خوش کر کے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں، یہ نسائی کتاب الصوم سے حدیث لی گئی ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰن بن عوف عَن رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ ذَكَرَ رَمَضَانَ وَفَضْلَهُ عَلَى الشُّهُورِ وَقَالَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.( نسائی کتاب الصوم حدیث نمبر : 2162) عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ سے روایت ہے کہ آپ نے رمضان کا ذکر فرمایا اور دوسرے تمام مہینوں پر فضیلت دی اور فرمایا جس نے رمضان کو قائم

Page 119

خطبات طاہر جلد 13 113 خطبہ جمعہ فرموده 11 فروری 1994ء كيا إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا پورے ایمان کے ساتھ اور محاسبہ کرتے ہوئے.وَقَالَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.اس کے گناہ اس سے اس طرح زائل ہو جائیں گے جیسے اس دن گناہ اس کے ساتھ نہیں تھے جب اس کی ماں نے اسے پیدا کیا تھا.اب یہ بہت ہی عظیم خوشخبری ہے اس کا بھی آیا ما مَعْدُودَتِ سے تعلق ہے.اَيَّامًا مَّعْدُودَتِ سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ایک عارف کو یہ خوف بھی تو ہوتا ہے کہ چند دن گزر جائیں گے، میں پتا نہیں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں کہ نہیں.آنحضرت ﷺ نے گر سکھا دیا ہے کہ اس طرح اس رمضان سے پیش آؤ کہ تم اس کی برکتوں سے پورا فائدہ اٹھا سکو.وہ یہ ہے کہ رمضان کو ایمان کے ساتھ قائم کرو اور احتساب کے ساتھ قائم کرو.ایمان کا تعلق یہ ہے کہ ایمان کے جتنے تقاضے ہیں وہ اس رمضان میں تمہیں دکھائی دیں گے اور ایمان کے سارے تقاضے پورے کرو.ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ دنیا سے بے پرواہ ، دنیا کی نظر سے غافل ، انسان محض اللہ کی رضا کی خاطر کوئی کام کرتا ہے اور اس کی خاطر پھر اعمال اختیار کرتا ہے.پس آدھی رات کو اٹھنا جبکہ کسی کو خبر نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے اس وقت محض اللہ کی یاد کی خاطر اٹھنا اس کا گہرا ایمان سے تعلق ہے.پس مراد ہے اپنی راتوں کو بھی جگاؤ، پھر خدا کے نام پر بار بار اس مہینے میں نیکی کرنا اور دین کے تمام فرائض کو پورا کرنا ، ایمان کی تفاصیل میں تمام عبادات داخل ہیں.ایمان باللہ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اللہ کو کہہ دیا کہ اللہ ایک ہے یا اللہ موجود ہے.ایمان باللہ کے اندر تمام اہل عرفان، اہل علم جانتے ہیں کہ تمام نیکی کے مضامین جو ایمان لانے کے بعد انسان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ان سب کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے پھر ایما نا“ کہہ کر ایک بہت وسیع مضمون کو ایک لفظ میں بیان فرما دیا اس کے بعد کسی اور لفظ کی بظاہر ضرورت نہیں رہتی ، مگر آنحضرت ﷺ نے ایک اور لفظ استعمال فرمایا ہے اور وہ ہے ”احْتِسَابًا “ کہ ہرلمحہ اپنا حساب کرتے رہنا یہ نہ سمجھنا کہ تم نیکیاں کر رہے ہوا گر تم نے نیکی پر نظر نہ رکھی ، اپنی نیتوں کو ٹولتے نہ رہے تو جن کو تم ایمان کے مطابق رمضان قائم کرنا کہتے ہو بسا اوقات وہ ایمان کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ بعض اور تقاضوں کے نتیجے میں ہوگا.رمضان کے مہینے میں کئی ایک قسم کے رواج چلتے ہیں اور انسان بظاہر یہ سوچتے ہوئے کہ یہ چیزیں منع تو نہیں، جائز ہیں ان میں شدت اختیار کرتا ہے لیکن احتساب کے خلاف ہے.مثلاً افطاریاں چلتی رہتی

Page 120

خطبات طاہر جلد 13 114 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء ہیں، لمبی لمبی امیروں کی امیروں کے ساتھ مجالس، بعض عرب ملکوں میں ، بلکہ شاید عرب ملکوں میں تو یہ رواج ہے کہ ساری ساری رات کھاتے پیتے اور بعض علاقوں میں تو ناچتے گاتے بھی ہیں اور ساری رات مجلسیں لگاتے ہیں اپنے گھروں سے کچھ کھانا اکٹھا کر کے لے آتے ہیں اور وہ كُلُوا جَمِيعًا (النور: 62) ہوتا ہے اس طرح وہ صبح کا انتظار کرتے ہیں اور پھر جب روزے کا وقت آئے تو شاید سحری کھانے کا تو کوئی وقت ہی نہیں ، توفیق ہی نہیں ملتی ہوگی.تو اس وقت کھانا پینا بند کیا اور روزہ شروع ہو گیا.ایمان کا تقاضا یہ تو نہیں ہے.ایمان کا تقاضا تو وہ ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ نے پورا فرمایا کرتے تھے.روایات میں آتا ہے کہ عام دنوں میں بھی آپ اپنی راتوں کو جگاتے تھے مگر رمضان میں جس شدت سے جگاتے تھے اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.عام دنوں میں بھی آپ دن کو نیکیاں کرتے تھے.عام دنوں میں بھی آپ تغریب پروری فرماتے تھے.مگر رمضان کے مہینے میں تو اس کی شکل ایسے ہو جاتی تھی جیسے عام بارش موسلا دھار بارش میں تبدیل ہو جائے.اس طرح نیکی ہر طرف سے برسنے لگتی تھی.پس اس کو کہتے ہیں، ایمان کا حق ادا کرنا اور اس سلسلے میں احتساب لازم ہے.انسان بظاہر سمجھتا ہے کہ رات کو مجلس لگانے میں کیا حرج ہے؟ کب منع ہے.روزے کا وقت شروع ہوگا تو پابندی شروع ہو گی مگر اس مزاج سے مختلف بات ہے، روزے کے مزاج کے خلاف ہے کہ راتوں کو لغو مشاغل میں صرف کیا جائے.بعض لوگ تو اس حد تک اس معاملے میں بے چارے لاعلم اور جاہل ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے پیجیئم کے مبلغ صاحب کا فون آیا کہ میں تو بڑی مشکل میں پڑ گیا ہوں ، کیا جواب دوں.ہنس رہے تھے، مراد یہ تھی کہ آپ بھی سن لیں کیا قصہ ہوا.کہتے ہیں چار پاکستانی لڑکے جو کیم میں رہتے ہیں انہوں نے مجھے تہجد کے وقت فون کیا اور کہا کہ ایک ہمارا آپس میں اختلاف ہو گیا ہے آپ بتائے حقیقی مسئلہ کیا ہے تو میں نے کہا فرمائیے کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا ہم شراب کے عادی ہیں تو چونکہ سارا دن شراب نہیں پینی ہوتی ہم نے فیصلہ کیا ہے ساری رات شراب پئیں گے، وہ تو خیر ٹھیک ہے اس میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں.مسئلہ یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ روزے سے تھوڑا سا پہلے شراب چھوڑ دینی چاہئے کیونکہ شراب سے روزہ نہیں ہوسکتا اور میرے ساتھی بعض کہتے ہیں کہ نہیں اگر ہم نے شراب چھوڑ دی تو اٹھ پہرہ روزہ بن جائے گا اور

Page 121

خطبات طاہر جلد 13 115 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء اٹھ پہرہ روزہ حرام ہے یہ نہیں ہو سکتا.اب دیکھیں جہالت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے.روزے کا ایک مزاج ہے اس کا مقصد خدا کو پانا ہے،اس کا مقصد ہر نیکی کو اپنے عروج تک پہنچانا ہے.پس ہر وہ بات جو اس شان کے خلاف ہو وہ انسان کو نیکی سے پرے پھینک دے گی.تقویٰ اختیار کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا مقصد تقویٰ بتایا ہے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.دوسری روایت بخاری کتاب الایمان سے لی گئی ہے اس میں حضرت ابو ہریرہ عرض کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنبِه ( بخاری کتاب الایمان ) جس نے بھی رمضان کو ایمان کے ساتھ اور احتساب کے ساتھ یعنی اپنے نفس کا مسلسل جائزہ لیتے ہوئے گزارا اور اس کا حق ادا کیا تو اس کا پھل یہ ملے گا کہ اس کے تمام گزشتہ گناہ بخشے جائیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں: در محضرت ماه رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کر کے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے.‘ ( تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ: 20 تا21) یہ ایک ایسا مضمون ہے جسے عموما بھلا دیا جاتا ہے اکثر جو بے چارے نیکی کے آغاز میں بعض نیکیاں اختیار کرتے ہیں وہ پرانی باتوں کے کچھ سہارے ساتھ لے کر چلتے ہیں.مثلاً ایک شخص کو خدا کی خاطر بھوکا رہنے کی عادت نہیں ہے یا اس پر دوبھر ہے تو وہ دن بھر تو افطاری کی تیاری کرتا ہے اور رات بھر سحری کی تیاری کرتا ہے اور انہی خیالات میں اس کے دن اور رات گزرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھیں کیسے مرض کو پہچانا ہے اور کیسا عمدہ علاج تجویز فرمایا ہے.نحضرت ﷺ رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر ( باقی گیارہ مہینے بے شک خیال رکھ لینا مگر ان ایام میں ان خیالات سے فارغ ہو جایا کرو ) اور ان ضرورتوں سے انقطاع کر کے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے تاکہ تمہاری تمام توجہ اللہ ہی کی طرف ہو اور اس میں روزے کی یہ حکمت بھی بڑے پیارے انداز میں بیان فرما دی کہ روزہ تقبل کے لئے ہے اور تکلیف کی خاطر بھوک اور پیاس نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بلکہ تبتل

Page 122

خطبات طاہر جلد 13 116 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء کے ذریعے یہ لازم ہے کہ اللہ کی طرف توجہ پھیرنی ہے اور تبتل کے بغیر گزارا نہیں ہے.تمہیں سبق دینا ہے کہ کس طرح دنیا سے توجہ کاٹ کر خدا کی طرف مائل کی جاتی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا پھر رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے.“ یعنی اس نے رمضان کو اِيْمَانًا اور احْتِسَابًا نہیں گزارا.اب یہ جو بحث ہے کہ گناہ بخشے گئے تھے کہ نہیں گئے تھے یہ بظاہر بڑی مشکل بحث دکھائی دیتی ہے کوئی سمجھتا ہوگا بخشے گئے کوئی سمجھتا ہوگا نہیں بخشے گئے بعض لوگ بعد میں بے چارے روتے ہیں دعائیں کرتے ہیں او ہورمضان گزر گیا اور پھر بھی ہم کچھ نہ کر سکے اور : اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے اس مضمون پر شعراء نے اپنی حسرتوں کا بیان کیا ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے رمضان ہی کے تعلق میں غالبا ایک نظم اس رنگ میں کہی تھی کہ وقت آیا، نیکیوں کا سماں آیا بہار آئی اور گزر گئی ہم نے کچھ چیز میں چھوڑیں کچھ نہ چھوڑیں لیکن ماحصل یہ ہے نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم.وہ بزرگ جو احتساب کرتے ہیں یہ ان کا تصور ہے کہ آیا ہم نے ایمان کے ساتھ رمضان گزارا ہے کہ نہیں.تو اس تصور میں یعنی اس احتساب میں زیادہ عاجزی اختیار کر جاتے ہیں.پس جو کمی بھی رہ جاتی ہوگی اللہ اس عاجزی کی خاطر اسے دور فرما دیتا ہوگا لیکن کچھ لوگ ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ ہم نے کچھ حاصل بھی کیا کہ نہیں کیونکہ رمضان گزرتے ہی اس تیزی سے وہ واپس دوڑتے ہیں ان سب باتوں کی طرف جو پہلے کیا کرتے تھے کہ جیسے کوئی لمبا غوطہ مار کر دوسری طرف سرنکالتا ہے گھبرا کر سر جھاڑتا ہے اور سانس لینے کی کرتا ہے تو یہ سانس بند کر کے رمضان میں جاتے ہیں اور اتنی تکلیف ہوتی ہے پر لے کنارے تک پہنچتے پہنچتے کہ بڑی تیزی سے پھر وہ لمبے لمبے سانس لیتے ہیں.جو چیز میں چھوڑی ہوئی تھیں جو بدیاں

Page 123

خطبات طاہر جلد 13 117 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء ترک کر بیٹھے تھے ان کو پورے زور اور شدت کے ساتھ دوبارہ شروع کرتے ہیں کہ چلو تھوڑا سا تو سکون ملے.گزر گیا جو مہینہ گزرنا تھا.اب ان کا بخشش سے کیا تعلق ہوا کیونکہ گناہوں کی بخشش کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کی طرف سے توجہ پھیر دی جاتی ہے گناہوں کی خواہش مٹا دی جاتی ہے اور اگر دائما نہیں تو کچھ عرصے تک تو اس کے نشان ملیں.دنیا پھر انسان کو بھینچتی ہے اور یہ مضمون بھی ہمیں احادیث میں ملتا ہے، قرآن میں ملتا ہے بعض لوگ بار بار استغفار کرتے ہیں اور اللہ بخش بھی دیتا ہے پھر وہ آتے ہیں اپنی پرانی عادتوں کی طرف پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اسی حالت میں انسان زندگی گزار دیتا ہے پھر اللہ کی مرضی ہے انہیں کس حالت میں وفات دے اگر وہ خدا سے دوری کی حالت میں مر جائیں تو نا مرادر ہے اگر اس حالت میں خدا تعالیٰ ان کی جان لے جبکہ اس کی بخشش کے نتیجے میں وقتی طور پر گناہ کا میل بھی دھل چکا تھا، گناہ کی طرف میلان مٹ چکا تھا ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہاں میں کامیاب ہو گیا مگر یہ تجارب بھی بار بار ہونے والے تجارب ہیں ان کے بغیر انسان یہ تصور نہیں کرسکتا.پس دو ہی صورتیں ہیں بخشش کے یقین کی.ایک یہ کہ رمضان آئے اور گناہوں کے سارے خیالات کو دھو کر اس طرح پرے پھینک دے جیسے حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ایک نوزائیدہ بچہ ہے.نوزائیدہ بچہ پاک آتا ہے لیکن بد بھی ہو جاتا ہے.اس کا بعد میں بد ہونا یہ تو ثابت نہیں کرتا کہ وہ نوزائیدہ تھا ہی نہیں مگر بد ہونے میں وقت لگتا ہے.کتنی دیر اس کو بلوغت کا انتظار کرنا پڑتا ہے کتنی دیر ابتلاؤں اور امتحانوں میں پڑنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اچا نک تو نو زائیدہ بچہ بد نہیں ہوا کرتا.ایک لمبے عرصے تک بدی کی خواہش ہی نہیں ہوتی اور اکثر بدیوں سے اس لئے محروم ہوتا ہے کہ ان کا تصور بھی کوئی نہیں رہتا.پس اگر رمضان بدیوں کو اس طرح مٹا کر جاتا ہے کہ اس کی تمنائیں مدھم پڑ جاتی ہیں یا مٹ جاتی ہیں.وہ خواہشیں مرنے لگتی ہیں اور پھر بعد میں ان کو دوبارہ ارادۂ زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو بعد میں ممکن ہے ایسا شخص بھی دھو کہ کھا جائے اور گر جائے لیکن عموما کہہ سکتے ہیں کہ رمضان کچھ بخشش کے سامان اس کے لئے پیچھے چھوڑ گیا.پس اپنے لئے دعائیں کریں اور یہ دعائیں کرتے ہوئے رمضان میں داخل ہوں کہ جو

Page 124

خطبات طاہر جلد 13 118 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1994ء رمضان کے اعلیٰ مقاصد ہیں ہم ان کو حاصل کرنے والے ہوں.ہماری بدیاں جھڑ جائیں ہمارا احتساب کامل ہو اور ہمارا ایمان زندہ ہو جائے اور اس کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے ہم اس خدا کو پالیں جس کی طرف، رمضان ہمیں انگلی پکڑ کر لے جا رہا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:.آج نماز جمعہ کے بعد، کیونکہ ابھی بھی جمعہ کے اختتام تک عصر کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے.نماز عصر ہوگی اور اس کے معا بعد تین جنازے ہوں گے.یعنی جنازہ غائب.ایک حضرت شیخ مسعود الرحمن صاحب صحابی جن کا وصال جرمنی میں ہوا ہے اور اب غالباً ربوہ میں لے جا کر ان کی تدفین بہشتی مقبرے میں کر دی گئی ہے.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کے بیٹے تھے نانوے سال دو ماہ کی عمر پائی.پہلے نام مسعود احمد تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاندان کے باقی ناموں کی مناسبت سے آپ کا نام مسعود الرحمن رکھ دیا تھا.دوسرے ہمارے شہید مکرم رانا ریاض احمد خان صاحب ابن رانا عبد الستار صاحب ٹاؤن شپ (لا ہور ).ان کے والد صاحب بھی شدید مضروب ہیں بہت ظالمانہ طور پر آپ کو زخمی کیا گیا ہے ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو شہادت کی سعادت کا عرفان نصیب فرمائے اور اس کے غم پر اس سعادت کی خوشی بھاری ہو جائے.اسی طرح ہمارے عزیزم احمد بن ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب اور عزیزہ امتہ الھی چودھری حمید نصر اللہ صاحب.ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب کے بیٹے تھے عزیزہ امتہ الحئی کے بطن سے.بعد میں عزیزہ امتہ الھی کی شادی چودھری حمید نصر اللہ صاحب کے ساتھ ہوئی اس لئے ان کے ساتھ بھی ایک بیٹوں والا رشتہ رہا بچپن سے.ان کو بھی 6 جنوری کو لاہور میں شہید کر دیا جا چکا ہے.اس کی تفاصیل جب حاصل ہوں گی تو انشاء اللہ بعد میں بیان کر دی جائیں گی.ان کی نماز جنارہ غائب نماز عصر کے معابعد ہوگی.

Page 125

خطبات طاہر جلد 13 119 خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1994ء رمضان میں نیکی کی فضا سے فائدہ اٹھا ئیں جھوٹ کو اکھیٹر پھینکیں نمازوں کا عرفان حاصل کر کے لطف اٹھائیں ( خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1994ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں میں نے قرآن اور حدیث کے حوالے سے جماعت کو رمضان سے متعلق کچھ نصائح کی تھیں یہ مضمون ابھی جاری تھا کہ وقت ختم ہو گیا یہ ایسا مضمون ہے جسے ہر سال دہرایا جاتا ہے اور دہرایا جاتا رہنا چاہئے کیونکہ ایک سال کے عرصے میں انسان بہت سی نیک باتیں بھول چکا ہوتا ہے اور دنیا کی طرف واپس لوٹنے میں کئی قسم کے زنگ دوبارہ لگ چکے ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے مدینہ کے متعلق جہاں آپ تھے یہ فرمایا کہ مدینہ تو ایک بھٹی کی طرح ہے جب لوہا اس میں تپا کر صاف ستھرا کر کے ہر آلائش سے پاک کر کے باہر نکالا جاتا ہے تو پھر کچھ عرصے کے بعد زنگ لگ جاتے ہیں اور اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ پھر اس بھٹی میں جھونکا جائے.پس اس لئے آپ نے نصیحت فرمائی کہ بار بار صحابہ اور دور کے رہنے والے خصوصیت کے ساتھ، مدینے میں آئیں اور اپنے ان رنگوں کو دور کرتے رہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پاک صحبت سے دوری کے نتیجے میں لگ گئے.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار بیان فرمایا اور بعض ظالموں نے عمدا دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ مکے کی طرح قادیان کو بھی ایک ایسی

Page 126

خطبات طاہر جلد 13 120 خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1994ء جگہ سمجھتے ہیں جہاں حج کی جاتی ہے اور وہاں مرزا صاحب کی زیارت ہی سے گویا کہ عمر بھر کا حج ہو جاتا ہے.یہ تو خیر لغو، بے ہودہ ، ظالمانہ اعتراض ہیں.ضمنا مجھے یاد آیا تو میں نے بیان کر دیا، مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت میں حکمت وہی تھی جو خود حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ے کی نصیحت میں شامل تھی یعنی دوری سے کچھ زنگ لگ جاتے ہیں کچھ کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.بار باران کو صاف کرنے کی ضرورت پڑتی ہے.یہی فلسفہ ہے جو اسلامی عبادات کے ساتھ منسلک ہے.اس گہرائی کے ساتھ کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس ندی بہتی ہو، صاف شفاف پانی اس ندی میں بہہ رہا ہو اور وہ پانچ وقت اس میں غسل کرے اس کے جسم پر میل کچیل کیسے رہ سکتی ہے.( بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۴۹۷) صلى الله تو وہ فائدہ جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صحبت سے حاصل ہوسکتا تھا خدا تعالیٰ نے آپ کے دین میں ایسا دائمی کر دیا کہ بعد کے آنے والے زمانوں میں بسنے والے اور پیدا ہونے والے انسانوں کو یہ شکوہ اب نہیں ہوسکتا کہ ہمارے لئے پاک کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی.پس پانچ وقت کی نمازیں یہ وہ عبادتیں ہیں جن میں انسان بار بار غو طے لگا کر اپنی کثافتوں کو دور کرتا ہے اپنے میلوں کو دھوتا ہے اور پھر جمعہ کی عبادت ہے اور پھر حج کا ایک فریضہ ہے جو عمر بھر کے گند کو صاف کرنے اور میلوں کو بدن سے دور کرنے کے لئے روحانی بدن سے دور کرنے کے لئے کافی ہو جاتا ہے.ایک رمضان ہے جو ہر سال دہرایا جاتا ہے اور رمضان کے ساتھ وابستہ نصیحتیں بھی ہر سال دہرائی جاتی رہنی چاہئیں اور لازم ہے کہ انسان ان کو غور سے سنے اور حرز جان بنائے ، اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دے اور یہ نیک ارادے باندھے کہ میں ان سے پوری طرح استفادہ کروں گا.رمضان میں بھی دراصل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صحبت ہی ہے جو فیض پہنچاتی ہے.جب ہم آپ کی احادیث کے حوالے سے نصیحت کرتے ہیں تو وہ صحبت سے جو صحابہ پاتے تھے وہی بات ہے جو الفاظ میں آپ کے سامنے رکھی جاتی ہے اور پھر آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ جو زندگی کے مختلف ادوار میں آپ سے ظاہر.ہوا اور روزانہ صبح و شام کے بدلنے کے ساتھ بھی وہ نئے جلوے اپنے اندر پیدا کرتا اور دکھاتا رہا، ان جلووں کے حوالے سے بھی صحبت کا ایک حصہ ہمیں میسر آجاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا.ابو ہریرہ سے روایت ہے.بخاری و مسلم دونوں

Page 127

خطبات طاہر جلد 13 121 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء نے کتاب الصوم میں درج کی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا.جب رمضان کا مہینہ آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوسری یہ روایت ہے کہ جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں.یعنی آسمان کے دروازوں سے مراد کیا ہے؟ جنت کے دروازے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیئے جاتے ہیں اور ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.(بخاری کتاب الصوم) اس حدیث سے متعلق پہلے بھی کئی سال سے یہ بات جماعت کے گوش گزار کرتا رہا ہوں کہ ظاہری طور پر دیکھا جائے تو رمضان کے مہینے کا کوئی ایسا اثر دنیا پر تو ظاہر نہیں ہوتا جس سے یہ معلوم ہو کہ گناہ کم ہو گئے ہیں اور نیکیاں بڑھ گئی ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہورہے ہیں اور جنت کے کھل رہے ہیں.اور بسا اوقات خود مسلمانوں میں بھی ایسے بد نصیب نظر آتے ہیں جو رمضان کے مہینے میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ جہنم کے دروازے یوں لگتا ہے پہلے سے زیادہ بڑے ہو کر کھل رہے ہیں اور جنت کے دروازے ان کے لئے اور بھی تنگ ہوتے چلے جارہے ہیں.اس لئے اس مضمون کو سمجھنے کے لئے انسان کو اپنی ایک کائنات کا تصور کرنا ہو گا.ہر انسان کی اپنی زمین ہے اور اپنا آسمان ہے اور اس حدیث کا تعلق ہر شخص کی زمین اور ہر شخص کے آسمان سے ہے.وہ شخص جو رمضان میں اپنی کائنات میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور وہ نیکیاں اختیار کرتا ہے جو اس مہینے کے ساتھ وابستہ ہیں اور جو اس کے لئے آسان کر دی جاتی ہیں.اس کے لئے یقیناً اس کے آسمان کے دروازے کشادہ ہور ہے ہوتے ہیں اور اس کی جہنم کے دروازے بند ہورہے ہوتے ہیں.لیکن اگر رمضان آئے اور وہ ان نیکیوں سے فائدہ نہ اٹھائے تو پھر اس حدیث کے مضمون اور اس کی خوشخبریوں کا اطلاق اس کے جہاں پر نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ غیروں کا جہان دیکھیں وہ اس حدیث کے مضمون سے متقی ، بے نیاز ایک الگ زندگی بسر کر رہا ہے اور اس کے مشاغل اسی طرح بد ہیں جیسے پہلے ہوا کرتے تھے ، رمضان نے ان پر کوئی نیک اثر نہیں ڈالا.رمضان میں کیوں یہ دروازے یعنی رحمت کے اور بخشش کے دروازے زیادہ کھولے جاتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں کیوں نسبتا تنگ ہو جاتے ہیں.اس مضمون پر غور کریں تو حقیقت

Page 128

خطبات طاہر جلد 13 122 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء یہ ہے کہ رمضان میں نیکی کی ایک فضا قائم ہوتی ہے، ایک ماحول بن جاتا ہے چھوٹے چھوٹے بچے بھی کہتے ہیں ہمیں اٹھاؤ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے اور بعض بے چارے جب آدھی رات کو اٹھتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں کہ نہیں ہم نے اتنی جلدی روزہ نہیں رکھنا مگر نیکی کی خواہش ضرور ان کے دلوں میں کلبلاتی ہے اور ہر گھر میں یہ نمونے دکھائی دیتے ہیں اور بعض جو پورا نہیں رکھ سکتے ہیں ہمیں دو روزے رکھوا دو آدھے آدھے رکھ لیں گے لیکن روزے کی طرف توجہ، نمازوں کی طرف توجہ اس عمر میں بھی شروع ہو جاتی ہے جس عمر میں ابھی ان عبادتوں کا ان کو مکلف نہیں کیا گیا ان پر یہ عبادتیں فرض نہیں کی گئیں.تو یہ تو وہ ماحول ہے جیسے برسات کے زمانے میں بعض جڑی بوٹیاں پھوٹتی ہیں سبزہ ہر طرف پھوٹنے لگتا ہے یا بہار کے دنوں میں بعض بنجر علاقوں میں بھی بہت خوب صورت پھول نکل آتے ہیں.تو رمضان کا موسم ہے جس کی بات ہو رہی ہے اس موسم میں تمہارے دل نیکیوں پر آمادہ ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں ایک طبعی میلان جوش مار رہا ہے کہ نیکی کریں.اس فضا سے فائدہ اٹھاؤ، یہ نیکیوں کی جو ہوا چلائی گئی ہے ان ہواؤں کی رخ پر تیز رفتاری سے آگے بڑھو.پھر دیکھو کہ تمہارے لئے جنت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے اور جہنم کے دروازے تم پر بند ہوتے چلے جائیں گے.پس آنحضرت ﷺ نے جن دروازوں کے کھلنے کا ذکر کیا ہے وہ ہر انسان کی اپنی کائنات الله کے الگ الگ دروازے ہیں اور جن شیطانوں کے جکڑ دینے کا ذکر فرمایا ہے وہ بھی ہر انسان کے اپنے اپنے نفس کے شیطان ہیں.جو رمضان کے تقاضے پورے کرنے کی تمنار کھتے ہیں ان کے شیطان ضرور جکڑے جاتے ہیں اور رمضان کے بعد اور رمضان کے دوران کی کیفیت میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ کیسا ہی کوئی انسان نیک ہو پھر بھی فرق پڑ جاتا ہے.جورمضان کے دوران نیکی پر پابندی اختیار کی جاتی ہے، گناہوں اور لغویات سے بچنے کی احتیاطیں کی جاتی ہیں وہ رمضان کے بعد ویسی نہیں رہتی.تو اگر چہ جو شیطان ایک دفعہ قید کر دیا جائے حق تو یہ ہے کہ اسے عمر قید کی سزا ملے اور پھر بھی آزادی نہ ملے لیکن انسان کمزور ہے اور کسی نہ کسی پہلو سے کچھ آ زادیاں اپنے شیطان کو ضرور دے دیتا ہے.پھر ایک اور رمضان آتا ہے پھر ایک اور آتا ہے پھر ایک اور آتا ہے.دعا یہ کرنی چاہئے کہ ہمیں موت ایسی حالت میں آئے کہ جب ہمارا شیطان جکڑا ہوا ہو.ہمیں خدا ایسے وقت میں بلائے جب کہ جنت کے دروازے ہمارے لئے پوری طرح کشادہ ہو چکے ہوں اور ایسے وقت میں ہم جان دیں

Page 129

خطبات طاہر جلد 13 123 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء جب جہنم کے دروازے ہم پر بند ہو چکے ہوں.یہ جو مضمون ہے اس کا کوشش سے زیادہ فضل سے تعلق ہے.کوشش سے اس حد تک کہ گہری سوچ کے ساتھ اور فکر کے ساتھ اور اس مضمون میں ڈوب کر دعا کی جائے جو معنی خیز ہو.ہونٹوں سے نہ نکلے، دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہی ہو اور پابندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس بارے میں مدد مانگی جائے.پس اس رمضان مبارک میں جو نصیحتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں ان میں ایک یہ بھی نصیحت ہے.مگر جب بھی نصیحت دہرائی جاتی ہے کوئی نیا پہلو اس کا خدا تعالیٰ سامنے لے آتا ہے اور جماعت کو اس کی طرف توجہ دلانے کی توفیق عطا ہوتی ہے.پس اس حدیث کے حوالے سے میں اس دعا کی طرف جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ یہ دعائیں کرتے رہیں کہ رمضان کی نیکیاں آ کر گز رکھی جائیں تو ہمارا انجام ایسی حالت میں ہو گویا رمضان میں مر رہے ہیں.ایسے وقت میں ہو جبکہ تو ہم سے سب سے زیادہ راضی ہو اور اس پر ہمارا اپنا کوئی اختیار نہیں ، انسان کی بے بسی کا معاملہ ہے، اللہ ہی ہے جب چاہے جس کو بلائے اور جس حالت میں چاہے بلا لے.اس لئے اس رمضان مبارک میں اپنے لئے اور اپنے بھائیوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ یہ دعائیں کریں.ایک دوسری حدیث ابوسعید خدری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا اور ان کو پورا کیا اور جورمضان کے دوران ان تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہنا چاہئے یعنی جس نے ہر قسم کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو ایسے روزہ دار کے لئے اس کے روزےاس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل بحوالہ فتح الربانی جز 9 صفحہ: 222) اس حدیث کا اس سے ملتی جلتی بعض اور احادیث سے بھی تعلق ہے اور میں ان کے حوالے سے اس مضمون کو زیادہ واضح کرنا چاہتا ہوں.بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جن میں آپ کو یہ ملے گا کہ ایک روزہ دار کی روزہ کشائی کر دو اور تمہارے سارے گناہ بخشے گئے ، ہمیشہ کے لئے نجات پاگئے.سوال یہ ہے کہ ایک طرف اتنی محنت کا حکم اور ارشاد کہ تمام مہینہ بھر رمضان کے سارے تقاضے پورے کرو اور رمضان کے تقاضے پورا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.کہنے میں آسان لگے لیکن حقیقت میں

Page 130

خطبات طاہر جلد 13 124 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ رمضان مبارک تمام عبادتوں کا معراج ہے عبادتوں کے اندرونی رشتوں کے لحاظ سے نماز عبادتوں کا معراج ہے لیکن رمضان مبارک میں وہ بھی اکٹھی ہو جاتی ہے اور شدت کے ساتھ پوری محنت کے ساتھ اور دل لگا کر نماز ادا کی جاتی ہے.پس تمام عبادتیں اپنے معراج کو پہنچتی ہیں اور ایسے وقت میں ان کے تقاضے پورے کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ کا ایک طرف تو یہ ارشاد فرمانا کہ یہ کرو تو تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوگا تمہارے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے گویا حج جو عبادات میں ایک خاص مرتبہ رکھتی ہے اور عمر بھر میں ایک دفعہ ادا کرنا ضروری ہے اس سے جو فوائد وابستہ ہیں، جو ثواب وابستہ ہیں وہ ایک اچھی طرح گزارے ہوئے رمضان کے ساتھ بھی وابستہ فرما دیئے گئے.اور دوسری طرف یہ کہنا کہ فلاں بات کر دو تو تمہارے عمر بھر کے گناہ بخشے جائیں گے اور جنت کے دروازے تمہارے لئے کھل جائیں گے اور فلاں کام کر دو اور جو کام چھوٹے چھوٹے ہوں یہ بات بڑی تعجب انگیز ہے.ایسی حدیثیں بھی حدیثوں کی تلاش میں میرے سامنے آئیں یعنی جب میں جمعہ کے لئے انتخاب کرتا ہوں روایات کا یا حوالہ جات کا تو بہت سی روایات دیکھتا ہوں اور بعض اس موضوع کے لئے چن لیتا ہوں.بعض کو بعد کے لئے رکھ چھوڑا جاتا ہے ان میں ایسی حدیثیں بھی سامنے آتی ہیں مثلاً آج ہی ایسی حدیثیں بھی میں نے دیکھیں جن میں یہ ذکر تھا کہ روزہ کھلوا دو تو تمہارے ساری زندگی کے گناہ بخشے گئے اور تمہیں ہر قسم کے ثواب میسر آ گئے اور تمام نجات کے سامان ہو گئے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ صحابہ میں سے بعض نے کہا کہ ہمارے پاس تو فیق نہیں بہت شوق پیدا ہوا ہمیں تو توفیق نہیں ہے اتنی.تو فرمایا کہ اگر کوئی تھوڑا سا دودھ اور زیادہ پانی ملا کر بھی پھر بھی کسی کا روزہ کھلوا دے تو یہی ثواب اس کو میسر آ جائے گا.پھر دونوں باتوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ دوہی شکلیں عقلاً سامنے آتی ہیں اول یہ کہ بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو بعد کے زمانوں میں صوفیاء نے گھڑ لی ہیں اور ایسی حدیثوں کی تعداد ہزار ہا بلکہ لاکھوں تک بھی بیان کی جاتی ہے.بعض صوفیاء کا یہ مسلک تھا کہ نیکی کی باتیں جو قرآن اور حدیث سے مطابقت رکھتی ہوں ان میں جوش پیدا کرنے کے لئے جو کہانی تم بنا لو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرو اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی بات لوگ مانیں گے ہماری نہیں مانیں گے تو اس میں کوئی گناہ نہیں.

Page 131

خطبات طاہر جلد 13 125 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء حضرت امام بخاری علیہ الرحمتہ کے متعلق یہ روایت آتی ہے.بڑی آپ نے محنت کی ساری زندگی یعنی زندگی کا وہ فعال حصہ جو ہوش مندی کے بعد آپ کو نصیب ہوا آپ نے حدیث کی خدمت میں صرف کیا ہے، چھان بین میں صرف کیا ہے.آپ ایک دفعہ ایک روایت کی تلاش میں نکلے کہ پتا تو کروں کہ وہ راوی تھا کون اس زمانے میں جس نے یہ حدیث اپنے پہلوں سے بیان کی ہے.لمبے سفر کئے، خرچ کیا، محنت اٹھائی اور جب پہنچے آخر اس شہر میں جس میں بتایا گیا کہ ایک صوفی صاحب ہیں ایک تہہ خانے میں رہتے ہیں بہت بزرگ انسان ہیں ان کی روایت ہے.تو ان تک پہنچے ان سے پوچھا کہ آپ کے متعلق بہت شہرہ ہے بہت نیک اور تقویٰ شعار انسان ہیں ایک روایت مجھے آپ کی طرف منسوب ہوئی ملی ہے اور میں تحقیق کے لئے آپ سے خود سننے کے لئے آیا ہوں.بتائیے یہ روایت آپ نے کس سے سنی تھی وہ شخص زندہ ہے تو بتا ئیں میں پھر جا کے اس سے بھی پوچھوں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو میں نے آپ بنائی ہے.کہا آپ نے بنائی ہے؟ کہا ہاں یہ دیکھو یہ سارا انبار یہ دفتر جو پڑے ہوئے ہیں روایتوں کے، یہ میں بیٹھا بنا رہا ہوں یہی تو میری نیکی ہے عمر بھر کی کہ نیک کاموں کے لئے لوگوں کو اس طرح ترغیب دے رہا ہوں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ جو میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرے گا، یہ بحث نہیں اٹھائی کہ اچھی ہے یا بری، بری بات کے منسوب کرنے کی تو کسی کو جرات ہو ہی نہیں سکتی سوائے اس کے کہ اپنے نفس کے بہانے کے لئے کوئی تاویل تراش لے مگر اکثر اچھی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، فرمایا جو کوئی بھی میری طرف کوئی بات منسوب کرے گا جو میں نے نہ کہی ہو تو اپنے لئے جہنم میں جگہ بنائے گا.مگر بعض نادان ایسے تھے جن کو علم نہیں تھایا یہ حدیث بھی نہیں پہنچی ہوگی.ہم نہیں کہہ سکتے انہوں نے کہاں جگہ بنائی اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ایسی روایتیں تھیں اور بہت سی ایسی احادیث ہیں اس مضمون سے تعلق رکھنے والی جن میں دکھائی دیتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مزاج کے خلاف ہیں اور جس گہرے سائنٹفک مذہب کی طرف آپ بلانے والے ہیں، جس کی بنیاد میں ٹھوس عقل پر اور انسانی تجربے پر قائم ہیں اور جو آسمان سے ہدایت یافتہ مذہب ہے جس کا مزاج قرآن کے عین مطابق ہے اس کے برعکس بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں.اس لئے جو بہت سے اہل اللہ ہیں انہوں نے ایک یہ بھی رستہ تجویز کیا احادیث کی پر کچھ کا کہ راویوں کے متعلق تو ہم تحقیق کرنے کی توفیق نہیں رکھتے اور جو ہو چکی ہو چکی لیکن الله

Page 132

خطبات طاہر جلد 13 126 خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1994ء قرآن پڑھنے کی اور قرآن پر غور کرنے کی تو توفیق ہمیں عطا ہوتی ہے.پس وہ حدیثیں جن کا مضمون قرآن سے ٹکراتا ہو یا واضح طور پر قرآن ان کی تائید یا پشت پہ نہ کھڑا ہوان حدیثوں کے متعلق احتیاط اختیار کرو.اگر کوئی ایسا مضمون اس میں سے تلاش کر سکتے ہو جو حدیث کو چھوڑے بغیر قرآن اور دیگر احادیث کی تائید میں ہو تو اختیار کر لو.ورنہ ادب کے ساتھ اس حدیث کو اس خیال سے ترک کر دو کہ یہ ہمارے آقا ومولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام نہیں ہوسکتا.پس ایسی حدیثوں کے متعلق میں نے ایک دفعہ غور کیا تو مجھے ایک عجیب بات دکھائی دی.مجھے یاد ہے ربوہ میں وقف جدید میں ایک مضمون کے لئے مجھے بہت کثرت سے حدیثوں کی ضرورت تھی جن میں سے میں نے خود تلاش کرنی تھی اور ایک بھاری تعداد ان حدیثوں کی جو مجھے پیش کی گئی، بغیر حوالہ دیکھے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ صحاح ستہ میں سے ناممکن ہیں اور اگر اتفاقا صحاح ستہ میں کوئی روایت جگہ پا بھی گئی ہے تو انسان تحقیق کر کے اس کو معلوم کر سکتا ہے.چنانچہ وہ جنہوں نے اکٹھی کی تھیں میں نے ان سے کہا کہ یہ حدیثیں مجھے لگتی ہیں کہ بعد کے زمانے کی بیہقی کی یا کسی اور زمانے کی ہیں اور یہ اولین زمانے کی حدیثیں نہیں ہیں اور عجیب بات تھی کہ سو فیصدی یہ اندازہ درست نکلا.وہ تمام حدیثیں یا بیہقی کی تھیں یا بعد کے کسی اور زمانے کی تھیں.تو لوگ اپنے مطلب کی تلاش میں جب بے احتیاطی سے حدیثوں کو اختیار کرتے ہیں تو اس سے حدیثوں پر ایمان کو تقویت نہیں ملتی بلکہ نقصان پہنچتا ہے.اسی بے احتیاطی کے نتیجے میں یہ جو تحریکات چلی ہیں چکڑالوی، اہل قرآن والی انہوں نے امت کو بہت شدید نقصان پہنچایا ہے.بعض لوگوں کو عظیم خزانوں سے محروم کر دیا ہے.ساری امت کو تو نہیں لیکن امت میں ایک افتراق کی بناڈالی اور ان کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا اور محروم کر دیا.ایک دفعہ ایک اہلِ قرآن سے میری گفتگو ہوئی مجھے اس نے کہا کہ یہ تو ثابت ہے نا آپ مانتے ہیں کہ غلط حدیثوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو راہ پا گئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف منسوب ہوگئی تو جب کھوٹ مل گیا تو ہم اس کو رد کرتے ہیں.میں نے کہا تم یہ جانتے ہو کہ سونا کس طرح تلاش کیا جاتا ہے.بعض دریاؤں کے کناروں پر ریت کے انبار میں چند ذرے سونے کے ہوتے ہیں اور سارا دن وہاں عورتیں اور بچے بے چارے بیٹھ کر سردی اور گرمی میں محنت کرتے ہیں.ان چند ذروں کی تلاش میں ڈھیروں ریت کے ذروں کو نکال کر رد کر کے الگ پھینکنا پڑتا ہے.تو کیا

Page 133

خطبات طاہر جلد 13 127 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام اس سونے سے بھی کم قیمت ہے، کچھ حیا کرو، کچھ غور کرو، کچھ فکر کرو.یہ ایسا پاکیزہ ، ایسا عجیب کلام ہے جس کی کوئی نظیر پہلے تو پیدا نہیں ہوئی لیکن آئندہ بھی کبھی پیدا نہیں ہوگی اور اگر تم نے ہاتھ سے یہ دولت کھودی تو پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گی.اس لئے تقوی اختیار کرو، ایسے اصول معلوم کرو جیسے سائنس دانوں نے سونے کی پہچان کے اصول بنارکھے ہیں.ان اصولوں کا اطلاق ہوتو پتا لگ جائے گا کہ سونا کون سا ہے اور ریت کے ذرے کون سے ہیں ، ہمارا تو یہی مسلک ہے.پس اس پہلو سے وہ حدیثیں جن میں ایسا ذکر ملتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کی اور ساری عمر کی کمزوریاں غائب اور ہر قسم کے گناہ دھل گئے، تو پھر اگر ان کو اسی طرح مانا جائے ان کی ظاہری شکل میں تو پھر رمضان کی کیا ضرورت ہے.یعنی رمضان میں سے رمضان کا ہوتا ہوا گز رنے کی کیا ضرورت ہے.رمضان میں سے غیر کی طرح بھی گزر سکتے ہیں کسی روزے دار کو دودھ پلا دیا اور سارے رمضان کی نیکیاں ہاتھ آگئیں.پس ان حدیثوں پر غور کی ضرورت ہے اور میرے نزدیک اگر وہ قابلِ قبول ہیں یعنی اگر وہ سچی ہیں تو لازما قابل قبول ہیں اور اگر قابل قبول ہیں تو ان کے اندر کوئی حکمت کی بات تلاش کرنی ہوگی.بعض دفعہ ایک غریب انسان کی احتیاج یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اس کے ساتھ نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند آتا ہے اور خاص طور پر اگر ایک نیک انسان خدا کی خاطر روزہ دار ہو اور اتنا غریب ہو کہ روزہ کھولنے کے لئے کچھ بھی اس کو توفیق نہ ہو.جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دودھ میں پانی ملا کر ہی پلا دو.یعنی وہ اتنا غریب ہے بے چارہ کہ یہ بھی توفیق نہیں کہ لبھی کچھی لسی ہی پی لے تو اس وقت یہ ممکن ہے یہ عقل کے خلاف بات نہیں رہتی.اس وقت ہو سکتا ہے دو طرح سے اس کا اثر ہو ایک تو یہ کہ خدا کے ایسے پاک بندے ایک غریب بندے کی احتیاج پوری کرنے کی جو نیکی ہے وہ اللہ تعالیٰ کو بطور خاص پسند آتی ہے اور گناہ اس طرح نہیں بخشے جاتے کہ اچانک بخشے گئے.اس طرح بخشے جاتے ہیں کہ ایسی نیکیاں کرنے والے کو نیکیوں کی توفیق ملتی ہے.اس کا دل نیکیوں میں لگ جاتا ہے، اس کی زندگی کی راہیں بدل جاتی ہیں، اس میں ایک روحانی انقلاب بر پا ہو جاتا ہے.پس بظاہر ایک چھوٹی سی نیکی ہے مگر اس کے ساتھ جو فوائد وابستہ کر کے بتائے گئے ہیں وہ فوائد بعد میں آنے والے، ایک فوائد کا سلسلہ ہیں جو حکمت پر مبنی ہے اور ایک نیکی سے دوسری نیکی پھوٹتی چلی جاتی

Page 134

خطبات طاہر جلد 13 128 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء.ہے.دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ اس غریب کی دعا غیر معمولی طاقت رکھتی ہے، پہنچنے والی دعا ہے.ایک ضرورتمند کی آپ ضرورت پوری کریں، ایک غریب اور بھوکے کو کھانا کھلائیں اس کے دل سے جو دعا نکلے گی اس کی بات ہی اور ہے، اس کی چھلانگ اور پہنچ ہی اور ہے اور اگر اپنے امیر دوستوں کی دعوت کر دیں اور کھا کر وہ جزاکم اللہ کہہ کر واپس چلے جائیں، اس جزاکم اللہ کو اس دعا سے کیا نسبت ہے؟ یہ جزاکم اللہ تو تھینک یو بھی ہے.ہر قسم کے شکریہ بہت بہت ، بہت مزہ آیا اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں.مسلمانوں میں یہ دعا بن جاتی ہے لیکن پھیکی پھیکی دعا، جو بھرے ہوئے پیٹ سے نکل رہی ہو ، کہاں وہ دعا، کہاں ایک بھوکے کی احتیاج دور ہونے پر اس کی دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعا.تو رمضان میں اس قسم کی نیکیوں کی بھی تلاش کریں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی حدیثوں کو اگر قبول کرنا ہے تو صرف اس شرط پر قابل قبول ہیں کہ محمد رسول اللہ کی شان کے مطابق ان کے معنی تلاش کریں اور قرآن کی عظمت کے مطابق ان کے معنی تلاش کریں پھر ان کو قبول کریں.پھر ان کو اس وہم میں رد کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں کہ شاید یہ آنحضور کا کلام نہ ہو.پس اس پہلو سے ایک اور نیکی جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ غریب کی ہمدردی ہے.روزہ کھلوانا ایک (Symbol) ہے اس وقت.رمضان کے دنوں میں یہ نیکی ایک (Symbol) بن جاتی ہے اور یہ (Symbol) اپنی ذات میں یہاں تک محدود نہیں رہتا اس کا تعلق احتیاج پوری کرنے سے ہے، دکھ درد دور کرنے سے ہے اور کوئی شخص اگر کسی نیک روزے دار کا دکھ دور کرے تو وہ چاہے روزہ کھلوا کر ہو یا اور طریقے سے ہو، وہ ضرور اللہ کے ہاں خاص مرتبہ رکھے گا اور ایسا نیکی کرنے والا خاص جزا پائے گا.لیکن اس کے علاوہ بھی انسانوں سے ہمدردی رمضان کا حصہ ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ بہت تھی تھے.بے حد خرچ کرنے والے تھے، مگر رمضان میں تو یوں لگتا تھا کہ ہوائیں آندھی بن گئی ہیں.اس قدر تیزی پیدا ہو جاتی تھی آپ کے خرچ میں ، اور وہ صرف روزہ کھلوانے کی حد تک محدود نہیں تھا بلکہ روزہ کھلوانے کے متعلق مجھے تو کوئی ایسی روایت معلوم نہیں کہ خالصہ صرف روزہ کھلوایا کرتے ہوں.وہ بھی ایک خیرات کا حصہ تھا اور ہوتا ہوگا لیکن زیادہ تر غریبوں کی تلاش میں ان کی کھوج لگا کر ان پر خرچ کرنا اور کثرت کے ساتھ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہ وہ نیکی تھی جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی سے ثابت ہے.آپ

Page 135

خطبات طاہر جلد 13 129 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء کی سنت سے ثابت ہے.پس اس حدیث کا یہ ترجمہ کر لینا کہ چاہے لوگ بھو کے مر رہے ہوں کسی طرح کی ضرورتوں میں مصیبت زدہ پھنسے بیٹھے ہوں اس طرف توجہ نہ کر وصرف انتظار کرو جب سورج ڈوبے تو کسی کا روزہ کھلوا دو.اگر یہ ترجمہ کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس کو جھٹلا رہی ہے.کیسے ہو سکتا ہے کہ اس صادق القول کا فعل آپ کے قول کو جھٹلا رہا ہو کیونکہ آپ کے صادق القول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کہتے تھے سو فیصدی اس پر عمل بھی کرتے تھے تو آپ کی سنت کے نقشے سے آپ کے کسی قول کا ٹکرانا ممکن ہی نہیں ہے.آپ کے متعلق تو ہم یہی دیکھتے ہیں کہ رمضان مبارک میں بڑی شدت اور تیزی کے ساتھ ہر نیکی میں آگے بڑھتے تھے اور خصوصیت کے ساتھ غریب کی ہمدردی میں اور صدقہ خیرات میں تو آپ کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.جیسا کہ میں نے بیان کیا، صحابہ کے پاس لفظ ختم ہو جاتے تھے بیان کرتے ہوئے.کہتے بس یہ سمجھ لو کہ ہوائیں جھکڑ میں تبدیل ہو گئیں.پس اس پہلو سے اس حدیث کے مضمون کو بھی پیش نظر رکھیں.ان کو بھی تلاش کریں جومنہ سے مانگتے نہیں ہیں لیکن جن کی ضرورت انتہاء کو پہنچتی ہوتی ہے لیکن محض روزہ کھلنے کے وقت ان پر نظر نہ کریں.غریبوں نے روزہ رکھنا بھی تو ہوتا ہے اور بھی تو ضرورتیں پوری کرنی ہیں ان کے بچے بھی تو بھو کے ہوتے ہیں جو روزہ کی عمر میں پہنچے ہی نہیں ہوتے.پس صدقہ و خیرات میں کثرت سے آگے بڑھیں اور جس حد تک کسی کی توفیق ہے وہ اگر خود کسی غریب تک پہنچ سکتا ہے تو پہنچے ورنہ جماعت کی وساطت سے صدقہ و خیرات میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا رمضان مبارک ایک قسم کی عبادتوں کا معراج بن جاتا ہے.اس مضمون کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے یوں بیان فرمایا:.إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ بَابٌ وَبَابُ الْعِبَادَةِ الصِّيَامُ.(جامع الصغیر ) ہر چیز کا ایک رستہ اور ایک دروازہ ہوا کرتا ہے اور عبادت کا دروازہ رمضان ہے.اگر رمضان میں تم عبادتوں میں داخل نہ ہوئے تو پھر کبھی نہیں ہو گے.اس کے بہت سے معانی ہو سکتے ہیں لیکن ایک معنی جو عام فہم اور روز مرہ ہمارے مشاہدے میں ہے وہ یہ ہے کہ جس کو رمضان میں عبادت کی توفیق نہ ملے اس کو سارا سال عبادت کی توفیق نہیں ملتی.پس یہ وقت ہے عبادت کرنے کا.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زمین کے دروازے تو بند رکھو اور اس

Page 136

خطبات طاہر جلد 13 130 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء رستے پر داخل ہو جاؤ جس کے آگے پھر آسمان کے دروازے لگے ہوئے ہیں.وہ بند ہوں یا کھلے ہوں ، پھر تمہیں اس سے کیا.پہلے اپنی زمین کے دروازے تو کھولو.پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دروازوں کے حوالے سے ایک بات کی ہے اس کے مفہوم کو سمجھو اور پہلی بات کے ساتھ اس کا تعلق جوڑو.دروازے تو کھلتے ہیں، کن کے لئے؟ رمضان میں جن کے اپنے دروازے عبادت کے لئے کھل جاتے ہیں اور رمضان ان کے لئے کھلا دروازہ بنتا ہے.اب رمضان کو دروازہ کہنے میں یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ کیوں رمضان میں بعض لوگ محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ دروازہ کھلتا بھی ہے اور بند بھی ہو جاتا ہے.اس کو رستہ تو نہیں فرمایا، دروازہ فرمایا ہے.فرمایا ہے عبادت کا دروازہ مگر جس پر کھلے گا وہی توفیق پائے گا.اگر بند دروازے سے کوئی ٹکرا کر یا اسے کھٹکھٹا کر واپس چلا گیا تو اس سے کیا فائدہ.پس رمضان میں اپنی عبادت کی طرف بھی توجہ کریں اور اپنے بچوں کی عبادت کی طرف،اپنے ہمسایوں کی عبادت کی طرف ، اپنے گردو پیش میں عبادت کے مضمون کو بیان کریں اور عبادت ایک ایسی چیز ہے جس میں داخل ہو کر واپسی کی گنجائش نہیں ہے.اگر عبادت میں ایک دفعہ آپ داخل ہو کر پھر باہر نکلنے کی کوشش کریں گے تو ساری عبادتیں رائیگاں جائیں گی بلکہ بعض اوقات پہلے سے بھی بدتر مقام تک پہنچ جائیں گے.عبادت کو پکڑے رہنا، عبادت پر صبر کرنا لازم ہے.اور اس پہلو سے ایک بہترین موقع ہے دنیا کی تربیت کا.دنیا بھر میں جماعتوں کو بڑے مسائل میں سے ایک یہ مسئلہ درپیش ہے کہ بعض نوجوان جونئی نسلوں کے پیدا ہونے والے ہیں، نئی نسلوں کے تربیت پانے والے ہیں.ماحول کی کثافت اور گندگی سے متاثر ہو گئے ہیں، وہ عبادتیں چھوڑ بیٹھے ہیں.اور اس ضمن میں صرف نو جوانوں کی بحث نہیں ، بعض خواتین مجھے خط لکھ کر سب سے زیادہ درد یہ پیش کرتی ہیں کہ ہمارا خاوند ویسے ٹھیک ہے، سب کچھ ہے، ہمیں کوئی شکوہ نہیں ، مگر نماز نہیں پڑھتا.تو اللہ تعالیٰ ان بدنصیبوں کے نصیب جگا دے، ان کے مقدر روشن فرمائے.یہ عبادت تو ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر زندگی نہیں ہے.یہ تو روز مرہ کا سانس ہے، روز مرہ کا پانی ہے، اگر عبادت نصیب نہیں تو روحانی زندگی کا کوئی تصورہی نہیں ہے.پھر خواہ دنیا کے لحاظ سے اچھا ہو، کیسا ہی ہو، دنیا میں اسلام سے باہر بھی تو اچھے اچھے لوگ نظر آتے ہیں.ہر مذہب میں بلکہ لا مذہب لوگوں میں بھی بعض جگہ جہاں ملائیت زیادہ ہو وہاں لا مذہب لوگوں میں زیادہ شرافت نظر آتی ہے بہ نسبت ملائیت

Page 137

خطبات طاہر جلد 13 131 خطبہ جمعہ فرموده 18 فروری 1994ء سے متاکثر لوگوں کے.مگر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.صرف اتنا ہے کہ ایسے لوگوں سے لوگوں کو شر نہیں پہنچتا ، وہ اسلام کا ایک پہلو اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن خودامن میں نہیں آتے.خود امن میں آنا تو اسلام کے دوسرے پہلو سے تعلق رکھتا ہے.مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کہ جو اللہ کے لئے صاف اور ستھرا ہو کر اس کے حضور سر جھکا دے تو اچھے لگتے ہیں یہ لوگ.دنیا کو ان سے کوئی شہر نہیں پہنچتا لیکن بد نصیب ہیں کہ خود اس فیض سے محروم ہیں جو اسلام کے اعلیٰ معنے میں داخل ہے جن کا تعلق اللہ سے ہے اور اللہ کے حضور سر تسلیم خم کرنے سے ہے، اس کے سپرد ہو جانے سے ہے.اس پہلو سے عبادت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے.پس رمضان مبارک میں اپنی، اپنے گھر والوں کی، اپنے ماحول کی جہاں جہاں تک آپ کی رسائی ہو، اس پہلو سے تربیت کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عبادتوں پر قائم فرمائے اور عبادتوں کا ذوق عطا فرمائے اور اس مہینے میں ایسی عادت پڑ جائے کہ پھر چھٹے نہیں.دیکھو بدلوگوں کو تو بعض دفعہ چند دن کی بدی سے عادت پڑ جاتی ہے.یہ جب Drugs کے متعلق ایک پروگرام آ رہا تھا جس میں سکول کے بچوں سے پوچھا جارہا تھا کہ بتاؤ تم پر کیا گزری، تمہیں آخر کیا سوجھی کہ جانتے بوجھتے ہوئے اس کی بدیوں کو پہچانتے ہوئے تم نے ڈرگ اختیار کر لی اس کے عادی بن گئے.تو اکثر بچوں نے جواب دیا وہ یہی تھا کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ ایک دفعہ استعمال کرنے سے ہی عادت پڑ جائے گی.ہمارے دوستوں نے جو بڑے تھے جو یہ کیا کرتے تھے ہمیں کہا پہلے چکھ کے تو دیکھوذ را تھوڑی سی ہے کیا فرق پڑتا ہے اور دیکھا دیکھی اس عجوبے کے طور پر کہ دیکھیں کیا چیز ہے ایک دفعہ جب استعمال کی تو جب وہ اثر ختم ہوا تو دل میں ایک گرید سی لگ گئی کہ اور بھی دیکھیں کیا ہے اور پھر وہ چلتے چلتے ایسی بھوک بن گئی کہ جس سے انسان تلملا نے لگتا ہے اور جب تک اس بھوک کا پیٹ نہ بھرے اس وقت تک اس کو چین نصیب نہیں ہوتا، تو بدیوں میں بھی تو لوگ چند دن میں عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں.نیکی کو اگر اس طرح آپ اختیار کریں کہ اس کا لطف حاصل کرنے لگیں پھر آپ کو ضرور عادت پڑے گی.پس عادت ڈالنی ہے تو اس کا دوسرا قدم بھی اٹھائیں اور عبادت سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں اور لوگوں کو طریقے سمجھائیں کہ کس طرح عبادت میں لطف اٹھایا جاتا ہے.ایک دفعہ جب میں نے عبادات ر مضمون پر سلسلہ شروع کیا تھا تو ایک خاتون نے مجھے لکھا کہ میرے بچے کو یہ سن سن کر پوری بات سمجھ آتی بھی نہیں تھی لیکن نماز کی عادت پڑ گئی.چھوٹا سا معصوم بچہ

Page 138

خطبات طاہر جلد 13 132 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء اور ضرور میرے ساتھ کھڑا ہو جاتا تھا اور سجدے کرتا تھا، ایک دفعہ وہ سجدے میں کچھ بول رہا تھا میں نے کہا کیا ہے.کہتا تم سے نہیں بات کر رہا، میں اللہ میاں سے بات کر رہا ہوں.اب دیکھیں اس کو اس میں بھی لطف آتا تھا تو کیوں آپ عقل والے ہو کر، بڑے ہو کر ، عبادت اس طرح ادا نہیں کرتے کہ اس سے لطف آنا شروع ہو جائے اور یہ لطف بھی اللہ سے مانگنا ہوگا.پس اس مہینے عبادت پر قائم ہوں اگر پہلے آپ کو لطف نہیں آتا اور صرف عادت ہے تو دعامانگیں اور کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عبادت کا لطف عطا کرے.پھر اپنے گھر والوں کے لئے یہ کوشش کریں اور ان کے لئے بھی یہ دعا کریں کہ اے اللہ رمضان کے چند دن ہیں گزر جائیں گے بعد میں ہم کہاں ٹکریں مارتے پھریں گے.وہ نیکیاں جواب قریب آ گئی ہیں، جنت قریب آنے کا یہ بھی تو مطلب ہے کہ نیکیاں آسان ہو گئی ہیں، پہنچ میں آگئی ہیں ہاتھ بڑھاؤ تو نیکی ہاتھ آ سکتی ہے ایسے وقت میں ہمیں نیکیاں عطا کر دے اور ایسی عطا کر کہ پھر آ کر جانے کا نام نہ لیں ، ایک دفعہ آئی تو ہماری ہو کر رہ جائیں.اس پہلو سے نمازوں کو قائم کریں اور نمازوں کے لطف اٹھائیں اور اٹھانے کی کوشش کریں اور اپنے ماحول میں نماز کو قائم کریں کیونکہ سب سے زیادہ نحوست کسی قوم پر عبادت سے دوری ہے.مذہبی قوم کہلاتی ہو اور عبادت سے عاری ہو جائے تو کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہتا اور وہ قو میں جو عبادت پر قائم ہوں اور اس کے مزاج سے عاری ہوں، اس کے عرفان سے خالی ہوں، ان کی زندگی بھی ویران رہتی ہے، ان کو کچھ نصیب نہیں ہوتا.اس لئے جماعت احمدیہ کو میں جس عبادت کی طرف بلا رہا ہوں وہ وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ اللہ کی عبادت تھی جس سے سینے ہی آباد نہیں ہوتے بلکہ اس کے گرد و پیش روشن ہو جاتے ہیں وہ ایسے لوگ بن جاتے ہیں جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے.نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ کہ ان کا نوران کے سینوں سے باہر آ کر ان کے آگے آگے چلتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی ہدایت کا موجب بنتا ہے.پس وہ تو سچی اور گہری عبادت سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ تو آنحضرت ﷺ نے اس زمانے ہی کے ذکر میں فرمایا کہ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَّهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الهدی ایسی مساجد بھی ہوں گی اس زمانے میں، جو بھری ہوئی ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی اور دیران.پس اپنی عبادتوں کو خالی اور ویران نہ بننے دیں بلکہ ہدایت سے پُر کریں، پھر ان سے وہ نور

Page 139

خطبات طاہر جلد 13 133 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء نکلے گا جو آپ کے ماحول کو روشن کرے گا، آپ کے گردو پیش کو روشن کرے گا، آپ کو ترقی کے نئے رستے دکھائے گا، آپ کے آگے آگے چلے گا اور اس کے فیض سے پھر آپ دنیا کو بھی حقیقی عبادت کا ذوق عطا کرنے کی اہلیت حاصل کر لیں گے.حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ” جب رمضان سلامتی سے گزر جائے تو سمجھو کہ سارا سال سلامت ہے ( دار قطنی بحوالہ جامع الصغیر ).اب رمضان کے سلامتی سے گزرجانے کا مطلب یہ ہے کہ جو رخ رمضان نے اختیار کر لیا وہ قائم ہو گیا اور دائمی ہو گیا.جس طرح ایک بندوق کی نالی سے گولی نکلتی ہے تو جس طرف نالی کا رخ ہے پھر جب تک دوسرے عوامل اس کا رخ موڑ نہیں دیتے وہ اسی طرف چلتی رہتی ہے.اگر ہوا نہ ہو، کشش ثقل حائل نہ ہو، دوسری اور ایسی باتیں جو کسی حرکت کرنے والے کی حرکت میں حائل ہو جاتی ہیں ، وہ در پیش نہ ہوں تو ہمیشہ ہمیش کے لئے اسی رخ پر وہ گولی چلتی رہے گی تو رمضان کا سلامتی سے گزر جانے کا مطلب ہے، ایک مہینہ تھیں دن کی عبادتوں کی عادت، نیکی کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہو کہ رمضان سے نکل کر بھی قبلہ وہی رہے جس قبلے کی طرف تم رمضان میں روانہ تھے وہ رخ نہ بدلے اور سارا سال سلامتی سے گزر گیا کا یہ مطلب ہے.یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان سے پیچھا چھڑاتے ہی ہر نیکی سے چھٹی کر جاؤ اور کہو چلو جی اب سال گزر گیا.سال گزرنے میں نصیحت یہ ہے کہ سلامتی میں کہتا ہی اس کو ہوں جس کے نتیجے میں سال بھر کو سلامتی نصیب ہو.مہینے کی سلامتی نہیں، ایک مہینہ سارے سال کی ضمانت لے کر آئے وہ رمضان ہے جس کو کہا جا سکتا ہے کہ سلامتی سے گزر گیا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو روزہ دار جھوٹی بات اور غلط کام نہیں چھوڑ تا اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.( بخاری کتاب الصوم) چھوڑے نہ چھوڑے، جو مرضی کرتا پھرے.اللہ تعالیٰ کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اس نے میری خاطر کھانا چھوڑ دیا اور پانی پینا بند کر دیا.جو چھوڑنے والی باتیں ہیں وہ یہ ہیں حقیقت میں اور جو چھڑائی جارہی ہیں وہ تو جائز باتیں ہیں وہ تو عارضی طور پر بد باتوں کو چھڑانے کے لئے آپ کو ایک ورزش کروائی جارہی ہے.تو عجیب بات ہے کہ لوگ وہ باتیں جو حلال ہیں اور جائز ہیں وہ تو چھوڑ دیتے ہیں روزوں میں، اور جو حرام ہیں وہ نہیں چھوڑتے اور بڑی بھاری تعداد ایسے بے وقوفوں

Page 140

خطبات طاہر جلد 13 134 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء کی ہے اور اگر آپ اپنے آپ کا جائزہ لیں تو اس بے وقوفی میں کسی نہ کسی حد تک تقریباً ہر انسان ہی مبتلا رہتا ہے.بڑے گناہ نہیں چھوٹے گناہ کرتا رہتا ہے، لغویات میں مصروف رہتا ہے.پس روزے رکھنے میں جو جائز چیزوں کو چھوڑنا ہے اس میں یہ سبق ہے کہ جائز چھوڑ رہے ہو خدا کا خوف کرو، ناجائز کی جرات کیسے کرو گے اللہ کی خاطر تم کہتے ہو کہ ہمیں ایسا پیار ہے خدا سے اس کی خاطر حلال چیزیں چھوڑنے پر آمادہ بیٹھے ہیں اور حرام نہیں چھوڑ سکتے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے اس کے روزے میں کوئی دلچسپی نہیں.کوئی اس کو فائدہ نہیں ہوگا.پس خصوصیت سے جھوٹی بات سے پر ہیز ، یہ ایک بہت ہی اہم اور عظیم نصیحت ہے اگر وہ لوگ جن کو جھوٹ کی عادت ہے اور بسا اوقات وہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کو پتا بھی نہیں لگ رہا ہوتا کہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن کبھی کبھی یاد بھی آجاتا ہے کہ ہاں ہم جھوٹے ہیں اگر خود وہ سوچیں تو پھر ان کو جھوٹ دور کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو.مصیبت یہ ہے کہ جب کوئی دوسرا کہے تو نہ صرف یہ کہ مانتے نہیں بلکہ غصہ کرتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم جھوٹ نہیں بولتے.ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں.ایک دفعہ ہمارے ہاسٹل میں ایک لڑکا ہوا کرتا تھا وہ جھوٹا مشہور تھا اور اس سے میں نے بات کی تو کہتا ہے کہ خدا دی قسم اے میں تے کدی وی جھوٹ نہیں بولیا“ کہ لو جی ”لوجی“ بھی بہت کہنے کی عادت تھی کہ لو یہ کیا بات ہوئی.میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور وہ جھوٹ بول رہا تھا کیونکہ ہر وقت جھوٹ بولتا تھا تو بعض لوگوں کو پتا نہیں لگتا.لیکن سب سے مہلک بیماری جھوٹ ہے، ہر نیکی کو کھا جاتی ہے، یہ وہ تیزاب ہے جس سے سونا بھی پکھل جاتا ہے.یکوار بیجا اس تیزاب کو کہتے ہیں جس سے سونا بھی نہیں بچتا تو یہ تو ہر نیکی کوکھانے والا تیز اب ہے اس سے بچنے کی کوشش کریں اور اپنے گھروں کو خصوصیت سے سچائی کی آماجگاہ بنا ئیں.اپنی بیویوں پر اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو بیوی کو چاہئے کہ وہ آپ پر نظر رکھے.بچے میری آواز سن رہے ہیں اور مجھے پتا ہے کہ آج کل احمدی بچوں کو بہت زیادہ شوق ہے اپنے بڑوں کی تربیت کرنے کا.وہ جو بات سن لیتے ہیں معصومیت سے اسے پلے باندھ لیتے ہیں اور پھر بڑے کو کرتے دیکھتے ہیں کہتے ہیں دیکھو دیکھو ہم لکھ دیں گے حضرت صاحب کو، کہ تم یہ کیا کر رہے ہو اور کئی ماں باپ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں بڑا لطف آیا بات سن کر.ان کی نصیحتیں ان کو پیاری بھی لگتی ہیں اور ان کے دل پر اثر

Page 141

خطبات طاہر جلد 13 135 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء بھی کرتی ہیں.اگر محلے والا کوئی آکے کہتا تو شاید اس پر مرنے مارنے پر یالڑنے پر آمادہ ہو جاتے.پس بچوں کو میں کہہ رہا ہوں جو میرے مخاطب ہیں میرے سامنے ٹیلی ویژن پر بیٹھے ہوں گے وہ تیار ہو جائیں مربی بننے کے لئے ، مگر گستاخی نہ کریں، ماں باپ آپ کے بڑے ہیں.ان سے تن کر نہ بولنا.ادب اور پیار سے ان کو سمجھا ئیں تو انشاء اللہ آپ کی باتوں کا نیک اثر پڑے گا.یہ جو آپ نے محاورہ سن رکھا ہے کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹ سکتا ہے، تو اے احمدی بچو تم وہ پھول کی پتیاں ہو جن سے سخت جگر بھی کٹ سکتے ہیں.اگر پیار سے اللہ کی خاطر ، ہمدردی سے، اپنے بڑوں کو نصیحت کرو گے تو دیکھنا انشاء اللہ ان کے دل پر اس کا کیسا گہرا اثر پڑے گا.تو تم بھی نگران ہو جاؤ اور اپنے گھروں میں جھوٹ کو داخل ہونے کی اجازت نہ دو اور جو داخل ہوئے ہیں ان کو دھکے دے دے کر باہر نکال دو.وہ جماعت جو جھوٹ سے پاک ہو جائے اور اس زمانے میں جبکہ جھوٹ نے ساری انسانی زندگی پر قبضہ کر رکھا ہے.اس کی بقا کی آسمان ضمانت دے گا خدا ضمانت دے گا.کوئی دنیا کی طاقت آپ کا بال بیکا نہیں کر سکے گی اگر آپ بچے ہو جائیں.عقائد میں سچے ہیں ، اعمال میں سچا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ کے زہر سے اپنے اعمال کو روز بروز ضائع کرتے چلے جاتے ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ تیزاب ہے جو نیکیاں کھاتا جاتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بہت سخت تکلیفیں پھیلتی ہیں.جھوٹ کے نتیجے میں کئی طلاقیں ہوتی ہیں، کئی گھر جہنم بنے رہتے ہیں اور روز مرہ کی جھوٹ کی عادت سے انسان اپنے باہر کے نقصان بھی کراتا ہے.تجارتوں میں بے برکتی پڑ جاتی ہے جو شراکتیں ہیں وہ نا کام ہو کر ٹوٹ جاتی ہیں اور تلخیاں پیچھے چھوڑ جاتی ہیں.یہ تو بہت ہی خبیث چیز ہے.اس لئے اس رمضان میں جھوٹ کے خلاف بھی جہاد کریں اور جھوٹ کے خلاف جہاد میں بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کریں.چھوٹے بڑے سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ کی لعنت سے نجات بخشے.اور میں جو بار بار کہہ رہا ہوں اس کی وجہ ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض احمدی نیکیاں اختیار کرنے کے باوجود جھوٹ کو اس شدت سے نہیں چھوڑ رہے جیسا کہ ایک سخت نفرت کے رویے سے جھوٹ کو ترک کر، باہر پھینک دینا چاہئے اس طرح دلوں سے اکھیڑ کر باہر نہیں پھینکا ہوا.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ان کو ضرورت پیش آتی ہے تو جھوٹ بول جاتے ہیں.یعنی روز مرہ نہیں بول

Page 142

خطبات طاہر جلد 13 136 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1994ء رہے ہوتے ہیں اگر گواہی دینی ہے کہیں، کہیں اپنے مقصد کی بات ہو، کہیں کسی جرم سے، کسی سزا سے بچنا ہو، کہیں اسامکم ڈھونڈ نا ہو، کہیں اور اس قسم کے معاملات ہوں جہاں روز مرہ ان کی زندگی کو فائدہ ہوگا تو پہلا خیال ہی ان کے دماغ میں جھوٹ کا آتا ہے کہ کس طرح جھوٹ بولیں کہ ہم اس مصیبت سے بچ جائیں اور فلاں فائدہ حاصل کر لیں.ایک انشورنس ہے، اس کا ناجائز استعمال ہے.روزمرہ کی زندگی میں حکومت کچھ دلوا رہی ہے اور آپ اپنا کام کر رہے ہیں.اگر کر رہے ہیں تو پھر پکڑے جانے پر اس کے عواقب کے لئے بھی تیار رہیں.کیوں آپ کرتے ہیں؟ اگر تو اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ اگر ہم پکڑے گئے تو ہم مانیں گے اور اس سے بڑی بدی میں مبتلا نہیں ہوں گے.اگر ایسا یقین ہو تو اکثر آپ میں سے کام ہی چھوڑ کے بھاگ جائیں لیکن جو کرتے ہیں اکثر ان کے دل میں اسی قسم کے چور چھپے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں اگر پکڑے گئے تو ہم نے یہ کہنا ہے ہم تو یوں کر رہے تھے اور یہ بات ہورہی تھی یا غلط اطلاع دی گئی ہے جھوٹ ہے ، جھوٹے الزام ہیں.پس ہر انسان کے جسم کے اندر اس کے دل میں اس کے رگ و پے میں جھوٹ کے چور چھپے ہوئے ہیں اور حقیقت میں اگر وہ غور کرے تو خدا سے بڑھ کر ان کی عبادت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب سخت مصیبت کا وقت آتا ہے تو بعض مشرک بھی میری طرف دوڑتے ہیں اور مجھ سے مدد مانگتے ہیں.جب سمندر میں ہواؤں کے مزاج بدل جائیں اور لہریں کشتی کو اس طرح تھیٹڑے دینے لگیں کہ کسی وقت بھی وہ غرق ہو سکتی ہو اس وقت مشرک بھی خدا کو پکارنے لگتا ہے.اس موحد کا کیا حال ہو گا جب وہ زندگی میں ادنی سی مشکلات کا سامنا کر رہا ہو ، جب اس کی کشتی کو معمولی ہچکولے لگ رہے ہوں اور وہ خدا کی طرف دماغ لے جانے کی بجائے کسی جھوٹ کی طرف مائل ہو رہا ہو تو اس جھوٹ کو خدا بنانے کے مترادف بات ہے اور بہت ہی مکروہ بات ہے.ساری عمر کی تو حید کو یہ جھوٹ کھا جاتا ہے اور باطل کر دیتا ہے.پس جھوٹ سے بچنے کی پہچان یہ ہے کہ اپنے اعمال پر غور کریں اور یہ فیصلہ کرتے رہیں بار بار کہ اس عمل کے نتیجے میں اگر میں کبھی ایسے مقام پہ پہنچوں جہاں مجھے کوئی خطرہ درپیش ہو تو آیا میں جھوٹ کا سہارا لئے بغیر سزا کو خوشی سے قبول کرتے ہوئے اپنی توحید کا سچے دل سے اقرار کر سکتا ہوں کہ نہیں.توحید کے ساتھ وفا دکھا سکتا ہوں کہ نہیں.اگر نہیں تو پھر اس کی زندگی میں خطرے کا الارم بج

Page 143

خطبات طاہر جلد 13 137 خطبه جمعه فرمود و 18 فروری 1994ء رہا ہے.ہر وقت وہ ان خطرات کا سامنا کر رہا ہے جو مشرک کو در پیش ہوتے ہیں.اس لئے جب کامل یقین اور سچائی کے ساتھ آپ اپنے نفس کا معائنہ کرتے ہیں اور پھر جھوٹ کو کرید کرید کر باہر نکال پھینکتے ہیں تو پھر تو حید آپ کے دل میں جاگزین ہوتی ہے اور پھر کسی جھوٹ کی ضرورت نہیں رہتی.پھر خدا آپ پر اس طرح جلوہ گر ہوتا ہے اور اسی طرح آپ کی حفاظت میں اور آپ کی پناہ میں کھڑا ہو جاتا ہے کہ پھر ان باتوں کی ضرورت ہی کوئی نہیں رہتی تب انسان کو پتہ لگتا ہے کہ امن کیا ہے.سلام کے کیا بچے معنی ہیں.اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دینا کیا ہوتا ہے.پس سلامتی سے جس مہینے میں سے گزرنے کا ذکر ہے اس میں یہ بنیادی سلامتی ہے.توحید حاصل کر لیں اور اللہ کی پناہ میں آجائیں.اگر آپ کو یہ نصیب ہو تو یقین کریں کہ آپ کا مہینہ ہی سلامتی سے نہیں گز را بلکہ سال سلامتی سے گزر گیا ہے اور پھر ایک اور سلامتی کے مہینے میں سلامتی ہو جائے گا یعنی ساری زندگی آپ کی سلامتی میں گزرگئی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 144

138 خطبات طاہر جلد 13

Page 145

خطبات طاہر جلد 13 139 خطبه جمعه فرمودہ 25 فروری 1994ء روزہ جسم اور روح کی زکوۃ ہے.قیام نماز اور مالی قربانی سے خدا آپ میں نور پیدا کرے گا.( خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کریمہ کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفَقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابِ اَلِيْهِ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكُوى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزُتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوْا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ (التوبه : ۳۴-۳۵) پھر فرمایا:.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے اس کے مضمون میں داخل ہونے سے پہلے میں ایک اور بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.کل کا دن جماعت کی تاریخ میں ایک بہت ہی روشن دن تھا یعنی 13 / رمضان.کل سے پورے سو سال پہلے قادیان کے افق پر اور وہ افق مکہ تک پھیلا ہوا تھا خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تیرہ سو سال میں پہلی بار اس عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور ہوا جو حضرت رسول ﷺ کے صلى

Page 146

خطبات طاہر جلد 13 140 خطبه جمعه فرمود و 25 فروری 1994ء مہدی کی صداقت کا نشان تھا.وہ پیشگوئی آنحضرت ﷺ کی صداقت کا ایک عظیم نشان تھی اور اس کا ذکر اس حدیث میں ملتا ہے کہ: إِنَّ لِمَهْدِيّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ (سنن دار قطنی باب صفۃ صلوۃ الخسوف والكسوف) اس پیش گوئی سے متعلق انشاء اللہ تفصیلی گفتگو تو بعد میں ہوگی لیکن چونکہ کل رمضان مبارک کی وہ تیرہ تاریخ تھی جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے عشاق کی نگاہیں آسمان پر حمد و شکر سے لبریز ہو کر اس حالت میں پڑتی تھیں کہ روحیں سجدہ ریز تھیں اور نظر اس آسمانی نشان پر تھی اور انتظار میں تھے کہ کتنے دن اور سورج کے گرہن کا نشان ظاہر ہونے میں باقی ہیں.ایک ایک دن کاٹ کر کٹے اور پھر سورج کی وہ 28 تاریخ پہنچی جس میں دن کے وقت سورج نے بھی گہنایا جانا تھا اور اس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی عظیم پیشگوئی پوری ہوئی.یہ عجیب بات ہے کہ اگر چہ دنیا میں بہت سے مہدویت کے دعوے داروں کا ذکر ملتا ہے لیکن ساری تاریخ کو کھنگال کر دیکھ لو ایک بھی دعوے دار ایسا نہیں جس نے چاند اور سورج کے گر ہنوں کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کیا ہو.جو دعوے کے بعد خود منتظر رہا اور اس کے ماننے والے منتظر رہے ہوں کہ کب آسمان سے یہ نشان ظاہر ہوں گے اور ان کے دشمن بھی منتظر رہے ہوں کہ ان نشانات کے ظاہر ہونے سے پہلے یہ دعوے دار مرجائے اور ہم اپنی آنکھوں سے اس کا جھوٹا ہونا دیکھ لیں.یہ دوہرے انتظار کی کیفیت تھی جو 1889ء سے شروع ہوئی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے با قاعدہ مہدویت کے دعوے کے بعد جماعت کی بنیا درکھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ 1894ء میں یہ پیشگوئی اپنی تمام کمال شان کے ساتھ پوری ہوئی.ہم اس سال میں داخل ہوئے ہیں جو آسمانی گواہیوں کا سال ہے.زمین کی گواہیاں تو یہ لوگ رد کر بیٹھے ہیں اب آسمان سے گواہیاں اتر رہی ہیں اور ٹیلی ویژن کے ذریعے سب دنیا کا جماعت احمدیہ کے پیغام کوسننا بھی ایک آسمانی گواہی ہے اور یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ اسی سال میں

Page 147

خطبات طاہر جلد 13 141 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء یہ دونوں باتیں اپنے درجہ کمال کو پہنچی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کا جماعت جتنا بھی شکر ادا کرے اتنا ہی کم ہے مگران خوشیوں کے ساتھ کچھ کانٹے بھی تو ہیں وہ کانٹے وہ ہیں جو دشمن کے دل کا عذاب ہے اور ہماری راہ کے کانٹے بن جاتے ہیں اور یہ پیشگوئی بھی لازما پوری ہوئی تھی کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی مے کے ان غلاموں کے حق میں جنہوں نے آخرین میں ظاہر ہونا تھا خصوصیت سے تمثیلی پیش کی گئی تھی کہ ان کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے ایک بیج بویا جائے ، اس میں سے کو نیل پھوٹے ، پھر وہ اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہو کر مضبوط ہونے لگے اور بہت خوش نما دکھائی دے.زراع وہ بونے والے ہاتھ اور وہ بونے والے دل جنہوں نے اس کھیتی کو بویا ہو اس سے بہت خوشی محسوس کریں.يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ وہ کھیتی اس شان کے ساتھ نشونما پائے کہ بونے والوں کے دلوں کو خوشیوں سے بھر دے.لِيَغِيظَ بِهِمُ الكُفَّار مگر یا درکھو کہ ان کے منکر ضر ور غیظ و غضب میں مبتلا ہوں گے.ایک طرف اس کھیتی کی نشو ونما دلوں کو خوشیوں سے بھر رہی ہوگی اور دوسری طرف ان کے دشمن اسے دیکھ دیکھ کر غیظ و غضب میں مبتلا ہوں گے.پہلے زمینی ذرائع سے کام لے کر زمین میں ہونے والے نشانات کے منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اب آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں.بند کر کے دکھاؤ.ان کا رستہ روک کر دکھاؤ تم میں طاقت نہیں ہے کہ اس رستے کو روک سکو.پھونکوں سے اللہ کے جلائے ہوئے چراغ بھی کہیں بجھائے جاتے ہیں!! تم نے ربوہ والوں کا چراغاں روک دیا مگر ربوہ کی طرف سے جو چراغاں ہم نے کل عالم کو دکھایا ہے اسے کس طرح روک سکو گے؟ یہ وہ چراغ نہیں ہیں جو تمہاری پھونکوں سے بجھ سکیں.تمہارے سینے کی آگ بھی ظاہر ہوتی ہے اور دنیا دیکھتی ہے مگر وہ روشنی کے چراغ جو اللہ نے احمدیوں کے سینوں میں روشن کر دیئے ہیں اور تمام دنیا میں اس سے نور ہی نور پھیل رہا ہے ان کی راہ تم نہیں روک سکتے اور ان شمعوں کو تم نہیں بجھا سکتے.یہ آسمان سے نازل ہونے والے نور ہیں ان پر بندے کا کوئی اختیار نہیں ہے.پس اہلِ ربوہ کو اب خوش ہونا چاہئے کہ پہلے تو ان کی خوشیوں کی آواز دبا دی جاتی تھی اب

Page 148

خطبات طاہر جلد 13 142 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1994ء وہ آواز نہیں دبے گی.ان کی خوشیاں منانے والے سارے عالم میں ان کی طرف سے خوشیاں منائیں گے اور یہ خوشیوں کے دن بڑھنے والے ہیں پھیلنے والے ہیں روشن سے روشن تر ہونے والے ہیں.وہ دن ہیں جو راتوں کو بھی دن بنا دیں گے.اس لئے جماعت احمدیہ کو ان تکلیفوں پر کسی غم اور دکھ کی ضرورت نہیں.یہ ہماری کامیابیوں کا ایک لازمی حصہ ہے.قرآن کو کیسے بدلا جا سکتا ہے.قرآن کی پیش گوئی ہے کہ تم جب جب آگے بڑھو گے تب تب دشمن کو تکلیف پہنچے گی.پس یہ تکلیف بھی ایک نشان ہے اور ہمارا آگے بڑھنا بھی ایک نشان ہے.اس راہ میں آگے سے آگے بڑھتے چلو.خدا کی تائید تمہارے ساتھ پہلے سے بڑھ کر قوت کے مظاہرے کر رہی ہے، پہلے سے زیادہ بڑھ کر روشن نشان دکھا رہی ہے اس قافلے کا رُخ اب آگے کی طرف اور بلندی کے بلند تر منازل کی طرف ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ جماعت پہلے سے کہیں زیادہ تیری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور بڑھتی چلی جائے گی.رمضان مبارک میں دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عبادالشکور بنائے.جتنے احسان خدا کے نازل ہوئے ہیں حقیقت میں ہم مجسم شکر بن جائیں ، ہمارا رواں رواں شکر ہو جائے تب بھی ان کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور جو شکر ، جتنا بھی ہم ادا کرتے ہیں وہ آسمان پر پھر قبول ہو رہا ہے اور پھر رحمتیں بن کر ہم پر برسنے والا ہے.پس یہ تو ایک ایسا دور ہے جو لا متناہی روحانی لذتوں کا دور ہے اب تو نشے میں ڈوب کر آگے بڑھنے کا معاملہ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ دن بدن اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فیض پہلے سے بڑھ کرشان کے ساتھ اتریں گے اور آسمان کے رنگ زمین کے رنگ بدل دیں گے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ہے.آپ کو الہاما بتایا گیا تھا کہ آراء تبدیل کی جائیں گی.یہ رنگ بدلے جائیں گے اور دیکھیں انشاء اللہ تعالیٰ دن بدن ایسا ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو جو اس وقت زندہ ہیں اس خوشیوں کی زندگی میں آگے بڑھائے.ہم اپنی آنکھوں سے یہ نشان پورے ہوتے دیکھیں اور ہماری آنکھیں ہمارے دل کے لئے مسرتوں کی بارش برساتی رہیں اور ہمارے دل اس سے سیراب ہوتے رہیں.قرآن کا محاورہ ہے آنکھیں ٹھنڈی کرنا.میں نے جب آنکھوں کی بات کی تو میرے ذہن میں وہ آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی بات تھی.میں نے سوچا کہ دل کے ٹھنڈا ہونے کا ذکر نہیں، آنکھوں

Page 149

خطبات طاہر جلد 13 143 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء کے ٹھنڈا ہونے کا ذکر ہے.اس سے یہ مضمون میرے ذہن میں ابھرا جسے میں نے بیان کرنے میں شروع میں دقت محسوس کی کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے جو طراوت بن کر دل پر اترا کرتی ہے اور اس سے دل اپنی پاتال تک سیراب ہو جایا کرتا ہے.پس قرآن کریم نے بہت ہی پیارا محاورہ استعمال فرمایا ہے کہ قراۃ العین نصیب ہونے کی دعا مانگا کرو تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے قراۃ العین کے سامان فرما دیئے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ بڑھتے چلے جائیں گے.اب میں اس آیت کے مضمون کی طرف آتا ہوں جس کی میں نے تلاوت کی تھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے وہ لو گو جوایمان لائے.كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ بہت سے ایسے دینی علم رکھنے والے اور بظاہر خدا کی یاد میں الگ ہو جانے والے پیر و فقیر یعنی علماء بھی اور پیر بھی ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال باطل سے کھاتے ہیں اور باطل ذریعوں سے لوگوں کا مال کھانے والوں کی علامت کیا ہے؟ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں.اس طرح وہ پہچانے جائیں گے اور عجیب بات ہے کہ جماعت کے مخالفین کا رزق اللہ کے راستے سے روکنے میں رکھا گیا ہے.قرآن کریم نے دوسری جگہ اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.کیا تم تکذیب میں اپنا رزق پاتے ہو، اس لئے تکذیب کرتے ہو کہ یہاں سے تمہیں رزق ملتا ہے، وہی مضمون ہے جسے یہاں باندھا گیا ہے کہ ایسے حرام مال کھانے والے تمہیں بظاہر نیک لوگوں میں ملیں گے.جبہ پوشوں میں ملیں گے علم کا دعویٰ کرنے والے.خدا کی خاطر دنیا ترک کرنے والوں میں ملیں گے.مگر ان کی پہچان کیا ہوگی؟ وہ خدا کے راستے میں روکیں ڈالیں گے اور یہی ان کا اموال کے کھانے کا ذریعہ بن جائے گا.یہ بات اس میں مضمر ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور گروہ کا بھی ذکر فرمایا ہے وہ ہے.وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کمائی خود کرتے ہوں چاہے حلال ذریعے سے کریں چاہے حرام ذریعے سے کریں مگر مال کی محبت ایسی رکھتے ہیں کہ مال کو جمع کرنا ہی ان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے.وہ چاندی اور سونا جمع کرنے میں اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں اور ان کی نشانی کیا ہے کہ یہ خدا کو ناراض کرنے والے ہیں؟ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ الله یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہیں پاتے اور یہ وہ دونوں

Page 150

خطبات طاہر جلد 13 144 خطبه جمعه فرمود : 25 فروری 1994ء گروہ ہیں جو در حقیقت منکرین سے ہی تعلق رکھتے ہیں.فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابِ اَلِيْهِ.انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دے.يَوْمَ يُحْيِي عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكُوى بِهَا جِبَاهُهُمُ وَجُنُوبُهُمْ جب ان کی پیشانیاں اس دولت سے جو جمع کی ہے داغی جائیں گی اور ان کے پہلو بھی ان کی پیٹھیں بھی.هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ.یہ کچھ ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا پیس آج اس اندوختے کا مزہ چکھو جو تم اپنے حق میں جمع کرتے رہے ہو.یہ جو نتیجہ ہے یہ دونوں پر برابر صادق آتا ہے.دوالگ الگ گروہ بیان ہوئے.اب دیکھیں جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سے کتنی مختلف ہے.ان دونوں مثالوں پر غور کر کے دیکھیں.اس کا برعکس جماعت احمدیہ پر صادق آتا ہے.وہ حرام کمائی نہیں کرتے اور اللہ کی راہ سے روکتے نہیں بلکہ اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ کی راہ کی طرف بلالنے کے لئے خرچ کرتے ہیں.اب یہ لوگ ان سے کتنے مختلف ہیں جن کا اس آیت میں ذکر گزر چکا ہے اور مال اور دولت کی محبت اس حد تک ان کے دلوں میں نہیں ہوتی کہ وہ اس سے دولتوں کے ڈھیر بنانے لگیں جائیں اور اپنے لئے خزانے جمع کرنے لگ مگر جب انہیں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف بلایا جائے تو اس میں تردد نہ کریں.لیکن ایک حصہ اس آیت کا بعض دفعہ مومنوں کی جماعت کے کمزور حصے پر کچھ نہ کچھ صادق آتا ہے.یہ دولت کا حصہ ہے، یہ دولت کمانے کا لازمی منفی نتیجہ ہے جو کسی نہ کسی حد تک انسان کو پہنچتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دولت کی محبت کے نتیجے میں اس کو بڑھانے کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ جب وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو بسا اوقات ان سے غلطی ہوتی ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق نہیں کرتے جبکہ دوسری طرف غریب اپنی توفیق سے بڑھ کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں.یہ نظارہ ہم نے بارہا دیکھا ہے.ابھی حال ہی میں جب ٹیلی ویژن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ عالمی نشان ظاہر فرمایا تو بغیر مانگے کے از خود جماعت کے مخلصین نے جس طرح روپیہ نچھاور کیا ہے اور احمدی خواتین نے زیور قربان کئے ہیں.ایک عجیب روح پرور نظارہ ہے، اس کی مثال باہر دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گی مگر اس کے ساتھ ہی میں نے یہ دیکھا ہے کہ جوں جوں دولت کی طرف بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے، خدا کے فضل سے کچھ ایسے انعام یافتہ لوگ بھی ہیں جو دولت میں بڑھنے

Page 151

خطبات طاہر جلد 13 145 خطبه جمعه فرمود و 25 فروری 1994ء کے باوجود خرچ میں بھی خوب آگے بڑھتے ہیں مگر ایسے بھی ہیں کہ وہ خرچ تو کرتے ہیں مگر وہ جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے کہ اس توفیق کے مطابق کیا ہے یا نہیں کیا.قرآن کریم نے اس کے لئے ایک ایسی پہچان رکھی ہے کہ آیا تم نے اپنی توفیق کے مطابق خرچ کیا ہے کہ نہیں.پھر اس سے ہر شخص خود اپنی کیفیت کو جانچ سکتا ہے اور وہ پہچان یہ ہے.وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.وہ خرچ کرتے ہیں خواہ دل میں تنگی محسوس ہو رہی ہو یعنی خرچ کی خواہش کی تنگی نہیں ،خرچ کرنے کے نتیجے میں کچھ تکلیف محسوس ہو رہی ہو.دوسری جگہ فرمایا وہ خرچ کرتے ہیں جبکہ مال کی محبت ان کی راہ میں حائل ہوتی ہے اور پھر بھی خرچ کرتے ہیں.اگر ایک شخص اتنا خرچ کرے کہ مال کی محبت کو نقصان نہ پہنچ رہا تو وہ خرچ کرتے ہیں.اگر ایک شخص اتنا خرچ کرے کہ مال کی محبت کو نقصان نہ پہنچ رہا ہو تو وہ خرچ جو ہے وہ توفیق سے کم ہے اگر اتنا خرچ کرے کہ مال کی محبت کو زک پہنچے اور تکلیف محسوس ہو رہی ہو کہ یہ تو میرا جمع کیا ہوا اندوختہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے فلاں جگہ میں اسے دوبارہ تجارت میں لگا سکتا تھا اور اتنازیادہ رو پیدا اپنے مال سے نکالنا شاید میرے لئے نقصان کا موجب ہو، جہاں یہ فکروں کی حد شروع ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان آیات کی حد ختم ہو جاتی ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے.ان کو اس حد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے.پس ہر احمدی کو اپنے نفس کو اس طرح جانچنا چاہئے کہ جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے اس میں سے وہ اس طرح خرچ کرتا ہے کہ نہیں کہ خَصَاصَةٌ کے باوجود پھر بھی خرچ کر رہا ہو اور مال کی محبت حائل ہو رہی ہو اور پھر بھی خرچ کر رہا ہوا گر وہ اس طرح خرچ کرتا ہے تو وہ مقام محفوظ پر ہے اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے.اس مضمون کا رمضان سے بھی خصوصیت سے تعلق ہے اور جنت میں داخل ہونے سے بھی اس کا ایک خصوصیت سے تعلق ہے اور چونکہ رمضان جنت کے دروازے کھولے ہوئے ہمارے پاس آیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہم سب کی زندگیوں میں یہ دروازے کھل رہے ہوں گے.اس لئے آج میں اس مضمون کو نسبتا زیادہ کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.

Page 152

خطبات طاہر جلد 13 146 خطبه جمعه فرمود و 25 فروری 1994ء اِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِابْتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (الاعراف : 41) کہ یقیناً وہ لوگ جنہوں نے جھٹلا دیا ہماری آیات کو اور تکبر سے کام لیا ان وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا یعنی ان سے منہ موڑا ہے تکبر کے باعث.لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے.وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ اور ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے.وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں.اب یہی مضمون ہے جسے مسیح علیہ السلام نے ایک اور رنگ میں بیان فرمایا ہے اور بات وہی ملتی جلتی ہے.یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے.“ یہاں متکبر کی بجائے دولت مند کے الفاظ استعمال کئے ہیں.دولتمند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو.شاگرد یہ سن کر بہت ہی حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ پھر کون نجات پاسکتا ہے؟ یسوع نے ان کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ آدمیوں سے تو نہیں ہوسکتا لیکن خدا سے سب کچھ ہوسکتا ہے.“ (متی باب 19 آیات 23 تا 26) پہلی بات جو اس میں قابلِ غور ہے کہ مثال دونوں جگہ ایک ہی دی گئی ہے.کلام الہی ہے جو سیح پر نازل ہوتا ہے تو اس مثال کو خاص رنگ میں پیش فرماتا ہے اور جب مذہب درجہ کمال کو پہنچتا ہے اور خاتم النبین دنیا میں تشریف لاتے ہیں ان کے سامنے یہی مثال ایک مختلف رنگ میں رکھتا ہے.کیا ان دونوں میں کوئی قدر مشترک ہے؟ پہلی بات تو یہ سوچنے کے لائق

Page 153

خطبات طاہر جلد 13 147 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1994ء ہے اور قدر مشترک یہ ہے کہ تکبر جس کے خلاف سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیا ہے انسان کے اس فرضی حجم کو کہتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.انسان اپنے آپ کو بڑھا لیتا ہے اپنی دانست میں اپنے آپ کو بڑا سمجھ رہا ہوتا ہے اور ہوتا نہیں ہے.ایسا ہی ہے جیسے ایک چھوٹی سی کیٹری جو سوئی کے ناکے سے گزرسکتی ہو لیکن اتنا پھلا لے اپنے آپ کو کہ اونٹ کے برابر ہو جائے.ایسی کیٹری کا اس ناکے میں سے گزرنا ناممکن ہے جب تک وہ اپنے آپ کو اونٹ سمجھتی یا دنیا کو دکھاتی رہی ہو کہ میں اونٹ جیسی ہوں اور یہ فرضی حجم جو ہے یہ اس کی راہ میں ہمیشہ حائل رہے گا.اور مسیح کو جو تمثیل دی گئی ہے وہ دولتمند کی ہے.دولتمند بھی موٹا ہو جاتا ہے اور دورنگ میں موٹا ہوتا ہے ایک تو یہ کہ جمع کرنے کا شوق اتنا بڑھتا جاتا ہے کہ وہ اپنا مالی حجم بڑھانے میں ساری عمر ضائع کر دیتا ہے اور جب تک وہ پھولتا رہے اور پھیلتا رہے اس وقت تک اس کو اطمینان نصیب رہتا ہے.جہاں یہ سفر ختم ہو و ہیں اس کے لئے عذاب شروع ہو جاتا ہے.تو اس کی جنت ہی اس کے پھولنے اور پھیلنے میں ہے یعنی مالی لحاظ سے بڑھنے میں ہے اور ایسے شخص کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے مسیح کو کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا.قرآن کریم کی جو مثال میں نے گنَزُ تُم والی دی ہے اس میں بھی دراصل یہی مضمون ہے جو پہلے بیان کیا جا چکا ہے.جو مال جمع کرتے ہیں وہ کیوں جنت میں داخل نہیں ہوں گے؟ اس لئے کہ جنت کے رستے چھوٹے اور عاجزی کے رستے ہیں اور حقیقت کے رستے ہیں، سچائی کے رستے ہیں.اپنی تمناؤں سے جو جھوٹی شخصیت تم اپنی بنا بیٹھے ہو، اس جھوٹی شخصیت کا اس تنگ رستے سے داخل ہونا ممکن ہی نہیں ہے.حضرت رسول اکرم ﷺ کو جو تمثیل بتائی گئی ہے وہ چونکہ بالکل صحیح انہیں الفاظ میں محفوظ ہے جن میں خدا نے آپ سے فرمائی، اس لئے اس میں ایک زیادہ حکمت کی بات دکھائی دیتی ہے اور مسیح کو جو تمثیل بتائی گئی ممکن ہے وہ بھی ایسے ہی الفاظ میں بتائی گئی ہومگر بعد میں کچھ تبدیلی واقع ہو گئی ہو.لیکن ایک بنیادی فرق ہے جسے میں ظاہر کرنا چاہتا ہوں وہ فرق یہ ہے کہ مسیح کو یہ کہا گیا ہے یعنی مسیح کی طرف یہ بات منسوب ہوئی ہے کہ: اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا

Page 154

خطبات طاہر جلد 13 اس سے آسان ہے 66 148 خطبه جمعه فرمود و 25 فروری 1994ء یہ فرمایا گیا ہے اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا زیادہ آسان ہے.دولت مند کا خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا ممکن نہیں ، اس سے زیادہ مشکل ہے.اب یہ جو تمثیل ہے یہ کلیہ ہر دولت مند کو ہمیشہ کے لئے مایوس کرنے والی ہے.اس کے لئے کوئی نجات کا رستہ نہیں چھوڑتی.لیکن قرآن کریم نے جو تمثیل تکبر کے تعلق میں بیان فرمائی ہے اس میں فرمایا ہے ” یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے، یعنی اس کے گزر جانے کا امکان موجود ہے.تلاش کرو وہ کون سا رستہ ہے اور تکبر کے تعلق میں رستہ، بجز کا رستہ ہے، انکسار کا رستہ ہے، اپنی حقیقت کو پہنچاننے کا رستہ ہے.جب تکبر چھوڑ کر انسان بجز میں داخل ہوتا ہے تو اپنے آپ کو وہ کیڑا سمجھنے لگتا ہے جس کا ہر باریک سوراخ سے نکلنا آسان ہو جاتا ہے.کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ( در شین صفحہ: 25) یہ ہے اس کو جواب تکبر کے مقابل پر وہ کیا چیز ہے جو انسان اختیار کرے تو پھر واقعہ سوئی کے ناکے سے گزر جائے گا.پس قرآن کریم کا عجیب کلام ہے.حیرت انگیز فصاحت و بلاغت پر مشتمل اور کیسے کیسے گہرے حکمتوں کے راز ہمیں سمجھاتا ہے، ہم پر روشن کرتا ہے.پس امیروں نے اگر واقعہ جنت کی طمع رکھنی ہے اور امید رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرمائے گا، رمضان مبارک یہ پیغام لے کے آیا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی غلامی علیه میں اور آپ کی پیروی میں جو پہلے خرچ کرتے تھے اس سے بہت زیادہ خرچ کرو اور اپنے نفس کو چھوٹا کرنے کی کوشش کرو.اپنی حرصوں کو کم کرو کیونکہ جب تک تمہارا طمع کا وجود تمہیں نہیں چھوڑتا اس وقت تک تمہارا بدن ہلکا نہیں ہوسکتا اور تم چھوٹے نہیں ہو سکتے.یہ رمضان اس پہلو سے ہر انسان کے لئے ایک پیغام لے کے آیا ہے جسموں کے لئے بھی یہ زائد چربیوں کے پگھلانے کے دن ہیں وہ جوتن آسان ہیں اور امیر کھا کھا کر موٹے ہو جاتے ہیں اور کام کی توفیق کم ملتی ہے ان کے لئے بھی یہ رمضان ایک خوشخبری لے کے آیا ہے.ان بیماروں کے لئے بھی لایا ہے جو کم کھانے کے باوجود پھر بھی موٹے ہو جاتے ہیں.یہ پتلا کرنے والا مہینہ ہے.پس

Page 155

خطبات طاہر جلد 13 149 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء اگر یہ چربی جو روحانی طور پر کسی انسان پر چڑھتی ہے اسے گھلانا ہے تو رمضان وہ گرمی لے کر آیا ہے جو اس چربی کو پگھلا دیتی ہے.اگر جسمانی چربی کو کم کرنا ہے تو روزے اس میں تمہارے مدہوں گے اور تمہیں پہلے سے بہتر حال میں چھوڑ دیں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا.یہ حضرت ابو ہریہ یہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر چیز کو پاک کرنے کے لئے اس کی ایک زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے.(ابن ماجہ کتاب الصیام حدیث نمبر: 1735) اب اسے صرف روح کی زکوۃ نہیں فرمایا.روح کی زکوۃ بھی ہے مگر یہاں خصوصیت سے جسم کی زکوۃ کا ذکر فرمایا ہے.ایک اور حدیث میں ہے یہ جامع الصغیر سے لی گئی ہے.”صُومُوا تَصِحُوا “ اگر تم صحت مند ہونا چاہتے ہو تو روزے رکھو.تمہاری ضرورت سے زائد چر بیاں پکھلیں گی اور ہلکا بدن اختیار کرنے کی توفیق ملے گی.پھر فرمایا: صبر کے مہینے یعنی رمضان کے روزے سینے کی گرمی اور کدورت دور کرتے ہیں.“ ( جامع الصغیر) رمضان تو خود گرمی کا نام ہے پھر یہ سینے کی گرمی اور کدورت کیسے دور کرتا ہے.اگر خالصہ طبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو کیلسٹر ول Cholesterol کو کم کرتا ہے جو سینے کی جلن کا موجب بنتا ہے جب وہ خون کی نالیوں میں بیٹھتا ہے اور اس کے نتیجے میں نالیاں تنگ ہوتیں اور خون دل تک صحیح مقدار میں پہنچتا نہیں ہے تو سینے میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور آنحضرت یہ فرماتے ہیں کہ رمضان سے یہ فائدے بھی اٹھاؤ.تمہارے سینے میں جو جلن ہوتی ہے کوئی اس کو Heart Burn کہہ رہا ہے کوئی Angina کی وجہ سے جل رہا ہے.کئی قسم کی بیماریاں مُستیوں کے نتیجے میں انسان کو لاحق ہو جاتی ہیں.فرمایا ہر دفعہ رمضان کی بھٹی سے نکلو گے تو تمہاری ضرورت سے زیادہ چر بیاں پگھلیں گی اور تمہارے سینوں کو سکون ملے گا اور ٹھنڈ نصیب ہوگی اور روحانی لحاظ سے بھی یہ تینوں چیزیں اپنی جگہ

Page 156

خطبات طاہر جلد 13 150 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء صحیح طور پر صادق آ رہی ہیں اور اطلاق پاتی ہیں.ہر چیز کو پاک کرنے کی ایک زکوۃ ہوتی ہے.رمضان جسم کے ظاہر و باطن کی زکوۃ ہے، یہ مراد ہے.یہ عجیب مہینہ ہے کہ ظاہر طور پر بھی جسم کی زکوۃ بن رہا ہے اور روحانی طور پر بھی جسم کی زکوۃ بن رہا ہے یعنی اس کے لئے روحانی طور پر جو چر بیاں چڑھی ہوئی ہیں وہ پگھلانے کے دن ہیں اور مال اور دولت جمع کرنے کے برعکس رمضان مبارک میں آنحضرت ﷺ کی سنت جو بہت کثرت سے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف ہمیں بلاتی ہے یہ اس روحانی چربی کا علاج ہے.اس سے انسان کے اندر کئی قسم کی جو میلیں جمع ہو جاتی ہیں دنیا کی محبت کی ، وہ صاف ہوتی ہیں اور انسان پھر ایک سال کے لئے نسبتا ہلکے روحانی اور جسمانی بدن کے ساتھ دنیا میں لوٹتا ہے اور اگلے رمضان کی انتظار کرتا ہے.کچھ ایسے ہیں جو کوشش کر کے اپنے آپ کو اسی حالت پر قائم رکھتے ہیں، کچھ ہیں جو پھر طبعا واپس لوٹتے ہیں اور پھر اگلا رمضان آتا ہے اور ان کے لئے سب برکتیں لے کر آتا اور بہت سی برکتیں پیچھے چھوڑ کر چلا جاتا ہے.اب صرف پندرہ سولہ دن باقی ہیں اس لئے جماعت کو چاہئے کہ اس پہلو سے بھی رمضان سے استفادہ کرنے کی بھر پور کوشش کریں.یہ جو خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے یہ کئی طرح سے ہے.بنیادی طور پر تو پہلے نیت درست اور صحت مند ہونی چاہئے کہ جو میں خرچ کر رہا ہوں اللہ کی خاطر کر رہا ہوں.اس ضمن میں ایسے لوگوں کے لئے بھی موقع ہے حالانکہ بہت چھوٹی سی بظاہر بات ہے، جو اپنی بیویوں اور بچوں سے کنجوسی کرتے ہیں اور طبعا کنجوس واقع ہوئے ہیں.اگر رمضان مبارک میں ان کو خیال آئے کہ اللہ نے کہا ہے خرچ کرو تو ہم گھر سے کیوں نہ شروع کریں.بیوی بچوں کو بھی کچھ سہولت دے دیں.تو بظاہر یہ بیوی بچوں پر خرچ ہے مگر ہے خدا کی خاطر اور حضرت رسول اکرم ﷺ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ خدا کی محبت میں کہ خدا راضی ہو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالو گے تو عبادت ہے.تو یہ نیکی گھر سے شروع ہو تو دیکھو کتنے گھروں کے حالات سدھار دے گی کیونکہ مجھے اطلاعیں ملتی رہتی ہیں بعض لوگ طبیعت کے درشت ہوتے ہیں سخت مزاج اور بیوی بچوں کو کافی تنگی میں ڈالتے ہیں اور خود باہر نکلتے ہیں اور باہر ہوٹلوں ووٹلوں میں جا کے کھانا کھا آتے ہیں یا دوستوں میں بیٹھ کر اپنے چسکے پورے کر لیتے ہیں اور گھر میں وہی بے چاری سوکھی دال روٹی جس سے زیادہ کی توفیق ہے خاوند کو لیکن بیوی کو نہیں دیتا.تو

Page 157

خطبات طاہر جلد 13 یہاں سے پہلے خرچ شروع کریں نا.151 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1994ء اپنے گھروں کی حالت درست کریں ان کے حقوق ادا کریں پھر اپنے گردو پیش پر نظر ڈالیں.اپنے غریب بھائیوں اور ہمسایوں کے حقوق ادا کریں.وہ جو ضرورت مند دنیا میں تکلیفوں میں مبتلا ہیں.کشمیر کے مظلوم ہوں یا بوسنیا کے مظلوم ہوں، ان کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ کریں.صدقات کے لئے ہاتھ کھولیں.چندوں میں آگے بڑھیں اور زکوۃ اگر چہ ان معنوں میں فرض نہیں ہے جن معنوں میں قرآن کریم میں مذکور ہے جن حالات میں وہ حالات آج کل ویسے صادق نہیں آ رہے اس لئے آج سے ان معنوں میں وہ فرض نہیں رہی لیکن زکوٰۃ بھی ایک چیز ہے جس کو لفظا بھی اگر پورا کیا جائے تو ایک بڑی نیکی ہے.کیوں میں نے کہا ہے کہ ان حالات میں موجودہ حالات میں اس طرح صادق نہیں آ رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ اصل میں اڑھائی فیصد چندے کا نام ہے اور زکوۃ کے مصارف میں ٹیکس بھی ہیں، حکومت کے کام بھی ہیں، ملکی مفادات کے کام بھی ہیں اور غریبوں پر خرچ بھی ہے، خدمت دین بھی ہے.آج کل جو حکومتیں ٹیکس لیتی ہیں وہ دنیا والا حصہ تو اتنا زیادہ وصول کر لیتی ہیں کہ جن سے وصول کرتی ہیں بعض دفعہ وہ زکوۃ کے محتاج بن جاتے ہیں بے چارے، اگر وہ دیانتداری سے ادا کریں تو.اس لئے جہاں تک ٹیکسوں کا معاملہ ہے وہ حق تو حق سے بڑھ کر ادا ہو گیا اور جہاں تک دینی ضروریات کا تعلق ہے جماعت اتنا خرچ کر رہی ہے کہ اڑھائی فیصدی کو تو اپنے سے بہت نیچے دیکھتی ہے.ایسے چندہ دہند وہ ہیں جو ساڑے چھ فیصدی با قاعدہ دے رہے ہیں پھر اس کے علاوہ خدا کے فضل کے ساتھ دس فیصدی با قاعدہ دے رہے ہیں پھر اس کے علاوہ خدا کے فضل کے ساتھ دس فیصدی بھی دے رہے ہیں.پھر اس سے بڑھ کر ہرا پیل پر، ہر قربانی کے رستے پر ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہوئے خرچ کرتے ہیں تو اس لئے یہ نہیں میں کہہ رہا کہ زکوۃ واجب نہیں رہی ، ان معنوں میں وہ اطلاق نہیں پا رہی کہ زکوۃ میں جتنا خرچ کرنے کی اللہ مومن سے توقع رکھتا ہے، اسی کے فضل سے، اسی کی دی ہوئی توفیق سے، جماعت احمد یہ اس سے بہت زیادہ انہی نیک کاموں پر خرچ کر رہی ہے.خواہ وہ حساب زکوۃ کا لگائے یا نہ لگائے زکوۃ تو دے رہی ہے.لیکن بعض دفعہ یہ بھی لطف آتا ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں

Page 158

خطبات طاہر جلد 13 152 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء طریق رائج تھا اسی کے مطابق بھی ہم بھی کچھ دیں اور اس طریق پر عمل کرنے کے لئے خصوصیت سے ان لوگوں کے لئے رستہ کھلا ہے جو اپنے تجارتی اموال ایک لمبے عرصے تک اپنے پاس روک کر رکھتے ہیں یا بہت دیر تک اپنے بینک بیلنس میں رکھتے ہیں.یہاں تک کہ نصاب کا ایک سال گزر جاتا ہے یا وہ عورتیں ہیں جن کے پاس زیور پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے غریب بہن بھائیوں کے استعمال میں ان کو نہیں لاتیں اور اپنی خوشیوں میں یعنی زیور پہننے کی خوشیوں میں ان کو شریک نہیں کرتیں ان پر بھی یہ زکوۃ عائد ہوتی ہے تو باوجود اس کے کہ وہ ٹیکس بھی زیادہ دے رہے ہیں باوجود اس کے کہ وہ چندے بھی زیادہ دے رہے ہیں.جماعت میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو زکوۃ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی میری تحریک کے وہ طبقہ از خود ز کوۃ دیتا چلا جا رہا ہے.یہاں تک کہ جب مجھے رپورٹیں ملتی ہیں اور میں نظر رکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ہر سال اللہ کے فضل سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور باہر کے ملکوں میں بھی ہے.تو میں اس واسطے دوبارہ آج یاددہانی کرا رہا ہوں کہ وہ لوگ جن کا ذہن اس طرف نہیں جاتا اور اپنے دل کو جائز طور پر مطمئن کرتے ہیں ، ناجائز طور پر نہیں کہ ہم نے حکومت کے حق بھی ادا کر دیئے اور قرآن نے جو نافذ کئے اس سے بڑھ کر ادا کئے.اللہ کا حق بھی اور اس کے بندوں اور غریبوں کا حق بھی ادا کیا اور جیسا قرآن چاہتا تھا اس کے کم سے کم مقرر کردہ معیار سے بہت بڑھ کر ادا کیا.یہ کہہ کر دلوں کو مطمئن کرتے ہیں مگر اگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ کبھی زکوۃ دی ہے کہ نہیں زکوۃ کے وقت ہمیشہ ذہن میں وہی اڑھائی فیصد آئے گا اور انہی شرائط کے ساتھ آئے گا جن شرائط کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں اس پر عمل ہوتا تھا تو تبرک کے لئے ، برکت کی خاطر اور اپنی نیکی کو خواہشات کو ایک اور رنگ میں پورا کرنے کی خاطر ، ایک اور رنگ میں ان خواہشات کی پیاس بجھانے کی خاطر ز کوۃ کو بھی پیش نظر رکھیں.پس ہر طرح سے بدن کی بھی زکوٰۃ دیں اور اپنے دل اور روح کی بھی زکوۃ دیں اپنے سارے وجود کی زکوۃ دیں اور یہ زکوۃ دینے کے بعد جیسا کہ زکوۃ کے مفہوم میں شامل ہے انسان کے کچھ بوجھ گر جاتے ہیں اور کچھ طاقتیں بڑھ جاتی ہیں.زکوۃ کے نتیجے میں دو باتیں بیک وقت ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں ایک یہ کہ بوجھ کم ہو رہے ہیں.ایک یہ کہ انسان کی اعصابی قوتیں اور اس کی عضلاتی قو تیں بڑھ رہی ہوتی ہیں تو رمضان سے جب ایسے وجود نکلتے ہیں تو چونکہ کم بوجھ لے کر آگے بڑھنا

Page 159

خطبات طاہر جلد 13 153 خطبه جمعه فرمود و 25 فروری 1994ء ہے رفتار ویسے ہی تیز ہو جاتی ہے مگر چونکہ جسمانی اور روحانی طاقتوں میں اضافہ ہو چکا ہوتا ہے اس لئے پہلے سے کئی گنا زیادہ رفتار آگے بڑھ جاتی ہے.پس یہ بہت ہی اچھا نسخہ ہے دینی اور دنیاوی طور پر ترقیات کی راہ پر پہلے سے زیادہ تیزی سے گامزن ہونے کا کہ رمضان سے رمضان کی زکوۃ دیتے ہوئے گزریں.ایک اور حدیث ہے حضرت اقدس محمد مصطفی میے کے متعلق.عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے سب لوگوں سے زیادہ بھی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت اور بھی زیادہ ہو جاتی تھی اور جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے اور قرآن کریم کا دور کرتے تھے.رسول کریم ﷺ ان دنوں تیز آندھیوں سے بھی زیادہ سخاوت فرمایا کرتے تھے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رمضان کی روح کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں.رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کیلئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے.روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا.“ آپ میں سے اکثر جو عربی نہیں جانتے وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکے ہوں گے کہ مل کر کیسے رمضان ہوا.اس لئے کہ رمض کا مطلب ہے گرمی اور رمضان کے معنی ہیں دو گرمیاں.تو فرمایا کہ رمضان میں ان دونوں گرمیوں کا ملنا ضروری ہے تب رمضان بنے گا اور یہ وہی بات ہے جو میں اس سے پہلے آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں کہ جسمانی زکوۃ بھی دیں اور روحانی زکوۃ بھی دیں.تب جا کر یہ صحیح معنوں میں رمضان بنے گا یعنی دونوں گرمیاں آپ کو نصیب ہوں گی.اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ میچ نہیں ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے ) کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی...فرمایا رمضان تو ساری دنیا کے لئے ہے اور سخت ٹھنڈے علاقوں کے لئے بھی ہے اگر یہ حکمت بیان کی جائے اس لئے رمضان کہتے ہیں کہ گرمیوں میں آیا تو یہ ویسے ہی درست بات نہیں

Page 160

خطبات طاہر جلد 13 154 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1994ء ہے اور جہاں تک میں نے پرانی تقویم کے ذریعے اس زمانے کا حساب لگایا ہے جب رمضان فرض ہوا ہے تو وہ تو گرمیوں کے روزے ہی نہیں تھے وہ تو سردیوں کے روزے بنتے ہیں مثلاً رمضان بدر میں مارچ کے مہینے میں آیا ہے اور اس کے بعد جوں جوں آگے بڑھتے ہیں فتح مکہ کی طرف، یہ سردیوں کی طرف مائل رہا ہے نہ کہ گرمیوں کی طرف.اس لئے پتا نہیں کیوں پرانے بزرگوں نے یہ لکھ دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ گرمیوں کے مہینے میں اترا ہی نہیں ہے یعنی رمضان کی فرضیت گرمیوں کے مہینے میں نہیں ہوئی.زیادہ سے زیادہ اسے اپریل کا مہینہ کہہ سکتے ہیں اس سے آگے نہیں.اس لئے وہ چونکہ ملک و یسے ہی گرم ہے بعض دفعہ ہمارے ملک میں بھی پاکستان میں بھی مارچ اپریل میں بڑی سخت گرمی ہو جاتی ہے تو جہاں گرمیوں کی روایتیں ہیں لمبے سفر کے موقع پر شاید اس سے اندازہ لگا کر بعض لکھنے والوں نے لکھ دیا کہ گرمیوں کے مہینے میں رمضان آیا ہو گا.مگر آپ حساب لگا کے دیکھ لیں رمضان شروع ہی گرمیوں کے مہینے ختم ہونے کے بعد سردیوں کے مہینوں کے آغاز میں ہوا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ویسے ہی اس دلیل کور دفرمارہے ہیں.رمضان ساری دنیا کے لئے ہے.دنیا میں بہت ٹھنڈے ملک بھی ہیں ، بہت گرم ملک بھی ہیں اس لئے اس کے روحانی معنوں کو تلاش کرو، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے.رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر گرم ہو جاتے ہیں....66 ( ملفوظات جلد اول صفحه : 136) یعنی خصوصیت سے وہ حرارت جس سے باہر پڑے ہوئے پتھر گرم ہو جاتے ہیں اس کے لئے بھی لفظ رمضان عربی میں استعمال ہوتا ہے.پس مراد یہ ہے کہ ایسے موقع پر ہر قسم کے انسان اس سے گرمی پاتے ہیں یا روحانی طور پر فیض پاتے ہیں.بعض لوگ مزاج کے پتھر دل بھی ہوتے ہیں سخت دل بھی ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان کے مہینے کا کچھ نہ کچھ فیض ان کو بھی پہنچ جاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ البقره: 186) که رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا“ سے ماہ رمضان کی عظمت

Page 161

خطبات طاہر جلد 13 155 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1994ء معلوم ہوتی ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لئے“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ:561) یہ بہت ہی اہم اقتباس ہے اور یہ میں مزید کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو کلام فرما رہے ہیں یہ گہرے ذاتی تجربے سے بیان فرمارہے ہیں.کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ اس کی طرز بتاتی ہے کہ ایک صاحب تجربہ ہے جو ایک بہت ہی عمدہ راز کو پا گیا اور اس راز میں دوسروں کو شریک کرنے کے لئے بلا رہا ہے.تنویر قلب کیا ہوتی ہے؟ فرمایا.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں، صوفیاء نے تو اتنا کہا ہے کہ یہ تنویر قلب کا مہینہ ہے.تنویر قلب سے مراد ہے دل روشنی پا جائے.پس مکاشفات ہوں، کچی خوا ہیں آئیں یا الہامات ہوں یہ ساری تنویر قلب کی علامتیں ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس پر مزید یہ فرمایا ہے صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے یہ پہلے ہونا ضروری ہے تنویر قلب یونہی نہیں حاصل ہو جایا کرتی.پہلے عبادتوں کو درست کرو اور نماز پڑھو گے تو وہ دل کا تزکیہ کرتی ہے.اس کو پاک کرتی ہے.کس طرح پاک کرتی ہے؟ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاتا ہے.66 إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ (العنكبوت : 165) کا مضمون ہے جو بیان فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں کہ جب تک فحشاء اور بنی و منکر سے تم باز نہیں آتے اس وقت تک تنویر قلب کہاں سے حاصل کر لو گے.وہ تو بعد کا مقام ہے اور فرمایا نماز پہلے تزکیے کا کام کرتی ہے.پس رمضان مبارک میں نماز کی طرف خصوصیت سے توجہ دینی ضروری ہے اور ایسی نماز پڑھنی چاہئے جس کے نتیجے میں انسان اپنے بدن سے بدیاں جھڑتے ہوئے دیکھ لے اپنی روح کے بدن کو پہلے کی نسبت ہلکا ہوتا ہوا دیکھ لے اور ہر انسان اگر بالا رادہ طور پر نگاہ رکھے کہ میں دیکھوں مجھے رمضان میں نمازوں نے کیا فائدہ پہنچایا تو اس کے لئے اس کی پہچان ناممکن نہیں ہے بلکہ آسان ہے.اس لئے اس بالا رادہ کوشش میں داخل ہو جا ئیں.یعنی رمضان میں جتنے دن باقی

Page 162

خطبات طاہر جلد 13 156 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء ہیں اس میں نمازیں پڑھتے ہوئے جب نماز کے مضمون پر غور کریں گے تو اس وقت آپ کو سمجھ آئے گی کہ جو کچھ آپ خدا سے مانگ رہے ہیں آپ کا عملی قدم اس طرف نہیں ہے کہتے ہیں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کتنی دفعہ پڑھتے ہیں؟ ہر نماز میں ہر رکعت میں لا زما پڑھنا پڑھتا ہے اور کہتے ہیں اے خدا ہمیں صراط مستقیم پر چلا.صراط مستقیم ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام نازل فرمائے نہ کہ ان لوگوں کی جو صراط مستقیم پر چلنے کے باوجود غضب کا مورد بن گئے یعنی اس صراط کے حق ادا نہ کئے.آغاز میں ان کو اس راہ پر ڈالا گیا مگر اس راہ کے حقوق ادا نہ کرنے کے نتیجے میں وہ مغضوب ہو گئے.وَلَا الضَّالین اور نہ ان کا رستہ جو اس راہ کو ہی چھوڑ بیٹھے اور گم گشتہ راہ ہو گئے.اب سوال یہ ہے اتنی بڑی دعا کچھ تقاضے بھی کرتی ہے کہ نہیں.ایک انسان جب یہ سوچے کہ منعم علیہ گروہ تھے کون؟ وہ کون لوگ تھے جن پر اللہ کی طرف سے انعام نازل ہوئے اور پھر اس مضمون کو اپنی ذات پر صادر کر کے دیکھے کہ مجھ میں کتنی علامتیں پائی جاتی ہیں اور پھر مغضوب علیھم کا تصور کرے.بگڑے ہوئے یہودیوں کے حالات آپ کے سامنے ہیں.کیا کیا ان میں برائیاں تھیں.اگر اس وقت کی تاریخ آپ کے سامنے نہیں تو اس زمانے کی تاریخ تو ہے نا؟ کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لئے یہ مضمون آسان کر دیا ہے.فرمایا میری امت بھی ، جو لوگ میری طرف منسوب ہوتے ہیں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ یہود کے زیادہ مشابہ ہو جائیں گے اور ایسے مشابہ ہو جائیں گے کہ جیسے ایک جوڑے کی ایک جوتی اس جوڑے کی دوسری جوتی کے مشابہ ہوتی ہے تو وہ علامتیں یہاں دیکھ لیجئے اس میں کون سی مشکل ہے.جو آج کل کی بگڑی ہوئی مسلمان سوسائٹی میں جہاں جہاں خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کو دیکھنا اور پہچاننا کوئی مشکل کام تو نہیں ہے ان میں جھوٹ ہے، ان میں دوسروں کے حقوق غصب کرنے ہیں، ان میں حرص و ہوا کی خاطر جھوٹے مقدمات بنانے ہیں، ان میں گواہیوں کے وقت جھوٹ بولنا ہے، حرص و ہوا کا اتنا غلبہ کہ جائز نا جائز کی تمیز بالکل اٹھ جائے اور جھگڑے کرنا اور گالی گلوچ کرنا اور تکلیفیں دے کر لذتیں محسوس کرنا اور اس بات پر فخر کرنا کہ ہم سے بڑا جھگڑالو کوئی نہیں.ہم بڑے کپتے لوگ ہیں ہم ایسا کریں گے اور وہ کریں گے.یہ چند ایک علامتیں ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کون ان سے ناواقف ہے.اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کہتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے ان علامتوں میں سے

Page 163

خطبات طاہر جلد 13 157 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994 ء کوئی نہیں چھوڑنی اے اللہ لگالے زور، بنالے ہمیں نیک ، ہم نے نہیں ہٹنا اس بات سے.یہ کیسی دعا ہے.یہ تو گستاخی ہے.اس لئے جب بھی آپ یہ دعا کرتے ہیں تو سوچیں تو سہی کہ کون کون سی باتیں آپ میں پائی جاتی ہیں.شروع شروع میں چند دکھائی دیں گی کیونکہ یہ اندھیرے کا مضمون ہے.جب روشنی سے اندھیرے کمرے میں جاتے ہیں تو ایک دم تو نہیں سب کچھ دکھائی دیتا.آہستہ آہستہ دکھائی دیتا ہے تو پہلے آپ کو بعض موٹی موٹی برائیاں نظر آئیں گی کہ ان سے بچنا ہے.جب وہ دیکھ لیں گے اور پہچان لیں گے اور دعا میں شامل کر لیں گے تو آپ کی پاک نیت اس دعا کی قبولیت میں مددگار ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں وہ برائیاں دور کرنا بہت زیادہ آسان ہو جائے گا.کچھ آپ کی کوشش ہوگی کچھ آسمان سے فضل نازل ہوگا اور پھر جب اپنی طرف سے آپ اپنے آپ کو پاک کر لیں گے تو آنکھوں کی روشنی کچھ بڑھے گی اور اندھیروں کی ظلمت کچھ کم ہوگی اور آپ دیکھیں گے کہ او ہو یہاں تو یہ بھی ٹھو کر تھی اور یہ بھی ٹھو کر تھی.اس سے بھی تو ہم نے پاک ہونا ہے یہ بھی تو مغضوب کی نشانیاں ہیں اور اس طرح آپ پر اپنا وجود روشن ہونے لگ جائے گا.یہی مضمون ہے جس کا قرآن کریم بار بار اس طرح ذکر فرماتا ہے کہ وہ یعنی پاک نبی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تعلیمات اور قرآن اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے والے ہیں.اندھیرے موجود ہیں یہ نہ سمجھیں کہ نہیں ہیں اس سے روشنی کی طرف نکلنا یہ رستہ چاہتا ہے جو میں دکھا رہا ہوں اور صراط مستقیم پر چلتے ہوئے صراط مستقیم کی دعامانگنے کا یہ مطلب ہے جسے سمجھتے ہوئے آپ کو استغفار کے ساتھ یہ دن گزارنے چاہئیں.پہلے اگر یہ نماز میں ضائع ہو گئیں اور ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے.اب جو نماز میں رمضان میں آپ پڑھیں گے ان میں اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوشش کریں کہ یہ تزکیہ نفس کا موجب بنیں.جب تزکیہ نفس ہوگا تو پھر تنویر قلب تو آنی ہی آنی ہے، تنویر قلب دل کی روشنی کا نام ہے، اندھیروں کے ہوتے ہوئے تنویر کیسے ہوسکتی ہے.یہ تو دو متضاد باتیں ہیں.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( بنی اسرائیل:82 ) یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ حق آجائے اور باطل بھی وہیں ٹھہرار ہے.اس کا برعکس یہ ہے کہ پہلے اندھیرے دور کرو تو پھر روشنی آئے گی.پس دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آپ کا منور ہونا جو ہے یہ دراصل وہی مضمون ہے جس سے میں نے بات کا آغاز کیا تھا.

Page 164

خطبات طاہر جلد 13 158 خطبه جمعه فرموده 25 فروری 1994ء ظاہری چراغ آپ کو نہ بھی جلانے دے کوئی.تو کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر آپ کے دلوں میں خدا تنویر پیدا فرمادے آپ کے دلوں میں چراغ روشن کر دے تو خدا کی قسم تمام دنیا کی پھونکیں بھی ان چراغوں کو نہیں بجھا سکیں گی.یہ روشنی تو بڑھے گی اور پھیلے گی اور آگے آگے چلے گی اور باقی دنیا کو بھی روشن سے روشن تر کرتی چلی جائے گی اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 165

خطبات طاہر جلد 13 159 خطبہ جمعہ فرموده 4/ مارچ 1994ء رمضان میں انسان خدا کی مشابہت میں قریب تر ہو جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ خود اس کی جزا بن جاتا ہے.( خطبه جمعه فرموده 4 / مارچ 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج اللہ کے فضل کے ساتھ رمضان مبارک اپنے آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے اگر چہ سنت کے مطابق اعتکاف کرنے والے ایک دن پہلے سے اعتکاف بیٹھ چکے ہیں لیکن دراصل اعتکاف آخری عشرے کا اعتکاف ہوتا ہے اور چونکہ آخری عشرہ کی تعیین کرنا ممکن نہیں تھا.ممکن تھا کہ بجائے تمہیں کے انتیس کا رمضان ہو جاتا اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت ہمیشہ سے یہی رہی کہ احتیاطاً ایک دن پہلے اعتکاف بیٹھتے تھے اور اعتکاف کب شروع کیا؟ کیسے ہوا؟ اور کب تک اعتکاف بیٹھتے رہے؟ اس مضمون سے متعلق میں سمجھتا ہوں جماعت کو کچھ واقفیت کروانی چاہئے.علماء تو اکثر جانتے ہیں لیکن نئی نسلوں کے بچے، بعد میں آکر شامل ہونے والے ان باتوں سے بے خبر ہوتے ہیں.یہ تو پتا ہے کہ اعتکاف مسجد میں بیٹھا جاتا ہے لیکن اس سے متعلق دیگر باتوں کا علم نہیں اور خصوصا سنت کی تفصیل سے بے خبری ہے اور جب تک ہم سنت کی روشنی میں اعتکاف کو نہ سمجھیں اس وقت تک اس سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اعتکاف کا پس منظر یہ ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے اور عبادت فرض ہوئی ہے اعتکاف کا تصور عبادت کے ساتھ ملحق رہا ہے اور کبھی بھی اسے جدا نہیں کیا گیا چنانچہ پہلا گھر جو خدا کے لئے بنایا

Page 166

خطبات طاہر جلد 13 160 خطبہ جمعہ فرمودہ 4/ مارچ1994ء گیا اس کے مقاصد میں بھی اعتکاف کو داخل فرمایا گیا اور معتکفین کی خاطر بھی مسجد کو پاک اور صاف رکھنے کی تلقین فرمائی گئی.اسی طرح دنیا کے تمام مذاہب میں آغاز ہی سے اعتکاف کا تصور ملتا ہے میں نے جہاں تک موازنہ مذاہب سے متعلق کتب کا مطالعہ کیا ہے مجھے ایک بھی ایسا مذ ہب معلوم نہیں ہوا جس میں اعتکاف کا تصور موجود نہ ہو لیکن اسلام تک پہنچتے پہنچتے یہ تصور زیادہ پختہ ہو گیا تھا اور زیادہ بالغ بن چکا تھا.کیا فرق پیدا ہوا ہے؟ یہ میں آپ کو بعد میں سنت کے حوالے سے بتاؤں گا.لیکن عموماً اعتکاف کہتے ہیں خدا کی یاد میں ایک طرف ہور ہنا اور دنیا سے ظاہری قطع تعلقی کر کے جس حد تک ممکن ہے انسان اپنے آپ کو یا دالہی میں وقف کر دے.بعض مذاہب میں اس اعتکاف میں غلو کیا گیا یہاں تک کہ زندگی بھر دنیا سے تعلق کاٹ کر الگ رہنے کا نام ہی اعتکاف سمجھا گیا اور بہت سے راہب اور اسی طرح ہندو سادھو وغیرہ جو دنیا سے قطع تعلق کر کے بعض دفعہ پہاڑوں کی کھو ہوں میں جا بیٹھتے ہیں اور کلیۂ دنیا سے بیگانہ ہو جاتے ہیں یہ اعتکاف ہی کی بگڑی ہوئی صورت ہے جو اعتکاف میں مبالغے کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.قرآن کریم نے عمر بھر کے لئے دنیا سے قطع تعلقی کو نا پسند ہی نہیں فرمایا بلکہ واضح طور پر اس کی مناہی موجود ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں میں بھی جو رہبانیت کا رواج پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے آغاز میں اس صورت میں یہ رہبانیت ان پر فرض نہیں فرمائی تھی بلکہ بعد میں ان لوگوں نے اس مضمون کو بگاڑ کر اسے عمر بھر کی دنیا سے قطع تعلقی پر منتج کر دیا اور ایک اچھی پر حکمت تعلیم کو بظاہر نیکی کی خاطر، مگر بگاڑ دیا اور ایسا بنا دیا کہ ہر انسان کے بس میں وہ بات نہ رہی.قرآن کریم ایک عالمگیر تعلیم ہے اور قرآن کریم کا تعلق خانہ کعبہ کے تمام مقاصد سے بہت گہرا ہے اور قرآن کریم کا طریق یہ ہے کہ ان تمام نیکیوں کو ان کی اصل صورت پر بحال کیا جائے جس صورت میں وہ آغاز میں فرض ہوئی تھیں.نیکیوں کی وہ صورت بحال کی جائے جو اللہ تعالیٰ بندوں سے چاہتا ہے اور اس ضمن میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہم نیکیوں کی ماہیت کو سمجھ سکیں.آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی اس بات کا نمونہ تھی کہ خدا سے تعلق قائم کرنا دنیا سے کلیاً تعلق کاٹنے کو نہیں کہتے بلکہ اسے فرار کہا جاتا ہے.اگر انسان دنیا سے کلیہ جدا ہو جائے اور اس کی

Page 167

خطبات طاہر جلد 13 161 خطبہ جمعہ فرموده 4 / مارچ 1994ء کشش اور جذب سے اتنا دور ہٹ جائے کہ اس کی آزمائش کا سوال ہی باقی نہ رہے تو اسے خدا پرستی نہیں کہا جاتا، اسے دنیا کے خوف سے اس سے بھاگنا قرار دیا جا سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی جو قطع تعلقی کے نمونے ہمیں دکھاتی رہی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر اس سے الگ رہنا اور اس سے مرعوب نہ ہونا اور اس سے مغلوب نہ ہو جانا.اسی کا نام جہاد ہے تمام زندگی انسان ایسے جہاد میں مصروف رہے کہ ہر طرف سے چاروں طرف سے اسے آزمائشیں بار بار مبتلا کریں اور ٹھوکر لگانے کی کوشش کریں لیکن انسان صراط مستقیم پر مضبوط قدموں کے ساتھ گامزن رہے اور کسی دوسری آواز کی طرف متوجہ نہ ہو.یہ دراصل اللہ کے لئے دنیا سے الگ ہو جانا ہے جو سنت حضرت محمد مصطفی ﷺ سے ثابت ہوتا ہے اور قرآن کریم کی تمام تعلیم اسی مرکزی نقطے کے گرد گھومتی ہے اسی کا نام صراط مستقیم ہے.اسی کا نام حد اوسط ہے.اسی کو لَا عِوَجَ لَہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے.گویا کہ اپنی راہ پر جو وسطی راہ ہے، نہ افراط کی راہ ہے نہ تفریط کی راہ ہے، نہ حد سے زیادہ آگے بڑھا جا رہا ہے، نہ فرائض کی ادائیگی میں کوئی کمی کی جارہی ہے، اس متوازن رستے پر رہتے ہوئے اپنی زندگی گزار و اور ثابت قدم رہو.یہی مضمون اعتکاف کا مضمون ہے.اعتکاف بھی دنیا سے کچھ دیر کے لئے اس طرح الگ ہونے کا نام ہے کہ بظاہر انسان کلیہ کٹ گیا ہو اور آزمائش سے نکل گیا ہو.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس مضمون پر بھی حیرت انگیز روشنی ڈالی ہے اور اسے قربانی قرار دیا ہے.آزمائش سے الگ ہو جانے کو آنحضور ﷺ نے نیکی کا اعلیٰ درجہ نہیں بلکہ قربانی قرار فرمایا ہے.پہلے تو میں آپ کو مختصر یہ بتاؤں کہ آنحضور کا اعتکاف کیسے تھا.کس طرح شروع ہوا.سب صلى سے پہلے تو رمضان مبارک کے ساتھ ہی رسول اکرم ﷺ نے جو اعتکاف شروع کیا وہ وسط رمضان میں ہوا کرتا تھا یعنی رمضان کے دوسرے عشرے کے آغاز سے شروع ہوتا تھا اور آخر تک جاری رہتا تھا.لیکن آنحضرت ﷺ اعتکاف کو سورج ڈوبنے کے بعد اگلا دن شروع ہونے کے وقت ختم نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ آخری رات کو بھی بیچ میں شامل فرما لیتے تھے اور اکیس کی صبح کو اپنا اعتکاف ختم کیا کرتے تھے.کچھ عرصہ یہی طریق جاری رہا اور حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے ساتھ معیت کے شوق میں کئی صحابہ نے آپ کے ساتھ مسجد میں بیٹھنا شروع کر دیا.بلکہ امہات المومنین میں سے بھی صلى الله

Page 168

خطبات طاہر جلد 13 162 خطبہ جمعہ فرمودہ 4/ مارچ 1994ء بعض نے وہاں اپنے خیمے لگالئے.ایک موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے اپنا خیمہ آنحضور کی اجازت سے مسجد کے صحن میں گا ڑلیا.جب دوسری ازواج کو پتا چلا تو دیکھا دیکھی اس شوق میں کہ یہ کیوں آگے بڑھ گئی ہم بھی ساتھ شامل ہوں خود حضرت عائشہ سے سفارش کروا کر پہلے اجازت لی پھر آہستہ آہستہ اور خیمے بھی لگنے شروع ہو گئے جس کی براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں لی گئی بلکہ حضرت عائشہ ہی سے اجازت لے کر کہ چلیں ہم بھی گاڑ لیں.آپ نے فرمایا ہاں تم بھی لگا لو چنانچہ وہ خیمے لگ گئے.آنحضرت ﷺ جب تشریف لائے اور مسجد میں خیمے دیکھے تو آپ نے فرمایا یہ کیا ہورہا ہے، یہ کیسے خیمے لگے ہوئے ہیں؟ تو بتایا گیا کہ یہ امہات المومنین کے خیمے ہیں.آپ کی ازواج کے خیمے ہیں.آپ نے فرمایا ان کے ہاں نیکی کا یہ تصور ہے؟ اس کو نیکی کہتے ہیں؟ نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا.یعنی نیکی ایک طبعی خود روخواہش کے نتیجے میں تو پیدا ہوتی ہے مگر نقالی کے نتیجے میں نہیں ہوتی اور اتنا اس بات کو نا پسند فرمایا کہ اس رمضان مبارک میں اعتکاف نہیں فرمایا اور اس سال کا اعتکاف کا ناغہ شوال میں پورا کیا (ابن ماجہ کتاب الصیام حدیث : 1761 ).آپ نے فرمایا اس حالت میں میں اس مسجد میں نہیں بیٹھوں گا اور یہ بھی آنحضرت ﷺ کی سیرت کی ایک عجیب شان ہے.ان بیویوں کو فرما سکتے تھے کہ تم یہاں سے نکل جاؤ، خیمے اٹھا لو.کیوں نہیں کہا؟ اس لئے کہ مسجد میں اعتکاف کا عورت کا حق تسلیم فرما چکے تھے اور یہ حق حضرت عائشہ کی صورت میں تسلیم ہو چکا تھا تو باقی بیویوں کی صورت میں کیا عذر تھا کہ ان سے کہا جاتا کہ نہیں، تمہیں اجازت نہیں ہے.لیکن چونکہ یہ محسوس فرمایا کہ اس میں نیکی کی خواہش سے زیادہ بیویوں کے آپس کے مقابلے کا رجحان زیادہ دکھائی دے رہا ہے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ یہ نیکی نہیں رہی کہ اس طرح اگر نقالی کرتے ہوئے نیکی اختیار کی جائے جس میں آپس کی رقابت کارفرما ہو تو فرمایا یہ نیکی نہیں رہتی اور اس پر ایک ہی فیصلہ آپ فرما سکتے تھے کہ اچھا ان کو تو نہیں ہٹا سکتا یہاں سے، میں خود ہٹ جاتا ہوں.پس یہ عجیب ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت، اتنی گہرائی ہے اس سیرت میں کہ انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے، کیسا پاکیزہ تعلق تھا اپنی ازواج سے.ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ڈانٹ ڈپٹ کر اور غصے کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے عجیب انداز سے کہ اس سے حقوق پر بھی کوئی ضرب نہیں پڑتی اور جو تکلیف اٹھائی وہ خود اٹھائی.لیکن اعتکاف

Page 169

خطبات طاہر جلد 13 163 خطبہ جمعہ فرموده 4 / مارچ 1994ء کا ناغہ نہیں فرمایا چنانچہ شوال کے ایام میں آپ اعتکاف بیٹھے.بیچ کے دنوں کا اعتکاف آخری عشرے کے اعتکاف میں کیسے تبدیل ہوا؟ ایک دفعہ صبح کے وقت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ میں نے وہ رات دیکھی ہے.یعنی لیلة القدر مراد تھی اور وہ دیکھی ہے اکیس کی صبح کے تعلق میں.جبکہ اعتکاف ختم ہو چکے تھے.آپ نے فرمایا اس کی مجھے علامتیں بھی دکھائی گئی ہیں.بارش ہو رہی ہے اور چھت ٹپک رہی ہے اور میں سجدہ کرتا ہوں تو میرے ماتھے پر گیلی مٹی لگ جاتی ہے اور پانی بھی مجھ پر پڑا ہوا ہے.یہ فرمانے کے بعد فرمایا کہ میں پوری طرح یاد نہیں رکھ سکا کہ بعینہ وہ کون سی رات ہے مگر یہ نظارہ میں نے اکیس کی رات کو دیکھا ہے.اس لئے آئندہ سے میں آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھا کروں گا.پس جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف بیٹھنے کی سعادت پائی ہے ( یعنی لفظ سعادت وہاں تو استعمال نہیں فرمایا تھا میں کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ سعادت پائی ہے ) وہ میرے ساتھ اسی رمضان میں اس عشرے میں بھی بیٹھیں.تو اس آخری عشرے میں بھی آنحضور ﷺ اعتکاف میں بیٹھے اور وہ سال ایسا تھا کہ دو اعتکاف اکٹھے ہو گئے.ایک وسطی عشرے کا ایک آخری عشرے کا اور راوی بیان کرتے ہیں کہ اسی رات بارش بھی ہوئی اور ہم نے خود آنحضرت ﷺ کی پیشانی پہ وہ مٹی لگی ہوئی دیکھی ہے.وہ چھت ٹپکی ہے اور خاص طور صلى پر اس رؤیا کی صداقت کے اظہار کے طور پر وہاں ٹپکی کہ جہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سجدہ فرمایا کرتے تھے اور پھر ہم نے دیکھا کہ آپ بھیگ چکے تھے اور ماتھے پر وہ گیلی مٹی لگی ہوئی تھی.یہ روایت بخاری کتاب الاعتکاف سے لی گئی ہے اور اس کے راوی ہیں سعید الخدری جو بہت مشہور اور ثقہ راوی ہیں.( بخاری کتاب الاعتکاف حدیث نمبر : 1895) پس اس دن سے یہ سنت پختہ ہوگئی اور اس پر آنحضرت ﷺ پر تمام زندگی قائم رہے کہ رمضان مبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور دیگر اصحاب جن کو توفیق ملتی اور مسجد میں ان کے لئے جگہ ملتی ان کو بھی اجازت تھی کہ وہ ساتھ بیٹھیں.آنحضور ﷺے عام طور پر اس جگہ اعتکاف بیٹھتے تھے کہ جہاں آپ کے گھر کی طرف اندرون خانہ ایک کھڑ کی مسجد میں بھی کھلتی تھی اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ بعض دفعہ سر میں تیل لگانا ہواور کنگھی کرنی ہو تو آپ کھڑکی سے سر باہر کر دیا کرتے تھے یعنی گھر کی طرف اور میں

Page 170

خطبات طاہر جلد 13 164 خطبہ جمعہ فرمودہ 4/ مارچ1994ء وہیں سے آپ کے سر پہ تیل لگا کر کنگھی کر دیا کرتی تھی.( بخاری کتاب الاعتکاف حدیث :1888) اور حدیث کو اپنے اصل مسلک سے ہٹا کر فقہاء میں یہاں تک بحثیں راہ پاگئی ہیں کہ مسجد میں بیٹھ کر حجامت بنوانا جائز ہے کہ نہیں ہے اور فتویٰ دینے والوں نے فتوی یہی دیا کہ جائز ہے.اور حوالہ اس حدیث کا دیتے ہیں.مجھے تعجب ہوا کہ جب میں نے جماعت احمدیہ کی فقہ میں دیکھا جو ہمارے ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم کی تحریر کردہ ہے تو وہاں بھی یہی لکھا ہوا تھا.باقاعدہ بحث اٹھائی گئی تھی کہ سوال ہے کہ مسجد میں اعتکاف کے دنوں میں بیٹھ کر سرمنڈوانا، حجامت کروانا جائز ہے یا نہیں.تو جواب یہ ہے کہ جائز تو ہے مگر مگر وہ ہے اور مکروہ ہونے کے لحاظ سے حضرت امام مالک کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انہوں نے اس بات کو ناپسند فرمایا.اس کو ناجائز اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ رسول اکرم ﷺ نے مسجد میں ہوتے ہوئے اعتکاف کی حالت میں سر کھڑکی سے باہر کیا اور وہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کے سر پہ تیل بھی لگایا اور سنکھی بھی کی.اب اس سے یہ ثابت ہو جانا تو حیرت انگیز بات ہے.سوال یہ ہے کہ بعض باتیں ایسی ہیں جن کا فتاوی سے تعلق نہیں ہوتا.سیدھی سادھی عقل سے تعلق ہوتا ہے.مسجد میں حجام آنے شروع ہو جائیں اور وہاں کپڑے بچھائے جائیں اور ان پر حجامتیں ہو رہی ہوں، ایسا بھیا نک تصور ہے کہ اس پر یہ سوال اٹھانا ہی بے وقوفی ہے کہ یہ جائز ہے کہ نا جائز ہے.اب یہ سوال اٹھنے شروع ہو جا ئیں فقہ میں کہ ایک آدمی اپنی ٹانگوں کے ساتھ رسیاں باندھے، الٹا لٹک جائے، الٹا لٹک کے کھانا کھائے یہ جائز ہے کہ ناجائز ہے.تو جواب دیا جائے کہ جائز تو ہے مگر مگر وہ ہے.جواب یہ ہونا چاہئے کہ تمام اہلِ عقل کیلئے ناجائز ہے اور جو بے وقوف ہیں ان کے لئے ہر چیز جائز ہے پھر مسئلہ کیا پوچھتے ہیں.پس جب آپ ان روایات کو یا دیگر روایات کو پڑھتے ہیں.وہ روایات جن کا اعتکاف یا عبادتوں سے تعلق ہے وہاں بہت سے ایسے مضمون راہ پاگئے ہیں جن پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ سوال اٹھائے کیوں گئے ہیں.لیکن اگر آج کل کا کوئی تعلیم یافتہ انسان ان تمام فقہی بحثوں کو پڑھے جن کا ذکر ہمارے فقہاء کی کتب میں ملتا ہے.تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے.بعض متنفر ہو کے دین سے ہٹ جاتے ہیں.کہتے ہیں یہ فقہ ہے مذہب کی.جو سب سے اعلیٰ مذہب، سب سے کامل مذہب اور یہ لغو بخشیں اس میں اٹھائی جا رہی ہیں.کو احلال ہے کہ حرام ہے اگر مکروہ ہے تو اسے طیب بنانے کے لئے کیا طریق

Page 171

خطبات طاہر جلد 13 165 خطبہ جمعہ فرمود ه 4 / مارچ 1994ء اختیار کرنے چاہئیں.کتنے دن بھوکا رکھا جائے کتنے دن صرف پانی پلایا جائے تا کہ اس کا سابقہ گند دور ہو جائے اور اس کا گوشت حلال بن جائے.کتا بیں لکھی گئی ہیں اس پر.ایسی ایسی بحثیں اٹھائی گئی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے تھے.جو کہتے تھے کو اکھانا جائز ہے وہ کہتے صلى الله تھے کہ ہم اس کے خلاف کوئی بات سنے کو تیار نہیں اور تم دین کو بگاڑ رہے ہو جب کہتے ہو کہ کو احترام ہے.میں آپ کو یہ اس لئے سمجھا رہا ہوں کہ اعتکاف کے تعلق میں بھی جو روایتیں ملتی ہیں ان کو عقل سے پہچاننا چاہئے.یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کی روح کیا ہے؟ روح وہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ﷺ نے بیان فرمائی اور جس پر عمل کیا کہ کوئی غیر ضروری بات نہیں کرنی.نہ مسجد کے اندر نہ مسجد کے باہر.مسجد سے باہر نکلنا ہے تو حوائج ضروریہ کی خاطر نکلنا ہے اور وہاں سنگھار پٹار بھی نہیں کرنا اور وہاں وہ زینت بھی نہیں اختیار کرنی جو عام طور پر جائز ہے.اس حدیث سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے میں اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکال رہا ہوں.آنحضرت کو خود صبح اور شام اپنے گھر میں حوائج ضروریہ کے لئے داخل ہوا کرتے تھے.وہاں کنگھی اٹھا کر خود بھی کنگھی کر سکتے تھے.وہاں خود بھی تیل کی مالش سر پہ فرما سکتے تھے لیکن نہیں کیا کیونکہ اسے بنیادی حوائج ضروریہ میں ایسا نہیں سمجھا حوائج ضروریہ کا مطلب یہ ہے انتہائی بنیادی ضرورت ) کہ اس پر بھی وقت لگایا جائے.ورنہ کئی لوگ ایسے ہیں کہ خصوصا اگر خواتین بھی اعتکاف بیٹھیں تو وہ تو بعض دفعہ آدھا آدھا گھنٹہ اپنے چہرے درست کرنے پر لگا دیتی ہیں.تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت کو گہری نظر سے پڑھنا چاہئے پھر صحیح سبق ملیں گے.پس اس روایت سے مسجد میں دوسری چیزیں نہ کرنے کا ثبوت تو ملتا ہے، کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.بالکل برعکس نتیجہ ہے.پس آنحضرت ﷺ کا اعتکاف یہ تھا کہ مسجد سے باہر نکلتے تو محض اتنا فرض ادا کرتے جس کا مسجد میں ادا کرنا ممکن نہ ہو اور جہاں مسجد میں بعض چیزیں کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے وہاں سر باہر نکال لیا، اگر کسی کے لئے ایسا موقع ہو کسی کا گھر اس طرح ساتھ جڑا ہو تو اس کو یہ اجازت ہے مگر اس سے زیادہ کی نہیں.مگر جہاں تک ضروری امور میں بعض مشوروں کا تعلق ہے وہ مسجد میں رہ کر اعتکاف کی حالت میں بھی ناجائز نہیں ہے.حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ ایک موقع پر جب آنحضرت می اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے تو آپ کے خیمے میں گئیں اور وہاں کچھ دیر بعض اہم امور پر آپس میں باتیں

Page 172

خطبات طاہر جلد 13 166 خطبہ جمعہ فرمود : 4 / مارچ 1994 ء ہوئیں اور یہ بات اعتکاف کی روح کے خلاف نہیں تھی.جب آپ اٹھنے لگیں تو آپ نے فرمایا ٹھہرو میں بھی چلتا ہوں اور اس میں بھی ایک عجیب شان ہے آپ کے عظیم اخلاق کی.مسجد کو اس وقت اپنا گھر بنا بیٹھے تھے.اپنے گھر ایک باہر کا مہمان آیا تھا اس کی عزت افزائی کے لئے مسجد کے دروازے تک چھوڑنے گئے ہیں.عجیب شان ہے.فرمایا ٹھہر ٹھہرو، میں بھی چلتا ہوں ساتھ.میں تمہیں وہاں تک چھوڑ نے جاتا ہوں جہاں تک میں جاسکتا ہوں اور مسجد کے دروازے پر جا کر الوداع کہا.یہ وہی موقع ہے جس کے متعلق وہ حسنِ ظن اور بدظنی کے متعلق ایک عجیب روایت ملتی ہے اس وقت دو انصاری اس جگہ سے گزر رہے تھے جہاں مسجد کے دروازے سے وہ اندر دیکھ سکتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے.آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو سلام کیا.آپ نے فرمایا.ٹھہر ٹھہر وابھی آگے نہیں جانا.یہ جو میرے ساتھ خاتون کھڑی باتیں کر رہی تھیں یہ میری بیوی ہیں.یہ صفیہ ہیں.ان کو اس سے بہت صدمہ پہنچا کہ یا رسول اللہ ہم آپ پر بدظنی کر سکتے ہیں اور پھر وہ بھی مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ، تو آپ نے یہ کیوں فرمایا.تو آپ نے فرمایا کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون میں دوڑ رہا ہے.اس لئے تمہاری خاطر کہ کہیں خدانخواستہ تمہیں کوئی ٹھوکر نہ لگ جائے.اس لئے میں نے تمہیں بتادیا کہ یہ کون ہے.یہ آنحضرت ﷺ کا اعتکاف تھا.اعتکاف میں عبادت میں بہت شدت اختیار کرتے تھے اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنا سوتے تھے کتنا نہیں.مگر روایات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عام عبادات کے مقابل پر رمضان کی عبادت بہت زیادہ ہوتی تھی اور رمضان کے عام دنوں کی عبادت کے مقابل پر آخری عشرے کی عبادت بہت ہوا کرتی تھی.یہ دستور آنحضرت ﷺ کا اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ آخری سال، جس سال آپ کا وصال ہوا ہے، اس سال کے رمضان مبارک میں آپ نے پھر ہیں دن کا اعتکاف کیا ہے.کوئی ایسی بات آپ کو معلوم ہوئی ہے جس کے نتیجے میں عام سنت سے ہٹ کر پھر پہلی سنت کی طرف واپس گئے ہیں اور دس دن کی بجائے ہیں دن کا اعتکاف کیا.یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ آخری سال بھی ہیں دن کا ہی اعتکاف تھا اور پھر آپ کا وصال ہوا ہے.( بخاری کتاب الاعتکاف حدیث: 1903) کچھ ایسی باتیں ہیں جن کا ہمیں معین علم نہیں ہوسکا کیونکہ بعض وحی کے ذریعے پہنچنے والی ایسی اطلاعات ہوتی تھیں جن کو شاید صحابہ کو صدمے سے بچانے کے لئے آنحضور کھل کر بیان نہیں فرماتے تھے.وصال کے متعلق بھی مجھے قطعی یقین ہے

Page 173

خطبات طاہر جلد 13 167 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 / مارچ 1994ء کہ آپ کو پوری طرح مطلع فرما دیا گیا تھا.لیکن آپ ان باتوں کو صحابہ سے چھپا لیتے تھے.یہی وجہ ہے کہ یہ جو بیس دن کا اعتکاف ہے اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا کہ کیوں کیا تھا.مگر جب ہم ان دونوں باتوں کو جوڑ کر دیکھتے ہیں کہ پہلے دس دن کا ہوا کرتا تھا تو وہ پیچ کے عشرے سے آخری عشرے میں چلا گیا تھا اور وہ ایک اعتکاف ہیں دن کا تھا.تو وہ جوڑ جو پیدا ہوا تھا وہاں سے آغاز تھا زیادہ سے زیادہ اعتکاف کا.اسی زیادہ سے زیادہ اعتکاف کی حالت میں آپ نے آخری رمضان گزارا ہے.آنحضرت ﷺ کے رمضان کی کیفیت سے متعلق کچھ روایتیں آپ کے سامنے پیش کر رہا تھا.وہ ملتا جلتا مضمون ہے جو مختلف روایتوں میں ملتا ہے میں پھر آپ کے سامنے اس کو رکھتا ہوں.حضرت عبداللہ ابن عباس بیان کرتے ہیں.یہ بخاری کی حدیث ہے کہ رسول کریم ہے سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت اور بھی زیادہ ہو جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے اور قرآن کا دور کرتے تھے رسول اکرم علی ال دنوں تیز آندھیوں سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے.(بخاری کتاب الصیام حدیث نمبر: 1749) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ان لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةٌ مَا تُرَدُّ - کہ ہر انسان کے لئے روزہ افطار کرنے کے وقت ایک ایسی دعا کا وقت ہوتا ہے کہ وہ دعا رد نہیں کی جاتی.افطار کے وقت عموماً خوش گپیوں میں لوگ مصروف ہو جاتے ہیں اور ایک طبعی بات ہے سارا دن پابندیوں کے بعد جب پابندی اٹھتی ہے وہ خوش ماحول میں گفت و شنید ہوتی ہے.مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ایسا وقت آ جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ خصوصیت سے وہ دعا قبول کرتا ہے اس لئے اپنے اس وقت کو خوش گپیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہئے.بے تکلف گفتگو بے شک کریں لیکن دعا کو ہر وقت پیش نظر رکھیں اور دعا سے غافل نہ رہیں.یہ جو دعا کا خاص وقت ہوا کرتا ہے اس کے پیچھے ہمیشہ حکمت ہوتی ہے.سارا دن اللہ کی خاطر جب انسان روزہ رکھتا ہے اور تمام جائز چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے تو جب دوبارہ اللہ ہی کے نام پر انہیں شروع کرتا ہے تو جس طرح انسانی دل کی کیفیت ہوتی ہے ویسی مثال تو نہیں دی جاسکتی.مگر اور چارہ نہیں ہے انسانی جذبات اور کیفیت کا حوالہ دیئے بغیر ہم ایک دوسرے کو بات سمجھا نہیں سکتے.تو جس طرح کوئی انسان کسی کی خاطر کوئی کارنامہ سرانجام دے کر واپس آتا ہے تو اس کی پیٹھ پر پھر وہ تھکی دیتا ہے اور خوشی کے کلمات

Page 174

خطبات طاہر جلد 13 168 خطبه جمعه فرموده 4 / مارچ 1994ء اس سے کہتا ہے اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا ہے ایک طبعی امر ہے.تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے ایسا ہی سلوک فرماتا ہے اور اس حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے کہ سارے دن کے بعد روزہ کھولا ہے تو خدا تعالیٰ اس وقت خاص مانگ کیا مانگ“ کے جلوے میں ہوتا ہے.اور اس وقت کوئی دعا ایسی کرنی چاہئے جو انسان کی عاقبت کو درست کر دے، عاقبت سنوار دے.لیکن ایسا تبھی ہوتا ہے جب انسان اس امر مفوضہ، یعنی اس کام کو باحسن سرانجام دے، جو اس کے سپرد کیا گیا ہو.اگر کام احسن طریق پر کرنے کی بجائے اسے بگاڑ کر آیا ہو تو پھر اس سے یہ سلوک نہیں ہوا کرتا.پس یہ نہ خیال کریں کہ یہ کوئی میکانکی چیز ہے.خود بخودہی ہر روزہ دار کو یہ موقع ملتا ہے کہ اس کی ایک دعا ضرور قبول ہوگی.ان روزے داروں کا ذکر ہے جو روزے کو اچھی طرح گزارتے ہیں اور ایسے انداز سے گزارتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ان پر پڑتی ہے.پھر جب وہ کام کو مکمل کر لیتے ہیں تو ان کی کوئی دعا ایسی ہے جسے خدا ضرور سن لیتا ہے.پس اس پہلو سے اپنے روزوں کو بھی سنوارنے کی کوشش کریں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ تو میرے لئے ہے میں ہی اس کی جزاء بن جاتا ہوں یعنی روزوں کے ذریعے وصال الہی حاصل ہوتا ہے.یہ اس لئے ہے کیونکہ میرا بندہ میرے لئے روزے میں اپنی جائز خواہشات اور اپنے کھانے پینے کو بھی ترک کر دیتا ہے.فرمایا کہ روزہ گناہوں کے خلاف ایک ڈھال ہے اور روزے دار کے لئے دوخوشیاں مقدر ہیں ایک وہ خوشی جو اسے اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ خدا کے فضل سے اپنے روزوں کو مکمل کر لیتا ہے.یعنی ہر روز جب وہ روزہ مکمل کرتا ہے تو اسے خوشی میسر آتی ہے یہ خوشی اسے دنیا میں ملتی ہے اور ایک وہ خوشی ہے جو اسے آخرت میں ملے گی جب وہ اپنے رب سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس سے راضی ہوگا.نیز آنحضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بُو خدا کو مشک کی بُو سے بھی زیادہ پیاری ہے.( بخاری کتاب الصوم حدیث : 1771) اس حدیث میں ” میں جزاء بن جاتا ہوں“ کا جو مضمون ہے وہ کھول کر سمجھایا گیا ہے کہ عام عبادات میں انسان جائز باتیں ترک نہیں کرتا.کوئی اور عبادت ایسی نہیں ہے جو وہ جائز چیزیں جو انسان کے لئے خدا تعالیٰ نے خود جائز قرار دے دی ہیں وہ خدا کی خاطر چھوڑ رہا ہو.ایک روزہ ایسی چیز ہے جس میں تمام حلال باتیں بھی منع ہو جاتی ہیں سوائے سانس لینے کے.کیونکہ یہ تو ایک ایسی چیز

Page 175

خطبات طاہر جلد 13 169 خطبہ جمعہ فرموده 4/ مارچ 1994ء ہے جس کے بغیر پھر زندگی نہیں چل سکتی.تو خدا کے قریب ترین آنے والی عبادت روزہ ہے جو خدا سے مماثلت میں سب سے زیادہ قریب ہے.اللہ تعالیٰ حی و قیوم ہے کسی غذا کا محتاج نہیں، کسی پانی کا محتاج نہیں اور روزمرہ زندگی میں انسان ان چیزوں کا محتاج رہتا ہے.عبادتیں پھر بھی ساتھ جاری رہتی ہیں.رمضان مبارک میں اور روزوں میں انسان خدا کی خاطر خدا کی مشابہت میں قریب تر آ جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی جزاء بن جاتا ہوں.یعنی اس نے زیادہ سے زیادہ میرے قرب کی کوشش کی ہے.عبادت کا جو لفظ ہے ( یہ در اصل عبادت اور عبودیت یہ دوالفاظ ہیں اسی طرح ایک عبدیت کا لفظ بھی ہے جس میں عبد کا مضمون پایا جاتا ہے ).عبد کہتے ہیں غلام کو.عبد کہتے ہیں اس شخص کو جس کا اپنا کچھ نہ رہا ہو اور انہی معنوں میں اللہ نے قرآن کریم میں انسانوں کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اس لئے کہ وہ پیدائشی غلام ہیں.گھر سے تو کچھ نہ لائے“ والا مضمون ہے.نہ اپنی بناوٹ میں ان کا کوئی عمل دخل، نہ اپنی بقا میں ایک ذرے کا بھی ان کی کمائی کا کوئی دخل ہے.یہ تمام تر انسان کا وجود اللہ تعالیٰ کے احسانات کا مرہون ہے اور اسی کی تخلیق کے نتیجے میں انسان کو وجود کی خلعت بخشی جاتی ہے.تو وہ پیدا غلام ہوا ہے یہ یادرکھنا چاہئے.اس کا اپنا کچھ نہیں کیونکہ غلام کی تعریف یہ ہے کہ جس کا اپنا کچھ نہ ہو اور پھر اسے عارضی طور پر ملکیتیں عطا ہوتی ہیں یہاں تک کہ پھر اس سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ از خود اپنی ملکتوں کو ترک کر کے خدا کے سپر د کر نا شروع کرو اور یہ عبادت ہے.عبادت کا اعلیٰ مقصد یہی ہے کہ انسان کو اس بات کی تربیت دے کہ خالی ہاتھ آیا تھا دنیا میں آ کر ہاتھ بھر گئے ، بہت سی چیزیں مل گئیں، بہت سی چیزوں سے تعلقات قائم ہو گئے ، اب از خود، جبر انہیں ،موت کے ذریعے نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ایک موت طاری کر کے ان چیزوں کو خدا کے سپرد کرنا شروع کرو.ساری نہیں تو کچھ نہ کچھ کرو.لمبے عرصے تک نہیں تو کچھ عرصے کے لئے کرو یہاں تک کہ تمہارا ارادہ تمہاری عبدیت میں شامل ہو جائے اور اس کا نام عبادت ہے.عبودیت سے عبادت کا یہ فرق ہے کہ عبودیت میں تو بندے کے جتنے سلوک ہیں وہ سارے اس لفظ میں آ جاتے ہیں.عبادت بندے کے اس تعلق کو کہتے ہیں جو از خود اپنے شرح صدر کے ساتھ اپنی ملکیتیوں کو خدا کی طرف لوٹا رہا ہے اور اپنے تعلقات کو اس کیلئے خاص کر رہا ہے دنیا سے تعلق کا تھا ہے، اللہ کے سپرد ہو جاتا ہے، اپنی تمناؤں کا مرکز اس کو بنالیتا ہے.تو ہر جگہ جو انتقال ہے ذہنی ہو یا عملی

Page 176

خطبات طاہر جلد 13 170 خطبه جمعه فرموده 4 / مارچ 1994ء ہو یہ دراصل خدا کی ہی چیز خدا کے سپرد کرنے والی بات ہے.یہ حالت جب ترقی کرتی ہے تو اس کو مزید مدد دینے کیلئے روزہ جگہ جگہ اس کے سہارے کے لئے آ کے کھڑا ہو جاتا ہے.اس حالت میں اپنے تمام وجود کو اس طرح خدا کے سپرد کر دینا کہ گویا موت کے قریب پہنچ جائے اور رمضان جب گرمیوں میں آتا ہے تو وہ واقعی موت کے قریب پہنچانے والی بات ہے.ہم نے خود بہت سخت رمضان ربوہ کے ابتدائی دنوں میں کالے ہیں.ایسے سخت رمضان تھے وہ کہ آپ یہاں بیٹھ کے تو اس کا تصور کر ہی نہیں سکتے.بعض دفعہ ایک ایک ہفتے تک ایک سو ہیں درجے سے اوپر درجہ حرارت رہتا تھا.ایک دفعہ مجھے یاد ہے 124 درجہ حرارت تقریبا دن رات رہتا تھا کیونکہ دن کو دھوپ پڑتی تھی اور رات کو پہاڑیاں ریڈی ایشن (Radiation) کرتی تھیں اور دن کی جذب کی ہوئی گرمی وہ سورج کی قائم مقامی میں واپس چھوڑ رہی ہوتی تھیں اور ہم ٹمپریچر دیکھتے تھے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا نہ دن کو نہ رات کو حالانکہ عرب میں بہت گرمی ہوتی ہے لیکن رات بہت ٹھنڈی ہو جاتی ہے اس لئے کچھ Relief مل جاتا ہے.تو روزہ اس طرح کھولتے تھے کہ نیم مردہ کی حالت ہوتی تھی اور بعض لوگ چادر میں بھگو بھگو کر اوپر لیتے تھے، پنکھے بھی نہیں تھے، بڑی سخت گرمیاں تھیں.بجلی کوئی نہیں تھی ، مکان تھوڑے تھے اور مٹی بہت اڑتی تھی.عجیب قسم کی بلائیں تھیں جو گھیرے ہوئے تھیں.لیکن اللہ نے اس زمانے میں بھی بچوں کو اور بڑوں کو خوب توفیق دی اور اپنے فضل سے ان بداثرات سے بھی بچالیا.رمضان خدا کی خاطر ایسی سختیوں کا نام ہے کہ جو بعض دفعہ موت کے منہ تک پہنچا دیتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اللہ کہتا ہے کہ میں جزا ہوں.اور فرمایا ہے کہ مجھے ایسے شخص کے منہ کی بد بو بھی جورمضان میں میری خاطر اس نے قبول کر لی ہے، یہ کستوری کی خوشبو سے بہتر لگتی ہے.یہ مراد تو نہیں ہے کہ کستوری کی خوشبو اللہ تعالیٰ سونگھتا ہے لیکن خالق کو اس چیز کی صفات کا علم ہوتا ہے.جب تک ایک خالق کو اس چیز کی صفات کا علم نہ ہو وہ چیز بنا ہی نہیں سکتا.اس لئے اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ کہنا بے ہودہ بات ہے کہ وہ سونگھ سکتا ہے کہ نہیں.جو چیز اس نے پیدا کی ہے اس کے تمام خواص سے وہ واقف ہے ورنہ اس کی تخلیق کے ڈیزائن میں وہ خواص آہی نہیں سکتے.پس یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ بد بو کیا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ خوشبو کیا ہوتی ہے اور اس موقع پر وہ خوشبو پر یڈ کو ترجیح دے رہا ہے.لیکن اس سے مومن عموما یہ تو خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے رمضان کی منہ کی بو اچھی بات

Page 177

خطبات طاہر جلد 13 171 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 / مارچ 1994ء ہے، کوئی حرج نہیں.لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ رمضان کے بعد بھی تمہارے منہ کی بدبو پسند ہے اور آنحضرت ﷺ کی سیرت جو سارا سال جاری رہتی تھی اس طرف توجہ نہیں کرتے.اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک بندے اپنے منہ کو ہمیشہ صاف ستھرارکھتے ہیں اور سوائے رمضان کی مجبوری کے ان کے منہ سے بو نہیں آتی.یہ پہلو بھی تو دیکھیں.اس لئے رمضان میں تو مجبوری ہے رمضان کے بعد خوب مسواک کیا کریں اور اپنے منہ کو ہمیشہ پاک صاف رکھیں منجن استعمال کریں، کلیاں با قاعدہ وضو کے ساتھ تو کرتے ہیں کھانے کے بعد بھی کیا کریں.اس سے آپ کے دانت وغیرہ بھی ٹھیک رہیں گے اور پھر رمضان میں جب داخل ہوں گے پھر آپ کے منہ کی بو وہ بُو بنے گی جسے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا.ورنہ رمضان سے باہر بھی وہی یہ تھی تو پھر خدا کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ مجھے تمہارے منہ کی یو کستوری سے بہتر لگتی ہے.کیونکہ وہ یو تو پھر تمہارے اپنے مزاج کی بُو ہے خدا تعالیٰ کی خاطر نہیں ہے.میں نے یہ پہلے بیان کیا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے رمضان میں دنیا کے ابتلاؤں سے بچنے کو قربانی قرار دیا ہے.چنانچہ آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ روزے دار جب دنیا سے کٹ کر مسجد کا ہو رہتا ہے تو میں اسے خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ مسجد سے باہر جو نیک کام کیا کرتا تھا ان سے محرومی کا اس کو کوئی صدمہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام نیک کام اس کے نہ کرنے کے باوجود اس کے کھاتے میں لکھ دیئے ہیں.تو نیکی اصل وہی ہے جو آزمائشوں میں پڑ کر دنیا کے ساتھ تعلقات کے دوران ظاہر ہورہی ہے اور اعتکاف اس نیکی کو ترقی دینے کی بات نہیں ہے اس نیکی سے عارضی طور پر خدا کے لئے ایک اور نیکی کی خاطر محروم ہونے کا نام ہے.لیکن روز مرہ کی مومن کی زندگی وہی ہے جو تمام دنیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے گزرے اور اس کے ساتھ ساتھ خدا کے عائد کردہ فرائض کے تقاضے بھی پوری طرح شان کے ساتھ پورے ہوں.یہ ہے وہ صراط مستقیم جس کے لئے ہم صلى الله روزانہ دعا کرتے ہیں.مسلم کتاب الصیام باب فضل الصیام میں یہ روایت ہے کہ حضرت سھل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان“ یعنی سیرابی کا وازہ کہتے ہیں.اس دروازے میں سے قیامت کے دن صرف اور صرف روزہ دار جنت میں داخل

Page 178

خطبات طاہر جلد 13 172 خطبہ جمعہ فرموده 4 / مارچ 1994ء ہوں گے اور ان کے علاوہ ان کے ساتھ اس دروازے میں کوئی داخل نہیں ہوگا.اس دن یہ منادی کی جائے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ پھر ان کو بلا بلا کر اس دروازے کے ذریعے سے جنت میں داخل کیا جائے گا اور جب آخری روزہ دار اس دروازے میں سے داخل ہو جائے گا تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا اور کوئی غیر اس میں سے جنت میں داخل نہ ہو سکے گا.“ ( مسلم کتاب الصیام حدیث : 1947) یہ حدیث ایک ظاہری منظر کھینچ رہی ہے پچھلے سال بھی غالبا میں نے اس کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی.اس ظاہری منظر کو کلیۂ ظاہر پر محمول کرنا نہ تو اس حدیث کا منطوق ہے نہ اس سے آپ فائدہ اٹھا سکیں گے اور نہ جنت کا کوئی صحیح تصور آپ کے ذہن میں ابھرے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے.اگر وہاں گیٹ لگے ہوں اور کہا جائے کہ اس دروازے سے آ جاؤ تو اس سے مستقلاً کسی کو کیا فائدہ! اور ایک آدمی نمازی بھی ہے نماز کے دروازے سے بھی اس کو بلایا جائے گا اور نیکیاں بھی کرتا ہے جنت کے سات نیکیوں کے دروازے ہیں وہ باری باری ایک سے نکل کر دوسرے میں جائے ، پھر اس سے نکل کر تیسرے میں جائے.کیا یہ منظر ہے جو جنت کے تعلق میں انسان اپنے تصور میں قائم کر سکتا ہے؟ بالکل درست نہیں.یہاں اس کی مثال حواس خمسہ سے دی جاسکتی ہے.ایک انسان جسے دیکھنے کی حس عطا ہوئی ہو وہ دنیا کے اکثر تجارب میں اس جس کے دروازے سے دنیا میں داخل ہوتا ہے اور دیکھنے سے تعلق کی ساری لذتیں اس کو نصیب ہوتی ہیں اور اس کے لئے باری باری کی بحث نہیں ہے کہ اب وہ آنکھوں کے رستے داخل ہو.پھر وہ کانوں کے رستے داخل ہو بلکہ کانوں کا بھی ایک دروازہ دنیا میں قائم ہوا ہے اور کانوں کے رستے بھی وہ دنیا میں داخل ہوتا ہے اور سماعت سے تعلق رکھنے والی لذتیں حاصل کرتا ہے.تو پانچ مختلف جو حصے ہیں وہ گویا کہ اس کے لئے دنیا میں داخل ہونے کے دروازے ہیں ایک دروازہ بند ہو جائے تو اس مضمون کی دنیا اس کے لئے کالعدم ہو جاتی ہے.اس کے تعلقات کے دائرے سے باہر نکل جاتی ہے.اسی دنیا میں رہتا ہے مگر کم لطف اٹھاتا ہے.ایک اندھا، دیکھنے والے کی نسبت کم لطف اٹھاتا ہے.ایک نہ سننے والا ، سننے والے کی نسبت کم لطف اٹھاتا ہے.ایک منہ کی لذت سے محروم انسان یا اس کے بعض پہلوؤں سے محروم انسان اسی طرح کھانے میں کم لطف اٹھاتا ہے.بعض بے چاروں کی خوشبو کی طاقت مر جاتی ہے.ان کو کیا پتا کہ پھولوں کی مہک کیا ہوتی ہے.وہ پہلوان کی لذتوں کا ان کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.تو مراد یہ ہے کہ بے روزے بھی جنت

Page 179

خطبات طاہر جلد 13 173 خطبہ جمعہ فرموده 4 / مارچ 1994ء میں داخل ہو جائیں گے.یعنی یہ تو نہیں کہ جن کو روزے کی توفیق نہیں ملی وہ داخل ہی نہیں ہوں گے.مگر یہاں خدا کی خاطر سیرابی سے محرومی کا جو وہ تجربہ کر چکے ہیں اس کے نتیجے میں انہیں ایک خاص حس عطا ہوتی ہے جو آئندہ جنت میں ان کو غیر معمولی طور پر جنت کی نعمتوں سے سیراب ہونے کا سلیقہ اور قوت عطا کرے گی.پس یہ وہ دروازے ہیں جن کا حدیثوں میں ذکر ملتا ہے ورنہ ظاہری طور پر کسی دروازے سے جنت میں چلے جانا وہ آج چلا گیا کل بھول گیا.ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہنا ہے.تو دروازے کس کو یادر ہیں گے لیکن جو مضمون میں بتا رہا ہوں جو روزمرہ کی زندگی میں ہمارا تجربہ شدہ مضمون ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ جو شخص بینائی کے دروازے سے دنیا میں داخل ہوتا ہے اس کی موجیں ہی اور ہیں یہ نسبت اس بے چارے کے جو اس دروازے سے داخل نہیں ہوتا.پس اسی جنت میں جس میں اور بھی لوگ رہ رہے ہوں گے روزے دار کی لذتیں اور ہوں گی اور جو سیرابی کا لطف ہے وہ ایک غیر معمولی لطف اس کو نصیب رہے گا.پھر فرمایا وہ دروازہ بند ہو جائے گا اس کے بعد دوسروں کے لئے پھر وہ نہیں کھلے گا.بخاری کتاب الصیام میں حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: مسلمانو !سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے.‘ ( بخاری کتاب الصوم حدیث : 1785) یہ سحری کھانے میں برکت کا جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ زیادہ نیکی اختیار کرنے کی خاطر اس زمانے میں آٹھ پہرے روزے رکھا کرتے تھے اور یہ ظاہر کرتے تھے کہ خدا کی خاطر بھوک کو زیادہ برداشت کرنا یہ دراصل نیکی ہے.آنحضرت مے کے سامنے جب بھی ایسے لوگ آئے آپ نے اس کی اصلاح فرمائی اور سمجھایا کہ نیکی خدا کو زبر دستی خوش کرنے میں نہیں ہے کیونکہ کوئی دنیا میں خدا کو زبر دستی خوش نہیں کر سکتا.جتنی تمہاری طاقت ہے تم اپنے او پر جتنی چاہو تنگیاں ڈال لو اس کے ذریعے سے خدا کو خوش نہیں کر سکتے.خدا کو خوش کرنا اس کی رضا میں ہے.پس جب خدا نے تمہارے لئے سحری کا کھانا خود مقرر فرما دیا ہے تو اس سے ہاتھ کھینچ لینا اور اسے نیکی سمجھنا جائز نہیں.پس سحری میں برکت ہے، اٹھا کرو اور اس خیال سے کھایا کرو کہ اللہ نے تم پر رحم فرماتے ہوئے چوبیس گھنٹے کا روزہ نہیں رکھوایا بلکہ نصف دن یا کم و بیش جو بھی شکل ہو کا روزہ رکھوایا ہے.تو اس لئے سحری ضرور کھانی

Page 180

خطبات طاہر جلد 13 174 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 / مارچ 1994ء چاہئے اور اگر اس خیال سے کھائیں گے تو پھر اس میں زیادہ لطف محسوس ہوگا.ترمذی ابواب الصوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا.تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے اور روزے کی عبادت تو خاص میرے لئے ہے.میں خود اس کی جزا ہوں یا جزا دوں گا.( دونوں الفاظ ملتے ہیں.) روزہ آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے اور روزے دار کے منہ کی بواللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ محبوب ہے.جہاں تک یہ گنا“ کی بحث ہے قرآن کریم میں جب زیادہ گنا ، اتنے گنا کی بات چلتی ہے جیسا کہ فرمایا کہ وہ بیچ جو پھوٹے اور اس پر ایک دانے میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں تو وہ سات سو گنا کی بات ہے.یہ حدیث اسی طرف اشارہ کر رہی ہے مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ جس کے لئے چاہے وہ اس سے بھی بڑھا دیتا ہے.پس جو سات سو گنا کا مضمون ہے یا اس سے دس گنا کا، جو بھی شکل ہو اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ گن گن کر بعینہ اتنے گنا ثواب ملتا ہے اور بات ختم ہو جاتی ہے.یہ ذرا تحریص کے لئے اس قسم کے نقشہ کھینچے گئے ہیں تا کہ لوگوں کو خوشی پیدا ہو، دل میں شوق پیدا ہو.ایسی نیکیوں کو اختیار کرے کہ تھوڑے عمل کے نتیجے میں زیادہ جز امل جائے.مگر دراصل جزاء لا محدود ہے اور اسی مضمون کو قرآن ہی سے لیا گیا ہے.لامحدود کا آخری کنارہ خدا ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ سات سو سے بڑھا کر بھی دیا جاسکتا ہے.فرمایا کہ اتنا بڑھایا جا سکتا ہے کہ خدا خود جزا بن جائے.اگر خدا خود جزا بن جائے تو اسے آپ کتنے گنوں میں شمار کریں گے.لاکھ گنا کروڑ گنا دس ارب گنا اس سے بھی زیادہ جتنا تصور کر لیں وہ گنتی میں نہیں آ سکتا.تو قرآن کریم ہی میں آنحضرت ﷺ کی احادیث کی بنیادیں ہیں.وہ تمام احادیث جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ سے وابستہ ہیں، اگر آپ فراست سے کام لیں اور ان کو قرآن میں تلاش کریں تو ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے گی جس کی قرآن میں جڑیں نہ ہوں اور وہیں انہی آیات سے یہ مضمون آنحضور ﷺ نے اٹھائے ہیں.پس اس پہلو سے سب سے زیادہ پاک تفسیر قرآن کی محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہے اور آپ کا کلام اس تفسیر پر مزید روشنی ڈالتا ہے.اب آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں:

Page 181

خطبات طاہر جلد 13 175 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 / مارچ 1994ء اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں.میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا تعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے.مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے.جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 563) پس رمضان تو اب ہاتھ سے نکلا چلا جاتا ہے بہت سے ایسے ہمارے بیمار اور کمزور جو کسی مجبوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکے ان کی تسلی کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود.علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس آپ کے سامنے رکھا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ غم نہ کریں اگر بیماری سے پہلے کی حالت میں انہیں روزے کی تمنا تھی تو ان کی بیماری کے روزے بھی ان کے حق میں لکھے جائیں گے اور اگر پہلے تمنا نہیں تھی تو بیماری کے روزے نہ رکھنے کی اجازت سے بھی وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.یہ مضمون ہے جسے میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.رمضان کے تعلق میں ہمیں اصل میں زندگی کا فلسفہ مل گیا ہے.اس دنیا میں جو لوگ نیکی کی تمنا رکھتے ہیں اور نیکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں موت ان کے سفر کو ختم کر دیتی ہے مگر خدا کے نزدیک وہ نیکیاں جاری رہتی ہیں.اسی لئے لا متناہی جزا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ روزے کی تمنا لے کر اور حسب توفیق روزے رکھتے ہوئے اگر بیماری پڑ گئی تو تمہارا عمل منقطع نہیں ہو گا خدا کے حضور لکھا جائے گا اور جزا بھی لا متناہی ہوگی.اللہ تعالیٰ اس رمضان کی جزا تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے ، ان کے فیض سے لامتناہی کر دے.خدا کرے کہ جو دن کو تا ہی میں کٹ گئے ان کا نقصان ہمیں نہ

Page 182

خطبات طاہر جلد 13 176 خطبہ جمعہ فرمودہ 4/ مارچ 1994ء پہنچے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو کا ہاتھ ان کوتاہیوں کو مٹا دے اور ہماری نیکیوں کو اجاگر کر دے اور ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی ان کا فیض پہنچتار ہے.آمین.

Page 183

خطبات طاہر جلد 13 177 خطبه جمعه فرموده 11 / مارچ 1994ء جمعۃ المبارک کی برکات اور جمعۃ الوداع کے متعلق وضاحت کسوف و خسوف کے نشان پر سوسال پورے ہونے پر مبارکباد ( خطبه جمعه فرموده 11 / مارچ 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) پھر فرمایا:.(الجمعه : 1 تا 5) رمضان مبارک میں ایک لمبے انتظار کے بعد بالآخر وہ جمعہ جسے جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے آ ہی جاتا ہے.لمبا انتظار اس لحاظ سے کہ وہ لوگ جنہیں نمازوں کی عادت نہ ہو،جنہیں جمعہ پہ جانے

Page 184

خطبات طاہر جلد 13 178 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مارچ 1994ء کی عادت نہ ہو ، جنہیں روزے رکھنے کی عادت نہ ہو، ان کے لئے تو سال بھر میں یہ ایک ہی جمعہ ہے جوان کے لئے سب قسم کی خوشیوں اور برکتوں کا پیغام لے کر آتا ہے.پس سارا سال اس جمعہ کا انتظار کرتے ہیں اور پھر رمضان مبارک میں اس جمعہ کا انتظار کرتے ہیں اور اس کا نام جمعتہ الوداع رکھا ہوا ہے.یعنی رخصت ہونے والا جمعہ یا رخصت کرنے والا جمعہ.اسی طرح بالآخر وہ جمعہ آیا کہ رمضان رخصت ہوا اور رمضان کے نتیجہ میں جو پابندیاں عائد ہوئی ہیں ان پابندیوں سے گویا چھٹکارا نصیب ہوا.ایک یہ وہ تصور ہے جو عامی تصور ہے اور ایک وہ تصور ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ رمضان مبارک میں ہتھکڑیاں تو لگتی ہیں مگر شیطان کو، پابندیاں تو عائد ہوتی ہیں مگر شیطان پر اور مومن کے لئے تو یہ جنتوں کی خوشخبریاں لے کر آتا ہے.یہ دو متقابل ، متصادم تصورات ہیں جب سے اسلام آیا ہے اسی طرح اگر آغاز سے نہیں تو کچھ عرصے کے بعد سے مسلسل رائج چلے آ رہے ہیں.جمعۃ الوداع کے متعلق جو یہ تقدس کا تصور ہے یہ میں نہیں جانتا کب سے شروع ہوالیکن جمعۃ الوداع کے تقدس کا جو تصور ہندوستان اور پاکستان اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی تاریخ بہت گہری دکھائی دیتی ہے.ایک لمبے عرصے سے روایٹا اس تقدس کے قصے چل رہے ہیں.اس خیال سے میں نے سوچا کہ اس دفعہ جب رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع پر آپ سے بات کروں تو احادیث میں سے اس جمعہ کی برکتوں کا ذکر نکال کر بطور خاص تحفہ آپ کے سامنے پیش کروں.لیکن بہت علماء بٹھائے ، بہت کتابیں حدیثوں کی دیکھیں اشارہ بھی کہیں جمعۃ الوداع کا ذکر نہیں ملتا.جمعہ کی برکتوں سے متعلق مضامین احادیث میں بکثرت ملتے ہیں لیکن ہر جمعہ کی برکت سے متعلق وہ مضامین ملتے ہیں.مگر یہ تصور کہ گویا مسلمان ایک آخری جمعہ کا انتظار کر رہے ہوں اور اس جمعہ میں برکتیں ڈھونڈنے کے لئے بے چین اور بے قرار ہوں یہ تصورا حادیث نبوی ﷺ میں ، سنت میں کہیں اشارہ بھی مذکور نہیں.ہاں آخری عشرہ کی برکتوں کا ذکر بہت کثرت سے ملتا ہے اور جمعہ کی برکتوں کا سارے سال میں، جہاں بھی جب بھی جمعہ آئے ، اس کی برکتوں کا ذکر ملتا ہے.پس یہ بات میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ وہ مسلمان بھائی خواہ وہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے ، جن کو بدنصیبی سے نماز پڑھنے کی عادت نہیں جو سال میں ایک ہی مقدس دن کی تلاش میں تھے صل الله

Page 185

خطبات طاہر جلد 13 179 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 / مارچ 1994ء اور آج اس دن کی خاطر غیر معمولی طور پر مساجد میں اکٹھے ہو گئے ہیں ان تک یہ میری آواز پہنچے گی اور آج پہنچے گی.پھر شاید نہ پہنچے کیونکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ دوبارہ ان کو پھر مسجدوں میں آنے کی توفیق ملتی ہے کہ نہیں لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان کو بتاتا ہوں کہ جمعۃ الوداع کا کوئی خاص نقدس نہ قرآن میں مذکور ہے نہ احادیث میں مذکور ہے.نہ سنت سے ثابت ہے نہ صحابہ کرام کے عمل سے بعد میں ثابت ہے.پس جس دن کا آپ نے انتظار کیا تھا وہ تو اس پہلو سے خالی نکلا لیکن جمعۃ المبارک کے تقدس کا بہت ذکر ملتا ہے.قرآن میں بھی ملتا ہے، احادیث میں بھی ملتا ہے اور یہ ہر جمعہ ہے جو ہر ہفتے آپ کے سامنے آتا ہے.اس کے علاوہ نمازوں کے تقدس کے ذکر سے تو قرآن بھرا پڑا ہے.جمعۃ الوداع تو سال میں ایک دفعہ آتا ہے.جمعۃ المبارک ہر ہفتے آتا ہے اور نماز دن میں پانچ مرتبہ آتی ہے اور اس پانچ مرتبہ آنے والی چیز کا اس کثرت سے قرآن میں ذکر ہے کہ کسی اور عبادت کا اس طرح ذکر نہیں.تو برکتوں سے بھرا ہوا نیک اعمال کا خزانہ ہے اس سے تو منہ موڑ لیتے ہو اور سارا سال ایک جمعہ کا انتظار کرتے ہو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس جمعہ کی کوئی اہمیت کہیں مذکور نہیں ، تو کم سے کم اس جمعہ سے یہ برکت تو حاصل کر جاؤ یہ جان لو کہ عبادت ہی میں برکت ہے، عبادت ہی میں خدا تعالیٰ کے فضل ہیں ، عبادت ہی سے اس کی رضا وابستہ ہے.عبادت ہی سے دنیا کی خیر اور آخرت کی خیر وابستہ ہے اور مومن کے لئے عبادت ہر روز پانچ مرتبہ فرض کی گئی ہے.روزمرہ کی زندگی میں جب آپ مساجد کے پاس سے گزرتے ہیں تو اکثر آپ دیکھتے ہیں کہ مساجد بہت بڑی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے بے وجہ اتنی بڑی مساجد بنادی گئی ہیں.لیکن آج وہ دن ہے جب آپ کسی مسجد کے پاس سے گزر کے دیکھیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ مسجدوں سے نمازی چھلک چھلک کر باہر آ گئے ہیں گلیاں بھر گئی ہیں، بعض بازار بند کرنے پڑے ہیں.لاہور ہو کر اچی ہو یا دنیا کے اور بڑے بڑے شہر وہاں مساجد کے باہر جو بازار یا ملحقہ گلیاں ہیں وہاں بعض دفعہ دیکھیں گے کہ سائبان لگائے گئے ہیں اور جگہ جگہ بلاک کر کے سڑکوں کو بند کیا گیا ہے کہ آج یہاں نمازی نماز پڑھ رہے ہیں.یہ وہ نمازی ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ کو توقع ہے کہ ہر روز پانچ وقت جہاں مسجد میسر آئے وہاں جا کر نماز پڑھیں گے.اب اس سے آپ اندازہ کریں کہ ایک وہ تصور ہے جو قرآن اور سنت کا ہے عبادتوں کے متعلق

Page 186

خطبات طاہر جلد 13 180 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 / مارچ 1994ء رحمتوں اور برکتوں کے متعلق رضوان اللہ کے متعلق اور ایک وہ ہے جو عام دنیا میں رائج ہے اور مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہی ایک گر ہے نجات پانے کا.ان دونوں میں کتنا فرق ہے..حقیقی نجات خدا کی اطاعت میں ہے اور خدا کی اطاعت عبادت کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی.عبادت پہلا دروازہ ہے جو اطاعت کے لئے قائم فرمایا گیا ہے.اس دروازے سے داخل ہو گے تو پھر ساری اطاعتوں کی توفیق میسر آ سکتی ہے.جس نے یہ دروازہ اپنے پر بند کر لیا اس کے لئے کوئی اطاعت نہیں ہے.نماز کی اہمیت کے اوپر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اتنا زور دیا ہے اور پھر نماز با جماعت کی اہمیت پر کہ ایک موقع پر صبح کی نماز کے بعد آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو اس وقت بھی صبح کی نماز کے وقت کچھ لوگ ہیں جو گھروں میں سوئے پڑے ہیں اور اگر خدا کی طرف سے مجھے اجازت ہوتی تو میں یہ باقی جو نمازی تھے ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے اٹھوا تا اور ان کو ان کے گھروں میں جلا دیتا مگر مجھے اس کی اجازت نہیں ہے.میں داروغہ نہیں بنایا گیا.اب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے بڑھ کر شفیق دل آپ کو دنیا میں ڈھونڈ نے سے کہاں ملے گا ، تصور میں نہیں آسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ یہ فرما کر فرمایا بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبہ: 129) جب بھی خدا کے بندوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یعنی اے لوگو! خدا کے بندو! عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُم اس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے یہ خطاب کا پہلا حصہ عام ہے.پھر فرمایا جہاں تک مومنوں کا تعلق بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِیم وہ تو جیسے اللہ اپنے بندوں پر رؤف اور رحیم ہے جیسے اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور بار بار رحم لے کر آتا ہے اس طرح مومنوں پر تو یہ رسول رؤف بھی ہے اور رحیم بھی ہے.اس رسول کے منہ سے کلمہ نکلا ہے کہ اگر مجھے یہ اجازت ہوتی تو میں لکڑیوں کے گٹھے اٹھوا کر ان نمازیوں کو ساتھ لے کر چلتا اور جو بے نماز ہیں ان کو ان کے ہے.گھروں میں جلا دیتا.دراصل اس میں ایک پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو عبادت نہیں کرتے وہ آگ کا ایندھن ہیں اور بہتر ہے کہ اس دنیا میں جل جائیں یہ نسبت اس کے کہ مرنے کے بعد کی آگ میں ڈالے جائیں.یہ حقیقی پیغام ہے اور عبادت ہی ہے جس کے ساتھ ساری نجات وابستہ ہے.پس وہ

Page 187

خطبات طاہر جلد 13 181 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مارچ 1994ء لوگ جو آج اس جمعہ کی برکت ڈھونڈنے کے لئے جوق در جوق مساجد کی طرف آئے ہیں ان کو اندر جگہ نہیں ملی تو باہر گلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان سب تک ، جن تک بھی یہ آواز پہنچے، میں یہ پیغام پہنچا تا ہوں کہ ہماری عبادت روز مرہ کی پانچ وقت کی عبادت ہے اور ہر دفعہ جب اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو مومن کا فرض ہے کہ اپنے گھروں کو چھوڑے اور مسجد کی طرف چل پڑے جہاں سے عبادت کے لئے بلایا جا رہا ہے.حى على الصلواة.حتى على الصلواة.حتى على الفلاح.حتى على الفلاح.پانچ مرتبہ یہ آوازیں سنتے ہو کہ دیکھو نماز کی طرف چلے آؤ نماز کی طرف چلے آؤ.کامیابیوں کی طرف چلے آؤ، کامیابیوں کی طرف چلے آؤ اور پھر بھی جواب نہیں دیتے.پس وہ لوگ جن کو مساجد تک پہنچنے کی توفیق ہے اور توفیق کا معاملہ بندے اور خدا کے درمیان ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں کو توفیق ہے یا نہیں ہے.بعض دفعہ ایک بیماری دوسرے کو دکھائی دے نہیں سکتی.ایک آدمی کہتا ہے کہ میں بیمار ہوں وہیں انسان کا قدم رک جانا چاہئے کہ ٹھیک ہے اگر تم بیمار ہو تو تمہارا معاملہ تمہارے خدا کے ساتھ اور ہمارا معاملہ ہمارے خدا کے ساتھ لیکن ہر شخص خود جانتا ہے کہ اسے توفیق ہے کہ نہیں.پس جسے بھی توفیق ہے اس کا فرض ہے کہ پانچ وقت مساجد میں جا کر عبادت بجالائے اور اگر پانچ وقت مساجد میں نہیں جا سکتا تو جہاں اس کو توفیق ہے وہیں مسجد بنالے.جہاں اس کے لئے ممکن ہو با جماعت نماز پڑھے یا پڑھائے اور اپنے ساتھ اپنے عزیزوں کو یا دوسروں کو اکٹھا کر لے تا کہ اس کی نمازیں باجماعت ہو جائیں.جو شخص اس بات کا عادی ہو جائے گا، جس کے دل میں ہر وقت یہ طلب اور بے قراری ہو کہ میری ہر نماز با جماعت ہو جائے اس کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ نمازیں جو با جماعت ممکن نہیں ہوں گی ان کے متعلق حضرت محمد رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر وہ اذان دے کر باجماعت نماز کی نیت سے کھڑا ہو جائے گا کوئی اور اس کے ساتھ شامل ہونے والا نہ بھی ہوگا تو اللہ آسمان سے فرشتے اتارے گاوہ اس کے پیچھے نماز ادا کریں گے اور اس کی نماز نماز با جماعت ہی رہے گی.تو یہ وہ برکت ہے جو ہر روز پانچ دفعہ آپ کے سامنے آتی ہے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ جو جمعہ آ رہا ہے اس کی طرف توجہ ہے کہ وہی دن ہمارے گناہ بخشوانے کا دن ہے اور کیا پتا کوئی کس دن مرتا ہے یہ بھی تو سوچو! کیا ضرور جمعہ کے معا بعد بخشوانے کے بعد ہی تم نے مرنا ہے حالانکہ جمعتہ الوداع کے ساتھ کسی بخشش کا ذکر مجھے تو نہیں ملا.لیکن

Page 188

خطبات طاہر جلد 13 182 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء اگر ہو بھی تو سال میں جو باقی تین سو چونسٹھ دن پڑے ہیں ان دنوں میں عزرائیل بے کار بیٹھتا ہے.کیا مقدر اور لازم ہے کہ تم جمعہ کے دن بخشش کروانے کے بعد مرو گے !! پس موت تو ہر وقت آ سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں کوئی دن مقرر نہیں.تو روز مرہ کی پانچ وقت کی نمازیں اس لئے آتی ہیں کہ تم بخشی ہوئی حالت میں ، دھلی ہوئی ، پاک حالت میں یہاں سے روانہ ہو.پس اس پہلو سے جماعت کو میں نماز با جماعت کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور وہ دوسرے مسلمان بھائی بھی جو رفتہ رفتہ ہمارے جمعہ میں ٹیلی ویژن کے ذریعے شامل ہورہے ہیں اور یہ رجحان دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے، ان کو بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ خود بھی اس طرف توجہ فرمائیں اور اپنے بھائی بندوں کو دوسروں کو بھی یہ پیغام پہنچا دیں کہ روز مرہ کی پانچ وقت کی نمازوں کا قائم کرنا یہ قرآن کریم کے پیغامات کی جان ہے اور اگر مسلمان اس بات پر قائم ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تمام دنیا میں مسلمانوں کی اصلاح کا ایک ایسا نظام جاری ہو جائے گا جس سے خدا کے فضل سے اسلام کو وہ پرانی کھوئی ظاہری عظمت اور شوکت بھی مل جائے گی کیونکہ ظاہری عظمت اور شوکت کا اصل تعلق اندرونی روحانی عظمت اور شوکت سے ہے.اگر اندرونی روحانی عظمت اور شوکت بحال ہو جائے تو ظاہری عظمت نے پیچھے آنا ہی آنا ہے اگر اندرونی روحانی عظمت اور شوکت بحال نہ ہو، نہ ہو تو ظاہری شوکت کے پیچھے آپ جتنا چاہیں چکر لگائیں کچھ حاصل بھی کر لیں گے تو بے معنی ہوگی، بے روح کے جسم ہو گا.خدا کے نزدیک اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی.پس اپنے اندرونوں کو سنوار میں اور اندرونی عظمت کے پیچھے دوڑیں.اللہ تعالیٰ وہ عظمت عطا فرمائے جس کے متعلق خدا خود فرماتا ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ تم میں سب سے معزز انسان وہ ہے،سب سے عظیم شخص اللہ کی نظر میں وہ ہے جو زیادہ متقی ہو.پس تقویٰ کے تقاضے تو عبادت کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس طرف توجہ فرمائیں گے.جمعہ کے دن جو برکتوں کا ذکر ملتا ہے وہ میں آپ کے سامنے ایک حدیث سے اس کی مثال رکھتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ روایت ہے ابولبابہ بن عبد المنذر کی.سنن ابن ماجہ فی فضل الجمعہ سے لی گئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ ”جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے پاس اس کی بڑی عظمت ہے اور وہ اللہ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی زیادہ

Page 189

خطبات طاہر جلد 13 66 عظمت والا ہے.183 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء اب یہ وہی بات ہے کہ جمعتہ الوداع کے اللہ اتعالیٰ وہ عیدین کی بڑی عظمت ہے مگر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ عیدین سے زیادہ ہر جمعہ کی عظمت خدا تعالیٰ کے نزدیک ہے اور اس میں پانچ خو بیاں ہیں.اول اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس میں پیدا کیا یعنی آدم کو جمعہ کے دن مبعوث فرمایا گیا اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے آدم کو زمین کی طرف بھیجا.پہلی بات کا تعلق بعثت سے نہیں ، اس آدم کی پیدائش سے ہے جس نے مبعوث ہونا تھا تو فرمایا وہ آدم پیدا بھی جمعہ کے دن ہوا اور اسکی بعثت بھی اسی دن ہوئی اور روحانی منصب پر جمعہ ہی کے دن ائز فرمایا گیا اور اسی دن اللہ نے آدم کو وفات دی.جیسا کہ مسیح کے متعلق آتا ہے کہ وَالسَّلامُ عَلَى يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أُمُوتُ وَيَوْمَ أَبْعَثُ حَيًّا ( مريم: 34) وہی حال آدم کا تھا اور قرآن کریم میں جو مسیح کو آدم سے مشابہت دی گئی ہے اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اس مشابہت کا اطلاق ان سب باتوں پر بھی ہو رہا ہے.پہلا آدم جس کو مسیح سے مشابہت دی گئی ہے اس کی پیدائش کا دن بھی مبارک تھا، اس کی موت کا دن بھی مبارک تھا اور وہ بھی برکتوں کے ساتھ دوبارہ اٹھایا جائے گا کیونکہ یہاں بعد میں اٹھانے کا ذکر تو نہیں لیکن جس دن مبعوث کیا گیا اس کا ذکر ہے جو شخص دنیا میں مبعوث کیا جاتا ہے آخر میں بھی وہ اسی طرح برکتوں کے ساتھ مبعوث فرمایا جائے گا.چوتھی بات یہ بیان فرمائی گئی.اسی دن وہ ساعت ہے کہ بندہ اللہ سے سوال نہیں کرتا مگر اللہ اسے وہ سب کچھ عطا کرتا ہے جب تک کہ وہ کسی حرام کے متعلق نہیں مانگتا.جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ فیض عام کی گھڑی ہے اس گھڑی میں خدا تعالی کی طرف سے کوئی انکار نہیں ہوتا مگر حرام مطالبے کا ، حرام دعا کا.پس اگر تمہاری دعائیں نیک ہیں تو جمعہ کے دن خصوصیت سے دعائیں کیا کرو اور یہ پیغام ان کے لئے ہے جو جمعہ پر حاضر ہوتے ہیں، جمعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ہر وقت کوشش رہتی ہے کہ ان موانع کو جو جمعہ کے رستے میں حائل ہیں یعنی ان روکوں کو جن کی وجہ سے وہ جمعہ نہیں پڑھ سکتے کس طرح دور کریں.یہ بات میں نے خصوصیت سے اہل مغرب کے لئے کہی ہے جہاں جمعہ کا دن روز مرہ کے کام کا دن ہے اور پہلے بھی میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ کم سے کم اتنی کوشش تو ضرور کریں کہ تین

Page 190

خطبات طاہر جلد 13 184 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء جمعہ اکٹھے ناغہ نہ کریں کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے تین جمعہ اکٹھا ناغہ کرنے والوں کے لئے بہت انذار فرمایا ہے اور سخت لفظ آئے ہیں.اس لئے اگر اپنے ایمان کی حفاظت چاہتے ہو تو اول تو ہر جمعہ پڑھنا ضروری ہے لیکن اگر نہیں پڑھ سکتے تو ایک جمعہ تو ہر صورت میں پڑھو خواہ چھٹی لینی پڑے.لیکن جب میں نے تحریک کی تھی اس کے بعد مجھے اطلاعیں ملی ہیں بہت بڑی تعداد جماعت کی ایسی ہے جنہوں نے اس وقت لبیک کہا تھا اور اللہ تعالی نے ان کے رستے آسان فرما دیئے.بہت سے طلباء تھے اور طالبات بھی تھیں جنہوں نے اپنے اساتذہ کے سامنے جا کر یہ بات پیش کی اور اساتذہ نے ان کی بات مان لی اور جن کی بات نہیں مانی گئی ان کے ماں باپ نے کہا ہم تین میں سے ایک جمعہ بہر حال ضرور اس کو گھر میں لے کر آئیں گے تم جو چاہو کرو، اور ایسے ہی کرتے رہے.بعض ایسے بھی مخلصین تھے جنہوں نے اپنے دفتروں سے استعفے دے دئے ، ان ملازمتوں سے استعفے دے دئے جن میں ان کو جمعہ کی اجازت نہیں تھی اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر رزق کے سامان مہیا فرما دیئے.تو یہ ایک بہت ہی اہم برکت ہے جو ہر جمعہ سے وابستہ ہے اور آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ان میں سے ایک برکت یہ ہے کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ خدا کی طرف سے انکار نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ حرام کام کا خدا سے مطالبہ کیا جائے اور یہ عرض کیا جائے کہ یہ حرام کام کرنے دیا جائے اور اسی دن شفاعت قائم ہوگی.یہ بہت ہی اہم مضمون ہے.آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شفیع المذنبین بنایا ہے.یعنی گنہگار جن کی کمزوریاں رہ گئی ہیں وہ کوشش تو کرتے رہے کہ کسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت پر چلیں.مگر بعض ایسے موانع تھے بعض ایسی مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے ان کا عمل نامہ ایسے مقام سے نیچے رہ گیا جہاں جا کر نجات ملتی ہے.یعنی دوسرے لفظوں میں ان کی بر ائیاں کچھ ان کی خوبیوں پر غالب رہیں.ایسے لوگ بھی ہیں.ایسے لوگوں کی شفاعت کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ایک خاص مرتبہ اور مقام بخشا گیا ہے.تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں الله که اسی دن شفاعت قائم ہوگی.کوئی مقرب فرشتہ نہیں اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ ہوا ئیں اور نہ پہاڑ اور نہ سمند ر مگر یہ سب جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں.یہ ساری خوبیاں جمعہ کے تعلق میں آنحضور نے بیان فرمائیں.پس شفاعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ جمعہ سے تعلق جوڑ و کیونکہ شفاعت کا مطلب ہے

Page 191

خطبات طاہر جلد 13 185 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 / مارچ 1994ء ایک چیز کو جو بیچ میں ٹوٹ گئی ہو دوسری کے ساتھ جوڑ دیا جائے.ایک شخص نجات تک پہنچتے پہنچتے رہ گیا ہے اور کچھ فاصلہ بیچ میں ہے تو رحم کرتے ہوئے شفقت فرماتے ہوئے وہاں سے اس رسی کو پکڑا جائے اور شفاعت سے جوڑ دیا جائے یعنی اس مقام سے جوڑ دیا جائے جہاں جا کے اس نے نجات پا لینی تھی یعنی دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا ہو اور انسان کی طاقت ختم ہو جائے وہاں تک نہ پہنچ سکے تو او پر سے ایک ہاتھ آئے اور اسے اٹھا کر بام تک پہنچا دے یعنی چھت تک پہنچا دے یہ شفاعت ہے.تو جمعہ کے دن جو آئے گا اسی کو شفاعت ملے گی کیونکہ شفاعت جمعہ کے دن ہی بانٹی جائے گی جو جمعہ سے غیر حاضر ہیں ان بے چاروں کوتو پتا ہی نہیں کہ شفاعت ہوتی کیا ہے.پس وہ لوگ جو شفاعت کی تمنار کھتے ہیں ان کے لئے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ وہ جمعہ سے خاص تعلق قائم کریں.اور پھر حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ وہ دن ہے کہ سب خدا کے مقرب اس دن سے ڈرتے ہیں اور فرشتے بھی اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمندر بھی.یہ کیا وجہ ہے؟ اس دن میں وہ کون سی ہیبت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اس دن سے خوف کھاتے ہیں ؟ یہاں دراصل خوف کھانا احترام کے معنوں میں ہے.اس دن کا مرتبہ اتنا ہے کہ اس دن کی بے حرمتی سے ڈرتے ہیں یہ مراد ہے ورنہ تو اس کے کوئی معنی نہیں بنیں گے.ایک طرف برکتیں بیان کی جاری ہوں اور کشش پیدا کی جاری ہو ، لوگوں کو بلایا جارہا ہو ، آؤ اس دن سے برکتیں پاؤ اور دوسری طرف یہ اعلان ہو رہا ہو کہ بہت خطرناک دن ہے.خبردار ! بڑے بڑے مقرب اور فرشتے بھی اس دن سے ڈر جاتے ہیں.پہاڑ بھی ڈرتے ہیں اور سمندر بھی ڈرتے ہیں اور زمین کی سطح بھی ڈرتی ہے.تو یہ اعلان سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اس دن کی حرمت سے ڈرتے ہیں.یہ دن جو محترم بنایا گیا ہے اس کی عزت اور اس کے احترام کے قیام میں جو کو تا ہی ہو سکتی ہے اس سے ڈرتے ہیں.وہ ڈرتے ہیں کہ یہ نہ ہو کہ اس دن کے ہم تقاضے پورے نہ کر سکیں.پس یہ مراد ہے کہ اگر مقربین کو بھی خوف ہے کہ اس دن کے تقاضے پورے کرنے میں اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کو توفیق ملتی ہے کہ نہیں تو عامتہ المسلمین ، عام انسان کو تو اور بھی زیادہ ڈرنا چاہئے کیونکہ اس سے تو اس دن کے تقاضے پورے کرنا بظاہرممکن دکھائی نہیں دیتا، اس کی طاقت سے بڑھی ہوئی بات دکھائی دیتی ہے.پس یہ بھی اللہ ہی کے فضل کے ساتھ عطا ہوتا ہے.اگر آپ دعائیں کرتے رہیں اور اس مضمون کو سمجھ کر جمعہ کی عظمت اور احترام کو قائم کرنے کی

Page 192

خطبات طاہر جلد 13 186 کوشش کریں تو پھر اللہ مددفرمائے گا.ہر توفیق اسی سے ملتی ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 11 / مارچ 1994ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال ہوا تھا کہ جمعہ کے دن یا جمعۃ الوداع کے دن لوگ تمام گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں ، پڑھتے ہیں کہ ان کی تلافی ہو جائے.اس کا کوئی جواز ہے کہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: یہ ایک فضول امر ہے مگر ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا کسی شخص نے حضرت علی کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اسے منع کیوں نہیں کرتے.فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایا جاؤں 66 ارَعَيْتَ الَّذِى يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى، کہ کیا تو نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا ینھی عَبْدًا إِذَا صَلَّی خدا کے بندوں کو روکتا ہے جب وہ نماز پڑھتے ہے.تو ان نمازوں کی تائید میں کچھ نہیں فرمایا یہ نہیں فرمایا کہ کرنے دو ٹھیک ہے عمر بھر کی چھٹی ہوئی نمازیں پڑھ لے گا تو ٹھیک ہے فرمایا نہیں ہوگا ٹھیک مگر مجھ میں یہ جرات نہیں کہ کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس سے روک دوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہاں اگر کسی شخص نے عمد انماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضائے عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو.اگر شرمندہ ہوا ہے اس کو احساس ہی بہت بعد میں ہوا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے تو ہوش اب آئی ہے جب کہ بہت کچھ میں اپنی عمر کا حصہ ضائع کر بیٹھا اور وہ نمازیں جو میں نے نہیں پڑھیں میں کسی طرح ان سب کو دہرا لوں تو فرمایا اگر یہ ندامت کے جذبے سے بات پھوٹی ہے، اگر شرمندگی کا احساس ہے تو پھر پڑھنے دو، ہو سکتا ہے اللہ اس ندامت کو قبول فرمالے، ہمیں اس سے کیا.ہمارا یہ کام نہیں کہ اس میں دخل دیں.فرماتے ہیں: پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو.آخر دعا ہی کرتا ہے ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے.“ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے.کم ہمتی کا کام ہے جو وقت نمازوں کے مقرر تھے ان کو تو کھو دیا

Page 193

خطبات طاہر جلد 13 187 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 / مارچ 1994ء اور بعد میں ندامت محسوس کی جبکہ بہت دیر ہو چکی تھی وقت گزر چکا تھا.پھر فرماتے ہیں: پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچےنہ آجاؤ ؟ (فتاوی حضرت مسیح موعود صفحہ : 65) جس آیت کا ذکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نیک کام خواہ کوئی صحیح کر رہا ہویا غلط کر رہا ہے، بر حل کر رہا ہو، اس سے روکنے سے احتراز کرنا چاہئے ، کر بیٹھے تو اسے سمجھانے کی کوشش ضرور کرو.پس یہ تو جمعۃ الوداع کی برکتوں کا مضمون تھا.لیکن ان کی کچھ ایسی برکتیں ہیں جن کا تعلق کل عالم ہی سے نہیں بلکہ ہر زمانے سے ہے اور وہ برکتیں وہ ہیں جو اولین کو آخرین سے ملانے والی ہیں.وہ برکتیں ہیں جن برکتوں کے دور سے ہم آج گزار رہے ہیں.یہ جمعہ کا دن جماعت کی تاریخ میں ایک خاص برکت کا دن ہے.روز مرہ کا جمعہ تو برکتوں والا ہوتا ہی ہے لیکن یہ جمعہ جو آج کا جمعہ ہے یہ ایک ایسا جمعہ ہے جس کی برکت تاریخ سے ثابت ہے.خدا تعالیٰ کی جو سنت اس دور میں جاری ہوئی صلى الله ہے اس سے ثابت ہے.وہ اس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی فرمائی تھی اور وہ پیشگوئی اس بات کی علامت تھی کہ وہ مہدی جس کے حق میں آسمان اس طرح گواہی دے گا اس کی وہ جماعت ہو گی جس کے متعلق قرآن کریم میں یہ ذکر ملتا ہے.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آخر میں آئیں گے ابھی تک صحابہ سے نہیں مل سکے مگر پھر صحابہ سے مل جائیں گے.یہ ان کے لئے خوشخبری ہے.یہ جس بچے وجود کے متعلق خوشخبری تھی اس کے حق میں آسمان نے گواہی دینی تھی اور وہ گواہی ایک لمبے انتظار کے بعد دی گئی.یہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرمایا کہ میں وہ مہدی ہوں جو حضرت محمد مصطفی حملے کا مہدی ہے تو اس وقت سب کی نظریں اس آسمانی نشان پر لگ گئیں اور علماء کی طرف سے بکثرت مطالبے شروع ہو گئے کہ اگر تم وہ مہدی ہو تو وہ نشان تو دکھاؤ.وہ آسمانی گواہیاں تو لاؤ جن آسمانی گواہیوں نے مہدی کی تصدیق کرنی تھی اور وہ کیا تھیں؟ وہ اس الله حدیث میں درج ہیں جس کے الفاظ میں آپ کے سامنے پڑھ کر رکھتا ہوں : إِنَّ لِمَهْدِيّنَا آيَتَيْن لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ، يَنْكَسِفُ

Page 194

خطبات طاہر جلد 13 188 خطبه جمعه فرموده 11 / مارچ 1994ء الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ.(سنن دار قطنی ، باب صفۃ صلوۃ الخسوف والكسوف ) کہ ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں.حضرت محمد رسول اللہ اللہ فرماتے ہیں ہمارا مہدی ہوگا وہ تم ہم سے اس کو کاٹ نہیں سکتے.جس کے حق میں آسمان گواہی دے گا.چاند اور سورج گرہن کئے جائیں گے.رمضان میں یہ واقعہ ہو گا.کون ہے جو اس کو کاٹ کر ہم سے الگ کر سکے وہ ہمارا مہدی ہے ہمارا ہی مہدی رہے گا.اتنے پیار سے یہ پیشگوئی فرمائی اور پیشگوئی کا شخص یہ تھا کہ چاند کو اپنی گرہن کی تاریخوں میں پہلی تاریخ کو یعنی 13 کو گرہن لگے گا اور سورج کو اپنی گرہن کی تاریخوں میں درمیانے دن یعنی اٹھائیسویں کو گرہن لگے گا اور یہ واقعہ رمضان مبارک میں ہو گا اور اس سے پہلے امام مہدی کا دعویدار ظاہر ہو چکا ہوگا اور یہ وہ نشانی ہے جو کبھی کسی اور خدا کی طرف سے آنے والے نے اپنے حق میں پیش نہیں کی.لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بحیثیت نشان یہ کسی اور کے حق میں ظاہر نہیں ہوئی.یہ پس منظر ہے جس کو مدنظر رکھیں.الفضل میں اس سے متعلق ایک بہت پیارا مضمون محمد اعظم اکسیر صاحب کا شائع ہوا تھا.اس میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے ایک عرصے کے بعد علماء مطالبے کر رہے تھے، ایک عام شور تھا کہ چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی پوری ہو تو ہم جانیں کہ یہ سچا ہے.تو اس وقت 1894ء میں رمضان مبارک میں تیرھویں رات کا چاند گہنایا گیا اور اس سے ایک عام شور برپا ہو گیا، کچھ توقعات جاگ اٹھیں، کچھ لوگ جو اس سے تکلیف محسوس کرتے تھے انہوں نے بد دعاؤں میں تیزی کر لی اور ان کے دلوں میں خوف و ہراس پھیل گیا کہ یہ نہ ہو کہ رمضان کے مہینہ میں ایک مہدی کے حق میں جیسا کہ چاند نے گہنا کر گواہی دی ہے سورج بھی یہ گواہی نہ دے دے.اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم کیا جواب دیں گے؟ بہت دور دور سے احمدیوں کو یہ شوق پیدا ہوا کہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام پر جا کر آپ کے ساتھ اس بستی میں اس گرہن کو دیکھیں جن کا ان کو یقین تھا کہ اٹھائیس تاریخ پر ہو نہیں سکتا کہ سورج گرہن نہ لگے.چنانچہ تین ایسے مسافروں کا ذکر محمد اعظم اکسیر صاحب نے کیا ہے.ایک مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ہوا کرتے تھے کسی ریاست میں وزیر تھے ان کے دو بیٹے اور ان کے ایک دوست جو طالبعلم تھے ان

Page 195

خطبات طاہر جلد 13 189 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء تینوں کا قافلہ لاہور سے قادیان کے لئے روانہ ہوا اور وہ سورج گرہن جس تاریخ کو لگنے کی توقع تھی یعنی اٹھائیس کو اس سے ایک دن پہلے وہ مارا مار بٹالہ تک پہنچے کہ دوسرے دن صبح ہی سورج نکلنے سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جائیں مگر کوئی تانگہ کوئی یکہ تیار نہ ہوا وہ بے چارے پھر پیدل چل پڑے اور سحری کے وقت جا کر وہ قادیان پہنچے اور اس طرح احمدیوں میں ایک عام رجحان پیدا ہو چکا تھا کہ اس دن کو خصوصیت سے قادیان میں گزاریں اور اس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں.اب دیکھیں اللہ کی کیسی شان ہے کہ خدا نے ان توقعات کو کیسا پورا فرمایا.اسی دن صبح زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا نو بجے سورج گہنایا گیا اور سب کی آنکھیں اس طرف تھیں اور نماز کسوف وخسوف بھی شروع ہو گئی تھی اور دلوں میں جو کیفیت ہوگی ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے.حیرت انگیز بات ہے تیرہ سو سال پہلے ایک پیشگوئی تھی کہ ہمارے مہدی کے لئے آسمان اس طرح گواہی دے گا ایک گواہی آچکی تھی دوسری پر نظریں تھیں اور اس دن قادیان میں انہوں نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملا اصدق الصادقین کی پیشگوئی کے عین مطابق بعینہ اسی طرح ہوا جیسا فرمایا گیا تھا.شروع میں وہ سورج ذرا ہلکا گہنایا گیا تھا اور اس پر کچھ صحابہ نے باتیں شروع کر دیں کہ لو جی یہ تو ہلکا سا ہے یہ نہ ہو کہ مولوی کہیں کہ گہنایا ہی نہیں گیا تمہیں وہم ہے.لیکن ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ پورا سورج گہنا گیا اور نو سے گیارہ بجے تک یہ عجیب نظارہ وہاں ان لوگوں نے دیکھا.یہ وہ پیشگوئی ہے جس کے پورا ہونے پر آج ایک سو سال گزر چکے ہیں اور یہ وہ رمضان ہے کہ سو سال بعد اس طرح پھر آیا ہے ان پیشگوئیوں کے نشان ہمارے تک لایا ہے اور عجیب بات ہے کہ جمعہ نے اس میں ایک خاص کر دار ادا کیا ہے اور وہ یہ کہ چاند گہنایا گیا ہے اس مہینے میں ، وہ جمعرات کا دن غروب ہونے کے بعد جمعہ کی رات شروع ہونے پر گہنایا ہے اور جو سورج گہنایا گیا تھا (یعنی میں بتارہا ہوں کہ گہنایا گیا ) کی تاریخ اس طرح بنتی ہے کہ تیرہ تاریخ جو اس زمانے کی تھی وہ جب اس رمضان میں آئی تو جمعرات کا دن ختم ہو چکا تھا جمعہ کی رات شروع ہو گئی تھی اور ہم نے جو جشن منایا وہ دراصل جمعہ کی رات کو جشن منایا ہے اور آج جب کہ سورج گہنانے کا دن آیا ہے اٹھائیس تاریخ آئی ہے تو آج جمعہ کا دن ہے.تو وہ جمعہ جو غیر معمولی طور پر جماعت احمدیہ کے لئے برکتوں کے لئے مقرر ہو چکا ہے جو

Page 196

خطبات طاہر جلد 13 190 خطبه جمعه فرموده 11 / مارچ 1994ء بھر بھر کے برکتیں لاتا ہے اور ہم پر انڈیلتا ہے یہ وہ جمعہ جس کے ساتھ ہماری بہت سی برکات وابستہ ہیں.پس جماعت احمد یہ اگر جمعہ کا احترام نہ کرے اور شکر کا حق ادانہ کرے تو بڑی بد بختی ہوگی.یہ وہ سورہ جمعہ ہی ہے جس نے آخرین کو اولین سے ملانے کی خوشخبری دی تھی اسی کی آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں.اللہ تعالیٰ نے پھر یہ فرمایا.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ تَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ی تو اللہ کا فضل ہے کون روک سکتا ہے اس کو؟ وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور بڑے ے فضلوں والا ہے.یہ سورۃ جمعہ ہی تھی جس نے یہ خوشخبری آنے والوں کو دی کہ ایسے بھی خوش نصیب آنے والے ہیں جو آخر پر ہونے کے باوجود اولین سے ملا دیئے جائیں گے اور ان کے حق میں ہی آسمان نے یہ دو گواہیاں پیش کیں اور ہم اس دور سے گزررہے ہیں کہ وہ ساری برکتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بارش کی طرح برسی ہیں ہم اسی زمانے سے گزرتے ہوئے ان کی یادوں سے مست ہیں.عجیب کیفیت ہے یہ.میں آج سوچ رہا تھا کہ وہ جو کفار کہا کرتے تھے کہ سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ “ یہ تو مسلسل جاری رہنے والا ایک سحر ہے جو پیچھا نہیں چھوڑ رہا.ہم بھی تو اس سحر ہی کی حالت میں سے گزر رہے ہیں.کیوں کہا کرتے تھے اس لئے کہ وہ دیکھا کرتے تھے کہ اتنے فضل نازل ہورہے ہیں ،ایسی برکتیں اتر رہی ہیں کہ صحابہ تو گویا جادوزدہ ہیں، نشے کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں.اب تو لگتا ہے کہ وہی جادو کے دن دہرائے جارہے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو برکتیں نازل ہوئی تھیں وہ بھی تو ایک سحر کا سا منظر پیش کرتی تھیں اور اب ان سے گزرتے ہوئے ہمیں ایسا لطف آ رہا ہے کہ گویا ایک جادو کی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں.ان کا حال کیا ہوگا جنہوں نے حضرت مسیح موعود یہ السلام کو دیکھا، آپ پر عاشق ہوئے اور اس کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ، سب دنیا تج کے، ہر چیز فنا کر کے مسیح موعود ہی کے ہور ہے اور اس پیغام کو ساری دنیا میں پہنچایا ہے.پس اب جبکہ میں دعوت الی اللہ کی طرف آپ کو دوبارہ بلا رہا ہوں میں یاد کرا تا ہوں کہ ایسے ہی دنوں میں دعوت الی اللہ کا پیغام شروع ہوا تھا ایسے ہی دنوں میں وہ آغاز ہوا تھا.اسی مستی کے عالم میں انہوں نے تمام دنیا کو پیغام پہنچائے تھے اور حیرت انگیز طور پر جبکہ ابھی مبلغوں کا، مربیوں کا نظام جاری نہیں تھا، وہ صحابہ یہی تھے جو کچھ ان پڑھ بھی تھے، کچھ پڑھے لکھے بھی تھے ، کچھ بڑے بڑے

Page 197

خطبات طاہر جلد 13 191 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء علماء بھی تھے ،مگر عالم تھے یا ظاہری لحاظ سے جاہل تھے، اندرونی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو علوم سے آراستہ فرمایا گیا تھا.روحانی علوم سے ان کے سینے بھرے گئے تھے اور چھوٹا تھایا بڑا ، ظاہری طور پر عالم تھا یا جاہل وہ تمام کے تمام تبلیغ میں سرگرداں رہتے تھے اور اسی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ جماعتیں مخالفت کے علی الرغم قائم ہوئیں.شدید مخالفتیں تھیں ، اتنی کہ آج تصور بھی نہیں کر سکتے.پاکستان کی تمام تر مخالفتیں ایک طرف اور وہ مخالفت کا دور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ نے آغاز میں دیکھا ہے اس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا.دن رات سارا ہندوستان بلکہ عرب تک کے علماء گالیاں دینے اور جانیں حلال کرنے کے فتوے دینے میں مشغول تھے کہ ان کی جانیں حلال ہوگئیں ، ان کے مال حلال ہوگئے ،ان کی بیویاں مطلقہ ہو گئیں.کچھ بھی ان کا نہیں رہا.جو چاہے جس طرح چاہے ان کی عزتوں پر ہاتھ ڈالے خدا کے نزدیک مقبول ٹھہرے گا.یہ وہ دور تھا جس دور میں صحابہ کی یہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عقب میں روانہ ہوئی ہے اور ہر قدم ترقی کی طرف اٹھا ہے.ایک لمحہ ایسا نہیں آیا کہ اس جماعت کے قدم رک گئے ہوں.پس خدا جب ان برکتوں کی یادیں دہرا رہا ہے اور وہ کیفیتیں ہمارے دلوں میں پیدا فرمارہا ہے جو کیفیتیں اس زمانے میں صحابہ کے دلوں میں تھیں اور سو سال کی برکت سے ہم اس دور سے دوبارہ گزر رہے ہیں تو یہ وہ جذبہ ہے جس کے ساتھ میں آپ کو دعوت الی اللہ کی طرف بلاتا ہوں کوئی پرواہ نہ کریں دشمن اس راہ میں کیسے روڑے انکا تا ہے اور کیسی کیسی تکلیف محسوس کرتا ہے.دشمن کی تکلیف آپ کی خوشیوں کو آپ کے دلوں سے کیسے نوچ سکتی ہے، یہ ناممکن ہے.پاکستانی حکومت نے پہلے تو بغیر کسی قانون کے ان مظلوموں پر ہاتھ ڈال دیئے جو خوش ہورہے تھے کہ خدا تعالیٰ نے سوسال بعد ہمیں پھر وہ دن دکھائے جبکہ چاند سورج گرہن کی عظیم پیشگوئی پوری ہوئی.ان کو قیدوں میں ڈالا گیا، گھسیٹا گیا، مارا کوٹا گیا، گالیاں دی گئیں ، ان کے خلاف تحریکات چلیں پتوکی میں کیا ہوا ؟ لاہور میں کیا ہوا؟ ربوہ میں کیا ہوا؟ جگہ جگہ ایسے واقعات ہیں اور کوشش کیا ہے؟ کہ اللہ نے ان پر جو فضل فرمایا ہے اس سے جو خوش ہورہے ہیں یہ خوشیاں ان سے نوچ لیں.خوشیاں تو وہ دلوں سے نہیں نوچ سکتے، نہ ہمیں یہ توفیق ہے کہ ان کے دل میں حسد نے جو غیظ بر پا کر رکھا ہے، آگ کھول رہی ہے، اس آگ کو ٹھنڈا کر سکیں.نہ ان کو توفیق نہ ہمیں تو فیق.ہم دونوں

Page 198

خطبات طاہر جلد 13 192 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء بندے ہیں بے اختیار ہیں.یہ ہمارا اللہ ہی ہے جو غیظ و غضب کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے اور یہ اللہ ہی ہے جو ہماری خوشیوں کو اور بڑھاتا چلا جائے گا.پس اہل ربوہ اور اہل پاکستان کی ان خوشیوں کی راہ میں جو خدا نے ان کو عطا کی ہیں روڑے اٹکانے والوں کا بدلہ میں نے اس طرح لیا کہ آج کے دن بین الاقوامی احمد یہ ٹیلی ویژن کو ہدایت کی کہ وہ چاند اور سورج کے گرہن کی خوشخبریاں اہل ربوہ کے نام سے منسوب کر کے ان کا ذکر، ان کی خوشیوں کے پروگرام بنائیں وہ ساری دنیا کو دکھا ئیں.اس وقت تو میں نے اہل ربوہ کا نام لیا تھا غالبا یہی نام لیا جا رہا ہو گا.لیکن اب مجھے خیال آیا کہ صرف ربوہ نہیں اور بھی تو پاکستان کے احمدی ہیں جن کے متعلق اب قانون بنا کر نوٹس دیئے جاچکے ہیں کہ خبردار جو تم خدا کے فضلوں پر خوش ہوئے.پھر خدا کے فضلوں کو روک دو اگر روکا جا سکتا ہے تو.خوشی کس طرح چھین سکتے ہو.فضل نازل ہوں گے تو خوش تو ہم ہوں گے.لیکن خدا کے فضلوں کو روکو گے کیسے؟ یہ تو سمجھاؤ!! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ تمہیں نصیب نہیں ہوا تو جس کو دیتا ہے اس کو دے گا اور دیتا چلا جائے گا اور روکو گے کیسے؟ وہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ہے، بڑے فضل ہیں اس کے پاس.ایک روکو گے تو دس اور عطا فرما دے گا دس رو کو تو ہزار اور عطا کر دے گا.پس جماعت احمدیہ کے اوپر خدا کے جو فضل برس رہے ہیں.ان کو تو روکنے کی تمہیں طاقت نہیں.لگالوزور.خوشیاں بھی نوچ نہیں سکتے، وہ تو دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت تمہارے دلوں سے وہ غیظ و غضب اور حسرت نوچ نہیں سکتی.وہ تو بڑھتی ہی بڑھتی ہے.قرآن کریم کی پیشگوئی ہے کہ یہ لوگ جو آخرین میں پیدا ہوں گے یہ اللہ کے فضل کے ساتھ بڑھیں گے.ان کے حق میں پیش گوئیاں پوری ہوں گی.ایک کھیتی کی طرح نشو نما پا کر بلند تر ہوں گے اور مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے.تو بعض ظالم ایسے ہیں کہ ان کے مقدر میں غیظ و غضب کے سوا کچھ نہیں.لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ - و.وہ جو حضرت مسیح موعود کے منکر ہیں ان کے لئے غیظ کے سوا کچھ نہیں.ہے.- پس اس غیظ کا کیا علاج ہے میرے پاس جب کہ خدا فرماتا ہے کہ ہر احمدیت کی ترقی پر یعنی احمدیت کا لفظ نہیں ہے.میں وضاحت کر دوں محمد رسول اللہ اللہ کی دوسری شان کے اظہار کا تذکرہ ہو رہا ہے شانِ احمدی، وہ شان جو مسیحیت سے ملتی جلتی ہے وہ شان جس کا انجیل میں ذکر ہے اس لئے بطور استنباط میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی علیہ کی وہ شان جس کا تو رات سے تعلق تھا وہ

Page 199

خطبات طاہر جلد 13 193 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء اور طرح بیان ہوئی ہے اس میں بڑا جلال ہے اس میں بڑی شان ہے اور ایسا ایک رعب اس میں پایا جاتا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح : 30) وہ کفار پر بڑے سخت ہیں ان کو طاقت نصیب ہے.ان کو وہ تلوار نصیب ہوئی ہے جس سے وہ اپنے دشمنوں کو سزائیں دیتے ہیں ایک یہ شان ہے اور پھر فرمایا وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ لیکن انہی لوگوں کی ایک مثال انجیل میں بھی تو دی گئی ہے وہ مختلف ہے.اس شان میں ان کی نرمی ان کے حلم کا ذکر ہے ان کے رفتہ رفتہ نشو نما پانے کا ذکر ہے.ان کے ایسے کمزور آغاز کا ذکر ہے کہ دشمن چاہے تو سمجھے گا کہ میں اپنے پاؤں تلے روند دوں گا اور یہ جو پودا کونپلیں نکال رہا ہے اس کو اپنے قدموں تلے مسل کے رکھ سکتا ہوں سیہ وہ شان ہے.اب دیکھیں پہلی شان اور اس شان میں بیان کے لحاظ سے اور طرز کے لحاظ سے زمین اور آسمان کا فرق ہے.ایک ہی دور کے دوذ کر نہیں ہیں.پس ہم حق بجانب ہیں یہ کہنے پر کہ حضرت محمد مصطفی اے کی جس شان کی مسیح نے خبر دی تھی اس شان نے اسی زمانے میں ظاہر ہونا تھا جس زمانے میں امت محمدیہ میں مسیح نے ظاہر ہونا تھا.پس کیسی مناسبت ہے، کوئی بات قرآن کی طرف منسوب نہیں کی جارہی جو قرآن نہیں کہتا.پس دو مثالیں اتنی کھلی کھلی واضح الگ الگ حالات پر اطلاق پانے والی ہیں کہ بیک وقت ان کا اطلاق ہو نہیں سکتا.مگر ساتھ ہی مسیحیت کی پیشگوئی کی وجہ سے جو مسیح نے محمد رسول اللہ کے متعلق فرمائی اور حضرت محمد رسول اللہ نے اس مسیح کے متعلق اپنی امت میں آنے کی خبر دے دی.ان مضامین کو جب آپ اکٹھا دیکھتے ہیں تو وہ باتیں نکلتی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ ہم ہی ہیں وہ آخرین کے دور میں پیدا ہونے والے، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ برکتیں پائیں.ہم ہی ہیں جو ان صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو آخر میں ہونے کے باوجود اولین سے ملایا گیا تھا اور ہم وہ خوش نصیب ہیں جو سو سال کے بعد پیدا کئے گئے ہیں.اس زمانے میں پیدا کئے گئے ہیں جب حضرت مسیح موعود کی سوسالہ تاریخ اول سے آخر تک دوہرائی جارہی ہے وہ ساری برکتیں اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمارہا ہے.میں نے اپنی خلافت کے بعد پہلے خطاب میں جماعت کو متوجہ کیا تھا کہ یاد رکھو یہ غیر معمولی دن ہیں جن میں ہم داخل ہوئے ہیں.1882ء میں پہلا ماموریت کا الہام ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور 1982 ء ہی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے منصب خلافت پر فائز فرمایا.

Page 200

خطبات طاہر جلد 13 194 خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1994ء یہ میری شان نہیں ہے کیونکہ میں تو اپنے آپ کو ہرگز اس لائق نہیں سمجھتا میں اس خلافت کے دور کی بات کر رہا ہوں.اس خلافت کے آغاز سے جس پہ خدا نے مجھے قائم فرمایا.اس خلافت کے بعد سے وہ ساری تاریخ 1982 ء سے لے کر آخر تک دہرائی جارہی ہے اور دہرائی جائے گی.وہ ساری برکتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے عطا کرنی شروع کی تھیں یا اسی دور سے تعلق رکھتی ہیں.سب اس میں شریک ہیں.میں نہیں، آپ سب.وہ ساری جماعت جس کو خدا نے آغاز سے لے کر آخر تک کے لئے ان برکتوں کو دیکھنے کے لئے چن لیا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے ہم میں سے کتنے ہیں جو کتنی برکتیں دیکھیں گے.مگر دعا ہمیں یہی کرنی چاہئے کہ ہم میں سے بھاری تعداد ایسی ہو جو 1982ء سے لے کر آخر تک کم از کم 2008 ء سال تک زندہ رہ کر اللہ کے فضلوں کے گواہ بنتے رہیں اور یہ وہ مبارک عظیم دور ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اس کے شکر کا حق کیسے ادا ہوسکتا ہے.ناممکن ہے.یہ وہ جادو ہے جو میں کہ رہا ہوں جس کے نشے میں ہم چل رہے ہیں اور یہی وہ جادو ہے جو حقیقت بن کر دنیا کی تقدیر بدلے گا.آپ پر اس جادو کا نشہ طاری ہے تو یا درکھیں کہ پھر اس سے دنیا میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوں گی.اس روح کے ساتھ آپ ترقی کی اس راہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.دشمن تکلیفیں پہنچاتا ہے پہنچاتا رہے فضلوں کی راہ نہیں روک سکتا نہیں روک سکتا نہیں روک سکے گا.جو چاہے کرلے لیکن آپ وفا کے ساتھ اس راہ پر قدم رکھتے رہیں.اس سے قدم ہٹائیں نہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہر آنے والا دن ہمارے لئے اور برکتیں لے کے آئے گا.ہر آنے والا ہفتہ ہمارے لئے اور برکتیں لے کے آئے گا.ہر آنے والا مہینہ ہمارے لئے اور برکتیں آسمان سے انڈیلے گا.ہر آنے والا سال برکتوں کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کرے گا.ہر جانے والا سال برکتیں چھوڑ کر ہمارے لئے جائے گا.یہ عظیم دور ہے جس میں سے ہم اصلى الله گزر رہے ہیں.پس خدا کے شکر کے گیت گاتے ہوئے اس کی حمد و ثناء کرتے ہوئے محمد مصطفی میت کے پر دردو بھیجتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ، کوئی نہیں جو تمہاری راہ روک سکے.آمین خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.وہ جو باہر کے ملکوں میں اس وقت جمعہ کا خطبہ سن رہے ہیں ان کی اطلاع کے لئے میں بتاتا ہوں کہ وہ جو جشن کے عالمی پروگرام ہیں ان کی کچھ جھلکیاں انشاء اللہ جمعہ کے بعد بھی دکھائی جائیں گی اس لئے ٹیلی ویژن فور بند کر کے رخصت نہ ہو جائیں.

Page 201

خطبات طاہر جلد 13 195 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء بنی نوع انسان سے ہمدردی اور حضرت مسیح موعود کا جوش آپ کی تمنا کہ جماعت روح القدس بن جائے.( خطبه جمعه فرموده 18 / مارچ 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی:.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ ط فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبْرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ پھر فرمایا:.(النور: ۳۶) اسلام کے جو مقاصد ان آیات میں بیان ہوئے ہیں.وہی مقاصد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے بیان فرمائے اور بالآخر آخری تمنا کا جواظہار فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ یہ جماعت اور اس کے ماننے والے نور ہو جائیں.ایسا نور جو بلند جگہوں پر رکھا جائے ایسا نور جو دور دور تک دکھائی دے اور لوگ اس سے روشنی پائیں.جن آیات کی میں نے تلاوت کی

Page 202

خطبات طاہر جلد 13 196 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء ہے.ان کے متعلق پہلے میں تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں لیکن کوئی بھی قرآن کریم کی آیت ایسی نہیں جس پر کوئی بات مکمل ہو سکے یا ہو سکتی ہو کیونکہ جب انسان آیات قرآنی پر غور ہوتا ہے کوئی نہ کوئی نیا مضمون اس میں سے ابھر آتا ہے، کوئی ایسا پہلو سامنے آ جاتا ہے جو پہلے سامنے نہیں تھا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے نور بننے کے ساتھ ساتھ یہ ایک حقیقت بیان فرمائی ہے جو بہت ہی اہمیت رکھتی ہے کہ محمد پر آسمان سے نور نازل نہ ہوتا اگر وہ خود نور نہ ہوتے.پس وہ جو آسمانی نور کے متلاشی ہیں انہیں لازم ہے کہ اپنے اندر نور پیدا کریں اور یہی وہ مضمون ہے جس کا تعلق اس آیت کریمہ سے ہے.وہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے هُدًى لِلْمُتَّقِینَ.جن کا دل پاک اور صاف نہ ہو ، جن کا دل خود ضمیر سے روشن نہ ہو ان پر آسمان سے بھی کوئی نور نہیں اترا کرتا اور آنحضرت ﷺ سے متعلق یہ بات بیان فرما کر در حقیقت آپ کی فضیلت کی ایک اور وجہ ہمارے سامنے پیش فرما دی کہ تمام انبیاء پر آپ کو کیوں فضیلت ہوئی ؟ ہر نبی پر نور ویسا ہی اترتا ہے جیسا اس کے دل میں ہو اور جتنا بڑا نور انسان کے ضمیر سے اٹھتا ہے اتنا ہی عظیم الشان شعلہ نور آسمان سے اترتا ہے.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نور تمام نبیوں سے بڑھ کر تھا تبھی اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے روشن تر نور آپ پر اتارا اور اس سے خدا تعالیٰ کی عطا کے اندر جو اندرونی ایک عدل پایا جاتا ہے اس پر روشنی پڑتی ہے.ملتا تو عطا سے ہے مگر عطا بھی عدل کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور جیسا کسی کا صلى الله استحقاق ہو ویسا ہی اس کو عطا کیا جاتا ہے.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ کے پر خالصہ اللہ کی عطا ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ اس عطا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ خود ایک نور تھا اور اس نور سے ملتا جلتا ، اس کے مطابق، اس کی شایان شان، اس کے شان بڑھانے والا ایک اور نور آسمان سے اترا تو وہ وجود نُورٌ عَلَى نُورِ بن گیا.پھرفرماتا ہے جیسے لوگ روشنی کی تلاش میں جن کے ہاں اندھیرا ہو بعض دفعہ دور دور چلے جاتے ہیں ڈھونڈنے کے لئے کہ کہیں کوئی بتی جل رہی ہو تو اس سے اپنا دیا روشن کر لیں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایسا ہی کیا تھا.آگ کے بغیر بیٹھے ہوئے تھے پہاڑی پر ایک روشنی دیکھی.اپنی زوجہ مبارکہ سے کہا کہ میں چلتا ہوں شاید وہاں سے کوئی آگ کا شعلہ مل جائے تو ہم اپنا

Page 203

خطبات طاہر جلد 13 197 خطبه جمعه فرمود : 18 / مارچ 1994ء گھر بھی روشن کر لیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وہ نور آپ کو عطا ہوا جس کے لئے بلایا گیا تھا.حضرت محمد مصطفی ملے کا دل بھی ایک طور کے طور پر پیش ہو رہا ہے.فرماتا ہے وہاں تو ایک موسیٰ نے ہدایت پائی تھی اور پھر آگے جاری کی تھی.محمد مصطفی کا دل ہی وہ طور ہے جس پر روشنی دیکھ کر طور نور تلاش کرنے والے اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں اور ان میں سے پھر اللہ انتخاب فرماتا ہے ہر ایک کو یہ توفیق نہیں دیتا.يَهْدِی اللهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ پھر جس کو چاہتا ہے اس کو اس نور تک پہنچنے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اس میں بھی اس کی صلاحیتیں دیکھتا ہے.پھر وہی آیت سامنے آ جاتی ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.محمد مصطفی میہ کی رفعتوں کو پہچاننے کے لئے کچھ اندرونی رفعتیں بھی چاہئیں.آپ کے نور سے نور حاصل کرنے کے لئے کچھ اندرونی صلاحیتیں درکار ہیں.پس اللہ تعالیٰ ہر شخص کو محمد رسول اللہ ﷺ تک راہنمائی نہیں فرما تا بلکہ اس کے دل کا نور ہے جو فیصلہ کن بنتا ہے.(ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک تار کی خرابی کی وجہ سے قریبا چار پانچ منٹ پہلے آواز بھی نہیں جاسکی لیکن پانچ چھ منٹ پہلے بتانا تھا اب اتنی دیر بعد کیوں بتایا اب میں سارا خطبہ وہاں سے دوبارہ دہراؤں یہ اب کوئی مناسب نہیں ہے کافی وقت گزر چکا ہے.بہر حال آئندہ اگر آپ کے ہاں کیسٹ بن رہی ہو تو آئندہ اس خطبے کا پہلا حصہ پھر کسی وقت دکھا دینا، اگلے جمعے میں.پھر اعلان کے بعد ابھی بھی ایک اور آواز آرہی ہے بیچ میں سے اس کو بند کروائیں جو ترجمہ ہو رہا ہے وہ یہاں بھی سنائی دے رہا ہے.ایک تار نہیں دو تاروں کی خرابیاں بہر حال ترجمے کی آواز یہاں تک براہ راست پہنچ رہی ہے عجیب بات ہے مگر جب یہاں میں بات بیان کر رہا ہوتا ہوں تو اس سے خلل واقع ہو جاتا ہے.) حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا جونور ہے یہ ایک طور کے نور کی مثال بن گیا اور وہاں سے پھر صحابہؓ نے جن کو اللہ نے توفیق عطا فرمائی اس نور سے اپنے دلوں کے نور روشن کئے اور وہ نور جو محمد مصطفی ﷺ کے دل پر اترا تھا اور نُورٌ عَلَى نُورٍ کا منظر دکھا رہا تھا.محدد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر اچانک فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُو وَالْآصَالِ في ( النور : 37)

Page 204

خطبات طاہر جلد 13 198 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء یه نوران سب کے گھروں میں چمکنے لگا جن کے متعلق اللہ نے فیصلہ فرمارکھا تھا کہ ان کو بلند کرے گا یا اس کا مطلب یہ بنے گا.اَذِنَ اللهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ بعضوں نے اس کی ضمیر پچھلی آیات کی طرف پھیری ہے مگر میرے نزدیک یہاں بيوت ہی دراصل ضمیر کا مرجع ہیں.مراد یہ ہے ان گھروں کی طرف وہ نور چلا گیا، ان گھروں میں بسنے لگا، ان گھروں کو روشن کر دیا جن کے متعلق اللہ نے فیصلہ فرما لیا تھا، آنْ تُرْفَعَ کہ ان کے درجات بلند کئے جائیں گے ان گھروں کو بلند کیا جائے گا اور کیسے بلند کیا جائے گا.وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمه “اس کا نام بلند کر کے.تو نور کی حقیقت بھی ہم پر کھول دی، نور کی حقیقت ذکر الہی ہی ہے جن گھروں میں ذکر الہی کی آواز میں بلند ہوتی ہوں وہاں خدا کا نور اترتا ہے اور ان گھروں کو بلند کر دیتا ہے ان کو رفعتیں عطا کر دیتا ہے.يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُو وَ الْأَصَالِ اس میں وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں صبحوں کے وقت بھی اور شاموں کے وقت بھی ، وہ گھر ذکر الہی سے بھرے رہتے ہیں.“ اس مختصر تشریح کے بعد اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس کی طرف آتا ہوں.جو آج کے شائع ہونے والے انٹرنیشنل الفضل کے پہلے صفحہ پر طبع ہوئی ہے کیونکہ یہ مشکل عبارت ہے تو پھر ٹھہر ٹھہر کر سمجھانا پڑھے گا.عام اردو جاننے والے بھی اس عبارت کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے اور سرسری نظر سے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ کیا با تیں ہورہی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ تفصیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کے اس کا مضمون آپ پر واضح کیا جائے آپ فرماتے ہیں:.” یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین اب اس ٹکڑے کی کسی کو سمجھ نہیں آئی ، جو یہاں کے بچے ہیں یا امریکہ کا ایک بچہ سامنے آ کے بیٹھا ہوا ہے اس کے چہرہ پر فورا ایک مسکراہٹ آئی کہ ہمیں تو کچھ نہیں پتا چلا کہ کیا کہا.بہتوں کو نہیں پتا چلے گا کہ عام زبان کی باتیں ہیں وہ بھی گہرائی میں ہیں اس لئے سطح سے دکھائی نہیں دیں گی.فرماتے ہیں:.یہ بیعت کا سلسلہ جو ایک ایسی متقیوں کی جماعت اکٹھا کرنے کے لئے جاری فرما گیا ہے.جو ہمارا اصل مقصد ہے، یہ مراد ہے اس بات سے یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کو جمع کرنے کے لئے ہے.ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کہ جو متقی ہیں ان کو اکٹھا کرنے کے لئے یہ سلسلہ چلایا گیا ہے.”تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالئے تا کہ ایسے متقیوں

Page 205

خطبات طاہر جلد 13 199 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء کا کوئی بڑا گر وہ تمام دنیا پر اپنے نیک اثرات ڈال سکے اور ان کی حالتیں بدلے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت اور عظمت اور نتائج خیر کا موجب ہو، یہاں اتفاق کا لفظ ایسا ہے جس پر مزید غور کی ضرورت ہے اتفاق تک تو سمجھ آ گئی اور ا تفاق لفظ اکثر جگہوں پر سمجھ آ گیا ہوگا.مگر اس کی اہمیت کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اگر الہی جماعتوں سے اتفاق اٹھ جائے تو ان کی تمام برکتیں جاتی ہیں.تو جو ہوا بنی ہوتی ہے وہ جاتی رہتی ہے.دشمن پر ان کا رعب باقی نہیں رہتا اور ان کے اندر تاثیر کی طاقتیں باقی نہیں رہتی.پس اگر مقصد یہ ہے کہ دنیا پر ان کی نیک صلاحیتیں اثر انداز ہو جائیں تو لازم ہے کہ جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو.جہاں جہاں بھی جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے وہاں سے تمام برکتیں اٹھ جاتی ہیں اور کئی مثالیں میں نے اس سے پہلے پیش کیں ہیں، بعض خطبات اس موضوع پر دیئے مگر بہت سے بدنصیب ہیں جو نہیں سمجھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جماعت احمدیہ کی تمام برکات کو اتفاق سے وابستہ کیا اور یہ ایک ایسے عارف باللہ کا کلام ہے کہ جسے خدا نے خود ہدایت دی جس کو مہدی کہا جاتا ہے.جس کی ہدایت کی راہ آسان کرنے کے لئے آسمان سے دو گواہ ظاہر ہوئے جو پہلے کبھی کسی بچے کے حق میں ظاہر نہیں ہوئے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہدایت یافتہ ہیں، اللہ کے نور سے دیکھنے والے ہیں.آپ کے کلام کو غور سے پڑھنا غور سے سنا اور غور سے سمجھنا چاہئے.ابھی بھی اپنی جماعتوں کے متعلق شکایتیں ملتی رہتی ہیں اور عجیب بات ہے کہ دونوں طرف کے لوگ نہایت متقی بن کر مجھے خط لکھتے ہیں.ابھی جرمنی کی بعض جماعتوں کے متعلق امیر صاحب نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح اصلاح ہو جائے لیکن وہ باز ہی نہیں آتے ایسے فتنہ مزاج لوگ جوان میں بیٹھے ہوئے ہیں جوا بھارتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور ہر ایک جو خط لکھتا ہے وہ ایسا متقی بن کے خط لکھتا ہے کہ انسان کہتا ہے کہ یہ تو بڑا امام بننے والا ہے.کہتا ہے دیکھو میرا دل کتنا صاف ہے، ہم شریف لوگ ہیں فتنے کے جواب میں دوسرا کہتا ہے کہ دیکھیں ہم نے ہر بات تسلیم کر لی امیر صاحب کی ہر اچھی بات کا اثبات میں جواب دیا مگر یہ بد بخت ہیں ایسے گندے ہیں جن کی پروردہ نہیں جب تک ان کو اٹھا کر باہر نہ نکال دیا جائے اس وقت تک ہماری اصلاح ہو ہی نہیں سکتی.دونوں کے دلوں میں بغض یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس طرح صرف ایک ہی کا قصور ہوا اور اتنا لمبا عرصہ فسادر ہے.جو متقی لوگ

Page 206

خطبات طاہر جلد 13 200 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء ہیں وہ فسادوں پر غالب آ جایا کرتے ہیں ان کا تقویٰ، ان کا انکسار بدیوں کو زائل کر دیتا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اتفاق کا نقطہ پیش فرمایا ہے اگر اس نقطے کو سامنے رکھیں تو ایک لمحہ بھی یہ لڑائی جاری نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو.“ ( کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 12) اگر تم میرے ہو تو ایک کام کرو، بچے سمجھو اپنے آپ کو لیکن تذلل جھوٹوں والا، ایسے آدمی کی طرح گر جاؤ زمین پر ، انکساری دکھاؤ جیسے جھوٹے پر جب جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے تو وہ چھپتا ہے اور معافیاں مانگتا ہے اور اپنے آپ کو کوستا ہے کہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی.یہ نہیں فرمایا کہ اپنے آپ کو جھوٹا کہو کیونکہ سچے ہو کر اپنے آپ کو جھوٹا تو کہا نہیں جاسکتا.اس لئے سمجھتے رہوسچا یہ نہیں فرمایا کہ کہو کوئی تو سچا ہوگا کیسی پاکیزہ نصیحت ہے اور فقرہ کی بناوٹ پر غور کر کے دیکھیں کتنا عظیم اور شان رکھتا ہے اپنے اندر، فرماتا ہے بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل ، جھوٹا نہیں لیکن تذلل اختیار کرو، گر جاؤ، انکساری دکھاؤ، ہمارا قصور تھا ہمیں معاف کر دو.یہ نسخہ استعمال نہیں کرتے اور جھوٹے بھی سچے بن رہے ہوں تو پھر کیسے اصلاح ہو.جب جھوٹے بچے بنتے ہوں تو تبھی جھگڑے ہوتے ہیں اور وہ دونوں فریق کا جن میں تکبر پایا جاتا ہو، جن میں انانیت ہو، جو یہ سمجھتے ہوں کہ ہم اس کو نیچا دکھا ئیں گے تو دل ٹھنڈا ہو.ان کی آگ نہیں بجھتی ، وہ آگ دوسری چیزوں کو بھی جلاتی ہے اور آگ اور نور میں فرق ہے.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان پر غور کریں وہ نور ہے جس کی طرف بلایا جا رہا ہے، آگ کی طرف نہیں بلایا جا رہا ہے.حضرت موسیٰ آگ سمجھ کر گئے تھے تو ملانور ہی تھا اور نور ہی ہے جو زندگی بخشا کرتا ہے.آنحضرت ﷺ ایک نور تھے اور یہ نور گھروں میں پھیلا ہے اگر تمہارے سینے جل رہے ہوں ان میں بغض ہو، ان میں حسد ہو، ان میں تکبر ہو، ان میں سفلہ پن ہو تو پھر دوسرے دلوں میں آگ لگاؤ گے.نور نہیں بھر سکتے.بس اتفاق کی برکت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرف توجہ دلائی ہے ہماری بقا کے لئے ضروری ہے.ناممکن ہے کہ ہم زندہ رہ سکیں بغیر اتفاق کے اور ایسے اتفاق کے بغیر جس کی طرف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بلاتے ہیں ہمارا نور دنیا میں پھیل نہیں سکتا، ہماری طاقتیں آپس میں ہی الجھ کے ختم ہو جائیں گی.

Page 207

خطبات طاہر جلد 13 201 خطبہ جمعہ فرموده 18 / مارچ 1994ء آج جب میں آپ کو بار بار دعوت الی اللہ کی طرف بلا رہا ہوں اور بتلا رہا ہوں کہ وہ دن آ گئے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تیزی سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام دنیا پر پھیلے، رفتاریں تبدیل کی جا چکیں ہیں، تیز ہوائیں چل رہی ہیں جو آپ کی تائید میں چل رہی ہیں.اس کے باوجود اگر آپس میں الجھ کر آپ نے ان برکتوں سے فیض نہ پایا اور اپنی عمریں گنوا بیٹھے تو بہت برا گناہ ہے.اور ایسی نحوست ہے کہ جن کے حصے میں آئے تو وہ نہ پیدا ہوتے تو اس سے بہتر تھا اور بہت بہتر تھا اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت نتائج خیر کا موجب ہو.یہ کیوں نہیں کہہ دیا وہ خیر کا موجب ہو ایک عام آدمی کی تحریر ہو اس کا دماغ یہاں اتفاق کی طرف جاہی نہیں سکتا.اس نے جب یہ کہہ دیا کہ ساری جمعیت اثر ڈالے تو بیچ میں اتفاق کا خیال کیسے آگیا.یہ عارف باللہ کا کلام ہے وہ جس سے خدا ہم کلام ہو، جس کو نور عطا کرتا ہے.خود آپ کے کلام کو زندہ فرماتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو.اور وہ یہ برکت کلمہ واحدہ ، اب دیکھیں کیسے جوڑا ہے کہتے ہیں اپنے واحدہ کلمہ جو سب میں مشترک ہے اور جو کلمہ توحید کی طرف بلا رہا ہے.اس سے برکت پائیں اس پر متفق ہونے کے بعد اسلام کی پاک اور مقدس خدمات میں جلد کام آدیں.تو توحید کا اتفاق سے جو ہمیں جماعتوں کے اندر ملنا چاہئے جو بعض دفعہ دکھائی نہیں دیتا ایک گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے.اگر آپ واحد ہیں تو آپ میں لازما وہ اتفاق پیدا ہوں گے جس کے نتیجے میں بکھری ہوئی جمیعتیں بھی دوبارہ جمیعتیں اختیار کر جائیں گی.لیکن وہ لوگ جن کی نحوست سے جمیعتیں بکھرنے لگتی ہیں وہ مشرک ہیں.ان کا توحید سے کوئی تعلق نہیں.جب میں مشرک کہتا ہوں تو پورے یقین کے ساتھ اس مضمون کو سمجھ کر کہ رہا ہوں.انہوں نے اپنے نفسوں میں بت بنارکھے ہیں، ان کی انا نیت ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں.دن رات انا کے سوا اور کسی کی عبادت کی ہوش ہی کوئی نہیں.اپنی اور اپنی اولاد کی انا ایسی غالب آجاتی ہے کہ جب اختلاف ہوں تو اپنے بھائی پر شدید ظلم کرنے پر تل پڑتے ہیں اور اپنا بیٹا اگر کوئی طاقتور ہے تو اس کو بھیجیں گے کہ اس کو مار مار کے اڑا دو، وہ ہوتا کون ہے جو ہمارے سامنے کھڑا ہو؟ اور سمجھتے ہیں کہ اب دیکھو ہم بڑے ثابت ہوئے کہ نہیں تو حضرت

Page 208

خطبات طاہر جلد 13 202 خطبه جمعه فرموده 18 / مارچ 1994 ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس کلمہ واحدہ کی طرف بلایا ہے یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے یہ بعینہ حقیقت ہے کہ توحید سے رشتہ جوڑو گے تو اتفاق ہوگا تو حید سے رشتہ ٹوٹے گا تو مشرک بن جاؤ گے، اور تتر بتر ہو جاؤ گے کوئی تمہاری طاقت باقی نہیں رہے گی ، کوئی نور تمہارے اندر نہیں ہوگا.مشرک جس طرح آگ کی پوجا کرتے ہیں تم آگ کے پجاری بن جاؤ گے اپنے نفس کے غضب کی آگ کی پوجا کیا کرو گے اور لوگوں پر بھی آگ کا عذاب بھڑ کا ؤ گے.پھر فرماتے ہیں اسلام کی پاک اور مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف اور جو نے مصرف مسلمان نہ ہوں.ایسے نہ ہوں جن میں سستی پائی جاتی ہو جو بجل سے کام لینے والے ہوں اور بے مصرف ہوں، کوئی فائدہ ان کا نہ ہو اور نہ نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ اور نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو اگر تفرقہ نہ ہوتا آج ناممکن تھا کہ اسلام کے سوا کوئی اور مذہب دنیا میں ہوتا.تمام ترقی کی رور کی ہے تو ہر قدم پر تفرقہ کی وجہ سے رکی ہے.اگر جمیعتوں میں انتشار پیدا ہوا ہے تو ہر قدم پر تفرقہ کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، جو شرک سے پیدا ہوتا ہے.فرماتے ہیں ان کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے تفرقہ اور نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنے فاسقانہ حالتوں سے داغ لگایا ہے“ اب جولڑنے والے لوگ ہیں وہ فاسق ہوتے ہیں یہ بھی بتا دیا وہ لوگ جن کے دل پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا کرنے والی باتیں کرتے ہیں ان کی زندگی پر غور کر کے دیکھو.بدعمل فاسق لوگ اگر ان کا فسق دکھائی نہ بھی دیتا ہو تو ہیں وہ فاسق کیونکہ جو اندرونی طور پر اپنی عبادت کرتا رہے اس سے بڑا فاسق اور کون ہو سکتا ہے.شرک اور فسق دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.فرماتے ہیں اسلام کے چہرے پر داغ ہے اب جہاں جہاں یہ واقعات ہوتے ہیں وہاں بعض دفعہ غیر احمدی بھی مجھے خط لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی یہ آپ کی جماعت ہے.کہتے ہیں کہ ہم جماعت میں تو نہیں مگر جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، ایک محبت اور احترام کا رشتہ ہے مگر ان لوگوں کو دیکھیں ان کے چہرے دیکھیں ان کے کردار دیکھیں تو گھن آتی ہے اور یقین نہیں آتی کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ منسلک ہو کے ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں.بعض لوگ یہ کہتے ہیں، بعض لوگ طعنہ دے

Page 209

خطبات طاہر جلد 13 203 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء کر پھر دور بھی ہٹ جاتے ہیں مگر بہت سے شرفاء ہیں جو بات سمجھتے ہیں کہ یہی ایک دو گندے لوگ ہیں مگر ویسے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سرسبز درخت ہے لیکن داغ لگانے والے ضرور ہیں لیکن اس ماحول میں جن کو جماعت احمدیہ سے واقفیت نہیں ہے ان پر ان کا کیا اثر پڑتا ہو گا؟ ان لوگوں کا اثر نہ پڑنا ایک خیر و برکت ہے الحمد للہ کہ ان کا اثر نہیں پڑتا اور نہ اگر یہ احمدی بنائیں گے تو کیسے منحوس چہروں والے احمدی بنائیں گے.ایسے ذلیل اور رسوا احمدیوں کی جماعت کو کوئی ضرورت نہیں.پس شکر ہے کہ ان میں تبلیغ کی برکت بھی نہیں، پھیلنے کی برکت سے محروم ہیں کیونکہ اگر بنا ئیں گے تو اپنے جیسا بنائیں گے.پس بد کار آدمی کا اولاد سے محروم رہنا ہی بہتر ہے.حضرت نوح نے جو اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی اس میں ایک یہ بات بڑی سچی بیان کی کہ اے خدا ان سب کو اٹھا لے کیونکہ اب یہ فاسق و غاصب جنیں گے، میں دیکھ چکا ہوں کہ ان میں نیک لوگ جننے کی صلاحیت ہی باقی نہیں.پس اس قوم کے زندہ رہنے کا کیا فائدہ جو آئندہ فاسق و فاجر نسلیں اپنے پیچھے چھوڑ کے جانے والی ہو.کتنی پر حکمت دعا ہے.پس یہ بھی شکر ہے کہ جن جماعتوں میں اتفاق نہیں ہے وہاں سے تبلیغ کی برکت ویسے ہی اٹھ جاتی ہے.طبعا اپنے جیسے لوگ پیدا کریں گے.فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیئے.”نہ ایسے غافل درویشوں گزینوں کی ضرورت ہے.نہ ایسے غافل درویشوں گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں ، پس نہ تو مجھے اس طرح کے کاہل اور بد اعمال فاسق فاجر چاہئیں جو افتراق پیدا کر دیتے ہیں اور ہر طرف بغض پھیلا دیتے ہیں اور ان کے اندر نشو ونما کی طاقتیں ختم ہو جاتیں ہیں ، نہ مجھے ایسے درویش لوگ چاہئیں جو گوشوں میں موج مار کر بیٹھ جائیں اور دنیا کی بھلائی سے اور دنیا کی خیر وشر سے بالکل تعلق کاٹ لیں.ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہواگر نیک ہوں گے تو اپنے گھر میں اپنے لئے ہوں گے.اسلام کو کیا فائدہ ان سے پہنچ سکتا ہے؟ پس فرماتے ہیں مجھے ایسے بھی نہیں چاہئیں.مجھے مجاہد، میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہونے والےلوگ چاہئیں.فرماتے ہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں، یہاں غریبوں کے ساتھ کوئی مذہب بیان نہیں فرمایا ہر غریب کا ایک ہی مذہب غربت ہے.فرمایا وہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کی طرح عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں“ جو

Page 210

خطبات طاہر جلد 13 204 خطبه جمعه فرمود : 18 / مارچ 1994ء شخص غریبوں کا ہوتا ہے اور یتیموں کا درد رکھتا ہے وہی اعلیٰ قدروں کے لئے قربانی کا مادہ رکھتا ہے.یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو الگ الگ باتیں اتفاقا بیان نہیں فرما ئیں.وہ دل جوغریبوں کی ہمدردی سے عاری ہے وہ دل جسے یتیم کا دکھ محسوس نہیں ہوتا وہ خدا کے کاموں پر فدا ہونے کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا.فدائیت کے لئے دردمندی چاہئے.پہلے دل گداز پیدا کرے پھر اسے توفیق ملتی ہے کہ اعلیٰ قدروں کے لئے وہ قربانیاں پیش کرے.فرمایا کہ جود نیا میں قربانیوں کا مادہ ہی نہیں رکھتا، جسے پتا ہی نہیں کہ دکھ ہوتے کیا ہیں اور ان میں شریک ہونے کے لئے اس میں بیقرار طلب نہیں پائی جاتی اس نے خدا کے کیا کام آنا ہے.بہت ہی عظیم تحریر ہے.ایک ایک لفظ آسمان سے نور سے لکھا گیا اور اسی لئے میں نے بتایا تھا کہ اس آیت نور سے گہرا تعلق ہے جس کی میں نے تلاوت کی تھی.فرماتے ہیں غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے سر انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوششیں اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے.“ اب یہ ایک عبارت بظاہر ایک عام لفظوں کی ہے جو بہت مشکل لفظ نہیں ہیں.لیکن سمجھائے بغیر سمجھ نہیں آئے گی.فرماتے ہیں وہ تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں.سیہ تو صاف بات ہے یہ تو سمجھ میں آتی ہے جس میں برکتیں ہیں وہ تو پھیلیں گی لیکن ایک شرط آخر لگائی گئی ہے جو بہت ہی قابلِ غور ہے اور ” محبت الہی اور ہمدردی کبندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکے لیکن الگ الگ نہ پھیلے ، ہر ایک دل سے نکل کر ایک جگہ اکٹھا ہو جائے ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے.اب یہ وقت نہیں ہے جب خدا تعالی دوبارہ دنیا میں اتحاد پیدا کیا کرتا ہے اور ایک الہی جماعتیں بنایا کرتا ہے انفرادی نیکیاں پھر کام نہیں آتیں اور بے معنی ہو جاتیں ہیں.اگر ہر چشمہ جو پہاڑوں سے پھوٹتا ہے وہ الگ الگ رستے بنالے اور مل کر ایک دریا کی صورت اختیار نہ کرے اس کا فیض دنیا میں پھیل ہی نہیں سکتا اور وہ بڑے عظیم کام جو دریا کر کے دکھاتے ہیں وہ ایسے چھوٹے

Page 211

خطبات طاہر جلد 13 205 خطبہ جمعہ فرمود و 18 / مارچ 1994ء چھوٹے چشمے کبھی بھی دکھا نہیں سکتے.جو پہاڑوں کی چھاتیاں چیری ہیں دریاؤں نے اور عظیم وادیاں پیدا کی ہیں اور انسانی فائدے بھی اور انسانی بقا کے بہت سے فائدہ کہنا چاہئے ان دریاؤں سے وابستہ ہیں اگر یہ ا کٹھے نہ ہوتے تو وہ فائدے پہنچ ہی نہیں سکتے.پس مسیح موعود فرمارہے ہیں کہ برکتیں تو پھیلیں گی یہ نہ سمجھ لینا کہ تم نیک ہو تمہاری برکتیں پھیل رہی ہیں یہ پس کافی ہے.آج اسلام کو ایک جہاد کی ضرورت ہے اور مثال کیسی پاک دی ہے کہ دلوں سے محبت کا چشمے پھوٹیں گے تو سہی وہ تو نہیں رکتے لیکن اگر الگ الگ رہے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں.فرماتے ہیں میں جو تصور لئے بیٹھا ہوں وہ یہ ہے کہ پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو، ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے.پس یہ وہ دریا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہایا ہے اور یہ وہی دریا ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره ز بحر كمال محمد است (درین صفحہ: 89) حضرت محمد مصطفی امی کے جاری کردہ فیوض کا ایک قطرہ تھا جو دریا بنایا گیا ہے.اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا (درین صفحہ: 117) پس قطروں سے بات نہیں بنیں گی اگر وہ الگ الگ ہی برستے ان قطروں کا دریا بننا ضروری ہے اور اس کا یہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کے سامنے رکھ رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و ورود کا وسیلہ قرار دے.اب یہ عبارت بھی اکثر عام اردو دان سمجھ نہیں سکتے، دو باتیں اکٹھی بیان فرمائی ہیں.ایک مسیح موعود اور مہدی موعود کی ضرورت اور دوسرے خدا کے فضل پر نظر.فرماتے ہیں جو کچھ تم دیکھ رہے ہو.فیوض کے چشمے جاری ہو رہے ہیں، جو دریا بن رہے ہیں.یہ ہیں تو فضل اللہ ہی کے لیکن ان فضلوں کے لئے مجھے وسیلہ بنا، اور وسیلہ اس طرح بنایا کہ مجھے تمہاری بے انتہا فکر ہے اور میں تمہارے لئے بہت دعائیں کرتا ہوں اور ان دعاؤں کی برکات ہیں اور جس لمحے میں بولا جاتا ہوں یہ اس غم کی خدا کی بارگاہ میں قبولیت کا نشان ہے کہ اللہ کے فضل تم پر اتریں یہ مضمون ہے جو اس عبارت میں اس فقرے میں آپ

Page 212

خطبات طاہر جلد 13 206 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء نے بیان فرمایا پس دوبارہ غور سے سنیں.د محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہرا دئے جہاں جہاں بھی لوگوں کے دلوں میں پاک صلاحیتیں موجود ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ میری دعاؤں اور میرے تو جہات کو ان کے ابھر کے نکل آنے اور نکھر آنے پر ایک وسیلہ بنادے اور اس قدوس اور جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا تا کہ میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگی کے ازالہ کے لئے رات دن کوشش کرتا رہوں.“ جو اللہ تعالیٰ الہام قائم فرماتا ہے اس کو ہمدردی کا جوش عطا کرتا ہے اور اس ہمدردی کے جوش کا بنی نوع انسان کی ہمدردی کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.وہی مضمون ہے جس کا پہلے بھی ذکر گز را اور اسی مضمون کو نسبتا اپنی اعلیٰ ارفع شان کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے.پہلے عام طالب حق کے تعلق میں غریبوں سے ہمدردی، یتیموں سے ہمدردی کا ذکر تھا.اب اس کا ذکر ہے جسے خدا نے ساری دنیا کی راہنمائی کے لئے چنا تھا اور اس کا تعلق بھی اسی بات سے باندھا جا رہا ہے، ہمدردی اور جوش کے ساتھ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کے حالات میں آپ دیکھیں گے کس طرح غریبوں کے لئے اپنا کھانا بھی تقسیم کر دیا کرتے تھے بعض دفعہ چنے کھا کر گزارا کر لیا کرتے تھے.بعض دفعہ فاقہ کر لیا کرتے تھے.بے انتہا جوش تھا غریبوں کی ہمدردی کا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.غریبوں کی ہمدردی کبھی بے فیض نہیں رہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم غریبوں کے ممنونِ احسان ہو تم ان کے اوپر جو رحم اپنی طرف سے کرتے ہو یا ان کا خیال کرتے ہوا نہی کی وجہ سے ہی تو خدا تمہیں روزی دے رہا ہے.غریبوں کو نکال دو تو ساری سوسائٹی غریب ہو جائے گی.غریبوں کی محنت ان کا اخلاق اور ان کی خدمتیں ہیں جو قوم کو دولت عطا کرتی ہیں.وہ تمہارے ممنونِ احسان نہیں تم ان کے ممنون احسان ہومگر روحانی دنیا میں بھی غربت کا احسان ہے ایک طرح پر ، جوغریبوں سے تعلق جوڑے اللہ اس سے تعلق جوڑتا ہے اور جتنا کسی کے دل میں زیادہ ہمدردی ہو اتنا ہی اس کو بڑا مرتبہ عطا فرما تا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دوبارہ اس مضمون کو اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم میں اور مجھ میں فرق کیا ہے.ایک یہ کہ دعا کے لئے میرے دل میں بڑا جوش ہے، دوسرے تمہارے

Page 213

خطبات طاہر جلد 13 207 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 1994ء لئے بے انتہا دل میں ایک ہمدردی کا جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگی کے ازالہ کے لئے دن رات کوشش کرتا رہوں.“ ان کو جو کچھ بھی گنا ہوں سے گندے ہو گئے ہیں جو ان کے ساتھ غلاظتیں چمٹ گئی ہیں اس کو آلودگی کہتے ہیں.فرماتے ہیں میرے دل میں خدا نے جوش پیدا کر دیا ہے کہ دن رات ان کو دور کرنے کی ، پاک وصاف کرنے کی کوشش کرتا رہوں اور ان کے لئے وہ نو ر مانگوں جس سے انسان مس شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے.یہ وہی نور ہے جس کا ان آیات کریمہ میں ذکر فرمایا گیا تھا.اس کے بغیر دنیا میں انقلاب بر پا ہوہی نہیں سکتا.وہی محمد رسول اللہ کا نور جس سے دوسرے گھر روشن ہوئے ، جب وہ روشن ہوئے تو ان کے مرتبے بلند کئے گئے ان کو ارفع کیا گیا.دو وجوہات تھیں ایک اس لئے کہ وہ نور اپنی ذات میں ایک خاصیت رکھتا ہے کہ جس گھر میں ہو وہاں اس کو بلند کر دیتا ہے اور ذکر کی بلندی سے اس کا تعلق ہے اور جہاں ذکر بلند ہو گا وہاں نور بھی بلند ہو گا.دوسرا اس لئے کہ بلند ہوگا تو لوگ فائدہ اٹھائیں گے.وہ آگ جس نے موسی کو متوجہ کیا تھا وہ بلندی پر چمکی تھی تو اس کو پتا چلا تھا اگر کسی گڑھے میں پڑی ہوتی تو موسی کو کیا فائدہ پہنچتا اور بنی اسرائیل کو کیا فائدہ پہنچتا.وہ تاریخ ہی بے نور ہو کے رہ جاتی جس تاریخ کا آغاز موسیٰ سے شروع ہوا.پس آپ فرماتے ہیں کہ وہ نور ہے جو میں مانگ رہا ہوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرتا ہے“ یہ وہ پاک انقلاب ہے جس کے بغیر ہم کوئی انقلاب دنیا میں برپا نہیں کر سکتے.خدا کی راہوں سے محبت کرنا اور بات ہے کر بالطبع خدا کی راہوں سے محبت کرنا کچھ اور بات ہے.بالطبع کا مطلب ہے جس طرح آپ بھوکے ہوں تو کھانا اچھا لگتا ہے، پیاس لگی ہو تو پانی کی طرف لپکتے ہیں، کسی چیز کی تمنا ہو اس کی بھوک ہو تو از خود اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں.فرمایا بالطبع خدا کی راہوں سے محبت کرے.ان کو بتا بتا کر نہ لانا پڑے، ان کو سمجھا سمجھا کر یہ راہیں نہ دکھائی جائیں، ان کا دل طبعی جوش کے ساتھ ان راہوں کی طرف متوجہ رہے اور دیکھتے رہیں کہ کہاں وہ راہ نظر آئے تو اس پر دوڑیں اور اس پر قدم ماریں اور ان کے لئے وہ روح القدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے جوڑ سے پیدا ہوگی.اب بتائیے ربوبیت تامہ کا مطلب ہے وہ ربوبیت یعنی

Page 214

خطبات طاہر جلد 13 208 خطبه جمعه فرموده 18 / مارچ 1994ء اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت رب ہے کیونکہ اس لئے اس کی طرف اشارہ صفت ربوبیت سے کیا گیا ہے.رب کا معنی سارے جانتے ہیں پالنہار، سب کا خیال رکھنے والا ، رزق عطا کرنے والا.فرمایا اس کی ربوبیت جو تامہ ہو وہ کیا کرے عبودیت خالصہ کے جوڑ سے پیدا ہوتی ہے.کیا چیز؟ روح القدس، اب روح القدس کا نام آپ نے سنا ہوا ہے ایک فرشتہ جو جبرائیل کہلاتا ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی کہتے ہیں.روح القدس کے نام سے دماغ اس طرف چلا جاتا ہے.لیکن ایک روح القدس ہے جو دل سے پیدا ہوتی ہے وہ کیسے پیدا ہوتی ہے فرمایا ہے وہ ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور روح خبیث کی تخفیف سے ان کی نجات چاہئیں یہ میری طلب ہے یہ میری مراد ہے یہ ہی میری زندگی کا مقصد ہے.اب بتائیے پھر بھی کیا سمجھے ہیں.غور کریں تو اکثر لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ کیسے ہوگی.یہ ربوبیت کیا ہے اور ر بوبیت تامہ کیا چیز ہے اور پھر عبودیت خالصہ کیا چیز ہے؟ بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہر لفظ کا اشارہ قرآن کریم کی طرف ہوتا ہے اور ان تفاسیر کی طرف ہوتا ہے جو حضرت محمدمصطفی ہے نے فرمائیں آپ کا سارا کلام بھی قرآن ہی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مطالب بیان فرمائے ہیں ان کی جڑیں قرآن میں تلاش کرو تو سمجھ آئے گی اور نہ نہیں سمجھ آئے گی.اس مضمون کا سورۃ فاتحہ سے تعلق ہے رَبِّ الْعَلَمِینَ کا ایک عام تصور ہے لیکن اس کا تامہ تصور یہ ہے الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ وہ رب جو تمام جہانوں کا رب ہے صرف یہ کافی نہیں ہے اس کی نامہ سمجھ یعنی مکمل سمجھ تب آتی ہے جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ رب جو تمام جہانوں کا رب ہے وہ رب رحمن بھی ہے وہ رحیم بھی ہے اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی ہے.ہر انجام کا مالک ہے جو تمام انجام اس کے قبضے قدرت میں ہیں.آغاز بھی اس سے ہوا ہے اور انجام بھی اس کی طاقت اور اس کی فیصلے کے بغیر ممکن نہیں اور ان دونوں کے درمیان جو رب ہمیں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف حرکت کر کے لے جا رہے ہیں.اس کی صفات ہیں رحمان بہت ہے بڑا ہی رحم کرنے والا ہے.ہماری غفلتوں سے بار بار درگزر فرماتا ہے اور رحیم ہے جو بار بار فضل لے کر آتا ہے، بار بار رحمتیں عطا کرتا ہے یہ رحمت تامہ ہے عبود یتخالصہ کیا ہوئی؟ اِيَّاكَ نَعْبُدُ اے ہمارے رب صرف تجھ کو چاہتے ہیں خالص کا مطلب ہے جو اور کسی کی نہ ہو صرف ایک کی ہی ہو جائے.فرمایا

Page 215

خطبات طاہر جلد 13 209 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مارچ 1994ء روح القدس ان دو کے جوش سے پیدا ہوتی ہے.جب تم اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہو گے اور ذہن میں وہ ربوبیت تامہ ہوگی جس کا تعارف سورۃ فاتحہ کروارہی ہے رَبِّ الْعَلَمِينَ جو رحمن ہے جو رحیم ہے جو مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہے.تو پھر دیکھو تمہارے نفس سے ان دونوں کے ملنے سے کیسی وہ پاک روح پیدا ہوتی ہے جسے روح القدس کہا ہے.اور پھر آگے اس مضمون کو اسی طرح بڑھاتے ہیں.فرماتے ہیں اور روح خبیث کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.“ اب سورۃ فاتحہ جب آپ کو کہتی ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا کرو اپنی عبادت کو خدا کے لئے خالص کر دو، یہ عبادت کا خلاصہ ہو، اس کے نتیجے میں سب سے پہلی کیا چیز عطا ہوتی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ وہ رستہ دے جو انعام یافتہ لوگوں کا رستہ ہے اور وہی روح القدس کا رستہ روح القدس محمد رسول اللہ کے رستے پر ہے تو فرمایا کہ یہ دعا کرو گے تو پھر تمہیں روح القدس عطا ہوگی ورنہ نہیں ہوگی.اپنی عبودیت کا خالص تعلق تمام ربوبیت سے جوڑ لو اس کے نتیجے میں تم اس لائق ٹھہرو گے کہ تمہاری یہ دعا قبول ہو اور تمہیں روح القدس عطا ہوا اور خبیث چیزوں سے نجات کی بھی یہی راہ ہے.“ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں پھر میں اس دعا میں یہ بات بھی شامل کرتا ہوں اور روح خبیث تسخیر کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے اور مغضوب اور ضالین کی اگر کوئی تعریف کی جائے تو اس سے بہتر تعریف نہیں ہو سکتی.وہ لوگ جو نفس امارہ کے غلام بن جائیں اور شیطان سے شدید تعلق جوڑ لیتے ہیں وہی ہیں جن کا ذکر فرمایا گیا ہے مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ان میں سے نہ ہو جائیں یہ ہمیں دعا سکھائی گئی ہے تو میں بتو فیق تعالی کا ہل اورست نہیں رہوں گا“ کہ اللہ سے تو فیق پاتے ہوئے یہ وعدہ کرتا ہوں خدا سے کہ میں کاہل اورست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا غافل نہیں ہوں گا.“ آج جو آسمان سے قدس کی روح اتر رہی ہے اور پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.اس 66

Page 216

خطبات طاہر جلد 13 210 خطبه جمعه فرموده 18 / مارچ 1994ء بات سے غافل نہ ہوں یہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عظیم قربانیوں کی نتیجہ میں ہے ساری زندگی دکھ محسوس کیا ہے، ساری زندگی اپنی جان فدا کی ہے اور اس عہد پر آخری دم تک قائم رہے کہ میں غافل نہیں رہوں گا میں وعدہ کرتا ہوں، دعائیں بھی کرتا رہوں گا جو کچھ میرے بس میں ہے وہ میں کرتا رہوں گا، چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک تمہیں پاک وصاف نہ کر دوں.اور یہ جو خدا کے پاک وجودوں کی دعائیں ہیں یہ ان کی زندگی تک نہیں رہتی ان کے بعد ان کے زمانے میں ممتد ہو جایا کرتی ہیں اور جتنے بھی فیض آج نازل ہوں گے یا کل نازل ہوں گے اس کا گہرا تعلق اس امام برحق سے ہے جس نے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی مقبول دعاؤں نے پیدا کیا یعنی اللہ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرما کر آپ کو امام مہدی کی خوشخبری دی جس کے دونشانات آج سے سو سال پہلے دکھائے گئے.فرماتے ہیں میں ایسا نہیں ہوں جو غفلت سے ان باتوں کو چھوڑ دوں مگر ” جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا اور بصدق قدم اختیار کر لیا ہے میری دعائیں ان کے کام آئیں گی.“ اب یہ بھی مضمون ایسا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا عظیم نشان ہے یوں لگتا ہے کہ یہ شمعیں پکڑ کی ہوئی ہیں آپ نے اپنے حق میں گواہی دینے والی.انسان صمیم قلب کہا کرتا ہے کہ عموما کہ جنہوں نے صمیم قلب سے مجھے اختیار کر لیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرما رہے ہیں صدق قدم سے اختیار کیا اب صدق قدم کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ (یونس :۳) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ان کو خوشخبری دو ان کے رب کی طرف سے کہ ان کے لئے قَدَمَ صِدْقٍ ان کے رب کے نزدیک.اَنَّ لَهُمُ میں یہ بتایا ہے کہ اس لئے وہ خدا کو پیارے ہیں کہ وہ قدمِ صدق رکھتے ہیں صرف ایمان کی وجہ سے نہیں.وہ لوگ جو ایمان لائیں ہیں ان کو خدا کی طرف سے خوشخبری اس لئے ہے اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ اس کا یہ مطلب بھی بن رہا ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ خالی ایمان کی وجہ سے نہیں خدا کو جو ان کی ادا پسند آئی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان لے آئے اور پھر قدم صدق اختیار کیا.قَدَمَ صِدْقٍ میں ایمان کا پس منظر بھی شامل ہے اور بے ڈولے بغیر لغزش کھائے صداقت کی راہوں کو مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کا

Page 217

خطبات طاہر جلد 13 211 خطبه جمعه فرموده 18 / مارچ 1994ء ساتھ، فرمایا وہ لوگ جو یہ ہوں میں ان کے لئے دعا کر رہا ہوں اور انہی کی تمنا میرے دل میں ہے کہ اللہ مجھے ویسے لوگ عطا فرمائے.فرماتے ہیں ” جنہوں نے اس سلسلے میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا ہے ان کے لئے دعاؤں سے غافل نہیں ہوں گا بلکہ ان کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور ان کے لئے خدا تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادے کی طرح ان کے تمام وجود میں دوڑے.“ وہ نور جومحمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے چکا تھاوہ دوسرے گھروں میں بھی منتقل ہونا تھا جو ہوا اور خدا نے اپنے قرآن میں اس کی گواہی دی وہی زبان وہی آسمانی زبان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام استعمال فرمارہے ہیں فرماتے ہیں "برقی روؤں کی طرح یہ میری روحانی طاقتیں ان تمام وجودوں میں دوڑنے لگیں اور میں یقین رکھتا ہوں اور ان کے لئے جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہوگا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه: ۱۶۵) پس صبر سے ان راہوں پر قدم مارتے رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام آپ سے جو توقع رکھتے ہیں اور جو بنانا چاہتے اللہ کرے کہ ہم وہ جماعت بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس پاک تصور میں دیکھی جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اور اگر یہ ہو جائے تو پھر سب وارے نیارے ہیں پھر سب میدان جیتے گئے، اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 218

212 خطبات طاہر جلد 13

Page 219

خطبات طاہر جلد 13 213 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء ذکر الہی کسی خاص موقع پر غرض کی خاطر نہیں کیا جاتا.یہ ہر موقع میں خود داخل ہوتا ہے، نمازوں کو ذکر الہی سے بھریں.( خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُم عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْخَسِرُونَ ) (المنافقون: 10) پھر فرمایا:.ذکر الہی پر ایک خطبات کا سلسلہ چل رہا تھا جو بیچ میں بعض دوسرے موضوعات پر خطبات کے نتیجہ سے منقطع ہوا.اب اس کے غالبا تھوڑے حصے باقی ہوں گے کیونکہ جو بھی میں نے اس کے نوٹس تیار کئے تھے ان پر میں نے نظر ڈالی ہے اب غالبا ایک دو خطبوں کا مضمون اس سلسلے میں باقی ہو گا.ذکر الہی کا مضمون تو لا متناہی ہے مگر جن مختلف پہلوؤں سے میں جماعت کے سامنے اسے پیش کرنا چاہتا تھا وہ پہلو اب انشاء اللہ ایک دو خطبوں میں ختم ہو جائیں گے پھر اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جس عبارت سے میں نے یہ مضمون اخذ کیا تھا اس عبارت کا آخری جملہ جو ہے اس کی تشریح میں پھر میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک نیا سلسلہ شروع کروں گا.

Page 220

خطبات طاہر جلد 13 214 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تمہیں تمہارے اموال یا تمہاری اولا دیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں.وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ.جو ایسا کرے گا وہ لوگ یقیناً گھاٹا کھانے والے ہوں گے.پھر دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَأَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَوةَ الدُّنْيَا.اس شخص سے تو منہ موڑ لے جو اللہ کی یاد سے غافل ہو گیا.وَلَمْ يُرِدُ إِلَّا الْحَيُوةَ الدُّنْیا اور دنیا کے سوا اس کی کوئی بھی خواہش نہیں ( ارادہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ) مراد اس سے یہی ہے کہ اس کی مراد دنیارہ گئی ہے.اس کے سوا اس کی کوئی مراد نہیں.ذلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ - ان کے علم کا منتہی یہ ہے.علم کی جو پونجی ان کی ہے بس یہی کچھ ہے کہ دنیا کمالو اور سب کچھ حاصل ہو گیا.ذلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ میں در حقیقت اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تمام انسانی علوم جو خدا کی یاد سے غافل ہوں ان کے وہ تمام علوم تمام تر دنیا کمانے کے لئے خرچ ہوتے ہیں اور اس پہلو سے آپ غیر مذہبی دنیا کے حالات کا جائزہ لے کے دیکھیں تمام تر علوم دنیا کمانے کے لئے خادم بنائے گئے ہیں اور کوئی بھی ایسا علم نہیں جو انسان کو خدا کی طرف لے جانے میں مدد کرے.پس ذلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ میں یہ بتایا ہے کہ ان کے علوم کا منتہی یہ ہے.جب یہ سائنسی تحقیقات کرتے ہیں تو ان کے پیچھے بھی دنیا کمانے کا کوئی مقصد ہوتا ہے اور بڑی بڑی کمپنیاں اربوں روپیہ اس بات پر خرچ کرتی ہیں کہ کوئی چیز نئی ان کے سامنے آئے اور وہ سارا Trade Related Research کا پروگرام ہے.یعنی جو دوسری دنیا سے تجارتیں کرتے ہیں اس کو Trade کہتے ہیں اور چونکہ ٹریڈ کے ذریعے یہ بہت بڑی دنیا کی دولتیں کھینچتے ہیں اس لئے بہت بڑی بڑی ایجادات اسی مقصد سے ہیں کہ کسی طرح دنیا کمائی جائے.یہاں تک کہ اب بیماریوں میں بھی جتنی ایجادات ہیں ان کے تعلق میں جو ریسرچ ہورہی ہے اس میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جو مرض دور کرنے کی خاطر ہو.ورنہ اصل مقابلہ یہ ہے کہ کون پہلے ایسی دوا ایجاد کرے کہ جس کا کوئی مقابلہ دنیا میں نہ ہو اور تمام تر دنیا کی دولتیں ہم سمیٹ لیں.اگر یہ مقصد پیش نظر نہ ہوتا تو ایڈز (Aids) پر جو کچھ اب خرچ کرتے ہیں یہ بھی نہ کرتے.آخری مقصد ہر علم کا دنیا کمانا بنا ہوا ہے اور خدا سے نظر پھر لیں اور دنیا کی طرف متوجہ ہو جائیں.

Page 221

خطبات طاہر جلد 13 215 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء اِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ (انحل: 126) علم کے تعلق سے یہاں اعلم کا لفظ بولا گیا یعنی ان کے علم کا تو یہ حال ہے.اللہ کے علم میں بہت باتیں ہیں اور اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے اس شخص کو جو اپنی راہ سے بھٹک گیا ہو.وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَی اور اس کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت کے رستے پر ہو.تو مراد ہے یہ ضالین لوگ ہیں، گمراہ ہیں، رستے سے ہٹے ہوئے ہیں ، ان کو اپنی بھی خبر نہیں ہے.جو علم تھا وہ دنیا کا نوکر کر دیا.اس لئے ان آیات میں فَاعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلَّى کا مضمون کھول دیا گیا ہے کہ کیوں ان سے کنارہ کش ہو.قرآن کریم نے پہلے فرمایا، جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی، کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولادیں تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں.خیال پیدا ہوتا ہے کہ اولا د زیادہ اہمیت رکھتی ہے اموال کا ذکر پہلے کیوں فرما دیا.تو اس دوسری آیت نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ انسان کی زیادہ تر جد و جہد اموال کمانے میں ہے اور اولاد، اموال کے مقابل پر ایک ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے.جتنا انسان کے ذہن میں اموال گھوم رہے ہیں اس سے بہت کم اولا دگھومتی ہے لیکن بعض صورتوں میں بعض لوگ اولاد پرست بھی ہوتے ہیں اس لئے وہ بہر حال استثناء ہیں ان کے ذہن میں ہر وقت اولاد کا تصور گھوم رہا ہوتا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا پر نظر ڈال کر دیکھ لیں اب تو مال کی محبت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ساری دنیا میں آپ کو زیادہ تر لوگ مال کی محبت میں اتنا گم دکھائی دیں گے کہ اولاد کی ہوش نہیں رہتی.مجھ سے جو لوگ ملنے آتے ہیں بعض دفعہ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور بیگم سے پوچھتا ہوں کہ آپ کیا کر رہی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دونوں دنیا کما رہے ہیں اور بعض دفعہ یہ مجبوری کے پیش نظر ہوتا ہے بعض غریب لوگ آتے ہیں انہوں نے قرضے اٹھائے ہوتے ہیں.انہوں نے اپنی حالت ہی کو درست نہیں کرنا بلکہ پچھلے غریب رشتہ داروں کی بھی مدد کرنی ہے اس لئے وہاں یہ بات قابلِ فہم ہے وہاں ایک اعلیٰ مقصد ہے جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ دنیا کمانے پر مجبور ہیں لیکن میں ان کی بات نہیں کر رہا ایسے لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن میں سے ہر ایک اپنی ذات میں اتنا مستغنی ہے، یعنی اتنا خدا تعالیٰ کے فضل سے دولت کماتا ہے اور رکھتا ہے کہ اولادکو ترک کر دینا اس کی کوئی مجبوری نہیں ہے.لیکن جب میں پوچھتا ہوں کہ.

Page 222

خطبات طاہر جلد 13 216 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء بچوں کا کیا کرتے ہیں؟ تو جی بچوں کے لئے ہم نے Baby Sitter رکھا ہوا ہے.اب جس کے بچے بے بی سٹر کے سپرد ہو جائیں اور وہ آپ دنیا کی دولت کے سپر د ہو جائے اس بے چارے کی اولاد کا کیا بنے گا.ایک دفعہ مجھے مشرق وسطی سے ایک فون آیا کہ جی میں ایک کام کرتی ہوں سنا ہے آپ ناراض ہیں.میں نے کہا تمہارا نام لے کے تو ناراض نہیں ہوں مگر تمہارے حالات میں جانتا ہوں، تمہارا خاوند اچھا بھلا کماتا ہے، تمہیں خدا نے بہت پیاری اولا دبخشی ہے تو کیوں تم اس کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے بھاگ رہی ہو.اس نے کہا میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ ایسا نہیں کروں گی.تو دنیا سے جو وسیع تعلق ہے خلافت کا اس کے نتیجے میں ساری دنیا ایک خاندان کی طرح بنی ہوئی ہے اور سب بے تکلف بات کرتے اور باتیں پہنچاتے ہیں.اسی لئے ان امور پر جتنی نظر خلیفہ وقت کی ہو سکتی ہے، خواہ کوئی بھی خلیفہ ہو بعد میں آنے والا یا پہلے گزرا ہوا، اتنی دنیا میں کسی اور منصب کو یہ معلومات نصیب نہیں ہوتیں کیونکہ وہ ایک ذاتی تعلق سے جستجو بھی کرتا ہے اور لوگ از خود بھی اس تک اپنے حالات پہنچاتے ہیں.ان کی روشنی میں وہ انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والے مسائل جو شاید بعض دوسروں کے لئے حل کرنا دو بھر ہوں، ان پر مشکل ہوں لیکن یہ تمام جماعت کی مدد سے از خود آسان ہوتے چلے جاتے ہیں.پس یہاں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ یہ کسی حکمت کے پیش نظر ہے یو نہی اتفاقاً اموال کو پہلے اور اولاد کو بعد میں نہیں رکھا گیا اور ساتھ ہی دوسری آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کا اس سے گہرا تعلق ہے.فرمایا فَأَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدُ إِلَّا الْحَيَوةَ الدُّنْيَا - کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ذکر کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی مراد صرف دنیارہ جاتی ہے.یہاں اولا د کا بھی ذکر نہیں کیا آخری منتهی بعض وجودوں کا صرف دنیارہ جاتی ہے اس کے سوا کوئی ہوش نہیں رہتی بلکہ ایسے باپ بھی دیکھے گئے ہیں جو کروڑ پتی ہوتے ہیں اور اپنی اولادوں کو پیچھے پھینکتے ہیں اور ان سے وہ اگر کچھ حاصل کرنا چاہیں تو ان کو تکلیف پہنچتی ہے.اولا دکو دھکے دے کے خود بر بادکر دیتے ہیں تو یہ آخری مقام ہے جہاں تک انسان اپنی ذلت کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے.وَلَمْ يُرِدُ إِلَّا الْحَيُوةَ الدُّنْيا ان سے تعلق جوڑو گے تو پھر تمہارا بھی یہی حال ہو جائے گا.

Page 223

خطبات طاہر جلد 13 217 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء ذلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ ان کا علم بھی سب کچھ دنیا کا خادم ہو چکا.ان سے کیوں تم تعلق نہیں توڑتے.فَاعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا پس حکم ہے کہ ایسے لوگوں سے اپنے تعلقات ماسے تو ڑ لو، ان سے الگ ہو جاؤ کیونکہ جو نقشہ کھینچا گیا ہے ان لوگوں کا ہے جنہوں نے خدا سے تعلق تو ڑلیا ہے اور کلیۂ دنیا کے ہو گئے ہیں.ان سے اگر میل جول بڑھاؤ گے، ان سے تعلقات رکھو گے تو تم پر بھی تمہاری اولادوں پر بھی ، دنیا کے بداثرات اس حد تک غالب آ سکتے ہیں کہ تمہیں انہی کی طرح دنیا کمانے کا شوق ہو جائے اور انہی کی طرح اپنی بڑائی ان باتوں میں دیکھو جو باتیں اللہ کے نزدیک بے معنی اور عارضی اور سطحی ہیں اور اہل خرد جو خدا تعالیٰ کا تصور اور اس کی یادر کھتے ہیں ان کے نزدیک یہ شیخیوں کی باتیں ہیں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتیں کہ کتنا کسی نے کرلیا اور کس طرح وہ رہا یہ عارضی دنیا کی باتیں اور ان پر لذتیں لے لے کر یا فخر سے انسان کا بیان کرنا یہ اس کی اپنی پستی کی علامت ہے.پس فرمایا کہ ایسے لوگوں سے تعلق رکھو گے تو خطرہ ہے کہ تم ویسے ہی ہو جاؤ گے.یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے، کوئی بائیکاٹ نہیں ہے بلکہ ایک اور پہلو بھی اس میں ہے یعنی ایک تو بچنے کا پہلو ہے دوسرا خدا تعالیٰ کی محبت کا پہلو ہے جو ذکر الہی کی جان ہے.ایک شخص جس کا ذکر اللہ ہو جس کی محبت اللہ کے ساتھ ہو، وہ ایسی مجلس میں کیسے بیٹھ سکتا ہے جس کا ذکر دنیا ہو اور دنیا ہی اس کی محبت ہو، تھوڑی دیر کے بعد طبیعت منغض ہو جائے گی.انسان کہے گا کیسی باتیں کر رہے ہیں جو پیاری چیز ہے، سب سے زیادہ عشق کے لائق چیز ہے اس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے.اللہ کا ذکر کریں گے تو ان کی آنکھوں سے یوں لگے گا جیسے روشنیاں بجھ گئی ہوں اور دنیا کی باتیں کریں گے تو ایک دم دلچسپی شروع ہو جائے گی.ان کے ساتھ طبعا جوڑ ہی کوئی نہیں ہے تو فَاعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّی میں صرف حکم کے معنی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی اس کی روح بھی بیان فرما دی کہ تم اللہ کی محبت کرنے والے لوگ ہو، تمہارا ان لوگوں سے دل کیسے لگ سکتا ہے اور پھر محبوب کی غیرت کا بھی سوال ہے.جس پیارے سے ان لوگوں نے منہ موڑ لیا ہے تم ان کے خوف سے ان سے منہ نہیں موڑ سکتے.اگر ان کا تعلق اور ان کی رضا تم پر اتنی غالب ہے کہ ان سے تم منہ نہیں موڑ سکتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ خدا سے تمہارے تعلق کے دعوے جھوٹے ہیں.ان معنوں میں اس مضمون کو سمجھیں لیکن اس کا غلط مطلب نہ لیں کیونکہ ظاہری تعلق اور ہمدردی بنی نوع انسان

Page 224

خطبات طاہر جلد 13 218 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء میں یہ احکامات مانع نہیں ہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی نت پر غور کریں تو ہر چھوٹے بڑے سے آپ کا تعلق تھا یہاں وہ تعلق مراد نہیں ہے.جن معنوں میں تعلق توڑنے کا حکم ہے اس معنے میں یعنی اس معنی کے اظہار میں ایک بہت فصاحت و بلاغت ہے.فَأَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلَّى یعنی تمہارا قبلہ اور ہو جائے، تمہارا رخ بدل جائے.ان کی طرف پیٹھ کر لو جنہوں نے خدا کی طرف پیٹھ کی ہوئی ہے اور اپنا قبلہ درست رکھو.پس ان کے مقاصد میں ان کے شریک نہ ہو.ان سے ایسا پیار کا تعلق نہ باندھو کہ تمہارا بھی وہی قبلہ دکھائی دینے لگے جوان کا قبلہ ہے.تمہاری بھی وہ تمنائیں بن جائیں جو ان کی تمنائیں ہیں.وہی مرادیں تمہاری ہو جائیں جو ان کی مرادیں ہیں.پس ان معنوں میں ذکر الہی کا ایک تقاضا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں اپنی مجالس کو درست کرنا چاہئے اور اگر مجالس درست نہیں ہیں تو اس آئینے میں اپنا منہ دیکھنا چاہئے کیونکہ یہ آیت کا آئینہ اتنا شفاف ہے اور اتنا کھلا کھلا ہے کہ آپ کے دل کے پاتال تک آپ کی تصویر آپ کو دکھاتا ہے.پس جہاں طبعی طور پر بعض لوگ بعض خاندانوں کی طرف اس لئے دوڑتے ہیں کہ وہ دولت مند ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس بیٹھنے میں ان کو کوئی مزہ نہیں.بعض ایسے خاندان بھی ہوتے ہیں ایسے امراء بھی ہوتے ہیں جن کی دماغی حالت اتنی پست ہوتی ہے اور ان کے ذوق اتنے گھٹیا ہوتے ہیں کہ ان کے پاس چند منٹ بیٹھنا بھی ایک عذاب بن جاتا ہے.ایسے لوگوں کے پاس بعض دیکھے ہیں جو دن رات وہاں بیٹھے رہتے ہیں اور صرف یہ مزہ آ رہا ہے کہ ایک امیر کے ساتھ ہمارا تعلق ہے اور دنیا دیکھے گی کہ ان کے ساتھ اس کا آنا جانا ہے، ان میں اٹھنا بیٹھنا ہے.تو یہ اس حکم کے منافی ہے اور یہ مراد ہے کہ ان میں اپنی عزتیں نہ ڈھونڈو.ان کے ساتھ تمہاری لذتیں وابستہ نہیں ہیں نہ ہو سکتی ہیں.ان کے ذوق مختلف ہیں، ان کے قبلے الگ ہیں.پس اللہ کے ذکر کے تقاضوں کو ایک عاشق کی طرح پورا کرو اور جس طرح محبت کرنے والا یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے محبوب کا ذکر خیر کرنے والے لوگ ہوں ان میں وہ بیٹھ کر لذت پاتا ہے اسی طرح اپنے لئے صحبت صالحین اختیار کرو.یعنی خلاصہ آخری بات یہ بنتی ہے مگر صحبت صالحین کا مضمون نسبتا خشک ہے یہ اس سے بہت اعلیٰ اور ارفع مضمون ہے یا دوسرے لفظوں میں بہت گہرا مضمون ہے کہ جہاں محبت ہے وہیں بیٹھو، ان لوگوں میں بیٹھو جن کو اس سے

Page 225

خطبات طاہر جلد 13 219 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء محبت ہے جس سے تمہیں محبت ہے اور یہ ایک طبعی محبت کا تقاضا ہے کوئی بیرونی حکم نہیں ہے.اگر اس کو نہیں سمجھو گے تو ضائع ہو جاؤ گے اور رفتہ رفتہ تمہار ا رخ پلٹنے لگے گا.حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں.یہ روایت مجمع البیان فی تفسیر القرآن سے لی گئی ہے زیر تفسیر سورۃ الجمعہ." جس نے خدا کو بازار میں یاد کیا جبکہ لوگوں کو ان کی تجارت اور دیگر کاموں نے خدا سے غافل کر دیا ہو اس شخص کے لئے ہزار نیکی لکھی جائے گی اور اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ایسی بخشش کا سلوک فرمائے گا جس کا خیال بھی کسی دل پر نہیں گزرا.اس حدیث کا مضمون چونکہ اس آیت کریمہ سے وابستہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے اس لئے قطع نظر اس کے کہ یہ کتاب نسبتا ثانوی حیثیت کی معتبر کتاب ہے یا اس کے راوی مضبوط ہیں کہ نہیں یہ بنیادی اصول تسلیم کے لائق ہے کہ جس حدیث نبوی کی بنیاد کسی قرآنی آیت میں دکھائی دے جائے اس کو یہ کہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا راوی کمزور ہے اور اس حدیث کی تو بڑی کھلی کھلی بنیاد اس آیت کریمہ میں نظر آ رہی ہے.بازاروں میں جبکہ تجارت کا ماحول ہے لوگ جو بازار میں سودا خرید نے جاتے ہیں کم ہی ہوں گے جنہیں خدا یاد آتا ہوگا.عورتیں ہیں ان کو کسی اور عورت کے کپڑے یاد آ رہے ہوتے ہیں کہ ایسی چیزیں میں نے وہاں دیکھی تھیں اگر وہ فرنیچر کی دکان میں ہیں تو کسی کے گھر کا فرنیچر یاد آ رہا ہوتا ہے کہ اتنا اچھا ہم نے وہاں دیکھا تھا اس سے بڑھ کر خوب صورت چیز خریدیں.غرضیکہ ہر شخص کو اپنے اپنے ذوق کے مطابق کچھ چیزیں ضرور یاد آتی ہیں اور وہ شاپنگ میں یعنی سودا خریدنے میں اس کے لئے راہنمائی کا کام کر رہی ہوتی ہیں.گویا کہ ایک دوست اندر اندر ان کو مشورے دے رہا ہوتا ہے کہ ہاں یہ وہی چیز ہے یہ ویسی ہے یا ویسی نہیں ہے اس لئے اس معاملے میں یہ طریق اختیار کرنا چاہئے تو ہر شخص اپنے جذبات، اپنے دماغ کا تجزیہ کر کے دیکھے تو وہ معلوم کرے گا کہ جو میں بتا رہا ہوں بالکل درست اسی طرح ہوتا ہے.خدا کو کتنے یاد کرتے ہیں یا خدا سے غافل لوگوں کو دیکھ کر کتنے ہیں جن کے دل میں درد پیدا ہو جاتا ہے یہ کیسی دنیا ہے.دنیا کے ہنگامے، تجارتوں میں مصروف، تجارتوں کی خاطر جھوٹ بولے جارہے ہیں.ملمع کاریاں ہو رہی ہیں

Page 226

خطبات طاہر جلد 13 220 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء اور اس طرح گرتے ہیں جیسے لکھی گند پر گرتی ہے.اس طرح لوگ ان چیزوں پر ٹوٹے پڑتے ہیں گویا کہ ساری زندگی، ساری ان کی کائنات، یہی کچھ ہے.ذلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ایسی صورت میں خدا کو کون یاد کرتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ہاں یاد کرو گے اور طبعاً محبت سے یاد کرو گے تو پھر پتا چلے گا کہ حقیقی عاشق کون ہے.پھر اس چھوٹی سی نیکی کا ، جو بظاہر بے محل ہے محل کی نیکی سے بھی زیادہ شمار ہوگا کیونکہ جب نماز کے لئے آپ مسجد میں آتے ہیں تو وہاں خدا ہی کو یاد کرنا ہے.مگر وہاں بھی بعض لوگ بازار ہی یاد رکھتے ہیں یہ بھی ایک بات ہے.اس لئے ان موقعوں پر اپنے ذکر الہی کی نگرانی کریں اور ان کی حفاظت کریں.یہ ضروری نہیں ہے کہ جس شخص کو مسجد میں بازار یاد آ جائے وہ گنہگار ہے.مختلف مراحل ہیں ، سلوک کی منزلیں ہیں.تعلق ایک طرف سے ٹوٹتے ٹوٹتے ، ٹوٹتے ہیں.دوسری طرف جڑتے جڑتے ، جڑتے ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ ایک انسان نیک متقی ہو اور نیت یہی ہو کہ وہ ذکر سے اپنے رب کو کمائے مگر دنیا کے تعلق پھر حملہ کر کے بار بار اس پر یورش کرتے ہوں اور اسے غافل کر دیتے ہوں.لیکن ایک جہاد کی ضرورت ہے ایک ایسے جہاد کی جس کے لئے آپ اپنی تمام صلاحیتوں کو مستعد کرلیں اور یا درکھیں کہ یہ حملوں کے مقامات ہیں.پس جس کو بازار میں خدا یاد آتا ہو اس کی نیکی اس لئے زیادہ ہے کہ اسے مسجد میں بازار کیسے یاد آ سکتا ہے.اس کی تو یہ شان ہے کہ جہاں دنیا خدا بھول جاتی ہے وہاں اس نے خدا کو یاد رکھا تو جہاں جاتے ہی خدا کو یاد کرنے کے لئے ہیں اس بے چارے کو وہاں کہاں بازار میں یاد آ جانا ہے اس لئے یہ اس کنارے کی بات سے جہاں خدا کا ذکر عموما نفسیاتی کیفیتوں کے مطابق نہیں ہوتا.ایسی حالت میں جو نیکی ہے وہ یقیناً بہت بڑا مرتبہ رکھتی ہے.پس یہ کوئی مبالغہ آمیز روایت نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب فرما دی گئی ہو یہ ان روایتوں میں سے ہے جہاں ایک نیکی کو ہزار نیکی کہا جائے تو ہر گز بعید نہیں ہے.پھر اس کے ساتھ جو مزید عنایت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ایسی بخشش کا سلوک فرمائے گا جس کا خیال بھی کسی دل پر نہیں گزرا.اب یہ الفاظ بھی جیسا کہ احادیث کو بار بار پڑھنے سے انسان کچی اور پاک احادیث کے مضمون سے ہم مزاج ہو جاتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ الفاظ بھی یقیناً حضرت اقدس محمد مصطفی میل ہے کے ہیں.ایسے بازار کی بات ہو رہی ہے جہاں

Page 227

خطبات طاہر جلد 13 221 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994 ء لوگوں کے دل میں خدا کا خیال ہی نہیں گزرتا تو اس کے مطابق خدا کی شان مغفرت اس طرح ظاہر ہوتی ہے فرماتا ہے میں تمہارے سے ایسی بخشش کا سلوک کروں گا کہ کسی انسان کا خیال بھی نہیں جا سکتا.جہاں کسی انسان کا خیال نہیں جاسکتا تھا تم نے مجھے یاد کیا.اب میں تم سے وہ سلوک کروں گا کہ کسی انسان کا تمہارا بھی ، خیال نہیں جا سکتا کہ میں کیسے کیسے تم سے مغفرت کا سلوک فرماؤں گا.اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس ضمن میں انسان اگر اپنے گناہوں پر نظر ڈال کر دیکھے تو پورے گناہوں پر اس کا احاطہ ہی نہیں ہو سکتا.زندگی کا اکثر حصہ ایسا ہے جس میں کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوتے ہی رہتے ہیں.پس وہ ساری چیزیں جو نظروں سے اوجھل تھیں وہاں ان کے لئے استغفار کر ہی نہیں سکا.جب استغفار کرتا ہے تو بعض موٹے موٹے گناہ ، بعض بڑی بڑی غلطیاں اور خاص طور پر وہ جو تازہ ہوں اور ان سے بھی بڑھ کر وہ جن کے پکڑے جانے کا خطرہ ہو وہاں تو انسان خوب استغفار کرتا ہے لیکن جہاں دنیا کی نظر میں نہ پکڑا گیا اور خدا کی پکڑ کی نظر باقی ہے وہاں دل میں وہ جوش ہی نہیں پیدا ہوتا.اکثر لوگ عموما استغفار کے لئے اس وقت لکھتے ہیں جس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ جب ابھی دنیا کی پکڑ کا خوف ان کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہوتا ہے اور ایسا گھبراگھبرا کر پھر خط لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور اگر ان کو یقین ہو جائے کہ دنیا معاف کر دے گی تو پھر وہ جو اللہ کے لئے بخشش کی بے حد طلب پیدا ہوئی ہے وہ نرم پڑ جائے گی.یعنی شکر ہے الحمد للہ بات ٹل گئی اب اللہ معاف فرمائے نہ فرمائے یعنی منہ سے تو نہیں کہیں گے لیکن اپنی نفسیاتی کیفیت کا جائزہ لیں تو بات تو یہی بنتی ہے اس کے سوا بات کوئی نہیں ہے.تو ان کے لئے بھی دعا تو کی جاتی ہے لیکن یہ بھی دعا ہوتی ہے اللہ ان کو مستقل اپنی مغفرت کی طرف متوجہ فرمالے اور وہ گناہ جن میں دنیا کی پکڑ سے بیچ کر نکل چکے ہیں جو ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ان میں بھی یہ خدا کی طرف مغفرت کے لئے مائل ہوں اور استغفار کریں.بہر حال ذکر الہی کا جو بازار سے تعلق تھا اس کے متعلق میں نے آپ کے سامنے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی جو حدیث رکھی ہے اس میں ذکر الہی کے تعلق میں بہت ہی گہرا اور پیارا مضمون ہے اور اس کا بخشش سے بھی تعلق ظاہر فرمایا گیا ہے کہ ذکر الہی کا بخشش سے ایک تعلق ہے.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس اس ضمن میں پیش کرتا ہوں.آپ

Page 228

خطبات طاہر جلد 13 222 خطبہ جمعہ فرموده 25 / مارچ 1994ء فرماتے ہیں:.دو دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں.جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گنا ہوں سے بچار ہے گا.“ ذکر الہی کا استغفار سے ایک اور بڑا گہرا تعلق ہے جس تعلق کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرمارہے ہیں کہ یہ باتیں ان کو نہیں سوجھ سکتیں جو ان حالات سے گزرے نہ ہوں.جوان حالات سے گزرتے ہیں وہی اس معرفت کو پاتے ہیں اور وہی ہیں جو بیان بھی کرنے کا حق رکھتے ہیں.ایک ایسا شخص جو خدا کو ہر وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہوا سے غلطی کی جرأت ہی نہیں ہو سکتی.جو ہر وقت سامنے دیکھے کوئی نگران میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے اسے کیسے تو فیق مل سکتی ہے یا جرات ہو سکتی ہے کہ وہ اس کی نافرمانی کرے جس کو وہ مقتدر ہستی سمجھتا ہے، سب سے غالب اور پکڑ میں سب سے سخت بھی سمجھتا ہے.تو خدا سے غیو بیت ہے جو گناہ کرواتی ہے اور مومن بھی ہر حال میں ہر وقت خدا کے سامنے نہیں رہتا یعنی خدا کے سامنے تو رہتا ہے لیکن اپنی دانست میں خدا کے سامنے نہیں رہتا.اس لئے گناہ غیبوبیت کا نام ہے.دراصل خدا سے دوری کا نام ہی گناہ ہے، وہ دوری عارضی ہو تو عارضی گناہ ہے، وہ دوری مستقل بن جائے تو ہمیشہ کا گناہ ہے ساری زندگی گناہ بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو نظم ہم اکثر سنتے ہیں سبحان من یرانی “اس میں یہی مضمون ہے ہر نعمت کے ذکر کے بعد یہ فرمایا ہے وہ مجھے دیکھ رہا ہے.پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے.پس اس نظم کو پڑھیں اور بار بار پڑھ کے دیکھیں پھر اس فقرے کی سمجھ آئے گی کہ: دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں میں جو کہہ رہا ہوں میں اس حالت سے گزررہا ہوں کہ ہر وقت میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کے جلال کے سامنے میں زندگی بسر کر رہا ہوں.میری مجال کیا ہے کہ میں کوئی گناہ کروں.پس اس حال کے مطابق میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ ذکر الہی کا بڑا فائدہ اور بہت بڑی منفعت اس بات میں ہے کہ انسان خدا کی روشنی کے سامنے زندگی بسر کرتا ہے اور اس سے اس کے

Page 229

خطبات طاہر جلد 13 گناہ کٹ جاتے ہیں.فرماتے ہیں: 223 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا ر ہے اس طریق پر وہ گناہوں سے بچار ہے گا.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودالیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا.پس یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله ـ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 15) اسی آیت کی تفسیر ہے جو میں نے پڑھی تھی.اسی تفسیر کے تعلق میں حدیث نبوی بیان کی جس میں یہ ذکر ملتا ہے کہ بازار میں یاد کرنے والے کا ایک بہت بڑا مرتبہ ہے اور وہی مضمون مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذكرة الاولیاء کے حوالے سے یوں بیان فرماتے ہیں.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ستر ہزار کا دیا اور ستر ہزار کا لیا.یعنی سودا ایسا کیا کہ کچھ خریدا، کچھ بیچا.لیکن ایک آن بھی خدا کے خیال سے غافل نہیں رہا.اب ایسا شخص جب تاجر بنتا ہے تو تجارت کی دنیا میں امن کی ضمانت ہو جاتی ہے اور اگر سارے تاجر ذکر الہی کرنے والے ہوں تو سارے خوف جو تجارت سے تعلق رکھتے ہیں، دنیا سے اٹھ جائیں اور مال بجائے اس کے کہ دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے اللہ تعالیٰ کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے.کیونکہ ایسا شخص جو ذ کر الہی کرتے وقت سودے کرتا ہے، اس کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ساتھ ساتھ جھوٹ بول رہا ہو کہ خدا کی قسم میں نے تو اتنے کا خریدا تھا میں تمہیں اتنے میں بیچ رہا ہوں اور یہ جو منظر ہے یہ آپ کو بعض مسلمان ممالک میں بھی عام دکھائی دیتا ہے اور بڑی دردناک بات ہے کہ مسلمان ممالک میں دوسروں سے زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ باقی تو خدا کے ذکر سے اتنا دور جاچکے ہیں کہ اپنی ذاتی منفعت کے لئے جھوٹ بولنے کے لئے بھی خدا یاد نہیں آتا.لیکن مسلمانوں بے چاروں میں اتنی بات تو ہے کہ جھوٹ کے وقت، ذاتی غرض کے لئے خدا ضرور یاد آ جاتا ہے، کچھ تو ہے بہر حال.گرچہ ہے کس کس برائی سے بھلے بایں ہمہ برائی سے ہی لیتے ہیں مگر نام تو یاد رکھتے ہیں اللہ کا تو برے وقتوں میں سہی مگر جب جھوٹ

Page 230

خطبات طاہر جلد 13 224 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء کے لئے اور فساد کے لئے اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے خدا کا نام لیا جائے تو ایک بڑی مکر وہ حرکت ہے، بہت بڑا گناہ ہے لیکن ایسا ہوتا ہے.تو ان معنوں میں یاد نہیں کرنا جن معنوں میں خدا کا نام لے کر قسمیں کھا کر جھوٹے سودے بیچنے ہوں.ان معنوں میں یاد کرنا ہے کہ خدا کو سامنے دیکھنا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے اور پھر جو سودا کریں گے وہ ہر سودا سچا سودا ہو گا.اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہوگی ، کوئی دھو کہ شامل نہیں ہو سکتا.تمام دنیا کے تجارتی تعلقات اگر اصلاح پذیر ہو جائیں تو باقی معاملات میں بھی دنیا میں امن آجائے گا کیونکہ اصل انسان کا جو سب سے اعلیٰ مقصد ہے وہ اپنی بقا کے لئے زیادہ سے زیادہ ذرائع اکٹھے کرنا ہے اور تجارت اس میں ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.صرف ایک نہیں تجارت کی بنیاد تو بہر حال ایگریکلچر پر بھی ہے اس لیے میں بتا رہا ہوں کہ جو دنیا کے تعلقات ہیں ان میں تجارت ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اور بعض لوگ ایسے ہیں جو ہل چلاتے وقت بھی ذکر الہی کرتے ہیں.اور جب دانے پھینک رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی ذکرِ الہی کرتے ہیں ، جب اپنی فصلوں کو اگتی ہوئی دیکھتے ہیں تو ان کی روئیدگی کو دیکھ کر بھی ان کو خدا یاد آتا ہے، جب ان میں کوئی بیماری پڑتے دیکھتے ہیں تب بھی دعائیں کرتے ہیں اور ان کو خدا کے فضلوں کا پانی بھی دیتے ہیں صرف عام پانی نہیں دیتے.ان معنوں میں پھر ساری زراعت بھی ذکر الہی سے معمور ہو جاتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے پہلے بھی غالبا بیان کر چکا ہوں.ایک دفعہ سندھ میں آپ دورے کے لئے گئے تو بعض بہت اچھے اچھے منیجر تھے اور ایسے تجربہ کار تعلیم یافتہ جن کی فصلیں نمایاں طور پر ان کے علم اور تجربے کی مناسبت سے زیادہ اچھی ہونی چاہئے تھیں مگر ان کے مقابل پر ہمارے مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری بھی محمود آباد میں مینیجر تھے.ان کی فصلیں دیکھیں تو لہلہاتی ہوئی سرسبز و شاداب اور جو دوسری فصلیں تھیں اردگرد زمینداروں کی نہ وہ مقابلہ کر رہی تھیں نہ دوسرے مینجروں کے نیچے پلنے والی فصلیں.تو حضرت مصلح موعودؓ نے تعجب سے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ نے کیا ترکیب کی ہے آپ تو مولوی کہلاتے ہیں آپ کو تو کوئی اتنا بڑا زراعت کا تجربہ بھی نہیں، آپ کی اچھی ہیں اور زمینداروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی آپ سے کم تر ہیں.انہوں نے کہا صرف ایک بات ہے کہ میں نے ہر کھیت کے کونے پر نفل پڑھے ہیں،

Page 231

خطبات طاہر جلد 13 225 خطبہ جمعہ فرموده 25 / مارچ 1994ء ایک ایک کھیت پر دعائیں کی ہیں اس کے سوا میں کچھ نہیں جانتا.اس کو کہتے ہیں ذکر الہی.وہ تجارت میں بھی ذکر الہی کر رہے ہوتے ہیں، کھیتی باڑی میں بھی ذکر الہی کر رہے ہوتے ہیں اور مولوی منشی عبد اللہ صاحب جو مولوی عبد اللہ صاحب کہلاتے تھے ان کا ذکر الہی دعوت الی اللہ میں ڈھلا ہوا تھا، دن رات دعوت الی اللہ کرتے تھے.حضرت مصلح موعود بتایا کرتے تھے کہ جب وہ کھیت میں ہل چلا رہے ہوتے تھے تو کسی کو بلا لیتے تھے کہ بھئی یہ کتاب تھوڑی سی پڑھ کے سنا دو میں تو ہل چلا رہا ہوں تو تم یہ پڑھو.اور کبھی کسی ہل چلاتے ہوئے کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور اس کو کہتے تھے کہ تمہیں پڑھنا لکھنا آتا ہے میں تمہارا ہل چلاتا ہوں تم یہ کتاب پکڑ لو اور یہ مجھے سناؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی تازہ تحریر یا ” الحکم کی کوئی عبارت وغیرہ ان کو دے دیا کرتے تھے اور اس طرح اللہ کے فضل سے ان کو بڑے پھل لگے ہیں.ہر سال سو بیعتوں کا وعدہ کروایا اور تادم آخر اس پر قائم رہے اور ضرور وہ وعدہ پورا کر دیا کرتے تھے.آج کل دوست مجھے خط لکھ رہے ہیں کیونکہ بہت سی جماعتوں میں دعوت الی اللہ کا ایسا رجمان پیدا ہو گیا ہے کہ کثرت سے لوگوں نے وعدے کئے ہیں کہ ہم اتنے احمدی ضرور بنائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی توفیق سے بہت بڑھ کر سابق سالوں میں اپنے وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائی نتیجہ یہ نکلا کہ اب انہوں نے اور بھی بڑھا چڑھا کر وعدے کر لئے ہیں کہ جی اللہ پر تو کل ہے اور اس تو کل کی ایک بنا ہے.پہلے جب انہوں نے وعدے کئے تھے تو ان وعدوں کے مطابق محنت کی تھی اور محنت سے آگے جو بات پڑی ہوئی تھی جو ان کی محنت کی حد سے باہر تھی وہ خدا نے ان کو پہنچا دی، اپنے فضل سے عطا کر دی.تو ان کا حق ہے کہ بڑھ چڑھ کر وعدے کر یں.جو طاقت ہے وہ محنت کر رہے ہیں اور پھر لکھتے ہیں کہ باقی دعا سے کمی پوری ہوگی اور بعض لوگ ہیں جو دعا کے لئے لکھ رہے ہیں لیکن ساتھ محنت کوئی نہیں.تو میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اگر خدا ایک زمیندار کی کھیتی میں دعاؤں کی برکت سے عام دنیا کے قانون سے ہٹ کر غیر معمولی برکت دے سکتا ہے، اگر ایک تاجر کی تجارت میں اس کی دعا اور ذکر الہی کی برکت سے غیر معمولی برکت ڈال سکتا ہے تو وہ اپنے کام میں کیوں برکت نہیں ڈالے گا.یہ زراع تو وہ ہیں جو اس کی کھیتی لگا رہے ہیں ،اس کے بیج بورہے ہیں.

Page 232

خطبات طاہر جلد 13 226 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء پس ذکر الہی کے ساتھ یہ بیج بوؤ اور محنت کرو اور پھر دعائیں کرو تو ہر گز بعید نہیں کہ جن باتوں کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، جن اعدادو شمار کو پورا کرنے کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان سے بڑھ کر تمہیں عطا کر دے اور گزشتہ سالوں میں بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں اخلاص کے ساتھ یہ وعدے کئے گئے اور محنت کی گئی اور ان سب کی توقعات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.پس ذکر الہی کا اس مضمون سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے اپنی دعوت الی اللہ کو ذکر الہی سے معمور کر دیں اور یہ بھی یا درکھیں کہ ذکر الہی صرف ایک غرض کی خاطر موقع پر نہیں کیا جاتا بلکہ ذکر الہی ہر موقع میں خود داخل ہو جاتا ہے اگر اس کے فرق کو آپ نے نہ سمجھا تو آپ غلط رستے پر چل پڑیں گے.اس لئے ذکر الہی نہیں کرنا کہ کھیت بڑھیں بلکہ اصل بات مولوی صاحب کی یہ تھی کہ ان کو عادت تھی نفل پڑھنے کی اور وہ رہ نہیں سکتے تھے نفل کے بغیر.میں نے بھی ان کے ساتھ کچھ سفر کر کے دیکھے ہیں بے حد دعا گو اور نفل پڑھنے والے بزرگ تھے تو کھیتوں میں جاتے تھے کھیت دیکھے، ساتھ چلو اچھا ہے وقت ملا ہے تھوڑ اسا ، دو نفل ہی پڑھ لیں تو ان معنوں میں جب نفل پڑھتے تھے تو کھیتی پر بھی رحم آ جاتا تھا اس کے لئے بھی دعائیں مانگ لیتے تھے تو یہ نہیں تھا کہ تجارت کی خاطر خدا کو یاد کیا گیا ہے جس کا رسول کریم ﷺ نے ذکر فرمایا ہے ایسا شخص مراد نہیں ہے.فرمایا ہے ذکر الہی ایسا اس پر غالب ہے کہ جب تو جہات کو بازار اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس وقت بھی ذکر الہی اس پر قبضہ کئے رہتا ہے اور بار بار چھین کر بازار سے ان تو جہات کو اپنی طرف کر لیتا ہے.ایسا شخص جب ذکر الہی کرتا ہے پھر تجارت کے لئے بھی دعا دل سے نکل ہی جاتی ہے اور اگر نہ بھی نکلے تو ایسے شخص کی دعا بعض دفعہ اس کی ضرورت ہی بن جاتی ہے اور بسا اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص جو اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا ہو اس کی ضرورت خود دعا بن جاتی ہے.وہ لفظوں میں اس کو ڈھالے یا نہ ڈھالے.پس ایسے ذکر الہی کے عادی بن جائیں کہ آپ کی ضرورتیں آپ کی دعا بن جائیں.آپ کے بازار زندہ ہو جائیں آپ کے کھیتوں میں نئی زندگی دکھائی دینے لگے جو آسمان سے اترتی ہے اور ہر احمدی کے ہر کام میں برکت پڑے اور یہ ذکر الہی کے بغیر ممکن نہیں ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.’ جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ

Page 233

خطبات طاہر جلد 13 227 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.“ میرے ذہن میں یہ عبارت اس وقت نہیں تھی جب میں نے یہ بات کی ہے کیونکہ یہ ابھی پڑھنے ہی لگا تھا.یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی نتیجہ ہے جس طرح اس پر غور کرتے ہوئے میرے دل سے خود بخود یہ مضمون پھوٹا ہے اس کے سوا کوئی مضمون بنتا ہی نہیں ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے معا بعد فرماتے ہیں جو شخص بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں ہے.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے.کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا.اور مردوں سے بڑھ کر زیادہ تر عورتوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ پھر جہاں بھی ہوں گے جس حال میں ہوں خوشیوں کا موقع ہو یا اور کسی کام میں مصروفیت.اگر گھر میں بیمار بچہ چھوڑا ہوا ہے تو بیمار بچہ ہی دماغ پر غالب رہے گا.....اسی طرح پر لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں.وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنے میں ہے.....بہت پیاری بات ہے.فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہننے میں ہے کیونکہ وہ ہنستا بھی ذکر الہی کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ بھی اللہ کا پیار اور اس کی محبت وابستہ ہوتی ہے.ایک دفعہ حضرت عبد القادر جیلانی سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے بزرگ کہلاتے ہیں اور ہیں بھی.آپ کی دعائیں قبول ہوتی اور بڑے بڑے اعجاز آپ سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن آپ کو کپڑوں کا اتنا کیا شوق ہے؟ اتنے خوب صورت کپڑے پہنتے ہیں اتنا اچھا لباس رکھتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر یہ پہن اور یہ پہن.میں وہ نہیں پہنتا.یہ ہے ضرورت کا دعا بنا اور پھر دعا کا قبول ہو جانا.ہر ایک کو کیوں نہیں خدا ایسے کہتا.حضرت عبد القادر سے برتر بزرگ انبیاء تھے ان کے متعلق یہ بات نہیں ملتی.معلوم ہوتا ہے

Page 234

خطبات طاہر جلد 13 228 خطبہ جمعہ فرموده 25 / مارچ 1994ء بچپن سے دل میں ایک نفاست بھی تھی اور کپڑے اچھے لگتے تھے اور خدا کی خاطر سب کچھ بھلا دیا تھا.پس جس نے خدا کی خاطر اپنی ایک گہری تمنا کو بھلا دیا اللہ نے اس تمنا کو نہیں بھلایا اور وہ خود فرما تا تھا کہ اے عبدالقادر یہ کپڑا پہن یہ تجھے اچھا لگے گا اور یہ دنیا کے عام تعلقات میں بھی بات دیکھی گئی ہے.بعض بیبیاں خاوندوں سے مطالبے نہیں کرتیں اس خوف سے کہ ان پر بوجھ نہ پڑ جائے.بعض بچیاں خاوند اور باپوں سے مطالبہ نہیں کرتیں.تو وہ ماں باپ اگر تو فیق رکھتے ہیں اور ذہین ہوں تو وہ خود دیکھ کر کہتے ہیں اگر ماں ہے تو بیٹی کو کہے گی بیٹی یہ کپڑا تم پر اچھا لگے گا یہ ضرور لے لو.بعض بیاہ شادی کے بعد غریب گھروں میں چلی جاتی ہیں یا ان کے خاوند بعد میں غریب رہ جاتے ہیں تو ان کی مائیں بھی اس بہانے سے کہ ان کی غیرت کو ٹھیس نہ لگے کوئی چیز پسند کر کر کے ان کو دیتی ہیں.یہ سارے محبت کے رشتے ہیں اور ذکر الہی کی جان محبت ہے اگر محبت نہ ہو تو منہ کے ذکر کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.صرف تسبیح پھیر نے والی بات ہے.تسبیح کے دانوں سے خدا ہاتھ نہیں آتا بلکہ جو خدا کا ذکر کرتا ہے وہ تسبیح کے دانے بن جاتا ہے اسے دیکھ کر لوگ خدا کو یاد کرتے ہیں وہ ایک خدا نما وجود بن جاتا ہے اور یہ بات اللہ کی محبت کے بغیر انسان کو نصیب نہیں ہو سکتی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں یعنی رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہننے میں ہے.کیوں ؟ وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے.(ملفوظات جلد 4، صفحہ 15 تا16) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذکر الہی میں سب سے زیادہ نمازوں پر زور دیتے تھے اور نماز ہی کو ذکر کا معراج بتاتے تھے نماز ہی کو ذ کر کی جان قرار دیتے تھے.آج مجھے یہ کہا گیا ہے کہ بعض تربیتی اجتماعات ہیں یا جلسے ہیں ، ان کے ذکر میں میں اب ان کو نماز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.ایک اعلان ہے جماعت ہائے احمد یہ بورکینا فاسو کے لئے.بورکینا فاسو افریقہ کا ایک فرانسیسی بولنے والا ملک ہے ان کا آج 25 / مارچ سے جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے جو انشاء اللہ 27 / مارچ بروز اتوار تک جاری رہے گا ان کے ہاں بھی ڈش انٹینا لگا ہوا ہے وہ کہتے ہیں ہم بھی پروگرام دیکھتے ہیں اور ہماری جماعت کی بڑی حوصلہ افزائی ہوگی اگر اس موقع پر آپ

Page 235

خطبات طاہر جلد 13 229 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء ہمارا ذ کر بھی کر دیں.دوسرا جماعت ہائے احمد یہ ضلع سیالکوٹ ہیں.پاکستان کی اضلاع کی جماعتوں میں سیالکوٹ کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ان کے ہاں خدام اور اطفال کا ضلعی اجتماع 24 مارچ سے شروع ہوا تھا اور آج اختتام کو پہنچا ہے.پہنچ چکا ہو گا غالبا سوائے اس کے کہ انہوں نے رات کی مجلس لگانی ہو اور اس خطبے میں اپنا نام سنا ہوتو بہر حال میں امید رکھتا ہوں کہ وہ بیٹھے ہوں گے اس وقت اور سن رہے ہوں گے.ان دونوں کو میری پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ ذکر الہی کے لئے نماز ایک برتن ہے اگر ذکر الہی دل میں پیدا ہو تو نماز سے انسان الگ ہو ہی نہیں سکتا اور اگر یہ برتن ہے تو پھر اسے ذکر سے بھریں اور خالی نہ رہنے دیں.یہ دو پہلو ہیں جن کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اگر اللہ کی محبت ہے دل میں پیار ہے اور ذکر سے دل بسا ہوا ہے تو نمازوں سے غفلت کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ نمازیں تو ذکر کا معراج ہیں.نماز میں آنحضرت ﷺ نے جس طرح خدا کو یاد کیا اور جس جس پہلو سے یاد کیا اور جسم نے کس طرح روح کے ساتھ مطابقت کی.یہ سارا مضمون دہرایا جاتا ہے ہر نماز کے وقت آنحضرت صلى الله کی وہ نماز دہرائی جاتی ہے جو خدا کی خاطر آپ پڑھا کرتے تھے.اب اس کے دو پہلو ہیں اول تو یہ کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا، اگر ذکر کا دعوی سچا ہے نماز کے بغیر یہ دعوی جھوٹا ہوگا کیونکہ ذکر الہی کرنے والوں میں سب سے بلند تر ذکر الہی کرنے والے حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی تھے اور آپ نے اپنے آپ کو نماز سے منتقی انہیں سمجھا.جھوٹ بولتے ہیں وہ صوفی یا وہ متقی بننے والے جو کہتے ہیں ہمیں ظاہری تتبع کی کیا ضرورت ہے ہمارے دل میں ذکر ہے بس یہی کافی ہے.اگر یہ بات ہوتی تو آنحضرت ﷺ نمازوں میں اس قدر انہماک کیوں کرتے اور اتنا انہماک جو تکلیف تک جا پہنچتا تھا.پس اس خیال کو دل سے نکال دیں کہ نماز کے بغیر آپ کا دعوی سچا ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب نماز پڑھیں تو اس کو ذکر سے بھریں کیونکہ نماز میں برتن اکثر خالی رہتا ہے اور بہت کم ہیں جن کو کوشش کے بعد یہ توفیق ملتی ہے کہ ان کی نمازوں میں دودھ بھرنے لگتا ہے ورنہ اکثر نمازوں کا حال تو ان کھیتوں کی طرح ہے جن کی جڑوں میں بیماریاں لگ جاتی ہیں تو سٹے بنتے بھی ہیں مگر خالی.ہمارے ہاں ایک دفعہ احمد نگر میں چاول کے کھیتوں میں بیماری آئی تھی.سٹے سیدھا سر کھڑا اونچا کیا ہوا تھا اور تھوڑی دیر تو مجھے پتا نہیں لگا میں نے کہا بڑے اچھے اچھے سٹے نکلے ہوئے ہیں لیکن جب وہ جھکے ہی نہیں پھر مجھے

Page 236

خطبات طاہر جلد 13 230 خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 1994ء خطرہ محسوس ہوا.دیکھا تو دودھ سے خالی تھے اور جو دودھ سے خالی ہو وہ جھکتا نہیں ہے اور متکبر کی بھی یہی مثال ہے جس کے اندر کچھ نہ ہو وہ تکبر سے سر اٹھا کے پھرتا ہے.جو عارف باللہ ہو، جو اللہ کی محبت رکھتا ہو اتنا ہی وہ جھکتا چلا جاتا ہے اور ظاہری طور پر کھیت کے ساتھ اس کی مثال بہت ہی عمدہ ہے.پس ذکر الہی سے اگر خالی نمازیں ہوں گی اور اکثر نمازوں میں بہت سارا حصہ ذکر الہی سے خالی رہتا ہے تو وہ برتن تو ہے مگر اس میں دودھ نہیں پڑا.پس آپ اپنی نمازوں میں خدا کی یاد کا دودھ بھریں پھر دیکھیں آپ کتنی ترقی کرتے ہیں.جہاں تک بورکینا فاسو کا تعلق ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت کی طرف بہت زیادہ رجحان ہے اور دن بدن نئے نئے علاقوں سے تقاضے آ رہے ہیں اور باوجود اس کے کہ ہمارے پاس فرینچ سپیلنگ مبلغین کی کمی ہے مگر اس کے باوجود مقامی معلمین تیار کرتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو اس ضمن میں میں یہ بھی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ فرانسیسی زبان کی طرف بھی توجہ کریں.فرانسیسی بہت بڑے بڑے علاقے ہیں جن میں اس وقت جماعت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اس میں آئیوری کوسٹ ہے اس میں بورکینا فاسو بھی ہے.اس میں زائر ہے اور خود فرانس میں بھی اب ہمیں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے.پس فرنچ سپیکنگ مبلغین کی ضرورت ہے.اپنے بچوں کو اور واقفین نو کو جہاں جہاں بھی فرانسیسی زبان اچھی سکھانے کا امکان موجود ہے وہاں ضرور سکھائیں.ہم جب اپنے پروگرام جاری کریں گے اس میں بھی زبان سکھائیں گے انشاء اللہ.لیکن وہ آہستہ پروگرام ہے اور سارے دن میں صرف ایک ہی کلاس تو نہیں لی جاسکتی.اس لئے وہ صبر طلب ہے تقریباً دو سال میں جا کر میرا خیال ہے ایک انسان اس پروگرام کے ذریعے فرفر ایک زبان بولنی شروع کر دے گا.فرفر نہیں تو کسی حد تک ضرور بولنے لگ جائے گا.انشاء اللہ.لیکن ہمیں جلدی ہے اس لئے باقاعدہ جس طرح سکولوں اور کالجوں میں محنت کے ساتھ زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، اس طرح احمدی نوجوان یہ زبان بھی سیکھیں اور جو فرانسیسی علاقوں میں بچے ہیں ان کو میری نصیحت ہے ان کو اردو بھی سکھائیں کیونکہ در حقیقت ایک انسان جیسا ترجمہ اپنی زبان میں کر سکتا ہے ویسا تر جمہ کسی دوسری زبان میں نہیں کر سکتا.اب دیکھیں ہمارے ہاں اردو سے انگریزی ترجمہ ہوتا ہے.بڑی مشکل سے اب ہمیں اللہ کے فضل سے وہ خاتون میسر آئی ہیں جن کو خدا نے غیر معمولی ملکہ

Page 237

خطبات طاہر جلد 13 231 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء عطا فرمایا ہے ورنہ اچھے بھلے انگریزی دان بھی ہیں مگر وہ بات بنتی نہیں.لیکن دوسری زبان سے اپنی زبان میں نسبتا ترجمہ آسان ہوتا ہے جن کو جرمن زبان اچھی آتی ہے.وہیں پیدا ہوئے ہیں.وہ بچے جوار دو بھی جانتے ہیں جرمن زبان میں بہت اچھا فر فر ترجمہ کرتے ہیں لیکن اردوان کی نسبتا کمزور ہے جب جرمن زبان سے اردو ترجمہ کریں تو ان کو وہ طاقت نہیں ہے وہاں جا کے رہ جاتے ہیں تو اس لئے میری خواہش ہے کہ فرنچ سپیلنگ احمدی اردو بھی سیکھیں اور اس وجہ سے نہیں کہ یہ پاکستان کی زبان ہے اس لئے کہ اس زمانے کے امام کی زبان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اردو سپیکنگ بنایا اگر چہ پنجابی زبان مادری کہلا سکتی ہے مگر اردو ہی کو آپ نے استعمال فرمایا ہے.پس فرانسیسی اردو سیکھیں اور جہاں تک خدمت دین کا تعلق ہے جب دونوں زبانیں اکٹھی ہوں گی پھر خدمت کی اہلیت ہوگی اور جو انگریز ہیں ان کو بھی اردو سیکھنی چاہئے اس نقطہ نگاہ سے کہ دین کی خدمت ہوگی.اس خیال کو دل سے کاٹ کر پھینک دیں کہ یہ پاکستانی اور ہندوستانی زبان ہے.آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اور دنیا میں بھی یہ پھیلی ہوئی ہے.مقصد صرف اتنا ہے اور یہی خالص مقصد رہنا چاہئے کہ وقت کے امام کی زبان ہے اور اگر ہم اس میں مہارت حاصل کریں گے تو اپنی زبان میں دین کی بہتر خدمت کرسکیں گے.اس کے علاوہ پھر واپس سیالکوٹ جاتا ہوں (ایک دومنٹ باقی ہیں یا شاید نہ رہے ہوں باقی ) سیالکوٹ کی جماعتوں کو میں نے متنبہ کیا تھا آپ بہت بلند مقام سے اتر کے یہاں پہنچی ہوئی ہیں جہاں آج ٹھہری ہوئی ہیں.بڑے بڑے عظیم صحابہ کرام ، بڑے بڑے خدام سلسلہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ساری دنیا پر نظر ڈال کر دیکھ لیں کوئی دنیا کا حصہ نہیں ہے جہاں احمدیت کی تعمیر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سیالکوٹیوں کو خدمت کی توفیق نہ ملی ہو.نئی نئی جماعتیں بھی بنانے والوں میں یہ اول رہے اور اس وقت ساری دنیا میں سیالکوٹ کے سابق بسنے والے پھیل چکے ہیں اور پاکستان میں بھی جو گجرات سے آتے ہیں یا باہر کے نو آباد علاقوں سے آتے ہیں ان کا بھی پرانا پسِ منظر سیالکوٹ ہی ہے.عجیب بات ہے معلوم ہوتا ہے کہ انسان پیدا کرنے میں ظاہری لحاظ سے بھی یہ ضلع بہت زرخیز تھا اور قابل آدمی پیدا کرنے میں بھی بڑا زرخیز تھا.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اپنا دوسرا وطن قرار دیا.پس اس تعلق کو یا درکھیں آپ کو دوسرا وطن کہا گیا ہے.وطن بن جائیں ان صحابہ

Page 238

خطبات طاہر جلد 13 232 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 / مارچ 1994ء کی طرح وطن بن جائیں جن صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے دلوں میں بسا لیا تھا.دوبارہ اس پیغام سے چمٹیں، اسے اپنے دلوں میں بسائیں اور پھر دیکھیں آپ کی حالتیں کس طرح جلد جلد تبدیل ہوں گی اور مجھے خوشی ہے کہ سیالکوٹ میں میری گذشتہ تنبیہ کے بعد جلد جلد تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.کثرت سے مجھے وہاں سے خط ملتے ہیں اور چھوٹے بڑے مرد عور تیں سب لکھ رہے ہیں کہ ہمارے دلوں پر گہرا اثر ہے اور ہم اللہ کے فضل کے ساتھ باقاعدہ ایم.ٹی.اے سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور ہمارے دلوں میں نئے ولولے پیدا ہور ہے ہیں دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارا قدم ترقی کی طرف پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھائے.میری بھی دعا ہے.ساری دنیا کی جماعتوں کو بھی سیالکوٹ کو اس پہلو سے اپنی دعا میں یا درکھنا چاہئے اور تمام دنیا کے داعیین الی اللہ کو بھی یادرکھیں.ذکر الہی زبان پر بھی ہو اور دل میں بھی بسا ہو.پھر آپ خدا کی طرف بلانے والے ہوں تو آپ کی دعوت میں ایک عظیم شان پیدا ہو جائے گی.ایک ایسی قوت جاذ بہ پیدا ہو جائے گی کہ کوئی دنیا کی طاقت اس کور دنہیں کر سکے گی.آمین

Page 239

خطبات طاہر جلد 13 233 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء تمام مذاہب کا مقصد بندے کی اللہ سے محبت پیدا کرنا ہے.ذکر الہی سے غافل شخص عملاً کفر کرتا ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں.أَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللَّهِ أُولَبِكَ في ضَللٍ مُّبِينٍ اللهُ نَزَّلُ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُم إلى ذِكْرِ اللهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَ مَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (الزمر: 23، 24 ) پھر فرمایا:.ان آیات کا ترجمہ اور اس مضمون سے متعلق کچھ تشریح کرنے سے پہلے میں چند اعلانات کرنا چاہتا ہوں.آج بھی دنیا بھر میں مختلف جگہوں پر کچھ اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں، کچھ جلسے ہو رہے ہیں اور کچھ اور مختلف نوع کی کلاسز جاری ہیں مثلاً جرمنی میں اس وقت بوسنین نو احمد یوں کی ایک

Page 240

خطبات طاہر جلد 13 234 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء تربیتی کلاس کا انعقاد ہو رہا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ وہاں کثرت کے ساتھ نئے شامل ہونے والے بوسنین مسلمانوں کی تربیت کے ہر سطح پر انتظام مسلسل جاری ہیں اور یہ کلاس جس کا میں نے ذکر کیا ہے یہ بھی ان انتظامات کا ایک حصہ ہے.پھر قیادت ضلع جہلم کے زیر اہتمام خدام و اطفال کا سالانہ اجتماع ہے جو 31 مارچ سے شروع ہو کر آج یعنی یکم اپریل کو اختتام پذیر ہو گا.جماعت احمدیہ نبی کا جلسہ سالانہ اور یوم مسیح موعود اور صد سالہ جشن تشکر درباره پیشگوئی کسوف و خسوف کے پروگرام 31 مارچ سے شروع ہیں اور بروز ہفتہ یعنی کل اختتام کو پہنچیں گے.جماعت ہائے احمد یہ گیمبیا کا انیسواں جلسہ سالانہ آج یکم اپریل سے شروع ہو رہا ہے.اس جلسے میں ہمیشہ گیمبیا کے مختلف وزراء اور دیگر معززین شرکت فرماتے ہیں اور جماعت کے پروگراموں میں بعض دفعہ سر براہ سلطنت بھی بنفس نفیس تشریف لا کر رونق بخشتے ہیں.ان کی توقع ہے کہ اس جلسے پر بھی مختلف معززین ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے اور سیاست کے علاوہ دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے معززین بھی شامل ہوں گے اور ان کے لئے بھی خصوصیت کے ساتھ پیغام دیا جائے.خصوصی پیغام تو ان کے نام میرا یہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ بہت ہی بڑے حوصلے کا سلوک فرمایا ہے اور باوجود اس کے کہ ہم جانتے ہیں کہ مختلف طاقتور ممالک سے کوششیں کی گئیں کہ آپ احمدیت سے اپنا رویہ تبدیل کر دیں لیکن ہمارے کہنے میں نہیں بلکہ ہمارے کہنے کے بغیر از خود آپ نے انسانی قدروں کا سر بلند رکھا اور ہمیشہ ان کو یہی جواب دیا کہ یہ لوگ خدمت کر رہے ہیں.خدمت دین بھی کر رہے ہیں، ملک کی بھی خدمت کر رہے ہیں.ہم باہر سے کوئی مدد لے کر ان نیکوں اور محسنوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کر سکتے اس لئے جو چاہیں اپنا رویہ آپ اختیار کریں.یہ ہماری عزت اور وقار اور انسانی قدروں کے خلاف ہے کہ وہ لوگ جو یہاں خدمت کے لئے آئے اور ہمیشہ بڑے خلوص کے ساتھ خدمت کی ہے ان سے لوگوں کے کہنے میں یا لوگوں کے دیئے ہوئے پیسے کے لالچ میں آ کر بد سلوکی شروع کر دیں یہ ہم سے نہیں ہوگا.اس وعدے پر وہ مسلسل قائم رہے.ضیاء کے دور میں بھی میں جانتا ہوں کہ براہ راست کوشش کی گئی لیکن گیمبیا کے معززین نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی اور اب تو وہ دور ، وہ زمانے لد گئے اور حالات بدل چکے ہیں اور جماعت احمدیہ کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گیمبیا میں قبولیت عام کی سند حاصل ہو چکی ہے.اس لئے میں ان سب

Page 241

خطبات طاہر جلد 13 235 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء بزرگوں کا جواس اجلاس میں شامل ہوئے ہیں، اس پس منظر میں ساری دنیا کی جماعتوں کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو پس منظر میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ملک کو ہمیشہ ترقی کی اعلیٰ منازل پر جاری و ساری رکھے گا اور جماعت احمد یہ ہمیشہ پوری وفا کے ساتھ ان کی خدمت کے تمام تقاضے پوری کرتی رہے گی.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو برکت دے اور جماعت احمدیہ کے لئے یہ اجتماع آئندہ سال کے لئے مزید برکات پیچھے چھوڑ جائے.باقی اس کے علاوہ بھی ہیں کچھ.ساؤتھ انڈین جماعتوں کے ریجنل اجتماع کی خبر ملی ہے مجلس اطفال الاحمدیہ جرمنی کا پندرھواں سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور ساؤتھ انڈین جماعتوں کے اجتماع میں بتایا گیا ہے کہ کثرت کے ساتھ غیر از جماعت دوست شریک ہوں گے اور مضمون ہوگا Islam the Religion of Peace یعنی اسلام امن کا مذہب ہے.مجلس خدام الاحمدیہ نائیجیریا کا جلسہ سالانہ بھی آج یکم اپریل سے شروع ہو رہا ہے، تین اپریل تک جاری رہے گا اور جماعت جرمنی کی مختلف کلاسز کا میں ذکر کر چکا ہوں جو کہ بوسنین کے سلسلے میں ہیں.ان سب کو میرا واحد پیغام یہی ہے جو سب کے لئے برابر اہمیت رکھتا ہے کہ ذکر الہی کے جس موضوع پر میں ایک عرصے سے خطاب کر چکا ہوں اور یہ اسی کی غالبا آخری کڑی ہے اس پر پورا دھیان دیں اور غور کریں اور اس حقیقت کو دلنشین کر لیں کہ تمام مذاہب کا آخری مقصد اللہ سے بندے کی محبت پیدا کرنا ہے اور اس سچی محبت کا ایک اثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا انسان جو اللہ سے محبت کرنے لگے وہ اس کی مخلوق سے لا زما محبت کرتا ہے اور اسی کا نام Peace ہے.تمام عالم میں امن کے لئے مختلف کوششیں ہو رہی ہیں مختلف دعاوی جاری ہیں.کہا جاتا ہے کہ اب امریکہ دنیا میں امن کی کوشش کرے گا.کہا جاتا ہے کہ چین سے وہ لوگ اٹھیں گے جو دنیا میں امن قائم کریں گے.کبھی مشرق والے دعوے کرتے ہیں، کبھی مغرب والے.مگر حقیقت یہ ہے کہ امن کی حقیقت کو سمجھے بغیر اور سمجھائے بغیر نہ وہ امن قائم کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں، نہ دنیا کو اطمینان دلا سکتے ہیں کہ ہم اپنے دعوے میں سچے ہیں اور امن کی راہ اس کے سوا کوئی راہ نہیں ہے کہ انسان اپنے خالق کے ساتھ امن میں آجائے.خالق کے ساتھ امن کیسے نصیب ہو سکتا ہے؟ جب انسان خالق کے مزاج کے رنگ اختیار کرنا شروع کرے، ویسا ہی بننے کی کوشش کرے، وہ ادا ئیں اپنا لے جو ادائیں خالق کو پسند

Page 242

خطبات طاہر جلد 13 236 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء ہیں.ان اداؤں سے دور بھاگے جن کو خالق نفرت سے دیکھتا ہے.اگر ایسا ہوتو مخلوق اور خالق کے درمیان یہ سنگم ہے، یہ رشتہ ہے، جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے اور یہ سفر ہمیشہ کے لئے جاری ہے.اس کا کوئی آخری مقام نہیں اور اس سفر میں اگر چہ رخ خالق کی طرف ہوتا ہے مگر خالق کا رُخ چونکہ مخلوق کے ساتھ احسان اور بے انتہا رحم و کرم کے سلوک کا رُخ ہے اس لئے خالق کے اندر جا کر پھر مخلوق دکھائی دینے لگتی ہے اور خالق کا جو تعلق مخلوق سے ہے وہی تعلق خالق سے تعلق باندھنے والا اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور اگر خالق کی نظر سے کوئی مخلوق کو دیکھنے لگے تو اس سے مخلوق کیلئے کسی شر کا کوئی احتمال نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے اللہ اپنے بندوں کے لئے شر پیدا کر رہا ہے تو یہ وہ دو ٹوک بات ہے، دو نکاتی بات ہے جس کو سمجھنے کے بعد کوئی ذی شعور انسان اس کے انکار کی جرات ہی نہیں کر سکتا، اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.Peace کی حقیقت کیا ہے؟ یہی ہے کہ ایک انسان دوسرے بندوں کو اس طرح دیکھنے لگے جیسے وہ اپنی اولا دوں، اپنے پیاروں اور اللہ کے ساتھ ایسی محبت کرے کہ اس کے پیارے بن جائیں.خدا اپنی مخلوق کو شر کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا.خدا اپنی مخلوق کی بھلائی چاہتا ہے.پس لازماً ایسے بندے پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ میں انسان کے وجود کا کھویا جانا ضروری ہے اور یہ وہ مقام ہے جو ذکر الہی سے نصیب ہوتا ہے.کثرت کے ساتھ ذکر الہی کے نتیجے میں انسان خالق کے مزاج کو سمجھتا ہے وہ کیا چاہتا ہے؟ کیا پسند نہیں فرماتا؟ ان باتوں سے آگاہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ذکر کے ساتھ انسان کے اندر ایک دن بدن بر پا ہونے والا انقلاب بر پا ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کے اندر تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.پس ہر وہ ذکر جو تسبیح کے دانوں تک محدود رہے انگلیاں اس پر پھرتی رہیں لیکن انسان کے وجود میں کوئی پاک تبدیلی پیدا نہ ہو وہ ذکر الہی نہیں ہے، وہ ذکر نفس ہوسکتا ہے، کوئی اور شیطانی ذکر ہوسکتا ہے مگر اس کا نام اللہ کا ذکر رکھنا گناہ ہے.ذکر الہی اندرونی تبدیلیاں پیدا کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.اللہ کا ذکر ہو اور دل میں شیطانی وساوس ہوں، اللہ کا ذکر ہو اور فارغ ہوتے ہی بنی نوع انسان کے خلاف ظلم کے منصوبے چلائے جار ہے ہوں.اللہ کے ذکر میں تسبیح پر انگلیاں پھر رہی ہوں اور ذہن میں سیاسی چالیں ہوں.یہ ہو کہ جب ہم اوپر آئیں گے تو بنی نوع انسان سے یہ کچھ کریں گے.یہ ذکر نہیں ہے، یہ دھوکا ہے.ذکر وہی

Page 243

خطبات طاہر جلد 13 237 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء ہے جو خون کے اندر جاری ہونے لگے، جو دل کے اندر دھڑ کنے لگ جائے ، جو دماغ کی سوچیں بن جائے، یہ وہ ذکر الہی ہے جس کی طرف میں آپ کو بلا رہا ہوں.اگر آپ یہ ذکر کریں اور اس ذکر کو جاری رکھیں تو تمام بنی نوع انسان کے لئے آپ کے دل سے محبت کے چشمے پھوٹیں گے، آپ ان کو اس طرح دیکھیں گے جیسے خالق پیار کی نظر سے اپنی مخلوق کو دیکھتا ہے.ان کی ایسے بھلائی چاہیں گے جیسے خالق اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے.اس بھلائی چاہنے میں آپ کو مخالفت کا بھی سامنا ہوگا اور یہ وہ مضمون ہے جسے میں آپ کے دلوں میں جاگزیں کرنا چاہتا ہوں.اللہ جب بھی بنی نوع انسان سے بھلائی کے تقاضے کرتا ہے تو اس کی ضرور مخالفت ہوتی ہے.اس مخلوق سے محبت کرتا ہے جو اس سے دور بھاگ رہی ہوتی ہے.پس آپ کے لئے وہ مخلوق اپنے شیوے تو تبدیل نہیں کرے گی.اس کے تو وہی لچھن ہوں گے جو ہمیشہ سے اپنے خالق کے مقابل پر اس نے اختیار کئے رکھے اور جب اللہ کی طرف سے اس کے پاک بندے رسول بنا کر بھیجے جاتے ہیں تو ان سے جو سلوک ہوتا ہے وہ اللہ ہی سے سلوک ہوتا ہے.پس مخلوق سے تعلق آسان نہیں ہے.خالق سے تعلق بہت آسان ہے لیکن یہ تعلق جب مخلوق کے تعلق میں ڈھلتا ہے تو طرح طرح کے دکھ اس راہ میں اٹھانے پڑتے ہیں.چنانچہ ایک موقع پر قرآن کریم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے دکھ پر نظر کر کے فرماتا ہے یعنی اللہ فرماتا ہے قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے کہ یہ ظالم تجھے دکھ نہیں دے رہے یہ تو اللہ کو دکھ دیتے پھرتے ہیں.مراد یہ ہے کہ اصل مقصد ان کا خدا کی دشمنی ہے.تو چونکہ میری طرف سے نمائندہ بنادیا گیا ہے اس لئے خدا کی دشمنی تیری دشمنی کے بغیر الگ ممکن ہی نہیں رہی.پس ذکر الہی آپ کو جن راہوں کی طرف بلا رہا ہے اس میں ایک راہ آسان ہے کیونکہ وہ محبت کی راہ ہے، اس راہ سے اللہ ملے گا اگر وہ محبت کی راہ بنی رہے.جس راہ پر وہ راہ آپ کو ڈالے گی وہ غیر کی طرف سے دشمنی کی راہ ہے اور آپ کی محبت کی آزمائش کی راہ ہے.اس محبت کی آزمائش کی راہ پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس طرح سفر کیا کہ اپنے دکھ دینے والوں کے لئے اس غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرتے رہے کہ یہ ظالم ہلاک نہ ہو جائیں.پس یہ ہے وہ خالق اور مخلوق کا تصور جو حضرت اقدس محمد مصطفی میں لے کے اپنے خالق سے تعلق اور اس کے بعد خدا کی مخلوق سے تعلق کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہوا ہے.اس ضمن میں یہ تمام میرے خطبات ہیں کہ ذکر الہی اختیار

Page 244

خطبات طاہر جلد 13 238 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء کرو.ذکر الہی آپ کے لئے خدا تک پہنچنے کے رستے آسان کرے گا اور خدا تعالیٰ کی طرف پہنچنے کی ایک صراط مستقیم ہے لیکن اس صراط مستقیم کو بہت سے رستے آ آ کر ملتے ہیں.جن رستوں سے آپ صراط مستقیم تک پہنچیں اگر وہ ایک سے زیادہ رستے ہیں تو آپ کے لئے وہ صراط وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے اگر وہ ایک دور ستے ہیں تو وہ صراط مستقیم آپ کے لئے تنگ رہے گی تبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یہاں ایک صراط کی بات نہیں فرما رہا.فرماتا ہے جولوگ بھی ہمارے متعلق کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کی بہت سی راہیں دکھاتے ہیں.پس ذکر کی ہر راہ وہ راہ ہے جو خدا نے ہمیں اپنی طرف آنے کے لئے دکھادی ہے، بتایا ہے کہ ان راہوں پر چلو گے تو صراط مستقیم میں آملو گے اور جتنی زیادہ یہ را ہیں اختیار کرو گے اتنی تمہاری صراط مستقیم وسیع تر ہوتی چلی جائے گی اور انعام پانے والوں کا رستہ بنتی چلی جائے گی.اب میں ان آیات کی مزید تشریح آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو میں نے تلاوت کی تھیں.أَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَّبِّهِ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے خود اسلام کیلئے کھول دیا ہو فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِّنْ رَّبِّهِ اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور یافتہ ہو، ایک نور پر قائم ہو اس کا مقابلہ کسی اور سے کر سکتے ہو.کیا دنیا میں ایسا بھی کوئی اور ہے جو اس جیسا بن کے دکھا دے.یہ ایک اعلان عام، ایک صلائے عام ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک چیلنج ہے کہ بننا ہے تو اس جیسا بن کے دکھاؤ، اس کے سوا ہر راہ ہلاکت کی راہ ہے.اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُوْرِ مِنْ رَّبِّهِ - یہی محفوظ مقام ہے اس کے سوا کوئی محفوظ مقام نہیں.اس کے برعکس کیا مقام ہے؟ فَوَيْلٌ لِلْقَسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللهِ درمیان کی کوئی راہ نہیں بتائی گئی.ایک طرف وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور وہ نور پر قائم ہیں اور سوال اٹھا کر کوئی جواب بھی نہیں دیا گیا.تو ظاہر و باہر بات ہے کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے یہی وہ خدا کے بندے ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں لیکن ان کے مقابل پر جو لوگ رکھے فَوَيْلٌ لِلْقَسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ہلاکت ہو، لعنت ہوان بد نصیب پتھر دلوں پر جن کے دل سخت ہو چکے ہیں.مِنْ ذِكْرِ اللهِ اس کے دو معانی خصوصیت کے ساتھ آپ کے پیش نظر رہنے چاہئیں.ایک وہ دل جو خدا کا ذکر سنتے ہیں اور نرم پڑنے

Page 245

خطبات طاہر جلد 13 239 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء کی بجائے سخت ہوتے چلے جاتے ہیں.طبیعت ان کی گھبراتی ہے، کہتے ہیں کیا بات لے بیٹھے ہیں.چھوڑ وکوئی اور بات کرو، خدا کی باتیں بھی اس زمانے میں بھلا چل سکتی ہیں، کوئی دلچسپی کی بات کرو.کوئی نشے کی بات کرو، کچھ کھیلنے کودنے کی بات کرو، کچھ نمائشوں کے قصے چلیں.دنیا کی لذتوں کی باتیں ہوں تو بات بھی بنے ، یہ خدا کی باتیں تم کیا لے بیٹھے ہو.ایسے لوگ ہیں جو جب یہ ذکر سنتے ہیں ذکر الہی کا، تو ان کے دل سخت ہوتے چلے جاتے ہیں پتھر بنتے جاتے ہیں اور ایک وہ ہیں لِلْقَسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللهِ کہ وہ بدنصیب ایسے پتھر ہیں کہ اللہ کے ذکر کی ان میں صلاحیت ہی باقی نہیں رہی.وہ ذکر کرنے سے عاری لوگ ہیں.ایک سنتے ہیں اور بدکتے ہیں اور مزید سخت ہوتے چلے جاتے ہیں.ایک وہ جو سخت ہو چکے ہیں اور ذکر اللہ کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے.ان دونوں معنوں میں آیت ایسے لوگوں پر لعنت بھیج رہی ہے اور ان کی ہلاکت کی خبر دے رہی ہے.أُولَبِكَ فِي ضَلالٍ مُّبِيْنٍ ہی وہ لوگ ہیں جو کھلی کھلی گمراہی میں ہیں.اب یا درکھیں کہ جو لوگ ذکر الہی سے غافل رہتے ہیں ان کی یہی منزل ہے جو بیان کی گئی ہے کوئی شخص جو ذکر الہی کی راہ میں آگے نہیں بڑھ رہا وہ اپنے مقام پر کھڑا نہیں رہا کرتا.وہ رفتہ رفتہ ان لوگوں میں شامل ہورہا ہوتا ہے جن کے دل خدا کے لئے سخت ہو چکے ہیں اور ایسا شخص جو ذکر الہی میں لذت نہیں پاتا اس کے دل کو کوئی اور چیز سنبھال نہیں سکتی کیونکہ وہ لذت کے بغیر اپنے دل کو چھوڑ نہیں سکتا اس لئے خدا کی بجائے دنیا کی لذتیں دن بدن، رفتہ رفتہ اس کے دل پر قابض ہوتی چلی جاتی ہیں.پس یہ بہت ہی خطرناک مقام ہے.سمجھنا چاہئے بیچ کی کوئی راہ نہیں ہے، یہ نہیں کہ ذکر الہی نہ بھی کرو تو گزارہ ہو جائے گا، کم سے کم ہم سخت دل تو نہیں ہیں.فرمایا یہ ذکر کرنے والے ہیں یا سخت دل ہیں بیچ میں تو کوئی وجودہی اور نہیں ہے.جو ذکر نہیں کرے گا اس نے لا زما سخت دل ہو جانا ہے.پس اس کے خلاف بہ کی گئی ہے.پھر اللہ فرماتا ہے: اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتْبًا مُّتَشَابِهَا مَّثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ اللَّهُ بِے نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ صلى الله جس نے محمد مصطفی ﷺ پر سب باتوں سے زیادہ پیاری بات اتاری ہے.جو کلام اس رسول کے دل پر اترا ہے ہر کلام سے زیادہ خوب صورت ہے.یہ کیا کلام ہے؟ فرماتا ہے کتبا یہ لکھا ہوا کلام ہے جسے تم کتاب کی صورت میں دیکھتے ہو اور یہ باتیں کیسی ہیں.مُتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ایک دوسرے سے تنبیه

Page 246

خطبات طاہر جلد 13 240 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء اپنے حسن میں ملتی جلتی باتیں بھی ہیں اور ایسی بھی ہیں کہ ویسی ہی باتیں اس کتاب میں اور بھی دیکھتے ہو یعنی متشابہ آیات ہیں اور بہت خوبصورت ہیں اور جوڑے جوڑے ہیں.ایک حسن تم یہاں دیکھتے ہو اس حسن سے ملتا جلتا ایک اور جوڑا بھی تمہیں دوسری طرف دکھائی دے گا اور قرآن کریم کو پڑھنے والے جانتے ہیں، ہر انسان جو محبت اور تعلق سے قرآن کو پڑھتا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ ہر قرآنی مضمون جو خوبصورتی کے ساتھ بیان ہوا ہے وہی مضمون ایک اور آیت میں بھی اسی طرح خوبصورتی کے ساتھ بیان ہوا ہے.لیکن ملتی جلتی ہیں بعینہ وہ بات نہیں.کوئی فرق ہے جو یہاں نہیں ملتا وہاں مل جائے گا.کوئی چیز وہاں نہیں ملی تو پہلی میں مل جائے گی.تو جوڑے جوڑے چلتے ہیں ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتے ہیں اور حسن کے بعض پہلوؤں پر ایک آیت بڑی نمایاں روشنی ڈال رہی ہے.بعض دوسرے پہلوؤں پر ایک اور آیت بڑی نمایاں روشنی ڈال رہی ہے تو فرمایا اس میں مثانی کا ایک معنی ہیں بہت اعلیٰ درجہ کی ، بہت ہی بلند مرتبہ.تو یہ تعریف بھی اس کے ساتھ ہی اس کی ہوگئی.فرمایا اس سے ہوتا کیا ہے.تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ - وج ان سے ان آیات کے نتیجہ میں جو جوڑا جوڑا ہیں دہرے اثر دکھانے والی آیات ہیں ایک اثر تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سننے والے جو خدا سے ڈرتے ہیں ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جُلُودُ کے تَقْشَعِر کا مطلب ہے کہ ان کی جلدیں متحرک ہو جاتی ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ان میں ایک Creeping Movement جس طرح ایک لہر سی دوڑ رہی ہے ایسی لہریں ان کی جلدوں پر دوڑنے لگتی ہیں.ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ یہ جوڑا جوڑا آیات ایک اور اثر بھی لاتی ہیں.ایک طرف خشیت کا یہ عالم ہے کہ ساری جلد پر جھر جھری پیدا ہو جاتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.دوسری طرف اس کے بعد وہ جلدیں پگھل جاتی ہیں، نرم پڑ جاتی ہیں ، اپنے خدا کے حضور پکھل کر بہنے لگتی ہیں اور دل ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.جُلُودُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ان کی جلدیں بھی اور ان کے دل بھی خدا کے ذکر میں بہنے لگتے ہیں، ان کی طرف متحرک ہو جاتے ہیں.کتنا حسین کلام ہے.اثر باہر سے اندر داخل ہوتا ہے اور وہ لوگ جو سخت دل ہیں ان کی جلد میں بھی سخت ہوتی ہیں وہ اچھی بات کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے.وہ جلدیں ہی باہر باہر اچھے پیغام کو روک دیتی ہیں.لیکن یہ خدا کے مومن بندے ایسے ہیں جو خدا کے کلام کو سنتے ہیں تو پہلے تو ان

Page 247

خطبات طاہر جلد 13 241 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء کی جلدوں پر ایک زلزلہ سا طاری ہو جاتا ہے کئی دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جذبات کی شدت میں واقعۂ انسان پر جھر جھری طاری ہوتی ہے اور اس کے بعد پھر دل کلیہ نرم ہو کے خدا کی راہوں میں بچھ جاتا ہے اور یہ باہر سے اثر شروع ہوتا ہے اندر تک، گہرے دل کے اندر داخل ہو کر اس کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے.فرمایا الی ذِكْرِ اللہ کس طرف حرکت کرتے ہیں اللہ کے ذکر کی طرف.ان کا باہر بھی ذکر الہی بن جاتا ہے اور ان کا اندر بھی ذکر الہی بن جاتا ہے اور ذکر الہی ان کے چہروں پر اپنے اثر دکھاتا ہے وہاں سے اثر شروع ہو کر دلوں کی گہرائی تک پہنچتا ہے.ذلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ یہ ہے اللہ کی ہدایت جسے چاہتا ہے وہ عطا فرماتا ہے.وَ مَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادِ ہاں جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے اس کو پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں.اب یہاں بھی پہلی آیت کے نقشے کو دوبارہ آپ کے سامنے اُجالا ہے.دوبارہ اسی مضمون کو اسی ترتیب سے پیش فرمایا ہے.فرمایا یا تو وہ لوگ ہیں جن کا دل خدا کے ذکر کے لئے کھل چکا ہے اسلام کے لئے کھل چکا ہے اور یا وہ لوگ ہیں فَوَيْلٌ لِلْقَسِيَةِ قُلُوبُهُمْ توان دونوں کے درمیان تیسری راہ نہیں.تم نے اگر پہلی راہ کو اختیار کرنا ہے تو کیسے کرو.فرمایا، پہلے تو خوف الہی سے یہ راہ آسان ہو گی.اللہ کا خوف ہو تو یہ آیات جو غیر معمولی اثر رکھتی ہیں یہ خود تمہارے اندر انقلاب بر پا کر دیں گی اور دوسرے یہ کہ آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے.یاد رکھو جسے اللہ چاہے ان لوگوں میں سے بنادے جن کے متعلق فرمایا اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ جن کا دل اللہ نے اسلام کے لئے کھولا ہے اور جن کو چاہے ان بد بختوں میں سے بنا دے جن کے متعلق فرمایا فَوَيْلٌ لِلْقَسِيَةِ قُلُوبُهُمُ کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہیں اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے.پس جب آخری فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے تو خدا ہی سے دعا مانگو.وہی سورہ فاتحہ کا مضمون ہے جو خود کتبا مثانی کہلاتی ہے ایسی کتاب ہے جو بار بار دہرائی جانے والی ہے، ام الکتاب ہے اور بار بار دہرائی جاتی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے خدا تیری تعریف سن لی، تیرے ذکر نے دل پر بہت گہرا اثر کیا اور ہم صرف تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں اور کسی کی نہیں چاہتے وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مگر تیری مدد کے بغیر ممکن نہیں اس لئے مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس آیت کریمہ کی روشنی میں جو مختلف مضامین از خود آپ پر کھلتے چلے

Page 248

خطبات طاہر جلد 13 242 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء گئے ہیں ان کو سمجھیں اور ان کو اپنے دلوں میں جاری کریں ان کو اور بھی بہت سی آیات ہیں مگر اس وقت خطبہ کے لمبا ہونے کا خوف ہے میں ان کو چھوڑ رہا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پھر ایک دو اور اقتباس، پھر بعض صحابہ کی مثالیں.تو اس طرح اس مضمون کو اگر ہو سکے تو آج اس خطبے میں اس سلسلے کی آخری کڑی بناؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: چنانچہ قرآن شریف میں ہے.اذْكُرُونِی اَذْكُرُكُمُ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ یعنی اے میرے بندو! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو.میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ: 189) پس کفر سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کر دے کیونکہ رسولوں کا آخری مقصد ذکر الہی ہے.پس ذکر الہی سے جو شخص غافل ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ عملاً کفر کر رہا ہوتا ہے اور اس آیت نے یہی نتیجہ ہمارے سامنے رکھا ہے.اذْكُرُونِی میرا ذکر کیا کرو اذْكُرُكُم میں تمہارا ذکر کروں گا.وَاشْكُرُ وا لی اور میرا شکر ادا کیا کرو، وَلَا تَكْفُرُونِ اور میرا کفر نہ کیا کرو.یہاں کفر کا ایک معنی جو عامۃ المسلمین کے سامنے یا عام قاری کے سامنے واضح ہے وہ ہے ناشکری لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ناشکری کی بجائے کفر کے ان معنوں میں اس کو سمجھا ہے جو کفر کے معروف معنی ہیں یعنی خدا کا انکار اور در حقیقت ناشکری اور انکار بھی دو بہنیں ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ ناشکری کے پیٹ سے ہی حقیقت میں انکار پھوٹتا ہے اور ان کا ماں بیٹی کا رشتہ ہے.پس قرآن کریم نے جہاں وَلَا تَكْفُرُونِ فرمایا اگر اس کا ترجمہ ناشکری بھی کریں گے تو امر واقعہ یہ ہے کہ ناشکرے ہی ہیں جو کافر ہوا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی اتنی بے شمار نعمتیں تمام دنیا میں پھیلی پڑی ہیں کہ وہ شخص جوان نعمتوں کو دیکھ کر اس کے شکر کی طرف مائل ہو اس سے انکار کی کیا توقع ہوسکتی ہے.کون سا احتمال ہے

Page 249

خطبات طاہر جلد 13 243 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء اس سے انکار کا.پس حقیقت میں شکر ہی ہے جو حقیقی ایمان بخشتا ہے اور ناشکری ہی ہے جو کفر کی طرف لے کے جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اس کا تعلق ذکر سے ہے.ذکر سے بات چلی ہے، تم اگر ذکر کرو گے تو شکر گزار بندے بنو گے.ذکر کرو گے تو کافر نہیں ہو سکتے لا زما خدا کے مومن بندے ہو گے اور ذکر کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرے گا اور خدا جن کا ذکر کرتا ہے ان کو مٹنے نہیں دیا کرتا.یہ ناممکن ہے کہ خدا کسی کا ذکر کر رہا ہو اور وہ لوگ صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں.پس آپ کی بقا کا نسخہ بھی یہی ذکر ہے اگر ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والے سے آپ کا تعلق جڑ جائے تو اس کی عطا سے آپ میں بقا کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں.باقی رہنے کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں: قرآن شریف میں تو آیا ہے، وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (انفال:46) اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پاؤ اب يه وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرً ا نماز کے بعد ہی ہے.یعنی نماز کے بعد جو کثرت سے ذکر کی ہدایت فرمائی گئی ہے یہ وہ آیت ہے.فرمایا اب نماز کے بعد خدا تعالیٰ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرً ا فرما رہا ہو تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ 33 دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد للہ، 34 دفعہ اللہ اکبر کہہ دو تو ذکر مکمل ہو جائے.یہ تو كثيرًا میں نہیں آتا.فرمایا اس لئے یہ حدیث سن کر کہ حضور اکرم ﷺ نے نماز کے بعد 33-33 دفعہ تسبیح وتحمید کا ذکر فرمایا اور پھر 34 دفعہ تکبیر کا.یہ نہ سمجھ لینا کہ یہی ذکر الہی ہے جس کی طرف یہ آیت توجہ دلا رہی ہے کہ کثرت سے ذکر کیا کرو.فرمایا یہ اس زمانے میں ان لوگوں کے لئے جن کے حالات آنحضور کے پیش نظر تھے ان کو نسخوں میں سے ایک نسخہ دیا ہے.اس کو اس آیت کا متبادل نہ سمجھ بیٹھنا ورنہ آنحضرت ﷺ کا اپنا طریق تو یہ نہیں تھا آپ تو خود مسجد میں بیٹھ کے نماز کے بعد 33 دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد للہ یعنی تسبیح وحمد اور تکبیر آپ تو نہیں کیا کرتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایتیں ہیں اور بھی روایتیں ہیں کہ بعض دوسری دعائیں کر کے گھر تشریف لے جاتے تھے.تو اس لئے یہ تو ناممکن ہے کہ آنحضور ﷺ کثرت سے ذکر کا یہ مطلب سمجھتے ہوں کہ صرف 33 دفعہ کرو اور خود اس پر عمل نہ کریں اور خود دن رات ذکر میں رہیں.یعنی سوئے ہوئے ہوں تو تب بھی ذکر میں مصروف الله

Page 250

خطبات طاہر جلد 13 244 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء ہوں.جاگے ہوئے ہوں تو تب بھی ذکر میں مصروف ہوں مجسم ذکر الہی بن جائیں، خدا آسمان سے گواہی دے کہ یہ وہ رسول ہم نے تم میں اتارا ہے جو ذکر الہی بن چکا ہے اس کے سوا اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا.تو ظاہر بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو نکتہ اٹھارہے ہیں قابل غور ہے.فرماتے ہیں کہ اس کو محدود نہ سمجھ لو.یہ ذکر الہی جس کا قرآن کریم ذکر فرما رہا ہے یہ تو تمہارے دن رات کے ہر لمحے پر حاوی ہو جانا چاہئے.وہ 33 والا نسخہ تو ان لوگوں کے لئے تھا جنہوں نے ایک خاص تکلیف پیش کی تھی اس تکلیف کے جواب میں آنحضور نے فرمایا کہ اتنا کرو تو یہ تکلیف تو تمہاری رفع ہو جائے گی مگر یہ تو نہیں تھا کہ ان کو روکا ہو باقی ذکر سے یا ان کے علاوہ دوسروں کو روک دیا ہو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل محبت پیدا ہوتو شمار کا کوئی سوال نہیں رہا کرتا.عشق الہی کرنے والے گنا نہیں کرتے.آپ نے حضرت رسول اکرم ﷺ کی مثال دی ہے.کب کسی نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تھی جس میں سودانے تھے.آپ کے کسی خلیفہ نے وہ تہی نہیں پکڑی ، آپ کے کسی صحابی نے وہ تسبیح نہیں پکڑی.بعد کی ضرورت کے حالات کے مطابق ایجادات ہیں.وقت کی ضرورت ہو گی لیکن ان لوگوں کے لئے جواد فی حالتوں کے تھے.ان کو کچھ سکھانے کی خاطر کسی بزرگ نے یہ طریق ایجاد کر دیا ہو گا مگر نہ قرآن میں تسبیح کے دانوں کا ذکر، نہ سنت میں تسبیح کے دانوں کا ذکر ، نہ کسی صحابی سے ثابت کہ ہاتھ میں تسبیح پکڑے پھرتے تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی گن کے ذکر کیا ہی نہیں.ان گنت ذکر تھا اور فرماتے ہیں: یہ تو دنیا کے عاشقوں کو بھی پتا ہے.کہتے ہیں ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھر رہا ہے اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اس نے کہا میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں.عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گن گن کے“.یہ کون سا عشق ہے؟ مجھے دیکھو میں کس طرح اپنے یار کے لئے دیوانی ہوئی پھرتی ہوں.دن رات اس کا تذکرہ میرے منہ پر ہے.تو اچھایار کا یار بن بیٹھا ہے کہ گن گن کے یاد کر رہا ہے.عشق کے ساتھ گنتی کا مضمون چلتا نہیں.پس وہ اور مضمون تھا جو حضور اکرم ﷺ نے وہاں

Page 251

خطبات طاہر جلد 13 245 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء بیان فرمایا اور وہ اور مضمون تھا جو اپنی ذات میں جاری کر کے دکھا یا وہ ان گنت ذکر الہی کا مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہی کثرت سے نہ ہو اور وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا.آنحضرت ﷺ نے جو تینتیس مرتبہ فرمایا ہے وہ آئی اور شخصی بات ہوگی.‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ:14) یعنی وقتی تقاضے کے پیش نظر اور بعض اشخاص کے حالات سے تعلق رکھنے والی بات ہوگی اسے تم عام نہ سمجھ بیٹھو.بعض لوگ ذکر الہی کو نماز سے بڑھا دیتے ہیں اور ایسے فتنے بہت سے پاکستان میں بھی پھوٹ رہے ہیں ان دنوں.یہ زمانہ Cult کا زمانہ ہے اور ذکر کے نام پر دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے بہت سی تحریکات چل رہی ہیں.یہ جو آپ ہرے کرشنا والوں کو دیکھتے ہیں، چھٹے بجانے والوں کو دیکھتے ہیں یہ سارے اللہ کا ذکر بیچ رہے ہوتے ہیں.ان کا آخری مقصد یہ ہے کہ اللہ کے نام سے جو بنی نوع انسان کو محبت ہے اس کا اثر طبیعتوں پر ڈال کر ان سے ڈالر یا گلڈر یا پاؤنڈ وصول کئے جائیں اور رفتہ رفتہ ان کی دولتیں خدا کے نام پر سمیٹی جائیں.پس ایسی ساری تحریکات دیکھتے دیکھتے بہت دولتیں سمیٹ لیتی ہیں.اللہ کا ذکر بیچ بیچ کے بڑے بڑے عالیشان محلات بنا لئے جاتے ہیں اور یہی ذکر بیچنا ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ شدید ہلاکت کی راہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والی بات ہے.اللہ کے ذکر کو بیچا نہیں جاتا.اب پاکستان میں بھی ایسی تحریکات چل پڑی ہیں کہ شیخوں کے نام پر ان کو بعض ذکر پڑھائے جاتے ہیں.وہ لوگ جو اچھے بھلے پہلے نمازی ہوا کرتے تھے ، عبادت گزار تھے، وہ پاگل بنا دیئے جاتے ہیں.ان کو کہا جاتا ہے کہ رات کو اٹھ کے یہ وظیفے کرلو تو ساری زمین تمہاری ہے، سارا آسمان تمہارا ہو جائے گا اور اس طرح پاگل بنا بنا کے ان بے چاروں کی حالت بگاڑتے ہیں اور یہ بھی اطلاع مل رہی ہے کہ اب ان لوگوں نے اپنی شاخیں یورپ میں بھی پھیلانی شروع کی ہیں اور امریکہ اور کینیڈا وغیرہ میں بھی کچھ ایجنٹ بنالئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ یہ نماز جو ہے یہ تو ایک سطحی سی چیز ہے، ایک برتن ہے خالی، اصل ذکر ہوا کرتا ہے.اس لئے اس طرف توجہ نہ کرو ہم تمہیں جوذ کر بتا ئیں گے وہ کیا کرو پھر دیکھو کہ دنیا کس طرح تمہاری غلام بنتی ہے اور

Page 252

خطبات طاہر جلد 13 246 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994 ء آخری پیغام دنیا کی غلامی ہی ہے اللہ کی محبت اور اللہ کا عشق تو بہانہ ہے ان کو بعض منافع دکھائے جاتے ہیں.بعض ان کو ایسے مقاصد بتلائے جاتے ہیں جن سے ان کی دراصل دنیا پانے کی خواہش پوری ہوتی ہے ، آخری صورت میں اللہ ان کو نہیں ملتانہ ان باتوں سے مل سکتا ہے.سوال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو ذکر فرمایا اور زندگی بھر کیا اس ذکر کو چھوڑ کر کون سا بہتر ذکر ہے جو آج کا کوئی پیر یا ساری کائنات کے پیرمل کے بھی بنا سکتے ہوں.جو یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ذکر کے علاوہ بھی ایک ذکر ہے جو میں تمہیں دکھاتا ہوں.ان عبادتوں کو ترک کر دو جو محمد رسول اللہ ﷺ نے اختیار کیں اور یہ ذکر کرو وہ جھوٹا ہے، ذریت شیطان ہے، وہ اللہ کی طرف سے پیغام لانے والا ہے ہی نہیں.مگر جب مذاہب بگڑتے ہیں جب ایک ایسی جاہل قوم کو جس کو حقیقت میں مذہب کے فلسفہ سے آگا ہی نہ ہو.مذہب کی روح کو نہ سمجھتے ہوں ، جب ان کو عارضی طور پر اور مصنوعی طور پر نیک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام کے چرچے وہاں پھیلائے جاتے ہیں تو ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا دار ہیں ان کو دین کی حقیقت کا علم نہیں ، ان کو دین کی روح کا علم نہیں.دوسری طرف دین کے چرچے ہورہے ہیں.ایسی صورت میں ضرور عجیب و غریب قسم کی تحریکات جنم لینے لگ جاتی ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک ایسے کھیت میں جس کا مالی رکھوالا نہ ہو، آپ بہت کھاد ڈال دیں.جب کھاد ڈالیں گے تو اس میں گندی جڑی بوٹیاں ہی نکلیں گی.بے مقصد اس میں نباتات پیدا ہوں گی اور وہ جو کھاد ہے وہ فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بن جائے گی.پس ایسی سوسائٹیاں جہاں مذہب کا چرچا ہو جائے اور حقیقی مذہب سکھانے اور مذہب کے آداب بتلانے کے لئے کوئی منظم طریق ایسا نہ ہو جو خدا نے عطا کیا ہو بلکہ مختلف پیر فقیر اپنے ڈھکوسلے پیدا کرنے شروع کر دیں تو وہ سوسائٹی کثرت کے ساتھ مکروہات سے بھر جاتی ہے.وہاں مذہب بیچنے کے شوق میں کئی قسم کی تحریکات پیدا ہوتی ہیں اور ذکر الہی دنیا کے حصول کا ذریعہ بنالیا جاتا ہے.صلى الله پس اہلِ پاکستان کو میں خصوصیت سے متنبہ کرتا ہوں کہ اگر ذکر کرنا ہے تو محمدرسول اللہ ﷺ کا ذکر ہے.اس کے سوا کوئی ذکر نہیں ہے، سب جھوٹ ہے.خدا ملتا ہے تو اسی ذکر سے ملتا ہے جو ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی کا ذکر ہے.جس پیر کا ذکر اس سے پیچھے رہ جاتا ہے وہ کوتاہ پیر ہے

Page 253

خطبات طاہر جلد 13 247 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء اس سے تمہیں کچھ نصیب نہیں ہو گا.اس لئے وہ شان کا رسول جو ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اس کا دامن پکڑو.صحابہ کا یہ حال تھا کہ ان کی زندگی کا سب سے اعلیٰ مقصد وہ نماز تھی جو محد رسول اللہ نے آپ کو رض سکھائی تھی.اول و آخر وہ ذکر الہی میں گم رہتے تھے اور ذکر الہی کی جان نماز میں سمجھتے تھے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شہادت پائی تو آخری صبح جو آپ نے اس دنیا میں گزاری اس کے متعلق مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ اس رات جس میں حضرت عمر زخمی ہوئے آپ کے پاس گئے آپ کو صبح کی نماز کے لئے جگایا گیا تو آپ نے فرمایا ” نعم “.ہاں جس شخص نے نماز ترک کر دی اس کا اسلام میں کچھ حصہ نہیں.حضرت عمرؓ نے نماز پڑھی اس حال میں کہ آپ کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا لیکن نماز پڑھتے رہے.ایک لمحہ کے لئے بھی نماز، وہ عبادت جو خدا کے سب سے پاک رسول نے بنی نوع انسان کو عطا کی تھی، یعنی عطا تو اللہ نے کی تھی مگر آپ نے اس کو اپنی ذات میں جاری فرما کر اس کے سارے اسلوب ہمیں سمجھائے اور ان معنوں میں میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے اللہ کی عطا کو ایک زندہ مثال بن کر ہمارے لئے جاری فرمایا ، اس کو چھوڑ نا ہلاکت ہے اس کے سوا اس کا کوئی اور نام نہیں.ایک لمحہ کے لئے بھی آنحضرت اللہ خود نماز سے غافل نہیں ہوئے.کسی حالت نے خواہ وہ جنگ کی حالت تھی یا امن اور آرام کی حالت تھی، صحت کی حالت تھی یا بیماری کی حالت تھی ، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو نماز سے غافل نہیں کیا.آپ کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ نماز کا مقصد تو ذکر الہی ہی ہے نا! ذکر تو میں ہر وقت کرتا ہوں مجھے نماز کی کیا ضرورت ہے.آپ کی آخری نماز کی کیفیت یہ تھی کہ بخار کی شدت سے آپ بے ہوش ہو ہو جاتے تھے اور جب آنکھ کھتی تھی تو کہتے تھے دیکھو نماز کا وقت تو نہیں چلا گیا.یہ کہہ کر پانی منگواتے تھے.وضو کر کے پھر نماز شروع کرتے تھے.یہاں تک کہ پھر بے ہوشی طاری ہو جاتی تھی.پھر آنکھ کھلتی تو پہلے یہ سوال کرتے تھے کہ دیکھو نماز کا وقت تو نہیں چلا گیا یہاں تک کہ آپ نے ٹب منگوایا اور کہا مجھ پر بہا دوتا کہ کچھ عرصے کے لئے بخار میرا پیچھا چھوڑے اور میں اپنے اللہ کی اس طرح عبادت کروں جس طرح اس نے مجھے سکھائی.( بخاری کتاب المغازی حدیث : 4088) یہ ہے ذکرا رسولا یہ وہ ذکر الہی ہے جو آپ 66 نے دنیا میں ہمیشہ کے لئے جاری کیا ہے.پس ان شیطانوں کے وسوسوں میں بھی نہ پڑنا.نہ آج پڑنا

Page 254

خطبات طاہر جلد 13 248 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء نہ کل پڑنا کہ ذکر الہی چونکہ نماز کے بعد بھی جاری رہتا ہے اس لئے وہی اصل ہے اور نمازیں ترک کر دو اور خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ مال اللہ کے ذریعے جو شریعت عطا کی ہے اس سے تم بالا ہو جاؤ گے.محمد مصطفی ﷺ کی شریعت سے باہر ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں ہے.یہ سب پیری فقیری کے جھوٹے قصے ہیں.یہ دنیا کی لعنتیں کمانے کی خاطر یہ خدا کے ذکر کو بیچنے والے لوگ ہیں.ذکر الہی اختیار کریں ویسا ذکر جیسے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اختیار فرمایا اور جیسا کہ آپ کے صحابہ نے آپ سے سیکھا پھر ہر حالت میں آپ کا ہر ذکر نماز ہی بن جائے گا لیکن نماز چھوڑیں گے تو پھر نماز نہیں بنے گا اگر نماز پڑھیں گے تو ذکر بھی نماز بن جائے گی.نماز نہیں پڑھیں گے تو ذکر بھی ذکر نہیں رہے گا.حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو مجھے یاد ہے میں اس صلى الله طرح دیکھتا تھا کہ نماز مغرب سے قبل ستونوں کی طرف دوڑتے تھے یہاں تک کہ آنحضرت مے تشریف لے آتے.یہاں یہ بھی میں بتا دوں کہ جب نماز شروع ہو جائے اس وقت مسجد کی طرف دوڑنے کی اجازت نہیں ہے.یہ ایسے ست آدمیوں کا ذکر نہیں ہو رہا جو نماز میں دیر سے پہنچیں اور رکوع بچا کر اپنی رکعت پوری کرنے کے جوش میں دوڑ رہے ہوں.یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے پہنچتے تھے اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے قریب ہونے کے شوق میں تا کہ اس ذکر الہی رسول کے پاس رہ کر اس کے قرب میں ذکر کریں.کہتے ہیں میں دیکھا کرتا تھا کہ کس طرح صحابہ دوڑتے ہوئے جاتے تھے کہ پہلے وقت میں مسجد کی پہلی صف میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ جائیں.انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ بعض دفعہ رکوع کرتے تو اتنی دیر رکوع کرتے کہ لوگ سمجھتے تھے بھول ہی گئے ہیں اور ایک راوی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ساری رات رکوع میں گزار دی.میں اسے تسلیم نہیں کرتا.وہ دور کی کچی روایت ہے مگر ان کی مراد یہ ہوگی کہ لگتا یوں تھا کہ گویا رات بھر رکوع میں ہی رہیں گے یا رہے ہیں اور کہتے تھے جب دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے تھے تو یکدم پلٹ کر دوسرا سجدہ نہیں کر دیتے تھے بلکہ وہاں بھی ذکر میں گم اور ایسے بیٹھ جاتے تھے گویا بھول ہی گئے ہیں کہ آگے بھی کوئی سجدہ آنے والا ہے.حضرت عبد الله بن شداد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے اور میں آخری صف میں تھا لیکن حضرت عمرؓ کی گریہ وزاری کی آواز سن رہا تھا وہ یہ تلاوت کر رہے تھے.اِنَّمَا

Page 255

خطبات طاہر جلد 13 249 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء اَشْكُوا بَى وَحُزْنِی إِلَى اللهِ کہ میں تو اپنے اللہ ہی کے سامنے اپنے سارے دکھ رویا کروں گا کسی اور کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے.پس جو ذکر الہی میں گم رہتے ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کا در بار ملتا ہی نہیں.جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ ہلکے کریں.فرماتے ہیں پچھلی صف میں تھا وہاں تک مجھے حضرت عمرؓ کے سینے کے گڑ گڑانے کی آواز آ رہی تھا.حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ بنو سلمہ کا محلہ مسجد نبوی سے دور تھا لیکن وہ مدینے کے کنارے پر تھے اس وجہ سے مدینے کی حفاظت میں وہ ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے.انہوں نے شوق ظاہر کیا کہ وہ مسجد نبوی کے قریب آجائیں تو آنحضرت ﷺ نے ان کو اجازت نہیں دی لیکن ان کی نیت اچھی اور پاک تھی وہ قریب آنا چاہتے تھے تا کہ زیادہ ذکر الہی کا موقع ملے اور ذکر الہی میں اول اور افضل حیثیت نماز با جماعت کی تھی جو مسجد نبوی میں ادا کی جاتی تھی.تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دلداری کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تم وہیں رہو جس نیک نیت سے تم قریب آنا چاہتے ہو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تمہارے ہر قدم پر تمہیں اجر عطا کرے گا.جتنے لمبے فاصلے کرو گے اتنا ہی وہ ذکر الہی میں شمار ہوں گے اور ہر قدم کا اجر تمہارے لئے لکھ دیا جائے گا.حضرت حرام بن ملحان کے آخری کلمات بھی سننے کے لائق ہیں جب ان پر بر چھے کا وار پڑا ہے اور وہ آر پار نکل گیا اس حالت میں حضرت حرام نے زخم کا خون لے کر سامنے سے اپنے چہرے پر ملا اور سر پر چھڑ کا.وہ خون جو اندر دوڑ رہا تھا چونکہ خدا کی خاطر باہر نکلا تھا انہوں نے کہا اب مقدس ہو چکا ہے اب اس کی برکت سے جسم کے باقی اعضاء کو بھی متبرک کر دوں اور یہ کہا ”اللہ اکبر فزت و رب الکعبہ.اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ہوں.(بخاری کتاب المغازی) یہی روایت حضرت عامر بن فهيرة کے متعلق ملتی ہے کہ آخری کلمہ آپ کا بھی یہی تھا.صاحب طبقات بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن خطاب جو حضرت عمر کے بھائی تھے ایک جنگ میں ان کے سپر د علم کیا گیا ( یہ جنگ یمامہ کی بات ہو رہی ہے ) وہاں اس قدر زور سے دشمن نے ہلہ بولا کہ صحابہ کے پاؤں اکھڑ گئے.کچھ ڈول گئے اس وقت اس حالت میں بڑے جوش کے ساتھ یہ بھاگتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور وہ آخری کلمات جوان کے سنائی دیئے وہ یہ تھے خدایا! میں اپنے ساتھیوں کی پسپائی پر تیری بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہوں.

Page 256

خطبات طاہر جلد 13 250 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء حضرت خبیب کا ذکر بار ہا آپ سن چکے ہیں مگر ایسا ذکر ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوسکتا.آ.نے جب جان دی، ایسی حالت میں کہ دشمن نے آپ کو گھیرے میں لے کر پکڑ لیا تھا اور مقتل کی طرف لے جارہے تھے.اس وقت مقتل میں پہنچ کر انہوں نے کہا کہ مجھے اجازت دو کہ میں دورکعتیں نماز پڑھ لوں.ذکر الہی تو کر ہی رہے تھے ہر وقت ذکر کرتے رہتے تھے نماز کی اہمیت کا یہ حال تھا کہ صحابہ سب سے زیادہ پاکیزہ ، سب سے بلند تر ذکر نماز ہی کو سمجھتے تھے تو انہوں نے دورکعتیں نماز ادا کی.سلام پھیرا اور کہا دل نہیں چاہتا تھا کہ اس نماز سے الگ ہو جاؤں مگر ڈرتا تھا کہ تم مجھے بزدل نہ سمجھ لو.یہ نہ سمجھ لو کہ میں شہادت سے ڈر رہا ہوں اس لئے جلدی میں یہ رکعتیں ادا کر دی ہیں، اب جو چاہو کرو اور جب ان کو نیزہ مارا گیا تو وہ شعر پڑھتے ہوئے زمین پر گرے.وَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِى وَذَالِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَّشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوِ مُّمَزَّع کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ خدا کی راہ میں کس کروٹ پر قتل ہو کے گرتا ہوں.وَذَالِكَ فِی ذَاتِ الْإِلهِ “یہ تو اللہ کی خاطر ہے اور اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑوں پر، جو پارہ پارہ کر دیا گیا ہو، ہر جسم کے حصے پر برکتیں نازل فرمائے یہ آخری آواز تھی جو شہادت کے وقت ان کے منہ سے نکلی ہے اور یہی ذکر اللہ کرنے والوں کے دل کی آواز بن جایا کرتی ہے.ان کی زندگی بھی زندگی ہو جاتی ہے ، ان کی موت بھی زندگی ہو جاتی ہے، ان کوکوئی پرواہ نہیں رہتی کہ کس طرح کس حالت میں ان کا انجام ہو.جانتے ہیں کہ اللہ اپنے ذکر کرنے والوں کے جسم کے ذرے ذرے پر برکتیں نازل فرماتا ہے اور اس کی روح ہمیشہ کے لئے خدا کی پناہ میں آ جاتی ہے اور اس کا ذکر ہمیشہ کے لئے اس کے اوپر اپنی رحمت کی چادرتان دیتا ہے خواہ وہ اس دنیا میں رہے خواہ وہ اس دنیا سے چلا جائے.پس اس پہلو سے اس رنگ میں ذکر کریں کہ آپ کے ساتھ تمام دنیا کا ذکر وابستہ ہو جائے.تمام خدا کے بندے اور مخلوق جو آج ہیں یا کل آنے والی ہیں وہ آپ سے ذکر کے آداب سیکھیں کیونکہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حقیقی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کے عزم کر لئے ہیں وہی ذکر آپ زندہ کریں گے جو حمد مصطفی ﷺ کا ذکر ہے کسی پیر فقیر کے ذکر کو آپ دنیا میں جاری نہیں کریں گے.پس آج دنیا محتاج ہے کہ آپ ہی سے

Page 257

خطبات طاہر جلد 13 251 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1994ء ذکر سیکھے اور آئندہ نسلیں بھی اسی کے ذکر کو لے کر آگے بڑھتی چلی جائیں.خدا کرے ایسا ہی ہو.یہ وہ آب حیات ہے جس آب حیات کے بعد کسی ہلاکت کے زہر کو مجال نہیں ہے کہ آپ کی رگ و پے میں دوڑ نے لگے، آپ کے رگ وریشے میں پیوستہ ہو کر آپ کو ہلاک کر سکے.زندگی کی ایک ہی راہ ہے وہ ذکر الہی کی راہ ہے.وہ راہ ہے جو میں نے آپ کو دکھادی، اللہ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.آمین جو بوسنین خصوصیت کے ساتھ جماعت میں داخل ہورہے ہیں ان کے متعلق ایک چھوٹی سی بات کہہ کر میں اجازت چاہتا ہوں کہ ان بوسنین کو ذکر الہی کے ساتھ فورا وابستہ کر دیں.کوئی اور تربیت نہیں ہے جو ان کی زندگی کی ضمانت دے سکے یعنی روحانی زندگی کی جو ان کو آئندہ ہلاکت سے بچا سکے.صرف یہ راہ ہے کہ جس کے بندے ہیں اس کے ہاتھ میں ہاتھ تھما دیں.اللہ کی انگلی میں ان کی انگلیاں پکڑا دیں.خدا سے وابستہ کر دیں پھر آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہے پھر اللہ آپ ہی ان کی حفاظت کرے گا.پس ذکر الہی کی عادت ڈالیں اور ذکر الہی کا چسکا ان کے دلوں میں پیدا کر دیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے فرمایا:.آج تو ما شاء اللہ یہ مسجد بہت بھر گئی ہے اور عورتوں کو اب دوسری جگہ بھیج دیا گیا ہے.انہوں نے بتایا ہے کہ مسجد جو بھری ہوئی ہے اللہ کے فضل سے یہ بوسنین کے بغیر بھری ہوئی ہے ان کی اتنی تعداد ہے خدا کے فضل سے وہ اس مسجد میں سماہی نہیں سکتے تھے اس لئے ان کے لئے الگ انتظام کیا گیا ہے تا کہ وہاں ان کا ترجمہ بھی ان کو اونچی آواز میں سنایا جا سکے یہ اس لئے بتا دیا ہے کہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا ہے ان کے لئے الگ اکٹھا انتظام کیا ہے اس لئے کہ ایسا کوئی انتظام نہیں تھا کہ بجلی کی تاروں کے ذریعے ان کے کانوں تک ترجمہ پہنچایا جا سکتا ہو.اس لئے بے اختیاری تھی اس لئے ان کو الگ رکھا گیا ہے ورنہ ان کو یہاں جگہ دی جاتی اور پرانے احمدی دوسرے کمروں میں جاتے.یہ وضاحت کر دی ہے دنیا میں سب دیکھ رہے ہیں کہیں کوئی سنے والا غلط فہمی کا شکار ہی نہ ہو جائے.“

Page 258

252 خطبات طاہر جلد 13

Page 259

خطبات طاہر جلد 13 253 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 را پریل 1994ء حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نصیحتیں بنی نوع انسان کے لئے امن کی ضمانت ہیں.( خطبه جمعه فرمودہ 8 اپریل 1994ء بمقام بیت السلام فرانس) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ) پھر فرمایا:.(الانفال:64) آج کے خطبے کے ساتھ بعض اجتماعات کا اعلان بھی کرنا ہے جو مختلف دنیا کے ممالک میں اس وقت منعقد ہورہے ہیں.سب سے پہلے تو مجلس خدام الاحمدیہ ضلع میر پور آزاد کشمیر کی طرف سے اطلاع ہے کہ ان کا خدام کا اجتماع اور مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع سرگودھا اور مجلس انصار اللہ ضلع جھنگ کا سالانہ اجتماع کل یعنی گزشتہ روز سے شروع ہے اور آج انشاء اللہ بروز جمعہ اختتام پذیر ہو گا.مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کا آٹھواں سالانہ اجتماع آج 8 را پریل سے شروع ہو رہا ہے اور انشاء اللہ دودن جاری رہے گا اسی طرح مجلس انصار اللہ فرانس کا اجتماع بھی خدام ہی کے ساتھ شامل کر لیا گیا ہے.اس کے علاوہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ کا (Cote De Ivore اس کو کہتے ہیں ) ان کا تین روزہ

Page 260

خطبات طاہر جلد 13 254 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء سالانہ جلسہ آج 8 / اپریل سے شروع ہو رہا ہے اور 10 اپریل تک جاری رہے گا.چونکہ آج فرانسیسی بولنے والے ممالک کے اجتماعات کی اکثریت ہے اس لئے انہیں اپنی ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان ہی میں میں مبارک باد دیتا ہوں.Je vous souhaite beaucoup de succes a l'occasion de votre Jalsa.اس کے بعد گوئٹے مالا ہے.گوئٹے مالا میں ایک بہت ہی عظیم الشان اجتماع منعقد کیا جارہا ہے جس کا تعلق چاند سورج گرہن کی پیشگوئی سے ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت عمدہ ملک گیر انتظامات کئے ہیں کہ کثرت کے ساتھ نمائندگان وہاں پہنچیں اور سارے گوئٹے مالا کو اطلاع ہو جائے کہ آج سے سو سال پہلے ایک عظیم الشان پیش گوئی اپنی انتہائی شان اور غیر معمولی چمک دمک کے ساتھ پوری ہوئی، جو پیشگوئی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس وقت سے تیرہ سو سال پہلے اپنے مہدی کی نشانیوں کے طور پر بیان فرمائی تھیں.پس ان سب اجتماعات کو میں اپنی طرف سے اور عالمگیر جماعت احمدیہ کی طرف سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ اور مبارک باد کا تحفہ پیش کرتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا اور یہ آپ کا ارشاد الحکم جلد نمبر 6 نمبر 29 صفحه 5-17 را گست 1902ء سے لیا گیا ہے.آپ نے فرمایا: ”ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور گزرع (یعنی کھیتی کی طرح) ہوگی اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دور ہیں.وہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے.تو حید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو، تبتل الی اللہ ایک خاص رنگ کا ہو، ذکر الہی میں خاص رنگ ہو حقوق اخوان میں خاص رنگ ہو.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ : 67) اس میں وہ چار مقاصد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں جن کے حصول کے بغیر جماعت احمد یہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا نہیں کر سکتی اور ان میں سے پہلے

Page 261

خطبات طاہر جلد 13 255 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء تین مقاصد کو ایک ایک کر کے میں نے اپنے خطبات کا موضوع بنایا.سب سے پہلے ایک سلسلہ تو حید باری تعالیٰ کے موضوع پر خطبات کا شروع ہوا.پھر اس کے بعد اسی ترتیب سے تقبل الی اللہ کی باری آئی اور تبتل الی اللہ کے موضوع پر بھی ایک سلسلہ خطبات کا جاری رہا.پھر آج سے پہلے تیسرے نمبر پر ذکر الہی میں ایک خاص رنگ ہو“ کے موضوع پر میں نے جماعت کو مخاطب کیا اور جس حد تک بن پڑا بڑی تفصیل سے اور گہرائی میں جا کر ذکر الہی کے موضوع کو جماعت پر خوب روشن کیا.آج اب آخری سلسلے کی باری آئی ہے یعنی حقوق اخوان، میں بھی خاص رنگ ہو.یعنی یہ تمام باتیں جب پوری ہو جائیں.توحید کا خالص اقرار ہی نہیں بلکہ تو حید کو اپنے رگ و پے میں سمو دیا جائے اور ہماری زندگی میں تو حید سرایت کر جائے پھر اللہ کی طرف تبتل ہو اور دنیا سے انقطاع کر کے خالصہ خدائے واحد کی طرف رجوع ہو پھر اس کے نتیجے میں ذکر الہی میں انسان بہت ترقی کرے جب یہ تینوں منازل طے کر لے تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کے حقوق ادا کر سکے.اس کے بغیر بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کا کسی انسان سے کوئی تصور نہیں باندھا جاسکتا، کوئی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی.پس اب میں حقوق اخوان سے متعلق آپ کے سامنے بعض بنیادی امور رکھتا ہوں لیکن اس سلسلے میں جو ذہنی ترتیب میں نے دی ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو آپس میں ایک دوسرے سے محبت اختیار کرنے کی تلقین کی جائے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی یہی تعلیم ہے کہ اسلام پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے، اسلام جو حقوق مسلمانوں کے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لئے مقررفرماتا ہے ان حقوق کی ادائیگی کے بغیر بنی نوع انسان کی بھلائی کا دعویٰ کرنا بالکل بے سود اور بے معنی ہوگا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو رحمتہ للعالمین تھے جہاں تمام بنی نوع انسان کے لئے اور تمام جہانوں کے لئے مبنی بر رحمت تعلیم دی اسی طرح آپ نے بلکہ اس سے پہلے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی طرف متوجہ فرمایا اور دراصل اس طرح امت مسلمہ کو تمام بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کے لئے تیار کرنا مقصود تھا.پس اس سنت کے مطابق میں نے پہلے ایسی احادیث چنی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے اقتباسات چنے ہیں جن میں جماعت کو آپس کے تعلقات سے متعلق نصیحتیں ہیں اور ان کو بتایا گیا ہے کہ کون کون سے امور ہیں جن کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں ، کون کون سے تعلقات کے

Page 262

خطبات طاہر جلد 13 256 خطبہ جمعہ فرمود و 8 را پریل 1994ء مقاصد ہیں جنہیں وہ حرز جان بنائے رکھیں یعنی اپنی جان کی طرح اپنے سینے سے لگائے رکھیں.یہ مقصد اگر جماعت کے اندر حاصل ہو جائے تو پھر تمام بنی نوع انسان کو جماعت کا فیض خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بلا تمیز مذہب و ملت، قوم اور رنگ و نسل عام طور پر پہنچے گا اور اس ذریعے سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اعلیٰ مقاصد یعنی تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.عمومی تعلقات اور باہمی معاملات میں اخلاق سے متعلق جیسی پیاری تعلیم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے غلاموں کو عطا فرمائی ہے آپ تمام بنی نوع انسان کے مذاہب پر نظر ڈال کر دیکھ لیں،اول سے آخر تک نظر دوڑائیں، آپ کو حقیقت میں ایسی پیاری تعلیم اتنے حسین انداز میں کوئی اور نبی دیتا ہوا دکھائی نہیں دے گا.حالانکہ یہ امر واقعہ ہے کہ ہر نبی نے ویسی ہی تعلیم دی، اس سے ملتی جلتی تعلیم دی اور سب کے مقاصد بنیادی طور پر ایک تھے مگر جیسا کہ آپ اس تعلیم کو خو د حضرت محمد مصطفیٰ کے الفاظ میں سنیں گے، آپ کا دل گواہی دے گا کہ سب تعلیم دینے والوں میں سب سے آگے حضرت محمد مصطفی ﷺے ہیں.آپ کا انداز بیان بہت ہی دلنشین ہے، آپ کی بات تقومی کی گہرائی سے اٹھتی ہے اور گہرا دل پر اثر کر جاتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صل اللہ نے فرمایا اور یہ ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ فرماتے تھے مومن دوسرے مومن کے لئے مضبوط عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ رے کو تقویت دیتا ہے اور مستحکم بناتا ہے.آپ نے اس مفہوم کو واضح کرنے کے لئے اپنی انگلیوں کی کنگھی بنائی اور اس طرح اس عمارت کی گرفت کے مضبوط ہونے کی طرف اشارہ فرمایا.(یوں کنگھی بنائی اور مضبوط ہاتھوں سے یوں تھام کر بتایا کہ مومن اس طرح ایک دوسرے میں پیوستہ ہوتے ہیں اور اس طرح ان کے اندر باہمی طاقت پیدا ہوتی ہے ).پس تمام کامیابیوں کی جڑ یہ اتحاد ہے جس کی طرف حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ نے زبان سے بھی نصیحت فرمائی اور ہاتھ کے اشارے سے بھی مضمون کو خوب کھول دیا.( بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر :459) ہر وہ مومن جو ایک دوسرے سے تعلقات میں ایسی مضبوطی رکھتا ہے جیسے ایک ہی انسان کے دو ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں وہ حضرت محمد مصطفی ایت اللہ کے مقاصد کی پیروی کرنے والا ہے.جو ایسی طرز اختیار کرتا ہے کہ انگلیاں باہم پیوست ہونے کی بجائے ایک دوسرے کو

Page 263

خطبات طاہر جلد 13 257 خطبہ جمعہ فرمود و 8 را پریل 1994ء کاٹنے لگیں اور ایک دوسرے کے مخالف ہو جائیں اس کا حقیقت میں محمد مصطفی ﷺ سے تعلق کا ٹا جاتا ہے.پس ہر وہ حرکت جو جماعت کی اجتماعیت کو طاقت بخشے، اجتماعیت کو مضبوط تر کرے، وہی حرکت ہے جو سنت نبوی کے تابع ہے.ہر وہ حرکت خواہ وہ قول ہو یا فعل ہو اس مضمون کے مخالف ہو، وہ محمد مصطفیٰ کی سنت کے مخالف بات ہے.پس اب سے اس بات کو سننے کے بعد اپنی زبانوں پر بھی نگاہ رکھیں، اپنے اعمال اور افعال پر بھی نگاہ رکھیں، اپنے تعلقات کو اس حدیث کے تابع کر دیں تا کہ جماعت احمد یہ متحد ہو کر پھر تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ یعنی محمد مصطفی کے ہاتھ پر اکٹھا کرنے کی سعی کر سکے.ایک اور حدیث مسلم کتاب البر سے لی گئی ہے یہ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے میں ، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے سے مہربانی سے پیش آنے میں ایک جسم کی سی ہے.جس کا ایک حصہ اگر بیمار ہو تو اس کی وجہ سے سارا جسم بیقراری اور بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے.(مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر : 4685).بہت ہی پیاری مثال ہے اور ایک ایسی مثال ہے، جسے ہر انسان اپنی ذات کے حوالے سے بہترین رنگ میں سمجھ سکتا ہے.ایک انسان کے پاؤں کی انگلی کے کنارے پر بھی درد ہو، ناخن کا آخری حصہ بھی بے چین ہو، تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے.بعض دفعہ ایسے مریض میں نے دیکھے ہیں، جن کے پاؤں کی انگلی کے ایک کونے میں کوئی گہرا زخم ہے، وہاں ٹمیں اٹھتی ہے، بعض دفعہ بغیر زخم کے بھی ٹیس اٹھتی ہے اور ساری رات وہ سو نہیں سکتے.وہ بے قرار ہو کر آتے ہیں کہ اس بیماری نے ہمیں مصیبت میں ڈال رکھا ہے حالانکہ وہ پاؤں کی انگلی کا ایک کنارہ ہے اور اگر ایسا ناسور ہو جائے کہ اسے کاٹ پھینکنا پڑے تو ساری روح بے چین ہو جاتی ہے اور انسان ہزار کوشش کرتا ہے، لاکھ جتن کرتا ہے کہ کسی طرح کوئی ایسا حکیم، کوئی ایسا ڈاکٹر ، کوئی ایسا قابل طبیب میسر آ جائے جو ہماری انگلی کو کاٹنے سے بچالے.پس یہ وہ کیفیات ہیں جو ہر انسان جانتا ہے، روز مرہ کے تجربے میں داخل ہے اور اس سے اچھی مثال مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی کی دی جاہی نہیں سکتی اس سے اچھی مثال کسی انسان کے تصور میں آ ہی نہیں سکتی.زیادہ سے زیادہ لوگ مثالیں دیتے ہیں بچوں کے پیار کی یا دوسرے محبت کے رشتوں کی.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی مناسب حال مثال

Page 264

خطبات طاہر جلد 13 258 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994 ء مسلمانوں کی اجتماعی شکل کے اوپر چسپاں ہونے والی نہیں دی جاسکتی.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمد یہ عالمگیر پر ایک احسان ہے اور اس احسان میں وہ تمام دنیا کی دوسری جماعتوں سے ممتاز ہے اور وہ لوگ جو فراست رکھتے ہیں ان کے لئے حق کی پہچان کے لئے ایک بڑی دلیل ہے کہ اگر پاکستان میں کسی ایک جگہ بھی کسی احمدی پر ظلم ہوتا ہے تو تمام دنیا کی جماعتوں میں بے چینی پھیل جاتی ہے.افریقہ کی ایسی دور دراز جماعتیں جہاں جدید ذرائع کی سہولتیں بھی نہیں پہنچیں نہ سڑکیں ہیں، نہ تار ہے، نہ ٹیلیفون ہے، نہ دیگر آرام ہیں.جنگل کی بے آرامی میں وہ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں مگر جب ان کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ہمارے بھائیوں میں سے کسی پر کسی ملک میں کہیں ظلم ہوا ہے تو شدید بے چین ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی طرف سے مجھے خط آنے لگتے ہیں، مجھ سے ہمدردیاں کرتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں.کہتے ہیں اللہ کرے کہ جلد جماعت کے ان مظلوموں کی تکلیف دور ہو.جب کسی تکلیف کے دور ہونے کی خبر ملتی ہے تو بجلی کی لہروں کی طرح خوشیوں کی ایک برقی روسی دوڑ جاتی ہے اور ہر طرف سے ایک مسرت کا احساس ہونے کی اطلاعیں بھی ملنے لگتی ہیں.چنانچہ ہمارے اسیرانِ راہِ مولا جب آزاد ہوئے ہیں تو میں نے تو شروع میں اشارہ ہی ٹیلی ویژن پر اس کا اعلان کیا تھا مگر جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے فر است عطا فرمائی ہے وہ خاص انداز کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہی خوشخبری ہوگی کہ جماعت احمدیہ کے پرانے اسیر آزاد ہوئے.اس کا دکھ ان کو زیادہ تھا اور یہ ان کا دریافت کر لینا اس پہلی بات پر بھی روشنی ڈال رہا ہے کہ ان کو گہری محبت تھی ، گہرا تعلق تھا، اس غم میں مبتلا رہتے تھے.جب دیکھا کہ میں نے کہا کہ ایک بہت بڑی خوشخبری میں جماعت کو دینے والا ہوں تو انہوں نے یقین کر لیا کہ یہ وہی خوشخبری ہوگی اور پھر اس پر ایسی مسرت کا اظہار کیا.لیا ہے کہ اپنے قریبیوں، عزیزوں، رشتے داروں کی بعض خوشیوں پر بھی اس طرح عالمگیر مسرت کا اظہار نہیں ہوا، نہ ہو سکتا ہے بلکہ چھوٹے گاؤں میں بھی خوشیاں جب پہنچتی ہیں تو اس قدر مسرت نہیں ہوتی.بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم نے تو عیدیں منائی ہیں آپ تو کہتے تھے کہ عید کے بعد ایک عید بعد میں آئے گی دو مہینے دس دن کے بعد.ہم نے تو یہ عید دیکھ لی اور عید پر عید یہ ہر روز عید بن چکی ہے.ایسا نشہ ہے اس خوشی کا کہ بچے بڑے سب اس میں مگن ہیں.ایک مستی کا عالم طاری ہے.پس یہ ثبوت ہے کہ آج حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سچی غلام آپ کی طرف منسوب ہونے کا حق رکھنے

Page 265

خطبات طاہر جلد 13 259 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء والی جماعت اگر ہے تو وہ عالمگیر جماعت احمدیہ ہے کیونکہ یہ نشانی جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے غلاموں کی اور سچے مومنوں کی بیان فرمائی ہے یہ آج جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کی کسی اور جماعت پر اس طرح چسپاں نہیں ہوتی.بوسنیا کے مظلوموں کا جیسا غم جماعت احمدیہ نے کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اندرونی تربیت اس پختگی کو پہنچ چکی ہے کہ جماعت کے دائرے سے چھلک کر عام مسلمانان عالم کی ہمدردی میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہی وہ رخ ہے جس کی طرف جماعت کو میں بہت کوشش کے ساتھ دن بدن آگے بڑھا رہا ہوں تا کہ یہ چار مقاصد جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، یہ پورے ہوں تو ہم اس بات کے لئے پوری طرح مستعد اور تیار ہو جائیں گے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا فیض آج ہمارے ہاتھوں تمام دنیا میں بانٹا جائے اور تمام دنیا کو ہم ایک امت واحدہ میں تبدیل کر دیں، اور یہ ضروری تھا کہ ہم پہلے خود ایک ہو جاتے اور مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ آثار ظاہر ہو چکے ہیں کہ ہم ایک امت واحدہ بن چکے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ وہ گہری ہمدردی رکھتے ہیں صلى الله جس کا ذکر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا.ایک اور حدیث ہے جو بخاری کتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم سے لی گئی ہے.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے.یعنی اس کی مدد کے لئے ہمیشہ تیاررہتا ہے.جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے.جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے.جو شخص کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پر وہ پوشی فرمائے گا.( بخاری کتاب المظالم حدیث نمبر : 2262) یہ حدیث ترتیب میں پہلی حدیث کے بعد ہی آنی چاہئے تھی اور اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے.وہ شخص جو خود تکلیف میں مبتلا ہو وہ چین پاہی نہیں سکتا جب تک اس تکلیف کو دور نہ کرے اور کوئی شخص اپنے وجود کے کسی حصے پر خود ظلم نہیں کر سکتا.اس کے لئے بہت مشکل ہے کہ بعض دفعہ ضرورت کے وقت بھی اپنے جسم کو تکلیف پہنچائے.اگر کانٹا نکالنا ہو اور اس کے لئے سوئی چھوٹی پڑے تو آپ

Page 266

خطبات طاہر جلد 13 260 خطبه جمعه فرموده 8 را پریل 1994ء الله اندازہ لگا سکتے ہیں اور اکثر ہم میں سے جانتے ہیں کہ انسان کتنی کتنی احتیاطوں سے اس سوئی کی نوک کو زخم کے منہ میں داخل کرتا ہے تا کہ کانٹا اس کی نوک پر آ جائے اور بغیر تکلیف کے وہ باہر نکل آئے اور ذراسی بے احتیاطی ہو تو انسان تڑپ اٹھتا ہے.پس مومن کو جب یہ ذاتی تجربہ حاصل ہو گیا اور تمام مسلمانوں کی جماعت کی مثال ایک مومن کی ذات سے دے دی گئی تو اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے مومن پر انسان ظلم کا تصور بھی نہیں کر سکتا.جیسے اپنے بدن کو انسان تکلیف نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اپنے بھائی کو اگر وہ تکلیف پہنچائے تو وہ سچا مومن نہیں ہوسکتا.وہ اس مثال کی حدوں سے باہر جا پڑے گا جو مثال حضرت محمد مصطفی علیہ نے مومنوں کی جماعت یعنی اپنے بچے حقیقی غلاموں کی صلى جماعت کے متعلق دی ہے.پس یاد رکھیں اول تو یہ توقع ہے، یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو آپ سے توقع ہے کہ آپ اپنے کسی بھائی کو کسی نوع کا دکھ نہیں پہنچا ئیں گے.” پہنچا ئیں گے“ کی نصیحت میں ایک اور بات ہے ، آپ کو یہ توقع ہے کہ پہنچا سکتے نہیں ہیں کیونکہ اس معاملے میں آپ بے اختیار ہیں.ہر بھائی آپ کے بدن کا جزو بن چکا ہے جو تکلیف آپ اس کو پہنچائیں گے وہ آپ کو محسوس ہوگی اور جو تکلیف مجبوراً پہنچانی پڑے وہ ضرور محسوس ہوتی ہے.مثلا بعض دفعہ انگلی کاٹنی پڑتی ہے اور میں ذاتی تجربے سے اس بات کا گواہ ہوں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا یہ قول سو فیصد بعینہ سچا ہے کیونکہ بعض دفعہ جب ایسی کارروائی کرنی پڑے کہ ایک شخص کو اس کے مسلسل ظلم کی وجہ سے جماعت سے کاٹ کر الگ پھینکنا پڑے تو اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے جیسے اپنے بدن کے کسی عضو کو کاٹ کر باہر پھینکنا پڑے.پس یہ وہ مثال ہے جو آپ کے اوپر کامل طور پر صادق آنی چاہئے اور پہلی توقع یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی پر ظلم کر ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ تو آپ کا جزو بدن بن چکا ہے.دوسری یہ کہ اگر وہ تکلیف میں مبتلا ہو تو اس سے بے نیاز ہو کر آرام نہیں کر سکتے.جہاں جو تکلیف آپ کے سامنے آئے اور دور کرنے کے لحاظ سے آپ کی حد میں ہو، آپ کی پہنچ میں ہو، آپ ضرور کوشش کریں اور اس پہلو سے بھی میں بہت مطمئن ہوں.اگر چہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جماعت میں جو ظلم کرتے ہیں اور دوسروں کے حق بھی چھینتے ہیں، اگر چہ ایسے لوگ بھی ہیں جو تکلیف دور کرنے کی بجائے تکلیف پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ان کے شر سے جماعت محفوظ نہیں رہتی مگر ایسے لوگ وہ ہیں جن کو رفتہ رفتہ تقدیر الہی نتھار کر ایک طرف کرتی چلی جارہی ہے اور رفتہ رفتہ وہ ننگے ہو کر جب سامنے آتے ہیں تو وہ آپریشن کرنا پڑتا ہے جس کا میں نے

Page 267

خطبات طاہر جلد 13 261 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء ذکر کیا ہے.مگر اس اپریشن کی دو قسمیں ہیں یہ میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دوں.ایک قسم یہ ہے کہ اپنا جزو بدن کا ٹا جارہا ہے، ایک قسم یہ ہے کہ غیر آپ کے بدن میں داخل ہے اور اس حد تک غیر اور تکلیف دہ ہے کہ آپ اسے نکال باہر پھینکنے میں راحت محسوس کرتے ہیں، دکھ محسوس نہیں کرتے.پس دو قسم کے لوگ ہیں جن کو بالاخر جماعت سے باہر نکالنا پڑتا ہے.ایک وہ جو شریر ہیں جو صلى الله فسا در کھتے ہیں اور فساد کرتے ہیں وہ لوگ جن کا حقیقت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی جماعت یعنی جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں رہتا بلکہ وہ بیرونی شریر ہیں جو جماعت میں گھس کر فتنہ پردازیوں سے کام لیتے ہیں اور محض ایک لبادہ اوڑھ رکھا ہے.ایسے لوگوں کو نکالنے کا دکھ نہیں ہوتا بلکہ جماعت جس کو وہ تکلیف پہنچا رہے ہوتے ہیں ان کی راحت کے خیال سے دل کو راحت پہنچتی ہے اس لئے فرضی طور پر ایک بات اس رنگ میں نہیں کہنی چاہئے کہ گویا بہت اچھی بات کہی جا رہی ہے خواہ حقیقت سے اس کا تعلق نہ ہو.پس میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ بات کرتے وقت احتیاط کی جائے کہ حقیقت کے دائرے سے وہ بات باہر نہ نکلے.پس ہر آپریشن کا دکھ نہیں پہنچتا.بعض جراحی کے عمل ایسے ہیں جن سے حقیقۂ راحت محسوس ہوتی ہے اور اس راحت کو محسوس کرنے میں مجھے کبھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ فتنہ پرداز اس جرم کی حد کو پہنچ چکا ہے کہ جس کے بعد یہ ہمارا جزو بدن نہیں رہا بلکہ غیر ہے جو اندر داخل ہو کر ان کو جو جزو بدن ہیں تکلیف پہنچا رہا ہے.پس جب ایک شیشے کا ٹکڑا پاؤں میں سے کھینچ کر باہر نکالا جائے، جبکہ ایک کانٹا نکالا جائے ، جب کوئی دبی ، چھپی ہوئی گولی اندر سے نکال کر باہر کی جائے تو کبھی تکلیف نہیں پہنچتی.یہ جھوٹ ہو گا اگر آپ یہ کہیں کہ ہمارے بدن سے ایک چیز نکلی اور ہمیں بڑا دکھ پہنچا.راحت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس سارے ماؤف حصے کو چین آجاتا ہے جہاں اس بیرونی چیز نے ایک مصیبت پا کر رکھی تھی.دکھ ان کا ہوتا ہے جو بعض دفعہ غلطیوں کا شکار ہو جاتے ہیں.بنیادی طور پر وہ جماعت احمدیہ کا ہی جزو ر ہتے ہیں.جماعت سے نکالنا ان کو بے قرار کر دیتا ہے، ان کی زندگیاں ان پر اجیرن ہو جاتی ہیں وہ جزو بدن ہی ہیں.لیکن بعض مجبور یوں کے پیش نظر بعض ایسی غلطیوں کے پیش نظر جن کو نظام جماعت نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوتا ہے، انہیں جب نکالنا پڑتا ہے یا انہیں جب سزا دینی پڑتی ہے تو حقیقہ ایسی ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے جیسے اپنے کسی بدن کے حصے کو انسان سزا دینے پر مجبور ہو جائے.

Page 268

خطبات طاہر جلد 13 262 خطبہ جمعہ فرمود و 8 را پریل 1994ء پھر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا.تکلیف دور کرنا ایک الگ بات ہے.بے یار و مددگار نہ چھوڑنا ایک اور بات ہے.یعنی کئی لوگ آپ کو اپنی سوسائٹی میں ایسے دکھائی دیں گے جن کے پاس کوئی کام نہیں ہے، جو کئی قسم کی روز مرہ کی زندگی کی بقا کی جدوجہد میں تکلیفیں اٹھارہے ہیں اور بظاہر وہ آپ سے الگ ہیں.لیکن اگر ساری جماعت کو ان کی تکلیف کا احساس نہ ہو اور اپنے بے یارو مددگار بھائیوں کی مدد کے لئے ذہن بے چین نہ ہو اور بے قرار نہ ہو تو پھر اس حدیث کا پورا اطلاق ان پر نہیں ہوگا.مسلمانوں کا حصہ تو ہیں کیونکہ وہ دکھ نہیں پہنچاتے اور واضح کھل کھلا دکھا اگرکسی کو پہنچ جائے تو مد بھی کرتے ہیں،ایکسیڈنٹ ہو جائے یا اور بیماری کی تکلیف ہو تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ دور کی جائے لیکن میں اس سے اگلے مقام کی بات کر رہا ہوں جس کی طرف حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا کوئی ناصر، کوئی معین، کوئی مددگار نہیں ہے.وہ اکیلے اپنی زندگی کی جدوجہد میں مخالف طاقتوں سے لڑرہے ہیں اور مدد چاہتے ہیں.مگر ہوسکتا ہے ان کی غیرت کا تقاضا ہو وہ آپ کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں.تلاش کریں ایسے لوگوں کو، نظر رکھیں ان پر اور جو خدا تعالیٰ نے آپ کو صلاحتیں بخشی ہیں، ان صلاحیتوں سے ان کو بھی حصہ دیں.اگر ایک شخص ہے جو تجارت کرنا نہیں جانتا اور آپ میں سے ایسا ہے جو تجارت کے فن سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالا مال کیا گیا ہے ، خوب اچھی طرح اسے تجارت کے داؤ پیچ آتے ہیں اور وہ اللہ کے فضل سے ان سے بہترین استفادہ کر رہا ہے تو اس کا اس حدیث کی رو سے یہ فرض ہوگا کہ وہ نظر دوڑائے ، ایسے لوگ جو ان باتوں سے نا آشنا ہیں اور ضرورت مند ہیں ، نہ ان کو نوکریاں مل رہی ہیں ، نہ کوئی اور کام میسر ہیں، ان کو اپنے ساتھ لگائیں، پیار کے ساتھ رفتہ رفتہ ان کو سنبھالیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کریں.یہ جو نصیحت ہے اس ضمن میں ایک احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ آپ کو جس راہ پر چلایا جائے اس کے گڑھوں سے بھی واقف کیا جائے.اس راہ پر چلتے ہوئے جو چور اُچکے ان راہوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں ان سے بھی واقفیت کرائی جائے ورنہ آپ آنکھیں بند کر کے یہ قدم اٹھا ئیں تو نقصان کا بھی خطرہ ہے.بعض لوگ اپنی بعض بد عادتوں کی وجہ سے اس حالت کو پہنچتے ہیں کہ ان کی مدد کرنا بھی نقصان کا سودا ہے اور ان کو اگر آپ اپنی تجارت میں شامل کریں گے تو ہر گز بعید

Page 269

خطبات طاہر جلد 13 263 خطبہ جمعہ فرمود و 8 را پریل 1994ء نہیں کہ آپ کو شدید نقصان پہنچادیں.بعض لوگوں کو آرام سے زندگی بسر کرنے کی عادت ہو چکی ہوتی ہے.قرض لے کر وہ بے تکلفی سے کھاتے ہیں اور ان کو احساس نہیں ہوتا کہ جس بھائی سے قرض لیا ہے اس کی بھی ضرورتیں ہیں.بعض تو بے حد مجبور ہیں، معمولی ضرورت کا قرض لیتے ہیں اور بے اختیار ہیں کہ واپس نہیں کر سکتے.ایسے بھائیوں کا فرض ہے جنہوں نے ان کو قرض دیا ہو کہ حتی المقدور ان سے نرمی کریں اور کوشش کریں کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر ان کے بوجھ اتارسکیں، ان کے قرض اتار سکیں.لیکن اگر نہیں، تو معاف کرنے کا بھی سوچیں.لیکن یہ اور طبقہ ہے.ایک ایسا طبقہ ہے جس کا ہاتھ قرض میں کھلا ہوتا ہے اس کی روز مرہ کی زندگی کی ضرورت جس قناعت کے طریق سے پوری ہو سکتی ہے وہ نہیں پورا کرتے.وہ ایسا کھلا ہاتھ رکھتے ہیں جس کا خدا تعالیٰ نے ان کو حق نہیں دیا ہوا.ان کی معاشی حالت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ہاتھ روک کر جنگی ترشی کے ساتھ گزارہ کریں، اپنے بچوں کا خیال رکھیں ، اپنے مستقبل بنانے کی کوشش کریں.اس کی بجائے وہ کھلے ہاتھ خرچ کر کے یوں لگتا ہے جیسے بہت امیر کبیر لوگ ہیں ایسے لوگ تجارت کے لائق نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کی جب تک اصلاح نہ کی جائے اس وقت تک اگر ان کو تجارتوں میں آپ شامل کریں گے تو یہ آپ کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور اپنے آپ کو بھی مزید نقصان پہنچائیں گے اس لئے جو کھلے دل کے تاجر ہیں ان کو یہ احتیاط لازم ہے کہ اگر کسی بھائی کی مددکریں تو اس کی اخلاقی قدروں پر نظر ڈالیں.اس کی صلاحیتوں پر نظر ڈالیں اور اس ضمن میں قرآن کریم کا ایک راہنما اصول ہمارے سامنے رہنا چاہئے.قرآن کریم نے جہاں یتامی کی خبر گیری کی تعلیم دی ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ایسے بتائی ہوں جن کا مال بحیثیت قوم کے تمہارے سپرد ہو یعنی ان کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں، وہ چھوٹی عمر کے ہیں اور ان کے اموال ہیں جو قوم کے قبضے میں ہیں یعنی قوم کی طرف سے جو بھی نگران مقرر کئے گئے ہیں ان کے قبضے میں ہیں فرمایا وہ مال ان کو اس وقت تک نہیں لوٹا نا جب تک ان میں رشد کے آثار نہ دیکھو، جب تک انہیں یہ سلیقہ نہ آجائے کہ خود اپنے مال کی کیسے حفاظت کی جاتی ہے.بہت ہی عظیم الشان گہرا اقتصادی بقا کا اصول ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.مراد یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ مال ان کا ہے وہ کہہ سکتے ہیں تم کون ہوتے ہو ہمارے مال پر تسلط سے ہمیں روکنے والے.فرمایا کہ تم ان کو کہہ سکتے ہو کہ ہم تو کچھ نہیں لیکن ہمارا خدا تمہیں اس تصرف سے اس لئے روکتا ہے کہ تم اس بات کے اہل

Page 270

خطبات طاہر جلد 13 264 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء نہیں ہو.اس لئے قوم کو یہ حق دے دیا ہے کہ اپنے بے وقوفوں کے مال پر ، ان کے اپنے مال پر بھی ان کو تصرف نہ کرنے دو جب تک رشد کے یعنی عقل اور فہم کے آثاران میں نہ دیکھو.جب تک تربیت کر کے ان کو اس لائق نہ بنا دو کہ وہ خود اپنے مال کی حفاظت کر سکیں.پس اگر وہاں یہ اصول ہے تو جہاں آپ اپنا مال دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں، خواہ وہ نیک نیتی سے رکھتے ہوں، وہاں یہ احتیاطیں بدرجہ اولی لازم ہیں اگر ان احتیاطوں میں آپ نے پورے انہماک سے کام نہ لیا تو ایسے لوگ پھر نقصان بھی پہنچا دیں گے اور پھر اکثر ایسے لوگ ناشکرے بھی رہتے ہیں.آپ ان کی مدد کریں گے، آپ ان کے سپر د کام کریں گے، کچھ پیسے کھا جائیں گے، کچھ تجارت کے مال کا نقصان پہنچا جائیں گے اور بعد میں باتیں بنائیں گے کہ ہمارا اس نے کھالیا ہے.ہم نے اس کی خاطر اتنی محنت کی ، ہم نے اس کے لئے ایسے ایسے ٹھیکے حاصل کئے اور آخر پر نتیجہ نکلایہ کہ ہمیں دھکے دے کر باہر نکال دیا.عمر بھر کی بدنامی آپ کے ساتھ لگی رہے گی.یہ تو درست ہے کہ اگر خدا کی خاطر آپ ایسا کریں گے، گرے پڑوں کو سہارا دینے کے لئے ایسا کریں گے تو آخرت کا اجر تو آپ کا یقینی ہے لیکن مومن کو تو فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً کی دعا کی تعلیم دی گئی ہے.یہ سکھایا گیا ہے کہ محض ایسے کام نہ کرو کہ آخرت میں جن کا اجر دیکھو، ایسے کام کرو اور ایسے نیک پھلوں کی دعائیں کرو کہ اس دنیا میں بھی تمہیں حاصل ہوں اور تمہارے لئے فائدہ مند ہوں اور آخرت میں تو بہر حال اس سے بہت زیادہ فوائد تمہارے انتظار میں تمہاری امانت رکھیں گے.وہ کام گویا آپ کے نیک اجر کے امین بن جاتے ہیں.تو ان معنوں میں میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے میں سے گرے پڑے ایسے لوگوں کی بحالی کے لئے کوشاں ہوں جو کسی بد عادت کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض ایسی مجبوریوں یا حادثات کے نتیجے میں ایک حال کو پہنچ گئے ہیں.محض کچھ کچھ پیسے دے کر ان کو زندہ رکھنا ان کی عزت نفس کے خلاف ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک آپ ان کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر لیتے وہ سوسائٹی کا ایک معزز جزو نہیں بن سکتے.آپ کے نزدیک معزز ہو بھی جائیں تو ان کا اپنا ضمیر ان کو ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا.اس لئے ان کے وقار اور ان کی عزت نفس کی حفاظت کی خاطر کوشش کریں کہ وہ کسی رنگ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں لیکن اس رنگ میں کوشش نہ کریں کہ خود تو کھڑے نہ ہو سکیں ، آپ کو بھی لے ڈو میں اور آپ کو بھی اس حال کو پہنچا دیں جس حال کو وہ بدنصیب آپ پہنچے ہوئے ہیں.پس ان تمام

Page 271

خطبات طاہر جلد 13 265 خطبه جمعه فرموده 8 راپریل 1994ء باتوں کو پیش نظر رکھ کر جس حد تک ممکن ہے حضرت اقدس حمد مصطفی ﷺ کی اس نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کریں کہ آپ اپنے بے یارو مددگار بھائی کو بے یارو مددگار نہ چھوڑ ہیں.پھر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ”جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے.اور یہ بھی ایک ایسا ارشاد ہے جو سو فیصدی قطعیت کے ساتھ تجربے میں درست دکھائی دیتا ہے.اگر کوئی شخص محض اپنی ضروریات کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے اور ہر وقت اس کے ذہن پر یہ دباؤ ہے کہ میری فلاں ضرورت پوری نہیں ہوئی، فلاں ضرورت پوری نہیں ہوئی، وہ خود بھی دعائیں کرتا ہے نیک ہونے کی وجہ سے، اور بسا اوقات مجھے بھی دعاؤں کے لئے لکھتا ہے، اور اس کی تمام شخصیت کھل کر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے کیونکہ اس کا فکر اس کا ہم وغم صرف اپنی ذات کے لئے ہے.ایک اور قسم کا احمدی بھی ہے جو اپنے لئے بھی دعا کے لئے لکھتا ہے، اپنے بعض دوسرے مجبور بھائیوں کے لئے بھی دعا کے لئے لکھتا ہے اور فکر کرتا ہے کہ اس کو یہ تکلیف ہے، اس کو یہ تکلیف ہے اس کے لئے بھی دعا کریں، اس کے لئے بھی دعا کریں.اس کی شخصیت بھی کھل کر میرے سامنے آ جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کے دائرے میں شمار ہونے کے زیادہ لائق ہے کیونکہ وہ دوسروں کی فکر میں رہتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو پھر اس فکر کو بھی بڑھا کر دین کی فکر کو اتنا اپنے اوپر غالب کر لیتے ہیں کہ بعض دفعہ ان کے خطوں میں کسی اپنی ذاتی کسی دوست کی ضرورت کا بھی کوئی ذکر نہیں ملتا.ہر وقت یہ فکر ہے کہ دین کی یہ ضرورت پوری ہو، دین کی وہ ضرورت پوری ہو ، جماعت کی تربیت میں کمزوری ہے، اللہ تعالیٰ توفیق بخشے کہ ہم اس کمزوری کو دور کر سکیں تبلیغ میں یہ کمزوری ہے اور دیگر مسائل جماعت کے یہ ہیں پس ایسے لوگوں کے خط ان مشکلات کے ذکر سے بھر پور ہوتے ہیں جو ان کی ذات سے تعلق نہیں رکھتیں.ایسے لوگ کیا گھاٹا کھانے والے ہیں؟ کیا ان کا سودا نقصان کا سودا ہے؟ جن کو اپنی ہوش نہیں باقی ہر چیز کی گویا ہوش ہے.اپنے بھائیوں کی ہے، دین کے کاموں کی ہے، دین پر پڑنے والی مصیبتوں کی ہے، گویا اپنی ذات پر، اپنے عزیزوں پر مصیبت ہی کوئی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ گھاٹا کھانے والے نہیں ہیں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی دور کرتا ہے بلکہ جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے یہاں سے بات شروع فرمائی ہے،

Page 272

خطبات طاہر جلد 13 266 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے ، جو شخص اپنے بھائی کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے اللہ تعالی اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے.تو یہ امر واقعہ ہے اور میں اپنے ذاتی وسیع تجربے سے آپ کو بتا تا ہوں یعنی جماعت احمدیہ کے ساتھ جو میر اوسیع تعلق ہے اور ساری دنیا کے جماعت کے حالات پر کسی نہ کسی رنگ میں نظر رکھتا ہوں کہ ایسے لوگ جو اپنے بھائی کی ضرورت میں مگن رہتے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہیں، جو جماعتی ضروریات کی خاطر اپنی ضروریات کو بھلا بیٹھتے ہیں اللہ تعالیٰ کبھی ان کو بھلاتا نہیں.ان کی سب ضروریات کا خود خیال رکھتا ہے اور بسا اوقات دعا کے لئے ہاتھ اٹھنے سے پہلے وہ ان کی ضروریات کو دعا سمجھ کر قبول فرمالیتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے.پس بہت ہی محفوظ زندگی ہے ایسے مومن کی جس کا نقشہ حضرت اقدس محمد مصطفی اعوں نے اس نصیحت میں کھینچا ہے اس سے بہتر اور کیا تصور ہو سکتا ہے کہ آپ خدا کے بندوں کی ضرورتوں میں مگن رہیں.آپ کی طاقت تو کم ہے آپ تو وہ سب ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے لیکن آپ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے آپ کی پشت پر وہ دنیا کا خالق و مالک کھڑا ہو جائے جس کی طاقت میں ہر چیز ہے اس سے اچھا بھی کوئی سودا ہوسکتا ہے؟ کتنا عمدہ، کیسا پیارا، کیسا نفع بخش سودا ہے کہ اپنی ادنی طاقتوں کو آپ نے خدا کے بندوں کے لئے وقف کر دیا یا خدا کی جماعت کی ضروریات کے لئے وقف کر دیا اور اس کی طاقتیں حاصل کر لیں جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے.پس بہت ہی عظیم الشان نصیحت ہے یہ.اس پر کان دھر میں اور اس سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ یہ سو فیصدی سچی بات ہے آپ کی ساری تکلیفوں کے حل ہونے کا راز اس میں پوشیدہ ہے.فرماتے ہیں جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کر دیتا ہے.جو شخص کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پردہ پوشی کرے گا.پردہ پوشی کا مضمون بھی اسی طرح بدن سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ باقی سب امور جو میں نے بیان کئے ہیں ایک بدن کی مثال سے تعلق رکھتے ہیں.ایک انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی جگہ سے وہ بے پر د ہو رہا ہے تو فورا بے اختیار اس کا ہاتھ اپنی اس قمیص کی طرف یا اس کپڑے کی طرف جائے گا جو ننگے بدن کو ڈھانپ لے اور بعض دفعہ بجلی کی سرعت سے، بغیر سوچے سمجھے، از خود ہاتھ حرکت کرتا ہے.احساس ہو سہی کہ کہیں سے میں بنگا ہورہاہوں اور اپنے جرموں پر بھی اور اپنی کمزوریوں پر بھی پردہ ڈالنے

Page 273

خطبات طاہر جلد 13 267 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء کے لئے تو انسان اتنی اتنی کوششیں کرتا ہے کہ بعض دفعہ وہ کوششیں دھوکہ دہی تک پہنچ جاتی ہیں.شرم سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنا اور ان پر پردہ ڈالنا اور بات ہے لیکن دھو کہ وہی کی خاطر ، جو نہیں ہے، وہ دکھانا وہ اور چیز ہے.تو پردہ پوشی بعض دفعہ بے احتیاطی کے ساتھ کی جائے اور انسان کا ضمیر عموما اس معاملے میں انسان کو بے احتیاطی پر مجبور کر ہی دیتا ہے، تو وہ دکھاوے پر منتج ہو جاتی ہے، وہ منافقت پر منتج ہو جاتی ہے، اتنا گہر امادہ انسان کے اندر اپنے تنگ اور عیوب کو ڈھانپنے کا فطرۃ ودیعت کیا گیا ہے.آنحضرت علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے تمہیں ایک بدن قرار دے دیا، جب تم سے مجھے یہ توقعات ہیں کہ ایک جسم کی طرح اپنے تمام بھائیوں سے سلوک کرو گے جس طرح ایک جسم کے ہر عضو سے تمہاری روح، تمہارا دماغ تمہارا شعور سلوک کرتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح اپنی پردہ پوشی کرتے ہو غیر کی بھی پردہ پوشی کرو اور پردہ پوشی کے مضمون میں اس دنیا کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قیامت کا ذکر فرمایا ہے.ضرورتیں پوری کرنے کے مضمون کا جہاں تک تعلق ہے وہاں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتیں پوری کر دے گا.پردہ پوشی کے تعلق میں اس دنیا کا ذکر ہی کوئی نہیں قیامت تک بات پہنچا دی.یہ اس بات کی گہری اور قطعی دلیل ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کے نور سے کلام کرتے تھے اور یہ حدیث یقیناً کچی حدیث ہے کیونکہ ایک عام باتیں کرنے والا انسان، عام نصیحت کرنے والا انسان از خود اس موقع پر یہی کہے گا کہ تم کسی کی پردہ پوشی کر و خدا تمہاری یہاں پردہ پوشی کرے گا.اچانک اس بات کو اٹھا کر قیامت تک پہنچا دینا اس میں ایک گہری حکمت ہے.باقی تمام ضرورتوں کا تعلق دنیا سے ہے اور قیامت کی پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کی پردہ پوشی اس میں شامل ہے لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کے عیوب اس دنیا میں ننگے نہیں ہوں گے مگر قیامت کے دن ضرور ننگے کئے جائیں گے.پس آخری پردہ پوشی وہی ہے جو قیامت کے دن ہوگی اور قیامت کے ذکر میں دنیا کی پردہ پوشی کو حضرت اکر م ﷺ نے بھلا نہیں دیا، نظرانداز نہیں فرمایا بلکہ فرمایا ہے کہ وہ دن جب کہ دنیا میں سب ڈھکے ہوئے پر دے اگر خدا چاہئے گا تو اتار دیئے جائیں گے اور ہر ڈھکے ہوئے بدن کو نگا بدن دکھایا جائے گا اس دن تمہاری بھائی کی پردہ پوشی تمہارے کام آئے گی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے عیوب کا پردہ بن کر تمہاری کمزوریوں کے سامنے آکھڑی ہوگی.اگر وہاں پردہ پوشی ہے تو اس دنیا میں لازما ہے یہ اس کے اندر شامل بات ہے کیونکہ وہ دنیا جس نے یہاں کسی کا نگ دیکھ لیا،

Page 274

خطبات طاہر جلد 13 268 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 را پریل 1994ء قیامت کے دن دوبارہ دیکھے نہ دیکھے، باخبر تو ہو گی مگر وہ پردہ پوشی اس مضمون کا انتہائی مقام ہے.تم نہ یہاں ننگے کئے جاؤ گے.نہ وہاں ننگے کئے جاؤ گے.اتنی عظیم الشان خوشخبری ہے اور سب سے زیادہ دنیا اس بات سے غافل ہے.اپنے بھائی کے عیوب کو تلاش کرنا جس کے خلاف قرآن کریم کی واضح نصیحت موجود ہے، ہدایت ہے وَلَا تَجَسَّسُوا ہرگز جس اختیار کر کے اپنے بھائیوں کی کمزوریاں نہ پکڑا کرو اس سے کلیہ غافل بلکہ آگے بڑھ کر کمزوریاں تلاش کرتے ، ان کے متعلق باتیں کرتے ، سوسائٹی میں وہ خبریں پھیلاتے اور خاص طور پر عورتوں میں یہ بیماری ہے اور مردوں میں بھی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے پردہ پوشی کے مضمون کو تو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے.جب میں نے یہ ذکر کیا کہ باقی انبیاء کی نصیحتیں دیکھ لیں اور مقابلہ کر کے دیکھیں تو بعض غیر مذاہب والے جب بات کو سنتے ہیں یا سنیں گے تو وہ سمجھتے ہوں گے کہ شاید اپنے نبی کی تعریفیں تو ہر ایک کرتا ہی ہے.مگر جب میں مضمون بیان کر رہا ہوں اس پر دیانتداری سے غور تو کر کے دیکھیں کوئی ایسی مثال تو نکال کے دکھا ئیں کہ کسی دنیا کے نمی نے پردہ پوشی کے مضمون کو اس شان سے بیان کیا ہو اور اس تفصیل صلى الله سے بیان کیا ہو اور اس گہری حکمت اور فراست سے بیان کیا ہو.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر جو تعلیم اتری ہے اس نے اس کے سارے پہلوؤں کو ڈھانپ لیا ہے.لَا تَجَسَّسُوا فرمایا کہ ذکر کرنا تو بعد کی بات ہے، نظر ہی نہ ڈالو، تلاش ہی نہ کرو.تمہارے سامنے اگر کسی کی کمزوری آجاتی ہے تو اس سے بھی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرو.بعض معاملات میں اس کی اجازت نہیں ہے اس کا ذکر بھی ضروری ہے لیکن وہ میں بعد میں کروں گا.عام طور پر جو بھائیوں کی کمزوریاں ہیں ان کے متعلق یہ تعلیم ہے اور اس ضمن میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تعلیم کو اس حد تک آگے بڑھا دیا ہے کہ وہ زمانہ جبکہ خط و کتابت کا رواج ہی نہیں تھا، شاذ کے طور پر لوگ خط لکھا کرتے تھے، اس وقت یہ تعلیم دی کہ کسی کا خط نہ پڑھو.حالانکہ یہ مضمون آج کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور آج بھی بہت بے وقوف اور متجسس لوگ ایسے ہیں جو چوری ایک دوسرے کے خط پڑھتے ، پھر ان کو احتیاط سے کھولتے اور اسی طرح بند کرتے ہیں اور بتاتے ہیں گویا ہمیں پتہ نہیں لگا اور گھر میں بہو بیٹیوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں.بعض لوگ گھر میں کسی کی بیٹی آجائے تو یہ دیکھنے کے لئے کہ اپنے ماں باپ کو کیا بھتی ہے یا اس کے ماں باپ اس کو کیا لکھتے ہیں وہ اس کے خطوں کو اس طرح خفیہ خفیہ کھولتے اور اس کے ارادوں کو

Page 275

خطبات طاہر جلد 13 269 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء معلوم کرتے ہیں حالانکہ یہ شدید گناہ ہے.ایسی بات ہے جیسے جہنم کی آگ اپنی آنکھوں کے لئے مانگی جائے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بڑی تنبیہ کے ساتھ اس بات سے منع فرمایا ہے.آج کل ایک ایسی چیز بھی ایجاد ہو چکی ہے جو اس زمانے میں نہیں تھی مگر خط کا مضمون اس پر بھی حاوی ہے اور وہ ٹیلیفون ہے.بعض لوگ بڑی عمر کو پہنچ جاتے ہیں لیکن ایسے بیوقوف اور بیمار ہوتے ہیں کہ ان کو مزہ ہی اس بات میں آتا ہے، یہی چسکا بنایا ہوا ہے زندگی کا ، کہ گھر میں بیٹھے لوگوں کے فون سن رہے ہیں اور یورپ میں تو ایسے لوگ ہیں جن کا پیشہ ہی یہ بن چکا ہے کہ بعض آلات کے ذریعہ وہ لوگوں کے ٹیلیفون سنتے ہیں.چنانچہ انگلستان میں ایک مشہور واقعہ ہوا جس کے ساتھ سارے ملک میں بڑی دیر تک شور پڑا رہا کہ ایک شہزادی کے ٹیلی فون کو ایک ظالم آدمی نے اسی طرح بعض خاص آلات کے ذریعے سننا شروع کیا ، اس کی ریکارڈنگ کی ، اس ریکارڈنگ کو اخبارات کے سامنے بیچا اور اس بے چاری کی اس طرح اس کی بدی اور فطری کمزوری کی تشہیر کی اور انہوں نے ٹیلیفون کال کی بڑی قیمت مقرر کر دی کہ یہ پیسے دو گے تو پھر تمہیں ہمارا وہ ٹیلیفون نمبر ملے گا جہاں تم کچھ دیر کے لئے وہ ریکارڈنگ سن سکو گے جو اس شہزادی نے اپنے طور پر کسی سے کی تھی اور پتالگا کہ اتنا زیادہ کا لوں کا رجحان تھا کہ وہ فون بار بار ڈراپ کر جاتا تھا اور بڑی بڑی رقمیں خرچ کر کے ، لوگ چسکے لینے کے لئے ، اس پرائیویٹ گفتگو کو سنتے تھے.تو دیکھیں حضرت محمد مصطفی حیا اللہ نے انسان کے ذاتی امور کی حرمت کو کس شان سے بیان فرمایا ہے.کیسی پاکیزہ سوسائٹی کو جنم دیا ہے جس کا تصور آج چودہ سو سال بعد بھی ، ایسے ملک میں بھی موجود نہیں جو اپنے آپ کو سویلائزیشن کے بلند ترین مقام پر بیان کرتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ ڈیموکریسی اور انسان کے ذاتی حقوق کے جیسے ہم علم بردار ہیں ایسے دنیا میں اور کوئی نہیں اور امر واقعہ بھی یہ ہے کہ دنیا کی نسبتوں سے جیسا انگلستان کو Democracy کے اوپر فخر کا حق ہے ویسا دنیا میں اور کسی قوم کو نہیں ہو سکتا.لیکن اس کے باوجود نفسی آزادی اور نفسی حق کی حفاظت کا وہ تصور وہاں نہیں ملتا جو چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور اس میں جیسا کہ میں نے خط کے تعلق سے بیان کیا ہے ٹیلیفون کال، الگ بیٹھ کر باتیں کرنا یہ ساری چیزیں شامل ہو جاتی ہیں.ہر تجسس سے آپ کو روکا گیا ہے اور ساتھ یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ اگر سن لو تو پھر اپنے تک رکھو پھر پردہ دری نہ کرنا.جہاں یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر تم پردہ پوشی کرو

Page 276

خطبات طاہر جلد 13 270 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 1994ء گے تو اللہ قیامت کے دن تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا وہاں اس میں یہ تنبیہ بھی شامل ہے کہ اگر پردہ دری کرو گے تو قیامت کے دن تمہاری پردہ پوشی کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور جس کی قیامت کے دن پردہ دری ہوگی اس کی دنیا میں بھی پردہ دری ہوتی ہے.پس اس بہت ہی پاک اور گہری نصیحت کو اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے اختیار کریں اگر آپ ان چند نصیحتوں کو اختیار کریں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور ایسی بہت سی ہیں جن کا بعد میں انشاء اللہ اس خطبات کے سلسلے میں ذکر آتا رہے گا تو آپ اپنے معاشرے کو جنت نشاں معاشرہ بنا سکتے ہیں.اپنی طبیعت کے تجسسات پر نفرت کی نگاہ ڈالیں.ان کو چھوڑ دیں، یہ کمینی لذتیں ہیں، ان سے کوئی فائدہ نہیں، ان سے گھروں کے امن اٹھ جاتے ہیں، ایک بھائی کو اپنے بھائی پر اعتماد باقی نہیں رہتا، ایک بہو کو اپنے خسر یا اپنی ساس پر اعتماد نہیں رہتا.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے میری جستجو میں ہیں، اس طرف لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح میری کوئی مخفی بات کسی کے علم میں آجائے.چنانچہ یہ ہوتا ہے اور اس حد تک ہوتا ہے کہ بعد میں جب مقدمات چلتے ہیں تو بعض دفعہ مجھے لکھا جاتا ہے کہ ہم نے خود اس بہو کا خط پکڑا ہوا ہے اس میں یہ بات لکھی ہوئی تھی اب بتائیں ہمارا رویہ درست ہے کہ نہیں.ان کو میں کہتا ہوں تمہارا رو یہ تم جو کچھ کہو ایک شیطانی رویہ تھا.تمہیں کوئی حق نہیں تھا کہ اپنی بہو کے ایسے خط کو پڑھو اور کوئی حق نہیں ہے کہ اب اسے عدالتوں میں یا میرے سامنے پیش کرو.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نصیحتوں کو غیر معمولی اہمیت دیں آپ کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی امن کی ضمانتیں دی گئی ہیں اس ضمانت کے نیچے آجائیں، اسی کا سایہ ہے جو امن بخشے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: ”جو دوست باہر سے آئے ہوئے ہیں ان کو ان کے ساتھی یہ سمجھا دیں کہ ہم نمازیں جمع کریں گے اور عصر کی نماز دو گا نہ ہوگی.جو مسافر ہیں جو آج کے اجلاس میں شرکت کے لئے دوسرے شہروں سے آئے ہیں وہ میرے ساتھ ہی دوگانہ رکعتوں کے بعد سلام پھیریں گے جو مقامی دوست ہیں وہ بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو کر اپنی روز مرہ کی عصر کی چار رکعتیں پوری کریں گے.“

Page 277

خطبات طاہر جلد 13 271 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء جماعت کی زندگی خلافت اور شوریٰ میں ہے.مجلس شوری جماعت کے باہمی تعامل کا نام ہے.( خطبه جمعه فرموده 15 را پریل 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ (الانفال: 64) فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ پھر فرمایا:.(آل عمران: 160 ) پہلی آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ الانفال کی چونسٹھویں آیت ہے جس کی گزشتہ جمعے میں بھی میں نے تلاوت کی تھی مگر مجھے بتایا گیا ہے کہ میں نے اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ کی بجائے الَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ پڑھ دیا تھا کیونکہ اسی مضمون کی انہی لفظوں میں ایک اور آیت

Page 278

خطبات طاہر جلد 13 272 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ كُنتُمْ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ تو ذهن میں وہ آیت رہی ہے اس لئے اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ کی بجائے قُلُوبِكُمُ پڑھا گیا.یہ قرآن ہی کی ایک آیت ہے مگر دوسری آیت ہے، اس میں وہ لفظ نہیں ہے.اس لئے میں نے آج دوبارہ اس کی تلاوت کی ہے تا کہ اگر کسی نے ریکارڈ کی ہو تو وہ درست تلاوت پھر ریکارڈ کر لے اور پہلی تلاوت کو حذف سمجھے یا غلط ( تلاوت کے متعلق غلط کا لفظ تو استعمال کرنے کو دل نہیں چاہتا ) مگر پہلی تلاوت کے اوپر اس صحیح تلاوت کو ریکارڈ کر لے.) دوسری آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کا تعلق شوری سے ہے اور اس مضمون سے بھی ہے یعنی تالیف قلب کے ساتھ.یہ میں نے اس لئے پڑھی ہے کہ آج مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کی مجالس شوری منعقد ہو رہی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر اجتماع بھی ہیں تو اس لئے میں نے شوریٰ کا مضمون آج کے خطبے کے لئے اختیار کیا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع گجرات کا ضلعی اجتماع کل چودہ اپریل سے شروع ہے.خدام الاحمدیہ قیادت ضلع منڈی بہاؤالدین کا پہلا ضلعی اجتماع بھی کل سے شروع ہو چکا ہے اور آج اختتام پذیر ہوگا.جماعت احمد یہ سویڈن کی مجلس شوریٰ آج پندرہ اپریل سے شروع ہو رہی ہے اور سب سے اہم جماعتہائے احمد یہ پاکستان کی مجلس مشاورت بھی آج سے شروع ہو رہی ہے اور انشاء اللہ تین دن جاری رہے گی.بعض عرب ممالک میں بھی آج خدام اور اطفال کے اجتماعات منعقد ہورہے ہیں.انڈونیشیا سے بھی اطلاع ملی ہے کہ مجلس شوری کل یعنی سولہ اپریل سے شروع ہو رہی ہے اور انشاء اللہ دو دن جاری رہے گی.جماعت احمدیہ ٹرینیڈاڈ چاند اور سورج گرہن کے نشان پر سو سال پورے ہونے پر تقریب منارہی ہے اور اس کا سارے ملک میں چرچا ہے اور وہ بھی دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تقریبات کو مفید بنائے.پس آج جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا شوری کا مضمون میرے پیش نظر ہے.وہ آیت جو شوری والی ہے وہ بھی اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہے.فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ پس یہ محض اللہ کی طرف سے رحمت ہے کہ تو ان پر مہربان ہو گیا ان کے لئے تیرا دل نرم ہو گیا.وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ اگر تو سخت دل ہوتا اور بدخلق ہوتا (نعوذ بالله من ذالك ( لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ وه تیرے ارد گرد

Page 279

خطبات طاہر جلد 13 273 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء سے تجھے چھوڑ کر بھاگ جاتے.فَاعْفُ عَنْهُمْ پر ان سے عفو کا سلوک فرما.وَاسْتَغْفِرُ لَهُمُ ان کے لئے بخشش طلب کر.وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ اور ان سے مشورہ کیا کر.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ لیکن فیصلہ تو نے کرنا ہے.ان کے مشورے کا مطلب یہ نہیں کہ جو وہ کہیں وہ تو کرتا چلا جا.فیصلہ تیرے سپرد ہے جب تو فیصلہ کرے گا تو پھر ان مشورہ دینے والوں پر تیرا تو کل نہیں، اللہ پر توکل ہوگا کیونکہ اللہ کی خاطر ، اسی کی عطا کردہ فراست سے تو ایک نتیجے تک پہنچے گا اور پھر مومنوں پر تو کل نہیں بلکہ اللہ پر توکل کرنا ہے.اس میں مجلس شوریٰ کی روح اور اس کا گہرا فلسفہ بیان فرما دیا گیا.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِينَ اور اللہ تعالیٰ تو کل کرنے والوں سے بہت محبت رکھتا ہے.اس آیت کے تمام پہلوؤں پر گفتگو تو اس وقت پیش نظر نہیں ہے کیونکہ گزشتہ رمضان میں درس کے موقع پر یہ آیت بھی زیر بحث آئی تھی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر میں نے روشنی ڈالی تھی مگر کوئی آیت بھی ایسی ہو نہیں سکتی جس کے تمام پہلو کسی کے اختیار میں ہوں کہ وہ بیان کر سکے.ہر دفعہ جب دوبارہ تلاوت ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی نیا مضمون ذہن میں آجاتا ہے، بعض دفعہ نہیں آتا کیونکہ عام تلاوت کے وقت ہر آیت پر ٹھہر ٹھہر کر غور کا موقع نہیں ملتا مگر ویسے میرا تجربہ ہے کہ جب بھی کسی آیت کو موضوع بنانا ہو تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کا کوئی نیا پہلو ذہن میں نہ آیا ہو اور یہ قرآن کریم کی ہر آیت کی ایک شان ہے کہ وہ کوثر ، جس کا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا تھا قرآن کی ہر آیت سے وہ کوثر بن جاتی ہے اور انہی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: ( در مین فارسی صفحه : 89) ایں چشمہ رواں کہ مخلق خداد ہم یک قطره ز بحر کمال محمد است ہے تو قطرہ ، وہ دریا کیسے بن گیا.یہ وہی مضمون ہے کہ ہر آیت کریمہ ایک دریا کا منبع بن جاتی ہے.اس سے ایک علم و عرفان کا دریا پھوٹ سکتا ہے.پس چونکہ یہ آیت بہت سے لطیف اور وسیع پر مشتمل ہے میں اس وقت اس حصے پر پہلے روشنی ڈالتا ہوں جس کا تعلق مومنوں کے اکٹھے اور مضامین پر ایک جان ہو جانے سے ہے.گزشتہ جمعہ میں جو آیت پڑھی تھی وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ

Page 280

خطبات طاہر جلد 13 274 خطبه جمعه فرمود : 15 اپریل 1994ء جَمِيعًا.اس پر ابھی مضمون جاری تھا کہ خطبہ ختم ہو گیا یہ انشاء اللہ آئندہ خطبے میں میں پھر دوبارہ شروع کروں گا.لیکن اس کے ایک پہلو کا شوری سے گہرا تعلق ہے کیونکہ مشورے کی ہدایت سے پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا صحابہ پر مہربان ہو جانا اور اس کے نتیجے میں حضور ا کرم کے اردگردان کا گھومتے رہنا اور قرب اختیار کرتے رہنا یہ مضمون بیان ہوا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ لوگ منتشر ہو جاتے اور اس کے معا بعد فرمایا ہے.وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ان سے عفو کر، ان کے لئے بخشش طلب کر اور ان سے مشورہ لیا کر.پس مشورہ نبوت اور مقتدیوں کے درمیان ، آنحضرت ﷺ کے متبعین کے درمیان ،ایک گہرا تعلق کا رابطہ بن جاتا ہے.دوسری جگہ قرآن کریم میں مسلمانوں کی تعریف میں بھی یہ بیان فرمایا وَاَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ کہ ان کے معاملات آپس میں مشورے سے چلتے ہیں.ان دونوں باتوں کا تالیف قلب سے، ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا ہو جانے سے، ایک دوسرے سے محبت ہو جانے سے کیا تعلق ہے؟ ایک تو بڑا بھاری، واضح کھلا کھلا تعلق یہ ہے کہ مشورے کی فضا قائم ہی وہاں ہوتی ہے جہاں بھائی چارہ ہو.اس کے سوا مشورے کی فضا قائم ہو ہی نہیں سکتی یہ انسانی فطرت کے خلاف بات ہے اور اگر بھائی چارہ نہ ہو اور مشورہ ہو تو پھر بد دیانتیاں چلتی ہیں، پھر مشورے میں دھو کے دیئے جاتے ہیں، مشوروں کے اعتبار اٹھ جاتے ہیں.پس یاد رکھو مجلس شوریٰ کی کامیابی کا راز اس بات میں ہے کہ جماعت احمد یہ بھائی بھائی بنی رہے اور بھائیوں کی طرح ایک جان ہو جائے یا ایک جان دو قالب جس طرح محاورہ مشہور ہے، خواہ قالب الگ الگ ہوں جان ایک ہی رہے.ایسی صورت میں جو مشورے ہوتے ہیں وہ بہت گہری فراست کے علاوہ تقویٰ پر مبنی ہوتے ہیں.جب ایک خاندان کے لوگ جو آپس میں پیار رکھتے ہیں، محبت کرتے ہیں، جب کسی مسئلے کے متعلق اکٹھے ہو کر ، سر جوڑ کر باتیں کرتے ہیں تو مشوروں کے دوران گہری سنجیدگی پائی جاتی ہے، ہمدردی پائی جاتی ہے اور غور و فکر کے لئے ہر انسان گہرا انہماک رکھتا ہے اور یہی وہ روح ہے جو جماعت احمدیہ کی مجالس شوری میں زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہنی چاہئے.اس کے بغیر جماعت احمدیہ کی شوری یا مجالس مشاورت اپنے مقاصد کو نہیں پاسکیں گی.بھائی چارے کی فضا اتنی ضروری ہے کہ میں نے دیکھا ہے پہلے بھی ، یعنی خلافت سے پہلے بھی جب میں بچپن سے مجالس شوری میں بیٹھا کرتا تھا ، کہ کوئی ایک شخص بھی مشورے کے دوران اگر کوئی

Page 281

خطبات طاہر جلد 13 275 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء جمع بات کہ دینا تھاتو حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ تعالی اور بعد میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اس پر شدید رد عمل دکھاتے تھے اور کہتے تھے ہر گز ایسی بات نہیں کرنی جس سے تمہارے بھائی کی دل شکنی ہوتی ہو یا تمہارے انداز میں تکبر کا عنصر شامل ہو جائے.بعض لوگ بعض دفعہ ایک شخص کا ذکر کر دیتے تھے تو مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے بھی ایک نام لے کر تبصرہ کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مجھ پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ گفتگو میں جو دلیل میں دے رہا تھا وہ نظر آ رہا تھا کہ خدا کے فضل سے غالب ہے اور اس کے بعد جس شخص کی دلیل کے جواب میں یہ دلیل تھی وہ بھی جماعت میں پرانے خادم اور ایک مرتبہ رکھتے تھے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بالکل درست میری تربیت فرمائی کہ تمہیں اس موقع پر نام نہیں لینا چاہئے تھا.دلیل کے مقابل پر دلیل سے بات رکھتے یہی کافی تھا.تو اس لئے سب سے پہلا پیغام میرا مجلس شوریٰ پاکستان کو اور دیگر مجالس شوری کو یہی ہے کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیف قلب کا اور ایک دوسرے سے اکٹھے ہو کر بھائیوں کی سی شکل اختیار کر جانے کا، مجلس شوری کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.آپس کی الفت نہ ہو تو مشورے بے معنی، بے حقیقت بلکہ بسا اوقات نقصان دہ ہو جاتے ہیں اور شوری کا اعلیٰ مقصد ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.اس لئے ہر مجلس شوریٰ میں دنیا میں کہیں بھی منعقد ہو، خواہ وہ جماعت کی عمومی مجلس شوری ہو یا ذیلی مجالس کی ہوں ، اس نصیحت کو خوب پہلے باندھ لینا چاہئے کہ شوری کے دوران بھی کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے کسی بھائی کی دل شکنی ہو اور شوری کے علاوہ بھی محبت کا ماحول قائم کرنا شوریٰ کے بابرکت ہونے کے لئے نہایت ضروری ہے.پس تالیف قلب کا جو مضمون میں اگلے جمعے سے دوبارہ شروع کروں گا اس کی اہمیت شوری کے لحاظ سے بھی بہت بڑی اہمیت ہے اور جیسا کہ میں نے بار ہا پہلے بھی ذکر کیا ہے میرے نزدیک جماعت کی زندگی دو چیزوں میں ہے ایک خلافت اور ایک شوری.یہ دو ایسی چیزیں جن کے اندر جماعت کی بقا کا راز ہے ہمیشہ ہمیش کے لئے اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، اپنے دلوں میں اس کو جاگزیں کر لیں ، اپنی فطرت ثانیہ بنالیں کہ خلافت سے وابستگی اور مجلس شوری سے اس کے تمام لوازمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے احترام اور ادب کا تعلق اور اس نظام کو تقویب دینا جماعت کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے.اب میں شوری کے متعلق چند اور باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو آپ کی مجالس

Page 282

خطبات طاہر جلد 13 276 خطبه جمعه فرمود : 15 اپریل 1994ء شوری میں عموما زیر بحث آتی رہنی چاہئیں.میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد، جب ایک جگہ مجلس شوری کا نظام جاری ہو جائے تو پھر لوگ اپنے ذہنوں پر زور دیتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں کہ کیا بات ہم لکھیں کہ ہمارا اس سال کا بھی ایجنڈا بن جائے اور وہ بنائے ہوئے ایجنڈے غیر حقیقی ہوتے ہیں اور مصنوعی ہوتے ہیں اور ان بنائے ہوئے ایجنڈوں میں بعض دفعہ نہایت لغو باتیں راہ پا جاتی ہیں.ایک آدمی کو شوق ہے کہ میں ہر سال کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں اور بسا اوقات سالہا سال کے مجالس شوری کے ایجنڈے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ بعض لوگ یا بعض جماعتوں کو مسلسل یہ شوق رہتا ہے کہ ہم ضرور اس میں حصہ لیں اور وہ کوشش کر کے بناوٹ کے ساتھ مشورے بھجوانے کی کوشش کرتے ہیں یا جماعتیں کرتی ہیں، اور ایسے مشورے غیر حقیقی اور بے معنی سے دکھائی دیتے ہیں بعض دفعہ ان کو رستے ہی میں روک لیا جاتا ہے، بعض دفعہ جب شوری تک پہنچ بھی جائیں تو عجیب سے دکھائی دیتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کسی نے کوشش سے، بناوٹ سے یہ بات پیش کی ہے.مشورہ وہی حقیقی مشورہ ہے جو از خود ضرورت کے مطابق دل سے پھوٹے.وہ ضرورتیں کون کون سی ہیں جن کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے ، جن سے آپ کو دل لگا لینا چاہئے.جن کے نتیجے میں پھر صحیح مشورے آپ کو اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائے گا وہ ضرورتیں میں چند آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.سب سے پہلی ضرورت تو تالیف قلب کی ہے.جماعت کو کس طرح آپس میں محبت سے باندھے رکھنا ہے تا کہ کہیں بھی، کسی سطح پر بھی کوئی تلخی پیدا نہ ہو.اس سلسلے میں تمام جماعتوں میں ازخود ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں.کوشش کر کے تجسس کی ضرورت نہیں بلکہ از خود سامنے آتے رہتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بعض باتیں جماعت میں ایسی راہ پاگئی ہیں جس سے آپس کی محبت کو نقصان پہنچ رہا ہے.بعض دفعہ چھوٹے حلقوں میں بعض جماعتوں میں یہ تکلیف دہ باتیں پائی جاتی ہیں.بعض دفعہ بعض جماعتوں میں بالعموم ایسی عادتیں پڑ جاتی ہیں جن سے محبت کا ماحول قائم نہیں رہتا اور اس کے نتیجے میں ہمیشہ آپس میں اختلاف رہتا ہے.چنانچہ بعض جماعتوں کا، میں نے ایک دفعہ نام بھی لیا تھا، اس پر ان کی طرف سے معذرت کے خطوط بھی آئے ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہے یا نہیں ،مگر آج میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا.بالعموم دنیا میں جہاں بھی جماعت کی ترقی رکتی دکھائی دے وہاں خدا کے فرشتوں کا تو کوئی قصور نہیں ، وہ تو ہر جماعت کے لئے ترقی کے

Page 283

خطبات طاہر جلد 13 277 خطبه جمعه فرمودہ 15 اپریل 1994ء وہ پیغام لے کے آرہے ہیں، ضرور اس جماعت میں کوئی ایسا نقص واقع ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان کی ترقی رک گئی ہے.اس لئے وہ نقص تلاش کرنا یہ بہت ہی اہم کام ہے اور اس کا جس حد تک مجلس شوریٰ سے تعلق ہے اپنی شوریٰ میں ان باتوں کو پیش کرنا چاہئے کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ باتیں پائی جاتی ہیں.لیکن اس میں ایک بہت ہی اہم احتیاط ہے جس کی طرف میں آپ کو خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جب بھی ایسے نقائص کی بحث ہو جن کا تعلق جماعت میں افتراق پیدا کرنے اور دلوں کے پھاڑنے سے ہو وہ باتیں اپنی ذات میں بہت حساس ہوتی ہیں اور اگر ذرا بھی بے وقوفی سے و بات مجلس شوریٰ میں پیش کی جائے تو اپنا مقصد حاصل کرنے کی بجائے اپنے مقصد کے بالکل برخلاف نتیجہ پیدا کرتی ہے.چنانچہ بعض مجالس شوری کی رپورٹوں سے مجھے پتا چلا کہ بعض دفعہ اس نیک نیت سے کہ ہماری جماعت میں یہ یہ باتیں ہو رہی ہیں ہمیں ان کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے ، اس نیک نیت سے یا اس نیک نیت کا عذر رکھ کر ، ایک مشورہ پیش کیا گیا اور پھر وہاں ایسی لڑائیاں آپس میں ہوئیں، ایسی ایک دوسرے کے اوپر باتیں کی گئیں جو ہرگز مجلس شوری کے شان کے مطابق ہونا تو درکنار، جماعت احمدیہ جس اعلیٰ اخلاقی معیار پر ہے اس کی کسی عام مجلس میں بھی زیب نہیں دیتیں اور جب ایسی باتیں ہوئیں اور مجھے علم ہوا تو پھر میں نے فورا اقدام کیا بعض لوگوں کو جماعت سے بھی خارج کرنا پڑا ہے، بعض لوگوں کو جماعت سے خارج تو نہیں کیا گیا مگر ان کے چندے بند کر دیئے گئے کیونکہ ان کی باتوں سے دکھائی دے رہا تھا کہ انہوں نے معاملات کو ذاتی بنالیا.پس یہ اہم بات ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے پاکستان کی جماعتوں کو بھی اور مجلس شوری مرکز یہ کو بھی اور تمام دنیا کی جماعتوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.شوری کیا ہے؟ شوری دلوں کو باندھنے کا ایک ذریعہ ہے اور شوری سے جتنا اعتماد، انتظام اور اتحاد جماعت میں پیدا ہوتا ہے بہت کم دوسرے ذرائع سے پیدا ہوتا ہے یا خلیفہ وقت کا براہ راست جماعت سے ایک تعلق ہے اور باہمی اعتماد کا ایک تعلق ہے یا پھر مجلس شوریٰ کا جماعت کے ساتھ ایک باہمی اعتماد کا تعلق ہے اور جیسا کہ میں نے قرآن کریم سے ثابت کیا ہے، مجلس شوری کے ذکر میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ نظام جاری فرمایا وہیں اس سے پہلے دلوں کے باندھے جانے ، آپس کی محبت کے ذکر اور حضرت اقدس محمد مصطفی من کے اس خلق کا ذکر فرمایا ہے کہ اگر تو ان کے لئے نرم نہ ہو جاتا تو یہ لوگ یوں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کو آپس میں اکٹھا کرنے اور جماعت کی باہمی

Page 284

خطبات طاہر جلد 13 278 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء محبت کی حفاظت کرنے کے لئے ہر دل کو محمد مصطفی محلے کے دل کی نقل کرنی ہوگی.وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْب کے ذریعے قرآن کریم یہ نہیں کہہ رہا کہ نعوذ باللہ کوئی احتمال تھا.فرماتا ہے کہ ایسا ہوا ہی نہیں، نہ ہونا تھا، کہ تو ایسا ہوتا لیکن طرز کلام یوں ہے جیسے ہم کہتے ہیں بفرض محال اگر تو ایسا ہوتا تو پھر تیری تمام تر دیگر اخلاقی خوبیوں اور تعلیمی خوبیوں کے با وجود یہ لوگ تجھے چھوڑ کے بھاگ جاتے.اب وہ جو رحمتہ للعالمین تھا، جس کو خدا تعالیٰ نے آخری اور کامل تعلیم عطا فرمائی تھی اس تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی ، جانتے ہوئے کہ یہ سچا ہے پھر بھی لوگ.ہٹ جاتے.یہ خدا کا کلام ہے جس کی انسانی فطرت پر گہری نظر ہے.پس دلوں کا ایک دوسرے کے لئے نرم رکھنا جماعت کی جمیعت کے لئے بے انتہا ضروری ہے اور وہ دل جو آپس میں بندھ جائیں، شوری ان کی شوری ہوتی ہے.مشورے وہ ہوتے ہین جوان دلوں سے اٹھتے ہیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ، پیار کا تعلق رکھتے ہیں، سچی ہمدردی میں مشورے دیتے ہیں اور یہی وہ بنیادی جماعت احمدیہ کی شوریٰ کی صفات ہیں جن کی وجہ سے ساری دنیا میں نظر دوڑا کے دیکھیں ،مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ کی کوئی مثال آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.بڑی سے بڑی مہذب قوموں میں بھی، خواه اخلاقی ضوابط کتنے ہی عمدہ اور کیسے ہی بار بار سمجھائے جاچکے ہوں لیکن ان سلجھے ہوئے ضوابط کے با وجود چونکہ دل نہیں ملے ہوتے اس لئے ان کی مجالس جو مشورے کے لئے بلائی جاتی ہیں ان میں تلخیاں ، بد دیانتیاں ایک دوسرے پر گند اچھالنا یہ تمام باتیں ضرور راہ پاتی ہیں، کوئی دنیا کا ملک اس سے مبر انہیں ہے.پس وہ چیز جس نے ہمیشہ مجلس شوری کو صالح رکھنا ہے وہ آپ کی محبت ہے.اگر ایک دوسرے سے پیار رکھیں گے، ایک دوسرے سے محبت کا سلوک کریں گے، اپنے بھائی کا دل دکھانے سے پر ہیز کریں گے، اسے گناہ کبیرہ سمجھیں گے اور اگر غلطی سے دل دکھایا گیا ہے تو معافی طلب کریں گے، تو پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اندر وہ آپس کا محبت کا رشتہ اور گہرا ہوتا چلا جائے گا کیونکہ یہ بھی ایک بنیادی انسانی فطرت کا راز ہے کہ محبت یا بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی جاتی ہے، کسی مقام پر ٹھہرا نہیں کرتی.پس وہ جماعتیں جن میں وہ بنیادی محرکات جو محبت پیدا کرتے ہیں، ان کی حفاظت کی جائے ، وہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت میں بڑھتے رہتے ہیں.جہاں وہ محرکات ختم ہو جائیں،

Page 285

خطبات طاہر جلد 13 279 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / اپریل 1994ء ان پر نظر نہ رہے یا دوسری شرکی چیزیں راہ پا جائیں، ایسے موقع پر پھر محبت کے سلسلے منقطع ہونے شروع ہو جاتے ہیں یا ان میں فاصلے بڑھتے بڑھتے آخر وہ سلسلے منقطع ہو جاتے ہیں.پس مجلس شوریٰ کی حفاظت کے لئے آپس کی محبت کی حفاظت ضروری ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ مجلس شوری کے اندر تولا زما بلا استثناء اس قدر تاکید کے ساتھ نگرانی ہونی ضروری ہے کہ ادنی سی بات بھی جو طعن و تشنیع کا رنگ رکھتی ہو اس کو نظام شوری برداشت نہ کرے اور ایسے معاملات کو مرکز کے علم میں لانا ضروری ہے.وہاں موقع پر نصیحت بھی ضروری ہے اور اگر یہ سمجھا جائے کہ بات ان کی مقامی جماعت کی طاقت سے کچھ باہر ہے تو پھر اس کو مرکز کے علم میں لانا ضروری ہے.یہ بھی ایک خلافت کا کام ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اور وہ جو ان کاموں پر مامور ہیں ہم توجہ دیتے ہیں.تمام دنیا کی مجالس شوری کو یہ ہدایت ہے کہ اپنی شوری کی رپورٹیں ہمیں بھجوایا کریں اور جہاں کسی ایک فقرے سے بھی یہ شبہ پیدا ہو کہ تفصیلی بحث کی چھان بین کی ضرورت ہے تو چونکہ یہ ہدایت ہے کہ آپ نے اس کی کارروائی ریکارڈ بھی کرنی ہے تو ایسے موقع پر پھر ان کو لکھ کر وہ ریکارڈ منگوایا جاتا ہے اور ایک موقع پر مجھے یہ ضرورت پیش آئی تو مجلس مشاورت ربوہ کا ریکارڈ بھی ، بعض کیسٹ ہدایت دے کر منگوائیں اور خود سن کر دیکھا کہ کس رنگ میں وہاں باتیں ہو رہی تھیں اور کیا اس نہایت ہی مقدس روح کی حفاظت کی جارہی تھی کہ نہیں کہ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اللہ کے خاص فضل کے ساتھ ہمیں یہ نعمت عطا ہوئی ہے، اگر ہم نے اس کی ناقدری کی تو اس کا انجام کیا ہے وہ جہنم کا کنارہ ہے جو انہی آیات میں مذکور ہے.فرماتا ہے تم جہنم کے کنارے پہ پہنچے ہوئے تھے کہ خدا نے تمہیں اس سے کھینچ کر دور کر دیا اور آپس میں ایک دوسرے سے باندھ دیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ جہنم کا کنارا اس کا برعکس مضمون ہے تو آپس میں بندھے جانا جنت کا مضمون پیش کرتا ہے.یعنی جہنم سے جنت کا سفر بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں اپنی رحمت سے اکٹھا کر دیا اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ یہ محمد مصطفی امیہ کے ذریعے ایسا کیا گیا.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا اے محمد ! تو اگر جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کچھ بھی خرچ کر دیتا تو یہ لوگ آپس میں محبت کے رشتوں میں نہ باندھے جاتے.یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کو اکٹھا کیا ہے.دوسری طرف فرماتا ہے فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ -

Page 286

خطبات طاہر جلد 13 280 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء پس یہ اللہ کی تجھ پر رحمت تھی اور غیر معمولی رحمت کہ تو ان پر نرم اور مہربان ہو گیا اور اس کے نتیجے میں وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ یہ سارا مضمون وہی ہے جو میں پہلے کچھ حصہ بیان کر چکا ہوں.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس مضمون میں اور اس پہلے مضمون میں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھا ہے تضاد کوئی نہیں ہے.اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کا نرم دل ہونا ان کو اکٹھے کرنے کا موجب بنا ہے اور اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ تو اگر سب کچھ بھی زمین میں خرچ کر دیتا تو ان کو اکٹھا نہ کر سکتا.ان دو میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ دو الگ الگ باتیں ہیں.مومنوں کے دلوں کی محبت پیسے کے نتیجے میں نہیں ہوتی اور خرچ کے نتیجے میں نہیں ہوتی اس مضمون کو چھوڑ کر ، بعض لوگ سمجھتے ہیں ، یعنی اس کو نظر انداز کر کے کہ رسول اللہ ﷺ کا تو پھر کوئی واسطہ ہی کوئی نہ ہوا.صرف اللہ نے براہ راست محبت پیدا کر دی ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وسیلے کی کیا بات ہوئی ؟ یہ محض کم نہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں محبت پیدا کی ہے اور آپ کے رحمت ہونے کی ایک یہ نشانی بھی ہے فَمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ تجھے جو ہم نے رحمۃ للعالمین بنایا ہے اس رحمت کے اندر بہت سے اخلاقی پہلو ہیں.ایک پہلو اس کا یہ ہے کہ تو ان پر مہربان ہے، نرم دل ہے اور اس کے نتیجے میں پھر وہ اکٹھے ہوئے ہیں ورنہ یہ بھاگ جاتے تو صاف پتا چل رہا ہے کہ مومنوں کی تالیف قلب میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رحمت کا ایک براہ راست گہرا تعلق ہے اور وہ رحمت جب لِنتَ لَهُمْ کے طور پر جلوہ گر ہوتی ہے، رحمت کے بہت سے پہلو ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ دل ان کی محبت میں نرم ہو جاتا ہے، ان کے لئے ہر وقت جھکا رہتا ہے تو پھر مومنوں کے لئے ایک تالیف قلب کا سامان پیدا ہوتا ہے.دوسرا مضمون جو اس میں ہے یہ ہے کہ کوئی دنیاوی ذریعہ، اگر اللہ کی رحمت تجھے عطا نہ ہوتی، اور وہ یہ رحمت تھی جس کا ذکر کیا ہے، کوئی دنیاوی ذریعہ نہ مومنوں کو اکٹھا کر سکتا تھا اور نہ کبھی قوموں میں مال و دولت کے خرچ سے محبتیں پیدا ہوئی ہیں اور یہ بھی یا درکھیں وہ لوگ جن کو لالچ ہو، جو پیسے کے

Page 287

خطبات طاہر جلد 13 281 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء نتیجے میں اکٹھے ہوتے ہوں، ان کی محبتیں، جو ظاہری نظر آنے والی محبتیں تو محبتیں کہلا ہی نہیں سکتیں، یہ تو خود غرضیاں ہوتی ہیں.پیسے کی حرص میں جو کچھ خلق انسان کے اندر موجود ہے وہ بھی کھایا جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے اور لوگ ایسے مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں جو گندگی پر بیٹھتی ہیں، جب تک گندگی کا رس چوستی ہیں بیٹھی رہتی ہیں، اس کے بعد اٹھ کے کسی اور گندگی کی تلاش میں چلی جاتی ہیں.مگر فَمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ میں جو مضمون ہے وہ تو ہمیشہ ہمیش کے لئے محمد رسول اللہ اللہ کی طرف بڑے جذبے اور پیار اور محبت اور والہیت کے ساتھ جھکے رہنے کا نام ہے.یہ ہے حقیقی تالیف قلب جو رسول اکرم ﷺ کے ذریعے ہوئی کیونکہ ایسی صفت ہے جو عارضی نہیں ہے، جو ایک مستقل صفت ہے.دل کی نرمی اور دل سے پھوٹنے والا پیار کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے کہ آج میٹھا اور کل کڑوا ہو جائے ، یہ تو ایک دائمی محمد رسول اللہ ﷺ کے خلق کا اظہار قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آپ ہیں ہی ایسے، وقتی طور پر نہیں ایسے ہوئے بلکہ ہمیشہ سے اللہ کی رحمت کے نتیجے میں بنائے ایسے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں مومنوں کا آپ کے گرد اکٹھے رہنا ایک لازمی امر ہے، یہ تبدیل نہیں ہوسکتا اور نہ ہوا.ایک لمحہ بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں نہیں آیا کہ جب مؤمن آپ کی ذات سے دور ہوئے ہوں.پس یا درکھیں کہ وہی کردار ہم نے اپنے معاشرے میں ادا کرنا ہے اور جب آپ یہ کردار ادا کر دیں تو پھر مجلس شوری کا ماحول پیدا ہوتا ہے لیکن شوریٰ میں پہلے دو اور نصیحتیں بھی ہیں جو فرمائی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھیں.فَاعْفُ عَنْهُمُ وَاسْتَغْفِرُ لَهُم ان سے عفو کا سلوک فرما، جب انسان کسی سے پیار کرتا ہے تو اس کا ایک ثبوت اس کے عفو میں ظاہر ہوتا ہے.کئی لوگ اپنے پیاروں سے پردہ پوشیاں کرتے رہتے ہیں اور جن سے پیار نہ ہو ان کے چھوٹے سے نقص کو بھی اچھال کے باہر پھینکتے ہیں.تو عفو کا محبت سے گہرا تعلق ہے اور عفو محبت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.پس جہاں اللہ تعالیٰ ہم سے عفو کا سلوک فرماتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق ہے محبت کا اظہار ہے جہاں حضرت اقدس محمد مصطفی امی کو نصیحت ہے کہ تو جب رحمت ہے ان کے لئے ، جب تو ان کے لئے نرم دل ہے تو اس کا طبعی نتیجہ دکھا، ان سے عفو کا سلوک کر.یہ مراد نہیں تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس سے پہلے عفو نہیں کرتے تھے.یہ ایک طرز کلام ہے ہمیں سمجھانے کے لئے کہ دیکھو محمد رسول اللہ کو محبت تھی ، انہوں نے عفو بھی کیا.تمہیں اگر آپس میں ایک دوسرے سے سچا پیار ہے تو تمہیں بھی عفو کا سلوک کرنا پڑے گا.عفو الله

Page 288

خطبات طاہر جلد 13 282 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء سے مراد ہے روز مرہ کی عام غلطیوں، عام کمزوریوں پر، انسان بے وجہ تلخی محسوس نہ کرے یا تلخی محسوس کرنے کا موقع بھی ہو تب بھی برداشت کر جائے اور اپنے پیارے سمجھ کر ان سے انسان نرمی کا سلوک جاری رکھے.عضو کا مطلب ایک یہ ہے کہ آپ ایک چیز دیکھ رہے ہیں پتا ہے ٹھیک نہیں ہو رہی آنکھیں اس طرف کر لیں مگر اس کی ایک حد ہوتی ہے اس کو پیش نظر رکھنا چاہئے.عفو کا مضمون جو ہے اس کا تعلق ایسی کمزوریوں سے ہے جن کا زیادہ تر اثر آپ کی ذات پر پڑتا ہے.اگر ایسی کمزوریاں ہیں جو نظام جماعت میں رخنہ ڈالنے والی ہوں تو وہاں عفو کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نظامِ جماعت میں رخنہ تو عفو کی بنیادی وجہ کے منافی ہے.عفو تو پیدا اس لئے ہوا تھا کہ آپس میں محبت ہے تو وہ لوگ جو محبتوں پر حملے کر دیتے ہیں اور محبتوں پر تبر رکھ دیتے ہیں، جو عفو کی جڑ کاٹتے ہیں، ان سے عفو کا سلوک کیسے ہو سکتا ہے، ان سے عفو کی تعلیم کیسے دی جاسکتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی میں ﷺ کی زندگی میں کہیں بے انتہا عفو دکھائی دیتا ہے، کہیں بڑی سخت پکڑ دکھائی دیتی ہے اور وہ لوگ جو ان باتوں کا فرق نہیں سمجھتے وہ پھر بعض دفعہ، جب میں بھی سنت محمد مصطفی ملے پر عمل کرتا ہوں تو ، مجھ پر اعتراض کرتے ہیں، مجھے لکھتے ہیں ، یعنی اعتراض ان معنوں میں نہیں جس طرح ایک بیہودہ باتیں کرنے والا اعتراض کرتا ہے بلکہ اپنی نانہی کی وجہ سے ان سے کوئی قصور ہوا ہوتا صلى الله ہے، کہتے ہیں آپ تو عفو کی تعلیم دیتے تھے ، آپ تو کہتے تھے رسول اللہ بے حد عفو کر نے والے ہیں تو ہمارے معاملے میں کیا بات ہے، ہم سے کیوں نہیں عفو کا سلوک ہورہا، تو وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ عفو کے بھی مواقع ہیں اور پکڑ کے بھی مواقع ہیں.بعض دفعہ اللہ تعالٰی سَرِيعُ الْعِقَابِ ہے، سَرِيعُ الْحِسَابِ ہے اور بعض دفعہ عفو، غفور ہے.تو جب تک آپ ان بنیادی صفات الہی کو جو صفات محمد مصطفیٰ بھی نہیں ان پر غور کر کے ان کی کنہ کو نہیں سمجھیں گے اپنے روز مرہ معاملات کو درست کر نہیں سکتے اور نہ نظام جماعت سے آپ کا صحیح حقیقی طور پر صالح تعلق قائم ہوسکتا ہے.پس فرمایا اگر تم ان سے محبت کرتے ہو اور کرنا چاہتے ہو تو پھر لِنتَ لَهُمْ کے بعد عفو کا سلوک ضروری ہے لیکن ان شرائط کے ساتھ جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، تفصیل سے یہاں بیان نہیں کیں مگر کئی موقعوں پر بیان بھی کی ہیں.عفو کا ایک محل ہے، موقع ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے ضرور عفو سے کام لینا چاہئے اور عفو کا بہت زیادہ تعلق انسان کی ذاتی تکلیف سے ہے.آنحضرت ﷺ نے ہر اس

Page 289

خطبات طاہر جلد 13 283 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء تکلیف پر غیر معمولی عفو کا سلوک فرمایا ہے جو آپ کی ذات کو پہنچی تھی.لیکن نظامِ جماعت پر جب ضرب پڑی ہے تو آپ نے عضو کا سلوک نہیں کیا کیونکہ وہ امانت ہے.عفو کا ایسے جرم سے تعلق ہے جو آپ کے خلاف ہو اور جس میں آپ مالک ہوں چاہیں تو یہ سلوک کریں، چاہیں تو وہ سلوک کریں.مگر جہاں آپ امین بن جاتے ہیں، امانت دار ہیں، اللہ تعالیٰ کی امانت آپ کے سپرد ہے وہاں نہ صرف یہ کہ عفو کے سلوک کی اجازت نہیں بلکہ قرآن کریم نے مومنوں کی اس تربیت کے پیش نظر ان کو متنبہ کیا ہے کہ جب خدا کے حکم کے تابع تم ایک آدمی کو سزا دے رہے ہو تو پھر یا درکھنا وہاں نرمی کرو گے تو تم گنہگار بن جاؤ گے تمہیں وہاں نرمی کا حق نہیں ہے.پس قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے، نہایت متوازن کتاب ہے، ہر تعلیم کو اس کے موقع اور محل پر بیان کرتی ہے اور موقع اور محل کی خوب نشان دہی کرتی ہے.پس اس پہلو سے میں مجالس شوری کی روح کی حفاظت کی خاطر آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ عفو کا سلوک عام کریں اور عفو زیادہ تر وہاں ہو جہاں اپنے آپ کو تکلیف پہنچی ہے اور اس تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے خدا کی خاطر صبر کریں اور اپنے بھائی سے عفو کا سلوک فرما ئیں اس سے محبت بڑھے گی لیکن مصیبت یہ ہے کہ اکثر اوقات اپنی دفعہ تو لوگ یوں بھڑک اٹھتے ہیں جیسے کسی بھڑکیلے مادے کو تیلی دکھا دی گئی ہو اور نظام جماعت کی دفعہ آنکھیں بند.منافق بیٹھے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، آپ مزے سے ان کی باتیں سنتے ہیں، یا مزے نہ بھی لیتے ہوں تو اٹھ کر آ جاتے ہیں، کوئی فکر نہیں کہ کیا ہورہا ہے.تو جہاں موقع اور حل نہ رہے وہاں بد زیبی آجاتی ہے، بدصورتی اس کا نام ہے.ہر چیز جو با موقع ہو، برمحل ہو وہ خوبصورت ہے اور جو حل سے ہٹ جائے وہ بد زیبی ہے.اب کتنا ہی خوب صورت ناک ہو کسی کا، یہاں کی بجائے ماتھے پر لگ جائے اور لوگ دور بھا گئیں گے اس سے، کوئی ایسا شخص، کوئی مرد ہے تو کوئی لڑکی سوچ بھی نہیں سکے گی کہ اس سے شادی کرے، سوچے تو ناک کٹوا کے ہی کرے گی.مگر یہ بے عمل ہونے کا نتیجہ ہے اپنی ذات میں وہ ناک خوب صورت ہے.آنکھ ایک ادھر ہو جائے اور ایک نیچے لگ جائے تو بہت بھیانک تصور پیدا ہوتا ہے حالانکہ دونوں آنکھیں اپنی ذات میں کیسی ہی خوبصورت ہوں تب بھی وہ کشش کی بجائے وہ بڑا سخت دور پھینکنے کا کردارادا کرتی ہیں، دھکا دینے کا کردار ادا کرتی ہیں.تو عفو بھی اپنے محل پر خوبصورت ہے محل سے ہٹے گا تو بد زیب ہو جائے گا.پس جماعت میں اگر مجلس شوریٰ کی روح کو زندہ رکھنا ہے تو عفو پر اس طرح عمل کریں جیسے

Page 290

خطبات طاہر جلد 13 284 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا.دین کی غیرت کی راہ میں عفو کو کبھی حائل نہیں ہونے دیا.اپنی تکلیف بہت اٹھائی، بہت دکھ اٹھائے ، مگر جہاں تک ہم نے مطالعہ کیا ہے، محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کی تکلیف کا بدلہ کسی سے نہیں لیا، اس کو عفو کہتے ہیں اور اس عفو کے نتیجے میں پھر استغفار پیدا ہونا ایک لازمی بات ہے.وجہ یہ ہے کہ جب آپ عفو کرتے ہیں تو یہ بھی تو خیال آتا ہے کہ اس شخص نے خدا کو بھی تو ناراض کر لیا ہو گا.اب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرنا دو پہلو رکھتا تھا ایک یہ پہلو کہ آپ نے اس کو برداشت کر لیا اور اس کے نتیجے میں اس کو معاف فرما دیا.ایک اور پہلو تھا کہ خدا بھی تو ناراض ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود معافی میں مستعد ہوتا ہے یعنی جلدی دکھاتا ہے اور صلى الله کہتا ہے میں بالکل کسی قسم کا بدلہ نہیں لینا چاہتا مگر اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا اور حضرت محمد رسول اللہ ہے کے تعلق میں ایسا بار ہا ہوتا تھا کیونکہ آپ آپنی ذات کا جرم معاف کرنے میں بالکل بے پرواہ ہوتے تھے مگر جس کو کسی سے پیار ہو اس کے خلاف وہ جرم برداشت نہیں کرتا.یہ ویسی ہی مثال ہے جیسے میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعہ آپ کے سامنے سنایا تھا کہ آپ کو ایک شخص گالیاں دے رہا تھا اور نہایت سخت کلامی کر رہا تھا.مہمان باہر سے آیا ہے اور آتے ہی اس نے دندناتے ہوئے مسجد میں آپ کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاموش بیٹھے سنتے رہے.ایک صحابی سے برداشت نہیں ہوا انہوں نے آگے سے کوئی سختی سے جواب دیا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روک دیا کہ ایسا نہیں کرنا.انہوں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہ آپ ہمارے امام ہیں ٹھیک ہے لیکن جب محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دی جائیں آپ برداشت نہیں کر سکتے اور ہم سے کسی طرح توقع رکھتے ہیں کہ اپنے پیر کو گالیاں دیتے ہوئے سنیں اور ہم برداشت کر لیں.تو میں یہ نہیں کہہ رہا کہ برداشت نہ کرو میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ ایک فطرتی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مجھے جتنے روزانہ گالیوں کے خط آتے ہیں اور جیسا جیسا گند بولا جاتا ہے، کہتے ہیں تم لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کیا کیا ہورہا ہے مجھے سے، لیکن میں برداشت کرتا ہوں اللہ کی خاطر اور کبھی پرواہ نہیں کی.مگر جب پادریوں نے حضرت الله محمد رسول اللہ ﷺ کے خلاف بدزبانیاں کی ہیں تو دیکھیں جوابی حملے کیسے کیسے سخت کئے ہیں تو یہی اللہ تعالیٰ کا حال ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بعض دفعہ اپنے ولی کی بے عزتی اور ولی کے ساتھ گستاخی کے

Page 291

خطبات طاہر جلد 13 285 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء وو سلوک کو بالکل برداشت نہیں کرتا اور ایسار د عمل بعض دفعہ اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے جیسے ایک ہتھنی کے بچے کو مار دیا گیا ہو تو ہتھن اس ظالم پر حملہ کرتی ہے اور اس کی لاش کو پھر مٹی میں رگید کر اس کے نشان مٹادیتی ہے روند روند کر.تو اللہ کی غیرت کا بھی ایک سوال تھا اور قرآن کریم میں وَاسْتَغْفِرُ لَهُمُ “ کا مضمون اسی لئے بیان ہوا ہے خصوصیت سے، کہ اے محمد ! تو تو معاف کرے گا، ہم جانتے ہیں، لیکن پھر ان کے لئے بخشش بھی اللہ سے مانگنا کیونکہ ہوسکتا ہے بعض گستاخیاں ہوں اللہ معاف نہ کرے، تجھے ہی بخشش بھی مانگنی ہوگی اور جب تو یہ کرتا ہے تو ایسے لوگ پھر اس بات کا حق رکھتے ہیں تو ان سے مشورے کرے کیونکہ یہ لوگ تجھ سے محبت کریں گے، تیرے عاشق ہو چکے ہوں گے پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تجھے غلط مشورے دیں.لیکن مشورہ ان سے کر فیصلہ تو نے کرنا ہے اور جب محبت کے یہ تعلق ہوں تو فیصلہ چاہے مشوروں کے خلاف ہو، کبھی اس کے نتیجے میں دوریاں پیدا نہیں ہوتیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانے میں خصوصیت سے مجھے یاد ہے، ہمیں بچپن سے ہی آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجلس شوری میں ضرور آتا ہے اور بڑے اہتمام سے ہم لوگ با قاعدہ مجلس شوریٰ میں شریک ہوتے تھے بطور زائر کے لیکن بہت سی ایسی اہم تربیت مجلس شوری میں ایسی ہو رہی ہوتی ہے جو نہ تقریروں میں نہ خطبوں میں نہ باہر کہیں ہوتی ہے وہ سارا ماحول ایک زندہ فعال حرکت رکھتا ہے جس میں جماعت ایک دوسرے کے ساتھ ایک تعامل کر رہی ہوتی ہے.ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اور اس کے نتیجے میں جو رد عمل پیدا ہورہے ہیں اس کی ایک ایسی زندہ مثال ہے جیسے دو کیمیکلز کو آپس میں ملائیں تو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس کے اندر آواز اٹھتی ہے اور کیمیکل رد عمل پیدا ہوتے ہیں اور پھر اس سے ایک نئی چیز بنتی ہے.تو مجلس شوری جماعت کے باہمی تعامل کا نام ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی تربیت ہوتی ہے، تو مجھے یاد ہے ہمیشہ مجلس شوریٰ میں ہم دیکھا کرتے تھے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یہی بعد میں سب کا رواج رہا اکثر معاملات میں مشوروں پر بہت غور کرتے ، ان کو سراہتے اور ان کی تائید میں فیصلے دیتے اور بعض دفعہ ان کے برخلاف فیصلے دیتے.بعض دفعہ تکلیف بھی محسوس کرتے اور بعضوں کو سمجھاتے کہ تم نے یہ غلط کیا ہے، یہ مشورہ دینا ہی نہیں چاہئے تھا، یہ نادانی ہے، یہ نا مجھی ہے.لیکن کبھی ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہوا کہ جس کے نتیجے میں جماعت کے دل میں کوئی منفی رد عمل پیدا ہوا ہو بلکہ وہ واقعات، وہ مواقع جن میں خلیفہ وقت

Page 292

خطبات طاہر جلد 13 286 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1994ء نے شوری کی بات نہیں مانی، اپنی تسلیم کروائی ہے، وہ ہمیشہ کے لئے خلافت کی تائید میں ایک زندہ ثبوت بن گئے کہ وقت نے ثابت کیا کہ وہی بات درست تھی اور اکثریت کے فیصلے غلط تھے.یہ ہے مجلس شوریٰ اور اس روح کو قائم رکھنے کے لئے آپس کا اعتماد ضروری ہے، یہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.اگر یہ آپس کا اعتماد نہ ہوتو یہ ہو ہی نہیں سکتا اکثریت چھوڑ کر اگر ایک آدمی زائد بھی کسی ایسی پارٹی کے ساتھ ہو جس کا فیصلہ رد ہوتا ہے، تو دیکھیں کیسی قیامت آ جاتی ہے کہ ہمارے اکتیس ممبر تھے تمہارے تمیں تھے اس لئے اکتیس کی بات مانی جائے گی تیس کی نہیں مانی جائے گی اور اگر کوئی اس کے خلاف فیصلہ دینے کی جرات کرے تو دیکھیں کیسی کیسی قیامتیں ٹوٹیں گی.مگر ایسے فیصلے بھی ہوئے ہیں آنحضرت ﷺ کے زمانے صلى الله الله میں بھی، بعد میں بھی اور ہم نے خلافت کے دور میں جو مجلس شوری دیکھی اس میں، تو بار ہا تو نہیں ،مگر کئی دفعہ ایسادیکھا ہے، کہ ساری شوری کی ایک رائے اور خلیفہ وقت کی دوسری اور وہی رائے درست نکلی.تمام صحابہ کی ایک رائے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دوسری اور وہی رائے درست نکلی.ایک وہ موقع تھا صلح حدیبیہ کا جبکہ حدیبیہ کے میدان میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا فیصلہ یہ تھا کہ چونکہ راستہ محفوظ نہیں ہے اور قرآن کی رو کے منافی ہے کہ حج غیر محفوظ رستے پر بھی کیا جائے.آپ نے فرمایا حج نہیں ہوگا، یہیں قربانیاں دو اور سارے صحابہ بلا استثناء، متفق ہی نہیں، زور دے رہے تھے، جوش دکھا رہے تھے کہ نہیں ہم نے حج ضرور کرتا ہے، آپ نے کسی کی نہیں سنی.(بخاری حدیث نمبر :4178) وہی فیصلہ صادر فرمایا اور تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے فیصلے کو حیرت انگیز برکت نصیب ہوئی ہے اور صلح حدیبیہ ہی کے موقع پر فتح مکہ کی بنیاد ڈالی گئی ہے اور اس موقع پر جو سورۃ نازل ہوئی ہے اس میں یہ خوشخبری دے دی گئی تھی کہ ایک فتح نہیں، ہم تجھے دوسری فتح کی بھی خوشخبری دے رہے ہیں، تو نے خدا کی خاطر اپنا سر جھکا دیا اور گویا کہ انسان ہر دفعہ اپنی ہی شکست تسلیم کرتا ہے.سورۃ فتح کا مضمون یہ ہے کہ تو نے خدا کی خاطر اپنی شکست تسلیم کر لی اس لئے خدا تجھے فتح پر فتح دے گا.یہ بظاہر کمزوری کی صلح بھی ترے لئے طاقت کا موجب بنے گی اور پھر ایک اور فتح بھی ہے جو اس کے بعد آنے والی ہے.پس دیکھیں ایک شخص کا فیصلہ تھا، تو کل علی اللہ تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اللہ تو کل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور جن سے محبت کرتا ہے پھر ان کے خلاف کوئی سازش کا میاب نہیں ہونے دیتا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانے میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ جب آپ فیصلہ شوریٰ

Page 293

خطبات طاہر جلد 13 287 خطبہ جمعہ فرمود : 15 اپریل 1994ء کے فیصلے کے خلاف فرماتے تھے تو ساری مجلس شوری اول تو اسی فیصلے پر بچھ جاتی تھی.کوئی ایک مجلس شوری میں شامل نمائندہ بڑ بڑا تا ہوا باہر نہیں نکلتا تھا کہ ہمارے فیصلے کے خلاف فیصلہ کر دیا.ایک بھی مثال اس کی مجھے یاد نہیں جو اس وقت ظاہر ہوئی ہو یا بعد میں جماعتوں میں جا کر کسی نے یہ بات کی ہو.اس سے ایک اور بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ مجلس شوری کا نمائندہ چننے والے متقی لوگ تھے.وہ اپنے میں سے اس کو چنتے تھے جو متقی ہوتے تھے اور ان کا یہ ردعمل بتارہا ہے کہ کیسے تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے.کسی ایک نے بھی یہ غلطی نہیں کی کہ باہر جا کر کوئی بات کی ہو کہ جی ہمارا فیصلہ یہ تھا اور فلاں ہو گیا بلکہ سارے باہر نکلتے ہوئے، ہنستے کھیلتے یہی باتیں کیا کرتے تھے اس دن رات تک یہی مضمون رہتا تھا کہ دیکھو ہم کیسے بے وقوف نکلے اور وہی ہونا چاہئے تھا جو خلیفہ وقت نے فیصلہ دیا تھا اور جو ہمیں سمجھایا ہمارے ذہن میں آیا ہی نہیں، واقعہ یہی چیز درست تھی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ ہمیں ایسے عظیم الشان صالح نظام کا جزو بنایا ہے جہاں غلطی کے ہر امکان کو دور کرنے کے لئے درستی کرنے کا ایک طریق مقرر فرما رکھا ہے اور ان دونوں کے تعاون کے نتیجے میں ایک نہایت صحت مند، پاکیزہ نظام قائم ہوتا ہے.پس مجلس شوریٰ میں ان باتوں کو ضرور ہمیشہ پیش نظر رکھیں آج بھی اور کل بھی.اگر ان باتوں پر آپ عمل کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت ہمیشہ زندہ رہے گی اور مجلس شوری سے خلافت کو تقویت ملتی اور خلافت سے مجلس شوری کو صحت عطا ہوتی ہے.پس ان دونوں باتوں کے نتیجے میں جماعت کی زندگی کی ہمیشہ ہمیش کے لئے ضمانت میسر آئے گی.پس تقویٰ کے ساتھ مشورے دیا کریں.محبتیں بڑھانے کے فیصلے کیا کریں اور جیسا کہ میں نے مثال دی ہے مشورہ سوچتے وقت ان باتوں کو سوچا کریں جو آپ کے دل سے از خود اخلاص کے ساتھ اٹھ رہی ہے.ان میں میں نے ایک مثال دی ہے، جماعتوں کے اندر اگر کہیں تھی پائی جاتی ہے تو ان کی وجوہات پر غور کر کے اس رنگ میں اپنی شوریٰ میں پیش کریں کہ اس کے نتیجے میں تلخی لازما کم ہو، بڑھے نہیں.اگر بڑھانے کے انداز میں مشورہ دے دیا تو آپ ذمہ دار ہوں گے اور ایسے مشورے کو پھر قبول بھی نہیں کرنا چاہئے لیکن اس کے علاوہ روزمرہ کی باتیں ہیں، تربیت کے نئے نئے تقاضے ہیں ، نئی نئی قو میں احمدیت میں اور اسلام میں داخل ہو رہی ہیں، پھر اصلاح وارشاد کے بہت بڑے اور وسیع تقاضے اور بڑی امیدیں آپ سے وابستہ کی گئی ہیں، تو یہ سارے امور وہ ہیں جن میں دن رات

Page 294

خطبات طاہر جلد 13 288 خطبہ جمعہ فرمود و 15 اپریل 1994ء آپ کو پریشانی لاحق ہونی چاہئے.سوچتے رہنا چاہئے کہ اس ضمن میں ہم کیا طریق اختیار کریں کہ اپنے مقاصد کو توقع سے بھی بڑھ کر حاصل کر سکیں.تو پھر جو باتیں آپ کے دل سے خود بخود پھوٹتی ہیں، انہی پر مشورے ہونے چاہئیں اور جب آپس میں ایک دوسرے کو مشورہ دیں گے تو پھر ایک پختہ ذہن کا مشورہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک کمال کے درجے کو پہنچا ہوا ذہن ہو گا یعنی اجتماعی ذہن جماعت کا.وہ مشورے جب پہنچیں گے، وہ پھوٹیں گے، ان کی منظوری ہوگی پھر فیصلے بنیں گے.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ کا مضمون نہ بھولیں.آج بھی اسی طرح جاری ہے، کل بھی اسی طرح جاری رہے گا.تمام مجالس شوری کے فیصلے جن کو آپ سمجھتے ہیں، وہ مشورے ہیں.فیصلہ اس وقت بنتے ہیں جب کہ امام وقت ان کو قبول کر لیتا ہے اور وہ فیصلے بنتے ہیں جس شکل میں وہ ان کو قبول کرتا ہے پھر تو کل علی اللہ کا مضمون ہے، پھر پرواہ نہ کریں پھر لا ز ما انہی فیصلوں میں برکت ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ مضامین بار بار دہرانے کے لائق ہیں کیونکہ جماعت کی زندگی سے اور جماعت کی بقا سے ان کا گہرا تعلق ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: مجلس شوری جور بوہ میں منعقد ہو رہی ہے ان کو تو السلام علیکم خاص طور پر کہنا تھا.محبت بھرا پیغام دینا تھا.مبارک باد دینی تھی اسیرانِ راہ مولیٰ کی آزادی کی.ان ہواؤں کے رخ میں تبدیلی کی مبارک باد دینی تھی اور ہواؤں کی لہک میں جو خوشگوار اثرات ظاہر ہوئے ہیں ان کے اوپر مبارک باد دینی تھی اور ایک بات خاص طور پر یہ کہنے والی ہے کہ مشاورت امانت ہوا کرتی ہے اس کے وہی حصے باہر بیان ہونے چاہئیں جن کی اجازت ہو ورنہ آپس کے مشورے ایک امانت کا رنگ رکھتے ہیں اور خصوصیت سے جو تبلیغی منصوبے وغیرہ بنائے جاتے ہیں ان میں یہ امانت کا پہلو زیادہ غالب ہے.تو اپنے مشوروں کو امانت کے ساتھ دیں اور امانت کے ساتھ ہی اپنے سینوں میں لے کر واپس جائیں.اتنے ہی پہلو ظاہر فرما ئیں جن پہلوؤں کے متعلق مجلس شوری یا صدر مجلس کی ہدایات ہے کہ ان کو عام کریں ورنہ باقی جو آپس کی سوچیں ہیں ان میں غور و فکر ہونا چاہئے اور آپ پر خدا کی طرف سے عائد کردہ امانت آپ کے دل میں ہی محفوظ رہنی چاہئے.بعض دفعہ بے تکلف اور غیر محتاط تبصرے نقصان پہنچا جاتے ہیں اور اس سے دشمن کو خواہ مخواہ شرارت کا موقع مل جاتا ہے.یہ بات ایک میں

Page 295

خطبات طاہر جلد 13 289 نے کہنی تھی جو بھول گیا تھا اس لئے میں نے خطبے کے بعد اسے شامل کر دیا ہے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء صلى الله حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہی سب سے بڑے محسن ہیں.مسلمان وہ ہے جو نیکیوں کی طرف دوڑے اور جس سے شرنہ پہنچے.( خطبه جمعه فرموده 22 / اپریل 1994 ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ® (الحجرات: 11) پھر فرمایا:.اس آیت پر اور اس سے تعلق رکھنے والے مضمون پر گفتگو سے پہلے میں چند جماعتی جلسوں اور اجتماعات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ سب ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور وہ اپنا ذ کرسن کے خوش ہوں اور نیکی کی مزید تحریک دلوں میں پیدا ہو.جماعت احمدیہ غانا کا جلسہ سالانہ کل 21 راپریل سے شروع ہو چکا ہے اور تین دن تک جاری رہے گا.ہفتہ کو اختتام پذیر ہو گا.جماعت احمدیہ غانا کا اللہ تعالی کے فضل سے اپنے ملک پر بہت گہرا اثر ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں اس لحاظ سے غانا کو ایک خاص مقام حاصل ہے اگر چہ کثرت کے لحاظ سے اور بھی بہت سے ممالک ہیں جن میں بکثرت احمدیت ہے مگر جماعت کی نیک نامی کا نمایاں طور

Page 296

خطبات طاہر جلد 13 290 خطبہ جمعہ فرموده 22 اپریل 1994ء پر شہرہ اور بہت سی اعلیٰ روایات سے متعلق ملکی حکومت کے علاوہ بھی ہر سطح پر یہ ذکر خیر ملنا، اس پہلو سے جماعت احمدیہ بہترین کام کر رہی ہے.اس حد تک یہ بات وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے رائج ہو چکی ہے کہ یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے کوئی وفد آئے یا غیر ممالک کے Dignitaries آ ئیں، ان کے پروگراموں میں بھی جماعت احمدیہ کے مرکز میں جا کر ان تک پیغام تہنیت دینا یہ گویا ایک لازمه سا بن گیا ہے.حال ہی میں یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے غانا پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں خصوصیت سے جماعت احمدیہ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے.تو اس پہلو سے وہاں جماعت کا بہت بلند وقار ہے اور اس وقار کو قائم رکھنا اور اس نام کی شہرت کے لحاظ سے واقعۂ جماعت احمدیہ کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا اور نیک کاموں میں بھی اضافہ کرنا یہ اب ان کی اولین ذمہ داری ہے.بعض دفعہ نیک نامی کا دائرہ زیادہ وسیع ہو جایا کرتا ہے اور حقیقت میں جو تعداد بعض نیک کاموں میں مشغول ہوتی ہے، وہ تعداد تھوڑی ہوتی ہے.چند لوگوں کے نیک کام کثرت کی طرف منسوب ہو جاتے ہیں.لیکن جماعت احمدیہ کو اس سے تسلی نہیں ہونی چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ میرے ذہن میں نیک نامی کا تصور یہی رہا ہے کہ اللہ جس پر تحسین کی نظر ڈالے.نیک نامی وہی ہے جو آسمان پر ہو.اس نیک نامی کے نتیجے میں اگر دنیا میں بھی نیک نامی نصیب ہو جائے تو یہ وہ نیک نامی ہے جو آسمان سے اترتی ہے اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور حدیث پر یہ پیغام پہنی ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم کے حق میں کوئی بات لکھ دیتا ہے یا کسی فرد کو پسند فرمانے لگتا ہے تو ملا ءاعلیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ زمین پر اتریں اور اس شخص کی یا اس قوم کی نیک نامیاں دنیا میں پھیلائیں.یہ وہ نیک نامی ہے جو حقیقت میں کوئی معنی رکھتی ہے، ورنہ محض رعب کسی قوم کا پیدا ہو جائے یا اس کے متعلق اچھی باتیں مشہور ہو جائیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک وہی حقیقت ہے جو میں نے بیان کی ہے، اللہ کے ہاں نیک لکھے جائیں، یہ سب سے بڑی کامیابی ہے اور جب یہ ہو اور پھر زمین پر باتیں ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں.پس جماعت احمدیہ غانا کو دو پہلوؤں سے اس نیک نامی سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اول تو اپنی تعداد کو بڑھائیں تا کہ ملک کا ہر حصہ جماعت احمدیہ کے فیض سے فیضیاب ہو اور دوسرے یہ کہ زیادہ سے زیادہ احباب جماعت کو نیک کاموں میں ملوث کریں اور نیک کاموں میں صرف چند نیک

Page 297

خطبات طاہر جلد 13 291 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء آدمیوں کی خوبیاں ہی ساری جماعت کے حق میں نہ بٹتی پھریں بلکہ ہر احمدی کو کچھ نہ کچھ نیکی کے کاموں میں حصہ لینے کی توفیق ملے.دوسرے بھی بعض اجتماعات ہیں مثلاً جلسہ سالانہ جو ہور ہے ہیں ان میں ایک جماعت احمد یہ سری لنکا کا جلسہ سالانہ ہے 24 اپریل، اتوار سے شروع ہوگا اور 25 راپریل کو ختم ہو گا.یہ جماعت چھوٹی سی ہے مگر اٹھنے والی جماعت ہے.گزشتہ چند سالوں سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ان میں ایک بیداری کی لہر دوڑی ہوئی ہے اور وہ اب بڑھنا اور پھولنا پھلنا سیکھ رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ جلد جلد ان کو باقی دنیا کی جماعتوں کی سطح پر تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کا سلیقہ عطا فرمائے حوصلہ بخشے، ان کی معاونت فرمائے اور ان کے بھی نیک اثر سارے ملک پر اسی طرح قائم ہوں جیسے نانا کے نیک اثر قائم ہیں.مجالس شوریٰ میں سے دو مجالس ہیں.ایک جماعت احمدیہ USA کی مجلس شوری ہے اور ایک جماعت احمد یہ ناروے کی.یہ دونوں مجالس شوری تین دن تک جاری رہیں گی اور 24 راپریل کو اختتام پذیر ہوں گی.مجلس شوری سے متعلق میں گزشتہ خطبے میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں ان سب باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں.یہ خطبے ان جماعتوں نے براہ راست سنے ہیں.پس اسی مضمون کو اپنی اس شوری پر بھی چسپاں کریں اور اسی کی ہدایت کے مطابق کام کریں.مرکزی بات اس خطبے کی یہ تھی کہ کوئی قوم حقیقت میں مشورہ دینے کی اہل نہیں ہوتی جب تک آپس میں محبت نہ پائی جائے اور محبت کے بغیر مشورے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ورنہ محبتوں کے بغیر کے مشورے تو دشمنی بن جایا کرتے ہیں ، وہ تو ایک عذاب بن جاتے ہیں.آپ کو یاد ہوگا کہ گلف وائر“ (Gulf War) سے پہلے امریکہ کے ایمبیسیڈر کی طرف سے صدر صدام کو مشورہ دیا گیا تھا کہ کویت پر حملہ کرنا تمہاری مرضی ہے، تمہارا کام ہے، ہمیں اس سے کیا اور اس طرح ایک شہ دے دی گئی.بہت ہی ان دنوں اس کے چرچے تھے، اخبارات میں بات اچھالی گئی اور کئی امریکیوں نے اس کے ثبوت مہیا کئے کہ درست بات ہے.تو مشیر کے لئے نیک دل اور محبت کرنے والا ہونا ضروری ہے.اگر محبت سے عاری دل ہو تو حقیقت میں مشورہ دیا ہی نہیں جاسکتا اور قرآن کریم نے مشوروں کو اور باہمی محبت کو اکٹھا باندھا ہے.پس اس پہلو سے میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے رابطے بڑھائیں، خصوصاً امریکہ میں اس بات کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں مدتوں پہلے جو افریقن

Page 298

خطبات طاہر جلد 13 292 خطبہ جمعہ فرمود و 22 را پریل 1994ء باشندے امریکہ میں آباد ہوئے ہیں مسلسل سفید قوموں کے ظلم کے نتیجے میں ان میں بدقسمتی سے احساس کمتری جگہ پا گیا ہے اور کسی قوم کے لئے احساس کمتری سے مہلک اور کوئی چیز نہیں ہے.جماعت احمدیہ کو جو وہاں جدو جہد در پیش ہے اس میں ایک بڑی جد و جہد اس بات کی ہے کہ اپنے افریقن امریکن بھائیوں کو یقین دلائیں کہ آپ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے دلوں میں آپ کی ویسی ہی عزت ہے جیسے ہر دوسرے مسلمان بھائی کی ہونی چاہئے.ایک عالمی جماعت ہے اس میں کوئی قومی اور علاقائی تفریق پیش نظر نہیں، نہ روا رکھی جاتی ہے.یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے اور مسلسل پڑتی چلی جاتی ہے اور بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کو میں براہِ راست خطوں کے ذریعے بھی سمجھاتا رہتا ہوں لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد وہی بات پھر دوبارہ نکل آتی ہے لیکن ایسے چند ہیں.اللہ کے فضل سے امریکہ میں افریقن احمدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو مخلص ، مالی قربانی میں بھی پیش پیش، غریب ہے مگر اخلاص میں غریب نہیں لیکن وہ جو چند ایسے لوگ جن میں احساس کمتری پر مبنی بغاوت سر اٹھاتی ہے ، وہ بعض جگہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ان کی شہرت اچھی نہیں رہتی یعنی جماعت کی بحیثیت مجموعی شہرت اچھی نہیں رہتی.اس کا تبلیغ پر بہت برا اثر پڑتا ہے.بعض ایسے علاقے ہیں جہاں تبلیغ کے رکنے کی وجہ جیسا کہ بعض ان میں سے کہتے ہیں ہرگز یہ نہیں کہ نعوذ باللہ پاکستانی ان لوگوں کو اپنے سے نیچا دیکھتے ہیں، اس کے نتیجے میں رد عمل پیدا ہوتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.پاکستانیوں کی اکثریت کو میں جانتا ہوں، کوئی پاگل کہیں پیدا ہو جائے تو اور بات ہے، دنیا میں ایسے پاگل ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اکثریت تو بچھنے والی ہے، اخلاص والی ہے، اپنے غیر ملکی بھائی کو جو پاکستان کے لحاظ سے غیر ملکی ہو ، جب احمدیت میں دیکھتے ہیں تو ان کے دل کشادہ ہوتے ہیں ،ان کی آنکھیں راہوں میں بچھتی ہیں.بہت ہی پیار اور محبت سے وہ ان کو دیکھتے ہیں اور ان سے حسن سلوک کرتے ہیں اس لئے یہ الزام درست نہیں ہے.غیروں نے آپ کو ٹھوکریں ماریں، غیروں نے تکلیف دی، اپنوں سے اس کے بدلے اتاریں گے ! یہ تو ظلم ہے، یہی پاکستانی ہیں جو باقی دنیا میں بھی تو خدمت کر رہے ہیں وہاں کیوں نہیں کوئی ایسی حرکتیں کرتے.اس لئے اگر کہیں کچھ ٹیڑھے دماغ کے ہوں تو ان کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے.بہت بڑا گناہ ہے اگر اپنے نسبتا کم کالے رنگ کی وجہ سے ان کے نسبتا زیادہ کالے رنگ پر کوئی تکبر کرے.کالوں میں تو آپ بھی ہیں، چاہے کیسے ہی گورے

Page 299

خطبات طاہر جلد 13 293 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء پیدا ہو جائیں آپ کا شمار کالوں میں ہی رہے گا.پس کالے اور گورے کی بحث سے تو یہ مسائل حل نہیں ہوں گے.سب کو گورا بننا ہے یعنی نورانی لحاظ سے، حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نور اپنانا ہے.وہ ایسا نور ہے جو ہر کالے کو گورا کر دیتا ہے، ہر گورے کا حسن چمک اٹھتا ہے.پس یہی وہ نور ہے جس نے دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے.آپ کے کاموں میں، یعنی امریکہ کو میں مخاطب ہوں خصوصیت سے، آپ کے کاموں میں ہرگز برکت نہیں پڑسکتی جب تک آپ میں سے کچھ احساس کمتری کے شکارر ہیں اور اس کے نتیجے میں اگر کھلم کھلا نہیں تو اندرونی تفریق باقی رہے.میں نے مثالیں دی ہیں کئی دفعہ، کہ دیکھو افریقہ میں بھی تو وہی نسل ہے جس کی تم اولا د ہو.افریقن احمدیوں میں تو میں نے کہیں احساس کمتری نہیں دیکھا، کہیں کوئی غلط ردعمل نہیں دیکھا بلکہ تعجب ہوتا ہے بعض دفعہ افریقہ میں ایک افریقن کو امام مقرر کیا جاتا ہے ایک افریقن کو عہدہ دیا جاتا ہے اور وہ آ کر پیغام دیتے ہیں، سمجھاتے ہیں کہ ہمیں تو پاکستانی سے زیادہ فائدہ پہنچے گا.ہم سمجھتے ہیں کہ جیسی ان کی تربیت ہے، جیسا وہ نیک اثر ہم پر ڈالتے ہیں ، ہمارے اپنی بھائی ابھی اس مقام کو پہنچے نہیں ہیں اور بڑی بے تکلفی سے وہ بات کہتے ہیں ،ان کے چہروں پر مجھے کہیں سیا ہی دکھائی نہیں دی کبھی دکھائی نہیں دی ، وہ تو نور سے دسکتے ہوئے چہرے لگتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ احمدیت کی تربیت پا کر آنکھوں میں سیاہ سفید کی تفریق ہی مٹ جاتی ہے.کبھی مجھے یاد نہیں کہ کوئی احمدی ملا ہو اور میں نے اس کا رنگ دیکھا ہو، کون سا رنگ ہے.اس کی روح دکھائی دیتی ہے اور وہ سب روحیں پیاری دکھتی ہیں.پس اگر کہیں کسی پاکستانی احمدی میں کوئی ایسا نقص رہ گیا ہے جس کا بداثر پڑ رہا ہے تو اس کو میرا مشورہ ہے کہ وہ استغفار سے کام لے.اس کی وجہ سے اگر ایک یا دو یا دس کو ٹھوکر لگے تو مسیح کا یہ قول میں اسے بتاتا ہوں جنہوں نے فرمایا کہ اگر کسی شخص سے کسی کو ٹھوکر لگے تو اس سے بہتر تھا کہ وہ ٹھوکر لگانے والا پیدا نہ ہوتا.لیکن وہ جن کو بات بات پر ٹھوکر لگے ان کو سنبھالنا بڑا مشکل ہوتا ہے.یہ ٹھوکر لگنے کا مزاج بڑا خطرناک ہے اور احساس کمتری سے یہ ٹھوکر لگنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے، جس کو احساس کمتری نہ ہو ان کو ٹھوکر لگا ہی نہیں کرتی.اس لئے امریکہ کے لوگ سن رہے ہوں یا دوسرے لوگ، ہر جگہ کو یہ پیغام واحد ہے، خدا کے لئے کبھی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ، آپ اللہ کی جماعت ہیں اور اللہ کی جماعت کو احساس کمتری زیب نہیں دیتا.ایسے لوگوں کو جب دنیا تکبر کی وجہ سے نیچے دیکھتی ہے تو اللہ کی نظر میں وہ اور اونچے ہو جاتے ہیں.

Page 300

خطبات طاہر جلد 13 294 خطبه جمعه فرمود و 22 اپریل 1994ء قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے ، ایسے رستوں پر نہیں چلتے جہاں دنیا تمہیں غضب اور ذلت کی نظر سے دیکھ رہی ہو اور خدا کے نزدیک تمہارا مر تبہ نہ بڑھ رہا ہو.اللہ کو تم اور پیارے ہو جاتے ہو.تو جس جماعت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ یقین دہانی ہے، یہ ضمانت ہے کہ تمہیں دنیا میں کوئی ذلیل نہیں کر سکتا اور جب ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا میری نظر میں تمہارا مرتبہ اور بلند، بلندتر ہوتا چلا جائے گا.اس جماعت کے پاس احساس کمتری پھٹکنا بھی نہیں چاہئے اور جو پھر بھی ایسی باتیں کرے وہ ظالم ہے اور ان ظالموں سے آپ کو متنبہ رہنا چاہئے.پس آپس میں کچی محبت پیدا کریں ، ہم سب بھائی بھائی ہیں، ہمارے رنگ ونسل کی تفریق ہمارے اندر نہ کوئی خوبی پیدا کرتی ہے نہ ہمیں ذلیل کر سکتی ہے.تقویٰ ہی ہے جو ہماری عزت کا باعث ہو سکتا ہے اور تقویٰ کی عزت بندوں کے حوالے سے نہیں ہوا کرتی بلکہ اللہ کے حوالے سے ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ تم میں سے معزز عِندَ اللهِ انْقُكُم (الحجرات : 14) اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے جو معزز ہے اس کی عزت کیا کرو اور جو متقی ہے اس کی عزت کیا کرو، قرآن کریم میں یہ آیت کہیں نہیں ملتی.کیونکہ تقویٰ کی عزت از خود قائم ہوتی ہے اور اللہ کے حوالے سے قائم ہوتی ہے اور اس فیصلے کا اختیار کہ کون متقی ہے، کون نہیں ہے، اللہ ہی کو ہے اور جب اللہ کسی کو متقی سمجھے ، جس طرح میں نے بات کا آغاز کیا تھا، پھر فرشتوں کو خود حکم دیتا ہے، وہ ہوائیں چلاتے ہیں، وہ زمین پر اترتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں ایسے شخصوں کی محبت بھر دیتے ہیں.پس انہیں کسی محبت کی طلب نہیں ہوتی، نہ وہ اپنا ہاتھ محبت مانگنے کے لئے آگے بڑھاتے ہیں.خدا کی طرف سے وہ محبتیں ان کو عطا ہوتی ہیں کیونکہ تقویٰ کا تعلق اللہ سے ہے اور اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَكُمْ تم میں سب سے معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.جماعت احمد یہ ناروے کو بھی میرا یہی پیغام ہے.آج کل یورپ میں بھی Racism سر اٹھا رہا ہے اور Racism کا بھی دراصل احساس کمتری سے تعلق ہے.دنیا میں کوئی چیز احساس برتری نہیں ہے.احساس برتری اگر ہو یعنی معلوم ہو کہ میں حقیقہ بہتر ہوں تو وہ دل میں نرمی پیدا کرتا ہے، انکسار پیدا کرتا ہے.تکبر، احساس کمتری کا بچہ ہے اگر تکبر حقیقت میں زیب دیتا تو اللہ تعالی تکبر کو

Page 301

خطبات طاہر جلد 13 295 خطبہ جمعہ فرمود : 22 اپریل 1994ء ایسا نا پسند نہ فرماتا.پس Racism میں جو لوگ ملوث ہوتے ہیں دراصل وہ احساس کمتری کے نتیجے میں ملوث ہوتے ہیں.اب یورپ میں خصوصا جرمنی میں جو Natsi تحریک چلی ہے جس میں یہودیوں کو نفرت کا نشانہ بنایا گیا آپ یہودیوں کو جو چاہیں کہیں لیکن جرمن قوم نے یہودیوں کو دیکھا کہ دیکھتے دیکھتے وہ ان کی اقتصادیات پر قابض ہو گئیں، ان کے اندر بعض ایسی صلاحیتیں تھیں جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، پس اس سے جو تکلیف پہنچی ہے، اس سے ان کے دلوں میں جو احساس اذیت پیدا ہوا ہے اس کی بنیاد اپنے آپ کو کم تر سمجھنے میں تھی.اگر وہ اپنے آپ کو برابر سمجھتے تو مقابلہ کرتے اور جب اکثریت میں تھے تو اقلیت کے ساتھ قانون کے اندر رہتے ہوئے مقابلہ کیوں ممکن نہیں ہے.پس یہ احساس تھا کہ ہم یہ نہیں کر سکتے جو یہ کر رہے ہیں اور کوئی وجہ ایسی ہے کہ یہ ہم پر غالب آرہے ہیں، اس کا ردعمل پیدا ہوا ہے.جو حو صلے والے لوگ ہوتے ہیں، جن کے دل بڑے ہوں وہ کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں حسد نہیں کیا کرتے.اگر کوئی آپ میں سے آگے نکل گیا ہے تو یہ دیکھیں گے کہ کس طرح آگے نکلا، کیوں نکلا ؟ ہاں اگر اس نے کوئی غلط طریق اختیار کیا ہے تو اس غلط طریق کو مٹانے کے لئے کوشش کرنا یہ احساس کمتری نہیں.لیکن ایسے شخص کا ویسے ہی دشمن ہو جانا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم سے آگے نکل گیا ہے، اس سے حسد کے جذبات میں جلتے رہنا، یہ ساری باتیں Racism کی بنیاد ہیں اور اس سے بھی ہمیں نجات کی دعا مانگنی چاہئے.پس جماعت احمدیہ کے رخ دونوں طرف کے لوگوں کی طرف کھلے ہیں.جماعت احمدیہ کی آنکھیں ایک طرف ان کو بھی دیکھ رہی ہیں جو اپنی غلطی سے احمدیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ اپنے آپ کو گویا معزز بنا بیٹھے ہیں، ہم پر تکبر کر رہے ہیں، اور ایک رخ ان کی لوگوں کی طرف ہے جو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے ہمیں نیچا دیکھ رہے ہیں اور تکبر کی راہ ہمارے متعلق اختیار کئے ہوئے ہیں تو مشرق میں جائیں یا مغرب میں جائیں، جتنی بھی کج ادائیں ہیں انہیں ہم نے ٹھیک کرنا ہے اور کج ادائی کوٹھیک کرنے کے لئے اپنی اداؤں کو درست کرنا ضروری ہے.پس میں یہ پیغام نہیں دیتا کہ ان کے خلاف ایک مہم چلائیں، ایک موومنٹ بنائیں، جس طرح آج کل مادی قوموں کا کام ہے اور بڑی بے وقوفی ہے جو وہ ایسا کرتے ہیں.ہمیں تو قرآن کریم نے ہمارے ہاتھوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ہتھیار تھمائے ہیں اور خود درست ہونے کی تعلیم دی ہے.

Page 302

خطبات طاہر جلد 13 296 خطبہ جمعہ فرموده 22 اپریل 1994ء یہ دو باتیں اگر جماعت اپنالے، آپس کی محبت کے ساتھ اپنے اخلاق کو درست کرے اور جن قوموں سے تعلق ہے ان قوموں کے حوالے سے، ان کی بیماریاں دور کرنے کے لئے ، ان شعبوں میں جہاں وہ بیمار ہیں، اپنے آپ کو بہت ہی صحت مند بنائیں.اگر احساس کمتری کا مقابلہ ہے تو آپ ان کے سامنے بچھیں.جس طرح بھی ہو احساس کمتری کے بت کو توڑیں.اگر کوئی بڑا بنتا ہے تو اس کے سامنے سراٹھانے سے بات نہیں بنے گی، یہ عجیب بات ہے کہ وہاں بھی علاج بچھنا ہی ہے لیکن ذلت کے ساتھ بچھنا نہیں وقار کے ساتھ.عزت اور احترام ان معنوں میں کہ آپ اس سے ڈرے نہیں ہیں، بے خوف ہیں اور بے خوفی کی علامت یہ ہے کہ آپ نصیحت سے باز نہیں آتے.اپنی اصلاح کرتے ہیں اور پھر قطع نظر اس کے کہ کوئی آپ کو کیا سمجھتا ہے، بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں.یہ وہ ذریعہ اصلاح ہے جو جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ ذریعہ اصلاح ناکام نہیں ہوا کرتا.یہ قرآن کریم کا نسخہ ہے جو ہمیشہ خدا کی طرف سے قوموں کو عطا ہوا اور قوموں پر آزمایا گیا اور قرآن نے بھی اس پر بہت زور دیا اور حضرت محمد مصطفی میہ نے بھی بہت زور دے دے کر سمجھایا کہ یہ نسخہ استعمال کرو یہ کبھی نا کام نہیں ہوگا.اب میں حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کی بعض نصائح آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کا اسی باہمی محبت کے مضمون سے تعلق ہے.حضرت عبداللہ بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور پھر بعد میں فرمایاوَ الْمُهَاجِرُ مَنْ هَاجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ اور مہاجر وہ ہے جو ان باتوں سے ہجرت کر جائے جن کو اللہ نے منع فرمایا ہے.(بخاری کتاب الایمان، حدیث : 2262) یہ چند لفظوں کی نصیحت ہے مگر بہت ہی گہری ہے اور قوموں کی زندگی کے بنے سنور نے کا اس کے ساتھ تعلق ہے.پہلی بات تو مسلمان کی تعریف ہے اس سے بہتر تعریف جہاں تک دنیا کا تعلق ہے، ہو نہیں سکتی.ایک وہ تعریف ہے جس کا تعلق خدا سے ہے یعنی خدا کے حضور اپنے آپ کو بچھا دینا اور اس کی مرضی کے تابع ہو جانا.اس حدیث میں دونوں باتوں کا ذکر ہے.چند لفظوں میں، اگر آپ غور کر کے دیکھیں ، تو مسلمان کی ایسی جامع مانع تعریف فرما دی گئی ہے جس کا اطلاق جس پر ہو اس کو کوئی دائرہ اسلام سے خارج کر ہی نہیں سکتا.جہاں تک دنیا کے دیکھنے کا تعلق ہے اگر کسی انسان سے کسی دوسرے کو کوئی شر نہ پہنچے اور اس

Page 303

خطبات طاہر جلد 13 297 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء کی عزت محفوظ ہو، اس کا مال محفوظ ہو، اس کی ہر وہ چیز جس کی وہ قدر کرتا ہے جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، دولت ہو یا بچے ہوں یا اور پیارے یا مذہبی لحاظ سے معزز لوگ کسی پہلو سے بھی اگر اس کے عزیزوں پر کسی کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہو بلکہ وہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھے تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ پھر مسلمان ہے.مسلمان وہ ہے جس سے کسی کو کوئی شر نہیں پہنچ سکتا.پہنچتا اور بات ہے ” پہنچ سکتا اور بات ہے، یہاں دونوں مضمون داخل ہیں.نہ پہنچتا ہے نہ پہنچ سکتا ہے.یہ مسلمان کے مزاج کے خلاف ہے کہ وہ کسی کی عزت پر نا جائز حملہ کرے کسی کے مال کو ہتھیانے کی کوشش کرے کسی کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے،غرضیکہ ہر شر کے پہلو سے ایک مسلمان سے دوسرا انسان محفوظ ہے.اب ایسا شخص اگر کوئی ہو تو وہ اسے غیر مسلم کیسے کہہ سکتا ہے.وجہ یہ ہے کہ وہ خدا تو نہیں ہے، اللہ کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے، جہاں تک بندوں کا تعلق ہے ان کو صرف اتنا اختیار ہے کہ کسی انسان کے روز مرہ کے طرز عمل کے اوپر ایک فتویٰ دیں اور جو دیکھتے ہیں اس کے مطابق فتوی دیں.اگر احمدیوں کے متعلق بنی نوع انسان میں یہ شہرہ ہو کہ یہ شریر لوگ نہیں ہیں.ان کے ہاتھوں میں ہماری عزت محفوظ، ہماری دولت محفوظ ، ہر وہ چیز جو ہمیں پیاری ہے وہ ان کے نزدیک بھی اس حد تک قابل احترام ہے کہ اس کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچ سکتے تو ایسے شخص کے متعلق کوئی غیر مسلم اسے کیسے کہہ سکتا ہے.آنحضرت ﷺ نے کھول کر مضمون بیان کر دیا ہے کہ اس کو تم غیر مسلم کہنے کا حق ہی نہیں رکھتے.پس جہاں تک اللہ کا تعلق ہے بظاہر بات بدلی ہے لیکن بات وہی ہے ہجرت کی تعریف فرمائی ہے.فرمایا مہا جر وہ ہے جو ان باتوں کو چھوڑ دے جن کو اللہ نے منع فرمایا اور ان باتوں کی طرف حرکت کرنا شروع کرے، سفر اختیار کرے جو اللہ کو پسند ہیں تو اللہ کے نزدیک تو یہ مسلمان ہیں.جہاں تک بندوں کا تعلق ہے وہ بندے دیکھ رہے ہیں اور بات کھلی ہوئی ہے اس میں کسی کے عالم الغیب ہونے کی نہ ضرورت ہے نہ سوال.جو بے شر، بے ضرر آدمی ہے اس کو تم غیر مسلم کہنے کا حق نہیں رکھتے.جہاں تک اللہ کی ذات کا تعلق ہے اللہ جانتا ہے میں نے کیا حکم دیا ہے، مجھے کیا باتیں پسند، کیا نا پسند اگر وہ اپنے کسی بندے کو دیکھے کہ مسلسل اس کا سفر خدا کی نا پسند باتوں کی طرف سے ان باتوں کی طرف ہے جو خدا کو پسند ہیں، تو آسمان سے ہرلمحہ اس کے لئے مسلم ہی کا فتویٰ جاری ہوگا.

Page 304

خطبات طاہر جلد 13 298 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء پس اس پہلو سے آپ کو مسلم بننا ہے اور مسلم بننا ہو گا کیونکہ دنیا کے امن کا مسلم سے تعلق ہے.دنیا کا امن آج حقیقت میں اس اسلام سے وابستہ ہے جس کی تعریف آنحضرت ﷺ نے یہاں فرمائی.اس میں نمازوں ، عبادتوں، زکوۃ کا کوئی ذکر نہیں کیا.اس میں دو عملی حالتوں اور اندرونی کیفیتوں کا ذکر ہے اور حقیقت میں اندرونی کیفیات کی طرف نمایاں اشارہ ہے اس کے نتیجے میں بعض عملی حالتیں پیدا ہوتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إلى مَا مَتَعْنَابِةٍ اَزْوَاجًا مِّنْهُمُ (الحجر:(89) کہ تو اپنی نظریں، خدا نے جو جوڑا جوڑا نعمتیں لوگوں کو عطا فرمائی ہیں، ان کی طرف یونہی بے کار نہ دوڑایا کر، حرص اور لالچ کے ساتھ اپنی نظروں کو ان چیزوں کی طرف لمبانہ کیا کر.یہ بے وقری کی بات ہے ، خدا پسند نہیں کرتا.تو جس کے اندر سے یہ حرص مٹ جائے کہ کسی کی اچھی چیز دیکھے تو اسے کھینچ کے اپنا بنانے کی کوشش کرے، اس معاملے میں وہ بے شر ہو جاتا ہے اور اگر یہ اندرونی جذبہ نہ ہو اور یہ اندرونی اصلاح نہ ہو چکی ہو جس کا قرآن کریم کی اس آیت سے تعلق ہے جس کی تلاوت کی ہے، تو ایسا شخص کبھی بے شرنہیں ہوسکتا.پس اندرونی طور پر پہلے رجحانات کی اصلاح ضروری ہے اور رجحانات کی اصلاح میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، بہت دقتیں پیش آتی ہیں اور بسا اوقات انسان خود اپنے اندر کے معاملات کو نہیں دیکھ رہا ہوتا اور غیر کے معاملات کو سمجھنے کے دعوے کرتا ہے.اس کو یہ نہیں پتا کہ میرے اندر جوانا تھی اس نے مجھے کس کس چکر میں ڈال رکھا ہے.میرے اندر کے بت ہیں جو مجھے کیا کیا دھو کے دے رہے ہیں ان سے بے خبر رہتا ہے اور غیر بے چارے نے خواہ کوئی بات نہ بھی سوچی ہو اس کی نیت پر حملہ کرنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے.پس یہ جہالت کی باتیں ہیں.آنحضرت ﷺ نے جس پہلو سے آپ کو مسلمان بنے کی ہدایت فرمائی ہے اس پر آپ غور کریں تو جب تک اندرونی طور پر آپ اپنے نگران نہ بن جائیں، اپنی سوچوں پر پہرے نہ بٹھا دیں، جب تک اپنی ہر خواہش اور تمنا پر ایک تقویٰ کا نگہبان مقرر نہ کر دیں اس وقت تک غیر آپ کے شر سے محفوظ نہ ہے، نہ ہوسکتا ہے اور جہاں تک دنیا کا تعلق ہے وہ بے تکلفی کے ساتھ ، پورے اطمینان کے ساتھ آپ کے مسلمان ہونے کا فتوی نہیں دے سکتی.پس غانا میں اگر نیک نامی ہوئی ہے تو اس حدیث کے اس پہلے حصے سے اس کا تعلق ہے.وہاں ایک لمبے عرصے سے لوگوں نے دیکھا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی کسی کو کوئی برائی نہیں

Page 305

خطبات طاہر جلد 13 299 خطبہ جمعہ فرمود و 22 اپریل 1994ء پہنچتی.نہ یہ ڈاکے ڈالنے والے لوگ، نہ یہ رشوت خور نہ یہ دوسرے کے مال غصب کرنے والے، نہ چورا چکے، نہ قتل کرنے والے، نہ غریبوں اور یتیموں پر ظلم کرنے والے.یہ شہرت ایک لمبے عرصے میں وہاں پرورش پائی ہے اور اس کا بعض لوگوں سے بعض دوسروں کے مقابل پر بہت زیادہ گہرا تعلق ہے.لیکن اتفاق کہیں کہیں کچھ بد بھی پیدا ہو جاتے ہیں تو اس لئے میں نے جماعت غانا کو نصیحت کی تھی کہ نظر رکھیں اور زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو یہ نیکی کمانے میں لگا دیں، جھونک دیں.وہ سارے مل کر ایسے کام کریں کہ تمام غانا کا جو نیک تاثر ہے وہ مزید تقویت پائے اور ان کو یقین ہوتا چلا جائے کہ ہم نے جلد بازی میں کوئی رائے قائم نہیں کی تھی، یہ جماعت ہی مسلمانوں کی جماعت ہے، یعنی مسلم کی اس تعریف کے تابع ہے جو میں نے ابھی پڑھ کر سنائی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا اس کا نیت سے تعلق ہے.ہر روز کی دنیا میں، ہر روز اور ہر رات آپ کی تمنائیں اور آپ کی خواہشات آپ کے دماغوں میں اس طرح جگالی کرتی ہیں جس طرح ایک بھینس یا گائے چارہ کھانے کے بعد جگالی کیا کرتی ہے.ہر انسان صبح کے وقت بھی جگالی کرتے ہوئے اٹھتا ہے اور رات کو بھی جگالی کرتے ہوئے سوتا ہے اور وہی اس کی جگالی ہے جو رات کو اس کی خواہیں بھی بنتی جاتی ہے یا اس کے اس نفس کے حصے میں ڈوب کر آئندہ اس کے کردار کی تشکیل کرتی ہے جو نفس کا حصہ اس کی نظر سے اوجھل ہے یعنی دماغ کا وہ حصہ جس میں بہت کچھ سوچا جا رہا ہے، بہت کچھ سکیمیں بنائی جا رہی ہیں، منصوبے بنائے جا رہے ہیں، چھان بین ہو رہی ہے، مختلف خیالات، مختلف تجارب کے آپس کے تعلقات کو دوبارہ مربوط کیا جا رہا ہے یا توڑا جا رہا ہے.ہرلمحہ یہ دماغ جو آپ کی نظر سے اوجھل ہے یہ کام کر رہا ہے، کئی قسم کی نئی شکلوں میں آپ کے خیالات کو نئی ترتیب دیتا ہے، آپ کے تجارب کا مطالعہ کرتا ہے غرضیکہ بہت ہی غیر معمولی طور پر جس کو کہتے ہیں War footing.یوں لگتا ہے کہ War footing پر دماغ میں منصوبے بنائے جارہے ہیں اور نئی ترتیبیں قائم کی جارہی ہیں اور اس کے لئے کتنا ہنگامہ ہو گا، کتنے لمبے سفر اختیار کرنے پڑتے ہیں خیالات کو اس کے متعلق آپ کو میں مثال کے طور پر بتاتا ہوں کہ سائنسدانوں نے جہاں دماغ کے تجزئیے کا مطالعہ کیا ہے کہ جب آپ ایک نظر ایک چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کو پہچاننے کے وقت یا اس کے متعلق تاثر قائم کرنے کے وقت آپ کے اندر کتنی برقی روئیں دوڑی ہیں، کہاں کہاں پہنچی ہیں، کہاں کہاں سے واپس آئی ہیں، کن کن جگہ کی انہوں نے تلاش کی

Page 306

خطبات طاہر جلد 13 300 خطبہ جمعہ فرموده 22 اپریل 1994ء ہے تو آپ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ اس ایک نظر کے تجزیہ میں بعض دفعہ برقی روؤں کو لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور چھوٹے سے دماغ میں ، اس کثرت سے وہ آتی جاتی ہیں ایک کونے سے دوسرے کونے میں، دوسرے سے تیسرے کونے میں، جسم کی جو نسیں مختلف حصوں میں بعض کیفیتیں رکھتی ہیں ان کو بھی اکٹھا کرتی ہیں.ماضی کی ساری چھان بین کرتی ہیں.آپ کی اندرونی کیفیات کا مطالعہ کرتی ہیں، آپ کے تعلقات کا مطالعہ کرتی ہیں، ان تعلقات کے مطالعہ کے دوران ایسے شخص کا کوئی تصور موجود ہے کہ نہیں ، وہ اچھا ہے کہ برا ہے.یہ ساری باتیں آن واحد میں ہو جاتی ہیں اور لاکھوں میل کا سفران برقی روؤں کو اختیار کرنا پڑتا ہے.تو رات بھر کے ہنگاموں میں آپ اندازہ کریں کہ کتنی بڑی مصروفیتیں ، کتنے بڑے بڑے سفر طے ہوتے ہوں گے اور اس کو جو Data feed کیا ہے وہ آپ کے Conscious mind نے کیا ہے ان نیتوں نے کیا ہے جن کی جگالی کرتے کرتے آپ سوئے تھے.ان میں اگر بد تمنا ئیں تھیں جن کو حاصل کرنے میں آپ ناکام رہے یا کسی پکڑ سے بچنے کے لئے آپ نے جھوٹ کے منصوبے باندھے تھے یا آپ نے کسی کی لالچ کی تھی اور آپ کو وہ چیز ہاتھ نہیں آئی اس کو اخذ کرنے کے لئے آپ نے کچھ ترکیبیں سوچی ہیں تو وہ تو چند ہیں.اس گہرے دماغ میں ڈوب کر جو آپ کی نظر سے غائب ہے یہ بہت بڑے بڑے منصوبے بن جاتے ہیں اور وہ پھر پختہ شکل میں آ کر بعض دفعہ خوابوں میں آپ کو دکھائی دیتے ہیں جن کی بعض دفعہ تعبیریں بھی آپ نہیں سمجھتے.لیکن بسا اوقات آپ کی شخصیت کی ایک چھاپ آپ کی روح پر قائم کر دیتے ہیں اور اس طرح آپ کی ایک روح وجود میں آتی ہے.وہ منصوبے اگر شر کا پہلو ر کھتے ہیں تو جو روح اس سے وجود میں آتی ہے وہ لوگوں کے لئے خیر کا موجب نہیں ہو سکتی اور اپنے لئے بھی وہ مرنے کے بعد شر کا ہی موجب ہوگی.پس خدا تعالیٰ نے جو آپ کو زندگی دی ہے جو قومی عطا فرمائے ہیں ان کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں.اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کے تصور میں ڈوب کر اگر ساری زندگی بسر کریں تو اپنے دماغ کی ساکھ اور اس کی کارگزاریوں کے احسانات پر ہی غور کرنا شروع کریں تو آپ کی زندگی کیا، آپ کی نسلوں کی زندگیاں ختم ہو جائیں گی، آپ نہ پورا غور کر سکتے ہیں نہ پورا شکر کا حق ادا کر سکتے ہیں.پس آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے معرفتوں کے خزانے لٹا دیئے ہیں.ایک ایک، دو دو کلمے میں ایسی

Page 307

خطبات طاہر جلد 13 301 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 را پریل 1994ء ایسی عظیم باتیں فرما دی ہیں کہ اگر آپ ان پر غور کر کے ، ڈوب کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی ساری زندگی اس ایک کلمے پر عمل کرنے سے سنور سکتی ہے.فرمایا دیکھو تم بے شر ہو جاؤ یہاں تک کہ غیر گواہی دینے لگے، غیر کو معلوم ہو جائے کہ میری امت سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہے.میرے ماننے والوں سے وہ ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے امن میں ہے تو فرمایا تم مسلمان ہو.پھر فرمایا کہ اللہ کی نظر میں مسلمان ہونا ضروری ہے.ایک یہ پہلو تو خود ظاہر کر دیتا ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ تاثر ہو کہ اس سے کوئی شر نہیں پہنچ سکتا وہ مسلمان ہی ہوگا، اللہ کی نظر میں بھی مسلمان ہونا چاہئے.مگر اس میں ایک چھوٹا سا سقم ہے وہ یہ کہ بسا اوقات انسان دھوکہ دے کر لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بے شر ہے اور اس پہلو سے انسان سب سے زیادہ خطرناک جانور ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ نے صرف یہ علامت بیان کر کے فرض ادا نہیں فرما دیا.آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر انسانی نفسیات کا عالم خدا کے بعد اور کوئی نہ تھا، نہ ہوسکتا ہے.آپ ہر جگہ جہاں ایک علامت بیان فرماتے ہیں ان خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو اس کے غلط استعمال سے غلط نتیجے پیدا کر سکتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا آپ Safety valve بھی مقرر فرما دیتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے اس کا غلط نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا.پس بظاہر ایک آدمی کہہ سکتا تھا کہ یہی تعریف کافی ہے.جس شخص کا دل شرارت سے پاک ہو چکا ہو وہی ہے جس کی نیت، جس کے اعمال بھی شرارت سے پاک ہوتے ہیں.آپ نے خود یہ بھی ہمیں سمجھا دیا ہے تو پھر یہ خدا کے نزدیک بھی مسلمان ہی کہلانا چاہئے ، الگ تعریف کی کیا ضرورت ہے.وجہ یہ ہے کہ جہاں تک بنی نوع انسان کے دیکھنے کا تعلق ہے بسا اوقات ان کو یہی پیغام ملتا ہے کہ یہ شخص بڑا محفوظ ہے اور یہ پیغام نہ اس کے لئے امن کا موجب ہے نہ اس شخص کے لئے جس کے متعلق یہ سوچ سوچی جاتی ہے.جانوروں سے انسان کا ایک نمایاں فرق اس بات میں یہ ہے کہ جانوروں میں بھی Camouflage پایا جاتا ہے، یہ درست ہے اور ہر سطح پر جانوروں کے حیرت انگیز کیموفلاج کے انتظام ملتے ہیں جو قدرت نے ان کو ودیعت فرمائے ہیں یعنی اوپر سے کچھ اور دکھائی دے رہے ہیں اندر سے کچھ اور لیکن یہ سب دفاعی ہیں.حملے میں دھو کہ نہیں ہے.حملے میں کیموفلاج نہیں ہے اگر جالا مکڑی نے تنا ہے تو وہ تنا ہوا جالا دکھائی دیتا ہے آگے کوئی اندھا بن جائے اس میں جا پھنسے تو اس کی

Page 308

خطبات طاہر جلد 13 302 خطبه جمعه فرموده 22 اپریل 1994 ء مرضی ہے مگر اس میں دھو کہ کوئی نہیں.شیر حملہ کرتا ہے داؤ پیچ استعمال ہوتے ہیں مگر شیر شیر ہی دکھائی دیتا ہے گیدڑ دکھائی نہیں دے رہا ہوتا.یہ میری مراد ہے کہ کیموفلاج اگر ہے تو خاص مقامات پر برمحل کیموفلاج ہے، اس میں دھوکہ بازی اور بالا رادہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے کیموفلاج آپ کو قدرت میں دکھائی نہیں دیتا.تمام زندگی کی قسموں پر غور کر کے دیکھ لیں وہاں دفاعی کیموفلاج ہے.لیکن انسان ایک ایسا جانور ہے جس نے کیموفلاج کو حملے کے لئے کثرت سے استعمال کیا ہے کہ آپ کو بڑے بڑے شریر، بہت پاکباز لبادوں میں دکھائی دیں گے اور وہ لوگوں کے مال ہتھیانے کے لئے ، مال کے معاملات میں ایسی ایسی نیک شہرت کی باتیں کرتے ہیں کہ عام طور پر لوگ بے چارے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور جہاں کسی شخص کے متعلق مجھے یہ اطلاع ملتی ہے کہ فلاں شخص جو ہے بہت ہی اچھا آدمی ہے، لوگ دس روپے پر دس روپے منافع دے رہے ہیں وہ دس پر پچاس دے رہا ہے اور بڑی نیک شہرت کا مالک ہے، اس نے بڑے لوگوں کو فائدے پہنچائے ہیں.وہیں میں سمجھ جاتا ہوں که شخص اگر اس پہ اعتبار کرے گا تو مارا جائے گا کیونکہ یہ نیک شہرت عام دستور سے ہٹ کر ہے اور بنائی گئی ہے، بنی نہیں ہے.خود بخو دلوگوں کی باتوں سے سن کر اس نے یہ اندازے نہیں کئے بلکہ جس شخص کی اس کے مال پر بد نیت ہے اس کے سامنے خود اس نے اپنے ثبوت پیش کئے ہیں اور اپنے نقشے کھینچے ہیں.تو اس لئے ہر وہ شخص جو دنیا کو بے شر دکھائی دیتا ہے بسا اوقات یہ اس شخص کی شرارت ہے، اس شخص کا فساد ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے شر بنا کر دنیا کو دکھا رہا ہوتا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ اس تعریف کے اوپر کوئی ایسی تعریف کا پہرہ بٹھا دیا جائے جس میں غلطی کا امکان نہ رہے.تو آپ نے فرمایا کہ بے شر ہونا تبھی درست ہے اگر تم شروالی باتوں سے ہجرت کر کے ان باتوں کی طرف حرکت شروع کر دو جو بے شر ہیں.جب تک تم بے شر نہیں ہوتے دنیا کیسے تمہارے شر سے محفوظ ہوسکتی ہے.پس یہ مضمون ہے جسے حضوراکرم ﷺ بیان فرما رہے ہیں کہ المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده مسلمان تو وہی ہے جس کے شر سے مسلمان بچ جائیں، زبان کے شر سے بھی اس کے ہاتھ کے شر سے بھی.وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ اور مہاجر وہ ہے جو اس چیز سے ہجرت کر جائے جسے اللہ نا پسند فرماتا ہے اور منع کرتا ہے.دوسری حدیث جو میں آج آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جس دور میں داخل

Page 309

خطبات طاہر جلد 13 303 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء ہوئے ہیں ہمیں بہت محنت درکار ہے، بہت اصلاحی کام کرنے ہیں اور جیسا کہ میں نے ایک حدیث آپ کے سامنے رکھی ہے اس مضمون کو آپ لے کر اگر جماعت کی اصلاح کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو اس کے لئے بھی بہت وقتوں کا سامنا ہے.ہر قدم پر وہ شخص جس کو آپ نصیحت کریں گے اس کی انا آپ کی نصیحت کی راہ میں کھڑی ہو جائے گی.وہ دھو کہ جس میں اس نے خود اپنے نفس کو پامال کر رکھا ہے وہ آپ کے مقابل پر کھڑا ہو گا اور اس نصیحت کا کیا فائدہ جو دل پر اثر انداز نہ ہو سکے.پس اس سلسلے میں اور پھر اپنی اصلاح کے سلسلے میں بڑی وقتیں ہیں.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ آپ جو جو مضمون بیان کر رہے ہیں، ہیں تو اچھے لیکن ہمیں تو مصیبت پڑ گئی ہے، ہمیں تو اپنا وجود دکھائی دینے لگ گیا ہے.اتنا بڑا کام، اتنا مشکل کام الله ہم سے ہو نہیں سکتا.تو ان کے لئے پیغام یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جہاں مشکل راہوں کی طرف بلایا ہے وہاں ان کو آسان کرنے کے طریقے بھی سمجھائے ہیں آپ فرماتے ہیں: يَسرُوا وَلَا تُعَشِرُوا وَبَشِرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا ( بخاری کتاب العلم حدیث نمبر: 67) کہ لوگوں کو آسانی کی طرف بلاؤ.آسان باتیں بیان کر کے سمجھا سمجھا کر، پیار سے ان رستوں کی طرف بلاؤ، ان کیلئے مشکل نہ ڈال دیا کرو.یہ ایک انداز نصیحت ہے جس سے قوموں کی اصلاح ہوتی ہے اور اس انداز نصیحت کو نظر انداز کر دیا جائے تو نصیحت فائدے کی بجائے نقصان پہنچا دیتی ہے.آپ کے بچپن کی بھی کچھ یادیں ہوں گی ، میرے بچپن کی کچھ یادیں ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ جب ہمیں نصیحت کیا کرتے تھے تو کبھی اس سے ہم بد کے نہیں کبھی اس سے دوری نہیں ہوئی بلکہ ان کی محبت ہمیشہ پہلے سے زیادہ بڑھی اور اس نسل کا جن کا صحابہ سے تعلق تھا، صحابہ نہیں بھی تھے، ان کا بھی یہی طریق تھا.مجھے یاد ہے دولہا بھائی میاں عبد الرحیم احمد کے والد جب سندھ جاتے تھے ان کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے تو وہ ہمیں نماز کے لئے اس طرح جگاتے تھے کہ دور دور سے پہلے ہماری چارپائیوں کا چکر کاٹنا شروع کرتے تھے.گرمیوں کے دنوں میں خصوصیت سے باہر کھلی ہوا میں سویا کرتے تھے.اندر تو سوال ہی نہیں تھا گرمی میں سونے کا، لیکن سندھ میں کھلی ہوا کی وجہ سے مچھر کم کا شتا ہے اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ آدمی باہر ہی سوئے.تو وہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی شعر پڑھتے ہوئے، کبھی درود پڑھتے ہوئے دور دور سے گھومنے لگتے تھے کہ آہستہ آہستہ اس کے کانوں میں آواز جائے اور آہستہ آہستہ نیند سے بیدار ہو، ایک دم نہ تکلیف پہنچے.پھر وہ دائرہ تنگ

Page 310

خطبات طاہر جلد 13 304 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 را پریل 1994ء ہونے لگ جاتا تھا پھر قریب آ کر مخاطب کر کے، پیار سے وہ باتیں دہرایا کرتے تھے اور اس طرح وہ کہتے کہتے چلے جاتے تھے اور واقعہ اس عرصے میں نیند ہی اچاٹ ہو چکی ہوتی تھی.اس لئے کوشش کر کے، مصیبت سمجھتے ہوئے نہیں آنکھ کھولا کرتے تھے، بلکہ آنکھ خود بخود کھل جاتی تھی اور ان کی آوازوں کا، ان کی باتوں کا بڑا لطف آتا تھا اور اس کے مقابل پر جو سکولوں میں اور مدرسوں میں اسی زمانے میں بھی بعض ایسے لوگ تھے جو ایسے اعلیٰ انداز کے تربیت یافتہ نہیں تھے.وہ بچوں کو آ کے شور مچا کر ، بعض دفعہ سخت کلامی کے ساتھ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ وہ سارے ہڑ بڑا کر اٹھتے اور کہتے ہاں جی اٹھ گئے ہیں، اٹھ گئے ہیں آپ جائیں اور جاتے ہی پھر سو جاتے تھے تو کہنے کہنے کے انداز ہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ایسی بات کہو جونرمی کا پہلو رکھتی ہو، دوسرا گھبرا ہی نہ جائے.اس کو اس طرح بتاؤ کہ اس کو سمجھ آئے اور آہستہ آہستہ اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کرے اور اس کو مصیبت نہ پڑ جائے.تو مصیبت میں ڈالنا مقصود ہر گز نہیں ہے.لا تعسروا کے میں بھی تابع ہوں اور آپ بھی تابع ہیں.آپ بھی جب نصیحت فرمائیں سمجھا کر، پیار سے سمجھا ئیں.یہاں تک کہ نصیحت سے پیار ہو جائے اور اس رنگ میں نہ کہیں، ایسے رنگ میں کوئی بات نہ کہیں، جس سے اس کے نفس میں ایک رد عمل پیدا ہو اور نصیحت کے نتیجے میں اچھی بات کے قریب آنے کی بجائے اس سے اور بھی دور ہٹ جائے تو اچھی نصیحت وہ ہے، جو اچھے کاموں کی طرف بھی رغبت پیدا کرتی ہے اور نصیحت کرنے والے کے لئے بھی دل میں محبت پیدا ہوتی ہے.اس کا سب سے بڑا ثبوت حضرت اقدس محمد مصطفی ملتے ہیں.کن لوگوں کو نصیحت کی سوچیں ذرا ، بدیوں کے کس مقام تک جا پہنچے تھے.اس مرتبے تک بدیوں میں آگے بڑھ گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) فساد ہی فساد ہو گیا تھا اور غالب آ گیا تھا فساد.آگ کے کنارے پر کھڑے تھے.ان کو کھینچ کے لائے ہیں اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ نیکیوں کے بھی عاشق ہوئے اور نیک بات کہنے والے کے بھی عاشق ہو گئے اور جیسی محمد رسول اللہ لہے سے آپ کی زندگی میں محبت کی گئی ہے دنیا کے کسی نبی سے کبھی ایسی نہیں کی گئی.اگر ہے کوئی تو لا کر دکھائے.پس یہ مضمون ہے يَسرُوا وَلَا تُعَسِرُوا بات کہو تو پیار کے ساتھ کہو، پیارے انداز سے سمجھا کے کہو ، آسان دکھا کر ان کو رفتہ رفتہ بلا ؤ اور ان پر ختی نہ کرنا.اگر سختی کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے ان کے لئے بھی نقصان کا موجب

Page 311

خطبات طاہر جلد 13 305 خطبه جمعه فرمود و 22 اپریل 1994ء بنو گے.وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِرُوا اب یہ ہے حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کلام، یہ نہیں فرمایا وَ بَشِرُوا ولا تنذروا کیونکہ ہر رسول بشیر و نذیرا تو ہوتا ہی ہے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ آپ یہ فرماتے کہ تبشیر تو کر وانذار نہ کرنا.اس لئے ایک اور لفظ استعمال فرمایا ہے ”وَبَشِرُوا وَلَا تُنفِرُوا بشارتیں دو، نفرتیں پیدا نہ کرنا.جس کا مطلب یہ ہے کہ انذار نفرت پیدا کرنے کے لئے نہیں کیا جاتا، انذار برعکس نتیجہ پیدا کرتا ہے.اگر انذار حکمت کے ساتھ کیا جائے تو جو شخص وہ انذار کرتا ہے اس کے لئے بھی دل میں محبت پیدا ہوتی ہے مثلاً ایک شخص آپ کو بتاتا ہے کہ آگے ڈاکو ہیں آپ یہ رستہ اختیار نہ کریں، نقصان پہنچے گا تو یہ انذار ہے اور ایک شخص کہتا ہے خبردار اس رستے پر نہیں چلنا منع ہے اس رستے پہ جانا.یہ بھی ایک اندار ہے مگر یہ دوسرا انذار تنفروا کے تابع ہے یہ سننے والے کے دل میں نفرت پیدا کرتا ہے اور جو پہلا اندار ہے وہ بشارت کے تابع ہے اور نبی بشیر اور نذیر ہوتا ہے.بشیر اور منفر نہیں ہوا کرتا وہ نفرتیں پیدا نہیں کیا کرتا تو انذار سے منع نہیں فرمایا لیکن تبشیر کہہ کر دراصل انذار کو بھی تبشیر کے تابع ہی کر دیا ہے.خوشخبریاں دو کیونکہ جب تمہارا انذار بھی خوشخبری کا رنگ رکھے گا تو ایک ایسا شخص جس کو یہ پتا لگے گا کہ واقعہ اس راہ میں چور اور اچکے تھے اور آپ نے اس کو بچالیا تو یہ انذار ہے لیکن اس کے نتیجے میں اس کے دل میں آپ کی محبت پیدا ہوگی، نفرت پیدا نہیں ہوگی اور ایسا ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کسی کو آپ نیک مشورہ دے دیں اور وہ نیک مشورہ کسی چیز سے بچنے کا مشورہ ہوتا ہے اور جب وہ بچ جاتا ہے اور جانتا ہے کہ اس مشورے کی وجہ سے اس کی زندگی بچی یا اس کی ایک قیمتی چیز بچ گئی تو وہ بعد میں آ کر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہے تو فرمایا ”بشروا“.وو بشروا کا ایک پہلو ہے خوش بھی کر ولوگوں کو ، ان کے چہرے پہ کشادگی پیدا ہو جائے، ان کے اندر بشارت کے نتیجے میں جو جذبات میں ایک خاص پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے ویسی تبدیلیاں ان کے اندر پیدا ہونی شروع ہوں ، وہ دکھائی دینے لگیں.پس آسانی کے ساتھ نصیحت کرو، آسان باتوں کی نصیحت کرو، خوشخبریاں پھیلاؤ، خوشخبریوں کے نتیجے میں لوگوں کو کھینچ اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس کے نتیجے میں نفرتیں بڑھتی ہوں.یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں.یہ دو نصیحتیں جو آپ کو کی گئی ہیں، حیرت انگیز ان میں گہرائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ جماعتیں جو الہی جماعتیں ہوں ان کی ترقی کا راز اس میں مضمر ہے، ان کی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے

Page 312

خطبات طاہر جلد 13 306 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1994ء کی صلاحیت کا راز اس میں مضمر ہے.اگر یہ طریق آپ اختیار کریں گے تو معاشرے سے بدیاں بھی دور ہوں گی اور اس کے نتیجے میں خوشخبری پیدا ہوگی.لوگ خوش ہوں گے.اگر اس طریق کو چھوڑیں گے تو جتنی نصیحتیں کریں گے اتنی ہی نفرتیں بڑھیں گی.پارٹی بازیاں ہوں گی ایک دوسرے کے لوگ خلاف ہوں گے، کچھ لوگوں کے لوگ نام رکھنے شروع کر دیں گے کہ یہ بڑا پاکباز آیا ہے، یہ ہمیں ایسی باتیں کہتا ہے، ہمیں ان باتوں سے روکتا ہے وغیرہ وغیرہ.تو آنحضرت ﷺ کی غلامی کا دم بھر کے آپ ہر خطرے سے محفوظ کر دیئے گئے ہیں.سب سے بڑا محسن جود نیا میں کہیں پیدا ہوا وہ محمد رسول اللہ تھے آپ کی طرف سے کبھی کسی کو کوئی شر نہ پہنچ سکتا تھانہ پہنچا بلکہ سلام ہی سلام پہنچا ہے.آپ نے مشکل رستوں کو بھی آسان بنا کر دکھا دیا.آپ نے ہر اس رنگ میں تبشیر فرمائی اور انذار بھی کیا تو ایسے رنگ میں کہ اس کے نتیجہ میں خوشخبریاں پھیلیں اور آپ کی محبت دلوں میں بڑھی.اللہ کرے کہ جماعت احمدیہ بھی یہ رنگ سیکھ لے.اللهم صلی علیٰ محمد و علی آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید.خطبہ ثانیہ سے قبل حضورانور نے فرمایا: مجھے یاد دلایا گیا ہے کہ لجنہ اماءاللہ جماعت کبابیر کا بھی ایک اجتماع ہو رہا ہے.ان کا غالباً پانچواں اجتماع ہے.لجنہ اماء اللہ کہا بیر ساری عرب خواتین پر مشتمل لجنہ ہے صرف ایک ان میں ہندوستان سے گئی ہوئی کشمیر کی خاتون بھی ہیں مگر وہ بھی اب بالکل عربوں کی طرح بن چکی ہیں اور ایک خدام الاحمدیہ فرینکفرٹ ریجن کا اجتماع بھی ہو رہا ہے انہوں نے بھی تحریک کی تھی کہ ہمارا ذ کر خیر جمعہ پر ہو با برکت موقع پر ہمیں بھی اس کی برکت پہنچے.تو آپ سب بھی ہمارے مخاطب ہیں اور آپ سب کو ہم سب کی طرف سے السلام علیکم اور یہ اجتماع مبارک.

Page 313

خطبات طاہر جلد 13 307 خطبه جمعه فرموده 29 راپریل 1994ء طاقت و امامت محملے کی غلامی میں ہے اس کے علاوہ کوئی امام نہیں.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اسلوب محمد سے سیکھیں.( خطبه جمعه فرموده 29 /اپریل 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمُ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ انْقُكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 14) پھر فرمایا:.آج کے جمعہ کے لئے بھی کچھ اعلانات ہیں اور دعا کی درخواستیں ہیں ان کے ذکر کے بعد پھر انشاء اللہ اسی مضمون کو آگے بڑھائیں گے جس مضمون پر خطبات کا یہ سلسلہ جاری ہے.جماعت ہائے احمد یہ یوگنڈا کا جلسہ سالانہ آج 29 راپریل سے شروع ہو رہا ہے اور جلسے کے اختتام پر یعنی یکم مئی کو ان کی مجلس شوری بھی منعقد ہوگی.کل سے جماعت ہائے احمد یہ تنزانیہ اور جماعت احمد یہ سپین کی مجالس شوریٰ بھی منعقد ہورہی ہیں.خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر اہتمام 38 ویں تربیتی کلاس آج 29 راپریل سے شروع ہے 13 رمئی تک جاری رہے گی.لجنہ اماء اللہ پاکستان کے زیر اہتمام بچیوں کی ایک

Page 314

خطبات طاہر جلد 13 308 خطبہ جمعہ فرموده 29 اپریل 1994ء تربیتی کلاس آج سے شروع ہو رہی ہے.خدام الاحمدیہ ضلع اسلام آباد کا سالانہ اجتماع کل جمعرات سے شروع ہو چکا ہے، آج ختم ہو گا.خدام الاحمدیہ سن ہوزے، کیلیفورنیا کا ریجنل اجتماع آج سے شروع ہو رہا ہے 30 اپریل (کل ) تک جاری رہے گا.لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ فرینکفرٹ ریجن کا ایک روزہ سالانہ اجتماع کل تھیں اپریل بروز ہفتہ منعقد ہو رہا ہے.ان سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اللہ تعالیٰ ان اجتماعات کو خالصہ للہ بنائے رکھے اور خالصہ للہ اجتماعات کی جو برکتیں اللہ کے ہاں مقدر ہیں وہ ساری ان کو نصیب ہوں.جماعت احمدیہ کینیا کی طرف سے ایک شکوہ رہ گیا ہے کہ ان کا گزشتہ جمعے کے موقع پر مجلس شوری کا انعقاد ہوا تھا اور 24 اپریل تک وہ رہی تھی تو ان کا ذکر رہ گیا تھا تو دعا تو اب بھی ان کے لئے ہو سکتی ہے، شوری کے جو فیصلے ہوئے ہیں ابھی آخری شکل تو اختیار نہیں کر چکے، تو جو بھی انہوں نے سوچا اللہ اس میں برکت ڈالے اور جب یہاں فیصلے پہنچیں گے اور ان کی منظوری ہوگی تو ہم دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان فیصلوں پر بہترین عمل درآمد کی بھی توفیق بخشے.جماعت احمد یہ کیمیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اٹھ رہی ہے اور بیداری اور قربانی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.جب دعوت الی اللہ کی مہم کا دوبارہ یورپ سے آغاز کیا گیا ہے ( پہلے پاکستان میں جاری ہوئی تھی تو یورپ سے دوبارہ اس مضمون کو خصوصیت سے جب اٹھایا گیا تو اس وقت کینیا تمام افریقہ میں سب سے پیچھے تھا اور اتنی تھوڑی بیعتیں ہوتی تھیں کہ جب میں ان کے مربی صاحب سے پوچھا کرتا تھا کیا ہو رہا ہے؟ کہتے تھے یہ علاقہ ہی ایسا ہے یہاں شروع سے یہی رواج ہے.میں نے کہا ہم نے تو رواج بدلنے ہیں؟ نہیں بدلتے تو توڑنے ہیں اور لازما آپ کو اٹھ کر باقی افریقہ کی سطح پر آگے بڑھنا ہو گا ور نہ تو کروڑ سال بھی بیٹھے رہیں گے تو یہاں کوئی بھی اثر نہیں پڑے گا.وہاں مشکل یہ تھی کہ پاکستانیوں کی ایک سوسائٹی تھی، کچھ ہندوستان کے احمدیوں کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ راضی تھے اور پتا ہی نہیں تھا کہ کس ملک میں رہتے ہیں، وہاں کے حقوق ادا کرنے ہیں، جس زمین کا نمک کھایا ہے اس کا شکریہ کا حق ادا کرنا ہے، ان کو حقیقت اسلام سمجھا کر ، ان کے دلوں کو جیت کر ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں رہی اور اسی پر راضی تھے جو کہ بڑی مخلص جماعت ہے چندہ بھی اچھا دے دیتے ہیں اکٹھے مل کے بیٹھے ہیں.جیسے تھے ویسے ہی رہے اور یہاں تک کہ پھر حالات ایسے

Page 315

خطبات طاہر جلد 13 309 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء جلنگی تبدیل ہوئے کہ جن ملکوں میں جماعت ان ملکوں کا حصہ نہ بن سکی وہاں سے ان کے پاؤں اس طرح پھر حکومتوں نے اکھیڑے ہیں کہ وہاں ٹھہر تے بن نہیں پڑ سکی.چنانچہ باقی ایشیائیوں کی طرح پاکستان کے وہ احمدی جو بعض صورتوں میں کئی نسلوں سے افریقہ میں رہ رہے تھے (یعنی مشرقی افریقہ میں ) ان کو وہاں ٹھکانہ نہیں ملا، بہت سے ان میں سے اب مستلھم میں آ کے آباد ہو گئے ہیں.اسی طرح باقی ایشیائیوں کا حال ہوا.لیکن جہاں خدا کے فضل سے جماعت افریقن بن کر پہنچی ہے وہاں کیفیتیں ہی اور ہیں تو یہ میرے سامنے عذر پیش کیا جاتا رہا کہ جی یہاں تو یہی چل رہا ہے.میں نے کہا یہ چل رہا ہے، مجھے منظور نہیں یہ تو توڑنا پڑے گا.اٹھیں اور ان لوگوں میں داخل ہوں، ان کی جماعت بنیں.جس ملک میں رہتے ہیں وہاں Foreigner بن کے بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.چنانچہ اللہ کے فضل سے لمبے عرصے تک ان کے پیچھے پڑ کر ، آہستہ آہستہ انفرادی طور پر بھی توجہ دلائی گئی ، خدا کے فضل سے اب جماعت بیدار ہوگئی ہے.اب بیسیوں کی بجائے ہزاروں میں بیعتیں آنی شروع ہو گئی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اب ان کا قدم بھی مغربی افریقہ کی طرح تیز رفتاری سے آگے بڑھے گا اور آئندہ چند سال میں لاکھ سے اوپر بھی انشاء اللہ تعالیٰ یہ بیعتیں پیش کر سکیں گے.تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس بیداری کے نیک عمل کی بہترین جزا دے اور بیداری جاری رہے ، بڑھتی رہے اور زیادہ پھل عطا کرتی رہے.(آمین) یہی باتیں مشرقی افریقہ کے دوسرے ممالک پر بھی اطلاق پاتی ہیں یوگنڈا بھی اور تنزانیہ بھی، یہ بھی اس معاملے میں اپنے سے مجھے مخاطب سمجھیں.شوری کے سلسلے میں ایک اقتباس مجھے کسی نے بھجوایا تھا حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا.تفسیر میں شوریٰ کا ذکر فرمایا ہے تو میں نے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہا تھا کہ یہ رکھ چھوڑیں.جب کبھی شوری کا تذکرہ آئے گا تو وہاں پڑھ کے سنائیں گے.اچھا دلچسپ اقتباس ہے اور انہی باتوں کو تقویت ملتی ہے جو میں آپ کے سامنے پچھلی دفعہ عرض کر چکا ہوں.حضرت مصلح موعود شورۃ الماعون کی تفسیر میں فرماتے ہیں: میں نے احمد یہ جماعت کی مجلس شوریٰ میں دیکھا ہے اور میرا ہیں بچھپیں سال کی مجالس شوری کا یہ تجربہ ہے کہ بسا اوقات کسی فیصلے کی پوری زنجیر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک ایک عام آدمی کی رائے

Page 316

خطبات طاہر جلد 13 310 خطبه جمعه فرمود و 29 اپریل 1994ء بھی اس کے ساتھ نہ ملالی جائے.سو میں سے صرف ایک دفعہ مجھے اپنے طور پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے.“ اور جو میں نے گزشتہ مجالس شوری کے فیصلوں کا جائزہ لیا تھا میرے خیال میں سو میں سے ایک دفعہ بھی زیادہ ہے.اس سے بھی کم مرتبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوتنہا فیصلہ نافذ کرنا پڑا ہے.لیکن ایک بات جو عام طور پر نظروں سے پوشیدہ رہی ہے اور اسی پر یہ مضمون روشنی ڈال رہا ہے وہ یہ ہے کہ فیصلے کے وقت یہ نہیں ہوا کرتا کہ خلیفہ وقت الگ بیٹھا ہے اور ایک طرف سے فیصلے آ رہے ہیں اور آخر پر وہ بتاتا ہے کہ یہ منظور ہے، یہ نا منظور ہے.وہ اپنی رائے کو مسلسل مجلس شوری کے ممبران کی رائے میں داخل کر کے ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے.یہاں تک کہ رائے جب آخری شکل اختیار کرتی ہے تو اس سے پہلے ہی خلیفہ اسیح کی رائے اور اس کے مشورے، اس کی سوچ پوری طرح، پوری مجلس شوری کی سوچ اور اس کے مشورے، اس کی رائے بن چکے ہوتے ہیں.اس لئے ویسے بھی ویٹو کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.حضرت مصلح موعود کی بھی عادت تھی کہ بعض دفعہ کسی آدمی نے نام نہیں لکھوایا ،مشورے مکمل ہو گئے لیکن دور کسی ایک دیہاتی پر نظر پڑی جو ایک کونے میں خاموش بیٹھا ہے اس کو مخاطب کر کے نام لے کر اٹھایا کرتے تھے کہ چودھری صاحب آپ بھی اٹھیں، آپ نہیں بولے.بعض دفعہ وہ انکسار کے ساتھ کہہ دیا کرتے تھے کہ ”جی میں کی بولاں“.انہوں نے کہا نہیں نہیں آپ مجھے بتائیں، دیہاتیوں کا مشورہ بھی مجھے چاہئے.ہمارا مشورہ مکمل نہیں ہو گا جب تک مجھے دیہاتی، جس طرح کے آپ ہیں اس قسم کی نمائندگی کا مشورہ نہ ملے چنانچہ پھر وہ مشورہ دیا کرتے تھے.یہ وہ عمل ہے جو اب بھی خدا کے فضل سے جاری ہے لیکن میں بتارہا ہوں تاریخی لحاظ سے ایک بہت ہی دلچسپ حوالہ ہے کس طرح مجلس شوری کا ارتقاء ہوا ہے.کس طرح مجلس شوری میں خلافت اور جماعت اسی طرح ہم آہنگ ہو جاتی ہے جیسے روز مرہ کاموں میں ویسے ہی ہم آہنگ ہے اور دوا لگ وجود نہیں رہتے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: سو میں سے صرف ایک دفعہ مجھے اپنے طور پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے ورنہ ننانوے دفعہ میں فیصلہ اس طرح کرتا ہوں کہ کچھ اس کی رائے میں سے لیا اور کچھ اس کی رائے میں سے اور ایک نتیجہ پیدا کر لیا.اگر عوام کو مجلس مشاورت میں

Page 317

خطبات طاہر جلد 13 311 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء شامل نہ کرتے تو وہ بھی صرف اپنے گھر کی ضروریات کے متعلق ہی اپنے دماغوں سے کام لینے کے عادی ہوتے.“ جو عام روز مرہ کا دستور ہے ہر ایک اپنے گھر کی باتوں میں ہی منہمک رہتا ہے.دو لیکن جب ہم نے ان کو اپنی مشاورت میں شامل کر لیا تو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے دماغ ترقی کر گئے چنانچہ ان کی آراء کے ٹکڑے ٹکڑے مل کر ایک مکمل سکیم بن جاتی ہے جو جماعت کے لئے نہایت مفید اور بابرکت ثابت ہوتی ہے.“ (تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 183-182 ) پس اسی طریق کو تمام مجالس شوریٰ عالمگیر میں جاری رکھنا چاہئے اور اس کی حفاظت کرنی چاہئے.مشکل یہ درپیش ہوتی ہے کہ بعض لوگوں کو مخالفانہ رائے کو سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور بعض لوگوں کو مخالفانہ رائے دینے کا سلیقہ نہیں آتا.وہ مجالس شوریٰ جو خلیفہ وقت کی صدارت میں منعقد ہوتی ہیں ان میں یہ دونوں منفی عناصر شاذ کے طور پر کبھی ظاہر ہوتے ہیں ورنہ نہیں کیونکہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں جو مخالفانہ رائے بھی دیتا ہے وہ سلیقے سے بات کرتا ہے.وہ ادب کا پہلو ، وہ ذاتی تعلق کا پہلو، اس کے اندر چھپے ہوئے نشتر کو کند کر دیتا ہے.اگر غصے سے بھی بات کرنی ہو تو نکلتی اس طرح ہے کہ بہت کم غصہ اس کے ساتھ چمٹا رہ جاتا ہے اور جہاں تک حوصلے کی بات ہے اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کو حوصلہ عطا فرماتا ہے، ہر قسم کی مخالفانہ رائے سنتا ہے اور اس حو صلے میں خلیفہ وقت کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ نظام کی خوبی ہے کیونکہ کوئی بھی اس کی رائے کی مخالفانہ رائے نہیں ہوتی.ہر رائے تائید کی نیت سے اٹھ رہی ہے اور خلیفہ وقت کے فیصلوں کو تقویت دینے کی خاطر اٹھ رہی ہے.اس لئے بظاہر لوگوں کو وہ رائے مخالفانہ معلوم ہومگر وہ مخالفانہ نہیں ہوتی.چنانچہ بسا اوقات میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ ایک منشاء میں نے ظاہر کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت متقی ہے، وہ فیصلہ نہیں تھا، محض منشاء تھا.انہوں نے اس کو سنا اور بعض ان میں سے سمجھتے تھے کہ اس میں فلاں پہلورہ گیا ہے.چنانچہ اٹھ کر بعض دفعہ بڑی لجاجت سے معذرت کرتے ہوئے بات کرتے ہیں.میں ان کو کہتا ہوں کوئی ضرورت نہیں ، کسی تمہید کی ضرورت نہیں ، آپ شوق سے بتائیے کیا بات ہے.چنانچہ ان کو بعض دفعہ حوصلہ دے کے کھڑا کرنا پڑتا ہے.بتائیں تو سہی کیا بات ہے، وہ جب بتاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ

Page 318

خطبات طاہر جلد 13 312 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء بڑی معقول رائے تھی.پس نہ وہ مخالفت کی نیت سے بات کرتے ہیں، نہ سننے والا مخالفانہ بات سمجھ کر سنتا ہے اور یہ وہ بہترین صحت مند ماحول ہے جو جماعت احمدیہ کی مجلس شوری کے سوا دنیا کے پردے پر کہیں دکھائی نہیں دے گا.آپ چھوٹے سے چھوٹے ، سادہ سے سادہ ملک میں چلے جائیں وہاں چھوٹے ہونے اور سادگی کی خوبیاں ملیں گی.بڑے سے بڑے ملک میں چلے جائیں وہاں طاقت کے مظاہرے ہوں گے اور طاقت کے نتیجے میں جو بات میں قوت پیدا ہوتی ہے وہ بھی دکھائی دے گی مگر یہ پاکیزگی جو جماعت احمدیہ کی شوری کے ماحول کی ہے یہ ہر وجود کا ایک جان ہو جانا اور بڑی محبت اور تقویٰ کے ساتھ اپنی باتوں کو ادا کرنا اس کا کوئی عشرِ عشیر بھی آپ کو کہیں اور دکھائی نہیں دے گا.لیکن جب خلیفہ وقت موجود نہ ہو تو پھر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ کچھ بے وقوفیاں سراٹھانے لگتی ہیں.بے وقوفیاں ان معنوں میں کہ بات کرنے کا سلیقہ نہیں.اکھڑر بات کی، اس طریقے پہ بات کی گویا روڑا مار دیا ہے اور نہ ان صدران کو اتنا حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھ لیں چنانچہ کئی دفعہ ہماری مجالس شوری میں کرسی چلنے کی حد تک تو خدا کے فضل سے کبھی نہیں پہنچی جیسے کرسیاں دوسرے ایوانوں میں چل جاتی ہیں مگر تلخ بات ضرور چل پڑتی ہے یا چل پڑتی رہی ہے اور ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بہت غیر معمولی فضل فرمایا یہ ترکیب سمجھا دی کہ ان سب سے میں نے کہا کہ آپ اپنی ریکارڈنگ کیا کریں تا کہ جب بھی میں نے کچھ سننا ہو میں ریکارڈ منگواؤں اور خودسنوں.پس اس بات کا پہنچنا تھا کہ کم و بیش ویسے ہی احساس ہو گیا جیسے میں موجود ہوں اور یہ جو موجودگی کا احساس ہے یہ بہت ہی ضروری چیز ہے جماعت نے خلافت سے جو تعلق کا احساس سیکھا ہے.اس کا اگلا قدم وہ ہے کہ اللہ کی حضوری میں رہیں.جن کو اس دنیا میں حضوری کا تجربہ نہ ہو، اس کی مشق نہ ہو ان کو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی حضوری کا تصور بھی نہیں ہوتا اور عملاً وہ دو دنیاؤں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ایک ان کی اپنی دنیا ہے، ایک تصور میں خدا تعالیٰ سے تعلق کی دنیا ہے.ان دونوں کا رشتہ کوئی نہیں ہوتا.تو مجلس شوریٰ ہمیں یہ رشتے قائم کرنے کے سلیقے بھی عطا کرتی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ تمام دنیا میں مجالس شوری انہی نصیحتوں کو پیش نظر رکھ کر جاری رہیں گی اور جاری کی جائیں گی اور اعلیٰ اخلاق کی حفاظت کی جائے گی کوئی بات اس طریقے پر نہیں کی جائے گی جس میں کسی قسم کی تلخی کا یا اپنے بھائی کی دل آزاری کا عنصر ہو اور اگر کوئی سادگی یا نادانی یا نا تجربہ کاری سے ایسی بات کر دیتا ہے تو حوصلے کے ساتھ

Page 319

خطبات طاہر جلد 13 313 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء سن کر اسے سمجھانے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ جو ابا آپ بھی پتھر پہ پتھر ماریں اور سارا ماحول پراگندہ ہو جائے.پس میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ جو بہت ہی عظیم الشان نظام شوری خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دوبارہ ہمیں عطا کیا ہے، یہ اتنا قیمتی نظام ہے کہ اس کی خاطر ہر بڑی سے بڑی قربانی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اب میں اس آیت کریمہ کی طرف آتا ہوں جس کی میں نے تلاوت کی تھی.اس کا تعلق بھی اس مضمون سے ہے جو کچھ عرصے سے جاری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ انْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا اے انسانو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور اس پہلو سے کوئی فرق نہیں ہے، کالا پیدا ہوتا ہے یا گورا پیدا ہوتا ہے، لولہ لنگڑا پیدا ہوتا ہے یا صحت مند پیدا ہوتا ہے.مشرقی ، مغربی ، شمالی، جنوبی سب مرد اور ا عورت سے پیدا ہو رہے ہیں وَ جَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ اور ہم نے تمہیں قبائل میں اور بڑے بڑے گروہوں میں تبدیل کیا ہے لِتَعَارَفُوا تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، ایک دوسرے کو پہچانتے وقت ان حوالوں سے بات کر سکو.یہ وہی مضمون ہے جس مضمون کے پیش نظر نام رکھے جاتے ہیں.ہر انسان کا ایک نام ہے وہ اس کی ذاتی شناخت ہے اور ذاتی شناخت کو آسان بنانے کے لئے پھر قبائلی شناخت بعض دفعہ اس کی قوم کی شناخت، اس کے مذہب کی شناخت، یہ ساتھ مل جاتی ہیں تو نام کا مقصد پورا ہو جاتا ہے مگر انسان انسان ہی ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انقُكُم تم میں سب سے معزز خدا کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَيْرٌ يقنا اللہ تعالیٰ بہت علم رکھنے والا اور بہت باخبر ہے.یہاں اَكْرَمَكُمْ کے متعلق میں کچھ مزید کہنا چاہتا ہوں.انسان دنیا میں سب سے اول تو روٹی کے لئے جیتا ہے، کمائی کے لئے جیتا ہے، اقتصادی طور پر وہ زیادہ سے زیادہ اپنے وجود کو پھیلانا چاہتا ہے اور پھر اس کے علاوہ اولاد ہے، باقی رہنے والی نسلیں ہیں، خاندان ہیں، تعلقات ہیں، دوستیاں ہیں، قومی وقار ہیں، ان سب کی خاطر جیتا ہے.پھر قوت کے لئے جیتا ہے، طاقت حاصل کرتا ہے اور طاقت کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر دکھاتا ہے.یہ پہلے دو جومحرکات ہیں یہ عموما جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن جب آپ طاقت والے حصے میں داخل ہے.

Page 320

خطبات طاہر جلد 13 314 خطبه جمعه فرموده 29 اپریل 1994ء ہوتے ہیں تو اگر چہ جانور بعض پہلوؤں سے بعض دوسرے جانوروں پر طاقتور ہونے کے لحاظ سے فوقیت رکھتا ہے مگر شعوری طور پر جانور طاقت کے اجتماع نہیں کیا کرتے.اس غرض سے وہ طاقت حاصل نہیں کیا کرتے کہ دوسروں پر اپنی برتری دکھائیں.جیسی طاقت جس جانور کو خدا کی طرف سے نصیب ہو گئی اس کے طبعی استعمال سے، جتنا سا رعب پڑنا چاہئے اتنا خود بخود پڑتا ہے اور اس طرح جانوروں کی دنیا میں ایک باہمی مقابلے کی ایک طبعی جاری وساری صورت ہے جو ہمیں دکھائی دے رہی ہے.شیر کا ایک مقام ہے، بکری کا ایک مقام ہے، بکری سے نیچے اس کے لیلوں کا بھی مقام ہے، ایک کتوں کا ایک اس کے پلوں کا مقام ہے.یہ سارا نظام کا ئنات طاقت کے لحاظ سے بھی مختلف گروہوں میں بٹا ہوا ہے.لیکن انسان کی طرح جانو ر اجتماعی کوشش سے اپنے لئے زائد طاقت حاصل کرنے کا شعور نہیں رکھتے.یہ پہلی دفعہ انسان میں واقع ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اکرام کا تصور جانوروں میں نہیں ہے اور انسان میں ہے اور اکرام کے تصور کا طاقت سے بہت گہرا تعلق ہے.ایک اکرام طاقت سے ملتا ہے.اسی لئے عربی زبان جو الہامی زبان ہے اس میں طاقت اور عزت کے لئے ایک مشترک لفظ رکھا گیا ہے جسے عزیز کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ عزیز ہے.عزیز کا ایک معنی ہے عزت والا ، بزرگی والا ، صاحب شرف اور ایک ہے غالب.تو قوت کا جو عزت کے ساتھ ایک طبعی اٹوٹ رشتہ ہے وہ انسانی سطح پر ابھرنے کے بعد انسان کے شعور میں ابھرتا ہے.اس سے پہلے وہ رشتہ تو ہے مگر جانوروں کے شعور میں ابھرتا نہیں ہے.ان کو علم نہیں کہ طاقت سے عزت نصیب ہوا کرتی ہے پس انسان طاقت ڈھونڈتا ہے اور طاقت سے عزت پاتا ہے اور یہاں سے اس کی تربیت کا وہ اگلا سفر شروع ہو جاتا ہے جواسے خدا کی طرف لے جاتا ہے.خدا کا جہاں تک تعلق ہے، اس پر آپ کی طاقت کیا اثر دکھا سکتی ہے.کوئی بھی حیثیت نہیں.کمزور سے کمزور اور طاقتور سے طاقتور خدا کی نظر کے سامنے کوئی بھی فرق والی حیثیت نہیں رکھتے.ایک مشہور سائنسدان نے غالباً آئن سٹائن کے کسی مضمون میں میں نے یہ پڑھا تھا اس نے بھی یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقابل پر جو مخلوق ہے اس کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ مثال کے طور پر جیسے سورج کا زمین سے تعلق ہے اور آپ اونچائی پہ کھڑے ہو جائیں یا نیچے اتر جائیں جہاں تک سورج کے فاصلے کا تعلق ہے وہ ایک ہی جیسا دکھائی دے گا.چاند نسبتا قریب ہے اس لئے چاند کا

Page 321

خطبات طاہر جلد 13 315 خطبه جمعه فرموده 29 اپریل 1994ء قرب یا چاند سے دوری زمین کی مختلف سطحوں پر ایک اثر دکھاتی ہے سطح سمندر پر اس کا قرب نمایاں ہوتا ہے اور وہ یعنی چاند سے زیادہ زور سے اپنی طرف کھینچتا ہے اور سمندر کی تہہ میں چاند کی طاقت کچھ کم ہو جاتی ہے مگر سورج کی طاقت برابر ہے اس سے ذرا بھی فرق نہیں دکھائی دیتا یعنی ایسا فرق جو روز مرہ کی انسانی اور حیوانی زندگی پر نمایاں ہو کر اثر انداز ہو سکے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے اس کے سامنے تو سارے بندے، ہر طاقت، ہر کمزوری ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اس لئے وہاں تو خدا کی نظر میں طاقت اور عزت کا کوئی جوڑ دکھائی نہیں دیتا.وہاں ایک اور مضمون شروع ہوا ہے جس کی طرف قرآن کریم کی آیت اشارہ فرما رہی ہے کہ خدا کے سامنے نہ تمہاری دولتیں کام آئیں گی.نہ تمہارے جتھے کام آئیں گے، نہ تمہاری سیاسی یا دوسری طاقتیں کام آئیں گی اور عزت پھر بھی تمہاری دلی تمنا ہے انسانی زندگی کا ایک حصہ بنا دی گئی ہے پھر کیسے خدا سے عزت پاؤ گے؟ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقُكُمْ ہم تمہیں عزت کا رستہ بتاتے ہیں.تم سب سے زیادہ متقی ہو جاؤ اور یہ وہ چیز ہے جو اس سے پہلے حیوانی زندگی میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.یہاں انسان حیوانی زندگی سے بالکل ممتاز ہو کر ابھرتا ہے.تقویٰ کا وہ مضمون ہے جو انسانی ارتقاء کی آخری منزل سے شروع ہوتا ہے یعنی انسانی منزل سے اور پھر یہی وہ مضمون ہے جو خدا کی طرف آپ کے سفر میں مسلسل آپ کا ساتھ دیتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اسے یوں بھی بیان فرمایا خَيْرَ الزَّادِ التَّقوی سب سے اچھا زادراہ تقویٰ ہے.تو پتا چلا کہ اس کی پہلے کی منازل جتنی بھی زندگی نے طے کیں انسان کے وجود تک اور انسان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی ، ان میں زاد راہ کچھ اور ہوا کرتا تھا.یہاں سے اگلا سفر جو بلندیوں کی طرف شروع ہونا ہے، جو خدا کی طرف ہے، اس کے متعلق ایک اور زادراہ بیان کر دیا جس کا پہلے کوئی تصور نہیں ہے.فرمایا اِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى تقویٰ بہترین زاد ہے اس سے بہتر زا دسفر تمہیں نصیب نہیں ہوسکتا.پس تقویٰ سیکھنا ہے کیونکہ تقویٰ کے بغیر ہم اللہ کی نظر میں کوئی عزت نہیں پاسکتے اور یہ دنیا کی عزتیں تو یہیں مرمٹ جائیں گی، ہمارے ساتھ مٹی ہو جائیں گی اور یہاں بھی ان کی کوئی ضمانت نہیں ہے.نہ قوموں کی عزتوں کی کوئی ضمانت ہے، نہ افراد کی عزتوں کی ضمانت ہے.تاریخ پر نظر ڈال کے دیکھیں، تو میں دیکھیں کہاں سے اٹھیں اور کہاں تک جا پہنچیں اور پھر تنزل کی راہ اختیار کرتے کرتے

Page 322

خطبات طاہر جلد 13 316 خطبه جمعه فرموده 29 را پریل 1994ء کس طرح وہ ذلیل اور رسوا ہو گئیں.وہی قومیں جن پر ان کو برتری حاصل ہوا کرتی تھی ، ان برتری والی قوموں کو خدا تعالیٰ نے ذلیل و رسوا اس حد تک ہونے دیا کہ وہ جو کل تک ذلیل تھے وہ ان پر حکومت کرنے لگے، وہ ان پر ایسے حاکم اور جابر بن کر سوار ہو گئے کہ بعض ایسے تاریخ کے دور آتے ہیں کہ وہ مجبور قو میں تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ کبھی ان کے تسلط سے ہم آزاد ہو سکتے ہیں.آج ہی کی دنیا دیکھ لیجئے آج سے کچھ سال پہلے روس کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ وہ قو میں جو روس کے تسلط میں ہیں وہ اس سے آزادی کے کوئی خواب بھی دیکھ سکیں گی.مگر خدا نے وہ طاقتیں توڑنے کا فیصلہ کیا تو چھوٹی چھوٹی قو میں جن کی کوئی حیثیت نہیں تھی ، جنہیں روس کی ایک بھبکی دبا کے مٹاسکتی تھی ، وہ سر اٹھانے لگیں اور انہوں نے اپنے لئے آزادی کے مطالبے شروع کر دیئے.اب امریکہ کا رعب ہے اور قو میں امریکہ کو سجدے کر رہی ہیں لیکن نہیں جانتیں کہ یہ دور بھی ہمیشگی کا دور نہیں ہے.وہ تنزل کے آثار امریکہ میں ظاہر ہو چکے ہیں جو چند اور سالوں میں نمایاں ہو جائیں گے اور پھر امریکہ کی وہ برتری اور فضلیت، گویا ایک ہی سپر پاور ہے، یہ باقی نہیں رہے گی.وہ کمزور قو میں جو ایک طاقت کے وقتی طور پر غالب آنے کے نتیجے میں اپنی عزتوں کے سودے کر لیتی ہیں بہت ہی بے وقوف قو میں ہیں.وہ اپنے ضمیر کے سودے کرتی ہیں اور ان سودوں کا فائدہ کوئی نہیں.وقت بدل جاتے ہیں پھر کسی اور آقا کی تلاش کرنی پڑتی ہے، پھر اس کے حضور اپنے ضمیر بیچنے پڑتے ہیں.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَّقُكُمْ میں ان سارے مصائب کا علاج پیش فرما دیا گیا ہے.خواہ تم قومی حیثیت سے زندہ ہو، خواہ تم انفرادی حیثیت سے زندہ ہو، اگر تم تقویٰ پر قائم رہو گے تو پھر تمہاری عزتیں اللہ سے وابستہ ہو جائیں گی.عِنْدَ اللہ کا ایک مطلب ہے خدا کے نزدیک تم معزز ہو.اب خدا تو کسی کے سامنے جھک کر اس کی عزت نہیں کرتا.خدا کے حضور تم نے عزت کی سند حاصل کر لی ہے، یہ معنی ہے.تم وہ حق رکھتے ہو کہ تمہاری عزت کی جائے اور جب خدا کے نزدیک کسی قوم کا یہ حق ہو جائے کہ اس کی عزت کی جائے تو اس کی عزتیں بڑھتی ہیں پھر کوئی دنیا کی طاقت اس کی عزتوں کو کم نہیں کر سکتی.جب تک وہ خدا کے نزدیک معزز رہنے کا حق رکھتے ہیں وہ معزز بنائے جاتے ہیں خواہ وہ پہلے کیسے ہی ذلیل کیوں نہ ہوں اور جب وہ ایک دفعہ خدا سے تعلق جوڑ لیں تو اس کے بعد دوامکانات ہیں یا احتمالات بھی ہیں.

Page 323

خطبات طاہر جلد 13 317 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء ایک یہ کہ اس دنیا میں بھی تقویٰ کی زاد راہ کو لے کر نسلاً بعد نسل آگے بڑھیں اور اس دنیا میں بھی مرتے دم تک اس زادراہ کو ساتھ چمٹائے رکھیں تا کہ پھر وہ آگے ان کا ساتھ دے.ایسی قوموں کی عزت کی ہینگی کے لئے ضمانت ہے جب تک وہ ان شرطوں کو پورا کریں اور منفی پہلو اس کا جس کا احتمال کے طور پر میں نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ زاد راہ لے کر جتنا چاہیں بڑھیں اگر وہ منزل سے پہلے ختم ہو گیا تو آپ کا گزشتہ سارا سفر ضائع گیا.صحرا میں سفر کرنے والا اگر منزل پہ پہنچنے سے اتنی دیر پہلے پانی سے محروم ہو چکا ہے کہ اس عرصے میں بغیر پانی کے انسان زندہ نہ رہ سکے تو وہ یہ دلیل تو نہیں دے سکتا کہ اے خدا تعالیٰ میں پچاس میل یا سومیل اسی صحرا میں سفر کر کے آیا ہوں جب کہ موسم زیادہ سخت تھا تو اب تھوڑی دور منزل رہ گئی ہے اب میں کیوں زندہ نہیں رہ سکتا، گویا پانی ختم ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے.کوئی اس کی نہیں سنی جائے گی.زادراہ کا ایک قانون ہے وہ غالب قانون ہے وہ مسافر پر قبضہ کرتا ہے اور مسافر کو اس قانون کی ماننی پڑتی ہے.پس خوش نصیب وہ ہے جو اپنے زاد راہ کو مرتے دم تک پورا رکھتا ہے اگر بڑھاتا چلا جائے تو اس کی طاقت بڑھتی جائے گی، اس کا تقویٰ بڑھتا جائے گا اس کی عزت بڑھتی جائے گی اور اگر نہیں تو کم سے کم ایسا محروم نہ ہو کہ خدا کے نزدیک وہ عزت سے خالی ہو جائے.پس جسے اس دنیا میں خدا کے نزدیک عزت سے خالی رہنا ہے مرنے کے بعد بھی وہ عزت سے خالی رہے گا اور قوموں کے لحاظ سے بھی یہی مضمون ہے.پس جماعت احمدیہ کے دو سفر ہیں ایک ہر احمدی کا ذاتی سفر ہے.جواس کی موت تک جاری ہے.ایک ہمارا جماعتی سفر ہے، جس کے متعلق ہماری بھر پور کوشش ہے اور دلی آرزو ہے کہ یہ سفر ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رہے.ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا کرتا.ہمیں علم ہے کہ مذہبی قو میں بھی اپنے انتہائی عروج تک پہنچنے کے بعد پھر تنزل اختیار کر جایا کرتی ہیں.مگر جن بدنصیبوں کی وجہ سے وہ تنزل اختیار کرتی ہیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم وہ بد نصیب نہ ہوں.ہمارے دور میں ایک بھی ایسی بات اگلی نسلوں کے ورثے میں نہ آئے، جس میں تنزل کا خمیر پایا جاتا ہو.اس پہلو سے میں جماعت احمدیہ کو خوب متنبہ اور ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی تقدیران غالب قوانین سے بالا نہیں ہے.یہ دائمی قوانین ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ انْقُكُمُ اور یہ قانون کہ جب کوئی قوم تقویٰ سے عاری ہو جائے تو اس کے نتائج سے بھی ضرور ہی عاری ہو جایا

Page 324

خطبات طاہر جلد 13 318 خطبه جمعه فرموده 29 اپریل 1994ء کرتی ہے.خواہ کتنی ہی بلندیوں پر آپ کا قدم ہو آخر گرنا پڑتا ہے لیکن گرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی جبری فیصلہ نہیں ہے.جب قوم اپنے حالات بدلتی ہے، اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ جب تک قوم اپنے حالات نہ بدلے، خدا تعالیٰ کبھی کبھی ان کے تنزل کی تقدیر جاری نہیں فرماتا.پس ایک پہلو سے یہ تقدیر ہے ایک پہلو سے تدبیر ہے اور تدبیر اور تقدیر کا یہ رشتہ مکمل ہو جاتا ہے.اگر آپ تقدیر خیر کے خواہاں ہیں تو عمل خیر کی حفاظت کریں.اپنی سوچوں کو خیر کی سوچیں بنائیں ، اپنی تمام تدبیروں کو خیر کی تدبیر بنا ئیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی سوچوں اور آپ کی تدبیروں کو، جو عارضی اور فانی ہیں، ان کو تقدیر کے ذریعے لافانی کر دے گا.عزت آسمان سے اترے گی آپ کی کوششوں سے نصیب نہیں ہو سکتی مگر خدا کا یہ وعدہ پھر ضرور آپ کے حق میں پورا ہوگا کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہے.پس اپنے تقویٰ کی اپنی ذات میں حفاظت کرنا، اپنے خاندان میں حفاظت کرنا اپنی آئندہ نسلوں میں حفاظت کرنا، ایسی گہری سوچوں کے ساتھ حفاظت کرنا کہ آئندہ جاری وساری رہے، نسلاً بعد نسل جاری رہے یہ وہ ہمارا اہم ترین فریضہ ہے جو ہمیں سونپا گیا ہے اور جماعت کے تیزی کے ساتھ پھیلاؤ کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ میری فکر انہیں باتوں پر مبذول ہے، انہی باتوں کے لئے وقف ہو چکی ہے کہ ہم ایک ایسی جماعت بن کر خدا کی نظر میں ابھریں کہ خدا کی تقدیر اس جماعت کو آج کے لئے نہیں، کل کے لئے ، پرسوں کے لئے نسلاً بعد نسل ، ہزاروں سال کے لئے معزز بنائے رکھے اور آنے والے اپنی عزتوں کے حوالے ہماری نسلوں کے بھی دیں کہ ان کی دعاؤں ، ان کی کوششوں سے، ان کا فیض تھا کہ خدا کے فضل اور اکرام کی تقدیر آسمان سے ہمارے لئے اتر رہی ہے.اس پہلو سے اگر باتیں کرنی ہیں تو اس کی باتیں کرنی ہیں جو عند الله اتقی تھا یعنی حمد مصطفی ہے.خدا کے نزدیک سب سے زیادہ متقی محمد رسول اللہ تھے اور خدا کے نزدیک سب سے زیادہ اکرام کے لائق حضرت محمد مصطفی علی ہیں.پس تقویٰ کیا ہے اور اکرام کسے کہتے ہیں اور جس متقی کو خدا کی طرف سے اکرام نصیب ہوتا ہے اس کے اپنے روز مرہ کے دستور کیا ہوتے ہیں.اس کا دوسروں کے ساتھ تعلقات کا دائرہ کس طرح پھیلتا ہے یا سکڑتا ہے ، کن لوگوں سے اس کے تعلق کٹتے ہیں کن سے اس کے تعلق استوار ہوتے اور

Page 325

خطبات طاہر جلد 13 319 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء بڑھتے چلے جاتے ہیں.وہ اپنی عزت کو خود کن نگاہوں سے دیکھتا ہے.کیا وہ عزت اس کے دل میں تکبر پیدا کر دیتی ہے یا اس کے برعکس جلوہ دکھاتی ہے.یہ وہ ساری باتیں ہیں جو ہمیں اپنی سوچوں سے اصلى الله نہیں ملیں گی ، حضرت محمد مصطفی مے کا حسن دیکھنے کے نتیجے میں جوں جوں آپ کا حسن ہمارے دل پر جلوہ گر ہو کے اسے اپنا بنا تا چلا جائے گا، اسی طرح ، اسی رفتار کے ساتھ، ہم تقویٰ کے مضمون سے بھی آگاہ ہوں گے اور تقویٰ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اکرام کے تقاضوں سے بھی آگاہ ہوں گے.پس اس پہلو سے میں احادیث نبویہ کے اس مضمون میں دوبارہ داخل ہوتا ہوں جو میں شروع کر چکا تھا.ترمذی کتاب البر والصلۃ میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے، فرماتے ہیں: صلى الله قال: قال رسول الله له ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا و يامر بالمعروف وينه عن المنكر.(ترمذی کتاب البر والصلۃ حدیث نمبر : 1844) ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.کون ہم میں سے نہیں ہے؟ فرمایا، جو اپنے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور اپنے بڑوں کی تو قیر نہیں کرتا.ان کے ساتھ عزت کا معاملہ نہیں کرتا و یامر بالمعروف وينه عن المنكر اور معروف باتوں کا حکم نہیں دیتا یا ان کی تلقین نہیں کرتا اور بری باتوں سے روکتا نہیں.یہ جو مجلس شوری کا میں نے تصور آپ کے سامنے رکھا تھا یہ حدیث بعینہ اس پر چسپاں ہو رہی ہے.ہماری مجلس شوریٰ وہی ہو گی جہاں چھوٹوں پر رحم کیا جائے گا، بڑوں کی عزت کی جائے گی اور نیک باتوں کی نصیحت کی جائے گی ، بری باتوں سے روکا جائے گا یہ خلاصہ ہے مجلس شوری کا، لیکن اس حدیث کے حوالے سے ایک بات جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج کل بعض علماء دین امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بالکل الٹ معنی لیتے ہیں جس کا حضور اکرم ﷺ کے ارشاد سے کوئی بھی تعلق نہیں.ایک موقع پر حضور اکرم نے فرمایا کہ اگر تم کوئی بری چیز دیکھتے ہو، اپنے ہاتھ سے اس کو روک سکتے ہو تو روک دو، اگر نہیں تو زبان سے منع کرو، اگر زبان سے بھی منع نہیں کر سکتے تو دل میں برا مناؤ.ایک بہت ہی گہری حکمت پر مبنی ، بہت ہی پاک نصیحت تھی جو جب ٹیڑھے دماغوں میں پڑی ہے تو اس نے دیکھیں کیسا ٹیڑھا رخ اختیار کر لیا.اب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم ہے

Page 326

خطبات طاہر جلد 13 320 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1994ء نے حق دیا ہے کہ اگر کوئی اسلام کے خلاف بات کرتا ہے اور تمہارے پاس طاقت ہے، تلوار ہے تو تلوار چلا دو.اگر پتھر ہے تو پتھر مارو اور جس طرح بھی بن پڑے زبر دستی نمازیں پڑھا دو.زبر دستی بعض بدیوں سے روکو اور جبر کی حکومت رائج کر دو.یہ تلقین اتنی عام ہو چکی ہے اور ایسے ظالمانہ طور پر خصوصًا پاکستان کا مزاج بگاڑ رہی ہے کہ اس کے تصور سے بھی انسان کا دل دہلتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا.ابھی چند دن پہلے ایک خبر آئی کہ کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہ کام کرو تو اس نے کہا میں تلاوت کر رہی ہوں اس کو اتنا غصہ آیا ، وہ خود حافظ قرآن تھا کہ اس نے قرآن کریم جلا دیا یعنی کہا گیا قرآن کریم جلا دیا تو اس پر شور پڑ گیا سارے شہر کی مساجد سے اعلان ہوا کہ بہت بڑا گناہ ہو گیا ہے اٹھو اور اس شخص کو سزا دو.یہاں تک کہ اس کی طرف جب بڑھے ہیں اس سے پہلے پولیس کی تحویل میں وہ آچکا تھا اور حملہ آوروں نے پولیس سے اس کو چھینا، پہلے اس پر پتھر برسائے اور پھرا بھی جان باقی تھی کہ زندہ آگ میں جلا دیا اور اس طرح انہوں نے قرآن کی عزت قائم کی.اس کے پیچھے یہی جھوٹا اور غلط تصور ہے جس کا کوئی اشارہ بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اپنی پاک زندگی میں نہیں ملتا.یہ عجیب باتیں محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں جنہیں اول انسانی فطرت دھکے دیتی ہے اور نفس کی شرافت کسی طرح قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور دوسری طرف حضرت محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ پر نگاہ ڈالیں تو ایک بھی واقعہ ایسا آپ کی زندگی میں دکھائی نہیں دیتا کہ اپنے اس ارشاد کا یہ مطلب سمجھتے تھے جو ملاں آج دوسری دنیا کو سمجھا رہا ہے.وہ واقعہ ہو گیا اور پھر دو تین دن کے بعد خبر شائع ہوئی کہ اس کی بیوی نے بیان دیا ہے کہ بالکل جھوٹ ہے، ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی.صرف بات یہ ہوئی تھی کہ وہ بے چارہ چائے بنارہا تھا، پاس قرآن کریم رکھا تھا، پانی ابلا اور قرآن پر ابلتا ہوا پانی پڑ گیا.وہ سمجھا کہ مجھ سے گناہ ہو گیا ہے.اس نے کہا ہائے مجھ سے قرآن جل گیا اور وہ بات بیوی نے شاید کسی ہمسائی کو بیان کر دی ہو گی یا آگے چل پڑی تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچی.پولیس آئی ، اس کو زبر دستی پکڑ کے لئے گئی اور پھر اسے اس MOB کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے اس کی Lynching کی ہے.اب یہ باتیں اگر محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب کر کے کی جائیں تو یہ اور بھی زیادہ بھیانک ہو جاتی ہیں، یہ کیسی بد بختی ہے کہ ایسی بہیمانہ حرکتوں کا منبع حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو بیان کیا جائے.اس طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کہیں محمد رسول اللہ ہے کی

Page 327

خطبات طاہر جلد 13 321 خطبہ جمعہ فرموده 29 را پریل 1994ء الله طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملتا.صحابہ کا تو یہ حال تھا کہ ایسی حالت میں بھی کہ جب یقین سمجھتے تھے کہ فلاں شخص کی یہ غلطی ہے اور ہمیں حق ہے، قرآن کی طرف سے حق ہے کہ ہم اسے قتل کر دیں، محمد رسول اللہ ﷺ سے پوچھے بغیر فیصلہ نہیں کرتے تھے.کامل قانون کی حکمرانی تھی اور آنحضرت نے کبھی اشارہ بھی نھی عن المنکر کے یہ معنی عملا ظاہر نہیں فرمائے کہ زبردستی لوگوں کو ہٹاتے پھرو.اب قرآن آنحضرت ﷺ کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے، آپ کی ذات مجسم قرآن بن گئی.ایک موقع پر صبح نماز کے وقت تھوڑے آدمی تھے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اتنی تکلیف ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ لوگ نمازوں کی طرف تو نہیں آتے اور بکری کے دو پائے اگر پکا کر ان کی طرف بلایا جائے تو دوڑے چلے آتے ہیں کہ اگر یہ جائز ہوتا تو میں ان گھروں کو جلوا دیتا.اب یہ جو ہے نعوذ بالله من ذلک کسی مغلوب الغضب انسان کا کلام نہیں ہے.آپ جانتے تھے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ سے سبق سیکھنے کے باوجود، نمازوں کی اہمیت کو سمجھنے کے باوجود، نمازوں سے غافل ہیں ان کا 66 صلہ جہنم ہے.تو اس بڑی آگ سے بچانے کے لئے دل میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ یہ کروں تو باقی لوگوں کو نصیحت ہو جائے.مگر کیوں رکے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی اجازت نہیں دی تھی.فرماتا ہے اِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرَةٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ (الغاشية: 22 تا23) تجھے ہم نے مذکر بنا کے بھیجا ہے.مصیطر بنا کے نہیں بھیجا اور یہ ایسے جاہل لوگ ہیں کہ قرآن کریم کی اس روشن وضاحت کے باوجود کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کیا دائرہ ہے پھر بھی زبر دستی اس کی طرف ایسی خوف ناک اور ملحدانہ باتیں منسوب کرتے ہیں.قرآن کہتا ہے إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّر اور مذکر کی تشریح قرآن بار بار یہ فرمارہا ہے کہ نھی عن المنكر كر وامر بالمعروف کرو لیکن تذكير کے دائرے میں رہ کر نصیحت کے دائرے میں رہ کر.اپنے ہاتھ میں قوت لے کر یا قوت کا سہارا لے کر خواہ تمہارے ہاتھ کی ہو یا اور جگہ سے حاصل کرو، تمہیں اخلاقی تبدیلیاں پیدا کرنے کوئی حق نہیں ہے.مصیطر نہیں ہے.اے محمد ! تو مصیطر نہیں ہے ، داروغہ نہیں ہے جس نے زبردستی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.اگر سنیں گے تو ان کا فائدہ ہے.نہیں سنیں گے تو پھر اللہ کے سپرد ہے.إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ ( الغاشیہ: 24 تا25) جو توتی کرے گا اور انکار کرے گا، اللہ کا کام ہے اسے عذاب اکبر میں مبتلا کرے، تمہارا

Page 328

خطبات طاہر جلد 13 322 خطبه جمعه فرموده 29 راپریل 1994ء کام نہیں ہے.اب یہ واقعہ جو وہاں رونما ہوا ہے اس وقت اخباروں نے اچھالا اور ایک اخبار بھی ایسا صلى الله نہیں تھا جس نے اس کی مذمت کی ہو اور کہا ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر یہ نا پاک داغ لگایا جارہا ہے ہم اسے برداشت نہیں کریں گے، یہ جھوٹی نصیحتیں ہیں.کسی نے آواز نہیں اٹھائی اور اب جبکہ حق ظاہر ہو گیا تب بھی سب دنیا خاموش ہے.کہاں ہے حکومت پاکستان کا انصاف.ان سب علماء کو جنہوں نے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں سے وہ جاہلانہ اور غضب ناک اعلان کئے تھے جس کے نتیجے میں ایک معصوم کی جان اس طرح لی گئی اور بڑے دردناک طریقے پر لی گئی ، اگر پاکستان کی حکومت میں ذرہ بھی انصاف ہو تو اب ان کو پکڑے.اول تو پہلے ہی پکڑنے کی ضرورت تھی اگر قانون کے محافظ اپنے قانون کے ساتھ لوگوں کو کھیلنے دیتے ہیں تو قانون کا وقار پھر باقی نہیں رہا کرتا.ایسے ملک میں پھر آئندہ امن کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی.وہ بھی وقت تھا کہ حکومت پاکستان دخل دیتی اور سختی سے اس رو کو دباتی کہ قرآن کو جلایا یا نہ جلایا یہ حکومت کا کام ہے، ہم فیصلہ کریں گے.عدالتوں کا کام ہے، حکومت کا کام ہے ان فیصلوں کو نافذ کرے.جس نے اپنے ہاتھ میں قانون لیا ہے وہ مجرم ہے اس سے وہی سلوک کیا جائے گا جو اس نے کسی دوسرے سے کیا ہے.اس وقت وہ وقت تھا لیکن اگر وہ وقت ہاتھ سے گزر گیا تو اب کیوں زبانیں گنگ ہو گئی ہیں.اب اس معصوم کا خون پکار رہا ہے اور کوئی آواز نہیں ہے جو اس کے حق میں اٹھ رہی ہو.اس لئے جماعت احمدیہ کو امر بالمعروف کی حد میں رہنا ہے اور اس سلیقے کے ساتھ رہنا ہے جس سلیقے کے ساتھ قرآن اور محمد رسول اللہ نے ہمیں سکھایا ہے اور اس میں ایک یہ بھی جو اس وقت آپ کے سامنے میں نمونہ دکھا رہا ہوں کہ ہم ہر بدی کے خلاف ضرور آواز اٹھاتے رہیں گے اور ساری جماعت کا کام ہے ہر جگہ یہ آواز اٹھائے اور اب جبکہ واقعہ ظاہر ہو چکا ہے تمام دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑے اور کہے کہ دیکھو اس طرح ظلم ہوا کرتے ہیں اگر جاہل ملاؤں کے ہاتھ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی باتوں کی تفسیر پکڑا دی جائے ان کو اپنی گفتگو کا سلیقہ نہیں، انہیں رہنے کے انداز نہیں آتے ، ان کی باتوں سے غضب جھلکتا ہے، بات بات پر منہ سے جھا گیں نکلتی ہیں، انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت سکھانی ہے تمہیں؟ آپ نہیں سیکھ سکے اور جہالت دیکھیں عوام کی کہ یہی ملاں نسلاً بعد نسل بولتا بولتا اپنے گلے بٹھا دے اور جانیں دے بیٹھے کہ آؤ نیکی کی طرف آؤ تو نیکی کی طرف کوئی نہیں آئے گا.گوجرانوالہ سے رشوت دور کر کے دکھا دو، گوجرانوالہ میں جو حق تلفی

Page 329

خطبات طاہر جلد 13 323 خطبه جمعه فرموده 29 را پریل 1994ء ہو رہی ہے وہ دور کر کے دکھا دے، گوجرانوالہ کی عدالتوں میں بچے گواہ پیش کر دیں.کوشش تو کریں، سارے گوجرانوالہ کے مولوی اور اردگرد کے اکٹھے ہو جائیں، گوجرانوالہ کی ایک گلی کو بھی مسلمان بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ یہ خدا کا کام ہے جو امام اس نے بھیجا اس کے تو منکر ہو بیٹھے ہواب تمہاری باتوں میں طاقت نہیں ہے.طاقت وہاں ہے جہاں سے آج میں بول رہا ہوں محمد مصطفیٰ کے غلاموں میں طاقت ہے.مسیح موعود کے منصب خلافت میں طاقت ہے.آج میں ایک آواز بلند کرتا ہوں زمین کے کناروں تک لبیک لبیک کی آوازیں آتی ہیں.ایک بدی دور کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، بے اختیار دل اچھلتے ہیں، کہتے ہیں ہاں ہم حاضر ہیں، ہم ان سب بدیوں کو کاٹ پھینکیں گے، ایک نیکی کی طرف بلاتا ہوں، اس سے بڑھ کر نیکیوں کے لئے وعدے آتے ہیں اور پھر لوگ ان پر عمل کر کے دکھاتے ہیں.یہ صرف اس لئے ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو زمانے کا امام بنایا گیا ہے اور وہی امامت طاقتور ہے جو آپ کی غلامی کی امامت ہے اس سے ہٹ کر کوئی امامت امامت نہیں ہے.تم ظلموں کی طرف بلالو، دیکھو کس طرح لوگ تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہیں، تم سنگسار کرنے کے لئے لوگوں کو آواز دو، جھولیوں میں پتھر ڈال کر دوڑیں گے اور معصوم ہوں یا گنہگار ہوں ہر ایک پر وہ پتھر پڑیں گے اور اکثر معصوموں پر پڑیں گے.لیکن ظلم سے روکنے کی کوشش کر کے دیکھو کبھی ظلم سے روک نہیں سکتے.امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی طاقت محمد رسول اللہ کو عطا ہوئی ہے تمہیں نہیں ہوئی اور یہی میں جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں جب تک وہ امر بالمعروف کریں گے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا امر بالمعروف ہے آپ کو آسمان سے طاقت نصیب رہے گی آپ کی باتوں میں عظمت پیدا ہوگی ، وقار پیدا ہوگا، لوگوں کے دل ان کو ماننے کے لئے جھکیں گے اور اگر وہی نھی عن المنکر آپ نے کرنی ہے اور وہی کرنی ہوگی اور اس انداز سے کرنی ہے جس انداز سے محمد رسول لہ ﷺ نے کی اور وہی کرنی ہوگی تو پھر دیکھیں کس طرح آپ کے روکنے سے لوگ رکھتے ہیں اور یہی اس وقت جماعت میں ہو رہا ہے.پس آنحضرت میہ کی نصیحتوں کی گہرائی میں اتریں اور قرآن کے حوالوں سے ان نصیحتوں کو سمجھیں اور ان کے مطابق عمل کریں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو طاقت نصیب ہوگی کسی دنیا کے ہتھیار کی ضرورت نہیں کسی حکومت کی تائید کی ضرورت نہیں ہے.پس اہل پاکستان میری آواز کوسن رہے ہوں گے وہ اپنے طور پر اپنی حکومت کو پہنچا ئیں اور صلى الله

Page 330

خطبات طاہر جلد 13 324 خطبہ جمعہ فرموده 29 اپریل 1994ء ان سب بد کرداروں کو جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے اور ظلم کمایا ہے ان کوعبرتناک سزائیں ملنی چاہئیں تا کہ آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ پڑے.کجا یہ کہ وہ یہ فیصلے کرے کہ سچا ہے یا جھوٹا ہے.یہ اختیار ہی ان کو نہیں ہے اور امر بالمعروف کے متعلق مسلسل آواز بلند ہونی چاہئے کہ یہ مطلب نہیں ہے جو تمہیں ملاں سمجھا رہا ہے.مسلسل جھوٹ بول رہا ہے.امر بالمعروف کا وہ مطلب ہے جو محمد رسول اللہ نے قرآن سے خود سمجھا اور زندگی بھر اس پر عمل کر کے دکھایا.ایک دفعہ ایک عرب متشدد دوست تھے مرا کو کے.وہ مجھ سے گفتگو کر رہے تھے تو مجھے کہنے لگے کہ دیکھیں ہم لوگ جو ہیں ایک غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد کر رہے ہیں.وہ بھی مسلمانوں کی مراکن کی حکومت ہے.میں نے کہا کس طرح کر رہے ہیں.انہوں نے کہا وہ تو عورتوں کے چہرے سے پردے اترے ہوئے بھی ہوں تو کوئی کارروائی نہیں کرتے یعنی زبر دستی چہروں پر دوبارہ پر دے نہیں ڈالتے.اب ہمارا اتنا رعب ہے کہ کوئی عورت اگر اس طرح نکلے تو چاہے اپنے خاوند کے ساتھ ہی ہو ہم زبردستی اس کو گھسیٹ کے بازاروں میں لے جاتے ہیں اور اس کو سزا دیتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں کہ اگر وہ پردہ نہیں کرے گی تو ہم اس کے ساتھ یہ کریں گے.جب وہ بات کر بیٹھا تو میں نے کہا اس امر بالمعروف اور صلى الله نهي عن المنکر کا تم چودہ سو سال پہلے بھی کوئی نشان پاتے ہو.اس کا کوئی ذکر محمد رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بھی ملتا ہے.کبھی آنحضرت ﷺ نے ایسا کر کے دکھایا ہو، کسی ایک عورت پر کسی مسلمان کو اجازت ملی ہو کہ اس کی بے پردگی یا اس کی اور کمزوری کے نتیجے میں اس کو ہاتھ اٹھانے کی یا بے عزتی کرنے کی خدا تعالیٰ کی طرف سے رخصت ملی ہو، کوئی اشارہ ملتا ہے؟ سوچتا رہا ، سوچتارہا، کہا نہیں میرے علم میں کوئی نہیں.تو میں نے کہا اگر نور کے زمانے میں اس کا کوئی نشان نہیں ہے تو پھر یہ اندھیروں کی پیداوار ہے، اس کا محمد رسول اللہ ﷺ سےکوئی تعلق نہیں.جس کو تم امر بالمعروف اور نهي عن المنکر سمجھ رہے ہو یہ بے غیرتی ہے اور بے حیائی ہے، اس سے بڑھ کر بے حیائی ہے.ایک عورت اپنے خاوند کے ساتھ چل رہی ہے اس کا ایک احترام ہے، اس کی ایک عزت ہے، تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ اس عورت کے اوپر زبردستی کرو.اس نے جو بے پردگی کی ہے اتنا معمولی جرم ہے اس جرم کے مقابل پر کہ اگر مقابلہ کیا جائے تو اس کی تو کوئی بھی حیثیت نہیں.وہ جرم بھی تب بنتا ہے اگر تمہاری آنکھیں بے حیا ہوں.اگر دیکھنے والوں کی آنکھیں حیا دار ہوں تو وہ جرم بھی کوئی جرم

Page 331

خطبات طاہر جلد 13 325 خطبہ جمعہ فرموده 29 را پریل 1994ء نہیں رہتا، وہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا اور تم اپنے ہاتھ میں لے بیٹھے ہو یعنی اسلام کا نفاذ خدا نے تمہارے سپرد کر دیا اور جیسی مکروہ عقلوں کے ساتھ تم نفاذ کرنا چاہتے ہو ویسا کرو گے، یہ اسلام نہیں ہے.ان لوگوں میں پاکستان کے ملانوں کی نسبت بہت زیادہ انصاف پایا جاتا ہے باوجود اس کے کہ شروع میں بڑا متشد داور بڑا زور کے ساتھ اپنے موقف پیش کر رہا تھا، تھوڑی دیر کے اندراندر بیٹھ گیا، اپنے ساتھیوں کو بھی اس نے کہنا شروع کر دیا یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں.پس امر بالمعروف میں طاقت ہے اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے اسلوب پر ، آپ سے اس کے آداب سیکھ کر ، آپ امر بالمعروف کریں اور آج قوم کو اس کی ضرورت ہے احمدیوں میں بھی امر بالمعروف کریں اور اس ضمن میں اس حدیث کا پہلا ٹکڑا اس غلط تصور کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا.فرماتا ہے: ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا.میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ اس حدیث میں ہی وہ دفاعی والوز موجود ہیں نصیحت فرما رہے ہیں اپنے چھوٹوں پر رحم کرو اور بڑوں کی عزت کرو، پھر تمہیں حق ہے کہ تم امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرو.اگر امر بالمعروف کا مطلب بڑوں کی بے عزتی کرنا اور چھوٹوں پر ظلم کرنا ہوتا تو حضور اس نصیحت کے ساتھ اس نصیحت کو ملا کر نہ آگے چلتے.پس پہلے ہی ایک ایسی پیاری تمہید باندھ دی جس سے اگلی بات کی غلط فہمی کا سوال ہی باقی نہیں رہا.پس جماعت احمدیہ کو امر بالمعروف اس طرح کرنا ہے کہ بڑے ہوں تو ادب کے ساتھ بات کریں.چھوٹے ہوں تو ان کی غلطیوں پر رحم کریں.اگر کسی بچے نے بال ایسے بڑھالئے ہیں جاہلانہ طور پر ، جیسا کہ یورپ میں آج کل رواج ہے اور پاکستان میں بڑے زور سے فیشن بنا ہوا ہے کہ عورتوں کی طرح گنتیں بنالی ہیں تو اگر آپ کو غصہ آتا ہے تو آپ امر بالمعروف کے اہل ہی نہیں ہیں، چھٹی کر جائیں، ایک طرف ہٹ جائیں.اگر آپ کو رحم آتا ہے تو پیار سے سمجھائیں.اگر گلے میں زیور لٹکائے ہوئے ہیں اور وہ سمجھ رہا ہے کہ اس سے میری شان ہے تو اگر محبت اور پیار سے نصیحت نہیں کر سکتے تو ایک طرف ہٹ جائیں کیونکہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا ایک طرف نہ ہے اور سختی سے ظلم سے اس سے بات کی تو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ تمہارا میرے سے کوئی تعلق نہیں رہے گا مَنْ لَمْ يَرْحَمُ صَغِيرَنَا فَلَيْسَ مِنَّا تم ہم میں سے ہی نہیں رہو گے تو ہماری طرف کیا بلاتے ہو.پس اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو قیامت تک اس سنت محمد الله

Page 332

خطبات طاہر جلد 13 326 مصطفی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیشہ کے لئے ہر خوبی کی زندگی کی ضمانت ہے اور ہر بدی کی موت کی خبر دیتی ہے اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 333

خطبات طاہر جلد 13 327 خطبہ جمعہ فرمود و 6 رمئی 1994ء ریس از م کو کسی پہلو سے اپنے قریب نہ آنے دیں.جرمنی میں اس کے خلاف عظیم جہاد کی ضرورت ہے.( خطبه جمعه فرموده 6 مئی 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءِ مِنْ نِّسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنَّ اِثْم وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا اَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ * وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمُ (الحجرات: 13-12) پھر فرمایا:.

Page 334

خطبات طاہر جلد 13 328 خطبه جمعه فرموده 6 مئی 1994ء آج دنیا کے مختلف ممالک میں جو بعض اہم اجتماعات ہورہے ہیں ان کے سلسلے میں سب سے پہلے صوبہ سرحد کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ ان کا سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ کا جمعرات سے شروع ہے اور آج جمعے کے دن جاری رہ کر شام کو اختتام پذیر ہوگا اور اب وہاں غالبا اختتام کے لمحے ہوں گے، شام ہو چکی ہوگی، جماعت احمد یہ جرمنی کی مجلس شوری آج 6 رمئی بروز جمعہ المبارک شروع ہو رہی ہے اور اس سے پہلے کچھ اجتماعات تھے جن کی اطلاع وقت پر نہیں مل سکی ان کی بھی خواہش ہے کہ ان کا نام دعا کی خاطر لے لیا جائے.ایک خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ ضلع میر پور خاص (سندھ) کا اجتماع تھا جو 28 اور 29 اپریل دو دن جاری رہا اور ایک خدام الاحمدیہ کراچی کا اجتماع تھا جو یکم مئی کو شروع ہوا.اسی طرح مسجد احمد یہ چٹا گانگ کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے ان کی خواہش ہے کہ تمام دنیا کے احباب جماعت کو ان کے لئے دعا کی خصوصی درخواست کی جائے.جہاں تک مجلس شوری جرمنی کا تعلق ہے آج کے خطبے میں خصوصا ان کو موضوع بنا رہا ہوں اور ان کی وساطت سے سب دنیا کو وہی نصیحتیں ہیں خصوصا اس لئے کہ امیر صاحب جرمنی نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جہاں جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت تیزی سے نشو ونما پا رہی ہے وہاں تربیتی مسائل بھی بہت در پیش ہیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس جمعے میں مجلس شوری کو تربیتی مسائل پر نصیحت کریں تا کہ ہم نئی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہوسکیں.یعنی جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوئی ہیں ان کو عمدگی کے ساتھ جیسا کہ حق ہے ادا کر سکیں.مجلس شوری کے ذکر میں جو باتیں میں پہلے کہہ چکا ہوں اور گزشتہ سے پیوستہ خطبے میں میں نے نصیحتیں کی تھیں وہ تو سب کے لئے قدر مشترک ہیں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے مگر جرمنی کے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند باتیں میں عرض کروں گا.جرمنی کی جماعت یورپ میں وہ جماعت ہے جو بڑی تیزی سے مختلف اقوام میں پھیل رہی ہے اور اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا مزاج پاکستانی ہے کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں یورپین اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور اس کے علاوہ افریقن اور بعض دوسری قو میں بھی مثلاً ترک اقوام، عرب، بنگالی یہ سارے ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں دلچسپی لیتے چلے جاتے ہیں اور دلچسپیوں میں بڑھتے جارہے ہیں اور ہر سال خدا کے فضل سے کافی تعداد ان میں سے احمدیت قبول کر رہی ہے.پس یہ جو مختلف اقوام کے اکٹھا ہونے کے نتیجے

Page 335

خطبات طاہر جلد 13 329 خطبہ جمعہ فرموده 6 رمئی 1994ء میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ان پر روشنی ڈالنے کے لئے اور ان کا حل آپ کے سامنے رکھنے کے لئے میں نے ان آیات کی تلاوت کی ہے جو سورۃ الحجرات سے آیات ۱۲ اور ۱۳ سے لی گئی تھیں.ضمنا یہ بھی بتا دوں کہ اس وقت جو مجلس شوریٰ جرمنی میں ہو رہی ہے اس میں تمام Nationalities کے لوگ بطور نمائندہ شامل ہیں.جرمن، پاکستانی ، بوز نین ، ترک ،عرب، بنگالی اور متعدد افریقن ممالک کے نمائندگان با قاعدہ بحیثیت نمائندہ شامل ہیں.میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مشرقی یورپ کی بعض اور قوموں کو بھی شامل کیا ہے کہ نہیں مگر البانین بھی وہاں سینکڑوں کی تعداد میں اب خدا کے فضل سے جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اس لئے بعید نہیں کہ البانین نمائندے بھی ان میں ہوں اور اگر نہیں تو اب ان کو شامل کر لینا چاہئے.اسی طرح رومانیہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت جرمنی کو تو فیق ملی ہے کہ مستقل بنیادوں پر وہاں جماعت کا قیام کر لے.رومانین احمدی بھی جرمنی میں موجود ہیں.کوشش کرنی چاہئے کہ مجلس شوری میں زیادہ سے زیادہ اقوام کی نمائندگی ہو اور یہ ان کی تربیت کے لئے ایک بہترین موقع ہے.پس پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ مجلس شوری کا دائرہ قوموں کے لحاظ سے بڑھائیں اور وسیع تر کریں اور مجلس شوری میں ان کو اسلامی طرز مشاورت کا سلیقہ عطا کریں ان کو وہ اسلوب سکھائیں کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے مشورہ کسے کہا جاتا ہے اور کن شرائط کے ساتھ مشورہ دینا چاہئے اور کن شرائط کے ساتھ ان آداب کی پابندی کرنی چاہئے جو اسلامی آداب ہیں اور مشورہ قبول کس طرح ہوتا ہے اس سلسلے میں بھی اسلام مجلس شوری کے موضوع پر ہر پہلو سے روشنی ڈالتا ہے یعنی اس کا ہر انداز دوسری دنیا کی قوموں کے انداز سے مختلف ہے قبول کرنے کا انداز بھی مختلف ہے.بس اس پہلو سے ان قوموں کو مجلس شوری کی اہمیت اور اس کے اسلامی آداب سکھانے کا یہ ایک بہترین موقع ہے.مگر غالبا امیر صاحب کے پیشِ نظر کچھ روز مرہ کے تربیتی مسائل ہیں جو مختلف سمتوں سے اٹھتے ہیں اور امیر صاحب کو تنگ کرتے رہتے ہیں اس لئے میں ان امور کی روشنی میں جو مجھ تک خطوں کے ذریعے پہنچتے ہیں بعض نصیحتیں کرنی چاہتا ہوں اور مجلس شوری کے نمائندگان کو چاہئے کہ ان کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر کے اپنے قلب میں جگہ دے کر، وہاں بٹھا کر پھر واپس اپنی اپنی جگہوں کو لوٹیں اور وہاں جا کر ان امور میں تربیت کی کوشش کریں.پہلی بات تو قرآن کریم کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی ہے.

Page 336

خطبات طاہر جلد 13 330 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 رمئی 1994ء يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرُ قَوْمُ مِنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ کہ دیکھو کوئی قوم کسی دوسری قوم سے تمسخر نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر نکلیں یا بہتر ہو جائیں.عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا میں دونوں مضمون ہیں یعنی ایک پہلو یہ ہے کہ تمہیں کیا پتا کہ وہ تم سے بہتر ہوں اور بعید نہیں کہ وہ تم سے بہتر ہوں کم سے کم اس برائی میں تو ملوث نہیں جسے تم Raceism کہتے ہو اور قومی بنیاد پر کسی اور کو تحقیر سے نہیں دیکھ رہے.دوسرے یہ کہ ایسے لوگ جو آج نیچے ہیں کل خدا تعالیٰ کی تقدیر ان کو اوپر بھی لے آیا کرتی ہے اور ہمیشہ قو میں ایک حال پر نہیں رہا کرتیں ، اس لئے فرمایا کہ تم یہ نہ کرنا کہ قومی برتری کے خیال سے دوسروں کو تحقیر سے دیکھنا.پاکستانی بھی وہاں بہت کثرت سے ہیں اور بعض دفعہ پاکستانیوں کا طرز عمل بھی ایسا ہوتا ہے جس سے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیں اپنے سے کم تر دیکھ رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھی رد عمل پیدا ہو جاتے ہیں.باہر کی قوموں میں یہ قومی برتری کا تصور نسبتا سادہ ہے اگر چہ سخت ہے.سادہ اس پہلو سے کہ سفید قوموں کو سفید قوموں کی برتری کا خیال ہے اور پھر بعض علاقوں میں یہ برتری کا خیال جرمن برتری یا فریج برتری یا انگلش برتری میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بدنصیبی سے قومی برتری کے خیالات یا تو ہمات فرقہ فرقہ اتنے بٹے ہوئے ہیں کہ ذات پات کی تمیز ، قوموں کی تمیز یہ اتنی جڑیں پکڑ چکی ہے اور پھر مذہبی بنیادوں پر بھی ایسی باتیں ہیں جن کا ہندوستان کے معاشرے پر ہمیشہ بہت برا اثر پڑا ہے مثلاً ایک زمانہ تھا جب کہ تحریک پاکستان چل رہی تھی اس زمانے میں ہندوؤں کے او پر تمسخر اور مذاق کہ لالہ قوم ہے اس نے کیا کرنا ہے ان کو پتا ہی نہیں لڑائی کیا ہوتی ہے اور پھر ان کے ہاتھوں اتنی مار کھائی اور ایسی ذلت اٹھائی کہ انسان اس کے تصور سے بھی شرم کے مارے سر جھکا لیتا ہے.یہی حال بنگلہ دیش میں اس وقت ہوا جبکہ ہندوستان کی فوجوں نے پاکستان کی ان فوجوں کو جو بنگلہ دیش میں تھیں مگر ہر دلعزیز نہیں تھیں بنگلہ دیش کی مدد سے ذلت آمیز شکست پہنچائی اور اس سے پہلے ان کے نعرے بڑے بڑے بلند تھے یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں ہم ان کو یوں کچل دیں گے، بنگالی کیا چیز ہے.اس بنگالی نے پھر اس ذلت کے ساتھ ان کو اٹھا کر اپنے ملک سے باہر پھینکا ہے کہ آج تک پاکستان کا نام قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم بنا ہوا ہے اور اگر کوئی شخص آج بھی پاکستان کی بات کرتا ہو، اس کی تائید کرتا ہوا وہاں ملے گا تو ساری قوم اس سے نفرت کا سلوک کرتی ہے اس لئے کہ نفرتیں

Page 337

خطبات طاہر جلد 13 331 خطبہ جمعہ فرموده 6 رمئی 1994ء نفرتوں کے بچے دیا کرتی ہیں جن قوموں کی تذلیل کی جائے پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بالا دستی اختیار کرتی ہیں اور پھر وہ نفرتیں یونہی مرمٹ نہیں جاتیں بلکہ اور نفرتوں کے بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں.پس قومی تفاخر ہو یا ذات پات کا تفاخر ہو کہانیاں بنائی ہوئی ہیں لوگوں نے کہ کوئی میراثیوں کی کوئی جولا ہوں کی اور واقعہ یہ ہے کہ وہ تو میں جو میراثیوں اور جولا ہوں پہ ہنستی تھیں ان میں وہی تصور جس پر وہ ہنسا کرتی تھیں اس تصور کو لئے ہوئے بڑے جولا ہے اور بڑے میراثی پیدا ہوئے ہیں اور کشمیریوں پر ہنسا کرتے تھے دیکھو وہ کس بہادری سے کتنا عظیم جہاد کر رہے ہیں اگر چہ اسے اسلامی نقطۂ نگاہ سے سو فیصدی جہاد قرار دینا یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر ایک مظلوم قوم ہے جو اپنی آزادی کے لئے اس وقت سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے ہندوستان کی حکومت چاہے پسند کرے یا نہ کرے یہ درست ہے اور یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ باوجود اس کے کہ ہندوستان کے دورے پر جب میں گیا تھا اور ان کو مشورے دیئے تھے کہ تم ایسے تشدد کی راہ اختیار نہ کرنا یہ کامیاب نہیں ہو سکتی.تمہیں سمجھوتے کرنے چاہئیں، سیاسی سطح پر اتر کے ان باتوں کو سلجھانا چاہئے ، ورنہ دونوں ملکوں کا بڑا نقصان ہوگا اور کشمیر مفت میں تم دونوں کی آپس کی رقابت کی چکی میں پیسا جائے گا وہی ہو رہا ہے مگر جہاں تک کشمیری قوم کا تعلق ہے اس نے ثابت کر دکھایا ہے کہ جوان کو بزدل کہا کرتا تھا جھوٹ بولتا تھا، بڑی بہادر اور نڈر قوم ہے، ایسی عظیم قربانیاں اتنا مسلسل دیتے چلے جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے.مجھے تو کشمیر کی حالت دیکھ کر الجیریا یاد آتا ہے چنانچہ میں نے ایک دفعہ ایک ہندوستانی لیڈر کو جو ملنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے ان سے کہا تھا کہ دیکھوڈیگال بنا پڑے گا آخر تمہیں.ڈیگال جیهاز بر دست جرنیل اور پھر بعد میں ویسا زبر دست سیاست دان بھی فرانس میں کم پیدا ہوا ہے لیکن اپنی بڑائی کے باوجود، اپنے سب تکبر کے باوجود، اپنی سب فراست کے باوجود، جنگی میدان میں معاملہ فہمی اور داؤ پیچ سمجھنے کے باوجود آخر اسے شکست تسلیم کرنی پڑی.پس ہندوستان کو بھی میں مشورہ دیتا ہوں کہ ظلم و ستم کی کھیل پنپا نہیں کرتی.کشمیر کو دوست کے طور پر چھوڑ وتو بہتر ہے شدید ترین دشمن بنا کے نہ چھوڑنا.ورنہ جن مقاصد کی خاطر تم ہندوستان کو ایک رکھنے کے لئے اور ایک یونٹ ، ایک اکائی بنائے رکھنے کے لئے جد و جہد کر رہے ہو ان کو شدید نقصان پہنچے گا مگر بہر حال ہماری تو ایک عاجزانہ حیثیت ہے.ہم مشورہ دیتے ہیں نیکی اور سچائی کے ساتھ یہ قوموں کا کام ہے قبول کریں نہ کریں اگر

Page 338

خطبات طاہر جلد 13 332 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 رمئی 1994ء قبول کریں گے تو ان کو فائدہ ہوگا اگر قبول نہیں کریں گے تو نقصان ہوگا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے وہ تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مشورہ جو تقویٰ پر مبنی ہو اور تقویٰ اللہ کا نور ہے اس مشورے کی مخالفت کرنے والا خود اپنا نقصان اٹھاتا ہے،خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے.تو میں مثال دے رہا تھا کہ دیکھو قوموں کے اوپر خواہ خواہ تمسخر کرنے کے نتیجے میں جولوگوں کو بے وقوف سمجھا کرتے تھے وہ خود بے وقوف بن گئے.جولوگوں کو بزدل سمجھا کرتے تھے انہوں نے ان کی ایسی ذلت ناک شکستیں دیں کہ آج بھی ان کے تصور سے ان لوگوں کے سر جھکتے ہیں.پس یہ جھوٹے اور غلط خیالات ہیں.یہی وہ خیالات ہیں جنہوں نے یورپ میں آج پھر سر اٹھانا شروع کیا ہے اور Racism کا تصور پھر مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے.احمدیوں کو خصوصا جرمنی میں اس کے خلاف عظیم الشان جہاد کرنے کی ضرورت ہے ایسا جہاد جو اعلیٰ اخلاق کے ہتھیاروں سے آراستہ ہو اور حسنِ خلق کی تلوار سے آپ دلوں کو فتح کرنے والے بنیں.جب بھی آپ Racist کے ساتھ مقابلہ کریں گے اگر اس مقابلے میں انہی کے ہتھیار آپ اٹھائیں گے تو آپ کو ضرور مار پڑے گی اور لازما نقصان ہوگا کیونکہ Racism ان جگہوں پر پنپتا ہے جہاں اس ریس کی طاقت پہلے ہی سے بڑی ہوتی ہے ورنہ وہ دوسری قسم کے فسادوں میں تبدیل ہو جاتا ہے یعنی بغض کا جذبہ Racism نہیں بنتا.Racism کا گہرا تعلق عددی اور دوسرے غلبے سے ہے جہاں غلبہ ہو اور یقین ہو کہ ہم طاقت ور ہیں اور بزور بازو ہم کسی چھوٹی سی اقلیت کو مٹا سکتے ہیں وہاں اگر اقتصادی لحاظ سے وہ اقلیت کوئی چیلنج بن جائے یا بعض دوسرے پہلوؤں سے اسے کچھ برتری حاصل ہو تو اس کے رد عمل میں Racism پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ بڑے زور کے ساتھ سر اٹھاتا ہے اور بعض دفعہ وہ ایک جنگ کا ایسا طوفان بن جاتا ہے جو سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.پس Racism کو اٹھنے نہ دیں یہ بہت ہی مہلک بیماری ہے اور اس کا بہت شدید نقصان پہنچے گا اور اسلام کی راہ میں بھی یہ زہر یایوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک شیطانی روک ہے جو اسلام کے رستے روکے گی جہاں Racism ہو وہاں اعلیٰ اقدار کے پھیلنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہا کرتا.وہاں مقابلے اور جہت کے شروع ہو جاتے ہیں وہاں poloraisation یعنی دو سمتوں میں بعض قوتوں کا مرکوز ہو جانا ایسے خطوط پر ہوتا ہے کہ ان خطوط میں پھر مذہبی اقدار کو داخل ہونے کا موقع ہی نہیں مل

Page 339

خطبات طاہر جلد 13 333 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء سکتا.پس ہر پہلو سے یہ ایک نہایت ہی خطرناک مرض ہے.ایک پہلو سے تو مختلف قوموں کا جرمنی میں اسلام میں داخل ہونا اور احمدیت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان ہے ویسے تو اللہ کا احسان ہی احسان ہے مگر اس پہلو سے بھی خاص احسان ہے کہ اس سے پہلے جو یہ خطرہ تھا کہ وہاں پاکستانی اور غیر پاکستانی کی Poloraisation ہو جائے گی اور اس کا مجھے ڈر تھا اور ہمیشہ اس بارے میں میں مجلس عاملہ کو بھی ، دوسروں کو بھی نصیحت کرتا رہا وہ خطرہ اب ختم ہو چکا ہے.ٹلا نہیں بلکہ مٹ چکا ہے کیونکہ اب پاکستانی مختلف قوموں میں سے ایک قوم ہے اور جرمن بھی مختلف قوموں میں سے ایک قوم ہیں، افریقن بھی مختلف قوموں میں سے ایک قوم ہیں.مجھے یاد ہے جب پچھلے سالانہ جلسے پر امیر صاحب نے مجھ سے تعارف کروایا کہ اتنے افریقن ہوئے ہیں اور اتنے فلاں قوموں کے احمدی ہوئے ہیں تو ان کے چہرے پر خاص طور پر بشاشت تھی اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ اب اللہ کے فضل سے وہ خطرہ ٹل گیا کہ فلاں پاکستانی ہے اور فلاں جرمن ہے اور ان کے آنے سے جرمنوں کی بھی بڑی تربیت ہوئی ہے تو بالکل درست بات انہوں نے کہی تھی اور جوں جوں اللہ کے فضل کے ساتھ مختلف قو میں جرمنی میں احمدیت میں داخل ہو رہی ہیں.احمدیت کے اندر دو پولز کے آپس میں متصادم ہو جانے کا خطرہ یہ اور زیادہ بعید ہوتا چلا جا رہا ہے مگر یہ حالات کے نتیجے میں ہے اور حالات اتفاقی ہوا کرتے ہیں.میں جس پہلو سے آپ کو متوجہ کر رہا ہوں وہ حالات سے بالا ، حالات سے الگ، اس گہری قرآنی تعلیم کے تعلق میں بات کر رہا ہوں کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں احمدیت میں Racism کی جڑ پکڑنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے اور اس کی بنا اسلام کی تعلیم ہو.اس کی بنا اللہ تعالیٰ کی وہ نصیحتیں ہوں جو قرآن کریم میں بڑی شان اور قوت کے ساتھ فرمائی گئی ہیں.پس ایک نصیحت پکڑلیں خواہ آپ کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے جس میں آپ کے اندر Racism ابھرے اور کسی مخالف گروہ سے خطرات درپیش ہوں.اسلامی تعلیم پر اگر آپ عمل کرنے والے ہوں گے تو Racism کو اپنی چوکھٹ کے قریب بھی نہیں آنے دیں گے یہ وہ زہر ہے جس کا روحانیت کے ساتھ ہمیشہ کا بیر ہے.بیک وقت Racism اور روحانیت اکٹھے پل ہی نہیں سکتے.جہاں Racism آیا وہاں روحانیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جاتی ہے.

Page 340

خطبات طاہر جلد 13 334 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء پس کسی پہلو سے بھی Racism کو اپنے قریب نہ آنے دیں.اس کا سایہ نہ پڑنے دیں اور اس ضمن میں بعض اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ضرورت ہے محض مقابلے میں دلائل دینے کا کام نہیں، دلائل دینے کا موقع نہیں کیونکہ یہ وہ بیماری ہے جو دلائل سے سر نہیں ہوا کرتی ، دلائل کے ذریعے اس بیماری کا ازالہ ہو ہی نہیں سکتا.جتنا مرضی آپ زور لگا کے دیکھ لیں.جب جرمنی میں ریس ازم کے جذبات یہودیوں کے خلاف پرورش پانے لگے اور پھر وہ نائٹسی تحریک میں تبدیل ہوئے اس کے بعد آج تک ان کے کچھ اثرات باقی تھے اور جرمن قوم نے اپنی فراست کی وجہ سے ان خطرات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور مختلف جرمن حکومتیں کوشش کرتی رہیں کہ دلائل کے ذریعے ان کا قلع قمع کریں اور لف طریق پر جرمن قوم کو سمجھاتی رہیں کہ اب ریس ازم کو قریب نہیں آنے دینا مگر جب حالات نے پلٹا کھایا ہے، جب برلن کی دیوار گری ہے تو بڑی تیزی کے ساتھ وہاں وہی خیالات دوبارہ ابھرنے شروع ہوئے ہیں.پس ان کا عقل سے تعلق نہیں ہے ریس ازم کا جذبات سے تعلق ہے اور جذبات کی فتح عقل سے نہیں بلکہ اخلاق سے ہوتی ہے.پس آپ کو اپنے اخلاق کو ترقی دینی ہوگی اور اخلاق کے ذریعے ریس ازم کا مقابلہ کرنا ہوگا.ایک خوبی جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح داخل فرمائی ہے گویا ہماری فطرت ثانیہ ہے کہ وہ لوگ جونئی قوموں سے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں ان کے لئے احمدی بے حد محبت رکھتا ہے اور اپنے دل میں فدائیت کا جذبہ پاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ریس ازم کے مقابلے میں ان کو مزید طاقت عطا کرے گی پس وہ بھائی جو مختلف قوموں سے جماعت احمدیہ میں داخل ہور ہے ہیں ان سے غیر معمولی محبت کا سلوک کرتے چلے جائیں تا کہ ان کے اندر آپ کے لئے محبت کا جذ بہ بڑھے، فدائیت کا جذبہ بڑھے، باہمی تعلقات کے رشتے ، محبت اور پیار کے رشتے ہوں اور یہ رشتے جب تک قائم رہیں رئیس ازم اس میں جگہ نہیں پا سکتا.بہت سے ایسے میرے ذاتی تجارب ہیں کہ بعض قوموں سے آنے والے احمدیوں میں جب میں نے ایسے آثار دیکھے اور ان سے پہلے سے بڑھ کر زیادہ پیار کا سلوک کیا تو رفتہ رفتہ رئیس ازم کے تمام آثار ان کے دلوں سے مٹ گئے اور گویا جڑوں سے اکھڑ گئے اور اس کے آثار پھر ان کے چہروں سے ظاہر ہونے لگتے ہیں.جہاں پہلے ملاقاتوں کے بعد ایک چہرے پر تناؤ سا رہا کرتا تھا وہ سب تناؤ غائب.بے اختیار محبت ، بے

Page 341

خطبات طاہر جلد 13 335 خطبہ جمعہ فرمود و 6 مئی 1994ء اختیار پیار، بے اختیار نہی، یہ چہروں سے کھلنے لگتی ہے اور Racist جب کسی دوسرے سے ملتا ہے تو اس کے چہرے پر یہ تناؤ ضرور موجود ہوتا ہے.آپ لطیفہ بھی اس کو سنا ئیں وہ ہنس بھی پڑے تو اس میں بھی تناؤ رہے گا.آپ اچھی بات بھی کریں اور وہ قبول بھی کر لے پھر بھی تناؤ رہے گا اور ذراسی غلطی آپ سے ہو تو وہ تناؤ تیوری میں بدل جائے گا، غصے میں تبدیل ہو جائے گا اور وہ بڑی سخت ناقدانہ نظروں سے آپ کو دیکھے گا اور کڑی زبان سے آپ پر تبصرہ کرے گا.پس اس پہلو سے چہروں کے آثار سمجھا کریں.جہاں بھی آپ کو ریس ازم دکھائی دے گا یہ ایسی چیز نہیں ہے جو چھپ سکے.نہ محبت چھپ سکتی ہے نہ نفرت چھپ سکتی ہے یہ دونوں ایسی بے اختیار کیفیتیں ہیں جن کو وقتی طور پر کوئی بڑی قابلیت سے دھوکہ دینے کی خاطر چھپالے تو ہمیشہ نہیں چھپ سکتیں کچھ دیر کے بعد ضرور سر اٹھا ئیں گی ضرور دکھائی دیں گی.پس مجلس شوری میں اس بات پر غور کریں کہ کہاں کہاں ایسے بد آثار دکھائی دیتے ہیں یا یہ نہیں کہنا چاہئے تفصیل سے، یہ میں کہوں گا اس بات پر غور کریں کہ ہمیں کن اعلی اخلاق سے پہلے سے بڑھ کر متصف ہونا چاہئے کن خدمتوں میں آگے سے زیادہ بڑھنا چاہئے.مواخات کے اور کون سے ذرائع اختیار کرنا چاہئیں کہ جس کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کے اندر ریس ازم کے داخل ہونے کا کوئی سوال باقی نہ رہے.ہر دروازہ بند اور مقفل کر دیا جائے.اس پہلو سے مواخات کے ضمن میں میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ بوسنین کے ساتھ مؤاخات کر رہے ہیں یعنی جرمنی احمدی اور اللہ کے فضل سے اس کے بڑے اچھے نتائج ظاہر ہورہے ہیں مگر بوسنین کا جہاں تک تعلق ہے وہاں ریس ازم کا خطرہ نہیں وہاں مواخات کسی خطرے کو ٹالنے کے لئے نہیں بلکہ انصار مدینہ کی سنت میں ہے جنہوں نے مہاجروں سے مواخات کی تھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کہ اس مؤاخات میں بھی ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ رئیس ازم مٹ گیا اور نہ اس سے پہلے اہل مکہ اپنے آپ کو افضل سمجھا کرتے تھے مہاجر اس قوم سے تعلق رکھتے تھے جو قریش تھے اور مدینے والوں کو وہ آرائیں کہا کرتے تھے جیسے زمیندار کہتے ہیں یہ سبزی لگانے والے، سبزی کاشت کرنے والے لوگ ہیں اور اس جہالت کے نتیجے میں ان زمینداروں نے اپنی ساری عظمتیں کھو دیں.آرائیں پھر ان کی قوموں پر مسلط ہوئے ان کی دولتوں پر قابض ہوئے ، ان کی منڈیوں پر قبضہ کر لیا تو یہ محض جہالت کی باتیں ہیں اس زمانے میں بھی یہ باتیں کچھ نہ کچھ پائی جاتی تھیں.اسی لئے آج تک ارائیں اپنے

Page 342

خطبات طاہر جلد 13 336 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء آپ کو مدینے والوں کی نسل میں سے کہتے ہیں.کہتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو مدینے سے تعلق رکھتے تھے جن کو انصار کا لقب دیا گیا تھا بہر حال یہ بھی ایک جوابی کارروائی ہے اپنی برتری کی.برتری تو اخلاق سے ہے، برتری تقویٰ سے ہے اس بات سے نہیں ہے کہ آپ مدینے والوں کی اولاد ہیں یا سکے والوں کی اولاد ہیں، اس بات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے خلف کہلانے کے مستحق ہیں کہ نہیں محمد رسول اللہ کی اولاد ہیں کہ نہیں.پس یہ وہ ایک گر ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہئے.جہاں تک بوسنین کا تعلق ہے ہمارا ان سے اس وقت جو محبت کا رشتہ ہے وہ ان کی مظلومیت کے نتیجے میں طبعی طور پر پیدا ہوا ہے اور ہم سچے دل سے بھائیوں کی طرح ان کو اپناتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں اور اس میں احمدی غیر احمدی کا کوئی فرق نہیں ہے.اس لئے جب میں نے مواخات کا اعلان کیا تھا تو ہر گز یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ احمدیوں سے صرف مؤاخات کرو اور اس کے نمونے کے طور پر میں نے جس خاندان سے مواخات کی وہ غیر احمدی ہے ابھی تک غیر احمدی ہے، اور مواخات کے نتیجے میں ان کو احمدی بنانے کی میں نے کبھی کوشش نہیں کی.لٹریچر دلاتا ہوں، ان کو ہر موقع پر سمجھاتا ہوں ، دل ان کے احمدیت کے ساتھ ہیں اور احمدیت کا پیار بڑھ رہا ہے لیکن مؤاخات احمدیت سے قطع نظر تھی اور اسی طرح رہنا چاہئے کیونکہ مظلوم قوم اور مسلمان قوم ہے یہاں مکے کی ہجرت کی ساری باتیں پوری طرح صادق نہیں آتیں.وہاں سے جو بھی نکلا ہے مظلوم نکلا ہے اور مظلوموں کے ساتھ مواخات ہونی چاہئے.پس اپنے مواخات کے تعلقات میں جتنے بوسنین بھی آپ کے قرب وجوار میں رہتے ہیں آپ ان کو سنبھال سکتے ہیں.ان سب سے مواخات کے لئے آپ کو محبت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے.بعض جگہ احمدیوں نے یہ غلطیاں کی ہیں کہ محبت کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے تبلیغ شروع کی ہے اور یہ دستور کے خلاف ہے یہ عقل کے خلاف ہے حکمت کے خلاف ہے.تبلیغ تو ہوتی رہے گی سب دنیا میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے.بوسنین کو اس لئے نہیں کرنی اب یہ گرا پڑا ہے تو اس کو سنبھا لواٹھا لو آسانی سے قابو آ جائے گا یہ نا جائز طریق ہے، درست نہیں ہے، اعلیٰ اخلاق کے خلاف ہے.بوسنین کی ضرورت اس لئے پوری کرنی ہے کہ وہ مسلمان، مجروح ، زخمی ، بے یارو مددگار ہے اور ایسا مظلوم ہے کہ اس آج کی تاریخ میں، جو ہمارے قریب کے زمانے کی تاریخ ہے ایسی مظلومیت کسی اور قوم میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.پس اس پہلو سے ان سے محبت کا سلوک رکھیں لیکن مواخات کو جہاں

Page 343

خطبات طاہر جلد 13 337 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مئی 1994ء بوسنین میں غیر احمد یوں میں بڑھائیں وہاں دوسری قوموں میں بھی مؤاخات جاری کریں اور وہاں احمدیوں میں خصوصیت کے ساتھ کیونکہ وہاں غیر مظلوم نہیں ہے.احمدی سے اس لئے مؤاخات ضروری ہے کہ وہ مہاجر ہے اپنے معاشرے کو چھوڑ کر بے معاشرہ ہو گیا ہے، ایک جگہ سے جڑا کھڑی ہے اور دوسری جگہ جڑ پکڑنے کے لئے وہ ایک Soil کی ، ایک زرخیز زمین کی تلاش میں ہے اور اس نے آپ کو وہ زمین سمجھا ہے.پس اس پہلو سے ریس ازم کا مقابلہ کرنا ہو یا احمدیت کو ویسے تقویت دینی ہو ہر پہلو سے نہایت ہی ضروری ہے کہ نئے آنے والوں سے مواخات کریں اور ان میں رنگ ونسل کی تمیز نہ ہو.افریقن بھی ان میں سے اسی طرح مؤاخات سے فیض یافتہ ہوں جس طرح جرمن قوم آپ کی مواخات سے فیض یافتہ ہو جس طرح مشرقی یورپ کے آنے والے البانین یا دوسری قوموں کے باشندے آپ کی مؤاخات سے فیض اٹھانے والے ہوں.اس مواخات کے دائرے کو بڑھانا شروع کریں لیکن یا درکھیں کہ مواخات کے دائرے کو آج کل کے زمانے میں بعینہ اسی طرح نافذ نہیں کیا جا سکتا جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے زمانے میں مہاجرین کے ساتھ مواخات کی گئی تھی اس لئے مہاجرین کے ساتھ مواخات کا تصور سامنے رکھتے ہوئے بعض لوگ یا تو مؤاخات اپنے لئے ناممکن سمجھتے ہیں یا پھر حد سے زیادہ قربانی کرتے ہیں جو موقع اور محل کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے.یہاں حالات مختلف ہیں، یہ تو میں ایسی ہیں اور آج کی تہذیب ایسی ہے کہ یہاں بھائی بھی بھائی کا نہیں بن کے رہتا.بیٹا ماں کا نہیں، باپ بیٹی کا نہیں ایک گھر میں جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ کھانے کے بعد باپ اپنی اولا د کو بل بھی پیش کرتے ہیں کہ اس مہینے کا خرچ ہوا ہے تو تم دوا اپنی کمائی سے.تو یہاں، جہاں انسانیت کا معیار بگڑا ہے وہاں مواخات نسبتا آسان ہوگئی ہے کیونکہ تھوڑی سی نیکی بھی مؤاخات کا رنگ اختیار کر جائے گی.ان کے ساتھ ایسا سلوک کہ غیر ہوتے ہوئے اپنائیت کا سلوک ہو،ضروری نہیں کہ اس سلوک میں آپ گھر آدھا بانٹ دیں اور جائیداد تقسیم کر دیں اور اپنی آمد میں خواہ آپ کا اپنا بھی گزارہ نہ چلے آپ ان کو حصے تقسیم کریں ہر گز یہ مراد نہیں ہے.موقع اور محل کے مطابق یہاں مواخات کا وہی تصور ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ وہ سوسائٹیاں جو آپس میں پھٹ چکی ہیں یا انسانی قدروں کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ رشتے جو انسان کو انسان کے ساتھ باندھتے ہیں وہ یا

Page 344

خطبات طاہر جلد 13 338 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء کٹ گئے ہیں یا مدھم اور کمزور پڑ چکے ہیں.آپ غیر ہو کر جب کسی سے پیار اور محبت کا سلوک کرتے ہیں، اپناتے ہیں تو وہی اس کے لئے مواخات ہے.بعض جگہ بعض احمدی اپنا دائرہ اثر بڑھانے میں اس لئے بہت کامیاب ہیں کہ ان کی عادت ہے کسی سے ملتے ہیں تو کہتے آؤ ایک چائے کی پیالی میرے ساتھ پی لو.اب وہ شخص ان سے زیادہ اچھا کھانے پینے والا لیکن چائے کی پیالی کو اس لئے قبول نہیں کرتا کہ اس کو چائے کی پیالی کی احتیاج ہے بلکہ اسے تعجب ہوتا ہے کہ ہم تو بعض دفعہ دوست اکٹھے بیٹھ کر جب کسی ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں تو اپنی اپنی جیب سے پیسے نکال کر دیتے ہیں اور یہ عجیب سا شخص ہے کہتا ہے کہ میرے ساتھ آ کر چائے پی لو اور پھر بعض دفعہ وہ کہتے ہیں ہم تمہیں پاکستانی کھانا کھلائیں گے تو ایک اور تعجب دل میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے پاکستانی کھانا.چنانچہ وہ عموما قبول کر لیتے ہیں اور ان کے لئے یہی مؤاخات ہے.جب ایک دفعہ گھر آ جائے تو اہل خانہ کا ان سے حسن سلوک ان کے دل جیت لیتا ہے.پس تھوڑی قربانی سے مواخات کے بڑے پھل آپ کو مل سکتے ہیں اور اس پہلو سے اپنے دائرہ مواخات کو بڑھانا ناممکن نہیں ہے.اس کو وسیع کریں اور جتنی آپ کو توفیق ہے اس تو فیق کی حد تک چھوٹی چھوٹی قربانیاں کریں، پیار کا اظہار کریں مگر ایک بات یادرکھیں کہ مصنوعی محبت کبھی دل نہیں جیتا کرتی.محبت وہی دل جیتی ہے جو دل سے نکلے.پس بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے وہ چالا کی سے ہر دلعزیز بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے آدمی میں نے کئی دیکھتے ہیں پاکستان میں بھی ہوا کرتے تھے ، جگہ جگہ دعوتیں دیتے پھرتے ہیں آؤ، اور مقاصد اور ہوتے ہیں.بعض دفعہ ایسے دوستوں کو بنا کے پھر لوٹتے بھی ہیں.ایسے لوگوں کی چالاکیاں انسان ذرا بھی فراست سے دیکھے تو نظر سے چھپ نہیں سکتیں اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کا کردار نمایاں ہو کر قوم کے سامنے بجائے عزت کے ایک ذلت کا نشان بن جاتا ہے.پس آپ نے اگر مواخات کرنی ہے تو اسلامی قدروں کے مطابق کرنی ہے اور اس سے جہاں رئیس ازم کا مقابلہ ہو گا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کے ساتھ احمدیت کی راہیں بھی ہموار ہوں گی اور آپ کی زندگی زیادہ بہتر انداز میں کٹے گی زیادہ پر لطف ہو جائے گی.پس قرآن کریم فرماتا ہے یاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْالَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ کہ ہو سکتا ہے وہ تم سے بہتر ہو جائیں.دوسری بات اس میں یہ میں

Page 345

خطبات طاہر جلد 13 339 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء سمجھانی چاہتا ہوں کہ بسا اوقات مغرب میں جب تحقیر سے کسی کو دیکھا جاتا ہے تو ان کے متعلق جھوٹی باتیں کم بناتے ہیں جیسے ہمارے ملکوں میں عادت ہے، کوئی حقیقی نقص پکڑتے ہیں اور اس نقص کی نشاندھی کر کے پھر اس کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا عَسَى اَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمُ اس میں کم سے کم ہمارے لئے یہ نصیحت ضرور ہونی چاہئے کہ ہمیں ان برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہم میں موجود ہیں اور خصوصیت سے پاکستانی معاشرے میں احمدیت کے نقطہ نگاہ سے نہیں بلکہ ملکی نقطہ نگاہ سے کچھ ایسی خرابیاں ہیں جس کی جڑیں ملک ہندوستان میں پیوستہ ہیں یعنی وہ برصغیر جسے ہندوستان کہا جاتا تھا اس کی ملکی بیماریاں ہیں جو مختلف قوموں میں کم و بیش یکساں پائی جاتی ہیں.اس پہلو سے اگر پاکستانیوں نے اپنی برائیوں کو دور کر کے اس خوشخبری کو پورا نہ کیا جو قرآن کریم نے دی ہے کہ عَلى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ تو پھر دوسروں کے ہاتھ میں ریس ازم کے لئے ایک جائز تلوارضرور پکڑی رہے گی اور وہ ان برائیوں کا بہانہ بنا کر آپ کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے رہیں گے.پس جرمن قوم میں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنی برائیوں کی نشاندھی کریں اور ان کے دور کرنے کی کوشش کریں اس ضمن میں مجلس شوری کو با قاعدہ کھل کر پروگرام بنانا چاہئے کیونکہ وہ برائیاں معروف ہیں ہر کس و ناکس کو علم ہے کہ کیا کیا برائیاں ہیں اس ضمن میں میں نے ایک اصلاحی کمیٹی قائم کی تھی اور ملکی سطح پر تمام ملکوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ آپ اصلاحی کمیٹیاں قائم کریں اور بعض برائیوں کی نشاندھی کر کے پیشتر اس کے کہ وہ ناسور بن جائیں ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور اپنے اخلاقی مریضوں کو شفا دینے کی کوشش کریں.بعض ملکوں نے اس نصیحت کو یادرکھا اور ان کی ماہانہ رپورٹوں میں نہیں تو وقتا فوقتا سال میں ایسی رپورٹیں ملتی رہتی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ان باتوں پر نظر رکھ رہے ہیں.لیکن بعض ملک ان باتوں کو بھلا بیٹھے ہیں.جرمنی میں جو اصلاحی کمیٹی ہے وہ کام کر رہی ہے اگر چہ اتنی فعال نہیں جتنی میں دیکھنا چاہتا تھا مجلس شوری میں اس بات پر بھی غور کریں.اتنا وقت تو آپ کے پاس نہیں ہو گا کہ تمام برائیوں کا تجزیہ کر کے ان نقائص کو دور کرنے کے لئے منصوبہ بنا ئیں مگر اپنی اصلاحی کمیٹی کے کام پر نظر رکھتے ہوئے اسے مضبوط اور فعال بنانے کے لئے ضرور آپ کچھ تد بیر میں سوچ سکتے ہیں.

Page 346

خطبات طاہر جلد 13 340 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء اصلاحی کمیٹی کا جو میر اتصور تھا وہ بعینہ جرمنی کی اصلاحی کمیٹی میں موجود نہیں ہے.اصلاحی کمیٹی تو ہے لیکن اس وقت حرکت میں آتی ہے جب بیماری سراٹھا چکی ہوتی ہے.میں نے جو نصیحت کی تھی وہ یہ نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ اصلاحی کمیٹی صاحب فراست لوگوں پر اور گہری حس رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہئے وہ برائیوں کو سونگھ کر پتا کریں کہ کہاں کہاں برائیوں کی بو ہے اور نظر نہ بھی آئیں تو ان کی شامہ حسن یعنی سونگھنے کی حسن ان کو بتا دے کہ کہیں کوئی خطرہ موجود ہے پھر ان کو با قاعدہ بیماری بننے سے پہلے دور کریں.اگر آپ انتظار کرتے رہیں کہ کہیں فساد ہو جائیں کہیں دنگے شروع ہو جائیں.کہیں کوئی قتل و غارت ہو جائے اور پھر اصلاحی کمیٹی حرکت میں آئے تو اصلاحی کمیٹی نہیں یہ تو پھر ایک پولیس کمیٹی بن جائے گی اور میں نے جب پہلی دفعہ نصیحت کی تھی تو خوب کھول کے یہ فرق ظاہر کیا تھا اور امور عامہ کو بھی میں نے سمجھایا تھا کہ امور عامہ کو میں پولیس نہیں دیکھنا چاہتا.امور عامہ کو میں ایسا باشعور ادارہ دیکھنا چاہتا ہوں جو آئندہ پیش آنے والے خطرات کو بھانپ کر ان بیماریوں کی اصلاح کریں جو ابھی سر نہیں اٹھا سکیں اور ان بیماریوں کی اصلاح کریں جو و با بھی بن سکتی ہیں.ان کا پیش خیمہ کریں، یہ ہے اصل امور عامہ کا کام یعنی اور کاموں کے علاوہ.تو اصلاحی کمیٹی انہی خطوط پر قائم ہونی چاہئے اور اگر جرمنی میں اصلاحی کمیٹی اس بات کو بھلا بیٹھی تھی جیسا کہ مجھ پر تا ثر ہے تو مجلس شوری اس بات پر غور کرے اور صرف ایک مرکزی اصلاحی کمیٹی نہیں بلکہ علاقائی اور بڑے شہروں میں، شہر کی سطح پر بھی ایسی باشعور اصلاحی کمیٹیاں قائم ہونی ضروری ہیں جو ہر قسم کی برائیوں پر اس طرح نظر رکھیں کہ ابھی برائیاں عام انسان کو دکھائی نہ دینے لگیں.دیکھیں جب پو پھوٹتی ہے تو بہت سے لوگ ہیں جن کو وہ پودکھائی نہیں دیتی اور اس کے لئے گہری فراست کی نظر چاہئے جسے تجربہ ہو.اسی لئے پرانے زمانوں میں جبکہ روزہ شروع ہونے کا وقت معلوم کرنے کے لئے وہ ذرائع موجود نہیں تھے جواب میسر ہیں.اس زمانے میں مجھے یاد ہے کہ بعض لوگ اٹھ کر باہر نکل کر دیکھا کرتے تھے پو پھوٹی ہے کہ نہیں اور اس میں کوئی بچہ کہ دیتا تھا پھوٹ گئی ہے کوئی کہتا تھا نہیں پھوٹی.یعنی ابھی ایسی درمیانی سی حالت ہوتی تھی پھر وہ لوگ جن کو تجربہ ہوتا تھا وہ کہتے تھے کہ نہیں پھوٹ گئی ہے پکی بات ہے اور اس پر پھر اذان ہو جاتی تھی یا کھانا بند ہوتا تھا.تو بعض دفعہ قومی حالات میں جو پو پھوٹتی ہے وہ بیماریوں کی پوبھی پھوٹا کرتی ہے اور ضروری نہیں کہ روشن

Page 347

خطبات طاہر جلد 13 341 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مئی 1994ء دن ہی طلوع ہو بعض دفعہ اندھیری راتیں بھی طلوع ہوتی ہیں یا شام کی شفق سے اگر تشبیہ دیں گے تو وہ بات پوری بنتی نہیں اس لئے میں نے عمد اصبح والی بات کی تھی.تو پیشتر اس کے کہ وہ اندھیرا دن طلوع ہو جائے جس کے بعد آپ کی پیش نہیں جائے گی.آپ آثار سے معلوم کیا کریں کہ کون کون سی وبائیں پھیلنے والی ہیں، پھیل سکتی ہیں اور ان کے ازالے کے لئے جب آپ کو کوشش کرنی ہوگی تو پھر اکیلی اصلاحی کمیٹی کا کام نہیں ہے.اصلاحی کمیٹی کا کام ہے محسوس کرنا اور جماعت کو متنبہ کرنا، مجلس عاملہ میں وہ باتیں پیش کرنا اور پھر مجلس عاملہ کو اپنی مجموعی حیثیت سے صرف ایک عہدیدار کو نہیں بعض دفعہ دو تین چار عہدیداروں کو متحرک کرنا ہوگا، کہیں اصلاح وارشاد کے سیکرٹری کا بیچ میں عمل دخل ہو جائے گا کہیں آپ کو بعض صورتوں میں فنانس کی ضرورت ہوگی کچھ لٹریچر شائع کرنا ہے، کہیں دورے کروانے ہوں گے، مربیوں کے نظام کو حرکت میں لانا ہو گا غرضیکہ بہت سے امکانی حل ہیں جن کے لئے بعض دفعہ مجلس عاملہ میں غور ضروری ہوا کرتا ہے.پس ایسے مسائل کو مجلس عاملہ میں رکھیں لیکن جہاں تک جرمنی میں اس وقت ظاہر ہونے والی بیماریوں کا تعلق ہے وہ بہت سی ایسی ہیں جو ہو چکی ہیں اور ہونے کے بعد بھی پوری نظر نہیں آرہیں اس لئے میں جو بات کر رہا ہوں وہ تو اوپر کی بات ہے یہ ضروری ہے آئندہ کے لئے مگر اس وقت جو صورت حال ہے جرمنی کی وہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی اپنے ساتھ ایسی معاشرتی بیماریاں لے آئے یا اخلاقی بدیاں لے آئے جن کی وجہ سے جماعت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور احمدیت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے.جہاں تک غیر احمدیوں کا تعلق ہے وہ خود جو چاہیں کریں، جو چاہیں کرتے پھریں وہ سمجھتے ہیں کوئی حرج نہیں ہم تو مسلمان ہیں ہمیں تو فرق نہیں پڑتا لیکن جب احمدی کوئی بات کرے تو پھر مجھے طعنوں کے خط لکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جماعت احمد یہ ہے گویا کہ دل ان کا گواہی دیتا ہے کہ سب اچھی باتیں احمدیت ہی کے پاس ہونی چاہئیں اور سب بری باتوں کی چھٹی ان کو ملی ہوئی ہے.اس لئے اپنے اندرا گر ہزار خرابی بھی دیکھیں گے تو یہ نہیں کہیں گے کہ یہ اسلام ہے ہم یہاں کیوں بیٹھے رہیں لیکن احمدیت میں ایک خرابی بھی دیکھیں گے تو یہ طعنوں کا خط در نمین (صفحہ: 130) لکھتے ہیں کہ اس کو آپ احمدیت کہتے ہیں؟ یہ احمدیت کی تعلیم ہے؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے.

Page 348

خطبات طاہر جلد 13 342 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء دل ہمارے ساتھ ہیں گومنہ کریں بک بک ہزار کہ دل ہمارے ساتھ ہیں اگر منہ ہزار بک بک کریں دل ان کے جانتے ہیں کہ یہ اچھوں کی جماعت ہے اسے اچھا ہونا چاہئے اس سے اچھی توقعات وابستہ ہوتی ہیں.پس آپ مجھے کیوں طعنے دلواتے ہیں خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے اور جب غیروں کی طرف سے آواز آتی ہے تو مجھے اور بھی زیادہ اس بات کی تکلیف پہنچتی ہے کہ اپنوں نے کیوں مجھے بر وقت اس بات میں متنبہ نہیں کیا میں فوری طور پر جواب طلبی کرتا ہوں امور عامہ کی، دوسروں کی ، کہ عجیب بات ہے اول تو یہ بتائیں کہ بات بچی ہے کہ نہیں اگر یہ بچی ہے تو آپ کو پہلے دکھائی دینی چاہئے تھی آپ کی طرف سے میں دیکھتا یہ آپ نے کیوں انتظار کیا کہ غیر اٹھے اور مجھے طعنے دے اگر چہ اس طعنے کی اپنی ذات میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہومگر یہ ایک زیادہ تکلیف دہ صورت بن جاتی ہے.پس اپنی معاشرتی برائیوں پر ، اخلاقی برائیوں پر ، مذہبی برائیوں پر ہلکی قانون کو توڑنے کے لحاظ سے جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ان سب پر نظر رکھیں اور اس پہلو سے اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ احمدیت کو کوئی جائز طعنہ نہ مل سکے.جب آپ غیر احمدی مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو وہ تو طعنہ صرف اس وقت دیتے ہیں.میں نے جب تحقیق کی ہے جب ان کو کوئی مفاد وابستہ ہو اور ان کو کسی احمدی سے کچھ نقصان پہنچا ہو یا پہنچنے کا اندیشہ ہو.مگر جو دوسری قومیں ہیں مثلاً جرمن.وہ جب لکھتے ہیں تو وہ اسلامی نقطہ نگاہ سے لکھتے ہیں ہمیشہ ان کا موضوع یہ ہوتا ہے کہ ہم تو آپ کی جماعت کو اچھا سمجھ رہے تھے مگر ہم نے وہاں یہ یہ برائیاں دیکھیں اور اس کا براہِ راست نقصان اسلام کو پہنچتا ہے اس لئے ان باتوں کو چھوٹا نہ سمجھیں اور ہر طرف ہر احمدی نگران ہو اور خصوصیت سے اصلاحی کمیٹیاں ان باتوں پر غور اور فکر کریں اور مستقل ان بیماریوں کو جڑ سے اکھیڑنے کے لئے کوشش کرتی رہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ تم ایک دوسرے پر طعن نہ کیا کرو.اَنْفُسَكُمُ اپنے آپ کو طعنے نہ دیا کرو.وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَاب اور مختلف تمسخر والے نام یا تحقیر والے نام نہ رکھا کرو.بعض قوموں میں نام رکھنے کی عادت ہے اور اس لحاظ سے بھی دنیا کی تمام قوموں میں ہندوستانیوں کو برتری حاصل ہے اس میں کوئی دنیا کی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی وہ تو فورا کوئی بات ہو تو نام رکھ دیتے ہیں اور اکثر نام بگاڑے جاتے

Page 349

خطبات طاہر جلد 13 343 خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 1994ء ہیں اس طرح کسی کا کچھ نام رکھا ہوا ہے کسی کا کچھ نام رکھا ہوا ہے لیکن بعض نام پیار سے رکھے جاتے ہیں انہیں وہ القاب شمار نہیں کیا جا سکتا جن کا ذکر قرآن کریم فرمارہا ہے اب چھوٹے میاں ہیں.چھوٹو رام تھے ان کا تو شاید نام ہی یہی تھا مگر قد چھوٹا ہو تو اس کو چھوٹے میاں، منے میاں کہہ دیتے ہیں اور اس قسم کے نام پیار کے ہوتے ہیں اور وہ نام ان کو تکلیف نہیں دیتے.پس وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَاب کی تعریف حقیقی طور پر یہی ہے کہ ایسا کوئی نام نہ رکھا کرو جس سے اس شخص کو تکلیف پہنچے.اگر اس تعریف کے سوا کوئی اور تعریف کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ درست ثابت نہیں ہوگی.پس تکلیف پہنچانے کی عرض سے کوئی نام نہیں رکھتے اور اگر کوئی نام تکلیف پہنچاتا ہے خواہ نیک نیتی سے رکھا ہو تو اس سے وہ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور توبہ کر لیتے ہیں.وہی نام دینے چاہئیں جن میں پیار کا اظہار ہو محبت کا اظہار ہو.وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ میں فرمایا اپنے آپ کو أَنْفُسَكُمْ سے مراد ہے تم اپنے آپ کو.ظاہر ہوا کہ اسلامی تصور میں مسلمان بھائی بھائی ہیں اور اس حد تک بھائی بھائی ہیں کہ وہ اگر کسی بھائی کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے.تو اس انداز سے یہ نصیحت فرما دی کہ تم اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچا ؤ گے تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ گے اور اپنی سوسائٹی کو نقصان پہنچاؤ گے.اس میں دو پہلو ہیں اول یہ کہ اَنْفُسَكُمْ کہہ کر اچانک ایک خوابیدہ بھائی چارے کے احساس کو جگا دیا گیا.فرمایا تم سمجھتے ہو تم دوسروں کو طعنہ دے رہے ہو تم تو اپنوں کو طعنہ دے رہے ہو بڑے بے وقوف لوگ ہو.پھر یہ فرمایا کہ اپنے آپ کو اگر نقصان پہنچاؤ گے تو وہ ساری جماعت کو نقصان پہنچے گا اور ایسی جماعتیں پھر دنیا میں ترقی نہیں کرتیں ان کو بحیثیت جماعت نقصان پہنچ جاتا ہے.بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ان باتوں کو فسوق فرمایا ہے.فرمایا جب تک تم ایمان نہیں لائے تھے ایسی باتیں کیا کرتے تھے وہ بھی بری تھیں لیکن ایمان لانے کے بعد، پھر ایسی باتیں ، یہ تمہیں زیب نہیں دیتیں.سجتی نہیں.پس یہ کہنا کہ جی ہمارا ملک ہی ایسا ہے وہاں سے ہم لوگ یہی برائیاں لے کے آئے ہیں اور سارے ہی ایسے ہیں اس آیت کے بعد یہ دلیل نہیں چل سکتی.فرماتا ہے بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ باقی ایمان تو نہیں لائے کہ ان سے توقعات بلند ہو جا ئیں.تم جو ایمان لے آئے ہو

Page 350

خطبات طاہر جلد 13 344 خطبہ جمعہ فرموده 6 رمئی 1994ء تم سے اور توقعات ہیں اس لئے بجتی نہیں ہے تم پر بات.بَعْدَ الْإِيْمَانِ ایسی باتیں اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے.ایک عام انسان بھی کسی آدمی کو منہ پہ یہ کہے کہ دیکھو تم کون ہو؟ ایسی با تیں تم پر بھی نہیں تو اچانک اس کے دل میں ایک شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ طر ز نصیحت ہے جو بڑی مؤثر ہے مگر جب اللہ فرمائے اور اپنے عاجز بندوں سے اس طرح پیار سے مخاطب ہو.جس میں ایک قسم کا شکوہ بھی ہے اور پیار بھی ہے کہ دیکھو ایمان لے آئے ہو.ایمان کے بعد ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی محبت بھی دل میں بڑھنی چاہئے اور جن باتوں سے خدا روکتا ہے غیر معمولی جذبے کے ساتھ ان سے رکنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ساتھ فرمایا وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ہم تمہیں پیار سے سمجھا رہے ہیں باز آ جاؤ اگر نہیں رکھو گے تو پھر ظالم بنو گے اور ظالموں کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کا سلوک بالکل معلوم اور معروف ہے.ظالموں سے خدا محبت نہیں کیا کرتا.خدا سے نجات کے تعلق کے سب رشتے ٹوٹ جائیں گے.ایک تو یہ مرتبہ ہے کہ تمہاری برائیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ تمہیں پیار سے سمجھا رہا ہے.اپنا نا کہہ کے بلا رہا ہے کہتا ہے تم ایمان والے ہو، تمہیں یہ باتیں زیب نہیں دیتیں اور پھر فرماتا ہے کہ میں تمہیں سمجھا رہا ہوں.سمجھ جاؤ تو بہتر ہے ورنہ پھر تم ظالم ہو جاؤ گے پھر میں یہ نہیں کہوں گا کہ تم میرے ہو اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتیں.پھر تم سے وہی سلوک ہوگا جو ظالموں کی قوموں سے کیا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ اِثْم اس پر میں آج کے خطبے کو ختم کروں گا کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جرمنی میں کافی پائی جاتی ہے.بہت سی خرابیوں کی جڑ ظن ہے.الزام تراشی یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسا بھی واقعہ ہوا ہے کہ ایک نسبتا بڑے علاقے کا افسر ہے یعنی امیر ہے یا صدر ہے بڑے علاقے کا.ایک مقامی چھوٹی جماعت کا صدر ہے اور امیر کی طرف سے کوئی پکڑ ہوئی ہے چھوٹے عہدیدار کی تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کرتا اس نے کوئی چھ سال کی پرانی بات نکال لی اور اس کو شہرت دے دی کہ اس امیر نے یہ حرکت کی تھی.اب تعجب ہوا مجھے جب اطلاع ملی میں نے تحقیق کروائی، میں نے کہا یہ کیسی جاہلانہ بات ہے اگر وہ ایسی بے ہودہ بات تھی تو چھ سال پہلے کیوں باہر نہیں آئی.تو پتا چلا کہ اول تو اس وقت بھی ظن ہی تھا اور ایسا ظن تھا جس کی اسلامی معاشرے میں بڑی

Page 351

خطبات طاہر جلد 13 345 خطبہ جمعہ فرمود و 6 رمئی 1994ء سخت سزا دی جاتی ہے اور باہر اس لئے نہیں آئی کہ اس کے ساتھ تعلقات ٹھیک تھے اور غصے کی کوئی وجہ پیدا نہیں ہوئی.اب جبکہ بڑے عہدیدار نے چھوٹے عہدیدار کو پکڑا ہے تو انہوں نے کہا اچھا پھر یہ بات ہے تو پھر ایک پرانی بات میں نے سوچی ہوئی تھی کہ تم یہ کیا کرتے تھے اور میں سب کو بتاؤں گا اور بتانا شروع کر دیا.پھر تحقیق ہوئی تو مانا کہ ہاں میں نے بتایا ہے لیکن اس نے کہی تھی یا یہ حرکت کی تھی.کب کی تھی؟ چھ سال پہلے.تو چھ سال تک تم سوئے کیوں رہے اور ذمہ داری اس کی پتاکس پر ڈالی؟ مجھ پر.کہتے تھے انہوں نے خطبے دیئے تھے کہ تقویٰ اختیار کرو میں نے تقویٰ اختیار کر لیا.انا للہ وانا اليه راجعون اگر یہی تقویٰ کا پیغام آپ کو پہنچا ہے تو میری تو بہ پھر اس تقویٰ سے.جہالت ہے یہ تو ایسا الزام ہے مجھ پر کہ اپنے جرم میں مجھے بھی آپ شامل کر رہے ہیں.وہ فعل اپنی ذات میں ایک نہایت مکروہ فعل ہے.ظن پر کسی پر الزام لگانا اور اسلام اس کے خلاف سختی کی تعلیم دیتا ہے.بڑی سخت سزا مقرر کی گئی ہے اور پھر چھ سال تک خاموش بیٹھا ر ہے انسان ، اور تقوی کی بات سن کر یہ گناہ کی بات یاد آ جائے کہ یہ گناہ میں نے کرنا تھا میں کر نہیں سکا.ایسے آدمی کی تو جماعت میں کوئی گنجائش نہیں.جماعت تو اپنا فیصلہ کرے گی لیکن میں جماعت جرمنی کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ خطن کے اوپر آپس میں اختلافات پھیلے ہوں اور افتراق پیدا ہوا ہو وہاں یہ بیماری عام ہے.ایک دوسرے کی ٹوہ لگاتے ہیں سوچتے ہیں کہ اس نے یہ کیا ہوگا اس کے بعد یا اس کو مشتہر کرنا شروع کر دیتے ہیں یا انتقام لینے کے لئے پہلے باندھ کے بیٹھ جاتے ہیں.آج نہیں تو کل اللہ تعالیٰ ان کو ننگا کرے گا اور ان سے نظام جماعت بھی سختی سے سلوک کرے گا یعنی وہ بختی جو انتظامی سختی ہوا کرتی ہے.مگر میں جماعت جرمنی کو نصیحت کرتا ہوں وہ تقویٰ اختیار کریں استغفار سے کام لیں.اس طریق پر آپ کی اصلاح کے دروازے بند ہو جائیں گے اگر آپ ان بدیوں سے باز نہیں آئیں گے.بہر حال یہ چند صیحتیں ہیں.وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا نصیحت ہے آخر پر جو بہت ہی اہمیت رکھتی ہے.فرمایا در اصل بعض برائیوں کی جڑھ اس بات میں ہے کہ تم ایک دوسرے کے خلاف ان کی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے رہتے ہو.ان کو بدنام کرتے رہتے ہو اور اس میں لطف اٹھاتے ہو.فرمایا تمہیں علم نہیں ہے کہ یہ کیسی گندی اور ذلیل حرکت ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے تمہارا بھائی مرجائے تو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے لگو.فرمایا فَكَرِهْتُمُوهُ تم اس سے

Page 352

خطبات طاہر جلد 13 346 خطبہ جمعہ فرمود و 6 رمئی 1994ء کراہت کرتے ہو اور كَرِهْتُمُوهُ کا ایک مضمون یہ ہے کہ اب سن لیا ناتم کیسی کراہت کر رہے ہولیکن روز مرہ یہی گوشت کھاتے ہو یہی گند کرتے ہو.تو یہ بات خصوصیت کے ساتھ جماعت جرمنی کو مضبوطی سے پکڑ لینی چاہئے کہ اگر کسی بھائی کے پیچھے اس کی برائی ہورہی ہے تو اس مجلس میں اٹھ کر اس کو کہا جائے یہ جائز نہیں ہے، ہم یہ پسند نہیں کرتے.اگر وہ باز نہیں آتا تو اس مجلس سے اٹھ کے آجائیں اور کوشش کریں کہ معاشرے سے اس بدی کی بیخ کنی ہو جائے اس کا قلع قمع ہو جائے اس کی جڑیں اکھاڑ کے پھینک دی جائیں اور بھی بہت سی نصیحتیں تھی جو کر سکتا تھا اس معاملے میں لیکن مجلس شوریٰ کو میں آخر پر یہی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ اور اس سے ملتی جلتی دوسری برائیاں جن پر آپ کی نظر ہے ان کو دور کرنے کے لئے خصوصیت سے پروگرام بنا ئیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتے رہیں.دعاؤں کے ساتھ کوشش کریں تا کہ ہم جو بڑی تیزی سے جرمنی میں خدا کے فضل کے ساتھ پھیل رہے ہیں ہم برائیاں لے کر دوسروں تک نہ پہنچیں بلکہ برائیاں دور کرنے والے بن کر ان تک پہنچیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 353

خطبات طاہر جلد 13 347 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء اخلاق محمدی سے دنیا فتح ہوگی دعا کے بعد سب سے قوی ہتھیار حسن خلق کا ہتھیار ہے.( خطبه جمعه فرمودہ 13 مئی 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَ بِذِي الْقُرْبى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَا لَّا فَخُوْرَا الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُوْنَ مَا أنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِيْنَّان پھر فرمایا:.(النساء: 38,37) گزشتہ جمعہ پر جو میں نے تلاوت کے لئے دو آیات چنی تھیں ان سے متعلق آج مجھے

Page 354

خطبات طاہر جلد 13 348 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے یہ بتایا کہ وہ آیات تو سورۃ الحجرات کی تھیں لیکن لکھنے والے نے غلطی سے حوالہ سورہ تحریم کا درج کر دیا تھا کیونکہ یہ حوالے کی غلطی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ تمام سننے والے جنہوں نے ریکارڈ بھی کیا تھا خصوصیت کے ساتھ ریکارڈ میں یہ درستی کر لیں.آیات وہی ہیں، آیات میں غلطی نہیں ہے مگر حوالہ غلط بھی نامناسب بات ہے اور یہ کتابت کی غلطی تھی جس نے بھی حوالہ درج کیا غلطی سے اس سے ایک اور سورۃ کا نام لکھا گیا تھا.یہ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان کے مضمون پر گفتگو سے پہلے میں آج بھی کچھ اجتماعات کا اعلان کرتا ہوں.تین ہیں آج کے اجتماعات.ایک تو جماعت احمد یہ جاپان کی مجلس شوری کل چودہ مئی سے شروع ہو رہی ہے.دو دن جاری رہ کر 15 مئی کو اختتام پذیر ہوگی.جماعت احمد یہ جاپان اگر چہ تعداد میں بہت چھوٹی ہے مگر اللہ کے فضل سے کاموں میں اور حو صلے میں بہت بلند ہے اور اب تک مسلسل ان کے اندر استقلال سے نیکیوں کو چھٹنے کی صفت ایسی ہے جو نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے باوجود اس کے کہ جاپان میں آکر پناہ ڈھونڈنے والے یا کام تلاش کرنے والے احمدی تھے جو واپس چلے گئے اور تعداد میں کمی آئی مگر ان کی قربانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی.پس اللہ ان کو ہمیشہ اپنی راہنمائی ، اپنی حفاظت میں رکھے اور ہمیشہ ان کا قدم آگے بڑھاتا رہے اور جو کمی ، جانے والوں کے نتیجہ میں آئی ہے وہ نئے آنے والوں کے ذریعے پوری فرمائے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر پوری فرمائے.نئے آنے والوں سے میری مراد تبلیغ کے ذریعے آنے والے ہیں اور جاپان کی جماعت صرف مالی قربانی میں نہیں بلکہ تبلیغ کے معاملے میں بھی خدا کے فضل سے بڑی مستعد جماعت ہے اور ابھی دو تین دن کی ڈاک میں بعض دوستوں نے اطلاع دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تبلیغ کو پھل لگے ہیں اور یہ زمانہ تبلیغ کے پھلوں کا زمانہ ہے اور ہر طرف بہار آ رہی ہے اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جاپان بھی اس الہی بہار سے بھر پور حصہ لے گا.جاپان میں یہ مشکل ہے کہ تعداد کے مقابل پر اور نفوس کے لحاظ سے جماعت احمد یہ بہت تھوڑی ہے، نہ ہونے کے برابر ہے اور بہت دیر بعد جاپان میں کام شروع ہوا.شروع میں تو اس کام کا کوئی نتیجہ نکلا ہی نہیں یعنی سالہا سال تک ہمارے مبلغ پیغام دیتے رہے مگر وہ ماحول اتنا مختلف ہے کہ ان کے ہاں روحانی قدروں کا کوئی تصور ہی نہیں اس لئے جاپان میں کوئی بھی کوشش کارآمد نہ ہوئی لیکن جب خدا کے فضل سے بعض مخلص غیر مبلغ لوگ وہاں پہنچے

Page 355

خطبات طاہر جلد 13 349 خطبہ جمعہ فرمود و 13 مئی 1994 ء اور انہوں نے مبلغ کو تقویت دی تو وہ ماحول پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں خدا کے فضل سے کوششیں بار آور ہو جایا کرتی ہیں اور اب وہ ماحول ما شاء اللہ بہت عمدگی کے ساتھ اپنے پھل دکھا رہا ہے، اپنے جو ہر دکھا رہا ہے.جاپان سے متعلق میں ان کو حضرت مصلح موعودؓ کی ایک خواب یاد دلانا چاہتا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ آپ نے ایک چھوٹا پرندہ کمزور سا پکڑا ہے اور یہ جاپان کی مثال کے طور پر آپ کو دکھایا گیا تھا کہ جاپان میں تبلیغ کیسے ہوگی اور وہ اتنا کمزور ہے کہ اسے غالبا میری کوئی والدہ ہیں ام متین تھیں یا کوئی اور مجھے نام یاد نہیں وہ اسے کچھ کھلانا چاہتی ہیں تو حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ابھی اس کا معدہ کمزور ہے کہ بہت تھوڑا تھوڑا کھلا ؤا ابھی اس میں ہضم کرنے کی طاقت نہیں ہے اور یہ رویا بہت پرانی اخبار میں چھپی ہوئی ہے مجھے اس کی تفصیل یاد نہ رہی ہو تو اس کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ جاپان کی قوم میں ابھی دین کو ہضم کرنے کی طاقت پیدا نہیں ہوئی اور رفتہ رفتہ اتنا کھلاؤ جتنا اسے ہضم کرنے کی طاقت ہے پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو وہاں صبر بھی دکھانا چاہئے اور حوصلہ بھی اور حکمت کے ساتھ رفتہ رفتہ روحانی غذا دینے کی کوشش کرنی چاہئے جو ساتھ ساتھ ہضم ہوتی چلی جائے.ایک اجتماع مجلس انصار اللہ USA کا ہے جو تیرھواں سالانہ اجتماع ہے.کل 14 مئی سے شروع ہو رہا ہے اور 15 مئی کو اختتام پذیر ہوگا اور ایک جماعت احمدیہ ملتان کے واقفین نو کی تربیتی کلاس ہے.ان سب کو عمومی طور پر میرا پیغام وہی ہے جو میں خطبے میں سب جماعت کو دے رہا ہوں اور اس خطبے میں بھی اسی سلسلے میں چند اور باتیں کروں گا.جن آیات کی میں نے تلاوت کا ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اور اللہ کی عبادت کرو اور لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ.وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.و بِذِی القربی اور اقرباء کے ساتھ بھی، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور مسکینوں کے ساتھ بھی وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى اور وہ پڑوسی جو قرب میں رہتے ہوں.اس کے مختلف معانی کئے گئے ہیں مگر ایک معنی یہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں وَالْجَارِ ذِي الْقُرُبی اور وہ پڑوسی جو قریب میں رہتے ہوں.وَالْجَارِ الْجُنُبِ اور وہ پڑوسی جو پہلو میں رہتے ہیں مگر ویسے رشتہ دار نہیں وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے

Page 356

خطبات طاہر جلد 13 350 خطبہ جمعہ فرموده 13 مئی 1994 ء والے لوگوں کے لئے وَابْنِ السَّبِيلِ اور رستہ چلتے یعنی مسافروں کے لئے وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اور جن پر تمہارے ہاتھوں کو غلبہ عطا ہوا ہو.ان سب سے حسن سلوک کرو اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورَ ایا درکھو اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور اترانے والے شخص کو پسند نہیں فرماتا.اترانے والا اس کو کہتے ہیں جو چھوٹی سی بات پر اچھلنے لگ جائے اور فخر کے ساتھ دکھاوا کرنے لگے.فرمایا فَخُور فخر کرنے والے اور اترانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وہ لوگ جو بخل سے کام لیتے ہیں اور بخل ہی کا حکم بھی دیتے ہیں.وَيَكْتُمُونَ مَا اللهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ اور جو خدا نے ان پر فضل فرمائے ہوئے ہیں وہ انہیں لوگوں سے چھپاتے ہیں تا کہ کہیں مانگ نہ بیٹھے.بتاتے نہیں ہیں کہ انہیں خدا نے کیا کچھ عطا کیا ہوا ہے.انکساری کی بناپر نہیں بلکہ اس خوف کی وجہ سے نہیں بتاتے کہ لوگوں کو پتا لگا کہ ہمارے پاس کیا کچھ ہے تو کہیں مانگ ہی نہ بیٹھیں.وَأَعْتَدْنَا لِلْكُفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيننا اور کافروں کے لئے ہم نے ایک ذلت والا عذاب مقرر کر رکھا ہے یا تیار کر رکھا ہے.یہ جو آیات ہیں ان کے مضمون پر میں احادیث کے حوالے سے روشنی ڈالوں گا.عمومی طور پر ان کا تعارف یہ کرواتا ہوں کہ اللہ کی عبادت جس میں شرک کا شائبہ بھی نہ ہو یہ بنیادی تعلیم ہے.وہ عبادت جو خالصہ اللہ کے لئے ہو اور شرک سے کلیہ پاک اور صاف ہو وہ انسانی تعلقات کو منقطع کرنے پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ اللہ کے حوالے سے ان تعلقات کو قائم کرنے کی تلقین کرتی ہے.پس وہ عبادت گزار جو دنیا سے تعلقات کاٹ کر ایک طرف ہو جائیں وہ حقیقت میں واحد خدا کی عبادت کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ذات کی عبادت کرتے ہوں گے.اللہ کی عبادت کرنے والا جو شرک سے پاک ہو اس کی یہ صفات ہیں اور ان صفات سے اس کی عبادت کا خلوص پہچانا جائے گا کیونکہ جو عبادت انسان خدا کے حضور کرتا ہے اس پر دنیا تو گواہ نہیں ہے اس کے دل کی کیا کیفیت ہے.وہ خالصہ اللہ کے لئے ہے کہ نہیں ، شرک سے پاک ہے کہ نہیں.یہ سارے وہ معاملات ہیں جن کا رخ خدا کی طرف ہے اور اللہ دیکھ رہا ہے اور بندے کو کچھ پتانہیں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ایسے لوگوں کی کچھ علامات ایسی ہیں جو بندے بھی دیکھ سکتے ہیں اور ان علامتوں کو دیکھ کر ان کو معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ خالص عبادت کرنے والا غیر مشرک ہے جس نے اپنے وجود کو تمام تر اللہ کے لئے کر دیا یہ وہ لوگ ہیں

Page 357

خطبات طاہر جلد 13 جن کی صفات بیان ہورہی ہیں.351 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء ب سے پہلے فرمایا وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو.والدین ایک قسم کے رب بن جاتے ہیں کیونکہ والدین کے ذریعے انسان دنیا میں آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے بعد سب سے پہلے والدین ہی کا ذکر ضروری تھا اور یہی کیا گیا ہے لیکن والدین کو ایسے مرتبے پر رکھا ہے جہاں فرمایا ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.خدا تعالیٰ کا جہاں تک معاملہ ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ احسان کا سلوک ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کے احسان ہم پر حاوی ہیں اور اس میں ایک بہت لطیف مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر چہ ماں باپ تمہیں پیدا کرتے ہیں مگر احسان اللہ کا ہے جب تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرو تو ایسا کرو کہ تمہاری طرف سے وہ احسان ان کی طرف رواں ہونے والا ہو.ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ دعا کروان کے لئے کہ اے خدا ان سے یہ سلوک فرما اور یہ سلوک فرما كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا جس طرح انہوں نے بچپن میں میری تربیت فرمائی اور میری پرورش کی لیکن وہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ والدین کا احسان ہے.احسان تو ہے اس کا انکار نہیں یہ نہ غلطی سے سمجھیں کہ نعوذ باللہ من ذلک قرآن کریم والدین کے احسان کی نفی فرما رہا ہے.جس سیاق و سباق میں بات ہو رہی ہے وہاں یہ مضمون ہے کہ احسان اللہ ہی کا ہے اور تخلیق کے جو ذرائع اس نے پیدا فرمائے ہیں ان کے ذریعے ایک چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ احسان کی خاطر ماں باپ ایسا نہیں کرتے.اب آپ دیکھ لیں جو آج کل کی دنیا میں ماں باپ کے سامنے بچے سراٹھاتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ان میں ایک یہ بات بھی ہوتی ہے کہ تم نے کون سا ہم پر احسان کیا ہے.تم نے شادی کی تھی اپنی لذتوں کی خاطر، اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ، ہم نے تو پیدا ہونا ہی تھا نہ ہوتے تو پھر تمہیں تکلیف پہنچتی ، ہم پر کوئی احسان نہیں.یہ ایک ایسی بات ہے جو حقیقی ہے.میرے سامنے بعض دفعہ مغربی دنیا میں بعض لوگوں نے ذکر کیا کہ یہاں بچے ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطوں میں مشرق سے بھی بعض احمدی لکھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے سر پھر گئے ہیں وہ بد تمیزی سے باتیں بھی کرتے ہیں کہ تم نے ہمیں پیدا کیا تمہارا کیا احسان ہے.یہ جو مضمون ہے یہ پھر آگے بڑھتا ہے پھر ایسے سرکش خدا پر بھی ایسی ایسی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ماں باپ پیدا کرتے ہیں تو احسان کی نیت سے پیدا نہیں کرتے اس میں کوئی

Page 358

خطبات طاہر جلد 13 352 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 رمئی 1994ء شک نہیں لیکن اللہ جب پیدا فرماتا ہے تو احسان کے ساتھ پیدا فرماتا ہے.ماں باپ مستغنی نہیں ہیں یعنی اگر ان کے بچے نہ ہوں تو ان میں کمزوری واقع ہوتی ہے لیکن خداستغنی ہے اگر وہ بندوں کو پیدانہ کرے یا یکسر مٹادے تب بھی وہ اپنی حمد میں، اپنی ذات میں ہر دوسری چیز سے مستغنی رہے گا.پس یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لازما احسان ہے اپنی مخلوق پر لیکن دوسرے لوگ جو چیز میں پیدا کرتے ہیں ان کا ان پر ان معنوں میں احسان نہیں جیسے خالق کا مخلوق پر احسان ہوا کرتا ہے.تو فرمایا مگر تم نے ان سے احسان کا سلوک کرنا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو نسل پیچھے رہ رہی ہے وہ اس سے جو آنے والی نسل ہے مستغنی ہو جایا کرتی ہے اور احسان کے بغیر اس سے تعلقات کا حق ادا نہیں ہوسکتا.ماں باپ کبھی بھی بچوں سے مستغنی نہیں ہو سکتے لیکن بچے ماں باپ سے مستغنی ہو سکتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ ، پیچھے رہ گئے چھوڑ و پرے، ہماری زندگیاں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ان کو بوجھ محسوس کرتے ہیں.پس وہ لوگ جو ماں باپ کی ان قربانیوں کو بھول جاتے ہیں جو چاہے وہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر ہی کرتے ہیں.مگر بہر حال قربانیاں ہیں اور بعد کی خدمتوں کو بھول جاتے ہیں ان کو توجہ دلائی کہ تم اگر احسان مند نہیں ہونا چاہتے تو احسان کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہاری خاطر تکلیفیں بہر حال اٹھائی ہیں.چنانچہ ماں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو کتنا لمبا عرصه وَهُنَّا عَلى وَهْنٍ ایک تکلیف کے بعد دوسری تکلیف اٹھاتے ہوئے تمہیں ماؤں نے اپنے پیٹوں میں پالا ہے اور یہاں تک کہ تمہاری پیدائش ہوئی پھر اس کے بعد تمہارے لئے تکلیفیں اٹھاتی رہیں.تو اللہ احسان کا انکار نہیں فرما رہا مگر ایک نفسیاتی انداز ہے گفتگو کا جو بہت ہی گہرا اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے.بجائے یہ کہنے کے کہ اے بچے ،اے لڑکے تو اپنے ماں باپ کا احسان یاد کر اور وہ بدلے اتار.امر واقعہ یہ ہے کہ ماں باپ کے احسان کے بدلے اتر ہی نہیں سکتے نہ خدا کے احسان کے اتر سکتے ہیں فرمایا اگر تو بوجھ محسوس کرتا ہے تو احسان کر کیونکہ اسی میں تیری بہتری اور تیری بھلائی ہے اور یہ سارے احسانات جن کا بعد میں ذکر آئے گا یہ اللہ کے احسان کی یاد میں ہی کئے جار ہے ہیں.اللہ کے بے شمار احسانات ہیں ان کا بدلہ خدا سے تو آپ اتار نہیں سکتے.اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندوں پر احسان کرو اگر تم احسان مند ہو اور یہ ہمیں خدا کا احسان اتارنے کی کوشش کرنے کا ایک رستہ بتا دیا.

Page 359

خطبات طاہر جلد 13 353 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء یہ بات جو میں بیان کر رہا ہوں یہ حقیقت ہے یہ کوئی ملمع کاری نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے انہی معنوں میں اس مضمون کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا.جب فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے ناراضگی کا اظہار فرمائے گا اور اس رنگ میں ان سے باتیں کرے گا کہ دیکھو جب میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، جب میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، جب میں نگا تھا تو نے مجھے کپڑے نہیں پہنائے ، جب میں بے گھر تھا مجھے گھر مہیا نہ کیا.ہر دفعہ بندہ یہ سن کر کہے گا کہ اے خالق و مالک ! میں محتاج ہوں تو تو محتاج نہیں.تو کب پیاسا تھا جب کہ میں نے تجھے پانی نہیں پلایا تو کب بھوکا تھا جب میں نے تجھے کھانا نہیں کھلایا.تو ہر دفعہ اللہ یہ جواب دے گا جب میرا ایک بندہ پیاسا تھا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا.جب میرا ایک غریب بندہ بھوکا تھا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تو گویا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا.اللہ کی عظمتوں کا کوئی حساب نہیں ہے وہ بھی اپنے لئے عاجزی کے رنگ ڈھونڈھ لیتا ہے حالانکہ ہر قسم کے عجز سے پاک ہے.تو اس آیت میں یہی مضمون ہے کہ اصل تو خدا کا احسان ہے مگر خدا کا احسان تم خدا پر اتار نہیں سکتے.خدا کے احسان کی یاد میں میرے بندوں سے احسان کا سلوک کرو اور ان میں سب سے پہلے ماں باپ کا حق ہے.سب سے پہلے سر فہرست ماں باپ کو بیان فرمایا.اب ماں باپ سے متعلق بدقسمتی سے آج کل جو نیا زمانہ ہے اس میں ان کی طرف کم سے کم توجہ رہ گئی ہے.مشرق میں بہت سی جگہوں پر ابھی تک یہ قدریں باقی ہیں لیکن مغرب میں تو تیزی سے یہ اعلیٰ قدریں مٹتی چلی جارہی ہیں اور مشرق میں بھی بہت ایسے درناک اور تکلیف دہ واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ نئی نسلیں اپنے ماں باپ کے تقاضے پورے نہیں کرتیں.یہ وہ مسائل ہیں جو جماعت احمدیہ کے سامنے بھی وقتا فوقتا آتے رہتے ہیں اور یہ مسائل ایسے ہیں جو ایک طرف کے نہیں دوسرے طرف کے بھی ہیں اور ان دونوں کے درمیان توازن رکھنا بے حد ضروری ہے.یہ بات سمجھا کر پھر میں چند احادیث آپ کے سامنے رکھوں گا.توازن اس لئے کہ ماں باپ کے احسان کے نام پر بعض دفعہ بچے ماں باپ کی طرف اتنا جھکتے ہیں کہ بیوی بچوں سے انصاف کے تقاضے بھول جاتے ہیں مگر ان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ نے احسان کا لفظ استعمال فرمایا

Page 360

خطبات طاہر جلد 13 354 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 رمئی 1994ء ہے اور احسان نا انصافی پر مبنی ہو ہی نہیں سکتا.اس راز کو سمجھیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ماں باپ سے احسان کرو لیکن ماں باپ سے احسان یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی اور سے نا انصافی کرو کیونکہ کوئی احسان نا انصافی کی بنیاد پر قائم نہیں ہو سکتا.اگر بیوی سے نا انصافی کی بنیاد پر ماں باپ کا احسان قائم ہوتا ہے تو اس آیت کریمہ کے مضمون کو جھٹلانے کے بعد، رد کرنے کے بعد ایسا ہوسکتا ہے اس کے بغیر نہیں ہوسکتا.یادرکھیں احسان اور عدل کا یہ جو تعلق ہے یہ قرآن کریم نے بار ہا کھولا ہے اور تمام تعلیمات میں یہ تعلق بہت نمایاں ہو کر دکھائی دیتا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُربى اللہ پہلے عدل کا حکم دیتا ہے پھر احسان کا حکم دیتا ہے.جس نے عدل نہیں کیا اس نے احسان نہیں کیا اور احسان کے بعد پھر ایتَائِ ذِي الْقُرْبی کا مقام ہے یعنی اس طرح دو جیسے وہ تمہارے اپنے ہوں اور وہاں احسان کا لفظ ہی بے تعلق دکھائی دینے لگے.تو اس لئے میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ اکثر مجھے اس قسم کے خط ملتے رہتے ہیں کبھی بچیوں کی طرف سے، کبھی ماں باپ کی طرف سے، کبھی لڑکوں کی طرف سے اور وہ پوچھتے ہیں کہ ماں باپ کے حق میں کیا کیا بات داخل ہے.ابھی پاکستان سے ایک نواحمدی خاتون کا خط بھی ملا ہے وہ لکھتی ہے کہ ماں باپ کے احسان پر قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے یعنی ان کے حقوق ادا کرنے پر بہت زور دیا ہے اور میری احمدیت ان پر اتنی شاق گزر رہی ہے کہ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ شاید ماں باپ کا حق ادا نہیں کر رہی اور گناہ کر رہی ہوں.ان کو تو میں نے سمجھانے کا خط لکھا ہے تاریخ کے حوالے سے.اس ماں کے حوالے سے جس نے اپنے بچے کے اسلام پر اتنی تکلیف محسوس کی تھی کہ ایک موقع پر اس نے کہا اے بیٹے میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی.میں حسرت کے ساتھ مروں گی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ترے دل پر یہ داغ لگا ر ہے گا کہ میں نے ماں سے بدسلوکی کی تھی اور مجھ سے ناراض گئی.الفاظ یہ نہیں تھے مگر مضمون یہی تھا جو ماں نے ادا کیا.اس وقت اس کے بیٹے نے کیسی حکمت کی بات کی اور کیسی عقل کی اور کیسی عارفانہ بات کی.اس نے کہا تو مجھے بہت پیاری ہے کوئی اور چیز دنیا میں مجھے اتنی پیاری نہیں مگر ایک یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور میرا خدا.پس اگر تو کہتی ہے کہ اللہ اور رسول کو تیری خاطر چھوڑ دوں اور یہ ڈرا وا دیتی ہے کہ میں اس حالت میں مروں گی کہ تیرے گناہ نہیں بخشوں گی تو پھر اے ماں ! میرے سامنے سو جانیں تیری سسکتی ہوئی نکل جائیں مگر میں خدا کی قسم محمد رسول اللہ ﷺ اور اپنے خدا کو نہیں چھوڑوں صلى الله

Page 361

خطبات طاہر جلد 13 355 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء گا.یہ ہے حفظ مراتب کا معاملہ.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.ہر دوسرا تعلق اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا.وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اب جو کچھ کرو اللہ کی خاطر کرو کیوں کہ ہر شریک کی نفی ہو چکی ہے.ہر خاطر کی نفی ہو چکی ہے.اللہ کی خاطر کرو اور سب سے پہلے یا درکھو کہ اللہ تمہیں والدین سے احسان کے سلوک کی ہدایت فرماتا ہے.اب احسان کا سلوک جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا اور بہت ہی باریک توازن ہے جو آپ کو لا زما اختیار کرنا ہوگا.اگر ماں اس بات پر راضی ہے کہ آپ دوسروں سے عدل کا سلوک نہ کریں تو پھر آپ کا ماں سے راضی رہنا یا ماں کو راضی رکھنا فرض نہیں ہے بلکہ اگر آپ عدل کو قربان کر کے ایسا کریں گے تو خدا سے بے وفائی کر کے ایسا کریں گے.لیکن دوسری طرف یہ بھی حکم ہے کہ ماں باپ چاہے زیادتیاں کرتے چلے جائیں ان کے سامنے اُف نہیں کرنی.ایسی صورت میں ماں باپ کی زیادتیاں برداشت کریں.وہ جتنے طعنے دیں، جس قد رسخت کلامی کریں آپ اف نہ کریں کیونکہ خدا کی خاطر آپ یہ برداشت کر رہے ہیں لیکن کسی کی حق تلفی نہیں کرنی.اس کے برعکس دوسری صورت بھی ہے کہ ماں باپ کو ایک ردی کی چیز کے طور پر پھینک دیا جاتا ہے اور بیوی بچوں کے ساتھ ایک انسان عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتا ہے.یہ بھی نہ صرف عدل کے تقاضوں کے بالکل مخالف ہے بلکہ ایک بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے.یہ جو صورت حال ہے اس کو باریک توازن کے ذریعے درست حالت میں رکھنا ایک بڑا مشکل کام ہے.لیکن اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اصل معاملہ حسن خلق یا بد اخلاقی کا ہے.وہ لوگ جن کے اخلاق درست ہوں وہاں یہ مسائل اٹھتے ہی نہیں ہیں.جن کے اعلیٰ اخلاق ہوں وہاں تو اس بات کا کوئی واہمہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بیٹا ماں اور بیوی کے حقوق کے درمیان یہ جنگ لڑ رہا ہو کہ کس کو کیا دوں اور کس سے کیساسلوک کروں.وہاں تو ہر آدمی ایک دوسرے پر فدا ہورہا ہوتا ہے، ایک دوسرے کے لئے قربانی کر رہا ہوتا ہے.چنانچہ ماں باپ کے علاوہ ایک دوسری لسٹ لمبی سی ہے ان کا بھی خیال رکھنا ہوگا.پس میں نے جہاں تک ان حالات کا جائزہ لیا ہے مجھے ہر دفعہ بنیادی بیماری اخلاق کی کمزوری دکھائی دیتی ہے جہاں مائیں مثلاً اچھے اخلاق کی ہوں اور بہوئیں بھی اچھے اخلاق کی وہاں مل

Page 362

خطبات طاہر جلد 13 356 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء جائیں وہاں دونوں طرف سے ایسے ایسے پیارے فدائیت کے خط آتے ہیں کہ دل کی گہرائیوں سے از خود دعائیں اٹھتی ہیں اور ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ سبحان اللہ کیسی پیاری بہو اور کیسی پیاری ساس ہے کہ اپنے خطوں میں الگ الگ ایک دوسرے کی تعریفیں، ان کے لئے دعائیں، انہوں نے ہمارا دل راضی کر دیا.بہوئیں لکھتی ہیں کہ ہمیں تو بعض دفعہ لگتا ہے وہ ہماری ماں سے زیادہ پیار کرنے والی ہے اور ساسیں لکھتی ہیں کہ ہماری بیٹیوں نے کب ہماری ایسی خدمت کی تھی جیسی یہ بہوکررہی ہے، یہ تو بیٹیوں سے بڑھ گئی ہے.پس جہاں حسن خلق ہو وہاں نا انصافیوں کا تو وہم و گمان بھی باقی نہیں رہتا.احسان سے معاملہ ایتاء ذی القربیٰ میں داخل ہو جاتا ہے اور دنیا میں انسان کو جنت مل جاتی ہے.پس میری یہ کوشش ہے اور میں لمبے عرصے سے یہ کوشش کر رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے بنیادی اخلاق درست ہو جائیں تو ہمارے تمام معاشرتی اور باہمی لین دین کے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے.بنیادی طور پر حسن خلق ہے جو حقیقت میں قوموں کو زندہ کیا کرتا ہے اور حسن خلق ہی ہے جو دنیا پر غالب آیا کرتا ہے دلائل اور مسائل سے دنیا نہیں جیتی جاتی.دلائل اور مسائل سے تو بعض دفعہ فساد بڑھتے ہیں.لیکن حسن خلق سے گھر بھی جیتے جاتے ہیں اور گلیاں بھی جیتی جاتی ہیں اور شہر بھی جیتے جاتے ہیں اور ملک بھی جیتے جاتے ہیں.تمام دنیا کی فتح حسن خلق پر مبنی ہے اور آنحضرت ﷺ کے ہاتھوں میں دعا کے بعد سب سے زیادہ قوی ہتھیار حسن خلق کا ہتھیار تھا.پس گھریلو مسائل ہوں یا تمدنی مسائل ہوں یا (دیوان غالب) مذہبی E مسائل ہوں جماعت احمدیہ کو ایسے اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے چاہئیں کہ جن کے نتیجے میں جن کو لوگ مسائل کہتے ہیں وہ دکھائی نہ دیں، مسائل اٹھیں ہی نہ.کیونکہ اعلیٰ اخلاق کے آدمی کے سامنے مسائل گھلتے رہتے ہیں جیسے غالب کہتا ہے.پر تو خلد سے ہے شبنم کی فنا کی تعلیم اس طرح بد اخلاقیاں اور مسائل ایک اعلیٰ اخلاق کے چہرے کے سامنے از خود گھل جاتے ہیں پس صلى الله وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جن کو محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کے متعلق بخاری میں حضرت ابن عمر کی یہ حدیث درج ہے ابن عمرؓ، حضرت عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبریل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے

Page 363

خطبات طاہر جلد 13 357 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994 ء حسنِ سلوک کی تاکید کرتا آ رہا ہے یہاں تک کہ مجھ خیال ہوا کہ کہیں وہ اسے وارث ہی نہ بنا دے.(بخاری کتاب الادب حدیث نمبر : 5555) پڑوسی کے ساتھ اتنا حسن سلوک کہ فرمایا مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آئندہ کبھی آئے تو وارث ہونے کی تعلیم بھی دے دے کہ پڑوسی کو خدا تعالیٰ نے تمہارے اموال میں وارث قرار دے دیا ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جس میں مذہب کا اور خون کا کوئی تعلق نہیں ہے.قرآن کریم میں فرمایا وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى جو قریبی ہیں اقرباء پڑوسی ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے.لیکن جو بے تعلق ہیں ان کے ساتھ بھی برابر حسن سلوک کرنا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو مغرب میں بہت کم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں پڑوسی بعض دفعہ اس طرح ساتھ ساتھ رہتے ہیں کہ سالہا سال گزر جاتے ہیں اور کسی کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی.وہ کون ہے کہاں سے آیا.پھر چلا گیا تو کہاں چلا گیا ؟ اور لوگ یہ بات پسند بھی نہیں کرتے مگر آنحضرت ﷺ نے جس رنگ میں پڑوسی سے تعلق کی ہدایت فرمائی ہے اس کے پیش نظر یہ تعلقات اجنبی ہونے کی بجائے پسندیدہ ہو سکتے ہیں اور ان پڑوسیوں میں بھی جو اسلام کی روح سے نا آشنا ہیں ان میں بھی اسلام کے حسن کے ذریعہ ان کے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے.آنحضور نے ایک موقع پر ہدایت فرمائی کہ بہتر ہے کہ ایک عورت اپنے شور بے کو ذرا لمبا کر لے یعنی کھانا پکا رہی ہے تو تھوڑا سا اور پانی ڈال لے تا کہ ہمسائے کو بھی کچھ پہنچا سکے.(مسلم کتاب البرصلہ حدیث نمبر: 4759) اب یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر آپ پڑوسی کے معاملات میں ویسے دخل دیں اور کھڑے ہو کے اس سے باتیں کرنا شروع کریں تو کم سے کم انگریز مزاج تو اس کے خلاف بھڑ کے گا اور بالکل پسند نہیں کرتا کہ آپ آتے جاتے اس کو چھیڑریں، اسے سلام دعا کریں اور کھڑے ہو کر بعض دفعہ باتیں کرنے کی کوشش کریں یا پوچھنے لگ جائیں تم کون ہو لیکن اگر اسے کوئی تحفہ پہنچا دیں کہ آج ہمارے گھر میں یہ پکا ہے اور ہم نے چاہا کہ تمہیں بھی شریک کریں تو ہر گز اس کے خلاف کوئی بدرد عمل نہیں ہوگا بلکہ غیر معمولی طور پر ایسے لوگ متاثر ہوتے ہیں.مجھے جرمنی سے ایک خاتون نے خط لکھا جن کے ہمسایوں سے بہت اچھے تبلیغی مراسم مضبوط ہونے لگ گئے، قرار پا گئے اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک موقع پر کوئی چیز انہوں نے پکائی تو اپنے ہمسائے کو بھجوا دی یہ کہہ کر کہ یہ ہمارا پاکستانی طرز کا کھانا ہے.میں نے سوچا کہ آپ کو بھی

Page 364

خطبات طاہر جلد 13 358 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء کھلائیں، اتنا متاثر ہوا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسے واقعات بھی اس دنیا میں ہو سکتے ہیں.یہ خود گھر پر چل کر شکر یہ ادا کرنے کے لئے آیا اور پھر تبلیغ کی ساری باتیں سنیں، دلچسپی لی ، کتا میں مانگیں اور اب پورا تبلیغ کا سلسلہ اس کے ساتھ شروع ہو چکا ہے.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا گھر بھی اعلیٰ الله خلق سے جیتے جائیں گے، دنیا بھی اعلیٰ خلق سے ہی جیتی جائے گی اور آنحضرت ﷺ نے جو طریق ہمیں سمجھائے ہیں وہ ضرور دلوں کو فتح کرنے والے ہیں.پھر حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے.آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ کون مومن نہیں ہے.آپ نے فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اس کے اچانک واروں سے محفوظ نہ ہو.( بخاری کتاب الادب حدیث : 5557) اب یہ جو بات ہے یہ آج کل ایک بیماری بن گئی ہے کہ پڑوسیوں سے جھگڑے اور یہ بیماری مغرب میں زیادہ نہیں پائی جاتی ،مشرق میں زیادہ پائی جاتی ہے اور یہاں بھی جو پڑوسیوں کے جھگڑے ہیں الا ما شاء اللہ.کبھی کبھی دوسرے پڑوسیوں سے بھی جھگڑے چلتے ہیں مگر اس کی وجہ کچھ اور تعصبات ہوتے ہیں.روز مرہ کی زندگی میں انگلستان میں یا جرمنی میں پڑوسی پڑوسی سے جھگڑتا نہیں.کوئی واسطہ ہی نہیں رکھتا اس کی اپنی دنیا ہے.جہاں جھگڑے چلیں گے وہاں عام طور پر دیس ازم یا اس قسم کے بعض دوسرے عناصر ہیں جو عمل دخل دکھاتے ہیں ورنہ عام طور پر جھگڑے نہیں چلتے.ہمارے ملک میں جہاں پڑوسی سے حسنِ سلوک کا رجحان بھی پایا جاتا ہے وہاں جھگڑنے کا بھی بہت رجحان پایا جاتا ہے اور بعض دفعہ پڑوسیوں میں بڑی سخت تو تو ، میں میں ہوتی ہے.لاہور میں تو ایک دفعہ ایک محلے میں میں گیا تھا بچپن میں ، تو وہاں پتا چلا کہ پڑوسیوں کے جھگڑے کئی کئی دن بعض دفعہ مہینوں چلتے ہیں اور وہ گالیاں دے دے کر ایک دوسرے کو پھر پرات الٹ کے عورتیں چلی جایا کرتی تھیں کہ اب ہم دوبارہ آئیں گی تو پرات الٹ کے پھر تمہیں باقی گالیاں دیں گی.ہمارے ملک خدا بخش صاحب جو ملک عطاء الرحمن صاحب کے والد ہیں ان کے ہاں میں گیا تھا ایک دفعہ بچپن میں ، جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو ان کے پڑوس میں یہ قصے چل رہے تھے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تو میں حیران رہ گیا میں نے کہا یہ کیا ہو گیا انہوں نے کہا یہ تو روز مرہ کی بات ہے یہ تو کوئی حیرانی کی بات ہی نہیں ، سارا محلہ اس طرح چل رہا

Page 365

خطبات طاہر جلد 13 359 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء ہے، تو یہ بد یاں بھی ہیں.حسن سلوک کرنے کا جو مادہ ہے اگر وہ نہ رہے تو بدی میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے.بے تعلقی بے تعلقی میں ہی رہتی ہے اس لئے نہ حسن نہ تیج، نہ خوبی نہ برائی.مگر وہ تو میں جو اپنی خوبیوں کی حفاظت نہیں کرتیں وہ خوبیاں پھر بدیوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.پس اگر آپ نے حسن سلوک نہ کیا تو اس حدیث کی نصیحت کے یا انذار کے نیچے آپ آئیں گے.فرمایا وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں.پوچھا گیا کون؟ تو فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اچانک حملوں سے محفوظ نہ ہو.حضرت انس سے روایت ہے صحیح بخاری کتاب الایمان میں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا.تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.جس طرح قرآن کریم کا مضمون اقرباء سے شروع ہو کر پھر پھیلتا چلا جا رہا ہے احادیث میں بھی اقرباء کے ذکر بڑی عمدگی اور گہرائی اور تفصیل کے ساتھ ہیں اور پھر درجہ بدرجہ تعلقات کے پھیلاؤ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی نصیحتوں کا فیض بھی پھیلتا چلا جاتا ہے.فرمایا کوئی مومن حقیقی.مومن نہیں بن سکتا.اس مرتبہ اس کی یہ تشریح فرمائی جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.یہ ایک ایسی چھوٹی سی نصیحت ہے جس سے بڑی نصیحت ممکن ہی نہیں ہے انسانی تعلقات کو درست کرنے کے لئے اس چھوٹی سی بات میں تمام انسانی مصالح بیان فرما دیئے گئے ہیں ایک طرز فکر کا ذکر ہے.اگر تم اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو تو اس کی عزتیں تم سے محفوظ ہو گئیں، اس کے مال تم سے محفوظ ہو گئے ، اس کے تمام حقوق تمہارے ہاتھوں میں اسی طرح محفوظ ہوں گے جس طرح اس کے اپنے ہاتھوں میں ہیں.اتنی عظیم الشان تعلیم ہے کہ تمام دنیا کے انسانی روابط میں خواہ وہ انفرادی سطح پر ہوں یا ملکی اور تمدنی سطح پر ہوں تمام دنیا کے مسائل کا حل اس اصلاحی مشورے میں داخل ہے کہ تم دوسروں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو.اب تمام دنیا میں جو ملکی سیاست چل رہی ہے اس میں کہاں اس بات کو داخل ہونے کی گنجائش ہے وہ اپنے لئے کچھ اور پسند کرتے ہیں دوسرے کے لئے کچھ اور پسند کرتے ہیں.رشتے داروں میں بھی یہی حال ہو رہا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ مشورہ بھی مانگا جائے تو مشورہ دینے

Page 366

خطبات طاہر جلد 13 360 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء والا امین نہیں رہتا.ایسا مشورہ دیتا ہے کہ جو کسی اپنے عزیز کو نہیں دے سکتا اور ایسی نگاہیں دوسروں پر ڈالتا ہے جو اپنے کسی عزیز پر نہیں ڈال سکتا.پس یہ وہ نصیحت ہے کہ گہرائی کے ساتھ اس کے مضمون کو سمجھنے کے بعد اپنانے سے ہمارا معاشرہ حقیقۂ جنت کا نشان بن سکتا ہے.ہماری تمام بداخلاقیوں کو دور کرنے کا راز اس نصیحت میں ہے، تمام حسن خلق اختیار کرنے کا راز اس نصیحت میں ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو.آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت عبد اللہ بن ابی طوفہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کا اپنا ملنے جلنے کا انداز کیا تھا.فرماتے ہیں کہ تکبر نام کو بھی نہیں تھا نہ آپ ناک چڑھاتے نہ اس بات سے برا مناتے اور بچتے کہ آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں.(حدیقہ الصالحین صفحہ: 42) بعض لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ کوئی غریب ساتھ چل رہا ہو تو اس سے کچھ فاصلہ رکھتے ہیں اور کئی دفعہ روز مرہ زندگی میں ہم نے دیکھا ہے ہمیشہ سے ہی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے رہتے ہیں کہ بھرے بازار میں اگر کوئی امیر چل رہا ہو اور غریب اس کے ساتھ چل پڑے تو وہ اپنی اداؤں سے، اپنے انداز سے ایک فاصلہ بناتا ہے تا کہ دیکھنے والا محسوس کرے کہ ہم ایک نہیں ہیں اور اس طرح اس سے بات کرتا ہے کہ وقتی طور پر بات کرے اور کسی طرح پیچھا چھوٹے یہ اپنی راہ لے اور یہ جو فا صلے ہیں یہ ضروری نہیں کہ دور ہٹ کر بنائے جائیں انسانی انداز میں یہ فاصلے پائے جاتے ہیں اور دیکھنے والے صاحب فہم انسان کو دکھائی دیتا ہے.آنحضرت ﷺ کا مرتبہ اور مقام دیکھیں اور ایک صحابی کا جس نے بڑی باریک نظر سے آپ کے معاملات کو دیکھا ہے یہ بیان سنیں فرماتے ہیں آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ اس طرح چلتے تھے کہ ان کے ساتھ چلنے کو کبھی آپ نے اپنی شان کے منافی نہیں سمجھا.مل جل کر ان کے ساتھ چلا کرتے تھے ایک ہو کر چلا کرتے تھے اور ان کے کام آتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے بے سہارا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے.اب یہ جو آخری پہلو ہے اس حدیث کا یہ بہت ہی اہم ہے.نیکیاں یا اس قسم کے اخلاق جن کا ذکر کیا جارہا ہے یہ دو طرح سے اختیار ہو سکتے ہیں اول چونکہ خدا نے فرمایا چونکہ محمد رسول اللہ اللہ نے ایسا کیا اس لئے ہمیں کرنا چاہئے لیکن طبیعت پر بار رہتا ہے.

Page 367

خطبات طاہر جلد 13 361 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء اگر طبیعت پر بار رہتا ہے تو پھر آپ نے سنت پوری نہیں کی اگر محمد رسول اللہ کی سنت پر چلنا ہے تو پھر اپنے کمزور بھائیوں سے ایسا ذاتی تعلق پیدا کریں کہ ان کی مدد سے آپ کے دلوں میں خوشی پیدا ہوتی ہو اور اس سے لطف آتا ہو اور اگر یہ ہو جائے تو آپ کی نیکی کی حفاظت کے لئے اس سے بڑا ضامن اور کوئی نہیں.ہر وہ نیکی جو کوفت پیدا کرتی ہے جس سے تھکاوٹ ہو یا بیزاری ہو، وہ نیکی نہ افراد میں زندہ رہتی ہے نہ قوموں میں زندہ رہا کرتی ہے.نیکی وہی زندہ رہتی ہے جس کے ساتھ ایسا ذاتی تعلق ہو کہ نیکی کے بعد لطف آئے.پس ہر انسان اس پہلو سے خود غرض ہے.وہ غرض کے بغیر کوئی چیز نہ اختیار کر سکتا ہے نہ کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے اپنا سکتا ہے.وقتی طور پر بعض مجبوریوں کے پیش نظر ، بعض اصولوں کی خاطر ایک انسان طبیعت کے خلاف کام بھی کر لیتا ہے مگر ہمیشہ وہ نیکیاں اس کے ساتھ نہیں رہتیں جب تک اس کے دل کا جزو نہ بن جائیں، جب تک ان نیکیوں سے پیار نہ پیدا ہو جائے اور ان نیکیوں کے کرنے سے دلوں میں ایک طبعی بشاشت پیدا نہ ہو.پس یہ صحابی بڑے ہی زیرک انسان تھے جنہوں نے سیرت کو بیان کیا ہے اور کسی گہرائی سے بیان کیا ہے.محسوس کیا کہ صلى الله محمد رسول اللہ ہے جب خدمت کرتے تھے تو کوئی طبیعت پر بوجھ نہیں ہوتا تھا بلکہ خوشی کا احساس نمایاں تھا.اس سے لطف آ رہا ہے کہ آہا کتنا اچھا موقع ملا میں اپنے غریب بھائی کے کام آرہا ہوں.پھر آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ شادی کی بدترین دعوت وہ ہے جس میں امراء کو بلایا جائے اور غرباء کو چھوڑ دیا جائے.(مسلم کتاب النکاح حدیث : 2586) اب ہمارے ملک میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ دن بدن یعنی پاکستان کی بات میں کر رہا ہوں اور اس طرح اور بھی بہت سے ملکوں میں یہ رواج ہے اور یورپ میں تو اس بات کا تصور ہی نہیں کہ اپنے تعلقات کے دائرے سے ہٹ کر بھی کسی کو دعوتوں میں بلایا جائے مگر ہمارے ملکوں میں بھی یعنی نسبتا غریب ملکوں میں یہ رواج اب زور پکڑ رہا ہے کہ امراء کی دعوتیں اتنی اونچی سطح پر اٹھتی ہیں کہ وہاں کسی غریب کو چہرہ دکھانے کی بھی مجال نہیں اور اگر غریب رشتہ دار بھی ہوں تو ان سے انحراف کیا جاتا ہے کہ کہیں ہمارے لئے شرمندگی کا موجب نہ بنیں اور امیروں کی دعوتیں الگ ہیں ، ان کے اندر ہی عیش وعشرت کے الگ ہیں اور غریبوں کی دعوتیں الگ ہیں غریبوں کی دعوتوں میں امیر نہیں جاتے اور

Page 368

خطبات طاہر جلد 13 362 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء امیروں کی دعوت میں غریبوں کو بلایا نہیں جاتا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ”شادی کی بدترین دعوت اور اکثر ایسا شادی بیاہ کے موقع پر ہوتا ہے فرمایا شادی کی بدترین دعوت وہ ہے جس میں امراء کو تو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ ایک عجیب بات فرمائی اور ”جو شادی کی دعوت کو قبول نہ کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے اب یہ ایک وسیع مضمون کا ایک ٹکڑا ہے اور اگر اس کو پہلے مضمون کے تعلق کے ساتھ جوڑ کر نہ سمجھیں تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی.بیسیوں مرتبہ آپ نے بھی شادی کی دعوت کو کسی مجبوری سے قبول نہیں کیا ہوگا اور جہاں تک اپنے قریبیوں، دوستوں، عزیزوں کی شادی کی دعوت کا تعلق ہے وہ تو آپ شوق سے جاتے ہیں انتظار کرتے ہیں کہ آپ کو دعوت نامہ آئے بعض دفعہ نہ بھی آئے تو چلے جاتے ہیں.پھر کن دعوتوں کا ذکر ہے یہ اصل میں غریب دعوتوں کا ذکر ہے امراء کے مقابل پر غریبوں کا ذکر چلا ہے.فرمایا ہے بدنصیب اور بد بخت ہیں وہ شادیاں جن میں بلانے والے غریبوں کو نہ بلائیں اور صرف امیروں کو بلائیں اور پھر جب غریب اپنی شادیوں پر ان کو بلائیں تو یہ وہاں نہ جائیں کہ یہ غریبوں کی شادی ہے.اس لئے شادی بیاہ کے موقع پر میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی اور اب وہ غالبا چھپ کر تمام دنیا میں پہنچ چکی ہوگی اس میں یہ بات بطور خاص داخل کی تھی کہ امیروں کو خاص طور پر غریبوں کی شادی میں پہنچنا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اور ان کی بچیاں جو بھی اس بات کے لئے وقت نکال سکیں وقت سے پہلے وہاں جائیں اور ان کے گھروں کو صاف ستھرا کریں ان کو تیار کریں ان کی کمیاں دور کریں، کھانا پکانے وغیرہ میں ان کی مدد کی جائے اور جو چیزیں وہ نہیں خرید سکتے وہ اپنی طرف سے خرید کر ان میں داخل کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر وہ جائیں اور ان کی غربت کو دیکھیں کیونکہ محض نصیحت سے انسان کا دل حقیقت میں پگھل نہیں سکتا لیکن آنکھیں جب دیکھتی ہیں ایک حالت کو تو پھر ضرور پگھلتا ہے.پس آنحضرت ﷺ نے جو نصیحتیں فرمائی ہیں بہت ہی گہری، بہت ہی دیر پا اور دور کا اثر رکھنے والی ہیں کیونکہ حقیقت ہے کہ جب ایک غریب آپ کی شادیوں میں آئے گا اس کے کپڑوں کو آپ دیکھیں گے اور پھر اگر کوئی انسانیت ہو اور وہ عورتیں جو آپس میں پہلے یہ جھگڑ رہی تھیں کہ میرے کپڑے ایسے تھے اور تیرے کیسے ہو گئے جو گھر میں بچیاں شکوے کرتی ہیں کہ میری فلاں بہن کے تم

Page 369

خطبات طاہر جلد 13 363 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء نے اچھے بنادیئے اور مجھے کیوں نسبتا خراب بنا کے دیئے وغیرہ وغیرہ.یہ جاہلانہ سطحی با تیں ہیں سب مٹ جائیں گی کیونکہ جب ایک غریب کو پرانے کپڑوں میں دیکھیں گی اگر انسانیت ہے تو دل پگھلیں گے اور شرمندگی کا احساس ہوگا اور اپنے آپ کو وہ لوگ مجرم سمجھیں گے کہ ہمارے اتنے تعلقات تو تھے واقفیت تو تھی کہ ہم نے ان کو بلایا ہے لیکن کیوں یہ خیال نہ کیا کہ ان کے لئے بھی اچھے کپڑے بنا دیئے جاتے.اور پھر جب غریب کی شادی پر آپ جائیں گے تو پھر آپ کو محسوس ہوگا کہ کیا کیا مسائل ہیں شادیوں کے.کہاں اپنے حال میں ڈوبے ہوئے امراء جن کے دماغ میں صرف یہ ہے کہ تین لاکھ سے کم میں شادی نہیں ہوتی پانچ لاکھ سے کم میں شادی نہیں ہوتی دس لاکھ سے کم میں شادی نہیں ہوتی کہاں وہ جو دو چار ہزار میں شادی کی کوشش کر رہے ہیں اس نے بچوں کے لئے بھی غریبانہ کچھ بنا کے دینا ہے، جو مہمان آنے والے ہیں ان کے لئے بھی کچھ پیش کرنا ہے تو یہ مسائل سوائے اس کے حل نہیں ہو سکتے کہ آنحضرت ﷺ سے آپ کے اخلاق سیکھے جائیں.کسی دوسرے سے نہیں خود آپ سے آپ کے اخلاق سیکھے جائیں اور وہ یہ حدیثیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبانی بھی اور آپ کے کردار کی زبانی بھی آپ کے اخلاق ہمارے سامنے رکھتی ہیں.فرمایا شادی کی بدترین وہ مثال ہے کہ غریبوں کو نہ بلا ؤ اور جب غریب تمہیں بلائیں تو تم اگر نہ جاؤ گے تو خدا اور رسول کی نافرمانی ہوگی.پھر آنحضرت ﷺ کا اپنے غلاموں سے سلوک ، غلاموں سے مراد یہ ہے ادنیٰ غریب بندوں سے سلوک ایک ایسے معاشرے میں جس کے اخلاق آپ نے درست فرما دیئے تھے.اس معاشرے میں بھی وہ ایک تعجب انگیز سلوک تھا حیرت سے نگاہیں اس پہ اٹھ رہی تھی اور اس سے میری مراد وہ واقعہ ہے جو ظاہر بن حرام کے ساتھ پیش آیا.ظاہر بن حرام ایک دیہاتی تھا جو نہایت ہی بدصورت اور مکروہ صورت اور اس کے علاوہ اس کے کپڑے بھی گندے، دیہاتی کھیتوں صلى الله میں کام کرنے والے کے جسم میں سے پسینے کی بدبو بھی آتی تھی اس کو رسول اللہ ﷺ سے بہت پیار تھا جب بھی آتا تھا کوئی تھوڑی سی سبزی، کوئی ایک گاؤں کا پھل تحفہ اٹھا کر لے آیا کرتا تھا.ایک دفعہ وہ کھڑا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کسی نے پیار سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے ہیں اور اس نے حیرت سے پوچھا اور اس نے اپنا جسم ساتھ رگڑنا شروع کیا پہچاننے کی غرض سے گویا پہچان پا رہا

Page 370

خطبات طاہر جلد 13 364 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 1994ء ہے کہ کون ہے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتا جاتا تھا کہ یہ ہو گا وہ ہو گا اور آنحضرت ﷺ اسی طرح اپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھیں بند کئے پاس کھڑے رہے اور وہ منہ سے بولا نہیں جسم رگڑ تار ہا گویا پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے اور مقابلہ پیار کا اظہار جس طرح بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا بچے ماؤں سے لپٹ کے رگڑتے ہیں اپنے آپ کو.بعض دفعہ بلی کے بچوں کو آپ نے پیار سے دیکھا ہوگا بستر میں گھس کے وہ اپنے بدن کو خوب رگڑتے ہیں پیار سے.یہ اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شروع کیا ہوا تھا اور آپ خاموش کھڑے اس کے نخرے برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ آنحضور ﷺ نے یہ اعلان کیا کہ ہے کوئی غلام خریدنے والا.میں ایک غلام بیچتا ہوں.تب اس نے صلى الله آنحضور ﷺ سے عجز کے ساتھ یہ کہا یا رسول اللہ! اس بدصورت، بے قیمت انسان کو کون خریدے گا.آپ نے فرمایا دیکھو میرا خدا، آسمان کا خدا تمہارا خریدار ہے.محمد بیچ رہا ہے یہ غلام.ان بندوں کو کیا پتا کہ تمہاری کیا قیمت ہے میرے اللہ کے نزدیک تمہاری بہت قیمت ہے اور پھر اس نے بتایا.یا رسول اللہ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں آپ کو پہچان نہ لیتا.مجھ سے یہ پیار کا سلوک اور کرکون سکتا تھا.ایک ہی تھا اور وہ محمد مصطفیٰ تھے.پس میں جانتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ اس سے بہتر اور کون سا موقع مجھے میسر آئے گا کہ اپنے بدن کو آپ کے پاک بدن سے رگڑوں.پس ایک طرف غربت تھی جس میں سے بد بو بھی اٹھ رہی تھی جو بدصورتی کا مظہر تھی ہر دنیا کے لحاظ سے برائی اس میں پائی جاتی تھی، ایک طرف حسن و خوبی کا وہ پیکر کہ اس سا کوئی پیکر کبھی ایسا حسین پیدا نہیں ہوا تھا یہ امتزاج تھا اعلیٰ اور ادنی کا.اس طرح خدائی بندوں سے ملتی ہے.اس طرح خدا کے مظہر دنیا میں خدا کے پیار اور محبت کو خدا کے بندوں میں منتقل کیا کرتے ہیں.آپ ایسا ہونے کی کوشش کریں اگر اپنے اخلاق آپ نے محمد رسول اللہ ﷺ سے سیکھے اور ویسے بنانے کی کوشش کی تو آپ تو کیا آپ کے غلاموں کا بھی خدا خریدار بن جائے گا، تمام دنیا پر آپ کے دل حکومت کریں گے یعنی محمد مصطفی ﷺ کی حکومت جاری ہوگی اور یہی ایک ذریعہ ہے اپنے معاشرے کو درست کرنے کا اپنے شہروں کی گلیوں کو، اپنے شہروں کو ، اپنے علاقوں اور اپنے ملکوں کو.تمام دنیا کا حسن آج اس ایک بات سے وابستہ ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کے غلام محمد رسول اللہ ﷺ کے بچے اور حقیقی غلام بن جائیں اور آپ کے احسان کا جادوسب دنیا کے دلوں پر چلنے لگے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 371

خطبات طاہر جلد 13 365 خطبہ جمعہ فرموده 20 رمئی 1994 ء اخلاق نصیحت اور عمل کے ذریعے سنوارے جاتے ہیں.صلى الله آنحضرت کا سب سے بڑا ہتھیار حسن عمل تھا.( خطبه جمعه فرموده 20 رمئی 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنًا وَ يَتِيمَا وَ أَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا پھر فرمایا:.(الدھر: 10,9) قرآن کریم نے اللہ کی عبادت کے بعد جو سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ خدمت خلق پر ہے اور حقیقت میں یہ دو ہی دین کے حصے ہیں یا اللہ کی عبادت ہے یا بنی نوع انسان سے اچھے تعلقات، خدا کی مخلوق سے محبت کرنا اور بارہا پہلے بھی میں یہ جماعت کو سمجھا چکا ہوں یہ دوا لگ مضمون نہیں ہیں بلکہ ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں.جتنا آپ کو عبادت کا مفہوم سمجھ آئے گا، جتنا آپ عبادت کا

Page 372

خطبات طاہر جلد 13 366 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء حق ادا کریں گے اس کے ساتھ ساتھ ہی بنی نوع انسان سے تعلقات کی شاخ بھی نشو و نما پاتی چلی جائے گی اور یہ دونوں شاخیں اکٹھی بڑھتی ہیں.یہ ممکن ہی نہیں کہ عبادت کی شاخ تو صحت مند ہو اور نشو ونما پا رہی ہو اور بنی نوع انسان سے تعلقات کی شاخ مرجھا جائے اور اس کی جگہ بہت ہی کر یہ المنظر، کانٹے دار، کسیلی کڑوی شاخیں نکل آئیں.اگر ایسا ہو تو یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہوگا کہ عبادت کرنے والے کی عبادت رائیگاں گئی ہے.اس کو عبادت کے مفہوم سے کوئی آشنائی نہیں.وہ دھوکے میں ہے کہ عبادت کرتا ہے کیونکہ خدا کی عبادت کرنے والا خدا کی مخلوق سے محبت کے سوا اور کوئی راہ نہیں پاتا.پس اس پہلو سے بنی نوع انسان کے ساتھ روابط بڑھانے میں عبادت اور پر خلوص عبادت کو بہت گہرا دخل ہے اور پر خلوص عبادت کی پہچان انسانی سطح پر دکھائی دیتی ہے.جو خدا کی سطح پر ہے وہ تو آپ دیکھ نہیں سکتے.انسانی سطح پر جو دیکھ سکتے ہیں وہ حسن خلق سے پہچان سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق سے، بنی نوع انسان سے، مجبور اور مقہور لوگوں سے خدا کا بندہ جس طرح سلوک کرتا ہے اسی حد تک اس کی عبادت خدا کے ہاں مقبول دکھائی دینے لگتی ہے.پس اس پہلو سے میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی ان احادیث کا انتخاب کیا ہے، بکثرت ایسی احادیث ہیں اور حقیقت میں ان پر احاطہ نہیں ہوسکتا جن کا بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات سے تعلق ہے اور انسان کے اخلاق کی تعمیر کرنے والی احادیث ہیں.کیونکہ آپ کے اخلاق کی تعمیر کا آغاز آپ کے گھر سے ہوتا ہے.آپ کے اخلاق کی تعمیر کا آغاز گھر سے ہو کر ہمسایوں پر اثر دکھاتا ہے.ہمسایوں کے بعد پھر یہ باہر کا رخ اختیار کرتا ہے، درجہ بدرجہ، سلسلہ بہ سلسلہ اپنوں سے غیروں کی طرف سفر شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ اس سفر کے نتیجے میں آپ کو انسانیت کا نیا عرفان نصیب ہونے لگتا ہے.تعلقات کے ذوق بلند ہونے لگتے ہیں.یہاں تک کہ کل تک جو غیر تھا وہ اپنا دکھائی دینے لگتا ہے اور جو اپنے ہیں وہ اپنے رہنے کے باوجود غیروں کے حقوق پر دخل انداز نہیں ہو سکتے یعنی اپنائیت کا ایک نیا مضمون انسان کے سامنے ابھرتا ہے.اگر خدا کے تعلق میں انسان کے تعلقات کا دائرہ نہ بڑھے تو پھر اپنے اپنے رہتے ہیں اور ہر حالت میں ان کے مفادات کو انسان دوسروں پر ترجیح دیتا ہے.لیکن یہ جو سفر ہے جس کی طرف میں آپ کو بلا رہا ہوں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ساری زندگی اختیار فرمایا اور تمام بنی نوع انسان کو اسی طرف آنے کی دعوت دی یہ مضمون اور ہے، اس

Page 373

خطبات طاہر جلد 13 367 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 1994ء عام انسانی تعلق سے مختلف.اس مضمون کی رو سے آپ کے جو اپنے گھر والوں سے تعلقات درست ہوتے ہیں اور اسوۂ نبوی پر درست ہوتے ہیں تو پھر وہاں ٹھہرتے نہیں.پھر ہمسایوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوتے ہیں اور درست ہوتے ہیں پھر ہمسایوں سے آگے بڑھ کر اہلِ محلہ اور اہلِ شہر اور اہل ملک یہاں تک کہ یہ پھیلتے چلے جاتے ہیں اور تمام حدود اس بات سے عاری ہو جاتی ہیں کہ ان کو روک سکیں اور محدود جگہ میں مقید کر سکیں.علاقائی حدود کو بھی یہ تعلقات پھلانگ جاتے ہیں.قومی حدود کو بھی تعلقات پھلانگ جاتے ہیں نسلی حدود کو بھی یہ تعلقات پھلانگ جاتے ہیں.رنگ کی حدود کو بھی یہ تعلقات پھلانگ جاتے ہیں.یہاں تک کہ عالمی صورت اختیار کر جاتے ہیں اور وہاں پھر کل عالم اپنا ہی خاندان کا ایک حصہ دکھائی دینے لگتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں سچا انصاف جنم لیتا ہے ورنہ اگر اپنوں اور غیروں میں فرق دکھائی دیتا ر ہے تو پھر حقیقت میں آپ انصاف کا حق ادا نہیں کر سکتے.تبھی قرآن کریم نے اس مضمون کو بڑھاتے بڑھاتے اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبى تک پہنچا دیا.یہ مراد نہیں ہے کہ اپنوں سے اور سلوک کرو اور ذِي الْقُرُبی سے اور سلوک کرو ذِي الْقُرْبی سے سلوک سے مراد یہ ہے کہ ہر مومن کا ہر دوسرے سے سلوک عدل سے شروع ہوتا ہے، احسان میں داخل ہوتا ہے.احسان کی تمام منازل طے کرنے کے بعد ذوی القربیٰ کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سارے اپنے دکھائی دیتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو سمجھانے کی خاطر انسان کو اللہ تعالیٰ کے عیال قرار دیا اور عیال سے مراد ہے جیسے گھر کے سب افراد ہوں.ذی القربی کی ایک دوسری اصطلاح عیال ہے، عیال اللہ.اگر سب مخلوق اللہ کی عیال ہے تو آپ کا تعلق عیال کے تعلق میں اسی طرح ڈھلے گا جیسے گویا آپ کی عیال ہو اور یہی وہ مضمون ہے جو میں آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے حوالے سے جماعت کو سمجھا رہا ہوں.عالمی تبلیغ کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے، عظیم عالمگیر روحانی انقلاب بر پا کرنے کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے.اس کے بغیر آپ کو یہ اہلیت نصیب ہی نہیں ہو سکتی.لیکن جب میں گھروں پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت سے گھروں کے حالات دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کہ ہم نے تو ابھی اس سفر کا بعض جگہ آغاز بھی نہیں کیا.بہت سے احمدی گھر ہیں جہاں تعلقات بھیانک صورت میں پائے جاتے ہیں.جہاں باپ بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا.بیوی خاوند کے حقوق ادا نہیں کرتی.بچے

Page 374

خطبات طاہر جلد 13 368 خطبه جمعه فرموده 20 رمئی 1994ء ماں باپ کے حقوق ادا نہیں کرتے.ان کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ روز مرہ کی زندگی میں آپس میں گفتگو کیسے کی جاتی ہے.تحکمات یا اعتراضات یا بد خلقی کا شکار ہو کر وہ خاندان جہنم کا نمونہ بن جاتے ہیں اور پھر آگے اولا دیں اتنا دور ہٹ جاتی ہیں کہ بعض دفعہ انسان ان کے حالات پر غور کر کے حیران کیا رہ جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ حیرانی اس کے لئے کافی نہیں.بعض خط میں پڑھتا ہوں تو جسم پر لزرہ طاری ہو جاتا ہے.ایک بیٹی لکھتی ہے ماں سے متعلق ، ایسی بد خلق عورت ہے اور تمام عمر اس نے میرے باپ کو ایسے ایسے دکھ دیئے ہیں کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی مگر آپ جتنی نصیحت کریں میرے دل سے اس ماں کے لئے دعا نہیں نکل سکتی اور ایک لڑکی اپنے باپ کے متعلق لکھتی ہے کہ ایسے ظلم کئے ہیں اس نے ماں پر اور پھر ان کے حوالے سے ہم سب پر اور یہاں تک کہ گندی گالیاں دینا تکیہ کلام بن گیا ہے اور ہمارے حوالے سے ہمارے سامنے کہتا ہے کہ یہ میری اولا د نہیں ہے.جہاں یہ حالات ہوں وہاں عالمگیر انقلاب کا تصور محض ایک جنت الحمقاء میں بسنے والی بات ہے، اس کا کوئی بھی حقیقت سے تعلق نہیں.پس وہ خشک شاخیں ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے درخت وجود کی سرسبز شاخوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جو خشک ہو چکی ہیں.فرمایا وہ کائی جائیں گی کیونکہ اس درخت نے تو ضرور سرسبز و شاداب رہنا ہے.اس کا تو مقدر ہے کہ اس کی شاخیں تمام دنیا پر پھیل جائیں، تمام عالم پر محیط ہو جائیں اور روحانی پرندے اس میں گھونسلے بنا ئیں اور اس کی شاخوں میں آرام پائیں اور اس کے پھل پھول سے لذتیں حاصل کریں.لیکن ایسی بھی ہیں جو خشک شاخوں میں تبدیل ہو چکی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم میرے وجود سے کاٹی جاؤ گی اور جہنم تمہارا ٹھکانا ہے.اسی طرح جس طرح کہ خشک شاخوں کے لئے آپ کے سوا اور کوئی ٹھکانا نہیں ہوا کرتا.ان کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا پس اس پہلو پر نظر پڑتی ہے تو دل دہل جاتا ہے.یہ میں جانتا ہوں اور کامل یقین ہے کہ جماعت کی بھاری اکثریت ان بد بختیوں سے آزاد ہے اور مبرا ہے لیکن بہت سے بیچ میں داخل ہیں اور جماعت کی طرف منسوب ہو رہے ہیں اور اپنے ماحول میں اپنی عفونت پھیلا رہے ہیں اور ان کے بدنمونے باہر نکلتے ہیں اور جماعت کی طرف منسوب ہوتے ہیں.اس لئے ان سب کو سنبھالنا ہمارا فرض ہے.محض اس لئے نہیں کہ وہ جماعت کے لئے بدنامی کا موجب ہیں بلکہ اس لئے کہ ہمدردی کے وہ بھی تو مستحق ہیں.ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ

Page 375

خطبات طاہر جلد 13 369 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء آگ میں جلنے والی لکڑیاں ہیں ان کو جلنے دو.اگر یہ طرز عمل درست ہونا، اگر یہی رجحان حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کا رجحان ہوتا تو تمام دنیا آگ میں جل جاتی.ایک ایک کے لئے آپ کا دل نرم ہوا اور پگھلا ، ایک ایک کے لئے آپ کی رحمت پانی بن کے برسی اور جہاں جہاں گئے وہ تلخیوں کی آگ بجھاتے رہے بلکہ آپ کی دعائیں آج کی تلخیوں کی آگ بجھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں.آپ ہی کا فیض ہے جو احمد بیت بن کے ابھرا ہے اور آپ ہی کی رحمت اور دعاؤں کی بارشیں ہیں جو احمدیت پر برس رہی ہیں اور ہمیں دھو رہی ہیں اور ہمیں پاک کر رہی ہیں.پس اس پہلو سے ان لوگوں کی اصلاح کی طرف توجہ بے انتہا ضروری ہے.تمام دنیا کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاق کے مضمون کو سن کر یہ نہ سمجھیں کہ ہر انسان خود بخود سنے گا اور اس کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو جائے گی بلکہ بعض اخلاقی قدریں ایسی ہیں جن کی نظام جماعت کو بہر حال حفاظت کرنی ہوگی اور روز مرہ کی زندگی میں کسی احمدی کا کوئی ایسا فعل جو اس کو اور اس کے خاندان کو جہنم میں دھکیلنے والا ہو اس کو دیکھ کر جانتے بوجھتے ہوئے آپ برداشت کر جائیں اور آرام کی نیند سو جائیں، اگر ایسا ہوتو پھر آپ کے ایمان میں کوئی فرق ہے.اگر ایسا ہے تو آپ نے سنت کا مضمون ہی نہیں سمجھا ، حضرت اقدس محمد مصطفی امت کے تعلق کا مفہوم ہی آپ پر روشن نہیں ہوا.اس تعلق کے حوالے سے اور اس بنیادی اصول کے پیش نظر جو میں نے آپ کے سامنے کھول کر رکھا ہے کہ عبادت کو سچا کر دیں ، عبادت میں اخلاص اور پیار کے رنگ بھر دیں جو خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کی صورت میں منتج ہو پھر بنی نوع انسان کی طرف ویسا سفر کریں جیسا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے دَنَا فَتَدَلی (النجم : 9) کی صورت میں کیا.خدا کے قریب ہوئے ، پھر زمین پر جھک گئے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ان کی بدیاں دور کرنے میں اپنی دعا ئیں صرف کر دیں، اپنے پاک نمو نے صرف فرما دیئے اور اس طرح رفتہ رفتہ وہ عظیم انقلاب مکہ اور مدینہ میں برپا ہوا جس نے آئندہ آنے والی دنیا کو تبدیل کرنا تھا.وہ ایک ایسی ساعت تھی جس کے بطن سے ایک اور ساعت نے پیدا ہونا تھا اور یہ آخرین کا زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے زمانے میں رونما ہونے والا انقلاب از سرنو رونما ہو رہا ہے اور ہو کر رہے گا کوئی اس کو تبدیل نہیں کر سکتا.مگر وہ بد نصیب جو اس انقلاب کی راہ میں روک بنتے ہیں اپنے کہلا کر راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں اور اپنی

Page 376

خطبات طاہر جلد 13 370 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء بد اخلاقیوں کی وجہ سے اپنے لئے جہنم لیتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی جہنم میں دھکیلتے ہیں ان کی اصلاح لازما محض دور کی نصیحت سے نہیں بلکہ قریب کی نگرانی سے بھی کرنی ہوگی.اس لئے جماعت احمدیہ کو ہر جگہ یہ چاہئے کہ وہ اصلاحی کمیٹیاں جو اس کام کے لئے میں نے مقرر کی ہیں ان کو کہہ کر ایسے بداخلاق گھروں کی نگرانی کا انتظام کریں اور انہیں بار بار پا کر نصیحت سے سمجھانے کی کوشش کریں تا کہ ہر گھر میں وہ جنت پناہ لے لے یعنی جنت پناہ لینے سے مراد میری یہ ہے کہ محمد رسول اللہ کی سنت میں ہی جنت پناہ لیتی ہے اور اس کے سائے میں آ کر جنت پلتی اور نشو و نما پاتی ہے ورنہ ہم جنت کی پناہ میں آتے ہیں تو یہ عمدا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ جنت پناہ لے لے محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت میں اور اس جنت کا سایہ پھر پھیلتا چلا جائے گا اگر وہ سنت نبوی کی جنت ہے.یہ وہ ضروری پیغام ہے جس سے متعلق عمل میں تا خیر نہیں ہونی چاہئے.بسا اوقات نظام جماعت تک آواز پہنچتی ہے اور کچھ دیر کے لئے گرم جوشی کا نمونہ دکھاتے ہیں پھر مدھم پڑ جاتے ہیں مگر اخلاقی جہاد ایک بہت ہی بڑا اور اہم جہاد ہے اور اسلام کے عالمگیر جہاد کا ایک لازمی حصہ ہے.اس لئے حتی المقدور کوشش کریں کہ ایسے لوگ بچائے جائیں اور اگر بچائے نہیں جاسکتے ، پوری کوشش کے باوجود ان کو بچانا آپ کے بس میں نہیں یا آپ کی کوششیں مقبول نہیں ہوتیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر انہیں بچانے کا فیصلہ نہیں کرتی تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حکم کو یاد رکھیں کہ یہ شاخیں ہیں جو کائی جائیں گی پھر ان کو ساتھ لے کر آگے نہ چلیں.پھر بہتر یہ ہے کہ ہلکے بدن کے ساتھ تیز تر سفر اختیار کریں اور ان شاخوں کو جن کو بچانے کی ہر ممکن کوشش آپ نے کی ، ان کو کاٹ کر الگ پھینک دیں اور اس کے متعلق کارروائی میں پہلے صبر کی ضرورت ہے.کچھ عرصہ مسلسل صبر کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ ، اخلاص کے ساتھ ، نفرت اور خشونت کے ساتھ نہیں، نرمی اور پیار کے ساتھ ان کو نصیحت کرتے چلے جائیں، ان کے حالات درست کرنے کی کوشش کریں.اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے اگر ایسا نہ ہو تو پھر ان کو کاٹ کر الگ پھینکنا ضروری ہو جاتا ہے.یہ ایک ماؤف حصہ ہے جماعت کا، جس کا ساتھ رہنا دوسرے حصوں کے لئے بھی نقصان کا موجب بن سکتا ہے.آنحضرت ﷺ نے کس قسم کے معاشرہ کو جنم دیا.کس قسم کے معاشرہ کی پرورش کی اور اس کی تعمیر فرمائی.چھوٹی چھوٹی بعض نصیحتوں میں اس کی جھلکیاں ملتی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے

Page 377

خطبات طاہر جلد 13 متعلق ابوذر بیان کرتے ہیں: 371 صل الله خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 1994ء قال قال رسول الله له يا نساء المسلمات لا تحقرن لجارتها ولو فرسن شاة - ( بخاری کتاب الهبة حدیث : 2378) مراد یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی ہمسائی کو حقیر نہ جانے ولو فرسن شاہ خواہ ایک بکری کے پائے کے ذریعے ہی اس کے ساتھ تعلقات قائم کرے.اب یہ بہت ہی پاکیزہ نصیحت ہے اور بہت ہی اعلیٰ فصاحت و بلاغت کا ایک مرقع ہے.ہمسائی کو حقیر نہ جانے.یہاں مراد یہ ہے کہ ہمسائی کو تحفہ دینا اس کی عزت افزائی ہے.اگر تم ہمسائی کو تحفہ نہیں دیتیں تو گویا تمہارے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور عموما انسان میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اپنے برابر کو تحفے دیتا ہے یا اپنے سے بالا کو تحفے دیتا ہے اور اپنے سے چھوٹوں کو بھول جاتا ہے اور یہ سلسلہ Gross Root سے یعنی گھاس کی جڑوں کی سطح سے شروع ہو کر درختوں کی چوٹیوں تک اسی طرح چلتا ہے اور انسان اپنے تعلقات میں جو تحفے تقسیم کرتا ہے اور تھنے وصول کرتا ہے وہ عموما برابری کے دائرے میں گھومتے ہیں یا بلند تر لوگوں کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں.قرآن کریم نے اس کے خلاف بہت ہی اہم نصیحت فرمائی.فرمایا کہ جب تم خدا کی خاطر کچھ خرچ کیا کرو تو یاد رکھنا کہ یہ تمہارے اندر ہی گھومنے پھرنے والی چیزیں نہ ہوں یہ نیچے بھی اتریں.خدا کی خاطر کرتے ہو تو خدا کے سب بندوں کا خیال رکھنا ہوگا.اگر خدا کے سب بندوں کا خیال نہیں رکھو گے تو تمہاری یہ نیکیاں جو بظاہر ہمسایوں سے تعلقات کی نیکیاں ہیں یا دوستوں کو تحائف پیش کرنا ہے یہ تمہارے سامنے منگی ہو جائیں گی یہ تمہارے نفس کی خاطر ہوں گی ، خدا کی خاطر نہیں ہوں گی.جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنَا وَ يَتِيماً وَ أَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدھر: 109 ) کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر کھلاتے ہیں، ان کے اندر دو صفات نمایاں پائی جاتی ہیں.ایک تو یہ کہ عَلى حُبه اللہ کی محبت کی وجہ سے کھلاتے ہیں دوسرے یہ کہ عَلى حُصّہ جبکہ رزق سے خود محبت ہو اور انسان خود بھوکا ہو اور خود ضرورت مند ہو، اس کے باوجود وہ خرچ کرتے ہیں اور یہ دونوں معنے دراصل آپس میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں کیونکہ

Page 378

خطبات طاہر جلد 13 372 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء انسان ایثار اس وقت کرتا ہے، جب وہ کسی محبت کی وجہ سے کر رہا ہو.ورنہ ایثار کے کوئی معنی نہیں.ایثار کا تصور ہی جھوٹا ہے بغیر محبت کے.ماں بچے کے لئے ایثار کرتی ہے اس لئے کہ محبت ہے.محبوب کی خاطر عاشق ایثار کرتا ہے اس لئے کہ محبت ہے.تو ایثار کا لفظ ایسا ہے جس کا اٹوٹ رشتہ محبت کے ساتھ ہے، تو اللہ تعالیٰ نے عَلى حُبه فرما کر ایک حیرت انگیز مضمون بیان فرمایا اس قدر غریبانہ حالت ہے تمہاری کہ کھانے سے محبت ہو گئی ہے اور اس کے باوجود تم خرچ کرتے ہو تو کیسے کر سکتے ہو عَلى حُبّه اللہ کی محبت کے نتیجہ میں.ایک محبت دوسری محبت پر غلبہ پالیتی ہے اور خدا کی محبت کی خاطر تم ایک مادی چیز کی محبت کو نظر انداز کر کے دھتکار دیتے ہو اور پھر اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب وہ لوگ تمہارا شکر یہ ادا کرتے ہیں، تو تم اچانک اس سے تکلیف محسوس کرتے ہو، تم سمجھتے ہو کہ یہ تمہارا شکریہ ادا کر کے تمہاری نیکی کو ضائع کر رہے ہیں.تم سمجھتے ہو کہ شکریوں کے ہم مستحق بھی تو نہیں ہیں.ہم نے جس منہ کی خاطر یہ نیکی کی تھی اس سے اپنی جزاء پالی.اس محبت کے بدلے میں ہمیں محبت نصیب ہو گئی.اب یہ کیسا شکریہ ادا کر رہا ہے، یہ تو بے محل ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ الله ان کی آواز یہ ہوتی ہے کہ ہم تو اللہ کے چہرے کی خاطر، اللہ کی رضا کی خاطر، اس کا پیار لینے کے لئے تم پر خرچ کر رہے ہیں.لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا تمہارا ہمارا شکریہ ادا کرنا اور اس کے بدلے جزا دینے کی سوچنا بالکل بے تعلق بات ہے.جس کی خاطر ہم نے کیا اس سے ہم نے جزا پالی.یہ مضمون بہت ہی گہرا ہے کیونکہ اس سے آگے پھر ایک اور رستہ کھلتا ہے وہ یہ کہ جب بھی بنی نوع انسان کی آپ خدمت کریں اور باوجود اس کے کہ خود ضرورت مند ہیں پھر بھی خدمت کریں اور اللہ کی خاطر، اس کی محبت میں خدمت کریں اور اس کو یہ بتا دیں کہ ہم تمہارے محسن نہیں ، اللہ ہمارا محسن بھی ہے اور تمہارا احسن بھی ہے.لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَ لَا شُكُورًا میں یہ دوسرا پیغام بھی ہے کہ جس کی خاطر ہم نے کیا تھا اس کا تمہیں احسان پہنچ رہا ہے ہمارا تو نہیں پہنچ رہا.ان کا تعلق خدا سے قائم کروانے کے لئے ایک بہت ہی عظیم مضمون ہے.جس کو یہ سمجھ آ جائے کہ یہ احسان کرنے والا خود کر ہی نہیں رہا یہ تو اس کی خاطر کر رہا ہے جس نے اس کو کہا ہے، اس کی توجہ اس طرف پھر جائے گی.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کوئی نو کر فقیر کی جھولی میں کچھ ڈال دے اور وہ اس کی بلائیں لے، اس کو

Page 379

خطبات طاہر جلد 13 373 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء دعائیں دے اور وہ کہے کہ نہ نہ ایسا نہ کرو، گھر کی بی بی نے مجھے کہا تھا.میں اپنی طرف سے تو نہیں کر رہا میرے مالک نے مجھے یہ تعلیم دی ہے اور حکم دیا ہے اور جب کوئی غریب آیا کرے اس کو یہ سب کچھ دیا کرو تو اچانک اس کے تعلق کا رخ اس نوکر سے مالک کی طرف پھر جائے گا اور یہی وہ مضمون ہے جو قرآن کریم کی آیت ہمیں سکھلا رہی ہے اس سے عالمگیریت جو ہے اس کا تعلق خدا تعالیٰ کے رب العالمین ہونے سے بندھ جاتا ہے اور تربیت کے بہت ہی لطیف مضامین ہمارے ہاتھ آتے ہیں.پس آنحضرت ﷺ نے بھی ایسی ہی تعلیم دی اور یہ جو کچھ ہوا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے عرفان قرآن کے نتیجے میں جو پاکیزہ بہت ہی پیاری نصیحتوں کے طور پر ہمیں حدیثیں عطا ہوئی ہیں ان کے ذریعہ یہ انقلاب بر پا ہوتا ہے.محض قرآن کا مطالعہ ایک انسان کے لئے کافی نہیں جب تک ایک عارف باللہ کی نظر سے قرآن کا مطالعہ نہ کرے اور قرآن کا عرفان سب سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی امیہ کو تھا اس لئے حدیثوں سے بھی سچا فیض ہم تبھی پاسکتے ہیں اگر قرآن کے مضامین سے ان حدیثوں کو جوڑ کر دیکھیں پھر ایک نیا مضمون ابھر آئے گا.ایک نیا معانی کا جہان آپ کو دکھائی دینے لگے گا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک بکری کے پائے کے ذریعے ہی سہی.اسے حقیر نہ سمجھے اور بکری کا پایہ ایک حقیر سی چیز ہے.پاؤں جو زمین پر لگتے ہیں، گند میں ملوث رہتے ہیں ، وہ انسانی جسم کا بظاہر سب سے حقیر حصہ ہیں تو فرمایا بکری کے پائے سے نیچے اور کیا چیز ہوگی جو تم کھا سکتے ہو اور جو کچھ بھی بکری میں سے تم کھاتے ہو وہ پاؤں سے برتر ہے اوپر کی چیزیں ہیں.تو پا یہ ہی سہی، ایک پایہ ہی بھیج دو.پائے سے ذلیل تر تو نہ سمجھو.یعنی دوسرے لفظوں میں یہ نصیحت فرما دی، ایک قسم کا انگیخت کیا ہے اس کی غیرت کو، اس خدمت خلق کے جذبے کو کہ اپنی پڑوسن کو ایک پا یہ بھی تم نہیں دے سکتیں.مراد یہ نہیں کہ پائے پر ہی اکتفا کرو.ولو کا مضمون بتا رہا ہے کہ چلو اور کچھ نہ سہی اتنا تو کرواگر یہ بھی نہیں کرو گے تو پھر تمہارے اندر کوئی انسانیت باقی نہیں رہے گی.پس یہ وہ تعلیم ہے جسے ہمیں عام کرنا ہے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے نتیجے میں وہ تعلقات جو گھروں میں درست ہوں گے.باپ بیٹی کے، ماں بیٹے کے، خاوند کے اپنی بیوی سے، بیوی کے خاوند سے سارے گھر کے رشتے داروں کے، وہ فیض جو آنحضرت ﷺ کی سنت کا گھروں کو پہنچتا ہے وہ وہاں محدود نہیں رہ سکتا.رحمۃ اللعالمین ہیں یہ فیض پھر ان گھروں کی چار دیواریوں سے نکل کر اور اچھل کر ساتھ کے گھروں میں داخل ہونا

Page 380

خطبات طاہر جلد 13 374 خطبہ جمعہ فرموده 20 رمئی 1994ء چاہئے اور ہمسائیگی کے حقوق کا مضمون بہت ہی اہم ہے.میں نے پچھلی دفعہ بھی نصیحت کی تھی کہ یورپ میں بھی اگر آپ نے تبلیغ کرنی ہے تو ہمسائیگی کے حقوق کے ذریعہ یہ سفر شروع کریں اور وہ مضمون یا درکھیں کہ محض ہمسایوں کو بار بار سلام کرنا اور باتیں کرنے کے لئے ٹھہر الینا یہ فائدہ نہیں دے گا بلکہ الٹا نقصان پہنچائے گا.یہی نصیحت ہے جو کام آ سکتی ہے کئی دفعہ انسان سامنے نہ آئے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے.ایک تحفہ بھیج دے اور پھر تحفہ بھیج دے یہاں تک کہ لینے والے کے دل میں کرید ہو کہ یہ ہے کون جو مجھ سے بار بار اس طرح کا احسان کا سلوک کر رہا ہے.آپ اس کی تلاش کو نہیں نکلیں گے وہ آپ کی تلاش کو نکلے گا اور اس طرح یہ جو ظاہری نعمت ہے یہ ایک باطنی نعمت میں تبدیل ہونے لگ جائے گی.آپ محض ظاہری تحائف ہی نہیں دیں گے بلکہ روحانی تحائف کے لئے اس کے دل کو قبولیت کے لئے آمادہ کر دیں گے.پس نیک ہمسائیگی ایک بہت ہی بڑا خلق ہے اور اس کو اختیار کرنے سے انسان کئی قسم کی بدیوں سے بچ سکتا ہے اور کئی قسم کی نعمتوں کو پالیتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یعنی سچا مومن ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اپنے مہمان کا احترام کرے.جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی اور نیکی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے.( بخاری کتاب الاحرب حدیث : 5559) یہ تین نصیحتیں آپ نے اللہ اور آخرت کے حوالے سے کی ہیں.بیچ کی باتیں بیان نہیں فرمائیں.جوارکانِ اسلام پر ایمان رکھتا ہے.جو رسولوں پر ایمان رکھتا ہے، جو کتابوں پر ایمان رکھتا ہے، یہ ساری باتیں چھوڑ دی ہیں.آغاز بیان فرمایا ہے اور انجام بیان فرمایا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے آغاز کی طرف اشارہ ہے.اللہ ہی سب نعمتوں کا دینے والا ہے اور اللہ ہی سے انسان کو ہر عطا نصیب ہوتی ہے.خواہ اس کی آنکھیں ہوں، ناک، کان ہوں، صحت ہو، جو کچھ بھی اس کو میسر ہے یا اس کا رزق ہو یا اور کئی قسم کی نعمتیں جو ا سے آئے دن خدا کی طرف سے میسر ہوتی ہیں اور وہ ان کو دیکھتا بھی نہیں اور سوچتا بھی نہیں اس کو پتا بھی نہیں کہ وہ بعض نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے.تو فرمایا جو اللہ پر یقین رکھتا ہے یعنی اللہ کے ابتدائے آفرینش سے انسان کی خاطر جو احسانات شروع ہوتے ہیں ان پر نگاہ رکھتا ہے اور پھر یوم آخرت پر جو انجام ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک رشتہ ہے جس کی طرف

Page 381

خطبات طاہر جلد 13 375 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 1994ء بطور تنبیه اشارہ فرما دیا گیا ہے اللہ نے جو کچھ عطا کیا اگر اس کے بعد انسان مرکھپ کر مٹی ہو جائے تو بے شک اس سے بے پروائی کرتا پھرے اس کو کوئی بھی فکر نہیں ہو سکتی.ایک انسان پر آپ جتنا بھی احسان کر لیں بالآخر اگر اس نے آپ کے سامنے پیش نہیں ہونا تو وہ بے شک احسان فراموشیاں کرے اس کو کیا فرق پڑتا ہے.تو یہ وجہ ہے کہ آخرت کا مضمون ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے.یہ تو ٹھیک ہے نعمتوں سے تم غافل ہو جاؤ گے اور شاید سمجھو کہ کیا فرق پڑتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خدا کی نعمتوں پر بھی نظر رکھتا ہو اور آخرت کے دن پر بھی نظر رکھتا ہو یا کہہ دیں کہ اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور آخرت کے دن پر نظر رکھتا ہوتو اللہ (دیوان غالب: 48) کی نعمتوں سے غافل ہو ہی نہیں سکتا.کیونکہ اس کو یہ پتا ہے کہ یہ دینے والا ، حساب لینے والا بھی ہے.جو کچھ اس نے عطا کیا ہے ایک ایک چیز کا حساب لے گا.جیسا کہ غالب نے کہا ہے.ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب خون جگر ، ودیعت مژگانِ یار تھا یوں کہ میرے دل کا جو خون ہے جگر کا جو خون ہوا ہے، میرے محبوب کی پلکوں کی چبھن سے ایک ایک قطرہ کر کے رسا ہے اس میں سے اور چونکہ میرے محبوب کی ودیعت ہے اس لئے ایک ایک قطرے کا حساب دینا پڑا.یہ تو محض شاعری ہے مگر اگر حقیقت ہے تو وہ حقیقت ہے جو محمدرسول اللہ ﷺو بیان فرمار ہے ہیں.خدا کی نعمتوں کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا اور وہ حساب اس رنگ میں نہیں ہوگا کہ تم نے مجھے کیا دیا.اس رنگ میں ہو گا کہ میرے بندوں کو تم نے کیا دیا.جو کچھ حاصل کیا اس سے غیروں کو کیا فیض پہنچایا.پس اس لئے آنحضرت کے بار بار یہ فرمارہے ہیں کہ جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ یعنی وہ سچا مومن اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے.یعنی پڑوسی کی تکلیف کے معاملے میں بھی تمہارا مواخذہ ہوگا اور کئی شکایتیں ملتی ہیں میں حیران رہ جاتا ہوں.ایک شخص نے مجھے دعا کے لئے لکھا کہ بڑا سخت پریشان ہوں پڑوسی سے متعلق.تو میں ڈر گیا، میں نے کہا پتا نہیں کون سی آفت آئی ہے.میں نے وہاں لکھا نظارتوں کو کہ فوری طور پر تحقیق کریں کہ کیا شر ہے جو اس کو پہنچ رہا ہے، اتنا بڑا فساد کیوں برپا ہو گیا.تو پتا یہ لگا کہ پڑوسی کے درخت کی کچھ شاخیں اس کے

Page 382

خطبات طاہر جلد 13 376 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 1994ء گھر میں آ رہی ہیں اور وہاں ان کے پت جھڑ سے گند پڑتا ہے یا اس کی وجہ سے اور کچھ ان کے گھر کو شاید دھوپ میں کمی آجاتی ہے اور پڑوسی کہتا ہے کہ خبردار جو ان کو ہاتھ لگایا.اب یہ کوئی انسانیت ہے.میں اتنا شرمندہ ہوا پڑھ کے.میں نے خواہ مخواہ امور عامہ اور نظارت اصلاح وارشاد کو ہلا کے رکھ دیا کہ آپ کو پتا ہی نہیں ربوہ میں کیا ہو رہا ہے.جا کے دیکھیں تو سہی کیا کیا ظلم ہورہے ہیں.جواب آیا تو یہ آیا.اول تو اس کو اتنی تکلیف کیوں ہے.اگر وہ شاخیں پڑتی ہیں تو صفائی کر لیا کرے.اگر بداخلاق پڑوسی ہے تو اپنے اخلاق سے اس کا دل جیت لے لیکن اگر یہ نہیں تو پڑوسی کو بھی سوچنا چاہئے.وہ درخت تو اللہ کا فیض ہے اس کی شاخوں سے اس کو چھاؤں ملتی ہے.اس کے گھر کو ایک نعمت میسر ہے.اگر یہ ہمسائے کے لئے وہ نعمت نہیں بنتی اور ہمسائے کو چڑانے کا موجب ہے تو کاٹ دیں ان شاخوں کو.آپ دنیا کے معمولی آرام یا دنیا کی رعونت کی خاطر کہ میں اونچا نکلا ہوں میں نے ہمسائے کو نیچا کر دکھایا ، خدا کو ناراض کر رہے ہیں اور یہ آخرت کو بھول رہے ہیں.یہ چھوٹے چھوٹے تعلقات جو تلخیوں میں بدلتے ہیں بعض دفعہ ان کے نتیجے میں بڑے بھیانک نتیجے نکلتے ہیں.بعض بچے ہیں جو اپنے ماں باپ کو ہمسائے کے مقابلہ پر کمزور دیکھ کر بڑے سخت بد ارادے دلوں میں باندھتے ہیں.ان کی نیتیں غالب ہو جاتی ہیں، وہ بدخلق بن کر اٹھتے ہیں اوپر اور کہتے ہیں کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو ہم اس طرح ان لوگوں سے بدلے لیں گے تو ان باتوں کو چھوٹا نہ سمجھیں.یہ ہمسائیگی کی بد اخلاقیاں آپ کی نسلوں کو تباہ کرتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ جو فرماتے ہیں کہ دیکھو ہمسائے کو تکلیف نہ دینا تم پوچھے جاؤ گے.قیامت کے دن یہ باتیں بھلائی نہیں جائیں گی بلکہ تمہارے حساب تمہارے کھاتوں میں لکھی ہوئی دکھائی دیں گی.پھر فرماتے ہیں کہ جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لاتا ہے، اپنے مہمان کا احترام کرے.یہ بھی ایک عجیب بات ہے.مہمان کا احترام آپ سمجھتے ہیں کہ خود بخود ظاہر ہونے والا خلق ہے.اس میں نصیحت کی کیا ضرورت تھی.جو مہمان نواز ہیں وہ مہمان نوازی کرتے ہیں ، جو مہمان نواز نہیں وہ نہیں کرتے.لیکن اکثر انسانوں میں مہمان نوازی پائی جاتی ہے.جس مہمان نوازی کی محمد رسول اللہ یہ بات فرمارہے ہیں وہ یہ عام مہمان نوازی نہیں اس کا بھی تعلق اسی آیت سے ہے وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنَا وَ يَتِيما و اسیرا وہ اللہ کی محبت کی خاطر،

Page 383

خطبات طاہر جلد 13 377 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء گھروں میں تنگی ہونے کے باوجود، اپنے مہمان نوازوں سے عزت افزائی سے پیش آتے ہیں اور مسکینوں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور اسیروں سے بھی.تو قرآن کریم نے یہ تمام مضامین کھول دیئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک معزز مہمان آپ کے پاس آیا اور آپ مہمان نوازی کر رہے ہیں.اگر ایک برابر کا مہمان آیا ہے اور آپ اس کی مہمان نوازی کر رہے ہیں تو اس آیت کے اثر سے وہ باہر ہے.اس کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں کیونکہ یہ شروع ہوتی ہے مسکین کے ذکر سے، یتیم کے ذکر سے اور قیدی کے ذکر سے ، قیدی تو آپ کے پاس نہیں آ سکتا مگر آپ قیدی کے پاس پہنچ سکتے ہیں اگر قیدی کے پاس کچھ کھانا لے کر جاتے ہیں.کچھ نعمت لے کر اس کے پاس پہنتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کہ یہاں کی گندی خوراک کھا کھا کر تم تنگ آگئے ہو گے تو کچھ اس میں سے بھی چکھو اور خدا کی خاطر ایسا کر رہے ہیں ورنہ ہم تو تمہیں جانتے بھی نہیں، شکریہ بھی ادا نہ کرنے دیں اس کو.تو یہ وہ مہمان نوازی ہے جو اس آیت کے تابع ہو گی.پھر آپ ایک یتیم کی پرورش کرتے ہیں، اس پر نظر ڈالتے ہیں، باپ کے پیار سے جو محروم ہے اس کو کئی قسم کے دکھ ہوتے ہیں جب تک آپ تو جہ سے نہیں دیکھیں گے آپ کو دکھائی نہیں دے سکتے.یہ آپ کے سامنے پیش ہی نہیں ہوں گے.تو یتیموں کی پرورش کرنا ، ان کی خاطر کرنا، یہ بھی بہت ہی بڑا خلق ہے اور پھر وہ مہمان جو عام سادہ سا غریب سا مہمان ہے آپ کے گھر چلا آیا ہے.وہاں آپ کے خلق کا امتحان ہوتا ہے اگر اسے آپ نیچے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں لو جی فلاں صاحب آگئے ہیں اس کو روٹی ڈالو، اس قصے کو ختم کرو تو یہ بدخلقی گناہ بن جائے گی.ظاہری طور پر جو مہمان نوازی ہے یہ مہمان نوازی نہیں ہوگی بلکہ آپ کے گناہوں کے کھاتے میں یہ عمل لکھا جائے گا.پس آنحضرت ﷺ جس مہمان نوازی کی بات فرما رہے ہیں وہ ایسا خلق عظیم ہے جس کا انسان کے تعلقات کے دائرے سے تعلق نہیں، اس کا خدا کے بندوں کے تعلقات کے دائرے سے تعلق ہے.اللہ کے تعلقات عالم پر جہاں محیط ہیں وہاں آپ کے تعلقات بھی محیط ہونے لگتے ہیں، وہاں تک پھیلتے ہیں، وہاں تک ان تعلقات کی رسائی ہوتی ہے، وہ رنگ اختیار کر جاتے ہیں تو پھر یہ مضمون جو اس آیت نے بیان فرمایا ہے وہ آپ کی ذات پر اطلاق پانے لگتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس مضمون کو ایک بہت ہی پیاری روایت کے طور پر بیان فرمایا.ایک موقعہ پر ایک

Page 384

خطبات طاہر جلد 13 378 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 1994ء صحابی صبح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے رات کیا حرکت کی تھی.کیا بات تھی کہ اللہ تعالیٰ کو وہ بات آسمان پر بہت ہی پسند آئی اور خدا تعالیٰ نے اس کے نتیجہ میں مجھ پر ایک آیت نازل فرمائی اور وہ آیت دی تھی.وَالَّذِينَ تَبَوَّقُ الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا اُوْتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ * وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ® (10:51) وہ اپنے نفسوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود غربت کا شکار ہوں اور خود تنگی میں مبتلا ہوں.یہ وہی مضمون ہے.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمَا وَ أَسِيرًا دوسرے رنگ میں یوں فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو خود تنگی میں مبتلا ہونے کے باوجود دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں.وہ صحابی یہ بات سن کر حیران رہ گئے کیونکہ ان کے گھر واقعۂ رات ایک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا.اس سے پہلی رات آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کوئی مہمان آئے اور اس زمانہ صلى الله میں غربت کا دور تھا آنحضور ﷺہ بعض دفعہ اپنے گھر میں کچھ بھی نہ پاتے جس سے خدمت کر سکیں تو تقسیم کر دیا کرتے تھے مہمانوں کو اور مسجد میں اعلان فرما دیا کرتے تھے کہ یہ مہمان آیا ہے کون ہے جو اسے اپنے گھر لے جائے.وہ معلوم ہوتا ہے کوئی خاص ہی تنگی کے دن ہوں گے اور آواز کوئی نہ آئی.ایک صحابی اٹھے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے دے دیں.اس مہمان کو لے کر گھر چلے گئے اور جانتے تھے کہ گھر میں اتنا سا کھانا ہے کہ میاں بیوی کو بھی پورا نہیں آ سکتا، بمشکل بچوں کو دے کران کو سلایا جاسکتا ہے.یہ تردد تھا اور یہ تر دداوروں کے دلوں میں بھی ہوگا لیکن اللہ نے ان کو ایک ترکیب سکھا دی اور وہ ترکیب یہ تھی کہ جا کے بیوی کو کہا کہ مہمان آیا ہے، اللہ کا مہمان ہے، محمد رسول اللہ اللہ نے یہ نعمت ہمیں عطا کی ہے.اس کا خیال رکھنا مگر کھانا بہت تھوڑا ہے.اس لئے مجھے یہ ترکیب آئی ہے کہ تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دو.جب بچے سو جائیں تو پھر تم مجھے آواز دینا کہ کھانا لگ گیا ہے.

Page 385

خطبات طاہر جلد 13 379 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء جب میں مہمان کو لے کے آؤں گا تو غلطی سے جیسے پکو لگ جائے دیئے کی لوکو اس طرح دیئے کو بجھا دینا یعنی پلو مار کر دیا بجھا دیں گے تاکہ مہمان کو پتا نہ لگے کہ کتنا کھانا ہے اور کیا ہو رہا ہے.پھر مہمان کھائے گا اور میں اور تم خالی مچا کے لیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا مہمان کھانا کھا تارہا اور یہ خالی منہ سے آوازیں نکالتے رہے کہ بڑا ہی مزہ آ رہا ہے.( بخاری کتاب المناقب حدیث : 3514) ایک روایت میں ہے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا اس کے الفاظ یاد نہیں لیکن مضمون یہ تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ کیا بات تھی کہ تم زمین پر مچا کے لے رہے تھے اور آسمان پر خدا مچا کے لے رہا تھا، خدا اس کا لطف اٹھا رہا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مہمان کو پتا ہی نہیں تھا.کسی نے محمد رسول اللہ کو بر نہیں دی تھی لیکن صبح جب نماز پہ وہ نمازی حاضر ہوئے تو خدا نے الہاما آپ کو بتا دیا تھا اور وہ آیت ہمیشہ کے لئے اس زندہ و پائندہ واقعہ کی حفاظت کے لئے قرآن میں محفوظ فرما دی گئی.یہ ہے مہمان نوازی وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمَا وَ أَسِيرًا ان کو اپنے مہمانوں سے ذاتی تعلقات ان کی مہمان نوازی پر آمادہ نہیں کرتے.اللہ کی محبت ہے اور وہ یہ دیکھتے نہیں کہ یہ دنیا میں معزز ہے یا غیر معزز ہے.وہ مہمان ہے اور اللہ کا مہمان ہے.مہمان ہے اور محمد رسول اللہ کا مہمان ہے، وہ اسلام کا مہمان ہے اور اس کی مہمان نوازی میں اگر اس روح سے آپ خدمت کرتے ہیں تو یہ وہ روح ہے جو اس واقعہ کے ساتھ آپ کو بھی وابستہ کرتی چلی جائے گی.اس واقعہ میں جس صحابی کے خلق کی بات ہو رہی ہے اس کا نام نہیں آیا پس یہ بے نام کہانی سلسلہ در سلسلہ آگے بڑھتی چلی جائے گی اس میں بہت سے اور بھی شامل ہوتے جائیں گے جو اس قسم کے اخلاق کا نمونہ دکھا ئیں گے.پس آنحضرت ﷺ کی نصائح پر غور کریں اور فکر کریں اور جس پیار اور گہرے درد اور جذبے کے ساتھ آپ نے اخلاق کو استوار فرمایا ہے، اخلاق کی اصلاح فرمائی ہے اور اخلاق کا مضمون انسان کو سمجھایا ہے اس پر غور کریں.جب سے دنیا بنی ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ جب سے دنیا بنی ہے ساری کائنات میں جتنے انبیاء آئے ہیں سب کے حالات پر غور کر لیں سب نبیوں نے مل کر بھی اپنی امت کے اخلاق کی ایسی اصلاح نہیں کی ہوگی جیسے محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی.ان کی نصیحتیں اکٹھی کر کے دیکھ لیں وہ ساری ایک جھولی میں آجائیں گی اور دوسری جھولی بھر جائے گی پھر اور جھولیاں چاہئیں ہوں گی اور حضرت محمد

Page 386

خطبات طاہر جلد 13 380 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء رسول اللہ ﷺ کی نصیحتیں ختم نہیں ہوں گی.اتنی پاکیزہ اصلاح فرمائی ہے اپنی امت کے اخلاق کی کہ اس محنت کو رائیگاں جانے دینا بہت بڑا جرم ہے.یہ اس وقت کے لوگوں کے آداب کی اصلاح نہیں ہو رہی تھی یہ تہذیب اخلاق آئندہ زمانے کے انسانوں سے بھی تعلق رکھتی ہے، آج سے بھی تعلق رکھتی ہے، کل سے بھی تعلق رکھتی ہے، تو خوش نصیب ہے وہ جماعت جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دوبارہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا فیض پہنچنے کے ایسے دائمی سامان ہو گئے کہ جیسے ایک اعلیٰ درجہ کا باغ ہو اس میں نہریں بہتی ہوں، اس میں زمین کے چپہ چپہ تک زندگی بخش پانی پہنچانے کا انتظام ہو.اس طرح جماعت کا نظام آپ کو عطا ہو گیا ہے جو دنیا میں اور کسی کو میسر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خلافت عطا ہوئی ہے اور خلافت کے ساتھ یہ نظام جماعت عطا ہوا.اس طرح آپ کو گھر گھر ، ایک ایک کھیت کے ایک ایک چپہ تک اس حسن و زندگی کے پانی کے پہنچانے کی سہولت میسر آ گئی ہے.پس تمام جماعت کی تربیت میں نظام جماعت مستعد ہو جائے اور وہ لوگ جن تک یہ باتیں پہنچتی ہیں وہ آنحضرت ﷺ کی محبت اور اللہ کی محبت کے نتیجے میں اپنے اخلاق کو سنواریں، اپنی بیویوں کے اخلاق کو سنواریں، اپنی بہنوں کے اخلاق کو سنواریں، اپنے بچوں اور اپنی بچیوں کے اخلاق کو سنواریں.پھر ہمسائے کی طرف توجہ کریں لیکن حسن خلق کے ذریعے محض نصیحتوں کے ذریعہ نہیں.اخلاق سنوارنے کے دو ہی طریق ہیں ایک نصیحت کے ذریعہ اور ایک عمل کے ذریعہ.آنحضرت ﷺ کا سب سے بڑا ہتھیار حسن عمل تھا.حسن عمل کے ذریعہ آپ دلوں کو فریفتہ کر لیتے پھر وہ صیحتیں ان دلوں پر اس طرح پڑتی تھیں جیسے ایک پیاسی زمین پانی کو قبول کرتی ہے.جیسے دیر کی خشک سالی کے بعد خدا کی رحمت کا پہلا قطرہ برستا ہے تو بعض پیار کرنے والے اپنی زبانیں باہر نکال لیتے ہیں کہ ہماری زبان پر وہ رحمت کا قطرہ پڑے.یہ بھی ہوسکتا ہے اگر کسی سے پیار ہواور محبت ہو.پس آپ کا حسن خلق کا سفر حسن عمل سے شروع ہو گا محض زبان کی نصیحت سے نہیں.اپنے حسن عمل کو اس بلند مرتبے تک پہنچا دیں کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بعثت لاتمــم مـقـام الاخلاص (سن الکبری لیقی ) کہ میرا اقدم اخلاق کی بلند ترین چوٹیوں پر ہے کیونکہ خدا نے میری بعثت ہی ایسی جگہ فرمائی ہے.

Page 387

خطبات طاہر جلد 13 381 خطبہ جمعہ فرمود و 20 رمئی 1994ء جہاں اخلاق ختم ہوتے ہوں اور ان پر میرا قدم ہے پس آپ نے بھی حضرت محمد رسول اللہ کی پیروی میں اپنے اخلاق کو سجانا ہے اور درست کرنا ہے.اب جس کے اخلاق یہ رنگ پکڑ جائیں وہ کیا بنی نوع انسان کا حق مارنے کا تصور بھی کر سکتا ہے.یہ بد خیال اس کے ذہن میں آہی نہیں سکتا.اگر یہ بد معاملگیاں جماعت میں موجود ہیں.اگر گھروں کے آپس کے تعلقات بگڑے ہوئے ہیں.لین دین میں لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں.سبز باغ دکھا کر پیسے وصول کرتے ہیں.یہ کہہ کر کہ ہم تمہیں کینیڈا لے کر جائیں گے ، لندن چھوڑ جاتے ہیں اور پیسے لے کر بھاگ جاتے ہیں.یہ بدخلقیاں محمد رسول اللہ کی طرف منسوب ہونے والے میں تو پانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.وہ تو بالکل برعکس تصور ہے.اس کا کوئی دور کا بھی رشتہ نہیں.اسی لئے میں نے جماعت کو نصیحت کی ہے کہ جب یہ واقعات میرے تک پہنچتے ہیں تو میرا دل کھولنے لگتا ہے.غصہ سے نہیں، بے اختیاری اور غم کی کیفیت میں کہ کیا کروں کس طرح ان کو سمجھاؤں.ایسے ایسے لوگ ہیں جو میرے پاس آتے ہیں السلام علیکم ہم فلاں جگہ سے آئے ہیں یہ تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور مجھے پتا ہوتا کہ فلاں کے پیسے کھا گئے ہیں فلاں کے ساتھ ظلم کر بیٹھے ہیں جب میں ان سے کہتا ہوں کہ میں مجبور ہوں، میں آپ کا تحفہ قبول نہیں کر سکتا اپنے مظلوم بھائی کا حق تو پہلے اس کو دے دیں.عدل پر احسان کی بنیاد ہوا کرتی ہے.اگر عدل پر ہی آپ کا قدم نہیں ہے تو آپ احسان کرنے کے مجاز کیسے ہو گئے.اس لئے اپنے جرم میں، اپنی نا انصافیوں میں مجھے تو شامل نہ کریں تو پھر وہ قسمیں کھاتے ہیں، کہتے ہیں او ہو ہو یہ تو بالکل جھوٹی رپورٹیں آپ کو پہنچی ہیں.ہم تو ایسے نہیں اور بعض دفعہ پھر اللہ تعالیٰ اس طرح ان کے ظلم سے پردہ اٹھا دیتا ہے کہ بعض ان کے قریبی رشتہ دار، ان کی بیویاں بعض دفعہ آ کے رو پڑتی ہیں کہ ہمارے خاوند میں یہ بات پائی جاتی ہے خدا کے لئے اس کی اصلاح کریں.جو میرے سامنے قسمیں کھا کر جاتا ہے کہ ہرگز میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی کو لالچ دے کر لندن لانے کی یا ہمبرگ لانے کی لالچ دے کر اس سے پیسے لے کر بھاگ جاؤں یا امریکہ پہنچانے کا وعدہ کروں اور رستے میں آدھے سفر میں چھوڑ کر لاپتا ہو جاؤں.اس کے بعد ان کے رشتہ دار آ جاتے ہیں ، ان کی بعض دفعہ بیویاں واقعہ پہنچتی ہیں اور رو پڑتی ہیں کہ ہمارے خاوند کے لئے دعا کریں اس میں یہ بدتمیزی یا بد خلقی پائی جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ حقیقت حال سے پردے اٹھانے لگتا ہے اور یہ ایک بہت ہی خطرناک پیغام ہے.

Page 388

خطبات طاہر جلد 13 382 خطبہ جمعہ فرمود و 20 رمئی 1994ء جب خدا یہاں سے پردے اٹھانے شروع کر دے تو مرنے کے بعد کے سارے پردے پھر چاک ہو جاتے ہیں.وہ پر دے ایسے اٹھتے ہیں کہ قیامت کے دن بھی پھر یہ گریں گے نہیں بلکہ ساری بنی نوع انسان میں آپ کی رسوائی کا سامان بنیں گے.تو حسن خلق سیکھیں بجائے اس کے کہ لوگوں کے پیسے کھانے کے لئے چالیں چلیں اور غریبوں کو جو بعض دفعہ اپنی ساری جائدادیں بیچ ڈالتے ہیں.ان میں سے کسی کو آسٹریا میں چھوڑ کر برباد کیا ہوا ہے کسی کو بلغاریہ چھوڑ دیا اور اپنی چاندی کھری کی اور بھاگ گئے.کوئی ماسکو سے خط آ رہا ہے، کوئی یہاں پہنچا ہوا ہے.یہاں کی حکومت اس کے پیچھے پڑی ہے کہ تم پاسپورٹ تو دکھاؤ تم آئے کس طرح ہو.وہ غریب کہتا ہے کہ میرا پاسپورٹ تو میرا ایجنٹ لے کر چلا گیا تھا کہ ذرا مجھے دینا میں اس پر تمہارویز الگوادوں گا اور وہ کینیڈا کا ویزہ، وہ دن اور آج کا دن، میں دھکے کھاتا پھرتا ہوں نہ مجھے ٹھہرنے کی جگہ نہ میں یہاں کے سوشل پروگرام سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں.چوروں کی طرح یہاں زندگی بسر کر رہا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ اس کو دکھاؤ اس کا نام بتاؤ، اور یہ بیچارہ کہتا ہے کہ آخر احمدی ہے کہیں پھنس نہ جائے.میں نے اس کو کہا تم بڑے عجیب انسان ہو گنہگار کی ایسی پردہ پوشی کرنا جو دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا موجب ہو اس کا انسان کو حق نہیں ہے، اس کی اجازت نہیں ہے.تمہاری ہمدردی اپنی جگہ خدا تمہیں اس کی جزا دے اتنا کچھ تم سے ہو گیا اور ابھی تک تمہارے دل میں یہ بات مانع ہے کہ کہیں خدا تمہیں اس کو تکلیف نہ پہنچ جائے.تو تم تو سچے ہو اور مومن ہو اور خدا کی رحمتیں تم پر ہوں مگر تمہیں یہ حق نہیں کہ کیونکہ ایسا شخص اگر آزاد چھوڑا جائے گا تو دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا.ایک راہزن پر رحم کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا.پس اس کے متعلق بتاؤ.کھل کر بتاؤ اس کا حوالہ پیش کرو یہ تو ایک اتفاقی واقعہ ہے.مگر میں یہ بتارہا ہوں کہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں.گھروں میں بدخلقی کی اطلاع، ہمسایوں سے بھی بدخلقی کی اطلاع، دنیا کی حرص میں لوگوں کے پیسے لوٹنا اور بڑے بڑے ان پر ظلم کرنا، یہ نہ جانا کہ پیچھے ان کی ماؤں بہنوں کا کیا حال ہے.آج ہی ایک ماں کا خط ملا.اس قدر دردناک کہ اپنے بچے کی صورت دیکھنے کو ترس گئی ہے.وہ فلاں ملک میں اٹکا پڑا ہے.کیونکہ ایک شخص اس کو فلاں جگہ پہنچانے کے لالچ میں کئی لاکھ روپے بھی کھا گیا ہے اور اس کو وہاں چھوڑ کر چلا گیا ہے.کچھ پتا نہیں اس کا کیا حال ہے.تو سوائے اس کے کہ آپ کی بدنصیبی میں ماؤں کے دل کی بدعائیں بھی پہنچ جائیں اس کے سوا اور آپ کیا کمارہے ہیں.یہ

Page 389

خطبات طاہر جلد 13 383 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 1994ء لعنتیں ہیں دنیا کی اس کے سوا ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اگر آپ میں حیا ہے اور آپ کو خدا کا خوف ہے، اس اللہ پر ایمان لاتے ہیں جس کا محمد رسول اللہ نے حوالہ دیا ہے، اس یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں جس کا محمد رسول اللہ صلی ﷺ نے حوالہ دیا ہے تو چاہئے گھر بار کی چیزیں بیچنی پڑیں، اپنی جائیدادیں پچنی پڑیں ان لعنتی قرضوں کو اتاریں جو آپ کے کھاتے میں لعنت بن کر ہمیشہ پڑی رہیں گی اور بنی نوع انسان کو تکلیف دینے سے باز آجائیں کیونکہ یہ دنیا کی نعمتیں آئندہ کسی کام کی نہیں سوائے اس کے کہ آپ کو جہنم میں لے جائیں.جو نعمتیں ظلم کے نتیجہ میں حاصل ہوں وہ لعنتی نعمتیں ہیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں کوئی حقیقت نہیں.پس اخلاق کے میدان میں ہمیں دو جگہ محاذ آرائی کرنی ہے.ایک اخلاق کو سنوارنا ہے اس طریق پر کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جو اخلاق کو سمجھا جس شان سے اور جس حسن کے ساتھ نکھار کر آپ نے اخلاق کی تعریف فرمائی اور عمل کر کے دکھایا ویسے ہی آپ بھی اس مضمون کو سمجھیں اور اعلیٰ درجے کے اخلاق کو ، ان اخلاق کو اختیار کریں جن کی چوٹی پر محمد رسول اللہ ﷺ کا قدم ہے اور دوسری طرف اپنے بدخلق بھائیوں کو بچانے کی کوشش کریں ان کو جہنم سے بچائیں.بدخلق گھروں کو اخلاق کی نعمت دیں.ان کو بتائیں کہ زندگی کا لطف اخلاق میں ہے، بدخلقی میں نہیں.بدخلقی ہی کا دوسرا نام جہنم ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں یہ عظیم جہاد پورا کرنے کی اور اس جہاد کے تمام تقاضے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 390

384 خطبات طاہر جلد 13

Page 391

خطبات طاہر جلد 13 385 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء قو میں پھٹ جائیں تو فیض نبوت کے بغیر اکٹھی نہیں ہوسکتیں.صل کی.حبل اللہ سے مراد قرآن اور محمد ﷺ کی سنت ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 1994ء بمقام ناصر باغ گروس گیراؤ.جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران : 104) پھر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا پندرھواں سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور آج کے جمعہ ہی کے دوران یا اسی ذریعہ سے ان کے اجتماع کا افتتاح ہوگا.یعنی افتتاح کی کسی الگ تقریب کی ضرورت نہیں یہی جمعہ ان کے اجتماع کا افتتاح ہے.اس کے

Page 392

خطبات طاہر جلد 13 386 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994 ء ساتھ کچھ اور دنیا کے ممالک میں بھی بعض مجالس یا بعض اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں ان کے نام بھی میں پڑھ کر سنا دیتا ہوں ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور جو آج کے پیغامات ہیں وہ ان سب کے لئے مشترک ہیں.مجلس مشاورت جماعت احمد یہ U.K آج 27 رمئی سے شروع ہو رہی ہے.تین دن تک جاری رہے گی.مجلس خدام الاحمدیہ بریمپٹن کینیڈا کا ایک روزہ سالانہ اجتماع کل بروز ہفتہ شروع ہورہا ہے.جماعت احمد یہ ملائیشیا کا جلسہ سالانہ 29 رمئی سے 31 مئی تک منعقد ہو رہا ہے.اس علاقے کے قریبی ممالک سے بھی بہت سے نمائندگان اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں.امریکہ کے ساؤتھ ریجن کے خدام، اطفال اور لجنہ کی ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماع 28 اور 29 رمئی بروز ہفتہ اور اتوار منعقد ہوں گے.جس آیت کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے یہ آل عمران کی آیت 104 ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم سب مضبوطی کے ساتھ اللہ کی رسی کو تھام لو اور باہمی منقسم نہ ہو، ایک دوسرے سے پھٹ کر الگ نہ ہو جاؤ.وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جبکہ تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا.فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا تو تم اللہ کی نعمت کے ذریعے بھائی بھائی ہو گئے.وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس میں گرنے سے بچا لیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ.حَبْلِ اللہ سے کیا مراد ہے اس کے متعلق ایک دفعہ میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی حبل اللہ ہیں.لیکن حبل اللہ کا صرف ایک ہی مفہوم نہیں.خود حضرت اقدس محمد اللہ سے ثابت ہے کہ قرآن کریم حبل اللہ ہے.پس کیا ان دونوں باتوں میں کوئی فرق ہے یا ایک ہی مضمون کے بیان کے دو پہلو ہیں.میرے نزدیک ایک ہی مضمون کے بیان کرنے کے دوالگ الگ انداز ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد اللہ کا دامن تھامے بغیر قرآن کچھ بھی فائدہ کسی کونہیں پہنچا سکتا اور حقیقی قرآن کا مفہوم انسان پر حضرت محمد مصطفی میلے کے وسیلے کے بغیر روشن نہیں ہو سکتا.پس اگر چہ کتاب اللہ ہی حبل اللہ ہوتی ہے مگر اس حبل اللہ کا نمائندہ.

Page 393

387 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء خطبات طاہر جلد 13 جس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کتاب اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا جاتا ہے وہ بھی حبل اللہ ہے اور حبل اللہ ہی کی ایک دوسری صورت ہے.پس اس پہلو سے میں پھر اسی بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ حبل اللہ سے مراد قرآن کریم بھی ہے.قرآن کریم اول طور پر ان معنوں میں کہ قرآن کے نزول سے ہی محمد مصطفیٰ کا وجود ظہور میں آتا ہے.اسی لئے کتابوں پر ایمان پہلے رکھا گیا ہے اور انبیاء پر ایمان اس کے بعد رکھا گیا ہے.کتاب نبی بناتی ہے اور کتاب ہی سے نبی بنتا ہے مگر اس نبی کو نظر انداز کر کے محض کتاب پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش ایک شیطانی کوشش ہے، نفس کا دھوکہ ہے.حقیقت میں خواہ وہ قرآن ہو یا تو رات ہو یا انجیل یا کوئی اور نام اس کتاب کا رکھ لیجئے جب تک اس نبی کے ساتھ تعلق نہ باندھا جائے جس پر کتاب نازل ہوئی ہے اور سلسلہ وار اس تعلق کو آگے بڑھایا نہ جائے اس وقت تک حقیقت میں حبل اللہ کو تھامنے کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے.قرآن کی زندہ مثال حضرت محمد مصطفی ملے تھے اور آپ ہی کی زبان سے ہم نے قرآن کو سمجھا اور آپ ہی کی ذات میں قرآن جلوہ گر دیکھا.آپ کی ذات میں قرآن کریم چمکا ہے اور اس کے مضامین روشن ہو کر ہمارے سامنے ایک زندہ وجود کے طور پر آئے ہیں اور آپ کے بعد یہی سلسلہ خلافت کے ذریعے آگے جاری ہوا.پھر مجددیت کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچا.پس یہ سارا سلسلہ ہے کوئی الگ سلسلہ وہی حبل اللہ کا سلسلہ نہیں.پس اس سلسلے کو مضبوطی سے تھام لیں.یہی وہ مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے.اگر اس کو مضبوطی سے تھام لیں گے تو اس کا پہلا اثر اور پہلا فیض آپ یہ دیکھیں گے کہ آپ اکٹھے ہو گئے ہیں.آپ کے بٹے ہوئے دل جو قریب تھا کہ آپ کو لے کر آگ میں جا پڑتے ، وہ بٹے ہوئے دل مجتمع ہوئے.خدا تعالیٰ نے ان کو آپس میں باندھ دیا اور اس باندھنے کے ذریعے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ آپ پھر منتشر ہونے کی بجائے مجتمع ہوئے اور ایک ملت واحدہ کے طور پر آپ کا وجود ابھرا.یہ ہے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنا اور اس کی ظاہری علامت جو دنیا میں دکھائی دینے لگتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے لفظ ” نعمت کو استعمال فرمایا ہے.فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ

Page 394

خطبات طاہر جلد 13 388 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا تم اس کی نعمت کے ذریعے بھائی بھائی بنے ہو.نعمت سے جیسا کہ آپ قرآن کریم کے محاورے سے معلوم کر سکتے ہیں.اول مراد نبی ہوتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب تو میں پھٹ جاتی ہیں تو نبوت کے فیض کے بغیر وہ دوبارہ اکٹھی نہیں ہوا کرتیں.کوئی دنیا کی طاقت مذہبی لحاظ سے پھٹی ہوئی اور پھٹتی ہوئی قوموں کو دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع نہیں کر سکتی سوائے نبوت کے.پس ان معنوں میں نبوت حبل اللہ ہے.شریعت کے لئے کتاب اترتی ہے.مگر اس کتاب کے ساتھ تعلق نبوت کے ذریعے قائم ہوتا ہے اور جب ایک دفعہ ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے بعد پھر تو میں پھٹ جاتی ہیں تو پھر نبوت ہی کا فیض ہے جو انہیں دوبارہ اکٹھا کیا کرتا ہے.فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا میں یہ پیغام ہے اور جماعت احمد یہ اس پیغام کی ایک زندہ حقیقت بن کر منصہ شہود پر ابھری ہے.ایک زندہ ثبوت بن کر ظاہر ہوئی ہے.تمام دنیا میں دوسرے مسلمان فرقوں اور مذاہب کو دیکھ لیں جب وہ ایک دفعہ پھٹنے شروع ہوئے تو پھٹتے چلے گئے.ان سے وحدت جاتی رہی.ایک ہاتھ پر وہ اکٹھے پھر نہ ہو سکے.نہ وہ ہاتھ آسمان سے اتر اندان کو توفیق ملی کہ اس ہاتھ میں ہاتھ دے کر وہ پھر ا کٹھے ہو جائیں.ان کے دل ہے تو پھر بٹتے ہی رہے.ان کے باہمی عناد اور زیادہ دشمنی میں تبدیل ہوتے رہے.لیکن دشمنوں نے محبت کا روپ پھر نہ دھارا.ایک ایسی درد ناک کہانی ہے جو تمام عالم میں اسی طرح آپ کو چسپاں ہوتی ہوئی دکھائی دے گی.آج صرف ایک جماعت احمد یہ ہے کہ اللہ کے فضل اور رحم کے ساتھ یہ اعلان عام کر سکتی ہے کہ کسی نے اگر حبل اللہ پر اکٹھے ہوتے ہوئے کسی کو دیکھنا ہے تو آئے اور جماعت احمدیہ کا مشاہدہ کرے.تمام دنیا میں 134 ممالک میں پچھلے سال تک تھا اور اب یہ سلسلہ ایک سو چالیس ممالک تک پھیل چکا ہے.تو دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں مختلف مذاہب سے جو پہلے مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے.وہ لوگ مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے، مختلف سیاسی مملکتوں میں بسنے والے یا ان کے باشندے آج ایک ہاتھ پر اس طرح اکٹھے ہو گئے ہیں کہ ایک ملت واحدہ وجود میں آگئی ہے.اگر یہ اللہ کی نعمت کے ساتھ نہیں تھا تو کیسے ممکن تھا.پس وہ خدا کی نعمت دوبارہ نبوت کے طور پر ہم میں اتری ہے اور وہی محمد ی نبوت ہے، وہی اللہ اور رسول کی محبت میں قائم ہونے والی جماعت ہے جسے خدا تعالیٰ نے نبوت کی نعمت سے پھر

Page 395

خطبات طاہر جلد 13 389 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء نوازا ہے، جو دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع ہو چکی ہے، ایک ہی ہاتھ پر اٹھتی ہے ایک ہی ہاتھ پر بیٹھ جاتی ہے، ایک ہی اشارے پر حرکت میں آتی ہے اور ایک ہی آواز پر لبیک کہتی ہے.اگر چہ جواب دینے والوں کی زبانیں مختلف ہیں، ہو سکتا ہے وہ سینکڑوں زبانیں بول رہے ہوں.لیکن دل کی آواز وہی ہے کہ لبیک اللھم لبیک.اے ہمارے اللہ تیرے نام پر جو آواز بلند ہوئی ہے ہم اس کے جواب میں لبیک کہتے ہیں اور لبیک کہتے چلے جائیں گے.پس یہ وہ مضمون ہے، امت واحدہ بنانے والا ، جس کو قرآن کریم کی اس آیت کے حوالے سے میں آپ کو دوبارہ یاد دلاتا ہوں اور یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو مثال دی ہے وہ ایک طرف اللہ کی نعمت کو ہم پر خوب کھول کر بیان کرنے والی ہے.دوسری طرف ہر قسم کے پیش آمدہ خطرات کو دکھانے والی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا حال یہ تھا کہ یعنی محمد مصطفی ﷺ کی نعمت پر اکٹھے ہو جانے والو! تمہارا حال یہ تھا کہ تم آپس میں بٹے ہوئے تھے ، ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے، دل بھی پھٹے ہوئے تھے، قبائل بھی جدا جدا تھے.یہاں تک کہ قریب تھا کہ تم اس آگ میں جا پڑ وجس کے کنارے تک تم پہنچ چکے تھے.باہمی نفرتیں، باہمی اختلافات، باہمی دشمنیاں، ان کی مثال قرآن کریم نے ایک ایسے آگ کے گڑھے سے دی ہے جس کے کنارے پر آپ کھڑے ہوں اور بعید نہ ہو کہ وہ کنارہ منہدم ہو اور اپنے اوپر کھڑے ہونے والوں سمیت جہنم میں جا پڑے.فرمایا خدا نے اپنی نعمت سے تمہیں اس سے بچالیا تمہارے دلوں کو باندھ دیا اور ایک کر دیا اسے یادرکھنا.ایسانہ ہو کہ دوبارہ تم پھر وہی حرکت کرو اور جس خوفناک انجام سے تم بچائے گئے ہو دوبارہ آنکھیں کھولتے ہوئے اس انجام کی طرف آگے بڑھو.یہ وہ تنبیہ ہے جو اس مبارک باد کے ساتھ شامل ہے اور ہمیں چونکہ ابھی بہت لمبا سفر کرنا ہے.بہت عرصہ لگے گا، ایک صدی کی بھی بات نہیں.ہوسکتا ہے پوری دو مزید صدیاں اس کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں لگ جائیں.اس لئے اس ایک بات کو مضبوطی سے پکڑ لیں کہ قرآن پر ہاتھ ڈالنا ہے اور اس طاقت کے ساتھ ڈالنا ہے کہ کبھی وہ ہاتھ پھر قرآن سے جدا نہ ہو اور قرآن پر ہاتھ ڈالنا ہے محمد مصطفی کا دامن پکڑ کر اور آپ کے قدموں کو چھو کر اور آپ سے وابستہ ہو کر اور اس عزم صمیم کے ساتھ کہ سرا الگ ہو جائیں مگر محمد مصطفیٰ کے قدموں سے الگ نہیں ہوں گے.ہاتھ کاٹے جائیں مگر محمد مصطفیٰ کا دامن نہیں چھوڑیں گے.یہ ہے وہ حبل اللہ کو پکڑ لینا جس کے

Page 396

خطبات طاہر جلد 13 390 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994 ء نتیجے میں یہ اجتماعیت کا فیض جو آج بھی آپ دیکھ رہے ہیں، پہلے بھی دیکھتے رہے ہیں، کل بھی اور پرسوں بھی اور میں امید رکھتا ہوں کہ صدیوں تک دیکھتے چلے جائیں گے.یہ فیض آپ کے ساتھ دائمی برکت کے طور پر رہے گا.یہ قدرت ثانیہ بن کر آپ کا ساتھ دے گا اور آپ کو نہیں چھوڑے گا مگر ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ حبل اللہ کو نہ چھوڑنا.حبل اللہ سے چمٹے رہیں اور ہر قربانی پیش کر دیں مگر حبل اللہ سے الگ ہونے کا تصور بھی نہ کریں.آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو حبل اللہ کے ساتھ چمٹے رہنے کی جہاں نصیحت فرمائی وہاں اس کا ایک ایسا حل پیش کیا جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معمولی سی نصیحتوں پر مشتمل دکھائی دیتا ہے.مگر وہی حل ہے جس میں حبل اللہ کے ساتھ چھٹے رہنے کی روح موجود ہے.اس کے بغیر آپ اس نعمت کی حفاظت نہیں کر سکتے.اور وہ حل حضور اکرم یا اللہ نے یہ پیش فرمایا کہ اخلاق حسنہ پر قائم ہو جاؤ.اب بظاہر حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا اخلاق حسنہ سے کوئی ایسا تعلق تو دکھائی نہیں دیتا کہ گویا ایک ہی چیز کے دو نام ہوں.مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے پاک نمونے اور آپ کی پاک نصائح پر جب آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اخلاق حسنہ یعنی وہ اخلاق محمدی ہے جن کی بنیادیں عشق الہی میں گڑی ہوئی ہیں ان کے اخلاق کے بغیر کوئی دنیا کی جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی نہیں رہ سکتی ، ان اخلاق حسنہ کے بغیر کوئی دل آپس میں ملے نہیں رہ سکتے.ان اخلاق حسنہ کے بغیر کوئی ملت ، ملت واحدہ نہیں کہلا سکتی کیونکہ اخلاق حسنہ سے دوری ہی دراصل دلوں کو پھاڑنے کا دوسرا نام ہے اور یہ بنیادی روح ہے جس کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیشہ پیش نظر رکھا اور اسی طریق کے مطابق جماعت صحابہ کی تربیت فرمائی.پس وہی مضمون ہے جو میں گزشتہ چند خطبات سے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اس مضمون کو آج کی دنیا میں غیر معمولی اہمیت ہے جب تک جماعت احمد یہ اخلاق حسنہ کے ذریعے خود باہم محبت کے رشتوں میں مضبوطی کے ساتھ باندھی نہیں جاتی تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کا خیال ہی محض ایک خواب ہے ، ایک دیوانے کی بات ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.پس ان باتوں کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور مضبوطی سے ان باتوں کو پکڑلیں کیونکہ یہ حبل اللہ تک پہنچانے والی باتیں ہیں.یہی وہ باتیں ہیں جن کو مضبوطی سے دل میں بٹھا کر آپ حبل اللہ کا فیض پائیں گے اور آپ کے دل اکٹھے ہوں گے اور باہم مضبوط رشتوں میں باندھے جائیں گے.

Page 397

خطبات طاہر جلد 13 391 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء حضرت اقدس محمد مصطفی صل اللہ چھوٹی چھوٹی، پیاری پیاری باتوں میں نصیحت فرماتے ہیں اور ہر نصیحت کے پیچھے ایک عرفان کا خزانہ ہے.اس پر آپ غور کریں اور روز مرہ کی زندگی میں اس کا آپ اطلاق کر کے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ قوموں کی اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لئے یہ بظاہر چھوٹی دکھائی دینے والی نصیحتیں کتنی عظمت رکھتی ہیں.کوئی زندگی کا ایسا گوشہ نہیں جس پر آنحضرت نے نصیحت نہ فرمائی ہو.نہ گھر کے حالات ایسے ہیں جن پر آپ کی نظر نہ گئی ہو، نہ بازار کے حالات ہے جن پر آپ کی نظر نہ گئی ہو، نہ امن کے حالات ہیں، نہ جنگ کے حالات ہیں.نہ دن کے نہ رات کے، کوئی لمحہ وقت کا ایسا نہیں، کوئی انسانی مصروفیت ایسی نہیں، جس کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نصیحتوں کا تعلق نہ ہو گویا کہ ایسا نور ہے جو انسانی ضروریات کے ہر گوشے پر پڑ رہا ہے، ہر حصے کو منور کر رہا ہے.پس اس پہلو سے ان تمام نصیحتوں پر نظر رکھنا آپ کی اخلاقی قدروں کو قائم کرنے کے لئے اور اعلیٰ سطح پر بلند ر کھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا.تم رستوں میں بیٹھنے سے بچو.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ﷺ ہم وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں اس کے بغیر چارہ نہیں ہے.مراد یہ تھی کہ امراء تو ایسے ہوتے ہوں گے جن کے پاس احاطے ہیں.بعض زمیندار ہیں جن کے پاس ڈیرے ہوتے ہیں، تو غریب بے چارے کہاں جائیں.ان کے لئے تو یہی ممکن ہے کہ بازار میں نکلیں سڑکوں پر کسی جگہ بیٹھ رہیں اور وہیں مجلس لگالیں تو انہوں نے ایک جائز عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ ہے پھر ہم کیا کریں، کہاں جائیں.ہمارے تو گھر بھی چھوٹے چھوٹے.ان میں بھی لوگوں کو نہیں بلا سکتے تو مجلسیں کہاں کریں.حضور اکرمﷺ نے فرمایا جب تم وہاں بیٹھنے پر مجبور اور مصر ہو یعنی مجبوری کو قبول فرمالیا اور فرمایا تم اصرار بھی کر رہے ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دیا کرو.مفت میں نہ بیٹھو اس کی قیمت ادا کرو.انہوں نے عرض کیا کہ راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ ﷺ.تو آپ نے فرمایا نظریں نیچی رکھنا ، دکھ دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، نیک بات کی تلقین کرنا اور بری بات سے روکنا.( بخاری کتاب الاستیذان حدیث نمبر : 5760).اب اگر ایسے لوگ بازاروں میں بیٹھے ہوں اور رستے میں بیٹھے ہوں تو ان رستوں کے لئے تو

Page 398

خطبات طاہر جلد 13 392 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء صلى زینت بن جائیں گے، ان رستوں کی رونق بن جائیں گے، اس کے ذریعے راستے کشادہ ہو جائیں گے بجائے اس کے کہ یہ لوگ تنگی کا موجب بنیں اور راہ کی ٹھو کر بنیں یہ راہ کی ٹھوکروں سے بچانے والے بن جائیں گے.پس جہاں بھی آپ جاتے ہیں جس بازار سے بھی نکلتے ہیں وہاں آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھا کریں اس سلیقے سے جائیں کہ آپ کی ذات سے کسی کو دکھ نہ پہنچے.آپ کی نگا ہیں ان جگہوں پر نہ پڑیں جہاں نہیں پڑنی چاہئیں.آپ سلام کا جواب دیں اور ایک دوسری جگہ فرمایا افشوا السلام ( ترندی کتاب صفۃ القیامۃ ) سلام کو خوب رواج دو.سلام کے جواب دینے کا جو یہاں ذکر فرمایا ہے اور سلام کرنے کی نصیحت نہیں فرمائی اس میں ایک حکمت ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو آداب ہمیں سکھائے ہیں ان کی رو سے چھوٹا جب بڑے کو دیکھتا ہے تو پہلے چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے.یعنی بیٹھے رہنے والے کا کام نہیں ہے کہ وہ ہر چلتے پھرتے کو سلام کرتا جائے بلکہ چلنے والا بیٹھے رہنے والے کو جو کسی جگہ بیٹھا ہو اس جگہ وہاں سے گزرتے ہوئے حق ادا کرے اور اس کو سلام کرے.( بخاری کتاب الاستیذان حدیث نمبر : 5764) پس آنحضور ﷺ کی ذات میں کہیں ادنی سا بھی تضاد دکھائی نہیں دیتا.آپ کی نصیحتوں میں بھی کہیں آپس میں کوئی تصادم نہیں ہے.پس یہاں آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ رستے کا حق ادا کرو اور اس طرح ادا کرو کہ جب تم بیٹھے ہو تو چلتے پھرتے لوگوں کو سلام کرتے رہو.فرمایا سلام کا جواب دو کیونکہ یہ چلنے والوں کا کام ہے اور انہیں کو نصیحت ہے کہ وہ جب کسی مجلس کے پاس سے گزریں تو اس کو سلام کہہ کر گزریں.نیک بات کی تلقین کرو.وہاں بیٹھ کر بے ہودہ سرائی نہ کرو.بعض دفعہ یہ مجلسیں لگتی ہیں وہ مجلسیں ضروری نہیں کہ سڑک کے کنارے پر لگی ہوں.ہوٹلوں میں بھی لگتی ہیں، چائے کی دوکانوں میں بھی لگتی ہیں، حلوائیوں کی دوکانوں پر بھی لگتی ہیں.ان کے سامنے کھڑے ہو کر لوگ گئیں مار رہے ہوتے ہیں.مگر جہاں جہاں بھی یہ مجلسیں لگتی ہیں بالعموم آنحضور ﷺ کی نصیحت سے عاری نظر آتی ہیں.نہ وہاں نیکی کی باتوں کی تلقین ہو رہی ہے، نہ وہاں کسی کے سلام کا جواب دینے کی پروا ہوتی ہے، نہ نظروں کو ادب سکھایا جاتا ہے ، نہ بری باتوں سے روکا جاتا ہے.پس یہ وہ اسلوب ہیں جن کو امت واحدہ جب اختیار کرتی ہے تو جمعیت میں مزید طاقت عطا ہوتی ہے.آپس کے رشتے پہلے سے بڑھ کر مضبوطی سے باندھے جاتے

Page 399

خطبات طاہر جلد 13 393 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء ہیں.پس ان نصیحتوں کو ہر بازار میں اپنے ساتھ اپنی حرز جان بنا کر ساتھ لے جایا کریں اور ان پر عمل کیا کریں.ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو بخاری سے لی گئی ہے اور پہلی روایت بھی بخاری سے لی گئی تھی.ایک آدمی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کون سا اسلام افضل اور بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا کھانا کھلانا اور ہر ملنے والے کو خواہ جان پہچان ہو یا نہ ہو صلى الله سلام کہنا.( بخاری کتاب الاستیذان ،حدیث نمبر : 5767) آنحضور ﷺ سے ایک ہی سوال جب مختلف وقتوں میں کیا جاتا تھا اور سوال کرنے والا ایک خاص کر دار کا مالک ہوتا تھا تو آنحضرت ﷺ اس ایک ہی سوال کے مختلف جواب دیا کرتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے کلام میں کوئی تضاد ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ پوچھنے والے کو اس کے موقع اور محل کے مطابق کا جواب دیا جائے.ایک ایسا آدمی آیا جو اپنی ماں سے حسن سلوک نہیں کرتا تھا یا اس کا حق ادا نہیں کرتا تھا.اس کو فرمایا کہ ماں کی خدمت سب سے بڑا جہاد ہے اور ایک اور موقع پر جہاد کی دوسری تعریف فرما دی.چنانچہ حسب حال نصیحت فرمانا بھی سنت ہے.جب آپ نیک نصیحت کریں گے اور بری باتوں سے روکیں گے تو اس وقت بھی اس طر ز محمد مصطفی ﷺ کو پیش نظر رکھیں کہ یونہی آنکھیں بند کر کے ہر اچھی بات کرتے چلے جانا، ہر بری بات سے روکنا یہ مراد نہیں ہے.موقع اور محل دیکھ کر ایسی نصیحت کریں جو جس کو سنائی جائے اس سے تعلق رکھتی ہو اور اسے فائدہ پہنچانے والی ہو.پس آنحضور ﷺ نے فرمایا کھانا کھلانا سب سے افضل کام ہے حالانکہ بہت سی دوسری احادیث میں مختلف کام ہیں جو افضل بتائے گئے ہیں اور ایک افضل کا مطلب ہے جو سب سے اچھا ہو تو دوسرا افضل اس سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے.یہ وہ سوال ہے جس کا میں آپ کو جواب سمجھا رہا ہوں.ہر شخص کے نقطہ نگاہ سے اس کے حالات پر چسپاں ہونے والا افضل اپنے معنے بدلتا رہتا ہے.ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا شخص آپ کے پیش نظر ہو جو کنجوس ہو ، جو مہمان نوازی میں کمزور ہو تو اس کو یہ نصیحت فرمائی کہ سب سے افضل اسلام یہ ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلایا کرو اور پھر دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ ہر ملنے والے کو خواہ جان پہچان نہ ہو سلام کہا کرو.یہ بھی میرے نزدیک اسی مزاج کے ساتھ تعلق رکھنے والی بات ہے.جو شخص فطرتا خسیس ہو اور لوگوں تک اپنا فیض آگے بڑھ کر نہ پہنچائے وہ بے وجہ ہر شخص کو سلام

Page 400

خطبات طاہر جلد 13 394 خطبه جمعه فرموده 27 رمئی 1994 ء بھی نہیں کرتا.اس سے بڑا اس کے فائدے کا آدمی نظر آ جائے تو اسے جھک کر بھی سلام کرے گا.اس کے سوا ہر آیا گیا اس کے لئے اجنبی ہے اور بے معنی ہے.پس جس شخص کو آپ نصیحت فرمار ہے ہیں اس کی بنیادی کمزوری کو پیش نظر رکھا ہے اور فرمایا کہ تم کھانا کھلانے میں کمزور ہو یہ کہا تو نہیں مگر مراد یہی تھی تم کھانا کھلایا کرو یہ بہت اچھا کام ہے اور اسی طرح سلام میں نہ صرف پہل کرو بلکہ ہر ایک کو سلام کیا کرو.آنحضور ﷺ سے روایت ہے یہ بھی بخاری سے لی گئی ہے.حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اس غرض سے نہ اٹھائے کہ تا وہ خود اس جگہ بیٹھے.وسعت قلبی سے کام لو اور کھل کر بیٹھو.چنانچہ ابن عمر کا طریق یہی تھا کہ جب کوئی آدمی آپ کو جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے.( بخاری کتاب الاستیذان: 5799) اس حدیث کے دو حصے ہیں.پہلا حصہ حدیث کہلاتا ہے دوسرا حصہ اثر ہے.پہلے حصے میں آنحضرت ﷺ کی نصیحت ہے دوسرے میں صحابی نے جو نصیحت سنی اس سے اپنے لئے جو اس نے کردار چن لیا اور جو طریق اختیار کر لیا اس کا ذکر ہے.پہلا واجب التعمیل ہے.ہمارا فرض ہے کہ من و عن اس پر عمل کریں.دوسرا واجب التعمیل نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس صحابی نے غلط سمجھا ہو اور اس کے بعد جو میں حدیث آپ کے سامنے رکھوں گا اس سے پتا چلتا ہے کہ اس صحابی نے اس حدیث کا مفہوم صحیح نہیں سمجھا.یعنی احتیاط میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی آگے بڑھ گئے.لیکن آنحضرت ﷺے جنہوں نے نصیحت فرمائی آپ اس نصیحت کا مضمون سب سے بہتر سمجھتے ہیں اسی لئے میں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اس کے ساتھ ایک دوسری حدیث بھی رکھ دی ہے.پہلی حدیث کا بھی جو پہلا حصہ ہے یعنی جس کو میں حدیث کہتا ہوں مراد یہ ہے کہ جب آپ کسی جگہ جاتے ہیں تو کسی کو یہ نہ کہیں کہ تم اٹھ جاؤ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو.مرتبے میں چھوٹا ہو یا بڑا ہو یا عمر میں چھوٹا ہو یا بڑا ہو کسی کو یہ کہہ کر جگہ خالی کروانا کہ میں آیا ہوں تھوڑی سی جگہ خالی کر دو.یہ بدخلقی ہے اور آنحضرت میلہ اخلاق کے جس بلند ترین مقام پر فائز تھے آپ اسی مقام کی

Page 401

خطبات طاہر جلد 13 395 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء باتیں امت کو سکھا رہے ہیں.فرماتے ہیں مجھ سے اخلاق سیکھو، مجھ سے تعلق باندھا ہے، میں حبل اللہ ہوں تم نے اللہ سے تعلق باندھنا ہے تو میرے وسیلے سے باندھو گے اور یہ انداز ہیں وہ تعلق باندھنے کے کہ جیسے میں کرتا ہوں ویسا ہی تم کرو.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی جگہ جانے پر کسی کو اشارہ یا کنایہ یا لفظا اپنے مقام سے نہیں اٹھایا.یہاں یہ بات سمجھانی بھی ضروری ہے بعض دفعہ لوگ منہ سے نہیں کہتے مگر انداز بتا رہا ہوتا ہے کہ جگہ خالی کرو.وہ دیکھتے اس طرح ہیں کہ اور تمہیں کیا چاہئے میں آ گیا ہوں.اٹھو اور اپنی جگہیں پیش کر دو.چاہے یہ زبان سے کہا جائے یا عمل سے کیا جائے یہ دونوں چیزیں اس بلند اخلاق سے گری ہوئی ہیں جس پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہ فائز تھے مگر اس کا یہ مطلب نکالنا کہ اگر کوئی اپنی جگہ خالی کرے تو وہاں نہ بیٹھو یہ درست نہیں ہے اور یہ حصہ اثر ہے یعنی صحابی کی بات ہے ، آنحضرت ﷺ کا طریق نہیں تھا، ابن عمر کا طریق لکھا ہوا ہے کہ جب کوئی آپ کو جگہ دینے کے لئے اٹھتا تو آپ کہتے تھے نہیں میں نہیں بیٹھوں گا وہاں.آنحضرت ﷺ کا طریق کیا تھا.حضرت وائلہ بن خطاب سے روایت ہے کہ آنحضرت معہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا.حضور اللہ اسے جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے ہٹ گئے.کیسے بلند اخلاق ہیں جہاں آنے والوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ تم نے اٹھانا نہیں ہے.وہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر بیٹھا رہنے والا تن کر بیٹھا رہے کہ آنے والے کو نصیحت ہے کہ نہیں اٹھانا تو ہم کیوں اٹھیں اپنی جگہ سے.محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کون معزز ہوسکتا تھا ، ہوسکتا ہے یا ہو سکے گا.ایک ہی ہیں جو کائنات میں سب سے معزز تھے اور ہمیشہ معزز رہیں گے.آپ کا دستور یہ تھا کہ مسجد میں تشریف فرما ہیں.آنے والا آیا ہے تو اپنی جگہ سے کچھ سرک گئے تا کہ اس کے لئے جگہ بن جائے.وہ شخص کہنے لگا حضور! جگہ بہت ہے آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا ایک مسلمان کا حق ہے کہ اس کے لئے اس کا بھائی سمٹ کر بیٹھے اور اسے جگہ دے.(بہیقی فی شعب الایمان - مشکوۃ باب القیام ) پس آنے والے کو اور نصیحت ہے، بیٹھنے والے کو اور نصیحت ہے اور دونوں طرف Cushoning ہے.اگر کسی ایک سے بھی اخلاقی غلطی ہو تب بھی ٹھو کر نہیں لگے گی.دونوں

Page 402

خطبات طاہر جلد 13 396 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء طرف ایسی دبیز چیزیں ہیں جو Shock proof ہیں.صدمہ کو ختم کرنے والے اخلاق ہیں.پس اگر ایک سے ٹھوکر لگنے کا خطرہ بھی ہو تو دوسرا اپنے اوپر اس کو اس نرمی سے لے لیتا ہے کہ اس صلى الله سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.پس وہ جو دستور تھا ابن عمر کا، وہ ان کا اپنا ایک انداز تھا.رسول اللہ کو کی نصیحت سنی کہ دل میں اس زور سے گڑ گئی ہے کہ آپ وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اشارہ یا کنایہ بھی میں اس مضمون کے کسی پہلو پر عمل پیرا نہ ہو سکوں.پس اس بات کو مبالغہ کی حد تک قبول کیا اور جب کوئی آپ کے لئے جگہ خالی کرتا تھا آپ وہاں بیٹھنے سے انکار کر دیتے تھے.یہی واقعہ محمد رسول اللہ ہے سے بھی ہوا آنے والے نے آپ کے ادب میں انکار کیا حضور نے فرمایا.نہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ آنے والے کے لئے کچھ جگہ بنائے کچھ سمٹے.یہاں ملاقاتیں جب ہوتی ہیں تو بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کرسیاں کم ہوتی ہیں آنے والے زیادہ ہوتے ہیں اور بعض دفعہ بچے بھی کرسیوں پر ڈٹے بیٹھے رہتے ہیں.ان کے بڑے کھڑے ہیں اور ان کو پرواہ نہیں ہوتی اور اس عمر میں اگر یہ نصیحت ان کو دل نشین نہ کرائی گئی تو بڑے ہو کر وہ بد اخلاق لوگ بنیں گے.یہ درست ہے کہ ماں باپ خود بچوں کو یہ کہہ کر اٹھو اٹھو میرے لئے جگہ خالی کرو.ان کی عزت نفس کو کچلنا نہیں چاہئے مگر جب دوسرے آتے ہیں تو اس وقت نصیحت کر کے ان کو سمجھانا چاہئے کہ اپنے لئے جگہ نہ مانگیں، دوسروں کو جگہ دینے کے لئے آمادہ تو کریں یہاں تک کہ یہ ان کی فطرت ثانیہ بن جائے اور ہمارے سب بچوں کو یہ بنیادی محمد رسول اللہ ﷺ کا خلق ایسا یا د ہو جائے کہ ان کی رگ و پے میں سرایت کر جائے ، ان کی فطرت ثانیہ بن جائے.ہر شخص آنے والا بھی محمد رسول اللہ اللہ کے خلق کا مظاہرہ کر رہا ہو اور بیٹھے والا بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے خلق کا مظاہرہ کر رہا ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں جو نقشہ ابھرنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو چکے ہیں مگر آپ کی سیرت ہم سے کبھی جدا نہ ہو اور اس کائنات کے ہر جو کو آپ کی سیرت بھر دے، ہر اندھیرے کو آپ کی سیرت کا نور روشنی میں تبدیل کر دے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے زمانہ کی تاریکیاں اجالوں میں تبدیل کی جائیں گی.اس کے بغیر اور کوئی رستہ نہیں ہے.اس لئے چھوٹی چھوٹی نصیحتوں کو معمولی نہ سمجھیں.انہی سے آپ نے کائنات میں رنگ بھرنے ہیں ، خوشبوئیں عطا

Page 403

خطبات طاہر جلد 13 397 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء کرنی ہیں.محمد مصطفی ﷺ کا حسن ہے جس نے در حقیقت اس کا ئنات کے بدصورت چہروں کو لا زوال حسن میں تبدیل کر دینا ہے.آنحضور ﷺ سے حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میری سنت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میزبان اعزاز و تکریم کے ارادے سے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک الوداع کہنے آئے.(سنن ابن ماجہ ابواب الاطعمہ باب الضیافتہ ).اب آنحضرت ﷺ کا ایک غلام اس نیت سے اس عادت کو اپنا تا ہے تو اس کو پتا بھی نہیں کہ اس چھوٹی سی بات کا بعض دفعہ دوسروں پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے.مختلف مہمان تشریف لاتے ہیں (یعنی باہر سے ملنے کے لئے مختلف ملکوں سے ) تو جہاں تک توفیق ہے میں آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت پر عمل کرتا ہوں اگر بعض دوسرے مہمانوں کی مجبوریوں سے، کیونکہ ان کے آپس میں بھی حق ہوتے ہیں، میں باہر تک نہ جاسکوں تو کم سے کم دفتر کے دروازے تک آ کر ان کو رخصت کرتا ہوں اور مجھے یاد ہے ایک پاکستان کے بہت معزز خاندان کے دوست تشریف لائے ان کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں تو کوئی تکلف نہیں تھا، کوئی یہ خیال نہیں تھا کہ خاص طور پر ان کو مرعوب کروں گا.جیسے عادت تھی ان کو باہر تک کار کے دروازے تک چھوڑنے گیا.تو وہاں سے پتا چلا ایک احمدی نے لکھا کہ وہ جگہ جگہ ہر مجلس میں یہی تذکرے کر رہے ہیں کہ حیرت انگیز اخلاق ہیں اور میں اپنی جگہ شرمندہ بھی ہوا اور میں نے سوچا کہ اتنی معمولی سی بات ، جو میر اخلق ہے ہی نہیں، یہ تو میرے آقا و مولی محمد رسول اللہ کا خلق تھا میں نے تو عاریتا مانگا ہوا تھا اور میری نیکی کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں.یہ وہ خلق ہے جو ایک خلق ایک موقع پر ، ایک چھوٹے سے اظہار میں دلوں کو جیت لینے والا ثابت ہوا ہے.روز مرہ کی زندگی میں آپ اس خلق کو اپنا ئیں تو دیکھیں کتنے دل جیتے جائیں گے لیکن خلق ایک نہیں بلکہ ہزار ہا خلق ہیں.زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے خلق ہیں جو حمد مصطفی علیہ کے فیض عام نے ہم تک پہنچائے اور ایک سمندر فیوض کا جاری فرما دیا ہے.ان اخلاق کو اپنی زندگیوں میں اپنالیں پھر دیکھیں آپ کے اندر کتنی عظیم انقلابی طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں.حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جب

Page 404

خطبات طاہر جلد 13 398 خطبه جمعه فرموده 27 رمئی 1994 ء تم تین ہو تو تم میں سے دوا لگ سرگوشی نہ کریں جب تک کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نہ مل جاؤ کیونکہ اس طرح تیسرے آدمی کو رنج ہو سکتا ہے.(مسلم کتاب السلام باب تحریم مناجاة ).مراد یہ ہے کہ پتا نہیں وہ کیا بات کر گئے ہیں.اب یہ جو خلق ہے اس کا خاص طور پر ایسے ملکوں سے گہرا تعلق ہو جاتا ہے جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں.مختلف قومیں آباد ہیں، اپنی اپنی زبانیں لے کر آ گئیں.اب یہ تو ہر ایک کے لئے ممکن نہیں کہ ہر ایک دوسری زبان کو سیکھے اور اپنی بات کے ایسی زبانوں میں ترجمے کرتا چلا جائے کہ مجلس میں بیٹھا ہوا ہر شخص اس کو سمجھ سکے.یہ مراد نہیں ہے اول مراد یہ ہے کہ اگر ایسی مجلس میں ہو جہاں ایک ہی زبان بولی اور مجھی جاتی ہے تو کانوں میں سرگوشی نہ کرو اور دوسروں کی موجودگی میں ان سے الگ چھپ کر گویا راز کی بات نہ کرو.دوسری بات اس میں یہ ہے کہ اگر ایسی زبان بولنے والے ہیں جو تم بول سکتے ہو اگر چہ تمہاری زبان نہیں اور ایسا شخص بھی موجود ہو جو تمہاری زبان جانتا ہے تو جب آپ ایسے شخص سے اپنی زبان میں بات کریں گے تو عملاً یہ سرگوشی کے قائم مقام ہو جائے گی اور وہ شخص جو آپ کی زبان نہیں سمجھتا تیرا ہے اس کے لئے تکلیف کا موجب بنے گی.اسی لئے اکثر اوقات میں احمد یوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس ملک میں ہو اس کی زبان کو اتنی اہمیت دو کہ اگر تم سو بیٹھے ہو اور ایک بھی اس زبان کا بولنے والا ہو جو تمہاری زبان نہیں سمجھتا، تو اس حدیث کی نصیحت کا وہاں بھی اطلاق ہو گا.آپس میں جب تم باتیں کرو گے وہ ایک شخص یہ سمجھے گا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے گویا میں اس مجلس کا حصہ نہیں ہوں اور اس کا اس کے اوپر بہت اثر پڑ سکتا ہے یہاں تک کہ بعض لوگ اسی وجہ سے پھر مذہب سے بدظن ہو کر دور ہٹ جاتے ہیں.چنانچہ انگلستان ہی میں مجھے پتا چلا کہ دو خوا تیں تھیں جو کسی زمانے میں بہت ہی مخلص احمدی تھیں اور اس کے بعد ان کا رابطہ کٹ گیا.جب میں انگلستان آیا تو مجھے کسی نے بتایا کو وہ دو خواتین تھیں وہ ابھی تک زندہ ہیں اور ان کا رابطہ اس وجہ سے کٹا کہ وہ مجلسوں میں آتی تھیں تو پاکستانی خواتین آپس میں اردو میں یا پنجابی میں باتیں کرتی رہتی تھیں اور وہ جن کا ملک ہے وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن بیٹھی رہتی تھیں.یہاں تک کہ وہ جماعت سے بدظن ہو گئیں اور باوجود اس کے کہ پہلے ابتداء میں وہ بڑی قربانی کرنے والی تھیں، چندے بھی بہت دیا کرتی تھیں وہ قطع تعلق کر کے ایک طرف بیٹھ رہیں.جب مجھے پتا چلا تو ان کی طرف میں نے معذرت کا پیغام بھجوایا.ان کی دل جوائی کی باتیں کیں اور ان سے کہا کہ مذہب تو اپنی جگہ ہے کسی کی بداخلاقی

Page 405

خطبات طاہر جلد 13 399 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994 ء کی وجہ سے آپ کیوں خود کشی کرتی ہیں، اپنا نقصان کیوں اٹھاتی ہیں.اس نے بڑا غلط کام کیا ہے لیکن یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اپنا تعلق محمد رسول اللہ اور اسلام سے کاٹ لیں.چنانچہ اللہ کے فضل کے ساتھ اس نصیحت نے اثر دکھایا اور ایک خاتون کا پتا چلا ان کو میں نے بہت لجاجت کے ساتھ بلایا کہ ہمارے گھر تشریف لائیں، ہمارے ساتھ کھانا کھا ئیں اور لجنہ کو پیغام دیا کہ یہ جب ملا کریں تو ان سے عزت کے ساتھ پیش آیا کریں.دو تین چھوٹی چھوٹی باتوں سے ان کی کایا پلٹ گئی، چندوں میں غیر معمولی طور پر نمایاں ہو گئیں.حالانکہ خطرہ یہ تھا، اطلاع یہ تھی کہ ایک موقع پر وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ دوبارہ عیسائیت میں مدغم ہو جائیں اور اسلام کو ترک ہی کر دیں کیونکہ وہ مجھتی تھیں کہ اگر کسی مذہب میں عام روز مرہ کے اخلاق بھی درست نہیں ہیں تو پھر اس نے ہماری راہنمائی کیا کرنی ہے؟ تو آنحضرت ﷺ کی یہ چھوٹی چھوٹی نصیحتیں ہمارے عمل کرنے کے لحاظ سے چھوٹی ہیں، اپنے مرتبے اور مقام اور رفعتوں کے لحاظ سے چھوٹی نہیں.ان کی مثال ان دو کلموں کی سی ہے جن کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ.( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر : 6188) کہ دو کلے ہیں بالکل چھوٹے چھوٹے زبان پر ہلکے ہیں لیکن وزن میں بہت بھاری ہیں اور اللہ کو بہت ہی پیارے ہیں.تو چھوٹی نصیحت ان معنوں میں کہ اس نصیحت پر عمل کرنا یا ان نصیحتوں پر عمل کرنا اتنا آسان ہے کہ آدمی جب عمل کرتا ہے تو حیرت سے دیکھتا ہے کہ یہ نیکی کیسے ہو گئی یہ تو معمولی سی بات ہے.لیکن وزن میں یہ باتیں اتنی گہری، اتنی وزنی اور اتنی ٹھوس ہیں کہ قوموں کی تقدیریں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں.پس اپنے آپ کو ایک با اخلاق جماعت بنائیں اور بااخلاق جماعت بننے کے لئے با اخلاق گھر بنانے ضروری ہیں.یہ ناممکن ہے کہ بازاروں میں تو آپ خلیق ہوں اور گھروں میں بدتمیز اور بداخلاق ہوں اس سے تو میں نہیں بن سکتیں یہ ایک دھوکے کی زندگی ہے.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں مثلاً بعض عورتوں نے مجھے لکھا کہ ہمارے خاوند بڑے ہر دلعزیز ہیں.باہر بہت اچھی باتیں کرتے ہیں.لوگ ان کے بڑے قائل اور ان کے گرویدہ اور گھر آ کر ایسے بداخلاق ہو جاتے ہیں کہ مجھ سے اور بچوں سے تلخی کے سوا کوئی بات ہی نہیں نکلتی.یہ خلق محمدی نہیں ہے یہ تو خلق منافقت ہے خلق محمدی تو

Page 406

خطبات طاہر جلد 13 400 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء وہ ہے جو اندھیروں میں بھی اسی طرح روشن ہو جیسے روشنی میں روشن تر ہو جاتا ہے اور جگہ کے فرق سے اس کے اندر کوئی فرق نہیں پڑتا سوائے اس کے کہ وقت کے تقاضوں سے بعض دفعہ پہلے سے بڑھ کر وہ جوش دکھاتا ہے.پس وہی خلیق ہے جو اپنے گھر میں خلیق ہو سبھی آنحضرت ﷺ نے اخلاق کا سفر گھر سے شروع کرنے کی تلقین فرمائی ہے.آنحضور ﷺ فرماتے ہیں خیر کم خیر کم لاھلہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو.وانا خیر کم لاهلی (ترندی کتاب المناقب ) اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہوں.آنحضرت ﷺ کے خیر کا سفر گھر سے شروع ہوتا ہے لیکن گھر پر ختم نہیں ہو جاتا گھر سے شروع ہوتا ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے، دوسروں کے گھروں تک فیض پہنچاتا ہے، تمام عالم آپ سے فیض یاب ہو جاتا ہے.پس اپنے گھروں میں اپنے اخلاق درست کریں تو پھر آپ حقیقت میں بچے طور پر خلیق کہلا سکتے ہیں.با اخلاق انسان کہلا سکتے ہیں اور اس کے بغیر آپ دنیا میں تبدیلی نہیں کر سکتے.میں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ گھر میں بداخلاقی کے بہت سے ایسے بدنتائج نکلتے ہیں جو نسلوں کو تباہ کر سکتے ہیں.باہر کی بد اخلاقی وقتی طور پر آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے، آپ کے دین کو نقصان پہنچاسکتی ہے لیکن بات آئی گئی ہوگئی.لیکن جو بد اخلاقی آپ گھر میں کرتے ہیں وہاں اپنی نسلوں کو بداخلاق بنا رہے ہوتے ہیں.ایسی نسلیں پیچھے چھوڑ کر جارہے ہوتے ہیں جو سارے ماحول میں بدخلقیوں کے زہر گھلا دیتی ہیں اور پھر نسلاً بعد نسل آپ کی بداخلاقیوں کو آگے بڑھاتی چلی جاتی ہیں کیونکہ بدخلق ماں باپ کے بچے بسا اوقات، الا ماشاء اللہ سب کے سب بدخلق نکلتے ہیں اور جو شخص اپنے گھر میں اپنے باپ کو گندی زبان استعمال کرتے دیکھتا ہے وہ خود بھی ویسی ہی گندی زبان پھر دوسروں کے لئے استعمال کرتا ہے اور بعض دفعہ وہ اپنے باپ کے لئے بھی وہ زبان استعمال کرتا ہے مگر دل میں کرتا ہے.بہت سے ایسے نفسیاتی مریض میرے پاس آئے ہیں مثلاً ابھی کچھ عرصہ پہلے انگلستان میں ایک غیر مسلم خاتون تھیں بہت شدید نفسیاتی مرض میں مبتلا تھیں میرے پاس تشریف لائیں کہ میں تو سب ڈاکٹروں کے پاس پھر چکی ہوں میرا کوئی علاج نہیں اور میرا دل چاہتا ہے کہ خود کشی کر کے اپنے آپ کو ختم کرلوں.میں نے کہا کیا بیماری ہے آپ کو.کہنے لگیں کہ بڑے بُرے خیالات دل سے اٹھتے

Page 407

خطبات طاہر جلد 13 401 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء ہیں.ان کی طرز سے میں سمجھا کہ برے خیال سے کوئی اور مراد ہے.میں نے کہا خدا تعالیٰ کے متعلق آپ دل میں بدزبانی کرتی ہیں انہوں نے کہا ہاں یہی بات ہے آپ نے بالکل صحیح بات پکڑی ہے.میں نے کہا کیا اس سے پہلے آپ اپنے ماں باپ یا خاوند کے خلاف ایسے ہی جذبات رکھتی تھیں اور ان کو دبا لیا کرتی تھیں.ان کا چہرہ کھل گیا جیسے میں ان کے دل کے راز پڑھ کر جس طرح کتاب سنائی جاتی ہے وہ سنا رہا ہوں.انہوں نے کہا یہی تو بات ہے جو کسی کو پتا نہیں چلتی بالکل اسی طرح واقعہ ہوا ہے.میں نے کہا اس پر آپ نے اس کو دبایا اور آپ خوف زدہ ہوئیں اور آپ نے کہا دیکھو میرے باپ کا مقام کیا ہے اور میں اس کے متعلق کیا لفظ سوچ رہی ہوں اور ڈر گئیں اور پھر ایک خوف دوسرے خوف میں تبدیل ہونے لگا.پھر آپ کو اسی سوچ میں خیال آیا کہ اگر میں اللہ کے متعلق ایسا کلمہ کہہ دوں تو پھر کیا ہو گا.تو یہ آپ کا خوف ہے جو آپ کو ڈرا رہا ہے.وہ بدی خدا کے متعلق آپ کے دل سے نہیں پھوٹ رہی.اس لئے آپ اس بات کو بھول جائیں کہ آپ گنہگار ہیں.اصل میں اس گناہ کی جو کنہ ہے، آغاز ہے وہ نیکی سے شروع ہو رہا ہے اور خوف زدہ ہو کر آپ کو پتا نہیں کہ آپ کیا حرکت کر رہی ہیں اور کس دباؤ کے نیچے ہیں.ان کو میں نے پیار سے سمجھایا اور میں نے کہا کہ آپ مسلمان تو نہیں لیکن آنحضرت ﷺ کی ایک نصیحت ہے جو شاید آپ کے دل کو تسلی دے سکے.آپ نے فرمایا میری امت کے ان خیالات کے گناہ اٹھا دئے گئے ہیں جو مجبورا ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں مگر ان پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا ، بے اختیاری کی باتیں ہیں.میں نے کہا دیکھو ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی یا اللہ نے چودہ سو سال پہلے ایسے تمام نفسیاتی مریضوں کا علاج بھی بیان فرما دیا.اس کا حل پیش کر دیا.میری یہ باتیں سن کر ان کو اتنا اطمینان نصیب ہوا کہ انہوں نے کہا کہ آج تک نہ کبھی کسی ڈاکٹر سے یہ بات مجھے ملی نہ کسی بزرگ سے یہ بات سمجھ آئی.آج پہلی دفعہ میرے دل کو ٹھنڈ پڑی ہے ورنہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں خود کشی کر کے مر جاؤں اور بعینہ یہی بات تھی.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نصائح زندگی کے ہر حصے پر چھائی ہوئی ہیں.ہر نفسیاتی بیماری سے تعلق رکھتی ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان باتوں میں بھی جو دلوں میں پوشیدہ ہیں محمد رسول اللہ ﷺ پہلے ہی جواب دے رہے ہیں گویا تمام دنیا میں لوگوں کے دلوں پر نظر ہے حالانکہ عالم الغیب نہیں مگر عالم الغیب سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ اس سے ایک روشنی پائی ہے اور وہ روشنی تمام

Page 408

خطبات طاہر جلد 13 402 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء انسانوں کے دلوں تک سرایت کر جاتی ہے.پس حضوراکرمﷺ کی نصیحتوں کو بڑی مضبوطی سے تھام لیں.یہی حبل اللہ ہے حقیقت میں.اسے پکڑ لیں تو پھر کبھی منتشر نہیں ہوں گے.فرماتے ہیں دیکھو جب تیسرا آدمی بیٹھا ہو تو ایسی زبان میں بات نہ کیا کرو جس سے اس کے لئے ٹھوکر کا سامان ہو وہ سمجھے کہ مجھے الگ کر دیا گیا ہے اور دل میں رنجش محسوس کرے.66 آنحضور ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا یہ حضرت ابوذر کی روایت ہے ،مسلم کتاب البر سے لی گئی ہے معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو.نیکی نیکی ہی ہوتی ہے چاہے تھوڑی ہی ہو.امرِ واقعہ یہ ہے کہ کہتے ہیں.چوری چوری ہی ہوتی ہے.پنجابی میں کہتے ہیں ” لکھ دی وہ چوری تے لکھ دی وی چوری‘ لاکھ چر او تب بھی چوری لکھ چرا ؤ تب بھی چوری.چوری چوری ہی ہے.نیکی کا بھی یہی حال ہے نیکی کا ایک ازلی پیوند خدا تعالیٰ کی ذات سے ہے.جس نیکی سے بھی آپ پیوند لگا ئیں گے آپ کا تعلق خدا تعالیٰ سے قائم کرنے والی ہو گی.اسی لئے آنحضور فرماتے ہیں اخلاقی تعلیمات کو معمولی نہ سمجھو.یہ نیکیاں ہیں.ان کو اہمیت دو.یہاں تک فرمایا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی تو ایک نیکی ہے اور کچھ نہیں ہوتا تو ہنس کر بات کر لیا کرو.(مسلم کتاب البر والصلۃ ، باب استجاب طلاقته الوجه عند اللقاء) آج کل کے زمانے میں بعض لوگ بڑے فخر سے نئی تہذیب کا یہ محاورہ پیش کرتے ہیں کہ مسکرا کے ملو تمہیں اس کی کوئی قیمت نہیں دینی پڑتی.آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمدمصطفی امی ہمیں یہ نصیحت فرما چکے ہیں کہ خندہ پیشانی سے ہی پیش آ جاؤ یہ مراد نہیں کہ یہی کافی ہے.موجودہ نصیحت کہ مسکرا کر ملو تمہیں اس کی کوئی قیمت نہیں دینی پڑتی.ایک سرسری اور محض ایک مصنوعی سی نصیحت ہے.اس میں گہرائی نہیں ہے.اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جہاں پیسے دینے پڑیں وہاں بے شک نیکی نہ کرو کیونکہ دلیل یہ قائم کی گئی ہے کہ دوسرے سے مسکرا کر پیش آؤ کیونکہ تمہیں مسکراہٹ کی قیمت نہیں دینی پڑتی.بصورت دیگر اگر قیمت دینی بھی پڑے تو پھر بے شک نہ مسکراؤ.اسلامی تعلیم تو بہت گہری ہے اور اس سے بہت زیادہ ہے.مسکراؤ بھی اور اپنے پہلے سے دو بھی اور قربانیاں بھی کرو.یہ اسلامی تعلیم ہے مگر اگر کسی وجہ سے تم اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کرو کہ خندہ پیشانی سے بھائی سے پیش آؤ.صلى الله

Page 409

خطبات طاہر جلد 13 403 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء آنحضرت ﷺ نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا یہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی بات ہو رہی ہے اس ضمن میں میں حوالہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کوئی شخص جب ہماری مسجد یا بازار سے گزرے تو اپنے نیزے کی انی کو پکڑلے ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو لگ جائے.(سنن ابوداؤد کتاب الجہاد باب في النبل يدخل في المسجد ) یعنی اپنی چیزوں سے دوسروں کی حفاظت کرنا تمہارا فرض ہے اور اگر بازار میں ہتھیار لے کر جارہے ہو تو اپنا ہا تھ اس پر رکھوتا کہ اگر ٹھوکر لگے اور صدمے سے تم اتفاقا گر جاؤ تو تم زخمی ہو، تمہارا بھائی زخمی نہ ہو.نیزے کے پھل پر ہاتھ رکھنے میں یہ تعلیم ہے ورنہ اتفاقا ٹھوک لگتی ہے اور گرتے ہیں تو نیزہ کسی کو لگ جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں معاف کرنا میرا یہ ارادہ نہیں تھا، یہ تو میری نیت نہ تھی اس طرح ہو گیا.تو آنحضور کی نصیحت پر عمل ہو تو آپ یہ نہیں کہیں گے کہ معاف کرنا میری غلطی سے یہ ہو گیا ہے.جو غلطی سے ہوا آپ کو نقصان ہو گا.آپ کے بھائی کو نہیں ہوگا.بھائی آپ کی طرف لپکیں گے کہ او ہو آپ کو تکلیف پہنچی ہے ہم اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا اور یہ حدیث بھی ابوذر کی ہے اور مسلم سے لی گئی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا (یہ ایک کشفی نظارہ ہے جس کا بیان ہے ) جو جنت میں پھر رہا تھا.اس نے صرف یہ نیکی کی تھی کہ ایک کانٹے دار درخت کو جس سے راہ گزرنے والے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی رستے سے کاٹ دیا تھا.ایک اور روایت ہے کہ ایک آدمی نے رستے میں ایک درخت کی لٹکی ہوئی ٹہنی دیکھی جس سے مسلمانوں کو گزرتے وقت تکلیف ہوتی تھی.اس نے کہا خدا کی قسم میں اس ٹہنی کو کاٹ کر پرے ہٹا دوں گا تا کہ مسلمانوں کو یہ تکلیف نہ دے.اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کے فعل کی قدر کی اور اس کو بخش دیا (مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل از الته الاذى عن الطريق) یہاں یہ بات سمجھانے کے لائق ہے کہ بعض دفعہ جو چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں وہ بڑے بڑے اثرات دکھاتی ہیں.ایک دفعہ ایک مریض میرے پاس تشریف لائے ان کی ایک آنکھ بینائی سے جاتی رہی تھی اور خطرہ تھا کہ دوسری آنکھ بھی نکالنی پڑے گی اور وہ رستہ چلتے کسی شاخ سے آنکھ ٹکرانے کے نتیجے میں یہ بیماری شروع ہوئی تھی.کوئی تیز سا پتا تھا جو تیزی سے چلتے چلتے آنکھ میں لگا اور اس کو تراش گیا ہے اور جب ایک آنکھ ضائع ہو تو بعض دفعہ Sympethaticaly کہا جاتا ہے کہ گویا اس کی ہمدردی میں دوسری آنکھ بھی جواب دے جاتی ہے تو ایسا ہی کیس تھا.پس ہے تو

Page 410

خطبات طاہر جلد 13 404 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994 ء چھوٹی سی نیکی لیکن اس کے اثرات بہت بڑے ہو جاتے ہیں اور بڑے پھیل جاتے ہیں.ایک چھوٹے سے فعل سے آپ بنی نوع انسان کو کئی قسم کی مصیبتوں سے بچا لیتے ہیں تو آنحضرت ملی ہے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے بعد وہ بدیاں کرتا رہا اور پھر بھی معاف رہا.اس مضمون کو ہمیشہ صحیح صورت میں سمجھنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ کسی سے عفو کا سلوک فرماتا ہے اور اس کی بات کو پسند کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کو دوسری نیکیوں کی توفیق ملتی ہے اور اسے واپس نہیں بلاتا جب تک کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری نہ ہو جائے.پس اس فیض کے ذریعے جو دوسروں کو پہنچا مسلسل اس کو بھی ایک فیض ملتا چلا جاتا ہے.اس کی اپنی وہ بدیاں دور ہونے لگتی ہیں جو خود اپنی ذات کے لئے خطرہ ہیں اور ان کی جگہ نیکیاں لے لیتی ہیں.ایک موقع پر ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ میں اسلام سے پہلے بھی بعض نیکیاں کیا کرتا تھا مثلاً پرندوں کو چوگا ڈال دیا کرتا تھا جو کچھ میسر آئے تا کہ یہ بھو کے نہ رہیں اس کا بھی کوئی اجر ہو گا جو اسلام سے پہلے پہلے نیکیاں کی ہیں.آپ نے فرمایا یہی تو اجر ہے.تمہیں نہیں پتا چل رہا کہ تم مسلمان ہو گئے ہو یہ اس کا اجر ہے.تو یہ معنی ہیں مغفرت کے کہ ایک نیکی کئی بدیوں سے روکتی ہے اور نی نیکیوں کو جنم دے جاتی ہے.پس جتنے لوگوں کو بھی اس شاخ سے نقصان پہنچ رہا تھا اور نہیں پہنچا اس کی نیکیاں اس شخص کے حق میں اس طرح لکھی گئیں کہ وہ خود اپنے نفس کی بدیوں سے بچایا گیا.یہاں تک کہ اللہ نے اس کو بلایا نہیں جب تک اس کی نیکیوں کا پلڑ ابدیوں پر بھاری نہ ہو گیا.حضرت مقداد بن معدی کرب سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا جب کوئی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو تو چاہئے کہ اسے بتادے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے(مشکواۃ المصابیح باب الحب في الله ومن الله ) لیکن محبت کیسی ہے جس کا ذکر ضروری ہے.آپ کو یہ سمجھا نا بہت ضروری ہے ورنہ بے ہودہ غلط محبتوں کی یہاں بات نہیں ہو رہی.حضرت ابو ذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے افضل عمل اللہ کی خاطر محبت کرنا ہے اور اللہ کی خاطر بغض کرنا ہے.(سنن ابو داؤدکتاب السنة باب الاهواء).پس جن محبتوں کا ذکر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ فرما رہے ہیں وہ الہی محبت ہے.اللہ کی خاطر آپ کسی بھائی کو پیار کرتے ہیں تو اس کو بتا ئیں کہ میں خدا کی خاطر تم سے پیار کرتا

Page 411

خطبات طاہر جلد 13 405 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء ہوں اس آپس میں سوسائٹی میں محبت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور اسی طرح اللہ کی نعمت یعنی محمد رسول اللہ دلوں کو باندھنے کا موجب بنتے ہیں.پھر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ایمان کی ایک نشانی انصار سے محبت رکھنا اور نفاق کی ایک علامت انصار سے بغض رکھنا ہے.یہ حدیث بخاری کتاب الایمان سے لی گئی ہے.یہ تو سب کو علم ہے کہ انصار تھے.یعنی آنحضرت ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مدینہ کے وہ باشندے جنہوں نے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور اللہ کی خاطر ، بعضوں نے گھر بانٹ لئے ، بعضوں نے جائیداد میں تقسیم کر دیں.مگر خدا کی خاطر اپنے لئے ہوئے بھائیوں کی مدد کی.یہ انصار ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی ایک لطیف تشریح فرمائی ہے کہ اس سے مراد ہر زمانے میں دین کی خدمت کرنے والے ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 381).پس آج بھی مثلاً جماعت جرمنی میں جو کثرت سے دین کی خدمت کرنے والے پیدا ہورہے ہیں.ان سے بغض رکھنا آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کو پسند نہیں ہے.اللہ اس سے پیار کرتا ہے جو انصار سے پیار کرتا ہے.پس اس طرح اگر اس انصار کی تعریف کو وسیع کر دیا جائے تو ہر خدمت دین کرنے والا اپنے اردگر محبوں کی ایک جماعت پیدا کرتا چلا جائے گا اور اس کے نتیجے میں نیکی کی قدر ہوگی اور نیکی کو اہمیت ملے گی اور نیکی کے نتیجے میں لوگ محبوب ہوا کریں گے.چونکہ اب وقت ختم ہو چکا ہے اور بھی دوسرے پروگرام ہیں اس لئے مجھے افسوس ہے کہ اس مضمون کو میں آج اس خطبہ میں ختم نہیں کر سکا.انشاء اللہ باقی باتیں آئندہ خطبے میں آپ سے ہوں گی میں صرف ایک نصیحت کے بعد آپ سے اجازت چاہوں گا کہ اس وقت جو خصوصیت کے ساتھ نصرت کے محتاج ہیں، فی سبیل اللہ جن کی خدمت کرنا آج جماعت جرمنی پر اور یورپ پر خصوصیت سے فرض ہے وہ اپنے بوسنین بھائیوں کی خدمت ہے.یہ محض اللہ ستائے گئے ہیں ان کا اور کوئی قصور نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ اسلام سے وابستہ تھے اور جن طاقتوں نے بھی یہ فیصلہ کیا بہت بڑا ظلم کیا کہ یورپ کے دل میں یہ ہم ایک اسلامی حکومت نہیں بننے دیں گے.اگر چہ ان کو خود اسلام کا علم نہیں تھا مگر مارے اسلام کے نام پر گئے ہیں.کاٹے

Page 412

خطبات طاہر جلد 13 406 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 1994ء اسی لئے گئے ہیں کہ انہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے دامن کو تھاما ہوا تھا اور کسی قیمت پر اس سے علیحدہ ہونے پر آمادہ نہیں تھے.پس یہ انصار ہیں آج جن کے ساتھ آپ کو سے زیادہ محبت کا سلوک کرنا چاہئے.اگر ایسا کریں گے تو آنحضرت ﷺ آپ کو خوش خبری دیتے ہیں کہ اللہ آپ سے محبت کرنے لگے گا.خدا کرے کہ آپ بنی نوع انسان سے اللہ کی خاطر محبت کریں اور اللہ بنی نوع انسان کی خاطر آپ سے محبت کرنے لگے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 413

خطبات طاہر جلد 13 407 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء حبل اللہ سے مراد اخلاق محمدی ہیں جو آب حیات ہیں.جھوٹ اور بد دیانتی کو جڑ سے اکھیڑ دیں.(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994 ء بمقام بیت النور نن سپٹ ہالینڈ ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کیں.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ پھر فرمایا:.(آل عمران: 104 ) آج کا یہ خطبہ جو میں ہالینڈ سے نن سپٹ کے مقام سے دے رہا ہوں، یہاں ایک خاص تقریب ہے یعنی مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ کا نواں سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور تین دن تک جاری رہے گا.اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ صوبہ اڑیسہ ہندوستان کا بیسواں سالانہ اجتماع چار جون بروز ہفتہ سے شروع ہو رہا ہے اور دو دن تک جاری رہ کر پانچ جون کو اختتام پذیر ہو گا.ان دونوں اجتماعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں جو نصیحتیں کروں گا وہ در حقیقت صرف خدام سے تعلق نہیں رکھتیں یا اطفال سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ تمام دنیا کے احمدی مردوں، عورتوں، بوڑھوں،

Page 414

خطبات طاہر جلد 13 408 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء بچوں سب سے یکساں تعلق رکھتی ہیں اور یہ وہی مضمون ہے جو میں اس سے پہلے خطبات میں ایک سلسلے کے طور پر شروع کر چکا ہوں.یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے جمیعت کے طور پر تھام لو یعنی ایک ایک کر کے ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر تھام لو.یہ آیت جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس مضمون پر روشنی ڈال رہی ہے.اس کے ایک حصے پر پہلے میں گفتگو کر چکا ہوں ، اب میں خصوصیت سے اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسی کو تھا منے کا نہیں فرمایا بلکہ جَمِیعًا تھا منے کا فرمایا ہے.اس سے بہت سے لوگوں کے ان وساوس کا جواب آ جاتا ہے کہ ہم جب خودا اپنے طور پر اچھے مسلمان ہیں، قرآن کریم پر مضبوطی سے ہاتھ ڈالا ہوا ہے اور تمام اوامر پر عمل کرتے ہیں، تمام نواہی سے رکتے ہیں، جس بات کا اللہ حکم دیتا ہے اسے ادا کرتے ہیں، جس سے رکنے کی ہدایت ہے ہم رک جاتے ہیں تو کیا ضرورت ہے کسی اور اجتماع کی؟ کیا ضرورت ہے کسی جماعت سے تعلق باندھنے کی؟ تو اس کا جواب قرآن کریم کی یہ آیت ایک لفظ میں دے رہی ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا انفرادی طور پر اس کتاب پر ہاتھ ڈالنا کافی نہیں بلکہ جمیعت کے طور پر اس کتاب پر ہاتھ ڈالنا ہے، ایک جماعت کے طور پر، تا کہ خدا کی وحدانیت کا جلوہ اس دنیا میں بھی ظاہر ہو اور جیسا کہ وہ ایک ہے اسی طرح اس کے ماننے والے بھی تمام تر ایک ہوجائیں.یہ جو مضمون ہے اس کو میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے حوالے سے بیان کرنا شروع کیا ہے.قرآن کریم پر براہ راست عمل تو تبھی ممکن ہے کہ اگر براہِ راست انسان قرآن کریم کے علوم پر اطلاع پا سکے قرآن کریم کے اوامر و نواہی سے جیسا کہ حق ہے، جیسا کہ اللہ چاہتا ہے، عمل کرنے یا رک جانے کا تعلق ان کے بچے عرفان سے ہے ان کی بچی تفہیم سے ہے اور اگر سچی تفہیم نہ ہو تو انسان کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ میں کس چیز سے رکوں اور کیسے رکھوں.کس پر عمل کروں اور کیسے عمل کروں.پھر اس کے علاوہ قرآن کی ایک روح ہے اور وہ براہِ راست ہر شخص کو عطا نہیں ہوسکتی وہ روح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی روح میں مدغم ہے اور یہاں ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.خواہ اس کا نام قرآن رکھیں یا محمد رکھیں، درحقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان

Page 415

خطبات طاہر جلد 13 409 خطبہ جمعہ فرمود 30 جون 1994ء فرما ئیں تو آپ نے اس چھوٹے سے فقرے میں آپ کی تمام سیرت بیان فرما دی اور اس کی حقیقی روح کی طرف توجہ دلائی فرمایا کان خلقه القرآن.(مسلم کتاب الصلوۃ) كان خلقه القرآن فرمايا، كان خلقه في القرآن نہیں.اگر یہ فرماتیں کہ ان خلقه فی القرآن تو اس کا یہ مطلب تھا کہ قرآن میں تلاش کرو وہاں آپ کا خلق ملتا ہے.کان خلقه القرآن “ آپ تو مجسم قرآن تھے.آپ کا تمام خلق قرآن ہے.گویا تمام قرآن آپ خود ہیں ان معنوں میں نبی کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نبی سے الگ ہٹ کر قرآن پر کسی طرح بھی مضبوطی سے ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے.نبی سے تعلق بعض دفعہ فرضی عشق سے بھی کیا جاتا ہے.نبی کے نام پر قربانیاں پیش کر کے، نبی کے نام پر بعض دفعہ اپنی جان قربان کر کے ، بعض دفعہ ظالمانہ طور پر لوگوں کی جانیں لے کر لوگ سمجھتے ہیں ہمارا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ سے قائم ہو گیا اور سوائے ان غیرت کے چندلحات کے جہاں فطرتیں جوش دکھاتی ہیں روز مرہ کی عام زندگی میں وہ تعلق قائم نہیں رہتا.پس تعلق قائم کرنے کے لئے کچھ رستے ہیں ، کچھ رابطے ہیں.ان رابطوں کے ذریعہ تعلق قائم ہوتے ہیں اور باندھے جاتے ہیں.جب تک وہ رابطے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ قائم نہ ہوں قرآن سے تعلق قائم نہیں ہو سکتا.نہ قرآن کا سچا فہم ہو سکتا ہے، نہ قرآن سے سچی محبت ہوسکتی ہے کیونکہ قرآن سے محبت کے لئے خلق محمد مصطفیٰ ہے جو عشق کے شعلے آپ کے دل میں جگاتا ہے اور سارے دل کو نور بنادیتا ہے.اس عشق کے بغیر قرآن کریم کی باتیں کرنا اہل قرآن کے خشک سینوں کی باتیں ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.محمد مصطفی ﷺ کو قرآن سے الگ کر کے نہ محمد سے محبت ہو سکتی ہے نہ قرآن سے محبت ہو سکتی ہے.یہ دونوں ایک چیز ہیں اور ایک دوسرے سے کسی پہلو سے کسی وقت کسی جگہ جدا نہیں ہو سکتے.پس عامتہ الناس کے لئے سب سے بہتر اور آسان طریق یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ سے محبت نہیں بلکہ آپ کے ہر خلق سے جب محبت ہو تو اسے انسان اپنا تا ہے اور اپنا سکتا ہے ور نہ اگر یہ کہا جائے کہ محمد رسول اللہ ﷺ جیسے بننے کی کوشش کرو تو کیسے آپ کر سکتے ہیں.مگر جب خلق اپنا لیتے ہیں تو از خود ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے اور اس طرح ایک رابطہ نہیں مسلسل رابطے بڑھتے چلے صلى الله

Page 416

خطبات طاہر جلد 13 410 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 /جون 1994ء جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اگر ایک انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی عادات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے.اس کے حسن کو اپنی ذات میں داخل کرنے کی اور رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلق آدمی ایک دوسرے سے قریب ہو جاتے ہیں.جو جھوٹے ہیں وہ جھوٹوں کے قریب ہو جاتے ہیں.جو سچے ہیں وہ بچوں کے قریب ہو جاتے ہیں.جو بنی نوع انسان سے پیار کرنے والے ہیں وہ از خود بنی نوع انسان سے پیار کرنے والوں کے ساتھ اکٹھے ہو جاتے ہیں.جو بعض دوسری خوبیاں رکھتے ہیں اگر آرٹسٹ ہیں تو آرٹسٹ کے ساتھ اکٹھا ہو جائے گا.چنانچہ کہتے ہیں کہ پرندے بھی اپنے ہم جنس پرندوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں.پس حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلى الله کے ساتھ ایک ہونا اور جمع ہونا کوئی فرضی کہانی نہیں ہے.آپ وہ خلق اختیار کریں تو آپ محمد رسول اللہ کے قریب ہوں گے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جوابا آپ سے محبت کرنے لگیں گے.یہ محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر منعکس ہوگی کیونکہ روحوں کی محبتیں خدا کے تعلق سے صلى الله پھر دنیا میں جلوے دکھاتی ہیں اور اس طرح آپ کے تعلق آنحضور ﷺ سے بڑھتے چلے جائیں گے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ کی یہ حقیقت ہے.اس حقیقت کو بھلا کر آپ کو کچھ پتا نہیں چلے گا کہ کیسے اس رسی پر مضبوطی سے ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے ورنہ کہنے والے تو بہت کہتے ہیں کہ صرف قرآن کو پکڑ لوکسی جمیعت کی ضرورت نہیں ہے.صلى الله اب جب میں جرمنی کا دورہ کر رہا تھا تو بعض سکھائے پڑھائے امام، ان بوسنیز کو جو احمد بیت سے بہت محبت کرنے لگے ہیں اور قریب آ رہے ہیں، ان کو اس آیت کے حوالے سے متفرق ہونے کی تعلیم دے رہے تھے.کیسی جاہلانہ بات ہے قرآن تو اس ہدایت کے ذریعے منتشر اور متفرق لوگوں کو اکٹھا ایک ہاتھ پر جمع کرتا ہے اور جو دل میں کبھی رکھتا ہے وہ اسی آیت کے حوالے سے ان کو پھر دوبارہ منتشر اور متفرق ہو جانے کی ہدایت دے رہا ہوتا ہے.چنانچہ موقع پر اس کا جب مؤثر جواب دیا گیا تو ان سب کے جنہوں نے جواب کو سنا چہرے کھلکھلا اٹھے اور ایک بھی ایسا نہیں تھا جو پہلے سوال سے متاثر ہوکر جماعت سے دور ہو گیا ہو کیونکہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا میں جمیعت کی طرف اشارہ ہے، جو ایک مرکزیت چاہتی ہے.جمیعت فردا فردا قرآن کریم کو پکڑ لینے کا نام نہیں ہے اور یہ تو جمیعت کو بکھیر نے والی اور منتشر کرنے والی باتیں ہیں.قرآن اگر ایک ہاتھ پر

Page 417

خطبات طاہر جلد 13 411 خطبہ جمعہ فرمود و 3 / جون 1994 ء اکٹھا کرتا ہے اور وہ محمد رسول اللہ کا ہاتھ ہے اور اس ہاتھ پر اکٹھا کرتا ہے.جس کا محمد رسول اللہ سے تعلق ہے اور واسطہ ہے اور اٹوٹ تعلق ہے، جو ٹوٹ نہیں سکتا، تو یہ وہ جمیعت ہے، جس کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت بلا رہی ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے مگر جمیعت کے ساتھ تھام لو.میں اس مضمون کو بیان کر رہا ہوں کہ یہ بات تو سن لی مگر کیسے ہوگا، کس طرح یہ رسی تھا می جائے گی اس کی تفصیل بیان کر رہا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ سے رابطے بڑھا ئیں ایک رابطہ کافی نہیں ہے.ایک رابطہ ایمان سے پیدا ہوتا ہے اور اس ایمان کے رابطے کے بعد پھر نئے رابطوں کے تقاضے شروع ہو جاتے ہیں.آنحضرت کے سب سچ بولنے والوں سے زیادہ سچے تھے اگر آپ اس بچے وجود سے محبت رکھتے ہیں لیکن سچ سے نفرت کرتے ہیں تو آپ جھوٹے ہیں.ناممکن ہے کہ آنحضرت یہ جھوٹوں کے گروہ میں رہ کر سکینت پائیں اور اطمینان حاصل کریں.ایسے لوگوں کو خدا توفیق نہیں دیتا کہ آنحضور ﷺ کی معیت میں ہوں یا معیت میں شمار ہوں.پس معیت کا جہاں تک تعلق ہے وہ زمانے سے بلند تر ہے اس کا کسی زمانہ سے تعلق نہیں ہے.ہر زمانے میں لوگ آنحضرت ﷺ کی معیت حاصل کر سکتے ہیں اگر آنحضور ﷺ کے اخلاق کو اپنا ئیں.اور اگر دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم چھوٹوں پر شفقت فرمانے والے بڑوں کا بلکہ چھوٹوں کا بھی ادب کرنے والے ہر معاملے میں ایثار دکھانے والے تھے اور بے انتہا منکسر المزاج تھے یہ تمام صفات جاننے کے باوجود کہ حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کی شخصیت کی زینت تھی پھر کوئی ان صفات سے دور رہتا ہے تو اس کو و ہم ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے قریب رہتا ہے محض محمد رسول اللہ کا نعرہ لگا دینا آنحضور کے قریب نہیں کر سکتا، محض اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنا اللہ کے قریب نہیں کر سکتا.صفات الہی جب بندوں میں جلوہ گر ہوتی ہیں، تو پھر وہ اپنے خدا کے قریب ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ صفات الہی حضرت اقدس محمد مصطفی ملی ہے میں جلوہ گر ہوئیں.پس ان صفات سے پیار کریں، فرضی عشق نہیں کہ ہاں یہ اچھی صفات ہیں بلکہ اس حد تک پیار کریں کہ آپ ان کو اپنائے بغیر چین نہ پائیں.اس طرح آپ کے تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی علی سے بڑھنے لگیں گے اور جو رسول اکرم ﷺ کی صفات اپنا کر آپ سے تعلق جوڑتا ہے وہ اپنے بھائی سے الگ ہو ہی نہیں سکتا

Page 418

خطبات طاہر جلد 13 412 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء الله وہ سارے لوگ جو آنحضور ﷺ کے قریب ہو رہے ہیں صفات کے رستوں سے ، ان کے اندر بھی وہ صفات جلوے دکھانے لگتی ہیں اور وہ آنحضور ﷺ کے قریب ہی نہیں ہورہے ہوتے بلکہ ایک دوسرے کے بھی قریب ہو رہے ہوتے ہیں اور یہی وہ اخوت ہے جس کی طرف قرآن کریم بار بار آپ کو بلا رہا ہے.وہ اخوت حضور ﷺ کے تعلق کے بغیر آپ کو نصیب نہیں ہو سکتی.اس لئے قرآن کریم نے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کی تلقین حضرت محمکہ سے فرمائی ہے اور احادیث میں خود حضور ﷺ نے بھی اور اس کے تعلق میں معا بعد یہ مضمون چلتا ہے کہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے محبت کرو.یہ دو تین باتیں الگ الگ نہیں ہیں ایک مرکزی مضمون کی شاخیں ہیں، جوں جوں اس مضمون میں آپ آگے بڑھتے ہیں اور رستے دکھائی دیتے ہیں اور خوب صورت نظارے آپ کو نظر آئیں گے.مگر جس طرح ایک درخت جس کی جڑیں مضبوطی سے زمین میں ہوں اس کی شاخیں الگ الگ پھیل کر اپنی اپنی بہار دکھا رہی ہوں الگ دکھائی دینے کے باوجود وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہوتی ہیں اور درخت کے وجود سے ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح امت محمدیہ بنتی ہے اور اس طرح امت محمدیہ پھیلنا شروع ہوتی ہے.پھر وہ پھولتی ہے اور تمام ایک ہی وجود کی شاخیں ہیں.اسی مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے حوالے سے یوں بیان فرمایا کہ اے میرے درخت وجود کی سرسبز شا خو! کہ میں وہ درخت ہوں جس نے عشق محمد مصطفی سے سیراب ہونے کے بعد دوبارہ دنیا میں ایک نئی رونق پائی ہے.ایک نئی بہار دیکھی ہے اور اے افراد جماعت جو مجھ سے تعلق رکھتے ہو تم میرے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہو.پس شاخوں کا آپس کا تعلق براہِ راست ممکن ہی نہیں جب تک درخت کے ساتھ تعلق نہ ہو اور یہ درخت انبیاء ہوا کرتے ہیں جو اپنے ماننے والوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتے اور ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں.حضرت د مصطفی ﷺ نے جس امام کی بعثت کی خبر دی تھی اس امام کے آنے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ منتشر بکھرے ہوئے لوگوں کو پھر آنحضرت ﷺ کے وجود کے ساتھ ملحق کرے، منسلک کرے اور ایک بنادے یہاں تک کہ وہ جمیعت جو دنیا سے جاتی رہی وہ پھر دوبارہ اسلام کو نصیب ہو.یہ مضمون میں نے عمد اتعلق اخلاق حسنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے ورنہ اگر اس کے بغیر بیان کرتا تو آپ لوگوں

Page 419

خطبات طاہر جلد 13 413 خطبہ جمعہ فرمودہ3/جون 1994ء میں سے بہت سے ذہنی تعیش کا ذریعہ بنا کر اس مضمون سے مزا اٹھاتے اور بھول جاتے.میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ مضمون اخلاق سے تعلق رکھتا ہے اور اخلاق کے بغیر نہ آنحضرت ﷺ سے تعلق ہوسکتا ہے نہ آپس کا تعلق ہو سکتا ہے اور اس کی ضرورت آج پہلے سے سب سے زیادہ بڑھ کر ہے کیونکہ جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے اب اس تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ دشمن بالکل ہکا بکا ہو گیا ہے.شرارت کے منصوبے بنا رہا ہے حسد کی آگ میں جل رہا ہے لیکن اس کی کچھ پیش نہیں جاتی ، حکومتوں کی سطح پر مشورے ہورہے ہیں اور ہمیں اللہ کے فضل سے ان کی اطلاعیں ملتی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیچ و تاب کھاتے ہوئے چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی چاہیں جہاں جہاں چاہیں جماعت کو ڈسیں اور ایک کشش ان کی وہی ہے جو میں نے بیان کی کہ جماعت میں افتراق پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات سے غلط نتائج نکال کر ان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی اگر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لئے استعمال کی جائے تو وہ ہرگز قرآن کا مفہوم نہیں ہے جو آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے وہ شیطان کی باتیں ہیں کیونکہ قرآن تو اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہے نہ کہ منتشر کرنے کے لئے.پس ہر وہ حوالہ جو قرآن کا حوالہ ہو اور آپ کے اندر آپس میں تفریق پیدا کرتا ہو.آپ کی جمیعت کو منتشر کرنے والا ہو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ Devil quotes the Scriptures بعض دفعہ شیطان الہی کتب کے اور صحیفوں کے حوالے دیتا ہے اور اس کے حوالے دینے اور ایک نیک انسان کے حوالے دینے میں فرق یہ ہے کہ شیطان شیطانی نتائج نکالتا ہے اور نیک انسان نیک نتائج نکالتا ہے اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.پس قرآن کریم کی ہر وہ تشریح جو آپ کے دلوں میں محمد رسول اللہ کی محبت پیدا کرے قرآن کو محمد رسول اللہ سے الگ نہ کرے بلکہ ایک ہی دکھائے اور پھر آپ پر واجب کرے کہ آپ محمد رسول اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں یہی حقیقت میں حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کے معنی ہیں اور پھر آپ کو سمجھائے کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق اگر خدا ایک ہے تو اس کے ماننے والے اس دنیا میں بھی ایک ہو جانے چاہئیں.یہ معانی الہی معانی ہیں یہی ہیں جو قرآن کا مقصود ہیں.ان کا شیطان سے کوئی تعلق نہیں.لیکن یہ کام بڑی محنت کا کام ہے محض بات سن کر سر ہلا دینے سے یہ مسئلہ طے نہیں ہوگا

Page 420

خطبات طاہر جلد 13 414 خطبہ جمعہ فرمود 30 جون 1994ء ضروری ہے کہ ایک ایک خلق محمدی پر غور کریں، ایک ایک نصیحت پر غور کریں اور دیکھیں کہ کس حد تک آپ پر چسپاں ہورہی ہے جہاں جہاں چسپاں ہو رہی ہے وہاں آپ کا حضور اکرم ﷺہے سے ایک تعلق قائم ہو گیا ہے جہاں جہاں نہیں ہو رہی وہ خلا ہیں.جتنی زیادہ مضبوطی کسی تعلق کے لئے درکار ہو اتنے روابط بڑھائے جاتے ہیں اگر کہیں سے وہ روابط اکھڑنا شروع ہو جا ئیں تو بعض دفعہ قائم تعلقات کو بھی وہ خلا تو ڑ دیا کرتے ہیں اور وہاں سے بھی تعلقات اکھڑنا شروع ہو جاتے ہیں.آنکھ کے Retina کی مثال ہے.آنکھ کا وہ پردہ جس پر تصویر منعکس ہوتی ہے وہ تمام تر آنکھ کے ڈیلے سے جڑا ہوا ہے.جہاں وہ تصویر منعکس ہوتی ہے وہ ایک جوڑ ہے جہاں ایک طرف ڈیلے کا آخری کنارہ ہے دوسری طرف وہ پر دہ ہے جس کے ساتھ دماغ کا تعلق ہے.پس وہ پردہ کبھی کبھی ڈیلے کو بعض بیماریوں کے نتیجے میں کہیں کہیں سے چھوڑ نا شروع کر دیتا ہے.خصوصیت سے وہ لوگ جو لوہارے کا کام کرتے ہیں اور بہت تیز بجلی کی شعاعوں سے جن سے لوہا پگھلایا جاتا ہے ان کی طرف ننگی آنکھ سے دیکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں وہ جگہ جگہ ایسے خلا پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ پردہ کہیں سے اکھڑ جائے اور وہ لوگ جو سورج کو براہ راست دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی یہی واقعہ ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی کو آنکھ برداشت نہیں کر سکتی یعنی اگر تیزی سے سامنے آنکھ اٹھا کر دیکھا جائے تو برداشت نہیں کر سکتی اور اس کے نتیجے میں کہیں کہیں وہ سیمنٹ اکھڑ جاتا ہے جو پردے کو ڈیلے کے ساتھ جوڑتا ہے اور جہاں جہاں سے وہ اکھڑتا ہے پھر وہاں سے اکھڑنا شروع ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ بالآ خر اندھے ہو جاتے ہیں.تو اگر آپ نے ان حصوں کی نگرانی نہ کی جن حصوں میں آنحضرت ﷺ کے اخلاق موجود نہیں ہیں وہاں سے آپ کا تعلق اکھڑا ہوا ہے اور آپ محفوظ نہیں ہیں.دو ہی قسم کے سفر ہیں یا تو تعلق بڑھاتے چلے جانے کا سفر ہے یا پھر تعلقات کم کرتے چلے جانے کا سفر ہے بیچ کی کوئی چیز نہیں.پس اگر آپ نے توجہ کے ساتھ اپنے اخلاق کی نگرانی نہ کی تو آنحضرت ﷺ سے آپ کے وہ رابطے جو آپ سمجھتے ہیں کہ موجود ہیں وہ بھی قائم نہیں رہیں گے.

Page 421

خطبات طاہر جلد 13 415 خطبہ جمعہ فرمود و 3 جون 1994 ء صلى الله رفتہ رفتہ آپ اور دور ہٹتے چلے جائیں گے.پس یہ یقینی بنادیں کہ آپ کا ہر قدم آنحضور ﷺ کی طرف اٹھ رہا ہو.اگر کمزور ہیں تو آہستہ قدم اٹھے گا.اگر لاچار ہیں اور کھڑے ہو کر نہیں چل سکتے تو گھسٹتے ہوئے چل سکتے ہیں اگر گزوں اور فٹوں میں نہیں جا سکتے تو انچ انچ کچھ نہ کچھ تو سرکتے ہوئے آگے جا سکتے ہیں مگر اگر آپ آگے بڑھ رہے ہیں تو پھر آپ کو کوئی خطرہ نہیں.پھر آپ کی کمزوریاں آپ کی راہ میں حائل نہیں ہونے دی جائیں گی کیونکہ خود آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص جو بہت ہی زیادہ گنہ گار تھا اور بہت سے قتل کر چکا تھاوہ بزرگوں کے پاس جانے لگا اور ان سے پوچھنے لگا کہ میرے گناہ کا کوئی علاج ہے اور میرے اتنے گناہ ہیں تو بزرگ یہ سمجھ کر کہ اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے اسے جواب دے دیتا کہ نہیں تمہارا کوئی علاج نہیں.وہ کہتا تھا اچھا پھر اگر میرا علاج ہی کوئی نہیں تو ایک گناہ اور سہی وہ اسے بھی قتل کر دیا کرتا تھا.اسی طرح وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ کسی ایک عارف باللہ کے پاس وہ پہنچا اس نے کہا خدا ہر گناہ بخش سکتا ہے اگر تمہارے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو اور تم گناہوں کے شہر سے ہجرت کر کے نیکیوں کے شہر کی طرف چلنا شروع کرو آنحضور ﷺ اسے ایک بہت ہی پیاری تمثیل سے بیان فرماتے ہیں.کہتے ہیں اس شخص نے گناہوں کے شہر سے (ایک تمثیل ہے مراد یہ نہیں کہ کوئی گناہوں کا شہر تھا کوئی نیکیوں کا شہر تھا ) مراد ہے ایک طرف ہجرت شروع کی یعنی بدیاں چھوڑنی شروع کر دیں اور نیکیوں کے شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوا یعنی نیکیاں اختیار کرنی شروع کر دیں.وہ کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ پہنچی اور وہ خدا کے حضور حاضر ہوا.فرشتوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو یہ بندہ بدیوں کے شہر سے نیکیوں کے شہر کی طرف ہجرت کر رہا تھا اس لئے اس کی بخشش کا سامان ہونا چاہئے.انہوں نے عرض کیا کہ یا اللہ یہ تو تھوڑ اسا سفر ہی طے کر سکا تھا.اللہ نے فرمایا پیمائش کرو بدیوں کے شہر سے اس مقام تک جہاں اس نے جان دی ہے اور پھر نیکیوں کے شہر سے اس مقام کی جہاں اس نے جان دی ہے.یہ اللہ کے انداز ہیں مغفرت کے اور آنحضرت ملے ہمیں ایک بہت گہری حکمت سمجھا رہے ہیں ورنہ یہ مراد نہیں کہ فیتوں کے ساتھ کوئی پیمائش کی جاتی ہے مگر تمثیل ہے بہت پیاری کہ جب خدا نے ان سے کہا کہ بدیوں کے شہر سے اس شخص کی وہاں تک پیمائش کرو جہاں اس نے جان دی تو جب وہ پیمائش کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس زمین کو بڑھاتا چلا جاتا تھا یہاں تک کہ اس کا بہت فاصلہ بڑھ گیا اور جب نیکیوں

Page 422

خطبات طاہر جلد 13 416 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء کے شہر کی طرف سے فرشتوں نے پیمائش شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو سیکٹر نا شروع کیا یہاں تک کہ وہ بہت قریب دکھائی دینے لگی.تب اللہ نے فرمایا کہ دیکھو نیکیوں کا شہر اس کے قریب تر تھا.(مسلم کتاب التو بہ حدیث نمبر: 4968) مراد یہ ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی میں بالا رادہ بدیوں سے نیکیوں کی طرف حرکت شروع کر دیں.آنحضرت مے کے عدم سے آپ کے وجود کی طرف جانا شروع کر دیں تو پھر اگر تھوڑا سا سفر طے کر کے ہی آپ کی موت آجائے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سفر کو برکت بخشتا ہے اور یہ مغفرت کا سلوک فرماتا ہے کہ اگر آپ زندہ رہتے تو آپ نے ضرور پہنچنا تھا.اسی کو فضل الہی کہا جاتا ہے.پس بخشش اصل میں فضل سے ہوتی ہے اور فضل میں یہ مضمون بہت ہی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ فضل کی کوئی وجہ ہوتی ہے خدا کے نزدیک بخشش میں بھی کچھ انصاف ہیں اور کوئی بھی خدا کا فعل خواہ وہ بے انتہا احسان کا ہو انصاف سے عاری نہیں ہوا کرتا تو انصاف کے تقاضوں میں خدا نے یہ بات داخل فرمالی ہے کہ اگر میرا بندہ نیک نیت سے نیکی کی طرف حرکت کر رہا ہے تو چونکہ اس کی زندگی میرے قبضہ میں ہے اس لئے مجھ پر ایک فرض ہے کہ اس کی نیکی کی قدر کروں اور یہ خیال کروں کہ اگر وہ زندہ رہتا اور اسی طرح آگے بڑھتا رہتا تو نیکیوں کو پالیتا.پس یہ وہ مضمون ہے جو اس حدیث میں ہمیں سکھایا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھ کر آپ اپنے اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کریں اور آنحضرت ﷺ کی طرف ہجرت شروع کر دیں اور جوں جوں آپ آنحضور کے قریب ہوں گے اسی طرح اسی قدر آپ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ آنحضور سب سے زیادہ اپنی امت سے محبت کرنے والے تھے بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (التوبہ: 128) سب سے پیار کرنے والے، رحمۃ للعالمین تھے.تمام جہانوں کے لئے رحمت.لیکن جہاں مومنوں کا ذکر ہے وہاں تو خدا فرماتا ہے رؤوف رحیم خدا کی صفات بیان کر دیں وہ تو گویا خدا کی طرح رأفت فرمانے والے اور بے حد رحم کرنے والے اور بار بار رحم کرنے والے تھے.جو محمد رسول اللہ کے قریب ہو گا وہ لازماً امت کے قریب ہو گا.پس اخلاق وہ سیمنٹ ہیں جن سے ایک طرف سے آپ آنحضور ﷺ سے جوڑے جاتے ہیں اور دوسری طرف حضور نبی اکرم ﷺ کے غلام اور

Page 423

خطبات طاہر جلد 13 417 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 / جون 1994ء عشاق آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوتے اور ایک دوسرے سے اٹوٹ رشتوں میں باندھے جاتے ہیں.پس وہ نصائح جو آنحضور ﷺ نے اخلاق سے متعلق فرما ئیں ان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور ایک ایک نصیحت کو تعلق کی رسی سمجھیں اسے آپ قبول کریں گے تو آپ کو محمد رسول اللہ سے تعلق کا ایک اور رابطہ نصیب ہو جائے گا اگر بے پروائی سے دیکھیں گے تو اس حد تک آپ آنحضور سے کاٹے جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس طرح قدم قدم لحظہ لحظہ آنحضور لوہے کے قریب ہوتے چلے جائیں.پھر ہم لازما ایک دوسرے کے قریب ہوں گے، پھر لازم وہ جمیعت نمودار ہوگی جو تمام کائنات کو امت واحدہ بنانے کی طاقت رکھتی ہے.پھر آپ پھیلیں گے، پھر آپ کو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ اب بوسنین آگئے ، اب بنگالی آ گئے ، اب البانین آگئے ، اب افریقن آگئے.ہم کس طرح ان کو جوڑیں گے.یہ نسخہ جو میں نے آپ کو بتایا ہے آپ اختیار کریں تو آپ باہم ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح خود بخود جوڑے جائیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے اور وہی اخلاق ہیں جو آپ کو ایک دوسرے سے باندھیں گے ورنہ اخلاق کے بغیر تو سیمنٹ کوئی ہے ہی نہیں ، اخلاق سے ہی قومیں جوڑی جاتی ہیں.آخری بات یہ ہے کہ اخلاق نہ ہوں تو قو میں نہیں جڑتیں بلکہ ہر خلق کی بجائے ایک بدخلقی جنم لے لیتی ہے اور ہر بدخلقی ایک دوسرے سے الگ کرنے کا کام دکھاتی ہے.پس اخلاق کو غیر معمولی اہمیت دیں مگر ان اخلاق کو حضور ا کر ماہ کے حوالے سے حاصل کریں تا کہ آپ کا دین مکمل ہو.آپ آنحضور کے ساتھ محبت کا رابطہ بڑھائیں اور اس سے از خود آپ کے تعلقات اپنے بھائیوں سے بڑھیں گے لیکن اس میں ایک مزید فائدہ یہ ہے کہ اگر صلى الله آنحضور ﷺ کے حوالے سے اخلاق سیکھے جائیں تو وہ اللہ کے حضور بہت ہی مقبول ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے فرشتے ایسے لوگوں پر درود بھیجتے ہیں اور ان پر ہمیشہ آسمان سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں.پس وہ سودے جو اخلاق کے سودے ہیں ان میں بھی زیادہ قیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں.بعض لوگ اپنے مزاج کی کمزوری کی وجہ سے بعض حصوں میں با اخلاق ہوتے ہیں اور بعض حصوں میں اپنے اخلاق کی کمزوری کی وجہ سے بد اخلاق ہوتے ہیں نہ ان کی بداخلاقی کی وہ اہمیت نہ ان کے اخلاق کی وہ اہمیت.یہ بیماریاں ہیں، یہ نفسیاتی کمزوریاں ہیں.بعض لوگ بدلہ نہیں لیتے کہ

Page 424

خطبات طاہر جلد 13 418 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء جی معاف کرتا ہوں حالانکہ بیچ میں سے ڈرپوک ہوتے ہیں.بنی اسرائیل کا بھی یہی حال تھا سخت ڈرتے تھے فرعون سے اور فرعون والوں سے اور معاف کر دیا کرتے تھے.یہاں تک کہ حضرت موسیٰ نے جو ان کو تعلیم دی اس میں بدلے کو اتنی اہمیت دی کہ مجبور کر دیا کہ ضرور بدلہ لیں تا کہ ان کی اندرونی کمزوری دور ہو.جب وہ سخت دل ہو گئے اور معافی کا نام بھول گئے تب میسیج تشریف لائے اور ان کو نصیحت کی کہ تم نے بدلہ لینا ہی نہیں کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو.یہ مختلف زمانوں کی بیماریوں کے علاج ہیں لیکن نفسیاتی کمزوریاں ہیں جو بعض دفعہ قومی بد کرداریاں بن جاتی ہیں ان کے علاج میں بھی بعض دفعہ جب زیادہ بے احتیاطی ہو جائے لمبا عرصہ تک وہ علاج کیا جائے تو مصیبت ہی آجاتی ہے مگر جو حوالہ میں دے رہا ہوں یعنی حضرت اقدس محمد رسول اللہ کا حالہ.آپ سے آپ اخلاق سیکھیں گے تو نہ کبھی افراط کی طرف جا سکتے ہیں نہ کبھی تفریط کی طرف جا سکتے ہیں کیونکہ آپ کا نور ایسا نور تھا جو وسطی نور تھا نہ وہ شرق کا تھا نہ غرب کا تھا.آپ آنحضور ﷺ کے وجود میں کوئی کبھی نہیں دیکھتے.کوئی کسی طرف ناجائز میلان نہیں پاتے آپ کو امت وسطی عطا فرمائی گئی صراط مستقیم بخشی گئی.پس وہ اخلاق جن کو آپ آنحضرت کے حوالے سے تعمیر کریں گے ان میں عفو بھی ہو گا، ان میں انتقام بھی ہوگا.عفو بھی برمحل اور انتقام بھی برمحل ہوگا اور نہ انتقام بدخلقی ہوگی اور نہ عفو بد خلقی بن سکے گا کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر عفو حد سے بڑھ گیا ہے اور اس کے نتیجے میں نقصان ہو رہا ہے تو بظا ہر وہ نیکی ہے مگر دراصل بدخلقی ہے.اگر انتقام لینا لازم ہو رہا ہے اور آپ نہیں لے رہے تو نیکی نہیں یہ بدی بن جاتی ہے.پس تمام اخلاق کی تعریف اس کے سوا ممکن نہیں کہ اشرف المخلوقات حضرت محمد مصطفی اما سے خلق سیکھیں جو متوازن تھے اور تمام اخلاق میں بیچ کی راہ آپ نے اختیار فرمائی.آپ کی غلامی کے نتیجے میں کوئی خطرہ نہیں ہے کہ کبھی آپ ایک طرف مائل ہو جائیں گے کبھی دوسری طرف مائل ہو جائیں گے پھر جو آپ کے تعلق آپس میں استوار ہوں گے پھر وہی تعلقات دوسری قوموں کو آپ کے ساتھ جوڑنے کے لئے اور آپ کے اندر ایک لازوال تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائیں گے.عليه اس مضمون میں جو احادیث میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ان میں ایک حضرت ابو ہریرہ سے

Page 425

خطبات طاہر جلد 13 419 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء مروی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے یعنی اپنا آپ اس میں دیکھتا ہے اور ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے اپنے بھائی کا مال و متاع ضائع کرنے سے بچو اور اس کی غیر حاضری میں اس کے مال کی دیکھ بھال کرو.( ابوداؤد کتاب الادب باب في النصيحةحديث :4272) اب اس میں دو تین باتیں اکٹھی اوپر تلے بیان فرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے آئینہ کے متعلق میں بڑی تفصیل سے پہلے روشنی ڈال چکا ہوں کہ آئینہ برائیاں بھی دکھاتا ہے اور خوبیاں بھی دکھاتا ہے.اچھا آئینہ وہ ہے جو برائیاں دکھاتے وقت بھی جھوٹ نہ بولے اور غصے والا آئینہ نہ ہو کہ برائیوں کو بڑھا کے دکھائے.بعض آئینے لاشعوری ہونے کے باوجود غصے والے ہوتے ہیں ان کے اندر ایسی خرابی ہوتی ہے کہ ناک بھی موٹا دکھائی دے گا، آنکھ پھیلی ہوئی اور سارے اعضاء بگڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.تو مومن جو مومن کا آئینہ ہے اس سے مراد ہے شفاف آئینہ.جس چیز کو جیسے دیکھتا ہے ویسے بیان کرتا ہے.جن کو کسی سے نفرت ہو وہ بدیاں بیان کرتے رہتے ہیں نیکیوں کی طرف خیال ہی نہیں کرتے جن کو کسی سے محبت ہونیکیاں ہی بیان کرتے رہتے ہیں اور بدیوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے آئینہ جو صاف شفاف ہوسچا ہوتا ہے جہاں بدیاں بیان کرتا ہے وہاں خوبیاں بھی دکھاتا ہے تبھی آپ کو آئینوں سے نفرت نہیں ہوتی بلکہ آئینہ جھوٹا ہو تو اس کو پسند نہیں کرتے.آئینہ سچا ہو تو آپ کے ہر ستم کو دکھاتا ہے تا کہ آپ اسے دور کر سکیں اور اونچی آواز سے نہیں دکھاتا بلکہ راز رکھتے ہوئے دکھاتا ہے یہاں تک کہ وہی آئینہ جب کوئی دوسرا اٹھا کر دیکھتا ہے اسے اپنی تصویر دکھائی دیتی ہے، اپنے اس بھائی کی نہیں دکھائی دیتی جو پہلے اس آئینے سے فائدہ اٹھا چکا ہے.کتنا وسیع مضمون ہے، کتنا گہرا اور لطیف مضمون ہے.اگر اس پر بھی آپ غور کرنا شروع کریں تو گھنٹوں غور کریں آپ کو نئے سے نئے لطیف مطالب ہاتھ آتے چلے جائیں گے خلاصہ آپ کو میں پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو آئینے کی طرح دیکھیں اس طرح کہ جب آپ ان کو کسی کمزوری کی طرف متوجہ کریں تو مخفی طور پر اس رنگ میں کریں کہ وہ غصہ نہ کھائے بلکہ آپ کا ممنون احسان ہو اور پھر اس کو بھول جائیں کہ جب کوئی اور مومن آپ کے سامنے آئے تو اس کی کمزوریاں آپ کو یاد ہی نہ ہوں کہ کوئی ایسی بھی کمزوریاں تھیں، آگے بات نہ چلے.پھر آپ ان کی خوبیوں کی بھی تعریف کیا کریں.وہ شخص جو صرف کمزوریاں بتاتا ہے وہ لازماً تکلیف پہنچاتا ہے اور

Page 426

خطبات طاہر جلد 13 420 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء ایسا شخص کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.جو خو بیوں پر بھی نظر رکھتا ہے خوبیوں سے پیار کرتا ہے اس کے منہ سے اگر برائیاں بھی معلوم ہوں تو بری نہیں لگتیں تبھی ماؤں کی بات بچے سب سے کم بُری مناتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے ہر وقت خوبیوں پر نظر ہے ایک برائی بھی دیکھ لی ہے تو بتاتی ہے تو کوئی حرج نہیں وہ تحمل کے ساتھ ، حوصلے کے ساتھ ، ان باتوں کو سنتے ہیں اور نصیحت کرنے والا حضرت محمد مصطفیٰ سے نصیحت کے رنگ سیکھے تو اس کے تعلقات میں رحمت غالب ہوگی اور رحمت کے نتیجے میں وہ شخص جس کو نصیحت کی جاتی ہے اس کی توجہ رحمت کی طرف رہتی ہے اور نصیحت سے برانہیں منا تا.پس آئینہ وہ بنیں جو حضرت محمد مصطفی ملے تھے اور بسا اوقات آپ جب عمومی نصیحت فرمایا کرتے تھے تو ذکر بھی نہیں کرتے تھے کہ کون ہے لیکن جن کے دل میں کمزوریاں ہوتی تھیں وہ بھانپ لیتے تھے وہ جان لیتے تھے اور اس طرح یہ ضروری نہیں تھا کہ حضور اکرم ﷺ ہر ایک کے پاس جائیں اور ہر ایک شخص کو یہ بتائیں کہ تم کون ہو اور کیا ہو بلکہ آپ کا تعلق تمام بنی نوع انسان سے تھا.اس لئے اپنے خطبات میں اپنی عمومی نصائح میں آپ ایسی نصائح فرما دیتے تھے کہ ہر دل جس میں کمزوری تھی وہ بھانپ لیتا تھا کہ میرے متعلق بات ہو رہی ہے لیکن یہ بھی جان لیتا تھا کہ مجھ پرستاری کا پردہ ڈالا گیا ہے اور اس طرح پھر وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے تھے.تو فرمایا مومن ایک دوسرے کا آئینہ ہے ( یعنی اپنا آپ اس میں دیکھتا ہے ).یہ ایک دوسرا مضمون ہے یعنی اپنا آپ اس میں دیکھتا ہے یہ ترجمہ کرنے والے نے اپنی طرف سے لکھ دیا ہے حدیث کے الفاظ نہیں ہیں یہ تو مضمون کو محدود کرنے والی بات ہے.مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے، بس اتنی بات ہے.کبھی وہ اس کو دیکھتا ہے اور اس کو بتاتا ہے کہ تم کیا ہو کبھی اس کے حوالے سے اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور اپنی حقیقت معلوم کرتا ہے کہ میں کون ہوں.اس دوسرے پہلو سے یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ مومن اپنی کمزوریوں کی تلاش میں رہتا ہے اور سب سے بہتر اس کی کمزوریاں بتانے والا اس کا بھائی ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ انتظار کرے کہ کوئی مجھے بتائے وہ خود علیحدگی میں پوچھتا ہے کہ بتاؤ مجھ سے کوئی ایسی بات تو نہیں ہوگئی مجھ میں کوئی ایسی عادت تو نہیں جو بری لگی ہو یا کوئی بات مجھ سے ہوئی ہو جو تمہیں پسند نہ آئی ہو.اس بات کی تلاش میں رہتا ہے اور آنحضرت ﷺ ہمیشہ اس بات کی جستجو میں رہتے تھے کہ آپ کی ذات سے کسی کو ادنی سی بھی تکلیف نہ پہنچے.پھر فرمایا.اپنے بھائی کا مال و متاع ضائع کرنے سے بچو اور اس کی غیر حاضری میں اس کے مال کی

Page 427

خطبات طاہر جلد 13 421 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء دیکھ بھال کرو.آج کی دنیا میں تعلقات خراب کرنے کی وجوہات میں اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال پر حرص کی نظر ہوتی ہے اور اگر ایک دوسرے کا مال بد دیانتی سے کھایا جا سکتا ہے تو لوگ کھاتے ہیں بلکہ سکیم بنا کر بھی کھاتے ہیں اور اگر نہیں کھاتے تو اس لئے کہ کوئی سامنے ہے اور جہاں وہ پیچھے ہٹا وہاں اس کی غیو بت میں اس کا مال کھانا شروع کر دیا.قرآن کریم اس کی مثال دیتا ہے کہتا ہے کہ دیکھو ہر قوم میں اچھے اور برے لوگ ہیں بعض یہود ایسے ہیں کہ ان کو ڈھیروں بھی تم دے دو تو وہ دیانتداری سے کام لیتے ہیں یعنی دیانتداری صرف کسی ایک قوم یا ایک مذہب کا خاصہ، اور حصہ نہیں.ہر خدا کے بندے میں بعض خوبیاں پائی جاتی ہیں اور بعض ایسے بد بخت ہیں کہ جب تک تم سامنے کھڑے رہو اس وقت تک تم سے دیانت کا سلوک کریں گے ذرا تم نے آنکھ جھپکی یا منہ موڑا اور وہ تمہارے لئے بددیانت ہو گئے.تو آنحضرت ﷺ حاضر کی دیانت سکھانے کے لئے غائب کی دیانت پر زور دے رہے ہیں.جو شخص عدم موجودگی میں دیانتدار ہے اس سے بڑا دیانتدار کوئی نہیں ہوسکتا ورنہ حاضر میں تو بد دیانت بھی بعض دفعہ دیانت کر جاتے ہیں.پس یہ بات اپنی ذات میں پیدا کریں، اپنے ماحول میں پیدا کریں، اپنے بچوں کو سکھائیں کہ سامنے کی دیانتداری تو بد خلقوں کو بھی نصیب ہو جایا کرتی ہے کیونکہ سامنے ہونے کا ایک خوف ہے مگر پیٹھ پیچھے دیانتداری ، یہ اصل خلق ہے.لیکن آنحضور ﷺ نے تو اس خلق کو اور بھی زیادہ بڑھا کر پیش فرمایا ہے.فرمایا ہے صرف یہ نہیں کہ دیانتداری کرو بلکہ اس کے مال کی حفاظت کرو.اس کی آنکھیں بن جاؤ، اس کے کان بن جاؤ، اس کے ہاتھ پاؤں ہو جاؤ، جب تمہارا بھائی ایک چیز چھوڑ جاتا ہے تو اس سے قطع نظر کہ اس نے تمہیں حفاظت کے لئے کہا یا نہیں کہا تمہیں فکر لاحق ہو جانی چاہئے کہ میرے بھائی کو نقصان نہ پہنچ جائے.یہ بہت ہی اعلیٰ درجے کے اخلاق ہیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھلائے اور جن کے نتیجے میں تمام مالی بد معاملگیاں سب ختم ہو سکتی ہیں کوئی بھی ان میں باقی نہیں رہ سکتی.جس شخص کی روح یہ ہو کہ اپنے بھائی کی یعنی ہر دوسرے کی چیز کی اس کی عدم موجودگی میں حفاظت کر رہا ہو.اس کے لئے ممکن کس طرح ہے کہ وہ ہر وقت دماغ لڑائے کہ کس طرح میں شراکت کی ترکیب کروں کس طرح ہم ایک دوسرے سے مل کر کچھ سودے کریں، جب منافع ہوں تو میں کوشش کروں کہ زیادہ منافع ملے.میرے ہاتھ آ جائے.نقصان ہوں تو کوشش ہو کہ بڑا نقصان اس کے پہلے پڑ جائے.یہ باتیں سوچنے والے کبھی غیب میں کسی کے مال کی

Page 428

خطبات طاہر جلد 13 422 خطبہ جمعہ فرمود و 3 جون 1994ء حفاظت کر سکتے ہیں؟ اس لئے بہت ضرورت ہے کہ ہمارے جو معاملات ہیں ان کو اتنا صیقل کریں، اتنا مانجھیں، اتنا صاف کریں کہ دنیا میں احمدیوں سے بڑھ کر نیک معاملہ کرنے والی کوئی قوم نہ ہو، آپ کے تعلقات اب دنیا میں پھیل رہے ہیں، بہت بڑی وسعت اختیار کر رہے ہیں، ہر قسم کی قو میں آ رہی ہیں.ان میں سے کچھ مال دار بھی ہوں گے جو آئیں گے، کچھ ضرورت مند بھی ہوں گے جو آپ کے ساتھ تجارتی معاملات بھی کریں گے اور آپ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے وہاں یہ خلق ہے جوامت واحدہ بنانے میں بہت عظیم کردار ادا کرے گا اور اگر یہ خلق آپ کو نہ نصیب ہوا تو بنے ہوؤں کو توڑنے اور بکھیرنے میں سب سے بڑا گناہ آپ کو ہو گا.پس آپس کے تعلقات درست کرو.یہاں تو حال یہ ہے کہ بھائی بھائی کے معاملے میں بھی دیانت دار ثابت نہیں ہوتا.ماں باپ آنکھیں بند کرتے ہیں تو جائیداد کے جھگڑے شروع ہوتے ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے.بارہ بارہ سال ہیں بیس سال تک جھگڑے چلتے ہیں.ایسی جماعتیں ہیں جن کے ساتھ بالآخر مجھے تنگ آ کر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اتنی دیر کے اندر یہ جھگڑے ختم کر دیا مجھ سے تعلق تو ڑ لو بیچ کی کوئی اب راہ نہیں رہی.بیس بیس سال کے ایسے بگڑے ہوئے تعلقات، جماعتیں پھٹی ہوئیں اور اللہ کا احسان ہے کہ جماعت احمدیہ کو خدا نے یہ بنیادی خلق عطا کیا ہوا ہے کہ خلافت سے وابستہ ہے جب یہ کہا کہ پھر مجھ سے کوئی تعلق نہیں تو پھر لوگوں نے قربانیاں کیں.وہ جماعتیں درست ہوئیں اب ان میں بڑی برکت پڑ رہی ہے.بعض ایسی جماعتیں ہیں ہندوستان ہی میں ، جن کا حال یہ تھا کہ سالہا سال سے کسی نئے احمدی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں تھا اب ان جماعتوں میں صرف وہیں بہتر کام نہیں ہوا بلکہ سارے ماحول میں انہوں نے کام شروع کیا ہوا ہے اور حیرت انگیز انقلاب برپا ہورہا ہے.تو جمیعت دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ تمام اخلاق جو جمیعت کو منتشر کرنے والے ہیں وہ آپ کے تبلیغی کاموں میں نہ صرف روک بنتے ہیں بلکہ آئے ہوؤں کو بھی دوبارہ دھکیل کر باہر پھینک دینے کا موجب بنتے ہیں اور یہ معاملات ان میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں.بد معاملگی کے نتیجہ میں خاندان بکھر گئے ، بھائی بھائی کا دشمن ہوا، بھائیوں نے بہنوں کے حق مارنے کی کوشش کی بہنوں نے بھائیوں کے حق مارنے کی کوشش کی اور جہاں خاندان بکھر گئے وہاں جماعت کو جمیعت کیسے نصیب ہو سکتی ہے.پس آنحضور ﷺ کی باتوں پر غور کریں اور اپنے دل میں

Page 429

خطبات طاہر جلد 13 423 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء ایسی جگہ دیں کہ پھر کبھی آپ کے دل سے جدا نہ ہوں.ان کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھیں سب الله سے بڑا آئینہ تو محمد رسول اللہ ﷺے ہیں.محمد رسول اللہ ﷺ کے چہرے کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں پھر پتا چلے گا کہ آپ کیا ہیں اور یہ وہ سارے حسن ہیں جو اس آئینے میں محمد رسول اللہ ﷺ کے حسن آپ کو دکھائی دیں گے.جہاں جہاں آپ میں کمی ہے یہ حسن آپ کو بتائیں گے اور کسی نفرت کے ساتھ نہیں بلکہ محبت اور پیار اور شفقت اور رحمت کے ساتھ، رافت کے ساتھ بتائیں گے کہ دیکھو میں تو یہ ہوں اگر تم میری پیروی کرنا چاہتے ہو تو ایسا بنے کی کوشش کرو.پس آنحضور ﷺ یہ ایک مثال دیتے ہیں کہ غیر حاضری میں اپنے بھائی کے مال کی حفاظت کرو جب اور کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نہ ہو اور پھر اس مثال کو ایک بہت ہی حیرت انگیز طور پر دل پر گہرا اثر کر نے والی کہانی کے طور پر بیان کرتے ہیں.کہانی نہیں یعنی ایک قصہ، واقعہ کے طور پر بیان کرتے ہیں.صلى الله ایک لمبی حدیث ہے جس میں تین آدمیوں کا ذکر ہے جو ایک غار میں رات بسر کرنے کے لئے داخل ہوئے اور زلزلہ آیا یا اور آندھی یا طوفان کے نتیجے میں وہ غار جس کے منہ سے پتھر سر کا ہوا تھا وہ رات کو ان کے سوتے میں غار کے منہ پر آپڑا اور اتنا بھاری تھا کہ وہ اس کو ہلا نہیں سکتے تھے.تب ان تینوں نے یہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی ایسے نیک عمل کا حوالہ دے کر اس سے عاجزانہ عرض کریں کہ اے خدا اگر یہ سچا واقعہ ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں اور اگر تیرے سوا کسی اور کی خاطر ہم نے یہ نہیں کیا، محض تیرے جلال کی خاطر اور تیرے تعلق کی خاطر ہم نے ایسا کیا تھا تو پھر تو ہم سے رافت کا معاملہ فرما اور ہم اس پتھر کو نہیں ہٹا سکتے تو اس پتھر کو ہٹا دے.جب ایک شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا تو چونکہ وہ سچا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابل پر 1/3 حصہ پتھر کو ایک طرف سر کا دیا یعنی ابھی انسان گزر نہیں سکتا تھا مگر شگاف پیدا ہو گیا.پھر دوسرے نے واقعہ بیان کیا پھر اللہ تعالیٰ نے انہی آسمانی ذرائع سے جن سے پتھر غار کے منہ میں آیا تھا ان کو حرکت دیتے ہوئے انہی کے ذریعہ سے پتھر کو اور سر کا دیا لیکن ابھی وہ باہر نہیں جاسکتے تھے.ایک شخص جس نے اپنا واقعہ بیان کیا اس کا معاملات سے تعلق.اور اسی حدیث سے ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں ، اسی کی تشریح ہے.اس پر تیسرا آدمی بولا ابھی آخری حصہ باقی تھا اور نکل نہیں سکتے تھے اگر یہ تیسرا آدمی کچھ نہ بیان کرتا تو گویا وہ پتھر وہیں پڑا رہتا کہ اے میرے اللہ میں نے کچھ مزدور رکھے تھے اور کام لینے کے بعد ان کو مزدوری ادا کر دی ہے

Page 430

خطبات طاہر جلد 13 424 خطبہ جمعہ فرموده 3 / جون 1994ء تھی ان کا حق نہیں مارا.البتہ ایک آدمی نے مزدوری کم سمجھتے ہوئے نہ لی یعنی کم سمجھتے ہوئے تو یہ بریکٹ کے ترجمہ کرنے والے کے الفاظ ہیں مراد یہ ہے کہ کسی وجہ سے ناراض ہو گیا یا جو بھی وجہ تھی اس نے مزدوری نہ لی اور چلا گیا.میں نے اس کی یہ چھوڑی ہوئی رقم کا روبار پہ لگا دی.اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت دی اور بہت نفع ہوا.کچھ مدت کے بعد بالآخر اس پر تنگدستی کا دور آیا اور اتنا غریب ہوا کہ مجبور ہوگیا کہ واپس آ کر مجھ سے اسی مزدوری کا مطالبہ کرے.کہتے ہیں وہ شخص جب آیا اور مجھے اس نے مزدوری دینے کے لئے کہا تو میں نے اسے ایک اونٹوں اور بکریوں اور بھیڑوں سے بھری ہوئی وادی دکھائی کہ یہ سب تمہاری مزدوری ہے لے لو.اس نے کہا بھائی مذاق تو نہ کرو، میں غریب آدمی ہوں غلطی ہوئی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا تھا لیکن کم سے کم مجھ سے مذاق تو نہ کرو.اس نے کہا نہیں بھائی میں مذاق نہیں کر رہا میں سچ کہہ رہا ہوں کیونکہ اس مزدوری کو میں نے تمہارے بعد کام پر لگایا تھا اور اس کا الگ حساب رکھا تھا اور اللہ نے اتنی برکت دی کہ جہاں میرے مال میں برکت پڑی وہاں تمہارے مال میں بھی برکت پڑی اور یہ جو بھیڑ بکریاں اور اونٹ تمہیں دے رہا ہوں میں شروع سے ہی الگ رکھتا چلا آیا ہوں کیونکہ ان کو پھر میں تجارت پر لگاتا ہوں پھر برکت پڑتی ہے پھر یہ بڑھ جاتے ہیں تو ان کا حساب میں نے الگ رکھا ہوا ہے اور یہ تمہارے ہیں.اس پر وہ خوشی سے دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور اس وقت وہ پتھر سرک گیا اور ان تینوں کو خدا نے یہ توفیق بخشی کہ اس قید خانہ میں جان دینے کی بجائے دوبارہ آزادی کا سانس ان کو نصیب ہوا.( بخاری کتاب احادیث النساء حدیث نمبر : 3206) یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں اور یہ تمثیل ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب، کہاں، یہ کیسے واقعہ ہوا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ اسی طرح کی مصیبت میں ہم پھنسے ہوں.ہم ہزار قسم کی مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں اور وہاں صرف ایک انسان کی نیکی اسے فائدہ نہیں دیتی بلکہ اپنے بھائی کو بھی دیتی ہے اور یہاں وہ مثال بہت ہی پیارے طور پر صادق آتی ہے کہ مومن مومن کا آئینہ ہے اور بھائی بھائی ہے اور اس کے غیب میں اس کے مال کی حفاظت کرتا ہے اور اس طرح مومن کا فیض اپنے بھائی کو پہنچتا ہے اور تمثیل ایسی عظیم بیان کی کہ ان تینوں کا اجتماعی فیض تھا جس فیض نے ان کو صلى الله نجات عطا کی ، انفرادی فیض نہیں تھا.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی باتیں حیرت انگیز طور پر عرفان میں ڈوبی ہوئی بلکہ عرفان کا ایک سمندر ہیں جو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں ان کو غور

Page 431

خطبات طاہر جلد 13 425 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1994ء سے سنیں، پڑھیں، اپنے دل میں جگہ دیں تو پھر پتا چلے گا کہ آپ کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں جاتی.کوئی خلق ایسا نہیں ہے جو بے پھل کے رہے.اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں آپ ہی کے اموال اور جان اور آپ کی خوشیوں میں برکت نہیں دیتا بلکہ آپ کا فیض ارد گر د بھی پھیلاتا ہے اور وہ لوگ جو مالی کمزوریوں میں مبتلاء ہیں.بد دیانتی سے ایک دوسرے کا مال کھاتے ہیں یا نیک نیت سے اشتراک کرتے ہیں اور جب بُر اوقت آئے تو پھر بہانے بنا بنا کر اپنا نقصان کم کرنے اور بھائی کا نقصان بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں یا دھو کے دے کر اور لالچ دے کر پیسے وصول کرتے ہیں اور پھر ان کے کام نہیں کرتے ان کو بے یار و مددگار چھوڑ جاتے ہیں ان کا جماعت مومنین سے کوئی تعلق نہیں ہے.ان کو وہم ہے کہ وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں کیونکہ وہ اپنا تعلق آنحضور سے کاٹ لیتے ہیں اور پھر آپس میں بھائیوں سے بھی ان کا کوئی تعلق قائم نہیں رہتا وہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اور دور ہٹا دئے جاتے ہیں خدا کی طرف سے، یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ مثال صادق آتی ہے فرمایا اے میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! تم میں بعض (فرماتے ہیں) ایسے بھی ہیں میں جانتا ہوں جو خشک ٹہنیوں کی طرح ہیں بظاہر میرے وجود سے لگے ہوئے ہیں لیکن میرے وجود سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جو تعلق رکھتا ہے وہ لازما سرسبز وشاداب ہوگا.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ آپ کو حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ سے سچا عشق ہو اور آپ خشک ٹہنی بن جائیں.پس اس دور میں جب خدا تعالیٰ نے آنحضور کے اخلاق کو از سرنو دنیا میں قائم کرنے کا فیصلہ فرمایا تو آپ ہی کے خلق پر امام مہدی کو پیدا کیا اور آپ نے وہی محاورے استعمال فرمائے جو آنحضور ﷺ نے فرمائے تھے اور انہی کے حوالے سے ساری باتیں پھر کہیں.پس آپ کہتے ہیں تم خشک ٹہنیوں کی طرح میرے ساتھ زیادہ دیر نہیں لگے رہو گے کیونکہ جس طرح ایک باغبان اپنے زندہ پودوں کی حفاظت کے لئے خشک ٹہنیوں کو ان سے جدا کر دیتا ہے.کیونکہ وہ خشک ٹہنیاں دوسری زندہ ٹہنیوں کا رس بھی چوسنے لگ جاتی ہیں مگر بے کار.اس تو چوستی ہیں مگر کسی کام نہیں آتا اور اپنے ساتھ کی شاخوں کو بھی سکھانے لگ جاتی ہیں.فرمایا میرا ایک باغبان ہے، میرا ایک خدا ہے جو مجھ پر اور میرے تعلقات پر نظر رکھ رہا ہے وہ پسند نہیں فرمائے گا کہ میری ذات کے ساتھ خشک ٹہنیاں پیوستہ رہیں اور وہ ضرور کائی جائیں گی اور جب وہ کائی جاتی ہیں تو پھر وہ جلانے کے کام آتی ہیں پھر تم جہنم کا

Page 432

426 خطبہ جمعہ فرموده 3 جون 1994ء خطبات طاہر جلد 13 ایندھن بنو گے.پس اپنے تعلقات کو حضرت محمد مصطفی علیہ سے استوار کریں اور وہ یہی ایک ذریعہ ہے کہ آپ کے اخلاق کا جوڑنے والا مصالحہ حاصل کریں وہ ایک طرف آپ کو محمد رسول اللہ سے جوڑے گا اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کے ساتھ جوڑے گا اور اس طرح وہ جمیعت نمودار ہوگی جس کی متعلق قرآن کریم فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا شخص اللہ تعالیٰ ہمیں وہ جمیعت عطا فرمائے اس جمیعت کے بغیر ہم دنیا میں کوئی انقلاب بر پا نہیں کر سکتے.الحمد للہ کہ وہ جمیعت نصیب ہو رہی ہے، الحمد للہ کہ میں محبت کے عجیب عجیب حیرت انگیز دل لبھانے والے اظہار دیکھ کر آیا ہوں.جرمنی کی جماعت کو خدا نے یہ توفیق بخشی ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ نشو ونما پانے لگی ہے.ہر قوم میں پھیل رہی ہے.ہر قوم سے تعلق جوڑ رہی ہے اور ایسے ایسے نئے آنے والے عشاق دیکھے ہیں کہ ان کی نظروں کو دیکھ کر میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا.وہی لوگ جو ایک دو سال پہلے ملے تھے ان کی آنکھوں میں اجنبیت تھی، کوئی تعلق کے آثار نہیں تھے اب وہ آنکھیں عشق سے معمور تھیں.ہر لحظہ قربانی کے لئے تیارتھیں یہاں تک کہ ایک موقع پر جب میں نے ایک معاملے میں نصیحت کی اور اس کا لوگوں پر اثر ہوا تو ایک سکھایا پڑھا یا امام آگے آیا.اس نے وہی باتیں کیں جو ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں مولوی ، احمد یوں سے دور کرنے کے لئے دوسروں کو سکھاتے ہیں.صاف دکھائی دے رہا تھا کہ سکھایا پڑھایا ہے.جب وہ یہ باتیں بیان کر رہا تھا اور ایک مکیدو نیا کا احمدی جو تھوڑا عرصہ ہوا احمدی ہوا تھا لیکن اتنی محبت اور ایسا جوش اس کے دل میں ہے کہ بار بار اچھل کے اٹھتا تھا میری طرف دیکھتا تھا کہ مجھے اجازت دیں میں اس کا جواب دوں گا.مگر میں ہر دفعہ اس کو اشارے سے روکتا رہا اور پھر تحمل سے میں نے بات بیان کی یہ ویسے ہی عشاق ہیں جن کا ذکر آپ پرانے زمانوں میں انبیاء کے حوالوں سے پڑھتے ہیں اور انبیاء ہی کی برکت سے وجود میں آئے ہیں.اگر مسیح موعود دوبارہ دنیا میں تشریف نہ لاتے تو وہ اولین کے نظارے جو تاریخ کی زینت تھے وہ آج اس زمانے کی زینت نہیں بن سکتے تھے.پس ان خوبیوں کی حفاظت کریں یہی اخلاق حسنہ ہیں جو آپ کو زندگی بخشیں گے یہی اخلاق حسنہ ہیں جو لوگوں کے دلوں میں ایک عظیم روحانی انقلاب برپا کر دیں گے.خدا کرے ایسا ہی ہو.آمین.

Page 433

خطبات طاہر جلد 13 427 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء اللہی محبت الہی بغض اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں رسول محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں کا حقیقی مفہوم (خطبه جمعه فرموده 10 / جون 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمُ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ايَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ پھر فرمایا:.(آل عمران: 104) یہ آیت کریمہ جس کی پچھلے دو خطبات میں بھی تلاوت کر چکا ہوں اسی کا مضمون جاری ہے لیکن اس سے پہلے میں چند اعلانات کرنا چاہتا ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع سرگودھا کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ آج سے ان کے اجتماعات شروع ہورہے ہیں اس لئے ان کو بھی خصوصی دعاؤں میں شامل کیا جائے.جماعت احمد یہ گوئٹے مالا کا پانچواں جلسہ سالانہ کل گیارہ جون سے شروع ہورہا ہے، دو دن جاری رہے گا.اس میں پہلے دو دن تو علمی تقاریر اور جو روایتی جماعت کے پروگرام ہیں وہ ہوں گے لیکن ایک دن آخر پر مذہبی رواداری کے نام پر سیمینار منعقد کیا جا رہا ہے جس میں تمام بڑے

Page 434

خطبات طاہر جلد 13 428 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء بڑے مذاہب کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے نمائندے بھیجیں اور اپنے مذہب کے نقطہ نگاہ سے اس پر روشنی ڈالیں.انہوں نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے اہم نمائندوں نے دعوت کو قبول کر لیا ہے وہ بھی اس سیمینار میں شریک ہوں گے.مجلس خدام الاحمدیہ نارتھ پارک ( یہ کینیڈا میں ہے) کا تیسرا جلسہ سالانہ اور اجتماع بارہ جون بروز اتوار منعقد ہو رہا ہے.آل آندھرا پردیش خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع کل گیارہ جون سے شروع ہو رہا ہے اور اس کے بعد جلسہ پیشوایان مذاہب ہو گا.لجنہ اماء اللہ میونخ ریجن کا ایک روزہ سالانہ اجتماع کل گیارہ جون کو منعقد ہو رہا ہے بہت سے ایسے اجتماعات ہیں جو اور بھی جگہ ہور ہے ہوں گے ، بعضوں کو موقع مل جاتا ہے وقت پر اطلاع دے دیتے ہیں، بعضوں کی اطلا میں بعد میں ملتی ہیں ، بعضوں کو وقت پر یاد بھی نہیں رہتا مگر خواہش سبھی کی ہوتی ہے.پس جہاں جہاں بھی دینی اغراض سے جماعت احمدیہ کسی رنگ کے بھی اجتماع منعقد کر رہی ہے، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے.خالصہ للہ ا کٹھے ہوں، خالصہ اللہ جدا ہوں اور ان کے تمام کے ملنے میں بھی برکتیں ہوں ، ان کی جدائیوں میں بھی برکتیں ہوں.حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ میں آپ سے صرف وہی بات بیان کروں گا جو من و عن میں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے الفاظ میں کوئی روایت بیان نہیں کی بلکہ وہ الفاظ یاد رکھے ہیں اور یہ روایت بیان کرتے وقت کہا کرتے تھے کہ میں وہی بات کہوں گا جو بعینہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور غالبا یہ غیر معمولی احتیاط اسی لئے انہوں نے برقی ہے کیونکہ حدیث قدسی میں جب آنحضور نے بات خدا کی طرف منسوب کریں تو وہ کلام غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے اور من و عن ویسا ہی بیان کرنا ضروری ہے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری وجہ سے آپس میں محبت کرنے والوں پر میری محبت واجب ہو گئی ہے اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں پر میری محبت واجب ہو گئی ہے اور میری وجہ سے ایک دوسرے سے دوستی کرنے والوں پر میری محبت واجب ہوگئی ہے اور صلہ رحمی کرنے والوں پر بھی یہ جو آخری فقرہ ہے صلہ رحمی کرنے والوں پر بھی ان کے ضمیر کی احتیاط نے پھر ایک تقاضا کیا ہے کہ مجھے یہ بعینہ یاد نہیں غالبا یہی کہا تھا اس لئے احتیاطا یہ کہا کہ یا تو بالکل یہی الفاظ تھے ” صلہ رحمی کرنے والوں پر یا یہ فرمایا تھا کہ ایک دوسرے سے

Page 435

خطبات طاہر جلد 13 429 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء میری خاطر ملنے جلنے والوں پر اللہ پر ان کی محبت فرض ہو جاتی ہے.(مسند احمد بن جنبل، جز خامس صفحہ 229) آج کے جتنے اجتماعات ہیں وہ خدا کے فضل کے ساتھ محض اللہ ہیں اور جماعت کے تمام اجتماعات محض اللہ ہوتے ہیں.کوئی میلہ ٹھیلہ مراد نہیں ہوتی اور کوئی مقصد نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ ہی آپس میں تعلقات کے روابط بڑھتے ہیں اور ان اجتماعات میں شامل ہونے والے ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کے مقاصد میں جو بات بیان فرمائی وہ یہی تھی کہ محض اللہ یہاں آؤ اور دین سیکھو اور آپس میں محبتیں بڑھاؤ اور ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرو اس طرح جماعت میں ایک عالمگیریت آنی شروع ہو جاتی ہے اور آپ اگر اپنے طور پر سوچیں، وہ لوگ جن کو مرکزی جلسوں میں آنے جانے کے موقعے ملتے رہتے ہیں یا مہمانوں کی خدمت کی توفیق ملتی رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے تعلقات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دنیا میں کوئی اور جماعت اور کوئی اور قوم یہ دعوی ہی نہیں کر سکتی.کیونکہ کثرت کے ساتھ اللہ کے نام پر ایک جگہ اکٹھے ہونے والے جو مختلف ملکوں اور قوموں اور مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں کہیں اور اکٹھے نہیں ہوتے اور آپس میں پھر ایک دوسرے سے ان کی محبتیں نہیں بڑھتیں.انگلستان کی جماعت میں جب تک انٹر نیشنل جلسہ شروع نہیں ہوا تھا ان کو اس بات کا ذائقہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے.اتفاقاً کوئی باہر سے آ گیا اور شامل ہو گیا.اب یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح ہر جلسے پر سب دنیا سے لوگ کھچے چلے آتے ہیں اور مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں کے اور جب ایک مقامی آدمی کی ان پر نظر پڑتی ہے تو بلا شبہ محبت کی نظر پڑتی ہے.کئی دفعہ گزرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کوئی غیر ملکی کھڑے ہیں اور ساتھ ارد گرد مقامی لوگ جمگٹھا کر کے کھڑے ہو گئے اور بڑے غور اور پیار سے ان کو دیکھ رہے ہوتے ہیں.ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے ان سے مصافحہ کرے، ان سے تعلقات بڑھائے.یہی حال آنے والوں کا ہوتا ہے.جاتے ہیں تو بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ واپس جاتے ہیں اور واپس جا کر جو خطوط لکھتے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ مقامی لوگوں سے ہی نہیں بلکہ وہ دوسرے، جو دوسرے ملکوں سے آئے تھے ان سے بھی ان کے تعلقات بڑے گہرے ہو گئے ہیں اور پھر آپس میں خط و کتابت کے سلسلے چل پڑتے ہیں ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں کہ تم ہمارے ملک میں بھی آؤ.تو یہ عالمگیریت جو جماعت احمدیہ کو عطا ہوئی ہے.در حقیقت حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم

Page 436

خطبات طاہر جلد 13 430 خطبه جمعه فرمود و 10 جون 1994ء ہی کا صدقہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ گر سیکھے یہ حضرت محمد رسول اللہ سے ہی سیکھے تھے اور ان کو پھر جاری فرمایا اور ایسی جماعت میں جاری فرمایا جس کو آپ کے ساتھ ہی محبت تھی.ایسی محبت کہ آج کی دنیا میں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آ سکتی کہ کسی جماعت کو اپنے امام سے ایسا گہراعشق ، اتنا پیار ہو کہ اس کی ادنی باتوں پر بھی جان قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہو.پس وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سیکھا وہ اپنے آقا ومولا اور ہم سب کے آقا ومولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے سیکھا اور چونکہ آپ ہی کی پیشگوئی کے مطابق آپ کو اس دنیا کے مہدی اور امام تسلیم کر کے ہمارے دل میں لہی محبت پیدا ہوئی اس لئے اسی محبت کے صدقے ، اسی محبت کے رابطے سے ہمارے آپس کے تعلقات بڑھ رہے ہیں لیکن ہم کتنے ہیں جو اس بات کو سوچتے ہیں.بسا اوقات ملنے والوں کو تعلق بڑھانے والوں کو خیال ہی نہیں آتا کہ یہ سلسلہ کیا ہورہا ہے اور کہاں سے چلا تھا.یہ جو حدیث میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے یہ سارے جلسوں کی روح اس کے اندر شامل ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کا حضرت رسول اکرم ﷺ کا کلام حصہ بن چکا تھا.آپ کی سرشت بن گئی تھی ، آپ کی فطرت ثانیہ تھی.پس جو باتیں بھی آپ فرماتے تھے، جو صیحتیں بھی کرتے تھے وہ تمام تر قرآن اور حدیث پر مبنی بلکہ اس کی روح میں جذب ہو کر کیا کرتے تھے اور بھی تو کرتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ قرآن کی باتیں کر رہے ہیں، کون ہے جو ان کی بات کو مانتا ہے.وللہی محبت سے طاقت پیدا ہوتی ہے.یہ مضمون ہے جو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.اس طاقت ہی کے نتیجے میں اجتماعیت بنتی ہے.اسی طاقت کے نتیجہ میں اطاعت کی روح پیدا ہوتی ہے لٹھی محبت کو نکال دیں تو پیچھے کچھ بھی نہیں رہے گا، وہ جمیعت جو بظاہر ایک توحید کے نام پر ایک عظیم مقدس نام پر عالمگیریت کا دعوی کرتی ہے وہ منتشر ہوکر پارہ پارہ ہو جاتی ہے.مسجد کا مسجد سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے.فرد کا فرد سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور صلہ رحمی کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.پس اگر آنحضرت ﷺ نے صلہ رحمی، بھی فرمایا تھا تو اس مضمون کی تکمیل ہوئی ہوگی.میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ آپ نے صلہ رحمی ہی فرمایا ہو گا.ان کو جو شک پڑا ہے راوی کو اس وجہ سے شک پڑا ہے کہ مضمون تو عالمگیریت کا ہے سب بھائیوں کا ایک دوسرے سے اللہ کی خاطر محبت کرنے کا، یہاں صلہ رحمی کا کیا ذکر آ گیا.اپنی طرف سے تو پورا یاد کیا تھا اور نفس گواہی دیتا تھا کہ یہی ہے جو مجھے

Page 437

خطبات طاہر جلد 13 431 خطبه جمعه فرموده 10 / جون 1994ء یاد ہے تبھی شروع میں یہ دعویٰ کیا کہ میں جو کچھ بیان کروں گا لفظ لفظ وہی ہے جو حضور اکرمے سے میں نے سنا ہے.آخر پر پہنچ کر اگر شک ہے تو دراصل یادداشت کا شک نہیں مضمون کا شک پڑا ہے.آنحضور تولہی محبت کی باتیں کرتے ہیں تمام دنیا کے ہر قوم سے تعلق رکھنے والے اس محبت میں باندھے جاتے ہیں وہاں رشتوں کی محبت کی کیا بحث ہے.لیکن صلہ رحمی کا اس سے گہرا تعلق ہے کیونکہ قرآن کریم عدل اور احسان کے بعد ایتاء ذی القربی کی بات کرتا ہے.احسان میں کون سے خونی رشتے ہوتے ہیں.احسان کا مضمون ہی دراصل عالمگیریت سے تعلق رکھتا ہے.تمام بنی نوع انسان کے ساتھ یہ مضمون برابر تعلق رکھتا ہے اور کوئی فرق نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر ایسی بات کہہ کر احسان کا مضمون بیان کر کے جس کا بنی نوع انسان سے اور انسان کی عالمگیریت سے تعلق ہے اچانک مضمون کا رخ صلہ رحمی کی طرف پھیر دینا اور ایتاء ذی القربی کا ذکر کر دینا کیا معنے رکھتا ہے.جو معنے وہاں رکھتا ہے وہی یہاں معنے رکھتا ہے.مراد یہ ہے کہ یہی محبت پھر ایسی بڑھی کہ اس میں پھر سوچوں کے دائرے ختم ہو جائیں.یہ سوچ کہ ہمیں محبت ہونی چاہئے.یہ اگر کام دکھا رہی تھی تو خود غائب ہو جائے اور اس کی جگہ ایک ایسا تعلق لے لے جس میں سوچوں کا کوئی دخل نہیں ہوا کرتا.ماں بیٹے سے محبت کرتی ہے تو یہ سوچ کر تو نہیں کرتی کہ مجھے محبت کرنی چاہئے.بیٹا ماں سے پیار کرتا ہے یہ سوچ کر تو نہیں کرتا کہ مجھے پیار کرنا چاہئے.اسی طرح رحمی رشتوں کا حال ہے.تو فرمایا کہ صلہ رحمی کر و یعنی بنی نوع انسان کے ساتھ اللہ کی خاطر ایسا تعلق قائم کرو کہ وہ تمہارے خونی رشتے بن جائیں اور خونی رشتوں کی طرح پاک صاف اور دلیل کے احتیاج سے بالا ہو جائیں، کوئی دلیل کی ضرورت نہ رہے، از خود تعلق دل سے پھوٹے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں جماعت احمد یہ اس مضمون کے اطلاق کا ایک زندہ اور پاکیزہ نمونہ ہے.آپ بے شک اپنی یادوں کو کرید کر دیکھیں.آپ نے جب جلسوں میں شرکت کی ہے جہاں لڑہی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو کبھی آپ نے کسی افریقہ سے آئے ہوئے سے اس لئے محبت نہیں کی کہ مجھے کرنی چاہئے.کسی بھی آئی لینڈ کے دوست سے یہ تعلق نہیں باندھا کہ چونکہ ایسا ہونا چاہئے اس لئے میں تعلق کروں گا.دل سے از خود محبت پھوٹتی ہے.اسی طبیعی محبت کا نام صلہ رحمی

Page 438

خطبات طاہر جلد 13 432 خطبه جمعه فرموده 10 / جون 1994ء ہے.پس آج کی دنیا میں حقیقت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ارشادات کو عملی نمونہ کے طور پر اگر کسی نے زندہ دیکھنا ہے اور اجاگر ہوتا ہوا دیکھنا ہے تو جماعت احمدیہ کی تخلیق میں دیکھے.جماعت احمد یہ جن خطوط پر آگے بڑھ رہی ہے یہ وہی نمونے ہیں جن کو پیدا کرتی ہوئی اور مزید بڑھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے.پس جیسا کہ میں پہلے بھی اس مضمون کو نئے آنے والوں کے تعلق سے بیان کر چکا ہوں.آج پھر آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جو خدا نے آپ کو نعمت عطا فرمائی ہے اور آپ کو معلوم بھی نہیں تھا کہ کیسے عطا ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسیلے سے دوبارہ عطا ہوئی ہے.اس وسیلے کو نکال دیں تو باقی امت محمدیہ بھی تو وہی موجود ہے جس میں قرآن بھی موجود ہے اور حدیث بھی موجود ہے ان کو کیوں یہ محبت نصیب نہیں.کس طرح ان کے دل ایک دوسرے سے کٹے ہوئے اور بٹے ہوئے ہیں.پس اس نصیحت کو یا درکھیں کہ اللہ نے دوبارہ یہ نعمت اپنے فضل سے عطا کی ہے اور نعمت کے سوا دل نہیں باندھے جا سکتے.پہلے بھی میں نے ایک آیت کریمہ کے حوالے سے سمجھایا تھا کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو فرمایا ہے کہ تو نے دل نہیں باندھے میں نے باندھے ہیں.تجھ میں طاقت نہیں تھی کہ ان ایک دوسرے کے دشمنوں اور جان کے دشمنوں کو بھائیوں کے رشتے میں آپس میں باندھ دو، ایک جان بنا دو.اللہ کو طاقت تھی ، اللہ نے باندھا ہے لیکن کیسے؟ بِنِعْمَتِ اللہ کی نعمت سے اخوان بنے ہیں اور نعمت کا مضمون قرآن سے ثابت ہے.اول طور پر نبوت پر اطلاق پاتا ہے.پس فرمایا کہ تیری نبوت جو تجھے خدا نے رحمت کے طور پر عطا کی ہے وہ بھی تو تو گھر سے نہیں لے کے آیا تھا.وہ نبوت بھی تو ہم نے عطا کی تھی.اس نبوت میں طاقت نہیں مگر اللہ نے جس مقام پر تجھے فائز فرمایا ہے اس مقام کو اس منصب کو کچھ طاقتیں عطا کی ہیں انہی کی برکت ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے یہ سب ایک دوسرے سے تعلق باندھے جارہے ہیں.اس بات کا قطعی ثبوت کہ یہ تفسیر درست ہے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو بیچ سے نکال لیں.آپ کی محبت کو ہٹا دیں تو وہی قرآن ہے وہ کبھی وہ محبت پیدا نہیں کر سکتا.آنحضرت ﷺ جب اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور جانے کے لئے رخصت ہوئے تو کیا واقعہ گزرا.کس طرح پھر آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں اور پھر وہ تفرقے بڑھتے بڑھتے آج اس حال پہ مسلمان پہنچ چکے ہیں کہ نا قابل بیان ہے.تو نعمت سے اول مراد رسول کی ذات ہے.خدا کا نبی ہے اور باہمی محبت اس کے مرکز میں پہلے

Page 439

خطبات طاہر جلد 13 433 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 /جون 1994ء مرکوز ہو کر پھر وہاں سے منتشر ہوتی ہے اور شعاعوں کی طرح پھوٹتی ہے.وہ تعلق بیچ میں نہ ہو تو آر سب منتشر ہو جائیں گے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آج تصور اپنے میں سے نکال دیں تو آپ میں سے کسی کو ایک دوسرے کی پرواہ نہیں رہے گی اور اس تعلق کو خلافت آگے بڑھا رہی ہے اور وہ تعلق پھر خلافت کی ذات میں مرکوز ہوتا ہے اور پھر آگے چلتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آیت استخلاف کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے.فرمایا وہ جاہل ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ نبوت کی برکتیں نبی کی زندگی تک محدود ہو جاتی ہیں ان برکتوں کو آگے چلانے کے لئے آیت استخلاف کا وعدہ ہے اور خلافت کے ذریعہ وہ برکتیں آگے بڑھائی جاتی ہیں.پس یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جیسی محبت خلیفہ کو جماعت سے ہوتی ہے یا جماعت کو خلیفہ سے ہوتی ہے اس کی کوئی مثال دنیوی تعلقات میں کہیں دکھائی نہیں دیتی اور یہی محبت ہے جو پھر آپس میں انتشار کرتی ہے.جس طرح ایک مرکز پر لیزر کی شعاعیں اکٹھی ہوں اور پھر منتشر ہو کر اردگرد پھیلیں، وہی کیفیت ہے.یہ محبت جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی آپ کے آپس میں لڑہی تعلقات بڑھیں گے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جو میں ساری اپنی زندگی کی تاریخ اور تجربوں پر نگاہ ڈال کر بیان کر رہا ہوں.میں نے دیکھا ہے جن کو خلیفہ وقت سے زیادہ محبت ہوتی ہے وہی آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ محبت کرتے ہیں.جن کے دل میں بغض اور دُوریاں ہوتی ہیں وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے بغض کرتے ہیں اور دُور ہو جاتے ہیں.پس اگر آپ نے اس نعمت کو پکڑے رہنا ہے تو وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا الله کی رسی پر اجتماعیت کے ساتھ مضبوطی سے ہاتھ ڈال دیں اور ایسا ہاتھ ڈالیں کہ لَا انْفِصَامَ لَهَا وہ مضمون بھی صادق آئے کہ پھر اس ہاتھ کا چھٹنا ممکن نہ رہے.اگر ایسا ہو تو آپ کی آپس کی محبت کی ہمیشہ کے لئے ضمانت ہے، کوئی دنیا کی طاقت آپ کو پارہ پارہ نہیں کر سکتی ، کوئی دنیا کی طاقت آپ کے دلوں کو پھاڑ نہیں سکتی اور یہ سارے وہ مضمون ہیں جو قرآن کی وحی کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کی ذات میں ظاہر ہوئے ، آپ کی ذات میں جلوہ گر ہوئے ، آپ کی زبان سے ہم نے ان کو سنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وساطت سے اس زمانہ میں ہم نے ان کے اندر ایک زندگی پائی.وہ زندگی جو ہمیشہ سے تھی مگر لوگ مردہ تھے جن پر وہ اثر نہیں کر رہی تھی مسیح موعود

Page 440

خطبات طاہر جلد 13 434 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء صل الله علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے ہم نے اسے زندہ محسوس کیا اور اسی زندگی سے ہمارے محبت کے رشتے زندہ ہو گئے ، ہمارے دل دوبارہ دھڑکنے لگے، ہم میں اجتماعیت کا احساس، پیدا ہوا.یہ جب تک زندہ رہے گا ہم دنیا کو امت واحدہ بناتے رہیں گے.یہ طاقت ہمیں خدا سے نصیب ہوئی ہے، کوئی دنیا کی طاقت، یہ طاقت ہم سے چھین نہیں سکتی.راز اس کا وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں.اس کو سمجھیں، اس پر قائم ہو جائیں تو آپ کے اندر مزید مقناطیسی طاقتیں پیدا ہوں گی اور آپ بڑی قوت کے ساتھ نئے آنے والوں کو اپنے ساتھ کھینچیں گے اور یہ اجتماعیت کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا.اللہ کرے کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کی ان نصیحتوں کو سمجھنے اور حرز جان بنانے یعنی جان میں ایک سب سے پیارا وجود سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.اب اس کے مختلف اظہار ہیں.ان اظہارات سے آپ اپنی محبتوں کے جائزے لے سکتے ہیں ان کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ کس حد تک آپ لکھی محبت کے اہل ہیں یاللہی محبت کرنے والے اور واقعہ اپنی زندگی کے روز مرہ کے اعمال سے ثابت کرنے والے ہیں کہ آپ کو ایک دوسرے سے اللہ کی خاطر محبت ہے.میں یہ بات پھر خاص طور پر دہرانا چاہتا ہوں جو حضور اکرم نے فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میری محبت ان پر واجب ہوگئی جو لہی محبت میری وجہ سے کرتے ہیں مجھ پر فرض ہو گیا ہے کہ میں ان سے محبت کروں تو یہ مضمون روحانیت کا حرف آخر ہے.تمام مذاہب کا اعلیٰ مقصد بندے کو خدا سے ملانا ہے اور خدا کی محبت کے آداب سکھانے ہیں ، وہ رستے بتانے ہیں جس پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے.ان رستوں کی تفصیل پر جائیں تو بہت مشکل رستے ہیں.چھوٹے چھوٹے مقامات پر بڑی بڑی ٹھوکریں آتی ہیں اور بے شمار ایسے مقامات ہیں جہاں آپ کو یوں لگے گا کہ سانس اکھڑ گیا ہے اور چلنا دو بھر ہو گیا ہے.لیکن یہ محبت کا رستہ ہے جو سب رستوں سے زیادہ آسان ہے اور تمام نصیحتوں کی جان ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری خاطر آپس میں پیار کرو گے تو وہ پیار تو ایسا ہے جو تم جانچ سکتے ہو، دیکھ سکتے ہو.مجھ سے جو پیار کرتے ہو تم کئی دفعہ دھو کے میں رہتے ہو تمہیں پتا ہی نہیں لگ سکتا کہ پیار ہے بھی کہ نہیں.اس پیار کی کچھ علامتیں ہیں جو ظاہر ہونی چاہئیں وہ اللہ ہمیں بتاتا ہے محمد رسول اللہ کی وساطت سے.وہ علامتیں یہ ہیں کہ اگر تم سچی محبت مجھ سے کرتے ہو تو آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے کیونکہ ان سب کا رشتہ مجھ سے ہے.

Page 441

خطبات طاہر جلد 13 435 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / جون 1994ء میرے رشتے کی خاطر ان سے تعلق بڑھاؤ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی ذات پر تمہاری محبت فرض کرلوں گا.اگر کسی مذہب میں اس بات کی ضمانت مل جائے کہ اس کے پیروکاروں پر اللہ کی محبت فرض ہوگئی تو اس سے بڑی اور کیا نعمت ممکن ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا یہ نصیحت روحانیت کے مضمون کا حرف آخر ہے.اس سے بلند تر کوئی نصیحت نہیں ہو سکتی تھی اور کتنی سادہ اور کتنی آسان ہے لیکن روز مرہ کی جو علامتیں ہیں ان پر بھی غور ضروری ہے.ان پر نظر ڈالے بغیر ہم پہچان نہیں سکتے کہ ہماری محبت محض ایک رومانی فرضی محبت تھی یا سچی اور حقیقی تھی.فرماتا ہے ”میری محبت واجب ہوگئی اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں پر میری محبت واجب ہو گئی.اب جلسے پر بھی جب دوست تشریف لاتے ہیں اس کے علاوہ بھی جب ایک احمدی دیکھتا ہے کہ کسی اور احمدی کو کوئی ضرورت ہے اور وہ اس پر کمر بستہ ہو جاتا ہے کہ کسی طرح اس کی ضرورت کو پورا کرے اور یہ روز مرہ عام طور پر جاری و ساری مضمون ہے تو بحیثیت جماعت وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ ہم وہی جماعت ہیں جس کا ذکر اس حدیث نبوی میں ملتا ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی محبت مجھ پر واجب ہو گئی.پس خدا کی خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنا ،خدا کی خاطر ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنا یہ در حقیقت اللہ کی محبت کی ایک علامت ہے اور اسی لئے للہی محبت کی شرطوں میں اس کو داخل فرمایا گیا ہے.پھر فرماتا ہے، ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں پر میری محبت واجب ہوگئی اور میری وجہ سے ایک دوسرے سے دوستی کرنے والوں پر میری محبت واجب ہو گئی.اصل حقیقت یہ ہے کہ جو حقیقت میں آنحضرت ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور خدا سے محبت کرتے ہیں وہ دینی خدمت کرنے والوں سے نفرت کر ہی نہیں سکتے ، یہ ناممکن ہے.اس لئے جب بھی کہیں جماعتوں سے مجھے یہ اطلاع ملتی ہے کہ دھڑے بندیاں ہو گئی ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو امیر اور اس کے ساتھیوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور پھرا کٹھ کر کے ایک دوسرے کے ساتھ مشورے کر کے کسی اور کو امیر لانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ وہاں سے ایمان اٹھ چکا ہے اور خدا کی محبت کا کوئی اثر ان لوگوں کے دلوں پر باقی نہیں سبھی بعض دفعہ میں نے بہت سخت خطبے اس مضمون پر دیئے ہیں اور بعض دفعہ مجھے لوگ احتجاج کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ چھوٹی سی بات تھی آپ سمجھا دیتے ، بات کر دیتے.

Page 442

خطبات طاہر جلد 13 436 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / جون 1994ء آپ اتنا زیادہ جلال میں کیوں آجاتے ہیں.ایک نے مجھے لکھا کہ جرمنی کے ایک خطبہ کے وقت جب آپ بیان کر رہے تھے تو مجھے ڈر تھا کہ آپ کا ہارٹ فیل نہ ہو جائے اس جوش و خروش کے ساتھ باتیں کر رہے تھے.اصل بات یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی بات جو آپ کو دکھائی دے رہی ہے بے انتہا وقعت والی بات ہے، بے حد ضروری ہے اور ہماری روحانی زندگی کا مرکزی وجود ہے.ہماری روحانی زندگی اس بات کو سمجھنے میں ہے کہ اگر اللہ سے محبت ہو تو اللہ کی خاطر کام کرنے والوں سے نفرت ہو ہی نہیں سکتی.خلیفہ کی بات تو الگ ہے.وہ لوگ کہتے ہیں ہمیں خلیفہ سے محبت ہے، ہاں ان سے نفرت ہے.میں کہتا ہوں اگر ان سے نفرت ہے تو مجھے تم سے محبت نہیں ہے تو اللہ نے یہی مضمون تو سمجھایا ہے کہ میری خاطر محبت کرنے والوں پر میری محبت فرض ہو جاتی ہے.وہ جو میری خاطر اگر مجھ سے محبت ہے، آپس کی محبت نہیں کر سکتے تو میری محبت ان پر ، ان کی مجھ پر، کیسے فرض ہوسکتی ہے.جب اللہ پر ہی نہیں تو میں کون ہوں؟ میری کیا حیثیت ہے؟ اصل واقعہ ہے کہ یہ جھوٹ ہے.سچی محبت کی کچی علامتیں خدا نے کائنات کے سب سے بچے بندے کے منہ سے جاری کروا ئیں اور یہ ایک قطعی حقیقت ہے.آپ جن کو انتظامی تجربے ہیں وہ سارے گواہ ہوں گے، سارے اپنے پرانے تجربوں پر نگاہ ڈال کر دیکھ لیں.جو سچے مومن ہیں جن کو حقیقت میں اللہ اور رسول سے اور جماعت سے پیار ہے وہ خدا کی خاطر خدمت کرنے والوں سے نفرت کر ہی نہیں سکتے.جن کے دلوں میں بغض دکھائی دے گا ان کے دلوں میں اسی حد تک اللہ کی محبت میں رخنہ دکھائی دے گا یعنی دکھائی دے نہ دے نتیجہ یہ نکلتا ہے.پس اس بات کو معمولی نہ سمجھیں.خدا کی خاطر ایک دوسرے سے پیار کا صرف یہ مطلب نہیں کہ کسی ایک بزرگ کے سامنے ماتھا ٹیک دیا.وہ ماتھا ٹیکنا تو شرک بھی بن جاتا ہے.خدا کی خاطر پیار کا یہ ہے اصل مضمون، جس سے آپ کے پیار کی حقیقت کھلتی ہے.کوئی شخص جس کو آپ جانتے بھی نہیں وہ جو دن رات خدا کی خاطر محبت میں دوڑا پھرتا ہے اور کام کرتا ہے اپنے گھر والوں کو بھلا دیتا ہے آپ اس سے کیسے نفرت کر سکتے ہیں.نفرت تو کیا اگر آپ کے دل میں طبعی محبت پیدا نہیں ہوتی تو آپ کو خدا کی محبت کا عرفان ہی حاصل نہیں.پس حقیقت میں یہ ایسی ہی خدمت کرنے والے ہیں جو جماعتوں کو باندھنے کا موجب

Page 443

خطبات طاہر جلد 13 437 خطبہ جمعہ فرموده 10 جون 1994ء بنتے ہیں اور انہی جماعتوں میں برکت پڑتی ہے جو پھر ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں وہ ان کی بات کو ٹھکراتے نہیں ان کو طعنے نہیں دیتے.وہ جب ان سے خدا کے نام پر کچھ مانگنے کے لئے نکلتے ہیں تو عزت و احترام سے ان کے ساتھ پیش آتے ہیں ان کے شکریے ادا کرتے ہیں، تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر ایک معزز انسان آیا ہے جس کا سفر محض اللہ کی خاطر تھا.اس نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کوئی اپنی نفسانی غرض کے لئے نہیں، کوئی ہم سے مدد مانگنے کے لئے نہیں، کوئی سفارش کروانے کے لئے نہیں، کسی تجارت کی غرض سے نہیں آیا.وہ تجارت جس کا خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اللہ سے کریں اس کا پیغامبر بن کر آیا ہے.ہمیں کہتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو لیکن ایسے بھی ہیں جو جب ان کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں تم تو ہر وقت مانگتے ہی رہتے ہو تم سمجھتے ہو دین ہے ہی پیسے دینا.تم لوگ دنیا پرست ہو گئے ہو روحانیت سے عاری ہو.ہر وقت پیسہ پیسہ، پیسہ دو، پیسہ دو، ان بیوقوفوں کو کیا پتا کہ اللہ نے اپنے دین کے ساتھ اخلاص کی تعریف میں بلکہ بیعت کی شرط میں یہ داخل کر دیا ہے.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبہ: 111) اللہ نے تو جان کے بھی سودے کئے اور ساتھ ہی پیسے پر بھی ہاتھ ڈال دیا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا.فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہاری جانوں کا اور تمہارے سارے اموال کا سودا کر لیا اور تمہارا کچھ بھی باقی نہیں رہا.بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّة اس کے بدلے پھر جنت تم پر فرض ہو گئی.پس للّہی محبت کرنے والوں سے اگر محبت ہو اور وہ خدا کے حکم کے تابع آپ سے پیسے مانگنے نکلتے ہیں.اپنی جیب میں ڈالنے کے لئے نہیں، اگر آپ کو توفیق نہیں تو کم سے کم کوئی عفو کا کلمہ ہی کہیں، کوئی نرمی کی معذرت ہی پیش کریں.قرآن کریم تو یہ فرماتا ہے وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ (الضحی : 11) اور پھر فرماتا ہے کہ اگر اور کچھ نہیں تو عفو کا قول اور نرمی کا قول ہی اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد تکلیف پہنچے یا تکلیف دی جائے تو نرم قول ہی کہہ دیا کرو.لیکن اگر سچی محبت ہے تو نرم قول کی بات نہیں ، ایسے آنے والے کے لئے دل محبت سے اچھلنا چاہئے.اس کی عزت دل میں بڑھنی چاہئے.اس کی قدر ہونی چاہئے.انسان کو اس کو عزت کے ساتھ گھر میں بیٹھنے کی دعوت دینی چاہئے مگر میں جانتا ہوں اکثر کو موقع نہیں ملتا.کراچی جیسے شہر میں میں نے ایسے دیوانے ہر وقت پھرتے دیکھے ہیں، لاہور میں دیکھے ہیں، ربوہ میں دیکھے ہیں.رجسٹر

Page 444

خطبات طاہر جلد 13 438 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / جون 1994ء اٹھائے ہوئے، بجائے گھر والوں کے پاس بیٹھنے کے، وہ گرمیاں ہوں، سردیاں ہوں، بازاروں گلیوں میں گھوم رہے ہوتے ہیں.آپ کہاں جا رہے ہیں؟ جی فلاں چندے کی تحریک کرنے جارہا ہوں.یہ جو جماعت کے چندے زندہ ہیں جن کی وجہ سے جماعت کے کاموں میں زندگی پڑ رہی ہے یہ انہی مخلصین کی قربانیوں کا نتیجہ ہے.پس ان کو دعائیں بھی دیں، ان کے لئے دل میں پیار محسوس کریں.اگر پیار محسوس نہیں کرتے تو اللہ کی محبت آپ پر واجب نہیں ہوگی.کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ جو میری خاطر آپس میں محبت کے رشتے باندھتے ہیں ان پر میری محبت واجب ہوتی ہے اور اللہ کی خاطر ویسے کیسے محبت ہو سکتی ہے.یہ کوئی فرضی بات نہیں غور تو کر کے دیکھیں اللہ کی خاطر ویسے کیسے آپ کو محبت ہو جائے گی جب تک اللہ کے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ محبت نہ ہو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی کسی کو دنیاوی محبت ہو گئی اور اس حدیث کا بہانہ لے لیتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو اطلاع کرو جس سے تمہیں محبت ہو گئی ہے.(مشکوۃ المصابیح باب الحب فی اللہ ومن اللہ ).حالانکہ آپ للہی محبت کی بات کر رہے ہیں.دنیا کے عشق کی باتیں نہیں کر رہے اور اس بہانے لوگ اطلاعیں کرتے ہیں.ایک دفعہ ایک خط میرے پاس کسی کا کسی کے نام آیا لیکن میری معرفت اور جو لکھنے والے تھے ان کو اتنا یقین تھا کہ وہ صحیح بات کر رہے ہیں کہ انہوں نے میری وساطت سے وہ خط بھجوانے کے لئے درخواست دی کہ آپ پڑھ بھی لیں اور آگے چلا دیں.وہ ایسا لغو اور بے ہودہ خط تھا اور مجھے حوالہ دیا گیا تھا اس حدیث کا کہ دیکھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کسی سے محبت کرے اسے بتا دے کہ مجھے تم سے محبت ہے.اس محبت کا تو وہم و گمان بھی حضور اکرم کے ذہن یا دل سے گزرا نہیں تھا.جس کی بات تم کر رہے ہو اور آگے آپ چلا دیں.میں نے ان کو کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ بھی آئندہ یہ جہالت نہ کریں نہ خود لکھیں نہ مجھے دیں نہ کسی اور کو دیں.یہ معین بات میرے ذہن میں آئی تھی تو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ اس سے ادنی درجوں پر ایسی بہت سی مثالیں آپ کو ملیں گی.کئی لوگوں کے دل میں یہ غلط فہمی ہوتی ہے وہ مراد نہیں ہے.للہی محبت ہو، پھر جائیں اس کو بتائیں کہ تمہاری ذات سے ہمیں اور کوئی تعلق نہیں تم اللہ کی خدمت کرنے والے ہو اس لئے ہم تم سے محبت کرتے ہیں.اس طرح جماعت کے رشتے لہی محبت میں اتنے مضبوط اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے کہ وہ اجتماعیت جو آج آپ خدا کے فضل سے دیکھ رہے ہیں اس میں مزید

Page 445

خطبات طاہر جلد 13 439 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / جون 1994ء طاقت پیدا ہوگی.نیا خون دوڑنے لگے گا اور اس کی جماعت کو بہت ضرورت ہے.پس جہاں جہاں جماعتیں ابھی بھی پھٹی ہوئی ہیں ان کو سوچ لینا چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی تکذیب کر رہی ہیں کوئی نہ کوئی گروہ ان میں لازماً ایسا ہو گا جس کو ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوئی.اس لئے میں کہتا ہوں، کوئی نہ کوئی، کیونکہ جب دوسرا فریق مناصب سے اتر جاتا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والا اوپر آ جاتا ہے تو وہ اس سے وہی سلوک شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ بچے تھے تو منصب سے اترنے کے بعد ان کو بجز اور اطاعت کے وہ نمونے دکھانے چاہئیں جس سے منصب پر فائز لوگ سمجھیں کہ ہم جھوٹے تھے.ہم حق نہیں رکھتے کہ اس منصب پر آئیں، یہ وہ لوگ ہیں جو حق رکھتے ہیں.پس لنہی محبت کی پہچان تو روز مرہ عام ہے.ذراسی آنکھیں کھول کر دیکھیں تو آپ پہچان سکتے ہیں کہ کس حد تک آپ آنحضور کی ہدایت کے مطابق محبت کرتے ہیں.آخر پر فرمایا اور صلہ رحمی کرنے والوں پر بھی میری محبت واجب ہوگئی.ایک صلہ رحمی تو وہ ہے جو ماں باپ اور بیٹیوں اور بیٹوں اور ماں باپ کے درمیان یا بھائیوں بہنوں کے درمیان چلتی ہے.ایک وہ ہے جو کہی محبت صلہ رحمی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور یہاں جہاں تک میں سمجھا ہوں یہی مراد ہے کہ جب وہ محبت بڑھ کر ایسی ہو جاتی ہے جیسے خونی رشتے ہوں تو پھر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جو مومن کا معراج ہے.اس مضمون کو ان آیات سے تقویت ملتی ہے جن میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہیں اللہ اور رسول کی محبت اپنے ماں باپ ، اپنے اقرباء، اپنے سب دوسرے عزیزوں سے بڑھ کر نہیں ہے تو تمہیں نہیں پتا کہ ایمان کیا ہوتا ہے.پس صلہ رحمی سے یہی مراد ہے کہ ایسے مقام پر پہنچ جاؤ جب رشتے خونی رشتوں کا رنگ اختیار کر جائیں اور اس روحانی خونی رشتوں میں سب سے بڑا مقام محمد رسول اللہ کا ہے.پس ظاہر بات ہے کہ جہاں سے وہ صلہ رحمی پھوٹتی ہے.جو مرکز ہے صلہ رحمی کا وہاں سب سے زیادہ محبت ہو.اسی مضمون پر اور بھی بہت سی احادیث ہیں جن میں سے چند میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آدمی کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر محبت کرے.(سنن الترمذی کتاب المناقب) اس حدیث میں اور پہلی حدیث میں صرف الفاظ کا فرق نہیں،

Page 446

خطبات طاہر جلد 13 440 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / جون 1994ء الله مضمون کا بھی فرق ہے.پہلی حدیث میں صرف لہی محبت کی بات تھی.یہاں اس مضمون کو مزید کھول دیا گیا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ یہی محبت ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ ہو.جو بات میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں اسی کے ثبوت کے طور پر یہ حدیث پیش کر رہا ہوں کہ اس میں تمام وہ تعلقات داخل ہوتے ہیں.جو اللہ کی محبت کے نتیجہ میں بنی نوع کی محبت کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر درجہ بدرجہ ان سے جب تعلق بڑھتا ہے تو حقیقت میں اللہ کی محبت کے اظہار ہو رہے ہوتے ہیں.پس آنحضور ﷺ نے قطعی نشانی یہ بیان فرما دی کہ جو بھی اللہ اور رسول کی محبت کی خاطر کسی بھائی سے محبت نہیں کرتا اس کے دل میں ایمان نے جھانکا بھی نہیں.اس کو پتا بھی نہیں کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ یقیناً ایمان کا سب سے مضبوط کڑا یہ ہے کہ تو اللہ کی خاطر محبت کرے اور اسی کی خاطر نفرت کرے.اس میں بھی وہی مضمون ہے جو میں بیان کر چکا ہوں لیکن ایک کا اضافہ اور ہے اور وہ ہے نفرت کا.بسا اوقات احمدی جب یہ مختلف جلسوں پر نمایاں طور پر لکھ کر لگاتے ہیں کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی کے لئے نہیں تو اس سے لوگوں میں ایک بڑی کشش پیدا ہوتی ہے اور لوگ ملتے ہیں.ایک دفعہ ایک اخباری نمائندے نے ایسے ہی اعلانات دیکھ کر مجھ سے معین سوال کیا کہ کیا واقعہ سب سے محبت رکھتے ہیں اور نفرت کسی سے نہیں.میں نے کہا نہیں.اس نے کہا پھر یہ لکھ کے کیا لگایا ہوا ہے.میں نے کہا آپ اس کا مفہوم نہیں سمجھے.مراد یہ ہے کہ عمومی طور پر جہاں ابھی ہمیں پتا نہیں کہ کوئی کیا چیز ہے ہم بنی نوع انسان میں سب سے محبت ہی کرتے ہیں اور کسی سے نفرت نہیں کرتے.کوئی رنگ، کوئی نسل کوئی مذہب ، ہمارے لئے نفرت کا پیغام لاتا ہی نہیں ہے.ہم سب سے محبت کرتے ہیں لیکن جو اللہ سے نفرت کرے اس سے ہم نفرت کرتے ہیں.وہ اور مضمون ہے یہ اور مضمون ہے.ان دونوں کو خلط ملط نہ کرو.وہ پھر سمجھ گیا اس نے کہا ٹھیک ہے میں بات سمجھ گیا ہوں یہ درست ہے.اور اسی لئے غالبا اس نے سوال بھی کیا تھا کہ یہ تو غیر فطرتی بات ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر ایک سے محبت ہو خواہ آپ کو جن سے محبت ہے ان سے کوئی شخص نفرت بھی کر رہا ہو.یہی وہ مضمون ہے جو حضرت جل شانہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو سمجھا کر اپنے باپ کے لئے دعا سے روکا.جہاں تک حضرت ابراہیم کی دعا کا تعلق ہے اس دعا میں ہی آپ نے یہ عرض کیا تھا کہ اے خدا میں اپنے باپ کے لئے بخشش کی دعا کرتا ہوں وہ صراط مستقیم سے ہٹا ہوا تھا، وہ بھٹکا ہوا تھا،

Page 447

خطبات طاہر جلد 13 441 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء ضالین میں سے تھا.تو یہ تو پتا تھا آپ کو لیکن اس کے باوجود دعا کے وعدے پر قائم رہے اور دعا کی.اللہ تعالیٰ نے جب دعا سے روکا ہے تو یہ کہا کہ جب ہم نے اس کو یہ کہا کہ وہ اللہ سے بغض رکھتا تھا پھر کبھی اس کے دل میں خیال نہیں پیدا ہوا یہ ہے حباً للہ اور بغضا للہ.پس اگر آپ اس عبارت کا یہ ترجمہ سمجھتے ہیں کہ ہر ایک سے محبت ہے خواہ وہ آپ کے پیاروں سے نفرت کرتا ہو تو یہ بالکل جھوٹ ہے.انسانی فطرت کے خلاف بات ہے.ایسا دعوی ہی نہ کریں جو آپ کو منافق بنانے والا ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ جس سے زیادہ محبت ہوگی اس سے جو نفرت کرے گا اس کے خلاف طبعا دل میں نفرت پیدا ہوگی.کوئی اس بات کو اچھا سمجھے یا نہ سمجھے فطرتِ انسانی یہی ہے اور فطرت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.ناممکن ہے کہ آپ فطرت کو تبدیل کر سکیں.کوئی تعلیم خواہ کیسی ہی Polished لے کر آئے وہ فطرت کو نہیں بدل سکتی.پس بغض بھی اللہ کے لئے ہوا کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے.اپنی خاطر نہ کرو اپنے تعلقات کو نظر انداز کر دو.مگر جب اللہ سے کوئی نفرت کرتا ہے اور خدا سے ٹکراتا ہے اور اسی حد تک اس سے بغض تم پر فرض نہیں تمہاری فطرت کا ایک طبعی حصہ ہے طبعی رد عمل ہے کیونکہ تم محبت کرتے ہو.پس یہ کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس کو بتا کر واجب کیا جا رہا ہے کہ نفرت کرو.یہ تعلیم ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ چونکہ تمہیں محبت ہے اسی لئے اللہ سے بغض کرنے والوں کے لئے تمہارے دل میں نفرت کے سوا کچھ پیدا ہو ہی نہیں سکتا.زور بھی لگاؤ تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن وہ نفرت اور عام دنیا کی نفرت الگ الگ چیزیں ہیں.یہ مضمون آپ کو سمجھانا ضروری ہے ورنہ آپ اس رنگ میں نہ نفرت کرنے لگ جائیں جن معنوں میں دنیا نفرت کرتی ہے.وہ نفرت ایسی ہے جو آپ کے رحم سے اس کو محروم نہیں کرتی.آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ للہی محبت کرتے تھے، سب سے زیادہ للہی بغض کرتے تھے.مگر ان کے لئے جب تک وہ زندہ رہتے تھے ان کے لئے دعائیں کرتے تھے اور رحمت کی وجہ سے دعائیں کرتے تھے.ابو جہل کے لئے بھی دعا کی.حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کو بھی تو بریکٹ میں ڈالا کہ اے خدا یہ نہیں تو وہ دے دے.وہ نہیں تو یہ دے دے، وہ رحمت ہی کی تو دعا تھی.پس بغض کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ ان کیلئے ہلاکت کے گڑھے کھود نے لگ جائیں ان سے ناجائز انتقامی کارروائیاں کریں جن کا خدا نے آپ کو اختیار نہیں دیا.ان کا برا چاہنا اور ہے اور للہی نفرت ہونا اور

Page 448

خطبات طاہر جلد 13 442 خطبہ جمعہ فرمود و 10 / جون 1994ء چیز ہے.اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ لیں ورنہ آپ کے دل میلے اور کڑوے ہو جائیں گے اور میلے اور کڑوے دلوں میں اللہ کی محبت بھی نہیں رہتی.وہ بھی وہاں سے ڈیرے اٹھا لیتی ہے.پس ہی نفرت کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص آپ کو پسند نہیں آتا آپ کو تکلف ہوتی ہے ایسے شخص سے.لیکن اس کو آپ مارتے نہیں ہیں، اس کو زہر نہیں دیتے ، اس کے اموال نہیں لوٹتے ، اس کے بچوں کا برا نہیں چاہتے.اللہ کی خاطر رحم جو ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے کیونکہ خود اللہ کا رحم پر چیز پر غالب ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ کورحمتہ للعالمین فرمایا گیا.اب وہ رحمتہ للعالمین خدا کی رحمت ہی کا ایک حصہ ہے جو حضور کو عطا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری رحمت ہر دوسری چیز پر غالب ہے میری تمام صفات پر میری رحمت غالب ہے.پس نفرت پر بھی غالب آ جاتی ہے.پس دنیا سے اللہ کی خاطر محبت کریں ، اللہ کی خاطر بغض کریں، مگر بغض وہ نہیں جو دنیا والے کرتے ہیں کہ ان کی برائیاں سوچیں، ان کا برا چاہیں، اللہ کی خاطر نفرت ایک عجیب نفرت ہے.اس کے باوجود آپ بر انہیں چاہتے.کب آنحضور ﷺ نے دنیا کا برا چاہا تھا.آپ تو ان کو بھی دعائیں دیتے تھے جو آپ کو مارتے تھے اور تکلیفیں پہنچاتے تھے.تو صاف پتا چلا کہ نفرت کا مضمون کچھ اور معنے رکھتا ہے اس کو دنیا کے عام رائج معنوں میں لینا بڑی بھاری جہالت ہوگی.ورنہ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ رسول اللہ اللہ خود تو دوسروں کو نصیحت فرماتے تھے کہ خدا کی خاطر بغض بھی کرو اور بغض نہیں کرتے تھے.یہ ہو ہی نہیں سکتا.جب بغض کا کہتے تھے تو خود بھی بغض رکھتے تھے.مگر جو صاحب اکرام لوگ ہیں ان کی نفرتیں بھی عزت والی ہوا کرتی ہیں وہ کمینوں والی نفرتیں نہیں کیا کرتے اور سب سے بڑے صاحب اکرام حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے ہیں تو آپ سے للہی بغض کے رنگ سیکھیں.کس طرح آپ نے بغض کیا اور کس طرح اس بغض کے باوجود آپ نے رحمتیں برسائیں اور نیک دعائیں دیں کبھی کسی کا برانہیں چاہا.ہر ایک کے لئے پاکیزہ تعلیم دی ، رحمت اور عفو کی تعلیم دی، اور جنگ میں جب صحابہ کو بھیجا کرتے تھے تو جو نصیحتیں فرماتے تھے ان نصیحتوں سے ظاہر ہے کہ مخالف خدا کی صلى الله خاطر دشمنی کرتے ہوئے دندناتے ہوئے چلے آرہے ہیں، حملہ آور ہو رہے ہیں اور رسول اللہ علی فرمارہے ہیں بوڑھوں کو کچھ نہیں کہنا، فلاں کو کچھ نہیں کہنا، جو قیدی ہو جائے اس سے حسنِ سلوک کرنا ہے اس کو برانہیں کہنا.یہ بغض ہے ہاں یہی بغض ہے مگر صاحب اکرام لوگوں کا بغض ہے.وہ جن کو

Page 449

خطبات طاہر جلد 13 443 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء اللہ نے اکرام بخشا ہے اور ان کا بغض دنیا کی محبتوں سے بھی بہتر ہوا کرتا ہے.اس بغض کے باوجود آپ ہی کی دعا ئیں تھی جنہوں نے عرب کی کایا پلٹ دی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں جس نے صدیوں کے مردوں کو زندہ کر دیا.جو بگڑے ہوئے تھے ان کو الہی رنگ عطا فرما دیئے.پس ہر گز نفرت اور الہی بغض کا کوئی جاہلانہ معنی نہ کریں.جو بغض آنحضرت ﷺ نے کیا ہے اس حد تک کریں اور وہ بغض ایک اور رنگ میں ظاہر ہوا ہے جو سمجھا نا ضروری ہے.ان کی بد عادتوں سے نفرت تھی ان کو اس حد تک بری نظر سے دیکھتے تھے کہ صحابہ میں اگر چہ منع نہ بھی ہو وہ باتیں پسند نہیں فرماتے تھے.فرمایا یہود اب خدا کی خاطر بغض کی ایک ایسی مثال ہیں جس کے اوپر قطعیت کے ساتھ قرآن گواہی دے رہا ہے.مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وہ اللہ کے مغضوب تھے اگر ان سے غضب نہیں تو پھر اور کس سے غضب ہوگا.پس آنحضرت ﷺ کے نزدیک یہود مغضوب تھے لیکن کیسا غضب دکھایا، یہ بھی تو غور کریں.فرمایا دیکھو یہود سر منڈاتے جس کو آج کل Skin Head کہتے ہیں.ٹنڈیں کرانا اور حد سے زیادہ داڑھیاں بڑھا دیتے ہیں.تم یہ کام نہ کرو اور جو یہود کرتے ہیں ان کی روز مرہ کی عادتیں ہیں اس کے الٹ کرو.ایسی بات بغض سے کہی جاسکتی ہے.اس حد تک بغض کہ قابلِ نفرت اداؤں بلکہ ان کے ہم شکل ہونے سے بھی بغض اور جہاں تک ان کی ذات پر احسان کا تعلق ہے ایک ایسا جاری چشمہ تھا احسان کا ، جس سے کبھی کوئی یہودی محروم نہیں رہا.انصاف کا سلوک ان سے کیا گیا ، احسان کا سلوک ان سے کیا گیا، ان کے حقوق کی حفاظت کی گئی یہاں تک کہ جب گواہوں نے ایک چوری کے معاملے میں گواہی دی ایک یہودی کے خلاف تو آپ نے فرمایا نہیں جب تک مجھے دوسری طرف سے بھی گواہی نہ ملے میں فیصلہ نہیں کروں گا.قتل کے مقدے میں ایک وفد حاضر ہوتا ہے جو یہودی قبیلے کی طرف تجارت کے لئے گیا تھا.مجھے قبیلے کا نام یاد نہیں آ رہا، خیبر میں جو قبیلہ آباد تھا اس کی بات کر رہا ہوں.اس قبیلے کی طرف ایک وفد گیا ہے تجارت کا ، ان کا ایک آدمی قتل ہو گیا.اب صحابہ میں دیکھیں کیسی اطاعت کی روح تھی، کیسی تنظیم تھی ، وہ چاہتے تو جو سمجھتے تھے اس کے مطابق عمل کر دیتے.سمجھتے یہ تھے کہ ہمارا حق ہے ان میں سے کسی ایک آدمی کو قتل کر دیں مگر قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا، واپس آئے.آنحضور ﷺ کے حضور یہ بات پیش کی اور یہ چاہا کہ ہمیں

Page 450

خطبات طاہر جلد 13 444 خطبه جمعه فرموده 10 جون 1994ء اجازت دی جائے کہ اب ہم ان کا ایک آدمی قتل کر دیں.آپ نے فرمایا نہیں گواہ لاؤ.اب یہ غضب کی بات ہے کہ دنیا کے لحاظ سے تو غضب نہیں رحمت کی باتیں ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کا غضب بھی ایسے کریموں کا غضب تھا جس کریم سے بڑھ کر کسی کریم کا تصور ہو ہی نہیں سکتا اور وہ غضب عدل کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا.پس یہ بات یا درکھیں شدید نفرت بھی ہوتب بھی عدل کی راہ میں وہ نفرت حائل نہیں ہو سکتی.خواہ اس نفرت کا نام آپ لگہی نفرت رکھیں.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ گواہی کیسی ، وہ تو سب یہودی ہیں ہم قوم ہیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ تو گواہی نہیں دیں گے.آپ نے فرمایا اگر وہ گواہی نہیں دیں گے تو میں بھی فیصلہ نہیں دوں گا مجھے عدل پر قائم کیا گیا ہے.پس نفرت جو عدل کو میلی آنکھ سے دیکھ ہی نہیں سکتی اس نفرت کی تعلیم ہے قرآن کریم اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى (المائدہ:9) یہاں شنان قوم سے مراد دشمن کی نفرت آپ سے ہے.فرمایا ایک قوم آپ سے نفرت کرتی ہے اور اس کی دشمنیاں مسلم ہیں، ہوتی چلی آئی ہیں.ان نفرتوں کے حوالے سے بھی آپ کو عدل سے ہٹنے کی اجازت نہیں.پس نفرت کریں، وہ نفرت کریں جو رحمتہ للعالمین نے کی تھی اور آپ کی نفرت غلط اداؤں سے تھی ایسی بے ہودہ حرکتوں سے نفرت تھی جن سے خدا کو نفرت ہوتی ہے.تو دراصل ان بے ہودہ اداؤں والا وجود عملاً رستے سے ہٹ جاتا ہے اور وہ نفرتیں نمایاں ہو کر خدا کی خاطر نفرت کرنے والوں کی نظر میں آ جاتی ہیں ان سے نفرت کرتا ہے.ان سے دور رہتا ہے اور اس کا فیض یہ پاتا ہے کہ خودان بدیوں سے پاک ہونے لگتا ہے.ان بدیوں کے مالک سے نفرت نہیں.یعنی ان معنوں میں نفرت بہر حال نہیں کہ اس کا برا چاہیں، اس کو گزند پہنچانے کی اجازت ہو، اس کو گالیاں دیں،اس کی عزت نہ کریں، آنحضرت ﷺ تو بڑے سے بڑے دشمن کے آنے پر بھی جب کوئی آپ کے ہاں آتا تھا اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اس کا اعزاز فرمایا کرتے تھے.باہر سے غیر مسلموں کو عیسائیوں کے وفد کو آپ نے اپنی مسجد میں عزت کے ساتھ ٹھہرایا اور وہیں اس سے گفتگو فرماتے تھے.پس یہ جو خیال ہے کہ اللہ کی خاطر نفرت، مارو کوٹو ، یہ تو مولویانہ خیال ہے، قرآن کا تو اس سے کوئی تعلق ہی نہیں.پس اللہ کی خاطر محبت کریں اور اللہ کی خاطر نفرت کا یہ معنی نہ لیں.آپ کو اس کی اجازت

Page 451

خطبات طاہر جلد 13 445 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1994ء نہیں ہے کہ ہم اس امام سے اس لئے نفرت کرتے ہیں ہم نے نمازیں پیچھے پڑھنی چھوڑ دی ہیں کہ یہ برا آدمی ہے اور ہمیں حکم ہے کہ ہم الہی بغض کریں.اس حوالے سے میں بات کر رہا ہوں اب بھی مجھے بعض دفعہ لکھتے ہیں مگر پہلے تو مجھے روز مرہ یہ تجربہ ہوا کرتا تھا.میں پاکستان کی جماعتوں میں ہر ذریعے سے پہنچا ہوں.سائیکلوں پہ بھی ، گھوڑوں پر بھی ، بسوں پہ بھی ، کاروں پر بھی ، گاڑی کے ذریعے بھی.بہت سفر کیا ہے اور وہاں جہاں جہاں اختلاف ہوتا تھا وہاں بعض لوگ جو کچھ دین کا علم رکھتے ہیں یہ آگے سے حوالہ دیا کرتے تھے کہ تہی بغض ہے ہمیں تو کوئی نفرت نہیں ہمارا تو ذاتی طور پر کچھ نہیں ، یہ غلط آدمی اوپر آ گیا جماعت کے اوپر اور اس کی بے ہودہ ذلیل حرکتوں کی وجہ سے ہمیں اس سے نفرت ہے.اس کو ہم کہتے ہیں لہی بغض.ایسا للہی بغض جس کا رسول اللہ ﷺ کوعلم نہیں تھا تمہیں علم ہو گیا ، صلى الله ہے.پس اپنی تعریفیں ایسی نہ بنائیں جو محمد رسول اللہ کی تعریفوں سے ہٹ جائیں وہ جھوٹی اور لعنتی تعریفیں ہیں.وہ آپ کو بھی جھوٹا اور لعنتی کر دیں گی.وہ محبت کریں ہلہی محبت ، جو محبت محمد رسول اللہ نے کر کے دکھائی ہے اور وہ نفرت کریں لہی نفرت جو حضرت محمد رسول اللہ نے کر کے دکھائی اور ان نفرتوں کے ہوتے ہوئے بھی آپ رحمتوں کی بارش برسانے والے وجود تھے.جن سے للہی نفرت ہوتی تھی ان کے لئے دعائیں کرتے ، ان پر رحمتیں برساتے.ایسی نفرتیں کریں جو ساری دنیا میں آپ کی نفرتیں وہ عظیم انقلاب برپا کر دیں گی جو دنیا کی محبتیں بھی نہیں کر سکتیں.یہ نفرتیں بھی دلوں کو باندھنے والی نفرتیں بن جاتی ہیں نہ آپ کی محبت دلوں کو توڑنے والی رہے گی نہ آپ کی نفرت دلوں کو توڑنے والی رہے گی.صلہ رحمی کی وہ آخری بات جو آنحضور نے فرمائی وہ اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوگی اور تمام دنیا ایک امت واحدہ ہی نہیں بلکہ ایک وسیع عالمی روحانی گھر میں تبدیل ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 452

446 خطبات طاہر جلد 13

Page 453

خطبات طاہر جلد 13 447 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء حگم وعدل کو ماننے کے سوا کوئی صراط مستقیم نہیں.حضرت امام حسن ، حضرت امام حسین اور صحابہ کا مقام.( خطبه جمعه فرموده 17 / جون 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) عام تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.یہ مہینہ محرم الحرام کا ہے جس کی بہت سی فضیلتوں کا احادیث میں اور اسلامی لٹریچر میں ذکر ملتا ہے لیکن اس موقع پر آج کے خطبے میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اہل بیت ، آپ کی آل کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا وہ رشتہ ہے جس رشتے سے ہمارا خدا سے رشتہ بنتا ہے.پس آپ کی اولاد سے اس تعلق کا قائم نہ رہنا یا اولاد سے کسی قسم کا بغض ، ان دونوں رشتوں کو کاٹ دیتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اولاد وہ اولاد نہیں تھی جس نے اپنا روحانی تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ سے قائم نہ رکھا بلکہ وہ اولاد تھی جس نے اس تعلق کے تقاضوں میں اپنی جانیں دے دیں اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں.پس اس پہلو سے وہ جس کے دل میں اہل بیت کا بغض ہے حقیقت میں اس کے دل میں محمد رسول اللہ کا بغض ہے اور اسلام کا بغض ہے اور اس کی کوئی نیکی حقیقی نیکی نہیں کہلا سکتی.یہ ایک طبعی حقیقت ہے کہ جس سے محبت ہو اس کے محبوب سے محبت ہو.جس سے محبت ہو اس سے جو محبت کرتے ہیں ان سے بھی تعلق قائم ہو اور یہ دونوں باتیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بہت ہی پیاری اور مقدس بیٹی حضرت فاطمہ کی اولا دکو نصیب تھیں.ان سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو محبت تھی اور وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے تھے اور

Page 454

خطبات طاہر جلد 13 448 خطبہ جمعہ فرموده 17 / جون 1994ء پھر یہ خونی تعلق بھی تھا اس لئے کسی مسلمان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ آنحضور ﷺ کے اہل بیت سے دوری تو درکنار، اس کے وہم میں بھی یہ بات داخل ہو کہ میرا ان سے کسی قسم کا تعلق ٹوٹ سکتا ہے.اس کے بالکل برعکس ایک گہری بے ساختہ محبت حقیقت میں اس کے ایمان پر گواہ ہوگی اور الله آنحضرت ﷺ سے پیار پر ایک ایسی پختہ اور دائمی گواہی دے گی کہ جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.مگر اس کے برعکس آنحضرت ﷺ کی اولاد میں سے پیدا ہونے والے محبت کرنے والوں اور محبوبوں کا ذکر تو محبت سے کیا جائے مگر ان کا جن کا خونی رشتہ نہ بھی تھا مگر خونی رشتوں سے بڑھ کر انہوں نے اپنی جانیں آپ پر شمار کیں ان کا بغض سے ذکر کیا جائے ، اگر ایسا ہو تو ایسے شخص کے ایمان کے خلاف یہ گواہی بھی بہت مضبوط اور ناقابل تردید گواہی ٹھہرے گی.پس حقیقی اور سچی بیچ کی راہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے جس نے ، جس رنگ میں بھی تعلق باندھا خواہ خون کا رشتہ تھا یا نہ تھا اس سے طبعی بے ساختہ دل میں پیار پیدا ہو.یہ کچی علامت ہے انسان کے ایمان کی اور آنحضور ے سے حقیقی وابستگی کی.آج عالم اسلام نہ جانے کن اندھیروں میں بھٹک رہا ہے کہ یہ دو محبتیں آپس میں پھٹ چکی ہیں اور ان دونوں کو ایک گھر میں جگہ نصیب نہیں.وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت کا دعوی کرتے ہیں وہ اہل بیت سے محبت کے ساتھ آنحضور ﷺ کے عشاق اور ان فدائیوں کا نفرت اور بغض سے ذکر کرنا بھی جزوایمان سمجھتے ہیں جن کا ان معنوں میں خونی رشتہ نہیں تھا جن معنوں میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کا رشتہ تھا یا آپ کی اولاد کا تھا اور اس طرح محبت میں زہر گھول دیتے ہیں اور اس کے برعکس وہ لوگ جو صحابہ کرام کی عزت بلکہ گہری محبت اور عقیدت کو دل میں جگہ دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں اس کے ساتھ محرم کے دنوں میں شیعوں کے خلاف حرکت کرنا اور ان کی مجالس کو درہم برہم کرنا، ان کے جلوسوں میں مخل ہونا ، یہ بھی ایک ایمان کا حصہ ہے اور وہ رشتے جو باہم جوڑنے کے لئے بہت ہی اہم کردار کر سکتے تھے جو تمام عالم اسلام کو ایک جگہ اکٹھا کرنے میں ایک بہت ہی مضبوط کردار ادا کر سکتے تھے ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے باہم تفریق کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے.پس محرم کے دن وہ دن نہیں ہیں جن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اہلِ بیت کی قربانیوں کی یاد میں تمام عالم اسلام اکٹھا ہو گیا ہے اور پہلی نفرتیں مٹ چکی ہیں، کوئی فرقے بازی کی تفریق باقی نہیں رہی، آج اس محبت کے

Page 455

خطبات طاہر جلد 13 449 خطبه جمعه فرموده 17 جون 1994ء صدقے ایک ہاتھ پر ایک جان کے نذرانے لئے ہوئے اکٹھے ہو رہے ہیں.اس کے برعکس آپ عجیب بات اخباروں میں پڑھتے ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ذکر سنتے ہیں کہ محرم آ رہا ہے.سخت خطرات ہیں، بڑی دشمنیاں ہوں گی، گلیوں میں خون بہیں گے، سر پھٹول ہو گی، ایک دوسرے کو گالیاں دی جائیں گی اور اسلام کے دو بڑے حصے یعنی شیعہ اور سنی اگر اس عرصہ میں گزشتہ محرم سے اب تک قریب آ بھی گئے تھے تو پھر دوبارہ ایک دوسرے سے ایسا پھٹیں گے کہ وہ نفرتوں کی یاد آئندہ محرم تک باقی رہے گی اس لئے حکومتوں کے ادارے الرٹ ہورہے ہیں.بعض جگہ فوجوں کو بلایا جا رہا ہے، بعض جگہ پولیس کے Reserves کو حرکت دی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ نہایت خطرے کے دن ہیں.محبت سے خطرے ہیں؟ کیسے خطرے ہیں؟ محبت تو خطروں کو مٹا دیا کرتی ہے، محبت تو خطروں کے ازالے میں کام آتی ہے.پس دونوں جگہ محبت میں کوئی جھوٹ شامل ہو گیا ہے.دونوں جگہ نظریں ٹیڑھی ہوگئی ہیں اور حقیقت حال کو دیکھنے سے کلیۂ عاری ہو چکی ہیں ورنہ ناممکن تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت آپ کے صحابہ اور آپ کے اہل بیت کے درمیان ایسی پھٹ جاتی کہ گویا ایک سے وابستگی دوسرے سے نفرت کے ہم معنی ہو جاتی.ایک سے نفرت صلى الله دوسرے کی محبت کے مترادف ہو جاتی.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت میں تو کوئی جھوٹ نہیں، ان محبت کے دعوی کرنے والوں میں ضرور جھوٹ ہے جو اس محبت کو یہ رنگ دیتے ہیں.پس میں تمام عالم اسلام کو ان احمدیوں کی وساطت سے جو اس خطبے کو سن رہے ہیں یہ پیغام دیتا ہوں کہ محرم کے دنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دلی محبت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا کریں اور سنیوں کا یہ کوئی حق نہیں کہ وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت میں جلوس نکالتے ہیں خواہ ان کی رسمیں پسند آئیں یا نہ پسند آئیں ان کے محبت کے اظہار میں کسی طرح مخل ہوں، ان پر پتھراؤ کریں، ان پر گولیاں چلائیں، ان پر گالیوں کی بارش کریں.یہ کیا انداز ہیں محبت کے.یہ تو دلوں میں ھٹی ہوئی اور گھولی جانے والی نفرتیں ہیں جو ابل ابل کر باہر آ رہی ہیں.پس جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے عشق کو اور آپ سے سچی محبت کو تمام امت کو باہم باندھنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے اس وقت تک امت کے مسائل حل نہیں ہو سکتے.سب ہی حضور کی محبت کا دعوی کر کے ایک

Page 456

خطبات طاہر جلد 13 450 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء صلى الله دوسرے کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے 72 حصوں میں امت کو تقسیم کر گیا اور آج تک ان کو ہوش نہیں آئی.پس جماعت احمدیہ کو آنحضور ﷺ کی محبت کا پیغام اس رنگ میں امت کو دوبارہ دینے کی ضرورت ہے جس رنگ میں پہلی بار دیا گیا تھا.قرآن کریم نے جو دلوں کے باندھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ اللہ کی نعمت کے ساتھ باندھنے کا ذکر فرمایا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ اللہ تھے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی کی محبت نے ایک دوسرے کے دشمن قبائل کو یک جان کر دیا تھا.وہ جو ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے وہ بھائیوں کی طرح صلى الله بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جان نثار کرنے والے دوست بن چکے تھے اور حضور اکرم ﷺ کے وجود کو نکال صلى الله کر اس کا تصور بھی پیدا نہیں ہو سکتا، ناممکن دکھائی دیتا ہے.پس اگر چہ محمد رسول اللہ ﷺ نے خود بالا رادہ ایسا کام نہیں کیا مگر اللہ نے آپ کی ذات میں آپ کی نعمت میں ایک ایسی غیر معمولی کشش رکھ دی تھی کہ ناممکن تھا کہ لوگ آپ کی ذات پر ایک مرکز کی حیثیت سے جمع نہ ہو جائیں.پس مرکز مدینہ نہیں تھا، مرکز محمد رسول اللہ تے تھے.مرکز مکہ نہیں تھا، مرکز محمد رسول اللہ تے تھے.جہاں کہیں آپ جاتے تھے وہیں مرکز منتقل ہوتا تھا.آپ بیٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپ کی ذات میں بیٹھتا تھا.آپ اٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپ کی ذات میں اٹھتا تھا اور یہی وہ نکتہ تھا جو صحابہ کے عشق نے ہمیشہ کے لئے ہم پر حل کر دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مرکز سے محبت اور آپ کی ذات میں اکٹھے ہونے کا نام ہی اسلامی وحدت ہے اور یہی توحید کا پیغام ہے جو آج ہمیں سب دنیا کو دینا ہے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کو پہلے دینا ضروری ہے کیونکہ سب سے زیادہ اس امت کا حق ہے کہ انہیں دوباره از منہ گزشتہ کی یاد دلا کر، ان زمانوں کے واسطے دے کر جن زمانوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کی اولاد بھی تھی ، آپ کے صحابہ بھی تھے اور کسی کے دل پھٹے ہوئے نہیں تھے.وہ تمام صحابہ جب حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو دیکھتے تھے تو ان کی نظریں عشق اور فدائیت سے ان پر پڑتی تھیں.ان کے ذکر دیکھو کیسے کیسے پیار سے حدیثوں میں محفوظ کئے گئے.کس طرح صحابہ ان کو آنحضرت کے کندھوں پر سوار دیکھتے تھے، نماز میں سجدوں میں جاتے تھے تو اس طرح پیار سے ان کو اتار دیا کرتے تھے، کس طرح ساتھ کھیلتے اور حرکت کرتے اور لاڈ اور پیار کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ تمام صحابہ کی آنکھوں میں دل پکھل پگھل کر آ رہے ہیں.وہ طرز بیان بتاتی ہے کہ

Page 457

خطبات طاہر جلد 13 غیر معمولی عشق تھا.451 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء صلى پس وہی اہل بیت ہیں، وہی صحابہ ہیں، آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد تمہیں کیا جنون کو دا ہے کہ انہی اہل بیت اور صحابہ کو ایک دوسرے کے دل پھاڑنے کے لئے استعمال کرنے لگے ہو.وہ تو محبتوں کے پیغامبر تھے عشق کے سمندر تھے ہم نے انہیں نفرتوں کے سمندر میں تبدیل کر دیا ہے.پس آج امت محمدیہ کو یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ امت ، امت محمدیہ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی.ابھی چند دنوں تک آپ دیکھیں گے کہ محرم کے جلوس کراچی میں بھی نکلیں گے، خیر پور میں بھی نکلیں گے، ملتان میں بھی نکلیں گے، بہاولپور میں بھی اور لاہور وغیرہ میں بھی اور ہر جگہ غیر معمولی طور پر پولیس کی طاقت دو نفرت کرنے والے سمندروں کے بیچ میں دیوار کی طرح حائل ہو گی اور پھر وہ يَبْغِيَان ہوں گے ، وہ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کریں گے اور ان دیواروں کو توڑ کر ، ان کی نفرتیں پھلانگتی ہوئی دوسرے کے امن کو پارہ پارہ کر دیں گی اور ان کی زندگیوں کو زہر آلود کر دیں گی.یہ کیا دن ہیں اور ان دنوں کے کیا تقاضے ہیں؟ اور یہ کیا حرکتیں ہیں جو ان دنوں میں کی جارہی ہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن پر ظالم ملاں یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے نہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہ کی.ان کی اہل بیت کی عزتیں تو ہر روز بر سر عام گلیوں میں پھرتی ہیں اور جو کچھ کسر رہ جاتی ہے وہ محرم کے دنوں میں طشت از بام ہو جاتی ہے.کچھ بھی لگا چھپا باقی نہیں رہتا.مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے اور آپ کے صحابہ اور آپ کے اہل بیت کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جو پاکیزہ تحریریں ہیں ان پر مہریں لگائی گئی ہیں ،ان پر تالے لگا دئے گئے ہیں.جو عشق کے اظہار ہیں انہیں اجازت نہیں کہ وہ گلیوں میں کھل کر نکلیں.جو نفرتوں کے پیغام ہیں وہ گلیاں ان کی ہیں، وہ محن ان کے ہیں ، جب چاہیں جس طرح چاہیں نفرتوں کا اظہار جس ملک میں چاہیں کرتے پھریں، یہ بڑا ظلم ہے، یہ ایک خود کشی ہے.پس آج کے خطبے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند تحریر میں چینی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہی آج امت کا علاج ہے کہ ایک ہی زبان سے ایک ہی منہ سے صحابہ کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں اور اہل بیت کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں تا کہ پھر امت ان دو پاک ذرائع سے ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے.یعنی محمد رسول اللہ علیہ کے عشق میں، اور وہی

Page 458

خطبات طاہر جلد 13 452 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء مرکزیت اسلام کو دوبارہ نصیب ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت امام حسنؓ اور امام حسین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسین کو رتبہ اہنیت کا بھی نہیں دیا تھا.“ یہ وہ عبارت ہے جس کو لے کر مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو امام حسین کے خلاف کیسی سخت زبان استعمال کی ہے.رتبہ اہنیت کا بھی نہیں دیا تھا، کہتے ہیں دیکھو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اولاد میں شمار نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت پوری پڑھتے تو ان کو پتا چلتا کہ اگلے فقرے میں یہ فرمایا کہ: آیت خاتم النبین بتا رہی ہے کہ "مَا كَانَ مُحَمَّدُ آبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ کہ محمدؐ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو یہ اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت امام حسنؓ اور امام حسین ہی نہیں ، صحابہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جسمانی طور پر محمد رسول اللہ کا بیٹا ہو اور ہر ایک وہ ہے جو روحانی طور پر آپ کا بیٹا بن سکتا ہے.“ پس یہ تفریق دور کرنے کے لئے ایسا عظیم نکتہ امت محمدیہ کے سامنے پیش فرمایا کہ تم خون کے رشتے سے ابنیت کی باتیں چھوڑ دو کیونکہ قرآن کریم نے ہر رشتے سے ابنیت کی باتیں ختم کر دی ہیں سوائے روحانی رشتے کے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ رسول کا رشتہ سب سے برابر کا رشتہ ہو جاتا ہے اور اس رشتے سے جو روحانی بیٹا بنے گا اس کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی اور جو روحانی بیٹا نہیں بنے گا ظاہری تعلق بھی اس کا کام نہیں آ سکتا.یہ وہ مضمون تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا اور ان ملانوں نے کیسے کیسے ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کے خلاف یہ غلط باتیں منسوب کیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک آپ کے دل میں نہ صحابہ کی عزت تھی نہ اہل بیت کی تھی.اب میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں بتاتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اہل بیت کا کیا مقام

Page 459

خطبات طاہر جلد 13 453 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء تھا اور صحابہ کا کیا مقام تھا.فرماتے ہیں:.حضرت عیسی اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے.‘“ اب عیسی اور امام حسین کا کیا جوڑ ہے.نبیوں میں اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کرنے میں عیسیٰ کو ایک عجیب مرتبہ اور عجیب مقام حاصل تھا.نبیوں میں وہ ایک منفرد مقام ہے جو محمد رسول اللہ اللہ سے پہلے گزرے ہیں جس طرح جس شان کے ساتھ حضرت عیسی نے حق کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے اور صلیب کی اذیتیں قبول کی ہیں.پس دیکھیں ایک عارف باللہ کا کلام کس طرح ان باتوں کو جوڑتا ہے جس طرف ایک ظاہری نظر رکھنے والے کا تصور بھی نہیں جا سکتا.فرماتے ہیں:.د عیسی اور امام حسینؓ کے اصل مقام و درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جو ہری ہی جو ہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ وہ امام حسین کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض نا واقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا دیں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہرگز یہ باتیں تحقیر سے نہیں کہہ رہے.“ ان کی تحقیر مراد نہیں بلکہ امر واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ مسیح کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے اور حسین کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے وہ ان کے سجدہ کرنے والوں کے دلوں پر بھی روشن نہیں اور سجدہ کرنا خود بتاتا ہے کہ مقام سے بے خبر ہیں.پس اسی فقرہ میں اپنے کلام کی تائید میں ایک محکم دلیل بھی داخل فرما دی.وہ شان کیا ہے.فرماتے ہیں:.میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک نا پاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے.“ یہ ہے اعلان حق کوئی پرواہ نہیں کہ سنی اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوتے ہیں حالانکہ

Page 460

خطبات طاہر جلد 13 454 خطبہ جمعہ فرمود ه 17 / جون 1994ء آپ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے ، اہل تشیع میں شامل نہیں تھے اور مقام تو در حقیقت دونوں سے بالا تھا کیونکہ آپ نے حکم عدل کے طور پر دونوں کے درمیان فیصلے کرنے تھے.پس آپ دنیا کے خوف سے بالکل مستغنی اور بالا تھے.فرماتے ہیں:.یزید ایک نا پاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مؤمن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے.مومن بنا کوئی امرسہل نہیں ہے.اللہ تعالے ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:.قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا ، مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں.“ فرماتے ہیں:.دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگرحسین رضی اللہ عنہ طاہر و مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے 66 اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے.“ وو یہ حضرت امام حسین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا موقف ہے اور ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ سچے دل کی آواز ہے جو بے ساختہ اور بلا تکلف دل سے بلند ہو رہی ہے: سردارن بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.“ اب دیکھیں عملی رنگ نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے.زبان کے دعوؤں کی بات نہیں ہورہی.زنجیروں سے سینہ کوبی کی بات نہیں ہو رہی.فرمایا ہے جو عمل سے اس سے محبت کرتا ہے

Page 461

خطبات طاہر جلد 13 455 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء اور اپنے عمل سے اس کی محبت کو سچا ثابت کر دیتا ہے یعنی حسین کے رنگ اختیار کرتا ہے وہی سنت اپنا لیتا ہے جو حسین کی سنت تھی.فرماتے ہیں:.کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی کے طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے.“ کون کون سے ہیں؟ ایمان، اخلاق، شجاعت یعنی بہادری، تقویٰ یعنی خدا خوفی اور اپنی بات پر صبر کے ساتھ قائم ہو جانا اور کسی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا یعنی استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش اپنے دل پر منعکس کرتا ہے اور انہیں اپنا لیتا ہے.جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوب صورت انسان کا نقش اپنے اندر لے لیتا ہے.یہ اپنے اندر لے لیتا ہے کے الفاظ پہلے گزر چکے ہیں اب میں نے وہی مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ دہرائے ہیں جو اس فقرے کے شروع میں تھے: یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے جو ویسا ہی دل رکھتا ہے ویسا ہی محبت الہی میں وہ پاک اور صاف کیا گیا ہے اور محبت کی آگ میں جلا یا گیا ہے وہی ہے جو ان لوگوں کے حالات کو جانتا ہے.ان کے تجارب سے واقف ہے.غیر کی آنکھ ، باہر سے دیکھنے والی ، اس کی حقیقت کو پہچان نہیں سکتی.”دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی.اب دیکھیں کیسا عظیم نکتہ ہے اور یہ محبت اور معرفت کی آنکھ سے ہی دکھائی دیتا ہے.یہ مجلسوں میں پڑھا جانے والا نکتہ تو نہیں ہے.فرماتے ہیں: یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.“ ایک سوسال کے شیعوں کے ماتم ایک طرف اور یہ فقرہ ایک طرف.کیسی حقیقت کی روح پر انگلی رکھ دی ہے.اس کی شہادت کی یہی وجہ تھی کہ حسین کو شناخت نہیں کیا گیا.مگر افسوس کہ جیسا کہ وہ کل شناخت نہیں کیا گیا تھا ویسا ہی آج بھی شناخت نہیں کیا گیا، ورنہ حسین کے نام پر محمد رسول اللہ کے صلى الله عشاق سے نفرتوں کی تعلیم نہ دی جاتی اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عشاق حسین کا عذر رکھ کر ان سے محبت کرنے والوں سے نفرت کی تعلیم نہ دیتے.پس شناخت کا جہاں تک معاملہ ہے خدا کے پیارے تو

Page 462

خطبات طاہر جلد 13 456 خطبه جمعه فرموده 17 جون 1994ء بعض دفعہ نہ اپنے وقت پر شناخت کئے جاتے ہیں نہ بعد میں شناخت کئے جاتے ہیں.مگر وہی ان کو شناخت کرتا ہے جو ویسا دل رکھتا ہے، ویسا مزاج اس کو عطا ہوتا ہے، ویسی ہی فطرت ودیعت کی جاتی ہے، وہی ہے جو حقیقت میں شناخت کا حق رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ” یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی.یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی محبت نہیں کرتا.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کے بڑے بڑے عشاق پیدا ہوئے.ہر نبی کے وقت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں بھی کچھ عشاق پیدا ہوئے مگر مراد یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ ، قومی طور پر، بڑی تعداد میں، بہت بعد میں آنے والے محبت کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ یا ان کے مزاج کے لوگ جو اس برگزیدہ کی زندگی میں، اس زمانے میں ہوتے ہیں وہ اس کو نہیں پہچانتے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے والی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم وہی ہو جنہوں نے موسیٰ کو اذیتیں دیں ہم وہی ہو جو اس زمانے میں نبیوں کوقتل کیا کرتے تھے حالانکہ وہ تو دو ہزار سال بعد پیدا ہوئے تھے.وہ ، وہ کیسے ہو گئے.مراد یہ ہے کہ تم ایسے لوگ ہو کہ تمہاری سرشت ایسی ہے.اگر تم اس زمانہ میں ہوتے تو وقت کے مقدس انسان کو پہچان نہ سکتے اور ضرور اس کی دشمنی میں اس کی عزت اور جان کے در پے ہو جاتے لیکن اب تم اس کی محبت کی باتیں کرتے ہو.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ جب برگزیدہ لوگوں کی زندگی میں اس وقت سے حصہ پاتے ہیں تو کبھی ان کو پہچان نہیں سکتے اور جب وہ وفات پا جاتے ہیں یا ویسے کسی وجہ سے ان سے دور ہٹ جاتے ہیں، زمانے بدل جاتے ہیں، اس وقت پھر یہ ان کی محبت کے گیت گاتے اور ان کے نام کو اچھالتے ہیں.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اس شخص کی یا کسی بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے.وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلشانہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے

Page 463

خطبات طاہر جلد 13 457 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے.جو شخص مجھے بُرا کہتا یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لا ناسخت معصیت سمجھتا ہوں.“ فرمایا جو مجھے برا سمجھتا ہے، مجھ پر لعن طعن کرتا ہے اس کا بدلہ میں معصومین سے نہیں لیتا اور شوخی کے طور پر ان پر اپنا غصہ اتارنا ایک سخت لعنت کی بات سمجھتا ہوں سخت براسمجھتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنھما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الھدی تھے (یعنی ہدایت کے اماموں میں سے تھے ) اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرت ﷺ کی آل تھے.خون کے لحاظ سے بھی آل تھے اور روحانی وراثت کے لحاظ سے بھی آل تھے.لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلی قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنی پر فخر کیا جاتا ہے.تعجب کہ اعلیٰ قسم امام حسن اور امام حسین کے آل ہونے کی اور کسی کے آل ہونے کی جس کی رو سے وہ آنحضرت ﷺ کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں.یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے.“ یہ وہ نقص ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی محبت رکھنے والوں کے تعلق میں بیان فرما رہے ہیں کہ ان کو اس پہلو سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے.ان دونوں کا مرتبہ جس کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ نے ان کو روحانی طور پر بہت اعلیٰ مراتب پر فائز فرما دیا وہ روحانی تعلق کی بنا پر تھا نہ کہ جسمانی رشتے کی بنا پر.آپ نے فرما دیا، سے یہ مراد ہے کہ آپ نے ان کے اعلیٰ مراتب کی نشاندہی فرمائی اور ان کی شان میں بہت ہی پاکیزہ اور مقدس خیالات کا اظہار فرمایا.ان کو ان اعلیٰ مراتب پر فائز تو خدا نے فرمایا تھا مگر حضرت محمد رسول اللہ کی زبان سے ہم نے اس کا ذکر سنا اس لئے آپ جب کہتے ہیں کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے

Page 464

خطبات طاہر جلد 13 458 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء صلى الله ہے تو بلا شبہ یہ اللہ کا کلام ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ہے ورنہ حضرت محمد رسول اللہ اپنی طرف سے تو کسی کو سردار بہشت نہیں بنا سکتے تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپ کی نظر ان کے روحانی مراتب پر تھی، ہر گز اس بات پر نہیں تھی کہ چونکہ میری بیٹی کی اولاد میں سے ہوں گے یا بیٹی کی پشت سے پیدا ہوں گے اس لئے یہ سردار بہشت ہیں.پس ان کا سردارانِ بہشت ہونا بتا تا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کا روحانی ورثہ پایا ہے.آپ فرماتے ہیں اس اعلیٰ بات کا ذکر تم نہیں کرتے اور محرم کے موقع پر یا ویسے مجالس میں خونی رشتے کی باتیں کرتے چلے جاتے ہو.اگر ایسا کرو گے تو دوسرے روحانی ورثہ پانے والوں کی طرف بھی محبت کی نگاہ پڑے گی، نفرت کی نگاہ ان پر نہیں پڑ سکتی.یہی وجہ تفریق ہے.یہی بیماری ہے جس کی نشان دہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی اور جس طرف اب توجہ کرنا ضروری ہے.تمام شیعوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی مجالس میں جتنا چاہیں محبت کا اظہار کریں مگر اگر روحانی تعلق سے ایسا کریں تو پھر وہی روحانی تعلق کی باتیں ان کو حضرت ابو بکر سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی ، حضرت عثمان سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی ، حضرت عمرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی.تمام صحابہ کے لئے ان کے دل میں محبت کے سوا اور کچھ نہیں رہے گا لیکن چونکہ جسمانی رشتے پر زور دیا جاتا صلى الله ہے اور اس پہلو سے صحابہ کو کلیۂ حضرت محمد رسول اللہ سے جدا دکھایا جاتا ہے گویا ایک الگ قوم ہے جس کا آپ سے اور آپ کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے یہ نفرتیں رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں جاگزیں ہوئیں اور پھر بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کہ بغض صحابہ ان کے ایمان کا حصہ بن گیا اور اس نے پھر یہ رد عمل دکھایا کہ سینیوں میں بھی سپاہ صحابہ جیسی چیزیں پیدا ہوئیں جن کے اعلیٰ مقاصد میں شیعوں کا خون بہانا اس طرح داخل ہو گیا جیسے اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد صحابہ کے دلوں میں داخل تھا.صحابہ کے دلوں میں اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والوں کے مقابل پر جہاد کا ایک جوش پایا جاتا تھا لیکن یہ ایک دفاعی جہاد تھا، اس میں نفرتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا.یہ ان نفرتوں کے خلاف جہاد تھا جن نفرتوں کا صحابہ کونشانہ بنایا جارہا تھا، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کونشانہ بنایا جارہا تھا لیکن جو آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ بالکل برعکس قصہ ہے سپاہ صحابہ کے دل میں شیعوں کی نفرت ہے جو موجزن ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شیعوں میں سے کسی کا قتل یا ان میں سے کسی مجلسی کا قتل کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کے حضوران

Page 465

خطبات طاہر جلد 13 459 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء کے لئے اعلیٰ مراتب کا ضامن ہو جائے گا بلکہ بعض ان میں سے مولوی یہ بیان کرتے ہیں کہ تم اگر ایسا کرو گے اور اس کوشش میں تم مارے جاؤ تو تم سردار ان بہشت میں سے شمار ہو گے.تم دیکھنا کہ کیسے کیسے پاک وجود تمہارے استقبال کی خاطر جنت کے دروازوں تک آتے ہیں.ایسے ایسے لغو قصے بیان کئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان قصوں کے ماننے والے دماغ کس قسم کے ہوں گے ،مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جہالت بہت ہے اور یہی جہالت ہے جو اس تفریق کو مزید ہوا دے رہی ہے اور ان فاصلوں کو بڑھا رہی ہے.پس محرم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے اور جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اول زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہوگا، کمی نہیں ہو سکتی.یعنی جسمانی تعلق سونے پر سہاگے کا کام دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لا زما سب کو محبت ہوگی.پس سینیوں کو بجائے اس کے کہ نفرتوں کی تعلیم دیں اور ان کے جلوسوں پر حملہ آور ہوں اور طرح طرح سے ان کی راہیں روکیں یا کاٹیں یا ان پر بم پھینکیں یا زبان سے گندی گالیوں کی گولہ باری کریں.ان کا فرض ہے کہ ایسے موقع پر ان سے بڑھ کر صحابہ کے عشق کی باتیں کیا کریں اور ان میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کو جو صحابہ کا مرتبہ بھی رکھتے تھے ، روحانی وارث بھی تھے اور روحانی وارثوں میں بھی بہت بلند مقام پر فائز تھے ان کا ذکر بھی کریں اور دوسرے صحابہ کا ذکر بھی کریں.صدیقوں کا ذکر بھی کریں اور شہیدوں کا ذکر بھی کریں اور کثرت سے درود اور سلام کی مجلسیں لگا ئیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یہی دن کتنی برکت کے دن بن سکتے ہیں.بجائے اس کے کہ دونوں طرف سے ان دنوں کو ، نفرتیں پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے ، دونوں ایک دوسرے کی نیکی کی باتوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور یہ بتائیں دنیا کو کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے عشاق سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں.ہم اہل بیت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پیار رکھنے والے ہیں.اہل بیت کے ترانے اگر سارے سنی گانے شروع کر دیں تو شیعوں کی آواز کو اس آواز میں ڈبو سکتے ہیں اور زیادہ عشق کے ترانے گائیں، ان سے بلند تر آواز

Page 466

خطبات طاہر جلد 13 460 خطبه جمعه فرموده 17 جون 1994ء میں اور ان کو بتائیں کہ محبت کی باتیں ہی کافی ہیں نفرت کی باتیں بیان کرنا ضروری نہیں.پس اس موقع کا اصل علاج یہ ہے.نہ پولیس علاج ہے نہ فوج علاج ہے، یہ علاج کتنے سالوں سے تم کرتے چلے آ رہے ہو.آج تو کہہ دیتے ہو کہ را کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، ہندوستان کے ایجنٹ ہیں جو یہ کام کروار ہے ہیں.کل تم کہا کرتے تھے کہ قادیانیوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے.احمدی ایجنٹ ہیں جو کروا رہے ہیں.بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی یہی ہوا اور ضیاء کے زمانے میں تو باقاعدہ دستور بن گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا احمدیوں کی نگرانی کرو.بڑی سختی کے ساتھ تمام تر جاسوسی ان کے لئے وقف کر دو کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ محرم کے موقع پر احمدی شیعوں اور سینیوں میں فساد برپا کریں گے اور ظلم کی حد، ہر دفعہ توجہ دشمن سے ہٹا کر دوستوں کی طرف کر دی جاتی.ساری احمدیت کی تاریخ اس بات کو جھٹلا رہی ہے اور کئی پولیس افسران ان تحریروں کو پڑھ کر یہ کہا کرتے تھے اور بعض احمدیوں کے سامنے بات بیان کی کہ ہماری حکومت پتا نہیں پاگل ہو گئی ہے، ان کو پتا نہیں کہ احمدیوں کا مزاج ہی یہ نہیں ہے.کبھی ہوا ہے آج تک کہ ان کی سوسالہ تاریخ میں کہ احمدیوں نے فساد برپاکئے ہوں؟ ایک پر امن جماعت ہے ، ان کے خلاف فساد ہوئے ہیں، درست ہے لیکن آج تک ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ نے کبھی دوسروں میں فساد کے خیالات پھیلائے ہوں یا کسی طرح فساد پھیلانے میں کسی قسم کا دخل ہی دیا ہو.کامیابی تو دور کی بات ہے.کہتے ہیں اشارہ یعنی بعض پولیس افسران کی بات کر رہا ہوں انہوں نے اپنی لمبی سروس کا حوالہ دے کر کہا کہ میں جانتا ہوں اس لمبے زمانے میں جو پولیس میں سروس کی ہے اور میں حلف اٹھا سکتا ہوں اس بات پر کہ احمدی مزاج میں فساد کرانا داخل نہیں.کبھی مجھے آج تک کسی احمدی میں بھی اشارہ یہ بات دکھائی نہیں دی.تو کرتے کیا تھے، جنہوں نے شرارت کرنی ہوتی تھی ان پر سے توجہ ہٹا کر جو شرارت کے خلاف ہوا کرتے تھے ان کی طرف توجہ مرکوز کر دیا کرتے تھے اور پھر ان کو فساد کی کھلی چھٹی تھی جوان میں فساد کر رہے تھے.زیر نظر احمدی ہیں اور فساد کرانے ہیں یا شیعوں نے یا سنیوں نے اور وہ پھر کھلم کھلا اپنی سازشیں کرتے اور فساد کرتے اور فسادوں کے بعد ایک دفعہ بھی ان دشمن حکومتوں کو ایک ادنی سی بات بھی ہاتھ نہ آئی کہ ثابت کر سکیں کہ یہ فساد احمدیوں نے کروایا تھا.مجھے یاد ہے انہی دنوں

Page 467

خطبات طاہر جلد 13 461 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء میں جب یہ کہا کرتے تھے کہ احمدیوں سے متنبہ رہو.کراچی میں ساری پولیس کی توجہ احمدیوں کی طرف تھی اور ادھر کراچی میں شیعوں کے امام باڑے جل گئے.شیعوں کو ان کے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تو کون لوگ گئے تھے وہاں.کیا کوئی احمدی تھا؟ تحقیق نے کیا ثابت کیا تھا کہ احمدیوں کا کوئی دور سے بھی اس بات سے تعلق نہیں ہے.پس جب ایک قوم جھوٹ بولنے کی عادی ہو جائے اور عملاً جھوٹ کی پرستش کرنا شروع کر دے تو جھوٹ کی ساری تدبیر میں اپنے ہی خلاف الٹا کرتی ہیں.احمدی تو امن پیدا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور احمدیوں سے آپ کبھی فساد کی بات نہیں دیکھیں گے.اب آپ کہتے ہیں رانے ایسا کیا.اب 'را کیسے وہ دشمنیاں دلوں میں پیدا کر سکتی ہے جو تاریخ کے سینکڑوں سال گواہ ہیں کہ تمہارے دلوں میں مسلسل چلی آ رہی ہیں.کم از کم ایک ہزار سال گزر چکا ہے اس تاریخ کو کہ خود مسلمانوں نے مختلف وقتوں میں ایک دوسرے کے گھر جلائے ہیں، ایک دوسرے کی قبریں اکھاڑی ہیں ، مر دوں کو دوبارہ پھانسی دی گئی ہے اور ان کے پنجروں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے.یہ ہلاکو خان کا واقعہ بھول گئے ہو.ایک سنی دور میں جب بعض شیعوں پر مظالم ہوئے ہیں تو اس کے ردعمل کے طور پر پھر شیعہ وزیر نے انتقام لیا اور اس نے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ آؤ اور اس ملک پر قبضہ کرو.یہ تاریخ بتا رہی ہے.وہاں کونسی درا تھی جو اپنا کام دکھاتی تھی؟ میں ہندوستان کے حق میں بات نہیں کر رہا، میں کسی کے حق میں بھی بات نہیں کر رہا نہ کسی کے خلاف بات کر رہا ہوں.میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ حقیقت حال پر نظر رکھو.نفرتیں جہاں پرورش پاتی ہیں وہی جگہ ہے نگرانی کی اوران نفرتوں کی پرورش گا ہوں میں اگر کوئی دشمن کھس کر مزید انگیخت کرے تو وہ ایسی کوشش کر سکتا ہے اس سے انکار نہیں لیکن نفرتیں قائم ہیں تو کوشش پھر ضرور کامیاب ہوں گی اور یہ عذر قابل تسلیم نہیں ہوگا کہ فلاں نے ایسا کروایا ہے.تم کرنے پر تیار بیٹھے تھے اور اس نے جو تلوار نیچے گری ہوئی تھی اٹھا کے تمہارے ہاتھوں میں تھا دی اس سے زیادہ تو اس کو کوئی کام نہیں.لیکن کرنے والے تم ہو، تمہاری نیتیں ہیں جن میں زہر گھلے ہوئے ہیں، وہ نیتیں ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ آنکھیں ہیں جو ایک دوسرے کو اچھا دیکھ نہیں سکتیں، ان نفرتوں کا علاج کرو.ان نظروں کو درست کرنے کی کوئی تدبیر کرو، ان دلوں سے نفرتیں ہٹا کر ان میں محبتوں کے رس گھولنے کی کوشش کرو، اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے اور یہ

Page 468

خطبات طاہر جلد 13 462 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جون 1994ء علاج امام وقت تمہیں بتا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو حکم عدل بن کر آئے تھے وہ سلیقہ سکھا رہے ہیں کہ دیکھو اس طرح صحابہ کی بھی تعریف کرو.اس طرح اہل بیت کی بھی تعریف کرو.ان پر بھی درود بھیجو، ان پر بھی درود بھیجو، یہی ایک ذریعہ ہے امت کے اکٹھا ہونے کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.یقیناً ہمارے نبی خیر الوری ہے ہمارے رب اعلیٰ کی دونوں صفات رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے پھر صحابہ رضوان اللہ یھم حقیقت محمد یہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ پہلے تجھے معلوم ہو چکا ہے.“ اب ان صحابہ کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اہلِ بیت یعنی خونی رشتے کے ذریعے منسلک اور دوسروں سب کا اکٹھا ذکر فرما رہے ہیں اور تمام صحابہ کی تعریف فرما رہے ہیں اس میں نعوذ باللہ اہل بیت اس تعریف سے خارج نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ پہلے میں حوالہ دے چکا ہوں اول طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش نظر ہیں.فرماتے ہیں:.پھر صحابہ حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ تجھے معلوم ہو چکا ہے ان کی تلوار مشرکین کی جڑ کاٹنے کے لئے اٹھائی گئی اور مخلوق پرستوں کے ہاں ان کی ایسی کہانیاں ذکر ہیں جو بھلائی نہ جاسکیں گی.انہوں نے صفت محمد یہ کا حق ادا کر دیا.اب صفت محمدیہ کو صحابہ میں رائج فرمایا ہے.یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے.وہ تمام صفات حسنہ جو خونی رشتوں میں تعلق رکھنے والے اہل بیت میں تھیں یا محض روحانی رشتہ میں بندھے ہوئے صحابہ میں تھیں وہ تمام خوبیاں نہ ان کی ذاتی تھیں، نہ اُن کی ذاتی تھیں وہ صفت محمدیہ کے ان میں جاری ہونے کے نتیجہ میں تھیں.جو اس نکتہ کو سمجھ جائے وہ ایک کے مقابل پر دوسرے سے نفرت کر ہی نہیں سکتا کیونکہ صفت محمدیہ کی طرف پیٹھ دکھا کر صفت محمدیہ سے محبت نہیں کی جاسکتی.صفت محمدیہ پر حملہ آور ہوتے ہوئے صفت محمدیہ کے عشق کے گیت نہیں گائے جاسکتے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الله الصلوۃ والسلام نے کس اعلیٰ پیرائے میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہی کو صحابہ میں جلوہ گر دکھایا.فرمایا ہے وہاں بھی سیرت محمد یہ کام کر رہی ہے.اے سیرت محمدیہ کے عشاق ! کیا تم سیرت

Page 469

خطبات طاہر جلد 13 463 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء محمدیہ سے دشمنی کرو گے؟.صلى الله 66 پس جہاں صفت محمدی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں.”مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ ، وہاں اہل بیت یا غیر اہل بیت کی کوئی تفریق نہیں ہے.اگر حسن ہے تو محمد کا حسن ہے.سیرت ہے تو محمد کی سیرت ہے ﷺ اور صحابہ میں اگر کوئی مدح کی بات پائی جاتی ہے تو محمد رسول اللہ کی سیرت کو اپنانے کے نتیجے میں ہے اور بعینہ یہی وجہ فضیلت کی اہل بیت میں پائی جاتی ہے اس کے سوا کوئی وجہ نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اور ان کے تابعین کو اسم محمد کا مظہر بنایا اور ان کے ذریعے رحمانی جلالی شان ظاہر کی اور انہیں غلبہ عطا کیا اور پے در پے نعمتوں کے ذریعہ ان کی نصرت فرمائی.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صحابہ رضوان اللہ یھم کے ذکر میں فرماتے ہیں:.صحابہ رضوان اللہ میم کے زمانے میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہی نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہوگئی تھی.“ اب یہ وہ حصہ ہے جس کی کمی کی وجہ سے ساری امت ، کہلانے والی امت میں، یعنی رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں فساد پھیلا ہوا ہے.یعنی یہ وہ نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، جس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انہوں نے محمد رسول اللہ اللہ میں خدائی نشان دیکھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی.پس جنہوں نے الہی نشان دیکھے ہوں لازم ہے کہ ان کی زندگی پاک ہو اور پاک زندگیوں میں یہ بدنمونے دکھائی نہیں دے سکتے جو محرم کے دنوں میں آپ دیکھتے ہیں.یہ ناممکن ہے کہ پاک دلوں سے دوسرے پاکوں کے خلاف نفرت اور بغض کے کلے اس طرح نکلیں جس طرح پھوڑے سے پیپ نکلتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا.پاک وجود صحت مند وجود ہوتا ہے، اس میں گندی پیپ کے پالے ہوئے پھوڑے نہیں ہوا کرتے.پس جب بھی صحابہ کے خلاف شیعوں کی مجالس میں سخت قسم کی ظالمانہ زبان استعمال کی جاتی

Page 470

خطبات طاہر جلد 13 464 خطبہ جمعہ فرموده 17 جون 1994ء ہے تو یہ دلوں کے پھوڑے ہیں جو سارا سال پکتے رہتے ہیں اور وہ پیپ اس وقت پھٹ کر اچھل اچھل کر باہر نکلتی ہے اور بہت ہی بد بودار مواد ہے جو باہر نکل کر گلیوں میں آتا ہے اور ساری فضا کو یہ بد بودار صل الله کر دیتا ہے.دوسری طرف مقابل کو دیکھیں.اگر وہ ان کے مقابلہ کرنے والے بھی رسول اللہ ﷺ کی سچائی کے نشان دیکھ کر اپنے دلوں کو پاک کر چکے ہوتے تو ایسے موقع پر استغفار سے کام لیتے.گند کا جواب گند سے نہ دیتے بلکہ ان کے لئے دعا گو ہو جاتے، ان پر زیادہ رحم اور شفقت کرتے ، ان کو سمجھانے کے لئے سارا سال کارروائیاں کرتے اور دلائل کی دنیا میں ان کو گھسیٹ کر لاتے اور دلائل صلى الله کے میدانوں میں یہ فیصلے کرتے.بجائے اس کے کہ تلوار کے میدان میں ایسے فیصلے کئے جائیں.پس ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں اور امر واقعہ یہ ہے صلى الله کہ اس زمانے میں اگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے سچا تعلق باندھنا ہے تو اس امام سے تعلق باندھے بغیر یہ سچا تعلق قائم نہیں ہو سکتا جو امام ان پیش گوئیوں کے مطابق آیا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرما ئیں وہ تعلق جو تیرہ سو سال میں تم کاٹ بیٹھے، وہ تعلق تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ جوڑنے کے وقت آئے اور آسمان سے وہ رسی نیچے کی گئی جس رسی سے ہاتھ جدا ہو چکے تھے.اب ایک ہی راہ ہے کہ اس رسی کو دوبارہ مضبوطی سے پکڑ لو اور پھر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دامن میں پناہ لے لو اس پناہ کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے اور یہ پناہ امام وقت کے انکار کے ذریعہ میسر نہیں ہو سکتی.یہ پناہ صرف اس صورت میں نصیب ہو سکتی ہے اگر امام وقت کو تسلیم کرو، اس سے محبت کا رشتہ باندھو، کیونکہ یہی محبت کا رشتہ سلسلہ وار خدا تک پہنچے گا، محمد مصطفی ﷺ کی سچی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کرے گا.صحابہ کی سچی محبت کے سلیقے تمہیں سکھائے گا، اہل بیت کی سچی محبت کی روح تمہیں عطا کرے گا.یہ صاحب عرفان محبت ہوگی جس کے نتیجے میں پاک عمل پیدا ہوتا ہے.یہ ایسی محبت ہوگی جس کے نتیجہ میں دل پاک کئے جاتے ہیں اور پاک دل ایک دوسرے سے نفرت نہیں کیا کرتے.پاک دل آپس میں بٹ نہیں جایا کرتے بلکہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور امت محمدیہ کو دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جس امام کو بھیجا ہے وہی ان روحانی رشتوں کا ضامن بن کر آیا ہے.وہی ان روحانی رشتوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی بن کر بھیجا گیا ہے.تم اس کی ندا پر کان دھرو اور اطاعت اور محبت کے ساتھ اس کے حضور اپنے دلوں کو ان معنوں میں جھکا دو کہ جس طرف وہ بلا تا

Page 471

خطبات طاہر جلد 13 465 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء ہے وہ دل لپکتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے اس طرف دوڑیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرف وہ ان دلوں کو بلا رہا ہے یعنی تم سب کے دلوں کو وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا رستہ ہے وہ خدا کا رستہ ہے اور کسی کا نہیں اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں.اسی کا نام صراط مستقیم ہے، اسی سے وحدت ملتی عطا ہوتی ہے.اسی سے تفرقے پھر وحدت کی لڑیوں میں پروئے جاتے ہیں.پس آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہیں اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور کی باتیں ہیں تو ان نصیحتوں پر تو عمل کریں یا بتا ئیں کہ ان میں کیا نقص ہے.ان سے بہتر بات تو پیش کر کے دکھا ئیں.آپ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہی ہیں جو حکم عدل بن کر آئے تھے اور تمہارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے والے تھے اب آپ کے فیصلے میں نے تمہیں سنا دئے ہیں.ان فیصلوں سے بہتر فیصلے کر کے تو دکھاؤ.بتاؤ تو سہی کہ اس سے زیادہ اور کون سی پاک اور مؤثر راہ ہوسکتی ہے جو مسلمانوں کے بٹے ہوئے دلوں کو پھر ایک ہاتھ پر ا کٹھے کر سکتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانا اب تمہارے اختیار کی یا ہاں یا نہ کی بات نہیں رہی.امر واقعہ یہ ہے کہ سچا امام جن رستوں کی طرف بلاتا ہے ان رستوں سے انکار خودکشی کے مترادف ہو جایا کرتا ہے.تو انکار کرو گے بھی تو باتیں وہی ماننی پڑیں گی جو حضرت مسیح موعود کہتے ہیں.ان باتوں سے بہتر باتیں تمہارے فرشتے بھی سوچ نہیں سکتے کیونکہ یہ خدا صلى الله کا کلام ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ آپ کی برکتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دل پر نازل ہوا.جو وحدت کے رستے آپ نے بتائے ہیں ان کے سوا اور کوئی وحدت کا رستہ نہیں.پس اس رستے سے آؤیا اس رستے سے آؤ، طوعاً آؤیا کر کھا آؤ.تم نے حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی اگر بیعت نہیں کرنی تو باتوں کو تو لازما ماننا پڑے گا اور اگر نہیں مانو گے تو اسی طرح بے رہو گے.اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی تعلیم دیتے رہو گے.نفرتوں کی منادی کرتے رہو گے اور ہر سال بجائے اس کے کہ محرم امت محمدیہ کو ایک کرنے کا عظیم الشان نظارہ دکھائے ہر سال یہ محرم آپ لوگوں کو اور زیادہ متفرق کرتا چلا جائے گا، آپ کے دلوں کو اور زیادہ پھاڑتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو عقل دے، ہوش دے اور وہ سچی باتیں جو ایک صاف اور پاک دل کو صاف دکھائی دیتی ہیں.کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی.سچ تو خود اس طرح بولتا ہے کہ مومن کی پیشانی

Page 472

خطبات طاہر جلد 13 466 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994 ء سے برستا ہے، سچ تو خود اس طرح بولتا ہے جیسے مشک خوشبو دیتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مومن کی پیشانی کے نور کی طرح آپ کے چہرے سے برس رہی ہے.آپ کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مشک کی طرف خوشبور رکھتی ہے اور خود بخو داٹھتی ہے اور فضا کو مہکا دیتی ہے.پس ان باتوں پر غور سے کان دھرو اور ان کو اپنے دلوں میں جگہ دو.یہی ایک رسته امت کو دوبارہ وحدت کی لڑیوں میں پرونے کا رستہ ہے.اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 473

خطبات طاہر جلد 13 467 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء حبل اللہ کی حفاظت میں جان بھی جائے تو دریغ نہ کرو.محمدی اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کریں.(خطبه جمعه فرموده 24 جون 1994ء بمقام ٹورانٹو ، کینیڈا) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی:.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران: 104) پھر فرمایا:.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے گزشتہ تین خطبات کا بھی عنوان بنی رہی ہے آج کا عنوان بھی یہی ہے اور آئندہ بھی شاید ایک دو خطبات میں یہی مضمون چلے.ان آیات کی روح یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں آگ کے گڑھے پر جب تم کنارے پر پہنچ گئے تھے وہاں سے کھینچ کر اس سے بچالیا ہے اور اس بچانے کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ تمہارے دل پھٹے ہوئے تھے تمہیں ایک ہاتھ پر ایک دل کی دھڑکن کی طرح اکٹھا کر دیا ہے اور اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے تمہارے دلوں میں آپس میں محبت کے رشتے باندھے، ایک جان کر دیا.پس اس نعمت کو

Page 474

خطبات طاہر جلد 13 468 خطبه جمعه فرموده 24 جون 1994 ء اب کبھی بھلانا نہ اور ہاتھ سے چھوڑنا نہ.اگر تمہارا آپس کا باہمی ربط محبت اور باہمی تعلق دوبارہ کسی وجہ سے منغض ہو گیا، اگر پھر آپس میں افتراق پیدا ہو گئے ایک دوسرے سے پرے ہٹنے لگے تو اس کا انجام وہی ہے جہاں سے تمہیں کھینچ کر واپس لایا گیا تھا یعنی بھڑکتی ہوئی آگ کا کنارہ.پس قوموں کے اتحاد کے بعد جب وہ افتراق اختیار کیا کرتی ہیں تو ان کا انجام وہی انجام ہے جہاں سے قرآن کریم نے بات کا آغاز فرمایا ہے تو اس پہلو سے یہ مضمون غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور میں حدیث اور سنت کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں کہ باہمی محبت کو فروغ دینے والی کون سی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمت یعنی مجسم نعمت حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب دنیا میں نازل ہوئے تو خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعے سے بکھرے ہوئے دلوں کو کیسے اکٹھا کیا تھا.وہ اخلاق حسنہ تھے جنہیں اخلاق مصطفوی کہا جا سکتا ہے.دعائیں اور عبادت، ایک اپنا مقام رکھتی ہیں لیکن دعاؤں اور عبادت کے نتیجے میں وہ اخلاق والی قومیں پیدا ہوتی ہیں جو انبیاء سے اخلاق سیکھتی اور ویسے ہی رنگ اختیار کر جاتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ان کا ذکر رسول سے الگ نہیں فرمایا بلکہ فرماتا ہے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ اور پھر سب صفات اکٹھی بیان فرماتا ہے.پس یہ وہ وہ مضمون ہے جس پر میں حدیث اور سنت کے حوالے سے روشنی ڈال رہا ہوں تا کہ جماعت جو مدتوں کے انتظار کے بعد تیرہ صدیوں تک امت کے در بدر پھرنے اور متفرق ہوتے چلے جانے کے بعد پھر خدا نے آسمان سے وہ رابطہ اتارا جس سے ایک دفعہ پھر حبل اللہ پر ہمارا ہاتھ پڑ گیا اور حبل اللہ پر ہاتھ پڑے بغیر یعنی اللہ کی رسی کو تھامے بغیر متفرق اور منتشر قو میں اکٹھی نہیں ہوا کرتیں.پس اس نعمت کی قدر کرو اور کسی قیمت پر بھی حقیقت میں جان بھی جائے تو اس رسی کو ہاتھ سے جانے نہ دو اور جو بھی جماعت میں افتراق کی باتیں کرتا ہے یا اس کے رویے سے دُوریاں پیدا ہوتی ہیں وہ جان لے کہ وہ خدا کی اس تقدیر کے برعکس رخ اختیار کئے ہوئے ہے اور ایسے لوگوں سے ہمیشہ جماعت کو خطرہ درپیش رہے گا.یہ جو مضمون ہے یہ بہت وسیع اور بلند بھی ہے اور گہرا بھی لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی میں تو نے تمام مشکل مضامین کو اپنی ذات میں آسان کر کے دکھا دیا.وہ بڑے بڑے اعلیٰ اخلاقی مراتب جن کے متعلق درس دینے والے فلاسفر درس دیتے رہے اور دیتے رہیں گے مگر سمجھا نہ سکے اور ان چیزوں کو اخلاق میں رائج نہ کر سکے.آنحضرت ﷺ نے ان الجھے ہوئے مشکل مسائل کو چھوٹی چھوٹی سا ساده

Page 475

خطبات طاہر جلد 13 469 خطبه جمعه فرموده 24 جون 1994ء پیاری دل لبھانے والی باتوں کی صورت میں بیان کیا اور اپنے کردار سے ان باتوں کو ایسا سمجھایا کہ وہ اخلاق آپ کے دیکھنے والوں کے دل پر نقش ہوئے.ان کے خون میں، رگ و پے میں سرایت کر گئے اور ساری زندگیاں ان کی ذات اور ان کے کردار میں جاری وساری رہے.پھر انہوں نے وہی اخلاق آئندہ نسلوں میں منتقل کئے.یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس میں انقطاع بھی ہوئے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان مجددین کو بھیجا جن کے ذریعے خاص الہی فضل کے نتیجے میں سنت محمد مصطفی ﷺ کو پھر جاری فرمایا گیا.یہ سلسلہ اسی طرح ٹوٹتا اور پھر جڑتا ہوا تاریخ میں آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ آیا جبکہ مسلماں را مسلماں باز کردن“ کی تقدیر پوری ہوئی کہ خدا نے مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان بنانے کا فیصلہ فرمالیا.یہ اس مضمون کا اختصار سے خاکہ ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور یہی احمدیت کی سب سے بڑی صداقت کی دلیل ہے.ار جماعت احمد یہ عالم اسلام میں ایک ہی جماعت ہے جو ایک ہاتھ پر اکٹھی ہے، جماعت احمدیہ عالم اسلام میں ایک ہی جماعت ہے جو ایک سو چالیس ممالک میں پھیلی ہوئی ہونے کے باوجود پھر بھی ایک جمیعت رکھتی ہے، ایک مرکز رکھتی ہے اور دور دور پھیلے ہوئے احمدیوں کے دل بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں.ایک تکلیف کسی احمدی کو خواہ پاکستان میں پہنچے خواہ بنگلہ دیش میں، ہندوستان میں یا کسی اور ملک میں، اس تکلیف کی جب بھی خبر دنیا میں پھیلتی ہے جماعت احمد یہ خواہ دنیا کے کسی ملک سے تعلق رکھتی ہو یوں محسوس کرتی ہے کہ ہماری ہی تکلیف ہے اور عجیب اتفاق ہے، اتفاق تو نہیں یعنی خدا کی تقدیر کا ایک حصہ ہے کہ جیسے میں آپ کے لئے غمگین ہوتا ہوں جماعت میرے لئے غمگین ہوتی ہے کہ اس غم سے مجھے زیادہ تکلیف نہ پہنچے اور ہر ایسے موقع پر مجھ سے تعزیت کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایسی سادگی اور بھولے پن سے، جیسے وہ اس بات پر مقرر کئے گئے ہیں کہ میری دلداری کریں.چنانچہ اسیران راہ مولا کے معاملے میں مسلسل ہمیشہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ مجھ سے ہمدردی کرتے رہے، فکر کا اظہار کرتے رہے.یہاں تک کہ مائیں بچوں کے حوالے سے لکھتی رہیں کہ جب آپ ان کا ذکر کرتے ہیں اور آپ کی آنکھوں میں نمی آجاتی ہے تو ہمارے بچے بے چین ہو جاتے ہیں.ایک ماں نے لکھا کہ بچہ رو پڑا اس نے رومال نکالا اور دوڑا دوڑا گیا، میرا ذکر کر کے کہ ان کے آنسو پونچھوں.اب یہ جو واقعہ ہے یہ اللہ کے اعجاز کے سوا ممکن نہیں ہے.اس مادہ پرست دنیا میں کوئی ہے تو دکھائے کہاں ایسی باتیں ہیں.یہ حضرت

Page 476

خطبات طاہر جلد 13 470 خطبه جمعه فرموده 24 جون 1994ء محمد مصطفی امی ﷺ ہی کا اعجاز ہے اور اسی آیت کے حوالے سے میں اس اعجاز کا ذکر کر رہا ہوں.آنحضور کو اللہ مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تجھ میں طاقت نہیں تھی مگر مجھ میں طاقت تھی اور میں نے تیرے ذریعے یہ معجزہ دکھایا ہے خدا سے جب تیری ذات ملحق ہو گئی اور خدا نے جب تجھ میں انفاخ قدسی پھونکے تو اس کے نتیجہ میں تو وہ نعمت بن گیا جس نعمت کے ذریعے تمام بکھرے ہوئے ایک دوسرے سے کٹے ہوتے ایک دوسرے کے دشمنوں کو ایک ہاتھ پر دوبارہ باندھنے کے انتظام ہوئے اور اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو یہ لوگ آگ میں جھونکے جانے کے لائق تھے.آگ کے کنارے تک پہنچے ہوئے تھے.وہاں سے خدا فرماتا ہے میں نے تمہیں کھینچ کر ایک دوسرے کے باہمی مودت عطا کی، ایک دوسرے کی محبت میں باندھ دیا پس پھر بھی اگر ایسا کرو گے تو آگ کے سوا تمہارا کوئی انجام نہ ہوگا.اس مضمون کو جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں خصوصیت سے اس زمانے میں بیان کرنے کی ضرورت اس لئے درپیش ہے کہ ہم کثرت کے ساتھ پھیل رہے ہیں اور آسمان پر یہ بات جو پہلے میں کہا کرتا تھا کہ لکھی گئی اب وہ ابھر کر روشن چہروں کی صورت میں سامنے آگئی ہے اور آسمان سے جن پھلوں کے وعدے دیئے گئے تھے وہ پھل ہم اپنے اوپر برستے دیکھ رہے ہیں کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا جس میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تبلیغ کی رفتار نہ بڑھ رہی ہو اور نئی نئی قومیں داخل نہ ہو رہی ہوں.کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جس میں نئے نئے لوگوں کے آنے کی خوشخبری نہ ملتی ہو.کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ کثرت کے ساتھ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر شکر کے ساتھ ادا کرتے ہوئے مجھے اطلاعیں نہیں بھیجتے کہ ہم نے ایسے ایسے اعجاز دیکھتے ہیں کہ ہماری روح تمام تر سجدہ ریز ہو چکی ہے.ایسے ایسے اعجاز دیکھے ہیں کہ ان کے لطف کو بیان کرنے کی ہمارے قلم میں طاقت نہیں.ہم لاعلم نا تجربہ کار محض اس وجہ سے میدان تبلیغ میں نکلے کہ آپ نے کہا تھا کہ آج اللہ تم سے یہی چاہتا ہے کہ تم میدان تبلیغ میں نکل کھڑے ہو، ہم نہتے لوگ ہمارے پاس کوئی زاد راہ نہیں تھا.مگر اللہ نے آوازوں میں ایسی ایسی برکتیں ڈالیں کہ جہاں سے کوئی توقع نہیں تھی وہاں سے بھی خدا کے فضل سے لبیک لبیک کہتے ہوئے لوگ جوق در جوق احمدیت میں داخل ہونے لگے.پس یہ جو رونما ہونے والا معجزہ ہے یہ کسی ایک جگہ کا نہیں، کسی ایک ملک کا نہیں، کل عالم میں یہی ایک عجیب کیفیت ہے جو فضا میں پیدا ہو چکی ہے اور اس کیفیت سے جماعت کے دل اس طرح نشے میں مخمور ہیں کہ تمام دنیا کی جماعت میں

Page 477

خطبات طاہر جلد 13 471 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 رجون 1994ء جو تبلیغ کا کام کر رہے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ جیسے ہم مدہوش ہو چکے ہوں.اب انہوں نے ظاہری شراب کا مزہ تو نہیں چکھا مگر ان کی طرز کلام بتاتی ہے ان کی تحریر بتا رہی ہوتی ہے کہ جوان کو مزہ ہے وہ دنیا کی شراب پینے والوں کے تصور میں بھی نہیں آسکتا.بعض لوگ کہتے ہیں اب ہماری زندگی میں اور کوئی مزہ نہیں رہا اور بس دل چاہتا ہے کہ ہمیشہ خدا کی راہ کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں اور آسمان سے گرتے ہوئے پھلوں کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اپنے سینوں سے لگائیں اپنی جھولیوں میں محفوظ کریں اور آئندہ پھر اسی کام پر روانہ ہو جائیں.بہت سے ایسے داعی الی اللہ سفر کرنے والے ہیں.میں نے روانہ ہونے کا جو لفظ بولا ہے تو ذہن میں افریقہ سے آئی ہوئی بعض اطلاعات تھیں وہاں بڑی مشکلات ہیں سفر میں اور ایک مبلغ نے لکھا کہ بعض دفعہ بخار کی حالت میں بھی آگے بڑھنا پڑا.بعض دفعہ بیچ میں نالے ندیاں وغیرہ آئیں اسی طرح ان سے پیدل گزرنا پڑا کبھی کبھی پانی او پر سے گزر جا تا تھا لیکن پھر نیچے بھی ہو جاتا تھا.یعنی کہیں خطرات تھے کہیں انسان معمول کے پانی سے پایا.پانی سے گزرنا تھا.مگر ایک دھن سوار تھی کہ ہم نے جانا ہی جانا ہے بڑھنا ہی بڑھنا ہے کیونکہ ندی پار سے یہ اطلاع ملی تھی کہ بعض لوگوں کو دلچسپی ہے.یعنی اس حالت میں ہم نے سفر کئے.بخار بھی آئے لیکن کوئی پرواہ نہیں کی اور پھر ایسے ایسے خطرات در پیش ہوئے کہ یوں لگتا تھا کہ خیریت سے ہمارا وا پس جانا ممکن نہیں ہو گا.مگر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلطان نصیر عطا ہوتے رہے، حیرت انگیز مدد آسمان سے اترتی ہم نے دیکھی.ان جگہوں سے پھل ملے جہاں وہم و گمان بھی نہیں تھا جن لوگوں نے انکار کر دیا کہ ہمارے پاس نہ آؤ وہیں سے وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے کہا ہم ساتھ کے گاؤں سے ہیں ہمارے پاس آؤ اور وہاں گئے اور وہ اللہ کے فضل کے ساتھ سارے کا سارا گاؤں احمدیت کو قبول کر گیا.تو یہ جو میں روانہ ہونے کی بات کر رہا ہوں.داعی الی اللہ بھی ایک قسم کی ہجرت کرتے ہیں وہ اپنی آرام گاہوں سے ہجرت کرتے ہیں اور مشکل مقامات کی طرف سفر کرتے ہیں اور ہر سفر پر اللہ کے انعام کو ایسا اپنے اوپر برستا دیکھتے ہیں.تو پھر اگلے سفر کی ہمت وہیں سے پاتے ہیں وہیں سے آئندہ سفر کے ارادے باندھے جاتے ہیں ورنہ دنیا میں تو یہ ہوتا کہ انسان اگر سفر پر جائے اور مشکل در پیش ہو تو یہ تو بہ کرتا ہوا واپس آتا ہے کہ آئندہ میری تو بہ آئندہ میں یہ سفر نہیں کروں گا مگر دعوت الی اللہ کا ایک عجیب نشہ ہے کہ ہر مشکل سفر کے بعد یہ ارادے باندھتا ہوا انسان لوٹتا ہے کہ میں پھر جب

Page 478

خطبات طاہر جلد 13 472 خطبہ جمعہ فرموده 24 جون 1994ء توفیق ملے گی پھر اس راہ پر آگے قد بڑھاؤں گا.یہ وہ دور ہے جس میں ہم داخل ہورہے ہیں اس دور کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم اپنی تمام اخلاقی خرابیوں کو دور کر کے اپنے اخلاق کو زینت دیں اپنے سینوں کو سجائیں کیونکہ یہ روحانی مہمان ہمارے سینوں میں بٹھائے جانے کے لائق ہیں ہم نے ان کو اپنے سینے سے لگانا ہے.اپنے کردار کے خانوں میں اتارنا ہے اور وہیں ان کی تربیت کرنی ہے اگر ہمارے اخلاق بد ہوئے اگر ہم ایک دوسرے سے دور ہٹنے شروع ہو گئے ہوں.جیسا کہ بعض دفعہ ہوا ہے.اگر ہم آپس میں ایک دوسرے کی محبت میں مضبوط رشتوں کے ساتھ نہیں باندھے گئے تو آنے والوں کو ہم کیسے مضبوط رشتوں میں باندھیں گے اور مضبوط رشتے کیا ہیں؟ یہ کوئی فرضی چیز نہیں ہے.یہ اخلاق کے رشتے ہیں.یہ بات ہے جو میں آنحضور ﷺ کے حوالے سے جماعت کو بار بار سمجھا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ ابھی اور سمجھانے کی ضرورت ہے.یہ کوئی فرضی مضامین کی تقریریں نہیں ہیں.امر واقعہ یہ ہے اس حقیقت کی دنیا میں اتر کے دیکھو، محبت کے رشتے اخلاق سے باندھے جاتے ہیں اگر اخلاق نہ ہوں تو ساری باتیں فرضی ہیں.وہ لوگ جن کے اخلاق گھر میں سنورے ہوئے نہیں وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتے وہ لوگ جو اپنے بچوں سے حسنِ سلوک سے پیش نہیں آتے وہ بیویاں جو اپنے خاوندوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتیں وہ لوگ جو اپنے ہمسایوں سے اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش نہیں کرتے ، وہ ساسیں جو اپنی بہوؤں کو اپنی بیٹیاں نہیں سمجھتیں وہ بہوئیں جو اپنی ساسوں کو اپنی ماں نہیں سمجھتیں وہ نندیں جو اور وہ بھائی اور وہ بھابیاں وغیرہ وغیرہ یہ سارے اپنے عملی امتحان کے میدان میں جو ہمارے سامنے روز کھلتے ہیں روز ہم ان میدانوں میں اترتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ کہاں کہاں ناکام رہے.پس دنیا کی زندگی کو عام روز مرہ کے درپیش آنے والے مسائل کی صورت میں دیکھیں تو یہ فلسفے کی اونچی اڑان کی باتیں نہیں رہتی.یہ روز مرہ رونما ہونے والے گھر کے اور گلیوں کے عام واقعات بن جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اسی حوالے سے ہماری تربیتیں فرمائی ہیں.آنحضور ﷺ نے عام انسان کی ایچ سے اس کی پہنچ سے بالا مضامین بیان نہیں فرمائے.باوجود اس کے وہ مضامین جو بیان فرمائے وہ دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں کی سوچ کی ایچ سے، ان کی پہنچ سے بالا تھے آج بھی بالا ہیں.وہ مضامین جو آنحضور ﷺ نے سادہ اور عام لفظوں میں اپنے کردار کے حوالے سے ہمیں سمجھا دیئے ، آج دنیا کے بڑے بڑے

Page 479

خطبات طاہر جلد 13 473 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء دانشور، دانشور ہونے کے باوجود ان کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ، ان کی اہمیت کو نہیں جان سکتے.ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ انصاف کے قیام کے بغیر دنیا میں کوئی امن قائم نہیں ہوسکتا.انصاف کی بات کرتے ہیں تو یہ نہیں جانتے کہ وہ انصاف جو دو غلا معیار رکھتا ہوا اپنوں کے لئے اور ہو، غیروں کے لئے اور ہو، وہ انصاف دنیا میں کوئی انقلاب برپا نہیں کر سکتا ، کوئی امن دنیا کو نہیں بخش سکتا.اب یہ سادہ باتیں ہیں بظاہر ہر انسان کو مجھنی چاہئیں لیکن علم ہونے کے باوجود سمجھ نہیں آتی.یہ فرق ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کیسے سمجھ آتی ہیں اس کے لئے حضرت محمد مصطفی امیلا سا عظیم کردار ہونا ضروری ہے.ایسا کردار جو باتیں کہے وہ خود اس کا ایسا پاک اور عظیم نمونہ بن جائے کہ ہر بات دل تک اترے اور رگ وریشہ میں سرایت کر جائے.یہ وہ کام تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے کر کے دکھایا اور یہی وہ پاک نمونے ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ جاری فرمایا اور آپ کے صحابہ کی صورت میں ہم نے ان پاک نمونوں کو قادیان کی گلیوں میں اور اس سے باہر، ربوہ میں اور اس سے باہر، ہر جگہ زندہ نمونوں کے طور پر چلتے پھرتے دیکھا.یہ پاک نمونے ہیں جو اب اس نسل میں منتقل ہونے لا زم ہیں.اگر اس نسل میں یہ نمونے منتقل نہ ہوئے تو دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں.آنے والے جو آئیں گے وہ پھر آپ سے اعلیٰ کردار نہیں سیکھیں گے بلکہ بد اخلاقیاں سیکھیں گے اور ایسے لوگ جو اعلیٰ اخلاق پر فائز نہیں ہوتے وہ دو طرح سے خطرات کے حامل ہوتے ہیں.ایک آنے والوں کے لئے وہ خطرہ بن جاتے ہیں دوسرے آنے والے ان کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں.یعنی جو بد اخلاق لوگ ہیں وہ آنے والوں کی بد خلقیاں سیکھتے ہیں اور ان کی بدیوں کی پیروی کرنے سے لذت پاتے ہیں.پس دونوں صورتوں میں لازم ہے کہ آپ سنت محمد مصطفی ﷺ کو ان آسان را ہوں سے پائیں جن آسان راہوں سے میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.آنحضور کے اخلاق پر غور کریں، کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسے اختیار کرو.آپ سنتے ہیں اور دل اچھلتا ہے اور اسے اپنانے کے لئے طبیعت بے قرار ہوتی ہے اور فطرت سے جس طرح ماں کے دودھ کے لئے بچہ اچھلتا ہے اور اس کے نتیجے میں ماؤں کا دودھ چھاتیوں میں آجاتا ہے اس طرح آنحضرت ﷺ سے فیض پانے کے لئے آپ کی فطرت پکارنے لگتی ہے اور آنحضور کے فیض کا دودھ آپ کی فطرت میں جاری ہونے لگتا ہے.یہ وہ

Page 480

خطبات طاہر جلد 13 474 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء آسان طریق ہے جس پر چل کر ایک عظیم انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ے سے صحابہ نے جو باتیں سیکھیں یا با تیں پوچھیں، چھوٹی چھوٹی سادہ سادہ آسان باتیں ہیں.مگر ان سے اس لحاظ سے سرسری طور پر گزر نہ جایا کریں کہ یہ تو عام سی بات ہے یہ تو ہمیں بھی پتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ بظاہر آپ کو پتا ہے لیکن حضور اکرم ﷺ کا بیان اس سے گہرا ہے جتنا آپ سمجھتے ہیں.ٹھہر ٹھہر کر پیار اور محبت سے ان کو دیکھتے ہوئے ، ان سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ، ان مضامین پر سے گزرا کریں تو پھر آپ کو حقیقت میں اپنی اعلیٰ اخلاقی تربیت کی توفیق عطا ہوگی.حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرما ئیں گے جو کچھ لوگوں سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے عملی لحاظ سے نہیں ملا حضور ﷺ نے فرمایا.آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس سے اس کو محبت ہوتی ہے (صحیح بخاری کتاب الادب حدیث : 5704).اب یہ بات تو سن لی کہ اس کے ساتھ ہوتا ہے.اس کا کیا مطلب بنا؟ بعض لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جس سے محبت ہے قیامت کے دن اس کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا لیکن یہ مضمون جو ہے وہ اس سے بہت زیادہ گہرا ہے اور بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے.اس کا ایک حوالہ قرآن میں ہے، ایک حوالہ تاریخ اسلام میں ہے، ایک حوالہ آنحضرت ﷺ کے قول اور فعل کے یکساں ہونے إصلى الله الله میں ہے.ان تینوں پہلوؤں سے میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس حدیث سے آپ کو کیا پیغام ملنا چاہئے.سب سے پہلے تو قرآن کریم میں اس کا حوالہ یہ ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعه (4) کہ وہ آخرین بھی ہیں جوا بھی صحابہ سے نہیں مل سکے لیکن ہیں انہیں میں سے وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اور اللہ اس بات پر قادر ہے اور اس بات کی طاقت رکھتا ہے اور حکمت رکھتا ہے کہ جب چاہے ایسا کر دکھائے.آنحضرت ﷺ کی زندگی کے مطالعہ میں بار ہا یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض دفعہ ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جاتا ہے جس کا کوئی نام نہیں بتایا جاتا اور یوں معلوم ہوتا ہے وہ شخص اجنبی تھا جو اس محفل میں اچانک کہیں سے آیا ہے.بعض دفعہ جب اس شخص کے متعلق تحقیقات کی جاتی ہے اور حدیثیں بتاتی ہیں کہ پھر کیا نتیجہ نکلا تو معلوم ہوتا ہے وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو انسانی شکل میں متمثل ہو کر آنحضور سے سوال کیا کرتے تھے تا کہ اس جواب سے جو آپ دیں، صحابہ کی تربیت ہو سکے، پس اس حدیث کا بھی ویسا ہی رنگ ہے.حضرت

Page 481

خطبات طاہر جلد 13 475 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں ایک شخص آیا وہ مدینے کی سوسائٹی کا نہیں تھا، انجانا انسان تھا.ورنہ صحابہ ہر جگہ یہ کہتے ہیں فلاں شخص آیا اس نے یہ سوال کیا.وہ ایسا شخص ہے جس کو کوئی پہچانتا نہیں تھا وہ آیا ہے اور آتے ہی اس نے یہ سوال کیا یا رسول اللہ ! اس شخص کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جو ایسی قوم سے محبت رکھتا ہے جو ان سے نہیں ملی.اس میں ایک پیغام یہ ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو بہت سے صحابہ کے دل میں آپ سے ملنے کی تمنا پیدا ہوئی.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں وہ آخرین جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے کہ وہ ابھی صحابہ سے نہیں ملے اس زمانے میں ان سے ملنے کی تمنا لا زما پیدا ہوئی ہے جس تمنا کا ذکر اس سوال میں کیا گیا ہے کہ یا رسول اللہ ! ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ان سے ملنا چاہتے ہیں ان سے محبت رکھتے ہیں جوا بھی نہیں ملے.پس تاریخ نے جو اولین کی ہو یا آخرین کی ہو قرآن کے حوالے سے ہمیں اس طرح باندھ دیا ہے کہ ہم الگ وجود نہیں رہے اور یہ خیال کر لینا کہ چودہ سو سال پہلے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کے حوالے سے کہیں گے کہ تیرہ سو سال پہلے ، صحابہ کے دل میں محمد مصطفی امیہ کی محبت کے نتیجے میں ان سے بھی محبت پیدا ہوئی جن میں گویا محمد رسول اللہ نے دوبارہ وردود فرمانا تھا اور ان کا ذکر غائبانہ سنا تو دل میں یہ امنگیں بیدار ہونے لگیں، کروٹیں بدلنے لگیں کہ ہم دیکھیں تو سہی کہ وہ کون لوگ ہیں.کاش ہم دیکھ سکتے.یہ ویسا ہی مضمون ہے جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بے چین ہو کر بعض دفعہ مسجد میں حضرت حسان بن ثابت کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ: كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحَاذِرُ پس یہ دوطرفہ محبت تھی.اس شعر کا مطلب یہ ہے، حضرت حسان نے حضرت رسول اکرمی کے متعلق یہ عرض کیا کہ اے میرے آقا.اے میرے محبوب! میری آنکھ کی پتیلی تو تو تھا جس کے ذریعے میں دیکھا کرتا تھا.آج تو نہیں رہا تو میری آنکھ کی پتلی اندھی ہو گئی.مجھے دنیا دکھائی نہیں ديق - مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ اب تیرے بعد جو چاہے مرتا پھرے، مجھے کوئی پرواہ نہیں، مجھے تو تیری موت کا غم تھا.حضر مسیح موعود علیہ السلام کو آپ سے ایسا عشق تھا کہ ایک دفعہ مسجد میں یہ شعر پڑھتے جاتے تھے اور زار زار روتے چلے جارہے تھے.ایک صحابی نے عرض کیا حضرت مسیح موعود کو مخاطب کر

Page 482

خطبات طاہر جلد 13 476 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 رجون 1994ء 66 الله کے کہ اے آقا کیا بات ہے.یہ شعر پڑھ رہے ہیں اور اتنا رو کیوں رہے ہیں.انہوں نے کہا اتنا پیارا شعر حسان نے کہا ہے کہ میرے دل میں حسرت اٹھ رہی ہے کاش میں نے یہ شعر کہا ہوتا.یہ عشق ہے جو دوطرفہ عشق ہے اور قرآن اور احادیث گواہ ہیں کہ جس طرح آخرین کو اولین سے محبت ہوئی اسی طرح اولین کو بھی آخرین سے محبت ہو گئی تھی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ اکٹھے ہوں گے کیونکہ جن کو جن سے محبت ہوتی ہے ان کو جدا نہیں رکھا جائے گا.پس مرتبوں میں بھی وہ اکٹھے کئے گئے.آئندہ کی دنیا میں بھی اکٹھے کئے جائیں گے.یہ مضمون ہے جو یہ حدیث بیان فرما رہی ہے.پھر فرمایا ” المرء مع من احب “ یہاں تاریخ کے حوالے سے صحابہ کے دور کے حوالے سے ایک اور واقعہ ہے جو قابل غور ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک ایسے انسان بھی تھے جن کو آنحضور ﷺ سے گہرا عشق تھا.مگر ان کی والدہ کی حالت ایسی تھی کہ انہیں چھوڑ کر حضور کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے.حضرت اویس قرنی نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا.لیکن عملاً وہی حال تھا ه لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم " ملنے کی تمنار کھتے رہے مگر مل نہ سکے.آنحضرت کو اللہ نے خبر دی کہ ایک تیرا عاشق ہے دور دراز علاقوں میں رہنے والا ، وہ بے انتہا تجھ سے ملنے کی تمنا رکھتا ہے مگر ماں کی خدمت کی وجہ سے اللہ کے اس فرمان کے نتیجے میں کہ ماں کی خدمت اہمیت رکھتی ہے، وہ تیرے پاس حاضر نہیں ہوسکتا.آنحضور ﷺ نے اویس قرنی کو سلام بھیجا اور تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ دو ہی وجود ہیں جنہیں آنحضور ﷺ نے سلام بھیجا ہے یعنی باہر دور رہنے والے جن سے ملاقات نہ ہوسکی.ایک اویس قرنی اور ایک امام مہدی.پس اس طرح تاریخ میں رشتے ملتے ہیں.اولین کے آخرین سے اس طرح تعلق باندھے جاتے ہیں یہ کوئی فرضی افسانوی مضمون نہیں ہے یہ گہری حقیقتیں ہیں.پس ایک وہ قرنی تھا جس نے زمانہ پایا اور پھر بھی مل نہ سکا.ایک وہ تھا جو قادیان میں پیدا ہوا جس نے ایسا عشق کیا کہ اس کی کوئی مثال امت محمدیہ میں دکھائی نہیں دیتی.اس کے دل پر بھی اللہ سے علم پا کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نظر پڑی اور فرمایا کہ اگر تمہیں برف کے تو دوں پر سے گھٹنوں کے بل چل کر بھی وہاں پہنچنا پڑے تو مہدی تک پہنچنا اور میرا سلام کہنا.یہ عجیب واقعہ ہے، ایک عظیم واقعہ ہے، لیکن اولین کو آخرین سے ملانے والی بات ہے اس مضمون کو سمجھنا ضروری ہے.اور تیسر اسبق اس حدیث میں یہ ملتا ہے کہ آنحضور نے فرمایا: ” المرء مع من احب ‘اس کا

Page 483

خطبات طاہر جلد 13 477 خطبه جمعه فرموده 24 جون 1994ء مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ مرتبے میں اکٹھے کئے جائیں گے.جس سے محبت ہے تم ضرور اس سے اکٹھے کئے جاؤ گے اگر کسی سے محبت ہو اور آپ اس کے لائق نہ ہوں تو اس کے ساتھ اکٹھے نہیں کئے جا سکتے.اکٹھے کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس سے محبت ہو انسان لازم ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے.اس کی محبت کی صداقت اس کی اس کوشش میں مضمر ہے کہ وہ ویسا بن سکے، اور جو ایسا کرے گا جو ویسا بنے کی کوشش کرے گا اس کو ملایا جائے گا اور اس کو مرتبوں میں بھی ملایا جائے گا، اس کو قیامت کے دن بھی اکٹھا کیا جائے گا.پس آج آپ نے اگر وہی بننا ہے جن کا آخرین کے حوالے سے قرآن میں ذکر موجود ہے اگر آپ نے وہی بنتا ہے جن کا اس حدیث میں ذکر ہے کہ ایک شخص آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! وہ لوگ جو نہیں ملے کسی سے اور ابھی دور ہیں ان سے اگر کسی کو محبت ہو جائے ، ان دیکھوں سے ، تو اس کے متعلق کیا ارشاد ہے.فرمایا جس سے محبت ہو وہ ملایا جاتا ہے.اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ لازماً خواہ کیسا ہی ہو ملا دیا جائے گا.سچی محبت کی بات ہو رہی ہے اور سچی محبت میں ملنے کا ایک طریقہ ہم صورت ہونا ہے ، ہم شکل ہونا ہے یعنی مزاج اور اخلاق میں ایک جیسا ہونا.پس فرمایا کہ اگر واقعہ محبت ہے تو ان دونوں کے مزاج پھر ملنے شروع ہو جائیں گے.اگر آخرین کو اولین سے محبت ہے تو وہ اولین کی نقل اتاریں گے ویسا بننے کی کوشش کریں گے.پس جماعت احمدیہ کے لئے جہاں اس میں بڑی خوش خبریاں ہیں وہاں ذمہ داریاں بھی بہت ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ آئینہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.جب کہا جاتا ہے کہ مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے ( ابوداؤد کتاب الادب حدیث : 4272) تو عملاً سب سے بڑا آئینہ تو محمد رسول اللہ ہیں.محمد رسول ﷺ کی ذات، آپ کے اخلاق حسنہ کو اپنے پیش نظر رکھیں تو اپنا چہرہ داغ داغ دکھائی دے گا.آئینے میں کوئی دوسرا وجود دکھائی نہیں دیا کرتا.محمد رسول اللہ کے آئینے میں دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آئینے کے حوالے سے اپنی خرابیاں سامنے آئیں گی اور جہاں کہیں ویسا حسن ملے گا اسے اور زیادہ نکھارنے کی تمنا پیدا ہوگی.پس یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعے سے ہم اپنے اخلاق کو اخلاق حسنہ میں تبدیل کر سکتے ہیں اور اخلاق حسنہ کو ترقی دے کر مکارم الاخلاق میں تبدیل کر سکتے ہیں یعنی وہ اخلاق جن پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا قدم تھا.

Page 484

خطبات طاہر جلد 13 478 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 / جون 1994ء یہ دوسری حدیث صحیح بخاری کتاب الایمان سے لی گئی ہے.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا تین باتیں ہیں جس میں وہ ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کرے گا.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اسے زیادہ محبوب ہو.دوسرا یہ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے اور تیسرا یہ کہ وہ اللہ کی مدد سے کفر سے نکل آنے کے بعد پھر کفر میں لوٹ جانے کو اتنا نا پسند کرے جتنا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے.( بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان - حدیث : 15) یہ وہی آگ ہے جن کا میں نے پہلے اس آیت کریمہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے جو میں نے تلاوت کی ہے.اس آگ میں ڈالا جانا دراصل آپس میں ایک دوسرے کا دشمن ہونا، ایک دوسرے سے دلوں کا پھٹ جانا ہے اور اگر ایسا ہو تو آگ کے سوا اور کوئی انجام نہیں.آنحضرت ملے نے اس ذکر سے پہلے آپس کی محبت کا ذکر فرمایا ہے.پس جو تفسیر میں اس آیت کی کر رہا تھا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی آسمانی تفسیر اسی کی تائید فرما رہی ہے اور اس کی تائید میں ان دو تین باتوں کو ملا کر ایک گہرا فلسفہ بیان فرما رہی ہے.تین نصیحتیں فرمائیں.ایمان کی حلاوت وہی محسوس کرے گا جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول باقی سب رشتوں سے زیادہ پیارے ہوں.رشتوں کے تعلق میں یہ وہ نئے رشتے ہیں جو روحانی زندگی میں ایک امام کے ساتھ منسلک ہونے کے نتیجے میں نئے وجود میں آتے ہیں.انہی رشتوں کو ہم خَلْقًا أَخَرَ (المومنون : 15 ) کہہ سکتے ہیں.قرآن کریم نے نئی روحانی زندگی کا نام خَلْقًا أَخَرَ رکھا ہے.خلق اول کیا ہے؟ وہ عام روزمرہ کے رشتے جن میں ماں کو بیٹے سے محبت ہوتی ہے، بیٹے کو ماں سے ، باپ کو بچوں سے ، بچوں کو باپ سے وغیرہ وغیرہ.بہن بھائیوں کے تعلقات ہیں، یہ سارے وہ طبعی رشتے ہیں جن کو خلق اول کے رشتے کہا جاتا ہے.جب انسان حقیقت میں مومن بن جاتا ہے تو اسے ایک خلق آخر عطا ہوتی ہے قرآن کریم کے رو سے یہی اصطلاح ہے جو اس پر صادق آتی ہے.ایک نیا جنم لیتا ہے، ایک نئے وجود کو اختیار کر لیتا ہے.اس وجود کے بھی کچھ محبت کے قوانین ہیں اور وہ قوانین یہ ہیں کہ اللہ اور رسول کی محبت ہر دوسری محبت پر غالب آجائے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی محبت کے مقابل پر جب بھی دنیا کی کوئی محبت ٹکرائے ، اس کے سامنے کھڑی ہو ، تو اس محبت کو جو دنیا کی محبت ہے، انسان ٹھکرا دے اور اللہ کی

Page 485

خطبات طاہر جلد 13 479 خطبہ جمعہ فرموده 24 جون 1994ء محبت کو اختیار کرلے اور رسول کی محبت کا بھی یہی حال ہو کیونکہ وہ محبت بھی اللہ کے حوالے سے ہے اور یہی سلسلہ آگے چلتا ہے.یہی محبت کا پھر یہی مطلب بن جاتا ہے کہ اگر کسی وجود سے اللہ کی خاطر پیار ہے تو اس کے مقابل پر دنیوی تعلق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، اس محبت کو لا ز ما اختیار کیا جاتا ہے.آنحضور فرماتے ہیں دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے تو دراصل پہلی بات ہی کا منطقی نتیجہ ہے جو آگے بڑھایا جا رہا ہے اللہ کی محبت سب محبتوں پر فوقیت رکھے اور اسی محبت کے نتیجے میں رسول کی محبت ہر دوسری محبت پر فوقیت اختیار کر جائے اور پھر اسی حوالے سے اگلا قدم یہ ہو کہ سارے معاشرے میں ایک دوسرے سے تم اللہ کی خاطر محبت کرنے لگو اور جب اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرو تو یہ محبت ہر دوسری محبت پر غالب آ جائے.اس کے بعد فرمایا ہے جو شخص کفر سے نکل آنے کے بعد دوبارہ اس میں جانے کو یہ سمجھے کہ گویا مجھے آگ کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہے وہی ہے جو ایمان کی لذت کو پاتا ہے، پس ایمان کی تعریف وہ ہے جو پہلے گزر چکی ہے.کفر کی تعریف یہ ہے کہ جو ان تعلقات سے پرے ہٹ جاتا ہے اور یہی مضمون ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی کہ تم تو آگ کے کنارے پر کھڑے تھے.ہم نے تمہیں بچایا آپس کی محبت میں باندھ کر ، ایک دل بنا کر ، ایک جان کرنے کے بعد دوبارہ اس کا تصور بھی نہ کرنا کہ پھر تم ایک دوسرے سے لڑ پڑو.اب آپ سوچئے کہ روز مرہ کی زندگی میں کتنے ہیں جو بات بات پر بھڑکتے ہیں.بات بات پر اپنے بھائی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں.کتنے ہیں جو اپنے قریبی رشتوں کے باوجودان کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے کجا یہ کہ وہ روحانی رشتوں کے حق ادا کریں.پس درستی پہلی منزل پر نہیں بلکہ بنیاد میں ہوگی.بنیادیں اگر درست نہیں تو پہلی منزل بھی درست تعمیر نہیں ہوسکتی اور اخلاق کی بنیاد روزمرہ کے خونی رشتوں میں ہے، وہ اخلاق درست ہوں تو پھر خلق آخر کی تعمیر شروع ہوتی ہے جو بعد کی آنے والی منازل ہیں کہ بالآخر اللہ کا ساتھی بنا دیتی ہیں، اللہ کا دوست بنا دیتی ہیں.وہاں تک پہنچاتی ہیں جہاں خدا کی محبت کے بعد اور کوئی محبت قابل ذکر باقی نہیں رہتی.پس یہ کہہ دینا تو آسان ہے کہ ہم اللہ کی خاطر کسی سے محبت کرتے ہیں لیکن اگر دنیا کی خاطر بھی محبت نہیں کر سکتے تو اللہ کی خاطر کیسے کریں گے.اگر بھائی بہنوں کا حق ادا نہیں کر رہے، ماں باپ

Page 486

خطبات طاہر جلد 13 480 خطبہ جمعہ فرموده 24 جون 1994ء مرتے ہیں تو بہنوں کے حق مار کر بیٹھ جاتے ہیں.وراثت میں ان کو شریک کرنے کی ہمت نہیں پاتے.اگر قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے بڑھ کر حق ادا کرنے کی بجائے ان کے اپنے حق چھیننے میں کوشاں رہتے ہیں.اگر ایک آدمی دوسرے شریک کے مال پر نظر رکھتا ہے.جب تک آمد نیں زیادہ ہوتی رہیں خاموشی کے ساتھ گزارے چلتے رہیں.جہاں ابتلا آیا جہاں نقصان کا خطرہ ہوا وہاں شریک نے کوشش کی کہ جتنا سمیٹ سکتا ہوں میں سمیٹ لوں اور اس سے الگ ہو جاؤں.جہاں یہ حالات دکھائی دیں وہاں اللہ کی محبت کی باتیں کرنے کا حق ہی کوئی نہیں.یہ بہت دور کی باتیں ہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے زمین پر چلنا نہیں آیا اور آسمان پر چھلانگیں لگانے کے خواب دیکھ رہے ہوں.پس یہ وہ روزمرہ کی سادہ باتیں ہیں جو محمدرسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے عمل سے سکھائی ہیں.ایسے عظیم کردار کا نمونہ دکھایا ہے جو زمین کے ساتھ بھی جڑا ہوا تھا لیکن آسمان سے بھی باتیں کر رہا تھا فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ (النجم:10) آپ بلند ہوئے تو خدا تک جاپہنچے.اتنا قریب ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی کسی مخلوق کو یہ توفیق نہ ملی تھی نہ آئندہ کبھی ملے گی لیکن دنیا پر پھر جھک آئے اور اس طرح بنی نوع انسان اور خدا کے درمیان وسیلہ بن گئے جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.پس بلندی کی باتیں تو ہوں گی لیکن پہلے زمین کے تقاضے تو پورے کر لو.روزمرہ کے اخلاق درست کئے بغیر تم اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ خلق آخر کی باتیں کرو اور تم ابھی خلق آخر کے میدان میں داخل کئے جاچکے ہو کیونکہ وہ عظیم الشان قو میں جو بڑے ولولوں کے ساتھ بڑی امیدیں لئے تمہاری طرف بڑھ رہی ہیں تمہارے دامن میں پناہ چاہتی ہیں.جن کو دنیا میں اور کہیں امن نصیب نہیں ہوا لیکن جانتی ہیں کہ اگر امن ہے تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام میں ہے اور آپ کے دامن میں پناہ لینے سے امن ملتا ہے وہ آپ کی طرف دوڑی چلی آرہی ہیں.پس آپ فکر کریں اور گھبرا کر اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں اور جاگنے کی کوشش کریں.بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ جاگتے نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس مضمون کو بار بار فرمایا ہے اور بچپن میں بھی اس کا کچھ لطف آتا تھا مگر اب جوں جوں تجربہ بڑھ رہا ہے میں اس کی حقیقت کو سمجھتا جا رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ کا یہ کلام محض لطف کی بات نہیں ہے بلکہ آپ کی گہری پریشانی اور لمبے تجربہ کا مظہر ہے.وہ نہیں جاگتے سو بار جگایا ہم نے (درین صفحہ : 16)

Page 487

خطبات طاہر جلد 13 481 خطبه جمعه فرموده 24 جون 1994ء اس قدر بے چین کرنے والا فقرہ ہے اس قدر مسیح موعود کو بے قراری لگی ہوئی تھی کہ میں کس طرح جھنجھوڑ وں اور طبیعتوں کو بیدار کروں اور بتاؤں کہ تم آج بھی سوئے پڑے ہو، کیوں نہیں اٹھتے ؟ کیوں میری باتیں نہیں سنتے ؟ آج وہ وقت آگیا ہے کہ جھنجھوڑ کر جماعت کو بیدار کیا جائے اور بتایا جائے کہ دیکھو اٹھو اپنے نفس کا خیال کرو، اپنے نگران بنو، اگر تم اپنے نگران نہ بنے تو کوئی باہر کی آواز تم نہیں سن سکو گے.اندر سے ایک مربی بیدار ہونا ضروری ہے اندر سے ایک نگران کا جاگ اٹھنا ضروری ہے.جب یہ نگران جاگ اٹھتا ہے تو اپنی ہوش نہیں رہتی کجا یہ کہ انسان دوسروں میں کیڑے ڈالتا رہے.جب بی نگران بیدار ہو جائے تو انکساری پیدا کرتا ہے.انسان بے چین ہو جاتا ہے دوسروں کی بدیوں کی بجائے ان کی خوبیوں پر نظر رکھ کر ان سے موازنہ کرتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے وہ بھی اچھا ہے، مجھ سے وہ بھی اچھا ہے.یعنی جس بد بخت کا نگران سویا ہوا ہو وہ ہر دوسرے پر عیب جوئی کی نظر ڈالتا ہے اور دو دسروں کے عیب تلاش کر کے ان کے پیچھے اپنی برائیاں چھپا تا رہتا ہے اس کو اسی میں ہی لطف آتا ہے کہ فلاں میں بھی یہ بدی ہے اور فلاں میں بھی یہ برائی ہے، فلاں میں یہ خرابی ہے اور میں ان سے اچھا ہوں حالانکہ بسا اوقات اس میں بھی جھوٹ ہوتا ہے.جو برائیاں وہ دوسروں میں پیش کر رہا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس کے اندر موجود ہوتی ہیں.پس اخلاق حسنہ کے پیدا کرنے سے پہلے ایک اندرونی مربی کا بیدار ہونا لازم ہے اس کے بغیر آپ کو کبھی اخلاق نصیب نہیں ہو سکتے اور سب سے اچھا سکھانے والا وہی ہے جو دل کے اندر پیدا ہوتا ہے اور دل سے جاگ اٹھتا ہے اور وہ آواز ہے جو آپ قریب سے سنتے ہیں.اس آواز کو اگر آپ جھٹلائیں اور اس کا انکار کریں تو ممکن ہے کہ کریں، مگر دن بدن بے چینی بڑھتی رہے گی دن بدن اور زیادہ پشیمان ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ خدا کے حضور روئیں گے کہ اے خدا! میری کیا حالت ہے.میں بدی کو جانتا ہوں، پہچانتا ہوں، پھر بھی کرتا ہوں.اور تیرے حضور میں مسلسل اس سفر میں زندگی گزار رہا ہوں کہ جانتے ہوئے کہ میرا قدم غلط سمتوں میں اٹھ رہا ہے پھر بھی وہ قدم اٹھا رہا ہوں.یہ مربی بیدار ہونے کے بعد کی باتیں ہیں اس سے پہلے کی نہیں ہیں.پھر وہ نفس کی پکار ، وہ بے چینیاں، وہ بے قراریاں، وہ شرمندگیاں، خدا کے حضور جب آنسو بہاتی ہیں پھر تربیت کے سامان ہوتے ہیں.مگر بد اخلاق انسان کو تو ان مضامین کا کوئی تصور بھی نہیں کہ یہ کیا چیزیں ہیں.نہ کبھی یہ

Page 488

خطبات طاہر جلد 13 482 خطبہ جمعہ فرموده 24 / جون 1994ء ہجرتیں کیں، نہ یہ کبھی سفر اختیار کئے.اس لئے میں آپ کو بار بار ایک ہی بات کہتا چلا جا رہا ہوں.اس لئے نہیں کہ گویا میں بھول گیا ہوں کہ میں نے کل بھی آپ کو یہی بات کہی تھی یا پرسوں بھی یہی بات کہی تھی.میں اپنے لمبے تجربے سے اس بات پر گواہ بن گیا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بے قراری کو آج پھر ہمارے ہر دل کو بے چین کر دینا چاہئے اس بے قراری کو ہمیں اپنا لینا چاہئے ، یہ مطلب ہے میرا اور ہمارے ہر دل کو لگ جانی چاہئے.اس سے ہمارے اندر تربیت کے امکانات روشن ہوں گے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اندر کا سویا ہوانفس بیدار ہوگا.اب آپ یہ خطبہ سنتے ہیں یا پہلے بھی سنتے رہے ہیں.اب گھروں میں جا کر وہی زندگی گزاریں جو پہلے تھی اور روز مرہ کی زندگی کو بیدار مغزی کے ساتھ دیکھیں نہ کہ ہم اپنے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا کر رہے ہیں کہ نہیں، تو یہ ساری باتیں بے کار جائیں گی اور پھر مجھے دوبارہ وہی کہنا پڑے گا کہ: وہ نہیں جاگتے سو بار جگایا ہم نے (درین صفحہ: 16) پس اخلاق حسنہ کی حفاظت کے لئے اپنے اندر ایک Consciousness ایک بیداری کا احساس پیدا کریں اور روز مرہ کے تعلقات سے یہ جائزہ لینا شروع کریں.اس کے لئے کوئی رپورٹ لکھنے کی ضرورت نہیں.کسی بیرونی مبلغ یا مربی کا آپ کے پاس آ کر آپ کے سوال و جواب کی کوئی ضرورت نہیں ہے.آپ کا اپنا دل ہے.آپ کو پتا ہے کہ آپ روز مرہ کی زندگی میں اپنے بھائیوں کے کتنے حق مارتے رہے ہیں اپنے عزیزوں کے کتنے حقوق ادا کرتے رہے ہیں یا ان سے غافل رہے ہیں یا چھوٹی سی بات پر غصے کے نتیجے میں آپ اپنی بیویوں پر کس کس طریق سے بھڑکتے رہے ہیں یا کمزوروں پر ہاتھ اٹھانے میں جلدی کرتے رہے ہیں یا اپنے سے کمزور بھائی یا بہن پر تمسخر کرتے رہے ہیں اور اسے اپنے سے حقیر جانتے رہے ہیں.یہ سارے امور ایسے ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں کسی باہر سے آئے ہوئے مربی کے سمجھائے بغیر ہر انسان جانتا ہے، جان سکتا ہے.بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيرَة القيامةۃ : 15,16 ) ہر انسان اپنے نفس کو خوب اچھی طرح جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے خواہ ہزار عذر پیش کرتا رہے.پس اپنے اخلاق حسنہ کو روزمرہ صلى الله کی زندگی میں سنواریں اور آنحضور ﷺ کے اخلاق کے جتنے حوالے میں نے دیئے ہیں انہیں پھر غور سے سنیں اور اپنے حالات پر ان کو چسپاں کر کے دیکھیں کہ کس حد تک آپ کو آنحضرت ﷺ سے محبت

Page 489

خطبات طاہر جلد 13 483 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 / جون 1994ء ہے اور اس حوالے کے بغیر آپ کو حقیقت میں اس کی اہمیت سمجھ نہیں آئے گی.آنحضور فرماتے ہیں تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت ہے اور جس سے محبت ہے ویسا بنا ہوگا.پس اگر آپ نے دیکھنا ہے کہ آپ آنحضور کے ساتھ اٹھائے جائیں گے کہ نہیں آپ ان لوگوں میں شمار ہوں گے کہ نہیں جن کے متعلق فرما یا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ محمد رسول اللہ ﷺ اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں جن کو اللہ نے فرمایا کہ ان b کے ساتھ ہیں.تو پھر آپ اس محبت کی پہچان اس طرح کر سکتے ہیں اور اس کے سوا نہیں کر سکتے کہ کس حد تک آنحضور کے اخلاق سے آپ کو محبت ہوگئی ہے.کسی شخص سے محبت کے ناک سے نفرت، اس کی آنکھوں سے نفرت ، اس کی بھنووں سے نفرت، اس کے ہونٹوں سے نفرت، اس کے کلوں، اس کے جسم، اس کی کمر، اس کی ٹانگوں سے نفرت، یہ کیسے ممکن ہے؟ پس ایک ایک عضو میں آپ کے پاس اپنی محبت کی صداقت کی پہچان موجود ہے.آنحضور کی جس سیرت سے آپ دور ہیں اس سیرت سے آپ محبت نہیں کرتے اور اگر اس سیرت کے مضمون کو ساری زندگی پر پھیلا دیں اور کہیں بھی آپ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مماثلت دکھائی نہ دے تو پھر یہ دعویٰ کرنے کا آپ کو کیا حق ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بڑی محبت کرتے ہیں بڑے درود بھیجتے ہیں.یہ جھوٹے فرضی قصے ہیں.محبت تو ایسی چیز نہیں جو پہچانی نہ جا سکے یہ تو زندگی میں روز مرہ کے کردار بن کر جاری ہو جاتی ہے.پس آنحضور ﷺ کے اخلاق آپ کی محبت کے حوالے سے سیکھیں.آنحضور ﷺ نے فرمایا.حضرت ابو ہریرہ کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا اور آج میرے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں.(مسند احمد بن حنبل الجز 2 صفحہ 237) اب آپ نے دیکھا کہ یہاں ایک لفظ کے فرق نے مضمون کو کتنا بدل دیا ہے.یہاں جمال کی خاطر محبت نہیں بلکہ جلال کی خاطر محبت ہے.جو اس وجہ سے محبت کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے بھائی سے محبت نہیں کی اور اس کے حق ادا نہیں کئے تو خدا کا جلال مجھے بھسم کر دے گا.یعنی صرف اللہ کی محبت کی خاطر محبت نہیں کرتے ، بلکہ اللہ کی ناراضگی کے خوف سے بھی محبت کرتے ہیں.اور بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں جمال سے زیادہ جلال ہے جو آپ کو سیدھے رستے پر ڈالا کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ

Page 490

خطبات طاہر جلد 13 484 خطبه جمعه فرموده 24 / جون 1994ء قیامت کے دن فرمائے گا وہ کہاں ہیں جو میرے جلال کی خاطر محبت کرتے تھے.جمال کی خاطر محبت کرنے میں ہم آہنگی کا مضمون پایا جاتا ہے.عام طور پر جمال کی خاطر ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ، ہم صفات لوگ ، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں مگر جلال کی خاطر محبت کا مضمون الگ ہے.جہاں آپ کے مزاج نہیں بھی ملتے، جہاں طبعا آپ کو الگ الگ ہونا چاہئے محض اللہ کے خوف سے، اس کے جلال کے ڈر سے آپ اگر اپنے ایسے بھائی سے پیار کرتے ہیں جس سے عام حالات میں دنیا والوں کو پیار نہیں ہوا کرتا.فرمایا خدا فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ.آج میرے سائے کے سوا اور کوئی سایہ میسر نہیں اور میں ان کو سایہ دوں گا کیونکہ خدا کے جلال سے اگر کوئی انسان گھبرا کر کوئی نیکی اختیار کرتا ہے تو اسی جلال کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی سایہ اس کے جلال سے اور میسر نہ ہوتو اللہ اپنا سایہ ایسے بندوں کے سر پر فرمائے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایسا بندہ لایا جائے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا تھا.اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تم نے دنیا میں کیا عمل کیا اور لوگ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے.وو مراد یہ ہے کہ وہ وقت ایسا ہوگا جبکہ کوئی کسی سے کوئی بات چھپا نہیں سکتا اور خدا سے تو ناممکن ہے کہ حشر کے میدان میں کوئی انسان چھپا سکے ، اس وقت اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا تم نے دنیا میں کیا عمل کیا ؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب تو نے مجھ مال دیا.میں لوگوں سے خرید وفروخت اور لین دین کرتا تھا.درگزر کرنا اور نرم سلوک کرنا میری عادت تھی.خوشحال اور صاحب استطاعت سے بھی آسانی اور سہولت کا رویہ اختیار کیا کرتا تھا اور تنگ دست کو بھی سہولت سے قرض ادا کرنے کی مہلت دیتا تھا.یہ وہ ایک کردار ہے جو بعض دفعہ آپ کو دنیا میں دکھائی دیتا ہے کہ جب وہ لین دین کرتے ہیں تو اپنی فکر نہیں ہوتی اپنے سے زیادہ دوسرے کی فکر کرتے ہیں اور اعلیٰ اخلاق کے نتیجے میں ایسا ہونا ایک طبعی امر ہے.جب سودا کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ اس کو بھی تو کچھ فائدہ پہنچے سارا میں ہی کیوں اٹھاؤں.کوئی نقص ہے، کسی چیز میں تو کھول کے بیان کرتے ہیں اس خیال سے کہ میری وجہ سے کسی بھائی کو نقصان نہ پہنچ جائے.کوئی غریب ہو تو اس کو سہولت دے دیتے ہیں.کہہ دیتے ہیں کہ اچھا اگر واپس کر سکتے ہو تو کرو نہیں تو نہ سہی ، میں چھوڑتا ہوں گھبرانے کی بات نہیں.ایسے شخص کا ایک

Page 491

خطبات طاہر جلد 13 485 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء ذکر آنحضور فرمارہے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ اسے اٹھائے گا اور پوچھے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے جب وہ یہ جواب دے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا.مجھے اس بات کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ درگزر سے کام لوں اور اپنے اس بندے سے شفقت کا سلوک کروں.یہ عجیب بات ہے.مطلب یہ ہے کہ جو خدا کے بندوں سے حسن سلوک کرتے ہیں ان کا کوئی حسن سلوک ضائع نہیں جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ فرمائے گا کہ میرا زیادہ حق ہے حسن سلوک کرنے کا.اگر میرے بندے نے دوسرے سے حسن سلوک کیا ہے تو آج یہ حق دار ہے کہ میں اس سے بہت بڑھ کر اس سے حسن سلوک کروں.عقبہ بن عامر اور ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ ہم نے بھی یہی بات آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے انہی الفاظ میں سنی.“ (مسلم کتاب البیوع.باب فضل انظار المعسر : 2919) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے (یہ بھی صحیح بخاری سے لی گئی ہے اور اس سے پہلی جو تھی جو مسند احمد بن حنبل سے تھی) کہ آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے.تجنس نہ کرو.دوسروں کے عیوب کی ٹوہ میں نہ لگے رہو.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے، یہاں تک کہ یا تو وہ اس سے نکاح کرلے یا وہ بات ختم ہو جائے.یہ چھوٹی چھوٹی ایسی نصیحتیں ہیں جو بعض منفی پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں.جن کے ہوتے ہوئے محبت قائم نہیں رہ سکتی.اگر یہ مزاج ہوں تو یہ محبت کو کھا جاتے ہیں.پس جہاں آپ محبت کی کوشش کریں وہاں اس بات پر نظر رکھیں کہ بعض ایسے اخلاق ہیں جو دوسرے اخلاق کو کھا جاتے ہیں اور بیک وقت دونوں قائم نہیں رہ سکتے.آنحضور ﷺ نے جہاں مثبت تعلیمات عطا فرما ئیں وہاں محبت کو کھا جانے والے زہروں کا بھی ذکر فرمایا کہ ان سے پر ہیز رکھنا ورنہ تمہاری محبتیں ضائع ہو جائیں گی اور یا تو محبت کرنے کے اہل ہی نہیں بنو گے یا محبت بنی بنائی بگڑ سکتی ہے.صلى اس میں پہلی بات ہے کہ بدگمانی سے بچو، بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے.اور بہت سے خاندانوں میں جن کے اختلافات کے واقعات مجھ تک پہنچے ہیں ان میں میں نے دیکھا ہے کہ بدگمانی ایک بہت ہی بھیانک کردار ادا کرنے والی چیز ہے.بعض خاوند اپنی بیوی پر اتنے بدگمان ہوتے ہیں وہ اگر کسی عزیز رشتے دار سے ہنس کر بات کر لے تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے کہ تم ہو ہی

Page 492

خطبات طاہر جلد 13 486 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء بد کردار.پتا نہیں تم نے کس نظر سے اس کو دیکھا.کوئی بچی بے چاری بے تکلفی سے اس گھر میں کھڑی ہے کھڑکی کے پاس، خاوند آ گیا کہ اچھا تم کسی کو دکھانے کے لئے کھڑی تھی.میں یہ وہ باتیں کہہ رہا ہوں جو مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جو تحقیق کے بعد میں بتارہا ہوں.نام نہیں لیتا لیکن ایسے عجیب و غریب واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں.بعض عورتوں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں صرف خاوند ہی نہیں ساس بھی بدگمانیوں میں پڑی ہوئی ہے، نندیں بھی دوڑ دوڑ کر بھائی کو شکائتیں کرتی ہیں کہ تمہاری جو بیوی ہے جب تم جاتے ہو تو پھر یہ یہ کرتی ہے اور سارا گھر اس کے لئے ایک عذاب کا موجب بن جاتا ہے.ایسی بعض عورتیں ہیں وہ رسل کی مریض ہو جاتی ہیں.بعض کینسر میں ماری جاتی ہیں.عمر بھر گلتی رہتی ہیں اور یہ لوگ یہ خاندان، یہ نہیں سوچتے کہ ان کی بچیاں اگر کسی اور گھر میں جائیں ان سے یہ سلوک ہو تو پھر ان کو کیسا لگے گا! ایسے زہریلے اخلاق ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے اخروی محبت یعنی حیات آخرت کی محبت کا تو سوال ہی نہیں دنیا کے عام انسان تعلقات کی محبت ایسے لوگوں کو نصیب نہیں ہو سکتیں.یہ گھر اجاڑ نے والی باتیں ہیں مگر اس کے علاوہ معاشرے میں بعض لوگ ویسے ہی ہیں جو ہر وقت دوسرے کے تجس میں رہتے ہیں.وہ آیا، وہ گیا، اس نے کیوں ایسا کیا اس نے کسی کو کس نظر سے دیکھا؟ ایسی بے وقوفی ہے اور بد اخلاقی ہے اپنا حال پتا کوئی نہیں کہ کس حال میں رہے ہو.ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہو اور اکثر آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق جو نتیجے نکالتے ہو وہ جھوٹ ہوتے ہیں.یہ جو آنحضور نے نتیجہ نکالا ہے کہ تمہارے نکالے ہوئے نتیجے جھوٹ ہوتے ہیں.میں نے اس پر غور کر کے دیکھا ہے نفسیاتی لحاظ سے اس کے سوا کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.وجہ یہ ہے کہ جستجو کرنے والے اور ہر وقت عیب تلاش کرنے والے عموما نفرت کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے وہ ہمیشہ عیوب کو بڑھا کر دیکھتا ہے اور لازم ہے کہ غلط نتیجہ نکالے.محبت کی آنکھ تو حیادار ہوا کرتی ہے.وہ تو اپنے محبوب کی کمزوری دیکھ بھی لے تو آنکھیں اور منہ ادھر کر لیتی ہے اور محبت کی آنکھ سے دوسروں کو دیکھنے والوں سے اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح عفو کا سلوک فرماتا ہے.جب وہ خود کمزوریوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو خدا کی آنکھ گویا انہیں دیکھ رہی اور قرآن کریم میں جو بار ہا عفو کا مضمون دکھائی دیتا ہے اس کا یہی مطلب ہے.ان بندوں سے عفوفر ما تا ہے جو دوسروں سے عفو فر ماتے ہیں لیکن ان کا یہ حال ہو کہ ایسی دل میں نفرتیں

Page 493

خطبات طاہر جلد 13 487 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء شمن ہیں دوسروں کے لئے کہ ہر وقت ان کی برائی کی ٹوہ میں لگے رہیں تو ان کا نتیجہ لا زما جھوٹ ہوتا ہے اور اسی لئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ بدظنی سے بچو.اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ اِثْ (الحجرات: 13 ) وہ اثم والا جو ظن ہے وہ بدظنی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا جھوٹ ہے.فرمایا جب تم جھوٹ تک پہنچو گے اور جھوٹے نتیجے نکالو گے تو خدا کے نزدیک پکڑے جاؤ گے اور گناہ میں مبتلا ہو گے.پس محبتوں کو زائل کرنے والی اور برباد کر دینے والی ایک عادت ہے جو نظام پر بھی اپنا اثر دکھاتی ہے.بسا اوقات جب جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوتے ہیں بعض دفعہ لڑائیاں ہو جاتی ہیں.میں جب تحقیق کرواتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ فلاں نے فلاں کام فلاں صدر نے اس لئے کیا تھا کہ وہ اپنے عزیز کو یہ فائدہ پہنچا دے.فلاں نے فلاں کام اس لئے کیا تھا کہ اس کے کسی دوست کو زیادہ ووٹ مل جائیں.ایسی جاہلانہ باتیں، ایسے پاگلوں والے قصے، گھر بیٹھا کوئی پاگل اپنے دماغ میں ایسی باتیں سوچتا رہتا ہے اور پھر نظام سے ناراض ہوا ہوا ، دُور ہٹا ہوا کہ ہم بھی پھر مقابل پہ یوں کریں گے حالانکہ جب تحقیق کی جاتی ہے تو اصل آدمی کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا کہ کیا ہو رہا ہے.وہ اپنا سادگی سے، معصوم طریق پر ذمہ داریوں کو ادا کر رہا ہے.ایک بیٹھا بدظنیوں کی گس گھولتا چلا جا رہا ہے.ایسے لوگ تو افعی مزاج بن جاتے ہیں ، سانپ بھی اسی طرح گس گھولتا رہتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جہاں محبتوں کی تعلیم دی وہاں محبتوں کو ہلاک کر دینے والی خصلتوں کی بھی نشاندہی فرمائی.فرمایا اول یہ ہے کہ بدظنی سے بچو اگر تم بدظنی میں مبتلا ہوئے تو نہ تمہارے گھر کے رشتے قائم رہ سکتے ہیں نہ تمہاری سوسائٹی کے رشتے قائم رہ سکتے ہیں.اگر کسی میں نقص ہے تو خدا پر چھوڑ دو.کیا ضرورت ہے اس کی تلاش کرو اور پھر بغیر گواہی کے، بغیر دیکھے اندازہ لگالینا اور اس پر اپنا مزاج بگاڑ لینا اور کسی معصوم کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنانا بہت بڑا گناہ ہے.فرمایا ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.بدظنی کی عادت بغض کو چاہتی ہے بغض کے نتیجے میں بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں اور باطنی کے نتیجے میں لازما بغض بڑھتے ہیں اور ایک اور چیز بیان فرمائی جس کا بظاہر اس سے تعلق نہیں ہے.وہ یہ ہے کہ اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دیا کرو.دراصل فطرت کی جو کجی بیان ہو رہی ہے اس کا اسی سے تعلق ہے.ایک انسان جب کسی اچھے رشتے کے متعلق پتا کرتا

Page 494

خطبات طاہر جلد 13 488 خطبه جمعه فرمود و 24 جون 1994ء ہے کہ کسی اور نے پیغام دے دیا ہے تو بعض لوگ دوڑتے ہیں اور کسی اور ذریعے سے وہ پیغام بھیج دیتے ہیں تا کہ وہ اچھا رشتہ اس کو نہ ملے اور ان کو مل جائے.آنحضرت ﷺ نے مومن کو جو اخلاق سکھائے ہیں یا اپنے غلاموں کو جو اخلاق سکھائے ہیں ان میں یہ بات بھی داخل فرمائی ہے کہ اس کے پیچھے بھی دراصل خفیہ حسد ہے، اس کے پیچھے بھی دراصل مخفی بدی ہے ورنہ اگر تمہیں اپنے بھائی سے پیار اور محبت ہو تو وہ اچھی چیز جس کو تم اچھا سمجھتے ہو اس کو وہ ہاتھ آ جائے تو تمہیں کیا تکلیف ہے اور پہلے پھر ، اس کو خیال آیا ہے تمہیں تو نہیں پہلے خیال آیا.اس لئے اب صبر کرو اگر تم نے دیر کی ہے رشتہ کا پیغام دینے میں، تو تم ذمہ دار ہو اپنے بھائی کے رشتے میں دخل اندازی نہ کرو.اگر یہ طریق چلے تو ہر وہ بچی جس کا رشتہ گھر میں آتا ہے تو اس کے ماں باپ یکسوئی سے اس شخص کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کر سکتے ہیں.اگر یہ انتظار کریں کہ اور رشتے آئیں پھر ہم موازنہ کریں پھر اور رشتے آئیں پھر ہم موازنہ کریں تو یہ تو نیلامی لگ جائے گی.حقیقت میں اس سے معاشرہ سنورتا نہیں بلکہ بگڑ جاتا ہے.جن لوگوں کو یہ عادت ہو کہ انتظار کرتے رہیں کہ یہ رشتہ بھی ہاتھ میں رہے پھر اور آ جائے.وہ بھی اس حدیث کے مضمون کی مخالفت کرنے والے ہیں.جو پیغام پر پیغام دیتا ہے وہ بھی مخالفت کرتا ہے یہاں تو لڑکی اور جاندار کا معاملہ ہے آنحضور ﷺ تو اس بات کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ باہر سے اگر قافلے آتے ہیں تو ایک شخص جب سودا کر رہا ہے تو دوسرا جا کر اس سودے میں دخل اندازی کرے.فرمایا ٹھہرا کرو، انتظار کرو.جب پہلا سودا اگر اس کے حق میں ہو جائے تو بسم اللہ ٹھیک ہے اگر نہ ہو پھر تمہارا حق ہے کہ اپنی بات کرو.( بخاری کتاب الشروط : 2525) تو یہ وہ اخلاق حسنہ کے ایسے پہلو ہیں جن کو ہم منفی پہلو شمار کر سکتے ہیں یعنی یہ منفی پہلو اگر موجود رہیں گے تو اخلاق حسنہ کے مثبت رنگ آپ پر نہیں چڑھ سکتے.بعض داغ ایسے ہوتے ہیں ان پر بعض رنگ چڑھ ہی نہیں سکتے.آنحضور ﷺ نے ان داغوں کی نشاندھی فرمائی ہے.پس اگر آپ حقیقت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی محبت کے رشتے باندھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے دنیاوی، عام روز مرہ کے تعلقات کو کم سے کم انسانیت کے معیار تک تو پہنچا ئیں.اگر آپ پہنچا ئیں اور اس دوران اپنے کپڑے سے وہ داغ دور کرتے رہیں جو اچھے رنگ کپڑے پر نہیں چڑھنے دیا کرتے بلکہ ہر رنگ میں اپنا چہرہ دکھاتے ہیں.جب تک آپ ان کو صاف نہیں کر لیں گے

Page 495

خطبات طاہر جلد 13 489 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1994ء.آپ اس لائق نہیں ہوں گے کہ اس خَلْقًا آخَرَ کی تربیت کے دور میں داخل ہوں جس میں مومنوں کی ایک عظیم الشان اعلیٰ پائے کی تربیت شروع ہوتی ہے.خونی رشتوں کے تعلقات کا حق ادا کرنے کے بعد پھر وہ بیرونی دنیا سے ویسے ہی تعلقات باندھتے ہیں.پھر عدل، احسان میں تبدیل ہونے لگتا ہے.پھر احسان، ایتاء ذی القربی میں بدل جاتا ہے پھر ساری دنیا ایک ہی خاندان دکھائی دینے لگتی ہے اگر چہ بظاہر خون کے رشتے نہیں ہوتے.اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے اور حضوراکرم کے نقش قدم پر چل کر وہ اعلیٰ کردار اپنانے کی توفیق بخشے جس کی طاقت سے ہم نے تمام دنیا کے کردار کو بدلنا ہے اور محمدی کردار میں تبدیل کر دینا ہے.خطبہ ثانیہ سے قبل حضورانور نے فرمایا: دو اعلان ہیں جو خطبہ ثانیہ سے پہلے میں کرنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ جماعت انڈونیشیا کا جلسہ سالا نہ ہو رہا ہے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کو بھی دوست اپنی دعا میں یاد رکھیں.انڈونیشیا کی جماعت بھی بڑی مخلص اور فدائی اور مشکل حالات میں بھی ثابت قدم ہے اور کئی پہلوؤں سے دنیا کی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.سکنڈے نیوین ممالک کی تینوں ذیلی تنظیموں کا آج مشترکہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور یہ غالبا سویڈن میں ہوگا.بروز ہفتہ لجنہ اماءاللہ.ناصرات الاحمدیہ واشنگٹن ڈی سی کے مقامی اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں.ان سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اللہ ہر پہلو سے ان اجتماعات کو بابرکت فرمائے.ایک افسوسناک خبر ہے وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی حضرت مولوی محمد حسین صاحب جو انگلستان کے جلسے میں بھی شرکت فرماتے رہے اور کثرت سے لوگ ان کو اس وجہ سے ملتے رہے نئی نسل کے لوگ کہ وہ تابعین میں شمار ہو جائیں اور ان کے پاس بیٹھے.میں نے اپنے نواسوں کو اور نواسیوں کو ان سے اسی نیت سے ملایا تھا.تصویر بھی کھینچی تھی تا کہ وہ کہ سکیں کہ ہم نے ایک صحابی کو دیکھا اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملایا.تو یہ برکتیں بہت ہی کم رہ گئی ہیں اب.اور مولوی محمد حسین صاحب کا تو اپنا ایک مقام ایک رنگ تھا سبز پگڑی والے کہلاتے تھے.بچپن کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صندوق کی یا سیف کی چابی گم گئی تو آپ نے چابی بنوانے کے لئے بازار میں بھجوایا جہاں ان کے والد غالبا لوہارے کا کام کرتے تھے تو

Page 496

خطبات طاہر جلد 13 490 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 / جون 1994ء ان کو بھیجا گیا کہ آپ جا کے چابی ٹھیک کریں، درست کریں یا تالا کھول دیں جو بھی شکل تھی.تو یہ واقعہ ان کو خوب اچھی طرح یاد تھا اور سبز پگڑی والے مشہور تھے.ہر جگہ مبلغ کے طور پر جہاں پھرتے تھے ہر دلعزیز ہوتے تھے غیر احمدی علماء ان سے بہت گھبراتے تھے کیونکہ اللہ کے فضل سے ان کو استدلال کی بھی بڑی طاقت نصیب تھی اور طبیعت میں مزاح بھی تھا.جہاں موقع محل کا تقاضا ہو وہاں مزاح ملا کر ساتھ اپنی دلیل کو بڑی طاقت عطا کر دیا کرتے تھے.کل اطلاع ملی ہے کہ آپ وصال پاگئے ہیں مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو چکے ہیں.ان کے رشتہ دار کافی دنیا میں خدا کے فضل سے پھیلے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کی برکت سے اس خاندان کو بہت برکت ملی ہے، سب دنیا میں پھیل گئے ہیں.میرا خیال ہے اس وقت وصال کے وقت تک یہ ایک جوڑا ایک سو چھتیں بن چکا ہے تو اللہ کے فضل سے اس طرح صحابہ کی اولا د کو بھی بڑی برکت ملی ہے.دوسرے ایک بزرگ سید غلام ابراہیم صاحب صدر جماعت احمدیہ کیندره پاڑاہ (اڑیسہ) تر اسی سال کی عمر میں وفات پاگئے.قادیان میں پہلی بار ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میں ان سے بہت متاثر ہوا تھا.بہت بزرگ صاف گو اور بہت ہی باوفا انسان تھے.سونگڑہ کی جماعت میں شدید مخالفت کے دوران بھی یہ ثابت قدم رہے اس کے ارد گرد کے علاقے میں بھی اور ہمیشہ احمدیت کے لئے ایک ننگی تلوار رہے.ان کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کے وصال کے دن قریب آ رہے ہیں.عمر بھی زیادہ تھی اور صحت بھی کافی گر گئی تھی تو وہیں مجھ سے انہوں نے وعدہ لیا کہ میرا نماز جنازہ آپ نے ضرور پڑھانا ہے اور پھر ہر خط میں یاد دلایا کرتے تھے کہ وہ میرا وعدہ نہیں بھولنا.میں ان کو تسلی کا جواب دیا کرتا تھا کہ خدا کرے آپ کو لمبی صحت ملے مگر وہ کہتے تھے کہ نہیں آپ نے یہ وعدہ ضرور یا درکھنا ہے کہ میری نماز جنازہ پڑھائیں.تو اس لئے آج کی نماز جنازہ میں ان کو بھی شامل کیا جائے گا اور اس کے علاوہ کچھ نام ہیں جن کا اعلان کر دیا گیا ہے.تو نماز جمعہ کے بعد عصر کی نماز ہوگی اور عصر کی نماز کے معا بعد دوست صف بندی کر لیں.ست صف بندی کر پھر انشاء اللہ نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے گی.

Page 497

خطبات طاہر جلد 13 491 خطبہ جمعہ فرمود و 8 جولائی 1994ء جلسہ سالانہ کا نظام عالمی بھائی چارے کو تقویت دیتا ہے.اعلیٰ اخلاق میں عالمی معیار قائم رکھنا بہت ضروری ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ دو خطبات چونکہ کینیڈا کے سفر کے دوران گزرے اس لئے براہ راست ٹیلی ویژن پر وہ خطبات دکھائے نہیں جا سکے لیکن ان کی ریکارڈنگ یہاں بھجوائی جاتی رہی ہے جس طرح پرانے خطبات ان دو خطبات کے موقع پر کام آگئے یہ دو خطبات جو کینیڈا میں دئے گئے تھے وہ بھی آپ کو بعد ازاں کسی وقت دکھا دئے جائیں گے.کینیڈا کا سفر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے بہت کامیاب گزرا.اس دفعہ کینیڈا کے جلسوں میں حاضری خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گزشتہ موقع سے دگنی یا اس سے بھی زائد تھی.اگر چہ امریکہ سے بھی بہت بھاری تعداد میں زائرین تشریف لائے تھے لیکن ان کی تعداد کو الگ بھی کر دیا جائے تب بھی کینیڈا کے زائرین جو باہر سے آئے تھے اور ٹورانٹو کے رہنے والے احمدی ان کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے کافی زیادہ تھی.بہت سی ایسی تعداد تھی جو پاکستان سے نئے آنے والے تھے.یعنی وہ پرانے احمدی احباب جو اس انتظار میں تھے کہ ان کو قومی طور پر رہائش کا حق مل جائے اور وہ اپنے اہل وعیال کو بلا سکیں.اس عرصہ میں زیادہ تر تعداد کا اضافہ اسی وجہ سے ہوا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کینیڈین حکومت نے قومی طور پر وہاں رہنے کی اجازت کا حق

Page 498

خطبات طاہر جلد 13 492 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء دے دیا اور ان کے خاندانوں کو بلوانے کا حق دے دیا.اس پہلو سے بکثرت ملاقاتیں ایسے لوگوں سے تھیں جن سے گزشتہ دس گیارہ سال سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا اور کینیڈا کے جلسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دونوں طرف کی دیرینہ ضرورت پوری ہوگئی.تربیتی لحاظ سے کینیڈا میں جو ضرورتیں ہیں ان کا ایک حصہ تو صرف دورے کے نتیجے میں ہی خود بخود پورا ہو جاتا ہے.وہ نئی نسل کے نوجوان جو کچھ عرصہ بیرونی فضا میں دم لینے کی وجہ سے کسی حد تک اگر نہیں تو کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہو جاتے ہیں.جب ان سے دوروں کے وقت ملاقاتیں ہوتی ہیں، جلسوں میں وہ ذوق و شوق سے حصہ لیتے ہیں تو وہ سارے زنگ جو بیرونی فضا کے ان پر لگے ہوتے ہیں وہ خود بخود دھل جاتے ہیں اور دھلے دھلائے نئے پاک چہرے نمایاں ہو جاتے ہیں ، کوئی کدورت باقی نہیں رہتی.یہ تو ایک عمومی فائدہ ہے جو دوروں کے نتیجے میں پہنچتا ہی ہے.اس کے علاوہ نئی نسلوں کا سوال و جواب کا موقع ملتا ہے اور اس دفعہ مثلا خصوصیت سے ہم نے بچیوں کے سوال و جواب کی جو مجلس رکھی تھی وہ بہت ہی مفید رہی.میرے لئے اس لحاظ سے کہ مجھے نئی نسل کی احمدی بچیوں کے سوالات کو بذات خود سننے کا موقع ملا اور نفسیاتی لحاظ سے جو مسائل ہیں ان کو سمجھنے کا موقع ملا.ان کے لئے اس لحاظ سے کہ وہ باتیں جو بسا اوقات ان کے ماں باپ بھی ان کو سمجھاتے تھے اور سمجھ نہیں سکتی تھیں وہ مجھ سے جواب سننے کے بعد نہ صرف ان کے چہروں سے اطمینان ظاہر ہوتا تھا بلکہ آپس میں جب انہوں نے باتیں کیں اور وہ باتیں مجھ تک پہنچیں تو یہ معلوم کر کے دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے لبریز ہو گیا کہ وہ تمام سوال کرنے والیاں بھی اور جو نہیں سوال کر سکتی تھیں ان سب کو خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح جوابوں سے تسلی ہوئی اور اسلام کی حقانیت پر دل پہلے سے بڑھ کر مطمئن ہوا.میں نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ میں سے وہ بچیاں جو پہلے سے سوال لے کر بیٹھی ہوئی تھیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے وہ سوال نہیں کئے جاسکے، تقریبا دو گھنٹے وہ مجلس رہی لیکن اس کے باوجود بہت سے سوال باقی دکھائی دے رہے تھے کیونکہ بچیوں کی قطار ابھی باقی تھی کہ وقت ختم ہو گیا.ان سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آپ یہاں بھجوا دیں تو انٹرنیشنل ٹیلی ویژن کے ذریعے ہم انشاءاللہ ان سوالات کے جواب دیں گے اور آئندہ بھی تمام دنیا کے احمدیوں کو میری نصیحت ہے کہ اپنی نئی نسل کے لڑکوں اور لڑکیوں کے سوالات خصوصیت سے یہاں بھجوا دیا کریں تا کہ ایک عالمی مجلس

Page 499

خطبات طاہر جلد 13 493 خطبہ جمعہ فرمود 8 جولائی 1994ء سوال و جواب کے ذریعہ ان کے سوالات کے براہ راست جواب دئے جاسکیں.اس پر جو منی سوال اٹھیں گے پھر انشاء اللہ ان پر بھی گفتگو ہوتی رہے گی.، بہر حال یہ جلسہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت برکات لے کر آیا، بہت سی برکات دائمی صورت میں پیچھے چھوڑ گیا اور اس موقع پر چونکہ وہ براہ راست کینیڈا والے بھی میرا خطبہ سن رہے ہوں گے ان کو میں اپنی طرف سے بھی اور تمام جماعت عالمگیر کی طرف سے بھی کامیاب جلسہ پر مبارکباد دیتا ہوں اور تمام کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دن رات بے حد محنت کی اور بڑی قربانی کے جذبے سے اپنے سپر د ذمہ داریوں کو نبھایا.ہر پہلو سے خدا کے فضل سے انتظام بہت اعلیٰ تھا اور نمونے کا تھا.کھانے کا معیار بھی بہت اچھا تھا.یہاں تک کہ بہت سے لوگ جن کو دوسری جگہ ہر قسم کے اچھے کھانے میسر تھے ، وہ کھانے چھوڑ کر لنگر کے کھانے کی طرف زیادہ مائل رہے اور بہت شوق سے ذکر کرتے رہے کہ جو مز النگر کی دال کا یا آلو گوشت کا آتا ہے، وہ اور کسی کھانے میں نہیں آتا.تو یہ بین الاقوامی طور پر جلسہ سالانہ قادیان کی چھوٹی چھوٹی صورتیں جگہ جگہ ظاہر ہو رہی ہیں.کوشش یہی ہے کہ بعینہ ویسی ہوں جیسا کہ قادیان میں جلسے ہوا کرتے تھے اور الحمد للہ کہ جو کچھ کمی اس پہلو سے رہ گئی تھی وہ ہمارے آپس میں مل بیٹھ کر معاملہ نہی کے نتیجہ میں بہت حد تک دور ہوگئی اور آخری صورت میں یہ جلسہ کئی پہلوؤں سے قادیان کی یاد دلانے والا تھا.میری خواہش یہی ہے کہ قادیان کا جلسہ ہر جماعت میں اس طرح منعقد کیا جائے ، انہی روایات کے ساتھ ، انہی اعلیٰ نیک اور پاک نصیحتوں کا نمونہ بن کر آئے اور انہی اعلیٰ اور پاک نصیحتوں پر عمل کرنے کا نمونہ بن کر آئے.اگر ہر جلسہ ایسا ہوتو خدا کے فضل سے تمام ان ملکوں میں جہاں ایسے جلسے ہوتے ہیں.جماعت کے آپس میں محبت کے رشتوں میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہونے کے سامان ہوں گے اور اس پہلو سے تمام سالانہ جلسے جماعت کو آپس میں محبت میں باندھنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پہلے جلسے کی اغراض بیان فرمائی تھیں ان میں ایک یہ اہم غرض تھی کہ ان جلسوں کے ذریعے مختلف جگہوں کے احمدی آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے، اس طرح مورت یعنی محبت کا رشتہ قائم ہو گا، ایک دوسرے کو سمجھیں گے، ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا ئیں گے اور اس طرح ایک عالمی برادری وجود میں آنے لگے گی.پس یہ ضروری ہے کہ ہر

Page 500

خطبات طاہر جلد 13 494 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء ملک میں اسی طرح کے جلسے انہی فوائد کو لئے ہوئے جماعت کے سامنے بار بار آتے رہیں اور اس طرح ایک ملکی سطح پر جب باہمی محبت کے رشتے بنیں گے تو ان ملکوں میں جو باہر سے لوگ جاتے ہیں وہ بھی ایک عالمی برادری کا احساس پیدا کرنے میں مزید مد ثابت ہوں گے اور ہوتے ہیں.افریقہ کے ممالک میں جب جلسے ہوتے ہیں تو افریقہ کے ارد گرد کے ممالک سے کچھ نمائندے پہنچتے ہیں.جب امریکہ میں جلسے ہوتے ہیں تو وہاں سے ارد گرد کے ممالک سے شامل ہونے والے احمدی پہنچتے ہیں.اگرچہ فاصلے وہاں بہت زیادہ ہیں مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی دکھائی دے ہی دیتا ہے.کوئی سرینام کا بھی نمائندہ مل جاتا ہے، کوئی گیا نا کا نمائندہ بھی مل جاتا ہے، کوئی ٹرینیڈاڈ کا نمائندہ بھی مل جاتا ہے.غرضیکہ کینیڈا میں جلسہ ہو یا شمالی امریکہ میں اردگرد کے ممالک کی نمائندگی ضرور ہوتی ہی رہتی ہے.پس اس پہلو سے جماعت کا دائرہ موڈت، باہم ایک دوسرے سے ملاقات کے سامان مہیا ہونے کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے.جو مضمون میں نے اس سے پہلے شروع کر رکھا ہے یہ بھی دراصل اسی مضمون کا حصہ ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں یعنی تمام دنیا میں ایک مضبوط احمدی بھائی چارہ اس معیار کا قائم کیا جائے جس معیار کا بھائی چارہ قرآن ہم میں دیکھنا چاہتا ہے.جس معیار کا بھائی چارہ قرآن کریم کی زندہ مثال حضرت اقدس محمد اللہ کے ذریعے چودہ سو سال پہلے بڑی کامیابی اور بڑی شان کے ساتھ مکے اور مدینے میں قائم ہوا تھا اور دیر تک ان تربیت یافتہ ، باہمی محبت کے رشتوں میں بندھے ہوئے صحابہ کرام نے آگے پھر اس بھائی چارے کو پھیلایا اور مختلف ملکوں تک پہنچایا.اب دور یہ ہے کہ آخرین کے سپرد یہ ذمہ داری ہے.چودہ سو سال کے فاصلے بیچ میں حائل ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ انتظام فرما دیا ہے کہ آخرین ، اولین ہی کی طرح انہی سے اچھی ادا ئیں سیکھتے ہوئے ، دل لبھانے والے انداز اپناتے ہوئے ، تمام دنیا کو پھر حضرت اقدس محمد مصطفی میے کے ہاتھ پر جمع کریں گے اور جلسہ سالانہ کی روایات اس میں بہت ہی ممد ہیں.اب عنقریب آپ کے ہاں یعنی یو کے میں بھی ایک جلسہ ہونے والا ہے اور یہ جلسہ عام جلسوں کے مقابل پر زیادہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے.اسی پہلو سے دور دراز سے لوگ اس جلسے میں ضرور شامل ہونے کے لئے آتے ہیں.محض میری شمولیت کی بات نہیں ورنہ میں تو جرمنی کے جلسوں

Page 501

خطبات طاہر جلد 13 495 خطبہ جمعہ فرمود : 8 / جولائی 1994ء میں بھی شامل ہوتا ہوں، بعض دیگر یورپین ممالک میں بھی شامل ہوتا ہوں، امریکہ بھی جاتا ہوں.وہاں اردگرد کے علاقوں سے تو لوگ پہنچ جاتے ہیں لیکن عالمی نمائندگی نہیں ہوتی.یہ وہ جلسہ ہے جو آنے والا ہے جس میں عالمی نمائندگی اسی انداز پر ہوتی ہے.جس انداز پہ قادیان یار بوہ کے جلسوں میں ہوا کرتی تھی.پس UK کی جماعت کے لئے یہ بات بہت مبارک ہے اور جتنی مبارک ہے اسی قدر ذمہ داریوں کو بھی بڑھاتی ہے اور میں خوش ہوں اور مطمئن ہوں کہ UK کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو نہایت عمدگی سے نبھاتی چلی جارہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ ہر سال زیادہ عمدگی سے ان ذمہ داریوں کو نبھاتی چلے جائے گی.پس آنے والے دنوں کے لئے ابھی سے تیاریاں کریں ابھی سے جائزے لیں کہ گزشتہ سالوں میں کیا کمی رہ گئی تھی.جسے پورا کرنے کے لئے ہمیں محنت کرنی چاہئے.اب غالبا تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں.اس عرصہ میں بہت سے کام ہونے والے باقی ہیں.ظاہری طور پر جو اسلام آباد کی سجاوٹ اور صفائی کے معاملات ہیں ان پر مسلسل توجہ دی جا رہی ہے اور اس وقت بھی ٹیمیں کام کر رہی ہیں.خدام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی محنت سے دور دور سے آتے ہیں اور بہت اخلاص کے ساتھ خدمت کرتے ہیں انصار بھی اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیتے ہیں.لجنات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اپنے دائرہ کار میں وہاں محنت کرتی ہیں اور اس حصے کو سجاتی اور ستھرا کرتی ہیں جہاں خواتین نے ٹھہر نا ہو.یہ کام تو ہوتے چلے آئے ہیں اور ہورہے ہیں.میں خصوصیت سے جو آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ عالمی بھائی چارے کے حوالے سے میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ اگر چرا اکثر باہر سے آنے والے ہمیشہ UK کی جماعت کی خدمات اور اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر جاتے ہیں مگر امسال اس سے بھی زیادہ بہتر انداز میں ان کی خدمت کریں، ان کو اپنے حسن خلق سے اپنا گرویدہ بنائیں، ان کو اپنے قریب کریں تا کہ ہر آنے والا بعد میں فاصلے کے لحاظ سے دور ہو جائے مگر دلوں کے لحاظ سے اور بھی زیادہ قریب آ جائے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ جہاں محبت ہو وہاں فاصلے بڑھنے کے باوجود دل اور زیادہ قربت محسوس کرتے ہیں اور ملنے کی بے چینی فاصلوں کے بڑھنے سے کم نہیں ہوتی اور محبت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ محسوس ہوتا ہے.پس اس پہلو سے چونکہ سب دنیا سے احمدی نمائندے آئیں گے میں چاہتا ہوں کہ UK کی جماعت کو اللہ

Page 502

خطبات طاہر جلد 13 496 خطبہ جمعہ فرمود : 8 / جولائی 1994ء اپنے فضل سے ایسے اعلیٰ اور پاک نمونے دکھانے اور قائم کرنے کی توفیق بخشے کہ تمام دنیا میں یہ آنے والے آپ کی محبت کی یادیں لے کر جائیں اور وہاں ایسے تذکرے کریں جن کے نتیجے میں ہر ملک میں جہاں نمائندگی ہو آپ کے انداز سیکھنے کی خواہش نہ صرف پیدا ہو بلکہ اس پر عمل کے پاک نمونے یہاں سے وہاں پہنچیں اور وہاں بھی ایسی ہی روایات کو فروغ ملے.ہر آنے والا جو مختلف ممالک سے آتا ہے اس میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے طور پر آتے ہیں اور اکثریت ایسوں کی ہے لیکن کچھ ایسے ہیں جو باقاعدہ جماعت کی نمائندگی میں یہاں آتے ہیں.جو لوگ جماعت کی نمائندگی میں یہاں آتے ہیں ان کو میری نصیحت ہے کہ پہلے سے اس بات کی تیاری کر کے آئیں کہ جولوگ ان کے ملکوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ان کو بھی اخلاقی ضابطوں کے لحاظ سے اعلیٰ نمونہ دکھانے کی تلقین کریں اور ملکی نمائندہ جو بھی امیر کی طرف سے مقرر ہو ان ملکوں کے باشندے یہاں بھی ان کی اطاعت میں رہیں.اگر چہ یہ اطاعت ایک قسم کے جزوی دائرے میں ہوگی مگر اس کے باوجود ایسا ہوناممکن ہے.یہ مراد نہیں کہ ان کے امیر کا جو نمائندہ یہاں مقرر ہو گا تمام اس ملک کے آنے والے ان کے تو ماتحت ہوں گے لیکن مقامی امیر سے آزاد ہوں گے.اس کا کوئی تصور اسلام میں یا نظام جماعت میں موجود نہیں.وہ تمام تر جس ملک میں جاتے ہیں اس ملک کی امارت کے تابع رہتے ہیں اور ان سے تعاون کرنا ان کا اولین فرض بن جاتا ہے لیکن جیسے ایک امیر کے تابع بہت سے شہر، بہت سی جماعتیں ہوتی ہیں اور اپنے دائرہ کار میں وہ اپنے اپنے صدر یا اگر امیر ہے تو اس امیر کے تابع ہوتے ہیں اسی طرح جلسے پر آنے والے بھی اپنے دائرہ کار میں اپنے امیر کے تابع ہوتے ہیں مگر نظام جماعت کی عمومیت کے اعتبار سے وہ تمام کلیۂ مقامی امیر یعنی ملک کے امیر کے تابع رہتے ہیں اور یہی نظام ہے جو انشاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا.پس اندرونی تنظیم کی خاطر ایک دوسرے کے اخلاق پر نظر رکھنے کے لئے ، ایک دوسرے کو اعلیٰ خلق کی تعلیم دینے کے لئے یہ ایک نیا پہلو ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.تمام جلسے پر آنے والے اپنے اپنے ملک کے نمائندہ کے زیر نگرانی اپنے آپ کو منظم رکھیں اور آپس میں نیک مشوروں کے لئے بھی بے شک وقت نکالیں تا کہ اس جلسے پر جو کچھ وہ سیکھیں واپس جا کر اپنے ملک میں اسے رائج کرنے کے لئے منظم طریق پر وہ ان باتوں کو دائرہ تحریر میں لائیں اور باقاعدہ ان کی طرف سے واپسی پر اپنے ملک کی مجلس عاملہ کے سامنے رپورٹ پیش ہو.اگر چہ بڑے بڑے ممالک

Page 503

خطبات طاہر جلد 13 497 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / جولائی 1994ء میں تو پہلے ہی یہی رنگ اختیار کیا جاتا ہے مگر میرا اندازہ یہی ہے کہ چھوٹے ممالک میں ابھی جلسے کو اس انداز پر قائم نہیں کیا جاتا یا منعقد نہیں کیا جاتا جو قادیان کی پاک روایتیں ہیں.پس یہ نصیحت خصوصیت سے چھوٹے ممالک پر اطلاق پاتی ہے.ان کے نمائندے بھی خصوصیت سے اس بات کو زیر نظر رکھ کر آئیں ذہن نشین کر کے آئیں کہ ہم نے یہاں جو سیکھنا ہے اسے واپس جا کر اپنے ملکوں میں رائج کرنا ہے تا که مرکزی جلسوں کے نمونے زیادہ سے زیادہ تعداد میں کل عالم میں پھیلیں اور قائم ہو جائیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض و غائت میں یہ ایک اہم غرض و غائت ہے کہ اسے کسی قیمت پر بھی ثانوی حیثیت نہیں دی جاسکتی.جلسے کا نظام عالمی بھائی چارے کو تقویت دینے اور اخلاقی لحاظ سے ایک عالمی معیار پیدا کرنے اور قائم رکھنے کے لئے بہت ہی ضروری ہے اور اگر ان پاک روایات کو آپ ہمیشہ جاری رکھیں تو اس کے علاوہ آپ کو نظم وضبط کے بھی نئے سلیقے ملتے ہیں اور ہر قسم کے کاموں میں انتظامات کا ایک ایسا تجربہ نصیب ہوتا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں آپ کے ہر طرح سے کام آ سکتا ہے اور جماعت کے کردار کی تخلیق میں بہت مدد کرتا ہے.جماعت کا ایک کردار ہے جس کا نہ کسی ملک سے تعلق ہے، نہ کسی قوم سے تعلق ہے، نہ کسی خاندان سے تعلق ہے.جماعت بحیثیت جماعت احمد یہ ایک اسلامی کردار کی حامل ہے اور یہی کردار در حقیقت آپ کا تشخص بن رہا ہے اور بنتا چلا جائے گا.یہی کردار ہے جس کے تشخص کو نمایاں کرنے کے نتیجے میں ایک عالمی برادری وجود میں آئے گی اور اس کے بغیر یہ مکن نہیں ہے.پس اس کردار کی تعمیر میں اور اس کے تشخص کو نمایاں کرنے میں جماعت احمد یہ عالمگیر کے سالانہ جلسے ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جس طرح مجلس شوری ایک خاص دائرے میں خلافت کی نمائندہ اور دست و بازو بن جاتی ہے اسی طرح یہ جلسے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلافت کے قیام اور استحکام اور اس کے فوائد کو عام طور پر جاری کرنے میں بہت ہی محمد ثابت ہوتے ہیں.پس آنے والوں کے لئے UK کی جماعت محنت اور تیاری کرے اور اخلاقی لحاظ سے ہر شخص جو شامل ہونے والا ہے اور میری آواز کو سن رہا ہے وہ اپنا اور اپنے بچوں اور عزیزوں کا جائزہ لے اور دیکھے کہ پہلے اگر کچھ کمزوریاں تھیں تو امسال وہ کمزوریاں نہ ہوں.اس پہلو سے جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کرتا رہا ہوں مگر اکثر جلسے کے قریب کے خطبے میں

Page 504

خطبات طاہر جلد 13 498 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء بیان کرتا رہا ہوں مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر جلسے سے پہلے خطبے میں یہ باتیں بیان کی جائیں تو جس وسعت کے ساتھ انہیں پھیلانے کی ضرورت ہے اور جس گہرائی سے تنظیموں کا فرض ہے کہ ان کی نگرانی کریں اور عمل درآمد میں حمد اور مددگار ثابت ہوں ان کے پاس وقت نہیں رہتا اور باتیں سننے کے باوجود انفرادی طور پر کچھ لوگوں پر اس کا اثر پڑتا ہوگا اور فائدہ اٹھاتے ہوں گے مگر جماعتی لحاظ سے ان باتوں کو جاری کرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمام جماعت تک پہنچ چکی ہیں اور تمام خاندان اور افرادان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جلسے کے بہت قرب کے نتیجے میں ممکن نہیں رہتا.ایک اور پہلو یہ ہے کہ دور تک کی آواز پہلے تو بعض دفعہ مہینے یا دو مہینے بعد پہنچا کرتی تھی اور اب ٹیلی ویژن کے ذریعہ خطبہ پہنچتا ہے تو ہر جگہ اس کا انتظام نہیں ہے اس لئے ہر ملک کو کچھ موقع ملنا چاہئے کہ پیغام سن کر اپنی جماعت میں آنے والوں کا جائزہ لیں، ان سے رابطہ کریں، ان تک یہ بات پہنچائیں.پس جلسے سے معا پہلے کے خطبے میں یہ باتیں بیان کرنا اس حد تک سود مند یعنی فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتیں جتنا کچھ عرصہ پہلے بیان کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے.پس کینیڈا کے جلسے کے حوالے سے مجھے یہ خیال آیا کہ آج ہی آپ سے جلسہ سالانہ UK کے متعلق بھی چند باتیں کروں.ایک اہم بات جس کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور پھر اس کو زیادہ شدت کے ساتھ یاد دلانے کی ضرورت ہے وہ جلسے کے ایام میں نماز با جماعت کا قیام ہے.آنے والے مہمان بھی یکساں اس سے مخاطب ہیں اور یہاں خدمت کرنے والے بھی یکساں اس میں مخاطب ہیں.جلسے کے ہنگامے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر بعض دفعہ خدمت کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ خدمت تو ہم کر ہی رہے ہیں، نمازیں بھی ہو جائیں گی گویا نمازیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں اور خدمت اولیت اختیار کر جاتی ہے.یہ وہ رجحان ہے جسے شدت سے توڑنے کی ضرورت ہے.نمازیں اول ہی رہتی ہیں سوائے اس کے کہ خدمت کے ایسے ہنگامے میں آئیں کہ فوری طور پر اس وقت ادا نہ کی جاسکیں.مگر اس سے بڑا ہنگامی وقت کیا ہو سکتا ہے جبکہ تو میں اپنی زندگی اور موت کے جہاد میں مصروف ہوں اور اس سے زیادہ یہ ہنگامہ کیسے اہمیت اختیار کر سکتا ہے کہ جب اس زندگی اور موت کی جدو جہد میں مرکزی حیثیت حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو حاصل ہو.ایسی صورت میں بھی عین جنگ کے درمیان ﷺ نماز با جماعت کے احترام کو اس شدت سے قائم کیا گیا کہ یہ خصوصی حکم دیا گیا کہ اس دوران اگر

Page 505

خطبات طاہر جلد 13 499 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء حضرت اقدس محمد مصطفی سے باجماعت نماز پڑھائیں تو شامل ہونے والے آدھی نماز پڑھ کر واپس جائیں تا کہ دوسروں کو موقع ملے کہ وہ آجائیں اور بقیہ آدھی نماز پیچھے پڑھ سکیں اور پھر باقی اپنی بقیہ نماز سب اپنے اپنے وقت پر جا کے پوری کریں.اس سے زیادہ نماز با جماعت کے قیام کی اہمیت کا اور کوئی نمونہ پیش کرنا ممکن نہیں اور اس کی روشنی میں نماز با جماعت کی اہمیت کا اندازہ لگانا آسان نہیں بلکہ ایک پہلو سے مشکل ہو جاتا.یعنی معاملہ اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ عام انسان کی سوچ کی سطح سے بھی او پر نکل جاتا ہے.اتنی زیادہ اہمیت نماز با جماعت کی کہ جہاد ہورہا ہے،لڑائی جاری ہے اور سپاہی اپنے اپنے لڑنے کے مقام سے واپس آتے ہیں اور آنحضور ﷺ کے پیچھے باجماعت ایک رکعت نماز پڑھتے ہیں اور کچھ انتظار کرتے ہیں کہ وہ پڑھ لیں تو پھر ہم واپس اپنی جگہوں پر جائیں.یہ جہاں معاملے کو آسان بناتا ہے وہاں مشکل بھی بنادیتا ہے اور اسی حیرت انگیز خصوصی حکم کے متعلق میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ایک مشکل میرے ذہن میں بھی ابھرتی تھی.جس کا یہ حل سمجھ میں آیا کہ یہ حکم استثنائی طور پر حضرت اقدس محمد مصطفی ملے سے صحابہ کے تعلق کے نتیجے میں ہے.آنحضور ﷺ کے عشاق آپ سے ایسی محبت رکھتے تھے کہ جہاں شہادت سامنے کھڑی دکھائی دیتی تھی وہاں یہ خیال کہ ایک نماز آنحضور پڑھا رہے ہوں اور ہم اس میں شمولیت سے محروم رہ جائیں اس قدر سوہان روح تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پیار و محبت سے ان دلوں کی بیقراری کو دیکھا اور اس کا یہ حل تجویز فرمایا.ایک بہت ہی عظیم گواہی ہے صحابہ کے عشق پر بھی اور حضرت اقدس محمد مصطفی امی سے پر ان کے ایمان کی صداقت اور حقانیت پر کہ ایسے وقت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی گواہی کبھی خدا کی طرف سے کسی کے حق میں نہیں دی گئی کہ عشاق کے دل پر نظر پڑے اور یہ حکم ہو کہ عین جنگ کے دوران لڑتے لڑتے تمہیں اجازت ہے کہ اپنی دلی تمناؤں کو پورا کرو اور اگر شہادت مقدر ہے تو اس سے پہلے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امامت میں ایک رکعت ہی سہی مگر ایک رکعت باجماعت ادا کرو.تو یہ تو اس پہلو کا حل ہے جو میں نے کہا تھا کہ یہ معاملہ جہاں اہمیت کو آسان بناتا ہے وہاں مشکل بھی بنا کے دکھاتا ہے.پس میں نے غور کیا تو مجھے اس مشکل کا یہی حل دکھائی دیا مگر نماز با جماعت کی اہمیت اپنی جگہ اس سے سوا بھی باقی رہتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ہنگامے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ ناممکن ہو جائے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض دفعہ سارا دن ایسا شدید ہنگامہ رہا کہ

Page 506

خطبات طاہر جلد 13 500 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / جولائی 1994ء خدا تعالیٰ کے ہاں یہ منظور نہیں تھا کہ آنحضور ﷺ اس شدید مصروفیت کے وقت پانچ نمازیں الگ الگ پڑھ سکیں.پس ایک ایسے ہی موقع پر آنحضرت ﷺ نے پانچ نمازیں اکٹھی ایک دوسری کے بعد باجماعت پڑھائیں اور سب رفقائے کار نے اس میں شرکت کی ، سب صحابہ نے شرکت کی ، اور وہ موقع ہے جب آپ نے ان ظالموں کو بددعا دی کہ لعنت ہو ان پر جن کی وجہ سے ہمیں نمازیں وقت کے بعد پڑھنی پڑیں.ورنہ آنحضور ﷺ کے منہ سے بددعا کے کلمات نہیں نکلا کرتے تھے.اس سے بھی وقت پر نماز پڑھنے اور باجماعت پڑھنے کی اہمیت کا آپ کو اندازہ ہوگا مگر مرور زمانہ سے رفتہ رفتہ مسلمانوں میں سے باجماعت نماز کے اہتمام کا تصور مٹتا جارہا ہے اور انفرادی نماز ہی کو کافی سمجھا جاتا ہے.جہاں انفرادی نماز کو کافی سمجھا جائے وہاں انفرادی نماز بھی رفتہ رفتہ اٹھنا شروع ہو جاتی ہے اور معاشرے میں انفرادی نماز ادا کرنے والے بھی تھوڑے رہ جاتے ہیں کیونکہ در حقیقت انفرادی نماز کی باجماعت نماز حفاظت کرتی ہے.اگر باجماعت نماز کو اہمیت دی جائے اور شدت سے قائم کیا جائے تو نماز قائم کرنے کا دوسرا مفہوم بھی اس میں داخل ہے.اول قیام نماز سے مراد یہ ہے کہ با جماعت نماز پڑھی جائے.اصل حق عبادت کا تب ادا ہوتا ہے کہ تمام جماعت مل کر خدا کے حضور حاضر ہواوراسی پہلو سے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین میں ہم" کے لفظ سے خدا کے حضور گزارش کی جاتی ہے جس میں باجماعت کا تصور شامل اور داخل ہے ورنہ انفرادی نماز میں تو ايَّاكَ اَعْبُدُ وَإِيَّاكَ اَسْتَعِينُ کہا جاسکتا تھا.پس باجماعت نماز ایک گہرا فلسفہ رکھتی ہے اور یہ وہ طریق عبادت ہے جس کے نتیجے میں حقیقت میں عبادت خدا کے حضور قائم ہوتی ہے.اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے.دوسرا مفہوم قیام عبادت کا میں نے جیسا کہ اشارہ کیا ہے وہ یہ تھا کہ عبادت کے باجماعت ادا کرنے سے انفرادی عبادت کو تقویت ملتی ہے اور وہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے کیونکہ جتنے باجماعت نماز پڑھنے والے ہیں وہ گھروں سے رخصت ہوتے وقت بھی گھروں میں عبادت کر کے جاتے ہیں.واپس آتے وقت بھی ایک معین وقت پر عبادت کرتے ہیں اور وہ خاص ایسے معین وقت ہیں جبکہ اہل خانہ اور بچے ان کو دیکھتے ہیں اور نمازوں کی اہمیت ان کے دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے.جولوگ باجماعت نماز کے لئے پانچ وقت گھروں کو نہیں چھوڑتے وہ انفرادی طور پر پڑھتے بھی ہیں تو اپنی مرضی اور اپنے وقت سے پڑھتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ایک خاندان والے اس کو خصوصیت سے

Page 507

خطبات طاہر جلد 13 501 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / جولائی 1994ء دیکھیں اور اس عبادت کا ان کے دل پر گہرا اثر پڑے.لیکن نظام کے ساتھ، پابندی کے ساتھ ، عین معین وقت پر ، ان کا اپنے گھروں اور آراموں سے جدا ہو کر باہر نکل جانا اور جانے سے پہلے کچھ نماز پڑھنا پھر واپسی پر کچھ نماز پڑھنا، یہ ایسی یادیں ہیں جو بچپن ہی میں ذہن اور دل کے پردوں پر ثبت ہو جاتی ہیں.اور ایسی اولادیں جو اپنے باپوں، بھائیوں وغیرہ کو ایسا کرتے دیکھتی ہیں ان کے لئے ممکن نہیں کہ اس یاد کو بھلا سکیں اور اس کے نتیجے میں نماز کی اہمیت ہمیشہ کے لئے آئندہ نسلوں کے دلوں میں منتقل ہو جاتی ہے پس اس پہلو سے بھی یہ ایک بہت ہی اہم حکم الہی ہے جس کی پابندی ضروری ہے.ہماری روحانی زندگی کا ایک مرکزی ستون ہے جس کے بغیر روحانی زندگی کی عمارت قائم ہی نہیں رہ سکتی.پس جلسوں میں بھی اس کو شدت کے ساتھ قائم کرنا، ایک اہم ترین ضرورت ہے اور اس پہلو سے بھی ضروری ہے کہ جلسوں پر عام طور پر صرف احمدی ہی نہیں بلکہ بعض غیر احمدی، بعض غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں اور وہ عمومی طور پر آپ کا ایک جائزہ لے رہے ہوتے ہیں اور اس جائزے کے نتیجے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں.کیا اس لائق ہیں کہ ان کے ساتھ شامل ہوا جائے یا نہ ہوا جائے.ایسے موقعوں پر آپ کی بے اعتنائیاں ، ان کے دلوں پر منفی اثر قائم کرتی ہیں اور عبادت کا ذوق و شوق ، ان کے دلوں کو احمدیت کی صداقت کا پہلے سے بڑھ کر قائل کر دیتا ہے اور جن جگہوں میں بھی عبادت ذوق و شوق سے ادا کی جائے بعض لوگ ان یادوں کو ہمیشہ احترام سے دیکھتے ہیں اگر چہ احمدی ہونے کی توفیق نہ بھی ملے تو ہمیشہ ان کا ذکر پیار اور محبت سے کرتے ہیں.پس بہت سے غیر احمدی اخباروں کے نمائندے یا دیگر اپنی اپنی جگہوں میں اہمیت رکھنے والے سردار جب قادیان آیا کرتے تھے تو واپسی پر جب وہ تبصرے لکھتے تھے اور بہت سے ان کے تبصرے اخباروں میں چھپے ہوئے بھی موجود ہیں.ایک چیز کا وہ نمایاں طور پر ذکر کرتے تھے کہ وہ عجیب قوم ہے کہ ادھر نماز کا وقت ہوا ادھر سارا شہر خاموش ہو گیا اور مسجدیں جاگ اٹھیں اور مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی تھیں.یہاں تک کہ جو مسجدوں میں جگہ نہیں پا سکتے تھے وہ باہر گلیوں میں کھڑے ہو کر نمازیں ادا کرتے تھے اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے ان باتوں کا مشاہدہ کیا اور یہ گواہی دی کہ خدا کی عبادت کو قائم کرنے والے اگر کسی نے دیکھنے ہیں تو قادیان جا کر دیکھے.پس جب میں کہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ قادیان کی نقلیں کی جائیں تو یہ وہ نقل ہے جو سب سے

Page 508

خطبات طاہر جلد 13 502 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء زیادہ اہم ہے.پس اس جلسے پر بھی نماز با جماعت کو قائم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں.خود UK کی جماعت کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا کیونکہ یہاں ابھی بھی نئی نسلوں میں کچھ کمزوریاں پائی جاتی ہیں جو عبادت کے لحاظ سے کافی توجہ طلب ہیں اور بہت سے شہر ایسے ہیں جہاں نو جوان رفتہ رفتہ اخلاص تو رکھتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کا اخلاص ابھی گہرے عمل کی صورت میں ڈھلا نہیں.بہت اچھا موقع ہے کہ جلسہ پر ان کی تربیت کی جائے اور اخلاص کو جس طرح اعمال میں ڈھالنے کی ضرورت ہے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور یہ فائدہ اٹھانے کے دن ابھی شروع ہو چکے ہیں.اس لحاظ سے میں کہ رہا ہوں کہ آپ کی جتنی ٹیمیں وہاں خدمت خلق کے لئے پہنچتی ہیں ان پر ابھی سے نماز با جماعت کے قیام کی اہمیت واضح کرنا انتہائی ضروری ہے.پانچوں وقت نمازیں وقت کے او پر باجماعت ادا ہونی چاہئیں اور تمام کام کرنے والے اپنے کام چھوڑ کر وقت پر نماز کے لئے حاضر ہو جایا کریں.یہ چند دن جو ان کو تربیت کے ملیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں میں ایک نقش دوام کا کام کریں گے.میں امید رکھتا ہوں کہ جو کچھ وہ سیکھیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر آئندہ بھی ان پر عمل جاری رکھیں گے.پس یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ جلسے کی تیاری کے دوران بھی نماز با جماعت کے قیام کو اہمیت دی جائے اور جلسے کے دنوں میں بھی ان کے ذہنوں اور دلوں پر یہ بات اچھی طرح ثبت کر دی جائے کہ اس دوران بھی آپ نے نماز سے روگردانی نہیں کرنی.وہ لوگ جو ا نتظاموں میں ایسے وقت میں مصروف ہوتے ہیں کہ مجبوری ہے اس وقت مہمانوں کا اتناز ور ہوتا ہے مثلا روٹی کی تقسیم، سالن کی تقسیم اور اس قسم کے کام ہیں کہ اس وقت فوری طور پر نماز باجماعت ادا نہیں کی جاسکتی.ان کے افسران کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گزشتہ تجربے کی رو سے ابھی سے وہ پروگرام بنا ئیں اور جلسے کے پروگراموں میں ان پروگراموں کو مستقل جگہ دی جائے اور وہ اپنی اپنی امارتوں میں یہ با قاعدہ رپورٹ پیش کریں یا یوں کہنا چاہئے افسر جلسہ گاہ یا افسر جلسہ سالانہ کے سامنے با قاعدہ یہ رپورٹ بھی پیش کریں کہ ہم نے نمازوں کے متعلق یہ منصوبہ بنایا ہے، اس طریق پرس ہو گا.ہمارے اتنے فیصد کارکنان با قاعده مرکزی با جماعت نماز میں حصہ لے سکیں گے اور اتنے فیصد کے لئے ہم نے اپنے تجربے کی رو سے یہ یہ وقت مقرر کئے ہیں.اگر اس کو بھی آئندہ جلسہ سالانہ کے پروگراموں کا ایک

Page 509

خطبات طاہر جلد 13 503 خطبہ جمعہ فرمود و 8 جولائی 1994ء مستقل حصہ بنالیا جائے تو پھر یہ بات ہمیشہ وقت پر خود بخود یاد آ جایا کرے گی.ضروری نہیں کہ ہر جلسے سے پہلے خلیفہ وقت ان باتوں کو ہمیشہ دہرائے ، نہ یہ ضروری ہے کہ آئندہ خلفاء بھی اسی طریق پران باتوں کو دہراتے رہیں مگر وہ چیزیں جو نظام کا حصہ بن کر نقشے میں داخل ہو جایا کرتی ہیں وہ از خود موقع کے اوپر یاد آ جایا کرتی ہیں.پس یہ وہ نئی بات ہے جو میں چاہتا ہوں کہ تمام دنیا کے سالانہ جلسوں کے انتظامات میں داخل کر دی جائے کہ ہر افسر جو کسی شعبے کا انچارج ہے وہ اپنے شعبے میں کام کرنے والوں کے لئے نماز با جماعت کے قیام کے لئے جو بھی منصوبہ بناتا ہے اس کی تحریری رپورٹ وہ اپنے افسر کو پیش کرے اور اس طرح جلسے کو جو اجتماعی کمیٹی ہے اس کے سامنے بھی یہ بات پیش کر دی جائے کہ ہم اس سال نماز کے قیام کے سلسلے میں یہ یہ اقدامات کریں گے.خصوصیت کے ساتھ اس میں صبح کی نماز بہت اہمیت رکھتی ہے.صبح کی نماز کے وقت حاضری ظہر یا عصر کی نماز سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ انتظامات کے لحاظ سے سب سے کم دباؤ صبح کی نماز کے وقت ہوتا ہے اکثر انتظامات ابھی چل نہیں رہے ہوتے.وہ جو رات کے وقت آرام کے لئے ٹھہرے ہیں وہ صبح کی نماز کے وقت ابھی دوبارہ اٹھ کر اپنے قدموں پر چلنا شروع نہیں کرتے اور بہترین وقت ہے کہ نمازوں کی حاضری اس وقت سب سے زیادہ ہو لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ نمازوں کی حاضری اس وقت سب سے کم ہوا کرتی تھی.لیکن جب مثلاً جرمنی میں بھی اور یہاں بھی توجہ دلائی گئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بہت نیک نتیجہ ظاہر ہوا.کم اور زیادہ کی بحث میں ایک بات ہے جو پیش نظر رہنی چاہئے.ظہر اور عصر اور مغرب کی نمازیں اس لئے زیادہ نمازیوں سے بھرتی ہیں کہ بہت سے بیرونی مہمان جو باہر ٹھہرے ہوئے ہیں یا مقامی لوگ جو باہر ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو آنے کا موقع ملتا ہے.اس لئے اس استثناء کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور میں جو بات آپ سے کہہ رہا ہوں اس کو پیش نظر رکھ کر کہ رہا ہوں.یعنی اس غلط نہی میں مبتلا نہیں ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جتنی حاضری ہوتی ہے یعنی دو پہر وغیرہ کو اتنی ہی صبح ممکن ہے، یہ مکن نہیں ہے مگر جو موجود ہیں ان کے لحاظ سے میں یہ بات کر رہا ہوں.تناسب کے لحاظ سے ان کی حاضری صبح گر جاتی ہے.اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ جلسے کے دنوں میں مہمان دیر تک پھرتے یا آپس میں باتیں کرتے، مجلسیں لگاتے اور سمجھتے ہیں کہ جلسے کے مزے پورے لوٹنے میں

Page 510

خطبات طاہر جلد 13 504 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / جولائی 1994ء تقریریں ختم ہونے کے بعد کا دور جو ہے وہ بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے.تقریریں تو سن لیتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر جلسے میں شمولیت کا فائدہ کوئی نہیں.لیکن جو مزے اٹھاتے ہیں وہ تقریروں کے بعد اٹھاتے ہیں بعض لوگ اور یہ پھر ٹولوں کی صورت میں خوب سیر میں کرتے پھرتے ، کہیں کباب خریدتے ، کہیں تکے کھاتے ، کہیں سے سموسے لیتے اور کھانے میں جو کمی ہے اس کو پورا کرتے ، بچے بھی خوب پھرتے اور پھر گھروں میں یہ مجالس لگاتے ، ایک دوسرے کے کیمپوں میں جا کے بیٹھتے ہیں.اچھا نیک مشغلہ ہے اس میں کوئی برائی نہیں، ان کا حق ہے ذرا Relax ہوں اور جو دوسرے جلسے کے فوائد ہیں ان کے پیش نظر آپس میں مل جل کر محبت بڑھائیں.لیکن وہ ساری محبتیں جو آپس میں بڑھیں اور خدا کی محبت میں حائل ہو جائیں وہ محبتیں محبت کہلانے کے لائق نہیں ہیں کیونکہ ہمیں تو للہی محبت کا حکم ہے.پس وہ ساری مجالس جو رات دیر تک چلتی ہیں اگر صبح کے وقت کی نماز میں حائل ہو جائیں تو وہ نیکی کا سب کردار کھو بیٹھتی ہیں اور وہ مسلمانوں کی مجالس کہلانے کی مستحق نہیں رہتیں.تبھی آنحضرت ﷺ نے اس بات کو سخت ناپسند فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد گیوں کی لمبی مجلسیں چلیں جو تہجد اور صبح کی نماز میں حائل ہو جاتی ہیں.پس اگر آپ کی مجلسیں جو ان ہنگامی دنوں میں ایک دلچسپ مجبوری بھی ہیں ضرور جاری رہنی ہیں تو اس شرط پر جاری رہیں کہ صبح کی نماز میں کسی قیمت پر حائل نہیں ہوں گی.اگر زیادہ دیر جاگے ہوئے ہو گئی ہے تو پھر سونے میں دیر کر دیں اور صبح کی نماز پڑھ کر جلسے سے پہلے گھنٹہ دو گھنٹے آرام کر لیں اور اگر یہ طاقت نہیں تو پھر آپ کو رات دیر تک جاگنے کی بھی اجازت نہیں ہے.پھر اپنے وقت پر سونا لازم ہے مگر جو بھی ہو صبح کی نماز آپ کی دیگر دلچسپیوں سے کسی قیمت پر متاثر نہیں ہونی چاہئے.جو خدمت کرنے والے ہیں ان کی بھی ایک نفسیات ہے.وہ سمجھتے ہیں رات ہم نے خوب خدمتیں کی ہیں اب ذرا آرام کر لیں یہی تو وقت آرام کا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ صبح کے وقت کے آرام کا جو مزہ ہے وہ ساری رات کے دوسرے آرام کا نہیں.شیطان نے اس میں ایسی لذت رکھ دی ہے کہ ضرور دخل دیتا ہے اور آدمی کو کہتا ہے کہ دیکھو اب تو مزہ آ رہا ہے نیند کا ، اب کونسا اٹھنے کا وقت ہے حالانکہ وہی وقت ہے اٹھنے کا.جواس وقت اٹھتا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ میں نے اب اپنے سب آراموں کو خدا کی خاطر ایک

Page 511

خطبات طاہر جلد 13 505 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / جولائی 1994ء طرف پھینک دیا ہے اور وہ ترک کر کے میں اللہ کے حضور حاضر ہونے لگا ہوں.جو لطف ایسے اٹھنے کا ہے وہ کسی اور اٹھنے میں نہیں.پس خدمت کرنے والوں کو بھی میری نصیحت ہے کہ یہ عذر یا احسان پیش نظر نہ رکھیں کہ آپ نے خدمت کی ہے اس لئے صبح کی نماز ترک کرنے کا حق مل گیا ہے، ہر گز نہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا جب کہ قوم سارا دن جہاد کی محنت اور مشقت کے بعد سخت تھکی ہوئی تھی اور سفر کی صعوبت بھی اس پر اضافہ تھی کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بڑے پیار سے دیکھا ہے جو خصوصیت سے وقت پر عبادت کے لئے اٹھے تھے.جب دنیا کی محنتیں یا بدنی محنتیں اتنی بڑھ جائیں کہ اس وقت نماز کے لئے اٹھنا سب سے زیادہ دو بھر ہو، وہی وقت ہے اللہ تعالیٰ کی محبت جیتنے کا ، وہی تو وقت ہے خصوصیت سے اس کی نظر میں آجانے کا.پس خدمت کرنے والوں کی خدمتیں بھی تو اسی طرح قبول ہوں گی کہ وہ ایسی نمازوں کا حق ادا کریں جو بڑی مشکل ہو جاتی ہیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کی ساری خدمتیں عبادت بن جائیں گی اور اس سے اچھا اور کوئی سودا نہیں.پس نظام جماعت کو بھی اس بات میں ممد ہونا چاہئے کہ یہ یاد دہانیاں سب کارکنوں کو ہوتی رہیں اور یہ دیکھا جائے کہ کسی نظام میں ضرورت سے زیادہ آدمی خدمت کے لئے موجود نہ رہیں سب سے کم خدمت پر مامور ہونے کا وقت نمازوں کے قیام کا وقت ہے اور یہ سبق بھی ہمیں اسی مثال سے ملتا ہے جو میں نے جہاد کی مثال آپ کے سامنے رکھی کہ عین جہاد کے دوران قرآن کریم نے نماز با جماعت کا ارشاد فرمایا ہے اور جگہ چھوڑ کر نماز کے لئے آنے کا حکم ہے.پس اگر جہاد کی دفاعی ضرورت کے وقت بھی جگہ کو چھوڑ کر تعداد کو نصف کیا جاسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جلسے کے انتظامات میں نمازوں کے قیام کے وقت کم سے کم کارکنان نہ رکھے جائیں جن کے بغیر کام چلنا ممکن نہ ہو اور جو رکھے جائیں ان کے لئے وہاں نمازوں کا انتظام ہونا چاہئے.پس جو پہروں کی ٹولیاں بعض جگہ بیٹھتی ہیں وہاں ان کے مرکز قائم ہوتے ہیں.صبح کی نماز کے وقت خصوصیت سے کم سے کم ضروری نگران موجود رہیں اور باقی سب نماز پہ پہنچیں.جب وہ آجائیں تو پھر جو موجود ہیں وہ وہاں اپنی اپنی باجماعت نماز پڑھیں.تو اس لحاظ سے یہ جلسہ ایک مستقل نماز با جماعت کے قیام کا انداز سکھانے والا جلسہ بن جائے اور جو میں نے نصیحت تمام دنیا کی جماعتوں کو کی ہے اس نصیحت کی بہترین مثال UK کی جماعت پیش کرے اور اس پہلو سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ ساری نمازیں جو اس کے نتیجہ میں

Page 512

خطبات طاہر جلد 13 506 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء باہر ادا کی جائیں گی ان کی جزا میں بھی اللہ تعالیٰ UK کی جماعت کو شامل فرمالے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نیکیاں جاری کرنے والوں کے لئے یہی خوش خبری عطا فرمائی ہے.آپ نے فرمایا کہ جو لوگ نیکیاں جاری کرتے ہیں جب تک وہ نیکیاں جاری رہتی ہیں ان نیکیوں کے کرنے والوں کے اعمال کی جزا میں اللہ تعالیٰ نیکیاں جاری کرنے والوں کو بھی حصہ دیتا چلا جاتا ہے مگر جو نیکیاں کرتا ہے اس کی جزا میں سے کچھ کا شت نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ لا متناہی قوتوں کا مالک ہے اس کے پاس کمی نہیں ہے.پس جو نیکیاں آپ کے ذریعے آئندہ مختلف ملکوں میں قائم ہوں گی.یعنی UK جماعت کے بہترین مثالوں کے ذریعے ، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے الفاظ میں میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ نیکیاں جاری کرنے والے اپنا اجر بھی پائیں گے اور اتنا ہی اجر خدا تعالیٰ آپ کے حصے میں بھی لکھتا چلا جائے گا.پس بہترین موقع ہے کہ اپنی نیکیوں کے مددگار تمام دنیا میں پیدا کر دیں اور ان نیکیوں کی جزا ئیں آپ کو بخشنے والے تمام دنیا میں پیدا ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.جہاں تک عمومی حسن خلق کا تعلق ہے وہ تو کسی اور بیان کا محتاج نہیں.میرے تمام خطبات آج کل اسی موضوع پر چل رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبات میں بھی یہ مضمون جاری رہے گا.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو اور جماعت احمدیہ کو ایک امت واحدہ بنانے میں ہم سب کو بہترین کردار ادا کرنے کی توفیق عطا ہو.آمین.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

Page 513

خطبات طاہر جلد 13 507 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء تو ہین خداوندی کا سوال تو ہین رسالت سے پہلے ہے.انبیاء کو خداہی عزت دیتا ہے.گستاخی رسول کے قانون پر تبصرہ.(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں.مَثَلُ الَّذِينَ حَمِلُوا التَّوْريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِايَتِ اللهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ قُلْ يَايُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ ) وَلَا يَتَمَنَّوْنَةٌ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلْقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلى عَلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ 6 پھر فرمایا:.(الجمعه : 6تا9) یہ سورہ جمعہ کی آیات 6 تا 9 ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے اس مضمون پر مزید کچھ کہنے سے پہلے بعض اعلانات ہیں.لجنہ اماءاللہ وناصرات الاحمدیہ جرمنی کا سولہواں سالانہ اجتماع کل 16 ر

Page 514

خطبات طاہر جلد 13 508 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء جولائی بروز ہفتہ سے شروع ہو رہا ہے اور 17 / جولائی تک جاری رہے گا.تو لجنہ اماء اللہ کے اور ناصرات کے اس اجتماع میں دوست ان کو دعا میں یا درکھیں اللہ ان اجتماعات کو بابرکت فرمائے اور ہر پہلو سے ایسی برکتیں عطا فرمائے جو دانگی رہنے والی ہوں، اجتماع کے دنوں کے ساتھ ختم نہ ہو جائیں.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا مضمون بہت ہی دلچسپ اور گہرا اور عبرتناک ہے.پہلے بھی بارہا اس آیت کی تلاوت کے حوالے سے مذہبی قوموں کے اس اور بار کا ذکر کر چکا ہوں جب وہ اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کو بھلا دیتی ہیں.قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے اس کے دو پہلو ہیں جو ایک دوسرے کے بعد نظر کے سامنے ابھرتے ہیں پہلا یہ کہ وہ تمام لوگ جو اہل کتاب ہیں وہ تمام تر اس آیت کے مضمون کے مخاطب بنتے ہیں.مَثَلُ الَّذِینَ حَمِلُوا التَّوْرَيةَ یعنی تورات صرف یہود کے علماء اور ربانی کے لئے تو نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ ان تمام کی خاطر نازل کی گئی تھی جنہوں نے موسیٰ کو قبول کیا اور اس پر ایمان لانے کے نتیجے میں اس کی شریعت کے پابند ٹھہرے.پس قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ تمام اہل کتاب جن سب کو تو رات عطا کی گئی تھی لیکن پھر اس کتاب کا بوجھ انہوں نے اٹھانا ترک کر دیا یعنی اس کی پابندیوں سے بری الذمہ ہو گئے اور آزاد ہو گئے.ان کی مثال ایک ایسے گدھے کی سی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ ڈالا جائے اور کتابوں کا بوجھ جب گدھے پر ڈالا جاتا ہے تو دو طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں یعنی طبعی نتیجے دو ظاہر ہوتے ہیں.اول یہ کہ گدھے کو کچھ پتا نہیں کہ اس کے اوپر کیا لدا ہوا ہے اور اس کی بلا سے جب یہ بوجھ اترے تو وہ فرحت محسوس کرتا ہے، فراغت محسوس کرتا ہے کہ شکر ہے اس مصیبت سے چھٹکارا ملا.چونکہ وہ جانتا نہیں کہ اس بوجھ کی قیمت کیا ہے اس لئے اس کے نزدیک اس کی کوئی بھی قدر نہیں ہوتی اور ایسی کامل مثال ہے کہ ہر پہلو سے کامل طور پر ان مذہبی قوموں پر چسپاں ہوتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ ایک نعمت عطا کرتا ہے پھر وہ خود اس نعمت کو سمجھنے کے اہل نہیں رہتے اور جب وہ نعمت اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ وہ اس سے استفادہ کریں ،اس سے پیار محبت بڑھا ئیں، اس نعمت کے نتیجے میں خود بھی فیض اٹھا ئیں اور دنیا کو بھی فیض پہنچا ئیں تو ایک محض ایسا بوجھ ہے جیسا گدھے کے اوپر کتابوں کا بار ہو اور پھر وہ لا زما اسے اتار پھینکتے ہیں ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا میں یہی مضمون ہے جو بیان ہوا ہے.پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا.جیسے گدھے بھی جب کتابیں ڈالی جاتی ہیں تو ہمیشہ پھر کتا بیں اپنی کمر پر اٹھائے ہوئے اسی کے

Page 515

خطبات طاہر جلد 13 509 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولا ئی 1994ء ساتھ تو نہیں سویا کرتے اور اسی کے ساتھ تو نہیں زندگی گزارتے.جب منزل پہ پہنچے ان کتابوں کا بوجھ اتارا اور فارغ ہو گئے.دوسرا پہلو اس کا علماء ہیں جو بائبل کے علماء خصوصیت کے ساتھ اس آیت کے پیش نظر ہیں ایک طرف تو قرآن کریم فرما رہا ہے کہ انہوں نے بوجھ اتار دیا، دوسری طرف مثال دے رہا ہے کہ گدھے ہیں جنہوں نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے تو اس دوسرے پہلو پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو علماء کا نقشہ سامنے آتا ہے جنہوں نے بوجھ نہیں اتارا بلکہ اس بوجھ کو اٹھائے پھرتے ہیں اور اعلان یہ کرتے ہیں کہ ہم ہی اس بوجھ کے کلیۂ ضامن اور مالک بن بیٹھے ہیں.ہم سے ہی جو آنا چاہے تعلیم حاصل کرے.ہم ہی مذہب کی کلیہ اجارہ داری حاصل کر چکے ہیں.ہم مذہب کی نمائندگی اختیار کر چکے ہیں.پس جس نے کچھ علم سیکھنا ہے ہم سے آکے سیکھے.تو مذہبی کتابوں کا اجارہ دار بن جانا جب تنزل کے دور میں علماء کے سپرد ہو جاتا ہے تو اس وقت کا نقشہ ہے جو بہت ہی خوبصورت الفاظ میں کھینچا گیا ہے.قوم کا فرض تھا ان میں سے ہر فرد تو رات کی تعلیم کو سمجھتا اس پر عمل کرتا اور اس کا نگران اور محافظ بنے کی کوشش کرتا.اس صورت میں تو رات کی تعلیم ان کی نگران ہو جاتی اور ان کی حفاظت کرتی.لیکن قوم نے بحیثیت قوم اس تعلیم کی ناقدری کی ، اس سے پیٹھ پھیر لی اور اپنے گلوں سے یہ بوجھا تار دیا اور پھر کیا ہوا؟ پھر یہ بوجھ گدھوں پر آپڑا.ان گدھوں پر جو اس کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب قوم ایک چیز کی ناقدری کرتی ہے تو عموماً وہ چیز اس حصے کی سپرد کی جاتی ہے جسے اپنے میں سے کمتر بجھتی ہے اور یہی واقعہ ہمیشہ امتوں میں گزرا ہے اور یہی ہوتا رہے گا کہ جب کوئی قوم الہی پیغامات کی ناقدری کرتی ہے تو قوم کا وہ حصہ اس کو اٹھاتا ہے جو قوم کے نزدیک بے حیثیت اور ذلیل ہوتا ہے.لیکن رفتہ رفتہ چونکہ وہ اس پیغام کے اجارہ دار بن جاتے ہیں اس پیغام کی برکت سے اور قوم کی جاہلیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایک قسم کی سرداری بھی اختیار کر جاتے ہیں لیکن ان کی اپنی حالت ان گدھوں کی سی ہے جن پر کتابوں کے بوجھ لادے گئے ہوں ان کو کچھ پتا نہ ہو کیا اٹھایا ہوا ہے.تو اگر مرکب گدھا ہونے کا کوئی مضمون ہے تو وہ یہاں بیان ہوا ہے جیسے جہل مرکب کہتے ہیں ایک تو پہلے ہی گدھے تھے جن پر بوجھ ڈالا گیا.اوپر سے کوئی عقل فہم نہیں کچھ پتا نہیں کہ ہے کیا اور ان کو قوم سردار بنا بیٹھتی ہے.پس کیسی رسوا کن سزا ہے خدا کے پیغام کی بے حرمتی کرنے کی.اس سے

Page 516

خطبات طاہر جلد 13 510 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء زیادہ ذلیل سزا کسی قوم کو نہیں دی جاسکتی کہ جس پیغام کو انہوں نے درخور داعتناء ہی نہیں سمجھا تھا وہ سمجھتے تھے اس لائق نہیں ہے کہ ہم اس پر توجہ کریں، اسے پڑھیں ، اس پر عمل کریں ، اٹھا کر قوم کے اس حصے کے سپر د کر دیا جو ان کے نزدیک ادنی اور معمولی حیثیت کے لوگ تھے پھر خدا کی تقدیر نے ان کو ہی ان کا مذہبی سردار بنا دیا اور ایسے مذہبی سردار جو پہلے ہی بے حیثیت ہوں اوپر سے عقل نہ ہو کہ خدائی پیغام کو سمجھ سکیں وہ قوم کے لئے سب سے بڑی لعنت بن جاتے ہیں.یہ تمام مذہبی تاریخ کا خلاصہ ہے جو اہل کتاب کے حوالے سے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ نے ہم پر کھول دیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوا بِايْتِ اللَّهِ ان بدنصیبوں کی مثال بہت ہی بری ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلا دیا والله لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِینَ اور اللہ ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا.اس کا اس پہلے مضمون سے کیا تعلق ہے؟ پہلے جس قوم کا ذکر ہے اس نے تکذیب تو نہیں کی اس نے تو بوجھا تارا ہے مگر ایمان قائم رکھا ہے اور کچھ حصے نے بوجھ اٹھایا بھی ہوا ہے خواہ گدھوں کی طرح اٹھایا ہو ، انہیں مکذب تو نہیں کہا جاتا.حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ پھر جب بھی انبیاء آتے ہیں ان کی تکذیب کرتے ہیں.جن کو مذہب کے فلسفے سے اور اس کی حقیقت سے آگا ہی نہ ہو ، جو مذہبی پیغام کی عظمت اور مرتبے کو نہ سمجھتے ہوں، ان کے لئے مذہبی پیغامات جو آئندہ آنے والے نبی کی طرف ہدایت کرنے والے ہوتے ہیں بالکل بے کار اور بے معنی ہو جاتے ہیں اور ایسی قوم تکذیب کے لئے ذہنی اور قلبی اور نفسیاتی ہر لحاظ سے پوری طرح تیار ہوتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی آمد پر جو واقعہ گزرا در اصل یہ اسی کی طرف اشارہ ہے کہ تورات کی پاک تعلیم تو قوم نے گدھوں کے سپر د کر دی تھی اور گدھے بھی بوجھ کے طور پر اسے اٹھاتے پھرتے رہے ہیں.ان کی سرداری میں تم جاچکے ہو تمہیں کیسے ان کی طرف سے ہدایت نصیب ہو سکتی ہے.تمہارے تو مقدر میں تکذیب لکھی جا چکی ہے.پس اگر تم محمد مصطفی ﷺ کو پہچان نہیں سکتے تو تمہاری اس جہالت کا قصور ہے جس کے نتیجے میں تم نے پہلے پیغام کی ناقدری کی تھی اور اس ناقدری کے نتیجے میں یہ جہالت در جہالت کا سلسلہ شروع ہوا لیکن اس کے باوجود تم اللہ کے دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، کہتے ہو ہمیں اللہ کی حرمت اور عزت کا بڑا پاس ہے ہم اللہ کی خاطر سب کر رہے ہیں.یہ دعوے ساتھ ساتھ جاری وساری ہیں.فرمایا اس صورت میں تو صرف ایک ہی علاج ہے کہ تم صلى الله

Page 517

خطبات طاہر جلد 13 511 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء خدا کے نام پر اپنی سچائی کا اقرار کرتے ہوئے یہ اعلان کرو کہ اگر ہم حقیقت میں خدا سے محبت کرنے والے نہیں اور خدا کی خاطر یہ بوجھ نہیں اٹھائے ہوئے تو اے خدا ہمیں موت دے دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے وہ اپنے دل کی سچائی پر موت کی شرط نہیں لگائیں گے اور خدا سے اس بنا پر موت نہیں مانگیں گے کہ اگر ہم اپنے دعوؤں میں جھوٹے ہیں تو اے خدا تو ہمیں موت دے دے.چنانچہ جب میں نے جماعت احمدیہ کی طرف سے مباہلے کا چیلنج دیا تھا تو آپ کو علم ہے کس طرح مولویوں میں کھلبلی مچ گئی تھی اور افراتفری پڑ گئی تھی لیکن کوئی بھی حقیقت میں شرائط کے ساتھ اس پیغام کو قبول کر کے مباہلے کے لئے سامنے نہ آیا اور ہزار بہانوں اور عذروں سے انہوں نے اس مباہلے کو ٹال دیا مگر مباہلے کی اور بھی قسمیں ہیں.لفظ مباہلہ ان پر اطلاق نہیں پاتا.یہاں بھی لفظ مباہلہ اس صورت پر اطلاق نہیں پارہا بلکہ مباہلہ کی وہ رسمی شکل جس کا میں نے بیان کیا تھا وہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے تعلق رکھتی ہے لیکن ایک یہ بھی قسم ہے.پس میں تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے تمام دنیا کے مولویوں کو اس نوع کے مباہلے کی طرف بلاتا ہوں.ہم بھی تمام دنیا کے احمدی خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس کی قسمیں کھا کر یہ کہتے ہیں کہ ہم جو کاروبار کر رہے ہیں اللہ کی محبت میں کر رہے ہیں اور ہماری تمام توانائی اور ساری طاقت اللہ کی محبت سے پھوٹتی ہے.کوئی نفرتیں ہمارے پیش نظر نہیں ، کوئی انتقام ہمارے پیش نظر نہیں.بنی نوع انسان کی بھلائی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کی خاطر ہے اور خدا گواہ ہے کہ اس کے سوا ہمارا اور کوئی مقصد نہیں.یہ حلفیہ اعلان تمام دنیا کے احمدی، ایک ایک بچہ میرے ساتھ آج اس وقت کر رہا ہے جو سب دنیا میں اس پیغام کو سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے.مولوی بھی یہ اعلان کر دیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں محض اللہ کی محبت میں کر رہے ہیں کوئی ذاتی کمینی دشمنیاں، کوئی ذاتی مفادات، کوئی سیاسی مقاصد ہرگز ہمارے پیش نظر نہیں.ہم کلیۂ اس سے مبرا ہیں پھر دیکھیں کہ کیا ان کے ساتھ ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا يَتَمَنَّوْنَ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِینَ ہم اعلان کرتے ہیں کبھی یہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ جانتے ہیں کہ ان کے اعمال کیا ہیں؟ کیا وہ اپنے آگے بھیج رہے ہیں؟ اپنے کردار سے واقف ہیں.اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں ہے لیکن ان کو یہ بتا دو کہ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ

Page 518

خطبات طاہر جلد 13 512 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء فَإِنَّهُ مُلقِيكُمُ کہ اے موت سے بھاگنے والو اور فرار اختیار کرنے والو! یاد رکھوموت سے تم نہیں بھاگ سکتے.تمہارے اعلان کے نتیجے میں جلدی آ جائے یا تم اپنی اجل مسمی تک پہنچائے جاؤ جو صورت بھی ہو گی تم نے لازما خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پھر کیا ہوگا ثُم تُرَدُّونَ إلى علمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اس خدا کے حضور حاضر ہو گے جو غیب کو بھی جانتا ہے اور حاضر کو بھی جانتا ہے فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ تمہیں وہ خوب اچھی طرح سے باخبر کر دے گا ان باتوں سے جو تم کیا کرتے تھے.یہ وہ مضمون ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مذہبی قوموں کے انحطاط کی تاریخ کا خلاصہ ہے لیکن ایسا خلاصہ جو ہر پہلو پر حاوی ہے.یہ اد بار کئی طرح سے قوم کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے.آج کل جو آپ آئے دن ایسے ہنگاموں کی باتیں سنتے ہیں جن میں انبیاء کی عصمت اور عزت اور احترام کے نام پر بنائے جانے والے قانون پر زیر بحث ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ عصمت انبیاء اور خصوصاً آنحضرت ﷺ کی ہتک اور گستاخی کے نتیجے میں جو موت کی سزا پاکستان میں مقرر کی گئی ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی.گویا محض اللہ یہ کاروائی تھی اور اس کے خلاف کوئی حرکت کوئی قانون، کوئی کوشش قابل برداشت نہیں، یہ جو ہنگامہ آرائیاں پاکستان میں ہوتی رہی ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی چلائی جارہی ہیں اور بعض ملکوں میں بھی یہ تحریک اسی طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھائی جائے گی.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اس کے تمام پہلوؤں پر ایک خطبات کے سلسلے میں روشنی ڈالوں.متفرق مواقع پر سوال و جواب کی مجالس میں یہ باتیں زیر بحث لائی جا چکی ہیں.جب سلمان رشدی کا قصہ ہوا تھا اس وقت بھی جماعت کے موقف کے طور پر میں نے یہ باتیں بیان کی تھیں.مگر میں چاہتا ہوں کہ قوم پر حجت تمام کرنے کے لئے ایک دفعہ اس مضمون کے ہر پہلو سے پردہ اٹھا دوں تا کہ بات اتنی کھل جائے کہ کوئی شخص پھر خدا کے حضور یہ عذر نہ پیش کر سکے کہ ہمیں معاملے کی سمجھ نہیں آئی تھی ، ہم تو ان باتوں سے واقف نہیں تھے.پہلی بات تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اس آیت کریمہ سے گہرا تعلق ہے وہ قومیں جو ذاتی مذہبی علم نہیں رکھتیں یعنی مذہبی علم سے بے اعتنائی کے نتیجے میں اس علم کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی اور عامتہ الناس الگ ہو جاتے ہیں اور مولوی ، ملا نے الگ ہو جاتے ہیں.قوم کے دو

Page 519

خطبات طاہر جلد 13 513 خطبہ جمعہ فرمود و 15 جولائی 1994ء طبقے بن جاتے ہیں ایک وہ جنہوں نے الہی کلام اور پیغام کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور ذاتی طور پر مذہب کا کوئی علم بھی نہیں رکھتے.سوائے چند معمولی باتوں کے ان کو اور مذہب کی کسی حقیقت کا علم نہیں ہوتا.لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جو پھر اس میں سپیشلسٹ کہلاتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ تمام مذہبی انبار ہماری گردنوں پر ڈالے گئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں.وہ مذہب کے نمائندہ بن کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.ایسے لوگ جب مذہب کی نمائندگی میں کچھ بات کہتے ہیں تو قوم کی اکثریت ذاتی طور پر اس تحقیق کی اہلیت ہی نہیں رکھتی کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہیں.جو بات بیان کرتے ہیں وہ حقیقت میں مذہب کی بات ہے بھی کہ نہیں اپنے نفس کا جھوٹ ہے، اپنے نفس کی تعلی ہے اپنی انانیت کے قصے ہیں یا حقیقت میں خدا رسول کی باتیں ہیں یہ تمیز کرنے کی اہلیت ان قوموں میں نہیں رہتی.اس کے بعد ان کا مذہب جن کا ان کو علم نہیں ان کے خلاف ہو ابنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ڈر کے مارے یہ لوگ آگے آگے بھاگتے ہیں اور امن کی پناہ گاہیں ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح اس مصیبت اس بلا سے چھٹکارا ملے.لیکن پیچھا کرنے والوں کا اعلیٰ مقصد خدا اور خدا کی محبت نہیں ہوتی جیسا کہ اس آیت کریمہ سے خوب واضح ہو چکا ہے.ان کی شرطیں اور قسم کی ہوتی ہیں دنیاوی مفادات سے تعلق رکھتی ہیں، ذاتی انتقامات سے تعلق رکھتی ہیں اور خدا کی محبت کا نہ قصے کے آغاز میں ذکر نہ درمیان میں نہ آخر پر ، اس سے بالکل بے تعلق باتیں ہوتی ہیں.پس ان دنوں میں جو ناموس رسول ﷺ کے نام پر تحریک چلائی جا رہی ہے اس کے جو مختلف پہلو ہیں وہ میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.یعنی تمام دنیا کے مسلمانوں کے سامنے خصوصیت سے ، تاکہ وہ ان کو سمجھیں اور کچھ روشنی حاصل کریں.ان اندھیروں میں نہ بھٹکتے رہیں جہاں ان کی گزشتہ بے اعتنائیوں نے انہیں جا پہنچایا ہے.اول تو یہ بات کھول کر پیش کرنے کے لائق ہے کہ اس تحریک یا اس جیسی تحریکات کے محرکات کیا ہیں؟ کیا یہ سیاسی اغراض کی خاطر اور سیاسی غلبے کی خاطر بعض مولویوں کے بہانے ہیں جو انہوں نے قوم کے سامنے رکھے ہیں یا حقیقت میں ناموس رسول یا ناموس خدا کی خاطر اس کی محبت میں یہ یہ سب تحریکات چلا رہے ہیں؟ یہ غور طلب باتیں ہیں.پہلے میں اسی حصے پر کچھ گفتگو کرتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ کل عالم اسلام میں اس وقت ملائیت اور مسلمان سیاستدانوں کے

Page 520

خطبات طاہر جلد 13 514 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء درمیان ایک جدو جہد جاری ہے اور اس کا نہ ناموس خدا سے کوئی تعلق ہے نہ ناموس رسول سے کوئی تعلق ہے.یہ اصطلاحیں اب پاکستان اور ہندوستان اور بنگلہ دیش میں گھڑی گئی ہیں ورنہ تاریخ اسلام تو اس سے بہت پہلے سے ہے جبکہ یہ قصے نہ اٹھائے گئے نہ زیر بحث لائے گئے.آج بھی جو مصر میں فسادات ہوتے رہتے ہیں اور حکومت اور ملانوں کے درمیان مستقل جد و جہد جاری ہے وہ کس عصمت انبیاء کے نام پر کس کی خاطر ہے؟ الجیریا میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے اس کا عصمت رسول سے بھلا کیا تعلق ہے؟ ایران میں ملانوں نے جس نام پر قوم پر غلبہ حاصل کیا اس کا عصمت رسول سے کیا تعلق تھا ؟ سوڈان میں جو کچھ ہوتا رہا اور اب ہورہا ہے اس کا عصمت رسول سے کیا تعلق ہے؟ غرضیکہ تمام عالم اسلام پر آپ نظر ڈالیں ایک لمبی جد و جہد ہے جو ملائیت کی مسلمان سیاست کے خلاف ہے اور وہ جب تک سیاست پر قابض نہ ہو جائیں ان کی دل کی بھڑک ٹھنڈی نہیں ہو سکتی.پس یہ محض مختلف بہانوں کے نام رکھے گئے ہیں، کہیں اس کا نام عصمت انبیا ء رکھ دیا گیا ہے، کہیں اس کا نام یہ رکھا گیا ہے کہ یہ ہمارے سیاسی راہنما اسلام کے دشمن اور دنیاوی طاقتوں کے نام پر کھیلنے والے ہیں.کہیں امریکہ کے ایجنٹ بنائے گئے، کہیں یہودیت کے ایجنٹ بنائے گئے، کہیں انگریزوں کے ایجنٹ بنائے گئے.بہانوں کے نام مختلف ہیں لیکن بہانے کی غرض سب جگہ ایک ہی ہے کہ ملاں مذہب کے نام پر سیاسی غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ سیاست دان جو اس بات کو سمجھتے نہیں اور ملاں کے سامنے انچ انچ کر کے یا چپہ چپہ یا بالشت بالشت یا پھر قدموں اور میلوں میں زمینیں چھوڑتے چلے جارہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ بلا جتنی زیادہ زمین پر قابض ہوتی ہے اتنی زیادہ طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے اور پیچھا چھوڑنے کا تو کوئی سوال ہی باقی نہیں.آج ایک بہانہ ٹوٹا تو کل دوسرا بہانہ بنے گا.کل وہ بہانہ توڑا گیا تو تیسرا بہانہ بنے گا.احمدیت کا جھگڑ ابظاہر قوم پکارے گی جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نوے سالہ مسئلہ حل ہو چکا اور اسے حل ہوئے کتنی مدت گزر چکی ہے.74ء میں کہتے ہیں حل ہوا تھا اور آج 94 ء ہے تو بیس سال پہلے جو مسئلہ حل ہو گیا تھا کیا اس مسئلے نے قوم کا پیچھا چھوڑ دیا!؟ اس لئے کہ ملاں وہ بلا ہے جو پیچھا چھوڑ نے والی بلا ہی نہیں ہے.اس حیثیت کو تم سمجھتے نہیں، تم جانتے نہیں، یعنی سیاستدان جانتے نہیں کہ حقیقت میں یہ سیاستدان کی گردن پر پنجے گاڑنے کے لئے بہانے بنائے گئے ہیں اور ان پنجوں میں یہ گردن زیادہ سے زیادہ جکڑی جارہی ہے، یہ شکنجہ تنگ ہو رہا ہے.پس ان کو اس سے

Page 521

خطبات طاہر جلد 13 515 خطبہ جمعہ فرمودہ 15/ جولائی 1994ء بحث نہیں تھی کہ کسی جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ناموس کی حفاظت ہے یا نہیں ہے.یہ الگ مضمون ہے جس کو میں آپ کے سامنے پیش کروں گا کہ سب سے زیادہ ناموس رسول کی محافظ اور علمبر دار تمام دنیا میں جماعت احمدیہ ہے اور میں دلائل سے ثابت کر کے دکھاؤں گا کہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ جماعت تو ناموس نہیں کرتی ہم ناموس کے علمبردار ہیں.ان کے اپنے عقید سے کھلم کھلا ان کو جھٹلا رہے ہیں لیکن یہ بعد کے حصے سے تعلق رکھنے والی بات ہے.پہلی بات تو آپ کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ محض سیاست ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور دین کو ایک بہانہ بنایا گیا ہے اور دین کو اس رنگ میں بہانہ بنایا گیا ہے کہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو دین کی ادنیٰ بھی عقل نہیں ہے، ایک ذرہ بھی شناسائی نہیں ہے.ان کے حساب سے تو بالکل وہی حال ہے جیسے گدھے نے کتابیں اٹھائے رکھی ہوں، جس کو پتا ہی نہ ہو کہ کتابوں میں ہے کیا.پس اور باتیں تو چھوڑیئے یہی ناموس رسول کے حوالے سے میں آپ پر ثابت کروں گا اور باقاعدہ دلائل کے ساتھ ، قرآنی حوالوں سے احادیث اور سنت کے حوالوں سے کہ ان مولویوں کے مسلک میں ایک ادنیٰ بھی حقیقت اور سچائی نہیں.محض جھوٹے بہانے ہیں اور ناموس رسول کو اگر خطرہ ہے تو ان لوگوں سے ہے اور خطرہ ہو چکا ہے ماضی میں تو ان لوگوں سے وہ لاحق ہوا ہے ورنہ اور کوئی خطرہ نہیں.قرآن کی تعلیم کیا ہے؟.اس کی تفصیل پر آپ غور کریں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ قرآن کی باتوں کا ان باتوں سے جو آج پاکستان میں زیر بحث آچکی ہیں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے.لیکن افسوس ہے کہ سیاستدان اپنی ہوشیاریوں اور چالا کیوں کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ مولویوں کو ان کے مذہبی تقاضے منظور کر کے وہ زیرنگیں کر سکتا ہے اور بعض صورتوں میں وقتی طور پر فائدے اٹھانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے.مگر یہ خیال کہ یہ کامیابی دائگی اور مستقل ہے یہ بالکل ہے.جھوٹ ہے.آج چند دن کے لئے ٹھنڈ پڑتی ہے کل وہ ٹھنڈ پھر ایک جہنم میں تبدیل ہو جاتی.اب بھٹو صاحب نے جب جماعت احمدیہ کو با قاعدہ اسمبلی کو ایک خاص طریق پر منتظم کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف غیر مسلم ہونے کا اعلان کروایا تو اس سے پہلے جو اخبارات میں خبریں آ رہی تھی وہ بالکل کھلی کھلی اور واضح تھیں.جو اس کے بعد خبر میں آئیں وہ بھی بڑی کھلی کھلی اور واضح ہیں اور تاریخ پاکستان کا ایک انمٹ حصہ بن چکی ہیں.علماء یہ اعلان کر رہے تھے کہ بھٹو صاحب آپ ہماری

Page 522

خطبات طاہر جلد 13 516 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء بات مان لیں آپ کو ہمیشہ ہمیش کے لئے امیر المومنین بنالیں گے.قوم کے صرف سیاسی راہنما ہی نہیں، مذہبی اور روحانی راہنما اور ایسے مذہبی اور روحانی راہنما جن کے متعلق ہم اعلان کریں گے کہ حضرت الله اقدس محمد مصطفی ﷺ کے وصال کے بعد سے آج تک ایسا عظیم راہنما پیدا نہیں ہوا.اور پھر اس کے معا بعد جب علماء کا وفد پیش ہوا تو کیسی کیسی انہوں نے خوشامدیں کیں.کیسی کیسی تعریفیں کیں اور کہا کہ وہ مسئلہ جسے چوٹی کے علماء اور ہمارے آباؤ واجداد حل نہ کر سکے اسے اے امیر المومنین تیری ایک جنبش قلم نے حل کر دیا.بڑے بڑے زبر دست اداریے لکھے گئے اور ابھی وہ سیاہیاں سوکھی نہیں تھیں کہ بھٹو صاحب کے خلاف ایسی گندی تحریک چلائی گئی.دیواریں ان کو گالیاں دیتے ہوئے کالی کر دی گئیں.اسلام کا بدترین دشمن قرار دیا گیا اور وہ سیاسی تحریک جو بالآ خر اس مارشل لاء پر منتج ہوئی جس میں بد سے بدتر حکومت وجود میں آئی، وہ مارشل لاء انہی مولویوں کی تائید اور پوری طرح کوشش کے نتیجے میں ظاہر ہوا تھا اور سیاسی طاقتیں جو بھٹو صاحب کی مخالف تھیں وہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں.پھر ضیاء کے دور میں بھی یہی ہوا.کیسی کیسی تعریف کے پل باندھے گئے کہ اے قوم کے سردار! ، اے روحانی راہنما! بھٹو کے قدم جہاں رک گئے تھے اس منزل سے آگے تو بڑھا اور کوئی پرواہ نہیں کی کہ دنیا تجھے کیا کہتی ہے نہ تو نے امریکہ کا خوف کھایا نہ پاکستان میں احمدیوں کی جو بھی سیاسی طاقت تھی یا رعب پڑا ہوا تھا اس کی ایک ذرہ بھر بھی پرواہ کی اور اکیلا آگے بڑھا اور وہ کام کر گیا جو کبھی پہلے کوئی نہیں کر سکا تھا.تو بھٹو صاحب سے ایک قدم آگے بڑھا دیا بلکہ کئی قدم آگے بڑھا دیا اور پھر جس طرح ان کا انجام ہوا جس طرح اس انجام سے پہلے ان کے خلاف تحریکات چلیں اور دیواروں پر ان کے متعلق جو لکھا گیا وہ آج بھی اہل پاکستان کو یاد ہو گا.اس (نعوذ باللہ من ذالک ) امیرالمومنین کا نام آخر پہ کیا بتایا گیا.صرف فرق یہ ہے کہ قرآن نے تو گدھا کہا تھا انہوں نے گدھے کے لفظ کو بدل کے کتے میں تبدیل کر دیا لیکن اپنا سر دار انہی کو بنایا جن کو دوسرے دن خود کتا کہا اور کتے کہہ کہہ کر گلے سے اتارا.عجیب قوم ہے اور یہ مولوی ہے یہ سب ملاں کی تحریکات ہیں.اب ایسے مولویوں کے سپرد اگر آپ اپنی گردنیں کر دیں گے اور کر چکے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں تو اس قوم کا کیا انجام ہوگا میں آپ کو وہ انجام دکھانا چاہتا ہوں.وہ وقت گزرچکے ہیں جب آپ اپنے قدم واپس کر سکتے تھے یہ بالکل خیال دل سے مٹادیں کہ احمدیت نعوذ باللہ من ذالک آپ سے مرعوب ہو کر آپ کے خوف میں

Page 523

خطبات طاہر جلد 13 517 خطبہ جمعہ فرمودہ 15/ جولائی 1994ء منتیں کر رہی ہے کہ یہ قدم اٹھاؤ.آپ کو بتا رہی ہے کہ جو قدم بھی اٹھائے جانے چاہئیں وہ آپ نہیں اٹھا سکتے.آپ میں وہ دلیر دل رکھنے والے وہ تقوی شعار اور سچائی پر قائم رہنے والے باشعور لوگ باقی نہیں رہے جو اصولوں کی خاطر بڑی سے بڑی مخالفتوں کے سامنے اپنی چھاتیاں پیش کر دیتے ہیں.اس لئے قوم کے اخلاق کا جب دیوالیہ پٹ چکا ہو، جب عقلیں ان کے سپرد کر دی جائیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے گدھوں پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے، تو پھر ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عقل کی بات کو سنیں گے اور اپنے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا کریں گے یہ خود ایک بے عقلی کی بات ہے.تو پھر کیوں ایسا کیا جاتا ہے.مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ محض اپنے رب کے حضور اپنی معذرت کے طور پر کہ اے اللہ ہم پر کوئی عذر نہیں.ہم کو پیغام پہنچانے کے لئے مقرر فرمایا گیا تھا ہم اس پیغام کا حق ادا کر چکے ہیں اس ابلاغ کا حق ادا کر چکے ہیں آگے اس قوم کا مقدر ہے، یہ بات مانے یا نہ مانے مگر ہم آخر وقت تک آخری سانس تک اس پیغام کو پوری تفصیل کے ساتھ اس قوم کے سامنے کھول کھول کر رکھتے رہے ہیں.یہ معذرت جو قرآن سے ثابت ہے، جو سنت سے ثابت ہے، جو صحابہ کے کردار سے ثابت ہے کہ مرتے مرتے بعض ایسے پیغام شہادت کے وقت آخری سانسوں میں دیئے اور ساتھ یہ کہا کہ ہم بطور معذرت کے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اللہ کے حضور بری الذمہ ہو کے حاضر ہوں کہ ہم نے اپنے پیغام کی ذمہ داری کو ادا کر دیا تھا.پس اس کے سوا اس کی اور کوئی غرض نہیں.ورنہ بارہا پہلے بھی ہو چکا ہے کہ جب کوئی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی تو بھولے احمدیوں نے مجھے لکھنا شروع کیا کہ الحمد للہ کہ صبح آگئی.مجھے یاد ہے کہ ایسے موقع پر میں نے ایک عرب شاعر کا یہ شعر پڑھا تھا.يَا أَيُّهَا اللَّيْلُ الطَّوِيلُ اَلَا أَنْجِلِي بِصُبْحٍ وَمَا الْإِصْبَاحُ مِنْكِ بِأَمْثَلِ کہ اے طویل اندھیری رات خدا کے لئے روشن ہو جا ایک صبح کی صورت میں.لیکن یہ کہنے کے بعد کہتا ہے بصُبْحِ وَمَا الْإِصْبَاحُ مِنْكِ بِأَمْثَلِ لیکن صبح بھی جو آئے گی وہ تجھ سے روشن تر تو نہیں ہو سکتی.وہ تو ایک اندھیری رات کے بعد ایک اندھیری صبح کی باتیں ہو رہی ہیں.تو میں نے تمام جماعت پر خطبے میں یہ بات کھول کر اسی شعر کے حوالے سے بیان کی تھی کہ تم جن کو طلوع فجر سمجھ

Page 524

خطبات طاہر جلد 13 518 خطبہ جمعہ فرمود : 15 جولائی 1994ء رہے ہو وہ ایک اور اندھیری رات کا طلوع ہے.بعض ایسے اوقات آتے ہیں جب راتوں کے بعد راتیں ہی طلوع ہوتی ہیں.پس جس قوم کی بدنصیبی یہ ہو جائے کہ ہر رات کے بعد ایک رات طلوع ہو رہی ہو اس قوم کو یہ تو نہیں سمجھایا جا سکتا کہ تم رک جاؤ اور آنکھیں کھولو اور دیکھو.وہ اندھیرے ان کے اپنے دماغوں کی پیداوار ہیں وہ ان کو گھیرے میں لے لیتے ہیں.مومن کا نور بھی اس کے دل سے پھوٹتا ہے اور اس کے آگے آگے چلتا اور اندھیری راتوں کو مومن کے لئے روشن کر دیتا ہے.پس یہ عجیب را تیں ہیں جن میں کچھ تو ہیں جو اندھیروں میں بھٹکتے اور مزید بھٹکتے چلے جاتے ہیں.کچھ وہ ہیں جن کے دل کا پاک باطنی کا نور ان کے چہروں پر ہویدا ہوتا ہے ان کے آگے آگے روشنی کرتا ہوا چلتا ہے.تو ہر گز یہ توقع نہیں ہے کہ آپ میں سے کوئی ایسا انسان ہے یعنی پاکستان کے سیاستدانوں میں سے جو تقوی شعاری کے ساتھ ، خدا کے نام پر ، صداقت کی خاطر سینہ سپر ہو جائے اور قائد اعظم کے نام کو دوبارہ اس ملک میں زندہ کر سکے.ہم نے اپوزیشن بھی دیکھ لی ہے اور حکومت بھی دیکھ لی ہے.وہ حکومت بھی دیکھ لی جو کبھی اپوزیشن تھی.وہ اپوزیشن بھی دیکھ لی ہے جو کبھی حکومت ہوا کرتی تھی.آئندہ کتنی بار یہ رات اور دن بیٹیں گے اللہ بہتر جانتا ہے.مگر کوئی بھی صداقت کے لئے روشنی کا پیغام نہیں لا سکا.اب جو موجودہ دور میں بات ہوئی ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کیسے کیسے بہادر لوگ ہیں.جو اعلان کیا گیا تھا ایک وزیر کی طرف سے اس کی مرکزی روح یہ تھی کہ اس نام پر ہم ظلم نہیں ہونے دیں گے اور عیسائیوں سے وعدہ ہو رہا تھا احمدیوں کی تو بات ہی کوئی نہیں تھی.عیسائی قوموں کے آگے ہاتھ جوڑے جارہے تھے کہ بالکل پرواہ نہ کرو.مجال ہے جو کسی عیسائی کے خلاف ہتک رسول کا مقدمہ دائر ہو جائے ہم یہ وعدہ کرتے ہیں.ہمیں اور احمدیوں کو ہمارے حال پر چھوڑ دو.مولویوں کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں احمدیوں کو بھی کوئی انصاف کی ضمانت نہ دے دی گئی ہو اس پر جو ہنگامے انہوں نے کھڑے کئے ہیں اس پر جو ساری قوم کا حال ہوا ہے، کس طرح سیاستدان اپنے پاجاموں میں کانچے ہیں اور کیسی کیسی منتیں کی ہیں اور کہا کہ خدا کی پناہ ، انا للہ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے قادیانیوں کے حق میں انصاف کا فیصلہ ! ہماری توبہ، ہماری بلا سے ہم ایسا نہیں کر سکتے اور اعلانات سے سے صفحوں کے صفحے اخباروں کے کالے ہوئے پڑے ہیں اور یہ مولوی ہے جو پیچھا نہیں چھوڑ رہا اور پھر ایک ایسا واقعہ رونما

Page 525

خطبات طاہر جلد 13 519 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء ہوا ہے جو انصاف کی تاریخ میں کل عالم میں کہیں بھی رونما نہیں ہوا.نئی انصاف کی تاریخیں لکھی گئی ہیں کہ سپریم کورٹ کا گھیراؤ ملاں کر رہے ہیں کہ اگر تم نے انصاف کا فیصلہ کر دیا، یعنی یہ الفاظ اس کے اندر شامل ہیں، کہ اگر تم اس نتیجے پہ پہنچے کہ احمدیوں کو قرآن اور شریعت حق دیتے ہیں کہ ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں جو قوم کر رہی ہے وہ نہ کرے تو پھر ہم تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اور تم سے انتقام لیں گے اور اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے یا ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے ظاہر ہے کوئی اعلان نہیں ہوسکتا اگر ہوسکتا تھا تو وہ نہیں ہوا مگر یہ ہو سکتا تھا کہ اگر انصاف کا تصور اس قوم کے نزدیک یہ ہے تو یہ ہمارے استعفے ہیں.یہ تمہاری ردی کی ٹوکری کے لائق ہیں ، جہاں چاہو پھینکوان کو مگر ہم با عزت اور با انصاف لوگ ہیں ہم ایسی قوم کی خدمت کرنے سے معذور ہیں جہاں انصاف کا یہ تصور ہوا اور قوم کی نمائندگی میں برسراقتدار آنے والی پارٹی کا یہ رد عمل ہو کہ عدلیہ گھیراؤ میں آ رہی ہے اور وہ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور منتیں کر رہے ہیں اور پھر نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ اعلان تو نہیں کر سکتے ایسی توفیق ان میں بھی کسی کو نہیں ہوئی.لیکن ان کے ہوم منسٹر صاحب نے جو وزیر داخلہ ہیں انہوں نے اعلان کیا اور عجیب اعلان ہے کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر سپریم کورٹ سے کوئی انصاف کا فیصلہ ہو گیا یعنی انصاف کے فیصلے سے مراد یہ ہے کہ یہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ احمدی برحق ہیں، ان کا کوئی جرم نہیں ہے اور ان کے خلاف مقدمات جھوٹے ہیں اگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کر دیا تو میں استعفیٰ دے دوں گا.اب اس میں پیغام کیا مضمر ہے ساری دنیا دیکھ رہی ہے سن رہی ہے وہ اندازہ لگا سکتی ہے اس استعفے سے ملاں کی تسلی کیسے ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ کوئی مخفی ضمانت اس میں پوشیدہ ہو، سوائے اس کے کہ کوئی ان کہی باتیں ہوں اس کے اندرور نہ اس کے نتیجے میں ملاں کا گھیراؤ اٹھانا بالکل بے معنی بات ہے.تو جس قوم کے انصاف کا یہ عالم ہو اور اس طرح اس کا پول ساری دنیا میں کھل جائے اس سے مجھے یہ توقع کہ عقل کی باتیں سن کر اپنے رویہ کو تبدیل کرلیں گے، یہ محال بات ہے ،سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.میں تو حق گوئی سے کام لیتا ہوں انصاف کی توقع ہو یا نہ ہو، فائدہ اٹھانے کی توقع ہو یا نہ ہو آج کل عالم میں اسلام کے تصور انصاف کو پیش کرنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.پس گلف کرائسز ہو یا کوئی اور ایسا موقع ہو ، یہ جانتے ہوئے کہ ہماری آواز صدا بصحر اثابت ہوگی جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے مَعْذِرَةً إِلى اللهِ.اللہ کے حضور معذرت پیش کرتے ہوئے ہم اپنی

Page 526

خطبات طاہر جلد 13 520 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء طرف سے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں اور اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوتے ہیں.پس یہ وہ مضمون ہے جس کا اگلا حصہ دینی پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے.سیاست کے متعلق میں ضمنا صرف اتنا کہوں گا کہ بار بار بعض دفعہ خدا تعالیٰ آزمائش کرتا ہے اور ایک نہیں دو بار موقع دیتا ہے اور اگر بار بار ناشکری کی جائے اور ان موقعوں سے فائدہ اٹھا کر اصلاح نہ کی جائے.قوم کی سرداری سپرد کی جائے اور اس کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا جائے تو پھر خدا تعالیٰ کی عذاب کی تقدیر بھی نازل ہو جایا کرتی ہے.وہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک مہلت ہے اور کب تک نہیں ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ مہلت کے دن اب تھوڑے رہ گئے ہیں.اس لئے میں چاہتا تو یہ تھا کہ ایک ہی خطبے میں آج جلدی میں وہ ساری باتیں کہہ دوں مگر جب میں نے مضمون کو دیکھا اور اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تو اتنا وسیع تھا کہ شاید دو خطبوں میں بھی پورا نہ ہو سکے شاید تین خطبوں تک یہ مضمون چل جائے.میری دعا ہے کہ اللہ مہلت کو اتنا لمبا تو ضرور کرے کہ کوئی عقل والے جو ہیں وہ بچ جائیں.عوام الناس میں جو شریف طبقہ ہے ان تک آواز پہنچے وہی سمجھ جائیں.اور ایسا بہت سا شریف طبقہ عوام الناس میں موجود ہے جو لاعلمی کے نتیجے میں غلط کاری میں ملوث ہے.تو جتنے آدمی بچ سکیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی رحمت ہے.حضرت نوح کو کون نا کام کہہ سکتا ہے جن کے آنے پر چند کے سوا ساری قوم کی صف لپیٹ دی گئی تھی.کون بد بخت ہے جو یہ کہے گا کہ نوح ناکام رہا.نوح ناکام نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے قرآن نے ان پر سلامتی بھیجی ان چند آدمیوں کا بچانا بھی نوح کی فتح تھی اور ان سب کا فرق ہو جانا بھی نوح کی فتح تھی.پس سچائی اس بات سے مستغنی ہو جایا کرتی ہے کہ خدا کی تقدیر کس طرح ظاہر ہوتی ہے.خدا کی تقدیر سے کوئی مستغنی نہیں ہوسکتا مگر ان معنوں میں مستغنی ہو جاتی ہے کہ خدا کی تقدیر پر بچے لوگوں کا کوئی اختیار نہیں ہوا کرتا.وہ ہر تقدیر پر راضی رہنے کے لئے تیار رہتے ہیں.پس ہماری کوشش تو یہی ہے سمجھانے کے نتیجے میں، دعاؤں کے نتیجے میں.جہاں تک کوئی قوم سنبھل سکتی ہے سنبھل جائے لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر جو خدا کی تقدیر ہے ہم اس پر راضی ہیں اسے تبدیل کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہے وَإِذَا اَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَال (الرعد :(12) کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم کو اسی کی بدیوں کی سزا

Page 527

خطبات طاہر جلد 13 521 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 / جولائی 1994ء دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے فَلَا مَرَدَّ لَہ کوئی نہیں ہے جو اسے ٹال سکے.کوئی نہیں ہے جو اس کے سزا کے فیصلے کے درمیان حائل ہو سکے وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّال اور اور بھی مددگار اس قوم کو خدا کی پکڑ سے پھر بچ نہیں سکتے.کہیں دنیا میں کوئی ان کامددگار باقی نہیں رہتا.تو بظاہر تو ایسے وقت کے قریب قوم کو پہنچایا جا رہا ہے لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہماری گزشتہ گریہ وزاری کے نتیجے میں قوم کو اصلاح کا موقع اور دیتا ہے یا خدا کے نزدیک وہ حالت جا پہنچی ہے جس کے متعلق حضرت نوح کو بتایا گیا تھا کہ اب ان میں جو بھی ہے وہ غلط کا رلوگ پیدا کرنے والا ہے.اب اس قوم کو بدیوں کے گھیرے سے بچایا نہیں جاسکتا.تو جو بھی خدا کی تقدیر ہوگی حکمت پر مبنی ہو گی مگر جہاں تک سمجھانے کی باتیں ہیں وہ تو میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے وہ ہمارا فرض ہے اور میں سمجھا تا رہوں گا.توہین رسالت کی بحث میں اب میں براہ راست مذہبی پہلو سے داخل ہوتا ہوں.سوال یہ ہے کہ صرف تو ہین رسالت کا سوال ہے یا تو ہین خداوندی کا بھی کوئی سوال ہے.یا ملائک کی توہین کا بھی سوال ہے یا کتب کی بھی توہین کا سوال ہے.توہین رسالت سے صرف حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی توہین کی مذموم کوشش ہے یا دیگر انبیاء کی توہین کا بھی کوئی سوال ہے.یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ انبیاء جو کسی قوم کے نزدیک سچے ہیں انہی کی تو ہین کا مسئلہ ہے یا ان کی تو ہین کا بھی مسئلہ ہے جن کو لوگ جھوٹا سمجھتے ہیں.ان کے متعلق قرآن کیا اجازت دیتا ہے؟ اگر قرآن یہ کہے کہ جن نبیوں کو تم سچا سمجھتے ہو ان کی عزت کی خاطر کھڑے ہو جاؤ اور ان کی تو ہین کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قوانین بناؤ اور جن کو تم جھوٹا سمجھتے ہو ان کی تذلیل کی کھلی اجازت دو تو پھر ساری دنیا میں مذہب کے نام پر فساد پھیل جائے گا کیونکہ تمام دنیا میں بکثرت ایسے ہیں جو اکثر نبیوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں.یہ علماء کی جہالت کی حد ہے کہ اس بات کو سمجھتے نہیں کہ اسلام کے سوا کوئی بھی ایسا مذ ہب نہیں جس نے تمام دنیا کے انبیاء کی عصمت کی حفاظت کی ہو اور انہیں سچا قرار دیا ہو.اگر ہے تو کوئی نکال کے دکھائے اور ایسی جاہل قوم ہے کہ پاکستان کے علماء نے اخباروں میں جو بیان دیئے ہیں ان کی شہ سرخیاں لگی ہیں کہ صرف ایک اسلام ہے جس نے عصمت رسالت کا تصور پیش کیا ہے اور کسی قوم کسی مذہب میں یہ تصور نہیں ہے یعنی آنحضرت ﷺ کی رسالت کی بات کرتے ہیں اور باقی انبیاء کی نہیں.حالانکہ صرف ایک اسلام ہے جس نے تمام دنیا کے مذاہب کے نبیوں کی

Page 528

خطبات طاہر جلد 13 522 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء ہے.عصمت کا اعلان کیا ہے اور ان کی توہین کو کراہت کی نظر سے اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا.باقی سب مذاہب دوسرے تمام مذاہب کے انبیاء کو جھوٹا سمجھتے ہیں.اس لئے اگر علماء کی یہ مراد ہے کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ جن کو تم سچا سمجھو ان کی تو ہین کے خلاف قانون سازی کرو جن کو تم جھوٹا سمجھو ان کے متعلق کھلی چھٹی دو کہ جو چاہے جتنی چاہے سر بازار گالیاں دیتا پھرے تو پھر ساری دنیا میں مسلمانوں کے لئے تو موقع نہیں ہوگا لیکن تمام مذاہب کو کھلی چھٹی ہوگی کہ اسلام کے خلاف جتنی چاہیں گندی زبان استعمال کریں اور نعوذ باللہ من ذلک آنحضرت ﷺ کے خلاف جتنی چاہیں گندی زبان استعمال کریں اور اس پر ان کے خلاف تمہیں کوئی عذر نہیں ہوگا.کیونکہ قرآن کریم نے یہ مسئلہ اللہ کے حوالے سے اٹھایا ہے اور اصل بات اللہ کے حوالے سے ہی شروع ہونی چاہئے.یہ عجیب بات ہے کہ مولوی توہین رسالت کی باتیں کرتے ہیں تو ہین خداوندی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.اس لئے بات وہاں سے شروع ہوگی جہاں سے قرآن شروع کرتا ہے، جہاں سے عقل کا تقاضا ہے کہ بات شروع کرو.انبیاء کوئی عزتیں گھر سے تو نہیں لے کے آئے ، انبیاء کوتو تمام تر عزت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہوئی ہے.اگر اللہ ہی کی عزت باقی نہ رہے تو انبیاء کی عزت کو کسی نے کیا کرنا ہے.اس لئے بات اللہ کے حوالے سے شروع ہوگی.پہلا سوال یہ اٹھتا ہے اور قوم کو چونکہ علم نہیں کہ مذہب کیا ہے یا قرآن کیا کہتا ہے.اس لئے میں ان کو یہ حوالہ دے کر سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کو کم سے کم مولویوں سے یہ پوچھنا تو چاہئے کہ اللہ کی عصمت کا بھی قرآن کریم میں کہیں ذکر ہے کہ نہیں ؟ کہیں اللہ کی توہین کا مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ نہیں؟ اگر ہوا ہے تو دکھاؤ کہاں ہوا ہے! اور پھر وہاں وہ جگہ بھی بتاؤ جہاں اس کے خلاف کسی سزا کا اعلان کیا گیا ہو.یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جا تا؟ اسمبلی کے کسی ممبر نے کسی ملاں سے مڑ کے یہ سوال نہیں کیا لیکن ملاں نے تو آپ کو جواب نہیں دینا.میں آپ کو بتا تا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا الله عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ کتنا عظیم جواب ہے اس سوال کا ! اس سوال کا بھی حل آ گیا جو میں نے فرضی طور پر اٹھایا تھا کہ کسی کو سچا سمجھو تو عزت کردیا جھوٹا سمجھنے کے باوجود بھی تمہارا فرض ہے کہ عزت کرو اور قوم کا دل نہ دکھاؤ.قرآن کریم اللہ کے حوالے سے یہ مسئلہ اٹھا رہا ہے.فرماتا ہے

Page 529

خطبات طاہر جلد 13 523 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو.مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ تمہیں ہم اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ ان جھوٹے خداؤں کو گالیاں دو جن کو وہ خدا کے سوا معبود بنائے بیٹھے ہیں یہ اللہ کی تعلیم ہے.اس کے مقابل پر ملاں کی بد بخت تعلیم کے منہ پر تھوکنے کو بھی دل نہیں چاہتا.کتنی عظیم تعلیم ہے، مسلمانوں کو روکا جارہا ہے کہ تمہارا فرض ہے کہ جس کو کوئی خدا سمجھتا ہے اس سے بحث نہیں ہے کہ وہ سچا ہے کہ جھوٹا ہے، ہم جانتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہے، ہم تمہیں اجازت نہیں دیتے کہ ان جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں دو.نتیجہ پھر کیا نکلے گا فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ پھر ان کو حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ اللہ کو گالیاں دیں اور علم نہ ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں.پس روکا ہے تو مسلمانوں کو روکا ہے.غیروں کو نہ روکا ہے نہ ان کے لئے کوئی سزا مقرر فرمائی ہے بلکہ یہ کہا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو غیروں کو حق حاصل ہو جائے گا.ایک عقلی انسانی سطح پر حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ بھی جوابی کارروائی کریں تم جھوٹے خدا کو گالیاں دے کر اپنے منہ گندے کرو گے اور اس سے ان خداؤں کو کچھ پہنچے گا بھی نہیں.وہ ہیں ہی نہیں.جو فضا میں چیز ہی نہیں اس پر فائر کرنے سے وہ مرے گی کہاں سے.لیکن تم اپنے خدا پر وہ فائر کروالو گے.اسے ان کی بدبختیوں کے تیروں کا نشانہ بنا دو گے.پس کتنی پاکیزہ کتنی گہری، کتنی عقل پر مبنی تعلیم ہے.نہ قوم کو پتا، نہ مولویوں سے اس قسم کے سوال کئے جاتے ہیں بلکہ ڈر کے مارے جان نکلی جاتی ہے.اوہو! ہو! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کی اور رسولوں کی عزت کا معاملہ ہو اور ہم کوئی اور کا رروائی کر بیٹھیں.پتا ہی نہیں عزت ہوتی کیا ہے.پتانہیں قرآن کیا کہہ رہا ہے.اللہ کے حوالے سے بات شروع ہونی چاہئے قرآن نے اللہ ہی کے حوالے سے بات شروع کی ہے اور یہ تعلیم دی ہے اب یہ سوال ہے کہ ہیں تو وہ جھوٹے ، ہم تو جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں، تو پھر خدا یہ کیوں کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کہنا.وجہ بیان فرمائی كَذَلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ کہ تم لوگ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ نفسیاتی لحاظ سے ہر شخص اپنے اعمال کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے.وہ لوگ جو جھوٹے خداؤں کی عبادت کرتے ہیں ان کے دل میں واقعی ان خداؤں کی محبت ہوتی ہے اور ہر شخص اپنے عمل اور اپنے عقیدے کو خوب صورت بنا کے دیکھ رہا ہوتا ہے پس اگر وہ لوگ جو ان کو بد نظر سے دیکھتے ہیں یا حقیقت میں مکر وہ سمجھتے ہیں وہ ان پر کھلے حملے کرنے شروع کریں تو مذہب کی دنیا میں ایک عام خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس کا کوئی

Page 530

خطبات طاہر جلد 13 524 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1994ء نیک انجام نہیں ہو سکتا.تو پھر حل کیا ہے؟ فرمایا تم إلى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ گھبراہٹ کیا ہے، جلدی کیا ہے.تم سب نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے.ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ ان سب کا بالآخر انجام یہ ہے کہ خدا کے حضور لوٹائے جائیں گے فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ وہ ان کو بتائے گا کہ ان کے اعمال کیسے تھے، حسین تھے یا بد تھے.پس اگر خدا نہیں ہے تو پھر مولویوں کی جلدی اور گھبراہٹ قابلِ فہم ہے.پھر اس دنیا میں اگر ان کی سزا سے کوئی بچ کے نکل گیا تو پھر کسی کے ہاتھ بھی نہیں آئے گا.اس لئے ان کی گھبراہٹ واقعہ قابل فہم ہے جب خدا ہے ہی کوئی نہیں تو جو سزا دینی ہے اس دنیا میں دے لومرنے کے بعد پھر کیا ہونا ہے.لیکن اگر خدا ہے اور خدا ہے اور خدا ہی کے نام پر سارے قصے ہیں تو پھر انسان کو کسی گھبراہٹ اور تکلیف کی ضرورت نہیں ہے.ہر ایسے بد بخت کو خدا خود سزا دے گا جو اللہ تعالیٰ کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا.اور اس ساری آیت میں کہیں اشارہ یا کنایہ بھی بندوں کو اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اللہ کی ناموس کے نام پر ایک دوسرے پر تلوار چلانا شروع کر دیں.اب چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے اور ریڈیو والے شکایت کرتے ہیں کہ آپ اگر وقت پر خطبہ ختم نہ کریں تو ٹیلی ویژن کا وقت تو لمبا ہے ریڈیو کا صرف ایک گھنٹے کا ہے اور عین اس وقت جبکہ بات آخر پر پہنچی ہوتی ہے ہم محروم رہ جاتے ہیں.تو اس لئے میں نے سوچا تھا کہ عین وقت پر آج ختم کروں گا.چونکہ مضمون بہت لمبا ہے ہو سکتا ہے آئندہ ایک دو یا شائد تین خطبوں تک بھی مضمون چل جائے.لیکن ایک دفعہ میں مضمون کے ہر پہلو کو اس طرح خوب کھول کر، نتھار کر قوم کے سامنے پیش کر دینا چاہتا ہوں اس کے بعد پھر ان کا خدا کے ساتھ معاملہ ہوگا اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بری الذمہ ٹھہریں گے.انشاء اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.

Page 531

خطبات طاہر جلد 13 525 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء شرک فی التوحید اور شرک فی الرسالت کی وضاحت توہین رسالت کا قانون احمدیوں پر تبر چلانے کیلئے ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آج بھی دنیا میں مختلف مقامات پر جماعت احمدیہ کے یا ذیلی تنظیموں کے اجلاسات ہو رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے ان اجلاسات کا اعلان کر دیا جائے تا کہ احباب ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں.ضلع میر پور خاص سے اطلاع ملی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کا جو سالانہ اجتماع ہے آج 22 / جولائی سے شروع ہو رہا ہے اور دو دن تک انشاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا.خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ کی تین مجالس کا سالانہ اجتماع بھی آج مجلس انصار اللہ بنگلور (بھارت) کا دوسرا سالانہ صوبائی اجتماع 24 جولائی بروز اتوار منعقد ہو رہا ہے اور کل 23 / جولائی کو لجنہ اماءاللہ ڈھاکہ کا ایک سیمینار اور خدام الاحمدیہ سکار برا کینیڈا کا سالانہ اجتماع منعقد ہوگا.منعقد ہو رہا ہے.گزشتہ خطبے میں میں نے ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں گستاخی رسول کے نام پر کچھ ہنگامے ہوئے ، کچھ شور پڑا ، کچھ حکومت کو یوں محسوس ہوا جیسے زلزلہ طاری ہو گیا ہو.کچھ معافیاں مانگی گئیں، کچھ بیانات سے لوگ منحرف ہوئے.ایک عجیب و غریب سا ہنگامہ ہوا تھا اس کے متعلق میں ذکر کر رہا تھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے اور یہ خیال تھا کہ میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں اس کی مذہبی

Page 532

خطبات طاہر جلد 13 526 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء حیثیت پر کھل کے روشنی ڈالوں گا کیونکہ مضمون لمبا ہے اس لئے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہو سکتا ہے آئندہ دو تین خطبات تک یہ سلسلہ چلے.آج ابھی تمہید ہی ختم نہیں ہوئی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ شاید ہی مذہبی حصے کی باری آئے کیونکہ اس کے علاوہ بھی ایک دو اعلانات کرنے ہیں مثلاً جلسہ جو قریب آ رہا ہے اس کے متعلق چند ہدایات ایسی تھیں جو ذکر سے رہ گئی تھیں ان کا ذکر بھی ہوگا.روانڈا کے متعلق ایک تحریک کرنی ہے پس ان تمام امور سے شاید اتنا وقت نہ بچے کہ مذہبی حصے کا کم سے کم ایک پہلو ہی پوری طرح بیان کیا جا سکے.پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے در حقیقت سیاست کی قلابازیاں ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.علماء نے بھی سیاستدانوں کی دکھتی رگ پکڑی ہوئی ہے اور علماء کی دکھتی رگیں بھی سیاست کے ہاتھوں میں ہیں اس لئے جیسے کوئی مداری کسی کھلونے کے بٹن دباتا ہے اور کرتب کرتا یا کراتا ہے ویسے ہی کرتب وہاں دکھائے جارہے ہیں جو اتنا بڑا ہنگامہ بیان کیا گیا کہ علماء نے سپریم کورٹ کا گھیراؤ کر لیا اس کی جو تصویر میں وہاں سے پہنچی ہیں وہ میں آپ کو دکھاؤں کتنا بڑا علماء کا سپریم کورٹ کا گھیراؤ تھا.پندرہ ہیں کل ہیں جن میں سے دو چار داڑھی والے مولوی ہیں باقی ان کے شاگرد اور لگی لپٹی باتیں کرنے والے اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے اور جو آنکھوں دیکھا حال لوگوں نے بیان کیا ہے اسے سن کے ہنسی آتی ہے کہ چند مولوی گھیراؤ کے نام پر سپریم کورٹ کے سامنے جا کر بیٹھ گئے اور پاکستان کا مرکزی حکومت کا وزیر خود ان کے احترام میں ان سے درخواست کرنے آیا کہ آپ سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہرگز کچھ نہیں ہوگا، آپ چلیں ہمارے ساتھ.چنانچہ تھوڑے سے نخروں کے بعد وہ ان کے ساتھ روانہ ہو گئے.سوال یہ ہے کہ ان کا مطالبہ کیا تھا؟ ان کا مطالبہ سپریم کورٹ سے تھا اور سپریم کورٹ پر دباؤ تھا کہ اگر تم نے ہماری مرضی کے فیصلے نہ کئے تو ہم یہ گھیراؤ بند نہیں کریں گے.ایک وزیر یا ساری کیبنٹ کا کیا حق تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ان سے کوئی وعدہ کرتی.اس لئے اندر کی کہانی کھلم کھلا باہر آ گئی ہے.جیسے کہتے ہیں نا انگریزی میں بلی تھیلے سے باہر آ گئی تو پاکستان کی بلیاں ساری کی ساری تھیلے سے باہر دکھائی دیتی ہیں.عجیب و غریب واقعہ ہے چند علماء کا اکٹھے ہونا اور پھر اتنی بڑی اخباروں میں بیان بازی کہ گویا بہت ہی عظیم الشان ایک واقعہ ہو گیا ہے اور ناموس رسول کی خاطر علماء

Page 533

خطبات طاہر جلد 13 527 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء کٹ مریں گے اور ملک برداشت نہیں کرے گا کہ اس کے خلاف کوئی بات ہو اور پھر حکومت کا سر جھکانا کہ ہم کون ہوتے ہیں ناموس رسول کے خلاف کوئی بات کرنے والے.سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کوئی ایسا نہیں پیدا ہوا یہاں جو ناموس رسول کے خلاف بات کرے.اس لئے آپ سپریم کورٹ کا گھیراؤ چھوڑ دیں اور سپریم کورٹ کے متعلق جو آپ کا دباؤ ہے وہ فکر نہ کریں ہم ذمہ دار ہیں.اگر سپریم کورٹ نے ایسا ویسا فیصلہ دیا تو ہم استعفیٰ دے دیں گے.یہ کیا تماشہ ہے، کیا کھیل ہے؟ اس کا دوسرا نام نوراکشتی بھی ہے اور پاکستان میں نو را کشتی بہت ہوتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ نورا کشتی کے دنگل میں تبھی لوگ دلچسپی لیتے ہیں اگر احمدیوں کو بیچ میں بٹھایا جائے اور ان کے گرد پھر نوراکشتی کے کھیل ہوں، باقی معاملات میں نو را کشتی نہیں ہوتی.پرانے زمانے کی بات ہے احمدیوں کے معاملے میں اتنے ہنگامے ہوئے 74 ء کے بعد تقریریں ہوئیں.ٹیلی ویژن پر پرائم منسٹر صاحب نے اعلان کئے کہ میں کوئی گولی اپنے عوام کے اوپر نہیں چلنے دوں گا جو مرضی کر لو.لیکن بلوچستان میں ہزار ہا بلوچیوں کو فوج کشی کے ذریعے بھون ڈالا گیا اور وہاں نو را کشتی نہیں ہوئی.یہ فرق ہے ایک وہ سمجھانا چاہتا ہوں.جہاں حکومت کو یہ اطمینان ہو کہ احمدیوں کا گوشت ان لوگوں کے سامنے پھینک دیا جائے تو حکومت کا ادنی سا بھی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ان کی وفاداریاں خریدی جاسکتی ہیں اور ان سے پھر اور بہت سے کام لئے جا سکتے ہیں وہاں حکومت ایک ذرہ بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتی کہ معصوم احمدیوں کو ان مولویوں کے آگے ڈالا جائے اور کیسے کیسے ان پر مظالم کروائے جائیں.ایک ادنی سی بھی پرواہ حکومت کو نہ انصاف کی ، نہ حسن سلوک کی ، نہ شہریت کے حقوق کی کچھ بھی باقی نہیں رہتی اور جہاں معاملہ حکومت کا اپنا آ جائے حکومت کو خطرہ ہو کسی تحریک سے وہاں ہر قسم کی فوج کشی بھی شروع ہو جاتی ہے اور پولیس ایکشن کا بھی کوئی کنارہ باقی نہیں رہتا.یہاں تک کہ بھٹو صاحب کے مزار کے گرد بھی گولیاں چل جاتی ہیں.آخر وہاں کیوں عوام الناس کا خون قیمتی نہیں ہے.وہاں ان چھاتیوں پر کیوں گولیاں برسائی جاتی ہیں؟ یہ مسئلہ ہے جو آپ لوگوں کو خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے تا کہ آئندہ جب کوئی اس قسم کی نو را کشتیاں ہوں تو معصوم احمدی بھولے پن میں مجھے یہ نہ لکھنا شروع کر دیں کہ انقلاب آ گیا.وہ انقلاب جو آئے گا وہ اوپر آئے گا وہ آسمان پر آئے گا اور آسمان سے اترے گا پھر کسی کی مجال نہیں کہ اس انقلاب کی راہ روک

Page 534

خطبات طاہر جلد 13 528 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء سکے.اس لئے کھیل تماشوں کو انقلاب نہ سمجھا کریں.واقعہ یہ ہے کہ سیاستدان بہت مشکلات میں ہیں اور ایک ان پر یہ تاثر ہے کہ احمدیوں کے معاملے میں اگر ہم نے کوئی بھی سختی کی تو اس بہانے فوج واپس آ جائے گی اور سیاست کی صف لپیٹی جائے گی.یہ ایک پرانا نظریہ چلا آ رہا ہے.پیپلز پارٹی کے آغاز کے وقت کی بات ہے پیپلز پارٹی ہی میں یہ ایجاد ہوا تھا کہ جب بھی احمدیوں کے خلاف تحریک کو کچلا گیا تو مارشل لاء لگ گیا.اس لئے مارشل لاء سے ملک کو بچانے یا اپنی جانیں چھڑانے کے لئے ضروری ہے کہ احمدیوں کو جن کے سامنے ڈالنا ہے وہ چیریں پھاڑ میں جو مرضی کریں کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن مارشل لاء کا خطرہ مول نہیں لینا.اس کے برعکس جب سیاسی تحریکیں زور پکڑتی ہیں تو وہاں کیوں گولی چلتی ہے وہاں کیوں گلیوں میں خون بہائے جاتے ہیں.وہاں کیوں وسیع پیمانے پر قید میں ہوتی ہیں.کیا ان دونوں باتوں میں تضاد ہے؟ یہ مسئلہ ہے جو میں کھولنا چاہتا ہوں.درحقیقت کوئی تضاد نہیں.اس صورت میں دو ہی ان کو احتمالات دکھائی دیتے ہیں یا تو اس تحریک کے نتیجے میں ہم ذلیل و خوار ہو کر اتریں گے اور ان رقیبوں سے جو تیاں کھائیں گے یا مارشل لاء آئے گا نہ ہم رہیں گے نہ یہ رہیں گے.اس وقت مارشل لاء ایک بہت قیمتی چیز اور Wellcome چیز دکھائی دیتی ہے.اس وقت ان سیاستدانوں کی نظریں حقیقت میں مارشل لاء پر لگی ہوتی ہیں.یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ رقیب روسیاہ حکومت میں آ جائے.وہ کہتے ہیں ان کو تو بہر حال اتارو ما رو کوٹو جس طرح بھی چاہو جیلوں میں ٹھونسو، ان کی چھاتیاں بھون دو گولیوں سے، لیکن آنے نہ دو یا تو یہ مر کے ختم ہو جائیں گے اور ہم حکومت کریں گے یا اگر آیا تو مارشل لاء ہی آئے گا نا، ان کا بھی حق حکومت سے جاتا رہے گا ہمارا بھی جاتا رہے گا.پس جو اس سے پہلے مارشل لاء تھا جو ضیاء کا مارشل لاء لگا ہے اس میں احمدیوں کے معاملے کا کوئی بھی دخل نہیں تھا.کوئی دور کی بھی بات احمدیت کی نہیں تھی.اس لئے مارشل لاء سے تو ان کو نجات ممکن نہیں ہے.جب لگنا ہے جیسا بھی لگتا ہے وہ تو ان کا مقدر بن چکا ہے.جہاں سیاست میں اخلاق باقی نہ رہیں جب سیاست میں اصول نہ چلیں.جہاں ہر چیز ، ہر حربہ، ہر پارٹی کے لئے جائز ہے خواہ وہ حکومت میں ہو یا حکومت سے باہر ہو.جہاں ملک میں عوام الناس کے احساسات نہ حکومت پارٹی کو ہوں نہ اپوزیشن پارٹی کو ہوں ، صرف حکومت کی بھوک ہو اور اس کی طلب سب کچھ کروا ڈالے.جہاں یہ دستور سیاست ہو وہاں سیاست نہیں چلا کرتی.آج نہیں تو کل ضرور نا کام ہو

Page 535

خطبات طاہر جلد 13 529 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء جاتی ہے.احمدیت کے معاملے کو ایک طرف کر کے دیکھ لیجئے پہلے بھی تو کر چکے ہیں.پھر کب آپ کو مارشل لاء سے نجات ملی تھی.تاریخ پاکستان کا بدترین مارشل لا ء وہ تھا جو احمد بیت کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ آپ کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے آیا ہے.ان تحریکات کے نتیجے میں آیا جو بھٹو صاحب کے خلاف مہم چل رہی تھی اور اگر اب حکومت سمجھتی ہے کہ بھٹو صاحب کی پارٹی کے خلاف اب جوتحریکات چل رہی ہیں ان میں احمدی گوشت پھینک کر ہم ان خونخواروں سے نجات حاصل کر لیں گے تو جھوٹ ہے، وہم ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو تاریخ پاکستان کا علم ہی کوئی نہیں.کوئی اس سے سبق حاصل نہیں کیا.مارشل لاء نا انصافی سے لگتا ہے.مارشل لاء بے حیائی کے نتیجے میں لگتا ہے.اس وقت لگتا ہے جب فوج پہلے ہی تیار ہوتی ہے اور فوج میں بھی بہت آنکھیں ہیں جو حرص کے ساتھ حکومت کو دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ جہاں ایسا بہانہ مل جائے کہ عوام یقین کر لیں کہ اب چارہ کوئی نہیں تھا اس کے سوا وہاں ضرور دخل دیا جائے اور جب یہ بہانہ ہاتھ آ گیا جب عوام الناس میں یہ بات عام ہوگئی کہ دیکھو سیاست پھر نا کام ہوگئی ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مارشل لاء سے ملک کو بچانہیں سکے گی.مارشل لاء سے پہلے کے بیان بھی تو کبھی پڑھ کے دیکھیں.تمام فوجی افسر یہی بیان دیتے ہیں ہمیں تو کوئی دلچسپی نہیں.دو دن پہلے تک یہی بیان آ رہے ہوتے ہیں اس لئے بیانات کی کیا بات ہے.اپنے حالات درست کرو، اپنے کردار درست کرو، اصولوں پر قائم ہو تو ملک بھی بچے گا اور آپ بھی بچیں گے.اگر یہی ہلڑ بازی رہی جیسی کہ چل رہی ہے اور پھر نا انصافی کی حد کہ جماعت احمدیہ کو ہر دفعہ اپنے مفادات کی خاطر قربان کرنے کے لئے ظالموں کے رحم وکرم پر پھینک دیا جائے جہاں رحم و کرم نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے.اور جہاں مذہب سے تمسخر کیا جائے ، مذہبی اقدار سے کھیلا جائے وہاں کب تک آخر آپ مارشل لاء سے بچیں گے.وہی محاورہ صادق آتا ہے کہ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی ،کبھی تو چھری کے نیچے آئے گی.تو بکرے کی مائیں بنے بیٹھے ہو اور کہتے ہو کہ مارشل لاء سے گریز کرو، مارشل لاء سے بچنے کی کوشش کرو، یہ تو ممکن نہیں ہے.اپنی ادائیں بدل تو پھر ضرور ہے اور ہونا یہی چاہئے اور میں تو سب سے زیادہ مارشل لاء کے خلاف اپنے خطبات میں ذکر کر چکا ہوں اور فوج کو اچھی طرح سمجھا چکا ہوں کہ دیکھو کہ یہ کوئی طریق نہیں ہے.ملک کی سیاست کو درست کرنے میں اثر انداز ہو.جب بے اصولیاں ہوتی ہیں تم چپ

Page 536

خطبات طاہر جلد 13 530 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء کر کے ایک طرف بیٹھے رہتے ہو اور کہتے ہو جی سیاست آزاد ہے.اور جب جانتے ہو کہ وہ بے اصولیاں حد برداشت سے باہر چلی جائیں گی اور تمام حدود پھلانگ دیں گی پھر تمہیں موقع ملے گا اور تم پوری طرح آ کر ساری سیاست کی صف لپیٹ دو گے.یہ وفا داری نہیں ہے.یہ انصاف نہیں ہے.فوج کا کام ہے اپنا دباؤ اس وقت ڈالے جبکہ بے حیائیاں ہو رہی ہوں جیسا کہ اب ہو رہی ہیں.جو پاکستان میں نو را کشتی کھیلی جارہی ہے اس کا حقیقت میں مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.میں مثال کے طور پر آپ کے سامنے صورتحال رکھتا ہوں.علماء کے بیانات پہلے سن لیجئے یہ جو دس پندرہ علماء ہیں جنہوں نے گھیراؤ کیا ہوا تھا سپریم کورٹ کا.ہاں یہاں بھی ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا گھیراؤ ہوتو کوئی با اصول حکومت کیا کرتی ہے.اگر سپریم کورٹ کا گھیراؤ ہواوراس گھیراؤ کے سامنے کوئی حکومت سرتسلیم خم کر دے تو اس کا مطلب ہے کہ آخری سہارا ملک کے بچاؤ کا بھی ہاتھ سے جاتا رہا کیونکہ سپریم کورٹ انصاف کی آخری ذمہ دار اور علمبردار ہے.اگر اس پر چھوکرے دباؤ ڈال دیں یا داڑھی والے بچے دباؤ ڈال دیں اور حکومت برداشت کر جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی کوئی عزت، اس کے پاس انصاف کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہی.اور پھر سپریم کورٹ کے جز کو دیکھیں کہ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں.کسی عزت والے، غیرت والے ملک میں ایسے واقعات نہیں ہوا کرتے.انگلستان ہو یا امریکہ ہو یا یورپ کا کوئی آزاد ملک ہو یا مشرق بعید کے آزاد اور عزت دار ملک جو ہیں وہاں یہ ناممکن ہے کہ ایسا واقعہ ہو، اگر دباؤ ڈالا جائے عدالت پر اور حکومت دخل اندازی نہ کرے اور دباؤ ڈالنے والوں کو سخت سزائیں نہ دے تو تمام حج ایسی صورت میں اپنی عدالتوں سے استعفیٰ دے کر باہر چلے جائیں گے اور خطرناک قسم کا عدلیہ بحران پیدا ہوسکتا ہے.لیکن ہمارے ملک کے حجر بھی ماشاء اللہ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں جوں تک نہیں رینگی سر پہ کہ کیا واقعہ ہو گیا ہے.اور جہاں تک علماء کے بیانات کا تعلق ہے ان کو دیکھئے ذرا.حکومت کو جان لینا چاہئے کہ توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کرنے والوں کے خلاف عوام خود تحریک چلائیں گے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ عوام میں ابھی تک اتنی ہمت ہے کہ وہ حکمرانوں کے اس قسم کے مذموم ارادوں کو ناکام بنا دیں (بیان مولوی اعظم طارق.روز نامہ جنگ لندن 12 / جولائی 1994 ء) سوال یہ ہے کہ وہ مذموم ارادے تھے کیا؟ معافیاں کس بات کی مانگی جارہی ہیں.یہ اعلان کیوں ہو رہا ہے کہ

Page 537

خطبات طاہر جلد 13 531 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء ہاں ہاں ہم تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے رسول اللہ ﷺ کی تک.کس نے ہتک کی تھی ؟ کس نے ہتک کرنے والوں کی حمایت کی تھی؟ کوئی ایسا واقعہ تو ہوا ہو.بیان جس سے بعد میں کنارہ کشی اختیار کر لی گئی وہ یہ تھا کہ جو قانون ملک میں رائج ہے.دفعہ 295 سی کے تابع اس کا غلط اطلاق ہم نہیں ہونے دیں گے اور یہ جو خطاب تھا یہ عیسائی دنیا سے تھا.احمدیت کا کہیں اشارہ بھی کوئی ذکر اس میں نہیں تھا.ایک عیسائی ملک میں جو عیسائیت میں سب سے زیادہ یورپ میں متشدد ہے یعنی آئر لینڈ وہاں یہ بیان دیا گیا تھا کہ دیکھو گھبراؤ نہیں.یہ ہمارے جو قوانین ہیں آنحضرت ﷺ کی عزت کی حفاظت کے نام پر ، ان کی طرف ان کا رخ ہی نہیں ہے جو بے عزتی کرنے والے لوگ ہیں.جو گستاخی کرتے ہیں ان سے ان قوانین کا کیا تعلق ہے، تمہیں کیا فکر ہے، جو عشق میں جان دینے والے ہیں یہ تو ان کے خلاف بنایا گیا ہے اس لئے حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ آئندہ کبھی کسی عیسائی کو اس قانون کے تابع نہیں پکڑا جائے گا.یہ الفاظ نہیں تھے مفہوم یہ تھا جو سارے یورپ نے سمجھا اور مولویوں کو یہ وہم پیدا ہوا کہ کہیں عیسائیوں کی گردن چھوڑتے چھوڑتے یہ احمدیوں کی گردنیں نہ چھوڑ دیں.اور صرف یہ مبحث تھا جس کے اوپر سارا شور پڑا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اور میں اب بھی آگے جا کے ثابت کروں گا سب سے زیادہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ناموس پر فدا ہونے والی جماعت احمد یہ ہے.سب سے زیادہ ناموس مصطفی میں فدا اور عاشق اور دن رات درود بھیجنے والی اور تمام دنیا میں حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے اعلیٰ اور برتر مقام کو ثابت کرنے اور قائم کرنے والی جماعت احمدیہ ہے.اس لئے جو مرضی کہتے پھریں یہ تو فرضی باتیں کہیں کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ کا تو ان قوانین سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور آگے جا کر جیسے بات کھلے گی یہ سب فرضی قصے ہیں.مگر مولویوں کے ہاتھ میں حکومت نے جماعت احمدیہ کی گردن تھما دی تھی یہ کہہ کر کہ مرتد کا قانون تو ہم بنا نہیں سکتے ، مجبوری ہے، بین الاقوامی قوانین اجازت نہیں دیتے اس لئے اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے جتنے احمدیوں کو چاہو متہم کر کے ان کو تختہ دار پر چڑھا دو.اس میں حکومت تم سے تعاون کرے گی.یہ سازش تھی جس کے متعلق ان کو وہم پیدا ہوا کہ کہیں حکومت اس سازش سے پھر نہ گئی ہو یعنی اپنا کردار ادا کرنے سے پھر نہ گئی ہو، اس پر انہوں نے شور ڈالا.

Page 538

خطبات طاہر جلد 13 532 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء پھر ایک بیان جاری ہوا قائم مقام امیر جماعت اسلامی کی طرف سے توہین رسالت کی سزا کے بارے میں وزیر اعظم واضح اعلان کریں کوئی بھی مسلمان اس سلسلے میں نرمی برداشت نہیں کر سکتا.(حکومت) دوٹوک انداز میں واضح اعلان کرے کہ یہ جرم پہلے کی طرح قابل دست اندازی پولیس ہے اور اس کے مرتکب کی سزا موت ہوگی.بیان چودھری رحمت الہی.روزنامہ جنگ لندن 12 جولائی 1994ء) پھر اعلان تھا " توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کو برداشت نہیں کیا جائے گا.بعض شر پسند اپنی سیاست کو چمکانے کی خاطر توہین رسالت کی سزا کو ایشو بنا رہے ہیں.“ ( بیان حافظ محمد سلیم.روز نامہ مشرق لاہور 7 مئی 1994 ء ص 4.پھر ایک ملاں کی طرف سے بیان تھا وزیر قانون توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ مولانا درخواستی کا اعلان تھا.پھر اعلان تھا مولانا محمد اجمل صاحب کا اور سید نفیس شاہ بے شمار نام ہیں ان کا خلاصہ یہی ہے کہ اسلامی قوانین کو متنازع قرار دیا گیا تو تحریک چلائیں گئے (روز نامہ جنگ لندن.19 دسمبر 1993ء) اقبال حیدر صاحب کے بیان پر رد عمل کے طور پر ملک میں ان کے سر کی قیمت لگ گئی اور چند لاکھ روپے میں وزیر قانون کا سر مارکیٹ میں بکنے لگا.پھر اعلان کیا ” حکومت تو ہین رسالت کے قانون یا سزا میں تخفیف کا نہ ارادہ رکھتی ہے اور نہ ایسا کرنے کا سوچ سکتی ہے یہ وفاقی کابینہ کا بیان ہے پوری کیبنٹ بیٹھی ہے اور اس نے یہ اعلان کیا ہے اور خالد کھرل نے کہا کہ اقبال حیدر کی طرف جو بیان منسوب ہوا ہے من گھڑت ہے، وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اونچی سطح کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا‘ (روز نامہ جنگ لندن.12 جولائی 1994ء).کیا حکم تھا کہ میں نے یہ بیان دیا بھی تھا کہ نہیں اور میری طرف یہ بیان منسوب ہوا ہے تو کیوں ہوا ہے اس کا کیا مطلب تھا.عدالتی تحقیقات اگر ہوئی تھی تو ان اخباری نمائندوں سے بھی تو پوچھا جاتا جن کے سامنے یہ بیان دیا گیا تھا وہ جو اصل تحقیق کا ایک حصہ بنتے ہیں، ایک پارٹی ہیں ان کا کہیں ذکر ہی نہیں چلتا.یہ تو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں بیان ہونا چاہئے تھا کہ وہ تحقیق کرے کہ آئر لینڈ کے اخبارات بچے بیانات دیتے بھی ہیں یا وہ پاکستانی اخبارات کی طرح کے ہیں.پھر دفعہ 295 سی میں موت کی سزا تبدیل نہیں کی گئی موجودہ حکومت آئین اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین کے مطابق قادیانیوں کے بارے میں سابقہ پالیسی پر کار بند ہے ( روزنامہ جنگ لندن.12 جولائی 1994 ء).یہ اعلانات ہیں کیبنٹ کے

Page 539

خطبات طاہر جلد 13 533 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء اور حکومت کے.صدر صاحب فرماتے ہیں توہین رسالت کا اصل قانون برقرار رہے گا اس قانون میں نہ ترمیم کی ہے نہ ایسا کرنے کا ارادہ ہے (روز نامہ جنگ لاہور.8 جولائی 1994ء) سرکاری ترجمان کا مساوات میں بیان شائع ہوتا ہے توہین رسالت کی سزا موت ہے.ترمیم ممکن نہیں.وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی حکومت نبی کریم کی فضیلت اور احترام پر پختہ یقین رکھتی ہے اور اس قانون میں ترمیم کا تصور بھی نہیں کر سکتی.توہین رسالت کے مرتکب افراد کو معاف کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں“ (روز نامہ مساوات 19 جولائی 1994 ء).وفاقی کابینہ نے کہا ”توہین رسالت کی سزا کم ہوگی نہ قانون بدلے گا ( روزنامہ پاکستان لاہور.12 جولائی 1994ء) پھر وفاقی کابینہ کا ایک بیان ہے کہ حکومت اس حد تک جانے کو تیار ہے یعنی ہمارا پیچھا چھوڑ و خدا کے لئے ” حکومت اس حد تک جانے کو تیار ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کو تین مرتبہ پھانسی دی جائے ( روزنامہ نوائے وقت لاہور.12 جولائی 1994ء) تین مرتبہ کہتے ہیں ہم پھانسی دیں گے خدا کے واسطے معاف کر دو ہیں.توہین رسالت کے قانون میں تخفیف یا تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ اعلان جو ہے تین مرتبہ پھانسی کا کا بینہ کی طرف سے جاری ہوا ہے، وزیر اعظم بھٹو صاحبہ کی کیبنٹ اعلان کر رہی ہے کہ ہم اس پر بھی تیار ہیں ہمیں معاف کر دو.پھر کہتے ہیں کھلی ہی نہیں بلکہ مخفی گستاخی کرنے والا بھی پکڑا جائے گا یہ بڑا دلچسپ ہے محاوره مخفی گستاخی.کیونکہ جہاں گستاخی دکھائی نہ دے وہاں مخفی گستاخی تو ہر جگہ بیان کی جاسکتی ہے.اور وہی قصہ ہے جو چل رہا ہے ملک میں.کہتے ہیں توہین رسالت کے قانون میں تخفیف یا تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا رسول اکرم کی شان میں کھلی یا مخفی گستاخی کرنے والا سزائے موت کا حق دار ہے ( بیان اقبال حیدر وزیر قانون و انصاف روزنامہ خبریں.7 / جولائی 1994ء صفحہ 8).یہ اقبال حیدر صاحب کا بیان آ گیا ہے کہتے ہیں "گستاخ رسول کے لئے موت سے بڑھ کر کوئی اور سزا ہوتی تو اس پر بھی عملدرآمد کرتے توہین رسالت کے مرتکب بدبختوں کے لئے اس ملک میں کوئی جگہ ہے نہ کوئی مقام ہم جیسے غلام مصطفی کے لئے ناموس رسالت سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہے، پیروز مرا طلاعات صاحب فرما رہے ہیں (بیان خالد کھرل وزیر اطلاعات و نشریات - روز نامہ مساوات فیصل آباد.8 جولائی 1994ء).گورنر پنجاب کہتے ہیں "گستاخ رسول واجب القتل ہے قانون میں ترمیم نہیں ہوگی ( روزنامہ خبریں.17 جولائی 1994 ء).حکومت توہین رسالت کے بل میں رد و بدل نہیں کرے گی

Page 540

خطبات طاہر جلد 13 534 خطبہ جمعہ فرمود و 22 / جولائی 1994ء شاتم رسول کی سزا موت ہے ( گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین.روز نامہ مساوات فیصل آباد.8 جولائی 1994ء).سردارظفر عباس صاحب آف رجوع مبر قومی اسمبلی کہتے ہیں ” حکومت توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتی جنہیں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا اعزاز حاصل ہو وہ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں ( روزنامہ پاکستان لاہور.9 جولائی 1994ء).یہ ہے جو ان کا توہین رسالت سے متعلق شور و غوغا اور فرضی قصے اور نو را کشتیاں اور وجوہات میں نے بیان کی ہیں اصل اس کا پس منظر کیا ہے.اب میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اس قوم کا کردار، دین سے لاعلمی کے نتیجے میں کس حد تک مسخ ہو چکا ہے.فیصلہ سیشن جج لودھراں مجریہ 7 جون 1994ء کہتے ہیں: "The Muslims are very sensitive regarding Finality of the Prophethood.Muslims can tolerate "Shirk" in Toheed but they cannot tolerate any shirk in Prophethood.Preaching of anything contrary.to the finality of the Prophethood outrages.religious feelings to the Muslims." اس وقت اس قوم کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ علماء ان کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو اس مقام تک لے گئے ہیں کہتے ہیں اللہ کا شرک کوئی ایسی بات نہیں ہے، ثانوی حیثیت رکھتا ہے لیکن شرک فی الرسالت برداشت نہیں ہوسکتا اور شرک فی الرسالت کیا چیز ہے اس کی تشریح کچھ ضروری ہے.پہلا تو اس کا حصہ ہے اللہ کا شرک برداشت ہو جائے گا رسول کا شرک برداشت نہیں کریں گے.اللہ اس بارے میں کیا کہتا ہے فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ تُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (النساء :49) کہ اللہ تعالیٰ اپنا شریک بنانا کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتا.خدا فرماتا ہے کہ جو میرا شرک کرے گا میں اسے معاف نہیں کروں گا.اس کے سوا جو بھی گناہ ہو میں وہ معاف کر سکتا ہوں اور

Page 541

خطبات طاہر جلد 13 535 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء میں بہت بخشنے والا اور مہربان ہوں.وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ بخشتا ہے اس کے سوا یعنی اللہ کے شرک کے سوا) ہر چیز بخش سکتا ہے لِمَنْ يَشَاءُ جس کے لئے چاہے وَمَنْ تُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى اِثْمًا عَظِيمًا اور جو اللہ کا شرک کرے وہ بہت ہی بڑا افتراء، بہت ہی کھلا کھلا افتراء کرنے والا ہے.لیکن ان علماء نے پاکستان کے دماغ اور سوچ اور کردار کو اس حد تک ذلیل اور رسوا کر دیا ہے کہ خدا کے اس دعوے کے برعکس یہ اعلان کیا جا رہا ہے اور عدالتوں میں اعلان کیا جا رہا ہے کہ ہم رسالت کا شرک برداشت نہیں کریں گے.خدا کا شرک ہوتا ہے تو ہوتا پھرے اور کر ہی رہے ہیں سارے، ایک دوسرے کو خدا بنائے بیٹھے ہیں، قبروں کی پوجا ہو رہی ہے کون سا شرک ہے جو وہاں جاری نہیں ہے اور جس کے خلاف کسی قسم کا کوئی احتجاج پایا جاتا ہو.مردہ پرستی تو اتنی عام ہوتی جارہی ہے کہ اس پر چادر چڑھانا یوں لگتا ہے کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کی مغفرت کی چادر کی لپیٹ میں آگئے.کسی نے خوب کہا تھا کوئی غریب، فقیر ایک قبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو کوئی صاحبہ آئیں اور بہت بڑی چادر اس کو پہنائی.اس نے کہا مر دوں کو پہنا رہی ہے یہ غریب ننگا بیٹھا ہوا ہے اس کو چادر نہیں پہنا تیں.یہ اس قوم کا حال ہے عورتوں کے سروں سے چادر میں اتر گئی ہیں.غریبوں کو تن ڈھانپنے کے لئے چار بالشت کپڑا میسر نہیں آتا اور قبروں پر بڑی بڑی چادر میں پہنانے والے وزراء اعظم اور گورنر اور بڑے بڑے مشاہیر پہنچتے ہیں اور تصاویر کھچوا لیتے ہیں اور ان کی بخشش کے سامان ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کا مسلک یہ ہے کہ اللہ کے شرک کا تو کوئی حرج ہی نہیں ہے شرک فی رسالت برداشت نہیں ہوگا اور شرک فی رسالت ہے کیا !؟ یہ بھی تو سمجھا جائے لیکن اس سے پہلے میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کا اپنا موقف بھی آپ کو بتادوں آپ اس موضوع پر کیا کہتے تھے ، آپ کا دل تو وہی تھا جو خدا کا صلى الله دل تھا جو خدا کی باتیں تھیں وہی محمد مصطفی حملے کے منہ کی باتیں بن جایا کرتی تھیں.جنگ احد کے موقع پر جب ابوسفیان بار بار نام پکار پکار کر غیرت دلا رہا تھا کہ ہو زندہ تو آؤ میدان میں نکلو.وہ چاہتا تھا کہ پتا چلے مسلمان کہاں چھپے بیٹھے ہیں تو اس نے حضرت محمد مصطفی میں لے کے نام سے مسلمانوں کی غیرت کو للکارا اور کہا کہاں ہے محمد اگر وہ زندہ ہو تو سامنے آئے.اس پر صحابہ جواب دینے لگے مگر حضرت اقدس محمد مصطفی اعلی نے ہاتھ کے اشارے سے اور زور سے ان کو دبا دیا کہ نہیں کوئی جواب نہیں دینا.پھر یکے بعد دیگرے مختلف صحابہ کے انہوں نے نام لئے بیان کرنے

Page 542

خطبات طاہر جلد 13 536 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء والے کہتے ہیں ابو بکر کا نام لیا عمرہ کا نام لیا اور دوسروں کے نام لئے.ہر دفعہ جو غیرت میں کوئی صحابی اٹھتا تھا تو اس کو دبا دیا جاتا تھا کہ نہیں، کچھ نہیں کہنا.یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا اعل هبل_اعل هبل کہ ھبل ذات کی جے ہوھیل کا نعرہ لگا ؤوہ بلند ہو.حضرت محمدمصطفی سے یہ عر بن کے بے چین ہو گئے اور فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے جواب کیوں نہیں دیتے وہ خدا پر ھبل بت کی برتری کا اعلان کر رہا ہے اب کیوں جواب نہیں دیتے اب کیوں خاموش ہو.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہوالله اعلیٰ و اجل، الله اعلیٰ و اجل اور احد کی وادی اللہ اعلیٰ و اجل کے نعروں سے گونج اٹھی ( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر ۳۷۳۷).وہ چند صحابہ زخمی صحابہ تھے جو ایک غار کی پناہ میں بیٹھے ہوئے تھے مگر جب خدا کی غیرت کا سوال آیا ، جب شرک خداوندی کا سوال آیا تو نہ ناموس مصطفوی خاموش رہ سکتی تھی اس وقت نہ محمد رسول اللہ کی جان کی کوئی قیمت آپ کے اپنے نزدیک باقی رہی، نہ صحابہ کی عزتوں اور ان کی جانوں کی کوئی قیمت باقی رہی کیونکہ یہ سارے سلسلے اللہ ہی کی محبت اور اس کے عشق میں تھے اور اگر یہ نہ ہو تو رسالت کی حیثیت ہی کوئی نہیں.اگر تو حید نہیں تو رسالت کی کوئی بھی حیثیت نہیں، کچھ بھی باقی نہیں رہتا.مگر اس قدر جاہل بنا دیا گیا ہے اس قوم کو جیسا کہ میں نے وہ آیت پڑھی تھی کہ جب خدا تعالیٰ انسانوں پر شریعت کا بوجھ لا دتا ہے اور وہ اس بوجھ کوا تار پھینکتے ہیں جیسا کہ قو میں اتار پھینکتی ہیں تو پھر وہ بوجھ گدھوں پر لاد دیا جاتا ہے اور گدھے ان کے سردار بنا دئیے جاتے ہیں یہ صورت حال ہے جو بعینہ ہمارے پیارے وطن ، بدنصیب پاکستان پر صادق آ رہی ہے.جہاں تک اللہ کی تو ہین کا تعلق ہے وہ ایک الگ مسئلہ ہے.جہاں تک شرک خداوندی کا تعلق ہے یہ اور بات ہے لیکن شرک کا مطلب خدا کی توہین نہیں لیا گیا.یہ جو مبحث کا اختلاط ہے اس کو اب میں کھول کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس سے پہلے کہ میں یہ بات شروع کروں یہ میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ جب کہتے ہیں شرک فی الرسالت برداشت نہیں تو مراد یہ ہے کہ آنحضرت مے کے علاوہ کوئی اور نبی برداشت نہیں.اتنا جاہلانہ نعرہ ہے کہ وہ لوگ جن کو اسلام کی ادنیٰ بھی شدھ بدھ ہو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نعرے میں کوئی جان نہیں بالکل اسلام کے برعکس ہے.سارے عالم پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لیجئے ، تمام مذاہب کی کتب کا مطالعہ کیجئے، ایک بھی ایسا نبی نہیں ہے، جس نے کسی اور نبی کی تصدیق کو اپنے ایمان کی تصدیق میں شامل کیا ہو.بدھ اپنے کو منواتا ہے اور مطمئن ہو کر چلا جاتا ہے.

Page 543

خطبات طاہر جلد 13 537 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء کرشن آتا ہے اور اپنے آپ کو منوا کر مطمئن ہو کے چلا جاتا ہے.رام نازل ہوتا ہے اور اپنے آپ کو منوا کر چلا جاتا ہے.عیسی علیہ السلام بھی اپنی منوا کر چلے گئے.اور موسی نے بھی یہ شرط نہیں داخل کی اپنے ایمان میں کہ جب تک دوسرے انبیاء کو بھی نہ مانو مجھے تم تسلیم نہیں کر سکتے.ایک ہی وہ رسول تھا یعنی محمد مصطفی ہے اور آپ کی تفہیم تو حید کا ایک عظیم جلوہ ہے کہ خدا نے آپ کو یہ تعلیم بخشی کہ جب تم کہتے ہو لا إله إِلَّا الله تو خدا کا کوئی شریک نہیں لیکن نبی بہت ہوں گے اور ہر ایک کی تمہیں عزت کرنی ہوگی اور ہر ایک کو بعض پہلوؤں سے برابر دیکھنا ہو گا چنانچہ یہ اعلان حضرت محمد مص کی طرف منسوب فرمایا گیا آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ یہ رسول ان سب باتوں پر ایمان لے آیا ہے جو اللہ کی طرف سے اس رسول پر اتاری گئیں.( ان باتوں کی خبر ابھی پاکستان کو نہیں پہنچی).امن الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ اور سارے مومن جو محمد رسول اللہ کے مومن ہیں وہ ایمان لے آئے ہیں ان باتوں پر كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِه ایک رسول پر ایمان نہیں لائے.تمام کے تمام اللہ پر ایمان لے آئے ہیں فرشتوں پر ایمان لے آئے ہیں ایک کتاب نہیں تمام کتابوں پر ایمان لے آئے ہیں شرک فی القرآن بھی اب اس کو آپ کہہ دیجئے.وَرُسُلِم اور اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئے ہیں اور یہ اقرار کرتے ہیں لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ اور کہتے ہیں ہم عہد کرتے ہیں اے خدا کہ ہم تیرے بھیجے ہوؤں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کریں گے اور ایک ہو یالا کھ ہوں ہمارے نزدیک یہ شرک فی النبوۃ نہیں ہے، یہ توحید ہی کا کرشمہ ہے کہ اس توحید سے جتنے جلوے پھوٹیں گے وہ سارے سر آنکھوں پر ، ان سب کے سامنے ہم سرتسلیم خم کریں گے.یہ ہے قرآن کا بیان.یہ ہے قرآن کی رو سے توحید فی الوہیت اور توحید فی الرسالت.پھر کہتے ہیں لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ اے خدا ہمارے لئے اس کے سوا اب رہا کیا ہے کہ سینیں اور اطاعت کریں اور وہ آواز جس رسول کی طرف سے آئے اگر وہ تیری آواز ہے اور تبدیل نہیں ہوئی تو ہر آواز سرتسلیم خم کرنے کے لائق ہے.چنانچہ حضرت اصلى الله وا محمد مصطفی میل کو پرانے انبیاء کی باتیں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَبِهُدُهُمُ اقْتَدِهُ اے محمد ان سب رسولوں کی ہدایت کے مطابق تو بھی پیروی کر.یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد رسول اللہ جو سب

Page 544

خطبات طاہر جلد 13 538 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء ہدایتوں سے بڑھ کر ہدایت لانے والے تھے ان کو حکم ہو کہ ان کی ہدایتوں کی پیروی کر.مراد وہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں کہ ان کی ہدایت کی کوئی بھی قیمت نہیں اگر وہ خدا کی طرف سے نہیں تھیں اور اگر خدا کی طرف سے تھیں تو کون ہے جو اس ہدایت کے سامنے سر بلند کر سکے.یہ وہ توحید فی الرسالت ہے جس کی یہ باتیں کر رہے ہیں.اور پھر یہ خیال کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے سارے شریک منظور آپ کے وصال کے بعد شریک منظور نہیں تو اس بات کو تو ان کے عقیدے کھلم کھلا جھٹلا رہے ہیں.اس قدر دوغلا پن، اس قدر منافقت، اتنا جھوٹ.قوم کو بتاتے نہیں یہ دوسرے سانس میں کہ عیسی ابن مریم نازل ہوگا اور نبی اللہ کے طور پر نازل ہوگا ! اور کیا ان کے فتوے شائع ہوئے نہیں ہیں کہ وہ امت میں آئے گا اور امت میں نبوت کرے گا اور جو اس کی نبوت سے انکار کرے گا وہ امت محمدیہ سے باہر نکل جائے گا.پکا کافر اور پکے سے پکا کافر ہو جائے گا!!.تو نبوت کے تو خود قائل ہیں.آنحضرت مے کے بعد آنے والے کے قائل ہیں لیکن مشر کا نہ نبوت کے یہ قائل ہیں ہم نہیں.ہم جس نبوت کے قائل ہیں وہ یہ ہے کہ امت محمدیہ میں مسیح پیدا ہو گا آپ کے غلاموں میں سے اٹھے گا اور آپ کی غلامی میں ہر شرف پائے گا.یہ شریک کو بلاتے ہیں آج سب سے بڑی شریک مسلمانوں کی عیسائیت ہے اور عیسائیت کے رسول کو امت محمدیہ میں نازل کرتے ہیں اور کہتے ہیں شرک فی الرسالت برداشت نہیں کر سکتے اور پھر شرک کیا ہوتا ہے!.اس کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟ یہ ایسے نبی کی رسالت اور نبوت کو تسلیم کریں گے، اس کے کہے میں چلیں گے، نبی اس کو کہا کریں گے اس کی نبوت کا کلمہ پڑھیں گے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے وَ رَسُولاً إِلى بَنِي إِسْرَاءِ یک یہ جو میسی تھا اس کو ہم نے بنی یل اسرائیل کا نبی بنا کے بھیجا تھا امت محمدیہ کا نبی کبھی نہیں بنایا.قرآن کہے گا بنی اسرائیل کا نبی.مولوی کہیں گے نہیں ، بنی اسرائیل ہی کا منظور ہے کیونکہ ہم تو مرے جاتے تھے امت محمدیہ میں تو ناممکن تھا کہ کوئی پیدا ہو جائے اس لئے شکر کرو خدا کا.غیر قوموں سے ہی ، آیا تو سہی اور اس بے چارے نے دو ہزار سال قید تنہائی کائی ہے اب اس کا انکار کرو گے، ظلم نہ کرو، جیسا کیسا بھی ہے قبول کرلو، چاہے امت موسوی کا ہو اس سے کیا غرض ہے، نبی چاہئے تھا نا نبی آ گیا.پر نبی چاہئے کیوں تھا؟ نبوت تو بند ہے.بند کیوں ہوئی اگر چاہئے تھا!؟ پہلے ان تضادات کو تو حل کر لو پھر یہ بڑھکیں مارو جو تم مارتے ہو

Page 545

خطبات طاہر جلد 13 539 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء اور کہو کہ شرک فی النبوۃ منظور نہیں، مشرک خود ہو، نبی کے قائل ہو لیکن غیر نبی کے قائل ہو.اس نبی کے قائل ہو جس کی امت نے سب سے زیادہ اسلام کی رقابت کی ہے، اسلام کے خلاف حسد کیا ہے.اسے اپنا سردار ماننے کے لئے تیار بیٹھے ہو اور ابھی کہتے ہو شرک فی الرسالت کے ہم قائل نہیں.شرک فی اللہ کے تو قائل ہیں ہی، وہ تو تم مان بیٹھے ہواب شرک فی الرسالت والا قصہ بھی ساتھ ہو گیا.نہ وہ رہا نہ وہ رہا.تمہاری مثال تو اس بے وقوف تیل ڈلوانے والے کی سی بن گئی ہے جو چھوٹا برتن لے کر زیادہ تیل کے پیسے لے کے گھر سے نکلا اور برتن کے پیندے میں بھی تھوڑی سی جگہ بنی تھی کپ الٹا سا بنا ہوتا ہے اس نے جب تیل خریدا تو کچھ تیل چونکہ پیسے زیادہ دے بیٹھا تھا ، بچ گیا تو اس نے اس کو الٹا دیا اور کہا باقی اس طرف ڈال دو.دکاندار نے کہا ہیں ہیں یہ کیا کرتے ہو وہ تو گر گیا.اس نے فوراً سیدھا کر دیا اور جو تھا وہ بھی گیا.ان کے تو شرکوں کا یہ حال ہے وہ بڑا برتن تو خدا والا خودالٹا بیٹھے.کہہ دیا یہ نہیں ہمیں اس کی پرواہ کوئی نہیں، اللہ کا شرک کیا فرق پڑتا ہے اور وہ جو شرک رسالت تھا وہ بھی ہاتھ سے گیا، وہ معاملہ بھی ہاتھ سے گیا.ثابت کر بیٹھے ہیں اپنے عمل اور اپنے عقیدوں سے کہ شرک فی الرسول کے اگر قائل ہیں تو یہ قائل ہیں اور جماعت احمدیہ کا بلا استثناء بلا شک یہ عقیدہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بعد آپ کے غلاموں میں سے خدا کسی کو شرف بخشے تو بخشے غیر کی مجال نہیں ہے کہ امت محمدیہ میں دخل دے.پس شرک فی الرسالت کس کا ہے اور کس کا نہیں ، کوئی تو عقل کرو مگر جب عقل رہے ہی نہ باقی تو پھر قرآن کے اس فتوے نے صادر ہونا ہی ہونا ہے کہ اپنا بوجھ تم اتار بیٹھے ہو اور گدھوں کی پیٹھوں پہ لا دریا ہے جن کو کچھ پتا نہیں کہ کیا لدا ہوا ہے.الله پھر امام مہدی کی باتیں کرتے ہیں.امام مہدی نے کرنا کیا ہے آ کر.شریعت کامل ہوگئی قرآن غیر مبدل کتاب، حدیث میں صحاح ستہ ایسی ہیں جن پر بہت اعتبار کیا جاسکتا ہے.کسی نبوت کی تاریخ میں اتنی مستند کتا بیں موجود نہیں جتنی صحاح ستہ ہیں.پھر تمہیں کیا چاہئے مہدی کے کیوں قائل ہو؟ وہ بہتر فرقوں والی بات کیا ہوئی؟ ہے کیوں اور بٹتے کیوں چلے جا رہے ہوا؟ عملاً ساری امت مشرک بنی بیٹھی ہے یہ سارے حالات سب برداشت ہیں لیکن اگر برداشت نہیں تو یہ عقیدہ برداشت نہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں وہ امام جن کی آپ نے خبر دی ہے جب وہ آئیں تو ان کو ماننا فرض ہے.یہ عقیدہ ہے جو تکلیف دیتا ہے اس کے سوا کوئی تکلیف نہیں.پس یہ

Page 546

خطبات طاہر جلد 13 540 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء سب جھوٹے قصے ہیں، فرضی باتیں ہیں.ان لوگوں کو علم ہونا چاہئے ، ان کے سیاستدان اتنے جاہل اور لاعلم ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ آخر جھگڑا ہے کیا اور حج بیٹھے فیصلے دے رہے ہیں کہ دیکھونا بات یہ ہے کہ اللہ کا شرک تو خیر کوئی بات نہیں وہ ہم برداشت کر لیں گے مگر رسالت کا شرک برداشت نہیں کر سکتے.جو جاہلوں نے قصے چلائے وہ چل پڑے.میں نے عدالتوں کے فیصلے دیکھے ہیں صاف نظر آرہا ہے کہ مولوی پہنچتے ہیں اپنے جتھے اٹھا کے اور جوں سے کچھ کہتے ہیں ان بے چاروں کو اپنے دین کا علم کوئی نہیں وہ کہتے ہیں اچھا جی پھر لکھ دو فیصلے ہمارے لئے.وہ مولویوں کی تحریریں صاف پہچانی جاتی ہیں.یہ تحریر پہچاننے کا فن تو کوئی مشکل نہیں ہے.ہزاروں سال کی پرانی کتابوں کے متعلق ماہر فن یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ فلاں کی تحریر ہے یہ فلاں کی نہیں ہے اور یہ فلاں جگہ دخل اندازی ہوئی ہوئی ہے.بائبل کے متعلق بھی اس طرح تحقیق ہے تو ان مولویوں کی تحریریں اور جوں کی تحریریں ایک جیسی تو نہیں ہوتیں بڑا نمایاں فرق ہے اور وہ فرق ان کے فیصلوں میں صاف دکھائی دیتا ہے.جہاں مولوی کا فیصلہ شروع ہوا ہر احمدی کو سمجھ آ جاتی ہے کہ اب کس کی بات شروع ہوگئی ہے.جہاں یہ چل رہا ہے وہاں شرک کیا اور گناہ کیا فسق و فجور کیا سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے بن جاتے ہیں.اتنا گناہ بڑھ گیا ہے پاکستان میں کہ اس کا تصور بھی باہر نہیں کیا جاسکتا ایسے ایسے بھیانک جرائم روزانہ نظر کے سامنے آتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں ایسے ہوں گے جو نظر کے سامنے نہیں آتے کیونکہ جہاں پولیس بے چاری مجبور اور بے اختیار ہو، پیسے کا انکار کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہے اگر شرم ہے تو پیسے کی.بعض لوگوں کو پیسے کی بڑی شرم ہوتی ہے وہاں پیسے کی بڑی شرم ہے.باقی شر میں اٹھ گئی ہیں یہ شرم ہے جو بڑی مضبوطی سے قائم ہے اور مولویوں میں بھی یہ بڑی شرم پائی جاتی ہے، پیسے کی بڑی شرم کرتے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غالبا واقعہ ہے کہ ایک مولوی صاحب کے متعلق پتا چلا کہ اس نے نکاح پر نکاح پڑھا دیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول کو اس پر بڑا حسن ظن تھا انتظار کرتے رہے وہاں ملنے کے لئے آیا کرتا تھا تو ملنے آیا تو ان سے پوچھا مولوی صاحب میں تو بڑی آپ کی عزت کرتا تھا آپ تو بڑے متقی ، بزرگ پر ہیز گار انسان یہ میں مان نہیں سکتا کہ یہ واقعہ ہوا ہو میں آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں کہ جھوٹ ہے.اس نے کہا جناب میری بات تو سن لیں یک طرفہ بات نہ کرتے چلے جائیں میری بات تو سنیں مجھے موقع تو دیں.

Page 547

خطبات طاہر جلد 13 541 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء انہوں نے کہا اچھا بتاؤ کیا بات ہے اس نے کہا بات تو ٹھیک ہے میں نے نکاح پر نکاح پڑھایا ہے مگر جس کا پڑھایا ہے جب اس نے چڑی جتنا روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ دیا تو میں کیا کر سکتا تھا.”چڑی جتنا کہتا ہے روپیہ اتنا بڑا نظر آ رہا تھا مجھے.جو حرص کی آنکھ ہو وہ پھر بڑھا کے بھی دیکھ رہی ہوتی ہے.بہت بڑا اس کو روپیہ دکھائی دیا کہ جی میں کیا کر سکتا تھا تو وہاں پیسے کی بڑی شرم ہے.اب بیچاری پولیس کیا کرے، کوئی پیش رفت نہیں جاتی جہاں پیسہ چل جائے وہاں ہر دوسرا جرم جائز ہے اس لئے سب مقد مے دب جاتے ہیں، سب گناہ نظر سے غائب ہو جاتے ہیں.وہاں نظر آتے ہیں جہاں پیسہ نہ دیا گیا ہو اور مرضی ہے چاہو تو اپنے خلاف شرعی عدالت میں کیس بھجوا دو، چاہو تو عام عدالت میں.قوم کو دو اختیار ہیں ایک طرف شریعت کی اتنی غیرت کہ مولوی کہتا ہے کہ شریعت نہ آئی تو ساری قوم سر کٹا دے گی دوسری طرف ہر مجرم اور ہر ایک ہی مجرم بنا ہوا ہے شرعی عدالت سے ایسا بھاگتا ہے جیسا کو اغلیلے سے بھاگتا ہے اور جاتے کیوں نہیں وہاں مقدمے، وہ عدالت مردار کی طرح کیوں بیٹھی ہوئی ہے دنیا کی ساری عدالتیں مقدموں سے بھری ہوئی ہیں اتنی بھری ہوئی ہیں کہ چھ چھ مہینے ، سال سال، کئی کئی سال تک مجرموں کے فیصلے ہی نہیں ہور ہے.وجہ یہ ہے کہ شریعت سے ڈرتے ہیں لوگ اور پیسہ دے دیتے ہیں پولیس کو.پولیس کے اختیار میں ہے چاہے تو شریعت کی عدالت میں بھیجے چاہے تو ملکی قانون میں بھیج دے یہ تو شریعت کا احترام ہے.اور تقویٰ اور ہمدردی بنی نوع انسان کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مجھے بعض قیدیوں نے حالانکہ مجھے جانتے بھی نہیں، ان احمدی قیدیوں سے تعارف حاصل کر کے جو اس جرم میں پکڑے گئے کہ وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہا کرتے تھے انہوں نے بتایا کہ کچھ نیک آدمی یہاں ہمارے لوگوں میں بس کے گئے ہیں ان سے آپ کا پتا چلا ہے سنا ہے آپ بھی خدا ترس ہیں.عمر قید کی سزا ختم ہو چکی ہے پچیس سال ہو گئے ہیں باہر نکلنے کے لئے پیسے نہیں.اتنی بے حیائی، ایسی سنگدلی، ہر شخص مردار خور بنا ہوا ہے.کہیں قتل ہو سہی پھر دیکھیں تھانے دار کس طرح لہک لہک کر جس طرح گد ھیں اترتی ہیں اس طرح اپنی پولیس فورس لے کر قتلوں پہ اترتے ہیں اور پھر رائٹ اینڈ لیفٹ ، دائیں اور بائیں جس جس کا نام آسکے اس کا لکھتے چلے جاتے ہیں کہ تفتیش ہے اور پھر پیسے چلتے ہیں اور ایسے واقعات ایک نہیں بارہا ہوئے ہیں کہ زیادہ پیسے دے کر مجرم تو آزاد ہو گئے

Page 548

خطبات طاہر جلد 13 542 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء اور معصوم پکڑے گئے اور ابھی ایسے ہی تین معصوم بچوں کی ماں کا مجھے خط ملا اور ہماری تحقیق کے مطابق وہ بالکل سچی ہے.وہ کہتی ہے اس طرح قتل ہوا تھا ایک گاؤں میں پچیس سال کی بات ہے اور شریکے نے ہماری جائیدادوں پر قبضے کرنے تھے اس لئے جو قاتل تھے انہوں نے پولیس کو پیسے دیئے وہ آزاد دندناتے پھر رہے ہیں اور میرے تینوں بچے ، تین ہی بیٹے تھے وہ اس وقت جیل میں پچیس سال عمر قید کاٹ رہے تھے.اس بے چاری کے کبھی کبھی دردناک خط آ رہے تھے کل پھر اسی مضمون کا خط ملا ہے کہ پچیس ہزار ایک بیٹے کو باہر نکلوانے کے لگ رہے ہیں جبکہ پچیس سال عمر گزرچکی ہے فیصلہ ہو گیا ہے کہ باہر نکل آؤ.مجھے مدد کریں تو ہو گا.جماعت تو مدد کرتی ہے اپنوں کی بھی اور غیروں کی بھی اور جہاں تک توفیق ہے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ظلم کے خلاف جہاد کریں لیکن جس قوم کا یہ حال ہو گیا ہوا یسی جرائم پیشہ قوم ان کی اندرونی نفسیاتی بیماری یہ ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تو ہین رسالت کے نام پر جس طرح مولوی کہتا ہے آنکھیں بند کر کے ایک جھوٹی غیرت دکھا دو گے تو سارے گناہ بخشے جائیں گے.اتنی ٹیڑھی سوچیں ہیں کہ ٹیڑھی سوچیں اور ٹیڑھے تصورات ساری قوم کی بدکرداریاں بن گئی ہیں اور یہ بد بخت ملاں اس کا ذمہ دار ہے جس نے ساری قوم کو پاگل بنارکھا ہے اور قوم ذمہ دار ہے جو پوچھتی نہیں ان سے کہ بتاؤ تو سہی قرآن نے کہاں لکھا ہے تو ہین کا مضمون.کیا سزائیں دی گئی ہیں.ہم بھی تو دیکھیں ہم بھی تو پڑھیں لیکن علم کا نہ شوق ہے نہ کوئی امکان ہے دور کا بھی، کہ قرآن سے ذاتی تعلق پیدا کریں اس کے مضامین کو پڑھیں اور غور کریں.جو مولوی کہتا ہے اس کی وہ بات منظور ہے جو ان کو حق سے دستبردار ہونے پر مجبور نہ کرے وہ ساری باتیں منظور ہیں لیکن اگر سیاست کے اوپر مولوی حملہ کرنے لگے تو پھر دیکھیں کیسا ذلیل اور رسوا ہوتا ہے پچھلے انتخابات میں بھی کیا گیا آئندہ بھی ذلیل ہوتا رہے گا.تو یہ صرف تمہیدی بیان ہے جو میں آج کے خطبے میں ختم کر سکا ہوں انشاء اللہ اگلا حصہ میں جمعے میں، جو اس جلسہ سالانہ کے دوران آئے گا شروع کروں گا اور چونکہ ختم نہیں ہوسکتا اس لئے میرا خیال ہے کہ افتتاحی تقریر کا مضمون بھی یہی رکھ لوں اور اسی مضمون کو آگے چلا دوں باقی جو دو دن کی تقریریں ہیں وہ تو الگ خاص موضوع ہے اس میں تو اس کو داخل نہیں کیا جاسکتا.جہاں تک جلسے کی ہدایت کا تعلق ہے، ایک ہدایت میں اب خصوصیت سے دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بہت سے باہر سے آنے والے یہاں آئیں یا دوسرے جلسوں میں جائیں بعض دفعہ قرض

Page 549

خطبات طاہر جلد 13 543 خطبہ جمعہ فرمود و 22 جولائی 1994ء مانگتے ہیں.اپنے میزبانوں سے یا دوستوں سے اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ بہت مشکل میں پڑگئے ہیں اور بعد میں پھر مجھے مصیبت پڑتی ہے.سب ان کے شکوے ہمارے اوپر اور یہ آئے تھے اور لے گئے اور وہ آئے تھے اور کھا گئے اور پیسے نہیں مل رہے تو اس لئے میں نے پہلے بھی بارہا اعلان کیا ہے.میں پھر کرتا ہوں یہاں جلسہ ہو یا امریکہ ہو یا دنیا میں کہیں باہر سے آنے والے ہوں اگر کوئی احمدی جو مسافر ہے اور مسافری کا عذر رکھ کر قرض طلب کرتا ہے تو اس کو نظام جماعت کی طرف Refer کریں یعنی اس کی طرف اس کو توجہ دلائیں کہ یہاں جاؤ اور نظام جماعت اگر مجھے کہے گا تو پھر میں تیار ہوں گا ور نه براه راست مجھے اجازت نہیں ہے.جن کے ذاتی معاملات اور تعلقات ایسے ہیں کہ وہ اگر قرض دے دیں اور کھایا بھی جائے تو پرواہ نہ ہو ان کا معاملہ الگ ہے وہ بے شک شوق سے کریں ان کا اپنا روپیہ ہے.چاہے تو جہنم میں پھینک دیں مجھے اس سے کیا غرض ہے، ہاں یہ تکلیف ہوگی کہ جہنم کی بجائے جنت میں بھی پھینک سکتے تھے ، سلسلہ کو چندہ دے سکتے تھے بجائے اس کے کہ ایک کھانے والے کے سپرد کر دیا.مگر بہر حال وہ پھر مجھے کچھ کہ نہیں سکیں گے لیکن اگر باہر سے آنے والے پیسے مانگتے ہیں اور آپ دے دیتے ہیں اور تحقیق نہیں کرتے یا جماعت سے نہیں پوچھتے اور پھر وہ آپ کو گزند پہنچاتا ہے تو آپ ذمہ دار ہیں آج بھی ، کل بھی ، پرسوں بھی ذمہ دارر ہیں گے.میں کئی دفعہ یاد دہانیاں کرا کے تھک چکا ہوں.آپ لوگ مانتے نہیں ہیں، لیکن اچھی طرح اس بات کو ذہن نشین کر لیں.دوسرے سیکیورٹی کے نظام میں ہر احمدی سیکیورٹی افسر ہے اور یہ بات دنیا کے کسی اور نظام کو حاصل نہیں.بیدار مغزی کے ساتھ اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوؤں کو دیکھیں، پہچانیں، نہیں جانتے تو مستعدر ہیں، ہوشیار رہیں.گویا آپ اس کی ہر حرکت کے ذمہ دار بن گئے ہیں.یہ سیکیورٹی کا نظام ہے لیکن حسن خلق کے ساتھ نظم و ضبط کے ساتھ.جہاں تک روانڈا کا تعلق ہے میں بارہا جماعت کو نیک تحریکات کرتا ہوں اور بار ہا تو قعات سے بڑھ بڑھ کے جماعت خدمت دین کرتی ہے، لبیک کہتی ہے اور میں پھر بھی نہیں تھکتا، پھر بھی آپ کو بلاتا رہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارا کردار ہے اور کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا.کسی جگہ بھی ظلم کے زخم لگے ہوں، کسی جگہ بھی لوگ فلاکت زدہ ہوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوں تو مومن کا کردار یہ ہے کہ ایسے موقع پر جو کچھ بھی اس کے بس میں ہوضرور کرتا ہے.اور کا فرکا یہ کردار ہے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کیا

Page 550

خطبات طاہر جلد 13 544 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء ہو رہا ہے.قرآن کریم اس مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا ادْرُيكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكَ رَقَبَةٍ أو إطعم فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ ) يَّتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ (البلد : 12 تا 17) که اصل دین تو وہ ہے جو جفا کشی کی طرف بلانے والا ہو بلند چوٹیوں کی طرف چڑھنے کی دعوت دیتا ہوگھاٹیوں سے اوپر آنے کی طرف اشارے کر رہا ہو اور یہ ہے کیا؟ گھاٹیوں سے بلندی پر چڑھنا کس کو کہتے ہیں.اس میں ایک بات یہ بیان فرمائی کہ جب بھوک عام ہو جائے اور بظاہر تمہارے بس میں نہ ہو اس کو نپٹانا پھر بھی جو تم میں طاقت ہے تم وہ لے کر آگے بڑھ جاتے ہو اور جو یہ نہیں کرتے وہ مومن نہیں ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں.پس میں جانتا ہوں کہ ہمارا آئے میں نمک کے برابر بھی حصہ نہیں ہوگا ہمیں جو توفیق ہے سارے کام دوسرے بھی جاری ہیں مگر یہ اطمینان تو ہوگا کہ ہم نے تمام بوجھوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی اس دائمی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے لبیک کہا ہے اور روانڈا کے مظلوم ہیں جو خصوصاً زائر میں انتہائی دردناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں.Cholera پھیلا ہوا ہے مصیبتوں میں مبتلا ہیں ان کے لئے میں اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا معمولی نذرانہ پیش کر کے جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ توفیق کے مطابق دیں دوسرے جو لازمی دائمی چندے ہیں ان پر اثر نہیں ڈالناوہ اپنی اپنی اہم ضروریات ہیں لیکن وعدوں میں نہ رہیں زیادہ کوشش کر کے جتنا بھی توفیق ہے وہ دے دیں کیونکہ وہاں کے حالات اب وعدوں کا انتظار نہیں کر سکتے.جہاں تک جماعت زائر کا تعلق ہے ان کو میں نصیحت کرتا ہوں جیسے میں نے پہلے کہا تھا وہ ہیضے کی وبا جس میں اور ذرائع میسر نہ ہوں جیسے کہ وہاں اس وقت نہیں ہیں بہت ہی موثر علاج ہے.سلفر.200 “ اور مفت میں کثرت کے ساتھ بنائی جاسکتی ہے آپ کی ٹیمیں وہاں پہنچیں اور ان کو روزانہ صبح شام سلفر - 200 میں کھلائیں.چند گولیاں میٹھی اور مٹھاس تو ویسے ہی ان بے چاروں کو ضرورت ہے وہ تو ایک دانہ بھی میٹھا منہ میں پہنچ جائے تو اس کو غنیمت سمجھیں گے اور اس کے علاوہ Camphor ہے.اگر ہیضہ ہو چکا ہو آغاز میں کیمفر.30 “ دیا جائے تو اس سے ہیضہ بڑھنے سے رک جاتا ہے پھر میں تفصیل سے پہلے بھی بتا چکا ہوں Cuprum ہے اگر پاؤں میں شیخ زیادہ ہو ہاتھ پاؤں مڑتے ہوں.اگر کھلے اسہال ہوں تو اس پر Veratrum Album دوا ہے تو اس

Page 551

خطبات طاہر جلد 13 545 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 1994ء طرح میں دواؤں کے متعلق ہیضے کے متعلق خصوصیت سے پہلے روشنی ڈال چکا ہوں اور وہاں کے مبلغ وہ ریکارڈ بھی کرتے ہوں گے.فوری طور پر اگر خود نہیں کر سکتے اتنی توفیق نہیں تو دوسری تنظیموں کو بتائیں اور ان کو کہیں کہ ہم آپ کو دوائیاں تیار کر دیتے ہیں.ہماری سرداری میں تم ٹیمیں تیار کرو اور فوری طور پر کثرت سے ان جگہوں میں پہنچ کر ان کے علاج کی کوشش کرو ان کو اس دردناک عذاب سے بچانے کی کوشش کرو.ایک بھوک اور اوپر سے ہیضہ تو بہت ہی تکلیف دہ بیماری ہے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ہماری ادنی اور بہت ہی حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے آسمان سے ان پر رحم نازل فرمائے.آمین

Page 552

خطبات طاہر جلد 13 546 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1994ء

Page 553

خطبات طاہر جلد 13 547 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء محمد رسول الله علی اور قرآن ہر الزام سے پاک اور بلند تر ہیں.توہین رسالت کا مضمون قرآن کریم کی روشنی میں (خطبہ جمعہ فرموده 29 / جولائی 1994ء بمقام اسلام آباد، برطانیہ ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.ط إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَ اللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لكَذِبُونَ اِتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ أَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطِيعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَ اِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُتُبٌ مُّسَنَدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَتَلَهُمُ اللهُ اثْى يُؤْفَكُوْنَ وَإِذَا

Page 554

خطبات طاہر جلد 13 548 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولا ئی 1994ء قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ لَقَوْا رُءُوسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِيْنَ هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَابِنُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون: 1 تا 9) پھر فرمایا:.توہین رسالت کے نام پر جو مختلف ممالک میں یعنی اسلامی کہلانے والے ممالک میں تعزیراتی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور اپنے دستوروں میں ان تعزیرات کو با قاعدہ دفعات کی صورت میں داخل کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں ، میں نے خطبات کے ایک سلسلے کا آغاز کیا تھا اور جماعت کو یہ بتایا تھا کہ چونکہ لمبا مضمون ہے ایک دو تین خطبوں کی بات نہیں اس لئے میں کوشش کروں گا کہ آئندہ جلسے کے خطبے پر کسی حد تک اس مضمون کو سمیٹوں اور پھر بقیہ حصے کو افتتاحی تقریر میں بیان کروں.آج میں نے جن آیات کی تلاوت کی ہے ان کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے.چونکہ وقت تھوڑا ہے اس لئے موقع اور محل کے مطابق ان پر تفصیلی روشنی بعد میں ڈالی جائے گی لیکن سادہ ترجمہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے جب منافقین تیرے پاس آتے ہیں یعنی اے محمد ﷺے ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو یقینا اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین یقیناً جھوٹے ہیں.گواہی یہ دے رہے ہیں تو اللہ کا رسول ہے اللہ سب سے بہتر جانتا ہے کہ ہاں تو اللہ ہی کا رسول ہے اور اس کے باوجود خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جو یہ اعلان کر رہے ہیں جھوٹ بول رہے ہیں.

Page 555

خطبات طاہر جلد 13 549 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنالیا ہے.کس غرض ے؟ فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیلِ اللهِ تا کہ اس بہانے بیچ میں داخل ہو کر اللہ کے رستے سے لوگوں کو روکیں اِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ یقیناً بہت برا ہے جو یہ کرتے ہیں ذلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا یہ وہ منافقین نہیں ہیں جو شروع ہی سے نفاق رکھتے تھے بلکہ ان منافقین کی بات ہو رہی ہے جو پہلے ایمان لے آئے تھے ایمان لانے کے بعد انہوں نے کفر کیا ہے.آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا پس صرف منافق ہی نہیں مرتد بھی ہیں اور یہ بہت ہی اہم حصہ ہے اس آیت کا کیونکہ اس سے صرف ایک مضمون پر نہیں بلکہ ایک دوسرے اہم مضمون پر بھی روشنی پڑتی ہے جو آج کل اسلامی ممالک میں مبحث بنا ہوا ہے یعنی مرتد کی سزا کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ اس صورت میں ان دونوں مضامین کو ایک جگہ اکٹھا کر رہا ہے.ایسے بدبخت منافقین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو یقیناً ایمان لے آئے تھے اور یقیناً بعد میں کافر ہو گئے یعنی ارتداد اختیار کر گئے.فَطَبعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ اور بیماری اس حد تک بڑھ گئی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب ان کے بچنے کا ، ان کے دوبارہ ایمان لانے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا.پس یہ اگر و ہم کسی دل میں ہو کہ یہ دوبارہ ایمان لا سکتے تھے اس لئے ان سے نرمی کا سلوک کیا گیا.اس وہم کو قرآن کریم کی یہ آیت ہمیشہ کے لئے رفع کر دیتی ہے.وہ یہ لوگ ہیں جن کے لئے آئندہ ایمان لانے ، تو بہ کرنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہا کیونکہ خدا گواہی دے رہا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے.فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ اس کیفیت کو پہنچ چکے ہیں کہ ان کے سوچنے کی طاقت معطل اور ماؤف ہو چکی ہے، وہ بات نہیں سمجھ سکتے.وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ یہ معلوم، معروف لوگ ہیں ان کی جسمانی طرز ان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے والی آنکھوں کو پسند آتے ہیں اور یہاں ”تو “ میں اگر چہ حضور اکرم ہی مخاطب دکھائی دیتے ہیں مگر آنحضرت یہ تو کسی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے متاثر ہونے والے انسان نہیں تھے اس لئے بعض دفعہ رسول کے حوالے سے امت کے ہر فرد کو مخاطب کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ اے سننے والے اے دیکھنے والے جب تو ان لوگوں کو دیکھتا ہے تو ان کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ ، ان کے رہن سہن سے متاثر ہوتا ہے.وَ اِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ اور ایسی بناوٹ سے، ایسی لوچدار با تیں کرتے ہیں کہ جب بات کرتے ہیں تو تجھے ان کی باتیں بھی دلچسپ معلوم ہوتی ہیں تو

Page 556

خطبات طاہر جلد 13 550 خطبہ جمعہ فرموده 29 / جولائی 1994ء کان لگا کے ان کی باتوں کو سنتا ہے.كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ لیکن اندر سے یہ حال ہے کہ منافق جیسے بزدل ہوتے ہیں یہ بھی سخت بزدل ہیں جیسے خشک لکڑیاں چن دی جائیں تو ذرا سا آگ کا شعلہ بھی ان کو بھڑکا دیتا ہے اور بھسم کر دیتا ہے خواہ آسمانی بجلی ہو یا زمین سے پیدا ہونے والی آگ ہو یہ لوگ محفوظ نہیں ہیں لیکن جب لکڑیاں چن کر رکھی جائیں تو بہت بھلی دکھائی دیتی ہیں.یورپ میں خاص طور پر سردیوں کے لئے لکڑیاں سجائی جاتی ہیں اور ناروے میں بہت رواج ہے بہت خوب صورت دکھائی دیتی ہیں مگر ایک آسمانی بجلی کا شعلہ یا ایک دیا سلائی ان کو آگ لگا دے تو ایک دم بھڑک کر وہ خاکستر ہو جاتی ہیں.تو فرمایا ان لوگوں کی اندرونی حالت یہ ہے دیکھنے میں بڑے اچھے سجے ہوئے اور اچھی طرح اپنی ذات میں قائم وجود دکھائی دیتے ہیں مگر خود ڈرتے ہیں.جانتے ہیں کہ ذرا سی کوئی آفت آئی تو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوگی.هُمُ الْعَدُو فَاحْذَرْهُمْ یہ ہیں دشمن ان سے بچ کے رہو.اگر ان کا علم نہیں کہ کون ہیں تو بیچ کے کس سے رہو.صاف مضمون کھول دیا گیا ہے.نام لئے بغیر ہر اس شخص کا ذکر ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں جانا پہچانا منافق تھا.قَتَلَهُمُ اللهُ أَن يُؤْفَكُونَ اللہ کی لعنت ان پر یہ کہاں دور ہے جاتے ہیں.لیکن انسان کو قتل کا حکم یہاں بھی نہیں دیا.اللہ کی لعنت ہو ان پر لیکن کہیں اشارہ یا کنایہ یہ ہیں فرمایا کہ تمہیں حق ہے مسلمانو، کہ ان کا قتل و غارت کرو.وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ لَوَّوا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُونَ اتنی واضح ان کی شناخت ہے کہ آنحضور ﷺ کے زمانے میں جب ان آیات کا نزول ہوا ہے اس سے پہلے ہی صحابہؓ ان کے پاس جایا کرتے تھے اور ان کو کہا کرتے تھے کہ تم تو بہ کر واستغفار سے کام لو تو اللہ کا رسول تمہارے لئے استغفار کرے گا.وہ تو مجسم شفقت ہے اس لئے اس موقع کو ہاتھ.جانے دو تو بہ کر لو تا کہ خدا کے رسول کی استغفار تمہیں نصیب ہو.لَو وارُءُ وَسَهُمْ وہ سر مٹکاتے ہیں وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ اور تو ان کو دیکھتا ہے کہ وہ اور بھی خدا کی راہ سے لوگوں کو پھراتے ہیں، باز نہیں آتے اور تکبر میں مبتلا ہیں.پس اگر یہ معتین لوگ نہیں تھے تو قرآن کریم نے کن کا ذکر فرمایا ہے کن کے پاس لوگ جایا

Page 557

خطبات طاہر جلد 13 551 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولا ئی 1994ء وط کرتے تھے، ان کو سمجھایا کرتے تھے کون آگے تکبر سے سر مٹکایا کرتے تھے اور کون تھے جو خدا کی راہ سے روکتے تھے اور باز نہیں آتے تھے اور مسلسل تکبر میں مبتلا ر ہے.سَوَآءِ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرُ لَهُم برابر ہے ان پر خواہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ استغفار کرے.سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی تھی تو پھر استغفار سے کوئی ان کو فائدہ پہنچ سکتا تھا ؟ کیا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا استغفار ان کو عذاب سے بچاسکتا تھا؟ صحابہ اپنی خوش فہمی میں یہ کہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں پر ہم مہر کر دیں ان کو کسی نبی کا استغفار بھی بچا نہیں سکتا.ان کی تقدیر ہمیشہ کے لئے لکھی جا چکی ہے.آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا برابر ہے ان پر خواہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ کرے.لَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُم اللہ ہر گز کسی صورت میں ان کو معاف نہیں فرمائے گا.اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِيْنَ اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کی قوم کو ہدایت نہیں دیا کرتا.هُمُ الَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ایسے شریر لوگ ہیں کہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ جو محمد رسول اللہ کے پاس ان کیساتھ رہنے والے صلى الله ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کیا کرو.حَتَّى يَنفَضُّوا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جائیں.پھر پیسہ دو یعنی لالچ بھی دیتے ہیں کہ اگر تم چھوڑ دو تو ہم تمہیں پیسہ دیں گے، ہم ہر طرح سے تمہاری خدمت کریں گے.آج کل جرمنی میں بھی یہ مہم چلی ہوئی ہے.کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بوسنین احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور کثرت کے ساتھ وہاں روپیہ پیسہ پھینکا جارہا ہے اور قطعی گواہیاں اس بات کی ہیں کہ سعودی عرب کا پیسہ وہاں پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے کیونکہ بعض مخلصین جو بوسنین ہیں بوسنین میں تبلیغ میں سب سے آگے اور بڑے ہمت والے باوقار انسان ہیں جن کی باتوں کا لوگوں پر اثر پڑتا ہے انہوں نے بتایا ہے کہ ان کو با قاعدہ پیش کش کی گئی ہے کہ ہم تمہیں اتنے ہزار ماہانہ دیا کریں گے یا اس سے بھی زیادہ اور تم کسی طرح احمدیت کو چھوڑ دو.انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ میرا ایمان بکاؤ نہیں ہے تم اپنے پیسے اپنے پاس رکھو مگر کسی صورت بھی میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا.تو جو اس وقت ہو رہا تھا وہ آج بھی ہو رہا ہے ہم اس کے عینی شاہد ہیں.پس قرآن کریم کا جو کلام ہے یہ دائمی اثر رکھنے والا ہے.انسانی فطرت سے تعلق رکھتا ہے.آغاز آدم سے قیامت کے دن تک کے واقعات انسانی فطرت کے حوالے سے اس میں بیان ہوئے ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں

Page 558

خطبات طاہر جلد 13 552 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء ہوئی.تو فرمایا جب وہ یہ کہتے ہیں کہ تم ان کو چھوڑ دو اور ہم تمہیں پھر اس کے نتیجے میں مالا مال کر دیں گے تو اللہ فرماتا ہے.وَلِلَّهِ خَزَايِنُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ بیوقوف بھول جاتے ہیں کہ آسمان اور زمین کے خزانے تو اللہ کے پاس ہیں.یہ کسی کو کیا دیں گے، وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ منافق ایسے بیوقوف لوگ ہیں کہ ان باتوں کو سمجھتے نہیں ہیں.اور پھر يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ان میں ایسا بھی بد بخت ہے، جو کھلا کھلا یہ اعلان کرتا ہے کہ ہمیں مدینہ لوٹنے دو، وہاں کا سب سے معزز انسان نعوذ باللہ من ذالک وہاں کے سب سے ذلیل انسان کو نکال باہر کرے گا.وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ جیسے سب خزائن اللہ ہی کے پاس ہیں عزتیں بھی سب اللہ ہی کے پاس ہیں اور اس کے رسول کے لئے ہیں ویلمو منین اور مومنوں کے لئے بھی.وَلكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ لیکن یہ منافق لوگ ہیں جو کچھ علم نہیں رکھتے.میں نے مضمون کا آغاز اس بات سے کیا تھا کہ سب سے اہم تو ہین تو اللہ کی ہے.اللہ ہی کی ذات سے تعلق میں ہر نیکی کا وجود ہوتا ہے ہر نیک شخص وجود میں آتا ہے خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول ہو.تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اللہ کی عزت کو چھوڑ کر پھر کوئی عزت بھی باقی نہیں رہتی.پس ہتک رسول کا مضمون اللہ کی ہتک سے شروع ہوتا ہے اس کو نظر انداز کر کے تم کن باتوں میں پڑ گئے ہو اور اللہ کی ہتک کا جہاں تک تعلق ہے قرآن کریم نے اس مضمون کو مختلف پیرایوں سے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے اور ایک بھی جگہ اللہ تعالیٰ کی ہتک کے نتیجے میں انسان کو اختیار نہیں بخشا کہ وہ اس کو کسی قسم کی کوئی سزا خود دے.ایک آیت میں اس سے پہلے پڑھ چکا ہوں اس کے حوالے سے بات کر چکا ہوں اب ایک اور پہلو سے، قرآن کریم کا اسلوب بڑا عجیب ہے، ایک اور پہلو سے اس مضمون کو چھیڑتا ہوں جس کا قومی عقائد سے تعلق ہے.قومی عقائد کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ یہ بیان فرما رہا ہے کہ بعض مذاہب کے عقائد ایسے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی تو ہین پائی جاتی ہے اور ان میں سب سے زیادہ توہین آمیز عقیدہ عیسائیت کی طرف منسوب فرمایا گیا.وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا يه اعلان کرتے ہیں کہ رحمن خدا نے بیٹا بنا لیا ہے.لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِذَا دیکھو تم بہت ہی سخت بہت بری

Page 559

خطبات طاہر جلد 13 553 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء بات کر رہے ہو.اتنی بری بات ہے کہ تَكَادُ السَّمُوتُ يَتَفَظَرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْاَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَذَا یہ بات اتنی خطرناک ہے کہ اس سے آسمان پھٹ سکتے ہیں اور زمین دو نیم ہو سکتی ہے ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتی ہے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو سکتے ہیں.جس کا خدا پر ایمان ہو اس کی طرف سے اس سے بڑی گستاخی نہیں ہو سکتی کہ اس نے اپنے بیٹے بنالئے ہیں یا اس کی کوئی اولا د ہے ان دَعَوُا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا کس بات سے آسمان پھٹ سکتے ہیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتی ہے، دوبارہ دھرایا ہے اَن دَعَوُا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا کہ انہوں نے رحمٰن کی طرف اولا د منسوب کر دی ہے.وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا حالانکہ اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنا لے.اِن كُل مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا أتِي الرَّحْمَنِ عَبد ا واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے وہ اللہ کے حضور ایک غلام کی صورت میں حاضر ہو گا.ایک مخلوق، ایک بندے کی صورت میں حاضر ہوگا اور کوئی شخص اس کے بیٹے کے طور پر اس کے حضور حاضر نہیں ہوگا لَقَدْ اَخصهُمْ وَعَدَّهُمْ عَذَا الله تعالى نے ان کا گھیرا ڈال رکھا ہے اور ان کی گنتی سے خوب باخبر ہے جانتا ہے کہ یہ کتنے لوگ ہیں کون ہیں کیا کچھ کرتے ہیں وَكُلُّهُمْ أُتِيهِ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ فَرْدًا ( مريم : 89 تا96) ان میں سے ہر ایک، ایک ایک کر کے ، انفرادی طور پر خدا کے حضور حاضر ہوگا.یہ ہے وہ تو ہین خداوندی جو ایک مذہبی عقیدے کی بنیاد کے طور پر قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اور اتنا سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے کہ قریب ہے اس عقیدے سے آسمان اور زمین اور پہاڑ پھٹ پڑیں لیکن اس کے باوجود انسان کو اختیار نہیں بخشا کہ وہ خدا کی گستاخی کرنے والوں کو کوئی بدنی سزا دے.پھر سورۃ کہف (آیات 5,6) میں بھی یہی مضمون بیان فرمایا ہے اور فرماتا ہے كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ “ بہت ہی خطرناک بات، بہت ہی ظالمانہ بات ہے كَبُرَتْ حد سے بڑھی ہوئی، حد سے تجاوز کی ہوئی بات ہے اِنْ تَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا سوائے جھوٹ کے یہ لوگ اور کچھ نہیں کہتے.یہ تو قرآن کریم کا بیان ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی توہین کا تعلق ہے اور مختلف جگہوں میں مختلف صورتوں میں جہاں تاریخ انبیاء کا ذکر ہے وہاں ان کے معاندین کا، خدا تعالیٰ کا تحقیر سے ذکر کرنا بھی بیان ہوا ہے.ایک کے بعد دوسرے نبی کی تاریخ آپ پڑھتے

Page 560

خطبات طاہر جلد 13 554 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء چلے جائیں قرآن سے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تمام قرآن میں اس بات کی قطعی گواہیاں موجود ہیں کہ انبیاء کے مخالفین نے اللہ تعالیٰ کی گستاخیاں کیں اور اسی وجہ سے آنحضرت کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو ان کی باتوں سے دل آزار مت ہو، یہ ظالم تو اللہ کے خلاف بھی ایسی باتیں کرتے ہیں اور اللہ اور رسول کی ہتک کو اس طرح ایک جگہ باندھ دیا اور نصیحت صبر کی فرمائی ، نصیحت اعراض کی فرمائی.کہیں یہ نہیں کہا کہ اس کے نتیجے میں تلوار ہاتھ میں لو اور ان کی گردنیں اڑا دو.جہاں تک عمومی تکذیب کا تعلق ہے میں نے وہ سب آیات اس لئے چھوڑ دی ہیں کہ ہر قرآن کا قاری جانتا ہے بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وقت تھوڑا ہے لیکن کوئی دنیا کا مولوی ایک بھی ایسا نہیں جو اس اعلان کا جو میں یہاں کر رہا ہوں، اس کا انکار کر سکے.قرآن کریم کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خلاف گستاخانہ جملوں کا ذکر فرماتا ہے خدا کی تضحیک،خدا کے ساتھ تمسخر کا ذکر فرماتا ہے اور کسی ایک جگہ بھی انسان کو اجازت نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کی ان گستاخیوں کا بدلہ اپنے ہاتھ میں لے.کتاب اللہ کی تضحیک کا جہاں تک تعلق ہے صرف قرآن ہی کی نہیں ، اس سے پہلے تمام کتب کی تضحیک کی گئی اور قرآن کی بطور خاص تضحیک کی گئی.سورۃ نساء آیت 141 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتُبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ أَيْتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَتَسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِةِ * کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کتاب میں یہ تعلیم نازل فرمائی ہے، یعنی عرش سے یہ تعلیم اتاری ہے.تمہارے لئے کہ جب بھی تم سنو، اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا جائے اور ان سے تمسخر کیا جائے اور یا درکھیں کہ آیت اللہ کا مضمون بہت ہی وسیع ہے.تمام انبیاء بھی آیت اللہ میں شامل ہیں اور تمام کتب ایت اللہ “ میں شامل ہیں تو فرمایا کہ تمہارے لئے ہم نے آسمان سے اس کتاب یعنی قرآن میں یہ تعلیم نازل فرمائی ہے کہ جب بھی تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جاتا ہے یا ان سے تمسخر کیا جاتا ہے تو کیا کرو؟ تلواریں لے کر ان لوگوں کی گردنیں اڑا دو؟ ہر گز نہیں.فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمُ ان کے پاس نہ بیٹھا کرو.ہمیشہ کے لئے بائیکاٹ ہے! وہ بھی نہیں.فرمایا نہ ! حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثِ غَيْرِ ہاں جب وہ دوسری باتیں شروع کریں تو معاشرے کے جو ملنے جلنے کے آداب ہیں ان کے مطابق ان سے بے شک ملنا جلنا رکھو لیکن اس مجلس میں نہیں

Page 561

خطبات طاہر جلد 13 555 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء بیٹھنا جس میں خدا تعالیٰ کی آیات کی گستاخی ہو رہی ہو.یہ قرآنی تعلیم اور قرآنی سزا ہے جو اتنی وضاحت سے پیش کی گئی ہے کہ فرمایا ہے کہ آسمان سے ہم نے تمہارے لئے بطور خاص یہ تعلیم اتاری ہے اگر تم بیٹھو گے ان کے ساتھ تو کیا ہوگا؟ اِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمُ خدا کو تو کوئی نقصان نہیں، اس کے رسولوں کو ، اس کی آیات کو تو کوئی نقصان نہیں ، فتویٰ یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو ضائع کر بیٹھو گے اور تم ان جیسے نہ ہو جاؤ اس لئے ہم تمہیں بچانے کی خاطر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اس موقع پر ان سے اٹھ کر الگ ہو جایا کرو.جہاں تک ان کی سزا کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الله جَامِعُ الْمُنْفِقِينَ وَالْكَفِرِينَ فِى جَهَنَّمَ جَمِيعَا اس کی پرواہ نہ کرو.یہ اللہ کا کام ہے تمام منافقین اور تمام کافروں کو اللہ تعالیٰ جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے.پھر فرمایا وَ إِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ايْتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ (الانعام: 69 ).اور اے مخاطب ! اول مخاطب چونکہ واحد ہے اس لئے اول مخاطب حضرت محمد مصطفی عمل اللہ ہیں.وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ابْتِنَا جب تو دیکھے ان لوگوں کو جو ہماری آیات میں تمسخر کرتے ہیں، تضحیک سے کام لیتے ہیں اور کئی کئی قسم کی باتیں بناتے ہیں.فَأَعْرِضْ عَنْهُمُ ان سے اعراض کر ، ان سے منہ پھیرے.حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ ؟ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں پھر ان سے دنیاوی روابط رکھے جاسکتے ہیں.یہ ہے عظمت قرآن.یہ ہے کلام اللہ کا حوصلہ اور جگرا.یہ وہ تعلیم ہے جو مسلمانوں کے علاوہ بطور خاص حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دی گئی.ان آیات کے ہوتے ہوئے اس کے مخالف کوئی معنی نشر کرنا یا قبول کرنا سراسر قرآن اور خدا کی گستاخی ہے.پس اگر گستاخی کی کوئی سزا ہے تو ان لوگوں کو ملنی چاہئے جو واضح طور پر قرآن کریم کی کھلی کھلی تعلیم کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور اس تعلیم کا انکار کرتے ہیں جو اللہ نے بطور خاص آسمان سے ان کے لئے نازل کی ہے اور اپنے من مانے معافی قرآن کو پہنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بھی اپنے حق میں کوئی دلیلیں پیش کرتے ہیں تو ان آیات پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں.ذکر تک نہیں ملتا ان آیات کا ان کی باتوں میں.حالانکہ انصاف کا

Page 562

خطبات طاہر جلد 13 556 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء تقاضا، تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ اگر ایک مضمون کو چھیڑا گیا ہے اور اس مضمون کی آیات قرآن کریم میں موجود ہیں تو ان کو نظر انداز کر کے تم کوئی استدلال کرنے کا حق نہیں رکھتے.ان کو لو، اکٹھا کرو، پھر دیکھو کہ قرآن کریم کی کھلی کھلی محکمات کیا تعلیم دے رہی ہیں اور کیا بات تم پر کھول رہی ہیں.اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ رڈ کرنے کے لائق ہے.جو تعلیم آج مسلمان ملکوں میں بعض ازمنہ وسطی سے تعلق رکھنے والے علماء کی طرف سے دی جارہی ہے اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا مزاج بگاڑا جارہا ہے اور ایسا خوفناک مزاج ان کو عطا کیا جا رہا ہے جن کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں.وہ صرف گستاخی ہی کے مرتکب نہیں بلکہ سارے عالم میں اسلام کی بدنامی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ایسے دو غلے ہیں کہ جب مغربی ملکوں میں آتے ہیں تو اور تعلیمیں دلاتے ہیں.کہتے ہیں اسلام تو بڑے حوصلے کا مذہب ہے سب سے برابر کا سلوک کرتا ہے ہ شخص کے خواہ وہ کافر ہو، خواہ وہ مومن ہو ، حقوق سب برابر ہیں، یہاں تک کہ مولوی انگلستان میں یہ اعلان کرتے رہے کہ ہمارے اور احمدیوں کے ہمارے ملک میں حقوق بالکل برابر ہیں کوئی بھی فرق نہیں اور عیسائیوں کو کوئی خطرہ نہیں، ہندوؤں کو کوئی خطرہ نہیں.یہ غیر ملکوں کے اعلانات ہیں اور اپنے ملک میں جو اعلانات ہوتے ہیں وہ کیا ہیں اور کیا کردار بنا رہے ہیں؟ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہتک کے الزام میں ایک شخص کو عدالت میں پیش کئے بغیر محض ملاؤں کے اعلان کے نتیجے میں گوجرانوالہ میں جس جلا دی کے ساتھ ، جس ظالمانہ طور پر مارا گیا ہے اس کے واقعات پڑھ کے لزرہ پیدا ہو جاتا ہے.حافظ سجاد فاروق آف گوجرانوالہ کو 12 اپریل کو اس الزام پر کہ اس نے قرآن کریم کی توہین کی ہے اور اسے جلایا ہے، یہ الزام کیسے لگا اس پر؟ وہ چائے بنارہا تھا ابلتا ہوا پانی غلطی سے اس سے پاس قرآن کریم رکھا ہوا تھا ، اس پر جا پڑا.اس بے چارے نے استغفار کے رنگ میں تو بہ کے رنگ میں کہا او ہو ہو! مجھ سے کیا گناہ ہو گیا، قرآن جل گیا ہے.اس کی بیوی نے بلند آواز سے کہا او ہو ہو! کیا ظلم ہو گیا ہمارے ہاں میاں کے ہاتھ سے قرآن جل گیا.وہ پتلی دیوار تھی ہمسایوں نے اس بات کو سن لیا.انہوں نے شور مچایا ، مولویوں تک بات پہنچی ، ہنگامہ کھڑا ہو گیا.سارا محلہ، اردگرد سے لوگ بلوائی بن کر ا کٹھے ہو گئے، پولیس لائی گئی ، پولیس کے ہاتھوں زبردستی چھین کر اس بے چارے کا جو حشر کیا گیا، بغیر پوچھے، بغیر وضاحت طلب کئے وہ یہ تھا.یہ ایک خبر کے حوالے سے میں آپ کو بتا

Page 563

خطبات طاہر جلد 13 557 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء رہا ہوں مساجد سے اعلان کیا گیا اور لوگوں سے کہا گیا کہ وہ تھانے پہنچ جائیں اور پولیس سے چھڑا کر اس شخص کو خود سزا دیں.مساجد سے ہی قتل کا فتویٰ جاری کیا گیا، ہزاروں لوگوں نے تھانے پر حملہ کیا اسے سنگسار کرنے کے لئے پولیس سے زبردستی چھڑوا لیا اور ننگا کر کے، (یہ قرآنی تعلیم پر عمل ہو رہا ہے ) ننگا کر کے سنگسار کرنا شروع کیا.وہ اللہ کے واسطے دیتا رہا کہ سب جھوٹ ہے میں قرآن کی عزت کرنے والا ہوں اور کسی نے اس کی بات کو نہ سنا.وہ حافظ قرآن تھا جس کے اوپر یہ الزام لگایا جارہا ہے.اس کے بعد اس کی نعش کو جلایا گیا اور جلی ہوئی نعش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر شہر کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر اس جلی ہوئی گھسیٹی ہوئی نعش پر سنگ باری کی گئی.آخر پولیس نے مسخ شدہ لاش حاصل کی اور پولیس کے اہل کارا سے رات کے اندھیرے میں لے کر قبرستان میانی صاحب میں دفن کر آئے.یہ ایک اور دلچسپ بات ہے.احمدی اگر ان کے قبرستان میں دفن ہو جائے تو ان کے سارے جو مدفون ہیں ان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہیں خدا ان کو بھی جہنم میں نہ ڈال دے کہ احمدی کیوں پاس دفن ہو گیا.وہ شخص اگر واقعی ایسا مردود تھا کہ اس نے قرآن کریم کی ہتک کی تھی تو قطع نظر اس کے کہ قرآن کیا کہتا ہے ان کے نزدیک اس سلوک کے لائق تھا جو اس سے کیا گیا ہے اور وہ میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہے کسی اور مردے کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا.مگر یہ تو ضمنی بات ہے.یہ وہ ظالمانہ کردار ہے جس کو حضرت اقدس محمد ﷺ کی طرف ، قرآن کی طرف منسوب کرنا اتنی بڑی گستاخی ہے کہ اگر کسی گستاخی کی کوئی سزا ہے تو اس گستاخی کی سزا ہونی چاہئے.قرآن تو سزا نہیں پیش کرتا ، حدیث سے تو کوئی سزا ثابت نہیں لیکن جن لوگوں کے نزدیک ہے انہوں نے مولویوں کا منہ کیوں کالا نہیں کیا؟ کیوں ان کو نہیں پکڑا ، کہ تم نے بڑی بد بختی کی ہے، انصاف کے سارے تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کو پارہ پارہ کرتے ہوئے تم نے قرآن کی طرف غلط تعلیم منسوب کی.محمد رسول اللہ ﷺ کے کردار کی طرف غلط تعلیم منسوب کی اور پھر اپنی طرف سے خود ہی منصف اور خود ہی عادل بن بیٹھے اور فیصلہ وہ کیا جس کا عدل سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.جن ملکوں میں یہ خوفناک مزاج پیدا کیا جا رہا ہے اس کی پہچان اس سے بڑھ کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی مولوی، بد بخت سے بد بخت مولوی اگر اس کو کہا جائے کہ خدا کی قسم کھا کے یہ اعلان کرو کہ میرے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت میں ایسا واقعہ ہوتا تو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی یہ

Page 564

خطبات طاہر جلد 13 558 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء حرکتیں کرتے ؟ کبھی ایسی قسم کھانے کی جرات نہیں کر سکتا.جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے، جانتا ہے کہ قرآن اور محمد رسول اللہ کی سنت سے ان باتوں کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.جہاں تک انبیاء کی توہین کا تعلق ہے قرآن کریم بھرا پڑا ہے.چند آیات نمونہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں مسلسل انبیاء کی توہین کا ذکر چلتا ہے اور کسی ایک جگہ بھی انسان کو اس تو ہین کے نتیجے میں توہین کرنے والے کو سزادینے کا اختیار نہیں دیا گیا.فرماتا ہے كَذَلِكَ مَا آتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونَ (الذاریات: 53) اسی طرح ان سے پہلے جو رسول آتے رہے ہیں یعنی پہلے رسولوں کا ذکر ہے ان کا ذکر کر کے فرمایا: اسی طرح ان سے پہلے بھی جو رسول آتے رہے ہیں یعنی پہلے جب بھی آتے تھے ان کو ان کے مخالفین نے ان کو جادو گر کہا یا پاگل قرار دیا اور پاگل اور جادو گر قرار دینا کیا مولویوں کے نزدیک عزت کے کلمات ہیں یا تذلیل کے کلمات ہیں ، اگر تذلیل کے کلمات ہیں تو بتائیے ان کی کہاں سزا قرآن کریم نے مقرر فرمائی ہے.سورۃ یسین آیت 31 میں ہے.مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ایک بھی رسول ان بد بخت دنیا والوں کے پاس نہیں آیا مگر ضرور اس سے وہ ٹھٹھا کرتے رہے اور تمسخر اڑاتے رہے.کیا اس کا نام ہتک رسالت ہے یا نہیں ہے؟ یہ سوال اٹھتا ہے.اگر رسولوں کا مذاق اڑانا گستاخی نہیں ہے اور ہتک نہیں ہے تو پھر ہتک کا تمہارا تصور کیا ہے؟ اور اگر ہے اور یقیناً ہے تو اس کی سزا قرآن کریم نے کہاں مقرر فرمائی ہے؟ پھر فرمایا: وَمَا يَأْتِيْهِمْ مِنْ نَّبِيِّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ( زخرف:8) میں بھی یہی مضمون ہے.سورۃ الاعراف آیت 61 کے حوالے سے ہے نوح کو ان کی قوم نے کہا إِنَّا لَنَاكَ فِي ضَلالٍ مُّبِينِ ہم تمہیں اول درجے کا گمراہ پاتے ہیں کھلا کھلا ضلالت والا ، راہ راست سے ہٹا ہوا.مولویوں کے نزدیک پتا نہیں یہ بہتک ہے یا نہیں ہے مگر میں عام انسان کو جس کی عقل اس قدر مسموم نہیں ہو چکی کہ اپنے عقائد کے چکر میں پڑ کر اس میں سوچنے کی طاقت بھی نہ رہی ہو، ان کو مخاطب کرتے ہوئے میں بتاتا ہوں کہ یہ مسلسل ہتک کی باتیں ہیں اور شدید گستاخی کے واقعات ہیں جو قرآن کریم کی رُو سے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آتے رہے.پھر حضرت نوح کو کہا

Page 565

خطبات طاہر جلد 13 559 خطبہ جمعہ فرمود و 29 جولا ئی 1994ء قَالُوا مَجنُونَ وَازْدَجِرَ (القمر (10) که یه شخص مجنون ہے اور ایسا دھتکارا ہوا ہے جو چاہے اس کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا سلوک کرے اسے ذلیل ورسوا کرے، کھلی چھٹی ہے.حضرت نوح کے متعلق کہا اِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ (المومنون : 26) إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ اس کو تو جن چڑھ گیا ہے اور جن چڑھنا، شیطان چڑھنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمُ (الانبیاء : 69) کہ یہ ایسا شخص ہے کہ اس کی سزا آگ میں جلائے جانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے.اگر تم اپنے معبودوں کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو آگ میں جلا دو.یہ عزت افزائی کے کلمات ہیں جو قرآن کریم نے ابراہیم کے واقعات میں بیان فرمائے ہیں؟ پھر لوط کے متعلق کہا قَالُوا لَبِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يَلُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ (الشعراء: 168) انہوں نے لوظ سے کہا کہ اگر تو باز نہیں آئے گا تو ہم تجھے ضرور دیس سے نکال دیں گے اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے.اور حضرت صالح سے کہا قَالُوا إِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَخَرِينَ (الشعراء: 154) که تجھ پر تو جادو ہو چکا ہے، اپنے ہوش، عقل ٹھکانے نہیں رہے جادو والے سے ہم کیا بات کریں.پھر مزید اس پر یہ بات بڑھائی بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِر (القر : 26) وہ بہت سخت جھوٹا اور حد سے بڑھا ہوا ہے اپنی بے راہ روی میں.حضرت ہوڈ کے متعلق الاعراف: 67 میں لکھا ہے قوم نے کہا إِنَّا لَنَرانَكَ فِي سَفَاهَة اے ہو! ہم تو تجھے بہت ہی بیوقوف دیکھ رہے ہیں، پرلے درجے کا احمق انسان ہے وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَذِبِينَ صرف یہی نہیں ایک بیوقوف ،اوپر سے جھوٹا یعنی جیسے کہتے ہیں کریلا اور نیم چڑھا تو کہتے ہیں بیوقوف تو خیر تو ہے ہی ، اوپر سے جھوٹا بھی نکلا ہے.یہ عزت افزائی کے کلمات مولویوں کے نزدیک ہوں گے کیونکہ ان میں کوئی سزا مقرر نہیں اگر ہتک رسول ہوتی تو سزا بھی تو ہونی چاہئے تھی.حضرت موسی اور ہارون کے متعلق فرعون نے کہا اور فرعون کی قوم نے: آنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عَبدُونَ (المومنون: 48) کیا ان جیسے عام انسانوں کی

Page 566

خطبات طاہر جلد 13 560 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء ہم اطاعت کریں جبکہ ان کی قوم ہماری عبادت کر رہی ہے.عبدُونَ کا مطلب غلام ہے اور چونکہ اس میں عبادت کا مفہوم بھی ہے تو غلامی اس حد تک پہنچ جائے کہ گویا کسی مالک کی کسی آقا کی پرستش شروع ہو جائے.یہ دونوں مضمون اس ایک لفظ میں داخل ہیں.ہمارے غلام ، ہمارے نوکر چاکر ، ان کی مجال کیا ہے؟ یہ تو گویا ہماری عبادت کرتے ہیں اور ان لوگوں میں سے یہ موسیٰ ہو اور ہارون، اور ہم ان کی اطاعت کرنی شروع کر دیں یہ کیسے ممکن ہے؟ حضرت شعیب کے متعلق قَالُوا إِنَّمَا اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ وَى مُسَحْرِين کا الزام جو حضرت صالح پر لگایا گیا تھا شعراء آیت 185 میں درج ہے کہ حضرت شعیب پر بھی لگایا گیا.الشعراء 187 میں ہے وَ اِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَذِبِينَ ہم تو سوائے اس کے کچھ نہیں جانتے کہ تو یقیناً جھوٹا ہے.انبیاء پر الزام کی تو یہ داستان ہے.انبیاء کے مقدس خاندان، اہلِ بیت سے تعلق رکھنے والوں اور ان کی ماؤں پر بھی تو الزام لگائے گئے اور وہ بھی ایسی چیز ہے جس سے بہت اشتعال پیدا ہوتا ہے.عام دنیا دار، اللہ کی ہتک پر اتنے مشتعل نہیں ہوا کرتے جتنے اپنے انبیاء اور ان کے رشتے داروں کی گستاخی پر مشتعل ہو جاتے ہیں.تو ایک طرف تو عیسائیوں کا وہ عقیدہ بیان کیا گیا جو موحدین کو مشتعل کرنے والا تھا.اب یہودی موحدین کا وہ عقیدہ بیان کیا جا رہا ہے جو عیسائیوں کے لئے جائز وجہ اشتعال رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کسی سزا کا کوئی اعلان نہیں فرمایا وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا ( النساء: 157 ) کہ یہود ایسے ظالم لوگ ہیں کہ صرف کفر نہیں کیا بلکہ مسیح کی ماں پر نہایت ناپاک الزام لگایا جس کے نتیجے میں مسیح بھی ایک جائز انسان کہلانے کا مستحق نہیں رہا.کیا یہ ہتک عزت نہیں ہے؟ کیا یہ رسول اور اس کی ماں اور ان دونوں کی ایسی ہتک نہیں ہے کہ اگر کوئی سزا مقرر ہونی چاہئے تو یہاں اعلان ہو جانا چاہئے تھا کہ اس کی یہ سزا ہے ! تو پھر تم ان باتوں کو کس کھاتے میں ڈالو گے؟ کیسے ان آیات کے ہوتے ہوئے ان قوموں سے سلوک کرو گے؟ اگر اپنی من مانی کرنی ہے تو ہر ہتک کے نتیجے میں قتل لازم ہے اس لئے اگر تقویٰ کا ادنی سا بھی شائبہ تمہارے اندر پایا جاتا ہے تو اس اعلان کے بعد ایک طرف عیسائیوں کے قتل وغارت کے لئے تلواریں سونت لو اور نکل کھڑے ہو دوسری طرف یہود کو فنا کرنے کے لئے ان پر حملہ آور ہو جاؤ اور یہ نہ دیکھو کہ اس راہ میں

Page 567

خطبات طاہر جلد 13 561 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء تمہاری جان جاتی ہے کہ ان کی جاتی ہے.اگر یہ دیکھنا ہے تو پھر غیرت کون سی ہوئی ؟ غیرت تو وہ ہوا کرتی ہے کہ جب مثلاً ماں کی بے عزتی ہو تو بچے خواہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں، بڑے سے بڑے ظالم کے سامنے نکل کھڑے ہوتے ہیں.غیرت تو مرغی سے سیکھو کہ جب اس کے بچوں پر چیل جھپٹتی ہے تو وہ تن جاتی ہے اور چیل کے سامنے اٹھتی ہے اور اس کے مقابلے کے لئے اڑا نہیں کرتی ہے.جب خون خوار سے کتا جس کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں اس کے چوزوں پر حملہ آور ہوتا ہے تو قطع نظر اس کے کہ اس کی جان پر کیا بنے گی وہ درین صفحہ: 140 بھرتی ہوئی اس کتے پہ جا پڑتی ہے.یہ عام جانوروں کی غیرت ہے، ہم ایسے ظالم لوگ ہو کہ خدا اور رسول کی عزت کی غیرت کے حوالے دیتے ہو اور قرآن میں جہاں جہاں ان کی بے عزتیوں کا ذکر ہے ان سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہاں نہیں.عیسائی بہت طاقتور لوگ ہیں، ان کو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.یہودی بہت طاقتور ہیں، ان کو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.ہم تو وہیں اپنی غیرت کا مظاہرہ کریں گے جہاں ہم اتنے طاقتور ہوں کہ ہمارے قتل کے نتیجے میں ہمارے منہ پر خراش بھی نہ آ سکے.اسلامی غیرت کا یہ تصور ہے؟؟ کس کس جگہ انہوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے وہ شمار میں نہیں آسکتیں باتیں؟ اب آگے چلئے یہ بھی کہتے ہیں کوئی ایسی بات نہیں.حضرت مریم کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں یہود، رکھتے پھریں ہمیں کیا اس سے.آنحضرت ﷺ کے متعلق کہتے ہیں کہ سب بے عزتیاں برداشت، خدا کی بے عزتی برداشت مگر محمد رسول اللہ کی بے عزتی ہم برداشت نہیں کر سکیں گے.آئیے اب قرآن کریم سے آنحضرت ﷺ کی ہتک کے واقعات کا اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ افْتَرَهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَآءُ وَظُلْمًا وَ زُورَان (الفرقان: 5) یہ کہتے ہیں کہ یہ سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں جو محمد نے خود گھڑ لیا ہے اور یہی نہیں یہ ایک اور قوم کا ایجنٹ بھی ہے وَأَعَانَہ عَلَيْهِ اس جھوٹ ، افتراء باندھنے میں اور گھڑنے میں ایک دوسری قوم نے اس کی مدد کی ہے، اپنے لوگ نہیں ہیں.آخَرُونَ سے مراد ہے کوئی باہر کی قوم ہے جو اس کی مدد کے لئے آئی ہے فَقَدْ جَاء و ا انہوں نے مل کر یہ شرارت کی ہے

Page 568

خطبات طاہر جلد 13 562 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء جَاءِ وَا ظُلْمًا وَ زُورًا بہت بڑا ظلم کمایا ہے ان لوگوں نے مل کر اور بہت بڑا جھوٹ گھڑا ہے.کیا یہ ہتک رسول ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو تمہاری منطق کیا ہے تمہاری عقل کو کیا ہو گیا ہے.ہتک اور کس کو کہتے ہیں اور اگر ہے تو اس کی سزا بتا ؤ قرآن کریم میں کہاں لکھی ہے؟ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وأَصِيلًا ( الفرقان : 6) الله اور اسی پر بس نہیں کی ، انہوں نے کہا یہ تو پرانے لوگوں کی باتیں ہیں.اكْتَتَبَهَا محمد رسول اللہ ﷺ نے، رسول اللہ تو میں کہ رہا ہوں یعنی ان کے نزدیک محمد ﷺ نے اكْتَتَبَهَا اسے لکھوا رکھا ہے، کسی کی مدد سے لکھوالیا ہے فَهِيَ تُعَالَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا یہ جانتے تھے اور اقرار کرتے تھے کہ پڑھے ہوئے نہیں ہیں اس لئے لکھوایا بھی کسی سے اور کوئی اور پڑھنے والا صبح شام ان پر یہ باتیں پڑھ کے سناتا ہے تا کہ یہ بھول نہ جائیں.پھر سورۃ المومنون کی آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان ظالموں نے محمد رسول اللہ یہ کو کیا کیا کہہ کر اذیتیں پہنچائیں کہا، إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا انہوں نے کہا کہ ایسا شخص ہے جس نے خدا پر جھوٹ کا طومار باندھ رکھا ہے وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِيْنَ ہم ایسے شخص پر ایمان ہرگز نہیں لا سکتے.محمد رسول اللہ نے کیا جواب دیا اپنے غلاموں کو یہ تلقین فرمائی کہ اٹھو تلواریں سونتو اور ان کے سرتن سے جدا کر دو! ہر گز نہیں.قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ اے میرے رب تو میری مددفرما اس وجہ سے کہ لوگ مجھے جھٹلا چکے ہیں میرا کوئی اختیار نہیں.تو ہی ہے جو میری مددفرما سکتا ہے.(المومنون : 40-39) پھر آنحضرت ﷺ کو دیوانہ کہا گیا.سورۃ الحجر میں فرماتا ہے: وَقَالُوا يَا يُّهَا الَّذِى نُزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونَ (الحجر: 7) انہوں نے کہا اے وہ شخص! اور خطاب دیکھیں کیسا تحقیر کا ہے.اے وہ شخص جس پر ذ کرا تا را جار ہا ہے تو یقیناً یا گل ہے اس کے سوا ہم اور کچھ نہیں کہہ سکتے لَوْ مَا تَأْتِيْنَا بِالْمَلَبِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصُّدِقِينَ (الحجر: (8) اگر تو سچا ہوتا تو ہمارے پاس فرشتے لے کے کیوں نہ آتا مَا نُنَزِّلُ الْمَلبِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذَا مُنْظَرِينَ (الحجر: 9)

Page 569

خطبات طاہر جلد 13 563 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 / جولائی 1994ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سزا تو دینی ہے.ہم ہی دیں گے، مگر جب حق پوری طرح ثابت ہو جائے ان پر.پھر خدا فرشتے بھیجتا ہے اور جب فرشتے بھیجتا ہے، تو ان لوگوں کو پھر کوئی مہلت نہیں دی جاتی.پھر آنحضرت ﷺ کو بار بار مجنون کہا گیا.القلم کی آیت 52 میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں کچھ تھوڑا تھوڑا مضمون کا اضافہ ہے میں وہی آیات لے رہا ہوں ورنہ آیات تو بہت کثرت سے ہیں وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُون ایک طرف تو ذکر کا یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کا حوالہ دیتے ہیں تحقیر کے ساتھ اور طعنوں کے ساتھ کہ گویا وہ جس پر ذکر ا تارا جا رہا ہے.تیرا یہ حال ہے کہ اللہ نے چنا بھی تو کس شخص کو چنا جو مجنون ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس ذکر کو وہ طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں جب وہ سنتے ہیں تو غیط وغضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں معلوم ہوتا ہے اس ذکر میں کوئی ایسی طاقت ہے، ایسی شان ہے جس سے ان کے سینوں میں آگ بھڑک اٹھتی ہے ورنہ پاگلوں والی باتوں پر تو کوئی بھڑ کا نہیں کرتا.پاگلوں والی باتوں پر تو ہم نے سوائے اس کے کہ کوئی پاگل ہو کسی کو غصہ میں آتے نہیں دیکھا وہ ہنستے ہیں مذاق اڑاتے ہیں پتھر بھی مار دیتے ہیں مگر پاگل کی بات ، پاگلوں والی سن کر کوئی بھڑک اٹھے، یہ نہیں ہوسکتا.تو قرآن کریم کا انداز بیان دیکھیں، اسی بیان میں اس کا تو ڑ بھی رکھ دیا بتا بھی دیا کہ تم جھوٹے ہوا اگر یہ ایسا ذکر تھا جو تمہارے سامنے پیش کرتا ہے جو پاگلوں والی باتیں ہیں ،تمہیں غصہ کس بات کا آ جاتا ہے؟ فرماتا ہے.وَإِن يَكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ پاگل ایسے ہیں کہ جب ذکر کو سنتے ہیں تو غیظ و غضب سے ان کی آنکھیں لال ہو جاتی ہیں یعنی آنکھیں لال ہونے کا تو اردو محاورہ ہے، قرآن کریم فرماتا ہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ذکر سنتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ابھی تجھے غضب آلود نظروں سے پھسلا دیں گے.اب پاکستان سے آئے ہوئے لوگ تو خوب اچھی طرح جانتے ہیں.مولوی جن آنکھوں سے ان کو دیکھتا ہے وہ لگتا ہے کہ غضب ناک نظروں ہی سے ان کے پاؤں تلے سے زمین نکال دے گا اور وہی فطرت انسان کی قدیم سے اسی طرح چلی آ رہی ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی یہی حال تھا ان لوگوں کا.اس سے پہلے زمانوں میں بھی یہی حال

Page 570

خطبات طاہر جلد 13 564 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء تھا کہ بات سنتے تھے اور غصہ آ جاتا تھا اور غضب آلود نگاہیں ڈال ڈال کر ڈرانے کی کوشش کرتے تھے.وہ کہتے تھے یہ شخص تو محض دیوانہ ہے اگر دیوانہ ہے تو دیوانے کی بڑپر غصہ کس بات کا آتا ہے؟ پھر فرمایا وَ اِذَا رَاَوكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا اَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللهُ رَسُولاً (الفرقان :42) کہ جب تجھے دیکھتے ہیں تو تمسخر اور ٹھٹھوں کا نشانہ بنالیتے ہیں، جب دیکھتے ہیں تیرا مذاق اڑاتے ہیں اور بات اس طرح کرتے ہیں اَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا دیکھو دیکھو یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے! کیسا تکبر،کیسی تحقیر اور ان سب گستاخیوں کا ذکر کرتے کرتے ایک جگہ بھی اللہ تعالی تلوار پکڑ کر ان کے سراڑانے کی تعلیم نہیں دے رہا.مولویوں کے کان میں اگر کسی نے پھونک دیا تو وہ اللہ نہیں ہے جس نے محمد رسول اللہ پر کلام نازل فرمایا تھا کوئی اور روح ہے جو یہ باتیں پھونک رہی ہے کیونکہ اس خدا کو اس وقت یاد نہیں تھا کہ آئندہ زمانوں میں گستاخی کی سزا موت اور موت کے سوا کوئی مقرر نہیں کرنی اور وہ بھی انسانی ہاتھوں سے.پس قرآن کے نزول کے وقت تو اللہ تعالیٰ کو یہ باتیں یاد نہیں اب مولویوں کو کہاں سے بجھائی دے گئیں.صاف پتا چلتا ہے کہ کوئی اور چیز ہے جو ان کے کانوں میں یہ باتیں گھول رہی ہے یا پھونک رہی ہے.پھر فرمایا: وَلَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِرُونَ (الانبیاء : 42) اور یقیناً تجھ سے پہلے بھی تمام رسولوں کی تضحیک کی گئی.پس جس چیز سے وہ تضحیک کیا کرتے تھے اس تضحیک نے خود ان کو گھیرے ڈال لئے یعنی خدا کی تقدیر نے ان سے سزا دینے کے لئے وہ ساری باتیں ان کے خلاف پیدا کر دیں جو انبیاء کے خلاف وہ استعمال کیا کرتے تھے.وَإِذَا رَاكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا اَهُذَا الَّذِي يَذْكُرُ الهَتَكُم (الانبیاء: 37) کہ یہ لوگ جب تجھے دیکھتے ہیں تجھ سے مذاق کرتے ہیں ٹھٹھا کرتے ہیں اور باتیں اس طرح کرتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جو ہمارے معبودوں کے تذکرے کرتا ہے دیکھو دیکھو اس کی صورت دیکھو! کیا یہ سب عزت افزائی کے کلمات ہیں؟ اگر نہیں تو قرآن کریم نے کہاں ان کی سزا مقررفرمائی اور ان سب باتوں کو سن کر حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے خود کیا نمونہ دکھایا.یہ آیات تو مسلسل ایک سلسلہ ہے تمام انبیاء کی تضحیک کا تذکرہ ایک طرف اور حضرت اقدس محمدﷺ کے

Page 571

خطبات طاہر جلد 13 565 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء خلاف گستاخیوں اور تمسخر کا تذکرہ ایک طرف.قرآن کریم میں یہ مضمون پہلے تمام انبیاء کے مضمون پر بھاری ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ تمام انبیاء سے جو مذاق کئے گئے جو ان کی رسوائیاں کرنے کی کوشش کی گئی وہ سارے ایک طرف اور آنحضرت مے سے جو بدسلوکی کی گئی ، وہ پھر ان سب انبیاء سے کی گئی بدسلوکیوں پر بھاری ہوتی ہے.پھر یہ بھی کہا گیا کہ ہم اس لئے اس کی دشمنی کرتے ہیں کہ آباؤ اجداد کے مذہب سے ہٹانے والا ہے.پھر کہا گیا کہ یہ شاعر ہے ہم تو انتظار کر رہے ہیں کہ زمانے کی آفات اس کو کچل کے رکھ دیں گی.(الطور : 31) پھر کہا گیا کہ پراگندہ خیالات اور خوابوں ہی کو اپنا الہام بنا بیٹھا ہے.پراگندہ خوا میں ہیں نفسانی خیالات ہیں.(الانبیاء: 6) اور آج کل کے مولوی الہام سے ملتا جلتا ایک اور غلیظ لفظ استعمال کرتے ہیں تو ترقی یافتہ ہیں کافی ، وہی طرز ہے وہی منہج ہے جو پہلوں کی تھی ،صرف بدکرداریوں میں اور بد زبانیوں میں ان سے آگے بڑھ چکے ہیں.کہتے ہیں اس نے تو اپنی طرف سے بات بنالی ہے ( الطور : 34) پھر معجزات کا انکار اور یہ کہنا کہ کہتے ہیں بڑے معجزات آئے ہیں ایک بھی لا کے دکھائے معجزہ تب ہم مانیں گے یہ تو ایک بھی معجزہ پیش نہیں کر سکتا (الروم : 59) اب یہ باتیں میں پرانے زمانے کی کر رہا ہوں جن کو قرآن کا زیادہ علم نہیں ہے وہ شاید یہ سمجھ رہے ہوں میں اس زمانے کی بات کر رہا ہوں بعینہ یہی بات پاکستان کے مولوی ، احمدیوں سے کہتے اور ان سے مطالبے کرتے ہیں کہتے ہیں تم کہتے ہو مرزا صاحب نے بڑے معجزے دکھائے ، ایک لا دو.ایک بھی آیا تو ہم مان جائیں گے اور جو معجزوں کا سردار تھا جس سے معجزوں کے سمندر پھوٹے جس کے کلام کے متعلق فرمایا گیا کہ اگر سمندران نشانات کو لکھ لیں ان آیات کو جو قرآن میں نازل ہو رہی ہیں اور ان کے معانی کو.سمندر سیاہی بن جائیں اور درخت قلم بن جائیں تو ایک کے بعد سمندر پر سمندر ختم ہوتے وتے چلے جائیں اور نئے ان کی مدد کو آتے چلے جائیں تب بھی آیات الہی، کلمات اللہ کا مضمون ختم نہیں ہوگا اور سب سے بڑا کلمات کا مضمون قرآن کریم میں بیان ہے.پس یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت بھی یہی کہا کرتے تھے کہ ایک دکھا دو، ایک نشان لاؤ اور ہم ایمان لے آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کا بھی جواب دے چکا ہے وَ أَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِم وہ خدا کی قسمیں کھا کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں لَبِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةً

Page 572

خطبات طاہر جلد 13 566 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء صلى الله.ليُؤْمِنُنَّ بِھا اگر وہ ایک بھی محمد رسول اللہ یہ آیت لادیں تو وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ (الانعام: 110) اللہ کے پاس تو بے شمار آیات ہیں مگر کیسے تمہیں سمجھا دیں کہ جھوٹے ہیں بد بخت ساری آیات بھی آجائیں تب بھی یہ نہیں مانیں گے، پہلے تھوڑی آیات ہیں جن کا انکار کر بیٹھے ہیں اور کون سی آیت ان کو منوالے گی.تو ان کا سلوک تھا انبیاء سے، یہ سلوک حضرت اقدس محمد ﷺ کے ساتھ تھا اور پھر یہ کہ تیری باتیں سنے کی ٹوہ رکھتے ہیں اور جب تو ان سے باتیں کرتا ہے تو پھر نظر انداز کر دیتے ہیں بے عزتی کرتے صلى الله ہیں گویا ان کے کانوں میں بوجھ پڑ گیا ہے یہ سارے طریق انہوں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو جھٹلانے اور آپ کی تکذیب کے اور آپ کی تذلیل کے اختیار کئے لیکن آنحضرت ﷺ نے کہیں اس کے جواب میں سوائے اس کے کہ ان کو ہدایت کی دعائیں دی ہوں ان کے خلاف کوئی بدنی کارروائی نہیں فرمائی نہ آپ کو اس کی تعلیم دی گئی جہاں تک معین تذلیل کا تعلق ہے، جہاں تک ایک معین واقعہ تضحیک کا تعلق ہے اس سورۃ میں وہ آخر پر بیان ہوا ہے جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی.وہ آیت یہ ہے: يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَ الْاَعَزُّ مِنْهَا الاذل سورة المنافقون میں جن منافقوں کا ذکر ہے ان کے سردار کی بات اب ہو رہی ہے اور اس کا معین ہونا اتنا قطعی ہے کہ کوئی ادنی سا بھی شعور رکھنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی Identity نہیں ہے.لوگ جانتے نہیں تھے کہ یہ کون ہے.فرمایا يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ وہ منافقین یہ اعلان کر رہے تھے کہ جب ہم مدینے واپس لوٹیں گے تو وہاں کا سب سے معزز انسان یعنی عبد اللہ بن ابی بن سلول مدینے سے وہاں کے سب سے ذلیل انسان کو نکال باہر کرے گا.اس سے بڑی گستاخی رسول کا تصور بھی ممکن نہیں، ایسے خبیث الفاظ میں ایک انسان صحابہ کے سامنے کھلم کھلا یہ اعلان کرتا پھرے اور اس کے ساتھی اس بات کو شہرت دے رہے ہوں.وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِے اور حال یہ ہے کہ تمام عزت اللہ کی اور اس کے رسول کی ہے اور انہی کے واسطے سے مومنین کو نصیب ہے وَلكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ لیکن منافقین جو ہیں وہ نہیں جانتے.

Page 573

خطبات طاہر جلد 13 567 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء یہ واقعہ غزوہ بنی مطلق سے واپسی پر ہوا تھا، ایک چشمے پر پانی کی باری کے انتظار میں انصار اور مہاجرین کا ایک جھگڑا ہو گیا تھا.اس کے نتیجے میں عبد اللہ بن ابی بن سلول نے فائدہ اٹھاتے ہوئے انصار کو جو مدینے کے رہنے والے تھے مہاجرین کے خلاف کرنے کے لئے اور یہ سمجھ کر کہ آج میرا موقع ہے آج میں اپنی ساری گزشتہ رسوائیوں کا بدلہ ا تارلوں گا، یہ بد بخت اعلان کیا تھا.اس کے نتیجے میں کیا ہوا.؟ 'سیرت ابن ہشام میں اس کا تذکرہ ملتا ہے.اسی طرح 'در منثور للسیوطی میں بھی اس بات کا حوالہ ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا حوالہ دیا ہے اس کی تفصیل کیا ہے میں اس کی بات کر رہا ہوں.ان سیرت کی کتب میں اس کی تفصیل یہلتی ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حرکت کی تو صحابہ کو بہت طیش آیا مگر کسی صحابی نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا بظاہر ان کو یہ یقین تھا که به شخص واجب القتل ہو چکا ہے.آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ایک کے بعد دوسرا گیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ اللہ ہمیں اجازت دیں ہم اس بد بخت شخص کا سر تن سے جدا کر دیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کسی کو اجازت نہیں دی یہاں تک کہ اس کا اپنا بیٹا جو منافق نہیں تھا بلکہ مخلص مسلمان تھا وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہو سکتا ہے آپ اس لئے اجازت نہ دیتے ہوں کہ آپ کو خیال ہو کہ میرا باپ ہے صلى الله بعد میں کسی وقت قتل کرنے والے کے خلاف میرے دل میں غصہ نہ پیدا ہو جائے تو یا رسول اللہ ہی ہے اس کا حل تو یہ ہے کہ میں بھی تو مسلمان ہوں میری بھی تو غیرت کھول رہی ہے.مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے ہاتھ سے اپنے باپ کا سر تن سے جدا کروں، اپنے ہاتھ سے اپنے باپ کو قتل کروں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کی تمہیں کوئی اجازت نہیں.یہ ہتک رسول کا واقعہ قرآن میں درج ہے اس سے زیادہ قوی کوئی حدیث ایسی پیش کر سکتا ہے کوئی ملاں؟ جس میں ہتک رسول کا مضمون اس طرح بیان ہوا ہو اور پھر قرآن کے معانی کے خلاف مضمون ہو؟ اگر ہوگا تو وہ قوی ہو ہی نہیں سکتا.ہر وہ حدیث جو قرآن کریم کے واضح بیانات سے ٹکراتی ہے وہ ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائے گی کیونکہ وہ حدیث ہی نہیں ہے.اس لئے مولوی جب ان آیات کو پڑھتے ہیں اور پھر حدیثوں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں یہ دو گستاخیاں کرتے ہیں.اول یہ کہ قرآن سے اعتبار اٹھاتے ہیں اور حدیث کی طرف دوڑاتے ہیں اور پھر حدیث سے

Page 574

خطبات طاہر جلد 13 568 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 / جولائی 1994ء اعتبار اٹھا دیتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی ذات سے اعتبار اٹھاتے ہیں کیونکہ جیسے قرآن میں کوئی تضاد نہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں بھی کوئی تضاد نہیں.یہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم کے کھلے کھلے اعلان کے خلاف محمد رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث ، ادنی سا بھی مضمون پیش کرے اور اس کو حدیث کہنا ہی گستاخی ہے یا کچھ اس کی باتیں ایسی ہیں جو تمہاری فہم سے بالا ہیں مگر قرآن کریم کے کھلے کھلے اعلان کے بعد کسی حدیث کی طرف اس اعلان سے متضاد مضمون بیان کرنا قرآن کی بھی گستاخی ہے حدیث کی بھی گستاخی ہے، محمد رسول اللہ کی گستاخی ہے.اب اس واقعہ کے بعد کیا ہوا وہ عجیب داستان ہے احادیث میں اس کا ذکر محفوظ ہے کہ جب ی شخص اپنی طبعی موت مرا، محمد رسول اللہ ﷺ نے کسی کو اس کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی لہذا طبعی موت مرا تو آنحضور علے اس کے جنازے کے لئے روانہ ہوئے.صحابہ بہت بے چین تھے مگر حضرت عمرؓ کے سوا کسی نے جرات نہیں کی حضرت عمرؓ آگے راستہ روک کے کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ منافق ہے کیا آپ اس کا جنازہ پڑھیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پر وہ آیات نازل ہوئی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تو ستر دفعہ بھی ان کے لئے استغفار کرے گا تو میں نہیں بخشوں گا اللہ یہ اعلان کر رہا ہے اور حضرت عمرہ کی نا کبھی دیکھیں ، اپنی ذات میں تو بہت عقل والے تھے رسول اللہ اللہ کے مقابل پر کسی صحابی کی کوئی فہم کام نہیں کر سکتی، یہ نہیں سوچا کہ جس پر آیت نازل ہوئی ہے وہ اس کا مضمون اس سے بہت زیادہ بہتر سمجھتا ہے جو اس آیت کا حوالہ دے رہا ہے تو حضرت رسول اللہ ﷺ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا عمر میرا رستہ چھوڑ دو خدا یہ کہتا ہے نا کہ اگر تو ستر دفعہ بھی استغفار کرے گا تو میں نہیں بخشوں گا، میں ستر سے زیادہ دفعہ استغفار کرلوں گا.اللهم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم.یہ محمد رسول اللہ ہیں.یہ قرآن ہے، ہر ایسے الزام سے یہ پاک ہیں اور بلند تر ہیں جو آج کا صلى الله مولوی اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن پر لگا رہا ہے.اس عظیم کردار کے خلاف جس کے حق میں تمام قرآن گواہ کھڑا ہے اور تمام تاریخ انبیاء گواہ کھڑی ہے، کسی بھی مصنوعی ، وضعی کسی حدیث کا، کسی عالم کے فتوے کا حوالہ لے کر جو بات کرتا ہے وہ گستاخ رسول ہے، وہ گستاخ کتاب اللہ ہے.وہ اللہ کا گستاخ ہے.تمام انبیاء کی اہانت کرنے والا ہے.اس کھلی کھلی دن کی طرح روشن گواہی کے خلاف

Page 575

خطبات طاہر جلد 13 569 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 1994ء کون ہے جو کوئی عذر بھی اس کے خلاف پیش کر سکے.لیکن اب مضمون چونکہ لمبا ہے اور خطبہ پہلے ہی وقت سے کافی آگے بڑھ چکا ہے اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ میں افتتاحی تقریر میں بقیہ حصہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور وہ سارے پہلو بیان کروں گا جس کا اس مضمون سے تعلق ہے بعض سمیٹنے پڑیں گے مجبوری ہے وقت کی لیکن انشاء اللہ اس کے تمام پہلوؤں پر مزید روشنی ڈالی جائے گی.اب خطبہ ختم ہوتا ہے.ساڑھے چار بجے انشاء اللہ دوبارہ یہاں جلسے کی کارروائی کا آغاز ہو گا.تو آپ سب دوست ساڑھے چار بجے واپس تشریف لے آئیں.

Page 576

خطبات طاہر جلد 13 570 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1994ء

Page 577

خطبات طاہر جلد 13 571 خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1994ء خلافت رابعہ میں اجتماعیت کا آغاز ہوا ہے.خلافت رابعہ آنے والی آسمانی تقدیروں کے لئے پیش خیمہ بن گئی.(خطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَانْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَتُ وَأُولَيْكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) (آل عمران: 103 تا 106 )

Page 578

خطبات طاہر جلد 13 پھر فرمایا :.572 خطبه جمعه فرموده 5 اگست 1994ء آج کے دن جو مختلف ممالک میں اجتماعات ہو رہے ہیں یا کل یا پرسوں ہوں گے ان سے متعلق بعض اعلانات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان سب ممالک کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا ذ کر بھی جمعہ میں چلے اور اس طرح اس عالمی برادری میں سب کو ہمارے لئے بھی دعا کی توفیق ملے.ملائشیا کا جلسہ سالانہ اللہ کے فضل کے ساتھ آج 5 راگست سے شروع ہو رہا ہے تین دن تک جاری رہ کر 7 اگست کو اختتام پذیر ہوگا.لجنہ اماءاللہ گی آنا کا جلسہ سالانہ 7 اگست بروز اتوار منعقد ہوگا.آج 5 اگست کو مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ کا تیسرا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ مسی ساگا ایسٹ (کینیڈا) کا ایک روزہ سالانہ اجتماع کل 6 راگست کو منعقد ہو رہا ہے اسی طرح خدام الاحمدیہ مارخم کا سالانہ اجتماع بھی کل منعقد ہو گا.مجلس خدام الاحمدیہ ویسٹرن کینیڈا کا دو روزہ سالانہ اجتماع کل 6 اگست سے شروع ہو رہا ہے اور 7 اگست بروز اتوار اختتام پذیر ہوگا.جلسہ سالانہ UK اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک غیر معمولی شان کا جلسہ ثابت ہوا.اللہ کے فضلوں کو ہم ہمیشہ برستا دیکھتے ہیں لیکن ان فضلوں میں بھی بعض دفعہ اچانک یوں لگتا ہے جیسے غیر معمولی تیزی پیدا ہوگئی ہے اور توقع سے بڑھ کر اللہ کے فضلوں کی برسات ہوتی ہے.جلسہ سالانہ جس صورتحال میں اختتام پذیر ہوا اس میں کسی انسانی حکمت اور کسی منصوبہ بندی کا کوئی ادنی سا بھی دخل نہیں تھا.لوگوں نے بعد میں مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا میں نے کہا مجھے تو لگتا تھا کہ اچانک بارش شروع ہوگئی ہے حالانکہ بارش پہلے بھی ہو رہی تھی لیکن بعض دفعہ بارش میں بھی اس قدرز ور پیدا ہو جاتا ہے کہ لگتا ہے اب بارش شروع ہوئی ہے.یہ خدا تعالیٰ نے دشمن کو جماعت احمدیہ کے عالمی اجتماع کا ایک نظارہ دکھانا تھا اور بتانا تھا کہ اس وقت ایک ہی امت واحدہ ہے جو حقیقت میں حضرت محمد مصطفی می اے کی طرف منسوب ہونے کا حق رکھتی ہے وہ جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کے ذریعہ ایک ہاتھ پر اس طرح اکٹھی ہو گئی ہے کہ ایک جسم کے ٹکڑوں کی طرح ساری دنیا کی جماعت بن چکی ہے اور کس طرح بے ساختگی کے ساتھ جگہ جگہ سے بے قرار فون آنے لگے ہمارا بھی ذکر کرو، ہمارا بھی ذکر کرو اور ہمارا بھی ذکر کرو.مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، ہر طرف دنیا کے تمام باشندے، مختلف ملکوں سے

Page 579

خطبات طاہر جلد 13 573 خطبه جمعه فرموده 5 راگست 1994 ء تعلق رکھنے والے اس ایک عالمی وجود کا ایک حصہ بن چکے تھے.حصہ تو تھے لیکن جس شان سے خدا نے ایک وجود کے حصے کے طور پر ان کو دکھایا ہے یہ ایک ایسی کیفیت تھی جس کے لئے نشے کے سوا کوئی لفظ مجھے ملتا نہیں اور دیر تک نشے کی کیفیت رہی.میری بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ ابا کیا حال ہے.میں نے کہا میں تو اس وقت بتا بھی نہیں سکتا کہ کیا حال ہے.اس نے کہا میرا بھی یہی حال ہے لیکن بات یہ ہے کہ اللہ میاں نے اتنی زیادہ خوشیاں ایک دن میں اکٹھی کر دیں کہ ان کے پوری طرح شعور کی طاقت نہیں رہی تھی اس لئے میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ اب باری باری ایک ایک حصے کو سوچ کے سارا دن اسی کے مزے لوں گی اور یہ بات بہت اچھی تھی اور میرے دل کو بھی لگی.میں نے بھی یہی سوچا یہی ایک طریق ہے جب بہت زیادہ چیزیں اکٹھی ہو جائیں تو انسان پھر بعد میں تسلی سے مزے لیتا ہے اور یہ تو ایسا دن گزرا ہے اور جلسہ بحیثیت مجموعی اول سے آخر تک کہ سارا سال مزے لینے کے لئے سامان اکٹھے ہو گئے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگلے سال انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ مزے کے سامان پیدا ہوں گے کیونکہ ہر دفعہ جب ہم کوشش کرتے ہیں کہ بہت اچھی باتیں پیدا ہوں ان سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کچھ اور باتیں دکھا دیتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ تمہارے صرف ہاتھ لگ رہے ہیں اس قافلے کو حرکت اللہ دے رہا ہے اور تمہارے ہاتھ لگوا دیتا ہے کہ تمہیں بھی محسوس ہو کہ کچھ تمہارا بھی حصہ پڑ گیا.اور اللہ کے فضل کے ساتھ اس عالمی برادری کے انعقاد میں جو بنیادی بات کارفرما ہے اس کو بھولنا نہیں چاہئے اور وہ ہے حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کی دعائیں اور اللہ کا آپ سے وعدہ.پس اگر ہم اس حقیقت کو بھلا دیں اور محض مزے میں پڑے رہیں تو وہ مزہ بالکل بے کار اور بے معنی ہو جائے گا.اس مزے کا جس بنیادی حقیقت اور سچائی سے تعلق ہے اس کے واسطے سے مزے لوٹیں تو اور ہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.کہاں وہ دن ، چودہ سو سال پہلے عرب میں ایک عظیم معجزہ رونما ہوا یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ یکہ و تنہا آپ کو تمام دنیا پر غالب آنے کی خوشخبریاں دی گئیں.اس وقت جب آپ یکہ و تنہا تھے اور تمام دنیا کی فتوحات کے ذکر اس زمانے میں حیرت انگیز لگتے ہوں گے.وہ وجود جو مکے میں بھی اس طرح بدسلوکی کا شکار رہا، ایسی ظالمانہ بد سلوکیوں کا شکار رہا کہ عرب سمجھتے تھے کہ جب چاہو ایک چٹکی کے مسلنے کی طرح اس شخص کو ہم ہلاک کر سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتے تھے تو سمجھتے

Page 580

خطبات طاہر جلد 13 574 خطبه جمعه فرمود و 5 را گست 1994ء تھے ہم نے ہاتھ روکے ہوئے ہیں.قومی روایات کی خاطر، قبائلی تعلقات کی خاطر اور کچھ رسم ورواج ہیں پرانے جو چلے آرہے ہیں ، وہ یہی سمجھا کرتے تھے کہ ہم نے ہاتھ روکے ہوئے ہیں مگر جب ہاتھ چلانے کا فیصلہ کیا تو دیکھیں خدا نے کیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ان کے ہر پھندے سے آزاد فرمایا ! ان کی ہر سازش کو نا کام بنا دیا.ان کا ہاتھ آپ تک پہنچتے پہنچتے بھی ایسا بے کار ہو گیا جیسے شل ہو گیا ہو.وہ غار ثور کا واقعہ ہمیشہ کے لئے ایک معجزے کے طور پر انسانی تاریخ میں چمکتا رہے گا اور کوئی اس کا عقلی جواز انسان کو سمجھ نہیں آ سکتا کہ یہ ہو کیسے گیا ہے اور اگر یہ ہونہ چکا ہوتا اور تاریخ کا حصہ نہ بن چکا ہوتا تو دنیا کے لوگ کبھی مانتے نہ کہ ایسا واقعہ ممکن ہے.یعنی ریگستان میں جہاں دور دراز تک کوئی چھپنے کی جگہ نہیں صحرا کھلا ہوا پڑا ہے جس پر قدموں کے نشان ایک دفعہ پڑ جائیں جب تک آندھیاں نہ آئیں وہ نشانات اسی طرح ثابت رہتے ہیں کوئی چیز ان کو مٹاتی نہیں.ایسے ہی ایک خاموش دن میں آنحضرت ﷺ مدینے کی طرف ہجرت فرما رہے ہیں اور ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے اس پر چڑھ کر غار ثور میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور مشہور کھوج لگانے والے آپ کے دشمنوں کے ساتھ جو تعاقب کر رہے تھے ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے بلکہ راہنمائی کر رہے تھے اور ایسی صورت میں انہوں نے کہا یہ پہاڑی ہے اس پر وہ چڑھے ہیں.تو سب او پر چڑھ گئے وہاں ایک غار کے سوا کوئی چھپنے کی جگہ نہیں تھی.غار پر اس طرح کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ ان کے پاؤں نیچے سے دکھائی دے رہے تھے اور اس عرصے میں ایک مکڑی نے جالا بن دیا اور کہا جاتا ہے کبوتری نے یا کسی پرندے نے اس پر انڈا دے دیا.یہ چھوٹا سا واقعہ ہوا ہے اور وہ گھر جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمام گھروں میں سب سے کمزور گھر ہے یعنی جالا ، وہ دنیا کے سب گھروں سے زیادہ طاقتور بن گیا جب خدا کا اذن آیا اور دشمن کو توفیق نہ ملی کہ اس نازک ترین گھر کو پار کر کے وہ جو پیچھے پناہ گزیں تھا اس کو گزند پہنچا سکے.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہوا ہے ایسے شخص سے اس کمزوری کی حالت میں خدا نے وعدے فرمائے اور کچھ وعدے ایسے تھے جو آپ کے دیکھتے دیکھتے آپ کی زندگی میں بڑی شان سے پورے ہوئے.میں غار حرا کہہ رہا تھا.یہ غار ثور ہے غار حرا میں آنحضرت معہ عبادتیں کیا کرتے تھے نا وہیں سے نبوت کا آغاز ہوا ہے تو لفظ حرا میرے ذہن پہ اتنا حاوی رہا ہے کہ پہلے بھی میں ایسے کر چکا

Page 581

خطبات طاہر جلد 13 575 خطبه جمعه فرموده 5 اگست 1994ء ہوں غار ثور کی بات بھی کرتا تو منہ سے حراہی نکلتا تھا کیونکہ اسلام کا سورج حرا سے طلوع ہوا ہے اور ثور میں عارضی طور پر چھپا تھا جیسے بدلی اس پر سایہ ڈالے مگر یہ جو وجہ ہے یہ پہلی دفعہ نہیں پہلے بھی کئی دفعہ ہو چکا ہے اس لئے فوری طور پر چٹ لکھ کے مجھے یہ بتا دیا کریں جب میں ثور کی بات کروں اور حرا کہہ رہا ہوں اس وضاحت کے بعد حضور نے خطبہ کا مضمون جاری رکھتے ہوئے فرمایا: بہر حال غار ثور کا واقعہ ہے وہاں آنحضرت ﷺ نے پناہ لے رکھی تھی اور آئندہ بھی آپ کی زندگی ( یعنی آئندہ سے مراد اس وقت سے لے کر آگے تک ) ہر کمزوری کی حالت میں آپ کو عظیم الشان وعدے دیئے گئے ہیں.ایک وقت وہ تھا جب کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ خندق کھود نے میں مصروف تھے اور ایسی کمزوری کی حالت تھی کہ یہ ڈر تھا کہ اگر خندق کی تیاری سے پہلے دشمن آ جائے تو مدینے والوں کے دفاع کی کوئی صورت باقی نہیں تھی اور بڑا بھاری دشمن تمام قبائل کا لشکرکشی کر رہا تھا اور قریب سے قریب تر آ رہا تھا.تمام صحابہ دن رات محنت کر کے خندق کھودرہے تھے.لیکن مشکل یہ آپڑی کہ ایک پتھر رستے میں حائل ہو گیا اگر وہ نہ توڑا جاتا تو وہ خندق چل نہیں سکتی تھی.جب سب زیادہ سے زیادہ ނ طاقتور اور قوی ہاتھ بے کار ہو گئے اور اس پتھر کو نہ توڑ سکے.اس وقت حضرت اقدس محمد رسول الله الا الله درخواست کی گئی کہ یا رسول اللہ اللہ آپ آب اس پتھر پر ضرب لگا ئیں اور اس وقت آنحضرت یا اللہ کی کمزوری کا یہ عالم تھا یعنی جسمانی کمزوری کا کہ بھوک کی شدت سے اس وقت صحابہ پیٹ پر پتھر باند ھے پھر صلى الله رہے تھے.کسی نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ تو حالت ہے دیکھیں پتھر باندھے ہوئے ہیں آنحضور ﷺ نے اپنے بطن مبارک سے کپڑا اٹھایا تو دو پتھر بندھے ہوئے تھے.یعنی سب سے زیادہ بھوک کی تکلیف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو تھی.(مسند احم جلد 4 صفحہ 303) اس وقت جب آپ نے اس آلے سے وار کیا ہے جونو کدار گینتی کہلاتی ہے شاید.اس سے جب پتھر پہ ضرب لگائی اس سے ایک چنگارا اٹھا تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا.پھر ایک اور ضرب لگائی پھر ایک چنگارا اٹھا پھر ایک اور ضرب لگائی پھر ایک اور چنگارا اٹھا اور پتھر دو نیم ہو گیا اور وہ روک جاتی رہی.اس وقت صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نعرہ الله کیوں لگاتے تھے ساتھ جب شعلہ بلند ہوتا تھا.تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے اس شعلے میں کبھی یمن کے قلعوں کی چابیاں پکڑا ئیں ،کبھی میں ان شعلوں میں مشرق یعنی اہل فارس کی

Page 582

خطبات طاہر جلد 13 576 خطبہ جمعہ فرموده 5 راگست 1994ء فتوحات دیکھتا تھا کبھی مغرب کی فتوحات دیکھتا تھا.(مسنداحم جلد 4 صفحہ: 303) تین ایسی خوشخبریاں تھیں جن کا ترتیب کے ساتھ مجھے لفظاً لفظاً ذکر یاد نہیں رہا اس لئے میں اس سے احتراز کر رہا ہوں.مگر بنیادی طور پر یہ بات ہے اس انتہائی کمزوری کی حالت میں جبکہ دفاع کے لئے بھو کے خندق کھودرہے تھے آنحضرت قیصر و کسریٰ اور یمن کے قلعوں کی فتوحات کے نظارے دیکھ رہے تھے.ایسی حالت میں اگر دشمن آپ کو مجنون کہتا تھا تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی لفظ نہیں تھا.ایسی باتیں یا مجنون کیا کرتے ہیں یا سب سے زیادہ صادق اور سب سے زیادہ باشعور انسان جو اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں.پس ان کی اندھی آنکھوں نے آنحضرت ﷺ کا اصلی مقام تو نہیں دیکھا مگر جو فتویٰ دیا ہے وہ ان دو کے سوا کسی پر لگ نہیں سکتا.ایسی حالت میں جو انسان بلند بانگ دعاوی کرے اور یہ کہے کہ میں قیصر و کسریٰ کی فتح کے خواب دیکھ رہا ہوں یا اس کے نظارے مجھے دکھائی دے رہے ہیں یا ان کے محلات کی چابیاں مجھے عطا کی جارہی ہیں ایسے شخص کو دنیا یا تو پاگل کہے گی یا پھر اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ ، چنیدہ، بھیجا ہوا رسول، ایسا نبی جس سے خدا خود پیار کی باتیں کرتا ہے، جسے خود آسمان سے خوشخبریاں عطا کرتا ہے ان دو انتہاؤں کے بیچ میں اور کوئی مقام نہیں ہے.پس انہوں نے تو بہر حال اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ناممکن بات ہے پس ان کے مجنون کہنے میں بھی حقیقت میں ایک بہت بڑا اعتراف حق ہے اور آئندہ زمانوں میں کام آنے والا اعتراف حق تھا.ایسی صورت تھی کہ دنیا والے کی نظر میں وہ باتیں ناممکن تھیں ، ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ ان باتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ایک ایک بات اللہ نے ان لوگوں کے دیکھتے دیکھتے ، ان کی زندگیوں میں پوری کر دکھائی.کچھ ایسے وعدے تھے جن کا آخرین سے تعلق تھا اس دور سے تعلق تھا جس دور میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں تمام عالم کومحمد رسول اللہ ﷺ کے لئے فتح کرنے کے لئے کھڑا کر دیا ہے.ہم اس سے بہت زیادہ عاجز ہیں جو خدا کے عاجز بندے محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے.ان سے بہت زیادہ کمزور ہیں جو خدا کے کمزور بندے محمد رسول اللہ ہے کے اس وقت صلى الله ساتھ تھے.کیونکہ ان کی طاقت کے پیمانے اور تھے اور وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی قوت سے براہ راست فیض پا کر قوی ہوئے تھے.ہمارے درمیان چودہ صدیاں حائل ہیں اور اس کے باوجود حضرت

Page 583

خطبات طاہر جلد 13 577 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 راگست 1994ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا احسان ہے کہ آپ نے بھی دعاؤں اور درود کی برکت سے وہ مرتبہ پا لیا وہ فیض پالیا کہ آپ کی پرورش میں آنے والے آپ کے پروں اور اس کے سائے تلے پنپنے والے اور نشو و نما پانے والے وہ آخرین جن کا اولین سے چودہ سو سال کا فرق تھا خدا تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کا فیصلہ فرمالیا اور قرآن میں یہ خوشخبری رکھ دی کہ آخرین ایسے ہوں گے جو اولین سے ملائے جائیں گے.یہ عجیب دور ہے ہم اس خوشخبری کو نہ صرف اپنی ذات میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں بلکہ ایک ایسا تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جو تاریخ بنانے والے ہیں تاریخ کا پھل نہیں ہیں.ہمارے ذریعے تاریخ بنائی جا رہی ہے اور وہ تاریخ جس کا ہم پھل ہیں وہ محمد رسول اللہ اللہ نے صلى الله بنائی تھی.پس آئندہ بھی جو تاریخ ہمارے لئے ذریعے بنے گی وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی تاریخ ہے گویا ہمارے واسطے سے اس تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے.یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف میں نے مختصراً اشارہ کیا تھا کہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر لطف اندوز ہوں.اگر آپ اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں گے تو جتنی بھی آپ کی کامیابیاں ہیں وہ ساری کامیابیاں ایسی سعادتیں نظر آئیں گی جن کے ہم حق دار نہیں تھے وہ ایسے سہرے نظر آئیں گے جو پہلوں کے سروں پر باندھے جانے کے لائق تھے انہی کے فیض سے انہی کی برکت سے ہمارے نصیبوں میں آئے جبکہ ہم حقیقت میں اس لائق نہیں کہ ان کامیابیوں اور ان سہروں کے حقدار قرار دیئے جائیں.یہ وہ حقیقت ہے جو میں نے ہمیشہ اپنی ذات میں محسوس کی ہے ایک ذرہ بھی اس میں مبالغہ نہیں.میں اپنے وجود کو، اپنی حقیقت کو جانتا ہوں.جماعت احمدیہ کو جو کچھ بھی فیض مل رہا ہے بلاشبہ ایک ذرہ بھی اس میں شک نہیں نہ آپ آئندہ کبھی کریں کہ اولین کی دعاؤں اور برکتوں کا فیض ہے جو آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جاری ہوا ہے.ہر کامیابی ان کی ہے اور ہمیں ان کامیابیوں میں جو ذریعہ بنایا گیا ہے یہ ہماری سعادت ہے پس سعادت پر شکر گزار ہوں اور حد سے زیادہ شکر گزار بندے بنے کی کوشش کریں.حد سے زیادہ کا لفظ غلط ہے، حد سے زیادہ سے مراد میری شاید یہ تھی کہ ہماری حدیں جو چھوٹی چھوٹی حدیں ہیں ان کو پار کرنے کی کوشش کریں.شکر اتنا کریں کہ اپنی حدود توڑ دیں تب بھی شکر کا حق ادا نہیں ہو سکے گا.اگر اس صورت حال کو اس حقیقت کے ساتھ جیسے میں بیان کر رہا ہوں سمجھ کر پھر خدا کا شکر ادا کریں گے تو آپ کا لطف کچھ اور قسم کا لطف ہو جائے گا.یہ تماش بینی

Page 584

خطبات طاہر جلد 13 578 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 /اگست 1994ء نہیں رہے گی اگر اس حقیقت کو بھلا دیں گے تو آپ تماش بینوں میں شمار ہونے لگیں گے اور یہی ڈر تھا مجھے جو چند دن لاحق رہا اور اسی لئے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جمعہ پر میں جماعت کو خوب اچھی طرح سمجھا دوں کہ ایسے واقعات جو رونما ہوتے رہے ہیں پہلے بھی اور آئندہ بھی ہوں گے ان کی لذت کو تماش بینی کی لذت میں تبدیل نہ ہونے دینا ورنہ بہت بڑے نقصان کا سودا کر رہے ہو گے.اگر یہ ظاہری ہنگامے، یہ شور، یہ ٹیلیفون کے قصے یہ ظاہری صورت میں ہی آپ کو لطف دے رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس سے بہت زیادہ ہنگامے اور حیرت انگیز جذبات کا زیر و بم، ایسے بیہودہ اور ذلیل گانوں کے تعلق میں بھی دکھائی دیتا ہے جن کی کوئی بھی حیثیت نہیں ، کوئی بھی حقیقت نہیں.دنیا کے عظیم معاملات سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں.”پاپ میوزک“ کا آج کل شور ہے.”پاپ سنگر دنیا میں مشہور ہورہے ہیں ایسے ایسے پاپ سنگر ہیں جن کے گانوں پر بعض دفعہ ایک ایک کروڑ آدمی یا اس سے بھی زیادہ دس دس لاکھ تو ان کی موجودگی میں ان کے سروں پر پاگل ہو رہا ہوتا ہے اور ٹیلی ویژن کے ذریعے کروڑ بلکہ کروڑوں ایسے ہوں گے جو دیکھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کو عجیب روحانی سرور حاصل ہوا ہے، تو ہم تو ایسے سطحی لوگ نہیں ہو سکتے.یہ جو نظارہ تھا یہ ان نظاروں کے مقابل پر جو آپ ایسے پاپ سنگر کی کامیابی کی صورت میں دیکھتے ہیں دنیا والوں کی نظر میں کچھ بھی نہیں.وہ کہتے ہیں چند ٹیلیفون کالز آ گئیں تو کیا فرق پڑ گیا.لیکن جس طرح میں آپ کو جس گہرائی کے ساتھ اس کی حقیقت بتارہا ہوں کہ یہ تو ایک عجیب نظارہ ہے ایسا نظارہ جس نے کل عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا ہے اور یہیں پر بس نہیں کی بلکہ اس تمام عالم کو اس اولین کے عالم سے جا ملایا ہے جو چودہ سو سال پہلے ظہور میں آیا تھا.دیکھیں کتنی عظمت اس واقعہ کی ایک نئی شان کے ساتھ ابھرتی ہے اور یہ واقعہ صرف زمانے میں نہیں پھیلتا، موجودہ زمانے میں نہیں پھیلتا بلکہ گزشتہ زمانوں سے پیوست ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ پھر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس ہمارا وجود ا یک روحانی وجود ہے اور اس کی لذتیں بھی ہمیشہ روحانی رہنی چاہئیں اور روحانی رکھنے کے لئے جد و جہد کی ضرورت پڑے گی ورنہ بسا اوقات ایسی عظیم کا میابیاں آئندہ ہمارے قدم چومنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں کہ ہمارے نفسوں کو دھوکے میں ڈال دیں گی ہمارے سروں میں کبھی پیدا کر دیں گی بجائے

Page 585

خطبات طاہر جلد 13 579 خطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994ء اس کے کہ خدا کے حضور جھکیں غلط مفہوم اپنی عظمت کے ان سروں میں سما جائیں گے اور انہیں پاگل کر دیں گے.پس اس بات کی فکر کریں اور اپنے گھروں میں بھی جب ان باتوں کی لذتوں کا ذکر کریں تو اللہ کے حوالے سے، حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے حوالے سے اور اپنی عاجزی کے حوالے سے ذکر کریں.ہر چند کہ ہم حق دار نہیں تھے عجیب اللہ کی شان ہے کہ عظیم وعدے ہمارے ذریعے پورے ہو رہے ہیں اور ہمارے زمانے میں پورے ہو رہے ہیں.اس انکسار کی آپ حفاظت کریں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خدا کا وعدہ ہے کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں اور یہ ایسا وعدہ ہے جو ہمیشہ آپ کی ذات میں پورا ہوتا رہے گا اور یہی ایک حقیقی بجز ہے جو بناوٹی نہیں بلکہ حقیقی ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.یہ حقیقی بجز ہے اگر اس عجز کی حقیقت کو آپ پہچان جائیں اور جان لیں کہ واقعہ یہی حالت ہماری ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں تو پھر آپ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کتنے بڑھ چڑھ کر ہمیشہ آئیں گے اور ہماری عقلوں کو اپنی قوت اور عظمت اور شوکت اور جلال اور جمال کے ساتھ وقتی طور پر گویا ماؤف کر دیا کریں گے.بعض دفعہ جب غیر معمولی چمکار ہوتی ہے جلووں کی، تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں پھر مزید دیکھنے کی طاقت نہیں رہتی.بعض دفعہ دماغ وقتی طور پر معمولی جلال اور شان کے اظہار سے ماؤف ہو جاتے ہیں یعنی ان کے اندروہ مزید طاقت نہیں رہتی کہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں ،ہمٹا سکیں اپنے تھوڑے لفظوں میں اس کو سماسکیں.پس اس پہلو سے میں امید بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ انشاء اللہ اپنے عجز کی حفاظت کرتی رہے گی تو خدا تعالیٰ ان پر بے شمار فضل نازل فرماتا رہے گا.اس ضمن میں میں خصوصیت سے آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اکٹھے رہیں آپ نے ایک اجتماع کا مرکز دیکھا تھا اور اجتماعیت کا جو نظارہ آپ کے علم میں تھا مگر اس طرح آنکھوں کے سامنے نہیں ہورہا تھا جب آنکھوں کے سامنے ابھرا ہے تب آپ کو معلوم ہوا ہے کہ ایک ہاتھ پر، ایک مرکز پر اکٹھا ہونا کس کو کہتے ہیں اور کیسا عظیم روحانی لطف اس چیز میں ہے.اس لئے آج جو میں نے آپ کے سامنے آیت تلاوت کی ہے اس کا اس مضمون سے تعلق ہے کہ آپ اپنی اجتماعیت کی حفاظت کریں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رہیں، چھٹے رہیں، کوئی ایسی بات نہ کریں جو کسی طرح بھی جماعت کے

Page 586

خطبات طاہر جلد 13 ایک وجود میں رخنہ پیدا کر سکے.580 خطبه جمعه فرموده 5 راگست 1994 ء لیکن اس سے پہلے میں ایک دو اور ذکر کرنا چاہتا ہوں، جب ٹیلیفون دنیا بھر سے آرہے تھے تو کیونکہ لائنیں تھوڑی تھیں اس لئے مکمل طور پر وہ لائنیں جام ہو چکی تھیں اور جسوال برادران نے بڑی حکمت سے کام لیا کہ لمبی بات نہیں کرتے تھے فوڑ اوا پس فون رکھتے تھے اور کہتے ہیں جب رکھتے تھے تو گھنٹی بج رہی ہوتی تھی یعنی مسلسل گھنٹی بجی ہے اور بعد میں مجھے فونوں پر اور خطوں کے ذریعے بھی لوگوں کے پیغامات ملے اور اپنی بے کسی اور بے بسی کا اظہار کیا کہ کس طرح ہم مسلسل فون پر بیٹھے رہے ہیں لیکن کوئی پیش نہیں گئی.ایک نے مجھے لکھا ہے کہ اسلام آباد میں جو ایکسچینج ہے اس کے ذریعے میں نے کوشش کی تو اس نے کہا یہ ہو کیا رہا ہے کیونکہ ہر جگہ سے مجھ پر اتنا دباؤ ہے کہ فور أملا دو اور آگے لائنیں جام ہوئی ہوئی ہیں آگے سے اٹھاتا کوئی نہیں.مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے.اس نے کہا چلیں میں اسی کو بتا دوں.اس نے اس کو سمجھایا کہ یہ واقعہ ہورہا ہے اس پر وہ ٹیلیفون والا بھی حیرت میں مبتلا ہو گیا یہ عجیب بات ہے اتنا زیادہ دنیا سے وہاں فونوں کا دباؤ ہے.مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ جن جماعتوں کو توفیق نہیں مل سکی تھی یا جن خاص محبت کرنے والوں کو توفیق نہیں مل سکی تھی میں ان کے چند نام آپ کو پڑھ کے سنا دیتا ہوں.سب سے پہلے تو ناظر صاحب اعلیٰ ربوہ.وہ کہتے ہیں میں آپ کا نام سنتا تھا بے قرار ہوتا تھا ، آدمی مقرر کیا ہوا تھا مسلسل بیٹھا ہوا تھا وہ، لیکن کچھ پیش نہیں جا رہی تھی فون ہوتا ہی نہیں تھایا ہوتا تھا تو Engage ہوتا تھا.دوسرے ناظر صاحب اصلاح وارشاد کا ربوہ سے یہی پیغام ملا ہے ہمارے منگل صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا بھی یہی پیغام ملا ہے.صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ حضرت ام متین کا بھی اسی طرح بے قراری کا پیغام ملا ہے.جماعت احمدیہ سیرالیون کی طرف سے پیغام ملا ہے کہ ہم تو مسلسل کوشش کر رہے تھے لیکن آپ تک بات نہیں پہنچ پارہی تھی.ضیاء اللہ مبشر ریجنل صدر ٹوکیو ریجن.جاپان کا ذکر تو آ گیا تھا مگر یہ کہتے ہیں میں اپنے ریجن کی طرف سے بھی کوشش کر رہا تھا جماعت احمد یہ لین اور بوریمی سلطنت عمان ، ان کا بھی اسی طرح کا اظہار ہے.حیدر آبادسندھ کی طرف سے اور فضل عمر ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر صاحب کی طرف سے.سید سجاد احمد اور سید طاہر احمدی ”کوما کی جاپان سے اور میری ہمشیرہ عزیزہ امتہ الباسط کی طرف سے بھی فیکس تفصیلی ملی ہے کہ بہت برا حال رہا ہم تو فون کر کر کے تھک گئے کوئی پیش نہیں جاتی تھی.منصور احمد

Page 587

خطبات طاہر جلد 13 581 خطبه جمعه فرموده 5 اگست 1994ء مبلغ سلسلہ تاشقند.ناصر احمد خان صاحب فرانس، سیف الحق صاحب اور ملک لطیف خالد صاحب او بر ہاوزن جرمنی.جرمنی سے تو کئی فون آئے تھے مگر یہ ایک صرف نام لکھا ہوا ہے یہاں محمد رافع قریشی صاحب تحکیم ، ملک سجاد احمد صاحب اور فریحہ احمد صاحب کینیڈا، اور کینیڈا سے میں نے ملک لال خان صاحب کا نام تو اس وقت سنایا تھا مگر ان کا مجھے فیکس ملا ہے کہ وہ آپ کو ٹیلی پیتھک رابطے سے میرا نام ملا ہوگا کیونکہ میرا فون نہیں مل سکا تو ان سے میری ٹیلی پیتھی چلی ہے کئی دفعہ ایسا ہوا جب جاپان ہوا کرتے تھے تو ہم نے تجربہ کیا ٹیلی پیتھی کا.پرانے زمانے کی بات کر رہا ہوں.تو اس وقت ٹیلی پیتھی کے ذریعے میں ان کو بعض پیغام دیا کرتا تھا ان کی طرف سے بعد میں فون آ کر کنفرمیشن ہو جاتی تھی کہ ہاں آپ نے فلاں وقت مجھے یاد کیا تھا میں کہتا تھا ہاں کیا ہے ، تو اس طرح چلتا تھا.تو چنانچہ انہوں نے مذاق میں وہی بات لکھی ہے کہ میرا فون تو آپ کو نہیں ملا پھر آپ نے جو ذکر کیا وہ ٹیلی پیتھک فون ملا ہو گا.شیخ الطاف الرحمن صاحب سویڈن.زیڈ اے پونتو صاحب انڈونیشیا.رفیع جنرل سیکرٹری صاحب نیویارک جماعت اور راشدہ فیضی صاحبہ یہ نارتھ کیرولینا سے.پیغام تو بہت سے ہیں اور اب آتے بھی رہیں گے مگر اب زیادہ ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے اسی پر اکتفا کرتا ہوں.تو میں یہ بتارہا تھا کہ جو سب سے زیادہ لطف اس جلسے پر آیا ہے وہ اجتماعیت کے ایک ایسے نظارے سے آیا ہے جو آسمان سے اترا تھا اس میں زمینی کوششوں کا کوئی دخل نہیں تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ یہ عالمی جماعت ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے ہاتھ پر کل عالم کو اکٹھا کرنے کے لئے بنائی جا رہی ہے اور اس طرح تم ایک وجود بن گئے ہو.اس ایک وجود کی حفاظت کی خاطر میں آج آپ کو ان قرآنی آیات کے حوالے سے نصیحت کرتا ہوں جن کی تلاوت میں نے کی ہے (سورۃ آل عمران آیت 103 تا106 ).اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ کہ اے مومنو! اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ کا حق ہے اور تقویٰ کا حق کیا ہے؟ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ کہ مرنا نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم مسلمان ہو.اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر لحظہ مسلمان رہو کیونکہ موت کی نہ ہمیں خبر نہ ہمارا

Page 588

خطبات طاہر جلد 13 582 خطبه جمعه فرموده 5 راگست 1994ء اختیار.اور تقویٰ کا حق ادا کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ زندگی کا ہر لحہ جب بھی موت آئے انسان خدا کے حضور مسلمان لکھا ہو.پس تقویٰ کی باتیں کرنا آسان ہے، تقویٰ کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے اور اس ضمن میں بھی میں دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں.کروڑوں احمدی ہو جائیں گے عنقریب انشاء اللہ لیکن اب کروڑ ہیں یا لکھوکھہا ہیں اللہ بہتر جانتا ہے مگر ان سب کے لئے یہ ناممکن ہے یعنی جو میں حالات دیکھ رہا ہوں بالکل ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ ہر شخص ایسی زندگی گزار رہا ہو کہ جس لمحے موت آئے اسلام پر موت آئے.بڑا مشکل مطالبہ ہے.مگر ایک مطالبہ ہم بھی تو کر سکتے ہیں خدا سے اور وہ بجز کا مطالبہ ہے ایک عاجزانہ مطالبہ ہے اور وہ یہ ہے کہ موت دینا تیرے قبضے میں ہے.مرنا ہمارے اختیار میں نہیں.نہ ہماری زندگی ہمارے اختیار میں نہ ہماری موت اختیار میں.تو تو یوں کر.ایسا فضل فرما کہ جس حالت میں ہم مسلمان ہوں اسی حالت میں وفات دینا اس کے سوا وفات نہ دینا.پس یہ تقویٰ کی شرط عجز کے ساتھ پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے اس کے بغیر ناممکن دکھائی دیتی ہے.پس اس عاجزی کے ساتھ اگر آپ خدا کے حضور ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے اکثر لمحے ایسے گذر رہے ہیں یا کم لمحے ایسے گزر رہے ہیں جن میں ہم حقیقت میں مسلمان نہیں رہتے.تو بہتر جانتا ہے مگر اگر چند لمحے بھی تیرے حضور ایسے آئیں کہ جب ہم تیری نگاہ میں مسلمان ٹھہر تے ہوں تو اے خدا اس وقت ہمیں وفات دینا ہمارے ظلم کے لمحوں میں ہمیں وفات نہ دینا.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا یہ اسی حَقَّ تُقتِہ کی اگلی تفسیر ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور اکٹھے ہو کر تھامے رکھو و لَا تَفَرَّقُوا اور ہر گز تفرقہ اختیار نہ کرو.اللہ کی رسی کے متعلق میں پہلے بھی وضاحت سے بار بار بیان کر چکا ہوں اصل حبل اللہ تو وحی الہی ہے جو کتاب کی صورت میں نازل ہوتی ہے اور پھر یہ وحی ایسی ہے جس پر نازل ہوتی ہے اس کو مجسم حبل اللہ بنا دیتی ہے.پس بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حبل اللہ سے تو قرآن مراد ہے آپ رسول بھی مراد لے لیتے ہیں مگر میں زیادہ بہتر سمجھتا ہوں اس بات کو کہ حقیقت قرآن کو براہ راست ہاتھ مارنا ممکن نہیں ہے جب تک رسول کی وساطت سے جو زندہ قرآن ہے قرآن پر انسان اپنا ہاتھ نہ مارے اور اسے پکڑ نہ لے اور تفصیل قرآن کی براہ راست تو کسی کو معلوم ہوتی ہی نہیں اور جو براہِ راست قرآن کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اگر

Page 589

خطبات طاہر جلد 13 583 خطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994ء ا الله خدا سے فیض یافتہ نہ ہوں تو اسی قرآن سے تفرقے کی باتیں نکال لیتے ہیں بجائے اس کے کہ اکٹھے ہونے کی باتیں سیکھیں.پس حضرت محمد مصطفی سے ہی وہ زندہ قرآن ہیں جن پر ہمیشہ مضبوطی سے ہاتھ رہنا چاہئے.یعنی آپ کے قدموں پر یہ ہاتھ ایسے پڑیں کہ پھر کبھی ان سے جدا نہ ہوں اور آپ کی پیروی میں حبل اللہ کی پیروی ہے.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت پر نظر رکھنا اور اپنی زندگی کے ہر لمحے پر اس سیرت کو جاری کرنا ہی یہ حَقَّ تُقتِہ کا مضمون ہے جو پہلی آیت کے مضمون سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے.یعنی کس طرح آپ کو پتا چلے گا کہ آپ کا ہر لمحہ مسلمان ہے اگر محد رسول اللہ ﷺ کی سنت پر ہے تو یقیناً مسلمان ہے اگر اس سیرت سے ہٹ کر ہے تو مسلمان لمحہ نہیں ہے پس ان دو آیتوں میں بظاہر دوری دکھائی دیتی ہے.بے تعلق مضمون ہے.لیکن ہرگز بے تعلق نہیں بعینہ وہی مضمون ہے جو دوسرے رنگ میں بیان ہو رہا ہے وَ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا ایک ہی مضمون کی دو شکلیں ہیں اور پھر اس کے ساتھ ایک عجیب نصیحت فرمائی گئی وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ اور اللہ کی نعمت کو یاد رکھنا.پس وہ لوگ جو اس بات پر ضد کرتے ہیں کہ نہیں محمد رسول الله جبل اللہ نہیں ہیں بلکہ قرآن ہے ان کی جہالت ہے کیونکہ حبل اللہ کی تشریح یہ فرمائی وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ تم اللہ کی نعمت کو یاد کرو اور نعمت رسول ہی ہوا کرتا ہے.رسالت ہی نعمت ہے اور قرآن کریم نے انعامات میں سب سے بڑا انعام رسالت کو بیان فرمایا ہے پس حضرت محمد مصطفی ﷺ وہ نعمت ہیں جن کو یاد کرنا چاہئے.اذ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا جب تم آپس میں پھٹے ہوئے ایک دوسرے کے دشمن تھے ایک صلى الله دوسرے سے جدا جدا تھے.یاد کرو کہ اللہ نے اپنی نعمت کے ذریعے تمہیں ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا ہے.میں نے پہلے بھی اس غلط فہمی کو دور کیا تھا کہ بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اگر تو چاہتا اور سب کچھ جو زمین میں ہے سب بھی خرچ کر دیتا تب بھی ان کو اکٹھا نہیں کر سکتا تھا.یہ محض اللہ ہے جس نے دلوں کو باندھا ہے تو اس آیت کا اس مضمون سے کہیں تضاد تو نہیں جو میں نے ابھی بیان کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی تضاد نہیں کہ محمد رسول اللہ لہ ذاتی طور پر تمام عرب کو اکٹھا کرنے ، ایک ہاتھ پر جمع کرنے کی

Page 590

خطبات طاہر جلد 13 584 خطبه جمعه فرموده 5 راگست 1994ء استطاعت نہیں رکھتے تھے.جب اللہ کی نعمت بنے ہیں اور مجسم نعمت بن گئے ہیں تو اس نعمت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے لوگوں کو اکٹھا کیا ہے پس قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے وجود کی صحابہ کو اکٹھا کرنے میں ایک ذریعہ بنے کی نفی نہیں فرمائی بلکہ اس کی توثیق فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا کہ ولو كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ کہ اے محمد رسول الله الله اگر تو مزاج میں سخت ہوتا اور ان لوگوں سے کسی لحاظ سے بھی بدخلقی سے پیش آتا تو یہ تجھے چھوڑ کر ارد گرد بھاگ جاتے تو اس وقت پھر آلَفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ کا مضمون کیسے صادق آتا.پس اللہ ہی ہے جو اکٹھا کرتا ہے مگر کچھ ذریعے اختیار فرماتا ہے اور اکٹھا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ تھے اور اس ذریعے کی روح یہ بیان فرمائی کہ نہایت اعلیٰ خلق کے مالک تھے آپ کے گوشے اپنے صحابہ کے لئے نرم تھے ، آپ کا پیار اور رحمت تھی جو لوگوں کے دل جیت رہی تھی اور آپ کو رؤف رحیم فرمایا یعنی بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ کہ اتنا زیادہ رحمت کرنے والا اتنا شفقت کا سلوک کرنے والا ہے کہ گویا خدا کی دوصفات اس کی ذات میں جلوہ گر ہو گئی ہیں اللہ رؤف ہے تو یہ بھی رؤف بن گیا ہے اللہ رحیم ہے تو یہ بھی رحیم بن گیا ہے.پس محمد رسول اللہ ﷺ کی وساطت کے بغیر خدا تعالیٰ کے قرب کا تصور ایک جاہلانہ تصور ہے، بالکل بے حقیقت تصور ہے.اہل قرآن سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی جاہل نہیں ہے جو مسلمان کہلا کر بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ سے بے نیازی کی باتیں کرتے ہیں گویا محمد رسول اللہ تو صرف ایک مشین تھے جن پر قرآن اتر گیا اور اس کے بعد ہمیں چھٹی ہوئی.اب محض قرآن ہی ہے جس پر ہاتھ ڈال لو اور رسول اللہ ﷺ کی ضرورت نہیں رہی.حالانکہ رسول کی اگر ضرورت نہ ہو تو آج کیا ہو گیا.آج قرآن وہ نہیں ہے.کیا وہی ہم ہیں جو اس زمانے میں ہوا کرتے تھے جب محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ تھے کیا عالم اسلام کا وہی عالم ہے جو صحابہ کا عالم تھا اور ان کے دل اور ان کی روح کی کیفیات تھیں؟ چہ نسبت خاک را با عالم پاک.وہ اگر عالم پاک تھا تو یہ خاک کی دنیا ہے اس کو اس عالم پاک سے کوئی بھی نسبت نہیں رہی اور قرآن وہی ہے.پس اہل قرآن کو جھوٹا کرنے کے لئے اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ قرآن تو اسی طرح ہے ایک ذرہ بھی اس میں تبدیلی نہیں ہوئی اور تم

Page 591

خطبات طاہر جلد 13 585 خطبه جمعه فرمود و5 اگست 1994ء اہل قرآن بن کر تمام سعادتیں محض اس کتاب سے محمد رسول اللہ ﷺ کی وساطت کے بغیر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو اور اس کے دعویدار ہو تو کچھ کر کے دکھا دو.کیا تم نے دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے.وہ صحابہ جومحمد رسول اللہ ﷺ کے اردگرد پروانوں کی طرح تھے وہ تو تم سے تعداد میں کم تھے اور کمزور تھے انہوں نے تو ساری کائنات کی کایا پلٹ دی تھی.تمام ماحول انقلاب کا ماحول بنادیا تھا، تم آج اسی طرح باتیں کرتے ہو قرآن کے ساتھ تعلق کی ، جھوٹ ہے اور تعلق تو حقیقت میں دماغ سے نہیں دل سے ہوا کرتے ہیں اور دل کے تعلق میں محبت کے تقاضے ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں اور محمد مصطفی ﷺ سے بھی کوئی تعلق فرضی نہیں ہو سکتا جب تک قلبی نہ ہو اور قلبی تعلق ہی ہے جو انسان کی کایا پلٹتا ہے.أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ میں قلب کی باتیں ہو رہی ہیں دماغ کی باتیں کہاں ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تمہیں خوب سمجھا دیا ہم نے اب بات سمجھ لو اور اس پر قائم ہو جاؤ.فرماتا ہے ہم نے دلوں کو باندھا ہے ورنہ اچھی بھلی باتیں سمجھ آ جاتی ہیں پھر بھی اگر دلوں میں روحانیت نہ ہو زندگی نہ ہو تو وہ باتیں انسان کے کچھ بھی کام نہیں آتیں.پس فرمایا أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةِ اِخْوَانًا تم اللہ کی نعمت کے ذریعے بھائی بھائی بنے ہو.اب وہ نعمت جب اٹھی یعنی نبوت کی ساری برکتیں تو نہیں اٹھیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود بنفسہ اس دنیا سے اٹھ گیا اس وقت وہی قرآن تھا وہی مسلمان تھے اچانک دیکھا آپ نے کیا واقعہ رونما ہوا.کس طرح وہ پھر لڑ پڑے ہیں آپس میں کس طرح ایک قیامت کی برپا ہوگئی.سارے عرب میں ہر طرف فتنوں نے سراٹھا لئے.وہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا لیکن جو اس مسئلے کوحل کرتا ہے کہ اچانک یہ کیوں تغیر پیدا ہوئے.بعض مستشرقین سے جب گفتگو ہوا کرتی تھی پہلے، تو وہ میرے سامنے یہ بات طعن کے طور پر رکھتے تھے کہ اسلام نے کیا انقلاب برپا کیا.محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں چند دن تک اور بعد میں دیکھو کس طرح فساد برپا ہو گئے تو ان کو میں کہتا تھا کہ تمہیں دیکھنے کی آنکھیں نہیں ہیں.آنحضرت ﷺ کے عظیم مرتبے پر یہ باتیں گواہ ہیں اور اس سے بڑی گواہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ عرب جن کا یہ مزاج تھا صلى الله ان کو کس طرح ایک جان بنا کے رکھ دیا، ایک قالب میں تبدیل کر دیا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے صلى الله دل کے ساتھ وہ سارے دل ہم آہنگ ہو گئے تو جب آنحضور ﷺ نہ رہے تو وہ بات نہ رہی جو آپ

Page 592

خطبات طاہر جلد 13 586 خطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994 ء کے وجود کے ساتھ وابستہ تھی.پس بعض وجود خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض برکتوں کے مجسم نمائندہ ہو جایا کرتے ہیں اور الله نبی خدا کی برکتوں کا سب سے بڑا نمائندہ ہوتا ہے لیکن آنحضرت ﷺ کا ایک جسمانی وجود تھا، ایک روحانی وجود ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضور ﷺ کے وصال کے بعد عرض کیا کہ اے میرے آقا خدا تجھ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا.پس وہ روحانی وجود زندہ ہے.وقتی طور پر جب روحانی اور جسمانی وجودا کٹھے ہوں تو بعض دفعہ جسمانی وجود کے غائب ہونے سے نفسیاتی طور پر انسان دھوکا کھاتا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہا اور اس کی وجہ سے بہت سی آزادیاں جو حقیقت میں آزادیاں نہیں بلکہ غلامیاں ہیں یعنی شیطان کی غلامیاں، وہ سر اٹھانے لگتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ ایک وجود قتی طور پر ہم میں نہیں رہا اور ایک نفسیاتی کیفیت ہے.آنحضرت ﷺ کے وصال کے معا بعد جو سلسلہ شروع ہوا ہے اور وہ خلافت رابعہ کے آخر پر بد نصیبی سے خلافت کی نعمت کو ہاتھ سے کھونے پر منتج ہو وہ یہی نفسیاتی کیفیت تھی آنحضور ظاہری طور پر ساتھ رہا کرتے تھے آپ کا روحانی.وجود ہمیشہ کے لئے ساتھ رہ رہا تھا.عادت پڑ گئی تھی اس روحانی وجود تک اس جسمانی وجود کے واسطے سے پہنچنے کی اور فوری طور پر انسان اس تبدیلی کو محسوس کر کے اس کو ہضم نہیں کر سکا.پھر رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کے روحانی وجود کو ایک زندہ وجود کے طور پر امت میں ہمیشہ جاری رکھا ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو روحانی وجود کو دیکھنے اور اس کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.یہ ایک فرق ہوا کرتا ہے.وجود تو روحانی ہی ہے جسمانی وجود تو اس کا ایک پیکر ہے جس نے اس کو اٹھایا ہوا ہے مگر عام طور پر نبی سے نبی دماغ بھی جسمانی وجود کو دیکھ کر متاثر ہو جاتا ہے اور ذہین انسان ہے جو اس کے اندر کے روحانی وجود پر نظر رکھتا ہے.پس جب وقتی طور پر جسمانی وجود کو الگ کیا جائے یوں معلوم ہوتا ہے کھلی چھٹی مل گئی ہے جو چاہو کرتے پھرو.یہی کیفیت ہے جو اسلام کی یا رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد کی ابتدائی تاریخ میں رونما ہوئی اور ہم نے اپنے دور میں اس کو اسی طرح دیکھا ہے.جب میں ربوہ سے روانہ ہوا یعنی اس عارضی ہجرت میں تو فوری طور پر ربوہ کے ان لوگوں کا یہی رد عمل تھا جو میرے وہاں رہنے کے رعب کی وجہ سے ٹھیک رہتے تھے اور بعد میں کئی قسم کی شرارتیں

Page 593

خطبات طاہر جلد 13 587 خطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994ء شروع کر دیں.کئی قسم کے فتنوں نے سراٹھا لیا.لوگ مجھے لکھتے تھے کہ اوہو یہ کیا ہو گیا اب تو آپ آگئے ہیں اور حکومت نے ان لوگوں کو شہ دی ہے منافقوں کی سر پرستی کر رہی ہے پیٹھ ٹھونک رہی ہے اور لگتا ہے کہ سب ہاتھ سے نکل جائیں گے.میں ان کو ہمیشہ یہ لکھتا رہا کہ آپ کو وہم ہے نہیں نکلیں گے ہاتھ سے.وقتی طور پر ایک دھوکا ہے ان کا اور پھر صحیح صورتحال پر واپس آجائیں گے اور وہ جو رشتہ بند ھے گاوہ دائمی ہے وہ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ وہ ابتلاء میں ثابت قدم رہنے والا رشتہ ہے.پس جو چند منافقین ہیں، چند کمزور ہیں ، وہ ٹھیک ہے ہاتھ سے جاتے رہیں گے مگر ان کی قطعا کوئی پرواہ نہ کریں.ان میں سے بھی بہت سے واپس آئیں گے اور پھر مزاج درست کر کے واپس آئیں گے اور بعد میں پھر یہی کیفیت رونما ہوئی مگر اب تو اللہ تعالیٰ نے اس ظاہری اور روحانی رشتے کو ملا کر عالمی طور پر ٹیلی ویژن کے ذریعے ایک ایسا نیا نظام قائم کر دیا ہے کہ خلافت احمدیہ کو قیامت تک مستحکم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا ہے.اس لئے اب یہ خیال بھلا دیں دل سے کہ خلافت رابعہ آگئی اور بعد میں پھر وہی کچھ ہو گا جو پہلے ہو چکا ہے.یہ بالکل واضح جھوٹ ہے اگر کوئی یہ غلط امید میں لگائے بیٹھا ہے تو وہ نا مرا در ہے گا ان امیدوں کا پھل کبھی نہیں دیکھے گا.کیونکہ خلافت رابعہ میں تو اجتماعیت کا آغاز ہوا ہے اختتام کے اعلان نہیں ہو رہے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو خلافت دی گئی ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کو قیامت تک جاری کرنے کے لئے دی گئی ہے اور اس لئے یہ وہم دل سے نکال دو کہ خلافت رابعہ آخری دور ہے.خلافت رابعہ آئندہ آنے والے حالات کے لئے جو آسمان سے تقدیر میں رونما ہورہی ہیں ان کے لئے ایک پیش خیمہ بن گئی ہے.پس نئے باب کا آغاز ہے نہ کہ پرانے دور کے اختتام کا اعلان ہے.پس یہ جو آپ نے کیفیتیں دیکھیں اور اس سے لطف اندوز ہوئے ان سب باتوں کواس سارے پس منظر میں سمجھیں، اس کی کیفیات کو اپنے دلوں میں اپنے خون میں اپنے مزاج میں داخل کر دیں اور ساری زندگی آپ کی سرور کی زندگی بن جائے گی.پس وہ خدا کا احسان کہ آپ کو اکٹھا کر دیا آج یہ دوہری صورت میں ظاہر ہوا ہے اور اس آیت کے حوالے سے میں بتاتا ہوں کہ محمد رسول الله اللہ ﷺ کی برکت سے ہوا ہے.فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا محمد رسول اللہ ﷺ کی نعمت سے تم جیسے کل بھائی بنائے گئے تھے.آج پھر بھائی بنائے گئے ہو لیکن خدا کی قسم اب جو بنائے گئے ہو

Page 594

خطبات طاہر جلد 13 588 خطبه جمعه فرموده 5 راگست 1994ء انشاء اللہ قیامت تک اللہ تعالیٰ تمہیں بنائے رکھے گا.اگر تم انکساری کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگیاں بسر کرو گے تو اس نعمت کو کوئی تم سے چھین نہیں سکے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں توجہ دلائی گئی ہے.وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللہ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اس لئے ہے کہ تم خدا کے شکر گزار بندے بنو وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تم تو آگ کے کنارے پر کھڑے تھے اللہ نے اس کنارے سے تمہیں بچالیا.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ دیکھو اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات تم پر کھول کھول کر بیان فرماتا ہے ان کی حقیقتیں بیان فرماتا ہے ان کا فلسفہ تم پر روشن فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کہ تم میں اب ہمیشہ ایک ایسی امت قائم رہنی چاہئے يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ جو بھلائیوں کی طرف بلاتی رہے نیکی کی طرف بلائے وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اور معروف چیزوں کا حکم دے وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بری باتوں سے روکتی رہے وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں یعنی کا میابیاں حاصل کرنے والے ہیں.پس یہ جو اجتماعیت ہے آپ کی اس کی حفاظت کا ایک اور گر آپ کو بتایا گیا.پہلا تو یہ کہ اللہ کی نعمت کا ذکر کرتے رہو اور یہ احسان مندی کا ایک اور طریق ہے وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللہ میں دراصل میں نے جو آپ سے کہا تھا، شکر گزاری کا مضمون اللہ تعالیٰ نے یہیں بیان فرمایا ہے وہ ذکر کے ساتھ وابستہ ہے وہ لوگ جو احسان فراموش ہوتے ہیں وہ احسانات کو بھلا دیا کرتے ہیں اور وہ لوگ جو احسان کو دل میں قبول کرتے ہیں، دل پر گہرا اثر لیتے ہیں وہ احسانات کا ذکر کرتے ہی رہتے ہیں.بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات بھی ایک انسان کسی احسان مند انسان کے ساتھ کر دے حسن سلوک کی ، تو اتناذ کر کرتا ہے، کہ جس سے احسان واقع ہو گیا وہ بے چارہ مصیبت میں پڑ جاتا ہے وہ شرمندگی سے اس کو روکتا ہے خدا کے لئے بس کرو کچھ بھی نہیں چھوٹی سی بات تھی مگر وہ چھوڑتا ہی نہیں تو اتنا بڑا احسان یعنی محمد رسول اللہ ہے ان کے ذکر کو کیسے چھوڑو گے.پس ذکر میں احساس شکر داخل ہے کثرت کے ساتھ اس احسان کا ذکر کیا کرو تا کہ تم شکر گزار بندے بنواور اگر شکر گزار بندے بنو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بکثرت اور احسان فرمائے گا اور دوسرا ایک ذریعہ اس نیکی کی

Page 595

خطبات طاہر جلد 13 589 خطبه جمعه فرموده 5 راگست 1994ء حفاظت کا یہ بیان فرمایا ہے وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ تم میں ہمیشہ کچھ لوگ اس بات پر وقف رہنے چاہئیں جو بھلائی کی طرف بلاتے رہیں کوئی مانے نہ مانے کوئی اثر قبول کرے یا نہ کرے بلاتے ہی رہیں وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اچھی باتوں کا حکم دیں یعنی يَأْمُرُ سے مراد جبر کا حکم نہیں ہے بلکہ تاکیدی نصیحت مراد ہے.تاکیدی طور پر اچھی باتوں کی نصیحت کرتے رہیں اور بری باتوں سے روکتے رہیں وَ أُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوں گے.پس کامیابی کا سہرا قوم کے اس حصے کے سر پر باندھا گیا ہے جو لوگوں کو نیک نصیحت کرتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے پس آپ اگر اس کامیابی میں اول شریک ہونا چاہتے ہیں وہ کامیابی جو خدا نے آپ کے لئے مقدر فرما دی ہے تو وہ اول حصہ بنیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ اگر تم نصیحت کرنے والے بنو گے، برائیوں سے روکنے والے بنو گے تو درحقیقت تم کامیاب ہو گے کیونکہ تمہاری وجہ سے قوم ہلاکت سے بچائی جائے گی.پھر فرمایا وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ البينت دیکھو ایسے نہ بن جانا کہ وہ لوگ جو پھٹ گئے آپس میں ایک دوسرے سے جدا جدا ہو گئے اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَتُ اور اختلاف کر بیٹھے باوجود اس کے کہ ان کے پاس کھلے کھلے روشن نشان آچکے تھے.یہ کون لوگ ہیں؟ اولین کے بعد آنے والے لوگ ہیں اور یہاں براہِ راست وہ آخرین مخاطب ہیں جن کو خدا نے دوبارہ محمد رسول اللہ اللہ کی نعمت کے ذریعے ایک ہاتھ پر اکٹھا فرمایا ہے.اس مضمون کی ترتیب کو دیکھیں کیسی واضح ہے فرمایا دیکھو تمہیں ہم نے دوبارہ اکٹھا کیا ہے اسی ایک رسول کے ہاتھ پر دوبارہ اکٹھا کیا ہے، اسی کی نعمت کے طفیل اسی کے احسان کے تابع تم اکٹھے ہوئے ہو اب پھر وہ حرکت نہ کرنا جو محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال کے کچھ عرصے کے بعد ظاہر ہوئی اور قوم پھٹ گئی اور مختلف فرقوں میں تبدیل ہو گئی اور ان کے دل بھی جدا جدا ہو گئے ، ان کے دماغ بھی جدا جدا ہو گئے فرمایا اگر تم ایسا کرو گے تو یا درکھنا یہ وہ لوگ ہیں.لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ان کے لئے بہت بڑا عذاب مقدر ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس نئے دور کے فیض کو اپنے وجودوں میں ہمیشہ زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جو دراصل پرانے دور ہی کا ایک فیض ہے جو نئے پیمانوں میں آیا ہے کہتے

Page 596

خطبات طاہر جلد 13 590 خطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994ء الله ہیں.پرانی شراب نئی بوتلوں میں.یہ شراب طہور وہی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوئی تھی یہ فضلوں کی وہی بارش ہے جو آپ پر برستی تھی ہاں نئے پیمانوں میں اب یہ بٹ رہی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اسے اسی طرح پاک وصاف رکھتے ہوئے بغیر کسی ملونی کے تمام دنیا میں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.خود بھی ہم اس شراب کے نشے میں سرشار رہیں اور دنیا کو بھی سرشار کرتے چلے جائیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 597

خطبات طاہر جلد 13 591 خطبه جمعه فرمود و 12 راگست 1994ء حضرت محمد مصطفی محلی یا اللہ کی نصائح میں گہری حکمتیں - ہیں.ان نصائح کی حقیقی پہچان اور عرفان حاصل کر کے عمل کرنا چاہیئے.( خطبه جمعه فرموده 12 راگست 1994ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران : 105) پھر فرمایا:.آج کے خطبے سے پہلے جو اجتماعات ہیں ان میں سب سے پہلے خدام الاحمدیہ امریکہ کا سالانہ اجتماع ہے جو آج 12 راگست سے شروع ہورہا ہے اور تین دن جاری رہے گا.مجلس خدام الاحمدیہ سوئٹزرلینڈ کا بھی تین روزہ اجتماع آج ہی شروع ہو رہا ہے اور تین دن تک جاری رہے گا اور لجنہ اماءاللہ سوئٹزرلینڈ کا سالانہ اجتماع کل 13 اگست سے شروع ہو کر دو دن جاری رہے گا.جماعت احمدیہ کینیڈا کی تیسری نیشنل تعلیم القرآن کلاس آج 12 اگست سے شروع ہو کر 18 اگست تک جاری رہے گی.اس کے علاوہ سرینام کی طرف سے یہ شکوہ موصول ہوا تھا کہ ہم نے بھی اعلان کے لئے کہا تھا.30،29 اور 31 جولائی کو ہمارا بھی جلسہ ہو رہا تھا لیکن آپ نے وہ اعلان نہیں کیا.سرینام کی جماعت ماشاء اللہ اب اٹھ رہی ہے.ایک عرصہ سونے کے بعد کچھ بیداری کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اس لئے اس اعلان سے اگر مزید ان کی آنکھیں کھولنے میں مدد ملے تو بہت اچھا موقع ہے اللہ تعالیٰ

Page 598

خطبات طاہر جلد 13 592 خطبه جمعه فرمود و 12 راگست 1994ء ان کو پوری طرح بیدار ہو کر اعلیٰ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.اس کے علاوہ جو اعلانات ہیں ان میں ایک شکوہ ہے جو جائز ہے.ٹرینیڈاڈ کی طرف سے شکوہ ملا ہے کہ ایک اہم ملک کا اضافہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کرنے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور اس کی رپورٹ بھی بھجوائی گئی تھی.معلوم ہوتا ہے وہ فیکس وقت پہ پہنچی نہیں ، اس لئے وہ نام رہ گیا.پس ملکوں کی فہرست میں بھی ایک اضافہ ہو جاتا ہے اور اس میں ٹرینیڈاڈ نے چونکہ غیر معمولی کوشش کی اور خدمت کی اور ان کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے اچھا پھل لگایا اس لئے ان کو بھی اس فہرست میں یعنی نئے ملکوں میں احمدیت کا پودا لگانے والوں میں داخل سمجھنا چاہئے.انہوں نے ایک نئے جزیرے جو ایک الگ حکومت پر مشتمل ہے، ایسٹرن کیریبین کے جزیرے Saint Lucia میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت کا پودا لگایا ہے اور یہ زیادہ تر افریقی نسل کے باشندے ہیں جو وہاں آباد ہیں.جلسہ سالانہ UK پر جو پیغامات تہنیت ملتے رہے اور وہ آخری آدھے گھنٹے میں جو لمحے کا عرصہ لگتا تھا اتنے کثرت سے پیغام آ رہے تھے کہ ناممکن تھا کہ ان کو وصول ہی کیا جا سکتا تو بعد میں بعض خطوط ملے ، بعض Faxes، بعض ٹیلیفون آئے کہ ہم بھی بہت بے قرار تھے اس وقت شامل ہونے کے لئے اور شامل تھے لیکن ہمارا نام آپ تک نہیں پہنچ سکا تھا.ان میں سب سے پہلے وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید کا نام ہے.ناظر صاحب اعلیٰ کا نام پہلے مذکور ہو چکا ہے.پھر امیر صاحب USA کہتے ہیں ہم نے بھی بہت کوشش کی تھی لیکن افسوس رابطہ نہیں ہو سکا.سرینام کے انچارج حمید احمد صاحب ظفر نے بھی پیغام دیا ہے اور کراچی کی طرف سے عبدالرحیم بیگ صاحب قائم مقام امیر کا بھی یہی پیغام ہے.اسی طرح لاس اینجلیز ، سعودیہ، میر پور خاص، نوکوٹ ، جاپان اور کینیڈا سے بھی بعض متفرق پیغام ملے ہیں.جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے پہلے بھی کر چکا ہوں اس کا با محاورہ ترجمہ یہ ہے.وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ اور چاہئے کہ تم میں سے ایسی قوم نکلے جو بھلائیوں کی طرف اچھی باتوں کی طرف بلانے والی ہو جائے وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اور ہمیشہ اچھی باتوں کا حکم دیتی رہے وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور ہمیشہ بری باتوں سے روکتی رہے.قوم کے حوالے سے میں نے یہ تانیث میں ترجمہ کیا ہے ورنہ لفظا جو يَأْمُرُونَ کا مطلب ہے حکم دیتے

Page 599

خطبات طاہر جلد 13 593 خطبه جمعه فرمود و 12 / اگست 1994ء رہیں اور يَنْهَونَ کا مطلب ہے وہ لوگ برائیوں سے روکتے رہیں تو اس وضاحت کے بعد میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو خطبات کا سلسلہ شروع ہے اس کا بنیادی طور پر اسی مضمون سے تعلق ہے.کچھ نیک نصیحتیں جو میں کر رہا ہوں وہ تمام حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے حوالے سے کر رہا ہوں کیونکہ آنحضور ﷺ کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی بہت عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں.بہت گہرا اثر ہے.بہت وزنی ہیں جہاں تک دلوں پر اثر کا تعلق ہے.صلى الله آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت جریر روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا.( بخاری کتاب الادب حدیث نمبر : 5554) ایک چھوٹا سا فقرہ ہے اس میں ایک عظیم الشان حکمتوں کا سمندر بیان ہو گیا ہے.ہر انسان اللہ تعالیٰ سے ایک توقع رکھتا ہے اور اس سے نیچے بندے اس سے کچھ توقع رکھتے ہیں.اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی توقعات اللہ تعالیٰ پوری فرمائے تو ضروری ہے کہ اپنے نیچے جو بندے اس کے سپرد ہیں ان کی توقعات اپنے حق میں پوری کر کے دکھائے.یہ ناممکن ہے کہ خدا کے بندوں سے تعلق کاٹ دیا جائے اور خدا کا تعلق برقرار رہے.پس یہاں رحم کا تعلق ہے اگر چہ یہ لفظ عام طور پر نرم دلی سے پیش آنے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر بنیادی اصول یہی ہے کہ ہر وہ بات جس میں آپ اپنے ہم جنسوں سے یا اپنے ماتحتوں سے بدسلو کی کرتے ہیں یا ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے.ان تمام باتوں میں اصولاً آپ اللہ تعالیٰ کے رحم کے اور اس کے پیار کی توجہ کے مستحق نہیں رہتے.پس اس پر غور کر کے اگر ہم اپنے تمام تعلقات کے دائروں کی نگرانی کریں تو بہت سے ایسے تعلقات ہیں جن میں ہمیں رخنے دکھائی دیں گے اور بہت سی ایسی دعائیں ہیں جن کی ناکامی کا سبب معلوم ہو جائے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی گریہ وزاری کے ساتھ یہ دعا کی یا وہ دعا کی اور جہاں تک ان کے اپنے مانتوں سے تعلق کا سوال ہے یا اپنے ہم جنسوں ، دوسروں سے تعلق کا سوال ہے انہی معاملات میں وہ ان سے زیادتی کر جاتے ہیں.مثلاً کئی ایسے ہیں جو غربت کا شکوہ کرتے ہیں کہتے ہیں ہم نے بہت خدا کے حضور گریہ وزاری کی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور واقعہ یہ ہے کہ بہت سے ان میں ایسے ہیں جن کی بعض دفعہ یہ کمزوریاں پوشیدہ رہ جاتی ہیں، ان پرستاری کا پردہ پڑا رہتا ہے.بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کی کمزوریاں لوگوں کے سامنے کھلیں یا نہ کھلیں میرے

Page 600

خطبات طاہر جلد 13 594 خطبه جمعه فرمود و 12 راگست 1994 ء سامنے آجاتی ہیں اور اس وقت یہ نکتہ سمجھ آتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بھائیوں سے معاملات میں دیانتداری کے سلوک نہیں کئے.جو اعلیٰ تو قعات امانت کی ان سے وابستہ تھیں ان کو پورا نہیں کیا.اور پھر خدا سے شکوے ہیں کہ ہم تیرے حضور گریہ وزاری کرتے رہے ماتھا ٹیکتے رہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی.ایک اور اہم پہلو اس میں قابل توجہ یہ ہے کہ اللہ کے حضور محض مالی ضرورت لے کر جانا یہ دعا کی قبولیت کی ضمانت نہیں ہو سکتی.اللہ سے تعلق اور محبت کے رشتے استوار رہنے چاہئیں اور ان رشتوں کے نتیجے میں پھر خدا کے فضل نازل ہوتے ہیں اور جہاں محبت کے تعلقات استوار ہوں وہاں نقصان بھی انسان خدا کی خاطر خوشی سے برداشت کرتا ہے.پس اگر نقصان کے وقت انسان کے غصے کا پارہ چڑھ جائے اور انسان یہ سمجھے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہ میرا نقصان ہونے دیا، یہ تکبر بھی ہے اور قرآن کریم اس کے خلاف سخت کراہت کا اظہار فرماتا ہے.ایسے شخص کے لئے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وعید ہے.پس اپنے نقصانات میں بھی آپ پہچانے جاتے ہیں اور ایسی صورت میں جو واقعہ خدا کے حضور راضی برضا رہتے ہوئے سر جھکا دیتا ہے اس کی ضرورت کی دعائیں پھر پوری کی جاتی ہیں.اس لئے اس مضمون سے یہ جو مختلف بار یک پہلو نکل رہے ہیں یہ حدیث کے الفاظ تو چند ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور ایک دو مثالیں دے کر مضمون کھول رہا ہوں اپنے تمام زندگی کے تعلقات کے دائرے میں اس بات کو استوار کر کے دیکھیں امر واقعہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے بندوں کی مدد میں رہتے ہیں دعانہ بھی کریں تو اللہ ان کی مدد پر رہتا ہے اور جو اپنے بھائیوں ، اپنے قریبیوں کے حال سے غافل رہیں خواہ ان کا مالی نقصان نہ بھی کریں، بد دیانتی سے نہ بھی پیش آئیں لیکن ان کے غم محض اپنی ذات کے لئے ہوں، اپنے عزیزوں کے لئے نہ ہوں، اپنے گردو پیش کے لئے نہ ہوں، ان کی دعائیں بھی اسی حد تک کمزور ہو جاتی ہیں.پس دعاؤں کی قبولیت کا گہرا راز اس مضمون میں ہے کہ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس سے رحم کا سلوک نہیں فرماتا.ایک حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: قال : رسول الله الا الله من استعاذ بالله فاعيذوه، ومن سال بالله فاعطوه، ومن دعاكم فاجيبوه، ومن صنع اليكم معروفا

Page 601

خطبات طاہر جلد 13 595 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 /اگست 1994ء فكافئوه، فان لم تجدوا ما تكافئونه به فادعوا له حتى تروا انكم قد كافاتموه.(ابوداؤد کتاب الزكاة حديث نمبر : 1672) حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے نام پر پناہ مانگتا ہے اس کو پناہ دو اور جو شخص اللہ کا نام لے کر مانگتا ہے اسے کچھ نہ کچھ ضرور دو اور جو شخص دعوت کے لئے بلاتا ہے اس کی دعوت قبول کرو.جو شخص تم سے نیک سلوک کرتا ہے اس کے اس نیک سلوک کا بدلہ کسی نہ کسی رنگ میں ضرور دو.اگر بدلہ دینے کے لئے تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو اتنی دعا کرو کہ تمہارا دل مطمئن ہو جائے کہ گویا تم نے بدلہ ادا کر دیا ہے.بہت ہی پیارا کلام ہے بہت ہی تفصیل سے باریکی میں اتر کر مضمون کو سمجھایا گیا ہے کہ دعا محض کر دینا کہ ٹھیک ہے جزاک اللہ کہہ کر الگ ہو جائیں یہ کافی نہیں ہے جب تک دل مطمئن نہ ہو کہ میرے دل سے بوجھ اتر گیا ہے اور اپنے بھائی کی میں نے دعا سے اتنی خدمت کر دی ہے کہ اللہ ضرور اس کا فیض اس کو پہنچائے گا اس وقت تک دعا سے رکنا نہیں ، تمہارا حق ادا نہیں ہو گا.اس حدیث میں چھوٹی چھوٹی کئی باتیں ہیں ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ قریب سے دیکھنا ضروری ہے.الله جو اللہ کے نام پر پناہ چاہے اسے تم پناہ دو.اللہ کے نام پر پناہ چاہنے والے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو خدا کے دشمن رہے ہوں اور ان پر یہ مضمون بلا استثناء صادق نہیں آتا.کئی ایسے بھی تھے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جنہوں نے تمام عمر دشمنی میں گزاری اور بعد میں پناہ مانگی توان کو پناہ نہیں دی گئی.بعضوں کو بعد میں پناہ دے دی گئی مگر بعضوں کو وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف بھاگنا پڑا تو اللہ کے نام پر پناہ مانگنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر شخص کو بلا استثناء ضرور پناہ دو عام حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ضرورت مند محتاج ہے اس کو کہیں کسی کے شر سے پناہ نہیں مل رہی اور پناہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے گھر میں جگہ دو کیونکہ اگر یہ مضمون ہوتو پھر دنیا کا ہر گھر گھر والوں کے سوا ہر ایک دوسرے سے بھر جائے.اس لئے حدیث کو اس کے محل اور موقع کے مطابق سمجھنا ضروری ہوتا ہے.پناہ سے مراد ہے کسی شر سے پناہ، کسی فتنے سے پناہ.پس ایک شخص کسی بڑے آدمی کے مظالم کا شکار ہے.وہ کسی کے پاس پناہ لینے آتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ جتنی اس کو طاقت ہے اس کی حمایت

Page 602

خطبات طاہر جلد 13 596 خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1994ء کرے اور اس بات کا خوف نہ کرے کہ اس حمایت کے نتیجے میں اسے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.حلف الفضول کی جو روح تھی وہ یہی تھی.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے بھی نبوت سے پہلے حلف الفضول کا ممبر بننا قبول فرمایا اور اس دور میں اپنے عہد کو اس طرح قائم رکھا کہ ایک دفعہ نبوت کے بعد جبکہ نبوت کے نام پر بے شمار دشمنیاں پیدا ہو چکی تھیں ایک شخص آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا آپ وہی ہیں جو حلف الفضول کے عہد میں ممبر تھے ان میں سے ایک آپ ہیں اور میں وہ عہد آپ کو یاد دلاتا ہوں اور آپ سے تقاضا کرتا ہوں کہ ایک ظالم شخص نے میری رقم دبائی ہوئی ہے اس سے رقم دلوائیں.آنحضور نے پوچھا وہ کون ہے تو اس نے کہا ابو جہل.اب بعد از نبوت ابو جہل کی دشمنی اور اس کا عناد اور ایک پرانے عہد کو اس پر صادر کرنا عام حالات میں تو ایک آدمی کہہ سکتا ہے کہ بڑی نا معقول بات ہے.حلف الفضول کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ جو دین میں جان کے دشمن بن چکے ہوں ان سے چیز دلوائی جائے.ایک معقول کوشش کی حد تک وعدہ ہے اور وہ پورا ہوسکتا تھا اگر یہ خاص غیر معمولی دشمنی کے حالات نہ ہوتے مگر بہر حال حضرت اقدس محمد مصطفی اع کے عہد کے معاملات میں ادنی سا داغ بھی اپنے اوپر قبول نہیں فرماتے تھے.جائز تھا انکار کر دیتے مگر آپ اٹھ کھڑے ہوئے.صحابہ کو بھی تعجب ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اس کو ساتھ لیا اور ابو جہل جو ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اس کے پاس جا کر کہا کہ تو نے اس کے اتنے پیسے دینے ہیں، یہ غریب اور مظلوم ہے اس کے پیسے ادا کرو.اس نے کہا ٹھیک ہے میں ابھی دلواتا ہوں اور رقم کے لئے کسی کو ہدایت کی ، وہ رقم لا کر اس نے پیش کر دی اور وہ شخص لے کر شکر یہ ادا کیا یا نہیں کیا وہاں سے رخصت ہوا.بعد ازاں اس کے ساتھیوں نے ابوجہل سے کہا کہ تم تو ہمیں تعلیم دیا کرتے تھے کہ اس شخص کا جان، مال اور عزت سب حلال ہے اور جب موقع ملے اس کو ہلاک کر دو اور تمہارا اپنا یہ حال ہے کہ تیرے پاس اکیلا آیا اور تو نے ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کیا.ابو جہل نے جواب دیا کہ تم نے وہ نہیں دیکھا جو میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں.میں انکار کے لئے لب ہلانا چاہتا تھا تو میں دیکھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پیچھے گویا دومست اونٹ کھڑے ہیں جو مجھ پر ہر دم حملے کے لئے تیار تھے.اگر میں انکار کرتا تو مجھ پہ جھپٹ پڑتے.اس نظارے سے میں اتنا مرعوب ہو گیا کہ مجھ میں طاقت نہیں تھی کہ میں انکار کر سکتا.تو اللہ کے نام پر

Page 603

خطبات طاہر جلد 13 597 خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1994ء جولوگ دوسروں کو پناہ دینے کا عہد کرتے ہیں اور پھر خالص وفا کے ساتھ اس پر قائم رہتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کو کیا نقصان پہنچے گا اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر مستعد ہو جاتا ہے اور ان کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا.لیکن اس یقین دہانی کے بعد آپ کو قدم نہیں اٹھانا چاہئے.اس یقین دہانی سے پہلے اٹھانا چاہئے.یہ شرط نہیں ہے کہ پہلے آپ کو خدا کی طرف سے یقین دلایا جائے کہ میں بالکل کچھ نہیں ہونے دوں گا تم عہد پر قائم رہو بلکہ مومن کا تجربہ بتاتا ہے اور لمبا تجربہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلص بندوں کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا اس لئے جو عہد پورا کرنا ہے وہ عہد کے ساتھ ایفاء کی جو شرط لگی ہوئی ہے، جو قرآن نے لگا رکھی ہے، جو سنت نبوی نے لگا رکھی ہے اس شرط کے پیش نظر پورا کرنا ہے خواہ اس راہ میں سب کچھ کھویا جائے.یہ ہے پناہ کا مضمون اور اس میں ہر قسم کی پناہ لینے والے آتے رہتے ہیں.جب اللہ کے نام پر کوئی پناہ مانگتا ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کو انسانوں سے مایوسی ہو چکی ہوتی ہے.عام طور پر دنیا والے پہلے لوگوں کی طرف جھکتے ہیں.جب سب دروازے کھٹکھٹا چکیں اور کچھ پیش نہ جائے تب وہ اللہ والوں کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اللہ کے نام پر ہمیں یوں کرو اور اس وقت آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ یہ آخری دروازہ ہے اس کو بند نہ کرنا آخر تمہارے خدا کے نام پر ہے یہ بہت ہی گہری اللہ سے پیار کا اظہار کرنے والی حدیث ہے، پیار کی مظہر حدیث ہے.یعنی دنیا نے تو اس کو چھوڑ دیا اس کو کوئی اور دروازہ نہ ملا مدد کے لئے ، اگر ملتا تو کبھی وہ تمہارے پاس آ کے یہ نہ کہتا کہ مجھے اب اللہ کے نام پر پناہ دو.تو اس دروازے کو بند نہ کرنا کیونکہ خدا کی عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کے دروازے اس کے بندوں پر ہمیشہ کھلے رہیں اور اگر تم اس کا ذریعہ بن جاؤ گے تو اللہ کی رحمت کے دروازے تم پر کھلیں گے.پس اس مضمون کی وسعت اور گہرائی کے ساتھ جب آپ اس حدیث پر عمل کریں گے تو آپ کی جو انفرادی کمزوریاں ہیں وہ اپنی جگہ، ان حدود کے اندر ہی بہر حال آپ نے کام کرنا ہے آپ کی طاقت سے بڑھ کر خدا آپ سے توقع نہیں رکھتا لیکن جہاں تک آپ کسی کو خدا کے نام پر پناہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ پناہ دینے کی کوشش کریں.پھر فرمایا کہ جو اللہ کا نام لے کر مانگتا ہے اسے کچھ نہ کچھ ضرور دو.کچھ نہ کچھ دینے کا جو

Page 604

خطبات طاہر جلد 13 598 خطبه جمعه فرمود و 12 اگست 1994ء مضمون ہے اس کو ایک حدیث میں مزید کھول دیا گیا ہے.بعض دفعہ انسان کے پاس کچھ بھی دینے کے لئے نہیں ہوتا.یا اتنا تھوڑا ہے کہ اس شخص سے زائد حق دار اس کے موجود ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سختی سے انکار نہیں کرنا بلکہ اس کے حق میں کلمہ خیر کہنا ہے اور دعا کے ذریعے اس کی مدد ہونی چاہئے.کلمہ خیر جب کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے نرمی کا سلوک کرو.اس کو دعا دو.پس دعا بھی ایک طاقت ہے اور اگر ان معنوں میں آپ دعا دیں کہ اور کچھ نہیں تو چلو دعا ہی دے دو تو بالکل غلط ہے.اس وقت یہ یقین رکھتے ہوئے کہ چونکہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میں عملاً اس قربانی میں شامل نہیں ہو سکتا اس لئے میں اپنے عطا کرنے والے سے مانگتا ہوں کہ تو اس کو عطا فرما دے.اس صورت میں یہ دعا قبول ہو گی کہ اگر انسان کی عادت ہو کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس میں اپنے غریب بھائیوں کا حصہ نکالنے کی دیانتداری سے کوشش کرتا ہے اور جو کرتا ہے وہ دیکھے گا اور ضرور دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ صرف اس کو ہی عطا نہیں کرے گا جو مانگنے آیا تھا اس کو بھی بہت عطا کرے گا اور اس میں قطعاً کوئی شک نہیں ہے.تمام وہ لوگ جوان را ہوں پر چلنے والے ہیں وہ گواہ ہیں ، سب دنیا میں ایسے احمدی گواہ ہیں اور بسا اوقات مجھے خطوں کے ذریعے اپنے تجربے بھی لکھتے ہیں کہ خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لئے تیار رہنا خواہ قربانی کی توفیق نہ بھی ملے ایک اتنا مقبول عمل ہے کہ خدا کی نظر میں اتنا پسندیدہ ہے کہ اس نہ کی ہوئی قربانی کو بھی اللہ قبول فرما لیتا ہے اور جزا اسی طرح دیتا ہے جیسے قربانی ہوگئی اور اس کو ہی نہیں جس کے حق میں دعا کی گئی ہے اس کو بھی جزا دیتا ہے جس نے دعا کی ہو.پھر آپ نے فرمایا جو شخص دعوت کے لئے بلاتا ہے اس کی دعوت قبول کرو.(مسلم کتاب النکاح) اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں ان کی روشنی میں اس کو سمجھنا چاہئے ورنہ یہ تو ناممکن ہے کہ ایک مثلاً اپنی مثال دیتا ہوں مجھے جو دوست یہاں دعوت پر بلاتے ہیں میں ان سے منتیں کرتا ہوں بعض دفعہ کہ خدا کے لئے نہ بلا ؤ اگر ایک دفعہ میں نے رستہ کھول دیا تو اس کو بند نہیں کیا جا سکے گا اور بہت شاذ کے طور پر اپنے دل میں ان کے بعض استحقاقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض کے حق میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے.لیکن اگر یہ سلسلہ ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اب میں جرمنی جاؤں گا وہاں ہزاروں گھر ایسے ہیں جو کہیں گے ہمارے گھر ضرور آؤ اور چند منٹ کے لئے بھی جائیں تو

Page 605

خطبات طاہر جلد 13 599 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 /اگست 1994ء آپ کے مہینے خرچ ہو جائیں گے.قادیان جب گیا تھا تو وہاں بعض لوگوں نے بڑی لجاجت سے اور بڑے، بے حد اخلاص سے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک دفعہ قدم رکھ جائیں اور کہا تو یہی جاتا ہے کہ قدم رکھ جائیں.وہاں جائیں تو وہاں چائے بھی تیار ہوتی ہے یا کوئی پھل جو کچھ تو فیق ہو یا کوئی دودھ کا گلاس لئے بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ ایک گھونٹ اور آپ ایک گھونٹ بھر کر باہر نکلتے ہیں تو آگے لائن لگی ہوتی ہے کہ ہمارا گھر بھی ساتھ ہی ہے وہاں تشریف لے آئیں.جب میں نے ایک سلسلہ شروع کیا تو پھر باقی وقت قادیان میں میرا اسی طرح گھروں میں ہی پھرتے ہوئے گزر گیا، ان کی دلداری کی تو توفیق مل گئی لیکن بہت سے ایسے اہم کام تھے جن کی طرف توجہ دینا ضروری تھا جو توجہ سے محروم رہ گئے.بہت سے ایسے غیر تھے ملنے والے جن کی درخواستیں دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا اور یہاں آ کر پتا چلا کہ وہ جماعت کے لئے بہت اہمیت رکھتے تھے.اہل قادیان کے مفاد میں تھا کہ ان سے ملتا، ان سے کھل کر گفتگو کرتا لیکن جب واپس آیا تو پھر ڈاک دیکھی تو پتا چلا کہ وہ درخواستیں پڑی رہ گئی ہیں.بعضوں کے شکوے بعد میں آنے شروع ہو گئے.تو ہر چیز کو موقع اور محل کے مطابق دیکھنا چاہئے.اس حدیث کا جو میں مطلب سمجھتا ہوں وہ اس حدیث سے ہی نہیں بلکہ دوسری حدیثوں کے حوالے سے ان کی روشنی میں ان کو جانچ کر سمجھا ہوں.وہ یہ ہے کہ ایک جگہ فرمایا کہ خواہ ایک بکری کے پائے کی دعوت ہی کیوں نہ ہو اور بعض اور جگہ ایسی باتیں بیان فرمائیں جس سے پتا چلتا ہے کہ از راہ تکبر اپنے غریب بھائی کی دعوت رد کرنا ایک گناہ ہے اور اس کی دل شکنی کا موجب ہوتا ہے.پس کوئی ایسی دعوت رد نہ کرو جس میں تمہاری نیت میں کوئی ایسا ادنی سا بھی فتور ہو کہ تم اپنی بڑائی کی وجہ سے رد کر رہے ہو یا کسی کی غربت کی وجہ سے رد کر رہے ہو.یہی مفہوم ہے جس کے مطابق تمام حدیثیں ایک دوسرے سے مطابقت کھا رہی ہیں ورنہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ عملاً لفظاً لفظاً بعض لوگ اس حدیث پر عمل کریں کیونکہ بعض لوگوں کے تعلقات کے دائرے اتنے وسیع ہوتے ہیں کہ ان کے لئے ہر دعوت کو ظاہر اقبول کرنا ممکن نہیں ہوتا مگر دعوت کو ایک اور رنگ میں بھی قبول کیا جا سکتا ہے.اسی محبت اور اخلاص سے ان کے شکریے ادا کئے جائیں، ان سے معذرتیں کی جائیں یہاں تک کہ وہ معذرتیں قبول کر لیں.یہ بھی ایک دعوت

Page 606

خطبات طاہر جلد 13 600 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 راگست 1994 ء قبول کرنے کا رنگ ہے.تو جہاں آپ دعوتیں لفظ لفظاً قبول نہیں کر سکتے وہاں کم سے کم کلمہ خیر کے ذریعے اپنی اس کمزوری کا ازالہ کریں اور اس کو یقین دلا دیں دعوت کرنے والے کو کہ تمہاری دعوت کی میرے دل میں گہری قدر ہے، میں ممنون احسان ہوں گویا میں نے دعوت قبول کر لی ہے لیکن میری مجبوریاں حائل ہیں.پھر فرمایا کہ جوشخص تم پر نیک سلوک کرتا ہے اس کے اس نیک سلوک کا بدلہ کسی نہ کسی رنگ میں ضرور دو.اگر بدلہ دینے کے لئے تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو کم سے کم دعائے خیر ہی کرو.یہ وہی بات ہے جو میں پچھلی حدیث کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں اور اس میں پھر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ دعا اتنی کرو کہ تمہیں احساس ہونے لگے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے.ایک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرما یا كُنُ وَرِعًا تَكُنْ اَعْبُدَ النَّاسِ کہ تو پرہیز گار ہو جا، متقی ہو جا تو سب بندوں میں زیادہ عبادت کرنے والا شمار کیا جائے گا.اب یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اس پر غور کرنا چاہئے.عبادت کا مقصد نیک بنانا ہےاوراگر ایک شخص دن رات عبادت میں مصروف ہو لیکن تقویٰ سے عاری رہے اور روز مرہ کے اس کے انسانی تعلقات میں بھی رضائے باری تعالیٰ کے تابع تعلقات قائم نہ ہوں تو ایسے شخص کی عبادتیں بے کار ہیں.لیکن ایک شخص نیکی میں اتنا مصروف ہے کہ عبادت میں کمی آ رہی ہے یہ مطلب نہیں کہ فرض عبادات بجا نہیں لاتا یا نوافل کا کلیۂ تارک ہے.مراد یہ ہے کہ اس میں غیر معمولی انہاک نہیں دکھا سکتا، ایسے شخص کو یقین دلایا گیا ہے کہ اگر تو نیکی پر قائم ہے اور خالصہ اللہ کام کر رہا ہے تو اعبد الناس بن جائے گا، سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت کرنے والا.یہ جو مضمون ہے اس کے اوپر آنحضرت مو کا ایک اور ارشاد گواہ ہے اس لئے کوئی نفسی تعبیر نہیں حقیقہ یہی مراد ہے اور اس کی تشریح یہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر تم رضائے باری تعالیٰ کی خاطر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالتے ہو تو عبادت ہے.تو مراد یہ ہے کہ ایک شخص ایسا نیک ہو چکا ہو کہ روز مرہ کی زندگی کے سارے کام وہ اللہ کی رضا کی خاطر کرتا پھر رہا ہے تو اعبد الناس تو خود بخود ہو گیا کیونکہ اس کا زندگی کا ہرلمحہ آنحضور ﷺ کی اس تشریح کی روشنی میں عبادت بن جاتا ہے.پس کوئی فرضی بات نہیں ہے حقیقہ

Page 607

خطبات طاہر جلد 13 601 خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1994ء ساری زندگی عبادت بن جاتی ہے.پس جس کی ساری زندگی عبادت بن چکی ہو اس سے زیادہ عبادت کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے.پھر فرمایا كُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ که قانع ہو جا، قناعت اختیار کر.تمام شکر گزار بندوں سے زیادہ شکر گزار تو ہو جائے گا.اب قناعت کیا چیز ہے اس سلسلے میں میں ایک دفعہ تفصیلی روشنی ایک دو خطبات میں ڈال چکا ہوں یاد دہانی کے طور پر مختصرا یہ بتاتا ہوں کہ قناعت کہتے ہیں جو کچھ خدا نے دیا ہے خواہ وہ بہت تھوڑا ہی ہو اپنے پاؤں اس چادر کے اندر سمیٹ لیں اور اس سے باہر پاؤں نکالنے کا تصور بھی نہ کریں.ایسا شخص جو ہے وہ کبھی قرض دار نہیں بن سکتا.ایسا شخص اپنی تمناؤں کو سمیٹتا ہے.اپنی ضرورتوں کو سکیڑتا ہے یہاں تک کہ وہ اس چادر کے اندر سما جاتا ہے جو خدا نے اس کو رزق کی چادر عطا فرمائی ہے اور ایسا شخص پھر شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا کہ میری تمام ضرورتیں پوری ہیں.میں ٹھیک ہوں تیرے حضور اور یہی شکر ہے.ان معنوں میں بھی جو قناعت اختیار نہیں کرتا اور خدا کے دئے ہوئے سے آگے بڑھ کر نا جائز طور پر یا اپنے نفس کو یہ یقین دلا کر کہ سب کچھ جائز ہے لوگوں کے اموال پر نظر رکھتا ہے لوگوں سے مانگتا ہے ان کے آگے جھکتا ہے کبھی قرض کے نام پر کبھی ویسے بھکاری بن کر، وہ خدا کا شکر گزار نہیں ہوسکتا اس کی تو ساری ضرورتیں پھر بندوں کی محتاج ہو جاتی ہیں اور اسے شکر کیسے نصیب ہوگا.ہر وقت اس کا دل کفر میں مبتلا رہتا ہے کہ اچھا خدا نے تو ضرورت پوری نہیں کی ہم نے فلاں سے قرض لے کر پوری کر لی.فلاں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر پوری کر لی ، فلاں کے آگے اپنے رونے رو کر پوری کر لی.پس وہ اپنے دکھڑے ہر ایک کے سامنے بیان کرتے رہتے ہیں اور روتے رہتے ہیں اور ساری زندگی ان کی اسی طرح گزر جاتی ہے.قرض لیتے ہیں تو واپس نہیں کرتے ، تجارت کرتے ہیں تو دھوکا کر جاتے ہیں.ایسا شخص حقیقت میں ان کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا جن سے یہ ظلم کر رہا ہوتا ہے اور کبھی ایسے لوگ ان کا شکر ادا کرنے کی نفسیاتی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ جوشخص کسی سے دھوکا کرتا ہے وہ اس کے خلاف کوئی عذر بھی بناتا ہے اور عموماً اس کے خلاف شکوے شروع ہو جاتے ہیں کہ اس نے تو مجھ سے یہ کیا تھا، اس نے تو مجھ سے یہ معاہدہ کیا تھا، اس نے تو مجھ پر ظلم کر دیا، مجھے نوکری دے دی حالانکہ مجھے دوسری جگہ بہت اچھی نوکری مل رہی تھی اور میں اس کی خاطر آیا

Page 608

خطبات طاہر جلد 13 602 خطبہ جمعہ فرمود و 12 اگست 1994 ء تھا.ہزار نفس کے بہانے ہیں جو اگر انسان اپنے دل میں غور کرے تو جانتا ہے کہ جھوٹے ہیں اور وہ بندوں کا بھی شکر گزار نہیں بنتا اور ایک اور حدیث کا مضمون اس پر صادق آتا ہے کہ مَنُ لَم يَشْكُرِ النَّاسِ لَمْ يَشْكُرِ الله ( ترندی کتاب البر والصله حدیث : 1877) کہ جو بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا.فرق صرف یہ ہے کہ اس حدیث میں رخ دوسرا بنتا ہے کہ جو اللہ کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ بندوں کا بھی نہیں ہوتا.پس قناعت سے باہر نکلنا ناشکری کو دعوت دینا ہے یا ناشکری کے ابتلاؤں میں پڑنے والی بات ہے.اللہ کسی اعلیٰ خلق والے انسان کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ ناشکری میں مبتلا نہ ہو اور جائز ضرورت کے قرض عدم قناعت کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق جدوجہد کی خاطر لے تو پھر یہ جائز ہے لیکن قناعت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے قرضے نہ لے اگر وہ ڈوبے تو ان کو پھر کسی صورت ادا نہ کر سکے.یہ قناعت کا دوسرا پہلو ہے جسے آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر ایک شخص کے پاس اتنی سی جائیداد ہے کہ وہ ساری بھی بیچ دے تو قرض خواہ کا قرضہ ادا نہ کر سکے اس سے باہر جب وہ قرض کی چھلانگ لگاتا ہے تو قناعت سے باہر نکل گیا.اس کو پتا ہے کہ میں اسے ادا کرنے کی توفیق ہی نہیں رکھتا اور اسے علم ہے کہ دنیا کی تجارتوں میں ایسے خطرے ہوتے ہیں کہ جو کچھ سرمایہ ہے سب ڈوب جائے.پس قناعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر قرض لوکسی سے کچھ مانگو اس یقین دہانی کے ساتھ کہ تم اسے واپس کرو گے یا شکریہ کے ساتھ جو تمہارے پاس منافع آئے اس میں بھی حصہ دو گے تو ایسی صورت میں اپنی قناعت کے دائرے سے باہر قدم رکھنا جائز نہیں ہے.اور قناعت کے دائرے بڑھتے ہیں جو شخص قانع ہو اس کے متعلق فرمایا وہ شکر گزار ہے.اب اس کا دوسرا پہلو بھی تو ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میراشکر ادا کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا.لَا زِيدَنَّكُمْ (ابراہیم: 8) کا وعدہ ہے پھر ایک اور گر ہمارے ہاتھ آیا کہ قناعت کا یہ مطلب نہیں کہ منہ بسور کر کسی محدود دائرے میں بیٹھے رہو اور ساری عمر وہیں قید رہو.قناعت کو شکر سے باندھ کر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے لامتناہی احسانات کے دروازے کھول دئے ہیں.اتنا عظیم الشان مضمون ہے کہ اس میں ڈوب کر انسان زندگی کے فلسفے کو پالیتا ہے.اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ کر اگر آپ ان لوگوں کے حالات پر نظر ڈالیں جو قانع تھے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پھر خدا

Page 609

خطبات طاہر جلد 13 603 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 /اگست 1994ء نے ان کے اموال میں اتنی برکت دی کہ بہت تھوڑے میں غیر معمولی برکتیں پڑیں اور جو کچھ انہوں نے حاصل کیا انسان کو یقین نہیں آسکتا کہ اتنے تھوڑے مال میں اتنی بڑی برکتیں پڑسکتی ہیں اور پھر ان کو بھی زیادہ دیا گیا، ان کی اولادوں کو بھی زیادہ دیا گیا، دولتوں کے دروازے ان پر کھول دیئے گئے اور واقعہ یہ تھا کہ ان کے آباؤ اجداد میں سے کوئی قانع تھا اور پوری طرح قناعت کے مضمون کو سمجھتے ہوئے خدا کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے قانع رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ خدا نے شکر کے بدلے دینے شروع کئے جو ختم ہی نہیں ہوتے.تو آنحضور ﷺ کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بعض دفعہ بوجھل باتیں بھی دکھائی دیتی ہیں کہ قانع بنا بڑا مشکل کام ہے، کیسے قانع بنیں؟ لیکن اگر آنکھیں کھول کر ان کو پڑھیں ، گہرائی میں اتر کر ان کا مطالعہ کریں تو ان بوجھوں کو ہلکا کرنے والے مضامین اسی کے اندر موجود ہوتے ہیں.پس لفظ شکر نے قناعت کے سارے بوجھ دور کر دیئے کیونکہ شکر کے ساتھ أَزِيدَنَّكُمْ کا وعدہ موجود ہے.پھر فرمایا وَاحِبْ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنُ مُؤْمِنًا اب مومن کی یہ تعریف فرما دی که وَاحِبْ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنُ مُؤْمِنًا لوگوں کے لئے وہ بات پسند کرو جو تم اپنے نفس کے لئے پسند کرتے ہو.اب یہاں مسلم کا لفظ نہیں آیا.عام طور پر مسلم کی تعریف میں مسلمانوں کے تعلقات کا ذکر ملتا ہے اس سے بعض غیروں کو یہ غلط طور پر مسلم کی تعریف میں مسلمانوں کے تعلقات کا ذکر ملتا ہے اس سے بعض غیروں کو یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کے احسانات محض مسلمانی کے دائرے میں ہیں وہ اس مضمون کو سمجھ نہیں سکتے لیکن آنحضرت ﷺ نے لفظ مسلم کو غیر مسلموں پر احسان کے معنوں میں بھی استعمال فرمایا ہے.لیکن لفظ مومن کو خصوصیت کے ساتھ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ احسان کے معاملے کے تعلق میں بیان فرمایا ہے.یہ وہ ایک موقع ہے جو اس کی مثال ہے.آنحضور فرماتے ہیں کہ احِب النَّاسِ لوگوں کے لئے وہی چیز چاہو.مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ جو تم اپنے نفس کے لئے چاہتے ہو تَكُنُ مُؤمِنًا تو تم مومن ہو جاؤ گے.یعنی خدا کے حضور مومن لکھے جاؤ گے اب اس کا کیا تعلق ہوا.مومن لکھے جانے کا اس بات سے کیا تعلق ہے.جب تک اس کو سمجھیں گے نہیں ، نہ اس حدیث پر صحیح عمل ہوسکتا ہے نہ اس سے پورا استفادہ ہو سکتا ہے.

Page 610

خطبات طاہر جلد 13 604 خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1994 ء لفظ مومن کے دو رخ ہیں ایک اللہ کی طرف اور ایک بندے کی طرف.مومن کا ایک مطلب ہوتا ہے امن دینے والا اور ایک مطلب ہے ایمان لانے والا جو شرعی اصطلاحی ترجمہ ہے.جب اللہ کے تعلق میں ہم بات کرتے ہیں تو مراد ہے ایمان لانے والا اور جب بندوں کے تعلق میں بات کرتے ہیں تو امن دینے والا ہے.تو ہر شخص اپنے لئے امن پسند کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر تسکین مل جائے کسی شخص کو تو یہی اس کی جنت ہے اور تمام تر بنی نوع انسان کی کوششیں اپنے نفس کو تسکین دینے کی کوششیں ہیں اور اپنے نفس کو خطرات سے بچانے کی کوشش ہیں.تو فرمایا کہ تم مومن کہلاتے ہو.مومن کا ایک رخ تو خدا کے بندوں کی طرف بھی ہے اور اس رخ کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر بندہ تم سے امن میں رہے اور اگر وہ بندہ تم سے امن میں رہتا ہے تو پھر تم خدا سے امن میں رہو گے اور تمہارا ایمان کامل ہوگا کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان آجائے اور اس کی امن کی چادر کے اندر داخل ہو جائے.پس وہی مضمون رحم والا یہاں بھی صادق آ رہا ہے اس کی طرز بیان مختلف ہے مراد یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان تم سے اس طرح امن محسوس کریں جیسے تمہارا اپنا نفس تم سے امن محسوس کرتا ہے.تمہارے نفس کو بالا رادہ کوئی شر نہیں پہنچ سکتا.جہالت میں اور بے وقوفی کے استدلال میں تو انسان سب سے زیادہ اپنے نفس کو ہی نقصان پہنچاتا ہے مگر یہاں بالا رادہ نقصان کا مضمون ہے کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے نفس کو تکلیف نہیں پہنچا تا اور ہر شخص کا نفس اس سے امن میں ہے.پس فرمایا تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ وہ سارے تم سے امن میں آجائیں اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ سے تم امن میں آ جاؤ گے، اللہ کی پناہ میں آ جاؤ گے اور وہ تمہارے امن کی حفاظت فرمائے گا اور اس طرح تمہارا ایمان کامل ہوگا.پس وہ جو دوسرا پہلو ہے مومن کا اس کے ترجمے کو سر دست میں چھوڑتا ہوں کیونکہ اب مجھے جلدی اس مضمون کو ختم کرنا ہے.وہ پہلو بھی تفصیل سے اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے مگر حدیث کے چند الفاظ ایسے ہیں ان کا مضمون بیان کرنے کے بعد ایک اور اہم اعلان کرنا ہے میں نے اس خطبے کے دوران.وَأَحْسِنُ مُجَاوَرَةَ مَنْ جَاوَرَكَ تَكُنْ مُسْلِمًا اور اپنے پڑوسی کے پڑوس کا حق ادا کرو، ہمسائیگی کا حق ادا کر تم مسلم ہو جاؤ گے.یہاں بھی عجیب بات ہے کہ مسلمان کا ذکر نہیں فرمایا.پڑوسی تو غیر مسلم بھی تھے.آنحضور

Page 611

خطبات طاہر جلد 13 605 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 /اگست 1994ء کے زمانے میں یہودی بھی مسلمانوں کے پڑوسی ہوا کرتے تھے اور کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں ایک پڑوسی یہودی کی طرف سے کوئی شکایت پیدا ہوئی یا برعکس صورت پیدا ہوئی ہے.تو پڑوس میں تو ہندو بھی بستے ہیں مسلمان بھی ، یہودی بھی ہر قسم کے لوگ ہیں.فرمایا اپنے پڑوسی کے ساتھ یہ نہیں کہ ہمسائیگی کے حق ادا کرو.اَحْسِنُ مُجَاوَرَةَ مَنْ جَاوَرَکَ ایسی عمدہ ہمسائیگی کر لو کہ بہت ہی خوب صورت ہو اعلیٰ درجہ کی ہمسائیگی ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو تم مسلم بن جاؤ گے اور مسلم کا مطلب ہے کسی کو امن دینے والا اور دوسرا ہے اپنے آپ کو کسی کے سپرد کرنے والا.سپردگی کا جو مضمون ہے اس کا اللہ سے تعلق ہے اور سلامتی کا پیغام دینے کا جہاں تک تعلق ہے وہ بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے تو فرمایا کہ تم پھر مسلم کہلاؤ گے اگر اپنے ہمسائیوں سے بہت اعلیٰ درجے کا حسن سلوک کرو گے.اب دیکھیں جو ہمسائیوں کی لڑائیوں کے جھگڑے ہیں وہ کتنے ہیں جو ابھی بھی جماعت میں چل رہے ہیں.ربوہ ہی سے بعض قضائی معاملات ہیں جو بالآخر جب نچلی سطحوں پر طے نہ ہو سکے ، مرافعہ اولیٰ بھی حل نہ کر سکی ، قضاء بورڈ بھی اپنی بات منوانے میں ناکام ہو گیا تو اپیلیں مجھ تک پہنچیں اور معاملہ چھوٹی سی گلی کا ہے، ایک درخت کے پتوں کا ہے جو کسی کے گھر میں گر رہے ہیں، کسی درخت کی شاخوں کا معاملہ ہے، کسی نالی کا معاملہ ہے، اس ذلیل سی چیز کی خاطر آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ تعریف مسلم سے انسان باہر نکل جاتا ہے.دفع کرو ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو.اگر گر کر اپنا حق چھوڑ کر بھی کچھ کرنا پڑتا ہے تو احسن مجاورة کا مضمون تقاضا کرتا ہے کہ حق بھی چھوڑو.عام مجاورۃ میں تو دونوں طرف برابر کے حقوق ہیں لیکن اگر آپ بہت زیادہ خوب صورت یعنی ہمسائیگی کرنے والے ہیں تو اس میں حقوق چھوڑنے کے بھی مواقع آتے ہیں اس میں سے کسی کی تلخی کو خوشی اور ہنس کر قبول کرنے کے بھی مواقع پیدا ہوتے ہیں یہ سب آزمائشیں اس مضمون کا حصہ ہیں.اگر ایسے لوگ پیدا ہوں جو آنحضور ﷺ کی اس تعریف کے مطابق مسلم بنیں تو ایک پاکستان کیا تمام دنیا کی حکومتیں بھی مل کر اسے غیر مسلم کہتی رہیں اس کو کوڑی کا بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ غیر مسلم کہنے والے عام تعریفوں کے بھی مستحق نہیں ہیں.ہر جگہ فساد برپا ہیں ایک دوسرے کے حقوق تلف ہو رہے ہیں.پس جماعت احمدیہ کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نصائح پر گہری نظر

Page 612

خطبات طاہر جلد 13 606 خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1994ء سے ان کی حقیقتیں پہچان کر جہاں تک توفیق ملتی ہے ان کا عرفان حاصل کر کے ان پر عمل کرنا چاہئے.پھر فرمایا وَ اقَلِ الصِّحُكَ فَإِنَّ كَفَرَةَ الصّحُكِ تُمِيتُ القَلبَ ابن ماجہ کتاب الذهد حدیث : 4207) ہنسی مذاق کرو مگر اس میں تجاوز نہ کرو، بڑھو نہیں.بعض لوگوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی ٹھٹھا بنایا ہوتا ہے ان کو ٹھٹھے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ٹھٹھے کے لئے رہتے ہیں اس کے سوا کوئی مقصد ہی نہیں سنجیدہ باتوں کو سوچنے کے لئے سنجیدہ امور میں غم وفکر کے لئے ، دینی مسائل میں اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے ان کے دماغ میں مزاج ہی نہیں پیدا ہوتا ، ان کے متعلق ہے یہ حدیث.فرمایا کہ تم ذرا عمل اختیار کرو پہنے کھیلنے میں ہی اپنی ساری زندگی گنوا بیٹھو گے اگر ایسا کرو گے تو پھر تمہارا دل مرجائے گا اور مرا ہوا دل ہنستا بھی ہے تو کھوکھلا ہنستا ہے اور ایسے لوگوں کو میں نے بہت غور سے دیکھا ہے ان کی ہنسیاں کھوکھلی ہو جاتی ہیں.ان کے قہقہے بھی بے معنی اور جس طرح خالی ڈھول بج رہا ہے لیکن وہ شخص جو غم بھی کرتا ہے، روتا بھی ہے اس کی ہنسی بھر پور اور بے اختیار اور طبعی اور سچی ہوتی ہے.پس آنحضرت ﷺ نے کیسی پیاری پہچان ہمارے سامنے رکھ دی فرمایا کہ دل مر جائیں گے اور دل مر جائیں گے تو نہ رونے کے رہیں گے نہ ہننے کے رہیں گے تمہاری زندگی ایک مصنوعی زندگی بنی رہے گی.ایک ڈھول کی سی آواز اٹھے گی نہ سچی خوشی تمہیں ہننے میں آئے گی نہ رونے کا لطف اٹھا سکو گے.پس مرے ہوئے دلوں کے ساتھ ایک آدمی زندہ کیسے کہلا سکتا ہے.یہ وہ چند نصیحتیں تھیں جو آج کے خطبے کے لئے ہیں باقی انشاء اللہ آئندہ.اب میں ایک اور ضروری اعلان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج میں ایک بہت ہی اہم نکاح کا اعلان کروں گا اس کا تعارف پہلے کروا دیتا ہوں نکاح نماز جمعہ کے بعد ہوگا اب چونکہ لوگ کم بھی ہو گئے ہیں اور دن بھی کافی بڑے ہیں اس لئے اب نمازیں جمع نہیں کی جائیں گی بلکہ جمعے کے بعد عصر اپنے وقت پر ادا ہو گی.پچھلے کچھ عرصے سے، کئی دنوں سے ہم یہی کر رہے ہیں تو نماز جمعہ کے بعد سنتیں ادا کرنے سے پہلے احباب تشریف رکھیں ایک اہم نکاح کا اعلان کرنا ہے جو عام عادت کے برخلاف ہے.عام طور پر جمعہ کے ساتھ میں نکاح نہیں پڑھا کرتا اور جنازوں کو بھی حتی المقدور کسی دوسرے وقت پر ٹالتا ہوں کیونکہ جمعہ کی اپنی ضروریات ہیں.آج جس نکاح کا اعلان کرنا ہے یہ ہمارے عزیز نسیم مہدی صاحب جو کینیڈا کے امیر ہیں

Page 613

خطبات طاہر جلد 13 607 خطبه جمعه فرمودہ 12 راگست 1994ء ان کا نکاح ہے اور آپ کو علم ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کی اہلیہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئیں یعنی بہت چھوٹی عمر تو نہیں تھی مگر جو عام دنیا کی عمریں ہیں ان کے لحاظ سے چھوٹی عمر ہی تھی.غیر معمولی اخلاص رکھنے والی اور انسانی صفات حسنہ سے مزین بہت ہی پیارا وجود تھا.ان کی وفات کے بعد اس گھر میں ایک خلا پیدا ہوا ہے.پہلے تو مجھے دور سے دکھائی دیا کرتا تھا مگر اب جب میں کینیڈا گیا ہوں تو میں نے بڑی سختی سے اپنے دل میں یہ محسوس کیا اور یہ خلا ان کی خوبیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.وہ خوبیاں ایسی ہیں کہ ایک خاوندان خوبیوں کو بھلا کر ایک شادی کرنے کے لئے طبعا اپنے آپ کو آمادہ ہی نہیں پاتا اور ضرورتیں ایسی ہیں جو ہر روز تقاضا کر رہی ہیں.وہاں عورتیں ہیں ان کے حقوق ادا کرنے ہیں.بچی چھوٹی ہے چھوٹے بچے ہیں وہ کس طرح از خود گھر کو سنبھال سکتے ہیں.نتیجہ بعض عورتوں نے از راہ ترحم ان کے کھانے پکانے شروع کئے ان کو ڈیپ فریز کرنا شروع کیا جس نے مجھے اور بھی تکلیف دی.امیر کی شان یہ نہیں ہے کہ اس پر رحم کے طور پر اس کے ساتھ کوئی ایسے سلوک کئے جائیں.امیر تو خود محسن ہے ان کا جذ بہ تو خدمت ہی کا ہوگا مجھے پتا ہے لیکن جو باتیں ان کے متعلق ہوتی تھیں تو بعض لوگ اس طرح ہی بیان کرتے تھے جیسے بعض عورتیں بے چاری بڑا رحم کھا کے تو اتنی قربانیاں کر کے آتی ہیں تو میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ مانیں یا نہ مانیں ان کی شادی ضرور کروانی ہے.چنانچہ لاکھ انہوں نے انکار کیا کہ میرے حالات ایسے ہیں آپ کو پتا ہی ہے.میں نے کہا مجھے سب پتا ہے مگر شادی میں نے کروا دینی ہے تو چونکہ بہت ہی مخلص اور فدائی ہیں نہ کا مادہ ہی نہیں ان میں.اس لئے وہ اصرار، مجبوری پیش کر رہے تھے اور مجھے پتا تھا بات ماننی ہے.ایک اور ایسا خاندان ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انکار کا خمیر ہی نہیں ہے وہ حضرت مولوی شریف احمد صاحب مرحوم و مغفور مبلغ سلسلہ کا خاندان ہے.تو میں نے کہا ان دونوں کے مزاج ایسے ہیں کہ دونوں کا رشتہ آپس میں ہونا چاہئے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ رشتہ دین و دنیا میں ہر لحاظ سے بابرکت ثابت ہوگا.چنانچہ فون پر پھر میں نے بچی سے بھی اجازت لی اور وہ بھی چند باتوں میں ہی سمجھ گئی.اس نے کہا ٹھیک ہے جو آپ کا فیصلہ ہے وہ ہم سب کا فیصلہ ہے تو ان کے نکاح کا کچھ تعارف تو میں نے کروا دیا ہے اب مختصر نکاح انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد کروایا جائے گا.اس نکاح کے ساتھ ایک اور نکاح بھی ہو جائے گا اور ان کے طفیل ان کو بھی فیض مل گیا.وہ

Page 614

خطبات طاہر جلد 13 608 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 /اگست 1994ء ہے ہماری نعیمہ کھوکھر صاحبہ، مظفر کھوکھر صاحب کی اہلیہ اور مظفر کھوکھر صاحب جماعت کے بڑے خدمت کرنے والے ہیں لیکن اور بھی بہت سے خدمت کرنے والے ہیں اور ہر جگہ استثناء نہیں رکھے جاسکتے مگر عین بر وقت انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور میں نے یہی سمجھا کہ اب ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک بابرکت موقع ہے اور ان کے اپنے حقوق بہر حال ایسے ہیں جماعت پر کہ کوئی نامناسب بات نہیں ہو گی اگر ان کو بھی شامل کیا جائے.انشاء اللہ عزیز نسیم مہدی کے نکاح کے بعد محمود، مظفر اور نعیمہ کھوکھر کے بیٹے کا نکاح بھی انشاء اللہ اس کے معا بعد کیا جائے گا.

Page 615

خطبات طاہر جلد 13 609 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء قرآن کریم کے مطابق تفقہ فی الدین کا انتظام کریں نو مبائعین کی تربیت کے لئے کلاسز کے اجراء کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994 ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبه : 122) پھر فرمایا:.آج کے خطبہ سے پہلے بھی کچھ اعلان ہونے والے ہیں.ایک مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ کینیڈا کا ساتواں سالانہ اجتماع آج 19 راگست سے شروع ہو رہا ہے.تین دن جاری رہے گا اور 21 راگست کو ختم ہو گا.مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کا پندرھواں ضلعی سالانہ اجتماع بروز جمعرات سے شروع ہو چکا ہے اور آج اس خطبے کے ساتھ اس کا اختتامی اجلاس ہو رہا ہوگا.اس کے علاوہ دواعلانات پہلے ہونے سے رہ گئے تھے کیونکہ ہمیں بعد میں اطلاع ملی تھی کیونکہ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اجتماعات کا ذکر آئے جب تک یہ توفیق ہے یہ سلسلہ جاری ہے یہ نام لئے جاتے رہیں گے.لجنہ اماءاللہ USA کا سالانہ اجتماع 12 تا 14 راگست منعقد ہوا تھا اور مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کوئٹہ کا سالانہ اجتماع 13 اور 14 اگست کو منعقد ہوا.

Page 616

خطبات طاہر جلد 13 610 خطبه جمعه فرموده 19 / اگست 1994ء یہ آیت کریمہ جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ مومنوں کے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ سب کے سب تبلیغ اور تربیت کے لئے نکل کھڑے ہوں یعنی تمام مومن اپنے سارے دوسرے کام چھوڑ دیں اور کلیہ اس روحانی جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں اور ہر طرف دعوت الی اللہ کا کام اس طرح کریں کہ گویا ہر دوسرا کام چھوڑ دیا گیا ہے.فرمایا یہ ممکن نہیں ہے لیکن یہ ممکن نہیں تو کچھ تو ممکن ہے وہ کیا ہے.فرمایا: فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان میں سے ہر گروہ میں کوئی نہ کوئی طایفة یعنی ایک جماعت چھوٹی سی ، وہ مدینے یعنی مرکز میں پہنچتی ليَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ تا کہ دین سیکھیں وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ یہاں اگر چہ مدینہ پہنچنے کا ذکر نہیں ہے مگر یہ مفہوم میں داخل ہے.چنانچہ اس آیت کا آخری حصہ اس کی وضاحت فرما رہا ہے پھر وہ واپس لوٹیں تو دین سیکھنے کا مرکز تو وہی تھا جہاں حضرت اقدس محمد مصطفی اعتے تھے اس لئے چونکہ یہ بات مفہوم میں داخل ہے اسے واضح کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی.تو لفظاً یوں بنے گا کہ کیوں ایسا نہ ہوا کہ مومن تمام کے تمام نکل کھڑے ہوتے.فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمُ پس ایسا کیوں نہ ہوا یا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان میں سے ہر ایک جماعت میں سے فرقہ سے مراد یہاں مذہبی فرقہ نہیں ہے بلکہ قومی فرقہ یا مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو جو فرقہ فرقہ بٹے ہوئے ایک جگہ رہتے ہیں یعنی آپس میں تو اکٹھے رہتے ہیں مگر ساری امت مسلمہ یکجا نہیں ہوتی بلکہ مختلف حصوں میں بٹ کر رہتی ہے تو یہاں فرقے سے یہ مراد ہے تو مختلف علاقوں کے رہنے والے مختلف قوموں کے رہنے والے ان قوموں سے تعلق رکھنے والے کیوں نہ نکلیں کہ وہ دین کا علم حاصل کریں.تفقہ میں صرف علم نہیں بلکہ اس کا فہم، اس کا ادراک جس حد تک ممکن ہو اور اس کے ساتھ ساتھ تفقہ میں اس کی حکمتیں پانا بھی شامل ہے.تو اس طرح علم سیکھیں کہ اس کی حکمتوں سے واقف ہوں، اس کے فلسفہ سے آگاہ ہو جائیں.جب اس طرح تیار ہو جائیں تو پھر وہ واپس لوٹیں وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ تا کہ وہ اپنی اپنی قوموں کو ڈرائیں.اِذَارَ جَعُوا جب وہ واپس جائیں تو واپس کہاں سے جائیں.کہیں سے آئے تھے تو واپس جائیں گے.تو مراد یہ ہے کہ سب علاقوں سے ایسے دینی مراکز میں لوگوں کا اکٹھے ہونا ضروری ہے جہاں دین کی تعلیم دی جاتی ہے، دین کی حکمتیں سکھائی جاتی ہیں ، مسائل سے تفصیل کے

Page 617

خطبات طاہر جلد 13 611 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء ساتھ آگاہ کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آنے والا استاد بننے کے اہل ہو جاتا ہے.یہ استاد کا مفہوم اس میں داخل ہے کیونکہ مقصد ہی استاد تیار کرنا بیان فرمایا گیا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ طالبعلم آئیں اور سیکھ کے چلے جائیں اپنے ذاتی فائدے کے لئے مختلف علمی مراکز میں پہنچیں.فرمایا کہ اس لئے آئیں کہ واپس جائیں تو اپنی قوم کے معلم بن جائیں اور ان کو دین سکھائیں اور اس ہلاکت سے ڈرائیں جس میں وہ مبتلا ہیں لیکن انہیں ابھی علم نہیں کہ وہ ہلاکت میں مبتلا ہوچکے ہیں لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ شاید کہ وہ بچ جائیں.اگر ان کو اچھی طرح سمجھایا جائے کہ بات کیا ہے تو ان کے لئے امکان پیدا ہو گا کہ وہ بیچ جائیں.یہ وہ دور ہے جبکہ کثرت کے ساتھ لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے اور یہ ممکن نہیں تھا کہ مرکزی معلمین ہر جگہ پہنچ کر ان کی تربیت کر سکتے ، ان کو دین سکھا سکتے اور مسائل سمجھا سکتے.ایسی صورت حال کا حل یہ پیش فرمایا گیا ہے اور آج جماعت احمد یہ بعینہ اس دور میں سے گزر رہی ہے.اس کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انعامات کے پھلوں کی بارش ہو رہی ہے کہ انہیں سنبھالنا ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ پھل جو سنبھالا نہ جائے وہ ضائع ہو جایا کرتا ہے.پس اب یہ فکر کا دور ہے اور اس فکر کا حل قرآن کریم نے چودہ سو برس پہلے سے ہمیں بتا رکھا ہے.تمام دنیا میں جہاں جہاں کثرت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں وہاں ان ملکوں میں مرکزی دینی تربیت گاہیں قائم کرنا ضروری ہے جو تمام سال کام کرتی رہیں.گزشتہ سال میں نے نصیحت کی تھی کہ پہلے تین مہینے آنے والوں کی تربیت کے لئے وقف کریں لیکن جب میں نے قرآن کریم کے اس مضمون پر دوبارہ غور کیا تو مجھے یہ سمجھ آئی کہ یہاں دو تین مہینے کی بات نہیں بلکہ ایک دائمی جاری وساری نظام کا ذکر ہے جو ایک دفعہ جاری ہوگا تو رکے گا نہیں اور ہمیشہ جاری رہے گا.پس تربیتی کلاسز جن کا انعقاد ہوتا ہے اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی چلے ان کو میں سمجھا رہا ہوں کہ ہر ملک میں ایک دائمی جاری رہنے والی تربیتی کلاس کا انتظام کرنے کی قرآن نے ضرورت بیان فرمائی ہے اور قرآن جب ضرورت بیان فرماتا ہے تو وہ لا ز ما ضرورت حقہ ہوتی ہے وہ ایسی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے تو یقیناً شدید نقصان پہنچتا ہے.پس اب تربیت اور تبلیغ کے کام الگ الگ نہیں رہے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی اسی آیت نے اس مضمون کو بھی کھول کر بیان فرما دیا وہ تربیت حاصل کریں گے دین کو اچھی طرح

Page 618

خطبات طاہر جلد 13 612 خطبه جمعه فرموده 19 راگست 1994ء سمجھیں گے، دین میں ان کو استحکام نصیب ہوگا اور پھر بہترین داعی الی اللہ بننے کے لئے واپس لوٹیں گے یا داعی الی اللہ بن کر واپس لوٹیں گے تو تربیت اور تبلیغ کو الگ الگ، ایک دوسرے سے جدا دو مضامین کے طور پر پیش نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا ہے.تربیت کرنے والوں کو سمجھایا کہ انہوں نے قبول تو کر لیا مگر ہو سکتا ہے دین ان میں پوری طرح جذب نہ ہوا ہو یا وہ دین میں پوری طرح ڈوبے نہ ہوں.پس تفقہ کا ذکر فرمایا لیعَلِّمُو نہیں فرمایا کہ سکھائیں ان کو وَلِيَتَعَلَّمُو نہیں فرمایا کہ وہ سیکھیں بلکہ یتفقھو کا مطلب ہے وہ دین کی حقیقت کو سمجھ جائیں اس غرض سے اکٹھے ہوں اس کی حکمتوں کو جان لیں، اس کے مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیں.اس کے بعد پھر ان کے متعلق شیطان کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ ان کو پھسلا سکے.پس حقیقت میں جو نہم اور ادراک کا استحکام ہے اس سے بڑا کوئی استحکام نہیں.عروہ وشقی پر ہاتھ ڈالنا کہ پھر وہ بھی اس سے جدا نہ ہو سکے یہ رشد و ہدایت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ایسی واضح رشد و ہدایت کہ کھرے کھوٹے میں پوری طرح تمیز ہو چکی ہو اس کے بعد ایسے شخص کو کوئی پھسلا سکتا ہی نہیں ہے.زیادہ سے زیادہ کوششیں ہوں گی جیسا کہ ہورہی ہیں کہ بے حد روپیہ دے کر لالچیں دے کر ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچا جائے.کوششیں ہوں گی اور ہو رہی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے متعلق یک طرفہ غلط فہمیاں پھیلائی جائیں مگر وہ لوگ جو دینی مراکز میں جا کر تفقہ حاصل کر چکے ہوں وہ شیطان کی حد استطاعت سے باہر چلے جاتے ہیں.شیطان کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ انہیں پھسلا سکے کیونکہ وہ اس حد تک سیکھ چکے ہیں کہ جب واپس جاتے ہیں وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُم وہ تو اب منذر بن کے، نذیر بن کے واپس جارہے ہیں تو وہ تو لوگوں کو ڈرانے کی صلاحیت حاصل کر کے واپس جارہے ہیں ان کو کوئی کس چیز سے ڈرا سکتا ہے.پس تفقہ سے مراد ایسا تفقہ ہے کہ دین میں اتنا گہرا استحکام ہو جائے اور مسائل اس طرح دلوں میں اتر چکے ہوں کہ اس کے بعد ان کے دلوں میں ولولہ پیدا ہو کہ کاش ہم واپس جائیں اور اپنی قوم کو بتائیں کہ ہم کیا دیکھ آئے ہیں اور تم کن باتوں سے محروم ہو اور اگر اسی طرح تم اسی حالت میں زندگی بسر کرتے رہے تو تمہارے لئے ہلاکت یقینی ہے، یہ انداز ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ یہاں تبشیر کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ تبلیغ کے لئے زیادہ تر تبشیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے.اس ضمن میں میں

Page 619

خطبات طاہر جلد 13 613 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 /اگست 1994ء ایک دفعہ پہلے بھی جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں تبشیر کہتے کہتے انذار کا تصور دماغ سے نکل ہی گیا ہے حالانکہ قرآن کریم ہر جگہ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا، بَشِيرًا وَنَذِيرًا کہتا جاتا ہے اور مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا بیان فرماتا ہے اور دونوں کو اس طرح اکٹھا کرتا ہے جس طرح مکے مدینے، مکے مدینے لوگ کہتے ہیں ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ دونوں کا فاصلہ کتنا ہے لیکن ہمارے ملکوں میں لفظ مکے کے ساتھ مدینہ خود بخود سے نکل جاتا ہے.تو بشیر اور نذیر کو اس طرح جوڑ جوڑ کر بیان فرمایا ہے کہ اس میں تو فاصلہ بھی کوئی نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ بشیر وہی ہے جو نذیر بھی ہو اور یہ دونوں اس طرح ایک دوسرے کے سامنے پول بنے ہوئے ہیں ایک دوسرے کے سامنے قوتوں کے مرکز بنے ہوئے ہیں کہ ایک کو ہٹاؤ تو دوسرا ہٹ جائے گا.کوئی ماں تربیت نہیں کر سکتی اپنے بچے کی اگر وہ مبشرہ ہی ہو اور نذیرہ نہ بنے.کوئی باپ اپنے بچے کی تربیت نہیں کر سکتا اگر وہ نذیر ہی بنا رہے اور مبشر نہ ہو تو اس طرف دھیان چاہئے.خدا تعالیٰ نے یونہی تو نہیں بے وجہ بار بار بشیر نذیر، بشیر نذیر کہہ کہہ کر سارے قرآن میں ان دو تصورات کو ایسا باندھ دیا کہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتا.شاذ کے طور پر بعض ایسے محل پہ جہاں تبشیر کے مضمون کا ذکر اقتضائے حال کے مطابق نہیں تھا جہاں نذیر کا لفظ ضروری تھا وہاں نذیر کو اکیلا بیان فرمایا گیا ہے بعض دوسرے مواقع پر جہاں وقت کا تقاضا تھا کہ وہاں صرف بشارت کا مضمون بیان ہو وہاں بشیر کا ذکر فرمایا گیا.لیکن بالعموم بشیر اور نذیر دونوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ایسے رشتے میں باندھا گیا ہے کہ وہ ٹوٹ نہیں سکتا ایک تصور کے ساتھ دوسرا از خودا بھر آتا ہے.تو میں جماعت کو پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ آپ بشیر ہی بنے رہیں گے یا نذیر بھی بنیں گے ساتھ اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جب نذیر کا دور چلتا ہے اور بشیر سے بڑھ کر نذیر بنا پڑتا ہے ورنہ قوم بیچ نہیں سکتی.اسی لئے جلسہ سالانہ میں میں نے کہا گیارھواں سال ہونے کو آیا بشیر بنتے بنتے اب کچھ نذیر بھی تو بنو.کچھ ان کو بتاؤ کہ ہماری دعائیں کیا اثر رکھتی ہیں اور تمہیں ہلاکت سے جن چیزوں نے بچا رکھا تھا ان میں ہماری دعائیں بھی شامل تھیں.اگر یہ پردہ اٹھا تو تم میں جو بد بخت ہیں وہ ضرور سزا پائیں گے اور بدنصیبی ہوگی کہ ان کے ساتھ قوم بھی ڈوب جائے.پس قوم کو بچانے کے لئے یہ تبشیر کا ایک خاص پہلو ہے کہ اس کو بچانے کے لئے ڈرایا جاتا ہے اور جب وہ ڈر جاتے ہیں تو پھر اس خوف میں سے بشارت نکلتی ہے.آپ کسی کو بتا ئیں کہ اس

Page 620

خطبات طاہر جلد 13 614 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 /اگست 1994ء ނ رستے پر ڈا کو پڑتے ہیں، یہاں سانپ بچھو ہیں یا مہلک جانور ہیں تو بظاہر تو یہ ڈرانا ہے لیکن ایسا ڈرانا کہ اگر اس کے فائدے اٹھا ئیں تو اس میں بشارت مضمر ہے خود بخود اس کی کوکھ سے خوشی نکلتی ہے اور اسی کا نام بشارت ہے.چنانچہ جب کوئی واقعہ ہو جائے مثلاً آپ کہتے ہیں کہ یہ بس خطر ناک ہے یہ ڈرائیو بڑا خطرناک ہے اس پر نہ بیٹھو اور کوئی نہیں بیٹھتا اور اس بس کو حادثہ پیش آ جاتا ہے تو دیکھیں کتنی مدت گھروں میں باتیں ہوتی ہیں کہ دیکھو اللہ نے کیسا بچایا، عین وقت پر ہمیں تنبیہ کر دی گئی اور ہم بیچ گئے تو ایک وقت کا ڈرانا عمر بھر کی خوشخبری بن جایا کرتا ہے.تو نذیر کے اندر بھی تبشیر کا مضمون داخل ہے پس اس پہلو سے نذیر بننے کے دن آچکے ہیں ، ضرورت ہے کہ ہم اپنی قوم کو ہر جگہ خصوصیت سے ان علماء کو ڈرائیں جنہوں نے فتنوں کی حد کر دی ہے، ہر حد سے تجاوز کر چکے ہیں پوری طرح بے حیا ہو چکے ہیں، جانتے ہیں کہ جھوٹ ہے بولے چلے جاتے ہیں ان میں سے ہر ایک ایسا ہے اگر ہر ایک نہیں تو بھاری اکثریت ایسی ہوگی کہ اگر ان کو خدا کا خوف دلا کر اپنے بچوں کی قسم دی جائے اور کہا جائے کہ بتاؤ کیا جماعت احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ میں محمد رسول الله العلیم سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں تو مجھے یقین ہے کہ اکثر ان میں سے قسمیں نہیں کھائیں گے.جب ان کو مباہلے کے چیلنج دیئے گئے تھے تو سارے بہانے کر کے دوڑ گئے تھے کیونکہ وہ ایسی ہی باتیں تھیں جو بیان کی گئی تھیں.میں نے ان کو بتایا کہ تم کہتے ہو فلاں تحریر سے یہ نکلتا ہے.فلاں تحریر سے یہ نکلتا ہے، میاں بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر لکھی جس کا یہ مطلب نکلتا ہے، حضرت مصلح موعودؓ نے یہ کتاب لکھی اس کا یہ مطلب نکلتا ہے.ہزار جھوٹے مطالب نکال کر جو جماعت احمدیہ کے عقائد کے برخلاف ہیں اور ایک بھی احمدی ان تحریروں سے وہ مطلب نہیں نکالتا، نہ ان مطالب پر ایمان رکھتا ہے.اگر تم واقعہ خدا کے حضور بچے ہو اور کہتے ہو کہ ہاں یہی سچ ہے جو ہم کہ رہے ہیں اور ہر احمدی کا یہ عقیدہ ہے تو پھر میں مباہلے کے لئے تمہیں بلاتا ہوں اسی بات پر مباہلہ کر لو.دیکھو کیسے کیسے بہانوں سے فرار کئے.فلاں جگہ پہنچو اور فلاں جگہ آؤ اور ایسی شرطیں باندھیں کہ جانتے تھے کہ یہ شرطیں نا معقول ہیں اور نہ ان کو کوئی پورا کرے گا اور اگر کرتے بھی تو انہوں نے دوڑ جانا تھا وہاں سے.پس یہ حالت ہے ان کے نفس ان کو مجرم بنائے ہوئے ہیں ان کے نفس ان کو بتاتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو اور ساری دنیا اب یہ کہنے لگ گئی ہے.پاکستان سے جو لوگ آرہے ہیں کئی دفعہ ان سے بات ہوئی تو وہ

Page 621

خطبات طاہر جلد 13 615 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 /اگست 1994ء کہتے ہیں کہ پہلے تو اس طرح کھل کر لوگ نہیں کہا کرتے تھے مگر اب ایک ایسا دور آ گیا ہے کہ جب عام مجالس میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ مولوی جھوٹا ہے اور احمدی نیچے ہیں.ایک ایسے غیر احمدی نے جو اونچے طبقے میں پھرنے والے ہیں انہوں نے بیان کیا اپنے ایک عزیز دوست سے جس نے مجھے یہ روایت پہنچائی.اس نے کہا کسی جگہ بات ہورہی تھی تو ایک صاحب جو کافی با رسوخ تھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے.انہوں نے کہا سچی بات یہ ہے کہ اگر مسلمان ہے تو احمدی ہے باقی سب جھوٹ ہے.محض ڈھکوسلے ہیں، مولویوں نے فساد بنائے ہوئے ہیں اسلام کہیں نہیں ہے ان کے پاس.اگر اسلام ہے تو احمدیت میں ہے تو وہ دور آ چکا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے مطابق آراء نے تبدیل ہونا تھا اور آسمان سے آراء تبدیل کرنے کی ہوائیں چل چکی ہیں.پس یہ وہ دور ہے کہ ان شریروں کو جو باز نہیں آ رہے بتایا جائے کہ اب اگر تم اس حرکت سے باز نہیں آؤ گے تو تمہارے لئے ہلاکت ہے اور یہ انذار کرنے والے پرانوں ہی میں سے نہیں نیوں میں سے پیدا ہوں.یہ جو دور ہے یہ ایک لحاظ سے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آج کے حالات پر صادق آہی رہا ہے مگر قرآن کریم کی جو آیت میں نے پڑھی ہے اس کا مضمون زیادہ وسیع ہے.قرآن کریم یہ بتا رہا ہے کہ ایسے دور آتے ہیں جب کہ کثرت سے لوگ حق کو قبول کرنے لگ جاتے ہیں اور جب وہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں خطرات پیدا ہوتے ہیں ان خطرات میں سے سب سے پہلے یہ خطرہ ہے کہ ان لوگوں کو حق قبول کرنے کے بعد کوئی بہکانے کی کوشش نہ کرے اور یہ جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کا رخ نہ بدل جائے.پس اگر تم چاہتے ہو کہ اس عظیم دور کا رخ ہمیشہ ترقیات کی سمت جاری رہے تو قرآن کریم فرما رہا ہے کہ ضروری ہے کہ ان سب نئے آنے والوں کو ایسے مراکز میں بلا ؤ جہاں دین کی تربیت دی جا رہی ہو.تفقہ فی الدین ہواور اس حد تک ان کو دین کے مسائل سے آگاہ کرو، اس کی حکمتوں سے آگاہ کر دو کہ ان کے دل میں ایک ولولہ پیدا ہو جائے وہ محض مصنوعی طور پر ایک طالبعلم کے طور پر نہ بیٹھے رہیں، ان کے دل میں یہ جوش اٹھے کہ اب تو ہمیں استاد بننا چاہئے کہ جلدی واپس جائیں اور اپنی قوم کو ڈرائیں کہ وقت آگیا ہے.جب قبولیت کی ہوا چلتی ہے تو انکار کرنے والوں کی پکڑ کے دن بھی آیا کرتے ہیں یہ بھی بَشِيرًا وَنَذِيرًا کا ایک مضمون ہے جس کو تاریخ ثابت کرتی ہے.پس یہ دور ہے جس میں ہم داخل ہوئے ہیں.بشارت

Page 622

خطبات طاہر جلد 13 616 خطبه جمعه فرمود و 19 راگست 1994ء کے نتیجے میں جو چلے آئیں گے وہ بچائے جائیں گے.جو بشارت کے دور میں بھی ہوائیں چلنے کے باوجو در کیں گے ان کی سزا کا وقت آ گیا ہے.پس یہی لوگ جنہوں نے بشارت کے نتیجے میں حق کو قبول کیا ان کی ایسی تربیت کرو، ان کے دلوں میں ایسے ولولے بھر دو کہ بے چین ہو ہو کر واپس لوٹیں کہ ہم جا کر اپنی قوم کو بھی یہ خبر دیں اور یہ بات ایسی بچی ہے کہ بارہا میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس کو پورا ہوتے دیکھا ہے.ربوہ کے جلسوں کے دوران بھی اور اب بھی بسا اوقات ایسے آدمی جو بہت دور سے سفر کر کے پہلی دفعہ جلسوں میں شرکت کے لئے آئے جب ان سے میں نے تاثر پوچھا تو بالکل اس آیت کے مصداق تاثر تھا.ایک نے کہا کہ اب تو میرا دل چاہتا ہے کہ جلدی واپس جاؤں.میں نے کہا کیوں اتنی جلدی کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہماری قوم جو محروم بیٹھی ہے میں جا کر بتاؤں تو سہی کہ کیا دیکھ کے آیا ہوں اور کن چیزوں سے وہ محروم ہے.پس لِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ میں یہ مفہوم ہے جو بار بار ہم اپنی آنکھوں کے سامنے حقیقہ پورا ہوتے بھی دیکھتے ہیں.پس تمام دنیا میں تمام جماعتیں ایسے مستقل مراکز قائم کر دیں جہاں نئے آنے والوں کے کچھ کچھ نمائندہ سارا سال تربیت پاتے رہیں.لمبے تربیتی پروگرام نہیں بنانے.سردست چھوٹے چھوٹے بنانے ہیں مگر ایسے بنانے ہیں کہ تفقہ کا حق ادا ہو جائے.مثلاً موٹے مسائل میں سے ایک وفات مسیح کا مسئلہ ہے اس مسئلے کو اگر سمجھا دیا جائے تو اس کی اہمیت بھی خوب ابھر کر روشن ہو کر آنکھوں کے سامنے آتی ہے.لوگ کہتے ہیں وفات مسیح سے کیا فرق پڑتا ہے مرے عیسی زندہ رہے اب تو یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ کہتے ہیں ٹھیک ہے مر گیا تو مر گیا زندہ ہے تو زندہ ہے ہمیں کیا.کہ تمہیں کیوں نہیں.تمہاری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے عیسی کی زندگی اور موت کا نہیں امت محمدیہ کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بارہا کھول کھول کر یہ بات واضح فرمائی کہ وہ امت ہلاک نہیں ہو سکتی جس کے آخر پر مسیح ابن مریم ہو گا.ایک موقع پر فرمایا جس کے اول میں میں ہوں اور آخر پر مسیح ابن مریم اور ان لفظوں میں نہیں مگر اس مفہوم کو بار بار اس شدت اور اس زور کے ساتھ بیان فرمایا کہ سوائے اس کے کہ کسی کا نفس مجرم ہو چکا ہو اور کہے میں نے نہیں ماننا.حضرت عیسی کے آنے کے عقیدے سے کوئی شخص بھی جو حقیقہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کا احترام اپنے دل میں رکھتا ہے انکار نہیں کر سکتا، ناممکن ہے.جو بھاگتے ہیں بظاہر رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی ماننے سے انکار کر رہے

Page 623

خطبات طاہر جلد 13 617 خطبہ جمعہ فرموده 19 اگست 1994ء ہیں.اصل میں جماعت احمدیہ سے بھاگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے لئے چارہ ہی کوئی نہیں، بیچاروں کے لئے اتنا خوف ہے کہ یہ اگر مان لی رسول اللہ ﷺ کی بات تو جماعت کو ماننا پڑے گا مسیح موعود کی صداقت ماننا پڑے گی.اس لئے رسول اللہ ﷺ کو بھی چھوڑ جاتے ہیں.اس حد تک ان کے دلوں میں بغض بڑھ چکے ہیں اور اصل خوف کی وجہ یہی ہے ورنہ وفات مسیح کے عقیدہ سے بذات خود نفرت نہیں رکھتے تھے یہ لوگ.اب صورت حال یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزررہا ہے اس عقیدے کو دوبارہ کھول کر پیش کر کے اس کی حکمتیں بیان کرنا ضروری ہے اور تفقہ اس سلسلے میں یہ ہوگا کہ ہر آنے والے کو سمجھایا جائے کہ تم نے کیا عقیدہ چھوڑا ہے کیا قبول کیا ہے، باقی مسلمان یہ مانتے ہیں اور تم یہ ماننے لگے ہو.ان کے وہ ماننے کے بدنتائج کیا ہیں اور تمہارے یہ ماننے کے اچھے نتائج کیا ہیں اور اگر اس بات کو قوم نہیں سمجھے گی تو ہلاک ہو جائے گی کیونکہ جو بچانے والا تھا وہ تو آ بھی چکا اور اگر اس حال میں گزر گیا کہ تمہاری زندگیاں ختم ہوئیں اور تم نے اس کو نہ پہچانا تو تمہاری ہلاکت یقینی ہے اور لفظ ہلاکت خواہ کیسا ہی تکلیف دہ دکھائی دے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے.كَيْفَ تَهْلِكُ هَذِهِ الْأُمَّةُ کس طرح ہلاک ہوگی یہ امت اَنَا اَوَّلُهَا وَالْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ آخِرُهَا اول پہ میں کھڑا ہوں اور آخر پہ مسیح آنے والا ہے یہ کیسے ہلاک ہوسکتی ہے اور اگر نہ آیا آخر پر تو ہلاک ہو جائے گی اور آیا اور نہ پہچانا گیا تب بھی ہلاک ہو جائے گی.تو زندگی اور موت تو بظا ہر عیسی کی ہے مگر حقیقت میں امت مسلمہ کے آخری دور کی زندگی اور موت کی بحث چل رہی ہے.انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہوش کے ناخن لو عقل سے کام لوسیح کی اہمیت کو پہلے سمجھو اگر تم اس عقیدے پر قائم رہے کہ مسیح وفات نہیں پاچکے زندہ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں تو پھر تمہارے لئے لازم ہے کہ دعائیں کرو کہ جلد خدا ان کو آسمان سے اتارے اور اس کی اہمیت لوگوں کے سامنے بیان کرو.علماء کو جب میں نے چند سال پہلے یہ کہا تو ایک مولوی نے بھی یہ اعلان نہیں کیا.اس طرح یہ بھاگتے ہیں مباہلوں سے بھی بھاگتے ہیں، حقیقی سچے استدلال سے بھی بھاگتے ہیں.میں نے کھلے عام مولویوں کو جلسے پر دعوت دی تھی کہ دیکھو تم سارے اصرار کر رہے ہو اور کتا بیں لکھ رہے ہو کہ مسیح فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ جسم سمیت آسمان پر چڑھایا گیا.وہاں اپنے دوبارہ اترنے کا انتظار کر رہا ہے.

Page 624

خطبات طاہر جلد 13 618 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء اور امت محمدیہ کو یہ خوش خبری دے رہے ہوا اپنی طرف سے کہ وہ ضرور آئے گا اور جب وہ آئے گا تو یہ سارے جھوٹے ادیان جو دعویدار بنے پھرتے ہیں یہ سب باطل ہو جائیں گے اور صفحہ ہستی سے مٹا دئے جائیں گے اور مسلمانوں کے سارے درد دور ہو جائیں گے، ساری مصیبتیں دور ہو جائیں گی اور سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور مسیح ہی سے ہماری آخری زمانے کی بقا ہے اور اس کے آنے کے نتیجے میں ہم دوبارہ زندگی کے سانس لینے لگیں گے.یہ ہے کھلی کھلی تعلیم.تو میں نے ان کو سمجھایا، میں نے کہا یہ بات سچی ہے نا تم جانتے ہو.یہ تو میں تمہاری طرف کوئی جھوٹ منسوب نہیں کر رہا اور اگر سچی ہے تو اتنی اہم ہے کہ ضرورت ہے کہ سب دنیا کو بتاؤ یہ نئی تحریکات کیا چلا رہے ہو.اس بگڑے ہوئے دور میں اگر وہ تریاق نہ آیا جس سے بیمار نے بچنا ہے تو تمہاری ساری کوششیں بے کار جائیں گی اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہ بیمار مر جائیں گے.یہ حضرت محمد رسول اللہ کا پیغام ہے تمہارے نام.میری بات نہیں مانتے اس پیغام کو تو عزت کی نگاہ سے دیکھو.آنحضور فرمارہے ہیں کہ اس آخری زمانے کے مسلمانوں کی بیماریوں کا تریاق مسیح ہے.وہ نازل ہوگا تو یہ بیماریاں دور ہوں گی ورنہ نہیں ہوں گی تو کیوں نہیں بتاتے کہ مودودی جھوٹے ہیں.کیوں نہیں بتاتے کہ منہاج القرآن کی تحریکات اور ایک نام اور دوسرے نام کی تحریکات یہ ساری لغو باتیں ہیں بے معنی باتیں ہیں.رابطہ عالم اسلامی کی کوششیں محض ڈالروں کو آگ لگانے والی بات ہے.کچھ نہیں بنے گا ان سے جب تک مسیح نہیں الله اترے گا.اگر یہ جھوٹ ہے نعوذ باللہ من ذلک اور تم یہ جھوٹ سمجھتے ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ سے اپنا رشتہ تو ڑ لو کیوں کہ آپ نے فرمایا ہے.نہ مسیح موعود نے نہ میں نے.یہ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آخری زمانے میں تمہارے بچنے کا دار ومسیح کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا کہیں نہیں ہے.اتنی اچھی طرح سمجھا کر بات بتا کر میں نے ان سے اپیل کی کہ اب آسمان سے اتارنا تو تمہارے بس میں نہیں ہے تم سے اڑھائی گز کی چھلانگ بھی نہیں ماری جاتی.آسمان پر کہاں پہنچو گے اور یہ بھی نہیں پتا کہ وہ کس ستارے میں بیٹھا ہوا ہے اور ہر ستارہ اتنی دور ہے کہ اگر تم روشنی کے کندھوں پر بیٹھ کر ان ستاروں کی طرف سفر اختیار کر و تو لاکھ لاکھ سال تک سفر کرتے رہو تب بھی وہاں نہیں پہنچو گے کیونکہ زمین کے اکثر ستارے ہم سے ان سے بھی زیادہ دور ہیں.تو کہیں تو ہے نا آخر اور تم کہتے ہو اور تم سچے ہو کہ مسیح کسی ستارے میں کہیں چھپ کر بیٹھا ہوا ہے.اب یہ نہیں پتا Dark Matter میں ہے یا Light Matter میں ہے.

Page 625

خطبات طاہر جلد 13 619 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء کہاں ہے؟ تو اول تو پاکستان کے سائنس دانوں کو سعودی عرب کے سائنس دانوں کو اتنے بڑے مسئلے میں تحقیق کرنی چاہئے.کیسی ظالمانہ بات ہے سچ مانتے ہیں اور ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے جھوٹی کہانی ہو.یہ امر واقعہ ہے یہ کھول کھول کر میں نے بات اس لئے سمجھائی کہ ان کے دلوں کا جھوٹ خود ان کے سامنے کھل کر باہر آ جائے.عقیدہ وہی ہے جو میں بتا چکا ہوں اور اس سے سلوک وہ ہے جیسے جنوں بھوتوں کی کہانیوں سے سلوک ہوتا ہے.ہو تو تب کیا نہ ہو تب کیا، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ تو صاف پتا چلتا ہے کہ ہر مولوی کا دل گواہ ہے کہ سب جھوٹی کہانی ہے جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں یوں نہیں ہوگا اور اگر سچی ہے تو پھر فکر کیوں نہیں کرتے.گنجے سر کے علاج کے لئے تو لوگ اتنا خرچ کر دیتے ہیں اور اتنا روپیہ برباد کیا جاتا ہے.معمولی معمولی بیماریوں کی تحقیق پر اتنا روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.ساری امت مسلمہ کی روحانی بیماری کا مسئلہ ہے اسے ٹھیک کرنے کے لئے جو معالج مقرر ہے وہ دیر کر رہا ہے، نسلوں کے بعد نسلیں مررہی ہیں.تم دوسرے تریاق ڈھونڈتے پھرتے ہو.جانتے ہو کہ اصدق الصادقین نے فرمایا ہے کہ کوئی انسانی تریاق کام نہیں دے گا جب تک آسمان سے یہ اترنے والا نہیں اترے گا اس وقت تک یہ امت بچائی نہیں جاسکتی اور پھر فکر نہیں کرتے.تو میں نے سمجھایا ، میں نے کہا دیکھو اور کچھ نہیں تو دعا کرو اور جب دعا کرو تو دجال کو نہ بھولنا کیونکہ مسیح سے پہلے دجال کا ذکر ہے.تمہیں تو دجال ہی نظر نہیں آیا، تم نے مسیح کو کہاں سے دیکھ لینا تھا.دجال کا ذکر ہے اور دجال کے متعلق فرمایا ہے کہ ایسا ہوگا، ایسا ہوگا اور اتنا لمبے قد کا، ایک آنکھ والا یعنی دائیں آنکھ اس کی کافی اور بائیں آنکھ روشن.وہ لمبی تفصیلات ہیں جو میں بارہا آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں، کھول کر بیان کیں، علماء کو بتایا کہ دیکھو یہ دجال مسیح سے پہلے آنا ہے پھر مسیح آئے گا.تو مسیح کی فکر ہے تو دجال کی فکر کرو پہلے.اور دجال آئے گا تو اس نے سوار کس پر ہونا ہے گدھے پر سوار ہونا ہے اور ایسے گدھے پر جس کے دوکانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا فاصلہ ہے.جس کا قد اتنا اونچا ہے کہ وہ Cloud Line جس کو کہتے ہیں اس سے بھی وہ اوپر ہے اور اس کی رفتار ایسی ہے کہ وہ ہوائی جہازوں کو مات کرتا ہے.رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں مشرق سے قدم اٹھائے گا وہ گدھا.ایک پاؤں مشرق میں تو دوسرا مغرب میں Land کرے گا.جس طرح ہوائی جہاز چلتے ہیں روزانہ مشرق سے اٹھتے ہیں اور مغرب میں لینڈ کر رہے ہوتے ہیں وہی نقشہ ہے.مگر جس کو دکھائی نہ دے

Page 626

خطبات طاہر جلد 13 620 خطبه جمعه فرموده 19 راگست 1994ء ان کو میں بتا رہا ہوں.دجال کی تو آنکھ کافی ہوئی چلو، تمہاری آنکھ کو کیا ہو گیا ہے تمہیں کیوں نہیں دکھائی دیتا.لیکن نہیں دیتا تو پھر دعا کرو، دہائی ڈالو، شور مچاؤ، اندھے بے چارے نہیں چل سکتے تو پوچھتے تو ہیں نا کہ آؤ بھئی ہمیں رستہ دکھاؤ تو یہ بھی نہیں کر رہے.دہائیاں دو خدا کے حضور گریہ وزاری کرو اور قوم کومتوجہ کرو.قوم کو کہو دیکھو تم مر رہے ہو اور مرتے چلے جاؤ گے کوئی اور طاقت تمہیں بچا نہیں سکتی ہم جھوٹ بولتے تھے اگر ہم کہتے تھے کہ ہمارے پاس آؤ ہم تمہیں بچالیں گے.خاتم النبین والے مولوی بنے ہوئے ہیں ان کو اعلان کرنا چاہئے تھا کہ ہماری توبہ، ہم کون ہوتے ہیں تمہیں ان کے حملوں سے بچانے کے لئے جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ خاتم النبین پر حملہ ہے نعوذ باللہ من ذالک.اگر بچانے والا ہے تو آسمان پر بیٹھا ہوا ہے پہلے اس کو ا تا روساری قوم گریہ وزاری کرے،صدقے دے، دعائیں کرے، اور دعاؤں کا مضمون گدھے سے شروع ہوگا.یہ دعا کرے اے اللہ وہ گدھا تو پیدا کر دے جس کی پیٹھ پر سوار ہو کر دجال نے سفر کرنے ہیں تا کہ اگر ہمارا داؤ چلے تو گدھا ہی مار دیں.نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اور دجال سے دنیا کا پیچھا چھڑا ئیں مگر خیر اگر یہ مقدر نہیں ہے تو گدھا پیدا تو کر.وہ آگ کھا کے چلے اور اتنے لمبے لمبے سفر کرے اور وہ پیٹھ پر گندم کے پہاڑ لا دکر غریب قوموں کی مدد کے لئے نکلے.یہ اب کچھ نظر نہیں ان کو آ رہا.ابھی سب ہونا ہے تو پھر واویلا کریں کہ اے خدا اس گدھے کو پیدا کر جس کے بعد پھر دجال آئے وہ سواری کرے پھر ہمیں خوب مارے یہاں تک کہ ہم سب مٹ جائیں صرف ستر ہزار باقی رہ جائیں اور ان کے ناکوں میں بھی دھواں چلا جائے دجال کا.جب یہ سب کچھ ہو جائے تو پھر ہم کہیں گے اے خدا مسیح کو اتار.تو سب کچھ تو ہونے والا پڑا ہوا ہے، تمہیں ہوش ہی کوئی نہیں مسیح کے لئے دعائیں نہیں کر رہے اس لئے سارے جھگڑے ایک طرف چھوڑو اور صبح کو پکارو آسمان سے اور مسیح کے آنے کی تیاری کر و یعنی گدھا مانگو، دجال مانگو اور پھر ان کی ہلاکت کی دعائیں کرو گے تو وہ مریں گے جب پیدا ہی نہیں ہوئے انہوں نے مرکہاں سے جانا ہے بیچاروں نے.یہ مضمون سمجھایا تھا اور جب غیر احمدی مجالس میں آیا کرتے تھے اور مجھ سے باتیں سنتے تھے تو ہنس پڑتے تھے.میں حیران ہو کے ان کو دیکھتا تھا، اتن سنجیدہ عقیدہ میں بیان کر رہا ہوں یہ ہنس رہے ہیں.بعض لوگ قہقہے مارنے لگ جاتے تھے.پھر جاتے اسی مولوی کے پاس ہیں جو خدا تعالیٰ کی بیان

Page 627

خطبات طاہر جلد 13 621 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء کردہ حکمتوں کا یوں حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں اور جب ان کو سمجھایا جاتا ہے تو قہقہے مارتے ہیں ، ہنستے ہیں ، مذاق اڑاتے ہیں لیکن ان مولویوں کا اپنا یہ حال ہے کہ یہ ان عقیدوں کو دل سے تسلیم نہیں کرتے اگر کرتے ہیں تو جو میں کہ رہا ہوں وہ سب کچھ کر دکھاتے.ایک عظیم قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہو اور اس سے اس طرح انسان ہلکے پھلکے انداز سے سلوک کرے کہ ٹھیک ہے جی مر گیا تو مر گیا، زندہ ہے تو زندہ ہمیں کیا.تمہیں کیا! تم نے مرجانا ہے اگر وہ مرگیا تو.وہ نیچے آئے بغیر مر گیا تو تم سارے زمین پر پڑے پڑے مر جاؤ گے کیونکہ تمہاری زندگیاں اس کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں.تو اس کو کہتے ہیں تفقہ فی الدین اور قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وہ جو نئے آنے والے ہیں ان کو بلاؤ تفقہ کرو ان کے لئے لیتَفَقَهُوا تا کہ وہ تم سے تفقہ سیکھیں.ان کے دماغوں میں اس طرح یہ بات گھول گھول کر ڈال دو، اس طرح ان کو پلا دو یہ بات کہ واپس جا کر اپنی قوم کو ڈرانے کے مستحق ہو جائیں اور ڈرانے کی اہلیت حاصل کر لیں کیونکہ جاتے ہی ان کے سپر دنذیر کا کام کر دیا گیا ہے.اب دیکھیں درمیان میں اور کوئی مضمون نہیں.ليَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ صداقت کو اتنا واضح طور پر دیکھ لیں ایسا یقینی طور پر سمجھ لیں کہ پھر کوئی چیز ان کو صداقت سے ہٹا نہ سکے بلکہ اس مرتبے کو حاصل کر لیں جو استادوں کا مرتبہ ہے اور وہ جا کر اپنی قوم کو ڈرائیں اور بتائیں کہ ہم وہ جگہ وہ نور دیکھ آئے ہیں جس کے بغیر ہر طرف اندھیرا ہے اگر اسی حالت میں تم پڑے رہے تو تم اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے جانیں دے دو گے.لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ تا کہ ان کی قوم خوف کرے کچھ خدا خوفی سے کام لے کچھ اپنے حال پر ڈرے اور اس طرح وہ ہدایت پا جائے.تو دیکھیں تبلیغ اور تربیت کو خدا تعالیٰ نے کس طرح حکمت کے ساتھ ایسے رشتوں میں باندھ دیا ہے جو ٹوٹ نہیں سکتے.بشارت انذار بن گئی ہے.انذار بشارت ہوگئی ہے.ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں.پس آپ جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لاکھوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشی ہے اب مزید انتظار کئے بغیر ان کی تربیت کا ایسا انتظام کریں کہ صرف ان کو نماز پڑھنا نہیں سکھانا، روزمرہ کے مسائل نہیں بتانے بلکہ تفقہ فی الدین یہاں بیان فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تفقہ کے ساتھ پھر باقی چیزیں از خود پیدا ہو جاتی ہیں، اگر تفقہ فی الدین ہو تو انسان کے اندر

Page 628

خطبات طاہر جلد 13 622 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 راگست 1994ء ایک بے حد تڑپ پیدا ہو جاتی ہے، ایک بے قرار تمنا اس کے دل سے اٹھتی ہے کہ ایسے پیارے دین کو میں کیوں نہ سیکھوں، کیوں اس میں مزید ترقی نہ کروں، کیوں نہ ان حکمت کی باتوں پر عمل پیرا ہو جاؤں.پس عمل کا ایک گہرا تعلق عقیدے کے یقین سے ہے اور عقیدے کے یقین کا گہرا تعلق گہری فہم سے ہے.جو عقیدہ گہری فہم کے بغیر ہو اس کا نام چاہے آپ یقین رکھتے پھریں وہ یقین نہیں ہے وہ ایک تصور کا خیال ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.جو گہرا فہم ہو جائے ، اچھی طرح بات سمجھ لیں اس سے یقین پیدا ہوتا ہے اور جب یقین پیدا ہوتا ہے تو پھر ایسے شخص کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.وہ لازماً اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہو جاتا ہے.اس کے انکار کے نقصانات سے بھی آگاہ ہو جاتا ہے.فوائد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.نقصانات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.پس جماعت احمد یہ اس دور میں داخل ہوتے ہوتے اب وہاں پہنچ گئی ہے کہ یوں لگتا ہے اس آیت کی سرزمین کے مرکز میں ہم جا پہنچے ہیں اس آیت کے مضمون نے چاروں طرف سے ہمیں گھیر لیا ہے اب کسی مزید التواء کا موقع نہیں رہا ، کسی تاخیر کا ہمیں حق نہیں رہا.لازم ہے کہ معا اس آیت کے مضمون کا تفقہ کر کے اس کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کے بعد اس کے مطابق وہ تربیت گاہیں قائم کریں جہاں ہر ملک میں اور اگر ایک ملک میں ضرورت ہو تو ایک جگہ سے زائد تفقہ کے مراکز قائم ہوں.اس میں نئے آنے والوں کو بلایا جائے اور باری باری مختلف گروہ آتے جائیں اور سبق سیکھ کر واپس چلتے چلے جائیں اور یہ جو تربیتی کلاس ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ اب سارا سال کی ہو گی.اب یہ اعلان نہیں ہو گا کہ آج کشمیر میں ہو رہی ہے.آج افغانستان میں ہو رہی ہے.آج پاکستان میں ہو رہی ہے.پھر تو ساری دنیا کی کلاسوں کے متعلق مستقل دعا کرنی پڑے گی.اللہ تعالیٰ انگلستان کی کلاسوں کو بھی کامیاب فرمائے اور جرمنی کی کلاسوں کو بھی اور سویڈن اور ڈنمارک کی بھی اور افریقہ میں سیرالیون کی کلاسوں کو بھی اور گھانا کی کلاسوں کو بھی ، نائجیر یا کو بھی.کتنے نام ہر جمعہ میں لے سکتا ہوں ایک سو بیالیس تک تو پہنچ چکے ہیں اور ان کے اندر بھی بے شمار کلاسیں ہوں گی تو یہ کلاسیں لگائیں اور مستقل جماعت ان کلاسوں کے لئے دعا کرے اور ان کے لئے کوشش کرے.اس کے لئے چونکہ ہمارے پاس ابھی وہ فوج تیار نہیں ہوئی جس کا نام وقف نو کی فوج ہے اس لئے ضروری ہوگا کہ عارضی طور پر صاحب علم اپنے آپ کو وقف کریں اور صاحب علم خواتین اپنے

Page 629

خطبات طاہر جلد 13 623 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء آپ کو وقف کریں اور ہر جگہ عورتوں کے لئے بھی مراکز ہوں اور مردوں کے لئے بھی اور ان کی تربیت اس جذبے سے کی جائے کہ ایک بات اتنی اچھی طرح سے سمجھ جائیں کہ پھر ناممکن ہو دشمن کے لئے کہ اس پر حملہ کر سکے اور پھر وہ اس بات کو لے کر نکل کھڑے ہوں ہر جگہ پھیلاتے چلے جائیں.تو اس طرح آپ کے آئندہ آنے والے تربیت کے علاوہ تبلیغی تقاضے بھی پورے ہوں گے، کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم سے سلوک فرمایا ہے ایک کو دو اور دو کو چار اور چار کو آٹھ کرتا چلا گیا ہے.اب یہ دور اگر جاری رکھنے کی دل میں تمنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے رخ کے مطابق چلنا شروع کریں اور یہ خدا کی تقدیر کا رخ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.اس رخ پر چلیں گے تو خدا کی تقدیر ہمیشہ آپ کے حق میں عجائب کام دکھائے گی ، ناممکن باتیں آپ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھیں گے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اب تک جو آپ دیکھ چکے ہیں اس کے بعد آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ ان عجائب کا انکار کر سکیں.حیرت انگیز اعجاز خدا نے دکھائے ہیں آپ اب گواہ بن چکے ہیں.پس ان باتوں پر عمل کریں جو قرآن کی روشنی میں قرآن کی تعلیم کے مطابق میں آپ کو سمجھا تا ہوں اور دیکھیں اگلے سال کے لئے کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے عجائب آپ کیلئے ، لئے بیٹھا ہے اور عجیب کام آپ کے لئے کر دکھائے گا.پس اب ہم دنیا کے سامنے ایک چیلنج بن چکے ہیں.دنیا بجھتی ہے کہ اتفاقی واقعات ہیں یہ حادثات کے نتائج ہیں.ہم کہتے ہیں کہ تقدیر الہی ہے جو جماعت احمدیہ کو ایک نئے دور میں داخل کر چکی ہے.اس کے ہر سال کا موڑ پہلے سے بڑھ کر شاندار آئے گا اور یہ تقدیر ہے جو میں دیکھ چکا ہوں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ اسی طرح جاری ہوتی چلی جائے گی.پس اس سفر کی تیاری اس شان سے کریں کہ ہر موڑ پر آپ کو خدا کے نئے کرشمے، نئے جلوے دکھائی دیں اور ایسے جلوے ہوں جو دنیا کی آنکھوں کو چندھیا دیں مگر وہ انکار نہ کرسکیں اور یہ وہ طریق ہے جو قرآن سے سیکھ کر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں.وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُ وا كَافَّةً مومنوں کے لئے یہ توممکن نہیں ہے کہ وہ سارے کے سارے اکٹھے جہاد میں مصروف ہو جائیں.فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ پس ایسا کیوں نہیں کہ ان میں سے ہر گروہ میں سے ایک چھوٹا گروہ نکلے، ایک جماعت نکلے ليَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ تا کہ وہ دین سیکھے.اب نکلے، گھروں سے نکلے مراد ہے کسی جگہ جانا ہے جہاں

Page 630

خطبات طاہر جلد 13 624 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1994ء دین سکھایا جاتا ہے ان جگہوں کے نام نہیں لئے.مدینہ نہ کہنے کی ایک یہ بھی حکمت ہے کہ اسلام نے تو پھیلنا تھا ہر شخص کے لئے ممکن ہی نہ رہتا کہ وہ مدینے پہنچ سکے اور اگر آنحضرت ﷺ کا وصال ہو جانا تھا جیسا کہ ہونا تھا یہ بھی ممکن تھا کہ مدینہ میں وہ ایسے پاکباز مصلح، دین سیکھانے والے باقی نہ رہیں اور قوم کی حالت بگڑ چکی ہو تو ان سارے احتمالات کا جواب اس ایک آیت نے دے دیا.اس کو کہتے ہیں فصاحت و بلاغت.جہاں بظاہر کوئی سقم دکھائی دیتا ہے اس کو غور سے ٹھہر کے دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ وہ سقم نہیں ہے بلکہ عظیم روشنیوں کی طرف کھلنے والی ایک کھڑ کی تھی.پس اس آیت کو اس زمانے پر چسپاں کر کے دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ کیوں مدینے کا ذکر نہیں کیا گیا کیوں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف جسمانی طور پر آنے کا ذکر نہیں فرمایا.ایک کھلی کھلی بات فرما دی گئی ہے جس کے سارے گوشے کھلے رکھ دئے تا کہ ہر زمانے کی ضرورت پر پوری طرح اس کا اطلاق ہو سکے نکلیں ، کدھر کو نکلیں ، کہاں جائیں کچھ بیان نہیں فرمایا.فرمایا کوئی جگہ ایسی ضرور ہونی چاہئے جہاں ان کی تربیت کا انتظام ہو اور یہ مومنوں کی جماعت کا اجتماعی فرض بیان فرما دیا گیا.جہاں جہاں ممکن ہے ان کے مراکز قائم کر دو.لیکن یہ تمہارے لئے ممکن نہیں رہے گا یہ بھی ایک عجیب پیشگوئی ہے کہ جہاں جہاں بیعتیں ہورہی ہیں وہاں وہاں پہنچ کر ان کی تربیت کر سکو.ان پر ذمہ داری ڈالو، ان کے نمائندے آئیں ، وہ سیکھیں، واپس جا کر اپنوں کو سکھائیں اور خصوصیت سے غیروں کو انذار کے ساتھ اس ہدایت اور پناہ گاہ کی طرف بلائیں.یہ مضمون ہے جو جتنا آپ غور کرتے ہیں اور کھل کر پتھر کر جیسے پھول کھلتا ہے اس طرح کھل کر ہمارے سامنے بہت خوبصورتی کے ساتھ ظاہر ہورہا ہے.پس تمام دنیا کی جماعتیں اس مضمون کی روشنی میں ایسی جگہوں پہ مراکز قائم کریں جہاں اردگرد کے علاقے کے لوگوں کے لئے آنا ممکن ہو اور ایسا نظام جاری کریں کہ سارا سال یہ سلسلہ جاری رہے، چلتا رہے.ان کے لئے وہاں رہائش کا انتظام بھی دیکھنا ہوگا اور ادلنے بدلنے کا نظام جاری کرنا پڑے گا.یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب تک کوئی سمجھ نہ جائے اس وقت تک اس کو ٹھہرائے رکھنا ہے اور بہت زیادہ مکینیکل نہ بنائیں کلاسز کو.یہاں مدت بھی بیان نہیں فرمائی گئی.لیتَفَقَهُوا یہ شرط رکھ دی.بعض لوگ ذرا ٹھہر کے سمجھتے ہیں بعض جلدی سمجھ جاتے ہیں.جو ذرا ٹھہر کے سمجھتے ہیں ان کو روکنا

Page 631

خطبات طاہر جلد 13 625 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 راگست 1994ء چاہئے کہ ابھی تم اس لائق نہیں ہوئے جیسے پہلے سال کوئی فیل ہو جائے تو اس کا ایک سال اور بڑھا دیا جاتا ہے تو اس قسم کا سالوں کا معاملہ تو نہیں.مگر نظر رکھنے والے موجود رہنے چاہئیں.جب ایک شخص کے متعلق جانتے ہیں کہ اس میں بشاشت پیدا ہو رہی ہے اس کے اندر ولولہ پیدا ہو گیا ہے، بات کو سمجھ چکا ہے تو کہیں اچھا بھئی السلام علیکم، رخصت ہو تم اب اس کام میں مصروف ہو جاؤ جس کے لئے خدا کے ارشاد کے تابع ہم نے تمہیں تیار کیا تھا.اپنی قوم میں لوٹو اور انذار شروع کر دو.اس طرح آپ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ خدا کے فضل سے کس طرح جماعت کو استحکام نصیب ہوتا ہے اور کس تیزی سے جماعت روز افزوں ترقی کرتی چلی جاتی ہے.ہر آنے والا ، آنے والے دور کے لئے خود تیاری کر رہا ہوگا اور آپ کا مددگار ہو جائے گا اور آپ کو نئے لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے نئی قوموں کو تبلیغ کرنے کے لئے ، نئے ملکوں کو تبلیغ کرنے کے لئے خالی چھوڑ دے گا.اپنی قوموں کو تو ہم اب سنبھالتے ہیں.ہماری فکر آپ نے جو کرنی تھی کر لی اب ہم پر چھوڑ دیں.خدا نے جب ہم پر اعتماد فرمایا ہے ہمیں بات کا اہل قرار دیا ہے کہ خود سمجھنے کے بعد اپنی قوم کا انذار کریں گے تو پھر ہمیں کرنے دیں.ہماری فکر نہ کریں.آپ جائیں دوسرے ملکوں کو تلاش کریں.ایک سو بیالیس ان کے پاس چھوڑ دیں.نئے ایک سو بیالیس ڈھونڈیں نئی قوموں کی طرف نکلیں نئے شہروں کی طرف رجوع کریں اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب یہ سلسلے ، یہ پھیلنے والے سلسلے وہ بن کر ابھرنے والے ہیں کہ تمام دنیا کی مولوی کی طاقت بھی اس راہ میں حائل نہیں ہوسکتی.میں خدائے واحد ویگانہ کی قسم کھا کر آپ کو بتاتا ہوں کہ اب ایسے دور آنے والے ہیں کہ مولوی تھر تھر کا نہیں گے اور نا مراد ہو کر دیکھتے رہیں گے اور کچھ کر نہیں سکیں گے.آپ نے آگے بڑھنا ہے اور بڑھتے چلے جانا ہے یہاں تک کہ آپ کے قدموں کی دھمک انگلی صدی میں سنائی دے جائے گی.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ حامی و ناصر ہو.حو صلے اور یقین کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھیں، قرآن کی بتائی ہوئی ہدایتوں کے مطابق آپ چلیں گے تو یہ نسخے ایسے ہیں جو کبھی نا کام نہیں ہو سکتے.اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

Page 632

626 خطبات طاہر جلد 13

Page 633

خطبات طاہر جلد 13 627 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 /اگست 1994ء پیار محبت اور دعاؤں کے ساتھ کی ہوئی نصیحت اثر کرتی ہے.رسول کریم ﷺ کی برا اثر نصائح (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1994ء بمقام ناصر باغ، گروس گیرا و جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران : 105) پھر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ جرمنی کے سالانہ جلسہ کا افتتاح ہورہا ہے اور گزشتہ کچھ عرصہ سے میرا یہی طریق ہے کہ جمعہ ہی پر افتتاح کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور جمعہ کے مضمون ہی میں افتتاح کے لئے نصائح شامل ہو جاتی ہیں.اس جلسے کے ساتھ دنیا بھر میں اور بھی کچھ جلسے، کچھ اجتماعات، کچھ تربیتی کلاسز منعقد ہو رہی ہیں سب کی خواہش ہے کہ ان کا ذکر کر دیا جائے.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع چکوال کا چوتھا سالانہ اجتماع کل جمعرات سے جاری ہے اور آج جمعہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا.اسی طرح ضلع خوشاب کی مجلس انصاراللہ کا اجتماع بھی کل سے جاری ہے اور آج ختم ہوگا.ضلع سرگودھا کا سالانہ اجتماع آج منعقد ہو رہا ہے اور ایک ہی دن کا اجتماع ہے.مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس کا ریجنل اجتماع آج 26 راگست سے شروع ہو رہا ہے، جماعت احمدیہ بیروت کا تیسرا جلسہ سالانہ کل دو دن جاری رہے گا اور 28 راگست بروز اتوار اختتام پذیر ہوگا.جماعت احمد یہ چارکوٹ

Page 634

خطبات طاہر جلد 13 628 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 /اگست 1994ء جموں 27 /اگست سے شروع ہو رہا ہے.کشمیر کی تمام مجالس کا مشترکہ سالانہ اجتماع بھی کل 27 اگست بروز ہفتہ سے شروع ہے اور 28 راگست تک جاری رہے گا.اسی طرح جماعت احمد یہ دوبئی ایک جلسہ سیرت النبی منعقد کر رہی ہے اور اس جلسے کی کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہے.یہ تمام جماعتیں جن کا اعلان کیا گیا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ٹیلیویژن کے رابطے کے ذریعے ہمارے اس اجتماع میں برابر کے شریک ہیں اللہ تعالیٰ ہر پہلو سے ان کے اجتماعات میں برکت دے اور تمام نیک امنگوں اور تمناؤں کو پورا فرمائے اور اجتماعات کی برکتیں خواہ وہ ایک روزہ ہوں یا دو روزہ یا تین روزہ لمبے عرصے تک ان میں جاری وساری رہیں.جس آیت کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ چاہئے کہ تم میں سے ایک قوم ایسی ہو جو اس بات پر وقف رہے کہ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی رہے.وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اور اچھے کاموں کی ہدایت دیتی رہے.وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بری باتوں سے روکتی رہے.وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ايَا کرنے والے ہی ہیں جو ضرور کامیاب ہوں گے.پس جماعت احمدیہ کے نصب العین میں یہ بات داخل ہے کہ ہم نیکیوں کی طرف بلائیں، اچھی باتوں کی طرف بلائیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے روکیں.یہی وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے ہم نے اسلام کے لئے عالمی جنگ جیتنی ہے اور ان ہتھیاروں کو روز مرہ استعمال کرنا اور عادت بنا لینا ہی ایک ایسا اہم فریضہ ہے جو جماعت کو توجہ کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ محض ہتھیا رسجا لینا ہی کافی ہوتا ہے.بعض لوگ پستول لگائے پھرتے ہیں.بعض دوسرے ہتھیار رہا تھوں میں لئے پھرتے ہیں مگر جب وقت آتا ہے تو ان کے ہتھیار ان کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ ہتھیار کے لئے ایک روز مرہ کی واقفیت، روز مرہ کا انس ان ہتھیاروں سے، ایسی واقفیت کہ جس کے نتیجہ میں از خود وہ ہاتھوں میں بروقت پہنچیں اور صحیح، ٹھیک نشانہ لگا سکیں.یہ کام ایسا نہیں جو محض ہتھیار سجانے سے خود بخود آ جاتا ہے.یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لئے وہ لوگ جو ہتھیاروں کو سمجھتے ہیں اور ان سے واقعہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ان ہتھیاروں کو روز مرہ کی زندگی کا ایسا حصہ بنا لیتے ہیں کہ ہر وقت ان سے کھیلتے رہتے ہیں بسا اوقات ایسے نشانہ باز میں نے دیکھے ہیں کہ ہاتھ میں پستول ہے تو بار بار ہاتھوں میں اٹھاتے ہیں اور بار بار

Page 635

خطبات طاہر جلد 13 629 خطبه جمعه فرمودہ 26 اگست 1994ء اس کو اچھالتے ، اچانک نشانہ لیتے ، اسی طرح شکاری جو ہوائی نشانہ لینے کی مشق کرتے ہیں وہ کم و بیش روزانہ ہی خالی بندوق سے کھیلتے رہتے ہیں خواہ سامنے کوئی شکار نہ ہو.تو نیک بات کی طرف بلانا اور نیک نصیحت کرنا دو مقاصد رکھتی ہے.ایک یہ کہ اپنی آپس میں تربیت کی جائے دوسرے یہ کہ تمام دنیا کو بھلائی کی طرف بلایا جائے جن لوگوں کو روزمرہ ان ہتھیاروں کے استعمال کی عادت نہ ہو وہ دوسری قوموں کو بھی اس طرف بلانے کا سلیقہ نہیں جانتے.وہ لوگ جو روز مرہ گھروں میں اس خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے ہتھیار کو صحیح طریق پر استعمال کرنے کی پریکٹس نہیں کرتے ان لوگوں کو باقی دنیا میں بھی ان کو استعمال کرنے کی توفیق نہیں ملتی.پس یہ جو قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے بہت ہی اہم ہے.اتنی اہم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ جو نیکیوں کی طرف نہیں بلاتے ، جو بدیوں سے روکتے نہیں ہیں ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کشتی میں سوار کچھ لوگ ہوں جس کی ایک اوپر کی منزل ہو اور ایک نیچے کی منزل ہو.نیچے کی منزل والے اس کشتی کی تہہ میں سوراخ کر رہے ہوں اور اس پر اوپر کی منزل والے روکیں نہیں کہ ہمیں کیا یہ تو نیچے کی منزل میں ہونے والا واقعہ ہے.نتیجہ جب وہ سوراخ ہو جائے تو ان سب نے بہر حال غرق ہونا ہے.قوموں کی زندگی ، قوموں کی بقاء کا مسئلہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس طرح اس کو سمجھا اور سمجھایا.پس جماعت احمدیہ کو اس بات کو روز مرہ کا شیوہ بنا لینا چاہئے کہ اچھی باتوں کی طرف بلانا شروع کرے اور اچھی باتوں کا حکم دیا کرے اور بُرے کاموں سے روکا کرے.اس سلسلے میں کچھ احتیاطیں ہیں، اس خدا تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنے کے کچھ اسلوب ہیں، کچھ تقاضے ہیں، جن کو نظر انداز کر کے ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں يَأْمُرُونَ کا جو لفظ فرمایا گیا ہے اگر چہ اس میں حکم کا مضمون پایا جاتا ہے مگر آنحضرت ﷺ نیک کاموں کی طرف حکما نہیں بلایا کرتے تھے بلکہ ساتھ دل پر اثر کرنے والی نصیحت کے ذریعے لوگوں کو نیکی کی تلقین فرماتے تھے اور اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اس کو سزاد ینے کا کبھی آپ نے ارادہ نہیں فرمایا بلکہ آپ کا دل اس کی حالت پر مغموم ہو جایا کرتا تھا جو نیک بات سن کر بھی اس پر عمل نہیں کرتا.پس عمل سے مراد یہاں نصیحت کرنا ہے نہ کہ حکم کے ساتھ صلى الله

Page 636

خطبات طاہر جلد 13 630 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء نصیحت کرنا بجز کے ساتھ نصیحت کرنا ہے، نہ کہ حکم کے ساتھ کسی اچھی بات کی طرف بلانا ہے اور اسی سنت نبوی میں اس طریق کی کامیابی کا راز مضمر ہے.وہ لوگ جو نصیحت کرتے تو ہیں مگر سنت کے مطابق عجز اور انکساری اور محبت اور پیار اور دل کے گہرے جذبے سے نصیحت نہیں کرتے بلکہ ان کے اندر حکم پایا جاتا ہے ان کی نصیحت کبھی کامیاب نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات برعکس نتیجہ نکالتی ہے بسا اوقات ایسی نصیحت کرنے والے سوسائٹی میں نفرتوں کے بیج بو دیتے ہیں اور لوگ ایسے نصیحت کرنے والے سے دور بھاگنے لگتے ہیں اسی طرح یہ دیکھا گیا ہے کہ نصیحت کرنے والے بسا اوقات طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور نصیحت اس رنگ میں کرتے ہیں گویا جس شخص کو نصیحت کی جارہی ہے وہ تو ہر نیکی سے عاری ہے اور جو نصیحت کرنے والا ہے وہ بڑا متقی ہے اور بہت ہی خدا تعالیٰ کے ہاں معزز مقام رکھنے والا ہے تو اس طرح نصیحت کرتے ہیں جیسے نیچے جھک کر کسی ذلیل آدمی کی طرف انسان نگاہ کرے اور اسے روکے، بسا اوقات کتے کو دھتکارا جاتا ہے کہ یہ کام نہ کرو اس میں ایک امر کا مضمون ہے.کتا جب برتن میں منہ ڈالنے لگتا ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کس طرح لوگ سختی سے اس کتے کو دھتکار دیتے ہیں.لوگ بسا اوقات اپنی نادانی اور نا کبھی میں انسانوں سے بھی یہی سلوک کرتے ہیں.کوئی بری بات ان سے صادر ہوتے دیکھتے ہیں تو حقارت کے ساتھ اور ڈانٹ ڈپٹ کر اسے اس بات سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم نے نصیحت کا حق ادا کر دیا حالانکہ یہ نصیحت کا حق ادا کرنا نہیں، یہ نصیحت کے برعکس مضمون ہے جو نصیحت کا الٹ اثر پیدا کرتا ہے.کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کو طعن و تشنیع کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے لمبے لمبے خطوط میں مجھے بھی ایسی ہی نصیحتیں کرتے ہیں کہ فلاں جگہ یہ ہورہا ہے، فلاں جگہ وہ ہورہا ہے، آپ سختی سے ان کو روکتے کیوں نہیں، آپ ان کو ڈانٹتے کیوں نہیں، آپ ان کو سزائیں کیوں نہیں دیتے.فلاں جگہ ہم نے دیکھا کہ ایسی حرکت ہو رہی تھی.وہ اپنے مزاج کو میرے مزاج پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں تحدی پائی جاتی ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اگر مجھ سے ان کا یہ سلوک ہے کہ گویا مجھے حکما یہ فرمایا جارہا ہے کہ فلاں بات یوں ہورہی ہے، فلاں نے پردہ نہیں کیا ہوا تھا، آپ نے کیوں اس کو پروگرام میں آنے دیا.فلاں نے فلاں بے احتیاطی کی تھی ، کیوں ڈانٹ ڈپٹ کر اس کو ٹھیک نہیں کیا گیا ؟ اگر مجھ سے یہ طریق ہے تو پھر اپنے ساتھیوں اور عامتہ الناس سے ان کا کیا

Page 637

خطبات طاہر جلد 13 631 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 راگست 1994ء طریق ہو گا.ایسے لوگ سوسائٹی میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نفرتوں کے بیج بو دیتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریق سے ہٹ کر ایک غیر طریق اختیار کرتے ہیں جس میں کامیابی نہیں ہو سکتی.قرآن کریم نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ یہ ہے وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہ لوگ جو اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں گے خدا وعدہ کرتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہوں گے.پس نصیحت کے بھی انداز ہیں، اسلوب ہیں، سلیقے ہیں.جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ ہی سے سیکھنے ہوں گے اور اسی کردار کے مطابق اپنے کردار کو ڈھالنا ہو گا.پس نصیحت کے ساتھ طعن و تشنیع کو ملانا نصیحت کو برباد کر دینا ہے اور ایسا شخص خود آپ بھی نقصان اٹھاتا ہے.وہ جانتا ہی نہیں کہ عمر بھر وہ ایک اندرونی تکبر کا شکار رہا ہے.وہ جانتا ہی نہیں کہ اس کا نصیحت کرنا دوسرے کی بھلائی کے لئے نہیں تھا بلکہ اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے تھا.یہ بتانا مقصود تھا کہ میں تم سے بہتر ہوں اور اگر یہی طریق ہو نصیحت کا تو ایسی نصیحت کبھی بار آور ثابت نہیں ہو سکتی.پس نصیحت کریں لیکن خلق محمدی کو اپناتے ہوئے، پیار اور محبت کے ساتھ ، دلسوزی کے ساتھ ، جان گداز کرتے ہوئے ، اس طریق پر کلام کریں جو دل پر اثر کرنے والا ہو اور اس کے نتیجے میں واقعہ پاک تبدیلی پیدا ہو.دوسری بات یہ ہے کہ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ میں نیکی کی طرف بلانے والے کا کچھ اپنا بھی تو کردار ایسا ہونا چاہئے کہ اس کی نیکی اس کی ذات سے اس طرح چھلکے جیسے لبالب پیالہ بھرا ہو تو اس سے کوئی شربت چھلکتا ہو.اگر انسان خیر کی طرف بلاتا ہے اور خود مجسم خیر نہیں ہے یا کم سے کم اس خیر کی طرف بلاتا ہے جو خیر اس میں نہیں پائی جاتی تو یہ نصیحت بھی خواہ عاجزی کے ساتھ کی جائے بالکل بے اثر ثابت ہوتی ہے.پس يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ میں ایک دوہرے فائدے کا مضمون ہے.جو لوگ بھلائیوں کی طرف بلانے والے ہیں ان کا ضمیر ان کو ہمیشہ ان کی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے اور بعض دفعہ اگر ایک انسان مجبورا ایک منصب پر فائز ہے جہاں اس نے ضرور بھلائی کی طرف بلانا ہے تو اس کی اپنی کمزوریاں بار بار اس کے سامنے آتی ہیں اور اس کے حضور فریادی ہو جاتی ہیں کہ تم دوسروں کو جن نیکیوں کی طرف بلا رہے ہو اپنی ذات کی طرف بھی توجہ کرو.اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو سننے والے ہیں وہ ایسے شخص سے کیا سلوک کریں.بعض دفعہ ایک شخص

Page 638

خطبات طاہر جلد 13 632 خطبه جمعه فرمودہ 26 اگست 1994ء کسی بھلائی کی طرف بلاتا ہے اس کی اپنی ذات میں اگر وہ نیکی ہو بھی تو بعض دفعہ اس کے بچوں میں نہیں ہوتی ؟ اس کے حلقہ احباب میں کسی میں نہیں ہوتی، اس کی بیوی میں نہیں ہوتی.اس کے عزیزوں میں نہیں ہوتی.ایسی صورت میں اسلامی طریق کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ کا طریق کیا تھا؟ آنحضور ﷺ نے کبھی بھی کسی نصیحت کرنے والے کو تحقیر سے نہیں دیکھا اور تحقیر سے اس کے ساتھ سلوک نہیں فرمایا.بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے آنحضور کو نصیحت کی اور ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ ایسا واقعہ ہوا اور جس بات کی نصیحت کی وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ میں اس سے بہت زیادہ پائی جاتی تھی یہاں تک کہ کوئی نسبت ہی نہیں تھی.ایک دفعہ ایک یہودی نے آنحضرت ﷺ کو تلقین کی کہ لین دین کے معاملے درست رکھو اور مالی معاملات اپنے صاف کرو.اب آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر اور کون ایسا ہوسکتا تھا بلکہ یہاں تک طعنہ دیا کہ آپ کے خاندان کا یہی طریقہ ہے کہ لوگوں کے پیسے لے لیتے ہیں اور پھر واپسی کا نام نہیں لیتے.صحابہ بہت مشتعل ہوئے.بعض اس یہودی کی طرف لپکے کہ اسے سزا دیں مگر آنحضرت ﷺ نے انہیں روک دیا اور صبر کی تلقین فرمائی.صرف اتنا کہا کہ ہاں اس کا میں نے کچھ دینا ہے ابھی اس کی ادائیگی کر کے مجھے بری الذمہ کیا جائے.چنانچہ آنحضور ﷺ نے نہ صرف اس مطلوبہ مال کی ادائیگی فرمائی بلکہ اس سے بڑھ کر دے دیا.پس آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی بسا اوقات ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جب آپ کو نصیحت کرنے والا خود آپ کے مقابل پر ان باتوں میں بہت کمزور اور کچا ہوتا تھا جیسا کہ آنحضرت نے کسی کو صبر کی نصیحت فرمائی کسی کو اور باتوں کی نصیحت فرمائی.اس نے الٹ کر آنحضور کے او پر یہ حملہ کیا آپ کو کیا پتا صبر کیا ہوتا ہے؟ جس پر غم پڑے وہی جانتا ہے کہ صبر کیا ہوتا ہے.مگر آنحضرت ﷺ نے کبھی ایسے شخص کو ڈانٹا نہیں، کبھی ایسے شخص کو جواب میں طعنہ نہیں دیا کہ تم اپنی حیثیت تو دیکھو اور دیکھو کہ مجھ سے باتیں کر رہے ہو جو ان تمام خوبیوں میں مکارم اخلاق پر فائز کیا گیا ہے، جو اخلاق کی بلند ترین چوٹیوں پر قدم رکھتا ہے.کبھی ایک دفعہ بھی آپ نے جواہا نہیں فرمایا بلکہ خاموشی اور صبر کے ساتھ اس نصیحت کرنے والے کی دل آزاری کو بھی برداشت کیا.پس یہ بھی ایک پہلو ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور جرمنی کی جماعت میں اس کی خصوصیت سے ضرورت ہے اگر ایک عہدیدار اپنے عہدے کی مجبوری سے ایک

Page 639

خطبات طاہر جلد 13 633 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994 ء نصیحت کرتا ہے.ہوسکتا ہے کہ وہ ان بعض خوبیوں سے عاری ہوں یا اس کے قرب وجوار میں اس کے دوست ، عزیزان خوبیوں سے عاری ہوں جواباً اس پر یہ حملہ کرنا کہ تم اپنی شکل تو دیکھو، اپنا حال تو دیکھو ہمیں جس طرف بلاتے ہو اپنے بچوں کو کیوں ٹھیک نہیں کرتے یہ بھی درست اسلامی طریق نہیں ہے بلکہ ایک نہایت ہی ناپاک رد عمل ہے، ایک نا پاک رویہ ہے جس کے نتیجے میں سوسائٹی میں نفرتوں کے زہر گھولے جاتے ہیں اور نصیحتیں بریکار جاتی ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ نصیحت کا ایک بہت ہی نازک مرحلہ ہے جبکہ نصیحت کرنے والا اپنے فرض کی وجہ سے مجبور ہو، ایسے مقام پر مامور ہو کہ اس کا کام ہے کہ وہ نصیحت کرے.ایسے موقع پر دیکھنے والا شاید یہ خیال کرتا ہو کہ اس نے اپنے نفس کو بھلا دیا ہے اور دوسرے کو نصیحت کر رہا ہے مگر میں جہاں تک انسانی نفسیات کو سمجھتا ہوں اس کا یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات ایسے نصیحت کرنے والے اپنے دل میں خود ہی گھلتے ہیں اور غم کھاتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ خدا ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے تا کہ ہم لوگوں کی جن کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کمزوریاں ہماری ذات سے بھی بالکل کلیۂ الگ ہو کر ہمارے وجود کو پاک اور صاف چھوڑ جائیں.ایسے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہیں ان میں بھی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.بچوں میں بعض دفعہ وہ وہ خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی ذات میں نہیں ہیں.بچوں میں سے وہ کمزوریاں دور کرنا چاہتے ہیں جو بعض دفعہ ان کے اندر بھی پائی جاتی ہیں تو اگر اس طریق کو بچے اپنا لیں اور بات بات پر ماں باپ کے سامنے زبانیں کھولیں اور کہیں کہ تم میں بھی یہ فلاں بات ہے تم میں بھی یہ فلاں بات ہے تو ساری دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے اور کسی کو اپنے گھر میں بھی تربیت کی توفیق نہ ملے.پس تربیت کے ساتھ کچھ شرافت کے تقاضے وابستہ ہیں اور وہ شرافت ہے جو تربیت کو فائدہ پہنچاتی ہے اور تربیت کو تقویت دیتی ہے.جس کو نصیحت کی جا رہی ہے اس کی شرافت کا تقاضا ہے کہ نصیحت کرنے والے کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ دیکھے کہ بات سچی ہے یا نہیں ہے اگر بات سچی ہے تو وہ موقع طعنہ دینے کا نہیں.بات سچی ہے تو کسی اور وقت اس کو اور رنگ میں سمجھایا جائے کہ تم میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے تم اسے دور کرنے کی کوشش کرو.پس آنحضرت ﷺ نے نصیحت کے مضمون میں ایک بنیادی بات ایسی فرما دی ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنے نصیحت کے کردار کو مزید صیقل کر سکتے ہیں اور چمکا سکتے ہیں.آپ نے فرمایا حکمت کی

Page 640

خطبات طاہر جلد 13 634 خطبه جمعه فرمود و 26 اگست 1994ء بات مومن کی گم شدہ اونٹنی کی طرح ہے.( ترمذی کتاب العلم حدیث نمبر: 2611) گمشدہ اونٹنی کہاں سے ہاتھ آتی ہے، کون اسے پہنچاتا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا بلکہ وہ حکمت کی بات کو اپنی بات سمجھتا ہے.پس جن لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ان کو نصیحت کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے.یہ دیکھنا چاہئے کہ نصیحت اچھی ہے یابُری ہے اگر بُری ہے تو اس سے کنارہ کشی ضروری ہے اگر اچھی ہے تو جوابا طعنہ دینا حسن خلق نہیں ہے بلکہ سوسائٹی سے رفتہ رفتہ نصیحت کی قدروں کو اڑا دینے اور باطل کر دینے کے مترادف ہو جاتا ہے.جن سوسائٹیوں میں ناصحین کو طعنے ملتے ہیں ان سوسائٹیوں سے رفتہ رفتہ امر بالخیر اور نہی عن المنکر کا رواج ہی اٹھ جاتا ہے.پس سننے والے کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور ان کو یا درکھنا چاہئے کہ نصیحت اگر اچھی بات پر مشتمل ہے تو اس نصیحت کو طعن و تشنیع میں اڑانے سے نہ ان کو فائدہ پہنچے گا نہ سوسائٹی کو کچھ فائدہ پہنچے گا بلکہ ان کی ایک نفسانیت ہے جو اور زیادہ موٹی ہو جائے گی، ان کی انانیت ہے جو اور بھی زیادہ پہلے سے بڑھ کر سرکشی کرنے لگے گی.پس عجز کا مقام سب سے اچھا مقام ہے.عجز کی راہیں سب سے اچھی راہیں ہیں.پس نصیحت کرنے والا اگر آپ کی نظر میں بعض ان خوبیوں سے عاری ہو جو وہ آپ میں دیکھنی چاہتا ہے تب بھی شکریہ کے ساتھ ان باتوں کو قبول کریں کیونکہ اس نے باتیں اچھی کہی ہیں جو آپ کے فائدے کی ہیں اور اس وہم کو دل سے نکال دیں کہ نصیحت کرنے والا خود اپنے آپ کو نصیحت نہیں کرتا.میں اس بات کا گواہ ہوں ہزار ہا احمدی مجھے خطوں میں یہ بات لکھتے ہیں کہ ہم فلاں نیکی کی بات کہنے پر مجبور ہیں.اپنے بچوں میں بھی اچھی بات دیکھنا چاہتے ہیں مگر خود کمزوریوں میں ملوث ہیں خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں، روتے ہیں اور شرمندہ ہوتے ہیں لیکن اپنی ذات میں ہم میں یہ طاقت نہیں کہ ان کمزوریوں سے الگ ہو سکیں.پس آپ بھی دعاؤں کے ذریعہ ہماری مدد کریں.پس ناصح کا ایک چہرہ ایسا ہے جو دنیا کو دکھائی دے رہا ہے.ایک چہرہ ایسا ہے جو وہ خود اپنی ذات میں دیکھ رہا ہے اور وہ چہرہ جو ہے بسا اوقات عرق ندامت میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، بسا اوقات اپنی ذات میں شرمندگی محسوس کر رہا ہوتا ہے.پس اس کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں اور حق یہ ہے کہ اس کو اچھا جواب دیں اور اس کے لئے دعا کریں.یہی وہ حسن محمدی ہے جس نے دنیا کو فتح کرنا ہے.یہی خلق محمدی ﷺ ہے جس کی آج جماعت احمد یہ علمبردار بنائی گئی ہے.پس نصیحت کے اسلوب اور

Page 641

خطبات طاہر جلد 13 635 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء سلیقے خوب باریکی سے سمجھیں اور پہچانیں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ سوسائٹی میں سے کس طرح جلد جلد بدیاں دور ہونی شروع ہوں گی اور خوبیاں ان کی جگہ لینے لگیں گی.قرآن کریم نے ہمیں یہ اسلوب سکھایا ہے کہ اگر کوئی تمہیں اچھی بات کہے تو اس سے بہتر بات میں اس کا جواب دو.اگر کوئی تحفہ دیتا ہے تو اس سے بہتر تحفہ اس کو دو.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میں تو فیق نہیں کہ ہر تحفہ دینے والے کو اسی طرح جنس کے لحاظ سے بہتر تحفہ دے سکو تو پھر دعا کرو اور اتنی دعا کرو کہ تمہارا دل مطمئن ہو جائے کہ تم نے اس تحفے کا حق زیادہ بہتر رنگ میں ادا کر دیا ہے.( ابوداؤد کتاب الزکاۃ ) پس نیک نصیحت کرنے والا بھی تو نیک بات کہہ رہا ہے اس کو الٹ کر دل کو چر کا لگانے والی باتیں کرنا حسن خلق کے خلاف ہے، اسلامی تعلیم و تربیت کے منافی ہے.پس یہ دیکھیں کہ کسی نے آپ کو اچھی بات کہی ہے یا بُری کہی ہے اگر اچھی کہی ہے تو آپ کا فرض ہے کہ آپ اس اچھی بات کو بہتر رنگ میں اسے واپس کریں نہ کہ بُرے رنگ میں اور تکلیف دہ رنگ میں واپس کریں.اور اگر بُری بات کہی ہے تو بُری بات کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اسوہ یہ تھا کہ صبر اختیار فرماتے تھے اور صبر کے ساتھ بُری باتوں کو برداشت کرنے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات دینی غیرت کے تقاضے جواب دینے پر آپ کو مجبور کر دیا کرتے تھے جو ایک الگ مضمون ہے لیکن ہر تلخی کو آپ نے حو صلے اور صبر کے ساتھ برداشت فرمایا.پس یہ وہ سوسائٹی کا Soil ہے یعنی یہ وہ سرزمین ہے جو نیک باتوں کی نشو و نما کے لئے تیار کی جاتی ہے اگر نیک باتیں، نیک نصیحتیں سننے والے اچھا رد عمل دکھا ئیں گے تو یہ ایک زرخیز زمین بن جائے گی جہاں ہر پیج جو گرتا ہے وہ اُگے گا اور نشو و نما پائے گا اور اگر اس زمین میں صلاحیتیں ہوں تو بُرے بیج کو قبول کرنے کی بجائے اسے رد کر دے گی اور محض نیکی کا بیج ہے جو قبول کرے گی اور وہ اس کی نشو ونما کا موجب بنے گی.پس میں اس وقت جماعت کی عمومی سرزمین کی فکر میں ہوں.میں چاہتا ہوں کہ جماعت کی زمین ایک ایسے زرخیز Soil یعنی وہ زمین یا کھیت جن میں چیزیں اُگتی ہیں ایسے زرخیز کھیتوں میں تبدیل ہو جائے کہ جس کے نتیجے میں امر بالمعروف ایک عام رواج پا جائے اور نہی عن المنکر کہنے والا یہ خوف نہ کرے کہ اس کے ساتھ جوابا بختی کا سلوک کیا جائے گا.بعض لوگ تو ایسی سختی کا سلوک کرتے ہیں کہ قطع نظر اس کے کہ نیک نصیحت کرنے والا واقعہ عمل پیرا ہے یا نہیں ان کو نصیحت کی بات پتھر کی

Page 642

خطبات طاہر جلد 13 636 خطبه جمعه فرمود و 26 راگست 1994ء طرح معلوم ہوتی ہے اور جب تک وہ جوابی پتھر نہ مار لیں اس وقت تک ان کو چین نہیں آتا حالانکہ نصیحت کرنے والا عاجز، منکسر المزاج، صاف بات کرنے والا ہوتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں خاندانی جھگڑے چل پڑتے ہیں.ایک آدمی نے کسی سے کہا یا کسی عورت نے کسی دوسری عورت سے کہا کہ بی بی تمہارا بچہ یہ حرکت کر رہا تھا اسے سمجھاؤ اسے بُری باتوں سے باز رکھو تو نتیجہ یہ نکلا اور جو میں باتیں کہہ رہا ہوں یہ فرضی باتیں نہیں عملاً مجھ تک پہنچنے والے قصے ہیں مجھ تک پہنچنے والے واقعات ہیں.نتیجہ نکلا کہ اس نے جو ابا اس کو بڑی سخت گالیاں دیں.اس نے کہا تمہارے اپنے بچوں میں ہزار عیب ہیں اور یہ ہیں اور وہ ہیں اور جو عیب نہیں تھے وہ بھی گنوائے خبر دار ہو جو تو نے میرے بچوں کی طرف اس آنکھ سے دیکھا ! تو ہوتی کون ہے کہ میرے بچوں میں کیڑے ڈالے؟ یہ اس قدر جہالت ہے کہ اس خوفناک جہالت میں کڑوے اور تھوہر کے پھل تو نشو ونما پاسکتے ہیں لیکن کوئی اچھا شریف پودا ایسے Soil پر نشو و نما نہیں پا سکتا.ہر Soil کا ایک مزاج ہوتا ہے ہر زمین کا ایک مزاج ہوتا ہے اور جس زمین کو Cultivate کر کے تیار کیا جاتا ہے اس زمین میں اچھے پودے نشو و نما پاتے ہیں.پس جس طرح باغوں کی دیکھ بھال کے لئے ضروری ہے کہ زمین کو خوب تیار کیا جائے کہ اچھے درختوں اور پھل دار درختوں کی نشو ونما میں وہ زمین خوب مدد گار ثابت ہو.ایسی ہی زمینیں ہیں جو اچھے پھل لاتی ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہترین فصلیں اُگتی اور بنی نوع انسان کے لئے بھلائی کا موجب بنتی ہیں.پس جماعت احمدیہ کی مثال بھی ایسی ہی ہے اور قرآن نے یہی مثال ہے جو جماعت احمدیہ کی دی ہے.كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْعَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ : فتح: 30) آپ کی مثال ہی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک کھیتی کی سی دی ہے.پس کھیتی کی مثالیں دے کر آپ کو سمجھانا کچھ تعجب کی بات نہیں ہے.پس مہربانی فرما کر اپنے اندر نصیحت کو پنپنے کے لئے ماحول تیار کریں.ہر اچھی بات کے نتیجے میں جھک کر بات کریں ، شکر یہ ادا کریں اور یہ نہ دیکھیں کہ وہ شخص کون ہے اور کیسے بات کر رہا ہے اور ہر نصیحت کرنے والے کا فرض ہے کہ نصیحت کے وقت طعن و تشنیع سے کلیۂ پاک ہو اور ایسی بات کرے جس میں اس کی ذات کے تکبر کا ، انا کا شائبہ تک بھی نہ رہے ، جھک کر بات کرے، پیار سے

Page 643

خطبات طاہر جلد 13 637 خطبه جمعه فرموده 26 راگست 1994ء بات کرے، ادب سے گفتگو کرے اور کوشش کرے کہ قرآن کریم نے جن خوش نصیبوں کا ذکر فرمایا ہے کہ وَ أُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وہ بھی انہیں میں داخل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس کے حق میں پورا ہو کہ وہ کامیاب ہونے والا ہے.پس جماعت کو کامیابی کے لئے ان تمام نصائح پر عمل کرنا ضروری ہے جو قرآن کریم نے کامیابی کے لئے شرط قرار دی ہیں.آج کل خصوصیت سے اس لئے اس کی ضرورت ہے کہ جماعت جرمنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر تیزی سے نشو ونما پا رہی ہے اور بڑی کثرت سے غیر تو میں جماعت میں داخل ہو رہی ہیں ان کو نصیحت کرنا ہے، ان کو نیک کاموں کی طرف بلانا ہے ، ان کو پیار اور محبت کے ساتھ اسلامی آداب صلى الله سکھانے ہیں.پس نصیحت کے انداز اگر آپ آنحضرت ﷺ سے نہیں سیکھیں گے تو پھر آپ نصیحت کا حق ادا کرنے کے اہل نہیں ہیں اور جیسا کہ میں نے ہتھیاروں کی مثال دی تھی جب تک اپنے گھر میں اپنے ماحول میں ان ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنا سیکھیں گے اس وقت تک عادتا آپ میں نصیحت کرنے کا ملکہ پیدا نہیں ہو سکتا.آنحضور ﷺ اپنے قرب و جوار میں ہی نہیں، اپنے گھر میں نصیحت کا آغاز فرمایا کرتے تھے، اپنے بچوں سے نصیحت کا آغاز فرماتے تھے، اپنے اقرباء سے نصیحت کا آغاز فرماتے تھے اور اس طرح آپ کی فطرت ثانیہ نصیحت کرنا تھا اور وہ نصیحت جواللہ ہوتی تھی وہ گہرا اثر کرتی تھی.پس آپ نے بھی آنحضرت ﷺ کے اسلوب اپنا کر دنیا میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اس لئے نصیحت کو ضرور اپنائیں.جماعت جرمنی میں خصوصیت سے اس لئے بھی ضرورت ہے کہ بہت سے ایسے احباب اور خواتین اور بچے مختلف ملکوں سے یہاں آئے ہیں جن کا وہاں اخلاقی معیار بہت بلند نہیں تھا، جن کا روز مرہ گفتگو کا طریقہ بھی کرخت تھا اور ان کی گفتگو میں ملائمت نہیں پائی جاتی تھی.یہ ان کے معاشرے کا حصہ تھا یہاں آنے کے بعد یہی عادتیں اگر ان کے اندر جاری رہیں تو وہ نقصان پہنچانے والی ہیں.ان کے لئے بھی نقصان کا موجب ہیں اور جماعت کے لئے بھی نقصان کا موجب ہیں.آنے والے آپ کی طرف توقعات کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ایسی تو قعات جو بہت بلند ہیں.پس آپ اپنے اندر، اپنے ماحول میں، اپنے گھر میں نصیحت کو رواج دیں اس کثرت کے ساتھ نیک باتوں کی طرف بلائیں اس کثرت کے ساتھ بُری باتوں سے روکیں کہ آپ کا اپنا معاشرہ پہلے سے بڑھ کر با اخلاق اور با ادب

Page 644

خطبات طاہر جلد 13 638 خطبه جمعه فرمود و 26 اگست 1994ء ہونا شروع ہو جائے.با ادب جو میں نے کہا ہے اس لفظ ادب میں محض اردو کا مضمون داخل نہیں بلکہ عربی کا مضمون میرے ذہن میں ہے.آنحضرت مہ کی وہ احادیث جن میں اعلیٰ اخلاق سکھائے گئے ہیں اور محض اخلاق سے تعلق رکھنے والی احادیث ہیں ایسی کتابوں میں جن میں وہ احادیث ہوں کتاب الآداب کہا جاتا ہے اور ادب سے مراد روز مرہ زندگی کا طریقہ ہے.خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی گزارنا اور خوش اسلوبی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنا یہ سارا لفظ ادب کے اندر داخل ہے.پس جماعت جرمنی میں ادب کے معیار کو بلند کرنے کی بہت ضرورت ہے.چند دن پہلے جب میں ابھی انگلستان ہی میں تھا کسی صاحب نے مجھے جماعت جرمنی کی اسی کمزوری کا طعنہ دیا اور کہا کہ آپ تو باتیں کرتے ہیں بڑی اچھی جماعت ہے، بڑی مخلص جماعت ہے، فدائی ہے، خدمت دین میں ہر معاملے میں آگے قدم بڑھانے والی ہے مگر میرے علم کے مطابق تو ان میں بہت سی اخلاق سے گری ہوئی باتیں ہیں ان کے گھروں میں بھی کوئی ادب کا سلیقہ نہیں ہے اور اپنے ماحول کے لئے کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کرتیں.میں نے صبر کے ساتھ اس طعن کو برداشت کیا اور دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ میں جماعت جرمنی کو یہ باتیں سمجھاؤں کہ ان کی روزمرہ کی کمزوریاں بعض لوگوں کے لئے طعن و تشنیع کا سامان مہیا کرتی ہیں اور اگر یہ بات درست ہے جیسا کہ بیان کی گئی تو پھر میں نے ضروری سمجھا کہ جماعت کو توجہ دلاؤں کہ میری نظر میں آپ کا جو بھی مرتبہ اور مقام ہوگا میں امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کی نظر میں بھی آپ کا وہی مرتبہ اور مقام ہومگر جو با تیں، جو کمزوریاں میری نظر سے پوشیدہ ہیں اور آپ کو بُری نظر سے دیکھنے والے کی نظر میں نمایاں ہیں ہم دعا کریں کہ اللہ کرے کہ وہ باتیں آپ کے اندر سے غائب ہو جائیں جیسے کبھی ان کا کوئی وجود ہی آپ میں نہیں تھا اور آپ کا ظاہر و باطن پاک اور صاف ہو جائے.آپ میں جو خو بیاں ہیں وہ بدیوں کو کھا جائیں یہ بات جو میں نے کہی ہے کہ آپ کی خوبیاں بدیوں کو کھا جائیں یہ اپنی طرف سے نہیں کہی قرآن نے یہی اعلان فرمایا ہے.اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيات (صور :115) کہ یاد رکھو کچی نیکیاں، حقیقی نیکیاں بری باتوں کو کھا جاتی ہیں.پس اگر میری توقعات آپ سے درست ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ درست ہیں تو میں یہ بھی امید رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے توقع رکھتا ہوں کہ قرآن کی اس خوش خبری کے مطابق رفتہ رفتہ آپ کی بدیوں کو آپ کی نیکیاں کھا جائیں گی اور آپ کے اندر سے

Page 645

خطبات طاہر جلد 13 639 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء بدیوں کی بیخ کنی کا ایک نظام جاگ اٹھے گا اور وہ نظام اندر ہی سے جاگا کرتا ہے.باہر کی نصیحت ایسا اثر نہیں دکھاتی جیسا کہ اندر سے جب بدیاں دور کرنے کا نظام جاگتا ہے تو اثر دکھاتا ہے.آپ کی ذات میں ایک شعور بیدار ہونے کی ضرورت ہے.آپ کی ذات میں اس احساس کے جاگ اٹھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اپنی کمزوریوں کو کم کرنا ہے اور اپنی خوبیوں کو بڑھانا ہے.اگر یہ سلسلہ آپ شروع کر دیں تو آپ پہلی نصیحت اپنی ذات کو کریں گے اور یہیں سے اس ہتھیار کو چلانے کا سلیقہ سیکھیں گے.اپنی ذات میں ڈوب کر، اپنے اندرونے میں خوب پھر کر جائزہ لیں کہ آپ میں کیا کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور کسی نہ کسی کمزوری کو دور کرنے کا فیصلہ کریں اور بار بار اپنے آپ کو یاد کرائیں کہ یہ کمزوری اب پھر سر اٹھا رہی ہے، اور پھر سر اٹھا رہی ہے، اور پھر سر اٹھا رہی ہے اور ہر دفعہ اس اٹھتے ہوئے سر کو دبانے کی کوشش کریں.دعاؤں کے ساتھ ، انکسار اور محنت اور کوشش اور صبر کے ساتھ ، تو میں یقین رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے اندر بہت ہی پاک تبدیلیاں پیدا فرمادے گا.ایسا نصیحت کرنے والا جو اپنی ذات کو نصیحت کرتا ہے.ایسا نصیحت کرنے والا جو اپنی ذات کو نصیحت کرتے ہوئے نصیحت کے آداب سیکھتا ہے وہ دوسروں کو نصیحت کرنے کا بہترین اہل بن جاتا ہے اور یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آپ جب اپنی ذات کو نصیحت کرتے ہیں تو کبھی آپ کی نصیحت آپ کی ذات کو بری نہیں لگتی کیا وجہ ہے؟ اس لئے کہ ایسی اپنائیت ہے کہ گویا ایک ہی وجود ہے جو نصیحت کرنے والا ہے اور ایک ہی وجود ہے جس کو نصیحت کی جارہی ہے.ان کے درمیان دوئی کا کوئی رشتہ نہیں ہے.پس جب اس بات کو آپ سمجھیں کہ آپ جب اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہیں تو کیوں وہ نصیحت آپ کو بری نہیں لگتی آپ کو اس غور کے نتیجہ میں دوسروں کو نصیحت کرنا آجائے گا.آپ جب اپنی کسی برائی کو دیکھتے ہیں تو اپنی ذات میں اپنے وجود کو بار بار جھنجھوڑتے ہیں اور سمجھاتے ہیں مگر گالیاں دے کر نہیں بلکہ بے قراری کے ساتھ ، بے چینی کے ساتھ ، شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اور اپنائیت کے ساتھ یہاں تک کہ آپ کا نفس خود آپ کے خلاف کبھی بغاوت نہیں کرتا اور پھر دعا کرتے بھی ہیں اور دعا کرواتے بھی ہیں اور مسلسل اس بات کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں کہ وہ بدی دور ہو.جب تک دور نہ ہو آپ نصیحت سے باز نہیں آتے.یہی وہ کامیاب طریق ہے یہی وہ صحیح طریق ہے جس سے آپ دوسروں کی بدیاں دور کر سکتے ہیں.

Page 646

خطبات طاہر جلد 13 640 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء جب دوسروں کو نصیحت کریں تو اپنے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذات میں ڈوب کر جو سبق آپ نے سیکھے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسی نصیحت کریں کہ دوسرا یہ سمجھے کہ آپ اس سے بالا کوئی الگ ذات نہیں ہیں بلکہ اس کے وجود کا ایک حصہ ہیں اور گہری ہمدردی اور اپنائیت کے ساتھ آپ اسے نصیحت کر رہے ہیں اور پھر اگر وہ نہ مانے تو چھوڑنا نہیں مگر غصے کا اظہار نہیں کرنا.جس طرح آپ کا نفس جب آپ کی بات نہیں مانتا تو آپ اسے چھوڑتے نہیں مگر غصے کا اظہار بھی نہیں کرتے ،مسلسل محنت کرتے چلے جاتے ہیں.فَذَكِرانْ نَّفَعَتِ الذِكْرَى (الاعلیٰ : 10 ) میں یہی مضمون ہے جو میں بار بار آپ کے سامنے کھول چکا ہوں کہ نصیحت کریں اور کرتے چلے جائیں، نصیحت سے چمٹ جائیں.وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ( العصر : 5 ) ایسے لوگ بن جائیں جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ وہ صبر کے ساتھ اچھی باتیں کہتے چلے جاتے ہیں تو جیسے اپنی ذات میں آپ صبر کرتے ہیں ویسے ہی دوسروں کی ذات میں بھی صبر سے کام لیں اور پیار اور محبت کے ساتھ مسلسل سمجھاتے چلے جائیں اور ان وقتوں کا انتظار کریں جب انسان کا وقت ، انسان کی روح ، انسان کا دل نصیحت کو قبول کرنے کے لئے خاص طور پر آمادہ ہوتا ہے اور ہر حال میں انسان جس کو نصیحت کی جاتی ہے جب غم زدہ ہو تو وہ نصیحت کام آجاتی ہے، اگر خوف زدہ ہو تو وہ نصیحت کام آ جاتی ہے.انسان کی کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں اور ان بدلتی کیفیتوں میں نصیحت کا اثر پذیر ہونا بھی ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے.اگر اپنی ذات پر آپ غور کریں تو آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ بعض دفعہ بعض بدیاں آپ اپنی جان سے چھڑا نہیں سکے مگر کسی صدمے کی حالت میں کسی خوف کی حالت میں آپ نے خصوصیت کے ساتھ اس بدی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ کو کامیابی نصیب ہو جاتی ہے.بعض دفعہ ایک انسان ایک مشکل میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس خوف کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بھی عہد کرتا ہے کہ اے خدا مجھے اس مشکل سے بچالے تو میں اس بدی کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دوں گا یا اس بد خیال سے باز آ جاؤں گا اگر تو مجھے اس سے بچالے گا.ایسے بھی بہت سے واقعات ہیں جو احادیث میں ہمیں ملتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے نصیحت آموز باتیں جو بیان فرمائیں ان میں اس قسم کی بھی کئی باتیں ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بعض خاص وقت ہوتے ہیں جن میں بعض نصیحتیں زیادہ گہرا اثر کرتی ہیں.پس وقتوں کے لحاظ سے ، مناسبتوں کے لحاظ سے نصیحت کرنا یہ بھی ایک فن ہے اور اس کے مطابق کسی

Page 647

خطبات طاہر جلد 13 641 خطبه جمعه فرموده 26 راگست 1994ء انسان کی ذہنی اور قلبی کیفیت کے مطابق نصیحت کرنا یہ بھی ایک اہم فن ہے.جو نصیحت کے کارآمد ہونے میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.ایک انسان کبھی کسی موڈ میں ہوتا ہے، کبھی کسی موڈ میں ہوتا ہے.اس کے مزاج بدلتے رہتے ہیں اس کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں اگر غلط حالت کے وقت آپ کوئی بات کریں تو وہ اثر انداز نہیں ہوگی اس لئے موقع اور محل اور موسم کے مطابق بات کرنا بھی صحیح نصیحت کا ایک لازمی جز ہے جس کے بغیر نصیحت صحیح معنوں میں فائدہ نہیں دیتی یا پھل نہیں لاسکتی.دیکھیں اگر آپ گندم کے بونے کے موسم میں خریف کی فصلیں بونے کی کوشش کریں تو اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا.جو بیع کی فصلوں کا وقت ہے اس میں ربیع کی فصلیں ہی کام آتی ہیں جو خریف کی فصل کی کاشت کا وقت ہے اس میں خریف کی فصلیں ہی کاشت کی جاتی ہیں حالانکہ زمین وہی ہے اور بظاہر موسم بھی ویسا ہی معلوم ہوتا ہے اب دیکھیں سردیوں سے جب آپ گرمیوں میں داخل ہوتے ہیں تو بظاہر موسم تو ویسا ہی ہے جیسا جب گرمیوں سے سردیوں میں داخل ہوتے ہیں.فضا ویسی ہی درمیانہ درجے کی خنک یا گرم ویسے ہی اس کے اندر خاص قسم کی اثر انداز باتیں پائی جاتی ہیں.وہ کیا ہیں؟ ہم ان کی تفصیل نہیں بیان کر سکتے.مگر گرمی سے سردی میں داخل ہور ہے ہوں یا سردی سے گرمی میں داخل ہو رہے ہوں فضا کی لہریں تقریبا ویسے ہی دل پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں اور ٹمپریچر اگر دیکھا جائے تھرما میٹر کے ذریعے تو اس میں بھی کم و بیش ویسے ہی ٹمپریچر یا درجہ حرارت نظر آئیں گے جیسے چھ مہینے پہلے کے موسم میں تھے غرضیکہ انسان اپنے معائنے کے ذریعے کوئی فرق محسوس نہیں کرتا.لیکن اس کے باوجود کچھ فرق ہیں اور بیج ان کو پہچانتے ہیں اور زمین ان کو پہچانتی ہے اور وہ لوگ جو تجربے سے جانتے ہیں وہ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ فرق کیا ہے ان کو یہ پتا ہے کہ ربیع کے موسم میں ربیع کی فصلیں کاشت کرنی ہیں.ان کو پتا ہے کہ خریف کے موسم میں خریف کی فصلیں کاشت کرنی ہیں.پس اسی طرح انسانی طبیعتوں کا حال ہے.بعض خاص اوقات قوموں پر آتے ہیں جب خاص قسم کی نصیحتیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں.بعض خاص حالات افراد پر آتے ہیں جب خاص قسم کی نصیحتیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ گہرے مطالعہ کا مضمون ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انسانی فطرت میں خدا تعالیٰ نے یہ ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے کہ فلسفیاتی لحاظ سے آپ اس مضمون کی باریکی کو سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر یہ جان لیتے ہیں کہ کوئی کس موڈ

Page 648

خطبات طاہر جلد 13 642 خطبہ جمعہ فرموده 26 راگست 1994ء میں ہے؟ اس سے کیسے بات کرنی چاہئے؟ ایک چہرے پر غم کے آثار ہیں تو کسی بہت بڑے فلاسفر کی ضرورت تو نہیں کہ ان غم کے آثار کا باریکی سے مطالعہ کرے اور پھر یہ فیصلہ کرے کہ لطیفے کی بات مناسب ہے کہ نہیں.غم کی کئی قسمیں ہیں، کئی وجو ہات ہوسکتی ہیں، کئی دفعہ فکر سے بھی ویسے اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں جیسے غم سے ہوتے ہیں لیکن چہرے کا مزاج بتا دیتا ہے کہ اس وقت کیسی بات کرنی ہے اور کیسی نہیں کرنی.پس نصیحت میں یہ ساری باتیں دیکھی جاتی ہیں کئی دفعہ کسی کی موجودگی یا عدم موجودگی کا بھی نصیحت پر بہت اثر پڑتا ہے.بھری مجلس میں آپ ایک بات کہیں تو اس کا اور ردعمل ہوتا ہے الگ بات کریں تو اور رد عمل ہوتا ہے.جرمنی ہی سے مجھے کسی نے ایک ٹرکش میٹنگ کے متعلق لکھا تھا کہ ہم نے بہت سے ٹرکش احباب بلائے اور جیسا کہ آپ نے کہا تھا ٹرکش علماء کو بھی بلا ؤ اور جب ہم نے تبلیغی گفتگو شروع کی تو ٹرکش عالم صاحب چونکہ ان کو جواب نہیں آتا تھا اپنے سارے ساتھیوں کو لے کر وہاں سے رخصت ہو گئے.اب یہ ایک مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ نصیحت کا مضمون کتنے گہرے بار یک مطالعہ کو چاہتا ہے.میں نے ان کو یہ نہیں کہا تھا کہ آپ ٹرکش علماء کو ان کے مریدوں کی موجودگی میں بلا کر ان سے بحثیں کریں.میں یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں میں ایک انانیت پائی جاتی ہے.تقویٰ کا وہ اعلیٰ معیار نہیں ہے اگر یہ دیکھیں گے کہ ہمارے مریدوں کے سامنے ہماری سبکی ہو رہی ہے تو سب کو ساتھ لے کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور چاہے قرآن کی دلیل سے ہار کھا رہے ہوں، ان کا نفس اپنے آپ کو ذلیل ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے.پس حکمت کے تقاضے بہر حال پورے کرنے ہیں اور نصیحت کرتے وقت حکمت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ نصیحت میں اپنی ذات میں ایک ایسی بات پائی جاتی ہے کہ سننے والا طبعا اس کے خلاف رد عمل دکھائے گا.پس ایسی طرز سے نصیحت کرنا کہ اس کے رد عمل کا کوئی امکان باقی نہ رہے اور طبعی منافرت کے باوجود وہ شخص نصیحت کو قبول کرے یہ وہ فن ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اس کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا.غیر معمولی اثر کرنے والی نصیحت ہوتی تھی آنحضور کی اور بظاہر اس نصیحت کو کسی فصیح و بلیغ کلام سے سجایا نہیں گیا مگر عام سادہ جملے بھی دلوں میں ڈوب جاتے تھے اور حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا کرتے تھے.کوئی دیکھنے والا یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ کلام مرصع نہیں ، یہ خاص سجایا نہیں گیا لیکن امر واقعہ

Page 649

خطبات طاہر جلد 13 643 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت کی تعریف سے ایسا شخص ناواقف ہوتا ہے فصیح و بلیغ کلام کی تعریف یہ ہے کہ موقع اور محل کے مطابق ہو.پس وہی نصیحت فصیح و بلیغ ہے جو بظاہر الفاظ سے مرصع نہ ہو اور ظاہری الفاظ کی سجاوٹ اس میں نہ پائی جائے مگر اس کے اندر Penetrate ہونے کی ، سرایت کرنے کی صلاحیت پائی جائے.وہ چند سادہ الفاظ بڑے بڑے فصیح و بلیغ کلام پر بھی فوقیت لے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہی انداز تھا چھوٹی چھوٹی باتوں میں اتنا گہرا اثر ہوتا تھا کہ وہ دل سے نکلتی تھیں اور دلوں میں ڈوب جاتی تھیں.یہ جو میں نے کہا ہے دل سے نکلتی تھیں اور دلوں میں ڈوب جاتی تھیں یہ اس کا سب سے اہم پہلو ہے کیونکہ وہ نصیحت جو دل سے نہ نکلے وہ دلوں میں ڈوبنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر نصیحت دل سے اٹھتی تھی اور لا زما دل تک پہنچتی تھی.دوسری اہم بات آپ کی نصیحتوں میں یہ ملتی ہے کہ آپ کی ہر نصیحت آپ کے کردار سے اٹھتی تھی.صرف دل سے نہیں اٹھتی تھی آپ کے کردار سے اٹھتی تھی اور کردار پر اثر انداز ہو جایا کرتی تھی.زندگی بھر آپ نے کبھی ایک ادنی سی بات بھی ایسی نہیں فرمائی جو آپ کے کردار کا ایک لازمی حصہ نہ ہو اور کسی ایسی بدی سے نہیں روکا جس سے آپ کا نفس پاک نہ ہو.پس نصیحت کے لئے جو سب سے زیادہ مؤثر دو محرکات ہیں وہ آپ کی نصیحتوں میں ملتے تھے اول یہ کہ دل سے اٹھتی تھی اور لا ز ما دل پر اثر انداز ہوتی تھی.دوسرے کردار سے اٹھتی تھی اور لاز ما کردار پر قبضہ کر لیتی تھی.پس ان دو پہلوؤں سے اپنی نصیحتوں کو طاقت عطا کریں.آنحضرت ﷺ کی چند پاک نصیحتوں پر میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.یہ وہی سلسلہ ہے جو میں نے پہلے سے شروع کر رکھا ہے.آنحضور نے ایک موقع پر فرمایا کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حق ہیں.سلام کا جواب دینا، بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرنا ، فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شامل ہونا، اس کی دعوت قبول کرنا اور اگر وہ چھینک مارے اور الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب مرحمک اللہ کی دعا کے ساتھ دینا.ایک روایت میں ہے کہ جب تو اس سے ملے تو اسے سلام کہے اور جب وہ تجھ سے خیر خواہانہ مشورہ مانگے تو خیر خواہی اور بھلائی کا مشورہ دے.( بخاری کتاب الاستیذان : 5766) اب آپ نے یہ جو نصیحتیں سنی ہیں اکثر آپ میں سے یہ سمجھتے ہوں گے کہ عام چھوٹی چھوٹی

Page 650

خطبات طاہر جلد 13 644 خطبه جمعه فرموده 26 راگست 1994ء سی باتیں ہیں کیا فرق پڑتا ہے ان کے کرنے سے اور ان سے کیا نمایاں تبدیلی سوسائٹی میں ہوسکتی ہے، مگر ایک ایک کر کے اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ ایسی نصیحتیں ہیں سوسائٹی کی کایا پلٹ سکتی ہیں.سب سے پہلے فرمایا کہ سلام کا جواب دینا.اب آپ کو کوئی السلام علیکم کہتا ہے تو وعلیکم السلام کہہ ہی دیتے ہیں مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سلام کا جواب دینا تو آپ مجس رنگ میں سلام کا جواب دیا کرتے تھے وہ مجسم دعا ہوا کرتی تھی محض منہ سے وعلیکم السلام نہیں کرتے تھے.پس حضوراکرم سے جو باتیں سنتے ہیں یہ یاد رکھیں کہ آنحضور ان باتوں کو خود کس رنگ میں بجالاتے تھے اور کس رنگ میں وہ بات خود کیا کرتے تھے.ایک ایسا شخص جس کو سلام کہا جائے وہ بعض دفعه خود بخود بغیر سوچے سمجھے وعلیکم السلام کہ دیتا ہے اور پورا لفظ بھی ٹھیک نہیں بولتا و علیک سلام اور بعض دفعہ سر ہلا دیتا ہے کہ ہاں ٹھیک ہے مجھے سلام پہنچ گیا ہے.گویا وہ بڑا مرتبہ رکھتا ہے اور سلام کہنے والا چھوٹا مرتبہ رکھتا ہے مگر آنحضور نے ہمیشہ سلام کو دعا کے طور پر لیتے تھے اور دعا کے رنگ میں اس کا جواب دیتے تھے.پس ہر دفعہ جب آپ وعلیکم السلام کہتے ہیں یا السلام علیکم کہتے ہیں تو آپ کے دل سے اگر یہ تمنا واقعہ اٹھتی ہے کہ اس شخص کو سلامتی نصیب ہو اس شخص پر اللہ کی سلامتی کا سایہ رہے تو ایسا شخص آپ کے شر سے بھی خود بخود محفوظ ہو جاتا ہے کیونکہ سچے دل سے دعا کرنے والا اس کے برعکس نہیں چاہ سکتا.پس اگر غور کر کے آپ سلام کو رواج دیں اور سلام کا جواب سلام میں دل کی گہرائی سے دیں تو یہ قطعی بات ہے کہ بچے دل سے وعلیکم السلام کہنے والا کبھی اس شخص کے حق میں شرکی بات نہیں سوچ سکتا جس کو وہ سلام کی دعا دیتا ہے ورنہ وہ اول درجے کا منافق ہوگا، ورنہ اس کا جواب حقیقت میں جواب نہیں بلکہ ایک منافقت کا اظہار بن جاتا ہے تو آپ نے فرمایا حق ہے مسلمان کا تم اس کے سلام کا جواب دو یعنی اس کو دعا دو اور اسے سلامتی کا یقین دلا ؤ اور اس کے لئے سلامتی کی دعا مانگو.پھر فرمایا کہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو ہمارے ہاں عیادت کا رواج ہے مگر مسلمان کے حق کے طور پر نہیں بلکہ بڑے آدمی کی عیادت کی جاتی ہے، دوست کی عیادت کی جاتی ہے اور کسی کا سوسائٹی میں کوئی مرتبہ ہو یا کوئی اپنا قریبی ہو تو اس کی عیادت کی جاتی ہے.آنحضرت ﷺ یہ نہیں فرما رہے کہ اپنے دوستوں کی عیادت کرو اپنے سے بڑے لوگوں کی عیادت کرو.آپ فرماتے ہیں مسلمان کا حق ہے کہ اس کی عیادت کی جائے.پس اگر کوئی ایسا غریب انسان ہے، بے سہارا ہے،

Page 651

خطبات طاہر جلد 13 645 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء لاچار ہے، اس کی عیادت نہیں ہو رہی اور صاحب اثر لوگوں کی عیادت ہوتی ہے تو آنحضرت مے کی نصیحت پر عمل نہیں ہوا.پس عیادت کے مضمون سے پتا چلتا ہے کہ مسلمان کا بحیثیت سوسائٹی یہ فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو بغیر عیادت کے نہ رہنے دے اور بے سہارا نہ رہنے دے اگر اس بات کو آپ رواج دیں گے تو کتنے ہی ایسے ہیں جن کی بیماری کی تلخیاں دور ہونی شروع ہو جائیں گی ، ان کو سکون نصیب ہو جائے گا جبکہ اس وقت اس میں کمی پائی جاتی ہے.چنانچہ آئے دن مجھے کبھی ہندوستان سے کبھی ، بنگلہ دیش سے، کبھی پاکستان سے، کبھی افریقہ سے ایسے خطوط ملتے ہیں کہ میں ایک کمزور، ناچار، بیمار ہوں.کوئی مجھے نہیں پوچھتا اور بعض لوگ لکھتے ہیں خدا کے سوا میرا کوئی نہیں رہا.میں ان کو کہتا ہوں کہ اگر واقعہ آپ نے یہ بات سچی کہی ہے کہ خدا کے سوا آپ کا کوئی نہیں تو مبارک ہو کہ آپ کا سب کچھ ہے لیکن اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ خدا کا کیا فرق پڑتا ہے دنیا نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور خدا میرے ساتھ کا مطلب ہے کہ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں رہا تو آپ نے خود اپنا ہمیشہ کے لئے نقصان کر دیا ہے.لیکن بات سمجھانے کے بعد میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اگر میرے علم میں کوئی ایسے ذی اثر صاحب ثروت ہوں جو اس کے قریب رہتے ہوں ان کو توجہ دلاتا ہوں اور بعض دفعہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں خصوصیت سے ایسے شخص کی عیادت کے لئے احمدیوں کو بھجواتا ہوں یا نظام جماعت کو کہتا ہوں کہ وہ کسی کو بھیجیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ اس کا بہت ہی نیک نتیجہ نکلتا ہے.ایک ایسا شخص جو اپنے آپ کو بے سہارا سمجھ رہا ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ کوئی میری عیادت کی فکر اس لئے نہیں کر رہا کہ میں بے حقیقت چیز ہوں.اچانک اس کے اندر ایک نیا اعتماد اٹھ کھڑا ہوتا ہے اس کے اندر ایک حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے وہ جانتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا ہر فر دسہارے والا ہے اور جو اس جماعت کا فرد ہے اس کو ایک ضمانت ہے کہ وہ اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا.پس آنحضرت ﷺ نے جو نصیحت مسلمان کو بحیثیت مسلمان کی ہے اس کی حقیقت کو سمجھیں اور اپنی سوسائٹی میں جہاں بھی آپ ہیں یہ رواج قائم کر دیں کہ کوئی غریب سے غریب انسان بھی بیماری کے وقت بے سہارا نہیں چھوڑا جائے گا.جب آپ اس کی عیادت کو جائیں گے تو اس کے ساتھ بہت سے اور فائدے بھی مضمر ہیں عیادت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ پوچھ آئے کیوں جی کیا حال ہے اس نے کہا بہت برا حال ہے اور آپ گھر کو واپس آگئے.یہ میں ایسی بات کہہ رہا ہوں جو میں نے

Page 652

خطبات طاہر جلد 13 646 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء تجربے سے سیکھی ہے جب ایک کمزور اور غریب کی عیادت کو آپ جاتے ہیں تو اور بھی بہت ساری باتیں آپ کے سامنے آجاتی ہیں.آنحضرت ﷺ کی نصیحتیں حکمتوں کا خزانہ تھیں اور ہیں اور رہیں گی.کئی دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ مجھے بحیثیت ہو میو پیتھ کے کسی نے بلا بھیجا کہ فلاں بیمار ہے گھر میں کوئی ڈاکٹر اور میسر نہیں آرہا یا ہم میں طاقت نہیں ہے کہ ہم علاج کروا سکیں اور مریض آپ کے پاس نہیں آسکتا اس لئے آپ خود آ کر اسے دیکھیں اور اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ، میں نے جا کر دیکھا تو اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ عیادت کیا ہوتی ہے.صرف بیماری کا مسئلہ نہیں تھا خوراک کا بھی مسئلہ تھا.صرف بیماری کا مسئلہ نہیں تھا اس کے عمومی گھر کے حالات اور رہن سہن کا بھی مسئلہ تھا جو مکھیوں اور مچھروں میں گھرا ہوا مریض جس کے گھر میں بچے بھوک سے بلبلاتے اور شور کرتے ہوں اس کی عیادت کا یہ مطلب کہاں سے ہو گیا کہ آپ کا کیا حال ہے.اس کی عیادت کا تو یہ مطلب ہے کہ جب آپ اس کی عیادت کو جائیں تو آپ کے دل سے ایک ہمدرد، ایک سچا عیادت کرنے والا مسلمان بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہو اور آپ اس کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں اس کی دوسری چیز میں بھی ساتھ پوری صلى الله کریں جن کی ان کو ضرورت ہے.یہ مفہوم ہے آنحضور ﷺ کا کہ اپنے بھائیوں کو بغیر عیادت کے نہ چھوڑنا کیونکہ ایک مریض جب لاچار اور بے سہارا سوسائٹی میں اس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے کہ گویا وہ اپنی موت کے انتظار کے لئے بنایا گیا تھا جب ایک سچا مسلمان اس کی عیادت کو جاتا ہے تو اس کی اور بھی بہت سی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں یہ بہت خوبی پائی جاتی تھی.میں کثرت سے ایسے صحابہ کو جانتا ہوں کہ جب وہ عیادت کو جایا کرتے تھے تو دوسری ضرورتیں بھی ساتھ پوری کیا کرتے تھے اور واپس آ کر بعض دفعہ نظام کو بھی متوجہ کرتے تھے کہ فلاں ایک مریض ایسا ہے جس کو اس اس چیز کی ضرورت ہے.پس عیادت کا جو مضمون آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا ہے اس میں سوسائٹی پر سوسائٹی کے ہر ممبر کا ایک حق ہے جس کی طرف صلى الله توجہ دلائی گئی ہے.پھر فرمایا فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شامل ہو.اب جنازہ تو پڑھا ہی جاتا ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی نہ کوئی دو دو چار چار آدمی تو مل ہی جاتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی بڑا آدمی فوت ہو تو ہجوم در ہجوم لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کوئی غیر معروف شخص کوئی غریب

Page 653

خطبات طاہر جلد 13 647 خطبه جمعه فرمود و 26 راگست 1994ء انسان فوت ہو تو بعض دفعہ مسجدوں میں اعلان کرنے پڑتے ہیں اور یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر میں خود گواہ ہوں.مجھے یاد ہے ربوہ میں بعض دفعہ سخت گرمی میں ظہر کے وقت ایک جنازہ آتا تھا اور لوگ سلام پھیر کر چونکہ وہ شخص معروف نہیں ہوتا تھا اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے اور اعلان کرنے والا بے چارہ اعلان کرتارہ جاتا تھا کہ جنازے کے لئے آدمی نہیں مل رہے آپ آئیں اس شخص کا جنازہ پڑھیں اور جنازہ پڑھتے بھی تھے تو رخصت ہو جاتے تھے.پڑھ کر ساتھ دفنانے کے لئے نہیں جاتے تھے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کتنے شفیق اور مہربان تھے کہ مسلمانوں کی سوسائٹی کی تفصیلی ضروریات پر نظر تھی زندوں کی ضروریات پر بھی نظر تھی بیماروں کی ضروریات پر بھی نظر تھی اور ان کی ضروریات پر بھی جو شیطان بن جایا کرتے تھے اور زندوں سے مردوں میں چلے جایا کرتے تھے.پس مرنے کے بعد کے حقوق بھی آپ نے کھول کھول کر ہمارے سامنے رکھے اور میں جانتا ہوں اس زمانے میں جس کی میں بات کر رہا ہوں بہت سے ایسے مخلصین تھے نو جوان بھی اور بوڑھے بھی کہ ایسے جنازوں کے ساتھ ضرور جاتے تھے اور وہی ہیں در حقیقت جو آنحضرت مے کی اس نصیحت کو سمجھتے اور اس کا حق ادا کرنے والے تھے اور وہی چند لوگ ہیں جو ساری امت کے لئے کفایہ ہو جایا کرتے تھے.پس آپ اس بات کو بھی خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور دل میں جاگزیں کرلیں کہ جب غریب مرتا ہے تو اس کا بھی یہی تقاضا ہے، جب بے سہارا مرتا ہے تو اس کے بھی کچھ حقوق ہیں آپ پر.ان حقوق کو ادا کرنا امت مسلمہ کا فرض قرار دیا گیا ہے اور اپنے غریب سے غریب بھائی کا بھی اتنا حق تو ضرور ادا ہونا چاہئے کہ جب کوئی مرجائے تو کم از کم اس وقت بھی اس کی مصاحبت کریں.اگر زندگی میں آپ کو مصاحبت کی توفیق نہیں ملی تو مرنے کے بعد ہی سہی.مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی شخصیت کے یہ دو پہلو ہیں جو ایک ہی شخصیت میں ابھرتے ہیں.جو شخص غریبوں کی عیادت کرنے کا سلیقہ رکھتا ہے وہ مردے کے حقوق ادا کرنے کا بھی سلیقہ رکھتا ہے.جو زندوں کو چھوڑ دیا کرتا ہے وہ مردوں کو بھی چھوڑ دیا کرتا ہے.پس اس بات کو بھی رواج دینا بہت اہم ہے کہ اپنے غریب بے سہارا لوگوں کے جنازوں میں بھی شامل ہوں اور یہ ساری نصیحت در حقیقت بالآخران لوگوں کے حقوق کی طرف توجہ دلا رہی ہے جو سوسائٹی کا سب سے کمزور حصہ ہیں.چنانچہ فرمایا کہ یہ بھی اس کا حق ہے اس پر فرض ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کرے.اب امیر

Page 654

خطبات طاہر جلد 13 648 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 1994ء آدمی کی دعوت قبول کرنا کون سی نیکی ہے.اچھے کھانوں کی طرف بلایا جائے تو ان کھانوں کی طرف جانے پر لبیک کہنا بھلا کون سی نیکی ہے.آنحضرت ﷺ جو فرما ر ہے ہیں یہ اور بات ہے.فرماتے ہیں کہ اگر تمہارا غریب بھائی تمہیں اپنے گھر دعوت پہ بلاتا ہے تو اس کی غربت کی وجہ سے اس کا انکارنہ کر دینا خواہ اس کے گھر سے کچھ بھی ملنے کی توقع نہ ہو.پس آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر جیسا کہ میں پچھلے خطبہ میں بھی بیان کر چکا ہوں فرمایا کہ اگر ایک پائے کی دعوت بھی ہو.یعنی ایک بکری کے پاؤں کی دعوت بھی ہو اس کو بھی حقیر نہ سمجھو.یہاں سارا دلداری کا مضمون ہے، بے سہارا لوگوں کے سہارا بننے کا مضمون ہے.پس ایسی دعوت جو اپنے روز مرہ کے کھانے کے معیار سے بہت گری ہوئی ہوتی ہے اس کو دعوت کی خاطر قبول نہیں کیا جاتا یعنی کھانے کی خاطر تو قبول نہیں کیا جا تا بلکہ دلداری کی خاطر قبول کیا جاتا ہے.پس آپ نے جہاں فرمایا کہ دعوت قبول کرو مراد یہ ہے کہ تکبر کی راہ سے کسی غریب سے غریب آدمی کی دعوت کا رد نہیں کرنا ہاں اگر ایسی مجبوری ہے کہ بڑے آدمی کی دعوت بھی تم رد کرتے ہو ان مجبوریوں میں تو پھر یہ کوئی گناہ نہیں یہ جائز ضرورت ہے لیکن محض اس لئے کہ کوئی شخص غریب ہے اس کی دعوت رد کرنا یہ مسلمان کا دوسرے مسلمان کی حق تلفی کے مترادف ہے.پھر فرمایا اگر وہ چھینک مارے تو الحمد للہ کہے اب دیکھیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسلام نے اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بیان فرما ئیں.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں ہی میں زندگی ہے اول تو یہ چھینک کا کیوں خیال آیا، سوچنے والے سوچتے ہوں گے کہ روز مرہ کی باتیں ہوتی ہیں اباسیاں بھی تو انسان لیتا ہے انگڑائیاں بھی تو لیتا ہے اس موقع پر کوئی دعا نہیں سکھائی گئی چھینک کے موقع پر کیوں دعا سکھائی گئی.آج جبکہ سائنس ترقی کر چکی ہے.جبکہ علم طب نے غیر معمولی تحقیق کے ذریعے بڑے بڑے راز دریافت کر لئے ہیں انسانی زندگی کے، تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ چھینک عموما اس وقت آتی ہے، جب کہ کوئی ایسا ذرہ دماغ کی طرف حرکت کر رہا ہے، ناک کی نالیوں میں کہ اگر وہ دماغ تک پہنچے تو اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے.پس غیر معمولی طاقت کے ساتھ وہ چھینک آتی ہے اور ایک سائنسی رسالے میں میں نے یہ پڑھا اور میں حیران رہ گیا کہ چھینک کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ سینکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چھینک آتی ہے تاکہ کوئی ذرہ جو دماغ کی طرف جا رہا ہے.جس سے نقصان کا خطرہ ہے وہ آنافا نا اس غیر معمولی دھکے سے باہر نکل جائے.پس آپ نے

Page 655

خطبات طاہر جلد 13 649 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 راگست 1994ء دیکھا ہو گا، جو مرضی کر لیں، چھینک رکتی نہیں، کئی لوگوں کو میں نے دیکھا ہے، ناک کو دباتے ہیں، ادھر سے ادھر سے ہاتھ رکھتے ہیں، رومال رکھ لیتے ہیں، جو مرضی کریں آئی ہوئی چھینک نہیں رکتی، کیونکہ اس کی طاقت بڑی ہے.پیچھے دباؤ بہت غیر معمولی ہے.اس راز کو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو سمجھا دیا کہ غیر معمولی موقع ہے اور دعا کا وقت ہے، کیونکہ ایک بہت بڑا خطرہ ایک شخص کے لئے پیدا ہوا تھا، جو ٹال دیا گیا ہے تو فرمایا کہ جب تمہیں چھینک آئے تو کہا کرو الْحَمْدُ لِلهِ سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے مجھے اس سے نجات بخشی اور جب کوئی سنے تو یہ کہے یرحمک الله اللہ تجھ پر رحم فرما تا ر ہے جس طرح اس دفعہ تجھ پر خدا نے رحم فرمایا ہے اس طرح آئندہ بھی رحم فرماتا رہے.تو بظاہر ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن اس کی کنہ تک جائیں اس کی تہہ تک اتر کر دیکھیں تو کتنا بڑا حکمت کا اس میں خزانہ ہے.ہزار ہا ایسے مواقع ہوتے ہیں جب انسان کو خدا تعالیٰ خطرات سے بچا لیتا ہے لیکن انسان کو علم بھی نہیں ہوتا.مگر کم سے کم ان موقعوں پر جہاں انسان یقینی طور پر جانتا ہے کہ مجھے خدا نے اپنے فضل کے ساتھ ایک بڑے خطرے سے بچالیا ہے ضروری ہے کہ انسان کا دل حمد کی طرف مائل ہو اور بھائیوں کا جو دیکھ رہے ہیں یہ فرض ہے کہ اس میں اس کی مدد کریں اور کہیں آئندہ بھی اللہ تجھ پر رحم فرماتا ہے، آئندہ بھی اللہ تعالیٰ تجھے اس قسم کے خطرات سے بچاتا رہے.تو آج کے لئے میں نے نمونہ یہ ایک حدیث آپ کو سمجھانے کے لئے چینی تھی.خیر کی طرف بلانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو بات آپ اچھی سنیں وہ دوسروں تک پہنچائیں اور آنحضرت ﷺ کی محبت بھری، پیار بھری حکمت سے پر نصیحتوں کو اپنے معاشرے میں عام کریں اپنے بچوں کو سکھائیں، اپنے بڑوں کو بتا ئیں اور اپنے غیروں کو بھی سمجھا ئیں.اللہ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ملے اور آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر اس بات کو آپ شیوہ بنالیں گے جیسا کہ میں نے آپ کو سمجھایا ہے کہ اپنی ذات سے نصیحت کا سفر شروع کریں گے اپنے گھر ، اپنے ماحول میں نصیحت کرنے کی عادت ڈالیں گے، پیار اور محبت اور دعاؤں کے ساتھ نصیحت کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کی ذمہ داریاں آسان فرمادے گا جو غیروں کی تربیت کی ذمہ داریاں آپ پر ڈالی گئی ہیں اور جو دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہیں.بعض جگہ اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ انسان فکروں میں ڈوب جاتا ہے کہ ہم کیسے ان ذمہ داریوں کا حق ادا کر سکیں گے مگر آنحضور کا طریق نصیحت یہ تھا کہ چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری باتوں

Page 656

خطبات طاہر جلد 13 650 خطبه جمعه فرموده 26 راگست 1994ء سے عظیم پاک تبدیلیاں پیدا فرما دیتے تھے اور آج بھی فرمارہے ہیں.آج بھی یہی باتیں ہیں جو آپ کے اور میرے دل پر اثر انداز ہو رہی ہیں.تو انہی باتوں کو اپنا ئیں اور اسی طرح کی نصیحت کے طریق اختیار کرتے ہوئے اپنی سوسائٹی کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی توفیقات کو بڑھائے اور آپ کی باتوں میں اثر پیدا کرے.خدا کرے آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نصیحتوں کی طرح ہماری نصیحتیں بھی ہمارے دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ہوں اور ہمارے کردار کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ہوں تا کہ وہ دنیا کے دلوں اور کردار پر یکساں غالب آجائیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 657

خطبات طاہر جلد 13 651 خطبہ جمعہ فرمود و 2 رستمبر 1994ء خلق محمدی ﷺ میں ہماری نجات ہے اس کو اپنا ئیں.لین دین کے معاملات احادیث کی روشنی میں خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء بمقام احمد یہ سنٹر.Schnelsen ، جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.الله آج مختلف ملکوں میں جو اجتماعات وغیرہ ہورہے ہیں ان میں سے جن کی طرف سے دعا کی درخواست آئی ہے اور اعلان کرنے کا تقاضا ہے ان میں مجلس انصار اللہ ضلع کوئٹہ اور مجلس انصار اللہ ضلع چکوال کے دو روزہ سالانہ اجتماعات یکم ستمبر سے شروع ہیں اور آج خطبہ جمعہ کے ساتھ اختتام ہوگا.جماعت ہائے احمد یہ ویسٹرن کینیڈا کا سترھواں جلسہ سالانہ کل 3 ستمبر سے شروع ہو رہا ہے اور دودن جاری رہے گا.تعلیم الاسلام پبلک اسکول آسنور کشمیر نے 28 راگست کو جلسہ سیرۃ النبی ﷺ کا انعقاد کیا.اطلاع دیر سے ملنے کی وجہ سے اعلان نہ ہو سکا.انہوں نے بھی اس موقع پر پیغام کی خواہش کی تھی.ایک فیکس ابھی ملا ہے لجنہ کوما کی ، جاپان کا ایک روزہ سالانہ اجتماع 4 ستمبر بروز اتوار منعقد ہورہا ہے ان سب کو دعاؤں میں یادرکھیں.اللہ تعالیٰ جماعت کے سب اجتماعات کو محض اللہ کرے اور محض اللہ اجتماعات کی تمام برکتوں سے ان کو نوازے.جیسا کہ میں پہلے بھی بار بار یاد دہانی کروا چکا ہوں خطبات کا جو سلسلہ جاری ہے اس کا گہرا تعلق سورۃ جمعہ کی اس عظیم خوشخبری سے ہے.وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ که حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ان آخرین میں بھی بھیجے جائیں گے جو ابھی تک ان اولین سے مل نہیں

Page 658

خطبات طاہر جلد 13 652 خطبہ جمعہ فرموده 2 ستمبر 1994ء سکے.یعنی ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ وہ آخرین پیدا ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ ان اولین سے ملا دے گا.میں جماعت کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ اس ملانے کے لئے ایک بہت عظیم اور مضبوط پل کی ضرورت ہے اور یونہی کہانیوں کی طرح فرضی طور پر نہیں ملائے جائیں گے بلکہ اس کی ایک معقول وجہ دکھائی دے گی اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخرین اولین سے مل گئے ہیں.وہ ملانے والا پل کہہ لیجئے یا وہ مضبوط رسی جس کے ذریعے سے آپ کا اولین سے رابطہ ہونا ہے وہ خلق محمدی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جس طرح اپنوں پر محنت فرمائی اور دن رات جانفشانی کے ساتھ آپ نے اپنے صحابہ کے اخلاق کو درست فرمایا اور کچھ فطری طور پر آپ کے حسن میں ایسی شان تھی کہ محنت کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لئے بہت سے عشاق تھے جو آپ کے حسن کے گرویدہ ہوکر از خود ہی آپ کے اخلاق ان کی ذات میں منتقل ہوتے چلے جاتے تھے.یعنی نور محمد آن میں سرایت کرتا جاتا تھا.اب بھی وہی دور ہے ان معنوں میں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا کہ آنحضور ﷺ کی سیرت کو از سر نو زندہ صورت میں دکھا ئیں اور آنحضوری نے فرمایا کہ وہ آنے والا ایک ایسا شخص ہوگا کہ ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اسے زمین پر کھینچ لائے گا.( بخاری کتاب التفسیر حدیث : 4518) پس ایمان کا دوبارہ زندہ ہونا اور خلق محمدی کا انسانوں کی سیرت میں سرایت کر جانا در حقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس آنحضرت ﷺ کی نصائح اور آپ کے اعمال حسنہ کے حوالے سے جو میں خطبات سلسلہ واردے رہا ہوں ان کو توجہ سے سنیں اور ان پر غور کریں اور جہاں تک توفیق ملے دعاؤں کے ساتھ ،صبر کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سے نمازوں کے ذریعے مدد مانگتے ہوئے ان تمام اخلاق کو اپنا ئیں جو آنحضرت ﷺ کے اخلاق تھے.ان تمام اخلاقی نصیحتوں پر عمل فرما ئیں جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں عطا فرمائیں.الله حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ظلماً کسی مسلمان کا حق مار لے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ کی آگ مقدر کر دیتا ہے اور جنت اس پر حرام کر دیتا ہے.(مسلم کتاب الایمان حدیث : 194).اب یہ ایک ایسی بات ہے جو اس زمانے کا روز مرہ کا دستور بن چکی ہے اور بڑی قو میں اگر حق مارتی ہیں تو قومی حساب سے مارتی ہیں.انفرادی اخلاق کے لحاظ سے ان کا مرتبہ مشرقی قوموں کے مقابل پر بہت اونچا ہے

Page 659

خطبات طاہر جلد 13 653 خطبہ جمعہ فرموده 2 ستمبر 1994ء لیکن قومی ظلم و ستم میں کسی طرح سے کسی سے پیچھے نہیں.مگر بہر حال جہاں فرڈ افرڈ کسی کے حقوق کی ادا ئیگی کا سوال ہے، سچ بولنے کا سوال ہے، لین دین میں دیانتداری کا سوال ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی اقوام، مشرقی اقوام کے مقابل پر غیر معمولی طور پر اسلام کے قریب ہیں اور یہ خوشکن پہلو ہے جس کو دیکھ کر ان کے لئے نجات کی امید پیدا ہوتی ہے مگر وہ مشرقی اقوام جو دن رات مذہب کا پر چار کرتی ہیں مذہب کے نام پر ہر قسم کی زیادتی بھی جائز سمجھتی ہیں اپنے نفس پر زیادتی کی قائل نہیں ہیں.اپنے نفس کو ذبح کر کے خدا کے حضور حاضر کر دینے کی قائل نہیں ہیں.جہاں ان کے ذاتی مفادات کا قومی مفادات سے ٹکراؤ ہو، جہاں ان کے ذاتی مفادات کا مذہبی مفادات سے ٹکراؤ ہو ، اعلیٰ روحانی اقدار کا تصادم ہو وہ ہمیشہ اعلیٰ اقدار کو اپنی ذلیل ادنی اقدار پر قربان کرتی چلی جاتی ہیں.یہ وہ گہر انقص ہے جو لین دین کے معاملات میں سب سے زیادہ کر یہ صورت میں دکھائی دیتا ہے.لین دین کے معاملات میں ہمارے اکثر مشرقی ممالک میں اتنی کر یہہ صورت ہے، اتنی مکر وہ صورت ہے کہ وہ صورتحال دیکھ کر یقین نہیں کر سکتا کہ ان سوسائٹیوں کا حقیقہ مذہب سے کوئی تعلق ہے.ہمارے سپر داگر ہم آخرین ہیں، اگر ہم وہی ہیں جن کا سورہ جمعہ میں ذکر فر مایا گیا نہ صرف اپنے خلق کو آنحضور ﷺ کے خلق کے مطابق کرنا ہے بلکہ ان تمام قوموں کے اخلاق میں بھی پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے اور ہماری بعثت کا اولین مقصد ہے.پس اس پہلو سے جماعت میں جہاں داغ داغ یہ کمزوریاں دکھائی دیتی ہیں اس سے غیر معمولی تکلیف پہنچتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ نسبتا یہ چادر سفید ہے مگر یہاں نسبت کا معاملہ ایک دھو کے والا معاملہ ہے.جب آپ کہتے ہیں جماعت احمد یہ نسبتا بہتر ہے تو موازنہ کرتے ہیں ان بدوں سے جو تمام تر بدیوں میں ڈوبے پڑے ہیں ان کے مقابل پر تو اچھا ہونا کوئی خوبی اور تعریف کی بات نہیں ہے.اس پر تو یہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ”اندھوں میں کا نا راجہ“ کا نا ہونا ایک عیب ہے اور عیب ہی رہے گا ہاں اگر اندھوں کی دنیا میں اس کو راجہ منتخب کر لیا جائے تو یہ موازنہ کر کے کہ دیکھیں اندھوں کا راجہ ہے آپ اس کے عیوب کو دور تو نہیں کر سکتے.پس موازنہ کرنا ہے ان سے جن سے خدا نے کیا ہے یعنی اولین سے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح: 30) اور ان لوگوں کے ساتھ جو آپ کے ساتھ تھے.جنہوں نے آپ سے اخلاق سیکھے ان سے جب موازنہ کریں تو اپنی نیکیاں بھی داغ داغ دکھائی دینے لگتی ہیں.

Page 660

خطبات طاہر جلد 13 654 خطبہ جمعہ فرمود و 2 /ستمبر 1994ء پس ترقی کی خاطر اور ان اعلیٰ مراتب کو حاصل کرنے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کر رکھے ہیں مگر ہاتھ بڑھانا اور چند قدم اس طرف بڑھانا ہمارا کام ہے.آپ پر لازم ہے کہ اخلاق مصطفوی کو اپنائیں اور ان سے چمٹ جائیں، اسے وہ رسی سمجھ لیں ، وہ عروہ سمجھ لیں جس پر ہاتھ ڈالا جائے تو پھر وہ یا تو الگ نہیں ہو سکتا.اخلاق مصطفوی کو ایسا اپنی جان سے لگا لیں اس مضبوطی کے ساتھ اس پر ہاتھ ڈال دیں کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت اس ہاتھ کو اخلاق مصطفوی سے جدا نہ کر سکے.یہ وہ مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں اور اس کی اہمیت بار بار بیان کرنی پڑتی ہے، بار بار تمہید آپ کے سامنے پیش کرنی پڑتی ہے تا کہ آپ محض اس کو ایک عام درس نہ سمجھ لیں ، اس اعلیٰ مقصد کے ساتھ ہمیشہ اس کا ربط پیش نظر رکھیں اس کا تعلق ہمیشہ آپ کے سامنے رہے.پھر ان باتوں کو سنیں اور ان باتوں پر عمل کی کوشش کریں.لین دین کے معاملات ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مجھے جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی ہمیشہ تکلیف دہ خبریں ملتی رہتی ہیں.ایسے افراد کی شکائتیں آتی ہیں بعض دفعہ اپنے بعض دفعہ غیر کرتے ہیں بعض دفعہ غیر احمدی مسلمان کرتے اور بعض دفعہ غیر مسلم بھی طعنہ دیتے ہیں.چنانچہ ہندوستان سے بعض دفعہ مجھے غیر مسلموں کے طعنے ملے کہ ہم نے سنا تھا آپ کی جماعت بہت خدا ترس جماعت ہے، نیک جماعت ہے اور اس جماعت کے اس فرد نے تو ہم سے یہ معاملہ کیا.جب تحقیق کروائی گئی تو اس غیر مسلم کی بات سچ نکلی.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت احمدیہ میں جماعت سے تعلق قائم رکھنے کا اتنا گہرا جذ بہ ہے کہ اگر ان کو یہ خطرہ محسوس ہو بعض انسانوں کو جو بعض باتوں میں کمزوری دکھاتے ہیں کہ اس کے بعد ہماری علیحدگی ہے تو پھر وہ حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ علیحدگی کی نوبت نہ آئے.تو ایسے لوگوں کو جب میں نے لکھا اور ان کو علم ہوا کہ بات مجھ تک پہنچ چکی ہے تو کسی کمیشن بٹھانے کی ضرورت نہیں پڑی، کسی اور جھگڑے کو طول دینے کی ضرورت نہیں پڑی از خود انہوں نے استغفار کیا ، توجہ کی ، وہ رقمیں جود با بیٹھے تھے ادا کیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو خطرناک ٹھوکر سے نجات پانے کی توفیق ملی.یہاں جرمنی سے بھی ایک دفعہ ایک ہندو عورت نے مجھے لکھا کہ فلاں شخص پر جو جماعت احمدیہ کا نمبر ہے میں نے احسان کیا، اس کے ساتھ حسن معاملہ کیا اور اس نے پھر یہ مجھے بدلہ دیا کہ اتنے میرے پیسے دبا کے بیٹھ گیا ہے.جب اس کی ضرورت تھی محض

Page 661

خطبات طاہر جلد 13 655 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 ستمبر 1994ء اس لئے کہ میرا احمدیوں سے تعلق تھا اور میں جانتی تھی کہ احمدی عام انسانی معاملات میں باقی سب سے بہتر ہیں اس بات پر بھروسہ کرتے ہوئے میں نے اس پر بھروسہ کیا بلکہ احسان کا معاملہ کیا تو بہت ہی تکلیف دہ صورتحال میرے سامنے آئی اور ایسی اور بھی آتی رہتی ہیں اگر چہ کم ہیں مگر ہیں ضرور.پس آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو غور سے سن لیجئے.حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ظلماً کسی مسلمان کا حق مارلے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ کی آگ مقدر کر دیتا ہے اور جنت اس پر حرام کر دیتا ہے.اس پر ایک شخص نے عرض کیا حضور اگر وہ تھوڑی سی چیز ہوتو پھر بھی آپ نے فرمایا ہاں چاہے پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو.معمولی بھی ہو تو اس کی یہی سزا ہوگی.لیکن یہاں لفظ مسلمان سے آپ کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہوں.دوسری احادیث میں بالبداہت یہ ذکر ملتا ہے کہ مسلمان کے لئے کسی انسان کا حق مارنا بھی دوزخ کھانے کے مترادف ہے.پس بعض دفعہ آنحضرت ﷺ نے مسلمان کا لفظ استعمال فرمایا ہے.مسلمانوں میں اسلام کی محبت کے تقاضے کے پیش نظر ، ان کو خصوصیت سے ایک تحریک کرنے کی خاطر اور ایک چیز کی کراہت بتانے کے لئے جو شخص اپنے بھائی کو نہیں چھوڑے گا غیر کو اس سے کیسے امن مل سکتا ہے.پس یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آنحضور کا مقصد یہ ہے کہ تم مسلمان کا مال نہ کھانا بلکہ غیروں کے کھا جانا.یہ تو ایک ایسی چیز ہے جس پر قرآن لعنت ڈالتا ہے اور یہود کی مثال لعنت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اپنوں کے تو بے شک حقوق ادا کرو، غیروں کے پیسے جتنے ہیں کھاؤ سب تم پر حلال ہے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے پاکستان کے بعض مولوی فتوے دیتے پھرتے ہیں اور کھلم کھلا اعلان کرتے ہیں کہ جس جس نے بھی کسی احمدی کے پیسے دینے ہیں وہ نہ دے وہ اس احمدی پر حرام ہیں اور جس نے دینے ہیں اس پر حلال ہو چکے ہیں تو یہ بد بخت یہود کی خصلت ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور قرآن اس عادت پر لعنت ڈالتا ہے کہ اپنوں کے پیسوں کے ساتھ تو ٹھیک معاملہ کرو اور غیروں کے پیسے ہضم کر جاؤ.یہ ایک ایسی مکروہ چیز ہے جس کی مثال قرآن کریم نے کھول کر بیان کر دی.پس احادیث نبویہ کو قرآن سے الگ کر کے ان کو سمجھنا ایک جہالت ہے اور احادیث پر ظلم کرنے کے مترادف ہے.پس جہاں بھی مسلمان کا لفظ آیا ہے وہاں گہرائی سے اس مضمون میں ڈوب

Page 662

خطبات طاہر جلد 13 656 خطبہ جمعہ فرمود و 2 ستمبر 1994ء کر سمجھنا چاہئے کہ کیوں فرمایا گیا ہے.مراد یہ ہے کہ جو شخص ایسا بد نصیب ہو کہ اپنے بھائی مسلمان کے پیسے بھی مار جاتا ہے اس سے غیروں کے معاملات میں انصاف کرنے کی کوئی دور کی بھی توقع نہیں کی جاسکتی.وہ تو سارے بنی نوع انسان کے لئے خطرہ بن جاتا ہے.پس لفظ مسلمان کہنا اس موقع پر غیر کے مال کھانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ غیر کے مال کھانے سے روکنے کے لئے ایک عمدہ نصیحت کا طریق ہے جسے اسلام کی محبت کو اکسا کر آنحضرت ﷺ نے تربیت کے لئے استعمال فرمایا ہے.پس فرمایا کہ جو شخص ظلماً کسی مسلمان کا حق مارلے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ کی آگ مقدر کر دیتا ہے اور جنت اس پر حرام کر دیتا ہے.حضرت حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خرید وفروخت کرنے والوں کو جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں انہیں اختیار ہے کہ وہ سودا فسخ کر دیں اور اگر خرید و فروخت کرنے والے سچ بولیں اور مال میں اگر کوئی عیب یا نقص ہے تو اسے بیان کر دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اس سودے میں برکت دے گا اور اگر وہ دونوں جھوٹ سے کام لے کر کسی عیب کو چھپائیں گے یا ہیرا پھیری سے کام لیں گے تو اس سودے سے برکت نکل جائے گی.( بخاری کتاب البیوع حدیث : 2825) اس میں لین دین کے معاملات کی دو تین نصیحتیں ہیں ان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے.روز مرہ کا اپنا فطرت ثانیہ کی طرح کا دستور بنا لینا چاہئے.ایک تو یہ کہ جب تک سودا ہورہا ہے اور اگر افہام و تفہیم ہو بھی گئی ہے، ہاں کہہ بھی دی گئی ہے اگر اٹھنے سے پہلے کوئی شخص وہ سود ا فسخ کر دیتا ہے تو اس کو حق ہے لیکن اٹھنے کے بعد جب جدائی پڑ جائے پھر اس کو حق نہیں ہے کہ اس سودے کو فسخ کرے.دوسرے بات یہ فرمائی گئی ہے کہ خرید و فروخت کرنے والے بیچ بولیں یعنی اپنے اموال کے عیوب بھی بیان کریں.آنحضرت ﷺ کا یہ دستور تھا کہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جس کی ڈھیری ہے گندم وغیرہ کی ، جنس کی اس میں جو خراب دانے ہیں وہ اوپر کر کے پیش کرے اور جو کمزور دانے ہیں یا خراب ہیں یا بھیگے ہوئے ہیں ان کو خشک دانوں میں چھپائے نہیں.چنانچہ خلفاء کا بھی یہی دستور تھا کہ نگرانی فرماتے تھے کہ منڈیوں میں یہ دھو کہ نہ ہو کہ اچھے صحت مند دانے اوپر رکھے گئے ہوں اور خراب دانے نیچے دبا دئے گئے ہوں.ہمارے ہاں تو معاشرے میں روز مرہ کا دستور ہی یہ ہے.پھلوں کی پیٹیاں سجائی جاتی ہیں تو اچھے پھل چن کر اوپر رکھے جاتے ہیں اور سارے گندے نیچے ڈال دئے جاتے ہیں

Page 663

خطبات طاہر جلد 13 657 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء اور اس کے بعد جب کھولنے والا دیکھتا ہے تو بعد میں پتا چلتا ہے وہ کس بات کا سودا کر بیٹھا ہے.تو بددیانتی کے سودے نے سارے کے سارے معاشرے کو گندہ کر دیا ہے.کسی چیز پر اعتبار نہیں رہا.یورپ میں دیکھیں کبھی اس معاملے میں دھو کے سے کام نہیں لیتے.جو چیز سامنے دکھائی دے رہی ہے وہی اندر بھی ہوگی.آخری تہہ تک وہی چیز نکلتی چلی جائے گی.پس جماعت احمدیہ کو اس معاشرے میں رہ کر اس نیکی میں بھی ان سے آگے نکلنا چاہئے.جب قوموں میں اقتصادی بحران پیدا ہوتے ہیں تو بعض اقوام کے اخلاق جو اقتصادی تجربے کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ کمزور پڑنے لگتے ہیں.ان کے اخلاق ہم سے بہت اچھے ہیں ان باتوں میں ،مگر ان کی بنیاد مذہب نہیں ہے بلکہ سینکڑوں سال کا اقتصادی تجربہ ہے.اقتصادی تجربے نے ان کو بعض اصول سکھائے اور ان سے انہوں نے فائدہ اٹھایا لیکن جب اقتصادی بحران پیدا ہوں تو غیر مذہبی قوموں کے ایسے اخلاق بھی ہاتھ سے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں.ان کی بقاء کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی.مذہبی قوموں میں فرق یہ ہے کہ اگر وہ بچی ہوں اگر واقعہ اللہ سے تعلق ہو تو اقتصادی بہتری یا اقتصادی بدحالی کا ان کے اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر صورت میں ہر حال میں وہ اپنے اعلیٰ اخلاق پر قائم رہتے ہیں.پس جماعت جرمنی میں خصوصیت سے جہاں اب احمدی تجارت کی طرف مائل ہورہے ہیں نصیحت کرتا ہوں اور یہ نصیحت سب دنیا کے لئے ہے مگر آج میں چونکہ جرمنی سے خطاب کر رہا ہوں اس لئے جرمنی اولین مخاطب ہے.اپنے تجارت کے معاملے میں ایسا نمایاں کردار دکھائیں کہ وہ ضرب المثل بن جائے اور ہر تجارت کرنے والا جو احمدی سے تجارت کرے اسے کامل یقین ہو کہ احمدی کبھی دھوکہ نہیں دیتا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ برکت پڑے گی اور یہ نہ کرو گے تو تمہاری برکتیں زائل ہو جائیں گی.اس لئے خواہ روحانی طور پر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر یہ کام کریں، خواہ عقل سے کام لیں دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے.عقل سے کام لیں تب بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ تجارتوں میں برکت پڑے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی نصیحت پر عمل کریں اور کامل سچائی سے اور صاف گوئی سے کام لیں ، اپنے مال کا جو نقص ہے وہ بتایا کریں اور پھر جو سودا ہوگا وہ یقینا اس موقع پر ہی برکت کا موجب نہیں بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ آپ کے صلى الله

Page 664

خطبات طاہر جلد 13 لئے برکت کا موجب بنے گا.658 خطبه جمعه فرمود و 2 /ستمبر 1994ء یہ ایک عقل کی بات ہے لیکن محض عقل کا سودا مومن عقلمند کے لئے کافی نہیں.اُولُوا الأَلْبَابِ کی یعنی وہ مومن جو عقل رکھتے ہیں ان کی جو تعریف قرآن کریم نے فرمائی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی عقل ہمیشہ ان کو خدا کی طرف لے جاتی ہے.یعنی دنیا کے سودے کرنے والے بھی عقل والے ہوتے ہیں وہ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن مومن اور اس دنیا دار عقل مند میں فرق ہے.مومن عقل والا بہت بڑی قیمت لگاتا ہے اپنے سودے کی اور جہاں ایک طرف کچھ نقصان اٹھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا کا سودا کر لیتا ہے جس کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے.پس آپ جب نیک روش اختیار کریں، صاف گوئی اختیار کریں، تجارت میں دیانتداری سے کام لیں تو محض دنیاوی فائدے کی خاطر نہیں ، بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ایسا کریں.اگر ایسا کریں گے تو آپ کو نقصان بھی ہوتا چلا جائے تو آپ کے قدم ڈگمگائیں گے نہیں.آپ پر کسی قسم کا زلزلہ نہیں آئے گا.آپ کامل تو کل کے ساتھ اس راہ پر گامزن رہیں گے اور یہی اعلیٰ اخلاق کی سب سے اچھی مثال ہے جن اخلاق کو دنیا کے کوئی بدلتے ہوئے حالات کسی طرح ڈگمگا نہیں سکتے ، وہ صاحب خلق لوگ ہیں، ٹیاں جن کے ساتھ ہونے کا خدا وعدہ فرماتا ہے اور ان لوگوں کی تقدیریں بدلی جاتی ہیں.ان میں.انفرادی طور پر بھی لوگ بالآخر خدا تعالیٰ کی برکتوں کا مورد بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے انعامات اور فیوض پاتے ہیں اور قومی طور پر بھی یہ تو میں تمام دنیا میں تمام دوسری قوموں پر غالب آ جاتی ہیں.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم (الصف: 10) پر بھی غور کر کے دیکھیں.آنحضرت ﷺ کے دین نے سب دنیا کے دینوں پر غالب آنا ہے اور دین یہی روش ، مسلک، اخلاق ، مذہب کا نام ہے.پس اگر آپ کے اندر اخلاق نہیں ہیں تو وہ کیا اسلام ہو گا جو دنیا پر غالب آئے گا.محض اسلام کا نام غالب آئے گا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اللہ و نام میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبر دے رکھی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام کا محض نام رہ جائے گا اور ایسے لوگ بڑے بدنصیب ہوں گے ان کے علماء دنیا کی بدترین مخلوق ہوں گے.(مشکوۃ کتاب العلم والفضل : 38) تو نام سے فرق نہیں پڑا کرتا.اگر اسلام نے غالب آنا ہے اور ہر طرف اسلام نے پھیل جانا ہے اور خلق محمدی ساتھ غالب نہیں آتا اور خلق محمد گلی گلی گھر گھر عام نہیں ہو جاتا تو اسلام کے اس نام کی فتح میں خدا تعالیٰ کو کوئی

Page 665

خطبات طاہر جلد 13 659 خطبہ جمعہ فرموده 2 /ستمبر 1994ء دلچسپی نہیں ہے.پس اخلاق کی حفاظت کریں اور جہاں تک لین دین کا معاملہ ہے جیسا کہ میں کھول کھول کر آپ کے سامنے بات کو رکھ رہا ہوں، اگر عقل استعمال کرنی ہے اور محض سودے کی بات کرنی ہے تو تب بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی نصیحت سے ہٹنا اپنا سراسر نقصان کرنا ہے اور اگر مومنوں والے أُولُوا الْأَلْبَابِ بننا ہے، وہ صاحب عقل جو ہر سودے پر خدا کی رضا کو خرید لیا کرتے ہیں تو پھر دنیا کے فائدے تو آنے ہی آنے ہیں لیکن دن بدن آپ کا قدم اللہ کی رضا جوئی کی راہ پر آگے بڑھتا چلا جائے گا.اللہ ہمیں اس اعلیٰ سودے کی توفیق عطا فرمائے.روز مرہ کے جو دستور ہیں سو دوں کے ان میں بھی آنحضرت ﷺ نے بڑی باریک نصائح فرمائی ہیں اور دل حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کی اخلاقی ضرورتوں کا اس قدر باریکی سے خیال رکھا ہے.کوئی چھوٹی سے چھوٹی امکانی چیز ایسی نہیں جسے نظر انداز کر دیا گیا ہو.روز مرہ جو تجارتیں ہوتی ہیں بازاروں میں جو دستور عام طور پر رائج ہیں باہر سے سودے لانے والے سودے لا رہے ہیں مارکیٹوں تک پہنچ رہے ہیں ان کے ساتھ شہر والے کیا سلوک کرتے ہیں.ان سب باتوں پر آنحضور کی نظر تھی.الله حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شہر والا دلال بن کر دیہات سے تجارتی سامان لانے والے کا سودا نیچے.( بخاری کتاب البیوع حدیث : 2525) اب یہ دیکھنے میں تو کوئی معیوب بات نہیں ہے.ایک شہر کا شخص کسی دوسرے دیہاتی کے مال کا سودا دلال بن کر نیچے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن جیسا کہ میں باقی باتیں بھی بیان کروں گا غور کریں گے تو آپ کو ان کی حکمت سمجھ آجائے گی.اسی طرح آپ نے اس سے بھی منع فرمایا کہ صرف بھاؤ بڑھانے کے لئے بولی دی جائے.آپ نے فرمایا کوئی آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کے پیغام پر پیغام بھجوائے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ اس غرض سے نہ کرے کہ تا وہ اس کی جگہ لے اور اس کا حصہ اپنے برتن میں ڈالے.ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تجارتی قافلے کو آگے جا کر ملنے اور سودا کر لینے سے منع فرمایا اسی طرح اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شہر کا رہنے والا دلال بن کر دیہاتی کا سامان بکوائے.یہ باتیں بہت گہری حکمت سے تعلق رکھتی ہیں اور تجارت کو ہر قسم کی گندگی سے پاک کرنے

Page 666

خطبات طاہر جلد 13 660 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /ستمبر 1994ء کے لئے بہت ہی اہم نصائح ہیں.جب دیہاتی سودے لے کر شہروں میں پہنچتے ہیں تو اگر ان کو آگے بڑھ کر کچھ تاجر نہ ملیں اور منڈیوں تک اسی طرح پہنچنے دیں تو جس کا مال جس طرح ہے موازنے کے طور پر سب کے سامنے آجاتا ہے اور منڈی میں چونکہ ہر قسم کے مال پہنچتے ہیں اور ہر جگہ کے مال پہنچ رہے ہوتے ہیں اس لئے وہاں جو سودا ہے وہ آنکھیں کھول کر ہو رہا ہے.اچھے برے کا حال معلوم ہو چکا ہوتا ہے اور جو قیمت طے ہوتی ہے وہ قدرتی اور طبعی اقتصادی قوانین کے تابع طے ہوتی ہے اس میں کوئی شکوہ نہیں کسی قسم کے دھوکے کی گنجائش نہیں ہے.لیکن اگر دلال کسی دیہاتی کا سامان منڈیوں میں پہنچنے سے پہلے پرائیویٹ طور پر پھر کر بیچنا شروع کرے تو اس میں کئی قسم کی خرابیاں ہیں جو روز مرہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں.اول ایسا دلال چاپلوسی کی باتیں کر کے خریدنے والے کو یہ دھوکہ دیتا ہے کہ میں تمہیں سنا دلوا رہا ہوں اور اگر منڈی میں مال آ گیا تو پھر تمہیں اس قیمت پر نہیں ملے گا.اس لئے ابھی سودا کر لو ورنہ مارے جاؤ گے اور وہ سودا کر کے مارا جاتا ہے کیونکہ اکثر یہ لوگ دھوکہ دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور بعض دفعہ دونوں سے دھوکہ کر رہے ہوتے ہیں.وہ زمین دار بیچارے کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تمہارا مال بڑی قیمت پر بکوا ئیں گے اور ادھر سے اور قیمت وصول کرتے ہیں.اس بے چارے کو جا کر اور قیمت دیتے ہیں.تو یہ ایک دھوکے بازی کے نظام کو فروغ دینے والی بات ہے اس لئے محض دلالی منع نہیں مگر دلالی وہ ہو جوسب کے سامنے منڈیوں میں ہواس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مخفی دلالی جو مارکیٹ کو بائی پاس کر کے دھو کے کے طور پر کی جائے اور حقیقت پر پردہ ڈال کر کی جائے وہ دھوکہ دہی ہے.آنحضرت ﷺ کی بار یک نگاہ یہاں تک بھی پڑی ہے اور ان مخفی دھوکوں سے بھی آپ نے ہمیں متنبہ فرمایا ہے حالانکہ سرسری نظر میں یہ بات عجیب لگتی تھی کہ شہر والا دیہات کی دلالی کر رہا ہے تو کیا نقصان ہے.اصل میں اعلیٰ تجارت کے اصول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے سکھا دئے ہیں کہ آج کی دنیا میں بھی وہی اصول اطلاق پارہے ہیں.ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے.منڈیوں کی آزادی کی حفاظت ہے جو آزاد تجارت کو فروغ دیتی ہے.اگر منڈیاں آزاد نہ ہوں تو تجارت آزاد نہیں رہ سکتی اور پھر منڈیوں میں بھی یہ نصیحت کہ جو برا مال ہے اس کو برے مال کے طور پر دکھا کے لوگوں کے سامنے پیش کرو.جو خراب مال ہے اس کو خراب اور جو اچھا مال ہے اس کو اچھے مال کے طور

Page 667

خطبات طاہر جلد 13 661 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء پر الگ دکھاؤ.پھر جو سودے ہوں ایک آدمی تاجر پھر کے دیکھتا ہے وہ موازنہ صحیح کرسکتا ہے.پھر جو سودا کرتا ہے وہ آنکھیں کھول کر کرتا ہے.یہ معلوم کر کے کہ مجھ میں کس قیمت پر بیچنے کی استطاعت ہے لیکن بعض بد نصیب ایسے ہوتے ہیں جو وہاں سے الگ الگ ستھرا مال لاتے ہیں اور یہاں آ کر ملا دیتے ہیں.چنانچہ پاکستان میں میں نے یہ بھی دیکھا ہے بعض زمیندار جو آلوؤں کی یا پیازوں کی کاشت کرتے ہیں خاص طور پر بہت بڑے بڑے ایسے زمیندارے ہیں جو ساہیوال وغیرہ کی طرف رواج پاچکے ہیں وہاں ارائیں مہاجرین زیادہ تر ان کاموں میں سب سے آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ایسے فارمز بھی ہیں میں نے جا کر دیکھے ہیں بہت ہی صاف ستھرے فارمز ہیں بے انتہا محنت کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں عام آلو کے مقابل پر بہت بڑے بڑے سائز کا آلو پیدا ہوتا ہے بہت اچھا پیاز وغیرہ وغیرہ پھر وہ ان کو قرینے سے الگ الگ لگاتے ہیں اور الگ الگ بوریوں میں الگ الگ قیمتوں کے ساتھ منڈی میں پہنچاتے ہیں.وہاں تاجر خریدتے ہیں.بعض چنیوٹ لے کر آتے ہیں بعض ربوہ لے جاتے ہیں، کوئی لالیاں لے جاتے ہیں اور پھر دوبارہ محنت کرتے ہیں بڑوں کے ساتھ موٹوں کے ساتھ چھوٹوں کو ملا دیتے ہیں اور گڈ مڈ کر کے پھر بے چارے ایک اور محنت کرتے ہیں پھر موٹے موٹے بعض نکال کر اوپر رکھ دیتے ہیں.جو محنت بے چاروں نے کی ، جو شرافت کا سلوک کیا، سب کا ستیا ناس کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم کما رہے ہیں.ایک تو خدا کا عذاب کما رہے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا کی ناراضگی کما رہے ہیں یہ تو درست ہے مگر عملاً زیادہ دیر تک یہ تاجر پہنپ نہیں سکتے.صاف پتا چل جاتا ہے لوگوں کو ایک سودا ہوا ، دوسودے ہوئے ، بالآ خر تھک کر لوگ ان لوگوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جو تا جر صاف ستھرا ہو، جس کی بات کا اعتماد ہو، جس کا مال وہی ہو جو وہ بیان کرے اس کی تجارت ضرور پنپتی ہے اور بالآخر وہی تاجر ہے جو سب دوسروں پر غالب آ جاتا ہے.پس خدا کی رضا کا سودا کرنا ہو یا دنیا کے تجارت کے اصول سیکھنے ہوں تو سودا سکھانے والا ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفی عمل ہے.ہر قسم کے سودوں کے گر آپ کو محمد رسول اللہ سے ملیں گے اور ان گروں کو سمجھ کر دل میں لگا کر اپنا لیں گے تو پھر آپ کا تعلق اولین سے بنے گا.پھر وہ پل تعمیر ہوں گے جن کے ذریعے اولین اور آخرین ملا دیئے جائیں گے اور ضرور ملائے جانے ہیں ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت بالکل بے کار اور بے معنی ہو جاتی ہے اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ

Page 668

خطبات طاہر جلد 13 662 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /ستمبر 1994ء ایک ایسے شخص کو منتخب کرے جس کا آنا یا نہ آنا برابر ہو جائے.پس آپ پر صداقت احمدیت کا ان معنوں میں انحصار ہے.اگر آپ نے یہ صداقت اپنے اعمال سے ثابت نہ کی تو خدا نے تو ضرور کرنی ہے.اس لئے تو میں بدلائی جائیں گی.آپ کی جگہ کچھ اور لوگ آئیں گے جن کو خلق محمدی اپنانا ہوگا اور خدا کی تقدیر ان کو اپنانے میں مدد دے گی.پھر وہ اولین اور آخرین ملانے کا ایک زندہ ثبوت بن جائیں گے.پس ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھیں بہت گہری ہیں اور ان کے نتیجے میں قوموں کی کایا پلیٹ جایا کرتی ہے.اب بیاہ کی بات ہو رہی تھی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اس شرط پر شادی نہ کرے کہ اس کا خاوند اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے اور یہ باتیں ہمارے ملک میں عام پائی جاتی ہیں اور احمد یوں میں دوسری شادی بہت کم پائی جاتی ہے.مگر جتنی بھی ہے ان میں تکلیف دہ باتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں.بعض عورتیں کہتی ہیں کہ پہلی بیوی کو طلاق دو گے تو ہم شادی کریں گے اور بعض بد نصیب مردنئی دلہن کے چاؤ میں پہلی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں یا یہ وعدہ کر لیتے ہیں کہ ہم كَالْمُعَلَّقَةِ چھوڑ دیں گے ہم ان سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے.تو پہلی بیوی تو حرام خود ہی کر لی دوسری بھی حرام ہو گئی.اس لئے بہت ہی بیوقوفی کی بات ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے پہلے اچھی بھلی بیوی دی تھی اس کو تم اپنے منہ سے حرام کر بیٹھے ہو اور جو دوسری کی اس کو اللہ نے آپ پر حرام کر دیا.پس یہ جہالت نہ کیا کریں.رسول اللہ ﷺ نے جو نصیحتیں فرمائی ہیں ان کا گہری نظر سے مطالعہ کر کے ان پر عمل کریں اسی میں برکت ہے، اسی میں معاشرہ کا حسن ہے اور آپ نے لا زما ایک حسین معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے ورنہ آپ کا کوئی سودا نہیں کرے گا.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جہاں عورتوں کا تعلق ہے عورتیں بھی اس بات کو سمجھیں کہ ناجائز غیر اسلامی شرطیں نہ لگایا کریں اور مرد یہ سمجھیں کہ اگر وہ لگاتی ہیں تو ان کی قطعا پر واہ نہ کریں.محض بھاؤ بڑھانے کے لئے بولی نہ دی جائے بعض لوگ منڈیوں میں یہ کرتے ہیں کہ بھاؤ بڑھانے کے لئے باقاعدہ آدمی مقرر کئے ہوتے ہیں جب بولی آئے گی اتنی آئے تو تم اس سے زیادہ کچھ اور کر دینا پھر اس سے زیادہ کچھ اور کر دینا پھر وہ جب اس برج تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر وہ اپنا ہی جعلی آدمی ہو اور اس بات پر ٹھہر جائے تو وہی چیز پھر دوبارہ منڈی میں بکنے آتی ہے.کیونکہ خریدار تو

Page 669

خطبات طاہر جلد 13 663 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء کوئی ہوتا نہیں وہ تو مصنوعی خریدار ہوتا ہے اور یہ جو رواج ہے یہ بہت سا بعض یورپین جو نیلامی کی مارکیٹیں ہیں ان میں بھی راہ پا گیا ہے اور وہاں بھی کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مصنوعی طور پر بولی بڑھائی جاتی ہے اور بعض میں جب وہ چیز اپنے ہی خرید لیں جنہوں نے اصل میں خرید نا نہیں تو پھر دوبارہ وہ اگلی دفعہ آپ منڈی میں جائیں گے تو پھر وہی لگی ہوگی تو یہ دھوکے بازیاں ہیں تکلیف کی چیزیں ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیمت بڑھانے کی خاطر بولی نہ دی جائے اور مصنوعی طور پر سجا کر چیز نہ پیش کی جائے.میں نے آپ کو پہلے بھی قصہ سنایا تھا وہ ہے لطیفہ لیکن بات دل نشین کرنے کے لئے اچھا دلچسپ واقعہ ہے.ایک شخص ایسی ہی منڈی میں اپنی گھوڑی بیچنے کے لئے لے گیا.گھوڑی کیا تھی ٹو تھی بالکل.برا حال، کھال ہڈیوں سے چمٹ کر سوراخوں میں داخل ہوئی ہوئی پسلیاں گئی جاتی تھیں تو کسی نے اس کو مشورہ دیا کہ تم ہمارے بیچنے کے دستور کو تو سمجھو، منڈیوں کے آداب سمجھو، پھر لے کر جاؤ.بیوقوفوں والی بات ہے اس طرح لے کر تم جا رہے ہو کون دام ڈالے گا.تو اس نے کہا پھر تم مجھے بتاؤ میں کیا کروں.اس نے کہا اس کو مایہ ( کلف) لگا کر تو دھوپ میں کھڑا کر دو.جب وہ اکڑے گی مایہ ( کلف) تو اس کی کھال تن کر جس طرح مرے ہوئے گدھے کی کھال ہو جاتی ہے اس طرح وہ پھول کر سارے اس کے اوپر عیب ڈھانپ دے گی اور تنی ہوئی کھال میں اندر گھنے کی تو گنجائش ہی کوئی نہیں ہوتی تو اچھی گھوڑی ، مضبوط ، تو انا دکھائی دے گی، جاکے بیچ دینا.اچھا بھلا سودا ہو جائے گا.اس بے چارے نے کچھ مایہ پر سرمایہ لگایا اور کافی لگا دی اور جب وہ منڈی پہنچا تو پوری گھوڑی پھولی ہوئی جس طرح اپھارہ ہوا ہو اس طرح اس کی شکل بنی ہوئی اور دیکھنے والے دیکھتے تھے.پتا بھی لگ رہا تھا کہ مایہ لگی ہوئی ہے.یہ تو نہیں کہ صحت مند گھوڑی اور مایہ والی گھوڑی میں فرق ہی نظر نہ آئے تو لوگ آ کے دیکھ کے چلے جاتے تھے.آخر ایک گاہک پڑا اس نے آگے پیچھے سے پھر کر دیکھا ، دلچسپی لی اور اس نے کہا کہ شکر ہے کہ اب تو کچھ سودا ہوا.اس نے کہا کتنی قیمت لیتے ہو.اس نے کہا تین سو روپے.اس نے کہا تین سو تو میں دے دوں گا مگر ابرق نہیں لگایا تم نے ، اگر ابرق بھی ساتھ لگا دیتے تو بڑی خوب صورت گھوڑی نظر آتی.تو یہ لطیفہ ہی ہے اصل میں، لیکن ایسا دردناک لطیفہ ہے جو ہمارے ماحول پر صادق آتا ہے.ہماری ہر منڈی کا کردار یہی ہے.ابرق لگانا بھول جائیں تو بھول جائیں

Page 670

خطبات طاہر جلد 13 664 خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 1994ء ور نہ مایه ( کلف) ضرور لگاتے ہیں.یہ تو کوئی انصاف نہیں، کوئی شرافت نہیں ، کوئی عقل کی بات نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلے جو نصیحتیں کیں آج تک آپ کو علم نہیں کہ وہ کیا نصیحتیں ہیں.آج بھی آپ کو پتا نہیں کہ کن خطرات سے آپ کو آگاہ فرمایا تھا.کن گڑھوں میں گرنے سے بچنے کی آپ نے تلقین فرمائی تھی لیکن آنکھیں بند کر کے ایسا کرتے چلے جاتے ہیں.دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ روک لیتے ہیں، کئی کئی دن اور اتنا بیچاروں کو پھر پانی پلاتے ہیں کہ وہ دودھ بھی پتلا ہوکر بڑھتا ہے اور کئی دن کا رکا ہوا جس کو دوہا نہ جائے اس کی وجہ سے وہ تھن خوب بھر جاتے ہیں.سودا کرتے ہیں، خرید کر ایک بے چارہ زمین دارلے کے گھر آتا ہے تو پہلے دن ہمیں سیر دوسرے دن ڈیڑھ پاؤ کوئی نسبت ہی نہیں رہتی.تو یہ کوئی شرافت نہیں ہے.قومی کردار بڑا ذلیل ہو جاتا ہے.ہر شخص کے لئے مصیبت ہے.اس لئے خلق محمدی میں ہماری نجات ہے، اس کو اپنا ئیں.پھر جتنا بھی آپ کا حق ہو آپ کو ملے گا اور اسی میں برکت پڑے گی کیونکہ آنحضرت ﷺ نے برکت کا بھی وعدہ فرمایا ہے.ایک حدیث مسند احمد سے اور ابو داؤد دونوں سے لی گئی ہے.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے پاس دو آدمی آئے جن میں وراثت کی ملکیت کے بارے میں جھگڑا تھا اور معاملہ پرانا ہو جانے کی وجہ سے ثبوت کسی کے پاس نہ تھا یعنی وراثت کا جھگڑا تھا.دیر اتنی ہو چکی تھی کہ کوئی اس وقت کے موقع کے گواہ بھی ایسے نہیں تھے، کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتا تھا لیکن مطالبے میں دونوں کی شدت تھی.آنحضرت ﷺ نے ان کی بات سن کر فرمایا میں انسان ہوں اور ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی زیادہ لستان ہو اور خوب چرب زبانی سے کام لے کر اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرے اور اپنی زبان کی ہوشیاری سے مجھ پر اثر انداز ہو جائے.فرمایا کوئی عمدہ انداز اور لہجے میں بیان کر سکتا ہو اور میں اس کی باتوں سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کرلوں اور اس کے حق میں فیصلہ دے دوں.آخر انسان ہوں اور روز مرہ کے معاملات میں اس قسم کی بشری غلطی سرزد ہو سکتی ہے لیکن ساتھ فرمایا ایسی صورت میں اسے اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے جس کے حق میں ناجائز فیصلہ ہو جائے اور اپنے بھائی کا حق نہیں لینا چاہئے کیونکہ اس کے لئے وہ ایک آگ کا ٹکڑا ہے جو میں اسے دلا رہا ہوں.یعنی آنحضرت سے تو آگ کے ٹکڑے کی کوئی دور کی بھی توقع نہیں کی جاسکتی مگر ایک دھوکے باز

Page 671

خطبات طاہر جلد 13 665 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء جب غلط باتیں بیان کرے گا اور گواہی موجود نہیں ہوگی تو جو طبعی منطقی نتیجہ نکلنا چاہئے.آنحضرت ملالا لالی اپنی فطری منطق سے وہی نتیجہ نکالیں گے جو نکلنا چاہئے اور اس کے نتیجے میں اگر اسے کوئی ایسی چیز حاصل ہو جائے جو اس کا حق نہیں ہے.تو فرمایا وہ مجھ سے آگ لے رہا ہوگا اور وہ زائد چیز جو مجھ سے لے گا وہ دولت جو مجھ سے حاصل کرے گا قیامت کے دن وہ سانپ بن کر اس کی گردن سے لپٹ جائے گی.آنحضرت ﷺ سے جب دونوں جھگڑے والوں نے یہ بات سنی تو دونوں کی روتے روتے چھینیں نکل گئیں اور ان میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ میری ساری جائیداد لے کر اس کو دے دیں مگر میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ کسی غلطی سے آپ کا فیصلہ میرے حق میں ہو جائے جو میر احق نہ ہو.انہوں نے کہا میرے بھائی کو دے دیں.یہ سن کر آپ نے فرمایا تم اس پر آمادہ ہو تو یوں کرو کہ جائیداد تقسیم کرو، قرعہ اندازی کرو، جس کے حصہ میں جو قرعہ نکلے اسے وہ خوشی سے لے لے اور اس کا طریق یہ ہے کہ ایک شخص جائیداد کے اندازے کرتا ہے، اسے تقسیم کرتا ہے، اپنی طرف سے انصاف کے ساتھ اور دوسرے کو پہلے قرعہ اٹھانے کا حق ملتا ہے.یا وہ فیصلہ کرنے کا حق ملتا ہے کہ میں ان میں سے جو مرضی چن لوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اتنے تم محتاط ہو گئے ہو اور تقویٰ پر قائم رہنا چاہتے ہو تو زیادہ اور کم کی بحث چھوڑ دو، برابر تقسیم کر لو (ابوداؤد کتاب القضاء حدیث : 3112) اور اس کا طریق یہ بیان کیا جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے کھولا ہے.چنانچہ اسی کے مطابق پھر ان دونوں کا فیصلہ ہوا.حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا.ایک دوسرے سے حسد نہ کرو.ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو.ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو.مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا اس کی تحقیر نہیں کرتا اس کو شرمندہ یا رسوا نہیں کرتا.آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تقویٰ یہاں ہے یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے.پھر فرمایا انسان کی بد بختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے.ہر مسلمان کا خون، مال، عزت، آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اس کے لئے واجب الاحترام ہے.(مسلم کتاب البر والصلۃ حدیث : 4650)

Page 672

خطبات طاہر جلد 13 666 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /ستمبر 1994ء یہ ایسی نصیحتیں ہیں جن میں معاشرے کی روز مرہ کی برائیوں کے حوالے سے نیکیاں اختیار کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے.بغض کا تعلق حسد سے بھی ہے اور حسد کا بغض سے اور پھر مال میں ایک دوسرے سے دھو کہ کرنے سے بھی ان باتوں کا تعلق ہے.ایک انسان جب اپنے بھائی کی خوشی پر راضی نہیں ہوتا مثلاً ایک بھائی کی تجارت چمک رہی ہے اور دوسرے بھائی کو مزہ نہیں آ رہا، پسند نہیں آ رہی.تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو وہ اس کے پاؤں کھینچنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی ٹانگ کھینچنا جس کو کہتے ہیں اور اسے گرانے کی کوشش کرتا ہے یا دھوکہ دہی سے یا دوسری چالاکیوں سے اس سے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.پس اخلاقی خرابیوں میں جو لین دین سے تعلق رکھتی ہیں، حسد کا بہت گہرا تعلق ہے.شریکے میں کسی کا گھر اونچا بن گیا، کسی کی عمارت پختہ ہوگئی تو یہی چیز دوسرے کو کھائے چلی جاتی ہے.ایک دفعہ کسی اچھی چیز پر کسی نے مبارک باد دی اور ایک دوسری عورت نے کہا کہ اب تم بھی کوشش کرو گی کہ ایسی ہی بناؤں میں یا اس سے بڑھ کر بناؤں تو وہ نیک خاتون تھی اس نے کہا نہ بی بی مجھے اس سے ہی بڑی خوشی ہے.میری بہن کی چیز ہے مجھے اچھی لگ رہی ہے تو مجھے تو خیال بھی نہیں آیا کہ میں اس سے بڑھ چڑھ کے بناؤں.اللہ کی مرضی ہے زیادہ دے تو اس کی مرضی لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں.یہ جو روح ہے اگر یہ مومنوں میں پائی جائے تو سب کی خوشی سب کی خوشی بن جاتی ہے.ہر ایک کی خوشی ہر دوسرے کی خوشی ہو جاتی ہے اور ایسے لوگوں کا دل ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے اور اطمینان پاتا ہے.اپنے بھائیوں میں سے کسی کو خوشحال دیکھیں تو ان کا دل بھی راضی ہوتا ہے وہ اور دعائیں دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ساتھ پھر حسن سلوک فرماتا ہے اور ایسے بندے کی ادا ئیں خدا کو بہت بھاتی ہیں اور وہ ان کے لئے بھی اس جیسی نعمت یا بعض دفعہ ان سے بڑھ کر نعمت دینے کا فیصلہ فرما لیتا ہے.لیکن وہ لوگ جو حسد کرنے لگتے ہیں ان کی نیکیاں بعض دفعہ اس طرح کھائی جاتی ہیں کہ اس کے بعد ان کو روحانی طور پر کوڑھ ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک روحانی بیماری کوڑھ ہے اور اس کوڑھ کی علامت یہ ہے کہ اگر اپنے بھائی کو اچھادیکھو تو تمہیں تکلیف ہو اور بھائی کو بُراد دیکھو تو تمہیں خوشی ہو.یہ روحانی کوڑھ ہے جس کا علاج پھر کوئی نہیں ، یہ ناسور بن جاتا ہے جو اپنے جسم کو کھانے لگتا ہے، وہ آگ جو دوسرے کو جلانے کی تمنا رکھتی ہے مگر جلا نہیں سکتی،

Page 673

خطبات طاہر جلد 13 667 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء وہ اپنے آپ کو ضرور بھسم کر جاتی ہے.پس ایسے لوگ ہر روحانی فیض اور برکت سے محروم رہ جاتے ہیں.پس اگر اپنے بھائی کی کوئی اچھی چیز آپ کو معلوم ہوتو وہ موقع ہے اپنے دل کو ٹول کر اپنی تشخیص کرنے کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نصیحت فرمائی ہے وہ اسی حدیث نبوی سے تعلق رکھتی ہے کہ ولا تباغضوا ایک دوسرے سے بغض کا معاملہ نہ کیا کر و یعنی وہ تم سے بغض کر رہا ہو اور تم اس سے بغض کر رہے ہو ولا تحاسدوا اور ایک دوسرے سے حسد کا معاملہ نہ کیا کرو.جب تم حسد کرو گے تو پھر دوسرے تم سے حسد کریں گے.ساری سوسائٹی میں ایک دوسرے سے بغض، ایک دوسرے سے حسد کا تعلق جاری ہو جاتا ہے یا بے تعلقی ہو جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو کوڑھ فرما کر اس کی پہچان بتائی کہ تمہیں کسی طرف سے خوشی کی خبر ملے تو اپنے دل میں دیکھو کہ تمہیں کیا ہوا ہے.اگر چٹکی کاٹی گئی ہے، اگر تکلیف ہوئی ہے، بعض دفعہ لگتا ہے خنجر گھونپ دیا گیا ہے تو اسی حد تک تم بیمار ہو جتنی زیادہ تکلیف ، اتنا کوڑھ آگے بڑھ چکا ہے اور جتنی خوشی ہوگی اتنا ہی تم ایمان کے رستے پر آگے بڑھنے والے ہو.اگر بھائی کی اچھی خبر سے تمہارا دل خوش ہو جاتا ہے تم کہو الحمد للہ فلاں کو اللہ نے یہ نعمت عطا فرمائی تو یا درکھو کہ تم ایمان کے رستے کے مسافروں میں سب سے آگے بڑھنے والے مسافر ہو اور کم سے کم اگر تکلیف نہیں ہوتی تو یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ بہت اچھی صحت نہیں، مگر بیمار بھی نہیں ہے.مگر ہمارے معاشرے میں بیماریاں زیادہ بڑھ رہی ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا مشرقی ملکوں میں تو بہت ہی زیادہ تباغض اور تحاسد پایا جاتا ہے لیکن مغربی قوموں میں بھی کم نہیں ہے.یہ بیماری ہے جس میں یہ بھی ہم سے خوب مقابلہ کرتے ہیں.یہ جتنے آپ نے دیکھے ہوں گے سر منڈائے ہوئے بعض پھرنے والے، وہ اچھا گھر دیکھتے ہیں پتھر مار مار کے اس کے شیشے توڑ دیتے ہیں.موٹر دیکھتے ہیں تو اس کے اوپر ڈنٹ ڈال دیتے ہیں، اس کے شیشے توڑ کے اپنا کوئی بھی فائدہ نہیں مگر دوسرے کا نقصان کر کے راضی ہوتے ہیں.یہ کوڑھ ہے، جو وہ لوگ جو محروم ہیں، بعض خوبیوں سے وہ اپنے لئے لعنتیں لے لیتے ہیں ، خوبیاں تو پھر بھی حاصل نہیں کر سکتے.کسی کے گھر کے شیشے توڑنے سے ان کے گھر کے شیشے تو نہیں لگ جائیں گے، کسی کی کارکو نقصان پہنچا کر ان کو تو کا رنصیب نہیں ہوگی مگر وہ تو چونکہ بے دین لوگ ہیں.ان کو علم نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں.مومن اگر مومن کہلا کر ایسی باتیں کرے

Page 674

خطبات طاہر جلد 13 668 خطبہ جمعہ فرمود و 2 رستمبر 1994ء تو اس کا تو سراسر نقصان ہی نقصان کا سودا ہے اس کی نیکیاں کھائی جاتی ہیں.اس بیماری سے اور خدا تعالیٰ کا غضب وہ حاصل کر لیتا ہے.دیکھیں ناسور اور کینسر کھانے والی چیزیں ہیں.وہ بیماریاں ہیں جو اوروں کا نہیں تو اپنا گوشت کھاتی ہیں اور اسی کا نام ناسور بھی ہے اور کینسر بھی جب اور بڑھ جائے اور لا علاج ہو جائے تو یہ بیماریاں آنحضور ﷺ بیان فرمارہے ہیں ان کی بعینہ ہی نوعیت ہے یہ دوسروں کوتو کھا نہیں سکتیں اپنی روحانی طاقتوں کو، اپنی خوبیوں کو کھانے لگتی ہیں اور انسان اس کوڑھ کا مریض ہو کر محض ایک ذلیل اور رسوا ڈھانچہ بن جاتا ہے اس میں کچھ بھی قابل قدر چیز باقی نہیں رہتی.پس ان سے پر ہیز کریں.پھر فرمایا پیٹھ نہ موڑ و دوسروں سے، پیٹھ نہ موڑنے کا کیا مطلب ہے.پیٹھ موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس سے اونچا نہ سمجھو اور اس سے بے اعتنائی نہ کرو.بعض لوگوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر وہ مجلس میں ہوں جہاں اچھے کھاتے پیتے لوگ، اچھے کپڑوں میں ملبوس ان سے باتیں کر رہے ہیں اور کوئی ان کا پرانا غریب بھائی یا دوست یا کلاس فیلوان تک آ جاتا ہے تو وہ اس طرف پیٹھ پھیر لیتے ہیں کہ ان کو یہ نہ پتا چل جائے کہ ہم ایک دوسرے کے بے تکلف دوست ہیں اور اگر وہ بے تکلفی سے بات کرے تو ان کو بڑا غصہ آتا ہے کہ تم کہاں آدھمکے ہو پرانی باتیں پرانی ہوگئیں اب تو میرا رتبہ بڑا بڑھ چکا ہے، میں اونچا ہو گیا ہوں.دیکھتے نہیں کن لوگوں سے باتیں کر رہا ہوں.صلى الله تو آنحضرت عمر کتنی باریک نظر سے اپنے صحابہ کی کمزوریاں دور فرماتے تھے.دھوبی کپڑوں کو چیخ چیخ کر اس کے داغ دور کرتا ہے لیکن بعض اور بھی محنت کرنے والے ہیں وہ واپس لا کر پھر نظر سے دیکھتے ہیں اور ایسے مسالے رکھتے ہیں کہ اگر ذرا سا بھی کوئی داغ رہ جائے اس کو بھی دھوتے ہیں.مگر روحانی بدن صاف کرنے والوں میں تمام صاف کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر محمد رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ تھا کیونکہ آپ کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ آپ پاکبازوں کو پاک کرنے والے تھے.ان لوگوں کے مزگی تھے جو پہلے ہی پاک لوگ ہو چکے تھے، تقویٰ شعار کو مزید تقویٰ عطا کرتے تھے.چنانچہ قرآن کریم نے یہی تعارف فرمایا ہے شروع میں ہی کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرہ:2) کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بڑے بڑے متقی بھی محمد رسول

Page 675

خطبات طاہر جلد 13 669 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء اللہ اللہ کے دربار میں آئیں گے تو اس تعلیم کی برکت سے ان کے تقووں میں بھی ترقی ہوگی اور متقیوں کو بھی ہدایت ملے گی.پس متقیوں کو تقومی سکھانے والا پاکبازوں کو پھر پاک کرنے والا یہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں اتے تھے اسی لئے آپ نے پھر آخر پر یہ صیحتیں فرمانے کے بعد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.مجھ سے تقویٰ سیکھو پھر تم پاک اور صاف بنائے جاؤ گے.پس معمولی سی بے رخی جو بھائی کے ساتھ ہے یہ بھی تقوی کے خلاف ہے.سودے پر سودا کرنا یہ بھی حسد اور بغض کا بچہ ہے کیونکہ اگر کسی بھائی کا اچھا سودا ہو رہا ہے آپ کو تکلیف ہے تو آپ کہیں گے میرے ساتھ ہو جاؤ تو چار آنے بڑھا کر آپ بیچ میں دخل اندازی کریں اور سودا کر لیں تو یہ ناجائز ہے.ایک طرف منڈی میں مال لے جانے کی نصیحت ہے دوسری طرف براہ راست اتفاقاً سودے ہوتے رہتے ہیں ان کے آداب سکھائے گئے ہیں.یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کا ہر سودا منڈی میں جا کر ہو.مراد یہ ہے جو قدرتی طبعی، اقتصادی ذرائع سے مال خود بخود منڈی پہنچتے ہیں ان کے اس طبعی Flow میں اس طبعی حرکت میں تم نے مداخلت نہیں کرنی اور اس کو مصنوعی نہیں بنا دینا.یہ اقتصادی طبعی تقاضے ہیں ان میں دخل اندازی نقصان دہ ہے اور مومن کے لئے ناجائز ہے لیکن یہ مراد نہیں کہ آپس میں کوئی سودا نہیں کرنا.پس آپس کے سودوں میں یہ فرمایا گیا ہے جب آپس میں سودا کر رہے ہو تو وہ منڈی تو نہیں ہے جہاں بھاؤ دئے جائیں، جہاں نیلامیاں ہو رہی ہوں:.تمہارا فرض ہے کہ خاموشی سے وہ سودا ہونے دو، اگر وہ سودا ٹوٹ جاتا ہے ،نہیں ہوتا پھر تم زیادہ دے کر اس سے خریدنا چاہتے ہو تو تمہارا حق ہے اور اس سودے کے طریق کو بیاہ شادی کے ساتھ بھی وابستہ فرما دیا.اگر کسی کو علم ہو کہ اس کے کسی بھائی، کسی عزیز ، کسی دوست واقف نے کسی بچی کا پیغام دیا ہوا ہے تو اسلامی اسلوب یہ ہے کہ جب تک اس کا فیصلہ نہ ہو وہ انتظار کرے اور اگر کوئی لمبالٹکانا چاہتا ہے تو لڑکی کے ماں باپ کا فرض ہے کہ شروع میں اس کو بتا دیں کہ ہم مجبور ہیں ہم جلدی فیصلہ نہیں کر سکتے اس لئے آپ آزاد ہیں.اگر دوبارہ درخواست دینا چاہتے ہیں تو آپ کا حق ہے لیکن یہ جو سودا ہے یہ اس وقت کالعدم سمجھا جائے ایسی صورت میں جو چاہے پیغام دے سکتا ہے لیکن اگر کوئی پیغام کسی کا آیا ہو اور وہ لٹکا کر بیٹھ جائے اور یہ انتظار کرے کہ شاید کوئی اور اچھا پیغام آ جائے تو یہ بھی سراسر ظلم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس نصیحت کی خلاف ورزی ہے.پس جہاں ایک طرف پیغام پر

Page 676

خطبات طاہر جلد 13 670 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 رستمبر 1994ء پیغام نہیں دینا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سودے پر سودا کر رہے ہو.وہاں دوسری طرف ان کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے جس کو بچیوں کے پیغام ملتے ہیں کہ پیغام کے انتظار میں نہ بیٹھیں کیونکہ اگر پیغام کے انتظار میں بیٹھے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کو جھلا کر بیٹھ رہے ہیں.آپ نے تو فرمایا ہے سودے پر سودا ہونا ہی نہیں تو تم کس بات کا پھر انتظار کر رہے ہو اس لئے انتظار کرنا ہی اس نصیحت کی خلاف ورزی ہے یا یہ کہیں کہ ہمیں کچھ وقت لگے گا سوچنے میں آپ انتظار کر سکتے ہیں تو کریں.یا یہ کہیں کہ ہمیں چونکہ زیادہ وقت چاہئے اس لئے آپ آزاد ہیں درمیان کی کوئی صورت نہیں ہونی چاہئے.اگر اس نصیحت کو ہم روز مرہ کے معاشرے میں رائج کر دیں تو ہماری اقتصادیات بھی بہتر ہو جائیں گی اور ہمارے سوشل تعلقات اور معاملات بھی خدا کے فضل سے بہتر ہو جائیں گے.ایک آخری بات میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں یہ مضمون تو لمبا ہے اور بھی خطبوں میں چلے گا کہ ایک ایسی بات جس کو میں آج اس نئے مرکز میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے بطور اعلان کے کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری آئندہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے خیال میں از خود ہی ہمیں بڑی بڑی جگہیں مہیا کرتا چلا جا رہا ہے اور ایک جگہ کے تنگ ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ اور جگہ عطا فرما دیتا ہے.آپ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے.پس ان جگہوں کو جو آپ کو عطا ہو رہی ہیں خیر و برکت سے بھریں.اگر خیر و برکت سے بھریں گے تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ فرماتا ہے کہ بَلْدَةٌ طَيِّبَةً وَرَبُّ غَفُورٌ کہ اچھا شہر پاک شہر جہاں اچھے شہری لوگ رہتے ہیں یا ایسی بستی جہاں اچھے اچھے لوگ ہیں اس کو بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ کہا جاتا ہے.وَرَبُّ غَفُورٌ اور اللہ بخشش کرنے والا ہے.بڑی برکتیں پڑتی ہیں ایسی جگہ میں جہاں اچھے لوگ اس بستی کو طیب بنا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر میری مغفرت کا سلوک ان سے جاری رہتا ہے جو کمزوریاں ہیں ان پر بھی پردے پڑ جاتے ہیں ان کی خوبیاں بڑھتی رہتی ہیں.بہت ہی پیارا نقشہ ہے.پس ہر اس جگہ کو جو خدا تعالیٰ مزید وسعتیں دیتے ہوئے آپ کو عطا کرتا ہے اسے بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ میں تبدیل کریں اور اپنی پاکیزگیوں سے اس جگہ کو اچھا بنادیں.یہ تو خوش خبری کا اعلان ہے.ایک اور انذار بھی ہے چونکہ خوش خبری کے ساتھ انذار لگا ہوا ہے میں نے بار بار یہ جماعت کو نصیحت کی ہے کہ اپنے سودوں میں آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھیں کہ جو بھی حرام کا

Page 677

خطبات طاہر جلد 13 671 خطبه جمعه فرمود و 2 /ستمبر 1994ء کاروبار کرتا ہے خصوصا سور اور شراب کا کاروبار کرتا ہے اس پر رسول کریم ﷺ نے لعنت ڈالی ہے اور اس سودے کو ملعون قرار دیا ہے.اس لئے بار بار نصیحت کی کہ اس سے باز آ جاؤ اور پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ میں نے کہا کہ میں ایسے لوگوں کا چندہ جماعت کے لئے وصول نہیں کروں گا.اگر انہوں نے صلى الله ایسی زندگی بسر کرنی ہے کہ ایسا رزق اپنے لئے اپنا لیتے ہیں جس پر رسول الله و لعنت ڈال چکے ہیں تو ٹھیک ہے اپنی ذات پر، اپنے بچوں پر یہ حرام رزق خرچ کرتے رہیں جماعت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ہم یہ نہیں لیں گے.ایک لمبا عرصہ تک ان سے یہ سلوک رکھا گیا جب کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر بار بار دباؤ ڈالا گیا کہ یہ لوگ اب ڈھیٹ ہو چکے ہیں جنہوں نے تو بہ کرنی تھی کر لی ہے جن تک بات پہنچی تھی پہنچائی گئی ، بار بار پہنچائی گئی.جنہوں نے اثر قبول نہیں کیا ان کے لئے اب کچھ اور قدم اٹھانا چاہئے.میں ان سے کہتا تھا جماعت میں شرافت ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ شرافت کام آئے گی ناراضگی کا اظہار ہوگا تو آہستہ آہستہ باز آجائیں گے لیکن افسوس کہ ہمبرگ کے ریجن میں خصوصیت سے ایسے بد نصیب سارے جرمنی میں سب سے زیادہ موجود ہیں جن پر یہ نیک نصیحتیں اثر انداز نہیں ہوئیں.ایک موقع پر ایک دفعہ ایک شریف انسان کسی دوکان سے ایک بڑا سودا کر کے آیا، چیزیں لے لیں اور پیسے کہا کہ بعد میں پہنچ جائیں گے اور ایک دو تین مہینے گزر گئے اس کو بل نہیں آیا.آخر وہ دکاندار کے پاس پہنچا.اس نے اس کو پیسے بھی ادا کئے اور پوچھا کہ آپ نے تین مہینے تک اتنی خاموشی اختیار کی مجھے بل ہی نہیں بھیجا، یاد دہانی نہیں کرائی.تو دکاندار نے کہا میں شرفاء کو یاد دہانی نہیں کرایا کرتا.مجھے پتا ہے کہ شرفاء خود ہی خیال رکھتے ہیں تو اس نے کہا اگر کوئی نہ دے اور نہ ہی دے تو اس نے کہا پھر میں یہ سمجھتا ہوں کہ شریف انسان نہیں ہے پھر اس کو یاد دہانی کرواتا ہوں.تو جب اتنی لمبی مدت گزرگئی اور میں نے آپ کے اندر شرافت کے کوئی آثار نہیں دیکھے یعنی ان لوگوں میں جن کو یہ لمبے عرصے تک مہلت دینا، ان کو ہلاکت سے بچا نہیں سکا تو آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ امیر صاحب جرمنی سے جیسا کہ میں نے رستے میں بات کی تھی ایسے وہ لوگ جن کو مہلتیں دی گئیں اور وہ ہٹ دھرمی سے اس بات پر قائم ہیں ان کے اخراج از جماعت کا اعلان کر دیں اور اب ان کی مرضی ہے انہوں نے دنیا قبول کرلی ہے تو دنیا میں رہیں.آئندہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی

Page 678

خطبات طاہر جلد 13 672 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /ستمبر 1994ء - جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور ان آخرین میں وہ نہیں لکھے جائیں گے جن کا ذکر یہاں چل رہا ہے اگر کوئی ان میں کسی میں شرافت اور حیا ہے تو خدا اسے بچالے اور باقیوں کا معاملہ پھر خدا کے سپرد ہے وہ جو چاہے ان سے سلوک فرمائے.

Page 679

خطبات طاہر جلد 13 673 خطبہ جمعہ فرموده 9 ستمبر 1994ء اپنے کردار میں وہی اعلیٰ ، پاک نمو نے قائم کریں جن کی حضرت محمد مصطفی امیہ کے غلاموں سے توقع ہے.(خطبه جمعه فرموده 9 ستمبر 1994ء بمقام بیتا الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا.آج کے خطبے سے پہلے جن اجتماعات یا جلسوں کے اعلانات کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ ضلع بہاولنگر کا سالانہ اجتماع کل 8 ستمبر بروز جمعرات سے جاری ہے اور آج خطبے کے ساتھ ختم ہوگا، مجلس انصاراللہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک روزہ سالانہ اجتماع آج ہی شروع ہو کر آج ہی ختم ہوگا، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحد یہ دوبئی کے زیر اہتمام 9 ستمبر کو سیرۃ النبی کا جلسہ منایا جا رہا ہے.مجلس انصار اللہ ضلع عمر کوٹ کا سالانہ اجتماع آج سے شروع ہو رہا ہے،کل اختتام پذیر ہو گا.مجلس انصار اللہ مونٹریال کا سالانہ اجتماع 11 ستمبر بروز اتوار منعقد ہو رہا ہے.ناصرات الاحمدیہ کوئٹہ کا سالانہ اجتماع 11 ستمبر بروز اتوار منعقد ہورہا ہے.مجلس انصار اللہ ضلع حیدر آباد کا سالانہ اجتماع 11 ستمبر بروز اتوار منعقد ہو رہا ہے.مجلس انصاراللہ ضلع بدین کا اجتماع 12 ستمبر کو اور ضلع میر پور کا 13 اور 14 ستمبر بروز منگل بدھ منعقد ہوگا.اس کے علاوہ زیورک سے اطلاع ملی ہے کہ جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ کا بارہواں سالانہ جلسہ آج بروز جمعہ 9 ستمبر سے شروع ہو کر 11 ستمبر بروز اتوار تک جاری رہے گا.علاوہ ازیں صدر صاحب جماعت احمد یہ دہلی اطلاع دیتے ہیں کہ امسال پہلی مرتبہ دہلی میں 11 ستمبر 1994ء بروز اتوار مجلس خدام الاحمدیہ کا

Page 680

خطبات طاہر جلد 13 سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.674 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء یہ جو سلسلہ اعلانات کا شروع ہوا ہے اب یہ مزید جاری نہیں رکھا جا سکتا.اگر آئندہ اعلانات کرنے ہوئے تو وہ صرف ملکی اہم اجتماعات کے اعلان ہوا کریں گے یا بعض ایسے اعلانات جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ جماعتیں دلداری کی محتاج ہیں یا کسی وجہ سے ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے.دراصل یہ سلسلہ جو شروع ہوا ہے اب اس نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہے کئی دفعہ چٹھیاں ملتی ہیں، فیکسز ملتے ہیں اور باقاعدہ شکوے اور شکائتیں شروع ہو جاتے ہیں کہ آپ کو فلاں وقت فیکس دی گئی تھی آپ نے ہمارا اعلان کیوں نہ کیا.فلاں وقت اس کی تکرار کی گئی تھی پھر بھی آپ نے اعلان نہیں کیا.پھر اس کے بعد بات ختم ہونے کے بعد پھر اطلاع دی گئی اور سب ہمارے کارکن یا کارکنات ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا.ہمارے خلاف کیا بات ہے جو ہمارے اعلان نہیں ہورہے.تو یہ دعا کی درخواستیں نہیں نام و نمود کا سلسلہ بن چکا ہے جو بہت ہی مضر بات ہے اور ہمارے ایمان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا اس لئے آئندہ سے یہ سلسلہ بند ہے سوائے اس کے کہ ملکی سطح پر اہم اجتماعات یا جلسے ہوں یا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض استثناء میں تالیف قلب کی خاطر یا تالیف قلوب کی خاطر خود کروں اور اس میں کسی درخواست کا تعلق نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اگر خود میرے دل میں کسی جماعت کی دلداری کا خیال ڈالا اور جماعتی حکمت کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا تو میں خود ہی ایسا کروں گا.جو گذشتہ اجتماعات جن کا اعلان رہ گیا تھا اب ان کا اعلان بھی ایک دفعہ کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے بعد پھر یہ شکووں کے سلسلے بند ہو جانے والے ہیں.ایک گھانا کے امیر ہمارے پاس بیٹھے ہوئے ہیں مجلس خدام الاحمدیہ کھانا کا نیشنل اجتماع یکم ستمبر تا 3 رستمبر منعقد ہوا لیکن اعلان نہیں ہو سکا.لجنہ اماءاللہ کا سالانہ ضلعی اجتماع کون سی لجنہ اماءاللہ ہے نہیں لکھا ہوا.6 ستمبر کو منعقد ہوا کسی لجنہ اماءاللہ جس کا بھی ہوا تھا ان کے اجتماع کو بابرکت فرمائے (اس پر حاضرین نے آمین بلند آواز سے کہا تو حضور نے فرمایا ) باقی سب کے لئے بھی صرف اسی ایک کے لئے آمین نہیں ہے.مجلس انصار اللہ ضلع کراچی اور حافظ آباد کے سالانہ اجتماعات 6 ستمبر کو ہوئے اور مجلس انصار اللہ ضلع نواب شاہ کا اجتماع 7 ستمبر بروز بدھ منعقد ہوا.اسی طرح مجلس انصار اللہ سانگھڑ کا اجتماع 8 ستمبر یعنی کل منعقد ہوا.

Page 681

خطبات طاہر جلد 13 675 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء جو میں نے سلسلہ خطبات کا شروع کر رکھا ہے اس میں انسانی تعلقات کے دائرے پیش نظر ہیں اور انسان کے انسان سے معاملات کے حالات بہتر بنانے کی خاطر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی نصائح ہی سے استفادہ کر رہا ہوں اور آپ ہی کے الفاظ میں حتی المقدور اس پاک چلن اور پاک نمونے کی جماعت سے توقع رکھتا ہوں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے قدموں سے منسوب ہونے کا ایک طبعی تقاضا ہے.پس احادیث آپ ہی کے الفاظ میں پیش ہورہی ہیں کہیں ضروری سمجھتا ہوں تو بعض حصوں کی تشریحات یا ان سے جو مضمون نکلتے ہیں ان پر گفتگو شروع ہو جاتی ہے.حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” جہاں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.“ ”جہاں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.‘ یہ بہت ہی گہرا فقرہ ہے یعنی اس کا خیال کیوں آیا ہے کسی کو جہاں بھی تم ہو اس لئے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور یہ ایک ایسے شخص کا کلام ہے جس کو نہ صرف خدا کی ذات پر کامل یقین ہے بلکہ اس کے ہر آن حاضر ہونے کا بھی پورا یقین ہے اور اس کے بغیر یہ تصور ہی دماغ میں پیدا نہیں ہو سکتا کہ جہاں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اگر کوئی برا کام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو یہ نیکی اس بدی کو مٹادے گی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ ( عود : 115 ) کہ نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں اردو محاورے میں کہتے ہیں کھا جاتی ہیں تو اردو محاورہ تو غلط ہے کیونکہ نیکیاں بدیوں پر تو تھوکتی بھی نہیں اس لئے کھانے کا کیا سوال ہے ہاں ان کو زائل کر دیتی ہیں جیسا کہ قرآنی محاورہ ہے.جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا کیونکہ باطل کے مقدر میں ہی بھا گنا ہے.پس نیکی اور بدی کی مثال نور اور اندھیرے کی سی ہے اور حق اور باطل کی بھی یہی مثال ہے پسی یذْهِبْنَ السَّيِّاتِ ہی درست محاورہ ہے اور ہونا بھی یہی تھا کیونکہ اللہ کا کلام ہے.فرماتا ہے کہ نیکیاں آتی ہیں تو بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.اس بات کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آگے جو بات آ رہی ہے اس کا کوئی غلط نتیجہ نہ نکالے.فرمایا اگر کوئی برا کام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو.یہ سلسلہ نہ انسان چلا بیٹھے کہ بدیوں پر جرات اختیار کرے اور بدیاں کرتا چلا جائے اور کہے اس کے بعد میں کچھ نیکی کرلوں گا اور بدیاں دور ہو جائیں گی.بدی کے اثر اور اس کی عقوبت کا ذکر نہیں چل رہا یہ مضمون وہ ہے جو

Page 682

خطبات طاہر جلد 13 676 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ نیکی ہوتی ہی وہ ہے جو بدیوں کو نکال باہر پھینکے پس اگر ہر دفعہ وہی بدی کرنی ہے اور اس پر اصرار کرنا ہے اور پھر اس حدیث کا غلط معنی سمجھ کر نیکیاں کر کے اس کی عقوبت سے بچنے کی کوشش کرنا ہے تو یہ نہایت بیوقوفی ہے اس کا اس حدیث کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے.مراد ہے نیکیاں کرو خواہ بار بار بھی کمزوری ہو مگر اس وجہ سے نہیں کہ میں نیکی کر کے کمزوری ٹھیک کرلوں گا.یہ جہالت ہے یہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے لاعلمی بلکہ اس کی گستاخی کے مترادف ہے اس لئے بات کو سمجھ لیجئے مراد یہ ہے کہ اگر بدی ہوتی ہے تو اس بدی کو دور کرنے کی آپ میں طاقت نہیں ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ نیکیاں کریں اور جب نیکیاں کرتے ہیں تو نیکی کی لذت آپ پہ قبضہ کر لیتی ہے اور ایک ذاتی تعلق نیکی سے ایسا پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے مقابل پر بدی کا مزہ کم ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ بدی زائل ہو جاتی ہے.پس اگر بے اختیاری میں گناہ ہوں یا بے اختیاری میں بار بار بھی ہوں تو اس نیت سے نیکی کرنی ہے کہ اس بدی کو زائل کرنے میں نیکی سے مدد لینی ہے اور نیکیاں کرتے چلے جانا ہے یہاں تک کہ بدی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور اس کا وہی حال ہو جیسے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل سچائی کا نور جب آتا ہے تو باطل کے اندھیرے خود بخود بھاگ جاتے ہیں وہ اکٹھے رہ نہیں سکتے.پھر فرمایا اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ ( ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی معاشرۃ الناس).لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک بھی نیکی کی مثال کے طور پر بیان ہوا ہے جب یہ فرمایا کہ نیکی کرو تو اس نیکی میں ایک خوش اخلاقی اور حسن سلوک کو بھی داخل کر لیا اور یہ ایک عام نیکی ہے جس سے معاشرہ سدھرتا ہے اور معاشرے میں آپس میں تعلقات میں ملائمت ،نرمی اور شائستگی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اس کو عام دستور بنانا ضروری ہے کہ ہر ایک سے حسن سلوک کریں حسن معاملت کریں اور مسکرا کر محبت اور پیار سے بات کریں دلداریاں کریں یہ جو روزمرہ کے اخلاق کے تقاضے ہیں انہیں پورا کرنا ان نیکیوں میں داخل فر ما دیا گیا ہے جن کے ذریعہ بدیاں مٹتی ہیں.حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک ماموں تھے جو بچھو کا دم کرتے تھے حضور نے جب دم کرنے سے منع فرمایا تو وہ حضور کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ

Page 683

خطبات طاہر جلد 13 677 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء اے اللہ کے رسول آپ نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے اور میں بچھو کا دم کرتا ہوں اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے اس پر آپ نے فرمایا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو کوئی فائدہ پہنچا سکے وہ ضرور پہنچائے.مقصد یہ ہے کہ دم درود کو پیشہ بنانا جائز نہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو بیچنے کے مترادف ہے یعنی ایک قسم بیچنے کی یہ بھی ہے کہ انسان کچھ قرآن کریم کی آیات یا کچھ اور نیکی کے کلمات پڑھ کر کسی پر پھونکے اور پھر ان سے پیسے وصول کرے مگر آنحضرت ﷺ نے اس کی تشریح فرما دی ہے اگر خدا کے کلام سے تم برکت حاصل کرتے ہوئے کسی کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہواور تمہارا تجربہ بتا تا ہے کہ اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس نیکی کی غرض سے دم کرنے سے نہ رکو کیونکہ یہ اس مضمون میں داخل نہیں ہے جس کا تعلق خدا کی آیات بیچنے سے ہے.(مسلم کتاب الاسلام باب استحباب الرقیہ ).ایک اور موقع پر جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کئی دفعہ.دوصحابی کسی جگہ مشکل میں مبتلا ہوئے اور کھانے اور پانی سے محروم تھے ان کو ایک قبیلے نے اپنے دشمن قبیلے کا حصہ سمجھتے ہوئے اندر داخل ہونے سے ہی منع کر دیا مگر جب ان کے سردار کو پتا چلا جو شدید سر درد میں مبتلا تھا تو اس کو خیال آیا کہ شاید ان کے پاس کوئی ٹوٹکا ایسا ہو جس سے میں ٹھیک ہو جاؤں ان کی طرف آدمی بھگائے ان کو بلایا گیا اور پھر جب انہوں نے سورۃ فاتحہ کا دم کیا تو اس کی درد آنا فانا ٹھیک ہو گئی اس کے بعد انہوں نے جو تحفہ پیش کیا وہ انہوں نے کھایا لیکن آپس میں گفتگو ہوئی.ایک نے کہا کہ یہ حرام تو نہیں ہو گیا کہیں یعنی مجھے شک ہے اور دوسرے نے کہا کہ نہیں جائز ہے.(مسلم کتاب الاسلام حدیث:4080) آنحضرت ﷺ نے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ اس طرح دیا کہ خودان سے ایک ٹکڑا گوشت کا مانگ کر وہ بھی کھایا اور بتایا کہ ہاں ایسا جائز ہے کہ محمدرسول اللہ ﷺے کے لئے بھی جائز ہے.تو جو تقویٰ میں سب سے بڑھا ہوا ہے اگر اس کے لئے جائز ہے تو ادنی آدمیوں کے لئے کسی تردد کی ضرورت نہیں.اس حدیث کا اس حدیث سے تصادم نہیں ہے یہ میں اس وجہ سے دوبارہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ایک انسان کسی سے نیکی کرتا ہے اور وہ نیکی کے جواب کے طور پر کچھ تحفہ پیش کرتا ہے تو یہ آیات بیچنے کے دائرے میں داخل نہیں ہے.اگر ایسا ہوتا تو نعوذ باللہ رسول اکرم ﷺ نہ اجازت دیتے نہ اس میں سے خود کچھ کھاتے تو اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ ان دو باتوں میں تضاد ہے.مضمون یہی ہے کہ اس نیت سے خدا تعالیٰ کے کلام سے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچانا کہ وہ اس کے بدلے میں کچھ رقم دیں اور نہ یہ مطالبہ ہونہ

Page 684

خطبات طاہر جلد 13 678 خطبہ جمعہ فرموده 9 /ستمبر 1994ء یہ نیت ہو.ہاں فائدے کی خاطر بنی نوع انسان سے ہمدردی کے لئے جو دم آپ پڑھتے ہیں وہ سراسر جائز ہے اور پھر اگر کوئی تحفہ پیش کرتا ہے تو وہ آپ کے لئے تحفہ ہے نہ کہ اس دم کی قیمت.ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن مرہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجت مندوں، ناداروں اور غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہؓ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ وہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.ترندی کتاب الاحکام باب فی امام الرعیہ ).یہ جو حدیث ہے یہ قابل توجہ ہے اور کچھ تشریح کی محتاج ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ جو لوگوں کی ضرورتیں پوری کرے اس کی ضرورتیں خدا پوری کرتا ہے یہ تو ایک مثبت مضمون ہے جو دوسری احادیث میں بھی ملتا ہے اور اس میں کوئی اشتباہ نہیں کسی قسم کی کوئی گنجلک نہیں ہے جسے دور کیا جائے جو ایسا نہیں کرتا یعنی جو غریبوں پر اپنے دروازے بند کرے اس کی ضرورتوں کے لئے آسمان کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں یہ مضمون عام نہیں ہے کیونکہ اگر یہ مضمون عام ہو تو جتنے ایسے بد نصیب لوگ ہیں جو مال دولت والے ہیں اور اپنے دروازے غریبوں پر بند رکھتے ہیں یا وہ امیر تو میں جو اپنے اموال اور دولتوں کو غریب قوموں پر خرچ نہیں کرتیں بلکہ محض تجارتی یا سیاسی فوائد کی خاطر ان کو استعمال کرتی ہیں ان کی ضرورتیں سب بند ہو جانی چاہئیں اور ایسے سب لوگ دیکھتے دیکھتے محتاج ہو جانے چاہئیں.پس اس حدیث کے مضمون کو عام نہ سمجھا جائے میرا تجر بہ بتاتا ہے کہ جن خدا کے بندوں میں کچھ ایمان ہو جن کو اللہ بچانا چاہے ایسی سزائیں صرف ان کو دیتا ہے اور جو خدا سے دور ہیں جن سے اللہ بے نیاز ہو چکا ہے ان کو یہ سزا نہیں دی جاتی.تو بعض دفعہ سزا کا دیا جانا پیار کا اظہار ہوتا ہے اور سزا کا نہ دینا غضب کا اظہار ہوتا ہے.اس حدیث کا بھی اسی مضمون سے تعلق ہے بعض لوگ جو خدا کا ذکر بھی کرتے ہیں اس سے پیار بھی رکھتے ہیں اور اپنی بدنصیبی کی وجہ سے اتنے خسیس ہوتے ہیں کہ اس کے باوجود ان کی اصلاح نہیں ہوتی اور خدا کے بندوں پر وہ فیض بند کر دیتے ہیں جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنے فیض کے دروازے بند کرتا ہے ان کو سمجھانے کے لئے ان کو بچانے کے لئے اور کئی دفعہ ایسے لوگ سمجھ کر پھر بیچ بھی جاتے ہیں اور

Page 685

خطبات طاہر جلد 13 679 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء.جو نہ بچیں پھر وہ خدا سے ضائع ہو جاتے ہیں پس یہ وہ مضمون ہے جس کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے اور یہ صرف اسی دائرے سے تعلق نہیں رکھتا کہ ضرورتیں پوری کی جائیں بلکہ اور بھی بہت سے ایسے روز مرہ کے تجربات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جن سے نیک تو قعات رکھتا ہے ان کی ادنی لغزشوں کو بھی بعض دفعہ پکڑتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ مجھے تمہاری یہ بات پسند نہیں آئی اور ان کو ایک معمولی سی سزا دے کر سمجھا دیتا ہے اور اس کے بعد پھر ان سے غیر معمولی حسن سلوک فرماتا ہے غیر معمولی پیار سے ان کی دلداریاں کرتا ہے.یہ جو خدا کا بندوں سے تعلق ہے یہ انسانی تعلقات کے دائروں پر غور کرنے سے بھی سمجھ میں آ جاتا ہے.بعض لوگ کسی انسان کے ساتھ بدسلوکیاں کرتے چلے جاتے ہیں لیکن اس کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کوئی جواب نہیں دیتا لیکن اپنا کوئی پیارا جس پر اعتماد ہو اس کی ادنی سی لغزش سے بھی دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور پھر انسان اس سے نظر پھیرتا ہے یا اس کو وقتی طور پر سمجھانے کی خاطر کوئی اس کو نمونہ اپنی ناراضگی کا عطا کرتا ہے.یہ اس لئے کہ تا کہ وہ سمجھ جائے اور اس کے بہترین اور پاکیزہ تعلقات دوبارہ اس سے بحال ہو جائیں چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا فرمایا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ جتنی فطرت بھی انسان کو عطا ہوئی ہے وہ خدا کی فطرت یا اس کی صفات کے مطابق ہے اس کے منافی نہیں ہے.یہ مطلب بھی نہیں کہ خدا کی تمام صفات انسان میں جلوہ گر ہیں.نہ خدا کی تمام صفات فرشتوں میں جلوہ گر ہیں نہ انسان میں ہیں بلکہ خدا کی مخلوقات کے امکانات لا متناہی ہیں اور ہر مخلوق میں خواہ وہ ادنی ہو یا اعلیٰ ہو خدا کی صفات ضرور جلوہ گر ہوتی ہیں کہیں کم کہیں زیادہ.تو مراد یہ ہے کہ انسان کو اس حد استطاعت تک اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے نمونے پر بنایا ہے اور اسی نمونے کو قائم رکھنا ہی حقیقی نیکی ہے اور اس سے باخدا انسان بنتے ہیں پس جو اپنی فطرت کے خواص کو چمکاتا ہے جو الہی صفات ہیں وہ با خدا بنتا چلا جاتا ہے جو ان صفات کو نظر انداز کر کے محض خدا کے حضور ماتھا ٹیکنے کو ہی عبادت سمجھتا ہے یا زندگی کا مقصد اور صفات الہی سے آنکھیں بند کر لیتا ہے صفات الہی کے سامنے اپنی گردن نہیں جھکا تا وہ انسان دھو کے میں مبتلا ہے کہ میں عبادت کر رہا ہوں بلکہ اس کی عبادت محض ایک جسم کا جھکنا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.پس آنحضرت ﷺ جو بات فرماتے ہیں چونکہ وہ صفات الہی کا کامل مظہر ہیں اس لئے صفات الہی کے

Page 686

خطبات طاہر جلد 13 680 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء دائرے میں ہی ان باتوں پر غور ہونا چاہئے اور صفات الہی اگر براہ راست سمجھ نہ آئیں تو ان انسانوں کی پاک فطرت کے حوالے سے وہ سمجھ آسکتی ہیں جنہوں نے کسی دائرے میں اپنی فطرت کی حفاظت کی ہوئی ہے وہ جب اپنے نفس میں ڈوب کر دیکھتے ہیں اپنے تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا وہ کلام جو خدا کے بارے میں ہے سمجھ آنے لگتا ہے.ہاں ایک اور بات اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت معاویہؓ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ جب حضرت معاویہ نے یہ سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جولوگوں پر اپنے دروازے بند کرتاہے اللہ تعالیٰ آسمان پر اس کے لئے دروازے بند کر دیتا ہے تو انہوں نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی شکایات کا مداوا کرے یہ حدیث نہیں ہے یہ حضرت معاویہ کا ایک رد عمل ہے جو بیان ہوا ہے اور میرے خیال میں یہ رد عمل اس حدیث کے مضمون کے عین مطابق نہیں ہے ایک امیر آدمی کا یا ایک بادشاہ کا کسی در بان کو مقرر کر دینا، کسی ایک شخص کو مقرر کر دینا کہ لوگوں کی حاجتیں پوری کرتا پھرے یہ ہرگز اس حدیث کے منشاء کے مطابق بات نہیں ہے یہ الگ الگ مضمون ہے جو بادشاہوں کی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے ان کو ادا کرنی چاہئیں اس کا انسانی نفس سے تعلق ہے وہ شخص جس کا نفس بنی نوع انسان کی حاجت روائی کے لئے کھلا رہتا ہے جس کی فطرت کے دروازے ہمدردی کے ساتھ خدا کے مجبور اور مقہور اور معذور بندوں کے لئے کھلے رہتے ہیں اور اس کا فیض ان دروازوں سے ہمیشہ ان کے لئے جاری رہتا ہے یہ وہ مضمون ہے جس کا آسمان کے دروازے کے کھلنے یا اس کے برعکس ان کے بند ہونے سے تعلق ہے.پس وہ لوگ جو فطرتا بنی نوع انسان کی ہمدردی میں مگن رہتے ہیں ان کی فطرت ہر وقت تقاضا کرتی ہے کہ ضرورت مند کی ضرورت پوری کی جائے بیمار کو شفا بخشی جائے اور مصیبت زدگان کی مصیبت کا حل کیا جائے وہ ہیں جن کے دروازے کھلے ہیں نہ کہ وہ جو دربانوں کو ہدایت کر دیں کہ کسی کا خیال رکھو یا ملازموں کو ہدایت کر دیں.پس یہ پاک تبدیلی اگر فطرت کے اندر پیدا ہو جائے اور انسانی فطرت کے دروازے خدا کے محتاج بندوں کے لئے کھل جائیں تو اس حدیث کا جو برعکس مضمون ہے وہ بھی لازما صادق آتا ہے کہ آسمان کے دروازے ان پر کھولے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات کا خود خیال فرماتا ہے.یہ جو احادیث ہیں ان کا حوالہ میں دینا بھول گیا تھا ابوالحسن سے جو حدیث روایت ہے یہ

Page 687

خطبات طاہر جلد 13 681 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء ترندی کی ہے اور دم والی حدیث جو بیان کی تھی یہ مسلم کتاب الاسلام سے لی گئی تھی اور جہاں کہیں بھی تم ہو تقوی اختیار کرو یہ حدیث جو ہے یہ ترمذی کتاب البر سے لی گئی تھی.اب ایک حدیث امام مالک کی موطا سے لی گئی ہے.حضرت امام مالک رحمہ اللہ بکلی معرفی رضی اللہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ضحاک بن خلیفہ نے مدینہ کی ایک وادی سے پانی کی ایک نالی نکالنی چاہی تا کہ اپنے کھیت سیراب کر سکے.یہ نالی محمد بن مسلمہ کی زمین میں سے ہو کر گزرتی تھی.محمد بن مسلمہ نے اس کی اجازت نہ دی ضحاک نے اس سے کہا کہ تم کیوں روکتے ہو تمہارا بھی اس میں فائدہ ہے پہلے تم اپنی زمین کو پانی دے دینا اور بعد میں وہ بھی فائدہ حاصل کر سکتا ہے تمہارا کوئی نقصان نہیں لیکن محمد نے کہا بس میری مرضی ہے میری زمین ہے میں اجازت نہیں دیتا.ضحاک نے حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب کی خدمت میں اس مشکل کا ذکر کیا آپ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور کہا کہ وہ ضحاک کی بات مان لے لیکن محمد بن مسلمہ نے مسلسل انکار کیا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب تمہارا بھی اس میں فائدہ ہے اور نقصان نہیں ہے تو اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے سے کیوں روکتے ہو لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے اور یہ کہا خدا کی قسم میں ان کو ہرگز اجازت نہیں دوں گا یعنی خدا کی قسم کھالی تا کہ حضرت عمر اس نام کے خیال سے مزید اصرار نہ کریں.اب پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ خدا کی اگر قسم کھائی جائے تو اس پر وہ جو خدا کی محبت رکھتا ہے یا خدا کا غیر معمولی احترام دل میں رکھتا ہے وہ تو رک جایا کرتا ہے.کیا حضرت عمر اس قسم کی وجہ سے رک گئے؟ ہر گز نہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ نالی اگر تمہارے پیٹ پر سے بھی گزارنی پڑے تو میں اسے ضرور جاری کرواؤں گا اور جاری کروائی کہ تم ہوتے کون ہو بنی نوع انسان کے فوائد کی راہ میں حائل ہونے والے؟ اب اس مضمون میں دوباتیں ہیں جو قابل توجہ ہیں ایک موقع پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے کا عقد کسی سے ہوا.یہ وہ بدنصیب خاتون ہیں جو پھر ازواج مطہرات میں داخل نہیں ہوسکیں اور صلى الله آنحضور ﷺ جب کمرے میں داخل ہوئے تو اس نے کہا کہ میں خدا کے نام پر تمہیں اپنے پاس آنے سے روکتی ہوں.آنحضور ﷺ نے اسی وقت قدم روک لیا اسی وقت دروازے سے باہر چلے گئے اور وہ معاملہ ایسے ہو گیا جیسے وہ کالعدم تھا اس کا کوئی وجود نہیں تھا تو جہاں خدا کے نام کی عزت کا تعلق ہے جہاں تک کسی شخص کے اپنے ذاتی حقوق کا تعلق ہے جن کو اللہ کے نام کی غیرت ہے اس سے محبت ہے

Page 688

خطبات طاہر جلد 13 682 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء وہ ایک ذرہ بھی اس کے بعد اصرار نہیں کرتے جس پر ان کو خدا کے نام سے روکا جارہا ہو لیکن جہاں خدا کی مرضی کے خلاف اللہ تعالیٰ کا نام استعمال ہورہا ہو جہاں ان باتوں میں اللہ کا نام استعمال کیا جائے جہاں خدا نے حق نہیں دیا وہاں محض خدا کے نام کی خاطر رکھنا اللہ تعالیٰ کے نام کی عزت افزائی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مخالف حرکت کرنا ہے.پس یہ جو دو حدیثیں ہیں ان سے کوئی شخص تصادم سمجھتے ہوئے یہ نہ سمجھے کہ رسول اکرم نے تو ایسا نمونہ دکھایا تھا اور حضرت عمر خلیفہ ہونے کے باوجود خدا کا نام سننے کے بعد بھی رکے نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ مجھے تمہارے پیٹ پر سے بھی نالی گزارنی پڑی تو ضرور نکالوں گا.یہ بہت ہی اہم بات ہے.حضرت عمر کا یہ فیصلہ آنحضرت ﷺ کے مزاج کے مطابق ہے اور قرآنی تعلیم کے مطابق ہے ایک بھائی دوسرے بھائی کو جو فائدہ پہنچا سکتا ہے اس سے نہیں رکنا چاہئے لیکن اگر وہ اپنے عام معاملات میں رکتا ہے تو یہ الگ مسئلہ ہے لیکن جہاں تک انسان کے انسان پر حقوق ، ریاست سے تعلق رکھتے ہوں جہاں ان حقوق میں ریاستی دستور کا مضمون داخل ہو جائے اور ایک Civil Right کا مضمون ہو وہاں ریاست کے مالک کا یا حکمران کا فرض ہے کہ Civil Right کو خدا کی تعلیم کے مطابق جاری کرے.پس آج کل ہمارے ملکوں میں یہ ہوتا ہے بعض دفعہ ایک امیر آدمی کے کھیت سے کسی غریب آدمی کی نالی نکلنی ہوتی ہے وہ گورنمنٹ منظور بھی کر لیتی ہے وہ انکار کر دے تو کچھ پیش نہیں جاتی حالانکہ اگر حقیقی اسلامی روح ہو تو حکومت کا فرض ہے کہ یہ جائزہ لے کہ اگر کسی بھائی کا فائدہ پہنچ رہا ہے اور کسی کا معمولی نقصان ہے جو ایک نالی نکالنے کے نتیجے میں طبعا ہونا ہے تو اس کو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ روک دے.میرے پاس ایک دفعہ ایک شکایت ملی چند احمدی گھرانوں کی طرف سے کہ فلاں احمدی دوست ہیں اچھے بھلے کھاتے پیتے اور صاحب حیثیت ، ہم نے حکومت سے نالی منظور کروائی وہ اجازت نہیں دیتے تو میں نے ان سے پتا کر وایا تو بات وہی تھی کہ معمولی نقصان کی خاطر ایک بھائی کے بڑے فائدے سے ان کو روکا جار ہا تھا تو میرے پاس تو ریاستی اختیارات نہیں ہیں مگر میں نے ان کو پیغام بھجوا دیا کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو میرے آپ سے ذاتی تعلقات ٹوٹ جائیں گے اور اس کے علاوہ میں جماعت کو کہوں گا کہ ہر ممکن اس شخص کی مدد کرے اور جہاں تک

Page 689

خطبات طاہر جلد 13 683 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 /ستمبر 1994ء جماعت کا زور چلا ہم ضرور کروا کے چھوڑیں گے.اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کام ہوا یا نہیں مگر اس کے بعد دونوں کی طرف سے مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی.تو میں یہ بات اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ زمیندارہ، چھوٹی چھوٹی گھٹیا باتیں جماعت کے اعلیٰ کردار کے مخالف اور معاند ہیں.مخالف اور معاند اس لئے کہ جماعت کے دوسرے اخلاق کو بھی یہ بداخلاقیاں چاٹ جاتی ہیں اور ان کی دشمن ہو جاتی ہیں پس اس لئے جماعت کو اپنے کردار میں وہی اعلیٰ پاک نمونے قائم کرنے چاہئیں جن کی حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے غلاموں سے توقع ہے اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ اس کا اسی مضمون سے تعلق ہے.خدا تعالیٰ نے بڑی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے ان لوگوں سے جو نمازیں پڑھنے کے باوجود بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے معاملے میں اپنی مٹھیاں بند کئے رہتے ہیں اور ماعون سے مراد ماء پانی والا ماء نہیں ہے بلکہ عین سے ہے.ماعون.يَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ کا مطلب ہے روز مرہ کی ہمسایوں کی ضرورتیں چھوٹی موٹی باتوں میں جہاں تکلیف ہوتی ہے ہمسائے کو.کوئی حاجت روائی کے لئے آ جاتا ہے یا کوئی آٹا مانگ لیا، کسی وقت کوئی آگ طلب کر لی.یہ وہ چیزیں ہیں جو ماعون سے تعلق رکھتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ مصلی ، وہ نماز پڑھنے والے جن کے کردار کا یہ عالم ہو کہ اپنے بھائیوں کے چھوٹے چھوٹے فائدے بھی روک دیں یہاں ان کے حقوق کا سوال نہیں ہے اپنی ملکیت سے معمولی فائدہ بھی لوگوں کو نہ پہنچائیں فرمایا ان پر ہلاکت ہے.وَيْلٌ لِّلْمُصلین ایک ہی جگہ ہے جہاں نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ڈالی گئی ہے اور وہ یہ جگہ ہے الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ فرمایا اس لئے کہ وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن نماز کے مضمون سے غافل ہیں.اس کی غرض و غایت سے بے خبر ہیں.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نمازیں محض دکھاوے کا ذریعہ بن جاتی ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور پھر نیچے یہ نماز کے فیض سے ایسے محروم رہ جاتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے اپنے فیوض سے بھی اپنے بھائیوں اور اپنے ہمسایوں کو محروم رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر آسمان کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور یہاں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا وہ لوگ مراد ہیں جو نمازیں پڑھ کر بظاہر خدا کے حکم کی اطاعت بھی ضروری سمجھ رہے ہیں اور دین سے بے تعلق نہیں ہوئے کچھ نہ کچھ تعلق اللہ سے موجود ہے، ان کو سزا پھر ملتی ہے اور بعض دفعہ تو ہلاکت کی سزا ملتی ہے.جیسا کہ

Page 690

خطبات طاہر جلد 13 684 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 /ستمبر 1994ء اس آیت میں ہے یعنی وہ بالکل کائے جاتے ہیں ان پر دروازے آسمان کے روز مرہ کے بند نہیں کئے جاتے جہاں ویل کا لفظ آ گیا وہاں یہ مضمون ختم ہو جاتا ہے لیکن ایسے لوگ ذرا ادنی بیماری میں مبتلا ہوں عبادتیں بھی کر رہے ہوں اور ان کمزوریوں میں بھی مبتلا ہو جائیں اگر اللہ ان کو بچانا چاہے تو ان سے اپنے ہاتھ روک لیتا ہے اور پھر اس طرح ان کو سبق ملتا ہے اور جو خوش نصیب ہیں وہ بیچ بھی جاتے ہیں.خادموں اور مزدوروں سے حسن سلوک کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے یہاں ذاتی نوکروں کا رواج تو کم ہے یعنی یورپ میں لیکن ہمارے تیسری دنیا کے ممالک میں یہ عام رواج ہے اور ان سے جو سلوک ہوتا ہے وہ بہت ہی نا قابل برداشت ہے اور ہرگز اسلامی سلوک سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے وہ غیر اسلامی سلوک ہے جو ہمارے معاشرے میں اکثر کیا جاتا ہے.نوکروں سے بسا اوقات ،سخت کام ایسے لئے جانا کہ جو عام روز مرہ کی طاقت سے بڑھ کر ہوں یہ ظلم ہے یہ اگر جانوروں سے بھی کیا جائے تو تب بھی اس کی اجازت نہیں ہے اور آنحضرت ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے.ایک موقع پر ایک اونٹ کی حالت خراب دیکھی تو آپ نے بہت سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ اس کا مالک اس پہ ظلم کرتا ہے اور پھر اس نے اس کو آزاد کیا اپنی بخشش کی خاطر اور فرمایا کہ یہ تو ظلم کی شکایت کر رہا ہے اپنے مالک کے خلاف.تو اگر آنحضرت میلہ کا فیض جانوروں پر بھی اسی طرح جاری ہے تو نوکروں اور روزمرہ کے گھر کے ملازموں کو جو انسان ہیں ان کے لئے تو آنحضرت ﷺ کی رحمت بدرجہ خاص جوش میں آتی ہے اور کثرت سے ایسے پاک نمونے ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ اپنے صحابہ میں اپنے ماتحتوں سے غیر معمولی حسن سلوک دیکھنا چاہتے تھے اس کی چند مثالیں کچھ نصیحتیں ہیں جو میں نے چینی ہیں، ایک ان میں سے ہے جو مسلم کتاب الایمان سے لی گئی ہے.حضرت معرور بن سویڈ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر کو ایک خوب صورت جوڑا پہنے ہوئے دیکھا.ان کے غلام نے بھی ایسا ہی جوڑا پہن رکھا تھا.میں نے تعجب سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں انہوں نے اپنے غلام کو برا بھلا کہا اور اس کی ماں کے عیب بیان کر کے اسے شرم دلائی.حضور اکرم ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا تم میں جہالت کی رگ باقی ہے یعنی یہ جہالت کی حرکت ہے یہ غلام تمہارے بھائی ہیں وہ

Page 691

خطبات طاہر جلد 13 685 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء تمہارے خادم ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری نگرانی میں دیا جس شخص کے ماتحت اس کا بھائی ہو وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے اپنے غلاموں سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لے اگر تم کوئی مشکل کام ان کے سپرد کر دو تو اس کام میں خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ اور ان کی مدد کرو (مسلم کتاب الایمان باب اطعام الملوک مما یا کل ولباسه مما یلبس ).یہ جو تر جمہ ہوا ہے میرے نزدیک اس میں کچھ کمزوری ہے قرآن کریم کی آیت مِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ کا مضمون ہے دراصل جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا ہے اور دوسری حدیثیں اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ مراد نہیں ہے کہ بعینہ وہی کھانا کھلایا جائے ، بعینہ وہی کپڑے پہنائے جائیں بلکہ مراد یہ ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں بات مزید کھولی جاچکی ہے کہ ان کو وہ کھانا بھی کھلایا کرو جو تم کھاتے ہو یعنی ضروری نہیں کہ سو فیصدی وہی کھانا کھلایا جائے مگر اس کھانے سے محروم نہیں رکھنا اور اگر زیادہ نہیں تو کچھ تو ضرور ان کو اس میں سے دو تا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی ہانڈی الگ پک رہی ہے اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہمارے مالک کیا مزے اڑا رہے ہیں.پس جو کھانا اچھا پکتا ہے اس میں سے کچھ ان کو بھی ضرور دو اور جو کپڑے تم اچھے پہنتے ہو کچھ ان کو بھی ایسے پہنا دیا کرو تا کہ وہ ان نعمتوں میں تمہارے کچھ شریک ہو جائیں.یہ وہ مضمون ہے جو مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے تابع ہے اور آنحضرت ﷺ کی تمام نصیحتیں چونکہ قرآن پر مبنی ہیں اس لئے بعض احادیث کی تشریح ان قرآن کی آیات میں مل جاتی ہے جہاں سے وہ مضمون اخذ فر مایا گیا ہے.پس کوئی یہ نہ سمجھے کہ اگر بالکل سو فیصد، برابر، بعینہ وہی کھانا اور وہی کپڑے نہ پہنائے گئے تو نعوذ باللہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہو جائے گی بلکہ صلى جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوسری احادیث میں یہ مضمون خوب کھولا جا چکا ہے.عام طور پرحسن سلوک کرنا اور حتی المقدور اپنی نعمتوں میں اپنے غریب بھائیوں کو شریک کرنا خصوصیت سے ان ملازموں کو جو گھر میں رہتے ہیں.موسم کے پھل آتے ہیں تو ان کو بھی کھلائے جائیں اچھے کھانے پکتے ہیں تو ان کو بھی وہ کھلائے جائیں تا کہ وہ اپنے آپ کو ادنی مخلوق نہ سمجھیں اور آپ کو خدا تعالیٰ ایک متکبر کے طور پر رڈ نہ کر دے اور اپنی نظر سے گرانہ دے.پس جو اپنے خادموں اپنے نوکروں کی عزت افزائی خدا کی خاطر کرتا ہے اس کی عزت افزائی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کی نصیحت فرمائی گئی ہے اور حضرت ابو ذر چونکہ

Page 692

خطبات طاہر جلد 13 686 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء اس مضمون میں غیر معمولی شدت اختیار کر گئے تھے اس لئے آپ کی احادیث میں کچھ ایک طرف جھکا ہوا مضمون نظر آتا ہے اور حضرت ابو ذر کی حدیث میں نے اس لئے آپ کے سامنے رکھی ہے تا کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ مختلف صحابہ آنحضرت ﷺ کی نصائح سے مختلف اثر قبول کیا کرتے تھے.بعض اپنے مزاج کی وجہ سے ایک انتہاء کی طرف مائل ہو جاتے تھے اور اس مضمون کو پیش کرتے وقت ان کا یہ طبعی رجحان جو ہے ان کے کلام پر اثر انداز ہو جا تا تھا.اسی لئے بعض مسلمان اشتراکی ،حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دنیا کا پہلا اشترا کی قرار دیتے ہیں اور بڑے فخر سے یہ نام پیش کرتے ہیں.ایک دفعہ لاہور میں ایک ایسے ہی اشتراکی سے میری گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ اسلام تو نہ صرف یہ کہ اشتراکیت کا قائل بلکہ اسلام ہی نے اشتراکیت پیش کی ہے اور پہلا اشترا کی مارکس نہیں تھا بلکہ ابو ذر غفاری تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دوسری باتوں میں بہت زیادہ اس بارے میں حد سے تجاوز کر دیا اور اپنے رہن سہن میں بھی انہوں نے اتنا زیادہ برابری کا تصور پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے اندر دوسری جگہ دکھائی نہیں دیتا تھا.پس اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ابوذر نے جو بات بیان کی اصل میں وہ درست تھی کہ نہیں.اس بات میں پڑنے کی ضرورت ہے کہ جو ابوذر نے ان باتوں کو سمجھا کیا باقی صحابہ نے بھی وہی سمجھا.کیا حضرت ابو بکر نے بھی وہی سمجھا.حضرت عمر نے بھی وہی سمجھا، حضرت عثمان نے بھی وہی سمجھا، حضرت علی نے وہی سمجھا.اگر سب نے ہی سمجھا تو پھر ایک ابو ڈر نہیں مدینے کی ساری سوسائٹی ابوذروں میں تبدیل ہو جانی چاہئے تھی مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کے سوا کسی صحابی کو رسول صلى الله اللہ اللہ کے ان مطالب کی سمجھ نہ آئی ہو اور آنحضور یہ صرف ایک ابوذر پیدا کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے ہوں.پس صحابہ کو آپس میں ٹکرانے کی بھی ضرورت نہیں ہے حدیثوں پر جہاں صحابہ کے عمل میں تضاد دکھائی دے وہاں گنجائش موجود ہے، یہ بات سوچنے کی کہ ہم اپنی اپنی سوچوں کے مطابق نیکی کے ساتھ اگر ایک رد عمل دکھاتے ہیں تو اگر وہ دوسروں سے مختلف بھی ہو اور بظاہر غلط بھی دکھائی دے،اگر نیک نیتی اس کا موجب بنی ہوئی ہے تو ہم دوسروں کے لئے تقلید کا نمونہ تو نہیں بنتے مگر گنہگار بھی نہیں بنتے.پس ابوذر غفاری نے جو غلطیاں کیں وہ اس کے گنہگار نہیں ہیں ان کا ایک مزاج تھا جس نے

Page 693

خطبات طاہر جلد 13 687 خطبہ جمعہ فرموده 9 ستمبر 1994ء ایک بات کو جیسے سمجھا ویسے اس پر عمل کر کے دکھا دیا لیکن وہ تقلید کے لائق نہیں ہیں کیونکہ تقلید کے لائق صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ نمونہ ہے جو صحابہ میں ایک عمومیت اختیار کر گیا ہے اور صحابہ کی سوسائٹی میں وہ نمونہ سرایت کر گیا تھاوَ الَّذِینَ مَعَہ جس کے متعلق فرمایا ہے یہ نہیں فرمایاوَ الَّذِي مَعَهُ کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور وہ ایک ابوذر جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا بلکہ فرمایا وَ الَّذِينَ مَعَهُ وه تمام صحابہ رضوان اللہ میھم جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ان کا نمونہ پکڑو.صلى پس اس وضاحت کی خاطر میں نے خصوصیت سے یہ حدیث آپ کے سامنے رکھی اور اسے کھول دیا مگر آنحضرت ﷺ کا اپنا اسوہ حسنہ صرف گھر میں نوکروں سے نہیں بلکہ بیویوں سے بھی ، دوسرے عزیزوں سے بھی یہی تھا کہ ہر مشکل کام میں ان کے ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور جو خود کھاتے تھے اس سے اپنے غلاموں کو بھی کھلایا کرتے تھے اور حسن سلوک ایسا تھا کہ غلام بھی اپنے بیٹوں کی طرح گھر میں زندگی بسر کرتے تھے.مگر یہ اخلاق کے وہ اعلیٰ پاک نمونے ہیں جن کو عامتہ الناس کے لئے لازم اور فرض قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں مختلف درجات سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں اگر آپ نے بہت اعلیٰ درجے کی نیکی کرنی ہو تو پھر وہی نمونہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے اپنے غلاموں اور ماتحتوں سے اختیار فرمایا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے یہ بخاری کتاب العتق سے لی گئی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں کسی کا نوکر کھانا تیار کر کے لائے تو تم اسے اپنے پاس بٹھا کر نہ کھلا سکو تو کم از کم دو لقمے تو اسے کھانے کو دے دو.اب حضرت ابو ہریرہ نے بھی یہ باتیں سنی تھیں اور ان کا ایک متوسط مزاج تھا اس مزاج نے جو بات سمجھی وہ ابو ذرغفاری والی نہیں بلکہ ایک اور بات ہے اور یہی نمونہ صحابہ کی زندگی میں ہمیں دکھائی دیتا ہے اور یہی مضمون ہے جو مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے عین مطابق ہے فرمایا کہ تم روز مرہ اگر اس کو ساتھ نہیں بٹھا سکتے تو کوئی گناہ نہیں ہے بعینہ وہی کھانا نہیں کھلا سکتے تو گناہ نہیں مگر کچھ تو کھلا ؤ تا کہ خدا نے جو کچھ تمہیں نعمتیں عطا کی ہیں اس خدا کی ہدایت کے مطابق ان میں سے اپنے کمزور بھائیوں کا بھی تو کچھ حصہ ڈالوا نہیں اس میں سے کچھ عطا کرو.پس یہ ہے وہ مفہوم جو حضرت ابو ہریرہ نے سمجھا اور بیان کیا کہ اپنے پاس بٹھا کر نہ کھلا سکو تو کم از کم ایک دو لقمے تو اسے کھانے کو دے دو کیونکہ

Page 694

خطبات طاہر جلد 13 688 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء اس نے یہ کھانا محنت کر کے تمہارے لئے تیار کیا ہے جس میں اس کا بھی حق ہے.یہاں حق کہہ کر یہ فرما دیا گیا کہ تم جب ایسا کرو گے تو احسان نہیں ہو گا بلکہ تمہارے خادموں کا حق ہے کہ کچھ نہ کچھ اس میں سے ان کو ضرور دیا جائے اور جہاں تک ساتھ بٹھانے کا تعلق ہے اس کے متعلق بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میں نے سنا تھا مجھے اب حدیث کا حوالہ یاد نہیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ساتھ کئی دفعہ محن میں ٹہلتے ٹہلتے رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی بہت پیارے انداز میں باتیں فرمایا کرتے تھے اس لئے مجھے یاد ہے کہ مجھے آپ نے فرمایا کہ دیکھورسول اللہ ﷺ کا منشاء یہ تھا کہ اگر تم اپنے نوکر کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتے تو کبھی کبھی ایسا کیا کرو کہ تم خدمت کیا کرو اور نوکر میز پر بیٹھے ہوں اور کبھی کبھی الله یہ کیا کرو کہ جو تم کھانا اچھا پکاتے ہو اپنے لئے ، وہ نوکروں کے لئے پکوا ؤ اور ان کو Serve کرو.چنانچہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ نہیں بارہا مجھ سے یہ بات اس طرح بیان کی تاکہ میرے دل پر ، دماغ پر نقش ہو جائے لیکن ہمارے معاشرے میں اس پر عمل بڑا مشکل ہے کیونکہ جب میں نے کوشش کی بارہا تو کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر نو کر بھاگتے تھے اور بعض ہنس پڑتے تھے کہ یہ ہم سے مذاق ہو رہا ہے.میں نے حوالے دیے منتیں کیں کہ دیکھو رسول اللہ اللہ کے منشاء کو پورا کرنے کی خاطر، مجھے ثواب دینے کے لئے خدا کے لئے مان جاؤ مگر ان سے ہوتا نہیں تھا.اور اس میں ان کا قصور نہیں، یہ معاشرے نے لمبے عرصے تک ان کی فطرتوں کو ایک قسم کا مسخ کر دیا ہے وہ سمجھتے ہیں ہم اس لائق ہی نہیں ہیں.یہ معاشرے کا ظلم اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہمیں اسے بدلنا چاہئے اور جماعت احمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ رفتہ رفتہ کوشش کر کے وہ اس چیز کو بدلیں چنانچہ میں کسی حد تک خدا کے فضل سے کامیاب بھی ہوا.بعض دفعہ ان کو ضرور بٹھایا لیکن بار بار ایسا نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ انہوں نے صاف انکار کر دیا لیکن کچھ نہ کچھ عادت ضرور ڈالنی چاہئے اپنے کپڑوں جیسے کپڑے بنوا کے دینے چاہئیں اور یہ تو صحابہ میں عام رواج تھا.حضرت علیؓ سے بھی روایت ہے دوسرے اور بھی بزرگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بعض دفعہ کپڑا طلب کرنے گئے ہیں دکاندار سے تو ایک کی بجائے دو جوڑے کٹوائے جب دکاندار نے پوچھا کہ آپ کو ایک ہی کافی ہے، ایک طرح کا دوسرے رنگ کا لے لیجئے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں میں دوسرا اپنے غلام کے لئے لے رہا

Page 695

خطبات طاہر جلد 13 689 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1994ء ہوں.تو صحابہ میں یہ رواج تھا اور اچھا کپڑا نوکر کو پہنانا یہ خوبی کی بات ہے اور اسی طرح اچھا کھانا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کچھ نہ کچھ روز مرہ دینا چاہئے اور کبھی کبھی پورا ، بھر پور اچھا کھانا پیش کرنا چاہئے ، اچھا پھل پیش کرنا چاہئے تا کہ ان کو یہ پتا لگے کہ ہمارے خدا نے ہمارا خیال رکھا ہے.یہ اس لئے میں نے فقرہ بولا ہے تا کہ آپ کو اس مضمون کا فلسفہ بھی سمجھ آ جائے اس لئے نہیں آپ نے دینا کہ آپ کے حسن خلق کا اس پہ اثر پڑے بلکہ اس لئے دینا ہے کہ ان کو یہ معلوم ہو کہ ہمارے خدا نے اسلام میں ایسی پاک تعلیم عطا فرمائی ہے کہ ہم جیسے ادنی ادنی غریبوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے جب ایسے کمزوروں کی خدمت کرتے ہیں اور وہ شکریہ ادا کرتے ہیں تو کہتے ہیں لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا کہ ہم نے تو اللہ کی خاطر کیا ہے اللہ کا شکر یہ ادا کرو ہم تو تم سے شکر یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کیونکہ اگر ہم نے خدا کی خاطر کیا ہے تو پھر ہمیں وہ اجر دے گا اور اگر تمہاری خاطر کیا ہے تو تم شکریہ کر کے ہمارا اجر برباد کرو گے.اس لئے تم بھی خدا کا شکریہ ادا کرو ہم بھی خدا کے شکر گزار ہوتے ہیں.یہ وہ معاشرہ ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ساری دنیا میں اسے قائم ہونا ہے اور لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم میں یہ مضمون داخل ہیں.محض اسلام کی تعلیم کا فتح مند ہو جانا اور لوگوں کا اسلام قبول کر لینا محض اپنی ذات میں کافی نہیں ہے یہ باتیں اسلام کی، یہ حسن ہے، جب یہ آپ کے ذریعے پھیلے گا اور دنیا کے قلوب پر فتح حاصل کرے گا اور دنیا میں یہ اسلامی معاشرہ پھیلے گا تب ہم سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں سے وہ کام لیا جس کی چودہ سو سال پہلے خوشخبری دی تھی که وأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ایسے بھی ہیں بعد میں آنے والے جو حضرت محمد مصطفی اے کے کردار کی غلامی سے اولین سے جاملیں گے اور اللہ تعالیٰ کی ان پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 696

690 خطبات طاہر جلد 13

Page 697

خطبات طاہر جلد 13 691 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء حضرت محمد مصطفی احمد ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے.راولپنڈی میں احمدیہ مسجد کو مسمار کر دیا گیا.( خطبه جمعه فرمودہ 16 ستمبر 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.آج جو ملکی سطح کے اجتماعات ہو رہے ہیں ان میں ایک مجلس خدام الاحمدیہ یو.کے کا سالانہ اجتماع ہے.جو انشاء اللہ دو پہر کو شروع ہو کر یعنی آج جمعہ کے روز شروع ہو کر تین دن تک جاری رہے گا.مجلس خدام الاحمدیہ کوریا کا دوسرا اجتماع 19 ستمبر کو شروع ہو کر دو دن جاری رہے گا.یہ حکمت سمجھ نہیں آئی کہ کیوں انہوں نے پیر کے دن یعنی سوموار کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے.عام طور پر تو جمعہ کے آخر پر رکھتے ہیں اور ہفتے اتوار کی چھٹیوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر مقامی حالات میں یہ مصلحت کا تقاضا ہوگا بہر حال یہ دو ملکی سطح کے ہمارے اجتماعات ہیں ان کی کامیابی کے لئے دعا کریں اور اس کے علاوہ چھوٹی سطح پر ہندوستان میں کیرالہ، پھر پشاور پاکستان میں اور بہت سے ایسی جگہیں ہیں مثلاً مظفر گڑھ وغیرہ جہاں کے مقامی اجتماعات ہو رہے ہیں ان سب کو میں السلام علیکم کہتا ہوں اور مبارک باد دیتا ہوں.اللہ کرے کہ آپ ان مبارک اجتماعات کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرسکیں.آج کا جمعہ پاکستان کی احراری مساجد میں اور وہ جو احراری مزاج کے ملاں ہیں جن مساجد پر وہ قابض ہیں ان مساجد میں ایک جشن کا سا دن ہے اور آپ کو تعجب ہوگا کہ کوئی ایسی خوش خبری تو آپ نے ان کے لئے دیکھی نہیں کہ جس کے ذریعے ملک گیر ایسا جشن منایا جارہا ہو.لیکن یہ

Page 698

خطبات طاہر جلد 13 692 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء ویسا ہی جشن ہے جیسے بابری مسجد کے انہدام پر ہندو پنڈتوں نے جشن منایا تھا اور بڑی تعداد میں مشرکوں نے ہندوستان میں جشن منایا تھا.کل ایک بابری مسجد ہی کا واقعہ راولپنڈی کی احمد یہ مسجد سے دہرایا گیا ہے.وہ عید گاہ کے اوپر جو بڑی عبادت کی غرض سے عمارت تعمیر کی گئی تھی تاکہ ساری پنڈی کی جماعت ایک جگہ ہو کر جمعہ اور دیگر بڑی عبادتوں کے فرائض سرانجام دے سکے.کل اسے اسی طرح منہدم کیا گیا جس طرح بابری مسجد کو منہدم کیا گیا.بیرونی دیوار کی اینٹیں بھی اسی طرح ہٹا دی گئیں، جو سرونٹ کوارٹرز تھے ان کو بھی منہدم کر دیا گیا.غرضیکہ کلی وہاں سے ہر عمارت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی اور یہ وہ واقعہ ہے جس کا جشن منایا جا رہا ہے.پس اس لئے جب میں نے کہا کہ اس جشن کے پیچھے ایک وجہ موجود ہے تو وہ بالکل وہی وجہ ہے جو ہندوؤں کے جشن منانے کے پیچھے تھی، مشرکوں کے جشن منانے کے پیچھے تھی ، جب انہوں نے ایک مسجد کو منہدم کیا تھا.اب ان کے درمیان فرق کیا ہے.بظاہر ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اور ایک وہ ہیں جو کھلم کھلا ایک خدا کا انکار کرتے اور بتوں کی پرستش کرتے ہیں اس لئے ان کا اپنے مسلک کے مطابق کسی ایک خدا کی عبادت کرنے کی جگہ کو منہدم کرنا تعجب انگیز نہیں ہے.ان کا مذہب غلط ہی ان کے مذہب کا حصہ ہے.یہاں مذہبی اقدار کے بالکل منافی ان کو پاؤں تلے روندتے ہوئے وہ ظلم کیا گیا جو قرآن کریم کے نزدیک سب سے بڑا ظلم ہے اور پھر اس پر جشن منایا جارہا ہے.یہ حکمت مجھے سمجھ آئی کہ کیوں آنحضرت ﷺ نے آنے والے زمانے کے پنڈتوں کو دنیا کی سب سے ذلیل مخلوق قرار نہیں دیا بلکہ علمانُهم مسلمان کہلانے والوں کے علماء کے متعلق فرمایا کہ ان کے علماء آسمان کے نیچے شر من تحت اديم السماء (مشكوة كتاب العلم : 38) جتنی بھی مخلوقات ہیں ان میں سب سے ذلیل ترین اور کمینی ترین مخلوق اس زمانے کے علماء ہوں گے، تو حکمت واضح ہے.ورنہ بابری مسجد کا بھی کوئی ذکر اشارہ کسی حدیث میں ملتا.مشرکوں نے جب ایسی ظالمانہ کارروائیاں کی ہیں ان کا بھی کوئی اشارہ نظر آتا مگر چونکہ ان کے مذہب کے عقائد میں یہ باتیں داخل ہیں اس لئے اس کو منافقانہ حرکت بہر حال نہیں کہہ سکتے.مگر ایک خدا کی عبادت کرنے کے دعویدار ہو کر اس قرآن کا مطالعہ کرنے کے باوجود جس میں یہ لکھا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا (البقره: 115 ) ان بدبختوں سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو مسجدیں اجاڑنے کی فکر کرتے ہیں.ان کو اجاڑیں اور جب ان

Page 699

خطبات طاہر جلد 13 693 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء میں کوئی نماز پڑھنے لگے تو اس پر ان کو طیش آئے ، نمازیوں کی راہیں روکیں اور پھر مسجدوں کو ویران کر دیں، سَعَى فِي خَرَابِهَا تو ایسی سعی پہلے بھی کی جاچکی ہے.مردان میں بھی ہوئی ، را ہوالی میں بھی ہوئی، گجرات میں بھی ہوئی.بہت سی پہلے کوششیں ہو چکی ہیں.جھنگ میں بھی احمدی مساجد جلائی گئیں مگر یہ ایک خاص انداز کی ایک نمایاں کوشش ہے جو ان سب سے ممتاز ہے کیونکہ پاکستان جس کو دولت اسلامیہ کہا جاتا ہے.خداداد مملکت پاکستان اس مملکت کی راجدہانی میں حکومت کے سائے تلے اس کے اشاروں کے تابع ، اس کی نگرانی میں با قاعدہ وہاں کی بلدیہ نے یہ کام کروایا ہے.ہندوستان کے واقعہ اور اس میں ایک یہ بڑا فرق ہے.وہاں کی مشرک عدالتوں نے آخر وقت تک تمام ہندو دباؤ کے باوجود یہ اپنا انصاف کا فیصلہ برقرار رکھا کہ کسی قوم کوکسی کی عبادت گاہ منہدم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.یہاں مومنانہ عدالت نے ان ظالموں کو جن کو رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ شر من تحت اديم السماء ان کے دباؤ کے نیچے آ کر یہ پاکستان کی مومنانہ عدالتوں کا فیصلہ ہے اور اس کے پیچھے سازشیں ہوئی ہیں، کس حد تک حکومت دخل دیتی رہی یا دے سکتی ہے؟ یہ باتیں تو ہمیں کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب حکومت اترتی ہے تو اپوزیشن بن جاتی ہے.جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو حکومت ہو جاتی ہے.دونوں ان ادلتے بدلتے حالات میں حکومت پر یہی الزام لگاتے ہیں کہ عدالتوں کو حکم دے کر، عدالتوں سے رابطہ کر کے، ان سے سازش کر کے فیصلے کئے جاتے ہیں.ابھی نواز شریف صاحب کا ایک بیان شائع ہوا ہے آج ہی کے اخبار میں کہ حکومت عدالت سے ساز باز کر کے کسی عدالت کو اس بات پر مقرر کر چکی ہے کہ نواز شریف صاحب کو ضرور پھنسایا جائے.تو جب یہ آپس میں ایک دوسرے پر یہ الزام تراشیاں کر رہے ہیں تو یہ ذمہ دار ہیں ثبوت پیش کرنے کے.ہمیں اس جھگڑے میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں ہم ایک فریق نہیں رہے.یہاں ایک فریق خدا ہے اور دوسرا فریق بندوں کا ہے تو جہاں ہم فریق نہیں ہیں وہاں ہم بے وجہ کیوں اس معاملے میں ٹانگ اڑائیں.یہ تقدیر خدا کی ہے جو چلے گی اور اسی نے فیصلہ کرنا ہے.جہاں تک مومن کی ذات کا تعلق ہے، حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کے بچے غلاموں کا تعلق ہے، ان کو ایک خوش خبری دی گئی ہے کہ خدا کی ساری زمین تمہارے لئے مسجد بنادی گئی ہے (مسلم کتاب المساجد حدیث: 815) اس لئے احمدیوں سے مسجد نہیں چھین سکتے جو مرضی ہے کر لیں، ناک رگڑ لیں جو کچھ بھی ان کے اختیار میں

Page 700

خطبات طاہر جلد 13 694 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء ہے ہر وہ حربہ استعمال کر دیکھیں محمد رسول اللہ کے بچے غلاموں سے یہ بد بخت مخلوق مسجد کا حق نہیں چھین سکتی.ایک مسجد چھینیں گے تو خدا کی دوسری زمین ان کے لئے مسجد بن جائے گی.جہاں عبادت کریں گے وہی خدا کے حضور سب سے اعلیٰ مسجد ، سب سے زیادہ مقدس مسجد کہلائے گی.تو جن محمد ﷺ کے غلاموں سے یہ وعدہ ہے ان کو بے وجہ ان باتوں پر غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اور اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ خوش خبریاں بھی دیتا ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں ایک نوعیت کی غم کی خبر آئے وہاں اس کے برعکس نوعیت کی بے حد خوشی کی خبر بھی آتی ہے.چنانچہ یہ آپ حسن اتفاق کہیں، میں تو تقدیر الہی سمجھتا ہوں کہ ایک طرف تو موحد کہلانے والوں کا مسجد کا انہدام کا واقعہ ہورہا تھا اور پاکستان سے مجھے یہ فیکس موصول ہوئی تھی کہ اس وقت یہ واقعہ ہورہا ہے دوسری طرف ایک افریقن ملک غانا کی یہ رپورٹ میں پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھا کہ اللہ کا بڑا احسان ہے ہمارے لئے ایک خوشیوں کا خاص دن ہے کہ ہم نے جس مشرک علاقے میں تبلیغ کی تھی جہاں کوئی ایک بھی موحد نہیں تھا وہاں ہزار ہا لوگ جو مسلمان ہو کر جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں وہاں ایک بہت عظیم مسجد کی بنیاد ڈالی گئی ہے اور ہم اس مسجد کی تعمیر سے، کانوں تک راضی ، جسے کہا جاتا ہے، سرتا پا اللہ کی تقدیر سے راضی ہیں اور یہ ایسی عظیم الشان خوش خبری ہے جو ہم آپ کو دینا چاہتے ہیں اور سارا علاقہ اس کی تعمیر میں خدمت کر رہا ہے.وہ جو کل تک مشرک تھے وہ آج خدائے واحد کی عبادت کے لئے ایک بڑی مسجد کے لئے محنت کر رہے ہیں، وقار عمل کر رہے ہیں، ایک عجیب نظارہ دکھائی دے رہا ہے.تو کون ہے جو اس کو اتفاق کہے؟ مجھے تو یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ہمارے دلوں کو سہارا دینے کے لئے ، ڈھارس بندھانے کے لئے ، یہ بتانے کے لئے کہ تمہارا خدا میں ہوں.دنیا کی کوئی حکومت تمہیں میرے فضلوں سے عاری نہیں کر سکتی ، میرے فضلوں سے محروم نہیں کرسکتی ، یہ عجیب توارد کر کے دکھا دیا کہ ایک طرف وہ بد بختوں کی خبر آ رہی تھی دوسری طرف یہ خبر مل رہی تھی.جہاں تک اس مخلوق کا تعلق ہے.میں اسے ایک مخلوق کہتا ہوں کیونکہ ہر چیز بہر حال خلقت سے تو تعلق رکھتی ہے.اگر وہ بگڑ جائے اور منحوس ہو جائے تو اس کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ( الفلق : 3) - اب مَا خَلَقَ کی ضمیر تو اللہ ہی کی طرف جارہی ہے، پیدا کرنے والا تو بہر حال وہ ہے.مگر جوشر بنتا ہے.وہ لوگ خود بناتے ہیں، خدا نے ایک شریف مخلوق ، اعلیٰ

Page 701

خطبات طاہر جلد 13 695 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء درجے کی مخلوق بنائی.جب وہ شریر مخلوق بن جائے اور اَسْفَلَ سَفِلِينَ کو جا پہنچے تو وہ ہر مخلوق سے زیادہ شریر ہو جاتی ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ جب انسان شرارت پر آئے تو کوئی دنیا کا جانور ایسا مضر نہیں رہتا جیسا کہ انسان شریر بن کر مضر ہو جاتا ہے.ان سب کے شرور کو مدنظر رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا شر من تحت ادیم السماء اور جہاں تک ان مساجد کا تعلق ہے جن میں یہ جشن منا رہے ہیں.ان کے متعلق بھی ہماری غلط فہمی دور فرما دی جب فرمایا مساجدهم عامرة هي خراب من الهدى تم ان مسجدوں کو آباد دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری مسجد میں اجڑ گئیں اور ان کی مسجدیں آباد ہیں.خدا کا رسول گواہ ہے کہ یہ مسجدیں ویران ہیں اور ہر وہ زمین جس پر خدا کے نیچے بندے عبادت کرتے ہیں وہی خدا کی آباد مسجد میں ہیں.مساجد ہم ان کو خدا کی مسجد میں نہیں فرمایا ان کو اپنی مسجد میں نہیں فرمایا.ان کی مسجد میں بظاہر تمہیں بھری ہوئی نظر آئیں گی جیسے آج پاکستان میں احراری مسجد میں غیر معمولی طور پر بھری گئی ہیں لیکن خراب من الهدى خدا کا وہاں کوئی ذکر نہیں ، ہدایت کا وہاں کوئی نشان نہیں ملے گا.یہ وہ مخلوق ہے جو جس نے دیکھنی ہو پاکستان جا کر دیکھ سکتا ہے لیکن مجھے اس پر وہ علی گڑھ کے ایک مزاحیہ مشاعرے کا شعر یاد آ گیا.وہاں ایک دفعہ کسی نے یہ طرح مصرع بنایا تھا جس کی طرز اس طرح تھی کہ دستیاب اتو ہیں“ اور ”محو خواب اتو ہیں“ اس پر بڑا زبر دست مشاعرہ علی گڑھ میں ایک دفعہ ہوا تھا اس میں ایک شعر تھا جو ابھی تک مجھے یاد ہے کہ: جس نے لینے ہوں لے علی گڑھ سے ان دنوں دستیاب الو ہیں بڑے الو ملتے ہیں وہاں جس نے لینے ہیں وہاں سے لے اور مشاعرے کی بات تھی واقعہ یہ ہے کہ پاکستان ہی سے یہ مخلوق دساور کو بھیجی جاتی ہے اور جس نے لینی ہو وہاں سے مطالبہ کر کے وہاں سے منگواتے ہیں.یہاں تک کہ بنگلہ دیش میں بھی یہ مخلوق یہاں سے منگوائی جاتی ہے.جب انگلستان کا معاملہ ہو تو یہاں بھی پاکستان ہی سے یہ مخلوق پہنچتی ہے.تو دیکھیں وہ شعر، جو ایک لطیفے کی بات تھی ایک دردناک کہانی کے طور پر اس بد بخت مخلوق کے اوپر صادق آ رہا ہے.آج جمعہ کے دن جشن منائے جارہے ہیں کہ ہم نے بابری مسجد کی تاریخ کو دہرایا ہے.لیکن ایک اور فرق بھی ہے وہاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مشرک عدالت نے تو حید کے

Page 702

خطبات طاہر جلد 13 696 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء حق میں فیصلہ دیا تھا.یہاں موحد کہلانے والی عدالت نے شرک کے حق میں فیصلہ دیا.وہاں حکومت روکتی رہی لیکن اس کے باوجود زبردستی جب حکومت بے اختیار ہوگئی تو مسجد تو ڑ دی گئی اور ایک ایک اینٹ اتاری گئی یہاں حکومت کے حکم پر، اس کی شمولیت سے، ان لوگوں کو رقمیں ادا کی گئیں جنہوں نے مسجد توڑی.یعنی پیسے بھی لئے حکومت سے اور حکومت کے ارشاد پر پروانہ لکھا گیا تھا اور حکومت کی حفاظت میں کام ہورہا تھا تو پھر اگر خدا کا رسول ان لوگوں کو آسمان کے نیچے سب سے بد بخت مخلوق قرار دے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں.فرق بڑا واضح ہے کہاں بابری مسجد کا واقعہ جہاں مشرک عدالت، چوٹی کی مشرک عدالت، تمام حج مشرک ہیں ، بت پرست ہیں، مندروں کو مساجد سے بہت بہتر خدا کی یاد کا ذریعہ سمجھتے ہیں ان سب نے مل کر یہ متفقہ فیصلہ دیا کہ کسی ہند و کوکوئی حق نہیں ہے کہ کسی مسجد کی کوئی ایک بھی اینٹ اتارے اور یہاں یہ موحد حکومتوں کی عدالتیں ہیں.کہا جاتا ہے کہ خاص حکمت عملی استعمال ہوئی تھی.وہ کیا تھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کل دو بجے یہ فیصلہ سنایا گیا جس کے بعد تین چھٹیاں آرہی تھیں اور یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ احمدیوں کو Stay کی درخواست دینے کا وقت ہی نہ ملے لیکن مجیب الرحمان صاحب جو امیر ہیں وہ بڑے خدا کے فضل سے تجربہ کار اور مانے ہوئے چوٹی کے وکیل ہیں اور ان اداؤں کو سمجھتے ہیں انہوں نے پہلے سے ہی سب اپیل تیار کر رکھی تھی ، تمام کاغذات مکمل تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کیا فیصلہ ہونا ہے.بعض دفعہ خط ملنے سے پہلے ہی انسان کو پتا ہوتا ہے کہ کیا جواب آنا ہے.جیسے غالب نے یہ کہا ہے: قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں، جو وہ لکھیں گے جواب میں (دیوان غالب : 159) تو ہمارے مجیب صاحب بھی جانتے تھے کہ جس قسم کے لوگوں سے واسطہ ہے پتا ہے کہ وہ جواب میں کیا لکھیں گے تو انہوں نے بھی جواب تیار کر رکھا تھا مگر آخری شاطرانہ چال انہی کی چلی گئی کیونکہ وہ شاید مجیب صاحب کو جانتے تھے.انہوں نے موقع ہی نہیں دیا.یعنی اس آواز ، اس فریاد کو اوپر اٹھنے کا وقت ہی نہیں دیا گیا.سانسی کی بلی کی طرح.سانسی وہ لوگ ہیں جو خانہ بدوش ہیں اور خانہ بدوشوں میں سے ایک قسم ہے سائنسیوں کی ، وہ مشرک لوگ ہیں مسلمان نہیں مگر مسلمانوں میں سے اوڈھ ہیں مثلاً وہ بھی خانہ بدوش ہیں تو سانسی خانہ بدوشوں میں یہ بات رسما چلی آ رہی ہے بڑی دیر

Page 703

خطبات طاہر جلد 13 697 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء سے کہ سردیوں میں اگر ایک سانسی ایک بلی کھا لے تو اس کی ساری سردیاں اچھی گزریں گی.اتنا گرم گوشت ہوتا ہے تو ایک سانسی کے ہاتھ بلی آگئی اور اس نے اس کو کھانا شروع کیا تو کوئی پاس سے گز را اور ہمارے ہاں مشہور ہے کہ بلی کی آہ بہت اوپر جاتی ہے بلی کو دکھ نہیں دینا چاہئے.تو اس نے جو دیکھا سانسی کو کھاتے ہوئے اس نے کہا تم نے کیا ظلم کیا ہے اس کی کوک تو عرشوں تک جاتی ہے.سانسی نے کہا مجھے پتا تھا میں نے کوک نکلنے ہی نہیں دی.نکلتی تو عرشوں تک جاتی نا.میں نے ایسی گردن دبائی ہے کہ اس کی اوپر کی سانس اوپر، نیچے کی نیچے اور ایک ذرا بھی کوک نہیں نکلی.تو یہ جو سانسی مسلط ہیں آج کل پاکستان میں، یہ اس فن کے بڑے ماہر ہیں.یہ کہتے ہیں کوک نہ نکلنے دو.مگر کو کیں تو نکلتی ہیں ظلم کی کو کیں تو کوئی دنیا میں دبا نہیں سکتا عین اس وقت جبکہ یہ واقعہ ہو رہا تھا جرمن ایمبیسی کا نمائندہ اس کی تصویریں کھینچ رہا تھا اور اپنے ملک میں Faxes یا ٹیلی رابطوں کے ذریعے پیغام بھیج رہا تھا کہ اس وقت پاکستان میں بابری مسجد کی تاریخ دہرائی جارہی ہے.آج جب جماعت احمد یہ راولپنڈی نے اسی جگہ جمعہ پڑھا ہے خدا کے فضل کے ساتھ ، بڑے جوش و خروش کے ساتھ ، قطعا کوئی پرواہ نہیں کی کہ کوئی مولوی کسی ضرر کی نیت سے آئے کبھی اتنا آباد جمعہ وہاں نہیں پڑھا گیا جتنا آج پڑھا گیا ہے لیکن کھنڈروں پر پڑھا گیا.اس کی بیرونی ایجنسیوں نے آ کر تصویریں کھینچیں، ویڈیو بنائی گئی تو یہ مجھتے ہیں کہ یہ کوک نہیں نکلنے دیں گے ظلم کی کوک تو نکلنی ہی نکلنی ہے کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں سکتی.وہ فلم میں نے منگوائی ہے وہ ہم انشاء اللہ MTA پر بھی دکھائیں گے تاکہ بابری مسجد کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا اندرونی گندہ کر دار تو دنیا دیکھے.اگر کسی مسجد کے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کا حق ہے تو صرف جماعت احمدیہ کو ہے کیونکہ مسجدوں کی خاطر قربانی کرنے والی مذہبی جماعت دنیا میں ایک ہی ہے وہ جماعت احمد یہ ہے.باقی تو قصے ہیں صرف کہانیاں ہیں.پس یہ جو واقعہ گزرا ہے اس پر میں توجہ دلاتا ہوں جماعت راولپنڈی کو بھی، ساری دنیا کی جماعت کو بھی کہ اس کا رد عمل یہ نہیں ہے کہ بیٹھ کر آنسو بہائیں.ایک زندہ جوان قوم ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ کوئی ہم سے عبادت کا حق چھین ہی نہیں سکتا.زمین کا چپہ چپہ ہمارے لئے مسجد بنا دیا گیا ہے.اسی طرح بہادری سے اور سر اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں، مڑکر ان بد بختوں کو دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں.نظر میلی کرنے والی بات ہے اور خدا ایک کی جگہ سینکڑوں مسجدیں پہلے آپ کو دے چکا

Page 704

خطبات طاہر جلد 13 698 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء ہے اور دیتا چلا جائے گا اور یہ ظلم بھی خالی نہیں جائے گا.اللہ نے جیسا کہ مجھے تصرف الہی کے تابع خوش خبری ساتھ ہی پہنچا دی کہ یہاں موحد کہلانے والے مشرک جو حرکت کر رہے ہیں تمہیں خدا توفیق دے رہا ہے کہ وہ جو مشرک تھے ان کو تم نے موحد بنا دیا اور وہ خدا کا ایک عظیم گھر تعمیر کر رہے ہیں.یہ واقعہ ہے جو آئندہ ہر جگہ ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا.تو جس خدا کے اتنے انعام ہوں اور مقابل کی چوٹیں ہوں اور ہر چوٹ ان کے مخالف کی چوٹ سے ہزاروں گنا زیادہ عظمت رکھتی ہو.اس قوم کو، ایسے خدا کی عبادت کرنے والوں کو کیا غم کا مقام ہے.أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وہ آیت کا مضمون ہم پر صادق آتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا وہ لوگ جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور ہم کسی دنیا کی طاقت کو رب تسلیم نہیں کریں گے.ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر اس دعوے پر ثابت قدم ہو گئے.اس میں کسی ابتلاء کا ذکر نہیں مگر لفظ استقامت میں ہر ان کہی کہانی بیان کر دی گئی ہے.استقامت تو کہتے ہی اس کھڑے ہونے کو ہیں جب کہ قدم لڑکھڑانے کی ہر کوشش کی جارہی ہو.جب آندھی میں درخت قائم رہے تو اس کو کہتے ہیں استقام.جب کسی کو دھکے دے کر گرانے کی کوشش کی جائے اور وہ نہ گرے تو اس کے لئے آئے گا استقام.وہ قائم رہا با وجود مخالفانہ کوششوں کے.تو فرما یار بنا اللہ کا دعویٰ کرنا آسان نہیں ہے کر تو دیتے ہیں لوگ مگر اصل سچائی اس وقت صاف ظاہر ہوتی ہے جب رَبُّنَا اللہ کا دعویٰ کرنے والا استقامت دکھائے کیونکہ اس دعوے کے بعد دنیا نے دشمنی ضرور کرنی ہے.زلازل آئیں گے، ہر مخالفانہ کوشش ہوگی کہ تمہیں راہ حق سے ہٹا دیا جائے ، تمہارے قدم اکھیڑ دئے جائیں.اللہ فرماتا ہے جس نے ثابت قدمی دکھائی اس کے ساتھ کیا ہوگا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کثرت سے فرشتے ان پر نازل کئے جائیں گے اور کئے جاتے ہیں.لَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا تم بے خوف ہو جاؤ تم وہ قوم نہیں ہو جو خوف کے لئے بنائی گئی ہو.ایک ذرہ بھی تمہارے دل اس وجہ سے نہ دھڑ کیں کہ دشمن طاقتور ہے اور یہ ایسے ایسے منصوبے بنا کر تم پر چڑھ دوڑا ہے.لَا تَخَافُوا خدا کے بچے عبادت گزاروں، مومنوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ خوف رکھیں.پس بے خوف آگے بڑھتے رہو.کچھ نقصان ہو گا ضرور.فرمایا وَلَا تَحْزَنُوا کچھ ہو بھی گیا ہے ورنہ لَا تَحْزَنُوا کا موقع کوئی نہیں تھا.فرمایا معمولی سا نقصان تمہیں پہنچا ہے مگر کس خدا

Page 705

خطبات طاہر جلد 13 699 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء کے بندے ہو جانتے نہیں ہو؟ پس غم نہ کرنا کیونکہ اس سے بہت زیادہ تمہیں دیا جائے گا.فرمایا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اور تم اس جنت کی خوش خبری سے راضی ہو جاؤ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے.اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ جنت تو پتا نہیں کب آنکھیں بند کرنے کے بعد فور املتی ہے یا اربوں سال بعد ملتی ہے.حزن تو ابھی یہیں کا تھا.خوف بھی اسی دنیا کا تھا تو یہ دور کا وعدہ کیوں فرما دیا گیا.لیکن جنت کی اصل خوش خبری اس لئے کہ وہ دائمی خوشی ہے اور دنیا کی زندگی عارضی ہے.پس مراد یہ ہے کہ اگر دنیا میں وہ غم جو تمہیں لگ گیا اس کا ازالہ نہ بھی کیا جائے تب بھی تمہارا سودا کوئی نقصان کا سودا نہیں.جس کو اس عارضی صدمے کے بدلے ہمیشہ کی جنت کی خوش خبری دی جائے وہ بڑا پاگل ہو گا اگر اس غم سے ہی چمٹار ہے اور کہے کہ میرا یہ نقصان ہو گیا.اس لئے پہلے اس بات کا ازالہ لازم تھا، اس غلط تصور کا ازالہ لازم تھا کہ اگر ہم تمہیں فوری طور پر اس کا بدلہ نہ بھی دیں تب بھی تمہیں غم کا کوئی حق نہیں ہے.غم کا کوئی موقع تمہارے لئے نہ ہے.یہ کہنے کے بعد فرمایا: پھر کہتے ہیں نَحْنُ اَولِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْیا یہ نہ سمجھنا کہ ہم جنت ہی میں آئیں گے.اب ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ساتھ ہیں.ہم وہ فرشتے ہیں کہ جو تمہیں چھوڑ کر جانے والے نہیں ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم گزشتہ مسلسل کئی سالوں سے کرتے چلے جا رہے ہیں.ہر غم کے بدلے جب خدا کی کوئی رحمت نازل ہوئی ہے تو وہ عارضی رحمت نہیں تھی وہ آ کر چمٹ رہنے والی رحمت تھی.ایسی رحمت تھی جس نے پھر ساتھ نہیں چھوڑا اور رحمت کا قدم آگے بڑھتا رہا ہے پیچھے نہیں ہٹا.تو اتنے عظیم الشان سچے وعدوں والا رسول ہے جس سے خدا نے وعدے فرمائے اور اس نے اپنی امت کو یہ خوش خبریاں دیں.پس جماعت احمدیہ کے لئے نہ خوف کا مقام ہے نہ غم کی جگہ ہے کیونکہ ہر قربانی کے بعد آپ کو عظیم تر برکتیں ضرور نصیب ہوں گی.ایک جگہ کے نقصان کے بدلے وسیع تر علاقے آپ کو عطا کئے جائیں گے.ایک مسجد کے نقصان کے بدلے جیسا کہ میں نے بتایا اول تو ساری سرزمین مسجد بنا دی گئی مگر ظاہری مسجدیں بھی اس سے بہت بڑھ کر وسیع تر زیادہ شان والی ایسے علاقوں میں ملیں گی جہاں لوگ حیا ر کھتے ہوں.جہاں لوگ خدا کا خوف رکھتے ہوں، جہاں مساجد کی بے حرمتی کو گناہ سمجھا جاتا ہے.امن کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت میں آپ کو ایسی مسجد میں عطا ہوں گی اور زور لگانا ہے تو لگا

Page 706

خطبات طاہر جلد 13 700 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء دیکھیں مولوی بھی ، ان کی حکومتیں، ان کی عدالتیں، خدا کی اس تقدیر کو یہ بد بخت کبھی بدل نہیں سکتے.نا ممکن ہے کہ اللہ کی اس تقدیر کو یہ بدل دیں.پہلے کب بدل سکے ہیں جواب بدل کے دکھا دیں گے.اس لئے میں ان لوگوں کو جو آج اشکبار ہیں حزیں دلوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، بھاری دل لئے بیٹھے ہیں ان کو بتاتا ہوں کہ ان آنسوؤں کو پونچھ ڈالو، تمہارے لئے رونے کا مقام نہیں ان بدبختوں کے لئے رونے کا مقام ہے.فَلْيَضْحَكُوا قَلِيْلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا قرآن کریم ایسے موقعوں پر فرماتا ہے کہ یہ ہنس رہے ہیں.ان بد بختوں کو کیا پتا ہے کہ ان کے لئے کیا مقدر ہے اگر ان کو سمجھ آئے کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور کس وجہ سے ہنس رہے ہیں تو ہنسیں کم اور روئیں بہت.ایسا روئیں کہ وہ رونا پھر ختم نہ ہو.تو ان کے لئے تو خدا کی تقدیر وہی ظاہر ہوگی جو دائمی رونے پر ان کو مجبور کر دے گی.لیکن اس ضمن میں میں پاکستان کے احمدیوں کو بھی اور سب دنیا کے احمدیوں کو بھی پھر یاد دہانی کراتا ہوں کہ جہاں تک پاکستان کے احمدیوں کا تعلق ہے اپنے وطن کی محبت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں.جس سرزمین میں ان کو دکھ پہنچ رہے ہیں وہ ان کا مولد بھی ہے ان کا موطن بھی ہے جو خدا کے پاک بندے ہیں اور ان میں بھی سب مولوی ایک جیسے نہیں ہیں، بد بخت ملاں ایک اپنی الگ شان رکھتا ہے وہ چہرے کی نحوست سے پہچانا جاتا ہے ان کی تصویر میں آپ روزانہ جنگ میں چھپتے ہوئے دیکھیں گے اور صاف پتا چلتا ہے کہ یہ کون سی مخلوق ہے.مگر ا کثر شریف علماء تو بے چارے اخباروں میں آتے ہی نہیں ہیں اور خفیہ خفیہ ہمارے خطبے سنتے ہیں، احمدیوں سے الگ محبت سے ملتے بھی ہیں اور بہت سے ایسے مولوی ہیں جنہوں نے اپنا خاموش سا یہ وہاں کے نسبتا کم تعدا د احمد یوں پر رکھا ہوا ہے.اس طرح کہ وہ لوگوں کو شرارت سے باز رکھتے ہیں وہ نیک دل مولوی ان کو بتاتے ہیں یہ سب فساد کی باتیں ہیں تم نے یہ نہیں کرنا اور اس طرح خاموشی کے ساتھ ان کو ایک نیکی کی توفیق مل رہی ہے اس لئے یہ خیال کر لینا کہ سارے پاکستان کا ہر مولوی بد بخت ہو چکا ہے یہ درست نہیں ہے.امت محمدیہ کے سب مولوی ایک وقت میں بدبخت ہو ہی نہیں سکتے.میرا تو یہ عقیدہ ہے.بہت سے شریف ہیں لیکن بے آواز شریف ہیں اور ان لوگوں کو ہماری بددعا نہیں پہنچنی چاہئے ان کے لئے دعا ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کو ان بد بخت مولویوں کے شر سے بچائے.ان کو قوت گویائی عطا کرے.ان کو طاقت عطا کرے کہ وہ حق بات کے لئے جرات کے ساتھ کھڑے ہوسکیں اور اس کی وکالت کر سکیں اور جو شرافت دکھا رہے

Page 707

خطبات طاہر جلد 13 701 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء ہیں کمزوری کے باوجود اللہ ان کو جزا عطا فرمائے.جہاں تک ملک کا تعلق ہے خطرہ صرف یہ ہے کہ جب بد بخت اس کثرت کے ساتھ کھلے عام مظالم کریں تو بعض دفعہ خدا کی تقدیر سارے ملک پر نازل ہوا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کھول کر بیان فرمایا ہے کہ پھر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ محض ظالم ہی پکڑا جائے.ایک عذاب عام آ جاتا ہے جس میں پھر جو معصوم ہے وہ بھی مارا جاتا ہے.اب جب عالمگیر جنگیں ہوتی ہیں تو جنگ یہ تو نہیں دیکھتی کہ یہ معصوم شہری تھا یا ظالم شہری تھا اس کے بداثرات میں یہ سارے لوگ برابر ہی حصہ پاتے ہیں ہاں استثنائی طور پر جب خدا کی تقدیر کسی کی حفاظت فرمائے تو ان کے ساتھ غیر معمولی سلوک بھی ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جنگوں کی خبر دی تو ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی عطا فرمائی کہ : آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار ( درشین :154) تو خدائے ذوالعجائب سے پیار رکھنے والے بھی تو کچھ معصوم ہوتے ہیں اور عامۃ الناس بے چارے جاہل ہیں اور جہالت اپنی ذات میں ایک ظلم ہے جس میں وہ ملوث ہیں لیکن ان میں بھی کچھ جاہل ہیں، کچھ کی فطرت ایسی صاف ہے کہ وہ اپنی جہالت کے باوجود فطرت صحیحہ کے خلاف حرکت نہیں کر سکتے.ان کی اگر تعداد کافی نہ ہوتی تو پاکستان میں جماعت احمدیہ کے حالات بہت بدتر ہوتے اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام الناس میں جہالت کے باوجود ابھی فطرت صحیحہ کا غلبہ ہے اور عامتہ الناس کی جو رائے ہے وہ حق کو پہچانتی ہے کم سے کم اس حد تک کہ ظلم میں قدم نہیں رکھنے دیتی ان کو.مولوی کی بات میں اپنی جہالت کی وجہ سے یقین بھی کر لیں تو فطرت ان کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ معصوم لوگوں پر ظلم کریں.پس عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے ان کی فطرت ان کو کسی پر ظلم کی اجازت نہیں دیتی ان لوگوں کی بڑی کثرت پاکستان میں موجود ہے اور وہی ہیں جو ہمیشہ ابتلاؤں کے وقت اللہ تعالیٰ سے یہ سعادت پاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو مختلف جگہوں پر مختلف رنگوں میں اپنے سہارے دیتے ہیں اور ان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ رواج تھا.مشرکین میں کچھ بہت بد بخت تھے

Page 708

خطبات طاہر جلد 13 702 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء اور کچھ اپنے نفس میں شرافت کا مادہ رکھتے تھے اور انہی میں سے بعض ہیں جنہوں نے آنحضرت ملے کے متعلق بھی جب وہ طائف سے واپس مکہ تشریف لا رہے تھے یہ اعلان کیا کہ یہ میری پناہ میں داخل ہو رہا ہے وہ پناہ تو خدا کی تھی جس میں وہ داخل ہوئے تھے.لیکن اس شخص میں یہ شرافت ضرور تھی کہ اس نے یہ اعلان کر دیا کہ کوئی کوشش بھی نہ کرے ان کو نقصان پہنچانے کی.ایسے بہت سے مسلمان صحابہ تھے جن کو اپنی دوستی، ذاتی تعلقات، عمومی شرافت کی وجہ سے اہل مکہ کے رؤساء اپنی پناہ میں لے لیا کرتے تھے اور اس وجہ سے وہ روز مرہ کی تنگی جو بہت بڑھ سکتی تھی اس میں کمی رہی یا حد اعتدال سے آگے نہ گئی.پس جماعت احمدیہ پاکستان کے ساتھ بھی یہ سلوک ہے اپنی بے اختیار بد دعاؤں میں یہ ظلم نہ کریں کہ ان شرفاء کو بھی نشانہ بنادیں.ان کے لئے دعا کرنی چاہئے اور دعا یہ کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس سرزمین میں ایسے شرفا کو کثرت عطا فرمائے اور ان بدبختوں سے ایک ایسا نتھار کر الگ سلوک کرے کہ باقی دنیا کے لئے عبرت بن جائیں.یہ بد دعا جو ہے یہ اس لئے جائز ہے کہ اس سے قوم کا فائدہ ہے، اس میں ملک کے بچنے کا امکان ہے.اگر آپ کی یہ بددعا قبول نہ ہو اور خدا ان بد بختوں کو نتھار کر، الگ کر کے ان سے نمایاں طور پر مومنوں پر ہونے والے ظلم کا انتقام نہ لے تو پھر یہ خطرہ ہے کہ سارا ملک ہی ان کی نحوست کے نیچے پیسا جائے گا اور ایسا بھی ہوا کرتا ہے.تو مجھے تو یہ خطرات دکھائی دے رہے ہیں یہ لڑنے والی حکومت ہو یا اپوزیشن ہوان کا اونچ نیچ تو ہوتا رہے گالیکن خدا کی ایک وہ تقدیر ہے جو اپنے ظالمانہ رویے سے غیر منصفانہ رویے سے یہ آسمان پر خود بنا رہے ہیں.تقدیر تو اللہ کی ہے مگر اپنے جرائم سے بعض دفعہ بعض قو میں خاص قسم کی تقدیر کھوا رہی ہوتی ہیں اور فیصلہ تو حج ہی دیتا ہے مگر ایک معصوم کے حق میں اچھا فیصلہ دے رہا ہوتا ہے اور ایک بد بخت کے حق میں برا فیصلہ دے رہا ہوتا ہے.ان معنوں میں مجرم پیشہ اپنا فیصلہ حج سے لکھوالیتا ہے.تو دعا کریں کہ وہ فیصلہ نہ لکھا جائے جیسا کہ بغداد کے حق میں ایک دفعہ لکھا گیا تھا.جب بغداد پر حملہ کیا گیا ہے تیمورلنگ کی طرف سے یا اور کسی ریاست جو روس کے جنوب میں واقع ہیں مسلمان ریاستیں ان میں ایک ازبکستان بھی ہے تاجکستان بھی ہے اور اس کے ساتھ منگولیا بھی ہے.یہ وہ علاقہ ہے خاص طور پر ازبکستان کا علاقہ جہاں سے وہ Golden Hurds آئے ہیں ان کو سنہری حملہ آور قومیں قرار دیا جاتا تھا اور بار بار، پے بہ پے انہوں نے یلغار کی ہے جو یورپ تک بھی پہنچی ہے اور اتنے زبر دست

Page 709

خطبات طاہر جلد 13 703 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء حملے ہوتے تھے کہ ساری دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنتیں اس کے تصور سے بھی کانپتی تھیں کہ یہ لوگ حملہ آور ہوکر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی تھی.ایسے ہی ایک حملے کے دوران کسی بغداد کے بادشاہ نے ایک بزرگ ملہم کو دعا کے لئے کہلا کے بھجوایا اور کہا کہ خدا کے لئے ہمارے پاس اب کوئی دفاع نہیں رہا.معلوم ہوا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ وہ حملہ آور بغداد کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کوئی ہمارے پاس طاقت نہیں ہے کہ ہم ان کو روک سکیں.تو آپ دعا کریں.دعا کے ہتھیاروں کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں.دوسرے دن صبح جب بادشاہ نے اس بزرگ کی خدمت میں جواب کے لئے آدمی بھجوایا تو اس نے کہا کہ ساری رات میں دعا کرتا رہا اور ساری رات مجھے یہ الہام ہوتا رہا ہے کہ یا ایها الكفار اقتلوا الفجار يا ايها الكفار اقتلوا الفجار کہ اے کا فرو! میں خدا تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ان فاجروں کو قتل کرو اور یہ الہام حیرت انگیز دردناک شان کے ساتھ پورا ہوا ہے کیونکہ اس بغداد کے حملے کا نمایاں نشان قتل عام ہے جو تاریخ میں شاذ کے طور پر دکھائی دیتا ہے.ایک جوھا جو مسخرہ تھاوہ بچ گیا تھا اس حملے میں اور شاید کوئی اتفاق سے قسمت سے بچا ہو ورنہ بادشاہ کا حکم تھا جس پر پوری دیانتداری سے اس کی فوج نے عمل کیا کہ اس شہر کے ہر باشندے کو تہہ تیغ کر دو.نہ مرد بچے ، نہ عورت بچے، نہ بوڑھا، نہ بچہ، نہ نوجوان، تمام کے تمام قتل کئے جائیں اور مؤرخ یہ لکھتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تمام شہر میں ہر مردوزن، ہر بوڑھے بچے کو یکساں قتل کیا گیا اور پورا شہر ویران ہو گیا.کہتے ہیں ہفتوں بعد تک دجلہ کا رنگ ان کے خون سے سرخ رہا.پس جو الہام الہی تھا وہ دیکھیں کس شان کے ساتھ پورا ہوا ہے.اگر چہ یہ دردناک شان تھی لیکن تھی شان ہی کیونکہ خدا کے کلام کی شان تھی جس نے اس حملے کو ایک حیرت انگیز قتل عام کے حملے میں تبدیل کر دیا اور حکم کس کو مل رہا ہے کفار کو.عام طور تو پر انسان یہ سمجھتا ہے کہ حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں (دیوان غالب : 176) مگر جب یہ خدا کے ماننے والے مشرکوں سے بھی زیادہ بد بخت ہو چکے ہوں اور وہ بے حیائی جس کی مشرک جرات نہ کریں اس کے یہ موحد اس پر جرات کرنے لگیں تو پھر یہی تقدیر ہے جو ایسی قوم کے او پر صادق آسکتی ہے کہ یا ایھا الكفار اقتلوا الفجار کہ اے کفار اب وقت آ گیا ہے کہ ان فجار کو قتل کرو.

Page 710

خطبات طاہر جلد 13 704 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء لیکن مشکل یہی ہے کہ اگر یہ فجار قتل ہوں تو ہمارے ہم وطن ہی تو قتل ہوں گے.اگر یہ سرزمین مشرکوں کے پاؤں تلے روندی جائے تو ہمارا اپنا وطن ہے جو ان مشرکوں کے پاؤں تلے روندا جائے گا.پس یہ وقت دعاؤں کا وقت ہے ان معنوں میں بد دعاؤں کا وقت نہیں کہ قوم کے لئے بددعا کریں.نعوذ باللہ من ذلک اگر وقت ہے تو قوم کے لئے دعا کا وقت ہے اور قوم کے لئے دعا کی قبولیت کے لئے لازم ہے کہ ان بد بختوں کے لئے بددعا کی جائے.یہ بد بخت اپنی سزا کا حصہ پائیں تب ان کی نحوست کا سایہ قوم کے سر سے اترے گا اس کے بغیر یہ سایہ اس قوم کو کہیں کا نہیں رہنے دے گا.پس مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ نوبت قریب تر آتی جا رہی ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی تقدیر کس طرح ظاہر ہومگر چونکہ میرا فرض ہے کہ قوم کے اہل دانش کو ،سب کو متنبہ کر دوں اور چونکہ میں جانتا ہوں کہ شریف علماء تو حق کی خاطر میرا خطبہ سنتے اور دیکھتے ہیں لیکن شریر علماء رخنے تلاش کرنے کے لئے ،خرابیاں تلاش کرنے کے لئے یا تجسس کے طور پر بھی ، خطبہ سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں.چنانچہ ان کے براہ راست کئی دفعہ خط آ جاتے ہیں کہ آپ نے خطبے میں یہ بات کی تھی ، فلاں تقریر میں یہ کہا تھا اور ہم نے یہ سنا اور دیکھا تو صاف پتا چل رہا ہے یہ جو دور ہے ہمارا MTA کا اللہ تعالیٰ نے جماعت کے عالمی غلبے کے لئے عطا فرمایا ہے وہ دشمن جس تک ہماری آواز نہیں پہنچا کرتی تھی ، جنہوں نے ہماری آواز کی ساری راہیں بند کر دی تھیں یہاں تک کہ اپنوں تک بھی نہ پہنچیں اب ان کے گھروں میں یہ آواز پہنچ رہی ہے.ایسے مولوی ہیں جن کے بچوں نے اپنے باپوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے کہا ہے کہ ہم سنیں گے اور دیکھیں گے تو MTA دیکھیں گے اور کوئی ہم نے ٹیلی ویژن نہیں دیکھنا اور بڑھے مولویوں نے اپنی بیویوں کے ڈر کے مارے اف بھی نہیں کی وہاں.وہاں سارا مذہب جاتا رہا، مسجد میں تقریریں کہ کوئی ان کے قریب نہ آئے اور ان بچوں نے خود احمدی دوستوں کو بتایا کہ ہم نے تو اپنے گھر میں یہ کر دیا ہے اور ابا کی مجال نہیں ہے کہ روکیں.وہ ہوں یا نہ ہوں ہم MTA ہی دیکھتے ہیں تو جب خدا کی تقدیر نے یہ جوابی کارروائی فرما دی ہے تو ان کے کانوں تک تو اب بات پہنچنی ہی پہنچنی ہے.ان کی آنکھوں نے تو ، یہ ان کے دلوں کو آگ لگانے والے مناظر ، دیکھنے ہی دیکھنے ہیں.اس لئے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ آپ پر ظلم کر رہے ہیں، یہ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں.جتنا ظلم جماعت احمدیہ پر کرتے ہیں اللہ کے اتنے فضل نازل ہوتے ہیں کہ جو آپ پر فضل کی اور رحمتوں کی

Page 711

خطبات طاہر جلد 13 705 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء بارشیں بنتے ہیں وہ ان کے لئے یوں لگتا ہے جیسے آگ برس رہی ہو.سرتا پاھلس جاتے ہیں اور اب تو ان کے گھر میں اندر بھننے کے انتظام ہو گئے ہیں.پتا نہیں کس نظر سے بیچارے دیکھتے ہوں گے کیا کیا وہ مسوس مسوس کے رہ جاتے ہوں گے کہ دیکھو یہ ہمارے سامنے ہمارے خلاف دلائل دے رہا ہے، ہماری کچھ پیش نہیں جارہی.زیادہ سے زیادہ ایک چیتھڑا ہے جنگ ،اس نے ایک مضمون لکھ دیا تو اس میں کون سی غمگین ہونے کی بات ہے وہ سب وہی بکواس ہے جس کے بار ہا جواب دیئے جاچکے ہیں اور بھی دیتے رہیں گے.اس کے نتیجے میں نقصان نہیں پہنچ سکتا جماعت کو.آج ہی کی ڈاک میں ایک خط میں نے دیکھا جس میں ایک بچی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں میری ایک سہیلی تھی میں اس کو بہت تبلیغ کرنے کی کوشش کرتی تھی وہ سنتی ہی نہیں تھی لیکن جو پچھلے دنوں میں باسی کڑھی کو ابال آیا ہے اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوا.کہتی ہیں وہ پرو پیگنڈا پڑھ کر اس کو خیال آیا کہ چلو میں تحقیق کرلوں اور تحقیق کی تو آج میں یہ خوش خبری دے رہی ہوں کہ وہ بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو چکی ہے.تو ان کے مقدر میں شکست ہی شکست ہے.ہارنا ان کا ایسا اٹل مقدر ہے جس سے یہ کسی قیمت بیچ سکتے ہی نہیں ہیں.پس جوابی کارروائی اس کی یہی ہے کہ ان اکثریتوں کو اقلیتوں میں تبدیل کر دیا جائے اور یہی ہوگا.کوئی نہیں جو اس بات کو بدل سکے.پس اہل ہمت بنیں ، بیٹھ کر رونے سے یا ٹسوے بہانے سے یا اپیلیں کرنے سے بھی کچھ نہیں بننا آپ کا.بڑی سے بڑی عدالتیں وہ ہیں جن تک آپ پہنچ چکے.انہوں نے کیا کیا ہے آپ کے ساتھ.کوئی خیر کی توقع کے آثار ہوں تو کوئی توقع رکھے.جہاں ہر بات اپنی انتہا سے تجاوز کر چکی ہو وہاں آپ کیا توقع لگائے رکھتے ہیں.حقیقت میں میں یہ منع نہیں کرتا آپ اپیلیں کریں لیکن جیسا کہ آپ نے خود ہی مجھے بتایا کہ ہمیں پتا تھا کہ کیا جواب آئے گا.آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آئندہ اوپر سے کیا جواب آئے گا، اس سے اوپر سے کیا جواب آئے گا.آخر اپیل خدا کے حضور کرنی ہوگی وہاں سے جو جواب آئے گا اس کا بھی ہمیں علم ہے اور اسی جواب کی میں باتیں کر رہا ہوں.ایک جواب ہے جو آ چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ اٹھو اور آگے بڑھو اور غالب آؤ اور ان پر فتح حاصل کرو اور ان کی اکثریتوں کو اقلیتوں میں تبدیل کر دو کیونکہ تمہیں اسی لئے بنایا گیا ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم (الصف: ۱۰) محمد رسول اللہ کے غلام ہو اور اس زمانے میں محمد رسول اللہ کے حق میں جو میں نے پیش گوئی کی تھی یعنی خدا یہ کہتا ہے کہ وہ

Page 712

خطبات طاہر جلد 13 706 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء تمہارے ذریعے پوری کی جانی ہے.پس اگر تم پھیلو گے نہیں تو کیسے یہ پیشگوئی پوری ہوگی.پس راولپنڈی کی جماعت ہو یا کوئی اور مظلوم پاکستان کی جماعت یا پاکستان کی جماعت بحیثیت عمومی ایک ہی علاج ہے جتنی بدبختی اور بے حیائی کے ساتھ یہ تم پر حملہ کرتے ہیں آج اسی کے مقابل پر ، بہت بہادری کے ساتھ مگر خدا کے حضور عاجزی کے ساتھ ، کامل انکسار کے ساتھ ، پورا تو کل رکھتے ہوئے تبلیغ کا جوابی حملہ کریں.پھر اس راہ میں جو مشکلات ہیں اگر حکمتوں کے نقاضے پورے کرنے کے باوجود آئیں تو یہ شہادت ہے، یہ قربانیاں ہیں جن پر قوموں کے سر فخر سے بلند ہو جایا کرتے ہیں.اس پر کوئی حرج نہیں، کوئی غم نہیں لیکن خدا نے جو شرطیں مقررفرمائی ہیں کہ حکمت کے ساتھ دعا کرتے ہوئے ،صبر کے ساتھ پیغام کو پھیلاتے چلے جاؤ اور کوئی پرواہ نہ کرو کہ اس کے مقابل صلى الله پر قوم کیا ردعمل دکھاتی ہے وہ کرو تو یقین جانو کہ خدا کی وہ ساری خوشخبریاں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے ساتھ آخری زمانے میں وابستہ ہیں وہ تمہارے ذریعہ پوری ہوں گی اور خدا تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.اس راہ میں ظلم ہوں گے یہ مجھے علم ہے مگر وہ ظلم اور طرح کے ظلم ہیں.یک طرفہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ظلموں کا نشانہ بنا یہ کیسا ظلم ہے؟ اس میں تمہیں کیا لطف آ سکتا ہے لیکن جب خدا کی خاطر اس پر تو کل کرتے ہوئے کمزور ہونے کے باوجود طاقت ور پر جوابی حملہ کرتے ہو پھر جو کچھ نقصان پہنچتا ہے وہ فخر کے لائق نقصان ہے، وہ لطف کے لائق نقصان ہے، ویسے نقصان بے شک اٹھاؤ کیونکہ اسی آیت کریمہ میں جس کی میں نے تلاوت کی تھی پھر آخر پر فرمایا گیا نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ اب تو ہمارا ساتھ ٹوٹنے کا ساتھ نہیں اس دنیا میں بھی ہم ساتھ ہیں اور آخرت میں تو ضرور ساتھ ہوں گے.وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ دنیا کی جو نعمتیں ہیں، دنیا کے جو نقصانات ہیں ان کے غموں کا بھی ازالہ تو کیا جائے گا.مگر جو تم چاہتے ہو جو تمہارے دل کی گہری تمنا ئیں مانگ رہی ہیں.یہ ساری چیزیں تمہیں آخرت میں ملیں گی اور فرمایا دیکھو جن چیزوں کا ہم تم سے وعدہ کر رہے ہیں جانتے ہو ان کو کیا کہتے ہیں نُزُلًا مِنْ غَفُوْرٍ رَّحِيمٍ (السجدہ:33) غفور سب سے زیادہ بخشش کرنے والے، سب سے زیادہ رحم کرنے والے خدا کے تم مہمان بنائے جانے والے ہو اس کی طرف سے مہمانی ہو گی.جتنا

Page 713

خطبات طاہر جلد 13 707 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء معزز مہمان ہو اتنا ہی بڑے اعزاز کے ساتھ مہمانی کی جاتی ہے مگر جتنا معزز میزبان ہواصل مہمانی کی شان تو میزبان سے وابستہ ہوا کرتی ہے.ایک بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ایک غریب کی کٹیا میں اتر جائے گا.وہ چاہے گا کہ جان نچھاور کر دوں مگر پھر بھی غریب کی مہمانی ویسی ہی رہے گی لیکن صاحب اکرام بادشاہوں کی مہمانی جس کو نصیب ہو جائے اس سے بہتر اور کیا چیز ہوسکتی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ انعام مقرر فرمایا کہ ثابت قدم رہنا، بے خوف آگے بڑھتے چلے جانا کچھ نقصان ہوں گے.وہ غم پورا کرنے کے ہم ذمہ دار ہیں.اس دنیا میں بھی پورا کریں گے مگر اگر تم اس راہ میں مارے گئے یا کچھ عرصے کے بعد جب بھی تم ہمارے پاس لوٹو گے تو ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ جو خدا کے فرشتے تمہاری تائید میں تمہاری خدمت پر اس دنیا میں مامور تھے وہ آخرت میں بھی مامور رہیں گے.وہ تمہارا ساتھ وہاں بھی نہیں چھوڑیں گے اور تمہیں وہ کچھ دیا جائے گا جس کی گہری تمنائیں تم رکھتے تھے لیکن حاصل نہ کر سکے.جو کہو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا اور یہ غفور رحیم خدا کی طرف سے مہمانی ہوگی.تمہاری مہمان نوازی کے سامان ہوں گے.ایک پہلو سے میز بانی کہا جا سکتا ہے یعنی خدا میزبان ہے تو اس کی طرف سے میز بانی ہوگی.تم مہمان ہو تو تمہاری مہمانی ہو رہی ہے مگر اس سے بڑھ کر اعلیٰ مہمان نوازی کا کوئی تصور ممکن نہیں.تو جس راہ کی طرف قرآن نے ہمیں بلایا ہے جس راہ میں آگے بڑھنے کی طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں آواز دی ہے اس راہ میں آگے بڑھنا حکمت کے ساتھ ، ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ فتنہ وفسادنہ ہو، ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقاصد کم سے کم نقصان سے پورے ہوں اور اللہ ایسا ہی کرے گا.مگر اس کے باوجود اس راہ میں اگر کوئی دکھ ہوئے کوئی مصیبتیں دیکھنی پڑیں، کوئی اور مسجدیں بھی مسمار ہو ئیں تو غم کا تو کوئی مقام نہیں یہ وہ مصیبتیں ہیں جو تمہارے جہاد نے بلائی ہیں، جہاد کا ایک لازمی حصہ ہیں اور جہاد کی راہ میں مصیبتیں بعض دفعہ اتنی پیاری ہو جایا کرتی ہیں کہ جولوگ ان مصیبتوں سے گزرتے ہیں ان کو اپنا فخر سمجھتے ہیں، ان کی لذتیں ان مصیبتوں میں ڈالی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ بعض شہداء کو جب شہادت کے بعد خدا نے پوچھا اور اس واقعہ کی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خود اطلاع دی کہ بتاؤ تم کیا چاہتے ہو میں تمہاری قربانی تمہارے جذبہ شہادت سے ایسا راضی ہوا ہوں کہ بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟ تو جانتے ہیں انہوں نے کیا عرض کی.انہوں نے عرض کی اے خدا ہمیں پھر زندہ کر، ہم پھر شہید کئے جائیں، پھر ہمیں زندہ کر، پھر ہم شہید کئے جائیں اور میں اسی طرح سوزندگیاں

Page 714

خطبات طاہر جلد 13 708 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1994ء پاؤں اور سوشہادتوں کا اعزاز حاصل کروں کیونکہ جو لطف مجھے اس شہادت میں آ گیا ہے وہ اپنی جزا آپ تھا اس کی.میں اور جزا کا تجھ سے کیا مطالبہ کروں.پس یہی میری جزا ہے جو دائمی کردے تو رسول اللہ ہو نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا اگر میں یہ پہلے لکھ نہ چکا ہوتا کہ جو ایک دفعہ اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا دوبارہ اس میں نہیں بھیجا جائے گا تو میں تمہاری یہ تمنا بھی قبول کر لیتا.(ترمذی کتاب التفسیر تفسیر ال عمران ) یہ بھی نہیں فرمایا کہ یہ تو تم دکھ مانگ رہے ہو کیونکہ اللہ جانتا تھا کہ اس شہید ہونے والے کی زندگی کے اس آخری لمحے کا لطف ایک ایسا لطف تھا جو باہر کی دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی.پس جہاد کی راہ کی جو قربانیاں ہیں ان کا کوئی غم نہیں ہے اور جو ضرور لازما پیش آتی ہیں وہ تو پیش آئیں گی لیکن بہت معمولی ہوں گی.جو عظیم انعام اس کے نتیجہ میں ملتے ہیں اس کے مقابل پر یہ قربانیاں معمولی، کچھ بھی نہیں ہیں.رستہ چلتے کے کانٹے کی معمولی سی تکلیف سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ راولپنڈی کی جماعت اگر عظمت کردار رکھتی ہے، اگر محمد مصطفی امیہ کی سچی غلامی کا دعوی کرتی ہے تو یہی انتقام ہے جو ان کو لینا چاہئے اور خدا آپ کے ساتھ ہوگا اور اس انتقام میں آپ کی پوری مدد فرمائے گا اور تمام دنیا کی جماعتیں ان کے ساتھ مل کر اس انتقام میں پورا حصہ لیں.ان معنوں میں خدا منتقم ہے کہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتا ہے جو جہنم کی طرف جارہے ہوں ان کو جنت کی طرف بلانے سے بہتر انتظام اور کیا ہوسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 715

خطبات طاہر جلد 13 709 خطبه جمعه فرمود و 23 ستمبر 1994ء اخلاق حسنہ اپنا ئیں اور ان کے غلے کی دعا مانگیں ، بدخلق گھر عزت نہیں یا تا.اپنے گھروں میں اعلیٰ اخلاق اپنا ئیں.(خطبه جمعه فرموده 23 /ستمبر 1994ء بمقام لاس اینجلس،امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج بھی بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں ملکوں کے کچھ اجتماعی یا جماعتی جلسے ہیں یا ذیلی تنظیوں کے اجتماعات ہیں اور ایک کافی بڑی فہرست تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کل کثرت سے جلسے بھی ہو رہے ہیں اور اجتماعات بھی ملکی سطح پر ہورہے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اب وقت اعلانات پر لگنا شروع ہو گیا ہے اس لئے کبھی نام لے کر نہ بھی اعلان کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے.عموما ان سب کو دوست اپنی دعاؤں میں یا درکھیں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملکی اجتماعات ہو رہے ہیں یا جلسے ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے سارے اجتماعات کو للہ رکھیں، کہیں بھی کوئی انانیت کا یا دکھاوے کا پہلو، ان کی نیتوں میں یا اعمال میں داخل نہ ہو سکے.نیکی کا کوئی کام بھی جہاں نیت میں معمولی سا بھی فتور داخل ہو جائے، کوئی کیٹر ا لگ جائے آخر وقت تک داغدار رہتا ہے اور اسے اچھے پھل نہیں لگتے.یہ وہ اہم بات ہے جس کے پیش نظر مجھے پہلے بھی ایک دو دفعہ یہ خیال آیا کہ اگر اس رواج کو مستقل جاری کر دیا گیا تو بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں یہ شوق کہ ہمارا نام بھی پڑھ کر سنایا جائے.ان کی نیتوں میں داخل ہو جائے گا اور یہ بھی ایک کیڑا

Page 716

خطبات طاہر جلد 13 710 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 /ستمبر 1994ء ہے جو جڑ کو لگ جائے تو پھل ہمیشہ داغ دار نکلتا ہے بلکہ بسا اوقات ایسے درخت بھی مرجاتے ہیں جن میں جڑوں میں کیڑے لگ جائیں.جڑ کی بیماری کی اصلاح سب سے مشکل کام ہے اور بسا اوقات جب جڑ میں بیماریاں لگیں تو زمیندار کی کچھ پیش نہیں جاتی ، ایسے پودے بالآ خر ضرور مرجھا جایا کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے ہر کام کے آغاز سے پہلے نیتوں پر غور کا ارشاد فرمایا ہے انما الاعمال بالنیات ( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر : 10) تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.نیتیں جو ابھی دل کی گہرائیوں میں یا ذہن کے پردوں کے پیچھے کروٹیں لے رہی ہوتی ہیں جن پہ کچھ محنت صرف نہیں ہوتی محض ایک خیال کی حیثیت سے پیدا ہوتی ہیں.ان میں ایسی طاقت ہے کہ بڑی سے بڑی اعمال کی عمارت کو بھی وہ منہدم کرنے میں یا بالآخر اپنے مقاصد میں نا کام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے.بدنیتی پر انحصار ہو تو تمام دنیا بھی اس عمل میں اس نیت کی محمد ہو جائے ، اس نیت پر کار فرما ہونے کے لئے کوشش کرے تو بدی کا پھل بد ہی لگے گا.اس لئے نیتوں پر ہر کام کا سکھانا، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا ایک بہت بڑا احسان ہے اور مومن کو ہمیشہ متنبہ فرما دیا ہے کہ تمہاری ساری محنت ضائع جائے گی اگر نیت سے تم باخبر نہ ہوئے اور نیت کی اچھی طرح چھان بین کر کے تسلی نہ کر لی کہ تمہاری نیت صاف اور پاک ہے.پس اس پہلو سے بسا اوقات نیکی کے رستے سے بھی بد نیتیں داخل ہو جایا کرتی ہیں.بظاہر نیک کام ہے لیکن نیکی کے ساتھ جو خود نمائی کا پہلو بھی آجاتا ہے وہ انسان کی نیت میں داخل ہو جائے تو سارا عمل بے کار اور بعض دفعہ بے ثمر اور بعض دفعہ تلخ پھل لانے کا موجب بن جاتا ہے.پس ہمیں عمومی طور پر اپنی نیتوں پر نظر رکھنی چاہئے اور جہاں بھی یہ رخنہ پیدا ہو یا یہ گمان پیدا ہو یا یہ اندیشہ ہو کہ نیتوں میں کوئی دوسری چیز داخل ہو رہی ہے ایسے رستے کو بند کرنا وقت کے اوپر بہت ہی ضروری ہے اور ایسے رستوں پر چلنے سے گریز بہت لازم ہے.پس اگر چند ممالک کے نام یا چند جماعتوں کے نام نہ بھی سنائے جائیں تو کوئی ایسا نقصان نہیں ہے لیکن اگر سنائے جائیں اور وہ ان کی نیتوں میں گند ڈالنے کا موجب بن جائیں، آج نہیں تو کل رخنہ پیدا کر دیں تو یہ بہت بڑا نقصان ہے اس لئے جن ممالک کے نام میں پڑھ کر نہیں سنا رہا ان کو سمجھا رہا ہوں کہ اس پر دل گرفتہ نہ ہوں اس پر غم اور فکر کا اظہار نہ کریں.ان کے نام نہ سنانا بہتوں کی اصلاح کا موجب بن جائے گا اور خود ان کے لئے بھی

Page 717

خطبات طاہر جلد 13 711 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء غور وفکر کا موجب ہوگا.وہ اب اپنے دلوں کو خوب کھنگال سکیں گے، اپنی نیتوں کو خوب اچھی طرح پر رکھ سکیں گے کہ آیا ہماری نیت میں محض دعا ہی تھی.حصول دعا اور نیک کاموں میں آگے بڑھنے کی تمنا یا کچھ دکھاوے کا پہلو بھی داخل ہو گیا تھا.اگر محض للہ ایک اچھے کام کے اظہار کے لئے تمنا تھی کہ باقیوں کو بھی توفیق ملے اگر محض اللہ اس لئے اعلان کی خواہش تھی کہ سب دنیا کے احمدیوں کو یا دوسروں کو بھی جو خطبات سنتے ہیں دعا کی توفیق ملے تو یہ نیت تو آپ کی پوری ہو جائے گی اس میں ایک ذرہ بھی رخنہ نہیں پڑے گا.معمولی سا بھی فرق نہیں آئے گا کیونکہ وہ خدا جس نے دعائیں قبول کرنی ہیں اس خدا کے علم میں تو وہ سب جماعتیں ہیں، وہ ساری مجالس ہیں جن کے ہاں جلسے ہو رہے ہیں یا اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں لیکن اگر دکھا وا پیش نظر تھا تو پھر ایسے لوگوں کو ضرور تکلیف پہنچے گی اور ایسی تکلیف بھی بعض دفعہ اصلاح کا موجب بن جاتی ہے.یہ تمہیدی بیان ہے جو دراصل جماعت کی عمومی اصلاح کے لئے اب فی ذاتہ ضروری تھا.اس کا بظاہر تعلق تو جلسوں کے اعلانات سے ہے لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر نیک کام میں چونکہ بد نیتوں کے داخل ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے اس لئے وقتاً فوقتاً اس کی یاد دہانی کرائی جاتی رہے تو جماعت کے لئے مفید ثابت ہوگا.اب میں اس مضمون کو پھر لیتا ہوں جو کچھ عرصہ سے سلسلہ وار شروع ہے یعنی وہ اخلاق حسنہ جن کی اسلام مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے ہر مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اچھا تعلق ہو اور بنی نوع انسان سے اچھا تعلق ہو.بنی نوع انسان سے جو تعلق ہے وہ ہم سب کی نظر میں ہوتا ہے، اللہ سے جو تعلق ہے وہ براہ راست دکھائی نہیں دیتا اس لئے وہاں صرف دعوے ہی دعوے رہ جاتے ہیں.کوئی مذہب اگر یہ کہے کہ ہم بندے کو خدا سے ملاتے ہیں تو یہ ایک دعوئی ہے.کسی کو کیا پتا کہ وہ مذہب خدا سے ملاتا بھی ہے کہ نہیں لیکن اگر کوئی مذہب یہ دعویٰ کرے کہ ہم اخلاق حسنہ کی ترویج کے لئے قائم کئے گئے ہیں.ہم اس لئے آئے ہیں تا کہ بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کو درست کریں اور پہلے سے بہتر بنا دیں تو یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ہر کس و ناقص کو دکھائی دیتا ہے کہ کس حد تک پہنچا ہے.اور اس سے مذاہب کی شناخت، ان کی پہچان بہت آسان ہو جاتی ہے.پس دو پہلو ہیں ایک اللہ سے تعلق کا اور ایک بنی نوع انسان سے تعلق کا جو بظاہر جدا جدا ہیں.ایک وہ ہے جو ہمیں اس دنیا میں دکھائی دیتا ہے، ایک وہ ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے.مگر ذرا بھی

Page 718

خطبات طاہر جلد 13 712 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دراصل یہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.یہ ناممکن ہے کہ اللہ سے اچھے تعلقات ہوں اور بندوں سے گندے اور مکروہ تعلقات ہوں.کئی وجو ہات سے یہ ناممکن ہے اول وہ وجہ جو میں پہلے بیان کرتارہا ہوں کہ اگر خالق سے پیار ہے تو اس کی تخلیق سے بھی لازما پیار ہونا چاہئے ، اگر کسی شاعر سے محبت ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے شعروں سے نفرت ہو، کسی فنکار سے تعلق ہے تو اس کے فن سے بھی محبت ایک طبعی امر ہے یہ وہ بات ہے جو میں بارہا بیان کر چکا ہوں مگر اب میں اس مضمون کو ایک اور پہلو سے کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اخلاق حسنہ ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجے میں انسان کا انسان سے تعلق بڑھتا ہے اور گہرا ہوتا جاتا ہے.بدخلق انسان ایک ایسی مکروہ چیز ہے جس کا اپنے گھر میں بھی تعلق قائم نہیں ہوتا.کوئی انسان خواہ کتناہی امیر کیوں نہ ہوا اپنے بچوں کے لئے خواہ وہ محلات ہی کیوں نہ کھڑے کر دے، ان کی اعلیٰ تعلیم کے بہتر سے بہتر انتظام ہی کیوں نہ کر دے، اگر وہ بدخلق ہے تو اس کے بچوں کو اس سے پیار نہیں ہوگا ،اگر وہ بدتمیز ہے تو اس کی بیوی اس کے کسی احسان کو نہیں مانے گی، ہمیشہ اس کی شاکی رہے گی ، اس کے خلاف شکوے کرتی رہے گی کہ میرا خاوند تم لوگوں کے لئے اچھا ہوگا مگر گھر کے لئے تو ایسا بدتمیز ہے کہ گھر کے سارے سکون کو اس نے غارت کر کے رکھ دیا ہے.ایک بدخلقی جو ایک گھر میں تمام احسانات کا قلع قمع کر دیتی ہے اور کوئی تعلق قائم نہیں ہونے دیتی.ایسی بدخلقی جس کے نتیجے میں وہ شخص حلقہ احباب میں بھی کوئی عزت کا مقام نہیں پاتا، ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ اللہ کے دربار میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہوگا حد سے زیادہ بے وقوفی ہے.اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوپر بہت ہی بدظن رکھتے ہیں یہ لوگ، جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے اخلاق تو ایسے ہیں کہ ایک بدخلق کی صحبت ہمیں سزا دیتی ہے ، ہم پسند نہیں کرتے کہ اس کے پاس کچھ عرصہ بیٹھیں اور اس کے نتیجے میں ایک روحانی عذاب میں مبتلا ہوں.اپنے متعلق تو انسان یہ سوچے کہ بدخلقی کے نتیجے میں بیوی بھی خاوند کی نہیں رہتی، بچے بھی باپ کے نہیں رہتے مگر اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.کیسا ہی بد تمیز، بدخلق، مکروہ اخلاق کا انسان ہو وہ اگر نمازیں پڑھتا ہے تو اللہ کے ہاں مقبول ہے.یہ خیال انتہائی جاہلانہ خیال ہے اس میں کوئی ادنیٰ بھی حقیقت نہیں.بندوں سے زیادہ خدا نفیس ہے.ہم نے

Page 719

خطبات طاہر جلد 13 713 خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1994ء تو نفاست اپنے رب سے سیکھی ہے.اگر اللہ میں یہ نفاست جس کو کہا جاتا ہے خلق کی نفاست یہ نہ ہوتی تو بندوں نے کہاں سے لینی تھی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی سیرت پر پیدا فرمایا ہے، اپنے خلق پر پیدا فرمایا ہے اس لئے ہر اعلیٰ خلق کے رستے سے آپ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مزاج کو پہچان سکتے ہیں اور مزاج شناسی کے بغیر دوستی نہیں بڑھ سکتی.یہ ناممکن ہے کہ آپ اپنے گھر میں بھی اپنے عزیز ترین شخص کے مزاج سے ناواقف رہیں اور آپ کے تعلق گہرے اور استوار ہو سکیں.مزاج شناسی ہی سے Appreciation پیدا ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص کوئی حسن رکھتا ہے لیکن اس کی Appreciation نہیں ہو رہی، اس کے حسن کی قدر دانی نہیں ہو رہی تو ہمیشہ پیاسا اور محروم رہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے مزاج کو آپ سمجھیں نہ اور یہ سمجھتے ہوں کہ آپ اس سے تعلقات قائم کرتے اور عبادت کے ذریعہ خوش کر رہے ہیں تو یہ آپ کی بڑی غلط فہمی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض عورتیں بے چاری ساری زندگی بدامنی میں رہتی ہیں، بے سکونی کی حالت میں عمر گزار دیتی ہیں اور اپنے خاوندوں کے متعلق یہ کہتی ہیں کہ بہت شریف النفس ہے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچائی لیکن عورت کے حسن سے ناواقف رہتے ہیں، اس کے اندر جو گہری خوبیاں ہیں، اعلیٰ اخلاق ہیں ان پر ان کی نظر ہی نہیں ہوتی اور بیوی اس طرح رہتی ہے گھر میں جیسے کوئی دوسری مخلوق ہو.اس کے ساتھ خاوند اپنی شرافت کے نتیجے میں حسن سلوک تو کرتا ہے لیکن اس کی قدر نہیں پہچانتا.پس وہ بیویاں جن کی قدر نہ پہچانی جائے انہیں کبھی زندگی میں گہر اسکون میسر نہیں آ سکتا اور آپ میں اگر کوئی خوبی ہو اور لوگ اس سے ناواقف ہوں ، بعض شعراء ہیں بیچارے بعض دفعہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں جہاں ان شعروں کا کوئی ذوق ہی نہیں ہوتا ان کے متعلق اگر آپ نے ان کو دیکھنا ہوان کا کیا حال ہے تو اس مجلس سے نکلتے دیکھیں.انگریزی میں کہا جاتا ہے چمگادڑ جہنم سے نکلی“ ویسے ہی ان کا حال ہوتا ہے.پر جھاڑتے ہوئے وہ مجلس سے اٹھتے ہیں کہ ایسے نامعقولوں سے واسطہ پڑا کہ کچھ مجھ نہیں آئی کسی کو کہ میں کیا کہہ رہا تھا.چنانچہ یہ انسانی فطرت میں داخل ہے.قدر شناسی انسانی تعلقات کا ایک لازمی حصہ ہے اور جہاں مزاج شناسی نہ ہو وہاں قدر شناسی نہیں ہو سکتی.پس اللہ کے مزاج کو سمجھیں اور اللہ کے مزاج کو آپ اپنی فطرت پر غور کرنے کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں.جو باتیں آپ کو پسند ہیں وہ اگر

Page 720

خطبات طاہر جلد 13 714 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء آپ کا ذوق اچھا ہے تو وہی باتیں اللہ کو پسند ہیں.اگر آپ بد ذوق ہیں تو جو باتیں آپ کو پسند ہیں وہ اللہ کو نا پسند ہیں.یہ موٹی سی صاف پہچان ہے.پس اس پہلو سے اخلاق حسنہ کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے وہ مذہب جو اخلاق حسنہ نہیں پیدا کر سکتا جو ایک با اخلاق قوم نہیں پیدا کر سکتا وہ کروڑ دعوے کرتا رہے کہ ہم باخدا انسان بنا دیتے ہیں، جھوٹا ہے یا وہ جھوٹا ہے یا اس کے ماننے والے جھوٹے ہیں.مذہب سچا ہے مگر اس کے ماننے والے اس کو سچا سمجھ کر اس پر عمل نہیں کرتے.پس اخلاق کی بہت بڑی قیمت ہے اس پہلو سے میں نے ایک دفعہ نور کر کے دیکھا تو دنیا کی کسی مذہبی تاریخ میں بھی کسی ولی کسی بزرگ کسی نبی کے متعلق یہ ذکر نہیں ملتا کہ وہ بداخلاق تھا.ویسے تو نیک تھا مگر تھا بڑا بد خلق.جو بد خلق ہے وہ بد بھی ہے اور خدا کے ہاں بدخلق مقبول نہیں ہوسکتا.کبھی کسی نبی کا ذکر آپ نہ قرآن میں پڑھیں گے نہ دیگر مذہبی کتب میں جو خدا کے ہاں درجہ پا گیا ہو لیکن بدخلق ہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا بد خلق تو اپنے گھر میں عزت نہیں پاتا خدا کے ہاں اس کو کہاں عزت ملے گی.تو اپنے اخلاق کی حفاظت کریں، اپنے اخلاق کو بلند کریں اور یہ احمدیت کی سچائی کا ایک ایسا زندہ ثبوت ہوگا جس کے نتیجہ میں جو ثبوت آپ کو مہیا ہو جائے تو ساری دنیا کا مولوی ہزار کروڑ گالیاں دیتار ہے دنیا اس کی بات نہیں سنے گی ، آپ کے خلق کی بات مانے گی.پس وہ جماعتیں جو دنیا میں تبلیغ کرتی ہیں یا تبلیغ کے فریضے پر ان کو فائز فرما دیا گیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے، ان جماعتوں کولازم ہے کہ وہ اپنے اخلاق کی حفاظت کریں اور اخلاق کا آغا ز گھروں سے ہوتا ہے.ہر نیکی کا آغاز گھر سے ہوتا ہے.بعض لوگ اس محاورے کو سمجھتے نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ نیکیاں گھر والوں سے ہی کرنی چاہئیں.یہ مطلب نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ وہ نیکیاں جو باہر کی جائیں اور گھر والے اس سے محروم ہوں وہ نیکیاں نہیں ہیں کیونکہ نیکی کا سب سے پہلا اثر اس پر ہونا چاہئے جو قریب ترین ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا خیر کم خیر کم لاهله تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل ، اپنے گھر والوں سے سب سے اچھا ہے اور پھر فرمایاوانا خیر کم لاهلی (ترندی کتاب المناقب حدیث نمبر ۳۸۳۰) تم سب میں سب سے زیادہ حسن سلوک کرنے والا اپنے گھر والوں سے میں ہوں اور یہ بات بالکل سچی ،سو فیصدی حقیقت ہے بلکہ ایسی اعلیٰ درجے کی سچائی ہے جو نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے اور بہت سے لوگ اس میں ڈوب کر اس کی حقیقت

Page 721

خطبات طاہر جلد 13 715 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء سے آگاہ نہیں ہیں.آنحضرت ﷺ کی زندگی کا صرف اس ایک حدیث کے پہلو سے آپ تجزیہ کر کے دیکھیں تو حیران و ششدر رہ جائیں گے کہ باقی دنیا کی اصلاح کا تو خیر معاملہ بہت ہی بڑا اور وسیع ہے اپنے گھر میں جو آپ نے حسن خلق دکھایا ہے جس جس موقع پر جیسے صبر سے کام لیا ہے اس کی مثال آپ کو دنیا میں اور دکھائی نہیں دے گی.پس اخلاق کا سفر گھر سے شروع ہو کر گھر میں ختم نہیں ہوتا یا باہر سے شروع ہو کر گھر کے دروازے تک آ کر کھڑا نہیں ہو جاتا.یہ گھر کو باہر سے ملاتا ہے اور باہر کوگھر سے ملاتا ہے اور یکسانیت پیدا کرتا ہے انسان میں.جو سچا خلیق ہے اس کا دائرہ اخلاق نہ گھر تک محدود ہے نہ اپنے ہم مذاہب تک محدود ہے نہ اپنے ہم وطنوں تک محدود ہے یہ دائرہ اخلاق وہ ہے جو تمام عالم تک پہنچتا ہے اور اس کے محیط میں ہر انسان شامل ہو جاتا ہے.یہ وہ اخلاق کا اعلیٰ معیار ہے جس پر اسلام آپ کو نافذ کرنا چاہتا ہے.جس کو سمجھے بغیر آپ حقیقت میں احمدیت کے فلسفے سے ہی نا واقف رہیں گے.اسلام اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں بہت پھیل چکا ہے تقریباً ایک ارب ایسے لوگ ہیں جو اسلام سے وابستہ ہیں اس کے باوجود احمدیت کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی.چونکہ لاؤڈ سپیکر کا نظام صحیح کام نہیں کر رہا تھا اس لئے اس موقع پر حضور انور نے منتظمین کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: آپ کا لاؤڈ سپیکر صحیح کام نہیں کر رہایا بہت آواز میں دے رہا ہے یا خاموش ہو جاتا ہے.کوئی بیچ بیچ کی راہ اختیار کریں یہ بھی اخلاق کی تعریف ہے کہ درمیانی رستہ اختیار کرو.نہ بہت شور ڈالو نہ بالکل گم سم ہو جاؤ.تو اللہ تعالیٰ آپ کے مائیکروفون اور لاؤڈ سپیکر کو بھی اخلاق حسنہ کی توفیق عطا فرمائے.میں بات یہ بتا رہا تھا کہ اسلام میں جو اخلاق کی تعریف ہے وہ وسیع اور عالمگیر ہے اور کسی ایک حصے کا دوسرے حصے سے فرق نہیں کرتی.اس پہلو سے چند ایک امور میں آپ کے سامنے خصوصیت سے رکھنا چاہتا ہوں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہب جو اخلاق کا تصور پیش کرتا ہے اس کا دنیا کے اخلاق کے تصور سے ایک فرق ہے.دنیا میں اخلاق سے مراد ہے Courtesy Civilised Behaviour مسکرا کے ملنا اور مسکرا کر بات کا جواب دینا، ادب سے ایک

Page 722

خطبات طاہر جلد 13 716 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء دوسرے سے گفتگو کرنا اور یہ تصور یہاں تک آ کر ٹھہر جاتا ہے جو گہرے انسانی روابط ہیں ان کو ادب نہیں سکھا تا اور انصاف اور احسان کے جو اعلیٰ تقاضے ہیں ان پر گفتگو نہیں کرتا بلکہ خاموش رہتا ہے.پس ایک مہذب انسان ظاہری طور پر بہت ہی سلجھا ہوا اور صاف ستھرا انسان سوسائٹی میں ہر دلعزیز بن جاتا ہے.لیکن جب اس کے معاملات بنی نوع انسان سے آزمائش میں پڑتے ہیں تو بالعموم اس کے اخلاق وہاں بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں یا اس کے اخلاق کی تعریف میں وہ باتیں داخل نہیں ہوتیں.بہت سے مہذب گفتگو کرنے والوں کو میں نے دوسرے کے حقوق کھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے بہت سے مہذب با اخلاق لوگوں کو اپنے بھائیوں کا حق مارتے بھی میں نے دیکھا ہے، اور جھوٹ بولتے دیکھا ہے، کئی قسم کی دوسری برائیوں میں ملوث دیکھا ہے لیکن بات وہ بڑی تہذیب سے کرتے ہیں.پس دنیا کے ہاں جو اخلاق کا تصور ہے وہ اور ہے اور مذہب جو اخلاق سکھاتا ہے وہ بہت گہرے ہیں اور ہر قسم کے انسانی تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں کوئی ایک دائرہ تعلق انسانی ایسا نہیں ہے جس پر اسلام کے تصور اخلاق کا اثر نہ ہو.پس اس پہلو سے جب میں آپ کو با اخلاق بنانا چاہتا ہوں یا با اخلاق دیکھنا چاہتا ہوں تو میں اپنی نظر سے نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نظر سے آپ کو با اخلاق دیکھنا چاہتا ہوں اور اسی پہلو سے با اخلاق بنانا چاہتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے اخلاق کو سنوارنے کے لئے جو مختلف نصائح فرما ئیں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے.اگر چہ گنتی میں تو وہ شمار ہو سکتی ہیں لیکن بعض اتنی گہری اور اتنی وسیع الاثر ہیں کہ ان کے اندر ڈوب کر ان کے سارے مضمون کو پانا بھی اور سارے مضمون کو سمجھ جانا ایک بہت لمبے مطالعہ کا محتاج ہے.اور گہرے مطالعہ کا محتاج ہے.اس لئے وقتا فوقتا کبھی کبھی ان میں سے بعض احادیث کے بعض پہلو آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیثیں اپنے مضمون میں وہیں ختم ہوگئی ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی آپ کے سامنے آغاز ہی میں انما الاعمال بالنیات کی حدیث رکھی تھی ، اس پر اگر آپ غور کریں، اس کے مضمون میں ڈوب کے ، پھر اپنے حالات کا جائزہ لیں ، اپنے ان تمام کاموں کا جائزہ لیں جو آپ نے زندگی بھر کئے اور ان سے پہلے دل میں وارد ہونے والی نیتوں پر غور کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کے بہت سے نیک کام نیت کے لحاظ سے بد تھے اور اس پہلو سے وہ خدا کے ہاں نا مقبول ہیں.کئی لوگ نماز پڑھتے ہیں تو اس میں دکھاوے کا پہلو آ جاتا ہے.کئی لوگ غریب

Page 723

خطبات طاہر جلد 13 717 خطبہ جمعہ فرموده 23 ستمبر 1994ء کی ہمدردی کرتے ہیں تو اس میں دکھاوے کا پہلو آ جاتا ہے.کئی لوگ بظا ہر حسن خلق سے سلوک کرتے اور جواب دیتے ہیں لیکن دل میں اس شخص کے لئے نفرت پاتے ہیں اور دل میں اس کے لئے میل رکھتے ہیں تو ان کا ظاہری خلق بھی ایک قسم کا جھوٹ بن جاتا ہے.صبح سے لے کر رات تک اپنے روز مرہ اعمال پر غور پر کریں وہ قدم جو اٹھاتے ہیں ان پر غور کریں تو بسا اوقات آپ نیتیں چھپانے کا سفر کر رہے ہوتے ہیں، نیتیوں کو درست کرنے کا سفر نہیں کرتے اور نیتوں کو چھپانے کا جو مضمون ہے یہ ساری زندگی پر محیط ہے.ہم جو روز مرہ کپڑے بدلتے ہیں اور عورتیں میک اپ کرتی ہیں یہ سارا مضمون در اصل بعض عیوب چھپانے کا مضمون ہے نا.چنانچہ لباس کا بنیادی فلسفہ بھی قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آدم پتوں میں اپنے عیوب چھپانے لگا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ لِباس التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: 27) یہ ظاہری لباس دراصل تمہاری بدیاں چھپانے کے کام آتے ہیں اور یہ میک اپ جو ہیں تمہارے چہروں کے داغ چھپانے کے لئے کام آتے ہیں مگر حقیقت میں اگر کوئی چیز عیب کو حقیقت میں زائل کر سکتی ہے اور بدیوں کو حسن میں تبدیل کر سکتی ہے تو وہ لِبَاسُ التَّقْوى ہے یعنی اللہ کے خوف کا لباس.یہ خوف کہ خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے ، یہ خوف دل پر غالب ہو اور اس نیت سے کوئی کام کیا جائے تو ہر عمل غیر معمولی طور پر اللہ تعالی کے ہاں قبولیت کے لائق ٹھہرتا ہے اور اس کو ویسے بھی ہر پہلو سے برکت ملتی ہے اور ہر عمل جو اس کے نتیجے میں کیا جاتا ہے وہ محفوظ ہو جاتا ہے، وہ شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے.اب اس پہلو سے اگر آپ اپنی زندگی کے سفر پہ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ اس ایک حدیث کے دائرے سے بھی بار ہا باہر نکل آئے اور اس کی حفاظت میں آپ قلعہ بند نہیں رہے.ہزاروں لاکھوں زندگی کے ایسے سفر تھے جن کے پیچھے نیتوں میں فتور تھا، ایک ایک قدم پر یہ فتور تھا اور ان کی نا آشنائی کی وجہ سے، ان سے ناواقفیت کی وجہ سے ہم بہت سے اپنے اعمال ضائع کرتے چلے جاتے ہیں اور قرآن کریم جو یہ فرماتا ہے کہ ایسی عورت کی طرح نہ بننا جو سوت کاتنے کے بعد اس کو پارہ پارہ کر دے.یہ مثال کسی نہ کسی پہلو سے ہر انسان پر صادق آ رہی ہوتی ہے ایک طرف وہ اچھے عمل کر رہا ہے، دوسری طرف اس کی نیتوں کا فتور یا ان کی غلطی یا اپنی بے حسی ان نیک اعمال کو ضائع کرتی چلی جاتی ہے اور یہ نہیں پتا چلتا کہ ہم نے کچھ آئندہ کے لئے اکٹھا کیا بھی ہے کہ نہیں، کچھ ذخیرہ

Page 724

خطبات طاہر جلد 13 718 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 رستمبر 1994ء بنایا بھی ہے کہ نہیں جو ہمارے، آئندہ آخرت میں کام آئے گا.پس اخلاق حسنہ میں سے صرف ایک حصہ یعنی نیت کی حفاظت، جو درحقیقت تمام اخلاق صلى الله حسنہ پر نگران ہے صرف اسی پر عمل کر کے دیکھیں تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نصیحت ہر انسان کی ساری زندگی پر ، تمام بنی نوع انسان کی تمام زندگیوں پر حاوی ہوگی اور اسی کا حق ادا کرنے میں ایک انسان اپنی ساری زندگی صرف کر دے تو پھر بھی حق ادا نہیں کر سکے گا.یہ معنی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی نصائح کو ٹھہر کر ، غور اور فکر کے ساتھ ، گہری نظر سے دیکھیں اور صرف دیکھیں نہیں اس کو اپنی زندگی پر چسپاں کرنے کی کوشش کریں، اپنے اخلاق کو اس کی روشنی میں ایک نئی صنعت عطا کریں نئی تخلیق بخشیں پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اندر روز بروزنئی پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں اور اس بات کے گواہ پہلے آپ کے گھر والے ہونے چاہئیں کیونکہ نیکی کا سفر گھر سے شروع ہوتا ہے.اگر آپ کے گھر والوں کو علم نہیں ہو سکا کہ آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں تو پھر یہ غلط نہی ہے کہ وہ تبدیلیاں واقعہ پیدا ہو رہی ہیں.لیکن گھر والوں کے علاوہ آپ کے قرب وجوار میں جو لوگ رہتے ہیں، جن سے تجارت کے معاملات ہیں ، لین دین کے تعلقات ہیں یا بہن بھائی، جب ورثے کی تقسیم کا وقت آتا ہے ایسے تمام مواقع پر جبکہ انسان کے اخلاق حقیقت میں آزمائے جاتے ہیں وہ وقت ہے کہ اخلاق کا حلیہ، اخلاق کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے اور اس وقت جو اوپر چمک ہوتی ہے وہ اچانک بعض دفعہ زائل ہو کر ، نیچے گندی نیت کے دھاگے بالکل صاف دکھائی دینے لگتے ہیں.ایسے موقع پر انسان پہنچانا جاتا ہے کہ زندگی بھر وہ کیا کرتا رہا ہے.میرے علم میں بعض دفعہ ایسے واقعات آتے ہیں کہ بظاہر ایک خاندان بہت ہی اچھے محبت کے تعلقات میں بندھا ہوا.بھائی، بہنوں سے پیار کرتے ہیں ، بہنیں، بھائیوں پر فدا، لیکن جب باپ نے آنکھیں بند کر لیں اور ورثے کی تقسیم کا وقت آیا تو سارے اخلاق غائب.پھر وہ بھائی جو قابض ہو جائے جائیداد پر وہ طرح طرح سے بہانے بنا کر اپنے باقی بھائیوں یا بہنوں کو ان حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں.ایسی بہنیں ہیں جو جوان تھیں جب ان کے والدین گزر گئے اور اب بوڑھی ہوگئی ہیں اور ابھی تک ان کے بھائیوں نے ان کے حقوق ادا نہیں کئے اور ویسے بڑا با اخلاق خاندان تھا ، آپس میں بڑے تعلقات تھے.تو یہ جو مضمون ہے یہ بہت ہی گہرا ہے

Page 725

خطبات طاہر جلد 13 719 خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1994ء اور اس کی پہچان کے بعض اوقات ، آتے ہیں، بعض آزمائش کے وقت آتے ہیں جن میں نیتیں ابھر کر باہر آ جاتی ہیں اور اوپر کی چمک غائب ہو جاتی ہے جیسے ریت میں پانی جذب ہو جاتا ہے اور خشک ریت پھر دکھائی دینے لگتی ہے تو انسانی تعلقات کے جتنے دائرے ہیں ان سب کے پیچھے کچھ نیتیں ہیں وہ روز مرہ دکھائی دیں یا نہ دیں لیکن بعض ایسے آزمائش کے وقت آتے ہیں جن میں وہ ضر ورزنگی ہو جاتی ہیں.ایسے وقتوں میں انسان پہچانا جاتا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو ہمیشہ کے لئے دنیا کی نظر سے الگ چھپ کر ایک منافقانہ زندگی ایسی بسر کر سکے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کی نظر سے اوجھل رہے.پس وہ مذہب جو ایسے انسان پیدا کرے جن کی زندگی کا ہر شعبہ با اخلاق ہو، جن کی انجمن بھی با اخلاق ہو اور ان کی تنہائی بھی با اخلاق ہو، جن کے گھر کے تعلقات بھی با اخلاق ہوں، جن کے دوستوں کے تعلقات بھی با اخلاق ہوں اور بازار کے تعلقات بھی با اخلاق ہوں اور سیاسی تعلقات بھی با اخلاق ہوں، غرضیکہ زندگی کے ہر دائرے میں وہ اسی طرح با اخلاق رہیں جیسے دوسرے دائروں میں با اخلاق ہیں اور کسی آزمائش کے موقع پر ان کے خلق کی تہہ میں دبی ہوئی گندگی اچھل کر باہر نہ آئے بلکہ اس کے برعکس نمونہ ظاہر ہو اور برعکس نمونہ یہ ہوا کرتا ہے کہ جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو وہ انسان جو حقیقت میں با اخلاق ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوب صورت ہو کر چمکتا ہے اور اس وقت اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو اس کو محض اچھا سمجھ رہے تھے یہ تو بہت ہی اچھا نکلا.اس نے تو حیرت انگیز کردار کا نمونہ دکھایا ہے.اس کی بعض مثالیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے اخلاق سدھارنے کے لئے ہمیں دیں بعض مثالوں کی صورت میں پیش فرمائیں.ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص تھا جس نے کسی مزدور کی مزدوری اپنے خیال سے درست دی لیکن مزدور یہ سمجھتا تھا کہ مجھے کم دی جارہی ہے اس نے اصرار کیا لیکن وہ اپنی ذات میں اپنے آپ کو درست سمجھتا تھا اور دیانتدار انسان تھا.اس نے کہا کہ نہیں تمہارا جو حق بنتا ہے وہ میں دے رہا ہوں.اس نے کہا ٹھیک ہے اگر یہ بات ہے تو میں یہ حق چھوڑتا ہوں اور میں جا رہا ہوں اور اس نے حق لینے سے انکار کر دیا.اب سوال یہ ہے کہ کون سچا تھا یہ خاص آزمائش کا وقت تھا.یہ پہچان کہ یہ با اخلاق تھا یا الله وہ با اخلاق تھا.کس کی بات سچی تھی ایک عجیب رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوئی اور آنحضرت ﷺ نے اس نیک نتیجے کی طرف توجہ دلا کر ہمیں اخلاق کا درس دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ وہ شخص چلا گیا، لیکن یہ

Page 726

خطبات طاہر جلد 13 720 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء شخص جس نے مزدور کی مرضی کے مطابق اجرت نہیں دی تھی ، تھا دیانتدار اور غلطی اس کی نہیں تھی اور اس کی دیانت کا امتحان ایسے ہوا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی اجرت کو اس نے کام پر لگا دیا اور اسے بڑھاتا رہا اور چونکہ ذہین تھا اور اچھا تاجر تھا، بھیڑ بکریوں وغیرہ کی تجارت کرتا رہا، اس سے اور اس کا مال بڑھتارہا اور باقاعدہ اس کا حساب الگ رکھا.یہاں تک کہ ایک لمبے عرصے کے بعد وہ شخص بہت ہی زیادہ مفلوک الحال ہو گیا اور اسے خیال آیا کہ اب کچھ اور صورت نہیں ہے تو میں اس شخص سے جا کر وہی اجرت طلب کروں جو میں رد کر بیٹھا تھا.چنانچہ بہت لمبے زمانے کے بعد وہ واپس آیا وہ شخص ابھی زندہ تھا.اس سے جب اس نے کہا تمہیں یاد ہے کہ ایک ایسا وقت تھا کہ جو اجرت تم مجھے دے رہے تھے وہ لینے سے میں نے انکار کر دیا تھا اب میرے حالات بہت گر چکے ہیں اب میری یہ حالت ہے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنی غیرت کو چبا جاؤں اور تم سے اس اجرت کا مطالبہ کروں.اس نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ جو بھیڑوں کا غلہ دیکھ رہے ہو دو وادیوں کے درمیان ، یہ سب تمہارا ہے.یہ وہی اجرت ہے یہ لے جاؤ اس نے کہا دیکھو تم ایک مجبور اور بے کس انسان سے مذاق نہ کرو میں نے اجرت کا مطالبہ کیا ہے.اس نے کہا مذاق نہیں یہ وہی اجرت ہے چونکہ میں سمجھتا تھا کہ میں دیانتدار ہوں اور میری دیانتداری کا تقاضا تھا کہ پھر تمہارے مال کو بے کار نہ پڑا رہنے دوں تو میں تمہاری خاطر اسے لگاتا رہا.اللہ برکت ڈالتا رہا یہاں تک کہ وہ ایک دو بھیڑوں کی قیمت کا مال اب بڑھ کر اتنا بڑا گلہ بن گیا ہے کہ دو پہاڑوں کے درمیان وادی ان سے بھر گئی ہے.چنانچہ وہ خوش خوش اس گلے کو ہانک کر لے گیا.نہ اس نے اس سے اجرت مانگی اس کی نہ اس کو یہ خیال آیا کہ اس با خلق انسان کی دل آزاری کروں یہ کہہ کر ، کہ کچھ تم اس میں سے میرا بدلہ لے لو.یہ اخلاق حسنہ کی آزمائش ہے یہ ایک مثال ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہے جو مثالیں دیا کرتے تھے وہ فرضی نہیں ہوا کرتی تھی کیونکہ وہ شخص جو سچا ہو وہ فی الحقیقت اپنی مثالوں کے لئے بھی سچائی کی تلاش میں رہتا ہے اگر چہ ایک سچے آدمی کے لئے ایک فرضی مثال دینا منع نہیں ہے لیکن انبیاء کا حال کچھ عام انسانوں سے مختلف ہوا کرتا ہے اور آنحضرت ملے تو تمام بچوں سے بڑھ کر بچے تھے اس لئے جب بھی میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی کسی پیش کردہ مثال کا مطالعہ کرتا ہوں تو کبھی کہانی کے طور پر نہیں بلکہ اس یقین کے طور پر کہ ایسا واقعہ ضرور کہیں نہ

Page 727

خطبات طاہر جلد 13 721 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء کہیں گزرا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اس سے مطلع فرمایا ہے.پس یہ ہے خلق حسنہ جس میں کوئی جھول نہیں پڑتا.کوئی لالچ اس پر اثر انداز نہیں ہوا کرتی اور ایسے شخص کی سچائی کو اللہ تعالیٰ خود ظاہر فرما دیتا ہے.پس آزمائش کے وقت اخلاق حسنہ اور چمک جاتے ہیں اور نمایاں ہو کر دکھائی دینے لگتے ہیں.ایک واقعہ اور ملتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ ایک ایسی مسلمان عورت سے آپ نے کچھ نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا جو اپنے بھائی کے حسن خلق کے گیت گایا کرتی تھی اور ایسے گیت گاتی تھی کہ اس کی شہرت تمام عرب میں پھیلتی چلی گئی.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن ان سے پوچھا کہ بی بی یہ کیا بات ہے کہ اور بہت سے موضوع ہیں تمہارا بھائی آخر وہ کیا چیز تھا جس کے حق میں تم نے ایسے ایسے گیت بنے ہیں کہ سارے عرب میں اس کی شہرت ہو گئی ہے تو اس نے کہا کہ یا امیر المومنین وہ ایک ایسا بھائی تھا کہ جس کی مثال دنیا میں ڈھونڈنی مشکل ہے اور اب میں بتاتی ہوں کہ کیوں میں اس کے حسن خلق کے گیت گاتی ہوں.کہتی ہیں جب میرے باپ کی وفات ہوئی تو اس بھائی نے یہ بھی نہ دیکھا کہ میں عورت ہوں میرا حصہ کم ہوگا یا عرب کے رواج کے مطابق ہوگا ہی نہیں.اس نے اپنی جائیداد کو عین نصف تقسیم کیا.آدھا مجھے دے دیا اور آدھا اپنے لئے رکھا.میرا خاوند عیاش تھا اور غیر ذمہ دار تھا وہ چند سالوں میں وہ جائیداد بیچ کے کھا گیا.میرا بھائی سمجھ دار تھا اور ذمہ دار تھا اس نے اپنے خاندان کو ، اپنے اہل وعیال کو اچھی طرح پالا لیکن ساتھ ہی تجارت میں مال لگا کر بہت فائدہ اٹھایا.یہاں تک کہ اس کے علم میں آیا کہ میں اب بالکل کنگال ہو چکی ہوں جس طرح تقسیم جائیداد سے پہلے کا حال تھا اسی حال تک پہنچ چکی ہوں تو وہ آیا اور اس نے پھر اپنی جائیداد کو نصف کیا.آدھا مجھے دیا اور آدھا اپنے لئے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رکھ لیا اور اس نے یہ بیان کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں کہ پھر ایسا وقت آیا کہ وہی بات دوبارہ ہوئی.میرے خاوند نے وہ سب کچھ بھی بیچ کھایا اور اس کو کوئی حیا نہ آئی کہ میری بیوی کا بھائی کتنے اعلیٰ اخلاق کا ہے اس نے کس محنت سے کمایا ہوا مال میری بیوی کی بھلائی کے لئے دیا ہے وہ سب کچھ بیچ کے یا اپنے عیش و عشرت میں لگا کر ضائع کر بیٹھا اور یہ پھر کنگال ہوگئی.پھر اس بھائی نے ویسا ہی کیا.اب روایت تو یہ بیان کرتی ہے کہ سات بار ایسا ہوا اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ سات بار ہوا تھا یا چند بار ہوا تھا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دو تین بار بھی ایسا ہوا ہو تو بہت عظیم اخلاق

Page 728

خطبات طاہر جلد 13 722 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء کا مظہر ہے.پس اس کی بہن نے اپنے مرحوم بھائی کے حق میں جو مر غیے گائے اور اس کی تعریف میں جو رطب اللسان ہوئی حضرت عمرؓ کے سامنے جب اس کی وجہ پیش کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جاؤ تم پر کوئی عذر نہیں وہ بھائی اس لائق تھا کہ اس کے لئے یہ سب کچھ تم کرو.پس ایسے بھی بھائی ہیں جو اپنی بہنوں کو ان کے حق سے زیادہ دیتے ہیں اور پھر جب ان کے بہنوئی سب کچھ ضائع کر بیٹھتے ہیں تو پھر ان کے لئے اسی طرح دوبارہ احسان کا سلوک کرتے ہیں اور پھر احسان کا سلوک کرتے ہیں.تو آزمائش کے وقت حسن خلق زیادہ چمک کر ظاہر ہوتا ہے، نئی شان کے ساتھ ابھرتا ہے اور بدخلقی آزمائش کے وقت بالکل بیٹھ جاتی ہے اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا، اس کی تہہ میں ہر طرح کی گندگی دکھائی دینے لگتی ہے.پس یہ وہ فرق ہے، یہ تمیز ہے حسن خلق اور ظاہری طور پر مہذب ہونے کے درمیان.جس کے ذریعے اخلاق حسنہ اپنی گہرائی تک پہچانے جاتے ہیں.ایک خلیق انسان مصیبتوں کے وقت اور زیادہ خلیق ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے جو اعلیٰ اخلاق کی تعریف بیان فرمائی ہے اس کے مقابل پر بد اخلاقی کی بھی تعریفیں کی ہیں.ان تعریفوں میں ایک یہ بات داخل فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو گر پڑتے ہیں، ہمٹی سے مل جاتے ہیں جن کا کچھ بھی نہیں رہتا ان کا سہارا نہیں بنتے یہ لوگ اس وقت جبکہ بھوک عام ہو جاتی ہے اور ساری قوم اس وقت بھوک میں مبتلا ہو جاتی ہے اس وقت یہ بھوک دور کرنے کے لئے آگے نہیں آتے.یہ ایک منفی تعریف ہے لیکن اس منفی تعریف میں مثبت تعریف نہایت اعلیٰ درجہ کی بیان ہو گئی ہے.عام طور پر جب پیٹ بھرے ہوئے ہوں ، گھر میں کافی کچھ ہو کھانے کے لئے اور کھلانے کے لئے اور دروازے پر دستک ہوئی ہے اور ایک فقیر نے ایک روٹی کا ٹکڑا مانگا ہے تو آپ دو روٹیاں بھی دے دیں تو اس سے اخلاق کی آزمائش نہیں ہوا کرتی.بھرے پیٹ والے بعض دفعہ زائد سالن پھینک دیتے ہیں ، زائد روٹیاں ان کی سوکھ جاتی ہیں اور Dust Bin میں پھینک دی جاتی ہیں تو ان کی خوش قسمتی کہ کوئی فقیر آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا گیا.وہ دے بھی دیا تو کیا فرق پڑا.ایک گھر سے بوجھ ہلکا ہوا.بعض دفعہ جب ضرورت نہ رہے تو فقیر ایک رحمت بن جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ احسان اس پر ہو وہ محسن بن جایا کرتا ہے.تو یہ اخلاق حسنہ نہیں ہیں.میں جب پہلی دفعہ امریکہ آیا تو میری بیوی بھی ساتھ تھیں دو بڑی بچیاں بھی ساتھ تھیں.ان

Page 729

خطبات طاہر جلد 13 723 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء دنوں میں یہ رواج تھا شاید اب بھی ہو کہ جس گھر میں ٹیلی ویژن پرانا ہو گیا کوئی صوفہ سیٹ بدلا کر نیا صوفہ سیٹ لینا ہو تو وہ اپنے پرانے ٹیلی ویژن اور پرانے صوفہ سیٹ کو اپنے گھر کے باہر لان میں رکھ دیا کرتے تھے اور مطلب تھا کہ جس کو ضرورت ہے وہ اٹھا کر لے جائے چنانچہ بعض پاکستانیوں نے نیویارک میں بھی اور واشنگٹن میں بھی مجھے بتایا کہ ہمیں تو خریدنے کی ضرورت ہی کچھ نہیں ہم چکر لگاتے رہتے ہیں جہاں باہر کوئی اچھا بھلا استعمال کے قابل صوفہ سیٹ نظر آئے یا ٹیلی ویژن دکھائی دے وہی لے لیتے ہیں.تو وہاں جو فقیر ہے وہ حسن بن جاتا ہے کیونکہ جن لوگوں نے یہ سامان پھینکنا ہے اگر وہ Haulage کمپنی کو بلائیں اور ان کے ذریعہ پیسے دے کر سامان کو کسی جگہ پھینکوا ئیں تو کافی خرچ آئے گا اس کو اخلاق حسنہ کون کہتا ہے.ایک ایسے گھر میں فقیر آیا ہے جہاں کھانے کی بہتات ہے، بچا ہوا کھانا، بچی ہوئی روٹی اس نے اس کو کرنا کیا ہے تو فقیر آیا تو چلو گلے سے بلا اتری اور اسی مضمون کو ہمارے پنجابی میں یوں بیان کرتے ہیں کہ یار آن تے گدوداں مکان کہ ہم تو انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ بیہودہ کھانے اور فضول چیزیں جو کسی کام کی نہیں ہمارے یار آئیں تو ان کو کھلائیں اور یہ مصیبتیں گلے سے اتریں.مہمان نواز بھی کہلائیں گے اور یہ فضول بچے ہوئے گند، یہ بھی ہمارے گلے سے اتریں گے اور اس مصیبت سے چھٹکارا نصیب ہو گا.تو یہ اخلاق حسنہ نہیں ہیں.قرآن کریم نے جو اخلاق کی تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھوک ایسی چمک جائے ایک گھر میں نہیں دو گھروں میں نہیں قوم کی قوم بھوکی ہو اس وقت جو لوگ ان کی مدد کے لئے نہیں نکلتے وہ اخلاق حسنہ پر فائز نہیں ہیں ان کا خدا تعالیٰ سے کوئی حقیقی تعلق نہیں اور جو تعلق والے ہیں ان کے متعلق فرمایا وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر: 10).ان کا تو یہ حال ہے کہ خواہ کیسی ہی تنگی محسوس کر رہے ہوں اپنے نفس پر دوسرے ضرورت مندوں کو تر جیح دے دیتے ہیں اور بعض دفعہ پتا بھی نہیں لگنے دیتے کہ خود کتنے ضرورت مند تھے.اس لئے کہ بھائی کے دل پر بوجھ نہ پڑے، ایسے واقعات سے بھی آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تاریخ مزین ہے کہ سخت ضرورت کے وقت اپنے بھائی کے لئے قربانی کرنا اور پھر یہ کوشش کرنا کہ اس کو پتا نہ چلے کہ ہمیں بھی ضرورت تھی.

Page 730

خطبات طاہر جلد 13 724 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء دوسری جگہ قرآن کریم اسی مضمون کو مثبت رنگ میں یوں بیان فرمایا ہے.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنا وَ يَتِيمًا (الدھر: (9) کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں ایسے وقت میں جب کہ خود کھانے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں.بھوک جب حد سے بڑھ جائے تو پھر کھانے سے واقعۂ محبت ہو جاتی ہے.جیسے محبوب کے بغیر چین نہیں آتا اور کسی کل انسان اطمینان نہیں پاتا ، اسی طرح بعض دفعہ جب بھوکا زیادہ ہو تو کھانا بھی محبوب کی طرح پیارا ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے جن الفاظ میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کا ایک کرشمہ ہے کہ ایک طرف بھوک کا مضمون بھی خوب چمکا کے بیان فرما دیا دوسری طرف نیت کے مضمون پر بھی خوب روشنی ڈال دی کیونکہ اسی طرز کلام کا، اسی بیان کا دوسرا معنی یہ بنتا ہے وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ یہاں ہ “ سے مراد اللہ ہے کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں محض اپنے نفس کی طمانیت کے لئے نہیں بلکہ خالصہ اللہ کی خاطر، اس کی محبت میں مبتلا ہو کر مِسْكِينًا وَيَتِيْمًا وَأَسِيرًا مسکینوں کو بھی ، یتیموں کو بھی ، اسیروں کو بھی.66 تو اخلاق حسنہ کے بھی مختلف درجے ہیں.وہ اخلاق جو قرآن نے بیان فرمائے ہیں وہ اخلاق جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں.یہ اخلاق عام سرسری اخلاق کہلانے والے اخلاق سے اتنے بلند ہیں کہ گویا زمین کو آسمان سے نسبت دینے کی کوشش کی جائے.کہاں زمین کی مخلوقات کہاں آسمانی مخلوق اور کوئی نسبت نہیں ہے ان زمینی اخلاق کو ، آسمانی اخلاق سے.تو جماعت احمد یہ چونکہ خدا کے تعلق کی دعویدار ہے اس لئے یہ بحثیں تو بہت لمبی اور طویل ہوں گی اور لا حاصل ہوں گی کہ آپ خدا والے ہیں.اکثر دنیا میں خدا والے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تمام مذاہب یہی کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خدا سے ملائیں گے.کون سا مذ ہب ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ ہم تمہیں خدا کا دشمن بنائیں گے خدا سے دوری کے طریق سکھائیں گے لیکن یہ دعویٰ کہ ہم تمہیں با اخلاق انسان بنا ئیں گے یہ دعویٰ کہ ہم تمہیں بنی نوع انسان سے ایثار کے اسلوب سکھائیں گے، ان کی خدمت کرنا سکھائیں گے ان کے لئے قربانیاں پیش کرنا سکھائیں گے.یہ دعویٰ محض خوب صورت نہیں مشکل بھی بہت ہے کیونکہ ایسے عمل کو چاہتا ہے جو سب دنیا کو دکھائی دے اسے چھپایا نہیں جاسکتا وہ تو ضرور ظاہر ہوگا.پس اس پہلو سے اپنے اخلاق حسنہ کی حفاظت کریں تو آپ کے خدا والے ہونے کا ثبوت دنیا کواز خود مہیا ہوگا کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی.

Page 731

خطبات طاہر جلد 13 725 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء مشک آنست که خود بگوید نه که عطار بگوید مشک تو وہی ہوتا ہے جو خود بولتا ہے.اپنی خوشبو سے بتاتا ہے کہ میں مشک ہوں، کسی عطار کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ آکے کہے کہ یہ مشک ہے تو تب آپ مانیں.پس اخلاق حسنہ خدا کی خوشبو رکھتے ہیں اور اخلاق حسنہ کا مشک خود بولتا ہے اور خود اپنے حق میں گواہی دیتا ہے.پس اس پہلو سے اپنے اخلاق کو اسلامی اخلاق کے تصور کے مطابق ڈھالیں اور اس سے یکجان کر دیں تا کہ دونوں کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے یہ کہنا آسان ہے.کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ لمبی محنت کا تقاضا کرتا ہے اس لئے کہ بہت سے انسان خود اپنی اخلاقی حالتوں سے واقف نہیں ہوتے.ان کو روز مرہ اپنے گھروں میں رہ کر ہی نہیں پتا چلتا کہ وہ کتنے بداخلاق اور انہوں نے اپنے اہل وعیال کو کیسی کیسی اذیتوں میں مبتلا کر رکھا ہے.ان کو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ ساری زندگی ان کے گھر میں ان سے نفرت کی جاتی ہے اور کیوں کی جاتی ہے.محض معمولی چند بد اخلاقیوں کے نتیجے میں، بدتمیزی سے بولنا، بچوں کو اپنی مخلوق سمجھنا، ان کی چھوٹی سی کمزوری پر ان پر ایسے برس پڑنا جیسے وہ ان کے مالک اور خالق ہوتے ہیں اور جو چاہیں ان سے سلوک کریں.یہاں تک کہ ایسے بچے پھر نفرتیں لے کر بڑے ہوتے ہیں اور بعض ایسی بچیاں ہیں جو ضائع ہو جاتی ہیں، گھر چھوڑ کر نکل جاتی ہیں اور ایسے معاشروں میں جہاں بے سہارا بچیوں کو شہ دی جاتی ہے وہاں ان کا مذہب بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے ان کے اخلاق بھی تباہ ہو جاتے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ ایک باپ بدتمیز تھا.تو ایک باپ کی بدتمیزی نے ، دیکھیں کیسے کیسے بدیوں کے گل کھلائے اور لوگوں کو ہوش ہی نہیں آتی.کئی سال ہو گئے ہیں مجھے یہ نصیحت کرتے ہوئے کہ خدا کے لئے اخلاق سیکھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اب نصیحت اثر انداز ہوگئی ہو گی.بعضوں پر ہو بھی جاتی ہے اللہ کے فضل سے لیکن اس کے باوجود یہ شکایتیں مسلسل ملتی چلی جارہی ہیں کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کے حق ادا نہیں کر رہا، اپنے بچوں سے حسن سلوک نہیں کر رہا، کوئی اپنی بہنوں، اپنے بھائیوں کے حق ادا نہیں کرتے جائیدادوں پر نظر ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا نظر انداز ہو جاتی ہے اور اس کے باوجود با اخلاق بھی کہلاتے ہیں.مذہبی بھی کہلاتے ہیں اور بظاہر عبادتیں بھی کرتے اور اپنے زعم میں عبادتوں کا حق بجالاتے ہیں.پس وہ ساری عبادتیں جو قرب الہی کے حصول کا موجب ہوں وہ بنی نوع انسان کے بھی

Page 732

خطبات طاہر جلد 13 726 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء انسان کو قریب تر کر دیا کرتی ہیں.یہ ایسا قطعی اصول ہے جس میں آپ کہیں رخنہ نہیں پائیں گے.یہ سچا ہے اور ہمیشہ کارفرمارہا ہے.اور اس کے ثبوت میں ایک دفعہ پھر میں انبیاء کی تاریخ کو گواہ ٹھہرا کر آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ تمام دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ان سب کے انبیاء کی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھیں وہ انبیاء جو با خدا تھے وہ با اخلاق بھی تھے اور ان کی قومیں اسی طرح ان کے خلق کے گیت گاتی ہیں جیسے وہ اپنے رب کے حسن اور اس کی مدح کے گیت گایا کرتے تھے.پس خدا کا عاشق ہو جانا بنی نوع انسان کا عاشق ہو جانے کا مطالبہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو درست کر لینا، اس کی مخلوق سے تعلقات کو درست کر لینے کا مطالبہ کرتا ہے.پس اپنے تعلقات کی اصلاح کریں اور آنحضرت میے کی نصائح کو اس معاملے میں غور اور سنجیدگی سے پڑھیں اور اپنی زندگی پر اس کا اطلاق کرنے کی کوشش کرتے رہیں.وقت چونکہ ختم ہو چکا ہے چند ایک منٹ زائد میں آپ سے لیتا ہوں اور آنحضرت کی ایک دو اور معین نصیحتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت مﷺ نے فرمایا.جب تم میں سے کسی کا نوکر کھانا تیار کر کے لائے تو تم اسے اپنے پاس بٹھا کر نہ بھی کھلا سکو تو کم سے کم ایک دو لقمے تو اسے کھانے کو دے دو کیونکہ اس نے یہ کھانا محنت کر کے تمہارے لئے تیار کیا ہے اس میں اس کا بھی حق ہے.( بخاری کتاب العتق حدیث نمبر : 2385) پس وہ لوگ جو خدمتوں پر مامور ہوتے ہیں ان کا پورا اجر دے بھی دیں تب بھی وہ نعمتیں جو ان کے ذریعے آپ کو میسر آ رہی ہیں ان پر ان کا حق قائم رہتا ہے اس لئے ان نعمتوں میں ان کو شریک کرنا بھی ایک اعلیٰ اخلاق کا لازمی جزو ہے.ایک حدیث ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ سے یہ صلى الله پوچھا گیا کہ اعمال میں سے سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ آنحضور ﷺ سے جب اس قسم کے سوالات ہوتے تو موقع اور محل کے مطابق سوال کرنے والے کے حال پر نظر رکھتے ہوئے آپ نے ایک جواب دیا ہے اور کہیں کسی ایک چیز کو زیادہ اچھا عمل بیان فرمایا، کہیں کسی اور چیز کو زیادہ اچھا عمل بیان فرمایا اور محدثین بیچارے مشکلوں میں مبتلا.یہ ان بحثوں میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کے اندر کوئی تضاد ہے کہ نہیں ہے، اختلاف کیوں ہے.حالانکہ یہ بحث ہی بے تعلق ہے کیونکہ ہر وہ انسان جو سوال کرنے والے کے حال سے باخبر ہو، اس کے مزاج کو پہچانتا ہو اس کا جواب اس کے حال کے مطابق

Page 733

خطبات طاہر جلد 13 727 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء دیا کرتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کے جوابات کا اختلاف پوچھنے والے کے مزاج کے اختلاف کا مظہر ہے اور اسی وجہ سے آنحضور ﷺ کے جواب کا اختلاف آپ کے جواب کا نہیں بلکہ پوچھنے والے کے حال کے اختلاف کا مظہر ہے اور اس موقع پر جب پوچھا گیا، پوچھنے والے نے یہ پوچھا کہ سب سے اچھا عمل کون سا ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اس کے رستے میں جہاد کرنا.راوی کہتے ہیں پھر میں نے پوچھا کہ قربانیوں میں کون سی قربانی افضل ہے؟ تو آنحضور نے فرمایا ان جانوروں کی قربانی جو مالک کو زیادہ پسند ہوں اور زیادہ قیمتی ہوں.کہتے ہیں پھر میں نے عرض کیا کہ اگر ایسا نہ کر سکوں تو پھر.تو آپ نے فرمایا کسی کام کرنے والے کی مدد کر، یا جواناڑی ہو، جس کو کام نہ آتا ہوا سے کام سکھا دے تا کہ وہ عزت کے ساتھ خود اپنی روزی کما سکے.پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر ان کاموں میں ہیں جیسا کہ آپ نے نصیحت فرمائی ہے اس کا حق ادا نہ کر سکوں تو پھر کیا حکم ہے فرمایا تو پھر یوں کرو کہ لوگوں کو نقصان پہنچانے سے بچ جاؤ اور کسی کو کوئی ضررتم سے نہ پہنچے.اب یہ حدیث اس بات کی مظہر ہے کہ آنحضرت سے سوال کرنے والے کی بعض کمزوریوں، بعض کوتاہیوں پر نظر رکھ کر اس کو جواب دے رہے تھے اور بالآخر وہ خود بول پڑا کہ یا رسول اللہ یہ ساری نیکیاں ایسی ہیں جن کا میں محتاج تو ہوں مگر مجھ میں طاقت نہیں ہے اس لئے پھر میرے لئے کیا حکم ہے.جو یہ نیکی بھی نہ کر سکے ، وہ نیکی بھی نہ کر سکے، وہ بھی نہ کر سکے آخر وہ کیا کرے؟ تو آپ نے فرمایا اتنا تو کرو کہ تمہارا شر کسی کو نہ پہنچے اور بنی نوع انسان تمہارے شر سے محفوظ رہیں.یہ کم سے کم نیکی ہے جس کی خدا تعالیٰ مومنوں سے اور اللہ کا رسول مومنوں اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے.فرمایا اگر تم یہ کرو گے کہ بنی نوع انسان تمہارے شر سے محفوظ رہیں گے.تو یہ تمہارے نفس کا تم پر ایک حق ہے جس کا تم صدقہ دے رہے ہو.یہ لفظ جو عربی میں استعمال ہوئے ہیں اس کے ترجمے عموما ناقص ہو گئے ہیں کیونکہ ایسا ایک انداز بیان ہے جس کو سمجھنا ذرا مشکل ہے.عربی کے الفاظ یہ ہیں تکف شَرَّكَ عن الناس فانها صدقة منک لفظی ترجمہ ہے تو لوگوں کو اپنے شر سے بچائے رکھے فانها صدقة منك “ یہ تیری طرف سے صدقہ ہوگا.بظاہر بات ختم ہو گئی مگر ساتھ فرمایا علی نفسک تیرے نفس پر تو نفس پر صدقے سے کیا مراد ہے؟ مراد یہ ہے کہ تیرے نفس پر یہ تیرا حق ہے کہ تو اس کی خاطر یہ صدقے دے ورنہ اگر تیرا شر دوسروں کو پہنچتا رہا تو 66

Page 734

خطبات طاہر جلد 13 728 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1994ء تیرے نفس کو دوسروں کا شہر پہنچتا رہے گا.تو عملاً اپنے نفس کو غیروں کے شر سے بچانے کا ایک عظیم طریق بیان فرما دیا گیا کہ تو اگر اپنے شر سے اللہ تعالیٰ کی خاطر لوگوں کو بچاتا ہے تو یہ ضمانت ہو جائے گی صلى اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ تیرے نفس کی حفاظت فرمائے گا اور اس کو دوسروں کے شر سے بچائے گا.پس آنحضرت ﷺ نے جن مکارم اخلاق پر فائز ہوتے ہوئے بنی نوع انسان کو ان اخلاق کی طرف بلایا ہے ان کو گہری قدر کی نظر سے دیکھیں، ان پر عمل کریں تو ایک دو نصیحتیں ہی آپ کی ساری زندگی کی کایا پلٹ سکتی ہیں.اگر آج جماعت احمد یہ عالمگیر جس تیزی سے یہ بڑھ رہی ہے اپنے اخلاق میں بھی اسی طرح نشو و نما دکھائے اور تیزی کے ساتھ بلند تر اخلاق کی طرف بڑھنے کے قدم اٹھائے اور جلد تر اعلیٰ مکارم تک پہنچ جائے تو ساری دنیا کی تقدیر جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہوگی.وہ لوگ جو خدا کی نظر میں اس کے بہترین بندے ہوں گے وہ لوگ جو خدا کی نظر میں سب سے زیادہ با اخلاق ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی لازماً حفاظت فرمائے گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا تو آنحضرت ﷺ یہاں تک یقین سے ذکر فرمارہے ہیں کہ اگر کوئی بندہ اس کی خاطر دوسروں کو شر پہنچانے سے باز آ جائے تو اللہ تعالیٰ یقیناً اس کے نفس کو دوسروں کے شر سے بچائے گا.تو جس خدا نے یہ ضمانت دے رکھی ہوا گر اس کی خاطر آپ بلند تر اخلاق پر فائز ہوں نہ صرف یہ کہ لوگوں کے حق نہ ماریں بلکہ ان کو ان کے حقوق سے زیادہ ادا کرنے والے ہوں اور اپنے حسن خلق سے اپنے معاشرے کو حسین معاشرے میں تبدیل کر دیں تو یہ قوم ہوگی جس کے متعلق لا ز ما آسمان پر لکھا جائے گا کہ تم نے ہی غالب آنا ہے اور تمہارے ہی اخلاق ہیں جن کو بنی نوع انسان پر غالب کرنے کے لئے بنایا گیا ہے.پس غلبے کے سیاسی تصور میں مبتلا نہ ہوں یہ محض جہالت کی باتیں ہیں.سیاسی غلبوں کو ہم نے کرنا کیا ہے کبھی دنیا میں کسی کو سیاسی غلبے نے فائدہ پہنچایا ہے.بڑے بڑے ممالک کو سیاسی غلبے نصیب ہوئے لیکن سوائے اس کے کہ مصیبتیں اور تکلیفیں پہنچا کر اور چھوٹی قوموں کے حقوق لوٹ کر وہ اپنے رستوں پر گامزن ہوئے اور انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا.اخلاق حسنہ ہیں جن کے غلبے کی دعا مانگنی چاہئے اور یہی وہ غلبہ ہے جو حقیقت میں اسلام کا غلبہ ہوگا جس کا قرآن کریم میں وعدہ فرمایا گیا ہے.پس دعائیں کرتے رہیں اور کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اخلاق حسنہ پر فائز فرمائے اور آپ کو اخلاق حسنہ کا غلبہ عطا کرے.وہی غلبہ ہے جو حقیقت رکھتا ہے اس کے بغیر غلبے کی ساری بحثیں نفس کے قصے ہیں ان میں کوئی بھی سچائی نہیں.(آمین)

Page 735

خطبات طاہر جلد 13 729 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء اپنے دلوں کی حالت تبدیل کریں اور ان کو زرخیز زمین بنائیں.نارتھ امریکہ والے تبلیغ کو حرز جان بنا ئیں.خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994 ء بمقام Chilliwack نز د وینکوور، کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَّاةٌ قَيْمَا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّلِحْتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنَّانٌ مَّاكِثِينَ فِيهِ اَبَدًا وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَا بِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ تَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَإِنَّا لَجُعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحُبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ أَيْتِنَا عَجَبَّانَ إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الكيف: 112) پھر فرمایا:.

Page 736

خطبات طاہر جلد 13 730 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ الکھف کے آغاز سے لی گئی ہیں اور یہ سورۃ کہف تمام تر عیسائیت کے آغاز ، اس کے عروج اور اس کے زوال سے تعلق رکھتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امی نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر تمہیں دجال کا خوف ہو اور دجال سے بچنے کے لئے کچھ کرنا چاہو تو سونے سے پہلے سورہ کہف کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات کی تلاوت کیا کرو.ان آیات کا انتخاب میں نے آج اس لئے کیا ہے کہ ان کا تعلق اس گہرے فکر کے اظہار سے ہے جس سے ان آیات کا آغاز ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن کا سفر توحید سے شروع ہوا جب انہوں نے خدا کا بیٹا بنا لیا اور خدا کا ایک شریک ٹھہرالیا تو پھر ان کا کیا انجام ہوا، اور یہ سفر پھر کن کن خطرناک نتائج پر منتج ہوا.یہ ایک تفصیلی مضمون ہے اور سورہ کہف کا تعلق جیسا کہ آغاز مسیحیت سے ہے ویسا ہی آج کے زمانے سے بھی ہے اور آج کے زمانے کے بعد آنے والی خبروں کا بھی اس سورۃ میں ذکر ہے.لیکن اس تفصیلی مضمون کو چھیڑے بغیر میں مختصراً آپ کو اس کے مضمون کے خلاصے سے آگاہ کرتا ہوں کیونکہ اس کو سمجھنے کے بعد آپ میں ان قوموں میں تبلیغ کا ایک نیا جذ بہ پیدا ہوگا اور جس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اس کے مطابق ہم ان قوموں کو پیغام پہنچانے کے مستحق ٹھہریں گے.سب سے پہلی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور ایک خدا نے اپنے بندے محمد رسول اللہ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے تا کہ ان قوموں کو ڈرائے جنہوں نے خدا کا بیٹا بنا لیا ہے اور اس کے بد انجام سے ان کو آگاہ کرے اور ان مومنین کو خوشخبری دے جو حق پر قائم رہتے ہیں اور ایک خدا کی ذات سے وابستہ رہتے ہیں، کہ ان کے لئے ایک لامتناہی اجر ہے اور ان کو کسی غم اور فکر کی ضرورت نہیں.لیکن وہ قو میں جو تو حید سے ہٹ گئیں ہیں اور کسی معنی میں بھی حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو واقعہ خدا کا بیٹا سمجھ رہی ہیں اور اس کی صفات میں شریک سمجھ رہی ہیں.یہ توحید سے تعلق رکھنے والی سورۃ محمد پر نازل ہو رہی ہے، اس وجہ سے تا کہ ان کو سمجھائے کہ ان کی غلطی ہے.تو قرآن کریم نے اس سورۃ میں اس مضمون کو اس طرح اٹھایا ہے کہ خدا تعالیٰ کا بیٹا بنانے والوں کو متنبہ کرنے کی غرض سے محمد رسول اللہ کو بھیجا گیا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کے گہرے غم کا ذکر فرماتا ہے.فرماتا ہے ، تجھے ہم نے

Page 737

خطبات طاہر جلد 13 731 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء تنبیہ کے لئے بھیجا ہے تا کہ ان قوموں کو ان کے بد انجام سے ڈرائے.اگر آنحضرت کے دل میں عیسائیت یا غیر مذاہب کے خلاف کسی قسم کی نفرت کا شائبہ بھی ہوتا تو اس خبر کو آپ خوشی سے سنتے اور آپ کا رد عمل یہ ہوتا کہ الحمد للہ میرے خدا نے میرے دشمنوں کی شکست اور قطعی ہلاکت کی خبر دی ہے.اس کے برعکس ان آیات کے نزول کے وقت آپ کے دل کی جو گہرے غم کی کیفیت تھی اللہ تعالیٰ نے اس پر نظر فرمائی اور مضمون کو روک کر پہلے آنحضرت ﷺ کے دل کی کیفیت کا ذکر فرما کر آپ کو تسلی دی اور یہ اظہار یوں فرمایا.فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا کہ اسے محمد اس بد انجام کی خبر سے کیا تو اتنا ظم محسوس کرے گا کہ اپنی جان کو ہلاک کر لے گا.ایک حیرت انگیز بات ہے جس کا دوسرے صحیفوں میں کہیں ذکر نہیں ملتا.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی قوم کی ہلاکت کی خبر دی جارہی ہے جو شرک میں آگے بڑھ گئی اور جس کے بد انجام کی تفصیل حضرت محمد رسول اللہ کے سامنے بیان کی جارہی ہے.ابھی وہ تفصیل پوری طرح واضح نہیں ہوئی مگر آنحضرت ﷺ کا دل کسی خوشی کے سمندر میں غوطے نہیں لگا تا بلکہ غم کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور مضمون کو روک کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے کیا تو ان کی ہلاکت کی خبر سے جو تیری باتوں پر ایمان نہیں لائیں گے اور بد انجام کو پہنچیں گے اپنے آپ کو غم سے ہلاک کر لے گا، ایسا نہ کر اور پھر یہ کہہ کر ایک اور تسکین بخش مضمون شروع ہو جاتا ہے اور وہ ہے ان قوموں کے نیک آغاز کا ذکر.فرمایا یہ ہمیشہ سے بد نہیں ہیں، ہمیشہ سے بھٹکے ہوئے نہیں ہیں آغاز میں ان میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے تو حید کی خاطر عظیم الشان قربانیاں کی ہیں اور وہ اصحاب کہف ہیں انہوں نے سطح زمین کی زندگی کو ترک کر کے غاروں میں پناہ لینے کو زیادہ پسند کر لیا کیونکہ سطح زمین پر شرک غالب تھا اور وہ اپنی تو حید کو بچانا چاہتے تھے اس لئے تو حید کے نتیجے میں ان سے جو دشمنیاں مول لی گئیں ان کے لئے زمین کی سطح پر بسنا بسا اوقات ناممکن ہو گیا اور وہ اپنے ایمان اور توحید کی حفاظت کی خاطر غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے اور ان کا بہت ہی محبت اور پیار کے ساتھ ذکر ہے جو اس کے ساتھ چل پڑتا ہے.لیکن اس سے پہلے یہ واضح فرما دیا گیا ہے کہ سطح زمین پر جو نعمتیں دی گئی ہیں وہ آزمائش کے لئے ہیں اور وہ لوگ جو شرک کے باوجود نعمتوں سے نوازے جارہے ہیں ان کے متعلق کوئی دھوکہ نہ

Page 738

خطبات طاہر جلد 13 732 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء کھانا کیونکہ یہ آزمائش کے لئے ہے کہ دیکھیں وہ کیسے عمل کرتے ہیں.ایک بہت ہی خوب صورت طرز کلام ہے.اصحاب کہف کے ذکر سے پہلے زمین کی سطح کی رونقوں کا ذکر فر ما دیا اور فرمایا کہ ہم نے کچھ لوگ ہیں جن کو بہت عظیم ترقیات عطا فرمانی ہیں اور فرما رہے ہیں یہاں تک کہ زمین پر جو کچھ بھی ہے وہ خوب صورت بنا دیا جائے گا اور بہت ہی دلکش صورت میں دنیا ان پر ظاہر کی جائے گی.یہاں تک کہ اس دنیا کی محبت میں اور اس کے عشق میں غرق ہو جائیں گے اور سر تا پا اسی کے ہور ہیں گے اور بھول جائیں گے کہ یہ تو ان کے لئے آزمائش تھی اور یہ بھی بھول جائیں گے کہ ان کا آغاز بہت نیک تھا ان کے آبا ؤ اجداد میں ایسے عظیم خدا کے تو حید پرست بندے تھے کہ انہوں نے دنیا کی زمینوں کو تج دیا اور سطح زمین کو ترک کرتے ہوئے جانوروں کی طرح غاروں میں پناہ لینے کو قبول کر لیا.یہ جو مضمون ہے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اس کا بہت کم علم اہل عرب کو تھا.کیونکہ اکثر غاریں جن میں عیسائی تو حید پرست پناہ لیا کرتے تھے وہ دنیا کے علم سے غائب تھیں.اگر چہ موجود تھیں ان پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی تھی اور بہت کثرت سے وہ ایسی غاریں ہیں جو اس زمانے میں جو پچھلی ایک دوصدیوں میں دریافت ہوئی ہیں اور مزید ان کے اوپر تحقیقات جاری ہے اور جتنی تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں قرآن کریم کے اس دعوے کی صداقت کے مزید ثبوت مہیا ہور ہے ہیں کہ وہ لوگ جوان غاروں میں پناہ گزین تھے وہ تو حید پرست تھے اور ان کا تثلیث سے کوئی تعلق نہیں تھا.یہاں تک کہ تو حید کے آثاران غاروں میں مل رہے ہیں کہ عیسائی محققین کی دنیا اور یہودی محققین کی دنیا دو حصوں میں بٹ چکی ہے بعض کا خیال ہے کہ یہ عیسائی لوگ تھے ہی نہیں بلکہ وہ موحدین تھے جن کو اسپین“ کہا جاتا ہے جن سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا بھی تعلق تھا اور وہ اس فرقے کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے ان کے نزدیک.اور قرآن کے نزدیک وقت کے نبی تھے.تو یہ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ان غاروں کے اندر سے جو چیزیں دریافت ہو رہی ہیں ان کا تعلق دو سو سال قبل مسیح سے شروع ہو کر سود و سو سال بعد تک کے زمانے سے ہو.لیکن یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ان مرقومات میں جن کا ان غاروں سے تعلق ہے کسی قسم کا تثلیث کا کوئی دور کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا.ایک مرد صادق کی بات کی جارہی ہے، ایک ایسا شخص جو خدا کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہوا اور پھر اس مرد صادق کے ذکر کے ساتھ اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مسیح کے زمانے پر زیادہ اطلاق پاتی ہیں بہ نسبت

Page 739

خطبات طاہر جلد 13 733 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء اس کے کہ مسیح سے پہلے کے زمانے کی باتیں ہوں.پھر یہ بھی ایک بہت اہم بات ان غاروں سے دریافت ہوئی ہے کہ وہ لوگ خوفزدہ تھے اور کچھ بتانے کی خاطر اپنے تبرکات کو مختلف صورتوں میں محفوظ کرنے کے لئے غاروں میں دفناتے چلے جارہے تھے.جہاں خود پناہ لیتے تھے وہاں ان تبرکات کو بھی محفوظ کرتے تھے اور ایسا کوئی دور مسیح سے پہلے یہودیت پر نہیں گزرا کہ ان کو اپنے تبرکات چھپانے کے لئے غاروں میں پناہ لینی پڑے.کوئی عہد نامہ قدیم وہاں سے دریافت نہیں ہوا بلکہ اشارہ جو بھی ذکر ملتے ہیں وہ عیسائیت ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.پس قرآن کریم کا یہ بیان کہ اے محمد اعﷺے مخاطب کئے بغیر شروع سے عبد کے نام کی بات ہو رہی ہے، مگر آنحضرت ہی مخاطب ہیں اور پیش نظر ہیں، کہ تو ان لوگوں کے انجام سے جو اپنے دل کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے گہرے غم میں مبتلا ہو گیا ہے ہم تجھے کچھ اچھی خبریں بھی سناتے ہیں جو تیرے دل کو ڈھارس بخشیں گی کیونکہ تو تو حید کا عاشق ہے.یہی عیسائی لوگ آغاز میں توحید کی خاطر انتہائی قربانی دینے والے لوگ تھے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا قرآن کریم فرماتا ہے تمام دنیا کی زینتوں کو چھوڑ کر وہ غاروں کے بھیانک اندھیروں میں رہنا اپنے لئے زیادہ پسند کرنے لگے کیونکہ ان اندھیروں میں بسر ہوتے ہوئے وہ توحید کی روشنی سے منسلک رہ سکتے تھے اور باہر کی روشنی میں ان کو اندھیرا دکھائی دیتا تھا کیونکہ ہر طرف شرک تھا.پس اس اشارے کے پیش نظر جو قرآن کریم میں واضح طور پر موجود ہے میں نے ایک احمدی مخلصین نو جوانوں کی ایک ریسرچ ٹیم بنائی ہے کہ وہ ان غاروں سے دریافت ہونے والے تمام صحیفوں کا مطالعہ کرنے کی اہلیت پیدا کریں اور جو کچھ بھی ان پر لکھا گیا ہے ان پر غور کریں اور صحیح نتائج اخذ کریں جو قرآن کی روشنی کے بغیر اخذ ہو نہیں سکتے.ایک اور اہم بات جو اصحاب کہف کے ذکر میں قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے وہ اَصْحَبَ الرَّقِيمِ فرمایا ہے.فرمایا ہے آمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ ايْتِنَا عَجَبًا کہ اے محمد کیا تو حیرت میں مبتلا ہے کہ یہ کیسے لوگ تھے جنہوں نے غاروں میں پناہ لی اور وہ اَصْحُبَ الرَّقِیم تھے.أَصْحُبَ الرَّقِيمِ کا چونکہ کوئی بھی ذکر قرآن کریم کے نزول کے لمبے عرصہ بعد تک بھی غاروں کے تعلق میں معلوم نہیں تھا.اس لئے مفسرین نے رقیم سے یہ معنی لیا.رقیم کا ایک معنی ہوتا ہے کتبہ جس پر کچھ لکھا ہو اور

Page 740

خطبات طاہر جلد 13 734 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء أَصْحِبَ الرَّقِيمِ کا ایک مطلب ہے تحریروں والے لوگ لکھنے والے لوگ.تو چونکہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ غاروں سے کچھ تحریریں دریافت ہوں گی.اس لئے انہوں نے اپنی تفسیروں میں صرف اس حد تک ترجمہ کیا کہ ان کی غاروں پر گویا کچھ کتنے تھے ان پر کچھ لکھا ہوا تھا حالانکہ قرآن کریم ان سب کو اصحب الرقیم فرما رہا ہے.غاروں میں ان لوگوں نے پناہ لی ہے جنہوں نے کچھ صحیفے ان غاروں میں چھوڑے ہیں یا وہ صحیفے لے کر ان غاروں میں داخل ہوئے ہیں اور آج کے زمانے میں یہ حیرت انگیز دریافت ہوئی ہے وادی قمران میں ایک نہیں، بیسیوں ایسی غاریں ہیں جہاں سے یہ صحیفے دریافت ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں اور بہت سے سائنس دان جو پرانے صحیفوں کو پڑھنے کے ماہر ہیں وہ ان تحریروں کو پڑھ کر مختلف اندازے لگارہے ہیں.لیکن قرآن کے حوالے سے قرآن کی عطا کردہ روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیں احمدی سکالرز کی ضرورت ہے جو وہ زبانیں سیکھیں ، وہ علم سیکھیں جس سے براہ راست ان صحیفوں کا مطالعہ کر سکیں اور محض لوگوں کی رائے زنی کو نشانِ منزل نہ سمجھیں بلکہ منزل کا کھوج خود لگا ئیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کی روشنی کے بغیر انسان غلط اور متضاد نتائج نکالنے پر مجبور ہو جاتا ہے.اور یہی کیفیت ہے جو ان صحیفوں کے تعلق میں آج ہمیں دنیا میں دکھائی دے رہی ہے.امریکہ میں بھی میں نے اس قسم کی ریسرچ کے لئے ہدایت کی تھی اور امریکہ میں کسی حد تک کام ہوا اور دو مختلف الخیال، دو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے متضاد نتائج نکالنے والے علماء سے انہوں نے رابطے کئے لیکن یہ تحقیق ابھی بہت ہی ابتدائی مراحل میں ہے.اس لئے اگر چہ میں اس مضمون کو ایک اور رنگ میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں مگر ضمنا میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ شمالی امریکہ کے دونوں ممالک کے نوجوان، خواہ وہ کینیڈا سے تعلق رکھتے ہوں یا امریکہ سے تعلق رکھتے ہوں ، جن کو بھی اللہ نے علمی ذوق شوق عطا فرمایا ہے وہ اس مضمون پر براہ راست تحقیق کریں.وہ زبانیں سیکھنا، جن کو وہ پڑھ کر براہ راست استفادہ کر سکیں ایک دقت طلب چیز ہے، اس میں بہت لمبی محنت، مطالعہ اور کئی سالوں کی محنت کی ضرورت ہے.لیکن ان ماہرین فن سے رابطہ کر کے اصل کتابوں کا کثرت سے جو اس مضمون پر لکھی گئی ہیں ، براہ راست ان کتابوں کا مطالعہ کر کے مختلف الخیال لوگوں سے ، ان مضامین کو خود سمجھ کر ملنے کے بعد، پھر قرآن کریم کی روشنی میں ایک نتیجہ نکالنے کی کوشش جو ہے یہ شروع ہو سکتی ہے اور انگلستان میں جس ٹیم کو میں نے

Page 741

خطبات طاہر جلد 13 735 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء مقرر کیا ہے اس میں کالج کے جانے والے، نوجوان لڑکے بھی ہیں اور لڑکیاں بھی ہیں اور دونوں اللہ کے فضل سے بڑے اخلاص اور محنت کے ساتھ اس پر کام کر رہے ہیں اور ان کے پیش کردہ نتائج سے ہمیں نئی روشنی مل رہی ہے، نئے راستے دکھائی دے رہے ہیں جن کے نتیجے میں میں بہت پر امید ہوں کہ احمد یہ تحقیق تمام دنیا کے لئے روشنی کا موجب بنے گی اور ان کو رستہ دکھانے میں سب سے نمایاں کردار ادا کرے گی کیونکہ قرآن کریم کا وہ بیان جو چودہ سوسال پہلے گزر گیا جبکہ ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں تھا اس یقین سے ہر مومن کے دل کو بھر دیتا ہے کہ سوائے اس کے کہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو ان واقعات کی خود خبر دی ہو، عرب کے کسی باشندے سے یہ ناممکن تھا خواہ وہ کتنا بڑا عالم ہوتا کہ ان غاروں کا اس تفصیل سے ذکر کرتا اور پھر اس ذکر میں اَصْحُبَ الرَّقِيْم کے لفظ داخل کر دیتا کہ یہ لوگ صحیفوں والے لوگ ہیں اور یہ ایسا وقت آئے گا کہ جب ان صحیفوں کی دریافت سے دنیا کی آنکھیں کھل جائیں گی.پس مختلف پہلوؤں سے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں تحقیق کا موقع مل رہا ہے لیکن اس کے لئے مجھے زیادہ دست و بازو کی ضرورت ہے اور کثرت سے احمدی مخلصین ، روشن دماغ اور تحقیق کا جذبہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے ملک میں دستیاب کتابوں کا مطالعہ کریں، اپنے ملک میں موجود سکالرز سے تعلقات بڑھا ئیں اور جو کچھ بھی ان کی تحقیق کا ماحصل ہو وہ مجھے بھجواتے رہیں.آغاز خلافت پر جو میں نے جماعت کو خطاب کیا تھا اس میں شہد کی مکھیوں کے چھتے کی مثال دی تھی.میں نے کہا جس ایک خلیفہ کے گرد ساری جماعت اکٹھی ہو جاتی ہے اور جس طرح اس کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ ہمارا ماحصل ہے اس کا بہترین نچوڑ ہم اپنی ملکہ کو دیں یعنی شہد کی مکھیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے.اس طرح تمام عالم میں میں آغاز ہی سے یہ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی جب کسی بہت ہی اچھی چیز کو پاتے ہیں، جب کسی اچھے مطلب کو حاصل کرتے ہیں تو ان کو چین نہیں ملتا جب تک مجھے اس کی اطلاع نہ دے لیں اور اپنی خوشی میں یا اس خزانے میں مجھے شامل نہ کرلیں جو علم کا خزانہ اللہ نے ان کو عطا فرمایا ہے.کوئی اچھی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو مجھے اس سے مطلع کرتے ہیں.بعض مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں اتنے بڑے مطالعہ کا کیسے وقت مل گیا.جو خلافت سے پہلے کا زمانہ تھا اللہ نے خود میرے دل میں یہ ذوق و شوق پیدا فرمایا

Page 742

خطبات طاہر جلد 13 736 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء اور توفیق دی کہ اپنے مطالعہ کو وسیع کروں لیکن اب تو یہ میرا مطالعہ نہیں یہ ساری جماعت کا مطالعہ ہے جو ایک مرکز پر اکٹھا ہوتا ہے.وہ کھیاں جو شہد کھاتی ہیں اس شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں شفا ہے، تو مومنوں کی روحانی غذا، ان کی روحانی ہی نہیں بلکہ جسمانی شفا کا بھی موجب بن جاتی ہے.یہ ایک بڑا وسیع مضمون ہے جس پر ابھی تحقیق ہونے والی باقی ہے.یہ ایک اور پہلو ہے جس پر میں نے بعض عمومی ہدا یتیں جماعت کو دی ہیں کہ اس طریق پر اس کی تحقیق کرو لیکن یہاں جس ذکر میں میں یہ بات کھول رہا ہوں وہ یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں ، شہد کھاتی ہیں اور اس کا وہ نچوڑ جو ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ ہے وہ ملکہ کے سامنے پیش کر دیتی ہیں اور علم کے مضمون میں یہ لطف کی بات ہے کہ خود بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں وہ لوگ ، اور پھر خلیفہ وقت کو بھی اس میں شامل کر لیتے ہیں اور ان کا ملکہ کے سامنے مکھیوں کی طرح وہ سب کچھ پیش کرنا انہیں محروم نہیں رکھتا.پس روحانی علوم اور دنیاوی نعمتوں میں یہ بڑا فرق ہے.دنیاوی نعمتوں میں آپ قربانی کر کے اپنا کچھ حصہ کسی اور دوست یا محبوب کے سامنے پیش کرتے ہیں جبکہ روحانی دنیا میں خواہ وہ تقویٰ کی باتیں ہوں یا علم کا مضمون ہو آپ جب کسی دوسرے کو اس میں شریک کرتے ہیں تو آپ کے علم یا آپ کی روحانیت میں کمی نہیں آتی بلکہ دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے اور آپ کو پھر مزید فائدہ پہنچتا ہے.پس اس طرح جس علم کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں تم نے کیسے حاصل کیا.میں نے کہاں سے حاصل کرنا تھا یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ایسی پیار کرنے والی محبت کرنے والی شہد کی مکھیوں کی طرح فدائی روحانی جماعت عطا فرما دی ہے کہ جو کچھ بھی ان کو ملتا ہے وہ اس میں مجھے شریک ضرور کرتے ہیں.پس اس پہلو سے میں نے جماعت کو بارہا مختلف نصیحتیں کی ہیں کہ اس مضمون پر بھی غور کرواس مضمون پر بھی غور کرو.اور مجھے جو محنتوں کا لمبا وقت میسر نہیں ہے اس کی کمی اس طرح پوری ہو جاتی ہے کہ ہزاروں آنکھیں ایسی ہیں جو مطالعہ کے وقت ہمیشہ یہ پیش نظر رکھتی ہیں کہ اس مطالعہ کا ماحصل جس کا کسی رنگ میں بھی جماعت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو ہم وہ خلیفہ وقت کو ضرور پہنچائیں اور جب وہ باتیں مجھ تک پہنچتی ہیں تو پھر میں ایسے تمام امور کو الگ رکھ لیتا ہوں اور اسے عام ڈاک میں نہیں جانے دیتا جب تک میں خود مطالعہ نہ کر لوں میری تسلی نہیں ہوتی.پس اس پہلو سے جو میں نے آپ سے عرض کیا ہے، اس تمہید کی روشنی میں مجھے نئے سکالرز کی ضرورت ہے جو سورہ کہف کے مضامین پر غور کرنے کے

Page 743

خطبات طاہر جلد 13 737 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء لئے علمی تحقیقات کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کے بعض پہلو ہیں جو میں یہاں بیان نہیں کر رہا.وہ الگ بعض تحقیقات کرنے والے وفود کے سپر د کام کر چکا ہوں.لیکن یہ ایک عمومی تحریک ہے جس میں کینیڈا اور امریکہ سب شامل ہیں اور یورپ میں پہلے ہی میں یہ تحریک ذاتی طور پر ملاقاتوں کے دوران بھی کر چکا ہوں.دوسری بات جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا تھا، اسکا تعلق تبلیغ سے ہے.جب آپ سورہ کہف پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں قطعی طور پر آپ کے سامنے آتی ہیں.اول یہ کہ وہ زینت جو سطح ارض پر ملتی ہے، وہ ان قوموں کو باقی قوموں سے بہت زیادہ عطا ہو گی، جن کو عیسائیت سے تعلق ہے اور سارے قرآن کریم میں قوموں اور مذاہب کے ذکر میں عیسائیت کے تعلق کے سوا کہیں اس شدت کے ساتھ اور اس زور کے ساتھ زینت کی نعمتوں کی عطا کا ذکر نہیں ملتا.پس اس سے پتا چلتا ہے کہ عیسائی دنیا کو جو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی نعمتیں اور حسن عطا فرمایا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہے.اس آزمائش کا تعلق کس بات سے ہے.کیوں ان قوموں کو منتخب کیا گیا ؟ اس کا تعلق دراصل اس مائدہ سے ہے.جس کی دعا حضرت مسیح نے مانگی تھی.حضرت مسیح کے حواریوں نے عرض کیا کہ اپنے خدا سے ہمارے لئے آسمانی نعمتیں مانگ، آسمانی نعمتوں کا دستر خوان اتارنے کی استدعا کر.عیسائی دراصل اپنی لاعلمی میں اپنی دنیا پرستی کی وجہ سے اس مضمون کو ظاہر پر اطلاق کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ مسیح نے کوئی کھانا مانگا تھا، جو روٹی اتاری گئی آسمان سے اور وہ روٹی اپنے شاگردوں میں تقسیم کی اور بات ختم ہو گئی.یہ بہت ہی بچگانہ تصور ہے، اس حقیقت کا جو ایک عظیم حقیقت ہے، جس کا تعلق محض مسیح کے اپنے زندگی کے دور سے نہیں، بلکہ عیسائیت کی تمام تاریخ سے ہے.حضرت مسیح نے جو کچھ مانگا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جوفرمایا، وہ حصہ ہے غور طلب.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نعمتیں دوں گا.یہ نہیں فرمایا کہ ایک دستر خوان اتاروں گا صرف.فرمایا، جو تو نے مانگا ہے، میں نعمتیں عطا کروں گا اور ایسی نعمتیں دوں گا، جو دنیا میں کسی اور کو نہیں دی گئیں لیکن اگر ناشکری کی گئی ، اگر ان نعمتوں سے غلط فائدہ اٹھایا گیا اور تو حید کو قربان کر دیا گیا، یہ مضمون اس میں مضمر ہے، تو پھر ان قوموں کو ایسی سزا دوں گا کہ جب سے دنیا بنی ہے، کبھی کسی قوم کو ایسی سزا نہیں دی گئی.یہ وہ مضمون ہے، جس کو سورہ کہف نے پھر اٹھایا ہے اور یہ روشنی ڈالی ہے کہ جو زینت کی دنیا ان کو عطا ہوئی ہے.اس سب کو ہم زائل کر دیں گے

Page 744

خطبات طاہر جلد 13 738 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء وَإِنَّا لَجُعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا جو کچھ بھی اس پر ہے اسے زائل کر دیں گے اور ان علاقوں کو چٹیل میدان چھوڑ دیں گے.اس مضمون کو سورہ طہ میں بھی بیان فرمایا گیا ہے.تو میں جس طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں قرآن کریم کے مختلف بیانات کو آپس میں جوڑیں اور ان کے تعلقات باندھ کر پھر سمجھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیسی عظیم کتاب ہے جو عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر نازل فرمائی اور تمام زمانے کے علوم اس میں اس طرح بھر دیئے جیسے دنیاوی ضرورت کی تمام نعمتیں اس زمین کی سطح کے اوپر یا نیچے دفن ہیں.پس یہ وہ پہلو ہے جس کے پیش نظر آپ کے سامنے تبلیغ کی اہمیت ابھرنی چاہئے کیونکہ وہ زمانہ قریب آ رہا ہے جس میں ہم یقینی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ وہ نعمتیں جو سیخ کی دعا سے ان قوموں کو ملی تھیں.ایک تو حید پرست مسیح کی دعا سے ان قوموں کو ملی تھیں ، شرک میں داخل ہونے کے نتیجے میں مسیح کی حقیقت کی عظمت کو پہچاننے کی بجائے اسے ایک فرضی رومن متھ (Mith) کی کہانی میں تبدیل کرنے کے نتیجے میں ان کی دنیا کی لذتوں کی پیروی اس رستے سے ہٹ گئی ہے جس رستے پر چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نعمتیں عطا فرمائی تھیں.اللہ کے شکر کی بجائے ان کے اندر ایک اندرونی رعونت نے سراٹھایا ہے.یہ سمجھنے لگے ہیں یہ سب کچھ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے.کسی کے خیال میں ، دور کے خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ دو ہزار سال پہلے خدا کے عظیم بندے مسیح کی دعا کا پھل ہے جو ہم کھا رہے ہیں اور چونکہ اسے وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی اور ایسی زینت سمجھتے ہیں جس پر وہ خود مختار ہیں جس طرح چاہیں فیصلے کریں اس لئے ان تمام تر نعمتوں کا استعمال غلط ہو رہا ہے.خدا کے قریب تر لانے کی بجائے جوں جوں یہ نعمتیں بڑھ رہی ہیں یہ خدا سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں.اور وہ انذار جس کی طرف سورہ کہف توجہ دلاتی ہے کہ وَإِنَّا لَجُعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا اس انجام کی طرف یہ دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں اور یہ انذار تھا جس کی کیفیت آنحضرت ﷺے کا دل بھانپ گیا اور اس بد انجام کے غم سے آج سے چودہ سو سال پہلے آپ کے دل نے ایسی تکلیف محسوس کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے! کیا تو ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا ؟ پس ضرورت ہے قرآنی اسلوب کے مطابق ان کے پاک ماضی کی ان کو یاد دلائی جائے

Page 745

خطبات طاہر جلد 13 739 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء کیونکہ اس مضمون کے معا بعد خدا کہف میں قربانی دینے والے بزرگوں کا ذکر فرماتا ہے جو عیسائی قوم سے تعلق رکھتے تھے، جو حضرت عیسی کے بچے شاگرد تھے.پس اس نے ہمیں تبلیغ کا ایک نیا اسلوب عطا فرما دیا.ہمیں سکھایا کہ کس طرح ان قوموں سے بات کرنی ہے دو باتیں بہت اہم ہیں اس میں.اول غم محمد رسول اللہ ﷺ کی طرح بنی نوع انسان کا ہمدرددل حاصل کئے بغیر آپ دنیا کو تبلیغ نہیں کر سکتے.سب سے بڑا مبلغ جو کائنات میں کبھی پیدا کیا گیا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملتے تھے اور سب سے زیادہ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں مبتلا دل اگر کسی کو عطا ہوا ہے تو وہ آنحضرت تھے، جو دشمن کی ہلاکت کی خبر سے بھی اس قدر غمگین ہو جاتے تھے.پس اگر آپ کے دل میں صلى الله ان کی سچی ہمدردی نہیں ہے، اگر آپ صرف اپنی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں اگر اور ذاتی مفادات کی خاطر آپ تبلیغ کر لیتے ہیں یا محض ایک سطحی خیال سے کہ ہمیں پھیلنا چاہئے ، بڑھنا چاہئے آپ تبلیغ کا خیال دل میں جماتے ہیں تو یہ ساری وہ باتیں ہیں جو بظاہر اچھی ہیں مگر ان میں گہرائی نہیں ہے، جو بظاہر اچھی ہیں مگر اثر سے خالی رہیں گی.پس وہ لوگ جو دل کی گہری ہمدردی کے بغیر کسی قوم کو ہدی کی طرف بلاتے ہیں ان کی باتوں کا اثر نہیں ہوتا ، ان کی طرف توجہ نہیں دی جاتی.پس یہ راز سورہ کہف سے سیکھیں کہ وہ دل لے کر تبلیغ کے لئے نکلنا ہوگا جس کو یقین ہو کہ ان قوموں کے بدانجام کا وقت قریب آ رہا ہے اور وہ اس کے نتیجے میں سخت بے چین ہو.ایساد کھ محسوس کرے کہ بے اختیار ان قوموں کی ہدایت کے لئے نکل کھڑا ہو.یہ ایسی حقیقت ہے جسے روز مرہ زندگی میں آپ اپنے دل پر چسپاں تو کر کے دیکھیں تب آپ کو معلوم ہو گا کہ کس حد تک آپ داعی الی اللہ ہیں اور کس حد تک نہیں ہیں.داعی الی اللہ یقین سے پیدا ہوتا ہے اور یقین دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک خوشخبری پر یقین، خدا کے سچے وعدوں پر یقین اور ایک انذار اور منذر خبروں پر یقین اور خدا کے وعید پر یقین.وعدہ عربی میں اس خوشخبری کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کو عطا کرنے کا کوئی عہد کر لے اور وعید ایسی خبر سے تعلق رکھتا ہے جس میں ڈرانا ہو اور خوف ہو کہ اگر تم یہ کرو گے تو ضرور اس کا یہ نتیجہ نکلے گا.پس جب تک ان دونوں باتوں پر یقین نہ ہو انسان حقیقت میں داعی الی اللہ نہیں بن سکتا کیونکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تاریخ میں تمام انبیاء کا تعارف بَشِيرًا وَنَذِيرًا کے ذریعے کروایا گیا ہے یا تو وہ بشیر تھے یا

Page 746

خطبات طاہر جلد 13 740 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء وہ نذیر تھے اور کوئی تیسرا تعارف نہیں ملتا دو ہی حیثیتیں ہیں یا منذر ہیں یا مبشر ہیں.تو منذ روہ ہے جس کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جس کا وعدہ دیا گیا ہے وہ ضرور آنے والا ہے، وہ کلمہ حق ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور مبشر وہ ہے جسے یقین ہے کہ جو خدا کی باتوں پر ایمان لائے گا وہ ضروران بدیوں سے بچایا جائے گا.پس اگر کسی عمارت میں آگ لگی ہو اور آپ جانتے ہوں کہ نکلنے کا رستہ ہے اور بغیر آواز دیئے خود نکل جائیں اور تسلی پا جائیں کہ میں نے اپنی جان کو بچالیا تو یہ بچنا حقیقت میں آپ کی روحانی ہلاکت ہے.جسے اپنے بھائیوں کا پاس نہیں، جسے یہ خوف نہیں کہ اس عمارت میں کئی بچے ، کئی معصوم عورتیں، کئی بوڑھے، کئی بیمار بھی پڑے ہوں گے جب تک وقت کے اوپر ان کو متنبہ نہ کیا جائے ان کو نکلنے میں مدد نہ کی جائے اس وقت تک میرا اکیلا اپنی جان بچالینا کافی نہیں ہے، اس وقت تک حقیقی انسانیت انسان میں پیدا نہیں ہوسکتی اور انسانیت کے بغیر کوئی مذہب آ ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو مذہب کی مختلف منازل بیان فرمائی ہیں ان میں فرمایا ہے کہ مذہب کا کام ہے پہلے حیوان کو بشر بنانا ایک ایسا انسان جو محض حیوانی زندگی بسر کر رہا ہے اسے انسانیت کے تقاضوں کا علم نہیں ہے وہ خود غرضی میں مبتلا ہے، اپنے نفس کی خواہشوں کی پیروی کر رہا ہے.اسے سب سے پہلے عام انسانیت کے آداب اور اسلوب سکھانا.پھر فرماتے ہیں کہ وہ انسان جو مہذب ہو جائے اس کو باخدا انسان بنانا پھر مذہب کا دوسرا کام ہے.تو اگر پہلی منزل ہی طے نہیں ہوئی تو دوسری منزل تک کیسے پہنچ جائیں گے، پہلی منزل کی سیڑھیاں پھلانگ کر دوسری منزل کی سیڑھیوں میں تو آپ داخل ہو نہیں سکتے.پس بہت سی دنیا کے لوگ ان خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم مذہبی ہیں، ہم مذہب پر عمل کر رہے ہیں، قرآن کریم کو سمجھ رہے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں، نماز پڑھ رہے ہیں، کافی ہے.کئی غیر احمدی بھی ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا میرا نماز پڑھ لینا کافی نہیں، کیا تلاوت کافی نہیں؟ اگر یہ کافی ہوتا تو محمد رسول اللہ ﷺ کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ اپنی جان ہلکان کرتے ہوئے ، اپنے وجود کو جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے، انتہائی تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے ہر طرف پیغام پھیلاتے چلے گئے یہاں تک مصیبتیں سہیڑ میں کہ آپ کی دشمن قو میں آپ کی پیروی میں مدینے پہنچ کر آپ پر حملہ آور ہوئیں اور ایک ہی مقصد تھا ان کا، پہلی جنگ میں بھی اور دوسری میں بھی اور تیسری میں بھی، کہ جو کچھ ہو اس ایک وجود کو دنیا سے ہلاک کر دیا جائے.کیا

Page 747

خطبات طاہر جلد 13 741 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء مصیبت پڑی تھی؟ کیا آپ عبادت نہیں کرتے تھے؟ کیا آپ قرآن کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تھے؟ تو جب آپ قرآن کو جانتے تھے، آپ ہی پر تو نازل ہوا تھا اور عبادت کا حق آپ سے بڑھ کر کوئی اور ادا کر نہیں سکتا تھا پھر اس جہاد کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا راز اس دل میں ہے جس کا ذکر سورہ کہف میں بیان ہوا ہے کہ وہ سچا دل جو ہمدرد ہو اس کے لئے چین سے بیٹھنا ممکن نہیں رہتا.اگر وہ اس یقین سے بھر جائے کہ اس کے ماحول میں کچھ لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں.اس کی عام مثال ماؤں کی زندگی میں ملتی ہے، باپوں کی زندگی میں بھی ملتی ہے اور عزیزوں کی زندگی میں بھی ملتی ہے.کوئی ماں جس کا بچہ آگ کی طرف بڑھ رہا ہو کیا وہ آرام سے بستر سے لپٹی ہوئی سوسکتی ہے؟ ایک کروٹ بدل کر بچے کو آگ میں جاتے ہوئے دیکھے اور دوسری کروٹ لے کر، پھر وہ آرام سے سو جائے یہ ناممکن ہے.وہ تو دیوانے کی طرح جھپٹے گی اگر آگ میں بچہ داخل بھی ہو جائے تو اس آگ میں خود اپنے آپ کو جھونک دے گی کہ کسی طرح میں اس بچے کو وہاں سے نکال لوں.یہ انسانی جذبے کی سچائی اپنی انتہا پر پہنچ کر اپنی روشن ترین صورت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے اور آنحضرت ﷺ کے متعلق تو قرآن فرماتا ہے کہ اپنے ماں باپ سے بڑھ کر اس سے محبت کرو.ہر دوسرے رشتے سے زیادہ اسے چاہو.یہ ناممکن تھا کہ خدا ہم سے یہ مطالبہ کرتا اگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺے ماں باپ سے بڑھ کر ہم سے محبت نہ کرتے اور ہر دوسرے رشتے سے بڑھ کر ہمیں نہ چاہتے تو قرآن کو آپ سمجھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیسا عظیم رسول تھا جس کی غلامی کا شرف ہمیں بخشا گیا ہے.پس جو بھی اسلوب میں محمد رسول اللہ اللہ ہی سے سیکھنے ہیں اور آپ سے سیکھے بغیر ہم اپنے مقاصد کو ہرگز حاصل نہیں کر سکتے.پس سورہ الکہف نے جس دل کا ذکر کیا ہے انذار سنتے ہی کس قدر بے چین ہوا کہ اللہ نے مضمون کو روک کر ٹھہر کر فرمایا ! اے میرے بندے! ان کی خاطر اپنے آپ کو ہلاکت میں مبتلا نہ کر لیکن یہ دل تو نہیں بدلا کرتا اللہ تعالیٰ نے تو پیار کے اظہار کے طور پر اور آئندہ زمانوں میں حضرت محمد رسول اللہ اللہ کی گہری صداقت کے اظہار کے طور پر یہ گواہی رکھ دی ورنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس سے باز تو نہیں آئے مسلسل بنی نوع انسان کے غم میں مبتلا ر ہے اور اسی غم کے نتیجے میں اور اس یقین کے نتیجے میں کہ انذار ضرور سچا ہے آپ پیغام پہنچاتے رہے.پس کسی کا یہ کہنا کہ میں نماز پڑھ لیتا ہوں، میں عبادت کرتا ہوں یا کوئی احمدی یہ کہہ دے کہ میں چندے الله

Page 748

خطبات طاہر جلد 13 742 خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر 1994ء بھی دے رہا ہوں، اب اور کیا کروں اور یہ کرو کہ اپنے وجود کو جھونک دو اس آگ میں، جو محبت کی آگ ہے، جس کے بغیر آپ کے دل کی سچائی ثابت نہیں ہو سکتی ، جس کے بغیر آپ کا بنی نوع انسان سے ہمدردی کا دعویٰ محض جھوٹا اور فرضی دعوئی ہے.پس اگر آپ دل کی گہرائی سے بنی نوع انسان کو بچانا چاہتے ہیں تو پہلے تو یہ جذبہ پیدا کریں، سچی ہمدردی جو روز مرہ آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں سے کرتے ہیں، اپنے اہل وعیال سے کرتے ہیں، اپنی بہنوں ، بھائیوں سے کرتے ہیں یا عزیز دوستوں سے، ان کو نقصان میں جاتا دیکھ کر اگر آپ بچے ہیں تعلق میں ، تو آپ چین سے نہیں بیٹھ سکتے.پس کیا یہ سچ ہے کہ یہ قومیں اپنے شرک کی وجہ سے ان تمام نعمتوں کو پانے کے بعد آخر صفحہ ہستی سے مٹا دی جائیں گی.اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے کیونکہ قرآن نے بیان فرمایا اور ایسے حالات میں بیان فرمایا جب قرآن ان باتوں کو بیان کرنے کی ، اگر بندے کا کلام ہوتا تو ، اہلیت ہی نہیں رکھتا تھا.کہاں وہ زمانہ عرب کے صحراؤں کا ، کہاں ان غاروں کا ذکر ، جو سینکڑوں سال، ہزار سال سے زیادہ بعد کے عرصے میں دریافت ہوئی تھیں اور سینکڑوں سال پہلے بنائی گئی تھیں، جن کی اشارہ بھی کوئی خبر اہل عرب کو نہیں تھی اور پھر ان کے اندر کے راز کس قسم کے لوگ ان میں ملیں گے، کس قسم کے صحیفے انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں.یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ممکن نہیں.پس جب قرآن سچا ہے تو وہ خبریں جو آئندہ زمانے کی دی گئی ہیں جن میں سے بعض ہم نے پوری ہوتی دیکھ لی ہیں.وہ یقینا سچی ہیں ان میں ادنیٰ بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے پھر آپ کیسے آرام سے بیٹھتے ہیں.پھر کیوں گھر گھر منادی نہیں کرتے ، پھر کیوں اپنے دوستوں کو اس پیغام کی طرف بلاتے نہیں ہیں، کیوں ان کو پیار سے سمجھاتے نہیں ہیں؟ اور سمجھانے کا جواند از قرآن نے آپ کو سکھایا ہے وہ کیوں اختیار نہیں کرتے.بجائے اس کے کہ بائبل کی بحثوں میں پڑکر ان آیات کے کچھ مختلف معنی نکالنے کی کوشش کریں جن کے مختلف معنی عیسائی کرتے ہیں.صاف سیدھا تو حید کا پیغام دیں جو ہر انسان کی فطرت میں گوندھی گئی ہے.یہ ایسا پیغام ہے جس کو ہر سعید فطرت انسان دل سے قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے.لیکن اگر جھگڑے کے بغیر ، ہمدردی سے یہ پیغام دیا جائے اور بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ تم لوگ ہلاک ہو، تم بہت گندے لوگ ہو، گویا تم نے عیسائیت کو چھوڑ دیا.ان آباؤ و اجداد کا ذکر کیوں نہیں کرتے جن کا ذکر قرآن نے کیا اور

Page 749

خطبات طاہر جلد 13 743 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دل کی تسلی کے لئے وہ پاکباز کہانیاں آپ کے سامنے پیش کیں، جو پاکباز لوگوں سے تعلق رکھتی تھیں.اتنا عظیم الشان آغاز ہے عیسائیت کا کہ قرآن نے جیسا خراج تحسین اس کو پیش فرمایا ہے ویسا کسی اور قوم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس طرح تفصیل سے بیان نہیں فرمایا.سینکڑوں سال کی تاریخ غاروں کے حوالے سے بیان فرما دی گئی.وہ تاریخ جو لکھی گئی اور ان غاروں میں محفوظ کر دی گئی اس کا ذکر فرمایا گیا اور کہا دیکھو کتنے عظیم بندے تھے عیسٹی کے ماننے والے، جو اسے پوجتے نہیں تھے جو اس کی طرح خدائے واحد کو پوجتے تھے اور جس طرح خدائے واحد کی خاطر عیسٹی نے اپنی زندگی تمام عمر مصیبتوں میں مبتلا کر دی، مصیبتوں میں جھونک دی اسی طرح ان پاک بندوں نے اپنے آقا کی غلامی کا سچا حق ادا کیا اور سطح زمین کی لذتوں کو چھوڑ کر غاروں میں چلے گئے.ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ، وہ آپ ذکر کریں تو پھر آپس میں مد مقابل دو کیمپوں کی سی کیفیت نہیں ہوگی بلکہ آپ ان کے ساتھ چل کر ان کے پاک ماضی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں پاک مستقبل کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں گے اور یہ ایک نہایت ہی حکیمانہ طریق ہے جو محبت کے ساتھ بغیر کسی جھگڑے کو طول دیئے انسان کے دل میں راہ پا جاتا ہے.یہ وہ طریق ہے جو دل سے نکلتا ہے اور دل تک راہ پاتا ہے.پس سب سے پہلے سچی ہمدردی اور پیار کے ساتھ خود اپنے دل کو متاثر کریں اور غور کریں کہ آپ کون ہیں، کیا ہیں، کیا یہ واقعی سچ ہے کہ اگر یہ لوگ انذار کی طرف جارہے ہیں تو آپ کے لئے خوشخبریاں مقدر ہیں اور آپ کو یقین ہے اور ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جتنی نیک خبریں جماعت احمدیہ کو دی تھیں اب ہم اس دور میں بڑی تیزی سے داخل ہور ہے ہیں جبکہ وہ خبریں پہلے سے بڑھ کر شان کے ساتھ نمایاں طور پر چاند سورج کی طرح روشن ہو کر ہمارے سامنے ظاہر ہورہی ہیں.اس دور میں داخل ہونے کے بعد کیا آپ کو خوش خبریوں پر یقین نہیں.اگر ہے تو پھر ان خوشخبریوں کے مزے کیسے لوٹیں گے جبکہ آپ کا سارا ماحول ہلاک ہور ہا ہوگا.ایک انسان جسے نعمتیں میسر ہوں وہ کیا بھوکوں میں بیٹھ کے بھی اکیلا ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.پس پھر وہی دل کی بات ہے، انسانی قدروں کی بات ہے اگر آپ کے دل میں حقیقت میں انسانیت سے تعلق ہو تو ان کے غم کی خبر آپ کو بے چین کر دے گی تا کہ ان کو غم سے بچانے کی کوشش کریں اور اپنی خوشیوں کا

Page 750

خطبات طاہر جلد 13 744 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء خیال آپ کو اور زیادہ انگیخت کرے گا کہ اپنے ساتھ کچھ اچھے لوگ خوشیوں میں شامل کر لیں ورنہ وہ نعمت کیا نعمت ہوگی جبکہ ارد گرد لوگ بھوکوں مر رہے ہوں اور ایک انسان بیٹھا اکیلا ان نعمتوں سے استفادہ کر رہا ہو.جماعت احمدیہ کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک گداختہ دل عطا فرمایا ہے.یہاں تک کہ مجھے بعض دفعہ دنیا کے کونے کونے سے جو خط ملتے ہیں ان میں یہ ذکر ملتا ہے کہ آپ نے جب بوسنیا کے مظلومین کا ذکر کیا ، ان کے مظلوم فاقہ کشوں کا ذکر کیا تو کچھ دیر کے لئے تو ہمیں کھانے کی لذتیں بھول گئیں.ہماری زندگی کے سکون حرام ہو گئے ، بعض کہتے ہیں ہم نے رو رو کر ان کے لئے دعائیں کیں اور دل چاہا کہ جو کچھ ہے ہم قربان کر دیں ایک احمدی خاتون میرے پاس آئی.اس نے کہا یہ میرا سر سے پاؤں تک کا سارا زیور، یہ میری مظلوم بوسنیا کی بہنوں کے لئے وقف ہے.میں نے کوشش کی کہ کچھ تو اس کو واپس کر دوں تو روپڑی کہ مجھے یہی ڈر تھا.خدا کے لئے اگر آپ میری خوشی دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک ذرہ بھی اس کا واپس نہ کریں، تمام ترلے لیں، میں ننگے بدن زیوروں کے بغیر زیادہ اچھی ہوں، کیونکہ مجھے زیادہ سکون مل رہا ہے.اس خیال سے کہ یہ میری مظلوم بہنوں کے کام آئے گا.یہ دل گداختہ ہے جو خدا نے احمدیت کو عطا فرمایا ہے یہ دل اگر کسی سینے میں نہیں ہے تو وہ احمدی کی حقیقت سے نا آشنا ہے.اس کو معلوم نہیں ہے کہ احمدیت اس کے لئے کیا کیا لذتیں رکھتی ہے احمدیت کا غم چونکہ لوگوں کی بھلائی کا غم ہے یہ غم بھی لذید ہے اس غم کا بھی ایک الگ مزہ ہے جو دنیا کے غموں سے مختلف ہے اور احمدیت کی خوشیاں بھی دنیا سے الگ ہیں کیونکہ اپنے بھائی کو اپنی خوشیوں میں شریک کر کے آپ زیادہ خوش ہوتے ہیں.یہی وہ دو چیزیں ہیں جو تبلیغ میں آپ کی محمد ہوسکتی ہیں آپ کے لئے کارآمد ہو سکتی ہیں اس کے بغیر آپ کیسے تبلیغ کریں گے.مجھے نارتھ امریکہ کے دونوں ملکوں سے شکوہ ہے کہ یہاں تبلیغ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے، ہے تو ، انفرادی ہے.کہیں اتفاق سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سعادت مند دل ہے جو اتفاق سے پیدا ہو گیا ہے.دیکھیں صحراؤں میں بھی تو نخلستان ملتے ہیں،سارے کا سارا صحرا تو ویرانہ نہیں ہوا کرتا.تو انسانوں میں بھی نخلستان ہیں جو کوششوں کے نتیجے سے پیدا نہیں ہوتے.کسی قومی کوشش یا سائنسی آلات کے استعمال سے وہ نہیں ہوا کرتے.یہ اللہ کے احسان کی چھینٹیں ہیں جن

Page 751

خطبات طاہر جلد 13 745 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء سے دنیا کا ہر خطہ کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ اٹھاتا ہے.قوموں میں بھی ، اسی طرح اچھے لوگ عیسائیت میں بھی ہیں، یہودیت میں بھی ہیں، مشرکوں میں بھی ایسے اچھے نیک دل لوگ مل جاتے ہیں، تو احمدیت میں تو زیادہ ملنے چاہئیں اور ملتے ہیں.ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں تبلیغ کے لئے اور انہی کا کھایا انہی کی کمائی آپ سب مل کر کھاتے اور اپنی طرف سے فخر سے کہتے ہیں کہ اس سال کینیڈا کو دوسو بنانے کی توفیق ملی اور اس سال تین سو بنانے کی توفیق ملی اور چارسو غیر مسلموں کو مسلمان کرنے کی توفیق ملی حالانکہ آپ میں سے اکثریت ایسی ہے جن کا کوئی بھی اس میں کام نہیں تھا.گنتی کے پانچ ، دس، پندرہ ہوں گے جن کی محنتوں کا یہ پھل ہے اور بڑے فخر سے ہم کہہ کر اس میں شامل ہورہے ہیں.بھئی ہم تو ہیں لیکن ہم نے کام کیوں نہ کیا مل کے؟ محنت کی دفعہ وہ الگ ہو گئے اور آپ الگ رہے اور جب پھل بانٹنے کا وقت آیا تو ہم کہہ کر سارے شامل ہو گئے یہ تو جائز بات نہیں.آپ میں سے ہر ایک کو مبلغ بننا ہو گا.چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان، مرد عورت، ہر ایک کو اپنے دائرے میں تبلیغ کرنی ہوگی اور جنہوں نے ایسا شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے پھل عطا کرنے شروع کر دیئے ہیں.حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.عالم احمدیت جاگ اٹھا ہے اور جاگنے کے وقت کی سنسناہٹ کی آواز میں سنائی دے رہی ہیں.جس طرح صبح جاگتی ہے تو رات کی خاموشیاں ایک عجیب قسم کی بھنبھناہٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں اس طرح کل عالم احمدیت میں ایک منظر ہے، ہر طرف جاگ ہو رہی ہے، اٹھ رہے ہیں جیسے صبح سویرے ہل لے کر زمیندار کھیتوں کی طرف چل پڑتے ہیں کام کرنے والے اپنے ہتھیار لے کر کاموں کی طرف چل پڑتے ہیں ویسا ہی منظر دنیائے احمدیت میں دکھائی دے رہا ہے.یہاں کیوں دکھائی نہ دے؟ نارتھ امریکہ کے ملکوں کا کیا قصور ہے کہ یہاں خدا کی وہ رحمتیں نازل نہ ہوں.اس لئے اپنے دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور اس جذبے کو اپنے دل میں جاگزیں کرلیں، اپنی زندگی کا مقصد بنالیں.جن مقاصد کو لے کر آپ دنیا کماتے ہیں وہ ایسے مقاصد ہیں جو آپ کی ساری زندگی پر قابض ہو جایا کرتے ہیں.ہر نقصان آپ کو تکلیف دیتا ہے ہر فائدے کی خوشی ہوتی ہے اور جب تک ان مقاصد کو آپ حاصل نہ کر لیں آپ چین سے بیٹھ ہی نہیں سکتے.یہ اپنائیت پیدا کریں خدا کے پیغام سے اور جیسا کہ میں نے بار بار آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے یہ اپنائیت یقین کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی.

Page 752

خطبات طاہر جلد 13 746 خطبه جمعه فرمودہ 30 ستمبر 1994ء اندار کا یقین کہ لازماً خدا نے جو خبریں انذار یعنی ڈرانے کے طور پر خدا کے رستے سے ہٹنے والوں کے لئے دی ہیں وہ بچی ہیں ، ضرور پوری ہوں گی اور تبشیر اور بشارت کا یقین کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان پاک بندوں پر ضرور رحمتیں نازل فرمائے گا جو ان قوموں کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں.یہ دو باتیں ہیں جو آپ میں قوت عمل پیدا کریں گی اور اسلوب تبلیغ کا خدا نے خود ہی بتا دیا ہے.ہمدردی اور پیار سے بات کرو، دلیلیں تو بعد کی باتیں ہیں.انسان کی نظر سچے دل کے اوپر پڑا کرتی ہے اور میں نے بارہا اسلام قبول کرنے والوں یا غیر احمد یوں میں سے احمدی ہونے والوں سے سوال کئے ہیں اور اکثر میں ان سے پوچھتا ہوں جب ملتے ہیں، کہ تمہیں کس بات نے متاثر کیا.یہ جواب اکثر کا ہے کہ ہمارا فلاں دوست تھا وہ دل کا سچا تھا، اس کے اندر گہرے اخلاق تھے، اس کے اندر سچا پیار تھا اور قربانی کا جذبہ تھا اور اس نے ہمیں متاثر کیا اور پیغام بعد میں آیا ہے.تو اصل حقیقت یہ ہے کہ پیغام خواہ کیسا ہی سچا ہو، کتنی ہی اس میں دل جیتنے اور عقلوں کو قائل کرنے کا مادہ موجود ہوتب تک مؤثر نہیں ہو سکتا جب تک کہ پیغام پیش کرنے والا اپنے حسن کی ٹرے میں، مجمع میں سجا کر اسے پیش نہ کرے.دیکھو اچھی چیزیں بھی اگر برے طریق پر پیش کی جائیں تو انسان اس کو رد کر دیتا ہے.کسی گندے اور غلیظ برتنوں میں آپ اچھے سے اچھا کھانا پیش کریں لوگ اس کو حرص کی نظر سے تو کیا دیکھنا نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ٹھوکر مار کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں.کبھی کسی غلیظ گندے برتن میں آپ کو خدانخواستہ اگر کھانا پیش کیا جائے تو سوچیں آپ کے دل کی کیا کیفیت ہو گی.مگر بعض لوگ سلیقے سے بات کرتے ہیں ،سلیقے سے چیز پیش کرتے ہیں وہ معمولی غریبا نہ کھانا جسے دال روٹی کہا جاتا ہے وہ بھی پیار، محبت کے ساتھ ، سلیقے کے ساتھ طشتری میں سجا کر آپ کے سامنے رکھیں تو آپ اسی محبت اور پیار سے کھائیں گے خواہ آپ کو بھوک نہ بھی ہو تو دونو الے لے لیں گے.تو تبلیغ کا ڈھنگ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا دل پیدا کریں اور جتنے احمدی کامیاب مبلغ ہیں سب اسی دل کے فیض سے تبلیغ کرتے ہیں.سچا پیار بنی نوع انسان سے ہوان کے غم کو اپنا غم بنائیں ان کی فکروں کو اپنی فکر بنالیں، ان کے بدانجام پر نظر رکھتے ہوئے ان کو بچانے کی کوشش کریں، اس کے سوا اور کوئی تبلیغ کا رستہ نہیں اور وہ خوشیاں جن کے وعدے آپ کو دیئے گئے ہیں سوچیں کہ ان لوگوں کے جو آپ کے ماحول میں بستے ہیں ان کے ہلاک ہونے کے نتیجے میں آپ

Page 753

خطبات طاہر جلد 13 747 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء کیسے خوش ہوں گے.پس کچی انسانیت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں.تبلیغ کے لئے کچی گہری انسانیت کی ضرورت ہے خدا کی طرف سے پاک ہوائیں چلائی جارہی ہیں، کل عالم میں چلائی جارہی ہیں.آپ پر سے بھی یہ ہوائیں گزر رہی ہیں لیکن یہ ہوائیں جہاں فیض برساتی ہیں اگر وہاں ریگستان ہو تو کچھ ان حصوں پر ضرور فیض برسا جاتی ہیں جو خدا کے فضل کے ساتھ اگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ورنہ ریگستان ہی رہتا ہے.پس اپنے دلوں کی حالتوں کو تبدیل کریں اور زرخیر زمینیں بنائیں تا کہ کل عالم پر جو خدا کے فضل کی برساتی اور نمود دینے والی ہوائیں چلائی جارہی ہیں ان سے آپ بھی فیض پائیں اور آپ کے اردگرد بسنے والے بھی فیض پائیں.ان قوموں میں آپ غریب ملکوں سے آئے ہیں، ان سے استفادہ کرتے ہوئے یہ بھی تو خیال کریں کہ آپ پر فرض ہے کہ ان کو کچھ فیض پہنچا ئیں.یک طرفہ فیض ان سے لیتے چلے جائیں اور جھوٹے شکوے کریں کہ ان لوگوں میں (Racism) رئیس ازم پایا جاتا ہے، یہ ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.یہ جھوٹے شکوے اس لئے ہیں کہ اگر آپ اس فیض کے بدلے ان کو فیض نہیں پہنچاتے تو پھر واقعہ آپ کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے.پس احمدیت تو فیض سے مالا مال ہے دنیاوی فیض ان سے حاصل کریں اس سے بہت بہتر روحانی فیض ان کو پہنچائیں.اور آپ میں سے ہر ایک اپنے آپ کو اس کے لئے وقف کر دے جب تک آپ صاحب اولاد نہ ہوں، آپ میں سے ہر ایک میرا مخاطب ہے.اس وقت تک لوگوں کے صاحب اولاد سے آپ کیسے خوشیوں کے جشن منائیں گے.وہ مائیں جو اولاد سے محروم رہتی ہیں ان کی بہنوں ، ان کے بھائیوں ، ان کے عزیزوں کے ہاں جب پیدائش کے بعد پیدائش ہوتی ہے، خوش تو ہوتی ہیں مگر روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ، ان کے دل غمگین ہوتے ہیں اور علیحدگی میں سجدہ ریز ہوکر اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتی ہیں کہ اے خدا ہمیں کیوں اس خوشی سے محروم رکھا ہے.تو دنیائے احمدیت پر نظر ڈال کر ان کے ہاں جو روحانی پیدا ئشیں ہو رہی ہیں ان کو بھی اس سچی آنکھ سے دیکھیں اور اگر آپ اس روحانی پیدائش سے محروم ہیں تو اس طرح خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں کہ جس طرح ہمارے طرح دوسرے بھائیوں کو روحانی اولاد سے متمتع فرما رہا ہے کچھ رحم و کرم کی چھینٹیں ہم پر بھی ہوں.اس سچے دل اور نیک دعاؤں کے ساتھ اگر آپ کام کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ انقلاب یہاں بھی

Page 754

خطبات طاہر جلد 13 748 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1994ء ضرور بر پا ہوگا اور دیکھتے دیکھتے آپ کی کایا پلٹ جائے گی اور آپ کا ماحول بدلنا شروع ہو جائے گا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.اب چونکہ اس ہال کا وقت ، جو جس مقصد کے لئے لیا گیا تھا ختم ہو رہا ہے، آپ نے سفر پر بھی جانا ہے اس لئے میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں اس امید پر کہ میرے دل کی باتیں جو دل سے اٹھی ہیں آپ کے دل میں جاگزیں ہوں گی اور اثر دکھا ئیں گی.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 755

خطبات طاہر جلد 13 749 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء احمدی اپنے اندرونی تعلقات کو مثالی بنائیں بنی نوع انسان پر اسلام کے غلبے کے لئے یہی تیاری ہے.خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1994ء بمقام کیلگری، کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چند ماہ پہلے جب مجھے کینیڈا آنے کی توفیق ملی تو صرف مشرقی کینیڈا کا دورہ تھا.ٹورانٹو چونکہ جماعت کا مرکز ہے اس لئے وہیں تک دورہ محدود رہا اور مغربی کینیڈا کا کوئی پروگرام نہیں بن سکا.اس دفعہ جب امریکہ کا پروگرام بنا تو ہمارے ایک دوست نے جو پہلے کینیڈا رہتے تھے اب امریکہ جاچکے ہیں، انہوں نے مجھے اس سے پہلے ایک وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے جیسپر پارک میں کچھ دن ذاتی طور پر الگ ٹھہرنے کا ایک دفعہ ذکر کیا تھا اور میں نے آپ سے وعدہ لیا تھا کہ آپ میرے مہمان ہوں گے، تو اب آپ کو میں وہ یاد دلاتا ہوں.یہ پیغام مجھے کسی ذریعے سے ملا کہ اگر ہو سکے تو جیسپر پارک کا دورہ اس دفعہ رکھ لیا جائے پس وہ ذاتی دورہ جو جیسپر پارک کا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے بہت مبارک کر دیا کہ کینیڈا ہی کے مغربی حصے میں دو جمعے پڑھنے کی توفیق ملی ہے ایک جمعہ ایسی جگہ پڑھا گیا جہاں Vencover کی تقریبا تمام جماعت شامل ہوئی اور اس کے علاوہ Settel کی جماعت کی بھی بھاری نمائندگی وہاں تھی لیکن وہ پڑھا گیا کینیڈا کے ساحل میں ، کینیڈا کی سرزمین میں یعنی بارڈر کراس کرنے کے بعد اور دوسرا جمعہ آج یہاں Calgary میں پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے.مجھے افسوس ہے کہ وقت محدود ہونے کی وجہ سے آپ کی اور اپنی خواہش کو پورا کرنے کا موقع

Page 756

خطبات طاہر جلد 13.750 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء نہیں مل سکتا.یعنی انفرادی تفصیلی، ذاتی اور فیملی ملاقاتیں ممکن نہیں ہیں.چونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ سب سے مل سکتے ،اگر ایسا کرتے تو مل بیٹھ کر جو اجتماعی گفتگو ہے اس کا وقت نہیں ملنا تھا.اس لئے میں نے امیر صاحب سے یہ درخواست کی کہ چند ایسے استثناء جو بعض دفعہ کرنے پڑتے ہیں ان کے سوا ذاتی اور فیملی ملاقاتیں نہ رکھی جائیں.اس لئے آج کا پروگرام یہ ہوگا کہ جمعہ کے بعد ہم ایک کسی ذاتی گھر میں جہاں پہلے سے انتظام ہے وہاں کچھ عرصے کے لئے جائیں گے.پھر پانچ بجے ہمارا با قاعدہ دوسرا جماعتی پروگرام شروع ہوگا اور پانچ بجے ایک گھنٹہ کی ملاقاتیں ہیں وہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے استثنائی صورت میں ہیں بعض ایسی علامتیں ہیں جن سے میں پہلے کبھی وعدہ کر چکا تھا اور موقع پر مجھے یاد دلایا گیا اس لئے یہ مجبوری تھی اور بعض اور مصلحتوں کے پیش نظر جو جماعتی مصلحتیں بھی ہیں ملاقاتیں رکھنی پڑتی ہیں.کسی کو مقامی انتظامیہ سے یا امیر صاحب سے شکوے کا محل نہیں ہے.یہ مناسب نہیں ہوگا کہ لوگ کہیں کہ فلاں کی کروادی اور فلاں کی نہیں کروائی.جو کچھ بھی ہوا ہے میری ہدایت پر مشورے کے بعد اور میری اجازت سے ہوا ہے اس لئے اس بحث کو بے وجہ نہ چھیڑیں کہ کس کو موقع ملنا چاہئے تھا اور نہیں مل سکا.ہاں اجتماعی ملاقات کے لئے انشاء اللہ چھ بجے وقت رکھا گیا ہے چھ سے لے کر ساڑھے سات تک انشاء اللہ ہم اکثر حصہ مردوں میں بیٹھ کر گفتگو کریں گے.جس نے اپنا تعارف کروانا ہوا اسے موقع ملے گا.بہت سے ایسے احمدی دوست ہیں جو پاکستان سے یا کسی اور کینیڈا کے حصے سے اس علاقے میں میرے گزشتہ دورے کے بعد آئے ہیں اور ان سے جو خصوصا پاکستان سے آئے ہیں ان سے تو دس گیارہ سال سے بعض سے بارہ سال سے ملاقات نہیں ہوئی.ان میں بھی آگے پھر مختلف قسمیں ہیں.جب ملاقات کے خواہشمندوں کی فہرست دیکھ رہا تھا میں نے امیر صاحب سے کہا کہ جب میں پاکستان ہوتا تھا تو بعض ان میں سے ایسے ہیں جب وہاں بھی ان کو ملنے کی خواہش نہیں ہوئی تو اب کینیڈا کا کیوں زائد حق تسلیم کیا جائے.اس لئے جو پرانے سلسلے سے گہرا تعلق رکھنے والے خدام ہیں، کاموں میں پیش پیش ہیں اور جماعتی خدمت کی وجہ سے حق رکھتے ہیں ان کو بہر حال فوقیت ملنی چاہئے.لیکن کم کرنے کے باوجود پھر بھی فہرست اتنی لمبی بن گئی تھی کہ تین گھنٹے میں بھی وہ چیدہ چیدہ ناموں کے ساتھ فیملی ملاقاتیں ممکن نہیں تھیں.یہ تو معذرت کا حصہ ہے انشاء اللہ باقی ملاقات چھ بجے اجتماعی طور پر ہم اکٹھے بیٹھیں گے اور آپ کو موقع ملے گا جو دوست بعد میں آئے ہیں وہ کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروا

Page 757

خطبات طاہر جلد 13 751 خطبہ جمعہ فرموده 7 اکتوبر 1994ء سکتے ہیں اور اس طرح آمنے سامنے بیٹھ کر سب سے اجتماعی گفتگو ہو جائے گی.امیر صاحب نے فرمایا ہے کہ اس کے بعد چند منٹ کے لئے خواتین میں بھی جانا ہوگا کیونکہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو بعد میں تشریف لائی ہیں ان کو بھی خواہش ہوگی کہ ان سے بھی گفتگو ہو جائے یہ تو حصہ ہے معذرت والا.اب میں اس سلسلہ مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جس پر میں کچھ عرصے سے خطبات دے رہا ہوں.ایک لمبے عرصے تک میں نے عبادات کے موضوع پر خطبے دیئے.ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ان کی انسانی زندگی میں اہمیت کو واضح کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلقات درست کئے بغیر اس زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں رہتا.محض جانوروں کی طرح زندہ رہ کر، کھا پی کر مر جانا ہے اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں اور یہی فرق ہے انسان اور حیوان میں کہ انسان کو وہ استعداد میں بخشی گئی ہیں ، وہ نورفر است عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ سے ایک باشعور رابطہ قائم کر سکتا ہے.ویسے تو ہر مخلوق کا خدا سے ایک رابطہ ہے اور کوئی مخلوق خواہ آپ اسے بے جان سمجھیں بے شعور سمجھیں اللہ سے رابطے سے عاری نہیں ہے اور اپنی اپنی توفیق کے مطابق جسے ہم نہیں سمجھ سکتے اللہ کی حمد کرتی ہے.لیکن انسان اور باقی مخلوقات میں فرق یہ ہے کہ انسان وہ استعداد میں رکھتا ہے جس سے خدا تعالیٰ سے باشعور تعلق قائم کر سکتا ہے جیسے انسان کا انسان سے تعلق ہوتا ہے.یہ لمبا سلسلہ ہے جس کو انشاء اللہ جب نارتھ امریکہ میں ٹیلی ویژن کا کام جاری ہو جائے گا تو پھر ہم مناسب وقت میں سلسلہ وار دوبارہ شروع کریں گے کیونکہ آپ میں سے بھاری اکثریت ایسی ہے جو وہ خطبے نہیں سن سکی، ان کے لئے ممکن نہیں تھا لیکن وہ ضرورت بہت ہے کیونکہ اللہ سے تعلق استوار کئے بغیر انسان سے صحیح معنوں میں تعلق استوار نہیں ہو سکتے.تو یہ جو حصہ ہے یہ تو آپ آئندہ انشاء اللہ ایک دو ماہ کے اندر سلسلہ وارسن سکیں گے لیکن آج کل میں جس موضوع پر گفتگو کر رہا ہوں وہ انسانوں سے انسانوں کے تعلقات کا مضمون ہے جس کا گہرا تعلق اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ ہے.ایک انسان جو خدا سے تعلق رکھتا ہے اس کے خدا سے تعلق کے حالات تو اکثر ہم پر پوشیدہ رہتے ہیں لیکن خدا سے تعلق کے نتیجہ میں وہ بنی نوع انسان سے جیسے تعلقات رکھتا ہے وہ ہمیں دکھائی دینے لگتے ہیں اور وہ ایک ایسی چیز ہے جسے چھپایا نہیں جاسکتا.اور وہی معاملات ہیں جن سے انسان کا باخدا یا بے خدا ہونا معلوم کیا جا سکتا ہے.ان تعلقات سے وہ رسمی تعلقات مراد نہیں جو مہذب

Page 758

خطبات طاہر جلد 13 752 خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1994ء قوموں میں تہذیب کے نام پر جاری ہیں بلکہ وہ تعلقات مراد ہیں جو ایک باخدا سب سے بڑے با خدا، برگزیده انسان حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے اپنے اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں سیکھے.اور خدا کی محبت کے نتیجے میں خدا کی مخلوق سے جو طبعی محبت پیدا ہوئی اور اس محبت کے جو تقاضے تھے وہ آپ نے نہ صرف خودا دا فرمائے بلکہ ہمیں بھی سکھایا کہ اگر تم باخدا ہو تو یہ کچھ کرنا ہو گا آپس کے تعلقات کو اس طرح درست کرنا ہوگا.ان تعلقات کی کمی بسا اوقات جماعت میں بھی نظر آتی ہے اور اس انسانی تعلق میں رخنوں کی وجہ سے مجھے ان کی عبادت میں رخنے دکھائی دینے لگتے ہیں.محض یہ کہنا کہ یہ انسانی تعلقات کی خرابیاں ہیں درست نہیں ہے.جس کے تعلقات اللہ سے درست ہوں اس کے انسانی تعلقات ہموار ہو جاتے ہیں اور ان میں بہت کم رخنے دکھائی دیتے ہیں بعض دفعہ رخنے دکھائی دیتے ہیں تو دیکھنے والے کی آنکھ کا قصور ہوتا ہے اور اس کی ٹیرھی نظر ایک باخدا انسان کے انسانی تعلقات کو ٹیڑھا صلى الله دیکھنے لگتی ہے.جیسا کہ بعض اندھے اور دشمن اسلام آنحضرت ﷺ کے انسانی تعلقات پر بھی حرف رکھنے لگتے ہیں.پس مراد یہ نہیں کہ ٹیڑھی آنکھوں والوں کو بھی یہ تعلقات درست دکھائی دیتے ہیں.عام سرسری نظر میں انسان جو تقویٰ کے اعلیٰ مدارج نہ بھی طے کر سکا ہوا گر معمولی انصاف کی نظر سے بھی دیکھے تو اسے خداوالوں کے تعلقات میں کوئی رخنہ دکھائی نہیں دے گا.پس اس پہلو سے میں جماعت کی تربیت کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جب تک ہم بحیثیت احمدی مسلم اپنے اندرونی تعلقات کو مثالی نہ بنالیں اس وقت تک ہم بنی نوع انسان پر اسلام کے غلبے کے لئے تیار نہیں ہیں.وہ اسلام کا غلبہ جو محض نظریاتی غلبہ ہو، جو کوئی اخلاقی انقلاب بر پا نہ کر سکے، جو کوئی روحانی تبدیلی پیدا نہ کر سکے وہ بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہے اور کبھی حضور اکرم ﷺ نے ایسے غلبے کی کوئی پیش گوئی نہیں فرمائی لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ فرمایا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تمام انسانوں پر اس مذہب کو غالب فرما دے گا.فرمایا محمد رسول اللہ کو تمام ادیان پر غالب فرما دے گا یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق، محمد رسول اللہ ﷺ کا رہن سہن ، آپ کا بود و باش، آپ کی طرز معاشرت، آپ کے بنی نوع انسان سے تعلقات، آپ کے خدا تعالیٰ سے تعلقات ہر دوسرے دین پر غالب آجائیں گے.اس کے لئے ضروری ہے کہ احمدی ایک ایسا خوب صورت آسمانی معاشرہ قائم کریں جس میں وہ جہاں جہاں بھی ہوں دنیا کو جزیروں کی طرح دکھائی

Page 759

خطبات طاہر جلد 13 753 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء دینے لگیں.ایسے جزیروں کی طرح جو ان میں رہتے ہوئے بھی ان سے الگ ہوں اور نہایت دلکش اخلاقی مناظر پیش کرتے ہوں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی اس مضمون میں جو متفرق نصائح ہیں ان میں سے بعض کا انتخاب میں پہلے کر چکا ہوں، بعض کا آج کے خطبے کے لئے انتخاب کیا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ نے بیان فرمائی اور بخاری سے لی گئی ہے فرمایا اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم درجے کا ہے، کم وسائل والا ہے، اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر اور اچھی حالت میں ہے یہ شکر کا ایک انداز ہے.صلى الله اب یہ بہت ہی مختلف الفاظ میں بہت گہری نصیحت ہے بہت سے انسانی تعلقات کے رخنے اس نصیحت کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اول تو یہ غور طلب بات ہے کہ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے سے نیچے لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر حقارت سے دیکھتے ہیں.اپنے سے او پر لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر حسد کے ساتھ دیکھتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ اپنے سے نیچے کو دیکھو اور اوپر کونہ دیکھو.یہ کیوں نہ فرمایا کہ اپنے سے نیچے کو دیکھو تو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ محبت سے دیکھو.دوسری جگہ فرمایا ہے یہاں یہ نہیں فرمایا.اگر آپ غور کریں تو اس میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی بے حد گہری فراست کی روشنی ملتی ہے.وجہ یہ ہے کہ جو شخص نیچے دیکھے اور حقارت سے دیکھ رہا ہو اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اوپر حسد سے نہ دیکھے کیونکہ جو نیچے حقارت سے دیکھ رہا ہو اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اوپر حسد سے نہ دیکھے کیونکہ جو نیچے حقارت سے دیکھا ہے اس کو یہ برداشت ہی نہیں ہوسکتا کہ اس سے اوپر بھی کوئی خوش حال انسان ہے.پس او پر نہ دیکھئے نے اس مضمون کے ایک طرف کو ایسا قطع کر دیا ہے کہ دوسرے حصے پر اس کی بہت ہی عمدہ روشنی پڑتی ہے اور ساری بات کی وضاحت ہو جاتی ہے.اپنے سے نیچے دیکھو اور اوپر نہ دیکھو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو حسد کا مادہ رکھتے ہیں جو کسی کی خوشحالی سے جلتے ہیں وہی لوگ ہیں جو اپنے سے کم تر لوگوں کی ضرورتوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور ان سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں.ان کی طرف نہ دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر نظر ڈالیں گے تو حقارت کی نظر ڈالیں گے ورنہ ان کی پرواہ ہی کوئی نہیں کہ نیچے کون لوگ ہیں.آنحضور نے فرمایا کہ جب تم دیکھو تو نیچے کی طرف دیکھو اور اوپر نہ دیکھو اس سے شکر پیدا ہوتا ہے.اوپر اگر انسان دیکھتار ہے اور ان لوگوں کو دیکھے جو ان سے بالا ہیں ان کو خدا نے دولتیں اور

Page 760

خطبات طاہر جلد 13 754 خطبہ جمعہ فرموده 7/اکتوبر 1994ء دوسرے انعامات زیادہ عطا کئے ہیں یا ذہنی اور قلبی صلاحیتیں زیادہ بخشی ہیں تو ایسے شخص کی زندگی ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتی ہے اور ہمیشہ ناشکری کے خیالات دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ اس کو تو اللہ تعالیٰ نے یہ دیا، مجھے نہیں دیا، اس نے یہ اپنے ذرائع سے حاصل کر لیا اور میں نہیں کر سکا، تو ساری زندگی میں ایک تلخی گھولی جاتی ہے لیکن ایک انسان اگر نیچے کی طرف دیکھنے کا رجحان رکھتا ہو تو وہ لوگ جو اس سے کئی طرح سے کم تر ہیں ، ذہنی لحاظ سے کم تر ہیں یا جسمانی استعدادوں کے لحاظ سے کم تر ہیں یا مالی استعدادوں کے لحاظ سے کم تر ہیں، رہن سہن اور دنیا کے دیگر آرام کے ذرائع میں وہ نسبتا کم تر ہیں تو اس کی توجہ ان کے لئے ہمدردی اور احسان کے زاویہ سے ہوگی اور حقارت کے زاویہ سے نہیں ہو گی کیونکہ اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے شکر کی شرط لگادی ہے کہ یہ میں تمہیں شکر کا طریق سکھا رہا ہوں.پس جو شخص اپنے سے کم تر کو دیکھے وہ ہمیشہ شکر میں مبتلا رہے گا کہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ مجھے یہ بھی میتر ہے اور وہ بھی میتر ہے اور ان ان صلاحیتوں میں میں اس سے بہتر ہوں.پس اس پہلو سے اگر آپ دنیا میں تمام معذوروں اور مجبوروں کو دیکھیں یا غریبوں کو دیکھیں یا مظلوموں کو دیکھیں تو آپ کے اندر ہمیشہ یہ احساس تشکر زندہ رہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہتوں سے بہتر انعام عطا فرمائے ہیں جن کے آپ حق دار نہیں تھے، جو آپ نے کمائے نہیں ہیں کیونکہ اگر آپ اپنے آپ کو حق دار سمجھیں اور یہ یقین کریں کہ یہ کچھ آپ نے کمایا ہے تو پھر شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ٤ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے (درشین : 36) بہت پیارا شعر ہے اور اسی مضمون پر روشنی ڈال رہا ہے کہ وہ شخص جو یہ سمجھتا ہو کہ جو کچھ بھی ملا ہے اللہ کی نعمت ہے اور اس کی مرضی ہے وہ مالک ہے جتنا چاہے دے اسی پر ہم راضی رہیں اور پھر یہ یقین کریں کہ یہ ہماری محنت یا حق کے نتیجے میں نہیں ہے بلکہ عطا کے نتیجے میں ہے تو ایسے انسان کی زندگی غربت اور تکلیف میں بھی سنور جاتی ہے.اور اس کا روز مرہ کا اپنے ماحول سے برتا ؤ اور ان سے اٹھنا بیٹھنا اور ملنا جلنا ایک شکر گزار بندے کی طرح ہو جاتا ہے.اپنے سے کم تر سے وہ جب ملتے ہیں تو احسان کے ساتھ ملتے ہیں اور جوشکر گزار ہو اور یہ سمجھے کہ میرا حق نہیں تھا مجھے عطا کیا گیا ہے.وہ جو محروم ہیں ان کے لئے ان کے دل میں زیادہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور ان کے لئے خرچ کرنے پر تیار

Page 761

خطبات طاہر جلد 13 755 خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1994ء رہتے ہیں اگر یہ نہ کر سکیں تو ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور ان سے شرمندہ رہتے ہیں کہ یہ جوان کو نہیں ملا اور مجھے ملا ہے، اگر میں حق دار نہیں تھا تو پھر لازم ہے کہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کروں اور ان کی تکلیفوں کو کم کروں اور ان کی خوشیوں میں اپنی خوشیاں شریک کر دوں.یہ وہ مضمون ہے جو بڑا وسیع ہے اس مضمون پر بعض دفعہ میں نے پورے خطبات صرف کئے ہیں لیکن اتنا گہرا اور تفصیلی وسیع مضمون ہے کہ اس کا ایک دو خطبوں سے حق ادا نہیں ہوسکتا.بہر حال حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث میں بہت ہی گہری فراست ہے اور تمام انسانی نفسیات کا نچوڑ ہے.اگر آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو اس وقت جو باقی دنیا کا حال ہے وہی حال جماعت کا ہو جائے گا وہ سب ایک دوسرے سے اموال میں بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش حسد کے نتیجے میں ہے ایک دوسرے کو اچھا دیکھ نہیں سکتے اور یہ حال جب معاشرے میں ہو جائے تو گھر گھر آپس میں بٹ جاتے ہیں.جس بلا کا نام ہمارے ملک پنجاب میں شریکہ رکھا جاتا ہے، یہ وہی بلا ہے جو ایک دفعہ وارد ہو جائے تو گھروں کو اجاڑ دیتی ہے اور پیچھا نہیں چھوڑتی.ایک خاندان کا حصہ ہے وہ نسبتا غریب ہے دوسرا خاندان ہے اللہ تعالیٰ نے دوسرے حصے پر نسبتا زیادہ نعمت عطا فرما رکھی ہے تو ان کو دیکھتے ہیں اور آگ لگ جاتی ہے کہ یہ کیوں ہم سے اچھے ہیں.اور اس کے نتیجے میں دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور شریکے کی دشمنیاں کئی قسم کے بدرنگ اختیار کر لیتی ہیں، رشتے اجڑ جاتے ہیں.آپس میں تعلقات کے نتیجے میں یعنی دنیاوی تعلقات کے نتیجے میں بعض رشتے بھی کرنے پڑتے ہیں اور وہ رشتے نعمت کی بجائے عذاب بن جاتے ہیں.پس یہ بہت ہی بڑی ہلاکت ہے جس سے آنحضرت ﷺ نے اس نصیحت کے ذریعے ہمیں بچالیا.میں امید رکھتا ہوں کہ ان تمام قوموں میں، ان تمام خاندانوں میں جن میں یہ وبا موجود ہے، یہ بلا آ پڑی ہے کہ وہ اچھے کو اچھا نہیں دیکھ سکتے ، وہ اس نصیحت کو سن کر اس پر عمل کر کے اپنی زندگی میں انقلاب بر پا کرنے کی کوشش کریں گے، اپنے سے نیچے کو دیکھیں گے ان سے ہمدردی کا سلوک کریں گے.اگر یہ سلسلہ ہو تو سلسلہ وار سب سے اچھا، اپنے سے کم تر ، سب سے جھک کر ملے گا اور وہ اس سے حسن سلوک کرے گا.اس کی نعمت سے باقی خاندان کے لوگ بھی حصہ پائیں گے، اس کی رحمت اور شفقت کا باقی سب بھی مورد بنیں گے اور اس طرح یہ تعلقات نفرتوں اور حسد پر منتج ہونے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کے

Page 762

خطبات طاہر جلد 13 756 خطبه جمعه فرموده 7 / اکتوبر 1994ء ساتھ حسن واحسان کے سلوک پر منتج ہو جائیں گے.ایک اور حدیث ہے بخاری سے لی گئی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں سخت باز پرس کروں گا.ایک وہ جس نے میرے نام پر کسی کو امان دی اور پھر دھوکہ بازی اور غداری کی.ایسی مثالیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تو کوئی نہیں ملتیں میرے علم میں کبھی ایسی بات نہیں آئی کہ جماعت میں کسی نے خدا کے نام پر کسی کو پناہ دی ہو اور پھر اس سے دھوکہ بازی کی ہو لیکن جو جماعت کے دشمن مولوی ہیں ان میں بارہا ایسی مثالیں نظر آتی ہیں.ابھی دو تین دن پہلے بنگلہ دیش سے ایک فیکس ملی کہ ایک علاقے کے مولوی نے وہاں کے نواحمد یوں کو خدا کے نام پر وعدہ کر کے بلایا کہ آؤ ہم گفتگو کرتے ہیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور بڑے اچھے پاکیزہ ماحول میں گفتگو ہو گی مگر خدا کے نام کی پناہ دے کر پھر غنڈوں سے حملہ کروایا اور کئی تقریبا جان کنی کی حالت میں جا پہنچے.تو یہ وہ مضمون ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے روز سخت باز پرس کروں گا ان میں سے ایک وہ ہے جو میرے نام کی پناہ دے کر پھر دھو کہ کرے اور کسی کو یہ یقین دلا کر کہ اللہ کی امان میں آچکے ہو تمہیں کوئی خطرہ نہیں پھر اسے اپنے شرکا نشانہ بنائے اس کو میں کبھی معاف نہیں کروں گا اور اس سے سختی کا سلوک کروں گا.پھر فرمایا دوسرا آدمی وہ ہے جس نے کسی آزاد کو پکڑ کر دھوکہ بازی اور غداری کی اور اپنے فائدے کے لئے آگے بیچ دیا، اس کی قیمت کھا گیا.اس سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں غلامی کا کوئی تصور نہیں ہے.وہ غلامی کا تصور جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے وہ خاص جنگ کی حالتوں کے نتیجے میں جنگی قیدیوں کو غلام کہا جاتا ہے اور تمام تر مضمون ان کے گرد گھوم رہا ہے لیکن کہیں اشارہ بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ کوئی انسان کسی دوسرے آزاد انسان کو پکڑ کر اپنا غلام بنالے اور یہ عجیب بات ہے کہ وہ قو میں جو اسلام کے غلامی کے تصور پر طعنہ زن ہیں اور دنیا کو کہتی ہیں کہ اسلام نے غلامی کی تعلیم دی انہوں نے ایسی غلامی کی بنیادیں ڈالی ہیں اور اس قدر سنگین غلام بنانے کے جرائم ادا کئے ہیں کہ ساری دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی.یہ امریکہ جو کثرت کے ساتھ ایفر وامیریکن سے بھرا ہوا ہے، یہ اس بات پر گواہ ہے کہ افریقہ

Page 763

خطبات طاہر جلد 13 757 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء کے ملکوں سے مغربی قوموں نے دھوکہ دے دے کر لوگوں کو پکڑا اور بہت مدت تک نہایت خوفناک جیلوں میں ٹھونسا اور پھر وہاں سے پکڑ کر یہ ایسے حال میں امریکہ کے ساحل پر لے کے آئے کہ بڑی بھاری تعدا در ستے میں گندی اور نا قابل برداشت حالتوں کے نتیجے میں مر جایا کرتی تھی.میں جب غانا گیا تھا تو وہاں جب ان کے صدر سے ملنے گیا تو ان کے ایڈی کام نے مجھے محل میں وہ تہہ خانہ بھی دکھایا تھا جہاں کسی زمانے میں دھوکہ دے کر افریقن یعنی غانین افریقنوں کو پکڑ کر پہلے قید میں رکھا جاتا تھا اور پھر وہاں سے جہازوں پر لاد کر امریکہ پہنچایا جا تا تھا.ایسا خوفناک نظارہ تھا کہ اس کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں انسان کی بہیمانہ کیفیت کو دیکھ کر ، اس کی بدحالت کو دیکھ کر.بتانے والوں نے بتایا کہ ایک ایک کمرے میں اتنے اتنے آدمی ٹھونس دیئے جاتے تھے کہ وہ بیٹھ نہیں سکتے تھے کیونکہ بیٹھے کے لئے جو ہلنے کی جگہ ہے وہ میسر نہیں ہوتی تھی اور ان کے لئے کوئی ٹائیلٹ کا انتظام نہیں ہوا کرتا تھا.اور خوراک ، اس وجہ سے کبھی کبھی روٹی پھینک دیا کرتے تھے کہ یہ مر نہ جائیں یہ ہماری دولت ہے جو ضائع نہ ہو جائے.اور اس حالت میں کئی لوگ کھڑے کھڑے مر مر کر گرتے رہتے تھے یا پھنسے رہتے تھے اسی طرح.پھر جن جہازوں پر لادتے تھے ان میں ایسی کیفیت تھی جیسے ڈربوں میں ظالم لوگ مرغیاں ٹھونس دیتے ہیں اور ان کا بھی وہی حال تھا یعنی جو تاریخ میں نے پڑھی ہے معلوم ہوتا ہے کہ پچیس سے تیس فیصد تک زندہ آدمی امریکہ پہنچتے تھے باقی رستوں میں مرجاتے تھے اور ابھی یہ مہذب قومیں ہیں، یہ اسلام کی غلامی کے تصور پر ہنستی ہیں حالانکہ قرآن کریم کا مطالعہ کر کے دیکھیں اور اس تعلیم کو دیکھیں جو آنحضرت ﷺ نے غلاموں کے متعلق فرمائی تو ایک حیرت انگیز انسانی عظمت کا مظہر تعلیم ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں غلام بنانے کا رستہ تو کوئی نہیں بتایا گیا سوائے اس کے کہ جنگ ٹھونسی گئی ہو اور غلامی سے آزادی کے بے شمار دروازے کھولے گئے ہیں یہاں تک کہ یہ حق بھی ہر غلام کو دے دیا کہ اگر تم جنگی غلام کے طور پر کسی کے ماتحت آئے ہو اور اس سے آزاد ہونا چاہتے ہو تو تمہارا بنیادی حق ہے، تم جتنی قیمت تمہاری طے ہو وہ وعدہ کرو اور اس کے نتیجے میں تمہیں آزاد کر دیا جائے گا.پھر کماؤ اور اس قیمت کو ادا کروا سے مکاتبت کہا جاتا ہے.کسی آزاد کو خود پکڑ کر غلام بنالینا اور بیچنا اتنا مکروہ فعل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو خبر دی کہ یہ دوسرا شخص جسے میں قیامت کے دن سختی سے دیکھوں گا اور سختی سے اس

Page 764

خطبات طاہر جلد 13 758 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء کی باز پرس کروں گا وہ شخص ہو گا جو کسی آزاد بندے کو پکڑ کر غلام بنالے اور اس کی قیمت کھا جائے.تیسرا آدمی فرمایا وہ ہے جس نے کسی کو مزدوری پر رکھا اس سے پورا پورا کام لیا لیکن اس کو طے شدہ مزدوری نہ دی.( بخاری کتاب البیوع حدیث نمبر : 2075) پہلی دو صورتوں میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت میں کوئی دور کا بھی ایسا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ ان بدیوں میں ملوث ہو.لیکن مزدوری نہ دینے کا جو معاملہ ہے، یہ بہت سے باریک پہلو رکھتا ہے، بہت سے پردے رکھتا ہے.اور جن گھروں میں جن علاقوں میں خدمت گار رکھنے کا رواج ہے ان میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے.عموماً نہیں تو یہ نظر ضرور آتا ہے کہ بعض لوگ اپنے گھر کے نوکروں سے ویسا سلوک نہیں کرتے جو ایک خدمت گار کا حق ہے اور اس کی تفصیل آنحضور نے مختلف جگہوں پہ بیان فرمائی ہے.کچھ حصہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں مگر یہاں اب یہ منفی رنگ میں میں ذکر کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جوکسی سے کام لے اور اس کا حق ادانہ کرے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ سلوک فرمائے گا کہ وہ تین نمایاں مجرم جن سے خدا نے سختی سے باز پرس کرنی ہے ان میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جائے گا.پس ظاہری طور پر اگر ایسا دکھائی نہ بھی دیتا ہو تو بعض دفعہ غفلت کی حالت میں بعض سلوک ایسے ہوتے ہیں جس سے ایک مزدور اپنے حق سے محروم رہ جاتا ہے.اس کے متعلق جماعت کو ہمیشہ متنبہ رہنا چاہئے گھر کے نوکر ہوں، جو رواج تو اب کم ہوتا جا رہا ہے، یا تجارت میں نوکر ہوں ان سب سے ایسا حسن سلوک ہونا چاہئے کہ کوئی شائبہ بھی اس بات کا نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے شخص کو ناراضگی کی نظر سے دیکھے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ور روایت ہے جو بخاری سے لی گئی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑ دے، پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابور کھے یعنی اپنے نفس کو پچھاڑ دے.( بخاری کتاب الادب حدیث : 5649) اور یہ وہ نصیحت ہے جس پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں بہت بڑے بڑے دردناک واقعات پیدا ہوتے ہیں اور بہت سے جھگڑے ایسی شکل اختیار کر جاتے ہیں جن کے نتیجے میں خاندان دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.لمبی مصیبتیں پیچھا کرتی ہیں، کئی خاندانوں کو مدتوں جیلوں میں وقت گزار نے پڑتے ہیں، بہت ہی بد حالتیں پیدا ہوتی ہیں.ایک اس نصیحت کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں کہ ایک

Page 765

خطبات طاہر جلد 13 759 خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1994ء انسان غصے کے وقت قابو نہ پاسکے.آنحضرت ﷺ نے اس سلسلے میں جو نصیحت فرمائی ہے تفصیلی ہدایت دی ہے وہ یہ ہے کہ غصہ آئے تو ایک گھونٹ پانی کا بھر لیا کرو اس سے کچھ تھوڑی سے ٹھنڈ پڑتی ہے.پھر فرمایا کہ اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جایا کرو کیونکہ غصے کے نتیجے میں انسانی مزاج اچھلتا ہے اور بیٹھا ہوا آدمی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور یہ اس کے برعکس صورت ہے.کھڑے ہوئے کو بٹھائے تو غصہ بھی ساتھ جھاگ کی طرح بیٹھتا ہے اور اگر بیٹھے ہوئے ہو تو لیٹ جاؤ.لیکن غصے پر قابو پانا ہے ورنہ غصے کی حالت میں انسان ایک دفعہ مغلوب ہو جائے تو پھر اس سے دیوانوں کی طرح بعض حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جس پر وہ ہمیشہ پچھتاتا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں کر سکتا.پس آپ نے فرمایا کہ پہلوان تو وہ ہے کہ جب غصہ اس پر قبضہ کر رہا ہو اس وقت وہ غصے کو پچھاڑ دے بجائے اس کے کہ کسی اور کو گرا دے.اب ترمذی سے ایک حدیث لی گئی ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور نہ اس سے بیہودہ تحقیر آمیز مذاق کرو اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو یعنی جھوٹے وعدے نہ کیا کرو.(ترمذی) اس میں پہلی بات یہ فرمائی بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو.تو ہر وہ شخص جو ایسی بات کرتا ہے جس کے نتیجے میں جھگڑا پیدا ہوتا ہے وہ طرح ڈالنے والا ہے.پھر اگلا شخص اگر ضبط نہ کر سکے تو معاملہ لمبا ہو جاتا ہے پھر بعض دفعہ دونوں طرف سے زیادتیاں شروع ہو جاتی ہیں.تو برائی کا آغاز کرنے والا بہت زیادہ ذمہ دار ہے.اور وہ طرح کس طرح ڈالی جاتی ہے اس کے متعلق آگے میں بعض احادیث آپ کے سامنے رکھوں گا اس سے تفصیلی طور پر آپ متنبہ رہیں گے کہ کیا کیا باتیں ہمیں نہیں کرنی چاہئیں اور کیا کیا باتیں کرنی چاہئیں جن کے نتیجے میں جھگڑوں کا قلع قمع ہو سکے.ایک دو باتیں آپ نے خود اس میں بیان فرما دی ہیں.فرمایا بے ہودہ تحقیرآمیز مذاق نہ کیا کرو اور یہ وہ بیماری ہے جو انسانوں میں کثرت سے ملتی ہے خصوصیت سے انفرادی سطح پر مشرقی قوموں میں اور وہ علاقہ جس کا نام ہندوستان ہے یعنی جس میں ہندو پاکستان دونوں شامل ہیں اس علاقے میں تو یہ بیماری بہت کثرت سے ملتی ہے اور مغربی قوموں میں قومیت کے حساب سے جس کو آپ ریس ازم کہتے ہیں اس کے مادے کے طور پر دکھائی دیتی ہے.اگر چہ باشعور لوگ مغربی قوموں میں اس کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں لیکن ان کو خود خطرے دکھائی دے رہے ہیں کہ بدلتے ہوئے سیاسی

Page 766

خطبات طاہر جلد 13 760 خطبہ جمعہ فرموده 7/اکتوبر 1994ء حالات میں بعید نہیں کہ ریس ازم دوبارہ سر اٹھا لے اور دوبارہ کئی قسم کے فتنے پیدا کر سکے.بہر حال قومی تحقیر ہو یا انفرادی تحقیر یہ دونوں باتیں مہلک ہیں اور ان کے نتیجے میں لازما جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.پس فرمایا کہ جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور اس کی بنیادی وجہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جھگڑوں کا آغاز بسا اوقات تحقیر سے ہوتا ہے.اس سے پہلے میں حدیث یہ پیش کر چکا ہوں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ نیچے دیکھا کرو او پر نہ دیکھو جو شخص نیچے تحقیر سے دیکھتا ہو اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اوپر نہ دیکھے.وہ اوپر حسد سے ضرور دیکھتا ہے.اس لئے بات میں دوبارہ کھول رہا ہوں.مراد اس سے یہ ہے کہ نیچے دیکھو محبت اور شفقت سے دیکھو اور اگر ایسا نہیں کرو گے اور تحقیر سے دیکھو گے تو جھگڑوں کی بنیاد ڈالنے والے ہو گے.پس انفرادی طور پر ہم نے دیکھا ہے مجالس میں بعض لوگوں کو عادت ہے کسی شخص میں بے چارے میں کوئی نقص ہے، کوئی گنگنی آواز سے بولتا ہے یا اور کوئی جسمانی نقص پیدا ہو گیا ہے تو کئی لوگ اس کے نام رکھتے ہیں اس کو چھیڑتے ہیں اور اس طرح تنگ کرتے ہیں.ایسا شخص دل میں کڑھتارہتا ہے اگر وہ غریب اور مجبور ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن دل میں انتقام کا جذ بہ ضرور پیدا ہوتا ہے.اگر یہ جذبے پلیس اور سوسائٹی میں زیادہ ہو جائیں، بعض دفعہ ایک دفعہ کمزور آدمی بھی پھر اٹھ کے انتقام کی سوچتا ہے، اگر چھرا ہاتھ میں آتا ہے تو چھرا لے کر حملہ آور ہو جاتا ہے.کئی ایسے واقعات جھگڑوں کی صورت میں میرے سامنے آئے ہیں یا محض اس سے آغاز ہوا کہ کسی کو چھیڑا ہے اور بار بار اتنا چھیڑا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ شخص اپنے او پر قابو نہیں رکھ سکا.پس آنحضرت ﷺ کی نصائح میں بہت گہری حکمتیں ہیں اور تمام معاشرے کے آزاران نصائح پر عمل کرنے سے دور ہو سکتے ہیں.فرمایا بے ہودہ مذاق تحقیر آمیز مذاق بالکل نہ کیا کرو.اپنے بھائی سے، یہ بد تمیزی ہے ناشکری ہے اللہ تعالیٰ کی اور تمہارے اپنے اندر تمہارے تعلقات میں میز ہر گھولنے والی بات ہے.پھر فرمایا کسی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے پورا نہ کر سکو.اب یہ ایک ایسی بات ہے جس کے نتیجے میں کئی قسم کے تعلقات میں رخنے پڑتے ہیں.لیکن بظاہر یہ ایک معمولی ایسی بات ہے جس کی ہم آپس میں ایک دوسرے سے توقع نہیں رکھتے.آپ کہتے ہوں گے کہ یہ نصیحت مسلمانوں کو کیوں کی گئی ہے کہ ایسا وعدہ نہ کرو جسے پورا نہ کر سکو.امر واقعہ یہ ہے کہ ہر گھر میں ایسے وعدے ہوتے ہیں جسے پورا نہیں کیا جاتا ایسے وعدے ہوتے ہیں جنہیں اس نیت سے کیا جاتا ہے کہ پورا کرنا ہی نہیں ہے مائیں وعدے

Page 767

خطبات طاہر جلد 13 761 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء کرتی ہیں اپنے بچوں سے وہ رور ہے ہیں وہ کسی چیز کے لئے ضد کر ہے ہیں اور وہ ضرور وعدہ کردیتی ہیں کہ ہاں میں تمہیں یہ چیز لے دوں گی لیکن جانتی ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اور میں نہیں کروں گی ایسا.خاوند ایسے ہیں جو بیویوں سے وعدے کر دیتے ہیں.وہ مطالبے کرتی ہیں کہ ہاں ہاں یہ کام ہو جائے گا.سب ٹھیک ہو جائے گا اور یہ وعدے روز مرہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں اس لئے بات کو اجنبی نہ سمجھیں کہ شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگا جو جان بوجھ کر وعدہ کرے جو اس نے پورا نہیں کرنا.اکثر ہم میں سے ایسے ہیں جو کم سطح پر ہی محدود دائرے میں سہی مگر وعدے ضرور کرتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی نیت نہیں ہوتی اور اس کے نتیجے میں آئندہ جھوٹے وعدے کرنے والی قوم اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.وہ بچے جن کے گھروں میں یہ بات ہو رہی ہو وہ بڑے ہو کر انہی باتوں پر اپنی روز مرہ کی زندگی میں عمل کرنے لگتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ آسان طریقہ مصیبت سے چھوٹنے کا یہ ہے کہ وعدہ کرو اور پھر اسے بے شک پورا نہ کرو.پس آنحضرت ﷺ کی ہر نصیحت بہت ہی گہری ہے اور ہماری زندگیاں سنوارنے کے لئے ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جسے نظر انداز کیا جاسکے.جہاں آپ نظر انداز کریں گے وہاں ہماری زندگیوں کے اطوار بگڑ جائیں گے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دو باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی میں پائی جائیں تو وہ اس کے لئے کفر بن جاتی ہیں.یعنی جس شخص میں پائی جائیں خواہ وہ خدا کا منکر نہ ہو تب بھی اس کی ذات میں کفر کی گواہ بن جاتی ہیں.کیونکہ ایسا شخص بنیادی طور پر کفر کی کوئی آمیزش اپنے اندر ضرور رکھتا ہے ورنہ اس میں یہ دو باتیں نہ پائی جائیں.ایک یہ کہ کسی کے حسب ونسب اور خاندان پر طعن کرے.اب جو جھگڑے ہیں ان میں خاندانی جھگڑے بہت سے ایسے ہیں جن کا اس بات سے تعلق ہے.کفر کا کیا اس سے تعلق ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ شخص جو یہ یقین نہ کرے کہ جو کچھ ہے خدا کی عطا ہے اور یہ سمجھتا ہو کہ ہم اپنی ذات میں بڑے ہیں یہ کفر بھی ہے اور تکبر بھی ہے اور دراصل تکبر کی بعض قسمیں کفر کہلاتی ہیں.پس ان معنوں میں آنحضرت ﷺ نے اس کو کفر قرار دیا اور کفر ہی ہے کوئی شخص اپنے خاندان کو بڑا سمجھے دوسرے کے خاندان کی طعنہ آمیزی کرے تو یہ بات بیرونی طور پر جھگڑوں میں منتج ہوتی ہے مگر اگر گھروں میں پائی جائے تو گھر ہمیشہ کے لئے اجڑ جاتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ یہ ایسی بیماری ہے جو آئے دن میرے سامنے آتی رہتی ہے

Page 768

خطبات طاہر جلد 13 762 خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1994ء ایسی شکائتیں ملتی ہیں.بعض عورتیں ہیں وہ اپنے خاوند کو ہمیشہ یہ طعنہ دیتی رہتی ہیں کہ میں تو اپنے گھر میں ایسی تھی ، ہمارا گھر تو ایسا بلند مرتبہ تھا، ہم تو اس طرح لوگوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور مہمان نوازیاں کیا کرتے تھے، ہم نے تو کبھی کسی کا احسان نہیں لیا تم لوگ پتا نہیں کس کمینے خاندان سے آئے ہو جو زیر احسان لوگوں کے نیچے جھکنے والے اور سر جھکانے والے، ہم ایسے نہیں ہیں.ایسی ہی بعض عورتیں اپنی زندگی اجاڑ دیتی ہیں.بعض با غیرت مرد برداشت نہیں کر سکتے وہ کہتے ہیں اچھا پھر جیسے معزز خاندان سے آئی ہو اسی معزز خاندان میں واپس چلی جاؤ، مجھے ذلیل آدمی سے شادی کیوں کی تھی اور بعض لوگ بے چارے دب جاتے ہیں اور بالکل سر نہیں اٹھا سکتے.ان کا گھر تو قائم رہتا ہے لیکن معاشرے میں وہ ذلیل ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسی بیوی کے تابع جو مرد آ جائے جو کمینی باتیں کرے اس کا شوہر بھی کمینی باتیں کرتا ہے باہر اور اپنے دوستوں اور اردگرد کے ماحول میں تعلقات کے دائروں میں اس شخص کا مرتبہ گرنا شروع ہو جاتا ہے.پس ایسے لوگوں کو بعض لوگ زن مرید کہتے ہیں.زن مرید کا محاورہ عام طور پر تو اچھا نہیں مگر بعض دفعہ درست ہے اگر بد عورت ہو، بدیوں کی طرف بلانے والی ہو، غلط تکبر میں اور نخوت میں مبتلا ہوایسی عورت کا مرید خاوند حقیقت میں زن مرید کہلا سکتا ہے یعنی برے معنوں میں یہ لفظ اس پر چسپاں ہوتا ہے.لیکن اس کے برعکس مرد بھی ہیں جو عورتوں کو طعنے دیتے ہیں اپنی بیویوں کو دیتے ہیں اور ان کے طعنے عجیب و غریب قسم کے ہیں جن کو جب میں پڑھتا ہوں بعض دفعہ تو طبیعت متلانے لگتی ہے کہ تم کس گھر سے آئی ہو تمہارا تو جہیز ہی ایسا تھوڑا تھا، ایسے غریب گھر کی توفیق ہی نہیں تمہیں ملی فلاں کا اتنا بڑا جہیز آیا، فلاں نے یہ چیز دی تم لوگ تو بڑے کمینے لوگ ہو، میں گیا تو مجھے ایک جوڑ دیاوہ بھی شاید پرانا تھا.ایسی گھٹیا ذلیل باتیں بعض مرد اپنی بیویوں سے کرتے ہیں اور بیویاں ان کی روتی ہیں مجھے خط لکھتی ہیں بعض دفعہ تو میں ان سے کہتا ہوں کہ طلاق کے مسائل ایسے موقعوں کے لئے ہیں.ایسے شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنا جس کی ساری زندگی ایک عذاب میں مبتلا ر ہے صرف قربانی نہیں ہے بلکہ معاشرے پر ظلم ہے، اپنی اولاد پر ظلم ہے کیونکہ ایسے بچے جو ایسے ماحول میں پیدا ہوں اور ایسے ماحول میں پرورش پائیں ان کی تربیت ضرور بگڑتی ہے، کبھی بھی صحیح متوازن تربیت والے بچے ایسے گھر میں نہیں پیدا ہو سکتے تو خواہ عورت کا قصور ہو خواہ مرد کا قصور ہو جہاں حسب و نسب کے طعنے دیئے جائیں، جہاں دولت یا دولت کے فقدان کے طعنے ہوں.طعنہ زنی ویسے ہی بہت بے ہودہ چیز ہے مگر جن باتوں میں حضرت رسول اللہ اللہ

Page 769

خطبات طاہر جلد 13 763 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء نے توجہ دلائی ان میں اگر طعنہ زنی سے کام لیا جائے تو گھر اجڑتے ہیں قوموں کے مزاج بگڑ جایا کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس کو کفر فرمایا ہے.فرمایا ایسا شخص خود خدا بنتا ہے خدا کا بندہ اطاعت شعار جو جانتا ہو کہ میرا ایک مالک ہے جو مجھ سے سوال کرے گا وہ کبھی ایسی کمپنی حرکتیں نہیں کر سکتا.دوسری چیز جسے کفر قرار دیا گیا وہ میت پر نوحہ کرنا ہے (مسلم کتاب الایمان حدیث: 100).اب ہمارے روز مرہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لوگوں کے عزیز فوت ہوتے ہیں، حادثات میں گزر جاتے ہیں.کئی مائیں ایسی ہیں بے چاری جن کا ایک ہی جوان بیٹا کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے.مگر اس پر بے صبری کر کے نوحہ کرنا یہ وہ بات ہے جسے آنحضرت ﷺ نے کفر قرار دیا ہے.وجہ یہ ہے کہ ہر نعمت اللہ سے ملتی ہے اور مالک وہ ہے.اس سے یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ میرا ایک ہی بیٹا تھا تو نے کیوں بلالیا.یا میرے خاوند کو جوانی میں مجھ سے کیوں جدا کر دیا اور پھر اس بات پر اگر نظر رکھی جائے کہ جس مالک نے اس ابتلاء میں ڈالا ہے وہ مالک یہ استطاعت رکھتا ہے اور قدرت رکھتا ہے کہ اس عارضی زندگی کے بعد اتنا عطا کرے کہ جو کچھ کھویا گیا ہے اس پر جو کھوئے جانے کے احساس کا غم ہے وہ بعد میں شرمندگی پیدا کرنے کا موجب بن جائے.یا مرنے کے بعد ہی نہیں اس دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان اگر کچھ کھو دیتا ہے اور اللہ کی خاطر صبر و رضا اختیار کرتا ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ ضروری نہیں کہ فورا آمنے سامنے لین دین کی طرح اسے فوراً کچھ دے دے مگر ایسے صبر کرنے والوں کو میں نے دیکھا ہے کہ ان کی زندگیاں ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اتنی بہتر ہو جاتی ہیں کہ اپنی پہلی حالت جس پر وہ روتے ہیں وہ اس کے سامنے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتی بالکل معمولی چیز ہے لگتا ہے جیسے ضائع ہوئی.مگر اگر خدا اس دنیا میں نہ بھی دے تو وہ خدا اس دنیا کا بھی ہے اور دنیا کے بعد کی زندگی کا بھی خدا ہے دنیا کے بعد کی زندگی کے مقابل پر یہ زندگی بہت ہی چھوٹی اور بے معنی ہے.عارضی ایک مقام ہے جو اسے ہمیشہ کا ٹھکانہ سمجھ لے اس کے اندر ناشکری پیدا ہوتی ہے.جو یہ سمجھے کہ یہ عارضی ہے اور مجھے خدا کے حضور پہنچنا ہے، سب نے وہیں جانا ہے اس کے دل میں ایک حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ زیادہ ہمت کے ساتھ صدموں کو برداشت کر سکتا ہے.پس جتنا خدا پر یقین کم ہو اتنا ہی انسان واویلا کرتا ہے.یہ ایک طبعی بات ہے.ایسے خاندان مجھے ملتے رہتے ہیں ابھی کینیڈا کے اس عارضی دورے پر بھی ایک خاندان سے میری ملاقات ہوئی جن میں ایک ماں کا بچہ بہت ہی پیارا، جوان بیٹا ہاتھ سے جاتا رہا اور

Page 770

خطبات طاہر جلد 13 764 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء وہ سارا خاندان بہت ہی غم زدہ ، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اب ان کی زندگی میں کوئی خوشی نہیں آئے گی.ان کو میں نے سمجھایا، ان کو میں نے بتایا کہ دیکھو خدا والوں اور بے خداؤں میں ایک فرق ہوا کرتا ہے اگر تم نے اسی طرح رہنا ہے جس طرح بے خدا لوگ کرتے ہیں تو جو ہاتھ سے جا چکا ہے جتنا مرضی روڈ، پیٹ وہ واپس کبھی نہیں آئے گا.ناممکن ہے کہ تمہارے نوحے، تمہارے غم ، تمہارے واویلے، تمہارے شکوے کھوئے ہوئے کو واپس لے آئیں لیکن جو ہے جو تمہارا تھا یعنی خدا، وہ ہاتھ سے جاتا رہے گا.تو کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ ایک ادنی چیز کو چھوڑ کر اس سے اعلیٰ چیز کو بھی انسان ہاتھ سے گنوا بیٹھے.ایک چیز ضائع ہوئی تو ہوئی جو اعلیٰ چیز ہے اس کو کیوں گنوائے؟ ایک بے وقوف کا لطیفہ آپ لوگ سنتے ہیں ایک پیالی لے کر تیل لینے گیا پیسے ذرا زیادہ دے بیٹھا اور اس پیالی میں جو تیل کی قیمت کا جتنا تیل آتا تھا اس سے زیادہ تیل خرید لیا جب وہ پیالی بھر گئی تو بیچنے والے نے پوچھا کہ میں باقی تیل کہاں ڈالوں.تو اس نے پیالی الٹادی کہ پیچھے جو کپی چھوٹی سی ہے اس میں ڈال دو.اس نے کہا ہیں ہیں تم نے تو اپنا پہلا تیل بھی ضائع کر دیا.اس نے فوڑا سیدھی کر لی اور جو کپی میں ڈالا تھا وہ بھی گیا.یہ لطیفہ ہے لیکن ہماری زندگیوں میں صادق آتا ہے.ہم جب بھی کوئی نقصان اٹھاتے ہیں اور واویلا کرتے ہیں اور صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں تو دراصل اپنے خدا سے شکوہ کر رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے کیا کر دیا گویا ہم سے تیرا سلوک ظالمانہ ہے.ہمارا تجھ پر گویا یہ حق تھا کہ تو ہم سے ہمیشہ خدمت گاروں کی طرح سلوک کرے اور ہم سے دی ہوئی چیز کبھی واپس نہ لے، یہ جو سلوک ہے یہ کفر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بہت پیارا بیٹا مبارک احمد جب بچپن میں فوت ہوا تو آپ نے شعر لکھے تھے جو مزار پر کندہ کروائے گئے بعد میں، ان میں ایک یہ تھا کہ : ٤ بلانے والا سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر ( در شین: 100) کہ بہت پیارا پاک خو بیٹا تھا لیکن میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ جس نے بلایا ہے وہ سب سے زیادہ پیارا تھا.تو بڑی ہی بے وقوفی کا سودا ہوتا ہے کہ انسان اس چیز کو جواد نی ہے اس کو تو کھو بیٹھا ہے اس کی خاطر ، اس کو لینے کی تمنا میں اعلیٰ کو کھو بیٹھے اور وہ بھی نہ ملے.اب یہ پیالی والی مثال اور تیل والی مثال اس پر صادق آتی ہے مگر اس سے بہت زیادہ بڑی بے وقوفی ہے.پیسے دو پیسے تیل کا کیا فرق

Page 771

خطبات طاہر جلد 13 765 خطبہ جمعہ فرمودہ 7/اکتوبر 1994ء پڑتا ہے، مگر انسان آزمائش میں پڑ کے اپنے خدا کوکھو دے یہ بہت ہی بُرا سودا ہے اور پھر بے کا رسودا، بے معنی اور لغو کیونکہ اگر آپ روئیں پیٹیں ، تب بھی آپ کا کھویا ہوا عزیز آپ کو نہیں ملے گا.نہ روئیں پیٹیں ، تب بھی نہیں ملے گا تو آپ کے لئے تو چارہ کوئی نہیں ہے.اختیار ہو تو انسان کوشش کرے اختیار ہی کوئی نہیں ہے اس لئے محض گناہ بے لذت اور بے وقوفی ہے ایسے موقع پر جب انسان کچھ کھو دے خواہ وہ پورا وجود جاتا رہے یا کسی ایک عضو کا نقصان پہنچے، خدا کی رضا پر نظر رکھتے ہوئے عرض کرے کہ جو کچھ ہے تیرا ہے تو نے جتنا چاہا لے لیا.٤ بلانے والا سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر تو ایسے بندے خدا کو عزیز تر ہو جاتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس رہتا ہے اس کو بہت برکت دی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو سلوک فرمایا ہے وہ ایک زندہ مثال ہے.کیا آپ نے خدا کی خاطر قربانیاں کیں.ظاہر میں تو کچھ بھی نہیں تھیں.فرماتے ہیں ، میں بچپن میں جو روٹی مجھے ملا کرتی تھی اپنے غریب بھائیوں میں بانٹ دیا کرتا تھا.بعض دفعہ چنے کھا کر گزارہ کر لیتا تھا.پھر فرماتے ہیں کہ گھر کی بچی ہوئی روٹیاں مجھے ملا کرتی تھیں وہ کیا چیز تھی جو قربان کی گئی چند روٹیاں ہی تھیں نا.لیکن جتنا اللہ نے آپ کو عطا فرمایا ہے اور جماعت کو پھر عطا فرمایا ہے اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی کہ اتنے بڑے فضل ، اتنی جلدی جلدی اللہ تعالیٰ کسی بندے کی معمولی قربانیوں پر نظر ڈال کر فرمائے.معمولی قربانیاں ظاہر کے لحاظ سے لیکن اصل قربانی جذبے کی وجہ سے عظمت پاتی ہے.ایک انسان بعض دفعہ ایک لاکھ روپیہ، ایک لاکھ پاؤنڈ یا دس لاکھ ڈالر بھی دے سکتا ہے اور ایک آدمی دس ڈالر بھی چندہ دے دیتا ہے ہم اپنی نظر سے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں اس نے بہت بڑا کام کیا ہے اس نے بہت چھوٹا کام کیا.اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے تو وہ اس کے پیچھے جو دل کے جذبے ہیں ان پر نظر رکھتا ہے اس لئے وہ قربانیاں جو خدا کی نظر میں مقبول ہوں وہی ہوتی ہیں جن کے پیچھے اللہ سے محبت کے اور انکساری کے جذبات کارفرما ہوتے ہیں اور قطعا اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ دنیا کی نظر میں وہ آتی ہیں کہ نہیں آتیں.پس خدا کے حضور ثابت قدم رہنا ایک بہت بڑی نعمت اور اس کا فقدان کفر ہے.پس آنحضرت ﷺ نے بہت ہی عظیم نصیحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو نوحے کرتے

Page 772

خطبات طاہر جلد 13 766 خطبه جمعه فرموده 7 /اکتوبر 1994ء ہیں.نوحے سے مراد ویسے غم تو ہوتا ہی ہے خود آنحضرت ﷺ بھی اپنے بچے کے وصال پر رو پڑے تھے.آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے.اس کو نوحہ کرنا نہیں کہتے وہ اور چیز ہے.میں آپ کو بتا تا ہوں کہ وہ کیا ہے؟ لیکن نوجہ سے مراد یہ ہے کہ پیٹنا اور واویلا کرنا ، لے گیا سب کچھ خدا، کچھ بھی نہیں چھوڑا، ہم مارے گئے برباد ہو گئے ، یہ وہ کیفیت ہے جو کفر ہے.پس جماعت کو ہمیشہ مصائب اور تکلیفوں پر صبر سیکھنا چاہئے اور اگر یہ صبر اللہ کی رضا کی خاطر کریں گے تو وہ اس سے بہت زیادہ عطا کرتا ہے جو آپ نے کھویا اور جس پر آپ نے صبر کیا.جہاں تک طبعی غم کا تعلق ہے اس سے تو اللہ تعالیٰ منع نہیں فرماتا وہ ایسا غم نہیں ہونا چاہئے جو آپ کے اور اللہ کے تعلقات کی راہ میں حائل ہو جائے بلکہ ان تعلقات کو بڑھانے کا موجب ہونا چاہئے.آنحضرت ﷺ جب اپنے بیٹے کو لحد میں اتار رہے تھے تو آنحضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس وقت کسی نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اور روتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ اللہ کی رحمت ہے دل کی نرمی خدا کا احسان ہے اگر تجھے یہ نرمی نصیب نہیں تو میں کچھ نہیں کر سکتا.( بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر (1220) پس غم ہونا اور دل کا دکھنا یہ کفر نہیں ہے لیکن اس غم کو کیسے آپ سنبھالتے ہیں اس سے کیا سلوک کرتے ہیں اس کے نتیجے میں آپ اللہ سے دور چلے جاتے ہیں یا اللہ کے قریب آجاتے ہیں یہ وہ امر ہے جو اس وقت زیر نظر ہے.پس جو شخص ایسے نوحے کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا غم سب سے پیارے وجود کو بھی اس کے ہاتھ سے گنوا دیتا ہے یعنی اللہ اس سے دور چلا جاتا ہے اس کا سودا بہت نقصان کا سودا ہے.اب وقت چونکہ ہو چکا ہے اور یہ مضمون ابھی کافی باقی ہے انشاء اللہ تعالی باقی آئندہ خطبے میں جب بھی موقع ملے گا بیان کروں گا.“ خطبہ ثانیہ کے بعدا قامت صلوۃ سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب خطبہ ختم ہوا ہے وفات کے صدموں کا ذکر چل رہا تھا جماعت کے بعض بہت ہی مخلص، فدائی، بے لوث کارکن ایسے ہیں وقتا فوقتا اللہ انہیں بلاتا رہتا ہے.حال ہی میں ہمیں چودھری محمد عیسی صاحب مبلغ سلسلہ کے وصال کا صدمہ پہنچا ہے.ایک لمبا عرصہ تک ہم اکٹھے پڑھتے رہے ہیں اور ایک لمبے عرصے تک انہوں نے انگلستان میں میرے ساتھ خدمت کے فرائض سر انجام دیئے ہیں.بہت ہی

Page 773

خطبات طاہر جلد 13 767 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء بے لوث اور فدائی مخلص کارکن تھے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد نماز عصر جمع ہوگی پھر اس کے بعد جو جنازے ہوں گے ان میں چودھری محمد عیسی صاحب کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک اور سلسلہ کے معروف خاندان کے فرد جو خود بھی بہت مخلص اور فدائی تھے سیدمحمد سرور شاہ صاحب.انگلستان کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے لیکن لاہور گئے تھے وہاں ان کی وفات ہوئی ہے.ایک قاضی بشیر احمد صاحب آف ساہیوال جو ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب امیر جماعت لاس اینجلس کے ماموں تھے اور جماعت کے ساتھ ہمیشہ اخلاص کا تعلق رکھا ان کا وصال ہوا.ایک حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کے صاحبزادے یوسف احمد الہ دین صاحب کے وصال کی اطلاع ملی ہے حیدر آباد دکن سے اور ایک مکرمہ سلیمہ اوصاف علی صاحبہ بنت حضرت مولا نا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر کا وصال ہوا ہے ان سب کی نماز جنازہ انشاء اللہ نماز جمعہ اور عصر کے معابعد ہوگی اب صف بندی کر لیجئے.

Page 774

خطبات طاہر جلد 13 768 خطبہ جمعہ فرموده 7 /اکتوبر 1994ء

Page 775

خطبات طاہر جلد 13 769 خطبہ جمعہ فرمودہ 14/اکتوبر 1994ء امریکہ میں بیت الرحمن اور مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ارتھ سٹیشن کا افتتاح.(خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1994ء بمقام بیت الرحمن،امریکہ ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت ہی بڑا احسان ہے کہ آج کا دن طلوع ہوا جو بہت سی برکتیں لے کر آیا ہے.جمعہ کا دن ہمیشہ ہمیش کے لئے امت مسلمہ کے لئے مبارک قرار دے دیا گیا ہے.اس کا اول بھی برکتیں لے کے آتا ہے اس کا آخر بھی اور جمعہ کے دوران اللہ کی طرف سے جو غیر معمولی رحمتیں نازل ہوتی ہیں ان کا شما ممکن نہیں نہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ ہے جو ہر ایک پر برابر اطلاق پائے.ان رحمتوں کا تعلق ذکر الہی سے ہے اور ہر دل کی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے اور اسی نسبت سے ہر دل پر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے.پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جمعے کا وقت کوئی ایسا وقت ہے جس میں برابر تمام مسلمان یکساں اللہ کی رحمتوں کے مورد بنتے ہیں بلکہ ہر دل کی کیفیت الگ الگ تقاضے رکھتی ہے اور ان کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضلوں کا نزول ہوتا ہے.اس دن کے ساتھ رحمتوں کے علاوہ فضلوں کا نزول بھی ہوتا ہے.یہ لفظ فضلِ قرآن کریم میں خاص طور پر وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ الله (الجمعہ: 11) جب تم جمعہ کے بعد فارغ ہو کر زمین میں منتشر ہوتے ہو تو پھر اللہ کے فضل کے طالب ہوا کرو.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الجمعہ: (11) اور بہت

Page 776

خطبات طاہر جلد 13 770 خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1994ء کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو.یہاں دوسرا جو فضل کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق کے ذرائع ہیں اور بہت سی نعمتیں انسان کے لئے مقدر ہیں ان کے حصول کی کوشش کے تعلق میں بیان ہوا ہے.پس جہاں جمعہ رحمتیں لے کر آتا ہے وہاں فضل بھی لے کے آتا ہے.کیونکہ جب اللہ فرماتا ہے کہ جاؤ اب تم فضلوں کی تلاش کرو تو چونکہ فضل دینے والا بھی وہی ہے اس لئے جمعہ کے دن عام دنوں سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرً ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور ذکر الہی سے غافل نہ ہونا.دست با کار ہو تو دل بایار رہے.اگر دنیا کے کاموں میں مشغول ہوتے ہو تو اللہ کے ذکر کو نہ بھلانا.اس تعلق میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں خوشخبری دی کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد غروب تک ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سب دعائیں قبول فرمالیتا ہے تو یہ ایک ایسا بابرکت دن ہے جو ہر روز ایک لَيْلَةِ الْقَدْرِ کا نشان لے کر ہمارے لئے طلوع ہوتا ہے اور ہرقسم کی روحانی اور دنیاوی برکتیں اس دن سے وابستہ ہیں.اگر چہ سبت کا ایک تصور اہل کتاب میں بھی پایا جاتا ہے مگر سبت کے اس تصور میں ان برکتوں کا تصور نہیں ملتا جو جمعہ کے تعلق میں بیان ہوئی ہیں.سبت میں تو جہاں تک دنیا کے فضلوں کا تعلق ہے ان سے کلیہ منہ موڑ لینے کا حکم ہے.تو اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ جمعہ کے دن خدا تعالیٰ نے روحانی برکتوں اور دنیاوی فضلوں کو اکٹھا کر دیا اور امت محمدیہ میں نعمت اپنے تمام کو پہنچی.آج کا دن اس لئے بھی بہت برکت کا دن ہے کہ آج کے جمعہ کے دن اس مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے.ایک رسمی افتتاح ہے جو ساڑھے چار بجے شروع ہوگا.ایک روحانی افتتاح ہے جواب اس خطبے سے اس جمعہ کے وقت شروع ہو چکا ہے اور آج اس مسجد میں کثرت کے ساتھ مختلف ممالک سے بھی احمدی احباب شریک ہوئے ہیں تا کہ وہ ان برکتوں سے خود شامل ہو کر حصہ پائیں اور اپنی آنکھوں سے خدا کے فضلوں کا نزول دیکھیں.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مسجد کے افتتاح پر دنیا بھر کی جماعتوں کی کینیڈا کی مسجد کے مقابل پر زیادہ نمائندگی دکھائی دے رہی ہے.کیونکہ انڈونیشیا کے امیر بھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں.غانا کے امیر بھی ہیں، ماریشس کے بھی ایک سابق امیر اور مخلص دوست.غرضیکہ جدھر نظر ڈالتا ہوں کوئی نہ کوئی امیر خواہ یورپ کا ہو، خواہ مشرق بعید کا ہو، خواہ افریقہ کا ہو نظر میں آتا ہے اور اس کے علاوہ کثرت سے کینیڈا سے بھی دوست تشریف

Page 777

خطبات طاہر جلد 13 771 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء لائے ہوئے ہیں اور انگلستان سے بھی بڑی بھاری نمائندگی ہے.پس یہ اجتماع بہت ہی بابرکت ہے ایک خوشی کا دن ہے اور خوشیاں منانے کا دن ہے مگر یہ خوشیاں کیسے منائی جائیں.یہ ذکر الہی کے ساتھ منائی جاتی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان خوشیوں میں صرف آپ ہی نہیں جو حاضر ہیں بلکہ وہ سب بھی شامل ہوں گے جو اس وقت حاضر نہیں.اگر چہ آج کا جمعہ براہ راست دنیا کے باقی براعظموں تک نہیں پہنچ سکتا لیکن ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ جلد از جلد آج کی کارروائی کی وڈیوز ہم انگلستان پہنچادیں گے جہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا تک ان پروگراموں کی رسائی ہو سکے.ایک اور برکت جو یہ جمعہ ہمارے لئے لے کر آیا ہے اس کا تعلق انٹر نیشنل مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ سے ہے.اگر چہ اس سے پہلے کینیڈا اور امریکہ کی جماعتوں کے لئے جمعہ کے دن براہ راست خطبہ سننے کا انتظام تو تھا لیکن جس طرح باقی دنیا میں روزانہ کم از کم تین گھنٹے کا پروگرام جاری ہو چکا ہے امریکہ کا براعظم اس سے محروم تھا اس لئے دل میں ایک تمنا تھی بعض دفعہ بے چینی بھی پیدا ہوتی تھی کہ امریکہ کا ملک جو دنیا کا امیر ترین ملک کہلاتا ہے وہ جماعتی معاملات میں کیوں غربت کا نمونہ دکھا رہا ہے لیکن چونکہ مسجد کے چندے کا ایک غیر معمولی فریضہ انہوں نے ادا کرنا تھا اس لئے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ان کو معین طور پر اس بات کی تحریک کروں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ایسے عظیم مخلصین پر مشتمل ہے کہ جتنا بھی بوجھ ڈالا جائے وہ اپنی ذات پر لیتے ہیں لیکن سلسلے کی ضرورتیں پوری کرنے میں کمی نہیں کرتے.نہ کبھی شکوہ کرتے ہیں کہ ابھی کل تو آپ نے یہ تحریک کی تھی اب آج یہ شروع کر دی ہے.اس لئے اس خیال سے جس کا ذکر خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فتح اسلام میں فرمایا کہ ایسی مخلصین کی جماعت ہے کہ جب کہتا ہوں یہ نظر رکھتے ہیں میرے منہ پر، میری نگاہوں پر اور جب کہتا ہوں ایسے ایسے مخلصین ہیں جو اپنا سب کچھ پھر قربان کر دیتے ہیں.حضرت خلیفہ اسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ انہوں نے مجھے قربانی کے سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے وہ خط آپ کا فتح اسلام کے اندر آپ نے شامل فرمالیا ہے.اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے مخلصین خدا تعالیٰ نے مجھے عطا کئے ہیں لیکن ساتھ ایک دعا کی کہ چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ( در تمین فارسی : 117)

Page 778

خطبات طاہر جلد 13 772 خطبه جمعه فرموده 14 / اکتوبر 1994ء کیا ہی اچھا ہو کہ اگر امت میں سے سب کے سب نور دین بن جائیں اور وہ دعا دن بدن پوری ہوتی رہی کیونکہ جو نسبت مخلصین کی اس وقت مالی قربانی کے لحاظ سے تھی وہ Potential کے طور پر تو تھی لیکن سطح پر ظاہر نہیں ہوئی تھی اور اب یہ کیفیت ہے کہ تمام دنیا مالی قربانی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا کا نشان بن رہی ہے.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہزار ہا احمدی ایسے ہیں کہ ان کو جو کچھ کہا جائے وہ سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ رو کنا پڑتا ہے کہ اتنی قربانی نہ کرو کیونکہ تمہارے اہل و عیال کا بھی حق ہے، تمہاری ذات کا بھی حق ہے.پس اس جماعتی خلوص کے جذبے پر نظر رکھتے ہوئے میرے دل میں تمنا تو بہت تھی مگر تحریک نہیں کر سکا.لیکن الحمد للہ جماعت احمدیہ کینیڈا کو یہ توفیق ملی اور اپریل 1994 ء میں ان کی مجلس شوری میں ایک ولولہ انگیز ریزولیوشن پاس ہوا کہ ہم قربانی کر کے بھی شمالی امریکہ اور کینیڈا کو اس نعمت سے متمتع کرنے کے لئے کوشش کریں گے اور جو کچھ بھی ہو ہم اپنا ایک Earth Station قائم کر کے وہ عالمی جماعتی پروگرام جن سے سب دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے ان کو اپنے ملکوں میں بھی یعنی کینیڈا اور امریکہ گھر گھر پہنچانے کا انتظام کریں گے.چنانچہ جب ان کے اس ریزولیوشن کا مجھے علم ہوا تو میرے دل میں غیر معمولی حمد کے جذبات پیدا ہوئے ، ان کے لئے دعائیں نکلیں اور ان کو میں نے لکھا کہ اللہ کی مدد کے ساتھ اب آگے بڑھیں اور فوری جائزہ لینا شروع کریں.تمام امریکہ اور کینیڈا میں جو جو کمپنیاں Earth Station بنانے میں مہارت رکھتی ہیں اور شہرت رکھتی ہیں ان کے کوائف اکٹھے کریں.چنانچہ امیر صاحب کینیڈا نے یہ کام چودھری منیر احمد مبلغ سلسلہ کے سپر دفرمایا اور با قاعدہ میرے ساتھ اس عرصے میں رابطہ رہا.ہر نئی بات جو ان کے علم میں آتی تھی اس میں وہ مشورہ کرتے رہے اور اس سلسلے میں امریکہ کے بعض مخلصین نے بھی ان کی بھر پور مدد کی.بالآخر یہ طے پایا کہ امریکہ کی ایک مشہور کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا جائے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آپ کے اس مسجد کے افتتاح سے پہلے اس انتظام کو مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر امید رکھتے ہوئے ، اس کی رحمت پر تو کل کرتے ہوئے ان کو یہ ٹھیکہ دے دیا گیا اور اس ضمن میں چودھری منیر احمد صاحب کے علاوہ فرحان بشارت صاحب نے جو کینیڈا میں ایک سائنس کے طالب علم ہیں بہت

Page 779

خطبات طاہر جلد 13 773 خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1994ء غیر معمولی قربانی کرتے ہوئے اپنا وقت پیش کیا اور گزشتہ تین ماہ سے مسلسل وہ یہیں موجود رہے ہیں اور اس بات کی قطعا پر واہ نہیں کی کہ ان کی تعلیم کا کیا حرج ہوتا ہے اور کتنا حرج ہوتا ہے اور یہ ان کی ذاتی محنت اور دلچسپی تھی جس کا اس کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں ایک بہت بڑا حصہ ہے اور الحمد للہ کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس جمعہ کے ساتھ اس Earth Station کے ذریعے Satellite کی معرفت تمام کینیڈا اور امریکہ تک MTA کو پہنچانے کا انتظام مکمل ہو چکا ہے اور آج اس کے بھی افتتاح کا دن ہے.اس سلسلے میں جماعت امریکہ کا بھی ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی اس مسجد کے قریب ہی جماعت کینیڈا کو اپنے لئے بہترین جگہ منتخب کرنے کا حق دیا اور اس کے ساتھ ہی جو مکان یہاں پہلے تعمیر شدہ تھا وہ بھی ان کے سپرد کر دیا تو اس طرح انہوں نے خود بھی اس میں ایک حصہ ڈالا.اس ارتھ سٹیشن اور جو Satellite اس کے ساتھ استعمال ہو گا اس سے متعلق کچھ کوائف بیان کرنے ضروری ہیں تا کہ تمام امریکہ کی جماعتیں اور کینیڈا کی جماعتیں ان کے پیش نظر اپنے اپنے گھروں میں Satellite لگوانے کی کوشش کریں.یہ جو Earth Station ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں چاہیں آپ نظر کی حد تک ہر قسم کے پیغام چوبیس گھنٹے پہنچا سکتا ہے لیکن Satellite جوان پیغاموں کو وصول کر کے پھر دوبارہ زمین کی طرف پھینکتے ہیں وہ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے اور سر دست جماعت کو ابھی توفیق نہیں ہے کہ وہ پوراSatellite خرید سکے اس لئے وہ کرایہ پر انتظام کرنا پڑتا ہے اور اس ضمن میں بھی بہت ہی تگ و دو کے بعد اور محنت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسے Satellite سے Contact ہو گیا ہے جس کا نام 4.Galaxy ہے جس کے ذریعے اب انشاء اللہ شمالی امریکہ یعنی کینیڈا سمیت براعظم امریکہ میں جتنے ممالک یا سٹیٹس ہیں وہ سب انشاء اللہ روزانہ تین گھنٹے کا پروگرام سن سکیں گے.ایک حصہ اس کا چونکہ جو Foot Print کہلاتا ہے وہ دنیا کے سیاسی جغرافیہ کی پیروی نہیں کرتا بلکہ وہ زمینی دائروں کے مطابق بنتا ہے اس لئے اس میں خدا کے فضل سے میکسیکو بھی شامل ہو چکا ہے اور میکسکو کا بڑا شمالی حصہ بھی اس سے اسی طرح استفادہ کر سکے گا.یہ تمام پروگرام K.U بینڈ پر نشر ہوں گے اور اس لحاظ سے سہولت یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ دس بارہ فٹ کا ڈش انٹینا لگایا جائے ،

Page 780

خطبات طاہر جلد 13 774 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء دوفٹ کا یا زیادہ سے زیادہ تین فٹ کا ڈش انٹینا کام دے گا.جوسگنلز ابھی تک بھجوائے گئے ہیں ان کی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی اچھی Reception ہورہی ہے اور شمالی کینیڈا کی حد تک جہاں آبادی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے جنوب کی حد تک جہاں جہاں سے بھی سگنل سے رابطہ کیا گیا ہے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کے فضل سے بہت اچھے سگنل وصول ہو رہے ہیں.یہ ڈش انٹینا لگانا امریکہ اور کینیڈا کے احمدیوں کے لئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ یہاں کے اقتصادی معیار کے لحاظ سے اس کی قیمت بہت ہی معمولی ہوگی.کینیڈا نے تو اپنے لئے پہلے ایک ہزار کا آرڈر دیا تھا جو دوسو سے کم قیمت پر ، غالباً 170 کینیڈین ڈالر کے لگ بھگ میں ان کو دستیاب ہو گیا.یعنی ایک ہزار نہیں بلکہ ایک ہزار میں سے ہر انٹینا کے لئے ان کو دوسو سے کسی حد تک کم قیمت پر انٹینا مل جائے گا اور یہ ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام معمولی غریب احمدیوں کے لئے بھی کچھ مشکل نہیں ہے.دوسرا حصہ ہے جو بیرونی حصہ ہے جس میں میکسیکو کا شمالی حصہ ہے اس کے لئے تین فٹ کا انٹینا درکار ہو گا اور وہ بھی کوئی اتنا زیادہ مہنگا نہیں بنتا.یونائیٹڈ سٹیٹس میں ابھی تک کوئی باقاعدہ معاہدے کے ذریعے کسی کمپنی سے انٹینا بنوانے کا انتظام نہیں ہوا لیکن امیر صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ بڑی تفصیل سے ایک کمیٹی نے غور کر کے تمام جماعتوں کو ہدایات دی ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے دائرے میں یہ کام کر سکیں گی.کینیڈا میں اگر چہ آغاز کا آرڈر ایک ہزار کا تھا لیکن اتنی جلدی مطالبہ اس سے بڑھ گیا کہ امیر صاحب نے مجھے دو دن ہوئے بتایا کہ اب ان کا ارادہ ہے کہ وہ ایک ہزار کا مزید آرڈر دے دیں تو امید ہے کہ وہاں دو ہزار گھروں تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم.ٹی.اے کے پہنچنے کا انتظام ہو جائے گا.اس Earth Station کا رابطہ ہمارے یورپ سے ہونے والے یعنی لندن سے شروع ہونے والے Live Programme سے مسلسل رہے گا.چنانچہ جس وقت انگلستان میں Live Programme یعنی جب مثلاً خطبہ ہو رہا ہے اور میں ایک گھنٹے کے لئے مجلس میں بیٹھا ہوں یا دوسرے اور پروگرام ہیں وہ چل رہے ہوں گے تو یہاں کا ارتھ سٹیشن خود کار آلوں کے ذریعے ان کو نہ صرف اتارے گا بلکہ ریکارڈ کرے گا اور ان کو Pal سے.N.T.S.C میں تبدیل بھی کرے گا.چنانچہ صبح کے وقت جو عام طور پر یہاں کے احباب کے لئے اور بچوں کے لئے مناسب وقت نہیں تھا

Page 781

خطبات طاہر جلد 13 775 خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1994ء اور بہت دقت پیش آتی تھی ان کو یہ سہولت ہو جائے گی کہ ان کے لئے یہ Earth Station یہ پروگرام ریکارڈ کر کے اس میں سے جتنا حصہ یہاں کی انتظامیہ نے مناسب سمجھا وہ اسی شام کو دکھایا جائے گا اور دکھانے کے اوقات یہ ہیں کہ مشرقی ساحل پر آٹھ سے لے کر گیارہ بجے تک شام کا وقت ہے.جوا کثر کام کرنے والوں کی واپسی کے بعد کا وقت ہے اور امریکہ میں تو گیارہ بجے تک جاگنا ایک روز مرہ کا معمول ہے کوئی بڑی بات نہیں ہے.مغربی ساحل کے لئے کچھ وقت ہے کہ وہاں یہ پروگرام پانچ بجے شروع ہو گا مگر لاس اینجلس میں ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب سے میں نے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے پانچ بجے تک واپس آ جاتے ہیں اور جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی پانچ سے لے کے سات کے درمیان گھروں میں واپس آسکتے ہیں تو ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوگا کہ اگر سارا نہیں تو اس کے ایک حصے سے استفادہ کر سکیں.دوسرے انہوں نے فرمایا کہ ہر گھر میں یہ سہولت موجود ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے لئے ریکارڈنگ کر لو تو جب وہ پانچ سے آٹھ بجے تک کا پروگرام ہو رہا ہو وہ ریکارڈ ہورہا ہو گا واپس آ کے ہم اس کی ریکارڈنگ بھی دیکھ سکتے ہیں.اگر دیر ہو جائے تو اس طرح امریکہ کے اور کینیڈا کے تمام احمدیوں کو یہ سہولت ہوگی کہ براہ راست مرکزی تربیت سے استفادہ کر سکیں.اس ضمن میں کچھ اور اہم باتیں ہیں جن کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اول یہ کہ یہ Satellite کا 'ارتھ ٹیشن بنالینا ، Satellite سے وقت لے لینا یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا روز مرہ پروگرام جاری کرنا ہے.اس کے لئے بہت قربانی کی ضرورت ہے اور قابل مخلص نو جوانوں اور بڑوں، معمر دوست بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں، ان کی روزانہ وقت کی قربانی کی ضرورت ہے.انگلستان میں جو انتظام ہے اس کے ذریعے تین چار حصوں میں اہم پروگرام کا روزانہ انتظام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے.جو ابتدائی کمزوریاں تھیں ان میں وہ دور کی جارہی ہیں، روز بروز پروگرام بہتر ہورہے ہیں.اس کے لئے ایک جو جسوال برادر ان کا مستقل وقف ہے جو اس میدان میں پہلے بھی کچھ مہارت رکھتے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو اس میدان میں کام کرنے والے Professionals ہیں ان سے کسی طرح بھی کم نہیں اور ان کے علاوہ ایک نو جوانوں کی ٹیم ہے جو روزانہ کام کرتی ہے.ان میں دس پندرہ یا پندرہ ہیں ایسے لڑکے بھی ہیں لڑکیاں بھی ہیں جن کو الگ سٹوڈیو بنا کے دیا گیا ہے.بچیاں صبح نو بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک آتی ہیں جبکہ لڑکے وہاں اس

Page 782

خطبات طاہر جلد 13 776 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء وقت نہیں ہوتے اور لڑکے شام پانچ بجے آ کر اسی سٹوڈیو پہ قبضہ کرتے ہیں اور پھر بعض دفعہ رات ایک دو بجے تک کام کرتے ہیں اور یہ سارے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے کا رنہیں یا طلبہ ہیں یا کام کرنے والے لوگ ہیں اور مسلسل محنت کے ساتھ ایک دن بھی تھکاوٹ کا شکوہ کئے بغیر انہوں نے کام کو سنبھالے رکھا ہے اور دن بدن خدا کے فضل سے بہتر بنارہے ہیں.اگر میں آپ کو تفصیل بتاؤں کہ ایک گھنٹے کی وڈیو کو دکھانے کے قابل بنانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے ، کیا کیا جائزے لینے پڑتے ہیں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ کتنے بڑے وقت کی قربانی درکار ہے اور یہ سب خدا کے فضل سے جماعت انگلستان بڑے شوق سے کر رہی ہے اور جب مجھے فکر پیدا ہوتا ہے کہ یہ تھک نہ جائیں یقین دلاتے ہیں کہ بالکل مطمئن رہیں ہم عہد کر چکے ہیں اس کام کو ضرور نبھائیں گے اور نبھا رہے ہیں.پروگرام بڑھ رہے ہیں پہلے تو صرف پاکستان کے اور بعض مشرقی ممالک ایشیا کے لئے صبح گیارہ سے رات گیارہ بجے تک بارہ گھنٹے کے پروگرام ہوتے تھے اب مشرق بعید کے لئے بھی پروگرام شروع ہو چکے ہیں اور انڈونیشیا جو بڑی مدت سے جماعتی پیغام دینے سے اس لئے محروم تھا کہ قانونی وقتیں حائل تھیں.اب جو Satellite ہم نے ان کے لئے چنا ہے ان کا مرکز انڈونیشیا ہے اور سب سے اعلیٰ Reception انڈونیشیا میں ہوتی ہے اور اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ آسٹریلیا میں بھی بہترین پروگرام سنا جارہا ہے اور نیوزی لینڈ میں بھی بہترین پروگرام سنا جا رہا ہے اور نبی میں بھی وہ پروگرام سنا جا سکتا ہے.ملائشیا میں شمال کی طرف انڈونیشیا کے، وہاں بھی یہ پروگرام بڑی عمدگی سے سنا جا رہا ہے.تو وہ جو خلا ایک باقی تھا وہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح پر فرما دیا لیکن اس کے لئے جو محنت کرنی پڑتی ہے اور جو وڈیوز ممالک کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کرنی پڑتی ہیں اس کے لئے بہت وقت چاہئے اور روزانہ پھر Satellite کو وقت کے اوپر وہ چیز پہنچانا ایک اہم ذمہ داری ہے جس کے لئے ہم بعض دفعہ پندرہ دن کا پروگرام بناتے ہیں تا کہ آگے آگے رہیں ورنہ ایک منٹ بھی وہ دیر برداشت نہیں کر سکتے.عین جب سوئی بارہ پہ پہنچتی ہے اگر بارہ پر شروع ہونا ہے تو Satellite کی انتظامیہ ہم سے یہ تقاضا کرے گی کہ اس سے پانچ منٹ پہلے کم از کم وہ ان کی سٹاک میں داخل ہو جانی چاہئے اور اس سے بھی کچھ پہلے ان کو اپنے پروگراموں کو ترتیب دینے کے لئے سارے پروگرام کا علم ہونا چاہئے.اب یہ سارا کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہماری طوعی ، رضا کارانہ خدمت کرنے والی ٹیم کر رہی ہے.

Page 783

خطبات طاہر جلد 13 777 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1994ء یہاں جو کمی مجھے محسوس ہوئی ہے.یہ انتظام تو ہو گیا لیکن یہ انتظامیہ نہیں ہے جو اس کام کو سنبھالے، یہ تو ویسی ہی بات ہے کہ ٤ مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے (کلیات اقبال) لیکن نمازی میسر نہیں آئے.تو میں اس مسجد کی بات نہیں کر رہا اس کو تو اللہ اتنے نمازی دے گا کہ دیکھتے دیکھتے چھوٹی ہو جائے گی.میں کام کرنے والے جو ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے ہیں ان کی بات کر رہا ہوں کہ اس کی بہت ضرورت ہے روزانہ تین گھنٹے تو یہاں ایسے ماہر بیٹھنے چاہئیں بعض کو تو ہم نے یہ ٹرینگ دلوائی ہے مگر وہ مستقل وقت نہیں دے سکتے کچھ عرصہ وہ ساتھ کام کریں گے اور آپ کے نو جوانوں کو مسلسل اپنا وقت وقف کرنا ہو گا اور اس کے لئے جتنی جلدی کریں اتنا ہی کم ہے کیونکہ آج سے پروگرام شروع ہو چکا ہے.کل میں نے امیر صاحب یونائیٹڈ سٹیٹس کی امارت میں ایک کمیٹی کو ان باتوں پر غور کرنے کے لئے ہدایت کی تھی اس میں امیر صاحب کینیڈا بھی شامل تھے کچھ اور جو کام میں شامل رہے ہیں وہ بھی ساتھ تھے تو مجھے امید ہے انہوں نے جس طرح ہدایت دی گئی تھی اس قسم کا ڈھانچہ تیار کر لیا ہو گا لیکن جو جو ہمیں ضرورتیں ہیں وہ میں تمام جماعت کے علم میں لانا چاہتا ہوں تا کہ اس کے مطابق دوست اپنے آپ کو پیش کریں.پہلی ایک بات یہ ہے کہ جتنے بھی اہم پروگرام مرکز میں پہلے سے دکھائے جاچکے ہیں اور اس میں دنیا کا ایک بڑا حصہ شریک ہو چکا ہے ان کی وڈیو یہاں پہنچنی ضروری ہے.اس سلسلے میں یہ ابتدائی ہدایت میں نے جسوال برادران کو کی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے مطابق وہ کافی تعداد میں وڈیوز ساتھ لے آئے ہوں گے.ان وڈیوز کو دیکھنا ضروری ہے ان سب کو Pal System سے N.T.S.C.System میں تبدیل کرنا ضروری ہے اور اس کے مطابق پروگرامنگ کرنی ہے اور حسب حالات بعض چیزیں چھوڑنی پڑیں گی ، بعض چیزیں داخل کرنی پڑیں گی اور پھر پروگرام اتنے لمبے عرصے کے لئے بنانے ہوں گے کہ پندرہ دن کا شیڈول، پروگرام آپ دیکھنے والوں کو پہلے بتا سکیں.اس کے علاوہ مقامی طور پر پروگرام تیار کرنے ہیں ان کے لئے بھی بڑی محنت کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ کا ایک اپنا مزاج ہے، امریکہ کا ایک اپنا زبان کا تلفظ ہے،اس میں جب وہ بات سنتے ہیں تو ان پر اور اثر پڑتا ہے اور نئے پروگرام بنانے میں بہت ہی ذمہ داری کے ساتھ انتخاب کرنا پڑتا ہے کون اس کا اہل ہے اور کون نہیں ہے.پھر جتنے پروگرام بنتے

Page 784

خطبات طاہر جلد 13 778 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء ہیں ان کو از سرنو دیکھنا پڑتا ہے ان کا ابتدائی ڈھانچہ بعض دفعہ مجھے خود دیکھ کر اس کی منظوری دینی پڑتی ہے ور نہ کئی دفعہ غلطیاں بیچ میں داخل ہو جاتی ہیں اور جماعت احمدیہ کا وقار مجروح ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.کئی دفعہ غلطی سے ایسی باتیں ہو جاتی ہیں اس پر شکوے موصول ہوتے ہیں تو اب تو بار بار ہدایت سے ٹیموں کو اتنا تیار کر لیا گیا ہے کہ ان کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ سلیقہ پیدا کر دیا ہے کہ جہاں بھی ان کو خطرہ محسوس ہو کہ یہ مناسب ہے یا نہیں ہے وہ فوری طور پہ مجھ سے وقت لے کر مجھے وہ وڈیولا کے دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ حصے خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں اور پھر ہم مل کر وہاں فیصلے کر لیتے ہیں.تو یہاں بھی ایک بہت بڑی ٹیم کی ضرورت ہے جو اول ان تمام پروگراموں کو جو انگلستان سے یہاں پہنچیں گے ان کو ساتھ ساتھ دیکھے اور امریکہ کے لئے فیصلہ کرے کہ کتنے حصوں میں اس کو پیش کرنا ہے.بعض پروگرام ہیں ایک ایک دو دو گھنٹے کے پروگرام ہیں یا چھ سات گھنٹے کے پروگرام ہیں.مختلف جلسے ہیں ان میں بہت سی تقاریر ہیں اور بہت سے دلچسپ واقعات ہیں تو ان پروگراموں کو بعینم اسی طرح تو آپ سٹاک میں داخل نہیں کر سکتے.ان کو دیکھنا ہے ان میں سے انتخاب کرنا ہے بعض چیزوں کو لینا ہے، بعض چیزوں کو چھوڑنا ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ کمنٹری بھری ہے کہ اب ہم آپ کے سامنے کیا چیز پیش کرنے والے ہیں.تو بہت بڑا کام ہے.ہزاروں گھنٹے ایک مہینے میں ہمارے ہاں Volunteer لگا رہے ہیں اور بلا مبالغہ ہزارہا گھنٹے صرف کر رہے ہیں اور تب جا کر بمشکل آہستہ آہستہ اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم اس گھوڑے پر کاٹھی ڈال سکے ہیں.لیکن ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے گھوڑے نے بھی سیکھنا ہے، سواروں نے بھی سیکھنا ہے.تو آپ نے ابھی سواری کا آغاز نہیں کیا اس لئے میں سمجھا رہا ہوں کہ جہاں جہاں جس احمدی مخلص کو یہ احساس ہو کہ وہ سلیقہ رکھتا ہے کہ ان کاموں میں مدد دے سکے وہ ان کاموں میں مدد کے لئے اپنا نام فوری طور پر امیر صاحب یونائیٹڈ سٹیٹس کی خدمت میں پیش کرے اور کینیڈا میں اگر کچھ لوگ وقف کر کے خواہ وہاں مقامی طور پر کام کرنے کے لئے وقت پیش کریں یا یہاں آنے کے لئے تیار ہوں وہ امیر صاحب کینیڈا کے سامنے اپنے نام جلد از جلد پیش کریں.ایک اور پہلو ہے کہ لائیو پروگرام جو روزانہ آتا ہے اس کو دیکھنا اور اس میں فیصلہ کرنا کہ کون سا پروگرام کس وقت پیش کیا جائے.اب جو ایک گھنٹہ روزانہ میں دیتا ہوں اس میں بھی بعض ایسے پروگرام شروع ہو چکے ہیں کہ وہ از خود اسی دن ہم یہاں جاری نہیں کر سکتے کیونکہ آپ ان پروگراموں

Page 785

خطبات طاہر جلد 13 779 خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1994ء میں پیچھے رہ چکے ہیں مثلاً تین ایسے پروگرام ہیں جن میں لائیو اسی وقت دکھانا، یا اسی دن کا لائیو پروگرام شام کو دکھا نا مناسب نہیں ہوگا.ایک قرآن کریم کی کلاس شروع ہوئی ہوئی ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ اب میں خود ہی تمام دنیا کے احمدیوں کو قرآن کریم کا ترجمہ سکھاؤں.اور اس ترجمہ سکھانے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں تلفظ کی درستی کرنی ضروری ہے یعنی عام طور پر جو غلطیاں پائی جاتی ہیں ان کی طرف توجہ دلانا وہ بھی خود کروں اور اس کے علاوہ عربی گرائمر سے بھی کچھ شناسائی کروا تا چلا جاؤں کیونکہ جو تر جمہ آپ دوسری زبانوں میں پڑھتے ہیں وہ کئی پہلوؤں سے بالکل ناقص اور خام ہے.یعنی ایک مضمون تو آپ تک پہنچا دیتا ہے لیکن قرآن کریم کے اصل الفاظ کو سمجھنا اور کس طرح وہ بات بیان ہو رہی ہے وہ اس کا براہ راست علم پانا یہ ترجمہ پڑھنے کے مقابل میں زمین آسمان کی سی مختلف چیز ہے یعنی اتنی مختلف ہے کہ گویا زمین آسمان کا فرق ہے.اس لئے لازم ہے کہ آپ کو پتا چلے کہ قرآن کریم کا محاورہ کیا ہے کیوں یہ ترجمہ کیا جاتا ہے اور کیسے اور تراجم ممکن ہیں.اور پھر یہ بھی علم ہونا چاہئے جماعت کو کہ جماعت احمدیہ نے جو عام سنی یا شیعہ تراجم سے اختلاف کیا ہے تو اس کی بنا کیا ہے.کیا محض اپنے نفس کی خواہش کے مطابق کیا ہے یا قطعی دلائل کے ساتھ جن کے شواہد قرآن کریم میں ملتے ہیں، احادیث میں ملتے ہیں، عربی گرائمر میں ملتے ہیں یہ نیا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے.نیا اس پہلو سے کہ ازمنہ وسطیٰ میں جو تر جمہ کیا گیا اس زمانے کے علم کے لحاظ سے ان بزرگوں اور علماء نے جس حد تک ان کو سمجھ آئی وہ ترجمہ کر دیا مگر قرآن کریم تو ہر زمانے کی کتاب ہے اور بعض آیات ایک زمانے میں ایک مفہوم پیش کر سکتی ہیں اور اس مفہوم کو اس زمانے میں سمجھنا کافی ہے لیکن جب زمانہ آگے گزرتا ہے تو قطعی طور پر عربی گرائمر کی رو سے ان آیات سے ایک اور مفہوم اخذ کرناممکن ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ زمانہ اس بات کا شاہد بن جاتا ہے کہ قرآن کریم نے جو بات آج سے چودہ سو سال پہلے بیان فرمائی تھی وہ پوری ہو چکی ہے.پس ایسی باتوں میں بھی اور بعض ایسے امور میں بھی جہاں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے والوں نے اس حد تک سادگی سے کام لیا ہے کہ یہ نہیں دیکھا کہ یہ ترجمہ قرآن کریم کے شایان شان بھی ہے کہ نہیں، انہوں نے ایسا ترجمہ کیا جس سے مستشرقین اور دشمنان اسلام کو خوب پھبتیاں کسنے کا موقع ملا اور اعترض کرنے کا موقع ملا.لیکن جماعت احمدیہ نے جو ترجمے کئے ہیں ان میں یہ پوری احتیاط ہے کہ

Page 786

خطبات طاہر جلد 13 780 خطبہ جمعہ فرمودہ 14/اکتوبر 1994ء ترجمہ درست ہو اور کسی قسم کے اعتراض کا محل نہ بن سکے اور اس کی مثالیں بہت سی ہیں میں اس وقت نہیں دے سکتا.لیکن جو میں ترجمہ خود پڑھا رہا ہوں اس میں وقتا فوقتا ٹھہر کر وہ باتیں کھول دیتا ہوں کہ دیکھیں یہ ترجمہ فلاں نے یہ کیا ہے، ہم یہ کر رہے ہیں اس کی یہ سند ہے.قرآن اس پر گواہ ہے، حدیث گواہ ہے، انسانی فطرت گواہ ہے یہ اس لئے ضروری ہے کہ بعض دفعہ غیر ہمارا ترجمہ اٹھا کر بتاتے ہیں کہ دیکھو جی آپ نے معنوی تحریف کر لی ہے اور یہ ترجمہ دوسرے تراجم میں نہیں ملتا.ہر احمدی کو اس بات کی اہلیت ہونی چاہئے کہ وہ فور بتا سکے اور دلائل سے ثابت کر سکے کہ تحریف تم لوگوں نے کی ہوئی تھی ، ہم نے اس تحریف کا ازالہ کیا ہے اور قطعی شواہد ہمارے حق میں ہیں کہ یہی ترجمہ ہونا چاہئے اور قرآن کی عظمت اور شان کا تقاضا یہی ہے کہ یہ ترجمہ ہو.پس ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اس جذبے کے ساتھ اس خواہش کے ساتھ کہ ایسا ترجمہ ہو جو چھوٹی عمر کے بچوں کو بھی سمجھ آ رہا ہو، نئے آنے والوں کو بھی سمجھ آئے ، پرانوں کو بھی سمجھ آئے ، کچھ نسبتاً تفصیل کے ساتھ بعض پہلوؤں پر گفتگو کرتا ہوں وہ ترجمہ چونکہ کچھ عرصے سے جاری ہے اب آپ اگر وہ براہ راست سننا شروع کریں گے تو آپ کو پورا فائدہ نہیں دے گا کیونکہ بہت سے گرائمر کے ایسے سبق ہیں جو پہلے دے بیٹھا ہوں اور آئندہ اگر آپ نے شروع کر دیا تو آپ کو پتا نہیں لگے گا کہ میں کیا کہ رہا ہوں کس طرف اشارہ کر رہا ہوں.اس لئے روزانہ ان پروگراموں کو الگ جمع کرنا اور پہلے سے جو ترجمے ہو چکے ہیں ان کے لئے اپنے تین گھنٹوں میں سے وقت کا نکالنا اور پھر اس کو بعد میں آنے والے پروگراموں سے ملانا یہ کام ہے اور ایک ایسا وقت آ سکتا ہے جب آپ شامل ہو جائیں کیونکہ یہ ترجمے کی کلاس ہفتے میں صرف دو گھنٹے کے لئے ہوتی ہے.آپ اگر Catch up کر جائیں یعنی اس کو پکڑ لیں جو کھویا ہوا وقت ہے، تو رفتہ رفتہ دوسرے آنے والے پروگرام بھی اس میں شامل کرنے کے بعد ایسی جگہ پہنچ سکتے ہیں کہ جب روزانہ کا پروگرام روزانہ دکھا سکیں.ایک اور جاری پروگرام ہے وہ ہے زبان سکھانے کا پروگرام.اس سلسلے میں میں نے تمام دنیا کی جماعتوں سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک ایسا طریق اختیار کریں گے جس سے کسی اور زبان سے واسطے کے بغیر براہ راست ایک زبان اہل زبان کی طرف سے سکھائی جائے گی اور بیک وقت اگر آٹھ چینل مہیا ہیں تو آٹھ زبانیں ایک ہی پروگرام سے سکھائی جاسکیں گی اور یہ بھی میں آپ کو بتا دوں کہ

Page 787

خطبات طاہر جلد 13 781 خطبہ جمعہ فرمودہ 14/اکتوبر 1994ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو ہمارا معاہدہ ہوا ہے، یہاں جس Satellite کمپنی سے، معاہدے میں شامل ہے کہ وہ آٹھ Channels ہمیں مہیا کریں گی یعنی ایک وڈیو چینل اور ساتھ اس کی آواز اور ساتھ مختلف آوازیں، اسی پروگرام سے ملحق.تو یہ بھی پروگرام موجود ہے اور زبانوں کے سکھانے میں اس میں انشاء اللہ یہ بہت مفید رہے گا.یہ کوشش ہوتی رہی لیکن اپنا مافی الضمیر ان دوستوں کو سمجھانے سے قاصر رہا جن کے سپرد یہ کام کیا تھا.اچھے تعلیم یافتہ لوگ ہیں محنتیں بھی بہت کی گئیں ذہین ہیں مگر بعض دفعہ ایک انسان کے دل میں جو تصور ہے وہ پوری طرح دوسرے کے دل پر نقش نہیں کر سکتا.اس لئے جب وہ پروگرام بناتے تھے تو کہیں مجھے تسلی نہیں ہوتی تھی کہیں وہ اٹک جاتے تھے که بغیر کسی دوسری زبان کے یہ باتیں سمجھائی جاہی نہیں سکتیں.اس لئے پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود یه تجر به شروع کروں لیکن تجربہ ہوتے ہوتے اب یہ مستقل پروگرام بن گیا ہے اس میں میں نے مختلف ممالک کے ایسے لوگ بھی شامل کئے جن کو ایک لفظ بھی اردو کا نہیں آتا تھا اور اردو سکھانے کا پروگرام بنایا.چینی بھی شامل تھے اور رشین بھی اور ایسے عرب بھی جن کو بالکل اردو نہیں آتی تھی اور گھر کے چھوٹے بچے بھی شامل کر لئے گئے جو وہاں کی پیدائش ہیں اور انگلستان کے بچوں کی اردو بہت کمزور ہے.پھر ہمارے مکرم عبدالوہاب آدم صاحب افریقہ سے اس میں شامل ہوئے.اور ان سب کو سمجھایا کہ ہم نے ایک لفظ بھی کسی اور زبان کا استعمال نہیں کرنا یہ آپ کا ذمہ نہیں ہے کہ اردو سیکھیں.یہ میرا ذمہ ہے کہ اردو سکھاؤں.بالکل ویسا ہی سلسلہ ہے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کو زبان سکھاتے ہیں.تو قدرت نے ایک ایسا نمونہ ہمارے سامنے پیش فرمایا جس کا تعلق علم اور عقلی معیار سے دور کا بھی نہیں ہے.ہر جاہل سے جاہل ماں بھی اپنے بچے کو زبان سکھا لیتی ہے اور ہر زبان سکھائی جا سکتی ہے.دنیا کے پردے پہ کوئی ایسا خطہ نہیں ہے جہاں خدا تعالیٰ کے اس حیرت انگیز نظام سے استفادہ کرتے ہوئے ماں باپ اپنی اولا د کو بغیر کسی دوسری زبان کے سہارے کے اسے کچھ سکھانہ سکیں، زبان نہ سکھا سکیں، یہ ممکن نہیں ہے.سکھا سکتے ہیں اور دوسری زبان کا سہارا ویسے بھی ممکن نہیں ہے بچہ تو بے چارہ خالی سلیٹ لے کے پیدا ہوتا ہے جتنی مرضی زبانیں بولیں اس کے لئے سارا فارسی، عربی ، فرینچ ہے اس کو تو کچھ پتا نہیں لیکن آپ سکھا لیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ذمہ داری ماں باپ کی ہو بچے کی نہ ہو بچے کو کوئی پرواہ نہیں ہے.وہ اپنے ذہن پر ادنی بھی بوجھ نہیں ڈالتا کہ میں کچھ

Page 788

خطبات طاہر جلد 13 782 خطبه جمعه فرمود : 14 اکتوبر 1994ء سیکھوں وہ بے تکلف اپنی مرضی کی باتیں کرتا ہے اپنی موجوں میں لگا ہوتا ہے ماں باپ اس کا منہ ہلا ہلا کر اپنی طرف کرتے ہیں کہ بیٹا یہ لفظ بولو، کبھی بولتا ہے کبھی نہیں بولتا اس کو کوئی پرواہ نہیں لیکن خدا نے جو نظام بنایا ہے یہ اتنا قوی ہے اور اس نظام کا یہ ایک لازمی جزو ہے کہ بچہ بوجھ نہ ڈالے کیونکہ جو بوجھ ڈالے گا اور کوشش سے زبان سیکھے گا اس کی زبان میں رخنے پیدا ہو جائیں گے اس کا تعلق کوشش کے ساتھ اپنے یادداشت کے خلیوں سے فائدہ اٹھانے کی ذمہ داری اس کے اوپر عائد ہو جائے گی.اب کوشش کے ساتھ جب آپ یادداشت کے خلیوں سے استفادہ کرتے ہیں تو بسا اوقات مشکل پڑ جاتی ہے کوئی لفظ یاد نہیں آتا کبھی ادھر بھاگتے ہیں کبھی ادھر بھاگتے ہیں اور جتنی زبانیں بھی آپ دوسری زبانوں کے ترجموں سے سیکھتے ہیں ان میں ذہن مستقل ترجمے کر رہا ہوتا ہے اور جو زبان خود اگتی ہے، خود رو پودے کی طرح آپ کے ذہن کے Soil سے پیدا ہوتی ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے اس کو مادری زبان کہتے ہیں.وہ غلط بھی ہو اس میں خود روئیت کا ایک حسن پایا جاتا ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر انگریز بہت اچھی انگریزی بولتا ہو.وہ اگر بولتا ہے تو پورے یقین کے ساتھ کہ یہ میری سرزمین ہے میں جو کہتا ہوں کہہ سکتا ہوں اور لوگوں کو اس کا لطف آتا ہے.ایک عرب جو ہے جیسے وہ عربی بولتا ہے دوسرے کے سہارے سے سیکھے ہوئے عربی دان وہ بات پیدا نہیں کر سکتے.تو اس لئے بھی میں نے یہ سوچا تھا کہ خدا کے قائم کردہ نظام کے مطابق ترجمے کا پروگرام بنایا جائے یعنی زبانیں سکھانے کا پروگرام بنایا جائے.اب تک گیارہ اسباق دیئے جاچکے ہیں اور اس دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے مثلاً وہ روسی ہمارے راویل صاحب جن کو ایک لفظ بھی اردو کا نہیں آتا تھا کئی فقرے اردو کے خود بخود بولنے لگے.باتوں باتوں میں بے ساختہ ان کے منہ سے بعض فقرے پھوٹتے ہیں اور بالکل صحیح پھوٹتے ہیں ، سوال کر سکتے ہیں تو یہ ان سب کو اطمینان ہو چکا ہے کہ اس طرح وہ ہر زبان سکھا سکتے ہیں.چنانچہ یہ وڈیو تقسیم کر دی گئی ہیں اہل زبان میں.اب اس پروگرام کو دیکھ کر ایک انگریز انگریزی سکھائے گا اور بظاہر میں بول رہا ہوں گا لیکن آواز اس انگریز کی ہوگی انگریزی کے وقت.اور عثمان چینی صاحب، چینی سکھائیں گے اگر چہ وہ مختلف ہیں میں مختلف ہوں لیکن میری زبان سے آپ چینی لفظ سنیں گے کیونکہ وہ حرکتیں ایک ہی ہیں اور طرز بیان ایک ہے اس لئے ہر آدمی انہی حرکتوں، اسی طرز بیان سے مختلف زبانیں سیکھ رہا ہو گا.فرنچ بھی آپ مجھ سے سیکھ رہے ہوں گے بظاہر اور جرمن بھی سیکھ رہے ہوں گے اور Spanish

Page 789

خطبات طاہر جلد 13 783 خطبہ جمعہ فرمودہ 14/اکتوبر 1994ء سپینش بھی سیکھ رہے ہوں گے اور عربی بھی سیکھ رہے ہوں گے لیکن وہ آواز میں مختلف ہوں گی پروگرام ایک ہوگا.تو یہ پروگرام اب تک میرا خیال ہے مکمل ہو چکے ہوں گے لیکن وہاب صاحب نے تو مجھے بتایا ہے جیسا کہ میں نے ان کو تاکید کی تھی امریکہ آنے سے پہلے لازم ختم کر کے آئیں، ان کو امریکہ آنے کی جلدی تھی اور مجھے یقین تھا کہ اگر آگئے تو سارا پروگرام دھرا رہ جائے گا میں نے شرط لگادی کہ امریکہ آنے کا شوق ہے ٹھیک ہے لیکن پروگرام بنائیں پھر آئیں تو اب انہوں نے مجھے آتے ہی رپورٹ دی کہ اپنی بیٹی کو بھی شامل کیا اور بہت محنت کی اللہ کے فضل سے ان کے وہ ترجمے درج کروا آئے ہیں.اسی طرح قرآن کریم کی جو کلاس ہے اس کے ترجمے ضروری ہیں اس کے تو ترجمے نہیں ہوتے یہ تو دیکھنے والا از خود اندازہ لگا کر اپنی زبان سکھاتا ہے، نوید مارثی صاحب ہیں ہمارے ایک فرنچ بہت مخلص احمدی ان کے سپرد کیا ہے انہوں نے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں میں مطمئن ہوں کہ اس طرح زبان سکھائی جاسکتی ہے.میں اسی پروگرام سے اب فرنچ سکھاؤں گا تو جرمن قوم کے سپر د جرمن سکھانے کا پروگرام کر دیا ہے، سپینش کے سپر د سپینش کا.سپینش کی بھی کل مجھے اطلاع ملی ہے کہ پروگرام خدا کے فضل سے آگے بڑھ چکا ہے تو آئندہ کا پروگرام میں آپ کو ابھی بتا دوں وہ یہ ہے کہ جو گیارہ دن کا پروگرام ہے یہ ایک ایک گھنٹے کا ہے اس کو ہم آدھے آدھے گھنٹے کے پروگراموں میں بدلیں گے اور گیارہ کی بجائے بائیس دن اردو کے ساتھ ساتھ سات اور زبا نہیں آپ کو سکھائی جارہی ہوں گی تا کہ سہولت سے روزانہ آدھے گھنٹے کا پروگرام آپ سنیں بوجھ نہیں لینا اپنے دماغ پر ، جو پروگرام گزر گیا گزرنے دیں مگر جیسا کہ غالب نے کہا تھا.میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں (دیوان غالب : 150) یہ پروگرام ایسے نہیں ہیں جو آپ سے غائب ہو جائیں گے کیونکہ یہ کمرشل انتظام تو ہے نہیں.ہم دوبارہ پھر اسی بائیس دن کے پروگرام کو دہرائیں گے اور از سرنو پھر یہ آپ کے سامنے حاضر ہوگا اس لئے کچھ یاد ہو یا نہ ہود لچسپی سے دیکھتے رہیں اس میں اور باتیں بھی ہوتی ہیں کھانے وغیرہ بھی پیش کئے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو کھانے کے آداب سکھانے اور کھانوں کے نام بتانے کے لئے لطیفے بھی ہوتے رہتے ہیں ایسی مجلس نہیں جس سے آپ بور ہو جائیں تو آپ کو روزانہ آپ کی مرضی کی زبان سیکھنے کے لئے آدھ گھنٹہ درکار ہے اور جب یہ بائیس دن گزر جائیں گے، چوالیس دن بن جائیں گے یہ.

Page 790

خطبات طاہر جلد 13 784 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء آدھے آدھے گھنٹے کے بائیس دن، پھر ان کی دھرائی چوالیس دن میں.اللہ تعالیٰ مجھے موقع دے دے گا کہ جو یہاں دورے پر آیا ہوں یہ کی جاکے پوری کر لوں اور پھر یہ پروگرام بنا کر اس کو آگے بڑھاؤں.میرے ذہن میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے صحت اور زندگی اور اپنے فضل سے وہ صلاحیتیں عطا کرے تو ایک سال یا زیادہ سے زیادہ دو سال کے عرصے میں ہم انشاء اللہ تمام دنیا کو مختلف زبانیں سکھا سکیں گے.لیکن جب میں نے خود پروگرام شروع کیا تو اس وقت مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا تصرف تھا کہ باقی سب اس کوشش میں ناکام رہے کہ یہ مجھے محسوس ہوا کہ جس قسم کی زبان میں جماعت کو دینا چاہتا ہوں اس کے لئے ضروری ہے کہ میں خود سکھاؤں اور سکھانے کے دوران اس میں میری اردو کی غلطیاں تو کچھ ہوں گی لیکن ہر ماں باپ کی غلطیاں ہوتی ہیں اس بات کی پرواہ نہ کریں بعض ٹھیک کرنے والے بعد میں آپ کو ٹھیک بھی کرا دیا کریں گے کیونکہ بہت بڑا Grammarian تو میں ہوں نہیں، نہ دلی میں پیدا ہوا.دلی والوں کی زبان حضرت اماں جان کی زبان سے ہم نے پائی.لیکن پنجابی اس زبان کو بگاڑنے والے بھی کافی ہوتے تھے گھر میں جو سیکھتے تھے سکول جا کر اس کو تبدیل کرنے کی کوششیں از خود چلتی رہتی تھیں تو اسی لئے زبان کچھ کھچڑی سی بن گئی اور رفتہ رفتہ ، آہستہ آہستہ خطبات میں بھی کئی دفعہ ایسی غلطیاں ہوتی ہیں بعد میں ہمارے ماہرین اس زبان کے مجھے لکھتے رہتے ہیں بڑی معذرت کے ساتھ ، تو میں ان سے کہتا ہوں کہ تصحیح کرانا تو کوئی بے ادبی نہیں ہے تصحیح کرانا تو نظام اسلام کا لازمی حصہ ہے.قرآن کریم سے بہتر کس کتاب کی صحت کی ضرورت ہے لیکن تلاوت میں اس میں بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک تصیح کا نظام ہمیں سکھایا ہے کہ اس وقت سُبحَانَ اللہ کہا کرو.سُبْحَانَ اللہ کا مطلب بہت عظیم مطلب ہے کہ صرف اللہ غلطی سے پاک ہے اور کوئی نہیں ہے.یہ دو طرفہ پیغام ہے تصحیح کرنے والے کے لئے بھی ہے اور غلطی کرنے والے کے لئے بھی ہے غلطی کرنے والے کے لئے یہ ہے کہ آپ علم کا یا اور کوئی بھی مرتبہ رکھتے ہوں غلطی سے پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ خدا کے سوا اور کوئی نہیں اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں.یہ بشریت کا تقاضا ہے ہر آدمی غلطی کر سکتا ہے اور کہنے والے کی انا توڑنے کے لئے سُبْحَانَ اللهِ بہتر کوئی نسخہ نہیں کہ تم نے اس وقت تو غلطی ضرور کی ہے لیکن تم بھی تو غلطیوں کے پتلے ہو تم سے بھی

Page 791

خطبات طاہر جلد 13 785 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء غلطیاں ہو جاتی ہیں.تو اتنا حیرت انگیز نظام ہے اسلام کا کہ ہر بات میں گہری حکمت اور آپس کے ربط پائے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے میں ان کو لکھتا ہوں کہ شوق سے آپ مشق ستم فرما ئیں مجھے کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوتا ہے میں ممنون ہوں میری غلطیاں نکالا کریں، مجھے کوئی تکبر نہیں ہے کسی قسم کا.میں اگلے خطبے میں کہہ دوں گا ہاں جی یہ غلطی ہوگئی معاف کرنا لوگ درست کر لیں لیکن یہ ضروری ہے میرے لئے کہ غلطیاں رہ نہ جائیں کیونکہ آئندہ زمانوں میں ان خطبوں سے فائدے اٹھائے جائیں گے اگر غلطی رہ گئی اور درستی نہ کی گئی تو بعض لوگ غلط راستوں پر چل پڑیں گے.تو اردو میں بھی ہوں گی ضرور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اردو دان ہوں لیکن کوشش کر رہا ہوں کہ جس حد تک ہو سکے صحت کے ساتھ آپ کو زبان سکھاؤں اور ایک نیا مقصد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پہ ظاہر ہوا کہ تمام دنیا میں اس کثرت سے اور اس تیزی سے احمدیت پھیل رہی ہے کہ اب ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ ہر زبان کے ماہرین اتنے پیدا کریں اور اس کثرت سے پیدا کریں کہ وہ ساتھ ساتھ اردو بھی سیکھ چکے ہوں اور انگریزی بھی یا عربی بھی اور بہترین ترجمے کر کے دنیا کو پیغام دے سکیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بڑی دنیا احمدیت میں ہم داخل کر رہے ہیں جو اپنے علم کے لحاظ سے اندھیروں میں رہے گی اور ان کو روشنی پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں کر سکتے.تو اگر براہ راست ساری دنیا اردو سیکھ لے اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اب یہ ممکن ہو گیا ہے تو بیک وقت افریقہ میں اور یورپ کے ممالک میں وہ سارے جن سے ترجمے کا احتیاج رہتا تھا باتیں کرتے ہوئے اور نہ ان کو لطف آتا تھا نہ مجھے لطف آتا تھا اب ایسا موقع پیدا ہو جائے گا کہ سال دو سال کے اندر اندر خدا کے فضل سے جب میں یہاں آؤں گا تو برا در مظفر سے امریکن انگریزی نہیں بولوں گا بلکہ اردو میں بات کروں گا اور سارے بھائی میرے جتنے یہاں موجود ہیں وہ بے تکلف مجھ سے باتیں کریں گے اب تو ہمارے حبیب شفیق صاحب کو صرف ایک اردو آتی ہے وہ سمجھتے ہیں اردو ہے حالانکہ وہ پنجابی ہے جب میں ملتا ہوں کہتے ہیں ” کیہہ حال اے تو جو میں اردو سکھاؤں گا وہ ایسی اردو نہیں ہو گی جو کھلم کھلا پنجابی ہولیکن ” کی حال تک بات نہیں رہے گی ، آگے بات بڑھے گی کیونکہ ہم جو زبان سکھا رہے ہیں اللہ کے فضل سے وہ روز مرہ کی زندگی کے مختلف مواقع ، اٹھنا بیٹھنا، پھر دین کی باتیں اور رفتہ رفتہ اس کے مضمون کو بڑھا کر دینی مسائل کی گفتگو یہ ساری ماضی، حال، مستقبل پر عبور.

Page 792

خطبات طاہر جلد 13 786 خطبہ جمعہ فرمودہ 14/اکتوبر 1994ء یہ ساری کوششیں انشاء اللہ جاری رہیں گی یہاں تک کہ میں امید رکھتا ہوں کہ جو دو سال تک ہمارا ساتھ دیں گے وہ اپنی مرضی کی زبان آسانی سے سیکھ سکیں گے اور میری ہدایت یہ ہے کہ پہلے اردو کو اہمیت دیں اور پھر عربی کو اہمیت دیں اگر چہ عربی کو اولیت حاصل ہے مگر چونکہ میری زبان اردو ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اگر چہ عربی میں کتب لکھیں مگر زیادہ تر کتب اردو میں ہیں اس لئے عربی کے جو پیغام قرآن میں عطا ہوئے اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ سے ان کی وضاحتیں ہمیں ملیں وہ چشمے اردو میں جاری ہوئے ہوئے ہیں.اس لئے کوئی تقابل کا سوال نہیں ہے وقت کی ایک حقیقی ضرورت ہے اور چونکہ ایک لمبے عرصے تک میں نظر رکھتا ہوں میرے خیال میں خلفاء اردو دان یہ رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کچھ اسی طرح کام کیا کرتی ہے کہ جہاں سے وہ نبوت کا انتخاب فرماتا ہے وہیں ایک لمبے عرصے تک خلافت کو بھی محدود رکھتا ہے اس لئے مجھے آئندہ کے لئے بھی یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اردو کی ضرورت جاری رہے گی اور جو مزہ خطبے کا براہ راست سمجھنے کا ہے وہ ترجمے کا نہیں اور جو ترجمے کے ذریعے باتیں پہنچتی ہیں ویسے ہی وہ بعض دفعہ بیچ میں بگڑ جاتی ہیں اور پھر Running Translation تو بہت ہی مشکل کام ہے رنگ کمنٹری تو اور بات ہے لیکن رننگ ٹرانسلیشن میں ایک آدمی جب سنتا ہے ایک ترجمے کی خاطر ، تو اس کا ذہن بڑی تیزی سے کام کر رہا ہوتا ہے کہ اس کو میں کس طرح اپنی زبان میں پیش کروں اور جب وہ پیش کر رہا ہوتا ہے تو یہ اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ جو حصہ اس وقت کہا گیا ہے وہ اس کو سن سکے.سنتا بھی ہے تو ایک ہلکا سا، مبہم سا خیال اس کے دماغ پر نقش ہوتا ہے.پھر کوشش کرتا ہے آئندہ کو اس کے ساتھ جوڑنے کی اس لئے یہ ایک وقت کی مجبوری ہے ورنہ یہ بہترین پروگرام نہیں ہے لیکن اگر دو سال کے بعد دنیا میں ایک بھاری تعداد میں احمدی براہ راست خطبے سن سکیں اور ترجمے اس کے کر سکیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ وسلام کی کتب کا مطالعہ شروع کر دیں تو ایک بہت بڑی نعمت ہوگی اور اس مضمون پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ یہ ہے حقیقت میں کل عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا.جب یہ صورت ہوگی تو ایک حیرت انگیز یکسانیت پیدا ہو جائے گی دنیا میں.احمدی جہاں جائے گا خواہ افریقہ کا احمدی ہو یا نجی کا ہو یا کسی اور ملک کا وہ ایک دوسرے سے بات کر سکتا ہے اس کو یقین ہے کہ ان پروگراموں سے ہر جگہ جماعت نے فائدہ اٹھایا ہے اور ایک World Lingu Franca ایسی وجود میں آئے گی جو

Page 793

خطبات طاہر جلد 13 مذہب سے گہراتعلق رکھتی ہے.787 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 /اکتوبر 1994ء پھر ان پروگراموں کے علاوہ ایک تیسرا پروگرام بھی (اب وقت زیادہ ہو رہا ہے میں مختصر بتا دیتا ہوں ) وہ چل رہا ہے ہو میو پیتھی کا.ہومیو پیتھی ایک ایسا نظام صحت ہے کہ جس میں کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے اور روز مرہ ہر گھر میں ایسی سہولت مہیا ہو سکتی ہے خصوصا امریکہ جیسے ممالک میں جہاں ادویہ یا علاج کے لئے بے شمار خرچ کرنا پڑتا ہے تو روز مرہ ایسے گھروں میں سہولت ہو سکتی ہے کہ وہ بجائے اس کے کہ فورا ایمبولینس کی طرف بھا گئیں ،لوگوں کو بلائیں.گھر میں تھوڑی سی دوائیاں رکھی ہوں تو اس سے روز مرہ کی ضرورتیں پوری کر لیں.تو یہ پروگرام بھی ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اب اس کو بھی بیچ میں سے تو نہیں آپ اٹھا سکتے اور فائدے کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر ملک میں قریباً جہاں یہ سنا جارہا ہے ایسے خوش کن خط مل رہے ہیں کہ اچانک رات کو یہ مصیبت پڑی آپ کا فلاں نسخہ استعمال کیا الحمد للہ کہ دیکھتے دیکھتے تکلیف ٹھیک ہو گئی اور وہ ایلو پیتھک ڈاکٹر جو بڑے متعصب ہوتے تھے بلکہ بعض ان میں مولوی بھی تھے وہ بھی اب خدا کے فضل سے قائل ہورہے ہیں اور ایک ڈاکٹر صاحب تو با قاعدہ شاگرد بن کے وہاں میرے درسوں میں شامل ہوتے ہیں اور مجھے پھر اطلاعیں بھی کرتے ہیں کہ الحمد للہ اب میرے تعصبات گھل گئے ہیں اور تجربے میں بھی دیکھ چکا ہوں کہ فائدہ مند چیز ہے.تو ہے فائدہ مند چیز لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر دوسرے نظام کو مٹادینے والی چیز ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ خدا کی قدرت پر پنجہ مارنے کی کوشش کرتا ہے اسے قبضے میں لینے کی کوشش کرتا ہے.ہومیو پیتھک بہت جگہ نا کام بھی ہوتی ہے بہت جگہ ہو میو پیتھ نا کام ہو جاتا ہے دوسرے بہت سے ایسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفا کے ذریعے ہیں جن پر کبھی کسی احمدی کو دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں.ورنہ وہ اللہ کی رحمتوں کے دروازے بند کرنے والا ہوگا اگر وہ ایسا رویہ اختیار کرے کہ بس اب ہو میو پیتھی ہی ہے باقی کچھ بھی نہیں تو وہ بھی ایک قسم کا نیم حکیم یا ملاں بن جائے گا جو دونوں لحاظ سے خطرہ ہے.لیکن یہ ضرور ہے اور میرے لمبے تجربے میں ہے کہ اگر ہومیو پیتھک سے شفا مل سکے تو وہ سب سے زیادہ آسان ذریعہ شفاء ہے اس کے کوئی بداثرات ارد گرد مرتب نہیں ہوتے.اور اگر آپ کوشش کریں تو اکثر صورتوں میں آپ کو یہ توفیق مل سکتی ہے.میں نے اپنے اوپر استعمال کی ہے اور اللہ کے فضل سے مجھے تو Anti Biotics

Page 794

خطبات طاہر جلد 13 788 خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1994ء کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی.آخر کیا وجہ ہے کہ Anti Biotics مجھ سے الگ رہے اور پھر بھی میں ان بیماریوں میں مبتلا نہ ہوں جن کو دور کرنے کے لئے Anti Biotics استعمال ہوتی ہیں اور میرے نزدیک Anti Biotics کا استعمال صحت پر سب سے زیادہ گہرے بد اثرات ڈال رہا ہے.وقتی طور پر شفا دے دیتی ہیں اور بعض لمبے بداثرات Glandular System میں ڈال دیتی ہیں جس سے نقصان پہنچتا رہتا ہے.تو یہ کوئی مبحث بنانے کی خاطر نہیں کر رہا، میں مثال دے رہا ہوں.کوشش آپ لوگ یہ کریں کہ اگر آپ کو ہومیو پیتھک آگئی تو روز مرہ اپنے گھر میں علاج کر سکتے ہیں اپنے ہمسایوں، غریبوں کا علاج کر سکتے ہیں غریب قوموں میں کثرت کے ساتھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن جہاں دیکھیں کہ آپ عاجز آگئے یا دوا عاجز آ گئی، وہاں انکسار سے کام لیں اور جان بچانے کے لئے پھرتا خیر نہ کریں.جو دوسرا ذریعہ علاج مہیا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اس کے لئے بھی آپ کو کیسٹس مہیا کی جائیں گی اب آپ نے خود وقت ڈھونڈنا ہے کہ روزانہ تین گھنٹے کے پروگرام میں یہ تین جاری پروگرام کتنے کتنے داخل کرنے ہیں اور پھر ان کو آخر تک پہنچا کر برابر کب کرنا ہے.یہ میں نے مختصر مثالیں دی ہیں یعنی بات تو لمبی کی ہے لیکن لمبی بات کے بغیر بات سمجھ نہیں آنی تھی آپ کو لیکن مثالیں میں نے چند رکھی ہیں صرف.پس آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آج کے مبارک دن سے ہر طرح سے فائدہ اٹھائیں گے.مسجد کے متعلق تو میں آج شام کے اجلاس میں باتیں کروں گا یہ جو ٹیلی ویژن کا افتتاح ہورہا ہے اس کے متعلق میں نے جو ضروری باتیں کہنی تھیں میں کر چکا ہوں.اب میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کے Volunteer ہر جگہ انشاء اللہ تعالیٰ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کریں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.نمازیں جمع ہوں گی اور جو مسافر ہیں میرے ساتھ عصر کی دورکعتیں پڑھیں گے چار کی بجائے لیکن جو مقامی ہیں وہ پہلے سلام کے وقت نہ اٹھا کریں.ادب کا تقاضا یعنی امامت کے جو تقاضے ہیں ان کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ جب امام دوسرا سلام پھیرے پھر مقتدی جنہوں نے دو رکعتیں پوری کرنی ہیں وہ کھڑے ہوں.

Page 795

خطبات طاہر جلد 13 789 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /اکتوبر 1994ء اعلیٰ اقدار کی حفاظت کریں، کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور اپنی نسلوں میں ان اقدار کومنتقل کریں.( خطبه جمعه فرموده 21 /اکتوبر 1994ء بمقام نیویارک،امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: اس دفعہ یونائیٹڈ سٹیٹس اور کینیڈا کے سفر کے دوران مجھے یہاں پانچ جمعے ادا کرنے کی توفیق ملی اور یہ اس سلسلے کا آخری جمعہ ہے جو میں یہاں آج نیو یارک میں ادا کرنے کی توفیق پا رہا ہوں.مختلف موضوعات پر مختلف جمعوں میں میں نے خطاب کیا.دو کینیڈا میں ادا ہوئے اور آج تیسرا یہ ہے اس کو شامل کر کے تین یونائیٹڈ سٹیٹس میں.آج کے خطبے کے لئے پہلے تو مختصر میں اپنے تاثرات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں میرے سفر کا آغاز لاس اینجلس سے ہوا اور پھر اس کے بعد مجھے سانس فرانسسکو جانے کا موقع ملا اور پھر سیٹل کی جماعت کے ساتھ کچھ گھنٹے گزارنے کی توفیق ملی اور اس کے بعد پھر کینیڈا کا سفر ہوا.لاس اینجلس کی جماعت سے متعلق میں بہت اچھے تأثرات لے کر آیا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شعبے میں، ہر پہلو سے وہاں زندگی کے آثار پہلے سے نمایاں تر ہو چکے ہیں.تبلیغ بھی وہ نہایت سنجیدگی اور لگاؤ کے ساتھ کر رہے ہیں اور بہت سے احمدی ہیں جو داعی الی اللہ بن کر ہر پہلو سے خدمت کے کاموں میں مگن ہیں.اور جو احباب ان کے تعلق میں ملنے کے لئے آتے رہے ان کے چہروں سے صاف عیاں تھا کہ ان پر ایک عرصے تک محنت ہو چکی ہے.بعض دفعہ داعین الی اللہ محض

Page 796

خطبات طاہر جلد 13 790 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /اکتوبر 1994ء رجسٹر پر نام لکھوا دیتے ہیں اور محنت نہیں کرتے وہ پہچانے جاتے ہیں کیونکہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.جب مجالس سوال و جواب میں ایسے داعیین الی اللہ کے محنت کر کے اکٹھے کئے ہوئے لوگ وہاں پہنچتے ہیں تو ان کی طرز سے ، ان کی آنکھوں، ان کی اداؤں سے صاف پتا چلتا ہے کہ پہلے ان پر کوئی کام نہیں ہوا اور ان کے سوالات بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن وہ جن پر کام ہو چکا ہو ان کے اندر تبدیلی کے آثار ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں.ان کے چہروں پر وہ سعادت کا نور آ جاتا ہے جو نور کے قریب ہونے سے طبعا ظاہر ہونا چاہئے اور وہ پاک علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں ان کے لئے بے اختیار دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور بہت سے ایسے لوگ عملاً پکا ہوا پھل ہوتے ہیں ایسے موقع پر ان کو بہانہ چاہئے اور وہ پھر بہت جلد احمدیت کی آغوش میں آ جاتے ہیں.پس اس پہلو سے لاس اینجلس میں مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ محنت دکھائی دی اور جو احمدی اس علاقے میں ہوئے ہیں ان کے اندر پختگی کے آثار بھی تھے اور آئندہ بہت نیک ارادے ظاہر کر رہے تھے لفظوں میں بھی اور ان کی اداؤں سے بھی معلوم ہوتا تھا کہ اس بات میں سنجیدہ ہیں کہ آئندہ وہ اپنے علاقے میں، اپنے ماحول میں، اپنے گرد و پیش بکثرت احمدیت کا پیغام پہنچائیں گے اور بہت گہرا اطمینان ان کے اندر دکھائی دیتا تھا.پس اس پہلو سے دعوت الی اللہ کے کام میں خدا کے فضل سے لاس اینجلس میں جو نمونہ قائم ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے ابھی بہت کام ہونے والا ہے اس سے کسی حد تک اطمینان ہوا کہ امریکہ کی سرزمین بھی انشاء اللہ آئندہ دعوت الی اللہ کے کاموں میں زیادہ تیز رفتاری سے آگے قدم بڑھائے گی.دوسری جگہوں میں ایسا کوئی نمایاں نظارہ دیکھنے میں نہیں آیا.لیکن ایک اور بات جس سے میں عموماً مطمئن ہوا ہوں اور اس میں محض لاس اینجلس کا اعزاز نہیں بلکہ عمومی طور پر امریکہ کے دورے کے دوران کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے بکثرت احمدی خاندانوں سے ملنے کی توفیق ملتی رہی ہے اور سینکڑوں خاندانوں کے ہزار ہا افراد سے بچوں، بڑوں، جوانوں سب سے گفتگو ہوئی اور بعض جگہ چونکہ وقت بہت تھوڑا تھا ، ویسے توفیق نہیں ملی مگر اکثر جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے سے ایک دوسرے کی دلچسپی کی باتیں کرنے کا موقع ملا.اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے جو سب سے خوش کن بات مجھے اس دفعہ معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایفر وامریکن نوجوان نسل میں پہلے سے بہت بڑھ کر جماعت سے تعلق

Page 797

خطبات طاہر جلد 13 791 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء پیدا ہوا ہے.اس سے پہلے میں ہمیشہ یہ شکوہ لے کر واپس جایا کرتا تھا کہ پہلی نسل کے مخلصین تو اسی طرح قائم ہیں مگر آگے اپنی آئندہ نسلوں میں انہوں نے احمدیت کی اقدار کو بڑھایا نہیں اور یا تھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: 19) کے پیغام کو نہ سمجھا نہ اس پر عمل کیا چنانچہ بکثرت ایسے خاندان میرے علم میں آتے رہے جن کے بڑے تو اسی طرح اخلاص میں قائم رہے مگر نسلیں ہاتھوں سے پھسل گئیں اور واپس دنیا داری کی طرف لوٹ گئیں.بعض ایسے بھی واقعات ہوئے جو بہت تکلیف دہ تھے کہ اگر عیسائیت سے وہ خاندان آیا تو اگلی نسل رفتہ رفتہ سرکتی ہوئی واپس عیسائیت میں چلی گئی.اس سے معلوم ہوتا تھا کہ باشعور طور پر انہیں اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی کوشش نہیں ہوئی اور جو خاندانی تعلقات کے اسلامی تصورات ہیں ان کے مطابق خاندانی تعلقات کو ڈھالا نہیں گیا ورنہ یہ ناممکن ہے کہ ماں باپ اسلامی قدروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں سے پیار اور تعلق رکھیں، انہیں اپنے قریب کریں اور اپنے گھروں کو ان کی دلچسپیوں کا مرکز بنا ئیں اور پھر بھی وہ بچے سرک کر باہر نکل جائیں، یہ فطرت کے خلاف بات ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ کیسی ہی زہریلی سوسائٹی کیوں نہ ہو جہاں خاندانوں کے تعلقات اسلامی اقدار کے مطابق باندھے جاتے ہیں اور انہیں قائم رکھا جاتا ہے وہاں انگلی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ محفوظ رہتی ہیں اور باہر سے زیادہ ان کا دل گھر میں لگتا ہے.پس اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے کہ امریکہ میں بہت ہی اچھے آثار ظاہر ہورہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے بھی جو امریکن بچے یعنی پاکستان سے آکر بنے ہوئے امریکن نہیں بلکہ یہیں کی زمین کی پیداوار اور نہیں پلنے بڑھنے والے بچے اللہ کے فضل سے ایسا گہرا تعلق رکھنے لگ گئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور ان کی محبت آئندہ اس اسلام کے خوش آئند مستقبل کی ضمانت دے رہی تھی.پس اس پہلو سے ابھی ہمیں اور کام کرنے کی ضرورت ہے احمدی خاندانوں میں جو باہر سے آکر یہاں بسے ہیں ان میں ابھی مزید اس پہلو سے اصلاح کی ضرورت ہے.بہت سے بچے میں نے ان میں سے ایسے دیکھتے ہیں جن کی نظروں میں غیریت آچکی تھی.جن میں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مل کر کچھ اثر تو قبول کر رہے ہیں لیکن ماں باپ کے دباؤ کے نیچے یا مشوروں کے مطابق منت سماجت کے نتیجے میں وہ اس موقع پر پہنچ گئے ہیں مگر خود دل کے شوق سے نہیں آئے اور ان کی اجنبیت ان کے لباس، ان کے رنگ ڈھنگ، ان کے اٹھنے بیٹھنے ، ان کے دیکھنے

Page 798

خطبات طاہر جلد 13 792 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء کی طرز سے بالکل ظاہر ہوتی تھی.تو ایسے موقعوں پر میں کوشش تو کرتا ہوں کہ ان سے ذاتی تعلق قائم ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی آنکھوں میں بسا اوقات ملاقات کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ہی پاک تبدیلیاں دکھائی دینے لگتی ہیں.مگر یہ چند لھوں کا کام نہیں اس کے لئے لمبی محنت کی ضرورت ہے، حکمت کی ضرورت ہے.وہ ماں باپ جو اپنے بچوں سے پیار ہی نہیں عزت کا سلوک بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نظم و ضبط کو بھی قائم رکھتے ہیں وہی ہیں جو کامیاب ہیں اور جن کے متعلق کسی حد تک اطمینان سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ آئندہ اچھی نسل آگے بھیجیں گے اور اطمینان کے ساتھ خدا کے حضور لوٹیں گے کہ ہماری نسلیں بھی انہی قدروں پر قائم ہیں جو قدریں ہم نے اپنے آبا ؤ اجداد سے ورثے میں پائی تھیں.پس اس پہلو سے جو ، اب زیادہ قابل فکر پہلو ہے کہ جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں اور بہت بڑی تعداد ایسوں کی ہے جن کے اقتصادی معیار پہلے بہت چھوٹے تھے اور یہاں آکر دنیا داری کے اثرات ان کے چہروں پر دکھائی دینے لگے ہیں.بچوں ہی میں نہیں ، بعض دفعہ بڑوں میں بھی میں نے دیکھا بعض خواتین آئی ہیں جو ساری عمر ربوہ میں پلنے والی ، وہاں پردوں کی پابند اور حیادار، یہاں آتے ہی ان کو پردے سے حیا ہو گئی ہے بجائے غیروں سے حیا کے اور برقعہ معلوم ہوتا تھا وقتی طور پر مجھے دکھانے کے لئے استعمال ہوا ہے اور جب باہر موقع ملا جانے کا برقع اتارا اور بغل میں دبایا اور پھر اسی دنیا میں واپس لوٹ گئیں جہاں سے عارضی طور پر چھٹی لے کر ملنے آئی تھیں.یہ نظارے بہت ہی تکلیف دہ ہیں.میں ان لوگوں کے ماں باپ کو بھی جانتا ہوں.غریبانہ زندگی مگر بہت ہی اخلاص تھا اور اخلاص کے نتیجے میں وہ روحانی طور پر بہت امیر لوگ تھے.تو جو دولت رکھنے کے لائق تھی وہ تو پھینک دی اور جو بے اعتنائی کے لائق تھی اس کے غلام بن گئے یہ کوئی اچھا سودا نہیں ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت امریکہ کو با قاعدہ منصوبہ بنا کر مزید اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ان لوگوں کو اپنے آباؤ اجداد کی یادیں زندہ رکھنے میں مدددینی چاہئے.یہ ایک بہت ہی اہم کام ہے جس کی طرف میں نے ایک دفعہ افریقہ کے دورے میں توجہ دلائی تھی اور بعض ملکوں نے اس پر عمل درآمد بھی کیا اور بہت فائدہ پہنچا.ہم میں سے وہ لوگ جو پاکستان سے یہاں آباد ہوئے ہیں وہ بھی اور وہ لوگ جو یہاں

Page 799

خطبات طاہر جلد 13 793 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /اکتوبر 1994ء اسلام میں داخل ہوئے ہیں وہ بھی اپنا بہت شاندار ماضی ضرور رکھتے ہیں کیونکہ بہت سے افریقن احمدی اور بعض ان میں سفید فام احمدی بھی ہیں انہوں نے خود اسلام قبول نہیں کیا ان کے آباؤ اجداد نے قبول کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے قربانیاں بھی دیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت معجزے بھی دیکھے.چنانچہ ان بزرگوں کی یاد کو تازہ رکھنا اور بار بار یاد دلاتے رہنا یہ کام ایک منظم کوشش کو چاہتا ہے اس پہلو سے یہاں کے جو رسائل ہیں ان میں یہ ذکر خیر جاری رہنا چاہئے اور آئندہ نسلوں کو ان کے آباؤ اجداد کی باتیں بتاتے رہنا چاہئے کہ انہوں نے کس قیمت پر احمدیت حاصل کی تھی اور کیسی کیسی قربانیاں اس راہ میں دی تھیں.بہت سے ایسے خاندان میری نظر میں ہیں جن میں یہ کمزوریاں واقع ہوئی ہیں لیکن ان کے آباؤ اجداد نے بہت عظیم الشان قربانیاں دین کو حاصل کر کے اس کو قائم رکھنے کے لئے دیں اور تمام عمر وہ یہ قربانیاں پیش کرتے رہے.ان کی روحوں کو اگر طمانیت پہنچانی ہے، اگر ان سے محبت ہے، ان کے احسانات کا حق ادا کرنا ہے تو سب سے اعلیٰ طریق یہ ہے کہ انہی کی قدروں کو اپنی ذات میں زندہ رکھیں.ایک نسل جو آ کر گزرجاتی ہے وہ کبھی نہیں مرتی اگر ان کی خوبیاں اگلی نسل میں زندہ رکھی جائیں اور ان کی حفاظت کی جائے.مرتے وہ لوگ ہیں جن کی قدریں ان کے ساتھ مر جاتی ہیں اور قدروں کے ساتھ ہی عزتیں وابستہ ہوتی ہیں.قدروں کے ساتھ ہی محبتیں وابستہ ہوتی ہیں.اگر ایک انسان غریب ماں باپ کا بیٹا ہو اور ترقی کر جائے اور ماں باپ کی قدریں کھو بیٹھا ہو تو وہ ماں باپ اس پر بوجھ بن جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں ان کے ساتھ میرا میل جول ، لوگوں کا دیکھنا کہ میرے ماں باپ کس زمانے کے لوگ ہیں، کیسا رہن سہن ہے، میرے لئے شرمندگی کا موجب ہو گا کیونکہ ان کی نظر میں دنیا کی قدریں بچ جاتی ہیں اور ماں باپ کے اعلیٰ اخلاق اور ان کے روحانی مقامات ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے.وہ جن کی نظر میں یہ حقیقت رکھتے ہیں ان کو دنیا کی نظروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ ان قدروں سے وابستہ ہوتے ہیں.وہ بڑی عزت اور محبت اور احترام سے ان لوگوں کو ، اپنے بزرگوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کی عزت کی وجہ سے دنیا بھی ان کا بہت احترام کرتی ہے.ان کی غربت اور سادگی دنیا کو انہیں چھوٹا نہیں دکھاتی بلکہ اور بڑا کر کے دکھاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عظمت نہ کپڑوں سے وابستہ ہے، نہ دولت سے وابستہ ہے، اعلیٰ اقدار ہی سے وابستہ ہے اور اہل نظر پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کون سی باتیں قدر کے لائق ہیں.

Page 800

خطبات طاہر جلد 13 794 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء اس لئے بعض دفعہ بعض احمدی خاندان بے وجہ خوبیوں سے شرمندہ ہوتے پھرتے ہیں اور بدیوں کو اعزاز سمجھتے ہیں جبکہ دنیا والے جانتے ہیں کہ خوبیاں ہی قابل قدر ہیں اور قابل احترام ہیں.مجھے یاد ہے قادیان میں جب باہر سے بعض معززین آیا کرتے تھے یعنی دنیا کے لحاظ سے بڑے لوگ، وہ مطالعہ کے لئے آتے تھے ، سب سے زیادہ وہ قادیان کی سادگی اور غریبانہ زندگی سے متأثر ہوتے تھے اور حقیقت میں کبھی اگر گودڑیوں میں لعل دکھائی دیتے تھے تو قادیان کا وہ زمانہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ان گلیوں میں پھرتے اور پرانی اقدار کا نور لئے پھرتے تھے جس سے وہ گلیاں روشن دکھائی دیتی تھیں.وہ عجیب زمانہ تھا.میں نے بارہا دیکھا ہے کہ باہر سے آنے والے ایک رات بعض دفعہ گزار کر جاتے تھے ان کی کایا پلٹ جاتی تھی.ایک دفعہ میرے گورنمنٹ کالج کے ایک دوست جو میرے ساتھ وہاں رہتے تھے جماعت میں اگر کوئی دلچسپی تھی تو میری وجہ سے ایک تعلق تھا مگر دل میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں پیدا ہوئی کہ گویا وہ جماعت کی بحیثیت جماعت قدر کریں اور عزت کریں.وہ سمجھتے تھے ایک شخص ہے بس اس سے تعلق ہے.ایک دفعہ ان کو میں نے قادیان بلایا اور غالبا ایک دورا تیں ٹھہرے ہیں وہاں اور جاتی دفعہ ان کی آنکھوں میں آنسو.کہتے تھے مجھے تو دنیا میں جنت کا آج پتا لگا ہے کیا ہوتی ہے اور وہ غریب لوگ تھے جو بسنے والے، وہاں کوئی شان و شوکت نہیں تھی یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ قادیان میں گنتی کی دو یا چار کاریں ہوں گی اور وہ بھی جب نکلتی تھیں تو احتیاط سے چلا کرتی تھیں کہ لوگوں پر گرد نہ پڑے.سڑکیں بھی ٹوٹی پھوٹی ، گڑھوں والی اور غریبانہ زندگی لیکن عظمت کر دار نمایاں تھی اور وہ گلیاں دن کو بھی روشن رہتی تھیں، رات کو بھی روشن رہتی تھیں اور ان میں کبھی کوئی جھجک پیدا نہیں ہوئی دنیا کے سامنے.بڑی عزت سے سراٹھا کر چلتے تھے اور جانتے تھے کہ یہی قدریں ہیں جو تحسین کے لائق ہیں باقی دنیا بے چاری محروم ہے.وہ تکبر سے عاری تھے، باقی دنیا کو حقارت سے نہیں دیکھا کرتے تھے عزت سے ملتے تھے، جھک کر ملتے تھے مگر ان سے متاثر ہو کر نہیں، اپنی اعلیٰ قدروں کی وجہ سے، جنہوں نے انہیں انکسار بھی سکھایا اور بتایا کہ یہ اعلیٰ قدریں تکبر پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ انکسار پیدا کرنے کے لئے ہیں.پس اسلامی قدریں ایک ایسی اعلیٰ دولت ہے جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ

Page 801

خطبات طاہر جلد 13 795 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء اسلام نے جو خدا کا تصور پیش کیا ہے یہ اس لائق ہے کہ جان دے کر بھی ملے تو لیا جائے، یہ ایک انمول خزانہ ہے.پس احمدیت کچھ تو عقائد سے وابستہ ہے اور وہ عقائد بھی اللہ کے فضل سے روشن اور زندہ رہنے والے اور غالب آنے والے ہیں.لیکن کچھ قدروں سے وابستہ ہے جو ہماری ذات میں زندہ رہتی ہیں.ان قدروں کو زندہ رکھیں گے تو آپ کے عقائد میں دنیا دلچسپی لے گی ورنہ عقائد کیسے ہی روشن اور مضبوط اور دلائل میں قوی کیوں نہ ہوں، دلائل کے قومی سہارے کیوں نہ رکھتے ہوں ، عقائد کی طرف توجہ نہیں جایا کرتی جب تک ان عقائد کے رکھنے والوں کے عظیم کردار کا انسان مشاہدہ نہ کرے.پس اس پہلو سے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ان خاندانوں کو جو بہت بزرگ لوگوں کی اولاد تھے.مشہور نہیں بھی تھے تو بزرگ تھے، سادہ غریبانہ کپڑوں میں پھرنے والے اہل اللہ لوگ تھے جن کی دعائیں قبول ہوتی تھیں، جن پر دن رات اللہ تعالیٰ کی قربت کے نشان اترا کرتے تھے.ان لوگوں کی نسلوں کو ان کے آباؤ اجداد کا روشن ماضی تو بتائیں تا کہ اس روشنی سے کچھ حصہ لے کر ان کا حال روشن ہو جائے اور وہ اس دنیا کے اندھیروں کو اس مستعار روشنی کے ذریعے روشن کر سکیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.اگر یہ جماعت نے منظم کوشش نہ کی تو مجھے ڈر ہے کہ یہاں کا معاشرہ ایسا ہے، یہاں کی تہذیب ایسی ہے کہ لوگ سرکتے سرکتے ، رفتہ رفتہ دور ہٹنے لگیں گے اور بہت نہیں تو کم سہی مگر ہیں ضرور جو ہٹ چکے ہیں اور جہاں ماں باپ کی نظریں بدلیں وہاں اولاد کی نظریں اور زیادہ بدل جاتی ہیں.پس ان قدروں کی حفاظت کے لئے آپ جتنی بھی توجہ کریں گے کم ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جہاں تک لاس اینجلس اور واشنگٹن اور دیگر جگہوں پہ جلسوں کا انتظام تھا اور جلسے نہیں تھے تو مل بیٹھنے کا انتظام تھا.وہاں سب جگہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جماعت نے غیروں کے ساتھ ملاپ میں کسی قسم کا احساس کمتری نہیں دکھایا اور پردے کا خیال رکھا.احمدی خواتین الگ بیٹھتی تھیں اور مہمان مرد الگ بیٹھتے تھے اور ہر پہلو سے اس کو کھل کر بڑے فخر ، یعنی فخر کے معنی تکبر نہیں ، بلکہ اس احساس کے ساتھ کہ ہماری قدر اونچی ہے، انہوں نے اس پر عمل کیا اور کہیں بھی مجھے کوئی کسی قسم کی شرمندگی دکھائی نہیں دی ، کہ اوہو یہ تو مغربی تہذیب ہے لوگ کیا کہیں گے ، یہ عورتیں کیسی ہیں ، یہ الگ کیوں بیٹھی ہوئی ہیں، ان کے مرد کیسے بدھو اور جاہل ہیں کہ اپنی عورتوں کی نمائش نہیں کر رہے.کوئی ایسا تصور ان کے

Page 802

خطبات طاہر جلد 13 796 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء قریب بھی نہیں پھٹکا.مجھے افسوس ہے کہ اس پہلو سے نیو یارک وہ نمونہ نہیں دکھا سکا جو اس سے پہلے جماعتیں دکھاتی رہیں.اگر چہ یہاں کا اجلاس کہہ لیں یا ملن پارٹی تھی وہ کئی پہلوؤں سے پہلی جگہوں کی نسبت زیادہ بہتر طور پر منظم تھی اور بہت محنت کی گئی تھی.بہت اچھے اچھے لوگوں کو بلایا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ بہت نیک تأثرلے کر لوٹے ہیں لیکن ایک پہلو سے یہ تقریب میرے لئے مسلسل شرمندگی کا موجب رہی کیونکہ میں نے دیکھا کہ بعض مردوں کی میزوں میں احمدی خواتین جو حیا دار خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں، وہ بیٹھی ہوئی تھیں اور بے جھجک ان لوگوں سے باتیں کر رہی تھیں.شاید ان کے خاوندوں نے کہا ہو کہ ہم اپنے دوستوں میں ذلت محسوس کریں گے اگر تم الگ بیٹھو گی اور وہ کہیں گے کہ تم کیسے پرانے زمانے کے لوگ ہو جومل جل کر ہمارے اندر نہیں بیٹھتے.شاید اس وجہ سے وہ مجبور ہوئے ہوں کہ عام روز مرہ ان کا یہی دستور تھا اور اب ان میں تبدیلی کرنے کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا تھا.میری موجودگی ہی ایک جواز تھا لیکن ان کا اثر ان پر اتنا غالب آچکا تھا کہ وہ مجھ سے شرمندہ ہونا منظور کر گئے اور مجھے شرمندہ کرنا قبول کر لیا لیکن اپنے دوستوں سے شرمندہ ہونا انہوں نے منظور نہ کیا.ایسے موقع پر اگر کثرت کے ساتھ دوسرے مہمان نہ ہوتے تو میں اٹھ کر چلا آتا کیونکہ میری موجودگی کی بہت سی ذمہ داری مجھ پر پیدا ہوتی ہے.اگر میں ایسی مجلس میں بیٹھا ر ہوں تو آئندہ تاریخ غلط استنباط کرسکتی ہے.لوگ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں وقت ہم نے خود دیکھا ہے خلیفہ وقت بیٹھا ہوا تھا اور خوب مزے کی مجلس تھی اور احمدی خواتین غیروں کی میزوں میں ساتھ ہی بیٹھی ہوئی ان کے ساتھ گپ شپ مار رہی تھیں تو تمہیں خلیفہ سے زیادہ اسلامی قدروں کا احساس ہے جو آج ہمیں ٹوک رہے ہو.یہ بات نہایت ہی خطرناک ہے اور میں جماعت نیو یارک کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر یہ مجبوری ہے جس کی وجہ سے مجھ پر لازم ہو گیا ہے کہ تاریخی حقائق کو کھول کر آپ کے سامنے رکھوں.وہ وقت ایسا تھا ، وہ حالات ایسے تھے کہ میں کھلم کھلا اپنی نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکتا تھا اور ان کا گویا زبان حال سے مجھے یہ پیغام تھا کہ اب بتا ئیں آپ کیا کر سکتے ہیں، کوئی سزا دے سکتے ہیں تو دے کے دکھا ئیں.مگر میں تو سزا نہیں دیا کرتا ایسے موقعوں پر لیکن میں سزا لیا ضرور کرتا ہوں.پس ان کو میرا جوابی پیغام یہ تھا کہ تم مجھے سزا دے لو جتنی چاہو میں مجبور ہوں، میں نے بعض قدروں کی حفاظت کرنی ہے مگر بعض دوسری قدروں کے تقاضے بھی ہیں جن کے پیش نظر بعض دفعہ انسان بے بس

Page 803

خطبات طاہر جلد 13 797 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء ہو جاتا ہے لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ آئندہ ایسی احتیاط کریں ورنہ مجھے ایسی مجلسوں میں نہ بلایا کریں.احمدی خواتین کو جتنا ان کا بنیادی ضروری حق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میں نے ہر موقع پر دیا اور اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ ہماری جماعت میں جو زیادہ مولویانہ ذہن رکھتے ہیں وہ مجھ پر کیا کیا اعتراض کریں گے اور کیسے کیسے حملے کریں گے.اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ وہ جو مولویانہ ذہن رکھتے تھے ان کے اندر بھی کچھ ایسی پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں کہ اب ان کی زبانیں اس طرح نہیں کھلتیں جیسے بعض زمانوں میں کھلا کرتی تھیں اور نظام جماعت کے احترام کے لئے جتناز ور دیا گیا ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا نتیجہ ظاہر ہوا ہے.شاذ کے طور پر کبھی مجھے خطوں میں یہ بات لکھ دی جاتی ہے جو کسی کو نا پسند ہو اور میں خطوں ہی میں اس کا جواب دے دیتا ہوں کیونکہ اکثر مجھے معلوم ہے کہ اب وہ بات نہیں کہ مجلسوں میں بیٹھ کر لوگ طعن و تشنیع کریں اور احمدی آرام سے ان کو قبول کریں.اب احمدی غیرت کا معیار بھی خدا کے فضل سے اتنا بلند ہو گیا ہے اور خلافت کے ساتھ ذاتی تعلق اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے.بجائے کم ہونے کے میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا معیار بہت بلند ہو رہا ہے.اس وجہ سے اب اگر کوئی بیمار دل ہے بھی تو اسے جرات نہیں ہے کہ کسی احمدی مجلس میں اس طرح خلافت کے کسی کردار کو یا نظام جماعت کو تضحیک کا نشانہ بنائے اور لوگ سن لیں.اس لئے بعض بیماریاں وقتی طور پر ان کے لئے ناخوش گوار ماحول کی وجہ سے دبی رہتی ہیں، دب جاتی ہیں مگر چونکہ اپنے طور پر لوگوں کی نظر سے ہٹ کر مجھے خط لکھنا آسان ہے اس لئے ایسے لوگ اپنے دل کا غصہ خطوں کے ذریعے نکال لیتے ہیں مگر بہت کم ہورہے ہیں اور جو نکالتے ہیں ان کو جب میں جواب دے کر سمجھا تا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ شاذ کے طور پر ہی کوئی ہوگا جو اس کو قبول نہ کرے ورنہ اکثر معذرت کا بھی اظہار کرتے ہیں، کہتے ہیں ہمیں بات کی سمجھ نہیں آسکی تھی، اب سمجھ گئے ہیں اور مطمئن ہیں.تو یہ بات ہے جس کے پیش نظر اس موقع پر میرے لئے ضروری تھا کیونکہ یہ ایک پبلک اظہار تھا، یہ کوئی پرائیویٹ خطا نہیں تھا اور عام کھلے بندوں اگر کوئی ایسا اظہار ہو جس میں میں موجود ہوں اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار نہ کروں ، خواہ اس وقت نہیں تو بعد میں سہی تو آئندہ جماعت کی تاریخ بگڑ جائے گی اور اسلامی قدروں کی حفاظت ہمارے لئے آسان نہیں رہے گی.اس لئے قطعاً اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ دنیا آپ کو کس نظر سے دیکھتی ہے.

Page 804

خطبات طاہر جلد 13 798 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء بسا اوقات خرابی مردوں میں ہوتی ہے.بعض ایسے خاندان ہیں جن کی شادیاں ایک ایسے خاندان میں ہوئیں جن کے لڑکے اللہ کے فضل سے یہاں آنے کے بعد بڑے مخلص اور جماعت کے کاموں میں پیش پیش تھے مگر احساس کمتری میں مبتلا.چنانچہ ان کی لڑکیاں جب وہاں بیاہی گئیں تو مردوں نے کہا کہ ہمارے لئے تو بڑی ذلت کی بات ہے کہ تم پردہ کر کے رہو یا ایسا لباس ہی پہنو کہ لوگوں سے الگ چھپتی پھر و یا ہمارے ساتھ مل کر مکس پارٹیوں میں نہ جاؤ.ہم نیک ہیں، مخلص ہیں، چندے دیتے ہیں لیکن یہ بات ہمیں پسند نہیں کہ تم پرانے زمانے کی قدروں کو ہمارے اوپر وارد کرو.ایسی ایک ماں نے مجھ سے ذکر کیا، وہ رو رہی تھی کہ میں کیا کروں، میری بچی کا بہت برا حال ہے اور بڑی تکلیف میں ہے اور وہ یہاں تک بھی تیار ہے کہ اپنے خاوند کو کہہ دے کہ اگر یہ بات ہے تو میں دنیا کی خاطر اسلام کی قدروں کو قربان نہیں کروں گی کیونکہ میں عہد کر چکی ہوں کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی.اس لئے تم سے محبت الگ تمہاری نیکیاں اپنی جگہ مگر میں تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی.مجھ سے انہوں نے پوچھا میں نے کہا جو بات اسلام کی محبت اور اسلامی قدروں کی غیرت کے نتیجے میں کسی احمدی بچی کے دل میں پیدا ہوتی ہے میں اس کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں اور آج اگر یہ ہے تو کل یہ بات اور بھی بگڑ سکتی ہے.کل بچے بھی پیدا ہوں گے ان کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی.آج یہ تربیت یافتہ بچی اگر اپنی عصمت کی حفاظت کر سکتی ہے تو ایک کھلے کھلے ماحول میں آئندہ بچوں کی تو کوئی ضمانت نہیں ہے.اس لئے جو سودا ہے یہ لمبا سودا ہے اور احتیاط کے جو تقاضے ہیں انہیں پورا کرنا چاہئے.مگر اصل بات یہ ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے لوگ اگر اپنے نفس پر غور کریں تو ان کو یقین ہو جائے گا کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہیں نیکی وہاں کرنا جہاں دوسروں کے سامنے وہ نیکی شرمندگی کا موجب نہ ہو، ایسی نیکی ایک اپنا مقام رکھتی ہے لیکن نیکی وہاں کرنا جہاں دوسروں کے سامنے وہ نیکی شرمندگی کا موجب ہو وہ اصل مقام ہے جہاں نیکی پہچانی جاتی ہے، جہاں نیکی کا امتحان ہوتا ہے اور ان راہوں پر یہ خیال کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور یہ خیال کہ دنیا مجھے دیکھ رہی ہے ان دونوں خیالات کا ایک ٹکراؤ ہوتا ہے.اس تصادم کے نتیجے میں جو بھی شخصیت ظاہر ہوتی ہے وہ یاد نیا دار شخصیت ہے یا دین دار شخصیت ہے اور ایک دفعہ اگر آپ اس تصادم میں خدا کے تصور کو پرے پھینک دیں اور دنیا کی آنکھ کی قدر کریں تو آپ کا ظاہری نیکیوں کا خول بھی رفتہ رفتہ

Page 805

خطبات طاہر جلد 13 799 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء گھل جائے گا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت کی طرف چلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ عین جنت کے دروازوں پہ پہنچ جاتے ہیں مگر پھر کوئی ایک بات ان میں ایسی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں پرے دھکیلنا شروع کرتا ہے اور یہاں تک کہ وہ دور ہٹتے ہٹتے جہنم کی طرف رخ اختیار کر جاتے ہیں.(مشکوۃ) وہ بنیادی باتیں جو خدا کی محبت اور غیرت سے تعلق رکھتی ہوں اور تصادم کے وقت جن کی آزمائش ہو وہ باتیں ہیں جن میں انسان کے دل کی گہرائی میں موجود نیکی ضرور اپنا اثر دکھاتی ہے اور دل کی گہرائی میں موجود بدی ضرو رنگی ہوکر باہر جاتی ہے.احساس کمتری کیوں اور کس وجہ سے؟ معاشرے سے شرمندہ ہو، اس خیال سے کہ اسلام نے ہمیں آئندہ زمانوں سے پیچھے رکھا ہوا ہے.اگر یہ بات ہے تو پھر خدا پر ایمان متزلزل ہو چکا ہے.اگر یہ بات ہے تو آپ کو مزید مطالعہ کی ضرورت ہے کہ کسی ایسے خدا سے تعلق رکھنا مناسب بھی ہے کہ نہیں جو قدیم زمانوں کے لئے تو موزوں تھا موجودہ زمانے کے لئے ایک قدیم چیز بن چکا ہے.یہ ایک تصادم ہے، اعتقاد کا تصادم ہے.جو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں آپ کے طرز عمل میں ظاہر ہوتا ہے.پس اس پہلو سے اپنا گہری نظر سے جائزہ لیتے رہیں اور اپنے اعمال پر نگاہ رکھیں کیونکہ سب سے بڑا صلى الله شر جس سے بچنے کے لئے حضرت محمد مصطفی یہ دعا کیا کرتے تھے اور ہمیں سکھاتے رہتے تھے اور خطبات میں وہ دعا پڑھا کرتے تھے وہ ہے مِن شُرُورِ أَنْفُسِنَا ( نسائی کتاب الجمعہ حدیث : 1387) اے خدا ہم تیری پناہ مانگتے ہیں خصوصیت سے اپنے نفسوں کے شر سے کیونکہ نفس کا شر جب حملہ کرتا ہے تو دکھائی نہیں دیتا اندر سے دوست بن کر اٹھتا ہے اور بظاہر دوستی کے رنگ میں نیک مشورہ دیتا ہے.پس اگر آپ قرآن کریم میں شیطان کے حملوں کا ذکر پڑھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ بعینہ یہی نقشہ شیطان کے حملوں کا قرآن میں کھینچا گیا ہے کہ وہ ان طرفوں سے آتا ہے جہاں تم اس کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر حملہ آور دکھائی نہ دے تو اس سے بچاؤ کے کوئی سامان نہیں.پس جب یہ دعا پڑھی جاتی ہے اور ہمیں تاکید سے لکھائی گئی ہے کہ اے خدا ہم اپنے نفسوں کے شر سے پناہ مانگتے ہیں اور تیری پناہ میں آتے ہیں تو تو ہماری حفاظت فرما کیونکہ تو دیکھ رہا ہے اور ہم نہیں دیکھ رہے.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن مثالیں وہی ہیں کہ شیطان نے نفس کے اندر سے اپنا بن کر، ہمدرد ہو کر ایک مشورہ دیا ہے اور آپ نے اسے قبول کر لیا ہے.جبکہ جانتے ہیں کہ اس کے مقابل

Page 806

خطبات طاہر جلد 13 800 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /اکتوبر 1994ء پر خدا تعالیٰ کی تعلیم کا مشورہ مختلف تھا.جو کچھ بے چاری عورت سے مغربی معاشرہ سلوک کر چکا ہے وہ بہت بھاری ظلم ہے.اسے کھلونا بنالیا گیا ہے اور ہر کس و ناکس کے جذبات کی تسکین کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے.تمام معاشرہ اسی مرکزی فلسفے کے گرد تعمیر ہوا ہے اور مزید تعمیر ہوتا چلا جا رہا ہے.اس تصور نے گھروں کو برباد کر دیا.خاوند کا بیوی سے اعتبار اٹھا دیا.بیوی کا خاوند سے اعتبار اٹھا دیا.وقتی طور پر چند دن کی لذت یابی نے آئندہ مستقبل کو ایک بھیانک مستقبل میں تبدیل کر دیا.یہ چند دن کی زندگی کے مزے بالآ خر اس حال کو پہنچتے ہیں جب چاہیں بھی تو مزہ لے نہیں سکتے.بیماریاں، بڑھاپے اور پھر تنہائی کیونکہ وہ معاشرہ جو اپنی لذت یابی کو اہمیت دیتا ہے وہ غیر معمولی شدت کے ساتھ خود غرضی پیدا کرتا ہے.پس بچے اس وقت تک ماں باپ سے تعلق رکھتے ہیں جب تک ماں باپ ان کے لئے کچھ کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.جہاں ان کے احسان سے آزاد ہوئے اور وہ موقع آیا کہ ماں باپ احسان کے محتاج ہو جاتے ہیں اس وقت وہ بچے منہ پھیر لیتے ہیں اور بوڑھوں کے گھر ، بیماروں کے گھر جو قو می خزانے پر چلتے ہیں وہ اتنا بھر جاتے ہیں کہ ان میں جگہ باقی نہیں رہتی.بعض ایسے لوگوں کو پاگل خانوں میں داخل کرا دیا جاتا ہے.بعض گلیوں میں کارڈ بورڈ کے گھر بناتے ہوئے شدید سردیوں میں گزارا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ان میں جوان بھی ہیں لیکن ایسے بوڑھے بھی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں.اس لئے کہ معاشرہ زہریلا ہے اور اس کی قدر میں جھوٹی ہیں.ہم نے دنیا کے معاشرے کو سبھی قدریں دینی تھیں.اگر ہم ہی احساس کمتری کا شکار ہو کر گھروں سے نکلیں گے تو کس طرح ان قدروں کو قائم رکھ سکیں گے.کس طرح دوسروں کو یہ قدریں عطا کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ قادیان کا زمانہ جس کا میں نے حوالہ دیا ہے وہ آزاد زمانہ تھا.انسان وہی آزاد ہے جو غیر اللہ کے خوف سے آزاد ہو اور وہ سب لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر اللہ کے خوف سے آزاد تھے ایک ذرہ کوڑی کی بھی ان کو پرواہ نہیں تھی کہ غیر اللہ کی نظر انہیں کیسے دیکھ رہی ہے.اپنی نظر خدا کی نظر کے تابع کر چکے تھے اور ہر آن ان کو خدا کی نظر دیکھتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا جو بہت پیارا کلام بار بار پڑھا جاتا ہے اس میں ایک یہ ہے.حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی (درشین :34)

Page 807

خطبات طاہر جلد 13 801 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء اس میں جو ٹیپ کا مصرعہ ہے جو بار بار دھرایا جاتا ہے سُبحَانَ مَنْ يُرَانِى اس میں آتا ہے.میں قربان اس ذات کے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی بڑا ہی پاک ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اس پر جتنا بھی غور کریں کم ہے.بہت ہی گہرا کلام ہے اور زندگی میں عمل کے پیچھے جونیتیں ہیں ان سب پر حاوی ہے اور اصلاح احوال کی چابی اس میں ہے.ہرانسان دوسرے کی نظر کے لئے حساس ہوتا ہے.تنہائی میں جو چاہے کر لے لیکن جب نظر میں آجائے تو پھر اسے ایک فکر ہوتی ہے کہ میں دیکھنے والے کی نظر کے معیار کے مطابق اپنے آپ کو بناؤں.اب مادہ پرست دنیا میں رہتے ہوئے دیکھنے والے کی نظر سُبحان نہیں ہے.اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی وہ تو بد نظریں ہیں ، وہ تو بگڑی ہوئی نگا ہیں ہیں.وہ جو آپ سے توقعات رکھیں گی وہ بدی اور بگاڑ کی توقعات ہوں گی اور اگر آپ ان کی نظروں میں رہتے ہیں تو پھر آپ محفوظ نہیں ہیں اور اگر آپ کو یہ احساس ہی نہیں کہ ایک اور نظر بھی ہے جو دیکھ رہی ہے تو سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی جو پاک نظر ہے اور ہر حال میں آپ کو دیکھتی ہے، تنہائیاں بھی آپ کی اس نظر سے الگ نہیں رہتیں.تو یہ وہ نظر جو مادہ پرستی کی ، دنیا کی نظر ہے وہ اس کے سامنے بالکل اس طرح غائب ہو جائے گی جیسے کوئی چیز فضا میں تحلیل ہو کر نظر سے دور ہو جائے.کچھ بھی اس کا پھر رفتہ رفتہ وجود نہیں رہتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام آپ کی صداقت کا عجیب ثبوت ہے لیکن یہ جو ٹکڑا ہے جب میں اس پر پہنچ جاتا ہوں تو میری روح وجد میں آ جاتی ہے.عجیب کلام ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی.پاک ہے وہ ذات جو ہر حال میں مجھ پہ نظر رکھ رہی ہے اور پاک نظر ہر حال میں اسی پہ پڑتی ہے جس کے اعمال پاک ہوں ، جس کی نیتیں پاک ہوں کیونکہ پاک نظر کو بدی دیکھنے کا کوئی شوق نہیں ہوتا.پس اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جتنا آپ پاک ہوتے چلے جائیں گے اتنا ہی پاک نظر میں آتے چلے جائیں گے اور جب پاک نظر میں آجائیں تو بد نظر کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں رہتی.وہ آپ کو پرانے زمانے کا سمجھیں، جو کچھ کہیں.آپ کو کیا پر واہ ہے اگر اللہ کی نظر آپ پر ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اس نظر کی ایک قدر ہمارے دل میں ہے دوسری نظروں کی کوئی قدر نہیں ہے.میں نے کئی دفعہ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال جماعت کے سامنے رکھی ہے.وہ

Page 808

خطبات طاہر جلد 13 802 خطبه جمعه فرموده 21 را کتوبر 1994ء ساده مزاج آدمی ، نہ کپڑوں کا خیال، نہ اپنی شکل وصورت کا دھیان کہ کیا دکھائی دے رہا ہوں.حالت یہ تھی کہ بعض دفعہ اپنے بیٹے مظفر کی شلوار پہن کر باہر نکل جایا کرتے تھے جو گھٹنوں تک آتی تھی بمشکل اور اسمبلی کے ممبر.ایک ایسی حالت میں ایک دفعہ پنجاب اسمبلی میں گئے تو آگے پہریداروں نے روک دیا کہ ہم مان ہی نہیں سکتے کہ تم اسمبلی کے ممبر ہو.انہوں نے کہا میں تو ہوں اب تم مانو نہ مانو.اتنے میں کوئی معزز رکن اسمبلی جو بہت معروف تھا وہ آیا اور بڑا جھک کے چودھری صاحب کو سلام کیا، پہریدار کو کہا ایک طرف ہٹو یہ بہت معزز ممبر ہیں اسمبلی کے.تو اسی مظفر کی شلوار میں اسمبلی میں چلے گئے اس لئے کہ اپنے نفس پر اعتماد تھا.اپنے پہ جب اعتماد ہو اور اعلیٰ قدروں کے نتیجے میں اعتماد ہو تو دنیا کی نظروں کی کوئی بھی حقیقت نہیں رہتی.ایک دفعہ چودھری صاحب سے کسی نے پوچھا کہ چودھری صاحب آپ کو جو حضرت مصلح موعود کبھی گورنر سے ملنے کے لئے بھیج دیتے تھے کبھی کمشنر سے کبھی اور حکومت کے اعلیٰ افسروں سے جواکثر انگریز ہی ہوا کرتے تھے تو آپ تو بڑے سادہ سے آدمی ہیں کس کس قسم کے کپڑوں میں ملبوس ہیں لوگ تو کہتے ہیں بڑا Shabby ہے تو آپ کو کبھی خیال نہیں آتا، کوئی جھجک نہیں آتی کہ آپ کس سے ملنے جارہے ہیں اور وہاں جا کر آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے.چودھری صاحب نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ تم کیا بات کر رہے ہو مجھے تو ایک چیز ہے جو ہمیشہ یا درہتی ہے اور وہی میری حفاظت کرتی ہے.جب میں لوگوں سے ملنے جاتا ہوں تو میں کہتا ہوں یہ دنیا کی ایک حکومت کے نمائندہ ہیں اور میں خدا کا نمائندہ ہوں اور خدا کے خلیفہ کا نمائندہ ہوں.اس لئے میرے سامنے تو انہوں نے پنجابی میں کہا کہ ” مینوں تے اؤں لگدا جی ویں سامنے چڑی دا بوٹ بیٹھا ہویا اے.چڑی کے بوٹ کی مثال بڑی پیاری ہے وہ چڑی کا جو بچہ نیا نیا انڈوں سے نکلتا ہے اس پر پر بھی نہیں ہوتے ، وہ چھیچھڑا سا سرخ رنگ کا بالکل بے حیثیت چیز.اگر چڑیا جان ڈال کے اس کی حفاظت نہ کرے تو وہ کچھ بھی نہیں رہتا وہ ایک دو دن بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو وہ مثال دی کہ ”مینوں تے اؤں لگدا جی ویں سامنے چڑی دا بوٹ بیٹھا ہویا اے.میں تو رحم سے اس کو دیکھ رہا ہوتا ہوں.مجھے کہاں یہ خیال پیدا ہو گا کہ کوئی بڑا آدمی مجھ پر حاوی ہو چکا ہے.پس یہ خدا کی عظمت کا احساس جب دل میں جاگزیں ہو جائے ، اپنی قدروں پر فخر جو انکسار پیدا کرتا ہے اور تکبر پیدا نہیں کرتا.یہ وہ ہتھیار ہیں جن کے ساتھ ہم

Page 809

خطبات طاہر جلد 13 803 خطبه جمعه فرموده 21 /اکتوبر 1994ء نے اپنی بھی اس غیر معاشرے میں حفاظت کرنی ہے اور اپنی اولاد کی بھی حفاظت کرنی ہے اور یہ وہ قدریں ہیں جن کو دنیا پہچانتی بھی ہے اور حقیقت میں انہی کی عزت کرتی ہے.یہ وہم ہے آپ کا کہ آپ ان جیسے بننے کی کوشش کریں گے تو آپ معزز ہو جائیں گے اور اپنے جیسے رہیں گے تو یہ آپ کو حقارت سے دیکھیں گے.گہری قدر اور عزت اعلیٰ اقدار کی ہوا کرتی ہے اور اگر آپ اعلیٰ اقدار کے حامل ہوں تو آپ کے کپڑے جیسے بھی ہوں، آپ پر دے کے قائل ہوں، جس طرح چاہیں الگ زندگی بسر کریں، آپ سوسائٹی میں ایک عزت پائیں گے لیکن سوسائٹی میں عزت پانے کے لئے آپ نے بھی وہی کام شروع کیا تو پھر وہی بات پیدا ہو جائے گی کہ خدا کی نظروں میں نہیں رہیں گے.یہ میں محض ایک مثال کے طور پر بتا رہا ہوں آپ کی نظر کا رخ تبدیل کرنے کے لئے نہیں.نظر کا رخ وہی ہے جو ایک ہی ہے اور وہ كلمہ لا إله الا اللہ میں ظاہر فرمایا گیا ہے، جو قبلے میں دکھایا گیا ہے کہ اللہ ہی کی طرف خیال رکھو.اَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقره: 116) عجیب کلام ہے اور اس کے جواب میں پھر سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی کی آواز مومن کے دل سے اٹھتی ہے.قرآن کریم فرماتا ہے جہاں کہیں بھی تم منہ پھیرو گے، جدھر بھی منہ اٹھاؤ گے وہیں خدا کا چہرہ دکھائی دے گا ، ہر وقت اس کی نظر میں ہو.تو کیسا پاکیزہ جواب ہے جو اس الہی کلام کے اثر کو گہرائی سے قبول کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل سے اٹھا سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی ( یہ روز کر مبارک تو آتا ہے اس میں ، لیکن عمداً چھوڑ رہا ہوں ) اصل مصرعے کی جان یہ ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی پاک ہے وہ ذات جو ہر حال میں مجھ پر نگاہ رکھتی ہے ہر حال میں مجھے دیکھتی رہتی ہے.تو یہ عارضی باتیں، چند مشغلے کسی کا آنا اور چلے جانا ، اس کا یہ سمجھنا کہ دیکھو ان کی عورتیں الگ بیٹھی ہوئی تھیں ہمارے ساتھ نہیں جڑ کے بیٹھیں.یہ معمولی حقیر باتیں ہیں.ان لوگوں کی خاطر جنہوں نے آپ کا کچھ نہیں بنانا، آپ کا کچھ نہیں کرنا ، آپ خدا کی نظر میں گر جائیں اور احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی نظر میں خود حقیر ہو جائیں اگر آپ کو علم نہ بھی ہو تو عملاً ایک مومن کی نظر میں ایسا انسان حقیر ہو جاتا ہے.یہ اچھا سودا نہیں ہے.پس میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اپنی قدروں کی حفاظت کریں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، اپنے آباؤ اجداد پر نگاہ رکھیں اکثر آپ میں سے ایسے ہیں جن کے آباؤ اجداد

Page 810

خطبات طاہر جلد 13 804 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء نے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں، بڑی اقدار کے مالک تھے، سادہ لوح تھے، سادہ عادات تھے،سادہ کپڑوں میں ملبوس ہوا کرتے تھے لیکن گدڑی میں لعل اگر واقعہ کبھی کوئی انسان کی صورت میں پھرا ہے تو یہ وہی لوگ تھے جن کو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فیض یاب ہوتے دیکھا اور پھر ان کی صحبت سے ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے فیض یاب ہوئے ، ان قدروں کو لے کر پھریں اور پھیلائیں.اب میں اپنے افریقن بھائیوں کو بھی متوجہ ہو کر دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ آپ نے اس دفعہ میرا دل بہت خوش کیا ہے کیونکہ آپ کے اندر وہ دو قسم کی تبدیلیاں میں نے دیکھی ہیں.ایک یہ کہ ہم احمدیت کی تبلیغ کوضرور پھیلائیں گے.دوسرے یہ کہ آپ کی نسلوں میں جماعت سے تعلق اور محبت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں.یہ وہ استقلال ہے نیکیوں کا جس کی خدا ہم سے توقع رکھتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرُ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: 19) اے لوگو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور یہ نہ سمجھو کہ محض تمہاری ذات کا تقویٰ کافی ہوگا.یاد رکھو اگلی نسل پر نظر ڈالنا ضروری ہے.جیسے خدا تم پر نظر رکھتا ہے ویسے ہی تم خدا کی نمائندگی میں اپنے بچوں پر ہر حال میں نظر رکھو اور یہ معلوم کرو کہ تم آگے کیا بھیج رہے ہو.پس بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ باپ اور بڑی خوش نصیب ہے وہ ماں جو دونوں اپنے پاک، نیک بچوں کو آگے بھیجتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور مصرعہ بھی میں نے کئی دفعہ دہرایا ہے اور جتنی دفعہ بھی دہرائیں اس کی لذت کم نہیں ہو سکتی.ایک دعا میں عرض کرتے ہیں، اپنی اولاد کے حق میں دعائیں دیتے ہوئے.کیسا پیارا کلام ہے.کوئی بدنصیب ہی ہو گا جو ایسے شخص کو جھوٹا سمجھے جس کے منہ سے یہ مصرعہ نکلے کہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا (درشین : 48) عجیب کلام ہے.کوئی جھوٹا آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں خدا سے یہ مانگوں کہ جب میں رخصت ہو رہا ہوں تو دنیا پر میری نظر اس طرح پڑ رہی ہو کہ میری اولا د نیک اور متقی ہو چکی ہو اور تیری نظر میں ، تیری بارگاہ میں مقام حاصل کر چکی ہو.تو یہ ایک بہت ہی عظیم صداقت ہے جس سے ہماری اپنی صداقتیں پہچانی جاتی ہیں اگر آپ

Page 811

خطبات طاہر جلد 13 805 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 /اکتوبر 1994ء کے دل میں یہ تمنا ہو کہ کاش یہاں سے جاتے وقت میں اپنی اولا د کو نیک دیکھوں اور سلسلے سے وابستہ دیکھوں اور مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء اور آپ کے نظام کا عاشق دیکھوں تو یہ آپ کی سچائی کی ایک علامت ہے اور ایسے بچے دل کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں.پس آپ کے لئے تو یہ ایک گنجینۂ معانی ہے، ایک خزانہ ہے مطالب کا ، جو اس مصرعے میں میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے کہ یہ تمنا رکھیں کہ آپ نیک اور پاک نسل پیچھے چھوڑ کر جائیں اور وہ نسل جو آئندہ کے لئے ایک مرتے ہوئے معاشرے کی زندگی کی ضمانت بن جائے.زندگی آخر کیسے ملتی ہے؟ محض عقائد سے زندگی نہیں ملا کرتی.عقائد زندگی کے لئے رستے بناتے ہیں.پس صراط مستقیم دو طرح سے بنتی ہے ایک سچے عقیدوں سے اور دوسرا اس پر چلنے سے.اس کے بغیر رستہ تو بن گیا مگر اگر اس پر سفر نہ کیا تو اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں ہمیں یہ دعا سکھائی.اول یہ کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہمیں وہ رستہ دکھا دے جو پاک عقائد سے بنتا ہے، جس میں کوئی رخنہ نہیں ، جس میں سارے عقائد درست ہیں، اور اس کا رخ ٹھیک ہے.مگر وہ رستہ نہیں جو خالی پڑا ہوا ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ وه رستہ جس پر تجھ سے انعام پانے والے چلتے رہے.یعنی ہمیں بھی اس رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما جس کے چلنے والوں میں سب سے عظیم نام حضرت اقدس حمد مصطفی ﷺ کا نام ہے.ان کے پیچھے پاک انبیاء کا ایک ہجوم ہے جو آپ کے پیچھے چل رہا ہے اور ان کے پیچھے پھر صد یقین ہیں پھر شہداء ہیں پھر صالحین ہیں.کیسا پاک رستہ ہے جس کی طرف پہلے ہدایت کی دعا سکھائی گئی اور پھر چلنے کی توفیق کی وہ دعا سکھائی گئی.پس آپ ان اقدار کو جو احمدیت آپ کو عطا کر رہی ہے ان کو محض اپنے عقیدوں میں اپنے ذہنوں میں جگہ نہ دیں بلکہ اعمال میں ڈھالیں تو پھر دیکھیں آپ مجسم نور بن جائیں گے.قرآن کریم نے نور کے تجسم کا یہ تصور پیش فرمایا ہے کہ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمُ (اتحریم :9) کہ ان کانورسینوں میں چھپا ہوا تو نہیں رہا کرتا کہ کوئی یہ کہے کہ ہاں میں نے اللہ کا نور حاصل کر لیا ہے اور میرے دل میں ہے.اس نور کا کیا فائدہ؟ اس سے تو وہ جگنو بہتر ہے جو تھوڑا نور ہی سہی مگر چمکتا تو ہے کچھ نہ کچھ روشنی تو پیدا کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کے نور کی جو مثال دی ہے وہ

Page 812

خطبات طاہر جلد 13 806 خطبه جمعه فرموده 21 را کتوبر 1994ء یہ ہے کہ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ان کا نوران کے آگے آگے بھاگتا ہے.ان کے رستے ان پر روشن کرتا چلا جاتا ہے.اور وہ بھی جو ان کے ساتھ ہوتے ہیں.ان کے رستے بھی روشن ہوتے رہتے ہیں.پس احمدیت کو اس زندہ نور کے طور پر قبول کریں اور زندہ نور کے طور پر اپنے دل و جان میں جگہ دیں یہاں تک کہ یہ پھوٹے ، آپ کی آنکھوں سے پھوٹے ، آپ کے چہروں سے ظاہر ہو، آپ کے کلام سے پھوٹنے لگے اور آپ کا رستہ اپنے لئے بھی روشن اور منور ہو جائے اور آپ دنیا کے لئے بھی ایسے راہنما بن جائیں کہ روشن رستوں پر ان کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) آخر پر میں جماعت ہائے احمد یہ امریکہ اور جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں.بڑوں نے بھی اور نو جوانوں نے بھی اور چھوٹے بچوں نے بھی، مردوں نے بھی اور خواتین نے بھی بڑی محنت کی ہے اور قطعا تھکاوٹ کے آثار ظاہر نہیں ہونے دیئے.ضرور تھکتے تو ہوں گے لیکن جب کسی سے پوچھا اس نے ہنستے ہوئے کہا کوئی تھکن نہیں ہے بالکل پرواہ نہ کریں.جتنا چاہیں ٹھہریں ہم مسلسل محنت سے آپ کے موجود ہونے کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے جس محبت اور اخلاص سے جماعت نے سلوک کیا ہے اس سے مجھے یقین ہے کہ یہ جو کمزوریاں ہیں یہ سطحی ہیں، گہری نہیں ہیں.دل کی گہرائی میں وہ محبت ہے جو اللہ سے تعلق کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.ور نہ اس زمانے میں، اس دنیا داری کے زمانے میں کون ہے جو اپنے آرام چھوڑ کر ، بڑے بڑے خرچ کر کے، دور دور کے سفر طے کر کے، بار بار وہاں پہنچے جہاں وہ شخص ہو جس کے ہاتھ پر اس نے بیعت کی ہو اور ایسی محبت کا اظہار دنیا کے پردے میں کہیں آپ کو دکھائی نہیں دے گا.پس یہ بتاتا ہے کہ دل مخلص ہیں ، دل بچے ہیں اور اگر دل بچے ہیں تو وہ رخنے جو نظر آنے لگے ہیں وہ ابھی پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکے ، ان کو جڑ نہ پکڑنے دیں کیونکہ میں زمیندار ہوں میں جانتا ہوں کہ کتنی محنت سے کھیت تیار کئے گئے ہوں، اچھی فصلیں ہوں، اگر یہ پودا ایک دفعہ جڑ پکڑ جائے پھر وہ فصل رفتہ رفتہ خراب ہو جایا کرتی ہے.تو جڑ پکڑنے سے پہلے اکھیڑ پھینکیں اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ اپنے نفس کے تجزئیے کی عادت ڈالیں اپنی نیتوں کا امتحان لیتے رہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مثال دی ہے کہ پنوڑیا جس طرح پانوں کو الٹتا رہتا ہے تا کہ جہاں بھی کوئی داغ دکھائی دے اسے کتر کر

Page 813

خطبات طاہر جلد 13 807 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994ء ایک طرف پھینک دے ورنہ ایک دفعہ کوئی داغ جس پان کے پتے پر پڑ جائے تو وہ خود بھی گل جاتا ہے اور ساتھ کے صحت مند پتے کو بھی گلاتا رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت پیاری مثال دی ہے کہ اپنی نیتوں کو اس طرح الٹنے پلٹتے اور پر کھتے رہو اور دیکھتے رہو کہ کہیں کوئی داغ تو نہیں لگ گیا.داغ لگا ہے تو اس حصے کو کاٹ کر الگ کر دو اور اپنے وجود کو ہمیشہ صحت مند اور پاک رکھو.اللہ تعالیٰ اس کی ہمیں تو فیق عطا فرمائے اور جب بھی خدا مجھے آئندہ امریکہ میں آنے کی توفیق عطا کرے میں جماعت کو پہلے سے بہت زیادہ صحت مند اور نشو و نما پاتا ہوا دیکھوں.کیونکہ آپ کی نشو و نماہی میرے دل اور روح کی غذا ہے جتنا آپ بڑھتے ہیں اتنا ہی میرا دل بڑھتا ہے خدا کرے کہ جماعت امریکہ ہر پہلو سے ترقی کرتی رہے اور اسی طرح کینیڈا بھی.اب ڈش کا جو انتظام ہو چکا ہے اس کے ذریعے یہ خطبہ بھی اب سارے کینیڈا اور امریکہ میں سنا جا سکتا ہے.لیکن کینیڈا میں تو ایک ہزار ڈش اب تک بلکہ شاید اس سے کچھ زائد بھی ہوں جو گھروں میں لگ چکے ہیں لیکن امریکہ ابھی اپنے ہمسائے سے اس پہلو سے کچھ پیچھے رہ گیا ہے بلکہ کافی پیچھے رہ گیا ہے.ورنہ بچوں کی تربیت کے لئے یہ ذریعہ بہت ہی مد ثابت ہو چکا ہے اور ہوگا اور جس محنت کے ساتھ جماعت کے مخلصین آپ کے لئے پروگرام بنارہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کی نئی نسلوں کی کایا پلٹ جائے گی.بجائے اس کے کہ آپ کو ان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو وہ آپ کو سنبھالنے لگیں گے اور فیملی ملاقات کے دوران یہ باتیں بھی بار بار سامنے آتی ہیں کہ بچہ ہے جو ہمیں اب بری بات نہیں کرنے دیتا کیونکہ غور سے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے آپ نے جو کچھ کہا ہو اگر ذرا اس کے خلاف ہو تو کھڑا ہو جاتا ہے کہ ابا آپ نے یہ بات یوں کی ہے حالانکہ میں نے خود سنا ہے کہ یہ بات یوں ہونی چاہئے تھی.تو عجیب زمانہ آ رہا ہے کہ بچے اپنے بڑوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور ان کو سبق پڑھا رہے ہیں.پس اس زمانے سے فائدہ اٹھائیں تا کہ ہم آئندہ نسلوں کی اصلاح کی ضمانت بن جائیں اور یہ فیض جو خدا نے ہم پر عطا فرمایا ہے آئندہ ہمیشہ اس فیض کو دنیا میں بانٹتے رہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) خطبہ ثانیہ کے بعدا قامت الصلوۃ سے قبل حضور انور نے فرمایا: جمعے کی نماز کے بعد ہم انشاء اللہ عصر کی نماز بھی ساتھ جمع کریں گے.میں چونکہ مسافر ہوں

Page 814

خطبات طاہر جلد 13 808 خطبه جمعه فرموده 21 /اکتوبر 1994ء میں دوگا نہ پڑھوں گا.آپ میں سے جو بھی مسافر ہیں یعنی باہر کے شہروں سے آئے ہوئے ہیں وہ میرے ساتھ ہی سلام پھیریں گے.مقامی دوست بغیر سلام پھیرے انتظار کریں.جب میں دوسرا سلام پھیر کر فارغ ہو جاؤں، پھر کھڑے ہو جائیں اور بقیہ دور کعتیں پوری کریں.یہ بار بار اس لئے دہرانا پڑتا ہے کہ بعض نئے دوست آنے والے شامل ہوتے رہتے ہیں، بچے بھی بعض نئے بڑے ہو رہے ہوتے ہیں، ان کی تربیت کے لئے چھوٹے چھوٹے مسائل بار بار بیان کرنے ضروری ہیں.

Page 815

خطبات طاہر جلد 13 809 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1994ء حضرت رسول کریم یا ان کی نصائح میں عظیم الشان سبق ہیں.جس سے زندگی میں جنت بنتی ہے اور جہنم حرام کر دی جاتی ہے.( خطبه جمعه فرموده 28 /اکتوبر 1994ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.الحمد للہ کہ ایک لمبے سفر کے بعد جس میں پانچ جمعے باہر ادا کرنے پڑے اب میں آج یہ خطبہ جمعہ مسجد فضل لندن سے دے رہا ہوں.امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر اگر چہ پانچ ہفتے سے زائد خرچ ہو گیا.دونوں اتنے وسیع ممالک ہیں کہ وہاں یہ پانچ ہفتے بھی بہت تھوڑے دکھائی دیتے ہیں.فاصلے بہت زیادہ ہیں اور پھر جماعتیں بہت پھیلی ہوئی ہیں ان سب کا اکٹھا ہونا، ان سے ملاقاتیں ، ان کے دوسرے ضروری مسائل کے حل کے لئے ان کے ساتھ بیٹھ کے گفتگو کرنا، اتنا زیادہ کام تھا کہ جاتے ہوئے تو میرا خیال تھا کہ بہت لمبا عرصہ ہو گا لیکن جب گزرا ہے تو پتا بھی نہیں لگا کہ کس طرح وقت گزر گیا بہت تیزی کے ساتھ مصروفیت کا وقت چلتا ہے اور اگر وقت خالی ہو تو ٹھہر جاتا ہے.پس اس پہلو سے ان کا وقت بھی تیزی سے گزرا اور میرا وقت بھی بہت تیزی سے گزرا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت مفید مصروفیت رہی.میں نے اس آخری خطبے میں جو نیو یارک سے دیا تھا احباب جماعت امریکہ کا بھی اور کینیڈا کا بھی شکریہ تو ادا کر دیا تھا اور کچھ تبصرے بھی کئے تھے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جتنی محنت امریکہ کی جماعتوں نے کی ہے وہ بہت زیادہ شکریہ کی نہیں تو دعاؤں کی محتاج ہے کیونکہ بہترین شکریہ تو دعا ہی کے ذریعہ ادا ہوتا ہے.بہت لمبے عرصے تک مسجد کے سلسلے میں ساری جماعت نے

Page 816

خطبات طاہر جلد 13 810 خطبه جمعه فرموده 28 /اکتوبر 1994ء محنت کی اور امیر صاحب یو.ایس.اے، ایم.ایم.احمد صاحب نے تو بڑی سنگین بیماری کے باوجود بہت لمبے عرصے تک اس بوجھ کو خود اٹھایا تمام اہم اجلاسوں میں خود شریک ہوتے رہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ کس قدر تکلیف میں تھے اور آخر وقت تک اس بوجھ کی وجہ سے ان کے جسم پر نقاہت اور گہری تھکاوٹ کے آثار دکھائی دیتے تھے مگر الحمد للہ کہ جب یہ سارا بوجھ گلے سے اترا ہے اب ان کی صحت پہلے سے بہت بہتر تھی اللہ کے فضل کے ساتھ.باقی کارکنوں نے بھی ان کے نائب برادر مظفر احمد جو نائب امیر USA ہیں انہوں نے بھی بہت محنت کی ان کے دوسرے ساتھیوں نے بھی جنرل سیکرٹری صاحب ملک مسعود صاحب جو افسر جلسہ بھی تھے، ان سب نے اور ان کے سب ساتھیوں نے بہت لمبے عرصے سے مسلسل محنت کی ہے اور وہ کہتے تو نہیں تھے ان کے چہروں سے اس کے آثار ظاہر تھے اور پھر وقتی طور پر جلسے کے کاموں میں وقتی مصروفیت کے پیش نظر جن کارکنوں نے جلسے کے دوران کام کیا ہے وہ اس کے علاوہ ہیں.پھر جس جگہ ہم گئے وہاں کے کارکن کچھ دن پہلے کام شروع کر دیتے تھے کچھ دن بعد تک کاموں کو سمیٹنے کا بوجھان پر رہتا تھا.ان سب کے لئے میں جماعت سے عمومی دعا کی درخواست کرتا ہوں.اللہ ان کی کوششوں کو بار آور بنائے.جہاں تبلیغ کے سلسلے میں انہوں نے رابطے پیدا کئے اور بڑی محنت سے اپنے تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یا بعض دفعہ اجنبیوں کو بھی اپنے جلسوں میں شرکت پر منتوں کے ذریعے مجبور کیا وہ بھی ایک ایسا فعل ہے جس پر مجھے امید ہے کہ اللہ رحمت کی نظر کرے گا.نیو یارک میں ایک Senator تھے یا ممبر کانگرس تھے وہ ہمارے Reception پر تشریف لائے تو اس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ بات یہ ہے کہ میرا علاقہ یہ نہیں ہے، میں دوسرے علاقے سے آیا ہوں اور میرے آنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ جو شخص مجھے بلانے پر مامور تھا اس کا ایسا انکسار تھا اس قدر لجاجت تھی اس طرح بار بار وہ مجھے کہتا رہا کہ میرے لئے انکار ممکن ہی نہیں رہا.اس لئے آیا تو سرسری طور پر ایک شخص کے ذاتی اخلاق سے متاثر ہوکر تھا لیکن یہاں آ کر جو میں نے دیکھا ہے وہ اتنی عظیم بات ہے کہ میں خوش ہوں کہ میں نے وہ بات مان لی کیونکہ میرا آنا بہت ہی مفید ثابت ہوا ہے ایسے اچھے جلسے، ایسے اچھے لوگ جس میں مدعو ہوں اور پھر ایسی اچھی باتیں کی جائیں، یہ تو ایک قسمت کی بات ہے جو یہ نصیب ہو.یہ ان کے الفاظ تو نہیں مگر ان کے الفاظ کا مفہوم بعینہ یہی تھا جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.اس کے علاوہ بھی شکا گو میں یا دوسری جگہوں پہ، جہاں جہاں بھی

Page 817

خطبات طاہر جلد 13 811 خطبه جمعه فرمود و 28 اکتوبر 1994ء مجالس ہوئی ہیں اور مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے، صاف دکھائی دیتا تھا کہ بے حد محنت سے کام لیا گیا ہے اور کچھ لوگ جو واقف نہیں بھی تھے کارکنوں کے اخلاص کی وجہ سے وہ آنے پر مجبور ہو گئے.اس سے ہمیں ساری دنیا میں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ تبلیغ کے کام میں بھی اجنبیوں کو پہلے اخلاق ہی سے متاثر کیا جا سکتا ہے یا کیا جانا چاہئے محض پیغام دے دینا کافی نہیں ہے جب تک اخلاق عالیہ کے ساتھ اپنی ذات میں آپ غیروں کی دلچسپی پیدا نہیں کرتے اس وقت تک وہ آپ کے پیغام میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لیں گے.اور یہ پیغام ایسا ہے جو باہر سے بدمزہ دکھائی دیتا ہے اور اس پیغام میں یعنی حقیقی اسلام کے پیغام میں یہ خاص بات ہے کہ باہر سے بُرا دکھائی دیتا ہے جب اس کے اندر انسان داخل ہوتا ہے تو جوں جوں آگے بڑھتا ہے اتنا ہی زیادہ جنت کے مناظر دکھائی دینے لگتے ہیں اور آنحضرت ملنے کا اخلاق حسنہ ہی تھا جس کی وجہ سے باوجود اس کے کہ بیرونی آنکھ نے شاید نفرت سے اسلام کو دیکھا پھر بھی ان کو کھینچ لائے اور ایک دفعہ وہ اندر داخل ہوئے تو ان کی کایا پلٹ گئی.قرآن کریم اسی مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے کہ جنت کا مقام ایسا ہے جس کے باہر ایک تکلیف دہ صورت حال ہوتی ہے.باہر سے اندر آنا مشکل ہے لیکن اندر اس کے بہت ہی پیارا منظر ہے اور سکون اور طمانیت ہے.پس تبلیغ کے وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غیروں کو اسلام کی طرف بلانا ان کی نظر میں ایسا ہی ہے جیسے آگ کی طرف بلایا جا رہا ہے.اگر پوری آگ نہ سہی تو ایک تکلیف دہ کانٹوں والے رستے کی طرف بلایا جارہا ہے اور جب تک آپ کے اخلاق حسنہ ان پر اتنا اثر نہیں کرتے کہ آپ کی خاطر تکلیف اٹھانے پر مجبور ہو جائیں وہ اسلام میں دلچسپی نہیں لیں گے.جب ایک دفعہ لے بیٹھیں اور ان کو اسلام کا پیغام براہ راست ملنا شروع ہو جائے تو پھر آپ کا واسطہ بیچ میں سے غائب ہو جائے گا.پھر اسلام اپنے حسن سے ان کو بڑے زور سے کھینچے گا.پس یہی وہ راز ہے جس کو اہل نظر ، اہل بصیرت سمجھتے ہیں اور اس سے استفادہ کرتے ہیں.چنانچہ میں نے آپ کے سامنے ایک امریکن Senator یا کانگریس مین جو بھی وہ تھے ان کی گواہی پیش کی ہے.بالکل یہی بات انہوں نے کی کہ جب میں آنے لگا تھا تو دل پہ بوجھ تھا کہ میں کیوں جا رہا ہوں میں خود نہیں سوچ سکتا تھا.سوائے ایک شخص کے اخلاق سے متأثر ہوئے بغیر میں یہ کام کر نہیں سکتا تھا، مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن جب آیا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑی نعمت ہے جس سے میں فائدہ اٹھا رہا ہوں اور بہت اچھا کیا کہ میں یہاں چلا آیا.باوجود اس کے کہ

Page 818

خطبات طاہر جلد 13 812 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /اکتوبر 1994ء ان کو جلدی تھی ان کے کچھ اور بھی ایسے کام تھے جو پہلے سے طے شدہ تھے.گھر کی بھی کچھ مجالس تھیں جن میں جانا تھا پھر بھی وہ کھانے کے وقت تک ٹھہرے رہے اور میں جب تک مصروف رہا ہوں اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب میں فارغ ہو کے واپس آیا تو پھر انہوں نے مجھے کہا کہ میں آپ کا شکر یہ ادا کر کے اب اجازت لینا چاہتا ہوں.تو تمام دنیا میں اس وقت طبیعتوں کی شرافتیں آپ کی منتظر ہیں اور دنیا میں بھی عملاً یہی حال ہے کہ ان کی جنتیں اندر چھپی ہوئی ہیں.ان کے بدا عمال اور دنیا کے اثرات ان کے باہر ہیں آپ کو بھی تو محنت کر کے ان کے اندر کی جنت ڈھونڈنا ہو گی اور جب تک آپ تکلیف کر کے، ان کی بد اخلاقیوں سے بے پرواہ ہو کر ان کے اندر سرایت کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کو بھی جنت نہیں ملے گی تو یہ دونوں طرف کا معاملہ ہے ذرا مختلف نوعیت کا.اسلام کے سامنے جو بظاہر آگ دکھائی دیتی ہے وہ تو ایک فرضی آگ ہے، حقیقی آگ نہیں ہے لیکن دنیا کی بداخلاقیوں کی جو باڑ ان کے اردگردگی ہوئی ہے اور آگ جل رہی ہے یہ حقیقی ہے اس کو عبور کرنا واقعہ بہت مشکل ہے لیکن ہرانسان کے اندر ایک جنت موجود ہے یہ یاد رکھیں جس کو آپ بد سے بد سمجھتے ہیں اس کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی حسن دفن کر رکھا ہے.پس مومن کا کام ہے کہ خود کوشش کر کے ان حسن کے دفینوں تک پہنچے ان سے استفادہ کرے اور ان کو ابھار کر اس کے مالک کے سامنے پیش کرے تا کہ اسے معلوم ہو کہ اس کے پاس بھی حسن کی ایک دولت ہے ورنہ تو صحرائے عرب کی طرح کا حال ہوگا کہ جہاں تیل کے دفینے موجود تھے لیکن اس ملک کے باشندوں کو علم نہیں تھا کہ کیا ہے؟ غیروں نے آ کر محنت کی اور ان دفینوں کو باہر نکالا تب ان کو قدر آئی کہ اس صحرا میں خدا نے کیسی کیسی دولتیں ہمارے لئے اکٹھی کر رکھی تھیں تو انسانوں میں بھی جن کو آپ صحرا سمجھتے ہیں وہ سب صحرا نہیں ہوا کرتے.ظاہری طور پر دنیا داری ان کو صحرا بنا دیتی ہے لیکن ہر شخص کے اندر خالق کا ایک حسن پوشیدہ ہے اس کو تلاش کریں تو ان کی جنت بھی باہر آ جائے گی اور اس کے نتیجے میں اسلام سے جو گہرا رابطہ پیدا ہونا چاہئے وہ ان کے لئے زیادہ آسان ہو جائے گا کیونکہ اگر مزاج اسلام کے خلاف ہو تو پھر اسلام سے رابطہ پیدا کرنا مشکل کام ہے.تو دونوں طرف کے سفر ہیں جن کی تیاری آپ ہی نے کرنی ہے.ان کو اسلام کی طرف سفر پہ آمادہ کرنے کا کام بھی آپ ہی کا ہے، ان کی ذات میں ان کی ودیعت ہوئی ہوئی خوبیوں کی تلاش کرنا

Page 819

خطبات طاہر جلد 13 813 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1994ء اور ان کا کھوج نکال کر ان کو باہر لانا اور ان کی نظر کے سامنے کرنا، یہ بھی آپ ہی کا کام ہے اور اگر دعا کر کے آپ یہ کام کریں تو یہ مشکل کام نہیں ہے.آج کل ہم تبلیغ کے جس دور میں داخل ہوئے ہیں اس میں ہمارے معیار جلد جلد بڑھ رہے ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کے بعد اگلا قدم اٹھانا دو بھر ہو گا.ہر چڑھائی پر چڑھنے والا جانتا ہے کہ ایک چوٹی جو دکھائی دیتی ہے اس تک پہنچنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے مگر جب آپ پہنچ جاتے ہیں تو ایک سکون نصیب ہوتا ہے مگر پھر اگلی چوٹی پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتی ہے اور پھر اس سے اگلی چوٹی اس سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتی ہے.پس یہ ضروری نہیں کہ آپ اگر ایک بلندی طے کر چکے ہیں تو دوسری بھی اسی آسانی سے کر سکیں گے.ہر اگلی بلندی پہلے سے زیادہ مشکل ہوتی چلی جاتی ہے اس لئے میں آپ کو ذہنی طور پر اس کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال جو ہم نے دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے اس کے لئے پہلے سے زیادہ محنت کرنی ہوگی ، زیادہ ہم سفر ڈھونڈ نے ہوں گے جو آپ کے کاموں میں آپ کے ہاتھ بٹائیں اور اخلاق حسنہ سے ضرور مزین ہونا ہوگا.اس کے بغیر یہ سفر طے نہیں ہوسکتا، اس کے بغیر آپ دلوں کے علاقے فتح نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.مشکل کام بھی دعاؤں سے آسان ہو جاتے ہیں.دعائیں کریں تو انشاء اللہ آپ کے یہ کام آسان ہو جائیں گے وہاں بھی میں نے دیکھا ہے اور بعض بہت سے دوستوں سے جو ملا جنہوں نے اچھے کام کئے تھے تو سب نے یہی کہا کہ حقیقت میں ہم دعائیں کرتے تھے اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ دعاؤں کی وجہ سے خدا نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے.پس جماعت احمدیہ تو دعا کا ایک زندہ معجزہ ہے اگر دنیا میں کسی نے دعا کی حقیقت پانی ہو تو صرف احمدیت ہے جس سے دعا کی حقیقت زندہ حقیقت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے.پس آپ دعائیں کرتے رہیں اور محنت کریں اور اخلاص کے ساتھ آگے قدم بڑھائیں.سب دنیا کے شریف ہمارے منتظر ہیں اور شرافت ہر جگہ موجود ہے یہ دو یقینی باتیں ہیں جن کو دل میں جاگزیں کر کے یقین کے ساتھ، مستحکم قدموں کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے سفر آسان فرمادے گا.اس مختصر تبصرے کے بعد میں اس مضمون کی طرف واپس آتا ہوں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے الفاظ میں آپ تک بعض نصیحتیں پہنچا رہا ہوں ان کا تعلق اخلاق حسنہ ہی سے ہے.وہ

Page 820

خطبات طاہر جلد 13 814 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1994ء اخلاق جن پر حضرت اقدس محمد مصفی یا یہ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں، ان اخلاق کو اپنائیں گے تو اس کا نام اخلاق حسنہ کو اپنانا ہے ورنہ دنیاوی اخلاق تو محض کھو کھلے اور سطحی ہوا کرتے ہیں.حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تین اخلاق ایمان کا تقاضا ہیں یعنی تین اخلاق ایسے ہیں کہ جو ہر مومن کے لئے اپنانے لازم ہیں جن کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا.پس جب آپ مومن بنتے ہیں ایمان لے آتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ تین ایمان کی علامتیں آپ کی ذات میں ظاہر ہوں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ غصہ آئے تو اس کے باوجود وہ غصہ مومن کو باطل کام میں اور گناہ میں ملوث نہیں کرسکتا.جہاں خدا کی اجازت کی حدود دکھائی دے رہی ہیں وہاں تک رہتا ہے اور اس کا غصہ اسے ان حدود سے تجاوز کرنے پر کبھی آمادہ نہیں کر سکتا.جانتا ہے کہ اس غصے کے اظہار کے وقت اگر میں نے اس حد سے آگے قدم بڑھایا تو اللہ کی رضا سے باہر چلا جاؤں گا اور جھوٹ اور بے ہودہ باتوں پر بھی غصہ اس کو آمادہ نہیں کر سکتا.پھر فرمایا اور وہی مومن شخص جو غصے میں اپنے آپ کو قابو میں رکھتا ہے، وہ جب خوش ہو تو اس کی خوشی بھی اس کو حق کی حدود سے باہر نہیں پھینکتی.پس دوا ہم انسانی جذبات ایسے ہیں جو حد سے تجاوز کرنے پر انسان کو آمادہ کرتے ہیں ایک غصہ اور ایک خوشی اور انسانی زندگی کی بہت سی بے ہودہ حرکتیں اور باطل عادات در ظلم و ستم کی واردات زیادہ تر انہی دو حالتوں میں سرزد ہوتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک سچا ایمان لانے والا غصے میں حد سے نہیں بڑھتا اور حد سے تجاوز کر کے کسی پر ظلم نہیں کرتا ، یہ مفہوم ہے اور خوشی میں حد سے تجاوز کر کے اپنی ذات پر ظلم نہیں کرتا.خوشی کے ظلم اکثر اپنی ذات پر ہوتے ہیں اور اور غصے کے ظلم اکثر دوسروں پر ہوتے ہیں اگر چہ نتیجے تو دونوں ہی اپنی ذات کے خلاف ہیں.پھر فرمایا اور جب اسے قدرت اور اقتدار ملتا ہے تو اس وقت وہ اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتا.طاقت ہوتے ہوئے بھی، اس بات کی استطاعت کے باوجود کہ جتنا چاہے لے لے، جب اس کا حق ختم ہوتا ہے وہیں ٹھہر جاتا ہے اور ہاتھ آگے نہیں بڑھتا(المعجم الصغیر للطبرانی باب من اسمه احمد ).یہ تین بہت ہی گہری خوبیاں ہیں جن کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ایمان سے وابستہ فرمایا ہے.سوال یہ ہے کہ ایمان سے ان کا کیا تعلق ہے؟ ہمارا ایمان بالغیب ہے اور اللہ کی ذات پر ایسا یقین ہے باوجود اس کے کہ ہمیں وہ دکھائی نہیں دے رہی ، ایسا کامل یقین ہے جیسے وہ

Page 821

خطبات طاہر جلد 13 815 خطبه جمعه فرمودہ 28 اکتوبر 1994ء حاضر ہو جائے تو خدا تعالیٰ جو غائب بھی ہے اور حاضر بھی ہے وہ یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ بہت سی دنیا ہے جن کی نظر سے خدا ہمیشہ غائب ہی رہتا ہے اور بہت سے ایسے مومن ہیں کہ اس غائب کو بھی حاضر کی طرح دیکھنے لگتے ہیں پس جو حاضر ہو جائے اس کی موجودگی میں انسان کا طرز عمل ایک خاص رنگ اختیار کر لیتا ہے.جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے حاضر ہوں تو اس وقت قانون شکنی کرنے والا کوئی بہت ہی ڈھیٹ اور بے حیا ہوگا جو دیکھتے ہوئے کہ مجھ پر سب کی نظریں ہیں پھر بھی وہ قانون شکنی کرے.ایسے شخص بعض دفعہ ڈاکو ہوتے ہیں بعض دفعہ اور جابر اور ظالم ہوتے ہیں وہ کچھ عرصے تک ایسی بے حیائیاں کرتے رہتے ہیں پھر آخر پکڑے جاتے ہیں مگر اللہ کے معاملے میں تو جرات کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا.اگر خدا کو انسان حاضر سمجھ لے تو پھر اس کے نتیجے میں مستقلاً انسان کے مزاج اور طبیعت میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہونی لازم ہیں کہ جب وہ غصے میں آپے سے باہر ہو رہا ہو جو یہ دیکھ رہا ہے کہ مجھے دیکھ رہا ہے.اب آپ دیکھ لیں کہ اگر غصے کی حالت میں آپ کوئی بے ہودہ بات کر رہے ہیں اور کوئی ایسا شخص آ جاتا ہے جس کے سامنے آپ کو بے ہودہ باتوں میں شرم آتی ہے تو فوراً اپنی زبان کو آپ کنٹرول میں کرتے ہیں کسی اور کے بچے پر مثلا ہاتھ اٹھا بیٹھیں اور اس کے ماں باپ سامنے سے آتے دکھائی دیں تو مجال ہے کہ وہ ہاتھ گرے وہ فورا واپس ہو جائے گا اور شرمندگی کے ساتھ واپس ہوگا.تو دیکھنے والا ایسا ہے جس کے اوپر یہ مثال صادق آ رہی ہے.آپ اس کو دیکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کی مخلوق ہے اور وہ ماں باپ سے زیادہ ان سے پیار کرنے والا ہے ان کا حق مارنے والے کو کس نظر سے دیکھے گا.پس غصہ خواہ کیسے ہی تقاضے کرتا ہوا ایک مومن وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے ہاتھ روکے رکھتا ہے اور اس حد سے آگے نہیں بڑھتا جس حد سے آگے خدا کا حکم ہے کہ نہ بڑھا جائے اور دنیا میں اکثر فساد جو انفرادی تعلقات کے دائرے میں آتے ہیں غصے کی وجہ سے ہوتے ہیں.بہت سے دوست عمر بھر کی دوستی کو غصے کے ایک لمحے میں ہمیشہ کے لئے ضائع کر بیٹھتے ہیں اور غصے کی حالت میں بعض دفعہ ایک انسان ایسے بہیمانہ جرم میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے پہلے اس کے بغیر وہ تصور بھی نہیں کر سکتا.یعنی غصے کی حالت کے بغیر وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس سے ایسا جرم ہوسکتا ہے لیکن غصے کی حالت میں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ جیسا کہ امریکہ میں خصوصا نیو یارک میں بارہا ایسے واقعات سامنے آئے

Page 822

خطبات طاہر جلد 13 816 ہیں اپنے بچے کا سر دیوار سے ٹکڑا کے پھوڑ دیتے ہیں.یہاں انگلستان میں ایک پروگرام میں میں نے دیکھا کرائمز کے متعلق کہ بہت سے شرابی ہیں جو بہت حساس ہو جاتے ہیں وہ گھر واپس آتے ہیں بیوی ان سے شکوہ کرتی ہے کہ کیوں دیر سے آئے ہیں غصہ آتا ہے اور غصے کی حالت میں خود اپنی بیویوں کے سر دیوار سے ٹکڑا ٹکڑا کر ان کو قتل کر دیتے ہیں.تو غصے کی حالت میں انسان پاگل ہو جاتا ہے اور غصہ حد سے تجاوز کی طرف لے کے جاتا ہے پس جب حد سے تجاوز ہو تو انسان کا اپنے ذہن پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا اس لئے غصے کو جنون کہا جاتا ہے مگر خواہ کیسا ہی جنون ہوا گر وہ سامنے کھڑا ہو جس سے آپ خوف کرتے ہیں، جس کا خوف رکھتے ہیں، جسے مقتدر سمجھتے ہیں، جانتے ہیں کہ وہ اس کی سزا دے سکتا ہے تو اچانک وہ غصہ بیٹھ جائے گا.اس لئے آنحضرت ﷺ نے ایمان کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے غصے میں حد اعتدال پر قائم رہنا.خوشی کا بھی یہی حال ہے خوشی کی حالت میں انسان ہزار پاگلوں والی حرکتیں کر بیٹھتا ہے لیکن اگر ایک مالک اور مقتدر سامنے کھڑا ہو جس نے بعض دائرے کھینچ رکھے ہوں کہ ان دائروں سے آگے نہیں بڑھنا تو خوشی کے وقت بھی وہی تجاوز سے بچنے کا طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھے اور اس پر کامل ایمان رکھے.تیسری بات فرمایا کہ جب اقتدار ملتا ہے تو اس کے باوجود وہ دوسرے کے حق پر نظر نہیں ڈالتا اور ذرہ بھر بھی اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتا.اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو تو اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کو مالک سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو مالک نہیں سمجھتا خدا پر ایمان اس کے کامل طور پر مالک ہونے کے تصور کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جسے انسان اپنا حق سمجھتا ہے اور وہ اتنا ہی ہے جتنامالک نے دیا ہوا ہے اس سے زیادہ نہیں ہے.پس یہ اتفاق ہے کہ وہ عارضی طور پر دنیا میں قادر بنایا گیا ہے یا مقتدر بنا دیا گیا ہے ایک بادشاہ قانون پر فائز ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ اپنی مرضی کے قوانین بھی بناتا ہے حالانکہ اس کو اس کا حق نہیں ہوتا اور قانون ہو یا نہ ہو جو ظالم بادشاہ ہیں یا ڈکٹیٹر ہیں وہ عوام کے حق سے چھین کر ان کے پیسے کو اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لئے استعمال کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت نہیں دی ہوئی.تو چونکہ وہ اپنے آپ کو مالک سمجھنے لگتے ہیں اس لئے یہ حرکت سرزد ہوتی ہے ورنہ ناممکن ہے کہ ہو.مالک کوئی اور ہو اور طاقت والا بھی ہو تو کسی کی

Page 823

خطبات طاہر جلد 13 817 خطبه جمعه فرمود و 28 اکتوبر 1994ء مجال ہے کہ اس سے مال میں سے کچھ لے.تو بنی نوع انسان کا مال اسے خدا کا مال دکھائی دیتا ہے اور جب دوسرے کا مال خدا کا مال دکھائی دے تو پھر جرات نہیں ہوسکتی کہ اس پر انسان ہاتھ ڈالے.تو یہ شخص تین حالتوں میں آزمایا جاتا ہے اور تین حالتیں اس کے ایمان کے حق میں گواہ بنتی ہیں یا اس کے ایمان کے خلاف گواہی دیتی ہیں.غصے کی حالت، خوشی کی حالت اور اقتدار کی حالت.جب آپ کے سپر د کوئی حکومت کی جائے یا کسی تھوڑے دائرے میں انتظام سپر د کیا جائے تو آپ کے اندر کوئی ایک ذرا بھی ایسی فخر کی حالت پیدا نہیں ہوتی کہ اس کے نتیجے میں آپ کوئی غلط قدم اٹھا سکیں.یہ بہت ہی اہم نصیحت ہے اسے جماعت احمد یہ فطرت ثانیہ کی طرح اپنی عادت اور اپنے رگوں میں دوڑتے ہوئے جذبے کی طرح داخل کر لے تو بہت بڑے مسائل سے ہمیں نجات مل سکتی ہے.روز مرہ کے جھگڑوں میں زیادتیاں ، بدکلامیاں، خواہ وہ خاندانی سطح پر ہوں، ساس بہو کی باتیں ہوں یا خاوند اور بیوی کے تعلقات کے بگاڑ کے قصے ہوں ہر جگہ آپ دیکھیں گے اور اسی طرح دوستوں کے معاملات میں بھی کہ غصے کی حالت میں سارا امن کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور خوشی کی حالت میں انسان بے راہروی اختیار کرتا ہے جب اسے کچھ زیادہ نصیب ہو جائے تو اپنے خرچ کو متوازن نہیں رکھتا.بعض دفعہ خوشی کی حالت میں وہ قرضے لے لے کر بھی ، دکھاوے کی خاطر کہ خوشی کا دن ہے اپنے اوپر بہت سے بوجھ اٹھا لیتے ہیں اور وہ قرض واپس کرنے کی توفیق نہیں ہوتی.پس ساری عمر کا ایک عذاب ہے جو انہوں نے اپنے سر منڈھ لیا ہے پس اس کو روز مرہ کی زندگی پر چسپاں کر کے دیکھیں تو ہر روز یہ تین چیزیں ہمارے لئے آزمائش بنتی ہیں اور بسا اوقات ہم ان سے شکست کھا جاتے ہیں اور اس آزمائش پر پورے نہیں اترتے.اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو راضی ہوا اس کا بیان کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ابتلی کیا اسے آزمایا اور ہر بار اس آزمائش پر وہ ہمیشہ پورا اترا.پس یہ آزمائشیں کوئی ایسی آزمائشیں نہیں ہیں جو دور کی خیالی دنیا کی باتوں سے تعلق رکھتی ہوں.یہ روز مرہ کی آزمائشیں ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے ہر حال میں آزمائش پر پورا اترتے دیکھا.باقی انبیاء بھی اپنے اپنے مقام اور توفیق کے مطابق پورا اترے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم کے حق میں جو یہ گواہی ملی تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس میں ایک غیر معمولی مقام رکھتے تھے.ہر آزمائش کے وقت وہ سوچتے تھے اور غور کرتے تھے کہ کس میں خدا کی رضا ہے کس میں

Page 824

خطبات طاہر جلد 13 818 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1994ء خدا کی ناراضگی ہے اور ہمیشہ رضا کی جانب قدم اٹھاتے تھے ناراضگی کی طرف اپنے قدم اٹھنے نہیں دیتے تھے یعنی بالا رادہ روک لیتے تھے یہ وہ ابراہیمی صفات ہیں جن کو ہمیں اپنا نا ہوگا کیونکہ ان کا زندگی سے تعلق ہے.انہی صفات کے نتیجہ میں ان کو زندگی کا راز سمجھایا گیا کہ تو پرندوں کو سدھا اور پھر دیکھے گا کہ پرندے تیرے حکم کے مطابق تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر سمت سے اڑتے ہوئے تیری طرف واپس آ جاتے ہیں.اب سب باتوں کا صفات سے تعلق ہے اور صفات الہیہ سے تعلق ہے جو اسی کو عطا کی جاتی ہیں جس کے اندر آزمائش میں پورا اترنے کا مادہ پایا جاتا ہے محض اپنی توفیق سے صفات الہیہ نصیب نہیں ہوا کرتیں.پس ان دونوں باتوں کا گہرا تعلق ہے فَأَتَمَّهُن جو فرمایا کہ ابراہیم کو جب ہم نے آزمائش میں ڈالا تو ہر آزمائش پر وہ پورا اترا اور اس کے بعد صفات الہیہ کا جو ظہور ہوا ہے ابراہیم علیہ السلام کی ذات میں ، وہ اسی کا انعام تھا.پس اگر آپ نے خدا کے رنگ سیکھنے ہیں اور خدا کے رنگ اختیار کئے بغیر آپ دنیا کو خدا کے رنگ دے ہی نہیں سکتے تو پھر لازم ہے کہ ان امتحانوں میں پورا صلى الله اتریں اور یہ تین امتحان جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے کھول کر بیان فرما دیئے ہیں یہ امتحان ایسے ہیں جن کا زندگی کے ہر دائرے سے تعلق ہے اور بدنصیبی ہے انسان کی کہ وہ اپنی زندگی کے ہر دائرے میں ان تین امتحانوں میں اکثر ناکام ہوتا چلا جاتا ہے.پس جماعت احمدیہ کو بڑے غور اور حکمت کے ساتھ اس مضمون کو سمجھنا ہے اور اپنی ذات میں اسے جاری کرنا ہے کیونکہ ہمارے بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں پچھلے سال جو خدا نے ہمیں توفیق عطا فرمائی تھی اس سے دگنے کا ہم نے عزم باندھا ہے خدا کی توفیق کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا.مگر انسانی ہمت کا جہاں تک تعلق ہے اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہم نے دگنے کا عزم باندھا ہے تو اس دگنے کام کے لئے کچھ طاقت بھی تو دگنی ہونی چاہئے.وہ طاقت کہاں سے ملے گی یہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں دعائیں کریں اور دعاؤں کے ساتھ آزمائشوں میں پورے اترنے کی بالا رادہ کوشش کریں اور اس نیت کے ساتھ کوشش کریں کہ مجھے پہلے سے بڑھ کر طاقت ور ہونا ہے کیونکہ میرا بوجھ بڑھ گیا ہے.اور یہ حسابی بات ہے اگر بڑے بوجھ کے اٹھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو لازماً اپنے وجود کی پرورش کرنی ہوگی جسم کمانا ہوگا اور اس کے بغیر بڑے بوجھ کے اٹھانے کی باتیں کرنا محض ایک دیوانے کی بڑ ہے اس کی اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے.

Page 825

خطبات طاہر جلد 13 819 خطبه جمعه فرمودہ 28 اکتوبر 1994ء پس آپ جب ارادہ کرتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے دو گنا پھل حاصل کرنا ہے تو پہلے سے دو گنی محنت کرنی ہے لیکن محنت سے زیادہ اپنے وجود میں وہ طاقتیں پیدا کرنی ہیں جن کے نتیجہ میں پھر محنت نہیں ہوتی بلکہ شوق اور آسانی کے ساتھ وہ کام سرانجام پاتے ہیں جو بعض دوسروں کو محنت سے کرنے پڑتے ہیں.محنت زیادہ لمبے عرصے تک اس طرح کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ ہر دفعہ محنت کرنے کے بعد آپ کا جسم چور چور ہو جائے اور بدن کا انگ انگ دکھنے لگے.ایسی محنت سے آہستہ آہستہ دل متنفر ہو جاتا ہے پس ضروری ہے کہ مستقل ورزش کرتے ہوئے اپنی طاقت کو اتنا بڑھاتے چلے جائیں کہ وہ محنت دوسرے کو تو محنت دکھائی دے آپ کے لئے ایک طبعی اور فطرت کے میلان کے مطابق کام بن جائے یعنی فطرت کے خلاف چلتے ہوئے آپ کو وہ کام نہ کرنا پڑے.اپنی فطرت کے میلان کے مطابق اپنی بڑھتی ہوئی طاقتوں کے نتیجے میں وہ کام آپ کو آسان دکھائی دے اور یہ کوئی کہانی کی بات نہیں یہ اسی طرح عملی حسابی بات ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.آنحضرت ﷺ نے جو اخلاق حسنہ ہمیں سکھائے ہیں ان کو سمجھ کر ان کو سیکھ کر لازم ہے کہ آپ کے روحانی بدن میں غیر معمولی طاقت پیدا ہو اور وہی طاقت ہے جو آپ کے کام آئے گی.یہ پہلی حدیث جو تھی یہ انجم الصغير للطبرانی سے لی گئی تھی.اب جو حدیث ہے یہ ترمذی باب صفۃ القیامۃ سے لی گئی ہے.ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا الا اخبركم بـمـن يـحـرم على النار (ترندی باب صفۃ القیامتہ ) کہ کیا میں تمہیں اس شخص کی خبر نہ دوں جس پر آگ حرام ہو جاتی ہے فرمایا کیا میں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے.یعنی نفرت نہیں کرتا ان سے نرم سلوک کرتا ہے یہ جو یعنی نفرت نہیں کرتا نرم سلوک کرتا ہے یہ ھین لین سھل کا ترجمہ کیا گیا ہے اور ان کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے، یہ بہت ہی اہم روز مرہ کا ایک دستور ہے جسے سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ بہت ہی اہم راز ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ جہنم کی آگ تم پر حرام کر دی جائے خدا تعالیٰ کی طرف سے اور کسی قیمت پر بھی تم جہنم میں داخل نہ ہو تو یہ آسان سا طریق اختیار کر لو.دعوئی بہت مشکل اور طریق بہت آسان لیکن آسان ہونے کے باوجودا اکثر لوگ اسے اختیار نہیں کرتے اور وہ طریق یہ بیان فرمایا ہے کہ لوگوں سے دور نہ ہوان کے قریب رہو ہر انسان جب ایک طبقے سے ترقی کر کے ایک اونچے طبقے میں داخل ہوتا ہے تو

Page 826

خطبات طاہر جلد 13 820 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1994ء بالعموم اس پہلے طبقے سے بھی اور اس سے نچلے طبقے والوں سے بھی اس کا فاصلہ بڑھ جاتا ہے پھر جب اور ترقی کرتا ہے ایک اور طبقے میں قدم رکھتا ہے تو اس کا فاصلہ اور بڑھ جاتا ہے.یہاں تک کہ جوامیر لوگ ہیں ان کے محلے الگ ، ان کی کوٹھیاں الگ، ان کے سفر الگ، ان کا روز مرہ کا رہن سہن تمام دوسرے انسانوں سے کٹ کے الگ ہو جاتا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے فطرتی طور پر ہمارے مزاج میں داخل ہونے والی کہ ہمیں اس کا شعور نہیں رہتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں.فطرتی طور پر میں نے جو کہا یہ مراد نہیں کہ انسان کو اس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے فطرتی طور پر صرف ان معنوں میں کہہ رہا ہوں کہ ہمارے روز مرہ کے مزاج میں اتنی داخل ہوگئی ہے کہ گویا یہ فطرت ثانیہ بنی ہوئی ہے اور ہم محسوس نہیں کرتے کہ ہم دنیا سے الگ ہورہے ہیں اور پہلوں سے کٹ رہے ہیں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو اپنے ماں باپ سے بھی کٹ جاتے ہیں اور یہ بہت بڑی بد بختی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم لوگوں میں رہو، ان کے ساتھ رہو، ان سے کٹنا نہیں.اگر تم بنی نوع انسان سے کٹ گئے تو خدا سے کاٹے جاؤ گے.یہ مفہوم ہے اور جو بنی نوع انسان کے ساتھ رہتا ہے اللہ اس کے ساتھ رہے گا اور جس کے ساتھ اللہ رہے اس کے اوپر یقینا جہنم حرام ہے.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لوگوں میں ہٹنے اور کٹنے کی عادت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ غریب افراد کو ان کے گھر تک رسائی بھی نہیں رہتی پھر.ان کو مجلسوں میں ملتے ہیں تو ان کی آنکھیں بدلی ہوئی ہوتی ہیں ، شرم محسوس کرتے ہیں کہ یہ جو شخص غریب سا دکھائی دیا ہے ہمارے سے اس کا کوئی گہرا خونی رشتہ ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا بعض واقعات سے پتا چلتا ہے اور یہ ایسے واقعات ہیں جو محض فرضی نہیں بلکہ حقیقتا روز مرہ ہونے والے واقعات ہیں اور بعض اپنے تجربے میں میرے علم میں بھی ایسے آئے ہیں کہ بچہ امیر ہو گیا اور شادی بھی ایسی جگہ ہو گئی جو نخرے والی اور دنیا کی جدید تہذیب سے متاثر عورت تھی تو اس کے لئے یہ بات قابل شرم ہو گئی کہ میرا باپ میرے گھر میں رہے اور اس کے لئے پھر ذرا ہٹ کر کوارٹر بنا دیئے گئے اور اس کو ایسی حالت میں رکھا گیا کہ جب وہ لوگ آئیں تو ان کے سامنے نہ آئے ، بعض اپنی ماؤں سے شرمانے لگ جاتے ہیں بعض اپنے باپوں سے شرمانے لگ جاتے ہیں.ایک دفعہ ایک ایسے ہی گھر میں ایک بچہ اپنی پرانی چیزیں ایک کمرے میں جمع کر رہا تھا پرانا

Page 827

خطبات طاہر جلد 13 821 خطبه جمعه فرمودہ 28 اکتوبر 1994ء بستر ، پرانے بوٹ تو اس کے باپ نے کہا کہ یہ تم کیا حرکت کر رہے ہو.اس نے کہا میں وہی کر رہا ہوں جو آپ کرتے ہیں.آپ نے اپنی پرانی چیز میں اپنے ابا کو دے دی ہیں پرانے بستر ان کے لئے کر دیئے ہیں تو میں نے کہا جب آپ بوڑھے ہوں گے تو مجھے بھی آپ کے لئے کچھ چیزیں جمع کرنی چاہئیں تو میں اپنی پرانی اور گندی چیزیں آپ کے لئے جمع کر رہا ہوں.یہ بچہ ذہین تھا، نیک فطرت تھا اس نے کیسا اچھا سبق اپنے باپ کو دیا.تو انسان جو غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اس کو یہ بھی نہیں پتا لگتا کہ میں کس سے کیا کر رہا ہوں اور جو عامتہ الناس ہیں جن سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ان کے معاملے میں تو بہت ہی متکبر ہو جاتا ہے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے لوگوں کے قریب رہتا ہے یعنی اپنے آپ کو لوگوں کا حصہ سمجھتا ہے اور یہی سبق دینے کے لئے جس میں ایک ایسا نظام جاری فرما دیا گیا جس میں ہر بڑا چھوٹا لازماً پانچ وقت ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا ہونے پر مجبور ہے.امیر سے امیر آدمی بھی اگر کھڑا ہے تو اس کے گھر کا معمولی نو کر بھی حق رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ جا کے کھڑا ہو اور اس امیر کی مجال نہیں ہے کہ وہ اس کو دھکیل کے ایک طرف کرے یا اس سے ناراض ہو کہ تم میرے ساتھ لگ کے کیوں کھڑے ہو گئے کیونکہ وہ خدا کا دربار ہے اور وہی ایمان والی بات ہے.جب ایمان غائب کو حاضر کر دے تو ہر دوسرا فا صلہ مٹ جاتا ہے ہر دوسرا خیال غائب ہو جاتا ہے صرف ایک عظیم وجود کی حاضری کا خیال ہے جو دل پر اور دماغ پر غالب رہتا ہے.پس اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اللہ کی نظر میں تمہیں لازماً خدا کے بندوں سے تعلق قائم رکھنا ہوگا کیونکہ اس کی نظر جسے اپنے بندوں سے تعلق قائم کرتے ہوئے دیکھے گی ،اسے پیار سے دیکھے گی ، اسے اپنا قرب عطا کرے گی اور اس بات کا نتیجہ یہ لازم ہو گا کہ اس پر جہنم حرام ہوگئی.پس جہنم کا حرام ہونا اس کے پیچھے ایک کہانی رکھتا ہے ایک اعمال اور مزاج کی کہانی ہے.اسے سمجھیں گے تو پھر جہنم حرام ہوگی ورنہ یہ کہ ہم لوگوں سے ملتے جلتے ہیں روز، کوئی بات نہیں ہم پر جہنم حرام ہوگئی، یہ بات غلط ہے.جہنم حرام ہونے کا فتویٰ بہت بڑا فتویٰ ہے اس کے پیچھے جو اعمال ہیں ان میں کوئی خاص صلى الله گہری بات ہونی چاہئے جس کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ جو یہ کرے گا اس پر جہنم حرام ہوگی کوئی معمولی اعلان نہیں ہے.پس اس کی حکمت کو سمجھیں اور اپنے دل کو عامۃ الناس کے قریب کریں اور ان کے قریب ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وقت ان کے ساتھ کھڑے رہیں یہ تو

Page 828

خطبات طاہر جلد 13 822 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1994ء ناممکن ہے.ان کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بیماریوں پر ، ان کی کمزوریوں پر ، ان کی تکلیفوں پر نظر رکھیں خوشیوں میں ان کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کریں، ان کے غم بانٹنے کی کوشش کریں احساس رہے کہ یہ بھی میرے ہیں میں ان کا ہوں یہ بنیادی مزاج ہے جس پر آگ حرام کی جاتی ہے اور اسی کی طرف آنحضرت ﷺے بلاتے ہیں.چنانچہ فرمایا' تحریم، یعنی جہنم حرام ہوگی علی کل قريب هين لين سهل ہر اس شخص پر حرام ہو گی جو آسان ہے لوگوں کے لئے بزم ہے لوگوں کے لئے اور سہولت کے ساتھ مہیا ہے اور ان کی سہولتوں کا خیال رکھتا ہے وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے بندوں کے لئے نرمی اختیار کرتا ہے اور ان کے قریب رہتا ہے ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک فرمائے گا.پس جہنم سے بچنے کا ایک آسان نسخہ ہے اور پیارا نسخہ ہے اور دعویٰ بہت بڑا ہے کہ جہنم سے بچا دیا جائے گا تو اگر آپ غور کریں اور ان صفات کے ساتھ بندوں کے قریب ہوں جو صفات بیان فرمائی گئی ہیں تو مشکل نہیں ہے کیونکہ نرمی میں مزہ ہے، سہولت دینے میں ایک مزہ ہے اور حسن سلوک میں ایک مزہ ہے.پس یہ مشقت کی باتیں نہیں ہیں، یہ وہ باتیں ہیں جو اپنی ذات میں لطف رکھتی ہیں تو دنیا میں بھی آپ لطف اٹھا ئیں اور جہنم سے بھی بچائے جائیں اس سے بہتر اور کیا سودا ہوسکتا ہے.مسلم کتاب الایمان میں ہے اور اس کا بیان ہے انه لا يدخل الجنة الا المومنون کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی اور داخل نہیں ہو گا.حضرت تمیم داری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا که دین سراسر خیر خواہی ہے اور خلوص کا نام ہے آنحضرت ﷺ کے الفاظ یہ ہیں الدين النصيحة.قلنا لمن آپ نے فرمایا دین نصیحت ہے.ایک نصیحت کا عام معنی ہے کسی کو نیک بات کہنا اور ایک نصیحت کا معنی ہوتا ہے سراسر خلوص اور خیر خواہی.تو یہاں نصیحت کے یہ معنی ہیں جو درحقیقت پیش نظر ہیں.آپ نے فرمایا الدین النصیحۃ کہ دین تو نام ہی اخلاص اور خیر خواہی کا ہے اگر اخلاص اور خیر خواہی نہیں تو دین بے معنی اور بے حقیقت ہو جاتا ہے قلنا لمن ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہے کس کے لئے ؟ خیر خواہی اور اخلاص کس کے لئے ؟ تو آپ نے فرما یالله و ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين ولعامتهم عامتهم آپ نے فرمایا کہ اللہ کے لئے خیر خواہی، اللہ کے لئے خیر خواہی کا ترجمہ درست نہیں.یہاں یہ ہونا چاہئے اللہ کے لئے خلوص نیت.اللہ کی خیر خواہی کوئی انسان کیسے کر

Page 829

خطبات طاہر جلد 13 823 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1994ء سکتا ہے.تو یہاں اللہ کے لئے سے مراد یہ ہے اللہ کے لئے آپ کی نیتوں کا خالص اور پاک ہو جانا اس میں کوئی غیر اللہ کی ملونی نہ رہے.ولرسوله اور رسول کے لئے بھی اپنے اخلاص کو کامل کر دیں اور پاک کرلیں.ولائمۃ المسلمین یہاں دونوں معنے داخل ہو جائیں گے اور مسلمانوں کے اماموں کے لئے بھی پاک خیالات رکھیں خیر خواہی کے جذبات رکھیں اور ان سے بھی اخلاص کا تعلق رکھیں امتہ المسلمین کے لئے بھی پاک صاف خیالات رکھیں اور ان سے بھی حسن سلوک کا وعامتهم اور عامة ا معاملہ کریں ان کی خیر خواہی چاہیں.فرمایا یہ وہ چیزیں ہیں جو جنت میں داخل کرنے کے لئے ضروری ہیں اور خلاصہ یہ ہے کہ نصیحت یعنی اخلاص اور خیر خواہی کا تعلق یہی وہ باتیں ہیں جو انسان کو جنت عطا کرنے والی ہیں.یہ حدیث، میں نے بیان کر دیا ہے مسلم سے لی گئی تھی.اب یہ دوسری حدیث ہے یہ بھی مسلم ہی سے لی گئی ہے کتاب البر والصلۃ باب فضل الرفق.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا زَوْجِ النَّبِي الا الله.قَالَ: إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ.(مسلم کتاب البر والصلہ حدیث نمبر : 4698) کہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور نرمی اتنا ہی اس کے لئے زینت کا موجب بن جاتا ہے اور جس سے رفق صلى الله اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے.زَانَہ کا مطلب ہے اسے زینت بخشی اور شانہ کا مطلب ہے اس میں داغ لگا دیا اسے داغ دار کر دیا اس میں بدصورتی پیدا کر دی.تو امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم امت میں رفق اور نرمی کو عام کرنا چاہتے تھے اور سمجھانا چاہتے تھے اور سمجھاتے رہے اور آج بھی آپ کا یہی پیغام ہے کہ اگر تم اپنے اعمال کو زینت بخشا چاہتے ہو تو اپنے اندرنرمی کی عادت ڈالو اور سخت گیری اختیار نہ کرو اور ایک مبلغ کے لئے تو بہت ہی اہم ہے کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں نرمی کی عادت ڈالے مشکل یہ ہے کہ اگر ایک انسان ایسے ماں باپ کے گھر میں پلتا ہے جو آپس میں ہمیشہ سخت کلامی کرتے رہے ترش روئی سے کام لیتے رہے تو بہت بعید بات ہے کہ کہ ان کے بچے بڑے ہو کر نرمی اختیار کریں گے تو نصیحت سن کر اس پر عمل کی خواہش کرنا یا ادب سے یہ سوچنا کہ رسول اللہ کا کلام ہے مجھے کرنا چاہئے یہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے یہ گہرا مسئلہ ہے نرمی اور

Page 830

خطبات طاہر جلد 13 824 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1994ء رفق لمبی تربیت کو چاہتے ہیں جن گھروں میں ماں باپ ترش رو ہوں اور بدکلام ہوں اور بات بات میں جھگڑنے والے ہوں بعض دفعہ ان کے بچوں میں رد عمل پیدا ہوتا ہے اور نرمی بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس نرمی کے ساتھ اپنے ماں باپ کے خلاف نفرت اور ان سے دوری بھی پیدا ہو جاتی ہے.ایک طرف وہ نرمی سے لوگوں کی طرف جھکتے ہیں کیونکہ ان کو رد عمل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف جن سے.حسن سلوک کا قرآن حکم دیتا ہے ان سے وہ دور چلے جاتے ہیں.تو یہ نرمی بھی برائی سے خالی نہیں ہوتی.اصل اخلاق کی نرمی وہ ہے جو بچہ اپنے با اخلاق ، نرم رو اور خلیق ماں باپ سے سیکھتا ہے.جس کے گھر میں گفتگو تہذیب سے ہو رہی ہے اس کے گھر میں بچے بالعموم بہت نرم رو پیدا ہوتے ہیں اور جب بڑے ہوتے ہیں تو معاشرے میں بھی ان کے گوشے سب دوسروں کے لئے نرم رہتے ہیں اور بد اخلاق گھروں میں بد اخلاق لوگ پیدا ہوتے ہیں.اب ان کو آپ نصیحت کر کے دیکھ لیں نصیحت کا اثر نہیں ہوتا.آنحضرت مے کے حوالے سے ایک بات کہی جارہی ہے لیکن شاذ ہی ہوگا جو بچپن سے بدخلق ہو تو یہ بات سنتے ہی ایک دم نرم رو ہو جائے.اس لئے میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ اتنی اہم نصیحت کو اگر آپ نے سنجیدگی سے دیکھنا ہے تو اس کے لئے لمبی محنت درکار ہوگی سب سے اول تو اپنے گھروں میں اپنا ما حول درست کریں اپنے تعلقات اپنی بیوی سے اور بیویاں اپنے تعلقات اپنے خاوندوں سے اور پھر ماں باپ اپنے بچوں سے اس طرح استوار کریں کہ تمام تعلقات میں ملائمت پائی جائے اور درشتگی نہ ہو سختی نہ ہو کیونکہ جب کھردرا پن آئے تو اس سے پھر آگ پیدا ہوتی ہے جتنا بھی آپس کے معاملات میں کھردرا پن پیدا ہو اتنا ہی اس سے قانون فطرت کے طور پر آگ پیدا ہوتی ہے اور وہی آگ ہے جو غصے میں تبدیل ہوتی ہے جو بعض دفعہ سارے معاشرے کو جلا دیا کرتی ہے.تو نصیحت کر دینا کافی نہیں ہے اس لئے مجھے آپ کو سمجھانا پڑ رہا ہے.یہ وہ نصیحت ہے جس پر عمل بہت لمبی محنت کو ، بڑی گہری توجہ کو چاہتا ہے.ہر وقت، ہر آن اپنے گھروں کے ماحول پر نظر رکھیں، اپنے اندر اگر پہلے تختی تھی تو اسے رفتہ رفتہ نرمی میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں.بار بار یا درکھیں کہ آنحضرت ﷺ آپ سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو آپ بد زیب بنے رہیں گے، ہمکر وہ صورت ہو جائیں گے کوئی آپ کی طرف توجہ نہیں دے گا.پس معاشرے میں تو بداخلاقی سے پہلے ہی بہت گھر اجڑ گئے ہیں لیکن جس تعلق میں میں

Page 831

خطبات طاہر جلد 13 825 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /اکتوبر 1994ء آپ کو سمجھا رہا ہوں آپ گھر ہی نہیں دنیا اجاڑنے والے بنیں گے کیونکہ آپ کی بد زیبی جو بداخلاقی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ جو آپ کےحوالے سے اسلام میں دلچسپی لے سکتے تھے وہ اسلام سے متنفر ہورہے ہیں اور اسلام سے دور ہٹ رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں آپ ان سب کے ذمہ دار ہو جائیں گے تو محض اپنا گھر ہی نہیں اجاڑ رہے بلکہ دنیا کے گھر بھی اجاڑنے والے بن گئے ہیں.اگر ایک مومن اپنے گھر میں نرمی اور رفق کا سلوک کرتا ہے اور اپنے بچوں سے بھی پیار اور محبت اور ادب کا سلوک کرتا ہے اور بے وجہ تختی نہیں کرتا کیونکہ بعض اوقات سختی بھی اخلاق کا حصہ ہوتی ہے اور وہ نرمی اور رفق کے خلاف نہیں ہوتی.اگر یہ خلاف ہوتی تو آنحضرت ﷺ بھی کبھی سختی نہ کرتے لیکن نرمی اور رفق اور علم جو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں ان کی پہچان یہ ہے کہ ایسا شخص جب سختی بھی کرتا ہے تو دور نہیں پھینکتا.وقتی طور پر ایک شخص تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن پھر بلا اختیار بے ساختہ اس طرف واپس لوٹ آتا ہے نرمی اور پیار اور محبت کے نتیجے میں جو کشش پیدا ہوتی ہے وہ کشش ثقل کی طرح ایک حاوی بالا طاقت رکھتی ہے.آپ چھلانگ لگا کر زمین سے کچھ دور جاسکتے ہیں لیکن واپس پھر یہیں آنا ہے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر آپ کتنا اونچا چلے جائیں گے لیکن پھر یہیں گرنا ہے یا یہیں اترنا ہے.پس نرمی اس کشش ثقل کی طرح ہے جو ہمیشہ اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وقتی سختی سے اگر کوئی دور ہلتا بھی ہے تو کچھ عرصہ کے لئے ہٹ سکتا ہے ہمیشہ کے لئے نہیں لیکن جو بد خلق لوگ ہیں ان کے پاس آنا مصیبت ہے.وہ ہر وقت دھکا دے رہے ہیں جس طرح ایک ہی پول اپنے جیسے پول کے قریب ہو جائے تو ایسا ہی منظر پیدا ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کو دھکا دینے لگ جاتے ہیں اور بڑی کوشش کے ساتھ آپ ان کو جوڑیں گے جب ہاتھ ہٹا ئیں گے پھر وہ پرے ہٹ جائیں گے.تو بد خلق آدمی کا یہ حال ہوتا ہے اس کے پاس ٹھہرنا مصیبت ، اس کے قریب آنا عذاب اور بڑی محنت کے ساتھ انسان اس کے پاس رہ سکتا ہے پھر جب وہ دباؤ ہے تو پھر واپس چلا جاتا ہے.تو ایسے لوگ جو بد اخلاق ہیں وہ اپنے ماحول کو اپنے گھر کو ہی نہیں سارے ماحول کو ، غیروں کو بھی دھکا دے رہے ہیں.چنانچہ بعض اوقات اس بات سے مجھے بہت تکلیف پہنچتی ہے کہ بعض غیر احمدی یہ خط لکھتے ہیں کہ ہم احمدیت کے اخلاق سے عموما متاثر ہو کر قریب آ رہے تھے لیکن ایک ایسا شخص مل گیا جس

Page 832

خطبات طاہر جلد 13 826 خطبہ جمعہ فرموده 6 رمئی 1994ء نے اس بھیڑیے کی طرح جو بھیٹر کا لباس اوڑھے ہوئے ہو، بھیٹر کی کھال میں لپٹا ہو ہم سے سلوک کیا اور جتنا قرب تھا وہ دور یوں میں تبدیل ہو گیا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں یہ ایک انفرادی کمزوری ہے اور جماعت اچھی ہوگی لیکن بعض یہ کہتے ہیں کہ اب ہمارا دل ہی اتر گیا ہے.بعض دفعہ جب تحقیق کی گئی تو مبالغہ نکلا، بہت دفعہ جب تحقیق کی گئی تو اگر چہ کچھ نہ کچھ حقیقت تھی لیکن پھر بھی بہت مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا تھا.لیکن بعض دفعہ جماعت کی طرف سے اس کی پوری تصدیق آتی ہے کہ یہ انسان جو یہ خط لکھنے والا ہے شریف آدمی ہے جھوٹ نہیں بول رہا واقعہ اس کے ساتھ یہ ہوا ہے.تو وہ شخص جو اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے کسی کو جہنم میں پھینکنے کا موجب بن جائے وہ خدا سے جنت کی توقع کیسے رکھے گا.جو جنت کے منادی ہیں انہی کو جنت عطا ہوا کرتی ہے جو جہنم کی طرف دعوت دینے والے ہیں ان کا مقدر بھی یہی بن جاتا ہے.پس آنحضور ﷺ کی نصائح پر غور کریں اور ان پر عمل کا منصوبہ بنائیں کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا ہے بار بار کہنے کے باوجود مجھے ابھی اطمینان نہیں ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہیں.رسول اللہ ﷺ کی بات سنتے وقت آپ ادب سے سنیں گے.مجھے پتا ہے کہ احترام کریں گے مگر ایسی باتیں ہیں جن کو اپنی زندگی میں جاری کرنا آسان نہیں ہے.اپنے اپنے طور پر ہر شخص اپنی کیفیات کا اور عادات کا جائزہ لے کر ایک منصوبہ بنائے پھر امید ہوسکتی ہے کہ اس کا یہ سنجیدہ فیصلہ اور رسول اللہ ﷺ کی نصیحت کے سامنے سر جھکانا اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرے اور آسمان سے وہ مدد ملے جس کے نتیجہ میں مشکل کام آسان کر دیئے جاتے ہیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.(آمین)

Page 833

خطبات طاہر جلد 13 827 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء مالی قربانیاں تقویٰ کی استطاعت کے مطابق کریں ( خطبه جمعه فرموده 4/ نومبر 1994ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَأَتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ۚ فَإِن لَّمْ يُضِهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( البقرة: 266) پھر فرمایا :.پیشتر اس سے کہ اس آیت کے مضمون پر کچھ گفتگو کروں میں آج مجلس انصار اللہ UK کے تین روزہ سالانہ اجتماع کے آغاز سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.آج مجلس انصار اللہ UK کا تین روزہ سالانہ اجتماع اسلام آباد میں ہو رہا ہے اور صدر صاحب انصار اللہ کی طرف سے گزشتہ ہفتہ دس دن سے مسلسل مجھ پر دباؤ رہا ہے کہ میں اسلام آباد جا کر وہ افتتاح کروں اور مسلسل میں اس کا انکار کرتا رہا ہوں.لیکن وہ بھی ماشاء اللہ دھن کے پکے ہیں، اچھے دعا گو ثابت ہوں گے.مگر میں نے واضح طور پر عرض کیا بار بار کہ یہ نہیں ہوگا پھر بھی ماشاء اللہ انہوں نے اپنی اس نیک کوشش کو ترک نہیں کیا اور یہ جو انہوں نے ضد لگائی تھی دراصل وہی وجہ ہے جو میں خصوصیت سے ان کی بات کا انکار کرتا رہا ہوں.

Page 834

خطبات طاہر جلد 13 828 خطبہ جمعہ فرموده 4 / نومبر 1994ء میرا سابقہ دستور ہے جو سب مجالس کے علم میں ہے کہ UK میں جتنے بھی ذیلی مجالس کے اجتماعات ہوتے ہیں ان کا افتتاح میں امیر صاحب UK سے کرواتا ہوں اور اگر وہ نہ ہوں تو ہمارے امام صاحب جو نائب امیر بھی ہیں اور دوسری تقریبات میں حصہ لیتا ہوں.تو اول تو میں کسی وجہ سے اس دستور کو بدلنا نہیں چاہتا تھا ورنہ ہر مجلس کی طرف سے مجھ پر یہی دباؤ ہوگا اور یہی مطالبہ ہوگا کہ انصار اللہ کے اجتماع میں آپ نے اس دستور کو بدلا ہے تو ہمارے معاملہ میں کیوں یہ سوتیلے پن کا سلوک ہے، ایک تو یہ وجہ تھی.دوسرے یہ کہ ان کا اصرار اس لئے تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ اپنے اجتماع کی حاضری بڑھانا چاہتے تھے اور یہ اطلاع دے بیٹھے تھے سب کو کہ ضرور جمعہ سے پہلے پہنچ جائیں کیونکہ خلیفہ اسیح افتتاح کریں گے.یہ درست ہے کہ اگر کسی مجلس میں خلیفہ اسیح شامل ہوں پہلے بھی یہی رہا ہے آئندہ بھی یہی رہے گا تو ظاہر بات ہے کہ اس اجتماع کی حاضری بڑھ جاتی ہے لیکن اسے حاضری کو بڑھانے کا ذریعہ بنا کر سالانہ رپورٹ کا معیار بڑھانا یہ جائز نہیں ہے.خدام کی حاضری ہو، لجنات کی ہو یا انصار کی ہو وہ سال بھر کی کوششوں کا آئینہ دار ہونی چاہئے.اگر تمام سال کوشش کر کے مجلس انصار اللہ میں ایک مستعدی پیدا کر دی جائے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کا ذوق و شوق بڑھایا جائے اور اس طبعی جوش اور ولولے کے نتیجے میں لوگ کثرت سے اجتماعات میں شامل ہوں تو اچھی با برکت بات ہے اور قابل تحسین ہے.مگر یہ نہ ہو تو خلیفہ وقت کو ذریعہ بنا کر اس دن کی حاضری بڑھانا یہ کوئی نیک ، اچھی بات نہیں ہے.اس لئے وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ بات میں اشارہ ان کی دل آزاری کئے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتار ہا مگر وہ بات پہنچ نہیں.اس لئے اب میں ساری دنیا کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو کسی بڑے علاقے سے تعلق رکھتا ہو کہ اس کی خاطر لوگ آئیں اس کے آنے پر لوگوں کا آنا ایک طبعی بات ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے.مگر کسی ایک دن اس کو بہانہ بنا کر اپنی حاضری بڑھا لینا یہ اچھی کارکردگی کی علامت نہیں ہے.اس لئے انصار ہوں یا لجنات ہوں یا خدام ہوں ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سالانہ تربیت کے معیار کو بڑھا ئیں یہاں تک کہ کسی ایک شخص کی خاطر نہیں بلکہ روز مرہ کی تربیت کے نتیجے میں ، دینی اغراض کی خاطر، تمام ذیلی تنظیموں کے ممبر خدا کو راضی کرنے کے لئے دینی اغراض کی خاطر ا کٹھے ہوا کریں.یہ جو خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق ہے یہ بھی ایک دینی غرض ہے مگر ان دونوں باتوں میں فرق ہے.روزمرہ

Page 835

خطبات طاہر جلد 13 829 خطبہ جمعہ فرمود و 4 نومبر 1994ء کی تربیت کے نتیجے میں جو دین سے وابستگی پیدا ہوتی ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس بات کی محتاج نہیں رہتی کہ کون آ رہا ہے اور کون نہیں آ رہا.اس وقت تو حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ہم تو بن بلائے بھی جانے کی کوشش کریں گے اور واقعہ ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک مصرعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ: اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ دن آئے نہ بنے (دیوان غالب : 296) بلانے کا محتاج نہ رہے انسان.جب دینی مقصد کا کوئی اجتماع ہو تو اس میں ذوق وشوق سے لوگوں کا حاضر ہونا ایک دینی تقاضا ہے.پس یہ وجہ ہے میں وضاحت کر رہا ہوں.انہوں نے جو وعدہ کیا تھا انصار سے، ان کی طرف سے عہد شکنی کوئی نہیں ہوئی ان کو اس بات پر ملزم نہ کیا جائے.اپنی طرف سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آخر وقت تک جو ممکن تھا انہوں نے کوشش کر دیکھی مگر یہ میری مجبوری تھی جس کی وجہ سے وہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی.مجلس انصار اللہ UK میں عمومی طور پر مجھے توقع ہے کہ بیداری پیدا ہوئی ہے.اور اس بیداری کا ایک اظہار اس اجتماع میں ایک مجلس سوال و جواب کو داخل کر کے جس میں غیر از جماعت اور غیر مسلموں کو بلایا جارہا ہے یہ اس نیک طریق پر کیا جارہا ہے اس توقع پر کہ انشاءاللہ اس کے نتیجے میں بیعتیں بھی ہوں گی اور اس معاملے میں اللہ تعالیٰ جماعت جرمنی کو جزا دے سارے یورپ کے لئے وہ نمونہ بنی ہوئی ہے.چنانچہ صدر صاحب انصار اللہ نے جب اس خصوصی اجلاس کو عام دستور سے ہٹ کر جو یہاں کا دستور تھا، انصار اللہ کے اس اجتماع میں شامل کرنے کی درخواست کی تو خود ہی یہ کہا کہ جرمنی کو دیکھ کر ہمارے دل میں بھی جوش پیدا ہوا ہے کہ ہم بھی ایسے اجتماعات اپنے سالانہ اجتماع کا ایک مستقل جزو بنا لیں.تو اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے اور زیادہ سے زیادہ غیر.مسلموں کو خصوصیت سے اور غیر احمدی مہمانوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی توفیق بخشے.انصار اللہ کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں باقی ساری مجالس سے زیادہ ہیں.اس کے متعلق میں تفصیلی گفتگو نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آج تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کے اعلان کا دن ہے.صرف دو تین نکتے جو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں وہ آپ کو یاد دلاتا ہوں.انصار کی عمر وہ عمر ہے جس کے بعد کسی اور مجلس میں شامل نہیں ہونا بلکہ دوسری دنیا کی طرف رخصت ہونا ہے.اس لئے جو دینی کاموں میں کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو دور کرنا اور ان کا ازالہ کرنا جس حد

Page 836

خطبات طاہر جلد 13 830 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء تک ممکن ہے انصار کو کرنا چاہئے کیونکہ پھر اس کے بعد دوبارہ یہاں واپس نہیں آنا اور اس پہلو سے خدام اور دوسرے ذیلی شعبوں سے مجلس انصار اللہ کو زیادہ مستعد ہونا چاہئے اور زیادہ ان کے دل پر بوجھ پڑنا چاہئے.انبیاء کا سب کا یہی حال رہا ہے.جوں جوں عمر بڑھتی ہے اور بڑھاپے کی عمر میں وہ داخل ہوتے ہیں کام کی ذمہ داریاں ان پر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور پہلے سے زیادہ محنت اٹھاتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی یہی روایتیں ہیں کہ آخری ایام میں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی شخص غروب ہوتے ہوئے سورج پر نظر کرتے ہوئے جبکہ ابھی منزل دور ہو بہت تیزی سے قدم اٹھاتا ہے اور بار بار توجہ کرتا ہے کہ کہیں دن غروب نہ ہو جائے.اس کیفیت سے آپ نے آخری عمر میں کاموں کے بوجھ زیادہ بڑھالئے اور زیادہ اس احساس کے ساتھ کہ جو کچھ بھی اب مجھ سے ممکن ہے میں کرلوں ، ان کی ذمہ داریاں ادا فرمائیں.پس انصار کا ایک یہ پہلو ہے جو پیش نظر رہنا چاہئے.دوسرا یہ کہ انصار کی ذمہ داریوں میں طبعی طور پر ان سے پلی تمام نسلوں کی ذمہ داریاں داخل ہیں.بچوں کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، خواتین کی تربیت میں بھی انصارسب سے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں اس میں بالعموم نفس کی ملونی کا خطرہ باقی نہیں رہتا.اس پہلو سے مجلس انصار اللہ کو مستعد بھی ہونا چاہئے اور اپنی ذیلی تنظیموں کی تربیت پر بھی نظر رکھنی چاہئے.تربیت کے لحاظ سے ذمہ داری ادا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے انتظام میں دخل دیں، لجنہ کے انتظام میں دخل دیں بلکہ گھر کے بڑوں کے طور پر، ایک معزز شہری کے طور پر جس حد تک نیک نصیحت کے ذریعے وہ اپنی سے مچلی نسلوں کی تربیت کے کام سرانجام دے سکتے ہیں ان کو دینے چاہئیں.اب میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں نے بیان کیا ہے کہ نئے سال کا تحریک جدید کا اعلان ہونا ہے.الحمد للہ کہ تحریک جدید دفتر اول ساٹھ سال پورے کر چکا ہے اور دفتر دوم پچاس سال پورے کر چکا ہے.دفتر سوم انتیس سال اور دفتر چہارم نو سال.اور اب یہ اپنے اکسٹھویں، اکاونویں، تیسویں اور دسویں سال میں داخل ہوں گے.دفتروں کا جہاں تک تعلق ہے اس سلسلے میں میں نے رپورٹوں پر نظر کر کے محسوس کیا ہے کہ

Page 837

خطبات طاہر جلد 13 831 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء رفتہ رفتہ دفاتر کی تقسیم پر عہدیداروں کی یا کام کرنے والوں کی نظر نہیں رہتی اور عمومی طور پر تحریک کے چندے کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر دفاتر کے قیام کی جو غرض و غایت تھی وہ اس طرح پوری نہیں ہوسکتی.جب میں نے اعداد و شمار سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ دفتر چہارم نے کتنی ترقی کی ہے، دفتر سوم نے کتنی ترقی کی ہے، تو پتا چلا کہ ایسا کوئی تذکرہ رپورٹوں میں موجود ہی نہیں تھا.پھر فیکس کے ذریعے بڑی بڑی یورپ اور امریکہ وغیرہ کی جماعتوں کو تحریک کی گئی کہ آپ کے پاس اعداد و شمار ہوں گے فوراً بھجوا دیں.تو ہر جگہ سے یہ معذرت آئی کہ ہم نے الگ الگ اعداد و شمار نہیں رکھے اس لئے آئندہ سال ایسا کریں گے.تو تحریک جدید کے تعلق میں پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ دفاتر کا انتظام تحریک جدید کے سیکرٹری کے تابع الگ الگ ذمہ دار خدمت کرنے والوں کے سپرد ہونا چاہئے تا کہ آئندہ کبھی اس بات میں کوئی کوتاہی نہ ہو.ہر تحریک جدید کا سیکرٹری اپنے ساتھ دفتر اول کا ایک نائب لگائے ، ایک دفتر دوم کا، ایک سوم کا اور ایک چہارم کا.تا کہ ان کا الگ الگ ریکارڈ رکھے اور ان کا مقابلہ کرے اور اس طرح آپس کے مقابلے کی وجہ سے ویسے بھی عمومی معیار خدا کے فضل سے بہتر ہوگا.یہ دفاتر کی تقسیم دراصل بعض عمروں کے بدلنے کے نتیجے میں جو ایک قسم کے نسلی گروہ بنتے ہیں، ایک نسل سے تعلق رکھنے والے گروہ ، ان کے پیش نظر کی گئی.دفتر اول کو جب دس سال گزر گئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تجویز فرمائی کہ دفتر اول کا الگ رجسٹر رکھ کر اس کا حساب الگ کر دیا جائے اور ایک دفتر دوم قائم کیا جائے جس میں نئے مجاہدین داخل کئے جائیں.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اس حصے کو بھی قربانی کی توفیق ملے گی جو پہلے غافل رہا ہے اور دفتر اول کی قربانیوں کے سائے تلے وہ بھی شمار ہوتا رہا ہے.پس اس گروہ کو اگر اس سائے سے الگ کر کے اپنی کارکردگی دکھانے کی طرف بلایا جائے تو ظاہر بات ہے کہ ایک بہت بڑی تعدادان مخلصین کی ہاتھ آسکتی ہے جو کسی وجہ سے تحریک جدید کے کاموں سے غافل رہے ہیں.جب یہ کچھ عرصے تک سلسلہ جاری رہا اور مفید ثابت ہوا تو پھر دفتر سوم کا اعلان دفتر اول کے اکتیس سال بعد کیا گیا اور پھر دفتر چہارم کے آغاز کا اعلان میں نے آج سے دس سال پہلے کیا تھا.مراد یہ تھی کہ گزشتہ عرصے میں جو نئے بچے بڑے ہوئے ہیں، نئے لوگ جماعت میں داخل ہوئے ہیں، ان پر نظر رکھنے کے لئے ایک الگ انتظام ہو، الگ

Page 838

خطبات طاہر جلد 13 832 خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1994ء منتظمین ان ذمہ داریوں کو ادا کریں.چنانچہ میں پہلی نصیحت تو یہ کرتا ہوں کہ ان دفاتر کی تقسیم کوملحوظ رکھتے ہوئے شعبوں کے اندر ایسے نائبین مقرر کئے جائیں جو اپنے اپنے دفتر کا الگ حساب رکھیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ جہاں اگر جماعت چھوٹی ہو اور یہ تقسیم ممکن نہ ہو تو جو بھی تحریک جدید کا سیکرٹری ہے وہی خود اپنے ذمہ یہ بات لے لے کہ وہ یادرکھے گا اور ان سب کا ریکارڈ الگ الگ رکھے گا.جہاں تک تحریک جدید کی عمومی سال بہ سال ترقی کا تعلق ہے، خدا کے فضل سے چونکہ جماعت محض اللہ قربانیاں کر رہی ہے اور خدا کی ذات دائم ہے وہ آنی جانی نہیں ہے اس لئے جو قربانیاں اس کے تعلق سے بجالائی جاتی ہیں ان کو بھی دوام عطا ہوتا ہے، کسی وقتی جوش سے تعلق نہیں رکھتیں.سن 1934 ء سے لے کر اب سن 1994 ء آ گیا ہے اور اس ساٹھ سالہ دور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بھی سال ایسا نہیں آیا جبکہ جماعت اس قربانی سے تھک گئی ہو اور اس کے قدم سست پڑ گئے ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت کی قربانیاں محض اللہ ہوتی ہیں اور اللہ کی ذات کے حوالے سے ان قربانیوں کو دوام ملتا ہے.جس آیت کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس کا ترجمہ یہ ہے وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ کہ وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی رضا کی خواہش میں ، اس کی تمنا میں، اس کی حرص میں خرچ کرتے ہیں یعنی ان کی مالی قربانی خالصہ اللہ ہوتی ہے اور اللہ کی رضا کے لئے ان کے دل میں محبت اور اشتہار پائی جاتی ہے تو ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللہ کا مطلب ہے اس خدا کی مرضیوں کو ڈھونڈنے کے لئے ، ان کی خواہش میں، ان کی لگن میں وہ مال خرچ کرتے ہیں.وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ اور دوسری غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ مالی قربانی کے ذریعے ان کے ایمان تقویت پائیں اور ان کی نیکیوں کے اقدام میں ثبت پیدا ہو اور مالی قربانی سے وہ اپنے اعمال کی بھی حفاظت کریں اور ان نیک اعمال کی حفاظت کے لئے گویا یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ مالی قربانی بہت ہی مفید نتائج پیدا کرتی ہے.یہ دو جائز اغراض ہیں اس کے سوا کسی تیسری غرض کا ذکر نہیں ہے.اول سب سے اعلیٰ غرض اللہ کی محبت میں اس کی رضا کی خاطر اموال کو پیش کرنا تا کہ اللہ کی نظر، پیار اور محبت کے ساتھ قربانی کرنے والوں پر پڑے اور دوسرے اپنے اعمال کو جو نیک اعمال ہیں

Page 839

خطبات طاہر جلد 13 833 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء ان کو تقویت دینے کے لئے اور ان کو ثبات بخشنے کے لئے ان کی حفاظت کی خاطر مالی قربانی کی جائے.اب یہ دو باتیں ایسی ہیں جو جماعت احمدیہ کی مالی قربانی کی تاریخ میں بالکل نمایاں طور پر درست دکھائی دیتی ہیں.اللہ کی بات تو بہر حال درست ہونی ہے مگر جماعت کی مالی قربانیوں کے آئینے میں جب ان دونوں باتوں کو عمل پیراد یکھتے ہیں تو یہ مراد نہیں کہ اللہ کی بات سچی ہے، مراد یہ ہے جماعت سچی ہے جس نے واقعہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر قربانیاں دی تھیں اور واقعہ اپنے نیک اعمال کی حفاظت کے لئے یہ اقدام کئے تھے ، اس لئے ان کا نتیجہ صاف دکھائی دے رہا ہے.جماعت کی مالی قربانیوں میں حصہ لینے والا گر وہ اللہ کے فضل سے تمام نیکیوں میں صف اول میں ہے.شاذ کے طور پر ایسے آدمی آپ کو دکھائی دیں گے جو مالی قربانی میں تو اول ہیں لیکن باقی چیزوں میں پیچھے ہیں.بعض ایسے جن کو میں جانتا ہوں جو کمزور ہوتے ہیں اور مالی قربانی میں حصہ نہیں لیتے.آغاز میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ مالی قربانی میں حصہ لینے لگے ہیں لیکن دیگر اعمال کے لحاظ سے معیاری نہیں لیکن کسی ایسے شخص کو میں نہیں جانتا جو مالی قربانی شروع کر دے اور دوسرے نیک اعمال میں محروم ہی بنا رہے.مالی قربانی اس کے دوسرے نیک کاموں کو بھی تقویت بخشتی ہے، اس کا سلسلے سے تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط ہونے لگتا ہے.دینی کاموں میں اس کا ذوق و شوق پہلے سے زیادہ بڑھنے لگتا ہے.پس قرآن کریم کی یہ گواہی جماعت احمدیہ کے گزشتہ سو سالہ کردار کے آئینے میں نہ صرف قرآن کی صداقت کا اعلان کر رہی ہے بلکہ جماعت احمدیہ کی نیک نیتوں اور پاک اعمال کی صداقت کا بھی اعلان کر رہی ہے.فرماتا ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ ان کی مثال کیسی ہے؟ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ ان کی مثال ایک ایسے باغ کی طرح ہے جو بلندیوں پر واقع ہو یعنی نیچے اترائی پر نہ ہو بلکہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر جیسے جنتیں ہوں یعنی باغات لگے ہوں ویسی ہی ان کی کیفیت ہوتی ہے.اَصَابَهَا وَابِل ایسی جنتیں یعنی ایسے باغات جو پہاڑوں کی چوٹی پر واقع ہوتے ہیں ان کی صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ انہیں اگر تیز بارش بھی پہنچے تو ان کو نقصان نہیں کرتی.زائد پانی نیچے بہہ جاتا ہے اور ان کی جڑوں میں کھڑا ہو کر ان کو گلا تا نہیں ہے اور ایسی جگہوں پر ویسے بھی شبنم پڑنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں.پہاڑی علاقوں میں جو پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں صبح آپ جا کے دیکھیں وہ بھیگی ہوئی ہوتی ہیں شبنم سے تو فرمایا تیز بارش ہو وہ نقصان

Page 840

خطبات طاہر جلد 13 834 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء نہیں پہنچاتی بلکہ خوب پانی دیتی ہے اور بارش نہ بھی ہو تو شبنم تو ان کے مقدر میں لکھی ہوئی ہے.وہ تو ہر صبح آتی ہے ان کے منہ دھلاتی ہے اور شبنم کا اتر نا چوٹی کی وجہ سے ایک اور فائدہ بخشتا ہے کہ شبنم چونکہ بہ نہیں سکتی اس لئے و ہیں جڑوں میں جذب ہوتی ہے اور جتنی بھی شبنم ہے وہ ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.تو نہ واہل یعنی تیز بارش ان کو نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ فائدہ دے جاتی ہے نہ ہلکی بارش سے ان کو کوئی نقصان پہنچتا ہے بلکہ وہ ایسا باغ ہے جونشو و نما پاتارہتا ہے.اس مثال کے بہت سے پہلو ہیں.ایک پہلو جو اس سے پہلے میں نے بیان نہیں کیا اس کی طرف میں آج متوجہ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جنت سے مراد اگر متقی لوگ ہیں ان کی مثال دی گئی ہے جو خدا کی رضا کی وجہ سے بہت بلند مقامات پر فائز ہوتے ہیں ان کو جب خدا زیادہ رزق عطا کرتا ہے تو ان کو نقصان نہیں پہنچتا.اس رزق کے نتیجے میں ان کے رجحانات دنیا کی طرف مائل ہوتے ہوئے دنیا کی سمت بہنے نہیں لگتے بلکہ کسی قسم کا کوئی نقصان ان کی ذات کو، ان کے وجود کو غیر معمولی برکات کے نتیجے میں نہیں پہنچتا بلکہ پہلے سے بڑھ کر دینی خدمات کی طرف ان کی توجہ پیدا ہوتی ہے.قربانی میں آگے بڑھ جاتے ہیں.زیادہ سرسبز و شاداب دکھائی دینے لگتے ہیں اور اگر کبھی کوئی ابتلا آ جائے تو ان کا رویہ ایسا نہیں بدلتا کہ جس سے ثابت ہو کہ جب تک خوشحال تھے قربانیاں کرتے تھے جب خوشحال نہیں رہے تو قربانیوں سے منہ پھیر لیا ہے بلکہ وہ شبنم بھی ان کی قربانیوں کے تر و تازہ باغات کو مزید تازگی بخشتی ہے اور ان کو مرنے نہیں دیتی.پس ایسے حالات رکھنے والے لوگ خواہ خوشحالی کے دور سے گزر رہے ہوں یا تنگی کے دور سے گزر رہے ہوں، ان کی نیکیوں کی کھیتیاں سرسبز و شاداب ہی رہتی ہیں.ان کی قربانیوں کے باغات ہمیشہ لہلہاتے رہتے ہیں.یہ بہت ہی بلند مقام اور مرتبہ ہے جو خدا کی خاطر قربانی کرنے والوں کو عطا کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود دیکھیں کتنے پیار سے کیسی عظیم الشان مثال ان کی بیان فرمائی ہے.فَاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ وہ جب اس کو شبنم بھی پہنچتی ہے تو اپنا پھل دگنا دیتی ہے.یہ ایک مسئلہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے.بہت بارشیں ہوں اور باغوں کا پھل زیادہ کردینا یہ تو سمجھ میں آجاتی ہے بات شبنم کے بعد پھل دگنا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ بظاہر خشک سالی کا دور ہے.شبنم مر نے تو نہیں دیتی لیکن اس طرح فراوانی سے پانی تو مہیا نہیں کرتی جیسے موسلا دھار بارشیں کیا کرتی ہیں.یہ

Page 841

خطبات طاہر جلد 13 835 خطبه جمعه فرمود و 4 نومبر 1994ء دراصل ایک اضافی چیز ہے جسے سمجھنا ضروری ہے.وہ لوگ جو خدا کی خاطر تنگی میں بھی قربانی کرتے ہیں ان کی قربانی کا درجہ امارت کی حالت کی قربانیوں سے زیادہ بڑا ہوتا ہے.خصوصا جس نے اچھے دن دیکھے ہوں اور اچھے رہن سہن کی عادت پڑ گئی ہو جب اس پر تنگی کا دور آتا ہے تو اس کے لئے اپنے خرچوں کا کم کرنا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے.مگر جو خدا کی رضا کی خاطر اعلی قربانیاں دے چکے ہوں ان کے اندر ہم نے واقعہ یہ روح دیکھی ہے کہ اپنے پہلے دنوں کی قربانیوں کو چونکہ کم نہیں کرنا چاہتے اس لئے اپنی ذات پر زیادہ بوجھ ڈال کر اور اپنی دنیا کی ضرورتوں کو زیادہ کاٹ کر پھر دیتے ہیں.تو ضعْفَيْنِ کا یہ مطلب ہے.دنیا کے باغات میں یہ منظر آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا مگر روحانی دنیا کے باغات میں بعینہ یہی منظر ہے جو دکھائی دیتا ہے اور میں اس کا گواہ ہوں کیونکہ کثرت سے مجھے ایسے لوگوں کے جن پر یہ واقعات گزرے خطوط آتے ہیں ان کے دل کا درد مجھ تک پہنچتا ہے کہ ایک وقت تھا ہمیں خدا نے یہ توفیق بخشی تھی اب ہم مجبور ہیں چندے کم کرنے کو دل نہیں چاہتا تو میری بیوی نے اپنا زیور دے دیا، میں نے یہ کر دیا، ہم نے اپنی جائیداد بیچ دی.حیرت انگیز قربانیاں ہیں جس کی وجہ سے دل ان کے اخلاص کی گرمی سے پگھلنے لگتا ہے.تو قرآن کا کلام بہت سچا کلام ہے کسی انسان کا بنایا ہوا کلام نہیں ہے ورنہ ناممکن تھا کہ کوئی انسان یہ منظر کشی کرتا اور یہ کہتا کہ جب پانی کم ہو جاتا ہے صرف شبنم پر وہ باغ پلتا ہے تو اس کا پھل دگنا ہو جاتا ہے.کیسے دگنا ہو سکتا ہے، کیسے انسانی سوچ اس تناظر کا تصور کرسکتی ہے.پس یہ انہی کلام ہے جو بالکل سچا ہے اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ یہ عجیب باغ ہے جو خدا کی محبت کا باغ ہے کہ جب اس پر غربت کا دور آتا ہے ، جب اس پہ تگی کا دور آتا ہے تو پہلے سے دگنا پھل دینے لگتا ہے یہاں ایک اور پہلو یہ ہے کہ اللہ کی نظر میں وہ پھل دگنا ہو جاتا ہے ان کے اخلاص اور محبت کی وجہ سے تنگی کی وجہ سے پھر یہ بات نہیں رہتی کہ چونکہ امیر تھے قربانیاں دیں بلکہ یہ صورت ابھرتی ہے کہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر تھی اب دیکھو نگی بھی آئی ہے تب بھی قربانیاں دے رہے ہیں ہر حال میں ان کی قربانیوں کا جذبہ قائم رہتا ہے پس اس پہلو سے ان پر زیادہ پیار کی نگاہ پڑتی ہے اور اللہ کی نظر میں ان کا پھل دگنا دکھائی دیتا ہے اور ان عام لوگوں کے ساتھ بھی یہ مضمون تعلق رکھتا ہے جو غربت کی حالت میں ویسی ہی قربانیاں دیتے ہیں ، یہاں موازنے کی بات نہیں ہوگی بلکہ یہ مضمون ہوگا کہ خدا

Page 842

خطبات طاہر جلد 13 836 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء کے پیار کرنے والے بندوں میں سے کچھ وہ ہیں خوشحال ہیں ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے چوٹی پر لگائے گئے باغ پر موسلا دھار بارش اثر دکھائے اور کچھ ایسے ہیں جو غریب ہیں بہت تھوڑا ان کو رزق ملتا ہے لیکن تھوڑے کے نتیجے میں جذبہ قربانی بڑھ جاتا ہے اور وہ ان سے بھی زیادہ مقامات حاصل کر لیتے ہیں، ان اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ جن کو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمتیں عطا کی ہیں.اور یہ امر واقعہ ہے اس میں ایک ذرہ بھی شبہ کی بات نہیں کہ ایسے بالعموم یہ ہے یعنی یہ ایک ایسی بات نہیں جو استثنائی ہو بالعموم یہ دکھائی دیتا ہے کہ غرباء میں قربانیوں کا معیار اونچا ہے امراء میں آپ کو استثنائی طور پر ایسے قربانی کرنے والے دکھائی دیں گے جو تناسب کے لحاظ سے اپنے غریب بھائیوں سے آگے نکل جائیں ورنہ بھاری اکثریت غرباء کی وہ ہے جن کی روحانی کھیتی دگنے پھل لا رہی ہے کیونکہ وہ ذاتی تنگی کے باوجود اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کو کاٹ کر قربانی کر رہے ہوتے ہیں اور امراء میں بدقسمتی سے یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اپنی آمد سے جو خدا تعالیٰ ان کو وافر عطا کرتا ہے اتنا دیتے ہیں کہ ان کو یہ خطرہ نہ رہے کہ ان کے منافع کے معیار گر جائیں گے اور یہ جو ذہن کی فکر ہے کہ ہم نے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں اور جائیداد بڑھانی ہے اور کارخانے بنانے ہیں تجارتوں کو اور طرح فروغ دینا ہے یہ فکر ان کے منافعوں کے ایک بڑے حصے کو مزید دنیا طلبی کے لئے وقف رکھتی ہے اس واسطے وہ یہ نقصان سمجھتے ہیں کہ دین کی خاطر اتنی قربانی کی جائے کہ دیگر ہمارے جو روز مرہ کے تجارتوں اور اموال کو بڑھانے کے مواقع ہیں ان سے ہم محروم نہ رہ جائیں ، ان کو اپنے غریب بھائیوں سے یہ بات پیچھے رکھتی ہے لیکن ان میں بھی اللہ کے فضل سے بہت بڑے بڑے قربانی کرنے والے ہیں اور واہل کی جو مثال ہے ان پر اسی طرح صادق آتی ہے اور ایسے آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بڑھ رہے رہیں کم نہیں ہورہے.مسلسل جماعت کی قربانی کی تاریخ پر نظر ڈال کر آپ دیکھ لیں امراء میں جتنا پہلے قربانی کا رجحان تھا اس سے دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پہلے سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے باغات کو بلندی پر لگانے کے لئے کوشاں ہیں.فرماتا ہے فَإِن لَّمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ معاف کرنا ایک غلطی ہوئی.پہلے ترجمے

Page 843

837 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء خطبات طاہر جلد 13 میں میں واہل کو کل کے معنوں میں پیش کر رہا تھا یہ غلط ہے واہل کے نتیجے میں ان کا رزق دگنا ہو جاتا ہے، یہ تھا قرآن کریم کا بیان.اس مضمون کی روشنی میں مجھے تفسیر میں ترمیم کرنی پڑے گی، اگر چه روح مضمون اسی طرح وہی رہے گی، اس میں کوئی فرق نہیں.مطلب یہ ہے کہ امراء میں سے ایسے ہیں اگر وہ محض اللہ قربانی کرتے ہیں تو ان کی دولتیں جب بڑھتی ہیں تو قربانیاں کم نہیں ہو جاتیں.یہ مضمون ہے یعنی وہ امراء جن کی قربانیاں محض رضائے باری تعالیٰ کے لئے ہیں اور کوئی مقصد نہیں ہے، جب خدا ان کے رزق بڑھاتا ہے تو ان کی قربانیاں کم نہیں ہوتیں لیکن اگر ان کے رزق کم بھی کر دئیے جائیں تو تب بھی قربانیاں کم نہیں ہوتیں فصل پھر طل ان کے لئے کام آجاتی ہے یعنی شبنم ان کے کام آ جاتی ہے ان کی قربانیوں پر برا اثر نہیں ڈالتی.یہ ہے جو قرآنی آیات کا مضمون ہے.جو پہلی تفسیر تھی امر واقعہ میں کوئی ایسی بات میں نے اس میں نہیں کہی جو میرے روز مرہ کے تجربے کے خلاف ہو وہ باتیں سب درست ہیں.لیکن قرآن کریم کی آیت کے حوالے سے یہ جواب میں نے مضمون بیان کیا ہے یہی مضمون صادق آتا ہے.پس اس بات کو سمجھ لیں کہ نظر میری بار بار چونکہ ہلکا سا پڑھ کے اٹھ جاتی تھی میں نے غلطی سے وابل والی آیت کو طل سمجھ کر ضِعْفَيْنِ کا ترجمہ کر دیا اسے درست کر لیا جائے.نئی تفسیر یا اصل تفسیر حقیقی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے پاک بندے جو میری خاطر قربانیاں کرتے ہیں جب میں ان کے رزق بڑھاتا ہوں اور موسلا دھار رزق ان پر برسنے لگتا ہے تو ان کی قربانیاں کم نہیں ہوتیں وہ بڑھ جاتی ہیں ، دگنی ہو جاتی ہیں اور جب غربت آتی ہے تب بھی وہ پیچھے قدم نہیں ہٹاتے بلکہ وہی کل ان کی جنتوں کو Maintain کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے.یعنی غربت کے باوجود ان کے باغات پر بداثر نہیں پڑتا.یہ مضمون بھی سو فیصدی درست ہے دوسرا مضمون بھی درست ہے کہ ایسے لوگ ہیں کثرت کے ساتھ ، جو محض رضائے باری تعالیٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نہ ہونے کی وجہ سے اموال جب ان کے بڑھتے ہیں تو قربانیوں میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں وہ مضمون بھی اپنی جگہ درست ہے یعنی وہ غلط نہیں ہوا اس وجہ سے اور ایسے ہیں کہ جب وہ امارت کے بعد غریب ہوتے ہیں تو قربانیاں پہلے سے بڑھ جاتی ہیں.یہ مضمون بھی اپنی جگہ درست ہے.اس لئے کوئی بات نہیں جس کو آپ قطع سمجھیں غلط سمجھیں صرف تفسیر کے حوالے میں

Page 844

خطبات طاہر جلد 13 838 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء درستی کی ضرورت ہے اور کوئی تبدیلی کی ضرورت نہیں.وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ اور میں نے جو یہ عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ دگنی ہو جاتی ہیں یعنی ان کی قربانیاں دگنی ہو جاتی ہیں یہ بات درست ہے کیونکہ یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ خدا کی گہری نظر تمہارے اعمال پر پڑ رہی ہوتی ہے اور اس کی نظر فیصلہ کرتی ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا حیثیت ہے؟ پس وہ لوگ جو غریب ہونے کے باوجود اپنی قربانیاں بڑھاتے ہیں یقیناً ان کے مراتب بلند تر ہوتے ہیں اور نسبتی طور پر خدا کی نظر ان کو مراتب عطا کرتی ہے.پس اس پہلو سے کسی مسلمان کو یہ شکوے کا حق نہیں کہ اے اللہ تو نے میرے امیر بھائیوں کو یہ دیا تھا اس لئے انہوں نے زیادہ قربانیاں کیں اور تیری زیادہ جزا کما گئے بلکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تمہاری معمولی قربانیاں بھی میری نظر میں ایک اعلیٰ مرتبہ اور مقام حاصل کر لیتی ہیں.اس کے بعد ایک آیت میں نے چینی ہے جو تنبیہ سے تعلق رکھتی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ب إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ اور یہ وہی مضمون ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں پہلی آیت کے حوالے کے ساتھ کہ بعض دفعہ اموال بڑھنا فائدے کی بجائے نقصان پہنچا دیتا ہے.تو وہ مضمون اس آیت کے تابع بیان ہونا چاہئے تھا یہاں.اِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُم فِتْنَةٌ مال اور اولاد کا بڑھنا ایک نعمت ہے لیکن فتنہ بھی ہے.بعض دفعہ اموال بڑھ جائیں تو اموال کی لالچ بھی بڑھ جاتی ہے اور انسان خدا کی راہ میں قربانیوں سے محروم رہ جاتا ہے.بعض دفعہ اولا د بڑھ جائے تو بجائے اس کے کہ انسان خدا کے شکر میں ترقی کرے اس اولاد کا فکر کہ اس کے لئے میں کیا چھوڑ کے جاؤں گا دینی قربانیوں کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے.فرماتا ہے وَاللهُ عِنْدَةً أَجْرٌ عَظِيمٌ (التغابن: 16) لیکن یاد رکھو کہ خدا کی خاطر جو تم اپنے اموال جھونکتے ہو اور اپنی اولاد کے حقوق بظاہر کم کرتے ہو یہ کوئی کمی نہیں ہے اللہ کے پاس اتنا بڑا اجر ہے کہ یہ قربانیاں اس اجر کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.فَاتَّقُوا اللهَ پس اللہ کا تقویٰ اختیار كروما اسْتَطَعْتُم جس حد تک تمہیں استطاعت ہے.بہت ہی پیارا کلام ہے اس پہلو سے کہ تقویٰ بھی استطاعت کے مطابق.یہ ایک ایسا مضمون ہے جو کسی اور الہی کتاب میں جس کا میں نے مطالعہ کیا ہے مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا.تقویٰ استطاعت کے مطابق کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح

Page 845

خطبات طاہر جلد 13 839 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء مال تھوڑا ہو اور انسان اس مال کی نسبت سے قربانی کرتا ہے اس طرح اگر ایک انسان کی صلاحیتیں تھوڑی ہیں تو اس کا تقویٰ بھی بظا ہر تھوڑا دکھائی دے گا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم استطاعت کے مطابق تقویٰ اختیار کرو تو میرے نزدیک تم ایسے شمار ہو گے گویا تم نے جو کچھ تھا سب کچھ پیش کر دیا.تو تقوی استطاعت کے مطابق، یہ پہلی دفعہ قرآن کریم میں ایک نیا مضمون پیش فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ فرمایا وَ اَطِیعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِاَنْفُسِكُم گویا کہ مال کی قربانی کا تقویٰ کی استطاعت سے تعلق ہے.یہاں مال کی استطاعت کہہ کر خرچ کرنے کا نہیں فرمایا بلکہ تقویٰ کی استطاعت کے مطابق خرچ کرنے کا فرمایا ہے.بہت ہی گہر ا مضمون ہے اگر ہم اس پر نظر رکھیں تو اس میں ہمارے لئے عظیم الشان فوائد مضمر ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی ایسی قربانی، قربانی نہیں ہے جو تقویٰ کی استطاعت سے تعلق نہ رکھتی ہو.تقویٰ کی استطاعت سے اگر قربانی بڑھ جائے تو وہ نقصان کا موجب ہے فائدے کا موجب نہیں ہے.یہ بہت ہی گہری بات ہے جو اس میں بیان ہوئی ہے اس کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں.تقویٰ کی استطاعت کے اندر قربانیاں کرنا یعنی ہر قربانی تقوی کی چادر میں لپٹی ہوئی ہو، کوئی عضو اس کا باہر نہ ہو.اگر تم قربانیاں بڑی بڑی پیش کر رہے ہو گے لیکن تقویٰ کی استطاعت سے باہر ہیں تو اس کا مطلب ہے یا ریاء کی خاطر کر رہے ہو یا اور دیگر نفسانی اغراض کی خاطر کر رہے ہو.خدا کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوں گی.پس فرمایا قربانیوں میں یا درکھنا تمہاری تقوی کی شان اور اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق ہونی چاہئیں.جس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے کم بھی نہ ہوں.اپنے تقویٰ پر نظر رکھ کر قربانیاں پیش کرو.پس بعض لوگ جو محض حسد کے طور پر بعض قربانی کرنے والوں پہ اعتراض کرتے ہیں اور جماعت پر اعتراض کرتے ہیں کہ جن کو مالی قربانی کی توفیق مل رہی ہے انہی کی عزت ہے یہاں.اول تو یہ بات درست نہیں ہے.جماعت میں مالی قربانی کا حساب دیکھ کر عزت نہیں کی جاتی.عزت ایک انسانی حق ہے اور ایک عام انسانی اخلاق سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے.اس کا کسی کی مالی قربانی سے تعلق نہیں ہے لیکن مالی قربانیوں والے کے لئے اگر دل میں محبت پیدا ہو اور اس کے لئے دعا زیادہ دل سے نکلے تو یہ ایک طبعی امر ہے اسے روکا نہیں جاسکتا.پس یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ مالی

Page 846

خطبات طاہر جلد 13 840 خطبہ جمعہ فرموده 4 / نومبر 1994ء قربانی کی وجہ سے ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ مالی قربانی جو تقویٰ کی استطاعت کے مطابق ہوتی ہے وہ جتنا بڑھتی ہے اتنا بڑھا ہوا تقوی دکھائی دیتا ہے.پس عزت اور احترام اگر دل میں پیدا ہوتا ہے امتیازی سلوک کی بات میں نہیں کر رہاوہ غلط ہے وہ نہیں ہونا چاہئے لیکن طبعی عزت اور احترام اگر دل میں پیدا ہوتا ہے تو اس آیت کی روح کے مطابق ہے کیونکہ ایسے لوگ جو محض اللہ قربانیاں کرتے ہیں جب ان کی تقویٰ کی استطاعت بڑھتی ہے تب قربانیاں زیادہ ہوتی ہیں ورنہ نہیں ہو سکتیں.پس جو مالی قربانی میں آگے بڑھ جائے اور اس آیت کی روح کے مطابق آگے بڑھے تو اس کا آگے بڑھنا ، اس کے بڑھتے ہوئے اور بلند تر ہوتے ہوئے تقویٰ کی علامت بن جاتا ہے اور اس پہلو سے اللہ بھی اس قربانی کو قبول فرماتا ہے اور یہی وجہ ہے جو ان لوگوں کی دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے ورنہ ریا کی خاطر بعض دینے والوں کے متعلق جب پتا ہوتا ہے، جن کے حالات سے ہم واقف ہوتے ہیں، تو ان کی مالی قربانی بجائے اس کے کہ ان کی عزت دل میں بڑھائے ان کو اور نظر سے گرا دیتی ہے، ان کے انداز پہچانے جاتے ہیں.ان کی ادائیں متقیوں سے الگ ادا ئیں ہوتی ہیں اور ایسے لوگوں کا اگر چہ نام نہیں لیا جا سکتا، ناجائز ہے، مگر ایسے کہیں کہیں دکھائی ضرور دیتے ہیں.وہ اپنی بڑائی کے لئے یا اپنے اخلاص کو دکھانے کی خاطر بعض دفعہ قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر بولی لگا دیتے ہیں اور ان کا دیگر جو تقویٰ کا معیار ہے وہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق نہیں ہے.پس ہرگز جماعت میں ان لوگوں کے لئے کوئی غیر معمولی احترام نہیں پایا جاتا.یہ اگر کسی کے دل میں وہم ہے تو اس کو نکال دے.یہ آیت کریمہ ہے جو ہمارے لئے راہنما اصول ہے.جو ہمارا نور ہے جس کے ذریعے ہم ان امور کا جائزہ لیتے اور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اپنے تعلقات کو ڈھالتے ہیں.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم دیکھو اپنی استطاعت کے مطابق تقویٰ اختیار کرو پہلی بات یہ ہے اس میں.ایک اور بات یہ ہے کہ اس کے بغیر تمہاری سب قربانیاں ضائع جائیں گی اگر تقویٰ کا معیار تم نے استطاعت کے مطابق نہ بڑھایا تو تمہارا باقی نیکیوں کے میدان میں آگے بڑھنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہے گا کیونکہ قبول وہی ہونا ہے جو تقوی کے دائرے میں ہو.عجیب کلام ہے اپنے تقویٰ کو اپنی استطاعت کے مطابق کرو ہر شخص کو تقویٰ کی ایک استطاعت عطا ہوئی ہے بعضوں کو کم بعضوں کو زیادہ.اس کے مطابق تقوی کو بڑھاؤ اور پھر سنو اور اطاعت کرو.

Page 847

خطبات طاہر جلد 13 841 خطبہ جمعہ فرمود و 4 /نومبر 1994ء أَنْفِقُوا خَيْرًا اَنْفُسِكُمْ یہ بات سن لواب.اگر استطاعت کے مطابق تقویٰ بڑھا لو گے تو پھر جو کچھ خرچ کرو گے وہ تمہارے لئے بہتر ہے وَمَنْ يُّوقَ شُدَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (التغابن : 17) اور جو شخص بھی نفس کی کنجوسی سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اب ہمارے ہاں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی قربانیوں میں یہ بات دکھائی دے رہی ہے کہ دن بدن نفس کی کنجوسی کا معیار گر رہا ہے اور اللہ کے تقویٰ کے بڑھتے ہوئے معیار کے پیش نظر قر بانیوں کا معیار بڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ ہمیشہ اس بلندی کی راہ پر گامزن رہے تا کہ ہر سال جو قربانیوں کی جنت لگائی جائے وہ پہلے سے بڑھ کر اونچے ہوتے ہوئے مقامات پر نصب کی جائے اور ہم اپنی تاریخ میں ایسی جنات کا ایک سلسلہ پیچھے چھوڑ جائیں جس کا ہر قدم پہلے سے بلند تر تھا اور وہ باغات قرب الہی کے حصول کا ذریعہ تھے اور خدا کے فضل نے ان باغات کی نشو و نما میں حصہ لیا اور جب خدا نے چاہا اور دنیا کے ابتلاء میں وہ لوگ ڈالے گئے تب بھی وہ باغات یعنی قربانیوں کے باغات مر نہیں سکتے ان کی قربانیاں ہمیشہ بڑھتی چلی گئیں.تحریک جدید کے ساٹھ سال اس بات پر گواہ ہیں.نصف صدی گزرچکی ہے کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے، آئندہ بھی اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں.آئندہ بھی اس میدان میں ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جائیں.اب اس عمومی نصیحت کے بعد میں بعض کو ائف مختصر ا آپ کے سامنے رکھتا ہوں یہ سال جو 1993-1994ء کا سال ہے اس میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو پانچ کروڑ پچاسی لاکھ تئیس ہزار روپے کے وعدے کرنے کی توفیق ملی.اس میں سے پانچ کروڑ باون لاکھ تئیس ہزار روپے وصولی ہوئی.یہ وصولی جو ہے یہ بظاہر کم دکھائی دے رہی ہے مگر گزشتہ ہمارا تجربہ ہے کہ سال ختم ہونے کے بعد پہلے مہینے میں عموما جو بقایا دار ہیں وہ اتنا روپیہ دیتے ہیں کہ وعدوں سے ہمیشہ آمد بڑھ جایا کرتی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ امسال بھی انشاء اللہ یہی ہوگا.پاؤنڈوں کے حساب سے یعنی سٹرلنگ میں یہ رقم بارہ لاکھ پینتالیس ہزار دوصد پاؤنڈ بنتی ہے اور وصولی گیارہ لاکھ چھہتر ہزار دوصد پاؤنڈ ہے.اس بقایا میں بہت سی یورپین جماعتیں بھی شامل

Page 848

خطبات طاہر جلد 13 842 خطبہ جمعہ فرمود و 4 /نومبر 1994ء ہیں اور میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ پندرہ بیس دن کے اندر کوشش کریں اگر وہ سارے وعدہ کنندگان کی وصولی پوری کر لیں تو یہ ایک اصول ہے کہ ہمیشہ وصولی وعدوں سے بڑھ جایا کرتی ہے کیونکہ تمام وعدہ کنندگان کے وعدے درج نہیں کئے جا سکتے.ایک خاصی تعداد ایسی احمدیوں کی ہوتی ہے جو وعدہ کئے بغیر قربانیاں دیتے ہیں.پس اگر سارے وعدہ کنندگان اپنے وعدے پورے کر دیں تو وہ زائد رقمیں جو وعدوں کے بغیر دی گئی تھیں ہمیشہ وصولی کے معیار کو وعدوں کے معیار سے بڑھا دیتی ہیں.سال گزشتہ سے موازنے کے لحاظ سے 1993-1992ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ 10,87826 کے وعدے دینے کی جماعت کو توفیق ملی تھی اور وصولی 1091920 تھی یعنی وعدوں سے زیادہ.اس کی وجہ وہی ہے کہ سال کے عین اختتام پر اگر چہ وصولی کم تھی لیکن اس کے معابعد، اس دوران میں جو پیسے وصول ہوئے ہیں یا معاً بعد وہ اگلے ایک مہینے کے اندر اندر ان کے بقالوں کے حساب میں شمار ہو گئے اور اللہ کے فضل سے وصولی بڑھ گئی.ایک دو اور موازنے میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.تمام دنیا میں اللہ کے فضل سے پاکستان کی جماعتوں کو سبقت لے جانے کی توفیق ملی ہے اور جرمنی جو ہمیشہ پاکستان کے ساتھ نیکیوں میں سبقت لے جانے کے مقابلے کرتا ہے وہ اس دفعہ پاکستان سے کافی پیچھے رہ گیا ہے.تو پاکستان کی طرف سے جو شکوہ آیا کرتا تھا کہ آپ نے اس سال جرمنی کو آگے بڑھا دیا ہمیں اس کی بہت تکلیف ہے.اب میں ان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے جرمنی کو نہ صرف پیچھے چھوڑا ہے بلکہ کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے.دوسرا جرمنی ہے وہ دوسری پوزیشن اس نے برقرار رکھی ہے.تیسرا امریکہ ہے جو پیچھے سے آیا ہے اور اللہ کے فضل سے تیسری پوزیشن تک جا پہنچا ہے.پھر برطانیہ ہے جو کم و بیش یہی پوزیشن اپنی برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے.پھر کینیڈا ہے.پانچویں نمبر پر.پھر انڈونیشیا ہے.پھر جاپان ہے اور جاپان کی قربانی اور سوئٹزر لینڈ کی قربانی اللہ کے فضل سے فی چندہ دہندہ قربانی کے لحاظ سے غیر معمولی طور پر نمایاں ہے اور باقی سب ملکوں سے آگے ہے.ماریشس بھی اللہ کے فضل سے آگے بڑھ رہا ہے اور پھر دسواں نمبر ہندوستان کا ہے.فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے گذشتہ سال سوئٹزر لینڈ کی فی کس مالی قربانی یعنی تحریک جدید میں 90 ء163 یعنی 164 پاؤنڈ فی کس تھی جو بہت بڑی ہے اللہ کے فضل سے.سارے دوسرے

Page 849

خطبات طاہر جلد 13 843 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء چندوں کے علاوہ فی تحریک جدید کا چندہ دہندہ 164 پاؤنڈ پیش کرے اللہ کے فضل سے بہت بلند معیار ہے.جاپان کو پچھلی دفعہ میں نے سنا دیا تھا کہ آپ ان سے پیچھے ہیں اس معاملے میں تو انہوں نے زور لگایا تو وہ بھی 163 تک پہنچ گئے ہیں.163.90 تک ان کی مالی قربانی کا معیار پہنچ گیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ اس سے بھی گیارہ قدم آگے نکل گیا ہے.اور اس سال سوئٹزر لینڈ کی فی کس مالی قربانی تحریک جدید کے لحاظ سے ایک سو چوہتر پاؤنڈ ارتمیں پنس 174.38 پہ جا پہنچی ہے.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے.امریکہ تیسرے نمبر پر ہے اور اس کی مالی ترقی کا معیار 65.38 پاؤنڈ ہے.امریکہ اور ان ملکوں میں فرق یہ ہے کہ امریکہ میں یا تو بہت امیر لوگ ہیں یا بالکل معمولی غریب لوگ ہیں.اور فی کس قربانی کے معیار کو بڑھانا آسان نہیں ہے سوائے اس کے کہ امیر غیر معمولی توجہ سے اپنے غریب بھائیوں کا حصہ بھی ادا کرنے کی کوشش کریں اور فی کس معیار کو بڑھانے کے لئے خصوصیت سے توجہ دیں.بھیجیم اللہ کے فضل سے تمام قربانیوں میں آگے بڑھ رہا ہے.یہ چھوٹی سی جماعت جو پہلے بالکل معمولی ، بے حیثیت جماعت سمجھی جاتی تھی اب بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور فی کس تحریک جدید کے مالی قربانی کے معیار میں 57.61 پاؤنڈ ان کا معیار ہو گیا ہے حالانکہ اکثریت درمیانے درجے کے لوگوں کی ہے.بہت بڑی تعداد ہے جو عام گزاروں، روزمرہ کے گزارے سے زیادہ آمد نہیں کمار ہے.پس اس کا مطلب ہے کہ وہ کل والا حال ہے ان کا.شبنم پڑتی ہے لیکن دگنی کھیتی میں کمی نہیں آنے دی، دگنے پھل میں کمی نہیں آنے دی.برطانیہ ان سے کافی پیچھے رہ گیا ہے مگر برطانیہ میں بھی اکثر Average اوسط درجہ کے لوگ ہیں بہت زیادہ امیر بھی نہیں ہیں اور بالعموم ترقی کر رہا ہے اس لئے یہ بھی خاص دعاؤں کا محتاج ہے.جن جماعتوں کو تحریک جدید مرکزیہ نے Targets دیے تھے کہ آپ اپنی مالی قربانی کو یہاں تک پہنچادیں.جن جماعتوں نے وہ ٹارگٹ پورے کر دیئے ہیں، ان میں سب سے نمایاں نام لاہور کا ہے، پھر ربوہ ، پھر کراچی، سیالکوٹ، کوئٹہ، پشاور، جھنگ ، فیصل آباد، حیدر آباد، شاہ تاج شوگر ملز، اسلام آباد، حافظ آباد، گوجرانوالہ، مظفر گڑھ ، ملتان ، نواب شاہ اور آزاد کشمیر.جہاں تک گزشتہ سال کے مقابل پر غیر معمولی جدوجہد کے ساتھ مالی قربانی کو آگے

Page 850

خطبات طاہر جلد 13 844 خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1994ء بڑھانے کا تعلق ہے.اس میں گی آنا کی جماعت نے غیر معمولی کام کیا ہے اور سات سو چورانوے فیصد زیادہ قربانی بڑھا دی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں گنجائش بہت تھی اور عموما ستی پائی جاتی تھی.ابھی بھی اور گنجائش ہے اللہ کے فضل سے انشاء اللہ ان کو آئندہ اور بھی زیادہ قربانی کی توفیق ملے گی.زیمبیا نے ایک سو چار فیصد قربانی میں آگے قدم بڑھایا ہے.سرینام نے اٹھانوے فیصد.سپین نے ستاسی فیصد.سیرالیون نے شدید غربت کے باوجود اور سخت بدامنی کے حالات کے باوجود اس قربانی میں چوالیس فیصد اضافہ کیا ہے.گیمبیا نے چالیس فیصد.آسٹریلیا نے اکتیس فیصد بیلجیئم نے میں فیصد اور ناروے نے تمھیں فیصد.حکیم کا اضافہ اگر چہ میں فیصد ہے جو باقیوں سے کم ہے مگر پچھلے سال بھی ان کی قربانی کا معیار بلند تھا اس سے آپ اندازہ کریں کہ ہے کی جماعت تعداد میں بہت تھوڑی ہے اس کے باوجود آٹھ ہزار ایک سو بیاسی پاؤنڈ کی قربانی انہوں نے پیش کی ہے.اور ناروے جو ان سے تعداد میں بھی دگنے سے بھی زائد ہے اس کا نو ہزار چارسو پینتالیس پاؤنڈ کی قربانی کا معیار ہے جو اچھا ہے لیکن تنظیم کو اللہ تعالیٰ نے بہر حال قربانیوں میں زیادہ آگے بڑھنے کی توفیق بخشی ہے.جہاں تک جماعت کی ضروریات کا تعلق ہے یہ اللہ پوری کرتا ہے.اس میں تو کبھی وہم کا شائبہ بھی میرے دل میں پیدا نہیں ہوا کہ چندے کم رہ جائیں گے،ضرورتیں بڑھ جائیں گی.مجھے یاد ہے اسی سال ان کے جو وکیل چودھری شبیر احمد صاحب چندوں کی وصولی کے ذمہ دار ہیں ان کی طرف سے مجھے یہ تشویش کا پیغام ملا کہ ہم نے مہنگائی کے پیش نظر تمام کارکنوں کے الاؤنس میں بیس فیصد اضافہ کر دیا ہے اور اب حیران ہیں کہ یہ پورا کیسے ہوگا.انہوں نے مجھے میرے جواب کا ایک حصہ لکھ کے بھیجا ہے دفتری تشویش کی کوئی وجہ نہیں کوشش جاری رکھیں مال تو اللہ ہی نے دینا ہے.“ کہتے ہیں یہ پیغام ملنے کے بعد جو پہلا دورہ کیا اس دورے میں وہ سارا میں فیصد حاصل ہو گیا بلکہ اس سے معاملہ بڑھ گیا.تو یہ ایک امر واقعہ ہے اس تجربے کی بنا پر پورے یقین سے میں نے ان کو لکھا تھا اور ہمیشہ یہی دیکھتا ہوں کہ ضرورتیں بڑھتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اموال خود مہیا کر دیتا ہے.پس اس پہلو سے کوئی فکر کی بات نہیں.صرف فکر کی بات یہ ہے کہ کبھی بھی ہماری مالی قربانیاں ہماری تقویٰ کی استطاعت سے آگے نہ نکلیں اور ہمیشہ جب آگے بڑھیں تو بڑھتی ہوئی تقویٰ کی استطاعت کی نشاندہی

Page 851

خطبات طاہر جلد 13 845 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 رنومبر 1994ء کر رہی ہوں.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.قربانیوں کے بہت ہی عظیم الشان مواقع اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے.بعض غریب ایسے بھی ہیں جنہوں نے ، جن کے پاس ایک ذریعہ بائیسکل کا تھا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے.وہ انہوں نے محض اپنا چندہ پورا کرنے کی خاطر جو تو فیق سے بڑھ کر لکھوا دیا تھا بیچ دیا اور اس کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہوا وہ جماعت کو پیش کیا اور خدا کے حضور سرخرو ٹھہرے.پس ایسے لوگوں سے خدا کا یہ بھی وعدہ ہے کہ میں دنیاوی اموال میں بھی تمہیں ترقی دوں گا اور واقعہ یہ ہے کہ جماعت کو جو خدا تعالیٰ نئی نئی توفیق عطا فرما تا چلا جارہا ہے اور استطاعت بڑھ رہی ہے اس کا ہمارے پہلے قربانی کرنے والوں سے تعلق ہے جس کا پھل آج جماعت کھا رہی ہے.آج جو آپ کھیتی بوئیں گے وہ اپنی آئندہ نسلوں کے لئے بوئیں گے.روحانی طور پر تو اس کے فوائد ہمیشہ لا زوال رہیں گے مگر دنیاوی لحاظ سے بھی جماعت کی مالی استطاعتیں بڑھتی چلی جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور خدا کے فضلوں کے یہ نظارے دیکھ کر حقیقی معنوں میں اس کا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کل دن اتنے چھوٹے ہو گئے ہیں کہ جمعے کی نماز ختم ہونے سے پہلے عصر کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے پس یہ حساب دیکھنے کے بعد میں نے آج سے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک یہ صورتحال جاری رہے گی ہم جمعے کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی پڑھ لیا کریں گے اور اس وقت تک یہ نمازیں جمع ہوں گی اس کے بعد نہیں.اور روزمرہ کی عام نمازوں پر یہ حکم صادق نہیں آتا کیونکہ ظہر کا وقت ہمارے اپنے اختیار میں ہے ہم ظہر کے اندر ظہر کی نماز پڑھ سکتے ہیں.پس اس سے بظاہر رخصت حاصل کر کے لوگ اپنی روز مرہ کی نمازوں کا دستور نہ بدلیں.ظہر، ظہر کے وقت ادا ہو.عصر ، عصر کے وقت ادا ہو لیکن جمعہ کی مجبوری کے پیش نظر ، یہ ہوگا اور یہ استثنائی فیصلہ ہے.

Page 852

خطبات طاہر جلد 13 846 (دیوان غالب)

Page 853

خطبات طاہر جلد 13 847 خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1994ء صلى الله نور محمد ﷺ اور اخلاق حسنہ کی برکت سے دنیا کوامت واحدہ بنائیں ( خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1994ء بمقام بیتا الفضل لندن) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ۚ فَإِنْ لَّمْ يُصِهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرة: 266) لِيُنْفِقُ ذُوْسَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا اللهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا أَنهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرِ يُسْرًا (الطلاق: 8) پھر فرمایا:.یہ آیات جن کی تلاوت کی ہے یہ پہلے گزشتہ جمعے پہ پڑھی جا چکی ہیں اور غالبا وہاں حوالہ دے دیا گیا تھا بہر حال یہ کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہیں ہے حوالہ خود تلاش کر سکتے ہیں.ان آیات کی تکرار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مجھے بعد میں بتایا گیا کہ ایک لفظ میں نے سہو ا غلط پڑھ دیا تھا یعنی جَنَّاتِیم کی بجاۓ الْجَنَّةُ پڑھ دیا گیا تھا جَنَّتِ بِرَبُوَةٍ کی بجائے الجنة بربوۃ پڑھا گیا تھا تو درستگی تو ویسے

Page 854

خطبات طاہر جلد 13 848 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء کہہ کے بھی ہو سکتی تھی مگر چونکہ بہت سی جماعتوں میں اور بعض افراد بھی ان خطبات کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور وہاں ایک لفظ کی درستگی داخل کرنا ممکن نہیں رہتا اس لئے میں نے دوبارہ ان آیات کی تلاوت کر دی ہے تا کہ وہ من و عن وہاں سے پہلی تلاوت کو اٹھا کر اس تلاوت کو وہاں داخل کر دیا جائے ان لوگوں کے لئے جو اسے رکھنا چاہیں اور جو صرف سنتے ہیں ان کے لئے تو صرف ذکر کافی ہے کہ یہاں جَنَّةِ ہے قرآن کریم کی اصل قرآت اور سہوا اسے الْجَنَّةُ لکھا گیا.(دراصل یہ جو تغابن‘ والی بات ہے یہ اور آیات ہیں کچھ وہ بھی جمعے کے لئے اسی کے لئے رکھی گئی تھیں اور یہ غلطی ہوگئی حوالہ بدل گیا ہے ورنہ تغابن کی آیات بھی مال سے تعلق رکھنے والی میں نے جمعے کے لئے منتخب کی تھیں) مگر آج جو دوسری آیت چنی ہے یہ سورہ الطلاق کی آٹھویں آیت ہے.لِيُنْفِقُ ذُوْسَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهِ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تا کہ خرچ کرے ہر صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ اور وہ شخص بھی جس پر رزق تنگ کیا گیا ہے یعنی اسے نسبتا کم عطا ہوا ہے فَلْيُنْفِقُ مِمَّا الله الله اس کے مطابق خرچ کرے جتنا اسے اللہ نے دیا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا أَنهَا اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی حیثیت اور توفیق سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا اور ما انتھا میں یہ فرما دیا کہ ہم نے ہی تو دیا ہے، ہم کیسے بھول سکتے ہیں.دینے والے ہاتھ کو پتا ہے کہ اس کو کیا دیا گیا ہے تو ہم جب تجھ سے دین کی خدمت میں خرچ کا تقاضا کرتے ہیں تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ جو تمہیں ہم نے دیا ہی نہیں اس میں سے وہ اپنی توفیق کے مطابق دو.سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسر يسرا اگر تنگ دست بھی ہو تب بھی دو کیونکہ تنگی کا علاج خدا کی راہ میں خرچ سے ہاتھ روکنا نہیں بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہی تنگ دستی کا علاج ہے.فرمایا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرِ تیسرا اللہ تعالی تنگی کے بعد آسائش میں تمہارے حالات کو تبدیل فرما دے گا.پس وہاں جو یہ تھا کہ ”صل “ کا مضمون چل رہا تھا کہ تھوڑا بھی ہو تو وہ دیتے ہیں یہ تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دل اور ذہن کی وسعت عطا ہوئی ہے اور اعلی ذوق عطا کیا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں ہر حال میں خرچ کرنا ہے زیادہ ہو تب بھی کرنا ہے کم ہوتب بھی کرنا ہے اور ان کا کم بھی خدا کے ہاں زیادہ لکھا جاتا ہے.یہاں ایسے لوگ مخاطب معلوم ہوتے ہیں جن کے دل میں اپنی

Page 855

خطبات طاہر جلد 13 849 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء غربت تر ڈ و پیدا کرتی ہے اور کئی قسم کے وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ تو صاحب تو فیق لوگ ہیں ان کو تو بہت کچھ ملا ہوا ہے، انہوں نے دے دیا تو کیا فرق پڑتا ہے ہمارا تو روز مرہ کا جینا مشکل ہوا ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے مبرا نہیں ہے.اگر روز مرہ کا جینا بھی مشکل ہے تو اس مشکل میں اس حساب سے کچھ ذرا سا اضافہ خدا کی خاطر کر لو اور وہ مشکلات اس خرچ کی برکت سے دور ہوں گی.پس یہ بہت ہی عظیم نسخہ ہے غربت دور کرنے کے لئے کہ وہ لوگ جو غریب ہوں خدا کی راہ میں جب وہ خرچ کرتے ہیں تو ان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے.یہ مضمون تحریک جدید کے حوالے سے چل رہا ہے.تحریک جدید کے چندوں کے سلسلے میں ایک وضاحت بھی ضروری ہے.مجھے کوریا کی جماعت کی طرف سے یہ جائز شکوہ موصول ہوا ہے کہ آپ نے کوریا کا بالکل ذکر نہیں کیا حالانکہ یہاں ایک نئی اٹھتی ہوئی جماعت پیدا ہوئی ہے اللہ کے فضل کے ساتھ اور ایک پہلو سے وہ سب دنیا پر سبقت لے گئی ہے کیونکہ اس کا فی کس چندہ سوئٹزر لینڈ کے چندے سے بھی بقد ر سو پاؤنڈ فی کس زیادہ ہے تو جہاں ہم نے ان کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک ہو، یہ بالکل چھوٹی سی جماعت ہے اور بہت سے ایسے مہاجرین ہیں یہاں جن کو ابھی تک قانونی طور پر بھی کوئی تسلی نہیں کہ وہ کچھ رہ بھی سکیں گے کہ نہیں وہاں.چھوٹی موٹی تجارتیں کرتے ہیں یا بعض مزدوریاں کر کے گزارا کر رہے ہیں لیکن خدا نے وسعت قلبی عطا فرمائی ہے اور اس پہلو سے تحریک جدید کے چندے میں فی کس کے حساب سے وہ ساری دنیا پر سبقت لے گئے ہیں.ایک اور مجھے شکوہ ملا تھا زائر کی طرف سے.زائر والے کہتے ہیں آپ نے ہمارا نام تو لینا شروع کر دیا ہے مگر ہم دور افتادہ افریقہ کی ایک جماعت ہیں کچھ حوصلہ افزائی کریں، کچھ ہمیں سلام پیار بھجوائیں تا کہ ہم بھی آگے بڑھ کر اپنے دوسرے افریقن بھائیوں کے شانہ بشانہ سلسلے کی خدمات کرسکیں.تو زائر کی جماعت کو بھی میں سب کی طرف سے محبت بھر اسلام پہنچا تا ہوں وہاں کے حالات بہت مشکل ہیں.لیکن حالات خواہ کیسے بھی ہوں خدا تعالیٰ کا اپنے پاک بندوں سے یہ وعدہ ہے کہ ہر موسم میں تمہارا پاک درخت پھل دے گا.تُؤْتِی اُكُلَهَا ہر حال میں دے گا خواہ کیسا ہی موسم ہو کیسے ہی دن ہوں.پس جماعت احمدیہ نے تو اس آیت کی سچائی کو اپنے حال پر ہمیشہ پورا اترتے دیکھا ہے.ایک بھی استثناء اس میں نہیں.جماعت احمد یہ عالمگیر پر مختلف ملکوں میں مختلف قسم کے

Page 856

خطبات طاہر جلد 13 850 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء حالات پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے ہیں، ہوتے رہیں گے.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلے کی ترقی کے قدم نہیں رکے خزاں میں بھی اس پاک پودے نے پھل دیا ہے اور بہار میں بھی اس پاک پودے نے پھل دیا ہے اور وہ مضمون ایک اور رنگ میں یہاں صادق آتا ہے کہ اگر موسلا دھار بارش نہ ہی تو کل ہی یعنی شبنم بھی ان پودوں کے لئے بہت کافی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس مضمون کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں (در مشین:50) کہ لوگوں کے ہاں تو خزاں آتی ہے تو پت جھڑ ہو جاتا ہے مگر یہ کیسا خدا، کیسا فضل کرنے والا خدا ہے کہ میرے بوستاں پر خزاں میں بھی بہار آ گئی ہے اور لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں اللہ کی رحمت کی وجہ سے.تو جماعت احمدیہ کو یہ مضمون سمجھنا چاہئے کیوں بہار آتی ہے وقت خزاں میں.اس لئے کہ خدا کے بندے اپنے وقت خزاں میں بھی بہار کی طرح کو نہیں نکالتے ہیں، خرچ سے رکتے نہیں ہیں، سخت تنگی کی حالت میں بھی جب ان پر خزاں کا دور گزرتا ہے ان کے دل سے خدا کی محبت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور وہ خدا کی راہ میں وہ پھول نچھاور کرتے ہیں اخلاص کے، تھوڑے تھوڑے قربانیوں کے پھول دکھائی دیتے ہیں مگر اللہ کی نظر میں ان کی بہت عظمت ہے.پس وہ لوگ جو اپنا حال خدا کی خاطر، خدا کی رضا کی خاطر دنیا سے الگ بنا لیتے ہیں یاد رکھو خدا ہمیشہ ان سے دنیا سے الگ سلوک کرتا ہے.ان کی خزائیں بھی بہاروں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.پس جماعت احمدیہ کو اپنے ہر چندے کے وقت اس بنیادی اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اور عالمگیر جماعت میں خدا کے فضل سے یہ بات نمایاں طور پر دکھائی دے رہی ہے.مگر جو نومبائعین ہیں مجھے اس وقت ان کی فکر ہے.میرے نزدیک نو مبائعین کو فوری طور پر چندوں میں داخل کرنا نہایت ضروری ہے اور نو مبائعین کو داخل کرنے میں یہ نہ دیکھا جائے کہ تحریک جدید کا کم سے کم چندے کا معیار کیا مقرر ہوا ہوا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما یا فَلْيُنْفِقُ مِمَّا الله الله اور دوسری جگہ لِيُنْفِقْ ذُوسَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ دونوں ہیں کہ ہر صاحب حیثیت اپنی حیثیت

Page 857

خطبات طاہر جلد 13 851 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء کے مطابق خرچ کرے اور ہر شخص کی کوئی حیثیت تو ضرور ہوتی ہے.جو زندہ ہے اس کی کوئی حیثیت ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بے حیثیت زندہ ہو کم سے کم دو وقت کی روٹی نہیں تو ایک وقت کی سہی ،مگر وہ زندہ ہے.اس میں سے ہی ایک لقمہ خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو یہ ذُوْسَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهِ کا مضمون ہے اور جن کو زیادہ عطا ہو جاتا ہے، یا بیچ کے بہت سے درجات ہیں.ان کو یاد رکھنا چاہئے وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقُ مِمَّا الله الله اللہ نے زیادہ دیا ہے تو زیادہ میں سے دو کم دیا ہے تو کم میں سے دو مگر خدا کی راہ میں دینا تو بہر حال ہے اور اس کا چسکا ڈالنا آغا ز ہی میں ضروری ہے.اس وقت باقی چندوں پر بھی زور دینا چاہئے مگر وہ چندے 1/16 کے حساب سے وصول نہیں کئے جاسکتے.اس کے متعلق میری ہدایت یہ ہے کہ آغاز میں ان کی شرح میں نرمی کی جائے حسب توفیق لیکن بتا دیا جائے کہ جماعت احمد یہ عالمگیر نے اپنے لئے کم از کم یہ معیار مقرر کر رکھا ہے اور تم چونکہ نئے آنے والے ہو اگر تمہارا دل نہیں کھل رہا اور تمہیں قربانیوں کی ایسی عادت نہیں ہے یا اپنے خرچ تم نے دنیا کی رسوم کے مطابق اپنی توفیق سے پہلے سے بڑھا رکھے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ پھر تمہارے لئے مشکل پیش آئے گی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اگر ایک پیسہ دے سکتے ہو تو پیسہ ہی دو.شرح جو ہے یہ وقت کے لحاظ سے بعد میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، ہو سکتی ہے لیکن یہ بنیادی اصول جو ہے کہ ہر صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق دے یہ غیر مبدل اصول ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب فرمایا کہ ایسا شخص جو تنگی کی حالت رکھتا ہے خواہ دل کی تنگی ہو یا واقعہ مال کی تنگی ہو وہ اپنے لئے کم سے کم جینے کا سامان تو کرے، ا جینے کا تو آسرا کرے.ایک غریب آدمی بھی تو چند لقموں پر اور پانی پر جیتا ہے تو ایسا شخص اگر روحانی لحاظ سے وہ اعلیٰ روحانی غذا ئیں حاصل نہیں کر سکتا تو کم سے کم اپنی زندگی کا تو کوئی آسرا کرے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جس کو ایک پیسے کی توفیق ہے وہ پیسہ دے مگر لازماً با قاعدگی سے دے.اب یہ جو باقاعدگی کا اصول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے یہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اول تو یہ کہ روز مرہ کی زندگی میں جو کم کھانے والے ہیں وہ بھی باقاعدہ تو کھاتے ہیں یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ دو مہینے ناغہ کر لیا اور پھر شروع کر دیا کھانا.روز مرہ کے دستور کے لحاظ سے کچھ با قاعدگی

Page 858

خطبات طاہر جلد 13 852 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء لازم ہے اور جس کو توفیق ہے وہ ضرور اختیار کرتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑی سنجیدگی سے اس مسئلے کو انسانی روحانی بقاء کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور پیسہ بھی قبول فرمارہے ہیں خدا کی راہ میں مگر تاکید کے ساتھ کہ دیکھو میں فرق نہیں پڑے گا تمہیں فرق پڑے گا.لیکن مقرر کرو تو پھر پوری وفا کے ساتھ عہد پر قائم رہتے ہوئے اسے ہمیشہ اسی طرح دیتے چلے جاؤ اور یہ جو قانون ہے کہ حسب توفیق دو اور پھر با قاعدہ دو یہ ایسا قانون ہے جونشو نما پاتا ہے.اس کے اندر ہی خدا تعالیٰ نے نشو ونما کی کل رکھ دی ہے اور ایسا شخص جو باقاعدگی سے تھوڑا دینا شروع کرتا ہے، لازماً بڑھاتا ہے اس کا دل بھی کھلتا ہے اس کی توفیق بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ جو پیسہ ہے وہ آنوں میں، آنے رپوؤں میں یعنی جو بھی دنیا میں مختلف Currencies ہیں ایک درجے کا جو سکہ ہے دوسرے درجوں میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ہزاروں دینے والے لاکھوں میں چلے جاتے ہیں لاکھوں دینے والے کروڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور جماعت کی تاریخ من حیث الجماعت یہی منظر دکھا رہی ہے.وہ جو پیسے دینے والی جماعت تھی لیکن اخلاص سے، باقاعدگی سے دیئے اللہ نے اسے ہزاروں دینے والی بنا دیا، پھر لاکھوں دینے والی بنا دیا پھر لاکھوں کی نسل میں وہ پیدا ہوئے جنہوں نے کروڑوں دیئے اور اب اربوں کا وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.پس اللہ کے فضل کے ساتھ اگر ہم قرآن کریم کے بنیادی اصولوں پر قائم رہیں تو ہمارے مالی نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور ہمیشہ ترقی کرے گا اور ہر موسم میں پھل دے گا لیکن شرط یہی ہے کہ ہم بھی ہر موسم میں قربانیوں کے پھل دیں کسی موسم میں ہمارا درخت سوکھ نہ جائے.پس آنے والوں کو یہ سمجھانا بہت ضروری ہے کیونکہ جن کو شروع میں نہ سمجھایا جائے وہ اسی حال پر سخت ہو جاتے ہیں.بارہا میں نے دیکھا ہے اور بڑے غور سے آنے والوں کا مطالعہ کیا ہے ساری زندگی ، جس جس کام میں مجھے موقع ملا ہے تبلیغ کے تعلق میں، میں نے بڑے غور سے مطالعہ کر کے دیکھا ہے کہ جو بیعت کرنے والے شروع میں ایک دو سال بغیر قربانی کے رہ جائیں ساری عمر وہ درخت سوکھا ہی رہتا ہے اور جو شروع میں شروع کر دیں وہ پھر بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور افریقہ اس سے مستثنی نہیں ہے اور یورپ بھی اس سے مستی نہیں ہے نہ جرمنی مستقلی ہے، نہ بوسنیا مستقی ہے نہ البانیہ متقی ہے.جہاں جہاں سے بھی تو میں احمدیت میں داخل ہو رہی ہیں ان کے نگرانی

Page 859

خطبات طاہر جلد 13 853 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء کرنے والوں میں سے ہر ایک کو میں تاکید کرتا ہوں کہ ان آنے والوں کو روزمرہ کچھ قربانی کی عادت ڈالیں اور جن کو عادت پڑ جائے گی ان کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں تھمایا جائے گا خدا ایسے ہاتھ سے ان کو رزق دے گا جس میں آپ کے ہاتھ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی پھر ان کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہو جاتا ہے.اور تحریک جدید کے تعلق میں میں یہ گزارش کروں گا کہ تحریک جدید کا جو کم سے کم معیار ہے ان نئے آنے والوں کی سہولت کے پیش نظر اور قرآن کی اصولی تعلیم کے پیش نظر اس معیار کو نظر انداز کر دیں کوئی پیسہ دے تو پیسہ قبول کر لیں، آنہ دے تو آنہ قبول کر لیں لیکن ان کو بتا دیں کہ تم ایک عظ عالمگیر جہاد میں حصہ لے رہے ہو جس کے یہ پھل ہیں سب جو ہم آج کھا رہے ہیں.کثرت کے ساتھ دنیا میں جو جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور عظیم الشان ترقیات ہورہی ہیں ان کے پیچھے آغاز میں کچھ خاموش قربانی کرنے والے تھے جنہوں نے تحریک جدید کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیں، اپنی جانیں لٹا دیں، دن رات کے آرام کھو دیے ایسے ایسے خدمت کرنے والے تھے کہ ایک ہی شخص پورے پورے دفتر چلاتا تھا اور صبح کی روشنی دیکھے بغیر وہ دفتر میں داخل ہو جایا کرتا تھا اور سورج ڈوبنے کے بہت بعد جب رات پوری طرح بھیگ چکی ہوتی تھی بعض دفعہ بارہ بجے، بعض دفعہ ایک بجے وہ اپنے گھر کے لئے واپس جایا کرتا تھا.تو ایسے ایسے مخلصین مثلاً چودھری برکت علی صاحب، بہت سے اور بھی تھے جنہوں نے قادیان میں اس طرح دفاتر چلائے ہیں.اب بھی وہی روح اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوانوں میں آ رہی ہے اور مستقل خدمت کرنے والے نہیں بلکہ عارضی خدمت کرنے والے، طوعی خدمت کرنے والے بھی، کثرت سے ایسے پیدا ہورہے ہیں جنہوں نے یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے.تو ان کی قربانیاں اور پھر اس زمانے میں جو غریب چندے دیا کرتے تھے بہت تھوڑے تھوڑے دینے کی توفیق تھی لیکن دیتے بڑے اخلاص کے ساتھ تھے.بعض دفعہ ان کی غربت کے خیال سے خلیفہ وقت ان کے ہاتھ روکتے تھے کہ اتنا نہیں اور وہ روتے ہوئے ان کے قدموں میں ڈال دیا کرتے تھے.واقعہ ایک نظارہ میں نے اپنی آنکھوں سے بھی ایسا دیکھا ہوا ہے.ایک خاتون آئیں انہوں نے کچھ پیش کیا، ہمارے گھر کی بات تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے

Page 860

خطبات طاہر جلد 13 854 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 /نومبر 1994ء حالات کا جائزہ لے کر فرمایا کہ نہیں اتنا نہیں تھوڑا کرو.بے اختیار اس کی چھینیں نکل گئیں، یا امیر المؤمنین مجھے محروم نہ کریں، میرے دل کی گہری تمنا ہے، مجھے اس لذت سے محروم نہ کریں، خدا کے لئے قبول کر لیں.حضرت مصلح موعودؓ کے لئے کوئی چارہ نہیں تھا، مگر اس کو قبول کیا.وہ نظارے اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہوتے ہیں جب میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں یہی چھوٹا سا دفتر جس میں بیٹھتا ہوں بار ہا اس میں یہی واقعات دہرائے گئے ہیں.تو احمدیت ان باتوں سے زندہ ہے.لِيُنْفِقُ ذُوْسَعَةٍ مِنْ سَعَتِم اور فَلْيُنْفِقْ مِمَّا الله الله اس کے عجیب حیرت انگیز نظارے روز مرہ احمدیت کی دنیا میں ظاہر ہورہے ہیں ان آنے والوں کو محروم نہ رکھیں جو چسکا خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا ہے وہ کسی اور راہ میں خرچ کرنے کا چسکا نہیں ہے اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ تعداد کی طرف، یعنی قربانی کرنے والوں کی تعداد کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے گی.(میں نے کہا تھا مجھے اعداد و شمار دوبارہ دیں لیکن وہ غالبا بھول گئے ہیں یا دوسری چیزیں رکھ دی ہیں وہ رہ گیا ہے دیکھتا ہوں اگر ہوں تو میں بتا دوں گا آپ کو، ہاں تعداد مجاہدین کا یہاں ذکر ہے ) تعداد مجاہدین کے لحاظ سے اس وقت جو صورت حال ہے موازنہ پیش کرتا ہوں.93-1992 ء میں عالمگیر مجاہدین جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ لیا تھا ایک لاکھ انہتر ہزار دو سو انسٹھ تھے.1993-94ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ تر اسی ہزار پانچ سوچھتیں ہوگئی.مگر جہاں ایک ایک سال میں چار چار لاکھ سے زائد بیعتیں ہو رہی ہوں وہاں جو نیا میدان کھلا ہے اس کی طرف توجہ نہ کرنا ایک نہایت ہی ظالمانہ غفلت ہوگی.اس لئے جہاں جہاں تبلیغ ہورہی ہے اور اللہ کے فضل سے ہر جگہ اب شروع ہو چکی ہے وہاں اگر نو مبائعین کو ہی داخل کر دیں تو دیکھتے دیکھتے ایک ملین تک یہ تعداد پہنچ سکتی ہے.خواہ رقم میں نمایاں اضافہ نہ بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا.اخلاص سے دیا ہوا ایک پیسہ اپنی ذات میں بڑھنے کی طاقت رکھتا ہے کسی اور کو اس کی فکر کی ضرورت نہیں ہے.آج جو دیں گے کل ان کے اموال بھی بڑھیں گے اور خدا کی راہ میں جو پیش کریں گے ان کی بھی تعداد مقدار بڑھتی چلی جائے گی.پس یہ ایک ضروری نصیحت تھی جو گزشتہ مرتبہ بیان کرنے سے رہ گئی تھی اس کو امید ہے آپ سب پیش نظر رکھیں گے.اب میں بعض احادیث کے حوالے سے جماعت کو چند نصیحتیں کرنی چاہتا ہوں لیکن ایک اور

Page 861

خطبات طاہر جلد 13 855 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء سوال بھی انہوں نے یہاں رکھا ہوا ہے وہ میری نظر سے پہلے رہ گیا تھا، اس پر بھی گفتگو ضروری ہے.سوال یہ ہے کہ اگر جماعت کے چندہ کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ایسے دوستوں سے ذیلی تنظیم کا چندہ لیا جائے یا نہ لیا جائے؟ اس کا اس مضمون سے تعلق ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اس لئے میں جہاں تحریک جدید کا ذکر کیا وہاں اس سے پہلے لازمی روز مرہ کے چندہ جات میں ان کو شامل کرنے کی تلقین کی کیونکہ بنیادی اصول یہی ہے کہ وہ شخص جو دائمی لازمی قربانی میں شریک نہیں ہوتا اس سے نوافل قبول نہیں کئے جاتے مگر بعض استثناء ایسے ہوتے ہیں جہاں اس قانون کی سختی سے پابندی نہیں کی جا سکتی.آنے والوں کو مستقل لازمی قربانی کے نظام میں شامل کرنا ہمارا اولین فرض ہے لیکن اگر وہ طوعی طور پر تحریک جدید ہی میں شامل ہو جا ئیں تو اس سے بھی ان کو مستقل عمالی نظام کا حصہ بننے میں مدد ملے گی اور طاقت نصیب ہوگی اس لئے یہاں اتنے زیادہ Technicalities میں اور قانونی ابیچ بیچ میں مبتلا نہ ہوں.بلکہ چندے کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ مقاصد کی خاطر ان کی زندگی کی حفاظت کے لئے ان سے تالیف قلب کا سلوک کریں اور قرآن کریم نے جہاں موقعہ قلوب کی بات بیان فرمائی ہے وہاں عام لوگوں سے ہٹ کر، وقتی طور پر ، کچھ عرصے کے لئے ایک نرم سلوک کا اشارہ نہیں بلکہ واضح ہدایت ملتی ہے اور اس کا تعلق اس نظام سے بھی ہے.پس نئے آنے والوں کے تعلق میں میرا جواب یہ ہے کہ خواہ لازمی چندہ ابھی شروع نہ بھی کیا ہو وہ طوعی چندے میں اگر شوق سے حصہ لینا چاہیں تو یہ کہہ کر آپ نے انکار نہیں کرنا کہ آپ نے لازمی چندے میں حصہ نہیں لیا.چھ مہینے، نو مہینے ، سال، کچھ عرصہ تربیت کے گزاریں پھر بعد میں انفرادی حالات دیکھ کر فیصلے ہوں گے اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو مولفۃ القلوب کے دائرے سے باہر آچکے ہیں.ایک دائی، مستقل ، ٹھوس حصہ بن چکے ہیں نظام کا، ان کے لئے یہی ہدایت ہے اور یہی جاری رہے گی کہ اگر وہ چندہ عام نہیں دیتے یا چندہ وصیت وعدہ کر کے ادا نہیں کرتے تو ان سے دوسرے طوعی چندے وصول نہیں کئے جائیں گے.ایک سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ چندہ نہ دینے والوں سے صدقہ لیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ صدقہ ایک الگ مضمون ہے جو قرآن کریم کے حکم کے تابع ایک شخص اپنی بلا ٹالنے کی خاطر قربانی دیتا ہے وہ دراصل اللہ کی راہ کا خرچ ان معنوں میں نہیں ہے.ایک صدقے کا مضمون ہے جو وسیع ہے قرآن کریم میں.

Page 862

خطبات طاہر جلد 13 856 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء میں اس کی بات نہیں کر رہا نہ اس سوال کا اس سے تعلق ہے یہاں جس صدقے کی بات ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے متعلق ڈراؤنی خواب دیکھ لی کسی اور نے اس کے متعلق دیکھ لی یا گھر میں کوئی بیمار ہو گیا، آگے پیچھے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت نہیں ہے تو بیماری ٹالنے کے لئے یا بلا گلے سے اتارنے کی خاطر دراصل وہ اپنے نفس پر ایک خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ حسن سلوک فرمایا ہے شاید ان کی تربیت کے لحاظ سے یہ فائدہ مند ہو کہ ان کو کچھ تو مزہ آئے خدا کی خاطر کچھ خرچ کر کے اس کا جواب میں فیض پانے کا اور اگر کوئی براہ راست اللہ سے کچھ فیض پاتا ہے اپنی قربانی کے بعد تو اس کے سنبھلنے اور اس کے دوبارہ روحانی لحاظ سے زندہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں.تو یہ چونکہ سودا اور طرح کا ہے اس کو میں عام چندوں میں شامل نہیں کرتا لیکن عام طور پر جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے یہی نصیحت کرتا ہوں کہ ان سے کہیں کہ یہ چندہ جماعت کی معرفت دینا تو ضروری نہیں ہے.صدقہ دو اپنی مرضی سے دو غریبوں میں تقسیم کر دو کسی ادارے کو دے دو ہمارے پاس ہی ضرور آتا ہے اور اگر مجبوری ہو مثلاً پورپ میں، امریکہ میں بعض لوگ استطاعت نہیں پاتے اور ان کو گھبراہٹ ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ان کی طرف سے صدقہ قبول کر لیا جائے لیکن ہمیں اس صدقے کے قبول کرنے میں کوئی ایسا ذوق و شوق نہیں ہے جیسے جماعتی چندوں میں جو خدا کی خاطر، خدا کی راہ پر خرچ کرنے والے چندوں میں ہے اس میں تو ہم بہت جان لڑاتے ہیں، کوشش کرتے ہیں، منتیں کرتے ہیں، سمجھاتے ہیں، فائدے بتاتے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کے دل کھلیں لیکن یہ اور مضمون ہے اس میں اگر وصول کرنا پڑے کر لیں ان کی مدد کی خاطر تو کوئی مضائقہ نہیں ہے.جماعت کوریا کا جو میں نے بیان کیا تھا اس کے اعداد و شمار اب میرے کاغذات میں سے نکل آئے ہیں ان کی فی کس ادائیگی 260.81 پاؤنڈ ہے.سو سے کچھ کم فرق ہے سوئٹزر لینڈ کی 174.38 پاؤنڈ تھی اور ان کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 260 پاؤنڈ ز 80 پیس ہے جو خدا کے فضل سے سوئٹزرلینڈ کے مقابل پر بہت نمایاں طور پر آگے بڑھ گئی ہے.گزشتہ سال ان کی قربانی بھی بہت معیاری تھی 136 پاؤنڈز فی کس کے حساب سے تھی.اب جو وقت رہ گیا ہے اس میں میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی بعض احادیث کے

Page 863

خطبات طاہر جلد 13 857 خطبہ جمعہ فرمود ه 11 نومبر 1994ء حوالے سے چند صیحتیں کرنی چاہتا ہوں پہلی مال کے خرچ اور صدقے سے تعلق رکھتی ہے.مسلم کتاب البر میں یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درج ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا.یہاں جو صدقہ عرف عام میں رائج ہو چکا ہے کہ گلے سے بلا ٹالنے کی خاطر مجبورا کچھ غریبوں کو دے دو.یہ جو صدقہ ہے یہ بہت وسیع لفظ ہے جو قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور انہی معنوں میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.اس میں زکوۃ بھی آجاتی ہے اور دوسرے بعض اعلیٰ اخراجات بھی آجاتے ہیں.رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.مال کم نہیں ہوتا اور جتنا معاف کرتا ہے اتنا عزت میں بڑھاتا ہے، ان دونوں مضامین کا کیا تعلق ہے بظاہر تو ایک ایک دوسرے سے ہٹی ہوئی دو الگ باتیں ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کے چھوٹے چھوٹے فقروں میں بے انتہا حکمت کے موتی پروئے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ وہ موتی پانی کی تہہ میں ملنے والے موتی ہیں، غوطہ لگانا پڑتا ہے، بعض دفعہ کھلے کھلے دکھائی دے جاتے ہیں.یہاں مال خرچ کر کے انسان بظا ہر کم ہورہا ہوتا ہے اور ایسی ہی صورت بعض دفعہ ہوتی ہے کہ کسی کو معاف کرنے سے انسان اپنے اندر خفت محسوس کرتا ہے.اس نے کوئی زیادتی کر دی ہے اور یہ بدلہ لے سکتا ہے لیکن نہیں لے رہا اور دنیا کی نظر میں اس پر اس کا ظلم چڑھا ہوا ہے اور اس نے اتارا نہیں ہے ایسی صورت میں بسا اوقات بے عزتی کا سوال ہوتا ہے جو معافی کی راہ میں مانع ہو جاتا ہے.یہاں وہ مضمون ہے جو آنحضرت ﷺ بیان فرما رہے ہیں کیونکہ اس کی جزا یہ بتائی اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.تو اگر خدا کی خاطر کسی کو معاف کرنے میں انسان کے نفس کی تذلیل دکھائی دیتی ہو اور انسان کو معافی مانگتے ہوئے تو چھوٹا ہونا ہی پڑتا ہے، بعض دفعہ معافی دینے میں بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے انسان.ایسی صورت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ تمہیں چھوٹا نہیں رہنے دے گا خدا کی خاطر اگر تم عفو کا سلوک کرو گے اور بظاہر تم بے بدلہ کے رہ جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ تمہاری عزت کو بڑھائے گا.پھر اگلا مضمون بھی بالکل اسی تعلق میں ہے فرمایا جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے.وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلا

Page 864

خطبات طاہر جلد 13 858 خطبه جمعه فرمودہ 11 نومبر 1994ء رَفَعَهُ الله.(ابن ماجہ ) یہاں رفع کا مضمون بھی سمجھا دیا.فرمایا کہ جوشخص جتنا گرتا ہے خدا کی خاطر اگر گرے، جتنا جھکتا ہے اگر خدا کی خاطر جھکے، تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتبے بہت بلند فرماتا ہے.ایک اور حدیث میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے.اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعِ فِي السّلْسِلَةِ يا فِي سِلْسِلَة - کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جو شخص عاجزی اختیار کرتا ہے ، گر جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ایک زنجیر سے باندھ کر ساتویں آسمان تک بلند کر دیتا ہے اور وہاں بھی لفظ رفع استعمال ہوا ہے تو سا تو میں آسمان کا تصور ایک ظاہری تصور ہے اور بندے کا زنجیر سے باندھے جانا بھی ظاہر کی طرف انسان کا ذہن لے جاتا ہے لیکن کوئی دنیا کا انسان یہ نہیں اس کا ترجمہ کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے جسم پر رسی لپیٹتا ہے، کوئی زنجیر باندھتا ہے اور اسے اٹھا کر آسمان پر لے جاتا ہے.مگر عجیب بات ہے کہ جب حضرت عیسی کے متعلق لفظ رفع آ جائے تو وہاں سارے عقلی دستور ایک طرف رکھ دیئے جاتے ہیں اور وہاں ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ نے اسے باندھ کے جس طرح بھی سمجھا فرشتے بھیجے وہ پکڑ کے زبر دستی اٹھا کے کسی اور آسمان پر لے گئے تو چوتھے آسمان کی بات کرتے ہیں یہاں اس حدیث میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ساتویں آسمان کی بات کر رہے ہیں تو کیا کبھی کسی نے کوئی زنجیر اترتی دیکھی ہے جو کسی تواضع کرنے والے بندے سے لپیٹی گئی ہو.سب سے زیادہ تواضع کرنے والا بندہ کون تھا؟ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کیونکہ آپ کا مرتبہ تو ساتویں آسمان سے بھی بلند تر تھا تب بھی ظاہری جسم کے لحاظ سے نہیں بلکہ روحانی مراتب کے لحاظ سے آپ کو ہمیشہ کے لئے سب دوسروں پر رفعت عطا کی گئی.پس یہ وہ رفع ہے جس کا حل آنحضرت ﷺ نے فرما دیا اور تواضع کے ساتھ اس کو باندھا ہے.خدا کو انکسار پسند ہے اس کے بندوں سے جو جھک کے ملتا ہے جس کو اپنی کوئی برتری اس کو اپنے آپ کو بڑا سمجھنے میں مجبور نہیں کرتی اور اس کے دماغ کو اس کی کوئی بڑائی نہیں چڑھتی ایسا شخص خدا کے ہاں عزت پاتا ہے.اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں عزت پاتا ہے تو یہ مراد نہیں ہے کہ مرنے کے بعد پتہ چلے گا.وہ عزت پاتا ہے اور پاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا بس نہیں کرتا جب تک کہ اس کی عزت کو کل عالم پہ روشن اور ظاہر نہ کر دے.صرف تواضع کی حد فیصلہ کن ہوگی.کیسا تواضع کرتا تھا ؟ کس اخلاص سے کرتا تھا ؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے تواضع کی تو کب خدا نے پیچھا چھوڑا ہے.دنیا میں وہ عزت بڑھتی چلی جارہی ہے، پھیلتی چلی جارہی ہے ایک قوم

Page 865

خطبات طاہر جلد 13 859 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء سے دوسری قوم میں داخل ہوتی چلی جارہی ہے اور اس کے بعد حضرت محمد رسول ﷺ کا جب وصال ہوا تھا تو کتنے لوگوں میں آپ کی رفعت ثابت ہوئی تھی لیکن پھر کوئی دن ایسا نہیں چڑھا جب کہ آپ کی صلى الله رفعت کا تصور بلند بھی نہیں ہوا اور پھر پھیلا بھی نہیں.ہر دن چونکہ رسول اللہ ﷺ کی رفعت دائمی ، بلند تر ہونے والی ہے اس لئے وہ تصور اپنی ذات میں بھی بلند تر ہوتا چلا گیا اور وہ شہرت پھیلتی چلی گئی.تو درجہ بدرجہ عام انسانوں سے بھی یہ سلوک کیا جاتا ہے اور بسلسلة سے میں ہمیشہ یہی معنی سمجھتا ہوں کہ زنجیر کا لفظ کہنے کی ضرورت کیا تھی؟ ضرورت یہ تھی کہ بتایا جائے کہ زنجیر کڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے بعضوں کے درجے زیادہ لمبی زنجیر سے طے کئے جائیں گے بعض کے چھوٹی زنجیر سے طے کئے جائیں گے.یہ تو تمہارے اپنے اختیار میں ہے جتنی کڑیاں چاہو بناؤ اتنی کڑیوں کی زنجیر تمہارا رفع کرے گی.اگر خدا کے حضور جھکنے اور انکساری میں تمہاری زیادہ اخلاص پایا جاتا ہے زیادہ قربانی کی روح پائی جاتی ہے زیادہ خدا کی محبت اور بنی نوع انسان کا وقار پیش نظر ہے اور انسان کی عزت بذات خود تم سے مطالبہ کرتی ہے کہ سب کو برابر سمجھو، ان کو مرتبہ دو.کئی ایسے اور خیالات جتنے یہ محرکات بڑھتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی اس کام میں عظمت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور جتنے خلوص سے کوئی انسان یہ کام کرتا ہے اتنا ہی اس کی عزت بڑھتی چلی جاتی ہے.پھر آزمائشوں کے وقت اور اس زنجیر کو خدا تعالیٰ لمبا فرما دیتا ہے عام حالات میں ایک ایثار کر رہا ہے قربانی کر رہا ہے وہ بھی اچھی چیز ہے لیکن جہاں ایثار کے نتیجے میں ذلیل ہوتا ہو، رسوا ہوتا ہو ، وہاں خدا کا خاص وعدہ آتا ہے کہ میں تمہیں ضرور بلند کروں گا.پس ساتویں آسمان تک بھی لوگ اٹھائے جائیں گے لیکن وہی جن کی قربانیوں کی زنجیر بہت لمبی بنی ہوئی ہو اور اتنی وسعت رکھتی ہو کہ وہ ساتویں آسمان تک پہنچا سکے.اور جہاں تک ان قربانیوں کا تعلق ہے یہ مطلب نہیں کہ ضرور ہی عظیم ہو تو تمہیں رفعت ملے گی.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو اگر چہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی ہی نیکی ہو.(مسلم کتاب الادب ) اب یہ بھی بہت ہی گہرا مضمون ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا معمولی چندہ دے کر بھی اگر تم خدا کی محبت حاصل کر سکتے ہو تو معمولی ہی دو مگر دو ضرور.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو اگر چہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی ہی نیکی ہو اور یہ معمولی نیکی جو ہے آنحضرت مے

Page 866

خطبات طاہر جلد 13 860 خطبہ جمعہ فرموده 11 /نومبر 1994ء کے نزدیک یہ عام دنیا میں بہت بڑی نیکی بن چکی ہے اب کیونکہ آنحضرت ﷺ جس مکارم الاخلاق پر فائز تھے جس بلندی پہ آپ کا قدم تھا آپ نے بہت چھوٹی نیکی جود دیکھی وہ یہ کہ خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور یہاں حال یہ ہے کہ اپنے بچوں سے بھی لوگ خندہ پیشانی سے پیش نہیں آتے ، اپنی بیویوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش نہیں آتے ، اپنی بہنوں بھائیوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش نہیں آتے اور ناک بھوں چڑھا کے بات کرتے ہیں یہاں تک کہ کئی بچے تنگ آ کے بڑے درد کا اظہار کرتے ہیں.آج ہی کی ڈاک میں مجھے اپنی ایک تحقیق کا جواب ملا ہے جس کا بالکل اسی مضمون سے تعلق ہے.ایک بچی نے اپنے باپ کی بدسلوکی، بداخلاقی سے تنگ آ کے مجھے لکھا کہ خدا کے واسطے ہمارے گھر کا ماحول درست کرا دیں.نیک آدمی ہے مگر نیکی کے نام پر اتنی سختی ہے کہ ہماری زندگی عذاب بنی ہوئی ہے.اس پر میں نے خاص ایک آدمی کو مقرر کیا جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ ان میں نصیحت کرنے کا سلیقہ ہے، پیار اور محبت سے ایسے نازک معاملات میں دخل دے سکتے ہیں جہاں ایک آدمی بھونڈے طریق پر بات کرے تو الٹا حال پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ دے اور ایسا ہوتا بھی رہا ہے بعض دفعہ، مگر اب میں کوشش کرتا ہوں کہ ایسا ہی آدمی لوں جس کو ان باتوں کا سلیقہ ہو.ان کی رپورٹ ملی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں طرف کی کچھ غلط فہمیاں تھیں وہ دور ہوئیں اور اس بچی نے جھوٹ بھی نہیں بولا ہوا سختی ضرور تھی لیکن باپ کی نیکی کا تو اعتراف کر لیا لیکن اپنی بعض کمزوریوں کا اعتراف نہیں کیا کہ اس کو جو غصہ آتا ہے وہ کس بات پر زیادہ آتا ہے.تو میرے نمائندہ نے جا کر دیکھا، بتایا مجھے اور اب دونوں طرف ایک قسم کے سمجھوتے کا ماحول پیدا ہو گیا ہے.انہوں نے وعدہ فرمایا ہے کہ کمزوریاں تو ہیں میں انشاء اللہ تعالیٰ دعا کی طرف زیادہ توجہ کروں گا اور سختی سے پیش نہیں آؤں گا.اس بچی کو بھی انہوں نے سمجھایا اور اب میں براہ راست بھی سمجھا رہا ہوں کہ اپنی کمزوریوں پر بھی نظر رکھو، باپ تمہاری خاطر بے اختیار ہو جاتا ہے اس کو تو ہم نے سمجھا دیا ہے لیکن اب اس کے نرم کلام سے وہ اثر اپنے اندر پیدا کرو جو اس کی سختی سے پیدا نہیں ہوسکتا تھا.خندہ پیشانی کا مضمون ہے نصیحت بھی کرو تو خندہ پیشانی سے کرو اور بسا اوقات خندہ پیشانی کا اثر بختی سے بہت زیادہ ہوتا ہے اقبال نے تو فرضی طور پر کہا ہے کہ : پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر (کلیات اقبال)

Page 867

خطبات طاہر جلد 13 861 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء کس نے کٹتے دیکھا ہے.مگر ایک خیال ایک تصور ہے شاعر کا اور مراد اس کی انسانی تعلقات کے دائرے سے ہے ورنہ ظاہر پہ تو پھول کی پتی سے تو ہیرے کا جگر نہیں کٹا کرتا مگر بعض دفعہ ایک نرم بات میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ ہیرا جو شیشوں کو بھی کاٹ دیتا ہے سخت سے سخت چیز کو کاٹ دیتا ہے وہ بھی دو نیم ہو جاتا ہے اس نرم بات کے اثر سے.تو یہ مراد ہے خندہ پیشانی کو معمولی نہ سمجھو.دونوں باتیں اس میں ہیں ایک تو یہ کہ خندہ پیشانی کا خلق تو امت محمدیہ میں ایسا عام ہونا چاہئے کہ رسول اللہ اللہ کے نزدیک گویا کوئی نیکی ہی نہیں ہے.معمولی سے معمولی چیز ہے یہ تو روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہونا چاہئے.لیکن دوسرا مضمون بھی ہے اس میں کہ اسے معمولی نہ سمجھو بہت بڑی چیز ہے.خندہ پیشانی سے یہ دنیا جنت بن جاتی ہے اور یہ وہ مضمون کا پہلو ہے جس کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے معمولی نہ سمجھو سے مراد یہ نہیں کہ یہ کر لیا کرو کوئی بات نہیں واقعہ بہت عظیم چیز ہے بعض دفعہ معمولی نہ سمجھو سے یہ مراد ہوتی ہے بہت بڑی طاقت ہے اس میں.اور خندہ پیشانی کا اگر ہم رواج اپنی جماعت میں ڈال لیں اور یہ رواج گھروں سے چلنا چاہئے.بیویاں اپنے خاوندوں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں ، خاوند اپنی بیویوں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں ، بہنیں بھائیوں سے، بھائی بہنوں سے اور بڑے چھوٹوں سے بھی صرف چھوٹوں کو ہی نہ تلقین کریں بلکہ چھوٹوں سے بھی عزت اور احترام سے ملیں اور خندہ پیشانی سے پیش آئیں تو ہر گھر ایک جنت میں تبدیل ہوسکتا ہے اور یہی گھروں کی جنت پھیلے گی اور معاشرے میں داخل ہو گی اسی سے شہر سدھریں گے، اسی سے ملکوں میں تبدیلی آئے گی یہی وہ طاقت ہے جس نے تمام دنیا کی کایا پلٹ دینی ہے، انقلاب برپا کر دینا ہے.پس احمدیوں کو جو تبلیغ کا غیر معمولی جذبہ رکھتے ہیں ان کو خندہ پیشانی اختیار کرنا چاہئے کیونکہ میرا یہ تجربہ ہے، ہمیشہ سے یہی تجربہ ہے کہ زیادہ عاقل اور تعلیم یافتہ مبلغ سے خندہ پیشانی کا طریق اختیار کرنے والا مبلغ ہمیشہ زیادہ کامیاب ہوتا ہے.جس کی باتیں میٹھی ہوں اس کے بول دلوں میں اترتے ہیں اور لوگوں کے بس میں نہیں رہتا اس کا انکار.اس کی ذات میں جو ایک جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے اس سے پھر دراصل ان کی توجہ اس کی ذات سے ہٹ کر اس کے پیغام کی طرف منتقل ہو جاتی ہے.پس خندہ پیشانی کو معمولی نیکی نہ سمجھو یہ مضمون بہت گہرا ہے اور اس میں ڈوب کر اس پر غور کریں تو آپ کو خصوصیت سے تربیت اور تبلیغ کا ایک بہت بڑا اور کار آمد اور مجرب نسخہ ہاتھ آجائے گا.

Page 868

خطبات طاہر جلد 13 862 خطبہ جمعہ فرموده 11 نومبر 1994ء اب مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے.حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا ہے اسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگذر کر.پس یہ اسی مضمون کی اور شاخیں ہیں جو شروع سے میں بیان کر رہا ہوں ہر نیکی اپنی مختلف شاخیں رکھتی ہے اور آنحضرت ﷺ ہر نیکی کو اس طرح تفصیل سے بیان فرماتے ہیں کہ اس کی جڑوں کے اوپر بھی روشنی ڈالتے ہیں، اس کے تنے پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، اس کے رنگ، اس کی خوشبو، اس کے پھول پتوں پر، جو شاخیں پھیلتی ہیں ان کی بھی پیروی فرماتے ہیں ہر بات کو پوری طرح کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے.فرماتے ہیں بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور اکثر معاشرے کی خرابیوں میں جب تحقیق کی جاتی ہے تو کہتے ہیں اس نے تعلق تو ڑا ہے، اس نے کاٹا ہے، وہ ذمہ دار ہے.رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ ٹھیک ہے تم نے نہیں توڑا.جس نے توڑا ہے اس سے تعلق رکھو گے تو پھر میرے نزدیک تم صاحب فضیلت ہو.جو تعلق قائم رکھتا ہے اس سے تعلق قائم رکھنا کون سی فضیلت ہے.تعلق کے جواب میں تو تعلق خود بخود پیدا ہو جاتا ہے.غیر بھی اگر آپ سے پیار کا اظہار کرے تو آپ کو فوری طور پر اس سے کچھ تعلق پیدا ہو جاتا ہے، رستہ چلتے مسافر کسی سے آپ پیار سے بات کر لیں تو وہ آپ سے تعلق قائم کر لیتا ہے.اس لئے یہ بہت بڑی حکمت کی بات ہے فرمایا بڑی فضیلت یہ ہے کہ قطع تعلق وہ کر رہا ہے اور تو اس سے تعلق رکھے اس کو فضیلت کہتے ہیں.اور یہی وہ چیز ہے اگر وہ اپنالی جائے تو معاشرے سے بہت بڑے فسادات ختم ہو جا ئیں بہت تکلیف دہ واقعات رونما ہوتے ہیں اور ان میں سے مختلف وجوہات ہیں جو بعض میں بیان کر چکا ہوں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کہتے ہیں اس نے پہل کی ہے اس نے ہم سے منہ موڑا ہے اس نے فلاں رشتے پر ہمیں بلایا نہیں.اس کا حق تھا اپنی بہن کا خیال رکھتا اس نے تعلق کاٹ لیا اب ہم کیوں ایسی بات کریں.سبک سربن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟ (دیوان غالب) یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی سرگرانی کرے گا تو ہم نے سر جھکایا، ہم ہلکے سر والے

Page 869

خطبات طاہر جلد 13 863 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء کہلائیں گے.یہ شاعری کی باتیں ہیں فضول، بے ہودہ، اعلیٰ اخلاق کے مضامین نہیں ہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں تم سبک سر بنو گے تو خدا کے حضور تمہارا سر بلند ہوگا اور اس کو عظمت نصیب ہوگی پس خدا کی خاطر جہاں تعلق تم سے کاٹا جارہا ہے وہاں تعلق جوڑ کے دکھاؤ.پھر فرمایا، جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے جو دیتا ہے اس کے متعلق تو یہ حکم ہے کہ اس سے بڑھ کر دو یا اس کے لئے دعائیں کرو اس کے لئے کچھ ایسا کرو کہ تمہارے دل کو یقین ہو جائے کہ جتنا اس نے تمہارے لئے کیا تھا اس سے زیادہ تم کر بیٹھے ہو.فرمایا یہ تو ہے ہی لیکن ہم تمہیں اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جو نہیں دیتا اس کو بھی دو.ورنہ جو دینے والے ہیں ان کے آپس کے تعلقات تو قائم ہو جائیں گے.جو نہ دینے والے ہیں ان کے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان ایک خلیج حائل ہو جائے گی اور اسلام کا جو معاشرہ ہے اس میں اوپر کے طبقے اور نیچے کے طبقے میں کوئی خلیج نہیں ہے.ان کو جوڑنے کا ایسا عظیم انتظام فرمایا گیا ہے جیسے ہوا کی سرکولیشن کا انتظام کیا جاتا ہے.جہاں چھتیں چھوٹی ہوں وہاں بعض دوسرے ذرائع سے پنکھے وغیرہ لگا کر سر کولیشن کا انتظام کیا جاتا ہے تا کہ اوپر کی ہوا اور نیچے کی ہوا مل جائے تو قرآن کریم اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کی لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنْكُمُ (الحشر: 8) فرماتا ہے کہ یہ نہ ہو کہ امیر امیروں کو ہی تحفے بھیجتے رہیں اور امیروں سے ہی قبول کرتے رہیں تا کہ تم آپس میں اوپر کے دائرے میں ہی تمہارے درمیان چیزیں گھومتی رہیں.اصل نیکی یہ ہے کہ جو غریب طبقہ ہے جس سے تمہارے لین دین کے تعلقات نہیں ہیں ان کو دو تا کہ یہ سرکولیشن ایک اوپر کے دائرے میں ہی نہ گھومے، اوپر سے نیچے کی طرف بھی آئے.حفظان صحت کے جو روحانی اصول ہیں ان کو آنحضرت ﷺ سے جب آپ سنتے ہیں یوں لگتا ہے کہ اس زمانے کا جدید ترین سائنس دان حفظان صحت کے اصولوں پر جو دریافتیں کر رہا ہے، روحانی دنیا کے لحاظ سے ان سب کا علم آنحضرت ﷺ کو اس زمانے میں پہلے ہی دے دیا گیا تھا، کوئی چیز آپ سے اوجھل نہیں رکھی گئی تو یہی مضمون ہے جو فرمارہے ہیں کہ جو نہیں دیتا اسے بھی دے بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ.جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے درگزر کر.جو نہیں دیتا، وہاں احسان کی بات تھی.یہ منفی مضمون شروع ہو گیا ہے بدی کی ، اگر کوئی نہیں دیتا تو اسے کچھ دے یعنی اچھی چیز دے لیکن

Page 870

خطبات طاہر جلد 13 864 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1994ء جو گالیاں دیتا ہے جو بدسلوکی کرتا ہے اس سے وہ سلوک نہ کر.اگر ہاتھ روکنے ہیں تو بدی میں ہاتھ روک اور نیکی میں ہاتھ نہ روک.یہ وہ مضمون ہے جسے آنحضور ﷺ نے اپنی امت کے اخلاق کے حوالے سے ہم پر روشن فرما دیا ہے.پس تمام دنیا کی جماعتیں ان باتوں پر خوب غور کریں اور جوسنتی ہیں وہ آگے ان لوگوں تک پہنچائیں جو نئے آنے والے ہیں اور براہ راست حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے تربیت کے محتاج ہیں.کوئی تربیت ایسی نہیں جیسے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کی تربیت ہو جیسے اس میں طاقت ہے جیسے اس میں سادگی ہے جیسے دلوں میں ڈوبنے کی وہ صلاحیت رکھتی ہے کوئی دنیا کی نصیحت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.پس ان چھوٹے چھوٹے سادہ سادہ جملوں میں ڈوب کر پہلے خودان مضامین کو سمجھیں اور پھر ان کے ذریعے تمام امت کو، بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کی کوشش کریں.یہ اخلاق ہی ہیں جو امت واحدہ بنانے میں کامیاب ہوں گے.عقائد ایک ہو کر بھی امت واحدہ نہیں بنایا کرتے.یہ سادگی کی باتیں ہیں، بے وقوفی کی باتیں ہیں.دیکھو کتنے اسلام میں فرقے ہیں ان کے آپس میں اختلاف چھوڑو، ان کے اندر جن کے ایک جیسے عقیدے ہیں ان میں کہاں محبت ملتی ہے وہ کہاں امت واحدہ بن گئے ہیں.امت واحدہ کبھی محض عقائد سے نہیں بنا کرتی.امت واحدہ اخلاق حسنہ سے بنا کرتی ہے تبھی اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو فرمایا وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظٌ الْقَلْبِ لَا نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (البقرة: 160 ) کہ اے محمد رسول ﷺ اللہ اپنے تمام عظیم عقائد اور تعلیم اور حکمت کے بیان کے باوجود تو ان لوگوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا نہیں کر سکتا تھا یہ تیرا حسن خلق ہے جو خدا نے تجھے نعمت کے طور پر عطا کیا ہے جس نے ان دلوں کو ایک ہاتھ پہ ایسا باندھ دیا ہے کہ ایک جان ہو گئے ہیں، ایک وجود کے اعضاء بن چکے ہیں اور اس ایک بدن میں تیرا دل ، تیرا حسن خلق دھڑک رہا ہے.پس آج بھی اگر دنیا کو امت واحدہ بنانا ہے تو حسن محمد مصطفی مے ہے جو پہلے آپ کے دلوں میں دھڑ کے گا، پھر آپ کے خاندان کے دلوں میں دھڑ کے گا.جب یہ جماعت کے دلوں میں دھڑ کے گا تو خداہ گواہ ہے کہ سب دنیا کے دلوں میں دھڑ کنے لگے گا اور ہم خدا کے فضل سے وہ خوش نصیب ہوں گے جو حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے نور کی برکت سے تمام دنیا کو امت واحدہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.

Page 871

خطبات طاہر جلد 13 865 خطبہ جمعہ فرموده 11 / نومبر 1994ء آج جیسا کہ آپ کو خبر مل گئی ہے ایک اور احمدی مخلص کی شہادت کی اطلاع ملی ہے.جہاں تک یہ رستہ شہادتوں کا رستہ ہے یہ تو ہم نے سوچ سمجھ کے قبول کیا ہے.شہادتوں کے دکھ اپنی جگہ اور شہادتوں کی سعادتیں اپنی جگہ.آج دنیا میں یہی جماعت ہے جسے اس سعادت کے لئے چنا گیا ہے لیکن اس پھول کے ساتھ جو کانٹے ہیں وہ دکھ بھی پہنچاتے ہیں، زخم بھی لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی توفیق عطا فرمائے اور راضی برضا ہوتے ہوئے اس کی راہ میں آگے بڑھنے کی جو سزائیں دنیا نے ہمیں دینی ہیں بے شک دیتی چلی جائے ہم نے قدم نہیں روکنے.یہ وہ اسلام کی ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کی سعادت ہے جو آج ہمیں نصیب ہوئی ہے.دشمن کے جلنے سے، حسد سے اس کی گولیوں سے چند مظلوموں کی جان لینے سے ہمارے قافلے کے قدم نہیں رکیں گے.ہم ضرور آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور اللہ ہی ہے جو ہمارے حساب ان سے چکائے گا.لیکن محبت اور خلوص کے ساتھ ان کی قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے ان کی نماز جنازہ غائب آج ہوگی اور اس کے علاوہ ہمیشہ ان شہداء کو اپنی دعاؤں کا ایک مستقل حصہ بنالیں.ایک اور جنازہ بھی ہو گا غائب ہمارے مکرم شیخ عبدالوہاب صاحب جو اسلام آباد کے ایک بڑے لمبے عرصے تک امیر رہے اور بہت مخلص فدائی انسان.جب بعض انتظامی مجبوریوں کے پیش نظر ان کو امارت سے ہٹایا گیا تو ان کے اخلاص میں ایک ذرہ بھی فرق نہیں آیا اور نئے امیر کی اطاعت میں یہ کسی دوسرے سے پیچھے نہیں تھے تو اللہ ایسے مخلصین کو زندہ رکھے کیونکہ ان کی وجہ سے جماعت زندہ ہے.ایسے انکسار کے ساتھ محض اللہ ہر خدمت کو قبول کرنا اور ہر خدمت سے الگ ہو جانا اگر خدا کی رضا چاہئے یہ ہے وہ سچائی جو ایک زندہ سچائی ہے جو ہمیشہ جماعت کو زندہ رکھے گی.اللہ کرے کہ ایسے مخلصین کی جماعت میں کبھی کمی نہ آئے ایک کو وہ بلائے تو اس کی جگہ سو، ہزار پیدا کرتا چلا جائے ،ان کی بھی نماز جنازہ غائب ہوگی اور آج جمعے کے بعد چونکہ عصر کی نماز بھی جمع ہوگی اس کے بعد انشاءاللہ یہ نماز جنازہ غائب ہوں گی.

Page 872

خطبات طاہر جلد 13 866 خطبہ جمعہ فرموده 20 رمئی 1994ء

Page 873

خطبات طاہر جلد 13 867 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء غیبت سے کلیۂ اجتناب کریں، اگر جماعت میں غیبت کا قلع قمع ہو جائے تو عظیم کامیابی ہوگی.( خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1994ء بمقام ببيت الفضل لندن ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّن اثم وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا اَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: 13) پھر فرمایا:.آج کے خطبے کے لئے میں نے جس آیت کریمہ کا عنوان باندھا ہے یہ سورۃ الحجرات سے لی گئی ہے اور اس کی تیرھویں آیت ہے.اس میں بعض امور کے علاوہ خصوصیت سے غیبت کے متعلق مسلمانوں کو جو مومنوں کے معاشرے کو متنبہ کیا گیا ہے اور ایسے الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان اس کے پیغام کی حقیقت کو سمجھ لے تو غیبت کا تصور بھی اس کے قریب نہ پھٹے لیکن جس رنگ میں یہ ذکرفرمایا گیا ہے اس میں یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس مکروہ چیز کا شوق تم لوگوں میں اتنا پایا جاتا ہے کہ گویا اسے جانتے بوجھتے ہوئے بھی تم بے اختیار اس کی طرف کھنچے چلے جاؤ گے یا کھنچے چلے جاتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اول كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ سے یعنی

Page 874

خطبات طاہر جلد 13 868 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء اندازے لگانے سے اجتناب کیا کرو اور بہت زیادہ عادت جو ہے تخمینوں کی کہ یہ ہوا ہوگا اور یہ ہوا ہوگا یہ ایک ایسی مہلک عادت ہے کہ ان اندازوں میں سے بعض یقینا گناہ ہوتے ہیں پس تم ایک ایسے میدان میں پھرتے ہو جس میدان میں خطر ناک گڑھے ہیں یا جنگل کے درندے ہیں تم سمجھتے ہو کہ تم دیکھ بھال کر قدم اٹھا رہے ہو مگر جو ایسے خطرے مول لیتا ہے یقینا اس کا پاؤں کہیں نہ کہیں رپٹ جاتا ہے غلطی سے کسی گڑھے میں پڑ جاتا ہے یا کسی درندے کے چھپنے کی جگہ کے قریب سے گزرتا ہے اور اسے حملے کی دعوت دیتا ہے.تو مراد یہ ہے کہ ہر فن گناہ نہیں ہے یہ درست ہے.بعض ظن جو درست ہوں، حقیقت پر مبنی ہوں وہ خدا کے نزدیک گناہ نہیں لیکن ظن کرنے کی عادت خطرناک ہے اور اس کے نتیجے میں ہرگز بعید نہیں کہ تم سے بڑے گناہ سرزد ہوں.دوسری بات یہ فرمائی کہ تجسس بھی نہ کیا کرو ظن کا جو تعلق ہے وہ تجس سے بہت گہرا ہے.جب انسان کو یہ شوق ہو کہ کسی کی کوئی کمزوری معلوم کرے تو اس وقت جوظن ہیں وہ زیادہ گناہ کے قریب ہوتے ہیں کیونکہ انسان اپنے بھائی یا اپنی بہن میں بدی ڈھونڈ رہا ہوتا ہے اور تجسس کی عادت اگر فن کی عادت کے ساتھ مل جائے تو بہت بڑا احتمال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ شخص گنہگار ہوگا.پس اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ فرما دیا.وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اور کوئی تم میں سے کسی دوسرے شخص کی غیبت نہ کرے یعنی اس کی غیو بت میں، اس کی عدم موجودگی میں اس پر تبصرے نہ کیا کرے.اب یہ پہلا جو مضمون بیان ہو رہا ہے اس کا آخری طبعی نتیجہ ہے.جو شخص ظن کی عادت رکھتا ہے جلدی سے نتائج نکالتا ہے کہ یہ ہوا ہوگا اور جو شخص تجسس کی عادت رکھتا ہے وہ اپنے ظن کو گناہ کے قریب تر پہنچاتا ہے کیونکہ تجس کا مطلب ہے اسے شوق ہے کچھ معلوم کرنے کا.اس لئے بے وجہ طن نہیں کر رہا، یونہی اتفاقا ظن نہیں کر رہا بلکہ کسی خاص مقصد کی تلاش میں اس کا ظن ہے اور ایسے موقع پر وہ نتیجہ نکالنا جو غلط ہے اور محض اپنے تجسس کے شوق میں اس نے نکالا ہے یہ ایک طبعی بات ہے یعنی ایسا احتمال بہت بڑھ جاتا ہے.تیسری صورت میں جب تجسس کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے.بنیادی طور پر اس کو اپنے بھائی یا بہن سے کوئی دبی ہوئی مخفی نفرت ہوتی ہے.وہ پسند نہیں ہوتا اور غیبت اس کی کی جاتی ہے جو پسند نہ ہو.کبھی آپ نہیں دیکھیں گے کہ ماں باپ بیٹھ کر بچوں کی غیبت کر رہے ہیں یا بچے بیٹھ کر ماں باپ کی

Page 875

خطبات طاہر جلد 13 869 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء غیبت کر رہے ہیں اگر ایسا ہو تو بنیادی طور پر ان کے تعلقات کے نظام میں کوئی ایسار خنہ ہے جسے پاگل پن کہا جا سکتا ہے.مگر غیبت اور کسی شخص سے پر خاش رکھنا، کوئی اس کے متعلق حسد کا پیدا ہونا اس قسم کے محرکات ہیں جو تجسس کی پہلے عادت ڈالتے ہیں اور پھر جب تجس ان کے سامنے کوئی تصورات پیش کرتا ہے، حقائق نہیں بلکہ وہ فطن جو ان کی عادت میں داخل ہے.تجس کے نتیجے میں اندازے لگاتا ہے کہ ہم یہاں تک تو پہنچ گئے ہیں اندر کمرے میں جا کر تو نہیں دیکھا مگر صاف پتا لگتا ہے کہ یہ ہورہا ہوگا اور چونکہ بدنیتی سے ہی اس سفر کا آغاز ہے اس لئے جو بھی ماحصل ہے وہ یقینی ہو یا غیر یقینی ہو وہ اسے آگے مجالس میں بیان کرتے اور اس کے چسکے لیتے ہیں.یہ ایک پورا نفسیاتی سفر ہے جو غیبت کرنے والا اختیار کرتا ہے.جس کو قرآن کریم نے سلسلہ بہ سلسلہ اسی طرح بیان فرمایا جیسے انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے لیکن غیبت کی صرف یہ وجہ نہیں.یہ مراد نہیں ہے کہ اس کے سوا اور کوئی غیبت نہیں ہے.غیبت بغیر تجسس کے بھی پیدا ہوتی ہے.غیبت ایک شخص کی بدی جو کھل کر اس کے سامنے آئی ہے اور تجس کے نتیجے میں نہیں اس کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس میں دور کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے ان لوگوں کو پہنچا نا جو اس کو سن کر اس شخص سے اور دور ہٹ جائیں گے اور اس کی اس شخص سے دشمنی میں اس کے طرف دار ہو جائیں گے.یہ نیت بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ حقائق پرمبنی غیبتیں بھی کی جاتی ہیں اور ہرنیت کا ٹیڑھا ہونالازم ہے ورنہ یہ گناہ نہیں ہے.ایک موقع پر حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کے سامنے کسی شخص کی بات بیان کی اور ان کو یہ شک گزرا کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِكَ غَیبت تو نہیں ہو رہی.وہ شخص موجود نہیں تھا.مگر وہ جن کو منصب عطا ہوتا ہے، بعض ذمہ داریاں عطا ہوتی ہیں، بعض دفعہ وہ اپنے تبصرے کو بعض دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور مقصد یہ نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ ان سننے والوں کے درمیان کوئی نفرت کی خلیج پیدا کریں یا دوریاں پیدا کریں بلکہ ایک قسم کی نصیحت ہوتی ہے.ایک مثال کو پیش کرتے ہوئے کہ دیکھو یہ نا پسندیدہ فعل تھا تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس سے زیادہ چونکہ نیت میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا.اس لئے اللہ کے حضور اسے ہرگز غیبت شمار نہیں کیا جائے گا.نہ کبھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے غیبت فرمائی.پس غیبت کے موضوع پر مختلف احادیث پر نظر رکھ کر و قطعی نتیجہ نکلتا ہے وہ یہی ہے کہ اس نیت سے خواہ برائی تلاش کی جائے یا برائی

Page 876

خطبات طاہر جلد 13 870 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء اتفاقاً نظر کے سامنے آجائے اور پھر اس نیت سے ان باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کیا جائے کہ جس کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے اس پر بیان کرنے والے کو ایک قسم کی فوقیت مل جائے کہ دیکھو میں اس بات سے بلند ہوں اور نیت یہ ہو دیکھو یہ آدمی کیسا ذلیل ہے اور گھٹیا ہے اور اس کے ساتھ اس بات کا خوف بھی دامنگیر ہو کہ یہ بات اس شخص تک نہ پہنچ جائے.یہ خوف دامن گیر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ چھپ کر حملہ کرنا چاہتا ہے.وہ جب موجود نہیں ہے پیچھے سے ایسا وار کرنا چاہتا ہے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے.اگر یہ نیت ہو تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی مثال دیتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے اَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۖ کیا تم میں سے کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے.تم تو کراہت کرنے لگے ہو دیکھو دیکھو تم تو یہ بات سنتے ہی سخت کراہت محسوس کر رہے ہو.اب کیسی کراہت جب کہ عملاً اپنی زندگی میں تم نے یہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے.جب اپنے بھائی یا اپنی بہن یعنی مومن کے تعلقات کی بات ہو رہی ہے، سگے بھائی یا بہن کی بات نہیں، ان کے خلاف جب تم باتیں کرتے ہو تو مردے کا گوشت کھانے والی بات ہے لیکن کراہت کے ساتھ نہیں چسکے لے لے کر تو مثال تو ایک ہی ہے.ایک جگہ تم چسکے لیتے ہو ایک جگہ کراہت محسوس کرتے ہو.یہ تمہاری زندگی کا تضاد ہے جو درست نہیں ہے حالانکہ دونوں کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا چاہئے.اس نصیحت اور اس مثال کے بعد پھر بھی انسان غیبت میں مزے اٹھاتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بعض باتوں کی کراہت کو جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا.وہ مثال سنتا ہے ایمان لے آتا ہے اللہ نے فرمایا ٹھیک ہی ہوگا لیکن جہاں تک وہ سوچتا ہے میری ذات کا تعلق ہے مجھے تو مزہ آ رہا ہے.مجھے تو بھائی کے گوشت والی کراہت اس میں ذرا محسوس نہیں ہو رہی جس کا مطلب ہے اس کا تناظر بدل گیا ہے.وہ جس پہلو ، جس زاویے سے چیزوں کو دیکھ رہا ہے وہ خدا کا پہلو نہیں ہے، خدا کا زاویہ نہیں ہے.پس بیماری محض گناہ کی بیماری نہیں ہے ایک گہرا رخنہ ہے مزاج میں اور ذوق میں اور اس کی اصلاح نسبتاً زیادہ مشکل ہوتی ہے.اگر ایک انسان گناہ سمجھتے ہوئے اس کی بدیوں سے واقف ہوتے ہوئے وقتی طور پر گناہ کے بعض پہلوؤں سے متاثر ہو جائے جن میں کشش بھی پائی جاتی ہے تو ایسا شخص بار بار تو بہ کرتا ہے اور سنبھلتا ہے مگر غیبت کرنے والوں میں میں نے یہ چیز نہیں دیکھی.

Page 877

خطبات طاہر جلد 13 871 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء لوگ بسا اوقات مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں ہم سے ایک جرم ہو گیا ،فلاں غلطی ہوگئی.بعض دفعہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں بعض دفعہ اشارہ بات کرتے ہیں جو سمجھ میں آ جاتی ہیں.مگر مجھے یہ یاد نہیں کہ کسی نے کہا ہو کہ مجھ سے غیبت ہوگئی تھی اللہ معاف کرے بڑا گند کیا ہے میں نے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھا بیٹھا ہوں اور اب مجھے کراہت اور متلی ہو رہی ہے.خدا کے لئے دعا کریں اللہ اس بد نتیجے سے محفوظ رکھے.کبھی آپ میں سے کسی کے ساتھ ایسا اتفاق ہوا ہوتو مجھے بتائے میرے ساتھ نہیں ہوا.یہ مطلب ہے میرا کہ ذوق بدل چکے ہیں.جہاں ذوق بدل جائیں وہاں گناہ کی نحوست کا احساس نہیں رہتا اور ایک ایسا شخص نصیحت سن کر بار بار وہی ٹھوکر کھاتا ہے لیکن اگر وہ خود اپنے آپ کو اس بھائی کی جگہ رکھے جس کا گوشت کھایا جا رہا ہے.پھر شاید وہ اس بات کو بہتر سمجھتا ہو اور اس شرمندگی کو یاد کرے جب ایسا شخص جس کی غیبت ہو رہی ہے اچانک کمرے میں داخل ہو جاتا ہے.کیسے کھسیانی ہنسی ہنستے ہیں وہ سارے مجلس والے، کیسے پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور اس کا تاثر غلط ثابت کرنے کے لئے پھر جھوٹ بولنے لگ جاتے ہیں.ہم تو یہ کہہ رہے تھے ، ہم تو وہ کہہ رہے تھے اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو پھر آپس میں خوب ہنستے ہیں اور شرمندگی کی جنسی کہ ہم سے آج خوب ہوا جس کی باتیں کر رہے تھے وہی پہنچ گیا.یہ سب جرم کی نشانیاں ہیں.ان کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ جرم کر رہے تھے ورنہ یہ حرکتیں نہ ہوتیں.بعض دفعہ ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی کے متعلق بات کر رہا ہے مگر نیت اور ہے پاک نیت سے سمجھانے کی خاطر کر رہا ہے.وہ پیچھے بیٹھا سن رہا ہے، علم میں بھی آ جائے تو خجالت نہیں ہوتی بلکہ انسان چونکہ اچھے رنگ میں ، نیک نیت سے بات کر رہا ہے اس کو شرمندگی محسوس نہیں ہوتی.یہ تو کہ سکتا ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں مگر یہ بات واقعہ درست ہے اور اس چیز کا قطعی یقین کہ یہ بات اس وقت نیت میں گناہ نہیں ہوتا یا اس وقت وہ غیبت نہیں کر رہا ہوتا یہ بات درست ہے آسانی سے مل جاتا ہے.ایسا شخص اپنے دفاع میں کچھ نہیں ایسی بات کہہ سکتا جو اس کے بیان کو غلط کہے اور چونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے تعلق مجھ سے درست ہیں اور نیست بگڑی ہوئی نہیں ہے اس لئے اس کے نتیجے میں نفرت اور دوری بھی پیدا نہیں ہوتی.پس دو طرح سے غیبت کا احتمال ہے.ایک ہے بدنیتی کے ساتھ حملہ کرنے کی خاطر ، جھوٹی بات کرنا ایک سچی بات کو بد نیتی سے دشمنی کے نتیجے میں پھیلانا.جو جھوٹی بات ہے اس کے دو پہلو

Page 878

خطبات طاہر جلد 13 872 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء ہیں.ایک فن ہے ظن کے پردے میں شک کا فائدہ اپنے لئے اٹھاتے ہوئے کہ شاید بیچ ہو اس لئے میں جھوٹ نہیں بول رہا.یہ حصہ ہے جو غیبت سے زیادہ تعلق رکھتا ہے.جو واضح جھوٹ بولا جارہا ہے اسے غیبت نہیں کہتے اس کا کچھ اور نام ہے.آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، مسلم کتاب البر میں یہ درج ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے.صحابہ رضوان اللہ یم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اپنے بھائی کا اس کی پیٹھ کے پیچھے اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہیں کرتا.عرض کیا گیا اگر وہ بات جو کہی گئی ہے سچ ہو اور میرے بھائی میں موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہو گی.آپ نے فرمایا اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تم نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے اس میں پائی نہیں جاتی تو یہ بہتان ہے جو اس سے بڑا گناہ ہے.بہتان تراشی معصوم پر تو ایسا سخت گناہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کی بہت سخت سزا مقرر فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے.تو دونوں صورتوں میں جواز کوئی نہیں رہتا.اگر سچ ہے تو غیبت ہے.جھوٹ ہے تو بہتان ہے، اس سے بھی زیادہ بڑا گند.اگر سچ ہے تو غیبت ہے ان معنوں میں کہ بھائی مر چکا اور مرے ہوئے بھائی کو ڈیفنس کا موقع نہیں دیا گیا.اس کی عدم موجودگی میں اس پر حملہ کیا گیا گویا اس کا گوشت کھایا گیا اور اس کے مزے اڑائے گئے اور بہتان کا مطلب ہے کسی کو قتل کر دینا یعنی روحانی دنیا میں بہتان قتل کے مشابہ ہے.تو یہ تو Murder کا گناہ ہے جو مرے ہوئے کے گوشت کھانے سے زیادہ مکروہ تو نہیں مگر زیادہ بڑا ظلم ضرور ہے اور زیادہ قابل مواخذہ ہے.پس کوئی بھی بہانہ بنایا جائے اگر غیبت کرتے ہیں اور چسکا پڑتا ہے اس کے لطف اٹھائے جاتے ہیں اور اپنے کسی بھائی کو کم نظر سے دیکھا جا رہا ہے، اس کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے، اس کو ذلیل کیا جارہا ہے اور ایسی باتیں کی جارہی ہیں کہ جب وہ آ جائے تو زبانیں گنگ ہو جائیں اور مجال نہیں کسی کی کہ وہ باتیں ان کے سامنے بیان کر سکے تو یہ ساری غیبت ہے.غیبت میں تھوڑی اور کم اور زیادہ کے بہت فرق ہیں، بڑی منازل ہیں.بعض دفعہ غیبت ہی ہوتی ہے مگر نیتوں میں چونکہ فتور نہیں ہوتا اس رنگ میں بات کی جاتی ہے کہ سننے والے سارے جس شخص کے متعلق بات ہو رہی ہے اس سے دور نہیں ہٹتے وہ بات سن کر بلکہ ان سب کا قدرتی طبعی اپنا

Page 879

خطبات طاہر جلد 13 873 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ خبر نہیں ہوتی بلکہ ایک تبصرہ ہے جس میں وہ مجلس شریک ہے.وہ تبصرہ اور اس خبر میں ایک فرق ہے حالانکہ دونوں غیبت کے قریب قریب ہیں.اس لئے یہ مضمون باریک بھی ہے اور منتشر بھی ہے لیکن جہاں تک معاشرے کی اقدار کی حفاظت کا تعلق ہے یہ بہت ہی اہم مضمون ہے.اس کو اگر آپ نے نہ سمجھا اور اس کا حق ادا نہ کیا تو بارہا آپ نفرتوں کا بیج بونے کے ذمہ دار ہوں گے.بارہا اپنے معصوم بھائیوں کے ساتھ منافقانہ تعلق رکھ رکھ کر آپ ایک منافق انسان بن جائیں گے اور منافقت جب ایک جگہ پیدا ہو جائے تو دوسری جگہ بھی اس کے پیدا ہونے کے احتمال پیدا ہو جاتے ہیں.جو شخص عادتاً منافق ہو جائے ، عادتا منافق بنانے کے لئے غیبت اس کا سب سے بڑا مددگار ہو جاتی ہے، عادتا منافق ہو جائے یعنی کسی کے متعلق باتیں کرنا پیٹھ پیچھے اور اس کے سامنے ایسا تاثر پیدا کرنا کہ گویا وہ جو باتیں کہہ رہا تھا اس کے برعکس اس کے متعلق اندازے رکھتا ہے.نظریات وتعلقات اس سے بالکل مختلف ہیں یہ منافقت ہے اور منافقت اگر انسانوں میں پیدا ہوتی ہے تو وہ پھر رفتہ رفتہ دین میں بھی داخل ہوتی ہے.منافقت نظام جماعت میں بھی پیدا ہوتی ہے اور اپنے صدر، اپنے قائد، اپنے زعیم ، اپنے امیر، اپنے دوسرے عہدیداروں سے بھی پھر یہ منافقانہ سلوک شروع ہو جاتا ہے اور وہ غیبت جوفرد کی ہوتی تھی وہ نظام کی بن جاتی ہے اور نظام کی غیبت اس سے بھی بڑا گناہ ہے کیونکہ اس میں خدا کے کام کرنے والوں کے خلاف ایسا ظن پھیلتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ ان سے نسبتا کم تعاون کرنے لگتے ہیں اور ان کی طبیعتیں اچاٹ ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ غیبت جب ان کی کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں اچھا پھر یہ دین ہے تو ہم الگ ہو جاتے ہیں.اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں اور اس کے ذمہ دار وہ ظالم ہیں جو پہلے افراد کی غیبت پر جرات کرتے ہیں، بے با کی دکھاتے ہیں.پھر طبعی طور پر ان کے اندر منافقت پیدا ہوتی ہے اور منافقانہ رنگ میں وہ نظام جماعت پر بھی حملے کرتے ہیں اور نظام جماعت چلانے والے ذمہ دار افسران پر بھی حملے کرتے ہیں اور ہر جگہ آپ یہ قدر مشترک دیکھیں گے کہ نفرت پہلے ہے اور غیبت بعد میں ہے.محبت اور غیبت اکٹھے نہیں رہ سکتے.پیار اور خلوص کا تعلق اور غیبت کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ہے.پس کئی طرح سے ہم غیبت کا مقابلہ کر سکتے ہیں.ان میں ایک یہ مثبت طریق ہے کہ اپنے تعلقات کو دوسروں سے محبت کے رشتوں سے استوار کریں اور نظام جماعت سے بھی محبت پیدا کریں

Page 880

خطبات طاہر جلد 13 874 اور جو نظام جماعت چلانے والے ہیں ان سے ادب اور محبت کا رشتہ باندھیں یہ سوچ کر کہ ہم تو آزاد ہیں بہت سا ہمارا اپنا وقت اپنے ذاتی معاملوں میں خرچ ہو رہا ہے یہ شخص دین کی خاطر بندھا ہوا ہے.اس سے تعلق رکھنا اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا موجب ہوگا.خدا کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے گا کیونکہ ہم خدا کی خاطر اس سے تعلق رکھ رہے ہیں.یہ اگر سوچ کر بالا رادہ انسان اپنی اپنی جماعت میں اپنے عہدیداروں کا احترام کرے خواہ وہ چھوٹے ہوں اور ان سے محبت کا طریق اختیار کرے خواہ ان سے محبت پیدا نہ ہوتی ہو.مگر بعض دفعہ احترام محبتوں میں بدل جاتے ہیں اور بعض دفعہ محبتیں احترام پیدا کرتی ہیں یہ دونوں طبعی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.تو ان معنوں میں وہ بے ساختہ،بے اختیار محبت نہیں جو ایک جلوہ حسن سے پیدا ہوتی ہے.وہ محبت جو بعض حسینوں کے تعلق اور واسطے سے پیدا ہوتی ہے میں اس کی بات کر رہا ہوں.اگر کسی شخص سے محبت ہے تو اس سے تعلق والوں سے بھی ایک محبت ہوتی ہے.وہ ذاتی طور پر محبت کا مستحق نہ بھی ٹھہرے لیکن جس حسین کی یاد سے وہ وابستہ ہے اس کے ساتھ محبت ہونا ایک طبعی امر ہے.چنانچہ مجنوں کے عشق کی دلیل میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ مجنوں کو لیلی کے کتے سے بھی پیار تھا اور یہ امر واقعہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب محبت پاگل ہو جائے ، اتنی بڑھ جائے کہ اس میں دیوانگی آ جائے تو ایسے شخص سے تعلق رکھنے والی ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے اور اس پر انسان کا اختیار نہیں رہتا.تو جب میں محبت کہہ رہا ہوں تو آپ کو کوئی منافقت کی تعلیم نہیں دے رہا.میں آپ کو گہری حقیقت بتارہا ہوں کہ محبت حقیقة واسطه بالواسطہ بھی اپنے اثر دکھاتی ہے اور جلوے دکھاتی ہے.اسی لئے میں نے کئی دفعہ آپ کے سامنے صحابہ کی مثال رکھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ گو جو عشق تھا آج بھی بہت دعویدار ہیں مگر وہ شکلیں ہی اور تھیں ، وہ صورتیں ہی مختلف تھیں ، سراپا عشق تھے ان کی آنکھوں سے محبت برستی تھی، ان کے چہروں سے، ان کی کھالیں، ان کی جلدیں بولتی تھیں اور ایسے پچھلے ہوئے رہتے تھے وہ کہ سارا وجود ان کا اس محبت میں مخمور اور سراپا گداز رہتا تھا.اسی لئے بچپن میں ہمارے لئے بڑی شرمندگی کے سامان ہوتے تھے.ہم جانتے تھے کہ ہماری کوئی حیثیت نہیں.کوئی بزرگ صحابی آیا ہے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور ہاتھ زبردستی کھینچ کر پیار کیا اور اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی شرمندگی سے ہم بھاگتے تھے لیکن بعد میں جب سوچا تو پتا چلا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق تھا جو یہ جلوے دکھا رہا

Page 881

خطبات طاہر جلد 13 875 خطبہ جمعہ فرموده 18 / نومبر 1994ء تھا اور اس وقت ہم سے زبر دستی ان کا کرنا ان کے اخلاص کے ایک خاص حد تک پہنچے ہوئے ہونے کی وجہ سے ان پر زیادتی بن جاتا تھا.تو یہ چیزیں مصنوعی نہیں ہیں یہ عشق کے طبعی نتائج ہیں.اور میں جب کہتا ہوں کہ محبت نظام جماعت والوں سے بھی پیدا کرو تو مصنوعی طریق کی محبت نہیں کہہ رہا.آپ خدا سے جب محبت زیادہ کریں گے تب یہ محبتیں پیدا ہوں گی.اگر اللہ سے سچا عشق ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس درجہ بدرجہ تعلق کے نتیجے میں عشق ہے تو آپ کے نظام سے بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ نظام جو وابستہ ہواس طرف اس سے انسان بے اعتنائی یا تکبر کی راہ اختیار کرے اور اپنی زبانیں بات بات پر کھولے اور بدتمیزی کے جملے ان کے متعلق کہے اور تمسخر کرے اور پھر غیبت کرے اور نظام جماعت کے اوپر تبصرے کرتے ہوئے لوگوں کی مجلسوں میں بیٹھ کر یہ کہے جی فلاں، ہم نے دیکھ لیا امیر صاحب کو.یہ ان کا حال ہے ان کے بیٹے کا یہ حال ہے، ان کی بیٹی ایسی تھی اور سارے مل کر بیٹھ رہیں اور گویا کہ اس طرح امیر کے بد ہونے سے وہ لوگ خدا کی نظر میں پاکباز ہورہے ہیں حالانکہ قرآن سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنے جس مقام پر بھی فائز تھے اس سے بھی گرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ بد انجام کو پہنچ جاتے ہیں، ان میں غیبت بھی آجاتی ہے، منافقت بھی آجاتی ہے ان میں پھر رفتہ رفتہ بغاوت بھی پیدا ہوتی ہے.بہتان تراشی بھی شامل ہو جاتی ہے.یہ ملتی جلتی بیماریاں ہیں.اکٹھی چلتی ہیں اس لئے غیبت کو کوئی معمولی بات نہ سمجھیں، غیبت سے کلیۂ اجتناب کریں اور اس کا ایک طریقہ اپنے محبت کے دائرے کو وسیع کرنا ہے.جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے اللہ کے حوالے سے محبت وسعت اختیار کرتی ہے اور یہ بڑی واضح بات ہے لیکن جہاں تک عامتہ الناس کا اور احمدیوں کا تعلق ہے وہ بھی اسلام کے حوالے سے وسیع دائرے میں لازماً محبت سے تعلق رکھنے والا مضمون ہی رہتا ہے اور اس وسیع دائرے میں محبت اثر دکھاتی ہے.چنانچہ بسا اوقات آنحضرت ﷺ نے اپنی نصیحتوں میں مسلمان کا ذکر کیا ہے.مسلمان سے مسلمان کو یہ نہیں ہوتا، مسلمان سے مسلمان کو یہ نقصان نہیں ہوسکتا.پہلے مجھے تعجب ہوا کرتا تھا کہ آنحضرت ﷺ تو رحمۃ للعالمین ہیں.تو رحمۃ للعالمین ہوتے ہوئے صرف مسلمانوں کا فیض مسلمانوں کے حوالے سے کیوں بیان فرماتے ہیں.لیکن جب مزید غور کیا اور اس مضمون میں ڈوب کر

Page 882

خطبات طاہر جلد 13 876 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء دیکھا تو پتا چلا کہ یہ ایک بہت ہی پیارا انداز مسلمانوں کو نصیحت کرنے کا ہے.اس محبت کے حوالے سے جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے رسول کی نظر میں لازماً ہونی چاہئے اور یہ محبت کا رشتہ مسلمانوں سے باہر نسبتا کمزور ہو جاتا ہے.رہتا تو ہے مگر نسبتا کمزور.اس لئے جب نصیحت کی جائے تو زیادہ قوی رشتے کا حوالہ دیا جاتا ہے.پس یہ نہیں فرمار ہے کہ تم سے مسلمانوں کو گزند نہیں پہنچنا چاہئے بلکہ فرمار ہے ہیں کہ دیکھو مسلمانوں سے گزند پہنچنے کا تمہارے ساتھ تو کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، ناممکن ہے.پس اگر یہ کرتے ہو تو یہ گناہ ہے.تم خود مسلمان نہیں رہتے اگر تم سے مسلمان ہوتے ہوئے دوسرے ے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ ہرگز مراد نہیں کہ غیروں کو پہنچایا کرو.بلکہ وہ حدیثیں اور ہیں ایسی بھی احادیث ہیں جن میں اسلام کے حوالے کے بغیر بنی نوع انسان کے حقوق بیان کرتے ہوئے صرف ان کے نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق بیان کرتے ہوئے جانوروں سے بھی رحم اور شفقت کے سلوک کی ہدایت ہے.ایسی ایسی نصیحتیں ہیں کہ جس میں ایک شخص کے متعلق فرمایا کہ اونٹنی جس پر تم ظلم کرتے ہو اس کے تم جواب دہ ہو گے قیامت کے دن.یہ تمہارے خلاف واویلا کر رہی ہے اور اس نے آزاد کر دیا اس اونٹنی کو اور توبہ کی.آزاد کر دیا ان معنوں میں کہ کہا بے شک میری طرف سے نکل جائے ، جنگل میں پھرے.میں اس پر اب کوئی ظلم نہیں کروں گا.آپ نے فرمایا اگر یہ نہ کرتے تو تم خدا کی پکڑ کے نیچے تھے.(مسند احمد جلد 1 صفحہ 204) ایک پرندے کی درد ناک آواز سن کر آپ بے چین ہو جاتے ہیں، خیمے سے باہر آ جاتے ہیں وہ مادہ پرندہ تھی کس نے اس مادہ پرندے کو دکھ دیا ہے.معلوم ہوتا ہے کسی نے اس کے انڈے اٹھا لئے ہیں یا بچہ اٹھا کر لے گیا ہے اور واقعہ یہی بات نکلی اسے واپس گھونسلے میں رکھوایا تو پھر آپ کو چین آیا.(مسنداحمد جلد 1 صفحہ 404) یہ ہیں محمدرسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین.اس لئے رحمتہ للعالمین کے مضمون سے ہٹ کر آپ کی کسی حدیث کا کوئی ترجمہ درست نہیں ہوگا.پس جب مسلمان کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو اسلام جو باہمی اخوت و محبت پیدا کرتا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تربیت کی ایک بہت ہی حکیمانہ کوشش فرماتے ہیں.پس اس پہلو سے جب ہم وسیع دائرے میں جاتے ہیں تو غیبت کا مضمون بھی اس دائرے میں ہمیں اسی طرح قابل توجہ دکھائی دیتا ہے جیسا نسبتا اندرونی دائرے کے.مثلاً نظام جماعت ہی کا تعلق نہیں رہتا بلکہ غیبت عام مسلمان کی کرنا بھی اتنا ہی بڑا جرم اور بھیانک جرم ہے.اتنا بڑا نہ ہی تو ایک بھیانک جرم ہے جو بڑے جرم

Page 883

خطبات طاہر جلد 13 877 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء میں تبدیل ہو سکتا ہے اور پھر اس تعلق سے بھی وہی طریق اختیار کریں یعنی اپنی محبت کو جو مسلمان سے مسلمان کو پہنچنی چاہئے کسی مسلمان کو محروم نہ کریں اور اس حوالے سے اللہ اور رسول کی محبت کا تصور کر کے مسلمانوں پر وہ محبت کا سایہ عام کریں جو آنحضرت ﷺ سے مسلمانوں کو پہنچتا تھا.ان سے آپ براه راست محبت نہ سہی لیکن رسول اللہ اللہ سے تو عشق کا دعوی ہے.اگر آنحضور سے محبت کا دعویٰ ہے تو آپ کے متعلق تو قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ یہ وہ رسول ہے جو مومنوں کے لئے رووف ہے یعنی خدا کی صفت روفی آپ کے متعلق بیان فرمائی گئی.غیر معمولی نرمی رکھنے والا اور پیار اور شفقت اور رافت کا سلوک کرنے والا.رحیم پھر اس کا رحم ختم ہی نہیں ہوتا.بار بار ان کے لئے رحم جلوہ گر ہوتا ہے اور بار بار ان کے لئے رحم جوش مارتا ہے.تو اگر آنحضرت ﷺ سے محبت ہے تو جس سے آپ کو محبت ہے اس سے بھی محبت ہونی چاہئے اور محبت ہو تو چغلی نہیں رہ سکتی ، یہ ناممکن ہو جاتا ہے.اگر غیو بت میں کوئی بات ہونی بھی ہے تو کچھ اور اعلیٰ مقاصد کی خاطر ہو گی مگر چغلی کی خاطر صلى الله نہیں ہوگی جیسا کہ میں نے مثال دی ہے.آنحضرت تم سے آپ کی زوجہ مطہرہ نے سوال کیا یا رسول اللہ آپ چغلی فرما رہے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں.میں نے جو کہا ہے وہ چغلی نہیں ہے.کیونکہ آپ اپنے دل کی اندرونی تہہ بہ تہہ حالتوں پر نظر رکھتے تھے، جانتے تھے کہ کہیں بھی پوشیدہ محرکات میں کوئی رخنہ نہیں ہے، کوئی نیت کی ایسی خرابی نہیں جس کا تعلق کسی سے نفرت سے ہو یا کسی پر تفاخر کرنے سے ہو بلکہ بعض مقاصد بعض دفعہ کسی کی غیبوبت میں بھی بعض باتیں کرنی پڑتی ہیں اور وہ بالکل اور مقصد ہے وہ کوئی مجلسی شرارت نہیں ہے.تو ان باتوں کو الگ رکھتے ہوئے میں بیان کر رہا ہوں کہ جس سے بھی آنحضرت ﷺ کو پیار تھا اگر آپ کو آنحضرت مے سے پیار ہے تو آپ کو بھی ویسا پیار کرنے کی کوشش تو کرنی چاہئے اور اس حوالے سے سارے مسلمان آپ کے رؤوف اور رحیم صلى الله بننے کے منتظر بیٹھے ہیں.وہ چاہتے ہیں آپ ان سے رؤوف اور رحیم والا سلوک کریں کیونکہ آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ رؤوف اور رحیم کے عاشق ہیں.پس اس پہلو سے اگر آپ اپنے تعلقات کو خیر کے پہلو سے وسیع کریں گے تو آپ کی خیر سب مسلمانوں پر سایہ فگن ہو جائے گی اور اس سائے کے نیچے غیبت کا پودا پنپتا ہی نہیں ہے.بعض پودے ہیں جو بعض سایوں کے نیچے مر جاتے ہیں پس

Page 884

خطبات طاہر جلد 13 878 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء غیبت کا پودا بھی رافت اور رحمت کے سائے تلے پرورش نہیں پاسکتا.پس ایک یہ بھی طریق ہے.پھر اور وسیع کر دیں اور بنی نوع انسان تک اس کی وسعت دے دیں تو اس کے نتیجے میں رحمۃ للعالمین کا تصور ہے جو آپ کو بنی نوع انسان کے لئے محبت کی بات نہیں میں کر رہا، مصنوعی محبت کوئی چیز نہیں ہے.مصنوعی محبت ایک منافقانہ تصور ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن حقیقی محبت بنی نوع انسان سے پیدا ہونا یہ بہت گہرے، ایک قسم کے جہاد کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اب لفظ جہاداور محبت میں بظاہر کوئی جوڑ نہیں لیکن میں آپ کو حقیقت بتارہا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کو جوطبعی پیار بنی نوع انسان سے تھا چونکہ وہ اللہ کی محبت سے براہ راست پھوٹ رہا تھا اس لئے اس میں کسی جہاد کی ضرورت نہیں تھی لیکن عام انسان جو ان باتوں سے دور ہوا سے اس لئے جہاد کی ضرورت رہتی ہے کہ اسے محسوس ہوگا کہ میری ابتدائی بنیادی محبت میں رخنہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کے بچے تعلق استوار کرنا اور آنحضرت ﷺ سے وہ سچا محبت کا تعلق رکھنا جواز خود دوسری محبتوں پر اثر انداز ہو جائے اور اس کا فیض عام ہو جائے یہاں تک کہ تمام بنی نوع انسان پر پھیل جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.اس کے لئے اپنی محبت پر نظر رکھتے ہوئے ، اس کی خامیوں پر نگاہ کرتے ہوئے، انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کا مزاج اور ذوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اعلیٰ درجے کے مزاج اور ذوق کے بغیر نہ اللہ سے محبت ہو سکتی ہے نہ اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ہو سکتی ہے.اگر ذوق بگڑے ہوں تو محبوب بھی بگڑے ہوئے ہوتے ہیں.یہ ایک قدرتی بات ہے جسے نظر انداز کر کے بسا اوقات آپ اپنے اندرونی مسائل کا حل بھی تلاش نہیں کر سکتے.سوچتے ہیں کہ میں اللہ سے بڑی محبت کی کوشش کرتا ہوں، دعائیں بھی کرتا ہوں، مزہ ہی نہیں آتا.نہ نمازوں میں ، نہ نیکیوں میں اور میری کیوں نہیں سنی جاتیں.ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کا ذوق بگڑا ہوا ہو اور ذوق بگڑنے کے نتیجے میں آپ کا ذہن ہمیشہ بعض دنیا کی ایسی لذتوں میں مگن رہے جو آپ کو طبعا اچھی دکھائی دیتی ہیں اور خدا کی محبت کا یا نیکی کا ذوق نہیں پیدا ہوا.جب یہ ذوق ٹھیک نہیں ہوگا تو محبت فرضی رہے گی.دعوے کی حد تک رہتی ہے طبعی قوت کے طور پر دل سے پھوٹتی نہیں ہے اور اس کے بغیر آپ کی اصلاح ممکن نہیں اور غیبت کا مسئلہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں.جب تک آپ کا ذوق درست نہیں ہوتا اور خدا کی وہ محبت دل میں پیدا نہیں ہوتی اور وہ نظر آپ

Page 885

خطبات طاہر جلد 13 879 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء کو عطا نہیں ہوتی جس نظر سے خدا اپنے بندوں کو دیکھتا ہے اس وقت تک آپ کو پتا ہی نہیں لگے گا کہ آپ غیبت کرتے ہیں اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں اور اس سے کراہت کا نہ ہونا آپ کے بگڑے ہوئے ذوق کی نشانی ہے.پس اتنی کھلی کھلی ایک نشانی ہمارے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے کہ اس کسوٹی پر اپنی اندرونی حالتوں کا جائزہ لینا ایک فرضی بات نہیں رہی بلکہ ایک یقینی حقیقت بن چکا ہے.پس جس جس حد تک ہم اس کسوٹی کے ظاہر کردہ نتیجے کی رو سے ناکام ہورہے ہیں اس حد تک ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.یہ کسوٹی گویا کہ جھوٹ نہیں بولتی.پس اپنے ذوق درست کریں تو پھر آپ کو خدا سے محبت ہو گی اپنے ذوق درست کریں پھر آپ کو رسول ﷺ سے محبت ہوگی.اپنے ذوق درست کریں تب گنا ہوں سے دوری ہوسکتی ہے اور نیکیوں سے پیار ہوسکتا ہے ورنہ نہیں ہوسکتا.پس غیبت کے حوالے سے میں اگلا آپ سے تقاضا یہ کرتا ہوں کہ اپنے دل کا یہ جائزہ لیں کہ آپ کو غیبت میں کتنا مزہ آ رہا ہے.اگر ایک دم یہ نہیں چھٹتی منہ سے تو رفتہ رفتہ آپ جائزہ لیں تو آپ کے دل میں اس کا شوق و ذوق کم ہوتا چلا جا رہا ہے کہ نہیں.اگر کم ہو رہا ہے تو شکر ہے آپ بیچ رہے ہیں.آپ رو بصحت ہیں.اگر زور لگا کر نصیحت سن کر آپ کہتے ہیں اب میں نے غیبت نہیں کرنی اور پھر کرتے ہیں اور مزہ اتنا ہی ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کی اصلاح کوئی نہیں ہوئی.زبر دستی تعلق کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو طبعی رجحانات ہیں ان کے رستے زبر دستی بند نہیں ہوا کرتے کچھ دیر تک ہوں گے پھر وہ کھل جاتے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر بعض دفعہ وہ بدیوں کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے اس لئے غیبت کے معاملے کو اہمیت دیں اور اس گہرائی سے دیکھیں جس طرح میں نے آپ کے سامنے اس کو کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور یقین کریں کہ اگر ہم بحیثیت جماعت غیبت سے مبرا ہو جائیں تو ہمارا نظام بھی محفوظ ہو جائے گا.ہمارے معاشرتی تعلقات بھی محفوظ ہو جائیں گے.ہمارے اندر جتنی رخنہ پیدا کرنے والی باتیں ہیں وہ اگر سب دور نہیں ہوتیں تو ان میں غیر معمولی کمی پیدا ہو جائے گی.اور وہ بدنتائج جو روزانہ شادیوں کی ناکامی کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں ان پر بھی غیر معمولی مثبت اثر ظاہر ہوگا.اب آپ گھروں کا تصور کریں.ہر گھر میں میں جا تو نہیں سکتا میری سوچ جاسکتی ہے اور

Page 886

خطبات طاہر جلد 13 880 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء میں سمجھ لیتا ہوں کس مزاج کے لوگ کیسی باتیں کرتے ہوں گے.کہیں بھابی کے خلاف نندیں اکٹھی ہوئی ہیں اور الگ مجلس لگی ہے ساس کے ساتھ اور اس میں بھائی کو بھی اگر وہ بے غیرت ہو اور اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے نہ جانتا ہو اس کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے اور خوب اس پہ مذاق اڑائے جاتے ہیں.یہ بھونڈی حرکت اس نے وہاں کی اس نے وہاں وہ حرکت کی اور سمجھتے ہیں کہ اب اس کو سمجھ آئے گی کہ ہم کون ہیں اور یہ کون ہے.اب یہ سارا علم ہی ظلم ہے، فساد ہی فساد ہے اور غیبت بھی ہے اور اس میں اور بھی کئی قسم کے بہیمانہ مظالم شامل ہو جاتے ہیں.اگر کسی بہو بے چاری سے غلطی ہو بھی گئی اور تمہیں اس سے وہ کچی محبت بھی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے تعلق کے نتیجے میں ہونی چاہئے تو تم اس کا آئینہ بنو گے.علیحدگی میں پیار سے اسے سمجھاؤ گے اور اس کی تکلیف خود محسوس کرو گے.ہنسی اور تکلیف اکٹھے نہیں ہوا کرتے.اگر شرمندگی ہے تو بعض دفعہ غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے مگر باتوں کے چسکے میں تبدیل نہیں ہوا کرتی.یہ تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تلاش تھی کہ اس سے کوئی غلطی ہو پھر ہم ایکا کریں اور پھر ہم اس پر ہنسیں اور اس کا مذاق اڑائیں اور اس کے خاوند کو ذلیل کریں اور وہ پھر غصے میں آکر اس کے بال نوچے اس پر زیادتی کرے پھر ہمارے دل کو ٹھنڈ پڑے.سفر کا آغاز ہی نفرتوں سے ہے، سفر کا آغاز ہی مکروہ اور ذلیل سفر کا آغاز ہے ایک بہیمانہ حملے کی نیت سے سارا سفر شروع ہوا اور ساری کارروائیاں ہوئیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں ہم جیت گئے.ہم نے اس ایک لڑکی کو مغلوب کر دیا اور اس کے خاوند کو اپنے لئے چھین لیا حالانکہ سارا نہایت ہی مکروہ گناہ ہے.اگر محبت ہو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے تو یہ آواز کانوں میں گونجے کہ الْمُومِنُ مِرْأَةُ الْمُومِنِ کہ مون دوسرے مومن کا آئینہ ہے.(ابوداؤد کتاب الادب حدیث 4273) تو میں نے پہلے بھی بتایا آئینہ تو شور نہیں ڈالتا آئینہ تو جس کی بدصورتی دیکھے دوسرے آدمی کو یہ نہیں کہتا کہ یہ بدصورت شخص تھا جو مجھے دیکھ کے گیا ہے.میرے اندر اپنا منہ دیکھ کے گیا ہے.مگر جب بھی کوئی آئینہ دیکھے اس کو ضرور بتاتا ہے مگر ادب اور خاموشی کے ساتھ یہاں تک کہ آئینے پر غصہ نہیں آتا.تو بہت سی اس کی پر حکمت باتیں ہیں جن کے متعلق میں ایک دفعہ ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں.ان کی طرف اشارہ کرتا ہوں انہیں دہراؤں گا نہیں کہ اگر رسول اکرم اللہ سے سچی محبت ہو تو یہ آواز کانوں میں گونجے گی اور آپ آئینہ بننے کی کوشش کریں گے اور اس بے چاری کو علیحدگی میں سمجھائیں گے کہ تم نے وہ بات کی تھی اس پر ہمیں بھی شرمندگی ہوئی اور تمہارا مقام بھی دنیا کی نظر میں.

Page 887

خطبات طاہر جلد 13 881 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء گرا ہے تو یہ مناسب نہیں تھا.تو اگر سچی ہمدردی کے ساتھ ، سچے دل کی ہمدردی سے بات کی جائے تو فائدہ ہوتا ہے اور معاشرہ سنورتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہمیشہ رخ بھابیوں کی طرف ہی ہو اور بہوؤں کی طرف ہو.بعض بہوؤں کا رخ خاوند کی بہنوں اور اس کی ماں کی طرف بھی رہتا ہے.وہ جرم جوان کے خلاف ہوتے ہیں بعض دفعہ وہ دوسروں کے خلاف بھی کرتی ہیں اور ان کو شوق ہوتا ہے کہ اپنے خاوند کوسب سے کاٹ کر الگ کر دیں اور پھر ان کو چین ملتا ہے جب وہ اپنے ماں باپ سے تعلق توڑ لے، اپنی بہنوں بھائیوں سے تعلق توڑلے اور اس کے ماں باپ اور اس کے بہن بھائیوں کا ہوکر رہ جائے.اور یہ ایک ایسا واقعہ نہیں جو کبھی کبھی ہوتا ہو یہ روز مرہ دیکھنے میں آتا ہے حالانکہ قرآن کریم نے جب شادی کا مضمون بیان فرمایا تو اس طرح بیان فرمایا کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہو چکے ہیں.رحموں کے تعلق کا ذکر فرمایا جو دونوں طرف برابر ہے.پس اس پہلو سے ہمیں معاشرے کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور یہاں بھی غیبت بہت بداثر دکھاتی ہے، خواہ بہو کی غیبت اس کی نندیں اور اس کی ساس کر رہی ہوں یا خاوند سے ان کی غیبت ہو رہی ہو اور بار بار یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے کہ میں تو مظلوم ہوں یہ مجھ سے اس طرح سلوک کرتے ہیں، اس طرح مجھ پر ہنستے ہیں اور یہ مجھ سے حرکت کی گئی ہے اور علیحدگی میں اس رنگ میں کریں کہ جس کی اصلاح کرنی چاہئے اس کو تو پتا ہی نہیں اور جس کی شکایت کی جارہی ہے اس کے دل میں نفرت پیدا ہورہی ہے اور اشتعال پیدا ہورہا ہے تو یہ پھر کوئی مبارک کوشش نہیں ہے اس سے تو معاشرہ برباد ہو جاتا ہے.تو اسی مضمون کو یعنی غیبت سے بچنے کے مضمون کو اگر اللہ اور اس کے رسول سے تعلق کے حوالے سے دیکھیں تو یہ کام آسان ہو جائے گا.بعض دفعہ یہ دونوں قسم کے لوگ دینی لحاظ سے اتنے گئے گزرے نہیں ہوتے یعنی ان کے ہاں ایسی Compartments بن جاتی ہیں کہ بیماری ایک طرف چار دیواری میں بند پڑی ہے اور باقی چار دیواری صحت مند ہے.بعض دفعہ Confine ہو جاتی ہے بیماری کسی ایک عضو میں.تو یہ مطلب نہیں کہ سارا جسم ہی یقینا کلیۂ گندا اور صحت سے عاری ہو چکا ہے.ایسے لوگوں میں نیکی بھی پائی جاتی ہے، عبادتیں بھی پائی جاتی ہیں، دعاؤں کے خط بھی لکھتے ہیں اللہ سے ہمیں محبت پیدا ہو، رسول سے محبت پیدا ہو، دین کی خاطر زیادہ قربانیاں کرنے والے ہوں اور بعض بیویاں اپنے خاوندوں کے متعلق بھی لکھتی ہیں کہ یہ برائی تو ہے لیکن ویسے بڑا نیک ہے، نمازی

Page 888

خطبات طاہر جلد 13 882 خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1994ء ہے، دیندار ہے، نظام جماعت کا بڑا احترام کرتا ہے تو آپ اس کو کہیں گے تو مان جائے گا.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بیماری ضروری نہیں کہ سارے نظام جسم پر قبضہ کر چکی ہو بعض حصوں میں رہتی ہے بعض میں نہیں رہتی.ان کے لئے صحت کا زیادہ امکان ہے جن کا کینسر بعض چھوٹے اعضاء تک محدود ہے اس کے پیج باقی جسم پر پھیلتے نہیں ہیں اور باقی جسم کو اگر بیدار کیا جائے تو وہ اس کا مقابلہ کر سکتا ہے تو اللہ اور رسول کی محبت جسم کے دوسرے گوشوں میں پائی جاتی ہے تو جو بیمار حصہ ہے اس کے حوالے سے ٹھیک ہوسکتا ہے.آپ سوچیں کبھی جوحرکتیں کر چکے ہیں یا کرنے کو دل چاہتا ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ اس کو پسند فرماتے.کیا صلى الله آپ کے نزدیک جو آنحضرت ﷺ نے خدا کا مزاج سمجھا اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے اگر نہیں تو پھر یہ دعائیں کرتے ہو خدا کی محبت کی وہ کس کھاتے میں جائیں گی.باتیں وہ جن کے متعلق غور کرنے کے بعد پتا چلا کہ خدا کو بھی ان سے نفرت ہے، خدا کے رسول کو بھی نفرت ہے اور دعائیں یہ کہ اے اللہ اپنی محبت عطا کر جس سے تو محبت کرتا ہے.اس کی محبت عطا کر جو تجھ سے محبت کرتا ہے.اس کی محبت عطا کر جو باتیں تیری محبت دل میں پیدا کرتی ہیں ان کی محبت عطا کر اپنی محبت کو اتنا بنا دے کہ جیسے پیاسے کو پانی کی محبت ہو جاتی ہے.یہ دعائیں ہیں اور وہ حرکتیں لاشعوری طور پر بغیر سوچے سمجھے بھی بعض دفعہ جاری رہتی ہیں جو خدا کی محبت کے منافی ہیں اس کو قطع کرنے والی ہیں.اب جو میں کہتا ہوں قطع کرنے والی ہیں تو بعینہ یہی بات آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے جو تم قطع رحمی کرو گے تو اللہ سے قطع تعلق کر لو گے.تو یہ ساری قطع رحمی کی مثالیں، میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں خواہ بہو خاوند کے تعلق سے باقیوں سے قطع رحمی کا معاملہ کرے، قطع رحمی پیدا کرنے کی کوشش کرے یا دوسرے رشتہ دار بہو کے تعلق میں قطع رحمی کا معاملہ کر رہے ہوں، دونوں صورتوں میں باقی نیکیاں اپنی جگہ پڑی رہ جائیں گی اور اللہ کی اور اللہ کے رسول کی بات ضرور صادق آئے گی کہ ایسے لوگوں سے پھر اللہ اپنی رحمت کا تعلق کاٹ لیتا ہے.ان گھروں میں فساد پیدا ہوتے ہیں، بد معاشرہ جنم لیتا ہے، بچے بدتمیز پیدا ہوتے ہیں، بد اخلاق پیدا ہوتے ہیں، ان کی بیٹیاں آگے پھر اسی قسم کے دکھ دوسروں کے گھروں میں اٹھاتی ہیں ، فسادات کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے بلکہ ٹوٹ جاتا ہے اس سیلاب کے نتیجہ میں جو سیلاب گھروں میں پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ گلیوں میں سیلاب بہنے لگ جاتا ہے.تو معاشرے کی اصلاح محض چند نصیحتوں سے نہیں ہو سکتی معاشرے کی اصلاح کے ہم

Page 889

خطبات طاہر جلد 13 883 خطبہ جمعہ فرمود و 18 نومبر 1994ء ذمہ دار بنائے گئے ہیں اور ان امراض کو سمجھنا ہوگا ان کی کنہ سے واقفیت حاصل کرنی پڑے گی.صحیح تشخیص نہیں کر سکتے تو کیسے ہم بیماروں کا علاج کر سکیں گے.اس لئے اس حوالے سے میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ محض یہ کہہ دینا جی غیبت نہیں کرنی، غیبت نہیں کرنی یہ تقریر کر کے انسان الگ ہو جائے ہرگز کافی نہیں ہے.ایسا سمجھا دیں اور آ کے گھروں میں ایسی باتیں کریں کہ دلوں کی تہہ تک غیبت کی حقیقت ایسے اترے کہ جو دلوں کو مغلوب نہ کرے بلکہ وہ دل اس کو مغلوب کر لیں یعنی ایسی لا تعلقی اس سے پیدا کر لیں کہ اس کے اندراثر کرنے کا کوئی بھی مادہ باقی نہ رہے.ایسی صورت میں بھی بعض چیزیں اترتی ہیں.خون میں رہتی ہیں لیکن بے اثر ہو جاتی ہیں.جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے شیطان کے حوالے سے فرمایا کہ ہر انسان کے خون میں دوڑ رہا ہے.کسی نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کے خون میں بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مگر مسلمان ہو گیا ہے.(مسلم کتاب الفضائل حدیث : 4294) تو اندر جو فطرت میں احتمال موجود ہے اس کو جڑوں کی طرح اکھیڑ کر باہر نہیں پھینکا جا سکتا مگر اس کی ایسی اصلاح ممکن ہے کہ اس کا مزاج بدل جائے.پس بدی کی آواز اگر ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی جائے اور وہ آواز اٹھنا بند ہو جائے تو ایک گونگی بدی خون کے اندر رہے گی.ایک اندھی بدی خون کے اندر رہے گی وہ کوئی بھی بداثر اپنا ظاہر نہیں کرسکتی.یعنی چاروں طرف سے اس کو دیوار میں چن کر جس طرح زندہ دفنا دیا جاتا ہے اس طرح وہ دیواروں میں چن دی جائے گی.پس غیبت کو بھی اس طرح اپنے دل میں اتاریں کہ آپ کے دل پر اثر انداز نہ ہو بلکہ آپ اس پر ایسا قابو پالیں کہ دیوار میں چن دیں پھر کبھی آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور روز مرہ کی زندگی میں جب بھی آپ کہیں ایسی بات کر رہے ہوں تو اپنے دل میں ٹولیں کہ کیوں کر رہا تھا یا کیوں کر رہی تھی اور مزہ آیا تھا کہ نہیں.مزہ آیا تھا تو کیوں آیا تھا اگر آیا تھا تو ابھی تک آپ بھائی کا گوشت کھانا چھوڑ نہیں رہے نہ چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ آپ کا ذوق ہی نہیں ٹھیک ہوا.پس اس کو تو میں سمجھتا ہوں جہاد کی صورت میں لینا چاہئے.غیبت کا قلع قمع جماعت میں اگر ہو جائے تو بہت عظیم کامیابی ہو گی.میں جب امریکہ دورے پر گیا.اب دیکھیں کتنا Advance ملک ہے.دنیا کے لحاظ سے اتنا ترقی یافتہ لیکن وہاں میں حیران رہ گیا دیکھ کر کہ بعض جماعتوں میں خوب غیبت چل رہی ہے.ایسی کراہت پیدا ہوتی تھی سن کر کہ میں حیران ہوتا تھا کہ ان

Page 890

خطبات طاہر جلد 13 884 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء مخلصین کو ہو کیا گیا ہے.بعض جماعتوں میں مرد بھی غیبت کر رہے ہیں عورتیں بھی غیبت کر رہی ہیں یوں لگتا ہے کہ گوشت خوروں کی ایسی جماعت ہے جسے صحت مند حلال گوشت میں مزہ نہیں ملتا جتنا مردہ گوشت میں ملتا ہے اور وہ بھی انسانی مردہ گوشت مل جائے تو اور کیا چاہئے.کیونکہ کہتے ہیں شیر کو جس کو انسان کا خون منہ کو لگ جائے اسے کوئی اور جانور پسند ہی نہیں رہتا تو اس پہلو سے بھی رسول اکرم ﷺ کی مثال بہت گہرائی رکھتی ہے.انسانی مردہ کھانے کی عادت پڑ گئی جس کو اس سے یہ عادت چھڑانا بڑا مشکل ہے اور اس گوشت میں مزہ ہی بڑا ہے.انسان کی غیبت میں جو مزہ ہے نا جن کا ذوق بگڑا ہواس ذوق کو بدلنا ، وہ مزہ ان کے منہ سے چھینا بڑا مشکل کام ہے تو وہاں یہ ہے.اب میں امریکہ کی بدنامی کے طور پر نہیں کر رہا.میں جانتا ہوں پاکستان میں بھی بہت سی جماعتوں میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں، جرمنی میں بھی پائی جاتی ہیں، انگلستان میں بھی پائی جاتی ہیں.مگر میں نے مثال دی تھی ایک تازہ سفر کی یادداشت کے طور پر اور وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ میں کن کی باتیں کر رہا ہوں ان کو استغفار کرنا چاہئے اور اپنے اپنے دائرے میں یہ جہاد شروع کرنا چاہئے کہ غیبت نہیں کرنی.بعض دفعہ غیبت کی بجائے مجلس کی امانت کا حق نہ رکھا جائے تو وہ بھی غیبت بن جاتی ہے.ہم جب آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ ایک شخص غیبت کی نیت سے نہیں بلکہ بعض حوالوں کی وجہ سے ایک شخص کا ذکر کر دیتا ہے جسے سب جانتے ہیں اس کی کوئی چھپی ہوئی بدی بیان نہیں کی جاتی جس کا ان کو علم نہ ہو بلکہ کسی گفتگو کے حوالے سے از خود یہ بات جاری ہو جاتی ہے.اگر کوئی شخص اس بات کو اٹھائے اور باہر بیان کر دے تو یہ امانت میں خیانت ہے کیونکہ مجالس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ امانتیں ہیں اور ان کی بات بغیر اجازت کے بغیر حق کے باہر کرنا ایک گناہ ہے اور یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے.لیکن میں اصول بتا دیتا ہوں کہ کہاں امانت ہے اور کہاں ایک عوامی حق ہے کہ آپ یہ باتیں آگے پہنچائیں.جہاں ایک ایسی نصیحت ہے جس کا بنی نوع انسان کی بہتری سے تعلق ہے، بھلائی سے تعلق ہے.ایسی بات ہے جس کو سن کر ایمان تازہ ہوتا ہے تو یہ وہ امانت نہیں ہے جسے آپ پوچھے بغیر آگے بیان نہیں کر سکتے.اس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شاہد ہے وہ غائب کو باتیں بیان کرے (مسلم کتاب القسامہ) کیونکہ اچھی باتیں ہیں اور ان کے نتیجے میں خیر پھیلتی ہے مگر اگر اس مجلس میں کسی

Page 891

خطبات طاہر جلد 13 885 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء ایک شخص کا ذکر آیا ہے اور اس کو اگر دوسروں میں بیان کیا جائے تو اس شخص کے خلاف دلوں میں نفرت پھیلے گی تو اس کو دوسروں میں بیان کرنا نا جائز ، اس تک بات پہنچانا بھی ناجائز.اور اگر کسی مقصد، مجبوری سے بات کرنی ہو تو لازم ہے کہ اس سے اجازت لی جائے جس نے ایک مجلس میں یہ بات کی تھی.اگر ہم پوری طرح اس اصول پر کار بند ہو جائیں تو غیبت کے سارے رستے بند ہو جاتے ہیں.مگر بعض لوگ اتنے بے احتیاط ہوتے ہیں کہ مجھ سے ملاقات میں جو امانت کے تقاضے ہیں وہ بھی پورے نہیں کرتے بلکہ ان میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں.کئی لوگ جن کے جھگڑے ہیں خاوندوں کے بیویوں سے، بیویوں کے خاوندوں سے، خاندانوں کے آپس میں.وہ ملاقات کے وقت یہ بات چھیڑتے ہیں میں ان کو بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ ذاتی ملاقات کا وقت آپس میں محبت اور پیار کی کھلی کھلی باتیں کرنے کا وقت ہے، یہ جھگڑوں کا وقت نہیں ہے اس کے لئے الگ نظام مقرر ہے لیکن وہ باز ہی نہیں آتے.زبر دستی اپنے دل کا غیظ ابال کر میرے دل میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کئی دفعہ میں نے دیکھا میں ان کو آخر کہتا ہوں کہ دیکھو جو تم نقشہ کھینچ رہے ہو اگر یہ درست ہیں تو تم نے بڑی جہالت کی ہے جو وہاں جا کر گرے ہو تم کہتے ہو اتنا ذلیل خاندان ہے، ایسا گیا گزرا ہے کہ جو باتیں تم بیان کر رہے ہو وہ تو اتنی کمینی ہیں کہ پھر تم نے اپنی بیٹی کو پھینکا کیوں وہاں.یا اپنے بیٹے کو اس گھر کے سپر د کیوں کیا.یہ رکے سپرد ایک الزامی جواب ہوتا ہے.بعض لوگ اسے لے کر چلتے ہیں اور کہتے ہیں لو جی حضرت خلیفہ اسیح نے فرما دیا ہے کہ بڑا کمینہ خاندان ہے، بڑے ذلیل لوگ ہیں.ان میں تم جا کر گرے کہاں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.پہلے وہ زبر دستی مجھ پر ایک بات ٹھونستے ہیں پھر اس کا منطقی نتیجہ نکال کر، ان کے غلط انداز کو دکھانے کی خاطر یہ ایک تمثیلاً بات کرتا ہوں تو آگے پہنچا دیتے ہیں.اب یہ بتائیں یہ امانت کہاں رہی اور وہ جو خلیفہ وقت سے تعلق کے تقاضے ہیں ان کو کیسی ٹھوکر ماری گئی ہے یہاں اور جو بے تکلفی سے پیار کے خاندانی ماحول میں ان سے باتیں ہورہی ہیں ان کو سمجھایا جا رہا ہے.نہیں سمجھتے تو انہی کی منطق کو اٹھا کر ان کے سامنے کھڑا کیا جارہا ہے اس کو غلط رنگ دے کر اگر جماعت میں پھیلا دیں تو کتنے بدنتائج اس کے پیدا ہوں گے.بعض لوگ ان حوالوں کو لے کر قضاء تک جا پہنچے ہیں.چنانچہ مجھے ایک دفعہ صدر مجلس قضاء کا خط آیا کہ حضور کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے.ثابت

Page 892

خطبات طاہر جلد 13 886 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1994ء ہوتا ہے کہ فلاں شخص اپنے جھگڑے میں لازماً غلط ہے.میں نے کہا جس نے کہا ہے وہ لازماً غلط ہے کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے اور قضاء کے اصول کے تابع ، میں ہرگز کوئی فیصلہ قضا کے معاملے میں دے سکتا ہوں نہ دیتا ہوں کبھی.جس نے منزل بہ منزل ترقی کر کے آخر میرے سامنے اپیل کے طور پر پہنچنا ہے.جب میں آخری قاضی ہوں تو پہلی منزل پر اور پھر یک طرفہ فیصلہ دے کیسے سکتا ہوں؟ میں نے کہا آپ کو اتنی سی بھی سمجھ نہیں کہ یہ ناممکن ہے آپ کو رد کر دینا چاہئے اور اصول بنالیں اور سب جوں کو ہدایت کر دیں کہ اگر میرا حوالہ دیا گیا قضائی معاملے میں تو یا وہ جھوٹ بول رہا ہے یا وہ سمجھا نہیں ہے اور خواہ وہ سمجھا نہ ہو خواہ جھوٹ بول رہا ہو ہر دوصورت میں ایسی باتوں کو قضا میں ایک دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا.پس یہ دیکھیں جہاں امانتوں میں خیانتیں ہوتی ہوں، جہاں غیبتوں پر جراتیں ہوتی ہوں تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت باریک نظر سے ان باتوں کو سمجھے گی اور آئندہ اپنے کردار کی حفاظت کرے گی کیونکہ ہم سب دنیا پر شہید بنائے گئے ہیں.تمام دنیا کے کردار کی ہم نے حفاظت کرنی ہے اسے اعلیٰ قدروں تک پہنچانا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 893

خطبات طاہر جلد 13 887 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1994ء بدظن، غیبت کرنے والا ، چغل خور بدترین شخص ہے.حسد سے بچیں یہ نیکیوں کو کھا جاتا ہے.( خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1994ء بمقام مسجد فضل لندن برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.گزشتہ جمعے میں میں نے قرآن کریم کی آیات اور احادیث کے حوالے سے غیبت کے مضمون پر خطاب کیا تھا لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے پورا خطاب یا اس خطاب کے سلسلے میں جو مضمون میں نے پیش نظر رکھا تھاوہ مکمل نہ ہوسکا کچھ احادیث بہت اہم ہیں اس موضوع پر جو میں آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکا تھا.تو آج وہیں سے بات شروع کروں گا جہاں گزشتہ خطبے پر بات ختم کی تھی.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرما یا بدترین آدمی تم اسے پاؤ گے جو دو منہ رکھتا ہے.ان کے پاس آکر کچھ کہتا ہے اور دوسروں کے پاس جا کر کچھ کہتا ہے ( یعنی بڑا منافق اور چغل خور ہے ).یہ جو یعنی بڑا منافق اور چغل خور ہے، یہ ترجمہ کرنے والے نے ترجمہ بیچ میں کیا ہے، اصل الفاظ میں نہیں ہے.اور جو تشریح سمجھی اس کے مطابق بیان کیا.اگر چہ ظاہر ایہی معنے ہیں لیکن ترجمے میں ویسے عموماً یہ احتیاط کرنی چاہئے تو اسی لئے مجھے شک گزرا تھا کہ یہ اصل الفاظ نہیں ہیں.جب میں نے اصل الفاظ پر نگاہ ڈالی تو واقعہ وہاں یہ موجود نہیں تھے.حدیث کے الفاظ صرف اتنے ہیں کہ بدترین آدمی اسے پاؤ گے جو دو منہ رکھتا ہو.ان کے پاس آکر کچھ کہتا ہے دوسروں کے پاس جا کر کچھ کہتا ہے.

Page 894

خطبات طاہر جلد 13 888 خطبہ جمعہ فرموده 25 نومبر 1994ء جہاں تک یہ نتیجہ نکالنے کا تعلق ہے کہ اس سے چغل خور بھی مراد ہیں تو یہ بعید نہیں ہے کیونکہ چغل خور کے ساتھ یہ لعنت ضرورلگتی ہے اور اس کا ایک لازمی جزو بن جاتی ہے.ایک انسان ادھر کچھ بات کرتا ہے، ادھر کچھ بات کرتا ہے.جتنے بھی چغل خوری کے نتیجہ میں فساد پھیلتے ہیں اور قریبی قریبوں سے لڑ پڑتے ہیں اور بعض دفعہ وہ فساد لمبے ہو کر رشتوں کے انقطاع پر جا پہنچتے ہیں.رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، خونی رشتے بھی ایسے ٹوٹتے ہیں پھر ان کا جوڑنا مشکل ہو جاتا ہے.ان پر آپ سب نے کبھی نہ کبھی نظر ڈالی ہوگی جو میں اپنی یادداشت سے یہ باتیں مستحضر کر رہا ہوں اپنے ذہن میں، ان دونوں باتوں کا بہت گہرا تعلق مجھے دکھائی دے رہا ہے.وجہ یہ ہے کہ ایک شخص یا خصوصاً چونکہ خواتین میں یہ بات زیادہ یاخ پائی جاتی ہے اس لیے خواتین سے معذرت کے ساتھ میں خاتون کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک خاتون نے کوئی بات کی وہ بات اس خاتون تک پہنچی جس کے متعلق بات ہوئی تھی اور ایسے رنگ میں پہنچی جس میں کچھ زیادہ تلخی پائی گئی، بجائے اس کے کہ بعینہ اس طرح پہنچتی اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعینہ اسی طرح پہنچادی جاتی ہے مگر بات ایسی ہے جس کے نتیجہ میں لازماً ان دونوں کے تعلقات کا بگڑنا تھا.جب وہ سننے والی یہ بات سنتی ہے تو یہ پہلے عہد کر کے سنتی ہے کہ میں آگے کسی سے بات نہیں کروں گی.تو سب سے پہلے اس کے دومنہ ہو جاتے ہیں.یعنی وہ بات سنتی ہے اور پھر طیش میں آکر بلا توقف دوسری خاتون پر حملہ آور ہوتی ہے.دھاوا بول دیتی ہے اس پر ، اور اس کا سارا عہد کہ میں خاموش رہوں گی اور اپنے تک رکھوں گی وہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو اس کے دو مونہہ بن گئے اور جو سنانے والی ہے اس کے پہلے ہی دومنہ ہو چکے ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ مجلس میں بیٹھتی ہے تو امانت پہ بات ہورہی تھی اور اگر واضح طور پر نہیں بھی کہا گیا تھا تو ایک عام دستور سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب ایک انسان کسی تیسرے شخص کے متعلق کسی سے بات کرتا ہے جو کچھ نا پسندیدہ پہلو رکھتی ہے تو اس یقین اور اعتماد پر کرتا ہے کہ یہ بات اسے آگے نہیں پہنچائے گا ورنہ اگر پہنچانی ہو تو وہ خود کیوں نہ پہنچا دیتے تو دو منہ سے بات شروع سے ہی چل رہی ہے ایک سننے والی کے دومنہ بن گئے اور پھر جب وہ واپس پہنچے گی لڑنے کے لئے تو پھر یہ دو مونہہ پھر آگے دو دومنہ بنتے چلے جائیں گے.وہ کہے گی جھوٹ بول رہی ہے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا.میں نے تو یہ کہا تھا اور وہاں سے پھر ایک جھوٹ کا تیسر اسلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اگر اس نے کہا بھی تو پھر دوسرے معنے پہنانے کی کوشش کرتی ہے.بعض دفعہ دوسری کو جھوٹا.

Page 895

خطبات طاہر جلد 13 889 خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1994ء کر دیتی ہے پھر وہ آتی ہے لڑتی ہوئی لعنتیں ڈالتی ہوئی کہ تم نے یہی کہا تھا وہ کہتی ہے یہ میں نے نہیں کہا تھا تو ایک منہ جب پھٹ کر دومنہ بنتا ہے تو پھر پھلتا چلا جاتا ہے اس کا پھر ایک منہ بنا بہت ہی مشکل کام ہے اور ایسے فسادات میں سب سے زیادہ مشکل پڑتی ہے فیصلہ کرنے کی کیونکہ ہر گواہی پھٹی ہوئی ہے اور اگر وہ کچھ حصہ مان بھی جائے تو کہے گی میرا یہ مطلب تو نہیں تھا میرا تو یہ مطلب تھا.جس طرح سیاست دان آج کل کہہ دیتے ہیں ہر بیان پر ان کے بھی دومنہ ہو جاتے ہیں بے چاروں کے.تو یہ دو مونہوں والی بات ہے حضور اکرم ﷺ کی بہت گہری اور اس سے سوسائٹی کی بہت سی بیماریاں کھل کر واضح ہو جاتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان کا علاج پھر ممکن ہے.تو اس کا تو علاج یہی ہے کہ ایسی باتوں سے گریز کیا جائے جن کے متعلق انسانی تجربہ ہے کہ ہمیشہ آگے پہنچتی ہیں اور بدل کر پہنچتی ہیں اور بگڑ کر پہنچتی ہیں.تو اول تو اگر کسی بھائی میں یا کسی بہن میں کوئی برائی دیکھی جائے تو خود بتانا چاہئے اس کو.یہ ایک منہ والی بات ہے اور خود بتائے اور اگر وہ اس سے ناراض ہے اس کے سننے کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے کہ کہنے کا انداز بے ہودہ ہومگر بالعموم اگر شریفانہ انداز میں ہمدردی سے بات کی جائے تو بگاڑ پیدا نہیں ہوتا تو اگر ہو جائے تو پھر اس کا قصور ہے جس نے بات سنی یا اس کا قصور ہے، جس نے بات کہی تو بظاہر نیک نیتی سے ہے لیکن دل میں زخم لگانے کی نیت ہے.پس آگے پھر یہ صورتحال ایسی ہے کہ اس کا بار یک تجزیہ کرنا پڑتا ہے.بعض جا کر یہ کہتے ہیں کہ تم میں یہ بات ہے تم میں یہ بات ہے ہم نے تو سچ بولنا ہے ، کچی بات کہنی ہے اور سچی بات کہنے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں سب سلیقے سکھا دیئے ہیں کوئی پہلو ہماری زندگی کا ایسا نہیں چھوڑا جس میں معاملے کو خوب واضح نہ فرمایا ہو اور کھل کر بیان نہ فرمایا ہو.ایسی باتیں جو دوسرے کے لئے تلخی کا موجب ہوں اگر سچی ہوں تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ تمہیں وہ سچی باتیں دوسروں تک پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے اگر جھوٹی باتیں ہوں تو وہ تو افتراء ہے.چغلی کا مضمون بھی سچی باتوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس بیچ میں جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے.یہ الگ مسئلہ ہے.بات کرنے والے نے سچا عیب بیان کیا ہو اور اسی سچے عیب کو سن کر اس شخص تک بات پہنچا دی جائے جس کے متعلق وہ بات بیان ہوئی تھی تو کہنے والا بھی سچا ہے، دوسرا جو وسیلہ بنا وہ بھی سچا ہے لیکن حرکت معیوب اور جھوٹی اور گندی ہے.ایسی گندی حرکت ہے کہ

Page 896

خطبات طاہر جلد 13 890 خطبه جمعه فرمود و 25 /نومبر 1994ء حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ گویا کسی کی طرف تیر پھینکا اس کے سینے کا نشانہ باندھا لیکن وہ اس کو لگا نہیں اس کے قدموں میں جا پڑا.تو ایک شخص نے سچائی کے نام پر وہ تیر اٹھایا اور اس کے سینے میں گھونپ دیا کہ نشانہ تو یہاں کا تھا اس تیر کو یہاں گرنے کا کیا حق تھا.تو وہ بھی قاتل ہے بلکہ زیادہ مکروہ قاتل ہے.پہلے نے تو شاید کسی غصے کی وجہ سے خواہ جائز تھی یا نا جائز بھی ایک طبعی جوش سے مجبور ہوکر یہ حرکت کی ہے اس ظالم نے تو بغیر کسی جواز کے یہ کہ کر ایک معصوم شخص کی جان لی ہے چونکہ اس کے متعلق بات کی ہوئی تھی اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اس کو پہنچاؤں.پس آنحضرت ﷺ نے ساری باتیں خوب کھول دی ہیں.سچ بہت اچھی بات ہے مگر کہاں بیان ہونا چاہئے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو باتیں میں تم سے کہتا ہوں اور وہ ایسی باتیں ہیں جن کا سوسائٹی سے تعلق ہے وہ اچھی باتیں ہیں اور سوسائٹی کی امانت ہیں اس لئے تمہارا فرض ہے کہ وہ امانت آگے پہنچاؤ.اب یہ امانت کا ایک مفہوم ہے اور وہ یہ کہ آپ نے جو بات مجلس میں سنی ہے بغیر اس شخص کی اجازت کے جس نے وہ بات کہی ہو آگے نہیں پہنچانی.یہ ایک دوسرا مضمون ہے جو آنحضرت ﷺ نے امانت کے حوالے سے بیان فرمایا ہے.فرمایا الـمـجـالس بالامانة مجالس کے اندر ایک امانت کا مضمون داخل ہے خواہ کہا جائے یا نہ کہا جائے.وہ حدیث جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے فرمایا: عـن جـابـر بـن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اذا حدث الرجل حديثاثم التفت فهى امانة ( ترندى كتاب البر والصلة ) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کوئی بات بیان کرتا ہے اور پھر اس کی توجہ ہٹ کر کسی اور طرف ہو جاتی ہے اور وہ بات وہیں ختم ہوئی تو اتنی بات جو پہلے کر چکا تھا جس کا اس نے نہ نتیجہ نکالا ، نہ یہ بتایا کہ لوگوں کے لئے ہے یا صرف تم تک رہنی چاہئے وہ تمہارے پاس امانت پڑی ہوئی ہے اور جس کی امانت ہے اس سے پوچھے بغیر تم اس کو آگے بیان نہیں کر سکتے.تو یہ ایک عمومی اصول ہے اپنے متعلق.یہ فرمایا کہ میں جو بات کرتا ہوں تمہاری بھلائی کے لئے کرتا ہوں ، تمہاری خیر کے لئے کرتا ہوں، اس لئے یہ قوم کی امانت بن جاتی ہے اور مجھ سنو فليبلغ الشاهد الغائب وہ جو حاضر ہے وہ اس بات کو اٹھائے اور جو غائب ہےاس تک

Page 897

خطبات طاہر جلد 13 891 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء پہنچائے.تو لفظ تو دونوں جگہ امانت استعمال ہوا ہے مگر ان میں مفہوم بدل جاتا ہے.عام طور پر جو روز مرہ کی مجلسوں میں ہونے والی باتیں ہیں وہ امانت ہی رہتی ہیں اور پوچھے بغیر آگے نہیں چلانی چاہئیں.بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے ہمارے گھروں میں بھی جب کھانے وغیرہ پر بات ہو رہی ہے تو بعض وہاں موجود لوگ وہ آگے بات کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ وہ باتیں بگڑی ہوئی شکل میں پاکستان سے ٹکرا کر گنبد کی آواز بن کر مجھ تک پہنچتی ہیں.میں حیران ہو کے سوچتا ہوں کہ میں نے یہ کب کہا تھا تو پتا چلا کہ کھانے کی بے تکلف گفتگو میں بعض ایسی باتیں کہیں جو مناسب نہیں تھیں کہ ان کا اظہار پبلک میں ہو کیونکہ بعض ایسے لوگ اس میں ملوث تھے جن کا جماعت سے تعلق نہیں اور ان کی باتیں ان سے پوچھے بغیر مجھے کوئی حق نہیں تھا کہ میں عوام الناس میں پہنچا دوں جس سے ہو سکتا ہے کہ وہ سبکی محسوس کریں.اس قسم کی چیز تھی، کوئی برائی نہیں تھی کوئی چغلی نہیں تھی لیکن امانت تھی اور سننے والوں نے سنا اور آگے پہنچا دیا اور پہنچاتے وقت بگاڑ پیدا کیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو باتیں سن کر یہ چسکا رکھتا ہے کہ میں آگے بیان کروں اس میں عموماً دو مونہی پائی جاتی ہے اور یہ مزاج کا خاصہ ہے، فطرتا ایسے شخص میں دو مونہی پائی جاتی ہے تو وہ چونکہ چسکے کی خاطر بات بیان کرنا چاہتا ہے اس لئے اس میں مبالغہ آمیزی بھی کرتا ہے بڑھا ملا دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لئے جو بات مجھ سے سنی ہے وہ شاید اتنی زیادہ چسکے والی نہ ہو تو انہوں نے کہا کیوں نہ تھوڑا سا اور اضافہ کردوں.عجیب و غریب لطیفے بنے وہ کہ میں حیران رہ گیا.پاکستان سے اطلاع ملی کہ فلاں فلاں لوگ ربوہ میں یہ باتیں بیان کرتے پھر رہے ہیں کہ آپ کے فلاں کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے، فلاں سے یہ آپس میں عہد و پیمان ہوئے حالانکہ کوئی دور کی بھی سچائی ان باتوں میں نہیں تھی یعنی ان عہد و پیمان میں جن کے ذکر ہورہے تھے.مگر بنیاد سچی تھی کہ بنیادی طور پر ایک واقعہ ہوا تھا جس کو غلط طور پر پہنچایا گیا.تو لوگ جو خاموشی سے کرتے ہیں ان کی نیت میں ایک فتنہ اور خرابی ضرور ہوتی ہے ورنہ ایسے موقع پر پوچھ لینا چاہئے.جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ امانت تو پوچھنا چاہئے اور بعض دفعہ اس شخص تک بات پہنچاتے ہیں جس کے متعلق ذکر کیا ہے، ذکر سچا ہے میں اور رنگ میں اس کی اصلاح کی کوشش کا ارادہ رکھتا ہوں.میری نیت یہ ہوتی ہے کہ با قاعدہ نظام

Page 898

خطبات طاہر جلد 13 892 خطبہ جمعہ فرمود و 25 نومبر 1994ء جماعت کی معرفت اس سے پوچھوں گا اور ایک خاص ذہن میں طریق ہے اور ضمناً کوئی بات کرتا ہے تو اس کے جواب میں میں وہ بات کر دیتا ہوں.تو جہاں بھی یہ بات ہوتی ہے وہ امانت بن جاتی ہے.تو چغلی میں بھی مختلف درجے ہیں.بعض ادنیٰ درجے کی چغلیاں ہیں جن میں اتنی گھناؤنی نیت شامل نہیں ہوتی جتنی عموماً چغلی کے ساتھ وابستہ ہے بلکہ وہ بے احتیاطیاں ہیں جن کو آنحضرت مے اپنے اعلیٰ مقام سے جب دیکھتے ہیں تو انہیں خیانت بیان فرماتے ہیں.کہتے ہیں جن مسلمانوں کا مجھ سے واسطہ ہے، جو میرے تربیت یافتہ ہیں، ان سے میں جس اعلیٰ مقام کی توقع رکھتا ہوں ان سے یہ باتیں بھی خیانت بن جاتی ہیں.کتنا بلند معیار ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اپنی امت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں تک فرمایا کہ التفات کرے دوسری طرف.یہ عجیب بات ہے مگر بہت ہی گہری بات ہے کہ بعض دفعہ انسان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اس بات کو آگے مکمل کرے گا اور پھر یہ بھی بات کرے گا کہ یہ باتیں آگے کرنی ہیں یا نہیں کرنی.اتنے میں کوئی اور آگیا تو بات ختم ہو گئی تو ایسا شخص یا د ر کھے کہ وہ آدھی بات اس کے پاس امانت رہتی ہے جب تک امانتدار امانت والے سے اجازت نہ لے لے اس وقت تک وہ آگے کسی سے بات کرنے کا حق نہیں رکھتا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.یہ ایک لمبی حدیث ہے جس میں بہت سی نصائح فرما دی گئی ہیں اور یہ مسلم باب الظن و بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے ،ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو،اپنے بھائی کے خلاف تنجس نہ کرو، اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو ، جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اس پر ظلم نہیں کرتا ، اسے رسوا نہیں کرتا، اسے حقیر نہیں جانتا.اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.یعنی مقام تقوی دل ہے اب یہ بھی مترجم نے کہہ دیا ہے یعنی مقام تقویٰ دل ہے حالانکہ میں اس سے یہ سمجھتا ہوں تقویٰ کی اصل کسوئی حضرت محمد مصطفی ملے ہیں اور جو بھی آپ کے دل پر گزرتی ہے یا آپ کے اعمال میں بات جاری ہوتی ہے وہی تقویٰ کا معیار ہے اس کے سوا کوئی قابل قبول نہیں ہے اگر وہ اس سے متصادم ہو.تو تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے ایک اپنی چھاتی کی طرف اشارہ ہے.یہ کہنا پیش نظر نہیں تھا کہ

Page 899

خطبات طاہر جلد 13 893 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء دل میں ہوتا ہے.کس کس کے دل میں ہوتا ہے کس کس میں نہیں ہوتا.ارب ہادل ہیں جن میں تقویٰ نے جھانک کر بھی نہیں دیکھا ہوا.اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ تقویٰ یہاں ہے سے مراد تقوی دل میں ہے.مراد یہ ہے کہ میرے دل میں ہے اگر دل کا حوالہ ہے تو یہ مراد ہے کہ تقویٰ محمد مصطفی اے کے دل میں ہے.آپ کا سینہ تقویٰ کے نور سے روشن ہے.اگر تم نے تقویٰ سیکھنا ہے تو آنحضور ﷺ سے سیکھو اور کوئی راہ نہیں ہے تقویٰ کی حقیقت کو سمجھنے کی.پس اس پہلو سے آپ نے یہ ساری باتیں جو بیان فرمائی ہیں وہ تقویٰ کا ملخص بیان فرمایا ہے.اب غور کر کے دیکھیں کن کن جگہوں پر ہم ٹھو کر کھاتے ہیں ان ان جگہوں پر بچنے کے سائن بورڈ لگا دیئے اور تقویٰ کا ایک معنی بچنا بھی مراد ہے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہاں ٹھوکر میں ہیں کہاں خطرناک موڑ ہیں کہاں گڑھے ہیں کہاں اور قسم کے خطرات تمہارا انتظار کر رہے ہیں.اس زندگی کے سفر میں بیان کردہ سائن بورڈ زیا جونشان لگادئے گئے ہیں ان کو غور سے دیکھنا اور ان کے خلاف عمل نہ کرنا ورنہ خود نقصان اٹھاؤ گے.پھر فرمایا ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے.ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں.اس کا خون ، اس کی آبرو، اس کا مال.اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہارے اموال کو بلکہ اس کی نظر تمہارے دلوں پر ہے (مسلم کتاب القسامہ) اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، دوسرے کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو، اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.(مسلم کتاب البر والصلہ حدیث : 4650) تو اس میں وہ تمام خطرات بیان فرما دیئے گئے جو عموماً معاشرے کا امن بگاڑنے پر منتج ہوتے ہیں، اس کا محرک بنتے ہیں، اس کی وجہ بن جاتے ہیں اور اتنا کھول کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے کہ اگر ہم اپنے معاشرے میں یعنی احمدی معاشرے میں اس حدیث کی روشنی میں اپنے اعمال کی نگرانی شروع کریں تو سب سے پہلے یہ صدمہ پہنچے گا دیکھ کر کہ ابھی بہت کچھ سیکھنا اور بہت کچھ کرنا ہے.کیونکہ ان میں بہت سے ایسی باتیں ہیں جو عام طور پر اچھے نیک لوگوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک اور کسی نہ کسی مرتبے تک پائی جاتی ہیں اور جب وہ جڑ موجود رہتی ہے تو جب وقت آتا ہے، جب موسم

Page 900

خطبات طاہر جلد 13 894 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 رنومبر 1994ء بدلتا ہے تو اس جڑ سے پھر وہ فساد کا اور خبیث پودا نکلنا شروع ہو جاتا ہے.تو آنحضرت ﷺ نے یہ ساری جڑیں بیان فرما دی ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ ہر وقت ہر ایک کو دکھائی دیں.ان میں سے ہر ایک چیز ایسی ہے جس میں یہ مادہ موجود ہے کہ وہ سر اٹھائے اور نہایت ہی خبیث درخت بن جائے جس کے پھل سے جنتیں جہنموں میں تبدیل ہو سکتی ہیں وہ شجر ممنوعہ ہے ہر ایک ان میں سے، جس کے بعد جنتوں کے امن اٹھ جایا کرتے ہیں تو ہم نے تو دنیا کے حالات تبدیل کرنے ہیں اور جنت اپنے معاشرے میں پیدا کئے بغیر کیسے کسی کو بلا سکتے ہیں.اس لئے بحثوں کے بھی کچھ وقت ہوتے ہیں.اختلافات کو دلیلوں سے حل کرنے کے بھی موسم ہوا کرتے ہیں لیکن آج کل کا جو دور ہے اس میں سب سے زیادہ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے اعمال سے ایک ایسا حسین معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کریں کہ وہ دیکھیں اور انہیں محسوس ہو کہ جنت ہے تو یہاں ہے اور اس میں آئے بغیر انہیں تسکین نہ ہو، انہیں امن میسر نہ آئے.یہ وہ باتیں ہیں جو محض کوئی فرضی اوپر کے دائرے میں دوڑنے والی باتیں نہیں ہیں یہ وہ روز مرہ کی زندگی میں ہر گھر میں ہونے والی باتیں ہیں جن کے متعلق میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں.ایسی باتیں ہیں جن کا بڑے شہروں سے تعلق ہے نہ تعلیم یافتہ سوسائٹیوں سے تعلق ہے.ہر انسان کی ہر زندگی سے، خواہ وہ گلیوں میں پلنے والا بچہ ہو، خواہ وہ محلوں میں پالا پوسا جانے والا لعل ہو، ہر ایک سے برابر کا تعلق ہے، ہر غریب سے غریب گھر سے بھی تعلق ہے،امیر سے امیر گھر سے بھی تعلق ہے.پس غور سے سن لیں کہ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہمیں باز رہنا ہوگا باز آنا پڑے گا ورنہ نہ ہم جنت حاصل کر سکتے ہیں نہ دنیا کو جنت دینے کے دعویدار بن سکتے ہیں.فرمایا، بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے اور بدظنی ایک ایسی چیز ہے جو بسا اوقات ہمارے معاشرے میں اتنی پائی جاتی ہے کہ بدظنی کے بعد پھر اور کہانیاں بنتی چلی جاتی ہیں اور انسان کہتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا، یوں کیا ہوگا اور بعض دفعہ آدمی حیران رہ جاتا ہے ایک اس سلسلہ میں تحقیق میں نے کی.ایک شخص نے ایک ایسی بات کسی کے متعلق بیان کی جو میرے علم میں تھی کہ بالکل جھوٹ ہے اور جب میں نے جواب طلبی کی تو عجیب و غریب خط آیا کہ اس نے جو فلاں بات کی تھی اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ یوں کی ہوگی.اس کا اثر فلاں شخص پہ جو میں نے کہا تھا پڑا ہے وہ اس لئے لکھا تھا کہ اس شخص کا میں نے اندازہ لگایا کہ جب یہ بات ایسی کی ہے اور اس وجہ سے کی ہوگی تو جب یہ

Page 901

خطبات طاہر جلد 13 895 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 رنومبر 1994ء دوسرے کو پہنچی ہوگی تو اس کا یہی ردعمل ہوا ہوگا.اس لئے میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا.اب دیکھیں رسول الله ﷺ فرماتے ہیں، یہ سارا بد ترین جھوٹ ہے.بنا ہی استدلال کی جھوٹ پر ہے.اول تمہیں کس طرح پتا لگا کہ اس نے کس نیت سے بات کی تھی.پھر یہ کیسے پتا چلا کہ دوسرا آدمی جس کے متعلق بات تھی اگر اس سے پہنچی بھی ہو تو وہ بھی اسی ٹیڑھی سوچ کے ساتھ سوچے گا جس سے تم نے سوچا اور وہی نتیجہ نکالے گا جو تم نے نکالا ہے اور پھر نہ یہ تحقیق کہ یہ اسے پہنچی بھی ہے کہ نہیں اور پھر ایک اور تیسری منزل بنالی کہ فلاں شخص کے متعلق میں نے سوچا کہ یہ اثر اس پر پڑا ہوگا اور خلاصہ یہ نکالا کہ یہ واقعہ ہو گیا.ایسا بے ہودہ طریق ہے جو آنحضرت ﷺ کی کھلی نصائح کو ترک کرنے اور ان کو اہمیت نہ دینے کے نتیجے میں ہماری سوسائٹی میں رفتہ رفتہ پیدا ہو جاتا ہے اور یہ جوطن ہے یہ میں بتا رہا ہوں ایسے لوگوں کا، جن کے متعلق توقع ہے کہ وہ عالم دین بھی ہیں اور معاشرے میں ایک بڑا مرتبہ اور مقام رکھتے ہیں وہ بھی اس قسم کی بے ہودہ باتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں.پھر فرمایا ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو.اب بہت سے جھگڑے ہمارے پاکستان سے آئے ہوئے بسنے والوں میں خصوصاً جرمنی میں جو پائے جاتے ہیں اس میں ایک بڑی وجہ دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں لگے رہنا ہے.ایسی بے ہودہ عادت اور اس کا اصل میں اگر مزید تجزیہ کریں تو اس کی ایک وجہ یہ بنتی ہے کہ ایک انسان جب دوسرے کو اپنے سے اچھا دیکھے اور خود اچھا بننے کی صلاحیت یا طاقت نہیں ہے کہ نیکی میں اس سے آگے بڑھ سکے تو اس کی ٹانگ کھینچ کے اپنے سے نیچا کرنے کی جو خواہش ہے وہ ہے جو ٹوہ لینے پر منتج ہوتی ہے کہ اچھاوہ ہمیں پتا ہے جیسا بنا پھرتا ہے، جیسے معاشرے میں عزت ہے چلو ہماری تو نہیں مگر ہم اس کی ایسی بات نکالیں گے کہ سارے معاشرے میں کہہ سکیں گے کہ یہ ہے وہ شخص، اصل حقیقت یہ ہے اور جو بد نیتی سے ٹوہ لگا تا ہے اس کی ٹوہ میں اور اس کے نتیجوں میں ظن لازماً شامل ہوتا ہے اور بدظن شامل ہوتا ہے جو ظن کی مکروہ شکل ہے اور پھر وہ ستنجس کر کے اس کے عیب اگر نکالتا بھی ہے تو اس کو خدا اور رسول نے حق ہی نہیں دیا ہے اس کو دوسروں کے سامنے بیان کرے.بغیر تجس کے بھی آپ کے علم میں جو بات آتی ہے اسلامی معاشرے میں آپ کو کوئی حق خدا نے نہیں دیا کہ آپ بات کو اچھال کر عوام الناس میں پھیلائیں.جو اولولا مر ہیں جن کے سپر د نظام کیا گیا ہے ان تک باتیں پہنچانا فرض ہے لیکن اتنی ہی باتیں جو سچی

Page 902

خطبات طاہر جلد 13 896 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1994ء ہوں لیکن عوام الناس میں ان باتوں کی تشہیر تو شروع ہی سے منع ہے بلکہ بعض صورتوں میں بڑی سخت سزا دی گئی ہے.ایک صورت میں تو اسی کوڑے کی سزا ہے ایسے شخص کے لئے قطع نظر اس کے کہ یہ واقع ہوا ہوگا یا نہیں ہوگا.قرآن نے جو شرط لگائی ہے ان شرائط پر چونکہ وہ بیان کرنے والا پورا نہیں اتر تا اس لئے اس نے ناحق تشہیر کی ہے ایک بات کی اس لئے اسے اسی کوڑے کی سزا مقرر فرما دی گئی ہے.چھوٹی موٹی باتوں میں جہاں سزا نہیں ہے وہاں تو لوگ بے دھڑک ایسی باتیں کرتے ہیں، ٹو ہیں لگاتے ، اندازے لگاتے ، پھر چسکے لینے کے لئے سوسائٹی میں وہ باتیں پھیلاتے اور اس چیمیں سارے معاشرے میں وہ زہر گھول دیتے ہیں.فرمایا اچھی چیز ہتھیانے کی بھی حرص نہ کرو اور دیکھیں ان دونوں باتوں کو اکٹھا جوڑ دیا ہے.تجس اور اچھی چیز کو اور یہی وہ نفسیاتی نکتہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا تھا کہ کسی کی اچھی چیز ہے جو اس کے پاس ہے، تمنا یہ ہے کہ وہ مجھے ملے خواہ عزت ہو یا کوئی اور دنیا کا مقام ہویا کوئی مال و دولت وغیرہ قسم کی چیز ہو.کسی بھائی کو اچھا دیکھا جائے اور یہ تمنا ہو مجھے مل جائے میں اس سے لے لوں میری ہو جائے یہ ہے جو پھر کئی طرح سے اس سے انتقام لینے پر انسان کو آمادہ کرتی ہے اور ایک انتقام کا طریق یہ ہے اس کی برائیاں ڈھونڈ واور اسے معاشرے میں پھیلاؤ.فرمایا حسد نہ کرو.اچھی چیز دیکھ کر تمہارے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے.ہر بات جو فطرت کے اندر موجود ہے اس کی دو صورتیں ہیں اور دونوں صورتیں آنحضور ﷺ نے بیان فرما دی ہیں.ایک صورت اس حدیث میں پیش ہو رہی ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کو اچھا دیکھتا ہے.اگر اچھا دیکھتا ہے تو اس کے نتیجے میں اگر کوئی تکلیف ہو رہی ہے کسی قسم کی تو پھر جو کچھ بھی جذبات پیدا ہوئے ہیں وہ حسد ہیں.اگر خوشی ہورہی ہے تو اسے رشک کہتے ہیں وہ حسد نہیں ہے.تو آنحضور ﷺ نے رشک سے منع نہیں فرمایا ہے اور حسد کی پہچان یہ ہے اور ایسی پہچان ہے جو کبھی آپ سے جھوٹ نہیں بولے گی.جب اپنے بھائی کو کسی اچھی حالت میں دیکھیں تو اپنے دل میں ٹول کر دیکھیں کہ آپ کو خوشی ہوئی ہے کہ غم پہنچا ہے.اگر معمولی سا بھی صدمہ ہوا ہو تو پھر آپ میں حسد پیدا ہونے کا احتمال موجود ہے، یہ خطرہ موجود ہے اور اگر خوشی ہے تو پھر آپ شوق سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ، اس خوشی سے فائدہ اٹھائیں اور وہ فائدہ یہ بیان فرمایا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ اور یہ رشک

Page 903

خطبات طاہر جلد 13 897 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1994ء کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.فرمایا اگر کوئی اچھا لگتا ہے تو اس خوبی میں اس سے آگے نکلنے کی کوشش کرو یہ منع نہیں ہے ، یہ رشک کی پیداوار ہے.حسد کی پیداوار یہ ہے کہ اس کی خوبی کو برائی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرو.خواہ سچ ہو یا جھوٹ ہو اور مقصد دونوں صورتوں میں اوپر آنا ہے.اب موازنہ کر کے دیکھیں دونوں صورتوں میں آخری نتیجے کی نیت ایک ہی ہے کہ میں اوپر ہو جاؤں اس سے.فرمایا ایک طریقہ ایسا ہے جس سے تمہاری فطرت کی پیاس بجھے گی اور اچھے طریق پر بجھے گی اور وہ ہے اونچے بے شک ہو، اونچے ہونے سے منع نہیں فرمایا گیا.کہیں بھی انسانی فطرت کے طبعی جذبات کو غلط قرار نہیں دیا کیونکہ یہ خدا کی پیداوار ہے خدا نے پیدا کیا ہے ان چیزوں کو ان کے برمحل استعمال کا نام اعلیٰ خلق ہے، ان کے برمحل استعمال کا نام نیکی ہے ہمنا تو ہے کہ میں اونچا ہوں بھائی سے لیکن اسی کی نیکی میں اس کو شکست دے کر اعلیٰ درجے کی نیکی حاصل کر کے بے شک آگے بڑھ جاؤ لیکن اس اچھائی کو برائی میں تبدیل کر کے یا ایسی برائی اس میں ڈھونڈ کر جو اس میں ہے ہی نہیں اور وہ بیان کر کے یا برائی ڈھونڈ کر جو اس میں ہے پھر اس کی تشہیر کر کے جو کام تم کرو گے وہ حسد کے نتیجے میں ہے اور قرآن اس کی اجازت نہیں دیتا.پھر فرمایا حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حسد پہلے بھی کھول کر بیان کر چکا ہوں.حسد بنیادی طور پر کسی دشمنی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور یہ مزید پہچان ہے کہ ہمارے تعلقات کیسے ہیں.اگر کسی کی خوبی ، اس کو خدا کی کوئی عطا کسی انسان کو تکلیف دیتی ہے تو اس کے نتیجہ میں حسد تو پیدا ہوگا مگر حسد پہچان ہے دشمنی کی ، ایسا شخص اس کا بھائی نہیں ہے ، بھائی کہلاتا بھی ہے تو بھائی والی محبت دل میں موجود نہیں بلکہ بنیادی طور پر اس سے کچھ عداوت ہے.تو فورافر مایا حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو کیونکہ آنحضور ﷺ سے بڑھ کر انسانی نفسیات کا ماہر نہ کبھی پیدا ہوا نہ کبھی ہو سکتا ہے.انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے جب آپ کسی چھوٹی چھوٹی پاک نصیحتوں پر غور کرتا ہے کہ کیسے گہرے گہرے نفسیات کے نکات ان میں موجود ہیں.بے رخی نہ برتو ، دشمنی تو اس سے ہے لیکن اس کے اظہار مختلف ہیں اور کچھ نہیں تو ایک اظہار یہ بھی فرمایا کہ انسان اس سے بے رخی برتنے لگ جاتا ہے اور بے رخی کمزور سے بھی برتی جاتی ہے اور اپنے سے بڑے سے بھی برتی جاتی ہے.یہ وہ نکتہ ہے جسے آنحضور یہ سمجھار ہیں اور اسے یوں سمجھنا چاہئے.اس سارے تعلق میں آپ کے کسی اچھے سے تعلقات کی

Page 904

خطبات طاہر جلد 13 898 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء باتیں ہورہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو آپ کے دل میں رد عمل پیدا ہورہے ہیں ان کے تذکرے ہیں.اس پر بے رخی انسان کیسے برتا ہے.ہوتا یہ ہے کہ بسا اوقات اچھادیکھ کر دل ایسا کڑھتا ہے کہ اس سے انسان تعلق ہی تو ڑ لیتا ہے اور یہ بھی ایک تکبر کا اظہار ہے کہ ہمیں کوئی پرواہ نہیں اسکی ، ہم اس کی طرف پیٹھ پھیر کے ادھر چلے جاتے ہیں اور خصوصاً پنجاب کے شریکوں میں جو روایتی طور پر ہمارے زمیندارہ خاندانوں اور آپس کے تعلقات میں پایا جاتا ہے یہ بہت ہی نمایاں چیز ہے.ایک اپنی بڑائی اور انا کا ایک یہ طریق ہے.ہوگا وہ لکھ پتی ، اپنے گھر ہوگا، ہمیں اس کی کوڑی کی بھی پرواہ صلى الله نہیں ، ہم اس کی دعوت پہ بھی نہیں جاتے ، اس کو چھوٹا سمجھتے ہیں.تو آنحضور و دشمنی کے ایک طریق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں بے رخی نہ برتو.جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کے رہو.مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور ہوتا کیا ہے بھائی بھائی پر ظلم کر رہا ہے آج کل.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ باتیں چھوٹی چھوٹی سی ہیں بظاہر ہر ایک کو سمجھ آرہی ہیں.کیوں نہ ہم ایسا کریں اچھی باتیں مگر کرتا کون ہے.بہت کم ہیں جو ان باتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں کم سے کم جب اپنی زندگی پر ان باتوں کا اطلاق ہوتا ہے تو ساری اچھی باتیں اس وقت دکھائی دینا بند ہو جاتی ہیں اور صرف بری باتیں دکھائی دینے لگتی ہیں.چنانچہ فرمایا وہ اس پر ظلم نہیں کرتا حالا نکہ بہت سے ایسے جھگڑے میرے پاس پہنچتے ہیں احمدیوں میں بھی کہ بھائی نے بھائی پر ظلم کیا ہوا ہے.جائیدادوں پر قابض ہو گیا تو پھر چھوڑ نے کا نام نہیں لیتا.کسی اور رنگ میں فوقیت ہے تو اپنے بھائی کو اس میں شامل نہیں کرتا، اس کی تذلیل کرتا ہے، حقارت سے دیکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر بہت سے تعلقات بگڑتے ہیں، خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور جماعت میں ہمیں جو یکسوئی جو اتفاق چاہئے ، جس کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے اس اتفاق سے ہم محروم رہ جاتے ہیں اور یہ جو جھگڑے ہیں یہ کسی ایک ملک سے وابستہ نہیں ہیں ہندوستان میں بھی ہیں، بنگلہ دیش میں بھی ہیں، دوسرے ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں اور جہاں جہاں یہ پاۓ جاتے ہیں،افریقہ میں بھی پائے جاتے ہیں.وہاں جماعت کی ترقی رک جاتی ہے تو ایک چھوٹی سی بات کا اتنا بڑا گندا نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ساری جماعت کا نقصان ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ساری دنیا کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ جن کو تبلیغ پہنچنی چاہئے تھی آپس کے اختلافات کی وجہ سے وہ آگے نہیں پہنچ رہی.

Page 905

خطبات طاہر جلد 13 899 خطبہ جمعہ فرمود و 25 نومبر 1994ء میں نے ایک دفعہ ذکر کیا تھا ہمارے بعض اضلاع پاکستان میں ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آغاز میں بہت احمدیت نے ترقی کی ہے اور ایسی صلاحیتیں موجود تھیں کہ اگر اسی رخ پر چلتے رہتے تو آج پاکستان کے مسائل بالکل مختلف ہوتے اور جماعت کو جو خدا تعالیٰ نے اصلاح کی صلاحیت بخشی ہے اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی کایا پلٹ سکتی تھی لیکن اب دیکھیں مسائل کتنے بدل گئے ہیں کیونکہ جماعت کو انہوں نے تحقیر کی نظر سے دیکھ کر ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا ہے اور ہر دوسری بدی کو کھلی بانہوں سے سینے سے لگاتے ہیں.اس صورت میں کتنا بڑا نقصان قوم کو پہنچا ہے اور اگر آپ تجزیہ کر کے دیکھیں جیسا کہ میں نے کیا اور گاؤں گاؤں پہنچ کر میں نے حالات کا جائزہ لیا تو ہر جگہ یہ بات نظر آئی کہ جن دیہات میں ، جن اضلاع میں آپس میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں ،شریکوں کے پرانے تصور جاگ اٹھے ہیں، ایک دوسرے سے رقابتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، چوہدراہٹوں نے غلط رخ اختیار کر لئے ہیں وہاں جماعت کی ترقی بند اور تنزل شروع ، اگلی نسلیں نہیں سنبھالی گئیں، اپنے بچے اپنے ہاتھوں سے دیکھتے دیکھتے نکلے اور غیروں کی گود میں جا بیٹھے، یہ کچھ نہیں کر سکے کیونکہ ان کی ساری مجالس کا جو زور تھا وہ ایک دوسرے کی برائی میں ، ایک دوسرے کی دشمنی میں اور اس کے نتیجے میں پھر گندے اخلاق کی نسلیں پیدا ہوئی ہیں.ان میں کہاں یہ طاقت کہ معاشرے میں انقلاب بر پا کرسکیں.جہاں اصلاح ہوئی وہاں اللہ کے فضل سے حیرت انگیز تبدیلیاں ہوئی ہیں.ہندوستان میں بھی یہی صورت تھی بعض جگہ ابھی بھی ہے.ایک جماعت چونکہ اب اصلاح پذیر ہو چکی ہے اس کا میں نام لے دیتا ہوں، کلکتے کی جماعت تھی سال ہا سال ان کے اوپر میں نے زور مارا کہ خدا کے لئے اپنے اختلافات ختم کرو، چھوٹے چھوٹے اختلافات، کمینے اختلافات لیکن خاندان، خاندانوں میں بٹے ہوئے ، بھائی بہنوں سے جدا ہوئے ہوئے اور اس قدر وہ جماعت اپنے اثر کے لحاظ سے ، اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے سکڑ گئی تھی، جیسے کینسر کا مریض ہو جائے اور وہ چیز سکڑنے لگتی ہے بعض دفعہ گردوں کا کینسر ہو جائے وہ سکڑنے لگتے ہیں، پیٹوں کا کینسر ہو وہ بھی سکڑنے لگتے ہیں.تو اپنے آپ پر اپنی بدی کے گرد لپٹ کر وہ چھوٹے ہونے لگ جاتے ہیں.پس اس طرح کی صورت حال وہاں موجود تھی مگر اتنی بڑھی ہوئی نہیں جیسے میں نے مثال دی ہے مگر بے برکتی تھی، کوئی

Page 906

خطبات طاہر جلد 13 900 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء ترقی نہیں کسی قسم کا فیض ان سے غیروں کو جاری نہیں ہور ہا تھا.ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے لمبے عرصے تک محنت کی توفیق ملی، جھگڑوں کا پھر خود فیصلہ کرنا پڑا آخر بلا کر، اور یہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو سعادت بخشی کہ باوجود اس کے کہ پہلے کسی طرح بھی بعض فیصلے مانے پر تیار نہیں ہوتے تھے جب ان کو یہ کہا گیا کہ آج کے بعد اس فیصلے کو مانو یا مجھ سے تعلق کاٹ لوتو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض ایسے معاملات میں بھی جہاں معلوم ہوتا تھا کہ اصلاح کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہی اس مقام پر پہنچ کر انہوں نے آگے قدم نہیں بڑھایا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے اگر یہ بات ہے تو جو بھی فیصلہ ہے ہم آپ سے تعلق نہیں توڑیں گے اس فیصلے کو قبول کریں گے.اب اللہ نے ایسی برکت دی ہے کہ سارے ہندوستان میں تبلیغی کامیابی کے لحاظ سے کلکتہ اور اس کے ماحول جیسا اور کوئی مقام نہیں.حیرت انگیز انقلاب بر پا ہورہا ہے دشمن کوششیں کر رہا ہے لیکن کچھ ان کی پیش نہیں جاتی اور وہ آسام تک نیپال تک اثر ڈال رہے ہیں اور خدا کے فضل کے ساتھ ان کی راہ کوئی روک نہیں سکتا اور ابھی وہ سارے بیدار نہیں ہوئے ہیں.میں جانتا ہوں ابھی ایک حصہ ہے مگر اتفاق کی برکت ضرور ہے جس سے سارے فائدہ اٹھا رہے ہیں.کچھ اور بھی رخنے ہونگے اللہ بہتر جانتا ہے مگر خدا کے فضل سے اگر ہیں تو اتنے سمٹ گئے ہیں اور سکڑ گئے ہیں کہ ان کا جماعت پر کوئی بد اثر نہیں ہے.اگر وہ بھی دلوں سے نکال پھینکیں اور جس طرح حضور اکرم ﷺ ہمیں بھائی بھائی بنانا چاہتے ہیں وہ پھر ایک دفعہ اور قوت کے ساتھ بھائی بھائی بنیں تو مجھے یقین ہے کہ سارے علاقے میں یہ عظیم روحانی انقلاب برپا ہو جائے گا.بڑے بڑے مولویوں کی دور دور سے توجہ ہے، وہ آتے ہیں، جلسے کرتے ہیں، سارا زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح نئے ہونے والے احمدی اپنے موقف سے پھر جائیں اور احمدیت کو ترک کر دیں یہاں تک کہ بڑی شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ موت کے کنارے تک پہنچ گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا استقلال بخشا ، ایسا صبر عطا کیا ہے اور ایسی محبت جماعت سے پیدا ہو گئی ہے کہ وہ نہ ڈرانے سے باز آتے ہیں ، نہ لالچ سے جماعت سے منہ پھیرتے ہیں اور بنیادی طور پر وہی چیز ہے اور کوئی انقلاب نہیں برپا ہوا صرف یہ کہ آپس میں جو اختلافات تھے وہ خدا کے نام پر اور خلافت سے تعلق کے نتیجے میں اختلافات پر اپنے دماغ کی راہ سے قائم رہتے ہوئے ان کو ترک کر دیا.یہ قربانی ہے یعنی یہ ضد نہیں توڑی کہ ہم بچے ہیں اور وہ جھوٹا ہے لیکن یہ بات مان گئے جو

Page 907

خطبات طاہر جلد 13 901 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام میں نے ان کو دیا کہ ” سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو کشتی نوح روحانی خزائن جلد 9 صفحہ (۱۲) میں یہ بحث نہیں کرتا کہ تم سچے ہو کہ وہ جھوٹے.تم اگر جھوٹے ہو، وہ جھوٹا ہے، تم بچے ہو تو مسیح موعود نے بچوں کو فرمایا ہے جھوٹوں سے مخاطب ہی نہیں ہوئے.سیچوں کو فرمایا ہے بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل اختیار کرو اس سے بڑا اصلاح کا اور کوئی نسخہ ممکن نہیں.یہ اس امام کی فراست ہے جس نے خدا سے نور پایا ہے.کیسا عظیم حل ہے ورنہ اگر آپ بخشیں کرتے رہیں کہ ثابت کر دیں کہ فلاں جھوٹا اور فلاں سچا تو بعض ایسے جھگڑالو لوگ ہیں اور بعض نزاع ایسے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ نہ سننے والے مانیں گے نہ آپ حقیقت میں آخری یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں سچا اور فلاں جھوٹا.حالات کے مطابق ایک سرسری اندازہ سا ہے اور بعض پیچیدہ حالات میں اندازے سے بڑھ کر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.تو بعض لوگ شکوے کرتے ہیں کہ نہیں غلط فیصلہ ہو گیا ، شریعت کے خلاف ہو گیا.ہم سچے ہیں فلاں جھوٹا ہے ان کے اوپر میں نے ہمیشہ یہ ترکیب استعمال کی ہے کہ اس بحث کو چھوڑ دو کہ آخر انسان کا فیصلہ ہے غلطی ہو سکتی ہے مگر تمہیں فیصلہ ماننا ہوگا.میں پھر جب یہ کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تم سے مخاطب ہیں کیونکہ تم اعلان کر رہے ہو کہ تم سچے ہوا گر تم اس دعوے میں بچے ہو تو حضرت مسیح موعود تمہیں کہہ رہے ہیں کہ اے بچو! بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.یہ وہ نسخہ ہے جوضرور کارگر ثابت ہوتا ہے اگر ایسے شخص کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی محبت کی رمق باقی رہ گئی ہو.صلى الله حضرت رسول اللہ ﷺ دیکھو مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.بھائی بن کر رہو بھائی دوسرے پر ظلم نہیں کرتا مگر افسوس کہ ابھی تک ہمارے معاشرے میں بھائی کے بھائی پر ظلم کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اسے رسوا نہیں کرتا جبکہ آج بھی بعض بھائی دوسرے بھائیوں کی رسوائی کے درپے ہوتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں کہ وہ رسوا ہو جائے.اسے حقیر نہیں جانتا اب حقیر نہیں جانتا جو ہے یہ بہت ہی اہم ہے.اگر ایک انسان اپنی حقیقت کو پہچان جائے تو وہ دوسرے کو حقیر جان ہی نہیں سکتا.یہ نہیں فرمایا کہ حقیر نہیں کہتا.حقیر نہ کہنا اور بات ہے، حقیر جاننا اور بات ہے.جاننے سے مراد یہ ہے کہ اپنے دل پہ جب وہ غور کر کے دیکھتا ہے تو وہ دوسرے کو حقیر جانتا ہی نہیں ہے.حضر مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

Page 908

خطبات طاہر جلد 13 902 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہودار الوصال میں (در مشین) تم ہر ایک سے اپنے خیال میں بدتر بنو یہ نہیں کہ دوسروں کے خیال میں بدتر بنو.پھر دیکھو کہ شاید یہی نسخہ کام آجائے اور اللہ کے وصال کے گھر میں تمہارا اسی وجہ سے داخلہ ہو جائے.پس آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں وہ اسے حقیر نہیں جانتا کیونکہ جب وہ اپنے نفس پر غور کرتا ہے تو پھر اس کی آواز یہ ہے کہ تم حقیر ہو اور اگر تمہاری عزت ہے تو محض خدا کی پردہ پوشی کی وجہ سے ہے.اگر تمہیں کوئی مرتبہ اور مقام حاصل ہے تو محض اللہ کے احسان اور فضل کے نتیجہ میں ہے.جب ایک انسان اس حقیقت کو پا جاتا ہے تو اپنے بھائی کو اپنے سے کم درجہ دیکھتا ہے تو شرمندگی محسوس کرتا ہے حقیر نہیں سمجھتا اس کو اور یہ واقعہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں لازماً شرمندگی ہوتی ہے شرمندگی اس بات کی کہ دیکھو یہ مجھ سے زیادہ محنت کرنے والا ، مجھ سے زیادہ اخلاص رکھنے والا ، مجھ سے زیادہ بعض باتوں میں ،قربانیوں میں آگے بڑھا ہے لیکن میں اس سے بہتر حال میں ہوں تو ایسی صورت میں سوائے شرمندگی اور استغفار کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن حقیر جاننے کا کوئی تصور بھی اس میں پیدا نہیں ہوتا.تو جس گہرائی تک ڈوب کر یعنی نفسیات کی جس گہرائی میں ڈوب کر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہماری تربیت پہ کوشش فرمار ہے ہیں اس کا کچھ پاس کرو.غور کروکون ہے جو ہمارے لئے اتنی محنت کر رہا ہے.وہ پاک وجود جو چودہ سو سال پہلے پیدا ہوا جس کی خاطر کائنات پیدا کی گئی.وہ ہم جیسے ذلیل لوگوں کے لئے اتنی محنت کرتا ہے راتوں کو جاگتا تھا ، دعائیں کرتا تھا ایک ایک بیماری کو کھول کھول کر بیان کرتا تھا، ہر بیماری کی شفا کے طریق بتاتا تھا اور ان باتوں کو سن کر بعض صرف خیالی طور پر مزے لے کر کہ ہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آمنا و صدقنا ایک قدم آگے نہیں بڑھتے محض نصیحت کی طاقت نہیں ہے.نصیحت کرنے والے کی اپنے سے محبت اور اپنے لئے قربانیوں کو دیکھو کہ تم میں جرات ہی نہیں ہوسکتی کہ ان نصیحتوں کو نظر انداز کر دو.بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے باتیں ہوں گی بچی یا نہیں ہم تو آپ کے منہ کو یہ بات کر رہے ہیں آپ کی خاطر یہ بات مان رہے ہیں اور ایسا کئی دفعہ ہوا ہے مجھ سے بھی ہو چکا ہے

Page 909

خطبات طاہر جلد 13 903 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1994ء حالانکہ میری کوئی حیثیت نہیں.ایک قتل کے معاملے میں ایک خاندان میں بڑا اختلاف تھا.میں جب وہاں گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کسی طرح مانتے نہیں جن کا قتل ہوا تھا ان کی والدہ بزرگ موجود تھیں اس سے میں نے جا کر کہا کہ میں آپ کے گھر آیا ہوں معاف کر دیں ختم کر دیں جماعت کے مفاد کی خاطر.اسی وقت انہوں نے معاف کر دیا کہ آپ کے منہ کو معاف کرتے ہیں.ابھی میری ایک ملاقات ایک دوست سے ہوئی.سیالکوٹ سے آئے ہوئے تھے وہاں بھی یہی صورت حال تھی ایک گاؤں میں بڑا سخت اختلاف اور جھگڑا اور قتل و غارت تک نوبت پہنچی ہوئی.جس خاندان کا مقتول تھا میں جانتا تھا ان میں سعادت زیادہ ہے ان کو میں نے پیغام بھجوایا کہ آپ چھوڑ دیں اس بات کو.اسی وقت چھوڑ دیا.ایک بچہ ان کا بھی ملاقات کے لئے مجھے ملنے آیا مجھے تعارف ہی یہ کرایا کہ میں وہی ہوں ، اس خاندان کا ہوں جس نے آپ کی خاطر، آپ کے منہ سے بات سن کر اپنے حق کو چھوڑ دیا تھا تو لازماً اس کے لئے میرے دل میں محبت اور عزت پیدا ہوئی اور دل کی گہرائی سے جو ایسے موقع پر دعانکلتی ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے مگر میں کیا اور میری دعاؤں کی کیا حیثیت، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے منہ پر اگر کوئی نیکی اختیار کریں گے آپ کے احترام و عزت کے پیش نظر، یہ دیکھ کر کہ آپ کے لئے آپ نے کتنی محنت فرمائی دنیا کے کسی نبی نے اپنی قوم کے لیے کبھی اتنی محنت نہیں کی جتنی محمد رسول اللہ ﷺ نے آپ کے لئے کی ہے.سوچیں اور پھر ادب سے جھک جائیں اور پچھلے ہوئے دل سے اطاعت کریں کیونکہ اطاعت کی راہ میں ہمیشہ دل کی انا اور دل کا جوش حائل ہوا کرتا ہے لیکن جو دل محبت راہ اور میں پکھل جاتا ہے اس کی انا کیا ر ہی اور اس کا جوش کیسا.وہ تو محمد رسول اللہ کے قدموں میں بہنے لگتا ہے اس سے انکار کیسے ممکن ہو سکتا ہے.پس محض نصیحتوں کو ان کی غیر معمولی عقل اور فراست کی وجہ سے نہ مانیں اس محبت پر نگاہ کریں، اس رحمت پر نگاہ کریں جو ان نصیحتوں کا منبع ہے یعنی رحمتہ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفی ہے اور پھر اگر آپ جھکیں گے تو ایک زائد بات آپ کی اطاعت میں ایسی پیدا ہو جائے گی جو آپ کو اللہ اور اس کے رسول کا محبوب بنادے گی اور یہی محبت ہے جس کی خاطر انسان زندہ ہے.یہی ہماری آخری تمنا ہے.پس اس محبت کے لیے اب وہ راہیں آسان فرما دی گئی ہیں.پھر آنحضرت ﷺ اس کے بعد فرماتے ہیں ” تقویٰ یہاں ہے.تقویٰ یہاں ہے“ یعنی الله

Page 910

خطبات طاہر جلد 13 904 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء مقام تقویٰ محمد مصطفیٰ" کا دل ہے ایک انسان کے لیے پھر فرمایا یہی برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے پہلے تحقیر سے منع فرمایا پھر دوبارہ ذکر فرمایا ایک مسلمان کے لیے یہی برائی کافی ہے اس کو ہلاک کرنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائی کی تحقیر کرے.اب فرق صرف اتنا ہے کہ میں عربی میں اس کو دیکھ کر بتا تا ہوں کہ عربی میں یہ فرق موجود ہے کہ نہیں.ایک ہی جیسے الفاظ ہیں دونوں جگہ.اسے حقیر نہ سمجھو کا معنی بھی یہی لیا جا سکتا ہے اور تحقیر نہ کرو.تو دوسری جگہ بھی چونکہ وہی لفظ استعمال ہوئے ہیں اس لیے اسی مضمون میں ہیں دونوں باتیں ، اس میں پائی جاتی ہیں.اپنے بھائی کو اپنے دل میں حقیر نہ سمجھو اور دوسرا اپنے بھائی سے حقارت کا سلوک نہ کرو.تو فرمایا کسی مسلمان کی ہلاکت کے لئے اس کا یہی جرم کافی ہے، یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے اور اس سے تحقیر کا سلوک کرے.ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں.اس کا خون ، اس کی آبرو اور اس کا مال - خون تک تو نوبت کبھی کبھی پہنچتی ہے لیکن آبرو اور مال تک تو روزانہ نوبت آتی ہے اور کتنے ہیں جو آبرو پر ہاتھ ڈالنے سے رک جاتے ہیں.کتنے ہیں جو مال پر ناجائز تصرف سے رک جاتے ہیں اور یہی دوایسی بدیاں ہیں جن سے پاک کئے بغیر جماعت احمدیہ کا معاشرہ دنیا پر غالب آنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا.اس لیے اگر برکت ہے تو ان چند نفوس کی برکت ہے جو ان باتوں میں خدا کے فضل کے ساتھ خوب پاک وصاف کئے گئے ہیں.مگر جس دور میں ہم داخل ہیں جس طرح خدا کے فضل ہم پر نازل ہورہے ہیں میں آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ ان باتوں کو بار بار جگالی کی طرح سوچیں اور ان پر عمل کی کوشش کریں.ان کو کھنگالیں اور اپنے دلوں کو کھنگالیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے فیض اور پاک باتوں کی برکت سے اپنے دلوں کو پاک کریں، اپنی نیتوں کو صاف کریں اور ایسے معاشرے کو جنم دیں جوان باتوں کی ایک زندہ مثال بن جائے جو آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں اور پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا ہے تو آپ میں سے ہر ایک کا دل اس یقین سے بھر جائے گا کہ جہنم کھوئی ہے اور جنت حاصل کی ہے اس سے پہلے آپ جہنم کی زندگی بسر کر رہے تھے یہ جھوٹے چسکے تھے جو مزے تھے باتوں کے، غیبتوں کے تحقیر کے، ان سب کے اندر ایک جہنم کی آگ پائی جاتی تھی جو آپ کے دل میں جلتی تھی وہیں سے بھڑکتی تھی.معاشرے کو جلانے کی صلاحیت رکھتی تھی جب وہ ابل ابل کے آپ کے منہ سے نکلتی تھی تو ایسے سانپوں کی طرح تھے جو کہانیوں میں پائے جاتے

Page 911

خطبات طاہر جلد 13 905 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ آگ اگلتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی باتیں سننے کے بعد آپ کے دل کو تسکین ملے گی ٹھنڈ پڑے گی ہر قسم کی آگ سے آپ کا سینہ پاک ہو جائے گا ایسی حالت میں زندگی بسر کرنا ہی حقیقی جنت ہے اور آپ کے ماحول اور آپ کے معاشرے کو بھی آپ کی ذات سے امن نصیب ہوگا.یہ وہ معاشرہ ہے جس نے لازماً غالب آتا ہے کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی کسی مولوی کا عناد کسی حکومت کی دشمنی کسی حکومت کی قانون سازی آپ کے خلاف کلیۂ بے اثر ہو جائے گی.اگر آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق سے آراستہ ہوکر گلیوں میں نکلیں گے پھر تو دنیا نے آپ کا عاشق ہونا ہی ہونا ہے کون ہے جو اس راہ میں حائل ہو سکے.فرمایا کہ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو.یا درکھو.فرمایا تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کو خدا دیکھ رہا ہے.تمہارے دلوں کو دیکھ رہا ہے.اس بات کو حل فرما دیا کہ جب تم کسی کے پاس زیادہ مال دیکھتے ہو یا اچھی صورت دیکھتے ہو، یا کچھ ایسی خوبیاں دیکھتے ہو جو تم میں نہیں ہیں تو غور کرو گے تو تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں.آخری فیصلہ تو خدا کی نظر نے کرنا ہے کہ تم کون ہو اور کیسے ہو.تو جب یہ مقابلے میں داخل ہی نہیں ہیں چیزیں، مقابلے کے امتحان میں ان کا شمار ہی کوئی نہیں ہے تو تم کیوں بے وقوفوں کی طرح اپنی محرومی کا احساس رکھتے ہو اور اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا کیا ہوا ہے.اللہ نے دیکھنا ہے کہ اسی کی نظر ہے جو دائماً آپ کے حق میں فیصلہ کرے گی اور جس کی طرف آپ کی نظر لگی رہنی چاہئے.فرمایا جب اس کو پرواہ ہی کوئی نہیں کہ مال دار تم میں سے کون اور اچھی شکل والا کون ہے تو خواہ مخواہ دلوں میں ایک جہنم سہیڑ رکھی ہے، دلوں میں محرومی کی ایک آگ بھڑ کا رکھی ہے.ہائے ہمارے پاس مال نہیں رہا، ہمارے پاس ایسی شکلیں نہیں ہیں، ایسی فضیلتیں نہیں ہیں.رسول اللہ ہے فرماتے ہیں اللہ ان کو دیکھتا ہی نہیں ، جب دیکھ ہی نہیں رہا تو ان کو اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت ہے.اپنی دنیا کی تسکین کے لئے ٹھیک ہے کچھ کوشش ہو سکتی ہے جو فطرتا جائز ہے لیکن ان جائز طریقوں پر جو خدا بیان فرماتا ہے اور اگر نہ بھی حاصل کر سکو تو یا درکھو کہ اللہ کی دل پر نظر رہتی ہے اور جو دل کو دیکھنے والا ہے وہ دل میں پلنے والے تقویٰ پر نظر رکھتا ہے.پس سب سے بڑا مال دار سب سے زیادہ خوبصورت ،سب سے زیادہ حسین وہ ہے جس کے دل میں تقویٰ پلتا ہے اور یہ بات کہ خدا دیکھتا ہے یہ تو ظاہر دور کی بات دکھائی دیتی ہے کہ اس کے

Page 912

خطبات طاہر جلد 13 906 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 /نومبر 1994ء دیکھنے کا ہمیں کیا پتا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جس کے دل میں تقویٰ پل رہا ہو اس کی ادائیں حسین ہو جاتی ہیں جو دولت تقویٰ کی دولت ہے اس کا کوئی اور مقابلہ نہیں اس لئے غریب متقی کی بھی معاشرے میں خدا تعالیٰ عزت قائم کرتا ہے اور ایک غریب متقی کو بھی لوگ زیادہ پیار اور محبت سے ملتے ہیں.آنحضرت ﷺ سے زیادہ دنیا کے لحاظ سے اور کون غریب تھا جن کے گھر میں بعض دفعہ بیٹھنے کی بھی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی.کئی کئی دن بعض دفعہ کھانا بھی نہیں پکتا تھا، ایسی کھجور کی چٹائی جس پر لیٹنے سے سارے جسم پر نشان پڑ جایا کرتے تھے، مالی لحاظ سے تو یہی حیثیت تھی مگر کتنے کتنے بڑے مال دار تھے جو اپنے اموال پر لعنت ڈالتے ہوئے ان کو پیچھے پھینک کر محمد رسول اللہ ﷺ کی چوکھٹ پر حاضر ہو گئے اور آپ کے تعلق میں جو غربت ان کو ملی وہ ان کی عزتوں کا نشان بن گئی اور پھر کیسے کیسے بادشاہ تھے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ محمد کا نام لے کر عزت و احترام سے جھکتے ہوئے اپنے تختوں سے نیچے اتر آتے ہیں.ایک غریب انسان کی عزت ہے اس لئے کہ آپ بالکل سچ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.تو اللہ مال کو نہیں دیکھتا، اللہ تعالی صورتوں کو نہیں دیکھتا، تقویٰ کو دیکھتا ہے مگر جب خدا دیکھتا ہے تو دنیا کی نظریں بھی اس کے لئے تبدیل کی جاتی ہیں اور دنیا کی محرومی کا احساس بھی مٹا دیا جاتا ہے.وہ غربت کے با وجود معزز ہو جاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کی نصیحتوں کو عزت واحترام اور محبت کی نظر سے دیکھیں.یہ وہ نصیحتیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی خاطر دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ اپنے تخت سے اتر کر اس کی ایک کوڑی کی بھی پر واہ چھوڑ دے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی باتوں کے سامنے سر جھکا دے تو یہ اس کے لئے بھلائی ہوگی ،اس کی کوئی قربانی نہیں ہے.اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو، اللہ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کے رہو.ان باتوں پر جن میں بعض کا خلاصہ ہے، تکرار ہے.آنحضرت ﷺ نے اس نصیحت کو ختم فرمایا اور جہاں آپ نے نصیحت ختم فرمائی وہیں سے ہماری جنتوں کا آغاز ، وہیں سے ہمارے تمام مصائب اور دردوں اور مصیبتوں کے حل کا سفر شروع ہوتا ہے، اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین

Page 913

خطبات طاہر جلد 13 907 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 / دسمبر 1994ء حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے خلق لے کر چلیں تو فتح آپ کے قدم چومے گی.تمام دنیا کی فتح کا راز آپ کے حسن خلق میں ہے.( خطبه جمعه فرموده 2 / دسمبر 1994ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَنفُسِكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 14) فرمایا:.اسلامی معاشرہ کی جو تصویر قرآن کریم نے مختلف مقامات پر کھینچی ہے اور جس پر حضرت محمد مصطفی میں ہو نے واضح عمل کر کے دکھایا.اس میں جوسب سے نمایاں قابل ذکر بات ہے وہ یہ ہے کہ تمام قسم کے کینوں اور بغضوں کو اس سوسائٹی سے الگ کر کے پھینک دیا گیا اور ہر طرح سے ان کے نفوس کو گویا آسمان کے پاک پانی سے دھو کر صاف کر دیا گیا اور پھر اس کی جگہ وہ پاکیزہ پورے لگائے گئے جن کا نام تقویٰ ہے اور جب تک پہلے یہ صفائی نہ ہو اس وقت تک تقویٰ کا پودا دلوں کی سرزمین پر لگ ہی نہیں سکتا.یہی مضمون ہے جو قرآن کریم نے مختلف صورتوں میں بیان فرمایا، مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے کھولا اور یہ جو ایک دوسرے پر فضیلت کے دعوے کرنا ہے، ایک دوسرے پر اپنی قومی برتری ثابت کرنا اور دوسرے کو حقیر دیکھنا ہے یہ بھی وہی رجحانات ہیں جو تقوی کی جڑوں کے

Page 914

خطبات طاہر جلد 13 908 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /دسمبر 1994ء لئے زہر یلے ثابت ہوتے ہیں اور اس ماحول میں تقویٰ پل نہیں سکتا.اس لئے قرآن کریم کی جو آیت میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے اس میں بالآخر اس مضمون کی کھل کر وضاحت فرما دی گئی ہے.فرمایا! اے لوگو یقینا ہم نے تمہیں ذَكَرٍ اور انٹی یعنی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے.یہاں دیکھیں قرآن کی فصاحت و بلاغت ہے کہ مسلمانوں کو یا مومنوں کو مخاطب نہیں فرمایا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو مخاطب فرمایا ہے کیونکہ دراصل اس آیت کا منطوق یہ ہے کہ اسلام صرف مسلمانوں میں بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لیے آیا ہے.اس لئے ان کی مشترک تاریخ ، ان کے مشترک پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے ماں باپ سب کے مرد اور عورت ہی ہیں اور اس پہلو سے تمہارے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے.وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا ہم نے جو تمہیں قبیلوں اور گروہوں میں بانٹا ہے تو تمہارے دلوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی شناخت کی خاطر.یہ شناخت کا جو مفہوم ہے یہ ناموں سے خوب کھل کر سامنے آجاتا ہے.ہم جب نام رکھتے ہیں یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے، تو یہ مقصد تو نہیں ہوتا کہ ایک دوسرے پر فضیلت دی جائے یا ایک دوسرے سے جدا کر دیا جائے ، مقصد صرف یہی ہے کہ پہچان ہو.تو جس طرح انفرادی پہچان میں انفرادی نام کام آتے ہیں اسی طرح نسبتاً وسیع پہچان کے لیے قبائل اور بعض گروہی تشخصات کے پیش نظر ہم پہچان لیتے ہیں کہ فلاں قوم فلاں قسم کی ہے، فلاں جگہ سے تعلق رکھتی ہے.فلاں شخص فلاں قوم سے تعلق رکھتا ہے.تو تعارف اور تعین میں آسانی ہو جاتی ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَنفُسِكُم جہاں تک عزت کا تعلق ہے یاد رکھو ان چیزوں کا، ان تقسیموں کا، عزت سے کوئی دور کا تعلق نہیں إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ انفسکم میں سب سے معزز خدا کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اللہ کی نظر میں جو اچھا ہے وہی حقیقت میں اچھا ہے باقی دنیا کی نظر میں تو بڑے بڑے گندے بھی اچھے بن جایا کرتے ہیں اور ان کے اچھا کہلانے کی کوئی حقیقت نہیں ہے اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ اور اللہ ہی ہے جو تقویٰ کی پہچان رکھتا ہے کیونکہ انسان تو علیم وخبیر نہیں ہے اس لئے ہر شخص اپنے تقویٰ

Page 915

خطبات طاہر جلد 13 909 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /دسمبر 1994ء کے معاملہ میں اپنے خدا کی نظر میں ہے اس بات کا خیال کرو اور وہی ہے جو تمہیں متقی قرار دے تو تم متقی ہو گے ورنہ نہیں.اس تعلق میں میں وہ احادیث پیش کر رہا تھا جس میں بعض معاشرے کی خرابیوں کی وجہ سے بھائی بھائی سے کٹ جاتا ہے، بہن بہن کے خلاف ہو جاتی ہے، رشتوں میں رخنے ڈالے جاتے ہیں.بہو اور ساس کے جھگڑے، ساس اور بہو کے وغیرہ وغیرہ اور سارا معاشرہ نفرتوں میں تقسیم ہو جاتا ہے.اس معاشرے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس کی اصلاح کی جتنی بھی کوشش کی جائے وہ اس لئے کم دکھائی دیتی ہے کہ ہر ایسے خطبات کے دور کے بعد جب میں نے اپنی طرف اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا پھر بھی شکایتیں جاری ہیں.یہ درست ہے کہ بعض جگہ سے بہت ہی خوشکن باتیں بھی سامنے آئی ہیں.بعض مردوں نے اپنی دیرینہ عادت کو تبدیل کر دیا اور اپنی بیویوں سے معافیاں مانگیں اور اس کے بعد ان کی بیویوں کے دعاؤں کے خطوط ملے کہ ہمارے خاوند میں تو ایک عجیب پاک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے.بعض بہوؤں نے اپنی ساسوں کو دعائیں دیں کہ پہلے میری زندگی اجیرن تھی اب تو میں بیٹی کی طرح رہتی ہوں.تو یہ واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے حوصلہ بڑھتا ہے.جس سے پتا چلتا ہے فَذَكَّرُ انُ نَفَعَتِ الذِكرى (اعلیٰ : 10) تو نصیحت کر ، کرتا چلا جا کیونکہ نصیحت فائدہ ضرور پہنچاتی ہے مگر یہ کہنا کہ ان بد عادات کی بیخ کنی ہو چکی ہے، جڑوں سے اکھڑ گئی ہیں یہ درست نہیں ہے.یہ تو ایک دائمی جنگ ہے جو خدا کے بندوں اور شیطان کے بندوں کے درمیان چلنی ہی چلنی ہے اور بندے تو بظاہر سب خدا کے ہیں لیکن کچھ عَبَدَ الطَّاغُوتَ قرآن کے بیان کے مطابق وہ اپنے آپ کو خود شیطان کا بندہ بنا لیتے ہیں.پس اس پہلو سے لڑائی جاری ہے اور ہمیں کوشش یہ کرنی ہے کہ خدا کے بندے اس حد تک غالب آجائیں اور غالب رہیں کہ ان کا حسن ہی معاشرے کی پہچان بن جائے ان چند آدمیوں کی بدی معاشرے کی پہچان نہ ہو جو ہر معاشرے میں بد انسانوں کے طور پر پائے جاتے ہیں.استثناء حسن نہ ہو استثناء بدصورتی بن جائے.یہ وہ جہاد ہے جس میں ہمیشہ مستقلاً اپنی تمام طاقتوں کو جھونکے رکھنا ہے اور یہ جہاد کبھی ختم نہیں ہوسکتا.لیکن جوں جوں اس جہاد میں ہم آگے بڑھتے ہیں بیدار مغزی سے ان چیزوں کا خیال کرتے ہیں، رفتہ رفتہ اور علاقوں کو اور جگہوں کو زرخیز بناتے چلے جاتے ہیں اور حسین بناتے چلے

Page 916

خطبات طاہر جلد 13 910 خطبہ جمعہ فرمود و 2 / دسمبر 1994ء جاتے ہیں.پس یہ محنت ہے جس سے تھکنا نہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم آخری دم تک تھکے بغیر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کو اپنی سیرت بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے.جہاں تک چغلی کا تعلق ہے اور اس سے ملتے جلتے عیوب کا تعلق ہے ان میں بنیادی بات وہی احساس کمتری ہے جو میں نے پہلے بیان کی تھی.اپنے بھائی کی کسی خوبی کو برداشت نہ کر سکنا اور احساس کمتری کا بدلہ اس طرح لینا کہ اس کی خوبی کو بدی بنا کر دکھایا جائے یا بدیوں کی تلاش کی جائے اور انہیں باہر نکال کر اچھالا جائے تاکہ لوگوں کی نظر میں جو اس کی عزت ہے وہ جاتی رہے.اس قسم کی تمام فتیح حرکتیں قرآن کریم نے کلیہ منع فرمائی ہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو ہمارے سامنے مختلف رنگ میں کھولا ہے.عَن ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنه قَالَ: صَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ الا الله الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعِ فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيْمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ.فَإِنَّهُ مَنْ يَّتَّبِعُ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ.( ترمذی ابواب البر والصلة : 1955) ترمذی ابواب البر والصلۃہ سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر بڑی پر شوکت اور بلند آواز سے فرمایا کہ اے لوگو تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا.انہیں میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعے تکلیف نہ دیں.یعنی وہ جو اپنی زبان اپنے بھائیوں صلى الله پر دراز کرتا ہے اور طعنے دے کر ان کو تکلیف دیتا ہے ان کے متعلق آنحضور ﷺ نے بڑے جلال کے ساتھ بڑی پر شوکت آواز میں فرمایا کہ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں فرمایا وہ مسلمانوں کو اپنے طعن و تشنیع سے تکلیف نہ دیں.نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں ورنہ یا درکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ اس کے اندر کے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے.پس اس سے زیادہ خوفناک اور کیا سزا انسان کو مل سکتی ہے کہ آپ اپنے بھائی کے عیبوں کی تلاش میں ہوں اور اللہ جو آپ کے عیوب کو جانتا ہے وہ اپنی ستاری کا پردہ اٹھا لے اور آپ دنیا کے سامنے ننگے ہو جائیں.

Page 917

خطبات طاہر جلد 13 911 خطبہ جمعہ فرموده 2 دسمبر 1994ء پس ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی ستاری چاہتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ اپنے بھائی سے ستاری سے کام لے کجا یہ کہ پردے اٹھا اٹھا کر جھانکے.ستاری کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہم ننگے ہیں اور اللہ کی نظر میں ہمارے سب عیوب ہیں اس کے باوجود ہمیں ڈھانپتا ہے.جیسے سردیوں کی راتوں میں بعض مائیں اپنے بچوں کو اٹھ اٹھ کر ڈھانپتی ہیں.کہیں سے بدن باہر نکلا ہوتو اس خطرے سے کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے یعنی ہر قسم کے جراثیم فضاؤں میں ہیں.ٹھنڈ کے وقت حملہ کر دیتے ہیں تو ان سے ڈھانپنے کے لئے مائیں بعض دفعہ بے چین ہو ہو کر راتوں کو اٹھتی ہیں.تشویش کی وجہ سے اٹھتی ہیں اور اکثر بچوں کے اوپر سے کپڑے اترے ہوئے ہوتے ہیں.انسان تو ایسا ننگا ہے کہ اس کی کہانی کا آغاز ہی ننگ سے ہوا ہے.حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ ننگا ہو گیا تھا اور پھر مغفرت کے لئے اپنا تن ڈھانپنے کے لئے جنت کے پتے ڈھونڈتا رہا ان سے اپنے تن کو ڈھانپنے کی کوشش کرتا رہا اور اللہ نے اسے سمجھایا کہ کیسے تن کو ڈھانپا جاتا ہے اور وہ مغفرت کی دعائیں سکھائیں جن کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس کی عورہ کو ڈھانپ لیا، اس کے ننگ کو ڈھانپ لیا.ہم تو وہ انسان ہیں جن کی کہانی کا آغاز ہی ننگ سے ہوا ہے اس لئے کوئی یہ کہے کہ آدم تو نگا تھا میں نگا نہیں ہوں.آدم کے عیوب تو چھپے ہوئے نہیں تھے میرے عیوب چھپے ہوئے ہیں اور میرے قبضے میں ہیں وہ شخص بڑا ہی جاہل ہوگا اور جوننگ کا فلسفہ ہے اس سے کلیہ ناواقف ہوگا.حقیقت یہ ہے کہ ننگ کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر انسان ننگا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس پرستاری کی چادر ڈالے اور جب آپ کسی کے عیوب کو تلاش کرتے ہیں تو خدا کی مخالفت کرتے ہیں.خدا نے جو ستاری کی چادر ڈالی ہوئی ہے اسے اٹھا اٹھا کے جھانکتے ہیں.اس کو اللہ تعالیٰ برداشت نہیں کرتا اور آنحضرت ﷺ خبر دیتے ہیں کہ پھر اللہ اپنی چادر اس سے کھینچ لیتا ہے اور خدا کی مغفرت اور اس کی ستاری کی چادر نہ ہو تو ہر انسان ہے ہی ننگا ، عیوب سے بھرا پڑا ہے تو اس سے زیادہ اور کس طریق سے وضاحت کے ساتھ اور بڑے دردناک طریق پر لوگوں کو عیوب کی تلاش سے منع کیا جا سکتا تھا.اس حدیث کے سننے کے بعد، اس پر غور کرنے کے بعد انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اپنے بھائی کے عیوب کی تلاش میں رہے اور پھر تلاش کے بعد ان کی پردہ دری کرے.ان کو دنیا کے صلى الله

Page 918

خطبات طاہر جلد 13 912 خطبہ جمعہ فرمود و 2 دسمبر 1994ء سامنے اس لئے ظاہر کرے کہ وہ اسے ذلیل اور رسوا سمجھیں.آنحضور فرماتے ہیں کہ خدا تو ایسا ہے جو وہ ظاہر کر دے تو کوئی چیز پھر اس کو چھپا نہیں سکے گی.پھر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک اور موقع پر فرمایا اور یہ تر مذی کتاب البر والصلہ سے روایت لی گئی ہے.حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.طعنہ زنی کرنے والا دوسروں پر لعنت کرنے والا اور منش حرکتیں کرنے والا ، جو معیوب اور ناپسندیدہ، بے ہودہ حرکتیں ہوں اور زبان کا گندا ، بدکلام، بدگو، یاوہ گوئی کرنے والا ان میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہے ليس بمومن (ترمذی کتاب البر والصلہ حدیث: 1900) پس مومن کی تعریف سے یہ ساری چیزیں نکال کے اس طرح باہر کر دی گئی ہیں کہ جس میں یہ موجود ہوں وہ مومن کی تعریف میں داخل ہی نہیں ہوتا بیک وقت دونوں چیزیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں.تو ہر شخص جو مومن کہلانے کا دعویدار ہے، مومن بنے کی تمنا رکھتا ہے اسے معلوم تو ہونا چاہئے کہ وہ کون سی باتیں ہیں جو اس کے ایمان کو باطل کر دیں گی.ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور یہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے ) اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتا ہے.(الترغیب والترہیت ) اب یہ جو محاورہ ہے کہ دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آجانا اور اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا ، یہ اصل میں حضرت صلى الله اقدس محمد رسول اللہ ﷺ ہی کا فرمودہ محاورہ ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ اپنی آنکھ میں اگر ذرہ سا بھی تنکا یا تنکے کا ایک حصہ بھی ہو جو اسے تکلیف دیتا ہو تو وہ انسان کو نمایاں ہو کر دکھائی دیتا ہے یوں لگتا ہے جیسے شہتیر داخل ہو گیا ہے اور دوسرے کی آنکھ میں جو تکلیف دینے والی چیزیں ہیں وہ اس کو دکھائی نہیں دیتیں.یہاں شہتیر اور تنکے کی مثال میں یہ فرق ہے یعنی عام روز مرہ کے انسانی تجربے سے یہ فرق ہے کہ یہاں اپنی آنکھ کے تنکے سے مراد وہ برائی ہے جو موجود ہے اور وہاں موجود ہے جہاں دکھائی دینی چاہئے ، وہ تمہیں دکھائی نہیں دیتی.اب آنکھ سے زیادہ اور کون سی جگہ ہے جہاں برائی کا علم ہو جانا چاہئے ، جہاں معمولی سا ایک ذرہ بھی داخل ہو جائے تو آپ کو پتا لگ جاتا ہے کہ کوئی غیر چیز آگئی ہے اور آنکھ جو دیکھنے کے لئے بنائی گئی ہے اسے اپنے اندر موجود اپنی برائیاں دکھائی نہیں دیتیں اور دوسرے کی آنکھ میں معمولی سا بھی نقص ہو کوئی ، برائی کوئی ذرہ بھی پایا جاتا ہوتو اتنا بڑا ہوکر دکھائی دیتا ہے کہ آنحضور نے فرمایا جیسے الجزعہ ہو.جزعہ کھجور کے اس تنے کو کہتے ہیں جسے کاٹ کر شہتیر میں تبدیل

Page 919

خطبات طاہر جلد 13 913 خطبہ جمعہ فرموده 2 دسمبر 1994ء کیا گیا ہے.درست کر دیا گیا ہو یا چورس بنادیا گیا ہو اسکو جزعہ کہتے ہیں تو فرمایا کہ وہ تو اسکو شہتیر کی طرح دیکھتا ہے.یہ مثال اتنی سی کافی ہے اس کے آگے کسی نصیحت کی ضرورت نہیں یہ اس رجحان کو بتاتی ہے اور اس رجحان کو آنحضرت ﷺ نے بھی پسند فرمایا ہے.عربی شاعر نے اسی مضمون کو یوں بیان کیا ہے: وعين الرضا عن كل عيب كليلة كما ان عين السخط تبدى المساويا کہ وہ انسان بھی کیسا جاہل ہے کہ وہ آنکھ تو وہی ہے لیکن جب محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو ہر برائی نظر سے غائب ہو جاتی ہے اور جب نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو جو برائی نہ بھی ہو وہ بھی دکھائی دینے لگتی ہے.مگر حقیقت یہ کہ یہاں مضمون جھوٹ کا نہیں چل رہا بلکہ توازن کے بگاڑ کا ہے.ہرانسان میں کوئی نہ کوئی برائی تو ہوتی ہے.مراد یہ نہیں کہ یہاں ان لوگوں کی بحث نہیں ہے جو افترا کرتے ہیں وہ مضمون ہی الگ ہے فرمایا دیکھ لیتے ہیں.یعنی مومنوں سے جو مومن کہلاتے ہیں اتنی تو توقع ہے کہ بالکل بے پر کی نہیں اڑاتے.چھوٹا ساپر دکھائی دیتا ہے تو اس سے کوؤں کی ڈار بنا دیتے ہیں اور جب یوں کرتے ہیں تو مومن نہیں رہتے.اس لئے سب انسانی نفسیاتی رجحانات کا حضرت اقدس محمد مصطفی ملے گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہوئے ان سے پردہ اٹھاتے ہیں.یعنی ان باتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جن سے پردہ اٹھایا جائے تو ہمارے ننگ ڈھانکے جائیں گے اور یہ پردہ اٹھانا رحمت کا نشان ہے، ان جگہوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا امن اور جہاں شہر ہے وہاں پر دے ڈھانپتے ہیں.یہ ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے جنہوں نے اس اس طریقے سے اپنی امت کو سمجھایا کہ خدا گواہ ہے کبھی کسی نبی نے بلکہ انبیا نے مل کر بھی اپنی امتوں کے لئے ایسی محنت نہیں کی.اس بار یک نظر سے دکھا ئیں تو سہی کون نبی ہے جس نے باریکیوں میں اتر کر ، ایسے مقامات تک پہنچ کر جوانسان کو خود اپنی آنکھ سے اپنے اندر دکھائی نہیں دیتے محمد رسول اللہ اللہ نے دیکھا اور ان پر انگلی رکھی اور بتایا یہ جگہیں ہیں جو تمہاری دکھتی ہوئی رگیں ہیں ان کو ٹھیک کرو.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور یہ ابو داؤد کتاب الادب سے لی گئی ہے.انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب مجھے معراج ہوا تو میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا

Page 920

خطبات طاہر جلد 13 914 خطبہ جمعہ فرموده 2 دسمبر 1994ء جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے.اب یہ حدیث ہے اور اس قسم کی جو اس مضمون کی اور حدیثیں ہیں ضمناً ہمیں یہ بھی بتارہی ہیں کہ معراج روحانی تھا اور جسمانی معراج نہیں تھا.ورنہ نعوذ بالله من ذالک وہ لوگ جو جسمانی معراج پر زور دیتے ہیں وہ یہ کہیں گے کہ رسول اکرم ﷺ اپنے جسم سمیت جہنم کی سیر پر گئے تھے.اب یہ ایسا جینا نہ تصور ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی مومن اس تصور کو برداشت نہیں کر سکتا اور پھر بھی آنکھیں بند کر کے ان حدیثوں سے گزر جاتے ہیں.وہ کشف تھا، ایک عظیم روحانی کشف تھا، جس میں جہنم کے بھی نظارے دکھائے گئے.جنت کے بھی نظارے دکھائے گئے ،اور تمام امت سے تعلق رکھنے والے فوائد کے امور پر بھی آپ کو مطلع کیا گیا اور نقصان کے امور پر بھی آپ کو مطلع کیا گیا.پس فرماتے ہیں کہ میں نے اس میں دیکھا ایک ایسی قوم کے پاس سے میرا گزر ہوا جس کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے.میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں.تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے یعنی ان کی عزت اور آبرو سے کھیلتے تھے ،ان کی غیبت کرتے تھے اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے.پس جس گناہ کی ایسی بڑی سزا ہو اور وہ ایسا گناہ نہیں ہے جس کے اوپر انسان کی فطرت مجبور ہوئی بیٹھی ہے یا وقت کے جوش کا ایک تقاضا ہے جس کے ابتلا میں پھنس کر آپ یہ کام کر بیٹھیں.یہ تو ایسا بد بخت گناہ ہے جس کے چسکے بڑے آرام سے بے وجہ لئے جاتے ہیں.مجالس کو سنوارنے کے لئے اپنی طرف سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کے بغیر مجالس زیادہ بہتر ہوتی ہیں اور ایسے گناہ جو ہیں ان کے بعد ان کا بدائر ضرور پیدا ہوتا ہے، یہ رہ نہیں سکتا.چغلی کرنے والے بھی جب مجلسوں سے ہٹتے ہوں گے تو ان میں اگر کچھ بھی شرافت ہو تو ضرور ضمیر پر بوجھ پڑ جاتا ہوگا اور بعض پھر یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ہم کہیں ایسی بات نہیں کر بیٹھے زیادہ کہ وہاں تک پہنچے اور پھر یہ مصیبت بن جائے اور پہلے سے ہی وہ اپنے ڈیفنس بنانے لگ جاتے ہیں کہ اگر یہ ہوا تو پھر ہم یہ جواب دیں گے.اور اگر یہ بات ہوئی تو یہ جواب دیا جائے گا اور تیاریاں کی ہوتی ہیں.مجھے اس طرح پتا چلتا ہے کہ بعض دفعہ جب پوچھا جاتا ہے آپ نے یہ بات کی تھی تو اچا نک نہیں پہلے سے تیار ہوتا ہے.صاف پتا چلتا ہے کہ اس شخص نے بات کرنے کے بعد سوچ لیا تھا کہ یہ بے وقوفی کچھ ہوگئی ہے جتنی کرنی تھی اس میں ذرا بے احتیاطی ہوئی ہے تو اپنا ڈیفنس

Page 921

خطبات طاہر جلد 13 915 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /دسمبر 1994ء تیار رکھا ہوا تھا.تو یہ ایسا گناہ ہے جس میں بہت سی قباحتیں ، بہت سی مکروہ باتیں داخل ہیں اور صاف پتا چل جاتا ہے کہ انسان جو اس گناہ میں ملوث ہے وہ بھی جانتا ہے کہ یہ صرف پھول نہیں ہیں اس میں کانٹے بھی ہیں لیکن جس کو پھول سمجھا جا رہا ہے وہ اصل میں کانٹے ہیں اور کانٹے وہ ضمیر کے کچوکے ہیں جو دراصل اسے پھول بنانے کی خاطر عطا کئے گئے ہیں تو سارا نظام ہی بگڑ گیا ہے اچھی چیز کو برا دیکھ رہے ہیں اور بری چیز کو اچھا دیکھ رہے ہیں اور بے ہودہ حرکت ہے بالکل بہت معاشرے میں اس سے نقصان پہنچتا ہے اور اگر یہ ساری باتیں نہ بھی ہوں تو صرف یہ ایک حدیث امت محمدیہ کو غیبت سے باز رکھنے کے لئے کافی ہے.وہ جو قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ گے اسی کی تائید میں ، اسی کی تشریح میں یہ حدیث ہے کہ خدا کے نزدیک تمہارا یہ کرنا واقعہ ایسا مکروہ ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اپنے کا کھایا جاتا ہے تو قیامت کے دن مرنے کے بعد تم اپنا گوشت نوچو گے تا کہ تمہیں پتا لگے کہ یہ مزے تھے جو تم لوٹا کرتے تھے.وہ ظاہری گوشت تو نہیں ہو گا مگر روحانی معنے جو بھی ہیں ، جس قسم کا بھی بدن ہوگا، اسکے ساتھ انسان سلوک وہی کرے گا جو اس میں بیان ہوا ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: چغل خور جنت میں نہیں جاسکے گالا یدخل الجنة نمام (مسلم کتاب الایمان حدیث : 151 ) کہ جو چغل خور ہے اس کے لئے جنت کے رستے بند ہو گئے ہیں.اب یہ کیسی جنت ہے جو ہم یہاں چغل خوری کے ذریعہ اپنے لئے بنا لیتے ہیں.جس پر آئندہ مرنے کے بعد کی جنت حرام ہو جاتی ہے.اتنی معمولی بات نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی سی برائی ہے کوئی بات نہیں.بعض دفعہ میرے سامنے بھی بعض عورتیں ایسی بات شروع کرتی ہیں تو میں ان کو سمجھاتا ہوں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتی.وہ ہلکا سا کہتی ہیں.نہیں جی فلاں سے یہ بات یوں ہو گئی تھی فلاں نے یہ کر دی ہے ہم تو یونہی بات کر رہے ہیں.وہ یونہی بات جو ہے وہ بہت بڑی بات ہے، بہت بری بات ہے.ایسی ہے جو تمہاری عاقبت کو تباہ کر سکتی ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ دو چھوٹے چھوٹے لوتھڑے ہی تو ہیں انہیں سے جنت بھی بن جاتی ہے اور جہنم بھی بن جاتی ہے.زبان کی ایک لغزش سے انسان جنت سے جہنم میں جا پڑتا ہے اور ایک موقع پر زبان سنبھل جائے تو وہی اس کی جہنم کو جنت بھی بنا سکتی ہے.تو بات

Page 922

خطبات طاہر جلد 13 916 خطبہ جمعہ فرموده 2 دسمبر 1994ء کرنا تو ہوتا ہی زبان سے ہے مگر باتیں بڑی بھاری ہو جاتی ہیں.بعض باتیں اتنی تلخ ہو جاتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ بات اگر سمندر میں ڈالی جائے تو سارے سمندر کا مزاج بگڑ جائے ،سارا سمندر ناپاک ہو جائے تو بات کو سنبھل کر کرنا اور اس پر نگرانی رکھنا بہت اہم امر ہے اور اس کے ساتھ معاشرہ بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے دوسرے موقع پر فرمایا ، وہ شخص جو زبان کا گندا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے اس کا کوئی بھی تعلق ایمان سے نہیں ہے.فحش کلامی کرنے والا ، بڑھکیں مارنے والا ، بے ہودہ بکواس کرنے والا ، اپنے بڑوں کے خلاف زبان دراز کرنے والا یہ ساری جو صفات ہیں یہ اس ایک لفظ میں آگئی ہیں جو اس حدیث میں بیان کیا گیا تھا.پس زبان کو سنبھال کر رکھنا بہت ہی اہم امر ہے.ایک اور حدیث میں بھی یہی روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چغل خور جنت میں کبھی داخل نہیں ہوگا.حضرت ابوھریرہ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت نیر مای جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی دور کرے گا.(ترمذی کتاب البر والصلہ ) اب یہ برعکس مضمون شروع ہورہا ہے.جب آپ زبان طعن دراز کرتے ہیں، کسی کو تکلیف دیتے ہیں کسی کو حقیر سمجھ کر ، ذلیل کر کے.اس کے عیوب لوگوں کے سامنے کھول کر معا شرے میں بے چینی پھیلا دیتے ہیں ، معاشرے کو کر بناک کر دیتے ہیں اور اس کی سزا آنحضرت ﷺ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ پھر اللہ تم سے وہ رحمت کی چادر اٹھا لے گا.جو اٹھ جائے تو پھر تم بھی بے چین ہو جاؤ گے تم بھی کر بناک ہو جاؤ گے، اب اس کے برعکس منظر پیش کیا گیا ہے.یوں معلوم ہوتا ہے ایک جہنم کا منظر ہے اس کے مقابل پر ایک جنت کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے.فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور بے چینی کو دور کرے گا اور جو شخص کسی تنگ دست کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا.اب یہاں دنیا اور آخرت کہہ کر دنیا کو جو نمایاں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مال کی محبت انسان کو بہت سی نیک باتوں سے روک لیتی ہے، خطرہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں مال کم ہو جائے گا اور اور ذریعوں سے بے چینی دور کرنے میں

Page 923

خطبات طاہر جلد 13 917 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 دسمبر 1994ء انسان کا خرچ کچھ نہیں ہوتا.کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ میں نے یہ بے چینی دور کر دی تو میرا یہ کچھ کم ہو جائے گا.اس کے لئے تو جنت کی جزا کا ذکر کافی تھا مال خرچ کر کے کسی غریب کی مدد کرنے میں چونکہ یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس دنیا میں میرے اموال کم نہ ہوں تو اللہ نے اس کی بھی تسلی کروادی.آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ اس کے لئے آسانی اور آرام کے سامان مہیا فرمائے گا اس لیے خدا کی خاطر خدا کے بندوں پر کچھ خرچ کرنا کسی کمی پر منتج نہیں ہوتا.اس کے نتیجہ میں کوئی مالی نقصان اس دنیا میں بھی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا دیتا ہے اور صدقات میں برکت رکھی گئی ہے.یہ بات ایسی ہے جس کو بعض غیر مسلم بھی سمجھتے ہیں.ہمارے ملک ہندوستان میں بڑا ہندوستان، پاکستان بھی جس کا حصہ تھا اس میں ہندو قوم میں جو تاجر ہیں وہ دان پین کے بڑے قائل ہیں اور ایک زمانہ تھا جبکہ پارٹیشن سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے تو شاذ کے طور پر خیراتی ادارے دکھائی دیتے تھے اور ہندو تاجروں کی طرف سے جگہ جگہ خیراتی ادارے قائم کئے جاتے تھے.اس لئے کہ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر بنی نوع انسان کی ہمدردی میں کچھ خرچ کیا جائے تو مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے اور یہ جو بات ہے یہ وہ خود کھلے بندوں کہتے بھی ہیں کہ ہم جو خرچ کرتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ اس سے ہمارے اموال میں برکت پڑتی ہے.تو ایک مشرک ، ایک بے دین بھی اللہ کی رحمت کا یہ تجربہ رکھتا ہے اور ان کی تجارتیں گواہ ہیں اس بات پر کہ یہ خدا پر ان کی توقع درست تھی.بے دین ہونا ان کی اس نیکی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکا اور نہ اس اجر سے ان کو محروم کر سکا جو اس نیکی کے ساتھ خدا نے وابستہ فرما دیا ہے.اس میں دین کا ذکر نہیں ہر انسان کے ساتھ یہ تقدیر برابر لاحق ہوچکی ہے ، خدا تعالیٰ نے وابستہ کر دی ہے کہ اگر خدا کی خاطر اس کے بندوں کے لیے اپنا مال خرچ کرے گا تو اسے دنیا میں بھی برکت عطا کی جائے گی.پھر فرمایا آخرت میں جو ہے وہ تو بہر حال ہے ہی.آخرت میں بھی اس کے ساتھ بہت ہی سہولت کا معاملہ کیا جائے گا اور ہم میں سے ہر شخص اس سہولت کا محتاج ہے کیونکہ اگر اعمال کو دیکھا جائے تو اعمال کے برتے پر تو جنت میں داخلہ بڑا مشکل کام ہے.مغفرت اور درگزر اور پردہ پوشی کا جہاں تک تعلق ہے اور اللہ کے فضل کا ، اس طرف سے دیکھیں تو جنت بالکل آسان دکھائی دینے لگتی ہے لیکن اس کے جو رستے خدا نے بنائے ہیں ان رستوں پر نظر رکھنی چاہئے.اس دنیا میں

Page 924

خطبات طاہر جلد 13 918 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /دسمبر 1994ء آپ خدا کے بندوں سے وہ سلوک کریں جس سلوک کی آپ خدا سے توقع رکھتے ہیں.اتنا آسان، اتنا واضح ، اتنا معقول فارمولا ہے کہ جسے سمجھانے کے لئے کسی بڑی منطق کی ضرورت نہیں ہے.آپ خدا کے بندوں سے حسن سلوک کریں اللہ آپ سے وعدہ فرماتا ہے کہ آپ سے حسن سلوک کرے گا اور جتنا آپ کریں گے اس سے بڑھ کر وہ حسن سلوک فرمائے گا.پس اس پہلو سے اتنے آسان خزانے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں، آسان خزانے جن کو حاصل کرنا بہت آسان ہے اس کے باوجود اگر ہم فاقہ کشی میں زندگی بسر کریں اور ان خزانوں سے استفادہ نہ کریں تو اس سے بڑی خود کشی اور کیا ہوسکتی ہے.پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا.جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.صرف آخرت کی پردہ پوشی کا کیا فائدہ اگر یہاں عمر بھر ہم دنیا کے سامنے ننگے اور ذلیل ہوتے رہے.اس خیال سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کا بھی وعدہ فرما دیا ہے اور جس کی دنیا میں پردہ پوشی ہوگی اس کو توقع رکھنی چاہئے کہ آخرت میں بھی یہ سلوک ہوگا تو پھر بھائی کے تن سے کپڑے اٹھانے کا کیا مطلب ہے.اپنی بہن کو ننگا دکھانے کا کیا مطلب ہے.پس اتنا آسان فارمولا ہے جیسے تم ہو ویسا ہی تم سے سلوک کیا جائے گا.یہ ہر زندگی کی دلچپسی پہ حاوی ہے اور بہت ہی آسانیاں پیدا کرنے والا ایک نسخہ ہے جو ہر کسی کے بس میں ہے.کوئی مشکل نیکی نہیں کرنی.کھڑے ہو کر عبادتیں نہیں کرنی ، صرف اپنے رجحان میں کچھ پاکیزگی، کچھ شرافت، کچھ حیا پیدا کرنی ہے.دوسروں کی حیاء کو اپنی حیا سمجھنا ہے اور پھر توقع رکھیں کہاللہ تعالیٰ آپ سے غیر معمولی حسن سلوک فرمائے گا.پھر فرمایا، اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک اپنے بھائی کی مدد میں لگار ہے یعنی جس وقت کوئی شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوا ہے اس وقت تک اس عرصے میں خدا تعالیٰ اس کا مدد گار ہے.یہ حدیث کا بیان بھی تھوڑا سا اشکال رکھتا ہے.کیا مطلب ہے کہ ادھر مدد چھوڑی اور خدا نے مدد سے ہاتھ کھینچ لئے.یہ دراصل مدد کے رجحان کو ساری زندگی پر پھیلانے کے لئے ایک عمدہ نصیحت ہے.اس کے کئی معانی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص جو اپنے بھائی کے لئے اپنا وقت خرچ کر رہا ہے اور اپنے کاموں سے اس عرصہ میں وہ غافل رہا اور خطرہ ہے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا ہو ایسے شخص کو تسلی دی گئی ہے کہ تم نے جتنا وقت خدا کی خاطر خرچ کیا تھا تمہیں اور تمہارے اقرباء کو خدا اس کا نقصان نہیں پہنچنے دے گا.اللہ تمہارے کام اس عرصے میں خود کرے گا اور کروائے گا اور یہ

Page 925

خطبات طاہر جلد 13 919 خطبہ جمعہ فرمود و 2 ردسمبر 1994ء قیقت ہے، یہ زندگی کے وسیع تجربے سے بات ثابت ہے تو یہ مراد نہیں کہ اللہ نے وہیں ہاتھ کھینچ لیا جب کام ختم ہوا بلکہ خدا کی مدد بعد میں بھی جاری رہتی ہے.تو ایک تو یہ مفہوم ہے جس کے تجربے جماعت احمدیہ میں تو اس کثرت سے ہیں کہ شاید ہی کوئی گھر ہو جس کے تجربے میں ایسی باتیں نہ ہوں.لیکن دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر خدا صرف اس وقت تک ضامن ہے تو پھر کوشش یہ ہونی چاہئے که ساری زندگی میں انسان کسی نہ کسی کے لئے بھلائی کرتا رہے تاکہ ساری زندگی اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی کی طرف متوجہ ہو.اس ذریعے سے بھلائی کے کاموں کو دوام بخشنے کا ایک طریق ہے، ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے جس سے انسان میں بھلائی کے رجحان کو دوام ملتا ہے، اسے ہمیشہ کے لئے بھلائی کی طرف متوجہ رہنے کی تلقین ہوتی ہے اور جس کے لئے اللہ کوشاں رہے اس کے لئے پھر اور حاجت کیا رہ جاتی ہے باقی.جیسا میں نے کہا ہے اتنے کثرت سے واقعات ہوتے ہیں جماعت میں اور بعض صحابہ نے تو اس گھر کو ایسا پکڑا کہ ساری عمر اس سے لطف اٹھائے اور مزے بھی کئے اور کام بھی بنوائے.میں نے حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی مثال پہلے بھی ایک دفعہ خطبے میں بیان کی تھی لیکن وہ اس موقع پر ایسی چسپاں ہوتی ہے کہ اگر پھر بھی بیان کر دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں.بڑی ایک روح کو تازہ کرنے والی مثال ہے.ایک دفعہ بنگلہ دیش جب ہم گئے جماعت کے وفد کی صورت میں.تو اس میں حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری بھی ہمارے ساتھ تھے اور بہت دلچسپ سفر تھا، کافی جماعتیں پھرے.آخری دنوں میں جب ہم ڈھا کہ پہنچے تو ڈھاکہ کی جماعت نے وفد کے اعزاز میں ایک ہوٹل میں ایک دعوت کی ہوئی تھی.اسی وقت وہاں ایک تار پیش کی گئی جس میں یہ تھا کہ مولوی قدت اللہ صاحب سنوری کی بیوی اتنی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہیں اور اس مرحلے تک بیماری پہنچ گئی ہے کہ آج نہیں تو کل تک وہ ڈاکٹری خیال کے مطابق فوت ہو جائیں گی اس لئے درخواست ہے کہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کو فوری طور پر واپس بھجوا دیا جائے یا پھر ان کے لئے تار تھی انہی کے نام ہوگی تو یہ تھا کہ آپ فوری طور پر واپس آ جائیں تو انہوں نے پڑھی اور بعض دفعہ کھانسی اس طرح کیا کرتے تھے کہ اوہوں اور جیب میں کاغذ مروڑ کر ڈال لیا.میں نے ان سے پوچھا کہ مولوی صاحب کیا بات ہے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تار آئی ہے میری طرف گھر کی طرف سے، تو میں نے کہا پھر چند دن تو رہ گئے ہیں سفر میں آپ چلے جائیں واپس.کہتے ہیں نہ نہ

Page 926

خطبات طاہر جلد 13 920 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 دسمبر 1994ء نہ، یہ کام نہیں کرنا.میں تار دے رہا ہوں کہ میں ہرگز نہیں آؤں گا.مجھے بڑا تعجب ہوا.میں نے کہا آپ کی بیوی کے متعلق بتا رہے ہیں فوت ہو رہی ہے.آپ کہتے ہیں میں نہیں آؤں گا کیا بات ہے.کہتے ہیں میں خدا سے داؤ مار رہا ہوں.اس قسم کے الفاظ تھے، میں اللہ کو خوب سمجھتا ہوں اگر میں واپس گیا تو اس نے مرنا تو ہے ہی اور اگر میں واپس نہ گیا تو اللہ پر ڈالوں گا کہ میں تیرے کام میں تھا اور پھر پیچھے میری بیوی ماردی.تو میں جانتا ہوں اپنے رب کو اس نے کبھی بھی نہیں مرنے دینا اس کو.یہ سب باتیں ہیں اور پورا ہفتہ بعد میں ٹھہرے اور اسی دوران اطلاع بھی آ گئی کہ بیوی ٹھیک ٹھاک ہے فکر نہ کریں.تو یہ خدا کے بندے خدا کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح محمد رسول اللہ نے اس کا تعارف کروایا ہے ورنہ خدا کوکون جان سکتا ہے.آنحضرت ﷺ پر جس طرح خدا ظاہر ہوا ہے اس طرح آنحضور ﷺ نے ہم پر ظاہر فرما کر ہماری ساری مشکلیں آسان کر دیں اور وہ تجربے کبھی نا کام نہیں ہوتے جو محمد رسول اللہ کے بتائے ہوئے تجربے ہیں، سو فیصد یقینی باتیں ہیں.پس اپنے خدا سے وہ تعلق قائم کریں جس طرح وہ ہمیں سمجھا رہا ہے ایسے تعلق قائم کرو مجھ سے فائدے اٹھانے ہیں تو یہ طریقے میں تمہیں بتا دیتا ہوں پھر دیکھیں کہ زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے.آنحضرت ﷺ کا اپنا دوسروں سے جو سلوک تھا اب میں اس کے نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کسی کی ادنی سی تکلیف بھی آپ کو برداشت نہیں تھی ، آپ کو منظور نہیں تھی اور اگر غلطی سے پہنچ جائے تو کیسے بے چین ہو جایا کرتے تھے یعنی نصیحتیں جو فرماتے تھے عمل اس شان سے کیا ہے ان نصیحتوں سے بھی بلند تر مقام آپ کا دکھائی دیتا ہے.نصیحتیں تو لگتا ہے جس طرح دھند زمین کے ساتھ لپٹی ہوئی ہوتی ہے اور ہم اس دھند میں ایک تصور باندھ رہے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا وجود اس سے بلند دکھائی دیتا ہے.ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص آپ پر جھک گیا.آپ نے اسے سوئی کی نوک سے ذرا پیچھے کیا یعنی بعض دفعہ لوگ اس طرح تنگ کرتے ہیں اور ان کا سانس سانس میں آنے لگ جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ کو خوشبو سے بہت محبت تھی اور بد بو برداشت نہیں تھی تو یہ وجہ تو نہیں بتائی گئی کہ کیوں آپ نے ہٹایا.مگر مجھے تجربہ

Page 927

خطبات طاہر جلد 13 921 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 / دسمبر 1994ء ہے کہ بعض لوگ اتنا قریب آ کر جھک کے بات کرتے ہیں کہ ان کے سانس میں بد بو ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے بہت بڑا ابتلا انسان پر آتا ہے تو بے اختیار رسول اللہ ﷺ نے معلوم ہوتا ہے اس کو ہٹا دیا کہ ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو.اگلی بات یہ ہے کہ جب اس سوٹی سے اس کو ہٹانے لگے تو اس کے چہرے پہ ذراسی چوٹ آگئی.جھکے ہوئے آدمی کو انسان ضروری تو نہیں کہ یوں دیکھ رہا ہو.سوٹی سے پرے کیا ہے وہ غلطی سے چہرے کے کسی نازک حصے پر لگ گئی اور اس سے اس کو تھوڑا سا زخم پہنچا.آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا کہ مجھ سے بدلہ لو ا بھی بدلہ لو.اس نے عرض کیا یا الله رسول اللہ ﷺ ! میں نے معاف کر دیا ہے ( ابوداؤ د کتاب الدیات) لیکن ایک اور موقع پر ایک اور صحابی نے ایک اور ردعمل دکھایا.حضرت اسید بن حضیر انصاری کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بڑے بامذاق تھے مجلس میں کھل کے دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے.ایک موقع پر معلوم ہوتا ہے ان سے کچھ زیادتی ہوگئی ہے.یعنی ہنسی مذاق کرنا ان معنوں میں تو معیوب نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں صحابہ نہیں کیا کرتے تھے.بعض دفعہ آنحضور جو خود بھی بہت مذاق فرماتے تھے لیکن بعض لوگ پھر زیادہ کر دیتے الله ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو یہ بات منظور نہیں تھی کہ کوئی شخص ٹھٹھے باز ہی بن جائے تو اس صورت میں آپ نے اس شخص کو اسی طرح چھڑی چھوٹی کہ ذرا سنبھلو، اشارہ تھا اور میں سمجھتا ہوں اس میں حکمت یہ تھی کہ کھل کر اگر بات کہتے تو باقی مجلس میں شاید اس کی سبکی ہوتی تو آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ چھڑی کی نوک سے اس کو میں سمجھا دوں سمجھ جائے گا اشارہ کہ میں کچھ حد سے آگے بڑھ رہا ہوں ،اس پر وہ کہنے لگا حضور میں نے تو بدلہ لینا ہے.آپ نے مجھے چھڑی چھودی ہے.حضور نے فرمایا ابدلہ لے ! لو.اس پر وہ کہنے لگا کہ حضور آپ نے تو قمیص پہنی ہوئی ہے میں تو ننگے بدن ہوں.آپ نے فرمایا میں قمیص اتارتا ہوں کپڑا اٹھایا کہ آؤ اب بدلہ لے لو.وہ چمٹ گیا اور بار بار لپٹ کے چومنے لگا.جہاں جہاں اس کا بس چلتا تھا اس نے چوما، اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میری کیا مجال تھی کہ میں بدلہ لیتا مجھے تو خدا نے یہ موقع دیا.(ابوداؤد کتاب الادب حدیث : 4547) یہ حسن محمد مصطفی ﷺ ہے جو ایک چھوٹی سی چوٹ کے مقام سے بھی جنت کے چشمے پھوڑ دیتا ہے موسیٰ کے عصا کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ چٹان پر اس نے عصا مارا اور اس سے چشمے پھوٹ پڑے اور قرآن کریم اس کی گواہی دیتا ہے کہ ایسا ہوا.لیکن محمد مصطفی اے کے عصا صلى

Page 928

خطبات طاہر جلد 13 922 خطبہ جمعہ فرمود 20 دسمبر 1994ء کی ضرب سے جیسے جنت کے چشمے پھوٹتے ہم نے دیکھے ہیں ان کی کوئی مثال اور کہیں دکھائی نہیں دیتی ، جن لوگوں کی خاطر ان چٹانوں سے چشمے بہائے گئے وہ پتھر دل ہو گئے.مگر محمد رسول اللہ اللہ نے جن دلوں سے رحمت کے چشمے بہائے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے جنت کی طرف مائل رہنے والے، جنت کی نہروں میں گویا غرقاب دل بن گئے ، ان کے دل سے بھی جنت پھوٹتی ہے.وہ دل بھی جنت کے لیے بنائے گئے تھے.تو یہ وہ حسین معاشرہ ہے جو محد رسول کریم ﷺ ہم میں صرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے ، اپنے عمل سے اس کی تصویر میں کھینچ کر ہمیں دکھائی ہیں.ایک اور موقع پر حضرت عبد اللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عرب نے ان سے ذکر کیا کہ جنگ میں یعنی کسی ایسے شخص نے ان سے بات کی جس کو وہ جانتے نہیں ہیں.لیکن یہ پتا ہے کہ تھا وہ عرب اور جنگ حنین کا واقعہ بیان کر رہا ہے.اور یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ ہیں.جنگ حنین میں چونکہ بہت سے نئے آنے والے بھی شامل ہو گئے تھے بلکہ ان کی کثرت تھی اس وجہ سے سارے صحابہ اُن سب کو جانتے نہیں تھے.تو کہتے ہیں کہ ایک عرب نے ان سے ذکر صلى الله کیا کہ جنگ حنین میں بھیڑ کی وجہ سے اس کا پاؤں آنحضور ﷺ کے پاؤں پر جا پڑا.سخت قسم کی چپلی جو کہتا ہے میں نے پہن رکھی تھی.اس کی وجہ سے آنحضور ﷺ کا پاؤں کچلا گیا اور سخت زخمی ہو گیا.حضور نے نے تکلیف کی وجہ سے بے اختیار ہلکا سا کوڑا مارا اور کہا بسم اللہ تم نے میرا پاؤں زخمی کر دیا ہے اور وہ جو کوڑا کا اٹھانا اور مارنا یہ صرف ایک علامتی بے ساختہ اظہار ہوتا ہے.بعض دفعہ انسان ہاتھ سے دھکیلتا ہے ، بعض دفعہ چھڑی سے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن کہا کہ بسم اللہ تم نے میرا پاؤں زخمی کر دیا ہے.کہتے ہیں مجھے اس سے بڑی ندامت ہوئی.ایسی ندامت کہ ساری رات میں سخت بے چین رہا کہ ہائے مجھ سے یہ کیا غلطی ہوئی.صبح ہوئی تو کسی نے آواز دی کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمہیں بلا رہے ہیں.کہتے ہیں مجھے اور گھبراہٹ ہوگئی کہ کل کی غلطی کی وجہ سے میری شامت آئی.اب آنحضور ﷺ مجھ سے ناراضگی کا اظہار فرما ئیں گے.بہر حال حکم تھا میں حاضر ہوا تو حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ کل تو نے میرا پاؤں کچلا تھا اس وقت میں نے تمہیں ایک ہلکا سا کوڑا مارا تھا مجھے اس کا بہت افسوس ہے.اس کے بدلے یہ اسی (80) بکریاں تمہیں دے رہا ہوں یہ لے لو اور جو تمہیں تکلیف پہنچی ہے اسکو دل سے نکال دو.(حدیقۃ الصالحین : 32) کہتے ہیں میں حیران رہ گیا کہ یہ کیا واقعہ ہے، کیسا

Page 929

خطبات طاہر جلد 13 صلى الله.923 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 / دسمبر 1994ء محمد رسول ہے کیسا آقا ہے، میں بے چین رہا ہوں ساری رات کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دکھ پہنچایا ہے اور محمد رسول اللہ ہے رات اس بے چینی میں گزارتے ہیں کہ جو بے اختیا رتھوڑا سا بدلہ مجھ سے لیا گیا اس سے مجھے تکلیف پہنچی ہے اور پھر اسی (80) بکریاں دے کر فرمانا کہ اپنے دل سے اس واقعہ کو نکال دو اس سے پتا چلتا ہے کہ اس مقدس دل میں مسلمانوں کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے کتنی رحمت تھی ، کیسی رافت تھی.صلى الله جب میں اس بد بخت دنیا پر غور کرتا ہوں جو محمدرسول اللہ ﷺ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں جنہوں نے تمام دنیا کو ایک دوسرے کی زبان کے طعنوں سے بچایا.جب میں ان لوگوں کے حالات دیکھتا ہوں جو محمدرسول اللہ ﷺ پر ظلم کے چرکے لگا کر گندے الزام لگا کر تمام دنیا میں محمد رسول اللہ ﷺ کے عشاق کے دل دکھاتے ہیں تو میں ان کو حیرت سے دیکھتا ہوں کہ ان کو کیا پتا کہ کیا کر رہے ہیں جس نے تمام بنی نوع انسان کی عزت کی حفاظت فرمائی ، جس نے ہر حرمت کے لئے ہمارے دلوں میں احساس جگائے کہ تمہارے بھائی کی حرمت تمہاری حرمت ہے.اس پر یہ لوگ اپنی بدنصیبی اور بد بختی سے ایسی ایسی بیبا کیاں اور ایسی ایسی جراتیں کرتے ہیں اور جو ادنی سی بھی تکلیف پہنچانے کا سزاوار صلى الله نہیں تھا، جو برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اس سے کسی کو تکلیف پہنچے آج تک اس رسول ﷺ کا پیچھا یہ ظالم نہیں چھوڑ رہے اور ہر طرح سے ان کو، آپ کو اور آپ کی امت کو تکلیف پہنچانے پر بضد ہیں اور مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر بھی دل ٹھنڈے نہیں پڑتے.کہاں وہ جس نے راتیں ان کی خاطر جاگ کے کاٹیں کہ ان کو تکلیف نہ پہنچے ، کہاں یہ کہ جنہوں نے زمانے صرف کر دیئے آپ کو تکلیفیں پہنچانے میں.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ انہی قوموں کے متعلق ، جن کا ذکر میں کر رہا ہوں، جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی قو میں ہیں، ان کے متعلق جب قرآن کریم میں بتایا گیا کہ تیرا جو انہوں نے انکار کر دیا ہے اس کے نتیجے میں آخر ان پر عذاب نازل ہوگا اور ان کو سزا دی جائے گی تو یہ سن کر محمد رسول اللہ کی جو دل کی کیفیت تھی اس کو قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِينَ کہ اے محمد تیرے انکار کی وجہ سے جو سزائیں مقدر ہیں ان سے تجھے اتنی تکلیف پہنچی ہے کہ کیا تو ان کے غم میں اپنی جان کو ہلاک کر لے گا اور یہ جو قرآن کا

Page 930

خطبات طاہر جلد 13 924 خطبه جمعه فرموده 2 رو نمبر 1994ء دعوی ہے یہ محض ایک فرضی بات نہیں ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے واقعات جو میں آپ کے صلى الله سامنے پڑھ کر سنا رہا ہوں ، یہ سارے واقعات گواہ ہیں ، ایک ایک لفظ ان کا گواہ ہے کہ آنحضور علیہ ایسا ہی دل سینے میں رکھتے تھے ، اپنوں کے لئے بے چین ہونے والا ، غیروں کی تکلیف سے بھی دکھ اٹھانے والا ، یہاں تک دشمنوں کی تکلیف کے تصور سے بھی آپ کی زندگی آپ کے سینے میں ایسی اجیرن ہو جاتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہلاکت کا لفظ استعمال فرمایا.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ کیا تو اپنی جان کو ان دشمنوں کے غم میں ہلاک کر دیگا.آنحضرت ﷺ کی روز مرہ زندگی کا دستور یہ تھا یہ دستور آج بھی ہمیں اپنانا ہے، آج بھی اسی قسم کے گھر یلو تعلقات کو قائم کرنا ہے تب ہم دنیا میں ایک جنتی معاشرہ دینے کے اہل ہوں گے یا کم سے کم اس کا دعوی کرنے کے مستحق تو سمجھے جائیں گے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی سادہ تھی آپ کسی کام میں عار نہیں سمجھتے تھے.اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے ، گھر کے کام کاج کرتے ، اپنی جو نتیوں کی مرمت کر لیتے ، کپڑے کے پیوند لگاتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے.خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے.آٹا پیتے پیتے اگر وہ تھک جاتا تو آپ اس کی مدد فرماتے ، بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے، امیر وغریب ہر ایک سے مصافحہ کرتے ،سلام میں پہل کرتے ، اگر کوئی معمولی کھجوروں کی بھی دعوت دیتا تو آپ اسے حقیر نہ سمجھتے.آپ نہایت ہمدرد، نرم مزاج اور حلیم الطبع تھے.آپ کا رہن سہن بڑا صاف ستھرا تھا ، بشاشت سے پیش آتے تقسم آپ کے چہرے پر جھلکتار ہوتا.آپ زور سے قہقہ نہیں لگایا کرتے تھے کبھی ہنسی آئے اور قہقہہ نکے تو ہاتھ رکھ لیتے تھے یا پگڑی کے شملے سے اپنے منہ کو ڈھانپ لیتے تھے.تقسم آپ کے چہرے پر ہمیشہ کھیلتا رہتا تھا.خدا کے خوف سے فکر مند رہتے لیکن ترش روئی اور خشکی نام کونہ تھی ہمنکسر المزاج تھے، اس میں کسی کمزوری، پست ہمتی کا شائبہ تک نہ تھا، بڑے سخی لیکن بے جا خرچ کرنے سے ہمیشہ بیچنے والے، نرم دل ، رحیم و کریم، ہر مسلمان سے مہربانی سے پیش آنے والے یعنی بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ تھے.اتنا پیٹ بھر کر نہ کھاتے تھے کہ ڈکار ہی لیتے رہیں نعوذ باللہ من ذالک کبھی حرص وطمع کے جذبے سے ہاتھ نہ

Page 931

خطبات طاہر جلد 13 925 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 / دسمبر 1994ء بڑھاتے بلکہ صابر وشاکر اور کم پر قانع رہنے والے تھے.(اسد الغابہ حدیقۃ الصالحین: 37) یہ وہ تصویر ہے جسے ہمیں اپنی زندگیوں میں دوام بخشتا ہے.ان سب باتوں میں ویسے نہ سہی کچھ نہ کچھ تو ایک، دو، چار قدم ان سمتوں میں آگے بڑھائیں.اگر ہم اس کی تھوڑی سی بھی نقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ حسن اتنا قوی ہے، اتنا طاقتور ہے کہ اس کی تھوڑی سے جھلک بھی دنیا کو مغلوب کرنے کے لیے کافی ہے.پس آج جبکہ دعوت الی اللہ کا دور ہے جب خدا کے فضل سے آسمان سے ایسے سامان اتر رہے ہیں، ایسی ہوائیں چل رہی ہیں کہ تھوڑے کئے پر بھی بے شمار پھل ملنے لگے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے پھل خدا نے پہلے سے لگا رکھے تھے ہم درختوں کو ہلانا بھی نہیں جانتے تھے.اب ہلاتے ہیں تو پھل گرتے ہیں.پس ایسی صورت میں یہ پھل ان پاک جھولیوں میں گرنے چاہئیں جن کے وہ لائق ہوں.وہ ان کی حفاظت کر سکیں ، ان کی خوبیوں کو دوام بخش سکیں.ایسے پھل نہ ہوں کہ جو آئیں اور ہماری غفلتوں سے ضائع ہو جائیں.پس ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے، محنت کرنی ہے، ان ہواؤں کے رخ پر چلنا ہے جو آسمان کے حکم سے چلی ہیں.اللہ ہمیں اسکی تو فیق عطا فرمائے اور اس غلبہ اسلام میں آپ کا حسن خلق ہے جو سب سے بڑا کردار ادا کرے گا.کوئی دلیل، کوئی علم اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا.محمد رسول اللہ اللہ کے خلق لے کر چلیں تو فتح آپ کے قدم چومے گی.قلعے آپ کے لئے دروازے کھول دیں گے، تمام دنیا کی فتح کا راز حسن محمد مصطفی ہے ہے.یہ وہ کنجی ہے جس سے ہر تالا کھل جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 932

926 خطبات طاہر جلد 13

Page 933

خطبات طاہر جلد 13 927 خطبہ جمعہ فرموده 9 دسمبر 1994ء اصلاح معاشرہ سب سے ضروری ہے.اعلیٰ حسین اخلاق ہی معاشرے کا حسن ہیں.(خطبه جمعه فرموده 9 دسمبر 1994ء بمقام مسجد فضل لندن برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ کے ارشادات کی روشنی میں جماعت کی تربیت کی جو میں کوشش کر رہا ہوں اسی سلسلے کا آج کا خطبہ بھی ہے اور بعض احادیث کے حوالے سے معاشرے میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کی سعی کی جائے گی.اللہ دلوں کو توفیق بخشے کہ ان عظیم نصائح کو جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے سینے میں پھوٹیں اور پہلے اس سے نور بن کر آسمان سے اتری تھیں.ان نصائح کی روشنی میں اپنے سینوں کی ظلمات کو دور کرسکیں.یہ جنگ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے اور قرآن کریم اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتا ہے جہاں فرمایا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ وہاں یہ مضمون ہے کہ جب صداقت کی روشنی آتی ہے تو جھوٹ کے اندھیرے بھاگ جاتے ہیں.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ان اندھیروں کے مقدر میں بھاگنے کے سوا ہے ہی کچھ نہیں.لیکن اندھیرے موجود ہیں نور آ جائے تو سوال یہ ہے کہ جھوٹا کون ہے؟ وہ سینے جھوٹے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے نور مصطفوی کو سینے میں داخل تو کیا تھا مگر اندھیرے باقی رہے.لا زم وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے اندر قرآن کی نصائح داخل ہوئیں ، حدیث کی نصائح داخل ہوئیں اور پھر بھی وہ اسی طرح کے اسی طرح رہے جیسے پہلے تھے.پس اصل میں وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ والى

Page 934

خطبات طاہر جلد 13 928 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 دسمبر 1994ء بات سچی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں دل اندھے ہوتے ہیں.روشن آنکھ بظاہر دیکھتی رہتی ہے لیکن اس روشنی کا مفہوم دل کو سمجھ نہیں آتا.پس اندھے دلوں کے اندھیرے زائل اور باطل نہیں ہوا کرتے وہ اسی طرح باقی رہتے ہیں.پس اگر دل کو درست نہیں کریں گے تو ان نصائح کا کچھ بھی فائدہ نہیں.اندھے دلوں پر یہ نصایح پڑتی ہیں لیکن روشنی نہیں پہنچا تیں اور بظا ہر آنکھ دیکھ بھی رہی ہے صاحب عقل، صاحب شعور لوگ دکھائی دیتے ہیں تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں ان میں سے ، بے تعلیم بھی لیکن سمجھ دار اور پھر بھی نصیحت سنتے ہیں اور اثر نہیں پڑتا.تو ان کی بات میں کر رہا ہوں ان کے لئے ہمیں دعا بھی کرنی چاہئے اور سمجھانے کی اس طرح کوشش کرنی چاہئے جیسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کے کسی کو جگایا جارہا ہو.تعجب ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اتنی مرتبہ نصائح کی جاتی ہیں.بعض دفعہ بعض جماعتوں کو مخاطب کر کے کہ دیکھیں آپ میں یہ کمزوری ہے ٹھیک کریں ورنہ آپ کا ایمان ضائع ہو جائے گا اور آپ کو جو خدا نے توفیق دی ماحول میں تبدیلی پیدا کرنے کی ، اس سے محروم رہیں گے اور ان لوگوں کا گناہ بھی آپ کے سر ہوگا جو آپ کے اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے احمدیت کے فیض سے محروم رہ گئے.بہت لوگ سنتے ہیں اور عمل کرتے ہیں.کچھ ایسے ہیں جو گانٹھوں کی طرح پڑے رہتے ہیں، کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.اس وقت قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم سمجھ آتا ہے کہ آنکھیں اندھیں نہیں ہوا کرتیں ، دل اندھے ہو جاتے ہیں.پس اللہ ہی ہے جواند ھے دلوں کو بھی توفیق بخش سکتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھیں وہ دل کی آنکھ سے بھی دیکھ رہے ہوں اور جب دل کی آنکھ سے محمد مصطفی میلے کے نور کو دیکھیں تو لازماً انسانی دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.حضرت محمد رسول اللہ اللہ نے قرض سے متعلق بھی مختلف پہلوؤں سے نصیحت فرمائی ہے.اب بہت سے جھگڑے ایسے ہیں جن کا قرضوں سے تعلق ہے اور قرضوں کا جو معاملہ ہے وہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ نیتیں لکھی نہیں جاتیں اور ہر شخص اپنی نیتوں کو مختلف بیان کرتا ہے.مثلاً بعض لوگ کہتے ہیں اس نے ہم سے قرض لیا تھا وہ واپس نہیں کر رہا اور جب بات ٹولی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے اس قرض کے ساتھ منافع کے نام پر کچھ سود بھی وابستہ تھا اور جب سود ساتھ شامل ہو گیا تو اس کو قرض کہنا ہی نا جائز ہے.یہ تو فاسد سودا ہے اور پھر جب تحقیق مزید کی جاتی ہے تو بعض دفعہ پتا چلتا ہے کہ تین لاکھ قرض لیا تھا ، پینتالیس ہزار واپس کر بیٹھا ہے، مطالبہ تین لاکھ اور کچھ اور کا

Page 935

خطبات طاہر جلد 13 929 خطبہ جمعہ فرمود و 9 / دسمبر 1994ء ابھی باقی ہے کیونکہ وہ در حقیقت منافع کے نام پر سود خوری تھی.اگر اس کو واقعہ دیانت داری سے تجارتی قرضہ سمجھتے تھے یا سمجھتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ نکلے گا کہ وہ شخص جو تقریبا کنگال ہوا بیٹھا ہے وہ ان کا دیندار ہی نہیں بنے گا کیونکہ تجارت کے معاملات اور ہیں اور سود کے معاملات اور ہیں.اگر آپ منافع کہنے پر مصر ہیں تو جس شخص کے پاس اپنی رقم منافع اور تجارت کے لئے لگائی تھی اگر اس کا مال ڈوب گیا ہے تو آپ کا بھی ڈوب گیا ہے، وہ الگ او پر کھڑا نہیں رہا اس کے ساتھ ہی ڈوبا ہے وہ بھی، اس لئے وہ دین دار ہی نہیں بنتا.اسی لئے دونوں طرف پاؤں رکھنے کی کوشش کر کے اپنی دیانتداری کے حوالوں کے ساتھ ہم نے بڑی محنت سے حق حلال کی کمائی کی تھی ہماری جو یہ شخص ظالم لے کے بیٹھ گیا ہے.تو ظالم سے پوچھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اتناوہ سود دے بیٹھا ہے منافع کے نام پر اور ابھی پوری رقم اور اس کے اوپر مطالبے جاری ہیں.تو میں ایسے لوگوں کو کہا کرتا ہوں کہ قضاء میں جاؤ اور قضاء سے فیصلہ کرواؤ کہ یہ کیا چیز تھی.اگر تم مصر ہو کہ یہ تجارت تھی تو لاز ما تمہیں اس نقصان میں شریک ہونا پڑے گا جس کو تم کہتے ہو اس نے قرض لیا تھا کیونکہ پھر تجارتی قرضے میں نفع نقصان کا انسان ذمہ دار ہوتا ہے اور اگر یہ سود تھا تو یہ حرام کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ تمہیں اصل زر دلوایا جاسکتا ہے لیکن چونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اصل زر تک معاملہ پھر رہے گا اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا.لیکن جس کو تم نے منافع کے نام پر لیا تھاوہ اصل زر کی واپسی شمار ہوگی.تو اس قسم کے جھگڑے جو نیتوں کی خرابیوں سے تعلق رکھتے ہیں تحریر میں نہیں آرہے ہوتے ان سے بہت نقصان پہنچے ہیں اور جہاں تک عام روز مرہ کا دستور ہے جس شخص میں قرض کی ادائیگی کی توفیق ہے اسے ضرور قرض ادا کرنا چاہئے اور لیت ولعل کرنا اور ٹالنا یہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے اور اس سے ساری سوسائٹی میں ضرورت مند مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ یہ سوسائٹی کا اعتماد ہے جس کے نتیجے میں معاملات میں سہولت پیدا ہوتی ہے.اگر ایک سوسائٹی کے متعلق یقین ہے کہ یہاں قرضے واپس کئے جائیں گے، حسب توفیق واپس کئے جائیں گے اور سوسائٹی کا نام نیک ہو جائے تو پھر بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ غریبوں کی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں اور وہ ضرور واپس کرتے ہیں اور اس میں امارت اور غربت کا فرق نہیں ہے، دل کی شرافت کا فرق ہے.بعض ایسے غریب لوگ ہیں اور ایسی غریب تو میں ہیں جن کا بمشکل گزارہ ہورہا ہوتا ہے

Page 936

خطبات طاہر جلد 13 930 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 / دسمبر 1994ء لیکن جب بھی ان کو قرضہ دیا جاتا ہے ان میں سے کسی کو ، وہ اپنے وعدے کے مطابق واپس کرتے ہیں خواہ ان کو اپنی تجارت بیچنی پڑے.اب غانا کا معاملہ ہے ابھی دو دن ہوئے ہیں میرے پاس ایک معاملہ پیش ہوا غانا اور بعض غریب افریقن ملکوں میں ہم نے یہ سکیم شروع کی ہوئی ہے کہ جن لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے ان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے تجارتی قرضہ دیتے ہیں اور سہولت دیتے ہیں کہ اپنی مرضی بتاؤ کہ کب تک واپس کر سکو گے.تو ایک شخص جس کو قرضہ دیا گیا تھا اس کی مدت واپسی کی آگئی اس نے ایک ایک پائی واپس کی لیکن ساتھ یہ لکھا کہ میں نے واپس کر دیا ہے لیکن میری تجارت کو یہ روپیہ نکالنے کی وجہ سے ایسا دھکا لگا ہے کہ پھر مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہو گیا ہے.تو میں نے اسی وقت ان کو وہ سہولت دوبارہ دلوادی کیونکہ جو شرافت ہے یہ جب بولتی ہے تو اثر رکھتی ہے.ایک دیانت دار کی بات میں بڑی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اگر وہ نہ دیتا اور ٹالتا رہتا جیسا کہ ہمارے ملک میں اکثر پاکستان میں خصوصیت سے اور ہندوستان میں بھی عموماً یہ بات پائی جاتی ہے ، ہندوستان میں عموماً میں نے اس لئے کہا ہے کہ مجھے ذاتی طور پر علم ہے لیکن پاکستان تو میں جانتا ہوں کہ قرضہ لیا واپسی کی نوبت ہی نہیں آرہی.صاحب توفیق بھی ہے تب بھی نہیں دے رہا اور اگر توفیق نہیں ہے تو پھر بھی ٹالتا ہے وقت کے اوپر آکر ذمہ داری کا نمونہ نہیں دکھا تا بلکہ اچھا جی آج نہیں کل دے دیں گے.کل نہیں تو پرسوں دے دیں گے اور جو ٹالتا ہے اس میں جھوٹ ہوتا ہے.اگر ٹالنے میں مجبوری ہو تو وہ ٹالنا قابل برداشت ہے لیکن جس ٹالنے میں پتا ہے کہ میں نے نہیں دینا اس میں وہ پھیرے ڈلوانے والی بات ہے اور وہ حسن جس بے چارے نے اپنی ضرورت کاٹ کر یا زائد میں سے کچھ رقم ایک دفعہ دے دی وہ ایسا اس کی نظر میں برا بن جاتا ہے کہ وہ گویا اس پر ظلم کرنے آ رہا ہے.جب اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو اس کو آگے سے پھر سختی سے جواب ملتا ہے، میرا پیچھا چھوڑ وہ نہیں ہیں،اس وقت میں نہیں دے سکتا.تو بد تمیزیاں بھی ساتھ شروع ہو جاتی ہیں.تو چھوٹے چھوٹے معاملات میں اگر نیتیں گندی ہوں تو ساری سوسائٹی کے معاملات گند سے بھر جاتے ہیں تعفن پیدا ہو جاتا ہے، ان میں بد بو پیدا ہو جاتی ہے.بعض دفعہ اسی بناء پر لڑائیاں بڑھیں اور بہت بڑھ گئیں اور مارکٹائیاں بھی ہوئیں کہ ایک شخص غریب نے قرضہ دے دیا تھا کسی کو ، وہ مطالبے کے لئے جاتا رہا یہاں تک کہ اسکے بچوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کو ز و دوکوب کیا کہ تم ہوتے کون ہو ہمیں تنگ کرنے والے.

Page 937

خطبات طاہر جلد 13 931 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 دسمبر 1994ء آنحضرت ﷺ نے جو قرض کے معاملے میں اپنی سنت قائم فرمائی ہے اور نصیحتیں فرمائی ہیں وہ اتنی واضح ہیں کہ ان کے بعد سوسائٹی میں کسی قسم کے قرض سے تعلق رکھنے والے دیکھ کے باقی رہنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.اسی سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا، استطاعت رکھنے والے کا جب کہ سب کچھ موجود ہو قرض ادا نہ کرنا اور ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہے.جب تم میں سے کسی کا قرض کسی دولت مند کے ذمے لگایا جائے اور اس بات کو مان لے کہ قرض ادا کر دے گا تو قرض خواہ کو اس کی سپردگی اور حوالگی مان لینی چاہئے اور بے جا ضد نہیں کرنی چاہئے.( بخاری کتاب الحوالہ حدیث نمبر : 2125) اس میں دو باتیں ہیں اول یہ کہ اگر تمہارے پاس توفیق ہے تو پھر لازما دو ورنہ تم ظالموں میں شمار ہو گے اور اگر توفیق نہیں ہے تو کوشش کرو کہ کوئی ایسا شخص جو متمول ہو اور جس کو تم پر اعتماد ہو وہ ذمہ داری قبول کر لے اور قرض خواہ کو یہ نصیحت فرما دی گئی ہے اس صورت میں کہ اگر وہ ذمہ داری قبول کر لیتا ہے تو تم مان لیا کرو پھر اور تنگی نہ ڈالا کرو.الله ایسے موقع پر آنحضرت ﷺ کا خود اسوہ یہی تھا کہ ایک دفعہ مثلاً ایک یہودی نے آکر بہت سختی کی اور سخت کلامی کی یہاں تک کہا کہ آپ کے خاندان کا یہی پرانا طریق ہے کہ قرض لیتے ہیں واپس نہیں کرتے ، اور خاندانی طعن آمیزی جو ہے آج کل بھی جاری ہے، پرانے زمانے میں بھی یہود کیا کرتے تھے اور حدیثوں میں رواج موجود ہے کہ ایسے موقع پر قرض خواہ پھر تنگ کرتا ہے اور گستاخی کرتا ہے لیکن ایسے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت غصہ آیا.وہ موجود تھے اور انہوں نے تلوار پر ہاتھ ڈالا کہ ایسا بد تمیز اور بداخلاق جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق زبان کھول رہا ہے تو آپ نے فرمایا عمر انہیں یہ نہ کرو تمہیں یہ کرنا چاہئے تھا کہ مجھے حسن ادا ئیگی کی نصیحت کرتے اور اس کو حسن طلب کا سلیقہ سکھاتے.(حدیقۃ الصالحین صفحہ: 668).کیسا پیارا کلام ہے.حضرت محمد رسول صلى الله اللہ ہے جو سب دنیا کو دونوں باتیں سکھانے کے لئے آئے تھے بجز اور انکسار کا یہ عالم ہے اور اصل میں ہمیں سکھانے کی خاطر حضرت عمر سے کہتے ہیں کہ مجھے نصیحت کرتے اور اس موقع پر جائز تھا کہ کوئی حرج نہیں.مجھے کہتے کہ یار رسول اللہ وقت کے اوپر دینا آپ ہی کی تعلیم ہے خدا نے آپ کو عطا کی ہے اور خود کہہ کر یہ نصیحت مانگنا بتاتا ہے کہ ایک ادنیٰ بھی آنحضور ﷺ کی طبیعت پر یہ گراں نہ گزرتا.

Page 938

خطبات طاہر جلد 13 932 خطبہ جمعہ فرمود و 9 / دسمبر 1994ء مگر صحابہ کا ادب تقاضا کرتا تھا کہ جن سے سیکھتے ہو ان کو سکھانے کی کوشش تو نہ کر و کم سے کم.تو دوسرے لفظوں میں جو بات آنحضور نے نہیں بتائی وہ حضرت عمر اور دیگر صحابہ سمجھتے تھے لیکن جہاں تک طلب فرمائی کرنے والے کا تعلق ہے اس کو نصیحت کرنا یہ جائز ہی نہیں تھا بلکہ ضروری تھا کہ اس سے کہا جاتا کہ دیکھو تم نے مطالبہ کیا ہے تمہارا مطالبہ پورا ہوگا لیکن یہ باتیں بنانا جائز نہیں لیکن اس نصیحت کے بعد آنحضرت ﷺ نے ایک ضامن وہیں سے لیا یہ نہیں فرمایا کہ یہ بعد میں دے گا فرمایا جاؤ اس کو ابھی دو اور جتنا حق ہے اس سے زیادہ دو.اب یہ بھی ایک نیا اسلوب داخل فرما دیا قرض لینے اور دینے کے معاملات میں کہ باوجود اسکے کہ گستاخی کر رہا تھا اس کے ساتھ کوئی سختی نہیں فرمائی بلکہ اس کو اور زیادہ دینے کی نصیحت فرمائی اور کہا یہ سچ کہتا ہے جو وقت تھا اس سے کچھ اوپر گز ر گیا ہے.پس اگر توفیق نہیں ہے تو تب ایسے لوگ جن سے تمہارے تعلقات ہیں، جن کو تم پر اعتماد ہے وہ ایسے موقع پر مدد کر سکتے ہیں اور فرمایا کہ جو قرض طلب کرنے والا ہے اگر ایسے موقع پر کوئی ضامن پیش کیا جائے خواہ وہ فوری ادا ئیگی نہ بھی کر سکے تو قرض کے طلب کرنے والے کے اوپر مناسب یہی ہے کہ وہ سہولت دے.پھر ایک موقع پر فرمایا کہ اگر تم تنگی دیکھتے ہو تو ضامن کے بغیر بھی ویسے ہی سہولت دے دیا کرو.اگر کوئی شخص قرض لے بیٹھا ہے اور مشکل میں مبتلا ہے تو مطالبہ کرنے میں بھی سختی نہ کرو.تو ایک طرف ادائیگی کرنے والے پر ذمے داری ڈالی کہ اگر تمہیں توفیق ہے تو لا ز ما ادا کرو.دوسری طرف مطالبہ کرنے والوں کو ادب سکھایا کہ ایسے موقع پر مطالبے میں سختی نہیں کرنی چاہئے بلکہ جہاں تک ممکن ہے ڈھیل دینے کی کوشش کرو.یہ باتیں اگر ایک سوسائٹی میں داخل ہو جائیں تو لازماً ضرورت مند کی جائز ضرورتیں قرضوں کے ذریعے پوری ہو سکتی ہیں اور قرضہ والے کو بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی بلکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی با اخلاق انسان نے جتنا قرضہ لیا ہے اس سے بھی زیادہ واپس کر دے اور کسی سود کی کوئی ضرورت نہیں ہے.سوسائٹی کے آپس کے معاملات آسان ہو جاتے ہیں جیسے کسی مشین کو Lubricate کر دیا ہوا چھی طرح اس میں مناسب تیل دے دیا جائے تو کل پرزے چلتے ہیں لیکن آواز تک نہیں آتی لیکن اگر یہ Lubrication کا انتظام نہ ہوتو چیخوں کی آوازیں ،شور کی آوازیں ، کھٹا کھٹ کی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں ،مشینیں گرم ہو جاتی ہیں گرم ہو کے Jam ہو جاتی ہیں.تو سوسائٹی کا بھی یہی حال ہے وہ بھی بداخلاقیوں سے گرم ہوتی ہیں،شور

Page 939

خطبات طاہر جلد 13 933 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 دسمبر 1994ء اور چیخوں کی آواز میں ان سے پیدا ہوتی ہیں اور پھر ایک موقع پر آکر ان کے معاملات رک جاتے ہیں اور روزمرہ کی ضرورت کی چیزیں پوری نہیں ہو سکتی اقتصادی مشین کے پیسے چلتے چلتے Jam ہو جاتے ہیں.جام ہونا اردو محاورہ ہے انگریزی میں "جیم ہو گئے لیکن اردو میں جام لفظ چلتا ہے آج کل.وہ جام ہو گئے یعنی پکڑے گئے خشکی کی وجہ سے ایک دوسرے سے رگڑ کھا کر اب ان میں چلنے کی طاقت نہیں رہی کیونکہ پھر وہ سوج بھی جاتے ہیں، ان میں بعض ذرات اٹک جاتے ہیں تو واقعہ وہ مشین پھر چلنے کے لائق نہیں رہتی.پھر اس سے ساری قوم کو اقتصادی نقصان پہنچتا ہے.جن دنوں میں یہ اعتماد اونچا ہو قو م کا ان دنوں میں ساری قوم کی تجارت ترقی کرتی ہے.حضرت ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ آپ فقیہہ تھے اور فقہ کے مضمون میں جو آپ کو سر بلندی اور بلند مرتبہ نصیب ہوا اس میں کوئی فقیہہ آپ کا شریک نہیں ہے.سب دنیا میں سب سے زیادہ ہر دلعزیزی آپ کو عطا ہوئی لیکن اس کے باوجود ایسے بڑے تاجر تھے کہ اس زمانے کے لحاظ سے کروڑ باپتی تھی اور وجہ ان کی دیانت تھی صرف اور کچھ نہیں تھا.اس زمانے میں سوسائٹی میں دیانت ایک قدر تھی جس کی سب سے زیادہ قیمت پڑتی تھی اور دیانت واقعہ ایک قدر ہے جس کی بہت بڑی قیمت پڑتی ہے.ایسی سوسائٹی میں بھی جہاں ایسے بحران آجاتے ہیں کہ نوکریوں سے لوگوں کو باہر نکالا جاتا ہے.بسا اوقات بعض احمدی مجھے بتاتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ہمیں نکالا نہیں بلکہ ترقی دے دی اور وجہ یہ بتائی کہ تم دیانتدار ہو.ہم جانتے ہیں، ہمیں تم پراعتماد ہے.اس لئے زیادہ تعلیم یافتہ ، اپنے ہم رنگ، ہم نسل کو تو نکال دیا مگر ایک دوسری قوم سے تعلق رکھنے والے دیانتدار کو نہیں نکال سکے کیونکہ اپنا نقصان تھا.ایک موقع پر مجھے پتا لگا کہ ایک بہت امیر چنیوٹی خاندان ہے ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں احمدی کارکن مہیا کرو.تو مجھے انہوں نے خط لکھا کہ اس طرح ہم سے مطالبہ ہے ہم کریں یا نہ کریں.میں نے کہا ضرور کرو اور پتا بھی کرو کیا بات ہے.مجھے علم تھا کہ کیا ہوگی لیکن میں سننا چاہتا تھا تو انہوں نے اپنے منہ سے صاف اقرار کیا کہ بات یہ ہے کہ میرا تجربہ ہے جب جتنے احمدی کارکن میں نے رکھے ہیں وہ غیروں کی نسبت زیادہ دیانتدار ثابت ہوئے ہیں اس لئے میرا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ میری مجبوری ہے اور انگلستان میں بھی ایک ایسی جگہ ہے ، ایک ایسا ادارہ ہے جہاں احمدیوں کو صرف اس

Page 940

خطبات طاہر جلد 13 934 خطبه جمعه فرموده 9 دسمبر 1994ء غرض سے رکھا جا رہا ہے کہ باوجود دینی مخالفت کے اور بڑے بھاری دینی دباؤ کے وہ مالک سمجھتا ہے کہ یہ زیادہ دیانتدار ہیں ان پر میں اعتماد کر سکتا ہوں دوسروں پر ایسا اعتماد نہیں کرسکتا.تو دیانت سے بڑھ کر کوئی بڑا سرمایہ نہیں ہے اگر دیانت ہو تو بے پیسے کے بھی انسان کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور ایسے انسان پر دوسرا یقین کرتا ہے، اعتماد کرتا ہے اس کو سرمایہ دے کر آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے.لیکن اگر دیانت نہ ہو تو امیر سے امیر آدمی کا سرمایہ بھی اس کے کسی کام کا نہیں رہتا.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جہاں قرضوں کا مضمون بیان فرمایا وہاں قرضوں کی دیانت کی ادائیں بھی سکھائی ہیں.ہر دائرے کی اپنی اپنی ادائیں ہیں.قرضوں کے دائرے میں اخلاق اور حسن خلق کا مضمون قرضوں سے تعلق کی وساطت سے بیان کیا جاتا ہے.پس اس پہلو سے بھی آنحضرت ﷺ نے کوئی کو نہ ایسا چھوڑا نہیں جہاں آپ نے روشنی نہ ڈالی ہو.تو مسلمانوں کے لیے پھر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کا کیا موقع رہ جاتا ہے.اس کے باوجود اگر احمدیوں میں کوئی ایسے ہوں جو اندھیروں میں ٹکریں مارتے ہیں اور پھر نقصان پہنچاتے ہیں کہیں ان کا گھٹنا ٹوٹتا ہے کہیں وہ ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں تو نور مصطفوی کو انہوں نے اندر آنے نہیں دیا.یہ میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہے یہ نور اور اس سے اندھیرے لازماً زائل ہوتے ہیں.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ یہ نور سینے میں داخل ہو جائے اور پھر اندھیرے باقی رہ جائیں.لیکن سینے میں داخل کرو اور اگر دل اندھے ہیں تو پھر دلوں کا علاج کرو اور وہ استغفار اور دعا سے ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ میں معاملات ایسے صاف ستھرے، ایسی عمدگی سے چلنے چاہئیں جیسے مشین بہت اچھی طرح Lubricated ہواور ہر قسم کی اس کی حرکت کی ضرورتیں پوری کی جارہی ہوں، جتنا تیل چاہئے وہ تیل بھی مل رہا ہو ، جتنی طاقت درکار ہے وہ طاقت بھی مل رہی ہو تو ایسی سوسائٹی پھر خوب پنپتی ہے.اور چونکہ اب ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں ایسے احمدیوں کی ضرورت ہے جو زیادہ خوشحال اور دلوں کی وسعتیں رکھتے ہوں ، اعلیٰ دینی اخلاق سے مرصع ہو کر ان میں قربانی کا جذبہ ہو، قربانی کی تمنائیں ہوں تا کہ وقت کی بڑھتی ہوئی ضرورتیں جماعت احمد یہ آسانی سے پوری کر سکے.ہوتی تو ہیں اور ہوتی رہیں گی، مجھے یقین ہے لیکن وہ جو کمزور الگ بیٹھے ہیں وہ بھی شامل ہو جائیں گے لیکن اگر کوئی شخص ملتا ہے جو باوجود ان نصیحتوں کے اپنے قرضوں کے معاملات کو درست نہیں کرتا اور دیانتداری کو

Page 941

خطبات طاہر جلد 13 935 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 / دسمبر 1994ء اختیار نہیں کرتا یا مالی بددیانتی کا مرتکب وہ ہو جاتا ہے تو اس کے متعلق پھر مجھے مجبور آیہ فیصلہ دینا پڑتا ہے کہ اس سے آئندہ کوئی چندہ وصول نہیں کیا جائے گا اور یہ بڑی محرومی ہے.جن کو سمجھ آجاتی ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی دھکے کے نتیجہ میں سنبھل جاتے ہیں اور بعض اس دھکے کے نتیجے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں لیکن اس کے سوا چارہ نہیں ہے.پس جو قرضوں کے معاملات میں اور لین دین کے معاملات میں ابھی تک کمزوری دکھا رہے ہیں اور اپنے بھائی کے پیسے کی عزت اور قدر نہیں کرتے ان کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ اب ہم نے بہت تیز آگے بڑھنا ہے اور اب ان کو ساتھ لے کر بڑھنے کی طاقت نہیں ہے.نہ اتنا صبر ہے، نہ وقت کے تقاضے ہمیں اجازت دیں گے کہ ان کو ساتھ ساتھ انگلیاں پکڑ پکڑ کے ضرور آگے بڑھاؤ نہیں رہتے تو پھر الگ ہوجائیں ، ہمارا ساتھ چھوڑ دیں لیکن جماعت جس نے سفر کرنے ہیں اور لمبے سفر کرنے ہیں اور تیز رفتاری سے آگے منزلیں طے کرنی ہیں ان کو تو اب ہلکے پھلکے وزن والے چاہئیں جو اس قسم کے بوجھوں سے آزاد ہوں یعنی ان کے ضمیر پر کسی قسم کے گند کے بوجھ نہ ہوں تا کہ یکسوئی کے ساتھ وہ خدمت کر سکیں.حضرت سلیمان بن صردرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی قریب ہی جھگڑ رہے تھے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ تھا، رگیں پھولی ہوئی تھیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر وہ اس بات کو کہے تو اس کی یہ کیفیت جاتی رہے گی.یعنی اگر وہ کہے کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے اعوذ بالله من الشيطان الرجیم تو اس کا غصہ جاتا رہے گا.اس پر لوگوں نے اس جھگڑنے والے کو کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تو اعوذ بالله من الشيطان الرجیم پڑھے تو تیرا غصہ جاتا رہے صلى الله گا( بخاری کتاب بدء الخلق حدیث نمبر : 3040) اور آنحضرت ﷺ کا پیغام ملتے ہی صحابہ فورا سر تسلیم خم کرتے تھے اور اس طرح فساد کی جڑیں ہی ختم ہو جاتی تھیں یعنی نیست و نابود ہو جاتی تھیں.تو آج کل بھی تو آنحضرت ﷺ کا حکم اسی طرح چل رہا ہے.آج بھی تو ہم غلامی کے دعویدار ہیں تو پھر آج کیوں ان نصیحتوں کو سن کر ان پر عمل نہیں دکھاتے.غصہ بعض دفعہ دماغ کو پاگل کر دیتا ہے اور غصے میں جوانسان اقدام کر بیٹھتا ہے بعض دفعہ ساری عمر پچھتاتا ہے اور پھر بھی اس کا صحیح ازالہ نہیں کر سکتا.ایک دفعہ مجھے کسی نے لکھا کہ میں نے غصے میں اپنی ماں کو یہ بات کہہ دی تھی ، معافی ہوگئی

Page 942

خطبات طاہر جلد 13 936 خطبہ جمعہ فرمودہ9/دسمبر 1994ء مگر آج تک میرے دل میں اس کی جلن نہیں مٹ رہی.اپنی ماں کو میں نے کیوں ایسا کلمہ کہا.ایک دفعہ کسی نے اپنے باپ کے متعلق ایسا واقعہ لکھا اور پھر قتل بھی ہو جاتے ہیں لیکن غصے کی بیوقوفی کا جو داغ ہے وہ متا نہیں قتل تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن وہ داغ اپنے سینے سے نہیں مٹتا.پس آنحضرت ﷺ نے اس کا بہترین علاج یہ بیان فرمایا کہ یہ کہا کرو اعوذ بالله من الشيطان الرجیم کہ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان رجیم سے.تو غصے کو شیطان رجیم قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ غصے کی حالت میں بھاری امکان ہے کہ شیطان انسان پر قبضہ کرلے اور اس کا فعل شیطانی فعل بن جائے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.آنحضور ﷺ کو مانے یا نہ مانے.یہ بات تو دنیا کا ہر انسان مانے پر مجبور ہے کہ غصہ انسان کو شیطانی افعال پر مجبور کر دیتا ہے اور وہ اپنے قابو میں نہیں رہتا.تو بہت سے جھگڑے غصے کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں اور تو تکار شروع ہو جاتی ہے اور بہت سی گندی بے ہودہ باتیں آجاتی ہیں بیچ میں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پھر وہ ایسے داغ لگا جاتا ہے کہ وہ پھر مٹتے نہیں ہیں اور جھگڑوں میں غصے کے نقصان دو چار نہیں بلکہ بہت ہیں، لامحدود کہنا چاہئے جو افعال سرزد ہوتے ہیں ان کے بعد جو نتائج نکلتے ہیں ان میں پھر اکثر جھوٹ کے شیطان سے مدد مانگنی پڑتی ہے.وہ شیطان جو ایک دفعہ اتفاقاً تھوڑی دیر کے لیے آیا تھا وہ دائی ساتھی بن جاتا ہے.چنانچہ غصے کی حالت میں جو حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جب ان پر کارروائیاں ہوں تو پھر ا کثر یہ ملوث لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، جھوٹے گواہ بناتے ہیں، جھوٹے بہانے بناتے ہیں نفس ان کا الجھا رہتا ہے کہ اب میں کیا ترکیب کروں جس کے نتیجہ میں اپنے فعل کی زد سے بچ سکوں اور ساری سوسائٹی گندی ہو جاتی ہے.پھر غصے میں جو جھگڑا چلتا ہے اس میں اکیلا انسان نہیں رہا کرتا.ایسے واقعات ہوئے ہیں کسی باپ کی کسی دوسرے شخص سے لڑائی ہوئی ہے.بیٹا اٹھا ہے اور اس نے جاکے اس کے بیٹوں کو مارا یا اس کے باپ پر حملہ کیا اور پھر جتھے بنتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے گروہ در گروہ اپنی عزتوں کو معاملے بنا لیتے ہیں کہ ہم زیادہ طاقتور ہیں اور وہ کم تر ہے یا ہم زیادہ معزز لوگ ہیں اور وہ ذلیل ہیں.یعنی جو بھی ہو نفس کے جھگڑے ، نفسانی بچے دیتے ہیں اور یہ خیال کر لینا کہ نفس کا جھگڑ ا و ہیں ختم ہو جائے گا غلط ہے.نفسانی بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو کئی شیاطین اکٹھے ہو جاتے ہیں یعنی ایسے شیطان ہیں جو خود بچے دینے والے شیطان ہیں اور ان سے پھر پیچھا نہیں چھٹتا.بعض

Page 943

خطبات طاہر جلد 13 937 خطبه جمعه فرمود و 9 دسمبر 1994ء خاندانی جھگڑے لمبے عرصے تک نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں.ایسی جماعتیں ہیں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے بچالیا ہے جن کے جھگڑے اس طرح ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں منتقل ہوئے ، دوسری سے تیسری میں منتقل ہوئے اور خاندانوں نے اپنی عزت کا معاملہ بنالیا اور ہر نصیحت کرنے والا نا کام ہو جا تا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بچانا تھا ان کے آباؤ اجداد کی کوئی نیکیاں تھیں جو کام آئیں وہ بچ گئے لیکن بعض ابھی تک نہیں بچ سکے تو آنحضرت ﷺ نے جو اعوذ باللہ کی نصیحت فرمائی ہے یہ بیماری کی جڑ اکھیڑ نے والی نصیحت ہے.شیطان سے خدا کی پناہ میں آجانے سے یہ سارے قصے و ہیں ختم ہو جاتے ہیں آگے بات نہیں بڑھتی.موطا امام مالک سے ایک حدیث ہے حضرت عطا بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.مصافحہ کیا کرو اس سے بغض اور کینہ دور ہو جائے گا.(موطا امام مالک کتاب الجامع حدیث : 1413) اب ہمارے ہاں تو مصافحے کا بہت رواج ماشاء اللہ.لیکن بعض دفعہ یہ ہوتا ہے واقعہ کہ جس سے انسان کی طبیعت میں تردد ہو، اس کی طرف مصافحے کا ہاتھ نہیں اٹھتا.یہ ایک بہت گہری نصیحت ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس سوسائٹی کو نصیحت کی جارہی ہے جس سے نفاق کی کوئی توقع نہیں ہے.اگر منافق مصافحہ کرے تو یہ نتیجہ نکلے گا بلکہ بعض دفعہ اور بد نتائج ظاہر ہو جاتے ہیں.تو آنحضرت ﷺ نے جب فرمایا کہ مصافحہ کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں یا دلوں کی میل اترتی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی امت سے یہ توقع ہے بلکہ یقین ہے کہ وہ منافقت سے کوئی حرکت نہیں کریں گے.اگر کسی شخص کے دل پر میل ہے اور باوجود اس کے آپ مصافحہ کرتے ہیں تو طبعا دو ہی حالتیں ہو سکتی ہیں یا دل میں نفرت قائم رکھی ہوئی ہے تو یہ منافقت ہے اور یا پھر فیصلہ کرتے ہیں کوئی بات نہیں میرا بھائی ہے میں مصافحہ کرتا ہوں وہ مصافحہ دل کو ٹھنڈا کر دیتا ہے پس مصافحے میں بھی بڑی برکت ہے.اور دوسرا فر مایا اس سے آگے بڑھو تحفے دیا کرو، ایک دوسرے کو تحفے پیش کر و محبت بڑھے گی اور عداوتیں اور رنجشیں دور ہوں گی تو یہ بھی ایک بہت اچھا طریق ہے کہ تحائف کو رواج دیا جائے لیکن جب تحائف دیئے جائیں تو پھر آگے سے کیا سلوک ہونا چاہئے.یہ تو نہیں کہ چپ کر کے تھے وصول کرتے رہو اور سمجھو بس ٹھیک ہو گیا ، جزاکم اللہ.آنحضرت میہ نے ہر مضمون جو چھیڑا ہے اس کے

Page 944

خطبات طاہر جلد 13 938 خطبہ جمعہ فرمودہ 9/ دسمبر 1994ء تمام پہلو بیان فرمائے ہیں.فرماتے ہیں کسی شخص کو کوئی تحفہ دیا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کا بدلہ دے اگر وہ بدلہ دینے کی یعنی بعینہ واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا یا کسی وجہ سے مناسب نہیں سمجھتا.بعض دفعہ اگر ویسی ہی چیز واپس کی جائے تو دوسرے کی دل شکنی ہوتی ہے، بجائے حوصلہ افزائی کے.وہ سمجھتا ہے کہ میرا بدلہ اتار دیا گیا ہے.تو ہر شخص کے اعلیٰ مزاج یا نسبتا ادنی مزاج کے مطابق سلوک ہوتا ہے.بعض کو تحفہ دینا ان کے لئے دل بڑھانے کا موجب بنتا ہے بعض پر مُردہ ہو جاتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اچھا ہم تو بڑے پیار سے لائے تھے کہ کچھ ہمارا احساس رہے گا لیکن یہ دے کر ہماری وہ بات ختم کر دی تو ان کا بھی علاج ممکن ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ تعریف کے رنگ میں اس کا ذکر کرے،اس کا شکریہ ادا کرے، کہے بہت اچھا ہے.بہت لطف آیا، بہت میرے دل میں اس کے نتیجے میں تمہارا پیار بڑھا ہے.اگر اس نے ایسا کیا تو گویا اس نے شکر کا حق ادا کر دیا.تو بدلے سے مراد بالکل مادی بدلے نہیں ہیں جہاں تو فیق ہو وہ موقع اور محل کے مطابق فوری نہیں کسی وقت وہ بھی ضروری ہے لیکن اتنا کر دینا بھی اس نصیحت پر عمل درآمد کرنے کے مترادف ہے، اس کے عین مطابق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرمارہے ہیں.کہتے ہیں شکر یہ ایسے احسن رنگ میں ادا کرے کہ تحفے والے کا دل خوش ہو جائے یہی اصل بات ہے.تھنے کے نتیجے میں دلوں کی خوشی درکار ہوتی ہے وہی مقصود ہوتی ہے کہ اس کا دل اتنا خوش کر دو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ بدلہ اتر گیا ہے.بعض دفعہ میرا تجربہ ہے بعض لوگوں کو تحفہ دیا جائے تو اتنا زیادہ شکریہ کا اظہار کرتے ہیں کہ آدمی شرمندہ ہو جاتا ہے، یہ وہم بھی باقی نہیں رہتا کہ اس کے اوپر کچھ باقی چڑھا ہوا ہے انسان اس کے اظہار شکر کا ممنون ہو کر زیر بار ہو جاتا ہے.تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی انسانی فطرت پر بہت گہری نظر تھی اور ایک دنیا کے عظیم معلم کے طور پر لازم تھا کہ آپ کو فطرت کے گہرے راز سکھائے جائیں.پس ہر موقع اور محل کے مطابق، اس کی مناسبت سے نصیحت آپ نے فرمائی اور کوئی تعلیم اور تربیت کا پہلو باقی نہیں چھوڑا.فرماتے ہیں اگر کوئی اس کو چھپائے بلکہ ایسا کرے کہ تعریف کا کوئی کلمہ تک نہ منہ سے نکلے، تحفہ ملا ہے منہ بند کر کے، گنگ ہو کر کے بیٹھ گیا ہے.بعض لوگوں کے دماغ میں ہوتا ہے شاید کہ ہمارا

Page 945

خطبات طاہر جلد 13 939 خطبه جمعه فرموده 9 دسمبر 1994ء حق ہے کہ ہمیں تحفہ دیا جائے.تو فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر اس نے شکر کا حق ادا نہیں کیا اور یہ جو بات ہے اس میں بھی میں نے دیکھا ہے مزاج مختلف ہیں.بعض لوگ ایسا مزاج رکھتے ہیں کہ ان کو اگر شکریہ ادا کیا جائے تو شرمندہ ہو جاتے ہیں اور حجاب محسوس کرتے ہیں لیکن جو تشکر ہے وہ بعض دفعہ اپنے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے ، اپنے انداز سے ظاہر ہوتا ہے.آئندہ کے سلوک اور معاملات سے ظاہر ہوتا ہے تو وہ بھی اظہار تشکر ہے اور ہر شخص کی طبیعت کی لطافت اور اس کے مزاج کے مطابق شکریہ کا رنگ اختیار کرنا چاہیئے.جو اس بات کے محتاج ہیں کہ کھلم کھلا شکر یہ ادا کیا جائے لازماً ان کو کھلم کھلا شکر یہ ادا ہونا چاہئے.جن کے دلوں میں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی شخص ممنون ہے اور اس سے زیادہ وہ بار برداشت نہیں کر سکتے ان سے وہی سلوک ہونا چاہئے جو ایسے حساس لوگوں سے واجب ہے جو فطرت بتاتی ہے کہ ہونا چاہئے.ایک اور حدیث ہے، مسلم کتاب الفصائل سے لی گئی ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اشعری قبیلے کی خصوصیت بڑی قابل تعریف ہے.یہ ایک خصوصیت مراد ہے کہ جب جنگ میں ان کو تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے یا اپنے شہروں میں اچانک ایسی خوراک کی کمی واقع ہو جائے کہ کچھ لوگ بالکل بھو کے رہ رہے ہوں اور کچھ کے پاس زیادہ ہو تو ایسی صورت میں وہ ہمیشہ اپنے تمام ذخائر کو اکٹھا کر لیتے ہیں اور پھر برابر تقسیم کر دیتے ہیں.فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةِ (البلد :15 ) یه وه يَوْمٍ ذِى مَسْخَبَةِ کی بات ہو رہی ہے جس کے صلى الله متعلق قرآن کریم نے نصیحت فرمائی.رسول اللہ ﷺ نے ایک اور قبیلے کے حوالے سے اس کا بیان فرمایا لیکن ساتھ ہی آخر پر فرمایا دراصل ایسے ہی لوگ ہیں جو میرے ہیں اور میں ان کا ہوں.تو یہ کسی اور سے آپ نے سیکھا نہیں تھا مزاج.یہ آپ کے اتنے ہم مزاج بات تھی کہ بے ساختہ ایسے لوگوں سے تعلق اور پیار ہوا کہ یہ تو میرے جیسی سوچ سوچتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ یہی بات تھی ایک غزوہ کے موقع پر ملتا ہے کہ جہاں خوراک کی کمی محسوس ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے سب کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ جو کچھ جس کے پاس ہے وہ سب ہی لے آؤ.چنانچہ وہ سب اکٹھا کر دیا گیا اور پھر سب کو برابر تقسیم کر دیا گیا اور اس میں ایسی برکت پڑی کہ وہ سخت تنگی اور فاقے کا وقت تھا جو سب پر اچھا گزر گیا، آسانی سے وہ مشکل طے ہوگئی.

Page 946

خطبات طاہر جلد 13 940 خطبه جمعه فرموده 9 دسمبر 1994ء تو یہ دراصل آنحضرت ﷺ کا اپنا فعل تھا لیکن چونکہ قبیلے میں یہ بات پائی جاتی تھی اس لئے اس قبیلے کا حوالہ دے دیا، اس کی تعریف فرما دی اور یہ بھی بہت بڑے دل کی بات ہے.یہ آپ کی سخاوت قلبی کا پتا چلتا ہے امر واقعہ ہے کہ ان سے نہیں سیکھا تھا لیکن اس خیال سے کہ اگر میری طرف ہی بات رہے تو وہ بھی تو ایسا کرتے ہیں.ان کا ذکر خیر پھر کہاں چلے گا.تو ہمیشہ کے لئے ان کا ذکر خیر محفوظ فرما دیا یہ کہ کر کہ اس قبیلے میں یہ بڑی خوبی پائی جاتی ہے اور آخر پر اس طرح لطیف رنگ میں راز سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ جو ایسا کرے وہ میرا ہے، میں اس کا ہوں.وہ مجھ میں سے ہے میں اس میں سے ہوں.تو معلوم ہوا کہ یہ پہلے سے دل میں باتیں تھیں تبھی وہ قبیلہ اپناگا ہے اس سے سیکھی نہیں ہیں اور یہ ہے بہت اہم بات.بعض دفعہ قومی ضرورتوں میں ایسا کرنا پڑتا ہے اگر روز مرہ زندگی میں نہیں ہو سکتا تو بعض ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً جنگ کے حالات اور کسی وقت کوئی کرائسز آجاتا ہے تو ایسا کرنا پڑتا ہے اور اس کی بہت برکت ہوتی ہے.ایک دفعہ ربوہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی ترکیب کو استعمال فرمایا اور بہت لطف اٹھایا ہم نے.جلسے کے موقع پر ایک دفعہ نانبائیوں کا جھگڑا ہو گیا تھا یا کوئی مشکل پیش آگئی تھی تو پتا چلا کہ جتنے مہمان ہیں ان کی روٹیاں فی کس کے حساب سے جو فارمولا ہے اس کے مطابق روٹی نہیں دی جاسکتی تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ سارے ایک روٹی کھائیں گے آج.میں بھی کھاؤں گا میرے بچے بھی سارے ایک روٹی کھائیں گے اور مہمانوں نے بھی کہا ہم بھی سارے ایک روٹی کھائیں گے اور وہ روٹیاں اس دن کم ہونے کی بجائے اتنی بچ گئیں کہ رات کی زائد ضرورت بھی اس سے پوری ہوگئی.تو بہت برکت والی نصیحتیں ہیں یہ اور آج کل بھی جو ہمارے قومی مسائل ہیں ان کو حل کرنے میں بہت اہم کردار کر سکتی ہیں.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک دوسرے کے لئے بھی وہی چیز پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.یعنی اگر اپنے لئے آرام ، بھلائی چاہتا ہے تو دوسرے کے لئے بھی ایسا ہی چاہے.( بخاری کتاب الایمان ) میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ بعض احادیث میں مسلم کا لفظ آیا ہے اور اس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ گویا یہ اخلاق مسلمانوں کے مسلمانوں سے روابط ہی سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ایک مسلمان کے لئے یہ چاہنا

Page 947

خطبات طاہر جلد 13 941 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 دسمبر 1994ء چاہئے لیکن وہاں بھی میں نے وضاحت کی تھی کہ بہت سی ایسی احادیث ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایمان کی نشانی یہ ہے کہ ہر انسان سے ایسا سلوک کرے.تو مسلم کہہ کر جب فرمایا گیا ہے تو یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ کم سے کم اتنا کرو کہ اپنے بھائی جن کو تم بھائی کہتے ہو اور بھائی سمجھتے ہو ان سے تو ایسا سلوک کرو اگر ان سے نہیں کرو گے تو پھر غیروں سے کیسے کر سکو گے.یہ مراد نہیں ہے کہ کر کے بیٹھ جاؤ اور تسلی پالو کہ ہاں ہم نے حق ادا کر دیا.یہ سمجھانے کے انداز ہیں اور دوسری احادیث جو عام ہیں وہ ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ معنی بالکل درست ہے.چنانچہ یہ مومن والی حدیث بھی انہی احادیث میں سے ہے جن کا فیض عام ہے.یہ نہیں فرمایا کہ مومن وہ ہے جو دوسرے مومن کے ساتھ ایسا سلوک کرے.آپ نے فرمایا ہر ایک سے ایسا سلوک کرے وہی مومن ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو جو کچھ بھی اپنے لئے پسند چاہتا ہے ویسا ہی اس کے لئے چاہے.انسان اپنے لئے یہ تو نہیں چاہتا کہ کوئی آئے اور میری عزتوں سے کھیلے، کوئی آئے اور میرے مال سے کھیلے، میرے ساتھ ظلم کا سلوک کرے.پس اپنے نفس کے حوالے سے جو انسان چاہتا ہے اس کو اگر دوسرے کے لئے چاہے تو ساری سوسائٹی امن میں آجائے گی اور یہاں مومن امن دینے والا بھی ہے.یعنی مومن کے معنی ہیں ایمان لانے والا اور مومن کا دوسرا معنی ہے، امن دینے والا.اسی طرح مسلم کے معنے بھی حسب حالات بدلتے ہیں اور یہ گنجائش ان لفظوں میں موجود ہیں.تو فرمایا کہ اصل امن دینے والا دنیا کو وہ شخص ہے جو جیسا اپنے لئے چاہتا ہے ویسا ہی دوسرے اپنے بھائی کے لیے چاہے اور اپنے سکھ دکھ کو ان کے ساتھ بانٹے.ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابن ماجہ سے لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر حملہ کرتا ہے تو حملہ آور مسلمان نہیں رہتا) یہ تشریح کتر جمہ کرنے والے نے لکھی ہے الفاظ صرف یہ ہیں کہ من حمل علينا السلاح فليس منا (ابن ماجہ ابواب العدو) جو ہم پر ہتھیار اٹھاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.اس حدیث کو سمجھنے کے لئے بھی غور کرنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ پر مسلمان ہوتے ہوئے کون ہتھیار اٹھا سکتا تھا اور جو اٹھاتا تو آپ میں سے تھا ہی نہیں.تو یہ کہنے میں کیا حکمت ہے.اصل میں اس میں بہت سے معانی پوشیدہ ہیں.اول یہ ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے.مسلمانوں پر ایسا بد نصیب وقت آنے والا ہے کہ جبکہ خوارج نے مسلمانوں پر حملہ کرنا تھا اور ہتھیار

Page 948

خطبات طاہر جلد 13 942 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 دسمبر 1994ء لے کر نکلنا تھا اور ہم سے مراد محمد رسول اللہ اللہ کے نمائندہ ہیں.اگر پیش گوئی کا رنگ دیا جائے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ”ہم“ کے دائرے کے نیچے تھے ”ہم“ کے سائے کے نیچے تھے.وہ شخص جو میرے اور میرے نمائندوں پر حملہ آور ہو گا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اس لیے ایسے لوگوں کا نام خوارج رکھنا بالکل مناسب اور درست تھا اور ارشاد نبوی کے مزاج کے عین مطابق تھا.دوسرا اس کا معنی روز مرہ کا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر حملہ آور ہوتا ہے.وہ شخص جو ظلم کی راہ سے حملہ کرتا ہے وہ باہر ہے اور جو رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور آپ کی سنت کے صلى الله تابع رہتا ہے اور پھر اس پر حملہ ہوتا ہے وہ ”ہم کے سائے میں آجاتا ہے.تو یہ مراد ہے یہ کوئی ایسا مسلمان جو ایسے مسلمان شخص پر حملہ آور ہو جو میرے سنت کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے اس سے کسی کو کوئی دکھ نہیں پہنچا، کوئی اس نے کسی پر ظلم نہیں کیا ،لوگوں کی بھلائی میں لگا رہتا ہے، ایسا شخص اگر کسی دوسرے بظاہر مسلمان کا نشانہ بنتا ہے تو میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے.یہ رسول اللہ ﷺ کا اعلان ہے کہ اس کا میرے سے کوئی تعلق نہیں رہتا.تو اپنے معصوم بھائی کو نا جائز دکھ دینا اس حدیث کی رو سے دکھ دینے والے کو صرف دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا بلکہ ایک ایسے انداز سے خارج کرتا ہے جو بہت زیادہ تکلیف دہ انداز ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کا یہ کہنا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں بہت بڑی سزا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس مضمون کو قیامت کے دن کے حوالے سے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ عام طور پر تو سزائیں دی گئی ہیں کہ اس کو جہنم کی سزا ملے گی ، فلاں سزا ملے گی لیکن بعض جو بہت ہی بد نصیب لوگ ہیں ان کے متعلق فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا، ان پر نظر نہیں ڈالے گا.تو یہ بہت بڑی سزا ہے، عام سزا سے بڑھ کر روحانی رشتہ توڑ لیا جائے اور انسان کہے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا.تو آنحضرت ﷺ نے یہاں اس کو غیر مسلم تو قرار نہیں دیا لیکن یہ فرمایا ہے یعنی اگر یہ معنے لئے جائیں تو یوں کہیں گے کہ یہ کہنے کی بجائے کہ وہ مسلمان نہیں رہتا فرمایا میں اس کا نہیں ہوں ، وہ میرا نہیں ہے، بس کٹ گیا.جو رسول اللہ یہ سے کٹ گیا اس کا ایمان کہاں رہنا ہے.اس کا اسلام کہاں رہنا ہے لیکن اس کو نکالنے کا انداز ایسا ہے جو بہت زیادہ تکلیف دہ ہے پس اپنے بھائی پر کسی قسم کی زیادتی سے باز رہنا لازم ہے صلى الله تیسر احملہ ایسا ہے جو رسول اللہ ﷺ پر اس زمانے میں بھی ہوا کرتا تھا.وہ زبان کے ہتھیار

Page 949

خطبات طاہر جلد 13 943 خطبہ جمعہ فرموده 9 / دسمبر 1994ء ہیں ، بدتمیزی اور بداخلاقی کے ہتھیار ہیں، ان سے بعض بد نصیب اس زمانے میں بھی آنحضرت له الا الله پر حملہ کر دیا کرتے تھے اور نظام پرحملہ کیا کرتے تھے.ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کویہ فرمانا پڑا کہ من عصی امیری فقد عصاني ومن عصاني فقد عصى الله ( مسلم کتاب الامارہ حدیث نمبر : 3416) جس نے میرے امیر سے نافرمانی کا طریق اختیار کیا ہے اس نے مجھ سے نافرمانی کا طریق اختیار کیا ہے، تو وہی مجھ سے کاٹنے والا مضمون بالکل کھل کر سامنے آگیا.یعنی یہ مراد نہیں کہ تم براہ راست مجھ پر حملہ آور ہو.یا درکھو جو میرے مقرر کردہ نظام پر حملہ کرتا ہے اس سے بھی میرا تعلق کٹ جاتا ہے، میں اس کا نہیں رہتا.تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں جی ہم تو فلاں عہد یدار کو کہہ رہے ہیں، فلاں شخص کو کہہ رہے ہیں، آپ کو تو نہیں کہہ رہے.تو ان کو میں یہی جواب دیتا ہوں کہ مجھے کہیں یا نہ کہیں رسول اللہ کی بات میں مانوں گا، آپ یہ محسوس کیا کرتے تھے اور دیکھیں حمایت کتنی بڑی ہے.اپنے مقرر کردہ عہد یدار کے حق میں نا انصافی کا صلى الله تعلق تو آپ کا تھا ہی نہیں، کسی کی مجال نہیں تھی کہ کسی کا حق مارے اور رسول اللہ ﷺ اس کی حمایت فرمائیں.یہاں حمایت کا مضمون بتارہا ہے کہ وہ شخص جس پر لوگ زبانیں دراز کرتے ہیں باوجود اس علم کے میرا مقرر کردہ ہے وہ مجھ پر زبان دراز کرتا ہے.اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے زیادتی کی ہے.اگر زیادتی ہے تو اس کا علاج موجود ہے زیادتی کی اطلاع اس کو کرنی چاہئے جس نے مقرر کیا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ یہ نکتہ اس طرح کھولا کہ بعض وہ لوگ جو پیغامی ذہنیت رکھتے تھے اور بعد میں فتنے کے بعد کھل کر پیغامیت میں داخل ہو گئے.ان لوگوں میں سے بعض نے حضرت خلیفتہ امسیح الاول پر بھی اعتراض کئے اور کہا کہ یہ دیکھو یہ تو بوڑھا ہو گیا ہے.اس کو پتا ہی نہیں چل رہا کہ اچھا کون ہے اور برا کون ہے.ناجائز حمایت کر رہے ہیں ایک نو جوان کی ( حضرت مصلح موعود مرا تھی تو اس قسم کی باتیں جب حضرت خلیفہ اسی الاول کو پہنچیں تو آپ نے فرمایا.دیکھو تم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا ہے اب تم میں اختیار ہی نہیں ہے کہ میرے اوپر زبانیں دراز کرو.اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ بڑھا اس عمر میں آکر اپنا توازن کھو بیٹھا ہے ، غلط کام کر رہا ہے.تو جس نے مجھے بنایا ہے اس کے پاس شکایت کرو.اگر تم سچے ہو تو مجھے وہ واپس بلا لے گا لیکن تمہیں حق نہیں دے گا کہ تم زبانیں کھولو اور تم میرے سامنے گستاخی سے پیش آؤ.اب کتنا اہم نکتہ ہے اور کتنا گہرا نکتہ ہے جو صرف خلافت سے تعلق نہیں رکھتا پورے نظام جماعت سے تعلق رکھتا ہے.

Page 950

خطبات طاہر جلد 13 944 خطبہ جمعہ فرمود : 9 دسمبر 1994ء جس شخص نے محسوس کیا کہ اس سے زیادتی ہوئی ہے اس کا فرض ہے کہ اس کی معرفت ،اس کے وسیلے سے وہ خلیفہ وقت تک اپنی درخواست پہنچائے اور جہاں بھی کبھی ایسے شخص کی زیادتی ثابت ہوئی ہے کبھی اس سے نرمی کا سلوک نہیں ہوا کیونکہ اس نے ایک اور پر ظلم کیا ہے.اس لئے خلیفہ وقت اس وقت اپنے آپ کو معافی کا مجاز نہیں سمجھتا وہ لازماً اس کے شر سے باقی جماعت کو بچاتا ہے.تو جب یہ علاج موجود ہوتو پھر بد تمیزی اور بد زبانی کا جواز کہاں باقی رہ جاتا ہے.پھر اگر کوئی کرتا ہے یہ کارروائی نہ کرے اور اپنے ہاتھ میں اپنے بدلے لے لے تو آنحضرت ﷺ کا یہ حکم اس پر بھی لگے گا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھائے تو وہ مجھ سے نہیں ہے.نہ میں اس سے ہوں ، نہ وہ مجھ سے ہے.تو بسا اوقات اسی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نصیحت کی روشنی میں میں پھر لکھ دیا کرتا ہوں کہ یہ بات ہے تو اخراج تمہارا جماعت سے ہو یا نہ ہولیکن میرا تم سے کوئی تعلق نہیں تمہارا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.پھر بعضوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے بعض ایسے ہیں جو بھٹکتے رہتے ہیں.تو رسول اکرم ﷺ کی نصائح بظاہر چھوٹے دائرے سے بھی تعلق رکھتی ہوں تو جب آپ ان پر غور کرتے ہیں تو ان کا دائرہ فیض پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے.ان کا دائرہ اثر وسیع ہوتے ہوتے بہت وسعت اختیار کر جاتا ہے اور ہمارے اس زمانے کے مسائل ہی کو حل نہیں کرتیں جو وہ رسول اکرم ﷺ کی ظاہری جسمانی زندگی کا زمانہ بھی تھا بلکہ آپ کے تمام روحانی زندگی کے زمانے سے آپ ک نصائح تعلق رکھتی ہیں.اب غصے میں ایک انسان کسی دوسرے سے لڑ پڑتا ہے تو اس کے متعلق آنحضور نے کیا فرمایا.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے ان میں سے کوئی قتل ہو جائے گا تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں جائیں گے.( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر : 30) اس کا مطلب ہے؟ اس بات کو سن کر صحابہ کو بھی تعجب ہوا اور ان میں سے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ قاتل کو تو آگ میں جانا ہی چاہئے لیکن مقتول کیوں آگ میں جائے گا.آپ نے فرمایا وہ بھی تو اپنے مد مقابل کے قتل کا آرزومند تھا.اب یہ صاف ظاہر ہوا کہ یہ جو نصیحت ہے ہر محل پر نہیں آرہی، ایک خاص محل سے تعلق رکھتی ہے.جہاں دونوں لڑ پڑیں اور دونوں تلوار میں نکال لیں.اس میں دونوں ذمہ دار ہیں اور اگر ایک پر کوئی حملہ آور ہوا ہے اور وہ اپنے دفاع کے لئے مجبور ہے اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے.فرمایا دونوں طیش میں

Page 951

خطبات طاہر جلد 13 945 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 دسمبر 1994ء آئے ، دونوں لڑ پڑے پھر کون مرا یہ اتفاقی حادثہ ہے مگر گناہ میں دونوں برابر کے شریک تھے.مرنے والا بھی اپنے اس جرم کی پاداش میں سزا دیا جائے گا اور جس نے قتل کر دیا ہے اس کو تو سزا ملے گی ہی.پس لڑائی کے وقت یہ بات ضروری ہے کہ اگر تو آپ کلیۂ معصوم ہیں تو پھر آپ کی لڑائی کا گناہ خدا کے نزدیک آپ پر نہیں ہے.لیکن حضرت آدم کے بیٹے نے ایک اور مثال قائم فرما دی جو خدا کو پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اس کا ذکر محفوظ فرما دیا.اسکے اپنے بھائی نے جب اسکے قتل کا ارادہ کیا تو اس نے کہا کہ میں دفاع نہیں کروں گا.یعنی دفاع کا ایسا حق نہیں ہے جو لازم ہو کہ ضرور استعمال کیا جائے اور اس نے بتادیا کہ اس میرے دفاع نہ کرنے کے نتیجے میں لازماً خدا کا عذاب تجھ پر پڑے گا اور میں بالکل کلیہ بری الذمہ ہو جاؤں گا یعنی اپنی موت قبول کرلی بہ نسبت اس کے خدا کے عذاب کا Risk لے یعنی یہ خطرہ مول لے کہ خدا کی ناراضگی کا مورد بنے.تو احتیاط اسی میں ہے کہ خدا کی ناراضگی کے ہر موقع سے انسان بچنے کی کوشش کرے ، خواہ اپنا کچھ نقصان بھی ہو جائے.ایسے بھی گزرے ہیں جو نبی نہیں تھے لیکن جان کا نقصان برداشت کر لیا لیکن خدا کی ناراضگی کا خطرہ مول نہ لیا.تو اللہ تعالیٰ جماعت کو حضرت محمد مصطفی اللہ کی نصائح کو سمجھنے کی توفیق بخشے اور دلوں کو روشن کرنے کی توفیق بخشے.ایسے اندھے دلوں پر یہ بات نہ پڑے جن پر تالے پڑے ہوتے ہیں اور روشنی کی رمق اندر نہیں جاتی.ہمیں بہت ضرورت ہے اصلاح معاشرہ کی اور یہی ساری طاقت ہے یعنی دعاؤں کے بعد اصل طاقت ہمارے معاشرے کے حسن کی طاقت ہے یہ حسن ہمیں نصیب ہو جائے تو لازماً ہم نے دنیا پہ غالب آنا ہے کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں سکتی.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ اور اس کے بعد نماز عصر کے بعد آج کل چونکہ دن بہت چھوٹے ہوگئے ہیں اور ابھی عصر کا وقت ہو چکا ہے یعنی اس وقت سے آدھ گھنٹے پہلے سے عصر کا وقت شروع ہو چکا ہے.اس لئے چھوٹے دنوں میں ہم جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز کو جمع کرنے پر مجبور ہیں.تو عصر کی نماز کے بعد ایک نماز جنازہ غائب ہوگی جو عزیزہ ساجدہ حمید کی نماز جنازہ غائب ہے.عام طور پر تو میں حاضر جنازوں کے ساتھ غائب جنازے پڑھا دیا کرتا ہوں لیکن اس ملک میں انہوں نے ایک ایسا عظیم کارنامہ

Page 952

خطبات طاہر جلد 13 946 خطبہ جمعہ فرموده 9 دسمبر 1994ء کیا ہے.جس کی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ نمایاں طور پر ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اس میں ساری دنیا بھی دعا میں شامل ہو جائے گی یعنی نماز جنازہ تو ہمارے ساتھ نہیں پڑھ سکتی مگر دعا میں شامل ہو جائے گی.میں جب انگلستان میں آیا ہوں تو شروع شروع میں ان دونوں میاں بیوی ، ڈاکٹر حمید اور ساجدہ نے مجھے لکھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم واپس چلے جائیں گے کیونکہ یہاں پوری طرح دل بھی نہیں لگ رہا اور کام بھی ٹھیک سیٹ نہیں ہور ہے.تو ہمیں اجازت دیں کہ ہم واپس چلے جائیں ان کو میں نے کہا خاص طور پر ساجدہ کو مخاطب کر کے کہ تم کیا پیچھے چھوڑ کر جاؤ گی.کوئی تم نے جماعت نہیں بنائی، خالی ہاتھ تمہیں یہاں سے بھجوانے کو میرا دل نہیں چاہتا.اس لئے چلے جانا مگر تھوڑی دیر کے لئے ٹال دو اس فیصلے کو اور کوشش کرو، خدا تمہیں توفیق دے یہاں جماعت قائم ہو جائے.اس کے نتیجہ میں دونوں بہت سعید فطرت تھے، حمید تو ہیں بھی ، انہوں نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ ہم جب تک یہاں جماعت قائم نہیں کریں گے ہم نہیں جائیں گے اور پھر جماعت قائم کرنے کی توفیق ملی تو پھر جانا کہاں جا تا تھا.اپنے روحانی بچے ، ان کی روحانی ماں بنی ہوئی.ایسی تربیت ان کی اور اتنا پیار تھا کہ آپس میں کہ ان کے وصال کے بعد ہمارے جو ملنے والے وہاں گئے تھے جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ، وہ بتاتے ہیں کہ والہانہ محبت کا اظہار تھا ان انگریزوں کی طرف سے جنہوں نے ساجدہ کے فیض سے اسلام قبول کیا اور بہت اچھی تربیت اور انگلستان میں ایک ہی جماعت تھی ابھی تک شاید ایک ہی ہو جس میں انگریزوں کا غلبہ تھا اور غیر ملکی نسبتا کم تھے اور بہت ہی اچھی تربیت یعنی جہاں انگریز اقدار کو جو جائز ہیں قربان کئے بغیر اسلامی اقدار کو اس طرح اپنا لیا گیا کہ بہترین امتزاج تھا اللہ کے فضل کے ساتھ.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اسلام نے یہاں انگریزیت مٹادی ہے.انگریزیت کی اچھی باتیں بہت سی ہیں وہ اسی طرح قائم تھیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو گئیں اور اسلام کی اچھی اقدار بھی سب اپنے اندر سمیٹ لیں.تو یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ اب جمعہ اور عصر کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھائی جائے چونکہ انہوں نے بعد میں مجھے لکھ دیا کہ اب ہمارا جانے کو دل نہیں چاہتا اس لئے نعش کا سوال ہوا کہ کہاں دفنائی جائے تو میں نے ڈاکٹر حمید سے کہا کہ وہیں دفنا ئیں.اسی سرزمین کا اب حق ہے کہ ان کو اپنے پاس رکھے.تو انشاء اللہ عصر کی نماز کے معابعد عزیزہ ساجدہ کی نماز جنازہ ہوگی.

Page 953

خطبات طاہر جلد 13 947 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء MTA کے پروگرام بنانے کے لئے ہدایات بے تکلفی اور سادگی سے نافع الناس پروگرام بنائیں.( خطبه جمعه فرموده 16 دسمبر 1994ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کے خطبے میں مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ سے متعلق چند امور جماعت کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں.نئے سال سے کچھ پروگرام میں تبدیلیاں ہورہی ہیں اور کچھ نئے پروگرام داخل کئے جارہے ہیں.ان کے متعلق جماعت کو اطلاع دینا بھی ضروری ہے اور جماعت پر جو تعاون لا زم آتا ہے اس کی طرف بھی توجہ دلانی مقصود ہے.پہلے پاکستان میں بارہ گھنٹے روزانہ کا ٹیلی ویژن پروگرام چلتا تھا اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا اور درست تھا کہ پاکستان کے حالات میں بارہ گھنٹے کی ضرورت نہیں ہے اور بہت سا وقت ہمیں مجبوراً بھرنا پڑتا ہے اور اس وقت دیکھنے والے بہت کم ہوتے ہوں گے.دوسری طرف یہ تکلیف کا احساس تھا کہ چونکہ دل چاہتا تھا کہ یہ پروگرام ضرور دیکھیں اس لئے ہر وقت فکر لگی رہتی تھی کہ پیچھے پتا نہیں کیا پروگرام ہوں گے.ہم دفتروں میں یا سکولوں یا کالجوں میں بیٹھے رہے اور ٹیلی ویژن اس دوران جاری رہا.تو ان کی وضاحت کے لئے میں ایک دفعہ وہاں لکھ بھی چکا ہوں.اصل بات یہ ہے کہ بارہ گھنٹے ہمارے لئے ضروری تھے اگر ہم بارہ گھنٹے اس وقت نہ لیتے تو وہ سیارہ جس پر جماعت احمدیہ کی پاکستان ، ہندوستان و غیرہ کی ضرورت پوری ہو سکتی تھی اور با احسن پوری ہو سکتی تھی اس کے اور

Page 954

خطبات طاہر جلد 13 948 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء بہت سے گاہک موجود تھے اور بعض ہندوستانی کمپنیاں تو بہت بڑی بڑی قیمتیں دے کر اس سیارے پر آنا چاہتی تھیں کیونکہ ان کے علم کے مطابق بھی یہی اس علاقے کے لئے بہترین تھا.اگر ہم چوبیں گھنٹے کا لیتے تو فی گھنٹہ کے حساب سے کچھ کم ملتا لیکن بہت بڑا وقت ہمارے ہاتھ سے ضائع ہو جاتا اور ہمارے کام نہ آتا.تو بہت گفت و شنید کے بعد بارہ گھنٹے والا وقت ہمیں میسر آیا اس سے کم ممکن نہیں تھا کیونکہ اگر کم کرتے بھی تو فی گھنٹہ قیمت بہت بڑھ جاتی اور پھر دوسری کمپنیاں بیچ میں داخل ہو جاتیں اور اس کے نتیجے میں پھر ہر وقت رسہ کشی جاری رہنی تھی اور جو زیادہ پیسے دیتا وہ وقت پہ قبضہ کر سکتا تھا.ہندوستان کی کمپنیوں کو اس لئے موقع نہیں مل سکا کہ وہ جس رفتار پہ ، جس طریقے سے پیسہ دینا چاہتی تھیں وہ یورپین کمپنیوں کو منظور نہیں تھا.تو باوجود مقابلے کے اور ان کے بہت زیادہ پیسے دینے کے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے نام لکھوا دیا لیکن بارہ گھنٹے سے کم اگر خرید تے تو کمپنیوں کو ہم میں دلچسپی نہ رہتی.یہ مجبوریاں تھیں جن کے پیش نظر یہ اہم فیصلہ کیا گیا اور جب بارہ گھنٹے ملے تو انہیں بھرنا تھا بہر حال کسی طریقے سے.تو زیادہ تر پرانے ہمارے جو پروگرام ہیں ان سے ہی استفادہ ہوتا رہا کیونکہ نئے پروگرام بنانا ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور اس کے لئے جتنا روپیہ چاہئے جتنی علمی اور تجرباتی ضرورت ہے ، اکثر جگہ اس کا فقدان ہے.پس بعض دفعہ اتنے پرانے پروگرام بار بار دکھائے گئے کہ بعض لوگوں نے اس پر لکھا بھی کہ یہ تو پھر بہت زیادہ ہی پروگرام آرہے ہیں آپ کے کبھی سفید داڑھی والے کبھی کالی داڑھی والے.صرف تنوع اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کالی داڑھی کے بعد سفید داڑھی آجاتی ہے، سفید کے بعد کالی آجاتی ہے تو ان کو میں نے کہا کہ آپ ایک رنگ کی داڑھی والے پروگرام بنا کے بھیج دیں، میں وہ چلوا دوں گا.ہیں ہی نہیں تو ہم کریں کیا اور جو پروگرام بنا کر شروع میں بھجوائے گئے وہ بہت ہی بچگانہ تھے اور ان میں نہ صرف یہ کہ جماعت کو دلچسپی نہیں ہوئی تھی بلکہ بعض جگہ رد عمل ہو سکتا تھا.یوں لگتا تھا جیسے بعضوں نے اپنے اور اپنے بچوں کو دکھانے کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور مطالبے تھے کہ ضرور دکھاؤ.تو وہ پروگرام جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں اگر چہ تنوع نہ ہونے کی وجہ سے ایک قسم کا ضرورت سے زیادہ تسلسل ایک ہی بات کا پایا جا تا تھا لیکن ہر پروگرام اپنی ذات میں تعلیمی اور دینی اور روحانی امور میں جماعت کے لئے مفید ضرور تھا اور بہت سے ایسے تھے جو پہلے جماعت نے نہیں دیکھے ہوئے تھے.بعض لوگوں کو تکرار دکھائی دیتی تھی لیکن

Page 955

خطبات طاہر جلد 13 949 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء بعضوں کے لئے بالکل نئے تھے کیونکہ اس سے پہلے جو ویڈیو کا نظام تھا وہ بہت کم لوگوں کو دستیاب ہوا ہے.جماعت کی بھاری اکثریت اتنی غریب ہے کہ وہ ویڈیو اپنے گھروں میں رکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتی.لیکن یہ جو عالمی ٹیلی ویژن کا نظام ہے اس میں اگر چہ امیر گھروں کو سہولت ہوگی کہ گھر میں بیٹھ کے دیکھ سکیں مگر جماعت کی طرف سے وسیع پیمانے پر انتظام کرائے گئے کہ ایسے مراکز ہو جائیں کہ جہاں ہر شخص پہنچ کر ان سے استفادہ کر سکے.بہر حال یہ ایک بے سروسامانی کا آغاز تھا ، شروع ہو گیا اللہ کے فضل سے اور رفتہ رفتہ تجربے بھی ہوئے ، کچھ پروگرام بنانے کے بھی سلیقے لوگوں نے سیکھے اور دن بدن کچھ نہ کچھ بہتری ضرور ہوتی رہی.اب تقریباً ایک سال گزر رہا ہے اور اس سال کے دوران جتنی تبدیلیاں پروگرام میں میں چاہتا تھا وہ اس لئے پیدا نہیں ہو سکیں کہ ہمارے پاس طوعی ایسے کام کرنے والے میسر نہیں جوفن بھی جانتے ہوں.طوعی کام کرنے والے تو بے شمار ہیں ، اللہ کے فضل کے ساتھ ایک آواز دو تو بیسیوں گنا زیادہ دوست خدمات پیش کر دیتے ہیں لیکن ایک فن کا کام ہے اس کے لیے مہارت بھی چاہئے ، کچھ ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی چاہئیں، کچھ ذوق کے بھی تقاضے ہیں وہ پورا کرنے کے لئے اللہ کی طرف سے وہ ذوق فطرت میں ودیعت ہی نہ ہوں تو محض علم سے بھی کام نہیں چلتا.پھر دینی علم کی بھی ضرورت ہے، دوسرے علوم کی بھی ضرورت ہے اور پھر تھوڑے پیسے میں اچھی چیز پیدا کرنا یہ خود ایک صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے.تو یہ سارے مختلف محرکات اور موجبات ایسے رہے کہ جن کی وجہ سے جس رفتار سے میں چاہتا تھا کہ جماعت کے سامنے بہتر سے بہتر پروگرام پیش کیے جاسکیں وہ نہیں ہوسکا.اس کے علاوہ اس سال کے دوران میں بعض جماعتوں کی طرف سے بار بار اپنی محرومی کی شکایت ہوئی مثلاً آسٹریلیا کی طرف سے بہت سے احمدی لکھتے رہے ، دور دراز کے جزائر منجی ہیں، نیوزی لینڈ وغیرہ وہاں سے بھی توجہ دلائی جاتی رہی کہ ہمیں کب شامل کریں گے تو ان کو بھی شامل کرنا تھا چنانچہ اس سال اللہ کے فضل سے ان کو بھی شامل کیا گیا.پھر امریکہ اور کینیڈا کا تقاضا تھا یعنی بحیثیت جماعت تو کینیڈا کا تھا لیکن انفرادی لحاظ سے امریکہ سے بھی بہت تقاضے آتے رہے کہ ہمارے لئے بھی روزانہ کا پروگرام بنایا جائے.افریقہ کے لئے بھی زیادہ وقت کے پروگرام کی ضرورت تھی.تو اس سال بہت بڑی توجہ پروگرام کو بڑھانے پر رہی اور اب خدا کے فضل کے ساتھ آج

Page 956

خطبات طاہر جلد 13 950 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء تک کی جور پورٹ ہے اس کے مطابق دنیا میں ہر جگہ اب خدا کے فضل سے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے پروگرام دیکھے جاسکتے ہیں اور اس کے لئے مختلف نوعیت کے ڈش انٹیناز کی ضرورت ہے اور اس کے متعلق جماعت مختلف علاقے کی جماعتوں کو اچھی طرح ہدایت دے دیتی ہے اور پھر ایسے ماہرین بھی تیار کئے گئے جو مختلف ملکوں میں جاکر ان کو تربیت دیں تیار کئے گئے“ کا لفظ غلط ہے، تیار ہوئے ہوئے اللہ کی طرف سے مل گئے.پاکستان سے بھی ملے اور ایک ہمارے جنود صاحب ہیں ( حاجی جنو داللہ صاحب مرحوم کے صاحبزادے، جو سر گودھا میں ہوا کرتے تھے ) جو ماریشس میں ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے اس فن میں ایک طبعی ذوق رکھتے تھے اور بہت جلدی انہوں نے اس میں ترقی کی ، اپنے آپ کو وقف کیا اور ان کو وہاں افریقہ میں تربیت کے لئے بھجوایا گیا اس سے پہلے ڈش ماسٹر صاحب بھی افریقہ گئے ، وہاں تربیت دی.تو سب ایسی جماعتوں میں جہاں صرف تربیت کی کمی کی وجہ سے دقت نہیں تھی بلکہ روپے کی وجہ سے بھی دقت تھی یعنی اگر مارکیٹ سے جا کر وہ سامان خریدے جاتے تو جس قیمت پر ہمارے تربیت دینے والوں نے ان کو وہ اینٹینے مہیا کئے اور حاصل کرنے سکھا دیئے اس سے دس گنا، بعض دفعہ پندرہ گنا، بعض دفعہ بیس گنا زیادہ قیمت پر مارکیٹ سے وہ چیز ملتی تھی.تو اس پہلو سے ساری دنیا میں ڈش انٹینالگانا اور سستا سامان مہیا کرنا، اس کو صحیح طریقے پر Install کرنے کی تربیت دینا یہ کام بھی خدا کے فضل سے ساتھ ساتھ جاری رہا اور ابھی جاری ہے لیکن چونکہ مقامی دوست بہت سے تیار ہو چکے ہیں اس لئے اب ہر ملک میں مرکزی نمائندے کو جانے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ کام پھیل رہا ہے اور اس نے آگے بہت ابھی پھیلنا ہے.ایک یہ حصہ تھا جس کی طرف توجہ رہی اور خدا کے فضل سے کافی حد تک جماعت کی عالمی ضرورتیں پوری ہوئیں لیکن ابھی تک کچھ وقت کے توازن کے لحاظ سے تسلی نہیں تھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پاکستان کو بارہ گھنٹے ملے ہوئے تھے اور یورپ کو عملاً اڑھائی گھنٹے روزانہ ملتے تھے.اس لئے اب غور و فکر کے بعد اور اس میں وسیم جسوال صاحب کی محنت کا بہت دخل ہے ، ان کو میں نے سمجھایا کہ اس طریق پر پاکستان کا کچھ وقت کم کریں، یورپ کا وقت بڑھا ئیں اور اگر ضرورت پڑے تو امریکہ کا بھی وقت بڑھایا جائے اور آسٹریلیا وغیرہ کے لئے کیونکہ وہاں زبان کی

Page 957

خطبات طاہر جلد 13 951 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء مشکل ہے اگر صرف تین گھنٹے رکھے جائیں تو انگریزی بولنے والے اور انڈونیشین بولنے والے ان کے درمیان وقت کی تفریق ہو تو بہت تھوڑ اوقت ہاتھ آتا ہے اور روزمرہ کے ضروری پروگرام بھی پورے نہیں ہو سکتے.اس پہلو سے سارے عالمی پروگرام کے اوقات کے تناسب کو درست کرنا ضروری تھا.تو آج میں جماعت کو مطلع کر رہا ہوں اللہ کے فضل کے ساتھ.کافی وقت کے بعد ، کافی مشکلات کو عبور کرتے ہوئے آخر اللہ تعالیٰ نے معاملات ہمارے لئے آسان فرما دیے.مشکل صرف یہ نہیں تھی کہ زیادہ وقت کے لئے پیسے کہاں سے لائے جائیں اور ان کمپنیوں سے کس طرح معاملات طے کئے جائیں.کمپنیوں کے لئے بھی یہ دقت تھی کہ آگے ان کے پاس ان اوقات میں پہلے ہی Booking ہو چکی تھیں.مثلاً یورپ ہے.یورپ میں ہمارے پروگرام سے پہلے بھی بعض ایسے بڑے بڑے ان کے گاہک موجود تھے جن کو وہ ہماری خاطر ناراض نہیں کر سکتے تھے اور ہمارا پروگرام ختم ہوتے ہی پھر دوسرے ایسے گاہک موجود تھے تو ان سے ہم نے درخواست کی کہ آپ ہماری طرف سے نمائندہ بن کے ان لوگوں سے درخواست کریں.ان کو یہ نہ کہیں کہ ہم تمہارا پروگرام بند کر رہے ہیں، ان سے درخواست کریں ان کو کہیں ہم تمہیں فلاں وقت مہیا کر دیتے ہیں لیکن یہ جماعت کی مجبوری ہے تم ان سے تعاون کرو اور یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوا کہ اس معاملے میں وہاں وہاں سے تعاون ملا ہے جہاں سے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا.محض ایک شریفانہ درخواست پر ان لوگوں نے بہت ہی شرافت کا نمونہ دکھایا اور اپنے پروگرام کو دوسری جگہ پھینک کر جماعت کے لئے وقت مہیا کر دیا.پس اگلے سال سے یعنی جنوری سے انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان کا وقت بارہ گھنٹے سے گھٹا کر سات گھنٹے کر دیا گیا ہے اور اس میں ان کو کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی.اس سات گھنٹے کے اندر جتنے بھی پروگرام ہوں گے انشاء اللہ کوشش کریں گے اور میں ذکر کروں گا کہ آگے کیا پروگرام ذہن میں ہیں، سات گھنٹے میں اچھی رونق بھر دیں گے بلکہ بہت اہم تعلیمی پروگرام ان کو مہیا کئے جائیں گے.مگر اس وقت میں تو آپ کو صرف عالمی پروگراموں کے وقت کی تقسیم سے متعلق بتا رہا ہوں.پاکستان کا وقت یکم جنوری سے انشاء اللہ بارہ گھنٹے سے گھٹا کر سات گھنٹے کر دیا جائے گا.یورپ کا وقت اڑھائی گھنٹے سے بڑھا کر ساڑھے پانچ گھنٹے کر دیا جائے گا.یورپ میں سب سے زیادہ ضرورت تھی ہم اسے اور بھی بڑھا سکتے تھے لیکن یہاں مشکلات کئی قسم کی ہیں، صرف یہ نہیں کہ اس وقت دوسرے تعاون کرتے

Page 958

خطبات طاہر جلد 13 952 خطبه جمعه فرموده 16 دسمبر 1994ء ہوئے ہمیں وقت حاصل کرنے کی اجازت دیں بلکہ ایک خاص وقت پر آ کر قیمت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے.اب مثلاً پہلے یہاں چار بجے تک پروگرام ختم کر دیا کرتے تھے اب پانچ بجے تک پروگرام جاری رہیں گے اور وہ جو بعد کا ڈیڑھ گھنٹہ ہے وہ اتنا مہنگا ہے کہ پچھلے سارے وقت کے برابر قیمت ہے.اس لئے جتنا آپ شام میں آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی وقت مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے.پھر ہفتہ اور اتوار کو اس پر بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو جو قیمتیں طے کرنے کے فارمولے بنے ہوئے ہیں ان کو نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا، ان پر ہمارا اختیار ہی نہیں ہے.مگر اس پہلو سے میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ساتھ یورپ میں یہ ساری دقتیں طے ہو گئیں اور اڑھائی گھنٹے کی بجائے ساڑھے پانچ گھنٹے روزانہ کا پروگرام شروع ہوگا جو پانچ بجے تک جاری رہے گا یعنی ایک گھنٹہ چار بجے کے بعد شام کو ملے گا اور ڈیڑھ گھنٹہ شروع میں پہلے ایک کی بجائے ساڑھے گیارہ بجے شروع ہو گا تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یورپ کی اہم ضرورتیں پوری کرنے میں ہمیں کچھ مزید سہولت ہو جائے گی.یورپ کی ضرورتوں میں عربی پروگرام ہیں، ترکی زبان کے پروگرام ہیں، البانین ہیں، بوسنین ہیں، جرمن ہیں، فریج ہیں اور پھر سپینش ہے اور بھی بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن میں ہمیں لازماً کچھ نہ کچھ وقت کے لئے ان کے پروگرام دینے پڑیں گے اور پھر رشین زبان ہے.اس کو بھی ایک مستقل اہمیت حاصل ہے.اللہ کے فضل سے رشیا میں دن بدن جماعت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور نئے مشنز بن رہے ہیں تو اتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اتنا بڑا یہ پروگرام بنانے والا حصہ ہے کہ جن لوگوں کو تجر بہ نہیں ان کو اندازہ نہیں کہ ایک گھنٹے کا پروگرام بنانے میں کتنی محنت صرف ہوتی ہے اور کس طرح بار بار تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں.وہ پروگرام جو ہمارے بے ساختہ بن رہے ہیں وہ اور بات ہے لیکن جو معین بنائے جائیں اس پہ بہت محنت اٹھانی پڑتی ہے.اللہ کے فضل کے ساتھ اب ہر جگہ ٹیمیں تیار ہو رہی ہیں وہ کریں گی انشاء اللہ.لیکن ابھی اس پہلو سے مجھے کمی دکھائی دے رہی ہے.میں اس کی طرف ابھی خاص طور پر توجہ دلاؤں گا.تو یورپ میں ساڑھے پانچ گھنٹے کا پروگرام روزانہ ہوگا اور مشرق بعید کے لئے تین کی بجائے ساڑھے پانچ یا چھ گھنٹے کا ابھی معین طے نہیں ہوا، لیکن کم و بیش ان کا بھی دگنا ہو جائے گا.افریقہ اور امریکہ کے لئے ہم پہلے ہی چار گھنٹے روزانہ دے رہے ہیں،

Page 959

خطبات طاہر جلد 13 953 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء میرا خیال تھا کہ اسے بھی چھ گھنٹے کر دیا جائے تا کہ تمام دنیا میں کم از کم چھ یا ساڑھے پانچ گھنٹے کے پروگرام یکساں ہو جائیں لیکن مشکل یہ ہے کہ امریکہ اور کینیڈا ابھی تک اپنے تین گھنٹے کے پروگرام کو ہی جذب نہیں کر سکے.انہوں نے آگے وقت لینا ہے وہاں پروگرام بنانے ہیں اور پھر دوبارہ وہاں سے یہی پروگرام نشر کرنے ہیں یا کچھ اور بیچ میں شامل کرنے ہیں.تو اب جب ان پر ذمہ داری پڑی ہے تو ان کو سمجھ آئی ہے کہ کتنا مشکل کام تھا اور وہ تین گھنٹے سے زیادہ کی ابھی تک استطاعت نہیں رکھتے.تو جب وہ چار گھنٹے بھی استعمال نہیں کر سکے تو ان کو چھ گھنٹے دینے کا مطلب ہی کوئی نہیں تھا.جو چوتھا گھنٹہ ہے ہمارا وہ افریقہ کے زیادہ کام آتا ہے اور ان سے میں نے کہا ہے کہ افریقہ کے خصوصی پروگرام اس چوتھے گھنٹے میں رکھیں اور اس میں بھی اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ زیادہ وقت کی ضرورت ہے.مگر صرف افریقہ کے لیے اتنا بڑا خرچ کرنے کی ابھی استطاعت نہیں ہے یا ہے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ نسبتی طور پر استطاعت نہیں ہے.اس موقع پر وقت کے متعلق حضور نے ایک اصلاح کرتے ہوئے فرمایا: ہاں وقت کی یہ اصلاح آئی ہے جو طے ہوا ہے آخری.ابھی وہ وسیم جسوال نے کنٹریکٹ سائن (Contract Sign) کیا ہے.وہ کہتے ہیں یورپ کے لئے ساڑھے پانچ گھنٹے کا جو وقت ہے وہ ساڑھے گیارہ سے شروع ہو کر پانچ بجے تک ختم ہو گا مراد اس سے یہ ہے کہ انگلینڈ میں ساڑھے گیارہ بجے سے شروع ہو کر پانچ بجے تک رہے گا اور یورپ میں ساڑھے بارہ شروع ہو کر چھ تک رہے گا.اس لئے یورپ کا وقت، کیونکہ یورپ کمپنیوں سے ہمارے معاہدے ہیں وہ چھ تک پہنچنا بہت ہی مہنگے سکیل میں داخل ہو گئے ہیں ہم.چار بجے سے آگے بڑھ کر بلکہ تین سے چار تک بھی مہنگا ہو جاتا ہے، چار سے آگے تو پھر بہت مہنگائی شروع ہو جاتی ہے تو ہمیں عملاً وہاں اڑھائی گھنٹے مہنگا یورپین وقت خریدنا پڑا ہے تب جا کر یہ شکل نکلی ہے کہ انگلستان میں ساڑھے گیارہ سے پانچ تک اور یورپ میں ساڑھے بارہ سے چھ تک یہ کل ساڑھے پانچ گھنٹے کا پروگرام ہے.اب میں دوسرے بعض پروگراموں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.بہت سے علمی پروگرام ایسے جماعت کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں جو ابھی اپنی تشکیل میں مکمل نہیں ہو سکے اور جس حالت میں بھی ہیں وہ جماعت کے سامنے پیش کئے جارہے ہیں لیکن ابھی پوری طرح سب دنیا کے

Page 960

خطبات طاہر جلد 13 954 خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1994ء سامنے ایسی صورت میں پیش نہیں ہو سکے کہ ان سے حقیقی استفادہ ہو سکے.ان پروگراموں میں سے ایک پروگرام تو زبانیں سکھانے کا پروگرام ہے، ایک پروگرام ہے قرآن کریم کی تعلیم کا.ایک پروگرام ہے ہومیو پیتھک نظام سے متعلق تعارف ، واقفیت، دواؤں کا تعارف اور روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے جماعت کی تعلیم.یہ جو پروگرام ہیں ان کے متعلق مجبوری یہ ہے کہ مجھے خود کرنے پڑرہے ہیں اور یہ وجہ نہیں کہ مجھے کوئی شوق ہے کہ ہر پروگرام میں خود کروں بلکہ سخت وقت کی کمی کے باوجود مجبورا کرنے پڑ رہے ہیں.مثلاً زبانیں سکھانے کا پروگرام.میں نے چھ مہینے انتظار کیا.مختلف ایسے دوستوں کے سپرد کئے جن کو میں سمجھتا تھا کہ ایسے پروگرام بنانے کی صلاحیت ہے، سمجھتے ہیں.لیکن باری باری بہت کوشش کی.سب کے سب نے ہتھیار ڈال دیئے کہ ہمیں نہیں سمجھ آ رہی کہ آپ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ بغیر کسی دوسری زبان کے سہارے کے بڑے لوگوں کو ٹیلی ویژن کے ذریعہ زبان سکھائی جاسکتی ہے اور اس وجہ سے پھر آخر مجبوراً مجھے خود، جو میری سوچ تھی اس کو عمل میں ڈھال کر دکھانے کی توفیق ملی ہے اور یہ ہے بہت ضروری.اول تو یہ کہ ساری دنیا میں اردو کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اردو میں ہونے کی وجہ سے از بس ضروری ہے اور پھر چونکہ خطبات بھی خلیفہ وقت اردو میں دیتا ہے اس لئے ترجموں کی بجائے اگر براہ راست سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو اس کی دوسرے ترجمے سے کوئی نسبت نہیں رہتی یعنی ترجمے کی اس سے کوئی نسبت نہیں رہتی اور پھر اکثر دنیا میں جو تبلیغ کا انتشار ہوا ہے اس میں ہندوستان اور پاکستان کے رہنے والوں کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی توفیق بخشی ہے اور ان کے لئے دوسری سب زبانیں سیکھنا بہت مشکل کام ہے اس لیے اگر دوسرے اس عرصے میں جو نو احمدی ہوتے ہیں وہ اردو سیکھنے لگیں تو ان کے آپس کے روابط بڑھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے مافی الضمیر بتانے کی سہولت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت کی عالمی یک جہتی میں بہت مفید ہے تو اس لئے مجبور آیہ کام مجھے کرنا پڑا اور اردو میں اب ہمارے جو سبق ہیں یہ جاری ہیں.اب تک تقریباً تمیں سبق ہو چکے ہیں اور غالباً ابھی باقاعدہ ان کا اجر انہیں ہوا سب ملکوں میں.وجہ اس کی ہے جو میں ابھی سمجھاؤں گا آپ کو.یہ جو تمیں سبق ہوئے ہیں ان میں ایسے دوست شامل ہیں جن کو اردو کی الف باء بھی نہیں آتی تھی اور وہ سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان سے گفت و شنید ہو رہی ہوتی ہے

Page 961

خطبات طاہر جلد 13 955 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء اور آپ حیران ہوں گے تیسویں سبق تک پہنچتے پہنچتے ماشاء اللہ اچھی اردو بولنے لگ گئے ہیں.سوال کرنے لگ گئے ہیں.لطیفے سمجھتے ہیں اور پُر مذاق گفتگو خود بھی کر لیتے ہیں لیکن ابھی بہت ابتدائی دور ہے.یہ بات تو قطعاً ثابت ہو گئی ہے کہ یہ نظریہ غلط نہیں تھا کہ ہم کسی اور زبان کے سہارے کے بغیر براہ راست ایک زبان کو سکھا سکتے ہیں.اس میں جو فوائد ہیں وہ ایک سے زیادہ ہیں.ایک تو فائدہ میں نے بار بار سمجھایا ہے پہلے بھی کہ جو زبان بچوں کو سکھائی جاتی ہے وہ بغیر کسی زبان کی مدد کے سکھائی جاتی ہے اور یہ قانون قدرت ہے ، خدا نے قانون بنایا ہے ، خدا نے طریقہ بنایا ہے اور اس سے بہتر دنیا میں طریقہ ہوہی نہیں سکتا.انسان جتنا مرضی ترقی کرلے اس طریق سے بہتر کوئی طریق ایجاد نہیں کرسکتا.جاہل سے جاہل ماں بھی اپنے بچے کو اپنی زبان سکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ہر زبان سکھانے کی انسان صلاحیت رکھتا ہے.تو اس طریق کو اپنا کر جو زبان سکھائی جائے اگر چہ اس میں محنت زیادہ ہے اور وقت زیادہ لگتا ہے جتنی زبان بھی سیکھنے والے سیکھتے ہیں وہ ان کے سسٹم کا ، ان کے اندرونی نظام کا حصہ بن جاتی ہے اور کسی ترجمے کے بغیر بے ساختہ ان کے ذہن میں وہ لفظ ابھرتے ہیں وہ محاورے ابھرتے ہیں جن کی ان کو کسی خاص صورت میں ضرورت پیش آتی ہے تو اس پہلو سے لازماًیہ بہترین طریق ہے.لیکن وقت کے لحاظ سے اگر مثلاً وہاں ہم جو بغیر دوسری زبان کے سہارے کے کوشش کرتے ہیں کہ بعض الجھے ہوئے معاملات سلجھ جائیں اور کلاس کے طالب علم سب سمجھ جائیں وہاں بعض دفعہ دل چاہتا ہے فوراً انگریزی میں بتا دیا جائے کہ یہ ہم کہنا چاہتے ہیں وہ فورا سمجھ جائیں گے لیکن انگریزی بولنے والوں کے لئے تو آسان ہو جائے گا لیکن وہ لاکھوں آدمی جن کو انگریزی نہیں آتی وہ کیسے سمجھیں گے اور جب جاپانی سکھا رہے ہوں گے آپ تو پھر کیا ہوگا جب چینی سکھارہے ہوں گے تو پھر کیا ہوگا تو جو فوائد ہیں اس طریق کے وہ دوسرے طریق سے بہت زیادہ ہیں اور بہت ان پر حاوی ہیں.اب دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ ان سب پروگراموں کا مختلف زبانوں میں اس رنگ میں ترجمہ ہو کہ با قاعدہ اردو سمجھ کر ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ جس طرح طالب علم اردو سیکھ رہے ہیں ترجمہ کرنے والا جو سمجھ رہا ہے وہ اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کرے.یعنی اس کو تر جمہ کہنا شاید سو فیصد درست نہیں ہے.وہ وہی مضمون جو اس کے ذہن میں ابھرتا ہے جو اردو سیکھنے والے طالب علم کے ذہن میں اس وقت

Page 962

خطبات طاہر جلد 13 956 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء ابھر رہا ہے اس کو اپنے ذہن میں جما کر اپنی زبان میں اس کو بیان کرے.یہ طریق تھا جس پر مختلف اہل علم اور اہل زبان کو یہ ویڈیوز بھجوائی گئیں اور ان سے درخواست کی گئی کہ جتنی جلدی ہو سکے کریں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ہی پروگرام میں آٹھ زبانیں سکھا دی جائیں یعنی اردو کے ساتھ عربی بھی ہو، انگریزی بھی ہو ، فارسی بھی ہو.اگر فارسی کا ابھی وقت نہیں آیا مگر جرمن وغیرہ ایسی زبانیں ، فرنچ ہو، سپینش ہو.یہ حصہ ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا کیونکہ سب کی رفتار میں الگ الگ ہیں اور سب تجربہ کرنے والوں کی صلاحیتیں بھی الگ الگ ہیں اس لئے جب بھی ہم یہ شروع کریں گے تو لوگ گھبرا کر یہ نہ نہ سمجھیں کہ او ہو یہ نا کام ہو گیا.یہ تجرباتی دور ہیں جن کے نتیجے میں ہم آئندہ بہتر پروگرام بنا سکیں گے.مرکزی بنیادی ڈھانچہ بہر حال تیار ہورہا ہے.اس میں پھر اضافے ہوتے رہیں گے.اس کو آئندہ اور بھی کئی نئے نقوش عطا کئے جاسکتے ہیں.جو پروگرام کو زیادہ خوبصورت بنادیں.بعض لوگوں کو جو دقتیں تھیں وہ مجھ سے رابطہ رکھتے رہے اور ان کو جب سمجھایا تو ان کو بات سمجھ آگئی.مثلاً ایک ہمارے نوید مارٹی صاحب جو فرنچ ہیں بہت تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور خود مسلمان ہوئے اور رؤیا کے نتیجے میں ایک نہیں ایک سے زیادہ رویا دیکھیں اور ان کی شادی ہبتہ النور صاحب جو ہمارے امیر جماعت ہالینڈ ہیں ان کی بیٹی سے ہوئی ہے اور وہ ڈچ بولنے والی ہیں لیکن کچھ اردو کی شدھ بدھ بھی رکھتی ہیں.انہوں نے مجھے دو تین خط لکھے کہ میں ترجمہ کر رہا ہوں یا دوبارہ اسی پروگرام کو اپنی زبان میں بھر رہا ہوں لیکن کچھ دقتیں ہیں بعض باتیں آپ ایسی کہہ جاتے ہیں کہ ان کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تو اس صورت میں میں کیا کروں اور بھی کچھ دقتیں بتائیں.ان کو میں نے سمجھایا کہ ایسے حصے بعض دفعہ ہم ادھر ادھر کی کوئی اور بات شروع کر دیتے ہیں اس کو آپ بھول جایا کریں اس عرصے میں آپ اپنی طرف سے کچھ بھر دیں کیونکہ یہ لفظی ترجمہ ہو ہی نہیں رہا.یہ کوشش تو ہے کہ بغیر کسی دوسری زبان کے استعمال کے ایک زبان سکھائی جائے تو جہاں تک آپ ہماری تصویروں سے استفادہ کر کے سمجھا سکتے ہیں وہ سمجھا ئیں.جو باقی وقت ہے اس میں دہرائی بھی ہوسکتی ہے، بعض نئی باتیں آپ داخل کر سکتے ہیں اپنی عقل سے کہ سننے والا طالب علم ان کو سمجھ سکے.تو کل ہی ان کا خط ملا ہے بہت خوش ہیں کہتے ہیں اس وضاحت کے بعد اب سب دقتیں دور ہوگئی ہیں اب میں بڑی تیزی کے ساتھ پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہوں لیکن نہ سب نے رابطے کیے ہیں نہ مجھے پتا ہے کہ کس کو کیا دقت ہے؟ اس لئے اللہ بہتر

Page 963

خطبات طاہر جلد 13 957 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء جانتا ہے کہ جو پروگرام بنیں گے ان کی ابتدائی حالت کیا ہوگی مگر اس وقت تو مجھے یہ جلدی ہے کہ بنیں سہی.چاہے ناقص بنیں مگر جلد از جلد ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیں کہ ایک پروگرام کے ساتھ سات مزید زبانیں سکھائی جارہی ہیں یا سات مزید زبانوں میں دوسرے علوم عطا کئے جارہے ہیں.یہ پہلے کبھی نہیں ہوا آج تک دنیا کی انتہائی ترقی کے باوجود کسی کو یہ توفیق نہیں ملی.پس اپنی غربت کے باوجود جماعت احمد یہ اس ٹیلی ویژن کے قافلے میں بہت آگے قدم رکھ چکی ہے لیکن غریبانہ قدم ہے اس میں کوئی شک نہیں.جب امریکہ کو یہ کہا گیا کہ آپ جو ہمیں سٹیشن بنا کے دے رہے ہیں یعنی امریکہ سے مراد وہ کمپنی جس سے ہم نے سودا کیا تھا اس میں سات اور زبانوں کی سہولت آپ نے رکھنی ہے تو ان کے ماہرین حیران رہ گئے کہ تم کیا کہہ رہے ہو یہ ہو کیسے سکتا ہے.اتنا بڑا امریکہ ہے یہاں کسی کو توفیق نہیں ملی کہ سارے چینلز بھر دیں ، انہوں نے کہا آپ یہ کیا سوچ رہے ہیں ہم تو دیوانے اور قسم کے لوگ ہیں.آپ اس بات کو چھوڑ دیں کہ کیوں سوچ رہے ہیں.یہ ہوگا انشاء اللہ اور ہو کے رہے گا.ہم نے جو چینلز یعنی جو دیگر راہیں مختلف زبانیں استعمال کرنے کی میسر ہوتی ہیں وہ سب استعمال کرنی ہیں انشاء اللہ.تو زبانوں میں تو یہ کام کافی حد تک آگے بڑھا ہے اور جب یہ سلسلہ شروع ہوگا تو پھر ہم اس کو بار بار دہرانا بھی شروع کریں گے تاکہ سننے والوں کے لئے دقت نہ ہو کہ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی اب میں واپس جاؤں.اب بیچارہ واپس کیسے جا سکتا ہے.ہر ایک کے پاس تو ریکارڈنگ کا انتظام نہیں ہے.تو ہم دہرائیں گے اور اتنی دفعہ دہرائیں گے بعد میں کہ جن کے پاس وہ ویڈیوریکارڈنگ کا انتظام نہیں ہے وہ بھی اطمینان سے بیٹھے رہیں ان کو ضرور انشاء اللہ آخر کا رزبان کا گہرا مفہوم سمجھ آجائے گا اور محاورے جو شروع میں سمجھ نہیں آتے وہ دو چار دفعہ سننے کے بعد جو ذہن پر نقش ہور ہے ہیں وہ ابھرتے ابھرتے جب سطح پر آتے ہیں تو انسان سمجھتا ہے ایک دم مجھے بولنا آ گیا ہے حالانکہ وہ اس کی تہیں بٹھائی جارہی ہوتی ہیں.اس سارے پروگرام کا مقصد یہی ہے کہ بچے کے ذہن پر جس طرح نہیں جمائی جاتی ہیں، نقوش جمائے جاتے ہیں.ہر کوشش کے وقت بچے کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی لگتا یہ ہے کہ اس کے پہلے کچھ نہیں پڑا لیکن وہ جب جنہیں جمتی ہیں ایک خاص اونچائی پر جب پہنچتی ہیں تو وہ سطح کا نشس ذہن یعنی باشعور ذہن کے حصے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ جو سب کانشنس میں تیاری ہو رہی تھی لاشعوری

Page 964

خطبات طاہر جلد 13 958 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء حصے میں نقوش جم رہے تھے اس کی سطح اونچی ہوتے ہوتے وہ اوپر کی جو باشعور سطح ہے اس میں ابھر آتی ہے.جس طرح سمندر میں ٹیلے بنتے ہیں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے جانور بے چارے ان گنت تعداد میں مرتے ہیں اور وہ بار یک بار یک تہہ بنتی چلی جاتی ہے بعض دفعہ ایک ارب سال یا اس سے بھی زیادہ لگتا ہے لیکن آخر با ہر نکل آتا ہے اور Coralline سارے اسی طرح بنے ہیں.تو انسان کو بھی خدا تعالیٰ نے بڑے صبر کے ساتھ تعلیم دی ہے.خدا کی ہر چیز میں صبر پایا جاتا ہے اور یہ بھی صبر والا حصہ ہے جنہوں نے بھی دیکھنا ہوگا ان کو باقاعدہ وقت دینا ہوگا اور صبر کے ساتھ دیکھتے رہنا ہوگا.یہاں تک کہ انشاء اللہ ان کو وہ زبانیں آجائیں گی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہمارے را ویل بخاری صاحب ہیں، افریقہ سے پہلے وہاب صاحب تھے ان کو تو خیر آتی تھی مگر آ ڈ و صاحب ہیں اور اسی طرح اور ہیں جن کو کچھ پتا نہیں تھا تو اللہ کے فضل کے ساتھ اچھی بھلی وہ گفتگو کر نے لگ گئے ہیں.براہ راست زبان سنتے اور سمجھتے ہیں ، ذہن ترجمہ نہیں کرتا خود پتا چلتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے لیکن یہ ہے غریبانہ پروگرام.یہ میں آپ سے دوبارہ عرض کرتا ہوں جو کمپنیاں ایسے پروگراموں کے اوپر لکھوکھا ڈالر خرچ کرتی ہیں وہ ہم چند پیسوں میں پورے کر رہے ہیں واقعہ چند پیسوں میں.یعنی اندر بیٹھے ،سمندر پہ تو لے جا کر نہیں دکھا سکتے نہ میرے پاس وقت ہے.سمندر کی تصویر میں دکھا دیتے ہیں پتا تو لگ جاتا ہے اور بعض دفعہ لطیفے بھی ہو جاتے ہیں بیچ میں.جب کھانے پینے کی چیزیں اور برتنوں وغیرہ کے متعلق اور متفرق گھر یلو چیزیں دکھانے کا پروگرام تھا تو میں نے ان کو کہا ہوا ہے پیسے خرچ نہیں کرنے جماعت کے.اپنے گھروں سے کارکن لے آیا کریں چیزیں.تو نمونے کے طور پر میں اپنے گھر سے، میز سے سب ڈھیریاں اکٹھی کر کے لے جارہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ نمک دانی یا مرچ دانی کا برتن نہیں رکھا تو میں نے اٹھا کر جیب میں ڈالی ، جگہ نہیں تھی اور اب وہ خیال تھا کہ پہلے نکال کر رکھ لوں گا وہاں بھول گیا جب باری آئی تو میں نے جیب سے نکالی تو اس پر کینیڈا سے میری بہن امتہ الجمیل کا احتجاج آیا یعنی احتجاج کوئی سختی کا نہیں تھا نرمی اور پیار کا تھا کہ بھائی اب یہ تو نہ کریں کہ جیب میں ہاتھ ڈال ڈال کر نمک دانیاں نکالیں عجیب لگتا ہے.میں نے کہا ہم ہیں ہی عجیب لوگ.ہمارے پروگرام غریبانہ اور سادہ ہیں اور دنیا شرماتی ہوگی مجھے تو کوئی شرم نہیں.مجھے تو پتا ہے کہ رسول اکرمﷺ سے متعلق ہمیں اللہ نے خبر دی یہ کہو و مَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ میں تو ضرورت کی چیزیں پوری کروں گا مجھے

Page 965

خطبات طاہر جلد 13 959 خطبه جمعه فرمود و 16 دسمبر 1994ء تکلف نہیں ہے تو سارے احمد یہ ٹیلی ویژن کا یہ مزاج ہے کوئی تکلیف نہیں جو ضرورت ہے وہ پوری کرنی ہے اور بہت ہی غریبانہ طریق پر پوری ہوتی ہے مگر ہو جاتی ہے اور جہاں تک علمی فائدے کا تعلق ہے یہ زیادہ مفید طریقے پر خدا کے فضل سے MTA علمی خدمات سرانجام دے رہا ہے.ہومیو پیتھک کے لیکچر ہیں جن لوگوں نے مختلف ملکوں میں سنے ہیں اور ہومیو پیتھی کا کام شروع کر دیا ہے ان کی طرف سے بہت ہی خوش کن اطلاعیں مل رہی ہیں اور وہ لکھتے ہیں بعض کہ ہمیں تو سکون مل گیا ہے زندگی میں.کہیں رات کے وقت بچہ بیمار ہوتا ہے کہیں بھاگے پھرتے تھے ڈاکٹر کو فون کرتے کہیں اخراجات اٹھتے تھے، کہیں ویسے یہ مصیبت تھی اور پھر ہسپتالوں میں ڈال کے وہ کئی کئی ٹیسٹ کرتے تھے اب ہم نے آپ کے بتائے ہوئے طریق پر ہومیو پیتھک شروع کی ہوئی ہے اور اب ضرورت ہی نہیں رہتی باہر جانے کی.بعض مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں بچے کو یہ تکلیف ہوئی یہ دوائی دی ٹھیک ہو گیا اور بعض دوسروں کا علاج شروع کر چکے ہیں.تو علاج کا جو فن ہے یہ بہت ہی اہم ہے.آنحضرت ﷺ نے اس کو دینی علم کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا ہے.العلم علمان علم الاديان وعلم الابدان علم تو دوہی ہیں یا دین کا علم ہے یا بدنوں کا علم اور پرانے مفسرین نے اس کا ترجمہ طبی علوم کے طور پر کیا ہے.میں اس کو وسیع کرتا ہوں میرے نزدیک بدن میں صرف طب ہی نہیں بلکہ Matters کا علم جو ہے.سائنس ، تمام وہ علوم جو میٹرز سے تعلق رکھتے ہیں ان کو ایک طرف بیان فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اور وہ تمام علوم جو تصورات کی دنیا سے اور عقائد سے اور دین سے تعلق رکھتے ہیں ان کو علم الدین کے طور پر بیان فرمایا ہے.تو ہم نے ہر چیز سکھانی ہے دنیا کو.لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ غریب انسانیت کی شدید ضرورت ہے کہ اسے اپنا روز مرہ کی ضرورت کا سستا علاج سکھایا جائے.اتنی تکلیف میں ہے دنیا کہ تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.غریبوں کی کیا حالت ہوگی؟ اپنے گھر میں جب کوئی بیمار ہو اس وقت سمجھ میں آتی ہے کہ کیسے سارا گھر بے چین ہو جاتا ہے اور اللہ کا احسان ہے کہ ہومیو پیتھک کے علم کی وجہ سے نہ مجھے باہر بھاگنا پڑتا ہے نہ بچوں کو جانا پڑتا ہے.ہر روز عام ضرورتیں خدا کے فضل سے پوری ہو جاتی ہیں.کبھی کسی Anitbiotic کی ضرورت نہیں پڑتی اور اگر ہمارے گھر نہیں پڑتی تو آپ کے گھر کیوں پڑے ہم بھی تو ایک ہی چیز ہیں یعنی ہر احمدی کے گھر میں چاہتا ہوں کہ ویسا ہی سکون میسر آئے جیسا اللہ کے

Page 966

خطبات طاہر جلد 13 960 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 / دسمبر 1994ء فضل سے میرے گھر میں ہے اور سب جگہ ہم بغیر خرچ کیے اپنی ضرورتیں بھی پوری کریں اور ماحول کی ضرورتیں بھی پوری کریں.یہ گھر تک تو پھر فیض نہیں رہا کرتا پھر تو اس فیض نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے اور اب سب دنیا میں ایسے مریض ہیں جو مجھ سے علاج کروا ر ہے ہیں اور ان کو میں سمجھا تا ہوں کہ اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو ، مجھ سے سیکھو اور خود اپنا بھی علاج کرو اور اپنے ماحول میں بھی غریبوں کا علاج کرو.یہ اتنا اہم ذریعہ ہے کہ اس کے ذریعے ہم انشاء اللہ اپنے روحانی انقلاب میں بہت مدد لے سکتے ہیں.یہ دو علم ، دو گاڑی کے پہیوں کی طرح اکٹھے چلیں گے.آپ دعوت الی اللہ کرتے ہیں، تربیت کے کام کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کو خدا تعالیٰ نے شفا کا علم عطا کیا اور شفا آپ کے ہاتھوں میں رکھ دی ہے.یعنی یہ اگر تصور میں پیش کر رہا ہوں انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.یہ جو صورت حال ہے یہ تبلیغ کے اور دینی سفر کے معاملے میں بہت زیادہ محمد ہے اور ویسے بھی دکھتی ہوئی انسانیت کے لئے یہ خدمت کرنا اس واسطے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ہمیں چین نہیں آسکتا.وہ شخص جو حساس دل رکھتا ہو اگر اس کے بچے بیمار ہوں اس کو تکلیف ہو اور وہ دور کر لے اور باقی لوگوں کا کچھ نہ ہو تو اسے چین کیسے آسکتا ہے.بہت سے کہیں گے کہ ہاں آتا ہے یہی ہو رہا ہے.مگر میں جو بات کر رہا ہوں میں محمد رسول اللہ والے کے دل کی بات کر رہا ہوں.وہ دل اگر ہمیں نصیب ہو تو پھر چین نہیں آسکتا.اس کا دل پر کچھ پر تو بھی پڑ جائے تو چین نہیں آسکتا.اس لئے یہ پروگرام صرف احمدیوں کی سہولت کی خاطر جاری نہیں کیا گیا بلکہ تمام دنیا کی سہولت کے لئے جاری کیا گیا ہے.امریکہ جیسے امیر ملک میں یہ صحت کا نظام ایک اتنا اہم مسئلہ بن چکا ہے کہ اس پر حکومتیں بن سکتی ہیں اور ٹوٹ سکتی ہیں اور ابھی جو کلنٹن کو یعنی ان کی پارٹی کو ایک بھاری شکست کا منہ دیکھنا پڑا.اس میں دراصل صحت کے معاملے میں ان کی دخل اندازی تھی جو بعض دولت مندوں کو پسند نہیں آئی.انہوں نے اچھی کوشش کی تھی لیکن ان کی صحت بھی دولت مندوں کے قبضے میں جاچکی ہے اور بڑے بڑے مافیا بنے ہوئے ہیں.انہوں نے کلنٹن کو سبق سکھایا کہ خبر دار جو ہماری کمائی کے ذرائع پر تم نے نظر ڈالی.ملک مرتا ہے تو مرتا پھرے ہمارے نظام میں تمہیں دخل دینے کا کوئی حق نہیں.یہ ان کہا پیغام جو سب سمجھ رہے ہیں امریکہ والے، یہ کلنٹن اور ان کی پارٹی کو دے دیا گیا.مگر ہو میو پیتھی کے

Page 967

خطبات طاہر جلد 13 961 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء معاملے میں بڑے سے بڑا دولت مند بھی کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایک غریبانہ علاج ہے اور ایک طوعی کوشش ہے صرف امریکہ کی جماعت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ قانونی تقاضے ایسے پورے کرے کہ جس کے نتیجے میں وہاں مقدمہ بازیاں نہ ہوں اور جہاں تک میراعلم ہے اگر کوئی مفت علاج کی درخواست کرے اور ایسی تحریر قطعی حاصل کر لی جائے کہ میں ذمہ دار ہوں میرا مفت علاج کیا جائے تو پھر اس کو مقدمے میں نہیں سہیڑ ا جا سکتا اگر کوئی پیسے وصول نہ کرے.اس پہلو سے وہاں کے قانون کا مطالعہ کر کے جماعت امریکہ کو بھی، کینیڈا کو بھی آگے قدم بڑھانا چاہئے اور مجھے مطلع کرنا چاہئے کہ کس طریق پر ہم وہاں غریبوں کی خدمت کر سکتے ہیں کہ خدمت کرنے والوں کو خدمت کی جزا تو نہیں ملے گی نہ ہم اس کی توقع رکھتے ہیں، خدمت کی سزا نہ ملے.بعض ملکوں میں خدمت کی بھی سزا ہو جاتی ہے اپنے اپنے رنگ ہیں.اب امریکہ میں خدمت کی یہ سزا مل سکتی ہے کہ کوئی مریض اچھا نہ ہو اس کی حالت بگڑ جائے تو وہ مقدمہ کر دے مجھے دس لاکھ ڈالر دلواؤ تم نے میرا علاج کیا تھا اور اب میں اگر کہیں اور جاتا تو ٹھیک ہو جاتا.تو خدمت کی سزائیں نیک دل خدمت کرنے والوں کو کسی طریقے سے مل بھی جاتی ہیں.پاکستان میں اور رنگ ہے سزا کا.ڈاکٹر گئے خدمت کرنے کے لئے ان کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا کہ احمدیوں کو کیا حق ہے کہ وہ غیر احمدیوں کی صحت کا فکر کریں اور ان کے علاج کی کوشش کریں تو جماعت کو قربانیاں بھی دینی پڑیں گی لیکن جن ملکوں میں قربانیاں دئے بغیر خدمت ہو سکتی ہے وہاں کیوں نہ بغیر قربانی کے خدمت کی جائے نفس کی قربانی کافی ہے لیکن بغیر قربانی سے مراد ہے سزا کی قربانی کے بغیر.تو ان ملکوں میں قانون بہت آگے بڑھ چکے ہیں، پیچیدہ ہو چکے ہیں، اس لیے ایسے معاملات میں با قاعدہ ماہر فن سے مشورہ کرنے کے بعد ایک طریق کارطے کرنا ہوگا اور یہ پروگرام تو اب شروع ہو جائیں گے جن سے اتنا تو فائدہ ہوگا کہ لوگ ایک مہنگے ملک میں غریب احمدی اپنے علاج خود کر سکیں گے.اس کے علاوہ اب اور بھی بہت سے پروگرام ہیں جن کے متعلق میں جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ جلدی کریں اور اپنے اپنے ملکوں کے پروگرام بنا کے بھیجیں لیکن جہاں تک مرکزی پروگراموں کا تعلق ہے جو میرے ذہن میں ہے جماعت کی تربیت کے لئے ان میں ایک پروگرام جواب عنقریب داخل ہو رہا ہے وہ کھانا پکانا ہے.کھانا پکانے کے متعلق آپ پروگرام دیکھتے رہتے ہیں مگران پروگراموں میں اور احمد یہ پروگراموں میں وہی فرق ہوگا جو ہمارے ہر دوسرے پروگرام میں

Page 968

خطبات طاہر جلد 13 962 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء ہوتا ہے.ہم گہری نظر سے ضرورت مند کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر پروگرام بناتے ہیں اس پہلو سے غریبوں کے کھانے کا کوئی پروگرام نہیں ملے گا آپ کو ٹیلی ویژن چاہے پاکستان کی ہو یا باہر کی ہواگر کھانے کے پروگرام آتے ہیں تو ایسے ایسے امیرانہ ٹھاٹھ کے پروگرام آتے ہیں کہ بھاری اکثریت جو غرباء کی ہے ان بے چاروں کو صرف تکلیف ہی پہنچتی ہے یہ امیر بڑے بڑے نخرے کر رہے ہیں پتا نہیں کیا کیا کھاتے پھرتے ہیں ہمیں تو برتن خریدنے کی بھی توفیق نہیں ہے.تو یہاں جو جنہ کی ٹیم بنائی گئی ہے، لجنہ کی تو نہیں یعنی خواتین کی ٹیم بنائی گئی ہے، اس میں میری بچیاں بھی شامل ہیں ان کو میں نے دو تین ملاقاتوں میں اچھی طرح سمجھایا ہے کہ آپ بے شک شوق پورے کر لیں دوسرے کھانے بھی سکھائیں، مہنگے کھانے بھی سکھا دیں مگر لازماً اس بات پر زور دینا ہے کہ غریب کے گھر کا بجٹ ملحوظ خاطر رکھ کر اس کو بتائیں کہ وہ اتنے ہی خرچ میں بہتر لذت کیسے حاصل کر سکتا ہے.کھانے کا تعلق صرف دولت سے نہیں ہے کھانے کا تعلق ذوق اور سلیقے سے بھی ہے.امیر سے امیر گھر میں بھی اگر سلیقہ نہ ہو تو ایسے خوفناک کھانے پکتے ہیں کہ صاحب ذوق کے لئے ایک مصیبت بن جاتی ہے.بوئیں چھٹی ہوئی اور کئی قسم کی مصیبتیں.اس لئے کھانا پکانے کا سلیقہ ٹھیک ہو جائے تو بعض دفعہ ایک معمولی قیمت کی چیز بھی بہت اچھی لگنے لگ جاتی ہے.ایسا کئی دفعہ ہوا ہے کہ ہمارے ہاں دال بھی پکی ہوئی تھی اور مچھلی یا مرغا وغیرہ بھی تھا لیکن میں نے دال ہی کھائی ہے.کوئی قربانی نہیں تھی، کوئی فقیرانہ انداز نہیں تھا بلکہ طبعا مجھے اچھی لگ رہی تھی وہ اتنی اچھی تھی کہ اس کے مقابل پر نہ مرغا کام آرہا تھا نہ مچھلی کام آرہی تھی تو انسان کو اپنے ذوق کے مطابق ہی کھانا کھانا چاہیئے اگر میسر ہو.اس طرح غرباء کو بھی ایسے طریقے سکھائے جا سکتے ہیں کہ ان کے مینو بنا ئیں اس کے متعلق میں کافی ان کو باتیں بتا چکا ہوں کہ اس طرز کے مینو بنائیں یہ چیزیں داخل کریں اور پھر کچھ نہیں تو روٹی اچھی پکانے کا طریقہ ضرور سکھائیں.روٹی کی مختلف قسمیں پکانی سکھا دیں.کیونکہ میں نے تجربے سے دیکھا ہے بعض دفعہ شکار پر بعض دفعہ ویسے بھی ، اگر روٹی اچھی ہو تو محض نمک مرچ او پر لگا کر جو مزہ آتا ہے وہ بُرے پکے ہوئے سالن کے مقابل پر بہت زیادہ ہوتا ہے اور پیاز سے بھی بڑا مزہ آ جاتا ہے.چٹنیوں سے روٹی کئی دفعہ ہم نے کھائی ہے کچھ اور سالن نہیں کھایا جو اس کا لطف ہے وہ اپنا ایک لطف ہے لیکن روٹی اچھی ہونی چاہئے اگر روٹی بدمزہ ہو تو پھر سارا سالن بھی خراب ہو جاتا ہے.تو یہ

Page 969

خطبات طاہر جلد 13 963 خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1994ء چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر ان کو ہمیں سمجھانا ہے اور اس سلسلے میں جماعت پاکستان سے خصوصیت سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ مختلف ٹیمیں بنا ئیں مختلف غرباء کے گھر میں جائیں یہ دیکھیں کہ ان کے پاس روز مرہ پکانے کی ضرورتیں بھی مہیا ہیں کہ نہیں اور ان کے گھر کی اکانومی بنانے میں مددگار ہوں.ہماری تمام ذیلی تنظیمیں بعض علاقے اپنے اپنے سپرد کر کے بعض جگہ چند ماڈل کے گھر بنائیں لیکن یہ لازم شرط ہے کہ روپے پیسے کے زائد استعمال کے بغیر ان کے بجٹ کے اندران کو صاف ستھرا رہنے کا سلیقہ اور اپنے بجٹ کو مناسب طور طریق پر اس طرح بنانے کا سلیقہ سکھانا ہے کہ دال ، کڑھی اور کئی قسم کی چیزیں سبزیاں ہیں ان کے شوربے وغیرہ وغیرہ یہ سب چیزیں سکھائی جائیں.اب دال جب میں نے ان کو کہا کہ دال پر زور دیں یعنی دال کی مختلف قسمیں بھی سکھائیں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں مگر مجھے یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں تو دال اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ اب یہ امیروں کا نخرہ ہو گیا ہے تو میں نے کہا کہ آخر غریب کچھ تو کھاتے ہیں لیکن میں نے ان کو بتایا کہ آپ کا یہ اعتراض ویسے درست نہیں ہے کیونکہ دال میں ایک خوبی ہے کہ اسے جتنا پتلا کر لو پھر بھی مزیدار رہتی ہے.میں نے خود بنگلہ دیش میں ایک غریب احمدی گھر میں چاول اور دال اس طرح کھائے ہیں کہ بالکل پتیلی دال تھی نام کا رنگ تھا لیکن نمک مرچ کی مناسبت کی وجہ سے ایک دو خوشبوئیں ڈالی ہوئی تھیں اس سے مزہ بہت اچھا تھا اور دال چاول کا اچھا یعنی مزیدار کھانا بن گیا تھا.تو عقل استعمال ہونی چاہئے سلیقہ استعمال ہونا چاہئے.ہم نے چیلنج یہ قبول کر لینا ہے اور اس پہینچ کا حق ادا کرنا ہے کہ دولت کی کمی کے باوجود روزمرہ کے گھروں میں کچھ بشاشت پیدا کریں.روز مرہ کے غریبانہ گھروں کے دستور میں کچھ بشاشت کے سامان پیدا کر دیں.کچھ سہولت پیدا کر دیں وہ پیسہ ضائع کرنے کی بجائے اسے اچھے مصرف میں لے کے آئیں.جہاں تک دالوں کے مختلف پکانے کے طریق ہیں بعض تو آپ نے سنا ہوگا محاورہ ”یہ منہ اور مسور کی دال یعنی ایک نواب تھا یا بادشاہ، وہ کہانیوں میں تو مختلف نام آتے ہیں اس نے ایک اعلیٰ فن دار باور چی سے اس کی اپنی مرضی کا کھانا پکانے کو کہا کہ لا کے دکھاؤ پھر میں تمہیں نوکر رکھوں گا.اپنی مرضی کا جو تمہیں پسند ہے پکا کر لاؤ.اس نے مسور کی دال پکائی لیکن اس پر اتنا زیادہ دوسرا خرچ کر دیا.کچھ زعفران، کچھ دوسری چیزیں ڈالیں کہ جب وہ اس نے پیش کی تو نواب صاحب نے ابھی

Page 970

خطبات طاہر جلد 13 964 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 / دسمبر 1994ء چکھی ہی نہیں تھی کہ اتنے میں اس کا سیکرٹری یا مال کا منتظم بولا کہ سر کار آپ اس دال کی طرف نہ جائیں اس ظالم نے اتنا خرچ کروا دیا ہے کہ بہت مہنگا ڈش بن گیا ہے.تو نواب صاحب نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ کیا حرکت ہے.کہتے ہیں اس نے دال کا پیالا اٹھا کر باہر ایک ٹنڈ درخت تھا اس پر پھینک دیا اور کہا کہ یہ منہ اور مسور کی دال یعنی مسور کی دال کھانے والے بھی تو منہ ہونے چاہئیں تمہیں تو یہ بھی توفیق نہیں.کہانی میں لطیفے کے طور پر بتایا جاتا ہے کہ وہ سوکھا ہوا درخت جہاں جہاں دال پڑی وہاں سے ہرا ہو گیا.تو کھانا پکانے کا سلیقہ ہوتا ہے یہ سلیقے سکھانے ہیں.سبزیوں کا موسم آتا ہے تو بعض سبزیاں بہت سستی ہو جاتی ہیں.ہٹ کر خریدیں تو عام سبزیاں بھی اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ ہاتھ نہیں پڑ سکتا.جب غریبوں کو آپ سبزیوں کا کہیں گے تو انہیں یہ بھی بتائیں کہ اچھے موسم میں ، بھرے ہوئے موسم میں جب سبزیاں پھینکی جارہی ہوں.اس وقت آپ خشک کر کے ان کو کس طریقے سے سنبھال سکتے ہیں کہ دوسرے وقت میں آپ کے کام آئیں.اس کا بھی ایک با قاعدہ پروگرام بنا کر اس پر عمل درآمد کرانا ہوگا اور ماہرین کو اس میں محنت کرنی پڑے گی جو فوڈ کے ماہرین ہیں مثلاً کھانے کے فن سے تعلق رکھنے والے سائنس دان جماعت میں ملتے ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے.پھر مختلف سبزیاں کس طرح پیش کی جاسکتی ہیں.اب کریلے کو اس طرح بھی پکایا جاسکتا ہے کہ سارا گھر کڑوا ہو جائے اور اس طرح بھی پکایا جا سکتا ہے کہ اس کے مزے سب موجود ہوں.کڑواہٹ صرف اتنی ہو کہ یادر ہے کہ کریلا ہے.تو یہ کیوں نہ سکھائیں ہم سب کو چٹنیاں بنانی کیوں نہ سکھائیں.تو یہ وسیع پروگرام ہے جس پر عمل درآمد شروع ہو رہا ہے.اب ان کے ترجموں کی کچھ مشکل ہے.نہ ابھی تک ہومیو پیتھک کی کلاسز کے پروگراموں کے ترجمے ہو سکے ہیں پورے، نہ روزمرہ کے گھنٹوں کے پروگراموں کے ایسے ترجمے ہو سکے ہیں کہ انہیں مستقل ہر زبان میں جاری کیا جاسکے.اس پروگرام کے ترجمے کی ضرورت پیش آئے گی پھر ان میں افریقن پروگرام بھی چاہئیں اور چائنیز پروگرام تو یہاں ہی ہو جائیں گے لیکن افریقہ کے مختلف ملکوں کو یا فارابیسٹ میں جو ہمارے احمدی پھیل رہے ہیں.جن ممالک میں ان کے کھانوں کے انڈونیشیا کے کھانوں کے پروگرام بھی ہونے چاہئیں.تو آپ سب لوگوں کو بہت کام کرنا ہے اپنے اپنے ملکوں میں پروگرام بنائیں اور وہ بھجوائیں

Page 971

خطبات طاہر جلد 13 965 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 / دسمبر 1994ء تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس ٹیلی ویژن کے پروگرام کو صرف دلچسپی کا موجب نہ بنائیں بلکہ بہت ہی مفید اور کارآمد پروگرام بنادیں کہ دشمن بھی مجبور ہو اس ٹیلی ویژن کو دیکھنے پر.اس سلسلے میں امریکہ میں ایک جماعت میں ایک کام دے کے آیا تھا ابھی تک مجھے اس کی اطلاع نہیں ملی ہمارے بھانجے ہیں مرزا مغفور احمد صاحب ، ڈاکٹر ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ اب یہاں نیا تجربہ ہوا ہے کہ مثلاً مکئی کے کھیت ہیں ان میں ٹانڈوں کو کھڑا رہنے دیا جاتا ہے اور چھلیاں اتار کر استعمال کر لیتے ہیں اور جب اگلا موسم آتا ہے کاشت کا، اس وقت تک وہ گل سڑ کر ویسے ہی نیچے گر چکے ہوتے ہیں، صرف ایک ہل دیتے ہیں اور بیج پھینک دیتے ہیں کوئی دوسرا ہل نہیں دیتے کوئی سہا گہ نہیں دیتے.اور اس کے باوجود وسیع پیمانے پر تجربے ہوئے ہیں کہ اوسط دوسرے طریق سے گری نہیں ہے.اب پاکستان جیسے غریب ملک میں اور ہندوستان جیسے غریب ملک میں اور بنگلہ دیش جیسے غریب ملک میں جہاں ٹریکٹر کے اخراجات بے شمار ہیں وہاں اگر ان طریقوں کو نمونہ جاری کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی سہولتیں مہیا ہوسکتی ہیں.یہ لمبی بحث کا اب وقت بھی نہیں ہے لیکن پوری طرح میں نے معاملے کو سمجھ لیا ہے اور تحقیق کی ہے اور اس میں ایک حکمت ہے.ان سے میں نے کہا کہ آپ بنا ئیں پروگرام.ان فارموں کے زمینداروں کے پاس جائیں ان فارمز میں پہنچیں اور بنا کے ہمیں بھجوائیں MTA کے لئے تا کہ پاکستان اور غریب ملکوں میں ایک نیا طریقہ کم قیمت پر اچھی کاشت کا سکھا دیا جائے اور یہ جو علاقے ہیں جن کی میں بات کر رہا ہوں یہاں اوسط پیداوار ستر من فی ایکڑ ہے ایک بل کے ساتھ اور ہمارے ہاں دس دس ہلوں کے بعد بھی بمشکل تمھیں پینتیس من تک پہنچتی ہے تو کہیں کہیں بہت بھی بڑھ جاتی ہے لیکن میں عموما بات کر رہا ہوں اوسط تو تیں من بھی نہیں ہوتی.تو ایسے بہت سے دلچسپ پروگرام میں مختلف ملکوں میں جو تجربے ہورہے ہیں.پانی کی بچت کیسے کی جاسکتی ہے.باغوں کو کس طرح بہت تھوڑے پانی میں عمدگی کے ساتھ پالا جاسکتا ہے.یہ سارے ایسے کام ہیں جن میں ہمارے کہیں بعض احمدی بھی ریسرچ کر رہے ہیں تو ان کو کہہ چکا ہوں ان کی طرف سے بھی آنے چاہئیں اور آپ سب کو دنیا میں جتنے احمدی جہاں جہاں بھی ہیں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جس کو وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مشترک کر کے اپنے فیض کو عام کر سکتے ہیں.

Page 972

خطبات طاہر جلد 13 966 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1994ء یعنی جس علم میں بھی کوئی خاص بات دیکھیں جس میں دوسروں کو فائدہ ہوسکتا ہو اس کو عام کریں، اپنے تک نہ رکھیں اور اس ضمن میں مرکزی طور پر جماعتوں کا کام ہے کہ اچھے ٹیلی ویژن پروگرام بنا کر وہ پروگرام ہمیں بھجوائیں.تو یہ باتیں تو بہت زیادہ کرنے والی ہیں مگر وقت میں دیکھ رہا ہوں بہت لمبا ہو گیا ہے تو انشاء اللہ یکم جنوری سے خدا کے فضل کے ساتھ یہ پروگرام جاری ہوں گے اور جماعت سے اس کے لئے چندے کے طور پر ایک بھی پیسہ زائد نہیں مانگا جائے گا کیونکہ جماعت نے ابھی بھی بہت قربانی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ابھی آئندہ سال تک ٹیلی ویژن کے سلسلے میں جماعت پر چندے کا مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں لیکن اشتہارات کے ذریعہ اگر ہمارے تاجر MTA کی مدد کرنا چاہیں تو یہ ایک نیک کام ہوگا.یہ کوئی بوجھ نہیں ہے بلکہ مختلف علاقوں کے اشتہارات مختلف علاقوں کے لوگ دے سکتے ہیں اور آپ کو اگر یورپ اور ایشیا میں دلچسپی ہے تو اس کے الگ اشتہار کے دام ہوں گے.یورپ اور امریکہ میں دلچسپی ہو تو اس کے الگ اشتہار کے دام ہونگے.وغیرہ وغیرہ.تو ہم تھوڑے دام چارج کریں گے، باقیوں کی نسبت بہت کم لیکن اگر یہ رجحان شروع ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمارے روز مرہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اسی سے پورے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.السلام علیکم.پنے ذوق کو مثبت رنگ دیں.مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کو

Page 973

خطبات طاہر جلد 13 967 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء اپنے ذوق کو مثبت رنگ دیں.مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کو متنوع اور مفید پروگراموں کی تیاری کیلئے تفصیلی ہدایات.( خطبه جمعه فرمودہ 23 دسمبر 1994ء بمقام مسجد فضل لندن برطانیہ ).تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمد للہ کہ 1994 ء کا سال بہت سی برکتیں جماعت کے لئے لے کر آیا اور بہت سی دائمی برکتیں پیچھے چھوڑ کر جانے والا ہے.اب ایک ہفتہ تقریباً باقی ہے.تیس دسمبر کو انشاء اللہ اس سال کا آخری جمعہ ہم ادا کریں گے اور پھر آئندہ سال میں داخل ہوں گے.اس دوران دو اور بھی اہم پروگرام ہیں یعنی قادیان کے سالانہ جلسے کا افتتاح اور اس کی اختتامی تقریب یہ دونوں تقریبات لندن میں بھی منعقد کی جائیں گی اور MTA کے ذریعہ تمام عالم میں یہ نشر ہوں گی.پس اس پہلو سے یہ بھی دو بہت اہم جلسے ہیں جو انہی آخری ایام میں واقع ہوئے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ احباب جماعت گزشتہ سال کے حالات پر جماعتی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی غور و فکر کرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے اور بہتر کی دعائیں مانگتے ہوئے یہ آخری ایام صرف کریں گے.بہت سے واقعات ہوتے ہیں جن میں انسان کو ایک نیکی کی توفیق مل سکتی ہے مگر بعض عارضی روکیں پیدا ہو کر اگر چہ اس شخص کے نیکی کے مزاج کو نہیں بدلتیں مگر اس اہم نیکی سے محروم ضرور کر دیتی ہیں اور ایسے کئی واقعات انسان کی زندگی میں ہوتے رہتے ہیں اور ان سے انسان کو سبق بھی سیکھنا چاہئے اور پھر کچھ کمزوریاں واقع ہو جاتی ہیں، کچھ غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، کچھ حقوق کے

Page 974

خطبات طاہر جلد 13 968 خطبه جمعه فرمودہ 23 دسمبر 1994ء معاملے میں بے احتیاطی ہوتی ہے یا حق تلفی ہو جاتی ہے یا جیسا کہ اللہ چاہتا ہے حق ادا نہیں کئے جاتے کئی اختلافات کو ہوا دے کر معاملات کو بگاڑ دیا جاتا ہے، گھریلو ماحول کو گندہ کرنے کے لئے کئی قسم کی غلطیاں ہیں جو بعض دفعہ دیر پابد اثرات چھوڑ جاتی ہیں.تو ہمیں یہ وقت اس تجزیہ میں بھی صرف کرنا چاہئے اور ان دعاؤں میں بھی کہ اے خدا اس سال کی نیکیاں تو باقی رہیں اور ہمیشہ جاری رہیں.اس کی برکتیں تو کبھی ختم نہ ہوں لیکن وہ تکلیف دہ چیزیں جو انسان اپنے اعمال سے خود اپنے لئے پیدا کرتا ہے وہ اس سال کے اختتام سے پہلے ہی ختم ہو جائیں اور آئندہ جماعت کو ان ٹھوکروں سے اللہ تعالیٰ بچائے رکھے.تو یہ دعا ئیں خصوصیت سے اس عرصے میں کریں اور باقی تفصیلی باتیں جو آئندہ سال کے متعلق ہدایات ہیں یا کچھ اور باتیں اس سال سے تعلق میں کرنے والی ہوں گی وہ میں انشاء اللہ اس سال کے آخری خطبہ 30 دسمبر کو کروں گا.ایک مضمون میں نے گزشتہ خطبہ میں شروع کیا تھا MTA سے متعلق جماعت کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانا.یہ مضمون چونکہ بہت وسیع ہے اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جو تشنہ ہیں اس لئے میں نے سوچا ہے کہ آج بھی اسی موضوع پر گفتگو کروں وجہ یہ ہے کہ آئندہ سال جو آنے والا ہے اس میں مختلف MTA کے علاقائی پروگراموں میں وقت کے لحاظ سے بھی تبدیلیاں ہوں گی اور پروگراموں کے لحاظ سے بھی ان کو بہتر بنانے کی ایک عالمی کوشش ہے جو ہم شروع کر چکے ہیں.اس سلسلے میں کمیٹیاں قائم ہیں وہ غور کر رہی ہیں ، بہت محنت کر رہی ہیں ،ان کے ساتھ میرے بھی اجلاسات ہورہے ہیں لیکن کچھ ایسے معاملات ہیں جن کو اس ملک میں بیٹھے بیٹھے سرانجام نہیں دیا جا سکتا.ان کا تعلق مختلف ممالک سے ہے اور ایسے معاملات بھی ہیں جن کا یہاں بیٹھے ہوئے براہ راست مرکز کے لئے سرانجام دینا ممکن نہیں ہو سکتا یعنی وہ مرکزی کارکن جن کے سپر د تمام دنیا کے انتظامات ہیں اور جو اس سلسلے میں بہت محنت کر رہے ہیں ان کے لئے ممکن نہیں کہ ملکی ضروریات میں بھی وہی ذمہ داریاں ادا کریں.اس لئے بہت سی ایسی باتیں ہیں جن میں UK جماعت کو بحیثیت UK جماعت کے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی.جب کہا جاتا ہے تو بعض دفعہ وہ کہتے ہیں کہ اتنے پیسے مہیا کر دیئے جائیں، ہم اپنی الگ ٹیم بنائیں ، اپنا الگ سٹوڈیو بنائیں، اس پر اتنے پیسے کی ضرورت پڑے گی.یہی غلط سوچیں ہیں.سٹوڈیو بنے ہوئے ہیں سامان موجود ہیں، آپس میں

Page 975

خطبات طاہر جلد 13 969 خطبہ جمعہ فرموده 23 دسمبر 1994ء مؤمنانہ تعاون کی ضرورت ہے.آپ اپنی ٹیمیں بنائیں، کارکن بنائیں،ان کو تربیت دینے میں بھی مرکزی منتظمین حتی المقدور تعاون کریں گے.تو معمولی خرچ جو اٹھتے ہیں وہ تو ہر ملک خود ذمہ دار ہوتا ہے اور ہر ملک پہلے ہی کر رہا ہے.تو ایک تو ان پروگراموں کے سلسلے میں یہ عادت پیدا کریں کہ ہر بات جو نیک نصیحت کی جائے اس میں ہاتھ نہ آگے بڑھا ئیں.میں جانتا ہوں کہ ہم سب کے ہاتھ ایک ہی ہیں.یہاں دینے اور لینے والے ہاتھ کا اس طرح فرق نہیں ہے مگر وہ ذمہ داریاں جو ملکی سطح پر سر انجام دی جاسکتی ہیں ان کا بوجھ مرکز پہ ڈالنا جس پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت بڑی بڑی عالمی ذمہ داریاں جن میں آپ کے ملک کی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں، پہلے ہی بہت ہیں.اس پہلو سے کوشش کریں کہ مرکز کا بوجھ چندوں کی ادائیگی کے ذریعے تو آپ بڑاہی رہے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ لیکن ان کے اخراجات میں ایسے سلیقے سے کام لیں کہ بہت سے اخراجات جو آپ وہاں پورے کر سکتے ہیں، و ہیں پورے کریں اور جو عالمی ضرورتیں ہیں ان میں حصہ لیں.آپ کا اجر یہ ہوگا کہ سارے عالم میں جو محنت ہوگی آپ بھی اس سے حصہ پائیں گے، اس کا فیض آپ کو بھی نصیب ہوگا.تو یہ جو اجتماعی کوششیں ہیں یہ کلوا جميعا کی سی حیثیت رکھتی ہیں ، سب اپنا اپنا کھانا لے کر آتے ہیں اور ایک جگہ اکٹھے ہوکر اس میں بہت تنوع پیدا ہو جاتا ہے اور دعوت سج جاتی ہے اور اچھے محبت کے ماحول میں ایسے کام ہوتے ہیں جو ویسے اگر کئے جائیں اجتماعی طور پر تو بہت خرچ چاہیں گے، بہت سے انتظامی تقاضے کریں گے اور اتنی بعض دفعہ کسی جماعت میں صلاحیت نہیں ہوتی کہ اکٹھے یہ سارے کام کر سکے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کلوا جمیعا میں اللہ کے فضل سے بہت سی برکتیں ہیں.تو یہ بھی ایک دستر خوان ہے اور ایک عالمی دستر خوان ہے نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے بچھایا ہے اور آپ ڈشوں میں اس کو اتارتے ہیں اور اس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس پہلو سے سب نے كلوا جميعا کرتا ہے اس کلو اجمیعا کے سلسلے میں کچھ ہدایات میں نے آپ کو گزشتہ خطبے میں دی تھیں کچھ میں اب وہ ہدایات دوں گا.لیکن اس مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے میری نظر پڑی ہے یادداشت پر.آج جماعت احمدیہ نائیجیریا کا بھی جلسہ سالانہ 23 دسمبر سے شروع ہو رہا ہے.یہ حسن سنمونو صاحب نئے امیر جو ہیں

Page 976

خطبات طاہر جلد 13 970 خطبه جمعه فرمود و 23 دسمبر 1994ء نائیجیریا کے ان کی امارت میں پہلا جلسہ سالانہ ہے نائیجیریا کا اور جب سے وہ امیر بنے ہیں ،ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ پہلے بھی بے حد مخلص اور فدائی کارکن تھے اور بہت سلیقہ والے اور دماغی صلاحیتوں کے لحاظ سے بہت متوازن اور اب جب سے امارت سنبھالی ہے وہ دن رات نظام جماعت کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی نظام میں تبدیلیاں لا کر نہیں بلکہ نظام پر عمل پیرا ہو کر اور عمل کروا کر.جو وہاں نظام جاری ہے اس میں ان کے آنے کے بعد نمایاں طور پر اچھے رجحانات دکھائی دے رہے ہیں.تو عالمی طور پر ان کی دعاؤں کے ذریعہ مددکرنی چاہئے.نائیجیریا کی جماعت میں جتنی صلاحیتیں ہیں اب تک وہ بروئے کار نہیں لائی گئیں اور ویسے یہ جماعت اللہ کے فضل کے ساتھ بہت بڑی صلاحیتوں کی مالک ہے.ہر طبقہ فکر کی نمائندگی اس میں ہے اور جماعت سے لوگ گہرا اخلاص رکھتے ہیں اگر چہ عدم تربیت کے نتیجہ میں بعض دفعہ بعض نقصانات بھی پہنچے مثلاً بعض جماعتیں ایسی ہیں جو جماعت احمدیہ میں سے نکلی ہیں اور پھر الگ جماعتیں بنیں لیکن جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی وفاداری کا تعلق ہے وہ یہ حال ہے کہ الگ ہونے کے باوجود جو انتظامی مسائل کی وجہ سے الگ ہوئی تھیں، اپنی لاعلمی کہ کس موقع پر کیا کرنا چاہئے بدقسمتی سے اس وقت ان کو براہ راست خلیفہ وقت کی نگرانی حاصل نہیں تھی واسطے بیچ میں تھے اس لئے نہ صحیح صورت حال خلیفہ وقت تک پہنچتی تھی اور نہ خلیفہ وقت کا منشاء ان پر پوری طرح روشن کیا جارہا تھا وہ الگ ہوگئیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وفا کا تعلق قائم رکھا.آپ کے تمام عقائد پر ایمان لاتی رہیں اور یہ بھی نہیں کہ لاہوریوں کی طرح کوئی نیا عقیدہ گھڑ لیا ہو.صرف انتظامی علیحدگی ہوئی ہے اور اس سے ان کو بھی نقصان پہنچا اور جماعت کو بھی نقصان پہنچا لیکن جب میں نائیجیریا گیا تھا تو ایسی جگہوں پر گیا ہوں ان کے جو بھی اس وقت امیر تھے انہوں نے بڑے اصرار سے دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب کو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق میں اور آپ کے ایمان میں پوری طرح مستعد پایا.تو یہ صلاحیتیں جو میں گنوار ہا ہوں اگر چہ مثال دے رہا ہوں ایک نقصان کی لیکن بتانا چاہتا ہوں کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود ان کا احمدیت سے وفا کر نا بتاتا ہے کہ جو کچھ کر رہے ہیں سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں.احمدیت کو قبول کرتے ہیں تو پورے شرح صدر کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور پھر کسی قسم کے ابتلا ان کو احمدیت کے دائرے سے باہر نہیں پھینک سکتے.یہ لوگ خاص دعاؤں کے محتاج ہیں.

Page 977

خطبات طاہر جلد 13 971 خطبه جمعه فرمود و 23 دسمبر 1994ء افریقہ کے بہت سے ممالک اس طرح بیدار ہو چکے ہیں کہ اب وہ دندناتے ہوئے شیروں کی طرح بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور نائیجیریا اس پہلو سے پیچھے ہے.پس نائیجیریا کی جماعت کے لئے خصوصیت سے آپ کو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.یہ وہ ملک ہے جسے مغربی افریقہ.میں ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے بدنصیبی سے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے خدا کی عطا کردہ نعمتوں اور دولتوں کے باوجود یہ ملک بدحالی کی طرف جارہا ہے اور ان کا روپیہ جو بہت عرصے تک با قاعدہ اپنے مقام پر ٹھہرارہا مثلاً ایک پاؤنڈ میں 14،12 نیرے ہوا کرتے تھے ، 8 سے لے کر 14،12 تک تو مجھے یاد ہے، لیکن اونچ نیچ ہوتا رہامگر وہ گرا نہیں ہے اب کچھ ایسی آفات پڑی ہیں کہ تیزی کے ساتھ یہ تیرے بھی گر رہا ہے اور دن بدن مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے.ملک میں تیل کی افراط اور بہت دولت ہے لیکن جاتی کہاں ہے کچھ سمجھ نہیں آرہی کسی کو اس لحاظ سے یہ ملک بھی دعاؤں کا محتاج ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی اور اپنے مسائل کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے.جماعت احمدیہ ہالینڈ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی ثابت قدم اور متوازن اور مضبوط قدموں سے آگے بڑھنے والی جماعت ہے.گزشتہ چند سالوں میں ان کے امیر ھبتہ النور صاحب کو یہ مبارک ہو کہ انہوں نے بہت عمدگی کے ساتھ تبلیغ میں بھی جماعت کے قدم کو آگے بڑھایا ہے اور ساری ٹیمیں مل کر بڑی وفاداری کے ساتھ جماعت کی خدمت کر رہی ہیں، نئے نئے ایسے امکانات وہاں پیدا ہورہے ہیں کہ جماعت جو سینکڑوں کے چکر میں تھی اب ہزاروں میں داخل ہو جائے تو اس لئے ان کے لئے بھی بہت دعا کی ضرورت ہے.واقعہ شہادت آپ نے سن لیا ہے اس کے متعلق میں سر دست صرف اتنا کہوں گا کہ سندھ میں اس دور میں جو 1984ء کے بعد شروع ہوا انفرادی طور پر احمد یوں کو شہید کرنے کے جو واقعات ہیں یہ مسلسل منظم سازش کے نتیجہ میں ہیں.یہ ویسے واقعات نہیں ہیں جو 1953ء میں رونما ہوئے کہ علماء نے ہر طرف نفرتوں کے بیج بودیئے اور دشمنیاں ہوئیں اور بھڑکیں ،نہ ویسے واقعات ہیں جو 1974ء میں رونما ہوئے وہ بھی ایک اجتماعی سازش کے نتیجے میں تھے لیکن جب عوام مشتعل ہوئے ہیں تو وہ قتل جو احمدیوں کے ہوئے ہیں وہ با قاعدہ انفرادی طور پر سازش کا نتیجہ نہیں تھے.بھڑ کے ہوئے عوام گلیوں میں آئے ہیں قتل و غارت ہوا ہے ، گھر جلائے گئے ، بچے مارے گئے، بوڑھے مارے گئے عورتیں

Page 978

خطبات طاہر جلد 13 972 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء شہید ہوئیں لیکن یہ ہنگامی واقعات تھے اگر چہ ہنگامے منظم طور پر شروع کئے گئے اور پھر ان کو با قاعدہ اس طریق پر آگے بڑھایا گیا لیکن یہ جو واقعات ہیں یہ Cold blooded murders ہیں.جن میں سب کو علم ہے تمام حکومت کے کارندوں کو علم ہے کہ کون بد بخت مولوی ہے جو ایسی سکیمیں بناتا ہے کس طرح وہ غنڈے بھیجتا ہے ، کرائے کے پالتو غنڈے ہوں یا قاتل ہوں جو باہر سے لائے گئے ہوں ان سب کے متعلق سب کو علم ہے اور چونکہ حکومت اس بارے میں قطعاً کسی اقدام کے کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ مخلص پولیس کے یا بعض دفعہ فوج کے کارکنان جوایسے موقع پر بیچ میں ملوث ہوئے ہیں اور انہوں نے غیر معمولی ہمدردی کے ساتھ احمدیوں کے مظلوموں کی تائید کرنے کی کوشش کی ہے کچھ دن کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھا لئے کہ ہم مجبور ہیں اوپر سے ہم پر دباؤ آ گیا ہے.تو یہ ایک ایسی منظم سازش ہے جس میں قوم شامل ہے یعنی حکومت اور مسلسل چلی آرہی ہے.اس لئے اس کا وبال بھی پھر قومی ہوا کرتا ہے اور سندھ میں جو بے شمار آفتیں نازل ہوئیں ہیں اور ہوتی چلی جارہی ہیں اور زندگی کی حرمت اٹھ گئی ہے، انسانیت کی حرمت اٹھ گئی ہے.بچوں، بوڑھوں ،عورتوں میں فرق باقی نہیں رہا.ایک قیامت برپا ہے اور ساری قوم دہائی دے رہی ہے اور اس کا کچھ نہیں بن رہا.یہ نتیجہ ہوا کرتا ہے ایک مسلسل منظم طور پر معصوموں کے اوپر ظلم کرنے کا اور ظلم کے خلاف اگر دل میں کراہت بھی پیدا ہوتی ہے تو چونکہ قومی طور پر ایک منظم سازش ہوتی ہے اس لئے کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ وہ اس آواز کو بلند کرے یا کسی طرح بھی اس کی مدد کرے.جتنے قتل ہوئے ہیں ان سب کے قاتلوں کا سب کو علم ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ ایسے قاتل بڑے مزے سے پھرتے ہیں ، دندناتے پھرتے ہیں اور چونکہ ان کو علم ہے کہ جماعت احمدیہ کی پالیسی تو نہیں کہنا چاہئے جماعت احمدیہ کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی ہر تعلیم کی پر کار بند جماعت ہے کہ جہاں ایک ملک میں منتظم قانون جاری ہے.تمہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے.اس لئے جماعت احمد یہ اس معاملے میں بالکل مجبور اور بے کسی بیٹھی ہے لیکن ہمارا خدا مجبور اور بے کس نہیں ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کیوں اور کب تک ان لوگوں کو اس طرح چھٹی ملے گی.چھٹی اس قسم کی تو نہیں ہے جیسے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قاتل مجرم پوری طرح اپنے جرم کی پاداش سے الگ رہیں اور ان پر کوئی سزا وارد نہ ہو چونکہ قومی جرم ہے اس لئے قومی سزا تو ہمارے سامنے اتر رہی ہے آسمان سے اور زمین بھی

Page 979

خطبات طاہر جلد 13 973 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 /دسمبر 1994ء اگل رہی ہے لیکن پیشتر اس کے کہ وہ وقت آئے جبکہ نوح کی قوم کی سزا کی طرح آسمان سے بھی سزائیں برسی تھیں اور زمین سے بھی اس زور اور شدت کے ساتھ پھوٹی تھیں کہ ساری قوم ان سزاؤں میں غرق ہوگئی تھی.میں ساری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ ان حالات کو سمجھیں اور غور کریں.جو بد بخت قاتل اور ان کے سرغنے ہیں ان کو پکڑیں اور حکومت کو یہ واضح طور پر ان سب کو بتا دینا چاہیئے کہ آج کے بعد ہم اس خباثت کو برداشت نہیں کریں گے.اگر حکومت ایسا کرے اور اپنے کارندوں ہی کو یہ پیغام دے دے تو ناممکن ہے کہ اگلا اقتل ہو سکے کیونکہ سارے لوگ نظر میں ہیں اور پتا ہے سب کو کون لوگ ہیں اس لئے پھر پکڑ سے بچ نہیں سکتے.تو اتنی بات میں عرض کروں گا.جہاں تک شہید کا تعلق ہے اس کے خاندان کا تعلق ہے میں نے پہلے بھی بارہا عرض کیا ہے کہ یہ عظیم سعادتیں ہیں جن کے ساتھ کانٹے بھی لگے ہوتے ہیں.کانٹوں کے دکھ تو کچھ عرصے بعد مندمل ہو کر ختم ہو جائیں گے یعنی زخم مندمل ہوں گے تو وہ دکھ دور ہو جائیں گے لیکن یہ سعادتیں ہمیشہ ہمیش کی سعادتیں ہیں اور سندھ پر بھی احمدیت کے حق میں یہ رحمتوں کی بارشیں بن کر برسیں گی اور ساری دنیا میں بھی جماعت ان سے استفادہ کرے گی تو شہادت کا مضمون بڑا ہی مشکل مضمون ہے جس کا بیان کرنا.آنحضرت ﷺ کا جو عظیم حوصلہ تھا وہی علاج ہے مگر وہ حوصلہ سب کو نصیب نہیں ہوتا اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہمیں اس حو صلے سے ملتا جلتا کچھ حوصلہ عطا کرے تا کہ جانتے ہوئے کہ خدا کی تقدیر کے تابع ہو رہا ہے اور اس کے پس پردہ بہت عظیم رحمتیں چھپی ہوئی ہیں جن کو بارہا ہم دیکھ بھی چکے ہیں پھر بھی ہمیں جب کانٹے چھتے ہیں تو بعض دفعہ حوصلہ جواب دینے لگتا ہے تو دعا مانگنی چاہئے کہ اللہ جماعت کے حوصلے کو بھی وسعت عطا فرمائے اور جماعت کے صبر کو استقامت بخشے.اب ٹیلی ویژن کے متعلق جو میں نے آپ سے گزارش کی تھی اس کے متعلق کچھ نوٹس میں نے آنے سے پہلے چند منٹ میں لکھے تھے تا کہ کوئی بات رہ نہ جائے مگر ڈر ہے کہ رہ جائے گی کیونکہ بہت سا وقت تو تمہیدی باتوں میں خرچ ہو چکا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ عالمی طور پر جو تو قعات تھیں گو جماعتیں بڑے بڑے ملک خصوصیت سے پروگرام بنانے میں مدد کریں گے وہ ابھی تک تو قعات پوری نہیں ہوئیں یہاں تک کہ پاکستان میں مرکز کو بھی میں نے واضح ہدایات دی تھیں کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ جو پاکستان میں بارہ گھنٹے کا پروگرام ہے اس میں آپ ان خطوط پر کام کر کے چند گھنٹے کا

Page 980

خطبات طاہر جلد 13 974 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء بوجھ تو اٹھا ئیں جبکہ آپ کے پاس مستقل عملے موجود ہیں ، ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں لیکن پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ عام طور پر تو اللہ کے فضل سے وہ بڑی مستعدی سے لبیک کہتے ہیں مگر اس معاملے میں بہت غفلت دکھائی گئی ہے اور ابھی تک روز مرہ کے ایک گھنٹے کا پروگرام بھی ان کی طرف سے نہیں آسکا.ہفتے میں بھی ایک گھنٹے کا آجائے تو ہم غنیمت سمجھتے ہیں اور یہ سارا بوجھ جو ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے جسوال برادران نے ایک حصے کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے اور باقی ہمارے انگلستان کے خاص طور پر لندن کے مخلص نوجوان جو یا طالب علم ہیں یا اپنا کوئی کام کر رہے ہیں انہوں نے رفیق حیات صاحب کی قیادت میں یہ بوجھ اٹھایا ہوا ہے کچھ بچیاں ہیں وہ بھی سکول کی عمر سے لے کر کالج کی عمر اور پھر گھر کے کام کاج کرنے والی خواتین اور بڑی وفاداری کے ساتھ ، بڑی ہمت کے ساتھ ، بڑی محنت کے ساتھ یہ عظیم ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں.لیکن جو ملتا ہے وہ صرف یہ کہ فلاں نقص رہ گیا ، فلاں نقص رہ گیا.فلاں نقص رہ گیا، فلاں نقص رہ گیا.اس کا بھی کوئی حرج نہیں اس میں بعض دفعہ صحیح طور پر متوجہ کیا جاتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ہم نقص دور کر کے تمہیں دکھاتے ہیں کہ ایسے نقص دور کیا جاتا ہے وہ آوازیں دے رہا ہوں میں اور ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں آ رہا.تو جماعت کو میں متوجہ کرتا ہوں کہ زیادہ سنجیدگی سے ہر ملک کے صدر مقام میں ایسی ٹیمیں بنائی جائیں اور الگ ایک محکمہ بنایا جائے ، شعبہ اشاعت کے تابع جو بھی شعبہ اس کے قریب تر ہو اس کے تابع بنایا جائے اور ان کی امیر نگرانی کرے اور ان سے پروگرام بنوا کر دیکھے کہ واقعہ کام آگے بڑھ رہا ہے کہ نہیں.اب اس پروگرام کے نہ ہونے کی وجہ سے جو جنوری میں ہمارا نیا پروگرام چلنا تھا وہ کم سے کم ایک ہفتہ اس میں تاخیر کرنی پڑی ہے کیونکہ جس قسم کے تعاون کی ضرورت تھی وہ ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا.میں جانتا ہوں اس میں بہت سی وقتیں ہیں، یہ میں جانتا ہوں کہ یہ اخلاص کی کمی وجہ سے نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں میں لاعلمی کی وجہ سے ہے.اول تو توقعات بہت اونچی کر دی جاتی ہیں حالانکہ بارہا کہہ چکا ہوں کہ معیار اونچا کرنے کی کوشش اچھی بات ہے لیکن ہونا نہ ہونے سے بہر حال بہتر ہے.اس لئے ہاتھ توڑ کے بیٹھ جائیں اور یہ کہ ہمارے پاس اعلیٰ مشینیں نہیں ہیں ، ہم نے ابھی تک ٹریننگ حاصل نہیں کی، ہمارے پاس اچھے لکھنے والے نہیں ہیں اور وہ قیمتی سامان نہیں ہے جن کہ کے ساتھ ٹیلی ویژن کے پروگرام سجتے ہیں، یہ باتیں درست نہیں ہیں یہ سوچیں ہی غلط ہیں.جو توفیق ہے

Page 981

خطبات طاہر جلد 13 975 خطبہ جمعہ فرمود و 23 دسمبر 1994ء اس کے مطابق کچھ بنا ئیں اور اتنا بنا ئیں کہ اس میں سے ہم پھر یہاں چن کر نئے پروگرام بناسکتے ہوں.لیکن جو پروگرام جرمنی میں بنے ہیں یا ناروے میں بنتے ہیں یا جاپان میں بنتے ہیں یا پاکستان کے مختلف حصوں میں یا ہندوستان یا افریقہ میں وہ تو وہیں بن سکتے ہیں یہاں تو نہیں بن سکتے اور وجہ اس کی یہ ہے میں بتاتا ہوں مثلاً ہمیں جو مرکزی تعلیمی پروگرام ہے وہ تو بہر حال جاری رکھنے ہوں گے اس کا بڑا بوجھ نہیں رہے گا کیونکہ مجبوری یہ ہے کہ مجھے اپنی نگرانی میں وہ کرنے پڑیں گے اور جب تک وہ ایک مکمل کورس کی شکل اختیار نہ کر چکے ہوں اس وقت تک ان کا لا ز م یہاں میری نگرانی میں بننا اور جاری رہنا ایسا امر ہے کہ ہم نظر انداز نہیں کر سکتے لیکن ان کے علاوہ جو پروگرام ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو یہاں بن ہی نہیں سکتے ، نہ ہمارے پاس ذرائع ہیں، نہ لکی حالات ایسے ہیں.اب جو جرمن زبان کے پروگرام ہیں وہ جرمنی میں ہی بنیں گے، جوفرانسیسی یا سپینش یا نارویجن پروگرام ہیں وہ وہیں بن سکتے ہیں، اس لئے ہم چاہیں بھی تو وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے.اس کے علاوہ ملکی حالات ہیں.میں اب مثالیں دیتا ہوں آپ کو کہ سب سے پہلے ملک کے متعلق پروگرام ہیں ملک کا آغاز کیسے ہوا.کیسے وہ ملک بنا، کب تک اس کی تاریخ ممتد ہے، قدرتی وسائل کیا ہیں وہاں کی آبادی کیسی ہے یا کتنی ہے اور طرز بود و باش کیا ہے.طبعی عادات اور مزاج اور روایتی طور پر قوم کے کیا انداز ہیں یہ ایک پروگرام کی کڑی ہے جو ہر ملک میں بن سکتی ہے اور اس کو اس طرح نہیں بنانا کہ ایک تقریر شروع ہو جائے.بہت سے پروگرام بنانے کے لئے کہا تو با قاعدہ میزیں لگیں، اس کے اوپر کپڑا بچھایا گیا پھرٹو پیاں پہن کے سارے آگئے پھر وہاں با قاعدہ جلسے کی شکل بنی اور اعلانات ہوئے.یہ پروگرام نہیں ہیں جو یہاں چلیں گے.جب جلسہ ہو رہا ہوگا تو وہی ہوگا جیسے ہو رہا ہے اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں.جیسے ہو رہا ہے ویسے ہی ہوگا لیکن جلسوں کا تو کہا ہی نہیں گیا، کافی جلسے ہو چکے ہیں اور ہوتے رہیں گے انشاء اللہ.جب ہم جلسہ دیکھنا چاہتے ہیں تو جلسہ کا مزاج قائم کر کے دیکھتے ہیں.جب تنوع کا پروگرام دیکھیں اور وہاں جلسہ شروع ہو جائے یا مشاعرہ دیکھ رہے ہیں تو وہاں جلسہ شروع ہو جائے تو طبیعت اس سے گھبراتی ہے.تو جلسوں کے حوصلے بھی ہیں دلچسپیاں بھی ہیں جماعت میں لیکن ہر چیز کا جلسہ ہی بنادیں یہ تو ہوٹل کے کھانے والی بات ہو جائے گی وہاں مرغا پکے یا دال گوبھی مزہ سب کا ایک ہی ہوتا تھا.تو تنوع کی بات میں کر رہا ہوں ، مزے بدلیں اور جس قسم کا پروگرام ہے ویسی ہی اس میں صورت پیدا کریں.

Page 982

خطبات طاہر جلد 13 976 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء اب ملک کے پروگرام ہیں اس میں مختلف ممالک کے نظارے دکھا ئیں مختلف لوگوں کو ان کے انٹرویو لینے چاہئیں.ایک شخص ہے جو عمومی تقریر کرتا ہے پس منظر سے مثلاً ایک ملک کا عمومی تعارف کراتا ہے کہ فلاں زمانے میں اس ملک کا آغاز ہوا اس طرح اس میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں ، ایسی ایسی قومیں حملہ آور ہوئیں اور ان کے نتائج کیا نکلے؟ یہ ایک پروگرام کی کڑی ہے جو بہت دلچسپ ہے.اب وقت چونکہ کم ہے ، میں تفصیل نہیں بیان کر سکتا لیکن ذہن میں میرے اس کو بڑھا کر، پھیلا کر اور مختلف شکلیں دینے کا پروگرام موجود ہے.پھر دوسرا پہلو ہے جغرافیائی.قوم کا اس کا جغرافیہ کیا ہے؟ جغرافیہ میں مختلف خوبصورت جو نظارے ہیں، جھیلیں ہیں ، دریا ہیں ، وہ سارے آئیں گے اور اس کے علاوہ معدنیات ہیں اور پھر جغرافیہ پہ یہ گفتگو بھی آسکتی ہے جو تاریخی جغرافیہ سے تعلق رکھتی ہے کہ اس کا جغرافیہ بدلتا رہا ہے کسی زمانے میں اس کا جغرافیہ یہ تھا آج اس کا یہ جغرافیہ ہے.حدود اربعہ تبدیل ہوا ہے تو کیوں ہوا ہے.اور پھر قو میں کون کون سی آباد ہیں.ان قوموں کی تاریخ کیا ہے؟ ان کا مزاج ، ان کے بولنے کی طرز، ان کی گفتگو کیا صرف تلفظ کا اختلاف رکھتی ہے یا زبانوں کا بھی اختلاف.مثلاً انگلستان کے حوالے سے آئر لینڈ کا ایک تعارف ہے.آئرش قوم کا تعارف ہے وہ UK کے اندر داخل کر کے جو شمالی آئر لینڈ ہے اس کو بیان کیا جاسکتا ہے.تو ویلز ہے ، سکاٹ لینڈ ہے.پھر ان کی روایات.یہ درست ہے کہ آپ گانے اور نغمے وغیرہ اور میوزک وغیرہ کے قائل نہیں مگر وہ جو خاص وقت رات کو مارچ پریڈ کرتے ہیں، شام کو قلعہ میں اور وہ خاص قسم کی ان کی سکرٹس ہوتی ہیں پہنی ہوئی جو مرد بھی پہنتے ہیں تو وہ سکائش کلچر ہے اس کے اوپر سے ایک سرسری نظر ڈال کر لوگوں کو بتانا کہ یہ ہوتا ہے قطعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں.سارا دن دوسرے پروگرام آپ دیکھتے رہتے ہیں وہ کیا کیا دیکھتے رہتے ہیں وہاں.ہم ویسے تو نہیں بن سکتے مگر جو ایک قومی حالت ہے جو بداخلاقی کا مظہر نہیں بلکہ روایات سے تعلق رکھتی ہے اس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈال لینا کوئی گناہ نہیں ہے اور MTA اتنے حصے کو اسی طرح پیش کرے کہ یہ حقائق ہیں لیکن حقائق میں بعض جگہ آپ کے قدم رک جائیں گے.اگر حقائق یہ ہوں کہ ڈانس ہورہے ہیں ، نائٹ کلب ہے تو وہاں جا کر MTA کے قدم رک جائیں گے آپ کہہ سکتے ہیں کہ حقائق اور بھی ہیں یہ یہ بھی ہیں لیکن ہم وہاں قدم نہیں رکھ سکتے.تو عقل کے ساتھ اگر ایسے پروگرام بنا ئیں تو مذہبی حدود

Page 983

خطبات طاہر جلد 13 977 خطبه جمعه فرموده 23 دسمبر 1994ء کو قائم رکھتے ہوئے بھی معاشرے کی تصویریں اور تہذیب و تمدن کی تصویریں کھینچی جاسکتی ہیں اور پھر وہاں کی انڈسٹری ، وہاں کی اقتصادیات ،تجارتیں کہاں کہاں سے ہورہی ہیں، کتنے بڑے بڑے تجارتی مرکز ہیں.اب تجارت کی بات کریں گے تو بہت سی ایسی باتیں بھی آپ ملک کے حوالے سے بیان کریں گے جسے سننے والے دنیا کے مختلف تاجر کئی قسم کے ارادے باندھ لیں گے.ان کو پہلے خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ ہم اس معاملے میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حصہ لے کر اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں مگر یہ پروگرام ان کے ذہن میں نئی نئی لہریں پیدا کریں گے.نئی نئی کھڑکیاں کھولیں گے سوچ کی.تو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کس طرح ہوتی ہے، کیا تجارت ہوتی ہے ، درآمد کیا کیا ہوتی ہے، برآمد کیا کیا ہوتی ہے.اب یہ بھی تقریر نہیں کرنی بلکہ انداز وہ ہے جو ٹیلی ویژن کو دلچسپ بنانے کا انداز ہوتا ہے.یہاں کی جو پورٹس ہیں اس پر بڑے بڑے سامان لوڈ ہورہے ہیں اور جہاز لوڈ ہور ہے ہیں ، ہوائی جہازوں کی پورٹس کے اوپر وہاں سے سامان اتر رہے ہیں اور اس طرح جا رہے ہیں.مارکیٹ ،منڈیاں لگی ہوئی ہیں، یہ نظارے دکھا دکھا کر آپ یہ تقریریں پس منظر میں کر سکتے ہیں لیکن با قاعدہ اچکن پہن کر اور باقاعدہ بٹن بند کر کے تقریر کی کوئی ضرورت نہیں ہے.وہ بہت اچھا لگتا ہے مگر اپنے محل پر ہو تو اس پروگرام کو بھی تقریری پروگرام نہیں بنانا مگر واقعاتی پروگرام بنانا ہے جس میں تقریر کا پہلو بعض دفعہ ایسی آواز کی صورت میں رہتا ہے جس کا بولنے والا نظر بھی نہیں آرہا ہوتا اور بہت اچھا لگتا ہے.اس کی آواز میں ایک وقار ہوتا ہے ایک خاص طرز ہے تو یہ طرزیں جو اچھی ہیں یہ ان سے سیکھنا منع تو نہیں ہے.ان چیزوں میں ان کی طرز میں اختیار کریں لیکن وہاں بھی یادرکھیں کہ جہاں تکلف آجائے ، جہاں پیسہ خرچ کرنا پڑے جہاں غریبانہ پروگرام اجازت ہی نہ دے کہ ان کی طرز کو اختیار کیا جا سکے وہاں قدم روک لیں.ما انا من المتکلفین کی تعلیم پر عمل کریں، بغیر تکلف کے جو کچھ میسر ہے، جوتوفیق ہے اس کو پیش کریں لیکن اچھے طریقے سے.جس طرح میں نے کھانے کا نیا پروگرام جاری کروایا ہے وہاں خواتین کے ذریعے غریبانہ کھانے پکانے سکھانے کا پروگرام تھا اس کے افتتاحی پروگرام میں خود شامل ہوا.میں نے بتایا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ لوگ تکلف کر کے اپنی توفیق سے بڑھ کر کھا ئیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ آپ کی توفیق میں جو کچھ ہے اس میں اللہ کے شکر کا حق اس طرح بھی ادا کریں کہ ایسے اچھے طریقے پر کھائیں کہ

Page 984

خطبات طاہر جلد 13 978 خطبہ جمعہ فرموده 23 دسمبر 1994ء آپ کو لطف آ رہا ہو اور آپ کا ذوق خدا کے شکریے ادا کر رہا ہو.ورنہ بھونڈا گھر ہوتو وہاں مرغا پکے یا مچھلی پکے، ہر چیز ایسی بے ہودہ ہو جاتی ہے کہ ایک لقمہ بھی نہیں کھایا جاتا وہاں.تو سلیقے کی بات میں کر رہا ہوں.روپے کے نچھاور کرنے کی بات نہیں کر رہا.سلیقے کے اندر رہتے ہوئے آپ اپنے پروگراموں کو بہت دلچسپ بنا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے نمونے بن سکتے ہیں.اس پہلو سے ملک کی تاریخ کو مختلف طور پر پیش کرنا ، ملک کے تاریخی ہیرو ہیں،ان کی باتیں، Heroes جن کو انگریزی میں کہتے ہیں ہم اردو میں ہیرو کہتے ہیں ان کو.ہیرو ہیں کہیں وہ شاعر ہیں کہیں شیکسپئر کی باتیں ہوں گی کہیں شیر ووڈ فارسٹ میں چلے جائیں گے آپ وہ Roben Hood اور پھر جان جو اس کا مسخرہ اس کے ساتھ چلتا ہے وغیرہ وغیرہ.اب اس میں بعض دفعہ جو فلمیں ہیں ایسی ان میں سے چند لمحے کے سین اٹھانے کی قانون اجازت دیتا ہے اور وہ اٹھائی جاسکتی ہیں وہاں سے تو نئی فلم تو نہیں بنانی مگر جب رابن ہڈ Robin Hood کی بات کریں گے تو وہاں شیر ووڈ فارسٹ Shere wood forest کا نظارہ تو دکھائیں گے اور پھر وہ دکھا دیں اتنے اتنے اقتباس جتنے کی قانون اجازت دیتا ہے کہ یہ ہوتا تھا Robin Hood کا.اس طرح تیراندازی ہوا کرتی تھی اور دوسرے Folklore ہیں مختلف ملکوں کے مختلف ہیں امریکہ میں ڈیوی کروکیٹ Devi crokit کی باتیں ہوتی ہیں.اسی طرح سوٹزر لینڈ کے ہیرو ہیں جن کے اوپر بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں.بیور وولف Bevor wolf ہے ناروے کا ، اس کے متعلق بھی کئی پروگرام فلمائے جاچکے ہیں.تو ملکی ہیروز کی باتیں بھی کریں اور اس میں سیاسی ، عامتہ الناس کا ہیرو، اس کا کردار کیا تھا.اس پر کیسے کیسے گانے بنائے گئے.قوم کے اوپر کس طرح وہ اثر انداز ہوا اور پھر سیاسی ہیرو ہیں، فوجی ہیرو ہیں جنہوں نے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے ہیں.تو انگلستان کی تاریخ ، یہ آپ غور کریں تو بے شمار پروگرام ہر جگہ آپ کو دکھائی دیں گے جن کو آپ لے سکتے ہیں، بیان کر سکتے ہیں ساتھ تصویریں بھی دکھا سکتے ہیں اگر چہ کھڑی تصویریں ہوں.ہمارے پروگراموں کا حیات گروپ ہے مثلاً اس میں بعض ایسے پروگرام بنانے والے ہیں جنہوں نے اپنی ذہانت سے کھڑی تصویروں سے تصویر بنائی ہے لیکن کچھ دیر تک انسان کو پتا نہیں چلتا کہ یہ تصویر ہے اور کھڑی ہے مثلاً وہ تصویر کے ایک حصے سے شروع کیا اور کیمرے کو حرکت دی ہے اور لگتا ہے کہ وہ ساری تصویر حرکت کر

Page 985

خطبات طاہر جلد 13 979 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء رہی ہے اور تصویر سے تصویر کھینچنا اگر اچھا تصویر کھینچنے والافن جانتا ہو تو یہ تنوع ضرور پیدا کر دیتا ہے.باقی پروگرام مووی ہوں مگر تصویر دکھانے کے لئے آپ کے پاس یہ تو ممکن نہیں کہ ہر جگہ پہنچ سکیں.جب میں ناروے میں ایک موقع پر ایک چھوٹی فیری میں سفر کر رہا تھا تو ایک گھنٹہ میں نے اپنے عام کیمرے سے اس پر تجربے کئے اور وہ جو فیری میں اس علاقے کی تصویروں کے رسالے پڑے ہوئے تھے ان کو اپنی بچی کو پکڑا کر کہ تم یہاں رکھو اور میں تصویر کھینچ کے دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس سے کوئی Video Effect پیدا ہوسکتا ہے کہ نہیں تو جب وہ دیکھی تو میں حیران رہ گیا دیکھ کے ، مجھے پتا تھا اس لئے میں جانتا تھاور نہ بعض دفعہ تو لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ تصویر سے تصویر اتاری ہوئی ہے تو آپ استعمال کریں ذہن کو.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذہن کو بڑی صلاحیتیں عطا کی ہوئی ہیں اس دنیا کو Explore کریں جو خدا نے آپ کے ہر ایک کے ذہن میں رکھی ہوئی ہے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے.اب ہندوستان کو اگر اپنی فلمیں بنانی ہوں تو ہمالیہ کو پیش کرنا پڑے گا.ہمالیہ کے ذکر کے بغیر تو ہندوستان کے تو کوئی معنی نہیں ہیں جب آپ پاکستان جائیں گے تو وہاں 2-K کی چوٹیاں ہیں دوسرے ایسے پہاڑ یا علاقے ہیں، درہ خیبر ہے، ان کی تصویریں کھینچی ہوں گی.کچھ تصویر میں تو آپ کھینچ سکتے ہیں آسانی سے.کچھ آپ ایسی Unions سے لے سکتے ہیں جو ہائی کنگ کے طور پر گئیں اور اچھے معیار کی فوٹو گرافی انہوں نے کی ہوئی ہے.وہ تعاون کرتے ہیں ایسے لوگ اور پھر کچھ تصویریں، بڑے بڑے اچھے کمپنیوں کے کیلنڈر شائع ہوتے ہیں، ان سے آپ لے سکتے ہیں مگر پروگرام آپ نے تصویری بنانا ہے صرف تقریری نہیں بنانا، یہ میں سمجھا رہا ہوں اور پھر تاریخ کوان مقامات کے حوالے سے بیان کرنا.اگر آپ اٹلی میں کام کر رہے ہیں تو اٹلی میں وہ غاریں دکھانی ہوں گی جن میں عیسائی کسی زمانے میں پناہ لیا کرتے تھے یعنی وہ عیسائی جو موحدین تھے اور محض توحید سے چھٹے رہنے کے نتیجے میں ان کو سزا ملی ہے.اس پہلو سے جو آج پاکستان میں جماعت احمدیہ سے ہو رہا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک اور دلیل ہے.توحید ہی کی وجہ سے سب دکھ ہیں.لا الہ الا اللہ کا کلمہ ہے جو احمدی کی زبان سے ان کو تکلیف دیتا ہے اور اس پر یہ طرح طرح کی سزائیں دیتے اور طرح طرح کے جتن کرتے ہیں کہ کسی طرح احمدی اس کلے سے اپنا تعلق توڑلیں

Page 986

خطبات طاہر جلد 13 980 تو اس قسم کے پروگرام جب ہوں گے تو پھر وہ بھی دکھانے ہوں گے.خطبہ جمعہ فرمودہ 23 /دسمبر 1994ء اب پاکستان کی بات ہوئی ہے تو شہداء کے علاقہ کے گاؤں دکھانے چاہئیں.ان کا رہن سہن ان کا غریبانہ طریق لوگوں سے ان کے متعلق انٹرویو کہ کیسے لوگ تھے یہ ، کیا کبھی کسی کو دکھ دیا، کیا تکلیف پہنچاتے رہے، ان کے قتل کے متعلق تمہارا کیا نظریہ ہے تو غیروں کے انٹرویو لئے جائیں اور ایک سفر کا معمولی خرچ ہے اس میں بہت اچھی فلم تیار ہوسکتی ہے.پھر اس کے علاوہ جو تعلیمی کوائف ملکوں کے اور ان کے معیار تعلیم ،اخلاق کھیلیں، زراعت، زراعت کے طریق اور قومی کہانیاں یعنی دیو مالائیں وہاں کچھ ہیں ، وہ کیا کیا ہیں.ان میں کسی اچھے لکھنے والے نے کوئی کتاب لکھی ہو جو شہرت پکڑ گئی ہو اور وہ کہانیاں سب دنیا میں رائج ہیں.مثلاً جس طرح عرب دنیا سے علی بابا چالیس چور کی کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ دنیا کی ہر زبان میں ہر قوم سے متعارف ہو چکی ہے.اسی طرح الف لیلہ کی ایک وہ لا زوال کہانی ہے جس نے تمام دنیا کے دلوں میں گھر کر لیا ہے.تو ایسی کہانیاں جو دیو مالائی ہوں یا جیسی بھی ہوں مگر لکھنے والے نے ایک غیر معمولی ذہانت کا اظہار کیا ہے جس نے تمام دنیا کے ذوق کو اپیل کی ہے اور عالمی طور پر ان کا اعتراف ہو گیا ہے، ایسے ہر ملک میں لکھنے والے بھی ہوتے ہیں.اب بنگال جائیں گے تو ٹیگور کے ادبی ذکر کے بغیر بنگال کی بات پوری نہیں ہوسکتی.پھر قربانی کرنے والوں کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کے دائرے میں خاندانوں نے جو قربانیاں دی ہیں احمدیت وہاں کب آئی اور ملکوں کے لحاظ سے اگر عیسائیت ہے تو عیسائیت وہاں کب آئی تھی.اب اہل یورپ اگر اس تاریخ کا کھوج لگا ئیں تو خودان میں سے بھی اکثر کو تعجب ہوگا کہ اکثر صورتوں میں تلوار کے ساتھ آئی ہے اور عیسائیت کے ساتھ جبر کی تاریخ ایسی باندھی گئی ہے کہ غیروں ہی کے معاملے میں نہیں خود اپنے معاملوں میں عیسائیت نے اتنے جبر روا ر کھے ہیں اور اتنے مظالم کئے ہیں کہ ان کو تاریخ کے صفحوں میں دبائے بیٹھے ہیں اور اسلام پر حملے کرتے ہیں تو حملے کی نیت سے نہیں ،حقائق کے طور پر ان لوگوں کو سمجھانے کے لئے کہ ”چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے تمہیں کیا حق ہے اسلام پر حملہ کرنے کا جبکہ تمہارا اپنا یہ حال ہے.مذہبی دیوانوں کا قصور ہوتا ہے، مذہب کا نہیں ہوا کرتا.ہم عیسائیت کو تو مطعون نہیں کرتے کہ عیسائیت نے یہ تعلیم دی تھی جن ظالموں نے

Page 987

خطبات طاہر جلد 13 981 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء عیسائیت کا حلیہ بگاڑا ان پر افسوس کرتے ہیں تو تمہیں کیا حق ہے کہ ان ظالموں کو جو تمہارے ہاں بھی بہت کثرت سے پیدا ہوئے جب وہ اسی حلیے میں اسلام میں سر اٹھاتے ہیں تو ان کی ذمہ داری اسلام پر ڈال دیتے ہو.جو منہ کالا انہوں نے اپنا کیا ہے ان کی سیاہی اسلام کے منہ پر پھیر نے لگ جاتے ہو.اب یہ اس کو مستقل مضمون تو نہیں بنایا جا سکتا لیکن جہاں جہاں یہ جھلکیاں نظر آئیں وہاں اس سے ملتا جلتا تبصرہ آسکتا ہے اور اچھے طریق پر آسکتا ہے تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے غلطی سے کہ ہم ان کے داغ کھول رہے ہیں بلکہ ایک چلتی ہوئی تاریخ کا حصہ ہے اس سے سبق لے رہے ہیں.پھر قرآن کریم نے بار بار ان جگہوں کا ذکر فرمایا ہے جو قوموں کے لئے عبرت کا نشان ہیں ان عبرت کی جگہوں کی تلاش اور ان سے تعلق والے واقعات کو اجاگر کرنا اور ہر قوم میں ایسی عبرت گاہیں موجود ہیں جہاں کوئی قوم کسی عروج کے بعد زوال پہ پہنچی ہے اور اس کے پیچھے کوئی ایسی داستان ضرور ہے جس میں اس نے خدا تعالیٰ کی توحید سے منہ موڑا ہے اور شرک میں مبتلا ہوئی ہے اور پھر اس پہ یہ سزا وارد ہوئی ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ (الروم :42) دنیا میں سیر کرو اور دیکھو ، مذ بین کی اور ان لوگوں کی کیسی عاقبت تھی اور ساتھ فرمایا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِکین ان میں سے اکثر مشرک تھے.یہ مضمون کے لحاظ سے بعینہ یہی بیان فرمایا ہے.تو معلوم یہ ہوگا کہ دنیا کی تاریخ میں اکثر جگہ جہاں بھی آپ کو عبرت گا ہیں دکھائی دیں گی اس سے پیچھے ایک شرک کی تاریخ ہوگی اور وہ لوگ جو دفن ہوئے ہیں وہ ضرور مشرک ہوں گے.پس پومپیائی ہو، پوپے ہو یا جو بھی آپ اس کو کہیں یا دوسرے ایسے عبرت کے مقام جہاں بڑی قومیں اپنے عروج کے بعد زیر زمین دفن ہو گئیں ان کی تاریخ جب یہ نکالتے ہیں تو شرک کے نشانات وہاں ملتے ہیں.اب لاڑکانہ ہی میں جو پرانی تہذیب دفن ہے موہنجوداڑو یعنی موت کی ڈھیری یا موت کا ٹیلہ، وہاں سے بھی شرک کے آثار نکل رہے ہیں اور ان آثار کو دیکھ کر یہ مغربی محققین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس زمانے میں شرک ہی شرک تھا اور تھا ہی کچھ نہیں حالانکہ یہ اس وقت ہلاک ہونے والی قومیں ہیں جب وہ بڑے لمبے سفر طے کر کے اپنے تمدن کے عروج کو جا پہنچی تھیں اور اس وقت ہوا جب وہ مشرک ہو چکی تھیں.ان کا آغاز اور تھا اور انجام اس وقت ہوا جب وہ مشرک ہو چکی

Page 988

خطبات طاہر جلد 13 982 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء تھیں تو وہاں سے پھر شرک کے ہی دبے ہوئے آثار ملنے تھے اور کیا تھا اور قرآن ایک ہی کتاب ہے جس نے اس طرف انگلی اٹھائی ہے کہ تم ان کا تفضح کرو ان کی تحقیق کرو، ان کا تتبع کرو اور تم یہ دیکھ کر خود یہ معلوم کر لو گے کہ یہ شرک لوگ تھے جن کو خدا نے اچانک دفن کیا ہے اور صفحہ ہستی سے مٹایا ہے.تو ان مشرکین کے انجام کی تاریخ بھی ملکوں میں جگہ جگہ پھیلی پڑی ہے تو اس حوالے سے ان کے متعلق ان کے تاریخی پس منظر بتانا مثلاً مایا قوم ہے تو وہ کون سی تھی ، کتنا لمبا عرصہ عروج کا ہوا پھر کیوں آنافا ناوہ مٹادی گئی.ان کے محل ابھی تک اسی طرح کھڑے ہیں.ساؤتھ امریکہ میں وہ جو مایا قوم نے ایک لمبا عرصہ حکومت کی ہے اب وہ لوگ موجود ہیں لیکن ان کی سطوت جاتی رہی ، ان کی شان و شوکت ہاتھ سے نکل گئی اور یہ معمہ آج تک نہیں حل ہو سکا کسی سے، ان پر کیا بپتا ٹوٹی تھی ، ہوا کیا تھا ان کے ساتھ.ایک شہر دریافت ہوا جو بہت خوبصورت پہاڑی علاقوں میں، بڑے بڑے درخت اور جنگل ہیں ان کے اندر گھر ا ہوا آج تک ، یعنی چند سالوں تک انسانی نظر سے اوجھل رہا تھا اور ہیلی کا پڑ کے ذریعہ گزرتے ہوئے کسی کی وہاں نظر پڑی تو پھر توجہ پیدا ہوئی پھر وہاں کھوج لگانے والے بھیجے گئے بڑی مشکل سے وہاں پہنچے تو یوں لگتا ہے جیسے پورا آباد شہر چھوڑ کر کوئی قوم کہیں جا کے سو گئی ہے، کوئی وہاں لڑائی کے آثار نہیں ہیں.کسی طوفان کے آثار نہیں ہیں، ہنستا کھیلتا، رستا بستا شہر اچانک یوں لگتا ہے کہ جیسے جادو ہو گیا ہو وہ خالی ہو گیا تو عبرت کے ہر جگہ مختلف سامان موجود ہیں جن جگہوں میں ہیں وہاں سے تصویر میں لی جاسکتی ہیں اور اگر وہاں رسائی نہ ہو تو اس کے متعلق بہت سی کتابیں موجود ہیں ، رسالے موجود ہیں ، تفاصیل موجود ہیں.ان علاقوں کے لوگ اپنے لئے وہ مضمون چن سکتے ہیں اور ان کو دکھا کر دیدہ زیب پروگرام بنا سکتے ہیں جو تقریر نہیں ہوگی بلکہ ایک فلمی پروگرام ہوگا جو ویڈیو کے شایان شان ہو.تو ایسے بہت سے پروگراموں کی ضرورت ہے.وہاں کے کھیل ہیں ان کھیلوں کی تصویریں، وہاں کی کہاوتیں ڈالنے کے طریق ، معمے، یہ بچوں کے لئے بھی تو ہمیں سپیشل پروگرام بنانے ہوں گے.پرندے، جانور، شکار، Migratory Birds جو سفری پرندے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں.کون سے ایسے طریقے ہیں.وہاں کے کیڑے مکوڑے، ان کے متعلق نئی معلومات کے مطابق جو تحقیق ہوئی ہے ان کے رہنے سہنے کے طریق ، وہاں کی ہر چیز ایک دلچپسی کا

Page 989

خطبات طاہر جلد 13 983 خطبه جمعه فرموده 23 دسمبر 1994ء موجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے اوپر جہاں بھی نظر ڈالیں گے آپ ، جس جگہ بھی دیکھیں گے غور کر کے دیکھیں سہی آپ، بے اختیار دل سے تبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِيْنَ کی آواز اٹھتی ہے اور اگر یہ حوالہ دیا جائے تو وہی پروگرام جو بظاہر مغربی اور سیکولر ہیں وہ اچانک مذہبی پروگرام بن جاتے ہیں.تو ان پروگراموں کو بعض دفعہ ان لوگوں سے مانگنے سے بھی مل جاتے ہیں.میں نے MTA کو اس کام پہ لگایا ہوا ہے ، خط و کتابت کر رہے ہیں بہت سی جگہ تصویر میں انہوں نے دی ہیں کہ ٹھیک ہے آپ لے لیں.بعض جگہ ہم نے ان سے اجازت مانگی کہ آپ نے کہیں کوئی زیادہ منگ دکھایا ہے ہم برداشت نہیں کر سکتے.MTA میں تو بہر حال مناسب نہیں ہے تو انہوں نے یہ بھی اجازت دے دی ہے کہ اس حصے کو کاٹ لو لیکن ہمارا نام بتا نا ہوگا کہ یہ فلاں نے بنائی تھی اور اجازت دی تھی.تو آپ بھی مختلف علاقوں میں کوشش کر سکتے ہیں.اب جرمن تہذیب ، جرمن تمدن، اس کی تاریخ ، اس کی ترقی ، تنزل ، جغرافیائی تبدیلیاں، عادات، مزاج، شمال جنوب کا فرق ، قوموں کے اعتبار سے خواہ ایک قوم ہوان کے علاقائی روایات کے لحاظ سے ان کے مزاج بدل جاتے ہیں.جرمنی میں خصوصیت سے یہ بات قابل غور ہے.تو ان سب پروگراموں میں آپ اگر دلچسپی لیں تو کچھ وقت ضرور لگے گا میں صبر سے چند مہینے اور بھی انتظار کروں گا لیکن توقع رکھتا ہوں کہ جب یہ آنے شروع ہو جائیں تو پھر اس کثرت سے آئیں گے کہ ہمارے ہاں یہ جو شکایت پیدا ہورہی ہے کہ ایک ہی طرح کی باتیں ہورہی ہیں اس کا ازالہ ہو جائے گا.بنیادی پروگرام تو بہر حال تعلیم و تربیت کا ہے.دلچسپی کے پروگرام بھی ہوں گے وہ بھی تعلیم و تربیت ہی کے ہوں گے لیکن اگر وہ نہ بھی ہوں تو جس طرح اب چھ گھنٹے یا سات گھنٹے سکول میں جا کے بیٹھے ہیں وہاں دلچسپی کی خاطر تو نہیں جاتے علم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں.تو اس ٹیلی ویژن کے سامنے بعض نازک مزاج جلدی بور ہو جاتے ہیں ان کو مخاطب کر کے میں کہہ رہا ہوں کہ ان کو اپنی تربیت کرنی چاہئے.یہ انتہائی ضروری دینی تربیت کے پروگرام ہیں علمی تربیت کے پروگرام ہیں اور آپ کے دماغ کو روشن کریں گے، آپ کے دماغ کونئی وسعتیں دیں گے ان پروگراموں کا ذوق اگر نہیں ہے تو پیدا کریں اور کوشش سے پیدا کریں.اپنے بچوں میں ان کا ذوق پیدا کریں ورنہ آج کل جو ذوق ہے ہم اس کی پیروی نہیں کر سکتے وہ جاہل بنانے والے پروگرام ہیں.

Page 990

خطبات طاہر جلد 13 984 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء بچوں کا ذوق اب اس طرف منتقل ہو رہا ہے سارے مغرب میں کہ فرضی سپر مین ہے کوئی سپر بیٹ بنی ہوئی ہے، سپر سپائیڈر بن گیا ہے.کوئی مکڑا سپر ہے کوئی چمگادڑ سپر ہے اور فرضی کہانیاں ایسا پاگل کر رہی ہیں بچوں کو کہ ہوش ہی نہیں رہی ان کو ، دماغوں کے دائرے ہی مختلف ہو گئے ہیں ، انسانی دائرے سے ہٹ کر ایسی جگہ وہ دائرے ممتد ہورہے ہیں.جہاں حقیقت کا وجود ہی کوئی نہیں ہے اور اس پر یہاں کے اہل دانش بھی فکر کا اظہار کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں ہمارا تعلیمی معیار گرنے کی بڑی وجہ ٹیلی ویژن ہے اور باتیں سوچ رہے ہیں ، خواہ مخواہ نظام بدلنے کی باتیں کر رہے ہو.یہ ٹیلی ویژن کو ٹھیک کرو پہلے.ہمارے بچوں کو یہ ٹیلی ویژن کے پروگرام پاگل بنا رہے ہیں.پھر ایک محقق نے یہ جائزہ لیا، اس نے کہا کہ بچوں میں پڑھنے کی عادت ہی نہیں رہی اور وہ جو پڑھنے سے انسان کو علم حاصل ہوتا ہے کتابوں کا شوق، کتابوں کے بغیر انسان سونہ سکے یہ ایسی اچھی روایات تھیں ہماری یعنی انسان کی کہ جن کو ٹیلی ویژن نے آکے برباد کر دیا ہے.تو ٹیلی ویژن کے فائدے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ضرور ہیں اور ہم ان فائدوں کی حد تک رہیں گے انشاء اللہ اور بھر پور فائدہ حاصل کریں گے لیکن جو نقصانات کے پہلو ہیں ان سے بچنا ضروری ہے اس لئے کسی کو نہ بھی دلچسپی ہو تو کوشش کر کے ان پروگراموں میں حصہ لے کچھ دیر کے بعد ضرور دلچسپی پیدا ہوگی کیونکہ علم علم ہی ہے یہ کوئی فرضی کہانی تو نہیں کہ آئی اور چلی گئی اور کچھ دیر کے لئے ہیجان پیدا کر گئی.علم کا جو لف ہے وہ دائمی ہو جاتا ہے.وہ اپنے پیچھے جو زمین چھوڑ کے جاتا ہے وہ زرخیز زمین ہوتی ہے.سیلاب ہی سمجھ لیں اس کو لیکن یہ مٹی ضرور چھوڑے گا وہ زرخیز مٹی چھوڑے گا جہاں آپ کے خیالات پاکیزہ رنگ میں نشو نما پائیں گے جہاں آپ کے اندرنی عظمتیں پیدا ہوں گی ، آپ کونئی وسعتیں عطا ہوں گی.تو اللہ کرے ہمیں یہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق ملے اور جماعت پوری طرح استفادہ کرے جہاں جہاں میں نے یہ باتیں کی ہیں کہ کوشش کرو یہ مراد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ جماعت میں دلچسپی نہیں ہے.بکثرت دلچسپی ہے یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے متعلق مائیں لکھتی ہیں کہ وہ ہمیں دوسرے پروگرام اب دیکھنے ہی نہیں دیتے اور ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ان کو پتا تو کچھ لگ نہیں رہا ہوا کیا ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ مسحور ہو گئے ہیں ، MTA کے پروگراموں سے.ہر وقت یہی شور ہوتا ہے کہ ہم

Page 991

خطبات طاہر جلد 13 985 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 1994ء یہی پروگرام لگائیں گے.اس لیے جو میں نے ذکر کیا تھا اس لئے کہ کہیں شاذ کے طور پر ایک آدھ خط یہ بھی مل جاتا ہے اور میں نے سوچا کہ بہت سارے اور بھی ہوں گے جو لکھنے میں شرم محسوس کرتے ہوں تو ان کی آواز کو میں سب تک پہنچا دوں اور ان کو مطمئن کرنے کی بھی کوشش کروں.اللہ کرے کہ ہمارے پروگرام دن بدن بہتر ہوتے چلے جائیں اور نیا سال پچھلے سال سے بہت بہتر طلوع ہو اور بہت بہتر حالت میں غروب ہو اور اس کی تکلیفیں بھی تھوڑی اور عارضی ہوں اور اس سال کی برکتیں بھی ہمیشہ رہنے والی دائمی ہوں.آمین.ماریشس میں بھی اب اجازت مل گئی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماریشس سے شمس تیجو صاحب کا فون آیا تھا کہ اس وقت پارلیمنٹ بیٹھی ہوئی ہے اور غور ہورہا ہے کہ ڈش انٹینا کی اجازت دیتی ہے کہ نہیں اور دعا کریں اور پھر میں آپ کو دوبارہ فون کروں گا.یعنی میں تو نہیں سن سکا.جس نے میرے لئے سنا انہوں نے پیغام دیا ہے اور الحمد للہ کہ چند گھنٹوں کے بعد فون آگیا کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ڈش انٹینا کی اجازت ہوگئی ہے اور جو مفید با برکت پروگرام ماریشس سے شروع ہوا تھا.اب اہل ماریشس اس سے محروم نہیں رہے.

Page 992

خطبات طاہر جلد 13 986 خطبه جمعه فرموده 23 دسمبر 1994ء

Page 993

خطبات طاہر جلد 13 987 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء نئے سال پر ہر ذات اپنا محاسبہ کرے کیا کھویا کیا یایا 1894ء اور 1994ء کی مماثلت اور جماعتی ترقیات ( خطبه جمعه فرموده 30 / دسمبر 1994ء بمقام مسجد فضل لندن برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کے خطبے کا موضوع تو اور ہے لیکن اس وقت مجھے ایک چھوٹی سی غلطی کی درستی کروانا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نصیحت کا ذکر میں نے ان الفاظ میں کیا تھا سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل کرو تو ایک دوست نے توجہ دلائی کہ اصل الفاظ میں جھوٹوں کی طرح نہیں، بلکہ ”جھوٹے کی طرح ہے، اس لئے جو الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں ، وہ من وعن اسی طرح بیان ہونے چاہئیں، تحریر میں تو چونکہ چھپے ہوئے ہیں ، اس لئے کسی مستقل غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مگر بعض لوگ تحریر میں نہیں پڑھتے ، ان کی اطلاع کے لئے میں بتا رہا ہوں کہ لفظ ”جھوٹوں نہیں، بلکہ ”جھوٹے کی طرح ہے.پس ” سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه: ۱۲) وو اب ہم سال کے آخری لمحات میں داخل ہورہے ہیں ، ہو چکے ہیں بلکہ 1994 ءکا سال قریب الاختتام ہے، ایک دن بیچ میں رہ گیا ہے اور پرسوں سے انشاء اللہ نئے سال کا آغاز ہوگا.جب سال ختم ہورہا ہو اور نیا سال چڑھ رہا ہو تو طبعا دنیا میں اس جوڑ کو خاص طریق پر منایا جاتا ہے اور بغیر محسوس کئے اس وقت کو گزرنے نہیں دیا جاتا.مختلف رنگ میں لوگ اپنے رد عمل دکھاتے ہیں بعض لوگ تیاریاں کر رہے ہیں کہ جب اگلے سال کا دن چڑھے گا اس جوڑ کے وقت پھر وہ کثرت سے

Page 994

خطبات طاہر جلد 13 988 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء شراب نوشی کریں گے، عیش و عشرت کے تمام سامان جو پہلے سے مہیا کئے جاتے ہیں ان سے وہ محفوظ ہوں گے اور لذت یاب ہوں گے اور بہت سی ایسی بے حیائیاں اس وقت سے وابستہ ہو جاتی ہیں جو عام حالات میں ایک آزاد قوم بھی نہیں کرتی.پس ایک یہ بھی ردعمل ہے.ایک عمومی ہر طرف یہ رد عمل دکھائی دیتا ہے کہ اخبارات میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سال کے اہم واقعات ، کامیابیاں بھی اور ناکامیاں بھی دکھائی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ سال سیاسی لحاظ سے کیسا گزرا.فلاں لحاظ سے، اقتصادی لحاظ سے کیسا گزرا، کون سے اہم واقعات ہیں جو قابل ذکر ہیں.ایک اور رد عمل جو ہونا چاہئے بعضوں میں ہوتا ہے مگر اکثر میں نہیں وہ انفرادی جائزہ ہے.اور یہ ردعمل سب سے زیادہ اہم ہے اور معنی خیز ہے جہاں تک سال کے آکر گزرجانے کا تعلق ہے یہ تو ایک وقت کا بہتا ہوا دریا ہے.اس میں جہاں بھی آپ لکیر کھینچیں اسے اہم لمحہ قرار دے سکتے ہیں مگر جو بہتے ہوئے دریا ہوتے ہیں ان کے درمیان در حقیقت جوڑ تصوراتی ہی ہیں اور محض مبارک باد دے دینا کہ پہلا سال گزر گیا، نیا سال چڑھا ایک فرضی سی بات ہے جس میں کوئی گہری حقیقت نہیں ہے، کوئی عقل کی بات ایسی نہیں کہ جس کے متعلق جماعت کو مشورہ دیا جائے کہ سب مبارک باد میں دو.مبارکباد دل سے نکل آتی ہے تو نکلنے دو بے شک کوئی حرج نہیں مگر وہ مقصد کو پورا کرنے والی نہیں.مقصد کو پورا کرنے والی بات یہ ہے کہ اس سال کا جائزہ ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت سے ، اپنی صورتحال، اپنے دل کی کیفیات پر غور کرتے ہوئے معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کون سے ایسے عظیم انقلابی لمحات تھے ، نیکی کے مواقع تھے جن کو وہ استعمال کرتے ہوئے اپنی روحانی کیفیت تبدیل کر سکتا تھا اور رستے بدل کر بہتر رستوں پر گامزن ہو سکتا تھا اور کون سے ایسے مواقع تھے جو اس کے لئے نیکیوں کو گنوانے والے تھے اور واضح طور پر بدیوں میں مبتلا کرنے والے تھے جس آواز کواسے رڈ کرنا چاہئے تھا اس آواز کو رد نہ کر سکا اور ان غلط رستوں پر گامزن ہو گیا.یہ جو واقعات ہیں یہ تو روز مرہ ہر انسان کی زندگی میں صبح سے شام تک ہوتے ہی رہے ہیں مگر بعض واقعات نمایاں ہو کر گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں اور بعض دفعہ زندگی کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں.یہ ایسی بحث نہیں ہے جسے قومی اور اجتماعی طور پر اٹھایا جائے اور عامتہ الناس میں زیر بحث لایا جائے لیکن میرے نزدیک سب سے اہم رد عمل یہی ہے جو انسان کو وقت کے ایک حصے کے

Page 995

خطبات طاہر جلد 13 989 خطبه جمعه فرموده 30 دسمبر 1994ء گزرنے کے بعد دوسرے حصے کے آغاز کے جوڑ پر دکھانا چاہئے اور یہ ایک انسانی زندگی میں اچھی مفید روایت پیدا کرنے والی بات ہوگی یعنی اسے اگر مستقل اختیار کر لیا جائے تو ایک اچھی روایت ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو بھی میری امت میں اچھی روایات قائم کرے گا ان پر عمل کرنے والا اور ان روایات سے فائدہ اٹھا کر آگے بات پہنچانے والا جب تک بھی ان روایات پر عمل ہوتا رہے گا ( مسند الاحتمام کتاب الادب ) اس وقت تک اس روایت کو جاری کرنے والے کو ان سب کا ثواب پہنچے گا جو اس نیک روایت سے استفادہ کرتے ہوئے پھر اسے آگے بڑھاتے ہیں.پس یہ ایک ایسی روایت ہے میں سمجھتا ہوں جسے ہم اپنی جماعت میں جاری کریں تو محض سرسری مبارکبادوں سے اور جیسا کہ ہمارے ہاں مختلف رواج ہیں، پیدائش ہوئی ہے تو Birthday پہ مبارک باد دی، کہیں وہ پارٹیاں منائی جاتی ہیں ، کارڈ وغیرہ بھیجے جاتے ہیں ان کے مقابل پر یہ روایت دو طرح سے منائی جاسکتی ہے جو میں تجویز کر رہا ہوں.اول یہ کہ جب سب دنیا پر ایک سال غروب ہوتا ہے اور ایک اور سال طلوع ہوتا ہے اس وقت اپنے نفس کا انسان جائزہ لے اپنے ماضی پر نگاہ رکھ کر اپنے اس سال کے ماضی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے، کچھ فیصلے کرے کہ آئندہ جب اس قسم کے امتحان در پیش ہوں گے تو یہ غلطیاں میں نہیں کروں گا اور روحانی طور پر جو اس نے کوشش اور جدو جہد کی اس پر بھی نظر ڈالے اور اس کے ماحصل کو بھی دیکھے.مثلاً دعوت الی اللہ پہ زور دے تو ہر آدمی اپنے نفس پر غور کر سکتا ہے کہ میں نے انفرادی طور پر اس میں کیا حصہ لیا ہے کیا دوسروں کی کوششوں کا پھل دیکھ کر ہی لذت محسوس کر رہا ہوں یا خود مجھے بھی کچھ تو فیق ملی ہے خدا نے مجھے کوئی روحانی اولا د عطا کی ہے.یہ سوچ گہری ہونی چاہئے معنی خیز ہونی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس سوچ کا ایک اور سلسلہ جاری ہونا چاہئے کہ میں آئندہ سال کیا ایسا پروگرام بناؤں کہ سال کے بعد پھر کہیں دوبارہ یہ پچھتانا نہ ہو.جیسا کہ بعض شعراء نے اس قسم کے مضمون کو اپنے شعروں میں بڑی عمدگی سے باندھا ہے.مثلاً بعض اشعار میں یہ ملتا ہے اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے اور اس مصرع کی تکرار ہوتی ہے کہ بعض دفعہ بہار آنے سے پہلے تمنا ہوتی تھی کہ بہار میں یہ ہوگا اور وہ ہوگا مگر نہ یہ ہوانہ وہ ہوا اور بہار کے آخر پر انسان مڑ کے دیکھتا ہے تو حسرت سے کہتا ہے کہ

Page 996

خطبات طاہر جلد 13 990 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی انسانی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نصیحت فرمائی ہے کہ اے غافل ! تو اپنی عمر پر نگاہ ڈال کر غور کر ، یہ نہ ہو کہ خدمت قرآن سے عاری ہی اس دنیا سے سفر کر رہا ہو اور یہ احساس بہت دیر میں پیدا ہو کہ میں پیدا ہوا، بڑا ہوا، اللہ تعالیٰ کے احسانات سے فائدے اٹھائے اچھی زندگی گزرگئی مگر خدمت قرآن کی توفیق نہ ملی.ہر شخص کی سوچ کے مطابق ان زندگی کے جوڑوں پر جہاں ایک دور دوسرے دور میں داخل ہو رہا ہوتا ہے انسان کو مختلف قسم کے خیالات آتے ہیں مختلف قسم کے تصور اس کے دل سے ابھرتے ہیں اور سب سے اچھا وہی تصور ہے جو خدا کی طرف مائل کرنے والا ہو، جو نیکیوں کی طرف توجہ دلانے والا ہو، آئندہ سال اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مد اور معاون ثابت ہو.پس اس پہلو سے میں اگر چہ عام دنیا کے دستور کے مطابق بھی سب عالمگیر جماعت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اللہ آپ سب کے لئے یہ نیا سال مبارک فرمائے لیکن خصوصیت کے ساتھ اس نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کرتا ہوں کہ ابھی جو وقت باقی ہے اس میں اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے ،غور وفکر کرتے ہوئے ایسی باتیں اس رنگ میں سوچیں کہ آپ کے دل میں آئندہ کے لئے بہتر زندگی گزارنے کی تحریک پیدا ہواور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ جو اپنے نفس کا جائزہ ہے یہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے اندر بہت سی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا موجب بنے گا.ہر شخص کا اس میں شامل ہونا ضروری ہے ورنہ جماعتی نصیحتیں جب کی جاتی ہیں کہ فلاں کام کرو تو ساری جماعت من حیث الجماعت اپنے آپ کو ایک وجود مجھتی ہے اس کا ایک اچھا پہلو بھی ہے.آپس کے تعلق ایسے ہوتے ہیں جیسے ایک بدن کے اعضاء کے ہوں لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ باقیوں نے جب کر لیا ہے تو پھر مجھے کیا ضرورت ہے.جماعت من حیث الجماعت یہ کام کر ہی رہی ہے ہم نے آواز پر لبیک کہہ دی اور اچھے نتائج پیدا کر لئے.یہ سوچ ایک اچھی بات کا منفی پہلو ہے یعنی ساری جماعت کا یہ احساس کہ ہم ایک ہی بدن کے مختلف حصے ہیں اور ایک کی خوشی دوسرے عضو تک منتقل ہونا اس بدن کی زندگی کی علامت ہے اسی طرح ایک کا غم دوسرے عضو بدن تک منتقل ہونا بھی اس کی زندگی کی ہی علامت ہے مگر یہ سوچ اگر باشعور ہو اور تقویٰ کے ساتھ.

Page 997

خطبات طاہر جلد 13 991 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء ہوتو ہمیشہ فائدہ پہنچاتی ہے.ہر عضو بدن کو یہ احساس ہوگا کہ میرے بدن نے جو کچھ حاصل کیا میرا اس میں کیا حصہ تھا، میں کیوں نہ اپنا حصہ ڈالوں اور یہ سوچ منفی نتیجے بھی پیدا کرسکتی ہے.جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ نے یہ اعلان کیا کہ جو بہت بڑا اور خوبصورت تالاب میں نے بنوایا ہے اس کا افتتاح ایسے ہوگا کہ ہر شخص دودھ کا ایک لوٹا بھر کے یا کوئی ایک برتن بھر کے وہ اس میں ڈالے اور حساب دان بتا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں اتنا دودھ ہے کہ اس دن اگر لوگ ایک ایک برتن جو پیمانہ اس میں بیان کیا وہ خود استعمال کرنے کی بجائے اس تالاب میں ڈال دیں گے تو دنیا میں پہلی مرتبہ ایک ایسے تالاب کا افتتاح ہوگا جو دودھ سے بھرا ہوا ہو اور جنت کی یاد دلاتا ہو، بڑا خوبصورت خیال تھا اور اعلان ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ ہر طرف تیاریاں ہورہی ہیں لیکن ہوا یہ کہ ہر شخص نے یہی سمجھا کہ ہم بھی تو قوم کا حصہ ہی ہیں سب قوم جب لوٹے ڈالے گی تو اس کی خوشی میں ہم بھی شامل ہوں گے لیکن کیا ضرور ہے کہ ہم بھی لوٹا لے کر جائیں.چنانچہ کوئی بھی نہیں گیا اور ہر ایک یہ سمجھتا رہا کہ دوسرے کی خوشیوں میں ہم شامل ہو جائیں گے اور وہ فخر جو ساری قوم کو حاصل ہوگا آخر ہم بھی تو اس کا حصہ ہیں اور اس کا افتتاح ایسے ہوا کہ خالی تالاب تھا نہ پانی کا قطرہ نہ دودھ کا قطرہ.تو سوچیں ایک ہی طرح کی ہوں مگر ذراسی کروٹ بدلیں تو اچھی سوچیں بری سوچوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، اچھے نتائج کی بجائے مضحکہ خیز نتائج ہاتھ آتے ہیں تو اس پہلو سے بعض ایسی سوچیں ہیں جن کا ہر فرد کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور اجتماعی نیکیوں میں یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے.ہر فرد کو اپنا حصہ ضرور ڈالنا ہے اور اس پہلو سے آپ سوچیں کہ آپ نے اس سال میں اپنا حصہ کیا ڈالا تھا.کسی پہلو سے آپ کو خوشخبری ملے گی، آپ کہیں گے ہاں احمد للہ پہلے مجھے ملی قربانی کی توفیق ملا کرتی تھیں اب بہل گئی کسی اور پہلو سے بھی آپ کو خوشخبری مل سکتی ہے کہ میں پہلے نمازیں کم پڑھتا تھا اب میں پڑھنے لگ گیا ہوں چنانچہ اسی خوشی میں وقتاً فوقت لوگ مجھے بھی شامل کرتے رہتے ہیں.ایک صاحب نے لکھا کہ پہلے میں نماز سے غافل تھا آپ کا فلاں خطبہ دہرایا جار ہا تھا وہ سنا اور اس کے بعد میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت نماز شروع کر دی اور اس کے بعد نماز چھوڑنے کا کوئی سوال ہی نہیں رہا.تو اس خوشی میں مجھے بھی شامل کرتے ہیں مگر ہر فرد کا کام ہے کہ عبادت میں شامل ہو پھر اجتماعی طور پر قوم عبادت کرنے والوں کی ایک جماعت بن جاتی ہے جس قوم کا ہر قطرہ یعنی

Page 998

خطبات طاہر جلد 13 992 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء ہر ذرہ ، ہر جز و، خدا کی عبادت سے سرشار ہو ، اس کی اجتماعی شان بہت بلند ہو جاتی ہے اور اس کی دعاؤں کی قبولیت کا مرتبہ بھی بہت اونچا ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو یہ مراد نہیں کہ ساری جماعتیں سوچیں کہ اس دفعہ ہم نے وقف جدید کا چندہ کتنا دیا تھا تحریک جدید کا چندہ کتنا دیا تھا، دیا تو تھا مگر سب نے ویسا نہیں دیا بعضوں نے کم دیا مگر بڑی قربانی کے ساتھ دیا.بعضوں نے زیادہ دیا مگر کم قربانی کے ساتھ دیا، اس لئے یہ اجتماعی سوچ کا محل ہی نہیں ہے کہ اجتماعی طور پر غور ہو سکے.یہ انفرادی سوچ کا محل ہے، انفرادی سوچ کی باتیں ہیں.ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ اپنا جائزہ لے اور پھر خود ہی نتائج اخذ کرے، کسی اور کو نہ بتائے اگر کمزوریاں ہیں تو اپنے تک محدود رکھے اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی چاہے اور خدا کے حضور ہی اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے پردہ پوشی کی بھی دعا کرے اور آئندہ ان بدیوں سے بچنے کے لئے بھی توفیق مانگے.پس یہ جو لحات ہیں سال کے آخر کے، یہ انہی سوچوں میں صرف ہونے چاہئیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر واقعۂ فرد جماعت ان اہم پہلوؤں سے جن میں سے چند کی میں نے نشان دہی کی ہے اپنا جائزہ لیں تو آئندہ سال کیلئے جماعت کو بہت سے ایسے کارکن مہیا ہو جائیں گے جو پہلے مہیا نہیں تھے.اب تبلیغ کا معاملہ ہے میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ ابھی تک بھی میرے نزدیک جماعت کی اکثریت ایسی ہے جو داعی الی اللہ نہیں بن سکی ، ابھی تمنا ئیں دلوں میں کروٹ لے رہی ہیں اور زمین تیار ضرور ہورہی ہے، وہ نظر آرہا ہے لیکن ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ وہ کہہ سکیں کہ ہاں ہم نے بھی حصہ ڈال دیا.پس ان باتوں کو بار بار یاد کرانے کے نتیجے میں جو انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے اور خود اپنی نگرانی کرتا ہے اور اس کے اندر سے ایک نصیحت کرنے والا میسر آ جاتا ہے پھر وہ نصیحت ضرور فائدہ پہنچاتی ہے.میں نے بارہا اس مضمون پر غور کیا ہے کہ آنحضرت عمل کو جو اللہ نے فرمایا فَذَكَرُ انْ نَّفَعَتِ الذكرى (الاعلیٰ : 10 ) که نصیحت کر نصیحت ضرور فائدہ پہنچاتی ہے.اس میں بہت سی حکمتیں مجھے ہر دفعہ دکھائی دیں اور خاص طور پر آنحضرت ﷺ کے حوالے سے یہ مضمون سمجھ آتا ہے ور نہ نہیں آتا.ایک اور حکمت جو مجھے اس میں دکھائی دی، جس کا پہلے میں ذکر نہیں کر سکا وہ یہ ہے کہ وہ ناصح جس کی نصیحت پہلے اس پر کارگر ہو ، اس کی نصیحت دوسروں پر ضرور کارگر ہوتی ہے.وہ ایک عالم باعمل بن جاتا ہے جو بات کہتا ہے وہ کرتا ہے اور جو کرتا ہے اس کی باتوں میں ایک عظیم طاقت پیدا صلى الله

Page 999

خطبات طاہر جلد 13 993 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء صلى الله ہو جاتی ہے.پس آنحضرت ﷺ سے جو وعدہ ہے، وہ ہر اس شخص کی ذات میں پورا نہیں ہوگا جوان صفات میں جو ایسی نصیحت کے لئے ضروری ہیں حضور اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی نہیں کر رہا.پس ادنی سوچ کے ساتھ ، ایک سرسری فکر کے ساتھ جب آپ قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو بسا اوقات دل میں اعتراض اٹھتے ہیں کہ یہ اللہ نے کیا کہہ دیا ہے، فَذَكِّرُ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرُى ہم تو نصیحتیں کرتے ہیں ہمارے بچوں پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا.تو یہ کیا قانون ہے کہ نصیحت کر ضرور اثر ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ کی نصیحت ضرور اثر کرتی تھی اب یہ الگ مسئلہ ہے کہ بعض دفعہ وہ نصیحت کا اثر فورا دکھائی دینے لگتا ہے بعض دفعہ دلوں میں کچھ تحریکات پیدا کر دیتا ہے جن کے پوری طرح پینے اور اپنے اندرونی لحاظ سے پختگی حاصل کرنے میں ایک وقت لگتا ہے لیکن کچھ استعما بھی ہیں.ان استثات کا بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے اور وہ یہ ہیں سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرہ: 8) کہ اے محمد ! تیری نصیحت اثر تو کرتی ہے اور ضرور کرے گی مگر ان دلوں پر کرے گی جن پر ابھی تالے نہیں پڑے ان دلوں پر پڑے گی جن پر اللہ کی مہر نہیں لگی.ان پر نصیحت اثر کرے گی جو یہ فیصلہ نہیں کر چکے کہ سَوَآ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ کہ فیصلہ ہے ہم نے ایمان نہیں لانا.ان لوگوں کے لئے تیری نصیحت برابر ہے جنہوں نے ایمان لانا ہی نہیں ان کو چاہے سنائے چاہے نہ سنائے ان کے لئے برابر ہے تو یہ استثناء بھی ہیں مگر ا کا ذکر اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے.ان استثمات کو چھوڑ کر یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تذکیر ہی تھی آپ کا ذکر کرنا ہی تھا اور آپ کا نصیحت کرنا تھا جس نے دیکھتے دیکھتے عرب کی کایا پلٹ دی، ایک عظیم روحانی انقلاب بر پا ہوا.پس اس پہلو سے ہمیں بھی آنحضرت ﷺ کی نصیحت کے انداز سیکھنے چاہئیں اور آج کی اس گھڑی میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ حضرت رسول اکرمہ کی نصیحت میں جو طاقت پیدا ہوئی ہے میں نے غور سے یہ مضمون بھی سیکھا ہے کہ اس لئے تھی کہ آپ سب سے پہلے مذکر تھے اور اپنے نفس پر آپ کی نصیحت کو پورا غلبہ حاصل تھا.ایک ایسا قوی غلبہ تھا کہ نفس کی مجال نہیں تھی کہ محمد رسول مے کی اندرونی نصیحت کے خلاف ایک ادنی سی سوچ بھی سوچ سکے.جب یہ طاقت انسان کو نصیب ہو جاتی

Page 1000

خطبات طاہر جلد 13 994 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء ہے تو غیروں پر بھی طاقت عطا ہوتی ہے.یہ محض کوئی فرضی بات نہیں ہے.نفسیاتی لحاظ سے ایک طے شدہ ، ثابت شدہ حقیقت ہے.وہ لوگ جو مسمریزم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، جو علم طب میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اگر مطالعہ کریں یا ان کو اچھا استاد میسر آئے تو وہ لازماً ان کو یہ بتائے گا کہ پہلے اپنی Will کو، اپنے فیصلے کی طاقت کو اپنے نفس پر جاری کرنے کی کوشش کرو اور اس کی ورزش کرو چینی طور پر.اگر نہیں کرو گے تو تمہیں غیروں کے دماغ پر اثر انداز ہونے کی کوئی طاقت نہیں ملے گی اور اسی طرح Will Power کو تقویت دی جاتی ہے.اس کے بغیر آپ گھر بیٹھے جو مرضی کریں اور آپ کا نفس آپ کی بات مانے گا ہی نہیں بلکہ آپ اس کے زیر نگیں چلتے رہیں اور پھر سوچیں کہ میں سوچوں گا فلاں آدمی یوں کرے تو یوں کرنے لگ جائے گا یہ محض احمق کی خواب ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.پس فَذَكَّرُ انْ نَفَعَتِ الذِّكْری میں جس ناصح کا ذکر ہے وہ ہر شخص کے اندر موجود ہے اور میں اس ناصح کو مخاطب ہوں.ہر احمدی کے اس ناصح کو مخاطب ہوں جس سے نصیحت کے سفر کا آغاز ہونا ہے.پس نئے سال کے سفر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے اس ناصح کو بیدار کریں اور اگر ہر آدمی کرے تو اس کو غیر معمولی طاقتیں عطا ہوں گی.یہ میں جانتا ہوں خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو اسی طرح بنایا ہے اور خدا تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں.جہاں قرآن کریم نے انسان کے اللہ کی فطرت پر پیدا ہونے کا ذکر فرمایا ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ (الروم : 31) اللہ نے جو کچھ کر دیا ہے اس میں تم کبھی تبدیلی نہیں کر سکتے.پس اس بنیادی اصول کو اپنے پلے باندھ لیں کہ پہلے آپ نے اپنے نفس کی تسخیر کرنی ہے.اپنے نفس کے اندر موجود ناصح کو جگانا ہے، اس کو اپنے نفس پر غلبہ عطا کرنا ہے اور جب اس کو آپ یہ سکھا دیں اور یہ توفیق مل جائے جو دعاؤں کی مدد کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی تو پھر اللہ کے فضل کے ساتھ آپ کے اندر سے ایک ایسی قومی شخصیت بیدار ہوگی کہ اسے لا زماما حول پر غالب آنا ہے اور اس ایک نصیحت پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں جو قرآن سے ہم نے سیکھی اور حضرت محمد ﷺ کی ذات میں اس نے عظیم جلوہ دکھایا ہے ہم اس جلوہ صلى الله محمد کو سب دنیا پہ عام کر سکتے ہیں.جب ہم دعائیں کرتے ہیں اے اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کا جلوہ عام کر تو وہاں بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس جلوہ کو عام کرنے میں ہم نے اپنے نفس کے کون سے حصے کو چپکایا ہے کہ وہ شیشے کی طرح جلوہ محمدمصطفی سے کا، کوئی شکارہ، کوئی اس کی چمک دنیا کو دکھا دے.جب

Page 1001

خطبات طاہر جلد 13 995 خطبہ جمعہ فرمودہ30/دسمبر 1994ء تک رخ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف رہے گا آپ کے دل میں وہ شفاف آئینہ ہو گا جو اس چمک کو لیتا ہے ایک زاویے سے دوسروں پر بھی وہ روشنی ڈالتا ہے اس وقت تک آپ کی یہ دعا درست، آپ کی یہ تمنائیں اچھی ، اے اللہ ! محمد رسول اللہ ﷺ کا جلوہ سب دنیا کو دکھا دے.اگر یہ نہیں اور اس کے لئے باشعور کوشش بھی نہیں ہے تو فرضی باتیں ہیں، ان فرضی باتوں میں تو ساری دنیا مبتلا ہے.عالم اسلام دیکھیں کس امید پر بیٹھا ہوا ہے محض ان فرضی خیالوں میں کہ اسلام نے ضرور غالب آجانا ہے.غالب آنے سے پہلے اسلام جوان سے قربانی چاہتا ہے.جو ان سے تبدیلیاں چاہتا ہے ان کی طرف کسی کو کوئی خیال نہیں آپ ہی آپ غالب آجائے سال کے بعد سال گزر جاتا ہے.پس میں چاہتا ہوں کہ احمدی سال اس طرح نہ گزریں.ہر سال چند ایسے لمحات میں سے گزر کر آگے سفر شروع کرے جو اپنے نفس کے محاسبے کے لمحات ہوں اور بڑی دیانتداری اور خلوص کے ساتھ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور پھر کچھ ارادے باندھے اور ان ارادوں کا زاد راہ لے کر اگلے سال میں داخل ہو.ہماری تو یہ سوچیں ہیں ، ہمارے تو یہ ارادے ہیں.دعاؤں کے ساتھ نیکیوں کا زاد راہ لے کر آگے بڑھتے ہیں، بڑھتے رہیں گے.بدقسمی سے ہمارے غیر بھی کچھ ایسے ہیں جو ہر سال بدارادے باندھتے ہیں.ہمارے سفر محبت کے سفر ہیں اور ہمار ا ز ادراہ محبت کا زادراہ ہے.ان کے سفر بدی کے سفر ہیں اور محض دوسرے کو تکلیف پہنچانا، عذاب دینا، کسی طرح ان کے لئے ہلاکت کے سامان پیدا کرنا ، یہ سوچیں لے کر وہ نئے سالوں میں داخل ہوتے ہیں اور انہی سوچوں کے ساتھ پھر وہ جماعت کو چیلنج دیتے ہیں کہ دیکھو یہ سال کس کا بنتا ہے.1994ء کے حوالے سے بھی بہت کچھ ایسا ہوا لیکن یہ لمبے تذکرے ہیں ،مختصر شاید میں چند باتیں بیان کر سکوں اور باقی مضمون ایسا ہے جو ہر سال جلسہ سالانہ پر جو آخری تقریر ہے اس میں یا درمیانی تقریر میں یہ مضمون بار بار یعنی جاری مضمون کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.لیکن سب سے پہلے میں یہ پسند کروں گا کہ آج سے سو برس پہلے جو 1894ء تھا اس کے نقوش پر غور کر کے آپ کو بتاؤں کہ اس سال کے کیا اہم نقوش تھے اور یہ وہ دوسرا حصہ ہے یعنی اجتماعی سوچ کا.اس لئے مضمون قطع کر کے میں اس حصے میں داخل ہورہا ہوں.شروع میں ہی میں نے آپ کو سمجھایا تھا کہ دوطریق سے سالوں کے جوڑ منائے جاتے ہیں.ایک انفرادی طور پر جو میرے نزدیک زیادہ اہم ہے اور دوسرا اجتماعی طور پر.اب اجتماعی موازنے کے طور پر میں آپ کے سامنے

Page 1002

خطبات طاہر جلد 13 996 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء کچھ مثالیں رکھتا ہوں کہ سب سے پہلے تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ سوسال پہلے اس مقدس دور میں ، جس نے آج کے دور کی بناڈالی اور آئندہ سب ادوار کی بناڈال چکا ہے، کیا ہوا تھا ؟ وہ سال کیسے گزرا تھا ؟ اس سال کے اہم امور یہ ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو 1894ء میں بعض بہت ہی اہم اور بہت دور رس اثر رکھنے والی تصنیفات کی توفیق ملی اور خصوصیت کے ساتھ عرب دنیا کو آپ نے اس سال میں مخاطب فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے عرب دنیا میں اس کے نتیجہ میں لبیک کہنے والے بھی بڑے عظیم پیدا کئے اور 1894ء کا یہ سال اس پہلو سے اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ مؤرخ احمدیت مولوی دوست محمد صاحب نے جب اس سال کا موازنہ کیا تو سب سے نمایاں چیز ان کو یہی محسوس ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عربوں میں نفوذ اگر کسی ایک سال سے وابستہ کیا جاسکتا ہے تو وہ 1894ء ہے اور عجیب بات ہے کہ جماعت احمد یہ عالمگیر کا آج 1994ء بھی اس پہلو سے نمایاں ہے.اور خدا تعالیٰ نے جو ہمیں MTA جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائی یہ بھی اس سال کا پھل ہے.7 جنوری 1994ء کو یہ عالمی پروگرام جاری ہوا ہے اور اسی سال اسی پروگرام کی برکت سے اس کثرت سے عربوں کی توجہ احمدیت کی طرف ہوئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ہمارے مخالفین پر ایک زلزلہ آ گیا ہے.بار بار سعودی عرب کے گزٹ اور ان کے اخبارات اس بات کو اچھال رہے ہیں اور ایک اخبار تو یہ لکھتا ہے کہ اب فور حرکت کرو جس تیزی سے احمدیت کا نفوذ پھیل رہا ہے اور عربوں پر خصوصیت سے اثر انداز ہے اگر ہم نے آج کا رروائی نہیں کی تو پھر یہ بہت لیٹ ہو جائے گا.وہ الفاظ یہ ہیں سعودی گزٹ 27 / جون 1994 ء یہ چھ مہینے کی بات ہے اس کے بعد بہت پانی آگے گزر چکا ہے.یہ میں جون کی بات بتا رہا ہوں.ابھی انہوں نے جولائی میں ظاہر ہونے والی بیعتیں نہیں دیکھی تھیں اور گھبراہٹ کا اور پریشانی کا یہ عالم تھا وہ لکھتے ہیں: It is now time that we stop talking about countring the Kufr propeganda of Mirza Ghulam Ahmad's devient followers and establish a globel Islamic T.V.Broadcast Station without delay.

Page 1003

خطبات طاہر جلد 13 997 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء جو انہوں نے بغض کا اظہار کرنا تھا وہ تو کرنا ہی تھا دنقل کفر کفر نہ باشد.مطلب یہ ہے کہ ہمیں گالیاں دیتے ہوئے ساتھ ساتھ یہ کہہ رہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اب ہم باتیں ختم کریں اور عملی اقدام کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے عالمگیر پروپیگنڈا کے توڑ کے طور پر ایک عالمگیر اسلامی ٹیلی ویژن سٹیشن قائم کریں ، ٹیلی ویژن نظام جاری کریں، یہ کہنے کے بعد کہتے ہیں Now not Laterاب ہو یہ.اب کے بعد نہیں Later may be too late دیر ہوگئی تو پھر بہت دیر ہو چکی ہوگی.Already it is too Late اب تم کچھ نہیں کر سکتے.1894ء میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو توفیق ملی کہ عرب دنیا کو مخاطب ہوں ہمارے پاس تو وہ چارہ نہیں تھا ، وہ ذرائع نہیں تھے، اس زمانے میں تقویٰ کا معیار بہت بلند تھا اور زبر دستی لٹریچر کی راہ میں کوئی روک نہیں ڈالی جاتی تھی ہر قسم کی کتاب ہر جگہ پہنچ جاتی تھی ، ہر ایک کو آزادی تھی.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرہ: 257 ) کا منظر دکھائی دیتا تھا.علماء بھی شوق سے اپنی مخالف آراء کو سنتے ان میں دلچسپی لیتے اور اگر اتفاق نہیں کرتے تھے تو جوابی کارروائی کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے جو عربی زبان میں کتب شائع فرما ئیں تاریخ میں لکھا ہوا ہے کہ بعض کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام عرب دنیا میں مفت تقسیم کروائی ہیں لیکن آج ان کو قیمتاً بھی وہاں لینا چاہے تو اس کو اجازت نہیں ، رستے کی روکیں ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے سالوں کی مماثلت تو معلوم ہوتا ہے دکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا.اب ان بے چاروں کی کیا طاقت ہے کہ خدا کے ارادوں کی راہ میں روک ڈالیں.وہ رستے کی Tarif کی پابندیاں سطح زمین پر چلتی ہیں یا ہوا میں اڑیں تو وہاں پہنچ کر زمین کے رستے سے داخل ہوتی ہیں ان پر تو انہوں نے پہرے بٹھا ہوئے تھے.اب آسمان پر کیسے پہرے بٹھاتے ، اب اللہ نے یہ پیغام آسمان سے اتارنا شروع کیا ہے اور عرب اس کثرت سے دلچسپی لے رہے ہیں کہ بعض دفعہ ان کے پیغام سن کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ واقعہ ہو گیا، ہماری توقعات سے بہت بڑھ کر ہے.سوالات بھی آنے شروع ہوگئے ہیں دلچسپیوں کے اظہار مختلف طریق پر ، ہمارے پروگراموں کے مطالبے کر رہے ہیں رسائل کہ ہمیں بھیجو تا کہ عربوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے تقاضے پورے کر سکیں.بعینہ یہی درخواست لکھی ہوئی ہمارے دفتر میں موجود ہے ، فون پر بھی ان صاحب کی نصیحت آئی.ایک بڑے رسالے کے مالک بھی ہیں اور

Page 1004

خطبات طاہر جلد 13 998 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء ایڈیٹر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پہلے ہی علم تھا حلانکہ پہلے علم نہیں تھا.توقع تھی علم نہیں تھا.کہتے ہیں جیسا کہ آپ کو علم ہو گا دن بدن عربوں کی دلچسپی MTA میں بڑھتی چلی جارہی ہے اور اس دلچسپی کو پورا کرنے کی خاطر ہم نے ضروری خیال کیا ہے کہ آپ کے آئندہ کے پروگرام شائع کیا کریں اس لئے مہربانی فرما کر ہمیں اجازت بھی دیں اور پروگرام بھی بھیجیں.اس وقت تو مجھے خیال نہیں تھا میں نے آج کے خطبے کے لئے تاریخ کے اس سال کے واقعات کھنگالے تو پھر مجھے سمجھ آئی کہ یہ کیا واقعہ ہوا تھا.یہ MTA کا اس سال جاری ہونا اور پھر عربی پروگراموں کے پیش کرنے کی توفیق پانا اور ہمارے عزیز بزرگ دوست حلمی شافی صاحب کو خدا تعالیٰ نے دل میں یہ تحریک ڈالی کہ وہاں بیٹھ کر اب تر جموں وغیرہ کی خدمت نہ کرو، یہاں پہنچ کر کرو، انہوں نے اپنی ساری زندگی پیش کر دی اور یہ سارے واقعات اسی سال کے ہیں اور جس چیز کی ہمیں ضرورت تھی کہ ایک اچھا عربی دان، عالم دین پاس بیٹھا ہو اور ترجمے بھی اچھے کر سکے وہ مہیا ہو گیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عبدالمومن صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ رواں ترجمے جو اردو سے کرنے پڑتے ہیں وہ کر دیں.تو یہ سارے سامان وہی ہیں جو دراصل گزشتہ ایک سو سال پہلے کے 1894ء کے سال کی یاد دلاتے ہیں.تو اجتماعی طور پر خدا تعالیٰ ہمیں توفیق بخش رہا ہے اور بہت سے ایسے اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں جن کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وقت کی کمی کی وجہ سے تفصیلی تبصرہ تو ممکن نہیں لیکن کچھ نہ کچھ کا میں اشارہ ذکر کروں گا یا کچھ نسبتا تفصیل سے بھی.وہ سال جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام کامیاب سالوں میں ایک پہلو سے نمایاں خصوصیت رکھتا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عالمی اور دائمی دور میں ایک اہم حیثیت رکھتا تھا.وہ سال تھا جس سال چاند سورج نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کی صداقت کو ظاہر کیا اور ثابت کیا اور اس کے ثبوت کے طور پر حضرت مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود دکھا دیا کہ یہ وہی مہدی ہے جس کی پیشگوئی اصدق الصادقین محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی.پس 1894ء کا سال اس پہلو سے ایک زندگی کا محض اہم سال نہیں رہتا بلکہ ایک دور کا اہم ترین سال بن جاتا ہے.ایک ایسے دور کا جس نے ختم نہیں ہونا.اس پہلو سے 1994ء میں بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسی توفیقات عطا فرمائی ہیں جو آئندہ ایک

Page 1005

خطبات طاہر جلد 13 999 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء عظیم دور کی خوشخبریوں کا پیش خیمہ بنیں گی اور یہ MTA کا جواجراء ہے، باقاعدہ سات جنوری کو ہوا میں سمجھتا ہوں انہی انعامات میں سے ایک اہم انعام ہے اور اس کا چاند سورج کی گواہی سے تعلق ہے اور بہت گہرا تعلق ہے.بعض دفعہ ایک انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ایک ایسی بات (جس کی تفصیل ذہن اور میں حاضر نہیں ہوتی ، نہ انسان اس وقت سوچ سکتا ہے) مگر منہ سے کلے ایسے نکل جاتے ہیں جو پورے ہوتے ہیں تو اس وقت کہنے والا بھی حیرت سے دیکھتا ہے کہ یہ کیا بات میرے منہ سے نکلی اللہ تعالیٰ نے کیسے پوری فرما دی.اس کے متعلق کئی، ایک دفعہ نہیں بارہا ایسے واقعات ہو چکے ہیں مثلاً ایک متکبر شخص کے متعلق اپنی ایک نظم میں میں نے کہا تھا کہ: خدا اڑادے گا خاک ان کی (کلام طاہر : ۲۳) بگولے اٹھے ہیں خاک کے ہمیں مٹانے کے لئے اللہ ان کی خاک اڑا دے گا، ان کا نشان نہیں ملے گا، اور وہ شخص اسی طرح بگولوں میں اڑنے والی خاک بن گیا اور امریکہ سے مجھے کسی نے لکھا کہ آپ کی تو توجہ نہیں گئی ہو گی مگر میں نے جب اس شعر کو پڑھا اور اس واقعہ کو دیکھا تو بالکل یوں لگتا تھا جیسے خدا تعالیٰ نے آپ کے منہ سے یہ بات کہلوائی ہے عین اس واقعہ پر چسپاں ہونے والی بات ہے تو اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں.ربوہ میں جب شروع شروع میں مخالفت کا بہت جوش اٹھا تو اس وقت میں نے مولویوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ دیکھو تم بعض رستے بند کر سکتے ہو زمین پر جب خدا نے یہ فیصلہ کیا کہ آسمان سے تمام دنیا پر بارشیں برسائے گا پھر تمہاری چھتریاں کیسے اس کو روک سکیں گی.کیسے تمہاری چھتریاں ان فضلوں کو بندوں پر گرانے کی راہ میں حائل ہو جائیں گی فضل جب آسمان سے گرتے ہیں اور خدا اتارتا ہے اور عالمگیر فضل اتارتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ دنیا میں کسی کو طاقت نہیں کہ ان کو روک سکے، ان کی راہ میں حائل ہو سکے.مگر اس وقت میں پاکستان کا بھی کہ سکتا تھا بغیر دنیا کے حوالے سے یہ بات کر سکتا تھا وہ وقت ایسا تھا جب خود بخود میری زبان پر یہ الفاظ زور کے ساتھ جاری ہوئے کہ وہ وقت جب ساری دنیا میں خدا فضلوں کی بارشیں برسائے گا تو ان آسمان سے اترے ہوئے فضلوں کی راہ تم کیسے روک سکو گے یہ کوشش بے کار ہے اس کو چھوڑ دو تمہیں چارہ نہیں ہے کہ یہ کام کرسکو.اب

Page 1006

خطبات طاہر جلد 13 1000 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء MTA جب اتری ہے تو تب سمجھ آئی ہے کہ ساری دنیا میں اسی سال 1994 ء ہی میں یہ آسمان کی گواہیاں اتر رہی ہیں جیسے چاند سورج کی گواہی آسمان سے اتری تھی اور دوبارہ اس گواہی کو لے کر پھر خدا کے فضل اترنے شروع ہوئے.پس یہ خدا کی کائنات کے عجیب اسرار ہیں.ان کو لطیف نگاہوں سے دیکھیں تو انسان اور بھی زیادہ لطف اندوز ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ مولویوں نے پتا کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا تھا 1994ء کا سال احمدیوں کے لئے موت کا سال ہے.چھٹی.کہتے ہیں مرزا طاہر کو عادت پڑی ہوئی ہے پاگلوں والی باتیں کرتا رہتا ہے، بڑے دعوے کر رہا ہے کہ ہم نے یوں کیا اور اس سال ہم یوں کریں گے.ہم بتاتے ہیں کہ یہ سال کیا ہونا ہے.نائب ناظم صاحب مرکزی مبلغ مجلس تحفظ ختم نبوت کہتے ہیں قادیانیو! آئین کو تسلیم کرلو پاسداری کرو قانون کی.(یعنی اللہ کا قانون دفع کرو.چھوڑ و پرے، ہمارا قانون مانو اور خدا کے قانون کے باغی ہو جاؤ.یہ مضمون ہے ) ورنہ 1974 ء میں مرزائیت کو ایک ضرب لگی پھر 84ء میں امتناع قادیانیت کے ذریعے قادیانی زخمی ہوا اب 94 ء ہے اور یہ قادیانیت کے خاتمہ کا سال ہوگا.94 ء ایک دن باقی رہ گیا ہے اور یہ دن بھی خوش خبریاں لے کر آئے گا.کوئی دن ایسا نہیں گزرا اس سال کا جونئی سے نئی خوش خبریاں لے کر نہ آیا ہو اور ان منحوسوں کی ہر بات جھوٹی نکلی ایک ایک لفظ جھوٹا ہوا اور یہ بھی انہوں نے ایک شیوہ بنالیا ہے.ایک دفعہ ایک مولوی اٹھ کے کہتا ہے کہ اگلے سال مرزا طاہر مر جائے گا اور دوسرے سال دوسرا مولوی کہتا ہے کہ میں پیشگوئی کر رہا ہوں، تیسرے سال تیسرا مولوی.سکیم یہ بنائی گئی ہے کہ کسی سال تو اس نے مرنا ہی ہے تو جس سال مرا اس سال کا مولوی اور اس کے سارے ساتھی بچے ہو گئے.وہ بیسیوں جھوٹے جو بد بخت پیچھے رہ جائیں گے ان کا کیا بناؤ گے.یہی پیشہ انہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی اختیار کیا ہوا تھا اور حیرت انگیز طریق پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے مکر وفریب کے جال سے نکال لیا.ایسا عجیب واقعہ ہے عبدالحکیم کی پیشگوئی سے متعلق کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے مولوی تو اس کو پیش کرتے ہیں کہ دیکھو مرزا صاحب جھوٹے نکلے اس نے کہا تھا عبدالحکیم نے کہ یہ 1908ء کا جو سال ہے اس میں مرجائے گا اور یہ واقعہ ہوگا اور دیکھ لو 1908ء میں مر گیا اب اور کیا چاہتے ہو.حالانکہ اس سے پہلے سالوں کا دیکھو ہر سال یہی کہا کرتے تھے مولوی کبھی عبدالحکیم نام کا کبھی کسی

Page 1007

خطبات طاہر جلد 13 1001 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء دوسرے نام کا.ہر سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موت کی خبریں شائع کر رہے تھے تو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بندہ مولویوں کی وجہ سے غیر فانی ہو جائے اور اس کو خدا بنا بیٹھے.یہ تو ناممکن ہے، ہر شخص نے مرنا تو ہے ہی لیکن اللہ نے جس طرح اس کو جھوٹا کیا وہ حیرت انگیز بات ہے.اس کے منہ سے پہلے یہ پیشگوئی نکلی اس کے قلم سے یہ پیشگوئی شائع ہوئی جس سے پتا چلتا تھا.مئی کا مہینہ گزرے گا نہیں جب یہ شخص فوت ہو جائے گا.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجل مسمى مئی ہی میں تھی.26 مئی مقرر تھی.اب خدا کوئی تقدیر نہ فرماتا تو دیکھیں کتنا بڑا طوفان بے تمیزی بر پا ہوتا.اس تحریر کے کچھ دیر بعد اس نے کہا کہ نہیں نہیں غلط ہوگئی خدا نے فیصلہ بدل لیا ہے.وہ مئی میں نہیں مرے گا بلکہ اکتوبر میں مرے گا یا کچھ اور مدت آگے بڑھا دی اور پہلی پیشگوئی کی تردید کر کے پھر دوسری پیشگوئی میں داخل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد پیسہ اخبار نے جو مسیح موعود کا دشمن تھا بڑی حسرت سے کہا کاش عبد الحکیم یہ ترمیم نہ کرتا.اس سے ان سب کی ذہنیت کا بھی پتا چلا کہ یہ انسانی پیشگوئیوں کا حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیوں سے مقابلہ چاہتے تھے.ترمیمیں بندوں کے ہاتھ میں تھیں، ان کے نزدیک بندے کی مرضی ہے جب چاہے پیشگوئی میں ترمیم کر دے.لیکن بعض ترمیمیں خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اور یہ ترمیم بھی عبدالحکیم کے ہاتھ میں نہیں تھی خدا کے ہاتھ میں تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خود ہی قریب وصال کی خوشخبری دے دی تھی.خوشخبری ان معنوں میں کہ اپنے اللہ سے جو لقاء کا خاص موقع ہوتا ہے وفات کے وقت وہ میسر آنا تھا لیکن بہر حال ایک غم کا موقع ہوتا ہے وفات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت الہامات سے یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ یہ سال آپ کے وصال کا سال ہے لیکن اس کے باوجود اللہ پر تو کل کرتے ہوئے مباہلے سے بھی باز نہیں آئے اور ہر قسم کے چیلنج دشمن کو دیتے رہے.عبدالحکیم سے ایسا ہی ایک تصادم ہوا اور اس نے پیشگوئی جو میں نے بیان کی ہے یہ کر دی اور خدا نے ترمیم کروائی ہے پھر.اس کی اپنی ترمیم نہیں تھی ورنہ پاگل کیوں ہو گیا تھا اچانک اس کو کیا خیال آیا کہ مئی سے ارادہ بدل کے خدا نے اکتوبر کا کر دیا یا اس کے بعد کا.تو وہ پیشگوئی جس پر لوگ ہنستے ہیں اس میں سب سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے نشان ہیں.پس ان لوگوں سے بھی خدا پیشگوئیاں کرواتا ہے

Page 1008

خطبات طاہر جلد 13 1002 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء جو جھوٹی نکلتی ہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ ہر انسان نے آخر مرنا ہے.یہ مولوی ان میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ خدا نے ہمیں بتایا ہے اور یہ فرق ہے اگر خدا نے نہیں بتایا تو جب کوئی مرے گا تو تم کیسے بچے ثابت ہو جاؤ گے لیکن یہاں تو خدا سے تعلق کا معاملہ ہے اگر خدا نے نہیں بتایا ہو اور بات کچی نکلے پھر درست ہے عبدالحکیم یہ دعوے کر رہا تھا کہ خدا نے بتایا ہے اور چونکہ خدا پر ایک قسم کی ذمہ داری آجاتی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عصمت کی حفاظت کرنا تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی دخل فرمایا اور اس کی عقل ماری گئی اور جو اتفاقا صحیح بات لکھی گئی تھی اپنے ہاتھ سے اس نے اس پر قلم تنسیخ پھیر دیا اس کو قطع کر کے ایک اور بات بنالی.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جو مولوی آج کل بول رہے ہیں ان میں دو قسم کے ہیں.بعض تو یہ کہہ دیتے ہیں ڈر کے مارے، دل میں کچھ نہ کچھ یہ ڈر ہے کہ کہیں آپ ہی نہ مارے جائیں ، یقین جو نہیں ہے.اس لئے بعضوں نے احتیاط یہاں تک برتی ہے کہا کہ مجھ پر ابلیس نازل ہوا اور ابلیس نے مجھے بتا دیا ہے کہ مرزا طاہر احمد فلاں سال ختم ہو جائے کا اور ظاہر بات ہے کہ ابلیس نے جھوٹ ہی بولنا تھا اور اس شخص نے بھی اگر کوئی سچ بولا تھا تو شاید یہی بولا تھا کہ ابلیس نازل ہوا، ورنہ وہ بڑا ہی جھوٹا آدمی ہے.اس کے متعلق سارا کچا چٹھہ کسی وقت نعیم عثمان صاحب پیش کر دیں گے سب کے سامنے، شاید کیا بھی ہو انہوں نے کچھ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جھوٹ کو دیکھیں کیسے ثابت فرما دیا کہ جو خود جھوٹ بولنے کی خاطر ابلیس کا مظہر بن گیا ہواس کا باقی کیا رہا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم یہ پیشگوئی کرتے ہیں لیکن خدا کی طرف منسوب نہیں کرتے.یہ خدا کی طرف منسوب کریں تو خود مارے جائیں گے اور ہلاک ہوں گے اور ایسے معاملات میں پھر خدا دخل دیتا ہے مگر بعید نہیں کہ یہ سارے ہماری زندگیوں میں ہی دیکھتے دیکھتے حسرتوں سے جان دے دیں کیونکہ مجھ پر یہ گہرا تاثر ہے الہامات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کی روشنی میں، کہ اس صدی کا آخران مولویوں کے لئے بہت بدانجام لے کے آنے والا ہے اور خدا تعالیٰ نے دل میں جو یہ تحریک ڈالی ہے کہ ان چوٹی کے بد بخت علماء کے لئے بددعا کی جائے تا کہ امت کے لئے وہ دعا بن جائے.یعنی ان کے چنگل سے مولویوں سے نجات کی دعا در حقیقت امت کے لئے دعا ہے اگر چہ ان کے لئے بظاہر بد دعا ہے.تو یہ بددعائے خیر ہے ایک.

Page 1009

خطبات طاہر جلد 13 1003 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء جیسے کہا جائے کہ اس شیر کے چنگل سے فلاں بے چارہ زندہ سلامت نکل آئے تو شیر کے لئے بد دعا ہی ہوگی لیکن جس معصوم کے لئے اس کے چنگل سے بچانے کے لئے ہے وہ تو دعاہی بنتی ہے تو انجام کا رایسی دعائیں نیک دعائیں ہوتی ہیں اگر چہ بددعا کی راہ سے کچھ تلخ قدم اٹھا کے گزرنا پڑتا ہے.پس اس سال کی آخری گھڑیوں میں اس دعا کو بھی یاد رکھیں ، ان کے تفاخر ، ان کی بے باکیاں اور اس قسم کی تعلیاں اللہ تعالی ساری جھوٹی کر کے ان کے منہ پر مارے اور ان کی ساری مراد یں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور وہ دعا جس کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی یہ اس سال بھی جاری رہے گی آئندہ بھی جاری رہے گی اور ایسے آثار میں دیکھ رہا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو پایہ قبولیت میں جگہ بخش رہا ہے.ایک اور ان کا حوالہ تھا کہ مرزا طاہر احمد نے یہ عجیب بے ہودہ بیان دیا ہے کہ یہ غلبہ احمدیت کی صدی ہے اس کے بعد عجیب وغریب ایک پاگلوں والی منطق ہے جس کی سمجھ آ ہی نہیں سکتی.منطق یہ ہے اول تو ان کے عقیدے کے مطابق پندرھویں صدی کا وجود نہیں ہونا چاہئے تھا.چونکہ مرزا قادیانی نے چودھویں صدی کو آخری صدی اور خود کو آخری صدی کا آخری مجدد قرار دیا ہے.ایسی جاہلانہ بات ہے بالکل بر عکس معاملہ ہے.یہ مولوی شور مچایا کرتے تھے کہ چودھویں صدی ختم نہیں ہوگی جب تک مہدی نہ آجائے اور ہم کہتے تھے کہ روک کے دیکھ لو اس نے ختم ہونا ہی ہونا ہے.یہ بحثیں تھیں ان کی جھوٹے کی یادداشت نہیں ہوتی.اس قدر بے وقوف قوم ہے کہ جو احمدی کہتے تھے وہ اپنا موقف بنا لیا ہے جو وہ خود آپ کہا کرتے تھے وہ احمدیوں کا موقف بنا دیا اور پھر اس الہام یا وحی کے برخلاف پندرھویں صدی آہی گئی نا.لو بولو اب دیکھیں اس قدر بے ہودہ بکواس ، جھوٹ ، نہ عقل، نہ کوئی تک یہ حال ہو گیا ہے ان کی عقلوں کا مخبوط الحواس ہو گئے ہیں.لیکن پھر کہتے ہیں لیکن یا درکھیں یہ جوصدی گزررہی ہے یہ صدی قادیانیت کی موت کی ثابت ہوگی اور یہی ڈش انٹینا جس پر یہ اترار ہے ہیں یہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا.یہ کہتے ہیں ، فائدہ نہیں پہنچا سکے گا.مکہ مکرمہ سے اعلان ہو رہا ہے کہ بڑے فائدے پہنچا گیا ہے اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو بہت لیٹ ہو جائے گا.کس کی بات آدمی مانے.ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ اتنا عظیم الشان روحانی فائدہ پہنچ رہا ہے تبلیغی ، تربیتی اور ہر پہلو سے کہ اس کی آگ لگی ہوئی ہے ان کو جس کی وجہ سے طیش آ رہا ہے.جوابی کارروائی کے طور پر کچھ احمدی شہید کر دیئے انہوں نے حال ہی میں کچھ عرصے میں چار پانچ بہت ہی

Page 1010

خطبات طاہر جلد 13 1004 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1994ء دردناک شہادتیں ہوئی ہیں لیکن ان کا یہ پھل ہے.بس اور یہ ارادے لے کر نکلتے ہیں کہ اس سال ہم ان کی کتنی مسجد میں جلائیں گے، کتنی قبریں اکھیڑیں گے اور جتنی قبریں انہوں نے پہلے اکھیڑی تھیں اس سے زیادہ 1894ء میں ایک اکھیٹر بیٹھے ہیں جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے.اس سال میں انہوں نے زیادہ قبریں اکھیڑی ہیں تو یہ کامیابی ہے؟ مردوں کی قبریں اکھیڑ کر ان کو بے حرمت کرنے کی کوشش کرنا یہ بدبختی ہے، تو جس کے حصے میں یہ رضائے باری تعالیٰ لکھی ہو کہ اتنی مسجد میں برباد کیں، اتنے آدمیوں کو قتل کیا، اتنے لوگوں کے مال لوٹے ، اتنے لوگوں کو اس سزا میں کہ انہوں نے کہا صلى الله ھالا اله الا الله محمد رسول الله، زدو کوب کیا، مارا پیٹا اور تھانوں میں لے کے گئے اور پھر صلى الله مقد مے دائر کئے ، پھر ہم نے ان کے اس اقرار پر کہ حضرت محمد رسول اللہ کے سچے ہیں رسول الله و کی ہتک کے الزام میں موت کی پھانسی کا پھندا دکھاتے ہوئے ان پر مقدمے درج کئے کہ یہ تمہارا صلى الله انجام ہے اور کہو کہ محمد رسول اللہ یہ سچے ہیں.کتنے احمدی ہیں جو پیچھے ہٹے؟ ایک بھی نہیں.ابھی حال ہی میں جو انور آباد میں شہادت ہوئی ہے وہ نو جوان تھا، مخلص سندھی اور اس کے گھر لے جا کر بھی ، اس کے باہر بھی لوگوں کے سامنے ان کے ساتھیوں کو انہوں نے بار بار کہا کہ تو بہ کر لو.پہلے تو کہا کہ کلمہ سناؤ انہوں نے کلمہ سنایا، انہوں نے کہا یہ تو ہمارا بھی یہی کلمہ ہے.انہوں نے کہا کہ تو ہمارا بھی تو یہی کلمہ ہے ہم کیا کر سکتے ہیں.کہا نہیں پھر دوسرا کلمہ یہ پڑھو کہ مرزا غلام احمد کو گندی گالیاں دو.انہوں نے کہا ہمیں سکھایا نہیں خدا نے تم بدبختوں کے حصے میں تم جو مرضی کرو مگر جو کلمہ خدا نے ہمیں سکھایا نہیں وہ ہم نہیں پڑھیں گے اور اس جرم میں ان کو گولی ماردی ہے.اب بتائیں آپ یہ کامیابیاں ہیں جن پر فخر کر رہے ہیں اس لئے یہ سال کلیہ ان کی نامرادیوں کا سال ہے.یہ وہ سال ہے جس میں جب سے میں نے ہجرت کی ہے عارضی طور پر ، پہلی بار ہے کہ دس نئے ممالک احمدیت کی آغوش میں داخل ہوئے ہیں.بڑی لمبی فہرست ہے برکتوں کی لیکن وہ انشاء اللہ آئندہ جلسے پر میں پیش کروں گا.اب میں آخر پر آپ کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اجتماعی جائزے بھی پیش ہوتے رہتے ہیں ، ہوں گے.سال میں جہاں بھی جوڑ ڈال لیں وہاں یہ جائزے پیش ہو سکتے ہیں انشاء اللہ.آئندہ سال میں وسط میں تقریباً جلسہ UK پہ یہ میں تفصیل سے خوشخبریاں آپ کو سناؤں گا لیکن آخری یاد دہانی

Page 1011

خطبات طاہر جلد 13 1005 خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1994ء پھر یہی کراتا ہوں کہ جو ہر ذات کا اپنا محاسبہ ہے اس سے زیادہ با برکت اور کوئی چیز نہیں ہے ہر احمدی جس تک یہ آواز پہنچتی ہے چند لمحے توقف کر کے ٹھہرے ، اس غرض سے غور کرے کہ میں نے کیا کھویا کیا پایا اور اس نیت سے غور کرے کہ یہ نہ ہو کہ مجھے زندگی کے آخر پر موت کے لمحوں میں یہ خیال آئے کہ کاش میں ہر سال یہی غور کرتا.وہ جو غور ہے وہ بالکل بے کار جاتا ہے جب زندگی کے سال اکٹھا مرتے ہیں تو پھر غور کا وقت نہیں رہتا.اب تو ایک ایک کر کے ہمارا سال مر رہا ہے.خدا کرے کہ ہر مرنے والا سال ہمارے اگلے سال کو زندہ کر کے مرے اس کے لئے موت کا پیش خیمہ بن کے نہ مرے.ان دعاؤں اور اس فکر کے ساتھ ہم اس سال کو الوداع کہتے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب اگلے سال میں داخل ہوں گے.اللہ تعالیٰ تمام عالمگیر جماعت کو یہ نیا سال مبارک فرمائے.آمین

Page 1012

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13

Page 1013

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 آخرین 1 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 آئینہ کا خوبیاں اور برائیاں دونوں دکھانا اور ان کا اثر 418 آخرین سے محبت کے حوالہ سے ایک حدیث کی لطیف تشریح 474 آخرین کے اولین سے ملائے جانے کا زمانہ حضرت آدم علیہ السلام آدم اور مسیح میں مشابہت آدم کا جمعہ کے روز پیدا اور مبعوث ہونا آدم کا ننگا ہونا اور مغفرت سے تن ڈھانپنا 652 551 183 183 911 آئیوری کوسٹ آیات قرآنیہ الفاتحه ایاک نعبد و ایاک نستعین (5) البقرة ذلک الكتب لا ريب فيه (2) مما رزقنهم ينفقون (3) آدم کے بیٹے کا بھائی کے مقابلہ پر دفاع کرنا اور موت سواء عليهم ء انذرتهم (78) کو قبول کرنا آڈو صاحب 945 ومن اظلم ممن منع مسجد الله (115) اينما تولوا فثم وجه الله (116) آزاد کشمیر آسٹریلیا آسنور آگ آگ اور نور میں فرق آگ کس پر حرام ہوتی ہے آندھرا پردیش آنکھ 958 843 844,949 651 201 819 428 230,253 500 668 685 993 692 803 استعينوا بالصبر والصلوة (154) 82 بل احياء ولكن لا تشعرون (155) ولو كنت فظا غليظ القلب (160) 80 864 يايها الذين أمنوا كتب عليكم الصيام (184تا 187) 99,100 شهر رمضان الذي (186) واذا سالک عبادی عنی (187) في الدنيا حسنة (202) كم من فئة قليلة غلبت (250) ومثل الذين ينفقون اموالهم (266) 154 108 264 85 827,847 537 آنکھ کے retina کا بعض جگہوں سے اکھڑنا 413 ایک آنکھ کے ضائع ہونے پر دوسری آنکھ بھی متاثر ہوتی ہے 403 أمن الرسول بما انزل اليه (286) آئرلینڈ آئن سٹائن 531,532,976 آل عمران يايها الذين امنوا اتقوا الله (103 تا 106) اس کا خدا اور مخلوق کے درمیان فاصلہ کی بابت بیان 314 واعتصموا بحبل الله جميعًا (104) آمینه آئینہ دیکھنے کی دعا 38 ولتكن منكم امة (105) استعينوا بالصبر والصلوة (154) 571 385,406,427 591,627 82

Page 1014

211 248 602 638,675 317,520 562 59 59 351 157,657,927 553 924 183 552,553 564 564 559 983 559,562 562 559 وبشر الذين أمنوا (3) يوسف انما اشكوا بثي وحزني الى الله (87) ابراهيم لازيدنكم (8) هود ان الحسنت يذهبن السيئات (115) الرعد واذا اراد الله بقوم سوء ا (12) الحجر وقالوا يايها الذي نزل عليه الذكر (7 تا 9) 2 النحل ولو يؤاخذ الله الناس بظلمهم (62) بنی اسرائیل كما ربيني صغيرًا (25) جاء الحق وزهق الباطل (82) الكهف كبرت كلمة تخرج من افواههم (56) لعلک باخع نفسک (6) مریم والسلام على يوم ولدت (34) وقالوا اتخذ الرحمن ولدا (89تا96) الانبياء واذا راک الذین کفروا (37) ولقد استهزئ برسل (42) حرقوه وانصروا الهتكم (69) المؤمنون تبرک الله احسن الخلقين (15) ان هو الا رجل به جنة (26) قال رب انصرني بما كذبون (27) انؤ من البشرين مثلنا (48) النور 271 1 1 347 534 554 560 444 555 522 566 717 146 559 86 30 243 79 253,271 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 شاورهم في الامر (160) ان في خلق السموات والارض (191) ربنا ما خلقت هذا باطلا (192) النساء واعبدوا الله ولا تشركوا به (38) ان الله لا يغفر ان یشرک به (49) وقد نزل عليكم في الكتب (141) وبكفرهم وقولهم على مريم بهتانا (157) المائدة ولا يجرمنكم شنان قوم (9) الانعام واذا رأيت الذين يخوضون (69) ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله (109) قل انما الأيت عند الله (110) لباس التقوى (27) الاعراف ان الذين كذبوا بأيتنا (41) انا لنراك في سفاهة (67) وما رمیت از رمیت (18) لما يحييكم(25) واذكروا الله كثيرا (46) الانفال يايها الذين أمنوا اذا لقيتم فئة (47-46) والف بين قلوبهم (64) 139 700 437 609 415,877,924 180 التوبة ليظهره على الدين كله (335) فليضحكوا قليلا (83) ان الله اشترى من المؤمنين انفسهم (111) وما كان المؤمنون لينفروا كآفة (122) بالمؤمنين رء وف رحيم (128) عزيز عليه ما عنتم (129) يونس

Page 1015

698,699 706 558 21 636,687 289 327 268,867 182,294,307,907 558 369 190 559 559 3 196 198 114 41 561 562 564 ان الذين قالوا ربنا الله (32-31) نحن أولياؤكم (32) الزخرف وما يأتيهم من نبي (8) ومن يعش عن ذكر الرحمن (37) الفتح والذين معه (30) الحجرات انما المؤمنون اخوة (11) يايها الذين امنوا لا يسخر قوم (13-12) يايها الذين أمنوا اجتنبوا (13) يايها الناس انا خلقنكم(14) الذريت كذلك ما اتى الذين من قبلهم (53) النجم دنی فتدلی (9) القمر سحر مستمر (3) قالوا مجنون (10) بل هو كذاب اشر (26) الحشر گی لا یکون دولة بين الاغنياء (8) والذين تبوؤ الدار والايمان (10) يايها الذين أمنوا اتقوا الله (19) الصف 863 378,723 791,804 658,689 177 187,651,689 35,769 507 ليظهره على الدين كله (10) 559 560 الجمعة يسبح الله ما في السموات (1تا5) واخرين منهم (4) فاذا قضيت الصلوة (11) مثل الذين حملوا التوراة ( 6 تا 9) المنافقون 85 155 238 994 304,981 352 40 40 40 40 670 233 25 13 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 الله نور الـ نور السماوات والارض (36) في بيوت اذن الله (37) كلوا جميعًا (62) ولو يؤاخذ الله الناس (41) وقال الذين كفروا (5) فاطر الفرقان وقالوا اساطير الاولين (6) واذا راوك ان يتخذونك الا هزوا (42) الشعراء قالوا انما انت من المسحرين (154) وان نظنك لمن الكذبين (187) اتقن كل شيء(89) النمل العنكبوت ان الصلوة تنهى عن الفحشاء (46) والذين جاهدوا فينا () لا تبديل لخلق الله (31) الروم ظهر الفساد في البر والبحر (42) وهنا على وهن (15) لقمان الاحزاب وسبحوه بكرة وأصيلا (43) صلوا عليه وسلموا تسليمًا (57) بلدة طيبة ورب غفور (16) سبا الزمر افمن شرح الله صدره (23,24) تقشعر منه جلود (24) الله يتوفى الانفس حين موتها (43) حم السجدة

Page 1016

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 بسم الله الرحمن الرحيم (1 تا 9) يايها الذين أمنوا لا تلهكم اموالكم (10) التغابن انما اموالكم واولادكم فتنة (16) ومن يوق شح نفسه (17) لينفق ذوسعة من سعته (8) ذكرًا رسولًا (11) الطلاق التحريم نورهم يسعى بين ايديهم (9) القلم وان يكاد الذين كفروا (52) الدهر ويطعمون الطعام على حبه (10-9) الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى (10) الغاشية انما انت مذكر (22 تا 25) الفجر يايتها النفس المطمئنة (28 تا 31) البلد فلا اقتحم العقبة (12 تا 17) في يوم ذى مسغبة (15) الضحى واما السائل فلا تنهر (11) العلق ارأيت الذي ينهى عبدًا (10-9) لا نريد منكم جزاء (10) العصر وتواصوا بالصبر (5) الماعون فويل للمصلين (5تا8) 548 213 838 841 847 35 4 الفلق من شر ما خلق (3) ا،ب حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم کی تواضع اور خدا کا عزت میں بڑھانا ابراہیم کی ہتک ابراہیم کی آزمائشوں سے مراد 694 858 559 817 خدا کا آپ کو اپنے باپ کے لئے دعا سے روکنا 440 حضرت ابن عباس 805 حضرت ابن عمر ابن عمر کا مجلس میں بیٹھنے کا انداز 563 ابن ماجه حضرت ابن مسعودؓ 365,724 ابواحسن حضرت ابو امامہ 319 259,356,594,595 394 162,182,397,606 397,819,912 678,680 9,652,655 640,909,992 حضرت ابو بکر ابو جهل 86,458,586,686,922 321 دومست اونٹ دیکھنے کے نظارہ والا واقعہ 441 596 ابو حنيفة 54 فقیہہ ہونے کے باوجود چوٹی کے تاجر تھے 933 ابوداؤد 11,12,24,32,37,402,418,664 544 939 665,880,913,921 حضرت ابوذر 370,402,403,404,726,859 آپ کا اور آپ کے غلام کا ایک جیسا جوڑا پہننا 437 بعض لوگوں کا آپ کو دنیا کا پہلا اشترا کی کہنا 684 686 حضرت ابو سعید خدری 123,391,920,924 186 689 ابوسفیان حضرت ابولبابہ بن عبد المنذر 640 ابو مسعود انصاری حضرت ابو موسی اشعری 535 182 485 29,256,939 683 حضرت ابو ہریرہ 21,24,30,115,120,133,149 168,174,358,361,374,396,417,483

Page 1017

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 5 485,600,659,687,726,753,756,758 | احمدیت 761,857,872,887,892,912,931,941 اتفاق اتفاق اور یکسوئی کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے اتفاق ہماری بقا کے لئے ضروری ہے تو حید کا اتفاق سے تعلق 898 200,201 202 احمدی امن پیدا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں 461 احمدی خواتین کا بنیادی ضروری حق ہے احمدیت اور امت واحده احمدیت کا با وجود تھوڑا ہونے کے رعب احمدیت کا عالمگیر جہاد جن جماعتوں میں اتفاق نہیں وہاں سے برکت کا اٹھنا 204 احمدیت کا مقصد 797 388,389 85 87 199 جن لوگوں کی نحوست سے جمیعتیں بکھریں وہ مشرک ہیں 202 احمدیت کی اقتدار کو محض عقیدوں کے بجائے اعمال میں ڈھالیں 805 اٹلی اٹلی میں عیسائی موحدین کی غاریں حدین کی غاریں اجتماع 979 احمدیت کی نئی قوموں سے بے حد محبت اور فدائیت کا جذبہ 334 احمدیت کی تاریخ میں سیالکوٹ کا مقام اور سیالکوٹ کے احمدیوں کو تنبیہہ 231 دورانِ سال مختلف مقامات پر ہونیوالے اجتماعات کا اعلان احمدیت کی تدریجی ترقی ، حضرت اقدس کی پیشگوئی 254 4,41,59,233,253,272,327,348,385 427,525,572,591,651,673,691 709 احمدیت کی ترقی کا مؤاخات سے تعلق احمدیت کی تمام برکات اتفاق سے وابستہ ہیں 338 200 اجتماعات کے اعلان کو مستقل کرنے کا نقصان اجتماعات کے جمعہ کے موقع پر ذکر کے حوالہ سے اعلان احمدیت کی بقا کا راز خلافت اور شوری احمدیت کی دنیا بھر کی جماعتوں کے اخلاص کی تعریف 5 674 429 احمدیت کی غیر معمولی تائید و نصرت احمدیت کی نیک نامی کا صحیح تصور 275 95 کہ آئندہ سے اہم ملکی اجتماعات کا اعلان ہو گا جماعت کے سارے اجتماعات کوئی میلہ ٹھیلہ نہیں اجل پر شخص کی ایک اجل مسمی ہے احتجاج احتجاج کا صحیح طریق احساس کمتری احساس کمتری سے قومی تعصب کا تعلق احساس کمتری کی وجہ 46 60 294 799 290 احمدیت کی ہر کامیابی پر حد سے زیادہ شکر گزاری کی نصیحت 577 254 احمدیت کے چار بنیادی مقاصد احمدیت کے حوالہ سے اگلی نسلوں کو محفوظ رکھنے کا طریق 791 احمدیت کے دو سفر، ہر احمدی کا ذاتی سفر اور جماعتی سفر 317 احمدیت کے عقائد روشن، زندہ اور غالب آنے والے ہیں 795 احمدیت کے لئے یہ لامتناہی روحانی لذتوں کا دور ہے 142 احمدیت کے متعلق آراء تبدیل کی جائیں گی، پیشگوئی 142 احساس کمتری کے بُت کو توڑنے کا طریق 295,296 احمدیت کے ہاتھ میں ذریعہ اصلاح امریکہ کے سیاہ فام باشندوں میں احساس کمتری 291 اتفاق اور یکسوئی کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے پردہ کے حوالہ سے بعض مردوں میں احساس کمتری 798 اتفاق ہماری بقا کے لئے ضروری ہے احسان تکبر احساس کمتری کا بچہ ہے احسان کا عالمگیریت سے تعلق عدل اور احسان کا تعلق 294,910 431 381 296 898 201 اخلاق کو بلند کریں یہ احمدیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہوگا 714 جماعت احمد یہ ہی امت واحدہ ہے جو آنحضرت کی طرف منسوب ہونے کا حق رکھتی ہے اسلام اور احمدیت کے مقاصد 572 196

Page 1018

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 امریکہ میں ایفر و امریکن نوجوان نسل میں پہلے سے بہت خلافت رابعہ میں اجتماعیت کا آغاز ہوا ہے، اختتام نہیں 587 790 291 813 بڑھ کر جماعت سے تعلق کا پیدا ہونا دعا کی حقیقت صرف احمدیت میں پائی جاتی ہے امریکہ میں سیاہ فام باشندوں سے محبت کی تلقین دنیا میں مضبوط احمدی بھائی چارہ اور جلسہ سالانہ 494 ایم ٹی اے اللہ نے جماعت کے عالمی غلبے کیلئے عطا فرمایا ہے 704 دو قسم کے لوگ جنہیں احمدیت سے الگ کرنا پڑتا ہے 260 درخت وجود کی سرسبز شاخوں کی لطیف تشریح 411,424 ذکر الہی کا تقاضا کہ ہم اپنی مجالس کو درست کریں 218 بزرگوں کی یادوں کو تازہ رکھیں اس کی اہمیت 792,793 ناموس رسول کی محاظ اور علمبر دار جماعت احمد یہ ہے 515 پاکستان کے بعض اضلاع میں احمدیت کی ترقی کی وجہ 899 سعودی عرب کا بوسنین احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے کے پاکستان کے وزیر داخلہ کا اعلان کہ اگر احمدیت کے حق میں لئے لوگوں میں بکثرت پیسہ پھینکنا فیصلہ دیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے پاکستانی سیاست میں اپنے مفادات کی خاطر احمدیوں کو سندھ میں احمدیوں کی شہادت کے واقعات قربان کرنے کا سلسلہ اور اس کا نتیجہ کل عالم کا ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کا عجیب نظارہ 578 پیپلز پارٹی کے دورمیں احمدیوں پر مظالم اور مارش لاء کالگا 500 کیمیا میں جماعتی خدمات کی مقبولیت اور حکمت کونصیحت 234 مالی قربانی ، احمدیت اور اس کے مخالفین مین بین فرق 144 جلسہ سالانہ اور جماعت کی عالمگیریت کا تصور جماعت کا خلیفہ سے اور خلیفہ کا جماعت سے تعلق جماعت کو اجتماعیت کی حفاظت کی طرف توجہ جماعت کو فرانسیسی زبان کی طرف توجہ کی تلقین 519 529 گنا528 429 433 579 230 543 سندھ کی شہادتیں 551 973 971 771,833 مجلس ختم نبوت کا احمدیت کے خاتمہ کے حوالہ سے اعلان 1000 نبی کی آمد کی بابت جماعت احمدیہ کا عقیدہ 539 471 573 مخالفین کا رزق اللہ کے راستے سے روکنے میں ہے 143 نظام جماعت میں منافقت کا پیدا ہونا اور اس کی وجوہات 873 جماعت احمدیہ کا ایک ہاتھ پراکٹھے ہونا اور حبل اللہ کو پکڑنا 469 نئی اقوام کی آمد کی خوشخبریاں تبلیغ میں تیزی جماعت سے وابستہ وہ افراد جن سے گھن آتی ہے 203 وہ عبادت جس کی طرف احمدیت کو بلایا جارہا ہے 132 جماعت کا ایک طبقہ بغیر تحریک کے زکوۃ دیتا ہے 152 آنحضرت کی دعائیں اور اللہ کا آپ سے وعدہ جماعت کا نیک تحریکات پر لبیک کہنا آنحضرت کی دعاؤں کا فیض احمدیت بن کے ابھرا ہے 369 جماعت کو احساس کمتری میں مبتلا اقوام سے محبت کی تعلیم 295 1894 ء اور 1994ء کے سال کا جائزہ اور دونوں کا جوڑ 995 جماعت کو اللہ نے ایک گداخته دل عطا فرمایا ہے 744 1953ء، 1974 ء اور 1984ء کے بعد کی جماعت کو روح القدس کب عطا ہو سکتی ہے احمدی شہادتوں کے متعلق ایک وضاحت جماعتوں کو اکٹھار کھنے والے خوش نصیب 436,437 1994ء کے سال کا جماعت کے لئے بہت سی برکتیں لانا 967 حیرت انگیز واقعات کی حقیقی لذت کے متعلق نصیحت 578 1994ء کے سال 10 نئے ممالک میں احمدیت 1004 جمعہ کے دن کا جماعت سے خاص تعلق جمیعت کو منتشر کرنے والے اخلاق کا برا اثر 210 187 421 971 جماعت کو ہر قربانی کے بعد عظیم تر برکتیں ضرور نصیب ہوں گی 699 جماعتی اختلافات میں بدگمانی کا کردار جمیعت کے بغیر ہم کوئی انقلاب برپا نہیں کر سکتے 425 احمدیوں پر پاکستان میں توحید کی وجہ سے مظالم جن جماعتوں میں اتفاق نہیں ہے وہاں سے برکت اٹھ گئی ہے 204 احمد یوں پر پاکستان میں مظالم پر صبر مہدویت کے دعوی کے بعد جماعت کی بنیاد خشک شاخ کا کاٹا جانا مقدر ہے 140 368 احمدیوں کو اجتماعیت کی حفاظت کی تلقین احمدیوں کو مجبور لوگوں کی بحالی کی تلقین 487 979 972 588 264

Page 1019

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 احمدیوں کو ملنے والا خداد اور عب 7 95 797 کی عصمت کا اعلان کیا ہے مسجد منہدم کرنے پر خدا کا دوسری جگہ مساجد عطا کرنا 694,698 اسلام کا اعلیٰ معنی اللہ کے حضور سرتسلیم خم کرنا ہے احمد یوں کا خلافت سے تعلق میں اضافہ اسلام کا غلبہ خلق محمدی کے ساتھ ہو گا احمدیوں کی قبریں اکھیڑی جانا اور انکی شہادتوں کا اجر 1003 اسلام کا مرکز آنحضرت کی ذات ہے احمدیوں کی آپس میں محبت اور حقوق کی ادائیگی کی تعلیم 255 اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ سے مراد احمدیوں کے دائرہ اثر کے بعض جگہوں پر بڑھنے کی وجہ 338 اسلام کے زوال کی بابت آنحضرت کی پیشگوئی احمدیوں کے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں احمدیوں کے مجسم نور بننے کا طریق 469 805 اسلام میں مجددین کا سلسلہ اسلامی تصور کے مطابق مسلمان بھائی بھائی ہیں احمدیوں میں دوسری شادی کے حوالہ سے تکلیف دہ معاملات 662 اسلامی وحدت اور توحید کا پیغام اخوت عالمی اخوت میں جلسہ کا کردار وہ اخوت جس کی طرف قرآن بار بار بلاتا ہے آنحضرت کی مؤاخات ارتداد 493,494 411 494 549 43 521,522 131 658 450 752 658 469 343 450 370 اخلاقی جہاد اسلامی جہاد کا ایک لازمی حصہ ہے پاکستان میں اسلام کے معاملہ میں غیر معمولی شدت اور جبر 320 537 تمام انبیاء کی عزت اور برابری کی اسلامی تعلیم طن پر الزام لگانے کی اسلام میں بڑی سخت سزا ہے 345 عالم اسلام کا غلبہ کے لئے محض فرضی خیالوں میں بیٹھے رہنا 995 کل عالم اسلام میں ملائیت اور مسلمان سیاستدانوں کے درمیان ایک جد و جہد جاری ہے معاشرتی اور ذاتی برائیوں کا اسلام کو نقصان مرتد کی سزا کیا ہے ارتقاء زندگی کے ارتقاء کا لفظ آنا کے گرد گھومنا اڑیسہ از بکستان 406,490 اسلام آباد 702 اسلام آباد برطانیہ استغفار 514 342 59,307,843,865 495,547,580,827 اسلم شاد منگل صاحب پرائیویٹ سیکرٹری 580 رائیویٹ سیکرٹری بخشش کے بعد پھر پرانی عادتوں کی طرف لوگوں کا توجہ کرنا 117 حضرت اسید بن حضیر انصاری جن کے دلوں پر مہر ہوا نہیں کسی نبی کا استغفار نہیں بچ سکتا 551 ان کا آنحضرت کی مجلس میں دلچسپ باتیں کرنا، ذکر الہی کا استغفار سے تعلق عفو کا استغفار سے تعلق آنحضرت کا سردار منافقین کے لئے استغفار استقاء استقامت سے مراد 222 284 | اسیران راه مولی 568 اس کا حضور سے بدلہ لینا اور جسم چومنا اسیران راہ مولا کی آزادی پر جماعت کی خوشی 921 اسد الغابه اسرائیل اسلام اسلام اور احمد بیت کے مقاصد اسیرانِ راہ مولیٰ سے جماعتی ہمدردی 698 اشعری قبیلہ 924 71 196 اس کی خصوصیت کہ خوراک کی کمی کی صورت میں ذخیرہ اکٹھا کر کے برابر تقسیم کرتے ہیں اصحاب الرقيم اصحاب الرقیم سے مراد اسلام ایسا مذہب ہے جس نے تمام مذاہب کے انبیاء اصحاب کہف 258 469 939 733

Page 1020

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 8 وہاں سے دریافت ہونے والے صحیفوں کا مطالعہ کرنے کی افریقہ کے بہت سے ممالک میں بھر پور بیداری 971 اہلیت پیدا کرنے کے حوالہ سے احمدی ریسرچ ٹیم 733 471 توحید کی خاطر اصحاب کہف کا غاروں میں جانا افریقہ میں تبلیغ کے حوالہ سے جوش 731 اقبال حیدر غاروں پر قرآن سے پہلے اہل علم نے کوئی تحقیق نہ کی تھی 732 اقبال حیدر کا توہین رسالت کی بابت بیان اصلاح اصلاحی مینٹی علامہ اقبال 532 533 860 اصلاح کے حوالہ سے خطبات کا مردوں اور عورتوں پر اثر 909 اقبال علامہ کا اپنے بیٹے کو قادیان تعلیم کے لئے بھجوانا 78 اصلاحی کمیٹی کا تصور جو حضور کے ذہن میں تھا احمدیت کے ہاتھ میں ذریعہ اصلاح اندرونی رجحانات کی اصلاح کا طریق آنحضرت نے جیسے اپنی امت کے اخلاق کی اصلاح کی دیگر سارے انبیاء نے ایسا نہیں کیا ہوگا اطاعت 339 اقتصادیات 296 298 379 للہی محبت سے طاقت اور اطاعت کی روح کا حصول 430 اقتصادی بحران کے وقت معاشروں کی اخلاق حالت 657 اقتصادی بقا کا ایک قرآنی اصول ب والتره نجات حقیقی خدا کی اطاعت میں ہے جو عبات کے بغیر شیخ الطاف الرحمان نصیب نہیں ہو سکتی اعتکاف اعتکاف کا پس منظر ، مطلب 180 160 159 چودھری الطاف حسین گورنر پنجاب کا توہین رسالت کی بابت بیان الفضل الفضل انٹرمینل اعتکاف کے دوران مسجد سے باہر نکلنے کی مشروط اجازت 165 الفضل انٹر نیشنل کا با قاعدہ آغاز اعتکاف میں سر منڈانا ، علماء کا فتویٰ 164 263 852 912 331,514 225,254 581 188,199 الفضل کبھی بھی منافع کمانے کا ذریعہ نہیں بنا نے کا ذریعہ ہیں نا 534 5 6 اعتکاف کا رمضان کے آخر میں منتقل ہونے کی وجہ 163 اللہ تعالیٰ اعتکاف، ایک دن پہلے اعتکاف بیٹھنے میں حکمت 159 اللہ اپنی مخلوق سے بھلائی چاہتا ہے تمام مذاہب میں اعتکاف کا تصور اور اس میں غلو 160 اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز سے مراد اعتکاف میں حضور کے سر پر تیل لگانا اور مکھی کرنا 163 سر اللہ کی محبت ذکر الہی کی جان ہے، تقاضے، کثرت 217 آنحضرت کا اعتکاف 161 آنحضرت کے ایک سال رمضان میں اعتکاف نہ بیٹھنے کی وجہ 162 اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے لفظ انا کی وضاحت 236 314 227,244,480 42 48 اعتکاف میں مسجد کے دروازہ تک آپ کا چھوڑ نے جانا 165 اللہ تعالیٰ نے اپنی انا سے یہ سب چیزیں عطا کی ہیں اللہ سے امن نصیب ہوتا ہے جو آگے تقسیم ہوتا جاتا ہے 34 شیخ اعجاز احمد صاحب ڈاکٹر اعجاز احق صاحب مولوی اعظم طارق 77 118 530 اللہ سے تعلق دنیا سے تعلق کاٹنے کی بجائے فرار کہلاتا ہے 160 اللہ سے دوری کا سفر دراصل جہنم کا سفر ہے افریقہ 2,41,228,258,494,781,785 اللہ سے سفر کا آغاز اور اسی کی طرف انتہاء اللہ سے نیکیوں کی حفاظت کی دعائیں مانگیں 49 52 82 اللہ کا ایک دم کا قہر ساری عمر کی نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے 66 792,852,898,949,975 افریقن احمدیوں کا اخلاص 293

Page 1021

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 اللہ کا شرک ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا اللہ کو ناراض کرنے والوں کی ایک نشانی 534 143 0 اللہ نے دل میں تحریک ڈالی ہے کہ چوٹی کے بد بخت علماء کے لئے بددعا کی جائے تا کہ امت کے لئے وہ دعا بن جائے 1002 اللہ کو یاد کرنے کا وہ وقت جب اس کا یاد کرنا بیکار ہوتا ہے 22 اللہ ہی تقویٰ کی پہچان رکھتا ہے 908 42 اللہ کی تو ہین اور اس کی عصمت کا قرآن میں ذکر 522 کیسے انسان اپنی تمام لذات خدا میں ڈھونڈے اللہ کی جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کا سودا فروخت کرنا 223 اسلام میں خدا کا جو تصور اللہ کی ذات سے تعلق میں ہر نیکی کا وجود ہوتا ہے 552 اللہ کی حضوری کی تلقین اللہ کی خاطر نفرت سے مراد 312 444,445 الم میں الف ہر چیز کا آغاز ہے 795 42 اللہ کی رضا کی خاطر اموال کو پیش کرنا سب سے اعلیٰ غرض ہے 832 تخلیق کائنات میں مضمر اللہ کی شان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا 26 اللہ کی رفعتوں کے ساتھ سماعت کو بھی رفعت ملتی ہے 11 تعلق یا اللہ کو ذکر سے تقویت دینا اللہ کی ستاری کی چادر اللہ کی طرف بلانے کا اصل طریق اللہ کی محبت جیتنے کا وقت اللہ کی محبت کے حصول کا طریق اللہ کی محبت کے نتیجہ میں مخلوق سے طبعی محبت اللہ کی محبت والا جھکتا ہی چلا جاتا ہے اللہ کی میز بانی 911 89 505 27 752 229,230 707 48 تقویٰ کی عزت بندوں کی بجائے اللہ کے حوالہ سے ہوتی ہے 294 توحید فی الوہیت اور توحید فی الرسالت کی حقیقت 537 جنگ احد میں آنحضرت کی خدا کے لئے غیرت آنحضرت کا خالق اور مخلوق کا پیدا کردہ تصور رات کے وقت قرب الہی کی علامتیں رحمانیت سے ہر چیز کا آغاز ہوا روح میں اللہ سے تعلق کا فطرت میں ودیعت ہونا 536 237 15,16 52 90 49 اللہ کی نظر میں خدا کے بندوں سے تعلق قائم کرنے کی اہمیت 821 ساری جسمانی لذات کا انتہاء خدا کی ذات اللہ کی نعمتوں کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا 375 افضل عمل اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر بغض ہے 404 اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آنحضرت ہیں جنہوں نے لوگوں کو آپس میں باندھا اللہ کی یاد کے حوالہ سے تقویٰ کا تقاضا اللہ کے بالمقابل ہر شریک کی نفی 450 62,63 355 ظالموں سے خدا کا سلوک عیال اللہ سے مراد 344 367 غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا خدا پر فدائیت سے تعلق 205 غلبہ کے حوالہ سے اللہ کا مومنین کی جماعتوں سے سلوک 94 اللہ کے جلال کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے 483 قرآن میں اللہ کی تضحیک کا ذکر اور کہیں بھی ان آیات میں اللہ کے جلال کی عظمت انسان کو اپنے ہاتھ میں بدلہ لینے کی اجازت کا ذکر نہیں 554 اللہ کے ذکر سے خالی دل پر شیطان کا قبضہ کرنا اللہ کے عفو کے نتیجہ میں نیکیوں کی توفیق ملتی ہے اللہ کے فضلوں کے حصول کا طریق اللہ کے متعلق دل میں بدی کا آغاز اللہ کے مخالفین کا اللہ کی گستاخیاں کرنا اللہ کے مزاج کو نہ سمجھنے کے نقصان 484 23 404 594 401 554 713 للہی محبت کی عظمت اور اہمیت للہی نفرت سے مراد لودھراں کے سیشن جج کا فیصلہ کہ لوگ شرک فی التوحید برداشت کر سکتے ہیں مگر شرک فی الرسالت نہیں ماں کی بچے سے محبت سے اللہ کی محبت کا مضمون نجات حقیقی خدا کی اطاعت میں ہے اللہ کے نام پر امان دینے والے سے خدا کی سخت باز پرس 756 لامحمد ودجز ا جس کا آخری کنارہ خدا ہے اللہ کے نام پر پناہ مانگنے اور کچھ دینے کی تعلیم اور اس کا فلسفہ 595 ہر لذت خدا کی ذات میں ہے 478 442 534 26 180 174 27

Page 1022

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 10 ہم جو کاروبار کر رہے ہیں اللہ کی محبت کی خاطر کر رہے امت واحدہ کس طرح جماعت بنا سکتی ہے ہیں ، حلفیہ بیان 511 28 28 256 864 572 462 434 اخلاق امت واحدہ بنائیں گے عقائد نہیں ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں اس وقت ایک ہی امت واحدہ ہے جو آنحضرت ہماری انا کا منبع اللہ ہے کی طرف منسوب ہونے کا حق رکھتی ہے آنحضرت کی وساطت کے بغیر قرب الہی کا بے حقیقت تصور 584 درود میں امت کے اکٹھے ہونے کا ذکر ہے آنحضرت کے غزوات میں اصل قوت اللہ کا ذکر تھی 86 دنیا کو امت واحدہ بنانے کا طریق بعض مذاہب کے عقائد میں خدا کی کھلی کھلی تو ہین ہے 552 وہ تحریکات جنہوں نے امت کو نقصان پہنچایا ہے 126 ربوبیت در اصل رحمانیت اور رحیمیت کے تعلق سے بنتی ہے 52 صفات الہیہ سب سے زیادہ آنحضرت میں جلوہ گر ہوئیں 410 امریکہ 60,245,381,386,491,494,514 للہی محبت کی عالمگیریت لمہ محبت الہی کے حصول کا طریق الحجم الصغير للطبراني الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آ ئیں 431 433 814,819 میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے نصرت بالرعب حضرت ام سلمہ حضرت ام متین امام 579 5 38 95 17,30,31,664 349,580 39 591,709,749,789,831,842,949,999 امریکہ اور کینیڈا کے پانچ ہفتوں کے دورہ کے بعد حضور کی واپسی اور دورہ پر تبصرہ امریکہ اور ناروے کی مجالس شوری 809 291 316 امریکہ کا میں تنزل کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں امریکہ کے افریقن بھائیوں سے حضور کا خوش ہونا 804 امریکی سفیر کا کویت پر حملہ کی بابت صدر صدام کو مشورہ 291 سیاہ فام میں مسلسل ظلم کے نتیجہ میں احساس کمتری 291 ایفر وامریکن ، بڑھ کر جماعت سے تعلق کا پیدا ہونا 790 امریکہ میں پرانی چیزوں کو بدلنے کا رواج پروگراموں میں پردہ کا خصوصی خیال پاکستان کے لوگوں کا اس زمانہ کے امام کا انکار کرنا 323 امریکہ میں غصہ کے نقصانات آنحضرت زمانہ کے امام ہیں اور وہی امام طاقتور ہے جو امریکہ میں غلاموں پر مظالم آپ کی غلامی کی امامت ہے امانت 323 امریکہ میں غیبت کی کثرت امریکہ میں مکئی پر نیا تجربہ 723 795 815 756,757 883 965 امانت میں اعلیٰ تو قعات پر پورا نہ اترنے کا نقصان 594 شمالی امریکہ کو اصحاب کہف والرقیم پر تحقیق کی تلقین 734 مجلس کی امانت کا حق نہ رکھا جائے تو وہ غیبت بن جاتی ہے 884 امریکہ، کینیڈا کی شوری 1994 ء میں ایم ٹی اے کے ارتھ سٹیشن کے لئے ریزولیوشن ، اس کی تعمیر اور افتتاح 172 مشاورت امانت ہوتی ہے امت / امت محمدیہ امت واحد امت کا 72 حصوں میں افتراق 288 450 امن امن کی حقیقت 235 امت کی یہود سے مشابہت سے متعلق آنحضرت کی پیشگوئی 156 احمدی امن پیدا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں 461 امت محمدیہ کے سب مولوی ایک وقت میں بدبخت نہیں 700 دنیا سوائے اللہ والوں کے کسی سے امن میں نہیں ہے 34 امت واحدہ بننے کا رستہ 465 دنیا کا امن آج اسلام سے وابستہ ہے 297

Page 1023

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 تجارتی تعلقات کی اصلاح سے دنیا امن میں آجائے گی 422 انصار الله یو کے میں بیداری انعام امیر حضور کی امیروں کو غریبوں کی شادی میں شمولیت کی ہدایت 362 انعامات کا وہ سلسلہ جو لامتناہی ہے امة الباسط صاحبه امة البشير صاحبه امتر را جمیل صاحبه ابة الی صاحبہ الجمیل 580 77 958 انقلاب 829 وہ انقلاب جو آسمان سے اترے گا کسی کی مجال نہیں کہ اس کی راہ روک سکے 118 | انکساری 192,387 81 527,528 انکساری اور عاجزی کی تعلیم انڈونیشیا 55,56,272,581,770,776,842 انکساری کے نتیجہ میں انسان کا رفع انڈونیشیا کی جماعت کے اخلاص کا ذکر 489 579 857 ذکر الہی سے انکسار کا حاصل ہونا ہسجدہ انکسار کی اعلیٰ حالت 63 حضرت انس بن مالک 15,173,249,359 متقی لوگوں کا انکسار بدیوں کو زائل کر دیتا ہے 404,478,814,913,940 آپ کی نماز کی کیفیت انسان انسان اللہ کے عیال ہیں.اس سے مراد انسان ایک مختصر کا ئنات ہے 200 نیکی میں انکسار رکھنے والوں کی اولاد کی اللہ حفاظت فرماتا ہے 64 248 انگلستان 367 26 انگلستان سے ایم ٹی اے کے باقاعدہ ہونے کا اعلان 1 انگلستان کو جیسا جمہوریت پر فخر ہے ویسا کسی کو نہیں 269 انگلستان کی جماعت کو اپنے ابتدائی خدمت کرنے والوں انسان کی بقا کا اعلیٰ مقصد زیادہ سے زیادہ ذرائع اکٹھے کرنا ہے 224 کے ذکر کو زندہ رکھنا چاہیئے انسان کی خاطر مختلف زندگیوں کی پیدائش 62 62 301 4 انگلستان کی دو مخلص احمدی خواتین کا language کی وجہ سے رابطہ منقطع ہونا 398 انگلستان کے انٹرنیشنل جلسہ پر لوگوں کا کھچے چلے آنا 429 انسان کی زیادہ تر جد و جہد اموال کمانے میں ہے 215 انسان کی غلطیوں میں جانداروں کا کیا قصور ہے؟ انسان کے باہمی تعلقات پر مشتمل احادیث کا تذکرہ 366 انگلستان میں پڑوسیوں کے جھگڑوں کے نہ ہو نیکی وجہ 358 انسانوں اور جانوروں میں کیمو فلاج کا سسٹم انگلستان کی جماعت میں سب سے زیادہ انگریزوں کا بیعت کرنا 946 انسانوں کے انسانوں سے تعلقات کا عبادت پر گہرا اثر 751 ایم ٹی اے، انگلستان اور ماریشس کی جماعتوں کا اعزاز 3 انسانوں کے دو حرکات جو جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں 313 انگلستان کی شہزادی کی کال کی ریکارڈنگ کا ایک واقعہ 269 خالص عبادت انسانی تعلقات کو قائم کرتی ہے نہ کہ منقطع 350 دیانت کی وجہ سے انگلستان میں احمدیوں کو ملازمتیں دینا 933 علم میں ترقی سے انسان کی کائنات کا پھیلتے چلے جانا 47 سب سے پہلا بیرونی مبلغ انگلستان بھجوایا گیا پھر ماریشس 3 مال کی حرص نہ ہونے سے انسان کا بے شر“ ہونا ما حص نہ ہونے سے انسان انشورلس انشورنس کا ناجائز استعمال انصار/ انصار الله 298 136 انگلستان انور آباد 8,556766,771,776,781 وہاں کے نوجوان مخلص سندھی کی شہادت سے قبل اسے کہنا کہ کلمہ پڑھے اور تو بہ کرے انصار سے مراد ہر زمانہ میں دین کی خدمت کرنے والے 405 او بر ہاوزن جرمنی انصار اللہ کی ذمہ داریاں 829 اولاد 1004 581

Page 1024

371 214 757 514 592 1 810 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 اولاد کا باعث فتنہ ہوتا اولاد کے ضائع ہونے کی ایک وجہ اخلاق کی نرمی وہ ہے جو بچہ اپنے با اخلاق ،نرم رو اور خلیق ماں باپ سے سیکھتا ہے 838 64 824 12 ایثار ایثار کا صحیح تصور ایڈز ایڈز پر بڑی کمپنیوں کے پیسہ خرچ کرنے کی وجہ ایک باپ کی بدسلوکی کے بارے میں ایک بچی کا حضور کو خط 860 ایڈی کام ، صدرغانا ایک بچہ کا پرانی چیزیں اپنے والد کے لئے اکٹھی کرنا جیسے ایران 820 ایسٹرن کیریبین وہ اپنے والد کے لئے کیا کرتا تھا اور اس میں سبق باپ کی بدخلقیوں اور بدتمیزیوں کے نتیجہ میں اولاد کا نقصان 725 ایشیا بچوں کا ماؤں کی بات سب سے کم بری منانے کی وجہ 419 ایم ایم احمد صاحب مال کے بالمقابل اولادنا نوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے 15 سنگین بیماری کے باوجود تکلیف اٹھانا ماں باپ سے کٹ جانا بہت بڑی بدبختی ہے 820 ایم بی اے نیکی میں انکسار رکھنے والوں کی اولاد کی اللہ حفاظت فرماتا ہے 64 ایم ٹی اے انٹر نیشنل کا با قاعدہ آغاز حضرت اویس قرنی آپ کو آنحضور کا سلام اہل اللہ اہل اللہ ہی کو عقل کامل نصیب ہوتی ہے اہل بیت اہل بیت سے بغض کا نقصان 476 111 447 7 جنوری 1994ء کو ایم ٹی اے کا اجراء 1 996 977 ایم ٹی اے تجارت پر پروگرامز تیار کرے ایم ٹی اے پر حضور کا اردو زبان سکھانے کا پروگرام 780 ایم ٹی اے پہلے اردو اور پھر عربی کو اہمیت دیں 786 ایم ٹی اے پر کھانا پکانے کے پروگرامز کے حوالہ سے نصائح 961 ایم ٹی اے سے بچوں کی تربیت 807 اہل بیت سے جماعت کی محبت اور پاکستان کا الزام کہ شیعہ ایم ٹی اے، جماعت کے عالمی غلبے کے لئے عطا ہوا 704 سنی فساد جماعت کرواتی ہے اہل بیت کی محبت میں جلوس 459,460 449 ایم ٹی اے کی پاکستان کے لئے بارہ گھنٹے کی نشریات ، اس میں کمی اور پروگراموں میں مسائل کا تذکرہ 948,949 شیعوں کو اہل بیت کے ذکر کی مجالس کے حوالہ سے نصیحت 458 ایم ٹی اے کی شکل میں تمام دنیا میں نور کا پھیلنا صحابہ اور اہل بیت محبتوں کے پیغامبر تھے محرم میں اہل بیت کے حوالہ سے وہ اعلیٰ بات جس کا اظہار دوسروں کی طرف سے نہیں کیا جاتا 451 458 ایم ٹی اے کے اجراء پر بغیر مانگے مخلصین کا روپیہ نچھاور کرنا اور خواتین کا زیور قربان کرنا ایم ٹی اے کے اجراء پر عرب دنیا کی دلچسپی آپ پر الزام کہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہ کی اس کی تردید 451 ایم ٹی اے کے پروگرامز کی بابت سکیم آنحضرت گا اپنے نواسوں سے پیار کا انداز اور صحابہ کی کیفیت 450 ایم ٹی اے کے پروگرامز کے حوالہ سے ہدایات اہل قرآن 584 141 144 997 2 777 ایم ٹی اے، انگلستان اور ماریشس کی جماعتوں کا اعزاز 3 اہل قرآن کے جھوٹا ہونے کی ایک دلیل ایم ٹی اے کے ذریعہ اہل پاکستان پر خدا کے فضلوں کا نزول 192 حدیثوں کی بابت ایک اہل قرآن سے حضور کی گفتگو 126 ایم ٹی اے کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کے پیغام کا ساری دنیا میں پہنچنا اہل کتاب اہل کتاب کا تورات کا بوجھ اٹھا نا ترک کرنا، اس سے مراد 508 ایم ٹی اے کے ذریعہ آسمانی گواہی 5 140

Page 1025

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 پروگرام بہتر کرنے کے لئے عالمی کوششیں ایم ٹی اے کے لئے مزید چندہ نہ لینے کا ارشاد 13 968 966 ایمان کی نشانی کہ مومن کے ساتھ اپنے جیسا سلوک کرو 941 ایمان لانے کے بعد منافق بننے والوں کا قرآن میں ذکر 549 ایم ٹی اے کے لئے پاکستان کا وقت 12 سے کم کر کے حدیث کی رو سے وہ تین اخلاق جو ایمان کا تقاضا ہیں 814 954 شکر حقیقی ایمان بخشتا ہے 242 کتابوں پر ایمان کا انبیاء پر ایمان سے پہلے کیوں ذکر کیا گیا 387 ب پت 692 76 7 گھنٹے کر دیا جانا متنوع پروگرام جو حضور کو خود کرنے پڑرہے ہیں ایم ٹی اے کے وقت کی مختلف ممالک کے لئے تقسیم 952 حضرت ایوب پروگرام بنانے میں پاکستان کا تو قعات پر پورا نہ اترنا 973,974 علاقائی پروگراموں کے حوالہ سے حضور کی ہدایات 975 بابری مسجد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی رضا کارانہ مسلسل محنت 775,776 بابری مسجد اور احمدیوں کی مساجد کے انہدام میں فرق 693 ارتھ سٹیشن کے لئے ماہرین کی ضرورت اسکے حق میں مشرک عدالت کا فیصلہ اور احمدیوں کی مسجد کے ایک پروگرام کے ساتھ سات مزید زبانوں میں دوسرے علوم انہدام پر موحد کہلانے والی عدالت کا شرک کے حق میں فیصلہ 696 کا سکھایا جانا ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک انقلاب ہو گا 957 بازار 777 بنگلہ دیش کا سب سے پہلے ایم ٹی اے کے لئے پروگرام تیار کرنا 2 بازار میں خدا کے ذکر سے غفلت پاکستانی احمد یوں ٹیلیویژن کی بابت خواب دیکھے تھے 91 بازار میں سلام کے رواج کی نصیحت حضور کے ایم ٹی اے پر اردو زبان سکھانے میں الہی تصرف 784 بازار میں ہتھیار کو حفاظت - خلافت احمدیہ کے استحکام کا ایک ذریعہ ٹیلی ویژن 587 بائبل غیروں کا ایم ٹی اے دیکھنا بائبل کی تحریروں کے متعلق تحقیق کینیڈا کی 1994ء کی شوری میں ایم ٹی اے کے ارتھ سٹیشن بائیل کے علماء کا نقشہ اور ان کی اجارہ داری 704 772 بٹالہ کے لئے ریزولیوشن، اس کی تعمیر اور افتتاح ہر ملک میں ایم ٹی اے کے لئے علیحدہ ٹیمیں بنائی جائیں 974 بحث 219 392 403 742 540 509 189 ہندوؤں کا ہمارے سیٹلائیٹ کے لئے چندے دینا 90 بحث کا درست طریق 89 ہومیو پیتھی کے متعلق حضور کا ایم ٹی اے پر پروگرام بخاری 29,115,120,133,163,164,166,167 787 اشتہارات سے احمدی تا جرایم ٹی اے کی مدد کریں 966 زمینی راستے بند کر سکتے ہومگر آسمانی فضلوں کو کیسے روک سکو گے اور ان الفاظ کا پورا ہونا ایمان ایمان اور نفاق کی ایک نشانی انصار سے محبت اور 999 168,173,247,256,259,296,303,356,359 370,379,391,392,393,394,399,423,474 478,485,488,536,593,652,656,687,710 726,753,756,758,766,931,935,940,944 بغض ہے (حدیث) ایمان سے رمضان کا تعلق ، تقاضے ایمان کا سب سے مضبوط کڑا ایمان کا معراج اور حقیقی ایمان 404,405 113 440 110 امام بخاری ایک روایت کی چھان بین کا ایک واقعہ ی کی بخشش اور فضل کا تعلق بخشش کے یقین کی دوصورتیں 125 415 117 ایمان کی سچائی اور آنحضرت سے وابستگی کی کچی علامت 448 بخشش کے بعد پھر پرانی عادتوں کی طرف توجہ کرنا 117

Page 1026

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 14 رمضان میں بخشش کے دروازوں کا زیادہ کھولے جانا 121 | برلن معاف کرنے سے اللہ کا اسے عزت میں بڑھانا بداخلاقی 857 دیوار برلین گرنے کے بعد خیالات میں تبدیلی بریمپٹن کینیڈا بد اخلاقیوں سے گھر اجڑنا نسلوں کا تباہ ہونا 400,824 صوفی بشارت الرحمان صاحب اخلاق کے نہ ہونے کا قوموں کے افتراق اور بد خلقی سے تعلق 416 ان کی وفات پر ذکر خیر بد دیانتی بدر بد دیانتی کا سارے معاشرہ کو گندا کرنا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپ کا نوکروں سے حسن سلوک کا ایک انداز 154 قاضی بشیر احمد صاحب 657 ی میں حضرت بدر کی جنگ بحضرت کی گریہ وزاری اور اس کا نتیجہ 86 ان کی وفات اور ذکر خیر بدظنی اور بغض کا اشتراک بدظنی سخت قسم کا جھوٹ، بچنے کی تلقین جماعتی اختلافات میں بدگمانی کا کردار عائلی معاملات میں بدگمانی کا کردار بدگمانی سے بچنے کی تعلیم بد معاملگی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب 487 خلیفہ اسیح الثانی 892.894 487 485 485 آپس کی بد معاملکیوں کے وقت حضور کی کیفیت 381 حضرت بدھ بدین بدی 536 673 334 386 77 688 767 حضور کا شوری میں دیہاتی نمائندگان سے بھی مشورہ طلب کرنا 310 آپ کی ہمیں شوری میں اہتمام سے جانے کی تلقین 285 جاپان میں تبلیغ سے متعلق حضرت مصلح موعود کی ایک رویا 349 آپ کا ایک عورت کو تھوڑا چندہ دینے کا کہنے پر اس کی چینیں نکلنا بغداد 85 ب کی تباہی کا فیصلہ جو ایک بزرگ اس کی تباہی کا فیصلہ جو ایک بزرگ کو الہام کیا گیا 702,703 بغض اور کینہ دور کرنے کا طریق.مصافحہ کرنا اللہ کے عفو کے نتیجہ میں نیکیوں کی توفیق ملتی ہے نہ کہ پھر بدظنی اور بغض کا اشتراک بھی بدیوں پر لگا رہے متقیوں کا انکسار بدیوں کو زائل کر دیتا ہے معاشرہ کی بہت سی بدیوں کے پھیلنے کی وجہ نیکی کے آنے سے بدی کا دور ہونا 404 200 63 675 912 حسد کا بغض سے تعلق بقاء اصل لذت بقاء اور اپنے وجود کے پھیلنے میں ہے بلوچستان بلوچستان میں ہزار ہا بلوچیوں کا قتل 937 487 666 43 اپنی آنکھ کا شہتیر بھول جاتا ہے قومی لحاظ سے پائی جانے والی برائیوں کا دور کرنا ضروری ہے 339 بنگال معاشرتی اور ذاتی برائیوں کا اسلام کو نقصان برطانیہ چودھرتی برکت علی صاحب 342 842 527 980 بنگال کی جماعتوں کو شکر کے دور میں داخل ہونے کی نصیحت 81 بنگلور 853 بنگلہ دیش 525 7,469,512,514,695,898 سب سے پہلے ایم ٹی اے کے لئے پروگرام تیار کرنا 2 ایک حدیث کی رو سے برائی کو روکنے کے تین طریق 319 بنگلہ دیش کے اخبارات کا جماعت کا ساتھ دینا 81

Page 1027

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 15 بنگلہ دیش کے ایک مولوی کا خدا کے نام پر بلانے پر غنڈوں بھٹو کا اسمبلی سے جماعت کے غیر مسلم ہونے کا اعلان سے ان لوگوں کی پٹائی کروانا جلسہ سالانہ کا آغاز اور جماعت کے اخلاص کا ذکر بنگلہ دیش میں پاکستان سے نفرت کا اظہار 756 79 اور پاکستانی اخبارات بھٹو کے خلاف مولویوں کا رویہ بھٹو کے مزار کے گرد بھی گولیوں کا چلنا 330 515,516 516 527 4 769 بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کے ساتھ ہندوستانیوں کا سلوک 330 بھلوال قدرت اللہ سنوری صاحب کا حضور کے ساتھ بنگلہ دیش کا سفر بیت الرحمان امریکہ اور ان کی بیوی کی شدید بیماری کی اطلاع اور سنوری صاحب اس کا افتتاح پر کثیر ملکوں کے احمدیوں کی نمائندگی 770 کا اللہ سے تعلق اور اللہ کا سنوری صاحب سے سلوک 919 ایم ٹی اے کے ارتھ ٹیشن کی بیت الرحمان کے پاس تعمیر اور افتتاح 772 چهار بخشی بازار مسجد کو گرانے کی مولویوں کی دھمکی 80 بیت السلام فرانس بنو سلمہ بنوسلمہ قبیلہ کو مسجد نبوی کے پاس آنے کی کی اجازت نہ الفضل 253 1,21,41,59,71,99,119 159,177,196,213,233,253,271,289,307 ملنے میں حکمت 249 بنی اسرائیل بنی اسرائیل کا معافی کو بھولنا تب مسیح تشریف لائے 417 بورکینا فاسو بورکینا فاسو میں جماعت کی ترقی جماعت کی ترقی بوریمی 228 230 580 بوسنیا 151,852 327,347,365,385,406,427,447,491,507 525,571,591,609,673,691,809,827,847 867,887,907,927,947,967,987 بیعت ایم ٹی اے دیکھ کر بیعت کرنا بیلجئیم بیلجئیم کا قربانیوں میں آگے بڑھنا بوسنیا کے مظلوموں کے لئے جماعتی ہمدردیوں کا عالم 259 بوسنین نو مبائعین کو ذکر الہی کے ساتھ وابستہ کرنے کی تلقین 251 بوسنین احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے کیلئے بکثرت پیسہ پھینکنا 551 بے نظیر بھٹو یورپین احمدیوں کو بوسنین لوگوں سے محبت کی تلقین 405 پاپ میوزک بوسنین اس وقت ایک انتہائی مظلوم قوم بوسنین لوگوں سے مواخات کے حوالہ سے ایک ضروری امر 336 پاک بوسنین لوگوں سے احمدیوں کی مؤاخات بوعلی سینا ان نام زندہ کے نام کے زندہ ہونے کی وجہ بہاوس بہا وسر بہتان بہتان تراشی کی قرآن میں سخت سزا بھارت بھٹو ( ذوالفقار علی بھٹو ) 336 705 114,581,844 843 41 126 532,533 پاپ میوزک اور پاپ سنگرز سے کروڑوں لوگوں کا متاثر ہونا 578 335 پاک ہونے سے نظر بھی اتنی ہی پاک ہوتی چلی جائے گی 801 88 673 872 525 460 پاکستان 60,108,154,231,245,307 397,514,563,750,776,891,975 پاکستان کا تقسیم ہندوستان کے وقت ہندوؤں سے تمسخر 330 پاکستان کی جماعتوں میں غیبت کی عادت 884 272 پاکستان کی مجلس شوری کا آغاز پاکستانی احمدیوں کو مظالم کے باوجو دوطن سے محبت کی تلقین 700 پاکستان کے بعض اضلاع میں احمدیت کی ترقی کی وجہ 899

Page 1028

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 پاکستان کے دانشوروں کو تنہہہ 16 704 | پتوکی پاکستان کے لوگوں کا اس زمانہ کے امام کا انکار کرنا 323 پردہ اپردہ پوشی پاکستان میں احراری مساجد میں جشن منایا جانیوالا دن 691 پردہ پوشی کا بدن سے تعلق 191 266 267 پاکستان میں ایک حافظ قرآن کا قرآن کو جلانا اور پھر عوام پردہ پوشی کا قیامت سے تعلق کا اسے زندہ آگ میں جلا دینا پردہ پوشی کے مضمون کو آنحضرت کا کمال پر پہنچانا 268 پاکستان میں جہالت کے باوجود بھی فطرت صحیحہ کا غلبہ ہے 701 جو دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ دنیا اور 320 پاکستان میں شرعی عدالتوں کے مُردار کی طرح بیٹھے رہنے کی وجہ 541 آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا پردہ، بعض مردوں میں احساس کمتری اور اس کا نقصان پاکستان میں قانون کا نہ ہونا 322 972 پردہ کے حوالہ سے مرا کو میں مسلمان علماء کا تشدد 918 798 324 پاکستان میں قومی سزا پاکستان میں گستاخی رسول کے نام پر ہنگامہ آرائیاں 525 امریکہ میں پروگراموں کے دوران پر دہ کا خصوصی خیال 795 پاکستان میں گنا ہوں اور جرائم میں بھیا نک اضافہ 540 خدا جب یہاں پردے اٹھانا شروع کر دے تو مرنے کے 529 بعد سارے پردے چاک ہو جاتے ہیں پاکستان میں مارشل لاء کے لگنے کی وجوہات پاکستان میں آنحضرت کی ہتک کی سزا موت ہے 512 پاکستانی احمدیوں کے اخلاص کی تعریف 292 پشاور پاکستانی پولیس اور جیلوں کا حال 381 مغرب میں آنے والی بعض عورتوں کا پردے نہ کرنا 792 541 پمدوستام پاکستانی سیاست کی بدحالی کا تذکرہ 528,529,693 پنجاب پاکستانی سیاستدانوں کی جہالت اور جوں کا تو حید اور رسالت کی بابت غلط فیصلے دینا انات میں شریکوں کا رواج، اس کی وجہ 540 پومپیاد پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ مولویوں کا سلوک 518515 پوچے پاکستانی فوج میں حریص افسر 529 پیسہ اخبار پاکستانی معاشرہ میں شرک اور مردہ پرستی کی انتہاء 535 پیشگوئی احمد یوں پر پاکستان میں توحید کی وجہ سے مظالم پاکستان کے بارے میں حضور کے خدشات ایم ٹی اے کے پروگرام ، پاکستان کا توقعات پر پورا نہ اترا 979 720 973 691,843 469 755 898 981 981 1001 احمدیت کی تدریجی ترقی کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئی 254 احمدیت کے متعلق آراء تبدیل کی جائیں گی 142 امت کی یہود سے مشابہت سے متعلق آنحضرت کی پیشگوئی 156 عیب کی ٹوہ میں لگے رہنا پاکستان میں عام بیماری ہے 985 خوارج کے مسلمانوں پر حملہ کی پیشگوئی معصوموں کے اوپر ظلم کے نتیجہ میں پاکستان میں قیامت برپا ہے 972 آنحضرت کی چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی مولویوں کا پاکستانی سیاستدانوں کی دکھتی رگ کو پکڑنا 526 تاجکستان مولویوں کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا گھیراؤ519 تاشقند ہندو پاک میں تحقیر آمیز مذاق کی کثرت 759 | تبل ہندو پاک میں قرض لے کر واپس نہ کرنے کا رواج 930 آنحضرت کار مضان میں تبتل منڈیوں میں تجارت، پاکستانی زمینداروں کا طرز عمل 661 تبلیغ نیز دیکھئے دعوت الی اللہ ) روز نامہ پاکستان لاہور 533,534 941 187 702 581 115 تبلیغ کے کام میں اخلاق کے ذریعہ متاثر کیا جا سکتا ہے 811

Page 1029

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 17 تبلیغ کے لئے حضرت محمد کا دل پیدا کریں 746 دیہاتی کے تجارتی سامان کی شہری کو دلالی سے ممانعت 659 بار ہا توجہ کے باوجود جماعت کی اکثریت داعی الی اللہ نہیں بن سکی 992 ذکر الہی کے حوالہ سے تجارت پیشہ افراد کے لئے جہاد 220 861 سودے پر سودا کرنے سے ممانعت کی تعلیم 669,670 تبلیغ کے معاملہ میں خندہ پیشانی ہندوستان و پاکستان کے رہنے والو کو تبلیغ کی غیر معمولی توفیق مانا 954 غانا میں تجارتی قرضہ کی سکیم تبلیغ کے نتیجہ میں جماعتوں میں غیر معمولی برکت 96 تبلیغ میں رفق اور نرمی اتفاق نہ ہونے کے نتیجہ میں تبلیغ کا نقصان افریقہ میں تبلیغ کے حوالہ سے جوش پچھلے سال سے دگنے کا عزم ہم نے باندھا ہے 823 898 471 818 4 930 662 محض بھاؤ بڑھانے کے لئے بولی نہ دی جائے منڈیوں میں تجارت، پاکستان میں زمینداروں کا طرز عمل 661 ہمارے معاشرے میں اچھے پھل پیٹیوں میں اوپر رکھے جاتے ہیں اور گندے نیچے، جبکہ اس کے بالمقابل اسلامی تعلیم 656 تی ہندو تاجروں کے خیراتی ادارے اور مال میں اضافہ 917 تجسس اور حرص سے اجتناب کی تعلیم اور ان دونوں کا تعلق 896 تبلیغ کے اس دور میں ہمارے معیار جلد جلد بڑھ رہے ہیں 813 جسس ابتدائی مبلغین کے ذکر کو زندہ رکھنے کی تلقین سب سے پہلا بیرونی مبلغ انگلستان بھجوایا گیا پھر ماریشس 3 تجسس اور ظن کا تعلق شمالی امریکہ کے دونوں ممالک میں تبلیغ کی طرف توجہ نہیں 744 تجسس نہ کرنے کی تعلیم 868 268 عیسائی اقوام سے تبلیغ کے نئے اسلوب جو قرآن نے سکھائے 739 بعض لوگوں کا دوسروں کی باتیں ٹیلیفون پر بطور چسکا سننا 269 746 کامیاب مبلغ بننے کا گر عائلی معاملات اور تجسس مبلغین کو شروع میں جاپان میں کامیابی نہ ملنے کی وجہ 348 غیبت بغیر تجسس کے بھی پیدا ہوتی ہے تبلیغ کیلئے ہمسائیگی کے حقوق کے ذریعہ سفر کی ہدایت 373 آنحضرت کا تبلیغ کے لئے تکلیفیں اٹھانا تجارت ایک تاجر کا واقعہ جو ایک آن بھی جدا نہ ہوا 740 223 تحریر پہچاننے کا فن کوئی مشکل نہیں ہے تحریک 268 869 540 اللہ نے دل میں تحریک ڈالی ہے کہ چوٹی کے بد بخت علماء کے تجارت کے معاملات اور ہیں اور سود کے معاملات اور 929 لئے بددعا کی جائے تا کہ امت کے لئے وہ دعا بن جائے 1002 تجارت کے وقت جھوٹ کی مسلمان ملکوں میں کثرت 223 جماعت کا نیک تحریکات پر توقعات سے بڑھ کر خدمت دین کرنا 43 تجارت کے وقت خدا کے ذکر سے غفلت تجارت کے اعلیٰ اصول آنحضرت نے سکھائے 219 660 ذکر کے نام پر بہت سی تحریکات 245 روانڈا کے مظلومین کی امداد کے حوالہ سے جماعت کو تحریک 544 احمدیوں کو حرام کا روبار کرنے سے روکنا اور ان سے چندہ وہ تحریکات جنہوں نے امت کو نقصان پہنچایا ہے 126 670,371 تحریک جدید 663 841,854 تحریک جدید کی نو مبائعین سے وصولی میں نرمی کی تلقین 853,854 نہ لینے کی وارننگ اللہ کی جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کا سودا فروخت کرنا 223 تحریک جدید کے اعداد و شمار کا تذکرہ ایک شخص کے مایہ لگا کر گھوڑی بیچنے کا واقعہ ایم ٹی اے پر تجارت پر پروگرامز تیار کرنے کی ہدایات 977 تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز اور کوائف بڑی بڑی کمپنیوں کا ٹریڈ کے ذریعہ دنیا کی دولت کھینچنا 214 تحریک جدید میں پاکستان کی اول پوزیشن جرمنی کے احمدی تاجروں کو ہدایات تحریک جدید میں نو مبائعین کو شامل کرنے کی تلقین 854 تجارتی تعلقات اصلاح پذیر ہونے سے دنیا امن میں آجائے گی 224 دفاتر کے قیام کی جو غرض و غایت تھی اس کی طرف توجہ میں کمی 831 657 830 842

Page 1030

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 ہر دفتر کے الگ الگ اعداد و شمار ا کٹھے کرنے کی طرف توجہ 831 تحفہ تحفوں کی بابت اسلامی تعلیم تحفہ بھیجنے کا اثر تحفہ دینے سے محبت کا بڑھنا نیکی کے بالمقابل تحفہ کی وضاحت تذکرہ تذكرة الاولياء تذلل 371 373,374 937 677 5,38,95 223 سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرنے کی تعلیم تربیت تربیت کی طرف تمام جماعت مستعد ہو جائے تربیت کی طرف توجہ دلانے کا اچھا نتیجہ اندر سے ایک مربی کا بیدار ہونا ضروری ہے ایم ٹی اے سے بچوں کی تربیت 901 201 380 93 481 2,807 18 حبل اللہ سے مراد سورۃ الفاتحہ کتابا مثانی اور ام الکتاب 386 241 سورۃ الفاتحہ میں ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کا ذکر 209 فرقان سے مراد يطعمون الطعام على حبه کی تفسیر تقاریر جلسه سالانه 106 371 311 115 تقدیر میرا ایک ہی بیٹا تھا خدا نے کیوں بلالیا.اس کا جواب اور کینیڈا کی ایک فیملی کی مثال 763 تقویٰ تقوی انسانی ارتقاء کی آخری منزل ہے تقویٰ اور عبادت کا تعلق 315 600 تقویٰ کا استطاعت کے مطابق ہونا ، اس سے مراد 838 تقویٰ کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے 582 318 285 تقویٰ کی عزت بندوں کی بجائے اللہ کے حوالہ سے ہوتی ہے 294 ذیلی تنظیموں کو سالانہ تربیت کے معیاروں کو بڑھانے کی تلقین 828 تقویٰ کی حفاظت کی تلقین شوری کاتربیت سے تعلق کوئی تربیت ایسی نہیں جیسے آنحضرت کے الفاظ سے تربیت ہو 864 تقویٰ کے تقاضے عبادت کے بغیر پورے نہیں ہوتے 182 نو مبائعین کی تربیت کی تلقین کی کی تلقین 472 تقویٰ کے ساتھ عزت ہے تقوی آنحضرت سے سے سیکھنا ہے احمدیت کی تدریجی ترقی کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئی 254 اللہ ہی تقویٰ کی پہچان رکھتا ہے ترقی اور اعلیٰ مراتب کی خاطر اخلاق مصطفوی کو اپنا ئیں 654 برتری اخلاق اور تقویٰ سے ہے تر گڑی ضلع گوجرانوالہ 572 315 669 908 335 جہاں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو (حدیث) 675 ترندی 4,9,10,13,14,15,17,32,36,64 متقی لوگ فسادوں پر غالب آجایا کرتے ہیں، ان کا 319,392,400,439,602,676,678,681,708 714,759,819,890,910,912,916 انکسار بدیوں کو زائل کر دیتا ہے ہر قربانی تقوی کی چادر میں لپٹی ہو 200,201 839 قومی تعصب اور حقارت کا علاج مؤاخات قومی تعصب کی مثالیں اور ان سے بچنے کی تلقین 337 330 تکبر احساس کمتری کا بچہ ہے 294 تکبر بھی کفر ہے، اس کا عائلی معاملات میں نقصان 761 یورپ میں آجکل قومی تعصب کے سر اٹھانے کی وجہ 294 تکبر کا رات کے ساتھ تعلق تعلیم الاسلام پبلک سکول آسنور 651 12 تکبر کی بابت قرآن کریم اور یسوع کی تمثیل اور ان میں فرق 146

Page 1031

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 ذکر الہی سے بعض دفعہ تکبر پیدا ہونا 19 31,62 اہل کتاب کا تو رات کا بوجھ اٹھانا ترک کرنا ، اس سے مراد 508 سستی اور تکبر انسان پر آگ واجب کر دیتی ہیں 12 | توکل کالی اور گوری جلد پر تکبر یسوع کا تکبر سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار تلاوت 292 توکل علی اللہ کرنے والوں سے اللہ کی محبت 147 توہین رسالت توہین رسالت کے حوالہ سے مولویوں کا رویہ یں یہ عادت کے وقت ہر آیت کا پر دفعہ تلاوت کے وقت ہر آیت کا نیا مضمون ذہن میں آنا 273 توہین رسالت کے حوالہ سے مولویوں کا قرآن کو چھوڑ کر حدیثوں میں پناہ ڈھونڈنا تکبر کی بابت قرآن کریم اور یسوع کی تمثیل اور ان میں فرق 146 توہین رسالت کے مذہبی پہلو کا تذکرہ 286 521 567 521 ہندوستانی قوم نام بگاڑنے میں سب سے آگے حضرت تمیم داری ما تنظر ہیم ذیلی سیمیں 342 822 307 توہین رسالت کے نام پر مختلف اسلامی ممالک کا اپنے دستوروں میں تعزیرات کا اضافہ اللہ کے مخالفین کا اللہ کی گستاخیاں کرنا 548 554 انبیاء کی تو ہین پر مشتمل آیات اور کہیں بھی انسان کے ہاتھ میں سزا کا ذکر نہیں کیا گیا 558 اگر جماعتی چندہ کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ایسے دوستوں پاکستان میں گستاخی رسول کے نام پر ہنگامہ آرائیاں 525 سے ذیلی تنظیم کا چندہ لیا جائے یا نہ؟ اس کا جواب 855 غزوہ بنی مصطلق کے موقعہ پر عبد اللہ بن ابی بن سلول پاکستان میں ذیلی تنظیموں کو تلقین کہ غرباء کے حوالہ سے کا آنحضرت کی شان میں گستاخانہ کلمہ کہنا اور بیٹے کا رد عمل 567 بعض جگہ چند ماڈل کے گھر بنائیں قرآن میں اللہ کی تضحیک کا ذکر اور کہیں بھی ان آیات میں ذیلی تنظیموں کو سالانہ تربیت کے معیاروں کو بڑھانے کی تلقین 828 انسان کو اپنے ہاتھ میں بدلہ لینے کی اجازت کا ذکر نہیں 554 سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کے پیدا ہونے کی وجہ لودھراں کے سیشن جج کا فیصلہ کہ لوگ شرک فی التوحید 963 458 برداشت کر سکتے ہیں مگر شرک فی الرسالت نہیں 534 توحید توحید فی الوہیت اور توحید فی الرسالت کی حقیقت 537 تک رسول کا مضمون اللہ کی بہتک سے شروع ہوتا ہے 552 توحید کا اتفاق سے تعلق 561 565 702 118 592 272 673 تو حید کو اپنے رگ و پے میں سمونے کی تلقین توحید کی خاطر اصحاب کہف کا غاروں میں جانا توحید کی طرف بلانے کا آغاز کعبہ سے ہوا 202 255 731 105 توحید کی طرف غیر مذاہب کے لوگوں کو بلانے کا اثر 89 تو حید کے دل میں جاگزین کرنے کا ایک طریق توحید کے متعلق آنحضرت کی تفہیم پاکستانی سیاستدانوں کی جہالت اور جوں کا توحید اور رسالت کی بابت غلط فیصلے دینا تورات تیمور لنگ آنحضرت کی ہتک پر مشتمل قرآنی آیات کا تذکرہ جن میں کہیں انسان کو سزا کا اختیار نہیں دیا گیا انبیاء سے جو مذاق کئے گئے وہ سب ایک طرف اور آنحضرت سے بدسلو کی ایک طرف ہے ٹ، ث، ج ٹرینیڈاڈ کی جماعت کی سورج چاند گرہن نشان کے 137 ٹاؤن شپ لاہور 537 540 192,387 ٹرینیڈاؤ سوسال پورے ہونے پر تقریبات تو رات کی پاک تعلیم کا گدھوں کے سپر دہونا 510 ٹوبہ ٹیک سنگھ

Page 1032

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 ٹورانٹو زکوۃ اور ٹیکس میں فرق ٹیلیفون 20 467,491,749 580 151 980 جرمنی کی بعض جماعتوں میں ایک دوسرے پر الزامات 200 جرمنی کی جماعت کا تیزی سے پھیلنا اور نئے آنے والوں کا عشق 425 جرمنی جماعت پھیلنا اور اس کے مسائل کا ذکر 328 جرمنی کی جماعت کی تبلیغ اور تربیت کی طرف توجہ کی تعریف 94 جرمنی کی شوری کو تربیت کے متعلق نصیحتیں جرمنی کے احمدی تاجروں کو ہدایات 328 657 بعض لوگوں کا دوسروں کی باتیں ٹیلیفون پر بطور چسکا سنا اور غلط کاروباروں کی وجہ سے اخراج از جماعت کی وارننگ 671 انگلستان کی شہزادی کی کال کی ریکارڈنگ کا ایک واقعہ 269 جرمنی میں پولرائزیشن کا خطرہ 332,333 جرمنی میں خاص کر racism کے خلاف جہاد کی ضرورت 332 ٹیلی پیتھی حضور کا ٹیلی پیتھی کا تجربہ ثور ابن سعید ثور بن يزرد حضرت جابر بن عبد الله جاب کے ایک ماموں بچھو کا دم کرتے تھے 581 9 9 890 676 جایان 592,651,842,843,975 جاپان کی جماعت کی تعریف 348 جرمنی میں غیبت کا رواج جرمنی میں نازی تحریک کے چلنے کی وجہ 884 294 جرمنی میں یہودیوں کے خلاف جذبات اور ان کا نتیجہ 334 عیب کی ٹوہ لگانے سے ممانعت اور پاکستان و جرمنی میں اس بیماری کا عام ہونا 985 ہمسائیوں سے حسن سلوک کی جرمنی کی ایک عورت کا واقعہ 357 جرمنی میں اصلاحی کمیٹیوں کا قیام اور اُن کا فعال نہ ہونا 339 جاپان میں تبلیغ سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی ایک رویا 349 حضرت جریر جاپانی قوم میں روحانی قدروں کا تصور ہی نہیں 348 مبلغین کو شروع میں جاپان میں کامیابی نہ ملنے کی وجہ 348 رمضان جسم اور روح کی زکوۃ ہے 129,133,149 جامع الصغير جانور انسانوں اور جانوروں میں کیموفلاج کا سسٹم 301 593 150 مرنے کے بعد روح کو جسم عطا کئے جانے کی حقیقت 52 جسوال برادران 8,580,775,974 60 429 انسانوں کے دو محرکات جو جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں 313 جلسوں کا فیض سب دنیا پر محیط ہوگا جس جنس کا جانور مرا ہو اس جنس کے جانور اس کو سونگھتے جلسہ سالانہ اور جماعت کی عالمگیریت کا تصور اور چلے جاتے ہیں جلسہ سالانہ یو کے کی تہنیت کے پیغامات اونٹ کی خراب حالت دیکھ کر آپ کا سخت ناراضگی کا اظہار 684 جلسہ سالانہ یو کے کے حوالہ سے عہدیداران کو نصائح 495 جلسہ سالانہ یوکے کے غیر معمولی شان سے اختتام پذیر جائیداد 24 والدین کے فوت ہوتے ہی جائیدادوں کے جھگڑوں کی وجہ 421 ہونے اور اللہ کے فضلوں کا تذکرہ جلسہ سالانہ یو کے میں شاملین کو نصائح حضرت جبرائیل 592 572 495 جبرائیل کا انسانی شکل میں آنحضرت کی مجالس میں آنا 474 جلسہ کے ایام میں قادیان کی مساجد کا جاگنا اور غیروں کے تاثرات 501 جرمنی 7,78,118,233,235,385,405 409,436,494,507,598,842,975 جلسہ کے حوالہ سے سیکیورٹی کے متعلق ہدایات 543 میز بانوں سے مہمانوں کے قرض مانگنے کی بابت نصائح 542

Page 1033

21 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 جلسہ کے ایام میں نماز با جماعت کے قیام کی تلقین 498 ہی عصر کی نماز کچھ عرصہ تک پڑھنے کا استثنائی فیصلہ 845 انگلستان کے انٹر نیشنل جلسہ پر لوگوں کا بھچے چلے آنا 429 جمعتہ الوداع کا عمومی تقدس کب شروع ہوا اور اس کا عمومی تصور 178 جماعت کے سارے جلسوں کی روح پر مشتمل حدیث 430 جمعۃ الوداع کی برکتیں اولین کو آخرین سے ملانے والی ہیں 187 حضرت اقدس کی جلسہ کی بیان فرمودہ اغراض جمعۃ الوداع کے ساتھ کسی بخشش کا ذکر نہیں ملا حضرت مسیح موعود کے نزدیک جلسہ سالانہ کے مقاصد 429 جمعتہ الوداع کے موقع پر بڑے شہروں کی مساجد میں رش 179 ربوہ، جلسے پر پابندی کی وجہ سے جگہ جگہ جلسوں کا ہونا 59 جنت 493 940 جنت کی حقیقت 181 50 ربوہ میں ایک جلسہ پر نانبائیوں کا جھگڑا سب کا ایک ایک روٹی جنت کا صحیح تصور اور اس کے مختلف دروازوں کا ذکر 172 کھانا اور کھانے میں برکت پڑنا قادیان کے سالانہ جلسہ کا افتتاح اور اختتام لندن سے 967 جنت کی طمع اگر امیروں نے رکھنی ہے تو اس کا نسخہ 148 کینیڈا کے جلسہ سالانہ کی کامیابی اور برکات کا تذکرہ 493 جنت کے باہر ایک تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے 811 ہر شعبے کا انچارج اپنے شعبہ میں کام کرنے والوں کے احادیث کی رو سے جنتی اور جہنمی وجود کی پہچان کا طریق 15 لئے نماز با جماعت کے قیام کا منصوبہ بھی تشکیل دے 503 بعض لوگوں کا جنت تک پہنچنے کے باوجود جہنم میں چلے جانا 799 روحانی صلاحیتوں کے ترقی کرنے سے جنت کے معیار کا بڑھنا 51 جلنگهم جماعت اسلامی جماعت اسلامی کے قائمقام امیر کا توہین رسالت کی بابت بیان جمعہ اجمعۃ الوداع جمعہ کا شفاعت سے تعلق جمعہ کی اہمیت پر مشتمل احادیث کا ذکر 309 532 184 162 مالی قربانی کا رمضان اور جنت سے تعلق 145 وہ روحانی سفر جس نے ہماری جنت کی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں 50 آنحضرت کی غلامی میں پیدا ہونے والے عباد کی جنت 54 جنس جنسی خواہش کا روحانیت سے تعلق جنگ 46 جمعہ کی خاطر بعض احمدیوں کا استعفی دے کر ملازمتیں چھوڑنا 184 جنگ احد، آنحضور کا بتوں کے نعرہ پر خاموش نہ رہ سکنا 535,536 جمعہ کے دن امت کے لئے مبارک قرار دیا گیا ہے 769 جنگ کے نتیجہ میں غلام بنانے کے تصور کی وضاحت 757 جمعہ کے دن ایک خاص گھڑی جمعہ کے دن کا جماعت سے خاص تعلق 183,770 187 جمعہ کے دن کی پانچ خوبیاں، حدیث کی رو سے 183 جمعہ کے دن کے خوف سے مراد جمعہ کے قابل احترام ہونے سے مراد 185 185 701 جنگوں کے وقت معصوم افراد کا بھی متاثر ہونا بدر کی جنگ میں آنحضرت کی گریہ وزاری اور اس کا نتیجہ 86 91 جنگ کے دنوں میں ثبات اور ذکر الہی کی تعلیم صحابہ کو جنگ کے لئے بھیجتے ہوئے آنحضرت کی نصائح 442 جنگ کی حالت میں بھی باجماعت نماز کی ادائیگی کا حکم 499 530,531,533 950 جمعہ ہر روز ایک لیلۃ القدر کا نشان لے کر طلوع ہوتا ہے 770 جنگ لندن (اخبار) جمعہ یا جمعۃ الوداع کے دن گزشتہ نہ ادا کی جانے والی نمازوں حاجی جنوداللہ صاحب کی تلافی کا کیا کوئی جواز ہے، حضرت مسیح موعود کا فیصلہ 186 جہاد تین جمعے اکٹھے ناغہ کرنے والوں کے لئے آنحضرت کا انذار 184 جہادا کبر اور دعوت الی اللہ حقیقی جہاز عیدین کی اپنی عظمت اور جمعہ کی اُن سے بھی زیادہ عظمت ہے 183 جہاد کی ایک قسم دنوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز کے ساتھ جہاد کے دوران نماز با جماعت کا حکم اور اس کا فلسفہ 505 87 161

Page 1034

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 جہاد کے وقت غیر معمولی ذکر کی تعلیم 22 92 چغلی کا احساس کمتری کے نتیجہ میں ہونا چکوال 910 892 23 41 651 اخلاقی جہاد اسلام کے عالمگیر جہاد کا ایک لازمی حصہ ہے 370 چغلی کے مختلف در جے ذکر الہی کے حوالہ سے تجارت پیشہ افراد کے لئے جہاد 220 عورتوں میں چغلی کی عادت صحابہ میں جہاد کا جوش اور آجکل کے مسلمانوں کا غلط تصور 458 چک سکندر غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر عبد اللہ بن ابی بن سلول کا آنحضرت کی شان میں گستاخانہ کلمہ کہنا غزوہ خندق ، آنحضرت کو اسلامی فتوحات کی خوشخبریوں کا ملنا575 چندوں کے اخراجات میں سلیقہ کے حوالے سے تلقین 969 آنحضرت کے غزوات میں اصل قوت اللہ کا ذکر تھی 86 چندہ دینے والی جماعتوں کا مالی قربانیوں میں بڑھتے کشمیر کے جہاد کو سو فیصد اسلامی قرار دینا الگ مسئلہ ہے 331 جانا اور خدا کا ان پر فضل 567 چندہ ( نیز دیکھئے مالی قربانی) 234 چندہ نہ دینے والوں سے کیا صدقہ لیا جا سکتا ہے؟ اگر جماعتی چندہ کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ایسے دوستوں 852 855 احادیث کی رو سے جنتی اور جہنمی وجود کی پہچان کا طریق 15 سے ذیلی تنظیم کا چندہ لیا جائے یا نہ ؟ اس کا جواب 855 اللہ سے دوری کا سفر در اصل جہنم کا سفر ہے 49 41,79,253,693,843 جھنگ جھوٹ جھوٹ سب سے مہلک بیماری ہے جھوٹ سے بچنے کی پہچان جھوٹ کا اس زمانہ میں ساری دنیا پر قبضہ جھوٹ کا قوم پراثر بدظنی سخت قسم کا جھوٹ 134 136 135 845 ایک غریب کا اپنی سائیکل چندہ کی خاطر بیچ دینا ایم ٹی اے کے لئے اگلے سال مزید چندہ نہ لینے کا ارشاد 966 حضرت مسیح موعود کی چندہ میں با قاعدگی کی تلقین 851 نو مبائعین سے آغاز میں شرح میں نرمی کی جائے 851 نو مبائعین کو چندوں میں داخل کرنا نہایت ضروری ہے 850 جماعت کے چندوں کے زندہ رہنے کی وجہ 461 چھوٹو رام حدیث 894 تجارت کے وقت جھوٹ کی مسلمان ملکوں میں کثرت 223 حدیث سے فیض پانے کا طریق 438 342 373 جھوٹ بولنے والے ایک لڑکے کا حضور سے قسم کھا کر کہنا حدیث کی پر کھ اور اس کے صحیح ہونے کی دلیل 125,219 کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو غیبت کے نتیجہ میں جھوٹ کا سلسلہ جیسپر پارک 134 901 888 749 686 حدیثوں پر عمل کے حوالہ سے ایک اہم نصیحت حدیثوں کی بابت ایک اہل قرآن سے حضور کی گفتگو 126 بہت سی حدیثیں بعض صوفیاء نے بعد میں گھڑی ہیں 124 احادیث کی رو سے جنتی اور جہنمی وجود کی پہچان کا طریق 15 125 858,857 890 4 392 امام بخاری کا محنت سے حدیث کی خدمت کرنا احادیث اذا تواضع العبد رفعه الله اذا حدث الرجل حديثا ثم التفت فهي امانة اذكروا محاسن موتاكم افشوا السلام 328 888 915,916 چٹا گانگ چ، ح، خ چنین یانگ گانگ کی احمدیہ مجد کی تعمیر کا آغاز خوری ( نیز دیکھئے غیبت) چغل خوری کے نتیجہ میں ہو نیوالے فساد چغلخور پر جنت کے راستوں کا بند ہونا

Page 1035

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 الا اخبركم بمن يحرم على النار الحمد لله الذي سوى خلقى الدين النصيحة اللهم اجعل في قلبي نورا اللهم اجعلنى من التوابين واجعلني من المتطهرين اللهم انت السلام ومنك السلام اللهم اني اسالك خير المولج وخير المخرج اللهم في الرفيق الاعلى اللهم كما حسنت خلقی فاحسن خلقی اللهم لک الحمد کما کسوتنيه المجالس بالامانة المرء مع من احب المسلم من سلم المسلمون من لسانه المؤمن مرأة المؤمن ان الرفق لا يكون في شيء الا زانه ان لكل شيء باب و باب العبادة الصيام ان للصائم عند فطره لدعوة ما ترد ان لمهدينا ايتين لم تكونا انما الاعمال بالنيات انه لا يدخل الجنة الا المومنون بسم الله الصلوة والسلام على رسول الله بسم الله توكلت على الله 819 38 822 32 32 33 35 53 38 37 890 476 302 880 823 129 167 140,187 710,716 822 34 23 کلمتان خفيفتان على اللسان کن ورعا تكن اعبدالناس لا يدخل الجنة نمام ليس منا من لم يرحم صغيرنا ما من قوم يقومون من مجلس لا يذكرون الله فيه مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى من استعاذ بالله فاعيذوه من حمل علينا السلاح فليس منا من شرور انفسنا من صام رمضان ايمانًا من عصی امیری فقد عصانی من لم يشكر الناس لم يشكر الله والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه وبحوله وقوته يا معشر من اسلم بلسانه ولم يفض الايمان الى قلبه 399 600 915 319,325 24 132 594 941 799 112,115 943 602 296 10 910 يا نساء المسلمات لا تحقرن لجارتها ولو فرسن شاة 370 يسروا ولا تعسروا 303 احادیث بالمعنى بھائی کی آنکھ کا تکا نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں 912 اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو 759 اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آدمی کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا 439 استطاعت رکھنے والے کا قرض ادا نہ کرنا اور ٹال مٹول 931 بعثت لاتمم مقام الاخلاص تكف شرك عن الناس فانها صدقة منك خيركم ركم لاهله را تصحوا صوموات عشق محمد ربه العلم علمان علماء هم شر من تحت اديم السماء كان خلقه القرآن كان رسول الله الله اذا رفعت المائدة 36 380 727 400,714 149 36,83 959 692 408 9 اسکی طرف دیکھو جو تم سے کم درجے کا ہے اشعری قبیلہ کی خصوصیت کا تذکرہ 753 939 ضامن کے بغیر بھی قرض کی ادائیگی میں سہولت دے دیا کرو 932 بیوی کے منہ میں لقمہ میں ڈالنا عبادت ہے 600 319 کوئی بری چیز دیکھتے ہو اپنے ہاتھ سے اس کو روکو دجال کا خوف ہو تو سونے سے پہلے سورہ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات کی تلاوت کیا کرو 730 اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اپنے بھائی کی مد میں لگارہتا ہے 918 كان من دعاء داؤد عليه السلام اللهم انی اسالک حبک 64 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت

Page 1036

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 کے دن میں سخت بازپرس کروں گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے 24 756 168 428 روزہ کی عبات تو خاص میرے لئے ہے ایمان کی حلاوت اور مٹھاس محسوس کرے گا 174 470 290 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری وجہ سے آپس میں محبت کرنے جب تم تین ہو تو تم میں سے دوا لگ سرگوشی نہ کریں 397 والوں پر میری محبت واجب ہوگئی جب تم میں سے کسی کا نو کرکھانا تیار کر کے لائے 687,726 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جب خدا کسی قوم کے حق میں کوئی بات لکھ دیتا ہے تو ملاء اعلیٰ جو میرے جلال کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے 483 کو زمین پر اترنے کا حکم دیا جاتا ہے اللہ کے پاس ایسا بندہ لایا جائے گا جس کو اللہ نے مال عطا کیا 484 رمضان سلامتی سے گزر جائے تو سمجھو سارا سال سلامت ہے 133 انسان اللہ کے عیال ہیں رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں 121 اونٹ کی خراب حالت دیکھ کر آپ کا سخت ناراضگی کا اظہار 684 جب کوئی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہوتو چاہئے کہ اسے بتادے404 ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے 367 893 جب مجھے معراج ہوا تو میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے 914 ایک ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام کا محض نام رہ جائے گا658 جبریل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا آرہا ہے 356 ایک ایسا شخص جس کے پاس ندی بہتی ہو وہ پانچ وقت جس اونٹنی پر تم ظلم کرتے اس کے تم جواب دہ ہو گے 876 اس میں غسل کرے اس کے جسم پر میل کچیل کیسے رہ سکتی ہے 120 جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے پرندہ کے انڈے اٹھانے پر آنحضرت کا واپس رکھوانا 876 رمضان کے تقاضوں کو پہچانا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو جاسوسی نہ کرو 865,893 خدا کو بازار میں یاد کیا...ایک صحابی کا مہمان نوازی کا واقعہ جس پر سورۃ الحشر کی جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے ایک آیت کا نزول ہوا ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اسے زمین پر پھینچ لائے گا 652 جمعہ میں پانچ خوبیاں ہیں باہر سے اگر قافلہ آئے تو ایک شخص جب سودا کر رہا ہے تو جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں 171 جنگ، آنحضور کا بتوں کے نعرہ پر خاموش نہ رہ سکتا 535 دوسرا اس سودے میں دخل اندازی نہ کرے بدترین آدمی تم اسے پاؤ گے جو دو منہ رکھتا ہے 377 488 887 بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے 485,892 بچو جمعہ بعد غروب تک قبولیت دعا کی ایک گھڑی جو اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے بعض دفعہ انسان کے پاس کچھ بھی دینے کے لئے نہیں جو امام حاجت مندوں ، ناداروں، غریبوں کے لئے 598 اپنا دروازہ بند رکھتا ہے...123 219 182 770 183 265 678 ہوتا ، اس وقت کلمہ خیر کہہ دیں بن سلمہ کو مسجد نبوی کے پاس آنے کی اجازت نہ ملنا 249 جو بھی میری امت میں اچھی روایات قائم کرے گا..989 جود نیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ دنیا اور بہت زیادہ قتل کرنے والے شخص کی تمثیل تم رستوں میں بیٹھنے سے بچو تم غریبوں کے ممنون احسان ہو 414 391 207 آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا قاتل و مقتول دونوں آگ میں جائیں گے حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے جوروزہ دار جھوٹی بات اور غلط کام نہیں چھوڑتا اللہ کو 359 وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے اس کے کھانے پینے میں کوئی دلچسپی نہیں کوئی دوسرے کو اس کی جگہ سے خود بیٹھنے کے لئے نہ اٹھائے 894 جو شاہد ہے وہ غائب کو باتیں بیان کرے 918 944 133 884

Page 1037

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 پنے پڑوی کو تکلیف نہ دے 25 374 حرکتیں کرنے والا مومن نہیں ہے جو شخص دعوت کے لئے بلاتا ہے اس کی دعوت قبول کرو 598 غار میں پھنسنے والے تین آدمیوں کا واقعہ جو شخص ظلما کسی مسلمان کا حق مارلے اللہ اس کے لئے کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت کی طرف چلتے جاتے ہیں 652,655 912 422 یہاں تک کہ عین جنت کے دروازوں پہ بھی جاتے ہیں 799 دوزخ کی آگ مقدر کر دیتا ہے جو کسی کی بے چینی اور کرب کو دور کرتا ہے اللہ قیامت کے کون سا اسلام بہتر ہے؟ 916 کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک دوسرے 393 دن اس کے کرب اور بے چینی کو دور کر دے گا جولوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا 593 کے لئے بھی وہی پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے 940 جہاں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو چلنے والا بیٹھے رہنے کو سلام کرے حسین شهرداران بہشت میں سے ہے حضرت ابوذ رکا اپنے غلام کو برا بھلا کہنا 675 392 457 684 مسجد یا بازار سے گزرے تو اپنے نیزے کی آنی کو پکڑلے 402 لوگ نمازوں کی طرف تو نہیں آتے اور بکری کے دو پائیوں کی طرف دوڑتے آتے ہیں اگر یہ جائز ہوتا تو میں ان کے گھر جلوا دیتا 321 لیلۃ القدر کی علامتوں کا آپ کو دکھائی دینا 163 248 119 حضرت عائشہ ملکی مسجد کے صحن میں اعتکاف کی خاطر خیمہ لگانا 162 مجھے یاد ہے میں صحابہ کو اس طرح دیکھتا تھا کہ نماز مغرب خدا کی ساری زمین تمہارے لئے مسجد بنادی گئی ہے 693 سے قبل ستونوں کی طرف دوڑتے تھے وہ مومن نہیں جس کا بیروہی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہے 358 مدینہ تو ایک بھٹی کی طرح ہے خرید و فروخت کرنے والوں کو جب تک وہ ایک دوسرے مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے 259 سے جدا نہ ہو انہیں اختیار ہے کہ وہ سوداضح کر دیں 656 مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے خواہ ایک بکری کے پائے کی دعوت ہی کیوں نہ ہو 599 مسلمان محفوظ رہیں دو چھوٹے چھوٹے لوتھڑے ہیں جن سے جنت بھی بن مسلمانو !سحری کھایا کرو جاتی ہے اور جہم بھی معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو راستے سے ٹہنی ہٹانے پر ایک شخص کو جنت میں دیکھنا 403 مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے رسول کریم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے 915 153 296 173 402,859 418,477 مومن دوسرے مومن کے لئے مضبوط عمارت کی طرح ہے 256 روزہ دار دنیا سے کٹ کر مسجد کا ہورہتا ہے تو میں خوشخبری مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے میں، دیتا ہوں کہ وہ مسجد سے باہر جو نیک کام کرتا تھا ان سے ایک دوسرے پر رحم کرنے میں ایک جسم کی سی ہے 257 میری امت بھی ایک زمانہ آنے والا ہے کہ یہود کے 171 محرومی کا اس کو کوئی صدمہ نہیں ہونا چاہئے افضل عمل اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر بغض ہے 404 زیادہ مشابہ ہو جائیں گے شادی کی بدترین دعوت جس میں غرباء کو چھوڑ دیا جائے 361 میری سنت میں یہ داخل ہے کہ میز بان اعزاز و تکریم کے ارادہ سے 156 شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے شیطان ہر انسان کے خون میں دوڑ رہا ہے صحابی کا سورۃ فاتحہ کا دم کرنا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا 166 883 677 857 مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک الوداع کہنے آئے 397 وہ شخص جو زبان کا گندا ہے اس کا ایمان سے کوئی بھی تعلق نہیں 916 ہر چیز کو پاک کرنے کے لئے اس کی ایک زکوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے 149 طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑ دے 758 ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں.طعنہ زنی کرنے والا، دوسروں پر لعنت کرنے والا نخش خون، آبرو، مال 904

Page 1038

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 26 آپ بہت تھی تھے مگر رمضان میں یوں لگتا تھا کہ ہوا ئیں آندھی بن گئی ہیں آپ میں تکبر نام کو بھی نہ تھا 128 360 کھلایا، میں پیاسا تھا تو نے پانی نہیں پلایا 352 مزدور کے نزدیک مزدوری کم دینے پر آنحضرت کی مالک کی دیانتداری کا ذکر فرمانا 719 آج کی رات اللہ نے ان لوگوں کو بڑے پیار سے دیکھا مصافحہ کیا کرو اس سے بغض اور کینہ دور ہو جائے گا 937 جو خصوصیت سے وقت پر عبادت کے لئے اٹھے آخری بیماری میں نماز کی کیفیت 605 247 آنحضرت کے پاس دو آدمیوں کا جھگڑا، ایک کا چہرہ سرخ، رگیں پھوٹی ہوئیں، آپ نے فرمایا اگر یہ 935 آدمی اسکے ساتھ ہوتا ہے جس سے اس کو محبت ہوتی ہے 477 اعوذ باللہ پڑھے تو اس کی کیفیت جاتی رہے آنحضرت سے پوچھا گیا کہ اعمال میں سے سب سے ایک لنگڑے شہید کے جنت میں پھدکتے ہوئے نظارہ کا بیان 80 726 اللہ کے نام کے ساتھ گھر سے باہر نکلتا ہوں اچھا عمل کون سا ہے آنحضرت کا ازواج کے سامنے کسی کی بات کرنا اور اُن کوشک اللہ اپنے بندوں کی خوبیوں پر نظر رکھتا ہے 869,877 676 اے اللہ تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ جیتا ہوں اے اللہ سفر میں تو ہی ہمارا ساتھی ہے گزرا کہ نعوذ باللہ غیبت تو نہیں ہو رہی آنحضرت کا دم سے منع کرنا اور حضور کا حضرت جابر کے ماموں کو بچھو کا دم کرنے کی اجازت دینا آنحضرت کا مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے ایک شخص کو اے دلوں کو پھیر نیوالے میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما چھڑی کی نوک سے پیچھے کرنا اور حضور کا اسے بدلہ کا کہنا 921 اے میرے اللہ مجھے اس دن کے عذاب سے بچانا جس آنحضرت کی زندگی سادہ تھی کسی کام میں عار نہیں سمجھتے تھے 924 دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا 766 17 61 13 15 30 13 آنحضرت کے بیٹے کو لحد میں اتارتے وقت آنسو جاری ہونا اے میرے اللہ مجھے ناپاکی سے اور نا پاکوں سے بچانا 32 آنحضرت کے پاس دو آدمیوں کا آنا جن میں وراثت تو قطع تعلق کرنے ولے سے تعلق قائم رکھ کی ملکیت کی بابت جھگڑا تھا آنحضرت کے رہن سہن کا نقشہ 664 924 تین اخلاق ایمان کا تقاضا ہیں حدیث کی رو سے دو بد قسمت شخص 862 814 116 آنحضرت مسجد میں تشریف فرما تھے.ایک شخص حاضر ہوا جب نبی کریم ہے سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنے ہاتھ سرک اور آپ اسے جگہ دینے کے لئے اپنے مقام سے ہٹ گئے 395 ے نیچے رکھتے اور پھر عرض کرتے آنحضرت نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شہر والا دلال جو کوئی ایسی جگہ بیٹھا جس میں اس نے اللہ کا ذکر نہ کیا بن کر دیہات سے تجارتی سامان لانے والے کا سودا نیچے 659 اس پر اللہ کی طرف سے حسرت نہ ہوگی آنحضرت نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے 827 دنیا ملعون ہے جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے آنحضور کے اعتکاف کے دوران کسی امر کی بابت گفتگو ذکر الہی کے 165 13 21 30 اور مسجد کے دروازہ تک آپ کا چھوڑ نے جانا دو باتیں ایسی ہیں اگر کسی میں ہوں تو وہ کفر بن جاتی ہیں اس کو اطلاع کرو جس سے تمہیں محبت ہوگئی ہے 438 کسی کے حسب و نسب پر طعن کرے، میت پر نوحہ کرے 761 ایمان اور نفاق کی ایک نشانی انصار سے محبت اور بغض ہے 404 ذکر الہی کرنے والے اور ذکر الہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے بہتر ہے کہ ایک عورت اپنے شور بے کو ذرا لمبا کر لے تا کہ ہمسائے کو بھی کچھ پہنچا سکے قیامت کے روز خدا کہے گا میں بھوکا تھا تو نے کھانا نہیں 357 سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور ہمیں پلایا 29 15

Page 1039

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 27 27 قرآن اور حدیث کا مقام اور آپس میں تعلق 373 | حرص میرا چہرہ اس ذات کے لئے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا میں بھی نہیں بخشا جاؤں گا جب تک فضل نہیں ہوگا 10 63 148 امیروں کو جنت کے حصول کی خاطر حرص تجسس اور حرص سے اجتناب کی تعلیم اور ان دونوں کا تعلق 896 نبی اکر م ه جب رات بستر پر سونے کے لئے تشریف مال کی حرص نہ ہونے سے انسان کا بے شتر ہونا لاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے ان میں پھونک مارتے 14 حضرت حسان بن ثابت وہ گھر جن میں خدا کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خدا کا آنحضرت کے عشق میں اشعار پڑھنا 29 ذکر نہیں ہوتا زندہ اور مردہ کی طرح ہیں ہم لوٹ رہے ہیں تو بہ کرتے ہوئے، اپنے رب کی عبادت حسد روحانی کوڑھ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے 19 حسد سے بچنے کی تلقین ہم نے شام کی اور تمام ملک نے اللہ کے لئے شام کی 11 حافظ جمال احمد صاحب حافظ آباد حبل الله حبل اللہ سے مراد حبل اللہ کو تھامنے کا طریق حبل اللہ کو جمیعت کے ساتھ تھا مو 4 674,843 حسد کا بغض سے تعلق حسد کی وجوہات حسد نہ کرنے کی تعلیم 298 475 666 753,896 666 897 665 386,582 410 407 پنجاب میں شریکوں کا رواج ، حسد اس کی وجہ ہے 898 دوسروں کے مالوں کی طرف دیکھنے کے نتیجہ میں حسد 905 مالی قربانی کرنے والوں سے بعض لوگوں کا حسد 839 مغربی اقوام میں حسد کی بیماری جماعت احمدیہ کا ایک ہاتھ پر اکٹھے ہونا اور جب اللہ کو پکڑنا 469 حسن خلق / حسن سلوک اخلاق حسنہ اور حبل اللہ صرف احمدیت آج حبل اللہ پر قائم ہے 390 388 667 حسن خلق قوموں کو زندہ کرتا ہے اور غالب آتا ہے 356 حسن خلق کا سفر حسن عمل سے شروع ہوگا محض زبان کی آنحضرت کی مسلمانوں کو حبل اللہ سے چمٹے رہنے کی نصیحت 390 نصیحت سے نہیں آنحضرت کی نصائح حبل اللہ ہیں 401 جمیعت کے بغیر ہم کوئی انقلاب بر پا نہیں کر سکتے 425 تی حبیب الرحمان صاحب بق صاحب 118 785 380 ایک مسلمان عورت جو اپنے بھائی کے حسن خلق کے گیت گایا کرتی تھی 721 حسن سلوک کا مادہ نہ رہے تو بدی میں تبدیل ہو جاتا ہے 358 حسن سلوک کے متعلق مذاہب کا خلاصہ خادموں اور مزدوروں سے حسن سلوک کے حوالہ سے 711 تیسری دنیا کے ممالک کی حالت 684 حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ بار بار قادیان آؤ، اس پر بعض ظالموں کا آنحضرت گا اپنے غلاموں اور ماتحتوں سے حسن سلوک 687 اعتراض کہ مرزا صاحب کی زیارت ہی گویا حج ہے 120, 119 ہمسائیوں سے حسن سلوک، جرمنی کی ایک عورت کا واقعہ 357 اللہ سے تعلقات کو درست کر لینا اسکی مخلوقات سے تعلقات حديه حديقة الصالحين 286 922,924,931 کو درست کر لینے کا مطالبہ کرتا ہے 726 688 حضرت حذیفہ بن یمان 13,484,915,916 مرزا بشیر احمد صاحب کا نوکروں سے حسن سلوک علی کا اپنے ملازم کے لئے بھی دوکاندار سے کپڑا کٹوانا 688 ہمسائیوں سے حسن سلوک پر مشتمل احادیث کا تذکرہ 373 حضرت حرام بن ملحان ان کے آخری کلمات 249

Page 1040

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 28 بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنے کی تعلیم 402 | روزنامہ خبریں حسن سنمونو صاحب امیر نا یجیریا حضرت امام حسن 969 448,452 حضرت خبیب 533 ان کا مقتل کی طرف جانے سے پہلے نفل پڑھنا 240 آنحضرت کا اپنے نواسوں سے پیار کا انداز اور صحابہ کی کیفیت 450 ملک خدا بخش صاحب 358 آپ کے نزدیک امام حسن اور امام حسین کا مقام 452 448 خدمت خدمت کے حوالہ سے مومن اور کافر کا کردار 543 حضرت امام حسین حسین شهرداران بہشت میں سے ہے( حدیث ) 454,457 انصار سے مراد ہر زمانہ میں دین کی خدمت کرنے والے 405 حسینؓ کی شہادت کی وجہ عیسی اور امام حسین کی انفرادیت حق | حقوق حقوق کے معاملہ میں بے احتیاطی یا حق تلفی 455 453 968 بعض تنگ دل ساری عمر خدمتیں لیتے ہیں اور جب 110 ضرورت پڑتی ہے تو منہ پھیر لیتے ہیں عبادت کے بعد خدمت خلق پر سب سے زیادہ زور 365 جماعت کی نیک تحریکات پر توقعات سے بڑھ کر خدمت دین 543 اقتدار ملنے کے باوجود دوسروں کے حق پر نظر نہ ڈالا جانا 816 خطبہ بنی نوع کے حقوق ادا کرنے کا مقام حقوق کی حفاظت کے وقت اللہ کی قسم کی اہمیت راستوں کے حقوق غریب اور ہمسائیوں کے حقوق ادا کریں مغربی اقوام کا قومی طور پر حق مارنا حضرت حکیم بن حزام حلمی شافی صاحب ان کا زندگی وقف کر کے مرکز آنا حمید احمد ظفر صاحب ڈاکٹر حمید احمد صاحب حمید منصور صاحبه 255 681 391 151 652 656 998 592 946 78 767,775 118 حمید الرحمن صاحب امیر جماعت لاس اینجلس 75 خطبات میں دوسروں کے غلطیاں نکالنے کا آئندہ آنے والوں کو فائدہ 785 اصلاح کے حوالہ سے خطبات کا مردوں اور عورتوں پر اثر 909 بعض سخت خطبے دینے کی وجہ ریڈیو پر خطبہ سننے والوں کی ایک شکایت 435 57 ساری دنیا میں اردو کی تعلیم خلیفہ وقت کے خطبات کے اردو میں ہونے کی وجہ سے از بس ضروری ہے شریف علماء کا خفیہ طور پر خطبے سنتا کیسٹ کا نظام خطبہ کی کمی پوری کر سکتا ہے 954 700 58 نارتھ امریکہ کی بھاری اکثریت کا خطبات نہ سن سکنا اور اس کا اثر 751 چودھری حمید نصر اللہ صاحب حیدر آباد دکن حیدر آبا دسندھ خالد بن معدان خالد کھرل خانه کعبه نماز میں غفلت کے حوالہ سے ایک شخص کا ذکر جو پرانا خطبہ سن کر نماز کا عادی بن گیا 767 خلافت / خلیفہ وقت 580,673,843 9 532,533 991 خلافت احمدیہ کے استحکام کا ایک ذریعہ ٹیلی ویژن 587 خلافت رابعہ میں اجتماعیت کا آغاز ہوا ہے، اختتام نہیں 572,587 خلافت سے تعلق کے نتیجہ میں آپس کے تعلقات میں برکت 900 خلافت کا ذکر شہد کی مکھیوں کے چھتے کی مثال کی روشنی میں 735 قرآن کی عالمگیر تعلیم کا خانہ کعبہ کے تمام مقاصد سے گہرا تعلق ہے 160 خلافت کا شوری سے تعلق سید خاورشاہ صاحب 56 285,287 خلافت کی وجہ سے ساری دنیا کا ایک خاندان کی طرح بننا 216

Page 1041

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 29 احمدیت کی بقا کار از دو چیزوں میں ہے خلافت اور شوری 275 خلق آخر کی وضاحت جماعت کا خلافت سے تعلق کا احساس 312 خلق / اخلاق خلافت رابعہ اور حضرت مسیح موعود کے دور کا خاص تعلق 194 خلق محمدی اپنانے کی تلقین 48 آپ کے ذریعہ خلافت کے نظام کا حصول خلیفہ وقت سے تعلق بھی ایک دینی غرض ہے 380 828 اپنے اخلاق کی نگرانی کی تلقین اخلاق حسنہ اور بدخلقی کا نتیجہ 399 414 712 390 اخلاق حسنہ پیدا کرنے کے بعد اندر سے ایک مربی کا پیدا خلیفہ وقت کا جماعت سے تعلق اور جماعت کے لوگوں اخلاق حسنہ اور حبل اللہ سے معلومات کیسے ملتی ہیں خلیفہ وقت کس طرح شوری کے فیصلہ کو منظور یانا منظور کرتا ہے 310 کرنا ضروری ہے 216 خلیفہ وقت کو بعض لوگوں کا خطوں میں نا خوشگوار باتیں لکھنا 797 اخلاق حسنہ کے مختلف در جے خلیفہ وقت کی شمولیت سے اجتماع کی حاضری بڑھانا مقصود نہیں ہونا چاہیئے خلیفہ وقت کے دوروں کا فائدہ 828 492 اخلاق کا اعلیٰ معیار 481,482 724 715 اخلاق کو بلند کریں یہ احمدیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہوگا 714 اخلاق کی کمزوری اور عائلی معاملات حق ہی نہیں ہے کہ اس سے گستاخی سے پیش آیا جائے 943 اخلاق کی نرمی وہ ہے جو بچہ اپنے با اخلاق ، نرم رو اور خلیق خلیفہ وقت کے مشورہ دیا فیصلہ پر تقی جماعتوں پر اثر اور ان کا رد عمل 311 797 ماں باپ سے سیکھتا ہے احمدیوں کی غیرت کے معیار میں بلندی اخلاق کے اختیار کرنے کے دو طریق اکثر لوگ حضور کو کس وقت استغفار کے لئے لکھتے ہیں 221 اخلاق کے رشتوں کی اہمیت اقدار کی حفاظت کرنی خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے 796 جماعت کا خلیفہ سے اور خلیفہ کا جماعت سے تعلق 433 حضور سے ملاقات کے دوران عائلی جھگڑوں میں حضور کے بیان کو بگاڑ کر لوگوں کا پیش کرنا 885 355 824 360 472 اخلاق کے میدان میں دو جگہ محاذ آرائی کرنی ہے 383 اخلاق ہی امت واحدہ بنانے میں کامیاب ہوں گے 864 اسلام کا غلبہ خلق محمدی کے ساتھ ہوگا 658 اقتصادی بحران کے وقت معاشروں کی اخلاق حالت 657 دنیا کے تمام احمد یوں کا خلیفہ وقت کو علم فراہم کرنا 735 ایک خلیق انسان مصیبتوں کے وقت اور زیادہ خلیق ہو جاتا ہے 722 شوری کے دوران کسی کی تلخ بات پر خلفاء کارد عمل 274 بداخلاقیوں سے گھر ہنسلوں کا تباہ ہونا صدر مجلس قضاء کا ایک خط کہ حضور کے حوالہ سے ایک بدخلق تو گھر میں بھی عزت نہیں پاتا بات کہی جارہی ہے.اس پر حضور کا ارشاد 885,886 برتری اخلاق اور تقویٰ سے ہے قضاء اور خلیفہ وقت کھانے کی میز پر بے تکلف گفتگو کو غیر مناسب رنگ میں آگے پہنچانا اور اس کا بداثر لوگوں کا حضور کوکئی برائیوں کے متعلق لکھنا لیکن کبھی کسی نے غیبت کے متعلق نہیں لکھا 884 891 871 400,824 714 335,336 بھوک کے حوالہ سے قرآن کریم کی اخلاقی تعلیم 723 تبلیغ کے کام میں اخلاق کے ذریعہ متاثر کیا جاسکتا ہے 811 ترقی اور اعلیٰ مراتب کی خاطر اخلاق مصطفوی کو اپنائیں 654 جمیعت کو منتشر کرنے والے اخلاق کا برا اثر 421 حدیث کی رو سے وہ تین اخلاق جو ایمان کا تقاضا ہیں 814 ہندوستان سے ایک غیر مسلم کا حضور کو خط کہ احمدی نے حسن خلق قوموں کو زندہ کرتا ہے اور غالب آتا ہے 356 یہ غلط سلوک میرے ساتھ کیا میرے ساتھ خلق 654 دعاؤں اور عبادت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سامنے کی بجائے پیٹھ پیچھے دیانتداری اصل خلق ہے 420

Page 1042

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 30 قومی اور انفرادی لحاظ سے مغرب اور مشرق میں اخلاقیات 652 کوئی ولی ، بزرگ، نبی بد اخلاق نہ تھا 714 مولانا درخواستی 416 در منشور مزاج کی کمزوری کا اخلاق پر اثر آنحضور کے اخلاق کو از سر نو پیدا کرنے کے لئے اخلاق سنوارنے کی تلقین 380 اخلاق سے متعلق آنحضرت کی نصائح کو بڑی قدر کی نگاہ دره خیبر سے دیکھیں اخلاق کی تعمیر کا آغاز گھر سے ہوتا ہے 416 366 701,754,800,804,850,902 532 درود درود میں امت کے اکٹھے ہونے کا ذکر ہے دعا دعا قبول کروانے کا طریق 567 462 979 74,75,76 اخلاق کے نہ ہونے کا قوموں کے افتراق اور بد خلقی سے تعلق 416 دعا کی حقیقت صرف احمدیت میں پائی جاتی ہے 813 آنحضرت کے اخلاق میں نہ تفریط نہ افراط خندہ پیشانی 417 دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اخلاق مصطفوی 468 دعاؤں کی قبولیت میں کمی ہونے کی وجوہات خندہ پیشانی کا خلق امت محمدیہ میں ایسا عام ہونا چاہیئے اللہ سے نیکیوں کی حفاظت کی دعائیں مانگیں کہ گویا یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے تبلیغ کے معاملہ میں خندہ پیشانی خوارج خوارج کے مسلمانوں پر حملہ کی پیشگوئی 861 861 941 60 خوشی میں انسان کا پاگلوں جیسی حرکتیں کر بیٹھنا 816 د، ڈ، ز دار قطنی حضرت داؤد علیہ السلام آپ کی محبت الہی کے حوالہ سے دعا سید داؤ د مظفر شاہ صاحب دجال 443 133,140,188 593 82 اللہ نے دل میں تحریک ڈالی ہے کہ چوٹی کے بد بخت علماء کے لئے بددعا کی جائے تا کہ امت کے لئے وہ دعا بن جائے 1002 204 211 حضرت نوح کی شریروں کو اٹھانے والی دعا حضور کی دعاؤں کے کون وارث ہیں کا خدا کا ابراہیم کو اپنے باپ کے لئے دعا سے روکنا 440 داؤد علیہ السلام کی محبت الہی کے حوالہ سے دعا دین پر ثبات کی دعا سفر سے واپسی کی آنحضرت کی دعا سونے کے وقت کی دعا شام کے وقت کی آنحضرت کی دعا 64 30 19 13 11 64 قبولیت دعا کا ایک طریق اس کے فیض کو عام کرنا ہے 18 ذکر الہی ، آنحضرت کے حضرت داؤد کو چننے میں حکمت 68 گھر سے نکلتے وقت کی دعا 56 قرآن کریم کے سجدہ میں آنحضرت کی دعا گھر میں داخل ہوتے وقت کی دعا مسجد کی طرف جانے کی دعا اگر تمہیں دجال کا خوف ہو تو سونے سے پہلے سورہ کہف مسجد میں داخل ہوتے وقت اور باہر جانے وقت کی دعا 10 36 35 32 کی پہلی اور آخری دس آیات کی تلاوت کیا کرو در همین فارسی 730 703 206,273,771 میں رحمت اور فضل کے الفاظ کے فرق میں حکمت مسجد میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کی دعا نماز کے بعد کی دعا در میں 25,26,66,71,72,341,364,480 وضو کی دعا 34 په که که 32 33 34

Page 1043

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 دعا کہ موت جب آئے شیطان جکڑا ہوا ہو 31 122 تنویر قلب سے مراد آنحضرت کی دعائیں اور اللہ کا آپ سے وعدہ ہماری دلی / دہلی عالمی برادری کے انعقاد میں کارفرما ہے 573 آنحضرت کی دعاؤں کا فیض احمدیت بن کے ابھرا ہے 369 صحابی کا سورۃ فاتحہ کا دم کرنا 155 673,784 677 آنحضرت کی دو عمروں کے لئے دعا آنحضرت کی وصال کے وقت کی دعا آئینہ دیکھنے کی دعا 441 53 38 آنحضرت کا دم سے منع کرنا اور حضور کا حضرت جابر کے ماموں کو بچھو کا دم کرنے کی اجازت دینا دنیا کھانا کھانے کے بعد کی حدیث میں مذکور دعا کا فلسفہ 9 دنیا کا امن آج اسلام سے وابستہ ہے نئے کپڑے پہننے کے وقت کی دعا افطاری کے وقت کی دعا فانی فی اللہ کی دعاؤں کا اعجاز دعوت جو شخص دعوت کے لئے بلاتا ہے اس کی دعوت قبول کرو (حدیث) 37 167,168 443 598 676 297 434 دنیا کو امت واحدہ بنانے کا طریق دنیا کے تجارتی تعلقات اصلاح پذیر ہونے سے دنیا امن میں آجائے گی دبئی دولت 224 673 دولت کی محبت کے نتیجہ میں اس کو بڑھانے کی حرص کا بڑھنا144 دعوتوں میں جانے کے حوالہ سے تعلیم 599,600 | دیانت دعوت الی اللہ داعیان الی اللہ کو صبر کی تلقین 88 دیانت کی قدر اور دیانت ہونے کی وجہ سے بعض احمد یوں کو ملازمتوں سے نکالا جاتا 933 دعوت الی اللہ کی طرف توجہ سے ہر مکتب کے لوگوں میں تبدیلی 190 سامنے کی بجائے پیٹھ پیچھے دیانتداری اصل خلق ہے 420 دعوت الی اللہ کی طرف آجکل خصوصی توجہ دعوت الی اللہ میں انذار اور تبشیر منشی عبداللہ صاحب کا دعوت الی اللہ کا طریق 225 746 225 مزدور کے نزدیک مزدوری کم دینے پر آنحضرت کی مالک کی دیانتداری کا ذکر فرمانا دین 719 بنی نوع کو بچانا ہے تو ان سے سچی ہمدردی کی ضرورت ہے 742 دین اسلام کے دو حصے اللہ کی عبادت اور بنی نوع سے محبت 365 جماعت کی اکثریت داعی الی اللہ نہیں بن سکی 30 جہادا کبر اور دعوت الی اللہ داعی الی اللہ کا بشیر اور نذیر ہونا داعی الی اللہ ایک قسم کی ہجرت داعی الی اللہ یقین سے پیدا ہوتا ہے، 92 87 739 471 739 دین پر ثبات کی دعا انصار سے مراد ہر زمانہ میں دین کی خدمت کرنے والے 405 دیوان حسان بن ثابت دیوان غالب ذکر الہی کا آخری تعلق دعوت الی اللہ سے ہے 91 ڈش ماسٹر صاحب قرآن کریم میں دعوت الی محمد محاذ کر نہیں، اس کا فلسفہ 89 ڈھاکہ کل عالم پر خدا کے فضل اور فیض کو چلانے والے بن جائیں 747 | ڈیگال میر انماز پڑھ لینا اور تلاوت کر لینا کیا کافی نہیں؟ 740 ڈیوی کہ ذکر اذکر الہی ول 39 356,375,696,703,783 829,862 950 525 331 978

Page 1044

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 ذکر الہی اور اپنے ذات کے ذکر میں فرق کی مثال ذکر الہی سے اصل غرض، تقاضے ذکر الہی سے اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہونا ذکر الہی سے بعض دفعہ تکبر پیدا ہونا ذکر الہی کا استغفار سے تعلق 84 222 <217 226 62 222 ذکر الہی کا تقاضا کہ ہم اپنی مجالس کو درست کریں 218 ذکر الہی کا مختلف پھلوں میں متمثل ہونا ذکر الہی کا نماز سے تعلق ذکر الہی کا آخری تعلق دعوت الی اللہ سے ہے ذکر الہی کا دنیا کے امن سے تعلق ذکر الہی کرنے کے طریق آنحضرت سے سیکھیں ذکر الہی کی اہمیت ذکر الہی کی جان 54 229 91 236 31 23 217,228 32 ذکر الہی کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کریں ذکر الہی میں بقا اور فلاح کا نسخہ احمدیوں کو اپنی مجالس کو ذکر سے سجانے کی نصیحت 82 243 23 اس بات کی تردید کہ ذکر سے بوریت پیدا ہوتی ہے 25 بعض لوگوں کا ذکر الہی کو نماز سے بڑھانا 245 219 تجارت کے وقت خدا کے ذکر سے غفلت تذکرۃ الاولیاء میں مذکور ایک تاجر کا واقعہ جس نے سودا کیا 223 مگر خدا سے ایک آن بھی جدا نہ ہوا جماعت غور اور ڈوب کر آنحضرت کے ذکر کو پڑھے 8 جنگ کے دنوں میں ثبات اور ذکر الہی کی تعلیم جہاد کے وقت غیر معمولی ذکر کی تعلیم جھوٹا اور ذریت شیطان والا ذکر ذکر الہی کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال ذکر الہی کے ایسے عادی بن جائیں کہ آپ کی ضرورتیں دعوت الی اللہ کی خاطر کثرت ذکر کرنے کی نصیحت 226 91 92 246 29 92 صحابہ مسیح موعود کے زراعت کے دوران ذکر الہی کے واقعات 225 آپ کی دعا بن جائیں آنحضرت کا حضرت داؤڈ کا ذکر الہی چنے میں حکمت 68 محبت اور ذکر کا گہراتعلق ذکر الہی کے حوالہ سے تجارت پیشہ افراد کے لئے جہاد 220 نور کی حقیقت ذکر الہی ہی ہے ذکر الہی کے نتیجہ میں انکسار کا حاصل ہونا ذکر الہی میں بہت سے مقامات پر خوف کا پیدا ہونا ذکر الہی نہ کرنے والوں کے متعلق چند احادیث ذکر الہی ہر موقع میں خود داخل ہو جاتا ہے ذکر سے انسان سب رفعتیں حاصل کر سکتا ہے ذکر سے لذت اور جھر جھری کا پیدا ہونا ذکر کے نام پر بہت سی تحریکات ذکر کے نتیجہ میں بعض دفعہ متکبر ہو جانا ذکر میں غیر معمولی طاقت کا ہونا 63 65 21 226 82 25 25 199 آپ کا ذکر الہی کے بعد سب سے زیادہ نمازوں پر زور دینا 228 آنحضرت سے بہتر ذکر کرنے والا پیدا نہیں ہوا آنحضرت کا ذکر الہی آپ کا اعجاز تھا آنحضرت کے غزوات میں اصل قوت اللہ کا ذکر تھی 11 87 86 آنحضرت کے نماز کے بعد کثرت سے ذکر کرنے کی حقیقت 243 تعلق باللہ کو ذکر سے تقویت دینا 48 245 حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر 767 31 86,87 رابن ہڈ 31 ذکر نے سب سے زیادہ رفعت آنحضرت کو بخشی ذکر الہی اندرونی تبدیلیاں پیدا کئے بغیر ممکن نہیں 236 راسته راستوں کے حقوق ذکر الہی سے انسان کے اندر اللہ کی خوشبو آئے گی 90 | راشدہ فیضی روز ذکر الہی سے غافل لوگوں کی منزل ذکر الہی کی خوشبو گلاب کی خوشبو سے طاقتور ہے ذکر الہی کے ترک اور غفلت کا نام کفر ہے 90 242 239 | حضرت رائم راولپنڈی راولپنڈی میں عید گاہ روڈ والی مسجد کا انہدام 978 391 581 537 59,706 692

Page 1045

را ویل بخاری صاحب راه والی اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 جماعت کا مسجد کے انہدام والی جگہ پر جمعہ ادا کرنا 33 697 رمضان جسم اور روح کی زکوۃ ہے مسجد کے انہدام پر انتقام جو راولپنڈی جماعت کو لینا چاہئے 708 رمضان خدا کی خاطر تختیوں کا نام ہے جو بعض دفعہ موت 782,958 693 کے منہ تک پہنچا دیتی ہے 150 رمضان سے وابستہ نصیحتوں کی ہر سال دہرائی ربوه 56,126,191,192,437,473 رمضان عبادتوں کا معراج 495,580,792,843,891 رمضان کا انسانی چہ پی کو کم کرتا ربوہ سے حضور کی ہجرت کے بعد منافقین کی سرگرمیاں 586 رمضان کا ایمان سے تعلق 170 120 124,129 148,149 113 ربوہ سے لمبے لمبے خطبے دینے کے خطوط کا آنا 20 170 رمضان کا بنی نوع انسان کی ہدایت سے تعلق 105 ربوہ کے ابتدائی دنوں میں رمضان کی تختی کا ذکر ربوہ کے ایک شخص کا ہمسایہ کے درخت کی شاخ کی وجہ رمضان کا گناہوں کی بخشش سے تعلق سے حضور کو خط لکھنا اور حضور کا رد عمل رمضان کا فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے، اس کی تفصیل 101 375 رمضان کو خصوصیت سے دعوت الی اللہ کی خاطر کثرت 117 92 120 ربوہ جلسے پر عرصہ سے پابندی کی وجہ سے جگہ جگہ جلسوں کا ہونا 59 ذکر میں تبدیل کرنے کی نصیحت ربوہ چراغاں سے روکا جانا ، کل عالم کو چراغاں دکھانا 141 رمضان کی اہمیت کی بابت احادیث حضور کاربوہ کی شوری کی کیسٹ منگوا کر چیک کرنا 279 رمضان کی برکات رمضان کی روح، حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں 153 رمضان کی فرضیت کا آغاز سردیوں میں ہوا رجوعه رحم ارحمت رحم کے متعلق اسلامی تعلیم رحمت کا رحمان، رحیم سے تعلق رمضان میں رحمت اور بخشش کے دروازوں کا زیادہ کھولے جانا چودھری رحمت الہی رشتہ ناطہ 534 593 34 121 532 488 104 154 100 رمضان کی فرضیت کے اعلان پر مشتمل آیات رمضان کیسے سینے کی گرمی اور کدورت کو دور کرتا ہے 149 رمضان کے سلامتی سے گزر جانے کا مطلب رمضان کے بدیوں کو مٹانے سے مراد 117 133 148 رمضان میں انسان کے لئے خوشخبریاں رمضان میں جو شدت ہے اس کو نیکی سمجھنا درست نہیں 107 رحمت اور بخشش کے دروازوں کا زیادہ کھولے جانا 121 رمضان میں شراب کے متعلق سوال کرنا رشیا رشتہ کرتے وقت بعض لوگوں کا غرض طرز عمل کہ ایک وقت میں کئی جگہ دیکھتے ہیں رشیا میں جماعت کی ترقی میں اضافہ چودھری رشید احمد صاحب مومن کو ملنے والا رعب رفیع جنرل سیکرٹری نیو یارک رفیق حیات صاحب رمضان 952 5 85 581 3,974 رمضان میں شیطان کے جکڑے جانا سے مراد رمضان میں غریبوں سے ہمدردی کی تلقین رمضان میں فدیہ والی آیت کے مختلف معانی 114 121 129 100 104 رمضان میں قرآن کے اتارنے سے مراد رمضان میں کسی چھوٹے سے کام کے کرنے سے ساری عمر کے گناہ بخشوائے جانے کے حکم کی پر حکمت تشریح 123 رمضان میں کون سے دروازے کھولے جاتے ہیں 130 رمضان میں کئی کسی کے رواجوں کا چلنا 113

Page 1046

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 رمضان میں نفس کے بہانہ جوؤں کا ذکر رمضان میں آنحضرت کی سخاوت کی حالت رمضان میں آنحضرت کی عبادتوں کا عالم افطاری کی دعا اور افطاری کی اہمیت تنویر قلب، تزکیہ نفس اور تجلی قلب کا مہینہ 34 103 128 114 167 155 51 666 75 کے معیار کا بڑھنا روحانی کوڑھ کی علامتیں روحانیت میں عدل کا نظام ایک چھوٹی سی نیکی سے روحانی انقلاب کا برپا ہونا 127 جنسی خواہش کا روحانیت سے تعلق 46 حدیث کی رو سے رمضان پانے کے باوجود بد قسمت شخص 116 کامل روحانی ذات کے ساتھ کامل تعلق قائم کرنے کا طریق 61 حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے وہ روحانی سفر جس نے ہماری جنت کی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں 50 لئے ہے اور میں اس کی جز ابن جاتا ہوں.اس سے مراد 168 | روس سحری میں برکت 173 روس کے ماتحت قوموں کی آزادی مالی قربانی کا رمضان اور جنت سے تعلق 145 | رومانیہ نماز کی طرف رمضان میں خصوصیت سے توجہ دینی چاہیئے 155 رہبانیت آنحضرت گارمضان میں تقتل رہبانیت کی اسلام میں تردید 13 رمضان کو حضرت مسیح موعود کیلئے سورج گرہن ہوا 139 را نا ریاض احمد خان صاحب شہید 115 رمضان جسم اور روح کی زکوۃ ہے 150 ریڈیو مرنے کے بعد روح کو جسم عطا کئے جانے کی حقیقت 52 ریڈیو پر خطبہ سننے والوں کی ایک شکایت روزہ دار کے منہ کی بو کستوری سے زیادہ پیاری ہونا 170 ریسرچ 108 702 316 329 160 118 57 734 روزہ کا قبلہ اور کعبہ ریسرچ کے لئے قرآن کی کی اہمیت روزہ کا مزاج خدا کو پانا اور ہر نیکی کو اپنے عروج تک پہنچانا ہے 115 کہف کے صحیفوں کا مطالعہ کرنے کے لئے ریسرچ ٹیم 733 روزہ کی حالت میں جائز کام چھوڑنا اور اس میں حکمت 134 اصحاب کہف والرقیم پر تحقیق کی تلقین روزہ کی حالت میں غلط کام نہ چھوڑنے والے کی حالت 133 نئے سکالرز جو سورہ کہف کے مضامین پر تحقیقات کریں 734 تمام قوموں کو کسی نہ کسی شکل میں روزہ کا حکم دیا گیا ہے 105 ریویو 734 رات کو مجلس لگانا روزے کے آداب کے خلاف ہے 114 ریویو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں تو یہ اللہ کا احسان ہوگا6 بعض فنی خرابیوں کی وجہ سے ریویو کی اشاعت میں تاخیر 6 روانڈا 526 روانڈا کے مظلومین کی امداد کے حوالہ سے جماعت کو تحریک 544 زائر روح اروح القدس | روحانیت روح القدس سے مراد جماعت کو روح القدس کب عطا ہو سکتی ہے روح میں اللہ سے تعلق کا فطرت میں ودیعت ہونا روحانی اعصاب کے حصول کا طریق روحانی ترقی کا سفر روحانی ترقی میں انا کا کردار زائر کی جماعت کا شکوہ 209 حضرت زاہر بن حرام 210 90 ان کے ساتھ آنحضرت کا حسن سلوک اور اس کا حضور کے ساتھ اپنا جسم رگڑنا 52 | زبان 48 48 زبان سکھانے کے معاملہ میں صبر زبان کی لغزش کا نتیجہ 544 849 363 957 915 روحانی صلاحیتوں کے ذرائع کے ترقی کرنے سے جنت اردو زبان میں حضرت مسیح موعود اور خلفاء کا کلام 786

Page 1047

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 دو احمدی خواتین کا زبان کی وجہ سے رابطہ منقطع ہونا 398 زبانوں میں پہلے اردو اور پھر عربی کو اہمیت دیں 786 35 زندگی کے ملنے کا طریق ذکر الہی کے بغیر گھاٹے کی زندگی ہے ایم ٹی اے پر زبانوں کو سکھانے کے پروگرامز اور سکیم 954 رحمانیت سے ہر چیز کا آغاز ہوا جماعت کو فرانسیسی زبان کی طرف توجہ کی تلقین محض زبان کی نصیحت نہیں..230 380 روحانی زندگی کے حصول کا طریق وہ موت جس میں ہمیشہ کی زندگی ہے حضور کے ایم ٹی اے پر اردو زبان سکھانے میں الہی تصرف 784 ہمیشہ کی زندگی کے حصول کا طریق مسیح موعود کی کتب اور خلیفہ وقت کے خطبات کے اردو میں زید بن خطاب ہونے کی وجہ سے اردواز بس ضروری ہے نرم زبان کے استعمال کی تعلیم 954 زیڈ اے پونتو 304 | زیمبیا 805 22 52 29 80 2228 49 249 581 844 جو زبان کا گندا ہے اس کا ایمان سے کوئی بھی تعلق نہیں 916 زیورک یہ منہ اور مسور کی دال کا محاورہ اور اسکے پیچھے واقعہ 963 زبور زبور کے گیتوں سے وجد کی کیفیت کا طاری ہونا زبور میں عشق الہی کے ترانے اور اسکا ایک نمونہ کے ترانے اورا زراعت 65 65 س ،ش ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ ساجدہ حمید صاحبہ ان کی کوشوں سے انگریزوں کا بیعت کرنا سادلی 673 945 946 زراعت کے حوالہ سے امریکہ میں ایک نیا تجربہ کہ کئی سادگی کا حسن چودھری فتح محمد سیال صاحب کے دو واقعات 801 کے ٹانڈوں کو چھلیاں اتارنے کے بعد کھڑا رہنے دیا جاتا ہے 965 سال چاول کے جو سٹے سر کھڑے اُن میں بیماری ہوتی ہے 229 سال کے اختتام پر انفرادی جائزہ اور اس کی اہمیت اور زكوة زکوۃ اور ٹیکس میں فرق زکوۃ دینے کی تلقین زکوۃ کی تعریف اور اس کے مصارف زکوۃ کی مختلف قسمیں 151 152 151 152 ایک اچھی روایت کا قیام 988 احمدیوں کے مخالفین کا ہر سال بد ارادے باندھنا 995 رواں سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کے وقت ہر احمدی کو اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کی تلقین 1005 نئے سال کی جماعت کو مبارکباد اور نصائح 990 نئے سال کی مناسبت سے دنیا کی تیاریاں اور بے حیائیاں 987 نئے سال میں داخل ہونے سے پہلے اپنے نفس کو بیدار کریں 994 زکوة آج کل موجودہ حالات میں باوجود ہر ایک پر فرض نہ ہونے کیا یک بڑی نیکی ہے، اس کی وجہ جماعت کا ایک طبقہ بغیر تحریک کے زکوۃ دیتا ہے 152 151 سی آسمانی گواہیوں کا سال ہے رمضان جسم اور روح کی زکوۃ ہے زمانہ گھاٹے والے زمانہ کا قرآن میں ذکر آخرین کے اولین سے ملائے جانے کا زمانہ زندگی 150 22 652 140 1894ء اور 1994ء کے سال کا جائزہ اور جوڑ 995,996 1894 ءسورج چاند گرہن کا نشان 998 اس سال کا جماعت کے لئے بہت سی برکتیں لانا 967 اس سال 10 نئے ممالک کا احمدیت میں شامل ہونا 1004 7 جنوری 1994ء کو ایم ٹی اے کا اجراء زندگی کا اکثر حص ایا ہے کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں 221 سانس فرانسکو 996 789

Page 1048

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 سانس سانسی قوم پسانس میں بدبو کی وجہ سے تکلیف سانسی قوم کی ایک قسم اور اُن میں رسما بلی کھانا 921 36 سعودی عرب کا بوسنین احمد یوں کو احمدیت چھوڑنے کے لئے لوگوں میں بکثرت پیسہ پھینکنا سعودی عرب کے ایک گزٹ کی خبر، احمدیت کے مقابل 551 سانگھڑ سائنس سائنسی تحقیقات کے پیچھے دنیا کمانے کا مقصد ساہیوال ساؤتھ امریکہ سبین ستاری ستاری کا مفہوم 696 674 گلوبل اسلامک ٹیلیویژن کے حوالہ سے 996 سفر سفر کی دعا 214 767 982 307 سفر سے واپسی کی آنحضرت کی دعا 15 19 احمدیت کے دوسفر، ہر احمدی کا ذاتی سفر اور جماعتی سفر 317 اللہ سے دوری کا سفر در اصل جہنم کا سفر ہے اللہ سے سفر کا آغاز اور اسی کی طرف انتہاء تعلق کو بڑھانے یا ختم کرنے کے دو سفر 49 52 413 911 وہ روحانی سفر جس نے ہماری جنت کی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں 50 جو دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ دنیا اور سکاٹ لینڈ 976 آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا سید سجاد احمد ملک سجاد احمد صاحب حافظ سجاد فاروق سجده سجدہ انکسار کی اعلیٰ حالت سچالی 918 سلام 580 سلام کے مضمون کا اللہ کے امن سے تعلق 581 بازار میں سلام کے رواج کی نصیحت 556 سلمان رشدی سلیمان بن صرد 34 392 512 935 63 سلیمہ اوصاف علی صاحبہ سن ہوزے کیلیفورنیا 767 307 سری لنکا سر بینام سزا بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل کرنے کی تعلیم 201,901 سندھ سید سخاوت علی شاہ صاحب حد سرگودھا سر کودھا سید سر ورشاہ صاحب 107,327 4,41,253,427,950 56 291 591,844 سنگارپور 56,224,303,328,971,973 56 سنن الکبری بینی 56 380 سود تجارت کے معاملات اور ہیں اور سود کے معاملات اور 929 قرض کے نام پر سود کی وابستگی سوڈان سونا سونا تلاش کرنے کا طریق 928 514 بہتان تراشی کی قرآن میں سخت سزا 872 طن پر الزام لگانے کی اسلام میں بڑی سخت سزا ہے 345 سونے کا پگھلانے والا تیز اب ایکوار یجا نظام جماعت میں عفو اور سزا کا سلوک سعودی عرب 126 134 490 سونلره سوئٹزر لینڈ 591,673,842,843,856,849,978 282 592

Page 1049

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 سویڈن حضرت سہل بن سعد سیاست 37 272,581 171 حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی 800 ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں 696 سیاست میں خدا کی آزمائش اور پھر عذاب کا نزول 520 میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں 889 ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا 804 سیاستدانوں کے ہر بیان پر دومنہ ہو جانا اقتدار ملنے کے باوجود دوسروں کے حق پر نظر نہ ڈالا جانا 816 جب آوے وقت میری واپسی کا آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے 701 528 693 چشم.پاکستانی سیاست کی بدحالی کا تذکرہ پاکستانی سیاست میں حکومت کا اتر نے پر اپوزیشن بن جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار جانا ، اور دونوں کی الزام تراشیاں ا مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ مولویوں کا سلوک 515 تا 518 ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا دنیا کی بڑی بڑی قوموں کی سیاسی یا دیگر غلطیوں کی وجہ 111 بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں کل عالم اسلام میں ملائیت اور مسلمان سیاستدانوں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں 514 دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش رب العالمین کے درمیان ایک جدو جہد جاری ہے مولویوں کا پاکستانی سیاستدانوں کی دکھتی رگ کو پکڑنا 526 قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اتر ا مجھ میں یار سیالکوٹ 228,229,843,903 شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر سیالکوٹ، احمدیت کی تاریخ میں سیالکوٹ کا مقام اور خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا 26 850 71 66 کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی 97 یوں میں نے جیون ہار دیا کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں 72 ہوں بشر کی جائے نفت اور انسانوں کی عار نہ خدا ہی ملا نه وصال صنم 116 نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے 72 72 83 42 92 یه سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار عربی اشعار ذکر تک ولخـطـي يفطر بنا وقد نهبت من المشقت الصلب فوالله ما ادري واني لصادق اداء ارانی من حبابک ام سحر 231 789 حضور کی انہیں تنبیہ سیٹل سیرالیون سیرت ابن ہشام سیف الحق صاحب ملک سیف الرحمن صاحب ملک اردو اشعار 580,844 567 581 164 ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب خون جگر ودیعت مژگان یار تھا بدتر بنو ہر 385 اپنے خیال میں ایک 902 شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں جس نے لینے ہوں لے علی گڑھ سے ان حد ہیں دنوں دستیاب الو چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں 695 703

Page 1050

607 395 339 341 340 560 184 810 602 242 242 38 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 قفا نبك من ذكر حبیب و منزل بسقط اللوى بين الدخول فوحمل کن لسواد الناظ وعين الرضا عن كل عيب كليلة كما ان عين السخط تبدى المساويا ولست ابالى حين اقتل مسلما علی ای شـق کـان للــه مـصـرعـی يايها الليل الطويل الا انجلي بصبح وما الاصباح مـنـك بـا مثـل فارسی شعر این چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است شادی شادی کی دعوت کو ٹھکرانے والے کا مقام 39 475 913 حضرت مولوی شریف احمد صاحب شعب الایمان شعبہ جات اصلاحی کمیٹی کا تصور جو حضور کے ذہن میں تھا اصلاحی کمیٹی کا کام امور عامه کاوہ تصور جو حضور کے ذہن میں ہے 250 حضرت شعیب علیہ السلام 517 206 273 شفاعت شفاعت کا مطلب اور اس کا جمعہ سے تعلق شکا گو شکر اور قناعت کا تعلق شکر اور ناشکری کا ذکر شکر حقیقی ایمان بخشتا ہے 361 بنگال کی جماعتوں کو شکر کے دور میں داخل ہونے کی نصیحت 81 شادی کے موقع پر اگر کسی واقف نے کسی بچی کا پیغام دیا ہو تو بہترین شکر یہ دعا ہی کے ذریعہ ادا ہوتا ہے 809 اس کے بارے میں اسلامی تعلیم اور اس کی خلاف ورزی 669 جو شخص اپنے سے کم تر کو دیکھے گا تو شکر کا مضمون پیدا ہو گا754 شادی کے موقع پر غرباء کو نہ بلانے کے رواج کا زور پکڑنا 361 شمالی امریکہ حضور کی امیروں کو غریبوں کی شادی میں شمولیت کی ہدایت 362 نس تیجو صاحب احمدیوں میں دوسری شادی کے حوالہ سے تکلیف دہ معاملات 662 شاہ تاج شوگر ملز شراب رمضان میں شراب کے متعلق سوال کے شرک فی الرسالت سے مراد اللہ کے بالمقابل مرشریک کی نفی 843 شنیلین شور بخشی بازار شورکوٹ 114 | شوری 536 355 494,734,744,751,773 985 شوری اور خلافت کا تعلق شوری کاتربیت سے تعلق شوری کی اہمیت اور حقیقت پاکستانی معاشرہ میں شرک اور مردہ پرستی کی انتہاء 535 شوری کی روح اور اس کا گہرا فلسفہ جن لوگوں کی نحوست سے نعتیں بکھرنے لگیں وہ مشرک ہیں 202 شوری کی روح زندہ رکھنے کے لئے عضو کی تعلیم لودھراں کے سیشن جج کا فیصلہ کہ لوگ شرک فی التوحید 534 651 80 41 285,287 285 277 273 283 312 شوری کی ریکارڈنگ کی تلقین شوری میں خلیفہ کی موجودگی اور غیر موجودگی کا اثر 311,312 برداشت کر سکتے ہیں مگر شرک فی الرسالت نہیں موہنجوداڑو کے آثار سے معلوم ہونا کہ تمدن کے عروج شوری کی مجلس کو صالح رکھنے والے عوامل کے وقت قو میں مشرک ہو چکی تھیں 981 شوری کے ایجنڈوں کی بابت ہدایات 278 274,275

Page 1051

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 39 شوری کے حوالہ سے حضرت مصلح موعود کا ایک پُر مغز اقتباس 309 1953ء، 1974ءاور 1984ء کے بعد کی شوری کے دوران کسی کی تلخ بات پر خلفاء کا رد عمل 274 احمدی شہادتوں کے متعلق ایک وضاحت شوری کے نمائندہ کے اوصاف 287 شهد 971 شوری میں چھوٹوں پر رحم ، بڑوں کی عزت، نیک باتوں خلافت کا ذ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے کی مثال کی روشنی میں 735 کی نصیحت اور بُری باتوں سے روکا جانا مجلس شوری کی حفاظت کے ضروری عوامل 319 شہر بن حوشب شیر ووڈ فارسٹ 278 احمدیت کی زندگی اور بقا کا راز خلافت اور شوریٰ 275 | شیطان 291 شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے 30 978 166 23 امریکہ اور ناروے کی مجالس شوریٰ بعض جماعتوں کی شوری کے دوران لڑائیاں اور خلیفہ وقت شیطان کا اللہ کے ذکر سے خالی دل پر قبضہ کرنا کا بعض لوگوں کو جماعت سے خارج کرنا شیطان کا صبح کے وقت میں آرام کا مزہ رکھنا دنیا کی مجالس شوری کو اپنی رپورٹیں ہمیں بھجوانے کی ہدایت 279 شیطان کے رمضان میں جکڑے جانے سے مراد 121 جرمنی کی جماعت کو نصیحت کہ شوریٰ کا دائرہ قوموں کے 277 329 504 883 شیطان ہر انسان کے خون میں دوڑ رہا ہے موت ایسی حالت میں آئے کہ شیطان جکڑا ہوا ہو 122 لحاظ سے بڑھائی اور اسلامی آداب سکھائیں حضرت مصلح موعود کا شوری کے حوالہ سے دیہاتی شیعه نمائندگان سے بھی مشورہ طلب کرنا حضور کاربوہ کی شوری کی کیسٹ منگوا کر چیک کرنا کہ کیا شوریٰ کی روح کا احترام ہورہا ہے یا نہیں 310 279 خلیفہ وقت کس طرح شوری کے فیصلہ کو منظور یا نا منظور کرتا ہے 310 شیعوں کو اہل بیت کے ذکر کی مجالس کے حوالہ سے نصیحت 458 ان کی دنیا کی وہ حملہ کی دعوت دی گی 451 ص ،ض 978 مجلس شوری کی کامیابی کا راز مشاورت امانت ہوتی ہے شہادت / شہید شہادت کی زندگی اور دوسری زندگی میں فرق 274 288 80 حضرت صالح علیہ السلام صبر ایک بہت عظیم نیکی ہے صبر کا تبلیغ ، جنگ میں ثبات قدم سے تعلق 560 82 91 88 763 763 شہادتوں کے بالمقابل صبر اور خدا کی راہ میں جماعت کا تیز سفر 865 صبر کے بغیر کوئی حقیقی کامیابی نہیں ہوسکتی ایک لنگڑے شہید کے جنت میں پھدکتے ہوئے نظارہ کا ذکر 80 کسی کے مرنے پر صبر کرنے کی حقیقت ایک مخلص احمدی کی شہادت لین دین کے معاملات میں صبر احمدیوں کی قبریں اکھیڑی جانا اور شہادتوں کا اجر 1003 مباک احمد کی وفات پر حضرت مسیح موعود کا صبر کا انداز 764 انور آباد میں نوجوان مخلص سندھی کی شہادت سے قبل اسے آنحضرت کا اپنے بیٹے کی وفات پر صبر اور آنسو آنا 766 865 1004 707 صحابه صحابہ اور اہل بیت محبتوں کے پیغامبر تھے 451 کہنا کہ کلمہ پڑھے اور تو بہ کرے بعض شہدا کی بار بار زندہ ہو کر شہید ہونے کی تمنا سندھ کی شہادتیں وہاں احمدیت کے حق میں رحمت کی بارشیں صحابہ حضرت اقدس کا فرشتوں کے روپ میں گلیوں میں پھرنا63 بن کر برسیں گی اور ساری جماعت ان سے استفادہ کرے گی 973 صحابہ حضرت اقدس کی دعوت الی اللہ کی خاطر قربانیاں 191 سندھ میں احمدیوں کی شہادت منظم سازش کا نتیجہ ہیں 971 صحابہ حضرت مسیح موعود کا نصیحت کا انداز 303

Page 1052

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 40 صحابہ کا زراعت کے دوران ذکر الہی کے واقعات 225 صحابہ کا مسیح موعود سے عشق اور اُن کے اخلاص 874,875 صوفیاء کا نیکی میں جوش پیدا کرنے کے لئے بعض حدیثوں کا یکی میں جوش پیدا کرنے کے لئے حدیثوں صحابہ کا مقام 462 کو گھڑنا صحابہ کو جنگ کے لئے بھیجتے ہوئے آنحضرت کی نصائح 442 ضحاک بن خلیفہ 686 ضیاء الحق صحابہ کو آپس میں ٹکرانے کی ضرورت نہیں صحابہ کا جہاد کا جوش اور آجکل کے مسلمانوں کا غلط تصور 458 ضیاء کے ساتھ مولویوں کا رویہ صحابہ کے گھروں میں نور کا چمکنا صحابہ میں صفت محمدیہ کا رواج پانا صحابہ میں آنحضرت کا نور سرایت کرنا 199 124 681 234,460 516 ضیاء کے مارشل لاء میں احمدیوں کے معاملہ کا کوئی عمل دخل نہ تھا 528 462 ضیاء اللہ مبشر صاحب 652 صحابہ آنحضرت سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرتے 320 طائف صحابہ حضرت مسیح موعود کے نمونوں کو انگلی نسلوں میں منتقل کریں 473 | سید طاہر احمدی صحابہ کی زندگی کا اعلیٰ مقصد نماز تھی 247 | طاہرہ مسعود صاحبہ دو صحابہ کے درمیان اختلاف پر حضرت عمرؓ کا فیصلہ 681 طاہرہ ط،ظ 580 702 580 78 78 صحابہ کی قرآن و انیل تورات میں بیان کر دوشان 193 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسح الرابية آپ پر الزام کہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہ کی ، اس کی تردید 451 امریکہ، کینیڈا کے دورہ کے بعد واپسی دورہ پر تبصر 789,809 آنحضرت کا اپنے نواسوں سے پیار کا انداز اور صحابہ کی کیفیت 450 ایک اخباری نمائندہ کا حضور سے سوال کہ کیا واقعہ سب 377 440 275 آنحضرت کا صحابہ کی کمزوریاں دور کرنے کا انداز 668 سے محبت رکھتے ہیں اور نفرت کسی سے نہیں ایک صحابی کا مہمان نوازی کا واقعہ جس پر سورۃ الحشر کی ایک بچہ کا رومال نکال کر ٹی وی پر میرے آنسو پونچھنا 469 ایک آیت کا نزول ہوا ایک شوری کے موقع پر دلیل دیتے ہوئے کسی شخص کا نام ایک صحابی کے اسلام لانے پر اس کی ماں کا کہنا کہ میں لینا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا ناراض ہونا دودھ نہیں بخشوں گی ، اس صحابی کا پر حکمت جواب 354 ایک متکبر شخص کی وفات پر حضور کے الفاظ کا پورا ہونا 999 مہمان کو دروازہ تک حضور کا چھوڑنا اور اس کا متاثر ہونا 397 ایم ٹی اے پر حضور کا اردو زبان سکھانے کا پروگرام 780 حضور کی سادگی کا عالم کہ نمک دانی جیب میں رکھنا 958 تصویر سے تصویر اتارنا اور اس سے تنوع پیدا ہونا 979 تمام دنیا کے مولویوں کو ایک قسم کے مباہلہ کا چلنج صحاح ستہ صدر صدام صدقہ صدقات کے نتیجہ میں برکت صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا ( حدیث ) صدقہ کی اقسام 126 291 917 857 855,856 511 جلسہ سالانہ پر اللہ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے آپ کی کیفیت چندہ نہ دینے والوں سے کیا صدقہ لیا جا سکتا ہے؟ 855 اور آپ کی بیٹی کے ساتھ گفتگو حضرت صفیہ صله رسمی صلہ رحمی کا رشتوں کی محبت سے تعلق صلہ رحمی کی حقیقت 165 431 439 573 حدیثوں کی بابت ایک اہل قرآن سے حضور کی گفتگو 126 حضور کے عملی نمونہ کے وقت نوکروں کی حالت 688 حضور کا ٹیلی پیتھی کا تجربہ کرنا حضور کاربوہ کی شوری کی کیسٹ منگوا کر چیک کرنا 279 581

Page 1053

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 41 حضور کا فرانسیسی زبان میں فرانسیسی ممالک کے احمدیوں ظلم سے بچنے کی دعا کو اجتماعات کے انعقاد پر مبارکباد 254 749 ظلم کی تعریف امریکی سیاہ فام پر مسلسل ظلم کے نتیجہ میں حساس کمتری ظن 18 61 291 692 901 حضور کا کینیڈا کا دورہ حضور کا تمام دنیا کے احمدیوں کو قرآن کا ترجمہ سکھانے کی خواہش 779 مسجدوں کو اجاڑ نے کا بدترین ظلم حضور کے ایم ٹی اے پر اردو زبان سکھانے میں الہی تصرف 784 معاشرہ میں ایک دوسرے پر ظلم حضور کے مباہلہ کے چیلنج پر علماء میں کھلبلی مچنا اور بہانے بنانا 511 حضور کی خلافت کا حضرت مسیح موعود کے دور سے خاص تعلق 194 خن پر الزام لگانے کی اسلام میں بڑی سخت سزا ہے 345 ربوہ سے حضور کی ہجرت کے بعد منافقین کی سرگرمیاں 586 ظن سے اجتناب کی قرآنی تعلیم غانا کے صدر کا حضور کو غلام رکھے جانے والے تہہ خانے دکھانا 757 ظن کی بیماری بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے قادیان میں حضور کی آمد پر گھروں میں جانے کی وجہ سے تجسس اور ظن کا تعلق اہم جماعتی معاملات کی طرف توجہ نہ ہو سکی 599 919 عاجزی حقیقی مجز ع ، غ 867,868 344 868 579 بنگلہ دیش کے ایک سفر میں سنوری صاحب کی اہلیہ کی بیماری کی اطلاع اور اللہ کا سنوری صاحب سے سلوک کینیڈا کے دورہ کے دوران وقت کی کمی کے باعث انفرادی عاجزی اختیار کرنے پر آنحضرت کی رفعت میں اضافہ 859 750 اور اجتماعی ملاقاتیں نہ رکھنے کا ارشاد عاجزی کے نتیجہ میں انسان کا رفع کینیڈا میں بچیوں کے ساتھ حضور کی مجلس سوال و جواب 492 ابراہیم کی تواضع اور خدا کا عزت میں بڑھانا ہو میو پیتھی کے متعلق حضور کا ایم ٹی اے پر پروگرام 787 انبیاء میں ایک وجہ سے غیر معمولی انکسار کا پیدا ہونا یو کے میں ذیلی مجالس کے اجتماعات کے افتتاح کے حوالہ انکساری اور عاجزی کی تعلیم سے حضور کا دستور طبقات طب 828 249 عادت استغفار کے نتیجہ میں بخشش کے بعد پھر پرانی عادتوں کی طرف لوگوں کا توجہ کرنا ایک آنکھ کے ضائع ہونے پر دوسری آنکھ بھی متاثر ہوتی ہے 403 میاں بیوی کے عائلی معاملات میں بگاڑ پیدا ہونا اینٹی بائیوٹکس کے نقصانات اور ہومیو پیتھی کے فوائد 787 عالمی بیعت ( نیز دیکھئے بیعت) بیماریوں کے متعلق ایجادات مرض دور کرنے کی بجائے عالمی بیعت، دنیا بھر سے ٹیلیفون کالز دولت سمیٹنے کی خاطر ہیں ہیضہ کا ہومیو پیتھی علاج طوبی شاہ 214 544 56 198 857 858 62 579 117 61 580 کل عالم کا ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کا عجیب نظارہ 578 حضرت عامر بن فہیرہ حضرت عائشہ 249 طور 14,162,163,166,243,356,407,828 سردار ظفر عباس آف رجوعه 534 عائلی معاملات چودھری ظفر اللہ خان صاحب ظالموں سے خدا کا سلوک 78 344 عائلی تعلقات کو درست کرنے کی نصیحت عائلی جھگڑوں میں جھوٹ کا کردار عائلی معاملات اور تجسس 824 135 268

Page 1054

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 عائلی معاملات میں اخلاق کی اہمیت عائلی معاملات میں بدگمانی کا کردار 42 472 485 عبادت کا مقصد عبادت کو تقویت دینے والے امور عائلی معاملات میں بیوی اور ماں باپ سے توازن کے عبادت کی انسانی زندگی میں اہمیت سلوک کی اہمیت 353,355 عبادت کی اہمیت 600 500 751 130 بد عادت کی وجہ سے میاں بیوی کے عائلی معاملات میں عبادت کے بعد خدمت خلق پر سب سے زیادہ زور 365 بگاڑ پیدا ہونا اپنے گھروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین اخلاق کی کمزوری اور عائلی معاملات 61 151 355 عبادت کے زندہ ہونے کا وقت 75 عبادت میں اخلاص و وفا کے بعد بنی نوع کی طرف سفر 369 عبادت میں ہی برکت اور اللہ کی رضا وابستہ ہے 179 اصلاح کے حوالہ سے خطبات کا مردوں اور عورتوں پر اثر 909 عبادتیں قرب الہی کے علاوہ انسانوں کے بھی قریب کرتی ہیں 725 ایک باپ کی بدسلوکی کے بارے میں ایک بچی کا حضور کو خط 860 اس وقت بہت سے نوجوانوں کا عبادت کو چھوڑنا 130 ایک بچہ کا پرانی چیز میں اپنے والد کے لئے اکٹھی کرنا جیسے اسلامی عبادات کا فلسفہ وہ اپنے والد کے لئے کیا کرتا تھا اور اس میں سبق 820 اگر تم رضائے باری کی خاطر بیوی کے منہ میں لقہ میں بداخلاقیوں سے گھر اجڑنا بد خلقی کا عائلی معاملات میں نتیجہ 824 712 228 ڈالتے ہو تو عبادت ہے (حدیث) 120 150,600 خالص عبادت انسانی تعلقات کو قائم کرتی ہے نہ کہ منقطع 350 رمضان میں آنحضرت کی عبادتوں کا عالم 114 بعض عورتوں کا خاوندوں سے مطالبات نہ کرنا بیویوں کے غلط مطالبات پر خاوندوں کے جھوٹے وعدے 761 سب سے زیادہ نحوست کسی قوم پر عبادت سے دوری ہے 132 تکبر بھی کفر ہے، اس کا عائلی معاملات میں نقصان 761 کوئی ہم سے عبادت کا حق چھین نہیں سکتا، زمین کا 482 چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیویوں پر ہاتھ اٹھانا چپہ چپہ ہمارے لئے مسجد بنا دیا گیا ہے حضور سے ملاقات کے دوران عائلی جھگڑوں میں حضور نجات حقیقی خدا کی اطاعت میں ہے کے بیان کو بگاڑ کر لوگوں کا پیش کرنا شریکہ کا گھروں کو اجاڑ دینا غصہ کا روزمرہ اور عائلی معاملات پر اثر قطع تعلقی کے نتیجہ میں معاشرہ میں فسادات 885 755 817 882 گھروں غیبتوں کی حالت اور تکلیف دہ صورتحال 880 ماں باپ سے کٹ جانا بہت بڑی بد بختی ہے 820 697 180 وہ عبادت جس کی طرف احمدیت کو بلایا جارہا ہے 132 وہ وقت جب انسان کی ساری خدمتیں عبادت بن جاتی ہیں 505 ہر نیکی اور عبادت کا معراج 108 ہماری عبادت روزمرہ کی پانچ وقت کی عبادت ہے 181 آج کی رات اللہ نے ان لوگوں کو بڑے پیار سے دیکھا جو خصوصیت سے وقت پر عبادت کے لئے اٹھے (حدیث )605 عبادت کرنے والا غیر مشرک ہے بیوی بچوں پر خرچ کرنے میں کنجوس لوگ ایک دوسرے کے خاندان پر طعن سے نقصانات 762 150 حضرت عبادہ بن صامت عبدالعلیم عبادت پر صبر لازمی ہے 130 180 سیاں عیدالحی عبدالرافع صاحب عبادت عبادت جس کے ساتھ نجات وابستہ ہے عبادت کا بنی نوع کیسا تھ رابطہ بڑھانے کے لحاظ سے تعلق 366 حضرت عبد الرحمان بن عوف عبادت کا حقیقی مفہوم 169 عبدالرحیم احمد صاحب 350 428 1000 55 56 112 303

Page 1055

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 عبدالرحیم بیگ صاحب مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب رانا عبدالستار صاحب سید عبدالستار شاہ صاحب عبدالعزیز بر ما ڈاکٹر عبدالغفور سید عبدالقادر جیلانی حضرت عبد الله 43 592 188 118 56 78 57 227 11 225 آنحضرت کے سارے عرب کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا راز 583 عزت عزت آسمان سے نصیب ہوتی ہے کوششوں سے نہیں 318 تمام عز تیں اللہ ہی کے لئے ہیں معاف کرنے سے اللہ کا اسے عزت میں بڑھانا وہ عزت جس کی بقا کی ضمانت ہے 552 857 315 ی ہر مسلمان کا خون، آبرو، مال دوسرے پر حرام ہیں.904 اکاخون، آبرود سے عشق کی علامتیں مولوی عبداللہ صاحب حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب 767 عطا بن عبد الله حضرت عبد اللہ بن ابو بکر 922 شیخ عطا محمد صاحب عبد اللہ بن ابی بن سلول 567,568 صوفی عطا محمد 360 ملک عطاء الرحمن صاحب عطاءالرحمن حضرت عبداللہ بن ابی طوفہ حضرت عبداللہ بن سر جس عبد الله بن شداد حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص 15,16 248 153,759 167 عفو ( نیز دیکھئے بخشش) عفو کا استغفار سے تعلق عفو کا باعث امر عفو کا تعلق کن کمزوریوں سے ہے حضرت عبد اللہ بن عمر 296,392,665,910 عفو کا محبت سے گہراتعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود عبد المومن صاحب عبدالواحد صاحب عبد الوہاب آدم صاحب عبید اللہ میم صاحب عثمان چینی صاحب حضرت عثمان 474 998 77,865 781 97 56 782 458,686,942 عرب دنیا میں احمدیت کا نفوذ ، 1894ء اور 1994ء کے سال کا جائزہ عرب میں گرمی کے باوجود رات کا ٹھنڈا ہونا عفو کے خلق ہونے کا وقت شوری کی روح زندہ رکھنے کے لئے عفو کی تعلیم نظام جماعت میں عفو اور سزا کا سلوک حضرت عقبہ بن عامر عقل اہل اللہ ہی کو عقل کامل نصیب ہوتی ہے عقیده 83 937 77,78 77 358 284 282 282 281 417 283 282 485 111 عقائد امت واحدہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے 864 عرب 4,11,114,153,306,573,735,742 عقائدہ زندگی کے لئے راستے بناتے ہیں 996 170 997 ایم ٹی اے کے اجراء پر عرب دنیا کی دلچسپی آنحضرت کے اٹھتے ہی تمام عرب میں قیامت برپا ہونا 585 علماء علماء بدترین مخلوق 805 692,695 اللہ نے دل میں تحریک ڈالی ہے کہ چوٹی کے بد بخت علماء کے لئے بددعا کی جائے تا کہ امت کے لئے وہ دعا بن جائے 1002

Page 1056

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 العلم علمان 959 44 نظام جماعت اور نظام جماعت چلانے والوں سے ادب تمام دنیاوی علوم دنیا کمانے کے لئے خادم بنائے گئے ہیں 214 اور محبت کا رشتہ باندھیں جس علم میں کوئی خاص بات دیکھیں جس میں دوسروں کا عید فائدہ ہو سکتا ہے تو اس کو عام کریں 966 874 عیدین کی اپنی عظمت اور جمعہ کی اُن سے بھی زیادہ عظمت ہے 183 دنیا کے تمام احمد یوں کا خلیفہ وقت کو علم فراہم کرنا 735 حضرت عیسی علیہ السلام 736 عیسی کے لئے رفع کا لفظ اور حدیث میں عاجزی اختیار روحانی علوم اور دنیاوی نعمتوں میں فرق علم میں ترقی سے انسان کی کائنات کا پھیلتے چلے جانا 47 کرنے والے کے لئے اس لفظ کا استعمال 858 مذہبی علم سے بے اعتنائی کے نتیجہ میں قوم کا دو حصوں میں عیسی کے آنحضرت کے بعد نزول کے متعلق علماء کے فتوے 538 تقسیم ہونا ، عامۃ الناس اور مولوی تعلیمی معیار گرنے کی وجہ ٹیلیویژن ہے علی گڑھ حضرت علی عمان عمر کوٹ عمرو حضرت عمر و بن مرة حضرت عمر 512 984 695 186,686,688 580 673 678 441,458,568,686,931 عیسی اور امام حسین کی انفرادیت بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے عیسائیت 453 538 عیسائی اقوام سے تبلیغ کے نئے اسلوب جو قرآن نے سکھائے 739 عیسائیت کا مسیح کو خدا ماننے کا توہین آمیز عقیدہ عیسائیت کے ساتھ جبر اور مظالم کی تاریخ اٹلی میں عیسائی موحدین کی غاریں تو حید پرست عیسائیوں کی غاروں پر قرآن سے پہلے آپ کا ایک مسلمان عورت سے کچھنا پسندیدگی کا اظہار اہل علم نے کوئی تحقیق نہ کی تھی جو اپنے بھائی کے حسن خلق کے گیت گایا کرتی تھی 721 توحید کی خاطر اصحاب کہف کا غاروں میں جانا اور ان آپ کی نماز میں گریہ وزاری آپ کا شہادت کے وقت نماز پڑھنا دو صحابہ کے درمیان اختلاف پر آپ کا فیصلہ 248 247 681 کے متعلق تحقیقات حواریوں کا مسیح سے مائدہ مانگنا اور عیسائیت کا دنیاوی نعمتیں تصور کرنا 552 980 979 732 731 737 عورت عورت سے مغربی معاشرہ کا سلوک عورتوں میں چغلی کی عادت 800 23 سورۃ کہف کا عیسائیت کے آغاز ، عروج وزوال سے تعلق 730 سورۃ کہف میں زینت کی نعمتوں کا ذکر کیوں خاص طور پر عیسائیت کے ساتھ کیا گیا ہے؟ حکمت احمدی خواتین کو جتنا ان کا بنیادی ضروری حق ہے وہ میں نے قرآن کا عیسائیت کو خراج تحسین ہر موقع پر دیا ہے اور جماعت میں مولویانہ ذہنیت کی کوئی اللہ کی نعمتوں پر عیسائیوں کی ناشکریں پرواہ نہیں کی عہد آنحضرت کی ایفائے عہد کا ایک واقعہ عہدہ عہدیدار بغیر تجسس کے بھی جو باتیں علم میں آئیں انہیں عوام میں پھیلانے کی بجائے نظام والوں کو بتا ئیں 797 597 895 737 743 738 444 574 104,574 356,375,696 770 289 آنحضرت کا عیسائیوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرانا غارثور غار حرا غالب غانا غانا کی جماعت کا ملک پراثر

Page 1057

936 815,816 غصہ کے نتیجہ میں معاشرہ میں فساد اور جھگڑے غصہ کے نقصانات 45 290 298 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 غانا اپنی نیک نامی سے دو فائدے اٹھائے غانا کی جماعت کی نیک نامی 758 غانا کے صدر کا حضور کو غلام رکھے جانے والے تہہ خانے دکھانا 757 غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابورکھنے کی تعلیم لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے تجارتی قرضہ کی سکیم 930 سید غلام ابراہیم صاحب صدر جماعت کیندره پاڑا 4900 غانا کے ایک علاقہ میں تبلیغ کے بعد مسجد کی تعمیر کی بنیاد 694 غلام / غلامی یونائیٹڈ نیشنز کی جانب سے نانا کی بابت ایک رپورٹ غلاموں سے حسن سلوک کی تعلیم اور احادیث کا تذکرہ 684 میں جماعت کی خدمات کا اعتراف غریب غرباء میں قربانیوں کا معیار اونچا ہے غریب اور ہمسائیوں کے حقوق ادا کریں غریب بھائیوں کے لئے حصہ نکالنے کی تعلیم غریب رشتہ داروں کی مدد کا خیال 290 836 151 756 756,757 غلامی کا وہ تصور جو قرآن میں ملتا ہے امریکہ میں غلاموں پر مظالم جنگ کے نتیجہ میں غلام بنانے کے تصور کی وضاحت 757 اسلام میں غلامی کا کوئی تصور نہیں 598 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام 215 207 756 احمدیت کے متعلق آراء تبدیل کی جائیں گی، پیشگوئی 142 743 غریبوں کو نکالنے سے ساری سوسائٹی غریب ہو جائے گی 207 جماعت کے حق میں حضرت مسیح موعود کی خوشخبریوں غریبوں کی ہمدردی کبھی بے فیض نہیں رہی والے دور میں ہم تیزی سے داخل ہورہے ہیں غریبوں کے ساتھ بعض لوگوں کا فاصلہ رکھ کر چلنا 360 جمعہ یا جمعتہ الوداع کے دن گزشتہ نہ ادا کی جانے والی نمازوں غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا خدا پر فدائیت سے تعلق 205 کی تلافی کا کیا کوئی جواز ہے، حضرت مسیح موعود کا فیصلہ 186 حضرت مسیح موعود کی نصیحت بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل بعض غریب لوگوں یا قوموں کا وعدہ کے مطابق قرض یا کا 929,930 کی ادائیگی کرنا کرو کے متعلق ایک غلطی کی تصحیح پاکستان میں ذیلی تنظیموں کو تلقین کہ غرباء کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کے تین صحابہ کا سورج گرہن کے بعض علاقے اپنے اپنے سپر د کر کے بعض جگہ چند ماڈل نشان کو دیکھنے کے لئے قادیان کا سفر کرنا حضور کا دوسراوطن سیالکوٹ تھا، اس کی وجہ 963 987 188 231 765 کے گھر بنائیں جو شخص اپنے سے کم تر کو دیکھے گا تو شکر کا مضمون پیدا ہوگا 754 قادیان میں سورج گرہن اور نماز کسوف و خسوف 189 حضور کی امیروں کو غریبوں کی شادی میں شمولیت کی ہدایت 362 خدا کی خاطر آپ کی قربانیاں اور خدائی سلوک رمضان میں غریبوں سے ہمدردی کی تلقین خلافت رابعہ کے دور کا مسیح موعود کے دور سے خاص تعلق 491 شادی کے موقع پر غرباءکو نہ بلانے کے رواج کا زور پکڑنا 361 دعاؤں اور درود کی برکت سے آخرین کا اولین سے ملنا 577 آنحضرت کی سنت سے ثابت کہ غریبوں کی ضرورتوں کو دنیا میں حضور کے پیغام کے تیزی سے پھیلنے کا وقت پورا کرنا نیکی تھی غصہ پر قابو پانے کے طریق غصہ کا روز مرہ اور عائلی معاملات پر اثر غصہ کی بے وقوفی کا داغ سینے سے مٹتا نہیں، اس کا بہترین علاج 129 128 759 817 935,936 آگیا ہے، ہماری ذمہ داریاں سورج گرہن کے وقت علماء کا شور صحابہ کا حضرت مسیح موعود سے عشق 202 188 874 عبدالحکیم کی مسیح موعود کی وفات کے متعلق جھوٹی پیشگوئی 1000 مباک احمد کی وفات پر حضرت مسیح موعود کا صبر کا انداز 764 مسجد میں ایک مہمان کا آپ کو گالیاں دینا اور آپ کا

Page 1058

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 46 صبر سے سننا اور ایک صحابی کا اسے سخت جواب دینا 284 آپ کی تصدیق میں دو آسمانی گواہ 200 آپ کی نیتوں کا امتحان لینے کے لئے پنوڑیا کی مثال 806 رات میں نظارہ آپ کے کلام کی خوبی مہدویت کے دعوی کے بعد جماعت کی بنیا درکھی الزام کہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہ کی تردید 74 140 451 غیبت اور حقارت کا سلوک کرنے والوں کا معراج کی غیبت بعض برائیوں کی جڑ غیبت بغیر تجسس کے بھی پیدا ہوتی ہے غیبت کا احادیث کی روشنی میں تذکرہ 914 345 869 887 آپ پر برکتوں کا نزول سحر کا سا منظر پیش کرتا ہے 190 غیبت کا قرآن میں جس طرح ذکر کیا گیا ہے اگر اس آپ کا اپنی ذات کے لئے گالیاں برداشت کرنا مگر رسول اللہ کے وقت سخت جواب دینا آپ کا اپنی عرب کتب عرب دنیا میں مفت تقسیم کرنا اور اس وقت کی علمی حالت کا تذکرہ 284 997 کی حقیقت کو سمجھ لے تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکے 867 غیبت کو دور کرنے کا طریق غیبت کی تعریف آنحضرت کے الفاظ میں غیبت کی دو وجوہات آپ کا بار بار فرمانا کہ قادیان آؤ، اس پر اعتراض 119 غیبت کی کئی منازل ہیں آپ کا ذکر الہی کے بعد سب سے زیادہ نمازوں پر زور دینا 228 غیبت کے حوالہ سے یہ جائزہ لیں کہ آپ کو غیبت میں آپ کو قرب وصال کی خوشخبری اور پھر بھی مباہلہ کرنا 1001 آپ کی باتوں میں سچائی کی علامتیں اور پہچان آپ کی بعثت کی ایک غرض آپ کے دل میں بنی نوع کی ہمدردی کا جوش آپ کے ذریعہ خلافت کے نظام کا حصول اور اس کا گھر گھر زندگی کا پانی پہنچانا 465 497 207 کتنا مزہ آ رہا ہے غیبت کے قلع قمع کے لئے جہاد کی ضرورت ہے غیبت کے نتیجہ میں جھوٹ کا سلسلہ غیبت کے نتیجہ میں نظام جماعت میں منفاقت غیبت میں مزے اٹھانے کی وجہ امریکہ میں غیبت کی کثرت بحیثیت جماعت غیبت سے مبرا ہونے پر نظام بھی محفوظ ہو جائے گا آپ کے نزدیک امام حسن اور حسین کا مقام آپ میں داؤ دی لحن کا ہونا 380 452 72 آپ نے ساری زندگی غفلت نہیں دکھائی اور آخر دم تک بغیر تجسس کے بھی جو باتیں علم میں آئیں انہیں عوام اس عہد پر قائم رہے کہ جو میرے بس میں ہے میں تمہیں میں پھیلانے کی بجائے نظام والوں کو بتائیں پاک صاف نہ کر دوں چین سے نہیں بیٹھوں گا کھانے کی میز پر بے تکلف گفتگو کو غیر مناسب رنگ آپ کے لئے سورج چاند گرہن کی پیشگوئی کا پورا ہونا 187 میں آگے پہنچانا اور اس کا بداثر 211 آخری ایام میں آپ کی مصروفیت کا عالم حضور کی دعاؤں کے کون وارث ہیں 830 211 نظام جماعت کے حوالہ سے غیبت آنحضرت کا ازواج کے سامنے کسی کی بات کرنا اور اُن کو 877 872 871 872 879 883 888 873 870 883 879 895 891 876 کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی اہمیت 786 شک گزرا کہ نعوذ باللہ غیبت تو نہیں ہو رہی 869,877 آنحضرت کے عشق میں حسان بن ثابت کے اشعار پڑھنا 475 غیرت آپ کی بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل کرنے کی تعلیم 201 احمدیوں کی غیرت کے معیار میں بلندی اور خلافت سے آنحضرت سے سچا تعلق اس زمانہ کے امام سے بچے تعلق تعلق میں اضافہ کے بغیر نہیں ہو سکتا 464 اسلامی غیرت کا تصور 797 561

Page 1059

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 فارس حضرت فاطمہ فتاوی حضرت مسیح موعود فتح الربانی چودھری تے حمد سیال صاح فرحان بشارت صاحب 47 575 447 74,187 123 801,802 234,431,949 253,331 772 417,559 اہم جماعتی معاملات کی طرف توجہ نہ ہو سکی 599 قادیان میں غیر اللہ کے خوف سے آزادی کا زمانہ 800 قادیان میں نماز کسوف و خسوف 189 اقبال علامہ کا اپنے بیٹے کو قادیان تعلیم کے لئے بھجوانا 78 قادیان کی مساجد کا جاگنا اور غیروں کے تاثرات 501 آپ کا فرمانا کہ بار بار قادیان آؤ، اس پر بعض ظالموں کا اعتراض کہ مرزا صاحب کی زیارت ہی گویا حج ہے 119 قانون اسلامی ممالک میں انبیاء کی عصمت اور احترام پر مشتمل قوانین کے متعلق تفصیلی بحث 581 قائد اعظم قدرت اللہ سنوری صاحب قدر 512 518 224,919 فرعون فریحہ احمد ڈاکٹر فرید فرینکفرٹ فضل قبل عمر ہسپتال 56 306,308 580 فضل قدروں کے ساتھ وابستہ عزتیں اور محبتیں 793 احمدیت کی اقدار کو محض عقیدوں میں جگہ کی بجائے اعمال فضل کا محنت سے تعلق بخشش اور فضل کا تعلق 34 415 میں ڈھالیں گہری قدر اور عزت اعلیٰ اقدار کی ہوتی ہے فقہ اعتکاف کے دوران مسجد میں سرمنڈوانے ، حجامت کروانے کی بابت علماء کے فتاوی لوگ کچھ کہتے رہیں آپ کچھ رہیں 164 قربانی اقدار کی حفاظت کرنی خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے خواہ 805 803 796 835 744 جمعہ یا جمعۃ الوداع کے دن گز شتہ نہ ادا کی جانے والی نمازوں قربانیوں کے جذبہ کو قائم رکھنے کا طریق کی تلافی کا کیا کوئی جواز ہے، حضرت مسیح موعود کا فیصلہ 186 جماعت احمدیہ کے افراد میں قربانی کا مادہ دنوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز کے ساتھ جماعت کو ہر قربانی کے بعد عظیم تر برکتیں ضرور نصیب ہوں گی 609 ہی عصر کی نماز کچھ عرصہ تک پڑھنے کا استثنائی فیصلہ 845 غرباء میں قربانیوں کا معیار اونچا ہے ہمارے آج کل کے فقہاء کی کتب میں عجیب بخشیں 164 نومبائعین کو روز مرہ کچھ قربانی کی عادت ڈالیں 853 فیصل آباد 843 ہر قربانی تقوی کی چادر میں لپٹی ہو 836 839 قادیان 55,77,139,473,493,495,497,853 | قرضہ قادیان کا وہ زمانہ جب حضرت مسیح موعود کے صحابہ گلیوں قرض کے متعلق ایک حدیث اور آنحضرت کا اسوہ 931 قرض کے معاملات میں دیانتداری کی تلقین 934,935 میں پھرتے تھے قادیان کے جلسہ کی نقل کرنے سے مراد 794 501 قرض کے نام پر سود کی وابستگی قادیان کے سالانہ جلسہ کا افتتاح اور اختتام لندن سے 967 قرض لینے کی عادت کا بعض لوگوں میں ہونا قادیان میں حضور کی آمد پر گھروں میں جانے کی وجہ سے قرضہ کی واپسی کے تقاضا پر نرمی کی تعلیم 928 263 484

Page 1060

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 48 جلسہ کے دوران میز بانوں سے مہمانوں کے قرض مانگنے قرآن میں کوئی تضاد نہیں کی بابت نصائح 542 568 قرآن میں آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا محاورہ کا استعمال 142 اگر تم تنگی دیکھتے ہو تو ضامن کے بغیر بھی ویسے ہی قرض قرآنی مضامین کی خوبصورتی کی ادئیگی میں سہولت دے دیا کرو (حدیث) بعض غریب لوگوں یا قوموں کا وعدہ کے مطابق قرض کی ادائیگی کرنا 932 929 قرآنی آیات اور خشیت اصحاب الرقیم سے مراد 239 240 733 اللہ کی توہین اور اس کی عصمت کا قرآن میں ذکر 522 بہت سے جھگڑوں کی وجوہات کا تعلق قرض سے ہے 928 الم میں الف ہر چیز کا آغاز ہے ہند و پاک میں قرض لے کر واپس نہ کرنے کا رواج 930 بہتان تراشی کی قرآن میں سخت سزا قرآن کریم قرآن اور حدیث کا مقام اور آپس میں تعلق 373 42 872 پاکستان میں ایک حافظ قرآن کا قرآن کو جلانا اور پھر عوام کا اسے زندہ آگ میں جلا دینا قرآن سے محبت آنحضرت سے محبت کے بغیر نہیں ہو سکتی 408 توحید پرست عیسائیوں کی غاروں پر قرآن سے پہلے 320 قرآن کا عیسائیت کو خراج تحسین قرآن کریم ایک متوازن کتاب ہے قرآن کریم حبل اللہ ہے قرآن کریم کی تضحیک قرآن کریم کے سجدہ میں آنحضرت کی دعا قرآن کریم کے سمجھنے کا ایک طریق 743 283 386 554 10 582 اہل علم نے کوئی تحقیق نہ کی تھی 732 حضور کی خواہش کہ تمام دنیا کے احمدیوں کو قرآن کا ترجمہ سکھاؤں، اس کی وجہ رمضان میں قرآن کے اتارنے سے مراد ریسرچ کے لئے قرآن کی اہمیت 779 104 734 سورۃ کہف کا عیسائیت کے آغاز ، عروج وزوال سے تعلق 730 قرآن کی روح کے حصول کے لئے آنحضرت کی روح سورۃ کہف میں زینت کی نعمتوں کا ذکر کیوں خاص طور 407 پر عیسائیت کے ساتھ کیا گیا ہے؟ حکمت 737 میں مدغم ہونا ضروری ہے قرآن کی تعلیم کا خانہ کعبہ کے تمام مقاصد سے تعلق 160 عیسائی اقوام سے تبلیغ کے نئے اسلوب جو قرآن نے سکھائے 739 قرآن کی ہتک کے نتیجہ میں گوجرانوالہ میں ایک حافظ کو ظالمانہ طور پر مار دیا جاتا قرآن کی ہر آیت کا کوثر بننا 556 273 قرآن کی آیات پر غور سے نئے مضامین کا ابھرنا 197 125 غلامی کا وہ تصور جو قرآن میں ملتا ہے 756 قرآن کا کلام دائمی اثر رکھنے والا ہے، اس کا ثبوت 551 موسیٰ کو اذیتیں دینے والے یہود کا قرآن میں ذکر 456 وہ اخوت جس کی طرف قرآن بار بار بلاتا ہے 411 قرآن کے بالمقابل حدیث کا مقام ہر دفعہ تلاوت کے وقت ہر آیت کا نیا مضمون ذہن میں آنا 273 قرآن کے جماعت کی طرف سے کئے گئے تراجم میں آنحضرت کا جبرائیل کے ذریعہ قرآن کی دہرائی کرنا 104 779 آنحضرت مجسم قرآن تھے عام سنی یا شیعہ تراجم سے اختلاف کی وجہ قرآن میں اللہ کی تضحیک کا ذکر اور کہیں بھی ان آیات قضاء 321 884 میں انسان کو اپنے ہاتھ میں بدلہ لینے کی اجازت کا ذکر نہیں 554 قضاء اور خلیفہ وقت قرآن میں ایک پیج سے سات سو گنا زیادہ پھل نکلنے کا ذکر 174 صدر مجلس قضاء کا ایک خط کہ حضور کے حوالہ سے ایک بات 146 قرآن میں تکبر کی بابت تمثیل کہی جارہی ہے.اس پر حضور کا ارشاد قرآن میں تمام زمانے کے علوم بھر دیئے گئے ہیں 738 قضائے عمری 885

Page 1061

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 سیہ نا جائز ہے قطع تعلق قطع تعلقی کے نتیجہ میں معاشرہ میں فسادات 186 882 49 49 کے وقت تو میں مشرک ہو چکی تھیں مؤاخات اور قومی حقارت ہند و پاک میں رئیس ازم کی کثرت 981 335 759 342 معاشرہ سے بہت سے فسادات دور کرنے کا ایک طریق 862 ہندوستانی نام بگاڑنے میں سب سے آگے قناعت قناعت کی حقیقت قناعت کے تقاضے قوم 601 602 یورپ میں آجکل قومی تعصب کے سر اٹھانے کی وجہ 294 قیامت پردہ پوشی کا قیامت سے تعلق خدا جب یہاں پردے اٹھانا شروع کر دے تو مرنے کے 267 381 قوموں پر تمسخر کرنے والوں کا خود بے وقوف بننا 332 بعد سارے پردے چاک ہو جاتے ہیں قوموں سے حقارت کے جذبہ کو دور کرنے کا طریق 334 آنحضرت کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی قیامت تک قوموں کے عبرت کے نشانوں کو اجاگر کیا جائے ، قرآنی تعلیم 981 کے لئے بنی نوع انسان کے امن کی ضمانتیں ہیں 270 قومی اور انفرادی لحاظ سے مغرب اور مشرق میں اخلاقیات 652 قیامت کے روز خدا کہے گا میں بھوکا تھا تو نے کھانا نہیں قومی تعصب اور حقارت کا علاج مؤاخات کھلایا، میں پیا سا تھا تو نے پانی نہیں پلایا قومی تعصب کی مثالیں اور ان سے بچنے کی تلقین 330 قیصر 337 قومی لحاظ سے پائی جانے والی برائیوں کا دور کرنا ضروری ہے 339 قومیں جب پھٹ جائیں تو نبوت کے فیض کے بغیر دوبارہ اکٹھی نہیں ہوا کرتیں احساس کمتری سے قومی تعصب کا تعلق 387 294 کائنات ک گ کائنات میں کوئی ایسی تاثیر نہیں جس سے انسان کو حصہ نہ دیا گیا ہو 352 576 26 اخلاق کے نہ ہونے کا قوموں کے افتراق اور بد خلقی سے تعلق 416 تخلیق کائنات میں مضمر اللہ کی شان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا 26 468 علم میں ترقی سے انسان کی کائنات کا پھیلتے چلے جانا 47 افتراق کے وقت قوم کا انجام جرمنی میں خاص کر racism کے خلاف جہاد کی ضرورت 332 کیا بیر جھوٹ کا قوم پراثر 306 249 461 کتاب المغازی حسب و نسب اور خاندان پر طعن کفر کے قریب کر دیتا ہے 761 کتاب حسن خلق قوموں کو زندہ کرتا ہے اور غالب آتا ہے 356 کتاب کے ساتھ تعلق نبوت کے ذریعہ قائم ہوتا ہے 388 دنیا کی بڑی بڑی قوموں کی سیاسی یا دیگر غلطیوں کی وجہ 111 کتابوں پر ایمان کا انبیاء پر ایمان سے پہلے کیوں ذکر کیا گیا 387 سب سے زیادہ نحوست کسی قوم پر عبادت سے دوری ہے 132 کراچی 56,179,437,461,592,674,843 کمزور قوموں کا اپنے ضمیر کا سودا کرنا 316 حضرت کرشن مذہبی اقوام کا انتہائی عروج کے بعد تنزل اختیار کرنا 317 مذہبی علم سے بے اعتنائی کے نتیجہ میں قوم کا دوحصوں میں تقسیم ہونا ، عامۃ الناس اور مولوی مغربی اقوام میں حسد کی بیماری 512 667 ری کشتی نوح 537 576 28,47,201,901 151,306,651 کشمیر کے حوالہ سے ایک ہندوستانی سیاستدان کو مشورہ 331 موہنجو داڑو کے آثار سے معلوم ہونا کہ تمدن کے عروج کشمیری ایک مظلوم قوم ہے جو جہاد کر رہی ہے 331

Page 1062

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 50 توحید کی طرف بلانے کا آغاز کعبہ سے ہوا کفر کفر کی تعریف کفر کی حقیقت 105 ریزولیوشن اور امریکہ میں بیت الرحمان کے پاس اس کی تعمیر اور افتتاح 772 کینیڈا کے جلسہ سالانہ کی کامیابی اور برکات کا تذکرہ 493 کفر کے قریب کر دینے والے دو علامتیں تکبر بھی کفر ہے، اس کا عائلی معاملات میں نقصان 761 478 242 761 کینیڈا کے دورہ کے دوران وقت کی کمی کے باعث انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں نہ رکھنے کا ارشاد 750 کینیڈا میں بچیوں کے ساتھ حضور کی مجلس سوال و جواب 492 ذکر الہی کے ترک اور غفلت کا نام کفر ہے 242 کینیڈا میں تربیتی لحاظ سے ضرور تیں کینیڈا کے سفر کی کامیابی کا تذکرہ 492 491 کلام طاہر کلکتہ کلنٹن کلیات اقبال کوریا 999 899,900 960 777,860 691,856 امریکہ اور کینیڈا کے پانچ ہفتوں کے دورہ کے بعد واپسی اور دورہ پر تبصرہ 809 شمالی امریکہ کے دونوں ممالک کو اصحاب کہف والرقیم پر تحقیق کی تلقین مجرات کو ماگی 580,651 کویت 651,673,843 291 کہانی الف لیلہ ایک لازوال کہانی 980 کوریا کی جماعت کا تحریک جدید کے حوالہ سے جائز شکوہ 849 گروس گیرا ؤ جرمنی ٹرینیڈاڈ کی جماعت کی سورج چاند گرہن نشان کے سوسال پورے ہونے پر تقریبات چاند سورج گرہن کے متعلق گوئٹے مالا میں اجتماع 254 حضور کے زمانہ میں قادیان میں سورج گرہن اور نماز علی بابا چالیس چور کی کہانی دنیا کی ہر زبان میں متعارف ہے 980 کسوف و خسوف کھانا 189 1994ء میں ٹھیک سوسال بعد پھر خدا کا سورج وچاند گرہن حدیث میں مذکور کھانا کھانے کے بعد کی دعا اور اس کا فلسفہ 9 کا نشان دکھاتا گناه 191 734 41,272,693 627 گرہن 272 کلو اجمیعا میں بہت سی برکتیں ہیں براله کیلگری 969 691 749 گناہوں کی بخشش سے مراد 117 کیموفلاج انسانوں اور جانوروں میں کیموفلاج کا سسٹم کیندره پاژه 301 490 308 کینڈا 245,525,581,591,606,729,749 رہتے ہیں گوجرانوالہ گناہوں کے شہر سے ہجرت کرنے والے شخص کی تمثیل (حدیث )414 ایک کام سے ساری عمر کے گناہ بخشوائے جانے والی احادیث کی پر حکمت تشریح زندگی کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوتے 770,789,842,949 گورنمنٹ کالج لاہور 123 221 59,322,525,556,843 794 1994ء کی شوری میں ایم ٹی اے کے ارتھ سٹیشن کے لئے گوئٹے مالا 254,427

Page 1063

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 گھانا گھر سے نکلتے وقت کی دعا گھر میں داخل ہوتے وقت کی دعا گی آنا گیمبیا ل،م لاڑکانہ لاس ا 51 674 ہر لذت کا آغاز اللہ ہے 42 36 ہماری تمام اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں، اس کی نہایت ہی لطیف تشریح 35 | ملک لطیف خالد صاحب 572 234,844 لطیفہ 28,41,47 581 پیالی لے کر تیل خریدنے والے بے وقوف کا لطیفہ 764 981 لندن ریجن لندن 592,709,767,775,789,795 | لودھراں ملک لال خان صاحب لائکپورا یگر بھچر کالج 581 56 56,118,179,189,191,358 437,686,843 حضرت لوط لیلة القدر لاہور لاؤڈ سپیکر نظام کے صحیح کام نہ کرنے پر حضور کی نصیحت لباس لباس کا بنیادی فلسفہ جو قرآن نے بتایا ہے لذت لذتوں کو اللہ کی طرف منتقل کرنے کے جہاد کا آغاز 715 717 4 56,381,774,967 59,534 559 جمعہ ہر روز ایک لیلۃ القدر کا نشان لے کر طلوع ہوتا ہے 770 لیلۃ القدر کی علامتوں کا آپ کو دکھائی دینا 163 874 580 لین دین لین دین کی بابت احادیث 652 48 لین دین کے معاملات میں افراد جماعت کی طرف سے بھی شکایتیں احمدیت کے لئے یہ لا متناہی روحانی لذتوں کا دور ہے 142 لین دین کے معاملات میں صبر 654 763 اس سوال کا جواب کہ کیسے انسان اپنی تمام لذات خدا لین دین کے معاملات میں مشرقی ممالک کی کر یہ صورت 653 میں ڈھونڈے 42 43 لین دین میں حسد کی وجہ سے اخلاقی برائیاں مسلمانوں کو غیروں کا مال کھانے سے ممانعت اصل لذت بقاء اور اپنے وجود کے پھیلنے میں ہے جتنی بھی لذتیں کھانے پینے اور لمس سے متعلق ہیں ان ہندوستان سے ایک غیر مسلم کا حضور کو خط کہ احمدی نے سب کا تعلق اپنے وجود کی نشو ونما اور اس کی بقاء سے ہے 44 یہ غلط سلوک میرے ساتھ کیا جماعتی تاریخ میں حیرت انگیز واقعات کی حقیقی لذت کے متعلق نصیحت خدا کے بندے دولذتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ساری جسمانی لذات کا انتہاء خدا کی ذات شہوانی لذت کی حقیقت 578 28 یہود پر لعنت کی ایک وجہ، غیروں کے مال کھانا جرمنی سے ایک ہندو عورت کا حضور کو خط کہ ایک احمدی نے میرے پیسے دبالئے ہیں 49 مارچ مارخم 27 ماریشس 666 655 654 655 654 572 1,8,770,950 3 مادی لذات کا بعض صورتوں میں بڑی بھیانک دکھائی دینا 52 ماریشس کی جماعت کے اخلاص کی تعریف ہر لذت خدا کی ذات میں ہے 27 ماریشس میں پارلیمنٹ کا ڈش انٹینا کی اجازت دینا 985

Page 1064

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 ایم ٹی اے کے حوالہ سے ماریشس کا اعزاز مال / مالی قربانی مال کی حرص نہ ہونے سے انسان کا بے شر ہونا 3 298 215 52 52 بیماریوں کے متعلق ایجادات مرض دور کرنے کی بجائے دولت سمیٹنے کی خاطر ہیں خدا کی راہ میں خرچ کرنا کئی طرح سے ہے 214 150 دوسروں کے مالوں کی طرف دیکھنے کے نتیجہ میں حسد 905 مال کی محبت کا دنیا میں بڑھنا مال کے بالمقابل اولا د ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے 215 صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا ( حدیث ) مال کے بڑھنے سے فائدہ کی بجائے بعض دفعہ نقصان ہونا 838 غریب بھائیوں کے لئے حصہ نکالنے کی تعلیم مال کے خرچ کرنے کے حوالہ سے احمدیت اور اس کے غریب طبقہ کو دوتا کہ سرکولیشن جاری رہے مسیح کی تمثیل کہ دولتمند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل مخالفین مین بین فرق مال میں برکت کے حصول کا ایک طریق 144 602 ہونا مشکل ہے مالی قربانی کا بوجھ اٹھانے کے حوالے سے جماعت کا امتیاز 771 ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں مالی قربانی کا رمضان اور جنت سے تعلق مالی قربانی کرنے والوں سے بعض لوگوں کا حسد مالی قربانی میں امراء کا رویہ 145 839 836 خون، آبرو، مال 857 598 863 ہندوستان میں ہندو تاجروں کے خیراتی ادارے اور مال میں اضافہ 146 904 917 تیموں کے مال کی حفاظت، اقتصادی بقا کا ایک اصول 263 مالی قربانی میں جماعت احمدیہ کی دو نمایاں باتیں 833 مالی قربانی میں دن بدن نفس کی کنجوسی کا معیار جماعت امام مالک میں گر رہا ہے 841 ماں 164,681,937 ای قربانیوں کے نتیجہ میں مل کا بڑھنا اور قر آن کریم ماں کی بچے سے محبت سے اللہ کی محبت کا مضمون 837 26 بچوں کے ماؤں کی بات سب سے کم بری منانے کی وجہ 419 سکی سب بری کی ایک تمثیل اگر سارے وعدہ کنندگان کی وصولی پوری کر لیں ما یا قوم تو ہمیشہ وصولی وعدوں سے بڑھ جاتی ہے غرباء میں قربانیوں کا معیار اونچا ہے قربانیوں کے جذبہ کو قائم رکھنے کا طریق 842 صاحبزادہ مبارک احمد صاحب 836 835 ان کی وفات پر حضرت مسیح موعود کا صبر مباہلہ 982 764 511 اللہ ایک لاکھ یا ایک ڈالر کو نہیں دیکھتا وہ دل کے جذبہ تمام دنیا کے مولویوں کو ایک قسم کے مباہلہ کا چلنج حضور کے مباہلہ کے چیلینج پر علاء میں کھلبلی مچنا اور بہانے بنانا 511 پر نظر رکھتا ہے اللہ کی راہ میں اعلیٰ ذوق کہ مال کم ہو یا زیادہ ہر حال میں خرچ کرنا ہے 765 848 متی مجددین اللہ کی رضا کی خاطر اموال کو پیش کرنا سب سے اعلیٰ غرض 832 ن کے سلسلہ کا اسلام میں آنا ید نے انسان کی زیادہ تر جد و جہد اموال کمانے میں ہے 215 ایم ٹی اے کے اجراء پر بغیر مانگے مخلصین کا روپیہ نچھاور مجلس کی امانت کا حق نہ رکھا جائے تو وہ بھی غیبت بن 144 جاتی ہے کرنا اور خواتین کا زیور قربان کرنا باطل کے ذریعہ لوگوں کا مال کھانے والوں کی علامت 143 مجلس میں بیٹھنے کے آداب بھائی کی نیو بت میں مال کی حرص اور بد دیانتی کا قوموں پر اثر 420 مجلس میں سرگوشی سے ممانعت کی تعلیم 146 469 884 394 397

Page 1065

53 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 281 مجلس میں کسی کے نقص پر بے ہودہ مذاق کی عادات 760 عفو کا محبت سے گہراتعلق ہے ذکر الہی والا شخص دنیا کے ذکر والی مجلس میں بیٹھ ہی نہیں سکتا 217 للہی محبت سے طاقت اور اطاعت کی روح کا حصول 430 504 للهی محبت کی عالمگیریت رات کو دیر تک مجلس لگانے کی ممانعت رات کو مجلس لگانا روزے کے آداب کے خلاف ہے 114 ماں کی بچے سے محبت سے اللہ کی محبت کا مضمون آنحضرت کا ایک شخص کے لئے مجلس میں جگہ خالی کرنا 396 مشورہ اور محبت کا تعلق آنحضرت کی نصائح سے عاری مجلسیں مجلس تحفظ ختم نبوت 392 مصنوعی محبت ایک منافقانہ تصور ہے 431 26 291 878 نظام جماعت اور نظام جماعت چلانے والوں سے ادب اس کے نائب ناظم کا حدیت کے خاتمہ کے حوالہ سے اعلان 1000 اور محبت کا رشتہ باندھیں مجمع البیان فی تفسیر القرآن مجموعہ اشتہارات مجنوں مجیب الرحمان صاحب محاسبه 219 212,405 874 696 874 نظام جماعت کے نتیجہ میں محبت کا وسعت اختیار کرنا 875 نفرتوں اور محبتوں کے حوالہ سے مسلمانوں کو اپناز او یہ درست کرنے کی تلقین آدمی اس کیسا تھ ہوتا ہے جس سے اس کو محبت 461 477 449 483 470 436 447 459 449 ہوتی ہے (حدیث) ہر ذات کے اپنے محاسبہ سے زیادہ بابرکت اور کوئی چیز نہیں 1005 آنحضرت سے محبت کے جھوٹے دعویدار محبت محبت الہی کے حصول کا طریق محبت اور ذکر کا گہرا تعلق محبت کا رستہ سب رستوں سے آسان ہے محبت کے نتیجہ میں باوجود فاصلوں کے بڑھنے کے دل اور زیادہ قریب ہو جاتے ہیں وہ محبت جو ہی کہلاتی ہے اس سے مراد 433 25 434 495 504 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے (حدیث) باہمی محبت اور مودت کا انجام سچی محبت کی علامتیں محرم الحرام کی فضیلت اور اس مہینہ میں اہل شیعہ کے اس کو اطلاع کرو جس سے تمہیں محبت ہوگئی ہے (حدیث )438 خلاف حرکتیں محرم کے حوالہ سے سنیوں کو نصیحت محرم کے مہینہ میں نفرتوں کا بڑھنا 27 752 اللہ کی محبت کے حصول کا طریق اللہ کی محبت کے نتیجہ میں مخلوق سے طبعی محبت ایک اخباری نمائندہ کا حضور سے سوال کہ کیا واقعہ سب محرم میں اہل بیت کے حوالہ سے وہ اعلیٰ بات سے محبت رکھتے ہیں اور نفرت کسی سے نہیں ایمان اور نفاق کی ایک نشانی انصار سے محبت اور بغض ہے (حدیث) بھائی سے محبت کے بارہ میں اسلامی تعلیم تحفہ دینے سے محبت کا بڑھنا 440 404 404 937 جس کا اظہار دوسروں کی طرف سے نہیں کیا جاتا 458 حضرت محمد مصطفی عمل الله ایک عورت جو آپ کے عقد میں آئی اس کا خدا کے نام پر آپ کو اپنے پاس آنے سے روکنا 681 صلح حدیبیہ کے وقت آنحضرت کا حج نہ کرنے اور سب سے افضل عمل اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر بغض 404 قربانیاں و ہیں کرنے کا فیصلہ اور صحابہ کی حالت صحابہ اور اہل بیت محبتوں کے پیغامبر تھے 451 289 آنحضرت ایک لمحہ کے لئے بھی نماز سے غافل نہ ہوئے 247

Page 1066

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 آنحضرت پر زبان کے ہتھیاروں سے حملہ آنحضرت تمام بچوں سے بڑھ کر بچے تھے آنحضرت تمام عارفوں کے سردار ہیں 54 943 720 33 دور ہوں 119 آنحضرت کا صحابہ کی کمزوریاں دور کرنے کا انداز 668 آنحضرت کا عفو کا سلوک آنحضرت زمانہ کے امام ہیں اور وہی امام طاقتور ہے جو آنحضرت کا عیسائیوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرانا آنحضرت کا غریبوں، بے سہارا عورتوں اور مسکینوں 323 387 کے ساتھ چلنے کا انداز آپ کی غلامی کی امامت ہے آنحضرت زنده قرآن آنحضرت سب سے بڑھ کر انسانی نفسیات کے عالم 301 آنحضرت کا غیر مسلموں سے حسن سلوک آنحضرت سب سے زیادہ الہی محبت اور بغض رکھنے والے 441 آنحضرت کا کریمانہ غضب آنحضرت سے سچا تعلق اس زمانہ کے امام سے بے تعلق آنحضرت کا لوگوں کو زندہ کرنا کے بغیر نہیں ہوسکتا آنحضرت سے عشق کے تقاضے آنحضرت سے محبت کے جھوٹے دعویدار 464 408 449 282 444 360 443 444 30 آنحضرت کا مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے ایک شخص کو چھڑی کی نوک سے پیچھے کرنا اور حضور کا اسے بدلہ کا کہنا 921 آنحضرت کا مخلوقات میں کوئی خانی نہیں آنحضرت کا اپنے غلاموں اور ماتحتوں سے حسن سلوک 687 آنحضرت کا معراج روحانی تھا آنحضرت گا اپنے نواسوں سے پیارکا انداز اورصحابہ کی کیفیت 450 آنحضرت کا موقع اور محل اور پوچھنے والے کے کردار آنحضرت کا ازواج کے سامنے کسی کی بات کرنا اور اُن کو کے مطابق جواب دینا 53 914 393 شک گزرا کہ نعوذ باللہ غیبت تو نہیں ہو رہی 869,877 آنحضرت کا موقع اور محل کی مناسبت سے نصیحت فرمانا اور اسکی روشنی میں سب سے اچھے عمل کی بابت سوال کئے 161 آنحضرت کا اعتکاف آنحضرت کا ایک شخص کے لئے مجلس میں جگہ خالی کرنا 396 جانے پر حضور کے جوابات آنحضرت کا ایک موقع پر پانچ نمازیں اکٹھی پڑھنا 500 آنحضرت کا نصیحت کا انداز آنحضرت کا تبلیغ کیلئے تکلیفیں اٹھانا آنحضرت کا تشکیل کردہ معاشرہ 740 370 آنحضرت کا نور علی نور ہوتا آنحضرت کا وصال کی خبروں کو صحابہ سے چھپانا 726 393 197 166 آنحضرت کا تقویٰ کے لئے اپنی چھاتی کی طرف اشارہ فرمانا892 آنحضرت کے اپنے غلاموں سے حسن سلوک کا نمونہ 363 آنحضرت کا تمام وجو دسر تا پا حسین تھا 38 876 ادائیگی کا حکم آنحضرت کا جانوروں پر رحم آنحضرت کا جبرائیل کے ذریعہ قرآن کی دہرائی کرنا 104 آنحضرت کی انکساری کا معراج 96 آنحضرت کو جنگ کی حالت میں بھی با جماعت نماز کی آنحضرت کی اولاد سے خونی رشتوں سے بڑھ کر پیار آنحضرت کی ایفائے عہد کا ایک واقعہ آنحضرت کا جنگوں میں ذکر الہی کو بلند کرنا آنحضرت کا حلف الفضول کے معاہدہ میں شامل ہونا اور کرنے والے 596 499 31 446 597 آنحضرت کا خدا کے عشق میں ساری زندگی دکھ برداشت کرنا 36 آنحضرت کی ایک دو نصیحتیں ہی ساری زندگی کی کایا پلٹ آپ کا ایک غریب کی مدد کرنا آنحضرت کا ذکر الہی آپ کا اعجاز تھا آنحضرت کا رمضان میں تبل 87 115 سکتی ہیں آنحضرت کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی قیامت تک 728 آنحضرت کا صحابہ کو بار بار مدینہ آنے کا فرمانا تا کہ زنگ کے لئے بنی نوع انسان کے امن کی ضمانتیں ہیں 270

Page 1067

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 55 55 آنحضرت کی خدا سے تعلق کے حوالہ سے دنیا سے قطع 161 آنحضرت کے اخلاق میں نہ تفریط نہ افراط 417 آنحضرت کے اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے کی تلقین 473 تعلقی کے نمونوں سے مراد آنحضرت کی دعاؤں کا فیض احمدیت بن کے ابھرا ہے 369 آنحضرت کے ایک سال رمضان میں اعتکاف نہ بیٹھنے کی وجہ 162 آنحضرت کی دوعمروں کے لئے دعا آنحضرت کی رافت و رحمت آنحضرت کی روحانی اولاد 441 415 452 آنحضرت کے دکھوں کی وجہ 237 آنحضرت کے دم سے تمام دنیا کو شفا مل سکتی ہے اور آپ کے اعجاز سے مردے زندہ ہو سکتے ہیں 87 آنحضرت کی زندگی کا ایک لمحہ بھی گھاٹے والا نہیں تھا 22 آنحضرت کے ذریعہ مومنین کے دلوں میں محبت کا پیدا ہونا 280 آنحضرت کی زندگی میں ذکر کے ساتھ ساتھ مزاح کا پہلو 24 آنحضرت کے ذکر رسولاً کہلائے جانے کی وجہ آنحضرت کی ساری رات کا ذکر میں صرف ہونا 74 161 آنحضرت کے رحمت ہونے کی ایک نشانی آنحضرت کے رحمۃ للعالمین ہونے کی وجہ 35 280 875 آنحضرت کی سنت جو حدِ اوسط ہے آنحضرت کی سنت سے ثابت کہ غریبوں کی ضرورتوں کو آنحضرت کے ساتھ اٹھائے جانے والوں میں شمار ہونے 128 کی پہچان 483 پورا کرنا نیکی تھی آنحضرت کی غلامی میں پیدا ہونے والے عباد کی جنت 54 آنحضرت کے سارے عرب کو ایک ہاتھ پراکٹھا کرنے کا راز 583 آنحضرت کی مسلمانوں کو حبل اللہ سے چمٹے رہنے کی نصیحت 390 آنحضرت کے سوا تمام مذاہب میں کوئی نبی نہیں جس نے آنحضرت کی ناموس کی سب سے بڑی محافظ احمدیت ہے 531 کسی اور نبی کی تصدیق کو اپنے ایمان میں شامل کیا ہو 536 401 آنحضرت کے صحابہ کے لئے استغفار کی حقیقت 285 آنحضرت کی نصائح حبل اللہ ہیں آنحضرت کی نصائح زندگی کے ہر حصہ پر چھائی ہوئی ہیں آنحضرت کے عشاق کا عالم ، حضرت حسان بن ثابت اور ہر نفسیاتی بیماری سے ان کا تعلق ہے آنحضرت کی نصائح کی روشنی میں سینوں کی ظلمات کو دور کریں 927 آنحضرت کے غزوات میں اصل قوت اللہ کا ذکر تھی 401 390 993 کے اشعار آنحضرت کے فیض کا ابھی تک جاری رہنا آنحضرت کے کلام کی عظمت 39 86 389 127 آنحضرت کی نصیحت کا انداز آنحضرت کی نصیحت کے اثر کرنے کی وجہ آنحضرت کی نصیحتوں میں ادنی سا تضاد نہیں ہے 392 آنحضرت کے مخالفین کا کہنا کہ عشق محمد ربه 83 آنحضرت کی وساطت کے بغیر قرب الہی کا تصور بے حقیقت ہے آنحضرت کی وصال کے وقت کی دعا آنحضرت کی ہتک پر مشتمل قرآنی آیات کا تذکرہ جن میں کہیں انسان کو سزا کا اختیار نہیں دیا گیا 584 53 561 آنحضرت کے نماز کے بعد کثرت سے ذکر کرنے کی حقیقت 243 آنحضرت کے نور کے ارفع کئے جانے کی دو وجوہات 208 آنحضرت کے وجود سے محبت اور آپ کو نکالنے سے تفرقہ کا پیدا ہونا آنحضرت کے وجود کی برکتیں پاکستان میں آنحضرت کی ہتک کی سزا موت ہے 512 آنحضرت کے وہ واقعات جن میں آپ نے صحابہ کو 247 432 585 انحضرت کی آخری نماز کی کیفیت چھڑی سے پیچھے کیا یا سمجھایا اور اُن صحابہ کا بدلہ لینے کا انداز 920 آنحضرت کے اپنے بیٹے کو حد میں اتارتے وقت آنسو آنحضرت کے ہاتھ پر تمام قوموں کو امت واحدہ بنایا جانا تھا 105 جاری ہونا 766 آنحضرت مجسم ذکر تھے آنحضرت کے اٹھتے ہی تمام عرب میں قیامت برپا ہونا 585 آنحضرت مجسم رحمت 40,243 368

Page 1068

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 آنحضرت مجسم قرآن تھے 56 321,407 بدر کی جنگ میں آنحضرت کی گریہ وزاری اور اس کا نتیجہ 86 آنحضرت نے جیسے اپنی امت کے اخلاق کی اصلاح کی ترقی اور اعلیٰ مراتب کی خاطر اخلاق مصطفوی کو اپنائیں 54 379 تقومی آنحضرت سے سے سیکھنا ہے 669 565 دیگر سارے انبیاء نے ایسا نہیں کیا ہوگا آنحضرت نے آخری سال میں دن کا اعتکاف کیا 166 تمام انبیاء سے جو مذاق کئے گئے وہ سب ایک طرف غزوہ حنین کے دوران ایک صحابی سے آپ کے پاؤں کا اور آنحضرت سے بدسلو کی ایک طرف ہے زخمی ہونا اور آپ کا اسے بدلہ میں 80 بکریاں دینا 922 توحید فی الوہیت اور توحید فی الرسالت کی حقیقت 537 آنحضور کا دل طور کے طور پر جبرائیل کا انسانی شکل میں آنحضرت کی مجالس میں آنا 474 آنحضور کو ہر عذاب سے پناہ دی جا چکی تھی مگر پھر بھی جماعت کو غور سے اور ڈوب کر آنحضرت کے ذکر کو پڑھنے آگ کے عذاب سے پناہ مانگنا آنحضور کے اخلاق کو از سر نو پیدا کرنے کے لئے امام 198 14 424 کی نصیحت جنگ احد کے موقع پر آنحضور کا بتوں کے نعرہ پر خاموش نہ رہ سکتا آنحضرت کی قلبی کیفیت مہدی کی پیدائش آنحضور کے اعتکاف کے دوران کسی امر کی بابت گفتگو جھوٹے خدا بنانے والوں کو متنبہ کرنے کے وقت اور مسجد کے دروازہ تک آپ کا چھوڑ نے جانا اخلاق سے متعلق آنحضرت کی نصائح کو بڑی قدر کی نگاہ حضرت داؤد کی دعا آنحضرت کے دل کی آواز تھی دعاؤں اور عبادت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سے دیکھیں اس وقت ایک ہی امت واحدہ ہے جو آنحضرت کی طرف منسوب ہونے کا حق رکھتی ہے اسلام کا غلبہ خلق محمدی کے ساتھ ہو گا 165 416 572 658 اخلاق مصطفوی ذکر الہی کرنے کے طریق آنحضرت سے سیکھیں ذکر الہی کے حوالہ سے آنحضرت کا خالق اور مخلوق کا اسلامی وحدت اور توحید کا پیغام، آنحضرت کی ذات پیدا کردہ تصور 450 ذکر نے سب سیز یادہ رفعت آنحضرت کو بخشی کے حوالہ سے ایک صحابی کو حضور کا چھڑی کی نوک سے سمجھانا اور اس کا رمضان میں آنحضرت کی سخاوت کی حالت رمضان میں آنحضرت کی عبادتوں کا عالم 921 450 8 535 730 64 468 31 237 31 128 114 19 11 536 462 حضور سے بدلہ لینا اور جسم چومنا اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آنحضرت ہیں سفر سے واپسی کی آنحضرت کی دعا جنہوں نے لوگوں کو آپس میں باندھا شام کے وقت کی آنحضرت کی دعا امت کی یہود سے مشابہت سے متعلق آنحضرت کی پیشگوئی 156 شرک فی الرسالت سے مراد اونٹ کی خراب حالت دیکھ کر آپ کا سخت ناراضگی کا اظہار 684 صحابہ کو جنگ کے لئے بھیجتے ہوئے آنحضرت کی نصائح 442 ایک دعا سے آنحضرت کی فطرت کی صداقت کا ظاہر ہونا 17 صحابہ میں صفت محمدیہ کا رواج پانا ایک غزوہ میں آنحضرت کا خوراک کی کمی کے باعث صفات الہیہ سب سے زیادہ آنحضرت میں سب کچھ اکٹھا کرنا اور پھر برابر تقسیم کرنا ایک مرتبہ صبح کی نماز میں حاضری کم ہونے پر آنحضور طائف سے واپسی کے وقت ایک مشرک کا آپ کو پناہ دینا 702 عاجزی اختیار کرنے پر آنحضرت کی رفعت میں اضافہ 859 ایمان کی سچائی اور آنحضرت سے وابستگی کی کچی علامت 448 عائشہ کا اعتکاف کی حالت میں حضور کے سر پر تیل لگانا کی تکلیف 939 321 جلوہ گر ہوئیں 410

Page 1069

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 اور کنگھی کرنا 57 163 محرکات اور مختلف پہلوؤں کا ذکر عبد اللہ بن ابی بن سلول کا طبعی موت مرنا اور آنحضرت محمد اجمل کی اس کے جنازہ میں شمولیت 568 شیخ محمد اسماعیل غزوہ بنی مصطلق کے موقعہ پر عبداللہ بن ابی بن سلول کی میر محمد اسماعیل صاحب 567 گستاخی پر اس کے بیٹے کا رد عمل محمد اعظم اکسیر صاحب 443 محمد بن محمد بن مسلمہ فانی فی اللہ کی دعاؤں کا اعجاز 513 532 77 116 188 681 قرض کے حوالہ سے ایک یہودی کی سخت کلامی اور آنحضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے 489 کا اسوہ 931 محمد رافع قریبی صاحب قرآن سے محبت آنحضرت سے محبت کے بغیر نہیں ہو سکتی 408 حافظ محمد سلیم قرآن کریم کے سجدہ میں آنحضرت کی دعا 10 چودھری محمد علیسی صاحب مبلغ سلسلہ 581 532 766 767 56 224 450,475,494,552,681,740 119 قرآن کی روح کے حصول کے لئے آنحضرت کی سید محمد سرور شاہ صاحب 407 | سید محمود اللہ شاہ صاحب روح میں مدغم ہونا ضروری ہے کفار کا با وجود دشمن ہونے کے یہ کہنے پر مجبور ہونا کہ محمود آباد عشق محمد ربه 36,97 مد پینه کمزوری کی حالت میں آنحضرت کی غیر معمولی حفاظت مدینہ تو ایک بھٹی کی طرح ہے اور اسلام کے متعلق خوشخبری، غار ثور کا واقعہ لیلۃ القدر کی علامتوں کا آپ کو دکھائی دینا 574 163 مدینہ کے گردصحابہ کا خندق کھودنا 575 انصار کو پہلے آرائیں کہا جاتا تھا بعد میں ان کا غلبہ 335 مولوی خود آنحضرت کے بعد نبوت کے قائل ہیں اور مذاق 538 بھائی سے تحقیر آمیز مذاق نہ کرنے کی تعلیم 759 دوسری طرف شرک فی الرسالت کا عقیدہ ہے مہدی کی صداقت کے متعلق آنحضرت کی چاند اور مجلس میں کسی کے نقص پر بے ہودہ مذاق کی عادات 760 187 ہندو پاک میں تحقیر آمیز مذاق کی کثرت سورج گرہن کی پیشگوئی میں بھی نہیں بخشا جاؤں گا جب تک فضل نہیں ہوگا 63 مذہب ہر موقعہ اور محل کی نسبت سے آپ کا ذکر الہی کرنا حضرت اقدس کا آنحضرت کے عشق میں حسان بن ثابت کے اشعار پڑھنا آپ کی افضلیت کی وجہ آنحضرت زنده قرآن آنحضرت سے بہتر ذکر کرنے والا پیدا نہیں ہوا توہین رسالت کے حوالہ سے مولویوں کا رویہ سب سے زیادہ ناموس رسول کی محافظ اور علمبردار جماعت احمد یہ ہے ناموس رسول کے نام پر چلائی جانے والی تحریک کے 8 475 197 583 11 21 515 مذاہب کا آخری مقصد اللہ سے بندے کی محبت پیدا کرنا ہے، اس محبت کا اثر 759 235 مذاہب کے بگڑنے کے وقت روحانیت کا فقدان 246 مذہب کی دنیا میں انسان کا ہر انسانی دائرہ میں با اخلاق 719 ہونا ضروری ہے مذہب کی دنیا میں ایک عام خانہ جنگی کب شروع ہوسکتی ہے 523 مذہب کے سفر کے آغاز کی داستان 48 مذہب کے نام پر مشرق میں زیادتیاں 653 مذہبی اقوام کا انتہائی عروج کے بعد تنزل اختیار کرنا 317 مذہبی علم سے بے اعتنائی کے نتیجہ میں قوم کا دو حصوں میں

Page 1070

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 تقسیم ہونا ، عامتہ الناس اور مولوی مذہبی قوموں کے انحطاط کی تاریخ کا خلاصہ اسلام ایسا مذہب ہے جس نے تمام مذاہب کے انبیاء کی عصمت کا اعلان کیا ہے 58 512 512 521 بابری مسجد اور احمدیوں کی مساجد کے انہدام میں فرق 693 بابری مسجد کے حق میں مشرک عدالت کا فیصلہ اور احمدیوں کی مسجد کے انہدام پر موحد عدالت کا شرک کے حق میں فیصلہ 696 بعض مذاہب کے عقائد میں خدا کی کھلی کھلی تو ہیں ہے 552 کے تاثرات تمام مذاہب کا اعلیٰ مقصد 434 تمام مذاہب میں اعتکاف کا تصور اور اس میں غلو 160 حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ مذہبی حالتوں کی مختلف منازل 740 جلسہ کے ایام میں قادیان کی مساجد کا جاگنا اور غیروں چٹا گانگ کی احمد یہ مسجد کی تعمیر کا آغاز راولپنڈی میں عید گاہ روڈ والی مسجد کا انہدام 501 328 692 غانا کے ایک علاقہ میں تبلیغ کے بعد مسجد کی تعمیر کی بنیاد 694 مومن کا دل مسجد میں ہے ہر مذہب کا خلاصہ اور لب لباب اللہ سے اور بنی نوع سے ہدایت سے خالی مساجد 32 695 تعلق اچھا ہونا ہے مرا کو مردان حضرت مریم 711 324 آخری زمانہ میں مساجد کے ہدایت سے خالی ہونے کی پیشگوئی 693 مسجد نبوی 560,561 آنحضرت کا عیسائیوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرانا مزدور مسعود احمد مزدور کی مزدوری مکمل نہ دینے والے سے خدا کی سخت باز پرس 758 شیخ مسعود الرحمان صاحب مزدور کے نزدیک مزدوری کم دینے پر آنحضرت کی مالک مسعود حیات صاحب ملک مسعود صاحب کی دیانتداری کا ذکر فرمانا 719 533,534 بر مسعود مبارک شاہ صاحب 33 لله الله 32 708 181 روز نامہ مساوات مسجد سے تعلق سے نور کا حاصل ہونا مسجد کی طرف جانے کی دعا مسجد کے انہدام پر وہ انتقام جو راولپنڈی کی جماعت کو لینا چاہئے مسجد میں پانچ وقت جا کر عبادت کا حکم مسجد میں داخل ہوتے وقت اور باہر جانے وقت کی دعا میں رحمت اور فضل کے الفاظ کے فرق میں حکمت مسجد میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کی دعا مسجدوں کو اجاڑنے کا بدترین ظلم اعتکاف کے دوران مسجد میں سرمنڈوانے ، حجامت کروانے کی بابت علماء کے فتاوی ایک مسجد کے بدلے خدا مسجد میں عطا فرمائے گا 34 34 692 164 699 132 249 444 118 118 78 810 56 29,33,120,171,172,257 375,361,397,402,403,408,415,485,652 665,677,681,685,693,763,822,823 857,872,883,884,892,893,915,939,943 مسلمان مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے 898 296 مسلمان محفوظ رہیں (حدیث) مسلمانوں میں پائی جانے والی چند خرابیوں کا ذکر 156 اسلامی تصور کے مطابق مسلمان بھائی بھائی ہیں 343 اللہ کی جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کا سود افروخت کرنا 223 تین چیزیں جو ہر مسلمان کی دوسرے مسلمان پر حرام ہیں 904 حدیث کی رو سے مسلمان کی تعریف 296

Page 1071

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 خوارج کے مسلمانوں پر حملہ کی پیشگوئی 59 941 ہمسائیوں سے حسن سلوک کے حوالہ سے مسلمان کی تعریف 605 | مظفر احمد صاحب نائب امیر امریکہ مظفر گڑھ یہود کا سر منڈانا اور داڑھیاں حد سے زیادہ بڑھانا ، مسلمانوں کو اس کے الٹ کرنے کی تلقین 443 مظلوم اقبال مسمریزم حضرت معاذ بن انس مسمریزم کے لئے will power کی اہمیت مسند احمد بن حبل مسی ساگا ایسٹ (کینیڈا) 123,429,485,664 862,876 572 994 حضرت معاذ بن جبل معاشرہ معاشرتی اور ذاتی برائیوں کا اسلام کو نقصان 608 810 691,843 78 862 675 342 معاشرہ سے بہت سے فسادات دور کرنے کا ایک طریق حضرت مسیح ناصری علیہ السلام ( نیز دیکھئے حضرت عیسی) قطع تعلقی کرنے والے سے تعلق قائم کرنا مسیح کی ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا آگے کرنے کی تعلیم 417 معاشرہ کا امن بگاڑنے والے خطرات کا آنحضرت کے مسیح کی حقیقی عظمت کی بجائے رومن متھ میں تبدیلی 738 الفاظ میں ذکر 293 معاشرہ کی بہت سی بدیوں کے پھیلنے کی وجہ مسیح کا ٹھوکر کی نسبت قول مسیح کی تمثیل که دولتمند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل معاشرہ میں ایک دوسرے پر ظلم 146 ہونا مشکل ہے بنی اسرائیل کا معافی کو بھولنا تب مسیح تشریف لائے 417 حواریوں کا مسیح سے مائندہ مانگنا اور عیسائیت کا دنیاوی 862 893 63 901 754 اپنے سے اوپر والے لوگوں کو دیکھنے سے نقصان اقتصادی بحران کے وقت معاشروں کی اخلاق حالت 657 بد دیانتی کا سارے معاشرہ کو گندا کرنا 657 نعمتیں تصور کرنا عیسائیت کا مسیح کو خدا ماننے کا توہین آمیز عقیدہ 737 552 جو اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے یہودیوں کا مسیح کی والدہ پر الزام گر کہیں سزا کا ذکر نہیں کیا گیا 560 عورت سے مغربی معاشرہ کا سلوک 265 800 غریبوں کو نکالنے سے ساری سوسائٹی غریب ہو جائے گی 207 آدم اور سیخ میں مشابہت مشرق بعید روز نامہ مشرق لاہور مشرق وسطی مشكوة مشوره 183 952 532 216 395,404,438,658,692 غصہ کے نتیجہ میں معاشرہ میں فساد اور جھگڑے قطع تعلقی کے نتیجہ میں معاشرہ میں فسادات آنحضرت کا تشکیل کردہ معاشرہ معاشرہ پر جھوٹ کا اثر معافی 936 882 370 135 مشورہ اور محبت کا تعلق 291 جماعت کی خاطر احمدیوں کا قاتلوں کو معاف کرنا 903 رض مشورہ کا تالیف قلب، ایک دوسرے سے محبت سے کیا حضرت معاویہ تعلق ہے؟ اس کی وضاحت مشورہ نیکی اور سچائی کے ساتھ دیا جائے مظفر 274 | معراج 331 معراج روحانی تھا 514 حضرت معرور بن سوید مغفرت 802 678,680 914 684

Page 1072

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 مغفرت کی حقیقت بخشش اور فضل کا تعلق 415 آدم کا نگا ہونا اور مغفرت سے تن ڈھانپنا مرزا مغفور احمد صاحب حضرت مقداد بن معدی کرب رض 404 911 60 میہ دعا کرنی چاہیئے کہ موت ایسی حالت میں آئے کہ شیطان جکڑا ہوا ہو 122 مرنے کے بعد روح کو جسم عطا کئے جانے کی حقیقت 52 میت پر نوحہ کرنا کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے 965 حضرت موسیٰ علیہ السلام 404 موسیٰ کا آگ سے نور کو حاصل کرنا 763 208 ملائیشیا ملتان ملفوظا ملک 105,119,139,154,286,336 موسٹی کی ہتک موسی کا روشنی کی خاطر آگ کی تلاش میں نکلنا 197 198 موسیٰ کا طور کے مقام پر ہدایت پانا موسی کو اذیتیں دینے والے یہود کا قرآن میں ذکر 456 559 450,494,1003 386,572,776 349,843 102,154,175,223,228,242,254 مختلف اسلامی ممالک میں انبیاء کی عصمت اور احترام پر مشتمل قوانین کے متعلق تفصیلی بحث 512 مولوی مولوی خود آنحضرت کے بعد نبوت کے قائل ہیں اور دوسری طرف شرک فی الرسالت کا عقیدہ ہے 538 جس حد تک ملک بیدار ہو گا جماعتی لحاظ سے اس حد تک مولویوں کا پاکستانی سیاستدانوں کی دکھتی رگ کو پکڑنا 526 اس ملک کے فائدہ کے انتظامات ہوں گے منافقت مصنوعی محبت ایک منافقانہ تصور ہے 2 878 مولویوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے گھیراؤ پران کے بیانات 519,527,530 1000 مولویوں کی جھوٹی پیشگوئیاں اور مکرو فریب نظام جماعت میں منافقت کا پیدا ہونا اور اس کی وجوہات 873 اس صدی کا آخران مولویوں کے لئے بہت بد انجام ایمان لانے کے بعد منافق بننے والوں کا قرآن میں ذکر 549 لانے والا ہے 1002 ربوہ سے حضور کی ہجرت کے بعد منافقین کی سرگرمیاں 586 امت محمدیہ کے سب مولوی بیک وقت بد بخت نہیں ہو سکتے 700 سورة المنافقون میں منافقوں کے سردار کا ذکر منڈی بہاؤالدین سی عبداللہ صاحب منصور احمد صاحب مبلغ چودھری منیر احمد مبلغ سلسله موت وہ موت جس میں ہمیشہ کی زندگی ہے 556 272 225 580,581 772 80 ایک مولوی کا نکاح پر نکاح پڑھانا اور حضرت خلیفہ اول سے گفتگو بھٹو کے خلاف مولویوں کا رویہ 540 516 پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ مولویوں کا سلوک 515 تا518 324 پردہ کے حوالہ سے مرا کو میں مسلمان علماء کا تشدد تمام دنیا کے مولویوں کو ایک قسم کے مباہلہ کا چلنج 511 توہین رسالت کے حوالہ سے مولویوں کا قرآن کو چھوڑ جس جنس کا جانور مرا ہو اس جنس کے جانور اس کو سونگھتے کرحدیثوں میں پناہ ڈھونڈنا اور چلے جاتے ہیں 24 567 حضور کے مباہلہ کے چیلنج پر علماء میں کھلبلی مچا اور بہانے بنانا 511 میرا ایک ہی بیٹا تھا خدا نے کیوں بلا لیا.اس سوال کا جواب ضیاء کے ساتھ مولویوں کا رویہ اور کینیڈا کی ایک فیملی کی مثال کل عالم اسلام میں ملائیت اور مسلمان سیاستدانوں 763 516

Page 1073

652 424 998 397 61 اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 کے درمیان ایک جدو جہد جاری ہے 514 ثریا سے ایمان کو لانے کی پیشگوئی مذہبی علم سے بے اعتنائی کے نتیجہ میں قوم کا دو حصوں میں آنحضور کے اخلاق کو از سرنو پیدا کرنے کے لئے امام مہدی کی پیدائش 1894ء کے سال میں مہدی کی صداقت کے متعلق سورج چاند گرہن کا نشان مہمان نوازی مہمان کو دروازہ تک الوداع کرنے کی تعلیم 512 514 1002 32 تقسیم ہونا ، عامۃ الناس اور مولوی ملاؤں کا سیاست میں دخل اور ناپاک منصوبے آج کل کے مولوی دو قسم کے ہیں مومن مومن کا دل مسجد میں ہے مومن کو ملنے والا رعب 85 مومن کے دوسرے مومن کا آئینہ ہونے سے مراد 880 مومنوں کی تالیف قلب کا آنحضرت سے تعلق 280 مہمان نوازی کب گناہ بنتی ہے مہمان نوازی کی بابت اسلامی تعلیم ایک صحابی کا مہمان نوازی کا واقعہ جس پر سورۃ الحشر کی مومنوں کے آپس میں تعلقات کے حوالہ سے احادیث 256 ایک آیت کا نزول ہوا حقیقی مومن بننے پر خلق آخر خدمت کے حوالہ سے مومن اور کافر کا کردار 478 میانی صاحب قبرستان 543 میر پور آزاد کشمیر طعنہ زنی کرنے والا، دوسروں پر لعنت کرنے والا نخش میر پور خاص رپورخاص حرکتیں کرنے والا مومن نہیں ہے 912 غلبہ کے حوالہ سے اللہ کا مومنین کی جماعتوں سے سلوک 94 میلیڈونیا لفظ مومن کے دورخ 604 | میوخ لوگوں کے لئے اپنے نفس کی طرح پسندیدگی پر انسان مواخات کے مومن ہونے والی حدیث کی تشریح 603 وہ سچا مومن نہیں جو کسی دوسرے کو تکلیف پہنچائے 260 مؤاخات اور قومی حقارت آنحضرت کا مومنوں کو ایک بدن کی طرح قرار دینا 377 376 377 557 21,253,673 4,328,525,592 773 425 428 338 335 335,337 مؤاخات اسلامی قدروں کے مطابق کرنی ہوگی مؤاخات صحابہ کی سنت میں سے ہے بوسنین لوگوں سے مؤاخات کے حوالہ سے ایک ضروری امر 336 قومی تعصب اور حقارت کا علاج مؤاخات موطا امام مالک 337 937 ن، و اور ان سے توقعات مونٹریال موہنجوداڑو اس کے آثار سے معلوم ہونا کہ تمدن کے عروج کے وقت قو میں مشرک ہو چکی تھیں مہدی علیہ السلام مہدی کی صداقت کا نشان ،سورج گرہن 267 673 981 نائسی تحریک نارتھ پارک ، کینیڈا 140 ناروے 334 428 291,294,975 مہدی کی صداقت کے متعلق آنحضرت کی چاند اور ناروے میں سردیوں میں لکڑیاں سجانے کا رواج 550 سورج گرہن کی پیشگوئی مہدی کی آمد کے مسلمان کیوں قائل ہیں امام مہدی کو آنحضور کا سلام 187 539 تصویر سے تصویر اتارنا اور اس سے تنوع پیدا ہونا حضور کا ناروے کا اپنا واقعہ 476 | حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب 979

Page 1074

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 خلیفة اصبح الثالث 275 62 تمام انبیاء آیات اللہ میں شامل ہیں 554 ربوہ میں ایک جلسہ پر نانبائیوں کا جھگڑا اور حضرت خلیفہ اسیح جن کے دلوں پر ہم مہر کر دیں انہیں کسی نبی کا استغفار نہیں الثالث کے ارشاد کے مطابق سب کا ایک ایک روٹی کھانا بچا سکتا اور کھانے میں برکت پڑنا ناصر احمد خان صاحب ناصر باغ جرمنی نام 940 581 627 رسالت سب سے بڑا انعام ہے 551 583 کتابوں پر ایمان کا انبیاء پر ایمان سے پہلے کیوں ذکر کیا گیا 387 کوئی نبی اپنی خدا کے اشارہ کے سوا کلام نہیں کرتا مختلف اسلامی ممالک میں انبیاء کی عصمت اور احترام پر وہ نام دینے چہائیں جن میں پیار، محبت کا اظہار ہو 343 مشتمل قوانین کے متعلق تفصیلی بحث ہندوستانی قوم نام بگاڑنے میں سب سے آگے 342 نا پیجیریا 235,969 آنحضرت کے سوا تمام مذاہب میں کوئی نبی نہیں جس نے 68 512 کسی اور نبی کی تصدیق کو اپنے ایمان میں شامل کیا ہو 536 جماعت میں بعض جماعتوں کا انتظامی مسائل کی وجہ سے نجات جماعت سے علیحدگی مگر حضرت اقدس سے وفاداری کا تعلق 970 نجات حقیقی خدا کی اطاعت میں ہے جو عبات کے بغیر نائیجیریا کے ملکی مسائل اور اس کی کرنسی کا گرنا نبوت / نبی / انبیاء نبوت حبل اللہ ہے 971 388 نبوت کی برکتیں محض نبی کی زندگی تک محدود نہیں رہتیں 433 نرمی نبوت کے نعمت ہونے سے مراد 387 نصیب نہیں ہو سکتی نحوست 180 سب سے زیادہ نحوست کسی قوم پر عبادت سے دوری ہے 132 اخلاق کی نرمی وہ ہے جو بچہ اپنے با اخلاق ، نرم رو اور خلیق کتاب کے ساتھ تعلق نبوت کے ذریعہ قائم ہوتا ہے 388 ماں باپ سے سیکھتا ہے نبی سے تعلق قائم کرنے کے تقاضے نبی کی آمد کی بابت جماعت احمدیہ کا عقیدہ انبیاء میں ایک وجہ سے غیر معمولی انکسار کا پیدا ہونا 408 539 62 رفیق اور نرمی کی تعلیم نسانی 824 823 112,799 اسلام ایسا مذہب ہے جس نے تمام مذاہب کے انبیاء انگلی نسلوں کو محفو ظ ر کھنے کا طریق کی عصمت کا اعلان کیا ہے اللہ کے مخالفین کا اللہ کی گستاخیاں کرنا انبیاء کا بشیر اور نذیر ہونا انبیاء کا خدا کے عشق میں ڈوبنا 521 554 بداخلاقیوں کا نسلوں کو تباہ کرنا نئی نسل کا بیرونی فضا میں دم لینے سے متاثر ہونا 739 نسیم مہدی صاحب 41 791 400 492 606,607 انبیاء کی تو ہین پر مشتمل آیات اور کہیں بھی انسان کے ہاتھ نشہ کے عادی بننے والوں کے متعلق ایک پروگرام کا ذکر 131 میں سزا کا ذکر نہیں کیا گیا انبیاء کی ماؤں پر الزام تراشی تمام انبیاء سے جو مذاق کئے گئے وہ سب ایک طرف اور آنحضرت سے بدسلو کی ایک طرف ہے تمام انبیاء کی عزت اور برابری کی اسلامی تعلیم 558 حضرت سیدہ نصرت جہاں 560 565 537 نصیحت نصیحت کا طریق اخلاق سے متعلق آنحضرت کی نصائح کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھیں 784 304 416

Page 1075

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 63 جماعت کوغور سے اور ڈوب کر آنحضرت کے ذکر کو پڑھنے نظام جماعت میں عفو اور سزا کا سلوک کی نصیحت 8 282 نظام جماعت میں منافقت کا پیدا ہونا اور اس کی وجوہات 873 جماعتی نصائح میں ساری جماعت شامل ہوتی ہے 990 بحیثیت جماعت غیبت سے مبرا ہونے پر نظام بھی محفوظ حسن خلق کا سفر حسن عمل سے شروع ہو گا محض زبان کی ہو جائے گا نصیحت سے نہیں رمضان سے وابستہ نصیحتوں کی ہر سال دہرائی صحابہ حضرت مسیح موعود کا نصیحت کا انداز 380 120 303 بغیر تجسس کے بھی جو باتیں علم میں آئیں انہیں عوام 879 895 میں پھیلانے کی بجائے نظام والوں کو بتائیں وہ قدریں جن کی نظام جماعت کو حفاظت کرنی ضروری ہے 369 صحابہ کو جنگ کے لئے بھیجتے ہوئے آنحضرت کی نصائح 442 حضرت نعمان بن بشیر نئے سال میں داخل ہونے سے پہلے اپنے نفس کے ناصح نعمت 994 257 اللہ کی نعمتوں کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا 375 کو بیدار کریں وہ ناصح جس کی نصیحت پہلے اس پر کارگر ہو اس کی نصیحت اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آنحضرت ہیں دوسروں پر ضرور کارگر ہوتی ہے جنہوں نے لوگوں کو آپس میں باندھا آنحضرت کا موقع اور محل کی مناسبت سے نصیحت فرمانا اور روحانی علوم اور دنیاوی نعمتوں میں فرق 992 اسکی روشنی میں سب سے اچھے عمل کی بابت سوال کئے جانے نبوت کے نعمت ہونے سے مراد 726 نعیمہ کھوکھر پر حضور کے جوابات آنحضرت کا نصیحت کا انداز 393 آنحضرت کی ایک دو نصیحتیں ہی ساری زندگی کی کایا پلٹ نفرتوں اور محبتوں کے حوالہ سے مسلمانوں کو اپناز اویہ 728 461 درست کرنے کی تلقین اللہ کی خاطر نفرت سے مراد ایک اخباری نمائندہ کا حضور سے سوال کہ کیا واقعہ سب سکتی ہیں آنحضرت کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کے امن کی ضمانتیں ہیں آنحضرت کی نصائح حبل اللہ ہیں آنحضرت کی نصائح زندگی کے ہر حصہ پر چھائی ہوئی ہیں سے محبت رکھتے ہیں اور نفرت کسی سے نہیں 270 401 401 اور ہر نفسیاتی بیماری سے ان کا تعلق ہے للہی نفرت سے مراد آنحضرت کی نصائح کی روشنی میں سینوں کی ظلمات کو دور کریں 927 محرم کے مہینہ میں نفرتوں کا بڑھنا 390 نفس آنحضرت کی نصیحت کا انداز آنحضرت کی نصیحتوں میں ادنی سا تضاد نہیں ہے 392 نفس کو تسخیر کرنے کی نصیحت نفس کے زہر کا اثر 450 736 387 608 نظام جماعت نظام جماعت اور نظام جماعت چلانے والوں سے ادب اگر اپنے نفس کا عرفان نہ ہو تو کسی عرفان کی بھی صلاحیت اور محبت کا رشتہ باندھیں نظام جماعت کے حوالہ سے غیبت 874 876 نہیں ہو سکتی 444 440 442 449 994 75 19 ہر ذات کے اپنے محاسبہ سے زیادہ بابرکت اور کوئی چیز نہیں 1005 نظام جماعت کے نتیجہ میں محبت کا وسعت اختیار کرنا 875 آنحضرت کی نصائح زندگی کے ہر حصہ پر چھائی ہوئی ہیں نظام جماعت میں سالانہ جلسے کی خاص اہمیت 60 اور ہر نفسیاتی بیماری سے ان کا تعلق ہے 401

Page 1076

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 سید نفیس شاہ نماز نماز با جماعت کا فلسفہ نماز سے ذکر الہی کا تعلق نماز سے کثافتوں کا دور ہونا نماز عبادتوں کا معراج 64 532 500 229 120 124 جہاد کے دوران نماز با جماعت کا حکم اور اس کا فلسفہ 505 حضرت اقدس کے ایک صحابی کا نماز کے لئے اٹھانے کا انداز 303 186 حضرت علی کا بے وقت نمازی کو نماز سے نہ روکنا دنوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز کچھ عرصہ تک پڑھنے کا استثنائی فیصلہ 845 رفت اور حضور نماز کا نسخہ نماز کی عادت کے حوالہ سے ایک چھوٹے سے بچہ کا واقعہ 131 صحابہ کی زندگی کا اعلیٰ مقصد نماز تھی نماز کے بعد کثرت سے ذکر الہی کی ہدایت 243 33 74 247 155 صلوٰۃ کے تزکیہ نفس کرنے سے مراد قادیان میں سورج گرہن اور نماز کسوف و خسوف 189 نماز کے بعد کی دعا نماز کے آخر پر دونوں طرف السلام علیکم کہنے کی حکمت 33 کئی غیر احمدیوں کا کہنا کہ میرا نماز پڑھ لینا اور تلاوت نماز میں غفلت کے حوالہ سے ایک شخص کا ذکر جو پرانا خطبہ کر لینا کیا کافی نہیں؟ 740 سن کر نماز کا عادی بن گیا نماز ہر نیکی کی کنجی ہے نمازوں اور نیکیوں میں مزہ نہ آنے کی وجہ 991 82 878 وہ نماز جس کی طرف رمضان میں خصوصیت سے توجہ دینی چاہیئے وہ نمازیں جو نمازیوں کے لئے ہلاکتیں ہیں 155 683 نمازوں کو قائم کریں اور نمازوں کے لطف اٹھا ئیں اور آپ کا ذکر الہی کے بعد سب سے زیادہ نمازوں پر زور دینا 228 اپنے ماحول میں نماز قائم کریں نمازوں کی قبولیت کا حسن اخلاق سے تعلق 132 712 آنحضرت کو جنگ کی حالت میں بھی یا جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم 499 247 امامت کے آداب میں سے ہے کہ دوسرے سلام کے وقت آنحضرت کی آخری نماز کی کیفیت وہ مقتدی اٹھے جس نے اپنی نماز بھی پوری کرنی ہو 788,808 آنحضرت کے نماز کے بعد کثرت سے ذکر کرنے کی حقیقت 243 500 لندن میں اتنے چھوٹے دن کہ جمعہ کے ساتھ ہی عصر انفرادی نماز کا نقصان ایک مرتبہ صبح کی نماز میں حاضری کم ہونے پر آنحضور کے وقت کا شروع ہونا 321 نن سیٹ ہالینڈ کی تکلیف ایک موقع پر آنحضرت کا پانچ نمازیں اکٹھی پڑھنا 500 نواب شاہ با جماعت نماز کی اہمیت پر زور 182t180 نوائے وقت بدنی محنتوں کے بڑھنے کے وقت نماز کے لئے اٹھنا اللہ و پنیار چک ضلع سرگودها کی محبت جیتنے کا وقت ہے بعض لوگوں کا ذکر الہی کو نماز سے بڑھانا 56 406 674,693,843 533 41 505 حضرت نوح علیہ السلام 204,520,558,973 245 نوحه جلسہ کے ہر شعبے کا انچارج اپنے شعبہ میں کام کرنے والوں نوحہ سے مراد کے لئے نماز با جماعت کے قیام کا منصو بہ بھی تشکیل دے 503 میت پر نوحہ کرنا کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے جلسہ کے ایام میں نماز با جماعت کے قیام کی تلقین 498 جمعہ یا جمعتہ الوداع کے دن گزشتہ نہ ادا کی جانے والی نمازوں نور کی حقیقت ذکر الہی ہی ہے نور کی تلافی کا کیا کوئی جواز ہے، حضرت مسیح موعود کا فیصلہ 186 نور کے حاصل کرنے کی آنحضرت کی دعا 766 763 199 33

Page 1077

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 احمدیوں کے مجسم نور بننے کا طریق ایم ٹی اے کی شکل میں تمام دنیا میں نور کا پھیلنا 65 805 141 نیکی کی عادت اور اس سے لطف اندوز ہونا نیکی کے بالمقابل تحفہ کی وضاحت تمام نور مساجد سے اور سجدہ گاہوں سے حاصل ہوا کرتے ہیں 33 نیکی کے دوران تکلیف کا فلسفہ تنویر قلب سے مراد صحابہ کے گھروں میں نور کا چمکنا آگ اور نور میں فرق 155 199 201 131 677 106 نیکی کے رستوں سے بدنیتوں کا داخل ہونا 710 نیکی کے کام میں نیت کا معمولی فتور سے اچھے پھلوں کا نہ لگنا 709 نیکی کے کاموں میں دکھاوا 716 آنحضرت کے نور کا ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا 293 نیکی کے مقابل پر لامحدود جزا کا ذکر جس کا آخری کنارہ آنحضرت کے نور کے ارفع کئے جانے کی در وجوہات 208 خدا ہے حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفہ اسیح الاول نیکی کے آنے سے بدی کا دور ہونا 174 675 ایک مولوی کا نکاح پر نکاح پڑھانا اور حضور سے گفتگو 540 نیکی میں انکسار رکھنے والوں کی اولاد کی اللہ حفاظت فرماتا ہے 64 943 آپ پر الزام کہ یہ بوڑھا ہو گیا ہے اس کو پتہ نہیں کہ چل رہا نیکیوں پر صبر اور استعانت کی تلقین کہ اچھا کون ہے اور برا کون ہے نیکیوں کی بابت قرآن کا اصول حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں آپ کی قربانی کا تذکرہ 771 نیکیوں کے اختیار کرنے کے دو طریق اللہ سے نیکیوں کی حفاظت کی دعائیں مانگیں نوکوٹ نومبا لعین 592 853 82 160 360 82 اللہ کا ایک دم کا قہر ساری عمر کی نیکیوں کو بر دار کر دیتا ہے 66 404 323 325 حضور کا سوال کہ کس چیز نے تمہیں سب سے زیادہ متاثر کیا اللہ کے عضو کے نتیجہ میں نیکیوں کی توفیق ملتی ہے نہ کہ پھر تو ان کا کہنا کہ اخلاق، پیار اور قربانی کے جذبہ نے متاثر کیا 746 بھی بدیوں پر لگا ر ہے آغاز میں شرح کے حساب سے وصولی میں نرمی کی جائے 851 امر بالمعروف کی طاقت کا حصول نومبائعین کو روزمرہ کچھ قربانی کی عادت ڈالیں امر بالمعروف میں طاقت ہے فوری طور پر چندوں میں داخل کرنا نہایت ضروری ہے 850 ایک چھوٹی سی نیکی سے روحانی انقلاب کا بر پا ہونا 127 نو مبائعین کی تربیت کی تلقین بہت سے واقعات میں انسان کو ایک نیکی کی توفیق مل سکتی نو مبائعین کی تربیت کی طرف توجہ دلانے کا اچھا نتیجہ 93 ہے مگر عارضی روکوں سے اس سے محروم رہنا ، ان میں سبق 96 تحریک جدید کے حوالہ سے نو مبائعین سے وصولی میں نرمی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے بڑے بڑے اثرات کی تلقین 472 853 حدیث کی رو سے کم سے کم نیکی 403 727 جرمنی کی جماعت کی تبلیغ اور تربیت کی طرف توجہ کی تعریف 94 رمضان میں جو شدت ہے اس کو نیکی سمجھنا درست نہیں 107 روزہ کا مزاج خدا کو پانا اور ہر نیکی کو اپنے عروج تک پہنچانا115 جرمنی میں نو مبائعین کا عشق ی مد مارنی صاحب 425 783,956 زندہ نیکی کا تصور 361 صوفیاء کا نیکی میں جوش پیدا کرنے کے لئے بعض حدیثوں نیک نامی کا صحیح تصور نیکی کا سفر گھر سے شروع ہوتا ہے نیکی کا آغاز گھر سے ہوتا ہے نیکی کی حقیقت کہ وہ کب نقالی ہوتی ہے 290 718 714 162 کو گھڑنا غار میں پھنسنے والے تین آدمیوں کا واقعہ اور نیک عمل کی وجہ سے باہر نکلنا ( حدیث ) معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھنے کی تعلیم 124 422 402

Page 1078

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو (حدیث) نماز ہر نیکی کی کنجی ہے نمازوں اور نیکیوں میں مزہ نہ آنے کی وجہ ہر نیکی اور عبادت کا معراج 859 82 878 108 66 66 بہت سادہ ہیں بڑے بڑے افسروں سے کیسے ملتے ہیں 802 چودھری فتح محمد سیال صاحب کی سادگی کا واقعہ کہ پنجاب اسمبلی میں انہیں باوجود ممبر ہونے کے روک لیا گیا 801 حضور کے گورنمنٹ کالج کے ایک دوست کا قادیان جانا آنحضرت کی سنت سے ثابت کہ غریبوں کی ضرورتوں کو اور اس پر اس کا اثر پورا کرنا نیکی تھی 128 عمر کا ایک مسلمان عورت سے کچھ نا پسندیدگی کا اظہار جو 794 721 اللہ کی ذات سے تعلق میں ہر نیکی کا وجود ہوتا ہے 552 اپنے بھائی کے حسن خلق کے گیت گایا کرتی تھی قدرت اللہ سنوری صاحب کا حضور کے ساتھ بنگلہ دیش کا نیوزی لینڈ نیویارک 776,949 581,723,789,809,815 نیویارک کے ایک سینیٹر یا ممبر کانگرس کا ہماری reception پر آنا ، اسکی وجہ اور اس کا بیان 810 سفر اور ان کی بیوی کی شدید بیماری کی اطلاع اور سنوری صاحب کا اللہ سے تعلق اور اللہ کا سنوری صاحب سے سلوک 919 قرآن کی ہتک کے نتیجہ میں گوجرانوالہ میں ایک حافظ نیو یارک میں پروگراموں کے دوران بے پردگی اور حضور کو ظالمانہ طور پر مار دیا جانا 556 کی خاص ہدایات حضرت واثلہ بن خطاب واشنگتن واقعات (اس جلد میں مذکور ) 796 395 723,795 یہ منہ اور مسور کی دال کا محاورہ اور اسکے پیچھے واقعہ والدین والدین سے احسان کے سلوک کی تعلیم والدین سے حسن سلوک کی دعا اللہ کو گن گن کر یا دکرنے کے حوالہ سے ایک فقیر اور عورت والدین کا مرتبہ کا واقعہ 244 والدین کو بہتر نسل کے حوالہ سے نصائح 963 350 351 351 791,792 ایک بادشاہ کا خوبصورت تالاب بنوانا اور اس کا افتتاح والدین کے احسانات کے بدلے اتر ہی نہیں سکتے 352 اس طرح کرنا کہ ہر شخص دودھ کا ایک لوٹا بھر کے لائے مگر والدین کے فوت ہوتے ہی جائیدادوں کے جھگڑوں کی وجہ 421 کوئی نہ آیا کیونکہ ہر کوئی سمجھتا رہا کہ اچھا دوسرے چلے ایک بچہ کا پرانی چیزیں اپنے والد کے لئے اکٹھی کرنا جیسے جائیں گے، اس میں سبق وہ اپنے والد کے لئے کیا کرتا تھا اور اس میں سبق 820 ایک بادشاہ کا واقعہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان عائلی معاملات میں بیوی اور ماں باپ سے توازن کے اپنے تعلق سے کسی کو حسین پاتا ہے ایک شخص کے مایہ لگا کر گھوڑی بیچنے کا واقعہ بغداد کی تباہی کے متعلق ایک بزرگ کو الہام کہ يايها الكفار اقتلوا الفجار اور ان کا قتل عام 991 25 663 703 سلوک کی اہمیت 353 820 ماں باپ سے کٹ جانا بہت بڑی بد بختی ہے ماں باپ سے متعلق مشرق اور مغرب میں سلوک 353 ماں باپ کی اولاد کی خاطر قربانیاں 352 پاکستانی پولیس اور جیلوں کا حال اور ایک مظلوم عورت کا مغربی ملکوں میں رہنے والے بچوں کا والدین سے سلوک 351 541 واہ کینٹ واقعہ جس کے تین بے گناہ بچے جیل میں ہیں پیالی لے کر تیل خریدنے والے بے وقوف کا لطیفہ 764 ورثہ 903 جماعت کی خاطر احمدیوں کا قاتلوں کو معاف کرنا ورثہ کی تقسیم پر پیدا ہونے والی خرابیاں چودھری فتح محمد سیال صاحب سے کسی کا پوچھنا کہ آپ تو آنحضرت کے پاس دو آدمیوں کا آنا جن میں وراثت 56 718

Page 1079

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 کی ملکیت کی بابت جھگڑا تھا (حدیث) ویم جسوال صاحب وطن 664 950,953 67 جو اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے رمضان میں غریبوں سے ہمدردی کی تلقین جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی زمین کا حق ادا کرنا چاہئے 308 غریبوں کی ہمدردی کبھی بے فیض نہیں رہی وعده 265 129 207 غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا خدا پر فدائیت سے تعلق 205 جھوٹے مطالبات کے نتیجہ میں جھوٹے وعدے 761 | ہمسایہ ایسا وعدہ نہ کرو جسے پورا نہ کرسکو ( حدیث ) وہاب صاحب ویسٹرن کینیڈا ویلز وینکوور ه،ی حضرت ہارون علیہ السلام ہالینڈ 760 958 572,651 976 729,749 559 406,956,971 ہمسائی عورت کو حقیر نہ جاننے کی تعلیم ہمسائیگی کی بداخلاقیاں نسلوں کو تباہ کرتی ہیں 370 376 ہمسائیوں سے حسن سلوک پر مشتمل احادیث کا تذکرہ 356,373 ہمسائیوں سے حسن سلوک کی تعلیم ہمسائیوں سے حسن سلوک کے حوالہ سے جرمنی کی ایک عورت کا واقعہ 604 357 ہمسائیوں سے حسن سلوک کے حوالہ سے مسلمان کی تعریف 605 ہمسائیوں سے سلوک کے حوالہ سے لاہور کا ایک واقعہ 358 ہبتہ النور صاحب امیر جماعت ہالینڈ 956,973 انگلستان میں پڑوسیوں کے جھگڑوں کے نہ ہو نیکی وجہ 358 ہجرت حدیث کی رو سے ہجرت کی تعریف داعی الی اللہ کی ایک قسم کی ہجرت ہدایت 297 471 ربوہ کے ایک شخص کا ہمسایہ کے درخت کی شاخ کی وجہ سے حضور کو خط لکھنا اور حضور کارد عمل غریب اور ہمسائیوں کے حقوق ادا کریں 375 151 یورپ میں تبلیغ کے لئے ہمسائیگی کے حقوق کے ذریعہ سفر ہدایت کی سب سے اعلی شکلیں جو دنیا کو دی گئیں 105,160 کی ہدایت آخری زمانہ میں مساجد کے ہدایت سے خالی ہونے 373 356 کی پیشگوئی ہرے کرشنا ذکر کے نام پر ایک تحریک ہلاکو خان ہمبر ہمدردی 132 245 461 979 381 اپنے سے نیچے والوں سے ہمدردی کا سلوک کریں 755 ایسے لوگوں کے خطوط جو اپنی تکالیف کی بجائے دیگر پڑوسی سے حسن سلوک کی تعلیم مغرب میں پڑوسیوں سے حسن سلوک کی تعلیم میں کمی اور غفلت ہندوستان ہندو پاک میں تحقیر آمیز مذاق کی کثرت 357 759 ہندو پاک میں قرض لے کر واپس نہ کرنے کا رواج 930 ہندوستان سے ایک غیر مسلم کا حضور کو خط کہ احمدی نے یہ غلط سلوک میرے ساتھ کیا ہندوستان میں ہندو تاجروں کے خیراتی ادارے اور مال میں اضافہ 654 917 احباب اور جماعت کی تکالیف کا ذکر کرتے ہیں 265 ہندوستان میں جماعتوں میں اختلافات اور اصلاح 899 بنی نوع کو بچانا ہے تو ان سے بچی ہمدردی کی ضرورت ہے 742 ہندوستانی قوم نام بگاڑنے میں سب سے آگے 342

Page 1080

اشاریہ خطبات طاہر جلد 13 ہندوؤں کا ہمارے سیٹلائیٹ کے لئے چندے دینا 68 90 191,206,406,421,514 691,842,898,975 ہندوستان حضرت ہود علیہ السلام ہو میو پیتھی 559 کی خدمات کا اعتراف یہود یہود پر لعنت کی ایک وجہ، غیروں کے مال کھانا یہود کا سر منڈانا اور داڑھیاں حد سے زیادہ بڑھانا یہود مغضوب علیہم تھے 290 655 443 156 295 ہومیو پیتھک لیکچرز کے حوالہ سے خوشکن اطلاعیں 959 یہودیوں کا مسیح کی والدہ پر الزام مگر کہیں سزا کا ذکر نہیں کیا گیا 560 ہومیو پیتھی ایک غریبانہ علاج ہے اور طوعی کوشش ہے 960 آنحضرت کی امت کی یہود سے مشابہت کی پیشگوئی 156 ہومیو پیتھی کی اہمیت اور اس کے متعلق حضور کا پروگرام 787 اہل کتاب کا تو رات کا بوجھ اٹھانا ترک کرنا ، اس سے مراد 508 جرمنی میں یہودیوں سے نفرت کی وجہ جرمنی میں یہودیوں کے خلاف جذبات اور ان کا نتیجہ 334 موسی کو اذیتیں دینے والے یہود کا قرآن میں ذکر 456 آنحضرت کے دور میں یہودیوں کے حقوق کی حفاظت 443 ہیضہ کا ہومیو پیتھی علاج بن سعید معرفی حضرت یحیی علیہ السہ السلام 544 9 681 یزید یامه 732 729 Chilliwack 453,454 253 Cote De Ivore 249 60 Huston 575,576 979 K-2 592 Saint Lucia 651 Schnellsen 373 3,386 UK 349 USA 294 یمن یورپ یورپ میں تبلیغ کے لئے ہمسائیگی کے حقوق کے ذریعہ سفر کی ہدایت یورپ میں سردیوں میں لکڑیاں بھائی جاتی ہیں 550 یورپ میں آج کل racism کا سر اٹھانا یورپ میں آجکل قومی تعصب کے سر اٹھانے کی وجہ 294 یورپین احمدیوں کو بوسنین لوگوں سے محبت کی تلقین 405 یوسف احمداله دین صاحب - دین صاحب یو کے 767 یو کے جماعت کو ایم ٹی اے کے لئے اپنی علیحدہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی تلقین 968 یو کے میں ذیلی مجالس کے اجتماعات کے افتتاح کے حوالہ سے حضور کا دستور انصاراللہ یوکے میں بیداری یوگنڈا یونائیٹڈ نیشنز 828 829 307 اس کی جانب سے غانا کی بابت ایک رپورٹ میں جماعت

Page 1080